اسلام اور اجتماعیت
مؤلف: صدرالدین اصلاحی
اسلامک پبلی کیشنز (پرائیویٹ) لمیٹڈ
عرض ناشر
مولانا صدر الدین اصلاحی صاحب دینی حلقوں میں جانے پہچانے آدمی ہیں۔ متعدد موضوعات پر آپ کی گراں قدر تالیفات مثلاً فریضۂ اقامت دین، اساس دین کی تعمیر، اختلافی مسائل میں اعتدال کی راہ، معرکۂ اسلام و جاہلیت وغیرہ علمی اور دینی حلقوں سے خراج تحسین حاصل کر چکی ہیں۔ اصابتِ رائے، گہری دینی بصیرت، کتاب و سنت سے براہ راست استدلال اور ٹھوس علمی مواد آپ کی تالیفات کی خصوصیات ہیں۔
پیش کردہ تالیف ”اسلام اور اجتماعیت“ وقت کی ایک اہم ضرورت کو پورا کرتی ہے اور دینی لٹریچر میں ایک گراں قدر اضافہ ہے۔ یہ کتاب جہاں ایک طرف فرار پسند طبیعتوں کو رزم گاہ خیر و شر میں دعوت عمل دیتی ہے، وہیں دوسری طرف جہاد حق کی کوشش میں سامانِ ثباتِ قدمی فراہم کرتی ہے۔ یہ کتاب جہاں عافیت کوشوں کے لیے تازیانۂ عمل ہے، وہیں سرگرم عمل سخت کوشوں کے لیے زاد راہ ہے۔ ہمیں امید ہے کہ یہ کتاب ان تمام اجتماعی مساعی کے لیے بھرپور معاون اور باعث تقویت ہوگی، جو غیر اسلامی قوتوں سے نبرد آزما ہیں۔
نیاز مند
منیجنگ ڈائریکٹر
مقدمہ
عمل کا زوال اگر زیادہ عرصہ تک باقی رہے تو وہ صرف عمل ہی کا زوال نہیں رہتا، بلکہ پہلے جذبات و احساسات کا، اور پھر افکار و تصورات کا بھی زوال بن جاتا ہے۔ جب کوئی قوم یا ملت اپنی اصل حیثیت زندگی کے میدان میں کھو بیٹھتی ہے تو وہ اسے اپنے ذہن میں بھی زیادہ دنوں تک ٹھیک ٹھیک محفوظ نہیں رکھ سکتی اور اس پر خود ناشناسی کی تاریکیاں چھا جاتی ہیں۔ وہ بھولنے لگتی ہے کہ اس زمین پر اس کا وجود کس غرض کے لیے ہے اور اس غرض کو پورا کرنے کے لیے اسے کون سا طرز فکر اور طریق کار اپنانا چاہیے؟
ملت اسلامیہ پر ایک مدت سے یہی نفسیاتی عمل طاری ہے۔ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے دین کو قائم کرنا، اور قائم رکھنا، ساری دنیا کے لیے حق کا شاہد اور منشا بننا، معروف کا حکم دینا اور منکر سے روکنا، اور خیر کامل کی طرف لوگوں کو بلاتے رہنا، اس کی منصبی ذمہ داری تھی۔ یہی اس کے وجود کی کل غایت تھی اور یہی اس کی اصل حیثیت تھی۔ اس نے ایک وقت تک اس ذمہ داری کو اس طرح انجام دیا جس طرح انجام دینے کا حق تھا، اور صرف اسی نے نہیں، بلکہ دوسروں نے بھی سر کی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ اس ملت کی غایت وجود اور اس کی اصل حیثیت یہ ہے۔ پھر اس کی غفلتوں نے اس کی زندگی کی بساط الٹ دی اور اسے اپنی اس حیثیت سے عملاً محروم کر کے رکھ دیا۔ اس محرومی نے فطری طور پر مزید محرومیوں کو جنم دینا شروع کر دیا اور اب صورت حال یہ ہے کہ اسے اپنا مقصد وجود، اپنے اصول حیات اور اپنے دینی تصورات لفظوں کی حد تک تو ضرور یاد رہ گئے ہیں مگر یہ باور کرنا بہت مشکل ہے کہ ان کے معانی بھی صحیح طور پر اسے یاد رہ گئے ہیں۔ اور اگر یہ بھی باور کر لیا جائے، تو کم از کم یہ تو کسی حال میں بھی نہیں مانا جا سکتا کہ جذباتی اور فکری طور پر بھی اس کے اندر ان کی اہمیت کا احساس باقی رہ گیا ہے۔
یہی اصولِ حیات اور دینی تصورات میں سے ایک اہم ترین چیز اس کے اجتماعی مسائل اور اس کی اپنی مخصوص تنظیم کا مسئلہ بھی ہے۔ جو بظاہر ایک مسئلہ ہے، لیکن فی الواقع متعدد مسائل کا جامع ہے، اور غلط نہ ہوگا اگر اسے ملت اسلامیہ کی شہ رگ سمجھا جائے۔ اتنے اہم مسئلہ کی حقیقت، اس کی اہمیت اور اس کے عملی مطالبات سے عام دل و دماغ افسوس ناک حد تک بے گانہ ہو چکے ہیں۔ اس بے گانگی کا حال یہ ہے کہ آج ملت کے چارہ سازوں کا ایک گروہ تو اس کے تصور ہی سے پریشان ہو اٹھتا ہے، اور دین کے اجتماعی نظام کو، ملت کی تنظیم کو زمانے کا سب سے بڑا فتنہ سمجھتا ہے۔ اس کے نزدیک لوگ ہر کام کے لیے اکٹھے ہو سکتے ہیں، ہر مقصد کی بنیاد پر منظم بن سکتے ہیں، ہر جشن اور بزم کی خاطر گروہ سازی کی جا سکتی ہے، لیکن مسلمان بحیثیت مسلمان، اور اسلام کی خاطر ہرگز منظم نہیں ہو سکتے۔ دوسرے لوگ اگر اس طرح نہیں سوچتے، اور وہ مسلمانوں کے متحد ہو جانے کو اپنی محبوب ترین تمنا سمجھتے ہیں، لیکن مسلمان متحد و منظم کس لیے ہوں؟ کس طرح ہوں؟ کن بنیادوں پر ہوں؟ اور اگر نہ ہوں تو اس کا حقیقی نقصان کیا ہے؟ جاننے اور بتانے والے ان میں سے بھی بہت کم ملیں گے۔ چنانچہ اس سلسلے میں جو کچھ کہتے سنے جاتے ہیں، اس سے بسا اوقات ”كَلِمَةُ حَقٍّ أُرِيْدَ بِهَا الْبَاطِلُ“ کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ نام تو ملت اسلامیہ کی تنظیم کا لیا جاتا ہے، مگر اس کا مفہوم، اس کی غایت، اس کا طریق، سب کا سب عموماً وہ ہوتا ہے جو اسلام سے زیادہ غیر اسلامی ہوتا ہے۔ مسلمان جس مرکز پر، اور جس طرح متحد ہوتے ہیں، وہ ان کے نزدیک ”اسلامی اتحاد“ اور ”ملی تنظیم“ ہے۔ حالانکہ اسلام نے مسلمانوں کو صرف اللہ کی کتاب پر اور اس کے رسول کی سنت پر اجتماعیت کی تلقین کر رکھی ہے۔ مسلمانوں کی اجتماعی ہیئت ان کی نظر میں اسلام کی تابع مطلوب ہے، حالانکہ اس کو صرف ”جماعت“ نہیں، بلکہ ”الجماعۃ“ مطلوب ہے، اور ”الجماعۃ“ کا مفہوم بقول علامہ رشید رضا مصری: ”زمانہ نبوت میں مسلمانوں کی ایسی ہیئت اجتماعی سے تھا جو کتاب و سنت کے احکام کو زیر عمل لانے کو دین کو قائم رکھے۔“ (تفسیر المنار، جلد ۹، صفحہ ۳۶۷)
اس صورت حال کا شدید مطالبہ تھا کہ اس اہم ترین مسئلہ کے تمام ضروری پہلو کتاب و سنت کی روشنی میں بالکل واضح کر دیے جائیں۔ تاکہ جب ملی اتحاد و تنظیم کی باتیں کی جائیں اور کوششیں انجام دی جائیں، تو معاملہ کی حقیقی نوعیت نگاہوں سے اوجھل نہ ہو، اور یہ اچھی طرح معلوم رہے کہ اسلام نے جس اجتماعیت اور تنظیم کا حکم دیا ہے وہ فی الواقع ہے کیا؟ وہ دین و ملت کو کس حد تک مطلوب ہے؟ اور کیوں مطلوب ہے؟
یہ کتاب دراصل اسی مطالبہ کو پورا کرنے کی ایک کوشش ہے۔ خدا کرے کہ یہ کوشش کامیاب ہوئی ہو۔
صدرالدین
دوشنبہ، ۲۰ ذی الحجہ ۱۳۸۱ھ
اسلام میں اجتماعیت کا مقام
انسانی فطرت اور اجتماعیت
جس طرح بچے کے تصور کے ساتھ ماں کی گود کا تصور بھی آئے بغیر نہیں رہتا، اسی طرح انسانی زندگی کے ساتھ اجتماعیت کا تصور بھی لازماً آتا ہے۔ کوئی زمانہ ایسا نہیں پایا جاتا جب انسان اجتماعیت سے یکسر بے نیاز رہا ہو، چنانچہ تاریخ کے دھندلے سے دھندلے گوشوں میں بھی اس کے آثار ناپید نہیں۔ جب ”تمدن“ کی داغ بیل بھی نہیں پڑی تھی، جب انسان غاروں کے باہر بھی نہیں آ سکا تھا، جب اس نے غلہ اگانے اور کپڑے بننے کی بات بھی نہ سوچی تھی، جب رشتوں کے سائے اور پھل پتے ہی اس کے لیے مداوات بنے تھے، اس وقت بھی وہ خاندانوں کی شکل میں مل جل کر رہتا تھا، اور اس اجتماعیت کو وہ اپنا گہوارۂ زندگی سمجھتا تھا۔ پھر جوں جوں اس کا ذوق تمدن ابھرتا گیا، اور وسیع تر اجتماعیت کی رگیں پھیلتی گئیں، اس کی اجتماعیت پسندی پر بھی جلا آتی گئی۔ خاندانی اکائیاں قبائلی وحدت میں، اور پھر قبائلی وحدتیں قومی اجتماعیت میں تبدیل ہوتی گئیں، اور اب یہ قومی اجتماعیتیں ایک عالمی اجتماعی ادارے، بلکہ ایک بین الانسانی کنبے میں تبدیل ہو جانے کے لیے تیار ہو رہی ہیں۔
انسان کا یہ طرز عمل مسلسل کیوں چلا آ رہا ہے؟ وہ پہلے ہی دن سے اجتماعیت کا طالب کیوں ہے؟ اور رفتارِ زمانہ کے ساتھ ساتھ اس کی یہ طلب کیوں بڑھتی اور نکھرتی گئی ہے؟ ان سوالوں کے جواب میں بالاتفاق رائے یہی کہا جائے گا کہ کچھ ایسے زبردست عوامل ضرور ہیں جو اسے اپنے دوسرے ابنائے نوع سے بے تعلق نہیں رہنے دیتے، جو اسے اندر ہی اندر مجبور رکھتے ہیں کہ ان سے مل کر رہے، اور علیحدگی و تنہائی کے بجائے ان کی معیت میں زندگی بسر کرے۔ اپنے اندر کی دنیا کا جائزہ لیجیے تو پتا چلے گا کہ یہ عوامل تعداد میں دو ہیں: ”انس کی کشش“ اور ”تعاون کی احتیاج“۔
”انس کی کشش“ سے مراد یہ ہے کہ انسان نفسیاتی طور پر اپنے ہم جنسوں سے ایک خاص انس رکھتا ہے، ان کے لیے اپنے اندر ایک گہری کشش پاتا ہے، ان کی معیت اور ہم نشینی میں ایک فرحت بخش سکون محسوس کرتا ہے، اور ان سے یکسر علیحدگی اُسے وحشت میں مبتلا کر دیتی ہے۔
”تعاون کی احتیاج“ کا مطلب یہ ہے کہ ایک طرف تو اس کی ذاتی اور انفرادی قوتیں حد درجہ محدود ہیں، دوسری طرف ان کے مقابلہ میں اس کی دنیوی ضرورتیں حد درجہ بڑی اور وسیع ہیں، اس لیے یہ قوتیں ان ضرورتوں کے معاملہ میں ہرگز کافی نہیں ہو سکتیں اور وہ انہیں صرف اپنے ذاتی بل بوتے پر کبھی پورا نہیں کر سکتیں کہ جن ضرورتوں کو بالکل بنیادی اور ناگزیر ضرورتیں کہا جاتا ہے، ان کا پورا کر لینا بھی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک دوسرے بہت سے لوگ اس کی بلاواسطہ یا بالواسطہ مدد نہ کریں۔
اس طرح اجتماعیت انسان کی فطری طلب بھی ہے اور فطری ضرورت بھی۔ وہ دوسرے افرادِ انسان کی طرف ہم جنسی کے پیدائشی جذبہ کے تحت بے اختیار کھنچتا بھی ہے، اور اپنی دنیوی ضرورتوں کے تحت ان کا محتاج بھی بنا رہتا ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ اس کی نظر کی گہرائیوں میں اجتماعیت پسندی کی دو مضبوط جڑیں بالکل ساتھ ساتھ اُتری ہوئی ہیں۔ اس لیے اگر وہ اجتماعیت سے کبھی بے گانہ یا بے نیاز نہیں پایا گیا تو یہ ایک قدرتی بات تھی، اور انسان جب تک انسان ہے یہ بات اس کے لیے ہمیشہ قدرتی اور لازمی بنی رہے گی۔
یہ ایک ایسی مانی ہوئی حقیقت ہے جس کے بارے میں علم و دانش کے کسی دور میں بھی اختلاف نہیں پایا جاتا۔ دور قدیم کے مشہور یونانی عالم فلسفی ارسطو نے انسان کی تعریف میں یہ الفاظ کہے ہیں: ”انسان پیدائشی طور پر ایک سیاسی حیوان ہے۔“ (ارسطو کی سیاسیات، ص ۱۲۵۲ الف) سیاست، ظاہر ہے کہ اجتماعیت ہی کی آخری شکل کا دوسرا نام ہے۔ اس لیے ”سیاسی حیوان“ کے معنی ہوئے وہ حیوان جو آخری اور انفرادی حد تک اجتماعیت پسند واقع ہوا ہو، گویا ارسطو کے نزدیک انسان کی وہ خاص صفت، جو اسے حیوانات سے الگ اور ممتاز کرتی ہے، اس کی یہی آخری درجہ کی اجتماعیت پسندی ہی ہے۔ اس کے اندر اگر یہ صفت نہ ہوتی تو وہ بھی من جملہ دوسرے حیوانوں کے فقط ایک حیوان ہوتا۔
معروف عالم اور محقق علامہ ابن خلدون فرماتے ہیں کہ: ”افرادِ انسانی کا اکٹھے مل کر رہنا ایک ناگزیر بات ہے، اور یہی وہ حقیقت ہے جسے اہل علم و دانش اس طرح بیان کرتے ہیں کہ انسان پیدائشی طور پر مدنیت پسند واقع ہوا ہے۔“ (مقدمہ ابن خلدون) جہاں تک موجودہ دور کے علما اور فلاسفہ کا تعلق ہے، ان کے یہاں تو یہ بات ایسی مسلمہ حقیقتوں کی صف میں شامل ہو چکی ہے جو کسی بحث یا ثبوت کی بالکل محتاج نہیں ہوتیں۔
قرآن مجید علم النفس، علم الاجتماع کی کتاب نہیں، اس میں انسان کے جذبہ اجتماعیت کے متعلق کوئی براہ راست گفتگو پائی جائے۔ لیکن اس کے باوجود اپنے دائرۂ بحث میں وہ جو کچھ کہتا ہے اس کے پیچھے چونکہ دوسری بہت سی حقیقتوں کی طرح انسانی نفسیات کے حقائق بھی ملحوظ رہتے ہیں، جیسا کہ ظاہر ہونا چاہیے، اس لیے ضمناً ان حقائق کی طرف بھی اس نے واضح اشارے کیے ہیں۔ ان اشارات کا جائزہ لیجیے تو صاف محسوس ہوگا کہ قرآن حکیم بھی انسانی فطرت کو اجتماعیت پسند ہی قرار دیتا ہے۔ مثلاً جب وہ فرماتا ہے کہ نوع انسانی کی دونوں صنفوں میں ان کے خالق نے باہمی محبت اور ہمدردی پیدا کر رکھی ہے وَجَعَلَ بَيْنَكُم مَّوَدَّةً وَرَحْمَةً (سورۂ روم:۲۱) تو گویا بالواسطہ وہ یہی کہتا ہے کہ انسان بنیادی طور پر اجتماعیت کا دل دادہ پیدا کیا گیا ہے۔ اسی طرح آخرت کی خوشیوں، کامرانیوں اور جنت کی نعمتوں کی تفصیل بیان کرتے وقت جب وہ اہل جنت کی ہم نشینی، ہم طعامی اور ہم کلامی کا بھی ذکر ضروری سمجھتا ہے، تو گویا اس بات کا اعلان کرتا ہے کہ
إِخْوَانًا عَلَىٰ سُرُرٍ مُّتَقَابِلِينَ (سورہ حجر: ۴۷)
”جنت میں رہنے والے بھائیوں کی طرح تختوں پر آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے۔“
وَنَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِم مِّنْ غِلٍّ إِخْوَانًا (سورہ نور: ۳۴-۳۵)
”وہ جنت میں شراب بھرے پیالوں کی چھینا جھپٹی کریں گے ... اور ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہو کر آپس میں باتیں کریں گے۔“
اجتماعیت انسانی فطرت کی ایسی عزیز طلب ہے جس سے وہ دنیوی زندگی میں کیا، آخرت کی زندگی میں بھی اچھی نہیں ہو سکتی، اور وہاں بھی انسان کی تسکین خاطر اور تکمیل مسرت اسی وقت ہوگی جب کہ اسے اپنی جنس کے دوسرے افراد کی رفاقت اور مصاحبت میسر ہو۔
اسلام، دین فطرت
انسانی فطرت کا یہ رُخ اپنے سامنے رکھیے۔ اس کے بعد اس امر کی تحقیق کیجیے کہ انسانی فطرت کے تقاضوں کو اسلام کیا حیثیت دیتا ہے؟ تاکہ قیاسی اور اصولی طور پر اس بات کا فیصلہ ہو سکے کہ اسلامی نظام فکر و عمل میں اجتماعیت اور اس کے مکمل تقاضوں کو کوئی جگہ ملنی چاہیے یا نہیں؟
انسانی خلقت کے بارے میں قرآن مجید کا فرمانا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے نفس (قلب) کا ”تسویہ“ کیا ہے۔
وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاهَا (سورہ شمس: ۷)
”تسویہ“ کے معنی لغت میں کسی چیز کو خوب درست کرنے کے ہوتے ہیں۔ دوسری جگہ اسی بات کو اس نے ان لفظوں میں بیان کیا ہے کہ ہم نے انسان کو ”احسن تقویم“ میں پیدا کیا ہے۔
لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ (سورہ التین: ۴)
”تقویم“ کے معنی سیدھا کرنے کے ہوتے ہیں، اور جب کسی چیز کے باطن اور اس کی صفات کو بھی سامنے رکھ کر اس لفظ کا استعمال کیا گیا ہو تو اس وقت قدرتی طور پر اس کا مطلب اس چیز کو کسی خاص مقصد کے لیے موزوں و مناسب بنانا ہوتا ہے۔ اس لیے انسان کو ”احسن تقویم“ میں پیدا کرنے کے معنی یہ ہیں کہ اسے ایسی ساخت عطا کی گئی ہے جو اس کے مقصد وجود کے لحاظ سے بہترین ساخت ہو سکتی تھی۔ ان وضاحتوں کے پیش نظر انسان کا ”تسویہ“ کرنے یا اسے ”احسن تقویم“ میں پیدا کرنے کا واضح مفہوم یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جس مقصد سے پیدا کیا ہے اور اسے دنیا میں جو فرض انجام دینے کے لیے بھیجا ہے، ٹھیک اسی کے حسب حال اور ضرورت اس کی فطرت بھی اس نے بنائی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اس مقصد اور فریضہ کی انجام دہی کے لیے جن قوتوں اور صلاحیتوں کی اسے ضرورت تھی، اور جن رجحانات و میلانات سے اس کا ضمیر اٹھانا چاہیے تھا، ان میں سے کسی ایک قوت یا کسی ایک رجحان سے بھی اسے محروم رکھا گیا ہو، یا ان قوتوں اور رجحانوں کے علاوہ کچھ زائد قوتیں اور رجحانات بھی اس کے اندر پیدا کر دیے گئے ہوں۔
ایک طرف تو انسانی فطرت کی حیثیت اسلام کی نگاہ میں یہ ہے۔ دوسری طرف اس دین کا کہنا یہ ہے کہ، اور صرف یہی نہیں، وہ شاہراہ جس پر چل کر انسان اپنے مقصد وجود کو ٹھیک ٹھیک پورا کر سکتا اور اپنے فرائضِ حیات کو صحیح طور پر بجا لا سکتا ہے، ایسی حالت میں یہ عقل کا بدیہی تقاضا ہو گا کہ اسلام انسانی فطرت کو ذرا بھی نظر انداز نہ کرے، بلکہ اس کی بنیاد ٹھیک اسی فطرت پر ہو، اور اس کی تعلیمات دراصل اسی فطرت کے مجمل تقاضوں کی تفصیل اور اسی کی مبہم صداؤں کی توضیح ہوں۔ کتاب الٰہی اور ارشادات رسول سے معلوم ہوتا ہے کہ عقل کا یہ تقاضا غلط نہیں۔ حقیقت واقعی یہی ہے کہ اسلام انسانی فطرت کو بال برابر بھی نظر انداز نہیں کرتا، اور اس کی بنیاد اسی فطرت پر قائم ہے۔ قرآن مجید میں ہے:
فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا (سورہ روم: ۳۰)
”ہر طرف سے کٹ کر اپنے رُخ کو اس دین کی طرف سیدھا کر لو، اللہ کی بنائی ہوئی اس فطرت کی پیروی کرو جس پر اس نے (تم) انسانوں کو پیدا کیا ہے۔“
یہ آیت واضح طور سے اعلان ہے کہ اسلام کی بنیاد جس شے پر رکھی گئی ہے وہ وہی فطرت ہے جس پر انسان پیدا کیا گیا ہے۔ قرآن حکیم نے اپنے آپ کو، یا یوں کہیے اسلام کو، جابجا ”تذکرہ“ اور ”ذکریٰ“ کہا ہے، جس کے لغوی معنی یاد دہانی کے ہیں۔ قرآن یا اسلام کے یاد دہانی ہونے کا مطلب یہ ہے، اور یہی ہو سکتا ہے، کہ وہ کوئی ایسی چیز نہیں جو انسان پر کہیں سے لاکر لا دی گئی ہو، اور جس سے وہ یکسر اجنبی رہا ہو، بلکہ ایک ایسی چیز ہے جس کی بنیاد میں اس کے اندرون میں روز ازل سے موجود ہیں، وہ اس کی فطرت ہی کی خاموش آواز ہے، جسے الفاظ کے اندر منتقل کر کے اس کے سامنے رکھ دیا گیا ہے۔
اس خاموش آواز کو وہ خود نہیں سن رہا تھا اور اپنے اندر کی موجود اس حقیقت کو وہ بھلا چکا تھا، رحمتِ حق نے اس بھلائے ہوئے سبق کو اسے یاد دلا دیا۔ اسلام کی یہی وہ حیثیت ہے جس کے پیش نظر وہ اپنے انکار کو ”کفر“ سے تعبیر کرتا ہے۔ کفر کے لغوی معنی ہیں چھپا دینا۔ گویا اسلام کا انکار دراصل اپنی فطرت کو چھپانا اور دنیا اور اس کے رُخ پر حق ناشناسی کی سیاہ نقاب ڈال دینا ہے جس پر انسان کو پیدا کیا گیا ہے۔ اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ:
مَا مِنْ مَوْلُوْدٍ يُوْلَدُ إِلَّا عَلَى الْفِطْرَةِ (اسْلَامِ) فَأَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ أَوْ يُنَصِّرَانِهِ أَوْ يُمَجِّسَانِهِ. (بخاری)
”کوئی بچہ نہیں جو فطرت اسلام پر نہ پیدا کیا گیا ہو، لیکن (اکثر و بیشتر یہ ہوتا ہے کہ) اس کے والدین اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں۔“
یعنی فطرت انسانی کو رہنا و مناسبت صرف اسلام سے ہے۔ ہر بچہ جو اپنی فطرت پر رہتا تو اسلام ہی کو اختیار کرتا اگر اس سلسلہ میں باہر سے کوئی مداخلت نہ ہوتی لیکن یہ مداخلت بالعموم لازماً ہوتی ہے، اور وہ اس طرح کہ اس کے والدین اس کے دل و دماغ پر اپنے ہی مذہب کی پالش اور قسم چڑھا دیتے ہیں۔ اس لیے ہوتے ہوتے تو وہ یہودی یا نصرانی یا مجوسی یا کسی اور قسم کا نامسلم بن کر رہ جاتا ہے۔ ورنہ اگر کسی بچے کے بارے میں یہ مداخلت نہ ہو، اس کے ماحول کی غیر معمولی طاقت اسے کسی طرف کھینچ نہ لے جائے، اور اس کی فطرت کو اپنی پیدائشی حالت پر آزاد باقی رہنے دیا جائے، اور پھر اس کے سامنے مختلف مذاہب کی تعلیمات پیش کی جائیں تو وہ ان تمام میں سے صرف اسلام کو اپنائے گا، مذاہب کے اس مجموعے میں جب اس کی نظر اسلام پر پڑے گی تو اس کی طرف اس طرح جھکے گا جس طرح بچہ اپنی منتظر صورتوں کے درمیان صرف اپنی ماں کی طرف لپکتا ہے۔ ایسا اس لیے ہوگا کہ ہر دوسرا مذہب انسانی فطرت کی شاہراہ سے ہٹا ہوا ہے۔ اس لیے جس کسی کی فطرت کو والدین کی تعلیم و تربیت اور ماحول کے اثر نے ہاتھ نہ لگایا ہو وہ ان مذاہب میں اپنے لیے کوئی کشش نہ پائے گا، بلکہ ان سے بے گانگی اور اجنبیت محسوس کرے گا۔ البتہ اسلام کی طرف کھنچ آئے گا، کیونکہ وہ اپنی فطرت کے عین مطابق پائے گا۔ اس سے گہرا اور ایک جان نواز ہم آہنگی محسوس کرے گا۔ گویا اس کی فطرت اگر خالص فولاد ہے تو اسلام اس کے لیے مقناطیس ثابت ہوگا۔
ان نصوص اور دلائل کی روشنی میں اس حقیقت پر پردہ نہیں رہ جاتا کہ اسلام فطرت کا ترجمان ہے اور اس کی بنیاد اسی فطرت پر رکھی گئی ہے۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی اس بات کی صراحت فرما دی ہے کہ ”وہ فطرت جس پر انسان کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے اس کا یہی دین ہے۔“ فِطْرَةَ اللهِ الَّتِيْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا دِيْنَ اللهِ تَعَالَىٰ. (روح المعانی، جز ۲۱، صفحہ ۳)
دین فطرت ہونے کا واضح تقاضا
اگر اسلام دین فطرت ہے اور اس کی بنیاد ٹھیک انسانی فطرت پر قائم ہے، اور اگر انسان کی فطرت میں صرف وہی قوتیں اور رجحانات پیدا کیے گئے ہیں جن کا ان کے مقصد وجود نے زبان حال سے مطالبہ کیا تھا، تو ان دونوں باتوں کا لازمی اور بدیہی تقاضا ہوگا کہ اسلام انسان کی کسی بھی فطری قوت یا رجحان کے چل ڈالنے کا روادار نہ ہو، کسی کو اپنی راہ میں روزانہ دیکھے، کسی کے جائز تقاضوں کو ٹھکرائے، اور کسی سے خدمت لینے میں کوتاہی نہ کرے۔ کیونکہ اس کے لیے ایسا کرنا اگر صحیح ہو سکتا ہے تو صرف اس وقت کہ جب تین باتوں میں سے کوئی نہ کوئی بات ضرور تسلیم ہو، یا تو یہ بات کہ اس کی بنیاد ٹھیک انسانی فطرت پر نہیں ہے۔ یا یہ بات کہ انسانی فطرت میں اس کے خالق نے کچھ ایسی چیزیں بھی پیدا کر رکھی ہیں جو انسان کے مقصد وجود کے لیے یکسر غیر ضروری بلکہ ضرر رساں ہیں۔ یا پھر یہ بات کہ وہ انسان کو اپنے فرض اور اپنی کامیابی کی صراط مستقیم دکھلانے آیا ہی نہیں ہے۔ لیکن جب وہ ان میں سے کسی بات کے بھی تسلیم کرنے پر تیار نہیں، بلکہ انھیں دنیا کی سب سے زیادہ غلط اور جھوٹی باتیں قرار دیتا ہے، تو ایسی حالت میں عقل یہ کہنے پر مجبور ہوگی کہ پھر تو اسلام کا رویہ ایک ایک قوت و رجحان فطرت کے بارے میں لازماً مثبت اور تعمیری ہونا چاہیے، اور ضروری ہے کہ ان سب کا وہ احترام کرے، ان کے جائز مطالبات کو تسلیم کرے، انسانی زندگی کے مختلف مقصد کے حصول میں انھیں کار آمد سمجھے، اور ان سے کام لینے کی ہدایت کرے۔
جس شخص کی نگاہ اسلامی تعلیمات پر سرسری نہ ہوگی وہ شہادت دے گا کہ اسلام کا رویہ اس فیصلہ سے ذرا بھی مختلف نہیں۔ وہ انسان کی ساری فطری قوتوں اور رجحانات کو بالیقین بڑی حیثیت دیتا ہے، انھیں ہر لحاظ سے کارآمد سمجھتا ہے، ان کے تقاضے پورے کرنے کی ہدایتیں دیتا اور اس کے لیے راہیں متعین کرتا ہے، اور اس بات کی شدت سے مخالفت کرتا ہے کہ انھیں معیوب سمجھ کر نظر انداز کر دیا جائے۔ پھر اس کا یہ رویہ سطحی فکر ان قوتوں اور رجحانوں کے ساتھ کسی رعایت کی خاطر اور کسی منفی بنیاد پر نہیں ہے۔ وہ محض اس وجہ سے ان کی پذیرائی نہیں کرتا کہ جب انسان یہ لے کر پیدا ہوا ہے تو کچھ ان کی بھی مان لی جائے۔ بلکہ ٹھیک اپنے تصور دین کے تحت ایسا کرتا ہے۔ اس کے نزدیک یہ قوتیں اور یہ رجحانات ایسے ذرائع ہیں جن سے ٹھیک ٹھیک کام لے کر ہی انسان اپنے مقصد وجود کو خوش دلی کے ساتھ پورا کر سکتا ہے۔ اور اسی لیے وہ ان کے مطالبات کی صحیح بجا آوری کو دنیا کا نہیں، بلکہ دین کا کام اور عبادت کا فعل قرار دیتا ہے۔ مثال کے طور پر انسان کے اندر کھانے پینے کی، جسمانی آرام و سکون کی، بقائے نسل کی، بیوی بچوں کی پرورش و نگہداشت کی، احباب کی خاطر مدارات کی فطری خواہشیں موجود ہیں۔ اسی طرح وہ غصہ، نفرت، سختی، حیا، گویائی، احساس، مرحمت اور احساسِ غم کی قوتیں لے کر پیدا ہوا ہے۔ بظاہر دیکھیے تو یہ ساری چیزیں دین و دین داری کے ذوق سے کوئی میل نہیں کھاتیں، بلکہ ان میں سے بیشتر تو ایسی ہیں جو اس کے عین ضد بھی جانی جائیں گی۔ مگر اسلام کہتا ہے کہ ان میں سے کوئی چیز بھی بے قیمت یا بلا ضرورت نہیں، انسان پر جس طرح اس کے خالق اور پروردگار کے حقوق ہیں، اسی طرح اس کے اپنے نفس کے، اپنے جسم کے، اپنی آنکھوں کے، اپنے اہل و عیال کے، اور اپنے احباب کے بھی حقوق ہیں، اور ضروری ہے کہ ان سارے حقوق کو ادا کیا جائے۔
إِنَّ لِجَسَدِكَ عَلَيْكَ حَقًّا وَإِنَّ لِعَيْنِكَ عَلَيْكَ حَقًّا وَإِنَّ لِزَوْجِكَ عَلَيْكَ حَقًّا. (بخاری، کتاب الصوم)
”تیرے جسم کا تجھ پر حق ہے اور تیری آنکھ کا بھی تجھ پر حق ہے اور تیری بیوی کا بھی تجھ پر حق ہے۔“
إِنَّ لِرَبِّكَ عَلَيْكَ حَقًّا وَلِنَفْسِكَ عَلَيْكَ حَقًّا وَلِأَهْلِكَ عَلَيْكَ حَقًّا. (بخاری، کتاب الصوم)
”تیرے رب کا بھی تجھ پر حق ہے اور تیرے نفس کا بھی تجھ پر حق ہے اور تیرے گھر والوں کا بھی تجھ پر حق ہے۔“
إِنَّ لِرَبِّكَ عَلَيْكَ حَقًّا وَلِنَفْسِكَ عَلَيْكَ حَقًّا وَلِأَهْلِكَ عَلَيْكَ حَقًّا فَأَعْطِ كُلَّ ذِي حَقٍّ حَقَّهُ. (بخاری، کتاب الصوم)
”تیرے رب کا بھی تجھ پر حق ہے اور تیرے نفس کا بھی تجھ پر حق ہے اور تیرے گھر والوں کا بھی تجھ پر حق ہے، پس ہر حق دار کو اس کا حق دے۔“
حتی کہ خود اپنی ذات کے اوپر اور اپنے اہل و عیال پر خرچ کرنا بھی کار ثواب ہے۔
ابْدَأْ بِنَفْسِكَ فَتَصَدَّقْ عَلَيْهَا. (مسلم، کتاب الزكوة)
”اپنے نفس سے شروع کر اور اس پر صدقہ کر۔“
مَهْمَا أَنْفَقْتَ فَهُوَ لَكَ صَدَقَةٌ حَتَّى اللُّقْمَةَ تَرْفَعُهَا فِي فِي امْرَأَتِكَ. (بخاری، کتاب النفقات)
”جو بھی تو نے خرچ کیا وہ صدقہ میں شمار ہو گا، حتی کہ جو تیری بیوی نے کھایا وہ بھی صدقہ میں شمار ہو گا۔“
جو شخص جوشِ ریاضت میں آ کر مسلسل روزے رکھتا رہے گا وہ ایسا غلط کار ٹھہرے گا گویا اس نے روزے رکھے ہی نہیں۔
لَا صَامَ مَنْ صَامَ الْأَبَدَ. (بخاری، کتاب الصوم)
نکاح کرنا نبی دین کا تقاضا ہے اور اس سے اعراض کرنے والا رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق رکھنے کا حق نہیں۔
أَتَزَوَّجُ النِّسَاءَ فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي. (بخاری، کتاب النکاح)
انسان میں اولاد کی طلب ہونی چاہیے۔
وَابْتَغُوا مَا كَتَبَ اللَّهُ لَكُمْ. (سورہ بقرہ: ۱۸۷)
تَزَوَّجُوا الْوَدُوْدَ الْوَلُوْدَ. (ابوداؤد، کتاب النکاح)
مثالی مومنوں، یعنی انبیاء علیہم السلام کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ صاحب اہل و عیال تھے۔
وَجَعَلْنَا لَهُمْ أَزْوَاجًا وَذُرِّيَّةً. (سورہ رعد: ۳۸)
مومن کے لیے ازدواجی وظیفہ کی ادائیگی میں بھی اجر و ثواب ہے۔
فِي بُضْعِ أَحَدِكُمْ صَدَقَةٌ. (مسلم، کتاب الزکوة)
حق اور دین کے معاملے میں اپنے موقع پر بغض اور نفرت کمال ایمان کی ضروری علامت ہے۔
مَنْ أَحَبَّ لِلَّهِ وَأَبْغَضَ لِلَّهِ وَأَعْطَى لِلَّهِ وَمَنَعَ لِلَّهِ فَقَدِ اسْتَكْمَلَ الْإِيمَانَ. (مشکوٰۃ صفحہ ۱۴، بحوالہ ابوداؤد)
اگر دین کی حفاظت اور حمایت کا تقاضا ہو تو اس کی خاطر جنگ و جبر بن چکی ہے۔
قِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَيُّ النَّاسِ أَفْضَلُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُؤْمِنٌ يُجَاهِدُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ. (بخاری، کتاب الجہاد)
اور اس قسم کی جنگ کے جذبے سے اگر کوئی سینہ خالی ہے تو وہ ایک سچے مسلمان کا سینہ نہیں ہو سکتا۔
مَنْ مَاتَ وَلَمْ يَغْزُ وَلَمْ يُحَدِّثْ بِهِ نَفْسَهُ مَاتَ عَلَى شُعْبَةٍ مِنْ نِفَاقٍ. (مسلم جلد ۲)
کفر اور نفاق کے معاملے میں نرمی کا نہیں، بلکہ سختی کا رویہ ایمان کی جان ہے۔
مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ. (سورہ فتح: ۲۹)
”محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں، اور جو لوگ اس کے ساتھ ہیں وہ کافروں پر سخت ہیں اور آپس میں رحم دل اور نرم ہیں۔“
قوت گویائی کو معطل کیے رہنا اسلام کا نہیں، جاہلیت کا کام ہے۔
إِنَّ هَذَا لَا يَحِلُّ هَذَا مِنْ عَمَلِ الْجَاهِلِيَّةِ. (بخاری، جلد دوم)
اپنے بچوں کو پیار کرنا ایک پسندیدہ عادت اور ذوق کی بات ہے اور اپنے کو اس سے باز نہ رکھنا سخت ناپسندیدہ رویہ ہے۔
قَبَّلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْحَسَنَ بْنَ عَلِيٍّ ... فَقَالَ مَنْ لَا يَرْحَمْ لَا يُرْحَمْ. (بخاری، کتاب الادب)
اپنے کسی عزیز کی موت پر غمگین ہونا اور آنسو بہانا کوئی غیر مستحسن فعل نہیں، بلکہ انسانیت و رحم دلی کا مظاہرہ ہے۔
هَذِهِ رَحْمَةٌ جَعَلَهَا اللَّهُ فِي قُلُوبِ عِبَادِهِ. (مسلم، کتاب الجنائز)
یہ ساری شہادتیں اس بات کو قطعی طور پر ایک روشن اور ناقابل انکار حقیقت ثابت کر دیتی ہیں کہ اسلام فطری قوتوں اور میلاناتوں کو معیوب قرار نہیں دیتا، بلکہ محبوب اس بات کو قرار دیتا ہے کہ انھیں اچھی نظروں سے نہ دیکھا جائے، انھیں ٹھکرایا جائے، اور ان کے حرکت میں آنے کو دین داری کے خلاف سمجھا جائے۔ وہ اسی خالق حکیم کی طرف سے آیا ہوا دین ہے جس نے انسان کو اور اس کی ساری فطری قوتوں کو خلق کیا ہے۔ اس لیے یہ کس طرح ممکن تھا ہی نہیں کہ وہ ان میں سے کسی ایک قوت کو بھی بے کار اور فضول قرار دیتا۔ دین اللہ اور دین فطرت ہونے کی حیثیت سے بنیادی طور پر اس کا تو مقصد وجودی یہ ہونا چاہیے کہ انسان کی فطری قوتوں اور رجحانوں سے کام لینے میں اس کی رہنمائی کرے، اسے ان کے غلط استعمال سے روکے اور صحیح استعمال کے طریقے بتائے، نہ صرف طریقے بتائے بلکہ اس کی تلقین بھی کرے، اور جو پوچھے تو یہی وہ سب سے بڑی مخصوص صفت ہے جو دین اللہ کو دوسرے دینوں سے اور اسلام کو غیر اسلام سے ممتاز کرتی ہے۔
جب اسلام، دین فطرت ہونے کے باعث، انسان کے ایک ایک فطری رجحان کو توجہ کے لائق ٹھہراتا ہے، اسے احترام کی نظر سے دیکھتا ہے، اس کے وجود کے پیچھے کسی نہ کسی مصلحت اور ضرورت کی کار فرمائی تسلیم کرتا ہے، اور اس بنا پر اس کے صحیح تقاضوں کی تکمیل کو اپنی تعلیمات میں لازماً جگہ دیتا ہے۔ تو کوئی وجہ نہیں کہ اجتماعیت پسندی ہی کے رجحان کو، جو بجائے خود انسانی فطرت کا بڑا ہی نمایاں اور قوی رجحان ہے، اس کے وجود کو حقیر طور پر بے وقعت قرار دے دیا ہو یا اسے نظر انداز کر دیا ہو۔ یہ بات کسی طرح قیاس میں آنے والی نہیں۔ اس کے برعکس، قیاس کا کہنا تو صرف یہ ہے کہ اس نے انسان کے اس فطری رجحان کو بھی، اس کے مقصد وجود کے بارے میں، یقیناً ایک ضرورت کی چیز سمجھا ہوگا، اور اپنی تعلیمات کے اندر اس کے تقاضوں کو بھی وہی جگہ دی ہوگی جس کے وہ مستحق ہیں، نیز ایسے شخص کو اپنا ایک غلط کار پیرو سمجھا ہو گا جو ”مسلم“ ہوتے ہوئے بھی اس کی اس طرح کی تعلیمات کو مناسب اہمیت نہ دے اور ان کا پورا پورا حق ادا کرنے سے کنارہ کشی اختیار کرے۔ اور اگر امر واقعی یہ نہیں ہے، اگر اس نے اجتماعیت کے بارے میں یہ رویہ اختیار نہیں کیا ہے تو کوئی شک نہیں کہ عقل و انصاف کی عدالت اس پر بے اصولی اور تضاد پسندی کا شدید الزام لگائے گی، اور اس الزام کی صفائی میں اس کے لیے کچھ کہنا آسان نہ ہوگا۔
