کتاب الجہاد في الاسلام مولانا سید ابو الاعلی مودودی

مصنف: سید ابو الاعلی مودودی 

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ


دیباچہ طبع اول

 

دورِ جدید میں یورپ نے اپنی سیاسی اغراض کے لیے اسلام پر جو بہتان تراشے ہیں ان میں سب سے بڑا بہتان یہ ہے کہ اسلام ایک خونخوار مذہب ہے اور اپنے پیروؤں کو خونریزی کی تعلیم دیتا ہے۔ اس بہتان کی اگر کچھ حقیقت ہوتی تو قدرتی طور پر اسے اس وقت پیش ہونا چاہیے تھا جب پیروانِ اسلام کی شمشیرِ خارا شگاف نے کرۂ زمین میں ایک تہلکہ برپا کر رکھا تھا اور فی الواقع دنیا کو یہ شبہ ہو سکتا تھا کہ شاید ان کے یہ فاتحانہ اقدامات کسی خونریز تعلیم کا نتیجہ ہوں۔

 

مگر عجیب بات ہے کہ اس بہتان کی پیدائش آفتابِ عروجِ اسلام کے غروب ہونے کے بہت عرصہ بعد عمل میں آئی، اس کے خیالی پتلے میں اس وقت روح پھونکی گئی جب اسلام کی تلوار تو زنگ کھا چکی تھی مگر خود بہتان کے مصنف، یورپ کی تلوار بے گناہوں کے خون سے سرخ ہو رہی تھی اور اس نے دنیا کی کمزور قوموں کو اس طرح نگلنا شروع کر دیا تھا جیسے کوئی اژدھا چھوٹے چھوٹے جانوروں کو ڈستا اور نگلتا ہو۔ اگر دنیا میں عقل ہوتی تو وہ سوال کرتی کہ جو لوگ خود امن و امان کے سب سے بڑے دشمن ہوں، جنہوں نے خود خون بہا بہا کر زمین کے چہرے کو رنگین کر دیا ہو، جو خود دوسری قوموں پر ڈاکے ڈال رہے ہوں، آخر انہیں کیا حق ہے کہ اسلام پر وہ الزام عائد کریں جس کی فردِ جرم خود ان پر لگنی چاہیے؟ کہیں اس تمام مورخانہ تحقیق و تفتیش اور عالمانہ بحث و اکتشاف سے ان کا یہ منشا تو نہیں کہ دنیا کی اس نفرت و ناراضی کے سیلاب کا رخ اسلام کی طرف پھیر دیں جس کے خود ان کی اپنی خونریزیوں کے خلاف امنڈ کر آنے کا اندیشہ ہے؟

 

لیکن انسان کی یہ کچھ فطری کمزوری ہے کہ وہ جب میدان میں مغلوب ہوتا ہے تو مدرسہ میں بھی مغلوب ہو جاتا ہے، جس کی تلوار سے شکست کھاتا ہے اس کے قلم سے بھی مقابلہ نہیں کر سکتا، اور اسی لیے ہر عہد میں دنیا پر انہی افکار و آراء کا غلبہ رہتا ہے جو تلوار بند ہاتھوں کے قلم سے پیش کیے جاتے ہیں۔ چنانچہ اس مسئلہ میں بھی دنیا کی آنکھوں پر پردہ ڈالنے میں یورپ کو پوری کامیابی ہوئی اور غلامانہ ذہنیت رکھنے والی قوموں نے اسلامی جہاد کے متعلق اس کے پیش کردہ نظریہ کو بلا ادنیٰ تحقیق و تفحص اور بلا ادنیٰ غور و خوض اس طرح قبول کر لیا کہ کسی آسمانی وحی کو بھی اس طرح قبول نہ کیا ہو گا۔

 

گزشتہ اور موجودہ صدی میں مسلمانوں کی طرف سے بارہا اس اعتراض کا جواب دیا گیا ہے اور اس کثرت کے ساتھ اس موضوع پر لکھا جا چکا ہے کہ اب یہ ایک فرسودہ اور پامال سا مضمون معلوم ہوتا ہے۔ مگر اس قسم کی جوابی تحریرات میں میں نے اکثر یہ نقص دیکھا ہے کہ اسلام کے وکلاء مخالفین سے مرعوب ہو کر خود بخود ملزموں کے کٹہرے میں جا کھڑے ہوتے ہیں اور مجرموں کی طرح صفائی پیش کرنے لگتے ہیں۔ بعض حضرات نے تو یہاں تک کیا ہے کہ اپنے مقدمہ کو مضبوط بنانے کے لیے سرے سے اسلام کی تعلیمات اور اس کے قوانین ہی میں ترمیم کر ڈالی، اور شدتِ مرعوبیت میں جن جن چیزوں کو انہوں نے اپنے نزدیک خوفناک سمجھا انہیں ریکارڈ پر سے بالکل غائب کر دیا تاکہ مخالفین کی نظر اس پر نہ پڑ سکے۔

 

لیکن جن لوگوں نے ایسا کمزور پہلو اختیار نہیں کیا ان کے ہاں بھی کم از کم یہ نقص ضرور موجود ہے کہ وہ جہاد و قتال کے متعلق اسلامی تعلیمات کو پوری وضاحت کے ساتھ بیان نہیں کرتے اور بہت سے پہلو اس طرح تشنہ چھوڑ جاتے ہیں کہ ان میں شک و شبہ کی بہت کچھ گنجائش باقی رہتی ہے۔ غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے اصلی ضرورت اس امر کی ہے کہ جہاد فی سبیل اللہ اور قتال بغرض اعلائے کلمۃ اللہ کے متعلق اسلام کی تعلیمات اور اس کے قوانین کو بے کم و کاست اسی طرح بیان کر دیا جائے جس طرح وہ قرآن مجید، احادیث نبوی اور کتبِ فقہیہ میں درج ہیں، ان میں سے کسی چیز کو نہ گھٹایا جائے نہ بڑھایا جائے اور نہ اسلام کے اصلی منشا اور اس کی تعلیم کی روح کو بدلنے کی کوشش کی جائے۔

 

میں اس طریقے سے اصولی اختلاف رکھتا ہوں کہ ہم اپنے عقائد و اصول کو دوسروں کے نقطہ نظر کے مطابق ڈھال کر پیش کریں۔ دنیا کا کوئی ایک مسئلہ بھی ایسا نہیں ہے جس میں تمام لوگ ایک نقطہ نظر پر متفق ہوں۔ ہر جماعت اپنا ایک الگ نقطہ نظر رکھتی ہے اور اس کو صحیح سمجھتی ہے، كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ (المومنون: ۵۳)۔ پس ہم دوسروں کے نقطہ نظر کی رعایت سے اپنے اصول و عقائد کو خواہ کتنا ہی رنگ کر پیش کریں یہ ناممکن ہے کہ تمام مختلف الخیال گروہ ہم سے متفق ہو جائیں اور سب کو ہمارا وہ مصنوعی رنگ پسند ہی آجائے۔ اس لیے زیادہ بہتر طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنے دین کے عقائد اور احکام کو، اس کی تعلیمات اور اس کے قوانین کو ان کے اصلی رنگ میں دنیا کے سامنے پیش کر دیں، اور جو دلائل ہم ان کے حق میں رکھتے ہیں انہیں بھی صاف صاف بیان کر دیں، پھر یہ بات خود لوگوں کی عقل پر چھوڑ دیں کہ خواہ وہ انہیں قبول کریں یا نہ کریں، اگر قبول کریں تو زہے نصیب، نہ قبول کریں تو ہمیں اس کی کوئی پروا نہیں۔ یہ دعوت و تبلیغ کا صحیح اصول ہے جسے ہمیشہ سے اربابِ عزم لوگوں نے اختیار کیا ہے، اور خود انبیاء علیہم السلام نے بھی اسی پر عمل کیا ہے۔

 

میں ایک عرصہ سے اس ضرورت کو محسوس کر رہا تھا، مگر احساسِ ضرورت سے بڑھ کر عمل کی جانب کوئی اقدام نہ کر سکتا تھا، کیونکہ اس کام کے لیے بڑی فرصت درکار تھی اور فرصت ہی ایک ایسی چیز ہے جو کسی اخبار نویس کو میسر نہیں آتی۔

 

لیکن دسمبر ۱۹۲۶ء کی آخری تاریخوں میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے مجھے مشکلات سے قطع نظر کر کے اقدامِ عمل پر مجبور کر دیا۔ یہ واقعہ شدھی تحریک کے بانی سوامی شردھانند کے قتل کا واقعہ تھا جس سے جہلاء اور کم نظر لوگوں کو اسلامی جہاد کے متعلق غلط خیالات کی اشاعت کا ایک نیا موقع مل گیا، کیونکہ بد قسمتی سے ایک مسلمان اس فعل کے ارتکاب کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا اور اخبارات میں اس کی جانب یہ خیالات منسوب کیے گئے تھے کہ اس نے اپنے مذہب کا دشمن سمجھ کر سوامی کو قتل کیا ہے، اور یہ کہ اس نیک کام کے کرنے سے وہ جنت کا امیدوار ہے۔

 

حقیقت کا علم تو خدا کو ہے، مگر منظر عام پر جو کچھ آیا وہ یہی واقعات تھے۔ ان کی وجہ سے عام طور پر اسلام کے دشمنوں میں ایک ہیجان پیدا ہو گیا، انہوں نے علمائے اسلام کے اعلانات اور اسلامی جرائد اور عمائدِ ملت کی متفقہ تصریحات کے باوجود اس واقعہ کو اس کی طبعی حدود تک محدود رکھنے کے بجائے تمام امت مسلمہ کو بلکہ خود اسلامی تعلیمات کو اس کا ذمہ دار قرار دینا شروع کر دیا، اور علانیہ قرآن کریم پر اس قسم کے الزامات عائد کرنے لگے کہ اس کی تعلیم مسلمانوں کو خونخوار و قاتل بناتی ہے، اس کی تعلیم امن و امان اور سلامتی کے خلاف ہے، اور اس کی تعلیم نے مسلمانوں کو ایسا متعصب بنادیا ہے کہ وہ ہر کافر کو گردن زدنی سمجھتے ہیں اور اسے قتل کر کے جنت میں جانے کی امید رکھتے ہیں۔ بعض دریدہ دہنوں نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ دنیا میں جب تک قرآن کی تعلیم موجود ہے، امن قائم نہیں ہو سکتا، اس لیے تمام عالمِ انسانی کو اس تعلیم کے مٹانے کی کوشش کرنی چاہیے۔

 

ان غلط خیالات کی نشر و اشاعت اس کثرت کے ساتھ کی گئی کہ صحیح الخیال لوگوں کی عقلیں بھی چکرا گئیں اور گاندھی جی جیسے شخص نے، جو ہندو قوم میں سب سے بڑے صائب الرائے آدمی ہیں، اس سے متاثر ہو کر بتکرار اس خیال کا اظہار کیا کہ:

"اسلام ایسے ماحول میں پیدا ہوا ہے جس کی فیصلہ کن طاقت پہلے بھی تلوار تھی اور آج بھی تلوار ہے۔"

 

اگرچہ یہ تمام خیالات کسی تحقیق اور علمی تفحص پر مبنی نہ تھے، بلکہ "طوطی" کی طرح وہی سبق دہرایا جا رہا تھا جو "استادِ ازل" نے سکھا رکھا تھا، مگر ایک غیر معمولی واقعہ نے ان اوہام میں حقیقت کا رنگ پیدا کر دیا تھا جس سے ناواقف لوگ آسانی کے ساتھ دھوکا کھا سکتے تھے۔ چونکہ ایسی عام بدگمانیاں اشاعتِ اسلام کی راہ میں ہمیشہ حائل ہوتی ہیں اور ایسے ہی مواقع ہوتے ہیں جن میں اسلام کی صحیح تعلیم کو زیادہ صفائی کے ساتھ پیش کرنے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ غبار چھٹ جائے اور آفتابِ حقیقت زیادہ روشنی کے ساتھ طلوع ہو، اس لیے میں نے فرصت کا انتظار چھوڑ کر اپنے اس قلیل وقت میں جو ترتیبِ اخبار سے باقی بچتا تھا پیش نظر مضمون کی تحریر و تسوید کا کام شروع کر دیا اور ساتھ ہی ساتھ اخبار "الجمعیۃ" کے کالموں میں اس کی اشاعت بھی شروع کر دی۔

 

ابتداءً محض ایک مختصر مضمون لکھنے کا ارادہ تھا مگر سلسلۂ کلام چھڑنے کے بعد بحث کے اس قدر گوشے سامنے آتے چلے گئے کہ اخبار کے کالموں میں ان کا سمانا مشکل ہو گیا۔ اس لیے مجبوراً ۲۳-۲۴ نمبر شائع کرنے کے بعد میں نے اخبار میں اس کی اشاعت بند کر دی اور اب اس پورے سلسلہ کو مکمل کر کے کتابی صورت میں پیش کر رہا ہوں۔ اگرچہ یہ کتاب مبحث کے اکثر پہلوؤں پر حاوی ہے، لیکن پھر بھی مجھے افسوس ہے کہ وقت کی کمی نے بہت سے مباحث کو تشنہ رکھنے پر مجبور کیا ہے اور جن مضامین کی توضیح کے لیے ایک مستقل باب کی ضرورت تھی انہیں ایک ایک دو دو فقروں میں ادا کرنا پڑا ہے۔

 

اس کتاب میں میں نے خصوصیت کے ساتھ اس امر کا التزام رکھا ہے کہ کہیں اپنے یا دوسرے لوگوں کے ذاتی خیالات کو دخل نہیں دیا۔ بلکہ تمام کلی و جزئی مسائل خود قرآن مجید سے اخذ کر کے پیش کیے ہیں، اور جہاں کہیں ان کی توضیح کی ضرورت پیش آئی ہے، احادیث نبوی ﷺ، معتبر کتب فقہیہ، اور صحیح و مستند تفاسیر سے مدد لی ہے تاکہ ہر شخص کو معلوم ہو جائے کہ آج دنیا کا رنگ دیکھ کر کوئی نئی چیز پیدا نہیں کی گئی ہے بلکہ جو کچھ کہا گیا ہے سب اللہ اور اس کے رسول ﷺ اور ائمۂ اسلام کے ارشادات پر مبنی ہے۔

 

میں تمام ان غیر مسلم حضرات سے، جو تعصب کی بناء پر اسلام سے اندھی دشمنی نہیں رکھتے، درخواست کرتا ہوں کہ اس کتاب میں اسلام کی اصلی تعلیمِ جنگ کا مطالعہ کریں اور اس کے بعد بتائیں کہ انہیں اس تعلیم پر کیا اعتراض ہے۔ اگر اس کے بعد بھی کسی شخص کو کچھ شک باقی ہو تو میں اسے رفع کرنے کی پوری کوشش کروں گا۔

 

ابوالاعلیٰ

 

دیباچہ طبع دوم

 

یہ کتاب کئی سال سے نایاب ہو گئی تھی، اول تو جنگ کے زمانے میں اتنی ضخیم کتاب کا طبع کرانا مشکل تھا، دوسرے اس خیال سے بھی میں نے اس کی طبعِ ثانی کو روک رکھا تھا کہ دوسری جنگِ عظیم سے بین الاقوامی قانون میں جو تغیرات ہو رہے تھے ان پر ایک تبصرے کا اس کتاب میں اضافہ کر دیا جائے، لیکن افسوس ہے کہ اسی دوران میں میری صحت خراب ہو گئی اور میرے لیے مطالعہ اور تحریر کا کام سخت مشکل ہو گیا۔ اب یہ کتاب محض تھوڑی سی ضروری ترمیم و اصلاح کے ساتھ شائع کی جا رہی ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے کام کی قوت عطا فرما دی تو کسی آئندہ ایڈیشن میں پیش نظر اضافے کر دیے جائیں گے۔

 

ابوالاعلیٰ

 

 

باب اول: اسلامی جہاد کی حقیقت

 

انسانی جان کا احترام

 

انسانی تمدن کی بنیاد جس قانون پر قائم ہے اس کی سب سے پہلی دفعہ یہ ہے کہ انسان کی جان اور اس کا خون محترم ہے۔ انسان کے تمدنی حقوق میں اولین حق زندہ رہنے کا حق ہے، اور اس کے تمدنی فرائض میں اولین فرض زندہ رہنے دینے کا فرض ہے۔ دنیا کی جتنی شریعتیں اور مہذب قوانین ہیں ان سب میں احترامِ نفس کا یہ اخلاقی اصول ضرور موجود ہے۔ جس قانون اور مذہب میں اسے تسلیم نہ کیا گیا ہو وہ نہ تو مہذب انسانوں کا مذہب و قانون بن سکتا ہے، نہ اس کے ماتحت رہ کر کوئی انسانی جماعت پُرامن زندگی بسر کر سکتی ہے، نہ اسے کوئی فروغ حاصل ہو سکتا ہے۔

 

ہر شخص کی عقل خود سمجھ سکتی ہے کہ اگر انسان کی جان کی کوئی قیمت نہ ہو، اس کا کوئی احترام نہ ہو، اس کی حفاظت کا کوئی بندوبست نہ ہو، تو چار آدمی کیسے مل کر رہ سکتے ہیں، ان میں کس طرح باہم کاروبار ہو سکتا ہے، انہیں وہ امن و اطمینان اور وہ بے خوفی و جمعیتِ خاطر کیوں کر حاصل ہو سکتی ہے جس کی انسان کو تجارت، صنعت اور زراعت کرنے، دولت کمانے، گھر بنانے، سیر و سفر کرنے اور متمدن زندگی بسر کرنے کے لیے ضرورت ہوتی ہے؟ پھر اگر ضروریات سے قطع نظر کر کے خالص انسانیت کی نظر سے دیکھا جائے تو اس لحاظ سے بھی کسی ذاتی فائدے کی خاطر، یا کسی ذاتی عداوت کی خاطر اپنے ایک بھائی کا قتل کرنا بدترین قساوت اور انتہائی سنگدلی ہے جس کا ارتکاب کر کے انسان میں کوئی اخلاقی بلندی پیدا ہونا تو درکنار، اس کا درجۂ انسانیت پر قائم رہنا بھی محال ہے۔

 

دنیا کے سیاسی قوانین تو اس احترامِ حیاتِ انسانی کو صرف سزا کے خوف اور قوت کے زور سے قائم کرتے ہیں، مگر ایک سچے مذہب کا کام دلوں میں اس کی صحیح قدر و قیمت پیدا کر دینا ہے، تاکہ جہاں انسانی تعزیر کا خوف نہ ہو اور جہاں انسانی پولیس روکنے والی نہ ہو، وہاں بھی بنی آدم ایک دوسرے کے خونِ ناحق سے محترز رہیں۔ اس نقطۂ نظر سے احترامِ نفس کی جیسی صحیح اور مؤثر تعلیم اسلام میں دی گئی ہے وہ کسی دوسرے مذہب میں ملنی مشکل ہے۔

 

قرآن کریم میں جگہ جگہ مختلف پیرایوں سے اس تعلیم کو دل نشین کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ سورہ مائدہ میں آدمؑ کے دو بیٹوں کا قصہ بیان کر کے، جن میں سے ایک نے ظلماً دوسرے کو قتل کیا تھا، فرمایا ہے:

> مِنْ أَجْلِ ذَٰلِكَ كَتَبْنَا عَلَىٰ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنَّهُ مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا ۚ وَلَقَدْ جَاءَتْهُمْ رُسُلُنَا بِالْبَيِّنَاتِ ثُمَّ إِنَّ كَثِيرًا مِّنْهُمْ بَعْدَ ذَٰلِكَ فِي الْأَرْضِ لَمُسْرِفُونَ (المائدہ: ۳۲)

> "اسی بنا پر ہم نے بنی اسرائیل کو یہ لکھ کر دے دیا کہ جو کوئی کسی کی جان لے، بغیر اس کے کہ اس نے کسی کی جان لی ہو یا زمین میں فساد کیا ہو، تو گویا اس نے تمام انسانوں کا خون کیا۔ اور جس نے کسی کی جان بچائی تو گویا اس نے تمام انسانوں کو بچایا۔ ان لوگوں کے پاس ہمارے رسول کھلی کھلی ہدایات لے کر آئے مگر اس کے بعد بھی ان میں سے بہت ایسے ہیں جو زمین میں حد سے تجاوز کر جاتے ہیں۔"

 

> وَلَا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا يَزْنُونَ ۚ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَٰلِكَ يَلْقَ أَثَامًا (الفرقان: ۶۸)

> "وہ اس جان کو جسے اللہ نے محترم قرار دیا ہے بغیر حق کے ہلاک نہیں کرتے، اور نہ زنا کرتے ہیں، اور جو کوئی ایسا کرے گا وہ اپنے کیے کی سزا پائے گا۔"

 

ایک اور مقام پر ارشاد ہوتا ہے:

> قُلْ تَعَالَوْا أَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ ۖ أَلَّا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا ۖ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا ۖ وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ مِّنْ إِمْلَاقٍ ۖ نَّحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَإِيَّاهُمْ ۖ وَلَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ ۖ وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ ۚ ذَٰلِكُمْ وَصَّاكُمْ بِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ (الانعام: ۱۵۱)

> "اے محمد ﷺ کہو کہ آؤ! میں تم کو بتاؤں کہ اللہ نے تم پر کیا پابندیاں عائد کی ہیں۔ تم پر واجب ہے کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، والدین سے نیک سلوک کرو، اپنی اولاد کو مفلسی و تنگ دستی کے باعث قتل نہ کرو، ہم جہاں تم کو رزق دیتے ہیں ان کو بھی دیں گے، بدکاریوں کے قریب بھی نہ پھٹکو، خواہ وہ چھپی ہوئی ہوں یا کھلی، کسی ایسی جان کو جسے اللہ نے محترم قرار دیا ہے ہلاک نہ کرو سوائے اس صورت کے کہ ایسا کرنا حق کا تقاضا ہو، اللہ نے ان باتوں کی تمہیں تاکید کی ہے، شاید کہ تم کو کچھ عقل آئے۔"

 

اس تعلیم کے اولین مخاطب وہ لوگ تھے جن کے نزدیک انسانی جان کی کوئی قیمت نہیں تھی، اور جو اپنے ذاتی فائدے کی خاطر اولاد جیسی چیز کو بھی قتل کر دیا کرتے تھے۔ اس لیے داعی اسلام علیہ الصلوٰۃ والسلام ان کی طبیعتوں کی اصلاح کے لیے خود بھی ہمیشہ احترامِ نفس کی تلقین فرماتے رہتے تھے، اور یہ تلقین ہمیشہ نہایت مؤثر انداز میں ہوا کرتی تھی۔ احادیث میں کثرت سے اس قسم کے ارشادات پائے جاتے ہیں جن میں بے گناہ کا خون بہانے کو بدترین گناہ بتایا گیا ہے۔ مثال کے طور پر چند احادیث ہم یہاں نقل کرتے ہیں۔

 

انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا:

> اكبر الكبائر الاشراك بالله وقتل النفس وعقوق الوالدين وقول الزور

> "بڑے گناہوں میں سب سے بڑا گناہ اللہ کے ساتھ شرک کرنا ہے، اور قتلِ نفس اور والدین کی نافرمانی اور جھوٹ بولنا ہے۔"

 

> لن يزال المؤمن في فسحة من دينه ما لم يصب دما حراما

> "مومن اپنے دین کی وسعت میں اس وقت تک برابر رہتا ہے جب تک وہ کسی حرام خون کو نہیں بہاتا۔"

 

> اول ما يحاسب به العبد الصلوة واول ما يقضى بين الناس يوم القيامة في الدماء

> "قیامت کے دن بندے سے سب سے پہلے جس چیز کا حساب لیا جائے گا وہ نماز ہے، اور پہلی چیز جس کا فیصلہ لوگوں کے درمیان کیا جائے گا وہ خون کے دعوے ہیں۔"

 

ایک مرتبہ ایک شخص آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ سب سے بڑا گناہ کون سا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا:

> ان تدعو لله ندا و هو خلقك

> "یہ کہ تو کسی کو اللہ کا نظیر و مثیل قرار دے حالانکہ اس نے تجھے پیدا کیا۔"

اس نے پھر پوچھا کہ اس کے بعد کون سا گناہ بڑا ہے؟ آپ ﷺ نے جواب دیا:

> ان تقتل ولدك ان يطعم معك

> "یہ کہ تو اپنے بچے کو قتل کر دے اس خیال سے کہ وہ تیرے کھانے میں شریک ہو گا۔"

اس نے عرض کیا اس کے بعد کون سا گناہ ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا:

> ان توانى حليلة جارك

> "یہ کہ تو اپنے ہمسایہ کی بیوی سے زنا کرے۔"

 

دنیا پر اسلامی تعلیم کا اخلاقی اثر

 

حرمتِ نفس کی یہ تعلیم کسی فلسفی یا معلمِ اخلاق کی کاوشِ فکر کا نتیجہ نہ تھی کہ اس کا اثر صرف کتابوں اور مدرسوں تک محدود رہتا، بلکہ درحقیقت وہ خدا اور اس کے رسول ﷺ کی تعلیم تھی جس کا لفظ لفظ ہر مسلمان کا جزوِ ایمان تھا، جس کی تعمیل، تلقین اور تنفیذ ہر اس شخص پر فرض تھی جو کلمۂ اسلام کا قائل ہو۔ پس ایک چوتھائی صدی کے قلیل عرصہ ہی میں اس کی بدولت عرب جیسی خونخوار قوم کے اندر احترامِ نفس اور امن پسندی کا ایسا مادہ پیدا ہو گیا کہ رسول اللہ ﷺ کی پیش گوئی کے مطابق قادسیہ سے صنعا تک ایک عورت تنہا سفر کرتی تھی اور کوئی اس کے جان و مال پر حملہ نہ کرتا تھا۔ حالانکہ یہ وہی ملک تھا جہاں پچیس سال پہلے بڑے بڑے قافلے بھی بے خوف نہیں گزر سکتے تھے۔

 

پھر جب مہذب دنیا کا آدھے سے زیادہ حصہ حکومتِ اسلامیہ کے تحت آگیا اور اسلام کے اخلاقی اثرات چار دانگِ عالم میں پھیل گئے تو اسلامی تعلیم نے انسان کی بہت سی غلط کاریوں اور گمراہیوں کی طرح انسانی جان کی اس بے قدری کا بھی استیصال کر دیا جو دنیا میں پھیلی ہوئی تھی۔ آج دنیا کے مہذب قوانین میں حرمتِ نفس کو جو درجہ حاصل ہوا ہے وہ اس انقلاب کے نتائج میں سے ایک شاندار نتیجہ ہے جو اسلامی تعلیم نے دنیا کے اخلاقی ماحول میں برپا کیا تھا۔

 

ورنہ جس دورِ تاریک میں یہ تعلیم اتری تھی اس میں انسانی جان کی فی الحقیقت کوئی قیمت نہ تھی۔ عرب کی خونخواریوں کا نام تو اس سلسلہ میں دنیا نے بہت سنا ہے، مگر ان ممالک کی حالت بھی کچھ بہتر نہ تھی جو اس زمانہ میں دنیا کی تہذیب و شائستگی اور علم و حکمت کے مرکز بنے ہوئے تھے۔ روم کے کلوسیم (Colosseum) کے افسانے اب تک تاریخ کے صفحات میں موجود ہیں جس میں ہزارہا انسان شمشیر زنی (Gladiatory) کے کمالات اور رومی امراء کے شوقِ تماشا کی نذر ہو گئے۔ مہمانوں کی تفریح کے لیے یا دوستوں کی تواضع کے لیے غلاموں کو درندوں سے پھڑوا دینا یا جانوروں کی طرح ذبح کرا دینا، یا ان کے جلنے کا تماشا دیکھنا، یورپ سے ایشیا کے اکثر ممالک میں کوئی معیوب کام نہ تھا۔ قیدیوں اور غلاموں کو مختلف طریقوں سے عذاب دے دے کر مار ڈالنا اس عہد کا عام دستور تھا۔

 

جاہل و خونخوار امراء سے گزر کر یونان و روما کے بڑے بڑے حکماء و فلاسفہ تک کے اجتہادات میں انسانی جانوں کو بے قصور ہلاک کرنے کی بہت سی وحشیانہ صورتیں جائز تھیں۔ ارسطو و افلاطون جیسے اساتذۂ اخلاق ماں کو یہ اختیار دینے میں کوئی خرابی نہ پاتے تھے کہ وہ اپنے جسم کے ایک حصہ (یعنی جنین) کو الگ کر دے، چنانچہ یونان و روما میں اسقاطِ حمل کوئی ناجائز فعل نہ تھا۔ باپ کو اپنی اولاد کے قتل کا پورا حق تھا اور رومی مقننوں کو اپنے قانون کی اس خصوصیت پر فخر تھا کہ اس میں اولاد پر باپ کے اختیارات غیر محدود ہیں۔ حکماء رواقیین (Stoics) کے نزدیک انسان کا خود اپنے آپ کو قتل کرنا کوئی برا کام نہ تھا، بلکہ ایسا باعزت فعل تھا کہ لوگ جلسے کر کے ان میں خودکشیاں کیا کرتے تھے۔ حد یہ ہے کہ افلاطون جیسا حکیم بھی اسے کوئی بڑی معصیت نہ سمجھتا تھا۔ شوہر کے لیے اپنی بیوی کا قتل بالکل ایسا تھا جیسے وہ اپنے کسی پالتو جانور کو ذبح کر دے، اس لیے قانونِ یونان میں اس کی کوئی سزا نہ تھی۔

 

جیو رکشا کا گہوارہ ہندوستان ان سب سے بڑھا ہوا تھا۔ یہاں مرد کی لاش پر زندہ عورت کو جلا دینا ایک جائز فعل تھا اور مذہباً اس کی تاکید تھی۔ شودر کی جان کوئی قیمت نہ رکھتی تھی اور صرف اس بنا پر کہ وہ غریب برہما کے پاؤں سے پیدا ہوا ہے، اس کا خون برہمنوں کے لیے حلال تھا۔ وید کی آواز سن لینا شودر کے لیے اتنا بڑا گناہ تھا کہ اس کے کان میں پگھلا ہوا سیسا ڈال کر اسے مار ڈالنا نہ صرف جائز بلکہ ضروری تھا۔ "جل پروا" کی رسم عام تھی جس کے مطابق ماں باپ اپنے پہلے بچے کو دریائے گنگا کی نذر کر دیتے تھے اور اس قساوت کو اپنے لیے موجبِ سعادت سمجھتے تھے۔

 

ایسے تاریک دور میں اسلام نے آواز بلند کی کہ لَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ "انسانی جان کو اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے، اس کو قتل نہ کرو مگر اس وقت جب کہ حق اس کے قتل کا مطالبہ کرے۔" اس آواز میں ایک قوت تھی اور قوت کے ساتھ وہ "اہنسا پرمودھرما" کی آواز کی طرح عقل اور فطرت کی مطابقت سے محروم نہ تھی۔ اس لیے وہ دنیا کے گوشہ گوشہ میں پہنچی اور اس نے انسان کو اپنی جان کی صحیح قیمت سے آگاہ کیا۔ خواہ کسی قوم یا کسی ملک نے اسلام کی حلقہ بگوشی اختیار کی ہو یا نہ کی ہو، اس کی اخلاقی زندگی اس آواز کا کسی نہ کسی حد تک اثر قبول کیے بغیر نہ رہی۔ اجتماعی تاریخ کا کوئی انصاف پسند عالم اس سے انکار نہیں کر سکتا کہ دنیا کے اخلاقی قوانین میں، انسانی جان کی حرمت قائم کرنے کا فخر جتنا اس آواز کو حاصل ہے اتنا "پہاڑی کے وعظ" یا "اہنسا پرمودھرما" کی آواز کو حاصل نہیں ہے۔

 

قتل بالحق

 

مگر ذرا غور سے دیکھو فقط لَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ ہی نہیں فرمایا بلکہ اس کے ساتھ إِلَّا بِالْحَقِّ بھی کہا ہے۔ مَنْ قَتَلَ نَفْسًا فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا ہی نہیں کہا بلکہ اس کے ساتھ بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ کا استثناء بھی کر دیا ہے۔ یہ نہیں کہ کسی جان کو کسی حال میں قتل نہ کرو۔ ایسا کہا جاتا تو یہ تعلیم کا نقص ہوتا۔ عدل نہ ہوتا بلکہ حقیقی ظلم ہوتا۔

 

دنیا کو اصلی ضرورت اس بات کی نہ تھی کہ انسان کو قانون کی پکڑ سے آزاد کر دیا جائے اور اسے کھلی چھٹی دے دی جائے کہ جتنا چاہے فساد کرے، جتنی چاہے بدامنی پھیلائے، جس قدر چاہے ظلم و ستم کرے، بہرحال اس کی جان محترم ہی رہے گی، بلکہ اصلی ضرورت یہ تھی کہ دنیا میں امن قائم کیا جائے، فتنہ اور فساد کا بیج مٹا دیا جائے، اور ایسا قانون بنایا جائے جس کے تحت ہر شخص اپنے حدود میں آزاد ہو اور کوئی شخص ایک مقرر حد سے تجاوز کر کے دوسروں کے مادی یا روحانی امن میں خلل برپا نہ کرے۔ اس غرض کے لیے محض لَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ ہی درکار نہ تھی بلکہ إِلَّا بِالْحَقِّ کی محافظ قوت بھی درکار تھی، ورنہ امن کی جگہ بدامنی ہوتی۔

 

دنیا کا کوئی قانون جو مکافاتِ عمل کے اصول سے خالی ہو کامیابی کا منہ نہیں دیکھ سکتا۔ انسانی فطرت اتنی اطاعت شعار نہیں ہے کہ جس چیز کا حکم دیا جائے اسے خوشی سے قبول کر لے، اور جس چیز سے منع کیا جائے اس کو خوشی سے ترک کر دے۔ اگر ایسا ہوتا تو دنیا میں فتنہ و فساد نام کو نہ ہوتا۔ انسان تو اپنی جبلت میں نیکی کے ساتھ بدی اور اطاعت کے ساتھ معصیت بھی رکھتا ہے۔ لہٰذا اس کی سرکش طبیعت کو اطاعتِ امر پر مجبور کرنے کے لیے ایسے قانون کی ضرورت ہے جس میں حکم دینے کے ساتھ یہ بھی ہو کہ اگر تعمیل نہ کی گئی تو اس کی سزا کیا ہے، اور منع کرنے کے ساتھ یہ بھی ہو کہ اگر فعلِ ممنوع سے اجتناب نہ کیا گیا تو اس کا نتیجہ کیا بھگتنا پڑے گا۔ صرف لَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَاحِهَا "زمین کی اصلاح کے بعد اس میں فساد نہ کرو" یا لَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ "جس جان کو اللہ نے حرام کیا ہے اسے قتل نہ کرو" کہنا کافی نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس کے ساتھ یہ بھی نہ بتا دیا جائے کہ اگر اس گناہِ عظیم سے کسی نے اجتناب نہ کیا اور فساد پھیلایا اور قتل و خون کیا تو اسے کیا سزا دی جائے گی۔

 

انسانی تعلیم میں ایسا نقص رہ جانا ممکن ہے، مگر خدائی قانون اتنا ناقص نہیں ہو سکتا۔ اس نے صاف طور پر بتا دیا کہ انسانی خون کی حرمت صرف اسی وقت تک ہے جب تک اس پر "حق" نہ قائم ہو جائے۔ اسے زندگی کا حق صرف اس کی جائز حدود کے اندر ہی دیا جا سکتا ہے، مگر جب وہ ان حدود سے تجاوز کر کے فتنہ و فساد پھیلائے، یا دوسروں کی جان پر ناحق حملہ کرے تو وہ اپنے حقِ حیات کو خود بخود کھو دیتا ہے، اس کے خون کی حرمت زائل ہو کر حلت سے بدل جاتی ہے، اور پھر اس کی موت ہی انسانیت کی حیات ہو جاتی ہے۔ چنانچہ فرمایا: الْفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ۔ قتل بڑی بری چیز ہے مگر اس سے زیادہ بری چیز فتنہ و فساد ہے۔ جب کوئی شخص اس بڑے جرم کا مرتکب ہو تو اس کی بڑی برائی کا خاتمہ کر دینا ہی زیادہ بہتر ہے۔

 

اسی طرح جو شخص کسی دوسرے کی ناحق جان لے اس کے لیے حکم ہوا: كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلَىٰ۔ تو یہ مقتولوں کے لیے قصاص کا حکم لکھ دیا گیا۔ اور اس کے ساتھ اس امتیاز کو بھی مٹا دیا گیا جسے گمراہ قوموں نے اعلیٰ اور ادنیٰ درجہ کے لوگوں میں قائم کیا تھا، چنانچہ فرمایا: كَتَبْنَا عَلَيْهِمْ فِيهَا أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ امیر غریب کو مار ڈالے یا آزاد غلام کو قتل کر دے تو وہ چھوڑ دیا جائے، بلکہ انسان ہونے کے لحاظ سے سب برابر ہیں۔ جان کے بدلے جان ہی لی جائے گی، خواہ امیر کی ہو یا غریب کی۔ پھر اس خیال سے کہ کسی کو اس ناگزیر خونریزی میں تامل نہ ہو: وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ۔ "اے عقلمندو! اس قصاص کو موت نہ سمجھو بلکہ یہ تو فی الحقیقت سوسائٹی کی زندگی ہے جو اس کے جسم سے ایک فاسد و مہلک پھوڑے کو کاٹ کر حاصل کی جاتی ہے۔"

 

حیات فی القصاص کے اس فلسفہ کو حضور نبی کریم ﷺ نے ایک موقع پر خوب سمجھایا ہے۔ ارشاد ہوا: انصر اخاك ظالماً او مظلوماً۔ "اپنے بھائی کی مدد کر خواہ ظالم ہو یا مظلوم۔" سننے والے کو حیرت ہوئی کہ مظلوم کی حمایت تو برحق، مگر ظالم کی اعانت کس طرح کریں؟ پوچھا یا رسول اللہ ﷺ! ہم مظلوم کی اعانت تو ضرور کریں گے لیکن ظالم کی اعانت کس طرح کریں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: تأخذ فوق يديه۔ "اس طرح کہ تو اس کا ہاتھ پکڑ لے اور اسے ظلم سے باز رکھے۔"

 

پس درحقیقت ظالم کے ظلم کو روکنے میں اس کے ساتھ جو سختی بھی کی جائے وہ سختی نہیں ہے بلکہ عین نرمی ہے، اور خود اس ظالم کی بھی مدد ہی ہے۔ اسی لیے اسلام میں حدود اللہ کو قائم کرنے کی سختی کے ساتھ تاکید کی گئی ہے۔ اور اسے رحمت و برکت کا موجب بتایا گیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ: اقامة حد من حدود الله خير من مطر اربعين ليلة في بلاد الله عز وجل۔ "اللہ کی حدوں میں سے ایک حد قائم کرنے کی برکت ۴۰ دن کی بارش سے زیادہ ہے۔" بارش کی برکت یہ ہے کہ اس سے زمین سیراب ہوتی ہے، فصلیں خوب تیار ہوتی ہیں، خوشحالی بڑھتی ہے۔ مگر اقامتِ حدود کی برکت اس سے بڑھ کر ہے کہ اس سے فتنہ و فساد اور ظلم و بدامنی کی جڑ کٹتی ہے، خدا کی مخلوق کو امن چین سے زندگی بسر کرنا نصیب ہوتا ہے اور قیامِ امن سے وہ طمانیت میسر آتی ہے جو تمدن کی جان اور ترقی کی روح ہے۔

 

قتل بالحق اور قتل بغیر حق کا فرق

 

قتل بغیر حق کی ایسی سخت ممانعت اور قتل بالحق کی ایسی سخت تاکید کر کے شریعتِ الٰہیہ نے افراط و تفریط کی دو راہوں کے درمیان عدل و توسط کی سیدھی راہ کی طرف ہماری رہنمائی کی ہے۔ ایک طرف وہ مسرف اور حد سے تجاوز کرنے والا گروہ ہے جو انسانی جان کی کوئی قیمت نہیں سمجھتا اور اپنی نفسانی خواہشات پر اسے قربان کر دینا جائز سمجھتا ہے۔ دوسری طرف وہ غلط فہم اور غلط بین گروہ ہے جو خون کے تقدس اور ابدی حرمت کا قائل ہے اور کسی حال میں بھی اسے بہانا جائز نہیں سمجھتا۔

 

اسلامی شریعت نے ان دونوں غلط خیالوں کی تردید کر دی اور اس نے بتایا کہ نفسِ انسانی کی حرمت نہ تو کعبہ یا ماں بہن کی حرمت کی طرح ابدی ہے کہ کسی طرح حلت سے بدل ہی نہ سکے، اور نہ اس کی قیمت اس قدر کم ہے کہ نفسانی جذبات کی تسکین کی خاطر اسے ہلاک کر دینا جائز ہو۔ ایک طرف اس نے بتایا کہ انسان کی جان اس لیے نہیں ہے کہ تفریحِ طبع کے لیے اس کے بسمل وار تڑپنے کا تماشا دیکھا جائے، اس کو جلا کر یا عقوبتیں دے کر لطف اٹھایا جائے، اس کو شخصی خواہشات کی راہ میں حائل دیکھ کر فنا کے گھاٹ اتار دیا جائے، یا بے اصل توہمات اور غلط رسموں کی قربان گاہ پر اس کی بھینٹ چڑھائی جائے۔ ایسی ناپاک اغراض کے لیے اس کا خون بہانا یقیناً حرام اور سخت معصیت ہے۔

 

دوسری طرف اس نے یہ بھی بتایا کہ ایک چیز انسان کی جان سے بھی زیادہ قیمتی ہے اور وہ "حق" ہے۔ وہ جب اس کے خون کا مطالبہ کرے تو اسے بہانا نہ صرف جائز بلکہ فرض ہے، اور اس کو نہ بہانا اول درجہ کی معصیت ہے۔ انسان جب تک حق کا احترام کرتا ہے اس کا خون واجب الاحترام رہتا ہے، مگر جب وہ سرکشی اختیار کر کے "حق" پر دست درازی کرتا ہے تو اپنے خون کی قیمت خود کھو دیتا ہے، پھر اس کے خون کی قیمت اتنی بھی نہیں رہتی جتنی پانی کی ہوتی ہے۔

 

ناگزیر خونریزی

 

یہ قتل بالحق اگرچہ صورت میں قتل بغیر حق کی طرح خونریزی ہی ہے، مگر حقیقت میں یہ ناگزیر خونریزی ہے جس سے کسی حال میں چھٹکارا نہیں، اس کے بغیر نہ دنیا میں امن قائم ہو سکتا ہے، نہ شر و فساد کی جڑ کٹ سکتی ہے، نہ نیکوں کو بدوں کی شرارت سے نجات مل سکتی ہے، نہ حق دار کو حق مل سکتا ہے، نہ ایمانداروں کو ایمان اور ضمیر کی آزادی حاصل ہو سکتی ہے، نہ سرکشوں کو ان کے جائز حدود میں محدود رکھا جا سکتا ہے، اور نہ اللہ کی مخلوق کو مادی و روحانی چین میسر آسکتا ہے۔

 

اگر اسلام پر ایسی خونریزی کا الزام ہے تو اسے اس الزام کے قبول کرنے میں ذرہ برابر بھی عار نہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ اور کون ہے جس کا دامن اس ناگزیر خونریزی کی چھینٹوں سے سرخ نہیں ہے؟ بودھ مذہب کی اہنسا اس کو ناجائز رکھتی ہے، مگر وہ بھی بھکشو اور گرہستی میں فرق کرنے پر مجبور ہوئی اور آخر اس نے ایک قلیل جماعت کے لیے نجات (نروان) کو مخصوص رکھنے کے بعد باقی تمام دنیا کو چند اخلاقی ہدایات دے کر گرہست دھرم اختیار کرنے کے لیے چھوڑ دیا جس میں سیاست، تعزیر اور جنگ سب کچھ ہے۔ اسی طرح مسیحیت بھی جنگ کی کلی تحریم کے باوجود آخر جنگ پر مجبور ہوئی اور جب رومی سلطنت کے مظالم برداشت کرنا اس کے لیے ناممکن ہو گیا تو آخر کار اس نے خود سلطنت پر قبضہ کر کے ایسی جنگ برپا کی جو ناگزیر خونریزی کی حد سے بہت آگے نکل گئی۔ ہندو مذہب میں بھی متاخرین فلاسفہ نے "اہنسا پرمودھرما" کا عقیدہ تجویز کیا اور جیو ہتیا کرنے کو پاپ قرار دیا، مگر اسی عہد کے مقنن منو سے فتویٰ پوچھا گیا کہ "اگر کوئی شخص ہماری عورتوں پر دست درازی کرے، یا ہمارا مال چھینے، ہمارے دھرم کی بے آبروئی کرے تو ہم کیا کریں؟" تو اس نے جواب دیا کہ "ایسے جفا کار انسان کو ضرور مار ڈالنا چاہیے، عام اس سے کہ وہ گورو ہو یا عالم برہمن، بوڑھا ہو یا نوجوان۔"

 

یہاں مذاہب کا مقابلہ کر کے اس ناگزیر خونریزی کی ضرورت ثابت کرنے کا موقع نہیں ہے۔ تقابلِ ادیان کی بحث ایک الگ چیز ہے جو اپنے موقع پر آئے گی، اور اس وقت یہ ثابت ہو جائے گا کہ جو مذاہب جنگ کو برا سمجھتے ہیں وہ بھی عملی دنیا میں قدم رکھنے کے بعد اس ناگزیر چیز سے اپنے آپ کو مجتنب رکھنے میں ناکام رہے ہیں۔ سردست ہمارا مدعا صرف یہ دکھانا ہے کہ نمائشِ اخلاق کے لیے کوئی جماعت خواہ کیسے ہی اونچے خیالی فلسفوں تک پہنچ جائے لیکن عمل کی دنیا میں آکر اسے دنیا کے تمام مسائل کو عملی صورتوں سے ہی حل کرنا پڑتا ہے اور یہ دنیا خود اس کو مجبور کر دیتی ہے کہ وہ اس کی حقیقتوں کا عملی تدابیر سے مقابلہ کرے۔

 

قرآن نازل کرنے والے کے لیے کچھ مشکل نہ تھا کہ وہ حرمتِ نفس کے لیے ویسے ہی خیالی لذت بخشنے والے اصول پیش کرتا جیسے کہ اہنسا کے عقیدہ میں پائے جاتے ہیں، اور یقیناً وہ اپنے معجزانہ کلام میں ان کو پیش کر کے دنیا کی عقلوں کو دنگ کر سکتا تھا۔ مگر اس فاطرِ کائنات کو خطابت اور تفلسف کی نمائش مقصود نہ تھی بلکہ وہ اپنے بندوں کے لیے ایک صحیح اور واضح دستور العمل پیش کرنا چاہتا تھا جس پر کاربند ہو کر ان کی دنیا اور دین درست ہو سکے۔ اس لیے جب اس نے دیکھا کہ إِلَّا بِالْحَقِّ کے استثناء کے بغیر محض لَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ کا عام حکم مفید نہیں ہو سکتا تو یہ اس کی بے عیب ذات سے بعید تھا کہ دنیا والوں کو لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ "تم وہ بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو" کا طعنہ دینے کے باوجود وہ انہیں یہ سکھاتا کہ زبان سے اہنسا پرمودھرما کی آواز بلند کرو اور ہاتھ سے خوب شمشیر زنی کرتے رہو۔ پس یہ اللہ کی حکمتِ بالغہ ہی تھی کہ اس نے حرمتِ نفس کی تعلیم کے ساتھ قصاص کا قانون بھی مقرر کیا اور اس طرح اس قوت کے استعمال کو ضروری قرار دیا جس کا استعمال حرمتِ نفس کی حفاظت کے لیے ناگزیر ہے۔

 

اجتماعی فتنہ

 

یہ قصاص کا قانون جس طرح افراد کے لیے ہے اسی طرح جماعتوں کے لیے بھی ہے۔ جس طرح افراد سرکش ہوتے ہیں اسی طرح جماعتیں اور قومیں بھی سرکش ہوتی ہیں۔ جس طرح افراد حرص و طمع سے مغلوب ہو کر اپنی حد سے تجاوز کر جاتے ہیں اسی طرح جماعتوں اور قوموں میں بھی یہ اخلاقی مرض پیدا ہو جایا کرتا ہے۔ اس لیے جس طرح افراد کو قابو میں رکھنے اور تعدی سے باز رکھنے کے لیے خونریزی ناگزیر ہوتی ہے اسی طرح جماعتوں اور قوموں کی بڑھتی ہوئی بدکاری کو روکنے کے لیے جنگ ناگزیر ہو جاتی ہے۔

 

نوعیت کے اعتبار سے انفرادی اور اجتماعی فتنہ میں کوئی فرق نہیں ہے، مگر کیفیت کے اعتبار سے عظیم الشان فرق ہے۔ افراد کا فتنہ ایک تنگ دائرے میں محدود ہوتا ہے، انسانوں کی ایک قلیل جماعت کو اس سے آزار پہنچتا ہے اور گز بھر زمین رنگین کر کے اس کا استیصال کیا جا سکتا ہے، مگر جماعتوں کا فتنہ ایک غیر محدود مصیبت ہوتا ہے جس سے بے شمار انسانوں کی زندگی دوبھر ہو جاتی ہے، پوری پوری قوموں پر عرصۂ حیات تنگ ہو جاتا ہے، تمدن کے سارے نظام میں ایک ہلچل برپا ہو جاتی ہے، اور اس کا استیصال خون کی ندیاں بہائے بغیر نہیں ہو سکتا جسے قرآن میں اثخان فی الارض کے معنی خیز لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔

 

جماعتیں جب سرکشی پر آتی ہیں تو کوئی ایک فتنہ نہیں ہوتا جو وہ برپا کرتی ہوں، ان میں طرح طرح کے شیطان شامل ہوتے ہیں اس لیے طرح طرح کی شیطانی قوتیں ان کے طوفان میں ابھر آتی ہیں اور ہزاروں قسم کے فتنے ان کی بدولت اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ وہ کمزور قوموں کی تجارت پر قبضہ کرتے ہیں، ان کی صنعتوں کو برباد کرتے ہیں، ان کی محنت سے کمائے ہوئے روپے کو قسم قسم کی چالاکیوں سے لوٹتے ہیں اور قوت کے حق کی بنا پر اس دولت سے اپنے خزانے بھرتے ہیں جس کی جائز حقدار وہ فاقہ کش مظلوم قومیں ہوتی ہیں۔

 

بعض ان میں ہوائے نفسانی کے بندے ہوتے ہیں تو وہ اپنے جیسے انسانوں کے خدا بن بیٹھتے ہیں، اپنی خواہشات پر کمزوروں کے حقوق قربان کرتے ہیں، عدل و انصاف کو مٹا کر ظلم و جفا کے علم بلند کرتے ہیں، شریفوں اور نیکوکاروں کو دبا کر سفیہوں اور کمینوں کو سربلند کرتے ہیں، ان کے ناپاک اثر سے قوموں کے اخلاق تباہ ہو جاتے ہیں، محاسن اور فضائل کے چشمے سوکھ جاتے ہیں، اور ان کی جگہ خیانت، بدکاری، بے حیائی، سنگدلی، بے انصافی، اور بے شمار دوسرے اخلاقی مفاسد کے گندے نالے جاری ہو جاتے ہیں۔

 

پھر ان میں سے بعض وہ ہیں جن پر جہانگیری و کشورستانی کا بھوت سوار ہوتا ہے تو وہ بے بس اور کمزور قوموں کی آزادی سلب کرتے ہیں، خدا کے بے گناہ بندوں کے خون بہاتے ہیں، اپنی خواہشِ اقتدار کو پورا کرنے کے لیے زمین میں فساد پھیلاتے ہیں اور آزاد انسانوں کو اس غلامی کا طوق پہناتے ہیں جو تمام اخلاقی مفاسد کی جڑ ہے۔ ان شیطانی کاموں کے ساتھ جب اِکراہ فی الدین بھی شامل ہو جاتا ہے اور ان ظالم جماعتوں میں سے کوئی جماعت اپنی اغراض کے لیے مذہب کو استعمال کر کے بندگانِ خدا کو مذہبی آزادی سے بھی محروم کر دیتی ہے اور دوسروں پر اس وجہ سے ظلم و ستم توڑتی ہے کہ وہ اس کے مذہب کے بجائے اپنے مذہب کی پیروی کیوں کرتے ہیں تو یہ مصیبت اور بھی زیادہ شدید ہو جاتی ہے۔

 

جنگ ایک اخلاقی فرض

 

ایسی حالت میں جنگ جائز ہی نہیں بلکہ فرض ہو جاتی ہے۔ اس وقت انسانیت کی سب سے بڑی خدمت یہی ہوتی ہے کہ ان ظالموں کے خون سے زمین کو سرخ کر دیا جائے اور ان مفسدوں اور فتنہ پردازوں کے شر سے اللہ کے مظلوم و بے بس بندوں کو نجات دلائی جائے جو شیطان کی امت بن کر اولادِ آدم پر اخلاقی، روحانی اور مادی تباہی کی مصیبتیں نازل کرتے ہیں۔

 

وہ لوگ دراصل انسان نہیں ہوتے کہ انسانی ہمدردی کے مستحق ہوں بلکہ انسان کے لباس میں شیطان اور انسانیت کے حقیقی دشمن ہوتے ہیں جن کے ساتھ اصلی ہمدردی یہی ہے کہ ان کے شر کو صفحۂ ہستی سے حرفِ غلط کی طرح مٹا دیا جائے۔ وہ اپنے کرتوتوں کی وجہ سے اپنے حقِ حیات کو خود کھو دیتے ہیں، انہیں، اور ان لوگوں کو جو ان کے شر کو باقی رکھنے کے لیے ان کی مدد کریں، دنیا میں زندہ رہنے کا حق باقی نہیں رہتا۔ وہ درحقیقت انسانیت کے جسم کا ایسا عضو ہوتے ہیں جس میں زہریلا اور فاسد مادہ بھر گیا ہو، جس کے باقی رکھنے سے تمام جسم کے ہلاک ہو جانے کا اندیشہ ہو، اس لیے عقل و مصلحت اندیشی کا تقاضا یہی ہوتا ہے کہ اس فاسد و مفسد عضو کو کاٹ پھینکا جائے۔

 

بہت ممکن ہے کہ دنیا میں کوئی تخیل پسند اخلاقی معلم (یا متعلم) ایسا بھی ہو جس کے نزدیک ایسے ظالموں کا قتل بھی پاپ ہو اور اس کی بزدل روح اس خون کے سیلاب کے تصور سے کانپ اٹھتی ہو جو ان کا شر دفع کرنے میں بہتا ہے۔ مگر ایسا معلم دنیا کی اصلاح نہیں کر سکتا۔ وہ جنگلوں اور پہاڑوں میں جا کر تقویٰ اور ریاضت سے اپنی روح کو تو ضرور تسکین پہنچا سکتا ہے، مگر اس کی تعلیم دنیا کو بدی سے پاک کرنے اور ظلم و سرکشی سے محفوظ رکھنے میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی۔ وہ نفس کش انسانوں کی ایسی جماعت تو ضرور مہیا کر سکتا ہے جو مظلوموں کے ساتھ ظلم سہنے میں خود بھی شریک ہو جائے، مگر بلند حوصلہ انسانوں کی ایسی جماعت پیدا کرنا اس کے بس کی بات نہیں ہے جو ظلم کو مٹا کر عدل قائم کر دے اور خلقِ خدا کے لیے امن چین سے رہنے اور انسانیت کے اعلیٰ نصب العین تک پہنچنے کے وسائل مہیا کر دے۔

 

عملی اخلاق، جس کا مقصد تمدن کا صحیح نظام قائم کرنا ہے، دراصل ایک دوسرا ہی فلسفہ ہے جس میں خیالی لذت کے سامان ڈھونڈنا بیکار ہے۔ جس طرح علمِ طب کا مقصد لذتِ کام و دہن نہیں بلکہ اصلاحِ بدن ہے، خواہ کڑوی دوا سے ہو یا میٹھی سے، اسی طرح اخلاق کا مقصد بھی لذتِ ذوق و نظر نہیں ہے بلکہ دنیا کی اصلاح ہے، خواہ سختی سے ہو یا نرمی سے۔ کوئی سچا اخلاقی مصلح تلوار و قلم میں سے صرف ایک ہی چیز کو اختیار کرنے اور ایک ہی ذریعہ سے فریضۂ اصلاح انجام دینے کی قسم نہیں کھا سکتا۔ اس کو اپنا کام پورا کرنے کے لیے دونوں چیزوں کی یکساں ضرورت ہے۔

 

جب تک تلقین و تبلیغ شوریدہ سر جماعتوں کو اخلاق و انسانیت کے حدود کا پابند بنانے میں کارگر ہو سکتی ہو، ان کے خلاف تلوار استعمال کرنا ناجائز بلکہ حرام ہے۔ مگر جب کسی جماعت کی شرارت و بد باطنی اس حد سے گزر چکی ہو کہ اسے وعظ و تلقین سے راہِ راست پر لایا جا سکے، دوسروں کی عزت و شرافت پر حملے کرنے سے، اور دوسروں کی اخلاقی و روحانی اور مادی زندگی پر تاخت کرنے سے باز رکھنے کی کوئی صورت جنگ کے سوا باقی ہی نہ رہے، تو پھر یہ ہر سچے بہی خواہِ انسانیت کا اولین فرض ہو جاتا ہے کہ اس کے خلاف تلوار اٹھائے اور اس وقت تک آرام نہ لے جب تک خدا کی مخلوق کو اس کے کھوئے ہوئے حقوق واپس نہ مل جائیں۔

 

جنگ کی مصلحت

 

جنگ کی اسی مصلحت و ضرورت کو خدائے حکیم و خبیر نے اپنے حکیمانہ ارشاد میں ظاہر فرمایا ہے:

> وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُم بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا اسْمُ اللَّهِ كَثِيرًا (الحج: ۴۰)

> "اگر خدا لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے سے دفع نہ کرتا تو صومعے اور گرجے اور معبد اور مسجدیں، جن میں اللہ کا ذکر کثرت سے کیا جاتا ہے، مسمار کر دیے جاتے۔"

 

اس آیتِ مبارکہ میں صرف مسلمانوں کی مسجدوں ہی کا ذکر نہیں فرمایا، بلکہ تین اور چیزوں کا بھی ذکر فرمایا ہے، یعنی صوامع، بیع اور صلوٰت۔ صوامع سے مراد عیسائیوں کے راہب خانے، مجوسیوں کے معابد اور صابیوں کے عبادت خانے ہیں۔ بیع کے لفظ میں عیسائیوں کے گرجے اور یہودیوں کے کنائس دونوں داخل ہیں۔ یہ جامع الفاظ استعمال کرنے کے بعد پھر صلوٰت کا ایک اور وسیع لفظ استعمال کیا جس کا اطلاق ہر موضعِ عبادتِ الٰہی پر ہوتا ہے۔ اور ان سب کے آخر میں مساجد کا ذکر کیا ہے۔ اس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ اگر اللہ عادل انسانوں کے ذریعہ سے ظالم انسانوں کو دفع نہ کرتا رہتا تو اتنا فساد ہوتا کہ عبادت گاہیں تک بربادی سے نہ بچتیں جن سے ضرر کا کسی کو اندیشہ نہیں ہو سکتا۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی بتا دیا کہ فساد کی سب سے زیادہ مکروہ صورت یہ ہے کہ ایک قوم عداوت کی راہ سے دوسری قوم کے معبدوں تک کو برباد کر دے۔ اور پھر نہایت بلیغ انداز میں اپنے اس منشا کا بھی اظہار کر دیا کہ جب کوئی گروہ ایسا فساد برپا کرتا ہے تو ہم کسی دوسرے گروہ کے ذریعہ سے اس کی شرارت کا استیصال کر دینا ضروری سمجھتے ہیں۔

 

جنگ کی اسی مصلحت کو دوسری جگہ جالوت کی سرکشی اور حضرت داؤد علیہ السلام کے ہاتھ سے اس کے مارے جانے کا ذکر کرتے ہوئے یوں بیان فرمایا ہے:

> وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُم بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِ الْأَرْضُ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ عَلَى الْعَالَمِينَ (البقرۃ: ۲۵۱)

> "اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعہ دفع نہ کرتا تو زمین فساد سے بھر جاتی، مگر دنیا والوں پر اللہ کا بڑا فضل ہے (کہ وہ دفعِ فساد کا یہ انتظام کرتا رہتا ہے۔)"

 

ایک اور جگہ قوموں کی باہمی عداوت و دشمنی کا ذکر کر کے ارشاد ہوتا ہے:

> كُلَّمَا أَوْقَدُوا نَارًا لِّلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ ۚ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا ۚ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ (المائدہ: ۶۴)

> "یہ لوگ جب کبھی جنگ و خونریزی کی آگ کو بھڑکاتے ہیں تو اللہ اس کو بجھا دیتا ہے، یہ لوگ زمین میں فساد برپا کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر اللہ مفسدوں کو پسند نہیں کرتا۔"

 

جہاد فی سبیل اللہ

 

یہی فساد و بدامنی، طمع و ہوس، بغض و عداوت اور تعصب و تنگ نظری کی جنگ ہے جس کی آگ کو فرو کرنے کے لیے اللہ نے اپنے نیک بندوں کو تلوار اٹھانے کا حکم دیا ہے۔ چنانچہ فرمایا:

> أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا ۚ وَإِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِن دِيَارِهِم بِغَيْرِ حَقٍّ إِلَّا أَن يَقُولُوا رَبُّنَا اللَّهُ (الحج: ۳۹-۴۰)

> "جن لوگوں سے جنگ کی جا رہی ہے انہیں لڑنے کی اجازت دی جا رہی ہے کیونکہ ان پر ظلم ہوا ہے، اور اللہ ان کی مدد پر یقیناً قدرت رکھتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے بے قصور نکالے گئے ہیں، ان کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ کہتے تھے ہمارا رب اللہ ہے۔"

 

یہ قرآن میں پہلی آیت ہے جو قتال کے بارے میں اتری۔ اس میں جن لوگوں کے خلاف جنگ کا حکم دیا گیا ہے ان کا قصور یہ نہیں بتایا کہ ان کے پاس ایک زرخیز ملک ہے، یا وہ تجارت کی ایک بڑی منڈی کے مالک ہیں، یا وہ ایک دوسرے مذہب کی پیروی کرتے ہیں، بلکہ ان کا جرم صاف طور پر یہ بتایا گیا ہے کہ وہ ظلم کرتے ہیں، لوگوں کو بے قصور ان کے گھروں سے نکالتے ہیں، اور اس قدر متعصب ہیں کہ محض اللہ کو رب کہنے پر تکلیفیں پہنچاتے ہیں اور مصیبتیں توڑتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے خلاف صرف اپنی مدافعت ہی میں جنگ کا حکم نہیں دیا گیا بلکہ دوسرے مظلوموں کی اعانت و حمایت کا بھی حکم دیا گیا ہے اور تاکید کی گئی ہے کہ کمزور و بے کس لوگوں کو ظالموں کے پنجہ سے چھڑاؤ۔

> وَمَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ هَٰذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ وَلِيًّا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ نَصِيرًا (النساء: ۷۵)

> "تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ اللہ کی راہ میں ان کمزور مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہیں لڑتے جو کہتے ہیں کہ اے خدا ہمیں اس بستی سے نکال جہاں کے لوگ بڑے ظالم و جفا کار ہیں، اور ہمارے لیے خاص اپنی طرف سے ایک محافظ و مددگار مقرر فرما۔"

 

ایسی جنگ کو جو ظالموں اور مفسدوں کے مقابلہ میں اپنی مدافعت اور کمزوروں، بے بسوں اور مظلوموں کی اعانت کے لیے کی جائے، اللہ نے خاص راہِ خدا کی جنگ قرار دیا ہے جس سے یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ یہ جنگ بندوں کے لیے نہیں بلکہ خدا کے لیے ہے، اور بندوں کی اغراض کے لیے نہیں بلکہ خاص خدا کی خوشنودی کے لیے ہے۔ اس جنگ کو اس وقت تک جاری رکھنے کا حکم دیا گیا ہے، جب تک خدا کے بے گناہ بندوں پر نفسانی اغراض کے لیے دست درازی اور جبر و ظلم کرنے کا سلسلہ بند نہ ہو جائے۔ چنانچہ فرمایا: وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّىٰ لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ۔ "ان سے لڑے جاؤ یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے۔" اور حَتَّىٰ تَضَعَ الْحَرْبُ أَوْزَارَهَا "یہاں تک کہ جنگ اپنے ہتھیار ڈال دے، اور فساد کا نام و نشان اس طرح مٹ جائے کہ اس کے مقابلہ پر جنگ کی ضرورت باقی نہ رہے۔" اس کے ساتھ یہ بھی بتا دیا ہے کہ اس مبنی برحق جنگ کو خونریزی سمجھ کر چھوڑ دینے یا اس میں جان و مال کا نقصان دیکھ کر تامل کرنے کا نتیجہ کس قدر خراب ہے۔

 

حق و باطل کی حد بندی

 

پھر اللہ تعالیٰ نے حمایتِ حق کی جنگ کی مصلحت و ضرورت ظاہر کرنے اور تاکید فرمانے ہی پر قناعت نہیں کی بلکہ یہ تصریح بھی فرما دی کہ:

> الَّذِينَ آمَنُوا يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ۖ وَالَّذِينَ كَفَرُوا يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ الطَّاغُوتِ فَقَاتِلُوا أَوْلِيَاءَ الشَّيْطَانِ ۖ إِنَّ كَيْدَ الشَّيْطَانِ كَانَ ضَعِيفًا (النساء: ۷۶)

> "جو لوگ ایمان لائے وہ اللہ کی راہ میں جنگ کرتے ہیں اور جو کافر و نافرمان ہیں وہ ظلم و سرکشی کی خاطر لڑتے ہیں، پس شیطان کے دوستوں سے لڑو کہ شیطان کی جنگ کا پہلو کمزور ہے۔"

 

یہ ایک قولِ فیصل ہے جس میں حق اور باطل کے درمیان پوری حد بندی کر دی گئی ہے۔ جو لوگ ظلم و سرکشی کی راہ سے جنگ کریں وہ شیطان کے دوست ہیں، اور جو ظلم نہیں بلکہ ظلم کو مٹانے کے لیے جنگ کریں وہ راہِ خدا کے مجاہد ہیں۔ ہر وہ جنگ جس کا مقصد حق و انصاف کے خلاف بندگانِ خدا کو تکلیف دینا ہو، جس کا مقصد حقداروں کو بے حق کرنا اور انہیں ان کی جائز ملکیتوں سے بے دخل کرنا ہو، جس کا مقصد اللہ کا نام لینے والے لوگوں کو بے قصور ستانا ہو، وہ سبیلِ طاغوت کی جنگ ہے۔ اسے خدا سے کچھ واسطہ نہیں۔ ایسی جنگ کرنا اہلِ ایمان کا کام نہیں ہے۔ البتہ جو لوگ ایسے ظالموں کے مقابلہ میں مظلوموں کی حمایت و مدافعت کرتے ہیں، جو دنیا سے ظلم و طغیان کو مٹا کر عدل و انصاف قائم کرنا چاہتے ہیں، جو سرکشوں اور فسادیوں کی جڑ کاٹ کر بندگانِ خدا کو امن و اطمینان سے زندگی بسر کرنے اور انسانیت کے اعلیٰ نصب العین کی طرف ترقی کرنے کا موقع دیتے ہیں، ان کی جنگ راہِ خدا کی جنگ ہے، وہ مظلوموں کی کیا مدد کرتے ہیں گویا خود خدا کی مدد کرتے ہیں، اور اللہ کی نصرت کا وعدہ انہی کے لیے ہے۔

 

جہاد فی سبیل اللہ کی فضیلت

 

یہی وہ جہاد فی سبیل اللہ ہے جس کی فضیلت سے قرآن کے صفحے بھرے پڑے ہیں۔ جس کے متعلق فرمایا ہے:

> يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَىٰ تِجَارَةٍ تُنجِيكُم مِّنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَتُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنفُسِكُمْ ۚ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ (الصف: ۱۰-۱۱)

> "اے ایمان والو! کیا میں تمہیں ایسی تجارت بتاؤں جو تمہیں دردناک عذاب سے بچا لے؟ وہ تجارت یہ ہے کہ تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اس کی راہ میں اپنی جان اور مال سے جہاد کرو، یہ تمہارے لیے بہترین کام ہے، اگر تم جانو۔"

 

جس میں لڑنے والوں کی تعریف اس طرح کی ہے:

> إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِهِ صَفًّا كَأَنَّهُم بُنْيَانٌ مَّرْصُوصٌ (الصف: ۴)

> "اللہ ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اس کی راہ میں اس طرح صف باندھے ہوئے جم کر لڑتے ہیں گویا وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں۔"

 

جس کی بلندی و عظمت کی گواہی اس شان سے دی ہے:

> أَجَعَلْتُمْ سِقَايَةَ الْحَاجِّ وَعِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ كَمَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَجَاهَدَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ۚ لَا يَسْتَوُونَ عِندَ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ الَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ أَعْظَمُ دَرَجَةً عِندَ اللَّهِ ۚ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْفَائِزُونَ (التوبہ: ۱۹-۲۰)

> "کیا تم نے حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجد حرام کے آباد کرنے کو ان لوگوں کے کام کے برابر ٹھہرایا ہے جو اللہ اور یومِ آخر پر ایمان لائے اور اللہ کی راہ میں لڑے؟ اللہ کے نزدیک یہ دونوں برابر نہیں ہیں۔ اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ جو لوگ ایمان لائے، جنہوں نے حق کی خاطر گھر بار چھوڑا اور اللہ کی راہ میں جان و مال سے لڑے ان کا درجہ اللہ کے نزدیک زیادہ بڑا ہے، اور وہی لوگ ہیں جو حقیقت میں کامیاب ہیں۔"

 

پھر یہی وہ حق پرستی کی جنگ ہے جس میں ایک رات کا جاگنا ہزار راتیں جاگ کر عبادت کرنے سے بڑھ کر ہے، جس کے میدان میں جم کر کھڑے ہونا گھر بیٹھ کر ۶۰ برس تک نمازیں پڑھتے رہنے سے افضل بتایا گیا ہے، جس میں جاگنے والی آنکھ پر دوزخ کی آگ حرام کر دی گئی ہے، جس کی راہ میں غبار آلود ہونے والے قدموں سے وعدہ کیا گیا ہے کہ وہ کبھی آتشِ دوزخ کی طرف نہ گھسیٹے جائیں گے، اور اس کے ساتھ ہی ان لوگوں کو جو اس سے جی چرا کر گھر بیٹھ جائیں اور اس کی پکار سن کر کسمسانے لگیں اس غضب ناک لہجے میں تنبیہ کی گئی ہے:

> قُلْ إِن كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ وَإِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَاكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُم مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّىٰ يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ ۗ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ (التوبہ: ۲۴)

> "ان سے کہہ دو! اگر تمہیں اپنے باپ، بیٹے، بھائی، بیویاں، رشتہ دار، اور وہ مال جو تم نے کمائے ہیں اور وہ تجارت جس کے مندے پڑ جانے کا تمہیں ڈر لگا ہوا ہے، اور وہ گھر بار جنہیں تم پسند کرتے ہو، اللہ اور اس کے رسول ﷺ اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ عزیز ہیں تو تم بیٹھے انتظار کرتے رہو یہاں تک کہ خدا اپنا کام پورا کر دے۔ یقین رکھو کہ اللہ فاسقوں کو کبھی ہدایت نہیں بخشتا۔"

 

 فضیلتِ جہاد کی وجہ

 

غور کرو کہ جہاد فی سبیل اللہ کی اتنی فضیلت اور تعریف کس لیے ہے؟ جہاد کرنے والوں کو بار بار کیوں کہا جاتا ہے کہ وہی کامیاب ہیں اور انہی کا درجہ بلند ہے؟ اور اس سے جی چرا کر گھر بیٹھنے والوں کو ایسی تنبیہیں کیوں کی جاتی ہیں؟ اس سوال کو حل کرنے کے لیے ذرا ان آیات پر پھر ایک نظر ڈال جاؤ جن میں جہاد کا حکم اور اس کی فضیلت اور اس سے بھاگنے کی برائی لکھی ہے۔

 

ان آیات میں کامیابی اور عظمت کے معنی کسی جگہ مال و دولت اور ملک و سلطنت کا حصول نہیں بتائے گئے۔ جس طرح کشن جی نے ارجن سے کہا تھا کہ اگر تو اس جنگ (مہا بھارت) میں کامیاب ہوا تو "دنیا کے راج کو بھوگے گا۔" (گیتا ۲: ۳۷) اس طرح قرآن میں کہیں یہ کہہ کر قتال فی سبیل اللہ کی جانب رغبت نہیں دلائی گئی کہ اس کے عوض تمہیں دنیا کی دولت اور حکومت ملے گی۔ بلکہ اس کے برعکس ہر جگہ جہاد فی سبیل اللہ کے عوض صرف خدا کی خوشنودی اور صرف اللہ کے ہاں بڑا درجہ ملنے اور عذابِ الیم سے محفوظ رہنے کی توقع دلائی گئی ہے۔

 

سقایۂ حاج اور عمارۃِ مسجد حرام سے، جو عرب میں بڑے رسوخ و اثر اور بڑی آمدنی کا ذریعہ تھا، گھر بار چھوڑ کر نکل جانے اور جہاد فی سبیل اللہ کرنے کو افضل بتایا، اور پھر اس کے عوض أَعْظَمُ دَرَجَةً عِندَ اللَّهِ (اللہ کے نزدیک بڑے درجے) کے سوا کسی انعام کا ذکر نہیں کیا۔

 

دوسری جگہ ایک تجارت کا گر سکھایا ہے جس سے گمان ہوتا ہے کہ شاید یہاں کچھ دھن دولت کا ذکر ہو، مگر پڑھ کر دیکھیے تو اس تجارت کی حقیقت یہ نکلتی ہے کہ اللہ کی راہ میں جان اور مال کھپاؤ، اور اس کے عوض عذاب سے نجات حاصل کرو۔ ایک اور جگہ لڑائی سے جی چرانے والوں کو اس بات پر ڈانٹا جا رہا ہے کہ وہ بیوی بچوں کی محبت میں گرفتار پائے جاتے ہیں اور اپنے کمائے ہوئے مال اور اپنی تجارت کے کساد اور اپنے محبوب مکانوں کے چھننے کا خوف کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ حالانکہ دریں اثنا جنگ کر کے جو لوگ ملک فتح کرتے ہیں انہیں روپیہ بھی خوب ملتا ہے، ان کی تجارت بھی خوب چمکتی ہے، اور انہیں مفتوح قوم سے چھینی ہوئی عالی شان عمارتیں بھی رہنے کو ملتی ہیں۔

 

پھر جب اس جہاد سے دنیا کی دولت اور ملک گیری مقصود نہیں ہے تو آخر اس خونریزی سے اللہ کو کیا ملتا ہے کہ وہ اس کے عوض اتنے بڑے بڑے درجے دے رہا ہے؟ آخر اس پرخطر کام میں کیا رکھا ہے کہ اس کی بھاگ دوڑ سے گرد آلود ہونے والے قدموں کو الطاف و عنایات کا مورد بنا دیا جاتا ہے؟ اور آخر اس میں وہ کون سی کامیابی مضمر ہے کہ اس خشک و بے مزہ جنگ میں لڑنے والوں کو بار بار أُولَٰئِكَ هُمُ الْفَائِزُونَ کہا جا رہا ہے؟ اس کا جواب اس لَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُم بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِ الْأَرْضُ اور إِلَّا تَفْعَلُوهُ تَكُن فِتْنَةٌ فِي الْأَرْضِ وَفَسَادٌ كَبِيرٌ میں پوشیدہ ہے۔

 

اللہ یہ نہیں چاہتا کہ اس کی زمین پر فتنہ و فساد پھیلایا جائے۔ اسے یہ گوارا نہیں ہے کہ اس کے بندوں کو بے قصور ستایا اور تباہ و برباد کیا جائے۔ اسے یہ پسند نہیں ہے کہ طاقتور کمزوروں کو کھا جائیں۔ ان کے امن و چین پر ڈاکے ڈالیں اور ان کی اخلاقی، روحانی اور مادی زندگی کو ہلاکت میں مبتلا کریں۔ اسے یہ منظور نہیں ہے کہ دنیا میں سیہ کاری، بداعمالی، ظلم و بے انصافی، اور قتل و غارت گری قائم رہے۔ وہ پسند نہیں کرتا کہ جو خاص اس کے بندے ہیں ان کو مخلوق کا بندہ بنا کر ان کی انسانی شرافت پر ذلت کا داغ لگایا جائے۔ پس جو گروہ بغیر کسی معاوضہ کی خواہش، بغیر کسی دھن دولت کے لالچ، بغیر کسی ذاتی نفع کی تمنا کے محض خدا کی خاطر دنیا کو اس فتنہ سے پاک کرنے کے لیے اور اس ظلم کو دور کر کے اس کی جگہ عدل قائم کرنے کے لیے کھڑا ہو جائے، اور اس نیک کام میں اپنی جان و مال، اپنی تجارت کے فوائد، اپنے بال بچوں اور باپ بھائیوں کی محبت اور اپنے گھر بار کے عیش و آرام، سب کو قربان کر دے، اس سے زیادہ اللہ کی محبت اور اللہ کی رضامندی کا مستحق کون ہو سکتا ہے؟ اور لیلائے کامرانی کی آغوش اس کے سوا اور کس کے لیے کھل سکتی ہے؟

 

جہاد فی سبیل اللہ کی یہی فضیلت ہے جس کی بنا پر اسے تمام انسانی اعمال میں ایمان باللہ کے بعد سب سے بڑا درجہ دیا گیا ہے۔ اور غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ درحقیقت یہی چیز تمام فضائل و مکارمِ اخلاق کی روح ہے۔ انسان کی یہ اسپرٹ کہ وہ بدی کو کسی حال میں برداشت نہ کرے اور اسے دفع کرنے کے لیے ہر قسم کی قربانی دینے کے لیے تیار ہو جائے، انسانی شرافت کی سب سے اعلیٰ اسپرٹ ہے۔ اور عملی زندگی کی کامیابی کا راز بھی اسی اسپرٹ ہی میں مضمر ہے۔

 

جو شخص دوسروں کے لیے بدی کو برداشت کرتا ہے اس کی اخلاقی کمزوری اسے بالآخر اس پر بھی آمادہ کر دیتی ہے کہ وہ خود اپنے لیے بدی کو برداشت کرنے لگے۔ اور جب اس میں برداشت کا یہ مادہ پیدا ہو جاتا ہے تو پھر اس پر ذلت کا وہ درجہ آتا ہے جسے خدا نے اپنے غضب سے تعبیر کیا ہے: وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ وَبَاءُوا بِغَضَبٍ مِّنَ اللَّهِ (بقرہ: ۶۱)۔ اس درجہ میں پہنچ کر آدمی کے اندر شرافت اور انسانیت کا کوئی احساس باقی نہیں رہتا۔ وہ جسمانی و مادی غلامی ہی نہیں بلکہ ذہنی اور روحانی غلامی میں بھی مبتلا ہو جاتا ہے اور کمینگی کے ایسے گڑھے میں گرتا ہے جہاں سے اس کا نکلنا محال ہو جاتا ہے۔

 

اس کے بالمقابل جس شخص میں یہ اخلاقی قوت موجود ہو کہ وہ بدی کو محض بدی ہونے کے باعث برا سمجھے اور انسانی برادری کو اس سے نجات دلانے کے لیے ان تھک جدوجہد کرتا رہے، وہ ایک سچا اور اعلیٰ درجہ کا انسان ہوتا ہے، اور اس کا وجود عالمِ انسانی کے لیے رحمت ہوتا ہے۔ ایسے شخص کو چاہے دنیا سے کسی معاوضہ کی خواہش نہ ہو، مگر دنیا ان تمام ناشکریوں کے باوجود جن کے داغ اس کی پیشانی پر موجود ہیں اتنی احسان ناشناس نہیں ہے کہ وہ اس خادمِ انسانیت کو اپنا سرتاج، اپنا امام اور اپنا سردار تسلیم نہ کر لے جو بے لاگ، بے امیدِ اجر و بے تمنائے مزد اسے بدی کے تسلط سے چھڑانے اور اخلاقی و روحانی اور مادی آزادی عطا کرنے کے لیے اپنا سب کچھ قربان کر دے۔

 

اسی سے اس آیت کے معنی سمجھ میں آتے ہیں جس میں فرمایا گیا ہے کہ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ (انبیاء: ۱۰۵) "زمین کے وارث میرے نیکوکار بندے ہوں گے۔" اور یہیں سے یہ بات نکلتی ہے کہ أُولَٰئِكَ هُمُ الْفَائِزُونَ سے محض آخرت ہی کی کامیابی مراد نہیں ہے بلکہ دنیا کی کامیابی بھی حقیقتاً انہی لوگوں کے لیے ہے جو نفسانی اغراض سے پاک ہو کر خالصۃً اللہ کی خوشنودی اور اللہ کے بندوں کی بھلائی کے لیے جہاد کرتے ہیں۔

 

 نظامِ تمدن میں جہاد کا درجہ

 

جہاد کی اس حقیقت کو جان لینے کے بعد یہ سمجھ لینا بہت آسان ہے کہ قوموں کی زندگی میں اس کو کیا درجہ حاصل ہے اور نظامِ تمدن کو درست رکھنے کے لیے اس کی کس قدر ضرورت ہے۔ اگر دنیا میں کوئی ایسی قوت موجود ہو جو بدی کے خلاف پیہم جہاد کرتی رہے اور تمام سرکش قوتوں کو اپنی اپنی حدود کی پابندی پر مجبور کر دے تو نظامِ تمدن میں یہ بے اعتدالی ہرگز نظر نہ آئے کہ آج سارا عالمِ انسانی ظالموں اور مظلوموں، آقاؤں اور غلاموں میں بٹا ہوا ہے۔ اور تمام دنیا کی اخلاقی و روحانی زندگی کہیں غلامی اور مظلومی کے باعث اور کہیں غلام سازی و جفا پیشگی کے باعث تباہ و برباد ہو رہی ہے۔

 

بدی کو دوسروں سے دفع کرنا تو ایک بڑا درجہ ہے، اگر اسے خود اپنے سے دفع کرنے کا احساس بھی ایک قوم میں موجود ہو اور اس کے مقابلہ میں وہ اپنے عیش و آرام کو، اپنی دولت و ثروت کو، اپنی نفسانی لذات اور اپنی جان کی محبت کو، غرض کسی چیز کو بھی عزیز نہ رکھے تو وہ کبھی ذلیل و خوار ہو کر نہیں رہ سکتی اور اس کی عزت کو کوئی قوت پامال نہیں کر سکتی۔ حق کے آگے سر جھکانا اور ناحق کے آگے سر جھکانے پر موت کو ترجیح دینا ایک شریف قوم کا خاصہ ہونا چاہیے اور اگر وہ اعلائے حق اور اعانتِ حق کی قوت نہ رکھتی ہو تو اسے کم از کم تحفظِ حق پر سختی کے ساتھ ضرور قائم رہنا چاہیے جو شرافت کا کم سے کم درجہ ہے۔

 

لیکن اس درجے سے گر کر جو قوم اپنے حق کی حفاظت بھی نہ کر سکے اور اس میں ایثار و قربانی کا فقدان اس قدر بڑھ جائے کہ بدی و شرارت جب اس پر چڑھ کر آئے تو وہ اسے مٹانے یا خود مٹ جانے کے بجائے اس کے ماتحت زندہ رہنے کو قبول کر لے تو ایسی قوم کے لیے دنیا میں کوئی عزت نہیں ہے، اس کی زندگی یقیناً موت سے بدتر ہے۔ اسی رمز کو سمجھانے کے لیے خدا نے بار بار اپنی حکیمانہ کتاب میں ان قوموں کا ذکر کیا ہے جنہوں نے بدی کا تسلط قبول کر کے اپنے اوپر ہمیشہ کے لیے خسران و نامرادی کا داغ لگا لیا۔ ایسی قوموں کو خدا ظالم قومیں کہتا ہے۔ یعنی انہوں نے اپنے اعمال سے خود اپنے اوپر ظلم کیا، اور حقیقت وہ اپنے ہی ظلم سے تباہ ہوئیں۔ چنانچہ ایک جگہ اس طرح ان کی مثال دی ہے:

> أَلَمْ يَأْتِهِمْ نَبَأُ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ قَوْمِ نُوحٍ وَعَادٍ وَثَمُودَ وَقَوْمِ إِبْرَاهِيمَ وَأَصْحَابِ مَدْيَنَ وَالْمُؤْتَفِكَاتِ ۚ أَتَتْهُمْ رُسُلُهُم بِالْبَيِّنَاتِ ۖ فَمَا كَانَ اللَّهُ لِيَظْلِمَهُمْ وَلَٰكِن كَانُوا أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ (التوبہ: ۷۰-۷۱)

> "کیا ان لوگوں کو ان قوموں کی خبر نہیں پہنچی جو ان سے پہلے ہو گزری ہیں، یعنی نوح کی قوم اور عاد، ثمود اور قومِ ابراہیم اور اصحابِ مدین اور موتفکات؟ ان کے پاس ان کے پیغمبر کھلی کھلی ہدایتیں لے کر آئے، مگر اللہ نے ان پر ظلم نہیں کیا بلکہ انہوں نے خود اپنے اوپر ظلم کیا، جو ایماندار مرد اور ایماندار عورتیں ہیں وہ باہم ایک دوسرے کے مددگار ہیں، وہ نیکی کا حکم کرتے اور بدی کو روکتے ہیں۔"

 

یہاں پچھلی قوموں کے ظلم بر نفسِ خود کا ذکر کرتے ہی جو ایمانداروں کی یہ صفت بتائی ہے کہ وہ ایک دوسرے کے یار و مددگار ہیں اور نیکی کو قائم کرتے اور بدی کو روکتے ہیں تو اس سے صاف یہی بتلانا مقصود ہے کہ ان مٹنے والی قوموں نے نیکی کا حکم کرنا اور بدی کو روکنا چھوڑ دیا تھا اور یہی وہ ظلم تھا جس نے آخر ان کو تباہ کیا۔

 

ایک اور جگہ بنی اسرائیل کی بزدلی اور جہاد سے جی چرانے کا نہایت عبرت ناک انجام بیان کیا ہے۔ فرمایا کہ موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کو اللہ کی نعمتیں یاد دلا کر حکم دیا کہ تم ارضِ مقدس میں داخل ہو جاؤ جسے اللہ نے تمہاری میراث میں دیا ہے، اور ہرگز پیٹھ مت پھیرو، کیونکہ پیٹھ پھیرنے والے ہمیشہ نامراد رہا کرتے ہیں۔ مگر بنی اسرائیل پر دہشت بیٹھی ہوئی تھی، انہوں نے کہا:

> يَا مُوسَىٰ إِنَّ فِيهَا قَوْمًا جَبَّارِينَ وَإِنَّا لَن نَّدْخُلَهَا حَتَّىٰ يَخْرُجُوا مِنْهَا فَإِن يَخْرُجُوا مِنْهَا فَإِنَّا دَاخِلُونَ (المائدہ: ۲۲)

> "اے موسیٰ علیہ السلام! اس زمین میں تو ایک زبردست قوم ہے، ہم اس میں ہرگز نہ داخل ہوں گے جب تک کہ وہ وہاں سے نکل نہ جائیں، ہاں اگر وہ نکل گئے تو ہم ضرور داخل ہو جائیں گے۔"

 

قوم کے دو جوانمردوں نے جن پر اللہ نے انعام فرمایا تھا قوم کو مشورہ دیا کہ تم بے خوف داخل ہو جاؤ، تم ہی غالب رہو گے، اور اگر تمہیں دولتِ ایمان حاصل ہے تو اللہ پر توکل کرنا چاہیے، مگر وہ ڈرپوک اور ذلت پر قانع رہنے والی قوم انسانوں کے خوف سے کانپتی ہی رہی اور اس نے صاف کہہ دیا کہ:

> يَا مُوسَىٰ إِنَّا لَن نَّدْخُلَهَا أَبَدًا مَّا دَامُوا فِيهَا ۖ فَاذْهَبْ أَنتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَا إِنَّا هَاهُنَا قَاعِدُونَ (المائدہ: ۲۴)

> "اے موسیٰ علیہ السلام! جب تک وہ لوگ وہاں موجود ہیں ہم تو اس میں ہرگز داخل نہ ہوں گے، پس تو اور تیرا خدا وہاں جاؤ اور تم دونوں لڑو، ہم تو یہیں بیٹھے ہیں۔"

 

آخر اس بزدلی کی بدولت قدرتِ الٰہی نے یہ فیصلہ صادر کیا کہ وہ چالیس برس تک در بدر کی خاک چھانتے پھریں اور کہیں ان کو ٹھکانا نصیب نہ ہو:

> قَالَ فَإِنَّهَا مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِمْ ۛ أَرْبَعِينَ سَنَةً ۛ يَتِيهُونَ فِي الْأَرْضِ (المائدہ: ۲۶)

> "اللہ نے کہا کہ جو زمین ان کے حق میں لکھی گئی تھی وہ اب چالیس سال کے لیے ان پر حرام کر دی گئی، اب وہ زمین میں بھٹکتے پھریں گے۔"

 

ایک دوسری جگہ بڑی تفصیل کے ساتھ بنی اسرائیل کی اس محبتِ نفس، مال اور بزدلی و خوفِ موت کا ذکر کیا ہے جس کے باعث انہوں نے جہاد فی سبیل اللہ کو چھوڑ دیا اور جس کی بدولت وہ آخرکار قومی ہلاکت میں مبتلا ہوئے۔ ارشاد ہوتا ہے:

> أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ خَرَجُوا مِن دِيَارِهِمْ وَهُمْ أُلُوفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ فَقَالَ لَهُمُ اللَّهُ مُوتُوا ثُمَّ أَحْيَاهُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَشْكُرُونَ (البقرہ: ۲۴۳)

> "کیا تم نے ان لوگوں کا حال نہیں دیکھا جو موت سے ڈر کر اپنے ملک سے نکل گئے حالانکہ وہ ہزاروں کی تعداد میں تھے۔ اس لیے اللہ نے ان پر موت ہی کا حکم صادر کر دیا۔ پھر اس نے انہیں دوبارہ زندگی بخشی، حقیقت یہ ہے کہ اللہ لوگوں پر بڑا فضل کرتا ہے لیکن اکثر لوگ اس کا شکر ادا نہیں کرتے۔"

 

اس کے بعد ہی اس طرح مسلمانوں کو قتال کا حکم دیا ہے:

> وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (البقرہ: ۲۴۴)

> "اللہ کی راہ میں جنگ کرو اور جان لو کہ وہ خوب سننے اور جاننے والا ہے۔"

 

اور اس کے بعد دوبارہ بنی اسرائیل کے ایک گروہ کا ذکر کیا ہے کہ:

> أَلَمْ تَرَ إِلَى الْمَلَإِ مِن بَنِي إِسْرَائِيلَ مِن بَعْدِ مُوسَىٰ إِذْ قَالُوا لِنَبِيٍّ لَّهُمُ ابْعَثْ لَنَا مَلِكًا نُّقَاتِلْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ۖ قَالَ هَلْ عَسَيْتُمْ إِن كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ أَلَّا تُقَاتِلُوا ۖ قَالُوا وَمَا لَنَا أَلَّا نُقَاتِلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَقَدْ أُخْرِجْنَا مِن دِيَارِنَا وَأَبْنَائِنَا ۖ فَلَمَّا كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقِتَالُ تَوَلَّوْا إِلَّا قَلِيلًا مِّنْهُمْ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِالظَّالِمِينَ (البقرہ: ۲۴۶)

> "کیا تو نے بنی اسرائیل کے ان سرداروں کا حال نہیں دیکھا جنہوں نے موسیٰ علیہ السلام کے بعد اپنے زمانے کے نبی سے کہا کہ ہمارے لیے ایک بادشاہ مقرر کر دو تاکہ ہم اللہ کی راہ میں جنگ کریں۔ نبی نے ان سے کہا کہ تم سے کچھ بعید نہیں ہے کہ اگر تم پر جنگ فرض کر دی گئی تو تم نہ لڑو، انہوں نے کہا کہ ہم کیسے نہ لڑیں گے جب کہ ہم اپنے گھروں سے نکالے گئے ہیں اور اپنی اولاد سے چھڑائے گئے ہیں۔ مگر جب ان کو جنگ کا حکم دیا گیا تو ان میں سے ایک چھوٹی سی جماعت کے سوا سب کے سب نے منہ پھیر لیا۔ اللہ ظالموں کو خوب جانتا ہے۔"

 

یہ اور ایسی بہت سی مثالیں بار بار اس حقیقت کو سمجھانے کے لیے دی گئی ہیں کہ نیکی کے قیام و بقا کے لیے سب سے زیادہ ضروری چیز اس کی حفاظت کرنے والی سچی قربانی کی روح ہے۔ اور جس قوم سے یہ روح نکل جاتی ہے وہ بہت جلدی بدی سے مغلوب ہو کر فنا ہو جاتی ہے۔

 

---

 

 باب دوم: مدافعانہ جنگ

 

گذشتہ بحث سے یہ امر اچھی طرح واضح ہو گیا ہو گا کہ قرآن کی تعلیم اپنے پیروؤں میں حمایتِ حق کی ایسی ناقابلِ تسخیر روح پیدا کرنا چاہتی ہے جس سے ان کے اندر کسی حال میں بدی و شرارت کے آگے سر جھکانے اور ظلم و طغیان کے تسلط کو قبول کرنے کی کمزوری پیدا نہ ہونے پائے۔ قرآنی تعلیم کے مطابق انسان کی سب سے بڑی ذلت یہ ہے کہ وہ اپنے عیش و آرام یا مال و دولت یا اہل و عیال کی محبت میں مبتلا ہو کر حفاظتِ حق کی سختیوں سے ڈرنے لگے اور باطل کو طاقتور دیکھ کر اس کی غلامی قبول کرنے کے لیے آمادہ ہو جائے۔

 

یہ ضعف، جو درحقیقت جسم و جان کا ضعف نہیں بلکہ قلب و ایمان کا ضعف ہے، جب کسی قوم میں پیدا ہو جاتا ہے تو اس کے اندر سے عزت و شرافت کے تمام احساسات خود بخود دور ہو جاتے ہیں اور اعلائے حق کی اعلیٰ خدمت کو انجام دینا تو درکنار وہ خود اپنے آپ کو بھی حق کے راستے پر قائم رکھنے میں کامیاب نہیں رہ سکتی۔ جسم کی غلامی کو لوگ سمجھتے ہیں کہ اس کی بندش صرف اوپر ہی اوپر رہتی ہے اور قلب و روح تک ان کا اثر نہیں پہنچتا، مگر حقیقت یہ ہے کہ جسم کے غلام ہونے سے پہلے روح غلام ہو چکتی ہے اور جسم غلامی کا غیرت شکن و ذلت انگیز لباس پہنتا ہی اس وقت ہے جب روح غیرت و حمیت کے جوہر سے عاری ہو جاتی ہے اور عزت و شرافت کا احساس اس سے رخصت ہو چکا ہوتا ہے۔

 

پس جو قوم اپنی کمزوری و بزدلی کے باعث حقوق کے تحفظ میں کوتاہی برتتی ہے اور شرارت کو طاقتور دیکھ کر اس کی اطاعت پر آمادہ ہو جاتی ہے، اس میں یہ قوت کبھی باقی نہیں رہتی اور رہ نہیں سکتی کہ اپنے شعائر، اپنے آداب، اپنے قوانین اور اپنے دینی اخلاقی اصولوں پر سختی سے قائم رہے، اور اپنے اجتماعی نظام کو ٹوٹنے نہ دے۔ پھر جب کہ حق اور باطل دونوں باہم ضد ہیں اور ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے، تو یہ کیونکر ممکن ہے کہ ایک قوم باطل کی غلامی قبول کرنے کے بعد بھی حق کی بندگی پر قائم رہے اور ایک سے عبدیت کا رشتہ جوڑ کر دوسرے کے رشتۂ عبدیت کو ٹوٹنے سے محفوظ رکھے۔ حق کی فطرت تو یکتائی پسند ہے، وہ باطل کو اپنا سہیم و شریک بنا کر کبھی ایسی تقسیم نہیں کر سکتا کہ آدھا میرا ہے اور آدھا تیرا۔ اس لیے جس کسی کو اس کی بندگی کرنی ہو اسے باطل کی بندگی چھوڑنی پڑے گی اور اپنی گردن کو دوسری تمام بندگیوں کے طوق و زنجیر سے خالی رکھنا پڑے گا۔

 

قرآن جو درحقیقت صحیفۂ فطرت ہے، فطرت کے اس راز کو پوری طرح ملحوظ رکھتا ہے۔ اسی بنا پر اس نے انسان کو صرف دو راہیں بتائی ہیں، یا موت، یا شرف۔ زندگیٔ بے شرف کی تیسری راہ اس نے نہیں بتائی، چاہے اس کے بد نصیب پیروؤں نے اپنے ایمان کی کمزوری اور حوصلے کی پستی سے اس کو خود اختیار کر لیا ہو۔ وہ تو اس زندگی کو "ذلت و مسکنت" قرار دیتا ہے، "اللہ کے غضب" سے تعبیر کرتا ہے، اسے ان قوموں کی خصوصیت بتاتا ہے جو اپنی بزدلی اور خشیتِ ما سوی اللہ کے باعث اپنے تئیں قہرِ الٰہی کا مستوجب بنا لیتی ہیں، اور اس کی زبان میں اس ذلیل زندگی کو اختیار کر لینا اپنے اوپر ظلم کرنا ہے۔ قرآن نے ایسے لوگوں کو جو اس زندگی پر راضی ہو جائیں خسران و نامرادی کی یہ وعید سنائی ہے:

> إِنَّ الَّذِينَ تَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ ظَالِمِي أَنفُسِهِمْ قَالُوا فِيمَ كُنتُمْ ۖ قَالُوا كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِي الْأَرْضِ ۚ قَالُوا أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ وَاسِعَةً فَتُهَاجِرُوا فِيهَا ۚ فَأُولَٰئِكَ مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرًا (النساء: ۹۷)

> "جن لوگوں کی روحوں کو فرشتوں نے اس حال میں قبض کیا کہ وہ خود اپنے نفس پر ظلم کر رہے تھے تو انہوں نے ان سے پوچھا کہ تم یہ کس حال میں جی رہے تھے؟ انہوں نے کہا ہم زمین میں کمزور تھے۔ فرشتوں نے کہا کیا اللہ کی زمین وسیع نہ تھی کہ تم اس جگہ کو چھوڑ کر نکل جاتے؟ ایسے لوگوں کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ بہت ہی بری جائے قرار ہے۔" ۱

 

غور کرو کہ یہ غیرتِ ملی کی کیسی روشن تعلیم ہے۔ اپنے آپ کو کمزور سمجھ کر غیروں کی اطاعت پر راضی ہو جانے والوں کو اپنے اوپر آپ ظلم کرنے والا کہا جا رہا ہے۔ ان سے پوچھا جاتا ہے کہ تم نے یہ ذلت کیوں قبول کی؟ وہ کمزوری و ضعف کا عذر پیش کرتے ہیں تو قبول نہیں ہوتا۔ جواب ملتا ہے کہ اگر تم کمزور ہی تھے تو اس ذلت کے قبول کرنے سے بہتر تھا کہ گھر چھوڑ کر نکل جاتے اور کسی ایسی جگہ جا رہتے جہاں اپنے ایمان و ضمیر کے خلاف زندگی بسر کرنے کی مجبوری نہ ہوتی۔ تن کے آرام و آسائش کی خاطر بندگیٔ باطل کی ذلت کیوں گوارا کر لی؟ آخر اسی جرم کی پاداش میں انہیں ذلت و نامرادی کے اس گڑھے کی طرف پھینک دیا جاتا ہے جس کا نام جہنم ہے، اور یقیناً اس سے زیادہ بری جائے بازگشت اور کوئی نہیں ہے۔

 

۱۔ یہ آیت ان مسلمانوں کے بارے میں نازل ہوئی تھی جو نبی ﷺ اور عام مسلمانوں کی ہجرت کے بعد مکہ میں رہ گئے تھے اور جنہوں نے اپنے گھر بار کے آرام، اپنے کاروبار اور اپنی جائیدادوں کی خاطر کفر کے اس ماحول میں رہنا قبول کر لیا تھا جس میں وہ اپنے ایمان و اعتقاد کے مطابق اسلامی زندگی بسر نہ کر سکتے تھے، بلکہ کفار سے دبے ہوئے ہونے کے باعث بہت سے کافرانہ طریقے اختیار کرنے پر مجبور تھے، حتیٰ کہ اسی دباؤ سے آخرکار انہیں کفار کی فوج میں شامل ہو کر مسلمانوں کے خلاف لڑنے کے لیے بدر کے میدانِ جنگ میں آنا پڑا۔

 

 فریضۂ دفاع

 

یہی وجہ ہے کہ قرآنِ حکیم نے سب معاملات میں تحمل و برداشت کی تعلیم دی ہے مگر ایسے کسی حملے کو برداشت کرنے کی تعلیم نہیں دی جو دینِ اسلام کو مٹانے اور مسلمانوں پر اسلام کے سوا کوئی دوسرا نظام مسلط کرنے کے لیے کیا جائے۔ اس نے سختی کے ساتھ حکم دیا ہے کہ جو کوئی تمہارے انسانی حقوق چھیننے کی کوشش کرے، تم پر ظلم و ستم ڈھائے، تمہاری جائز ملکیتوں سے تم کو بے دخل کرے، تم سے ایمان و ضمیر کی آزادی سلب کرے، تمہیں اپنے دین کے مطابق زندگی بسر کرنے سے روکے، تمہارے اجتماعی نظام کو درہم برہم کرنا چاہے اور اس وجہ سے تمہارے درپے آزار ہو کہ تم اسلام کے پیرو ہو، تو اس کے مقابلے میں ہرگز کمزوری نہ دکھاؤ اور اپنی پوری طاقت اس کے اس ظلم کو دفع کرنے میں صرف کر دو:

> وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا ۚ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ وَأَخْرِجُوهُم مِّنْ حَيْثُ أَخْرَجُوكُمْ ۚ وَالْفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ ۚ وَلَا تُقَاتِلُوهُمْ عِندَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتَّىٰ يُقَاتِلُوكُمْ فِيهِ ۖ فَإِن قَاتَلُوكُمْ فَاقْتُلُوهُمْ ۗ كَذَٰلِكَ جَزَاءُ الْكَافِرِينَ فَإِنِ انتَهَوْا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّىٰ لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لِلَّهِ ۖ فَإِنِ انتَهَوْا فَلَا عُدْوَانَ إِلَّا عَلَى الظَّالِمِينَ الشَّهْرُ الْحَرَامُ بِالشَّهْرِ الْحَرَامِ وَالْحُرُمَاتُ قِصَاصٌ ۚ فَمَنِ اعْتَدَىٰ عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَىٰ عَلَيْكُمْ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ (البقرہ: ۱۹۰-۱۹۴)

> "جو لوگ تم سے لڑتے ہیں، ان سے خدا کی راہ میں جنگ کرو مگر لڑنے میں حد سے تجاوز نہ کرو (یعنی ظلم پر نہ اتر آؤ) کیونکہ اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ ان ظالموں کو جہاں پاؤ قتل کرو، اور جہاں سے انہوں نے تمہیں نکالا ہے وہاں سے انہیں نکال باہر کرو، کیونکہ یہ فتنہ قتل سے زیادہ بری چیز ہے۔ پھر جب تک وہ مسجد الحرام کے پاس تم سے جنگ نہ کریں، تم بھی ان سے جنگ نہ کرو۔ ہاں اگر وہ تم سے وہاں جنگ کریں تو تم بھی انہیں مارو اور کافروں کی یہی سزا ہے۔ پھر اگر وہ باز آجائیں تو اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ تم ان سے برابر جنگ کیے جاؤ یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین صرف اللہ کے لیے ہو۔ پس اگر وہ (فتنہ برپا کرنے اور دین کے معاملہ میں زیادتی کرنے سے) باز آجائیں تو جان لو کہ سزا ظالموں کے سوا اور کسی کے لیے نہیں ہے۔ ماہِ حرام کا عوض ماہِ حرام ہے ۱ اور تمام آداب اور حرمتوں کے بدلے ہیں۔ پس جو کوئی تم پر زیادتی کرے اس پر تم بھی اتنی ہی زیادتی کرو۔ مگر اللہ سے ڈرتے رہو اور جان لو کہ اللہ صرف متقیوں کے ساتھ ہے (جو حد سے تجاوز نہیں کرتے)۔"

 

یہ حفاظتِ دین اور مدافعتِ دیارِ اسلام کا حکم ایسا سخت ہے کہ جب کوئی قوت اسلام کو مٹانے اور اسلامی نظام کو فنا کرنے کے لیے حملہ آور ہو تو تمام مسلمانوں پر فرضِ عین ہو جاتا ہے کہ سب کام چھوڑ کر اس کے مقابلہ پر نکل آئیں اور جب تک اسلام اور اسلامی نظام کو اس خطرہ سے محفوظ نہ کر لیں اس وقت تک چین نہ لیں۔ چنانچہ فقہ کی تمام کتابوں میں یہ حکم موجود ہے کہ جب دشمن دارالاسلام پر حملہ کرے تو مسلمانوں پر فردًا فردًا دفاع کا فرض ایسی قطعیت کے ساتھ عائد ہو جاتا ہے جیسے نماز اور روزہ۔ فقہ کی مشہور کتاب بدائع الصنائع میں لکھا ہے:

> اما اذا عم النفير بان هجم العدو على بلد فهو فرض عين يفترض على كل واحد من احاد المسلمين ممن هو قادر عليه فاذا عم النفير لا يتحقق القيام به الا بالكل فبقى فرضاً على الكل عيناً بمنزلة الصوم والصلوة فيخرج العبد بغير اذن مولاه والمراة بغير اذن زوجها لان منافع العبد والمراة في حق العبادات المفروضة عيناً مستثناة عن ملك المولى والزوج شرعاً كما في الصوم والصلوة وكذا يباح للولد ان يخرج بغير اذن والديه لان حق الوالدين لا يظهر في فروض الاعيان كالصوم والصلوة (جلد ۷، صفحہ ۹۸)

> "مگر جب اعلانِ عام (نفیر عام ۲) ہو جائے کہ دشمن نے ایک اسلامی ملک پر حملہ کیا ہے تو پھر جہاد فرضِ عین ہو جاتا ہے اور ہر مسلمان پر جو جہاد کی قدرت رکھتا ہو فردًا فردًا اس کی فرضیت عائد ہو جاتی ہے۔ نفیر عام ہونے کے بعد تو ادائے فرض کا حق بغیر اس کے پورا ہوتا ہی نہیں کہ سب کے سب جہاد کرنے کے لیے کھڑے ہو جائیں۔ اس وقت وہ سب مسلمانوں پر اسی طرح فرضِ عین ہو جاتا ہے جیسے روزہ اور نماز۔ پس غلام کو بغیر آقا کی اجازت کے اور عورت کو بغیر اپنے شوہر کی اجازت کے نکلنا چاہیے، کیونکہ ان عبادات میں جو فرضِ عین ہیں غلام اور بیوی کی خدمات آقا اور شوہر کی ملک سے شرعاً مستثنیٰ ہیں، جیسے نماز اور روزہ۔ اسی طرح بیٹے کے لیے مباح ہو جاتا ہے کہ وہ بغیر والدین کی اجازت کے نکل سکتا ہو، کیونکہ روزہ نماز جیسے فرضِ عین میں والدین کا حق اثر انداز نہیں۔"

 

۱۔ یعنی مہینے اور مقام کی جو حرمتیں قائم کی گئی ہیں ان کا لحاظ اسی صورت میں کیا جائے گا جب کہ دشمن بھی ان کا لحاظ کرے۔

۲۔ نفیر عام اسلامی فقہ کا اصطلاحی لفظ ہے۔ اس کے معنی ہیں "عام پکار" یعنی جب کہ اسلامی حکومت کسی علاقے کے یا تمام ملک کے لوگوں کو مدافعت کے لیے کھڑے ہو جانے کا حکم دے۔

 

بان هجم العدو على بلد کے الفاظ صاف طور پر بتا رہے ہیں کہ یہ فرضیتِ عینیہ صرف اسی صورت پر موقوف نہیں ہے کہ خاص مذہبی جذبہ سے متاثر ہو کر کوئی قوم اسلام کو مٹا دینے پر آمادہ ہو جائے، بلکہ حکومتِ اسلامیہ اور دیارِ اسلام میں مسلمانوں کی قومی زندگی کے لیے حریت و استقلال سب سے زیادہ ضروری چیز ہے۔ اپنی آزادی کو کھو دینے کے بعد صرف یہی نہیں کہ مسلمانوں میں انسانیت کی اس اعلیٰ خدمت کو ادا کرنے کی قوت باقی نہیں رہتی جسے ادا کرنے کے لیے وہ پیدا کیے گئے ہیں بلکہ وہ اپنے شرعی نظام کو قائم رکھنے کے قابل بھی نہیں رہتے جس پر ان کی مذہبی زندگی کا دار و مدار ہے۔ اس لیے اسلامی حکومت اور اسلامی قومیت پر حملہ کرنا دراصل عین اسلام پر حملہ کرنا ہے، اور خواہ کسی دشمن کا مقصد اسلام کو مٹانا نہ ہو بلکہ محض مسلمانوں کی سیاسی قوت ہی کو مٹانا ہو تب بھی اس سے جنگ کرنا مسلمانوں کے لیے دینی فرض ہو گا جیسا کہ علامہ ابن عابدین نے رد المحتار میں تصریح کی ہے۔

 

ایسی حالت میں جب کہ ملک پر حملہ ہو گیا ہو اور مسلمانوں کی آزادی خطرہ میں پڑ گئی ہو، اس فرض کی ادائیگی سے غفلت برتنا یا اس سے پہلو تہی کرنا اسلام کی نگاہ میں بدترین گناہ ہے اور قرآن حکیم ایسے کمزور مسلمانوں کو جو اپنی جان و مال کی محبت میں گرفتار ہو کر یا اپنے بال بچوں اور رشتہ داروں کے تعلقات میں پھنس کر یا اپنے کاروبار کے مفاد پر نظر رکھ کر جہاد فی سبیل اللہ سے جی چراتے ہیں، سخت الفاظ میں ملامت کرتا ہے اور ان کے ایمان کو مشتبہ ٹھہراتا ہے۔ چنانچہ غزوۂ تبوک کے موقع پر جب کہ قیصر روم مسلمانوں پر حملہ کی تیاری کر رہا تھا اور اس کی روک تھام کے لیے آنحضرت ﷺ نے عام نفیر کا حکم دیا، اور اس نازک موقع پر بعض مسلمانوں نے حیلے بہانے کر کے آپ ﷺ سے گھر بیٹھ رہنے کی اجازت مانگی تو ان کو اور خود آپ ﷺ کو اس طرح عتاب کیا گیا:

> عَفَا اللَّهُ عَنكَ لِمَ أَذِنتَ لَهُمْ حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَتَعْلَمَ الْكَاذِبِينَ لَا يَسْتَأْذِنُكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَن يُجَاهِدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِالْمُتَّقِينَ إِنَّمَا يَسْتَأْذِنُكَ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَارْتَابَتْ قُلُوبُهُمْ فَهُمْ فِي رَيْبِهِمْ يَتَرَدَّدُونَ (التوبہ: ۴۳-۴۵)

> "اے محمد ﷺ! خدا تمہیں معاف کرے، تم نے انہیں کیوں گھر بیٹھ رہنے کی اجازت دے دی؟ (تمہیں چاہیے تھا کہ اجازت نہ دیتے) تاکہ تم پر وہ لوگ بھی ظاہر ہو جاتے جو سچے ہیں اور ان کا حال بھی معلوم ہو جاتا جو جھوٹے ہیں۔ وہ لوگ جو اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور جنہیں یومِ قیامت کے آنے کا یقین ہے تم سے ہرگز یہ رخصت نہ مانگیں گے کہ اپنے مال اور اپنی جان سے جہاد نہ کریں؟ اللہ ان متقیوں سے خوب واقف ہے۔ یہ رخصت تو تم سے وہی لوگ طلب کریں گے جو نہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور نہ یومِ قیامت کے آنے کا یقین۔ ان کے دلوں میں شک پڑ گیا ہے، اس لیے وہ اپنے شک ہی میں ڈگمگا رہے ہیں۔"

 

 مدافعانہ جنگ کی صورتیں

 

دفاع کے ان احکام سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے ان دینی فرائض میں جو ان کی دنیا سے تعلق رکھتے ہیں سب سے بڑا اور سب سے اہم فرض یہ ہے کہ وہ اپنے دین اور اپنے قومی استقلال کی سختی کے ساتھ حفاظت کریں اور اپنے قومی و دینی وجود کو کسی حال میں فتنہ سے مغلوب نہ ہونے دیں۔ اس کے لیے اسلام نے اپنے پیروؤں کو جنگ کی محض اجازت ہی نہیں دی، بلکہ تاکید کی ہے، اور تاکید بھی ایسی سخت جس کی کیفیت اوپر بیان کی گئی ہے۔

 

مگر حملے کی صرف یہی ایک صورت نہیں ہے کہ ایک سلطنت باقاعدہ اعلانِ جنگ کر کے دارالاسلام پر حملہ آور ہو اور اس کو فتح کر کے مسلمانوں کو مٹانے، غلام بنانے، یا ان کی مذہبی آزادی کو سلب کرنے کی کوشش کرے، بلکہ اس کے علاوہ اور بھی بہت سی صورتیں ہیں جن سے ایک قوم کے امن و اطمینان اور اس کی اجتماعی زندگی کو خطرہ میں مبتلا کیا جا سکتا ہے۔ پس اب ہم یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ وہ صورتیں کیا ہیں اور ان کے متعلق قرآن مجید ہم کو کیا حکم دیتا ہے۔ اس مقصد کے لیے ہم ان تمام آیات کو جمع کریں گے جن میں مدافعانہ جنگ کا حکم دیا گیا ہے، اور ان کے حل طلب مسائل کو بھی قرآن سے یا اس کے بعد حدیث سے حل کریں گے تاکہ شخصی آراء کے دخل سے شک و شبہ کی گنجائش ہی نہ رہے۔

 

 ظلم و تعدی کا جواب

 

بقولِ اکابر مفسرین، اسلام میں پہلی آیت جو قتال کے متعلق اتری وہ سورہ حج کی یہ آیت ہے:

> أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا ۚ وَإِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِن دِيَارِهِم بِغَيْرِ حَقٍّ إِلَّا أَن يَقُولُوا رَبُّنَا اللَّهُ (الحج: ۳۹-۴۰)

> "جن لوگوں سے جنگ کی جا رہی ہے انہیں جنگ کی اجازت دے دی گئی کیونکہ وہ مظلوم ہیں اور اللہ ان کی مدد پر یقیناً قدرت رکھتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے نکالے گئے ہیں صرف اس قصور پر کہ وہ کہتے تھے کہ صرف اللہ ہی ہمارا رب ہے۔"

 

دوسری آیت جس کو علامہ ابن جریر اور بعض دوسرے مفسرین جنگ کی پہلی آیت قرار دیتے ہیں، سورہ بقرہ کی یہ آیت ہے:

> وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا ۚ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ وَأَخْرِجُوهُم مِّنْ حَيْثُ أَخْرَجُوكُمْ ۚ وَالْفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ (البقرہ: ۱۹۰-۱۹۱)

> "اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں اور حد سے نہ بڑھ جاؤ کیونکہ اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا اور ان کو مارو جہاں پاؤ، اور ان کو نکالو جہاں سے انہوں نے تم کو نکالا ہے، کیونکہ فتنہ قتل سے زیادہ بری چیز ہے۔"

 

ان دونوں آیات سے حسبِ ذیل احکام نکلتے ہیں:

 

۱۔ جب مسلمانوں سے جنگ کی جائے اور ان پر ظلم و ستم کیا جائے تو ان کے لیے مدافعت میں جنگ کرنا جائز ہے۔

۲۔ جو لوگ مسلمانوں کے گھر بار چھینیں، ان کے حقوق سلب کریں، اور انہیں ان کی ملکیتوں سے بے دخل کریں، ان کے ساتھ مسلمانوں کو جنگ کرنی چاہیے۔

۳۔ جب مسلمانوں پر ان کے مذہبی عقائد کے باعث تشدد کیا جائے اور انہیں محض اس لیے ستایا جائے کہ وہ مسلمان ہیں، تو ان کے لیے اپنی مذہبی آزادی کی خاطر جنگ کرنا جائز ہے۔

۴۔ دشمن غلبہ کر کے جس سرزمین سے مسلمانوں کو نکال دے یا مسلمانوں کے اقتدار کو وہاں سے مٹا دے اسے دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، اور جب کبھی مسلمانوں کو طاقت حاصل ہو تو انہیں ان تمام مقامات سے دشمن کو نکال دینا چاہیے جہاں سے اس نے مسلمانوں کو نکالا ہے۔

 

 راہِ حق کی حفاظت

 

سورہ انفال میں جن کافروں کے خلاف جنگ کرنے اور ان کی جڑ کاٹ دینے کا حکم دیا گیا ہے ان کا ایک قصور یہ بتایا گیا ہے:

> إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ لِيَصُدُّوا عَن سَبِيلِ اللَّهِ ۚ فَسَيُنفِقُونَهَا ثُمَّ تَكُونُ عَلَيْهِمْ حَسْرَةً ثُمَّ يُغْلَبُونَ (الانفال: ۳۶)

> "جو لوگ کافر ہیں وہ اپنے مال اس لیے صرف کرتے ہیں تاکہ لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکیں، اور وہ اس مقصد کے لیے مال صرف کیے جائیں گے یہاں تک کہ ان کو پچھتانا پڑے گا اور وہ مغلوب کیے جائیں گے۔"

 

آگے چل کر قریش کی اس فوج کا جو بدر میں مسلمانوں سے لڑنے نکلی تھی اور جس کے مقابلہ میں اللہ نے حق کو حق اور باطل کو باطل کر کے دکھانے کے لیے خاص اپنی فوج بھیجی تھی، اس طرح ذکر کیا ہے:

> وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ خَرَجُوا مِن دِيَارِهِم بَطَرًا وَرِئَاءَ النَّاسِ وَيَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ (الانفال: ۴۷)

> "اور تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جو اپنے گھروں سے تفاخر کے طور پر دنیا کو دکھانے کے لیے لڑنے کو نکلے اور وہ اللہ کے راستے سے روک رہے ہیں۔"

 

سورۂ توبہ میں پھر ان مشرکین کا جرم جن سے قتال کا حکم دیا گیا تھا یہ بتایا ہے:

> اشْتَرَوْا بِآيَاتِ اللَّهِ ثَمَنًا قَلِيلًا فَصَدُّوا عَن سَبِيلِهِ ۚ إِنَّهُمْ سَاءَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (التوبہ: ۹)

> "ان لوگوں نے آیاتِ الٰہی کا سودا بڑی ہی کم قیمت پر کیا اور وہ اس کی راہ سے روکنے لگے، یہ بہت برا کام ہے جو وہ کرتے ہیں۔"

 

آگے چل کر اہلِ کتاب سے لڑنے کا حکم دیا ہے کہ قَاتِلُوا الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْآخِرِ اور پھر ان کے جرائم کی تفصیل اس طرح دی ہے:

> يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ كَثِيرًا مِّنَ الْأَحْبَارِ وَالرُّهْبَانِ لَيَأْكُلُونَ أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَيَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ (التوبہ: ۳۴)

> "اے ایمان والو! (اہلِ کتاب میں سے) بہت سے احبار اور راہب لوگوں کے اموال ناجائز طور پر کھاتے ہیں اور اللہ کی راہ سے روکتے ہیں۔"

 

سورہ محمد ﷺ میں زیادہ وضاحت کے ساتھ فرمایا:

> الَّذِينَ كَفَرُوا وَصَدُّوا عَن سَبِيلِ اللَّهِ أَضَلَّ أَعْمَالَهُمْ فَإِذَا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا فَضَرْبَ الرِّقَابِ حَتَّىٰ إِذَا أَثْخَنتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاءً حَتَّىٰ تَضَعَ الْحَرْبُ أَوْزَارَهَا (محمد: ۱-۴)

> "جن لوگوں نے دینِ حق کو ماننے سے انکار کر دیا اور اللہ کی راہ سے روکنے لگے ان کے اعمال اللہ نے ضائع کر دیے۔ پس جب تمہاری ان منکروں سے مڈ بھیڑ ہو تو گردنیں مارو یہاں تک کہ ان کی طاقت کو کچل ڈالو، اس کے بعد قید کی گرفت کو مضبوط کرو اور انہیں گرفتار کر لو، پھر تمہیں اختیار ہے کہ خواہ احسان کا معاملہ کرو یا فدیہ لے لو۔ یہ عمل اس وقت تک جاری رکھو جب تک جنگ اپنے ہتھیار نہ ڈال دے اور (اس کی ضرورت ہی باقی نہ رہے)۔"

 

ان تمام آیات سے معلوم ہوا کہ صد عن سبیل اللہ یعنی اللہ کی راہ سے روکنا بھی ایک ایسا جرم ہے جس کے خلاف جنگ ضروری ہے۔ اللہ کی راہ سے مراد وہی دینِ حق ہے جس کو قرآن مجید میں صراطِ مستقیم بھی کہا گیا ہے۔ اور یہ قرآن مجید کے اندازِ بیان کی انتہائی خوبی ہے کہ اس نے دین کو راستے سے تعبیر کیا۔ گویا وہ ایک طریق ہے جو سیدھا منزل تک لے جاتا ہے اور جس پر شیطان و اولیائے شیطان رہزنی کرتے ہیں۔

 

بعض لوگوں نے سبیل کے معنی یہی معمولی چلنے پھرنے کی سڑک کے لیے ہیں اور صد عن سبیل اللہ کا مطلب رہزنی قرار دیا ہے۔ مگر قرآن مجید میں سبیل اللہ اور سبیل رب کے الفاظ ایسے نہیں ہیں جن کا مفہوم سمجھنے میں ذرا بھی دقت ہو۔ ادْعُ إِلَىٰ سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ اور إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِيلِهِ ۖ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ میں موٹروں اور بائیسکلوں کی سڑک مراد نہیں ہو سکتی، بلکہ وہی سڑک مراد ہے جو خدا تک لے جاتی ہے۔ وَمَن يَتَبَدَّلِ الْكُفْرَ بِالْإِيمَانِ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِيلِ میں بھی سیدھی راہ سے مراد وہی ایمان کی راہ ہے اور اس کی ضد کفر کی راہ قرار دی گئی ہے۔ وَلَا تَقُولُوا لِمَن يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ ۚ بَلْ أَحْيَاءٌ میں بھی ان مارے جانے والوں کو زندہ نہیں کہا گیا ہے جو مٹی اور پتھر کی سڑکوں پر جان دیتے ہیں، بلکہ یہ شرف ان لوگوں کے سوا کسی کے لیے نہیں ہے جو اللہ کے دربار تک لے جانے والی راہ میں جان دیں۔ پس اس امر میں کسی شک کی گنجائش نہیں ہے کہ سبیل اللہ سے روکنا دراصل اسلام سے روکنا ہے۔

 

اب غور کیجیے کہ اسلام سے روکنے کا کیا مطلب ہے؟ دین کو جب راستہ کہا گیا تو ضرور ہے کہ اس کے روکنے کی بھی وہی صورت ہو گی جو ایک راہ گزر سے روکنے کی ہوتی ہے۔ اول یہ کہ جو لوگ دوسرے راستے پر چل رہے ہوں انہیں اس راستے پر نہ آنے دیا جائے۔ دوسرے یہ کہ جو اس راستے پر چل رہے ہیں انہیں اس سے زبردستی ہٹا دیا جائے۔ تیسرے یہ کہ اس پر چلنے والوں کے راستے میں کانٹے بچھا دیے جائیں، ان کو خوفزدہ کرنے کی کوشش کی جائے اور انہیں اس طرح دق کیا جائے کہ وہ چلنے سے عاجز آجائیں۔ یہی تینوں مفہوم "صد عن سبیل اللہ" کے بھی ہیں۔ اسلام قبول کرنے سے لوگوں کو روکنا، مسلمانوں کو زبردستی مرتد بنانے کی کوشش کرنا اور مسلمانوں کے لیے اسلام کے مطابق زندگی بسر کرنے کو مشکل بنا دینا۔ قرآن میں ان تینوں مفہومات کی مثالیں موجود ہیں اور جو گروہ اس طرح اسلام کی راہ روکنے کی کوشش کرے اس کو راستے سے ہٹا دینا اور اس کا زور توڑ دینا مسلمانوں کا اخلاقی حق بھی ہے اور دینی فرض بھی۔

 

 دغا بازی و عہد شکنی کی سزا

 

سورہ انفال میں ایک اور جرم جس کے خلاف جنگ کرنے کا حکم ہے یہ بتایا گیا ہے:

> إِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِندَ اللَّهِ الَّذِينَ كَفَرُوا فَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ الَّذِينَ عَاهَدتَّ مِنْهُمْ ثُمَّ يَنقُضُونَ عَهْدَهُمْ فِي كُلِّ مَرَّةٍ وَهُمْ لَا يَتَّقُونَ فَإِمَّا تَثْقَفَنَّهُمْ فِي الْحَرْبِ فَشَرِّدْ بِهِم مَّنْ خَلْفَهُمْ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُونَ وَإِمَّا تَخَافَنَّ مِن قَوْمٍ خِيَانَةً فَانبِذْ إِلَيْهِمْ عَلَىٰ سَوَاءٍ ۚ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْخَائِنِينَ (الانفال: ۵۵-۵۸)

> "اللہ کے نزدیک زمین پر چلنے والے جانداروں میں بدترین وہ لوگ ہیں جنہوں نے کفر کیا ہے اور ایمان نہیں لاتے، جن سے تو نے معاہدہ کیا تھا مگر وہ بار بار اپنے عہد کو توڑتے اور بدعہدی سے پرہیز نہیں کرتے۔ پس اگر تو جنگ میں ان کو پالے تو انہیں سخت سزا دے کہ ان لوگوں کو خوفزدہ و پراگندہ کر دے جو ان کے پیچھے ہیں (یعنی انہیں ایسی سزا دے جو ان کے بعد والوں کے لیے موجبِ عبرت ہو)۔ شاید کہ وہ کچھ سبق حاصل کریں۔ اور اگر تجھے کسی قوم سے دغا کا خوف ہو تو برابری کو ملحوظ رکھ کر علی الاعلان ان کا عہد ان کی طرف پھینک دے۔ اللہ یقیناً دغا بازوں کو پسند نہیں کرتا۔"

 

اسی طرح سورہ توبہ میں زیادہ سختی کے ساتھ ان کافروں کے متعلق جنہوں نے مسلمانوں سے بار بار عہد کیے تھے، فرمایا ہے:

> بَرَاءَةٌ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ إِلَى الَّذِينَ عَاهَدتُّم مِّنَ الْمُشْرِكِينَ فَسِيحُوا فِي الْأَرْضِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللَّهِ وَأَنَّ اللَّهَ مُخْزِي الْكَافِرِينَ (التوبہ: ۱-۲)

> "اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلانِ براءت ہے ان مشرکوں کی طرف جن سے تم نے معاہدہ کیا تھا (اور جنہوں نے بار بار اس کی خلاف ورزی کی)۔ پس چار مہینے اور زمین میں چل پھر لو، اس کے بعد خوب سمجھ لو کہ تم اللہ کو عاجز کرنے والے نہیں ہو اور اللہ کافروں کو ضرور رسوا کرنے والا ہے۔"

 

اس کے بعد ان مشرکوں کے متعلق جنہوں نے عہد نہیں توڑا تھا حکم دیا کہ فَأَتِمُّوا إِلَيْهِمْ عَهْدَهُمْ إِلَىٰ مُدَّتِهِمْ "ان کے معاہدہ کی مدتِ مقررہ تک پابندی کرو۔" پھر بار بار نقصِ عہد کرنے والوں کے متعلق فرمایا:

> فَإِذَا انسَلَخَ الْأَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ وَخُذُوهُمْ وَاحْصُرُوهُمْ وَاقْعُدُوا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ ۚ فَإِن تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَخَلُّوا سَبِيلَهُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ (التوبہ: ۵)

> "جب وہ چار حرمت والے مہینے (جن کی مہلت اوپر دی گئی ہے) گزر جائیں تو ان مشرکوں کو قتل کرو جہاں پاؤ اور انہیں گرفتار کرو اور انہیں گھیر کر محصور کر لو (تاکہ بلادِ مسلمین میں نہ آسکیں) اور ان کے لیے ہر کمین گاہ میں بیٹھو۔ پھر اگر وہ توبہ کریں، نماز ادا کریں اور زکوٰۃ دیں تو ان کی راہ چھوڑ دو (یعنی پھر ان سے تعرض نہ کرو) کیونکہ اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔"

 

آگے چل کر پھر انہیں بدعہد اور دغاباز مشرکوں کے متعلق فرمایا:

> كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ عِندَ اللَّهِ وَعِندَ رَسُولِهِ إِلَّا الَّذِينَ عَاهَدتُّمْ عِندَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۖ فَمَا اسْتَقَامُوا لَكُمْ فَاسْتَقِيمُوا لَهُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَ كَيْفَ وَإِن يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ لَا يَرْقُبُوا فِيكُمْ إِلًّا وَلَا ذِمَّةً ۚ يُرْضُونَكُم بِأَفْوَاهِهِمْ وَتَأْبَىٰ قُلُوبُهُمْ وَأَكْثَرُهُمْ فَاسِقُونَ (التوبہ: ۷-۸)

> "ان مشرکوں کے لیے اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک عہد کیسے ہو سکتا ہے، سوائے ان لوگوں کے جن سے تم نے مسجد الحرام کے پاس معاہدہ کیا تھا سو وہ جب تک عہد پر قائم ہیں تم بھی قائم رہو کیونکہ اللہ پرہیز گاروں کو پسند کرتا ہے۔ مگر ان بدعہدوں سے کیونکر عہد ہو سکتا ہے جن کی حالت یہ ہے کہ جب تم پر غلبہ و فتح حاصل کر لیں تو نہ تم سے قرابت کا لحاظ رکھیں اور نہ عہد و قرار کا، وہ تم کو زبان سے خوش کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر دل ان کے انکار کرتے ہیں (یعنی وہ دل میں تمہیں نقصان پہنچانے کی فکر رکھتے ہیں) اور ان میں اکثر بدکار و سرکش ہیں۔"

 

اس کے بعد پھر انہیں بدعہدوں کے متعلق فرمایا:

> لَا يَرْقُبُونَ فِي مُؤْمِنٍ إِلًّا وَلَا ذِمَّةً ۚ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُعْتَدُونَ أَلَا تُقَاتِلُونَ قَوْمًا نَّكَثُوا أَيْمَانَهُمْ وَهَمُّوا بِإِخْرَاجِ الرَّسُولِ وَهُم بَدَءُوكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ ۚ أَتَخْشَوْنَهُمْ ۚ فَاللَّهُ أَحَقُّ أَن تَخْشَوْهُ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ قَاتِلُوهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللَّهُ بِأَيْدِيكُمْ وَيُخْزِهِمْ وَيَنصُرْكُمْ عَلَيْهِمْ وَيَشْفِ صُدُورَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِينَ (التوبہ: ۱۰، ۱۳-۱۴)

> "وہ کسی مومن کے ساتھ قرابت یا عہد و اقرار کا لحاظ نہیں کرتے اور وہی ہیں جو زیادتی کرتے ہیں۔۔۔۔ کیا تم ایسے لوگوں سے جنگ نہ کرو گے جنہوں نے اپنی قسموں کو توڑ دیا اور رسول ﷺ کو نکال دینے پر تل گئے اور انہوں نے ہی اول مرتبہ تم پر پیش دستی کی۔ کیا تم ان سے ڈرتے ہو؟ اللہ زیادہ حق دار ہے کہ تم اس سے ڈرو، بشرطیکہ تم ایماندار ہو۔ ان سے تم ضرور جنگ کرو، اللہ انہیں تمہارے ہاتھوں سے عذاب دے گا اور انہیں رسوا کرے گا اور تم کو ان پر نصرت بخشے گا اور مومنوں کے قلوب کو شفا بخشے گا۔"

 

ان آیات اور ان کی شانِ نزول پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ:

 

۱۔ جو لوگ مسلمانوں سے عہد کر کے توڑ دیں ان سے جنگ کرنی چاہیے۔ اس حکم میں وہ کفار بھی آجاتے ہیں جو مسلمانوں سے اطاعت کا معاہدہ کر کے پھر حکومتِ اسلامیہ کے خلاف بغاوت کریں۔

۲۔ جن سے معاہدہ تو ہو مگر ان کا رویہ ایسا معاندانہ ہو کہ اسلام اور مسلمانوں کو ہر وقت ان سے نقصان پہنچنے کا اندیشہ لگا رہے تو انہیں علی الاعلان فسخِ معاہدہ کا نوٹس دے دینا چاہیے اور اس کے بعد ان کی دشمنی کا منہ توڑ جواب دینا چاہیے۔

۳۔ جو لوگ بار بار بدعہدی اور دغابازی کریں اور جن کے عہد و اقرار کا کوئی اعتبار نہ رہے، اور جو مسلمانوں کو نقصان پہنچانے میں اخلاق و انسانیت کے کسی آئین کا لحاظ نہ رکھیں، ان سے دائمی جنگ کا حکم ہے۔ اور صرف اسی صورت میں ان سے صلح ہو سکتی ہے کہ وہ توبہ کریں اور اسلام لے آئیں۔ ورنہ ان کے اثر سے اسلام اور دارالاسلام کو محفوظ رکھنے کے لیے قتل، گرفتاری، محاصرہ اور ایسی ہی دوسری جنگی تدابیر اختیار کرتے رہنا ضروری ہے۔

 

 اندرونی دشمنوں کا استیصال

 

ان بیرونی دشمنوں کے علاوہ کچھ اندرونی دشمن بھی ہیں جو ظاہر میں دوست مگر باطن میں اسلام کی جڑ کاٹنے والے ہوتے ہیں۔ یہ لوگ اس جماعت میں داخل ہیں جس کے لیے قرآن حکیم نے منافق کا جامع لفظ استعمال کیا ہے۔ اور ان کے باب میں یہ حکم دیا ہے:

> يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنَافِقِينَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ ۚ وَمَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ ۖ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ (التوبہ: ۷۳)

> "اے نبی ﷺ! منافقوں اور کافروں سے جہاد کرو اور ان پر سختی کرو، ان کا ٹھکانا دوزخ ہے اور وہ بہت ہی بری جائے قرار ہے۔"

 

> لَّئِن لَّمْ يَنتَهِ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ وَالْمُرْجِفُونَ فِي الْمَدِينَةِ لَنُغْرِيَنَّكَ بِهِمْ ثُمَّ لَا يُجَاوِرُونَكَ فِيهَا إِلَّا قَلِيلًا مَّلْعُونِينَ ۖ أَيْنَمَا ثُقِفُوا أُخِذُوا وَقُتِّلُوا تَقْتِيلًا (الاحزاب: ۶۰-۶۱)

> "اگر منافقین اور وہ لوگ جن کے دلوں میں بیماری ہے، اور مدینہ میں بری خبریں اڑانے والے، اپنی معاندانہ حرکات سے باز نہ آئے تو ہم تجھے ان پر مسلط کر دیں گے اور پھر وہ اس شہر میں تیرے ہمسایہ نہ رہ سکیں گے مگر تھوڑے دن۔ ان پر پھٹکار پڑے گی، جہاں ملیں گے پکڑے جائیں گے اور خوب قتل کیے جائیں گے۔"

 

> وَدُّوا لَوْ تَكْفُرُونَ كَمَا كَفَرُوا فَتَكُونُونَ سَوَاءً ۖ فَلَا تَتَّخِذُوا مِنْهُمْ أَوْلِيَاءَ حَتَّىٰ يُهَاجِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ ۚ فَإِن تَوَلَّوْا فَخُذُوهُمْ وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ ۖ وَلَا تَتَّخِذُوا مِنْهُمْ وَلِيًّا وَلَا نَصِيرًا (النساء: ۸۹)

> "یہ لوگ چاہتے ہیں کہ تم بھی اسی طرح کافر ہو جاؤ جس طرح یہ خود کافر ہوئے تاکہ تم اور وہ برابر ہو جائیں۔ پس تم ان میں سے کسی کو اپنا دوست نہ بناؤ جب تک کہ یہ اللہ کی راہ میں اپنے گھروں سے نہ نکلیں۔ اگر وہ انحراف کریں (اعانتِ کفر سے باز نہ آئیں) تو انہیں پکڑو اور جہاں پاؤ مارو اور ان میں سے کسی کو اپنا دوست نہ بناؤ۔"

 

> سَتَجِدُونَ آخَرِينَ يُرِيدُونَ أَن يَأْمَنُوكُمْ وَيَأْمَنُوا قَوْمَهُمْ كُلَّ مَا رُدُّوا إِلَى الْفِتْنَةِ أُرْكِسُوا فِيهَا ۚ فَإِن لَّمْ يَعْتَزِلُوكُمْ وَيُلْقُوا إِلَيْكُمُ السَّلَمَ وَيَكُفُّوا أَيْدِيَهُمْ فَخُذُوهُمْ وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ ۚ وَأُولَٰئِكُمْ جَعَلْنَا لَكُمْ عَلَيْهِمْ سُلْطَانًا مُّبِينًا (النساء: ۹۱)

> "کچھ دوسرے لوگ ایسے پاؤ گے جو چاہتے ہیں کہ تم سے بھی امن میں رہیں اور اپنی قوم کے کافروں سے بھی (اس لیے جب تمہارے پاس آتے ہیں تو اقرارِ اسلام کرتے ہیں) اور جب فتنہ کی طرف لوٹائے جاتے ہیں تو اس میں اوندھے گر پڑتے ہیں (یعنی خود بھی فتنہ میں شامل ہو جاتے ہیں)۔ پس اگر وہ تم سے کنارہ کش نہ ہوں اور نہ تم سے صلح کی طرح ڈالیں اور نہ تمہارے ساتھ جنگ و دشمنی سے ہاتھ روکیں، تو انہیں پکڑو اور جہاں پاؤ قتل کرو۔ ان لوگوں پر ہم نے تمہیں واضح دلیل دے دی ہے۔"

 

ان آیات میں منافقین کی اس جماعت کا وہ جرم بھی بیان کر دیا گیا ہے جس کے باعث یہ واجب القتل ہوئے ہیں، لیکن مزید وضاحت کے لیے ہم قرآن مجید ہی کی چند اور آیات پیش کرتے ہیں جن سے معلوم ہو سکتا ہے کہ یہ کس قسم کے لوگ ہیں۔ سورہ نساء میں ہے:

> وَيَقُولُونَ طَاعَةٌ فَإِذَا بَرَزُوا مِنْ عِندِكَ بَيَّتَ طَائِفَةٌ مِّنْهُمْ غَيْرَ الَّذِي تَقُولُ ۖ وَاللَّهُ يَكْتُبُ مَا يُبَيِّتُونَ (النساء: ۸۱)

> "وہ تجھ سے تو کہتے ہیں کہ ہم مطیع ہیں، مگر جب تیرے پاس سے نکلتے ہیں تو ان میں سے ایک گروہ جو کچھ تو کہتا ہے اس کے خلاف رات کو منصوبے گانٹھتا ہے، اور جو کچھ یہ لوگ راتوں کو منصوبے گانٹھا کرتے ہیں اللہ ان سے خبردار ہے۔"

 

سورہ توبہ میں فرمایا:

> لَوْ خَرَجُوا فِيكُم مَّا زَادُوكُمْ إِلَّا خَبَالًا وَلَأَوْضَعُوا خِلَالَكُمْ يَبْغُونَكُمُ الْفِتْنَةَ وَفِيكُمْ سَمَّاعُونَ لَهُمْ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِالظَّالِمِينَ لَقَدِ ابْتَغَوُا الْفِتْنَةَ مِن قَبْلُ وَقَلَّبُوا لَكَ الْأُمُورَ حَتَّىٰ جَاءَ الْحَقُّ وَظَهَرَ أَمْرُ اللَّهِ وَهُمْ كَارِهُونَ (التوبہ: ۴۷-۴۸)

> "اگر وہ تمہارے ساتھ مل کر لڑنے کو نکلتے تو تمہارے اندر فساد کے سوا اور کسی چیز میں اضافہ نہ کرتے، اور تمہارے درمیان جھوٹی خبریں پھیلا کر اور چغلخوریاں کر کے فتنہ برپا کرنے کی کوشش کرتے۔ اور تمہارے درمیان ایسے لوگ بھی ہیں جو ان کی باتیں کان لگا کر سنتے ہیں، اللہ ان ظالموں سے خوب واقف ہے۔ انہوں نے اس سے پہلے بھی (غزوۂ احد میں) فتنہ برپا کرنا چاہا تھا، اور تیرے خلاف طرح طرح کی چالیں چلی تھیں یہاں تک کہ حق کی نصرت آگئی اور اللہ کا حکم غالب ہوا اگرچہ وہ انہیں بہت ہی ناگوار تھا۔"

 

> وَيَحْلِفُونَ بِاللَّهِ إِنَّهُمْ لَمِنكُمْ وَمَا هُم مِّنكُمْ وَلَٰكِنَّهُمْ قَوْمٌ يَفْرَقُونَ لَوْ يَجِدُونَ مَلْجَأً أَوْ مَغَارَاتٍ أَوْ مُدَّخَلًا لَّوَلَّوْا إِلَيْهِ وَهُمْ يَجْمَحُونَ (التوبہ: ۵۶-۵۷)

> "اور وہ خدا کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ ہم تم ہی میں سے ہیں حالانکہ وہ ہرگز تم میں سے نہیں ہیں، بلکہ دراصل یہ ڈرپوک لوگ ہیں (جو تمہاری طاقت کے خوف سے اظہارِ دوستی کرتے ہیں)۔ اگر انہیں کوئی جائے پناہ یا غار یا گھس بیٹھنے کا مقام مل جائے تو ضرور اس کی طرف پھر جائیں اور دوڑ کر جائیں۔"

 

> الْمُنَافِقُونَ وَالْمُنَافِقَاتُ بَعْضُهُم مِّن بَعْضٍ ۚ يَأْمُرُونَ بِالْمُنكَرِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمَعْرُوفِ وَيَقْبِضُونَ أَيْدِيَهُمْ ۚ نَسُوا اللَّهَ فَنَسِيَهُمْ ۗ إِنَّ الْمُنَافِقِينَ هُمُ الْفَاسِقُونَ (التوبہ: ۶۷)

> "منافق مرد اور منافق عورتیں سب ایک تھیلی کے چٹے بٹے ہیں، بری باتوں کا حکم کرتے ہیں، اچھی باتوں سے روکتے ہیں، اور راہِ خدا میں خرچ کرنے سے ہاتھ روکتے ہیں، وہ اللہ کو بھول گئے ہیں، اس لیے اللہ بھی ان سے بے پروا ہو گیا ہے، بیشک یہ منافق بڑے ہی بدکار اور نافرمان ہیں۔"

 

سورہ احزاب میں فرمایا:

> وَإِذْ يَقُولُ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ مَّا وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ إِلَّا غُرُورًا وَإِذْ قَالَت طَّائِفَةٌ مِّنْهُمْ يَا أَهْلَ يَثْرِبَ لَا مُقَامَ لَكُمْ فَارْجِعُوا ۚ وَيَسْتَأْذِنُ فَرِيقٌ مِّنْهُمُ النَّبِيَّ يَقُولُونَ إِنَّ بُيُوتَنَا عَوْرَةٌ وَمَا هِيَ بِعَوْرَةٍ ۖ إِن يُرِيدُونَ إِلَّا فِرَارًا وَلَوْ دُخِلَتْ عَلَيْهِم مِّنْ أَقْطَارِهَا ثُمَّ سُئِلُوا الْفِتْنَةَ لَآتَوْهَا وَمَا تَلَبَّثُوا بِهَا إِلَّا يَسِيرًا (الاحزاب: ۱۲-۱۴)

> "اور جب (جنگِ احزاب کے موقع پر) منافقین اور وہ لوگ جن کے دلوں میں شک کی بیماری ہے، کہنے لگے کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے جو وعدہ ہم سے کیا تھا وہ دھوکے اور فریب کے سوا کچھ نہ تھا، اور جب ان میں سے ایک گروہ بولا کہ اے اہلِ یثرب! اب تمہارے ٹھہرنے کا موقع نہیں ہے، یہاں سے بھاگ نکلو، اور ان میں سے ایک فریق نبی ﷺ سے اجازت لینے لگا یہ کہہ کر کہ ہمارے گھر کھلے پڑے ہیں حالانکہ وہ کھلے ہوئے (غیر محفوظ) نہ تھے اور ان کا مطلب بھاگ جانے کے سوا کچھ نہ تھا، اگر مدینہ کے اطراف سے دشمن گھس پڑتے اور ان سے درخواست کی جاتی کہ تم بھی (مسلمانوں کو قتل و غارت کرنے کے) فتنہ میں شریک ہو جاؤ تو وہ ضرور شریک ہو جاتے اور اس میں ذرا تامل نہ کرتے۔"

 

سورہ منافقون میں فرمایا:

> إِذَا جَاءَكَ الْمُنَافِقُونَ قَالُوا نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّكَ لَرَسُولُهُ وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَكَاذِبُونَ اتَّخَذُوا أَيْمَانَهُمْ جُنَّةً فَصَدُّوا عَن سَبِيلِ اللَّهِ ۚ إِنَّهُمْ سَاءَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (المنافقون: ۱-۲)

> "جب منافق تمہارے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ یقیناً خدا کے رسول ہیں۔ ہاں! اللہ بھی جانتا ہے کہ تم اس کے رسول ہو، مگر اللہ گواہی دیتا ہے کہ یہ منافق یقیناً جھوٹے ہیں۔ انہوں نے اپنی قسموں کو (اپنی دشمنی کے لیے) ڈھال بنا رکھا ہے اور یہ اللہ کے راستے سے روکتے ہیں اور بہت ہی برا کام ہے جو وہ کرتے ہیں۔"

 

یہ آیات بتاتی ہیں کہ منافقین میں سے ایک گروہ ایسا ہے جس کے ساتھ ظاہر میں بھی مسلمانوں کا سا معاملہ نہیں کیا جاسکتا۔ اس گروہ کی خصوصیت یہ ہے کہ یا تو مسلمان ہونے کا دعویٰ کرنے کے باوجود اعلانیہ کفر کی باتیں کرتا ہے، یا زبان سے تو بدستور اسلام کا اقرار کرتا رہتا ہے مگر اس کی حرکات یہ ہوتی ہیں کہ ہر وقت مسلمانوں کے درپے آزار رہتا ہے، طرح طرح سے انہیں نقصان پہنچانے کی تدبیریں کرتا ہے، ان کے دشمنوں سے ساز باز رکھتا ہے، ان کی خفیہ خبریں دشمنوں کو پہنچاتا ہے، ان کا ایمان بگاڑنے اور انہیں گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے، ان کی جماعت میں ریشہ دوانیاں کر کے تفرقہ برپا کرتا ہے، ان کے دشمنوں کو اخلاقی و عملی مدد پہنچاتا ہے، اور اسلام پر جب کوئی مصیبت کا وقت آتا ہے تو یہ گروہ اس کی حفاظت کے بجائے اسے مٹانے کی کوشش کرتا ہے۔

 

یہ گروہ اسلام کے لیے اس کے بیرونی دشمنوں سے زیادہ خطرناک ہے، اس لیے جو لوگ اس غدار گروہ سے تعلق رکھتے ہوں، خواہ وہ ہر وقت کلمۂ توحید و رسالت پڑھتے ہوں اور خواہ ظاہری حیثیت سے ان کے اسلام میں کسی شک کی گنجائش نہ ہو، مگر ان کے ساتھ قطعاً کوئی رعایت نہ کرنی چاہیے، اور جب ان سے ان جرائم کا صدور ہو تو جسمِ اسلام کے ان پھوڑوں پر سختی کے ساتھ اصلاح کا نشتر استعمال کرنا چاہیے۔

 

 حفاظتِ امن

 

دشمنوں کی ایک اور قسم وہ ہے جو دارالاسلام کے اندر رہ کر یا باہر سے آکر اس میں فساد پھیلاتی ہے، ڈاکے ڈالتی ہے اور قتل و غارت کا بازار گرم کرتی ہے اور حکومتِ اسلامی کے امن و امان میں خلل برپا کرتی ہے، یا تشدد کے ذریعہ سے نظامِ اسلامی کا تختہ الٹنے کی کوشش کرتی ہے۔ ان کے متعلق قرآن مجید میں یہ حکم دیا گیا ہے:

> إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا أَن يُقَتَّلُوا أَوْ يُصَلَّبُوا أَوْ تُقَطَّعَ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُم مِّنْ خِلَافٍ أَوْ يُنفَوْا مِنَ الْأَرْضِ ۚ ذَٰلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيَا ۖ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ إِلَّا الَّذِينَ تَابُوا مِن قَبْلِ أَن تَقْدِرُوا عَلَيْهِمْ ۖ فَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ (المائدہ: ۳۳-۳۴)

> "جو لوگ اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے لڑتے ہیں اور ملک میں (لوٹ مار سے) فساد پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں، ان کی سزا یہ ہے کہ وہ قتل کیے جائیں، یا صلیب پر چڑھائے جائیں یا ان کے ہاتھ پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹ ڈالے جائیں یا وہ ملک سے نکال دیے جائیں۔ یہ رسوائی تو ان کے لیے دنیا میں ہے، اور (اس کے علاوہ) آخرت میں بھی ان کے لیے بڑا عذاب ہے۔ سوائے ان لوگوں کے جو اس سے پہلے کہ تم ان پر قدرت پاؤ (یعنی گرفتار کرو) توبہ کر لیں، تو جان لو کہ اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔"

 

اس آیت میں يُحَارِبُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ کے الفاظ سے جہلاء کو یہ دھوکہ ہوا ہے کہ اس سے مراد وہ کفار ہیں جن سے مسلمانوں کی باقاعدہ لڑائی ہو۔ لیکن دراصل خدا اور رسول ﷺ کے ساتھ محاربہ کرنے سے مراد "سعی فساد فی الارض" ہے جس کا ذکر تشریح کے طور پر اس فقرہ کے بعد ہی کیا گیا ہے۔ اسلامی فقہ میں اس سے مراد دو قسم کے جرائم لیے گئے ہیں: ایک وہ جن سے مقصود دارالاسلام میں قتل و غارت گری اور ڈاکہ زنی کے ذریعہ سے بد نظمی پیدا کرنا ہو، اور دوسرا وہ جو امن و آئین کے خلاف مسلح بغاوت کرنے والوں سے متعلق ہے۔ یہ آیت جس موقع پر اتری تھی (قبیلۂ عرینہ کا واقعہ) اس سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس کا حکم انہی فسادیوں کے لیے ہے۔ (یہاں تفصیلات فقہ بیان کرنے کا موقع نہیں)۔

 

 مظلوم مسلمانوں کی حمایت

 

مدافعانہ جنگ کی ایک اور صورت جس میں مسلمانوں کو تلوار اٹھانے کی اجازت دی گئی ہے یہ ہے کہ مسلمانوں کی کوئی جماعت اپنی کمزوری و بے چارگی کے باعث دشمنوں کے پنجہ میں گرفتار ہو جائے اور اس میں اتنی قوت نہ ہو کہ اپنے آپ کو چھڑا سکے، ایسی حالت میں دوسرے مسلمانوں پر جو آزاد ہوں اور جنگ کی قوت رکھتے ہوں، یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ اپنے ان مظلوم بھائیوں کو اس ظلم سے نجات دلانے کے لیے جنگ کریں۔ قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے:

> وَمَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ هَٰذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ وَلِيًّا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ نَصِيرًا (النساء: ۷۵)

> "اور تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ اللہ کی راہ میں ان کمزور مردوں، عورتوں اور بچوں کے لیے جنگ نہیں کرتے ہو جو کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب! ہمیں اس بستی سے نکال جہاں کے لوگ بڑے ظالم ہیں اور ہمارے لیے اپنی طرف سے کسی کو حامی اور اپنی طرف سے کسی کو مددگار بنا۔"

 

دوسری جگہ وضاحت کے ساتھ اس اعانت کی ضرورت بیان کی ہے اور اس طرح اس کی تاکید فرمائی ہے:

> إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالَّذِينَ آوَوا وَّنَصَرُوا أُولَٰئِكَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يُهَاجِرُوا مَا لَكُم مِّن وَلَايَتِهِم مِّن شَيْءٍ حَتَّىٰ يُهَاجِرُوا ۚ وَإِنِ اسْتَنصَرُوكُمْ فِي الدِّينِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ إِلَّا عَلَىٰ قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُم مِّيثَاقٌ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ وَالَّذِينَ كَفَرُوا بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ إِلَّا تَفْعَلُوهُ تَكُن فِتْنَةٌ فِي الْأَرْضِ وَفَسَادٌ كَبِيرٌ (الانفال: ۷۲-۷۳)

> "...جو لوگ ایمان تو لائے ہیں مگر دارالکفر کو چھوڑ کر دارالاسلام میں نہیں آئے ان کی ولایت کا کوئی تعلق تم سے نہیں ہے جب تک کہ وہ ہجرت نہ کریں۔ البتہ اگر وہ دین کے بارے میں تم سے مدد طلب کریں تو تم پر ان کی مدد کرنا لازم ہے، سوائے اس صورت کے جب کہ وہ کسی ایسی قوم کے خلاف مدد مانگیں جس سے تمہارا معاہدہ ہو۔ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اسے خوب دیکھتا ہے۔ جو لوگ کافر ہیں وہ ایک دوسرے کے ولی و مددگار ہیں، پس اگر تم (مسلمانوں کی مدد) نہ کرو گے تو زمین میں فتنہ اور بڑا فساد ہو گا۔"

 

اس آیت میں آزاد مسلمانوں اور (دارالکفر میں مقیم) مسلمانوں کے تعلقات کو نہایت وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا گیا ہے۔ پہلے مَا لَكُم مِّن وَلَايَتِهِم مِّن شَيْءٍ سے یہ بتایا گیا ہے کہ جو مسلمان دارالکفر میں رہنا قبول کریں یا رہنے پر مجبور ہوں ان سے دارالاسلام کے مسلمانوں کے تمدنی اور سیاسی تعلقات نہیں رہ سکتے۔ یعنی نہ وہ باہم شادی بیاہ کے رشتے قائم کر سکتے ہیں، نہ انہیں ایک دوسرے کا ورثہ و ترکہ مل سکتا ہے، نہ فے اور غنیمت سے ان کو کوئی حصہ پہنچ سکتا ہے، نہ صدقات کے مصارف میں وہ داخل ہو سکتے ہیں اور نہ اسلامی حکومت میں کوئی منصب ان کو دیا جا سکتا ہے جب تک کہ وہ دارالکفر سے ہجرت کر کے دارالاسلام کی رعایا نہ بن جائیں۔

 

لیکن ولایت کے یہ تمام تعلقات منقطع کر دینے کے باوجود ایک تعلق یعنی نصرت و مددگاری کا تعلق پھر بھی منقطع نہیں کیا اور وَإِنِ اسْتَنصَرُوكُمْ فِي الدِّينِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ سے صاف طور پر بتلا دیا کہ یہ نصرت کا تعلق دین کے ساتھ قائم ہے۔ جب تک کوئی شخص مسلمان ہے، خواہ وہ دنیا کے کسی کونے میں ہو، اس سے مسلمانوں کا تعلقِ نصرت و مددگاری کسی حال میں منقطع نہیں ہو سکتا۔ اگر اس کے دین کو کوئی خطرہ ہو یا اس پر ظلم ہو اور وہ دین کا واسطہ دے کر مدد مانگے تو مسلمانوں پر اس کی مدد کرنا فرض ہے، سوائے اس کے کہ وہ کسی ایسی قوم کے خلاف مدد مانگے جس سے مسلمانوں کا معاہدہ ہو، کیونکہ معاہدہ ہونے کی حالت میں مسلمانوں کے لیے عہد کی پابندی اپنے مسلمان بھائی کی مدد سے زیادہ ضروری ہے اور ان کے لیے جائز نہیں ہے کہ معاہدہ کی مدت ختم ہونے سے پہلے اس کی مدد کریں۔

 

یہ حکم بیان کرنے کے بعد اس نصرت و اعانت کی ضرورت جتائی ہے اور فرمایا ہے کہ دیکھو یہ کفار اسلام کے مٹانے میں ایک دوسرے کی کیسے مدد کرتے ہیں، اور اپنی آپس کی مخالفتوں اور دشمنیوں کے باوجود مسلمانوں کے مقابلہ میں کس طرح ایک ہو جاتے ہیں۔ پس اگر تم بھی دینی رشتے کو ملحوظ رکھ کر آپس میں ایک دوسرے کے مددگار نہ بنو تو زمین میں کیسا فتنہ اور فسادِ عظیم برپا ہو؟

 

فتنہ کا لفظ جیسا کہ آگے چل کر ہم بتشریح بیان کریں گے، قرآنی اصطلاح میں غلبۂ کفر اور پیروانِ دینِ حق کے مبتلائے مصیبت و ذلت ہونے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ اور اسی طرح فساد بھی ہدایت پر ضلالت کے غالب ہونے اور نیکی و صلاح کے مٹ جانے کے معنی میں بولا جاتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی کسی جماعت کے مٹائے جانے یا اس کے راہِ حق سے بھٹکا دیے جانے کو فتنہ و فساد سے تعبیر کرتا ہے، اور اس فتنے کا مقابلہ کرنا مسلمانوں پر فرض قرار دیتا ہے۔

 

دفاع کی غرض و غایت

 

اب دفاعی جنگ کی ان تمام صورتوں پر جو سطورِ بالا میں بیان کی گئی ہیں، ایک غائر نظر ڈالو تو تمہیں معلوم ہو گا کہ ان سب کے اندر ایک ہی مقصد کام کر رہا ہے، اور وہ یہ ہے کہ مسلمان اپنے دین اور اپنے قومی وجود کو کسی حال میں بدی و شرارت سے مغلوب نہ ہونے دیں، اور یہ بدی جس راہ سے بھی خروج کرے، خواہ باہر سے خواہ اندر سے، اس کا سر کچلنے کے لیے ہر وقت مستعد رہیں۔ اللہ کو مسلمانوں سے جو خدمت لینی ہے اس کے لیے اولین ضرورت ان کا فتنوں اور خرخشوں سے محفوظ رہنا اور ان کی قومی و سیاسی طاقت کا مضبوط رہنا ہے۔

 

اگر وہ خود اپنے آپ کو مٹنے سے نہ بچائیں اور اندرونی و بیرونی دشمنوں کی فتنہ پردازیوں سے غفلت برت کر اپنے تئیں ان اجتماعی امراض کا شکار ہو جانے دیں جنہوں نے اگلی ظالم قوموں کو ذلت و مسکنت اور غضبِ الٰہی میں مبتلا کیا، تو ظاہر ہے کہ وہ صرف خود اپنے آپ ہی کو ہلاکت میں نہ ڈالیں گے بلکہ انسانیت کی اس خدمتِ عظیم کو بھی انجام دینے کے قابل نہ رہیں گے جس کے لیے وہ پیدا کیے گئے ہیں۔ اور یہ ان کا صرف اپنے اوپر ہی نہیں بلکہ تمام عالمِ انسانی پر ظلم ہو گا۔

 

پس ان کو کھول کھول کر نہایت وضاحت کے ساتھ ان دشمنوں کے نشانات بتائے گئے ہیں جو ان کی بربادی کے موجب بنتے ہیں یا بن سکتے ہیں، اور ایک ایک کا دھڑکا توڑ دینے کی تاکید کی گئی ہے تاکہ وہ دنیا سے ہدایت کے نور کو مٹانے اور عالم گیر اصلاح کے کام میں سدِ راہ بننے کے قابل نہ رہیں۔ پھر اس کے لیے صرف اسی وقت تلوار اٹھانے کی ہدایت نہیں کی گئی جب کہ بدی اپنا سر نکالے اور فتنہ پردازی شروع کر دے، بلکہ اس کے مقابلہ پر ہر وقت کمربستہ و مستعد رہنے کی تاکید کی گئی ہے، تاکہ اسے سر نکالنے کی جرات ہی نہ ہو سکے اور اس پر حق کی ایسی ہیبت بیٹھی رہے کہ اس کا دم اندر ہی اندر گھٹ جائے۔

> وَأَعِدُّوا لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ وَمِن رِّبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَعَدُوَّكُمْ وَآخَرِينَ مِن دُونِهِمْ لَا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ ۚ وَمَا تُنفِقُوا مِن شَيْءٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنتُمْ لَا تُظْلَمُونَ (الانفال: ۶۰)

> "ان کے مقابلے کے لیے جس قدر تمہارے امکان میں ہو، سامانِ جنگ اور ہمیشہ تیار رہنے والے گھوڑے مہیا رکھو۔ اس سے تم اللہ کے دشمنوں اور اپنے دشمنوں کو اور ان کے سوا دوسرے لوگوں کو جنہیں تم نہیں جانتے، مگر اللہ انہیں جانتا ہے، مرعوب و خوفزدہ کر دو گے۔ اس کام میں جو کچھ تم فی سبیل اللہ خرچ کرو گے وہ تمہیں (دنیا میں امن و امان اور ترقیٔ اسلام کی صورت میں اور آخرت میں خوشنودیٔ الٰہی کی صورت میں) پورے کا پورا واپس مل جائے گا اور تم پر ہرگز ظلم نہیں کیا جائے گا۔"

 

یہ آیت بتلاتی ہے کہ مسلمانوں کی جنگی ضروریات کے لیے اس قسم کی عارضی فوج ردیف (Militia) کافی نہیں ہو سکتی جو خاص ضرورت کے موقع پر جمع کی جائے اور ضرورت رفع ہونے کے بعد منتشر کر دی جائے، بلکہ انہیں مستقل فوجِ مرابط (Standing Army) رکھنی چاہیے جو ہمیشہ کیل کانٹے سے لیس رہے۔

 

آیت کے الفاظ پر غور کرنے سے عجیب عجیب معانی ظاہر ہوتے ہیں۔ سامانِ جنگ کی نوعیت کو صرف لفظ "قوۃ" سے بیان کیا ہے۔ جو پہلی صدی ہجری کے تیروں اور دبابوں پر، چودھویں صدی کی توپوں، ہوائی جہازوں اور آبدوز کشتیوں پر اور اس کے بعد آنے والی صدیوں کی بہترین حربی اختراعات پر یکساں حاوی ہے۔ مَا اسْتَطَعْتُم کے لفظ نے قوت کی کمیت کو مسلمانوں کی قدرت و استطاعت پر موقوف کر دیا۔ یعنی اگر وہ ایک فوجِ گراں مہیا کرنے کی طاقت رکھتے ہوں تو ان کو وہی کرنی چاہیے، لیکن اگر ان میں اتنی قوت نہ ہو اور وہ بڑی بڑی توپیں، بڑے بڑے جنگی جہاز، بڑے بڑے مہلک آلاتِ جنگ حاصل نہ کر سکیں تو ان سے یہ فرض ساقط نہیں ہو جاتا، بلکہ انہیں ہر اس وسیلۂ جنگ کو اختیار کرنا چاہیے جو دشمنانِ حق سے مقابلہ کرنے میں کام آسکے اور جسے حاصل کرنا مسلمانوں کے لیے ممکن ہو۔

 

پھر "رباط الخیل" کے مستعد رکھنے کی مصلحت بتاتے ہوئے تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَعَدُوَّكُمْ کے بعد وَآخَرِينَ مِن دُونِهِمْ لَا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ کے الفاظ جو فرمائے ان میں سیاست کا یہ نکتہ سمجھایا ہے کہ اگر کوئی قوم اپنی فوجی طاقت کو مضبوط رکھتی ہے تو اس سے صرف یہی فائدہ حاصل نہیں ہوتا کہ جو طاقتیں اس کی اعلانیہ دشمن ہوں وہ اس سے مرعوب و خوفزدہ رہتی ہیں، بلکہ رفتہ رفتہ لوگوں پر اس کی ایسی دھاک جم جاتی ہے کہ اس کے ساتھ دشمنی کرنے کا خیال بھی دلوں میں نہیں آتا، اور وہ سرکش قوتیں جو اسے کمزور اور غافل دیکھ کر حملہ کر دینے میں ذرا تامل نہ کریں اس کی اس طرح مطیع اور دوست بنی رہتی ہیں کہ اسے ان کی طبیعت میں چھپی ہوئی سرکشی کا علم بھی نہیں ہوتا۔

 

اس کے بعد علم المعیشت کی اس حقیقت کو ذہن نشین کیا ہے کہ اس حفظِ ما تقدم کی تیاری میں جو روپیہ صرف ہوتا ہے اسے یہ نہ سمجھو کہ وہ تم سے ہمیشہ کے لیے ضائع ہو گیا اور اس کے فوائد سے تم محروم ہو گئے، بلکہ درحقیقت وہ تمہیں واپس ملتا ہے اور اس صورت میں واپس ملتا ہے کہ تم پر ظلم نہیں ہو سکتا، اور ظلم سے محفوظ رہنے کی صورت میں تمہیں پرامن زندگی کے فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنتُمْ لَا تُظْلَمُونَ میں دنیا و آخرت دونوں کے فوائد حاصل ہونے اور دونوں میں ظلم سے بچے رہنے کا وعدہ مضمر ہے، اور درحقیقت اس جملہ سے دونوں مقصود ہیں، کیونکہ مسلمانوں کے دین کی بہتری وہی ہے جو ان کی دنیا کی بہتری ہے اور ان کی دنیا کی بدتری وہی ہے جس کا نتیجہ دین کی بدتری ہے۔

 

 باب سوم: مصلحانہ جنگ

 

اب غور کرنا چاہیے کہ مدافعانہ جنگ کے ان احکام سے مسلمانوں کی جس قومی قوت کو مٹنے اور تباہ ہونے سے بچایا گیا ہے اس کا مصرف کیا ہے۔ آیا اس قوت کو بچانا فی نفسہ مقصود ہے یا درحقیقت اس سے کچھ اور کام لینا ہے جس کے لیے اس کا فتنوں سے محفوظ رہنا ضروری ہے؟ گزشتہ صفحات میں جو ہم بار بار اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے رہے ہیں کہ مسلمان اپنی قومی طاقت کو کھو کر اس "اصلی خدمت" کو انجام دینے کے قابل نہیں رہ سکتے جس کے لیے انہیں پیدا کیا گیا ہے، تو اس سے ہمارا مقصد دراصل اسی سوال کا جواب دینا تھا۔ وہ مواقع کسی تفصیلی گفتگو کے متحمل نہ تھے اس لیے صرف اشارت پر اکتفا کیا گیا ہے۔ مگر اب ہم بحث کی اس منزل پر پہنچ گئے ہیں جہاں اس گرہ کو کھولنے سے سوء فہم کی گنجائش نہیں ہے۔

 

قرآن مجید، جو کتابِ مجمل ہونے کے باوجود اسلامی تعلیم کے ایک ایک پہلو کی تفصیل کا حامل ہے، وہ مقصد بھی بیان کرتا ہے جس کے لیے مسلمان پیدا کیے گئے ہیں، اور وہ "اصلی خدمت" بھی بیان کرتا ہے جس کو انجام دینے کے لیے ان کی قوت کے تحفظ میں یہ سارا اہتمام کیا گیا ہے۔ چنانچہ ارشاد فرمایا:

> كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ (آل عمران: ۱۱۰)

> "تم ایک بہترین امت ہو جسے لوگوں کی (خدمت و) ہدایت کے لیے برپا کیا گیا ہے، تم نیکی کا حکم کرتے ہو اور بدی کو روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔"

 

اس ارشاد میں اخرجت للعرب یا اخرجت للعجم یا اخرجت للشرق نہیں کہا گیا بلکہ اخرجت للناس کہا گیا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان کسی خاص نسل یا خاص ملک کے لیے نہیں بلکہ تمام بنی نوعِ انسان کی خدمت کے لیے پیدا کیے گئے ہیں اور وہ بنی نوعِ انسان کی خدمت یہ ہے کہ وہ نیکی کا حکم کریں اور بدی سے روکیں۔

 

ایک قوم کی زندگی کا مقصد تمام بنی نوعِ انسان کی خدمت کرنا، یہ ایک ایسی بات ہے جس کے تخیل سے قومیت و وطنیت کی فضا میں پرورش پانے والے تنگ دماغ آشنا نہیں ہیں۔ وہ "قوم پرستی" یا "وطن پرستی" کو خوب جانتے ہیں، اور "قوم پرستی" تو گویا ان کے تخیل کی معراج ہے، مگر جغرافی و نسلی حد بندیوں سے بالاتر ہو کر سارے عالمِ انسانی کی عملی خدمت انجام دینا اور اس کو پوری قوم کا مقصدِ حیات قرار دینا ان کی رسائی سے بہت دور ہے۔ اس لیے سب سے پہلے ہمیں اس کی تشریح کرنی چاہیے کہ یہ اخرجت للناس کیا چیز ہے۔

 

 اجتماعی فرائض کا اخلاقی تخیل

 

اگر انسان کی جبلی خواہشات کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ اصلیت کے اعتبار سے اس کے اندر کوئی خواہش ایسی نہیں ہے جو ادنیٰ سے ادنیٰ درجے کے حیوانات میں بھی موجود نہ ہو۔ جس طرح ایک انسان اچھی اچھی خوش ذائقہ غذائیں کھانے کی خواہش رکھتا ہے اسی طرح ایک گھوڑے کی بھی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اسے خوب ہری ہری گھاس کھانے کو ملے۔ جس طرح ایک انسان اپنے ابنائے جنس پر غلبہ و قوت حاصل کرنے سے خوش ہوتا ہے اسی طرح ایک مینڈھے کے لیے بھی اس سے زیادہ خوشی کا موقع اور کوئی نہیں ہوتا کہ کوئی ایک مینڈھا اس کی ٹکر کا مقابلہ نہ کر سکے۔ جس طرح ایک انسان اپنی جان کی حفاظت کے لیے مدافعت اور بچاؤ کی تدبیریں کرتا ہے اسی طرح ایک چھوٹے سے چھوٹے کیڑے میں بھی یہ بات پائی جاتی ہے۔

 

پس مجرد خواہشات کے اعتبار سے انسان اور حیوان میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ البتہ جو چیز اسے ادنیٰ درجہ کے حیوانات سے ممتاز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ حیوانات کی زندگی کا منتہائے مقصود ان خواہشات کا پورا کر لینا ہے، مگر انسان کی زندگی کا مقصد ان خواہشات کا حصول نہیں ہے بلکہ وہ ایک بلند تر نصب العین کے لیے ایک لازمی وسیلے کے طور پر ان کو پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اگر انسان کے سامنے فی الحقیقت حیوانی مقاصد سے بلند کوئی انسانی نصب العین نہ ہو اور وہ اپنی ذہانت اور اس عقل کو جو خدا نے اسے عطا کی ہے صرف ایسے وسائل اور طریقے تلاش کرنے میں صرف کرے جن سے وہ زیادہ اچھی طرح اپنی حیوانی خواہشات کو پورا کر سکتا ہو، تو وہ ایک اعلیٰ درجہ کا حیوان تو ضرور بن سکتا ہے مگر ایک اعلیٰ درجہ کا انسان نہیں بن سکتا۔

 

انسان اپنے بقائے حیات کے لیے روزی کمانے پر مجبور ہے کہ نہ کھائے تو بھوکوں مر جائے گا۔ عوارضِ طبعی سے محفوظ رہنے کے لیے مکان بنانے، کپڑے پہننے اور دیگر وسائلِ حفاظت مہیا کرنے پر مجبور ہے کہ نہ کرے گا تو ہلاک ہو جائے گا۔ اور اسی طرح وہ اپنے دشمنوں سے اپنے آپ کو بچانے پر بھی مجبور ہے کہ اس کوشش میں دریغ کرے گا تو ذلت و مصیبت میں مبتلا ہو جائے گا۔ لیکن محض ان ضروریات کو پورا کر لینا فی نفسہ کوئی مقصود نہیں ہے بلکہ وہ ذریعہ ہے اس بلند مقصد کے حصول کا جس تک پہنچنا انسانی زندگی کا اصلی مطمع نظر ہے۔

 

پس سچا انسان وہ ہے جو اپنی ذات کے حقوق صرف اس لیے ادا کرتا ہے کہ وہ اپنے خاندان، اپنے شہر، اپنی قوم، اپنے ملک، اپنے ابنائے نوع اور اپنے خدا کے حقوق ادا کرنے کے قابل ہو جائے، اور اپنے ان فرائض کو بہتر طریقے سے انجام دے سکے جو کائنات اور خالقِ کائنات کی طرف سے اس پر عائد ہوتے ہیں۔ انسانیت کا اصلی معیار انہی حقوق اور فرائض کو سمجھنا اور پوری طرح ادا کرنا ہے۔ اور انسان پر اپنی ذات کے حقوق ادا کرنا اسی لیے فرض کیا گیا ہے کہ اس کے ذمہ صرف اس کے اپنے ہی حقوق نہیں ہیں بلکہ دوسروں کے حقوق بھی ہیں۔ اگر وہ اپنا حق ادا نہ کرے گا تو دوسروں کے حقوق بھی ادا کرنے سے قاصر رہے گا۔

 

جب افراد کے لیے انسانیت کا یہ معیار صحیح ہے تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ مجموعۂ افراد کے لیے بھی یہی معیار صحیح نہ ہو۔ جماعت بن جانے سے آدمیت میں کوئی کمی یا زیادتی نہیں ہو جاتی۔ اس لیے بنی آدم کی اجتماعی شرافت کا معیار بھی وہی ہونا چاہیے جو انفرادی شرافت کا ہے۔ اگر ایک ایسا آدمی جس کی زندگی کا نصب العین تن پروری اور اپنی خدمتِ نفس کے سوا کچھ نہ ہو، ہماری نظروں میں ایک ذی عقل حیوان سے زیادہ وقعت نہیں پا سکتا، تو یقیناً ایک ایسی انسانی جماعت بھی متمدن جانوروں سے زیادہ وقعت کی مستحق نہیں ہے جس کی کوششوں کا دائرہ صرف اپنی صلاح و فلاح، اپنی ترقی و بہبود، اور اپنے امن و چین تک محدود ہو اور عام انسانی فلاح سے اس کا کچھ مطلب نہ ہو۔

 

اگر ایک ایسے آدمی کو جو اپنے گھر کی آگ بجھانے، اپنے حقوق کی حفاظت کرنے اور اپنی جان و مال اور عزت و آبرو کی مدافعت کرنے میں تو خوب مستعد ہو، لیکن دوسرے کا گھر جلتا دیکھ کر، دوسرے کے حقوق پامال ہوتے اور دوسرے کی جان و مال اور عزت و آبرو مٹتے دیکھ کر ٹس سے مس نہ ہوتا ہو، ہم ایک بہترین آدمی کہنا تو درکنار ایک اچھا آدمی، بلکہ "آدمی" کہنے میں بھی تامل کرتے ہیں، تو ایک ایسی قوم یا ایسی جماعت کو بہترین یا کم از کم شریف کیوں کر کہہ سکتے ہیں جو اپنا گھر بچانے، اپنی حفاظت کرنے اور اپنے سے بدی و شرارت کو دفع کرنے کے لیے تو سب کچھ کرنے پر تیار ہو، مگر جب دوسری قوموں پر بدی کا غلبہ ہو، دوسری قومیں شیطانی قوتوں کی سرکشی سے تباہ ہو رہی ہوں اور دوسری قوموں کی اخلاقی، مادی اور روحانی زندگی برباد ہو رہی ہو تو وہ ان کی نجات، ان کی آزادی اور ان کی صلاح و فلاح کے لیے کوشش کرنے سے انکار کر دے؟

 

جس طرح افراد پر اپنے نفس ہی کے نہیں بلکہ اپنے ابنائے نوع اور اپنے خدا کے بھی کچھ حقوق ہوتے ہیں جنہیں ادا کرنا اس کا فرض ہوتا ہے، اسی طرح ایک قوم پر بھی اپنے خالق اور اپنی وسیع انسانی برادری کی طرف سے کچھ حقوق عائد ہوتے ہیں، اور وہ ہرگز ایک شریف قوم کہلانے کی مستحق نہیں ہو سکتی جب تک کہ وہ ان حقوق کو ادا کرنے میں اپنی جان و مال اور زبان و دل سے جہاد نہ کرے۔ اپنی آزادی کو محفوظ رکھنا، اپنے استقلال کی حمایت کرنا اور اپنے آپ کو شرارت کے تسلط سے بچانا یقیناً ایک قوم کا پہلا فرض ہے۔ لیکن صرف یہی ایک فرض نہیں ہے جس کو ادا کر کے اسے مطمئن ہو جانا چاہیے بلکہ اس کا اصلی فرض یہ ہے کہ وہ اپنی اس قوت سے تمام نوعِ بشری کی نجات کے لیے کوشش کرے، انسانیت کے راستے سے ان تمام رکاوٹوں کو دور کرے جو اس کی اخلاقی و مادی اور روحانی ترقی میں حائل ہوں، اور ظلم و طغیان، بدی و شرارت اور فتنہ فساد کے خلاف اس وقت تک برابر جنگ کرتی رہے جب تک یہ شیطانی قوتیں دنیا میں باقی ہیں۔

 

 اجتماعی فرائض کے متعلق اسلام کی اعلیٰ تعلیم

 

افسوس ہے کہ دنیا کے کم نظر گیانیوں نے اجتماعی شرافت کے اس بلند معیار اور اجتماعی زندگی کے اس اعلیٰ نصب العین کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی، اور اگر کسی نے کوشش کی بھی تو اس کی نظر زیادہ دور تک نہیں جا سکی۔ یہ لوگ افراد کے اخلاقی فرائض پر جب بحث کرتے ہیں تو انسانیت ہی کے نہیں بلکہ عالمِ مادی کے ذرے ذرے کے حقوق بھی گنا جاتے ہیں۔ مگر جب اجتماعی زندگی کا سوال سامنے آتا ہے تو انسانیت کے وسیع تخیل کے لیے ان کے دماغ تنگ ہو جاتے ہیں اور اجتماعی فرائض کو قومیت یا وطنیت کے ایک محدود دائرے میں سمیٹ کر وہ اس قوم پرستی یا وطن پرستی کی بنیاد ڈال دیتے ہیں جو تھوڑے سے تغیر کے بعد آسانی کے ساتھ قومی و وطنی عصبیت کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔

 

یہ تنگ نظری ہی دراصل انسانیت کی اس غیر طبعی تقسیم کی ذمہ داری ہے جس کی بدولت ایک نسل یا ایک زبان یا ایک قومیت رکھنے والے انسان اپنے دوسرے ابنائے نوع کو دائرۂ انسانیت سے خارج سمجھتے ہیں، اور ان کے حقوق کو سمجھنا اور ادا کرنا تو درکنار ان کو پامال کرنے میں بھی انہیں اخلاق و شرافت کا کچھ ٹوٹا نظر نہیں آتا۔

 

قرآن مجید نے اپنے ارشاد اخرجت للناس سے دراصل انسانیت کی اسی غیر طبعی تقسیم کو منسوخ کیا ہے۔ اس نے اجتماعی شرافت کے اس بلند معیار کو پیش کر کے عالم گیر خدمتِ انسانی کے اس اعلیٰ نصب العین کی طرف امتِ مسلمہ کی رہنمائی کی ہے جو ہر قسم کے امتیازات سے بالاتر ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ایک حق پرست قوم کی فرض شناسی کے لیے قومیت کا میدان بہت تنگ ہے، وہ ایک نسل یا ایک زبان یا ایک ملک کی قید بھی برداشت نہیں کر سکتی، اس کے لیے خشکی و تری کی حد بندیاں اور سمتوں اور جہتوں کی تقسیمیں بھی بے معنی ہیں کہ ایشیا اور یورپ یا شرق و غرب کا امتیاز اس کے ادائے فرض میں حائل ہو سکے، اس کے نزدیک تو تمام انسان اور آدم علیہ السلام کے تمام بیٹے بیٹیاں برابر ہیں، اس لیے ان سب کی خدمت کرنا یعنی ان سب کو نیکی کا حکم کرنا اور سب کو بدی سے روکنا اور شر سے بچانا، اس کا فرض ہے۔

 

اس اعلیٰ تعلیم کو اس نے مختلف مؤثر پیرایوں میں پیش کیا ہے، اور تنگ خیالی کے طلسم کو توڑ کر فرض شناسی کے ایک وسیع عالم کی راہیں کھول دی ہیں۔ چنانچہ دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے:

> وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا (البقرہ: ۱۴۳)

> "اس طرح ہم نے تم کو ایک اعلیٰ و اشرف گروہ بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر (حق کے) گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو۔"

 

اور اسی مضمون کی تشریح سورہ حج میں اس طرح کی گئی ہے:

> وَجَاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهَادِهِ ۚ هُوَ اجْتَبَاكُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ ۚ مِّلَّةَ أَبِيكُمْ إِبْرَاهِيمَ ۚ هُوَ سَمَّاكُمُ الْمُسْلِمِينَ مِن قَبْلُ وَفِي هَٰذَا لِيَكُونَ الرَّسُولُ شَهِيدًا عَلَيْكُمْ وَتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ ۚ فَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَاعْتَصِمُوا بِاللَّهِ (الحج: ۷۸)

> "اور اللہ کی راہ میں ایسا جہاد کرو جو جہاد کرنے کا حق ہے، اس نے تم کو اسی کام کے لیے چن لیا ہے اور تم پر دین کے دائرے میں کوئی تنگی نہیں رکھی، یہ وہی ملت ہے جو تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی تھی۔ اللہ نے تمہارا نام اس سے پہلے بھی اور اس کتاب میں بھی مسلم (اطاعت گزار) رکھا ہے تاکہ رسول ﷺ تم پر گواہ اور تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو۔ پس نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو، اور اللہ کے راستے پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہو۔"

 

ان دونوں آیات کو جو ایک دوسرے کی تشریح و تفسیر کرتی ہیں، ملا کر پڑھو تو یہ حقیقت واضح ہو جائے گی کہ یہاں بھی مسلمانوں کی زندگی کا مقصد اسی عالم گیر خدمتِ انسانی کو بتایا ہے۔ فرمایا کہ تم ایک بہترین گروہ ہو جسے افراط و تفریط سے ہٹا کر عدل و توسط کی راہ پر قائم کیا گیا ہے۔ تمہیں اللہ نے خاص اس کام کے لیے منتخب فرمایا ہے کہ اپنے قول اور عمل سے حق کی شہادت دو اور دنیا میں صداقت کے گواہ بن کر رہو تاکہ زندگی کے ہر پہلو میں تمہاری زبان اور تمہارے طرزِ عمل سے دنیا کو معلوم ہو کہ حق کیا ہے، راستی کسے کہتے ہیں، انصاف کے کیا معنی ہیں اور بھلائی کس چیز کا نام ہے۔ یہی شہادتِ حق تمہاری زندگی کا مقصد ہے اور اسی کے لیے تم کو مسلم (یعنی خدا کے فرمانبردار گروہ) کا نام دیا گیا ہے۔

 

اس کے بعد فرمایا کہ تمہارے اس دین میں کوئی تنگی نہیں ہے بلکہ اس کا دائرہ اتنا وسیع رکھا گیا ہے کہ نسل، رنگ، زبان، قومیت اور وطنیت کی قیود اس کی برکتوں کو عام ہونے سے باز نہیں رکھ سکتیں۔ اس میں کوئی چھوت چھات، یا ورن آشرم کی قید نہیں ہے، نہ اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں یا اسمعیلؑ کے بھٹکے ہوئے اونٹوں کی کوئی تخصیص ہے، ہر وہ انسان جو اصولِ اسلام کو قبول کرے، خواہ کسی نسل اور کسی قوم کا ہو اور کسی ملک کا باشندہ ہو تمہارے اس دین میں برابری کے ساتھ شامل ہو سکتا ہے۔ اور اسی طرح وہ خدمت جو تمہارے سپرد کی گئی ہے اس کا دائرہ بھی کسی ایک ملک یا قوم تک محدود نہیں ہے بلکہ تمہیں ساری انسانیت کے لیے گواہِ حق بن کر رہنا ہے۔

 

پھر ایک دوسرے طریقے سے اسی مضمون کو یوں ادا کیا گیا ہے:

> الَّذِينَ إِن مَّكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنكَرِ (الحج: ۴۱)

> "یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم ان کو زمین میں طاقت بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، نیکی کا حکم کریں گے اور بدی کو روکیں گے۔"

 

یہاں الناس کے بجائے الارض کا لفظ استعمال کیا اور مسلمانوں کی طاقت و قوت کا فائدہ یہ بتایا کہ وہ زمین میں خدا کی بندگی کو فروغ دیں گے، نیکی کا پرچار کریں گے اور بدی کو مٹائیں گے۔ اس سے بھی یہی بتانا مقصود ہے کہ مسلمانوں کا کام صرف عرب یا صرف عجم یا صرف ایشیا یا صرف مشرق کے لیے نہیں ہے بلکہ تمام دنیا کے لیے ہے۔ انہیں زمین کے چپہ چپہ اور گوشہ گوشہ میں پہنچنا چاہیے، معمورۂ ارضی کے ہر دشت و جبل اور بحر و بر میں نیکی کا جھنڈا لیے ہوئے بدی کے لشکروں کا تعاقب کرنا چاہیے، اور اگر دنیا کا کوئی ایک کونا بھی ایسا باقی رہ گیا ہو جہاں منکر (یعنی برائی) موجود ہو تو وہاں پہنچ کر اس کو مٹانا اور معروف (نیکی) کو اس کی جگہ قائم کرنا چاہیے۔

 

اللہ کا کسی خاص ملک یا خاص نسل سے رشتہ نہیں۔ وہ اپنی تمام مخلوق کا یکساں خالق ہے اور سب سے یکساں خالقیت کا تعلق رکھتا ہے۔ اس لیے وہ کسی خاص ملک میں فتنہ و فساد پھیلنے کو برا نہیں سمجھتا بلکہ زمین میں خواہ کسی جگہ بھی فساد ہو اس کے لیے یکساں ناراضی کا موجب ہوتا ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں فساد فی العرب یا فتنہ فی العجم کہیں نہیں آیا بلکہ ہر جگہ ارض کا لفظ استعمال کیا گیا ہے: لفسدت الارض، یسعون فی الارض فسادا، تکن فتنۃ فی الارض۔ پس وہ اپنے لشکرِ حق یعنی امتِ مسلمہ کی خدمت کو قومیت و نسل کی حدود میں مقید نہیں کرتا بلکہ اس رحمت کو تمام روئے زمین کے بسنے والوں کے لیے عام کرتا ہے۔

 

 امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی حقیقت

 

اس سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کے خیر امۃ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وہ صرف اپنی ذات کی خدمت کے لیے پیدا نہیں ہوئے ہیں بلکہ تمام انسانیت کی خدمت ان کا مقصدِ وجود ہے۔ ان کے شرف کا راز اخرجت للناس میں پوشیدہ ہے۔ وہ قوم پرستی یا وطن پرستی کے لیے نہیں اٹھائے گئے ہیں بلکہ یہ عین فطرتِ اسلام ہی کا تقاضا ہے کہ وہ خادمِ انسانیت بن کر رہیں۔

 

اب دیکھنا چاہیے کہ مسلمانوں کی وہ اصلی خدمت جس کو امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے جامع الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کس قسم کی خدمت ہے اور اس کی حقیقت کیا ہے۔

 

"معروف" لغت میں اس چیز کو کہتے ہیں جو جانی پہچانی ہو، اور اصطلاحاً اس سے مراد ہر وہ فعل لیا جاتا ہے جس سے عقلِ صحیح آشنا ہو، جس کی خوبی کو فطرتِ سلیمہ جانتی اور سمجھتی ہو اور جسے دیکھ کر ہر انسان کا دل گواہی دے کہ واقعی یہ بھلائی ہے۔ اس کے مقابل "منکر" کا لفظ ہے جو عربی لغت میں انجانی اور نامانوس چیز کے لیے بولا جاتا ہے اور اصطلاحاً اس کا اطلاق اس فعل پر ہوتا ہے جس کو فطرتِ سلیمہ پسند نہ کرتی ہو، عقلِ صحیح جس کی برائی کا حکم لگائے، اور عام انسان جسے ناپسندیدہ سمجھتے ہوں۔

 

ایمانداری، سچائی، پرہیز گاری، فرض شناسی، ضعیفوں کی حمایت، مصیبت زدوں سے ہمدردی، مظلوموں کی اعانت، عدل و انصاف کا قیام، خدا اور بندوں کے اور خود اپنے حقوق کو سمجھنا اور ادا کرنا، یہ اور ایسے ہی دوسرے اخلاقی فضائل "معروف" ہیں اور ان پر خود عمل کرنے اور دوسروں کو آمادہ کرنے کا نام "امر بالمعروف" ہے۔ اس کے برعکس خیانت، بدکاری، دروغ بافی، فتنہ پردازی، فساد انگیزی، بے انصافی، اپنے حدود سے تجاوز کرنا، دوسروں کے حق مارنا، باطل کی حمایت کرنا، حق و صداقت کو دبانا، کمزوروں اور ضعیفوں کو ستانا، یہ اور ایسے ہی دوسرے تمام خلافِ انسانیت، خلافِ عقل اور خلافِ فطرت اعمال "منکر" ہیں اور ان سے خود احتراز کرنا اور دوسروں کو باز رکھنا "نہی عن المنکر" ہے۔

 

اس میں خود نیک بننا اور بدی سے پرہیز کرنا مقدم رکھا گیا ہے اور نیک بنانا اور بدی سے روکنا مؤخر، جیسا کہ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ کا ذکر أَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنكَرِ سے پہلے کرنے سے معلوم ہوتا ہے۔ اور حقیقت بھی یہی ہے کہ نیک بنانے سے پہلے نیک بننا ضروری ہے۔

 

لیکن جس طرح اپنا پیٹ بھرنے سے دوسروں کا پیٹ بھرنا زیادہ افضل ہے اسی طرح فضیلت کے اعتبار سے نیکی کو پھیلانے اور بدی کو روکنے کا درجہ بھی نیک بننے اور بدی کو ترک کرنے سے زیادہ ہے۔ کیونکہ ایک اپنی خدمت ہے، اور دوسری اپنے ابنائے نوع کی خدمت۔ ایک محض انسانیت کے درجے میں ہے اور دوسری انسانیتِ کاملہ کے درجے میں۔ نیکی پر خود عمل کرنا اور بدی سے خود پرہیز کرنا یقیناً ایک اچھی صفت ہے اور ایک شریف آدمی کا شیوہ، مگر شرافت کا کمال اور بزرگی کا اعلیٰ درجہ اس وقت تک کسی انسان کو نصیب نہیں ہو سکتا جب تک وہ دوسرے لوگوں کو بھی نیکوکار بنانے اور بدکاری سے روکنے کی کوشش نہ کرے۔

 

انسان کی فطرت ہے کہ اگر اسے کوئی چیز ناپسند ہوتی ہے تو اسے چھوڑ دیتا ہے۔ اگر ناپسندی سے ایک درجہ بڑھ کر نفرت ہوتی ہے تو اسے دیکھنا یا سننا بھی برداشت نہیں کر سکتا۔ اگر نفرت سے ایک درجہ بڑھ کر دشمنی ہو جاتی ہے تو وہ اسے مٹانے کے درپے ہو جاتا ہے۔ اور اگر دشمنی سے بڑھ کر اس کے دل میں بغض و عناد کے شدید جذبات پیدا ہو جاتے ہیں تو وہ اس کے مٹانے کو اپنی زندگی کا مشن بنا لیتا ہے، اور اس طرح ہاتھ دھو کر اس کے پیچھے پڑ جاتا ہے کہ جب تک اسے صفحۂ ہستی سے محو نہ کر دے چین نہیں لیتا۔ اسی طرح جب وہ کسی چیز کو پسند کرتا ہے تو خود اختیار کر لیتا ہے۔ جب محبت کرتا ہے تو آنکھوں سے اس کو دیکھنے اور کانوں سے اس کا ذکر سننے میں مسرت محسوس کرتا ہے۔ جب محبت سے بڑھ کر عشق کا درجہ آتا ہے تو چاہتا ہے کہ دنیا کے ذرے ذرے میں اسی کا جمال ہو اور زندگی کا کوئی لمحہ بھی اس کے غیر کو دیکھنے اور غیر کا ذکر کرنے سننے اور غیر کا تصور کرنے میں ضائع نہ ہو۔ پھر اگر یہ عشق فدائیت کی حد تک بڑھ جائے تو وہ اپنی زندگی کو اسی کی خدمت کے لیے وقف کر دیتا ہے اور اپنی جان و مال، عیش و آرام، عزت و آبرو، غرض سب کچھ اس پر نثار کر دیتا ہے۔

 

پس "امر بالمعروف" جس چیز کا نام ہے وہ دراصل نیکی سے شیفتگی اور والہانہ عشق ہے، اور "نہی عن المنکر" سے جس چیز کو تعبیر کیا گیا ہے وہ دراصل بدی سے انتہائی بغض و عناد ہے۔ "معروف" کا حکم دینے والا صرف نیک ہی نہیں ہوتا بلکہ نیکی کا عاشق اور فدائی ہوتا ہے، اور منکر سے روکنے والا صرف بدی سے محترز ہی نہیں ہوتا بلکہ اس کا دشمن اور اس کے خون کا پیاسا ہوتا ہے۔

 

ایک دوسرا جذبہ جس پر "امر بالمعروف و نہی عن المنکر" کی بنیاد قائم ہے، حبِ انسانیت اور ہمدردیٔ بنی نوع کا جذبہ ہے۔ خود غرض آدمی کو اللہ جو نعمت دیتا ہے اس میں وہ اکیلا رہنا چاہتا ہے، دوسرے کو اس میں شریک نہیں کرتا۔ اسی طرح کوئی مصیبت اس کی اپنی ذات پر آئے تو وہ اسے دفع کرنے کی پوری کوشش کرتا ہے مگر دوسروں کو مصیبت میں دیکھ کر ان کی مدد نہیں کرتا۔ بخلاف اس شخص کے جو ہمدرد اور محبِ انسانیت ہو وہ اپنی راحت میں سب کو شریک کرتا ہے، اپنی نعمتیں سب پر بانٹتا ہے اور دوسرے کو درد و مصیبت میں دیکھ کر اسی طرح بیتاب ہو جاتا ہے جس طرح خود اپنے لیے ہو سکتا ہے۔

 

اس خود غرضی و ہمدردی کو ہم عموماً محسوسات اور مادیات کے عالم تک محدود سمجھتے ہیں۔ لیکن اخلاق و روحانیت کے عالم میں ان صفات کا مقابلہ زیادہ سختی کے ساتھ ہوتا ہے، اور چونکہ انسان کی مادی بھلائی اور برائی اس کی اخلاقی و روحانی زندگی کے تابع ہوتی ہے اس لیے ان صفات کا اصلی مقابلہ حقیقتاً اسی عالم میں ہوتا ہے۔ ایک سچا ہمدردِ بنی نوع اور محبِ انسانیت خود نیک بن جانے پر قانع نہیں ہو سکتا۔ جب تک وہ اپنی انسانی برادری کے دوسرے افراد کو بھی بدی کے پنجے سے چھڑا کر نیکی کا راستہ نہ دکھائے اسے اطمینان نصیب نہیں ہوتا۔ اس کی روح اپنے دوسرے بھائی کو بدی میں مبتلا دیکھ کر بے چین ہو جاتی ہے۔ وہ دوسرے انسان کو نیکی کے لباس سے عاری دیکھ کر اسی طرح بے قرار ہو جاتا ہے جیسے کوئی ماں اپنے بچے کو سردی میں سکڑتے دیکھ کر بے قرار ہو جایا کرتی ہے۔