آئیے دیکھیں، اپنے دین فطرت ہونے کے اس واضح اصولی مطالبے کو اسلام نے کس حد تک تسلیم کیا ہے؟ اور اجتماعیت کو اس کے یہاں فی الواقع کیا مقام ملا ہوا ہے؟
اجتماعیت کی تسلیم شدہ دینی اہمیت
کتاب و سنت پر گہرے جائزے کی ایک اچٹتی نظر بھی اس بات کا یقین دلانے کے لیے کافی ہے کہ اسلامی نظامِ فکر و عمل سے اجتماعیت کو بے دخل نہیں رکھا گیا ہے، بلکہ اس کی اہمیت کا صاف صاف اعتراف کیا گیا اور اس کے تقاضوں کو واضح طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔ اور اگر جائزے کی نظر گہرائی میں آکر کام کرنے کا موقع دیا جائے تو اس یقین کی وسعت کہیں سے کہیں جا پہنچے گی۔ دکھائی دے گا کہ اس نظام میں اجتماعیت کو وہ اہمیت حاصل ہے جو حیرت انگیز حد تک غیر معمولی ہے، جو شاید اپنی نظیر آپ ہی ہے۔ کوئی پہلو نہیں جو اس اہمیت کو توجہ و تحقیق کے لیے اختیار کیا جا سکتا ہو اور یہاں اسے اختیار نہ کیا گیا ہو، کوئی موقع نہیں جہاں اجتماعی طرز عمل اپنانے کی گنجائش نکل سکتی ہو اور اسلام نے اس کی تاکید نہ کر رکھی ہو۔
اس دعوے کی دلیل اور اس اجمال کی تفصیل ان چار چیزوں سے ملے گی:
- اسلام کا عمرانی تصور، یعنی انسان کا وہ موقف جسے اس کا حقیقی عمرانی موقف تسلیم کر کے اسلام نے اسے خطاب کیا ہے۔
- وہ احکام شریعت جو اہل اسلام کی جماعتی تنظیم اور جماعتی وحدت کے بارے میں وارد ہوئے ہیں۔
- وہ دینی ہدایات جن میں زندگی کے عام امور و معاملات کو بھی کسی نہ کسی طرح کے اجتماعی نظم کے ساتھ انجام دینے کی تلقین کی گئی ہے۔
- اجتماعیت کے وہ آداب جو فرض عبادتوں کے ضمن میں لازم ٹھہرائے گئے ہیں۔
آیئے، ایک ایک چیز کو لے کر اس کا تفصیلی مطالعہ کریں۔
(۱) عمرانی تصور کی زبان سے
کوئی بھی مذہب جب اپنے پیروؤں کو خطاب کرتا ہے تو اپنے ذہن میں انسان کی اصل حیثیت کا کوئی نہ کوئی تعین ضرور رکھتا ہے، اور اسی متعین موقف پر رکھ کر ہی اپنی تعلیمات کا آغاز کرتا ہے۔ یہ ایک ایسی بنیاد ہے جس سے گریز ممکن ہے نہ صحیح۔ کیونکہ یہ چیز بھی انھی چند چیزوں میں سے ایک ہے جو خدا کے بندے کو خطاب، ان کے احکام و ہدایات کی، اور ان کی قدروں کی تعیین اور حد بندی کرتی ہیں، اور جن کا لحاظ اگر نہ رکھا جائے تو ان کی تعلیمات کے اندر نہ کوئی توازن پیدا ہو سکتا ہے نہ کوئی معقولیت پائی جا سکتی ہے۔
جن امور میں انسان کی اصل حیثیت اور اس کے قدرتی و حقیقی موقف کا تعین ضروری ہوتا ہے، ان میں سے ایک عمرانیت بھی ہے۔ ہر مذہب کو یہ پہلے دن کر لینا پڑتا ہے کہ آیا انسان ایک ایسی مخلوق ہے جسے اپنی دنیا آپ بسانی اور تنہائی کی زندگی بسر کرنی ہے، یا اسے اپنے دوسرے ہم جنسوں کے ساتھ اور ان کے اندر رہنا سہنا ہے؟ اور اگر دوسروں کے ساتھ مل کر رہنا سہنا ہے تو اس میں مل جل کا دائرہ کتنا محدود یا کتنا وسیع، اور اس ربط کا رشتہ کتنا مضبوط ہے؟ قدرتاً اسلام نے بھی ان سوالوں کا ایک جواب متعین کر کے ہی انسان کو خطاب کیا ہے، اور اس معاملہ میں بھی اسے ایک خاص مقام پر رکھ کر ہی اس نے اپنی تعلیمات وضع کی ہیں۔ یہ جواب کیا ہے؟ اور اسلام کے نزدیک عمرانی پہلو سے انسان کا حقیقی موقف کیا ہے؟ یہ معلوم کرنے کے لیے ایک طرف تو اس کا یہ ارشاد سنیے:
يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَىٰ وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ. (الحجرات: ۱۳)
”لوگو! ہم نے تم سب کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے، اور تمھاری قو میں اور قبیلے بنائے ہیں۔“
دوسری طرف اس کا یہ عمل دیکھیے کہ اس کی شریعت پر اجتماعیت کی انتہائی گہری چھاپ پڑی ہوئی ہے، اس کے احکام و ہدایات کا ایک خاصا بڑا حصہ انسان کی اجتماعی زندگی کے لیے وقف ہے اور اس کی پیروی بھی اس نے اسی طرح لازمی قرار دی ہے جس طرح باقی دوسرے احکام کی، وہ جہاں حقوق اللہ سے بحث کرتا ہے وہیں حقوق العباد کو بھی پوری اہمیت سے لیتا ہے، وہ صرف پرستش کا طریقہ بتا کر خاموش نہیں ہو جاتا بلکہ اجتماعی زندگی بسر کرنے کے لیے ایک پورا نظام اطاعت بھی دیتا ہے۔ منزلی اور عائلی، شہری اور ملکی، اخلاقی اور معاشرتی، تمدنی اور معاشی، سیاسی اور بین الاقوامی، غرض حیات انسانی کا کوئی شعبہ نہیں جس کے سلسلے میں اس کے احکام موجود نہ ہوں، اور زندگی کی کوئی گزر گاہ نہیں جہاں اس کے ہدایت نامے آویزاں نہ ہوں۔
یہ دونوں امور - اسلام کا یہ صریح ارشاد اور اس کا یہ واضح عمل - جس امر واقعہ کا انکشاف کرتے ہیں وہ کسی بحث و استدلال یا کسی وضاحت سے یکسر بے نیاز ہے۔ یہ دونوں بجائے خود اس بات کا کھلا ہوا اعلان ہیں کہ اسلام نے انسان کو خطاب کرتے وقت ایسے مقام پر رکھا ہے جسے اجتماعیت کا اونچا مقام کہا جائے گا۔ اس کی تعلیمات کے پس منظر میں انسان کا جو موقف ایک مسلمہ حقیقی موقف کی حیثیت سے موجود ہے وہ قطعی طور پر ایک منظم اجتماعی زندگی بسر کرنے والے مخلوق کا موقف ہے۔ وہ انسانی افراد کا اس کے سوا اور کوئی تصور رکھتا ہی نہیں کہ یہ ایک قبیلہ، ایک قوم، اور ایک معاشرے کے اجزائے ترکیبی ہیں اور اپنے اسی کل کے اجزا بن کر زندگی بسر کرتے ہیں۔ گھر بار، کھیت اور بازار، علمی ادارے اور تحقیقاتی مراکز، اسمبلی اور پارلیمنٹ، میدان جنگ اور ایوان صلح، ہر جگہ کی دلچسپیاں اور ضرورتیں رکھتے ہیں۔ اس لیے جب بھی انھیں خطاب کرنا ہو، ضروری ہے کہ ان کے اس مسلم اور حقیقی موقف کو سامنے رکھ کر خطاب کیا جائے۔
اگر اسلام انسان کو خطاب کرتے وقت اپنے ذہن میں اس کا عمرانی تصور یہ رکھتا ہے تو یہ اس بات کا بدیہی ثبوت ہے کہ وہ اپنے پیروؤں کے لیے اجتماعیت کو ایک لازمی امر سمجھتا ہے، اور اس حد تک لازم سمجھتا ہے کہ اگر اس کو اس کی اس حیثیت سے الگ کر دیا جائے تو پھر اس زمین پر اس کا کوئی صحیح مخاطب ہی باقی نہیں رہ جاتا۔
(۲) تنظیمی احکام کی زبان سے
کوئی شک نہیں کہ اسلام نے فرد کو بڑی اور بنیادی اہمیت دی ہے۔ فرد ہی اس کا ابتدائی اور حقیقی مخاطب ہے۔ جس طرح وہ چاہتا ہے، اس طرح اللہ تعالیٰ کے احکام و مرضیات پر چل کر اپنی زندگی کو کامیاب بنانا بھی اسی کی اپنی انفرادی ذمہ داری ہے، اور کل اس کے حضور اپنے عمل کی جواب دہی کے لیے اسے اکیلے ہی حاضر بھی ہونا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ اس کا کہنا یہ بھی ہے کہ وہ راستہ جو انسان کو کامیابی کی منزل مقصود تک پہنچاتا ہے، تنہائی میں نہیں جاتا، بلکہ ایک منظم اجتماعی زندگی کے ٹھیک منجدھار سے ہو کر گزرتا ہے۔ چنانچہ قرآن مجید اس راستے کی تعین کرتے ہوئے اس کے ضروری مراحل کے سلسلے میں فرماتا ہے کہ:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ... وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا. (آل عمران: ۱۰۳-۱۰۲)
”اے ایمان والو... اور تم سب کے سب اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رہو اور الگ الگ نہ رہو۔“
”الگ الگ نہ رہو“ یعنی یا ہم جڑے ہوئے رہو۔ یہ ”الگ الگ نہ رہنا“ اور ”با ہم جڑ کر رہنا“ کس طرح کا اور کس معیار کا ہونا چاہیے، اس کی وضاحت کے لیے صاحب قرآن صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی طرف رجوع کیجیے۔ آپ فرماتے ہیں کہ:
عَلَيْكُمْ بِالْجَمَاعَةِ وَإِيَّاكُمْ وَالْفُرْقَةَ. (ترمذی، جلد ۲، صفحہ ۳۸)
”جماعت کے دامن کو مضبوطی سے تھامے رہو، اور انتشار سے پوری طرح الگ رہو۔“
أَمَرُكُمْ بِخَمْسٍ بِالْجَمَاعَةِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَةِ وَالْهِجْرَةِ وَالْجِهَادِ فِي سَبِيلِ اللهِ. (احمد، ترمذی، بحوالہ مشکوۃ صفحہ ۳۲۱)
”میں تمھیں پانچ باتوں کا حکم دیتا ہوں: جماعتی زندگی کا جمع (یعنی احکام امیر کے سننے) کا، طاعت (یعنی احکام کے ماننے) کا، ہجرت کا، اور جہاد فی سبیل اللہ کا۔“
ان حدیثوں سے معلوم ہوا کہ جس جماعتی زندگی کا حکم اسلام نے دیا ہے وہ کوئی ڈھیلی ڈھالی جماعتی زندگی نہیں ہے۔ جس کی شیرازہ بندی صرف اخلاقی رشتوں سے ہوئی ہو، بلکہ ایسی متحد اور منضبط جماعتی زندگی ہے، جس کو سمع اور طاعت کے آہنی تاروں سے بھی پوری طرح کس دیا گیا ہو۔
پھر یہی نہیں کہ جماعت کے دامن کو مضبوطی سے تھامے رہیے اور جماعتی زندگی بسر کرنے کا یہ ایک لازمی حکم ہے، بلکہ یہ ایسا لازمی حکم ہے۔ جس کی خلاف ورزی میں نہ ایمان کی خیر ہے نہ اسلام سے رشتہ برقرار رہ سکتا ہے۔ چنانچہ مزید ارشاد ہوتا ہے کہ:
إِنَّهُ مَنْ خَرَجَ مِنَ الْجَمَاعَةِ قِيْدَ شِبْرٍ فَقَدْ خَلَعَ رِبْقَةَ الْإِسْلَامِ مِنْ عُنْقِهِ. (احمد، ترمذی، بحوالہ مشکوۃ: ۳۲۱)
”جو شخص ’الجماعۃ‘ سے بالشت بھر بھی الگ ہو رہا ہو کوئی شک نہیں کہ اس نے اسلام کا حلقہ اپنی گردن سے نکال پھینکا۔“
مَنْ خَرَجَ مِنَ الطَّاعَةِ وَفَارَقَ الْجَمَاعَةَ فَمَاتَ مَاتَ مِيْتَةً جَاهِلِيَّةً. (مسلم، جلد ۲، صفحہ ۱۲۷)
”جو کوئی امام المسلمین کی اطاعت سے کنارہ کشی اختیار کرے گا اور جماعت المسلمین سے الگ ہو رہے گا اور اسی حال میں مر جائے گا اس کی موت جاہلیت کی موت ہوگی۔“
جس طرح مسلمانوں کے اجتماع سے اپنا وابستہ رشتہ کاٹ لینا ایمان کے منافی ہے اسی طرح اس نظم اجتماعی سے وابستہ نہ ہونا بھی دینی حیثیت سے انتہائی خطرناک حالت ہے:
مَنْ مَاتَ وَلَيْسَ فِي عُنْقِهِ بَيْعَةٌ مَاتَ مِيْتَةً جَاهِلِيَّةً. (مسلم، جلد ۲، صفحہ ۱۲۸)
”جو شخص اس حال میں مر جائے کہ اس کی گردن میں (امام المسلمین کی) بیعت (کا قلاوہ) نہ ہو، اس کی موت جاہلیت کی موت ہوگی۔“
پس ”الجماعۃ“ کی حیثیت یہ ہے کہ جس نظم اجتماعی سے متعلق ایک مسلمان کو جماعت کی حالت میں پہنچا دیتی ہو، کوئی ہو اور جس کے اندر رہنے والے کی کسی جسارت کو ایک لمحے کے لیے بھی برداشت کر لیا جائے، چنانچہ اس بارے میں آپ کی ہدایت یہ ہے کہ:
مَنْ أَرَادَ أَنْ يَفْرُقَ أَمْرَ هَذِهِ الْجَمَاعَةِ وَهِيَ جَمِيْعٌ فَاضْرِبُوهُ بِالسَّيْفِ كَائِنًا مَنْ كَانَ. (مسلم، جلد ۲، صفحہ ۱۲۹)
”جو شخص اس جماعت کو، جب کہ وہ متحد ہو، پراگندہ کرنا چاہے، اسے (بدرجہ آخر) تلوار پر رکھ لو، خواہ وہ کوئی بھی ہو۔“
دوسری طرف قدرتی طور پر ان لوگوں کا اجر اور مرتبہ قابل رشک حد تک عظیم قرار دیا گیا ہے جو اس نظم اجتماعی کی عملی شکل - اسلامی مملکت - کی حفاظت اور سالمیت کے لیے جان نثاری دکھائیں۔ فرمایا گیا ہے کہ:
”ایک شب و روز کی سرحدوں کی حفاظت ایک مہینے کے مسلسل روزوں اور نمازوں سے بھی افضل ہے۔ اور اگر اسی دوران میں کسی کی وفات ہو جائے تو اس کا وہ عمل نیک، جسے وہ اپنی زندگی میں انجام دیا کرتا تھا، برابر انجام پاتا ہوا شمار کیا جائے گا، اور اسے اس کا رزق ملتا رہے گا، نیز وہ فتنے میں ڈالنے والوں سے مامون رہے گا۔“ (مسلم، جلد دوم، صفحہ ۱۳۳)
”دو آنکھوں کو دوزخ کی آگ نہ چھو سکے گی: ایک وہ جو خوف خدا سے رو پڑی ہو، دوسری وہ جس نے رضائے الٰہی کی خاطر سرحدوں کی نگرانی کرتے ہوئے رات گزاری ہو۔“ (ترمذی، جلد اول، صفحہ ۲۱۰)
اسی طرح اس نظم کی اطاعت کو ایمان کی ایک ضروری علامت بتایا گیا ہے، اور اصحاب امر کی فرماں برداری کو اللہ و رسول کی فرماں برداری قرار دیا گیا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ:
مَنْ يُطِعِ الْأَمِيرَ فَقَدْ أَطَاعَنِي وَمَنْ يَعْصِ الْأَمِيرَ فَقَدْ عَصَانِي. (مسلم، جلد ۲، ص ۱۲۴)
”جس نے امیر کی فرماں برداری کی اس نے میری فرماں برداری کی، اور جس نے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔“
اطاعت امیر کے اس فریضے کو اطاعت کی آخری حد تک انجام دینے کی تاکید کی گئی ہے۔ یہاں تک کہ ان امرا کی بھی بیعت اور اطاعت سے کنارہ کشی کی اجازت نہیں ہے جو آپس میں فتنے برپا کر رہے ہوں، اور جن کے ہاتھوں رعایا کی کمر زخموں سے چور چور ہو جاتی ہوں۔ حالانکہ یہ وہ حرکتیں ہیں جو اسلام کی نگاہ میں انتہائی حد تک مبغوض ہیں۔ لیکن اس کے باوجود وہ اپنے پیروؤں سے کہتا ہے کہ میرے ان مظالم کو برداشت کیے جاؤ اور ان کی امارت کو چیلنج نہ کرو، بلکہ معروف میں ان کی برابر اطاعت کرتے رہو۔ اس معاملے میں ایسی غیر معمولی چشم پوشی کی پالیسی اس نے کیوں اختیار کی ہے؟ اور فاسق و فاجر امرا کے بارے میں ایسے انتہائی صبر و التجا کا مسلمانوں کو حکم کیوں دیا ہے؟ محض اس لیے کہ ملت کی وحدت اور مسلمانوں کا اتحاد، انتشار کی نذر نہ ہونے پائے۔ امام نووی اس طرح کی حدیثوں پر گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
هَذِهِ الْأَحَادِيثُ فِي الْحَثِّ عَلَى السَّمْعِ وَالطَّاعَةِ فِي جَمِيعِ الْأَحْوَالِ وَ سَبَبُهَا اجْتِمَاعُ كَلِمَةِ الْمُسْلِمِينَ فَإِنَّ الْخِلَافَ سَبَبٌ لِفَسَادِ أَحْوَالِهِمْ فِي دِينِهِمْ وَدُنْيَاهُمْ. (شرح مسلم، جلد ۲، صفحہ ۱۲۴)
”یہ حدیثیں اس امر کی تاکید کے بارے میں وارد ہوئی ہیں کہ اولو الامر کے احکام ہر حال میں سنے اور مانے جائیں، اور ان کا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کا اتحاد برقرار رہے، کیونکہ اختلاف ان کے لیے دینی اور دنیوی دونوں قسم کی خرابی احوال کا موجب ہے۔“
ان احکام کا ایک مجمل خلاصہ ہے جو اجتماعی نظم اور ملی اتحاد کے بارے میں اسلام نے اپنے پیروؤں کو دیے ہیں۔ اگر صرف انہی چند ارشادات کو غور سے دیکھ لیا جائے تو اجتماعیت کی وہ قدر و قیمت، جو اسے اسلام میں حاصل ہے، بڑی حد تک بے حجاب نظر آ جائے گی۔ کتاب و سنت کی رو سے اگر تمام اہل ایمان کا ایک خاص شیرازے (حَبْلُ اللهِ) میں بندھا رہنا اور تفرقے سے دُور رہنا ضروری ہے، اگر مسلمانوں پر نظام خلافت کا قائم کرنا واجب ہے، اگر امام المسلمین کی اطاعت اللہ اور رسول کی اطاعت ہے، اگر جملہ مسلمین سے بالشت بھر کی علیحدگی بھی مومن کی گردن کو اسلام کے حلقے سے محروم کر دیتی ہے، اگر امام کی بیعت سے بے نیاز مر جانا جاہلیت کی موت مرنا ہے، اگر الجماعۃ کے اتحاد میں رخنے ڈالنے والے کے خون کی کوئی قیمت نہیں، اور اگر ملت کے اجتماعی نظام (اسلامی مملکت) کی حفاظت سے بڑی کوئی عبادت نہیں - تو سوچیے، وہ کون سا مقام ہے جو اجتماعیت کو حاصل ہونا چاہیے تھا، لیکن اسلام میں اسے نہ ملایا۔
(۳) عام اجتماعی ہدایات کی زبان سے
”اجتماعیت“ اور ”اجتماعی نظام زندگی“ کے الفاظ جب بولے جاتے ہیں تو عام طور سے ان کا اونچا سے اونچا اور وسیع سے وسیع مفہوم بھی ایک باضابطہ نظام حکومت کے قیام سے زیادہ نہیں ہوتا۔ گویا عام معاشروں کی حد تک اجتماعیت کا معیار مطلوب اور منتہائے کمال سمجھا جاتا ہے، اور حکومت کے دائرہ عمل و اثر سے باہر کی باقی پوری زندگی اجتماعیت کی بحث سے یکسر آزاد اور بے تعلق خیال کی جاتی ہے۔
لیکن اسلام اس عام نقطۂ نظر سے اتفاق نہ کرتے ہوئے آگے بڑھتا ہے، اور اپنے پیروؤں کو حکومتی دائرہ عمل و اثر سے باہر کی زندگی بھی، کسی نہ کسی طرح کے اجتماعی نظم کے ساتھ ہی بسر کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ اس سلسلے میں اس نے جو ہدایات دی ہیں ان کا ایک ترتیب سے مطالعہ کیجیے۔
- حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
- حضرت ابو سعید خدری بیان کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
- حضرت ابو نشدہ سختی کہتے ہیں کہ لوگوں کی عادت تھی کہ سفر کے دوران میں جب کہیں پڑاؤ ڈالتے تو ادھر ادھر پھیل جاتے اور اپنی اپنی پسند کی مختلف جگہیں ٹھہرنے کے لیے منتخب کر لیتے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار یہ صورت حال دیکھی تو سرزنش کرتے ہوئے فرمایا:
- ایک صحابی کسی گھاٹی سے گزر رہے تھے۔ وہاں انھیں میٹھے پانی کا ایک چشمہ نظر آیا، جس نے انھیں اپنا گرویدہ بنا لیا۔ دل نے کہا، کاش میں آبادی چھوڑ کر یہیں آ بستا۔ اس خواہش کو لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور پہنچے اور اجازت طلب کی، تو آپ نے فرمایا:
لَا يَحِلُّ لِثَلَاثَةٍ يَكُونُونَ بِفَلَاةٍ مِنَ الْأَرْضِ إِلَّا أَمَّرُوا عَلَيْهِمْ أَحَدَهُمْ. (المنتقی، صفحہ ۲۲۰)
”ایسے تین آدمیوں کے لیے، جو کسی بیابان میں ہوں، جائز صرف یہ بات ہے کہ وہ اپنے میں سے ایک کو اپنا امیر بنا کر رہیں۔“
یہ ارشاد نبوی کہتا ہے کہ اگر تین مسلمان کسی جنگ میں ہوں حتی کہ اگر وہ کسی الگ تھلگ مقام پر اور سنسان بیابان ہی میں کیوں نہ آباد ہوں، تو بھی ضروری ہے کہ ان میں سے ایک ان کا امیر ہو اور باقی دو اس کے مامور و ماتحت ہوں۔ اس اجتماعیت اور تنظیم کے، بلکہ یوں کہیے کہ اس ننھے سے ”ریاستی نظم“ کے بغیر ان کی زندگی اسلامی زندگی نہ ہوگی۔
إِذَا خَرَجَ ثَلَاثَةٌ فِي سَفَرٍ فَلْيُؤَمِّرُوا أَحَدَهُمْ. (ابوداؤد، جلد ۱، صفحہ ۳۵۱)
”جب تم میں سے تین آدمی (بھی) سفر کے لیے نکلیں تو چاہیے کہ ایک کو اپنا امیر بنا لیں۔“
یعنی مسلمان کے لیے ہدایت یہ ہے کہ مدت سفر جیسا عارضی وقت بھی نظم و امر کے بغیر نہ گزارے۔ اگر تین اشخاص بھی ایک ساتھ سفر کر رہے ہوں تو مزاج اسلامی کے سراسر خلاف ہوگا اگر انہوں نے اپنے میں سے ایک کو اپنا امیر مقرر نہ کیا ہو، اور اس کی سرکردگی میں وہ یہ سفر نہ کر رہے ہوں۔
إِنَّ تَفَرُّقَكُمْ فِي هَذِهِ الشِّعَابِ وَالْأَوْدِيَةِ إِنَّمَا ذَلِكُمْ مِنَ الشَّيْطَانِ. (ابوداؤد، جلد اول، صفحہ ۳۵۴)
”تمھارا اس طرح مختلف گھاٹیوں اور میدانوں میں منتشر رہنا صرف شیطان کی وجہ سے ہے۔“
اس تنبیہ کا نتیجہ یہ ہوا کہ: ”لوگ پھر کبھی اس طرح منتشر نہ ہوئے، اور جب کسی جگہ پڑاؤ ڈالتے تو ایک دوسرے سے بالکل لگ کر ٹھہرتے حتی کہ یہ خیال ہوتا کہ اگر انھیں ڈھکانے کے تو ایک ہی کپڑے کے نیچے سب آ جائیں گے۔“ (ابوداؤد، جلد اول، صفحہ ۳۵۴)
معلوم ہوا کہ بغیر کسی جماعتی نظم کے پورا سفر کر ڈالنا تو درکنار، اس کے دوران میں چند گھنٹوں کا کوئی پڑاؤ بھی اگر اپنے اپنے طور پر کر لیا جائے تو یہ بھی زندگی شانِ اجتماعیت سے آراستہ دکھائی نہ دے، تو یہ بات بھی اسلام کو قطعی گوارا نہیں، اور اسے وہ شیطان کی پیروی قرار دیتا ہے۔
”نہیں، ایسا نہ کرو، کیونکہ اللہ کی راہ میں تمھارا کھڑا رہنا گھر کے اندر پڑھی جانے والی تمھاری ستر برس کی نمازوں سے بھی افضل ہے۔“
لَا تَفْعَلْ فَإِنَّ مُقَامَ أَحَدِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَفْضَلُ مِنْ صَلَاتِهِ فِي بَيْتِهِ سَبْعِينَ عَامًا. (ترمذی، جلد اول)
یہ حدیث اس حقیقت کی عکاس ہے کہ اجتماعی زندگی کو چھوڑ کر تنہائی کی زندگی گزارنے میں چاہے جو بھی دینی اور دنیوی فوائد نظر آتے ہوں لیکن اسلام ایسے پیروؤں کو اجتماع سے کٹ کر رہنے کی اجازت نہیں دیتا۔ کیونکہ یہ دینی اور دنیوی فوائد خواہ کتنے ہی عظیم کیوں نہ ہوں مگر ان فائدوں کے مقابلے میں بالکل ہیچ ہیں جو ایک منظم اسلامی معاشرے کے اندر ایک مسلمان کو حاصل ہو سکتے ہیں۔
غور کیجیے، سفر اور حضر سے متعلق یہ مختلف ہدایاتیں اسلام کا نظام فکر و عمل میں اجتماعیت کی ضرورت و اہمیت کو کہاں سے کہاں پہنچا دیتی ہیں؟ یہ یقیناً ایک ایسی حقیقت کا انکشاف کرتی ہیں جس کو صرف اسلامی نظامِ فکر و عمل کے اندر موجود پایا جا سکتا ہے، اور جس سے دنیا کا ہر دوسرا معاشرہ اور نظام ناآشنا ہے۔ یہ اس بات کا کھلا ہوا ثبوت ہیں کہ اسلام کے نزدیک اجتماعیت صرف حکومتی احکام کی گرفت کی بجائے پوری اور مکمل شکل میں موجود نہیں ہوتی، بلکہ اس سے باہر کی عام زندگی کو بھی اپنی گرفت میں لیے ہوئے ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ اسلام کے نزدیک اجتماعیت انتہائی وسیع اور ہمہ گیر بھی ہے۔ یہ انسان کے عام رہن سہن کا کوئی گوشہ بھی اس کے دائرہ اثر سے باہر رہنے نہیں پاتا۔ علامہ شوکانی اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ”یہ حدیثیں اس بات کی دلیل ہیں کہ جہاں کہیں بھی تین یا تین سے زائد مسلمان ہوں ان کے لیے حکم شریعت یہ ہے کہ وہ اپنے میں سے ایک شخص کو اپنا امیر مقرر کر لیں۔ کیونکہ اسی طرح باہمی اختلاف سے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔ اور اگر ان تین افراد کے لیے بھی، جو کسی جنگل میں ہوں یا ایک ساتھ سفر کر رہے ہوں، حکم شریعت یہ ہے تو اس بڑی تعداد کے مسلمانوں کے لیے جو کسی گاؤں یا شہر میں ایک ساتھ رہتے ہوں یہ بدرجہ اولیٰ مشروع ہوگا۔“ (نیل الاوطار، جلد ۸، صفحہ ۱۵۷)
(۴) عبادتوں کے اجتماعی آداب کی زبان سے
انسانی زندگی کا وہ شعبہ، جسے عرف عام کے لحاظ سے عبادتی شعبہ کہنا چاہیے، ایک ایسا شعبہ ہے جہاں اجتماعیت کی رسائی کا تصور بھی مشکل سے کیا جا سکتا ہے۔ عبادت الٰہی کا نام لیجیے، ذہن آپ سے آپ گوشوں اور تنہائیوں کی طرف دوڑ پڑتے ہیں۔ خیال ہونے لگتا ہے کہ عبادت خالصتاً دین کا اور آخرت کا کام ہے، کسی پہلو سے بھی دنیا کا کام نہیں، پھر اسے کسی طرح بھی سامانِ جلوت کیسے بنایا جا سکتا ہے؟ گھر کی، محلے کی، بستی کی، پورے ملک کی زندگی کیا اجتماع کی محتاج ضرور سمجھی جا سکتی ہیں، مگر خدا کو یاد کرنے کے لیے بھی اجتماعیت کی ضرورت محسوس کی جائے۔ یہ بات کچھ عجیب آنے والی نہیں۔ یاد الٰہی اور عبادت کی تو فطرت ہی میں گہری دلچسپی ہے، ربط و شوق سے یہ تعلق چاہتی ہے۔ غرض عبادت کا دین اور ریاضت میں وہ مقام ہے جہاں ماسوا کا تصور بھی گوارا نہیں کیا جاتا۔ اب اگر کوئی دین، عبادات کے اندر اجتماعی آداب کو لازم ٹھہراتا ہے تو کہنا چاہیے کہ اس نے اجتماعیت کو اہمیت دینے میں سب سے آخری قدم اٹھا دیا ہے۔ ایسی حالت میں اس امر کا اندازہ لگانے کے لیے کہ اس دین میں اجتماعیت کو کس درجہ کی اہمیت ملی ہوئی ہے، ان آداب اجتماعی سے زیادہ فیصلہ کن اور کوئی چیز نہیں ہو سکتی جس نے اپنی عبادتوں میں اجتماعیت کو جگہ دے رکھی ہو۔ یہ آداب شمار میں جتنے بھی زیادہ ہوں گے، اور انھیں جتنا ہی زیادہ ضروری ٹھہرایا گیا ہوگا، کوئی شک نہیں کہ اس دین میں اجتماعیت کا حاصل شدہ مقام اتنا ہی اونچا قرار پائے گا۔
جہاں تک اسلام کا تعلق ہے، بالیقین وہ ایک ایسا ہی دین ہے جس کی عبادتوں میں اجتماعی آداب سموئے ہوئے ہیں۔ کس حد تک اور کس اہمیت کے ساتھ سموئے ہوئے ہیں؟ اس امر کا تفصیلی جائزہ ذیل کی سطروں میں ملاحظہ کیجیے:
نماز:
اس سلسلے میں ہمیں قدرتی طور پر سب سے پہلے نماز کو لینا چاہیے۔ کیونکہ ساری عبادتوں میں وہ سب سے بڑی عبادت ہے، پورے دین کا مغز اور زندگی کا سرچشمہ ہے، اور اسے اسلام کا شاہ ستون (عِمَادُ الدِّیْنِ) فرمایا گیا ہے۔ اس عبادت کو جن شرائط اور آداب کے ساتھ ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے ان میں یہ امور بھی شامل ہیں:
- نماز ادا کرتے وقت ہر مسلمان کا رُخ ایک ہی خاص مقام (کعبہ) کی طرف ہونا چاہیے۔
- فرض نمازوں کو - جو تمام نمازوں کے درمیان میں واقع اصل نماز ہیں - اکیلے پڑھنے کے بجائے مل کر ادا کرنے کی تاکید فرمائی گئی ہے، اور نماز باجماعت کا ثواب، اس نماز کے مقابلے میں ستائیس گنا بتایا گیا ہے جو اکیلے پڑھی گئی ہو۔ (بخاری، جلد ۱)
- نماز کو اکیلے پڑھنے کے بجائے مل کر اور باجماعت ادا کرنے کے سلسلے میں صرف اتنی ہی بات کافی نہیں ہے کہ لوگ اپنے اپنے گھروں سے نکل کر ایک جگہ جمع ہو جائیں اور پھر اپنے اپنے طور پر اللہ کی یاد میں مشغول ہو رہیں۔ بلکہ ضروری ہے کہ سب لوگ صفیں باندھ کر اور کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہوں، اور صفیں تیر کی طرح سیدھی ہوں۔ (بخاری، جلد ۱)
- نماز کو جماعت کے ساتھ اور ایک امام کی اقتدا میں ادا کرنے کا یہ حکم عام ظاہر ہے کہ محلہ واری نوعیت کا ہے۔ یعنی اس حکم کا منشا یہ ہے کہ بستی کے ہر محلے کے لوگ اپنی پانچوں فرض نمازیں اپنے محلے کی مسجد میں باجماعت ادا کریں لیکن اس سلسلے میں شریعت اسی پر بس نہیں کرتی، بلکہ ابھی اور آگے جاتی ہے، اور ہدایت دیتی ہے کہ ہفتہ میں ایک نماز اس طرح پڑھی جائے کہ بستی کے تمام باشندے ایک ہی مسجد میں اکٹھے ہو جائیں، اور پوری بستی ایک جگہ، ایک امام کے پیچھے، ایک ساتھ اپنے رب کے حضور جھکے۔ یہ جمعہ کی نماز ہے۔ اس نماز کی عظمت اور اہمیت سورہ جمعہ کا نظم کلام یہ بتاتا ہے کہ اُمت مسلمہ اپنا فرض منصبی اسی وقت ٹھیک ٹھیک ادا کر سکتی ہے جب کہ اس کا طریق فکر و عمل اپنی حقیقی شان کے ساتھ باقی ہو، اور اس طرز فکر و عمل کا اپنی حقیقی شان کے ساتھ باقی رہنا جن باتوں پر موقوف ہے ان میں سے ایک یہ نماز جمعہ کی اقامت بھی ہے۔ اگر مسلمانوں نے اس نماز کا حق نہ ادا کیا تو وہ بھی اسی قانون خداوندی کی زد میں آسکتے ہیں جس کی زد میں آ کر پچھلی ملتیں (خصوصاً صلب یہود) ذلت کی موت مر چکی ہیں۔ ایسی ہی ہدایت اور تنبیہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمائی ہے۔ آپ کا صریح ارشاد ہے کہ:
وَحَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ. (البقرہ: ۱۴۴-۱۵۰)
”اور جس جگہ بھی تم ہو، اپنے رُخ اسی (کعبہ) کی طرف پھیر لو۔“
کسی مسلمان کا تسلیم کیا جانا نہ صرف یہ ہے کہ وہ کعبہ ہی کی طرف رُخ کر کے نماز پڑھے۔
مَنْ صَلَّى صَلَاتَنَا وَاسْتَقْبَلَ قِبْلَتَنَا وَأَكَلَ ذَبِيحَتَنَا فَذَلِكَ الْمُسْلِمُ. (بخاری، جلد ۱، صفحہ ۵۶)
ایک ہی خاص مقام کی طرف رخ کرنے کا یہ حکم اس تاکید کے باوجود کہ نماز جس اللہ کی یاد کا نام ہے وہ ہر جگہ اور ہر طرف ہے، کسی خاص جگہ، یا کسی خاص سمت میں محدود نہیں ہے، جیسا کہ خود قرآن نے اس کا اعلان کیا ہے اور واضح ترین لفظوں میں کہا ہے:
فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ. (البقرہ: ۱۱۵)
”پس جس طرف بھی تم منہ کرو اللہ اُدھر ہی ہے۔“
نماز باجماعت ادا کرنا جس حد تک ضروری ہے اس کا اندازہ صرف اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کے بارے میں، جو کسی عذر کے بغیر نماز باجماعت سے غیر حاضر تھے فرمایا:
”میرا ارادہ ہوتا ہے کہ کسی کو اپنی جگہ نماز پڑھانے کے لیے مقرر کردوں، پھر ان لوگوں کے پاس جاؤں جو نماز باجماعت میں حاضر نہیں ہوتے، اور حکم دوں کہ لکڑیاں ڈال کر ان کے سمیت ان کے گھروں کو پھونک دیا جائے۔“ (مسلم، جلد ۱)
یہ اس نبی کے الفاظ ہیں جو رحم و شفقت کا پیکر تھا۔ اس کے باوجود ترک جماعت کے بارے میں آپ کی زبان سے ایسے سخت اور دہشت بھرے الفاظ کا نکلنا بتاتا ہے کہ باجماعت نماز نہ پڑھنا کوئی معمولی کوتاہی نہیں بلکہ ایک سنگین معصیت ہے۔
پھر سب میں سے ایک اہل تر شخص پوری جماعت کا امام ہو، جو سب کے آگے کھڑا ہو اور سب لوگ اس کی اقتدا میں یہ فریضہ ادا کریں، اقتدا ایسی کامل ہو کہ پوری جماعت کی ایک ایک حرکت امام کی حرکت کے تابع ہو، پوری جماعت امام ہی کے ساتھ کھڑی ہو، اسی کے ساتھ جھکے، اسی کے ساتھ سجدے میں جائے، اسی کے ساتھ قعدہ کرے، جس وقت وہ قراءت کر رہا ہو پوری خاموشی اور یکسوئی کے ساتھ اس کی ساعت سے نماز کی ادائیگی میں اگر وہ بھول چوک کا مرتکب ہو رہا ہو تو بھی اس کی اقتدا سے علیحدگی اختیار کر لینے کی کوئی گنجائش نہیں، بلکہ سبحان اللہ کہہ کر اسے اس غلطی پر متنبہ کر دیا جائے۔
یہ دونوں باتیں - صف بندی اور امام کی پیروی - محض فضائل نماز کا درجہ نہیں رکھتیں، بلکہ وہ نماز باجماعت کی شرطوں میں داخل ہیں۔ ان میں اگر نقص رہا تو یہ نقص نماز کو بھی ناقص بلکہ بے سود بنا کر رکھ دیتا ہے۔ اور اس سے صرف آخرت ہی نہیں، دنیا کی زندگی بھی تباہیوں کے خطرات میں جا گرتی ہے۔ ایک شخص کا سینہ صف سے ذرا باہر نکلا ہوا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تنبیہ فرمائی:
عِبَادَ اللَّهِ لَتُسَوُّنَّ صُفُوفَكُمْ أَوْ لَيُخَالِفَنَّ اللَّهُ بَيْنَ وُجُوهِكُمْ. (مسلم، جلد ۱)
”اللہ کے بندو! اپنی صفوں کو ضرور ہی درست اور سیدھی رکھو، ورنہ اللہ تمھارے رُخ ایک دوسرے کے خلاف کر دے گا۔“
ایک اور موقع پر آپ نے فرمایا:
”جو شخص نماز کی کسی صف کو جوڑے گا اسے اللہ جوڑے گا، اور جو کسی صف کو کاٹے گا اسے اللہ کاٹ دے گا۔“ (ابوداؤد، جلد ۱)
اسی طرح امام کی اقتدا کے سلسلے میں آپ کا ارشاد ہے کہ:
”جب تم میں سے کوئی شخص امام سے پہلے ہی (مثلاً رکوع سے) اپنا سر اٹھا لیتا ہے تو کیا اسے اس وقت اس بات کا ڈر نہیں رہتا کہ اللہ تعالیٰ اس کے سر کو گدھے کا سر بنا دے۔“ (مسلم، جلد ۱)
”لوگوں کو نماز جمعہ کی نماز چھوڑنے سے باز ہی آجانا چاہیے، ورنہ ایسا ضرور ہوگا کہ اللہ تعالیٰ ان کے دلوں پر مہر کر دے گا اور پھر وہ غافل ہو کر رہ جائیں گے۔“ (مسلم، جلد ۱)
مثلاً اِيَّاكَ نَعْبُدُ
”خدایا! ہم تیری ہی بندگی کرتے ہیں۔“
وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ
”ہم تجھی سے مدد مانگتے ہیں۔“
اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ
”ہمیں سیدھی راہ چلا۔“
رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ
”اے ہمارے پروردگار! حمد تیرے ہی لیے ہے۔“
اَلسَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللهِ الصَّالِحِينَ.
”سلامتی ہو ہم سب پر اور اللہ کے سارے نیکوکار بندوں پر۔“
وغیرہ - اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ نماز ادا کرتے وقت لوگوں کو جس طرح ظاہری طور پر اکٹھے اور صف بستہ ہو رہنے کی ہدایت ہے، اسی طرح ذہنی طور پر بھی باہمی وحدت اور یگانگی کا احساس رکھنے کا حکم ہے۔
یہ امور ایسے ہیں جن کے بغیر نماز نماز ہوتی ہی نہیں۔ واضح طور پر یہ سب اجتماعی آداب کا سرچشمہ ہیں، اور ان کا منشا اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ نماز کو شعورِ اجتماعیت اور احساسِ نظم و انضباط کا بھی سرچشمہ بنا دیا جائے، مسلمان میں جب وہ وقت پوری توجہ سے بلکہ اپنے پورے وجود سے اللہ تعالیٰ کی طرف کھنچا ہوا ہوتا ہے۔ اس کے لیے اس وقت بھی ایک جماعت کا جز ہونے کی واقعیت ناقابل فراموش ہو، وہ حضوری کے ان خصوص لمحات میں بھی اپنے کو اپنی مستقل اور ہمہ فرد تصور نہ کرے جو اپنے فرائض، اپنے مقصد حیات اور اپنے ہمہ گیر مفادات کے لحاظ سے دوسرے تمام اہل ایمان سے بالکل الگ تھلگ ہو، اور ان فرائض کی تکمیل اور ان مقاصد و مفادات کی تحصیل میں ان سے کوئی ربط نہ رکھتا ہو۔ اس کے خلاف وہ اپنی دعاؤں اور گزارشوں تک سے بھی یہ حقیقت بار بار نمایاں کرتا رہے کہ اس کے سامنے اپنی انفرادیت کا استقلال بھی ہے اور جماعت کا ناقابل فراموش ارتباط بھی۔ وہ خشکی کا مسافر نہیں ہے کہ اکیلے ہی منزل مقصود تک پہنچ جائے گا، بلکہ کشتی کا مسافر ہے جو عام حالات میں سارے اہل کشتی کے ساتھ ہی ساحل مراد پر قدم رکھ سکتا ہے۔
اب نماز کے ان سارے اجتماعی آداب کو اور ان کے پیچھے کام کرنے والے اس منشا کو سامنے رکھ کر اندازہ لگایے کہ اس اجتماعیت میں اجتماعیت کی روح کس زور و قوت کے ساتھ رچا بسا دی گئی ہے، اور اس سے اسلام میں اجتماعیت کا مقام کتنا عظیم دکھائی دینے لگتا ہے، لیکن یہ اندازہ تب تک مکمل نہ ہوگا جب تک کہ نماز کے بنیادی مقصد اور اس کی اصل غرض و غایت سے ان آداب کی مناسبت کا حال بھی نظر میں ہو۔ نماز کی اصل غرض خدا کے حضور حاضری اور اس کا ذکر ہے، اس ذکر کی جان، دل کا عاجزانہ جھکاؤ ہے۔ یہ دونوں جانی بوجھی حقیقتیں ہیں۔ غور کیجیے کہ نماز کے اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے کون سا مقام زیادہ سازگار ہو سکتا ہے؟ گوشہ تنہائی یا مجمع عام؟ یاد الٰہی کا استغراق، خلوت کا سکون چاہتا ہے یا ہجوم کی ہما ہمی؟ دل کو سکون کی دولت زیادہ آسانی کے ساتھ سنسان فضا میں میسر آیا کرتی ہے یا ہجوم کے ماحول میں؟ اس سوال کا جواب کوئی شک نہیں کہ صرف ایک ہی ہوگا۔ ہر شخص یہی کہے گا کہ اللہ کی یاد، دل کی کامل یکسوئی چاہتی ہے، اور دل کی کامل یکسوئی، تنہائی کا سکون مانگتی ہے۔ اب ایک طرف تو نماز کا یہ اصل مقصد، اور اس مقصد کے حاصل ہو سکنے کی یہ مطلوبہ شکل دیکھیے، دوسری طرف شریعت کا یہ فرمان سنیے کہ فرض نمازوں کے لیے اجتماع ضروری ہے اور تنہائی ناقابل معافی جرم ہے۔ اجتماع محض نہیں، بلکہ انتہائی معیاری اور پوری طرح کسا بندھا اجتماع، صفیں باندھنا ضروری، صفوں کو تیر کی طرح سیدھا رکھنا ضروری، لوگوں کا امام کا مقتدی ہونا ضروری، امام کی پیروی میں اور اس کے اشاروں کے مطابق ہی سب کا ایک ساتھ کھڑا ہونا، ایک ساتھ جھکنا، ایک ساتھ بیٹھنا، ایک ساتھ سجدہ کرنا اور پھر ایک ہی ساتھ نماز ختم کرنا، سب ضروری! بظاہر کتنی عجیب معلوم ہوتی ہے کہ نماز کی اقامت ایسے آداب و شرائط پر موقوف ہو جو دل کی یکسوئی اور باطن کے خشوع میں رہ رہ کر خلل ڈال سکتے ہیں۔ سوچیے کی بات ہے کہ آخر ایسا کیوں کیا گیا؟ اور جو چیزیں نماز کے اصل مقصد میں خلل ڈال سکتی ہیں انھیں نفسِ فعلِ نماز کے اندر گوارا ہی نہیں، بلکہ اپنا ضروری حصہ تک کیسے قرار دے دیا گیا ہے؟ اس غور و فکر کے بعد آپ جس نتیجہ پر پہنچیں، اس کے اندر یہ حقیقت بھی لازماً داخل ہوگی کہ شارع اسلام کو مسلمانوں کے اندر منظم اجتماعیت کا شعور بیدار اور منظم رکھنا اجتماعی اور غیر معمولی حد تک عزیز تھا، اجتماعیت کا یہ شعور اتنا عزیز تھا کہ نماز کے اصل مقصد تک کے حصول میں دشواری پیدا ہو جانے کے خطرے مول لے کر بھی اس نے شعور کی بیداری اور استحکام کو ترجیح دی۔ بلاشبہ اس امر کی بھی دلیل ہے کہ ملت میں منظم اجتماعیت کے شعور کو بیدار رکھنا بجائے خود اقامت نماز کا ایک ذیلی مقصد ہے۔
یہ اس امر پر ملا کا اتفاق ہے کہ اگر کسی شخص کو تنہائی میں نماز پڑھنے سے جو شرح حاصل ہوتا ہو لیکن جماعت کے ساتھ پڑھنے میں اس کے خیالات اکثر بٹ جاتے ہوئے بھی اس کے لیے یہ نہیں کہ فرض نماز تنہائی میں ادا کرے اور جماعت کی شرکت چھوڑ دے، صرف امام جزائی کے اس کے خلاف ہیں۔ یعنی انہوں نے جماعت کی شرکت پر شرح کے حصول پر ترجیح دی ہے مگر ان کی اس رائے کو کوئی اہمیت نہیں دی گئی۔
اس موقع پر یہ بات بھی یاد دلانے کی ہے کہ فرض نمازوں میں جماعت کی پابندی کے باعث نماز کے اصل مقصد (ذکر الٰہی) کے حصول میں اگر خلل اور دشواری پیدا ہو اور اس کی برکات میں کمی واقع ہو، تو شریعت نے اس معاملہ کو یوں ہی نہیں چھوڑ دیا ہے، بلکہ اس کا حل بھی تجویز کر دیا ہے اور وہ اس طرح کہ جہاں اس نے فرض نمازوں کو ایسے زبردست اجتماعی آداب کے ساتھ ادا کرنے کا حکم دیا ہے، وہیں اس امر کی بھی ترغیب دے رکھی ہے کہ دوسری تمام نمازوں کو مسجد کے بجائے اپنے گھروں میں پڑھی جائے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صلوا أيها الناس في بيوتكم فإن أفضل الصلوة صلوة المرء فی بیته الا المكتوبة (بخاری، جلد اول)
”لوگوں! گھروں میں پڑھا کرو، کیونکہ سب سے اچھی نماز وہ ہوتی ہے جسے آدمی اپنے گھر میں پڑھتا ہے، سوائے فرض نمازوں کے۔“
چنانچہ خود آپ کا اسوہ بھی یہی تھا۔ آپ نفل اور سنت نمازیں اپنے حجرے ہی میں پڑھا کرتے تھے۔ آپ کے اس ارشاد اور عمل کی سب سے اہم مصلحت واضح طور پر یہی ہو سکتی ہے، اس لیے نماز کا اصل فائدہ حاصل کرنے کے لیے جو زیادہ موزوں اور سازگار ہے اس طریقے سے نماز میں خشوع باطن کے حصول کی امکانی سہولتیں پیدا ہو جائیں تاکہ جو دینی فرض نمازوں میں جماعت کی پابندیوں کے باعث رونما ہو سکتی ہے۔
اب اگر نماز کی ان سب خصوصیات پر بحیثیت مجموعی نظر کی جائے، تو صاف دکھائی دے گا کہ وہ دل سے باطن اور غیر نظر و محسوس کی جانچ سے ہے، باطن کو حضوری عطا کرتی ہے تو ساتھ ہی ظاہر کو اجتماعیت کے آداب سے مزین اور منظم و با وقار بھی تو بناتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب اسلام کے اس فیضان سے خواہ مخواہ فتنے جڑے تھے۔ مورخین کا بیان ہے کہ:
”(مشہور ایرانی سپہ سالار) رستم جب مسلمانوں کو نماز کے لیے اکٹھے ہوتے ہوئے دیکھتا، تو کہتا تھا: عنقریب کعبہ ہمارے قبضے میں ہوگا وہ لوگوں کو آداب سکھا رہا ہے۔“
زکوٰۃ
نماز کے بعد دوسری اہم ترین عبادت زکوٰۃ ہے۔ زکوٰۃ کا ادا کرنا اسلامیت کی ان دو بنیادی علامتوں میں سے ایک ہے جو کسی غیر مسلم کے دائرۂ اسلام میں داخل قرار پانے یا نہ پانے کا، سیاسی طور پر فیصلہ کرتی ہیں۔ اس عبادت کے سلسلے میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ:
إِنَّ اللَّهَ افْتَرَضَ عَلَيْهِمْ صَدَقَةً تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِيَائِهِمْ وَتُرَدُّ عَلَى فُقَرَاءِهِمْ. (مسلم، جلد ۱)
”اللہ نے مسلمانوں پر زکوٰۃ فرض کی ہے، جو ان کے مال داروں سے لی جاتی ہے اور ان کے ضرورت مندوں پر لوٹا (خرچ) دی جاتی ہے۔“
اس ارشاد نبوی سے دو خاص باتیں معلوم ہوئیں۔ ایک تو یہ کہ اس اہم عبادت کی جو غرض و غایت ہے اس کا ایک رُخ (خارجی رُخ) اسلامی معاشرے کے اقتصادی مصالح کی طرف ہے، یعنی جس مقصد سے فرض کی گئی ہے اس کے اندر یہ بات بھی شامل ہے کہ ملت کے حاجت مند افراد اپنی معاشی مجبوریوں اور پریشانیوں سے بیٹھنے کے لیے بے سہارا نہ رہ جائیں۔ دوسری یہ کہ طریقہ اس عبادت کا یہ ہے کہ مال زکوٰۃ مال دار مسلمانوں سے لیا جائے، اور وصول کیا جائے، اور پھر ٹھیک ٹھیک حلقوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ یہ نہیں ہے کہ مال دار مسلمان خود ہی زکوٰۃ نکال کر غریبوں کو دے دیا کریں۔ ویسے بھی اس کے الفاظ (نُؤْخَذُ وَتُرَدُّ) کی بات چاہتی ہے کہ لازماً کوئی ہاتھ ہو جو وصول کر کے بطور تقسیم کرنے کا فریضہ انجام دے۔ واضح طور پر یہ ہاتھ حکومت ہی کا ہو سکتا ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید کے الفاظ ”وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا“ سے اور دور نبوی و دور خلفائے راشدہ کے تعامل سے ثابت ہوتا ہے۔ ایک مسلمان کو اپنا مال زکوٰۃ حکومت کے حوالے کرنا جس درجہ ضروری ہے اس کا اندازہ اس بات سے ہو سکتا ہے کہ جب کچھ لوگوں نے ایسا کرنے سے انکار کیا تو خلیفہ رسول حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کے خلاف تلوار سوت لی، اور پوری عزیمت کے ساتھ فرمایا:
وَاللَّهِ لَوْ مَنَعُونِي عِقَالًا كَانُوا يُؤَدُّونَهُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَقَاتَلْتُهُمْ عَلَيْهِ. (مسلم، جلد ۱، کتاب الایمان)
”خدا کی قسم! اگر ان لوگوں نے اونٹ باندھنے کی ایک رسی کو بھی جسے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے کیا کرتے تھے، میرے حوالے کرنے سے روک رکھا تو میں اس کے لیے ان سے جنگ کروں گا۔“
زکوٰۃ کے متعلق شریعت کے ان دونوں فرمان پر نظر ڈالیے۔ صاف محسوس ہوگا کہ اس نے عبادت کو بھی اجتماعیت کا سرچشمہ بنایا ہے۔ ایک طرف تو اس کے مقاصد ہی میں دوسروں کے ساتھ ہم دردی اور مواسات شامل ہے - اور یہ وہ عمل اور جذبہ عمل ہے جو صالح اجتماعیت کا سب سے اہم بنیادی پتھر ہے - دوسری طرف اس عبادت کے طریق ادا کو اس نے حکومتی نظام کے ساتھ وابستہ کر دیا ہے - جو اجتماعیت کی کامل ترین شکل ہے۔ پھر اس نے اس حقیقت کے باوجود یہ کیا ہے کہ زکوٰۃ کے اصل مقصد اور اس کی بنیادی غرض و غایت کے لیے یہ بات کچھ ناسازگار ہی ہو سکتی ہے، سازگار کس طرح نہیں ہو سکتی۔ زکوٰۃ کا اصل مقصد اور اس کی بنیادی غرض و غایت نفس کا تزکیہ ہے۔
تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا. (التوبہ: ۱۰۳)
تاکہ اللہ کی رضا حاصل ہو۔
إِلَّا ابْتِغَاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلَىٰ. (اللیل: ۲۰)
ظاہر ہے کہ اس مقصد کا تقاضا یہی ہے کہ زکوٰۃ حاجت مندوں کو خود دی جائے، اور اس طرح دی جائے کہ دینے والے کا بایاں ہاتھ بھی یہ نہ جانے کہ دائیں ہاتھ نے کیا اور کسے دیا ہے؟ ورنہ کھلے طور پر، اور وہ بھی حکومت کے اقتدار و نظم، اور ضوابط کے تحت زکوٰۃ دینے کی شکل میں خلوص اور للہیت کے متاثر ہونے کا اندیشہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اسلام نے نماز کی طرح زکوٰۃ کی زبان سے بھی اپنی اجتماعیت پسندی کی شدت کا مظاہرہ کیا ہے۔ کیونکہ یہ عبادات کے اصل اور بنیادی مقصد کے متاثر ہونے کے امکان اور اندیشے پر اجتماعی آداب اور مصالح کو اس نے یہاں بھی ترجیح دے رکھی ہے۔
روزہ:
تیسری عبادت روزہ ہے۔ یہ ایک ”منفی“ قسم کی عبادت ہے، یعنی اس میں نماز، زکوٰۃ یا حج کی طرح کچھ کیا نہیں جاتا بلکہ کچھ خاص کاموں سے روکا جاتا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ جس عمل کی نوعیت منفی قسم کی ہو، اس کو اجتماعیت کا جامہ پہنانا دشوار، اور شعور اجتماعیت کی بقا و ترقی کا ذریعہ بنانا دشوار ہے۔ لیکن روزے کے سلسلے میں شریعت نے جو احکام دیے ہیں ان سے صاف عیاں ہوتا ہے کہ اس نے اس منفی عبادت کو بھی اجتماعیت کا ”ہادی“ اور ”معلم“ بنا دیا ہے۔ حکم ہے کہ تمام مسلمان ایک ہی متعین مہینے میں روزے رکھیں، ہر روز تقریباً ایک ہی وقت سحری کھائیں اور پھر ایک ہی متعین وقت پر افطار کریں۔ ان احکام کے نتیجے میں اس عبادت سے خوبصورت حال وجود میں آتی ہے وہ یہ ہوتی ہے کہ پورا اسلامی معاشرہ بیک وقت ایک مہینے تک ایک منضبط ترکی کیمپ کی شکل اختیار کر لیتا ہے، ایک ہی فضا وحدت کی ہوتی ہے جو شرق سے غرب تک چھائی ہوئی ہوتی ہے، ایک ہی حالت بیدار یا ریاضت کی ہوتی ہے جو فرد فرد کے چہرے سے نمایاں ہوتی ہے۔ گویا کہ معاشرہ جس پر مسلسل ایک ماہ تک ایسی غیر معمولی یکسانیت و فنی فضا اور یکساں ظاہری حالت طاری رہے اور جو پورا کا پورا ایک تربیتی کیمپ بنا ہو، اس کے افراد کے ذہنوں میں یہ تصور رہ رہ کر ابھرتا رہے گا کہ ہم سب ایک ہی مشن کے علم بردار اور ایک ہی محاذ کے سپاہی ہیں۔
بلاشبہ ایک منفی نوعیت کی عبادت کو بھی اس طرح اجتماعیت کا حامل بنا دینا اجتماعیت کے کمال کی دلیل ہے۔
حج:
اب چوتھی عبادت حج کو لیجیے۔ حج کی غایت یہ ہے کہ اللہ واحد کا پرستار اور معبود برحق کا جاں نثار بندہ اس گھر پر حاضری دے جو توحید کا مرکز ہے، جہاں ہر طرف کچی خدا پرستی کے شعائر فدا کاری کا درس دے رہے ہیں، جو موسس اعظم حضرت ابراہیم خلیل اللہ کے ایمان و اسلام کی ایک مجسم یادگار ہے۔ حاضری اس لیے دے کہ اس کے حسن و جمال کے عکس اور اس کے درو دیوار کی نظروں سے اپنی عبادت و شہادت کا سرور و الفت سے مشاہدہ کریں، اور وہ جان لے کہ قول لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ کی عملی تعبیر کیا ہے؟ پھر خدا پرستی کے جذبات سے جو سرشار ہو کر بندگی کے میدان عمل میں ایک نئے جوش کے ساتھ واپس آئے۔
اس عبادت کے ارکان میں سب سے بڑا رکن میدان عرفات کی حاضری ہے۔ یہاں دنیا کے گوشے گوشے سے آئے ہوئے مختلف نسلوں، قوموں، زبانوں اور رنگوں کے لاکھوں مسلمان اکٹھے ہوتے ہیں۔ ان سب کا ایک امیر حج ہوتا ہے، یہ امیر پورے مجمع کو خطاب کرتا ہے، اور اسے ایمان کے تقاضوں، اسلام کے مطالبات اور بندگی کے آداب کی تلقین کرتا ہے۔ جو شخص اس اجتماع میں حاضر نہ ہو سکا اس کا حج ادا نہ ہو سکے گا، چاہے اس نے باقی مراسم حج کتنے ہی اہتمام سے کیوں نہ ادا کر لیے ہوں۔
اس سے معلوم ہوا کہ حج کو بھی نمایاں حد تک اجتماعیت کے قالب میں ڈھال دیا گیا اور شعور اجتماعیت کا ایک زبردست ذریعہ بنا دیا گیا ہے۔
اگر غور کیجیے تو دوسری عبادتوں کی طرح حج بھی دکھائی دے گا کہ حج کی جو اصل غایت ہے اس کا حصول کسی اجتماع کی ضرورت سے یکسر بے نیاز ہے، ہی نہیں بلکہ بعض پہلوؤں سے وہ اس کے لیے ناسازگار بھی ہو سکتا ہے۔ کیونکہ تنہائی کا سکون اور یکسوئی ہنگامہ اجتماع کے مقابلے میں بہتر موقع فراہم کر سکتی ہے کہ انسان کعبہ اور اطراف کعبہ کے شعائر اللہ سے ایمان کی تازگی حاصل کرے۔ لیکن اس حقیقت کے باوجود شریعت کہتی ہے کہ حج اجتماع کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ گویا دوسرے لفظوں میں وہ یہ کہتی ہے کہ اجتماعیت کی دینی اہمیت بتانے اور ذہن نشین کرانے میں دوسری عبادتوں سے وہ کسی طرح پیچھے نہیں ہے، بلکہ بعض اعتبارات سے ان سب سے آگے ہی ہے۔
اسلام نے اپنی عبادتوں میں جن اجتماعی آداب کو ملحوظ رکھنے کی ہدایت کی ہے ان کی ضروری تفصیل آپ کے سامنے آ چکی، اور ان کے اندر ان آداب کی جو اہمیت ہے وہ بھی آپ ملاحظہ فرما چکے۔ اس کے بعد آپ کا اعتراف اس کے سوا اور کیا ہوگا کہ ان عبادتوں میں اجتماعیت کی روح جس حد تک اتار دی گئی ہے اس سے آگے کسی اور حد کا وجود، عملی امکان سے باہر ہے۔
یہ ہے اجتماعیت کے نقطہ نگاہ سے اسلامی تعلیمات کے مختلف شعبوں کا جائزہ۔ اس جائزے کے بعد یہ کہنا کس طرح غلط نہ ہوگا کہ اسلام میں اجتماعیت کو جو بلند ترین مقام عطا کیا گیا ہے اس کی نظیر کسی اور مذہب میں تو کیا، کسی اور نظام میں بھی نہیں پائی جا سکتی۔
اہمیت کی وجہ
غیر اجتماعی زندگی کے خوف ناک نتیجے
اجتماعیت، اسلام کو کچھ ایسی ہی مطلوب ہے جیسا کہ پانی مچھلی کو مطلوب ہوا کرتا ہے۔ یہ وہ حقیقت جو پچھلی بحثوں سے روشنی میں آئی ہے۔ غور کرنا چاہیے کہ ایسا کیوں ہے؟ آخر اسلام نے اجتماعیت کو ایسی غیر معمولی اہمیت کس وجہ سے دے رکھی ہے؟ وہ اپنے پیروؤں کو جماعتی زندگی بسر کرنے پر اس قدر مصر کیوں ہے؟ وہ ایک منظمی سماجی نظام کے قائم کو ضروری کیوں ٹھہراتا ہے؟ وہ اس نظام کے سر براہ کی اطاعت کو اللہ و رسول کی نافرمانی کیوں قرار دیتا ہے؟ وہ ”الجماعۃ“ سے بالشت بھر بھی علیحدگی اختیار کر لینے والے کی گردن سے اپنا حلقہ کیوں نکال لیتا، اور ملی اتحاد میں رخنہ ڈالنے والے پر سے اپنی امان کیوں اٹھا لیتا ہے؟ وہ بیعت خلافت سے محروم مر جانے والے کی موت کو جاہلیت کی موت کیوں کہتا ہے؟
غور و فکر اور اس کی تحقیق کی ضرورت بالکل کھلی ہوئی ہے۔ اس طرح کے اہم مسائل میں عام انسانی ذہن صرف ”کیا ہے؟“ کے جواب پر ہی مطمئن نہیں ہو جایا کرتا۔ اسے اطمینان اسی وقت ہوا کرتا ہے جب وہ یہ بھی جان لے کہ ایسا کیوں ہے؟ اس لیے یہ حقیقت اگرچہ بالکل واضح اور روشن سہی، مگر ذہنوں میں اپنا صحیح مقام پا سکنے کے لیے اس بات کا شدید مطالبہ کرتی ہے کہ اس کے اسباب و مصالح بھی سامنے آ جائیں۔
اس سلسلے میں اتنی بات تو بالکل صاف اور قطعی سمجھنی چاہیے کہ اجتماعیت اسلامی کی غرض و غایت پوری کرنے میں کوئی بڑا ہی خاص حصہ لیتی ہے، اور دین و ایمان کے مفادات کی کوئی اہم ترین خدمت انجام دیتی ہے۔ کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ اسے اتنی غیر معمولی اہمیت ہرگز نہ دیتا۔ اس لیے سوچنے اور معلوم کرنے کی بات دراصل صرف یہ ہے کہ وہ اسلام کی غرض و غایت پوری کرنے میں کس طرح حصہ لیتی ہے اور دین و ایمان کے مفادات کی کیا خدمت انجام دیتی ہے؟ اس تحقیق کے لیے جب ہم اسلامی مآخذ کی طرف رجوع کرتے ہیں جیسا کہ لازماً کرنا ہی چاہیے، تو ہمیں اس سوال کا جواب ملتا ہے:
عَلَيْكُمْ بِالْجَمَاعَةِ فَإِنَّمَا يَأْكُلُ الذِّئْبُ مِنَ الْغَنَمِ الْقَاصِيَةَ. (ابوداؤد)
”جماعت سے چمٹے رہو، کیونکہ بھیڑیا اس بکری کو کھاتا ہے جو گلے سے الگ ہو جاتی ہے۔“
الشَّيْطَانُ ذِئْبُ الْإِنسَانِ كَذِئْبِ الْغَنَمِ يَأْخُذُ الشَّاةَ وَالْقَاصِيَةَ وَالنَّاحِيَةَ. (مذاہد، بحوالہ مشکوٰۃ)
”شیطان انسان کا بھیڑیا ہے، جس طرح کہ بکریوں کے لیے (یہ معروف) بھیڑیا ہوا کرتا ہے، یہ بھیڑیا اس بکری کو پکڑتا ہے جو الگ بھاگتی، یا الگ ہو جاتی یا کسی طرف علیحدہ ہو رہی ہے۔“
عَلَيْكُمْ بِالْجَمَاعَةِ وَإِيَّاكُمْ وَالْفُرْقَةَ فَإِنَّ الشَّيْطَانَ مَعَ الْوَاحِدِ وَهُوَ مِنَ الْإِثْنَيْنِ أَبْعَدُ. (ترمذی، جلد دوم، کتاب الفتن)
”الجماعۃ“ کا دامن مضبوطی سے تھامے رہو، اور پھوٹ سے قریب بھی نہ پھٹکو کیونکہ شیطان اکیلے شخص کے ساتھ ہوتا ہے جب کہ وہ دو سے بہت دور ہوتا ہے۔
یعنی اجتماعی شیرازے سے اپنے کو وابستہ رکھنا اس لیے ضروری ہے کہ اجتماعی زندگی کی ٹھیک ٹھیک حفاظت اسی طرح ہو سکتی ہے۔ اگر یہ اجتماعیت موجود نہ ہو تو مسلمان کے دین و ایمان کی خیر نہیں رہ جاتی۔ کیونکہ اس شکل میں وہ گویا شیطان کی کمین گاہ میں ہوتا ہے، جہاں وہ اسے بڑی آسانی سے مار لے سکتا ہے۔ جب کہ اجتماعی ہیئت اپنی پناہ گاہ ہے جس کے اندر گھس آنا اور گھس کر کسی صاحب ایمان کو شکار کر لینا اس کے لیے آسان نہیں رہا کرتا۔
یہ جواب، جو ہادی اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ان ارشادات سے ہمیں ملتا ہے، اگرچہ مجمل ہے، مگر سوال زیر بحث کے حل کے لیے بالکل کافی ہے۔ کیونکہ اس کا یہ اجمال ایسا نہیں ہے جس کی تفصیل خود ایک مسئلہ بن جاتی ہو، بلکہ ایک ایسا اجمال ہے جس کی وضاحت کے لیے دین کا پورا فلسفہ، شریعت کا پورا نظام اور ملت کی پوری تاریخ موجود ہے۔ اس فلسفے، اس نظام اور اس تاریخ کا مطالعہ کیجیے تو معلوم ہوگا کہ اسلام کی مطلوبہ یہ اجتماعیت کیسے دین و ایمان کو ایک دو نہیں، تین تین جہتوں سے شدید ترین خطر میں ڈال دیتی ہے:
(۱) ماحول کی باطل نوازی
سب سے پہلی بات تو یہ کہ اسلامی اجتماعیت سے محروم رہ کر ماحول باطل افکار، اعمال اور اقدار کے لیے نسبتاً زیادہ سازگار اور صالح افکار، اعمال اور اقدار کے حق میں بہت کچھ ناسازگار ہوتا ہے، جس کی وجہ سے اس کے اندر بھی تقویٰ اور دین داری کی راہ چلنا آسان نہیں رہ جاتا۔ یہ ایک بہت ہی واضح حقیقت ہے، جس کے سلسلے میں نہ کسی شرعی دلیل کی ضرورت ہے نہ کسی عقلی دلیل کی، معمولی غور و فکر سے بھی یہ بات سمجھی جا سکتی ہے کہ جہاں اجتماعیت موجود نہ ہوگی وہاں اجتماعیت کے مطلوبہ افکار و اعمال اور اقدار کے لیے فضا سازگار نہ رہ جائے گی۔ اسلامی اجتماعیت کا مطلب آخر کیا ہے؟ یہی تو کہ ایک متحد اور منظم معاشرہ قائم ہو۔ جس کی شیرازہ بندی اسلامی روح سے ہوئی ہو، جس کی سب سے نمایاں خصوصیت امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہو، جس کا انفرادی رشتہ بھی کسی کو بھی بھلائی پر مائل کرنے میں اپنا فریضہ سمجھتا ہو، جس کی عام فضا گمراہیوں اور برائیوں کے جراثیم سے پاک ہو، جس میں خدا ترسی دین داری کا معیار ہو، اور نیکی کے کاموں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنا اور ایک دوسرے کی مدد کرنا ہی جس کا خاص امتیاز ہو۔ واضح بات ہے کہ ایسے معاشرے میں ایک صاحب احساس مسلمان کے لیے نیک بننا آسان اور برا بننا مشکل ہوگا۔ کہنا چاہیے کہ اس کے لیے مسلمان بن کر رہنا ہموار زمین پر چلنے کے ہم معنی ہوگا، جو نہ صرف اس کے ایمانی اور اخلاقی حس کو بیدار اور قوی رکھے گا بلکہ تیسرے درجے کی بھی اگر اس کی حس ہوگی، وہ بھی برائیوں سے فی الجملہ محفوظ ہی رہے گا۔ کیونکہ یہ ماحول اسے نیکیوں کی طرف مائل کرتا اور برائیوں سے نفرت دلاتا رہے گا۔ جس کا نتیجہ فطری طور پر یہی ہوگا کہ اس کے فکر و عمل پر خدا ترسی اور خیر پسندی کا ذوق غالب رہے گا - اس کے بالمقابل اسلامی اجتماعیت کی نا موجودگی کا مطلب ہے ایک ایسا ماحول جہاں مسلمان تو ہوں مگر ان کا کوئی معاشرہ نہ ہو، اور اگر معاشرہ ہو بھی تو ایسا ہو جس کا کوئی شیرازہ نہ ہو، کوئی اجتماعی نظم نہ ہو، اور اگر شیرازہ اور اجتماعی نظم بھی ہو تو وہ قرآنی اور اسلامی نہ ہو۔ کوئی شک نہیں کہ یہ ماحول صحیح معنوں میں معروف پسند اور منکر بیزار ہرگز نہ ہوگا۔ جہاں اسلامی قدروں کی بالا دستی قائم نہ ہوگی، یہاں ہر طرف باطل پسندی کے جراثیم پھیلے ہوں گے۔ ایسی حالت میں قدرتی طور پر ایک عام مسلمان کے لیے نیک بننا بہت مشکل اور برا بننا بہت آسان ہوگا، یہاں اس کے لیے مسلمان بن کر رہنا کسی ہموار زمین پر چلنا نہیں بلکہ کھڑی پہاڑی پر چڑھنا ہوگا۔ جس کا نتیجہ یہی نکل سکتا ہے کہ مسلمان بحیثیت مجموعی خدا ترسی اور خیر پسندی کے ذوق سے دُور ہوتے رہیں گے۔
(۲) اتباع دین کا لازمی نقص
دوسری بات یہ ہے کہ ایسے ماحول اور معاشرے میں مسلمان عملی طور پر ایک خاص حد تک تو اسلام سے لاتعلق ہو کر رہ جاتا ہے۔ یہ حقیقت بھی کسی ایسے شخص کی نگاہوں سے چھپی نہیں رہ سکتی جو یہ جانتا ہو کہ اسلام کیا ہے، اور مسلمان اس زمین پر کس لیے بھیجا گیا ہے؟ دین کے پورے نظام پر ایک نظر دوڑائیے تو صاف دکھائی دے گا کہ اسلامی اجتماعیت کے موجود نہ ہونے کی شکل میں مسلمان متعدد پہلوؤں سے اسلام سے بے تعلق ہو رہ جاتا ہے:
- سب سے اہم چیز تو یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حقوق پوری طرح ادا نہیں کرتے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ وہ اس کی بندگی کے کتنے ہی اہم ترین مطالبات کو پورا کرنے کی پوزیشن ہی میں نہیں ہوتا۔ اس کے دین کی شہادت اور اقامت سے زیادہ بڑا اور اہم فریضہ اور کیا ہو سکتا ہے؟ یہ وہ فریضہ ہے جو مسلمانوں کے وجود کی کل غایت ہے۔ اسی طرح جہاد فی سبیل اللہ سے زیادہ محبوب عمل اللہ کی نگاہ میں اور کیا ہوگا، جو حدیث میں صراحتاً سب سے افضل عمل فرمایا گیا ہے اور جس کے اشتیاق سے خالی رہنے والے کو منافق قرار دیا گیا ہے۔ اجتماعی زندگی سے محروم رہ کر کیا ان فرائض سے عہدہ برآ ہونے کی کوئی شکل ممکن بھی ہے؟ ظاہر ہے کہ نہیں، اور بالکل نہیں! اچھا ان امور کو بھی چھوڑیے، اور ان احکام و دین کو لیجیے جن کے عبادت اور ”حقوق اللہ“ ہونے میں الفاظ کی حد تک بھی دورا نہیں ہو سکتیں۔ نماز، زکوٰۃ اور حج بھی تو اجتماعیت کے بغیر اس معیاری شکل میں ادا نہیں ہو سکتے جس شکل میں رسول ان کو ادا ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان ساری حقیقتوں کے ہوتے ہوئے یہ کیسے ممکن ہے کہ اسلام کی مطلوبہ اجتماعیت موجود نہ ہو اور اللہ تعالیٰ کے حقوق تلف ہونے سے بچ جائیں؟
- یہی حشر بندوں کے حقوق کا بھی ہوتا ہے۔ کسی دکھیاڑے کی مدد، کسی بے کس کی خبر گیری، کسی مظلوم کی فریاد رسی، کسی مریض کی عیادت، کسی جنازے کی شرکت، غرض عام طور سے ایک مسلمان پر دوسرے بندگان خدا کے جو حقوق عائد ہوتے ہیں، اجتماعی زندگی کے بغیر ان کے ادا ہونے کے پورے مواقع کسی طرح باقی نہ رہ جائیں گے۔ اور اس کی زندگی اس اجتماعیت سے جتنی ہی زیادہ دُور ہوگی اتنے ہی زیادہ یہ مواقع بھی کم ہوں گے۔ یہاں تک کہ اگر یہ دُوری کامل علیحدگی اور تنہائی کی حد کو بھی پہنچتی ہو تو یہ مواقع سرے سے ناپید ہو جائیں گے۔
- اخلاقیات کا حال بھی کچھ مختلف نہیں رہتا۔ دین میں اچھے اخلاق کی جو اہمیت ہے وہ کچھ ڈھکی چھپی تو نہیں۔ ایک طرح سے گویا وہی حاصل دین ہیں۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانا ہے کہ ”مجھے اس لیے بھیجا گیا ہے تاکہ میں حسن اخلاق کی تکمیل کر دوں“ (بُعِثْتُ لِأُتَمِّمَ حُسْنَ الْأَخْلَاقِ)۔ لیکن اتنی اہم چیز بھی غیر اجتماعی زندگی میں اپنے مطلوبہ کے لیے ترقی رہ جاتی ہے۔ حتیٰ کہ جہاں یہ غیر اجتماعی زندگی اپنی آخری شکل یعنی تنہائی کا رنگ اختیار کر لیتی ہے وہاں راست بازی، امانت داری، پاک دامنی، حیا، وفائے عہد، رحم، شفقت، خیرخواہی، ایثار، صبر و تحمل، سنجیدگی، نرم خوئی، خوش گفتاری اور فراخ دلی جیسے بے شمار انسانی فضائل، اسلامی اخلاقیات اور اوصاف حمیدہ مجرد تصورات بن کر رہ جاتے ہیں۔ کیونکہ ان چیزوں کا تعلق تمام تر انسانوں کے باہمی روابط اور معاملات سے ہوتا ہے۔ معروف معنوں میں ”اخلاق“ کہتے ہی اس رویے کو ہیں جو ایک انسان دوسرے انسان کے، یا ایک گروہ دوسرے گروہ کے ساتھ اختیار کرتا ہے۔ اب اگر کوئی شخص کسی ایسے مقام پر جا رہتا ہو جہاں اس کا کسی اور جنس سے سابقہ ہی نہ پڑتا ہو تو وہاں وہ آخر کس طرح ان دینی مطالبات پر عمل کر سکے گا؟ اسی طرح جہاں کوئی منظم معاشرہ اور اس کا عملی نظام ہی موجود نہ ہو وہاں کون سی چیز ہوگی جو مسلمان سے اسلام کی اجتماعی اور بین الاقوامی اخلاقیات کا مظاہرہ کرا سکے گی؟