 

اس کو جب کسی چیز کی اچھائی معلوم ہو جاتی ہے تو اس کا جی چاہتا ہے کہ سارے انسان اس سے فائدہ اٹھائیں، اور جب وہ کسی چیز کی برائی جان لیتا ہے تو وہ چاہتا ہے کہ اس کے چنگل میں ایک شخص بھی گرفتار نہ رہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ ایک چیز اگر اچھی ہے تو وہ صرف میرے ہی لیے اچھی نہیں ہے بلکہ ہر انسان کے لیے اچھی ہے، اور میرا فرض ہے کہ اس کو آدم علیہ السلام کے ہر بیٹے اور بیٹی تک پہنچاؤں۔ دوسری چیز اگر فی الحقیقت بری ہے تو وہ صرف میرے ہی لیے بری نہیں ہے بلکہ سب کے لیے اس کی برائی یکساں ہے اور لوگوں کو اس سے بچانا میرا فرض ہے۔ اپنی بھلائی پر قناعت کر کے دوسروں کی بھلائی نہ چاہنا اور اپنے سے بدی کو دور کر کے مطمئن ہو جانا اور دوسروں کو اس سے بچانے کی کوشش نہ کرنا سب سے بڑی خود غرضی اور سب سے بڑی انانیت ہے۔

 

لیکن یہ صرف خود غرضی ہی نہیں بلکہ خودکشی بھی ہے۔ انسان ایک متمدن ہستی ہے، وہ جماعت سے الگ ہو کر زندگی نہیں بسر کر سکتا۔ اس کی بھلائی اور برائی سب کچھ اجتماعی ہے۔ جماعت بری ہو گی تو اس کی برائی سے وہ بھی نہ بچ سکے گا۔ اگر ایک شہر میں عام طور پر غلاظت پھیلی ہوئی ہو اور اس سے وبا پھوٹ پڑے تو ہوا کی خرابی صرف اسی شخص کو ہلاک نہ کرے گی جس کے گھر میں غلاظت موجود ہو، بلکہ وہ صاف ستھرا، روز نہانے والا، روز گھر کو صاف کرنے والا، اور حفظانِ صحت کا پورا لحاظ رکھنے والا آدمی بھی اس سے متاثر ہو گا جو اس شہر میں رہتا ہو۔ اسی طرح اگر کسی بستی کا عام اخلاق بگڑا ہوا ہو اور وہاں کے لوگ عموماً بدکار ہوں تو اس پر جو تباہی نازل ہو گی وہ صرف بدکاروں ہی تک محدود نہ رہے گی بلکہ ان چند نیکوکاروں کی عزت و شرافت پر بھی اس کی زد پہنچے گی جو اس بستی میں مقیم ہوں:

> وَاتَّقُوا فِتْنَةً لَّا تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنكُمْ خَاصَّةً (الانفال: ۲۵)

 

اس کے یہ معنی ہیں کہ کسی بستی کی عام تباہی سے صرف بدکار ہی تباہ نہیں ہوتے بلکہ نیکوکار بھی اس کی لپیٹ میں آجاتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے اس مضمون کو ایک حدیث میں نہایت وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے:

> ان الله لا يعذب العامة بعمل الخاصة حتى يروا المنكر بين ظهرانيهم و هم قادرون على ان ينكروه فلا ينكروه، فاذا فعلوا ذلك عذب الله الخاصة والعامة (مسند احمد)

> "اللہ عام لوگوں پر خاص لوگوں کے عمل کے باعث اس وقت تک عذاب نازل نہیں کرتا جب تک ان میں یہ عیب پیدا نہ ہو جائے کہ اپنے سامنے برے اعمال ہوتے دیکھیں اور انہیں روکنے کی قدرت رکھتے ہوں مگر نہ روکیں۔ جب وہ ایسا کرنے لگتے ہیں تو پھر اللہ عام اور خاص سب پر عذاب نازل کرتا ہے۔"

 

پس امر بالمعروف و نہی عن المنکر صرف دوسروں ہی کی خدمت نہیں بلکہ اپنی خدمت بھی ہے اور درحقیقت مجموعی بہتری میں اپنی بہتری چاہنے کی دانش مندانہ حکمت عملی کا دوسرا نام ہے۔

 

 حیاتِ اجتماعی میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا درجہ

 

پھر یہی وہ چیز ہے جس پر اجتماعی فلاح و بہبود کا دار و مدار ہے، جو ایک قوم اور ایک جماعت کو ہلاکت میں مبتلا ہونے سے بچاتی ہے، جس کے بغیر انسانیت کی حفاظت نہیں کی جاسکتی۔ جب تک ایک قوم میں یہ اسپرٹ موجود رہتی ہے کہ اس کے افراد ایک دوسرے کو نیکی کا حکم کرنے اور بدی سے روکنے کا اہتمام کریں، یا کم از کم اس قوم میں ایک جماعت ہی ایسی موجود رہے جو اس فرض کو مستعدی کے ساتھ انجام دیتی رہے تو وہ قوم کبھی تباہ نہیں ہو سکتی۔ لیکن اگر یہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی اسپرٹ اس میں سے نکل جائے اور اس میں کوئی جماعت بھی ایسی نہ رہے جو اس فرض کو انجام دینے والی ہو تو رفتہ رفتہ بدی کا شیطان اس پر مسلط ہو جاتا ہے، اور آخر وہ اخلاقی و روحانی اور مادی تباہی کے گڑھے میں ایسی گرتی ہے کہ ابھر نہیں سکتی۔ اسی حقیقت کو قرآن مجید میں یوں بیان کیا گیا ہے:

> فَلَوْلَا كَانَ مِنَ الْقُرُونِ مِن قَبْلِكُمْ أُولُو بَقِيَّةٍ يَنْهَوْنَ عَنِ الْفَسَادِ فِي الْأَرْضِ إِلَّا قَلِيلًا مِّمَّنْ أَنجَيْنَا مِنْهُمْ ۗ وَاتَّبَعَ الَّذِينَ ظَلَمُوا مَا أُتْرِفُوا فِيهِ وَكَانُوا مُجْرِمِينَ وَمَا كَانَ رَبُّكَ لِيُهْلِكَ الْقُرَىٰ بِظُلْمٍ وَأَهْلُهَا مُصْلِحُونَ (ھود: ۱۱۶-۱۱۷)

> "پس کیوں نہ تم سے پہلے کی قوموں میں (جن پر عذاب نازل ہوا) ایسے نیکوکار لوگ اٹھے جو انہیں زمین سے فساد پھیلانے سے روکتے؟ ایسے لوگ بہت تھوڑے تھے جنہیں ہم نے ان میں سے بچا لیا، ورنہ سارے ہی ظالم لوگ ان لذتوں کے پیچھے پڑے رہے جن کے سامان انہیں عطا کیے گئے تھے اور وہ بڑے خطا کار تھے۔ سو تیرا رب ظالم نہیں ہے کہ بستیوں کو یونہی ہلاک کر دے حالانکہ ان کے باشندے نیکوکار ہوں۔"

 

ایک دوسری جگہ بنی اسرائیل کے مبتلائے لعنت ہونے کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ:

> لُعِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِن بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَىٰ لِسَانِ دَاوُودَ وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ ۚ ذَٰلِكَ بِمَا عَصَوا وَّكَانُوا يَعْتَدُونَ كَانُوا لَا يَتَنَاهَوْنَ عَن مُّنكَرٍ فَعَلُوهُ ۚ لَبِئْسَ مَا كَانُوا يَفْعَلُونَ (المائدہ: ۷۸-۷۹)

> "بنی اسرائیل میں سے کفر کرنے والے لوگوں پر داؤد علیہ السلام اور عیسیٰ ابن مریم علیہا السلام کی زبان سے لعنت کی گئی تھی کیونکہ انہوں نے نافرمانی کی اور وہ حد سے بڑھ جاتے تھے، وہ ایک دوسرے کو ان بری باتوں سے نہ روکتے تھے جو وہ کرتے تھے اور یہ بہت بری بات تھی جو وہ کرتے تھے۔"

 

اس آیت کی تفسیر میں امام احمد، ترمذی، ابوداؤد، اور ابن ماجہ رحمہم اللہ نے جو احادیث نقل کی ہیں ان سب میں تھوڑے اختلاف کے ساتھ یہ بیان کیا گیا ہے کہ بنی اسرائیل میں پہلا نقص جو پیدا ہوا وہ یہ تھا کہ ان کے دلوں سے برائی کی نفرت دور ہو گئی تھی، اور وہ جھوٹی رواداری پیدا ہو گئی تھی جو برائی کو برداشت کرتے کرتے خود برائی میں مبتلا ہو جانے پر انسان کو آمادہ کر دیتی ہے۔

> كان الرجل يلقى الرجل فيقول يا هذا اتق الله ودع ما تصنع فانه لا يحل لك ثم يلقاه من الغد فلا يمنعه ذلك ان يكون اكيله وشريبه وقعيده

> "یعنی جب ان میں کا ایک آدمی دوسرے سے ملتا تو کہتا کہ اے شخص! اللہ سے ڈر اور یہ فعل چھوڑ دے جو تو کرتا ہے کیونکہ یہ تیرے لیے جائز نہیں ہے، مگر دوسرے دن جب اس سے ملتا تو اس کا ہم پیالہ و ہم نوالہ اور ہم نشین بننے سے کوئی چیز اسے باز نہ رکھتی۔"

 

آخر ان پر ایک دوسرے کی برائی کا اثر پڑ گیا اور ان کے ضمیر مردہ ہو گئے، ضرب الله قلوب بعضهم ببعض۔ جس وقت حضور ﷺ یہ فرما رہے تھے تو دفعۃً لیٹے لیٹے اٹھ بیٹھے اور جوش میں آکر فرمایا:

> والذي نفسي بيده لتامرن بالمعروف ولتنهون عن المنكر ولتأخذن على يد المسيئ ولتأطرنه على الحق اطراً، أو ليضربن الله قلوب بعضكم على بعض أو ليلعنكم كما لعنهم

> "اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تمہیں لازم ہے کہ نیکی کا حکم کرو اور برائی سے روکو اور بدکار کا ہاتھ پکڑ لو اور اسے حق کی طرف موڑ دو، ورنہ اللہ تمہارے دلوں پر بھی ایک دوسرے کا اثر ڈال دے گا، یا تم پر بھی اسی طرح لعنت کرے گا جس طرح ان لوگوں پر کی تھی۔"

 

اسی مثال پر تمام دنیا کو بھی قیاس کر لینا چاہیے۔ جس طرح ایک قوم کی فلاح و بہبود اور نجات کا انحصار امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی عملی روح پر ہے، اسی طرح تمام عالمِ انسانی کی نجات و فلاح بھی اسی چیز پر منحصر ہے۔ دنیا میں کم از کم ایک گروہ ایسا ضرور ہونا چاہیے جو بدکاروں کا ہاتھ پکڑنے والا، بدی کو روکنے والا، اور نیکوکاری کا حکم دینے والا ہو، اللہ کی طرف سے اس کی زمین پر گواہ ہو، لوگوں کی دیکھ بھال کرتا رہے، شرارت کے عناصر کو قابو میں رکھے، انصاف قائم کرے اور بدی کو کبھی سر نکالنے کا موقع نہ دے۔ اللہ کی مخلوق کو عام تباہی سے بچانے اور اس کی زمین کو شر و فساد اور ظلم و زیادتی سے محفوظ رکھنے کے لیے ایسے گروہ کا وجود نہایت ضروری ہے:

> وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ (آل عمران: ۱۰۴)

> "اور تم میں ایک گروہ ایسا ضرور ہونا چاہیے جو بھلائی کی طرف بلائے، نیکی کا حکم دے اور بدی سے روکے۔"

 

پس امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی حقیقت صرف یہی نہیں ہے کہ وہ فی نفسہ ایک اچھی چیز ہے اور ہمدردیٔ بنی نوع کا ایک پاکیزہ جذبہ ہے، بلکہ درحقیقت وہ نظامِ تمدن کو فساد سے محفوظ رکھنے کی ایک بہترین اور ناگزیر تدبیر ہے اور ایک خدمت ہے جو دنیا میں امن قائم کرنے، دنیا کو شریف انسانوں کی بستی کے قابل بنانے اور دنیا والوں کو حیوانیت کے درجے سے انسانیتِ کاملہ کے درجے تک پہنچانے کے لیے اللہ نے ایک بین الاقوامی گروہ کے سپرد کی ہے، اور یقیناً انسانیت کی اس سے بڑی خدمت اور کوئی نہیں ہو سکتی۔

 

 امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں فرق

 

یہ عالم گیر انسانی خدمت جو بین الاقوامی مسلم جماعت کے سپرد کی گئی ہے دو اجزاء پر مشتمل ہے، ایک امر بالمعروف، دوسرے نہی عن المنکر۔ ان دونوں کا مقصود و مدعا اگرچہ ایک ہی ہے، یعنی آدمی کو انسان بنانا، لیکن دونوں کے مدارج مختلف ہیں، اس لیے دونوں کے طریقوں میں بھی اختلاف ہے۔ آئندہ مباحث کو سمجھنے کے لیے اس اختلاف کو سمجھ لینا ضروری ہے۔

 

علم الاخلاق میں انسان کے فرائض کو دو حصوں پر تقسیم کیا گیا ہے۔ ایک وہ فرائض جن کے کرنے کا اس سے مطالبہ کیا جا سکتا ہے۔ دوسرے وہ فرائض جن کا کرنا نہ کرنا خود اس کی مرضی پر موقوف ہے۔ سوسائٹی کا ایک اچھا رکن بننے کے لیے انسان کا کم سے کم فرض یہ ہے کہ وہ برے کاموں سے بچے، دوسروں کے حقوق نہ چھینے، دوسروں پر ظلم نہ کرے، دوسروں کے امن و اطمینان میں خلل نہ ڈالے اور ایسے اعمال سے پرہیز کرے جو اس کے وجود کو سوسائٹی کے لیے نقصان دہ یا غیر مفید بناتے ہوں۔ ان فرائض کو ادا کرنے کا ہر سوسائٹی اپنے ہر رکن سے مطالبہ کرتی ہے، اور اگر وہ انہیں ادا نہ کرے تو اس کے لیے ضروری ہو جاتا ہے کہ ان کے ادا کرنے پر اسے مجبور کرے۔

 

فرائض کی دوسری قسم وہ ہے جو فضائلِ اخلاق سے تعلق رکھتی ہے، جنہیں کرنے سے انسان سوسائٹی کا ایک معزز اور اعلیٰ درجہ کارکن بن سکتا ہے۔ مثلاً خدا اور بندوں کے حقوق پہچاننا اور انہیں ادا کرنا، خود نیک بننا اور دوسروں کو نیک بنانا، اپنے خاندان اور اپنی قوم اور اپنے ابنائے نوع کی خدمت کرنا اور حق کی حمایت و حفاظت کرنا وغیرہ۔ اس دوسری قسم کے فرائض کو انجام دینے کے لیے انسانی شعور کی تکمیل ضروری ہے۔ کوئی شخص انہیں اس وقت تک ادا نہیں کر سکتا جب تک کہ وہ ان کی حقیقت کو اچھی طرح سمجھ نہ لے اور اس کے نفس میں اتنی پاکیزگی پیدا نہ ہو جائے کہ آپ سے آپ انہیں ادا کرنے پر آمادہ ہو۔ اس لیے یہ فرائض جبری نہیں بلکہ اختیاری ہیں اور انسان کی مرضی پر منحصر ہے کہ خواہ معزز اور اعلیٰ درجہ کا انسان بنے یا نہ بنے، اگرچہ ایک سوسائٹی کا اخلاقی نظام ایسا ہی ہونا چاہیے کہ اس کے افراد میں اعلیٰ درجے پر پہنچنے کی خواہش طبعاً پیدا ہو۔

 

امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فرق بھی تقریباً اسی تقسیم پر مبنی ہے۔ آدمی کو حیوانیت کے درجے سے نکال کر انسانیت کی سطح پر لانا اور اسے انسانی سوسائٹی کا ایک غیر مفید اور نقصان دہ رکن بننے سے روکنا نہی عن المنکر سے تعلق رکھتا ہے۔ اور اس کو انسانیت کی سطح سے اٹھا کر انسانیتِ کاملہ کے درجے میں لے جانا اور اسے انسانی سوسائٹی کا ایک مفید اور معزز رکن بنانا امر بالمعروف سے متعلق ہے۔

 

امر بالمعروف، نہی عن المنکر سے افضل ہے۔ لیکن ترتیب کے اعتبار سے نہی عن المنکر پہلے ہے اور امر بالمعروف بعد میں۔ جس طرح ایک کسان کا اصلی مقصد اناج پیدا کرنا ہے، لیکن اس کے لیے بیج ڈالنے سے پہلے ہل چلا کر زمین کو نرم کر دینا ضروری ہے، اسی طرح اسلام کا اصل مقصد تو انسان کو انسانِ اعلیٰ بنانا ہے، مگر معروف کا بیج ڈالنے سے پہلے اس کی فطرت کو منکر سے پاک کر کے ہموار کر دینا ضروری ہے۔

 

اسلام ہر شخص کو معروف کی طرف دعوت دیتا ہے اور انسان کو اس کی خوبیاں دکھا کر اسے اختیار کرنے پر آمادہ کرتا ہے۔ لیکن منکر ایک پردہ ہے جو آدمی کی آنکھ کو معروف کا پرتو قبول کرنے کے قابل نہیں رہنے دیتا۔ اس لیے منکر کے پردے کو ہر ممکن طریقے سے چاک کرنا اور اس کے زنگ کو ہر ممکن طریقے سے کھرچ دینا سب سے پہلی اور ضروری تدبیر ہے۔ اس کے بعد اگر کوئی شخص معروف کی دعوت قبول کرے تو اس کے لیے فضائلِ اخلاق کا ایک بڑا حصہ اختیاری نہیں رہتا لازمی ہو جاتا ہے کیونکہ انسانیتِ کاملہ کے درجے میں پہنچ کر اس کے لیے وہ آسانیاں باقی نہیں رہ سکتیں جو انسانیتِ محضہ کے درجے میں اسے حاصل تھیں۔ لیکن اگر یہ زنگ چھوٹ جانے کے بعد اور یہ پردہ اٹھ جانے کے بعد بھی کوئی آنکھ معروف کا جمال نہ دیکھے اور کوئی قلب اس کا پرتو قبول نہ کرے تو اسلام اسے صرف منکر سے روکنے پر اکتفا کرتا ہے اور آگے اس کا معاملہ اس کے اپنے ضمیر پر چھوڑ دیتا ہے۔

 

ایک دوسری حیثیت سے امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فرق اس فرق پر مبنی ہے جو خود اسلام کی دو مختلف حیثیتوں کے درمیان ہے۔ اسلام ایک حیثیت میں تو محض دعوت ہے نیکی اور تقویٰ کی جانب، اور دوسری حیثیت میں وہ اللہ کا قانون ہے تمام دنیا کے لیے۔ جب کوئی شخص اسلام قبول کر لیتا ہے تو اس کے لیے یہ دونوں حیثیتیں جمع ہو جاتی ہیں اور دعوت کی دفعات بھی اس کے حق میں قانون بن جاتی ہیں۔

 

دعوت کا منشا یہ ہے کہ انسان اس منصبِ خلافت کا اہل بن جائے جو اللہ نے اسے زمین پر بھیجتے وقت سپرد کیا تھا اور ان ذمہ داریوں کو پورا کرے جو خلیفۃ اللہ فی الارض کی حیثیت سے اس پر عائد ہوتی ہیں۔ قانون کا منشا یہ ہے کہ انسان اگر منصبِ خلافت کی خدمات کو انجام نہ دے تو کم از کم فساد و خونریزی تو نہ کرے جس کا طعنہ فرشتوں نے اس کو دیا تھا۔ اگر وہ اشرف المخلوقات نہ بنے تو کم از کم ارذل المخلوقات تو نہ بن جائے، اگر وہ دنیا کو نیکی و تقویٰ سے روشن نہ کرے تو کم از کم بدی و شرارت سے اس کے امن و سکون کو غارت تو نہ کرے۔

 

پہلی چیز باطن کی روشنی اور طبیعت کی صلاحیت پر منحصر ہے جو ظاہر ہے کہ مارے کوٹے سے پیدا نہیں ہوتی، لیکن دوسری چیز حدود کی تعیین اور نگہداشت سے تعلق رکھتی ہے جس کا پاس و لحاظ کرنے پر اس کی سرکش طبیعت کو صرف وعظ و تلقین ہی سے آمادہ نہیں کیا جا سکتا بلکہ بعض حالات میں اسے مجبور کرنے کے لیے قوت کا استعمال بھی ضروری ہوتا ہے۔

 

 نہی عن المنکر کا طریقہ

 

اس مضمون کے بعض پہلو مزید روشنی کے محتاج ہیں جنہیں آگے چل کر ہم ایک دوسرے موقع پر بوضاحت بیان کریں گے۔ یہاں صرف اس قدر بتانا مقصود ہے کہ اسلام نے غیر مسلم دنیا کو معروف کی تلقین کرنے کے لیے تو صرف دعوت و تبلیغ کا طریقہ بتایا ہے، لیکن منکر سے روکنے کے لیے اس کی قید نہیں رکھی بلکہ اس کی مختلف انواع کے لیے مختلف طریقے تجویز کیے ہیں۔ قلب و ذہن کی گندگی اور خیال و رائے کی ناپاکی کو وعظ و تلقین کے ذریعہ سے دور کرنے کی ہدایت کی:

> ادْعُ إِلَىٰ سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ ۖ وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ (النحل: ۱۲۵)

> "اللہ کے راستے کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ذریعہ بلا اور ان سے ایسے طریقے پر بحث و گفتگو کر جو بہترین ہو (یعنی سختی و بد کلامی اس میں نہ ہو)۔"

 

> وَلَا تُجَادِلُوا أَهْلَ الْكِتَابِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِلَّا الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْهُمْ (العنکبوت: ۴۶)

> "اور اہلِ کتاب سے بحث و مباحثہ نہ کر مگر ایسے طریقے سے جو بہترین ہو، سوائے ان لوگوں کے جو ان میں ظالم و بدکار ہیں۔"

 

> فَقُولَا لَهُ قَوْلًا لَّيِّنًا لَّعَلَّهُ يَتَذَكَّرُ أَوْ يَخْشَىٰ (طہ: ۴۴)

> "پس اس سرکش سے نرم گفتگو کرو شاید کہ وہ نصیحت پکڑ لے اور اللہ سے ڈرے۔"

 

فعل و عمل کی برائی کو طاقت و قوت کے زور سے روکنے کا حکم دیا۔ چنانچہ اوپر وہ حدیث گزر چکی ہے جس میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے: ولتأخذن على يد المسيئ ولتأطرنه على الحق اطراً۔ "تم پر لازم ہے کہ بدکار کا ہاتھ پکڑ لو اور اس کو حق کی طرف موڑ دو۔" اس کے علاوہ اور بہت سی احادیث ہیں جن میں منکر کو روکنے کے لیے قوت کے استعمال کا حکم ہے۔ ایک موقع پر حضور ﷺ فرماتے ہیں:

> من رأى منكم منكراً فليغيره بيده، فإن لم يستطع فبلسانه، فإن لم يستطع فبقلبه، وذلك أضعف الإيمان (مسلم)

> "تم میں سے جو کوئی بدی کو دیکھے تو اس کو ہاتھ سے بدل دے، اگر اس کی قدرت نہ رکھتا ہو تو زبان سے، اور اگر اس کی بھی قدرت نہ رکھتا ہو تو دل سے، اور یہ ایمان کا ضعیف ترین درجہ ہے۔"

 

ان احادیث میں ہاتھ کا لفظ محض جسمانی ہاتھ کے معنی میں استعمال نہیں ہوا ہے بلکہ مجازاً قوت کے معنی میں بولا گیا ہے۔ بدکار کا ہاتھ پکڑنے سے مراد دراصل یہ ہے کہ ایسے حالات پیدا کر دیے جائیں کہ وہ بدی و شرارت کا ارتکاب نہ کر سکے۔ اسی طرح برائی کو ہاتھ سے بدل دینے کا مطلب یہ ہے کہ تم اپنی قوت و طاقت کو منکر کے مٹانے اور روکنے اور معروف سے بدل دینے میں استعمال کرو۔ ایک اور حدیث میں ہے:

> ان الله لا يعذب العامة بعمل الخاصة حتى يروا المنكر بين ظهرانيهم و هم قادرون على ان ينكروه فلا ينكروه (مسند احمد)

> "اللہ عام لوگوں کو خاص لوگوں کے عمل کی سزا اس وقت تک نہیں دیتا جب تک ان میں یہ غلط رواداری پیدا نہ ہو جائے کہ بدی کو اپنے سامنے ہوتے ہوئے دیکھیں اور اس کو روکنے کی قدرت رکھتے ہوں مگر نہ روکیں۔"

 

رسول اللہ ﷺ کا ارشاد اللہ کے ارشاد کی تفسیر ہوتا ہے۔ پس ان احادیث سے قرآنِ پاک کے حکم نہی عن المنکر کے معنی صاف متعین ہو جاتے ہیں کہ اس سے مراد صرف زبان و قلم ہی سے منکر کو روکنا اور اس کے خلاف تبلیغ کرنا نہیں ہے بلکہ حسبِ ضرورت بزور و قوت اس کو روک دینا اور دنیا کو اس کے وجود سے پاک کر دینا بھی ہے۔ اور یہ مسلمانوں کی قدرت و استطاعت پر موقوف ہے۔ اگر مسلمانوں میں اتنی قوت ہو کہ تمام دنیا کو منکر سے روک کر اسے قانونِ عدل کا مطیع بنا دیں تو ان کا فرض ہے کہ اس قوت کو استعمال کریں اور جب تک اس کام کو پایۂ تکمیل تک پہنچا نہ دیں چین نہ لیں، لیکن اگر وہ اتنی قوت نہ رکھتے ہوں تو جس حد تک ممکن ہو انہیں اس خدمت کو انجام دینا چاہیے۔ اور تکمیلِ مدعا کے لیے مزید قوت حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

 

 فتنہ و فساد کے خلاف جنگ

 

منکر کی اس دوسری قسم کو جس کے خلاف اسلام میں قوت استعمال کرنے کا حکم دیا گیا ہے، پہلی قسم سے ممتاز کرنے اور اس کی نوعیت کو زیادہ واضح کر دینے کے لیے اللہ تعالیٰ نے فتنہ اور فساد کے الفاظ سے تعبیر فرمایا ہے۔ چنانچہ ان تمام آیات میں جن میں منکر کے خلاف جنگ کی اجازت دی گئی ہے، یا جنگ کی ضرورت ظاہر فرمائی گئی ہے، یا اسے بزورِ شمشیر مٹانے کا حکم دیا گیا ہے، آپ کو منکر کے بجائے یہی فتنہ اور فساد کے الفاظ ملیں گے:

> وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّىٰ لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ (الانفال: ۳۹)

> "ان سے جنگ کرو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے۔"

 

> وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُم بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِ الْأَرْضُ (البقرہ: ۲۵۱)

> "اللہ اگر لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعہ سے دفع نہ کرتا تو زمین فساد سے بھر جاتی۔"

 

> إِلَّا تَفْعَلُوهُ تَكُن فِتْنَةٌ فِي الْأَرْضِ وَفَسَادٌ كَبِيرٌ (الانفال: ۷۳)

> "اگر تم ایسا نہ کرو گے تو زمین میں فتنہ اور بڑا فساد ہو گا۔"

 

> وَالْفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ (البقرہ: ۱۹۱)

> "اور فتنہ قتل سے زیادہ بری چیز ہے۔"

 

> مَن قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا (المائدہ: ۳۲)

> "جو کوئی کسی شخص کو قتل کرے بغیر اس کے کہ اس نے کسی کی جان لی ہو یا زمین میں فساد پھیلایا ہو تو گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کر دیا۔"

 

> لَقَدِ ابْتَغَوُا الْفِتْنَةَ مِن قَبْلُ (التوبہ: ۴۸)

> "انہوں نے پہلے بھی فتنہ پھیلانا چاہا تھا۔"

 

> كُلَّمَا رُدُّوا إِلَى الْفِتْنَةِ أُرْكِسُوا فِيهَا (النساء: ۹۱)

> "جب کبھی فتنے کی طرف واپس لوٹائے جاتے ہیں تو اس میں اوندھے گر پڑتے ہیں۔"

 

ان تمام آیات میں اسی منکر کو فتنہ اور فساد کے الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے، اور حقیقت یہ ہے کہ تمام منکرات میں یہ فتنہ و فساد ہی ایک ایسی چیز ہے جس کا استیصال بغیر تلوار کے نہیں ہو سکتا۔

 

 فتنہ کی تحقیق

 

عام طور پر فتنہ و فساد کے معنی یہ سمجھے جاتے ہیں کہ کسی بات پر دو جماعتوں میں جھگڑا ہو جائے، پہلے گالم گلوچ ہو، پھر فریقین کے مستعد آدمی اینٹ پتھر یا لاٹھی پونگے یا تلوار بندوق سے مسلح ہو کر میدان میں کود پڑیں، ایک دوسرے کے سر پھوڑیں، اور خوب قتل و غارت کر کے آتشِ غضب کو ٹھنڈا کر لیں۔ اگرچہ فتنہ و فساد کا اطلاق اس مشغلے پر بھی ہوتا ہے، لیکن قرآنی اصطلاح میں ان الفاظ کا مفہوم اس قدر تنگ نہیں ہے بلکہ اور بہت سے اخلاقی جرائم بھی ان کے تحت آتے ہیں۔ ہمیں ان کی تفصیل دوسری کتابوں میں تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہے، خود قرآن ہم کو بتا دیتا ہے کہ اس کی مراد فتنہ و فساد سے کیا ہے۔

 

لغت میں "فتن" کے معنی ہیں سونے کو تپا کر دیکھنا کہ وہ کھوٹا ہے یا کھرا۔ اسی لغوی معنی کے اعتبار سے یہ لفظ انسان کے آگ میں ڈالے جانے پر بولا جاتا ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں آیا ہے: يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ (الذاریات: ۱۳) "جس روز وہ آگ پر بھونے جائیں گے۔" پھر مجازاً اس سے ہر وہ چیز مراد لی گئی ہے جو انسان کو امتحان اور آزمائش میں ڈالنے والی ہو۔ چنانچہ مال و دولت اور اہل و عیال کو فتنہ کہا گیا ہے:

> وَاعْلَمُوا أَنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ (الانفال: ۲۸)

> کیونکہ یہ چیزیں انسان کو آزمائش میں ڈال دیتی ہیں کہ وہ حق کو زیادہ عزیز رکھتا ہے یا ان کو۔

 

راحت اور مصیبت کو بھی فتنہ کہا گیا: وَنَبْلُوكُم بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً (الانبیاء: ۳۵) کیونکہ ان دونوں حالتوں میں بھی انسان کی آزمائش ہوتی ہے۔ زمانے کے انقلابات اور تاریخ کی نیرنگیوں کو بھی فتنہ کہا گیا، کیونکہ وہ قوموں کی آزمائش اور ان کے امتحان کا ذریعہ ہیں: أَوَلَا يَرَوْنَ أَنَّهُمْ يُفْتَنُونَ فِي كُلِّ عَامٍ مَّرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ ثُمَّ لَا يَتُوبُونَ وَلَا هُمْ يَذَّكَّرُونَ (التوبہ: ۱۲۶)۔ کسی کی طاقت سے زیادہ اس پر بار ڈالنے کو بھی فتنہ کہتے ہیں کیونکہ یہ اس کی قوتِ برداشت کا سخت امتحان ہے: وَمِنْهُم مَّن يَقُولُ ائْذَن لِّي وَلَا تَفْتِنِّي (التوبہ: ۴۹)۔

 

ان تمام مثالوں سے معلوم ہوا کہ فتنہ کے اصل معنی امتحان اور آزمائش کے ہیں، خواہ وہ فائدے کے لالچ اور لذت کی چاٹ اور محبوب چیزوں کی بخشش کے ذریعہ سے ہو، یا نقصان کے خوف اور مصائب کی مار اور ایذارسانی کے ذریعہ سے۔ یہ آزمائش اگر خدا کی طرف سے ہو تو برحق ہے کیونکہ خدا انسان کا خالق ہے اور وہ اپنے بندوں کا امتحان لینے کا حق رکھتا ہے اور اس کے امتحان کا مقصد انسان کو بہتر اور بلند تر حالت کی طرف لے جانا ہے۔ لیکن اگر یہی آزمائش انسان کی طرف سے ہو تو یہ ظلم ہے کیونکہ انسان کو اس کا حق نہیں ہے، اور انسان جب کبھی دوسرے انسان کو فتنہ میں ڈالتا ہے تو اس کی غرض یہ ہوتی ہے کہ اس کی آزادیٔ ضمیر سلب کرے اور اس کو اپنی بندگی پر مجبور کرے اور اسے اخلاقی و روحانی پستی میں مبتلا کر دے۔

 

اس مؤخر الذکر مفہوم میں فتنہ کا لفظ تقریباً انگریزی لفظ (Persecution) کا ہم معنی ہے۔ مگر انگریزی لفظ میں اتنی وسعت نہیں ہے جتنی "فتنہ" میں ہے۔ قرآن میں اس کی جو تفصیلات دی گئی ہیں وہ حسبِ ذیل ہیں:

 

۱۔ کمزوروں پر ظلم کرنا، ان کے جائز حقوق سلب کرنا، ان کے گھر بار چھین لینا اور انہیں تکلیفیں پہنچانا:

> ثُمَّ إِنَّ رَبَّكَ لِلَّذِينَ هَاجَرُوا مِن بَعْدِ مَا فُتِنُوا ثُمَّ جَاهَدُوا وَصَبَرُوا (النحل: ۱۱۰)

> "پھر تیرا رب ان لوگوں کے لیے جو فتنہ میں ڈالے جانے (یعنی خوب ستائے جانے) کے بعد اپنے گھر بار چھوڑ کر نکل گئے، اور جنہوں نے حق کی خاطر سخت جدوجہد کی اور راہِ حق میں ثابت قدم رہے (مغفرت کرنے والا ہے)۔"

 

> وَإِخْرَاجُ أَهْلِهِ مِنْهُ أَكْبَرُ عِندَ اللَّهِ ۚ وَالْفِتْنَةُ أَكْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ (البقرہ: ۲۱۷)

> "(حرمت والے مہینوں میں جنگ کرنا یقیناً حرمت کی حق تلفی ہے) لیکن حرم کے باشندوں کو وہاں سے نکالنا اللہ کے نزدیک اس سے زیادہ برا ہے اور فتنہ قتل سے زیادہ بری چیز ہے۔"

 

۲۔ جبر و استبداد کے ساتھ حق کو دبانا اور قبولِ حق سے لوگوں کو روکنا:

> فَمَا آمَنَ لِمُوسَىٰ إِلَّا ذُرِّيَّةٌ مِّن قَوْمِهِ عَلَىٰ خَوْفٍ مِّن فِرْعَوْنَ وَمَلَئِهِمْ أَن يَفْتِنَهُمْ (یونس: ۸۳)

> "پس موسیٰ پر ان کی قوم میں سے کوئی ایمان نہ لایا سوائے نوجوانوں کی ایک قلیل جماعت کے کیونکہ انہیں فرعون اور اپنے سرداروں (جو فرعون کے خوشامدی تھے) سے خوف تھا کہ انہیں فتنہ میں مبتلا کر دیں گے۔"

 

۳۔ صد عن سبیل اللہ جس کی تشریح گزشتہ باب میں کی جا چکی ہے۔ چنانچہ سورہ انفال میں پہلے کافروں کا یہ جرم بتایا ہے کہ وہ صد عن سبیل اللہ کی کوشش کرتے ہیں: إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ لِيَصُدُّوا عَن سَبِيلِ اللَّهِ (الانفال: ۳۶) پھر ان کے مغلوب ہونے کی پیش گوئی کی ہے: ثُمَّ يُغْلَبُونَ، اور اس کے بعد ان کے اسی فعل کو فتنہ قرار دے کر جنگ کا حکم دیا ہے: وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّىٰ لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلَّهِ (الانفال: ۳۹)۔

 

۴۔ لوگوں کو گمراہ کرنا اور حق کے خلاف خدع و فریب اور طمع و اکراہ کی کوششیں کرنا:

> وَإِن كَادُوا لَيَفْتِنُونَكَ عَنِ الَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ لِتَفْتَرِيَ عَلَيْنَا غَيْرَهُ ۖ وَإِذًا لَّاتَّخَذُوكَ خَلِيلًا (الاسراء: ۷۳)

> "اور انہوں نے ارادہ کر لیا تھا کہ تجھے طمع و اکراہ کے ذریعے اس وحی سے پھیر دیں جو ہم نے تیری طرف بھیجی ہے تاکہ تو اسے چھوڑ کر ہم پر افترا باندھنے لگے (اگر تو ایسا کرتا) تو وہ تجھے دوست بنا لیتے۔"

 

> وَاحْذَرْهُمْ أَن يَفْتِنُوكَ عَن بَعْضِ مَا أَنزَلَ اللَّهُ إِلَيْكَ ۖ أَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُونَ (المائدہ: ۴۹-۵۰)

> "اور ان سے ہوشیار رہ کہ کہیں تجھے فریب دے کر ان احکام میں سے کسی سے نہ پھیر دیں جو اللہ نے تیرے اوپر اتارے ہیں۔ کیا وہ جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں؟"

 

۵۔ غیر حق کے لیے جنگ کرنا اور ناجائز اغراض کے لیے قتل و خون اور جتھہ بندی کرنا:

> وَلَوْ دُخِلَتْ عَلَيْهِم مِّنْ أَقْطَارِهَا ثُمَّ سُئِلُوا الْفِتْنَةَ لَآتَوْهَا وَمَا تَلَبَّثُوا بِهَا إِلَّا يَسِيرًا (الاحزاب: ۱۴)

> "(جنگِ احزاب کے موقع پر) اگر مدینہ کے اطراف سے دشمنوں کا داخلہ ہو جاتا اور پھر ان (منافقین) سے فتنہ میں شریک ہونے کی درخواست کی جاتی تو یہ ضرور اس میں کود پڑتے اور ذرا تامل نہ کرتے۔"

 

> سَتَجِدُونَ آخَرِينَ يُرِيدُونَ أَن يَأْمَنُوكُمْ وَيَأْمَنُوا قَوْمَهُمْ كُلَّ مَا رُدُّوا إِلَى الْفِتْنَةِ أُرْكِسُوا فِيهَا (النساء: ۹۱)

> "تم (ان منافقوں میں سے) کچھ دوسرے لوگ ایسے پاؤ گے جو تم سے بھی امن میں رہنا چاہتے ہیں اور اپنی قوم سے بھی، مگر جب فتنے کی طرف پھیر دیے جاتے ہیں تو اس میں اوندھے منہ گر جاتے ہیں (یعنی خود بھی فتنہ برپا کرنے والوں کے ساتھ شریک ہو جاتے ہیں)۔"

 

۶۔ پیروانِ حق پر باطل پرستوں کا غلبہ اور چیرہ دستی:

> إِلَّا تَفْعَلُوهُ تَكُن فِتْنَةٌ فِي الْأَرْضِ وَفَسَادٌ كَبِيرٌ (الانفال: ۷۳)

> "اگر تم (پیروانِ حق کی مدد) نہ کرو گے تو زمین میں فتنہ اور بڑا فساد برپا ہو گا (یعنی غلبۂ باطل سے حق پرستوں پر زمین تنگ ہو جائے گی)۔"

 

 فساد کی تحقیق

 

اب دیکھیے کہ قرآن مجید میں لفظ فساد کس معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔

لغت میں فساد کہتے ہیں کسی چیز کے حالتِ اعتدال سے نکل جانے کو، اور صلاح اس کی ضد ہے۔ لغوی معنی کے اعتبار سے تو ہر وہ فعل جو عدل و صلاح کے خلاف ہے فساد ہے۔ لیکن قرآن مجید میں عموماً اس کا اطلاق اجتماعی اخلاق اور نظامِ تمدن و سیاست کے بگاڑ پر کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر قرآن فرعون اور عاد و ثمود کو فساد کا الزام دیتا ہے:

> أَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِعَادٍ إِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِ الَّتِي لَمْ يُخْلَقْ مِثْلُهَا فِي الْبِلَادِ وَثَمُودَ الَّذِينَ جَابُوا الصَّخْرَ بِالْوَادِ وَفِرْعَوْنَ ذِي الْأَوْتَادِ الَّذِينَ طَغَوْا فِي الْبِلَادِ فَأَكْثَرُوا فِيهَا الْفَسَادَ (الفجر: ۶-۱۲)

> "کیا تو نے نہیں دیکھا کہ تیرے رب نے کیا کیا ستونوں والے عادِ ارم کے ساتھ؟ جن کی مثل ملکوں میں کوئی پیدا نہیں کیا گیا، اور ثمود کے ساتھ جنہوں نے وادی میں پتھر تراشے؟ اور لشکر والے فرعون کے ساتھ؟ ان لوگوں نے ملک میں سرکشی کی اور ان میں بہت فساد پھیلایا۔"

 

پھر مختلف مقامات پر خود قرآن ہی ان کے وہ جرائم بیان کرتا ہے جن کی بنا پر وہ مفسد ٹھہرائے گئے:

 

۱۔ فرعون کے متعلق فرمایا کہ وہ متکبر تھا، اپنی رعایا کے درمیان نسلی امتیاز قائم کرتا اور ان میں پھوٹ ڈال کر ان پر حکومت کرتا تھا اور کمزوروں کو ناحق قتل و غارت کرتا تھا:

> إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِي الْأَرْضِ وَجَعَلَ أَهْلَهَا شِيَعًا يَسْتَضْعِفُ طَائِفَةً مِّنْهُمْ يُذَبِّحُ أَبْنَاءَهُمْ وَيَسْتَحْيِي نِسَاءَهُمْ ۚ إِنَّهُ كَانَ مِنَ الْمُفْسِدِينَ (القصص: ۴)

> "فرعون نے زمین میں تکبر کیا، اس کے باشندوں کو فرقوں میں تقسیم کر دیا اور ایک جماعت کو کمزور کر کے ان کے لڑکوں کو ذبح کرنے لگا اور ان کی عورتوں کو زندہ رکھنے لگا۔ درحقیقت وہ مفسدوں میں سے تھا۔"

 

وہ قبولِ حق سے لوگوں کو جبراً باز رکھتا تھا، چنانچہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کا معجزہ دیکھ کر جادوگر ایمان لے آئے تو اس نے کہا:

> آمَنتُمْ لَهُ قَبْلَ أَنْ آذَنَ لَكُمْ ۖ إِنَّهُ لَكَبِيرُكُمُ الَّذِي عَلَّمَكُمُ السِّحْرَ ۖ فَلَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُم مِّنْ خِلَافٍ وَلَأُصَلِّبَنَّكُمْ فِي جُذُوعِ النَّخْلِ وَلَتَعْلَمُنَّ أَيُّنَا أَشَدُّ عَذَابًا وَأَبْقَىٰ (طہ: ۷۱)

> "تم اس پر ایمان لے آئے قبل اس کے کہ میں تمہیں اجازت دیتا؟ ضرور یہ تمہارا گرو ہے اور اسی نے تمہیں یہ جادو سکھایا ہے۔ اب میں تمہارے ہاتھ پاؤں مخالف سمتوں سے کٹواؤں گا اور تمہیں کھجور کے تنوں پر صلیب دوں گا اور تم دیکھ لو گے کہ ہم میں سے کون زیادہ سخت اور دیرپا عذاب دینے والا ہے۔"

 

اس نے ایک قوم کو کمزور پا کر اپنا غلام بنا لیا تھا۔ چنانچہ جب اس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر احسان جتایا تو آپ علیہ السلام نے جواب دیا کہ:

> وَتِلْكَ نِعْمَةٌ تَمُنُّهَا عَلَيَّ أَنْ عَبَّدتَّ بَنِي إِسْرَائِيلَ (الشعراء: ۲۲)

> "اور تیری وہ نعمت جس کا تو مجھ پر احسان جتا رہا ہے یہ ہے کہ تو نے میری قوم بنی اسرائیل کو غلام بنا لیا ہے۔"

 

وہ اپنی طاقت کے نشے میں اپنے جیسے انسانوں کا خدا بنتا تھا اور محض طاقت کے حق کی بنا پر بادشاہی کرتا تھا، حالانکہ اصلی حق عدل و انصاف اور خدا ترسی کا حق ہے:

> وَقَالَ فِرْعَوْنُ يَا أَيُّهَا الْمَلَأُ مَا عَلِمْتُ لَكُم مِّنْ إِلَٰهٍ غَيْرِي... وَاسْتَكْبَرَ هُوَ وَجُنُودُهُ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَظَنُّوا أَنَّهُمْ إِلَيْنَا لَا يُرْجَعُونَ (القصص: ۳۸-۳۹)

> "اور فرعون نے کہا کہ اے لوگو! میں تو اپنے سوا تمہارے کسی خدا کو جانتا نہیں۔ اور اس نے اور اس کے لشکروں نے زمین میں بغیر حق کے بڑائی کی اور سمجھ بیٹھے کہ گویا انہیں کبھی ہمارے پاس واپس آنا ہی نہیں ہے۔"

 

اس نے اپنی رعایا کی ذہنی و اخلاقی حالت کو بگاڑ کر اتنا ذلیل کر دیا تھا کہ وہ اس کی غلامانہ اطاعت پر راضی ہو گئی:

> فَاسْتَخَفَّ قَوْمَهُ فَأَطَاعُوهُ ۚ إِنَّهُمْ كَانُوا قَوْمًا فَاسِقِينَ (الزخرف: ۵۴)

> "اس نے اپنی قوم کو ہلکا یعنی عقل و اخلاق میں گھٹیا بنا دیا جس کے باعث انہوں نے اس کی اطاعت اختیار کی، یقیناً وہ بدکار قوم تھی۔"

> فَاتَّبَعُوا أَمْرَ فِرْعَوْنَ ۖ وَمَا أَمْرُ فِرْعَوْنَ بِرَشِيدٍ (ھود: ۹۷)

> "ان لوگوں نے فرعون کے احکام کی تعمیل کی، حالانکہ فرعون کا حکم راستی پر نہ تھا۔"

 

۲۔ اسی طرح عاد کا جرم یہ بتایا گیا ہے کہ وہ جابر و سرکش حاکموں کی پیروی کرتے تھے:

> وَاتَّبَعُوا أَمْرَ كُلِّ جَبَّارٍ عَنِيدٍ (ھود: ۵۹)

> "انہوں نے ہر جبار دشمنِ حق کے حکم کی پیروی کی۔"

 

وہ جابر و ظالم تھے اور عدل و انصاف سے انہیں واسطہ نہ تھا، چنانچہ حضرت ہود علیہ السلام انہیں ملامت کرتے ہوئے کہتے ہیں:

> وَإِذَا بَطَشْتُم بَطَشْتُمْ جَبَّارِينَ (الشعراء: ۱۳۰)

> "اور تم جس پر بھی ہاتھ ڈالتے ہو جابرانہ ہی ڈالتے ہو۔"

 

اور اپنی قوت کے گھمنڈ میں بغیر کسی حق کے کمزور قوموں پر حکومت قائم کرتے تھے:

> فَاسْتَكْبَرُوا فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَقَالُوا مَنْ أَشَدُّ مِنَّا قُوَّةً (فصلت: ۱۵)

> "وہ زمین میں حق کے بغیر بڑے بن بیٹھے اور کہا کہ ہم سے زیادہ طاقت والا کون ہے۔"

 

۳۔ ثمود کے مفسدانہ اعمال کی تشریح قرآن مجید میں یہ ملتی ہے کہ ان کے حاکم اور سردار ظالم و بدکار تھے اور وہ انہی سرداروں کی اطاعت کرتے تھے، چنانچہ حضرت صالح علیہ السلام ان کو نصیحت کرتے ہیں:

> وَلَا تُطِيعُوا أَمْرَ الْمُسْرِفِينَ الَّذِينَ يُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ وَلَا يُصْلِحُونَ (الشعراء: ۱۵۱-۱۵۲)

> "تم ان حد سے گزر جانے والوں کے حکم کی اطاعت نہ کرو جو زمین میں فساد پھیلاتے ہیں اور اصلاح نہیں کرتے۔"

 

وہ ایسے سرکش تھے کہ ایک حق گو انسان کو صرف اس لیے قتل کرنے پر آمادہ ہو گئے کہ وہ انہیں برائیوں سے روکتا اور نیکی کی تلقین کرتا تھا، پھر اس ظالمانہ فعل کے ارتکاب کے لیے کذب و فریب کے بدترین حیلے اختیار کرنے میں بھی انہیں باک نہ ہوا:

> وَكَانَ فِي الْمَدِينَةِ تِسْعَةُ رَهْطٍ يُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ وَلَا يُصْلِحُونَ قَالُوا تَقَاسَمُوا بِاللَّهِ لَنُبَيِّتَنَّهُ وَأَهْلَهُ ثُمَّ لَنَقُولَنَّ لِوَلِيِّهِ مَا شَهِدْنَا مَهْلِكَ أَهْلِهِ وَإِنَّا لَصَادِقُونَ (النمل: ۴۸-۴۹)

> "اور اس شہر میں ۹ آدمی (جتھوں کے سردار) تھے جو زمین میں فساد پھیلاتے تھے اور اصلاح نہ کرتے تھے۔ انہوں نے کہا یارو! قسم کھا لو کہ رات کو صالح اور اس کے گھر والوں پر چھاپہ ماریں گے اور اس کے خون کے دعوے داروں سے کہہ دیں گے کہ ہم کو اس کی اور اس کے گھر والوں کی ہلاکت کا کچھ حال معلوم نہیں اور ہم بالکل سچ بولتے ہیں۔"

 

۴۔ قرآن مجید میں قومِ لوط کو بھی مفسد کہا گیا ہے اور اس کے فساد کی تشریح اس طرح کی ہے:

> إِنَّكُمْ لَتَأْتُونَ الْفَاحِشَةَ مَا سَبَقَكُم بِهَا مِنْ أَحَدٍ مِّنَ الْعَالَمِينَ أَئِنَّكُمْ لَتَأْتُونَ الرِّجَالَ وَتَقْطَعُونَ السَّبِيلَ وَتَأْتُونَ فِي نَادِيكُمُ الْمُنكَرَ (العنکبوت: ۲۸-۲۹)

> "تم لوگ تو وہ بدکاری کرتے ہو جو دنیا میں تم سے پہلے کسی نے نہیں کی، کیا تم مردوں سے شہوت رانی کرتے ہو اور رہزنی کرتے ہو اور اپنی مجلسوں میں کھلم کھلا برے کام کرتے ہو۔"

 

یہ تھا اس قوم کا فساد کہ اس میں فعلِ خلافِ فطری کا عام رواج ہو گیا تھا، تجارتی شاہراہوں پر وہ ڈاکے بھی مارتی تھی اور اس کا اجتماعی اخلاق اس قدر بگڑ گیا تھا کہ کھلم کھلا اپنی مجلسوں میں برے کام کرتے تھے اور کوئی ٹوکنے والا نہ تھا۔

 

۵۔ مدین کے لوگ بھی مفسد کہے گئے ہیں اور حضرت شعیب علیہ السلام انہیں ان الفاظ میں نصیحت کرتے ہیں:

> فَأَوْفُوا الْكَيْلَ وَالْمِيزَانَ وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْيَاءَهُمْ وَلَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَاحِهَا ۚ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ وَلَا تَقْعُدُوا بِكُلِّ صِرَاطٍ تُوعِدُونَ وَتَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ مَنْ آمَنَ بِهِ وَتَبْغُونَهَا عِوَجًا (الاعراف: ۸۵-۸۶)

> "پیمانوں سے پورا پورا ماپو اور ترازو میں ٹھیک تولو، لوگوں کو ان کی خریدی ہوئی چیزیں گھٹا کر نہ دیا کرو اور زمین کی اصلاح کے بعد اس میں فساد نہ پھیلاؤ یہ تمہارے لیے اچھا ہے اگر تم ایماندار ہو۔ اور راستوں پر بیٹھ کر لوگوں کو نہ ڈراؤ (یعنی راہزنی نہ کرو) تم اللہ کے راستے سے ان لوگوں کو روکتے ہو جو ایمان لائے ہیں اور اسے ٹیڑھا کرنا چاہتے ہو۔"

 

پھر جب حضرت شعیب علیہ السلام نے انہیں نیکوکاری کی ہدایت کی تو انہوں نے کہا کہ:

> وَلَوْلَا رَهْطُكَ لَرَجَمْنَاكَ ۖ وَمَا أَنتَ عَلَيْنَا بِعَزِيزٍ (ھود: ۹۱)

> "اگر تیری برادری کے لوگ نہ ہوتے تو ہم تجھے پتھراؤ کر کے مار ڈالتے تو ہم پر بھاری نہیں پڑ سکتا۔"

 

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مدین والوں کا فساد یہ تھا کہ وہ عام طور پر خائن تھے، ان کے تجارتی کاروبار میں بے ایمانی بہت بڑھ گئی تھی۔ تجارتی شاہراہوں پر، جو ان کے علاقے سے گزرتی تھیں، ڈاکے ڈالتے تھے۔ ایمانداروں کو راہِ الٰہی سے روکتے تھے اور انہیں حق سے اس قدر دشمنی تھی کہ جب ایک صالح انسان نے انہیں برائیوں پر ٹوکا اور بھلائی کی طرف دعوت دی تو وہ اپنے درمیان اس کے وجود کو برداشت نہ کر سکے اور اسے سنگسار کرنے پر آمادہ ہو گئے۔

 

۶۔ چوری کو بھی فساد سے تعبیر کیا گیا ہے۔ چنانچہ حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں پر جب گلاس چرانے کا الزام رکھا گیا تو انہوں نے کہا:

> تَاللَّهِ لَقَدْ عَلِمْتُم مَّا جِئْنَا لِنُفْسِدَ فِي الْأَرْضِ وَمَا كُنَّا سَارِقِينَ (یوسف: ۷۳)

> "خدا کی قسم! تم جانتے ہو کہ ہم زمین میں فساد پھیلانے نہیں آئے اور ہم چور نہیں ہیں۔"

 

۷۔ بادشاہوں کی ملک گیری سے جو تباہی پھیلتی ہے اور اس کے اثر سے مفتوح قوموں کے اخلاق میں جو دناءت پیدا ہو جاتی ہے اس کو بھی فساد کہا گیا ہے۔ چنانچہ حضرت سلیمان علیہ السلام کا خط وصول ہونے پر ملکۂ سبا اپنے درباریوں سے کہتی ہے:

> إِنَّ الْمُلُوكَ إِذَا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوهَا وَجَعَلُوا أَعِزَّةَ أَهْلِهَا أَذِلَّةً ۖ وَكَذَٰلِكَ يَفْعَلُونَ (النمل: ۳۴)

> "بادشاہ جب کسی بستی میں داخل ہوتے ہیں تو اسے فساد سے بھر دیتے ہیں، اس کے عزت والوں کو ذلیل کر دیتے ہیں اور وہ ایسی ہی حرکتیں کرتے ہیں۔"

 

۸۔ فساد کی ایک جامع تعریف قرآن میں یہ کی گئی ہے کہ ان روابط اور تعلقات کو خراب کرنا اور ان رشتوں پر تیشہ چلانا جو فی الحقیقت انسانی تمدن کی بنیاد ہیں، چنانچہ فرمایا:

> وَالَّذِينَ يَنقُضُونَ عَهْدَ اللَّهِ مِن بَعْدِ مِيثَاقِهِ وَيَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَن يُوصَلَ وَيُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ ۙ أُولَٰئِكَ لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ (الرعد: ۲۵)

> "اور جو لوگ اللہ کے عہد کو مضبوط باندھنے کے بعد توڑ دیتے ہیں اور ان تعلقات کو قطع کرتے ہیں جنہیں جوڑنے کا اللہ نے حکم دیا ہے اور زمین میں فساد پھیلاتے ہیں، انہی پر اللہ کی لعنت ہے اور وہی ہیں جن کے لیے برا ٹھکانا ہے۔"

 

يَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَن يُوصَلَ کے معنی عام مفسرین نے بہت محدود لیے ہیں۔ وہ اسے صرف قطعِ رحمی کے معنی میں لیتے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اس سے وہ تمام جائز تعلقات مراد ہیں جو مختلف تمدنی اور عمرانی حیثیات سے بنی نوعِ انسان کے افراد اور جماعتوں میں قائم ہوتے ہیں، مثلاً عزیزوں اور رشتہ داروں کے تعلقات، میاں اور بیوی کے تعلقات، دوستوں اور ہمسایوں کے تعلقات، لین دین اور کاروباری معاملے کے تعلقات، عہد و پیمان اور باہمی اعتماد کے تعلقات، مختلف ملکوں اور حکومتوں کے تعلقات۔ چونکہ یہی روابط انسانی تمدن کی بنیاد ہیں، انہی کے بہترین طریقے سے قائم رہنے پر دنیا کے امن اور خوشحالی کا انحصار ہے، اور انہی کو توڑنے اور خراب کر دینے سے دنیا میں جھگڑے پھیلتے ہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے قطع کرنے کو فساد سے تعبیر کیا اور اس پر لعنت کی وعید فرمائی۔

 

۹۔ اس طرزِ حکومت کو بھی فساد سے تعبیر کیا گیا ہے جس میں حاکمانہ طاقت کو اچھے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے بجائے ظلم و ستم اور غارت گری کے لیے استعمال کیا جائے چنانچہ فرمایا:

> وَإِذَا تَوَلَّىٰ سَعَىٰ فِي الْأَرْضِ لِيُفْسِدَ فِيهَا وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ ۗ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ (البقرہ: ۲۰۵)

> "اور جب وہ حاکم بنتا ہے تو زمین میں فساد پھیلانے کی کوشش کرتا ہے اور کھیتوں اور نسلوں کو تباہ کرتا ہے اور اللہ فساد کو ہرگز پسند نہیں کرتا۔"

 

۱۰۔ صد عن سبیل اللہ کے لیے بھی، جس کی تشریح اوپر گزر چکی ہے، فساد کا لفظ استعمال کیا ہے۔ چنانچہ فرمایا:

> الَّذِينَ كَفَرُوا وَصَدُّوا عَن سَبِيلِ اللَّهِ زِدْنَاهُمْ عَذَابًا فَوْقَ الْعَذَابِ بِمَا كَانُوا يُفْسِدُونَ (النحل: ۸۸)

> "جن لوگوں نے کفر اختیار کیا اور اللہ کے راستے سے روکا ان پر ہم اس فساد کے باعث جو وہ کرتے تھے، عذاب پر عذاب نازل کریں گے۔"

 

۱۱۔ سورۂ مائدہ میں جن لوگوں کی طرف فساد کی نسبت دی گئی ہے کہ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا "وہ زمین میں فساد پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں۔" اور جن کے متعلق فرمایا ہے کہ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ "اللہ مفسدوں کو پسند نہیں کرتا۔" ان کی خصوصیات یہ بیان کی ہیں:

> وَتَرَىٰ كَثِيرًا مِّنْهُمْ يُسَارِعُونَ فِي الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَأَكْلِهِمُ السُّحْتَ (المائدہ: ۶۲)

> "اور تو ان میں سے اکثر کو دیکھے گا کہ وہ گناہ اور حد سے تجاوز کرنے میں اور حرام کے مال کھانے میں جلدی کرتے ہیں۔"

> وَأَلْقَيْنَا بَيْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ ۚ كُلَّمَا أَوْقَدُوا نَارًا لِّلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ (المائدہ: ۶۴)

> "اور ہم نے ان کے درمیان بغض و عداوت کا بیج قیامت تک کے لیے ڈال دیا، اور جب کبھی انہوں نے جنگ کے لیے آگ بھڑکائی ہم نے اسے بجھا دیا۔"

 

اس سے معلوم ہوا کہ "اثم" یعنی وہ گناہ جو آدمی کے ذاتی اخلاق کو غارت کرتے ہیں اور "عدوان" یعنی وہ گناہ جن کا برا اثر دوسروں پر بھی پڑتا ہے، اور "اکلِ سحت" یعنی رشوت اور سود خوری جیسے ناجائز طریقوں سے لوگوں کے مال کھانا اور نفسانی اغراض کے لیے باہم بغض و عداوت رکھنا اور ان کی خاطر جنگ کی آگ بھڑکانا، یہ سب اعمال فساد ہیں۔

 

 فتنہ و فساد کو مٹانے کے لیے حکومتِ الٰہی کی ضرورت

 

اس تشریح سے اچھی طرح معلوم ہو گیا کہ قرآن مجید کی زبان میں فتنہ اور فساد کے کیا معنی ہیں۔ اب اگر ان تمام برائیوں پر دوبارہ ایک غائر نظر ڈالی جائے جن کو فتنہ و فساد سے تعبیر کیا گیا ہے تو اس سے یہ حقیقت واضح ہو جائے گی کہ وہ سب کی سب ایک ناحق شناس، ناخدا ترس، اور بداصل نظامِ حکومت سے پیدا ہوتی ہیں۔ اگر کسی برائی کی پیدائش میں ایسی حکومت کا براہِ راست کوئی اثر نہیں ہوتا تو کم از کم اس کا باقی رہنا اور اصلاح کے اثر سے محفوظ ہونا تو یقیناً اسی حکومت کے باطل پرور اثرات کا رہینِ منت ہوتا ہے۔

 

اول تو ایسی حکومت فی نفسہ ایک فتنہ ہے، کیونکہ وہ حکومت کے منشائے اصلی کے خلاف ہوتی ہے۔ پھر اس کی برائی کسی ایک دائرے تک محدود نہیں رہتی بلکہ تمام برائیوں کا سرچشمہ اور فتنہ و فساد کے تمام اصول و فروع کا منبع بن جاتی ہے۔ اسی سے صد عن سبیل اللہ ہوتا ہے، اسی سے حق و انصاف کا سر کچلا جاتا ہے، اسی سے بدکاروں اور ظالموں کو اپنے برے اعمال کی قوت حاصل ہوتی ہے، اسی سے اخلاق کو تباہ کرنے والے اور عدلِ اجتماعی (Social Justice) کو غارت کرنے والے قوانین نافذ ہوتے ہیں، وہی بنی آدم کی جمعیت میں نفاق و شقاق کی تخم ریزی کرتی ہے، اسی کی بدولت جنگ و خونریزی کی آگ دنیا میں بھڑکتی ہے، اسی سے قوموں اور ملکوں پر بلائیں نازل ہوتی ہیں، اور خلاصۂ کلام یہ کہ یہ وہ چیز ہے جس کی قوت کسی نہ کسی حیثیت سے ہر بدی و بدکاری کا وسیلہ یا اس کے قائم ہونے اور باقی رہنے کا ذریعہ بنتی ہے۔

 

پس اسلام نے بدی کے استیصال اور بدکاری کے دفع و انسداد کے لیے یہ کارگر تدبیر بتلائی کہ منظم جدوجہد (جہاد) سے، اور اگر ضرورت پڑے اور ممکن ہو تو جنگ (قتال) کے ذریعہ سے ایسی تمام حکومتوں کو مٹا دیا جائے اور ان کی جگہ وہ عادلانہ و منصفانہ نظامِ حکومت قائم کیا جائے جس کی بنیاد خدا کے خوف پر اور خدا کے مقرر کیے ہوئے مستقل ضابطوں پر رکھی جائے، جو شخصی یا طبقاتی یا قومی اغراض کے بجائے خالص انسانیت کے مفاد کی خدمت کرے، جس کے قیام کا مقصد نیکی کو پروان چڑھانا اور بدی کو مٹانا ہو، اور جس کے کارکن صرف وہی لوگ ہوں جو امر بالمعروف و نہی عن المنکر کو اپنی زندگی کا واحد نصب العین سمجھتے ہوں، اور اپنی بڑائی کے لیے نہیں بلکہ انسانیت کی بہتری اور خدا کی خوشنودی کے لیے عنانِ حکومت ہاتھ میں لیں۔

 

قرآن مجید کو اٹھا کر دیکھو، جگہ جگہ تمہیں یہی نظر آئے گا کہ ظالموں اور جباروں کی اطاعت سے روکا گیا ہے اور انسان کو تاکید کی گئی ہے کہ وہ باطل کے اتباع اور جبر و استکبار کی اطاعت سے اپنے آپ کو ہلاکت میں مبتلا نہ کرے۔ کہیں حکم ہوتا ہے کہ:

> وَلَا تُطِيعُوا أَمْرَ الْمُسْرِفِينَ الَّذِينَ يُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ وَلَا يُصْلِحُونَ (الشعراء: ۱۵۱-۱۵۲)

> "ان حد سے گزر جانے والے لوگوں کی اطاعت نہ کرو جو زمین میں فساد پھیلاتے ہیں اور اصلاح نہیں کرتے۔"

 

کہیں ارشاد ہوتا ہے:

> وَلَا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَن ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ هَوَاهُ وَكَانَ أَمْرُهُ فُرُطًا (الکھف: ۲۸)

> "اس کی اطاعت نہ کر جس کے دل کو ہم نے اپنے ذکر سے غافل کر دیا ہے، جو اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی کرتا ہے اور جس کا حکم زیادتی پر مبنی ہے۔"

 

کہیں ایک قوم کی بربادی کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ:

> وَاتَّبَعُوا أَمْرَ كُلِّ جَبَّارٍ عَنِيدٍ وَأُتْبِعُوا فِي هَٰذِهِ الدُّنْيَا لَعْنَةً وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ (ھود: ۵۹-۶۰)

> "انہوں نے ہر جبار دشمنِ حق کی پیروی کی، پس ان پر اس دنیا میں بھی لعنت پڑی اور یومِ قیامت کو بھی پڑے گی۔"

 

کہیں صاف طور پر بتلا دیا کہ ایک ملک ہلاک ہی اس وقت ہوتا ہے جب اس کی دولت اور حکومت کی باگیں بدکار لوگوں کے ہاتھوں میں چلی جاتی ہیں:

> وَإِذَا أَرَدْنَا أَن نُّهْلِكَ قَرْيَةً أَمَرْنَا مُتْرَفِيهَا فَفَسَقُوا فِيهَا فَحَقَّ عَلَيْهَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنَاهَا تَدْمِيرًا (الاسراء: ۱۶)

> "جب ہم کسی بستی کو برباد کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو اس کے دولت مند لوگوں کو (اطاعت و خیر کا) حکم بھیجتے ہیں، پھر وہ نافرمانی کر کے بدکاریاں کرتے ہیں تب وہ بستی حکمِ سزا کی مستحق ہو جاتی ہے اور ہم اس کو تباہ و برباد کرتے ہیں۔"

 

اس کی وجہ بالکل ظاہر ہے۔ اجتماعی زندگی میں جتنے عوامل انسان کے اخلاق و تمدن پر اثر انداز ہوتے ہیں ان میں سب سے زیادہ قوی اور مؤثر عامل حکومت ہے۔ حکومت کا نظام اگر غلط ہو اور اس کی باگیں ایسے لوگوں کے ہاتھ میں ہوں جو حاکمانہ طاقت کو اصلاح اور خدمتِ الناس کے بجائے افساد اور خدمتِ نفس کے لیے استعمال کرتے ہوں تو ایسی حالت میں کسی نیکی کا سرسبز ہونا، کسی اصلاحی کوشش کا بارآور ہونا اور کسی قسم کے اخلاقی محاسن کا پھیلنا پھولنا مشکل ہو جاتا ہے۔ کیونکہ وہ حکومت طبعاً بدی و شرارت کی سرپرست ہوتی ہے اور نہ صرف خود بدکار ہوتی ہے بلکہ اس کی قوت تمام اخلاقی مفاسد کی آبیاری کرتی ہے۔

 

بخلاف اس کے اگر حکومت ایک صحیح اور عادلانہ دستور و آئین پر قائم ہو، اس کا مقصدِ حیات نظامِ عدل کا قیام ہو اور اس کے چلانے والے نیکوکار و پرہیزگار لوگ ہوں جو اپنی قوت کو اپنی ذاتی یا طبقاتی یا قومی خواہشات کے حصول کے لیے نہیں بلکہ انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کرتے ہوں تو اس کی اصلاحی قوت کا اثر صرف اسی دائرے تک محدود نہ رہے گا جو حکومت سے بلاواسطہ تعلق رکھتا ہے، بلکہ اجتماعی و انفرادی زندگی کے تمام شعبے اس کے نیک اثرات کو قبول کریں گے۔ مذہب، معیشت، معاشرت، اخلاق، تہذیب، علوم و افکار غرض ہر شعبے میں اصلاح کی تحریک بارآور ہو گی اور بدکاری کی صرف روک تھام ہی نہ ہو گی بلکہ خود بدی کے چشمے بھی سوکھ جائیں گے۔ پس درحقیقت فتنہ و فساد کو مٹانے اور انسانی زندگی کو منکر سے پاک کرنے کے لیے سب سے زیادہ ضروری اور مفید تدبیر یہی ہے کہ تمام مفسد حکومتوں کا استیصال کر دیا جائے اور ان کی جگہ ایسی حکومت قائم کی جائے جو اصول اور عمل دونوں کے لحاظ سے نیکی اور نیکوکاری پر مبنی ہو۔

 

 حکمِ قتال

 

یہ وہ دوسرا مقصدِ عظیم و جلیل ہے جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کو تلوار اٹھانے کا حکم دیا ہے۔ پہلا مقصد یہ تھا کہ خود اپنی قوت کو مٹنے سے محفوظ رکھو۔ اور دوسرا مقصد یہ ہے کہ اس محفوظ شدہ طاقت کو تمام دنیا سے فتنہ و فساد کے مٹانے اور مفسدوں سے فساد کی قوت چھین کر انہیں نیکی کا تابع بنانے میں استعمال کرو۔ چنانچہ یہ حکم نہایت مختصر الفاظ میں اس طرح دیا گیا ہے:

> قَاتِلُوا الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلَا يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَلَا يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حَتَّىٰ يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَن يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَ (التوبہ: ۲۹)

> "اہلِ کتاب میں سے جو لوگ نہ اللہ پر ایمان لاتے ہیں اور نہ روزِ آخرت پر، نہ ان چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے حرام ٹھہرائی ہیں، اور نہ دینِ حق کو اختیار کرتے ہیں، ان سے لڑو یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں اس حال میں کہ وہ زیردست ہو کر رہیں۔"

 

اس آیت میں قتال کا حکم جن لوگوں کے خلاف دیا گیا ہے ان کی خصوصیات یہ بتائی ہیں کہ وہ اگرچہ اہلِ کتاب ہیں مگر نہ اللہ اور یومِ آخر پر واقعی ایمان لاتے ہیں، نہ ان چیزوں سے پرہیز کرتے ہیں جنہیں خدا اور رسول ﷺ نے حرام کیا ہے، اور نہ دینِ حق کو اپنا دین بناتے ہیں۔ ان جرائم کی یہ ترتیب بے معنی نہیں ہے بلکہ اس پر غور کرنے سے حکمِ قتال کی وجہ خود بخود سمجھ میں آجاتی ہے۔

 

فرمایا کہ ہم نے ان کی طرف کتابیں بھیجیں جن میں انہیں فکر اور عمل کی سیدھی راہ بتائی گئی تھی اور ان کے لیے ایک صحیح قانونِ زندگی وضع کر دیا گیا تھا۔ لیکن انہوں نے ان کتابوں کو چھوڑ دیا اور اپنی آراء و اہواء اور اپنے ظنون و اوہام کے مطابق خود اپنے لیے الگ الگ مذاہب اور قوانین گھڑ لیے جو حق کے خلاف اور جادۂ استقامت سے ہٹے ہوئے ہیں۔ اس انحراف کی بدولت ایک طرف ان کے خیالات بگڑ گئے کہ اللہ اور جزاء و سزا کے دن پر ان کا ایمان نہ رہا، اور دوسری طرف ان کے اعمال بھی بگڑ گئے کہ حلال و حرام کی تمیز ان میں باقی نہ رہی اور فتنہ و فساد برپا کرنے لگے جس سے اللہ نے اور ان رسولوں نے جو ان کی طرف بھیجے گئے تھے انہیں منع کیا تھا۔

 

پھر جب اللہ نے ان کی ہدایت کے لیے از سرِ نو وہی دینِ حق بھیجا جسے وہ گم کر چکے تھے تو انہوں نے اسے ماننے سے انکار کر دیا اور پچھلی غلط کاریوں اور غلط فہمیوں پر ہی جمے رہے، حالانکہ اگر وہ اسے اختیار کر لیتے تو پھر ایک کتابِ محکم، ایک مذہبِ صحیح اور ایک قانونِ عدل کے پابند ہو جاتے جس سے ان کے افکار اور اعمال دونوں کی اصلاح ہو جاتی اور فتنہ و فساد کا نام و نشان مٹ جاتا۔ اب اگر وہ دینِ حق کو نہیں مانتے تو انہیں اس امر کی آزادی تو دی جا سکتی ہے کہ (اس کے) ماتحت رہ کر اپنے غلط عقائد اور طریقوں پر قائم رہیں، لیکن اس امر کی آزادی نہیں دی جا سکتی کہ اپنے باطل قوانین کو نافذ کر کے اللہ کی زمین میں فتنہ و فساد برپا کریں۔

 

 قتال کی غرض و غایت

 

حَتَّىٰ يُعْطُوا الْجِزْيَةَ میں اس قتال کی غایت کو صاف طور پر بیان کر دیا ہے۔ اگر حَتَّىٰ يُسْلِمُوا کہا جاتا تو البتہ غایتِ قتال یہ ہوتی کہ انہیں تلوار کے زور سے مسلمان بنایا جائے، لیکن حَتَّىٰ يُعْطُوا الْجِزْيَةَ نے بتا دیا کہ ان کا ادائے جزیہ پر راضی ہو جانا قتال کی آخری حد ہے اور اس کے بعد پھر ان کی جان و مال پر کوئی حملہ نہیں کیا جا سکتا خواہ وہ اسلام قبول کریں یا نہ کریں، جیسا کہ صاحبِ بدائع نے لکھا ہے:

> نهى سبحانه وتعالى اباحة القتال الى غاية قبول الجزية، واذا انتهت الاباحة تثبت العصبة ضرورة (صفحہ ۱۱)

> "اللہ تعالیٰ نے قبولِ جزیہ کو اباحتِ قتال کی حد مقرر کیا ہے۔ پس جب اس غایت کے حصول پر اباحت ختم ہو گئی تو لازمی طور پر ذمیوں کے اعراض و اموال کا تحفظ بھی ثابت ہو گیا۔"

 

اسی بنا پر ذمیوں کے متعلق سختی کے ساتھ تاکید ہے کہ ان کی جان و مال اور عزت و آبرو کی تمام حملوں سے حفاظت کی جائے۔ ان کے بچاؤ کے لیے جنگ کرنا اور اپنا خون بہانا مسلمانوں پر لازم کر دیا گیا ہے۔ چنانچہ حضرت علیؓ کا ارشاد ہے:

> انما قبلوا عقد الذمة لتكون اموالهم كاموالنا ودماؤهم كدمائنا

> "انہوں نے عقدِ ذمہ اسی لیے قبول کیا ہے کہ ان کے مال ہمارے مال کی طرح اور ان کے خون ہمارے خون کی طرح محترم ہو جائیں۔"

 

حضرت عمرؓ کی وصیت ہے:

> اوصيه بذمة الله وذمة رسوله ان يوفى لهم لعهدهم وان يقاتل من ورائهم ولا يكلفوا الا طاقتهم

> "میں وصیت کرتا ہوں کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے ذمہ کا لحاظ رکھا جائے اس طرح کہ ذمیوں کے ساتھ عہد کو پورا کیا جائے، ان کی حفاظت کے لیے جنگ کی جائے اور ان کی طاقت سے زیادہ ان پر خراج کا بار نہ ڈالا جائے۔"

 

حضور نبی کریم ﷺ ان کی جان کے احترام کی تاکید اس قدر سختی کے ساتھ فرماتے ہیں کہ:

> من قتل معاهداً لم يرح رائحة الجنة وان ريحها لتوجد من مسيرة اربعين عاماً

> "جو کوئی کسی معاہد کو قتل کرے اسے جنت کی خوشبو تک نصیب نہ ہو گی، حالانکہ اس کی خوشبو ۴۰ سال کی مسافت تک پہنچتی ہے۔"

 

اس کے متعلق یہ کہنا صحیح نہیں ہو سکتا کہ یہ احترامِ جان و مال محض احترامِ عہد و پیمان کی بنا پر ہے۔ کیونکہ یہ حکم تمام ذمیوں کے لیے عام ہے اور عقدِ ذمہ کی صرف یہی ایک صورت نہیں ہے کہ حکومتِ اسلامیہ کے ساتھ ان کا باقاعدہ معاہدہ ہو بلکہ دوسری صورت یہ بھی ہے کہ وہ بلا شرط اپنے آپ کو اسلامی حکومت کے حوالے کر دیں اور حکومت خود ہی ان کو ذمی قرار دے۔ چنانچہ فقہائے اسلام نے تصریح کی ہے کہ اگر مسلمان کسی ملک کو بزورِ شمشیر فتح کریں اور اس کے باشندوں سے ان کا کوئی معاہدہ نہ ہوا ہو تب بھی مفتوح غیر مسلموں کو ذمی ہی قرار دیا جائے گا اور مسلمانوں کا امام ان پر جزیہ عائد کر کے ان کو اللہ اور رسول ﷺ کے ذمہ میں لے لے گا (دیکھو بدائع الصنائع، جلد ۷، صفحہ ۱۱۰-۱۱۲)۔

 

اس سے ظاہر ہے کہ قتال کا یہ حکم کسی مذہبی عداوت کی بنا پر نہیں ہے، ورنہ یہ نہ ہوتا کہ اطاعت قبول کرنے سے پہلے جن کے ساتھ جنگ کرنا ضروری ہے انہی کی جان و مال، اطاعت قبول کرنے کے بعد، اس طرح قابلِ احترام ہو جائے۔ حالانکہ اطاعت کرنے والوں کے ساتھ مذہبی عداوت کی بھڑاس نکالنا زیادہ آسان ہے۔ علیٰ ہذا القیاس یہ بات بھی از بس بعید از عقل ہے کہ اس حکمِ قتال کا مقصد محض جزیہ حاصل کرنا ہو، کیونکہ چند درہم سالانہ کے عوض اتنی بڑی ذمہ داری اپنے اوپر لے لینا کہ ان کی حفاظت کے لیے ہر دشمن کے سامنے اپنا سینہ سپر کر دیا جائے، کسی طمع پر مبنی نہیں ہو سکتا۔

 

یہ بات کسی کی سمجھ میں نہیں آسکتی کہ ایک کافر تو جزیہ دے کر اطمینان کے ساتھ اپنی تجارت، اپنے کاروبار، اپنے عیش و آرام اور اپنے اہل و عیال کی معیت سے مستفید ہو اور مسلمان ملک کی حفاظت کے لیے میدانِ جنگ کی مصیبتیں اٹھائے اور اپنی جان جوکھوں میں ڈال دے، درآنحالیکہ اس کو یہ قدرت حاصل ہو کہ اس کافر سے جزیہ بھی وصول کرے اور پھر اس سے جنگی خدمت بھی لے۔ پس ادائے جزیہ پر قتال کی اباحت ختم کر دینے اور قبولِ جزیہ کے بعد قیامِ عدل و امن کی تمام ذمہ داریاں اپنے اوپر لے لینے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس جنگ کا مقصد دراصل ان لوگوں کو فتنہ و فساد سے روکنا اور امن و آئین کا پابند بنانا ہے، اور ان پر جزیہ کے نام سے ٹیکس عائد کرنا صرف اس لیے ہے کہ وہ اس حفاظت و صیانت کے مصارف میں شرکت کریں جو انہیں بہم پہنچائی جاتی ہے، اور اطاعت و انقیاد پر قائم رہیں۔

 

 جزیہ کی حقیقت

 

علامہ ابن تیمیہؒ نے حَتَّىٰ يُعْطُوا الْجِزْيَةَ کی تفسیر میں لکھا ہے کہ والمراد باعطائها التزامها بالعقد، یعنی اس سے مراد صرف یہ ہے کہ وہ عقدِ معاہدہ پر قائم رہیں، جس طرح تمام حکومتوں کے قوانین میں ٹیکس دیتے رہنا وفاداریٔ قانون کی دلیل ہے اور نہ ادا کرنا بے وفائی و غداری کی، اسی طرح جزیہ دیتے رہنا بھی پابندیٔ عہد کی دلیل ہے اور اس کا نہ ادا کرنا نقضِ عہد کا ہم معنی۔ یہی وجہ ہے کہ جزیہ صرف لڑنے کے قابل مردوں پر عائد کیا گیا ہے۔ عورتیں، نابالغ بچے، مجانین، ازکار رفتہ بوڑھے، اندھے اور اپاہج وغیرہ سب اس سے مستثنیٰ ہیں۔ بدائع الصنائع میں ہے:

> لان الله سبحانه وتعالى اوجب الجزية على من هو من أهل القتال لقوله تعالى قاتلوا الذين لا يؤمنون بالله ولا باليوم الآخر الآية، والمقاتلة مفاعلة من القتال فتستدعي أهلية القتال من الجانبين، فلا تجب على من ليس من أهل القتال (جلد ۷، صفحہ ۱۱۱)

> "اللہ تعالیٰ نے جزیہ صرف ان لوگوں پر مقرر کیا ہے جو اہلِ قتال ہیں، جیسا کہ آیہ قاتِلُوا الَّذِينَ... میں لفظ قَاتِلُوا سے معلوم ہوتا ہے۔ مقاتلہ کے لیے جانبین سے قتال کی اہلیت شرط ہے۔ پس جن لوگوں میں یہ اہلیت نہیں ہے وہ قتال اور جزیہ دونوں سے مستثنیٰ ہیں۔"

 

عَن يَدٍ کا لفظ اس مضمون کی ترجیح کرتا ہے۔ ید سے مراد یہاں ہاتھ نہیں ہے بلکہ دراصل یہ کنایہ ہے اطاعت و انقیاد سے۔ چنانچہ کہتے ہیں: أعطى فلان بيده اذا أسلم وانقاد۔ پس يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَن يَدٍ کے معنی یہ ہیں کہ وہ اطاعت پر آمادگی کے ساتھ جزیہ ادا کریں۔ اگر ان میں اس قدر پابندیٔ آئین اور اتنی امن پسندی موجود نہ ہو کہ اپنے واجب الادا ٹیکس کو رضامندی کے ساتھ ادا کریں، بلکہ اس پر انہیں مجبور کرنے کے لیے ہمیشہ تلوار کی قوت استعمال کرنے کی ضرورت رہے تو پھر نہ اعطائے جزیہ کا اصلی منشا یعنی نظم و آئین کا قیام، پورا ہو سکتا ہے اور نہ عقدِ ذمہ ہی باقی رہ سکتا ہے جس کے لیے اطاعت و انقیاد لازمی شرط ہے۔

 

جزیہ کی رقم ایسی قلیل مقرر کی گئی ہے کہ اس کا دینا بار نہ ہو۔ اس کے وصول کرنے کے طریقوں میں بھی نرمی و رفق کی تاکید کی گئی ہے۔ قید اور سزا وغیرہ سے انہیں تکلیف دینا اور ان پر ناقابلِ برداشت بوجھ ڈالنا جائز نہیں رکھا گیا۔ چنانچہ اس کے متعلق کثرت سے تاکیدی احکام اور روایات موجود ہیں۔ حضرت عمرؓ کے پاس ایک مرتبہ جزیہ کی ایک بڑی رقم لائی گئی۔ آپؓ نے اسے غیر معمولی دیکھ کر فرمایا "مجھے گمان ہوتا ہے کہ تم نے لوگوں کو برباد کر دیا۔" محصلین نے جواب دیا "خدا کی قسم! ہم نے بہت نرمی سے وصول کیا ہے۔" آپؓ نے پھر پوچھا بلا سوط ولا نوط؟ "بغیر مارے باندھے؟" انہوں نے عرض کیا "بغیر مارے باندھے۔" تب آپؓ نے اس مال کو خزانے میں داخل کرنے کی اجازت دی۔

 

حضرت علیؓ نے ایک مرتبہ ایک شخص کو عکبری پر عامل مقرر کرتے ہوئے ہدایت فرمائی کہ "خراج کی تحصیل میں ان پر ایسی سختی نہ کرنا کہ وہ اپنے گدھے یا اپنی گائیں یا اپنے کپڑے یا دوسری چیزیں بیچنے پر مجبور ہو جائیں بلکہ ان کے ساتھ نرمی کرنا۔" حضرت حکیم بن حزامؓ نے فلسطین کے کچھ لوگوں کو دیکھا کہ وہ تحصیلِ جزیہ میں سختی کرتے ہیں تو انہوں نے اس سے منع کیا اور کہا میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا ہے کہ:

> ان الله يعذب يوم القيمة الذين يعذبون الناس في الدنيا

> "جو لوگ دنیا میں لوگوں کو تکلیف دیتے ہیں انہیں اللہ قیامت کے دن تکلیف دے گا۔"

 

ان باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ غیر مسلموں پر جو جزیہ عائد کیا جاتا ہے وہ درحقیقت کوئی سزا نہیں ہے بلکہ اس کا مدعا صرف یہ ہے کہ وہ امن و آئین کے پابند ہوں، رضا و رغبت کے ساتھ قانونِ عدل کی اطاعت کریں اور اپنی استطاعت کے مطابق اس حکومت کے مصارف ادا کریں جو انہیں پرامن زندگی بسر کرنے کا موقع دیتی ہے، ظلم و تعدی سے محفوظ رکھتی ہے، انصاف کے ساتھ حقوق تقسیم کرتی ہے، قوت والوں کو کمزوروں پر ظلم کرنے سے روکتی ہے، کمزوروں کو قوت والوں کا غلام بننے سے بچاتی ہے اور تمام سرکش عناصر کو اخلاق و انسانیت کے حدود کا پابند بناتی ہے۔

 

وَهُمْ صَاغِرُونَ کے الفاظ اس مطلب کی مزید وضاحت کرتے ہیں۔ ابن قیمؒ نے تصریح کی ہے:

> الصغار هو التزامهم بجريان أحكام الله تعالى عليهم، واعطاء الجزية هو الصغار

> "اس آیت میں صغار سے مراد ان کا قانونِ الٰہی کے احکام کی تنفیذ پر راضی ہونا اور آئینِ عدل کی پابندی کرنا ہے، اس اطاعت و انقیاد کی علامت کے طور پر ان کا جزیہ دینا ہی صغار ہے۔"

 

خود قرآن مجید میں مختلف مواقع پر جنگ کے مقصد اور اس کے مفید نتیجے کو جس طرح بیان کیا گیا ہے، اس سے صَاغِرُونَ کا مطلب صاف طور پر یہی معلوم ہوتا ہے کہ کافروں کا اپنے قوانینِ باطلہ کی تنفیذ سے فتنہ و فساد برپا نہ کر سکنا اور ان کا بدکاری و شرارت سے عاجز ہو جانا، اور قانونِ الٰہی کے تحت نظامِ عدل کا پابند رہنا ہی ان کا صغار ہے۔

 

قَاتِلُوهُمْ حَتَّىٰ لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ میں قتال کا مقصد بتلایا ہے کہ فتنہ باقی نہ رہے۔ حَتَّىٰ تَضَعَ الْحَرْبُ أَوْزَارَهَا میں اسی مقصد کو اس طرح بیان کیا ہے کہ جنگ و فساد کا زور ٹوٹ جائے۔ عَسَى اللَّهُ أَن يَكُفَّ بَأْسَ الَّذِينَ كَفَرُوا میں وہی مفہوم ان الفاظ میں ادا کیا جاتا ہے کہ قریب ہے کہ اللہ کافروں کی قوتِ جنگ و جدال کو توڑ دے۔ جَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِينَ كَفَرُوا السُّفْلَىٰ ۖ وَكَلِمَةُ اللَّهِ هِيَ الْعُلْيَا میں اسی جنگ کا نتیجہ یوں بیان کیا جاتا ہے کہ کافروں کا بول نیچا ہو اور اللہ کا کلمہ سربلند ہو جائے۔

 

پس درحقیقت فتنہ کا باقی نہ رہنا، فساد کا مٹ جانا، باطل کے حامیوں کی قوتِ جنگ کا خاتمہ ہو جانا، کفر کی شیطانی طاقت کا اس حد تک ٹوٹ جانا کہ وہ دنیا کے امن و سکون کو برباد نہ کر سکے اور خلقِ خدا کی اخلاقی و روحانی اور مادی ترقی میں رکاوٹیں نہ ڈال سکے، نیز کافروں کے خود ساختہ قوانین کا منسوخ ہو جانا اور ان کی جگہ اللہ کے اس قانونِ عدل کا بول بالا ہونا جو بنی نوعِ انسان کے درمیان ہر قسم کے شیطانی امتیازات کے سوا ہر شخص کو امن و آزادی کی خوشخبری دیتا ہے، یہی کافروں کا "صغار" ہے اور آیتِ قتال میں حَتَّىٰ يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَن يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَ سے یہی صغار مراد ہے۔

 

پس معلوم ہوا کہ اس آیت میں حکمِ قتال کا منشا اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ دنیا سے فتنہ و فساد کی آزادی چھین لی جائے اور زندگی کے تمام شعبوں میں اس کو حقیقی انسانیت پر مبنی آزادی عطا کی جائے، ایسی آزادی جو اخلاقی حدود کی پابندی پر مبنی ہو، اور ناروا قید اور ناروا بے قیدی دونوں سے پاک ہو۔

 

اسلام کی تلوار صرف ظلم و سرکشی اور فتنہ و فساد کے خلاف اٹھتی ہے، خواہ اس شیطانی قوت کے شکار مسلمان ہوں یا غیر مسلم۔ جب تک کوئی جماعت اس قوت کا استعمال ترک نہیں کرتی اس کے ساتھ اسلام کی جنگ برابر جاری رہتی ہے۔ مگر جس لمحہ وہ اس گناہ کو ترک کر کے حق و انصاف کے قانون کی پابندی اختیار کر لیتی ہے، ٹھیک اسی لمحہ سے اس کا خون حرام ہو جاتا ہے، اس کے مال اور اس کی آبرو کی حفاظت مسلمانوں پر لازم ہو جاتی ہے اور اسلام کی پرامن حکومت میں اس کو پوری آزادی دے دی جاتی ہے کہ تمام جائز طریقوں سے اپنی دولت، اپنی صنعت و تجارت، اپنے علوم و آداب، اپنے تہذیب و تمدن، غرض اپنی اجتماعی و انفرادی زندگی کے ہر شعبے میں ترقی کرے اور انسانیت کے بلند سے بلند مدارج تک پہنچنے کے لیے جن جن وسائل کی ضرورت ہو انہیں آزادی کے ساتھ استعمال کرے۔

 

اس بارے میں اسلام کا قانونِ ذمہ کو جو وسیع آزادی عطا کرتا ہے وہ دنیا کے قوانین میں اپنا جواب نہیں رکھتی اور قدرتی طور پر اس کا جواب ہو بھی نہیں سکتا۔ کیونکہ اسلام کے اور ان دنیوی قوانین کے نقطۂ نظر میں ایک بنیادی فرق ہے۔ یہ قوانین قیصریت کے اصول پر قائم ہیں، ان کے مطابق محکوم قوم حاکم جماعت کی ملکیت ہوتی ہے۔ اور حاکم کے لیے محکوم کے وسائلِ حیات ایک جائداد کی حیثیت رکھتے ہیں جسے اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنا اور محکوم کو اس کے فائدے سے محروم رکھنا اس کا "قدرتی" حق ہوتا ہے۔ اس لیے ان قوانین کی تنفیذ خواہ کتنی ہی فیاضی و فراخدلی کے ساتھ ہو بہرحال حاکم جماعت کا مفاد محکوم جماعت کے حقیقی مفاد سے کبھی متحد نہیں ہو سکتا اور لازمی طور پر کمزور کا مفاد طاقتور کے مفاد پر قربان کر دیا جاتا ہے۔

 

بخلاف اس کے اسلامی قانون کی بنیاد فلاحِ انسانیت کے اعلیٰ اور شریف مقصد پر رکھی گئی ہے۔ اس میں حاکم و محکوم کا تعلق صحیح معنوں میں خادم و مخدوم کا سا تعلق ہوتا ہے۔ حاکم کا مفاد اس کے سوا کچھ نہیں ہوتا کہ محکوم کے اصلی و حقیقی مفاد کی ترقی کے لیے کوشش کرے۔ اس کو حکومت کا اختیار دیے جانے کی غرض و غایت ہی یہ ہوتی ہے کہ وہ سوسائٹی کی اخلاقی و روحانی اور مادی زندگی کو تباہ کرنے والی برائیوں کے استیصال کی کوشش کرے اور انسانیت کے اعلیٰ مدارج تک پہنچانے والی اچھائیوں کے عام کرنے میں اپنی تمام قوتوں کو استعمال کرے۔ پس اسلام اپنے محکوم کو اخلاقی حدود کا پابند بنانے کے بعد اسے ہر قسم کی کامل آزادی عطا کرتا ہے۔ وہ اس کے راستے میں اپنی یا اپنی جماعت کی یا اپنے طبقے کی اغراض کے لیے کسی قسم کی مزاحمت نہیں کرتا، بلکہ اسے ایک بلند درجہ کا انسان بننے میں پوری مدد دیتا ہے۔

 

 اسلام اور جہانگیریت

 

بدقسمتی سے اس زمانے میں مغرب کی بعض جہانگیر قوموں نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ وہ دنیا میں تہذیب و انسانیت کی ترقی، درماندہ قوموں کی اصلاح اور امن و امان کے قیام کی خاطر جنگ کرتی ہیں۔ مگر اس زبانی دعوے کے برعکس ان کا عمل یہ ہے کہ کمزور قوموں کی آزادی پر ڈاکے ڈالتی ہیں اور تہذیب و انسانیت کی ترقی کے بجائے دنیا سے انسانیت اور انسانی شرافت کی تمام خصوصیات کو ایک ایک کر کے مٹا رہی ہیں۔ اس سے لوگوں کو شبہ ہو سکتا ہے کہ کہیں اسلام کا دعویٰ بھی ایسا ہی نہ ہو کہ زبان پر اصلاح کا وظیفہ ہو اور ہاتھ میں فتنہ و فساد کی تلوار۔

 

اس شبہ کو مغربی استعمار اور اسلامی جہادِ اصلاح کی یہ ظاہری مماثلت اور بھی زیادہ تقویت پہنچاتی ہے کہ جس طرح اسلام میں عالمگیر اصلاح کا جہاد صرف مسلمانوں کے لیے مخصوص ہے، اسی طرح مغربی مستعمرین بھی تہذیب و تمدن کی عالم گیر اشاعت کے مشن کو صرف اپنی قوم ہی کا ورثہ سمجھتے ہیں۔ اگرچہ پچھلے مباحث کو بنظرِ غور مطالعہ کرنے سے یہ بدگمانی پیدا ہونے کی بہت کم گنجائش باقی رہتی ہے، لیکن جس قدر بھی باقی رہتی ہے بہتر ہے کہ اس کو سوء ظن کے لیے خالی چھوڑنے کے بجائے حقیقت کے علم و یقین سے پُر کر دیا جائے۔

 

جیسا کہ ہر شخص جانتا ہے جہانگیریت (Imperialism) کی اولین خصوصیت یہ ہے کہ وہ ایک خاص قوم اور ملک کے افراد کی حکومت کا نام ہے۔ انگریزی جہانگیریت جزیرۂ انگلستان کے باشندوں سے مخصوص ہے۔ جرمن جہانگیریت میں جرمن قوم کے سوا کسی کا حصہ نہیں ہے۔ اطالوی جہانگیریت میں جو کچھ ہے سب اٹلی کے باشندوں کا ہے۔ جس طرح دنیا کی دوسری قوموں کا انگریز، جرمن یا اطالوی ہو جانا محال ہے، اسی طرح یہ بھی محال ہے کہ ان کی جہانگیری میں کسی دوسری قوم کو حصہ ملے۔ انگریز "اشاعتِ تہذیب و تمدن" کے نام سے جہاں کہیں جائیں گے، انگریزی قومیت ساتھ ساتھ جائے گی۔ حکومت کے اورنگ نشین ہوں گے تو انگریز ہوں گے، سیاست کے صدرِ انجمن ہوں گے تو انگریز ہوں گے، اختیار و اقتدار کے مالک ہوں گے تو انگریز ہوں گے۔ دوسری نسل اور قوم کے لوگ خواہ انگریزی تہذیب میں کتنی ہی ترقی کر لیں، انگریزی سلطنت میں ان کو قدرت و اختیار حاصل ہونا قطعاً ناممکن ہے۔ یہی حال دوسری قوموں کی جہانگیری کا بھی ہے۔

 