- جہاں تک مسلمان کی عام تمدنی اور سماجی زندگی کا تعلق ہے، اس پر تو اس صورت حال کا بڑا ہی گہرا اور غیر معمولی مخالفانہ اثر پڑتا ہے، کیونکہ ایسی حالت میں اس زندگی کے مختلف شعبوں سے اسلام تو رخصت ہو ہی رہتا ہے۔ ساتھ کے ساتھ یہ بھی ہوتا ہے کہ وہاں اسلام کی جگہ کفر آ جاتا ہے۔ یہ ایک جانی بوجھی بلکہ آنکھوں دیکھی حقیقت ہے، کہ اگر مسلمان کسی غار میں جا کر گوشہ نشین نہیں ہو گیا ہے، بلکہ انھی بستیوں اور آبادیوں میں رہتا سہتا ہے تو اسلام کی مطلوبہ اجتماعیت کے موجود نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ لازماً ایک غیر اسلامی نظام کے تحت زندگی گزار رہا ہے۔ اور کسی غیر اسلامی نظام کے تحت زندگی گزارنے کے معنی اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ مسلمان کی زندگی، کم از کم بڑے اجتماعی معاملات میں تو یقیناً، غیر اسلامی خطوط ہی پر ہو رہی ہے۔ بلکہ یہ کہنا بھی خلاف واقعہ نہ ہوگا کہ اس کے شخصی قوانین (پرسنل لا) کی حرمت بھی پوری طرح برقرار رہ جانے والی نہیں۔
ان سارے پہلوؤں سے، اور اس حد تک، اسلام سے عملی بے تعلقی کوئی معمولی بات نہیں ہو سکتی۔ نہ اس صورت حال کی تعبیر کے لیے ”ایک خاص حد تک اسلام سے بے تعلقی“ اور ”دین کے بھاری نقص“ کے لفظوں کو آپ سخت الفاظ کہہ سکتے ہیں۔ شارع علیہ السلام نے عورتوں کو ”نَاقِصَاتُ دِيْنٍ“ (ناقص اور ادھورے دین والیاں) فرمایا ہے، جو یہ بتاتی ہے کہ: ”جب اسے حیض آتا ہے تو نہ نماز پڑھ سکتی ہے نہ روزہ رکھ سکتی ہے۔“ إِذَا حَاضَتْ لَمْ تُصَلِّ وَلَمْ تَصُمْ ... فَذَلِكَ نُقْصَانُ دِينِهَا. (بخاری، کتاب الحیض) غور کیجیے، اگر ہر ماہ چند روز کی یہ حالت، کہ عورت نماز نہیں پڑھ سکتی اور روزے نہیں رکھ سکتی، اس کے دین کے ناقص ہونے کی دلیل ہے تو پوری پوری زندگیوں کی یہ حالت کہ مسلمان اسلام کے اتنے اہم اور گوناگوں احکام پر بالکل عمل نہیں کر سکتے، ان کے دین کا کیا درجہ ٹھہرائے گی؟ خصوصاً اس حقیقت کے پیش نظر کہ عورت کی مذکورہ حالت اس کی طبعی، پیدائشی اور بالکل جبری حالت ہے، جسے نہ ٹال دینا، یا پیش آ جانے کے بعد اپنی کوششوں سے ختم کر دینا اس کے اختیار سے قطعی باہر ہے، اور اسی وجہ سے اس کے سلسلے میں اس پر کسی طرح کی کوئی ذمہ داری بھی نہیں آتی ... جب کہ اجتماعی زندگی سے الگ یا محروم رہنے والے مسلمانوں کی حالت طبعی اور پیدائشی تو کیا ہوگی، اس طرح کی جبری بھی ہرگز نہیں ہوتی۔ بلکہ بسا اوقات تو اس کے پیدا کرنے کی یا باقی رکھنے کی خود ہی ذمہ دار ہوتے ہیں۔ ایسی شکل میں کیا یہ ممکن ہے کہ اس حالت کی موجودگی میں ان کے دین کو ناقص نہ کہا جائے؟ اور کیا یہ غلط بات ہوگی کہ انھیں ان دین کی جن پر وہ غیر اجتماعی اور غیر منظم زندگی بسر کرنے کے باعث عمل نہیں کر سکتے، دین سے بے تعلق قرار دیا جائے؟ انصاف تو یہ فیصلہ دے گا کہ ان کے دین کو ناقص ہی نہیں بلکہ ”ناقصُ دین“ قرار دیا جائے، اور انھیں ”ایک خاص حد تک دین سے بے تعلق“ ہی نہیں بلکہ اکثر حالات میں قابل مواخذہ بھی سمجھا جائے۔
(۳) دینی حس کا زوال
غیر اجتماعی زندگی میں تیسری آفت یہ آتی ہے کہ دینی حس اور ایمانی حمیت پر باطل مسلسل اور لگا تار پڑتا ہے، یہاں تک کہ اسے بے جان کر کے رکھ دیتا ہے۔ باطل کو یہ بہتر موقع اس اقتدار کی بدولت مل جاتا ہے جو اسے اسلامی اجتماعیت سے محروم مسلمانوں پر حاصل ہوتا ہے۔ کیونکہ جیسا کہ ابھی عرض کیا جا چکا، اسلام کی مطلوبہ اجتماعی نظم کے موجود نہ ہونے کا لازمی معنی بالعموم یہی ہوتے ہیں کہ مسلمان ایک غیر اسلامی نظام کے تحت بسر ہو رہی ہے، یعنی ایک ایسے نظام کے تحت، جس میں زندگی کا عام اجتماعی کاروبار غیر اسلامی بنیادوں پر ہوتا ہو، جس میں انسانی خلافت کا تصور بنیادی طور پر ایک غیر آئینی تصور ہو، جس میں اخلاق کی اجتماعی قدریں کتاب الٰہی اور سنت رسول سے نہیں بلکہ کسی اور ہی سرچشمے سے اخذ کی گئی ہوں، جس میں وسیع تر اجتماعی معاملات کے اندر اسلامی اصولوں کے بجائے کسی قوم، کسی نسل، کسی طبقے یا کسی ”ازم“ کے مادی مفادات پر اٹھائی گئی ہوں، جس میں عدالتیں شرعی قوانین ہی کے مطابق فیصلے کرنے کی مطلق پابند نہ ہوں، حتی کہ جس میں مسلمان اپنے انفرادی معاملات میں بھی اسلامی احکام و ضوابط پر عمل کرنے میں پوری طرح آزاد نہ ہوں۔ اس سے اندازہ لگایے کہ ایسے نظام اور ماحول میں ایک مسلمان کی نفسیات کا حال کیا ہوگا؟ ابتدا میں کیا رہے گا، اور آگے چل کر کیا ہو جائے گا؟ کوئی شک نہیں کہ اس صورت حال کو دیکھتے ہی اس کی ایمانی خودی تڑپ اٹھے گی، اس کا دم گھٹنے لگے گا، وہ اپنے کو غلامی کے گڑھے میں دھنسا ہوا پائے گا۔ مگر اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ بڑے سے بڑا نفاست پسند بھی اگر کسی گندگی اور بدبو کی گہری میں بند ہو کر رہ جائے تو اسے ایک حد مدت ہی تک اس پر ناگواری، بے چینی اور کرب کی کیفیت طاری رہے گی۔ پھر وقت جوں جوں گزرتا جائے گا اس کی یہ ناگواری اور بے چینی بھی ہلکی پڑتی جائے گی، یہاں تک کہ ایک وقت آئے گا جب اس کی قوت شامہ وہاں کی عفونت سے مانوس ہو رہے گی، اور اب وہ صرف نظریے کی حد تک اس گندگی اور عفونت کو گھن کھانے کی چیز کہے گا، عملی طور پر اس سے کوئی گھن نہ کھائے گا۔ انسانی نفسیات کا جس شخص نے بھی تھوڑا بہت مطالعہ کیا ہو وہ بالیقین اسی نتیجے پر پہنچا ہوگا۔ کہنا چاہیے کہ یہ بات علم النفس کے مسلمات میں سے ہے۔ ظاہر ہے کہ دین کے معاملے میں یہ نفسیاتی اصول بدل نہ جائے گا۔ آپ چاہیں تو لاکھوں کے گروہ میں سے چند افراد کو مستثنیٰ کر دیں، لیکن تجربے اور مشاہدے کی گواہی بتاتی ہے کہ ننانوے فی صد سے بھی بڑی اکثریت پر یہ اصول کا اطلاق ہوگا۔ یعنی ہوگا یہ کہ جس وقت ملت اپنی اجتماعیت کھو کر یا اس کے بندھن ڈھیلے کر کے کسی غیر اسلامی نظام تلے اپنے کو مسلط کرائے گی اس وقت اہل ایمان کو ایسا معلوم ہوگا جیسے تپتے انگاروں کا ڈھیر ان کے اوپر لا ڈالا گیا ہے۔ چیخیں ان کے، دائیں بائیں، ہر طرف آپس میں ڈال دینے والی گیس کے بم پر بم پھٹ رہے ہیں۔ اس صورت حال سے گھبرا کر وہ دور نکل بھاگنے کے لیے چاروں طرف اپنی پریشان نگاہیں دوڑائیں گے، جوشِ اضطراب میں ہاتھ پاؤں بھی ہلائیں گے۔ مگر ظاہر ہے کہ جو نظام اور جو اقتدار زندگی کے ہر شعبے پر قابض ہو چکا ہے، وہ اس ذہنی بغاوت سے متاثر ہو کر اپنا قبضہ اٹھا لینے سے رہا۔ وہ تو پوری مضبوطی اور عزم کے ساتھ بدستور اپنا سکہ چلاتا رہے گا، اور ملت کے مسلمان ہوتے ہوئے بھی اس پر اپنے اقتدار، اپنے مصالح، اپنے افکار، اپنے نظریات اور اپنے احکام و قوانین کے تحت ہوتا رہے گا جن کا اس کی غیر مسلم فطرت اور اس کی سیاسی مصلحت تقاضا کرے گی۔ آخر کار آنکھیں آہستہ آہستہ اس صورت حال کی عادی ہونے لگیں گی، جذبات کی بے قراری اور ذہنی بغاوت پر بھی اونگھ اور پھر افسردگی طاری ہونے لگے گی، اضطراب، احساس غم کی سطح پر آ جائے گا، اور بغاوت کی آگ حسرت کی راکھ میں تبدیل ہو جائے گی۔ پھر یہ دور بھی ختم ہوگا، اور اب دینی حمیت ماند پڑنی شروع ہوگی، غیر اسلام سے طبیعتیں مانوس ہونے لگیں گی، ذہنی اور جذباتی لڑائی صلح اور رواداری سے بدلنے لگے گی، اور غیر اسلام سے مسلمان کی کوئی کھلی مخالفت باقی نہ رہ جائے گی۔ ہوتے ہوتے چوتھا اور آخری دور آ جائے گا، جب وہ غیر اسلامی نظام کا جز ہو کر بن جائے گا جو کبھی انتہائی ناخوب تھا۔ مسلمان اس نظام اور اقتدار کو، جو اس کے دین کو ختم نہیں کرتا مگر کم سے کم یہ کہ جس نے اسے خانہ قید کر رکھا ہے، سلامیاں دے گا، اس کی بارگاہ میں عزت کا طالب ہوگا، اس کی چاکری میں فخر محسوس کرے گا، اس کی تعبیر پر بھی حق کا حامل کرنے کے لیے دوڑ پڑے گا۔ وہ ”مسلمان“ ہو گا مگر غیر اسلامی نظام کے خلاف زبان سے بھی کوئی انکار نہ کرنا روا رکھے گا۔ انسان اللہ تعالیٰ کا خلیفہ ہے، اس کے احکام و مرضیات کے تحت ہی وہ اس دنیا کا نظام چلانے کا ذمہ دار ہے، وہی اس کا مقتدرا اعلیٰ اور اصل قانون ساز ہے، اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے، دنیا اور آخرت دونوں کی فلاح اسی نظام کی پیروی پر موقوف ہے - یہ اور اسی طرح کے دوسرے بہت سے اونچے حقائق مذہبی اجتماعات میں زیب داستان کے طور پر بیان ہوتے رہیں گے۔ مگر دنیا کے عملی میدان میں ملت اپنی زندگی کی گاڑی اس آزم کی پٹری پر رواں دواں چلاتی رہے گی جسے ملک کے غیر اسلامی نظام کا فرمانروا نے اپنے اپناؤ تیار کیا ہوگا۔ ملت کی موجودہ حالت اس حقیقت کا زندہ ثبوت اور کیا ہے۔ جس کے ہوتے ہوئے کسی نظری اور منطقی دلیل کی ضرورت ہی کیا رہ جاتی ہے۔ واقعات کی اس واضح ترین گواہی کو جوش کے کانوں سے سنیے اور اندازہ کیجیے کہ باطل اقتدار اور غیر اسلامی نظام، ایمانی حمیت اور دینی حس پر کس طرح کی چوٹیں لگا سکتا ہے، اور چوٹیں لگاتے لگاتے اس پر کسی نہ کسی طرح کی موت طاری کر دیتا ہے۔
اسلامی اجتماعیت سے محروم زندگی جس مسلمان کے دین و ایمان پر ایسے سخت حملے کرتی اور ایسے عظیم خطرات میں ڈال دیتی ہے، سوچیے بھلا وہ کب تک اور کس حد تک سچا مسلمان باقی رہ سکتا ہے؟ اس لیے ماننا پڑے گا کہ شیطان کی ہزار کوششوں پر اس کی یہ ایک کوشش بھاری ہے کہ مسلمان کو اجتماعی زندگی سے محروم کر دے۔ ایک ایک مسلمان کو اگر وہ الگ الگ شکار کرنا چاہے تو اسے اسی طرح گھوڑے توڑنے پڑیں گے کہ مسلمان ہوں۔ لیکن اگر وہ غیر اجتماعی زندگی کا گڑھا کھود لیتا ہے تو یہ اکیلا ایک ہی گڑھا ان کی بھاری اکثریت کے لیے کافی ہو جائے گا۔ اس لیے اگر جماعت سے الگ یا محروم رہنے والوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے شیطان کا آسان شکار فرمایا ہے تو یہ ایک ایسی تعبیر ہے جس سے بہتر تعبیر اس صورت حال کی اور کوئی ہو ہی نہیں سکتی۔
اجتماعی زندگی کے ثمرات
غیر اجتماعی زندگی تو دین و ایمان کے لیے شدید خطرات پیدا کر دیتی اور مسلمان کو شیطان کا صید زبوں بنا دیتی ہے۔ مگر اجتماعی زندگی ان کے لیے کیا ثابت ہوتی ہے، یہ جاننے کے لیے ہادی اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد سنیے:
يَدُ اللَّهِ عَلَى الْجَمَاعَةِ. (ترمذی، جلد ۲)
”اللہ کا ہاتھ جماعت پر ہوتا ہے۔“
یعنی اجتماعی زندگی وہ زندگی ہے جس میں مسلمان اللہ کی نوازشوں اور نصرتوں کے مواقع سے سرشار رہتے ہیں۔
اگر یہاں بھی یہ سوال کیا جائے کہ ایسا کیوں ہے؟ تو اب یہ ایک غیر ضروری سوال ہوگا۔ کیونکہ غیر اجتماعی زندگی کے عملی نتائج اگر وہ سب کچھ ہیں جس کے پہلے ان وقاص کا مطلب واضح طور پر یہی ہے کہ اجتماعی زندگی کے ثمرات ٹھیک انھی کی ضد ہوں گے۔ اسلام کی مطلوبہ اجتماعیت سے جو معاشرہ محروم ہوتا ہے وہ اگر غلط افکار و اعمال کو پروان چڑھاتا اور صالح افکار و اعمال پر خزاں کی کیفیت طاری کر دیتا ہے، جس کے نتیجے میں مسلمان کے لیے پر تقویٰ کی راہ دشوار سے دشوار ہوتی جاتی ہے، تو وہ معاشرہ، جو اس اجتماعیت سے بہرہ ور ہوگا، قطعاً ایک مختلف صورت حال کو وجود میں لائے گا، صالح افکار و اعمال کو پروان چڑھائے گا، باطل افکار و اعمال کو پنپنے سے روکے گا۔ اللہ کی ترغیبوں کے بجائے، جس کے نتیجے میں لوگوں کے قدم آپ سے آپ نیکی اور خدا ترسی کی طرف اٹھتے رہیں گے۔ اسی طرح اگر اس معاشرے میں مسلمان اپنے دین کی ناقص پیروی ہی کے مجبور ہوتا ہے تو اس میں ایسی کسی وقت گہری مجبوری کو کوئی سابقہ پیش نہ آئے گا۔ علی ہذا القیاس اگر اس کے اندر دینی حس اور ایمانی حمیت پر مسلسل چوٹیں پڑ رہی ہوتی ہیں تو اس کے اندر دین و ایمان کو ایسی جان لیوا آفت کا سامنا بالکل نہ کرنا پڑے گا۔ مختصر یہ کہ اجتماعی زندگی وہ ہوتی ہے جس کے اندر مسلمان اپنے مولیٰ کی اطاعت و بندگی کا ٹھیک ٹھیک حق ادا کر سکتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے چاہتا بھی صرف یہی ہے کہ وہ اس کی طاعت اور بندگی کا حق ادا کریں۔ یہی اس کا مطالبہ ہے، اور اسی میں اس کی رضا ہے۔ اس طرح یہ حقیقت بھی قرار پائی کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کا پورا پورا حصول جماعتی زندگی پر موقوف ہے۔ پھر یہ جماعتی زندگی ہی سے محبوب کیوں نہ ہوگی؟ اور جو زندگی اس محبوب ہو گئی بدقسمتی سے اس کی رحمتوں، نوازشوں اور نصرتوں کا رُخ بھی اسی کی طرف ہوگا۔ معلوم ہوا کہ اجتماعی زندگی ہی میں دین و ایمان کو پوری نشو و نما ملتی، اور مسلمان کی دنیوی و اخروی فلاح محفوظ رہتی ہے۔ سوچیے، کتنی بیش قیمت ہیں اجتماعی زندگی کے یہ ثمرات! اور کتنی ضروری ہے اسلام اور اہل اسلام کے لیے یہ اجتماعی زندگی!!
گوشہ نشین بزرگوں کا مسئلہ
اس موقع پر واقعات کی بعض شہادتیں ذہن میں ایک الجھن پیدا کر سکتی ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ اسے بھی دُور کر لیا جائے۔
الجھن یہ ہو سکتی ہے کہ کتنے ہی بزرگان دین ہیں۔ جن کی زندگیاں اس بات کی تائید نہیں کرتیں۔ اس کے بخلاف وہ اس امر کا ثبوت مہیا کرتی ہیں کہ جماعتی زندگی سے بالکل کٹ کر بھی بندگی اور خدا پرستی کا اونچے سے اونچا مقام حاصل کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ ان بزرگوں نے ایسی ہی زندگی گزاری، لیکن اس کے باوجود شیطان ان کی طرف رُخ کرنے کی بھی جرات نہ کر سکا، چہ جائیکہ انھیں شکار کر لیتا۔
اس الجھن کا جواب یہ ہے کہ دنیا میں شاید ہی کوئی کلیہ ایسا ہو گا جس میں استثناء نہ ہو۔ جب یہ کہا جاتا ہے کہ فلاں بات کا یہ نتیجہ نکلا کرتا ہے، تو اس کا مطلب عموماً یہ نہیں ہوا کرتا کہ کبھی اس کے سوا کوئی اور نتیجہ نکل ہی نہیں سکتا، بلکہ ایک ایسی صرف غالب صورت حال کے پیش نظر کہا جاتا ہے، اور کہنے کا منشا یہ ہوتا ہے کہ عام طور سے ایسا ہی ہوا کرتا ہے۔ اس لیے جب یہ فرمایا گیا کہ جماعتی زندگی سے علیحدگی اختیار کرنے والے کو شیطان بڑی آسانی سے شکار کر لیتا ہے، تو یہ دراصل بیان حقائق کے اسی معروف اسلوب میں فرمایا گیا، اور مطلب اس کا یہ ہے کہ عموماً ایسا ہی ہوا کرتا ہے۔ چنانچہ جہاں واقعات اس امر کی شہادت دیتے کو تیار ہیں کہ بعض افراد جماعتی زندگی چھوڑ کر بھی بڑے خدا ترس اور عابد و زاہد ہو گزر رہے ہیں، وہیں وہ اس حقیقت کی بھی منادی کرتے ہیں کہ ان بعض افراد کے مقابلے میں لاکھوں افراد ایسے ہوئے ہیں جو اس جماعتی زندگی سے محروم ہو کر اپنے دین کو ضروری حد میں بھی محفوظ نہ رکھ سکے، اور خدا کے مقابلے میں شیطان سے زیادہ قریب ہو رہے۔ اب مجموعی حیثیت سے دیکھیے کہ نفع اور نقصان کا میزانیہ کیا ہے؟ اور جماعتی زندگی کا جواز اور عدم و جود، دونوں اُمت مسلمہ کے حق میں اپنی جگہ کیا ثابت ہوئے؟
جہاں تک دین کے احکام اور ہدایات کا تعلق ہے، وہ عام انسانیت، عام حالات اور عام حقائق کو پیش نظر رکھ کر دیے گئے ہیں، نہ کہ خصوصی حالات اور مستثنی افراد کو سامنے رکھ کر۔ اس لیے اجتماعی زندگی بر کرنے کا جو حکم اس نے دیا ہے، عام انسانوں کے پیش نظر ہی دیا ہے، اور اس سلسلے میں اس نے جو کچھ فرمایا ہے، عام صورت حال کو سامنے رکھ ہی فرمایا ہے۔ اور ظاہر بات ہے کہ جب اس نے ایک بات فرما دی ہے تو اب وہ عوام اور خواص سبھی کے لیے واجب التسلیم ہو چکی ہے۔ کیونکہ شریعت کے احکام بلا تفریق سبھی کے لیے ہوتے ہیں، اور کوئی فرد بھی، چاہے وہ کیسے ہی مخصوص رجحانات یا قوتوں کا مالک کیوں نہ ہو، ان کی پیروی کی ذمہ داریوں سے مستثنیٰ نہیں رہ سکتا۔
پھر یہ اعتراض یا شبہ اصلاً بھی غلط ہے ہے۔ صحیح ہے کہ جماعتی زندگی سے کٹ کر بھی لوگوں نے خدا پرستی کے اونچے مقامات حاصل کیے ہیں۔ لیکن یہ بات بھی جماعتی زندگی کی اہمیت اور افادیت کے خلاف کوئی دلیل نہیں بن سکتی، کیونکہ اس سے یہ کیسے ثابت نہیں ہوتا کہ یہ لوگ خدا پرستی کے جن اونچے مقامات پر پہنچے تھے، اجتماعی زندگی کے اندر وہ ان سے بھی زیادہ اونچے مقامات پر نہیں پہنچ سکتے تھے۔ اس کے برخلاف امر یہ ہے کہ اگر اجتماعی زندگی کی امانتیں اور برکتیں بھی ان بزرگوں کے شامل حال رہتی ہوتیں تو وہ ”اسلامیت“ کے اور زیادہ بلند مقاموں پر فائز ہوتے۔
تنہائی کے گوشوں میں وہ زیادہ سے زیادہ فرشتوں کے درجے تک پہنچ سکے ہوں گے، لیکن اسلامی اجتماعیت کے ہنگاموں میں رہ کر وہ ابو بکر و عمر ہو گزرے ہوتے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اجتماعی زندگی سے دُور رہ کر ایک شخص چاہے جو کچھ بھی بن جائے، لیکن معیاری طور پر وہ انسان نہیں بن سکتا جس کے سر پر اللہ تعالیٰ نے اپنی خلافت کا تاج رکھ کر اس دنیا میں بھیجا تھا، اور جسے فرشتوں کا بھی مسجود بنایا تھا۔
اسلامی اجتماعیت
مقصد اجتماع
دنیا کا ہر منظم اجتماع اپنا کوئی نہ کوئی معین مقصد رکھتا ہے، بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ یہ معین مقاصد ہی اجتماعیتوں اور تنظیموں کو وجود میں لایا کرتے ہیں۔ اس لیے کوئی اجتماعیت بجائے خود مطلوب نہیں ہوتی، بلکہ کسی مقصد کے حاصل کرنے کا صرف ذریعہ ہوا کرتی ہے، اور اس کی جو قدر و قیمت ہوتی ہے، اس مقصد کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ اگر کسی تنظیم سے پیش نظر مقصد کا حاصل ہونا صحیح معنوں میں ممکن ہو، تب تو اسے جو قدر و اہمیت بھی دی جائے کم ہے۔ لیکن صورت حال اگر یہ نہ ہو تو چاہے یہ تنظیم کتنی ہی مضبوط کیوں نہ ہو، ایک حقیر تنکے کے برابر بھی قیمت نہ پا سکے۔
یہ بات اگر دوسری تمام اجتماعیتوں اور تنظیموں کے بارے میں ایک مسلمہ حقیقت ہے تو اسلام کی مطلوبہ اجتماعیت کے سلسلے میں محض ایک خیال بن کر نہ رہ جائے گی۔ کوئی وجہ نہیں کہ اس کے معاملے میں اس بدیہی اور مسلمہ اصولی حقیقت سے اختلاف کیا جائے۔ اس لیے عقل کہتی ہے کہ اس نے اپنے پیروؤں کو جس اجتماعیت کی ہدایت فرمائی ہے، اس سے مراد مطلق اجتماعیت، بے قید وحدت اور مبہم تنظیم ہرگز نہیں ہو سکتی، بلکہ وہ لازماً ایک مخصوص قسم کی اجتماعیت، ایک خاص طرز کی وحدت اور ایک با مقصد تنظیم ہی ہوگی، یقیناً کوئی نہ کوئی معین مقصد ہوگا جس کی خاطر ہی لوگوں کو متحد اور منظم زندگی بسر کرنے کا یہ حکم دیا گیا ہے، نیز یہی مقصد وہ چیز ہوگی جو مسلمانوں کی کسی اجتماعیت اور نظم کے بارے میں یہ فیصلہ کر سکتی ہے کہ وہ اسلام کی مطلوبہ اجتماعیت اور منظم ہے یا نہیں۔ اگر وہ اس مقصد کے حاصل ہونے کا واقعی ذریعہ بن سکتی ہو تب تو اسے اسلامی اجتماعیت اور اللہ و رسول کی پسندیدہ تنظیم قرار پانے کا حق ہوگا، اور دینی حیثیت سے وہ اس اہمیت کی مالک ضرور تسلیم کی جائے جس کی نشان دہی پچھلے اور آنے والے صفحات کر رہے ہیں۔ لیکن حقیقت واقعی اگر یہ نہ ہوگی، اور مسلمانوں کا یہ تنظیمی قافلہ اس مقصد کی طرف بڑھتا دکھائی نہ دیا تو اسے اسلامی اجتماعیت کہلانے کا کوئی حق نہ ہوگا، نہ اسے ان احکام دین کی پیروی کا سمجھا جائے گا جو ملی اجتماعیت اور تنظیم کے بارے میں دیے گئے ہیں، اور اگر خدانخواستہ معاملہ اس حد سے بھی آگے بڑھا ہوا ہو، مسلمانوں کی یہ تنظیم اپنے بنیادی فلسفے اور اپنے فطری مزاج ہی کے اعتبار سے کچھ ایسی واقع ہوئی ہو کہ اس سے اسلامی اجتماعیت کے اصل مقصد کی راہ بند ہی ہوتی ہو، اور اس کے ثمرات اس مقصد کے بجائے کسی اور ہی کی تابع مطلوب بنتے ہوں، تو یہ اگرچہ مسلمانوں کی تنظیم ہوگی مگر اسلام کے حق میں ایک لعنت سے کم نہ ہوگی، اور اس کے بارے میں محض صرف یہ کہ اسے توڑ دیا جائے، اس موجودہ بنیاد میں ڈھادی جائیں، اور اس کی جگہ وہ تنظیم بچھا کی جائے جس سے اس کا مقصد اجتماع پورا ہوتا ہو۔
وہ مقصد کیا ہے جس کے لیے اسلام نے اپنے پیروؤں کو منظم اجتماعی زندگی بسر کرنے کا حکم دیا ہے؟ یہ سوال دراصل یہ ہے کہ خود ان پیروؤں کا اجتماعیت کا حیثیت سے مقصد اور فریضہ منصبی کیا ہے؟ کیونکہ کسی ملت کا مقصد وجود یا فریضہ منصبی ہی وہ چیز ہوتی ہے جس کے لیے وہ ملت بنتی اور ایک متحد و منظم گروہ کی حیثیت اختیار کرتی ہے۔ اس لیے ملت اسلامیہ کا مقصد وجود اور فریضہ منصبی معلوم کر کے، اسلام کی مطلوبہ اجتماعیت کا مقصد واضح ہو جائے گا۔ قرآن مجید نے اس سلسلے میں مختلف مواقع پر جو کچھ فرمایا ہے، وہ یہ ہے:
وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ. (بقرہ: ۱۴۳)
”اور اسی طرح ہم نے تمہیں ایک ایسی اُمت بنایا ہے تاکہ تم دوسرے تمام لوگوں پر (حق کے) شاہد ہو۔“
كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ. (آل عمران: ۱۱۰)
”تم ایک بہترین اُمت ہو، جسے دوسرے سارے انسانوں کے لیے برپا کیا گیا ہے، تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور بدی سے روکتے ہو۔“
شَرَعَ لَكُم مِّنَ الدِّينِ مَا وَصَّىٰ بِهِ نُوحًا وَالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ ... أَنْ أَقِيمُوا الدِّينَ. (شوریٰ: ۱۳)
”اس نے تمھارے لیے وہ دین مقرر فرمایا ہے جس کی تلقین اس نے نوح کو بھی تھی اور جس کی وحی (اے محمدؐ) ہم نے تم پر کی ہے ... (اس ہدایت کے ساتھ) کہ تم اس دین کو قائم کرو۔“
یہ تینوں چیزیں - شہادت حق، امر بالمعروف و نہی عن المنکر، اور اقامت دین - دراصل ایک ہی معنی و حقیقت کے ترجمان ہیں، اور ان کا لفظی اختلاف اسی ایک معنی کے تین خاص رخوں کو نمایاں کرنے کے لیے ہے۔
قرآن حکیم کے ان بیانوں سے بالکل واضح طور پر معلوم ہو گیا کہ وہ فریضہ، جس کے لیے مسلمان اس زمین پر ایک جماعت کی حیثیت سے موجود، اور ایک امت کی حیثیت سے مامور ہیں، اللہ کے دین کی اقامت اور شہادت ہے۔ اس لیے انھی بیانوں سے بالواسطہ یہ بات بھی واضح ہو رہی ہے کہ اسلامی اجتماعیت کا مقصد اقامت دین، امر بالمعروف اور شہادت حق کے سوا اور کچھ نہیں۔ صرف یہی وہ مراد و مطلوب ہے جس کی خاطر مسلمانوں کو ایک منظم اجتماعی زندگی بسر کرنے کی اتنی تاکیدیں دی گئی ہیں، اور ان کے اندر اس اجتماعیت کے شعور کو زندہ و بیدار رکھنے کے لیے اتنے غیر معمولی اہتمامات کیے گئے ہیں۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ کسی اور غرض سے ہرگز جمع نہیں ہو سکتے، کوئی اور مقصد انھیں اکٹھا کرنے کا حق بالکل نہیں رکھتا، کسی اور غرض کی خاطر کی تنظیم حرکت میں آہی نہیں سکتی۔ جس طرح اسلامی زندگی نہیں بلکہ جاہلی زندگی ہے کہ مسلمان منظم اور سرگرم غیر اسلامی فوج رہے ہیں، اسی طرح یہ بھی سراسر جاہلیت ہی ہے کہ وہ دین حق کی علم برداری کے سوا کسی اور غرض سے متحد و منظم ہوں۔ اس لیے ان کی کوئی اجتماعیت اور تنظیم اس مقصد سے جس قدر متعلق اور قریب ہوگی، اس قدر وہ اسلامی ہوگی، اور جس قدر اس سے دُور اور بے تعلق ہوگی اس قدر وہ لازماً غیر اسلامی ہوگی۔ حتی کہ اگر اس کی یہ دُوری اور بے تعلقی بنیادی قسم کی ہوگی تو وہ یکسر غیر اسلامی اور خالص جاہلی اجتماعیت ہوگی، وہ اہل ایمان کی کار فرما تنظیم نہ ہوگی، وہ ایک ایسی جماعت ہوگی جس کے اوپر خدا کا ہاتھ ہرگز نہ ہوگا۔
شیرازۂ اجتماع
اسلامی اجتماعیت کے مقصد کا یہ تعین اس کے شیرازے کا بھی تعین کر دیتا ہے۔ اگر اس اجتماعیت کا مقصد وحید صرف اللہ کے دین کی اقامت اور شہادت ہے، تو یہ بات اس کا بھی فیصلہ ہے کہ اجتماع کا مرکز صرف یہی دین اور صرف یہ دین ہی ہو سکتا ہے۔ چنانچہ قرآن مجید نے اہل ایمان کو ایک متحد و منظم گروہ بن کر رہنے کی ہدایت دیتے وقت جو الفاظ استعمال کیے ہیں، وہ یہ ہیں:
وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا. (آل عمران: ۱۰۳)
”تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رہو، اور ٹولیوں میں نہ بٹو۔“
یہ ارشاد ربانی جس طرح اس بارے میں بالکل صریح ہے کہ سارے مسلمانوں کو باہم جڑا ہوا رہنا چاہیے، اسی طرح اس بارے میں بھی کچھ کم صریح نہیں ہے کہ جس متحد و منظم اجتماعیت کا حکم دیا تھا اس کے لیے رسی مرکز ٹھہرایا تھا کہ اس کی ہر اکائی اپنے ”کل“ سے صرف اللہ کی کتاب کے رشتے سے، اور محض اس کے دین کی خاطر آکر ملی اور جزوی ہو، اس کے سوا اس ”کل“ کو کل بنانے والے اور اس کے اجزا کو آپس میں جوڑنے والے کوئی اور رشتہ نہ ہو۔
جرات الہی کے اس متن کی شرح معلوم کرنا چاہیں تو رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل دیکھیں۔ عمل جیسا کہ ہر صاحب نظر جانتا ہے، اس کے سوا اور کچھ نہ تھا کہ آپ نے لوگوں کے سامنے اللہ کا دین پیش کیا، آخرت یاد دلائی، اور ایک خدا کی بندگی کی زندگی میں گزری کرتے رہے۔ جو اس دعوت کو مان لیتا وہ اسلامی جماعت و اجتماعیت کا رکن بن جاتا، خواہ اس کی نسل، اس کی وطنیت، اس کی رنگت اور اس کی زبان کچھ بھی ہوتی۔ اور جو اسے نہ مانتا وہ اس جماعت کے قریب بھی نہ پھٹک پاتا، چاہے وہ قریشی اور ہاشمی ہی کیوں نہ ہوتا۔ جس طرح اس دعوت کے سوا اور کوئی چیز نہ تھی، جس کی طرف آپ نے کبھی کسی کو بلایا ہو، اسی طرح اس رشتے کے سوا اور کوئی رشتہ بھی نہ تھا، جس کے ذریعے سے کسی کو امت مسلمہ نے اپنے آپ سے نتھی کیا ہو۔
کسی کشائش کا کیا سوال، آپ نے تو اس طرح کی اجتماعیتوں اور جتھا بندیوں کے خلاف انتہائی سخت الفاظ کے ہیں۔ چنانچہ ”الجماعۃ“ یعنی صحیح اسلامی اجتماعیت سے پوری طرح وابستہ رہنے کی تلقین کے بعد ہی ارشاد ہوتا ہے کہ:
وَمَنْ دَعَا بِدَعْوَى الْجَاهِلِيَّةِ فَهُوَ مِنْ جُثَى جَهَنَّمَ وَإِنْ صَامَ وَصَلَّى وَزَعَمَ أَنَّهُ مُسْلِمٌ. (احمد، ترمذی، بحوالہ مشکوۃ، کتاب الامارۃ)
”اور جس نے جاہلیت کی پکار پر لوگوں کو بلایا اس کا ٹھکانا جہنم ہے۔ اگرچہ روزے رکھتا، نمازیں پڑھتا، اور اپنے کو مسلمان سمجھتا ہو۔“
”جاہلیت“ کے معنی ہیں اسلام کی ضد۔ یہ اتنی ہی واضح حقیقت ہے۔ حتیٰ یہ بات کہ شرک توحید کی ضد ہے۔ اس لیے ہر وہ پکار جاہلیت کی ہوگی جو اسلامی نہ ہو، جس کو قرآن کی پکار نہ کرتا ہو، جسے رسول خدا کی زبان سے بھی بلند ہوتے سنا نہ گیا ہو، اور جسے اللہ کے دین میں جواز کی سند حاصل نہ ہو۔ اسلام نے ایک منظم اجتماعی زندگی بسر کرنے کی تلقین کی ہے، اور غیر جماعتی زندگی سے سخت بیزاری کا اظہار کیا ہے۔ ایسی حالت میں اگر کوئی شخص لوگوں کو اس اجتماعی نظم سے آزادی اختیار کر لینے کی طرف بلاتا ہے تو یہ ایک کھلا ہوا جاہلی بلاوا ہوگا۔ اسی طرح قرآن نے تمام مسلمانوں کو اللہ کی رسی کے شیرازے سے منسلک ہونے کی وصیت فرمائی ہے۔ لہٰذا اگر اس کے بجائے کسی اور رشتے کو مرکز بنا کر انھیں اکٹھے ہونے کی دعوت دی جائے گی تو یہ قطعاً ایک جاہلی دعوت ہوگی، خواہ وہ خون کا، وطن کا، رنگ کا، غرض کوئی سا بھی رشتہ ہو۔ اس لیے حدیث رسول میں جو دہشت بھری تنبیہ فرمائی گئی ہے، قدرتی طور پر اس کا دائرہ اطلاق بہت وسیع ہے، اتنا ہی وسیع جتنا کہ ”جاہلیت“ کا دائرہ وسیع ہے۔ اور اس دائرے میں جہاں دوسری چیزیں داخل ہیں وہاں یہ بات بھی داخل ہی ہے، اور شاید سب پر داخل ہے کہ مسلمانوں کو کسی ایسے گٹھ جوڑ میں جمع ہونے کی، کسی ایسے رشتے سے آ بندھنے کی، اور کسی ایسے مرکز پر اکٹھے ہو جانے کی دعوت دی جائے جو اسلامی نہ ہو، یعنی اسلام نے اسے نوع انسانی کے درمیان امتیاز کی کوئی بنیادی اور حقیقی وجہ تسلیم نہ کیا ہو۔
ایک اور موقع پر اس حقیقت کے سمجھانے کے لیے یہ الفاظ استعمال کیے گئے ہیں:
لَيْسَ مِنَّا مَنْ دَعَا إِلَى عَصَبِيَّةٍ. (ابوداؤد، کتاب الادب)
”نہیں ہے وہ ہم میں سے جس نے لوگوں کو کسی عصبیت کی طرف بلایا۔“
کسی عصبیت کی طرف بلایا، یعنی اسلام کی خالص عقلی اور اعتقادی بنائے اجتماع کو چھوڑ کر مسلمانوں کو ان نسل یا وطنی، لسانی یا دیگر تعصبات میں سے کسی تعصب پر جمع کرنے کی کوشش کی جن پر خدا فراموش اور مادیت کی غلام قومیں بالعموم جمع ہوا کرتی ہیں۔
یہ ارشاد نبوی بھی اس امر کی واضح شہادت ہے کہ اسلام اور کسی عصبیت کی طرف دعوت، یہ دونوں چیزیں ایک جگہ اکٹھی نہیں ہو سکتیں۔ غرض یہ ایک نہایت ہی دقیق اور حساسیت ہے، اور اسلام کا ذوق لطیف اسے ایک لمحے کے لیے بھی برداشت نہیں کر سکتا۔ چنانچہ جب بھی کبھی ایسا ہوا کہ اخوائے شیطانی کے تحت کسی مسلمان کی زبان سے اس طرح کی کوئی بات نکل گئی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا فوری نوٹس لیا، اور دلوں کو اس گندگی کے اثرات سے پاک کرنے میں ذرا بھی دیر نہ لگائی۔ غزوہ بنی مصطلق کے موقع پر ایک مہاجر اور ایک انصاری میں جھگڑا ہو گیا۔ مہاجر نے انصاری کی پشت پر لات مار دی۔ انصاری نے کہا ”یَا لَلَّا نْصَارِ“ (دوڑو اے انصارو!) کی صدائے فریاد بلند کی۔ جواب میں مہاجر نے بھی ”یَا لَلْمُهَاجِرِيْنَ“ (پہنچو اے مہاجرو!) کا نعرہ لگایا۔ آپ کے کانوں تک یہ الفاظ پہنچے تو فرمایا:
مَا بَالُ دَعْوَى جَاهِلِيَّةٍ؟ دَعُوهَا فَإِنَّهَا مُنْتِنَةٌ. (بخاری، جلد دوم، کتاب التفسیر)
”یہ کیا جاہلیت کی سی پکار تھی؟ دور رہو اس سے، کیونکہ یہ بڑی گندی چیز ہے۔“
ظاہر ہے کہ ”یَا لَلَّا نْصَارِ“ اور ”یَا لَلْمُهَاجِرِيْنَ“ کے الفاظ، جو دراصل نسلی اور وطنی نعرے تھے، صرف ایک وقتی جھگڑے کے سلسلے میں زبانوں سے اچانک نکل آئے تھے۔ کسی سوچے سمجھے فلسفے اور نظریے کے تحت کسی مستقل جماعتی سازی کی دعوت نہیں تھی۔ لیکن پھر بھی رسول خدا کو یہ الفاظ اتنے ناگوار گزرے گویا یہ الفاظ نہیں ہیں، بلکہ غلاظت کے کیڑے مکوڑے ہیں، جنھیں کسی مسلمان کے منہ سے ہرگز نہ نکلنا چاہیے اور جنھیں ایمانی ذوق کی پاکیزگی ایک لمحے کے لیے بھی برداشت نہیں کر سکتی۔
اگر ”جاہلیت“ اور ”عصبیت“ کی طرف بلانے والے کا وجود اسلامی معاشرے کے لیے بالکل مضر اور وہ جہنم کا ایندھن ہے تو وہ شخص بھی، جو اس بلاوے پر لبیک کہتا ہے، ملت کا سرمایہ اور جنت کا مہمان نہیں بن سکتا۔ عقل اور انصاف کی بات یہ ہے کہ اس کی بھی وہی حقیقت ہو جو اس جاہلیت اور عصبیت کے داعی کی بتائی گئی ہے۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں مَنْ دَعَا إِلَى عَصَبِيَّةٍ فرمایا ہے، وہیں اس فیصلے کا بھی اعلان کر دیا ہے کہ:
وَلَيْسَ مِنَّا مَنْ قَاتَلَ عَصَبِيَّةً وَلَيْسَ مِنَّا مَنْ مَاتَ عَلَى عَصَبِيَّةٍ.
”اور نہیں ہے وہ ہم میں سے جس نے کسی عصبیت کے تحت جنگ کی، اور نہیں ہے وہ ہم میں سے جس نے کسی عصبیت کی خاطر جان دی۔“
غرض دین سے سوا، دنیا کا کوئی تعلق، کوئی اشتراک اور کوئی رشتہ ایسا نہیں جس پر مسلمان بحیثیت مسلمان اکٹھے ہو سکتے ہوں، اور جو اسلامی اجتماعیت کا شیرازہ بن سکتا ہو۔ ایسی کسی چیز پر اگر مسلمان اکٹھے ہوں تو اس اجتماع کو جو چاہے کہہ لیجیے، لیکن اسلامی اجتماعیت ہرگز نہ کہہ سکیں گے۔ مذکورہ بالا نصوص سے یہ حقیقت آئینہ کی طرح صاف ہو جاتی ہے۔
طریق اجتماع
اب اس بحث کا صرف ایک گوشہ اور باقی رہ جاتا ہے، اور وہ یہ کہ عملاً یہ اجتماعیت وجود میں کس طرح آتی ہے؟ ویسے تو گزشتہ دونوں امور کی وضاحت کے بعد اس سوال کا جواب معلوم کر لینے کے لیے قیاس اور اندازہ بھی بالکل کافی ہے۔ مگر مسئلہ کی اہمیت کے پیش نظر مناسب یہی ہوگا کہ اس بارے میں بھی دین کی صریح ہدایتوں ہی پر اپنے اطمینان کی بنیاد رکھی جائے، نہ کہ صرف قیاس اور اندازے پر۔ اس غرض کے لیے جب ہم قرآن مجید کی طرف رجوع کرتے ہیں تو دکھائی دیتا ہے کہ اس نے سورہ آل عمران میں مسلمانوں کو ایک منظم اجتماعی زندگی بسر کرنے کی جو جامع ہدایت دی ہے اس کا آغاز ان لفظوں سے ہوا ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ. (آل عمران: ۱۰۲)
”اے ایمان والو! اللہ کا ٹھیک ٹھیک تقویٰ اختیار کرو، اور تمھیں موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم اللہ کے اطاعت گزار ہو۔“
اس کے بعد ”اور“ کہہ کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رہنے کی وہ بات فرمائی گئی ہے جس کا حوالہ پچھلی بحث میں ابھی گزر چکا ہے۔ اس کا مطلب واضح طور پر یہ ہوا کہ ان لفظوں میں جو کچھ فرمایا گیا ہے وہ اس ہدایت کی پہلی شق ہے، اور بعد کے لفظوں میں اس کی دوسری شق۔ ارشاد اس کا جو خود اسی پہلی کے وجود پر منحصر ہے۔ یعنی جس طرح اسلامی اجتماعیت ظہور میں نہیں آ سکتی جب تک کہ اللہ کا دین ہی اس کا شیرازہ نہ ہو، اسی طرح دین مسلمانوں کی اجتماعیت کا شیرازہ ہرگز نہیں بن سکتا جب تک کہ وہ فی الواقع ایسے نہ ہوں، تقویٰ ان کے سینوں میں گھر کیے ہوئے ہو، اور اسلام (اللہ کی اطاعت گزاری) میں وہ سرگرم عمل نہ ہوں۔ اس اجتماعیت کا جز بننے، اور جز بنے رہنے کی یہ پہلی لازمی شرط ہے۔ اس کے بغیر کوئی شخص جماعت کا رکن بننے کا اہل نہیں ہو سکتا، نہ اسے اس کار کن بنایا جا سکتا ہے۔ جس شخص کے اندر یہ صفتیں جتنی ہی پختہ ہوں گی وہ اس جماعت کا اتنا ہی اچھا اور قابل اعتماد جز ہوگا اور اسی قدر زیادہ صحیح طریقے سے اس کے ساتھ وابستہ رہے گا۔ اور جو ان باتوں میں جتنا ہی خام ہوگا، جماعت کے ساتھ اس کی وابستگی بھی اتنی ہی پائدار اور ناقابل اعتماد ہوگی۔
پھر اس امر واقعہ کا تقاضا جس طرح یہ ہے کہ صرف انھی لوگوں کو اس جماعت کا رکن مانا جائے جو اللہ کے دین پر ایمان لائے اور اس کے احکام کی پیروی کا عہد کریں، اسی طرح اس کا تقاضا یہ بھی ہے کہ جو لوگ اس کے رکن بن چکے ہوں ان کے اندر ان صفات کے پروان چڑھانے اور پروان چڑھاتے رہنے کا پورا پورا اہتمام ہو۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید کی جس ہدایت کا ہم اس وقت جائزہ لے رہے ہیں وہ صرف اتنے ہی لفظوں پر ختم نہیں ہوگئی ہے جن کے حوالے اوپر آ چکے ہیں، بلکہ آگے وہ یہ بھی کہتی ہے کہ:
وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ. (آل عمران: ۱۰۴)
”اور چاہیے کہ تم گروہ ہو جو بھلائی کی طرف بلاتا، نیکی کا حکم دیتا اور برائی سے روکتا ہے۔“
یہ دراصل اس ہدایت کی تیسری اور آخری شق ہے۔ جو ایک پہلو سے پہلی شق کا تکملہ بھی ہے۔ اس کا منشا یہ ہے کہ کلمہ اللہ کے مرکز پر اکٹھے ہونے والے اہل ایمان کی جو جماعت وجود میں آئے اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے دائرے کے باہر بھی اور اس کے اندر بھی ”خیر“ کی دعوت دیتی رہے۔ معروف کا امر کرتی رہے، اور جہاں بھی ایمان اور اسلام اور تقویٰ کے تقاضوں کو پامال ہوتے دیکھے، روک بن کر سامنے کھڑی ہو جائے۔ صرف اسی شکل میں اس بات کی توقع رکھی جا سکتی ہے کہ اس جماعت کے افراد ان صفتوں کے فی الواقع حامل باقی رہیں گے جن کا پایا جانا اس جماعت کی رکنیت کی بنیادی شرط ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے فرائض منصبی میں سے ایک فرض یہ بھی تھا، اور آپ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جس طرح اس بات کے ذمہ دار بنائے گئے تھے کہ لوگوں کو دین حق کی دعوت دیں اور جو افراد اسے قبول کر لیں انھیں اللہ کی آیتیں سنائیں، کتاب (احکام الہی) کی تعلیم دیں، اور حکمت (روح دین) سکھائیں (يَتْلُوا عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ) اسی طرح اس بات کے بھی ذمہ دار بنائے گئے تھے کہ اس دعوت کے قبول کر لینے والوں کے علم اور اخلاق میں جو خامیاں پائیں ان کی اصلاح کرتے رہیں (وَيُزَكِّيهِمْ، بقرہ: ۱۲۹)۔ جو کچھ آپ کے فرائض منصبی میں داخل تھا، ممکن نہیں کہ آپ کا عمل ذرہ برابر بھی اس سے مختلف ہوتا۔ چنانچہ تاریخ کی پیشانی پر ہر شخص اس ابھری ہوئی حقیقت کو نمایاں دیکھ رہا ہے کہ امت مسلمہ کی تشکیل کے سلسلے میں آپ نے تو اس سے کم کسی بات پر راضی ہوئے، نہ اس سے زیادہ کسی چیز کے طالب بنے۔ آپ اللہ کے بندوں کو اسی کی بندگی کی طرف بلاتے تھے۔ جو لوگ اس دعوت پر لبیک کہتے صرف انھی کو امت کا جز بناتے۔ اور جن لوگوں کو امت کا جز بنا چکتے انھیں اپنے دامن تربیت میں لے لیتے۔ یعنی ان کے اندر ایمان، اسلام اور تقویٰ کا جوہر پروان چڑھاتے۔ یہی سب کا سب وہ کار نبوت تھا، جس کے نتیجے میں اسلامی اجتماعیت اور امت مسلمہ وجود میں آئیں۔
اسلامی اجتماعیت کی ہیئت کاملہ (ریاستی نظام)
حکومتی نظام کی ناگزیر ضرورت
اجتماعیت کا نقطہ کمال اور اس کی آخری منزل ایک حکومتی نظام کا قیام ہے۔ یہ نظام بجائے خود تو مطلوب نہیں ہوتا، لیکن عملی طور پر انسانی معاشرے کی ایک ناگزیر ضرورت بہرحال ہے۔ کیونکہ جس طرح یہ ایک حقیقت ہے کہ نوع انسانی کے افراد اپنی فطری طلب کی بنا پر اور اپنی فطری ضرورت کے تحت ایک ساتھ اکٹھے ہو کر زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوتے ہیں، اسی طرح یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان کا یہ اجتماعی گزر بسر کچھ ایسے مسائل بھی پیدا کر دیتا ہے جن کا حل ضروری ہوتا ہے، اتنا ہی ضروری جتنا کہ بچے کے لیے ماں کی گود اور باپ کا سایہ ضروری ہوا کرتا ہے۔ کیونکہ یہ مسائل ایک طرف تو مستقل موجود رہتے ہیں، دوسری طرف انتہائی اہم بھی ہوتے ہیں۔ مستقل موجود اس لیے رہتے ہیں کہ ان کا سرچشمہ کہیں خارج میں نہیں ہوتا کہ وہ کبھی پیدا ہوں تو کبھی پیدا نہ ہوں گے، بلکہ انسان کے اپنے اندرون ہی میں ہوتا ہے۔ یہ دراصل اس کی اپنی جبلت ہی ہوتی ہے جو انھیں جنم دیتی ہے۔ اس لیے جب تک وہ اپنی جبلت سے بالا نہ ہو جائیں، جو کم از کم دنیا میں تو انفرادی افراد کی حد تک قطعاً ناممکن ہے، یہ مسائل لازماً پیدا ہوں گے، اور مستقل موجود رہیں گے۔ انتہائی اہم اس لیے ہوتے ہیں کہ ان کی وجہ سے اجتماعیت کی غایت ہی فوت ہو جاتی ہے، بلکہ یوں کہیے کہ اس کے عملی نتائج بالکل الٹے نکلتے ہیں۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ انسان کے اندر جہاں خیر کی قوتیں موجود ہیں، وہیں پہلو بہ پہلو شر کی قوتیں بھی کارفرما ہیں۔ نوع انسانی کی کار کردگی پوری تاریخ اسی بات کی گواہی دیتی ہے اور قرآن حکیم کا صاف و صریح اعلان بھی یہی ہے۔ جس نے فرمایا ہے کہ ”اللہ تعالیٰ نے انسان کے دل میں تقویٰ اور فجور، دونوں کا الہام کر رکھا ہے (فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا)۔ اس امر واقعی کی موجودگی میں اور اپنی جبلت کے ساتھ جب بہت سے انسان اکٹھے ہو کر رہیں گے تو یقیناً وہی کچھ ہوگا جس کا ہم ہر لمحہ مشاہدہ کرتے رہتے ہیں۔ ایک طرف اگر دوسرے کے ساتھ انصاف پسندی، خیر خواہی، ہمدردی اور ایثار کے رویے اختیار کیے جا رہے ہوں گے تو دوسری طرف افراد کی خواہشوں میں ٹکراؤ بھی ہوگا، مفادات میں کش مکش بھی ہوگی، خود غرضیوں کا زور بھی ہوگا، اور اس کے نتیجے میں ایک دوسرے کے خلاف زیادتیاں ہوں گی، حقوق پر ڈا کے پڑیں گے، اور جان و مال، عزت و آبرو، کسی چیز کی امان باقی نہ رہ جائے گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس اجتماعیت کو انسان نے اپنے دل کا سکون جان کر اور اپنی جائے پناہ سمجھ کر اپنایا ہو گا وہ اس کے لیے جان کا عذاب ثابت ہوگی۔ ایسی حالت میں اس کے لیے منطقی طور پر دو ہی چارہ کار ہو سکتے ہیں:
یا تو وہ اس اجتماعیت ہی سے توبہ کر لے۔
یا پھر ان مشکلات کا کوئی حل ڈھونڈے۔
پہلی راہ اختیار نہیں کر سکتا۔ کیونکہ نہ تو اس کے فطری جذبات ہی اس کی اجازت دیں گے، نہ اس کی معاشی اور دفاعی مصلحتیں ہی اسے ایسا کرنے دیں گی۔ اس لیے عملاً اس کے لیے اس کے سوا اور کوئی چارہ کار باقی نہیں رہ جاتا کہ اس کے پاس ان مستقل اور انتہائی اہم مسائل کا کوئی مستقل اور موثر حل ہو۔ دوسرے لفظوں میں یہ ہے کہ کوئی ایسا انتظام ہو جو خواہ مخواہ کے ٹکراؤ اور مفادوں کی کشمکش کو قابو میں رکھے، کوئی ایسی طاقت ہو جو ظالم کا ہاتھ پکڑلے، کمزوروں کو محفوظ رکھے، مظلوموں کی فریاد رسی کرے، اور حقوق واپس دلائے۔ بغیر کسی بحث اور دلیل کے کہا جا سکتا ہے کہ حکومت اسی انتظام اور اسی طاقت کا دوسرا نام ہے۔ یہی وہ حکومتی نظام ہی ہے جو کسی اجتماع کے اندر امن و انصاف کی فضا قائم کر سکتا اور برقرار رکھ سکتا ہے۔ یہ ایک صاف اور فطری حقیقت ہے، اور اس کا انکار اس وقت تک نہیں کیا جا سکتا جب تک کہ انسانی جبلت کے روشن ترین حقائق کی طرف سے آنکھیں نہ بند کر لی جائیں۔ ابن خلدون نے کوئی مبالغہ نہیں کیا تھا جب یہ کہا تھا کہ انسان، جس طرح فطری طور پر اجتماعیت پسند واقع ہوا ہے اسی طرح اپنی فطرت ہی کی بنا پر ایک ایسے ”وازع“ اور ”حاکم“ کا ضرورت مند بھی ہے جو اجتماع کے مختلف افراد کو ایک دوسرے کے خلاف دست درازیاں کرنے سے روکے۔
پھر یہ حکومتی نظام کسی اجتماع اور معاشرے کی صرف داخلی ضرورت نہیں ہے، بلکہ اس کی خارجی ضرورت بھی ہے۔ اس کے بغیر وہ اپنے وجود اور اپنے مفادات کی ٹھیک ٹھیک حفاظت بالکل نہیں کر سکتا۔ کیونکہ انسانی جبلت کی کمزوریاں جس طرح ایک اجتماعی وحدت کے افراد کو ایک دوسرے کے خلاف آمادہ پیکار کرتی رہتی ہیں، اسی طرح مختلف اجتماعی وحدتوں اور قوموں کو بھی آپس میں ٹکرایا کرتی ہیں، اور کوئی قوم اپنے خلاف جارحانہ اقدامات کی طرف سے کبھی مطمئن نہیں رہتی۔ ایسی حالت میں ظاہر ہے کہ اس کے لیے اپنے دفاع کا انتظام رکھنا اس کا سب سے پہلا فرض ہو گا، اہم ترین فریضہ ضرور پڑ جائے کہ ضروری پڑ جانے پر دفاع کا فریضہ اس اجتماع کے انفرادی انجام دیں گے، لیکن اگر اس سلسلے میں انھیں اپنی اپنی رائے اور اپنے اپنے فیصلوں پر چھوڑ دیا گیا تو یہ بھی جب چاہے جس دفاع کا مناسب سمجھے، اپنے اس فرض کو انجام دے۔ تو کامیابی کی توقع رکھنا عبث ہوگا۔ بغیر کسی منظم فوج کے آج تک کسی منظم حملے کا مقابلہ نہیں کیا ہے۔ اس لیے افراد اپنی اپنی جگہ چاہے کتنے ہی فرض شناس، با حمیت اور جاں فروش کیوں نہ ہوں، اگر وہ کسی نظام امر و طاعت کے تحت نہ ہوئے تو ہونے والے حملوں کا مؤثر دفاع ہرگز نہ کر سکیں گے۔ دوسرے لفظوں میں گویا حقیقت وہی نکلی کہ اجتماع اپنے دفاع کے لیے کسی حکومتی نظم و نسق کا محتاج ہے۔ یاد ہوگا کہ دفاعی مصلحت اور ضرورت بھی انھی بنیادی اسباب میں سے ایک ہے جو انسان کے لیے اجتماعیت کو لازم ٹھہراتے ہیں۔ اس لیے حکومت کا مطلب یہ ہوا کہ حکومت کا قیام خود اجتماعیت کے اپنے مقصد وجود کی خاطر بھی ضروری ہے۔
اسلام اور نظام حکومت
مسلم معاشرہ بھی چونکہ انسانی معاشرہ ہی ہوتا ہے، اور انھی انسانوں سے بنتا ہے جن کے اندر خیر اور شر دونوں کی قوتیں کام کیا کرتی ہیں، اور جن کے دلوں میں فجور اور تقویٰ کی دونوں ہی کا ”الہام“ فرمایا گیا ہے، اس لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ شر اور فجور کے اثر سے بالکل پاک رہے۔ کیونکہ اپنی تمام تر خیر پسندیوں اور تقوی کی شعاریوں کے باوجود مسلمان بھی انسان ہی رہتے ہیں، مافوق الانسان نہیں ہو جاتے۔ اس لیے ان کے معاشرے میں بھی انسانی جبلت کی کمزوریاں ہمیشہ پائی جا سکتی ہیں، ہمیشہ پائی گئی ہیں، اور ہمیشہ پائی جاتی رہیں گی۔ اسلامی شریعت میں حدود اور تعزیرات کی جو ایک طویل فہرست موجود ہے اور فصل مقدمات کے بارے میں جو مفصل ہدایتیں پائی جاتی ہیں وہ اس بات کی ناطق دلیل ہیں کہ خود اسلام بھی اپنے پیروؤں کے بارے میں یہ تصور نہیں رکھتا کہ بدی اور ظلم کا ان کے قریب سے گزر نہ ہوگا، اور ایک دوسرے کے خلاف کوئی غلط قدم نہ اٹھا ئیں گے۔ بلکہ وہ انھیں ٹھیک وہی انسان سمجھتا ہے جس کی جبلت خیر کے ساتھ ساتھ شر سے بھی وابستگی رکھتی ہے، اور جس سے ہمیشہ ہر غلطی صادر ہو سکتی ہے۔ اس لیے جس طرح دوسرے معاشروں کو حکومتی ادارے اور نظام کی ضرورت ہوتی ہے، تاکہ وہ اپنے افراد کے درمیان امن و انصاف قائم رکھ سکیں ٹھیک اسی طرح یہ اسلامی معاشرہ بھی اس نظام سے بے نیاز نہ رہ سکے گا۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ وہ اس کی ضرورت سب سے زیادہ محسوس کرے گا، کیونکہ انسان کے جانی اور مالی حقوق کو جو اہمیت اور حرمت اسلام نے عطا کر رکھی ہے، وہ کہیں اور شاید ہی پائی جاتی ہوگی۔
اب جہاں تک دفاعی ضرورت کا تعلق ہے، مسلم معاشرے کو یہ ضرورت بھی ٹھیک اسی طرح لاحق رہے گی جس طرح کسی اور معاشرے کو ہو سکتی ہے۔ کیونکہ دنیا میں جب تک غیر اسلامی باقی ہے، مسلم معاشرے کے خلاف اقدامات کا اندیشہ ہر آن لگا رہے گا، اور رہ کر عملی صورت بھی اختیار کرتا رہے گا۔ اس لیے اپنی مؤثر حفاظت اور کامیاب مدافعت کے لیے بھی ایک حکومتی ادارے کا قائم رکھنا ازبس ضروری ہے۔
غرض، جس پہلو سے دیکھیے، یہ معاشرہ بھی ایک حکومتی ادارے کی ضرورت میں کسی سے کم نہیں ہے، اور اس کا قیام اس کی بھی ایک فطری طلب اور ناگزیر ضرورت ہی ہے۔
نظام خلافت کا شرعی وجوب
اس بحث سے مسلم معاشرے کے لیے ایک حکومتی ادارے کی ضرورت اگرچہ پوری طرح عیاں ہو جاتی ہے، لیکن ظاہر ہے کہ اس کی بنیاد تمام تر عقلی اور فکری ہے، حالانکہ گفتگو کسی انسانی نظام فکر کے بارے میں نہیں بلکہ دینی اور اسلامی تصورات کے بارے میں ہو رہی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس سلسلے میں شریعت کی اپنی وضاحت بھی معلوم کر لی جائے، اور فیصلہ کا اصل انحصار اسی پر رکھا جائے۔ ورنہ کہنے والا کہہ سکتا ہے کہ ممکن ہے خود اسلام نے مسلم معاشرے کو اس نقطۂ نظر سے نہ دیکھا ہو جسے بنیاد بنا کر اس کے بارے میں یہ رائے قائم کی گئی ہے۔
غرض اس سے جب آپ شریعت کی طرف رجوع کریں گے تو پائیں گے کہ ایک حکومتی ادارے کے قیام کے متعلق قرآن اور حدیث کی ہدایتیں، اسوۂ رسول اور اسوۂ صحابہ کی شہادتیں، اور علمائے اسلام کی صراحتیں سب کچھ موجود ہیں:
- جہاں تک قرآن حکیم کا تعلق ہے اس کا حال یہ ہے کہ ایک طرف تو اس نے مسلمانوں کو اپنے اولی الامر یعنی امراء و حکام کی اطاعت کا حکم دے رکھا ہے:
- اب رہا احادیث کا معاملہ، تو اس طرح کی متعدد حدیثیں کتاب کے پہلے باب میں آپ پڑھ چکے ہیں جو مسلم معاشرے کے لیے ایک حکومتی نظام کی ضرورت پر روشنی ڈالتی ہیں۔ یاد تازہ کرنے کے لیے ان میں سے دو خاص حدیثوں پر پھر سے نظر کر لیجیے:
مَنْ مَاتَ وَلَيْسَ فِي عُنْقِهِ بَيْعَةٌ مَاتَ مِيْتَةً جَاهِلِيَّةً. (مسلم، جلد دوم، صفحہ ۱۲۸)
”جو کوئی اس حال میں مر گیا ہو کہ اس کی گردن (خلیفہ المسلمین کی) بیعت (کے قلاوے) سے خالی ہو اس کی موت جاہلیت کی موت ہوگی۔“
أُمِرْتُكُمْ بِخَمْسٍ بِالْجَمَاعَةِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَةِ وَالْهِجْرَةِ وَالْجِهَادِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ. (احمد، ترمذی، بحوالہ مشکوٰۃ، صفحہ ۳۲۱)
”میں تمھیں پانچ باتوں کا حکم دیتا ہوں: جماعتی زندگی کا، سمع (احکام سننے) کا، اطاعت (احکام ماننے) کا، ہجرت کا، اور جہاد فی سبیل اللہ کا۔“
- اسوۂ رسول کا حال اس باب میں ساری دنیا پر روشن ہے۔ آپؐ تو ابتدائی سے صاحب امر و حکم تھے۔ مگر جیسے جیسے آپ کی حیثیت ظاہری اور اصطلاحی طور پر بھی پوری پوری نمایاں ہوتی گئی، اور پھر آخر عمر تک نمایاں سے نمایاں تر ہی رہی۔ سارے اہل ایمان ایک قوم، ایک ملت اور ایک جماعت تھے اور آپ اس کے قائد و سر براہ تھے۔ پورا اسلامی خطہ ارض ایک مملکت تھا، اور آپ اس مملکت کے حکمران تھے۔ غرض ایک سٹیٹ اور ایک گورنمنٹ کا جو مفہوم ہوتا ہے وہ مسلم آبادی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شکل میں پوری طرح موجود پایا گیا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ کی مدنی زندگی کا لمحہ لمحہ اس بات کا گواہ ہے کہ اسلام کے ساتھ مسلم معاشرے کے ساتھ، منصبِ رسالت کے ساتھ ایک ریاست اور حکومت کا تصور بھی حقیقت کی حد تک تو ہر وقت، عملی طور پر بشرط امکان، لازماً وابستہ ہے۔ ورنہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ اللہ کے رسول نے ایک ایسا کام کیا اور قائم کیا، جس کا اللہ کے دین سے کوئی تعلق نہ تھا، ایک ایسی حیثیت اختیار کی اور مسلسل اختیار کیے رکھی، جو نبوت کے تقاضوں میں شامل نہ تھی۔ لیکن ظاہر ہے کہ ایسا خیال کرنا کسی اور کے لیے ممکن ہو تو ہو، ان لوگوں کے لیے کسی طرح ممکن نہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا رسول مانتے ہیں۔
- اسوۂ صحابہ جو کچھ اس مسئلے میں رہا ہے، اس کی ضروری تفصیل یہ ہے:
- دین کی علمی و نظری حفاظت، دینی علوم کی نشر و اشاعت اور مسلمانوں میں دینی یقین کی بقا و ترقی کا اہتمام۔
- دین کی عملی بنیادوں (نماز، زکوٰۃ، روزہ اور حج) کو قائم رکھنا اور معاشرے میں ان کی طرف سے غفلت نہ پیدا ہونے دینا۔
- دین و ملت کا دشمنوں سے دفاع کرنا، اور اس غرض کے لیے جنگ و جہاد کے جملہ فرائض انجام دینا۔
- مجرموں پر سزاؤں کا نفاذ۔
- افراد معاشرہ کی جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت، اور امن و امان کا قیام۔
- اندرون معاشرہ بھی اور بیرون معاشرہ بھی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا پورا پورا اہتمام۔
- صاحب امر رعایا کے حقوق نہ ادا کرے، اور ان پر ظلم و ستم روا رکھے۔
- وہ لوگوں کو معصیت کے کاموں کا حکم دینے لگے۔
- وہ بدکردار ہو جائے، احکام شرع کی علانیہ خلاف ورزی پر اتر آئے، اور فسق و فجور کا ارتکاب کرنے لگے۔
- وہ دین کی اہم ترین عملی بنیادوں اور ضروری علامتوں یعنی ارکان اسلام کا بھی تارک ہو جائے۔
- اسلام سے اس کا بعد اس حد کو پہنچ جائے کہ وہ مملکت کے آئین و قانون کو بھی بدل ڈالے، اور اس میں غیر اسلامی عناصر کو لا داخل کرے۔
- وہ اسلام کے بنیادی عقائد تک سے منکر ہو جائے، اور کفر اختیار کر لے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ. (النساء: ۵۹)
دوسری طرف ان پر ایسے بہت سے قوانین کے نفاذ کی ذمہ داری ڈال رکھی ہے جن کو ایک حکومتی ادارے کے بغیر نافذ کیا ہی نہیں جا سکتا، مثلاً قاتل کو موت کی سزا دینا، چور کا ہاتھ کاٹنا، زانی کو سنگ سار کرنا یا تازیانے لگانا وغیرہ۔ یہ دونوں باتیں اپنی اپنی جگہ اس امر واقعہ کا اعلان ہیں کہ قرآن کے نزدیک مسلم معاشرہ قطعی طور پر ایک با حکومت معاشرہ ہے، وہ ایک حکومتی نظام کے تصور کے بغیر مسلم معاشرے کا کوئی تصور نہیں رکھتا، یا کم از کم یہ کہ رکھنا نہیں چاہتا، بلکہ وہ اس طرح کے الفاظ تو نہیں استعمال کرتا کہ اے اہل ایمان! تم اپنا ایک حکومتی نظام قائم کرو اور قائم رکھو، مگر اس کی وجہ اس ایک بات کے سوا اور کچھ نہیں کہ ایسا کرنا بالکل غیر ضروری تھا۔ بجائے خود واضح اور طے شدہ حقیقت کے بارے میں خواہ مخواہ اعلان اور اظہار تھا۔ آخر جہاں دھوپ اور تمازت کی باتیں ہو رہی ہوں وہاں سورج کے وجود کی صراحت کا کیا سوال باقی رہ جاتا ہے؟ مسلمانوں سے اپنے امراء و حکام کی اطاعت کا مطالبہ کرنا اور انھیں مجرموں کے خلاف حکومت کے سے اقدامات کا ذمہ دار ٹھہرانا اپنی جگہ اس بات کی خود ہی سب سے بڑی صراحت ہے کہ وہ ایک حکومتی نظام کے تحت زندگی بسر کرنے والے ہونے ہی میں۔ یہ ایسے الہامی ہونے ہی چاہیے۔ چنانچہ امام فخر الدین رازی ان آیتوں میں سے جن میں مسلمانوں پر ایسے اقدامات کی ذمہ داریاں ڈالی گئی ہیں، ایک آیت: وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا. (المائدہ: ۳۸) کی تفسیر بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
احتج المتكلمون بهذه الآية في أنه يجب على الأمة أن ينصبوا لأنفسهم اماما معينا والدليل عليه انه تعالى أوجب بهذه الآية اقامة الحد على السراق والزناة فلابد من شخص يكون مخاطبا بهذا الخطاب واجمعت الأمة على انه ليس لآحاد الرعية اقامة الحدود على الجناة بل اجمعوا على انه لا يجوز اقامة الحدود على الجناة إلا للإمام، فلما كان هذا التكليف تكليفا جازما ولم يمكن الخروج عن عهدة هذا التكليف إلا عند وجود الإمام وما لا يتم الواجب إلا به كان واجبا والإمام مكلف فهو واجب فلزم القطع بوجوب نصب الإمام حينئذ. (تفسیر کبیر، جلد ۴، صفحہ ۳۱)”علمائے متکلمین نے اس آیت کو اس بات کا ثبوت قرار دیا ہے کہ امت کے لیے اپنا ایک متعین امام (حکمران) مقرر کرنا واجب ہے۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے ذریعے سے چوروں اور زانیوں پر حد جاری کرنا واجب ٹھہرایا ہے۔ اس لیے ایک ایسے شخص کا ہونا ضروری ہے جو اس فرماں خداوندی کا راست مخاطب (اور اس کی تعمیل کا ذمہ دار) ہو۔ ادھر امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ عام افراد و اشخاص کو مجرموں پر حدیں جاری کر دینے کا حق حاصل نہیں ہے۔ بلکہ جہاں تک مجرموں کا تعلق ہے، ان پر حد جاری کرنے کے بارے میں تو اس بات پر اجماع ہے کہ امام کے سوا اور کسی کے لیے وہ قطعاً جائز ہی نہیں۔ جب کہ حدیں جاری کرنے کی ذمہ داری ایک قطعی اور لازمی ذمہ داری ہے، اور اس ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونا ایک امام کے بغیر ممکن ہی نہیں، اور یہ بھی ایک واضح حقیقت ہے کہ جس شے پر کسی امر واجب کی تعمیل منحصر ہو اور وہ حد استطاعت سے باہر بھی ہو، وہ خود بھی واجب ہو جاتی ہے۔ تو ایسی حالت میں امام کے تقرر کا واجب ہونا بالکل قطعی ہو جاتا ہے۔“
ایک حکومتی ادارے کی ضرورت کے بارے میں پہلی حدیث کا اندازہ کچھ اسی قسم کا ہے جیسا کہ قرآن مجید کا بھی آپ دیکھ چکے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ بیعت خلافت سے محرومی انسان کو جاہلیت کی حالت میں پہنچا دیتی ہے، صراحتاً یہ معنی رکھتا ہے کہ مسلم معاشرہ نظام خلافت کے بغیر ہو ہی نہیں، یا کم از کم یہ کہ اسے ہرگز ایسا نہ ہونا چاہیے۔ اور جب حقیقت یہ ٹھہری تو یہ گویا اس بات کا اعلان و اظہار ہے کہ اس نظام کا قائم کرنا اور قائم رکھنا اس معاشرے کی ایک لازمی اور فطری ذمہ داری ہے۔ کیونکہ اس عالم اسباب میں کوئی نظام حکومت آپ سے آپ قائم نہیں ہوا کرتا، بلکہ کسی انسانی گروہ کی کوششوں ہی سے قائم ہوا کرتا ہے۔ اس لیے مسلم معاشرہ بھی اس وقت تک با حکومت نہیں ہو سکتا جب تک وہ خود اس کی ذمہ داری محسوس نہ کرے اور اس کے لیے ضروری کوششیں انجام نہ دے۔