اس قسم کے نظام میں لازمی طور پر حکومت و فرمانروائی کا حق ایک ملک کے باشندوں اور ایک نسل کے افراد سے مخصوص ہو جاتا ہے، اور ظاہر ہے کہ نسل اور وطنیت کوئی ایسی چیز نہیں ہے جسے کوئی شخص خود اختیار کر سکتا ہے۔ اس کا دائرہ بہرحال انہی لوگوں تک محدود رہتا ہے جنہیں قدرت کسی خاص نسل اور خاص ملک میں پیدا کرنا پسند کرتی ہے۔ اس لیے جہانگیری کے اس نظام کا دروازہ غیر نسل و وطن کے لوگوں کے لیے ہمیشہ بند رہتا ہے اور ایک قوم کی سلطنت میں دوسری قوم کو صرف اس لیے کوئی حصہ نہیں مل سکتا کہ وہ حکمراں قوم کی نسل سے نہیں ہے۔ پھر اسی چیز سے دوسری خرابیاں پیدا ہوتی ہیں، محکوم قوم من حیث القوم ذلیل ہو جاتی ہے، اس میں خودداری و شرافت کا احساس باقی نہیں رہتا، اور اگر اس کے حکمران ظلم و ستم اور جور و استبداد کے ساتھ حکمرانی نہ کریں تب بھی اس میں دناءت و پستی کے وہ خصائل قدرتی طور پر پیدا ہو جاتے ہیں جو ایک عرصہ تک حکومتِ خود اختیاری سے محروم رہنے کا لازمی نتیجہ ہیں اور روحِ ترقی کے لیے مہلک جراثیم کا حکم رکھتے ہیں۔

 

بخلاف اس کے اسلام کسی نسل یا قوم یا وطن کا نام نہیں ہے۔ وہ ایک قانونِ زندگی اور ایک نظامِ حیات ہے جس کے دروازے سب کے لیے کھلے ہوئے ہیں۔ عربی، عجمی، حبشی، چینی، ہندی، فرنگی، سب اس کو اختیار کر سکتے ہیں اور اختیار کر لینے کے بعد سب کے حقوق، اختیارات اور مراتب اس کے نظامِ اجتماعی میں یکساں قرار پاتے ہیں۔ اس کو انسان کی نسل یا رنگ یا وطنیت سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ وہ انسان کو محض انسان ہونے کی حیثیت سے خطاب کرتا ہے اور اس کے سامنے زندگی بسر کرنے کا ایک پاک طریقہ اور تنظیمِ حیاتِ انسانی کا ایک قانون پیش کرتا ہے جو اس کے نزدیک بہترین ہے۔ اس طریقے و قانون کو جو کوئی اختیار کر لے وہ اسلامی جماعت کا رکن ہے، اسلامی حکومت میں برابر کا شریک ہے اور اس کی شخصی قابلیت اسے خلیفہ و امام کے درجے تک بھی پہنچا سکتی ہے۔

 

جس طرح دنیا کی حکومتوں میں فرمانروائی کی قابلیت کا معیار سول سروس یا اسی قسم کا کوئی اور امتحان پاس کرنا ہے، اسی طرح اسلام کی حکومت میں فرمانروائی اور منصبِ اصلاح و ہدایت کی اہلیت کا اصول معیار اسلام کے نظامِ حیات کو اختیار کرنا اور اس کے قانونِ حق کی پابندی کرنا ہے۔ جیسا کہ آگے چل کر ہم بتائیں گے، اسلام میں نہ تو "حکومتِ قوم بر قومِ دیگر" کا کوئی سوال ہے اور نہ "حکومتِ قوم بر قوم" کا بلکہ وہ "حکومتِ صالحہ" کا اصول پیش کرتا ہے اور اس کے نزدیک "صالح" اگر ایک حبشی غلام ہو تو کوئی چیز اسے شرفائے عرب پر حکومت کرنے سے نہیں روک سکتی۔ نبی عربی ﷺ کا صریح فتویٰ ہے:

> اسمعوا واطيعوا ولو استعمل عليكم عبد حبشي كأن رأسه زبيبة

> "سنو اور اطاعت کرو، خواہ تمہارے اوپر ایک گنجا حبشی غلام ہی حاکم بنا دیا جائے"

 

اسلام کی آخری دعوت عرب سے اٹھی۔ عربوں ہی کو اس کا علم بلند کرنے کا شرف حاصل ہے۔ مگر اس نے کبھی حکومت و فرمانروائی کو عرب کے ساتھ مخصوص نہیں کیا۔ جب تک عرب "صالح" رہے انہوں نے آدھی دنیا پر حکومت کی، جب ان میں صلاحیت باقی نہ رہی تو جن عجمی قوموں کو عربوں نے فتح کیا تھا، وہ اسلامی حکومت کی مسند نشین بن گئیں اور انہوں نے خود عرب پر حکومت کی۔ ترک اسلام کے شدید دشمن تھے، مگر جب وہ اسلام کے دائرے میں داخل ہو گئے تو دنیائے اسلام کے آدھے سے زیادہ حصے نے انہیں اپنا حکمران تسلیم کیا اور چاٹگام سے لے کر قرطاجنہ تک ان کی فرمانروائی کے پھریرے اڑتے رہے۔ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ آج مسلمان قوموں میں قومیت اور نسل کا امتیاز اچھا خاصا پایا جاتا ہے۔ مگر اس کو اسلام سے کوئی واسطہ نہیں۔ اسلام نے اپنی کسی تعلیم میں اور اپنے کسی حکم میں اس امتیاز کو ذرہ برابر بھی جگہ نہیں دی ہے۔

 

یہ تو اسلام اور جہانگیریت کا ظاہری فرق تھا۔ معنوی فرق اس سے بھی زیادہ بین ہے بلکہ تباینِ کلی کا حکم رکھتا ہے۔ جہانگیریت دراصل ایک قوم کی خواہشِ توسیعِ مملکت و حصولِ مال و زر کا نام ہے۔ جب کوئی قوم اس دولت اور حکومت پر قانع نہیں ہوتی جو اس کو خود اپنے ملک میں حاصل ہوتی ہے تو وہ دوسرے ملکوں پر حملہ کر کے ان کی دولت پر قبضہ کرتی ہے، ان کے باشندوں کو اپنا محکوم اور غلام بنا لیتی ہے اور اپنی صنعت و تجارت کو ان کے خرچ پر فروغ دیتی ہے۔ یہ کام پہلے بھی ہوتا تھا اور ہمیشہ سے سرکش قومیں یہی کرتی آئی ہیں، مگر اب مغربی قوموں نے اس ملک گیری اور لوٹ مار کا نام "تہذیب و تمدن کی اشاعت" رکھ دیا ہے۔ ان کی تہذیب کی پہلی دفعہ یہ ہے کہ "قوت حق ہے" اور کمزور کو دنیا میں جینے کا کوئی حق نہیں ہے۔ کمزور قوموں میں "تہذیب" کی اشاعت کا جو طریقہ انہوں نے ایجاد کیا ہے وہ یہ ہے کہ ان کو جہالت، افلاس، غلامانہ کمینگی اور بے دینی و ضمیر فروشی کے "جواہر" سے مالا مال کر دیتی ہیں اور "نوعِ بشری کی خدمت" کے لیے ان کی بہترین کوششوں کا مظاہرہ اس وقت ہوتا ہے جب ان کی بہیمی قوتیں آپس میں ایک دوسرے سے ٹکرا کر دنیا کے امن و امان کو غارت کر دیتی ہیں۔

 

اسلام کی مقدس تعلیم اس جہانگیری کے عیب سے پاک ہے۔ بلکہ اس کے برعکس وہ عالمِ انسانی کو اس قسم کی سرکش قوتوں کے استیصال اور ان کی جگہ ایک عادلانہ نظامِ حکومت کے قیام کی دعوت دیتا ہے۔ اس کا دعویٰ یہ ہے کہ حکومت و پادشاہی صرف اللہ کے لیے ہے، إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ۔ بندوں کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ اللہ کے غلاموں کو اپنا غلام بنائیں، ان کا کام صرف یہ ہے کہ اس کے نائب یا "خلیفہ" کی حیثیت سے اس کے بندوں کی خدمت و اصلاح کریں اور جو قوت انہیں حاصل ہو اسے اپنی نفس پروری کے بجائے خلق اللہ کی فلاح و بہبود میں استعمال کریں۔

 

اس "خلافت" یا "وراثتِ ارضی" کی اہلیت کے لیے اولین شرط عملِ صالح ہے:

> وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ (النور: ۵۵)

> "تم میں سے جو لوگ ایمان لائے ہیں اور نیک عمل کرتے ہیں ان سے اللہ نے وعدہ کیا ہے کہ انہیں زمین میں اسی طرح اپنا خلیفہ بنائے گا جس طرح ان سے پہلے کے لوگوں کو بنایا تھا۔"

 

> وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُورِ مِن بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ إِنَّ فِي هَٰذَا لَبَلَاغًا لِّقَوْمٍ عَابِدِينَ (الانبیاء: ۱۰۵-۱۰۶)

> "اور ہم نے زبور میں نصیحت کے بعد لکھ دیا کہ زمین کے وارث میرے نیکوکار بندے ہوں گے۔ اس میں عبادت گزار قوموں کے لیے ایک پیغامِ عمل ہے۔"

 

یہ "خلافت و وراثتِ ارضی" جن لوگوں کو حاصل ہوتی ہے انہیں تاکید کے ساتھ بتا دیا جاتا ہے کہ بندگانِ خدا پر تمہیں جو قدرت عطا کی گئی ہے وہ اللہ کی امانت ہے، اس کو اپنی ذاتی ملک سمجھ کر نفسانی لذتوں کے حصول میں خرچ نہ کرنا۔ حضرت داؤد علیہ السلام کو سلطنت عطا ہوتی ہے تو فرمان آتا ہے:

> يَا دَاوُودُ إِنَّا جَعَلْنَاكَ خَلِيفَةً فِي الْأَرْضِ فَاحْكُم بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعِ الْهَوَىٰ فَيُضِلَّكَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَضِلُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ بِمَا نَسُوا يَوْمَ الْحِسَابِ (ص: ۲۶)

> "اے داؤد! ہم نے تم کو زمین پر اپنا نائب بنایا ہے، پس لوگوں میں راستی و صداقت کے ساتھ حکومت کرو اور اپنی نفسانی خواہش کی پیروی نہ کرو ورنہ وہ تمہیں خدا کے راستے سے بھٹکا دے گی۔ جو لوگ خدا کے راستے سے ہٹ جاتے ہیں ان کے لیے سخت عذاب ہے، کیونکہ وہ اس دن کو بھول گئے جب کہ ان کے اعمال کا حساب ہو گا۔"

 

حکومت حاصل ہونے کے بعد انسان میں سب سے بڑا عیب یہ پیدا ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو عام انسانوں سے ایک بلند تر ہستی سمجھنے لگتا ہے اور اپنی حقیقت کو بھول کر اس غلط فہمی میں پڑ جاتا ہے کہ جو لوگ اس کے زیرِ حکم ہیں وہ گویا اس کی بندگی کے لیے پیدا ہوئے ہیں۔ اسلام اس عیب سے بچنے کی سخت تاکید کرتا ہے اور حصولِ نجات کو اس سے پرہیز کرنے پر منحصر قرار دیتا ہے:

> تِلْكَ الدَّارُ الْآخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِينَ لَا يُرِيدُونَ عُلُوًّا فِي الْأَرْضِ وَلَا فَسَادًا ۚ وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ (القصص: ۸۳)

> "اس دارِ آخرت کی نعمتوں کو ہم انہی لوگوں کے لیے مخصوص کر دیں گے جو زمین میں تکبر اور فساد نہیں چاہتے۔ آخرت کی کامیابیاں صرف پرہیزگاروں کے لیے ہیں۔"

 

حکومت کے قیام کا اولین مقصد یہ ہے کہ لوگوں کے ساتھ انصاف کیا جائے۔ انصاف صرف دو متخاصم فریقوں کے درمیان صحیح فیصلہ کرنے ہی کا نام نہیں ہے بلکہ حقیقی انصاف یہ ہے کہ حاکم اپنے محکوم کے ساتھ برتاؤ کرنے میں حق کو ملحوظ رکھے اور جہاں خود اس کی ذاتی منفعت اور حاکمانہ وقار کا سوال ہو وہاں بھی قدرت و اختیار رکھنے کے باوجود وہی فیصلہ کرے جو حق ہو، خواہ اس سے اس کی ذات کو نقصان پہنچے یا اس کے دوستوں کو یا عزیزوں کو۔ اسلام اس انصاف کی بہترین تعلیم دیتا ہے:

> يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلَّهِ وَلَوْ عَلَىٰ أَنفُسِكُمْ أَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ ۚ إِن يَكُنْ غَنِيًّا أَوْ فَقِيرًا فَاللَّهُ أَوْلَىٰ بِهِمَا ۖ فَلَا تَتَّبِعُوا الْهَوَىٰ أَن تَعْدِلُوا ۚ وَإِن تَلْوُوا أَوْ تُعْرِضُوا فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا (النساء: ۱۳۵)

> "اے ایمان لانے والو! انصاف پر سختی کے ساتھ قائم رہنے والے اور خدا واسطے کی گواہی دینے والے بنو، خواہ یہ انصاف اور یہ گواہی تمہاری اپنی ذات ہی کے خلاف پڑے یا تمہارے والدین یا عزیزوں کے خلاف۔ دولتمند کی رضا جوئی یا فقیر پر رحم کھانے کا جذبہ تمہیں انصاف اور سچی شہادت سے نہ پھیر دے، کیونکہ اللہ ان کا تم سے زیادہ خیر خواہ ہے۔ تم اپنی خواہشات کی پیروی نہ کرو کہ عدل و انصاف سے پھر جاؤ۔ اگر تم نے اینچ پینچ کی بات کی یا حق سے کترائے تو جان لو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے اچھی طرح باخبر ہے۔"

 

اس سے بھی بڑھ کر وہ حکم دیتا ہے کہ جس قوم کے ساتھ تمہاری دشمنی ہو اس سے بھی انصاف کرو:

> وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَىٰ أَلَّا تَعْدِلُوا ۚ اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَىٰ (المائدہ: ۸)

> "کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کر دے کہ تم اس سے انصاف نہ کرو۔ انصاف کرو، کیونکہ یہی پرہیزگاروں سے قریب تر ہے۔"

 

قوت و طاقت حاصل کرنے کے بعد ایک قوم میں لازمی طور پر یہ جذبہ پیدا ہو جاتا ہے کہ اپنی مملکت کی حدود بڑھانے اور کمزور قوموں کے ملک چھینے۔ یہی ملک و مال کا لالچ ظلم و سرکشی کی اصل بنیاد ہے اور اسی کی خاطر قومیں رزم آرائیاں کیا کرتی ہیں۔ مگر اسلام اس کی سختی کے ساتھ مذمت کرتا ہے اور صرف اس سے پرہیز ہی کرنے کی تاکید نہیں کرتا بلکہ ان لوگوں کے خلاف جہاد کرنے کا حکم دیتا ہے جو اس گناہ کا ارتکاب کرتے ہیں جیسا کہ فتنہ و فساد کی تحقیق میں یہ تشریح بیان ہو چکا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:

 

من اقتطع شبرا من ارض ظلما طوقه الله اياه يوم القيمة من سبع ارضين (مسلم)

 

"جس کسی نے ایک بالشت بھر زمین بھی ظلم سے حاصل کی، اللہ اس کے گلے میں قیامت کے دن اس جیسی سات زمینوں کا طوق لٹکائے گا۔"

 

ایک اور حدیث میں ہے:

 

ان هذا المال حلوة خضرة فمن اخذه بحقه و وضعه فى حقه فنعم المعونة هو و من اخذه بغير حقه كان كالذي ياكل ولا يشبع

 

"یہ مال و دولت ایک لذیذ شے ہے۔ جس کسی نے اسے حق کے ساتھ حاصل کیا اور حق کی جگہ خرچ کیا، اس کے لیے تو وہ بہترین توشہ (مددگار) ہے۔ مگر جس نے اسے بغیر حق کے حاصل کیا تو وہ اس شخص کی طرح ہے جو کھائے مگر سیر نہ ہو سکے۔"

 

 اسلامی حکمران کے فرائض اور حدود

 

قرآن مجید اور احادیثِ نبوی میں اسلام کے سیاسی اخلاق کی نہایت جزئی تفصیلات تک موجود ہیں، مگر یہ موقع اس قانون کی تفصیل کا نہیں ہے۔ مختصر یہ ہے کہ اسلام نے حکومت و اقتدار کی ان تمام لذتوں کو حرام قرار دیا ہے جن کے لالچ میں انسان اس کے حصول کی کوشش کرتا ہے۔ اسلام کا حکمران نہ تو رعیت کے عام افراد سے ممتاز کوئی بالاتر ہستی ہے، نہ وہ عظمت و رفعت کے تخت پر بیٹھ سکتا ہے، نہ وہ اپنے آگے کسی سے گردن جھکوا سکتا ہے، نہ قانونِ حق کے خلاف ایک پتا ہلا سکتا ہے، نہ اسے یہ اختیار حاصل ہے کہ اپنے کسی عزیز یا دوست کو یا خود اپنی ذات کو کسی ادنیٰ سے ادنیٰ ہستی کے جائز مطالبہ سے بچا سکے، نہ وہ حق کے خلاف ایک حبّہ لے سکتا ہے، نہ ایک چپّہ بھر زمین پر قبضہ کر سکتا ہے۔

 

اس پر ہر وقت یہ خوف غالب رہتا ہے کہ اس کے اعمال کا سخت حساب لیا جائے گا اور اگر حرام کا ایک پیسہ، جبر سے لی ہوئی زمین کا ایک چپّہ، تکبر و فرعونیت کا ایک شمّہ، ظلم و بے انصافی کا ایک ذرّہ اور ہوائے نفسانی کی بندگی کا ایک شائبہ بھی اس کے حساب میں نکل آیا تو اسے سخت سزا بھگتنی پڑے گی۔

 

 خلفائے راشدین کے خطبات: حکمرانی کا معیار

 

اسلام میں حاکم و فرماں روا کی اصلی حیثیت اور اس کی منصبی ذمہ داریوں کی صحیح کیفیت حضرت ابو بکرؓ نے خلیفہ منتخب ہونے کے بعد اپنے خطبہ میں بیان کی تھی۔ انہوں نے فرمایا:

 

يا أيها الناس! قد وليت أمركم و لست بخير منكم، فإن أقواكم عندي الضعيف حتى آخذ له بحقه، وإن أضعفكم عندي القوي حتى آخذ منه الحق. أيها الناس! ما أنا إلا كأحدكم، فإذا رأيتموني قد استقمت فاتبعوني، وإن زغت فقوموني.

 

"لوگو! مجھے تمہاری حکومت کا کام سپرد کیا گیا ہے حالانکہ میں تم سے بہتر نہیں ہوں۔ میرے نزدیک ضعیف آدمی تم میں سب سے قوی ہے جب تک کہ اس کا حق اسے نہ دلوا دوں، اور قوی آدمی تم میں سب سے زیادہ ضعیف ہے جب تک کہ اس سے حق وصول نہ کرلوں۔ لوگو! میری حیثیت تمہارے ایک معمولی فرد سے زیادہ نہیں ہے۔ اگر تم مجھے سیدھی راہ چلتے دیکھو تو میری پیروی کرو اور اگر دیکھو کہ ٹیڑھا ہو گیا ہوں تو مجھے سیدھا کر دو۔"

 

اور خلیفہ دوم حضرت عمرؓ اپنے ایک خطبہ میں اس کے منصب کی تشریح یوں فرماتے ہیں:

 

إنما أنا و مالكم كولي اليتيم، إن استغنيت استعففت وإن افتقرت أكلت بالمعروف. لكم علي أيها الناس خصال فخذوني بها: لكم علي أن لا أجتبي شيئا من خراجكم ولا مما أفاء الله عليكم إلا من وجهه، ولكم علي إذا وقع في يدي أن لا يخرج مني إلا في حقه.

 

"تمہارے مال سے میرا تعلق وہی ہے جو یتیم کے مال سے اس کے ولی کا ہوتا ہے۔ اگر میں خوش حال ہوں گا تو کچھ نہ لوں گا اور اگر تنگ دست ہوں گا تو جو میرا جائز حق الخدمت ہو گا وہ لے لوں گا۔ میرے اوپر تمہارے کچھ حقوق ہیں اور تم ان کا مجھ سے مطالبہ کر سکتے ہو۔ مجھ پر فرض ہے کہ تم سے خراج کی مد میں اور اس مال میں سے جو اللہ نے تمہیں فے میں عطا فرمایا ہے، کوئی ٹیکس بے جا وصول نہ کروں، اور تمہارا مجھ پر حق ہے کہ جو کچھ میرے ہاتھ میں آئے وہ جائز مصرف کے سوا کسی اور صورت سے نہ نکلے۔"

 

 اسلامی حکومت کا اصل مقصد

 

اس طرح ہر قسم کے شاہانہ طمطراق، حاکمانہ مطلق العنانی، مال و دولت کی فراوانی اور نفس کی تمام لذتوں اور راحتوں کو نکال دینے کے بعد حکومت کی ذمہ داریوں کا جو خشک اور بے مزہ حصہ باقی رہ جاتا ہے وہ خود اسلام ہی کی زبان میں یہ ہے:

 

الَّذِيۡنَ اِنۡ مَّكَّنّٰهُمۡ فِى الۡاَرۡضِ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتَوُا الزَّكٰوةَ وَاَمَرُوۡا بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ نَهَوۡا عَنِ الۡمُنۡكَرِ‌ ؕ (الحج: ۴۱)

 

"یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار عطا کریں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، نیکی کا حکم کریں گے، اور برائی سے روکیں گے۔"

 

 اسلامی حکومت کی عملی مثالیں

 

یہ اسلام کا صرف دعویٰ ہی دعویٰ نہیں ہے بلکہ داعیٔ اسلام علیہ الصلوٰۃ والتسلیم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفائے راشدینؓ نے اس کا پورا عملی نمونہ دنیا کے سامنے پیش کیا ہے۔ اس کتاب کا موضوع قانون کی تشریح ہے نہ کہ تاریخ کا استقصاء، تاہم جب ذکر چھڑ گیا ہے تو ہم چند مثالیں پیش کر کے یہ بتائیں گے کہ اسلامی حکومت کا معیار کیا ہے۔

 

 انصاف کا معیار: فاطمہ بنت اسدؓ کا واقعہ

 

بنی مخزوم کی ایک معزز عورت (فاطمہ بنت اسود، نہ کہ اسد) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے چوری کے الزام میں گرفتار ہو کر آتی ہے۔ قریش کو خوف ہوتا ہے کہ کہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم عام لوگوں کی طرح اس کا بھی ہاتھ کاٹنے کا حکم نہ دے دیں۔ سفارش کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے زیادہ عزیز و محبوب شخص (اسامہ بن زیدؓ) کو بھیجتے ہیں۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی سفارش کو یہ کہہ کر رد کر دیتے ہیں کہ تم سے پہلے کے لوگ اسی وجہ سے ہلاک ہوئے کہ وہ کم حیثیت لوگوں پر تو تعزیر کا حکم جاری کرتے تھے اور شریف و معزز لوگوں کو چھوڑ دیتے تھے۔ پھر جوش میں آکر فرماتے ہیں کہ:

 

وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ لَقَطَعْتُ يَدَهَا۔ (بخاری و ابن ماجہ)

 

"اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو میں اس کا ہاتھ کاٹ دیتا۔"

 

 قانون کی بالادستی: ابوالعاصؓ کا واقعہ

 

جنگِ بدر میں قریش کے دوسرے سرداروں کے ساتھ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد (ابوالعاصؓ)¹ گرفتار ہو کر آتے ہیں۔ عام قیدیوں کی طرح انہیں بھی بند کر دیا جاتا ہے۔ ان کے پاس فدیہ ادا کرنے کے لیے مال نہیں ہوتا تو حکم ہوتا ہے کہ گھر سے منگا کر دو، ورنہ قید رہو۔ وہ اپنی بیوی یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی حضرت زینبؓ کو پیغام بھیجتے ہیں اور ان کے پاس سے شوہر کے فدیہ میں ایک قیمتی ہار آتا ہے جو حضرت خدیجہؓ زوجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے جہیز میں دیا تھا۔ ہار کو دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی رفیقۂ حیات کی یاد تازہ ہو جاتی ہے اور بے اختیار آنسو نکل آتے ہیں۔ تاہم خود اپنے اختیار سے فدیہ معاف نہیں کرتے۔ عام مسلمانوں سے اجازت مانگتے ہیں کہ اگر تم پسند کرو تو بیٹی کو اس کی ماں کی یادگار واپس کر دی جائے، اور جب عام مسلمان اس کی اجازت دے دیتے ہیں اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے داماد کو بغیر فدیہ کے رہائی نصیب ہوتی ہے۔ (طبری۔ ابوداؤد)

 

¹ یہ صاحب حضرت زینب بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شوہر تھے۔ ۲ ھجری تک یہ کافر رہے۔ بعد میں انہوں نے اسلام قبول کر لیا۔

 

 وفائے عہد: ابو جندلؓ کا واقعہ

 

حدیبیہ کے مقام پر رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم اور کفارِ قریش کا معاہدہ ہوتا ہے۔ صلح کی شرائط طے ہو چکی ہیں اور معاہدہ کی کتابت ہو رہی ہے۔ عین اس حالت میں ایک مسلمان ابو جندل بن سہیلؓ کفار کی قید سے بھاگ کر آتے ہیں۔ ان کے پاؤں میں بیڑیاں ہیں، بدن پر مار کے اتنے زخم ہیں کہ چور چور ہو رہا ہے، وہ آکر مسلمانوں کے سامنے گر پڑتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خدارا مجھے ان کی قید سے نکالو۔ رسول اللہ ﷺ کی رکاب میں ۱۴ سو تلوار بند مسلمان ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک اشارہ میں ابو جندل کو رہائی مل سکتی ہے، مگر کفار سے شرط ہو چکی ہے کہ "قریش والوں میں سے جو شخص مسلمانوں کے پاس جائے گا وہ واپس کر دیا جائے گا اور مسلمانوں میں سے جو شخص مکہ جائے گا وہ واپس نہ کیا جائے گا۔" اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اپنی حمایت میں لینے سے انکار کر دیتے ہیں۔ وہ اپنے زخم دکھا کر فریاد کرتے ہیں کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے پھر اسی ظلم کا تختہ مشق بننے کے لیے واپس کرتے ہیں، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 

يَا أَبَا جَنْدَل! اصْبِرْ وَاحْتَسِبْ فَإِنَّا لَا نَغْدِرُ، إِنَّ اللَّهَ جَاعِلٌ لَكَ فَرَجًا وَمَخْرَجًا (فتح الباری جلد ۵، باب الشروط في الجهاد)

 

"ابو جندل! صبر کرو اور ضبط سے کام لو، ہم بد عہدی نہیں کر سکتے، اللہ تمہارے لیے رہائی کی کوئی صورت نکالے گا۔"

 

 رعایا کی پاسداری: جنگِ یرموک کا واقعہ

 

جنگِ یرموک کے موقع پر قیصرِ روم لاکھوں کی فوج مسلمانوں کے مقابلہ پر جمع کرتا ہے اور شام و فلسطین سے مسلمانوں کو نکال دینے بلکہ ان کی قوت کو کچل دینے کا عزم کر لیتا ہے۔ اس فیصلے کی گھڑی میں اپنی قوت کے بچاؤ کے لیے مسلمانوں کو ایک ایک پیسہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ مگر اس کے باوجود وہ حمص کے باشندوں کو جمع کرتے ہیں اور جو خراج ان سے وصول کیا تھا اسے یہ کہہ کر واپس کر دیتے ہیں کہ "ہم اب تمہاری حفاظت سے قاصر ہیں اس لیے اب تم اپنا انتظام خود کرو۔" اس پر اہل حمص کہتے ہیں کہ "تمہارا عدل و انصاف ہم کو اس ظلم و جور سے زیادہ عزیز ہے جس میں ہم پہلے مبتلا تھے۔ ہم ہرقل کی فوج سے تمہارے عامل کی قیادت میں مقابلہ کریں گے۔" (فتوح البلدان للبلاذری)

 

یہ یاد رہے کہ ہرقل ایک عیسائی بادشاہ تھا اور یہ لوگ بھی جو اپنے مسلمان حکمرانوں کی طرف سے اس کے خلاف لڑنا چاہتے تھے، عیسائی تھے اور صدیوں سے رومی سلطنت کے زیرِ حکومت تھے۔

 

 عدل و انصاف: حضرت علیؓ اور یہودی کا واقعہ

 

جنگِ صفین میں جاتے وقت خلیفہ چہارم حضرت علیؓ کی زرہ کھوئی جاتی ہے۔ جنگ سے واپس آتے ہیں تو وہی زرہ دارالخلافہ کے ایک یہودی کے پاس پائی جاتی ہے۔ آپ اس سے زرہ کا مطالبہ کرتے ہیں۔ وہ کہتا ہے یہ تو میری مِلک ہے اور ہمیشہ سے میرے ہی قبضہ میں ہے۔ خلیفہ وقت کو یقین ہے کہ یہودی جھوٹ بول رہا ہے اور یہ وہی زرہ ہے جو کھوئی گئی تھی، مگر باوجود اس کے وہ اپنے شاہانہ اختیارات سے کام نہیں لیتے بلکہ ایک بے بس مدعی کی طرح قاضی شریح کی عدالت میں جاکر استغاثہ کرتے ہیں۔ قاضی ان کی جلیل القدر شخصیت کا لحاظ کر کے محض ان کے دعوے پر فیصلہ نہیں کر دیتا۔ کہتا ہے کہ آپ زرہ کی ملکیت کا ثبوت پیش کیجیے۔ وہ اپنے غلام قنبرؓ اور اپنے بیٹے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے امام حسنؓ کو شہادت میں پیش کرتے ہیں۔ قاضی کہتا ہے امام حسنؓ کی شہادت معتبر نہیں کیونکہ وہ آپ کے بیٹے ہیں اور باپ کے دعوے پر بیٹے کی شہادت تسلیم نہیں کی جاسکتی۔ یہ حال دیکھ کر یہودی بآواز بلند کلمہ طیبہ پڑھتا ہے اور پکار اٹھتا ہے کہ "جس دین میں یہ انصاف ہے وہ ضرور سچا دین ہے۔" (سیوطی)

 

 احتساب اور نرمی: حضرت عمرؓ کے دور کے واقعات

 

خلیفہ دوم حضرت عمرؓ کے پاس ان کا ایک عامل جزیہ کی کثیر رقم لے کر حاضر ہوتا ہے۔ آپ پوچھتے ہیں "یہ کیا ہے؟" وہ کہتا ہے "جزیہ ہے جو ذمیوں سے وصول کیا گیا ہے۔" مال کی کثرت کو دیکھ کر آپ کو گمان ہوتا ہے کہ جبراً وصول کیا گیا ہو گا۔ فرماتے ہیں "کہیں تم نے لوگوں کو تباہ تو نہیں کر دیا؟" وہ کہتا ہے: "خدا کی قسم! ہم نے نہایت نرمی سے وصول کیا ہے۔" پوچھتے ہیں "بغیر مارے پیٹے؟" وہ عرض کرتا ہے: "واللہ! بغیر مارے پیٹے۔" تب کہیں وہ رقم بیت المال میں داخل کی جاتی ہے۔ (فتح البیان) امام ابو یوسف اپنی کتاب الخراج میں لکھتے ہیں کہ حضرت عمرؓ کے پاس جب عراق کا خراج آتا تھا تو دس ذمہ دار افسر کوفہ سے اور دس بصرہ سے ان کی خدمت میں حاضر ہوتے اور چار مرتبہ شرعی قسم کھا کر یقین دلاتے کہ یہ رقم حلال ہے اور کسی مسلمان یا ذمی پر ظلم کے ساتھ وصول نہیں کی گئی ہے۔

 

حضرت عمرؓ کے بیٹے ابو شحمہ شراب پیتے ہیں تو ایک معمولی مجرم کی طرح گرفتار کر لیے جاتے ہیں، خود حضرت عمرؓ اپنے ہاتھ سے انہیں ۸۰ کوڑے لگاتے ہیں اور ان کوڑوں کے صدمہ سے ان کا انتقال ہو جاتا ہے۔ (معارف ابن قتیبہ، ذکر اولادِ عمر)

 

عمرو بن عاصؓ گورنر مصر کے بیٹے عبداللہ ایک شخص کو مارتے ہیں۔ وہ دربارِ خلافت میں استغاثہ کرتا ہے اور حضرت عمرؓ خود اسی شخص کے ہاتھ سے عبداللہ کو کوڑے لگوا دیتے ہیں۔ خود عمرو بن عاصؓ کے متعلق خبر آتی ہے کہ ان کے پاس بہت دولت اکٹھی ہو گئی ہے۔ حضرت عمرؓ انہیں لکھتے ہیں کہ "گورنر ہونے سے پہلے تو تمہارے پاس اتنا ساز و سامان نہ تھا، اب یہ کہاں سے آگیا؟" وہ جواب دیتے ہیں "میرا صوبہ ایک زرخیز علاقہ ہے، اس لیے میرے پاس میرے خرچ سے بہت کچھ مال بچ رہتا ہے۔" یہ جواب حضرت عمرؓ کو مطمئن نہیں کرتا۔ آپ محمد بن مسلمہؓ کو پورے اختیارات دے کر بھیجتے ہیں۔ وہ مصر پہنچ کر ان کے مال کی جانچ پڑتال کرتے ہیں۔ ان کے پچھلے اثاثہ کا حساب کرتے ہیں، گورنری کے زمانہ میں اس مال پر جو معقول اضافہ ہو سکتا تھا اس کا اندازہ لگاتے ہیں، اس کے بعد جو زائد مال بچتا ہے اسے ضبط کر کے بیت المال میں داخل کر دیتے ہیں۔ مصر کا بااختیار گورنر جس کی حدودِ مملکت لیبیا تک پہنچی ہوئی تھیں، یہ سب کچھ دیکھتا ہے اور دم نہیں مار سکتا۔ (بلاذری)

 

مغیرہ بن شعبہؓ والیٔ بصرہ کے خلاف شکایت پہنچتی ہے کہ ان کا ایک عورت سے ناجائز تعلق ہے۔ یہ سنتے ہی حضرت عمرؓ ابو موسیٰ اشعریؓ کو حکم دیتے ہیں کہ "بصرہ میں شیطان نے آشیانہ بنا لیا ہے، تم وہاں کی گورنری کا جائزہ لے لو اور مغیرہؓ کو گواہوں سمیت مدینہ بھیجو۔" حکم کے مطابق مغیرہؓ مدینہ بھیجے جاتے ہیں۔ خود حضرت عمرؓ کی عدالت میں مقدمہ پیش ہوتا ہے۔ جرح میں گواہ ٹوٹ جاتے ہیں۔ شہادتوں میں شدید اختلاف واقع ہوتا ہے۔ جرم ثابت نہیں ہوتا۔ اس لیے مغیرہؓ کو رہائی دیتے ہیں، اور فرماتے ہیں کہ "اگر شہادت پوری ہو جاتی تو میں یقیناً تم کو سنگسار کر دیتا۔" یہ مغیرہؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جلیل القدر صحابی تھے، عرب کے چار مشہور ترین سیاسی مدبروں میں سے ایک¹ تھے۔ اسلام کی بڑی بڑی سیاسی، جنگی خدمات انجام دی تھیں۔ مگر ان کی عظمت و شان، بیش قیمت خدمات، گورنری کی اعلیٰ پوزیشن، عرب میں ان کی شہرت و عزت، غرض کوئی چیز ان کے کام نہ آئی اور ایک معمولی مجرم کی طرح انہیں پیش ہونا پڑا۔ دنیوی حکومتوں کے قوانین میں زنا اگر طرفین کی رضامندی سے ہو تو سرے سے کوئی جرم ہی نہیں ہے۔ لیکن جس حکومت کا اصلی مقصد انسانیت کی اصلاح اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر تھا اس میں کسی ایسے شخص کے لیے گنجائش نہ تھی جس کا ذاتی عمل درست نہ ہو۔

 

¹ وہ چار اصحاب یہ ہیں: امیر معاویہؓ، عمرو بن عاصؓ، مغیرہ بن شعبہؓ، اور زیاد بن ابی سفیان۔

 

فارس کے علاقہ میں مسلمان ایک شہر (شہریاج) کا محاصرہ کرتے ہیں اور محصورین کی مزاحمت اس حد تک کمزور ہو جاتی ہے کہ شہر کا فتح ہونا بالکل یقینی ہو جاتا ہے۔ عین اس حالت میں اسلامی فوج کا ایک غلام شہر والوں کے نام امان نامہ لکھتا ہے اور اسے تیر میں باندھ کر شہر میں پھینک دیتا ہے۔ دوسرے دن جب اسلامی فوج شہر پر حملہ کرتی ہے تو اہل شہر دروازہ کھول کر باہر آجاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ "ایک مسلمان ہم کو امان دے چکا ہے، اب تم کیوں برسرِ پیکار ہو؟" امان نامہ دیکھا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ ایک غلام کی تحریر ہے۔ اس معاملہ میں حضرت عمرؓ سے استصواب لیا جاتا ہے کہ اس امان نامہ کی کیا وقعت ہے؟ جواب میں آپ لکھتے ہیں "مسلمان غلام بھی عام مسلمانوں کی طرح ہے۔ اس کے ذمہ کی وہی قیمت ہے جو عام مسلمانوں کے ذمہ کی ہے، لہذا اس کی دی ہوئی امان نافذ کی جائے۔" (بلاذری، ذکر کور فارس)¹

 

¹ یہ واقعہ طبری اور ابن اثیر میں تفصیل کے ساتھ مذکور ہے۔ بلاذری نے بھی تھوڑے سے اختلاف کے ساتھ اس کا ذکر کیا ہے۔

 

 خلفاء کی سادگی اور بے نفسی

 

حضرت ابو بکر صدیقؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے بعد ملکِ عرب کی سلطنت کے بااختیار فرماں روا منتخب کیے جاتے ہیں۔ انتخاب کے دوسرے دن حضرت عمرؓ انہیں دیکھتے ہیں کہ سر پر کپڑوں کے تھان لادے ہوئے بازار جارہے ہیں۔ حضرت عمرؓ عرض کرتے ہیں "اب آپ مسلمانوں کے امیر ہیں، آپ کو یہ کام زیبا نہیں ہے۔" وہ جواب دیتے ہیں، "پھر میں اپنا اور اپنے اہل و عیال کا پیٹ کیوں کر پالوں؟" حضرت عمرؓ تجویز کرتے ہیں کہ یہ کام آپ کے لیے ابو عبیدہؓ کر دیا کریں گے۔ چنانچہ ان سے خلیفۂ اسلام کا یہ معاملہ طے ہوتا ہے کہ وہ ان کی تجارت کا کام سنبھالیں اور ان کے اہل و عیال کے لیے ایک متوسط درجہ کے مہاجر کی خوراک اور گرمی جاڑے کا کپڑا مہیا کر دیا کریں۔ پھر بیت المال سے خلیفہ کے لیے ۶۰۰۰ درہم (آج کل کے حساب سے سو روپے سے کچھ زائد) ماہانہ تنخواہ مقرر ہو جاتی ہے۔ جب انتقال کا وقت قریب آتا ہے تو لوگوں سے کہتے ہیں کہ خلیفہ ہونے کے بعد میرے مال میں جو کچھ اضافہ ہوا ہے اس کا حساب کرنا اور وہ سب نئے خلیفہ کے سپرد کر دینا۔ چنانچہ انتقال کے بعد جب حساب کیا جاتا ہے تو ایک اونٹنی، ایک زنگی غلام اور ایک پرانی چادر کے سوا کچھ نہیں نکلتا۔ (فتح الباری: جلد ۵، کتاب البیوع)

 

حضرت عمرؓ کے زمانہ میں اسلامی فتوحات کا سیلاب ایران سے لے کر شمالی افریقہ تک پھیل گیا۔ غنائم اور اموالِ خراج کی اس قدر کثرت تھی کہ کروڑوں درہم سالانہ خزانہ میں داخل ہوتے تھے۔ قیصر و کسریٰ کے سارے خزانے مسلمانوں کے قبضہ میں آگئے تھے۔ مگر خود اس سلطنت کے فرماں روا کا یہ حال تھا کہ بدن پر بارہ بارہ پیوند لگے ہوئے کپڑے ہوتے تھے۔ پاؤں میں پھٹی ہوئی چپل اور سر پر بوسیدہ عمامہ پہنے ہوئے یتیموں، بیواؤں اور ضرورت مندوں کی خبر گیری کرتے پھرتے تھے۔ روم و عجم کے لوگ آتے تو انہیں عام مسلمانوں میں فرمانروائے عرب کو پہچاننا مشکل ہوتا تھا۔ شام کا سفر کیا تو اس شان سے کہ لوگ خلیفۂ اسلام اور اس کے غلام میں تمیز نہ کر سکے۔ فتح بیت المقدس کے موقع پر شہر میں داخل ہوئے تو پیادہ پا تھے اور ایسے موٹے کپڑے پہنے ہوئے تھے کہ مسلمانوں کو عیسائیوں کے خیال سے شرم آنے لگی۔ اونٹنی کا دودھ، زیتون کا تیل، سرکہ اور گیہوں کی روٹی، یہ بہتر سے بہتر غذائیں تھیں جو انہیں نصیب ہوتی تھیں۔ جب انتقال ہوا تو گھر میں اتنا اثاثہ نہ تھا کہ قرضے ادا کیے جاتے، اس لیے رہنے کا مکان بیچا گیا اور اس سے قرضے ادا کیے گئے۔

 

 اسلامی حکومت کا بے مثال نمونہ

 

یہ واقعات قصہ و افسانہ نہیں، تاریخ کے مستند حقائق ہیں۔ انہیں دیکھ کر بتاؤ کہ دنیا میں اس سے بہتر حکومت کا کوئی اور بھی نمونہ موجود ہے؟ جن لوگوں کا آئینِ ملک داری اس تقویٰ و طہارت، اس خدا ترسی، اس بے نفسی و بے غرضی، اس حریت و مساوات، اس عدل و انصاف، اس وفائے عہد اور اس دیانت و امانت پر قائم ہو، کیا ان کا یہ دعویٰ جھوٹا ہے کہ دنیا پر حکومت کرنا یا بالفاظِ صحیح تر دنیا کی خدمت کرنا صرف انہی کا حق ہے؟ اگر انہوں نے عجم کے عیش پرست اور ظالم حکمرانوں سے عجم کا تخت خالی کرالیا، اگر انہوں نے روم کے سیہ کار اور جفا پیشہ فرمانرواؤں کو روم کی حکومت سے بے دخل کر دیا، اگر انہوں نے آس پاس کی تمام شیطانی حکومتوں کے تختے الٹ دیے اور ان کی جگہ یہ منصفانہ حکومت قائم کی تو بتاؤ کہ یہ انسانیت پر ظلم تھا یا اس کی خدمت؟ ان کے مقابلہ میں مغرب کے ان جھوٹے مدعیوں کی کیا وقعت ہے جن کو تقویٰ و پرہیز گاری سے واسطہ نہیں، وفائے عہد کی ہوا تک نہیں لگی، عدل و انصاف اور دیانت و امانت سے بُعدِ تام ہے اور بجز ملک گیری کی ہوس، مال و زر کی حرص اور حصولِ اقتدار کی خواہش کے کسی اور جذبہ سے آشنا نہیں ہیں؟

 

ہم کو تسلیم ہے کہ بعد کے زمانوں میں مسلمانوں کی اکثر حکومتوں کا عمل اس اصلِ جہانبانی کے مطابق نہیں رہا ہے جو اسلام نے پیش کیا ہے۔ مگر نقص اسلام کا نہیں اس کے پیروؤں کا ہے۔ اسلام تو ایک قانون ہے جو قرآن اور سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ماخوذ ہے۔ جو حکومت اس قانون کے مطابق عمل کرتی ہے وہ اسلامی حکومت ہے اور جس کا عمل اس کے خلاف ہے وہ اسلامی حکومت نہیں ہے۔ ہمارے لیے مسلمان بادشاہوں کا عمل حجت نہیں ہے بلکہ اسلام کا قانون حجت ہے۔ اس میں اگر کوئی نقص ہو تو اسے پیش کیا جائے۔

 

 اسلامی فتوحات کی اصلی وجہ

 

آئندہ مباحث کی طرف قدم بڑھانے سے پہلے یہاں ایک اور مسئلہ صاف کر دینا ضروری ہے۔ اس کتاب میں بار بار بیان کیا گیا ہے اور آئندہ بھی اس حقیقت کا جگہ جگہ ذکر آئے گا کہ اسلامی شریعت میں ملک گیری کی غرض سے تلوار اٹھانا قطعاً حرام ہے۔ اس پر یہ سوال اٹھتا ہے کہ جب یہ فعل حرام ہے تو آخر صحابہ کرامؓ اور خلفائے راشدینؓ کے ان حملوں کی کیا توجیہ کی جائے گی جو انہوں نے عراق، شام، ایران، ارمینیا، مصر، اور شمالی افریقہ وغیرہ ممالک پر کیے؟ یہ اعتراض مخالفینِ اسلام نے بڑی شد و مد کے ساتھ پیش کیا ہے۔ اور مسلمان مورخین و مصنفین نے اس کے نہایت مفصل جوابات بھی دیے ہیں، لیکن اس پر کسی نے غور نہیں کیا کہ اس معاملے میں اسلام اور غیر مسلموں کے نقطہ نظر میں شدید اختلاف ہے۔ اسی لیے جن لوگوں نے غیر مسلموں کے نقطہ نظر کی رعایت کر کے جواب دیا ہے انہوں نے اسلام کی غلط ترجمانی کی ہے، اور جنہوں نے اس سے بالکل بے پرواہ ہو کر جواب دیا ہے وہ مزید شکوک پیدا کر بیٹھے ہیں۔

 

 اسلام کا معیارِ حکومت: عدل بمقابلہ قومیت

 

حقیقت یہ ہے کہ اسلام حکومت کے معاملے میں "قومی اور اجنبی" کی کوئی تمیز نہیں کرتا بلکہ "عدل اور ظلم" کو وجۂ امتیاز قرار دیتا ہے۔ اگر ایک ملک کی حکومت خود اس کے اپنے باشندوں کے ہاتھ میں ہو لیکن اس کے حکمران بدکار، ظالم، نفس پرست، اور ناخدا ترس ہوں تو اسلام کی نگاہ میں وہ اسی قدر نفرت کے قابل ہیں جس قدر ایک اجنبی حکومت کے ایسے ہی بدکردار عمال ہو سکتے ہیں۔ اس کے برخلاف اگر ایک عجمی عرب پر حکومت کرتا ہے اور تمام امور میں انصاف، امانت، دیانت، اور خدا ترسی کے ساتھ کام کرتا ہے، مظلوموں کی دادرسی کرتا ہے، حق والوں کے حق دلواتا ہے، نخوت و تکبر کا اظہار نہیں کرتا، نفس پروری و غرض پرستی سے احتراز کرتا ہے اور رعیت کی اصلاحِ حال کے سوا کسی ذاتی غرض کے لیے اپنی قوتوں کو استعمال نہیں کرتا، تو اسلام کے نزدیک عرب کے لیے وہ عجمی اس عربی حکمران سے بہتر ہے جو ان صفات سے عاری ہو۔ یہ خیال کہ ظالم عرب عربوں کے لیے عادل عجمی سے بہتر ہے، اور ترک خواہ کتنا ہی نیک اور صالح ہو مگر صرف اس لیے کہ وہ ترک ہے، عراقی اسے قبول نہیں کر سکتے، ایسا خیال ہے جسے اسلام اصلاً غلط اور کلیۃً باطل سمجھتا ہے۔ اس معاملے کو وہ "قومیت اور وطنیت" کی نظر سے نہیں بلکہ خالص "انسانیت" کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ اس کا عقیدہ یہ ہے کہ "صالح" انسان بہر حال "غیر صالح" کے مقابلہ میں قابلِ ترجیح ہے، اور انسانی خوبیوں میں اپنے اور پرائے، وطنی اور اجنبی، ہندی و عراقی، زنگی و فرنگی، کالے اور گورے، کی تمیز کو دخل دینا اندھا تعصب ہے۔

 

اسلام کے اس عقیدہ کے مطابق حکومت کی اچھائی کا معیار نہ اس کا قومی اور خود اختیاری ہونا ہے اور نہ اس کی برائی کا معیار اجنبی یا غیر خود اختیاری ہونا۔ اصل سوال صرف یہ ہے کہ حکومت کا نظام عادلانہ اور حق پرستانہ ہے یا نہیں؟ اگر پہلی صورت ہے تو اسلام اس کو مٹانے کی کوشش تو درکنار، ایسے ارادہ کو بھی گناہ اور ظلمِ عظیم سمجھتا ہے۔ لیکن دوسری صورت میں وہ ایک ظالمانہ نظامِ حکومت کو مٹا کر ایک سچا عادلانہ نظامِ حکومت قائم کرنا اولین فرض قرار دیتا ہے۔ قومی اور اجنبی کے سوال سے اس نے نفیاً یا اثباتاً کوئی تعرض نہیں کیا ہے، جس کے معنی یہ ہیں کہ اس کے نزدیک حکومت کے اچھے یا برے ہونے کے سوال پر اس کے قومی ہونے یا نہ ہونے کا کوئی اثر نہیں ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ غیر قومی حکومت عموماً ظالم و جابر ہوتی ہے، کیونکہ ایک قوم دوسری قوم پر حکومت قائم ہی اس لیے کرتی ہے کہ اسے غلام بنا کر اپنی مصلحت کے لیے استعمال کرے، اور اس کے برعکس قومی حکومت میں اصلاح پذیری کی صلاحیت زیادہ ہوتی ہے۔ لیکن باوجود اس کے یہ ضروری نہیں ہے کہ قومی حکومت ہر حال میں بہتر ہو اور غیر قومی حکومت کسی حال میں عادل نہ ہو۔ ہو سکتا ہے کہ ایک قوم پر خود اس کے اپنے سرکش افراد شیطان کی طرح مسلط ہو جائیں اور اسے اپنی نفسی اغراض کا غلام بنا کر تباہ و برباد کر دیں۔ اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ ایک قوم کو غیر قوم کے نیک نفس اور بے غرض مصلحین ظلم و استبداد کے پنجہ سے رہائی دلائیں اور اس کے لیے مادی و اخلاقی ترقی کی راہیں کھول دیں۔ پس حکومت کی خوبی کا اصلی معیار اس کا عادل و صالح ہونا ہے اور اس کی برائی کا اصلی معیار غیر عادل اور غیر صالح ہونا۔

 

اس سے یہ مطلب نکالنا صحیح نہیں ہے کہ اسلام قومی حکومت کا دشمن ہے۔ وہ ہر قوم کے اس حق کو تسلیم کرتا ہے کہ وہ اپنے احوال کی اصلاح خود کرے۔ مگر جب کسی قوم کے اعمال بگڑ جائیں، اس کی اخلاقی حالت خراب ہو جائے اور وہ اپنے شریر و مفسد لوگوں کی پیروی و اطاعت اختیار کر کے ذلت و مسکنت کی پستیوں میں گر جائے، تو اسلام کے نزدیک اس قوم کو حکومتِ خود اختیاری کا حق باقی نہیں رہتا اور دوسرے لوگوں کو جو اس کے مقابلہ میں اصلح ہوں اس پر حکومت کرنے کا حق حاصل ہو جاتا ہے۔ قرآنِ حکیم میں نافرمان اور بدکار قوموں کو جگہ جگہ یہ دھمکی دی گئی ہے کہ:

 

وَاِنۡ تَتَوَلَّوۡا يَسۡتَبۡدِلۡ قَوۡمًا غَيۡرَكُمۡۙ ثُمَّ لَا يَكُوۡنُوۡۤا اَمۡثَالَـكُم (محمد : ۳۸)

 

"اگر تم حق سے منہ پھیرو گے تو اللہ تمہارے بدلے دوسری قوم کو کھڑا کرے گا اور وہ لوگ تم جیسے نہیں ہوں گے۔"

 

اِلَّا تَنۡفِرُوۡا يُعَذِّبۡكُمۡ عَذَابًا اَلِيۡمًا ۙ وَّيَسۡتَبۡدِلۡ قَوۡمًا غَيۡرَكُمۡ وَلَا تَضُرُّوۡهُ شَيۡـًٔـا (التوبہ : ٣٩)

 

"اگر تم راہِ الٰہی میں جہاد کے لیے نہ نکلو گے تو اللہ تمہیں دردناک عذاب میں مبتلا کرے گا اور تمہارے بدلے دوسری قوم کو کھڑا کر دے گا اور تم اس کا کچھ نہ بگاڑ سکو گے۔"

 

اِنۡ يَّشَاۡ يُذۡهِبۡكُمۡ اَيُّهَا النَّاسُ وَيَاۡتِ بِاٰخَرِيۡنَ‌ (النساء: ۱۳۳)

 

"لوگو! اگر خدا چاہے تو تمہیں ہٹا دے اور دوسرے لوگوں کو تمہاری جگہ لے آئے۔"

 

اس معنی کی آیات قرآن میں بکثرت آئی ہیں اور ان سب کا منشا یہ ہے کہ حکومت اور بادشاہی کا حق صلاحیت کے ساتھ مشروط ہے۔ جو قوم صلاحیت کھو دیتی ہے وہ اس حق کو بھی کھو دیتی ہے اور جو صلاحیت اپنے اندر پیدا کر لیتی ہے وہ اس حق کو بھی حاصل کر لیتی ہے۔ اس صلاحیت کو محض قوت و طاقت کا ہم معنی نہ سمجھو۔ یہ جوہرِ خاص ان لوگوں کے لیے مخصوص ہے جو ایک خدا کی بندگی کرتے ہیں، برے اعمال سے روکتے ہیں، اچھے اعمال کا حکم دیتے ہیں، ہر عملِ خیر کے انجام دینے پر مستعد رہتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ ایک دن انہیں اپنے اعمال کا پورا پورا حساب دینا پڑے گا:

 

يُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰهِ وَالۡيَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَيَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَيَنۡهَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡكَرِ وَيُسَارِعُوۡنَ فِى الۡخَيۡرٰتِ وَاُولٰٓٮِٕكَ مِنَ الصّٰلِحِيۡنَ (آل عمران: ۱۱۴)

 

یہ صالح لوگ کسی ایک قوم یا ایک ملک کی جائداد نہیں ہیں بلکہ تمام نوعِ بشری اور کائناتِ انسانی کی مشترک جائداد ہیں۔ آدم کی ساری اولاد کو ان کی صلاحیت سے فائدہ اٹھانے کا حق ہے۔ اور اگر وہ اپنی خدمات کو بلا ضرورت کسی محدود جماعت یا رقبہ کے لیے مخصوص کر دیں تو یقیناً یہ انسانیت پر ان کا ظلم ہو گا۔ اسلام نے ان کے لیے رنگ یا نسل یا جغرافی تقسیم کے قبیل سے کوئی حد مقرر نہیں کی ہے، بلکہ بلا قید تمام روئے زمین کے لیے ان کی قابلیتوں کے فوائد کو عام کر دیا ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں بتصریح ارشاد ہوتا ہے:

 

وَلَقَدۡ كَتَبْنَا فِى الزَّبُوۡرِ مِنۡۢ بَعۡدِ الذِّكۡرِ اَنَّ الۡاَرۡضَ يَرِثُهَا عِبَادِىَ الصّٰلِحُوۡنَ (الانبیاء : ۱۰۵)

 

"ہم نے زبور میں نصیحت کے بعد لکھ دیا کہ "زمین" کے وارث میرے صالح بندے ہوں گے۔"

 

 اسلامی فتوحات کی اصل روح

 

یہ حکومت و سلطنت کے متعلق اسلامی تعلیم کی اصلی روح ہے۔ اس کو سمجھ لینے کے بعد صحابہ کرامؓ کے ان فاتحانہ اقدامات کی علت بآسانی سمجھ میں آسکتی ہے جن سے انہوں نے قیصر و کسریٰ کی بادشاہی کے تخت الٹ دیے اور باطل کی فرمانروائی کے سارے طلسم کو درہم برہم کر دیا۔ انہوں نے اپنے ملک کی اصلاح سے فارغ ہو کر جب باہر کی دنیا پر نظر دوڑائی تو دیکھا کہ تمام ہمسایہ ممالک پر ظالم بادشاہ اور جابر امراء مسلط ہیں۔ قوت والے نے کمزوروں کو غلام بنا لیا ہے۔ دولت والوں نے غریبوں کو خرید رکھا ہے۔ انسان، انسان کا خدا بن گیا ہے۔ عدل، انصاف، قانون کوئی چیز نہیں ہے۔ بادشاہوں اور حاکموں کی چشم و ابرو کے اشارے پر لوگوں کے حقوق پامال ہوتے ہیں، عزتیں لٹتی ہیں، گھر برباد ہوتے ہیں اور قوموں کی قسمتوں کے فیصلے ہوتے ہیں۔ غریب محنتی لوگ اپنا خون پسینہ ایک کر کے جو دولت کماتے ہیں وہ طرح طرح کی زیادتیوں سے لوٹی جاتی ہے اور امراء کی عیش پسندیوں میں اڑا دی جاتی ہے۔ حاکم لوگ خود پرلے درجے کے سیہ کار، بد عمل اور ہوس پرست ہیں، اس لیے رعیت بھی ہر قسم کی معصیتوں میں مبتلا ہے۔ شراب، زنا اور جوئے کی عام اجازت ہے، رشوت اور خیانت کا بازار گرم ہے۔ نفس کی شرارتوں نے اخلاق و انسانیت کی تمام قیود کو توڑ دیا ہے۔ بہیمی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے انسان کسی قید سے آشنا نہیں رہا اور اس کے اخلاق کی دناءت اس حد کو پہنچ گئی ہے کہ اگر تمدن کی اوپری شان و شوکت کے پردے اٹھا کر اسے دیکھا جائے تو حیوانوں کو بھی اس کی حیوانیت پر شرم آنے لگے۔¹

 

¹ ایران، روم اور مصر وغیرہ ممالک اس وقت سیاسی، اخلاقی اور مذہبی حیثیت سے جس پستی کی حالت میں تھے اس کے ذکر سے تاریخ کی کتابیں بھری پڑی ہیں۔ حرام کاری میں باپ بیٹی، اور بھائی بہن تک کی تمیز نہ تھی۔ مذہبی پیشوا تک بد ترین اخلاقی جرائم کا ارتکاب کرتے تھے۔ ایران میں مزدکی مذہب نے سوسائٹی کے سارے نظام کو درہم برہم کر دیا تھا۔ روم میں امراء اور قیاصرہ کی نفس پرستیوں نے اخلاقی تنزل انتہا کو پہنچا دیا تھا۔ مصر و افریقہ کو رومیوں کی غلامی نے بدترین خصائل کا مجموعہ بنا دیا تھا۔ خود عرب سے متصل شام و عراق میں ان دونوں سلطنتوں کے اثرات نے مفاسدِ اخلاقی کا ایک طوفان برپا کر رکھا تھا۔ ان حالات کی تفصیل کے لیے میں اسلامی تاریخوں کے بجائے سر جان میلکم اور ایڈورڈ گبن وغیرہ یورپین محققین کی تصانیف پڑھنے کا مشورہ دیتا ہوں۔ لیکی کی "ہسٹری آف یورپین مارلس" خصوصیت کے ساتھ اس عہد کے رومیوں کی اخلاقی حالت ظاہر کرتی ہے۔

 

انسانی برادری کو اس ذلیل حالت میں مبتلا دیکھ کر صالحین کی وہ سرفروش جماعت اصلاح کے لیے کمربستہ ہو گئی۔ پہلے اس نے وعظ و تذکیر سے کام لیا اور کسریٰ عجم، قیصرِ روم، مقوقسِ مصر کو دعوت دی کہ اسلام کے قانونِ عدل و حق پرستی کو اختیار کریں۔ جب انہوں نے اس دعوت کو رد کر دیا تو پھر مطالبہ کیا کہ حکومت و فرماں روائی کی مسند کو ان لوگوں کے لیے خالی کر دیں جو اس کے اہل ہیں۔ مگر جب اس مطالبہ کو بھی رد کر دیا گیا اور اس کے جواب میں تلوار پیش کی گئی تو مٹھی بھر انسانوں کی اس بے سروسامان جماعت نے اٹھ کر بیک وقت دو عظیم الشان سلطنتوں کے تختے الٹ دیے اور سرحدِ ہندوستان سے لے کر شمالی افریقہ تک جو لوگ ان کے ظلم سے پامال ہو رہے تھے ان سب کو یک لخت آزاد کر دیا۔

 

تمہیں اختیار ہے کہ ان کے اس فعل کو جہانگیری سے تعبیر کرو یا زیادتی اور تعدی قرار دو۔ مگر تاریخ کے اس بیان کو تم نہیں جھٹلا سکتے کہ ان کی حکومت نے ان قوموں کو اس پستی سے نکالا جس میں وہ گری ہوئی تھیں۔ انہیں مادی، اخلاقی اور روحانی ترقی کی معراج پر پہنچایا اور جو ملک تہذیب و تمدن کے لیے بالکل بنجر ہو گئے تھے ان میں نئے سرے سے نمو اور روئیدگی کی وہ قوتیں پیدا کیں کہ آج تک عالمِ انسانی میں ان کے گلزار کی مہک باقی ہے۔ قوم پرستی کا مذہب تو شاید یہی فیصلہ کرے کہ ایران و روم چاہے مٹ جاتے مگر عرب کو ان پر حملہ کرنے کا حق نہیں تھا، لیکن صداقت کا مذہب یہ کہتا ہے کہ انہوں نے اس طرح انسانیت کی سب سے بڑی خدمت انجام دی، اور درحقیقت یہ دنیا کی بدقسمتی تھی کہ اس کا ایک بڑا حصہ اس جماعت کی خدمت سے محروم رہ گیا جس سے زیادہ "صالح" جماعت سورج کی آنکھ نے زمین کے چہرے پر کبھی نہیں دیکھی۔

 

 باب چہارم: اشاعتِ اسلام اور تلوار

 

 تمہید

 

اسلامی جنگ کے مقاصد کی اس توضیح میں، جو سراسر قرآنِ مجید، احادیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور معتبر کتبِ دینیہ کی تصریحات پر مبنی تھی، قارئینِ کرام نے دیکھ لیا کہ کسی جگہ بھی غیر مسلموں کو بزورِ شمشیر مسلمان کرنے کا حکم نہیں ہے، بلکہ کسی حکم میں یہ معنی نکالنے کی بھی گنجائش نہیں ہے کہ اسلام تلوار کے زور سے لوگوں کو اپنی حقانیت کا اقرار کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ اسلام کے احکامِ جنگ میں ایسے کسی حکم کا موجود نہ ہونا بجائے خود اس الزام کی تردید کرتا ہے، جو مخالفین نے اس پر لگایا ہے۔ لیکن متعصب مصنفوں اور ان کے جاہل مقلدوں نے اس معاملے میں دنیا کو جس قدر دھوکہ دیا ہے اور جس کثرت کے ساتھ غلط فہمیاں پھیلائی ہیں اس کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس مسئلہ کے متعلق بھی اسلام کے اصول و احکام کو پوری وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا جائے۔

 

 جنگ کی حدود قرآن کی روشنی میں

 

قرآنِ مجید کی جن آیات میں احکامِ جنگ کی تشریح کی گئی ہے ان میں جنگ و خونریزی کی غرض و غایت بتلانے کے ساتھ اس کی ایک حد بھی مقرر کر دی گئی ہے اور اس سے آگے بڑھنے کو ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ یہ حد ایک دو جگہ نہیں بلکہ متعدد مقامات پر نہایت روشن طریقے سے کھینچی گئی ہے۔ چنانچہ سورہ بقرہ میں مسلمانوں کو قتال کا حکم دیتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے:

 

وَقَاتِلُوۡهُمۡ حَتّٰى لَا تَكُوۡنَ فِتۡنَةٌ وَّيَكُوۡنَ الدِّيۡنُ لِلّٰهِ‌ ۚ (البقرہ: ۱۹۳)

 

"ان سے جنگ کرو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین صرف اللہ کے لیے ہو جائے۔"

 

یہاں "حتّٰی" کے لفظ نے ایک حد کھینچ دی ہے کہ جب تک فتنہ باقی رہے اور دین کی ترقی کے راستے میں رکاوٹیں ہیں اس وقت تک جنگ کی جائے، اور جب یہ دونوں چیزیں دور ہو جائیں تو پھر حرب و قتال کا دروازہ بند کر دیا جائے، چنانچہ آگے چل کر فرمایا:

 

فَاِنِ انْتَهَوْا فَلَا عُدْوَانَ اِلَّا عَلَى الظّٰلِمِيْنَ (البقرہ: ۱۹۳)

 

"اگر وہ (فتنہ برپا کرنے سے) باز آجائیں تو جان لو کہ ظالموں کے سوا اور کسی پر زیادتی روا نہیں ہے۔"

 

سورہ مائدہ میں اس سے بھی زیادہ واضح الفاظ میں بتلایا ہے کہ انسانی جان کس صورت میں حرام ہے اور کس صورت میں حلال:

 

مَنۡ قَتَلَ نَفۡسًۢا بِغَيۡرِ نَفۡسٍ اَوۡ فَسَادٍ فِى الۡاَرۡضِ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيۡعًا (المائدہ: ۳۲)

 

"جو کوئی کسی جان کو قتل کرے بغیر اس کے کہ اس نے کسی کی جان لی ہو، یا زمین میں فساد برپا کیا ہو تو گویا اس نے تمام انسانوں کا خون کر دیا۔"

 

اس سے معلوم ہوا کہ انسان کو صرف دو صورتوں میں قتل کیا جا سکتا ہے۔ ایک یہ کہ اس نے کسی دوسرے انسان کو ناحق قتل کیا ہو اور دوسرے یہ کہ اس نے زمین میں فساد پھیلایا ہو۔ ان دو صورتوں کے علاوہ کسی تیسری صورت میں اسے قتل کرنا صرف ناجائز ہی نہیں بلکہ اتنا بڑا گناہ ہے کہ رب العالمین اسے تمام دنیا کے قتل کر دینے کے برابر سمجھتا ہے۔

 

سورہ توبہ میں جنگ و قتال کی آخری حد ادائے جزیہ کو قرار دیا ہے، چنانچہ فرمایا:

 

حَتّٰى يُعۡطُوا الۡجِزۡيَةَ عَنۡ يَّدٍ وَّهُمۡ صٰغِرُوۡنَ (التوبہ: ۲۹)

 

"ان سے لڑو یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں اور اطاعت قبول کر لیں۔"

 

اس سے معلوم ہوا کہ جب کفار جزیہ ادا کر کے احکامِ اسلامی کے اجراء پر رضامند ہو جائیں تو ان سے جنگ نہیں کی جاسکتی اور اجازتِ قتال کی حد ختم ہو جاتی ہے۔

 

سورہ شوریٰ میں ایک جامع اصول بیان فرمایا ہے جو ایسے لوگوں کے خلاف جنگ و قتال کی کوئی گنجائش ہی باقی نہیں چھوڑتا ہے جو بندگانِ خدا پر ظلم نہیں کرتے اور زمین میں ناحق سرکشی نہیں کرتے:

 

لَمَنِ انْتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِهٖ فَاُولٰٓٮِٕكَ مَا عَلَيْهِمْ مِّنْ سَبِيْلٍؕ ۞ اِنَّمَا السَّبِيْلُ عَلَى الَّذِيْنَ يَظْلِمُوْنَ النَّاسَ وَيَبْغُوْنَ فِى الْاَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّؕ اُولٰٓٮِٕكَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ‏ (الشوریٰ: ۴۱-۴۲)

 

"اور جو کوئی اپنے اوپر ظلم کیے جانے کے بعد بدلہ لے اس پر کوئی راہ نہیں ہے۔ راہ صرف ان پر ہے جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور زمین میں ناحق سرکشی کرتے ہیں، ایسے لوگوں کے لیے دردناک سزا ہے۔"

 

سورہ ممتحنہ میں اس امر کی تصریح کر دی ہے کہ مسلمانوں کی دشمنی صرف انہی کفار کے ساتھ ہے جو دینِ حق اور پیروانِ دینِ حق کے دشمن ہیں اور جو لوگ ایسے نہیں ہیں ان سے نیکی و احسان کرنے اور ان کے ساتھ منصفانہ برتاؤ کرنے سے کوئی چیز مسلمانوں کو نہیں روکتی:

 

لَا يَنْهٰٮكُمُ اللّٰهُ عَنِ الَّذِيْنَ لَمْ يُقَاتِلُوْكُمْ فِى الدِّيْنِ وَلَمْ يُخْرِجُوْكُمْ مِّنْ دِيَارِكُمْ اَنْ تَبَرُّوْهُمْ وَتُقْسِطُوْۤا اِلَيْهِمْ ؕ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَ‏ ۞ اِنَّمَا يَنْهٰٮكُمُ اللّٰهُ عَنِ الَّذِيْنَ قٰتَلُوْكُمْ فِى الدِّيْنِ وَاَخْرَجُوْكُمْ مِّنْ دِيَارِكُمْ وَظٰهَرُوْا عَلٰٓى اِخْرَاجِكُمْ اَنْ تَوَلَّوْهُمْ ۚ وَمَنْ يَّتَوَلَّهُمْ فَاُولٰٓٮِٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ (الممتحنة: ۸-۹)

 

"اللہ تمہیں اس سے منع نہیں کرتا کہ جن لوگوں نے تم سے دین کے معاملے میں جنگ نہیں کی اور تمہیں گھروں سے نہیں نکالا، ان کے ساتھ احسان اور انصاف کرو، کیونکہ اللہ انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔ اللہ تو تمہیں صرف ان لوگوں کے ساتھ دوستی کرنے سے روکتا ہے جنہوں نے تم سے دین کے معاملے میں جنگ کی ہے اور تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا ہے اور تمہیں نکالنے میں دشمنوں کی مدد کی ہے، انہیں جو کوئی دوست بنائے وہ ظالم ہے۔"

 

ان احکام کا مطلب اس قدر واضح ہے کہ اس کے لیے کسی تشریح کی ضرورت نہیں ہے۔ ان سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی جنگ کا اصلی مقصد لوگوں کو زبردستی مسلمان بنانا نہیں ہے بلکہ انہیں ظلم و سرکشی اور فتنہ و فساد سے روک کر قانونِ خدا کا تابع بنا دینا ہے۔

 

اسلام کی تلوار ایسے لوگوں کی گردنیں کاٹنے کے لیے تو ضرور تیز ہے جو اسلام اور مسلمانوں کو مٹانے کی کوشش کرتے ہیں یا اللہ کی زمین میں فتنہ و فساد پھیلاتے ہیں... اور کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اس تیزی میں وہ حق بجانب نہیں ہے... لیکن جو لوگ ظالم نہیں ہیں، جو بدکار نہیں ہیں، جو صدّ عَنْ سَبِیلِ اللہ نہیں کرتے، جو دینِ حق کو مٹانے اور دبانے کی کوشش نہیں کرتے، جو خلقِ خدا کے امن و اطمینان کو غارت نہیں کرتے، وہ خواہ کسی قوم سے تعلق رکھتے ہوں اور ان کے دینی عقائد خواہ کتنے ہی باطل ہوں، اسلام ان کی جان و مال سے کچھ تعرض نہیں کرتا۔ ان کے لیے اس کی تلوار کند ہے اور اس کی نظروں میں ان کا خون حرام ہے۔

 

 لا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ: دین میں کوئی جبر نہیں

 

حدودِ جنگ کی یہ تعیین بجائے خود فیصلہ کن ہے۔ لیکن کتابِ الٰہی کا کمالِ وضاحت یہ ہے کہ اس نے صرف دلالۃً ہی اس مسئلہ میں ہماری ہدایت کرنے پر قناعت نہیں کی بلکہ صراحۃً بھی ہم کو بتا دیا کہ اسلام کی تبلیغ میں جبر و اکراہ کا کوئی دخل نہیں ہے۔ چنانچہ سورۂ بقرہ میں صاف فرمایا ہے:

 

لَاۤ اِكۡرَاهَ فِى الدِّيۡنِ‌ قَد تَّبَيَّنَ الرُّشۡدُ مِنَ الۡغَىِّ‌ ۚ فَمَنۡ يَّكۡفُرۡ بِالطَّاغُوۡتِ وَيُؤۡمِنۡۢ بِاللّٰهِ فَقَدِ اسۡتَمۡسَكَ بِالۡعُرۡوَةِ الۡوُثۡقٰى لَا انْفِصَامَ لَهَا‌ ۚ وَاللّٰهُ سَمِيۡعٌ عَلِيۡمٌ (البقرہ: ۲۵۶)

 

"دین میں کوئی زبردستی نہیں ہے، سیدھی راہ غلط راستے سے ممتاز کر کے دکھائی جا چکی ہے۔ اب جو کوئی طاغوت (معبودانِ باطل) کو چھوڑ کر اللہ پر ایمان لے آئے وہ ایک ایسے مضبوط رشتے سے تعلق جوڑتا ہے جو ٹوٹنے والا نہیں ہے، اور اللہ سننے اور جاننے والا ہے۔"

 

 شانِ نزول

 

اس حکم کے الفاظ بالکل صاف ہیں۔ لیکن یہ جس موقع پر اترا ہے اسے پیشِ نظر رکھنے کے بعد اس کا مدعا اور بھی زیادہ صاف ہو جاتا ہے۔ اہلِ یثرب کا قاعدہ تھا کہ جب ان میں سے کسی عورت کے بچے زندہ نہ رہتے تو وہ منت مانتی کہ اگر میرا کوئی بچہ زندہ رہے گا تو اس کو یہودی بناؤں گی۔ مدینہ میں اس طریقے سے انصار کے بہت سے بچے یہودی بنا دیے گئے تھے۔ جب ۴ ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو نضیر کو ان کی حرکات کی وجہ سے جلاوطن کیا تو ان میں انصار کے وہ بچے بھی شامل تھے جو یہودی مذہب کے پیرو تھے۔ انصار نے کہا کہ ہم اپنے بچوں کو نہیں چھوڑیں گے۔ ہم نے ان کو اس وقت یہودی بنایا تھا جب ہم ان کے دین کو اپنے دین سے بہتر سمجھتے تھے۔ مگر اب جب کہ اسلام کا آفتاب طلوع ہو چکا ہے اور تمام ادیان سے افضل دین ہمارے پاس ہے تو ہم اپنے بچوں کو یہودی نہ رہنے دیں گے اور انہیں اسلام پر مجبور کریں گے۔ اس پر یہ حکم نازل ہوا کہ لَآ اِكْرَاهَ فِى الدِّيْنِ (دین میں کوئی جبر نہیں ہے)، انہیں جبراً مسلمان نہ بناؤ کیونکہ دین میں اکراہ نہیں ہے۔ اس واقعہ کو الفاظ و مضمون کے جزوی اختلاف کے ساتھ ابوداؤد اور نسائی نے اور ابن ابی حاتم اور ابن حیان نے نقل کیا ہے، اور مجاہد، سعید بن جبیر، شَعبی اور حسن بصری نے بالاتفاق کہا ہے کہ اس آیت کا شانِ نزول یہی ہے۔ ابن جریر نے بھی اپنی تفسیر میں اسے بیان کیا ہے اور ابن کثیر نے اسی شانِ نزول پر اعتماد کیا ہے۔

 

محمد ابن اسحاق نے حضرت ابن عباسؓ کے حوالے سے ایک دوسری روایت بیان کی ہے جس کا مفاد یہ ہے کہ انصار میں سے ایک شخص کے دو بیٹے نصرانی تھے، اس نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی کہ میرے بیٹے نصرانیت کو چھوڑنے پر راضی نہیں ہوتے، کیا میں انہیں مجبور کر سکتا ہوں؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ لَآ اِكْرَاهَ فِى الدِّيْنِ۔ یہ واقعہ اگرچہ پچھلے واقعہ سے مختلف ہے لیکن مدعا دونوں کا ایک ہی ہے، اور جیسا کہ علامہ ابن کثیر نے اپنی مشہور و مستند تفسیر میں لکھا ہے، اس شانِ نزول کی روشنی میں اسلام کی تعلیم صاف یہ معلوم ہوتی ہے کہ:

 

لا تكرهوا أحداً على الدخول في دين الإسلام، فإنه بيّن واضح جليّ دلائله وبراهينه، لا يحتاج إلى أن يكره أحد على الدخول فيه، بل من هداه الله للإسلام وشرح صدره ونوّر بصيرته دخل فيه على بيّنة، ومن أعمى الله قلبه وختم على سمعه وبصره فإنه لا يفيده الدخول في الدين مكرهاً مقسوراً.

 

"کسی شخص کو دینِ اسلام میں داخل ہونے پر مجبور نہ کرو کیونکہ وہ اس قدر بیّن و واضح ہے اور اس کے دلائل و براہین اس قدر روشن ہیں کہ کسی شخص کو اس میں داخل ہونے پر مجبور کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ اللہ نے جس شخص کو ہدایت دی ہے اور جس کا سینہ قبولِ حق کے لیے کھول دیا ہو اور جس کو بصیرت کا نور عطا کیا ہو وہ دلیلِ واضح کی بنا پر اسے خود اختیار کرے گا۔ اور جس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا ہو اور سماعت و بینائی پر مہر کر دی ہو، اس کا مارے باندھے دین میں داخل ہونا بے کار ہے۔"

 

زمخشری نے اپنی تفسیر کشاف میں بھی اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے اس قول کی تائید کی ہے۔ چنانچہ لکھتا ہے:

 

لم يجر الله أمر الإيمان على الإجبار والقسر، ولكن على التمكن والاختيار، ونحوه قوله: {ولو شاء ربك لآمن من في الأرض كلهم جميعاً أفأنت تكره الناس حتى يكونوا مؤمنين} أي: لو شاء لقسرهم على الإيمان، ولكن لم يفعل وبنى الأمر على الاختيار۔

 

"اللہ نے ایمان کے معاملے میں جبر و زبردستی کو دخل نہیں دیا ہے بلکہ اسے تمکّن و اختیار پر چھوڑ دیا ہے۔ اسی مضمون کو یہ ارشاد بھی واضح کرتا ہے کہ {وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ لَآمَنَ...الخ} "اگر تیرا رب چاہتا تو تمام روئے زمین کے باشندے ایمان لے آتے، کیا تو لوگوں کو مجبور کرے گا کہ وہ ایمان لائیں؟" اگر اللہ کی مصلحت یہی ہوتی کہ لوگوں کو جبراً مسلمان بنایا جائے تو وہ خود ہی لوگوں کو ایمان پر مجبور کر دیتا، مگر اس نے ایسا نہیں کیا اور سارا معاملہ لوگوں کے اختیار پر ہی رکھا۔"

 

امام رازی اپنی تفسیر میں اسی آیت کے متعلق ابو مسلم اصفہانی اور قفّال کا یہ قول نقل کرتے ہیں:

 

"اس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے دین کا معاملہ جبر اور سختی پر نہیں رکھا بلکہ تمکّن اور اختیار پر رکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جب توحید کے دلائل ایسے شافی اور قاطع طریقے سے بیان کر دیے کہ عذر کی گنجائش نہ رہی تو اس نے فرمایا کہ ان دلائل کی توضیح کے بعد کسی کافر کے لیے کفر پر قائم رہنے کی کوئی وجہ باقی نہیں رہی ہے، اب بھی اگر وہ ایمان نہ لائے تو اس کو قائل کرنے کی صرف یہی صورت باقی رہ گئی ہے کہ اسے بزور اس پر مجبور کیا جائے، مگر یہ اس دنیا میں جو امتحان و آزمائش کا گھر ہے، جائز نہیں ہے۔ کیونکہ قہر و اکراہ سے دین پر مجبور کرنا امتحان کے مقصد کو باطل کر دیتا ہے۔ اس کی نظیر اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے کہ فَمَنْ شَاءَ فَلْيُؤْمِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْيَكْفُرْ (اب جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر پر قائم رہے)۔ اور ایک دوسری جگہ وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ لَآمَنَ مَنْ فِي الْأَرْضِ كُلُّهُمْ جَمِيعًا أَفَأَنْتَ تُكْرِهُ النَّاسَ حَتَّى يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ (سورۃ یونس: ۹۹) (اگر تیرا رب چاہتا تو تمام روئے زمین کے لوگ ایمان لے آتے، کیا تو لوگوں کو مجبور کرے گا کہ مومن بن جائیں؟) اور سورہ شعراء میں فرمایا لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ أَلَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ ۞ إِنْ نَشَأْ نُنَزِّلْ عَلَيْهِمْ مِنَ السَّمَاءِ آيَةً فَظَلَّتْ أَعْنَاقُهُمْ لَهَا خَاضِعِينَ (الشعراء: ۳-۴) (شاید تو اس رنج میں گھل گھل کر جان دے دے گا کہ وہ ایمان نہیں لاتے۔ اگر ہم چاہیں تو ان پر آسمان سے ایک ایسی نشانی اتار دیں کہ اس کے آگے ان کی گردنیں جھک جائیں مگر ہم ایسا نہیں کرتے)۔"

 

خود امام رازی اس قول کی تائید میں لکھتے ہیں:

 

وما يؤكد هذا القول أنه تعالى قال بعد هذه الآية {قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ} ظهرت الدلائل ووضحت البينات ولم يبق بعدها إلا طريق القسر والإلجاء والإكراه، وذلك غير جائز لأنه ينافي التكليف۔

 

"اس قول کو یہ بات اور بھی زیادہ مضبوط کر دیتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے بعد ہی فرمایا "ہدایت، گمراہی سے ممتاز کر کے دکھائی جا چکی ہے" یعنی دلیلیں ظاہر کر دی گئیں، حجتیں کھول کھول کر بیان کر دی گئیں، اب صرف جبر و زور اور اکراہ کا طریقہ باقی رہ گیا ہے، سو وہ جائز نہیں ہے۔ کیونکہ وہ ذمہ داری (تکلیف) کے منافی ہے۔"

 

 نسخ کا دعویٰ اور اس کا رد

 

اس میں شک نہیں کہ اس آیت کے مفہوم میں بہت کچھ کلام بھی کیا گیا ہے۔ مثلاً بعض لوگ اس کو منسوخ کہتے ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ اس کا حکم صرف اہلِ کتاب کے لیے ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ وہ صرف انصار کے حق میں ہے۔ اور بعض نے حد سے گزر کر کلامِ الٰہی کے ساتھ یہ مذاق بھی کیا ہے کہ "دین میں کوئی زبردستی نہیں ہے"، یعنی تلوار کے پیچھے بھی کسی نے اسلام قبول کیا تو یہ نہ کہو کہ اس نے باکراہ قبول کیا! لیکن یہ اقوال صرف کتابوں تک محدود ہیں، عمل کی دنیا میں انہوں نے ۱۳ سو برس کی طویل مدت کے اندر کبھی قدم نہیں رکھا الا یہ کہ دو ایک شاذ واقعات ہوں جن سے کوئی اصول نہیں بنتا۔ اگر حقیقت میں اسلام کی تعلیم یہی ہوتی کہ قبولِ اسلام پر لوگوں کو بزورِ شمشیر مجبور کیا جا سکتا ہے تو گزشتہ ۱۳ صدیوں میں کم از کم ایک ہی مرتبہ ملتِ اسلامیہ اس تعلیم کے مطابق لوگوں کو جبراً مسلمان بناتی، لیکن صرف یہی نہیں کہ آج تک کبھی ایسا نہیں ہوا بلکہ خلافتِ راشدہ کے عہدِ مبارک میں بھی، جب کہ اسلام اپنی اصلی شان میں جلوہ گر تھا، اور خود سرکارِ رسالتمآب صلی اللہ علیہ وسلم کے مقدس عہدِ حکومت میں بھی جو قرآن اور اس کی تعلیم کی عملی تفسیر تھا، کبھی اس پر عمل نہیں کیا گیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بارہا کفار پر قدرت حاصل ہوئی اور ان کی بڑی بڑی جماعتیں آپ کے قبضہ میں آئیں، لیکن آپ نے ان کی گردنوں میں زبردستی اسلام کا پھندا بھی نہیں ڈالا بلکہ اپنی پاک تعلیم سے صرف ان کے دلوں کی گندگی ہی دور کرنے پر قناعت کی۔ دعوتِ اسلام کے لیے جو سرایا آپ بھیجتے ان کو تاکید فرمایا کرتے کہ لوگوں پر سختی نہ کرنا۔

 

ابو موسیٰ اشعریؓ اور معاذ بن جبلؓ کو یمن بھیجا تو فرمایا: يَسِّرَا وَلَا تُعَسِّرَا، بَشِّرَا وَلَا تُنَفِّرَا (نرمی کرنا سختی نہ کرنا، خوش کرنا نفرت نہ دلانا)۔

 

مکۂ معظمہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فاتحانہ داخلہ ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کافروں کو، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خون کے پیاسے تھے، لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ، اذْهَبُوا فَأَنْتُمُ الطُّلَقَاءُ کہہ کر آزاد چھوڑ دیا اور کسی کو قبولِ اسلام پر مجبور نہ کیا۔ (ان طلقاء میں سے دو ہزار آدمی آپ کے ساتھ غزوہ حنین میں اپنی مرضی سے شریک ہوئے)۔ نواحِ مکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو جماعتیں دعوتِ اسلام کے لیے بھیجیں انہیں قتال سے منع فرما دیا، چنانچہ علامہ ابن جریر لکھتے ہیں کہ بَعَثَ النَّبِيُّ ﷺ فِيمَا حَوْلَ مَكَّةَ السَّرَايَا تَدْعُوهُمْ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَلَمْ يَأْمُرْهُمْ بِالْقِتَالِ۔ قبیلہ بنی جذیمہ میں جب حضرت خالدؓ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت کے بغیر کشت و خون کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے علانیہ اظہارِ براءت کیا اور اس قبیلہ کے کتوں تک کی دیت ادا کی۔ یہ صرف چند مثالیں ہیں ورنہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری زندگی میں ایک واقعہ بھی ایسا نہیں ملتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی شخص کو قتل کی دھمکی دے کر قبولِ اسلام پر مجبور کیا ہو۔ یہ اس امر کا بیّن ثبوت ہے کہ لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ کے وہی معنی ہیں جو ظاہر الفاظ سے بصراحت معلوم ہوتے ہیں۔ ورنہ قرآنِ مجید کا کوئی حکم ایسا نہیں ہے جس پر عمل کر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں ایک مثال قائم نہ کر دی ہو۔

 

اس سلسلہ میں ایک حدیث پیش کی جاتی ہے جو امام احمدؒ نے حضرت انسؓ کے حوالے سے روایت کی ہے۔ اس میں بیان کیا گیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے فرمایا: أَسْلِمْ، "اسلام قبول کرلے۔" اس نے عرض کی کہ إِنِّي أَجِدُنِي كَارِهًا، "اپنے اندر کچھ کراہت محسوس کرتا ہوں۔" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وَإِنْ كُنْتَ كَارِهًا، اللهُ سَيَرْزُقُكَ حُسْنَ النِّيَّةِ وَالْإِخْلَاصِ، "اس کراہت کے باوجود قبول کر لے، پھر اللہ تجھے حُسنِ نیت اور اخلاص بھی بخش دے گا۔" تعجب ہے کہ اس حدیث کو اکراہ کے ثبوت میں کیونکر پیش کیا جاسکتا ہے، حالانکہ اس میں "مُکرَہًا" کا لفظ نہیں بلکہ "کَارِہًا" کا لفظ استعمال ہوا ہے اور اس سے وہ کراہتِ نفس مراد لی گئی ہے جو پوری آمادگی نہ ہونے کی ہم معنی ہے۔ اس سے یہ کب ثابت ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو زبردستی کا حلقہ بگوش بنایا؟

 

قائلینِ نسخ کے پاس اپنے دعوے کے لیے اس کے سوا کوئی دلیل نہیں ہے کہ وہ اس آیت کو احکامِ قتال کی آیات سے تطبیق نہیں دے سکتے، ورنہ کوئی صحیح روایت اس کے نسخ کی تائید نہیں کرتی۔ قطع نظر اس بحث کے کہ کسی آیتِ قرآنی کے نسخ کا دعویٰ کرنے کے لیے کن دلائل کی ضرورت ہے، ہم صرف یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ اس آیت کا نسخ عہدِ رسالت کے بعد کی ایجاد ہے۔ عہدِ رسالت کے اکابر صحابہؓ اس سے واقف نہ تھے۔ اگر اس زمانہ میں بھی لوگوں کو اس کا علم ہوتا تو حضرت عمرؓ جیسے احکامِ شریعت کے نکتہ داں اپنے مملوک اَصبَغ کو قبولِ اسلام سے انکار کرنے کی آزادی ہرگز نہ دیتے۔ ابن ابی حاتم کی یہ روایت دعوائے نسخ کے حق میں فیصلہ کن ہے:

 

عن أصبغ قال: كنتُ في دينهم مملوكاً نصرانياً لعمر بن الخطاب، فكان يعرض علي الإسلام فآبى، فيقول: لا إكراه في الدين، ويقول: يا أصبغ لو أسلمت لاستعنّاك على بعض أمور المسلمين۔

 

"اصبغ نے بیان کیا، میں حضرت عمر بن خطابؓ کا نصرانی غلام تھا۔ آپ مجھے اسلام کی دعوت دیتے تھے مگر میں انکار کر دیتا تھا۔ اس پر آپؓ فرماتے کہ لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ، پھر کہتے کہ اے اصبغ! اگر تو اسلام قبول کر لیتا تو ہم تجھ سے مسلمانوں کے کاموں میں مدد لیتے۔"

 

امام ابن جریر طبری کا قول اس معاملے میں امام رازی اور ابن کثیر وغیرہ سے ذرا مختلف ہے، مگر وہ تمام آثار و اقوالِ سلف کو نقل کرنے کے بعد نسخ کے بارے میں یہ فیصلہ دیتے ہیں:

 

"اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ کے معنی یہ ہیں کہ جس سے جزیہ قبول کرنا جائز ہے وہ اگر جزیہ ادا کر دے اور حکومتِ اسلام کی اطاعت پر راضی ہو جائے تو اس کو ایمان لانے پر مجبور نہ کیا جائے گا۔ جو شخص یہ کہتا ہے کہ یہ آیت اجازتِ جنگ سے منسوخ الحکم ہو گئی ہے اس کا قول بے معنی ہے۔ اگر کہنے والا یہ کہے کہ پھر ابن عباسؓ نے جو یہ روایت کی ہے کہ "یہ آیت ان انصار کے بارے میں نازل ہوئی ہے جنہوں نے اپنی اولاد کو اسلام پر مجبور کرنا چاہا تھا" اس کے متعلق تم کیا کہو گے؟ تو ہم کہیں گے کہ اس روایت کی صحت سے کسی کو انکار نہیں، یقیناً یہ آیت خاص معاملے میں نازل ہوئی ہے۔ مگر اس کا حکم ان تمام صورتوں میں عام ہے جن کی نوعیت اس کی شانِ نزول سے ملتی جلتی ہو۔ ابن عباسؓ وغیرہ کی روایت کے مطابق جن لوگوں کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ہے انہوں نے اسلام کا حکم جاری ہونے سے پہلے اہلِ تورات کا دین اختیار کر لیا تھا، اللہ تعالیٰ نے انہیں دینِ اسلام پر مجبور کرنے سے منع فرمایا۔ مگر ممانعت ایسے الفاظ میں فرمائی جن کا حکم ان تمام ادیان پر حاوی ہے جن کے پیروؤں سے جزیہ قبول کیا جا سکتا ہے۔"

 

جو لوگ اس حکم کو اہلِ کتاب کے لیے مخصوص کرتے ہیں ان کے پاس بھی اپنے دعوے کے لیے کتاب و سنت کی تصریحات میں سے کوئی دلیل نہیں ہے۔ لَا إِكْرَاهَ کا حکم بالکل عام ہے۔ محض شانِ نزول کی خصوصیت اس کو خاص نہیں کرتی۔ ورنہ قرآنِ مجید کا کوئی حکم بھی ایسا نہ ملے گا جس کی کوئی خاص شانِ نزول نہ ہو اور پھر ہر حکم کو اسی طرح خاص کرنا پڑے گا۔ رہا یہ خیال کہ حکمِ جزیہ کی آیت نے اسے خاص بنا دیا ہے، سو اس کے متعلق یہ امر قابلِ لحاظ ہے کہ خود آیتِ جزیہ کو بھی اہلِ کتاب کی تخصیص کے باوجود ائمۂ مجتہدین نے تمام کفار و مشرکین کے لیے عام قرار دیا ہے۔ اگرچہ جمہورِ احناف اس عام حکم سے مشرکینِ عرب کو (جن کا وجود آیتِ جزیہ کے اترنے سے پہلے ہی ناپید ہو چکا تھا) مستثنیٰ کرتے ہیں، لیکن امام مالکؒ، ابو یوسفؒ، اور اوزاعیؒ وغیرہ نے عرب کے صنم پرستوں تک کو اس دائرۂ رحمت میں شامل کر دیا ہے اور اس خیال کی بنا پر صدرِ اول سے لے کر اب تک مسلمانوں کا طرزِ عمل یہ رہا ہے کہ انہوں نے کفار کی تمام اقسام سے جزیہ قبول کر کے انہیں خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمہ میں داخل کر لیا ہے۔

 

پھر جب خود آیتِ جزیہ کا حکم الفاظ کی تخصیص کے باوجود عام قرار دیا گیا ہے تو یہ کیوں کر صحیح ہو سکتا ہے کہ وہ ایک دوسری آیت کو جس میں الفاظ کی تعمیم بھی موجود ہے بغیر کسی شرعی دلیل کے خاص کر دے؟ تمام اقسامِ کفر سے جزیہ قبول کرنا خود اس امر کی دلیل ہے کہ کسی شخص پر خواہ وہ اہلِ کتاب سے ہو یا نہ ہو قبولِ اسلام کے لیے جبر و اکراہ نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ اعطائے جزیہ کے بعد عدمِ اکراہ فی الدین تو شرعاً ثابت ہے۔

 

 دعوت و تبلیغ کا اصل الاصول

 

حقیقت یہ ہے کہ آیتِ قتال یا آیتِ جزیہ کا مضمون لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ کی مذہبی آزادی سے متعارض نہیں ہے، جیسا کہ بعض لوگوں نے غلطی سے سمجھ لیا ہے، بلکہ وہ صرف اس آزادی کو جو ابتداءً بلا شرط عطا کی گئی تھی، ایک ضابطہ اور ایک اصول کے تحت لے آتا ہے۔ اول اول جب کہ مسلمان ضعیف تھے اور ان میں وہ خدمت انجام دینے کی قوت پیدا نہیں ہوئی تھی جو اُمَّۃً وَّسَطًا اور خَیْرَ اُمَّۃٍ ہونے کی حیثیت سے اللہ تعالیٰ ان سے لینا چاہتا تھا، مسلمان صرف لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَلِیَ دِیْنِ ہی نہیں کہتے تھے بلکہ لَنَا أَعْمَالُنَا وَلَکُمْ أَعْمَالُکُمْ بھی کہتے تھے۔ ان میں اتنی قوت نہ تھی کہ دنیا کو مفاسدِ اخلاقی سے بزور پاک کر دیں اور فتنہ و فساد کا نام و نشان مٹا دیں۔ اس لیے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر دونوں ایک ہی طریقے پر ہوتے رہے۔ یعنی جس طرح رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیرو لوگوں کو توحید کے اقرار، رسالت کے اقرار، یومِ آخر کے اعتقاد اور نماز کی اقامت کی دعوت دیتے تھے، اسی طرح زنا، چوری، قتلِ اولاد، قولِ زور، قطعِ طریق، اور صدّ عَنْ سَبِیلِ اللہ وغیرہ سے بھی صرف نفرت دلانے اور زبان سے روکنے ہی پر اکتفا کرتے تھے۔ لیکن جب مسلمان کمزوری و بے بسی کی حالت سے نکل گئے اور ان میں اپنے مشن کو عملی جامہ پہنانے کی طاقت آگئی تو مذہبی آزادی کا یہ اصول تو اپنی جگہ بدستور قائم رہا کہ کسی شخص کو زبردستی مسلمان نہیں بنایا جائے گا، لیکن فیصلہ کر دیا گیا کہ جہاں ہمارا بس چلے گا وہاں لوگوں کو بدکاری و شرارت، فتنہ و فساد، اور اعمالِ منکرہ کے ارتکاب کی آزادی ہرگز نہ دی جائے گی۔ پس اس وقت امر بالمعروف کا دائرہ نہی عن المنکر سے الگ ہو گیا۔ نہی عن المنکر میں تو دعوت و تبلیغ کے ساتھ تلوار بھی شامل ہو گئی اور اس نے تمام دنیا کو فتنہ و فساد سے پاک کر دینے کا بیڑا اٹھا لیا، خواہ دنیا اس پر راضی ہو یا نہ ہو، لیکن امر بالمعروف کے دائرے میں وہی لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ اور مَآ أَنْتَ عَلَیْهِمْ بِجَبَّارٍ کا اصول برقرار رہا۔

 

 اسلام کی دو حیثیتیں: قانون اور دعوت

 

ہم اس سے پہلے عرض کر چکے ہیں کہ اسلام کی دو حیثیتیں ہیں۔ ایک حیثیت میں وہ دنیا کے لیے اللہ کا قانون ہے۔ دوسری حیثیت میں وہ نیکی و تقویٰ کی جانب ایک دعوت اور پکار ہے۔ پہلی حیثیت میں منشا دنیا میں امن قائم کرنا، اور اس کو ظالم و سرکش انسانوں کے ہاتھوں تباہ ہونے سے بچانا اور دنیا والوں کو اخلاق و انسانیت کے حدود کا پابند بنانا ہے جس کے لیے قوت و طاقت کے استعمال کی ضرورت مسلم ہے۔ لیکن دوسری حیثیت میں وہ قلوب کا تزکیہ کرنے والا، ارواح کو پاک صاف کرنے والا، حیوانی کثافتوں کو دور کر کے بنی آدم کو اعلیٰ درجہ کا انسان بنانے والا ہے، جس کے لیے تلوار کی دھار نہیں بلکہ ہدایت کا نور، دست و پا کا انقیاد نہیں بلکہ دلوں کا جھکاؤ، اور جسموں کی پابندی نہیں بلکہ ارواح کی اسیری درکار ہے۔ اگر کوئی شخص سر پر تلوار چمکتی ہوئی دیکھ کر لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ کہہ دے مگر اس کا دل بدستور ماسویٰ اللہ کا بت کدہ بنا رہے تو دل کی تصدیق کے بغیر یہ زبان کا اقرار کسی کام کا نہیں، اسلام کے لیے اس کی حلقہ بگوشی قطعاً بے کار ہے۔ دینِ حق تو خیر بڑی چیز ہے، دنیا کی معمولی تحریکیں بھی جن کا منشا محض دنیوی مقاصد کا حصول ہوتا ہے، اپنی کامیابی کے لیے ایسے پیروؤں پر کبھی بھروسہ نہیں کر سکتیں جو صرف زبان سے ان کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہوں۔ ایسے گوشت پوست کے لوتھڑوں کو لے کر، جو صداقت کی روح سے بالکل خالی ہوں، آج تک کسی تحریک نے کامیابی کا منہ نہیں دیکھا ہے، اور یقیناً کوئی شخص دنیا کے میدانِ مسابقت میں قدم رکھنے کی جرات اور فوز و فلاح تک پہنچنے کی امید نہیں کر سکتا۔ پھر بھلا غور کرو کہ جس دین کے پیشِ نظر دنیا کی کامیابی نہیں بلکہ آخرت کی فوز و فلاح ہو، جو دین نیت اور اعتقاد ہی کو اصل سمجھتا ہو، جو دین تمام عالمِ بشری کی اصلاح کی عظیم الشان تحریک لے کر اٹھا ہو اور جس کی تحریک نے دنیا میں وہ کامیابی حاصل کی ہو جو آج تک کسی تحریک کو حاصل نہیں ہوئی، کیا یہ ممکن تھا کہ وہ اپنی دعوت کا کام تلوار کی گونگی زبان کے سپرد کرتا؟ کیا یہ ہو سکتا تھا کہ وہ خلوص و صداقت کو چھوڑ کر مجبورانہ اطاعت اور بے چارگی کے اقرار پر قناعت کرتا؟ کیا وہ ایسے پیرو حاصل کر کے مطمئن ہو سکتا تھا جن کے دل خدا کے خوف سے خالی مگر تلوار کی ہیبت سے معمور ہوں؟ کیا ایسے بزدل اور بودے آدمیوں کو وہ کوئی وزن دے سکتا تھا جو محض جان بچانے کے لیے کسی ایسے عقیدے کو قبول کر لیں جس کے وہ صداقت کے قائل نہ ہوں؟ اور اگر وہ ایسا ہوتا تو کیا اسے وہ کامیابی حاصل ہو سکتی تھی جو اس نے فی الحقیقت حاصل کی؟

 

 دعوت کا حکیمانہ انداز

 

انسان کی فطرت کو خود اس کے فاطر سے بہتر کون سمجھ سکتا ہے۔ اس نے اپنے حکیمانہ کلام میں جگہ جگہ اس مضمون کو نہایت بلیغ انداز سے سمجھانے کی کوشش کی ہے اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو طریقے طریقے سے بتایا ہے کہ اقلیمِ دل کو فتح کرنے کا صحیح اور مؤثر طریقہ کون سا ہے۔ چنانچہ ایک جگہ ارشاد ہوتا ہے:

 

وَلَا تَسۡتَوِى الۡحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ‌ ؕ اِدۡفَعۡ بِالَّتِىۡ هِىَ اَحۡسَنُ فَاِذَا الَّذِىۡ بَيۡنَكَ وَبَيۡنَهٗ عَدَاوَةٌ كَاَنَّهٗ وَلِىٌّ حَمِيۡمٌ‏ (حم السجدة: ۳۴)

 

"اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم! نیکی اور بدی برابر نہیں ہیں، تو بدی کو اس طریقے سے دور کر جو بہت اچھا ہے، پھر دیکھ کہ جس کے ساتھ تیری دشمنی ہے وہ تیرا گرمجوش دوست بن جائے گا۔"

 

دوسری جگہ فرمایا:

 

فَبِمَا رَحۡمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ لِنۡتَ لَهُمۡۚ وَلَوۡ كُنۡتَ فَظًّا غَلِيۡظَ الۡقَلۡبِ لَانْفَضُّوۡا مِنۡ حَوۡلِكَ‌ (آل عمران: ۱۵۹)

 

"یہ اللہ کی رحمت ہے کہ تو ان کے لیے نرم دل بنایا گیا ہے، ورنہ اگر تو درشت کلام اور سنگدل ہوتا تو وہ تجھے چھوڑ کر الگ ہو جاتے۔"

 

ایک اور جگہ دعوتِ اسلام کا طریقہ بتایا کہ:

 

اُدۡعُ اِلٰى سَبِيۡلِ رَبِّكَ بِالۡحِكۡمَةِ وَالۡمَوۡعِظَةِ الۡحَسَنَةِ‌ وَجَادِلۡهُمۡ بِالَّتِىۡ هِىَ اَحۡسَنُ‌ (النحل: ۱۲۵)

 

"انہیں اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور عمدہ وعظ و پند کے ساتھ بلا اور بحث ایسے طریقے سے کر جو بہترین ہو۔"

 

اس نرمی و رفق اور حُسنِ کلام کی یہاں تک تاکید کی کہ کفار کے معبودوں اور پیشواؤں کو برا کہنے سے بھی روک دیا:

 

وَلَا تَسُبُّوا الَّذِيۡنَ يَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ فَيَسُبُّوا اللّٰهَ عَدۡوًۢا بِغَيۡرِ عِلۡمٍ‌ (الانعام: ۱۰۸)

 

"تم ان کے معبودانِ باطل کو جنہیں یہ خدا کو چھوڑ کر پکارتے ہیں گالیاں نہ دو، ورنہ وہ جہالت کی بنا پر اللہ کو گالیاں دیں گے۔"

 

 ہدایت و ضلالت کا راز

 

پھر مختلف مواقع پر یہ باریک نکتہ سمجھایا ہے کہ اگر خدا چاہے تو وہ اپنے بندوں کو ایمان لانے پر مجبور کر سکتا ہے، لیکن اسے ایسا مجبورانہ ایمان درکار نہیں ہے جو طبعی خواہشات و جذبات کی طرح انسان کی جبلّت میں داخل ہو۔ ایسی ایمان لانے والی اور اطاعت و عبادت کرنے والی مخلوق تو اس کے پاس پہلے سے موجود تھی جس کی فطرت ہی یہ ہے کہ يَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ۔ مگر وہ معبودیت کا اصلی لطف اٹھانے کے لیے ایسی مخلوق چاہتا تھا جسے کوئی قوت اس کی معرفت پر، اس کی اطاعت و بندگی پر اور اسے ماننے پر مجبور کرنے والی نہ ہو، بلکہ وہ خود اپنی عقل سے اس کو پہچانے، خود اپنی جستجو سے اس کو پالے، خود اپنی آزاد خواہش سے اس کی بندگی و عبادت کرے اور اس کے احکام کی (نہ کہ مشیت کی) خلاف ورزی کرنے پر قدرت رکھنے کے باوجود اس کی اطاعت و فرمانبرداری کرے۔ اسی مقصد کے لیے اللہ نے انسان کو پیدا کیا، ایک اجلِ مسمّیٰ، ایک مدتِ مقررہ تک اسے عقل کی روشنی میں آزاد چھوڑ دیا، اس کو اختیار دیا کہ فَمَنْ شَاءَ فَلْيُؤْمِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْيَكْفُرْ (جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر کرے)۔ اس کی طرف پے در پے ہادی و رہنما بھیجے تاکہ خود اس کے ہم جنس اسے حق کا راستہ گمراہی کے راستے سے ممتاز کر کے دکھا دیں اور اس کے لیے اس عذر کی گنجائش نہ رہے کہ ہم بالکل تاریکی میں تھے، اور پھر اس کے واسطے ایک یومِ حساب مقرر کیا تاکہ اس دن ان لوگوں پر بے انداز الطاف و عنایات کی بارش کرے جنہوں نے اپنی عقل سے اس کو پہچانا اور اپنی مرضی سے اس کی بتلائی ہوئی سیدھی راہ کو اختیار کیا اور کسی مجبوری سے نہیں بلکہ اپنا فرض سمجھ کر، اپنی زندگی کا مقتضا جان کر اس کی اطاعت کی، اور ان لوگوں کو دردناک عذاب دے جنہوں نے کھلی ہوئی نشانیوں کے باوجود گمراہی کو اختیار کیا، اس کے بھیجے ہوئے پیغام قبول کرنے سے انکار کیا اور اپنے فریضۂ عبودیت سے منہ موڑ کر اس کے احکام کی نافرمانی کی۔ دیکھو اس راز کی حقیقت کو کیسے حکیمانہ انداز سے کھولا ہے:

 

وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلَا يَزَالُونَ مُخْتَلِفِينَ إِلَّا مَنْ رَّحِمَ رَبُّكَ وَلِذَلِكَ خَلَقَهُمْ وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ (ہود: ۱۱۸-۱۱۹)

 

"اگر تیرا رب چاہتا تو تمام لوگوں کو ایک ہی امت بنا دیتا۔ مگر وہ اختلاف کرتے ہی رہیں گے، سوائے ان لوگوں کے جن پر اللہ نے رحم کیا ہے، اور اسی کے لیے اس نے انہیں پیدا کیا ہے۔ اس طرح تیرے رب کی وہ بات پوری ہو گئی جو اس نے کہی تھی کہ میں دوزخ کو جنوں اور انسانوں سب سے بھر دوں گا۔"

 

دوسرے مقامات پر بھی اس راز کی پردہ دری مختلف طریقوں سے کی ہے، چنانچہ فرمایا:

 

وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ لَآمَنَ مَنْ فِي الْأَرْضِ كُلُّهُمْ جَمِيعًا (یونس: ٩٩)

 

"اگر خدا چاہتا تو زمین کے جتنے رہنے والے ہیں سب کے سب ایمان لے آتے۔"

 

کہیں فرمایا:

 

وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا أَشْرَكُوا (الانعام: ۱۰۷)

 

"اگر خدا چاہتا تو وہ ہرگز شرک نہ کرتے۔"

 

کہیں فرمایا:

 

إِن نَّشَأْ نُنَزِّلْ عَلَيْهِمْ مِّنَ السَّمَاءِ آيَةً فَظَلَّتْ أَعْنَاقُهُمْ لَهَا خَاضِعِينَ (الشعراء: ۴)

 

"اگر ہم چاہتے تو ان پر آسمان سے ایسی نشانی اتار دیتے جسے دیکھ کر ان کی گردنیں مجبوراً جھک جاتیں۔"

 

کہیں فرمایا:

 

وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ أَنْ تُؤْمِنَ إِلَّا بِإِذْنِ اللهِ وَيَجْعَلُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِينَ لَا يَعْقِلُونَ (یونس: ١٠٠)

 

"کوئی شخص اللہ کے اذن کے بغیر ایمان نہیں لا سکتا اور اللہ (عدمِ اذن کی) ناپاکی انہی لوگوں پر ڈالتا ہے جو اپنی عقل سے کام نہیں لیتے۔"

 

کہیں فرمایا:

 

إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ (القصص: ۵۶)

 

"تو جسے چاہے ہدایت نہیں کر سکتا بلکہ اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت کرتا ہے اور وہی جانتا ہے کہ کون ہدایت قبول کرنے کے لیے تیار ہے۔"

 

پس جب کہ ربِ قدیر و خالقِ کائنات خود نہیں چاہتا کہ اپنے بندوں کو اپنی اطاعت و فرمانبرداری پر مجبور کرے، بلکہ وہ ان کی آزادانہ بندگی و غلامی کو زیادہ محبوب رکھتا ہے تو پھر کسی بندے کو یہ حق کب پہنچتا ہے کہ اپنے جیسے بندوں پر اس کی بندگی و اطاعت کے لیے جبر کر کے مجبورانہ ایمان کا بے مزہ اور بے قیمت تحفہ اس کے حضور پیش کرائے؟ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے داعیٔ اسلام علیہ السلام کو بار بار سمجھایا ہے کہ دین میں جبر و اکراہ کا کام نہیں ہے اور آپ کے لیے صرف خدا کا پیغام دینا کافی ہے:

 

وَمَا أَنْتَ عَلَيْهِمْ بِجَبَّارٍ فَذَكِّرْ بِالْقُرْآنِ مَنْ يَخَافُ وَعِيدِ (ق: ۴۵)

 

"تو ان کو قبولِ ہدایت پر مجبور کرنے والا نہیں ہے، جو کوئی میری وعید سے ڈرنے والا ہو اس کو قرآن سے نصیحت کیے جا۔"

 

فَذَكِّرْ إِنَّمَا أَنْتَ مُذَكِّرٌ لَسْتَ عَلَيْهِمْ بِمُصَيْطِرٍ (الغاشیہ: ۲۱-۲۲)

 

"تو نصیحت کیے جا کیونکہ تو صرف نصیحت کرنے والا ہے، تو ان پر دارو غہ نہیں ہے۔"

 

أَفَأَنْتَ تُكْرِهُ النَّاسَ حَتَّى يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ (یونس: ۹۹)

 

"کیا تو لوگوں کو مجبور کرے گا کہ وہ مومن ہو جائیں؟ (حالانکہ تیرا کام مجبور کرنا نہیں ہے)۔"

 

لَيْسَ عَلَيْكَ هُدَاهُمْ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ (البقرہ: ۲۷۲)

 

"ان کی ہدایت تیرے ذمہ نہیں ہے بلکہ اللہ جس کو چاہتا ہے ہدایت بخشتا ہے۔"

 

فَإِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلَاغُ وَعَلَيْنَا الْحِسَابُ (الرعد: ۴۰)

 

"تیرے اوپر پیغام پہنچانے کی ذمہ داری ہے اور حساب لینے والے ہم خود ہیں۔"

 

 اشاعتِ اسلام میں تلوار کا حصہ

 

اس بحث سے یہ حقیقت تو اچھی طرح واضح ہو گئی کہ اسلام اپنی صداقت پر ایمان لانے کے لیے کسی کو مجبور نہیں کرتا، بلکہ دلائل و براہین کی روشنی میں ہدایت کی راہ کو ضلالت کی راہ سے ممتاز کر کے دکھا دینے کے بعد ہر شخص کو اختیار دیتا ہے کہ چاہے غلط راستے پر چل کر نامرادی کے گڑھے میں جا گرے، اور چاہے سیدھے راستے پر لگ کر حقیقی اور دائمی فلاح و کامرانی سے بہرہ اندوز ہو۔ لیکن اس سلسلۂ کلام کو ختم کرنے سے پہلے ہم یہ بتا دینا ضروری سمجھتے ہیں کہ اسلام کی اشاعت کو تلوار سے ایک گونہ تعلق ضرور ہے۔ اس میں شک نہیں کہ جہاں تک تبلیغِ دینِ الٰہی کی حد ہے، اس میں تلوار کا کوئی کام نہیں ہے۔ لیکن اس تبلیغ کے ساتھ کچھ چیزیں اور بھی ہیں جن کے تعاون سے دنیا میں اسلام کی اشاعت ہوتی ہے، اور وہ یقیناً تلوار کی اعانت سے بے نیاز نہیں ہیں۔

 

عموماً ہم دیکھتے ہیں کہ جب انسان بے قیدی کی زندگی بسر کرتا ہے اور اپنی خواہشات کی پیروی میں کسی اخلاقی ضابطہ کا پابند نہیں ہوتا تو اسے اپنی اس پُر الم مگر بظاہر پُر لطف زندگی میں ایک مزا آنے لگتا ہے اور اس مزے کو چھوڑنے کے لیے وہ بہ رضا و رغبت آمادہ نہیں کیا جا سکتا۔ وعظ و نصیحت اور دلیل و برہان کی قوت سے اس کو اخلاقی حدود کی پابندی، حلال و حرام کی تمیز اور نیک و بد کے امتیاز کی خواہ کتنی ہی تلقین کی جائے وہ بہر حال سیدھا ہونے پر راضی نہیں ہوتا۔ اول تو اس کی عقل و وجدان پر مسلسل بدکاریوں کے باعث ایسا پردہ پڑ جاتا ہے کہ اس قسم کی اخلاقی تعلیم کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا، اور اگر اس کے ضمیر میں کچھ زندگی باقی بھی ہوتی ہے تو وہ اس کے نفس پر حاوی نہیں ہوتی کہ اس کے اثر سے وہ حق کو محض اس بنا پر کہ وہ حق ہے، بہ طوع و رغبت قبول کر لے اور ان لذتوں سے دست بردار ہو جائے جو بے قیدی کی زندگی میں اسے حاصل ہوتی ہیں۔ بخلاف اس کے جب کسی اخلاقی تعلیم کی پشت پر وعظ و تذکیر کے ساتھ سیاست و تعزیر بھی ہوتی ہے اور بُرے کو بُرا کہہ کر دکھا دینے کے ساتھ بدی کو روک دینے والی قوت سے بھی کام لیا جاتا ہے، تو رفتہ رفتہ طبیعت میں نیک بننے کی صلاحیت پیدا ہونے لگتی ہے۔ حدود کی پابندی اور بُرے بھلے کی تمیز آہستہ آہستہ ترقی کرتی ہے اور آخر کار وہی انسان اس نیکی کی تعلیم کو دل میں جگہ دینے لگتا ہے جو بے قیدی کی زندگی میں اس کو سننے کا بھی روادار نہ تھا۔

 

تھوڑی دیر کے لیے کسی ایسی سوسائٹی کا تصور کیجیے جس میں کوئی قانون نافذ العمل نہیں ہے، اس کا ہر فرد اخلاقی حدود کی پابندی سے مبرا ہے، جس پر بس چلتا ہے اسے لوٹ لیتا ہے، جس سے عداوت ہوتی ہے اسے مار ڈالتا ہے، جس چیز کی ضرورت ہوتی ہے اسے چرا کر یا چھین کر حاصل کر لیتا ہے، جو خواہش دل میں پیدا ہوتی ہے اسے جس طریقے سے چاہتا ہے پورا کر لیتا ہے، حلت و حرمت کی اسے تمیز نہیں ہوتی، جائز و ناجائز کے فرق سے وہ ناواقف ہوتا ہے، حقوق و فرائض کے تخیل سے اس کا دماغ خالی ہوتا ہے، اس کے سامنے بس اپنی خواہشات ہوتی ہیں اور انہیں پورا کرنے کے امکانی وسائل ہوتے ہیں۔ ایسی حالت میں اگر کوئی اخلاقی مصلح کھڑا ہو اور لوگوں کو حلال و حرام کی تمیز سکھائے، جائز و ناجائز کی حد بندی کرے، مقاصد میں حُسن و قُبح اور طریقوں میں نیک و بد کا فرق قائم کرے، چوری سے، حرام خوری سے، خونِ ناحق سے، زنا اور فواحش سے روکے، افراد کے لیے حقوق اور فرائض متعین کرے اور ایک مکمل ضابطۂ قوانینِ اخلاق مرتب کر کے رکھ دے، مگر اس قانون کی تنفیذ کے لیے اس کے پاس وعظ و پند اور دلیل و حجت کے سوا کوئی قوت نہ ہو، تو کیا یہ امید کی جاسکتی ہے کہ وہ جماعت اپنی آزادی پر ان قیود کو بخوشی قبول کر لے گی؟ کیا وہ اس کے مسکت دلائل سے مغلوب ہو کر بہ رضا و رغبت قانون کی پابند بن جائے گی؟ کیا وہ اس کی پردرد نصیحتوں سے اتنی متاثر ہو گی کہ خود بخود ان لذتوں سے کنارہ کش ہو جائے جو اس کو بے قیدی کی زندگی میں حاصل ہیں؟ ہر شخص جو انسانی فطرت کا رازداں ہے اس سوال کا جواب صرف نفی میں دے گا۔ کیونکہ دنیا میں ایسے پاک نفسوں کی تعداد بہت تھوڑی ہے جو نیکی کو محض نیکی سمجھ کر اختیار کرتے ہیں اور بدی کو صرف اس لیے چھوڑ دیتے ہیں کہ اس کا بُرا ہونا انہیں معلوم ہو چکا ہے۔

 

لیکن اگر یہی سوال اس صورت میں کیا جائے کہ وہ معلم محض اخلاقی واعظ ہی نہیں بلکہ حاکم و صاحبِ امر بھی ہو اور ملک میں ایک باضابطہ حکومت قائم کر دے جس کی قوت سے وہ تمام برائیاں یک لخت دور ہو جائیں جو حیوانی آزادی سے پیدا ہوتی ہیں، تو یقیناً نفی اثبات میں بدل جائے گی اور ہر شخص اس اصلاحی تعلیم کی کامیابی کا فتویٰ لگا دے گا۔

 

 تلوار اور تبلیغ کا کردار

 

اسلام کی اشاعت کا بھی تقریباً یہی حال ہے۔ اگر اسلام صرف چند عقائد کا مجموعہ ہوتا اور اللہ کو ایک کہنا، رسالت کو برحق ماننے، یومِ آخر اور ملائکہ پر ایمان لانے کے سوا انسان سے وہ کوئی اور مطالبہ نہ کرتا تو شاید شیطانی طاقتوں سے اس کو کچھ زیادہ جھگڑنے کی نوبت نہ آتی۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ وہ صرف ایک عقیدہ ہی نہیں بلکہ ایک قانون بھی ہے، ایسا قانون جو انسان کی عملی زندگی کو اوامر و نواہی کی بندشوں میں کسنا چاہتا ہے، اس لیے اس کا کام صرف پند و موعظت ہی سے نہیں چل سکتا بلکہ اسے نوکِ زباں کے ساتھ نوکِ سناں سے بھی کام لینا پڑتا ہے۔ اس کے عقائد سے سرکش انسان کو اتنا بُعد نہیں ہے جتنا اس کے قوانین کی پابندی سے انکار ہے۔ وہ چوری کرنا چاہتا ہے اور اسلام اسے ہاتھ کاٹنے کی دھمکی دیتا ہے، وہ زنا کرنا چاہتا ہے اور اسلام اسے کوڑوں کی مار کا حکم سناتا ہے، وہ سود کھانا چاہتا ہے اور اسلام اس کو فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ کا چیلنج دیتا ہے۔ وہ حرام و حلال کی قیود سے نکل کر نفس کے مطالبات پورے کرنا چاہتا ہے اور اسلام ان قیود سے باہر نفس کے کسی حکم کی پیروی نہیں کرنے دیتا۔ اس لیے نفس پرست انسان کی طبیعت اس سے متنفر ہوتی ہے اور اس کے آئینۂ قلب پر گناہگاری کا ایسا زنگ چڑھ جاتا ہے کہ اس میں صداقتِ اسلام کے نور کو قبول کرنے کی صلاحیت ہی باقی نہیں رہتی۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۱۳ برس تک عرب کو اسلام کی دعوت دیتے رہے، وعظ و تلقین کا جو مؤثر سے مؤثر انداز ہو سکتا تھا اسے اختیار کیا، مضبوط دلائل دیے، واضح حجتیں پیش کیں، فصاحت و بلاغت اور زورِ خطابت سے دلوں کو گرمایا، اللہ کی جانب سے محیر العقول معجزے دکھائے، اپنے اخلاق اور اپنی پاک زندگی سے نیکی کا بہترین نمونہ پیش کیا اور کوئی ذریعہ ایسا نہ چھوڑا جو حق کے اظہار و اثبات کے لیے مفید ہو سکتا تھا، لیکن آپ ﷺ کی قوم نے آفتاب کی طرح آپ ﷺ کی صداقت کے روشن ہو جانے کے باوجود آپ ﷺ کی دعوت قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ حق ان کے سامنے خوب ظاہر ہو چکا تھا۔ انہوں نے بعین الیقین دیکھ لیا تھا کہ جس راہ کی طرف ان کا ہادی انہیں بلا رہا ہے وہ سیدھی راہ ہے۔ اس کے باوجود یہ چیز انہیں اس راہ کو اختیار کرنے سے روک رہی تھی کہ ان لذتوں کو چھوڑنا انہیں ناگوار تھا جو کافرانہ بے قیدی کی زندگی میں انہیں حاصل تھیں۔ لیکن جب وعظ کی ناکامی کے بعد داعیٔ اسلام ﷺ نے ہاتھ میں تلوار لی اور "أَلَا کُلُّ مَأْثُرَةٍ أَوْ دَمٍ أَوْ مَالٍ یُدَّعٰی فَهُوَ تَحْتَ قَدَمَیَّ هَاتَیْنِ"¹ کا اعلان کر کے تمام موروثی امتیازات کا خاتمہ کر دیا، عزت و اقتدار کے تمام رسمی بتوں کو توڑ دیا، ملک میں ایک منظم اور منضبط حکومت قائم کر دی، اخلاقی قوانین کو بزور نافذ کر کے اس بدکاری و گناہگاری کی آزادی کو سلب کر لیا جس کی لذتیں ان کو مدہوش کیے ہوئے تھیں، اور وہ پُرامن فضا پیدا کر دی جو اخلاقی فضائل اور انسانی محاسن کے نشوونما کے لیے ہمیشہ ضروری ہوا کرتی ہے، تو دلوں سے رفتہ رفتہ بدی و شرارت کا زنگ چھوٹنے لگا، طبیعتوں سے فاسد مادے خود بخود نکل گئے، روحوں کی کثافتیں دور ہو گئیں، اور یہی نہیں کہ آنکھوں سے پردہ ہٹ کر حق کا نور صاف عیاں ہو گیا، بلکہ گردنوں میں وہ سختی اور سروں میں وہ نخوت باقی نہیں رہی جو ظہورِ حق کے بعد انسان کو اس کے آگے جھکنے سے باز رکھتی ہے۔

 

¹ یعنی ہر موروثی امتیاز، ہر خون کا دعویٰ (جس کی بنا پر ایک قبیلہ یا خاندان دوسرے قبیلے یا خاندان سے انتقام لینے کا مدعی ہو) اور ہر مال کا دعویٰ (جو پرانی جاہلیت کے غلط رواجوں پر قائم ہو) میرے ان قدموں کے نیچے ہے (یعنی اس کے لیے سر اٹھانے کا اب کوئی موقع نہیں)۔

 

عرب کی طرح دوسرے ممالک نے بھی جو اسلام کو اس سرعت سے قبول کیا کہ ایک صدی کے اندر چوتھائی دنیا مسلمان ہو گئی، تو اس کی وجہ بھی یہی تھی کہ اسلام کی تلوار نے ان پردوں کو چاک کر دیا جو دلوں پر پڑے ہوئے تھے، اس فضا کو صاف کر دیا جس کے اندر کوئی اخلاقی تعلیم پنپ نہیں سکتی، ان حکومتوں کے تختے الٹ دیے جو حق کی دشمن اور باطل کی پشت پناہ تھیں، ان بدکاریوں کا استیصال کر دیا جو دلوں کو نیکی و پرہیزگاری سے دور رکھتی ہیں، ان عادلانہ اخلاقی قوانین کو نافذ کیا جو آدمی کو حیوانیت کے درجے سے نکال کر انسان بنا دیتے ہیں، اور پھر اسلام کو عملی پیکر میں پیش کر کے دنیا پر ثابت کر دیا کہ انسان کی اخلاقی و مادی اور روحانی ترقی کے لیے اس سے بہتر کوئی دستور العمل نہیں ہو سکتا۔ پس جس طرح یہ کہنا غلط ہے کہ اسلام تلوار کے زور سے لوگوں کو مسلمان بناتا ہے، اسی طرح یہ کہنا بھی غلط ہے کہ اسلام کی اشاعت میں تلوار کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ حقیقت ان دونوں کے درمیان ہے اور وہ یہ ہے کہ اسلام کی اشاعت میں تبلیغ اور تلوار دونوں کا حصہ ہے، جس طرح ہر تہذیب کے قیام میں ہوتا ہے۔ تبلیغ کا کام تخم ریزی ہے اور تلوار کا کام قُلبہ رانی۔ پہلے تلوار زمین کو نرم کرتی ہے تاکہ اس میں بیج کو پرورش کرنے کی قابلیت پیدا ہو جائے، پھر تبلیغ کا بیج ڈال کر آبپاشی کرتی ہے تاکہ وہ پھل حاصل ہو جو اس باغبانی کا مقصودِ حقیقی ہے۔ ہم کو دنیا کی پوری تاریخ میں کسی ایسی تہذیب کا نشان نہیں ملتا جس کے قیام میں ان دونوں عناصر کا حصہ نہ ہو۔ تہذیب کی کسی خاص شکل کا کیا ذکر ہے، خود تہذیب کا قیام ہی اس وقت تک ناممکن ہے جب تک قُلبہ رانی اور تخم پاشی کے یہ دونوں عمل اپنا حصہ ادا نہ کریں۔ کوئی شخص جو انسانی فطرت کا رمز شناس ہے اس حقیقت سے ناآشنا نہیں ہے کہ جماعتوں کی ذہنی و اخلاقی اصلاح کے سلسلے میں ایک وقت ایسا ضرور آتا ہے جب کہ قلب و روح کو خطاب کرنے سے پہلے جسم و جاں کو خطاب کرنا پڑتا ہے۔

 

 باب پنجم: اسلامی قوانینِ صلح و جنگ

 

 تمہید

 

گزشتہ ابواب میں جو کچھ بیان کیا گیا اس کا تعلق جنگ کے محض اخلاقی پہلو سے تھا۔ اب ہم بتانا چاہتے ہیں کہ جنگ کے عملی پہلو میں اسلام نے کس قدر عظیم الشان اصلاح کی ہے۔ ہر کام کے حُسن و قُبح کا فیصلہ دو چیزوں پر کیا جاتا ہے: ایک مقصد، دوسرے طریقِ حصولِ مقصد۔ اگر نفسِ مقصد مکروہ ہو تو خواہ اس کو کتنے ہی شریفانہ طریقے سے حاصل کیا جائے، وہ بہر حال مکروہ ہی رہے گا۔ اور اگر مقصد تو نہایت پاکیزہ ہو مگر اس کے حاصل کرنے کے طریقے پایۂ شرافت سے گرے ہوئے ہوں تو ان سے خود مقصد کی شرافت بھی داغدار ہو جاتی ہے۔ مثال کے طور پر ایک شخص کا مقصد تو یتیم بچوں کی تعلیم و تربیت اور بیوہ عورتوں کی پرورش ہے مگر اس نیک کام کے لیے وہ چوری اور رہزنی کے ذریعے روپیہ حاصل کرتا ہے، تو اگرچہ اس کا مقصد نہایت پاکیزہ ہے لیکن قانون و اخلاق کی نظر میں وہ اسی طرح مجرم ٹھہرے گا جس طرح ایک چور اور رہزن ٹھہرتا ہے۔ بخلاف اس کے ایک دوسرا شخص حقیقت میں تو لوگوں کو ٹھگ کر روپیہ کمانا چاہتا ہے، لیکن عوام پر اپنا اعتماد قائم کرنے کے لیے مسجد میں بیٹھ کر علمِ دین کی تعلیم دیتا ہے، مواعظ و نصائح کے دریا بہاتا ہے اور اپنا تمام وقت ذکرِ الٰہی میں صرف کر دیتا ہے۔ تو گو اس کے یہ افعال نہایت مقدس ہیں مگر وہ گندا مقصد جس کے لیے اس نے یہ روپ بھرا ہے، اس کے حُسنِ عمل کی پونجی کو نہ صرف برباد کر دیتا ہے بلکہ اس پر فریب دینداری سے اس کا جرم اور بھی زیادہ سنگین ہو جاتا ہے۔

 

یہی حال جنگ کا بھی ہے۔ اگر جنگ کا مقصد کمزور قوموں کی آزادی چھیننا، ملکوں کی دولت لوٹنا اور بندگانِ خدا کو ان کے جائز حقوق سے محروم کرنا ہو تو ایسی جنگ خواہ کتنے ہی ضبط و نظم کے ساتھ کی جائے، اس میں غیر مقاتلین کی عصمت، زخمیوں کی حفاظت، اموات کی حرمت اور معاہدوں کی عزت کا کتنا ہی لحاظ رکھا جائے، خواہ اس میں لوٹ مار، آتش زنی، تباہ کاری، قتلِ عام اور ہتکِ حرمات سے کتنا ہی پرہیز کیا جائے، بہر حال وہ اصلیت کے اعتبار سے ایک ظالمانہ جنگ ہی رہے گی اور اس انضباط و انتظام سے اس کی نوعیت میں کوئی فرق نہ آئے گا۔ زیادہ سے زیادہ اتنا ہو گا کہ وہ ایک بدتر ظلم نہ ہو گی، خوش تر ظلم ہو جائے گی۔ اسی طرح اگر جنگ کا مقصد نہایت شریف ہو، مثلاً وہ کسی جائز حق کی حفاظت یا دفعِ فساد و رفعِ شر کے لیے لڑی جائے، مگر اس کے طریقے ظالمانہ ہوں، اس میں کسی قسم کے اخلاقی حدود ملحوظ نہ رکھے جائیں اور لڑنے والوں کا مدِّ نظر محض دشمن کو تباہ اور اس کو مبتلائے عذاب کر کے جذبۂ انتقام کی آگ بجھانا ہو، تو ایسی جنگ بھی حق کے راستے سے ہٹی ہوئی ہو گی۔ اور اس کے لڑنے والے اصلاً برحق ہونے کے باوجود اپنے آپ کو ظالموں کی صف میں پہنچا دیں گے۔ پس ایک جائز اور خالص حق پرستانہ جنگ کی تعریف یہ ہے کہ اس کا مقصد اور طریقِ حصولِ مقصد دونوں پاکیزہ اور اشرف و اعلیٰ ہوں۔

 

اسلام کی تعلیم جنگ کے متعلق اب تک جو کچھ کہا گیا ہے وہ صرف اس کے مقصد کی پاکیزگی اور شرافت و بزرگی کو ثابت کرتا ہے۔ اب بحث کا دوسرا پہلو باقی ہے۔ سو اس باب میں ہم یہ تحقیق کریں گے کہ طریقِ حصولِ مقصد کے اعتبار سے اسلام کی جنگ کس حد تک تہذیب و شرافت کے اس معیار پر پوری اترتی ہے۔

 

یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کے طریقِ جنگ کی تفصیلات بیان کرنے سے پہلے ہم ایک نظر یہ بھی دیکھ لیں کہ زمانۂ قدیم میں غیر مسلم قوموں کا رویہ جنگ کے بارے میں کیا تھا۔ اس سے ہم اس اصلاح کی قدر و قیمت کا زیادہ صحیح اندازہ کر سکیں گے جو اس معاملے میں اسلام نے کی ہے۔

 

 زمانۂ جاہلیت میں عرب کا طریقِ جنگ

 

عرب میں جنگ کی حیثیت ایک قومی پیشہ کی سی تھی۔ ذرائعِ معاش کی قلت، ضروریاتِ زندگی کی کمیابی، اور اجتماعی ضبط و نظم کے فقدان سے عربوں میں جنگجوئی کی عادت اس قدر راسخ ہو گئی تھی کہ وہ قتل و خونریزی اور لوٹ مار کو اپنی خصوصیات بلکہ مفاخر میں شمار کرنے لگے تھے۔ غالباً ابتداء میں صرف پیٹ بھرنے یا پانی لینے یا چراگاہوں میں جانور چرانے یا انتقام لینے کے لیے اس کی ضرورت پیش آئی ہو گی۔ لیکن صدیوں تک شمشیر زنی و مردم کشی کے کھیل میں مشغول رہنے کی وجہ سے ان کو خونخواری کا ایسا چسکا لگ گیا تھا کہ خونریزی کسی غرض کے لیے نہیں بلکہ مقصود بالذات بن گئی تھی۔ اور اس کے ساتھ شقاوت، سنگدلی، انتقام جوئی، کینہ پروری، درندگی، وحشت اور وہ تمام خصائص بھی ان کی سیرت میں نمایاں ہو گئے تھے جو اس قسم کی زندگی بسر کرنے سے قدرتی طور پر نشوونما پاتے ہیں۔ قبیلوں اور خاندانوں میں پشت ہا پشت تک عداوتیں منتقل ہوتی تھیں۔ دشمن قبیلہ کو ہر طرح تباہ و برباد کیا جاتا تھا۔ آتشِ انتقام کو بجھانے کے لیے دشمن کو عذاب دینے اور بے حرمت کرنے کے نہایت وحشیانہ طریقے اختیار کیے جاتے تھے۔ محض اظہارِ فخر و شجاعت کے لیے بھی بسا اوقات نوعِ انسان کا خونِ بے دریغ بہا دیا جاتا تھا۔

 

 اہلِ عرب کا تصورِ جنگ

 

عربِ قدیم کے حالات معلوم کرنے کے لیے ہمارے پاس صرف دو ذریعے ہیں۔ ایک وہ داستانیں جو "ایام العرب" کے نام سے اہلِ عرب میں رائج تھیں۔ دوسرے شعرائے عرب کا کلام جس میں وہ اپنی سوسائٹی کی معاشرت، تہذیب، معاملات اور امیال و عواطف کی صحیح صحیح تصویریں کھینچتے تھے۔ عجم کی طرح ان کی شاعری نازک خیالیوں اور مبالغہ آرائیوں کا مجموعہ نہ تھی بلکہ وہ اپنے گرد و پیش جو کچھ دیکھتے تھے اسی کو اپنی زبان میں بے تکلف ادا کرتے تھے۔ اس لیے ان کی شاعری نری شاعری ہی نہ تھی بلکہ قومی سیرت کی تصویر بھی تھی۔

 

جنگ کے متعلق اہلِ عرب کا تصور کیا تھا؟ وہ اس کو کیا سمجھتے تھے؟ ان کے لڑنے کے طریقے کیا تھے؟ دشمن کے ساتھ ان کا برتاؤ کیسا تھا؟ کون کون سے محرکات ان کو جنگ پر ابھارتے تھے؟ کن اغراض و مقاصد کے لیے وہ جنگ کیا کرتے تھے؟ ان سب سوالات کا جواب ہمیں ان اشعار میں ملتا ہے۔ جن اصطلاحات، تشبیہات اور استعارات کو وہ جنگ کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کرنے کے لیے استعمال کرتے تھے وہ ان کے تصورِ جنگ کا ٹھیک ٹھیک نقشہ کھینچ دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہم یہاں چند الفاظ و محاورات اور استعارات و تشبیہات کو نقل کرتے ہیں:

 

   حَرْب: جنگ کے لیے ایک عام لفظ ہے۔ لغت میں اس کے اصلی معنی غصہ کرنے کے ہیں۔

   تَحْرِیْب: غصہ دلانے اور بھڑکانے اور نیزہ تیز کرنے کو کہتے ہیں۔

   حَرَبَ: کسی کے مال کو لوٹ لینا۔

   حَرَبَة: لوٹا ہوا مال جس پر آدمی زندگی بسر کرتا ہو۔

   مَحْرُوْب اور حَرِیْب: وہ شخص جس کا مال لوٹ لیا گیا ہو۔

   اِحْرَاب: دشمن کا مال لوٹنے کے لیے کسی کی رہنمائی کرنا۔

   رَوْع: لڑائی کے لیے عام طور پر بولا جاتا ہے۔ اس کے اصلی معنی فَزَع اور خوف کے ہیں۔ گویا جنگ کو ایک خوفناک چیز سے موسوم کیا گیا ہے۔ وراق بن شملہ المازنی کہتا ہے:

    مَقَادِیْمُ وَصَّالُوْنَ فِی الرَّوْعِ خُطُوَهُمْ

    "وہ آگے بڑھنے والے اور لڑائی کے خطرے میں قدم ملا کر چلنے والے ہیں۔"

   وَغٰی: یہ بھی لڑائی کا ایک مشہور نام تھا۔ اس کے لغوی معنی شور و ہنگامہ کے ہیں۔ شاعر کہتا ہے:

    مَا زَالَ مَعْرُوْفُ الْمُرَّةِ فِی الْوَغٰی عَلَی الْقَنَا وَ عَلَیْهِمْ أَنْ یَّنَالُوْهَا

    "ہمیشہ سے بنو مرہ کی یہ صفت مشہور ہے کہ وہ جنگ میں بار بار دشمنوں کے خون سے اپنے نیزوں کی پیاس بجھاتے ہیں اور کم از کم ایک مرتبہ ان کی تشنگی فرو کرنا تو ان پر فرض ہے۔"

   شَرّ: اصلی معنی بدی کے ہیں اور جنگ کے لیے مجازاً بکثرت بولا جاتا ہے۔ شاعر اپنے ممدوح قبیلہ کی اس طرح تعریف کرتا ہے:

    قَوْمٌ إِذَا الشَّرُّ أَبْدَی نَاجِذَیْهِ لَهُمْ طَارُوا إِلَیْهِ زَرَافَاتٍ وَ وُحْدَانًا

    "وہ ایسی قوم ہیں کہ جب لڑائی اپنی کُچلیاں نکال کر ان کو ڈراتی ہے تو وہ گروہ در گروہ اور تنہا تنہا اس کے مقابلے کے لیے دوڑ پڑتے ہیں۔"

   کَرِیْهَة: یہ بھی اسمائے جنگ میں سے ہے اور اس کے اصلی معنی سختی، مصیبت اور بلا کے ہیں۔ شاعر اپنے ممدوح کی تعریف میں کہتا ہے:

    صَعْبُ الْکَرِیْهَةِ لَا یُرَامُ جَنَابُهُ مَاضِی الْعَزِیْمَةِ کَالْحُسَامِ الْمِفْصَلِ

    "وہ جنگ کی مصیبت میں سخت ہے، اس کی بارگاہ کا کوئی قصد نہیں کر سکتا، شمشیرِ بُرّاں کی طرح ارادہ کا پکا ہے۔"

   هِیَاج: برانگیختگی و خشم گرفتگی کے معنی میں آتا ہے اور مجازاً جنگ کے لیے بھی بولا جاتا ہے۔ شاعر کہتا ہے:

    کُلُّ امْرِئٍ یَجْرِیْ إِلَی یَوْمِ الْهِیَاجِ بِمَا اسْتَعَدَّ

    "ہر شخص لڑائی کے دن اسی سامان کے ساتھ جاتا ہے جو اس نے مہیا کیا ہے۔"

   مَغْضَبَة: اصلی معنی غصہ و ناراضی اور خشم گرفتگی کے ہیں اور عرفِ عام میں جنگ کے لیے مستعمل ہوتا ہے۔ ابن عنمہ کہتا ہے:

    إِنْ تَدْعُ زَیْدًا بَنِیْ ذُهْلٍ لِمَغْضَبَةٍ نَغْضَبْ لِزُرْعَةَ أَنَّ الْفَضْلَ مَحْسُوْبُ

    "اگر زید بنی ذُہل کو جنگ کے لیے بلائے گا تو ہم بنی زُرعہ کی طرف سے لڑیں گے کیونکہ فضیلت شمار ہوتی ہے۔"

 

شعرائے عرب نے جنگ کو مینڈھوں کے ٹکرانے سے تشبیہ دی ہے۔ چنانچہ اس کے لیے وہ "نِطَاح" کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ سعد بن مالک کہتا ہے:

 

وَالْکَرُّ بَعْدَ الْفِرَارِ أَکْرَهُ مِنَ التَّقَدُّمِ وَالنِّطَاحِ

 

"گریز کے بعد پلٹ پڑنا اس سے بہتر ہے جب کہ یک لخت پیش قدمی کر کے دشمن سے ٹکر لڑنا پسند نہ ہو۔"

 

جنگ کو اونٹ کے سینے (کَلْکَل) سے تشبیہ دی گئی ہے، کیونکہ اونٹ جب کسی چیز پر اپنا سینہ رکھ دیتا ہے تو وہ پس کر رہ جاتی ہے اور اس لیے بھی کہ اونٹ ایک سخت کینہ پرور اور انتقام جو جانور ہے۔ شاعر کہتا ہے:

 

أَنَخْتُمْ عَلَیْنَا کَلْکَلَ الْحَرْبِ مَرَّةً فَنَحْنُ مُنِیْخُوْهَا عَلَیْکُمْ بِکَلْکَلِ

 

"تم نے ایک مرتبہ ہمارے اوپر جنگ کا سینہ رکھا ہے، اس لیے ہم بھی عنقریب تم پر اس کا سینہ رکھنے والے ہیں۔"

 

جنگ کو چکی (رَحٰی) سے تشبیہ دی گئی ہے، کیونکہ وہ بھی دشمن کو آٹے کی طرح پیس دیتی ہے۔ ابو الغول الطُّہَوِی کہتا ہے:

 

فَوَارِسُ لَا یَمَلُّوْنَ الْمَنَایَا إِذَا دَارَتْ رَحَی الْحَرْبِ الزَّبُوْنِ

 

"وہ ایسے شہسوار ہیں کہ موت سے نہیں گھبراتے جب کہ شدید جنگ کی چکی چلتی ہے۔"

 

عمرو بن کلثوم کہتا ہے:

 

مَتٰی تُنْقَلْ إِلَی قَوْمٍ رَحَانَا یَکُوْنُوْا فِی اللِّقَاءِ لَهَا طَحِیْنًا

 

"جب ہم کسی قوم کی طرف اپنی چکی کو لے جاتے ہیں تو وہ لڑائی میں اس کا آٹا بن جاتی ہے۔"

 

جنگ کے لیے محض "چکر" (دَائِرَة) کا استعارہ بھی مستعمل تھا۔ عنترہ بن شداد العبسی کہتا ہے:

 

وَ لَقَدْ خَشِیْتُ بِأَنْ أَمُوْتَ وَ لَمْ تَکُنْ لِلْحَرْبِ دَائِرَةٌ عَلَی ابْنَيْ ضَمْضَمٍ

 

"مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میں مر جاؤں اور ضمضم کے دونوں بیٹے لڑائی کے چکر میں نہ آئیں۔"

 

جنگ کو آگ سے بھی بکثرت تشبیہ دی گئی ہے، کیونکہ وہ بھی دشمن کو آگ کی طرح جھلس دیتی ہے۔ حارث بن حِلِّزَہ کہتا ہے:

 

مَا جَزِعْنَا تَحْتَ الْعَجَاجَةِ إِذْ وَلَّوْا شِلَالًا وَ إِذَا تَلَظَّی الصِّلَا

 

"ہم گرد و غبار میں مضطرب نہ ہوئے جبکہ سوار متفرق ہو کر بھاگے اور جنگ کی آگ خوب بھڑکی۔"

 

سعد بن مالک کہتا ہے:

 

مَنْ صَدَّ عَنْ نِیْرَانِهَا فَأَنَا ابْنُ الْقَیْسِ لَا بَرَاحَ

 

"کوئی جنگ کی آگ سے منہ موڑ جائے، میں تو قیس کا بیٹا ہوں، ہرگز نہ ٹلوں گا۔"

 

بِشَامَة بن غَدِیر کہتا ہے:

 

قَوْمِیْ بَنُوْ الْحَرْبِ الْعَوَانِ بِجَمْعِهِمْ وَالْمَشْرَفِیَّةُ وَالْقَنَا إِشْعَالُهَا

 

"میری قوم ساری کی ساری شدید جنگ کی حریف ہے اور اس کے پاس مَشرَفی تلوار اور نیزہ جنگ کی آگ کو بھڑکانے کا ایندھن ہے۔"

 

ابو الغول الطُّہَوِی کہتا ہے:

 

وَلَا تُبْلَی بَسَالَتُهُمْ وَإِنْ هُمْ صَدَوْا بِنَا لِحَرْبٍ جَمْعًا بَعْدَ حِیْنٍ

 

"ان کی دلیری و مردانگی میں کمی نہیں آتی، اگرچہ وہ آتشِ جنگ میں پے در پے کودتے ہیں۔"

 

ان تمام تشبیہوں اور استعاروں اور محاوروں سے معلوم ہوتا ہے کہ اہلِ عرب کے تصور میں جنگ ایک ایسی چیز کا نام ہے جس میں لوٹ مار ہو، شور و ہنگامہ ہو، غضب و اشتعال ہو، جس کے خلاف لڑی جائے اس کو پیس دے، جھلس دے، تہس نہس کر دے اور اس پر ایسی مصیبتیں وارد ہوں جن کے خوف سے رونگٹے کھڑے ہو جائیں۔ دو لڑنے والے دشمنوں کی بہیمیت ان کے تصور میں مینڈھے کے مانند تھی جو غضبناک ہو کر اپنے حریف سے ٹکر لڑتا ہے۔ اس جنگ میں شجاعت و بسالت کا جوہر تو ضرور ہے مگر اخلاقی فضیلت اور انسانی شرافت کا نام تک نہیں۔

 

 عربی سیرت میں جنگ جوئی کا اثر

 

یہ جنگ اہلِ عرب کے قلب و روح کی سب سے زیادہ مرغوب چیز تھی۔ ان کے ہاں عام عقیدہ یہ تھا کہ اگر کوئی شخص پلنگ پر پڑ کر مرتا ہے تو اس کی روح ناک سے نکلتی ہے، اور اگر میدانِ جنگ میں لڑ کر جان دیتا ہے تو اس کی روح اس کے زخم سے نکلتی ہے۔ ہر عرب کی تمنا تھی کہ اس کی روح اس کے زخم سے نکلے، کیونکہ ناک سے روح کے نکلنے کو وہ سخت عار سمجھتا تھا۔ شعرائے عرب فخر کرتے ہیں کہ ان کے ہاں کوئی ناک کی موت نہیں مرتا۔ چنانچہ ایک شاعر اپنے قومی مفاخر بیان کرتے ہوئے کہتا ہے:

 

وَ مَا مَاتَ مِنَّا سَیِّدٌ حَتْفَ أَنْفُسِهِ!

 

"ہم میں کا کوئی سردار اپنی موت (یعنی بستر پر) نہیں مرا۔"

 

جنگ کی صدا کان میں پڑتے ہی ہتھیار لے کر دوڑ جانا عربی سوسائٹی میں فرض کا درجہ رکھتا تھا اور یہ پوچھنا حرام تھا کہ آخر یہ جنگ کیسی اور کیوں ہے؟ جنگ خواہ کیسی ہی ہو اس سے اجتناب کرنا بڑی بزدلی و نامرادی کی بات سمجھی جاتی تھی۔ اگر کسی کی قوم اس قسم کی بزدلی دکھاتی تو وہ اس پر بڑی شرم و غیرت کا اظہار کرتا تھا۔ ایک شاعر اسی کے متعلق کہتا ہے:

 

لَا یَسْأَلُوْنَ أَخَاهُمْ حِیْنَ یَنْدُبُهُمْ فِی النَّائِبَاتِ عَلَی مَا قَالَ بُرْهَانًا

 

"بنو مازن کا حال یہ ہے کہ جب ان کا کوئی بھائی حوادث و مصائب میں ان کو مدد کے لیے پکارتا ہے تو وہ اس کے قول کی کوئی دلیل اور وجہ پوچھے بغیر جنگ میں کود پڑتے ہیں۔"

 

لَکِنَّ قَوْمِیْ وَإِنْ کَانُوْا ذَوِیْ عَدَدٍ لَیْسُوْا مِنَ الشَّرِّ فِیْ شَیْءٍ وَإِنْ هَانَا

 

"مگر میری قوم کثیر التعداد ہونے کے باوجود ایسی ہے کہ جنگ سے کوئی واسطہ ہی نہیں رکھتی، خواہ وہ معمولی سی ہی جنگ ہو۔"

 

فَلَیْتَ لِیْ بِهِمْ قَوْمًا إِذَا رَكِبُوا شَدُّوا الْإِغَارَةَ فُرْسَانًا وَّرُكْبَانًا

 

"کاش اس کے بجائے مجھے ایسی قوم ملتی جو گھوڑوں اور اونٹوں پر سوار ہو کر خوب غارت گری کرتی۔"

 

ایک دوسرا شاعر اپنے خاندان کے مفاخر بیان کرتے ہوئے کہتا ہے:

 

إِنِّیْ لَمِنْ مَعْشَرٍ أَفْنَی أَوَائِلَهُمْ قَوْلُ الْكُمَاةِ أَلَا أَیْنَ الْمُحَامُوْنَ

 

"میں اس قوم سے ہوں جس کے بزرگ بہادروں کے محض اس غیرت دلانے والے قول پر مرمٹے کہ ہاں! کہاں ہیں نسب کی حفاظت کرنے والے؟"

 

اس قسم کے جذبات سے عرب جاہلیت کا لٹریچر بھرا پڑا ہے جس کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ عرب جنگجوئی کو بڑے فخر کی چیز سمجھتے تھے، اور ان کی نگاہ میں خونریزی ایک بڑی ہی خوبی کا کام تھا۔

 

 جنگ کے محرکات

 

اس خوفناک کام پر جو چیزیں ان کو ابھارتی تھیں ان میں سے ایک مالِ غنیمت کا شوق تھا۔ ایک عرب جب ہتھیار سنبھالتا تھا تو پہلی تمنا جو اس کے دل میں پیدا ہوتی تھی وہ یہ تھی کہ جنگ میں اسے خوب مالِ غنیمت اور لونڈی غلام ہاتھ آئیں۔ تجارت یا محنت و مشقت سے حاصل کیا ہوا مال اس کی نگاہ میں ذلیل مال تھا، اصلی عزت اس کے نزدیک اس "طیب" مال کے حاصل کرنے میں تھی جسے وہ میدانِ جنگ سے لوٹ کر لائے۔ رات دن مختلف قبیلے ایک دوسرے پر اسی غرض کے لیے چھاپے مارا کرتے تھے کہ بکریاں، اونٹ، لونڈی غلام اور مال و متاع لوٹ لائیں، اور یہی شوق ان کو زیادہ تر جنگ پر ابھارا کرتا تھا۔

 

ایک شاعر اپنے جذبۂ شوقِ غنیمت کو اس طرح ظاہر کرتا ہے:

 

فَلَئِنْ بَقِیْتُ لَأَرْحَلَنَّ بِغَزْوَةٍ تَحْوِی الْغَنَائِمَ أَوْ یَمُوْتَ کَرِیْمُ

 

"اگر میں زندہ رہا تو ایک ایسی جنگ پر جاؤں گا جس میں خوب مالِ غنیمت سمیٹا جائے یا نہیں تو پھر ایک شریف آدمی لڑ کر جان دے دے۔"

 

ایک دوسرا شاعر اپنے قبیلہ کی تعریف میں کہتا ہے کہ وہ لوٹ مار کے جوش میں خود اپنے بھائیوں کو بھی نہیں چھوڑتا:

 

وَکُنَّا إِذَا أَغَرْنَ عَلَی جَنَابٍ وَ أَعْوَزَهُنَّ نَهْبٌ حَیْثُ کَانَا

أَغَرْنَ مِنَ الضِّبَابِ عَلَی حُلُوْلٍ وَضَبَّةَ إِنَّهُ مَنْ حَانَ حَانَا

 

"ہمارے گھوڑے جب قبیلہ جناب پر غارت گری کرتے ہیں تو وہاں کچھ لوٹ کا مال ہاتھ نہیں آتا تو وہ ضِباب اور ضَبَّہ پر ٹوٹ پڑتے ہیں جبکہ وہ اپنے گھروں میں ہوتے ہیں، پھر مرے سو مر جائے اس کی وہ کچھ پروا نہیں کرتے۔"

 

وَ أَحْیَانًا عَلَی بَکْرٍ أَخِیْنَا إِذَا مَا لَمْ نَجِدْ إِلَّا أَخَانَا

 

"اور کبھی کبھی خود بکر، اپنے بھائی پر بھی حملہ کر بیٹھتے ہیں، جبکہ ہمیں اپنے بھائی کے سوا کوئی اور لوٹ مار کے لیے نہ ملے۔"

 

جب کوئی قبیلہ جنگ کے لیے نکلتا تو اس کی عورتیں اپنے مردوں کو قسم دے دیا کرتی تھیں کہ بغیر مالِ غنیمت لیے واپس نہ آنا۔ چنانچہ عمرو بن کلثوم کہتا ہے:

 

أَخَذْنَ عَلَی بُعُوْلَتِهِنَّ عَهْدًا إِذَا لَاقَوْا کَتَائِبَ مُعْلَمِیْنَا

لِکَیْ یَسْلُبْنَ أَفْرَاسًا وَبِیْضًا وَأَسْرَی فِی الْحِبَالِ مُقَرَّنِیْنَا

 

"انہوں نے اپنے شوہروں سے عہد لیا ہے کہ جب بہادری کے نشان لگائے ہوئے دشمن کے لشکر سے ملیں، تو گھوڑے اور صیقل شدہ تلواریں لے کر لوٹیں، اور لونڈی غلام رسیوں میں بندھے ہوئے لے کر آئیں۔"

 

یہی شاعر دوسری جگہ اظہارِ فخر کے طور پر کہتا ہے:

 

فَآبُوْا بِالنِّهَابِ وَبِالسَّبَایَا وَأُبْنَا بِالْمُلُوْکِ مُصَفَّدِیْنَا

 

"وہ لوٹے ہوئے مال اور لونڈی غلام لے کر واپس ہوئے اور ہم بادشاہوں کو لے کر پلٹے جو بندھے ہوئے تھے۔"

 

"تحلاق اللمم" کی جنگ میں "طرفہ" کے قبیلہ کو جو فتح حاصل ہوئی تھی اس کا ذکر کرتے ہوئے وہ کہتا ہے:

 

یَوْمَ تُبْدِی الْبِیْضُ عَنْ أَسْؤُقِهَا وَتَلُفُّ الْخَیْلُ أَفْوَاجَ النَّعَمِ

 

"وہ دن جبکہ چمکتی ہوئی تلواریں اپنی پنڈلیاں کھول رہی تھیں اور سوار اونٹوں کے غول کے غول جمع کرتے پھرتے تھے۔"

 

زہیر، آلِ ربیعہ پر اپنی فتح کے واقعات بیان کرتے ہوئے کہتا ہے:

 

(شعر غالباً نامکمل یا حذف شدہ)

 

"ہم تغلب سے تمام گوری گوری لڑکیاں لوٹ لائے جو دن چڑھے تک سوتی ہیں، اور جن کا لعابِ دہن چوسنے سے ٹھنڈک پہنچتی ہے۔"

 

یومِ مُسحلان میں بنی شیبان کو بنی کلب پر جو فتح حاصل ہوئی تھی اس کی کیفیت ایک شیبانی شاعر اس طرح بیان کرتا ہے:

 

عَشِیَّةَ وَلَّی جَمْعُهُمْ فَتَتَابَعُوْا فَصَارَ إِلَیْنَا نَهْبُهُ وَعَوَانِسُهُ

 

"اس شام ان کی جمعیت بھاگی اور بھاگتی ہی چلی گئی، پھر ان کا مال و اسباب اور ان کی دراز قد کنواری لڑکیاں ہمارے ہاتھ آگئیں۔"

 

اس غنیمت کے شوق میں اکثر ایسا ہوتا کہ جب کوئی فوج کسی قبیلہ پر حملہ کرنے کے لیے نکلتی تو بہت سے مالِ غنیمت کے بھوکے محض لوٹ مار کے لیے اس کے ساتھ ہو جاتے تھے۔ حارث بن حِلِّزَہ ایک قوم پر نعمان بن منذر کی چڑھائی کا حال بیان کرتے ہوئے کہتا ہے:

 

فَنَادَتْ لَهُ قُرَاضِبَةٌ مِنْ کُلِّ حَيٍّ کَأَنَّهُمُ الْعِقَابُ

 

"اس کی مدد کے لیے ہر قبیلہ سے بھوکے لٹیرے جمع ہو گئے، گویا کہ وہ عقاب تھے۔"

 

آگے چل کر کہتا ہے:

 

ثُمَّ مِلْنَا عَلَی تَمِیْمٍ فَأَحْرَمْنَا وَفِیْهِمْ بَنَاتٌ حَرَامًا

 

"پھر ہم بنی تمیم پر ٹوٹ پڑے اور ماہِ حرام میں ان پر پہنچ کر ان کی بیٹیوں کو لونڈیاں بنا لیا۔"

 

یہ لوٹ مار اہلِ عرب کی جنگ کے اولین مقاصد میں سے تھی اور عقلائے عرب اس جنگ کو بے کار و بے نتیجہ سمجھتے تھے جس میں کچھ مال ہاتھ نہ آئے۔ اکثم بن صَیفی جو اپنی قوم کا بڑا جہاندیدہ و فرزانہ شخص تھا، کہا کرتا تھا کہ أَحْسَنُ الظَّفَرِ کَثْرَةُ الْأَسْرَی وَخَیْرُ الْغَنِیْمَةِ الْمَالُ، "بہترین فتح وہ ہے جس میں بہت سے قیدی ہاتھ آئیں اور بہترین غنیمت وہ ہے جس میں اونٹ و بکریاں ملیں۔"

 

 تفاخر

 

حصولِ غنائم کے ساتھ دوسرا اہم محرک یہ جذبہ تھا کہ اپنی بزرگی و شرافت اور بہادری و شجاعت کی دھاک بٹھائی جائے۔ یہ تفاخر کا جذبہ دراصل عربوں کی فطری خصوصیات میں سے تھا اور اپنے ہم جنسوں کے مقابلہ میں آپ اپنے کو طاقتور، ممتاز اور معزز ثابت کرنے کے لیے وہ ہر قسم کے خطرات برداشت کرنے پر آمادہ ہو جاتے تھے۔ ایک بہادر عرب کی بڑی سے بڑی تمنا یہ ہوتی تھی کہ اس کی چراگاہ میں دوسرے کا اونٹ نہ چر سکے، جس چشمہ سے وہ پانی پیے اس پر دوسرا نہ آنے پائے، جس منزل میں وہ ٹھہرے وہ دوسروں کے لیے تنگ ہو جائے، جو لباس وہ پہنے اس کے مثل کوئی دوسرا نہ پہن سکے، اس کے مقابلے پر کسی کو بڑا اور بزرگ نہ سمجھا جائے، اس کے سامنے کسی کی تعریف نہ کی جائے، وہ جس کو چاہے قتل کر دے، کوئی اس سے خون کا انتقام نہ لے سکے، اس کا ہاتھ سب پر اَور رہے، اس کی خدمت سے کسی کو عار نہ ہو، غرض یہ کہ ہر طرح اس کو دوسروں پر فضیلت حاصل رہے اور اس کے سامنے کوئی سر نہ اٹھا سکے، شعرائے جاہلیت کا سارا کلام اسی قسم کے جذبات سے بھرا پڑا ہے۔

 

ایک شاعر اپنے مفاخر بیان کرتے ہوئے کہتا ہے:

 

وَ قَدْ عَلِمَ الْقَبَائِلُ مِنْ مَعَدٍّ إِذَا قُبَبٌ بِأَبْطَحِهَا بُنِیْنَا

بِأَنَّا الْمَانِعُوْنَ لِمَا أَرَدْنَا وَأَنَّا النَّازِلُوْنَ بِحَیْثُ شِئْنَا

وَأَنَّا التَّارِكُوْنَ إِذَا سَخِطْنَا وَأَنَّا الْآخِذُوْنَ إِذَا رَضِیْنَا

وَأَنَّا الْعَاصِمُوْنَ إِذَا أُطِعْنَا وَأَنَّا الْعَازِمُوْنَ إِذَا عُصِیْنَا

وَنَشْرَبُ إِنْ وَرَدْنَا الْمَاءَ صَفْوًا وَیَشْرَبُ غَیْرُنَا کَدَرًا وَّطِیْنًا

 

"تمام قبائلِ معد جب سے وہ زمین پر آباد ہیں یہ جانتے ہیں کہ... ہم جس چیز کو چاہتے ہیں روک دیتے ہیں اور جس منزل میں چاہتے ہیں ٹھہرتے ہیں۔ جب ہم ناراض ہوتے ہیں تو بے خوف چھوڑ دیتے ہیں اور جب ہم راضی ہوتے ہیں تو بے تکلف لے لیتے ہیں۔ جب ہماری اطاعت کی جاتی ہے تو ہم بچانے والے ہوتے ہیں اور جب ہماری نافرمانی کی جاتی ہے تو ہم عازمِ جنگ ہو جاتے ہیں۔ جب ہم کسی چشمہ پر پہنچتے ہیں تو صاف پانی پیتے ہیں اور غیروں کو گدلا کیچڑ ملا پانی پینا پڑتا ہے۔"

 

قیس بن ثعلبہ کہتا ہے:

 

بِیْضٌ مَفَارِقُنَا تَغْلِیْ مَرَاجِلُنَا نَأْسُوْا بِمَالِنَا آثَارَ أَیْدِیْنَا

 

"ہمارے سر سفید¹ ہیں اور ہماری دیگیں جوش کھاتی ہیں²۔ ہم اپنے ہاتھ کے پہنچائے ہوئے زخموں کا مداوا اپنے مال سے کرتے ہیں³۔"

 

¹ یعنی ہمارے سر بکثرت عطر ملنے کی وجہ سے سفید ہو گئے ہیں۔

² یعنی ہم خوب دعوتیں کرتے اور کھانے کھلاتے ہیں۔

³ یعنی اگر ہم کسی کو قتل کر دیں تو مقتول کے قبیلے والوں کو ہم سے انتقام لینے کی جرات نہیں ہوتی، انہیں مجبوراً اپنے مقتول کی جان کے بدلے خون بہا قبول کرنا پڑتا ہے۔

 

ایک اور شاعر بنی وبر کی تعریف میں کہتا ہے:

 

قَوْمٌ إِذَا مَا جَنَی جَانِیْهِمُ أَمِنُوْا مِنْ لَوْمِ أَحْسَابِهِمْ أَنْ یُّقْتَلُوْا قَوَدَا

 

"وہ ایسی قوم ہیں کہ اگر ان میں سے کوئی دست درازی کرنے والا کسی کو قتل کر دے تو وہ اس سے بے خوف رہتے ہیں کہ ان سے قصاص لے کر کوئی ان کے حسب کو بٹہ لگا سکے گا۔"

 

حُجْر بن خالد ثعلبی فخر کے لہجے میں کہتا ہے:

 

مَنَعْنَا حِمَانَا وَاسْتَبَاحَتْ رِمَاحُنَا حِمَی کُلِّ قَوْمٍ مُّسْتَجِیْرٍ مَّرَاتِعُهٗ

 

"ہم نے اپنی محفوظ چراگاہ کو دوسروں کے لیے بند رکھا ہے اور ہمارے نیزوں نے ہر قوم کی محفوظ چراگاہوں کو، جن کے زبردست محافظ موجود ہیں، اپنے لیے مباح کر لیا ہے۔"

 

اخنس اپنی قوم کے مفاخر بیان کرتے ہوئے کہتا ہے:

 

أَرَی کُلَّ قَوْمٍ قَارَبُوْا قَیْدَ فَحْلِهِمْ وَنَحْنُ خَلَعْنَا قَیْدَهُ فَهُوَ سَارِبٌ

 

"میں دیکھتا ہوں کہ ہر قوم نے اپنے اونٹ (سانڈ) کی رسی چھوٹی کر رکھی ہے مگر ہم نے اس کو کھلا چھوڑ دیا ہے اور وہ آزادی سے چرتا پھرتا ہے۔"

 

"ایام العرب" کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ عہدِ جاہلیت میں جتنی ہولناک لڑائیاں ہوئی ہیں ان میں سے اکثر اسی جذبۂ تفاخر کا نتیجہ تھیں۔ مشہور "حربِ بسوس" جو بنی تغلب اور بنی بکر بن وائل کے درمیان کامل ۴۰ برس تک جاری رہی، صرف اتنی سی بات پر ہوئی تھی کہ بنی تغلب کے سردار کُلَیب بن ربیعہ کی چراگاہ میں بنی بکر بن وائل کے ایک مہمان کی اونٹنی گھس گئی اور کُلَیب کے اونٹوں کے ساتھ چرنے لگی۔ کُلَیب کا قاعدہ تھا کہ وہ نہ اپنی چراگاہ میں کسی کے جانور چرنے دیتا، نہ اپنی شکار گاہ میں کسی کو شکار کھیلنے دیتا، نہ اپنے جانوروں کے ساتھ کسی کے جانوروں کو پانی پینے دیتا، حتیٰ کہ اپنی آگ کے سامنے کسی کی آگ بھی جلتی نہ دیکھ سکتا تھا۔ اس نے جب غیر کی اونٹنی کو اپنے جانوروں کے ساتھ چرتے دیکھا تو غصے میں آکر اس پر ایک تیر مارا جو اس کے تھن میں جا لگا۔ اونٹنی کے مالک نے جو اس کو زخمی دیکھا تو اس نے فریاد کی "یَا لَذُلّ!" (ہائے یہ کیسی ذلت ہے!) اس پر بنی بکر میں آگ لگ گئی اور ان کے ایک نوجوان جسّاس بن مُرّہ نے جا کر کُلَیب کو (جو اس کا حقیقی بہنوئی تھا) قتل کر ڈالا۔ کُلَیب کے بھائی مُہَلہِل کو جب اس کی خبر ہوئی تو وہ اپنے بھائی کا انتقام لینے کھڑا ہو گیا اور دفعتاً دونوں قبیلوں میں ایسی ٹھن گئی کہ جب تک دونوں تباہ نہ ہو گئے تلواریں نیام میں نہ گئیں۔¹

 

¹ عقد الفرید، جلد ۳، صفحہ ۷۴-۷۷۔ ابن اثیر، جلد ۱، صفحہ ۳۸۴-۳۹۷۔

 

ایک دوسری جنگ جو "حربِ داحس" کے نام سے مشہور ہے محض گھوڑ دوڑ میں ایک گھوڑے کے آگے نکل جانے پر برپا ہوئی تھی۔ بنی عبس کے سردار قیس بن زُہَیر کے پاس داحس اور غَبراء نامی دو گھوڑے تھے جن کی تیز رفتاری عرب میں مشہور تھی۔ بنی بدر کے سردار حُذَیفہ بن بدر کو یہ بات ناگوار ہوئی کہ اس کے ایک ہم چشم کے گھوڑوں کو اتنی شہرت نصیب ہو۔ اس نے اپنے دو گھوڑوں سے ان کی شرط بدی اور فریقین کے درمیان یہ بات طے ہوئی کہ جس کے گھوڑے آگے آئیں وہ سو اونٹ لے لے۔ شرط کے مطابق دونوں کے گھوڑے دوڑائے گئے۔ جب داحس آگے نکلنے لگا تو حُذَیفہ کے ایک آدمی نے اس کے منہ پر پَیچِی مار کر اسے ایک وادی کی طرف موڑ دیا۔ اس بات پر فریقین میں جھگڑا ہو گیا۔ قیس نے حُذَیفہ کے بیٹے نَدَبَہ کو قتل کر دیا۔ حُذَیفہ نے قیس کے بھائی مالک کو مار ڈالا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بنی عبس اور بنی ذُبْیان میں ایسی شدید جنگ برپا ہوئی جس کا سلسلہ نصف صدی تک جاری رہا اور اس وقت تک نہ رکا جب تک فریقین کے گھوڑوں اور اونٹوں کی نسل منقطع ہونے کے قریب نہ پہنچ گئی ہو۔²

 

² ابن اثیر، صفحہ ۴۲۰-۴۲۱۔ عقد الفرید کا بیان اس سے مختلف ہے، اور اغانی کا بیان دونوں سے مختلف۔ مگر اس پر سب کا اتفاق ہے کہ لڑائی کی بنا محض گھوڑ دوڑ تھی۔

 

اوس و خزرج کی مشہور لڑائیاں جن کا سلسلہ کامل ایک صدی تک جاری رہا، تفاخر و تنافر کے ایک نہایت ہی حقیر واقعہ سے شروع ہوئی تھیں۔ بنی سعد کا ایک شخص ایک خزرجی سردار مالک بن عَجلان کے جوار میں رہتا تھا۔ ایک مرتبہ اس نے بنی قَینُقاع کے بازار میں دعویٰ کیا کہ میرا حلیف مالک بن عَجلان سب سے اشرف و افضل ہے۔ یہ بات قبیلہ اوس کے ایک شخص کو بہت بری معلوم ہوئی اور اس نے قائل کو قتل کر دیا۔ اس پر اوس اور خزرج کے درمیان قتل و خون کا ایسا خوفناک سلسلہ شروع ہو گیا کہ اگر اسلام نہ آتا تو دونوں قبیلے لڑ لڑ کر فنا ہو جاتے۔¹

 

¹ ابن اثیر، جلد ۱، صفحہ ۵۱۱۔

 

سوقِ عُکاظ میں قبیلہ کنانہ کا ایک شخص بَدْر بن مَعْشَر پاؤں پھیلا کر بیٹھ گیا اور پکار کر بولا کہ "میں عرب کا سب سے معزز آدمی ہوں، جس کسی کو مجھ سے زیادہ معزز ہونے کا دعویٰ ہو میرے پاؤں پر تلوار مارے۔" اس پر بنو دُهمان کا ایک منچلا جوان آگے بڑھا اور اس نے بدر کے پاؤں پر تلوار مار دی۔ یہ چنگاری دونوں قبیلوں میں جنگ کی آگ بھڑکانے کے لیے کافی تھی۔ تلواریں کھنچ گئیں، اور وہ جنگ برپا ہوئی جو پہلی "حربِ فِجار" کہلائی ہے۔ اس کے بعد کنانہ اور ہوازن میں کبھی صفائی نہ ہوئی اور ان کی عداوتیں یہاں تک بڑھیں کہ دونوں قبیلوں کے حلیف قبائل بھی ان میں شریک ہو گئے۔

 

آخری حربِ فجار بھی، جس کے متعلق ابن اثیر کہتا ہے کہ "ایام العرب" میں اس سے زیادہ زبردست جنگ کوئی نہیں ہوئی، اسی جذبۂ فخر و غرور کا نتیجہ تھی۔ ۲۶ قبلِ بعثت میں نُعمان بن مُنذِر بادشاہِ حیرہ نے اپنے ہاں سے ایک تجارتی قافلہ سوقِ عُکاظ میں بھیجنے کا ارادہ کیا اور رؤسائے عرب سے پوچھا کہ کون اس کو اپنی حفاظت میں لے جانے کا ذمہ لیتا ہے؟ بَرّاض بن قیس الکِنانی نے کہا کہ "میں اس کو بنی کنانہ سے محفوظ رکھنے کا ذمہ لیتا ہوں۔" ہوازن کے ایک سردار عُروَة الرَّحّال نے کہا کہ "میں اس کو تمام عرب سے محفوظ رکھنے کا ذمہ لیتا ہوں۔" بَرّاض اس ادعا کو برداشت نہ کر سکا اور جب عُروہ قافلہ لے کر چلا تو راستے میں اس نے عُروہ کا کام تمام کر دیا۔ اس واقعہ سے کنانہ اور ہوازن کی عداوت پھر تازہ ہو گئی۔ دونوں قبیلوں میں جنگ چھڑی۔ قریش نے کنانہ کا اور بنو ثقیف نے ہوازن کا ساتھ دیا۔ چار سال تک شدید خونریزی کا سلسلہ جاری رہا اور یوم الشَّمْطَاء، یوم العَبْلَاء، یوم الشَّرَب اور یوم الْحَرِیْرَة کے ہولناک معرکے برپا ہوئے جنہوں نے عرب کے تمام پچھلے معرکوں کو بھلا دیا۔²

 

² ابن اثیر، جلد ۱، صفحہ ۴۳۹-۴۴۵۔

 

 انتقام

 

ایک اور قوی و شدید محرک جس نے عرب کی تاریخ کو خون سے رنگین کر دیا تھا، انتقام کا جذبہ تھا۔ عرب یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ جب کوئی شخص قتل کیا جاتا ہے تو اس کی روح پرندہ بن کر اڑ جاتی ہے اور جب تک اس کا بدلہ نہ لے لیا جائے وہ کوہ و بیاباں میں "اِسْقُوْنِیْ، اِسْقُوْنِیْ" (مجھے پلاؤ، مجھے پلاؤ) کہہ کر چیختی پھرتی ہے۔ ان کی اصطلاح میں اس پرندے کا نام ہَامَہ یا صَدٰی تھا۔ بعض لوگوں کا یہ عقیدہ تھا کہ جس مقتول کا انتقام لے لیا جاتا ہے وہ زندہ رہتا ہے اور جس کا انتقام نہیں لیا جاتا وہ بے جان ہو جاتا ہے۔ بعض لوگ یہ سمجھتے تھے کہ جب تک بدلہ نہ لیا جائے مقتول کی قبر میں اندھیرا رہتا ہے۔ اس قسم کے عقائد کی بنا پر مقتول کے رشتہ دار، اہلِ قبیلہ، حتی کہ اس کے قبیلہ کے حلیف تک اپنا فرض سمجھتے تھے کہ اس کے قاتل سے خون کا بدلہ (ثأر) لے کر اس کی روح کو مطمئن کر دیں۔ اگر قاتل اس کے درجے سے کمتر درجے کا آدمی ہوتا تو اس کے قبیلہ کے کسی ایسے آدمی کو قتل کرنے کی کوشش کی جاتی تھی جس کا خون ان کے خیال میں مقتول کے خون کے برابر قیمت رکھتا ہو۔ اس طرح بسا اوقات ایک شخص کے قتل ہو جانے سے بڑے بڑے قبیلوں میں آگ لگ جاتی تھی اور ایسی خونریزیوں کا سلسلہ شروع ہوتا تھا کہ سالہا سال تک نہ تھمتا تھا۔ اگر کوئی شخص یا قبیلہ اپنے آدمی کے خون کا بدلہ (ثأر) لینے میں کوتاہی کرتا یا اس کے عوض خون بہا قبول کر لیتا تو یہ بڑی ذلت کی بات سمجھی جاتی تھی، اور اس بزدلی سے اس کی شرافت کو بٹہ لگ جاتا تھا۔

 

شعرائے جاہلیت کے کلام میں جو مضامین بکثرت وارد ہوئے ہیں ان میں سے ایک یہی ثأر کا عقیدہ ہے۔ وہ اسی عقیدہ کی بنا پر قوموں کو جنگ کا جوش دلاتے تھے اور رجز میں اکثر اس بات پر فخر کرتے تھے کہ ان کے قبیلہ نے کبھی اپنے کسی مقتول کا خون رائیگاں نہ جانے دیا۔ السَّمَوْءَل بن عَادِیَاء کہتا ہے:

 

وَ مَا مَاتَ مِنَّا سَیِّدٌ حَتْفَ أَنْفُسِهِ وَلَا طُلَّ مِنَّا حَیْثُ کَانَ قَتِیْلُ

 

"ہم میں کا کوئی سردار اپنی موت (بستر پر) نہیں مرا، اور جب ہمارا کوئی آدمی مارا گیا تو اس کا خون کبھی رائیگاں نہ گیا۔"

 

¹ عقد الفرید، جلد ۳، صفحہ ۸۶۔

 

حارث بن حِلِّزَہ کہتا ہے:

 

إِنْ نَبَشْتُمْ مَا بَیْنَ مَلْحَةٍ فَالصَّاقِبِ فِیْهَا الْأَمْوَاتُ وَالْأَحْیَاءُ

 

"اگر تم ملحہ سے صاقب تک قبریں کھودو گے تو دیکھو گے کہ کچھ مُردے ہیں (جن کا خون رائیگاں گیا اور وہ تم میں سے ہیں) اور کچھ زندہ ہیں (جن کا ثأر لے لیا گیا اور وہ ہم میں سے ہیں)۔"

 

قیس بن عاصِم اپنے قبیلہ کو جوشِ انتقام دلانے کے لیے کہتا ہے:

 

فَمَا بَالُ أَصْدَاءٍ بِفَلْجٍ غَرِیْبَةٍ تُنَادِیْ مَعَ الْأَطْلَالِ یَا لِابْنِ حَنْظَلِ

صَوَادٍ لَا مَوْلًی عَزِیْزٌ یُجِیْبُهَا وَلَا أُسْرَةٌ تَسْقِیْ صَدَاهَا بِمَنْهَلِ

 

"ان بے چارے "صداؤں" کا کیا حال ہے جو فَلج میں چیختے پھر رہے ہیں کہ "ہائے ابنِ حنظلہ کا بدلہ کسی نے نہ لیا!" وہ صدائیں جن کی چیخوں اور فریادوں کا جواب دینے کے لیے نہ کوئی طاقتور حامی موجود ہے اور نہ کوئی ایسا خاندان ہے جو انہیں گھاٹ پر سیراب کرے۔"

 

تَأَبَّطَ شَرًّا اپنے مفاخر بیان کرتے ہوئے کہتا ہے:

 

ھِیْمٌ إِلَی الْمَوْتِ إِذَا خُیِّرُوْا بَیْنَ تُبَّاعَاتٍ وَتَقْتَالِ

 

"وہ موت کے مشتاق ہوتے ہیں جب ان کو خون بہا لینے اور لڑنے کے درمیان انتخاب کا اختیار دیا جاتا ہے۔"

 

بنی اسد کا ایک شاعر اپنے قبیلہ کو وصیت کرتا ہے:

 

فَلَا تَأْخُذُوْا عَقْلًا مِّنَ الْقَوْمِ إِنَّنِیْ أَرَی الْعَارَ یَبْقَی وَالْمَعَاقِلَ تَذْهَبُ

 

"میرے خون کے بدلے میں دشمن قبیلہ سے دیت نہ قبول کر لینا، کیونکہ عار باقی رہ جاتا ہے اور دیت کا مال خرچ ہو جاتا ہے۔"

 

بنو خزاعہ کا ایک شاعر اپنے قبیلہ کو انتقام کا جوش اس طرح دلاتا ہے:

 

وَلَا تَطْمَعَنَّ فِیْمَا یُعَلِّقُوْنَکَ إِنَّهُمْ أَتَوْکَ عَلَی قُرْبَیٰ هُوَ بِالْمُثْمِلِ (?)

أَبَعْدَ الْإِزَارِ الْمُمَجَّدِ الْکَ (?) شَاهِدًا أَتَیْتَ بِهِ فِی الدَّارِ لَمْ یَتَزَیَّلْ

أَرَاکَ إِذَا قَدْ صِرْتَ لِلْقَوْمِ نَاضِحًا یُقَالُ لَهُ یَا غُرَابُ أَدْبِرْ وَأَقْبِلْ (?)

فَخُذْهَا فَلَیْسَتْ لِلْعَزِیْزِ مَخُطَّةً (?) وَفِیْهَا مَقَالٌ لِامْرِئٍ یَتَذَلَّلُ

 

"جو کچھ وہ تجھے دیت میں دیتے ہیں اس کا خیال بھی نہ کر کیونکہ وہ باوجود قرابت کے تیرے پاس زہرِ ہلاہل لائے ہیں۔ کیا تو وہ خون آلود ازار دیکھنے کے بعد دیت لے گا جو تیرے پاس لائی گئی اور جس سے ابھی تک خون دور نہیں ہوا ہے؟ اگر تو نے ایسا کیا تو میں سمجھتا ہوں کہ تو وہ آب کش اونٹ بن گیا ہے جس پر پکھال رکھ کر کہتے ہیں آگے بڑھ اور پیچھے ہٹ۔ اگر تو چاہے تو لے لے مگر یہ شریفوں کا چلن نہیں ہے، اور اس میں تو ذلیل آدمی کو بھی کلام ہو گا۔"

 

کَبْشَہ بنت مَعْدِیْکَرِب اپنے بھائی کے خون کا بدلہ لینے کے لیے بنی زبید کو اس طرح ابھارتی ہے:

 

أَرْسَلَ عَبْدُ اللهِ إِذْ حَانَ وَقْتُهُ إِلَی قَوْمِهِ لَا تَعْقِلُوْا لَهُمْ دَمِیْ

وَلَا تَأْخُذُوْا مِنْهُمْ فَالًا وَأَبْكُرًا! وَأُتْرَكْ فِیْ بَیْتٍ بِصَعْدَةَ مُظْلِمِ

فَإِنْ أَنْتُمْ لَمْ تَثْأَرُوْا وَدَیْتُمْ فَمُشُوْا بِآذَانِ النَّعَامِ الْمُصَلَّمِ

وَلَا تَرِدُوْا إِلَّا فُضُوْلَ نِسَائِکُمْ إِذَا ارْتَبَلَتْ أَعْقَابُهُنَّ مِنَ الدَّمِ

 

"عبداللہ کا جب آخری وقت آیا تو اس نے اپنی قوم کو (زبانِ حال سے) کہلا بھیجا کہ ان سے میرے خون کی دیت نہ قبول کرنا۔ تم ان سے بچے اور جوان اونٹ لے کر نہ بیٹھ جانا دراں حالیکہ میں صعدہ کی ایک تاریک قبر میں پڑا ہوں۔ اگر تم نے میرے خون کا بدلہ نہ لیا اور دیت قبول کر لی تو تم کَن کٹے شتر مرغ کی طرح ذلیل پھرو۔ اور نہ آؤ اپنی عورتوں کے پاس سوائے ایام کی حالت کے جب کہ ان کی ایڑیاں تک خون سے سنی ہوں۔"

 

یہ عرب کی قبائلی عداوتوں اور لڑائیوں کے اصلی محرکات ہیں۔ ان میں کسی شریف تر اور بلند تر نصب العین کا نام و نشان تک نہیں ہے۔ وہی خالص بہیمی اور حیوانی داعیات جو ایک درندے کو اپنے مدِّ مقابل کے پھاڑ کھانے پر ابھارتے ہیں، زیادہ ترقی یافتہ مگر زیادہ خوفناک صورت میں ان کے لیے بھی قتل و غارت گری کے محرک ہوتے تھے۔ جنگ ان کی سیرت کے محض حیوانی پہلو سے تعلق رکھتی تھی۔ انسانی و ملکوتی پہلو سے اس کا کوئی تعلق نہ تھا بلکہ ان کے ذہن اس تصور سے بھی خالی تھے کہ جنگ کو بنی آدم کے اس برتر اخلاقی پہلو سے بھی کوئی تعلق ہو سکتا ہے۔

 

 جنگ کے وحشیانہ طریقے

 

جس طرح جنگ کے متعلق عرب جاہلیت کا تصور پست تھا اور جس طرح ان کے مقاصدِ جنگ ذلیل و ناپاک تھے، اسی طرح وہ طریقے بھی جن سے وہ جنگ کیا کرتے تھے انتہا درجہ کے وحشیانہ تھے۔ چونکہ ان کے ذہن میں جنگ کی خصوصیات ہی یہ تھیں کہ وہ ہولناک ہو، غیظ و غضب کا مظہرِ اتم ہو، بلاؤں اور مصیبتوں کا مجموعہ ہو، چکی کی طرح پیس دینے والی ہو، آگ کی طرح جھلس دینے والی ہو، اونٹ کے سینے کی طرح ہر چیز کو ریزہ ریزہ کر دینے والی ہو، اس لیے جنگ میں ان کے اعمال بھی اسی تصور کے مطابق ہوتے تھے۔ کسی قوم کے خلاف ہتھیار اٹھانے کے معنی ان کے نزدیک یہ تھے کہ جس طرح ممکن ہو اس کو تباہ و برباد اور ذلیل و خوار کیا جائے۔ ان کا جذبۂ نبرد آزمائی کسی قسم کی اخلاقی حدود سے آشنا نہ تھا۔ وہ صرف ایک چیز جانتا تھا اور وہ یہ تھی کہ دشمن پامال کرنے کے لیے ہے۔ اس غرض کے لیے جو طریقے اختیار کیے جاتے تھے ان کی تفصیلات ہم کو کلامِ جاہلیت اور ایام العرب میں بکثرت ملتی ہیں جن میں سے بعض کا ذکر یہاں کیا جاتا ہے۔

 

 غیر مقاتلین پر تعدی

 

جنگ میں مقاتلین اور غیر مقاتلین کے درمیان کوئی امتیاز نہ تھا۔ دشمن قوم کے ہر فرد کو دشمن سمجھا جاتا تھا اور اعمالِ جنگ کا دائرہ تمام طبقوں اور جماعتوں پر یکساں محیط تھا۔ عورتیں، بچے، بوڑھے، بیمار، زخمی، کوئی بھی اس ہمہ گیر دست درازی سے مستثنیٰ نہ تھا۔ بلکہ دشمن قوم کو ذلیل و خوار کرنے کے لیے عورتیں خصوصیت کے ساتھ جنگی کارروائیوں کی تختۂ مشق بنائی جاتی تھیں۔ مفتوح قوم کی عورتوں کو بے حرمت کرنا، ان کے پردے اٹھا دینا، ان کی تحقیر و تذلیل کرنا فاتح کے مفاخر میں شمار ہوتا تھا اور شعراء بڑے فخر کے ساتھ اس کا ذکر کرتے تھے۔

 

ایک شاعر کہتا ہے:

 

وَعَقِیْلَةٍ یَسْعَی عَلَیْهَا قَیِّمٌ مُّتَغَطْرِسٌ أَبْدَیْتُ عَنْ خَلْخَالِهَا

 

"بہت سی شریف عورتیں جن کے غیرت مند شوہر ان کی حفاظت میں پوری کوشش کرتے تھے، ان کے پازیب میں نے کھول دیے۔"

 

فَالْهَمُّ بَیْضَاتُ الْخُدُوْرِ هُنَاكَ لَا النَّعَمُ الْمُرَاحُ

 

"اس وقت اصلی مقصود گوری گوری پردہ نشین عورتیں ہوتی ہیں نہ کہ چراگاہ سے واپس ہونے والے اونٹ۔"

 

عمرو بن کلثوم جنگ میں بے جگری سے لڑنے کی وجہ یہ بتاتا ہے کہ اس کے قبیلہ کو اپنی عورتوں کے بے حرمت ہونے کا کھٹکا لگا ہوا ہے۔ کہتا ہے:

 

عَلَی آثَارِنَا بَیْضٌ حِسَانٌ نُحَاذِرُ أَنْ تُقَسَّمَ أَوْ تَهُوْنَا

 

"ہمارے پیچھے گوری گوری خوبصورت عورتیں ہیں، ہمیں خوف ہے کہ کہیں وہ تقسیم یا ذلیل نہ کی جائیں۔"

 

عورتوں کے پیٹ تک بسا اوقات شدتِ غضب میں دشمن کی حاملہ عورتوں کے چاک کر ڈالے جاتے تھے۔ چنانچہ عامر بن طفیل جنگِ فَيْفَ الرِّیح میں اپنے قبیلہ کی فتح کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے:

 

أَوْ بَقَرْنَا الْحَبَالَی مِنْ شَنُوْءَةَ بَعْدَ مَا خَبَطْنَ بِفَیْفِ الرِّیحِ نَهْدًا وَّ خَثْعَمَا

 

"ہم نے جوش میں حاملہ عورتوں کے پیٹ چاک کر ڈالے بعد اس کے کہ ہم فَيْفَ الرِّیح میں نَهد اور خَثعَم پر کاری ضرب لگا چکے تھے۔"

 

 آگ کا عذاب

 

دشمن کو ایذا دینے اور ضرر پہنچانے کا حق غیر محدود تھا، یہاں تک کہ آگ کا عذاب دینے میں بھی تامل نہ کیا جاتا تھا۔ تاریخِ عرب کا مشہور واقعہ ہے کہ یمن کے بادشاہ ذُو نُوَاس نے ان سب لوگوں کو جو اس کے دین سے پھر گئے تھے پکڑ کر بھڑکتی ہوئی آگ کے الاؤ میں ڈلوا دیا۔ قرآن مجید میں اسی کے متعلق آیا ہے کہ قُتِلَ أَصْحَابُ الْأُخْدُوْدِ ۞ النَّارِ ذَاتِ الْوَقُوْدِ ۞ إِذْ هُمْ عَلَیْهَا قُعُوْدٌ۔ مُنذِر بن امرئ القیس نے جنگِ اُوَارَہ میں جب بنی شیبان پر فتح پائی تو ان کی عورتوں کو زندہ جلانا شروع کر دیا اور بنی قیس کے ایک شخص نے بمشکل ان کی جان بخشی کرائی۔ اعشیٰ اسی واقعہ پر فخر کرتے ہوئے کہتا ہے:

 

سَبَایَا بَنِیْ شَیْبَانَ یَوْمَ أُوَارَةٍ عَلَی النَّارِ إِذْ تُجَلَّی بِهِ فَتَیَاتُهَا

 

"اس نے جنگِ اُوَارَہ میں بنی شیبان کے اسیروں کو چھڑا لیا جبکہ ان کی جوان لڑکیاں آگ میں ڈالی جا رہی تھیں۔"

 

عمرو بن مُنذِر نے ایک قصور کی بنا پر منت مانی تھی کہ بنی دارم کے سو آدمیوں کو زندہ جلاؤں گا۔ چنانچہ اس نے ان پر چڑھائی کی اور ۹۹ آدمی ہاتھ آئے جنہیں اس نے جلا دیا۔ اب منت پوری کرنے میں ایک کی کسر رہ گئی تھی۔ اتفاق سے اس وقت قبیلہ بَرَاجِم کا ایک شخص ادھر سے گزر رہا تھا۔ وہ گوشت کی بو سونگھ کر سمجھا کہ کھانا پک رہا ہے، اس لیے عمرو کے لشکر کی طرف آگیا۔ عمرو نے اپنی منت پوری کرنے کے لیے اسی کو آگ کے الاؤ میں جھونک دیا۔ اسی واقعہ کے متعلق جریر کہتا ہے:

 

أَیْنَ الَّذِیْنَ بِنَارِ عَمْرٍو أُحْرِقُوْا أَمْ أَیْنَ أَسْعَدُ فِیْکُمُ الْمُسْتَرْضَعُ

 

"کہاں ہیں وہ جو عمرو کی آگ میں جلائے گئے؟ اور کہاں ہے اسعد جو تمہارے درمیان پرورش پاتا تھا؟"

 

 اسیرانِ جنگ سے بدسلوکی

 

اسیرانِ جنگ کے ساتھ جانوروں سے بدتر سلوک کیا جاتا تھا اور بسا اوقات جوشِ انتقام میں ان کو انتہا درجے کی اذیتیں دے دے کر مارا جاتا تھا۔ عُکَل اور عُرَینہ کا قصہ احادیث میں مذکور ہے کہ یہ لوگ نبی ﷺ کے چرواہوں کو پکڑ کر لے گئے، ان کے ہاتھ پاؤں کاٹے، ان کی آنکھیں پھوڑیں اور انہیں تپتی ہوئی ریت پر ڈال دیا، یہاں تک کہ وہ پیاس اور تکلیف سے تڑپ تڑپ کر مر گئے۔ جنگِ اُوَارَہ کا واقعہ مشہور ہے کہ بنی شیبان کے جتنے اسیر مُنذِر بن امرئ القیس کے ہاتھ آئے ان سب کو اس نے کوہِ اُوَارَہ کی چوٹی پر بٹھا کر قتل کرانا شروع کیا اور کہا کہ جب تک ان کا خون بہہ کر پہاڑ کی جڑ تک نہ پہنچ جائے گا قتل کا سلسلہ بند نہ کروں گا۔ آخر جب مقتولین کی تعداد سینکڑوں سے متجاوز ہو گئی تو مجبوراً اس نے منت پوری کرنے کے لیے خون پر پانی ڈلوا دیا اور وہ بہہ کر پہاڑ کی جڑ تک پہنچ گیا۔ (ابن اثیر، جلد ۱، صفحہ ۴۰۹)۔ حُجْر بن الحارث نے جب بنی اسد پر چڑھائی کی تو ان کے جتنے آدمی اس کے ہاتھ قید ہوئے ان سب کو اس نے قتل کرا دیا اور حکم دیا کہ انہیں تلواروں سے نہیں بلکہ ڈنڈوں سے مار مار کر ہلاک کیا جائے۔ (ابن اثیر، جلد ۱، صفحہ ۲۷۶)

 

 غفلت میں حملہ کرنا

 

دشمن پر جنگ کا اعلان کیے بغیر غفلت کی حالت میں جا پڑنا مرغوب ترین جنگی چالوں میں شمار ہوتا تھا۔ اس غرض کے لیے عموماً رات کے آخری حصے میں اچانک حملے کیے جاتے تھے اور یہ دستور ایسا عام ہو گیا تھا کہ لفظ "تصبیح" کے معنی ہی صبح کے وقت حملہ کرنے کے ہو گئے تھے۔ قُرَّہ بن حُبَیر کہتا ہے:

 

فَصَبَّحَهُمْ بِالْجَیْشِ قَیْسُ ابْنُ عَاصِمٍ فَلَمْ یَجِدُوْا إِلَّا الْأَسِنَّةَ مَصْدَرَا

 

"قیس بن عاصم ان پر صبح کے وقت لشکر لے کر جا پہنچا مگر وہاں اس کے سوا کچھ نہ پایا کہ نیزوں کی انیاں سینوں کے پار ہو رہی تھیں۔"

 

عباس بن مرداس السُلَمی کہتا ہے:

 

فَلَمْ أَرَ مِثْلَ الْحَیِّ حَیًّا مُّصَبَّحًا وَلَا مِثْلَنَا یَوْمَ الْتَقَیْنَا فَوَارِسًا

 

"میں نے اس قبیلہ جیسا قبیلہ نہیں دیکھا جس پر ہم نے صبح حملہ کیا، اور نہ ہم جیسا کوئی تھا جب کہ ہم نے شہسواروں کا مقابلہ کیا۔"

 

اسی بنا پر لوگ اپنے دوستوں کو دعا دیتے تھے کہ "تم صبح کے وقت بخیریت رہو۔" عنترہ بن شداد اپنی معشوقہ سے کہتا ہے:

 

یَا دَارَ عَبْلَةَ بِالْجِوَاءِ تَکَلَّمِیْ وَ عِمِیْ صَبَاحًا دَارَ عَبْلَةَ وَاسْلَمِیْ

 

"اے عبلہ کے مکان کہ تو مقامِ جواء میں ہے، کچھ بول، اور صبح کے وقت غارت گروں سے محفوظ رہ۔"

 

عرب میں یہ بھی دستور تھا کہ دشمن کے سرداروں کو رات کے وقت حالتِ خواب ہی میں قتل کر ڈالتے تھے۔ اس فعل کا اصطلاحی نام "فَتْک" تھا اور اس کے مرتکبین "فُتَّاک" کہلاتے تھے۔ حارث بن ظالم المُرِّی، بَرّاض بن قیس الکِنانی، سُلَیک بن سُلَکَہ، تَأَبَّطَ شَرًّا عرب کے مشہور فُتَّاک گزرے ہیں۔

 

 مقتولوں کی تحقیر

 