رہی دوسری حدیث، تو ہر شخص دیکھ سکتا ہے کہ اس بارے میں اس کی حیثیت صاف طور پر واضح اور راست ہدایت کی ہے، کیونکہ اس میں ایک ایسی اجتماعی زندگی بسر کرنے کا صریح حکم دیا گیا ہے جو کوئی سمع و طاعت والی اجتماعی زندگی ہے، یعنی ایک ایسی زندگی جس میں احکام جاری ہوتے ہوں، جس کے اندر کوئی حکم دینے والا ہو اور لوگ اس کی طاعت کرنے والے ہوں۔ صاف لفظوں میں یہ کہ جو ایک نظام امر و طاعت یا ایک حکومتی ادارہ رکھنے والی اجتماعی زندگی ہو۔ کیونکہ ”سمع و طاعت“ کا وجود کسی نہ کسی طرح حکومت کے وجود ہی پر موقوف ہے۔ جہاں حکومت نہ ہو، وہاں اس ”سمع و طاعت“ کا بھی کوئی سوال باقی نہ رہ جائے گا۔ چنانچہ یہ دونوں الفاظ احادیث میں کثرت سے استعمال ہوئے ہیں، اور قریب قریب ہر جگہ ان سے مراد امراء و حکام کی اطاعت ہی ہے۔
جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو حضرات صحابہ کرام نے جس کام کو سب سے اہم سمجھا اور جس پر دوسرے کام پر مقدم رکھا، وہ خلیفہ رسول کا انتخاب اور نظم خلافت کا قیام تھا۔ حتیٰ کہ تدفین کے فریضے کو بھی موخر رکھا گیا، جسد مبارک رکھی رہی۔ جب خلیفہ کا انتخاب ہو گیا تب جا کر اسے دفن کیا گیا۔ صحابہ کا یہ طرز عمل ذرا اختلاف نہ تھا نہ ہنگامی، بلکہ اجتماعی بھی تھا اور مستقل بھی۔ یعنی انہوں نے ایسا پورے اتفاق رائے سے کیا، اور پھر بعد میں بھی ہمیشہ ایسا ہی کیا۔ جب کسی خلیفہ کا انتقال ہوا تو اس وقت تک اسے دفن کرنے کے لیے طرف متوجہ نہ ہوئے جب تک کہ اس کے جانشین کا انتخاب نہ کر لیا۔ (شرح عقائد نسفیہ صفحہ ۱۱۰) صحابہ کرام کا یہ متفقہ اور مستقل طرز عمل نظم حکومت کی ضرورت و اہمیت کے بارے میں ان کے شدید احساس کا مظہر ہے۔ وہ شاید ہی اپنی کوئی نظیر رکھتا ہو۔ یہ ان حضرات کا اس بات پر غیر مشکوک اجماع تھا کہ مسلم معاشرہ ایک امام و خلیفہ کے بغیر، لفظوں میں ایک حکومتی ادارے سے بے گانہ خالی نہیں رہ سکتا۔ دینی حیثیت سے یہ ایک ناقابل قبول صورت حال ہے۔
حضرت ابو بکر صدیق نے وفات رسول کے بعد صحابہ کرام کے اجتماع کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
أَلَا إِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ مَاتَ وَلَا بُدَّ لِهَذَا الدِّيْنِ مِمَّنْ يَقُوْمُ بِهِ. (کتاب المواقف وشرحہ، جلد ۸، صفحہ ۳۴۴)
”آگاہ رہو! حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے ہیں، اور اب اس دین کے لیے ایک ایسا شخص بہرحال ضروری ہے جو اس کے (قیام و نفاذ) کا ذمہ دار رہے۔“
اس جناب کا یہ صاف لفظوں میں واضح طور پر ایک اقرارِ حق کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ یہ بات صحابہ کے کھرے مجمع میں کہی گئی تھی، اور ایک زبان بھی ایسی نہ تھی جس نے اس کے صحیح اور برحق ہونے سے انکار کیا ہو۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے کہ:
لَا إِسْلَامَ إِلَّا بِالْجَمَاعَةِ وَلَا جَمَاعَةَ إِلَّا بِالْإِمَارَةِ. (جامع بیان العلم)
”جماعت کے بغیر اسلام نہیں، اور امارت کے بغیر جماعت نہیں۔“
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف جب خوارج نے لَا حُكْمَ إِلَّا لِلَّهِ کا نعرہ لگایا تو آپ نے فرمایا:
إِنَّمَا يَقُولُونَ لَا إِمَارَةَ وَلَا بُدَّ مِنَ إِمَارَةٍ بَرَّةٍ أَوْ فَاجِرَةٍ.
”ان کا کہنا تو یہ ہے کہ کوئی امارت (اور حکومت) ہونی ہی نہ چاہیے، حالانکہ امارت بہرحال ضروری ہے، چاہے وہ اچھی ہو چاہے بُری۔“
رسول خدا کے ان معیاری جانشینوں اور دین حق کے ان بہترین ترجمانوں کے یہ ارشادات آپ کے سامنے ہیں۔ ان پر نظر ڈالیے، اور پھر سوچیے کہ کیا کوئی لفظ ایسا ہو سکتا ہے جو ایک حکومتی ادارے کو دین و ملت کی ایک ناگزیر ضرورت ظاہر کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہو اور وہ رہ گیا ہو، ان میں استعمال نہ کیا گیا ہو؟
جس حکومتی نظام کی ضرورت پر قرآن مجید، حدیث شریف، اسوۂ رسول اور اقوال و افعال صحابہ سب کی شہادتیں موجود ہوں، وہ اپنے واضح اور قطعی انداز کی موجود ہوں، علمائے شریعت اس کے بارے میں سوا اور کیا کہہ سکتے تھے کہ یہ مسلم معاشرے کی ایک لازمی ضرورت ہے اور اس نظام کا قائم کرنا اور قائم رکھنا اس کے دینی فرائض میں شامل ہے۔ چنانچہ قاضی ماوردی لکھتے ہیں:
عَقْدُهَا لِمَنْ يَقُومُ بِهَا فِي الْأُمَّةِ وَاجِبٌ بِالْإِجْمَاعِ. (الاحکام السلطانیہ، ص ۳)
”امامت (یعنی خلافت) کا، ایک ایسے شخص کے لیے انعقاد، جو امت کے اندر اس کی ذمہ داریوں کو پورا کر سکے، بالا جماع واجب ہے۔“
اسی طرح علامہ تفتازانی شرح عقائد نسفیہ میں فرماتے ہیں کہ:
”اس بات پر اجماع ہے کہ امام (یعنی خلیفہ) کا تقرر واجب ہے۔“
یعنی امت کے لیے اپنا ایک حکومتی نظام قائم کرنا شرعاً واجب ہے۔ اگر وہ اپنے اس فریضے سے عہدہ برآ نہیں ہوتی تو یہ ایک اجتماعی معصیت ہوگی، جس کے لیے اسے اللہ کے حضور جواب دہ ہونا پڑے گا۔
آگے اس وجوب کی دلیلیں بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
”اور اس لیے کہ بہت سے شرعی واجبات کا ادا ہونا اسی (امامت) پر موقوف ہے۔“
نظامِ حکمرانی کی اہمیت و ضرورت
اور دراصل یہ واجبات شرعیہ کی ادائیگی ہی وہ سب سے بنیادی غرض اور ضرورت تھی جس کی بنا پر رسول اکرم ﷺ نے وہ کچھ کیا اور فرمایا ہے جو اوپر کی سطروں میں مذکور ہے۔ جس نظام حکومت کے بغیر دین کے کثیر التعداد واجبات ادا ہو ہی نہیں سکتے، کیسے ممکن ہے کہ وہ موجود نہ ہو مگر دین صحیح معنوں میں موجود ہو؟ مانا ہی پڑے گا کہ حکومتی نظام کے بغیر اسلام اپنی صحیح اور کامل شکل میں بھی نمودار نہیں ہو سکتا، اور عقل عام یہ کہنے پر مجبور ہوگی کہ جس اسلام کے پاس حکومت اور نظام حکومت نہ ہو، اس کی حیثیت ٹھیک لنگڑے لولے اور اپاہج جسم کی سی ہے۔ ایسے جسم کو اگر مردہ لاش نہ کہا جائے گا، مگر ایک تندرست اور کار آمد وجود بھی نہ قرار دیا جا سکے گا، اور نہ اس سے وہ کارنامے انجام پا سکیں گے جو تندرست اور صحیح الاعضا جسموں ہی سے متوقع ہوتے ہیں۔
اس اجتماع میں خارجیوں کے علاوہ بھی لوگ شریک ہیں۔ البتہ فرقہ امامیہ اور فرقہ اسماعیلیہ کا خیال یہ ہے کہ امام کا تقرر واجب تو ہے مگر مخلوق کے ذمے نہیں، بلکہ خدا کے ذمے۔ خوارج کے نزدیک امام کا تقرر اور نظام حکومت کا قیام صرف جائز ہے، واجب نہیں۔ (کتاب المواقف وشرحہ) لیکن یہ دونوں طرح کے خیالات، عقلی، عملی اور شرعی ہر حیثیت سے اتنے پوچ ہیں کہ ان کی تردید کی بھی ضرورت نہیں۔
اسلام کا حکومتی نظام سے لازمی تعلق: انبیاء کا اسوہ
اسلام اور حکومتی نظام کا یہ لازمی تعلق صرف اسی اسلام تک محدود نہیں ہے، اور نہ اصولاً ہو سکتا ہے، جسے قرآن اور نبی آخر الزماں نے پیش فرمایا ہے، بلکہ ہر اسلام اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والے ہر دین تک اس کا دائرہ وسیع ہے۔ چنانچہ امت مسلمہ کی پیش رو امت (بنی اسرائیل) کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ:
”بنی اسرائیل کا نظام و نسق ان کے انبیا چلاتے تھے۔ جب ایک نبی وفات پا جاتا تو اس کی جگہ دوسرا نبی مبعوث ہو جاتا۔“
اس ”نظم و نسق“ کی مختلف اوقات میں چاہے بظاہر جو شکلیں بھی رہی ہوں، لیکن اتنی بات تو تسلیم ہی کرنی پڑے گی کہ ہر حال میں وہ حقیقتاً ایک حکومتی نظام ہی ہوتا تھا، البتہ اس کی معیاری اور مکمل شکل وہ تھی جو حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہما السلام کے دور میں پائی گئی۔ اس حدیث کے انداز بیان کو ذرا غور سے دیکھیے، اس سے صرف یہی نہیں معلوم ہوتا کہ ملت اسرائیل میں عموماً حکومتی نظم و نسق برابر قائم رہا کرتا اور براہ راست اس کے نبیوں کے فرائض میں داخل ہوا کرتا تھا، بلکہ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ کام ان انبیا کے مقصد بعثت تک میں شامل رہا کرتا تھا۔ یہ نکتہ، دین کی سیاست کی، اور اہل دین کے لیے حکومتی نظام کی ضرورت کو روشن سے روشن تر کر دیتا ہے۔
خلافت کے فرائض
جس شخص کا خلافت کے منصب پر تقرر ہوگا، اس کا کام حکمرانوں سے بہت وسیع اور بہت مختلف ہوگا۔ یہ منصب اول و آخر ایک شرعی منصب ہے اور شریعت نے اپنے مقاصد ہی کی خاطر اسے قائم کیا ہے۔ اس لیے خلیفہ کا فرض یہ ہوگا، اور صرف یہی ہوگا کہ وہ اس مقصد کو پورا کرے۔ یہ مقصد دو لفظوں میں اللہ کے دین کا قیام ہے۔ جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعدد ارشادات سے واضح ہوتا ہے مثلاً آپؐ فرماتے ہیں کہ:
”اگر کوئی ایسا غلام تمھارا امیر بنا دیا جائے جس کے اعضا کٹے ہوئے ہوں، لیکن وہ قانون الٰہی کے مطابق تمھاری سرداری کرے، تو اس کی سنو اور اطاعت کرو۔“
ایک اور موقع پر ارشاد ہوتا ہے کہ:
”یہ چیز (یعنی خلافت) قریش میں رہے گی۔ جو شخص اس معاملے میں ان کے خلاف محاذ آرائی کرے گا، اللہ تعالیٰ اسے منہ کے بل گرا دے گا، جب تک کہ وہ دین کو قائم رکھیں۔“
ان حدیثوں کے بعد اس حقیقت پر کوئی پردہ نہیں رہ جاتا کہ کوئی امیر عوام کی فرماں برداری کا، اور کوئی خلیفہ خلافت کے اقتدار کا واقعی حق دار اسی وقت تک باقی رہتا ہے جب تک کہ وہ شریعت کے قوانین اور مصالح کے تحت فرائض انجام دے، اور اللہ کے دین کو قائم رکھے۔ اور یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کسی منصب کا حق دار باقی رہنا جس چیز پر موقوف ہوا کرتا ہے، وہ صرف وہ فریضہ اور مقصد ہوتا ہے جس کی خاطر یہ منصب قائم کیا ہوتا ہے۔ اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ان ارشادات کا کھلا ہوا مطلب یہ ہوا کہ منصب خلافت کے قیام کی غرض و غایت، اور خلیفہ کا فرض منصبی صرف اقامت دین ہے۔
پھر حضرت ابو بکر صدیق کا یہ فقرہ بھی ہمارے سامنے آ چکا ہے کہ:
”آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے، اور اب اس دین کے لیے ایک ایسے شخص کی بہرحال ضرورت ہے جو اس کے (قیام و نفاذ) کا ذمہ دار ہو۔“
یہ فقرہ جو دراصل صرف حضرت ابو بکر صدیق ہی کا نہیں بلکہ پورے صحابہ کا نعرہ تھا، اس بات کا صریح اعلان ہے کہ خلیفہ کا وجود اگر مطلوب ہے تو صرف اللہ کے دین کو قائم رکھنے کے لیے۔ ان حقائق کی موجودگی میں علمائے کرام نے بجا طور پر ”امامت“ (یعنی خلافت) کی تعریف ان لفظوں میں کی ہے:
”امامت نام ہے دین کی اقامت کے معاملہ میں رسول خدا کی جانشینی کا۔“
”دین کی اقامت“ کا مفہوم اتنا ہی وسیع اور ہمہ گیر ہے جتنا کہ خود ”دین“ کا مفہوم۔ کتاب و سنت میں جتنے احکام ہیں، وہ سب کے سب ”دین“ ہیں۔ اس لیے دین کی اقامت کا مطلب یہ ہوا کہ مسلم معاشرے سے اس پورے مجموعے کے تحت زندگی بسر کرائی جائے۔ اس اجمال کی پوری تفصیل ظاہر ہے کہ بڑی طولانی ہوگی، جس کا نہ یہاں کوئی موقع ہے اور نہ کوئی ضرورت۔ البتہ اس بنیادی ضرورت کو معلوم کر لینے کے بعد اس کا ایک خاکہ سامنے آ جائے۔
اس غرض کے لیے اگر آپ ان اسباب و مصالح پر پھر سے نظر ڈال لیں جن کی بنا پر شریعت نے اس منصب کا قائم کرنا ضروری قرار دیا ہے، تو ان کلمات کا تعین کچھ اس طرح پر ہوگا:
اگر آپ چاہیں تو مزید نکات کے بھی نام لے سکتے ہیں۔ چنانچہ بعض علما نے فرائض خلافت کی تعداد زیادہ بتائی ہے۔ مگر حق یہ ہے کہ اس میں جن دوسری چیزوں کا نام لیا جا سکتا ہے وہ یا تو انہی آٹھوں میں سے کسی کے اندر شامل ہوں گی، یا پھر ان کی نوعیت بنیادی نکات کی نہ ہوگی۔
خلافت کے حقوق
خلافت یا خلیفہ مسلمین کے فرائض جتنے وسیع اور ہمہ گیر ہیں، اس کے حقوق بھی اتنے ہی عظیم ہیں۔ دنیا کی کوئی بھی دوسری حکومت اور حکمران شخصیت وہ حقوق نہیں رکھتی جو اسے حاصل ہوتے ہیں۔ ان حقوق کی تفصیل یہ ہے:
۱۔ اطاعت
سب سے پہلا حق تو یہ ہے کہ اس کے احکام مانے جائیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ:
”اے ایمان والو! اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی۔ نیز اپنے میں کے اصحاب امر کی۔“
اس آیت میں ”اصحاب امر“ کی اطاعت کا، جن میں خلیفہ مسلمین بدرجہا سرفہرست ہے، واضح حکم دیا گیا اور اسے اہل ایمان کے لیے ضروری ٹھہرایا گیا ہے۔ اس طرح کہ اللہ اور رسول کی اطاعت کے حکم کے پہلو ہی میں یہ حکم بھی ثبت کر دیا گیا ہے۔ اس انداز کلام کا جو تقاضا ہے وہ اہل نظر پر مخفی نہیں رہ سکتا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی تقاضے کی شرح فرمائی تھی جب یہ ارشاد ہوا تھا کہ:
”جس نے میری اطاعت کا حکم مانا، اس نے دراصل اللہ کا حکم مانا، اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے دراصل اللہ کی نافرمانی کی، اور جس نے اپنے امیر کا حکم مانا اس نے دراصل میرا حکم مانا، اور جس نے امیر کی نافرمانی کی اس نے دراصل میری نافرمانی کی۔“
جو اطاعت فی الواقع اللہ و رسول کی اطاعت بن جاتی ہو، وہ انفرادی اپنی مرضی اور سہولت پر موقوف نہیں رہ سکتی۔ اس کا تو حق ہوگا کہ اسے اختلاف کی آندھیوں سے یکسر بلند رکھا جائے۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا ہے۔ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:
”ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بلایا اور آپ سے ہم نے بیعت کی تو ان باتوں میں جن کا ہم سے آپ نے عہد لیا، یہ بات بھی شامل تھی کہ ہم ہر حال میں، چاہے ہمیں گوارا ہو یا ناگوار، ہم تنگی کے عالم میں ہوں یا کشادگی کے عالم میں، اپنے امرا کے احکام سنیں گے اور ان کی اطاعت کریں گے۔“
پھر صرف یہی نہیں کہ طبیعت کی ناگواری اور تنگی و پریشان حالی کے وقت بھی سمع و طاعت ایک مسلمان کا فرض ہے، بلکہ یہ فرض اس وقت بھی اپنی جگہ جوں کا توں برقرار رہتا ہے جب یہ حکم دینے والے بے کرداری کے شکار ہوں، اور حقوق کے مواقع پر انھیں اپنی ذات سب سے پہلے یاد آتی ہو۔ چنانچہ مذکورہ حدیث اطاعت میں آگے یہ الفاظ بھی آتے ہیں:
”اور اس وقت بھی ایسا ہی کریں گے، جب ہمارے خلاف ترجیح برتی جا رہی ہو۔“
اور بات اب بھی اپنی حد کو نہیں پہنچی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہوئے تو یہاں تک ہے کہ:
”تمھیں (امرا کے حکموں کو) سننا اور ماننا چاہیے۔ حتیٰ کہ اگر تمھاری پیٹھ ٹھوکی جائے اور تمھارا مال چھین لیا جائے تو بھی سنتے اور مانتے رہنا۔“
یہ، اور اسی طرح کی متعدد حدیثیں مسلمانوں کو تلقین کرتی ہیں کہ وہ اپنے خلاف سب کچھ جھیلتے رہیں، مگر سمع و طاعت کے دامن کو ہرگز نہ چھوڑیں۔ جب تک ایک شخص امارت یا خلافت کے منصب پر فائز ہے، اس کی اطاعت کا حق ناقابل انکار ہے، اور مسلمان کا فرض ہے کہ اس حق کو برابر تسلیم کرتا رہے۔ اس کی بے کرداری اور اس کی بے انصافی اور بے رحمی بھی اس کے اس حق کو ساقط نہیں کر سکتیں۔
یہ کتنی گہری اہمیت رکھتا ہے، اور اس کا انکار مسلمان کو کہاں پہنچا دیتا ہے؟ اس کا اندازہ ذیل کی حدیثوں سے لگایئے:
”جس نے اطاعت سے ہاتھ کھینچ لیا وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے سامنے اس حال میں حاضر ہوگا کہ اس کے پاس (اپنی روش کے حق ہونے پر) کوئی دلیل نہ ہوگی۔“
معلوم ہوا کہ امرا و خلفا کی اطاعت کا معاملہ ایسا نہیں ہے جو دنیا میں ختم ہو جاتا ہو، بلکہ ایسا ہے جو کل خدا کے حضور بھی پیش ہوگا، اور جب پیش ہوگا تو وہاں اس جرم کی صفائی میں کوئی بات نہ کہی جا سکے گی۔ آخری اور قطعی مجرم بننے کے لیے مجبور ہونا پڑے گا۔
ایک اور موقع پر ارشاد ہوتا ہے:
”جو کوئی اپنے امیر کے ہاتھوں کوئی ناگوار حرکت سرزد ہوتے دیکھے، اسے چاہیے کہ صبر کرے (اور اس کی وجہ سے اس کی اطاعت سے منہ موڑ لینے کی ہرگز نہ سوچے)، کیونکہ جو شخص بالشت بھر بھی جماعت سے الگ ہو رہے گا وہ جاہلیت کی حالت میں مرے گا۔“
یہ حدیث جہاں ایک طرف اس حقیقت پر ایک نئے انداز سے روشنی ڈالتی ہے جو پہلی حدیث سے معلوم ہوتی تھی، وہیں دوسری طرف یہ بھی بتادیتی ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ یہ کہتی ہے کہ خلیفہ مسلمین کی حیثیت اسلامی اجتماعیت اور ملی تنظیم کے نشان کی ہوتی ہے، اس لیے اس کی اطاعت سے انکار صرف ایک فرد کی اطاعت کا انکار نہیں ہوتا، بلکہ دراصل اس پوری اجتماعی تنظیم سے علیحدگی کا اعلان ہوتا ہے۔ اور یہ ایک ایسا خطرناک اقدام ہے جس کے بعد خود مسلمان ہونے کا دعویٰ بھی بے وزن ہو کر رہ جاتا ہے۔ آدمی اپنی تمام تر دین داریوں کے باوجود جب مرتا ہے تو ایک طرح کی جاہلی موت مرتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ گویا وہ کھلی جاہلیت کی موت مرتا ہے۔ چنانچہ یہ تنبیہ ہماری نظروں سے گزر بھی چکی ہے کہ:
”جو کوئی جماعت سے بالشت برابر بھی الگ ہو رہا اس نے اپنی گردن سے اسلام کا حلقہ نکال پھینکا، الا یہ کہ وہ جماعت کی طرف پھر لوٹ آئے۔“
۲۔ محبت
خلافت کا حق یہ بھی ہے کہ صاحب امر سے محبت رکھی جائے۔ جس طرح ظاہر میں اس کے احکام کی اطاعت ہو، اسی طرح دل میں بھی اس کی ذات کے لیے کچھ موجود ہو۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ:
”تمھارے اچھے خلفا وہ ہوں گے جن سے تم کو محبت ہو اور تم سے انھیں محبت ہو، اور جن کے لیے تم رحمت کی دعائیں کرو اور وہ تمھارے لیے کریں، اسی طرح تمھارے بُرے خلفا وہ ہوں گے جن سے تم بغض رکھو اور وہ تم سے بغض رکھیں، اور جن پر تم لعنت بھیجو اور وہ تم پر لعنت بھیجیں۔“
”اچھے خلفا وہ ہوں گے“ یعنی ایک خلیفہ کو ایسا ہی ہونا چاہیے۔ اس کی اصل پوزیشن یہی ہے کہ لوگ اس کے لیے بہترین جذبات رکھیں، اس کے دل سے خیر خواہ ہوں، اور ان کی نگاہوں سے اس کی محبت اور عقیدت ٹپکتی ہو۔ چنانچہ ایک اور حدیث میں اس رویے کو دین داری کا راست تقاضا قرار دیا گیا ہے:
”دین اخلاص مندی کا نام ہے۔ ہم نے (یعنی صحابہ نے) پوچھا: کس کے لیے اخلاص مندی کا؟“ ارشاد ہوا: ”اللہ کے رسول کے لیے، مسلمانوں کے خلفا کے لیے، اور عام مسلمانوں کے لیے۔“
یہی وجہ ہے کہ خلافت کی بیعت کو صرف ایک ظاہری اور رسمی اظہار وفاداری نہیں کہا گیا ہے، بلکہ ”بیعت قلب“ دے دینے سے تعبیر کیا گیا ہے:
”جس نے خلیفہ سے بیعت کر لی، اس کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے دیا اور اپنی متاع قلب اس کے حوالے کر دی، اسے چاہیے کہ اپنے بس بھر اس کی پوری پوری اطاعت کرتا رہے۔“
گویا خلیفہ مسلمین سے بیعت، عہد اخلاص و محبت بھی ہے۔
۳۔ بیعت برائے دین و آخرت
خلافت کا تیسرا حق یہ ہے کہ اسے دنیا کی نہیں بلکہ دین کی ضرورت سمجھا جائے، اور خلیفہ سے جو بیعت کی جائے، اس کے پیچھے محض محرک صرف آخرت اور رضائے الٰہی ہو۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ:
”تین آدمیوں سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن (بوجہ ناراضی) مخاطبت نہ فرمائے گا ... ایک اس شخص سے جس نے خلیفہ سے بیعت صرف دنیوی غرض سے کی ہو۔“
اس سے معلوم ہوا کہ خلیفہ مسلمین کی بیعت یا اطاعت سے انکاری ایک مسلمان کے لیے ناروا اور مہلک نہیں ہے، بلکہ وہ نام نہاد بیعت اور اطاعت بھی ایسی ہی ثابت ہوگی جو محض دنیوی مصلحتوں کی خاطر کی گئی۔ صحیح ہے کہ دنیا میں عام طور سے حکومتوں کی وفاداریاں اسی طرح کی ہوا کرتی ہیں، اور یہی ان کے لیے بس بھی ہیں۔ مگر اسلام کا معاملہ بہت مختلف ہے۔ جس چیز کو دوسری حکومتیں اپنا آخری مطلوب سمجھتی ہیں، اسلام کی نگاہ میں اس کی کوئی حیثیت نہیں، اس کے نزدیک یہ اطاعت اور یہ بیعت اسی وقت باوزن اور قابل قدر ہوگی جب وہ دین کی ضرورت سمجھ کر اور اللہ کی رضا کی خاطر کی گئی ہو۔
خلافت اور خلیفہ کی غیر معمولی حیثیت
خلافت کا دین سے گہرا تعلق اور اس کے حقوق و فرائض کی اہمیت پچھلے مباحث میں واضح کی جا چکی ہے۔ منصبِ خلافت کا حق اسی لیے ہے کہ خلافت کی حیثیت بنیادی طور پر ایک دینی منصب کی ہے۔ چنانچہ واضح دلائل کی روشنی میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ خلافت ایک اہم ترین دینی ضرورت ہے، اور اس کا قیام شرعاً واجب ہے۔ ظاہر ہے کہ جو منصب بنیادی طور پر ایک دینی منصب ہو اس کا ماننا اور نہ ماننا وقتی یا ثانوی نہیں ہو سکتا۔ جب اسے دینی منصب سمجھ کر مانا گیا ہو، ورنہ اس کا ماننا ایک کھلا ہوا فریب ہوگا۔ آخر جس چیز کی اصل بنیادی حیثیت ہی کسی کو تسلیم نہ ہو، وہ اس کے تسلیم کرنے کا دعویٰ اگر کرتا ہے تو اس کے دعوے کو کون سچ باور کر سکتا ہے؟ رہا محبت اور اطاعت کا حق جو خلافت سے حاصل ہوتا، تو یہ بات بھی بڑی آسانی سے سمجھ میں آ جاتی ہے۔ جو منصب دین ہی کی خاطر قائم کی گئی ہو اور جس کی حیثیت سراسر شرعی ہو، اسے ایک مسلمان فطری طور پر محبت اور عقیدت ہی کی نظروں سے دیکھے گا، اور اس کے ساتھ اس کا عملی رویہ طاعت و فرماں برداری ہی کا ہوگا۔ یہی اس کے ایمان کا تقاضا ہوگا اور اسی میں اس کے جذبہ دینی کو آسودگی مل سکے گی۔ خصوصاً اطاعت تو اس کے دین و ایمان کا راست اور بدیہی مطالبہ ہوگی۔ کیونکہ اس کے بغیر خلافت کا وجود ہی بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے۔ آخر جہاں لوگ اطاعت کے لیے تیار ہی نہ ہوں وہاں کسی حکومت اور امارت کا کیا مفہوم باقی رہ جائے گا؟ لوگوں کا اطاعت سے انکار تو عملاً نظام حکومت کے ختم ہو جانے کا واضح اعلان ہے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ آپ دیکھتے ہیں کہ خلفا کی اطاعت پر اتنا زور دیا گیا، اور امکان کی آخری حد تک اس کے فرض کیے جانے کا حکم دیا گیا ہے۔ یہ اس وقت بھی فرض ہی رہتا ہے جب رعایا کو ذاتی مشکلات کا سامنا ہو، اور اس وقت بھی اس حق اطاعت کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا جب جان و مال تک کی امان باقی نہ رہ گئی ہو۔ اسلام کے آئین میں یہ دفعہ صرف اس لیے ثبت کی گئی ہے کہ خلیفہ مسلمین کی اطاعت کا معاملہ فی الواقع اس کی ذات کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ احکام خدا اور رسول کی اطاعت کا، اور دین کے اجتماعی نظام کی بقا کا معاملہ ہے۔ اس لیے وہ اپنی ذات میں ناقص اور بے کردار سہی مگر جب تک وہ خلافت کے منصب پر فائز ہے اس کی فرماں روائی سے اس نظام کا عملی نفاذ وابستہ ہے، اسی پر دین کے ایک بڑے حصے کی پیروی موقوف ہے، اور اس کے بغیر مسلمانوں کی اجتماعی زندگی اسلامی بن ہی نہیں سکتی۔ یوں کہیے کہ وہ اس زمین پر دراصل اللہ تعالیٰ کی تشریعی حاکمیت کا عملی مظہر، اور اس کے اقتدار کا ظاہری نشان ہوتا ہے، کوئی شک نہیں کہ مسلمان سب کچھ گنوا، اور ہر بات گوارا کر لے مگر اس مظہر کو غائب اور اس نشان کو مٹتا ہوا نہیں دیکھ سکتا۔ وہ یہ برداشت کر لے گا کہ اسلام کے جسم میں کسی مسلم کو سلامتی میسر نہ ہو، لیکن یہ کبھی برداشت نہ کرے گا کہ اسلام کا یہ گڑھ ڈھ جائے اور دین کے اجتماعی نظام سے وہ محروم ہو رہے، اور اگر کوئی اسے برداشت کرنے کے لیے تیار ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس کے ایمان کی نبضیں چھوٹ چکی ہیں۔ کیونکہ وہ اپنی دنیا کے مفاد کو ہی نظام کی بقا پر کلی ترجیح دے رہا ہے، اور یہ ایک ایسی بات ہے جو ایمان و اسلام کے ساتھ کبھی بھی نہیں ہو سکتی۔
اطاعت کی حدود
یہی مسلمہ حقیقت جس کی خاطر اصحاب امر کی اطاعت پر اتنا زور دیا گیا ہے، یہ تقاضا بھی کرتی ہے کہ اطاعت غیر معمولی حد تک ضروری تو ہو، مگر ہر حال میں ضروری نہ ہو، بلکہ ایک خاص حد کے بعد الٹا اس کا انکار ضروری بن جائے۔ کیونکہ ایک مسلمان اپنے حکمران کی اطاعت جو کچھ بھی گوارا کرتا ہے، وہ صرف اسی لیے تو کرتا ہے کہ اس نظام پر ضرب نہ لگ پائے جس پر اجتماعی زندگی میں اس کا مسلمانی باقی رہنا موقوف ہے۔ لیکن اگر خدا نخواستہ مطالبہ کسی ایسی اطاعت کا، یعنی کسی ایسی بات کے صرف گوارا کر لینے کا نہیں بلکہ اس کے کر ڈالنے کا ہو، یا جس سے خود اس نظام کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہو، تو یقیناً وہ اسی بات کی مستحق ہوگی کہ اسے دیوار پر دے مارا جائے۔ چنانچہ شریعت نے جس صراحت اور زور کے ساتھ اطاعت امر کی تلقین کی ہے، اسی صراحت اور زور کے ساتھ یہ بھی فرما رکھا ہے کہ یہ اطاعت غیر مشروط ہرگز نہیں ہے بلکہ قطعی مشروط ہے، اور ایک خاص حد کے اندر ہی کی جانی چاہیے۔ اس شرط اور حد کا تعین اس نے منفی جہت سے لفظ ”معصیت“ کے ذریعے سے اور مثبت جہت سے لفظ ”معروف“ کے ذریعے سے کیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے کہ:
”اللہ کی معصیت کے کام میں کسی کی اطاعت نہیں، اطاعت صرف معروف میں ہوگی۔“
یعنی اطاعت کی شرط یہ ہے کہ حکم کسی معروف کا دیا گیا ہو، نہ کہ کسی معصیت کا۔ معصیت کا حکم لازماً ٹھکرا دیا جائے گا اور اس کی تعمیل میں بلکہ عدول ضروری ہوگا۔ ٹھیک وہی ضروری جیسی کہ معروف کے حکم کے موقع پر اس کی تعمیل ضروری ہوتی ہے۔ امام نووی لکھتے ہیں:
”علما کا اس بات پر اجماع ہے کہ اصحاب امر کی اطاعت ایسے کاموں میں جو معصیت کے نہ ہوں واجب ہے، اور ایسے کاموں میں جو معصیت کے ہوں، حرام ہے۔“
معصیت کے کاموں میں کسی بھی صاحب امر کی اطاعت کس حد تک ممنوع اور کیسی حرام ہے؟ اس بات کا اندازہ ایک واقعہ سے لگایئے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک انصاری کی سرکردگی میں جہاد کے لیے ایک دستہ روانہ فرمایا، اور حسب دستوراً اسے ہدایت دے دی کہ اپنے امیر کی اطاعت کرتے رہنا۔ دوران سفر میں ایک بار وہ ان سے کسی بات پر ناراض ہو گئے اور انتہائی غصے کے عالم میں انھیں حکم دیا کہ لکڑیاں اکٹھی کریں۔ جب لکڑیاں اکٹھی کی جا چکیں تو کہا، ان لکڑیوں کو آگ دے دو۔ جب آگ دے دی گئی تو انھیں مخاطب کر کے فرمایا:
”کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمھیں اس بات کی تاکید نہیں فرمائی ہے کہ میری سننا اور اطاعت کرنا۔“
لوگوں نے جواب دیا: ”ہاں!، فرماں برداری۔“
اس پر انہوں نے کہا: ”اچھا تو اس آگ میں پھاند پڑو۔“
یہ سن کر لوگ ایک دوسرے کی طرف تکنے لگے، اور کچھ لوگ اس حکم کی تعمیل پر تیار بھی ہو گئے۔ مگر اور لوگوں نے کہا:
”ہم تو آگ ہی سے بچنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بھاگ کر آئے تھے (پھر اب یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اس میں خود دھا جائیں؟)“