جوشِ انتقام میں دشمن کی مردہ لاشوں تک کو نہ چھوڑا جاتا تھا۔ ان کے ناک کان کاٹے جاتے تھے۔ ان کے اعضا کی قطع و برید (مثلہ) کر کے زندوں کا بدلہ مردوں سے لیا جاتا تھا۔ اور بسا اوقات تو ایسی ایسی وحشیانہ حرکات کی جاتی تھیں جن کے تصور سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ جنگِ احد کا مشہور واقعہ ہے کہ قریش کی عورتوں نے شہدائے اسلام کے ناک کان کاٹ کر ان کے ہار بنائے تھے۔ ابو سفیان کی بیوی ہند، سیدنا حمزہؓ کا کلیجہ نکال کر چبا گئی تھی۔ یوم الْیَحَامِیْم میں جب بنی جَدِیلَہ کا سردار اَصبَع بن عمرو مارا گیا تو بنی سِنْبِس کے ایک شخص نے اس کے دونوں کان کاٹ کر اپنے جوتے میں لگا لیے۔ ابو سروہ السِنبِسی اسی پر فخر کرتے ہوئے کہتا ہے:

 

نَخْصِفُ بِالْآذَانِ مِنْکُمْ نِعَالَنَا

 

"ہم تمہارے کانوں کا پیوند اپنی جوتیوں میں لگاتے ہیں۔"

 

ایک اور سنبسی شاعر بنی جَدِیلَہ کو خطاب کر کے کہتا ہے:

 

فَإِنْ تَبْغَضُوْنَا بُغْضَةً فِیْ صُدُوْرِکُمْ فَإِنَّا جَدَعْنَا مِنْکُمُ وَشَرَیْنَا

 

"اگر تم اپنے سینوں میں ہمارے خلاف بغض رکھتے ہو تو بیجا نہیں ہے کیونکہ ہم نے تمہارے ناک کان کاٹے ہیں اور تم کو پکڑ پکڑ کر بیچا ہے۔"

 

کبھی کبھی دشمن کی لاشوں کو ٹانگیں پکڑ کر گھسیٹا جاتا تھا، چنانچہ ایک شاعر کہتا ہے:

 

وَ شَدُّوْا شَدَّةً أُخْرَی فَجَرُّوا بِأَرْجُلِ مِثْلِهِمْ وَرَمَوْا جُوَیْنَا

 

"انہوں نے ایک دوسرا حملہ کیا اور اپنے حریف کی ٹانگیں پکڑ کر گھسیٹیں، اور جوین کو تیر مارا۔"

 

جب کسی شخص سے سخت دشمنی ہوتی تو قسم کھا لیتے تھے کہ اس کو قتل کر کے اس کی کھوپڑی میں شراب پئیں گے۔ جنگِ احد میں عاصم بن ثابتؓ کے ہاتھ سے مسافع بن طلحہ اور جلاس بن طلحہ دو بھائی قتل ہوئے تھے۔ ان دونوں کی ماں سُلافَہ نے قسم کھائی کہ عاصمؓ کی کھوپڑی میں شراب پئے گی۔ جب مقامِ رَجِیع میں عاصمؓ شہید ہوئے تو قریش کے لوگ ان کی تلاش میں نکلے تاکہ ان کا سر سُلافَہ کے ہاتھ بیچ دیں۔ (یہ واقعہ طبقات ابن سعد، فتح الباری اور اسد الغابہ میں مذکور ہے)۔ حربِ الفِسَاد میں (جو ۲۵ سال تک جاری رہی) فریقین نے بکثرت ایک دوسرے کے مقتولوں کی کھوپڑیوں میں شراب پی تھی۔ جنگِ یَحَامِیْم میں بھی اس قسم کے واقعات پیش آئے ہیں (تبریزی نے حماسہ کی شرح میں اس کا ذکر کیا ہے)۔ چنانچہ ابو سروہ السِنبِسی انہی کی طرف اشارہ کر کے کہتا ہے:

 

وَنَشْرَبُ کُرْهًا مِّنْکُمْ فِی الْجَمَاجِمِ

 

"ہم ناگواری کے ساتھ تمہاری کھوپڑیوں میں (شراب) پیتے ہیں۔"

 

دشمن کی لاشوں کو مردار خور جانوروں کا طعمہ بنایا جاتا تھا اور یہ ان کے ہاں اظہارِ فخر کی بات تھی۔ عنترہ کہتا ہے:

 

إِنْ یَفْعَلَا فَلَقَدْ تَرَکْتُ أَبَاهُمَا جَزَرَ السِّبَاعِ وَکُلِّ نَسْرٍ قَشْعَمِ

 

"اگر وہ (مجھے گالیاں) دیتے ہیں تو بیجا نہیں ہے کیونکہ میں نے ان کے باپ کو درندوں اور گدھوں کا لقمہ بننے کے لیے چھوڑ دیا ہے۔"

 

شُرَیح العبسی کہتا ہے:

 

وَأُقْسِمُ لَوْلَا زِرْعُهُ لَتَرَکْتُهُ عَلَیْهِ عَوَافٍ مِّنْ ضِبَاعٍ وَآنِسِ

 

"قسم کھا کر کہتا ہوں اگر وہ زرہ پہنے ہوئے نہ ہوتا تو میں اس کو گدھوں اور بجوؤں جیسے مردار خور جانوروں کے لیے چھوڑ دیتا۔"

 

عاتِکَہ بنت عبدالمطلب حربِ فِجار کے واقعات پر فخر کرتے ہوئے کہتی ہیں:

 

وَ مُجَدَّلًا غَادَرْنَهُ بِالْقَاعِ تَنْهَسُهُ ضِبَاعُهُ

 

"ہمارے سواروں نے (مالک کو) زمین پر پڑا چھوڑ دیا، اسے بجو نوچ نوچ کر کھاتے تھے۔"

 

مُہَلہِل حربِ بسوس کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے:

 

قَتْلَیٰ تَعَاوَرَهَا النُّسُوْرُ أَکُفَّهَا تَنْهَشُهَا وَحَوَاجِلُ الْغِرْبَانِ

 

"ان مقتولوں پر کوؤں اور گدھوں کے غول کے غول آتے ہیں اور ان کے ہاتھوں کو نوچ نوچ کر کھاتے ہیں۔"

 

 بد عہدی

 

حربِ جاہلیت میں وفائے عہد کا بھی کوئی پاس و لحاظ نہ تھا۔ جب کبھی دشمن سے انتقام لینے کا کوئی اچھا موقع مل جاتا تو تمام عہد و پیمان توڑ کے رکھ دیے جاتے تھے۔ دور جانے کی ضرورت نہیں، خود نبی علیہ السلام کے زمانے میں کفارِ عرب کی بد عہدیوں کے واقعات نہایت کثرت سے ملتے ہیں۔ بنو قَینُقاع، بنو نَضِیر، بنو قُرَیظَہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معاہدے ہو چکے تھے، لیکن تینوں نے وقت پر ان کو توڑ ڈالا۔ بنو نضیر نے خود آنحضرت ﷺ کو قتل کرنے کی سازش کی۔ بنو قریظہ نے جنگِ احزاب میں علانیہ اسلام کے خلاف شرکت کی۔ بنو قینقاع نے قریش کے بھڑکانے پر سب سے پہلے اعلانِ جنگ کیا۔ قبائل رعل و ذکوان نے خود ہی رسول اللہ ﷺ سے چند آدمی مدد کے طور پر طلب کیے اور جب آپ ﷺ نے ۷۰ صحابہ کی ایک جماعت ان کے پاس بھیجی تو انہوں نے بئرِ مَعُوْنَہ پر سب کو قتل کر دیا۔ بنو لِحیان نے مقامِ رَجِیع میں حضرت خُبَیبؓ، زید بن الدَّثِنَّہؓ اور عبداللہ بن طارقؓ کو امان دی، اور جب انہوں نے ہتھیار ڈال دیے تو تینوں کو پکڑ کر باندھ لیا، ایک کو قتل کیا اور دو کو مکہ لے جا کر بیچ ڈالا۔ اسی قسم کی بد عہدیوں کے متعلق قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے کہ لَا یَرْقُبُوْنَ فِیْ مُؤْمِنٍ إِلًّا وَّلَا ذِمَّةً، "وہ مسلمان کے ساتھ قرابت یا معاہدے کا لحاظ نہیں رکھتے۔"

 

یہ تھا زمانۂ جاہلیت میں اہلِ عرب کا طریقِ جنگ۔ عربی فوج کی خصوصیات کو ایک شاعر نے جامعیت کے ساتھ اس طرح بیان کیا ہے:

 

فَلَسْتُ بِحَاضِرٍ إِنْ لَّمْ تَزُرْکُمْ خِلَالَ الدَّارِ مُشْبِلَةٌ طَحُوْنٌ

یَدِیْنُ لَهَا الْعَزِیْزُ إِذَا رَآهَا وَیُسْقِطُ مِنْ مُّخَالَفَتِهَا الْجَنِیْنُ

تَشِیْبُ النَّاهِدُ الْعَذْرَاءُ مِنْهَا وَیَهْرُبُ مِنْ مَّخَافَتِهَا الْقَطِیْنُ

یَطُوْفُ بِهَا مِنَ النَّجَّارِ أُسْدٌ کَأُسْدِ الْغِیْلِ مَسْکَنُهَا الْعَرِیْنُ

یَظَلُّ اللَّیْثُ فِیْهَا مُسْتَکِیْنًا لَهُ فِیْ کُلِّ مُلْتَفَتٍ أَنِیْنٌ

 

"میں ایک مہذب شہری نہ ہوں اگر تمہارے عین گھروں کے سامنے ایک پھاڑنے اور پیسنے والا لشکر نہ آئے۔ اس کو دیکھتے ہی قوت والے مسخر ہو جاتے ہیں اور پیٹ والیوں کے حمل خوف سے گر جاتے ہیں۔ جوان کنواری لڑکیاں اس کی ہیبت سے بوڑھی ہو جاتی ہیں اور اس کے خوف سے وہ لوگ بھی بھاگ جاتے ہیں جو کبھی اپنی جگہ نہیں چھوڑتے۔ اس میں بنی نجّار کے شیر پھرتے ہیں ان جنگلی شیروں کی مانند جن کا مسکن گھنی جھاڑی ہے۔ جس میں شیر ہمیشہ خاموش رہتا ہے اور سننے والا بس اس شخص کی کراہیں ہی سنتا ہے جسے وہ پھاڑ ڈالے۔"

 

 روم و ایران کا طریقِ جنگ

 

یہ عرب تو خیر وحشی تھے، حضریت و مدنیت کا ان میں نام و نشان تک نہ تھا، علوم و تہذیب سے ناآشنا تھے۔ ان میں اس قسم کی درندگی و بہیمیت کا موجود ہونا کچھ تعجب کی بات نہیں۔ مگر دیکھنا یہ ہے کہ اس زمانے میں جو قومیں تہذیب و تمدن کے آسمان پر پہنچی ہوئی تھیں، ان کا کیا حال تھا۔ تاریخ نے اس دور کی لڑائیوں کے متعلق بہت کچھ معلومات محفوظ رکھی ہیں۔ جنہوں نے غور سے ان کا مطالعہ کیا ہے وہ جانتے ہیں کہ کم از کم اس اعتبار سے مہذب اور غیر مہذب دنیا کے طرزِ عمل میں کچھ زیادہ فرق نہ تھا۔ ایک قوم جب دوسری قوم پر چڑھائی کرتی تھی تو تہیہ کر لیتی تھی کہ اس کو مٹا کر چھوڑے گی۔ مقاتلین اور غیر مقاتلین کا امتیاز عملاً مفقود تھا۔ دشمن قوم کا ہر فرد کشتنی و گردن زدنی سمجھا جاتا تھا۔ عورتیں، بچے، بوڑھے، زخمی، بیمار، راہب، زاہد، سب پر اعمالِ جنگ کا دائرہ یکساں حاوی تھا۔ فوجوں کے اقدام میں دشمن کی فصلوں کو تباہ کرنا، باغات کو تہس نہس کرنا، عمارات کو مسمار کرنا، بستیوں کو لوٹنا اور جلانا ایک عام بات تھی۔ کسی شہر کا شدید مزاحمت کے بعد مفتوح ہونا گویا اس کے لیے پیامِ موت تھا۔ غضبناک فاتح جب اس میں گھستے تو بے اختیار قتلِ عام شروع کر دیتے اور جب خون سے بھی جوشِ انتقام فرو نہ ہوتا تو شہر میں آگ لگا دیتے، حد یہ ہے کہ اس معاملے میں سکندر اعظم بھی عام کلیہ سے مستثنیٰ نہ تھا۔ شام کے قدیم تجارتی مرکز صور (Tyre) کو جب اس نے ۶ مہینے کے سخت محاصرے کے بعد فتح کیا تو شدتِ غضب میں قتلِ عام کا حکم دے دیا اور اس وقت جس قوم کو دنیا کی مہذب ترین قوم ہونے کا فخر حاصل تھا، اس نے ۸ ہزار بے گناہ انسانوں کو قتل کیا اور تقریباً ۳۰ ہزار کو غلام بنا کر بیچ ڈالا۔

 

اسیرانِ جنگ کے لیے اس زمانے میں قتل اور غلامی کے سوا کوئی تیسری صورت نہ تھی۔ بعض اوقات دشمن کے سالارانِ افواج اور خود بادشاہوں پر اگر قابو چل جاتا تو ان کو بدترین ذلت اور عذاب کے ساتھ ہلاک کر دیا جاتا تھا۔ سفراء کا احترام جنگ کے اہم ترین مصالح میں سے ہے، مگر اس عہد میں یہ جماعت بھی بسا اوقات تعدی سے محفوظ نہ رہتی تھی۔ فریقِ مخالف کی جانب سے کسی بادشاہ کے دربار میں کوئی ایسا پیغام لے جانا جس کو وہ اپنی توہین یا کسرِ شان سمجھتا ہو گویا خود اپنی موت کا پیغام لے جانا تھا۔ ایسے مواقع پر سفراء کا ذلیل و خوار ہونا اور قید میں پڑ جانا معمولی بات تھی اور کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ وہ بے تکلف قتل کر دیے جاتے تھے۔

 

سب سے زیادہ مصیبت مذہبی طبقے پر آتی تھی۔ اگر بدقسمتی سے مفتوح ملک کے باشندے کسی دوسرے مذہب کے پیرو ہوتے تو فاتح کا پہلا کام یہ ہوتا تھا کہ ان کے معابد کو تباہ کرے، متبرک مقامات کو بے حرمت کرے اور مذہبی پیشواؤں کو ذلیل و خوار کرے۔ اس میں بسا اوقات یہاں تک غلو کیا جاتا کہ فاتح بزورِ شمشیر مفتوحوں کا مذہب بدلنے پر مجبور کرتا تھا۔

 

قدیم زمانے کی سب سے زیادہ مہذب سلطنتیں دو تھیں: ایک روم، دوسرے ایران۔ تہذیب و تمدن، علوم و آداب اور شان و شوکت، ہر اعتبار سے وہ اس دور میں دنیا کی تمام قوموں پر فوقیت و برتری رکھتی تھیں، اس لیے انہی کی تاریخ پر ایک نظر ڈال کر دیکھیے کہ جنگ میں ان کا طرزِ عمل کیا تھا۔

 

 مظالمِ مذہبی

 

روم و ایران کے درمیان سیاسی اختلاف کے ساتھ مذہبی اختلاف بھی تھا۔ مجوسی ایران اور مسیحی روم میں جب کبھی لڑائی ہوتی اور ایک کو دوسرے کے ملک میں گھسنے کا موقع ملتا تو اس کے مذہب کو سب سے زیادہ ظلم و ستم کا تختۂ مشق بنایا جاتا تھا۔ قُباذ کے زمانے (۵۰۰ء تا ۵۳۱ء) میں جب حکومتِ ایران کے اشارے سے حیرہ کے بادشاہ مُنذِر نے شام پر چڑھائی کی تو اس نے انطاکیہ میں ۴۰۰ راہبات کو پکڑ کر عُزّیٰ کے بت پر بھینٹ چڑھایا۔ (History of Persia, Sykes, Vol. I, P.482) خسرو پرویز نے جب قیصر موریس (Maurice) کا بدلہ لینے کے بہانے سے سلطنتِ روم کے خلاف اعلانِ جنگ کیا تو اپنے حدودِ مملکت میں مسیحیوں کے کلیسا مسمار کرا دیے، نذر کے اموال لوٹ لیے اور صلیب پرستوں کو آتش پرستی پر مجبور کیا۔ (Gibbon, Roman Empire, Vol. V, ch. XLVI)۔ ۶۱۵ء میں جب اس نے بیت المقدس کو فتح کیا تو وہاں کے بطریقِ اعظم زکریا کو گرفتار کر لیا، اصلی صلیب کو، جس پر عیسائیوں کے عقیدے کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام چڑھائے گئے تھے، چھین لیا، سینٹ ہلینا اور قسطنطین کے عظیم الشان کنیسوں کو آگ لگا دی، تین سو سال کی جمع شدہ مذہبی یادگاروں اور نذر و نیاز کی قیمتی چیزوں کو لوٹ لیا اور ۹۰ ہزار عیسائیوں کو قتل و اسیر کیا۔ (E.A. Ford, Byzantine Empire)۔ اس کے جواب میں جب ہرقل نے شمال کی جانب سے ایران پر حملہ کیا تو مجوسیوں کے آتشکدوں کو برباد کر دیا، زرتشت کے وطن اُرْمِیَہ کو پیوندِ خاک کر دیا اور مجوسی مذہب کی توہین و تذلیل میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ (Gibbon, Roman Empire Vol. V, ch. XLVI)۔

 

رومیوں کی دشمنی میں خود ایران کی مسیحی رعایا پر انتہائی سختیاں کی جاتی تھیں۔ رومی سلطنت کے مسیحی مذہب اختیار کرنے سے پہلے تک ایران کے مسیحی مامون و محفوظ تھے مگر قسطنطین کے بپتسمہ لیتے ہی ایران کا رویہ اپنی مسیحی رعایا کے ساتھ بدل گیا۔ ۳۳۹ء میں شاپور ذوالاکتاف نے بشپ مار شیمون اور ۱۰۵ دوسرے پادریوں کو قتل اور بہت سے مسیحی کنیسوں اور صومعوں کو منہدم کرا دیا۔ اس کے بعد ۴۰ سال تک مسیحیوں پر انتہا درجے کی سختیاں جاری رہیں۔ (Sykes, Vol. I, P.448)۔ بہرام نے فرقہ مانویہ کو مٹانے کے لیے جو شدید کارروائیاں کیں وہ سب سے زیادہ ہولناک تھیں۔ مانی نے جب زرتشت کے مذہب کو چھوڑ کر اپنا الگ مذہب ایجاد کیا اور کثرت سے لوگ اس کے معتقد بننے لگے تو بہرام نے جدید مذہب کے پیروؤں کو پکڑ پکڑ کر قتل کرانا شروع کر دیا اور خود مانی کو گرفتار کر کے قتل کرایا، اس کی کھال کھنچوا کر اس میں بھس بھروایا اور اس کو جُندَی سابور کے دروازے پر لٹکوا دیا جو بعد میں "دروازہ مانی" کے نام سے موسوم ہوا۔ یہ دروازہ عرصہ تک باقی رہا۔ (علامہ البیرونی نے آثار الباقیہ میں اس واقعہ کا ذکر کیا ہے)۔

 

 سفراء پر تعدی

 

نظری حیثیت سے سفراء کے احترام کا تصور اس زمانے میں موجود تھا، اور سیاسی مفکرین اس احترام کے اہم مصالح کو سمجھتے تھے، لیکن عملاً اس کا چنداں لحاظ نہ رکھا جاتا تھا۔ قیصر سیویرس الیگزینڈر کے دربار میں اردشیر کے سفراء جب یہ پیغام لے کر پہنچے کہ "رومیوں کو صرف یورپ پر قناعت کرنی چاہیے اور شام و اناطولیہ کو ایرانیوں کے لیے چھوڑ دینا چاہیے" تو اس پر قیصر کو سخت غصہ آیا اور اس نے ان سفراء کو قید میں ڈلوا دیا۔ (Sykes, Vol. I, P.426) نوشیرواں جیسے ممتاز بادشاہ کے دربار میں جب ویزا بُل ایلخانِ اتراک کے سفیر عقدِ مخالفت کی تجویز لے کر آئے تو اس نے اقرار یا انکار کا صاف جواب دینے کے بجائے خاموشی کے ساتھ ان کو زہر دے کر مار ڈالنا زیادہ مناسب سمجھا (Ibid, Vol. I, P.494)۔ خسرو پرویز کے فاتحانہ اقدامات نے جب ایشیا اور افریقہ میں رومی سلطنت کا تقریباً خاتمہ کر دیا، شام، فلسطین، مصر اور پورا ایشیائے کوچک رومیوں کے ہاتھ سے نکل گیا، یہاں تک کہ ایرانی فوجیں قسطنطنیہ کے سامنے چیلسیڈون (Chalcedon) تک پہنچ گئیں، تو ہرقل نے خسرو سے صلح کی التجا کرنے کے لیے اپنے سفیر بھیجے، مگر خسرو نے ہیئتِ سفراء کے رئیس کی جیتے جی کھال کھنچوا ڈالی، بقیہ ارکانِ سفارت کو قید کر دیا اور ہرقل کو جواب میں ایک توبیخ نامہ لکھا جس کا عنوان یہ تھا: "خسرو، خداوندِ بزرگ، فرماں روائے عالم کی جانب سے اس کے احمق اور کمینہ غلام ہرقل کے نام"۔ (Ford, Byzantine Empire, P.101)

 

 بد عہدی

 

عہد و پیمان کے احترام پر حملہ کرنے میں بھی یہ مہذب قومیں چنداں کم حوصلہ نہ تھیں۔ ان کے نزدیک ضرورتِ وقت کے سامنے عہد کوئی چیز نہ تھا۔ تاریخ میں اس قسم کی بیسیوں مثالیں ملتی ہیں کہ جب کبھی قیاصرۂ روم یا اکاسرۂ فارس نے اپنے دشمن کو نازک حالت میں مبتلا دیکھا، بے تکلف معاہدات کو بالائے طاق رکھ کر اعلانِ جنگ کر دیا۔ اور تو اور، خود نوشیرواں اور جسٹینین بھی، جو رومی اور ایرانی تہذیب کے بہترین نمائندے تھے، بدعہدوں کی فہرست میں نمایاں نظر آتے ہیں۔ نوشیرواں کو جب اپنے اندرونی احوال کی اصلاح کے لیے امن کی ضرورت ہوئی تو اس نے جسٹینین کی خواہشِ صلح کو فوراً قبول کر لیا اور ایک معاہدے پر دستخط کر دیے۔ مگر جب اٹلی میں بیلیساریس کی کامیابیوں سے روم کی طاقت کو بڑھتے دیکھا تو حیرہ سے غَسَّان پر حملہ کرا دیا اور پھر خود حیرہ کی مدد کو اٹھ کھڑا ہوا تاکہ روم بھی اپنے حلیف غَسَّان کی مدد کرنے پر مجبور ہو جائے۔ (Gibbon, Roman Empire, Vol. V, Ch. XLII)۔ دوسری طرف جب ۵۷۲ء میں ایلخانِ اتراک نے نوشیرواں سے ناراض ہو کر جسٹینین سے اتحاد کرنے کی خواہش کی تو اس نے بھی دولتِ ایران کو نیچا دکھانے کے لیے اس موقع کو غنیمت سمجھا اور معاہدۂ صلح کو توڑ کر ۵۷۲ء میں نوشیرواں کے خلاف جنگ چھیڑ دی۔ (Sykes, Vol. I, P.495)

 

 جنگ کے وحشیانہ طریقے

 

علمی و نظری حیثیت سے محاربین کے حقوق و فرائض کا ایک نہایت ابتدائی تصور زمانۂ قدیم سے دنیا میں موجود تھا۔ قدیم یونان کے مقننوں نے یہ قاعدہ بنایا تھا کہ جنگ میں جو لوگ مارے جائیں ان کو دفن کرنا چاہیے، مفتوح شہر کے جو لوگ معابد میں پناہ لیں انہیں قتل نہ کرنا اور کھلاڑی لوگوں یا معابد کے خادموں سے کوئی تعرض نہ کرنا چاہیے۔ (Grote, History of Greece)۔ مگر اول تو یہ قواعد بین الاقوامی لڑائیوں کے لیے نہ تھے بلکہ واضعین نے انہیں خود اپنی آپس کی خانہ جنگیوں کے لیے وضع کیا تھا۔ دوسرے عملی حیثیت سے سلطنتوں نے کبھی ان کو قانون کے طور پر نہ تو قبول کیا اور نہ ان کی پابندی کی۔ رومن سلطنت خصوصیت کے ساتھ غیر رومی سلطنتوں کے قانونی وجود ہی کو تسلیم نہیں کرتی تھی اور ان کے ساتھ معاملہ کرنے میں کسی فرض یا حق کا تصور سرے سے اس کے ہاں ناپید تھا۔ یہی حال ایران کا تھا۔ ان کے نزدیک غیر ایرانی قومیں وحشی اور ان کی سلطنتیں دراصل سلطنتِ ایران کی باغی تھیں۔ اس لیے ان کے ساتھ جنگ کرنے میں وہ کسی قسم کے اخلاقی فرائض محسوس نہ کرتے تھے۔

 

روم و ایران کا فوجی نظام بھی کچھ اس قسم کا تھا کہ اس میں اخلاقی حدود کی پابندی نہیں ہو سکتی تھی۔ ان میں فوجی تربیت، آدابِ جنگ کی تعلیم اور عسکری ضبط و نظم کے قائم رکھنے کا کوئی بندوبست نہ تھا۔ جنگ کے موقع پر تمام جنگ جو باشندوں کا ایک انبوہ امنڈ کر آ جایا کرتا تھا، اور صرف یہ شوق ان کو قتل و خون کے کھیل میں شرکت کے لیے کھینچ لاتا تھا کہ ہمسایہ ممالک کو لوٹیں، مخالف قوموں کو تہس نہس کریں، خوش باشی کے لیے مال و دولت، خدمت کے لیے لونڈی غلام اور شہوت رانی کے لیے خوبصورت لڑکیاں حاصل کریں۔ خود ان کے فرماں رواؤں کے سامنے بھی جنگ کا کوئی اخلاقی نصب العین نہ ہوتا تھا بلکہ وہ محض دشمن کو نیچا دکھانے یا تباہ کر دینے کے لیے تلوار اٹھایا کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جب کبھی ان کی فوجیں کسی ملک میں پیش قدمی کرتی تھیں تو بچے، بوڑھے، عورتیں، جانور، درخت، معبد، مندر، غرض کوئی چیز ان کی دست برد سے نہ بچتی تھی۔ جو لوٹا جا سکتا لوٹ لیا جاتا اور جو نہ لوٹا جا سکتا اس کو آگ کی نذر کر دیا جاتا تھا۔

 

روم سے افریقہ کے ونڈالوں اور یورپ کے گاتھوں کی ہمیشہ جنگ رہتی تھی۔ ان کے ساتھ جو وحشیانہ برتاؤ کیا جاتا تھا اس کے ذکر سے تاریخیں بھری پڑی ہیں۔ قیصر جسٹینین کے زمانے میں جب ونڈالوں پر چڑھائی کی گئی تو ان کی پوری قوم کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیا گیا۔ جنگ سے پہلے اس قوم میں ۱۶۰۰۰۰ نبرد آزما مرد تھے اور ان کے علاوہ عورتیں، بچوں اور غلاموں کی بھی ایک تعدادِ کثیر موجود تھی۔ مگر رومی فاتحوں نے جب ان پر قابو پایا تو ان میں سے ایک متنفس کو بھی زندہ نہ چھوڑا۔ گبن کہتا ہے کہ سارا ملک ایسا تباہ کر دیا گیا تھا کہ ایک اجنبی سیاح اس کے ویرانوں میں سارے سارے دن گھومتا تھا اور کہیں آدم زاد کی شکل نہ دکھائی دیتی تھی۔ پروکوپیوس نے جب اول اول اس سرزمین پر قدم رکھا تھا تو اس کی آبادی کی کثرت اور تجارت و زراعت کی فراوانی دیکھ کر انگشت بدنداں رہ گیا تھا، مگر ۲۰ سال سے بھی کم عرصے میں وہ تمام گہما گہمی ویرانی سے بدل گئی اور پچاس لاکھ کی عظیم الشان آبادی جسٹینین کے حملوں اور جفاکاریوں کی بدولت فنا کے گھاٹ اتر گئی۔ (Gibbon, Vol. V, Ch. XLI)۔

 

یورپ میں گاتھوں کے ساتھ بھی یہی وحشیانہ سلوک ہوا یہاں تک کہ ہم سنتے ہیں کہ ان کا بادشاہ ٹوٹیلا جب میدانِ جنگ سے زخمی ہو کر بھاگا اور ایک دور دراز مقام پر جا کر مر گیا تو رومی سپاہی اس کی تلاش میں نکلے، اس کی لاش کا سراغ لگایا، اس کو برہنہ کر کے ڈال دیا اور اس کے خون آلود کپڑوں کو تاج سمیت قیصر جسٹینین کے پاس تحفہ بھیجا۔ (Ibid, Vol. V, Ch. XLIII)۔

 

۷۰ء میں ٹائٹس رومی نے جب بیت المقدس فتح کیا تو سنتے ہیں کہ دراز قامت حسین لڑکیاں فتح کے لیے چن لی گئیں، ۱۷ سال سے زیادہ عمر کے آدمی ہزار در ہزار پکڑ کر مصری کانوں میں کام کرنے کے لیے بھیج دیے گئے، کئی ہزار آدمیوں کو گرفتار کر کے سلطنت کے مختلف شہروں میں بھیجا گیا تاکہ ایمفی تھیٹروں اور کولوسیموں میں ان کو جنگلی جانوروں سے پھڑوانے اور شمشیر زنوں سے کٹوانے یا خود آپس میں ایک دوسرے کو کاٹنے کے کام میں لایا جا سکے۔ دورانِ جنگ ۹۷ ہزار آدمی گرفتار کیے گئے، جن میں سے ۱۱ ہزار صرف اس وجہ سے مر گئے کہ ان کے نگہبانوں نے انہیں کھانے کو نہیں دیا۔ ان کے علاوہ جنگ اور قتلِ عام میں جو لوگ ہلاک ہوئے ان کی مجموعی تعداد ۱۳۳۷۴۹۰ بتائی جاتی ہے۔ (Ferrari, Early Days of Christianity, PP.488-89)۔

 

روم و ایران کی باہمی لڑائیوں میں بھی اسی قسم کی وحشیانہ حرکات کی جاتی تھیں۔ شاپور ذوالاکتاف نے جب الجزیرہ میں پیش قدمی کی اور اَمیڈا (موجودہ دیار بکر) زیادہ شدید مزاحمت کے بعد فتح ہوا تو غضبناک فاتح نے شہر میں داخل ہو کر قتلِ عام کا حکم دے دیا اور اس کو ایسا اجاڑا کہ پھر نہ پنپ سکا۔ ۵۴۰ء میں نوشیرواں نے پھر شام پر خروج کیا، حماۃ (Apamea) اور حلب وغیرہ کو لوٹا، جلایا، ۲۹۲۰۰۰ شامیوں کو پکڑ کر ایران بھیج دیا اور بہت سی خوبصورت لڑکیاں چن کر ایلخانِ اتراک کے پاس بھیجیں تاکہ اس کی ناراضی دور ہو اور وہ جسٹینین سے اتحاد چھوڑ دے۔ ۵۷۳ء میں اس نے آرمینیا پر حملہ کیا اور جب تھیوڈوسیو پولس کو فتح نہ کر سکا تو کیپاڈوشیا (Cappadocia) میں گھس کر ہر چیز کو جو سامنے آئی تباہ کر دیا، یہاں تک کہ ملطیہ (Melitene) کو جلا کر خاک کر ڈالا۔ اخیر زمانے میں خسرو پرویز نے جو زبردست حملہ سلطنتِ روم پر کیا تھا وہ شام، فلسطین اور ایشیائے کوچک کے لیے قیامت کا نمونہ تھا۔ تنہا بیت المقدس میں جو ستم ڈھائے گئے ان کا ذکر اوپر ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ دمشق، انطاکیہ اور حلب وغیرہ شہروں کا حشر بھی کچھ اس سے بہت مختلف نہ تھا۔ (یہ تمام تفصیلات گبن، سائکس اور فورڈ کی کتابوں سے ماخوذ ہیں)۔

 

یہ وحشیانہ حرکات بعض اوقات بدترین مکر و فریب اور بزدلانہ سازشوں کی شکل میں بھی ظاہر ہوا کرتی تھیں۔ چنانچہ اردشیر کا واقعہ مشہور ہے کہ جب وہ خسرو ارمنستان کو فوجی قوت سے مغلوب نہ کر سکا تو اس نے اپنی فوج کے ایک افسر کو خفیہ طریقے سے بھیج کر اسے قتل کرا دیا۔ (Sykes, Vol. I, PP. 427-28)۔ روم و ایران کی تاریخ میں اس قسم کے واقعات شاذ نہیں ہیں۔

 

 اسیرانِ جنگ کی حالت

 

سب سے زیادہ بدتر سلوک جس جماعت کے ساتھ کیا جاتا تھا وہ اسیرانِ جنگ کی جماعت تھی۔ قدیم رومی و یونانی اپنے سوا دوسری قوموں کو وحوش و بربر (Barbarians) سمجھتے تھے۔ اور ان کے قانون میں اس بدقسمت مخلوق کے لیے قتل یا غلامی کے سوا کوئی تیسری صورت موجود ہی نہ تھی۔ ارسطو جیسا معلمِ اخلاق بے تکلف کہتا ہے کہ "قدرت نے بربروں کو محض غلامی کے لیے پیدا کیا ہے۔" (Politics, Bk. I, Ch. VI)۔ ایک دوسرے مقام پر وہ حصولِ ثروت کے جائز اور معزز طریقے گنواتے ہوئے کہتا ہے کہ "ان قوموں کو غلام بنانے کے لیے جنگ کرنا بھی ان میں شامل ہے جنہیں قدرت نے اسی غرض کے لیے پیدا کیا ہے۔" (Ibid, Book I, Ch. VIII)۔

 

ایک طرف ان عقائد نے رومیوں کے ذہن میں غیر قوموں کی جان و مال کو بے قدر کر دیا تھا، دوسری طرف رومی سوسائٹی کی پرورش کچھ ایسی بہیمیت کی فضا میں ہوئی تھی کہ لوگ اپنے کھیل تماشوں میں ہیبت ناک نظارے دیکھ کر خوش ہوتے تھے اور ان نظاروں میں مجاز کے بجائے حقیقت کو دیکھنا زیادہ پسند کرتے تھے۔ اگر کسی گھر کو جلتے ہوئے دکھانا ہو تو وہ چاہتے تھے کہ فی الواقع ایک گھر جلا دیا جائے۔ اسی طرح کسی آدمی کو زندہ جلایا جانا یا کسی مجرم کو شیروں سے پھڑواتے ہوئے دکھانا منظور ہوتا تو تماشائیوں کی تسلی اس کے بغیر نہ ہوتی تھی کہ ایک آدمی واقعی زندہ جلا دیا جائے اور ایک دوسرا آدمی واقعی شیروں کے پنجرے میں چھوڑ دیا جائے۔ اس کام کے لیے انہیں ہمیشہ ایسے آدمیوں کی ضرورت رہتی تھی جنہیں ان وحشیانہ کھیلوں کے لیے استعمال کیا جا سکے۔ ظاہر ہے کہ روم کے آزاد شہری اس کے لیے موزوں نہیں ہو سکتے تھے۔ لہٰذا دوسرے ملکوں سے لڑائیوں میں جو قیدی پکڑے ہوئے آتے ان کو اس خونی تفریح کا سامان بنایا جاتا تھا۔ بعض اوقات یہ کھیل اتنے بڑے پیمانے پر ہوتے تھے کہ کئی کئی ہزار آدمیوں کو بیک وقت تلوار کی نذر کر دیا جاتا تھا۔ ٹائٹس نے جو نسلِ انسانی کا دلارا (Darling of the Human Race) کہلاتا ہے، ایک دفعہ ۵۰ ہزار درندہ جانوروں کو پکڑوایا اور کئی ہزار یہودی قیدیوں کو ان کے ساتھ ایک احاطے میں چھوڑوا دیا۔ ٹراجان کے کھیلوں میں گیارہ ہزار درندے اور دس ہزار آدمی بیک وقت لڑائے جاتے تھے۔ کلاڈیوس نے ایک دفعہ جنگی کھیل میں ۱۹ ہزار آدمیوں کو تلواریں دے کر ایک دوسرے سے لڑوا دیا۔ قیصر آگسٹس نے اپنی وصیت کے ساتھ جو تحریر منسلک کی تھی اس میں لکھتا ہے کہ میں نے ۸ ہزار شمشیر زنوں اور ۳۵۱۰ جانوروں کے کھیل دیکھے ہیں۔ یہ سب تفریحات جنگی قیدیوں ہی کے دم قدم سے چل رہی تھیں۔

 

اس کے علاوہ اسیرانِ جنگ کا دوسرا مصرف یہ تھا کہ آزاد رومیوں کی غلامی کریں۔ سوسائٹی میں ان کا درجہ سب سے نیچا تھا۔ ان کے کوئی متعین حقوق نہ تھے۔ ان کی جان کی کوئی قیمت نہ تھی۔ ان کی زندگی کا مقصد اپنے آقاؤں کی ہر خواہش کو پورا کرنے کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ فیرر کے بقول "وہ ذلت کے بچپن، مشقت کی جوانی اور بے رحمانہ تغافل کے بڑھاپے میں پیدائش سے موت تک کے مراحل طے کرتے تھے۔" (Ferrar, P.2)۔ رومی قانون میں غلاموں کے لیے اس قدر سخت قوانین تھے کہ اگر کوئی غلام اپنے آقا پر دست درازی کرتا تو اس کو اور بعض اوقات اس کے سارے خاندان تک کو موت کی سزا دے دی جاتی تھی۔ (Rev. Cutts, Constantine the Great, P. 57)۔ ۶۱۰ء میں جب ہرقل کی تخت نشینی کے تھوڑے عرصے بعد اس کی بیوی یوڈوکسیا کا انتقال ہوا اور اس کا جنازہ قبرستان کی طرف چلا تو اتفاق سے ایک لونڈی نے اس کی مشایعت کرتے ہوئے زمین پر تھوک دیا۔ اس قصور میں وہ فوراً گرفتار کر لی گئی اور اس کے قتل کا حکم دیا گیا۔ (Ford, Byzantine Empire, P.99)۔ فیرر کا بیان ہے کہ جب روم کی فتوحات کا دائرہ وسیع ہوا تو نہایت کثرت سے اسیرانِ جنگ مملکت میں آنے لگے اور ایک وقت میں ان کی مجموعی تعداد ۶ کروڑ تک پہنچ گئی تھی۔ (Ferrar, P.2)۔

 

روم کی طرح ایران میں بھی اسیرانِ جنگ کے لیے کسی قسم کی رعایت نہ تھی۔ معمولی قیدی تو درکنار، خود قیصرِ روم والیرین جب شاپور اول کے ہاتھ قید ہوا تو اسے زنجیروں سے باندھ کر شہر میں گشت کرایا گیا، عمر بھر اس سے غلاموں کی طرح خدمت لی گئی اور مرنے کے بعد اس کی کھال کھنچوا کر اس میں بھس بھروا دیا گیا۔ (Sykes, Vol. I, P.455)۔ شاپور ذوالاکتاف کا واقعہ مشہور ہے کہ بحرین اور الاحساء کے عرب اسیرانِ جنگ سے انتقام لینے کے لیے اس نے حکم دیا تھا کہ ان کے شانوں میں سوراخ کر کے ان کے اندر رسیاں پروئی جائیں اور سب کو ملا کر باندھ دیا جائے۔ (Sykes, Vol. I, P.448)۔ اسی بنا پر تاریخ نے اس کو "ذوالاکتاف" کے نام سے یاد رکھا ہے۔

 

خونخواری کی یہ داستانیں اور بھی زیادہ ہولناک ہو جاتی ہیں جب ہم سنتے ہیں کہ نوعِ انسان پر یہ ظلم و ستم کسی اعلیٰ مقصد کے لیے نہیں کیے جاتے تھے، بلکہ محض ناموری و شہرت کے حصول اور شاہانہ ہیبت و جلال کے اظہار کے لیے کیے جاتے تھے۔ پھر کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ ہزاروں لاکھوں آدمیوں کا خون محض بادشاہوں کی ذلیل ترین نفسانی خواہشات کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا تھا۔ خود نبی ﷺ کے زمانے کا واقعہ ہے کہ خسرو پرویز نے نعمان بن منذر کی بیٹی کے حُسن کی تعریف سنی اور اس کو حکم دیا کہ اپنی لڑکی شاہی حرم میں داخل کرے۔ نعمان کی عربی غیرت نے اس کو گوارا نہ کیا اور صاف انکار کر دیا۔ اس پر خسرو نے فرمان صادر کیا کہ حیرہ کی ریاست ضبط کی جائے اور نعمان گرفتار کر لیا جائے۔ نعمان اپنے بال بچوں کو بنی شیبان کی حفاظت میں دے کر خود کسریٰ کے دربار میں پہنچا کہ عفوِ تقصیر چاہے۔ مگر کسریٰ نے اسے قتل کرا دیا اور ۴۰ ہزار کی زبردست فوج بھیجی تاکہ بنی شیبان سے نعمان بن منذر کے گھر والوں کو چھین لائے۔ ذی قار کے مقام پر اس فوج کی عربوں سے ایک خونریز جنگ ہوئی جس میں طرفین کے ہزاروں آدمی مارے گئے، اور صرف اتنی سی بات پر انسانی خون کی ندیاں بہہ گئیں کہ ایک بادشاہ اپنے پہلو میں ایک حسین عورت کو دیکھنا چاہتا تھا۔

 

اس مختصر تاریخی بیان سے واضح ہوتا ہے کہ اس عہد میں جنگ کے اخلاقی حدود، محاربین کے حقوق و فرائض، عداوت میں ضبطِ نفس، اور لڑائی میں رحم و غضب کے امتزاج کا وجود کیا معنی، ذہنوں میں اس کا تصور تک نہ تھا اور مہذب ترین قومیں بھی جہاں تک جنگ کا تعلق ہے وحشت و حیوانیت کے ابتدائی درجے میں تھیں۔ اس زمانے میں جنگ کا مفہوم اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ وہ ایک ہنگامۂ قتل و خون اور فتنۂ سلب و نہب تھا جو طاقتور کی ہر خواہش اور ضرورت کو پورا کرنے کے لیے برپا کیا جا سکتا تھا۔ شقاوت و سنگدلی، وحشت و بربریت، درندگی و سفاکی عین جنگ کی حقیقت میں داخل ہو گئی تھی۔ لفظ "جنگ" بولتے ہی آدمی کا ذہن ایک ایسی چیز کی طرف منتقل ہو جاتا تھا جو اپنے اندر انسان کی جان لینے اور اس کی آبادیوں کو غارت کرنے کے ہر طریقے کو متضمن تھی۔ صدیوں کے تغافل نے جنگ کے ساتھ وحشیانہ حرکات کا اس قدر گہرا تعلق قائم کر دیا تھا کہ انسان مشکل ہی سے کسی ایسی جنگ کا تصور کر سکتا تھا جس میں لوٹ مار، قتلِ عام، آتش زنی اور تباہ کاری نہ ہو، جس میں عورتوں، بچوں، بوڑھوں، زخمیوں اور بیماروں کو قتل نہ کیا جاتا ہو، جس میں دوسرے مذہب و ملت کے معابد و آثار کی بے حرمتی اور تخریب نہ کی جاتی ہو اور جو اخلاقی حدود کی پابندی کے ساتھ لڑی جاتی ہو۔

 

 اسلام کی اصلاحات

 

یہ دنیا تھی جس میں اسلام نے اصلاح کا علم بلند کیا۔ اس نے حقیقتِ جنگ کو بدل کر بالکل ایک نیا نظریہ پیش کیا جس سے اس وقت تک کی دنیا ناآشنا تھی۔ اس کا نظریہ یہ تھا کہ جنگ و قتال فی الاصل ایک معصیت ہے جس سے ہر انسان کو اجتناب کرنا چاہیے، لیکن جب دنیا میں اس سے بڑی معصیت یعنی ظلم و طغیان اور فتنہ و فساد پھیل گیا ہو اور سرکش لوگوں نے خلقِ خدا کے امن و راحت کو خطرے میں ڈال دیا ہو تو محض دفعِ مضرت کے لیے جنگ کرنا ضروری، اور ضروری ہی نہیں بلکہ فرض ہے۔

 

 جنگ کا اسلامی تصور

 

اس نظریے کے مطابق چونکہ جنگ کا اصلی مقصد حریفِ مقابل کو ہلاک کرنا اور نقصان پہنچانا نہیں بلکہ محض اس کے شر کو دفع کرنا ہے، اس لیے اسلام یہ اصول پیش کرتا ہے کہ جنگ میں صرف اتنی ہی قوت استعمال کرنی چاہیے جتنی دفعِ شر کے لیے ناگزیر ہو اور اس قوت کا استعمال صرف انہی طبقوں کے خلاف ہونا چاہیے جو عملاً برسرِ پیکار ہوں یا حد سے حد جن سے شر کا اندیشہ ہو۔ باقی تمام انسانی طبقات کو جنگ کے اثرات سے محفوظ رہنا چاہیے اور دشمن کی ان چیزوں تک بھی ہنگامۂ کارزار کو متجاوز نہ ہونا چاہیے جن کا اس کی جنگی قوت سے کوئی تعلق نہ ہو۔

 

جنگ کا یہ تصور ان تصورات سے مختلف تھا جو عام طور پر غیر مسلم دماغوں میں موجود تھے، اس لیے اسلام نے تمام رائج الوقت الفاظ اور اصطلاحات کو چھوڑ کر "جہاد فی سبیل اللہ" کی الگ اصطلاح وضع کی جو اپنے معنی موضوع لہ پر ٹھیک ٹھیک دلالت کرتی ہے اور وحشیانہ جنگ کے تصورات سے اس کو بالکل جدا کر دیتی ہے۔ لغت کے اعتبار سے جہاد کے معنی ہیں "کسی کام یا مقصد کے حصول میں انتہائی کوشش صرف کرنا۔" اس لفظ میں نہ تو "حرب" کی طرح خشم اور سلب و نہب کا مفہوم شامل ہے، نہ "روع" کی طرح خوف و دہشت کا، نہ "شر" کی طرح بدی و شرارت کا، نہ "نِطاح" کی طرح بہیمیت و حیوانیت کا اور نہ "کَرِیْهَة" کی طرح مصیبت و شدت کا۔ برعکس اس کے وہ صاف صاف ظاہر کرتا ہے کہ مجاہد کا اصل منشا مضرت کو رفع کرنا ہے اور اس کے لیے وہ اتنی کوشش کرنا چاہتا ہے جتنی دفعِ مضرت کے لیے درکار ہو۔ مگر محض "کوشش" کا لفظ بھی ادائے مفہوم کے لیے کافی نہ تھا، کیونکہ اس سے جہت ظاہر نہیں ہوتی۔ "کوشش" نیکی کی جہت میں بھی ہو سکتی ہے اور بدی کی جہت میں بھی۔ اس لیے مزید تحدید کے لیے "فی سبیل اللہ" کی قید لگا دی تاکہ نفس کی کسی خواہش، کسی ملک کی تسخیر، کسی عورت کے وصال، کسی ذاتی عداوت کے انتقام یا مال و دولت یا حکومت و اقتدار یا شہرت و ناموری کے حصول کی خاطر کوشش کرنا اس میں داخل نہ ہو سکے اور صرف وہی کوشش مراد لی جائے جو محض اللہ کے لیے ہو، جس میں ہوائے نفس کا شائبہ تک نہ ہو اور جس کو ایسے مقاصد کے حصول میں صرف کیا جائے جنہیں اللہ نے پسند کیا ہے۔

 

اس پاکیزہ تصور کے ماتحت اسلام نے جنگ کا ایک مکمل ضابطۂ قانون وضع کیا جس میں جنگ کے آداب، اس کے اخلاقی حدود، محاربین کے حقوق و فرائض، مقاتلین اور غیر مقاتلین کا امتیاز اور ہر ایک کے حقوق، معاہدین کے حقوق، سفراء اور اسیرانِ جنگ کے حقوق، مفتوح قوموں کے حقوق تفصیل کے ساتھ بیان کیے۔ ہر ایک کے لیے قواعدِ کلیہ اور حسبِ ضرورت جزئی احکام مقرر کیے اور اس کے ساتھ داعیٔ اسلام ﷺ اور خلفائے راشدینؓ نے نظائر کا ایک بہت بڑا ذخیرہ بھی چھوڑا تاکہ قانون پر عملدرآمد کرنے اور قواعدِ کلیہ کو احوالِ جزئیہ پر منطبق کرنے کا طریقہ واضح ہو جائے۔

 

 مقصدِ جنگ کی تطہیر

 

لیکن اس قانون سازی کا مدعا صرف اتنا نہ تھا کہ کاغذ پر ایک ضابطۂ قوانین آجائے بلکہ اصلی مقصود یہ تھا کہ عملی خرابیوں کی اصلاح کی جائے اور جنگ کے وحشیانہ طریقوں کو مٹا کر اس مہذب قانون کو رائج کیا جائے۔ اس کے لیے سب سے پہلے اس غلط تصور کو دلوں سے محو کرنے کی ضرورت تھی جو صدیوں سے جما ہوا تھا۔ لوگوں کی عقلیں یہ سمجھنے سے قاصر تھیں کہ جنگ مال و دولت کے لیے نہ کی جائے، ملک و زمین کے لیے نہ کی جائے، شہرت و ناموری کے لیے نہ کی جائے، حمیت و عصبیت کے لیے نہ کی جائے، تو پھر کس لیے کی جائے؟ وہ ایسی کسی جنگ کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے جس کو انسان کی خود غرضی اور نفسانیت سے کوئی تعلق نہ ہو۔ لہٰذا داعیٔ اسلام ﷺ نے پہلا کام یہی کیا کہ "جہاد فی سبیل اللہ" کے معنی اور وہ حدود جو اسے "جہاد فی سبیل الطاغوت" سے ممتاز کرتے ہیں، پوری طرح واضح کر دیے اور مختلف طریقوں سے جنگ کے اس پاک تصور کو لوگوں کے ذہن نشین کیا۔ اس بارے میں کثرت سے احادیث آئی ہیں جن میں سے چند کو یہاں درج کیا جاتا ہے¹:

 

ابو موسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے کہ:

 

جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ: الرَّجُلُ يُقَاتِلُ لِلْمَغْنَمِ، وَالرَّجُلُ يُقَاتِلُ لِلذِّكْرِ، وَالرَّجُلُ يُقَاتِلُ لِيُرَى مَكَانُهُ، فَمَنْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ؟ قَالَ: مَنْ قَاتَلَ لِتَكُونَ كَلِمَةُ اللَّهِ هِيَ الْعُلْيَا فَهُوَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ.

 

"ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوا اور بولا کہ کوئی شخص مالِ غنیمت حاصل کرنے کے لیے جنگ کرتا ہے، کوئی شہرت و ناموری کے لیے جنگ کرتا ہے، کوئی اپنی بہادری دکھانے کے لیے جنگ کرتا ہے، فرمائیے کہ ان میں سے کس کی جنگ راہِ خدا میں ہے؟ حضور ﷺ نے جواب دیا کہ راہِ خدا کی جنگ تو صرف اس شخص کی ہے جو محض اللہ کا بول بالا کرنے کے لیے لڑے۔"

 

یہی ابو موسیٰ روایت کرتے ہیں:

 

جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! مَا الْقِتَالُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ؟ فَإِنَّ أَحَدَنَا يُقَاتِلُ غَضَبًا وَيُقَاتِلُ حَمِيَّةً. فَرَفَعَ إِلَيْهِ رَأْسَهُ فَقَالَ: مَنْ قَاتَلَ لِتَكُونَ كَلِمَةُ اللَّهِ هِيَ الْعُلْيَا فَهُوَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ.

 

"ایک شخص نبی ﷺ کے پاس آیا اور بولا کہ یا رسول اللہ ﷺ! قتال فی سبیل اللہ کیا ہے؟ ہم میں سے کوئی شخص جوشِ غضب میں لڑتا ہے اور کوئی حمیتِ قومی کی بنا پر۔ آپ ﷺ نے سر اٹھایا اور جواب دیا کہ جو شخص اللہ کا بول بالا کرنے کے لیے لڑتا ہے اسی کی جنگ راہِ خدا میں ہے۔"

 

¹ اس باب میں جتنی احادیث نقل کی گئی ہیں، اکثر بخاری (کتاب الجہاد و کتاب المغازی)، مسلم (کتاب الجہاد والسیر و کتاب الامارہ)، ابو داؤد (کتاب الجہاد و کتاب الفیء والامارہ)، نسائی (کتاب الجہاد)، ابن ماجہ (ابواب الجہاد)، ترمذی (ابواب السیر و ابواب الجہاد)، موطا امام مالک (کتاب الجہاد) سے ماخوذ ہیں۔

 

ابو امامہ باہلیؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے حاضر ہو کر عرض کیا: أَرَأَيْتَ رَجُلًا غَزَا يَلْتَمِسُ الْأَجْرَ وَالذِّكْرَ، مَا لَهُ؟ "اس شخص کے بارے میں آپ ﷺ کی کیا رائے ہے جو اجر اور ناموری کے لیے جنگ کرتا ہے؟ ایسے شخص کو کیا ملے گا؟" آنحضرت ﷺ نے جواب دیا: لَا شَيْءَ لَهُ، "اس کو کچھ ثواب نہ ملے گا۔" سائل کے لیے یہ بات عجیب تھی، پلٹ کر پھر آیا اور پھر یہی سوال کیا۔ آپ ﷺ نے دوبارہ وہی جواب دیا۔ اس کا اطمینان اب بھی نہ ہوا، تیسری مرتبہ پلٹ کر آیا اور یہی سوال کرتا رہا۔ آخر آنحضرت ﷺ نے اس کو مطمئن کرنے کے لیے فرمایا: إِنَّ اللَّهَ لَا يَقْبَلُ مِنَ الْعَمَلِ إِلَّا مَا كَانَ لَهُ خَالِصًا وَابْتُغِيَ بِهِ وَجْهُهُ، "اللہ کوئی عمل اس وقت تک قبول نہیں کرتا جب تک وہ خالص اسی کی خوشنودی و رضا کے لیے نہ کیا جائے۔"

 

عبادہ بن صامتؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مَنْ غَزَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَمْ يَنْوِ إِلَّا عِقَالًا فَلَهُ مَا نَوَى، "جو شخص خدا کی راہ میں لڑنے کے لیے گیا اور صرف ایک اونٹ باندھنے کی رسی (عقال) کی نیت بھی کر لی تو بس اس کو وہی رسی ہی ملے گی، ثواب کچھ نہ ملے گا۔"

 

معاذ بن جبلؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: الْغَزْوُ غَزْوَانِ، فَأَمَّا مَنِ ابْتَغَى وَجْهَ اللَّهِ وَأَطَاعَ الْإِمَامَ وَأَنْفَقَ الْكَرِيمَةَ وَاجْتَنَبَ الْفَسَادَ، فَإِنَّ نَوْمَهُ وَنُبْهَتَهُ أَجْرٌ كُلُّهُ، وَأَمَّا مَنْ غَزَا رِيَاءً وَسُمْعَةً وَعَصَى الْإِمَامَ وَأَفْسَدَ فِي الْأَرْضِ فَإِنَّهُ لَا يَرْجِعُ بِالْكَفَافِ، "لڑائیاں دو قسم کی ہیں۔ جس شخص نے خالص اللہ کی رضا کے لیے لڑائی کی اور اس میں امام کی اطاعت کی، اپنا بہترین مال خرچ کیا اور فساد سے پرہیز کیا تو اس کا سونا جاگنا سب اجر کا مستحق ہے، اور جس نے دنیا کے دکھاوے اور شہرت و ناموری کے لیے جنگ کی اور اس میں امام کی نافرمانی کی اور زمین میں فساد پھیلایا تو وہ برابر بھی نہ چھوٹے گا (یعنی الٹا عذاب میں مبتلا ہو گا)۔"

 

حضرت ابوہریرہؓ کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ نبی ﷺ نے فرمایا: أَوَّلُ النَّاسِ يُقْضَى لَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ثَلَاثَةٌ: رَجُلٌ اسْتُشْهِدَ فَأُتِيَ بِهِ فَعَرَّفَهُ نِعَمَهُ فَعَرَفَهَا، قَالَ: فَمَا عَمِلْتَ؟ قَالَ: قَاتَلْتُ فِيكَ حَتَّى اسْتُشْهِدْتُ. قَالَ: كَذَبْتَ، وَلَكِنَّكَ قَاتَلْتَ لِيُقَالَ فُلَانٌ جَرِيءٌ، فَقَدْ قِيلَ. ثُمَّ أُمِرَ بِهِ فَسُحِبَ عَلَى وَجْهِهِ حَتَّى أُلْقِيَ فِي النَّارِ... الحديث، "قیامت کے دن سب سے پہلے تین قسم کے آدمیوں کا فیصلہ کیا جائے گا: پہلے وہ شخص لایا جائے گا جو لڑ کر شہید ہوا تھا۔ خدا اس کو اپنی نعمتیں جتائے گا اور جب وہ ان کا اقرار کر لے گا تو پھر خدا پوچھے گا کہ تو نے میرے لیے کیا کیا؟ وہ کہے گا کہ میں نے تیرے لیے جنگ کی یہاں تک کہ شہید ہو گیا۔ اس پر خدا فرمائے گا: تو نے جھوٹ بولا، تو تو اس لیے لڑا تھا کہ لوگ کہیں کہ فلاں شخص بڑا جری ہے۔ سو تیرا یہ مقصد پورا ہو گیا۔ پھر خدا اس کے لیے عذاب کا حکم دے گا اور اسے منہ کے بل گھسیٹ کر دوزخ میں ڈال دیا جائے گا... الخ۔"

 

عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: يَجِيءُ الرَّجُلُ آخِذًا بِيَدِ رَجُلٍ فَيَقُولُ: يَا رَبِّ هَذَا قَتَلَنِي. فَيَقُولُ اللَّهُ لَهُ: لِمَ قَتَلْتَهُ؟ فَيَقُولُ: قَتَلْتُهُ لِتَكُونَ الْعِزَّةُ لَكَ. فَيَقُولُ: إِنَّهَا لِي. وَيَجِيءُ الرَّجُلُ آخِذًا بِيَدِ الرَّجُلِ فَيَقُولُ: إِنَّ هَذَا قَتَلَنِي. فَيَقُولُ اللَّهُ: لِمَ قَتَلْتَهُ؟ فَيَقُولُ: لِتَكُونَ الْعِزَّةُ لِفُلَانٍ. فَيَقُولُ: إِنَّهَا لَيْسَتْ لِفُلَانٍ، فَيَبُوءُ بِإِثْمِهِ. "قیامت کے دن ایک شخص دوسرے شخص کا ہاتھ پکڑے ہوئے آئے گا اور عرض کرے گا کہ اے رب! اس نے مجھے قتل کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ دریافت کرے گا کہ تو نے اس کو کیوں قتل کیا؟ وہ کہے گا کہ میں نے اسے اس لیے قتل کیا تھا کہ عزت تیرے لیے ہو۔ اس پر خدا فرمائے گا کہ ہاں عزت میرے ہی لیے ہے۔ پھر ایک دوسرا شخص ایک شخص کو پکڑے ہوئے آئے گا اور عرض کرے گا کہ اس نے مجھے قتل کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تو نے اسے کیوں قتل کیا؟ وہ کہے گا کہ میں نے اس لیے قتل کیا کہ عزت فلاں کے لیے ہو۔ اس پر اللہ کہے گا کہ عزت اس کا حق تو نہ تھی۔ پھر وہ اس کے گناہ میں پکڑا جائے گا۔"

 

یہ تعلیم جنگ کو ہر قسم کے دنیوی مقاصد سے پاک کر دیتی ہے۔ شہرت و ناموری کی طلب، عزت و فرمانروائی کی خواہش، مال و دولت اور حصولِ غنائم کی طمع، شخصی و قومی عداوت کا انتقام، غرض کہ کوئی دنیوی غرض ایسی نہیں ہے جس کے لیے جنگ جائز رکھی گئی ہو۔ ان چیزوں کو الگ کر دینے کے بعد جنگ محض ایک خشک و بے مزہ اخلاقی و دینی فرض رہ جاتی ہے جس کے مہالک و خطرات میں مبتلا ہونے کی ازخود خواہش تو کوئی کر ہی نہیں سکتا، اور اگر دوسرے کی طرف سے فتنے کی ابتداء ہو تب بھی صرف اس وقت مقابلے کے لیے تلوار اٹھا سکتا ہے جب کہ اصلاحِ حال اور دفعِ ضرر کے لیے تلوار کے سوا کوئی دوسرا ذریعہ باقی نہ رہے۔ رسول اللہ ﷺ نے خود ہی فرما دیا ہے کہ:

 

لَا تَتَمَنَّوْا لِقَاءَ الْعَدُوِّ، وَسَلُوا اللَّهَ الْعَافِيَةَ، فَإِذَا لَقِيتُمُوهُمْ فَاصْبِرُوا، وَاعْلَمُوا أَنَّ الْجَنَّةَ تَحْتَ ظِلَالِ السُّيُوفِ.

 

"دشمن سے مقابلے کی تمنا مت کرو بلکہ اللہ سے امن و عافیت کی دعا کیا کرو، مگر جب دشمن سے مقابلہ ہو جائے تو پھر جم کر لڑو اور جان لو کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔"

 

 طریقِ جنگ کی تطہیر

 

مقصد کی اصلاح کے ساتھ داعیٔ اسلام ﷺ نے طریقِ حصولِ مقصد کی بھی اصلاح کی اور رفتہ رفتہ ان تمام وحشیانہ حرکات کو روک دیا جو جاہلیت کی لڑائیوں میں کی جاتی تھیں۔ اس کے متعلق امتناعی احکام بکثرت موجود ہیں جن میں مجموعاً و منفرداً تمام وحشیانہ افعال سے منع کیا گیا ہے۔

 

 غیر اہلِ قتال کی حرمت

 

اس سلسلے میں سب سے پہلی چیز یہ ہے کہ محاربین (Belligerents) کو دو طبقوں میں تقسیم کر دیا گیا: ایک اہلِ قتال (Combatants)، دوسرے غیر اہلِ قتال (Non-combatants)۔ اہلِ قتال وہ ہیں جو عملاً جنگ میں حصہ لیتے ہیں یا عقلاً و عرفاً حصہ لینے کی قدرت رکھتے ہیں، یعنی جوان مرد۔ اور غیر اہلِ قتال وہ ہیں جو عقلاً و عرفاً جنگ میں حصہ نہیں لے سکتے یا عموماً نہیں لیا کرتے، مثلاً عورتیں، بچے، بوڑھے، بیمار، زخمی، اندھے، اپاہج، مجنون، سیاح، خانقاہ نشین زاہد، معبدوں اور مندروں کے مجاور اور ایسے ہی دوسرے بے ضرر لوگ۔ اسلام نے طبقۂ اول کے لوگوں کو قتل کرنے کی اجازت دی ہے اور طبقۂ دوم کے لوگوں کو قتل کرنے سے منع کر دیا ہے۔

 

ایک مرتبہ میدانِ جنگ میں رسول اللہ ﷺ نے ایک عورت کی لاش پڑی دیکھی۔ ناراض ہو کر فرمایا کہ مَا كَانَتْ هَذِهِ تُقَاتِلُ فِيمَنْ يُقَاتِلُ، "یہ تو لڑنے والوں میں شامل نہ تھی۔" پھر سالارِ فوج حضرت خالدؓ کو کہلا بھیجا کہ لَا تَقْتُلَنَّ امْرَأَةً وَلَا عَسِيفًا، "عورت اور اجیر کو ہرگز قتل نہ کرو۔" ایک دوسری روایت کے مطابق اس کے بعد آپ ﷺ نے عورتوں اور بچوں کے قتل کی عام ممانعت فرما دی: فَنَهَى النَّبِيُّ ﷺ عَنْ قَتْلِ النِّسَاءِ وَالصِّبْيَانِ۔

 

ایک حدیث میں آیا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: لَا تَقْتُلُوا شَيْخًا فَانِيًا وَلَا طِفْلًا صَغِيرًا وَلَا امْرَأَةً، وَلَا تَغُلُّوا وَضُمُّوا غَنَائِمَكُمْ، وَأَصْلِحُوا وَأَحْسِنُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ۔ "نہ کسی بوڑھے ضعیف کو قتل کرو، نہ چھوٹے بچے کو اور نہ عورت کو، اموالِ غنیمت میں چوری نہ کرو، جنگ میں جو کچھ ہاتھ آئے سب ایک جگہ جمع کرو، نیکی و احسان کرو کیونکہ اللہ محسنوں کو پسند کرتا ہے۔"

 

فتحِ مکہ کے موقع پر آپ ﷺ نے پہلے سے ہدایت فرما دی کہ کسی زخمی پر حملہ نہ کرنا، جو کوئی جان بچا کر بھاگے اس کا پیچھا نہ کرنا اور جو اپنا دروازہ بند کر کے بیٹھ جائے اسے امان دینا۔ (فتوح البلدان، صفحہ ۴۷)۔

 

ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ جب کہیں فوج بھیجتے تھے تو ہدایت کر دیتے تھے کہ معابد کے خادموں اور خانقاہ نشین زاہدوں کو قتل نہ کرنا: لَا تَقْتُلُوا أَصْحَابَ الصَّوَامِعِ۔

 

ان مختلف جزئی احکام سے فقہائے اسلام نے یہ قاعدہ مستنبط کیا ہے کہ تمام وہ لوگ جو لڑنے سے معذور ہیں یا عادتاً معذور کے حکم میں ہیں، قتال سے مستثنیٰ ہیں۔ لیکن ان کا استثناء علی الاطلاق نہیں ہے بلکہ اس شرط کے ساتھ ہے کہ وہ عملاً جنگ میں حصہ نہ لیں۔ اگر ان میں سے کوئی جنگ میں فی الواقع شرکت کرے، مثلاً بیمار پلنگ پر لیٹے لیٹے فوجوں کو جنگی چالیں بتا رہا ہو، یا عورت غنیم کی جاسوسی کا کام کر رہی ہو، یا بچہ خفیہ خبریں حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہو، یا مذہبی طبقے کا کوئی فرد دشمن قوم کو جنگ کا جوش دلاتا ہو، تو اس کا قتل جائز ہو گا۔ کیونکہ اس نے خود مقاتلین میں شامل ہو کر اپنے آپ کو غیر مقاتلین کے حقوق سے محروم کر لیا۔ اس باب میں اسلامی قانون کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر شخص جو اہلِ قتال میں سے ہے اس کا قتل جائز ہے خواہ وہ بالفعل لڑے یا نہ لڑے، اور ہر شخص جو اہلِ قتال سے نہیں ہے اس کا قتل ناجائز ہے سوائے اس صورت کے کہ وہ حقیقتاً لڑائی میں شامل ہو یا مقاتلین کے سے کام کرنے لگے۔ (ہدایہ، باب كيفية القتال؛ فتح القدیر، جلد ۴، صفحہ ۲۹۱-۲۹۲؛ بدائع الصنائع، جلد ۷، صفحہ ۱۰۱)۔

 

 اہلِ قتال کے حقوق

 

غیر اہلِ قتال کے حقوق بیان کرنے کے بعد یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اہلِ قتال جن پر تلوار اٹھانا جائز ہے، ان پر بھی دست درازی کا غیر محدود حق حاصل نہیں ہے بلکہ اس کے لیے بھی کچھ حدود ہیں جن کی پابندی ضروری ہے۔ یہ حدود ایک ایک کر کے تفصیل کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں۔

 

 غفلت میں حملہ کرنے سے احتراز

 

اہلِ عرب کا قاعدہ تھا کہ راتوں کو اور خصوصاً آخر شب میں جب کہ لوگ بے خبر سوتے ہوتے اچانک جا پڑتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس عادت کو بند کر دیا اور قاعدہ مقرر کیا کہ صبح سے پہلے کسی دشمن پر حملہ نہ کیا جائے۔ انس بن مالکؓ غزوہ خیبر کا ذکر کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ: کَانَ إِذَا جَاءَ قَوْمًا بِلَیْلٍ لَمْ یُغِرْ عَلَیْهِمْ حَتَّى یُصْبِحَ۔ "آنحضرت ﷺ جب کسی دشمن قوم پر رات کے وقت پہنچتے تو جب تک صبح نہ ہو جاتی حملہ نہ کرتے تھے۔"

 

 آگ میں جلانے کی ممانعت

 

عرب اور غیر عرب شدتِ انتقام میں دشمن کو زندہ جلا دیا کرتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس وحشیانہ حرکت کو بھی ممنوع قرار دیا۔ حدیث میں آیا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: لَا یَنْبَغِي أَنْ یُعَذِّبَ بِالنَّارِ إِلَّا رَبُّ النَّارِ، "آگ کا عذاب دینا سوائے آگ کے پیدا کرنے والے کے اور کسی کو سزاوار نہیں۔"

 

حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ آنحضرت ﷺ نے ہم لوگوں کو لڑائی پر جانے کا حکم دیا اور ہدایت کی کہ "اگر فلاں دو آدمی تم کو ملیں تو ان کو جلا دینا۔" مگر جب ہم روانہ ہونے لگے تو بلا کر فرمایا: إِنِّي أَمَرْتُكُمْ أَنْ تُحَرِّقُوا فُلَانًا وَفُلَانًا، وَإِنَّ النَّارَ لَا يُعَذِّبُ بِهَا إِلَّا اللَّهُ، فَإِنْ وَجَدْتُمُوهُمَا فَاقْتُلُوهُمَا۔ "میں نے تم کو حکم دیا تھا کہ فلاں فلاں اشخاص کو جلا دینا، مگر آگ کا عذاب سوائے خدا کے کوئی نہیں دے سکتا، اس لیے اگر تم انہیں پاؤ تو بس قتل کر دینا۔"

 

ایک مرتبہ حضرت علیؓ نے زنادقہ کو آگ کا عذاب دیا تھا، اس پر حضرت ابن عباسؓ نے انہیں روکا اور نبی ﷺ کا یہ حکم بیان کیا کہ: لَا تُعَذِّبُوا بِعَذَابِ اللَّهِ، "اللہ کے عذاب (آگ) سے بندوں کو عذاب نہ دو۔"

 

 قتلِ صبر کی ممانعت

 

رسول اللہ ﷺ نے دشمن کو باندھ کر قتل کرنے اور تکلیفیں دے دے کر مارنے کی بھی ممانعت فرمائی۔ عبید بن یعلیٰ کا بیان ہے کہ ہم عبدالرحمن بن خالد کے ساتھ جنگ پر گئے تھے، ایک موقع پر ان کے پاس لشکرِ اعداء میں سے چار گبر پکڑے ہوئے آئے اور انہوں نے حکم دیا کہ انہیں باندھ کر قتل کیا جائے۔ اس کی اطلاع جب حضرت ابو ایوب انصاریؓ کو ہوئی تو انہوں نے کہا: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ نَهَى عَنْ قَتْلِ الصَّبْرِ، فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْ كَانَتْ دَجَاجَةً مَا صَبَرْتُهَا. فَبَلَغَ ذَلِكَ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ خَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِ فَأَعْتَقَ أَرْبَعَ رِقَابٍ۔ "میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ آپ ﷺ نے قتلِ صبر (باندھ کر مارنے) سے منع فرمایا۔ خدا کی قسم! اگر مرغی بھی ہوتی تو میں اس کو اس طرح باندھ کر نہ مارتا۔" اس کی خبر جب عبدالرحمن بن خالد کو پہنچی تو انہوں نے چار غلام آزاد کر دیے (یعنی اپنی غلطی کا کفارہ ادا کیا)۔

 

 لوٹ مار کی ممانعت

 

جنگِ خیبر میں صلح ہو جانے کے بعد جب اسلامی فوج کے بعض نئے رنگروٹ بے قابو ہو گئے اور انہوں نے غارت گری شروع کر دی تو یہودیوں کا سردار رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوا اور کرخت لہجے میں آپ ﷺ کو خطاب کر کے بولا: يَا مُحَمَّدُ! أَلَكُمْ أَنْ تَذْبَحُوا حُمُرَنَا وَتَأْكُلُوا ثَمَرَنَا وَتَضْرِبُوا نِسَاءَنَا؟ "اے محمد ﷺ! کیا تم کو زیبا ہے کہ ہمارے گدھوں کو ذبح کرو، ہمارے پھل کھا جاؤ اور ہماری عورتوں کو مارو؟" اس پر رسول اللہ ﷺ نے فوراً ابن عوفؓ کو حکم دیا کہ لشکر میں "اِجْتَمِعُوا لِلصَّلَاةِ" کی منادی کریں۔ جب تمام اہلِ لشکر جمع ہو گئے تو حضور ﷺ کھڑے ہوئے اور فرمایا: أَيَحْسَبُ أَحَدُكُمْ مُتَّكِئًا عَلَى أَرِيكَتِهِ قَدْ يَظُنُّ أَنَّ اللَّهَ لَمْ يُحَرِّمْ شَيْئًا إِلَّا مَا فِي هَذَا الْقُرْآنِ؟ أَلَا وَإِنِّي وَاللَّهِ قَدْ وَعَظْتُ وَأَمَرْتُ وَنَهَيْتُ عَنْ أَشْيَاءَ إِنَّهَا لَمِثْلُ الْقُرْآنِ أَوْ أَكْثَرُ، وَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى لَمْ يُحِلَّ لَكُمْ أَنْ تَدْخُلُوا بُيُوتَ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلَّا بِإِذْنٍ، وَلَا ضَرْبَ نِسَائِهِمْ، وَلَا أَكْلَ ثِمَارِهِمْ إِذَا أَعْطَوْكُمُ الَّذِي عَلَيْهِمْ. "کیا تم میں کا کوئی شخص تختِ غرور پر بیٹھا یہ سمجھ رہا ہے کہ اللہ نے سوائے ان چیزوں کے جو قرآن میں حرام کی گئی ہیں، کوئی چیز حرام نہیں کی؟ خدا کی قسم! میں جو کچھ تم کو نصیحت کرتا ہوں اور جو امر و نہی کے احکام دیتا ہوں وہ بھی قرآن کی طرح یا اس سے زیادہ (اہم) ہیں۔ اللہ نے تمہارے لیے یہ جائز نہیں کیا کہ اہلِ کتاب کے گھروں میں بلا اجازت گھس جاؤ، ان کی عورتوں کو مارو پیٹو اور ان کے پھل کھا جاؤ، حالانکہ ان پر جو کچھ واجب تھا وہ تمہیں دے چکے۔"

 

ایک دفعہ سفرِ جہاد میں اہلِ لشکر نے کچھ بکریاں لوٹ لیں اور ان کا گوشت پکا کر کھانا چاہا۔ آنحضرت ﷺ کو خبر ہوئی تو آپ ﷺ نے آکر دیگچیاں الٹ دیں اور فرمایا: إِنَّ النُّهْبَةَ لَيْسَتْ بِأَحَلَّ مِنَ الْمَيْتَةِ، "لوٹ کھسوٹ کا مال¹ مردار سے بہتر نہیں ہے۔"

 

¹ لوٹ کے مال سے مراد وہ مال ہے جو دشمن کے ملک میں پیش قدمی کرتے ہوئے عام باشندوں سے چھین لیا جائے۔ اس کے علاوہ "نُہْبَہ" اس مالِ غنیمت کو بھی کہتے ہیں جو باقاعدہ تقسیم سے پہلے لیا جائے۔

 

عبداللہ بن یزیدؓ روایت کرتے ہیں کہ: نَهَى النَّبِيُّ ﷺ عَنِ النُّهْبَى وَالْمُثْلَةِ، "نبی ﷺ نے لوٹ مار اور مثلہ سے منع فرمایا۔"

 

اگر راستے میں دودھ دینے والے جانور مل جائیں تو ان کا دودھ دوہ کر پینے کی بھی اجازت نہیں دی گئی تاوقتیکہ ان کے مالکوں سے اجازت نہ لے لی جائے۔ شدید ضرورت کی حالت میں صرف اتنی اجازت ہے کہ بآوازِ بلند تین مرتبہ پکار دو تاکہ اگر کوئی مالک ہو تو آجائے اور جب کوئی نہ آئے تو پی لو۔

 

 تباہ کاری کی ممانعت

 

افواج کی پیش قدمی کے وقت فصلوں کو خراب کرنا، کھیتوں کو تباہ کرنا، بستیوں میں قتلِ عام اور آتش زنی کرنا جنگ کے معمولات میں سے ہے۔ مگر اسلام اس کو فساد سے تعبیر کرتا ہے اور سختی کے ساتھ ناجائز قرار دیتا ہے۔ قرآنِ مجید میں آیا ہے:

 

وَإِذَا تَوَلَّىٰ سَعَىٰ فِي الْأَرْضِ لِيُفْسِدَ فِيهَا وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ (البقرہ: ۲۰۵)

 

"جب وہ حاکم بنتا ہے تو کوشش کرتا ہے کہ زمین میں فساد پھیلائے اور فصلوں اور نسلوں کو برباد کرے، مگر اللہ فساد کو پسند نہیں کرتا۔"

 

حضرت ابو بکرؓ نے شام و عراق کی طرف فوجیں بھیجتے وقت جو ہدایات دی تھیں ان میں ایک ہدایت یہ بھی تھی کہ بستیوں کو ویران نہ کرنا اور فصلوں کو خراب نہ کرنا۔

 

اس میں شک نہیں کہ اگر جنگی ضروریات کا تقاضا ہو تو درختوں کو کاٹنے اور جلا کر میدان صاف کر دینے کی اجازت ہے۔ جیسا کہ بنو نضیر کے محاصرے میں کیا گیا۔ لیکن محض تخریب کی نیت سے ایسا کرنا بالاتفاق ممنوع ہے۔

 

مخالفین نے غزوہ بنو نضیر کے واقعے کو اس الزام کے ثبوت میں پیش کیا ہے کہ اسلام جنگ میں غارت گری کو جائز رکھتا ہے۔ خود ہمارے محدثین میں سے بھی بعض نے اس کو "حرق الدور و النخیل" کے جواز کی دلیل سمجھا ہے۔ مگر واقعات کی تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ بنو نضیر کی کھجوروں کا کاٹنا اور جلانا محض جنگی ضروریات پر مبنی تھا، دشمن کو نقصان پہنچانا یا اس سے انتقام لینا ہرگز مقصود نہ تھا۔ اول تو جو درخت کاٹے گئے تھے وہ قرآنی تصریح کے مطابق ایک خاص قسم کی کھجور کے تھے جس کو "لِینَہ" کہتے ہیں۔ مَا قَطَعْتُم مِّن لِّينَةٍ أَوْ تَرَكْتُمُوهَا قَائِمَةً عَلَىٰ أُصُولِهَا فَبِإِذْنِ اللَّهِ (الحشر: ۵) اور سہیلی کا بیان ہے کہ بنو نضیر اس کھجور کو غذا کے کام میں نہ لاتے تھے بلکہ عجوہ اور برنی کو استعمال کرتے تھے۔ علامہ ابن حجر کہتے ہیں: قَالَ السُّهَيْلِيُّ: فِي تَخْصِيصِهَا بِالذِّكْرِ إِيمَاءٌ إِلَى أَنَّ الَّذِي يَجُوزُ قَطْعُهُ مِنْ شَجَرِ الْعَدُوِّ مَا لَا يَكُونُ مُعَدًّا لِلِاقْتِيَاتِ، لِأَنَّهُمْ كَانُوا يَقْتَاتُونَ الْعَجْوَةَ وَالْبَرْنِيَّ دُونَ اللِّينَةِ. (فتح الباری، جلد ۷، صفحہ ۳۳۰) "سہیلی کا خاص طور پر لِینہ کا ذکر کیے جانے سے یہ اشارہ نکالنا ہے کہ دشمن کے درختوں میں سے صرف انہی کو کاٹنا جائز ہے جو غذا کے کام میں نہ آتے ہوں، کیونکہ بنو نضیر عجوہ اور برنی کو کھایا کرتے تھے، لِینہ کو نہیں کھاتے تھے۔"

 

پھر واقعے کی نوعیت بھی وہ نہیں ہے جو بیان کی جاتی ہے۔ عام راویوں نے یہ دیکھ کر کہ آنحضرت ﷺ خود محاصرے میں موجود تھے اور آپ ﷺ کی موجودگی میں فوجوں نے درخت کاٹے اور جلائے تھے، یہ نتیجہ نکال لیا ہے کہ یہ کام آپ ﷺ ہی کے حکم یا اجازت سے کیا گیا۔ لیکن ابن عباسؓ نے صاف تصریح کی ہے کہ مسلمانوں نے محاصرے کی ضروریات سے کاٹنا اور جلانا شروع کر دیا تھا، پھر ان کو خیال آیا کہ معلوم نہیں اس فعل کی شرعی حیثیت کیا ہے: هَلْ لَنَا فِيمَا قَطَعْنَا مِنْ أَجْرٍ؟ وَهَلْ عَلَيْنَا فِيمَا تَرَكْنَا مِنْ وِزْرٍ؟ چنانچہ انہوں نے جا کر رسول اللہ ﷺ سے استفتا کیا اور اس پر یہ آیت اتری کہ مَا قَطَعْتُم مِّن لِّينَةٍ أَوْ تَرَكْتُمُوهَا قَائِمَةً عَلَىٰ أُصُولِهَا فَبِإِذْنِ اللَّهِ "لِینہ کے درختوں میں سے جو کچھ تم نے کاٹا اور جو کچھ چھوڑ دیا سب اللہ ہی کے اذن سے تھا۔"

 

جابرؓ نے بھی یہی روایت کی ہے کہ درخت کاٹنے کے بعد لوگ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پوچھتے ہوئے آئے کہ يَا رَسُولَ اللَّهِ! هَلْ لَنَا أَثْمٌ فِيمَا قَطَعْنَا أَوْ عَلَيْنَا وِزْرٌ فِيمَا تَرَكْنَا؟ "یا رسول اللہ ﷺ! ہم نے جو کچھ کاٹ دیا یا چھوڑ دیا ہے، اس کا کوئی گناہ تو ہم پر نہیں ہے؟" اس پر یہ آیت اتری کہ مَا قَطَعْتُم مِّن لِّينَةٍ أَوْ تَرَكْتُمُوهَا قَائِمَةً عَلَىٰ أُصُولِهَا فَبِإِذْنِ اللَّهِ وَلِيُخْزِيَ الْفَاسِقِينَ۔

 

مجاہد نے اس قول کی تائید کرتے ہوئے آیتِ مذکورہ کی تفسیر یہ کی ہے کہ بعض مہاجرین درختوں کو کاٹنے لگے تھے اور بعض نے ان کو چھوڑ دیا تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کر کے دونوں کے فعل کو درست قرار دیا۔ اس تفسیر کے مطابق آیت کے معنی یہ ہوں گے کہ تم میں سے جنہوں نے محاصرے کو مؤثر بنانے کی نیت سے لِینہ کے درخت کاٹے وہ بھی حق پر ہیں اور جنہوں نے اس فعل کو فساد سمجھ کر انہیں چھوڑ دیا وہ بھی حق پر ہیں، کیونکہ دونوں نے اللہ کے ایک ایک حکم کی پیروی کی۔

 

محمد بن اسحاق کی تحقیق یہ ہے کہ غزوہ بنو نضیر میں جب اس طرح درختوں کو کاٹا جانے لگا تو بنو قریظہ نے آپ ﷺ کو کہلا بھیجا کہ "اے محمد ﷺ! تم تو فساد کو منع کرتے ہو اور کہتے ہو کہ میں اصلاح کرنے آیا ہوں، پھر یہ درخت کیوں کاٹ رہے ہو؟ کیا یہ اصلاح ہے؟" اس پر آنحضرت ﷺ اور مسلمان متفکر ہوئے اور اللہ نے ان کی تسلی کے لیے یہ آیت نازل فرمائی: مَا قَطَعْتُم مِّن لِّينَةٍ أَوْ تَرَكْتُمُوهَا قَائِمَةً عَلَىٰ أُصُولِهَا فَبِإِذْنِ اللَّهِ "یعنی جو کچھ تم نے کاٹا ہے اور جو چھوڑا ہے سب اللہ کے اذن سے تھا۔"

 

بہر صورت واقعات کی تحقیق سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ خود رسول اللہ ﷺ نے قطعِ اشجار کا حکم نہیں دیا تھا بلکہ فوج نے محاصرے کی ضروریات سے مجبور ہو کر بلا اجازت چند درخت کاٹ لیے تھے، اور بعد میں اللہ تعالیٰ نے اس فعل کو اس بنا پر صحیح قرار دیا تھا کہ درخت کاٹنے والوں کی اصلی نیت تخریب و افساد کی نہ تھی۔ بعض فقہاء نے اس سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ وہ جواز صرف اسی موقع کے لیے تھا اور اس خاص حکم سے یہ عام جواز نہیں نکل سکتا کہ جب کبھی جنگی ضروریات پیش آئیں تو دشمن کے درختوں کو کاٹا اور جلا دیا جائے۔ چنانچہ امام اوزاعی، لیث اور ابو ثور اسی طرف گئے ہیں۔ لیکن جمہور محققین کا مذہب یہ ہے کہ اہم جنگی ضروریات کے لیے محض حسبِ ضرورت ایسا کرنا جائز ہے۔ رہا تخریب و غارت گری کی نیت سے کرنا، تو اس کے حرام و ناجائز ہونے پر سب متفق ہیں۔ علامہ ابن جریر نے اوزاعی اور لیث کو جواب دیتے ہوئے لکھا ہے: إِنَّ النَّهْيَ مَحْمُولٌ عَلَى الْقَصْدِ لِذَلِكَ بِخِلَافِ مَا إِذَا أَصَابُوا ذَلِكَ فِي خِلَالِ الْقِتَالِ كَمَا وَقَعَ فِي نَصْبِ الْمَنْجَنِيقِ عَلَى الطَّائِفِ. "ممانعت تو دراصل عمداً تخریب کی نیت سے کی گئی ہے، بخلاف اس نقصان کے جو دورانِ قتال میں ان کو پہنچ جائے جیسا کہ طائف پر منجنیق سے سنگباری کرتے وقت ہوا۔"

 

امام احمد بھی یہی کہتے ہیں: قَدْ تَكُونُ فِي مَوَاضِعَ لَا يَجِدُونَ مِنْهُ بُدًّا، فَأَمَّا بِالْعَبَثِ فَلَا تُحْرَقُ. "یہ ایسے مواقع پر ہو سکتا ہے جب کہ کاٹنا اور جلانا بالکل ناگزیر ہو، ورنہ بلا ضرورت نہیں جلانا چاہیے۔"

 

اس قسم کی ناگزیر تباہ کاری پر کسی طرح اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔ موجودہ زمانے کے قوانینِ جنگ میں بھی محاصرے کو مؤثر بنانے اور محصورین کو درختوں اور عمارتوں کی آڑ میں پناہ لینے سے روکنے کے لیے درختوں کو کاٹنا، عمارتوں کو توڑنا، حتیٰ کہ بستیوں تک کو جلانا جائز رکھا گیا ہے۔

 

 مثلہ کی ممانعت

 

دشمن کی لاشوں کو بے حرمت کرنے اور ان کے اعضا کی قطع و برید کرنے کو بھی اسلام نے سختی سے منع کیا۔ عبداللہ بن یزید انصاریؓ روایت کرتے ہیں کہ: نَهَى النَّبِيُّ ﷺ عَنِ النُّهْبَى وَالْمُثْلَةِ، "نبی ﷺ نے لوٹ کے مال اور مثلہ (اعضاء کاٹنے) سے منع فرمایا۔"

 

نبی علیہ السلام فوجوں کو بھیجتے وقت جو ہدایت دیا کرتے تھے ان میں تاکیداً فرماتے: لَا تَغْدِرُوا وَلَا تَغُلُّوا وَلَا تُمَثِّلُوا، "بد عہدی نہ کرو، غنیمت میں خیانت نہ کرو اور مثلہ نہ کرو۔"

 

 قتلِ اسیر کی ممانعت¹

 

فتحِ مکہ کے موقع پر آنحضرت ﷺ جب شہر میں داخل ہونے لگے تو فوج میں اعلان کرا دیا تھا کہ: لَا تُجْهِزَنَّ عَلَى جَرِيحٍ، وَلَا يُتْبَعَنَّ مُدْبِرٌ، وَلَا يُقْتَلَنَّ أَسِيرٌ، وَمَنْ أَغْلَقَ بَابَهُ فَهُوَ آمِنٌ۔ (فتوح البلدان، صفحہ ۴۷) "کسی زخمی پر حملہ نہ کیا جائے، کسی بھاگنے والے کا پیچھا نہ کیا جائے، کسی قیدی کو قتل نہ کیا جائے، اور جو اپنے گھر کا دروازہ بند کر لے وہ امان میں ہے۔"

 

حجاج بن یوسف نے ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کو حکم دیا کہ وہ ایک اسیر کو قتل کریں، اس پر انہوں نے فرمایا کہ اللہ نے ہم کو اس کی اجازت نہیں دی، البتہ یہ حکم دیا ہے کہ جو قیدی گرفتار ہو کر آئیں ان سے یا تو احسان کا برتاؤ کرو یا فدیہ لے کر رہا کر دو: أُمِرْنَا بِهَذَا، يَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى {فَإِذَا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا... فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاءً}۔

 

¹ یہ اسیرانِ جنگ کے متعلق اسلام کا عمومی قانون ہے۔ لیکن اسلامی حکومت کو یہ حق ضرور حاصل ہے کہ اگر اسلام کے شدید دشمن یا وہ لوگ جنہوں نے مسلمانوں پر سخت ظلم و ستم کیے ہوں یا وہ ائمۂ شر و فساد جو کسی فتنۂ عظیم کے اصل ذمہ دار ہوں، کبھی جنگ میں ہاتھ آجائیں تو وہ ان کے قتل کا فیصلہ صادر کر دے۔ جس طرح مثلاً نبی ﷺ نے جنگِ بدر کے قیدیوں میں سے عقبہ بن ابی معیط کو قتل کرایا۔ اس معاملے میں اسلامی حکومت جو کچھ بھی کرے گی بے لاگ طریقے سے کرے گی، "مجرمینِ جنگ" پر مقدمہ چلانے کا ڈھونگ وہ نہیں کھڑا کرے گی جس طرح دوسری جنگِ عظیم کے بعد اتحادی سلطنتوں نے کیا۔

 

 قتلِ سفیر کی ممانعت

 

سفراء اور قاصدوں کے قتل کو بھی آنحضرت ﷺ نے منع فرمایا۔ مسیلمہ کذاب کا قاصد عبادہ بن الحارث جب اس کا گستاخانہ پیغام لے کر حاضر ہوا تو آپ ﷺ نے فرمایا: لَوْلَا أَنَّ الرُّسُلَ لَا تُقْتَلُ لَضَرَبْتُ عُنُقَكَ، "اگر قاصدوں کا قتل ممنوع نہ ہوتا تو میں تیری گردن مار دیتا۔"

 

اسی اصل سے فقہاء نے یہ جزئیہ نکالا ہے کہ جب کوئی شخص یہ کہہ کر بیان کرے کہ میں فلاں حکومت کا سفیر ہوں اور حاکمِ اسلامی کے پاس پیغام دے کر بھیجا گیا ہوں تو اس کو امن کے ساتھ داخلے کی اجازت دی جائے، اس پر کسی قسم کی زیادتی نہ کی جائے، اس کے مال و متاع، خدم و حشم، حتیٰ کہ اسلحہ سے بھی تعرض نہ کیا جائے، الا اس صورت میں کہ وہ اپنا سفیر ہونا ثابت نہ کر سکے¹ (کتاب الخراج، صفحہ ۱۱۶)۔ بعض فقہاء نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر وہ اسلامی حکومت میں رہ کر زنا اور چوری بھی کرے تو اس پر حد جاری نہ ہو گی۔

 

¹ اس کے لیے اولین شرط یہ ہے کہ وہ امان طلب کر کے آئے۔ بلا امان آنے کی صورت میں اگر وہ جاسوس ہو تو اسلامی قانون میں بھی تمام دوسرے قوانین کی طرح قتل کی سزا ہے۔

 

 بد عہدی کی ممانعت

 

غدر، نقضِ عہد اور معاہدین پر دست درازی کرنے کی برائی میں بے شمار احادیث آئی ہیں جن کی بنا پر یہ فعل اسلام میں بدترین گناہ قرار دیا گیا ہے۔

 

عبداللہ بن عمروؓ سے مروی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: مَنْ قَتَلَ مُعَاهَدًا لَمْ يَرَحْ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ، وَإِنَّ رِيحَهَا لَيُوجَدُ مِنْ مَسِيرَةِ أَرْبَعِينَ عَامًا، "جو کوئی معاہد کو قتل کرے گا اسے جنت کی بو تک نصیب نہ ہو گی حالانکہ اس کی خوشبو ۴۰ برس کی مسافت سے بھی محسوس ہوتی ہے۔"

 

ایک دوسری حدیث میں عبداللہ بن عمروؓ سے مروی ہے کہ: أَرْبَعُ خِلَالٍ مَنْ كُنَّ فِيهِ كَانَ مُنَافِقًا خَالِصًا: إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ، وَإِذَا عَاهَدَ غَدَرَ، وَإِذَا خَاصَمَ فَجَرَ، "چار خصلتیں ہیں کہ جس میں پائی گئیں وہ خالص منافق ہو گا: ایک یہ کہ جب بولے تو جھوٹ بولے، دوسرے یہ کہ جب وعدہ کرے تو اس کی خلاف ورزی کرے، تیسرے یہ کہ جب معاہدہ کرے تو اس کو توڑ دے، چوتھے یہ کہ جب جھگڑے تو گالیاں دے۔"

 

ایک اور حدیث میں ہے: لِكُلِّ غَادِرٍ لِوَاءٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يُرْفَعُ لَهُ بِقَدْرِ غَدْرِهِ، أَلَا وَلَا غَادِرَ أَعْظَمُ غَدْرًا مِنْ أَمِيرِ عَامَّةٍ، "ہر غدار و عہد شکن کی بے ایمانی کا اعلان کرنے کے لیے قیامت کے دن ایک جھنڈا ہو گا جو اس کے غدر کی مقدار کے برابر ہو گا، اور یاد رکھو کہ جو سردارِ قوم غدر کرے اس سے بڑا کوئی غدار نہیں ہے۔"

 

ایک مرتبہ امیر معاویہؓ بلادِ روم پر حملہ کرنے کے لیے جا رہے تھے حالانکہ ابھی معاہدۂ صلح کی مدت ختم نہ ہوئی تھی۔ امیر معاویہؓ کا ارادہ تھا کہ مدت ختم ہوتے ہی حملہ کر دیں۔ مگر ایک صحابی عمرو بن عنبسہؓ نے زمانۂ صلح میں جنگ کی تیاری اور سرحدوں کی طرف فوج کی روانگی کو بھی بد عہدی سے تعبیر کیا اور امیر کے پاس دوڑے ہوئے اور یہ پکارتے ہوئے پہنچے کہ "اللہ اکبر، وفاءً لا غدرًا"۔ معاویہؓ نے سبب پوچھا تو کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا ہے کہ: مَنْ كَانَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ قَوْمٍ عَهْدٌ فَلَا يَحُلَّنَّ عَهْدًا وَلَا يَشُدَّنَّهُ حَتَّى يَمْضِيَ أَمَدُهُ أَوْ يَنْبِذَ إِلَيْهِمْ عَلَى سَوَاءٍ، "جس کا کسی قوم سے معاہدہ ہو، اس میں کوئی تغیر و تبدل نہ کرے تاوقتیکہ اس کی مدت گزر جائے، یا پھر اگر خیانت کا خوف ہو تو برابری کو ملحوظ رکھ کر اس کو ختمِ معاہدہ کا نوٹس دے دے۔"

 

 بد نظمی و انتشار کی ممانعت

 

اہلِ عرب کی عادت تھی کہ جب جنگ کو نکلتے تو راستے میں جو ملتا اسے تنگ کرتے اور جب کسی جگہ اترتے تو ساری منزل پر پھیل جاتے تھے، یہاں تک کہ راستوں پر چلنا مشکل ہو جاتا تھا۔ داعیٔ اسلام ﷺ نے آکر اس کی بھی ممانعت کر دی۔ ایک مرتبہ جب آپ ﷺ جہاد کو تشریف لے جا رہے تھے تو آپ ﷺ کے پاس شکایت آئی کہ فوج میں عہدِ جاہلیت کی سی بد نظمی پھیلی ہوئی ہے اور لوگوں نے منزل کو تنگ کر رکھا ہے۔ اس پر آپ ﷺ نے منادی کرائی کہ مَنْ ضَيَّقَ مَنْزِلًا أَوْ قَطَعَ طَرِيقًا فَلَا جِهَادَ لَهُ، "جو کوئی منزل کو تنگ کرے گا یا راہ گیروں کو روکے گا، اس کا جہاد نہیں ہو گا۔"

 

ایک دوسرے موقع پر فرمایا کہ إِنَّ تَفَرُّقَكُمْ فِي هَذِهِ الشِّعَابِ وَالْأَوْدِيَةِ إِنَّمَا ذَلِكُمْ مِنَ الشَّيْطَانِ، "تمہارا اس طرح وادیوں اور گھاٹیوں میں منتشر ہو جانا ایک شیطانی فعل ہے۔" ابو ثعلبہ خُشَنیؓ کا بیان ہے کہ اس کے بعد یہ کیفیت ہو گئی تھی کہ جب اسلامی فوج کسی جگہ اترتی تو اس کا گنجان پڑاؤ دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اگر ایک چادر تان دی جائے تو سب کے سب نیچے آجائیں۔

 

 شور و ہنگامہ کی ممانعت

 

عرب کی جنگ میں اس قدر شور و ہنگامہ برپا ہوتا تھا کہ اس کا نام ہی "وغی" پڑ گیا تھا۔ اسلام لانے کے بعد بھی عربوں نے یہی طریقہ برتنا چاہا مگر داعیٔ اسلام ﷺ نے اس کی اجازت نہ دی۔ ابو موسیٰ اشعریؓ روایت کرتے ہیں: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَكُنَّا إِذَا أَشْرَفْنَا عَلَى وَادٍ هَلَّلْنَا وَكَبَّرْنَا ارْتَفَعَتْ أَصْوَاتُنَا، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ ارْبَعُوا عَلَى أَنْفُسِكُمْ، فَإِنَّكُمْ لَا تَدْعُونَ أَصَمَّ وَلَا غَائِبًا، إِنَّهُ مَعَكُمْ، إِنَّهُ سَمِيعٌ قَرِيبٌ. "ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے اور جب کسی وادی پر پہنچتے تھے تو زور شور سے تکبیر و تہلیل کے نعرے بلند کرتے تھے۔ اس پر حضور ﷺ نے فرمایا کہ لوگو! وقار سے چلو، تم جس کو پکار رہے ہو وہ نہ بہرا ہے اور نہ غائب، وہ تو تمہارے ساتھ ہے، سب کچھ سنتا ہے اور بہت ہی قریب ہے۔"

 

 وحشیانہ افعال کے خلاف عام ہدایات

 

فوجوں کی روانگی کے وقت جنگی برتاؤ کے متعلق ہدایات دینے کا طریقہ جس سے انیسویں صدی کے وسط تک مغربی دنیا ناواقف تھی، ساتویں صدی عیسوی میں عرب کے امی پیغمبر ﷺ نے ایجاد کیا تھا۔ داعیٔ اسلام ﷺ کا قاعدہ تھا کہ جب آپ ﷺ کسی سردار کو جنگ پر بھیجتے تو اسے اور اس کی فوج کو پہلے تقویٰ اور خوفِ خدا کی نصیحت کرتے، پھر فرماتے:

 

اغْزُوا بِاسْمِ اللَّهِ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ، قَاتِلُوا مَنْ كَفَرَ بِاللَّهِ، اغْزُوا وَلَا تَغْدِرُوا وَلَا تَغُلُّوا وَلَا تُمَثِّلُوا وَلَا تَقْتُلُوا وَلِيدًا. "اللہ کا نام لے کر اور اللہ کی راہ میں جاؤ، لڑو ان لوگوں سے جو اللہ سے کفر کرتے ہیں، مگر جنگ میں کسی سے بد عہدی نہ کرو، غنیمت میں خیانت نہ کرو، مثلہ نہ کرو اور کسی بچے کو قتل نہ کرو۔"

 

اس کے بعد فوج کو ہدایت کرتے کہ دشمن کے سامنے تین چیزیں پیش کرنا: اول اسلام، دوسرے جزیہ، تیسرے جنگ۔ اگر وہ اسلام قبول کر لے تو پھر اس پر ہاتھ نہ اٹھاؤ، اگر جزیہ دے کر اطاعت قبول کر لے تو اس کی جان و مال پر کسی قسم کی تعدی نہ کرو، لیکن اگر وہ اس سے بھی انکار کرے تو اللہ سے مدد مانگ کر جنگ کرو۔

ٹھیک ہے، آپ کے فراہم کردہ متن کو درست فارمیٹنگ، ہیڈنگز اور املا کی تصحیح کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے:

 

حضرت ابو بکرؓ کی جنگی ہدایات اور اسلام کی اصلاحات

 

خلیفہ اول حضرت ابو بکرؓ نے جب شام کی طرف فوجیں روانہ کیں تو ان کو دس ہدایتیں دی تھیں جن کو تمام مورخین و محدثین نے نقل کیا ہے۔ وہ ہدایات یہ ہیں:

 

حضرت ابو بکرؓ کی دس ہدایات

 

۱۔ عورتیں، بچے اور بوڑھے قتل نہ کیے جائیں۔

۲۔ مثلہ نہ کیا جائے (یعنی مُردوں کے اعضاء نہ کاٹے جائیں)۔

۳۔ راہبوں اور عابدوں کو نہ ستایا جائے اور نہ ان کے معابد مسمار کیے جائیں۔

۴۔ کوئی پھل دار درخت نہ کاٹا جائے اور نہ کھیتیاں جلائی جائیں۔

۵۔ آبادیاں ویران نہ کی جائیں۔

۶۔ جانوروں کو (بلا ضرورت) ہلاک نہ کیا جائے۔

۷۔ بد عہدی سے ہر حال میں احتراز کیا جائے۔

۸۔ جو لوگ اطاعت کریں ان کی جان و مال کا وہی احترام کیا جائے جو مسلمانوں کی جان و مال کا ہے۔

۹۔ اموالِ غنیمت میں خیانت نہ کی جائے۔

۱۰۔ جنگ میں پیٹھ نہ پھیری جائے۔

 

اصلاح کے نتائج

 

ان احکام کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے که اسلام نے جنگ کو ان تمام وحشیانہ افعال سے پاک کر دیا جو اس عہد میں جنگ کا ایک غیر منفک (لازمی) جز بنے ہوئے تھے۔ اسیرانِ جنگ اور سفراء کا قتل، معاہدین کا قتل، مجروحینِ جنگ کا قتل، غیر اہلِ قتال (لڑنے کی اہلیت نہ رکھنے والے) کا قتل، اعضاء کی قطع و برید (کاٹنا)، مُردوں کی بے حرمتی، آگ کا عذاب (آگ میں جلانا)، لوٹ مار اور قطع طریق (راستے بند کرنا)، فصلوں اور بستیوں کی تخریب، بد عہدی و پیمان شکنی، فوجوں کی پراگندگی و بدنظمی، لڑائی کا شور و ہنگامہ، سب کچھ آئینِ جنگ کے خلاف قرار دے دیا گیا اور جنگ صرف ایک ایسی چیز رہ گئی جس میں شریف اور بہادر آدمی دشمن کو کم سے کم ممکن نقصان پہنچا کر اس کے شر کو دفع کرنے کی کوشش کریں۔

 

فتح مکہ: اصلاحی تعلیم کا عملی نمونہ

 

اس اصلاحی تعلیم نے ۸ سال کی قلیل مدت میں جو عظیم الشان نتائج پیدا کیے ان کا بہترین نمونہ فتح مکہ ہے۔ ایک طاقت پر دوسری طاقت کی فتح اور خصوصاً دشمن کے کسی بڑے شہر کی تسخیر کے موقع پر وحشی عرب ہی میں نہیں بلکہ متمدن روم و ایران میں بھی جو کچھ ہوتا تھا اسے پیشِ نظر رکھیے۔ اس کے بعد غور کیجیے کہ وہی عرب جو چند برس پہلے تک جاہلیت کے طریقوں کے عادی تھے، اس شہر میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہوتے ہیں جس سے آٹھ ہی برس پہلے ان کو بری طرح تکلیفیں دے دے کر نکالا گیا تھا، اور انہی دشمنوں پر فتح حاصل کرتے ہیں جنہوں نے فاتحوں کو گھر سے بے گھر کرنے ہی پر قناعت نہیں کی تھی بلکہ جس جگہ انہوں نے جا کر پناہ لی تھی وہاں سے بھی ان کو نکال دینے کے لیے کئی مرتبہ چڑھ کر آئے تھے۔

 

ایسے شہر اور ایسے دشمنوں پر غلبہ حاصل ہوتا ہے مگر کوئی قتلِ عام نہیں کیا جاتا، کسی قسم کی لوٹ مار نہیں ہوتی، کسی کی جان و مال اور عزت و آبرو سے تعرض نہیں کیا جاتا، پرانے اور کٹر دشمنوں میں سے بھی کسی پر انتقام کا ہاتھ نہیں اٹھتا، تسخیرِ شہر کی پوری کارروائی میں صرف ۲۴ آدمی مارے جاتے ہیں اور وہ بھی اس وقت جب کہ دست درازی میں پیش قدمی خود ان کی طرف سے ہوئی۔ سالارِ فوج داخلہ سے پہلے اعلان کر دیتا ہے کہ جب تک تم پر کوئی ہاتھ نہ اٹھائے تم بھی ہاتھ نہ اٹھانا۔ شہر میں داخل ہوتے ہی منادی کی جاتی ہے کہ جو کوئی اپنا دروازہ بند کر کے بیٹھ جائے گا اسے امان ہے، جو کوئی ہتھیار ڈال دے گا اسے امان ہے اور جو کوئی ابو سفیان کے گھر میں پناہ لے گا اسے بھی امان ہے۔

 

پھر تکمیلِ تسخیر کے بعد فاتح، سردارِ اسلام ﷺ کے سامنے وہ دشمن ایک ایک کر کے لائے جاتے ہیں جنہوں نے اسی شہر میں ان کو تیرہ برس تک انتہائی اذیتیں پہنچانے کے بعد آخر جلاوطنی پر مجبور کیا تھا، اور جو گھر سے نکالنے کے بعد ان کو اور ان کے دین کو دنیا سے مٹانے کے لیے بدر، احد اور جنگِ احزاب میں بڑی بڑی تیاریاں کر کے گئے تھے۔ یہ دشمن گردنیں جھکائے ہوئے آکر کھڑے ہوتے ہیں۔ فاتح ﷺ پوچھتا ہے "اب تم کیا امید کرتے ہو کہ میں تمہارے ساتھ کیا کروں گا؟" مفتوح شرمساری کے ساتھ جواب دیتے ہیں کہ "تو فیاض بھائی ہے اور فیاض بھائی کا بیٹا ہے۔" (اَخٌ کَرِیْمٌ وَّابْنُ اَخٍ کَرِیْمٍ)۔ اس پر فاتحِ رحیم ﷺ اور اس کی فوج ان جائیدادوں کو بھی انہی کے حق میں معاف کر دیتی ہے جو ۸ برس پہلے ان کی ملک تھیں۔

 

تاہم ان میں کچھ ایسے شدید دشمن بھی تھے جن کی ایذا رسانی حدِ برداشت سے بڑھی ہوئی تھی۔ فاتح ﷺ نے شہر میں داخل ہونے سے پہلے حکم دیا تھا کہ ان میں سے جو کوئی ملے اسے قتل کر دینا۔ مگر جب ان پر قابو پا لیا گیا تو وہ بھی اس خلقِ عظیم و عمیم سے بے فیض نہ رہے۔ ہبار بن اسود جو فاتحِ اسلام ﷺ کی جوان بیٹی سیدہ زینبؓ کا قاتل تھا، عاجزی کے ساتھ مسلمان ہوا اور معاف کیا گیا۔ وحشی بن حرب جس نے فاتحِ اسلام ﷺ کے نہایت محبوب چچا (حضرت حمزہؓ) کو قتل کیا تھا، مسلمان ہوا اور بخشا گیا۔ ہند بنت عتبہ جو حضرت حمزہؓ کا کلیجہ نکال کر چبا گئی تھی، اپنی انتہائی شقاوت کے باوجود فاتحِ اسلام ﷺ کے غضب سے محفوظ رہی اور آخر عفو و درگزر کا دامن اس کے لیے بھی وسیع ہوا۔ سب سے بڑے دشمنِ اسلام ابو جہل کا بیٹا مکرمہ، جو خود بھی بڑا دشمنِ اسلام تھا، مسلمان ہو کر آیا اور جلیل القدر صحابہ کی صف میں شامل کیا گیا۔ ان کے علاوہ عبداللہ بن ابی سرح، سارہ اور کعب بن زہیر بھی جو سب کے سب فاتحِ اسلام ﷺ کے جانی دشمن تھے، معاف کیے گئے۔ صرف حویرث بن نقید، عبدالعزیٰ بن خطل اور مقیس بن صبابہ قتل کیے گئے، سو وہ بھی دشمنی کے جرم میں نہیں بلکہ خون کے قصاص میں۔

 

یہ تھی وہ اصلاح جو صرف ۸ سال کے اندر دنیا کی سب سے زیادہ وحشی قوم میں کی گئی تھی۔ آج اس تہذیب و تمدن کے زمانے میں بھی دنیا کی مہذب ترین قومیں جب کسی دشمن کے شہر میں فاتحانہ داخل ہوتی ہیں تو سب کو معلوم ہے کہ مفتوح شہر پر کیسے کیسے مظالم توڑے جاتے ہیں۔ بیسویں صدی کی پہلی اور دوسری جنگِ عظیم میں تہذیبِ مغرب کے علمبرداروں نے ایک دوسرے کے ملک میں گھس کر جو تباہیاں پھیلائیں ان کا نظارہ دیکھنے والی آنکھیں ابھی تک موجود ہیں۔ اس کے مقابلے میں غور کرو کہ اب سے تیرہ سو برس پہلے کے تاریک زمانے میں جب کہ دنیا کی تہذیب کا علم خسرو پرویز اور ہرقل جیسے بادشاہوں کے ہاتھ میں تھا، عرب کی ایک ان پڑھ اور بادیہ نشین قوم نے اپنے بدترین دشمنوں کے شہر میں داخل ہو کر جو شریفانہ برتاؤ کیا وہ کیسی زبردست اصلاح، کیسی اعلیٰ اخلاقی تربیت اور کیسے صحیح و مضبوط عسکری ضبط و نظم کا نتیجہ ہو سکتا تھا۔

 

جنگ کے مہذب قوانین

 

یہ تو ان چیزوں کا ذکر تھا جو دنیا میں رائج تھیں اور اسلام نے ان کو بند کیا۔ اب ہم ان چیزوں پر نظر ڈالنا چاہتے ہیں جو دنیا میں نہ تھیں اور اسلام نے ان کو جاری کیا۔ ہم کو دیکھنا ہے کہ اسلام نے جنگ کے غلط طریقوں کو موقوف کر کے خود کس قسم کے قوانین مقرر کیے؟ اس کے لیے ہم صرف ان اصولی احکام کو لیں گے جن پر قوانینِ جنگ کی بنیاد قائم ہے، باقی رہے فروعی احکام تو وہ ان اصول و قواعدِ کلیہ سے مستنبط (اخذ) کیے جا سکتے ہیں۔ اس لیے جو جزئی تفصیلات فقہ کی قدیم کتابوں میں مذکور ہیں ان پر چنداں انحصار کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

 

۱۔ اطاعتِ امام

 

جنگ کو ایک ضابطہ کے تحت لانے کے سلسلہ میں اسلام کا پہلا کام یہ تھا کہ اس نے فوجی نظام میں مرکزیت پیدا کی اور فوج میں سمع و طاعت (سننے اور ماننے) کا زبردست قانون جاری کیا۔ اسلام کے قواعدِ حرب میں اولین اور اہم ترین قاعدہ یہ ہے کہ کوئی خفیف سے خفیف جنگی کارروائی بھی امام (حاکم/سپہ سالار) کی اجازت کے بغیر نہیں کی جاسکتی۔ دشمن کو قتل کرنا، اس کے مال پر قبضہ کر لینا، اس کو قید کرنا، اس کے جنگی آلات کو برباد کر دینا فی نفسہٖ جائز ہونے کے باوجود ایسی حالت میں سخت ناجائز بلکہ گناہ ہو جاتا ہے جب کہ امام کے حکم و اجازت کے بغیر ایسا کیا جائے، جنگِ بدر سے پہلے جب عبد اللہ بن جحشؓ نے آنحضرت ﷺ کی اجازت کے بغیر قریش کی ایک جماعت سے جنگ کی اور کچھ مالِ غنیمت لوٹ لائے تو اس پر آنحضرت ﷺ نے سخت ناراضی کا اظہار کیا اور ان کے مالِ غنیمت کو ناجائز قرار دیا۔ صحابہ کی جماعت نے ان کو یہ کہہ کر ملامت کی تھی کہ ضيعتم ما لم تؤمروا به "تم نے وہ کام کیا ہے جس کا تمہیں حکم نہیں دیا گیا تھا۔"

 

حضرت خالدؓ بنو خذیمہ کی طرف دعوتِ اسلام کے لیے بھیجے گئے اور وہاں انہوں نے امام کی اجازت کے بغیر ایک غلط فہمی کی بنا پر قتل کا بازار گرم کر دیا۔ اس کی اطلاع جب رسول اکرم ﷺ کو ہوئی تو آپ ﷺ شدتِ غضب سے بے تاب ہو کر کھڑے ہو گئے اور فوراً حضرت علیؓ کو یہ حکم دے کر بھیجا کہ اجعل امر الجاهلية تحت قدميك "تم اس جاہلیت کے کام کو جا کر مٹا دو" (فتح الباری: جلد ۸، صفحہ ۴۲)۔

 

اسلام نے اطاعتِ امام کو خود خدا اور رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کے برابر ضروری قرار دیا ہے، اور امام کی نافرمانی کو وہی درجہ دیا ہے جو رسولِ خدا ﷺ کی نافرمانی کا ہے۔ حدیث میں آیا ہے:

"لڑائیاں دو قسم کی ہیں۔ جس شخص نے خاص خدا کی خوشنودی کے لیے جنگ کی، امام کی اطاعت کی، اپنا بہترین مال خرچ کیا اور فساد سے پرہیز کیا۔ اس کا سونا اور جاگنا سب اجر کا مستحق ہے۔ اور جس نے دکھاوے اور شہرت کے لیے جنگ کی، امام کی نافرمانی کی اور زمین میں فساد پھیلایا تو وہ برابر بھی نہ چھوٹے گا۔" (مفہومِ حدیث)

 

"جس نے میری اطاعت کی اس نے خدا کی اطاعت کی اور جس نے مجھ سے نافرمانی کی اس نے خدا سے نافرمانی کی، پھر جس نے امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے امیر سے نافرمانی کی اس نے گویا خود مجھ سے نافرمانی کی۔" (متفق علیہ)

 

ان تاکیدی احکام نے جنگ میں ایک باقاعدگی پیدا کر دی۔ وہ محض ایک خونی کھیل نہیں رہی کہ فوج کا ہر سپاہی فرداً فرداً لوگوں کی جان و مال کا مالک و مختار اور قتل و غارت گری کا مجاز ہو۔ زمانہ جاہلیت میں فوجوں کے سپاہی آزادی کے ساتھ لوٹ مار کیا کرتے تھے اور غنیم کے ملک میں گھسنے کے بعد ہر سپاہی کو اختیار ہوتا تھا کہ جس کو چاہے قتل کرے، جسے چاہے لوٹ لے، جس گاؤں اور جس کھیتی کو چاہے جلا دے اور دشمن قوم کو تباہ و برباد کرنے کے لیے جو جی میں آئے کرے۔ خود سکندر کی فوج بھی جس کا ڈسپلن بہت مشہور ہے اس کلیہ سے مستثنیٰ نہ تھی۔ ایران میں پیش قدمی کرتے وقت اس کے سپاہیوں نے جس آزادی کے ساتھ ملک کو تباہ کیا تھا اس کے حالات تاریخوں میں محفوظ ہیں۔

 

لیکن اسلام نے فوج کے لیے جو قواعد و ضوابط مقرر کیے ان میں افرادِ فوج کو اس قسم کی آزادی دینے سے قطعاً انکار کر دیا، کیونکہ اسلام کے نزدیک انسانی خون بہانے کی ذمہ داری ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے جس کا نہ ہر شخص متحمل ہو سکتا ہے اور نہ ہر شخص اس کے موقع و محل اور ضرورت و عدم ضرورت کا فیصلہ کر سکتا ہے۔ اسلامی قانون میں جنگ کے تمام اعمال کی ذمہ داری اور امر و نہی کے تمام اختیارات کا حامل ایک "امیر" کو بنایا گیا، اور فوج پر اس کی کامل اطاعت فرض کر دی گئی ہے، یہاں تک کہ کسی سپاہی کو اتنا اختیار بھی نہیں دیا گیا ہے کہ امیر کی اجازت کے بغیر دشمن کی سرزمین سے کسی درخت کے پھل توڑ کر کھالے۔

 

۲۔ وفائے عہد

 

اسلامی قانون نے جنگ اور صلح دونوں حالتوں میں وفائے عہد کی سخت تاکید کی ہے۔ حقیقتاً اخلاقیاتِ اسلام کے قواعدِ اصلیہ میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انسان کو سخت سے سخت ضرورت کی حالت میں بھی اپنے عہد پر قائم رہنا چاہیے۔ بد عہدی سے خواہ کتنا ہی بڑا فائدہ پہنچتا ہو اور وفائے عہد سے کتنا ہی شدید نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو، اسلام بہر صورت اپنے پیروؤں کو تاکید کرتا ہے کہ اس فائدے کو چھوڑ دیں اور اس نقصان کو برداشت کریں، کیونکہ نہ بد عہدی کا بڑے سے بڑا فائدہ اس نقصان کی تلافی کر سکتا ہے جو اس سے انسان کی اخلاقی و روحانیت کو پہنچتا ہے، اور نہ وفائے عہد کا کوئی بڑے سے بڑا نقصان اس اخلاقی و روحانی فائدے کو کم کر سکتا ہے جو اس کے ساتھ توام (جڑا ہوا) ہے۔

 

یہ قاعدہ کلیہ جس طرح انفرادی و شخصی زندگی پر حاوی ہے اسی طرح اجتماعی و قومی زندگی پر بھی حاوی ہے۔ آج کل دنیا میں یہ دستور ہو گیا ہے کہ جن کاموں کو ایک شخص اپنی ذاتی حیثیت میں سخت شرمناک سمجھتا ہے انہیں ایک قوم اپنی اجتماعی حیثیت میں بے تکلف کر گزرتی ہے اور اسے کوئی عیب نہیں سمجھتی۔ سلطنتوں کے مدبرین اپنی ذاتی حیثیت میں کیسے ہی اخلاقِ فاضلہ و تہذیبِ کاملہ کے مالک ہوں، مگر اپنی سلطنت کے فائدے اور اپنی قوم کی ترقی کے لیے جھوٹ بولنا، بے ایمانی کرنا، عہد توڑ دینا، وعدہ خلافیاں کرنا بالکل جائز سمجھتے ہیں اور بڑی بڑی مدعیٔ تہذیب سلطنتیں ایسی بے باکی کے ساتھ یہ حرکات کرتی ہیں کہ گویا یہ کوئی عیب ہی نہیں ہے۔ لیکن اسلام اس معاملہ میں فرد اور جماعت، رعیت اور حکومت، شخص اور قوم میں کوئی امتیاز نہیں کرتا، اور بد عہدی کو ہر حال میں ہر غرض کے لیے ناجائز قرار دیتا ہے، خواہ وہ شخصی فائدے کے لیے ہو یا قومی فائدے کے لیے۔

 

قرآنی احکامات برائے وفائے عہد:

 

وَأَوْفُوا بِعَهْدِ اللَّهِ إِذَا عَاهَدتُّمْ وَلَا تَنقُضُوا الْأَيْمَانَ بَعْدَ تَوْكِيدِهَا وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللَّهَ عَلَيْكُمْ كَفِيلًا إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ وَلَا تَكُونُوا كَالَّتِي نَقَضَتْ غَزْلَهَا مِن بَعْدِ قُوَّةٍ أَنكَاثًا تَتَّخِذُونَ أَيْمَانَكُمْ دَخَلًا بَيْنَكُمْ أَن تَكُونَ أُمَّةٌ هِيَ أَرْبَىٰ مِنْ أُمَّةٍ (النحل: ۹۱-۹۲)

"اللہ کے عہد کو پورا کرو جب کہ تم کسی سے معاہدہ کر لو۔ اور اپنی قسموں کو مضبوط کرنے اور اللہ کو ان پر ضامن کرنے کے بعد نہ توڑو، جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کا حال بالیقین معلوم ہے۔ تم اس عورت کی طرح نہ بن جاؤ جس نے اپنا ہی کاتا ہوا سوت محنت سے کاتنے کے بعد ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ تم اپنی قسموں کو باہم دغا کے طور پر استعمال کرتے ہو تاکہ ایک قوم دوسری قوم سے مال و عزت میں بڑھ جائے۔"

 

اسی مضمون کی آیات قرآن مجید میں بکثرت آئی ہیں۔ یہاں ان سب کا احاطہ مقصود نہیں ہے، احکام کی تصریح کے لیے صرف چند آیات نقل کی جاتی ہیں:

 

الَّذِينَ يُوفُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَلَا يَنقُضُونَ الْمِيثَاقَ وَالَّذِينَ يَصِلُونَ مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَن يُوصَلَ وَيَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ وَيَخَافُونَ سُوءَ الْحِسَابِ... أُولَٰئِكَ لَهُمْ عُقْبَى الدَّارِ (الرعد: ۲۰-۲۲)

"جو لوگ اللہ کے عہد کو پورا کرتے ہیں اور عہد و پیمان کو نہیں توڑتے، اور اللہ نے جس چیز کو جوڑنے کا حکم دیا ہے اسے قائم کرتے ہیں... ان کے لیے اچھا انجام ہے۔"

 

بَلَىٰ مَنْ أَوْفَىٰ بِعَهْدِهِ وَاتَّقَىٰ فَإِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَ إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَأَيْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِيلًا أُولَٰئِكَ لَا خَلَاقَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ وَلَا يُكَلِّمُهُمُ اللَّهُ وَلَا يَنظُرُ إِلَيْهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (آل عمران: ۷۶-۷۷)

"کیوں نہیں! جس شخص نے بھی اپنا عہد پورا کیا اور پرہیزگاری اختیار کی اللہ ایسے پرہیزگاروں کو پسند کرتا ہے۔ اور جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کو تھوڑی قیمت پر بیچ ڈالتے ہیں، یقیناً ان کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے، اللہ ان سے نہ کلام کرے گا نہ قیامت کے دن ان کی طرف (نظرِ رحمت سے) دیکھے گا اور نہ ان کو پاکیزگی بخشے گا، ان کے لیے دکھ بھرا عذاب ہے۔"

 

وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَاهَدُوا وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ أُولَٰئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ (البقرہ: ۱۷۷)

"اور وہ لوگ جو عہد کرنے کے بعد اسے پورا کرتے ہیں اور وہ جو سختی و تکلیف اور جنگ کی مصیبت میں ثابت قدم رہتے ہیں، وہی سچے لوگ ہیں، اور وہی پرہیزگار ہیں۔"

 

وَإِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوا وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَىٰ وَبِعَهْدِ اللَّهِ أَوْفُوا ذَٰلِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ (الانعام: ۱۵۲)

"اور جب تم بولو تو انصاف کی بات بولو خواہ وہ شخص (جس کے خلاف یا حق میں تم کہہ رہے ہو) تمہارا عزیز ہی کیوں نہ ہو۔ اور اللہ کے عہد کو پورا کرو، اللہ نے اس کی تم کو نصیحت کی ہے شاید کہ تم نصیحت قبول کرو۔"

 

وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولًا (بنی اسرائیل: ۳۴)

"عہد پورا کرو کیونکہ عہد کے بارے میں باز پرس ہو گی۔"

 

وفائے عہد کا عملی نمونہ:

 

اس تعلیم کا جو عملی نمونہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی سیرت میں پیش کیا اس کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں عہد کی کیا قیمت ہے۔ جنگِ بدر میں جب کہ کفار کی تعداد مسلمانوں سے تگنی تھی اور مسلمان اپنی جمعیت بڑھانے کے لیے ایک ایک آدمی کے حاجت مند تھے، حذیفہ بن الیمانؓ اور ان کے والد حسیل بن جابرؓ لشکرِ اسلام کی طرف روانہ ہوئے۔ راستے میں کفار نے ان کو روک لیا اور کہا کہ تم ضرور محمد ﷺ کی مدد کو جارہے ہو۔ انہوں نے کہا کہ نہیں ہم تو مدینہ کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس پر کفار نے ان سے یہ عہد لے کر چھوڑ دیا کہ جنگ میں شریک نہ ہوں گے۔ یہ دونوں حضرات کفار کے پنجہ سے چھوٹ کر بدر کے میدان میں آنحضرت ﷺ کے پاس پہنچے اور یہ قصہ دہرایا۔ آپ ﷺ نے سن کر حکم دیا کہ انصرفا نفي لهم بعهدهم ونستعين الله عليهم - "تم مدینہ چلے جاؤ، ہم ان کے عہد کو پورا کریں گے اور ان کے مقابلے میں اللہ سے مدد مانگیں گے۔"

 

صلحِ حدیبیہ میں جو شرائط کفارِ قریش سے طے ہوئی تھیں ان میں سے ایک یہ بھی تھی کہ اگر مکہ سے کوئی شخص بھاگ کر مسلمانوں کے پاس جائے گا تو مسلمان اس کو واپس کر دیں گے اور اگر مسلمانوں کا کوئی آدمی مکہ جائے گا تو اسے واپس نہ کیا جائے گا۔ یہ معاہدہ ابھی لکھا ہی جارہا تھا کہ ابو جندل بن سہیلؓ کفارِ مکہ کی قید سے کسی طرح چھوٹ کر لشکرِ اسلام میں پہنچ گئے۔ پاؤں میں بیڑیاں تھیں، بدن پر مار کے نشان تھے، چہرے پر شدید مصائب کے آثار ہویدا تھے، رسول اللہ ﷺ کے سامنے آکر فریاد کی کہ اللہ مجھ کو اس مصیبت سے نکالے۔ مسلمان ان کی یہ حالت دیکھ کر بے چین ہو گئے۔ چودہ سو تلواریں رسول اللہ ﷺ کے اشارے کی منتظر تھیں اور اسلامی اخوت ایک مسلمان بھائی کو قید سے چھڑانے کے لیے مضطرب تھی۔ مگر شرائطِ صلح طے ہو چکی تھیں، معاہدہ لکھا جا رہا تھا، اس لیے اللہ کے رسول ﷺ نے ابو جندل کو چھڑانے سے صاف انکار کر دیا اور فرمایا تو یہ فرمایا: "ابو جندل! صبر کر، اللہ تیرے لیے رہائی کی کوئی صورت ضرور نکالے گا۔"

 

مدینہ واپس ہوئے تو ایک اور صحابی ابو بصیرؓ کفارِ مکہ کی قید سے چھوٹ کر آپ ﷺ کے پاس پہنچے۔ ان کے پیچھے پیچھے کفار بھی دو آدمی لے کر پہنچ گئے اور انہوں نے حاضر ہو کر ابو بصیرؓ کی واپسی کا مطالبہ کیا۔ رسول اکرم ﷺ کو معلوم تھا کہ مکہ میں مسلمانوں کے ساتھ کیسا ظالمانہ سلوک ہوتا ہے اور خصوصاً بھاگ کر جانے والے قیدی کے ساتھ کیا برتاؤ ہو گا، مگر پاسِ عہد سب پر مقدم تھا، آپ ﷺ نے مظلوم مسلمان کو ظالموں کے حوالے کر دیا اور عہد کو توڑنا پسند نہ کیا۔

 

اس قسم کے بے شمار واقعات عہدِ رسالت اور عہدِ صحابہ کی تاریخ میں ملتے ہیں جن کا احاطہ یہاں مشکل ہے۔

 

۳۔ غیر جانبداروں کے حقوق

 

اسلام میں غیر جانبداری (Neutrality) کی اصطلاح نہیں ہے بلکہ اس کو معاہدہ کے ذیل میں داخل کیا گیا ہے۔ اسلامی قانون تمام غیر مسلم قوموں کو دو جماعتوں میں تقسیم کرتا ہے۔ ایک وہ جن سے معاہدہ ہے، دوسرے وہ جن سے معاہدہ نہیں ہے۔ معاہدین جب تک شرائطِ معاہدہ پر قائم رہیں گے ان کے ساتھ شرائط کے مطابق معاملہ کیا جائے گا اور جنگ میں ان سے کسی قسم کا تعرض نہ کیا جائے گا۔ یہی غیر جانبداری (Neutrality) کا مفہوم ہے۔ باقی رہے غیر معاہدین، سو خواہ ان سے عملاً جنگ ہو یا نہ ہو، قانوناً وہ بر سرِ جنگ سمجھے جائیں گے کیونکہ غیر قوموں سے موادعت (صلح) اور عدمِ موادعت کے بیچ میں کوئی درمیانی حالت اسلام نے تسلیم نہیں کی ہے۔

 

معاہدین کے ساتھ تمام معاملات شرائطِ معاہدہ کے تابع ہوں گے، مگر اسلام نے مسائلِ جنگ میں معاہدین کے لیے چند اصولی حقوق بھی متعین کر دیے ہیں جو حسبِ ذیل ہیں:

 

(۱)۔ جب تک معاہد قوم عہد پر قائم ہے اس کے ساتھ کسی قسم کا تعرض کرنا مسلمانوں کے لیے سخت ممنوع ہے:

إِلَّا الَّذِينَ عَاهَدتُّم مِّنَ الْمُشْرِكِينَ ثُمَّ لَمْ يَنقُصُوكُمْ شَيْئًا وَلَمْ يُظَاهِرُوا عَلَيْكُمْ أَحَدًا فَأَتِمُّوا إِلَيْهِمْ عَهْدَهُمْ إِلَىٰ مُدَّتِهِمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَ (التوبہ: ۴)

"مگر وہ مشرکین جن سے تم نے معاہدہ کیا تھا اور جنہوں نے وفائے عہد میں کوئی کمی نہیں کی اور نہ تمہارے خلاف کسی کو مدد دی، ان کے ساتھ مدتِ معاہدہ کے ختم ہونے تک تم عہد پر قائم رہو، کیونکہ اللہ پرہیزگاروں کو پسند کرتا ہے۔"

 

(۲)۔ اگر مسلمانوں کی کوئی جماعت کسی معاہد قوم کے ملک میں آباد ہو اور وہاں اس پر ظلم ہو رہے ہوں تو اسلامی حکومت ان مسلمانوں کی حمایت (جنگی طور پر) نہیں کر سکتی:

وَإِنِ اسْتَنصَرُوكُمْ فِي الدِّينِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ إِلَّا عَلَىٰ قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُم مِّيثَاقٌ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ (الانفال: ۷۲)

"دار الکفر کے رہنے والے مسلمان اگر دین کے معاملے میں تم سے مدد مانگیں تو ان کی مدد تم پر فرض ہے، مگر اس قوم کے خلاف مدد نہیں دینی چاہیے جس سے تمہارا معاہدہ ہو۔ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اسے دیکھتا ہے۔" ۱

 

(۳)۔ حالتِ جنگ میں معاہد قوم کے حدود پر کسی قسم کا تجاوز کرنا جائز نہیں ہے۔ اگر دشمن بھاگ کر کسی ایسی قوم کے حدود میں پناہ لے تو اسلامی فوج وہاں اس کا تعاقب نہیں کر سکتی:

فَإِن تَوَلَّوْا فَخُذُوهُمْ وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ وَلَا تَتَّخِذُوا مِنْهُمْ وَلِيًّا وَلَا نَصِيرًا إِلَّا الَّذِينَ يَصِلُونَ إِلَىٰ قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُم مِّيثَاقٌ (النساء: ۸۹-۹۰)

"اگر وہ باز نہ آئیں تو انہیں پکڑو اور جہاں پاؤ مارو، اور ان کو اپنا دوست اور مددگار نہ بناؤ، سوائے ان لوگوں کے جو کسی ایسی قوم سے جاملیں جس سے تمہارا معاہدہ ہو۔"

 

یہ قواعدِ کلیہ غیر جانبداری کے قانون کی بنیاد ہیں۔ ان سے جزئی احکام حسبِ ضرورت مستنبط کیے جا سکتے ہیں۔

 

۱۔ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ ان مسلمانوں کو ایسی مدد نہیں دی جاسکتی جو جنگی امداد کی حد تک پہنچتی ہو اور ان کی حمایت میں کوئی ایسا قدم بھی نہیں اٹھایا جا سکتا جو بیجا مداخلت کی تعریف میں آتا ہو۔ لیکن اس کے معنی یہ بھی نہیں ہیں کہ اگر دار الکفر کی مسلمان رعایا پر ظلم ہو رہے ہوں تو دار الاسلام کے مسلمان اسے ٹھنڈے دل سے بیٹھے دیکھتے رہیں۔ نہیں، وہ اپنا عہد تو نہیں توڑ سکتے، اس کے ماسوا وہ اپنے مظلوم بھائیوں کی اخلاقی، مادی اور سیاسی امداد کے لیے وہ سب کچھ کر سکتے ہیں (اور انہیں کرنا چاہیے) جس کی گنجائش معاہدات اور دنیا کے معروف بین الاقوامی تعامل میں ہو۔

 

۴۔ اعلانِ جنگ

 

جب کوئی قوم شرائطِ معاہدہ کی خلاف ورزی کرے اور اسلامی حکومت کے خلاف معاندانہ رویہ اختیار کر لے تو اس کے متعلق اسلامی قانون یہ ہے کہ اس کو باضابطہ الٹی میٹم دیا جائے گا، اور ایفائے عہد کے لیے کافی مہلت دینے کے بعد جنگ چھیڑی جائے ۱۔

 

وَإِمَّا تَخَافَنَّ مِن قَوْمٍ خِيَانَةً فَانبِذْ إِلَيْهِمْ عَلَىٰ سَوَاءٍ (الانفال: ۵۸)

"اگر تمہیں کسی قوم سے خیانت و بد عہدی کا خوف ہو تو ان کا معاہدہ برابری کو ملحوظ رکھ کر ان کی طرف پھینک دو۔"

 

برابری کو ملحوظ رکھ کر معاہدہ کو پھینک دینے کا مطلب مفسرین نے یہ بیان کیا ہے کہ ان کو صاف طور پر مطلع کر دیا جائے کہ تمہارے معاندانہ افعال ایسے ہیں جن کی بنا پر ہمارا تمہارا معاہدہ باقی نہیں رہا۔ اس کے بعد دیکھا جائے کہ وہ افعال سے باز آتے ہیں یا نہیں، اگر وہ پھر بھی باز نہ آئیں تو ان کے خلاف جنگ چھیڑ دی جائے۔

 

علامہ ابن حجرؒ کہتے ہیں: أي اطرح إليهم عهدهم وذلك بأن يرسل إليهم من يعلمهم بأن العهد قد انتقض۔ "یعنی ان کا معاہدہ ان کی طرف پھینک دو، اور یہ اس طرح کہ انہیں کسی کے ہاتھ کہلا بھیجا جائے کہ عہد ٹوٹ چکا۔"

 

علامہ ابن کثیرؒ کہتے ہیں: أي أعلمهم بأنك قد نقضت عهدهم حتى يبقى علمك وعلمهم بأنك حرب لهم وهم حرب لك وأن لا عهد بينك وبينهم على السواء أي تستوي أنت وهم في ذلك۔ "یعنی ان کو خبر کر دو کہ تم نے معاہدہ فسخ کر دیا ہے تاکہ اس علم میں تم اور وہ برابر ہو جائیں کہ تم ان کے دشمن اور وہ تمہارے دشمن ہو گئے، اور اب تمہارے اور ان کے درمیان کوئی عہد باقی نہیں رہا۔"

 

ازہری کا قول ہے: إذا عاهدت قوماً فخشيت منهم النقض فلا توقع بهم بمجرد ذلك حتى تعلمهم۔ "جب تمہارا کسی قوم سے عہد ہو اور تمہیں اس سے نقضِ عہد کا خوف ہو جائے تو یہ خوف ہونے کے ساتھ ہی ان پر نہ ٹوٹ پڑو، بلکہ پہلے ان کو خبردار کر دو۔"

 

فقہائے مجتہدین نے صرف اطلاع دینے کو بھی کافی نہیں سمجھا ہے بلکہ اس نقضِ عہد کرنے والی قوم کو مہلت دینے کی بھی سفارش کی ہے تاکہ اگر وہ اپنے معاندانہ رویے کی اصلاح کرنا چاہے تو کر لے۔ اس باب میں اسلامی قانون کی اصلی اسپرٹ صدرِ اول کے ایک واقعہ سے معلوم ہو سکتی ہے، جس میں خوش قسمتی سے ہم کو بہت سے اکابر فقہاء کے فتوے ملتے ہیں۔ عبد الملک بن صالح کے ایامِ ولایت میں جب قبرص کے لوگوں نے بد عہدی کی تو اس نے لیث بن سعد، مالک بن انس، سفیان بن عیینہ، موسیٰ بن اعین، اسماعیل بن عیاش، یحییٰ بن حمزہ، ابو اسحاق فزاری وغیرہ ممتاز فقہاء سے استفسار کیا کہ {فَانْبِذْ إِلَيْهِمْ عَلَىٰ سَوَاءٍ} کا حکم اس معاملے میں جاری ہو سکتا ہے یا نہیں؟ اور ہو سکتا ہے تو کس صورت سے؟ اس پر فقہاء نے جو جواب دیے ان میں سے چند یہاں نقل کیے جاتے ہیں:

 

لیث بن سعدؒ نے لکھا: "ان کو ایک سال کی مہلت دی جائے تاکہ باہم مشورہ کر لیں، جو کوئی ذمی بن کر بلادِ مسلمین میں آنا چاہے یہاں آجائے۔ جو بلادِ روم کی طرف ہجرت کرنا چاہے وہ وہاں جائے اور جو قبرص ہی میں رہ کر لڑنا چاہے اس سے تم لڑنے کے حق دار ہو۔"

 

امام مالکؒ نے لکھا: "میری رائے میں فسخِ معاہدہ میں جلدی نہ کرنی چاہیے بلکہ ان پر اتمامِ حجت کر لینا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے {فَأَتِمُّوا إِلَيْهِمْ عَهْدَهُمْ إِلَىٰ مُدَّتِهِمْ}۔ پس اگر وہ تمہارے ڈھیل دینے پر بھی باز نہ آئیں اور بے وفائی پر اصرار کریں اور تم دیکھو کہ عذر ان پر ثابت ہے تو پھر تمہیں اختیار ہے کہ ان پر حملہ کر دو۔"

 

موسیٰ بن اعینؒ نے لکھا: "اس سے پہلے جب کبھی ایسے واقعات پیش آئے ہیں تو حکام نے ہمیشہ مہلت دی ہے۔ بہر ممکن ہے کہ اہلِ قبرص کے عوام اس فعل میں نہ شریک ہوں جو ان کے خواص کر رہے ہیں، اس لیے میری رائے یہ ہے کہ ان سے عہد قائم رکھا جائے اور شرائطِ صلح پوری کی جائیں گو ان میں کچھ مفسد لوگ موجود ہیں۔"

 

اس بارے میں حضرت عمرؓ کا بھی یہی فیصلہ ہے کہ عہد شکنی کرنے والے معاہدین کو کافی مہلت دینی چاہیے۔ ان کے عہدِ خلافت میں عمیر بن سعدؓ نے لکھا کہ ہمارے علاقے میں غربسوس ایک مقام ہے جہاں کے لوگ دشمن کو ہماری خفیہ خبریں پہنچاتے ہیں اور ہم کو دشمن کی خبریں نہیں دیتے۔ اس پر حضرت عمرؓ نے ان کو لکھا کہ پہلے تم ان سے جا کر کہو کہ ہم تم کو ایک بکری کی جگہ دو بکریاں اور ایک گائے کی جگہ دو گائیں اور اسی طرح ہر چیز کے عوض دو گنی چیز دیں گے، تم اس جگہ کو چھوڑ دو۔ اگر وہ مان جائیں تو بہتر ورنہ ان کو مطلع کر دو کہ ہمارا تمہارا عہد ختم ہوا۔ پھر انہیں ایک سال کی مہلت دو اور اس مدت کے ختم ہونے پر انہیں وہاں سے نکال دو۔ (فتوح البلدان للبلاذری: صفحہ ۱۶۲-۱۶۳)

 

۱۔ اس عام قاعدے سے صرف وہ حالت مستثنیٰ ہے جب کہ فریقِ ثانی کی طرف سے صریح نقضِ عہد کا ارتکاب یا کھلا جنگی اقدام ہوا ہو، جیسا کہ کفارِ مکہ کی طرف سے ہوا تھا۔ اس صورت میں حکومتِ اسلامی کو حق حاصل ہو جاتا ہے کہ اگر چاہے تو بلا اعلانِ جنگ اس پر حملہ کر دے جس طرح فتحِ مکہ کے موقع پر نبی ﷺ نے کیا۔

 

۵۔ اسیرانِ جنگ

 

اوپر ذکر ہو چکا ہے کہ اسلام نے اسیرانِ جنگ کو قتل کرنے کی ممانعت کی ہے، لیکن اسلامی قانون میں ان کے لیے صرف اتنی ہی رعایت نہیں ہے کہ وہ قتل نہ کیے جائیں، بلکہ مزید برآں ان کے ساتھ انتہا درجے کی نرمی و لطافت کا بھی حکم دیا ہے۔ قرآن مجید میں اسیر اور مسکین و یتیم کو کھانا کھلانے کی تعریف آئی ہے اور اسے نیکو کاروں کا فعل قرار دیا گیا ہے:

 

وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَىٰ حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللَّهِ لَا نُرِيدُ مِنكُمْ جَزَاءً وَلَا شُكُورًا إِنَّا نَخَافُ مِن رَّبِّنَا يَوْمًا عَبُوسًا قَمْطَرِيرًا (الدھر: ۸-۱۰)

"وہ خاص اللہ کی خوشنودی کے لیے مسکین و یتیم اور اسیر کو کھانا کھلاتے ہیں (اور کہتے ہیں) کہ ہم تو محض اللہ کے لیے تمہیں کھلاتے ہیں، کسی جزا یا شکریہ کے خواستگار نہیں ہیں، ہم تو صرف اس تنگی کے دن سے ڈرتے ہیں جس میں شدتِ تکلیف سے چہرے بگڑ جائیں گے۔"

 

نبی ﷺ قیدیوں کے بارے میں ہمیشہ حسنِ سلوک کی نصیحت فرماتے تھے۔ جنگِ بدر میں جب وہ لوگ پکڑے ہوئے آئے جنہوں نے تیرہ برس تک آپ ﷺ کو اور مسلمانوں کو تکلیفیں دے دے کر جلا وطنی پر مجبور کیا تھا، تو آپ ﷺ نے صحابہؓ کو تاکید فرمائی کہ ان کے ساتھ فیاضی کا برتاؤ کریں۔ اس حکم کی تعمیل صحابہؓ نے اس طرح کی کہ ان کو اپنے سے اچھا کھانا کھلایا اور اپنے سے زیادہ آرام دیا۔ بعض صحابہؓ خود کھجوریں کھاتے تھے اور قیدیوں کو روٹی سالن کھلاتے تھے۔ قیدیوں کے پاس کپڑے نہ رہے تو رسول اللہ ﷺ نے اپنے پاس سے ان کو کپڑے پہنائے، حالانکہ وہ وقت مسلمانوں پر بے انتہا تنگی کا تھا۔

 

ان قیدیوں میں سے ایک شخص سہیل بن عمرو بڑا فصیح اللسان تھا اور رسول اللہ ﷺ کے خلاف زہریلی تقریریں کیا کرتا تھا۔ حضرت عمرؓ نے مشورہ دیا کہ اس کے دانت توڑ دیے جائیں، مگر آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ: "اگر میں اس کا مثلہ کروں گا تو اللہ میرا مثلہ کرے گا۔"

 

کچھ مدت قید رکھنے کے بعد آنحضرت ﷺ نے آخر کار ان سب قیدیوں کو فدیہ لے کر رہا کر دیا۔ ۱

 

اسیرانِ جنگ بدر کے فدیہ کا واقعہ:

 

اسیرانِ جنگِ بدر کے فدیے کے متعلق احادیث اور تفسیر کی کتابوں میں یہ واقعہ نقل کیا گیا ہے کہ جب یہ لوگ قید ہو کر آئے تو آنحضرت ﷺ نے صحابہؓ سے مشورہ کیا کہ ان کے معاملے میں کیا کیا جائے؟ یہ وہ وقت تھا کہ مہاجرین کے دلوں پر ان کے مظالم کے زخم تازہ تھے۔ دو برس پہلے انہیں لوگوں نے ان کو مکہ سے نکالا تھا اور اب اس لیے ان پر چڑھ کر آئے تھے کہ انہیں مدینہ میں بھی چین سے نہ بیٹھنے دیں۔ اس وجہ سے اکثر طبیعتوں میں ان کے خلاف سخت اشتعال تھا۔ علاوہ بریں اس وقت مسلمانوں کی جمعیت بھی بہت تھوڑی تھی، کفار ان سے کئی گنا زیادہ طاقت لے کر میدان میں آئے تھے اور ان کی تعداد میں ایک ایک آدمی کا اضافہ بھی مسلمانوں کے لیے مہلک تھا۔ اس لیے قدرتی طور پر مسلمان یہ چاہتے تھے کہ جہاں تک ممکن ہو دشمن کی قوت کو توڑا جائے اور یہ ۷۰ آدمی جو ان میں سے کم ہو گئے ہیں دوبارہ ان سے مل کر ان کی فوجی قوت میں اضافہ نہ کر سکیں۔ تیسری بات یہ تھی کہ اس وقت مسلمانوں پر فاقوں پر فاقے گزر رہے تھے اور ان کے پاس خود اپنا پیٹ بھرنے کے لیے بھی کافی سامان موجود نہ تھا، اس لیے اسیرانِ جنگ کو اختتامِ جنگ تک قید رکھنا اور ان کی خوراک کا بندوبست کرنا ان کی قدرت سے باہر تھا۔

 

ان تمام امور کو مدِنظر رکھ کر حضرت عمرؓ نے یہ رائے دی کہ ان کو قتل کر دیا جائے۔ عبداللہ بن رواحہؓ نے کہا کہ گھنی جھاڑی میں آگ لگا کر ان کو اس میں جھونک دیا جائے۔ مگر حضرت ابو بکرؓ، جو سراسر لطف و رحم تھے، اس کے خلاف یہ رائے دی کہ انہیں معاف کر دیا جائے۔ یہ مختلف رائے سننے کے بعد رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ "اللہ بعض لوگوں کے دلوں کو اتنا نرم کر دیتا ہے کہ دودھ کی طرح ہو جاتے ہیں اور بعض کے دلوں کو اتنا سخت کر دیتا ہے کہ پتھر بن جاتے ہیں۔ ابو بکرؓ کی مثال ابراہیمؑ اور عیسیٰؑ کی سی ہے اور عمرؓ کی مثال نوحؑ کی سی۔" پھر آپ ﷺ نے یہ فیصلہ کیا کہ نہ تو انہیں قتل کرو اور نہ معاف کرو بلکہ فدیہ لے کر رہا کر دو۔ چنانچہ ان سے فدیہ قبول کر لیا گیا۔

 

مشہور روایت کے مطابق اس پر عتابِ الٰہی نازل ہوا اور یہ آیت اتری کہ:

مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَن يَكُونَ لَهُ أَسْرَىٰ حَتَّىٰ يُثْخِنَ فِي الْأَرْضِ تُرِيدُونَ عَرَضَ الدُّنْيَا وَاللَّهُ يُرِيدُ الْآخِرَةَ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ لَّوْلَا كِتَابٌ مِّنَ اللَّهِ سَبَقَ لَمَسَّكُمْ فِيمَا أَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ (الانفال: ۶۷-۶۸)

"کسی نبی کے لیے یہ سزاوار نہیں کہ اس کے پاس قیدی ہوں جب تک کہ وہ (دشمن کو) اچھی طرح کچل نہ دے، تم محض دنیا کی دولت چاہتے ہو مگر اللہ آخرت چاہتا ہے، اور اللہ غالب حکمت والا ہے۔ اگر پہلے سے خدا کا نوشتہ نہ آچکا ہوتا تو جو کچھ تم نے لیا ہے اس پر بڑا عذاب نازل ہوتا۔" ۲

 

اسیرانِ جنگ کے متعلق اسلامی قانون:

 

اسیرانِ جنگ کے متعلق اسلام کا قانون یہ ہے کہ اختتامِ جنگ پر انہیں یا تو بغیر فدیہ کے چھوڑ دیا جائے یا فدیہ لے کر رہائی دے دی جائے یا قید رکھ کر نیک سلوک کیا جائے ۳:

فَإِذَا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا فَضَرْبَ الرِّقَابِ حَتَّىٰ إِذَا أَثْخَنتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاءً (سورۃ محمد: ۴)

"جب کافروں سے تمہاری مڈبھیڑ ہو تو (خوب) گردنیں مارو یہاں تک کہ جب ان کو اچھی طرح کچل دو تو پھر (بچ رہنے والوں کو) مضبوطی سے قید کرو، اس کے بعد تمہیں اختیار ہے کہ چاہے احسان کر کے (بغیر فدیہ چھوڑ دو) یا فدیہ لے کر رہا کرو۔"

 

اس آیت کے مطابق رسول اللہ ﷺ اکثر فدیہ لیے بغیر ہی اسیرانِ جنگ کو رہا کر دیا کرتے تھے۔ جبلِ تنعیم میں مکہ کے ۸۰ آدمیوں نے لشکرِ اسلام پر حملہ کیا اور سب کے سب گرفتار ہو گئے۔ رسول اللہ ﷺ کے سامنے انہیں پیش کیا گیا تو آپ ﷺ نے سب کو فدیہ لیے بغیر چھوڑ دیا۔ جنگِ حنین میں ہوازن کے ۶ ہزار قیدی بطریقِ احسان چھوڑ دیے گئے۔ یمامہ کا سردار ثمامہ بن اثال گرفتار ہو کر آیا اور اسے بھی فدیہ کے بغیر رہائی بخشی گئی۔ اس سے وہ اتنا متاثر ہوا کہ مسلمان ہو گیا۔ تاہم بعض اوقات فدیہ بھی لے لیا کرتے تھے، خصوصاً تنگی و عسرت کی حالت میں۔

 

۱۔ بعض روایات کے مطابق فدیہ نہ دے سکنے والے پڑھے لکھے قیدیوں کو دس دس مسلمان بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھانے کے عوض رہا کیا گیا۔

۲۔ بخلاف اس کے اہلِ علم کی ایک قلیل جماعت اس طرف گئی ہے کہ یہ عتاب اسیروں سے فدیہ لینے پر نہ تھا بلکہ اس بات پر تھا کہ آسمانی اجازت لینے سے پہلے مسلمانوں نے مالِ غنیمت لوٹنا شروع کر دیا تھا۔ چنانچہ امام ترمذی نے اپنی جامع کی کتاب التفسیر میں، امام ابو یوسف نے کتاب الخراج میں، اور امام ابن جریر طبری نے اپنی تفسیر میں یہ روایت نقل کی ہے کہ: فلما كان يوم بدر وقعوا في الغنائم قبل ان تحل لهم، فانزل الله ﴿لَوْلَا كِتَابٌ مِّنَ اللهِ سَبَقَ لَمَسَّكُمْ فِيمَا أَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ﴾۔ "جب بدر کا معرکہ ہوا تو مسلمان غنیمت کے حلال ہونے سے پہلے اس پر ٹوٹ پڑے، اس پر یہ آیت اتری کہ {لَوْلَا كِتَابٌ مِّنَ اللهِ...} الآیۃ۔" بہرحال جو صورت بھی ہو یہ امر متفق علیہ ہے کہ یہ آیت جنگِ بدر کے موقع پر اتری تھی اور اسی جنگ سے متعلق تھی۔ اس سے کوئی عام اور دائمی قانون بنانا مقصود نہ تھا۔ اسیرانِ جنگ کے متعلق اسلام کا اصلی قانون سورہ محمد ﷺ کی اس آیت میں بیان کیا گیا ہے جو متن میں درج ہے، کیونکہ اس کے الفاظ عام ہیں، کسی موقع کے ساتھ مخصوص نہیں ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کا عمل بھی اسی پر رہا ہے۔ ورنہ اگر جنگِ بدر والی آیت کا حکم عام ہوتا تو کبھی کوئی اسیر رہا نہ کیا جاتا۔

۳۔ بعض لوگوں نے احسان کے معاملے سے مراد صرف یہ لیا ہے کہ فدیہ کے بغیر رہا کر دیا جائے، حالانکہ احسان میں یہ بات بھی شامل ہے کہ قید رکھ کر نیک برتاؤ کیا جائے۔

 

۶۔ غلامی کا مسئلہ

 

اس سلسلے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسلام نے اسیرانِ جنگ کو لونڈی غلام بنانے کی جو اجازت دی ہے اور جنگ میں پکڑی ہوئی عورتوں کے ساتھ تمتع (جنسی تعلق) کو جائز رکھا ہے اس کی کیا اصلیت ہے؟ اور اگر یہ مسئلہ فی الواقع اسلام میں موجود ہے تو یہ کہاں تک اس اسپرٹ کے مطابق ہے جو اسیرانِ جنگ کے متعلق {فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاءً} کے قانون میں پیش کی گئی ہے؟

 

معترضین نے اس سوال کو جس رنگ میں پیش کیا ہے اور اسلام کے بعض وکیلوں نے اس کا جو جواب دیا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں نے مسئلے کی حقیقت اور اس کے مالہ و ما علیہ پر پوری طرح غور نہیں کیا۔ یہ واقعہ ہے کہ اسلام میں "سبی" (یعنی اسیرانِ جنگ کو غلام بنانے) کا قاعدہ موجود ہے اور یہ بھی واقعہ ہے کہ سبایا کو غلام بنا کر رکھنے اور لونڈیوں سے تمتع کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ لیکن اس کی علت اور اصلیت کو سمجھنے کے لیے چند مقدمات کو ذہن نشین کر لینا ضروری ہے:

 

غلامی کی اجازت کے اسباب:

 

اولاً، اس عہد میں اسیرانِ جنگ کے تبادلے کا دستور نہ تھا۔ جب مسلمانوں کے آدمی دوسری قوموں کے پاس قید ہوتے تو غلام بنا کر رکھ لیے جاتے تھے، لہٰذا مسلمانوں کے لیے بھی اس کے سوا کوئی چارہ کار نہ تھا کہ دشمن قوموں کے جو لوگ گرفتار ہو کر آئیں انہیں وہ غلام بنا کر رکھ لیں۔ تاہم جہاں کہیں تبادلے کا موقع آیا ہے مسلمانوں نے اس کو خوشی کے ساتھ منظور کیا ہے۔ فتح الباری (جلد ۶، صفحہ ۱۰۱) میں علامہ ابن حجرؒ لکھتے ہیں کہ "اگر مسلمانوں کے پاس مشرکین کے قیدی ہوتے اور مشرکین کے پاس مسلمانوں کے قیدی ہوتے اور اپنے اپنے قیدیوں کو چھڑانے پر اتفاق ہو جاتا تو اس کا بندوبست کر لیا جاتا۔" امام ابو حنیفہؒ، امام ابو یوسفؒ، امام محمدؒ، امام مالکؒ، امام شافعیؒ، امام احمدؒ، سب کے سب اس پر متفق ہیں کہ اگر دشمن مسلمان اسیروں سے اپنے اسیروں کا تبادلہ کرنے پر راضی ہو تو تبادلہ کر لینا چاہیے (فتح القدیر: جلد ۴، صفحہ ۳۰۶)۔ خود رسول اکرم ﷺ سے تبادلۂ اسریٰ کا ثبوت ملتا ہے۔ مسلم، ابو داؤد، اور ترمذی نے یہ روایت نقل کی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے دو مسلمانوں کے بدلے میں ایک دفعہ مشرکین کے ایک آدمی کو رہا کیا۔ ایک اور موقع پر آپ ﷺ نے ایک گرفتار شدہ لڑکی اہلِ مکہ کو دے کر ان سے دو مسلمان رہا کرائے۔

 

ثانياً، بعض اوقات لڑائیوں میں ایک شہر کے مردوں کا اکثر حصہ کام آجاتا تھا، بلکہ یہ بھی ہوتا کہ ایک بستی کے تمام ہتھیار اٹھانے کے قابل آدمی قتل ہو جاتے تھے۔ ایسی حالت میں لاوارث عورتوں اور بچوں کی پرورش کا انتظام اس کے سوا اور کسی صورت سے نہ ہو سکتا تھا کہ خود فاتح قوم اس کی ذمہ داری اپنے سر لے۔ اور جب یہ کام فاتحین ہی کو کرنا تھا تو عورتوں کی حفاظت اور سوسائٹی میں ان کی وقعت قائم رکھنے کے لیے اس سے بہتر صورت اور کیا ہو سکتی تھی کہ مسلمان مردوں کو ان سے ازدواجی تعلق قائم کرنے کی اجازت دے دی جاتی ہے۔ اس صورت سے وہ اسلامی سوسائٹی کی رکن بن گئیں اور ان مفاسد کا دروازہ بند ہو گیا جو ہزاروں عورتوں کے بے شوہر رہ جانے سے لازمی طور پر پیدا ہوتے۔ ۱

 

ثالثاً، اسلام نے اسیرانِ جنگ کو غلام بنانے کی صرف اجازت دی ہے، حکم نہیں دیا ہے۔ اس اجازت کا فائدہ اٹھانا یا نہ اٹھانا مسلمانوں کا اختیاری فعل ہے، بلکہ خلفائے راشدینؓ کے طرزِ عمل سے معلوم ہوتا ہے کہ فائدہ نہ اٹھانا افضل ہے۔ مصر، شام، عراق، افریقہ، آرمینیا، اور فارس کی فتوحات میں بے شمار مقامات عنوۃً (بزورِ شمشیر) فتح ہوئے اور ان کے لاکھوں آدمی گرفتار کیے گئے مگر ایک قلیل تعداد کے سوا کسی کو غلام نہیں بنایا گیا۔ متعدد مقامات پر ایسا ہوا ہے کہ کسی امیرِ فوج نے لوگوں کو غلام بنالیا اور خلیفہ کو خبر ہوئی تو انہوں نے رہائی کا حکم دے دیا۔ بلاذری لکھتے ہیں کہ مصر کے بعض دیہات شدید مقابلے کے بعد فتح ہوئے اور مسلمانوں نے ان کے باشندوں کو غلام بنا کر حضرت عمرؓ کے پاس مدینہ بھیج دیا، لیکن حضرت عمرؓ نے ان کو رہا کر کے ان کے وطن کی طرف واپس کر دیا اور حکم فرمایا کہ انہیں بھی عام قبطیوں کی طرح ذمی بنالیا جائے ۲۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسیرانِ جنگ کو غلام بنانا نہ ضروری تھا نہ افضل و احسن، بلکہ تبادلۂ اساریٰ کا دستور نہ ہونے کے باعث اس کو ایک ناگزیر برائی کے طور پر قبول کیا گیا تھا۔

 

رابعاً، اسلام نے صرف ان لوگوں کو غلام بنانے کی مجبوراً اجازت دی ہے جو جنگ میں پکڑے ہوئے آئیں۔ باقی رہا آزاد لوگوں کو پکڑ کر بیچنا جو زمانہ قدیم میں عموماً رائج تھا، سو اس کو اسلام نے سختی کے ساتھ منع کیا ہے۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

ثلاثة أنا خصمهم يوم القيامة، رجل أعطى بي ثم غدر، ورجل باع حراً فأكل ثمنه، ورجل استأجر أجيراً فاستوفى منه ولم يعطه أجره (بخاری: کتاب البیوع)

"تین شخص ہیں جن کے خلاف قیامت میں میں خود مدعی بنوں گا: ایک وہ جس نے میرا ذمہ دے کر بد عہدی کی، دوسرا وہ جس نے آزاد انسان کو بیچا اور اس کی قیمت کھائی، تیسرا وہ جس نے کسی مزدور سے پورا پورا کام لیا اور اس کی مزدوری نہ دی۔"

 

امورِ مذکورہ صدر سے یہ بات اچھی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ اسلام نے سبی کے طریقے کو بعض اہم مجبوریوں اور مصلحتوں سے جائز رکھا تھا۔

 

غلامی کے متعلق اصلاحی اقدامات:

 

تاہم بہت ممکن تھا کہ اس طریقے کو مطلقاً جائز رکھنے سے مسلمانوں میں بھی غلامی کا وہی طریقہ رائج ہو جاتا جو عربِ جاہلیت اور روم و ایران وغیرہ ممالک میں رائج تھا اور شاید ہندوستان کے شودروں کی طرح غلاموں کی ایک نیچ ذات الگ بن جاتی۔ لیکن اسلام کا قاعدہ یہ ہے کہ جن امور میں وہ بلا واسطہ اصلاح کو مشکل پاتا ہے ان کو قائم تو ضرور رکھتا ہے مگر علیٰ حالہ قائم نہیں رہنے دیتا، بلکہ بالواسطہ اصلاح کے ایسے طریقے اختیار کرتا ہے جن سے اس کی تمام مضرتیں اور خرابیاں دور ہو جاتی ہیں۔ غلامی کے مسئلے میں بھی اس نے یہی کیا۔ غلامی کو مٹانا چند در چند وجوہ سے مشکل تھا، اس لیے اس نے صورت کو باقی رکھا اور بالواسطہ طریقوں سے مادہ کو اس طرح بدل دیا کہ وہ ایک شدید اجتماعی مضرت کے بجائے ایک شاندار انسانی منفعت بن گئی۔ اس غرض کے لیے اسلام نے بہت سے طریقے اختیار کیے ہیں جن میں سے تین اہم تر ہیں:

 

(۱)۔ غلاموں کی آزادی کی ترغیب:

غلام کو آزاد کرنے اور آزادی کے حصول میں اسے مدد دینے کو بہت بڑا ثواب قرار دیا اور ہر طریقے سے اس کی ترغیب دی۔ قرآن مجید میں آیا ہے:

فَلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَةَ وَمَا أَدْرَاكَ مَا الْعَقَبَةُ فَكُّ رَقَبَةٍ أَوْ إِطْعَامٌ فِي يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍ يَتِيمًا ذَا مَقْرَبَةٍ أَوْ مِسْكِينًا ذَا مَتْرَبَةٍ (البلد: ۱۱-۱۶)

"پس وہ (نیکی کی) گھاٹی میں داخل نہ ہوا۔ اور تو کیا جانتا ہے کہ وہ گھاٹی کیا ہے؟ کسی گردن (یعنی غلام) کو آزاد کرنا، یا بھوک کے دن میں کھانا کھلانا، کسی قریبی یتیم کو، یا خاک نشین مسکین کو۔"

 

آنحضرت ﷺ ہمیشہ مختلف طریقوں سے اس کی فضیلت بیان فرمایا کرتے تھے جس سے مسلمانوں میں عتقِ رقاب (گردنیں آزاد کرنا) اور اعتاقِ عبید (غلام آزاد کرنا) کا خاص شوق پیدا ہو گیا تھا۔ ایک دفعہ ایک اعرابی حاضر ہوا اور بولا کہ یا رسول اللہ ﷺ! کوئی ایسا عمل بتائیے جس سے میں جنت میں داخل ہو سکوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: أعتق النسمة وفك الرقبة "غلام آزاد کر اور گردنوں کو غلامی سے چھڑا۔"

 

ایک دوسری حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: من اعتق رقبة مسلمة كانت فكاكه من النار عضواً بعضو "جو کوئی کسی مسلمان غلام کو آزاد کرے گا اس کا ہر عضو اس غلام کے ہر عضو کے بدلے دوزخ سے بچ جائے گا۔"

 

ایک اور حدیث میں ہے کہ من اعتق نفساً مسلمة كانت فديته من جهنم "جس نے ایک نفسِ مسلمہ کو آزاد کیا تو وہ جہنم سے بچنے کے لیے اس کا فدیہ ہو گیا۔"

 

ایک مرتبہ امام زین العابدینؒ نے یہ حدیث سنی کہ "جو شخص کسی غلام کو آزاد کرے گا، اس کا ہر ہر عضو اس غلام کے ہر ہر عضو کے بدلے بخشا جائے گا۔" آپؒ نے اسی وقت اپنے غلام مطرف کو جسے دس ہزار درہم میں خریدا تھا، بلا کر آزاد کر دیا۔

 

غلاموں کو آزاد کرنے کا مزید شوق دلانے کے لیے آنحضرت ﷺ نے یہ قاعدہ مقرر کیا کہ جتنا زیادہ قیمتی اور زیادہ پسندیدہ غلام آزاد کیا جائے گا اتنا ہی زیادہ ثواب ہو گا۔ حضرت ابوذرؓ نے پوچھا: أي الرقاب أفضل؟ "کیسے غلام کو آزاد کرنا افضل ہے؟" فرمایا: أغلاها ثمناً وأنفسها عند أهلها "وہ جس کی قیمت زیادہ ہو اور جو مالک کو زیادہ پسند ہو۔"

 

اسی طرح لونڈی کو عمدہ تربیت دے کر آزاد کرنے اور اس سے نکاح کر لینے کو بڑی نیکی کا فعل قرار دیا: من كانت له جارية فأدبها فأحسن تأديبها وعلمها فأحسن تعليمها ثم أعتقها فتزوجها فله أجران "جس شخص کی کوئی لونڈی ہو، وہ اسے ادب سکھائے اور اچھی طرح ادب سکھائے، اور اسے علم سکھائے اور اچھی طرح علم سکھائے، پھر اسے آزاد کر کے اس سے شادی کر لے تو اس کے لیے دوہرا اجر ہے۔"

 

پھر مختلف گناہوں کے لیے جو کفارے مقرر کیے گئے ہیں ان میں غلام آزاد کرنے کو دفعِ بلیات کا ذریعہ بتایا گیا ہے۔ غرض ہر طریقے سے اعتاقِ عبید کی ہمت افزائی کی گئی ہے۔

 

(۲)۔ غلاموں سے حسنِ سلوک:

دوسرا طریقہ یہ تھا کہ غلاموں کے ساتھ حسنِ سلوک اور نرمی و ملاطفت کی سخت تاکید کی گئی۔ رسول اکرم ﷺ نے اپنی زندگی کے آخری لمحے میں اپنی امت کو جو وصیت فرمائی تھی اس میں پہلے نماز کی تاکید تھی اور اس کے بعد غلاموں سے حسنِ سلوک کی: الصلاة وما ملكت أيمانكم ۱۔

 

عہدِ جاہلیت سے دماغوں میں غلامی کا جو تصور جما ہوا تھا اس کے اثر سے کبھی کبھی صحابہؓ غلاموں کے ساتھ برا سلوک بھی کر بیٹھتے تھے۔ اس پر رسول اکرم ﷺ نے بارہا اپنے معزز ترین صحابیوں کو ڈانٹا ہے۔ معرور بن سوید نے ایک مرتبہ حضرت ابوذر غفاریؓ کو دیکھا کہ جو چادر وہ اوڑھے ہوئے ہیں ویسی ہی ان کے غلام کے بدن پر بھی ہے۔ پوچھا، اس کا سبب کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ایک مرتبہ میں نے ایک غلام کو گالی دی تھی، اس نے جاکر رسول اللہ ﷺ سے شکایت کی۔ آپ ﷺ سن کر ناراض ہوئے اور مجھے بلا کر فرمایا: "ابوذر! تم میں ابھی تک جاہلیت کی بو نہیں گئی۔" پھر فرمایا: إن إخوانكم خولكم جعلهم الله تحت أيديكم، فمن كان أخوه تحت يده فليطعمه مما يأكل، وليلبسه مما يلبس، ولا تكلفوهم ما يغلبهم، فإن كلفتموهم فأعينوهم "یہ تمہارے بھائی تمہارے خادم ہیں جنہیں اللہ نے تمہارا دست نگر بنایا ہے۔ پس جس کسی کا بھائی اس کے ماتحت ہو اسے چاہیے کہ جو خود کھاتا ہے وہی اس کو کھلائے اور جو خود پہنتا ہے وہی اسے پہنائے۔ تم ان پر ان کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالو اور اگر ایسی کوئی بھاری خدمت ان کے سپرد کرو تو خود ان کا ہاتھ بٹاؤ۔" (بخاری، مسلم)

 

ابو مسعود انصاریؓ کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ میں اپنے غلام کو مار رہا تھا، یکایک میں نے سنا کہ پیچھے سے کوئی کہہ رہا ہے: اعلم أبا مسعود، لله أقدر عليك منك عليه "خبردار! ابو مسعود، اللہ تجھ پر اس سے زیادہ قدرت رکھتا ہے جتنا تو اس غلام پر رکھتا ہے۔" پلٹ کر دیکھا تو رسول اللہ ﷺ تھے۔ میں نے فوراً عرض کیا: هو حر لوجه الله "یہ خدا کے واسطے آزاد ہے۔" اس پر حضور ﷺ نے فرمایا: أما لو لم تفعل للفحتك النار أو لمستك النار "اگر تو ایسا نہ کرتا تو آگ تجھے جھلسا دیتی یا چھو لیتی۔" (مسلم)

 

ایک مرتبہ ایک شخص نے حاضر ہو کر پوچھا کہ ہم کتنی مرتبہ اپنے خادم کو معاف کیا کریں؟ آپ ﷺ نے جواب دیا: اعفوا عنه في كل يوم سبعين مرة "اگر وہ روزانہ ستر بار بھی قصور کرے تو معاف کیے جاؤ۔" (ابو داؤد)

 

سوید بن مقرنؓ کا بیان ہے کہ ہم سات بھائیوں میں ایک غلام تھا۔ ایک مرتبہ ہمارے چھوٹے بھائی نے اس کے منہ پر تھپڑ مارا تو رسول اللہ ﷺ نے ہم کو حکم دیا کہ اسے آزاد کر دو۔ (مسلم)

 

عرب میں دستور تھا کہ غلام کو عبدی (میرا بندہ) اور لونڈی کو امتی (میری بندی) کہہ کر پکارتے تھے اور اپنے آپ کو رب کہلواتے تھے۔ آنحضرت ﷺ نے اس کو منع کیا اور فرمایا کہ انہیں فتای (میرا لڑکا) اور فتاتی (میری لڑکی) کہہ کر پکارا کرو اور اپنے آپ کو سیدی یا مولائی کہلوایا کرو۔ ۲

 

اہلِ عرب غلام کو اپنے پاس جگہ دینا بھی عار سمجھتے تھے، مگر آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ان کو اپنے ساتھ ایک دسترخوان پر بٹھا کر کھلاؤ اور اگر اتنا نہیں کر سکتے تو کم از کم اپنے کھانے میں سے ایک دو لقمے ہی ان کو کھلا دیا کرو: إذا أتى أحدكم خادمه بطعامه فإن لم يجلسه معه فليناوله لقمة أو لقمتين۔ (بخاری، مسلم)

 

ان سب باتوں سے یہی مقصود تھا کہ غلاموں کو عزت و آرام سے رکھا جائے اور وہ خاندان کے رکن بن کر رہیں۔

 

۱۔ جنگ میں جو عورتیں اسلامی فوج کے قبضہ میں آئیں ان کے بارے میں اسلامی قانون کا خلاصہ یہ ہے:

    ۱۔ جب تک حکومت یہ فیصلہ نہ کر لے کہ آیا ان کو فدیہ لے کر چھوڑنا ہے یا انہیں مبادلہ میں دینا ہے یا لونڈیاں بنا کر فوج میں تقسیم کر دینا ہے، اس وقت تک وہ حراست میں رہیں گی۔ اس دوران میں کوئی سپاہی اگر ان میں سے کسی عورت کے ساتھ شہوانی تعلق قائم کرے تو یہ زنا ہے۔ جس کی وہی سزا اسے دی جائے گی جو اسلام میں زنا کے لیے مقرر ہے۔

    ۲۔ جب حکومت یہ فیصلہ کر لے گی کہ ان کو لونڈیاں بنانا ہے تو وہ انہیں باقاعدہ تقسیم کرے گی اور قانونی طور پر ایک ایک عورت کو ایک ایک شخص کی ملکیت میں دے گی۔

    ۳۔ اس طرح جو عورت کسی شخص کی ملک میں دی جائے اس کے ساتھ اس کا مالک اس وقت تک مباشرت کرنے کا حق نہیں رکھتا جب تک اسے ایک مرتبہ ایامِ ماہواری نہ آجائیں یا اگر وہ حاملہ ہو تو اس کا وضع حمل نہ ہو جائے۔ اس سے پہلے مباشرت کرنا حرام ہے۔

    ۴۔ اس عورت کے ساتھ مباشرت کرنے کا حق صرف اسی شخص کو ہو گا جس کی ملک میں وہ دی گئی ہو، کوئی دوسرا آدمی اگر اسے ہاتھ لگائے گا تو وہ زنا کا مجرم ہو گا جس کی سزا اسلام میں جو کچھ ہے سب جانتے ہیں۔

    ۵۔ کوئی سپاہی مذکورہ بالا قاعدے کے سوا اگر کسی دوسری صورت سے دارالحرب میں دشمن قوم کی عورتوں کے ساتھ شہوت رانی کرے گا تو وہ مجرم ہو گا اور اس کی سزا پائے گا۔

    اس مہذب اور پاکیزہ اور باضابطہ طریقے کو آخر کیا نسبت ہے، موجودہ زمانے کی ان نام نہاد "مہذب" فوجوں کے طریقے سے جو مفتوح علاقے میں گھس کر ہر طرف عصمت دری کا طوفانِ عظیم برپا کر دیتی ہیں اور شہوت رانی میں ظلم اور بے حیائی اور بہیمیت اور سنگدلی کے وہ کارنامے انجام دیتی ہیں جن کا ذکر بھی ایک شریف انسان زبان پر نہیں لا سکتا۔

۲۔ بلاذری کے اصل الفاظ یہ ہیں: فوقع سباؤهم بالمدينة، فردهم عمر بن الخطاب وخيرهم بين المقام والخروج، وأقر من أقام منهم وجعلهم جماعة القبط أهل الذمة۔ (فتوح البلدان: طبع مصر، صفحہ ۲۲۳)

۱۔ اس مسئلہ پر مفصل بحث میں نے اپنے دوسرے مضامین میں کی ہے جس سے تمام ممکن شبہات کا ازالہ ہو سکتا ہے۔ یہاں تفصیل کا موقع نہیں اس لیے محض اشارے پر اکتفا کیا گیا ہے، تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیمات جلد دوم، رسائل و مسائل اور تفہیم القرآن۔

۱۔ نہایہ میں ہے کہ ما ملکت ایمانکم سے یہاں غلام ہی مراد ہیں اور اس سے حضور ﷺ کا مقصد احسان بالرقیق کی تاکید فرمانا تھا۔ بعض لوگوں نے ما ملکت ایمانکم سے مراد زکوٰۃ بھی لی ہے۔ مگر قولِ راجح یہی ہے کہ آپ ﷺ نے دنیا سے رخصت ہوتے وقت عبادت میں نماز کی تاکید فرمائی اور معاملات میں غلاموں کے ساتھ حسنِ سلوک کی۔ (ابو داؤد، کتاب الادب، باب فی حق المملوک)

۲۔ ابو داؤد، کتاب الادب، باب فی حق المملوک۔

 

(۳)۔ غلاموں کو وسیع حقوق اور مساوات کا درجہ:

اسلامی قانون میں غلاموں کو وہ وسیع حقوق دیے گئے ہیں جن سے وہ آزادوں کے لگ بھگ پہنچ گئے۔ فوجداری قانون ان کو اسی حفاظت کا مستحق قرار دیتا ہے جس کا استحقاق آزادوں کو حاصل ہے۔ ان کا مال چرانے والا، ان کو قتل کرنے والا، ان کی عورتوں کی آبروریزی کرنے والا، ان کو جسمانی نقصان پہنچانے والا، خواہ آزاد ہو یا غلام، بہر صورت اس کو وہی سزا دی جائے گی جو آزاد لوگوں کے ساتھ ان جرائم کا ارتکاب کرنے والے کے لیے مقرر ہے۔ اسی طرح دیوانی قانون ان کی املاک پر ان کے مالکانہ حقوق تسلیم کرتا ہے اور انہیں اپنے ذاتی اموال میں تصرف کرنے کے وسیع اختیارات دیتا ہے۔ از روئے قانون خود ان کے آقا کو بھی یہ حق نہیں ہے کہ ان کے ذاتی مال میں ان کی مرضی کے خلاف تصرف کرے یا ان کو کسی قسم کا جسمانی ضرر پہنچائے (سوائے تادیب کے جس میں رفق اور نرمی کی سخت تاکید ہے) یا ان کی بہو بیٹیوں سے ناجائز تعلق رکھے۔ ۱

 

قانون سے زیادہ اسلامی سوسائٹی نے ان کو اپنے اندر عملاً مساوات کا درجہ دیا ہے۔ اجتماعی زندگی میں غلاموں کی حیثیت کسی طرح آزادوں سے کم نہ تھی۔ علم، سیاست، مذہب، معاشرت، غرض ہر شعبے میں ان کے لیے ترقی کی تمام راہیں کھلی ہوئی تھیں اور غلام ہونا ان کے لیے کسی حیثیت سے بھی رکاوٹ کا باعث نہ تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے خود اپنی پھوپھی زاد بہن سیدہ زینبؓ کو، جنہیں بعد میں ام المؤمنین ہونے کا شرف حاصل ہوا، اپنے آزاد کردہ غلام زید بن حارثہؓ سے بیاہ دیا۔ امام حسینؓ کا نکاح ایران کی ایک شہزادی سے ہوا جو جنگ میں لونڈی بن کر آئی تھی، امام زین العابدینؒ انہی لونڈی کے بطن سے تھے۔ جن کی اولاد اشرافِ اسلام میں سب سے بالاتر درجہ رکھتی ہے۔ سالم بن عبداللہ اور قاسم بن محمد بن ابی بکر جو فقہائے تابعین کی اولین صف میں ہیں، دو لونڈیوں کے پیٹ سے تھے۔ امام حسن بصریؒ جو ائمہ تابعین کے سرخیل اور اصحابِ طریقت کے پیشوا ہیں، ایک غلام کے بیٹے تھے۔ امام ابو حنیفہؒ جو کروڑوں مسلمانوں کے مقتدا ہیں اور جن کو اسلامی دنیا امامِ اعظم کے لقب سے یاد کرتی ہے، بنی تمیم کے موالی میں سے بتائے جاتے ہیں۔ مشہور محدث محمد بن سیرینؒ جن کا شمار اکابر تابعین میں ہوتا ہے، ایک غلام کے بیٹے تھے۔ ان کے باپ سیرین اور ماں صفیہ دونوں مملوک تھے، مگر اس درجے کے مملوک تھے کہ حضرت صفیہؓ کو تین امہات المؤمنینؓ نے دلہن بنایا تھا اور سیرین سے ان کا نکاح ابی بن کعبؓ جیسے جلیل القدر صحابی نے پڑھایا تھا۔ امام مالکؒ جس نافع پر ناز کرتے تھے وہ غلام تھے۔ ابو عبدالرحمن عبداللہ بن مبارکؒ جن کا شمار اکابر مجتہدین میں ہوتا ہے، ایک غلام مبارک نامی کے بیٹے تھے۔ عکرمہ جو ائمہ مفسرین میں سے ہیں، خود غلام تھے۔ محمد بن اسحاق مشہور صاحبِ سیرت کے دادا یسار معرکہ عین التمر سے پکڑے ہوئے آئے تھے۔ مکہ کے امام المحدثین عطاء بن ابی رباح، یمن کے امام طاؤس بن کیسان، مصر کے امام یزید بن حبیب، شام کے امام مکحول، الجزیرہ کے امام میمون بن مہران، خراسان کے امام ضحاک، کوفہ کے امام ابراہیم نخعی، سب کے سب غلاموں کے گروہ سے تھے۔ سلمان فارسیؓ غلام تھے جنہیں حضرت علیؓ فرماتے تھے کہ سلمان منا أهل البيت "سلمان تو ہم اہلِ بیت میں سے ہیں۔" بلال حبشیؓ غلام تھے جن کو حضرت عمرؓ کہا کرتے تھے کہ بلال سيدنا وأعتق سيدنا "بلال ہمارے آقا (ابوبکرؓ) کے آزاد کردہ اور ہمارے آقا ہیں۔" صہیب رومیؓ غلام تھے جنہیں حضرت عمرؓ نے اپنی جگہ مسلمانوں کی امامت کے لیے کھڑا کیا تھا۔ سالمؓ، ابو حذیفہؓ کے غلام تھے جن کے متعلق حضرت عمرؓ نے اپنے انتقال کے وقت فرمایا تھا کہ اگر آج وہ زندہ ہوتے تو میں ان کو خلافت کے لیے منتخب کرتا۔ اسامہ بن زیدؓ غلام زادے تھے جنہیں رسول اکرم ﷺ نے اپنے آخری وقت میں اس لشکر کا سردار بنایا تھا جس میں حضرت ابو بکرؓ جیسے جلیل القدر صحابی شریک تھے، اور جن کے متعلق حضرت عمرؓ نے اپنے صاحبزادے عبداللہؓ سے کہا تھا کہ "اسامہ کا باپ تیرے باپ سے اور اسامہ خود تجھ سے رسول اللہ ﷺ کو زیادہ محبوب تھا۔"

 

یہ تو قرونِ اولیٰ کی باتیں ہیں، بعد میں جب کہ اسلامی روح بہت کچھ کمزور پڑ گئی تھی، قطب الدین ایبک، شمس الدین التمش، اور غیاث الدین بلبن جیسے جلیل القدر غلاموں نے خود ہمارے ملک ہندوستان پر حکومت کی ہے۔ محمود غزنوی جو اپنے وقت میں دنیا کا سب سے بڑا فاتح تھا، سبکتگین غلام کا بیٹا تھا۔ مصر میں کئی صدی تک ممالیک کی حکومت رہی ہے اور ان کا نام خود کہتا ہے کہ وہ دراصل غلام تھے جنہوں نے پادشاہی کے تخت پر بار پایا۔

 

ان غلاموں کو کون غلام کہہ سکتا ہے؟ کیا آزادوں کے لیے ان سے کچھ زیادہ ترقی، عزت اور اقتدار حاصل کرنے کے مواقع تھے؟ کیا ان کی غلامی نے ان کو اجتماعی زندگی میں اعلیٰ سے اعلیٰ مدارج تک پہنچنے سے روکا؟ اگر غلامی اسی چیز کا نام ہے اور وہ ایسی ہی ہوتی ہے تو آزادی کا نام غلامی رکھ دینے میں کیا ہرج ہے؟

 

یہ طریقے تھے جن سے اسلام نے غلامی کو گھٹاتے گھٹاتے آزادی سے جا ملایا، بلکہ دونوں میں کوئی فرق نہ رہنے دیا، لفظ "غلامی" بے شک باقی رہا مگر غلامی کی حقیقت بدل کر کچھ سے کچھ ہو گئی۔

 

۱۔ روم میں یہ عام دستور تھا کہ جب کسی غلام کی لڑکی بیاہی جاتی تو اس کو پہلی شب اس کے آقا کے پاس بسر کرنی پڑتی تھی۔ اس شرمناک ظلم سے عیسائی بشپ تک نہ چوکتے تھے، دیکھو امیر علی کی اسپرٹ آف اسلام صفحہ ۲۶۴۔

 

۷۔ غنیمت کا مسئلہ

 

اسلام میں مالِ غنیمت کا جواز بھی ان مسائل میں سے ہے جن پر مخالفین نے بہت کچھ حاشیہ آرائیاں کی ہیں اور جن کی خود موافقین نے بھی اکثر غلط وکالت کی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ غنیمت کے معاملے میں بھی اسلام نے وہی تدریجی اصلاح کا طریقہ اختیار کیا ہے جو غلامی کے مسئلے میں اختیار کیا تھا۔

 

عرب میں غنیمت کا شوق جس قدر بڑھا ہوا تھا اس کا حال اوپر بیان ہو چکا ہے۔ مالِ غنیمت کا حصول وہ سب سے بڑا لالچ تھا جس کے لیے ایک عرب جنگ کے خطرات برداشت کرنے اور مرنے مارنے پر آمادہ ہوا کرتا تھا۔ عرب کی جنگ کے عین مفہوم میں لوٹ مار داخل تھی، حتیٰ کہ لفظ حرب کے مدلول کا تصور ہی اس وقت تک دماغوں میں مکمل نہ ہو سکتا تھا جب تک اس میں لوٹ مار کا مفہوم شامل نہ ہو۔ جب اسلام آیا تو عرب اسی موروثی رغبت و شوق کو لیے ہوئے اس میں داخل ہوئے۔ ناممکن تھا کہ اس صدیوں کی متوارث ذہنیت کو دفعۃً بدل دیا جاتا۔ جن نو مسلم عربوں کی اصلاح کرنی تھی ان کا حال یہ تھا کہ وہ مالِ غنیمت دیکھ کر ضبط نہ کر سکتے تھے۔

 

جنگِ بدر سے پہلے کا واقعہ: جنگِ بدر سے پہلے نبی ﷺ نے عبد اللہ بن جحشؓ کو ایک جماعت کے ساتھ بطنِ نخلہ کی طرف بھیجا کہ دشمن کی اطلاعات فراہم کریں۔ راستے میں قریش کے چند تاجروں سے ان کی مڈبھیڑ ہوئی، مالِ غنیمت دیکھ کر ان کے آدمی قابو سے باہر ہو گئے اور ان لوگوں کو قتل کر کے سامان لوٹ لائے۔ مؤرخین نے اس واقعہ کو جنگِ بدر کے فوری اسباب میں شمار کیا ہے۔ (طبری، طبع مصر، جلد ۲، صفحہ ۲۶۷ / ابن اثیر طبع مصر، جلد ۲، صفحہ ۴۲-۴۳)

 

جنگِ بدر: خود جنگِ بدر میں ایک طرف قریش کا تجارتی قافلہ شام کی جانب سے آرہا تھا اور دوسری طرف قریش کی فوجیں مکہ سے آرہی تھیں، باوجودیکہ اس وقت قریش کا زور توڑنا سب سے زیادہ ضروری تھا مگر لشکرِ اسلام کی عام خواہش یہی تھی کہ پہلے قافلے پر حملہ کر کے اسے لوٹ لیا جائے۔ اسی کے متعلق قرآن مجید میں آیا ہے:

وَإِذْ يَعِدُكُمُ اللَّهُ إِحْدَى الطَّائِفَتَيْنِ أَنَّهَا لَكُمْ وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذَاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ وَيُرِيدُ اللَّهُ أَن يُحِقَّ الْحَقَّ بِكَلِمَاتِهِ وَيَقْطَعَ دَابِرَ الْكَافِرِينَ (الانفال: ۷)

"اور جب کہ اللہ وعدہ کر رہا تھا کہ دو جماعتوں میں سے ایک پر تم کو غلبہ ہو گا، اور تم چاہتے تھے کہ کمزور اور غیر مسلح جماعت (قافلہ) تمہارے ہاتھ آجائے، حالانکہ اللہ چاہتا تھا کہ اپنے کلمات سے حق کو حق کر دکھائے اور کافروں کی جڑ کاٹ دے۔"

 

پھر جب لڑائی میں فتح ہوئی تو صحابہ کرامؓ کی مقدس جماعت کے لیے شوقِ غنیمت کو ضبط کرنا مشکل ہو گیا اور حکمِ الٰہی کا انتظار کیے بغیر غنائم کے لوٹنے میں مشغول ہو گئے۔ اس کے متعلق یہ آیت اتری:

لَّوْلَا كِتَابٌ مِّنَ اللَّهِ سَبَقَ لَمَسَّكُمْ فِيمَا أَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ (الانفال: ۶۸)

"اگر پہلے سے خدا کا نوشتہ نہ آچکا ہوتا تو جو کچھ تم نے لیا ہے اس پر بڑا عذاب نازل ہوتا۔" ۱

 

جنگِ احد: جنگِ احد میں اسی شوقِ غنیمت نے فتح کو شکست سے بدل دیا۔ قریش کے پاؤں اکھڑتے ہی صحابہؓ اموالِ غنیمت کی طرف متوجہ ہو گئے، اور ان تیر اندازوں کو بھی عالمِ بے خودی میں سرکارِ رسالتمآب ﷺ کا حکم یاد نہ رہا جنہیں آپ ﷺ نے عقب کی حفاظت پر متعین فرمایا تھا، نتیجہ یہ ہوا کہ اسلامی فوج پراگندہ ہو گئی اور لشکرِ کفار نے پلٹ کر ایسا حملہ کیا کہ خود رسول اللہ ﷺ زخمی ہو گئے۔

 

جنگِ حنین: حنین میں بھی یہی ہوا کہ پہلے حملے سے دشمنوں میں ابتری پھیلی، معاً جدید الاسلام اعراب غنیمت پر ٹوٹ پڑے اور ان میں بھگدڑ دیکھ کر بنی ہوازن کے تیر اندازوں نے ایسا حملہ کیا کہ بڑے بڑے جاں نثاروں کے پاؤں اکھڑ گئے۔ بخاری میں براء بن عازبؓ کی روایت ہے کہ فلما حملنا عليهم انكشفوا فأكببنا على الغنائم، فاستقبلنا بالسهام۔ ۲

 

معاذ اللہ یہ واقعات بیان کرنے سے صحابہ کرامؓ کی تنقیص مقصود نہیں ہے بلکہ صرف یہ بتانا ہے کہ غنیمت کا شوق ایک فطری جذبہ تھا جو صدیوں کی روایات سے طبیعتوں میں اس قدر راسخ ہو گیا تھا کہ کسی انسانی جماعت حتیٰ کہ صحابہ کرامؓ جیسی مقدس اور متاعِ دنیا کو حقیر جاننے والی جماعت کے لیے بھی اس کے اثرات کو دفعۃً دل و دماغ سے محو کر دینا غیر ممکن تھا۔ جب حال یہ تھا تو ایک حکیمانہ مذہب جو فطرت سے جنگ نہیں بلکہ اس کی اصلاح کرنا چاہتا تھا، اس سے بہتر طریقہ اور کیا اختیار کر سکتا تھا کہ نفسِ غنیمت کو حلال کر دیتا اور بالواسطہ طریقوں سے اس کے شوق کو گھٹانے اور اس کو کم کرنے کی کوشش کرتا؟

 

غنیمت کو حلال کرنے کی حکمت:

 

یہی راستہ تھا جو اسلام نے اختیار کیا۔ اس نے جس وجہ سے غنیمت کو حلال کیا ہے اس کا حال ایک حدیث سے معلوم ہوتا ہے جس کو امام ابو یوسفؒ نے حضرت ابوہریرہؓ کے حوالے سے نقل کیا ہے:

قال رسول الله ﷺ: لم تحل الغنائم لقوم سود الرؤوس قبلكم، كانت تنزل نار من السماء فتأكلها، فلما كان يوم بدر أسرع الناس في الغنائم، فأنزل الله عز وجل ﴿لَوْلَا كِتَابٌ مِّنَ اللَّهِ سَبَقَ لَمَسَّكُمْ فِيمَا أَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ فَكُلُوا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلَالًا طَيِّبًا﴾۔ ۳

"رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تم سے پہلے کسی کالے سر والی قوم کے لیے غنیمت حلال نہیں کی گئی۔ ایک آگ آسمان سے اترتی اور مالِ غنیمت کو کھا جایا کرتی تھی۔ جب جنگِ بدر واقع ہوئی تو لوگ غنیمت پر ٹوٹ پڑے، اس پر یہ آیت اتری کہ اگر اللہ کا نوشتہ پہلے ہی سے نہ آچکا ہوتا تو تم پر بڑا عذاب نازل ہوتا، خیر اب جو کچھ تم نے لوٹا ہے اسے کھاؤ کہ وہ تمہارے لیے حلال و پاک ہے۔"

 

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ غنیمت پہلے حلال نہ تھی مگر انسانی فطرت کے ناقابلِ تغیر رجحان کو دیکھ کر اسے حلال کر دیا گیا۔ تاہم محض فطرت کی رعایت ہی کر کے اس پر پردہ نہیں ڈال دیا گیا بلکہ اس رجحان کی اصلاح اور اس کی حد بندی کے لیے مختلف طریقے اختیار کیے گئے جنہوں نے رفتہ رفتہ دلوں سے شوقِ غنیمت ہی کو دور کر دیا، اور جو تھوڑا بہت باقی رہ گیا اس کی اصلاح اس طرح کی گئی کہ اموالِ غنیمت پر متعدد اقسام کی پابندیاں عائد کر دی گئیں اور خود اموالِ غنیمت کے دائرے کو بہت محدود کر دیا گیا۔

 

شوقِ غنیمت کی اصلاح کے طریقے:

 

اس سلسلے میں خصوصیت کے ساتھ تین طریقے ایسے ہیں جن کا ذکر ضروری ہے:

 

(۱)۔ غنیمت کی معنوی قیمت گھٹانا:

اسلام نے غنیمت کی معنوی قیمت اس قدر گرا دی کہ دینداروں میں حصولِ غنائم کا شوق ہی باقی نہ رہا۔ پہلے کہا کہ جو شخص غنیمت حاصل کرنے کی نیت سے جنگ کرے گا اس کو جہاد کا ثواب نہیں ملے گا، ثواب صرف ان لوگوں کا ہے جو دل کو دنیوی اغراض سے پاک رکھ کر خاص خدا کے لیے جنگ کریں۔ پھر جب دلوں میں غنیمت سے زیادہ حصولِ ثواب کی قدر پیدا ہو گئی تو بتایا کہ جو شخص دنیا میں اپنی جنگ کا فائدہ (غنیمت) حاصل کر لے گا اس کے لیے آخرت کا ثواب کم ہو جائے گا، اور جو غنیمت حاصل نہ کرے گا اس کو آخرت میں پورا ثواب ملے گا:

ما من غازية تغزو في سبيل الله فيصيبون الغنيمة إلا تعجلوا ثلثي أجرهم من الآخرة ويبقى لهم الثلث، وإن لم يصيبوا غنيمة تم لهم أجرهم۔ (مسلم، کتاب الجہاد، باب فضل الجہاد والخروج فی سبیل اللہ)

"جس فوج نے اللہ کی راہ میں جنگ کی اور مالِ غنیمت پالیا اس نے اپنے آخرت کے ثواب میں سے دو تہائی حصہ یہیں پا لیا، اور اس کے لیے صرف ایک تہائی باقی رہے گا، اور جس نے غنیمت نہ پائی تو اس کا پورا اجر اسے ملے گا۔"

 