غرض تھوڑی دیر بحث و تکرار اور کش و پنج کی یہی حالت رہی۔ اس دوران میں امیر لشکر کا غصہ بھی ٹھنڈا پڑ گیا، اور آگ بھی بجھ گئی۔ پھر جب یہ سب لوگ اپنی مہم سے فارغ ہو کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچے تو وہاں یہ پورا واقعہ بیان کیا گیا۔ آپ نے سننے کے بعد ان لوگوں کو مخاطب کر کے، جو حکم امیر کی اطاعت میں آگ کے اندر پھاند پڑنے پر آمادہ ہو گئے تھے، فرمایا:
”اگر تم آگ میں پھاند پڑے ہوتے تو پھر قیامت تک اسی میں پڑے رہتے۔“ (مسلم، جلد دوم، کتاب الامارۃ)
اس واقعہ اور اس ارشاد نبوی سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اس وقت بھی حرام رہتی ہے جب کہ وہ کسی امیر کے کہنے پر کی گئی ہو، اور ٹھیک ویسی ہی حرام رہتی ہے جیسے کسی اور وقت ہوتی ہے۔ طاعت امر کا فلسفہ اسے ہرگز قابل معافی نہیں بنا دے سکتا۔
جس ”معروف“ میں امرا کی اطاعت ضروری ہے، اس کی وسعتیں کہاں تک پہنچتی ہیں؟ اس کی وضاحت بھی اسی لفظ ”معصیت“ سے ہو جاتی ہے۔ جو مسئلہ اطاعت کے منفی پہلو کو بیان کرنے کے لیے مذکورہ بالا حدیث اور دوسری بہت سی حدیثوں میں پایا گیا ہے۔ جب یہ فرما دیا گیا کہ ”معصیت“ کے کاموں میں کسی کی اطاعت نہیں، اطاعت تو صرف معروف میں ہوتی ہے، تو اس کا صاف معنی یہ ہیں کہ جن احکام کی تعمیل میں اللہ تعالیٰ کی معصیت لازم نہ آ رہی ہو وہ سب کے سب ”معروف“ کے احکام ہوں گے، اور ان کی بجا آوری واجب ہوگی۔ گویا وہ سارے امور جن کی نوعیت امور تدبیر کی ہوتی ہے اور جن میں مختلف پہلوؤں کے پیش نظر ایک سے زائد آراء ہو سکتی ہیں، ”معروف“ ہی کی حدود میں داخل ہیں۔ یعنی ایسے امور میں صاحب امر کے احکام کی معقولیت سے کسی شخص کو چاہے کتنا ہی شدید اختلاف کیوں نہ ہو، اور اپنی رائے کے صائب ہونے پر کتنا ہی گہرا اطمینان وہ کیوں نہ رکھتا ہو، ان احکام کو اسے تسلیم کرنا ہی پڑے گا، اور یہ اس کا شرعی فریضہ ہوگا۔ کیونکہ اس طرح کا ہر حکم ”معروف“ کا حکم ہے، اور ”معروف“ میں امیر کی اطاعت ایک مسلمان کے لیے ضروری ہے۔ یہ ممکن ہے کہ ایک شخص کا اپنی رائے کے صائب ہونے پر جو اطمینان ہو وہ بالکل صحیح بنیادوں پر ہو، اور رائے فی الواقع ایسی ہی ٹھیک ہو، مگر اس کے باوجود اسے حق ہرگز حاصل نہ ہوگا کہ وہ امیر پر کم اندیشی اور بے تدبیری کا الزام لگا کر اطاعت سے انکار کر دے۔ یہاں اسے اپنی رائے یا صواب دید کو ترجیح دینے کا حق نہیں، نہ ہی اس کی اپنی دور اندیشی اور صوابِ رائے کا یقین اسے یہ حق دیتا ہے۔ یہ حق اسے صرف اسی وقت مل سکتا ہے جب کہ حکم ”معروف“ کا نہیں، بلکہ اللہ کی ”معصیت“ کا دیا گیا ہو۔ ایسی حالت میں تو اس کا یہ حق ہی نہیں بلکہ فرض ہوگا کہ اس کی اطاعت سے صاف انکار کر دے۔
خلفا کی معزولی
خلفا اور امرا کی اطاعت کے بارے میں شریعت کی ان مختلف ہدایتوں کو پڑھتے ہوئے ذہن میں لازماً یہ سوال اٹھ کھڑا ہوتا ہے کہ اصحاب امر کی ممکنہ بے کرداریوں اور زیادتیوں کے تقاضے آیا صرف یہی کچھ ہیں جو ابھی بیان ہوئے، یا ان کے علاوہ بھی کچھ ہیں؟ کیا شریعت کی ہدایت صرف یہی حد تک محدود ہے کہ اگر یہ لوگ ظلم و بربریت پر اتر آئیں تو اسے صبر سے برداشت کیا جاتا رہے، حتی کہ معصیت کا حکم دیں تب تو اس کی تعمیل نہ کی جائے، لیکن باقی معاملات میں ان کی اطاعت سے پھر بھی انکار نہ کیا جائے، یا اس کے آگے بھی اس نے کچھ فرمایا ہے؟ واضح تر لفظوں میں یہ کہ کیا بے کرداریوں اور زیادتیوں کی کسی حد میں داخل ہو جانے کے بعد سرے سے امارت اور خلافت کا استحقاق بھی ختم ہو جاتا ہے یا نہیں؟ اور کیا فکر و عمل کا کوئی ایسا بگاڑ بھی ہے جس میں مبتلا ہو جانا منصب خلافت سے معزول کر دیے جانے کا سبب بن جاتا ہے؟
اس سوال کا جواب شریعت نے اثبات میں دیا ہے۔ جسے سمجھنے کے لیے ہمیں ذرا تفصیل میں جانا ہوگا۔ یعنی پہلے اصولی طور پر اس بات کا جائزہ لینا ہوگا کہ خلفا کو فکر و عمل میں بگاڑ کس کس نوعیت کا پیدا ہو سکتا ہے؟ یہ جائزہ سامنے آنے پر ہی ان صورتوں کا واضح تعین ہو سکے گا جن کے پیش آ جانے کے بعد کوئی شخص خلافت کا استحقاق کھو دیتا ہے۔ اس جائزے کے لیے اگر آپ گہری نظر سے کام لیں گے تو معلوم ہوگا کہ فکر و عمل کا یہ بگاڑ ذیل چھ نوعیتیں اختیار کر سکتا ہے:
جہاں تک پہلے دو قسم کے بگاڑوں کا تعلق ہے، ان کے بارے میں شریعت کی ہدایت اوپر وضاحت سے بیان کی جا چکی ہے۔ اور وہ یہ کہ ان خرابیوں کے باوجود متعلقہ شخص کی امارت کو چیلنج نہ کیا جائے گا، اور معروف میں اس کی اطاعت بدستور لازم رہے گی۔
تیسری نوعیت کے بگاڑ کا بھی یہی حکم ہے، یعنی اصحاب امر کی فاسقانہ حرکتوں سے تو مسلمان سخت بیزار رہے گا، اور ضروری ہے کہ بیزار رہے، لیکن ان کی امارت کو بدستور تسلیم کرتے رہنے سے انکار نہ کر سکے گا، اور معروف میں ان کی اطاعت سے دست کشی اس کے لیے جائز نہ ہوگی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
”سن رکھو! جن لوگوں کے اوپر کوئی حاکم مقرر کیا گیا ہو، اور وہ اسے ایسی حرکتیں سرزد ہوتے دیکھیں جو معصیت کی حرکتیں ہوں، تو انھیں چاہیے کہ اس کی ان حرکتوں سے نفرت اور ناگواری رکھیں، لیکن ساتھ ہی اس کی اطاعت سے دست کشی ہرگز نہ اختیار کریں۔“
چنانچہ اس بارے میں علما کا موقف ہے کہ مرتکب گناہ کبیرہ سے خلافت معزول نہیں ہو جایا کرتی، اور محض اس فسق کی بنا پر اس کے خلاف بغاوت کرنا صحیح نہیں، بلکہ حرام ہے۔ (شرح مسلم، جلد ۲، کتاب الامارۃ)
اب چوتھی نوعیت کو لیجیے۔ اس قسم کے بگاڑ میں اگر صاحب امر مبتلا ہو جائے تو اس کے ساتھ مسلمان کس طرح پیش آئیں؟ آیا وہ اب بھی اس خلافت اور امارت کو تسلیم کرتے رہیں اور ”معروف“ میں اس کی اطاعت کو اپنے لیے لازم سمجھیں، یا کوئی اور رویہ اختیار کریں؟ اس سوال کا جواب آپ کو ان حدیثوں سے ملے گا:
”تم پر امرا مقرر ہوں گے، جن کی کچھ باتوں کو تم پسندیدہ اور اچھی پاؤ گے اور کچھ کو ناپسندیدہ اور بری۔ (صحابہؓ نے) پوچھا: ”تو کیا اے اللہ کے رسول! ایسی حالت میں ہم ان سے جنگ نہ کریں؟“ فرمایا: ”جب تک وہ نماز پڑھیں (اور اس کے تارک نہ بنیں) ایسا نہ کرنا۔“
”اور تمھارے بُرے سے بُرے خلفا وہ ہوں گے جن سے تم بغض رکھو اور وہ تم سے بغض رکھیں۔ پوچھا گیا: ”اے اللہ کے رسول! تو کیا ہم ایسے خلفا کے ساتھ تلوار کا معاملہ نہ کریں؟“ ارشاد ہوا: ”نہیں، جب تک وہ تمھارے اندر نماز قائم کرتے رہیں ایسا نہ کرنا۔“
ان حدیثوں سے نماز کی حد تک تو جو اسلام کے مکمل ارکان میں سے سب سے پہلا اور سب سے اہم رکن ہے، بالکل صاف ہو جاتی ہے۔ یعنی کہ جو شخص نماز چھوڑ بیٹھے وہ مسلمانوں کا نہ کوئی چھوٹا حاکم رہ سکتا ہے نہ بڑا۔ اس کی امارت برقرار رہ سکتی ہے نہ امامت اور خلافت۔ اس نے جہاں نماز سے قطعی بے اعتنائی اختیار کی، مسلمانوں کو اس بات کا حق مل جائے گا، یا ان پر یہ ذمہ داری عائد ہو جائے گی کہ اسے معزول کر دیں، اور اگر وہ منصب چھوڑنے سے انکار کرے تو تلوار کی نوک سے ہٹا کر دم لیں۔ چنانچہ قاضی عیاض فرماتے ہیں کہ اس بارے میں علما کا اجماع ہے:
”علما کا اس بات پر اجماع ہے کہ کوئی کافر خلیفہ نہیں بنایا جا سکتا، اور اگر خلیفہ منتخب ہونے کے بعد متعلقہ شخص بھی مبتلائے کفر ہو جائے تو خلافت سے فوراً معزول ہو جائے گا، اور ایسا ہی اس وقت بھی ہوگا جب وہ نماز کا قائم کرنا اور دوسروں کو اس کی تلقین دینا ترک کر بیٹھے۔“
اب رہ گئی باقی ارکان کا معاملہ، تو ان کے سلسلے میں ہمیں اس طرح کی کوئی واضح ہدایت کتاب و سنت کے اندر نہیں ملتی جیسی کہ نماز کے سلسلے میں ملتی ہے۔ البتہ بعض اصولی قسم کے ارشادات ایسے ضرور ملتے ہیں، جن سے اس بارے میں رہنمائی حاصل کی جا سکتی ہے۔ مثلاً عبادۃ بن صامت روایت کرتے ہیں کہ:
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے بلا کر بیعت لی۔ اس بیعت میں آپ نے ہم سے جن باتوں کا عہد لیا ان میں یہ باتیں داخل تھیں: کہ ہم (امرا کے احکام) سنیں گے اور ان کی اطاعت کریں گے ... اور یہ کہ صاحب حکومت سے اقتدار حکومت کے بارے میں کش مکش نہ کریں گے، سوائے اس وقت کے کہ ہم اس سے کھلا ہوا کفر دیکھ لیں جس کے کفر ہونے پر ہمارے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے واضح دلیل موجود ہو۔“
اس حدیث میں صاحب حکومت کے خلاف قدم اٹھانے کی اجازت دینے سے شریعت کا صرف اس وقت تک انکار ثابت ہوتا ہے جب تک کہ اس سے ”کھلا ہوا کفر“ صادر نہ ہو۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس سے جہاں ”کھلا ہوا کفر“ صادر ہوتے دیکھا گیا اس کا استحقاق خلافت ختم ہوگیا۔ یہاں ایک بات قابل غور اور وضاحت طلب ہے، اور وہ یہ کہ یہاں ”کفر“ سے مراد کیا ہے؟ کیا اس سے مراد صرف اعتقادی کفر ہے، یا اس میں عملی کفر بھی شامل ہے؟ اگر اس حدیث کے منشا پر غور کرتے وقت ان دونوں حدیثوں کو بھی سامنے رکھ لیا جائے جو نماز کے سلسلے میں ابھی درج کی جا چکی ہیں، تو دوسری بات ہی قرین قیاس معلوم ہوگی۔ کیونکہ ان حدیثوں میں مسئلہ ایک ہی بیان کیا گیا ہے، اور وہ یہ کہ وہ کون سی حالت ہے جس کے پیدا ہو جانے کے بعد منصب خلافت کا استحقاق چھن جاتا ہے؟ اس ”حالت“ کو پہلی دونوں حدیثوں میں ترک نماز کی حالت فرمایا گیا ہے، جب کہ اس آخری حدیث میں اس کے اظہار و بیان کے لیے ”کھلے ہوئے کفر“ (کفر بواح) کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب ایک ہی حالت کی تعیین و توضیح کے لیے مختلف مواقع پر مختلف الفاظ لائے جائیں تو وہ صرف ظاہراً مختلف ہوں گے، معناً مختلف نہ ہوں گے۔ اور اگر ان میں معنی کا کوئی اختلاف ہوگا بھی تو وہ صرف بنیادی شکل کا ہوگا، نہ کہ اصل اور بنیاد کا۔ اس لیے تسلیم کرنا پڑے گا کہ آخری حدیث میں ”کفر بواح“ سے مراد اعتقادی کفر کے علاوہ عملی کفر بھی ہے۔ پھر چونکہ نماز پڑھنا ایک عمل ہے، عقیدہ نہیں ہے، اس لیے نماز کا قائم کرنا ترک ”فعل“ کا ترک ہے، کسی ”عقیدے“ کا ترک نہیں۔ ایسی شکل میں ترک نماز کو بھی ”کفر بواح“ کہنا اس بات کی قطعی دلیل ہے کہ یہاں کفر سے مراد کفر عملی بھی ہے۔ ثانیاً یہی وجہ ہے کہ اس ”کفر بواح“ کے لیے إِلَّا أَنْ تَسْمَعُوا (الا کہ تم سنو) یا إِلَّا أَنْ تُعَلِّمُوا (الا کہ تمہیں معلوم ہو) کے بجائے إِلَّا أَنْ تَرَوْا (الا کہ تم دیکھو) کے الفاظ ارشاد ہوئے ہیں۔ تاکہ اس میں عملی کفر کا موجود ہونا پوری طرح نمایاں رہے۔
جب یہ بات واضح ہو چکی کہ اس حدیث میں ”کفر“ سے مراد کفر عملی بھی ہے، تو اب غور کرنے کی بات صرف یہ رہ جاتی ہے کہ صرف نماز ہی ایک ایسا عمل ہے جسے چھوڑ بیٹھنے کو عملی کفر کہا جا سکتا ہے، یا دوسرے ارکان دین کو بھی یہی حیثیت حاصل ہے؟ اس مسئلے میں دونوں ہی رائیں ہو سکتی ہیں، یہاں کسی ایک رائے کو حتمی نہیں کہا جا سکتا۔ ایک رائے یہ ہے کہ قرآن اور حدیث سے دیگر اعمال کے چھوڑ بیٹھنے کو بھی عملی کفر سمجھا جا سکتا ہے، اور سمجھا گیا ہے۔ دوسری رائے یہ ہے کہ جس صراحت کے ساتھ نماز کو کفر کی حد فاصل اور عملی کفر ٹھہرایا گیا ہے، اتنی صراحت کسی اور رکن دین کے بارے میں قرآن یا حدیث کے اندر نظر نہیں آتی۔
اب پانچویں نوعیت کے بگاڑ کو لیجیے، مملکت کے اسلامی کردار کا تحفظ نہ کرنے والے اور اس کے آئین و قوانین میں غیر اسلامی عناصر داخل کرنے والے خلیفہ کے ساتھ کیا برتاؤ ہونا چاہیے، اس بات کا فیصلہ بنیادی طور پر یہ آیت کرتی ہے:
”جو لوگ اللہ کے نازل کیے ہوئے قوانین کے مطابق معاملات کا فیصلہ نہیں کرتے سو وہی کافر ہیں۔“
قرآن مجید کی یہ آیت صراحت کرتی ہے کہ اسلامی قوانین کو چھوڑ کر غیر اسلامی قوانین کے مطابق فیصلے نہ کرنا عملی کفر ہے۔ غور کیجیے، اگر اسلامی قوانین کے مطابق فیصلے نہ کرنا عملی کفر ہے تو مملکت کے آئین کو یا اس کے مجموعہ قوانین کے کسی حصے کو غیر اسلامی اصول و قوانین سے بدل کر رکھ دینا کیا کچھ نہ ہوگا؟ کوئی شک نہیں کہ اگر وہ عملی کفر ہے تو یہ شدید ترین عملی کفر ہوگا۔ عملی کفر کا استحقاق خلافت کے معاملے پر جو اثر پڑتا ہے، اسے ہم ابھی جان چکے ہیں، اور وہ یہ کہ اس سے استحقاق باقی نہیں رہ جاتا۔ اس لیے اس بگاڑ میں مبتلا ہو جانے والے کے بارے میں شریعت کا فیصلہ اس کے سوا اور کچھ ہوتا ہی نہیں کہ ایسے صاحب امر کو امارت کی مسند سے اٹھا کر پھینک دیا جائے۔ جیسا کہ قاضی عیاض فرماتے ہیں کہ:
”پس اگر خلیفہ کفر میں مبتلا ہو جائے، یا احکام شریعت کو بدل ڈالے، یا بدعت اختیار کر لے تو حکومت کرنے کا سزاوار نہیں رہ جاتا، اور مسلمانوں پر اس کی اطاعت کا فرض ساقط ہو جاتا ہے، اور ضروری ہو جاتا ہے کہ اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں، اسے معزول کر دیں، اور اس کی جگہ کسی اور عادل شخص کو مقرر کر لیں، اگر ان کے بس میں ہو۔“
امام نووی قاضی صاحب کے ان لفظوں کو نقل کرنے کے بعد - اور اس نقل کرنے کے معنی یہ ہیں کہ موصوف کی رائے بھی یہی ہے - مذکورہ بالا حدیثوں کی شرح کرتے ہوئے ”لَا مَا صَلُّوا“ اور ”لَا مَا أَقَامُوا فِيكُمُ الصَّلَاةَ“ کا مفہوم وہ ان لفظوں میں بیان کرتے ہیں:
”اس میں بھی وہی حقیقت بیان ہوئی ہے جو اوپر مذکور ہو چکی۔ یعنی کہ خلفا جب تک اسلام کے بنیادی اور قطعی احکام میں کوئی تبدیلی پیدا کرنے کی جسارت نہ کریں اس وقت تک ان کے محض ظلم اور فسق کی بنا پر ان کے خلاف بغاوت کرنا جائز نہ ہوگا۔“
ان توضیحات سے یہ بات پوری طرح روشن ہو جاتی ہے کہ اسلامی قوانین کو اگر کوئی خلیفہ غیر اسلامی قوانین سے کسی حد میں بھی بدل دیتا ہے تو اس کے بعد اسے بھی معزول کر دیا جانا چاہیے۔
اب آخری اور چھٹی نوعیت کے بگاڑ کے متعلق کچھ کہنا بالکل غیر ضروری ہوگا۔ جب ”عملی کفر“ ہی خلافت سے معزولی کو ضروری ٹھہرا دیتا ہے تو ”اعتقادی کفر“ کے بعد اس میں کسی تامل کی گنجائش ہی کہاں رہ سکتی ہے؟ اسلام اور ایمان تو استحقاق خلافت کی سب سے پہلی، سب سے ضروری اور ہر طرح سے متفق علیہ شرط ہے۔ اگر کوئی شخص اس شرط پر پورا نہیں اترتا تو اس کے خلیفہ ہوتے یا خلیفہ باقی رہنے کا سوال قطعاً خارج از بحث ہی نہیں۔ بلکہ خارج از گمان بھی ہے۔ چنانچہ علما نے پورے اتفاق رائے سے فرمایا ہے کہ مسلمان ایسے شخص کو خلافت کے اقتدار پر قابض کسی حال میں بھی نہیں دیکھ سکتے جس نے کفر کا ارتکاب کیا ہو۔ حافظ ابن حجر لکھتے ہیں کہ:
”خلیفہ کفر اختیار کر لینے پر خلافت سے معزول ہو جاتا ہے، اس پر اجماع ہے۔ اس لیے ہر مسلمان پر واجب ہے کہ (جب ایسی صورت پیش آئے تو) اس کام کے لیے اٹھ کھڑا ہو۔ جو لوگ اپنے اس فریضے کو انجام دیں گے انھیں ثواب ملے گا، جو مداہنت برتیں گے وہ گناہ گار ٹھہریں گے، اور جو (ارادے اور کوشش کے باوجود اس میں شریک ہونے سے) مجبور ہوں گے ان کے لیے ضروری ہوگا کہ اس زمین سے ہجرت کر جائیں۔“
ان تفصیلات سے معلوم ہوا کہ اعمال و عقائد کے بگاڑ کو پرکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ممکنہ صورتوں میں سے پہلی تین کے اندر خلیفہ کے حق خلافت کو چیلنج کرنے کی شرعاً ممانعت ہے۔ اور آخری تین صورتوں میں اسے معزول کر دینے کی ہدایت ہے۔ اس ممانعت کے معنی یہ ہرگز نہیں کہ خلفا اور امرا کے ظلم، فسق اور ہر عمل معصیت کو خاموشی کے ساتھ برداشت کیا جائے۔ بلکہ حقیقت اس سے بہت کچھ مختلف ہے۔ شریعت نے اگر ان خرابیوں کے پردے کے پیچھے کے لیے نہ چھیڑنے کا حکم فرمایا ہے، تو ساتھ ہی اس بات کی بھی بڑی سختی سے تلقین کی ہے کہ جب بھی اہل حکومت کی طرف سے اس طرح کی کوئی ناپسندیدہ حرکت سرزد کی جائے، ان کی اصلاح کی پوری پوری کوشش کی جائے، ان کے سامنے حق بات کہی جائے اور انھیں راہ راست پر لانے کی ہر وہ جد و جہد اختیار کی جائے جو پر امن اور اصلاحی جد و جہد کے دائرے میں رہ کر ممکن ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد رگ رگ میں رچ جانا چاہیے: ”وَعَلَى أَنَّ نَقُولَ بِالْحَقِّ أَيْنَمَا كُنَّا لَا نَخَافُ فِي اللَّهِ لَوْمَةَ لَائِمٍ.“
معزولی کی شرائط اور اسباب
یہ بات کہ بگاڑ کی کن صورتوں میں امام کی معزولی ضروری ہو جاتی ہے، غالباً کسی بحث اور دلیل کی محتاج نہیں۔ جیسا کہ اوپر کی سطروں میں بتایا جا چکا ہے، اسلام اور اہل اسلام کو حکومت کا نظام بجائے خود مطلوب نہیں ہے، بلکہ بعض اہم مصالح اور عظیم مقاصد کے حاصل کرنے کا محض ایک لازمی ذریعہ ہے، اور ان مصالح و مقاصد میں سے بھی اولین اور بنیادی اہمیت شرعی قوانین کے نفاذ کو حاصل ہے۔ اب اگر کسی حکومت کا سر براہ خود استحقاق اسلام ہی سے برگشتہ ہو جاتا ہے تو اس سے عام نظم و نسق کے چلانے کی توقع تو ضرور باقی رہ سکتی ہے، لیکن یہ توقع خواب و خیال میں بھی نہیں کی جا سکتی کہ وہ اپنے اختیار و اقتدار کو، اپنی فکری اور عملی قوت کو، اپنی منصبی کارکردگی کو اس مطلوب کے حاصل کرنے میں صرف کرے گا جسے اسلام اپنے نظام حکومت کے قیام کی بنیادی غایت قرار دیتا ہے۔ اس کے بخلاف پورے یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ وہ اپنی ساری طاقت اس کے خلاف ہی استعمال کرے گا۔ اس لیے کوئی شک نہیں کہ اس کے ہاتھوں سے زمام خلافت کا چھین لینا عین منشائے اسلام ہوگا۔ کچھ ایسی ہی صورت حال باقی دونوں صورتوں میں بھی پیش آ سکتی ہے۔ اور اہم ترین حد تک تو لازماً پیش آ کر رہے گی۔ جو شخص دین سے اس حد تک بے نیاز ہو چکا ہو کہ اس کی اہم ترین عملی بنیادوں سے بھی کوئی لگاؤ نہ رکھتا ہو، اور شریعت کو ہی منسوخ کر دینے میں بھی اسے کوئی باک محسوس ہوتا ہو، اس سے یہ امید ہرگز نہیں رکھی جا سکتی کہ خلافت کے اصل مقصد کا وہ صحیح طور پر وفا کرے گا؟ اس سے یہ تو شاید ممکن ہو کہ ملک کو وہ اقتصادی حیثیت سے دولت کا گھر، اور سیاسی حیثیت سے دنیا کا لیڈر بنا دے، مگر یہ کسی طرح ممکن نہیں کہ وہ اسے بندگی رب کا گہوارہ اور خیر و صلاح کا مرکز باقی رکھے گا، اور اس کے عام شہری اس کی رہنمائی میں نماز قائم کرنے والے، زکوٰۃ دینے والے، معروف کی تلقین کرنے والے اور منکر سے روکنے والے بن سکیں۔ جب حقیقت یہ ہے تو بالکل واضح بات ہے کہ ایسے شخص کو اجتماعی نظام کا بدستور ذمہ دار بنائے رکھنا بالکل ایسا ہی ہوگا جیسے کہ چوروں اور ڈاکوؤں کو حفاظت کی ذمہ داریاں سونپ دی جائیں۔
معزولی کے مسئلے پر فقہ کی ارتقا کا اثر
مملکت کے حکمران کو معزول کب اور کس طرح کیا جائے؟ واضح طور پر یہ سیاسی نظم کا مسئلہ ہے، اور سیاسی نظام کا حال یہ ہے کہ اس کے بہت سے ضابطے اور طور طریقے ایسے ہوتے ہیں جن کی تعیین میں تمدنی حالات کا بھی کچھ نہ کچھ دخل ہوا کرتا ہے۔ اس لیے وہ ہمیشہ ایک سی حالت پر نہیں رہتے۔ جب تک ملک کا تمدن ابتدائی منزل میں ہوتا ہے، اس کا حکومتی اور سیاسی نظام بھی بہت مختصر اور سادہ ہوتا ہے، اور اس نظام کے اصول و ضوابط بھی اپنے اندر بڑی محدودیت رکھتے ہیں۔ پھر جوں جوں تمدن آگے بڑھتا جاتا ہے، زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح سیاست کے ضابطے اور طور طریقے بھی بدلتے جاتے ہیں، اور مملکت کا نظام زیادہ اصول پسندانہ، زیادہ ترقی یافتہ، زیادہ وسیع اور زیادہ منضبط ہوتا جاتا ہے۔
اسلام ایک عالمی دین اور ابدی نظام حیات ہے، اس لیے حرکت اور نمو اس کی فطرت میں داخل ہے۔ تمدنی ارتقا کا وہ نہ صرف یہ کہ ساتھ دیتا ہے بلکہ اس کی رہنمائی اور نگرانی کرنا چاہتا ہے۔ کیونکہ یہ اس کی منصبی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ اسلام کی یہ صلاحیت اور اس کی یہ حیثیت چاہتی ہے کہ زمانے کے بدلتے ہوئے حالات اور تمدن کی پھیلتی ہوئی ضرورتوں کو وہ ہمیشہ نگاہ میں رکھے، اور اپنے نظام سیاست کے ان ضابطوں اور طریقوں کو نیا آب و رنگ، بلکہ نئی شکل و صورت دیتا رہے جو بنیادی احکام اور اصولی ہدایات کی حیثیت نہیں رکھتے۔ اس لیے اگر ایسے سیاسی ضوابط کو ماننے میں فراہم کی ہوئی آسانیوں کے مطابق چلایا جائے تو یہ کوئی بدعت نہ ہوگی، بلکہ عین سنت ہوگی، اسلام سے تجاوز نہ ہوگا، بلکہ عین منشائے اسلام ہوگا۔
خلفا کی معزولی کا مسئلہ بھی اسی ذیل میں آتا ہے۔ کیونکہ کسی خلیفہ کو کب تک خلیفہ باقی رکھنا چاہیے اور کب اور کس طرح ہٹانا چاہیے، یہ بات قطعی طور پر سیاست کے انھی ضوابط میں شامل ہے جن کے تعین میں تمدنی حالات اور زمانے کے تقاضے بھی دخل رکھتے ہیں، اور جن کو نئے نظام میں اصول کی حیثیت حاصل نہیں ہے کہ ان میں کبھی کوئی تغیر ہو ہی نہ سکے۔ اس لیے آج جب کہ دنیا کے تمدنی اور اجتماعی حالات، بارہ تیرہ صدی پہلے کے مقابلے میں کافی بدل چکے اور آگے بڑھ چکے ہیں اور حکومتوں کی تبدیلی میں بڑی بڑی آسانیاں پیدا ہو چکی ہیں، یہ ایک اہم سوال پیدا ہو گیا ہے کہ آیا خلفا کی معزولی اب بھی صرف انہی تین حالتوں اور شکلوں تک محدود رہے گی جن کی اوپر بحث میں نشان دہی کی گئی ہے، یا بگاڑ کی باقی تین صورتوں میں سے بھی کسی صورت میں اس راستے کو اختیار کیا جا سکتا ہے؟ اس سوال کا جواب ایک اور سوال پر موقوف ہے، اور وہ یہ کہ کیا لوگوں کی جان و مال کا تحفظ اور ان کے حقوق کی نگہداشت اسلامی ریاست کے مقاصد میں شامل ہے یا نہیں؟ اس سوال کا جواب یقیناً اثبات ہی میں ہوگا، اور اس بارے میں ہرگز کوئی دوسری رائے نہیں ہو سکتی۔ اس حقیقت کے سامنے آ جانے کے بعد پہلے سوال کا جواب بھی بڑی حد تک واضح رہ جائے گا، اور وہ آپ سے آپ معلوم ہو جائے گا۔ یعنی یہ کہ آج حکومتوں کو بدلنے کے جو پرامن جمہوری طریقے رائج ہو چکے ہیں، ان سے کام لے کر اسلامی مملکت کے سر براہ کو اقتدار کی مسند سے اس وقت بھی ہٹا دیا جا سکتا ہے، بلکہ ہٹا دیا جانا ضروری ہوگا، جب کہ وہ رعایا پر ظلم کرتا دکھایا جائے، یا فسق و فجور میں آلودہ نظر آئے، یا معصیت کے کاموں کا مرتکب پایا جائے۔ کیونکہ اس طرح کی خرابیوں میں مبتلا ہو جانے کے بعد اس سے یہ توقع رکھنا بڑا فضول سے کم نہ ہوگا کہ اس کے ہاتھوں لوگوں کی جان و مال کا تحفظ ہو سکے گا، ان کے حقوق کی نگہداشت ہو پائے گی، ان کے ذہنوں کو بدی اور بے حیائی کی گندگی سے بچایا جا سکے گا، اسلامی ریاست کی بدنامی ہوگی، اور اس کے جملہ مقاصد بھی اسی طرح پورے ہوتے رہیں گے۔ پھر ایسے شخص کو معزول کرنے اور اس کے شر سے دین و ملت کو محفوظ کر لینے کی مہلت کے باوجود خلافت کی ذمہ داریاں بدستور اسی کے سپرد رکھنا کوئی معقول بات کیسے ہو سکتی ہے؟ کیا شریعت کے بارے میں ایک لمحے کے لیے بھی یہ گمان رکھا جا سکتا ہے کہ نظام خلافت کے نقصان پر بھی وہ مسلمانوں کو اس صورت حال کے ازالے کی راہ اختیار کرنے سے روکے گی، حالانکہ وہ صاف کھلی دکھائی دے رہی ہو؟
اس سلسلے میں ان حدیثوں کے الفاظ سے کوئی الجھن نہیں ہونی چاہیے جن میں سے بعض کے حوالے اوپر گزر چکے ہیں، اور جو اس امر کی واضح ہدایت دیتی نظر آتی ہیں کہ جب تک خلیفہ ترک نماز کا مرتکب نہ ہو جائے اس کے خلاف قدم اٹھانا ممنوع ہے۔ بلاشبہ ان احادیث سے یہی ہدایت ملتی ہے۔ لیکن یہ ہدایت جس مصلحت کی بنا پر دی گئی ہے، اسے نظر انداز کر کے ان احادیث کا اصلی منشا اور فاسق و ظالم امرا کے بارے میں شریعت کا حقیقی نقطۂ نظر پوری طرح ہرگز نہ سمجھا جا سکے گا۔ اس لیے ضروری ہے کہ پہلے اس مصلحت کو معلوم کر لیا جائے۔
اس غرض کے لیے امام نووی کا یہ واضح بیان بالکل کافی ہوگا:
”اہل سنت کا اس بات پر اجماع ہے کہ حکمران فسق کی بنا پر معزول نہیں ہو جاتا ... علما فرماتے ہیں کہ اس کو معزول نہ کیے جانے اور ایسے حکمرانوں کے خلاف کسی بغاوت کے حرام ہونے کی وجہ وہ فتنہ و فساد، خون خرابہ اور وہ باہمی کشاکش ہے جو اس اقدام کے نتیجے میں برپا ہوتی ہے، کیونکہ اس کے معزول کر دینے کی وجہ سے پیدا ہو جانے والی یہ خرابی اس کے خلیفہ باقی رہنے کی خرابی سے بھی بڑھ جاتی ہے۔“
یہ تو فاسق امرا کا مسئلہ رہا۔ ٹھیک اسی طرح کی بات علمائے کرام نے ظالم امیروں کے بارے میں بھی فرمائی ہے۔ اور حق یہ ہے کہ جو شخص بھی اسلام سے واقف ہوگا، وہ اس کے سوا اور کوئی مصلحت کی سوچ ہی نہیں سکتا۔ اس لیے اس بات کو ایک حقیقت تسلیم کر لینے میں کوئی تردد نہ ہونا چاہیے کہ بگاڑ کی جن صورتوں میں امرا کے خلاف اقدام کرنے سے منع کیا گیا ہے، صرف بدامنی، خانہ جنگی اور خون ریزی کے اندیشے ہی کی بنا پر منع کیا گیا ہے۔ ورنہ یہ ممانعت مطلق، ہمہ گیر اور ابدی قطعاً نہیں ہے۔ گویا صورت واقعہ یہ ہے کہ شریعت کے نزدیک یہاں دو ناگزیر بلاؤں میں سے ایک کو لازماً اختیار کرنے کا معاملہ تھا۔ یا تو صاحب امر کے ظلم اور فسق کو گوارا کیا جائے، یا پھر اسے اطاعت کے زور سے ہٹائے جانے کے نتیجے میں خانہ جنگی اور خون خرابے کے عذاب کو برداشت کیا جائے۔ اس نے دوسری بلا کو، جیسا کہ عقل سلیم چاہتی ہے، زیادہ سخت اور پہلی کو اس کے مقابلے میں کم سخت قرار دیا، اور اسی لیے یہ ہدایت دی کہ اسے کلیجے پر پتھر رکھ کر انگیز کیا جائے، اور اس کے ازالے کے لیے قائم شدہ حکومت کے خلاف قدم اٹھا کر مملکت کو خانہ جنگی، اور عام مسلمانوں کو قتل و غارت کی بھینٹ چڑھانے کی تدبیر نہ کی جائے۔ جب کہ ”کفر عملی“ یا ”کفر اعتقادی“ کی حیثیت اس کے نزدیک بدتر تھی، کیونکہ ایسے امرا کی خرابیاں اور ضلالتیں خلافت کے مقاصد کو صرف نقصان ہی نہیں پہنچا تیں، بلکہ ان کا گلا گھونٹ دینے والی ہوتی ہیں، اور کوئی شک نہیں کہ یہ مقاصد مسلمانوں کے خون سے کہیں زیادہ قیمتی ہیں۔ اس لیے یہ بلا شریعت کی نظر میں زیادہ سخت، اور اس کے مقابلے میں بد امنی اور خون خرابے کی بلا کم ٹھہری تھی۔ جس کا فطری تقاضا یہی تھا کہ اس کے ازالے کی شکل میں وہ صاحب امر کے خلاف اقدام کی ممانعت کو واپس لے لیتی۔
اب جب کہ یہ بات ایک حقیقت کی حیثیت سے ہمارے سامنے آ چکی کہ ظلم اور فاسق امرا کے خلاف قدم اٹھانے کی ممانعت صرف خانہ جنگی اور خون ریزی کی مصیبت سے بچنے کے لیے کی گئی ہے، تو اسے بھی ایک حقیقت ہی ماننا پڑے گا کہ جہاں عملاً اس مصیبت کے برپا ہو جانے کا اندیشہ موجود نہ ہو وہاں یہ ممانعت بھی باقی نہ رہ جائے گی۔ اور اگر ہنگامے اور خون خرابے کے بغیر ہی حکومت کو بدل دینے کا موقع حاصل ہو گا
ایسی حالت میں جب حکمران ظلم اور فسق میں مبتلا ہو جائیں تو انہیں منصبِ حکومت پر باقی رکھنا کسی طرح صحیح نہ ہوگا۔ اس وقت عقل اور شریعت دونوں کا تقاضا صرف یہ ہوگا کہ انہیں اپنے منصب سے لازماً ہٹا دیا جائے۔ چنانچہ حافظ ابن حجر کا بیان ہے کہ:
فَقَالَ ابْنُ التِّينِ عَنِ الدَّاوُدِي قَالَ الَّذِي عَلَيْهِ الْعُلَمَاءُ فِي أُمَرَاءِ الْجَوْرِ أَنَّهُ إِنْ قَدَرَ عَلَى خَلْعِهِ بِغَيْرِ فِتْنَةٍ وَلَا ظُلْمٍ وَجَبَ وَإِلَّا فَالْوَاجِبُ الصَّبْرُ.
(فتح الباری، جلد ۱۳، صفحہ ۶)
ترجمہ: ”ابن التین نے داؤدی کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ظالم امراء کے بارے میں علماء کا فتویٰ یہ ہے کہ اگر انہیں کسی فتنے اور ظلم کے بغیر معزول کیا جا سکتا ہے تو ایسا کرنا واجب ہے، ورنہ واجب یہ ہے کہ صبر سے کام لیا جائے۔“
اسی طرح امام نووی بعض دوسرے علماء کی یہ وضاحت نقل کرتے ہیں کہ:
أَمَّا قَوْلُهُ "اصْبِرُوا" فَدَلَالَتُهُ حَدِيثُ يَلْزَمُ مِنْ ذَلِكَ سَفْكَ الدِّمَاءِ أَوِ إِثَارَةَ الْفِتْنَةِ وَنَحْوَ ذَلِكَ.
(مسلم، کتاب الایمان)
ترجمہ: ”رہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد کہ ”صبر سے کام لو“ تو اس کا تعلق ایسے حالات سے ہے جب کہ (امیر کے خلاف) اقدام سے خون ریزی یا فتنہ و فساد یا اسی طرح کی کوئی اور بلائے عام پھوٹ پڑنے والی ہو۔“
جدید جمہوری طریقے اور اسلامی تعلیمات
غرض ظالم اور فاسق امراء کی معزولی کے بارے میں علماء کا، جیسا کہ چاہیے، عام خیال یہی ہے۔ بلاشبہ آج سے ہزار بارہ سو برس پہلے، حتیٰ کہ اسی قریب تک کے زمانوں میں بھی، صورتِ حال بالعموم یہی تھی کہ حکومتوں کی جبری تبدیلی آسان نہیں ہوا کرتی تھی، بلکہ اس وقت اس طرح کی ہر کوشش ملکی امن و امان کو آگ لگا دینے کے ہم معنی تھی۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظالم اور فاسق حکمرانوں کے مقابلے میں وقتی طور پر، صبر و تحمل ہی سے کام لینے کی ہدایت فرمائی۔ لیکن اگر موجودہ دور میں یہ صورتِ حال باقی نہیں رہ گئی تو تسلیم کرنا چاہیے کہ اس تلقین و ہدایت پر عمل کرنے کا موقع و محل بھی باقی نہیں رہ گیا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ موجودہ زمانے میں عوام کی رائے کے ذریعے سے حکومت کے سربراہ منتخب کرنے کا، اور پھر بوقتِ ضرورت معزول کر دینے کا جو جمہوری طریقہ رائج ہو چکا ہے، اس سے کام لینا عین طریقِ اسلام اور عین تقاضائے دین ہوگا۔ جہاں بھی اس طریقے سے کام لینے کی آسانیاں حاصل ہوں، مسلمانوں کے اہل حل و عقد کا یہ فرض ہوگا کہ اس سے ضرور کام لیں۔ جب بھی ان کا امیر منصبِ خلافت کی ذمہ داریاں صحیح طریقے سے پوری کرنے میں ناکام ثابت ہو، اسے علیحدہ کر دیں، اور اس کی جگہ کسی لائق تر شخص کو لے آئیں۔ کیونکہ اس طریقے سے حکومت کو بدل لینے میں فتنے، بدامنی اور خون ریزی کا کوئی اندیشہ نہیں۔ دوسرے لفظوں میں یہاں دو بلاؤں - یعنی ظالم اور فاسق حکمران کو گوارا کرتے رہنے کی بلا، یا خانہ جنگی اور خون خرابے کی بلا - میں سے کسی ایک کو لازماً اختیار کرنے کا معاملہ ہے ہی نہیں کہ خون خرابے کی بلا کے مقابلے میں ظالم حکمران کے وجود کو انگیز کرتے رہنے کا سوال پیدا ہو۔
پھر ضرورت صرف اسی بات کی نہیں ہے کہ خلیفہ جب کسی غلط کاری کا مظاہرہ کرے تو پارلیمنٹری طریقے پر اسے امارت کے منصب سے ہٹا دیا جائے، بلکہ اس بات کی بھی ہے کہ چاہے اس کی طرف سے کسی ظلم یا کسی فسق کا مظاہرہ نہ ہوا ہو، پھر بھی اس کے سلسلے میں امارت کے جاری رہنے یا نہ رہنے کے بارے میں ایک معقول مدت کے بعد لوگوں کی رائے معلوم کی جاتی رہے۔ کیونکہ ہو سکتا ہے کہ موجودہ امیر سے چاہے کوئی قابلِ لحاظ کوتاہی سرزد نہ ہوئی ہو، مگر بہت ممکن ہے کہ اس مدت میں ملت کے اندر سے کوئی اور شخصیت ابھر کر سطح پر آ گئی ہو جس کی صلاحیتوں پر لوگوں کو نسبتاً زیادہ اعتماد ہو، اور انہیں یہ توقع ہو کہ اگر موجودہ امیر کی جگہ اس شخص کو خلافت کی ذمہ داریاں سونپ دی جائیں تو وہ انہیں زیادہ بہتر طریقے پر انجام دے سکے گا۔ ایسی حالت میں کوئی وجہ نہیں کہ حکومت کو بدل نہ دیا جائے، اور محض اس بنا پر کہ ایک شخص کو پہلے اس منصب کے لیے منتخب کیا جا چکا ہے، دوسرے افراد کی بہتر صلاحیتوں سے فائدہ نہ اٹھایا جائے۔
کیونکہ یہاں اصل اہمیت خلافت کے مقاصد اور اس کی ذمہ داریوں کی ہے، کسی شخصیت کی اور اس کے کسی حق کی نہیں۔ زیادہ واضح لفظوں میں یہ کہ اسلام میں حکومت اور امارت اصلاً صرف ذمہ داری ہے، حق ہے ہی نہیں۔ اس لیے اگر کسی شخص کو خلافت کے منصب سے ہٹایا جاتا ہے تو اس سے اس کا کوئی حق نہیں چھنتا کہ وہ اس کی شکایت کرے۔ بلکہ اس سے ایک بھاری ذمہ داری اتار لی جاتی ہے، اور وہ بھی صرف اس لیے کہ شریعت کے منشا اور خلافت کے مقصد کا یہی تقاضا تھا۔
نظامِ خلافت کی وحدت
چونکہ نظامِ خلافت کی ضرورت، اہمیت اور نوعیت، سب کچھ اصلاحِ دینی ہے، بلکہ یہ کہنا زیادہ صحیح ہوگا کہ اس نظام کا قیام ہی دین کے لیے ہے، اس لیے اسلامی آبادیوں (دار الاسلام) کی حدیں چاہے کتنی ہی وسیع کیوں نہ ہو جائیں، تمام مسلمانوں کا خلیفہ اور امام ایک ہی ہوگا، اور مختلف خطوں میں الگ الگ حکومتیں اور خلافتیں قائم کرنا صحیح نہ ہوگا۔ علامہ ماوردی لکھتے ہیں کہ:
لَا يَجُوزُ أَنْ يَكُونَ لِلْأُمَّةِ إِمَامَانِ فِي وَقْتٍ وَاحِدٍ.
(الاحکام السلطانیہ، صفحہ ۵)
ترجمہ: ”یہ بات جائز نہیں ہے کہ ایک ہی وقت میں امت کے دو خلیفہ ہوں۔“
ایک وقت میں ایک خلیفہ کا اصول
اس بارے میں چند افراد کو چھوڑ کر پوری امت یک رائے ہے۔ امام نووی کے بقول:
اتَّفَقَ الْعُلَمَاءُ عَلَى أَنَّهُ لَا يَجُوزُ أَنْ يُعْقَدَ لِخَلِيفَتَيْنِ فِي عَصْرٍ وَاحِدٍ سَوَاءٌ اتَّسَعَتْ دَارُ الْإِسْلَامِ أَمْ لَا.
(شرح مسلم، کتاب الامارۃ)
ترجمہ: ”علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ دار الاسلام کی حدیں چاہے وسیع ہوں یا غیر وسیع، ایک ہی زمانے میں دو آدمیوں کی خلافت کا قیام جائز نہیں۔“
شریعت نے اس اصول کو بڑی اہمیت دے رکھی ہے، اس کے نزدیک وہ شخص گردن زدنی ہے جس کے ہاتھوں پر ایک خلیفہ کے ہوتے ہوئے خلافت کی متوازی بیعت کر لی گئی ہو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا صریح ارشاد ہے کہ:
إِذَا بُويِعَ لِخَلِيفَتَيْنِ فَاقْتُلُوا الْآخَرَ مِنْهُمَا.
(مسلم، کتاب الامارۃ)
ترجمہ: ”اگر خلافت کی بیعت دو آدمیوں کے ہاتھوں پر کر لی جائے تو بعد والے شخص کو قتل کر دو (اگر اس کی نام نہاد خلافت کا فتنہ کسی اور طرح ختم نہ ہو سکے)۔“
غرض وحدت، اسلامی نظامِ سیاست کا ایک مسلمہ اور بڑا اہم اصول ہے۔ اسلام امت کے لیے بیک وقت ایک سے زائد اجتماعی نظاموں کے وجود کو پوری شدت کے ساتھ رد کرتا ہے۔ ذرا غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ اسے ایسا کرنا ہی چاہیے تھا، کیونکہ یہ اس کے مزاج اور اس کے مشن کا تقاضا تھا۔ اسلام نے اپنے پیروؤں کو خلافت کا نظام قائم کرنے کی ہدایت اس لیے نہیں دی کہ اس طرح وہ دنیا کے سیاسی مطلع پر نمایاں رہیں گے، یا ان کی حوصلہ مند شخصیتوں کو اپنے جذبۂ حکمرانی کی تسکین کا موقع مل جائے گا۔ بلکہ اس نے یہ ہدایت صرف اس لیے دی ہے کہ وہ خود حکمران بن کر، انسانی زندگی پر دین و ملت کی حفاظت کریں اور اللہ کے دین کو غالب کریں۔ ایسی حالت میں اگر پوری امت مسلمہ ایک گروہ، ایک قوم اور ایک سیاسی وحدت ہونے کے بجائے متعدد سیاسی وحدتوں میں بٹی رہے، اور اس طرح پورا دار الاسلام مختلف ریاستوں اور حکومتوں میں تقسیم ہو جائے، تو یہ اسلام کے قومی ہونے کی نہیں بلکہ کمزور ہونے کی علامت ہوگی۔
وحدانی یا وفاقی نظام؟
رہا یہ سوال کہ پوری امت کے سیاسی طور پر بھی ایک ہی قوم بن کر رہنے کی انتظامی شکل کیا ہوگی؟ یعنی اس کا حکومتی نظام وحدانی قسم کا ہوگا، یا وفاقی؟ تو اس بارے میں دین کا عام مزاج، اس کی اجتماعی ہدایتوں کا رخ، اور مقاصدِ خلافت، سب کے سب وحدانی طرزِ حکومت ہی کا فیصلہ دیتے ہیں۔ لیکن اسی کے ساتھ ہم اس امرِ واقعہ کو نظر انداز بھی نہیں کر سکتے کہ اس ”فیصلے“ کا تعلق لازماً ایک ایسی صورتِ حال سے ہے جب کہ سارے مسلم علاقے جغرافیائی طور پر آپس میں ملے ہوئے ہوں اور ان کا سیاسی و اقتصادی مفاد بھی مسلمانوں کے اپنے ہی ہاتھوں میں ہو۔
اگر صورت حال یہ نہ ہو، یعنی سارے مسلم علاقے جغرافیائی طور پر آپس میں ملے ہوئے نہ ہوں، یا یہ سارے علاقے آپس میں ملے ہوئے تو ہوں مگر ان میں سے بعض ایسے ہوں جو غیر مسلموں کے محکوم ہو چکے ہوں اور اس وجہ سے آزاد و خود مختار مسلم علاقے جغرافیائی طور پر آپس میں کٹ کر رہ گئے ہوں، تو ایسی صورتوں میں اس ”فیصلے“ پر اصرار نہ کیا جا سکے گا۔ یہ نہ صرف عملی ضرورت کا تقاضا ہے بلکہ بعض نصوص سے بھی ہمیں اسی طرح کی رہنمائی ملتی ہے۔
قبیلہ عبد القیس جب اسلام کا حلقہ بگوش ہوا تو اس کا ایک وفد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوا: ”اے اللہ کے رسول! ہمارے اور آپ کے وطن کے درمیان مضر کے کفار حائل ہیں۔ اس لیے ہم جب چاہیں آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر ہدایتیں نہیں لے سکتے، بلکہ صرف حرمت کے خاص مہینوں ہی میں اس کا موقع مل سکتا ہے۔ اس لیے آپ ہمیں ضروری ہدایتیں اور احکام دے دیجیے، تاکہ ہم ان پر عمل کرتے رہیں اور پھر واپس جا کر دوسروں کو ان کی دعوت دیں۔“
آپ نے وفد کی گزارش کے جواب میں جو کچھ فرمایا اور جن امور کی تلقین کی ان میں سے ایک یہ بھی تھا:
وَأَنْ تُؤَدُّوا خُمُسَ مَا غَنِمْتُمْ.
(مسلم، جلد اول، کتاب الایمان)
ترجمہ: ”تمہیں غنیمت کا جو مال ملے، اس کا پانچواں حصہ (مرکز کو) ادا کرتے رہنا۔“
غور کیجیے، اس ارشاد کا پس منظر کیا رہا ہوگا؟ یقیناً یہی کہ یہ لوگ قبائل مضر کے خلاف اپنی صوابدید کے مطابق جہاد کرنے کے مجاز ہوں گے، اور مرکزِ اسلام سے انہیں اس کے لیے بروقت حکم لینا ضروری نہ ہوگا۔ حالانکہ کسی بھی وحدانی نظامِ حکومت میں ملک کے کسی حصے میں کوئی جنگی کارروائی مقامی ذمہ دار اسی وقت کر سکتے ہیں جب کہ مرکز کی طرف سے انہیں ہدایت موصول ہو چکی ہو۔ لہٰذا قبیلہ عبد القیس کو آپ نے یہ بطورِ خود جنگی اقدامات کرتے رہنے کی جو خود مختاری عطا فرمائی، اس سے یہ بات بھی کہی جا سکتی ہے کہ اگر حالات رکاوٹ ڈال رہے ہوں تو اسلامی مملکت کا نظام وحدانی طرز کے بجائے وفاقی طرز کا بھی بنایا جا سکتا ہے۔
اس بحث کا حاصل یہ ہے کہ اصل اور معیاری طرزِ حکومت تو وحدانی طرز ہی ہے، لیکن مصالح کے پیشِ نظر وفاقی طرز بھی اپنایا جا سکتا ہے۔
نظمِ اجتماعی کی بحالی کے دینی تقاضے
بحالی کی ضرورت: عقلی و شرعی دلائل
اُمت مسلمہ کے لیے ایک منظم اجتماعی زندگی کس حد تک ضروری ہے، یہ بات پچھلے مباحث سے پوری طرح واضح ہو چکی ہے۔ لیکن یہ ملت بھی ایسے حالات سے دوچار ہو سکتی ہے جب وہ اپنی اس ضروری ہیئتِ اجتماعیہ سے محروم ہو، جب وہ ایک منظم اور منضبط جماعت رہنے کے بجائے افراد کی ایک بھیڑ بن گئی ہو، جیسا کہ آج ایک مدت سے اس کا یہی حال فی الواقع ہو بھی چکا ہے۔
ایسی صورتِ حال کے بارے میں یہ کہنا کہ اسلام کے نزدیک وہ سخت ناپسندیدہ بلکہ ناقابلِ برداشت ہے، ایک غیر ضروری بات ہوگی۔ لیکن اس صورتِ حال میں افرادِ ملت کو کرنا کیا چاہیے، یہ بات اتنی واضح اور روشن نہیں ہے۔ اس لیے نظری اور عملی، ہر حیثیت سے ضروری ہے کہ اس اہم ترین سوال کا صحیح جواب معلوم کیا جائے۔
عقلی طور پر، جب اجتماعیت اسلام کے لیے ناگزیر ہے تو اس کا تقاضا یہی ہے کہ یہ ملت ”بھیڑ“ سے پھر ”جماعت“ بنے، ایسی جماعت جس میں نظم و اتحاد ہو اور جو ”الجماعۃ“ کہلائے۔ اس کے بعد اس سوال کا شرعی جواب معلوم کیجیے، جو فی الواقع اصل جواب ہے۔ قرآن حکیم کی یہ ہدایتیں ملاحظہ ہوں:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ... وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا.
(آل عمران: ۱۰۲-۱۰۳)
ترجمہ: ”اے ایمان والو! ... اللہ کی رسی کو تم سب کے سب مضبوطی سے پکڑے رہو اور تفرقے میں نہ پڑو۔“
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً.
(بقرہ: ۲۰۸)
ترجمہ: ”اے ایمان والو! (اللہ و رسول کی) اطاعت میں تم سب کے سب پورے پورے داخل ہو جاؤ۔“
یہ ہدایتیں عام اور ہمہ گیر ہیں۔ ان کے مخاطب ہر دور اور ہر گروہ کے مسلمان ہوں گے، چاہے وہ پہلی صدی ہجری کے ہوں جب امت ”حبل اللہ“ کے شیرازے میں بندھی تھی، یا اس دورِ افتراق و انتشار کے مسلمان ہوں۔
کلام اللہ کے بعد کلامِ رسول کی طرف آئیے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اختلاف و انتشار کی حالت کا براہ راست تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
مَنْ يَعِشْ مِنْكُمْ بَعْدِي فَسَيَرَى اخْتِلَافًا كَثِيرًا فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ تَمَسَّكُوا بِهَا وَعَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ.
(ابوداؤد، کتاب السنۃ)
ترجمہ: ”جو لوگ میرے بعد زندہ رہیں گے وہ امت میں بہت سارے اختلافات برپا ہوتے دیکھیں گے۔ ایسے وقت میں تمہارے لیے ضروری ہوگا کہ میری سنت اور میرے ہدایت یافتہ اور برحق خلفائے راشدین کی سنت کو مضبوطی سے تھامے اور دانتوں سے پکڑے رہو۔“
اس حدیث میں ”سنت“ سے مراد صرف فقہی اصطلاح نہیں بلکہ وسیع مفہوم میں ”طریقہ اور روش“ ہے۔ اس وضاحت کی روشنی میں ارشادِ نبوی کا مفہوم یہ قرار پائے گا کہ سارے دین کی پیروی، اس کی اقامت، اور اس کے جملہ تقاضوں کی انجام دہی کے سلسلے میں جو کچھ میں کر رہا ہوں، اور میرے بعد میری ہی پیروی میں خلفائے راشدین جو کچھ کریں گے، تمہارا فرض ہوگا کہ تم بھی وہی کچھ کرو، خصوصاً جب امت میں اختلافات سر اٹھائیں۔
امت کا اجتماعیت سے محروم ہو رہنا بلاشبہ ایک شدید اختلاف کی حالت ہے۔ اس لیے اگر کسی ایک اختلاف کے رونما ہونے پر آپ کی اور آپ کے خلفائے راشدین کی ”سنت“ کو دانتوں سے پکڑ لینا ضروری ہے تو بے شمار اختلافات کا بدترین نتیجہ سامنے آنے پر اس ہدایت کی پیروی یقیناً ضروری سے ضروری تر ہو جائے گی۔
نظمِ اجتماعی کی بحالی کا طریقہ کار
بنیادی اصول
یہاں پہنچ کر ہمارے سامنے قدرتی طور پر یہ سوال آ کھڑا ہوتا ہے کہ اس کام کا صحیح طریقہ کیا ہوگا؟ یہ امت، جو ایک بھیڑ کی شکل اختیار کر چکی ہے، پھر ”الجماعۃ“ کس طرح بن سکتی ہے؟ اس غور و فکر کی ابتدا کرتے وقت تین بنیادی اور مسلمہ حقیقتیں ہمارے ذہنوں میں بالکل واضح رہنی چاہئیں:
- امت مسلمہ کو ایک مخصوص قسم کی اجتماعیت اور وحدت مطلوب ہے، جس کا شیرازہ صرف اللہ کی رسی ہو اور جس کا مقصدِ وجود شہادتِ حق، امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور اقامتِ دین کے سوا کچھ نہ ہو۔
- جس طرح منظم اجتماعیت کی بحالی ایک دینی ضرورت ہے، اسی طرح اس بحالی کا طریقہ بھی دینی ہی ہونا چاہیے۔
- جس طرح ہمیں ملی انتشار کی حالت میں کیا کرنا چاہیے، اسی طرح اس بارے میں بھی کہ جو کچھ کرنا ہے وہ کس طرح کرنا ہے، ہمیں اسوۂ نبوی سے براہِ راست نہیں بلکہ اخذ کی ہوئی ہدایت ہی مل سکتی ہے، کیونکہ ہمارے سامنے ایک پہلے سے موجود ملت کی تنظیمِ نو کا مسئلہ ہے جبکہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے ایک نئی امت کی تشکیل کا مسئلہ تھا۔
ان حقیقتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے جب ہم کتاب و سنت پر نظر ڈالتے ہیں تو ملت کی تنظیمِ جدید کا طریقہ بھی بنیادی طور پر وہی ہوگا جو اُمت مسلمہ کی تشکیل کے متعلق قرآن حکیم اور اسوۂ رسول میں پایا جاتا ہے، اور وہ ان نکات پر مشتمل ہوگا:
- دعوتِ رجوع الی الحق: کام کی ابتدا رُجوع الیٰ الحق کی دعوتِ عام سے کی جائے۔ پوری قوت سے ملت کی خود شناسی کو ابھارا جائے، اسے یاد دلایا جائے کہ وہ اس زمین پر کس کام کے لیے موجود ہے، اور جس دین سے اپنی وابستگی کا دعویٰ رکھتی ہے وہ اس سے کیا تقاضے کرتا ہے۔
- مخلصین کی تنظیم: جو لوگ ”رُجوع الیٰ الحق“ کی اس دعوت کو فکری اور عملی طور پر قبول کر لیں، انہیں ایک منظم جماعت کی شکل میں متحد کیا جائے۔ اس تنظیم کا جزوِ ترکیبی بنانے والی چیز ”حَبْلُ اللهِ“ (اللہ کا دین) اور ”دخول فی السلم“ (کامل اطاعت) کے سوا اور کچھ نہ ہو۔
- دعوت و تربیت: قائم ہونے والی تنظیم کے دو حقیقی فرائض ہوں گے۔ ایک تو یہ کہ دوسرے افرادِ ملت کو ”رُجوع الیٰ الحق“ کی دعوت دے، اور دوسرا یہ کہ اپنے افراد کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کرے۔
تنظیمِ نو کی عملی شکل
تنظیمِ ملت کا طریقہ متعین ہو جانے کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس تنظیمِ نو کی عملی شکل کیا ہوگی؟ دین کا تقاضا اور شریعت کا نقطۂ نظر یہی ہے کہ ملت کی اصلاح و تنظیمِ جدید کا فریضہ اجتماعی طور پر ایک نظم اور ایک قیادت کے تحت انجام پانا چاہیے۔
اس کا عملی طریقہ یہی قرار پائے گا کہ جو لوگ اس مقصد سے شعوری طور پر وابستہ ہو جائیں وہ ایک جماعتی نظم قائم کریں، اور اپنے میں سے ایک ایسے فرد کو اس نظم کا سربراہ منتخب کر لیں جو اس مقصد کی سب سے زیادہ اچھی خدمت انجام دے سکتا ہو۔ پھر ان کا ایک مؤثر شورائی نظام ہو جو ”أَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ“ کے تقاضوں کا حق ادا کرتا ہو، اور اس طرح پورے نظم و ضبط کے ساتھ یہ بھاری ملی مہم مسلسل چلتی رہے۔
یہ حقیقت کسی اظہار و بیان کی محتاج نہیں کہ یہ جماعت بجائے خود ”الجماعۃ“ نہ ہوگی، نہ یہ تنظیم ملی تنظیم کا بدل ہوگی، بلکہ اسے وجود میں لانے کے لیے ہوگی۔ ”سنتِ رسول“ اور ”سنتِ خلفائے راشدین“ کے ہاتھوں میں اس کی زمامِ کار رہے گی۔ اپنی غربت اور اجنبیت سے وہ پہچانی جائے گی۔ دینِ حق اور طریقِ رسول کے جس گوشے کو بھی اپنائے گی، اس کی تعمیر و اصلاح میں وہ کسی ممکن سعی سے دریغ نہ کرے گی۔
گوشہ گیری: عزیمت نہیں، رخصت
گوشہ گیری کی مشروعیت
ایک طرف تو ایمان و اسلام کے لیے منظم اجتماعی زندگی ناگزیر ہے، دوسری طرف قرآن حکیم کے بعض اشارات اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض ارشادات سے معلوم ہوتا ہے کہ اجتماعیت سے کنارہ کشی اور گوشہ تنہائی کی زندگی بھی غیر اسلامی نہیں، بلکہ بعض مخصوص حالات میں جائز ہے۔ مثال کے طور پر سورہ کہف میں ”اصحاب کہف“ کا تذکرہ ہے جو انسانی بستیوں سے دور ایک غار میں جا بیٹھے تھے۔ قرآن نے ان کی اس روش کو خدا پرستی کے ایک قابلِ قدر نمونے کے طور پر پیش کیا ہے۔
اسی طرح یہ حدیثیں دیکھیے:
قَالَ رَجُلٌ أَيُّ النَّاسِ أَفْضَلُ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ مُؤْمِنٌ يُجَاهِدُ بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ثُمَّ قَالَ ثُمَّ مَنْ قَالَ ثُمَّ مُؤْمِنٌ فِي شِعْبٍ مِنَ الشِّعَابِ يَعْبُدُ رَبَّهُ وَيَدَعُ النَّاسَ مِنْ شَرِّهِ.
(مسلم، باب فضل الجہاد و الرباط)
ترجمہ: ”ایک شخص نے پوچھا: ”اے اللہ کے رسول! سب سے افضل انسان کون ہے؟“ فرمایا: ”وہ مسلمان جو اپنی جان و مال سے اللہ کی راہ میں جہاد کرتا ہے۔“ اس نے کہا: ”پھر کون؟“ ارشاد ہوا: ”پھر وہ مسلمان جو کسی گھاٹی میں جا کر گوشہ نشین ہو گیا ہو، وہاں اپنے رب کی عبادت کرتا ہو اور لوگوں کو اپنے شر سے بچائے رکھتا ہو۔“
يَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ خَيْرُ مَالِ الْمُسْلِمِ الْغَنَمُ يَتْبَعُ بِهَا شَعَفَ الْجِبَالِ وَمَوَاقِعَ الْقَطْرِ يَفِرُّ بِدِينِهِ مِنَ الْفِتَنِ.
(بخاری، باب العزلۃ)
ترجمہ: ”لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آنے والا ہے جب ایک مسلمان کی سب سے اچھی دولت اس کی بکریاں ہوں گی، جنہیں لے کر وہ پہاڑوں کی چوٹیوں اور پانی کی جگہوں میں گھومتا پھرے گا، اپنے دین کو فتنوں سے بچانے کے لیے بھاگتا پھرے گا۔“
اصل حکم اور استثنائی صورت
بلاشبہ اس طرح کی ہدایتیں قرآن و حدیث میں موجود ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ یہاں ”اسلامی“ ہونے کا مطلب کیا ہے؟ کیا یہ تنہائی کی زندگی بھی مطلقاً اسلامی زندگی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ اصل اسلامی زندگی صرف جماعتی زندگی ہے اور بنیادی طور پر وہی قابلِ اختیار ہے۔ رہی گوشہ گیری کی زندگی، تو وہ اصل اسلامی زندگی ہرگز نہیں، بلکہ وہ صرف ایک عارضی اور استثنائی صورت ہے، جسے بعض خاص حالات اور انتہائی مجبوری کے وقت ہی اختیار کیا جا سکتا ہے۔ یہ شریعت کی طرف سے ”رخصت“ (اجازت) ہے، ”عزیمت“ (اصل حکم) نہیں۔
یہی وجہ ہے کہ جہاد کرنے والے کا درجہ گوشہ نشین سے افضل بتایا گیا ہے۔ گوشہ گیری کی زندگی میں انسان صرف انفرادی عبادات تک محدود رہ جاتا ہے، جبکہ اجتماعی زندگی میں رہ کر وہ اقامتِ دین اور جہاد فی سبیل اللہ جیسے عظیم فرائض بھی انجام دیتا ہے۔
گوشہ گیری کے حالات و شرائط
اب یہ سمجھنا چاہیے کہ وہ کون سے مخصوص حالات ہیں جن میں شریعت نے یہ رخصت دی ہے۔ یہ اجازت صرف اس وقت ہے جب معاشرہ ”شر“ اور ”فتنہ“ کی لپیٹ میں آ گیا ہو، اور مسلمان اپنی ساری حفاظتی تدبیروں کے باوجود اپنے دین و ایمان کو محفوظ نہ پاتا ہو۔ حدیث کے الفاظ ”يَفِرُّ بِدِينِهِ مِنَ الْفِتَنِ“ (اپنے دین کو فتنوں سے بچانے کے لیے بھاگنا) صاف اس حقیقت کی نشاندہی کر رہے ہیں۔
اگر حالات ایسے خراب نہ ہوں کہ دین و ایمان کے حق میں انہیں خطرناک کہا جا سکے، تو پھر اس رخصت پر عمل کرنا صحیح نہ ہوگا۔ ایسی شکل میں مومن کو اجازت نہیں کہ وہ جماعتی زندگی سے علیحدہ ہو جائے اور ملت کی اجتماعی ذمہ داریوں سے منہ موڑ لے۔
فیصلے میں احتیاط کی ضرورت
آخر میں اس اہم ترین حقیقت کو یاد رکھنا ضروری ہے کہ حالات کی نزاکت اور خطرے کا درجہ متعین کرنے میں بڑی سخت اور انتہائی بے لاگ جانچ سے کام لینا چاہیے۔ انسانی فطرت میں گوشہ نشینی اور سہل پسندی کے رجحانات موجود ہیں، جن کی بنا پر کوئی شخص حالات کی خطرناکی کا اندازہ کرنے میں مبالغہ کر سکتا ہے اور پھر گوشہ نشینی کے بارے میں وارد ہونے والی حدیثوں کو اپنے لیے ایک سہارا بنا کر اجتماعی ذمہ داریوں سے فرار اختیار کر سکتا ہے۔
ایک مومن کی حقیقی پسند اور اس کی آخری کوشش تو یہی ہونی چاہیے کہ جہاں تک ممکن ہو، اجتماعیت سے چمٹا رہے اور اس کی بقا، ترقی یا بحالی میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھے، اور اس سے علیحدگی کا صرف اسی وقت سوچے جب وہ اس کے دین و ایمان کے لیے فی الواقع کھلے ہوئے خطرے کی شکل اختیار کر چکی ہو۔ ۔ اور اس وقت بھی اس کی علیحدگی کسی احساس پسندیدگی کے ساتھ نہ ہونی چاہیے، کیونکہ اسلام نے دین و دین داری کا جو تصور دیا ہے، اس کی رو سے یہ فی الواقع کوئی پسند کی بات ہو ہی نہیں سکتی۔ یہ اجتماعی زندگی کو چھوڑ دینا کچھ بڑے سے بڑے ناخنوں کا تراش پھینکنا نہیں ہے کہ اس سے راحت محسوس کی جائے، بلکہ گوشت کا ناخن سے جدا ہو جانا ہے جس کی اذیت اٹھانے کے لیے کوئی ذی شعور اپنی خوشی سے کبھی تیار نہیں ہو سکتا۔