اس تعلیم نے مسلمانوں میں مالِ غنیمت کی آرزو سے بڑھ کر ثوابِ آخرت کی تمنا پیدا کر دی اور وہی عرب جو غنائم کے انبار دیکھ کر بے قابو ہو جاتے تھے، چند ہی برس کے اندر متاعِ دنیا سے اس قدر بے نیاز ہو گئے کہ مالِ غنیمت ان کے سامنے پیش کیا جاتا تھا اور وہ انکار کر دیتے تھے۔ رسول اکرم ﷺ کی زندگی کے آخری زمانے میں جب غزوہ تبوک کے لیے نفیرِ عام دی گئی تو واثلہ بن اسقعؓ نے لوگوں سے کہا کہ جو شخص مجھ کو اپنے ساتھ جنگ میں لے چلے گا اسے غنیمت میں سے آدھا حصہ دوں گا۔ انصار میں سے ایک صحابی نے یہ شرف قبول کر لیا اور ان کو اپنے ساتھ لے گئے۔ غزوہ میں لشکرِ اسلام کو جو کچھ مال ملا اس میں سے واثلہؓ کے حصے میں چند نہایت عمدہ جوان اونٹ (قلائص) آئے جنہیں لے کر وہ ان انصاری شیخ کے پاس پہنچے اور کہا کہ یہ وہی مالِ غنیمت ہے جس کا حصہ دینے کی میں نے آپ سے شرط کی تھی۔ مگر انہوں نے یہ کہہ کر قبول کرنے سے انکار کر دیا کہ میرا مقصد غنیمت حاصل کرنا نہ تھا، محض ثواب مطلوب تھا۔ ۴

 

(۲)۔ خمس (پانچواں حصہ) کا تعین:

مالِ غنیمت میں محتاجوں، معذوروں اور مسکینوں کی پرورش اور عام قومی ضروریات کے لیے پانچواں حصہ (خمس) مقرر کیا گیا:

وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُم مِّن شَيْءٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ (الانفال: ۴۱)

"جان لو کہ جو کچھ مالِ غنیمت تم کو حاصل ہو اس کا پانچواں حصہ اللہ اور اس کے رسول اور (رسول کے) اہلِ قرابت اور یتامیٰ و مساکین اور مسافروں کا حصہ ہے۔"

اس طریقے سے اموالِ غنیمت کا ایک معتدبہ حصہ نیک کاموں کے لیے الگ کر لیا گیا اور افرادِ فوج کے حصے میں بہت کچھ کمی کر دی گئی۔

 

(۳)۔ غنیمت کے دائرے کی تحدید:

مالِ غنیمت کا اطلاق پہلے ہر اس مال پر ہوتا تھا جو ایک فوج دشمن کے ملک سے لوٹ لے، خواہ کسی طرح لوٹے۔ لیکن اسلام نے غنیمت صرف اس مال کو قرار دیا جو میدانِ جنگ میں دشمن کی افواج سے فاتح فوج کے ہاتھ آئے۔ اس سے ایک طرف عام سلب و نہب جو پر امن غیر فوجی آبادیوں میں کیا جائے غنیمت کی جائز حدود سے خارج ہو جاتا ہے۔ دوسری طرف وہ مال بھی غنیمت کی تعریف سے نکل جاتا ہے جو جنگ کے بغیر صلح یا امان کے ذریعے مسلمانوں کے ہاتھ آئے، یا جس پر میدانِ جنگ کا معاملہ ختم ہونے کے بعد اسلامی فوج کا قبضہ ہو۔ نیز اس تعریف کی رو سے وہ تمام املاک بھی غنیمت کی تعریف سے خارج ہو جاتی ہیں جو جنگی کارروائی کے نتیجے میں دشمن حکومت کی ملک سے نکل کر اسلامی حکومت کے قبضے میں آئیں۔ اسلام نے اس دوسری قسم کے مال کو فوج میں تقسیم کرنے کے بجائے حکومتِ اسلامیہ کی ملک قرار دیا ہے، چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے:

وَمَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَىٰ رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلَا رِكَابٍ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلَىٰ مَن يَشَاءُ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ مَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَىٰ رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرَىٰ فَلِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ كَيْ لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاءِ مِنكُمْ (الحشر: ۶-۷)

"اور جو (مال) اللہ نے ان سے (لڑائی کے بغیر) اپنے رسول ﷺ کو دلوایا ہے اس پر تم نے اپنے گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑائے، بلکہ اللہ اپنے رسولوں کو جس پر چاہتا ہے تسلط بخشتا ہے، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ جو مال اللہ اپنے رسول ﷺ کو (ان) بستی والوں سے فے کے طور پر عطا فرمائے وہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ اور (رسول کے) اہلِ قرابت اور یتامیٰ، مساکین اور مسافروں کا حق ہے تاکہ وہ (صرف) تمہارے مالداروں ہی کے درمیان نہ گردش کرتا پھرے۔"

 

اس آیت نے یہ تصریح کر دی ہے کہ صرف وہ اموالِ مفتوحہ غنیمت کے تحت آتے ہیں جن کو اپنے گھوڑے اور اونٹ دوڑا کر (یعنی میدانِ جنگ میں لڑ کر) فوج نے حاصل کیا ہو۔ باقی رہے وہ اموال و املاک اور اراضی جو "ایجافِ خیل و رکاب" کا بلاواسطہ نتیجہ نہ ہوں تو وہ "فے" ہیں اور حکومتِ اسلامیہ کی ملک ہیں، اور خدا اور رسول ﷺ کے کاموں پر خرچ ہونے کے لیے ہیں۔

 

یہ حکم ابتداءً صرف رسول ﷺ کی ذات کے لیے مخصوص سمجھا گیا تھا، مگر جب صحابہ کرامؓ نے غور کیا تو نظر آیا کہ "فے" کے حقداروں میں چھ نام گنائے گئے ہیں: اللہ، رسول ﷺ، ذوی القربیٰ، یتامیٰ، مساکین، اور ابنِ سبیل۔ ان میں سے صرف رسول ﷺ دنیا سے رخصت ہو گئے ہیں۔ باقی اللہ حیٌّ لایموت ہے اور ذوی القربیٰ، یتامیٰ، مساکین، اور ابنِ سبیل تا قیامِ قیامت موجود ہیں۔ پس تنہا رسول اللہ ﷺ کے رخصت ہو جانے سے یہ پانچ حقدار کیوں کر بے حق ہو سکتے ہیں؟ پھر خود رسول ﷺ کا استحقاق بھی تنہا ان کی ذات کے لیے نہ تھا بلکہ اس کام کے لیے تھا جو وہ اپنی زندگی میں کرتے تھے، اور وہ کام بدستور جاری ہے۔ اس لیے "فے" میں سے رسول ﷺ کا حق بھی فوت نہیں ہوا۔ علاوہ بریں "فے" کو ان چھ حقداروں کا حق قرار دینے کی جو مصلحت بیان کی گئی تھی وہ یہ تھی کہ یہ مال تنہا مالداروں ہی میں گشت نہ کرتا پھرے بلکہ قوم کے تمام طبقے اس سے مستفید ہوں: {كَيْ لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاءِ مِنكُمْ}۔ یہ مصلحت جس طرح رسول ﷺ کی زندگی میں تھی اسی طرح اب بھی باقی ہے اور جب تک دنیا آباد ہے باقی رہے گی۔

 

اس بنا پر یہ قانون قرار پایا کہ "فے" کا مال خدا اور رسول ﷺ کے کاموں اور امت کے عام طبقوں کی خدمت کے لیے محفوظ رکھا جائے۔ اسی قانون کے مطابق حضرت عمرؓ نے ممالکِ مفتوحہ (کی زمینوں) کو فوج پر تقسیم کرنے سے انکار کر دیا تھا ۵ اور فوجوں کو صرف اس مال پر قناعت کرنی پڑی تھی جو لڑائیوں کے دوران میں غنیمت کے طور پر دشمن کی افواج سے حاصل ہوا تھا۔ اس بارے میں حضرت عمرؓ کا وہ خط جو انہوں نے سعد بن ابی وقاصؓ کو لکھا تھا اسلامی قانون کو بالکل واضح کر دیتا ہے۔ بلاذری نے اس خط کو ان الفاظ میں نقل کیا ہے:

"تمہارا خط پہنچا۔ تم بیان کرتے ہو کہ لوگ تم سے کہہ رہے ہیں کہ جو کچھ ملک و مال اللہ تعالیٰ نے ان کو غنیمت میں عطا کیا ہے اس کو تقسیم کر دیا جائے۔ سو تم میرا خط ملنے کے بعد ایسا کرو کہ فوج نے اپنے گھوڑے اور اونٹ دوڑا کر جو مال، اسباب اور جانور لوٹے ہیں ان کو خمس وضع کرنے کے بعد اہلِ فوج میں تقسیم کر دو۔ باقی اراضی اور انہار کو کاشتکاروں کے پاس رہنے دو تاکہ مسلمانوں کی تنخواہوں کے کام آئیں، ورنہ اگر ان کو موجودہ زمانے کے لوگوں میں تقسیم کر دو گے تو بعد میں آنے والوں کے لیے کچھ نہ بچے گا۔" ۶

 

حضرت ابو عبیدہؓ نے جب شام فتح کیا تو اس وقت بھی فوج نے تمام ملک کو غنیمت قرار دے کر یہ مطالبہ کیا تھا کہ اسے تقسیم کر دیا جائے۔ اس کی اطلاع انہوں نے حضرت عمرؓ کو دی اور حکم دریافت کیا۔ جواب میں آپؓ نے ایک طویل خط لکھا جس میں آیتِ مذکورہ سے استدلال کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

فاقر ما أفاء الله عليك في أيدي أهله واجعل الجزية عليهم بقدر طاقتهم۔ (کتاب الخراج: صفحہ ۸۲)

"پس تم ان املاک کو جو اللہ نے تم کو "فے" میں عطا کی ہیں اہلِ ملک کے ہاتھ میں رہنے دو اور ان پر ان کی طاقت کے مطابق ٹیکس لگا دو۔"

 

اس طرح ایک طرف اسلام نے غنیمت کے شوق کو کم کیا جو لوٹ مار اور غارت گری کا اصل محرک تھا، دوسری طرف ایسے قوانین مقرر کیے جن سے غنیمت کا دائرہ گھٹ کر صرف ان اموال تک محدود رہ گیا جو جنگی اعمال کے سلسلے میں غنیم کی شکست خوردہ افواج سے حاصل ہوتے ہیں۔ اور تیسری طرف اس مالِ غنیمت میں سے بھی پانچواں حصہ نیک کاموں کے لیے لے لیا ۷۔ اب اسلامی اصطلاح میں لفظ غنیمت جس چیز پر بولا جاتا ہے وہ بعینہٖ وہی ہے جسے مغربی قانون میں غنائمِ جنگ (Spoils of War) کہا جاتا ہے اور جسے تمام دنیا کے مقننوں نے فاتح کا فطری حق تسلیم کیا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ مغربی قانون تمام اموالِ غنیمت کو حکومت کا حصہ قرار دیتا ہے اور اسلامی قانون ان میں سے پانچواں حصہ لے کر باقی چار حصے ان جاں باز سپاہیوں میں تقسیم کر دیتا ہے جنہوں نے اپنا خون بہا کر انہیں حاصل کیا ہے ۸۔

 

۱۔ طبری، جلد ۲، صفحہ ۳۶۷۔ کتاب الخراج، صفحہ ۲۲۔ ترمذی، کتاب التفسیر۔

۲۔ بخاری، کتاب المغازی، باب قول اللہ تعالیٰ و یوم حنین الخ۔

۳۔ یہ اشارہ ہے ایک واقعے کی طرف جس کو حضرت ابوہریرہؓ ہی نے ایک دوسری حدیث میں بیان کیا ہے، دیکھو، بخاری، کتاب الجہاد، باب قول النبی ﷺ: احلت لکم الغنائم۔

۴۔ ابو داؤد، باب الرجل یکری دابتہ علی النصف او السہم۔

۵۔ یہ حضرت عمرؓ کا اجتہاد تھا، جس وقت فوج نے سوادِ عراق کی تقسیم کا مطالبہ کیا تھا تو آپؓ نے اس کی تردید میں یہی آیت دلیل کے طور پر پیش کی تھی اور کہا تھا: هذه عامة في القرى كلها۔ (کتاب الخراج: صفحہ ۱۵)

۶۔ فتوح البلدان: صفحہ ۲۷۴۔ امام ابو یوسف نے کتاب الخراج (صفحہ ۱۳-۱۴) میں بھی تھوڑے لفظی تغیر کے ساتھ اسے نقل کیا ہے۔

۷۔ اس موقع پر یہ جان لینا بھی ضروری ہے کہ اسلام اس بات کو جائز نہیں رکھتا کہ جنگ میں جو کچھ جس سپاہی کے ہاتھ لگے وہ اسے لے لے۔ یہ غنیمت نہیں بلکہ "غلول" (خیانت) ہے جسے اسلامی قانون قطعی حرام قرار دیتا ہے۔ غنیمت کے لیے جو ضابطہ اسلام میں مقرر کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ لڑائی کے دوران میں جو کچھ سپاہیوں کے ہاتھ لگے، لڑائی ختم ہونے کے بعد وہ سب امیرِ لشکر کے سامنے لا کر رکھ دیا جائے، حتیٰ کہ سوئی اور تاگا تک اور رسی کا ٹکڑا تک کوئی شخص چھپا کر نہ رکھے۔ پھر امیرِ لشکر اس میں سے پانچواں حصہ بیت المال کے لیے نکال لے اور بقیہ چار حصے انصاف کے ساتھ سپاہیوں میں تقسیم کر دے۔ اس قاعدے سے صرف کھانے پینے کی چیزیں مستثنیٰ ہیں۔ انہیں سپاہی حسبِ ضرورت استعمال کر سکتے ہیں۔

۸۔ مغربی قانون کی رو سے مالِ غنیمت چونکہ حکومت کا حصہ ہے اس لیے سپاہیوں میں خواہ مخواہ چوری کی عادت پیدا ہوتی ہے۔ وہ اموالِ غنیمت کو چھپا کر رکھتے ہیں اور اس طرح ان کے اندر بداخلاقی اور خیانت پرورش پاتی ہے۔ اسلامی قانون اس کے برعکس سپاہیوں کو ان کے حصے سے محروم نہیں کرتا، غریبوں کے لیے ۱/۵ حصہ ان سے لے کر باقی ۴/۵ ان میں تقسیم کر دیتا ہے۔

 

۸۔ صلح و امان

 

اسلامی جنگ کے شعائر میں سے ایک یہ بھی ہے کہ مسلمان کو ہر وقت صلح کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ چونکہ اسلام کی جنگ کا مقصد "جنگ" نہیں ہے بلکہ اصلاح اور امن و سلامتی ہے، اس لیے اگر مصالحت کے ذریعے یہ مقصد حاصل ہونے کی کوئی صورت موجود ہو تو ہتھیار اٹھانے سے پہلے اس صورت سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے جنگ کی آخری حد وجوہِ نزاع کے ارتفاع (ختم ہونے) کی ضرورت باقی نہ رہنے کو قرار دیا ہے: {حَتَّىٰ تَضَعَ الْحَرْبُ أَوْزَارَهَا} (یہاں تک کہ جنگ اپنے ہتھیار رکھ دے) اور {حَتَّىٰ لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لِلَّهِ} (یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین اللہ کے لیے ہو جائے)۔ پس قرآن مجید ہم کو حکم دیتا ہے کہ اگر دشمن تم سے خود صلح کی درخواست کرے تو اسے کھلے دل سے قبول کر لو:

 

وَإِن جَنَحُوا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا وَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ وَإِن يُرِيدُوا أَن يَخْدَعُوكَ فَإِنَّ حَسْبَكَ اللَّهُ هُوَ الَّذِي أَيَّدَكَ بِنَصْرِهِ وَبِالْمُؤْمِنِينَ (الانفال: ۶۱-۶۲)

"اگر وہ صلح کے لیے جھکیں تو تم بھی جھک جاؤ اور اللہ پر بھروسہ رکھو کہ وہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔ اور اگر وہ تمہیں دھوکہ دینے کا ارادہ رکھتے ہوں تو تم پروا نہ کرو کہ تمہارے لیے اللہ ہی کافی ہے، وہی ہے جس نے تم کو اپنی نصرت بخشی اور مومنوں کی کثرت سے تم کو تقویت دی۔"

 

یہ بھی حکم ہے کہ اگر کوئی دشمن ہتھیار ڈال دے اور اپنی زبان سے یا زبانِ حال سے امان مانگے تو پھر تم کو اس پر ہاتھ اٹھانے کا حق باقی نہیں رہتا:

فَإِنِ اعْتَزَلُوكُمْ فَلَمْ يُقَاتِلُوكُمْ وَأَلْقَوْا إِلَيْكُمُ السَّلَمَ فَمَا جَعَلَ اللَّهُ لَكُمْ عَلَيْهِمْ سَبِيلًا (النساء: ۹۰)

"اگر وہ تم سے ہاتھ کھینچ لیں اور جنگ نہ کریں اور صلح کی خواہش کریں تو ایسی حالت میں اللہ نے تم کو ان پر دست درازی کی کوئی راہ نہیں دی ہے۔"

 

اسی طرح اگر دشمن قوم کے افراد اکا دکا مل جائیں اور امان مانگیں تو ان کو قتل کرنا جائز نہیں ہے بلکہ امن کے ساتھ ان کو رہنے دینا چاہیے اور جب وہ اپنے ملک کی طرف واپس جانا چاہیں تو خیریت سے پہنچا دینا چاہیے:

وَإِنْ أَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِكِينَ اسْتَجَارَكَ فَأَجِرْهُ حَتَّىٰ يَسْمَعَ كَلَامَ اللَّهِ ثُمَّ أَبْلِغْهُ مَأْمَنَهُ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَعْلَمُونَ (التوبہ: ۶)

"اگر مشرکوں میں سے کوئی تمہاری پناہ میں آنا چاہے تو اس کو پناہ دو یہاں تک کہ وہ اللہ کا کلام سنے، پھر اس کو اس کے مأمن (امن کی جگہ) تک پہنچا دو، یہ اس لیے ہے کہ وہ نادان لوگ ہیں۔"

 

ابتداءً اس آیت کی غرض اشاعتِ اسلام تھی جیسا کہ ابن جریرؒ اور ابن کثیرؒ نے بیان کیا ہے۔ {فَأَجِرْهُ حَتَّىٰ يَسْمَعَ كَلَامَ اللَّهِ} سے مراد یہ ہے کہ ان کو اپنی پناہ میں لے کر (اسلام کی دعوت دو) اور اگر ان کے دل اسلام کے لیے نہ کھلیں تو انہیں قتل نہ کرو، بلکہ امن و عافیت کے ساتھ ان کو ان کے وطن تک پہنچا دو۔ لیکن چونکہ آیت کے الفاظ عام تھے اس لیے ائمہ مجتہدین نے اس سے یہ حکم نکالا کہ دارالحرب سے جو لوگ تجارت یا سیاحت یا حصولِ علم یا کسی اور غرض سے آنا چاہیں اور حکومتِ اسلامیہ کی پناہ میں رہنے کی درخواست کریں تو ان کو دارالاسلام میں آنے اور آزادی کے ساتھ نقل و حرکت کرنے کی اجازت دینی چاہیے۔ فقہائے حنفیہ نے اس کے لیے ایک سال کی مدت مقرر کی ہے۔ اگر حربی مستامن (امان طلب کرنے والا) کو دارالاسلام میں رہتے ہوئے ایک سال گزر جائے تو اس کو نوٹس دیا جائے گا کہ یا تو وہ واپس جائے یا اپنی قومیت (Nationality) بدل کر اسلامی رعیت (ذمی) بن جائے۔

 

تاہم حقوق کے اعتبار سے ذمی اور مستامن میں زیادہ فرق نہیں ہے۔ مستامن کے لیے شریعت نے یہ وسیع رعایتیں مقرر کی ہیں کہ اس سے جزیہ نہیں لیا جائے گا، بڑے سے بڑے جرم کا ارتکاب کرنے کے باوجود وہ امان جو اسے دی گئی ہے منسوخ نہ ہو گی، اگر وہ کسی مسلمان کو قتل کر دے یا رہزنی کرے یا مسلمان عورت سے زنا کرے تب بھی اسے عام مجرموں کی طرح سزا دی جائے گی۔ حد یہ ہے کہ اگر وہ دارالاسلام کی خبریں بھی دشمنوں کو خفیہ خفیہ بھیجتا ہو ۱ تو امان کا عہد نہ ٹوٹے گا۔ صرف جرم کی سزا دی جائے گی۔ (رد المحتار)

 

ان رعایتوں کے مقابلے میں اس کے ساتھ صرف اتنی سختی برتی گئی ہے کہ اگر رعایا کا کوئی فرد خواہ وہ مسلمان ہو یا ذمی اس کو قتل کر دے تو قاتل سے قصاص نہ لیا جائے گا، محض دیت وصول کی جائے گی۔ مگر اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ وہ اسلامی رعیت نہیں ہے اور اجنبی کو اپنی رعیت کے برابر حقوق کوئی حکومت بھی نہیں دیا کرتی، خصوصاً جب کہ وہ اجنبی ایک ایسی قوم سے ہو جس کا اس حکومت سے نہ کوئی معاہدہ ہو اور نہ باضابطہ سیاسی تعلق۔

 

۱۔ اس کے لیے اولین شرط یہ ہے کہ وہ امان طلب کر کے آیا ہو۔ جاسوسی کے لیے آنے کی صورت میں اسلامی قانون میں بھی تمام دوسرے قوانین کی طرح قتل کی سزا ہے۔

 

۹۔ مفتوح قوموں کے ساتھ برتاؤ

 

جنگ کے مسائل ختم ہوئے۔ اب ہم کو متعلقاتِ جنگ پر بھی ایک نظر ڈالنی چاہیے۔ دشمن کے ساتھ ایسی حالت میں نیک سلوک کرنا جب کہ اس کے اندر مقاومت (مقابلہ) اور انتقام کی قوت موجود ہو، کسی نہ کسی حد تک "کلوخ انداز را پاداش سنگ" (پتھر پھینکنے والے کو پتھر سے جواب ملنے) کے خوف پر محمول کیا جا سکتا ہے۔ مگر جب اس کی قوتِ مقابلہ بالکل ٹوٹ جائے اور وہ بے بس ہو کر اپنے آپ کو فاتح کے رحم پر چھوڑ دے، اس وقت اس کے ساتھ فیاضی کا سلوک کرنا خالص اور کامل نیکی ہے جو فاتح کے حسنِ نیت کو بالکل واضح کر دیتی ہے۔

 

مفتوح کے ساتھ فاتح کے برتاؤ کا انحصار درحقیقت فاتح کے مقصدِ فتح پر ہوا کرتا ہے۔ اگر اس نے مفتوح کو حصولِ دولت کے لیے فتح کیا ہے تو اس کی حاکمانہ سیاست پر استحصال بالجبر (زبردستی مال وصول کرنا) کا غلبہ ہو گا۔ اگر مذہبی عداوت کی بنا پر کیا ہے تو حکومت میں مذہبی تعصب و تشدد نمایاں ہو گا۔ اگر ملک گیری و فرمانروائی کی حرص اس کی محرک ہوئی ہے تو حکومت کی ساری عمارت ظلم و جور اور استکبار و استعباد (غلام بنانے) پر قائم ہو گی۔ بخلاف اس کے اگر فاتح کا مقصد حقیقتاً اصلاح کے سوا کچھ نہ ہو گا تو وہ مفتوح قوم کی دولت لوٹے گا، نہ مذہبی تشدد برتے گا، نہ ظلم و جور کا برتاؤ کرے گا اور نہ اس کو ذلیل و خوار کر کے اپنا غلام بنائے گا۔ اس کی حکومت عدل، رواداری، مساوات، اور فیاضی پر مبنی ہو گی۔ اس کی سیاست کا بنیادی اصول یہ ہو گا کہ مفتوح قوم کو فتنہ و فساد اور طغیان و سرکشی سے باز رکھے اور اپنے دامنِ عافیت میں اس کو امن کے ساتھ اخلاقی، مادی اور روحانی ترقی کے مواقع بہم پہنچائے۔

 

اب اس معیار کے مطابق ہم کو دیکھنا چاہیے کہ اسلام اپنی مفتوح قوموں کے ساتھ کیا سلوک کرتا ہے؟ اس کا قانون مفتوحین کو کیا درجہ دیتا ہے؟ اس کی شریعت ان کے لیے کیا حقوق مقرر کرتی ہے؟ اور اس کی حکومت ان کے ساتھ ایک مصلح حکومت کا سا برتاؤ کرتی ہے یا مفسد حکومت کا سا؟

 

مفتوحین کی دو قسمیں:

 

اسلامی قانون نے تمام مفتوحین کو دو اقسام پر تقسیم کیا ہے۔ ایک وہ جو صلح کے ساتھ اطاعت قبول کریں، دوسرے وہ جو بزورِ شمشیر مغلوب ہوں۔ ان دونوں کے احکام میں تھوڑا سا فرق ہے اس لیے ہم دونوں کے احکام الگ الگ بیان کریں گے:

 

(الف) معاہدین:

 

جو لوگ جنگ سے پہلے یا دورانِ جنگ میں اطاعت قبول کرنے پر راضی ہو جائیں اور حکومتِ اسلامیہ سے مخصوص شرائط طے کر لیں، ان کے لیے اسلام کا قانون یہ ہے کہ ان کے ساتھ تمام معاملات ان شرائطِ صلح کے تابع ہوں گے جو ان سے طے ہوئی ہیں۔ دشمن کو اطاعت پر آمادہ کرنے کے لیے چند خاص شرائط طے کر لینا اور پھر جب وہ پوری طرح قابو میں آجائے تو اس کے ساتھ مختلف برتاؤ کرنا آج کل کی مہذب قوموں کے سیاسی معاملات میں سے ہے، مگر اسلام اس کو ناجائز بلکہ حرام اور گناہِ عظیم قرار دیتا ہے۔ اس کے نزدیک یہ ضروری ہے کہ جب کسی قوم کے ساتھ کچھ شرائط طے ہو جائیں، خواہ وہ مرغوب ہوں یا نہ ہوں، تو اس کے بعد ان شرائط سے یک سرِ مو (بال برابر) بھی تجاوز نہ کیا جائے، بلالحاظ اس کے کہ فریقین کی اعتباری حیثیت اور طاقت و قوت میں کتنا ہی فرق آجائے۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں:

لعلكم تقاتلون قوماً فتظهرون عليهم فيتقونكم بأموالهم دون أنفسهم وأبنائهم - وفي حديث - فيصالحونكم على صلح، فلا تصيبوا منهم فوق ذلك، فإنه لا يصلح لكم۔ (ابو داؤد، کتاب الجہاد)

"اگر تم کسی قوم سے لڑو اور اس پر غالب آجاؤ اور وہ قوم اپنی اور اپنی اولاد کی جان بچانے کے لیے تم کو خراج دینا منظور کرلے (ایک دوسری حدیث میں ہے کہ تم سے ایک صلحنامہ طے کرلے) تو پھر تم اس مقررہ خراج سے ایک حبہ (ذرہ) بھی زائد نہ لینا کیونکہ وہ تمہارے لیے درست نہ ہوگا۔"

 

ایک اور حدیث میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا:

ألا من ظلم معاهداً أو انتقصه أو كلفه فوق طاقته أو أخذ منه شيئاً بغير طيب نفس فأنا حجيجه يوم القيامة۔ (ابو داؤد، کتاب الجہاد)

"خبردار! جو شخص کسی معاہد (ذمی) پر ظلم کرے گا یا اس کے حقوق میں کمی کرے گا یا اس کی طاقت سے زیادہ اس پر بوجھ ڈالے گا یا اس سے کوئی چیز اس کی مرضی کے خلاف وصول کرے گا، اس کے خلاف قیامت کے دن میں خود مستغیث (فریادی) بنوں گا۔"

 

ان دونوں حدیثوں کے الفاظ عام ہیں اور ان سے یہ عام حکم مستنبط ہوتا ہے کہ معاہد ذمیوں کے ساتھ صلحنامے میں جو شرائط طے ہو جائیں ان میں کسی قسم کی کمی یا زیادتی کرنا ہرگز جائز نہیں ہے۔ نہ ان پر ٹیکس بڑھایا جا سکتا ہے، نہ ان کی زمینوں پر قبضہ کیا جا سکتا ہے، نہ ان کی عمارتیں چھینی جا سکتی ہیں، نہ ان پر سخت فوجداری قوانین نافذ کیے جا سکتے ہیں، نہ ان کے مذہب میں دخل دیا جا سکتا ہے، نہ ان کی عزت و آبرو پر حملہ کیا جا سکتا ہے، اور نہ کوئی ایسا فعل کیا جا سکتا ہے جو ظلم یا انتقاص (کمی کرنا) یا تکلیفِ مالا یطاق (طاقت سے زیادہ بوجھ) یا اخذ بغیر طیبِ نفس (مرضی کے بغیر لینا) کی حدود میں آتا ہو۔

 

انہیں احکام کی بنا پر فقہائے اسلام نے صلحاً فتح ہونے والی قوموں کے متعلق کسی قسم کے قوانین مقرر نہیں کیے اور صرف یہ عام قاعدہ بیان کر کے چھوڑ دیا کہ ان کے ساتھ ہمارا معاملہ بالکل شرائطِ صلح کے مطابق ہو گا۔ امام ابو یوسفؒ لکھتے ہیں:

يؤخذ منهم ما صولحوا عليه، ويوفى لهم، ولا يزاد عليهم۔ (کتاب الخراج: صفحہ ۳۵)

"ان سے وہی لیا جائے گا جس پر ان کے ساتھ صلح ہوئی ہے، ان کے حق میں صلح کی شرائط پوری کی جائیں گی اور ان پر کچھ زیادہ نہ کیا جائے گا۔"

 

ظاہر ہے کہ صلحنامے کے لیے قواعد و اصول معین نہیں کیے جا سکتے۔ وقت اور موقع کے لحاظ سے جیسی شرائط مناسب ہوں گی وہی طے کر لی جائیں گی۔ تاہم نبی ﷺ اور آپ ﷺ کے خلفائے راشدینؓ نے مختلف قوموں سے جو صلحنامے کیے ہیں ان سے ہمیں کم از کم وہ عام اصول معلوم ہو جاتے ہیں جن پر اسلام اپنے دشمنوں سے مصالحت کرتا اور کر سکتا ہے۔ ان اصولوں کو واضح کرنے کے لیے ہم چند صلحنامے یہاں نقل کرتے ہیں:

 

   اہلِ نجران کا صلحنامہ: اہل نجران کی درخواست پر نبی ﷺ نے جو صلحنامہ لکھ کر انہیں دیا تھا اس میں خراج کی رقم مقرر کرنے کے بعد لکھا ہے:

    ولنجران وحاشيتها جوار الله وذمة محمد النبي رسول الله على أنفسهم وملتهم وأرضهم وأموالهم وغائبهم وشاهدهم وعشيرتهم وبيعهم وكل ما تحت أيديهم من قليل أو كثير، لا يغير أسقف من أسقفيته ولا راهب من رهبانيته ولا كاهن من كهانته، ولا يغير حق من حقوقهم ولا سلطانهم ولا ما كانوا عليه، على ذلك جوار الله وذمة رسوله أبداً ما نصحوا واعتدلوا فيما عليهم، غير مثقلين ولا ظالمين۔ (مختصراً از کتب سیر و مغازی)

    "نجران کے عیسائیوں اور ان کے ہمسایوں ۱ کے لیے اللہ کی پناہ اور اللہ کے رسول محمد ﷺ کا ذمہ ہے، ان کی جانوں، ان کے مذہب، ان کی زمین، ان کے اموال، ان کے حاضر و غائب، ان کے اونٹوں، ان کے قاصدوں اور ان کے مذہبی نشانات ۲ سب کے لیے۔ جس حالت پر وہ اب تک ہیں اسی پر بحال رہیں گے۔ ان کے حقوق میں سے کوئی حق اور نشانات میں سے کوئی نشان نہ بدلا جائے گا۔ ان کے کسی اسقف کو اس کی اسقفیت سے اور کسی راہب کو اس کی رہبانیت سے اور کسی خادمِ کلیسا کو اس کی خدمت سے نہ ہٹایا جائے گا، خواہ اس کے ہاتھ کے نیچے جو کچھ ہے وہ تھوڑا ہو یا زیادہ ۳۔ ان پر عہدِ جاہلیت کے کسی خون یا عہد کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ ان کو فوجی خدمت یا دہ یکی ادا کرنے پر مجبور نہ کیا جائے گا ۴ اور ان کی زمین کو کوئی لشکر پامال نہ کرے گا ۵۔ اگر کوئی شخص ان کے خلاف کسی حق کا دعویٰ کرے گا تو فریقین کے درمیان انصاف کیا جائے گا۔ نہ اہلِ نجران ظالم بن سکیں گے نہ مظلوم۔ مگر جس شخص نے اس سے پہلے سود کھایا ہو اس کی ذمہ داری سے میں بری ہوں ۶۔ ان میں سے کسی شخص کو دوسرے کے گناہ میں نہ پکڑا جائے گا۔ اس صحیفے میں جو کچھ ہے اس کے لیے اللہ کی ضمانت اور محمد نبی ﷺ کا ذمہ ہے، ہمیشہ کے واسطے جب تک کہ اللہ کا حکم آئے اور جب تک وہ خیر خواہ رہیں اور ان حقوق کو ادا کرتے رہیں جو اس معاہدے کی رو سے ان پر عائد ہوتے ہیں۔"

 

   اہلِ حیرہ کا صلحنامہ: حضرت ابو بکرؓ کے زمانے میں خالد بن ولیدؓ نے اہلِ حیرہ کو جو صلحنامہ لکھ کر دیا تھا اس میں انہوں نے تمام باشندوں پر مجموعاً صرف ۶۰ ہزار درہم (یعنی محتاجوں اور مفلسوں کو الگ کر کے بقیہ آبادی پر تقریباً ڈھائی روپے فی کس) سالانہ خراج مقرر کیا اور اس کے مقابلے میں حکومتِ اسلامیہ کی جانب سے یہ عہد کیا کہ:

    لا يهدم لهم بيعة ولا كنيسة ولا قصر من قصورهم التي كانوا يتحصنون فيها إذا نزل بهم عدو لهم، ولا يمنعوا من ضرب النواقيس ولا من إخراج الصلبان في يوم عيدهم۔

    "ان کا کوئی معبد اور گرجا منہدم نہ کیا جائے گا، نہ ان قلعوں میں سے کوئی قلعہ توڑا جائے گا جن میں وہ اپنے دشمنوں سے بچاؤ کے لیے پناہ گزین ہوا کرتے تھے، نہ انہیں ناقوس بجانے سے روکا جائے گا اور نہ ان کو عید کے دن صلیبیں نکالنے سے منع کیا جائے گا ۷۔"

 

   اہلِ بیت المقدس کا صلحنامہ: اہلِ بیت المقدس کو حضرت عمرؓ نے جو صلحنامہ لکھ کر دیا تھا ۸ اس کے الفاظ یہ ہیں:

    بسم الله الرحمن الرحيم. هذا ما أعطى عبد الله عمر أمير المؤمنين أهل إيلياء من الأمان. أعطاهم أماناً لأنفسهم وأموالهم ولكنائسهم وصلبانهم وسقيمها وبريئها وسائر ملتها: أنه لا تسكن كنائسهم ولا تهدم، ولا ينتقص منها ولا من حيزها، ولا من صليبهم، ولا من شيء من أموالهم، ولا يكرهون على دينهم، ولا يضار أحد منهم۔

    "ان کو امان دی ان کی جان و مال اور ان کے کنیسوں اور صلیبوں اور ان کے تندرستوں اور بیماروں کے لیے، یہ امان ایلیا (بیت المقدس) کی ساری ملت کے لیے ہے۔ عہد کیا جاتا ہے کہ ان کے کنیسوں کو مسلمانوں کا مسکن نہ بنایا جائے گا۔ نہ ان کو منہدم کیا جائے گا، نہ ان کے احاطوں اور ان کی عمارتوں میں کوئی کمی کی جائے گی۔ نہ ان کی صلیبوں اور ان کے اموال میں سے کسی چیز کو نقصان پہنچایا جائے گا۔ ان پر دین کے معاملے میں کوئی جبر نہ کیا جائے گا اور نہ ان میں سے کسی کو ضرر پہنچایا جائے گا۔"

 

   اہلِ دمشق کا صلحنامہ: اہلِ دمشق کو حضرت عمرؓ نے جو صلحنامہ لکھ کر دیا ۹ اس کے الفاظ یہ ہیں:

    بسم الله الرحمن الرحيم. هذا ما أعطى عبد الله عمر أمير المؤمنين أهل دمشق إذا دخلها: أعطاهم أماناً على أنفسهم وأموالهم وكنائسهم وسور مدينتهم، لا يهدم ولا يسكن شيء من دورهم. لهم بذلك عهد الله وذمة رسوله ﷺ والخلفاء والمؤمنين، لا يعرض لهم إلا بخير إذا أعطوا الجزية۔

    "ان کو امان دی ان کی جان و مال کے لیے اور ان کے کنیسوں اور ان کے شہر کی فصیل کے لیے۔ ان کے مکانات میں سے نہ کوئی توڑا جائے گا اور نہ مسلمانوں کا مسکن بنایا جائے گا۔ اس پر ان کے لیے اللہ کا عہد اور اس کے رسول ﷺ کا ذمہ ہے۔ ان کے ساتھ نیکی کے سوا کبھی کوئی سلوک نہ کیا جائے گا جب تک کہ وہ جزیہ ادا کرتے رہیں گے۔"

 

   اہلِ عانات کا صلحنامہ: حضرت خالد بن ولیدؓ نے اہلِ عانات کو جو صلحنامہ لکھ کر دیا تھا اس کے الفاظ یہ ہیں:

    لا يهدم لهم بيعة ولا كنيسة، وعلى أن يضربوا نواقيسهم في أي ساعة شاءوا من ليل أو نهار إلا في أوقات الصلاة، وعلى أن يخرجوا الصلبان في أيام عيدهم۔

    "ان کا کوئی معبد اور کوئی گرجا منہدم نہ کیا جائے گا۔ وہ رات دن میں جس وقت چاہیں اپنے ناقوس بجائیں، مگر اوقاتِ نماز کا احترام ملحوظ رکھیں۔ ان کو حق ہو گا کہ اپنے ایامِ عید میں صلیبیں نکالیں۔"

 

   اہلِ بعلبک کا صلحنامہ: بعلبک کے لوگوں کو حضرت ابو عبیدہؓ نے جو صلحنامہ لکھ کر دیا تھا اس کے الفاظ یہ ہیں:

    هذا كتاب أمان لفلان ابن فلان ۱۰ وأهل بعلبك رومها وفرسها وعربها على أنفسهم وأموالهم وكنائسهم ودورهم داخل المدينة وخارجها وعلى أرحائهم. من أسلم فله ما لنا وعليه ما علينا، ولتجارهم أن يسافروا إلى حيث أرادوا من البلاد التي صالحنا عليها، وعلى من أقام منهم الجزية والخراج۔

    "یہ امان کی تحریر ہے فلاں ابن فلاں! اور اہلِ بعلبک کے لیے، عام اس سے کہ وہ رومی ہوں یا فارسی یا عرب، امان ہے ان کی جان، مال، کنائس اور عمارات کے لیے، عام اس سے کہ وہ شہر کے اندر ہوں یا باہر، اور امان ہے ان کی چکیوں کے لیے۔ ان میں سے جو مسلمان ہو جائے گا اس کے وہی حقوق ہیں جو ہمارے ہیں اور اس پر وہی فرائض ہیں جو ہم پر ہیں۔ ان کے تاجروں کو حق ہو گا کہ جن ملکوں سے ہماری صلح ہو چکی ہے ان میں آزادی کے ساتھ آمد و رفت رکھیں۔ ان میں سے جو کوئی اپنے دین پر قائم رہے گا اس پر جزیہ اور خراج عائد ہو گا۔"

 

   اہلِ دبیل کا صلحنامہ: اہلِ دبیل کے صلح نامے میں حبیب بن مسلمہؓ نے لکھا:

    هذا كتاب من حبيب بن مسلمة لنصارى أهل دَبِيل ومجوسها ويهودها، شاهدهم وغائبهم، إني أمنتكم على أنفسكم وأموالكم وكنائسكم وبيعكم وسور مدينتكم، فأنتم آمنون وعلينا الوفاء لكم بالعهد ما أوفيتم وأديتم الجزية والخراج۔

    "یہ تحریر ہے حبیب بن مسلمہ کی جانب سے اہلِ دبیل کے لیے، عام اس سے کہ وہ عیسائی ہوں یا مجوسی یا یہودی، حاضر ہوں یا غائب، میں نے تم کو امان دی تمہاری جانوں اور مالوں اور کنیسوں اور معبدوں اور تمہارے شہر کی فصیل کے لیے۔ پس تم امان میں ہو اور جب تک تم اپنے عہد پر قائم رہو اور جزیہ و خراج ادا کرتے رہو ہم پر فرض ہے کہ اس عہد کو پورا کریں۔"

 

   اہلِ آذربائیجان کا صلحنامہ: آذربائیجان کے صلحنامے میں حذیفہ بن الیمانؓ نے لکھا:

    الأمان على أنفسهم وأموالهم ومللهم وشرائعهم۔

    "امان ہے ان کی جان و مال اور ان کی ملتوں اور ان کی شریعتوں کے لیے۔"

 

   اہلِ جرجان کا صلحنامہ: جرجان کے صلحنامے میں انہی حذیفہؓ نے لکھا:

    لهم الأمان على أنفسهم وأموالهم ومللهم وشرائعهم، ولا يغير بشيء من ذلك۔

    "ان کی جان و مال اور ان کی ملتوں اور شریعتوں کے لیے امان ہے، ان میں سے کسی چیز میں تغیر نہ کیا جائے گا۔"

 

   اہلِ ماہ دینار کا صلحنامہ: ماہ دینار کے صلحنامے میں انہوں نے لکھا:

    لا يغيرون عن ملة ولا يحال بينهم وبين شرائعهم۔

    "ان کو مذہب بدلنے پر مجبور نہ کیا جائے گا اور نہ ان کے مذہبی قوانین میں مداخلت کی جائے گی۔"

 

ہم نے اتنی تفصیل کے ساتھ یہ معاہدات اس لیے نقل کیے ہیں کہ ناظرین کو اسلام کے اندازِ مصالحت کا ایک عمومی تصور حاصل ہو جائے۔ ایک دو معاہدات کو دیکھ کر یہ خیال پیدا ہونا ممکن ہے کہ شاید کسی خاص حالت میں رسول اللہ ﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہؓ نے مجبوراً ایسی شرائط قبول کر لی ہوں گی۔ لیکن یہاں عرب، شام، الجزیرہ، اور فارس وغیرہ ممالک کے کئی عہدنامے آپ کے سامنے موجود ہیں اور تاریخوں میں ان کے علاوہ بیسیوں اور عہدنامے مل سکتے ہیں جن کے اندر ایک ہی قسم کی فیاضانہ روح پائی جاتی ہے۔ ہم نے خصوصیت کے ساتھ ان معاہدات کو نقل کیا ہے جو نبی ﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہؓ نے پوری طرح غالب آجانے کے بعد کیے تھے۔ نجران کا معاہدہ اس وقت ہوا تھا جب تمام عرب پر اسلام کی دھاک بیٹھ چکی تھی اور خود اہلِ نجران نے خوفزدہ ہو کر اپنے سید اور عاقب کو مصالحت کے لیے بھیجا تھا۔ حیرہ کا معاہدہ اس وقت ہوا جب اس کے ارد گرد کے مقامات کو خالد بن ولیدؓ کی بے پناہ تلوار فتح کر چکی تھی اور اہلِ حیرہ نے اپنی خیریت اسی میں دیکھی تھی کہ خود آگے بڑھ کر اطاعت قبول کر لیں۔ دمشق اور بیت المقدس کے متعلق تو آپ کو معلوم ہو ہی چکا ہے کہ وہ قریب قریب فتح ہو چکے تھے، اور اگر مسلمان چاہتے کہ انہیں بزورِ شمشیر فتح کر لیں تو یہ ان کے لیے کچھ مشکل نہ تھا۔ ایسی حالت میں صلح کرنا اور ان شرائط پر کرنا جو اوپر کے معاہدات میں درج ہیں، کسی ایسی قوم کا فعل نہیں ہو سکتا تھا جس کا مقصد اپنے مذہب کی جبری اشاعت کرنا ہوتا یا جس نے غیر مذاہب کا نام و نشان مٹانے کے لیے تلوار اٹھائی ہوتی یا محض لوٹ مار اور حصولِ ملک و مال کے لیے نکلی ہوتی۔

 

۱۔ ڈاکٹر اسپرنگر نے حاشیہ سے مراد یہودی لیے ہیں (سیرۃ محمد ﷺ جلد ۳ صفحہ ۵۰۲) مگر دراصل اس سے مراد تمام وہ لوگ ہیں جو عیسائیوں کے ساتھ آباد تھے۔

۲۔ امثلہ سے مراد صلیبیں اور تصویریں وغیرہ ہیں جو کنیسوں میں رکھی جاتی ہیں۔

۳۔ اس سے معاہد کے املاک و اوقاف کا تحفظ مقصود ہے۔

۴۔ یا دہ یکی سے مراد عشر (دسواں حصہ) ہے۔

۵۔ اس شرط کا مدعا صرف یہی نہیں ہے کہ اسلامی لشکر ان کی زمین کو پامال نہ کرے بلکہ یہ بھی ہے کہ تمام خارجی طاقتوں کے مقابلے میں ان کی حفاظت و مدافعت کی جائے۔

۶۔ اس سے مراد یہ ہے کہ جس نے معاہدے سے پہلے سود پر رقم دی ہو اور معاہدے کے بعد وہ مدیون پر سود کا دعویٰ کرے تو ہم اس کو دلوانے کے ذمہ دار نہیں ہیں۔ مگر یعقوبی نے جو معاہدہ نقل کیا ہے اس میں "اس سے پہلے" کے بجائے "اس کے بعد" لکھا ہے۔ (دیکھو جلد ۴، صفحہ ۶۳)

۷۔ امام ابو یوسفؒ کا بیان ہے کہ حضرت ابو بکرؓ نے اسی صلحنامے کو نافذ فرمایا۔ (کتاب الخراج: صفحہ ۸۴)

۸۔ یہ صلحنامہ اس وقت لکھا گیا تھا جب اہلِ بیت المقدس کی قوتِ مقابلہ ٹوٹ چکی تھی۔

۹۔ یہ صلحنامہ اس وقت لکھا گیا تھا جب آدھا شہر بزورِ شمشیر فتح ہو چکا تھا۔

۱۰۔ غالباً یہاں حاکمِ بعلبک کا نام ہو گا۔

 

(ب) غیر معاہدین (بزورِ شمشیر مفتوح ہونے والے):

 

مفتوحین کی دوسری قسم میں وہ لوگ ہیں جو آخر وقت تک مسلمانوں سے لڑتے رہے ہوں اور جنہوں نے اس وقت ہتھیار ڈالے ہوں جب اسلامی فوجیں ان کے استحکامات کو توڑ کر ان کی بستیوں میں فاتحانہ داخل ہو چکی ہوں۔ ایسے مفتوحین کے بارے میں اسلام نے فاتح قوم کا یہ حق تسلیم کیا ہے کہ اگر وہ چاہے تو ان کے تمام ہتھیار اٹھانے والے مردوں کو قتل کر دے، ان کی عورتوں اور بچوں کو غلام بنالے اور ان کی املاک پر قبضہ کرلے، لیکن طریقِ اولیٰ (بہتر طریقہ) یہ بتایا ہے کہ ان کو بھی ذمی بنالیا جائے اور اسی حال پر رہنے دیا جائے جس پر وہ جنگ سے پہلے تھے۔

 

آپ کو معلوم ہے کہ اس زمانے کا عام دستور ہی یہ تھا کہ مفتوحوں کو غلام بنا لیتے، ان کی املاک پر قبضہ کر لیتے اور شہروں کو تسخیر کے بعد قتلِ عام کر کے ان کی جنگی طاقت کو فنا کر دیتے تھے۔ اسلام کے لیے اس عام وقتی ذہنیت کو دفعۃً بدل دینا مشکل تھا۔ وقت کی روح سے جنگ کرنا اس کے طریقِ اصلاح کے خلاف تھا۔ اس لیے اس نے ایک طرف رواجوں اور دستوروں سے متاثر دماغوں کو مطمئن کرنے کے لیے پچھلے طریقے کو لفظاً برقرار رکھا اور دوسری طرف رسول اکرم ﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہؓ نے اپنی رہنمائی سے مسلمانوں میں اتنی فراخ حوصلگی اور فیاضی کی اسپرٹ پیدا کر دی کہ انہوں نے خود ہی اس اجازت سے فائدہ اٹھانا پسند نہ کیا اور رفتہ رفتہ ایک دوسرا جوابی رواج ایسا پیدا ہو گیا جس سے پچھلے رواج کو عملاً منسوخ کر دیا۔

 

عہدِ رسالت اور عہدِ خلفائے راشدینؓ بلکہ پورے عہدِ اسلامی کی تاریخ شاہد ہے کہ مسلمانوں نے ہزاروں ملکوں اور شہروں کو عنوۃً فتح کیا مگر کسی ایک میں بھی نہ قتلِ عام کیا، نہ باشندوں کو غلام بنایا اور نہ ان کی املاک ضبط کیں ۱۔ عہدِ رسالت میں خیبر عنوۃً فتح ہوا اور آنحضرت ﷺ نے اس کے باشندوں کو (پہلے اخراج کا حکم دیا، پھر ان کی درخواست پر) ذمی بنا لیا۔ مکہ عنوۃً فتح ہوا مگر نہ زمین فوج میں تقسیم کی گئی نہ باشندوں کو غلام بنایا گیا۔ غزوہ حنین میں ہوازن مغلوب ہوئے اور آنحضرت ﷺ کے حکم سے ان کی جان بخشی کی گئی۔

 

حضرت عمرؓ کے زمانے میں جب عراق و شام کے علاقے عنوۃً فتح ہوئے تو پہلی مرتبہ اسلامی فوج میں یہ جذبہ پیدا ہوا کہ حقِ فتح سے فائدہ اٹھا کر زمین تقسیم کر دی جائے، اور باشندے غلام بنا لیے جائیں۔ چنانچہ انہوں نے حضرت عمرؓ سے کہا: "اسے ہمارے درمیان تقسیم کیجیے، ہم نے زمین کو اپنا خون بہا کر فتح کیا ہے، اور اس کے باشندوں کو غلام بنائیے۔" ۱

 

مگر حضرت عمرؓ نے اپنے زبردست دلائل سے ان کے دلوں کا رخ پھیر دیا اور وہ قدیم ذہنیت ہمیشہ کے لیے بدل گئی۔ امام ابو یوسفؒ نے وہ پورا مباحثہ نقل کیا ہے جو اس مسئلے پر صحابہؓ کی کونسل میں ہوا تھا۔ اس کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اصلاح کا عمل کس طرح انجام پذیر ہوا۔ حضرت بلالؓ اور حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کا مطالبہ تھا کہ زمین فوج میں تقسیم کی جائے اور باشندوں کو لونڈی اور غلام بنالیا جائے، لیکن حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ، حضرت طلحہؓ، حضرت عبداللہ بن عمرؓ اور انصار کے تمام اکابر اس کے مخالف تھے اور سب کی رائے یہ تھی کہ ملک کو تقسیم کرنے اور باشندوں کو غلام بنانے کی پالیسی کسی طرح مناسب نہیں ہے۔ خود حضرت عمرؓ اس کے سخت مخالف تھے۔ انہوں نے تقریر کرتے ہوئے فرمایا: "میری رائے یہ ہے کہ زمین کو اس کے غیر مسلم باشندوں کے ہاتھ میں چھوڑ دوں، ان کی زمین پر خراج اور ان کی گردنوں پر جزیہ مقرر کر دوں اور اس طرح یہ زمین مسلمانوں کے سپاہیوں اور بال بچوں اور آئندہ نسلوں کی بسر اوقات کے لیے "فے" کے حکم میں ہو جائے۔ اب کیا آپ لوگوں کی یہ رائے ہے کہ ان علاقوں کو لوگوں کی ذاتی ملک بنا دیا جائے؟ آپ کے نزدیک شام، الجزیرہ، کوفہ، بصرہ، اور مصر جیسے بڑے بڑے صوبوں کو فوج میں تقسیم کر دینا ضروری ہے؟ اگر ایسا کر دیا گیا تو پھر لوگوں کے وظائف اور غرباء کے روزینے کہاں سے آئیں گے؟" ۲

 

اس پر پوری کونسل نے بالاتفاق حضرت عمرؓ کی تجویز منظور کر لی اور تمام اہلِ عراق ذمی بنا لیے گئے۔ شام کی فتح کے بعد بھی یہی جھگڑا اٹھا تھا اور اس وقت حضرت زبیر بن العوامؓ مطالبین کے لیڈر تھے۔ مگر حضرت عمرؓ کے تدبر نے اس کا بھی وہی فیصلہ کیا جو مسئلہ عراق کا کیا تھا۔ اس کے بعد پھر کبھی مسلمانوں میں یہ جذبہ پیدا نہیں ہوا۔ ہندوستان سے لے کر اسپین تک یورپ، ایشیا اور افریقہ کی بے شمار زمینوں کو انہوں نے عنوۃً فتح کیا اور کسی جگہ بھی حقِ فتح کو استعمال نہ کیا۔

 

ایسے مفتوحین کو جب ذمی بنایا جاتا ہے تو ان کو چند حقوق دیے جاتے ہیں جن کی تفصیلات کتبِ فقہیہ میں موجود ہیں۔ ذیل میں ان احکام کا خلاصہ درج کیا جاتا ہے جن سے ذمیوں کی اس جماعت کی آئینی حیثیت معلوم ہوتی ہے:

 

(۱)۔ جب امام ان سے جزیہ قبول کر لے تو ہمیشہ کے لیے عقدِ ذمہ قائم ہو جائے گا اور ان کی جان و مال کی حفاظت کرنا مسلمانوں پر فرض ہو گا، کیونکہ قبولِ جزیہ کے ساتھ ہی عصمتِ نفس و مال ثابت ہو جاتی ہے۔ (بدائع الصنائع: جلد ۷، صفحہ ۱۱۱) اس کے بعد امام کو یا مسلمانوں کو یہ حق باقی نہیں رہتا کہ ان کی املاک پر قبضہ کریں یا انہیں غلام بنائیں۔ حضرت عمرؓ نے حضرت ابو عبیدہؓ کو صاف لکھا ہے کہ فاذا اخذت منهم الجزية فلا شيئ لك عليهم ولا سبيل۔ (کتاب الخراج: صفحہ ۸۲) "جب تم ان سے جزیہ لے لو تو پھر تمہارا ان پر کوئی حق نہیں اور نہ کوئی راہ۔"

 

(۲)۔ عقدِ ذمہ قائم ہو جانے کے بعد اپنی زمینوں کے مالک وہی ہوں گے۔ ان کی ملکیت ان کے ورثاء کو منتقل ہو گی، اور ان کو اپنی املاک میں بیع، ہبہ، رہن وغیرہ کے جملہ حقوق حاصل ہوں گے۔ (فتح القدیر: جلد ۴، صفحہ ۳۵۹) حکومتِ اسلامیہ کو ان پر کسی قسم کے تصرف کا حق نہ ہوگا۔

 

(۳)۔ جزیہ کی مقدار ان کی مالی حالت کے لحاظ سے متعین کی جائے گی۔ جو مالدار ہیں ان سے زیادہ، جو متوسط الحال ہیں ان سے کم اور جو غریب ہیں ان سے بہت کم لیا جائے گا۔ اور جو کوئی ذریعۂ آمدنی نہیں رکھتے یا جن کی زندگی کا انحصار دوسروں کی بخشش پر ہے ان پر جزیہ معاف کر دیا جائے گا۔ اگرچہ جزیہ کے لیے کوئی خاص رقم متعین نہیں لیکن اس کی تعیین میں یہ امر مدِنظر رکھنا ضروری ہے کہ ایسی رقم مقرر کی جائے جس کا ادا کرنا ان کے لیے آسان ہو۔ حضرت عمرؓ نے مالداروں پر ایک روپیہ ماہانہ، متوسط الحال لوگوں پر آٹھ آنہ مہینہ اور غریب محنت پیشہ پر چار آنہ مہینہ جزیہ مقرر کیا تھا۔ (کتاب الخراج: صفحہ ۳۶)

 

(۴)۔ جزیہ صرف ان لوگوں پر لگایا جائے گا جو اہلِ قتال (لڑنے کے قابل مرد) ہیں۔ غیر اہلِ قتال مثلاً بچے، عورتیں، مجانین (پاگل)، اندھے، اپاہج، عبادت گاہوں کے خدام، ازکار رفتہ (بہت بوڑھے)، فقراء اور سنیاسی لوگ، ایسے بیمار جن کی بیماری سال کے ایک بڑے حصے تک ممتد ہو جائے، اور لونڈی غلام وغیرہ جزیہ سے مستثنیٰ ہیں۔ (بدائع: جلد ۷، صفحہ ۱۱۱-۱۱۲؛ فتح القدیر: جلد ۴، صفحہ ۳۷۲-۳۷۳؛ کتاب الخراج)

 

(۵)۔ عنوۃً فتح ہونے والے شہر کی عبادت گاہوں پر مسلمانوں کو قبضہ کرنے کا حق ہے، لیکن اس حق سے استفادہ نہ کرنا اور بطریقِ احسان ان کو علیٰ حالہ قائم رہنے دینا اولیٰ اور افضل ہے۔ حضرت عمرؓ کے زمانے میں جتنے ممالک فتح ہوئے ان میں کوئی معبد نہ توڑا گیا اور نہ اس سے کسی قسم کا تعرض کیا گیا۔ امام ابو یوسفؒ نے لکھا ہے: تركت على حالها ولم تهدم ولم يتعرض لهم۔ "ان کو بحال رکھا گیا، انہیں نہ توڑا گیا اور نہ کسی قسم کا تعرض کیا گیا۔" (کتاب الخراج: صفحہ ۸۲) قدیم معابد کو مسمار کرنا بہرحال ناجائز ہے۔ (بدائع: جلد ۷، صفحہ ۱۱۴)

 

۱۔ بنو قریظہ کا معاملہ اس سے مستثنیٰ ہے اور اس پر مفصل بحث آگے آتی ہے۔

۱۔ طبری، مطبوعہ یورپ، صفحہ ۲۴۶۷؛ فتوح البلدان، صفحہ ۲۷۷۔

۲۔ کتاب الخراج: صفحہ ۱۳-۱۵۔

 

ذمیوں کے عام حقوق

 

اب ہم ذمیوں کے وہ حقوق بیان کریں گے جو تمام اہلِ ذمہ کے لیے عام ہیں خواہ وہ معاہد ہوں یا غیر معاہد، صلحاً فتح ہوئے ہوں یا عنوۃً۔

 

۱۔ جان کا تحفظ: ذمی کے خون کی قیمت مسلمان کے خون کے برابر ہے۔ اگر کوئی مسلمان ذمی کو قتل کرے گا تو اس کا قصاص اسی طرح لیا جائے گا جس طرح مسلمان کے قتل کرنے کی صورت میں لیا جاتا ہے۔

       نبی ﷺ کے زمانے میں ایک مسلمان نے ایک ذمی کو قتل کیا تو آپ ﷺ نے اس کے قتل کا حکم دیا اور فرمایا: أنا أحق من وفى بذمته "اس کے ذمہ (عہد) کو پورا کرنے کا سب سے زیادہ حقدار میں ہوں۔" ۱

       حضرت عمرؓ کے زمانے میں قبیلہ بکر بن وائل کے ایک شخص نے حیرہ کے ایک ذمی کو قتل کر دیا، اس پر آپؓ نے حکم دیا کہ قاتل کو مقتول کے وارثوں کے حوالے کیا جائے۔ چنانچہ وہ مقتول کے وارث کو دے دیا گیا اور اس نے اسے قتل کر دیا۔

       حضرت عثمانؓ کے زمانے میں خود عبید اللہ بن عمرؓ کے قتل کا فتویٰ دے دیا گیا تھا، کیونکہ انہوں نے ہر مزان اور ابو لؤلؤ کی بیٹی کو اس شبہ میں قتل کر دیا تھا کہ شاید وہ حضرت عمرؓ کے قتل کی سازش میں شریک ہوں۔

       حضرت علیؓ کے زمانے میں ایک مسلمان پر ایک ذمی کے قتل کا الزام لگایا گیا۔ ثبوت مکمل ہونے کے بعد آپؓ نے قصاص کا حکم دے دیا۔ مقتول کے بھائی نے آکر عرض کیا کہ میں نے خون معاف کیا۔ مگر آپؓ مطمئن نہ ہوئے اور فرمایا: لعلهم فزعوك أو هددّوك "شاید لوگوں نے تجھے ڈرایا دھمکایا ہے۔" اس نے جواب دیا: نہیں، مجھے خون بہا مل چکا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اس کے قتل سے میرا بھائی واپس نہیں آجائے گا۔ تب آپؓ نے قاتل کو رہا کیا اور فرمایا کہ: من كان له ذمتنا فدمه كدمنا وديته كديتنا "جو کوئی ہمارا ذمی ہو اس کا خون ہمارے خون کی طرح اور اس کی دیت ہماری دیت کی طرح ہے۔" ۲ ایک دوسری روایت کے مطابق حضرت علیؓ نے فرمایا: إنما قبلوا عقد الذمة لتكون أموالهم كأموالنا ودماؤهم كدمائنا۔ "انہوں نے عقدِ ذمہ قبول ہی اس لیے کیا ہے کہ ان کے مال ہمارے مال کی طرح اور ان کے خون ہمارے خون کی طرح ہو جائیں۔" ۳ اسی قول کی بنا پر فقہاء نے یہ جزئیہ نکالا ہے کہ مسلمان کسی ذمی کو بلا ارادہ (خطاً) قتل کر دے تو اس کی دیت بھی وہی ہو گی جو مسلمان کو خطاً قتل کرنے سے لازم آتی ہے۔ (در المختار: جلد ۳، صفحہ ۲۷۳)

 

۲۔ فوجداری قانون میں مساوات: تعزیرات میں ذمی اور مسلمان کا درجہ مساوی ہے۔ جرائم کی جو سزا مسلمان کو دی جائے گی وہی ذمی کو دی جائے گی۔ ذمی کا مال مسلمان چرائے یا مسلمان کا مال ذمی چرائے، دونوں صورتوں میں سارق کا ہاتھ کاٹا جائے گا۔ ذمی کسی مسلمان عورت سے زنا کرے یا مسلمان کسی ذمی عورت سے زنا کرے، دونوں صورتوں میں سزا یکساں ہو گی (کتاب الخراج: صفحہ ۱۰۸-۱۰۹)۔

 

۳۔ دیوانی قانون میں مساوات: دیوانی قانون میں بھی ذمی اور مسلمان کے درمیان کامل مساوات ہے۔ حضرت علیؓ کا ارشاد "أموالهم كأموالنا" کے معنی ہی یہ ہیں کہ ان کے مال کی ویسی ہی حفاظت ہونی چاہیے جیسی مسلمانوں کے مال کی ہوتی ہے۔ اس باب میں ذمیوں کے حقوق کا اتنا لحاظ رکھا گیا ہے کہ اگر کوئی مسلمان ان کی شراب یا ان کے خنزیر کو بھی تلف کر دے تو اس پر ضمان لازم آئے گا۔ در المختار میں ہے: ويضمن المسلم قيمة خمره وخنزيره إذا أتلفه "مسلمان اس کی شراب اور اس کے سور کی قیمت ادا کرے گا اگر وہ اسے تلف کر دے۔" (جلد ۳، صفحہ ۲۷۳)

 

۴۔ اذیت سے تحفظ: ذمی کو زبان یا ہاتھ پاؤں سے تکلیف پہنچانا، اس کو گالی دینا، مارنا پیٹنا، اس کی غیبت کرنا، اسی طرح ناجائز ہے جس طرح مسلمان کے حق میں ناجائز ہے۔ در المختار میں ہے: ويجب كف الأذى عنه وتحرم غيبته كالمسلم۔ (جلد ۳، صفحہ ۲۷۳-۲۷۴) "اس سے اذیت روکنا واجب ہے اور اس کی غیبت حرام ہے جیسے مسلمان کی۔"

 

۵۔ عقدِ ذمہ کا لزوم: عقدِ ذمہ مسلمانوں کی جانب سے ابدی لزوم رکھتا ہے، یعنی وہ اسے باندھنے کے بعد پھر توڑ دینے کے مختار نہیں ہیں۔ لیکن دوسری جانب ذمیوں کو اختیار ہے کہ جب تک چاہیں اس پر قائم رہیں اور جب چاہیں توڑ دیں۔ بدائع میں ہے: وأما صفة العقد فهو لازم في حقنا حتى لا يملك المسلمون نقضه بحال من الأحوال، وأما في حقهم فغير لازم۔ (جلد ۷، صفحہ ۱۱۲) "عقد کی صفت یہ ہے کہ وہ ہماری طرف سے لازم ہے یہاں تک کہ مسلمان کسی حال میں اسے توڑنے کے مالک نہیں، البتہ ان (ذمیوں) کی طرف سے یہ لازم نہیں۔"

 

۶۔ عقدِ ذمہ کا عدمِ فسخ: ذمی خواہ کیسے ہی بڑے جرم کا ارتکاب کرے اس کا ذمہ نہیں ٹوٹتا، حتیٰ کہ جزیہ بند کر دینا، مسلمان کو قتل کرنا، نبی ﷺ کی شان میں گستاخی کرنا، یا کسی مسلمان عورت کی آبروریزی کرنا بھی اس کے حق میں ناقضِ ذمہ نہیں ہے۔ البتہ صرف دو صورتیں ایسی ہیں جن میں عقدِ ذمہ باقی نہیں رہتا: ایک یہ کہ وہ دار الاسلام سے نکل کر دشمنوں سے جا ملے، دوسرے یہ کہ حکومتِ اسلامیہ کے خلاف علانیہ بغاوت اور فتنہ و فساد برپا کرے۔ (بدائع: جلد ۷، صفحہ ۱۱۳؛ فتح القدیر: جلد ۴، صفحہ ۳۸۱-۳۸۲)

 

۷۔ پرسنل لاء کا نفاذ: ذمیوں کے شخصی معاملات (نکاح، طلاق، وراثت وغیرہ) ان کی اپنی شریعت (مذہبی قانون) کے مطابق طے کیے جائیں گے، اسلامی قانون ان پر نافذ نہیں کیا جائے گا۔ جن افعال کی حرمت ان کے مذہب میں بھی ثابت ہے ان سے تو وہ ہر حال میں منع کیے جائیں گے۔ البتہ جو افعال ان کے ہاں جائز اور اسلام میں ممنوع ہیں (مثلاً شراب پینا، خنزیر کھانا)، انہیں وہ اپنی بستیوں میں آزادی کے ساتھ کر سکیں گے، اور خالص اسلامی آبادیوں ۴ میں حکومتِ اسلامیہ کو اختیار ہو گا کہ انہیں آزادی دے یا نہ دے۔

    ولا يمنعون من إظهار شيء مما ذكرنا من بيع الخمر والخنزير والصليب وضرب الناقوس في قرية أو موضع ليس من أمصار المسلمين ولو كان فيه عدد كثير لأهل الإسلام، وإنما يكره ذلك في أمصار المسلمين وهي التي يقام فيها الجمع والأعياد والحدود۔ وأما إظهار فسق يعتقدون حرمته كالزنا وسائر الفواحش التي هي حرام في دينهم، فإنهم يمنعون من ذلك سواء كانوا في أمصار المسلمين أو في أمصارهم۔ (بدائع: جلد ۷، صفحہ ۱۱۳)

    "جو بستیاں اور مقامات امصارِ مسلمین میں سے نہیں ہیں ان میں ذمیوں کو شراب و خنزیر بیچنے اور صلیب نکالنے اور ناقوس بجانے سے نہیں روکا جائے گا خواہ وہاں مسلمانوں کی کتنی ہی کثیر تعداد آباد ہو۔ البتہ یہ افعال امصارِ مسلمین میں مکروہ ہیں جہاں جمعہ و عیدیں اور حدود قائم کی جاتی ہیں۔ رہا وہ فسق جس کی حرمت کے وہ بھی قائل ہیں، مثلاً زنا اور دوسرے تمام فواحش جو ان کے دین میں بھی حرام ہیں، تو اس کے اظہار سے ان کو ہر حال میں روکا جائے گا خواہ امصارِ مسلمین میں ہوں یا خود ان کے اپنے امصار میں۔"

    لیکن امصارِ مسلمین میں بھی ان کو صرف صلیبوں اور مورتیوں کے جلوس نکالنے اور علانیہ ناقوس بجاتے ہوئے بازاروں میں نکلنے کی ممانعت کی گئی ہے ۵۔ اپنے قدیم معابد کے اندر وہ تمام شعائر کا اظہار کر سکتے ہیں، حکومتِ اسلامیہ اس میں دخل دینے کی مجاز نہیں ہے۔

 

۸۔ قدیم معابد کا تحفظ: امصارِ مسلمین میں ذمیوں کے جو معابد پہلے سے موجود ہوں ان سے تعرض نہیں کیا جا سکتا۔ اگر وہ ٹوٹ جائیں تو انہیں اسی جگہ دوبارہ بنا لینے کا حق ہے۔ لیکن نئے معبد بنانے کا حق نہیں ہے۔ (بدائع: جلد ۷، صفحہ ۱۱۴)

 

۹۔ نئے معابد کی تعمیر: جو مقامات امصارِ مسلمین نہیں ہیں ان میں ذمیوں کو نئے معابد بنانے کی بھی عام اجازت ہے۔ اسی طرح جو مقامات "مصر" (شہر) نہ رہے ہوں، یعنی امام نے ان کو ترک کر کے اقامتِ جمعہ و اعیاد اور اقامتِ حدود کا سلسلہ بند کر دیا ہو، ان میں بھی نئے معابد کی تعمیر اور اظہارِ شعائرِ کفر جائز ہے۔ (بدائع: جلد ۷، صفحہ ۱۱۴)۔ ابن عباسؓ کا فتویٰ یہ ہے کہ:

    أما مصر مصرته العرب فليس لهم أن يحدثوا فيه بناء بيعة ولا كنيسة ولا يضربوا فيه بناقوس ولا يظهروا فيه خمراً ولا يتخذوا فيه خنزيراً، وكل مصر كانت العجم مصرته ففتحه الله على العرب فنزلوا على حكمهم فللعجم ما في عهدهم وعلى العرب أن يوفوا لهم بذلك۔ (کتاب الخراج: صفحہ ۸۸)

    "جن شہروں کو مسلمانوں نے آباد کیا ہے ان میں ذمیوں کو یہ حق نہیں ہے کہ نئے معابد اور کنائس تعمیر کریں، یا ناقوس بجائیں، شرابیں پئیں اور سور پالیں۔ باقی رہے وہ شہر جو عجمیوں کے آباد کیے ہوئے ہیں اور جن کو اللہ نے عربوں (یعنی مسلمانوں) کے ہاتھ پر فتح کیا اور انہوں نے مسلمانوں کے حکم پر اطاعت قبول کر لی تو عجم کے لیے وہی حقوق ہیں جو ان کے معاہدے میں طے ہو جائیں اور عرب پر ان کا ادا کرنا لازم ہے۔"

 

۱۰۔ جزیہ و خراج کی وصولی میں نرمی: جزیہ و خراج کی تحصیل میں ذمیوں پر تشدد کرنا ممنوع ہے۔ حضرت عمرؓ کی وصیت ہے کہ لا يكلفوا فوق طاقتهم "جتنا مال دینا ان کی طاقت سے باہر ہو اس کے ادا کرنے کی تکلیف نہ دو۔" (کتاب الخراج: صفحہ ۸۰-۸۲)

    جزیہ کے عوض ان کی املاک کا نیلام نہیں کیا جا سکتا۔ حضرت علیؓ کا حکم ہے: لا تبيعن لهم في خراجهم حماراً ولا بقرة ولا كسوة شتاء ولا صيف۔ "خراج میں ان کا گدھا یا ان کی گائے یا ان کے کپڑے (سردی یا گرمی کے) نہ بیچنا۔" (فتح البیان: جلد ۴، صفحہ ۹۳)

    ایک اور موقع پر اپنے عامل کو بھیجتے وقت حضرت علیؓ نے فرمایا:

    "ان کے جاڑے گرمی کے کپڑے اور ان کے کھانے کا سامان اور ان کے جانور جن سے وہ کھیتی باڑی کرتے ہیں، خراج وصول کرنے کی خاطر نہ بیچنا، نہ کسی کو درہم وصول کرنے کے لیے کوڑے مارنا، نہ کسی کو دھوپ میں کھڑا رکھنے کی سزا دینا اور نہ خراج کے عوض کسی چیز کا نیلام کرنا، کیونکہ ہم جو ان کے حاکم بنائے گئے ہیں تو ہمارا کام نرمی سے وصول کرنا ہے۔ اگر تم نے میرے حکم کے خلاف عمل کیا تو اللہ میرے بجائے تم کو پکڑے گا اور اگر مجھے تمہاری خلاف ورزی کی خبر پہنچی تو میں تمہیں معزول کر دوں گا۔" (کتاب الخراج، صفحہ ۹)

    حضرت عمرؓ نے شام کے گورنر ابو عبیدہؓ کو جو فرمان لکھا تھا اس میں منجملہ اور احکام کے ایک یہ بھی تھا کہ:

    وامنع المسلمين من ظلمهم والإضرار بهم وأكل أموالهم إلا بحلها۔ (کتاب الخراج: صفحہ ۸۲)

    "مسلمانوں کو ان پر ظلم کرنے اور انہیں ضرر پہنچانے اور ناجائز طریقے سے ان کے مال کھانے سے منع کرنا۔"

    شام کے سفر میں حضرت عمرؓ نے دیکھا کہ ان کے عامل جزیہ وصول کرنے کے لیے ذمیوں کو سزائیں دے رہے ہیں، اس پر آپؓ نے فرمایا کہ ان کو تکلیف نہ دو، اگر تم انہیں عذاب دو گے تو قیامت کے دن اللہ تمہیں عذاب دے گا۔ لا تعذبوا الناس، فإن الذين يعذبون الناس في الدنيا يعذبهم الله يوم القيامة۔ (کتاب الخراج: صفحہ ۷۱)

    ہشام بن حکیمؓ نے حمص کے ایک سرکاری افسر کو دیکھا کہ وہ ایک قبطی کو جزیہ وصول کرنے کے لیے دھوپ میں کھڑا کر رہا ہے، اس پر انہوں نے اسے ملامت کی اور کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا ہے کہ إن الله يعذب الذين يعذبون الناس في الدنيا "اللہ عزوجل ان لوگوں کو عذاب دے گا جو دنیا میں لوگوں کو عذاب دیتے ہیں۔" ۶

    فقہائے اسلام نے نادہندوں کے حق میں صرف اتنی اجازت دی ہے کہ انہیں تادیباً قیدِ بے مشقت کی سزا دی جاسکتی ہے۔ امام ابو یوسفؒ نے لکھا ہے: ولكن يوقفون ويحبسون حتى يؤدوا ما عليهم۔ (کتاب الخراج: صفحہ ۷۰) "لیکن انہیں روکا جائے گا اور قید کیا جائے گا یہاں تک کہ جو ان پر واجب ہے ادا کر دیں۔"

 

۱۱۔ محتاج ذمیوں کی کفالت: جو ذمی محتاج اور فقیر ہو جائیں انہیں صرف جزیہ ہی معاف نہیں کیا جائے گا بلکہ ان کے لیے اسلامی خزانے (بیت المال) سے وظائف بھی مقرر کیے جائیں گے۔ حضرت خالدؓ نے اہلِ حیرہ کو جو امان نامہ لکھ کر دیا تھا اس میں لکھتے ہیں:

    وجعلت لهم: أيما شيخ ضعف عن العمل، أو أصابته آفة من الآفات، أو كان غنياً فافتقر وصار أهل دينه يتصدقون عليه، طرحت جزيته وعيل من بيت مال المسلمين هو وعياله۔ (کتاب الخراج: صفحہ ۸۵)

    "میں نے ان کے لیے یہ حق بھی رکھا ہے کہ جو کوئی شخص بڑھاپے کے سبب ازکار رفتہ ہو جائے یا اس پر کوئی آفت نازل ہو جائے، یا وہ پہلے مالدار تھا پھر فقیر ہو گیا یہاں تک کہ اس کے ہم مذہب لوگ اس کو صدقہ و خیرات دینے لگے، تو اس کا جزیہ معاف کر دیا جائے گا اور اسے اور اس کے بال بچوں کو مسلمانوں کے بیت المال میں سے خرچ دیا جائے گا۔"

    ایک دفعہ حضرت عمرؓ نے ایک ضعیف العمر ذمی آدمی کو بھیک مانگتے دیکھا اور اس سے اس ذلیل حرکت کا سبب دریافت کیا، اس نے کہا کہ جزیہ ادا کرنے کے لیے بھیک مانگتا ہوں۔ اس پر آپؓ نے اس کا جزیہ معاف کر دیا۔ اس کے لیے وظیفہ مقرر کیا اور خزانچی کو لکھا:

    "خدا کی قسم یہ ہرگز انصاف نہیں ہے کہ ہم اس کی جوانی میں اس سے فائدہ اٹھائیں اور بڑھاپے میں اس کو رسوا کریں۔" (کتاب الخراج: صفحہ ۷۲)

    دمشق کے سفر میں بھی حضرت عمرؓ نے معذور ذمیوں کے لیے امدادی وظائف مقرر کرنے کے احکام جاری کیے تھے۔ (فتوح البلدان: طبع یورپ، صفحہ ۱۲۹)

 

۱۲۔ موت کی صورت میں جزیہ کی معافی: اگر کوئی ذمی مر جائے اور اس کے حساب میں جزیہ کا بقایا واجب الادا ہو تو وہ اس کے ترکہ سے وصول نہیں کیا جائے گا اور نہ اس کے ورثاء پر اس کا بوجھ ڈالا جائے گا۔ امام ابو یوسفؒ لکھتے ہیں: إن وجبت عليه الجزية فمات قبل أن تؤخذ منه أو أخذ بعضها وبقي البعض، لم يؤخذ بذلك ورثته ولم تؤخذ من تركته۔ (کتاب الخراج: صفحہ ۷۰)

 

۱۳۔ تجارت پر ٹیکس: مسلمان تاجروں کی طرح ذمی تاجروں کے اموالِ تجارت پر بھی ٹیکس (عشر) لیا جائے گا، جب کہ ان کا راس المال ۲۰۰ درہم تک پہنچ جائے یا وہ ۲۰ مثقال سونے کے مالک ہو جائیں (کتاب الخراج: صفحہ ۷۰)۔ اس میں شک نہیں کہ قدیم زمانے میں فقہاء نے ذمی تاجر پر تجارتی محصول ۵ فیصدی تجویز کیا تھا اور مسلمان تاجر پر ڈھائی فیصدی، لیکن یہ فعل قرآن و حدیث کی کسی نص پر مبنی نہ تھا بلکہ اجتہاد پر مبنی تھا اور وقتی مصالح اسی کے مقتضی تھے۔ اس زمانے میں مسلمان زیادہ تر جہاد اور اسلامی سرحدوں کی حفاظت میں مشغول رہتے تھے اور تمام تجارت ذمیوں کے ہاتھوں میں آگئی تھی، اس لیے مسلمان تاجروں کی ہمت افزائی اور ان کی تجارت کے تحفظ کے لیے ان پر ٹیکس کم کر دیا گیا تھا۔

 

۱۴۔ فوجی خدمت سے استثناء: ذمی فوجی خدمت سے مستثنیٰ ہیں اور دشمن سے ملک کی حفاظت کو تنہا مسلمانوں کے فرائض میں داخل کیا گیا ہے۔ چونکہ ان سے جزیہ اسی حفاظت کے معاوضے میں وصول کیا جاتا ہے، اس لیے اسلام نہ تو ان کو فوجی خدمت کی تکلیف دینا جائز سمجھتا ہے اور نہ ان کی حفاظت سے عاجز ہونے کی صورت میں جزیہ وصول کرنا۔ اگر مسلمان ان کی حفاظت نہ کر سکیں تو انہیں ذمیوں سے وصول کردہ اموالِ جزیہ سے فائدہ اٹھانے کا کوئی حق باقی نہیں رہتا۔ جنگِ یرموک کے موقع پر رومیوں نے مسلمانوں کے مقابلے پر ایک زبردست فوج جمع کی اور مسلمانوں کو شام کے تمام مفتوح علاقے چھوڑ کر ایک مرکز پر جمع ہونے کی ضرورت لاحق ہوئی تو حضرت ابو عبیدہؓ نے اپنے امراء کو لکھا کہ جو کچھ جزیہ و خراج تم نے ذمیوں سے وصول کیا ہے انہیں واپس کر دو اور ان سے کہو کہ "اب ہم تمہاری حفاظت سے عاجز ہیں، اس لیے ہم نے جو مال تمہاری حفاظت کے معاوضے میں وصول کیا تھا اسے واپس کر رہے ہیں۔" (کتاب الخراج: صفحہ ۸۱) اس حکم کے مطابق تمام اجناد (فوجی چھاؤنیوں) کے امراء نے جمع شدہ رقم واپس کر دی ۷۔

 

اسلامی قانون سے یہ چند احکام صرف یہ دکھانے کے لیے نقل کیے گئے ہیں کہ اسلام نے اپنی مفتوح قوموں کے ساتھ جس انصاف اور عدل و مساوات کا سلوک روا رکھا ہے اس کی نظیر گزشتہ قوموں میں اور اکثر حیثیات سے موجودہ زمانے کی مہذب قوموں میں بھی نہیں ملتی۔ یہ قانون محض ایک کاغذی قانون نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ عملی نفاذ کی ایک شاندار تاریخ بھی موجود ہے۔ چنانچہ ہم نے اس قانون کی ہر ہر دفعہ کے ساتھ حدیث و تاریخ کی مستند کتابوں سے متعدد نظائر بھی پیش کر دیے ہیں تاکہ ناظرین کو معلوم ہو جائے کہ نبی ﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہ کرامؓ نے کس طرح قانون کو عملی جامہ پہنایا۔ عہدِ رسالت ﷺ اور عہدِ صحابہؓ کے بعد بھی فقہائے اسلام ہمیشہ اس قانون کو ٹھیک ٹھیک نافذ کرانے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ اور جب کبھی سرکش امراء نے اس کے خلاف عمل کیا ہے تو علماء و فقہاء نے انہیں اس سے باز رکھنے یا کم از کم ان سے اس کی تلافی کرانے کی کوشش کی ہے۔ تاریخ کا مشہور واقعہ ہے کہ ولید بن عبدالملک اموی نے دمشق کے کنیسۂ یوحنا کو زبردستی عیسائیوں سے چھین کر مسجد میں شامل کر لیا۔ جب حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ تختِ خلافت پر متمکن ہوئے اور عیسائیوں نے ان سے اس ظلم کی شکایت کی تو انہوں نے اپنے عامل کو حکم دیا کہ مسجد کا جتنا حصہ گرجے کی زمین پر تعمیر کیا گیا ہے اسے منہدم کر کے عیسائیوں کے حوالے کر دو۔ (فتوح البلدان: صفحہ ۱۲۷)

 

ولید بن یزید نے رومی حملے کے خوف سے قبرص کے ذمی باشندوں کو جلا وطن کر کے شام میں آباد کیا تو اس پر فقہائے اسلام اور عام مسلمان سخت ناراض ہوئے اور اسے گناہِ عظیم سمجھا۔ پھر جب یزید بن ولید نے ان کو دوبارہ قبرص میں لے جا کر آباد کر دیا تو اس کی عام طور پر تحسین کی گئی اور کہا گیا کہ یہی انصاف کا تقاضا ہے۔ اسماعیل بن عیاش کا بیان ہے کہ فاستفظع ذلك المسلمون واستعظمه الفقهاء، فلما ولي يزيد بن الوليد بن عبد الملك ردهم إلى قبرص فاستحسن المسلمون ذلك من فعله ورأوه عدلاً۔ ۸

 

بلاذری کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ جبلِ لبنان کے باشندوں میں سے ایک گروہ نے بغاوت کر دی۔ اس پر صالح بن علی بن عبداللہ نے ان کی سرکوبی کے لیے ایک فوج بھیجی جس نے ان کے ہتھیار اٹھانے والے مردوں کو قتل کر دیا اور باقی لوگوں میں سے ایک جماعت کو جلا وطن کیا اور ایک جماعت کو وہیں آباد رہنے دیا۔ امام اوزاعیؒ اس زمانے میں زندہ تھے۔ انہوں نے صالح کو اس ظلم پر سخت تنبیہ کی اور ایک طویل خط لکھا جس کے چند فقرے یہ ہیں:

"جبلِ لبنان کے اہلِ ذمہ کی جلا وطنی کا حال تم کو معلوم ہے۔ ان میں بعض ایسے لوگ بھی تھے جنہوں نے بغاوت کرنے والوں کے ساتھ کوئی حصہ نہیں لیا تھا۔ مگر باوجود اس کے تم نے کچھ کو قتل کیا اور کچھ لوگوں کو ان کی بستیوں سے نکال دیا۔ میں نہیں سمجھ سکتا کہ عام لوگوں کو بعض خاص لوگوں کے جرم کی سزا کیوں کر دی جا سکتی ہے اور کس بنا پر انہیں ان کے گھروں سے، ان کی جائیدادوں سے بے دخل کیا جا سکتا ہے، حالانکہ اللہ کا یہ حکم ہے کہ {لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ}، اور یہ ایک واجب التعمیل حکم ہے۔ تمہارے لیے بہترین نصیحت یہ ہے کہ تم رسول اللہ ﷺ کے اس ارشاد کو یاد رکھو کہ 'جو کوئی کسی معاہد پر ظلم کرے گا یا اس کی طاقت سے زیادہ اس پر بوجھ ڈالے گا اس کے خلاف میں خود مدعی بنوں گا۔'" (فتوح البلدان: صفحہ ۱۶۹)

 

یہ اور ایسی ہی بے شمار مثالیں تاریخ میں ملتی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ائمہ اسلام نے ہمیشہ اہلِ الذمہ کے حقوق کی حمایت کی ہے اور اگر کبھی کسی امیر یا بادشاہ نے ان پر جبر و ظلم کیا بھی ہے تو وہ اسلامی قانون کے صریح خلاف تھا جس سے اسلام بری الذمہ ہے۔

 

۱۔ عنایہ شرح ہدایہ، جلد ۸ صفحہ ۲۵۶؛ دارقطنی نے یہی حدیث ابن عمرؓ کے حوالے سے نقل کی ہے اور اس میں أنا أكرم من وفى بذمته کہا ہے۔

۲۔ برہان شرح مواہب الرحمن: جلد ۲، صفحہ ۲۸۷۔

۳۔ برہان: جلد ۲، صفحہ ۲۸۷۔ میرے پیشِ نظر برہان کا وہ قلمی نسخہ ہے جو مدرسہ امینیہ (دہلی) کے کتب خانے میں موجود ہے۔

۴۔ خالص اسلامی آبادیوں سے مراد وہ مقامات ہیں جو اصطلاحِ شرع میں "امصارِ مسلمین" کہلاتے ہیں۔ اس لفظ کا اطلاق صرف انہی مقامات پر ہوتا ہے جن کی زمین مسلمانوں کی ملک ہو اور جن کو مسلمانوں نے اظہارِ شعائرِ اسلام کے لیے مخصوص کر لیا ہو۔

۵۔ امصارِ مسلمین میں یہ قیود عائد کرنے کا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان تصادم کے مواقع نہ پیدا ہوں، افسوس ہے کہ بعد کے لوگوں نے اس کا منشا کچھ اور سمجھا۔

۶۔ ابو داؤد، کتاب الخراج والفئے والامارۃ۔

۷۔ بلاذری نے لکھا ہے کہ جب مسلمانوں نے حمص میں جزیہ کی رقم واپس کی تو وہاں کے باشندوں نے کہا کہ "تمہاری حکومت کی انصاف پسندی ہم کو اس ظلم و ستم کے مقابلے میں زیادہ محبوب ہے جس میں ہم مبتلا تھے، اب ہم ہرقل کے عامل کو اپنے شہر میں ہرگز نہ گھسنے دیں گے تاوقتیکہ لڑ کر مغلوب نہ ہو جائیں۔" (فتوح البلدان: طبع یورپ، صفحہ ۱۳۷)

۸۔ اس مسئلے کے صرف ایک پہلو سے یہاں بحث کی گئی ہے، اس کے دوسرے پہلوؤں پر میں نے اپنے دوسرے مضامین میں روشنی ڈالی ہے۔

 

۱۰۔ ذمیوں کے لباس کا مسئلہ

 

ایک چیز البتہ اسلام میں ایسی ملتی ہے جس پر مخالفین کو بہت اعتراض کی گنجائش مل گئی ہے اور وہ ذمیوں کے لباس کا مسئلہ ہے۔ مگر افسوس ہے کہ ابتداءً اس کی جو حیثیت تھی اسے بعد میں غلط صورت دے دی گئی اور اسی سے لوگوں کو یہ خیال کرنے کا موقع مل گیا کہ اسلام نے ذمیوں کی تحقیر و تذلیل کے لیے ایک مخصوص لباس اور ایک مخصوص وضعِ معاشرت مقرر کر دی ہے۔

 

اس میں شک نہیں کہ حضرت ابو بکرؓ اور حضرت عمرؓ کے زمانے کے بعض معاہدات میں اس قسم کی شرط موجود ہے کہ اہلِ الذمہ ایک خاص قسم کا لباس نہ پہنیں اور مسلمانوں سے مشابہت نہ اختیار کریں۔ مثلاً حیرہ کے معاہدے میں ہم کو یہ الفاظ ملتے ہیں:

ولهم كل ما لبسوا من الزي إلا زي الحرب من غير أن يتشبهوا بالمسلمين۔ (کتاب الخراج: صفحہ ۸۵)

"ان کو حق ہو گا کہ جیسا لباس چاہیں پہنیں، مگر فوجی لباس نہ پہنیں اور مسلمانوں سے تشبہ (مشابہت) نہ اختیار کریں۔"

 

اسی طرح دمشق کے معاہدے میں، جس کی شرائط خود عیسائیوں کی طرف سے پیش کی گئی تھیں، یہ الفاظ موجود ہیں:

ولا نتشبه بهم في شيء من ملابسهم في قلنسوة ولا عمامة ولا نعلين ولا فرق شعر۔ (ابن کثیر، جلد ۷، صفحہ ۵۶)

"ہم مسلمانوں سے ان کے لباس میں کسی قسم کی مشابہت نہ اختیار کریں گے، نہ ٹوپی میں، نہ عمامہ میں، نہ جوتیوں میں اور نہ مانگ نکالنے میں۔"

 

ہماری کتبِ فقہیہ میں بھی اس قسم کے احکام پائے جاتے ہیں، مثلاً بدائع میں ہے:

إن أهل الذمة يؤخذون بإظهار علامات يعرفون بها ولا يتركون يتشبهون بالمسلمين في لباسهم۔ (بدائع الصنائع: جلد ۷، صفحہ ۱۱۳)

"اہلِ ذمہ کو ایسی علامات اور نشانیاں رکھنی پڑیں گی جن سے وہ پہچانے جا سکیں اور انہیں مسلمانوں سے مشابہت نہ اختیار کرنے دی جائے گی۔"

 

امام ابو یوسفؒ نے بھی اپنی کتاب الخراج میں اس قسم کے احکام بیان کیے ہیں کہ ذمیوں کو مسلمانوں کے ساتھ وضع قطع میں مشابہت اختیار نہ کرنی چاہیے۔

 

یہ سب احکام بلاشبہ ہمارے ائمہ سے منقول ہیں، لیکن ان کا مقصد دراصل تحقیر نہیں بلکہ مختلف ملتوں کے لوگوں کو باہم خلط ملط ہونے سے روکنا ہے۔ چنانچہ جس طرح ذمیوں کو مسلمانوں کے ساتھ تشبہ اختیار کرنے سے روکا گیا ہے اسی طرح مسلمانوں کو بھی ذمیوں کے مشابہ بن کر رہنے سے منع کر دیا گیا ہے ۱۔ لباس کے تشابہ میں جو مفاسد پوشیدہ ہیں ان سے اسلام غافل نہیں ہے ۲۔ خصوصیت کے ساتھ محکوم قوموں میں اکثر یہ عیب پیدا ہو جایا کرتا ہے کہ وہ اپنے قومی لباس اور اپنی قومی معاشرت کو ذلیل سمجھنے لگتے ہیں اور حاکم قوم کا لباس اور طرزِ معاشرت اختیار کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ یہ غلامانہ ذہنیت آج بھی دنیا کی محکوم قوموں میں موجود ہے۔ خود ہندوستان میں ہم دیکھتے ہیں کہ بے شمار ہندی نژاد حضرات انگریزی لباس بڑے شوق کے ساتھ پہنتے ہیں اور اسے پہن کر یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ گویا ترقی کے کسی بہت ہی اعلیٰ مرتبے پر پہنچ گئے ہیں۔ حالانکہ کسی انگریز نے کبھی ہندوستانی لباس نہیں پہنا، اور اگر خالص انگریزی سوسائٹیوں میں کبھی پہنا بھی ہے تو تفاخر کے لیے نہیں بلکہ تفنن اور مسخرہ پن کے لیے ۳۔ نفسیاتِ محکومیت کے اس نکتے کو ائمہ اسلام خوب سمجھتے تھے۔ اس لیے انہوں نے اہلِ الذمہ کو تشبہ بالمسلمین سے منع کر کے ان کی تذلیل و تحقیر نہیں کی بلکہ ان کی قومی عزت و شرافت کو برقرار رکھا۔ ممکن ہے کہ اس قسم کے قوانین بعض لوگوں کی نگاہ میں موجبِ حقارت ہوں۔ مگر ہمارے نزدیک اس میں کوئی تحقیر نہیں ہے، بلکہ ہم بہت خوش ہوتے اگر ہمارے انگریز حکمراں بھی ہم کو یورپین لباس اور طرزِ معاشرت اختیار کرنے سے حکماً منع کر دیتے۔

 

بڑی غلط فہمی ان احکام سے پیدا ہوئی ہے جن میں کہا گیا ہے کہ ذمی زنار باندھیں، دوہرے تسمے کی جوتی پہنیں، اونچی باڑھ کی ٹوپی پہنیں اور ان کی زین کے آگے گول لکڑی ہو۔ لوگوں نے سمجھ لیا کہ یہ احکام ذمیوں کے حق میں دائمی ہیں۔ اور ان کے لیے یہ وضع اسلام نے مخصوص کر دی ہے۔ حالانکہ دراصل یہ احکام اصولی نہیں بلکہ فروعی ہیں۔ اصل حکم تو یہ ہے کہ "ذمی اپنے قومی لباس پہنیں اور مسلمانوں کے ساتھ مشابہت اختیار نہ کریں۔" اب اس اصل سے فقہائے عصر نے فروع نکال لیے اور اسی لباس و وضع کو جو ان کے زمانے میں عموماً عجم کے مجوسیوں اور شام کے عیسائیوں میں رائج تھی، ان کے لیے لازم کر دیا۔ اس سے یہ ہرگز مقصود نہیں ہے کہ ہر زمانے اور ہر ملک کے ذمی زنار باندھیں، لمبی ٹوپی اوڑھیں اور دوہرے تسمے کی جوتی پہنیں۔ یہ احکام تو صرف اسی عہد کے لیے تھے۔ آج کل کے فقہاء اصل حکم یعنی منعِ تشبہ بالمسلمین سے ایسے ہی دوسرے جزئی احکام مستنبط کر سکتے ہیں۔

 

۱۔ بدقسمتی سے فقہائے متأخرین نے بھی اس کی غرض تحقیر ہی سمجھی ہے اور اس لیے اپنی کتابوں میں لکھ دیا ہے کہ هذا لإظهار آثار الذلة عليهم، لیکن ائمہ سلف سے اس قسم کا کوئی قول منقول نہیں ہے۔ خود حضرت عمرؓ جو ان احکام کے واضع ہیں اس باب میں بالکل خاموش ہیں۔ انہوں نے کبھی یہ نہیں فرمایا کہ تشبہ سے منع کرنے کا مقصد ذمیوں کو ذلیل کرنا ہے۔

۲۔ تشبہ کے مسئلے پر میں نے ایک مستقل رسالہ لکھا ہے جس کا نام "لباس کا مسئلہ" ہے۔

۳۔ یہ الفاظ اس زمانے میں لکھے گئے تھے جب ہندوستان ایک ملک تھا اور اس پر انگریز حکمراں تھے۔ مگر عجیب بات ہے کہ جب انگریز اس ملک سے چلے گئے اور یہاں ہندوستان و پاکستان دو الگ آزاد و خود مختار ملک بن گئے تب بھی حالت وہی رہی جو اوپر بیان ہوئی ہے۔ تقسیم کے بعد ہندوستان کے حالات دیکھنے کا تو ہمیں اتفاق نہیں ہوا، مگر پاکستان میں ہم نے آزادی سے پہلے اور بعد کی حالت میں کوئی فرق محسوس نہ کیا۔ غلامی کے طویل زمانے میں جو اثرات دلوں اور دماغوں میں رچ بس گئے تھے ان کی بدولت اہلِ پاکستان آزاد ہونے کے بعد بھی یہ محسوس نہ کر سکے کہ انگریزی لباس و معاشرت میں اب کوئی چیز فخر کے قابل اور اپنے لباس میں کوئی چیز شرم کے لائق نہیں ہے۔ اور لطف یہ ہے کہ جو انگریز پاکستان میں نوکر کی حیثیت سے رہ گئے ہیں انہوں نے مسندِ حکمرانی سے اترنے کے بعد بھی کبھی یہ محسوس نہ کیا کہ اب یہاں انہیں عزت حاصل کرنے کے لیے پاکستانی لباس پہننا چاہیے۔

 

چند مستثنیات

 

جنگ اور متعلقاتِ جنگ کے متعلق اسلام نے جو قواعد و ضوابط اور حدود و قیود مقرر کیے ہیں انہیں صفحاتِ بالا میں تفصیل کے ساتھ بیان کر دیا گیا ہے۔ مگر رسول اکرم ﷺ اور خلفائے راشدینؓ کے زمانے میں بعض واقعات ایسے بھی پیش آئے ہیں جو بظاہر ان قوانین سے مختلف معلوم ہوتے ہیں اور ان سے ایک ناواقف اس شبہے میں پڑ سکتا ہے کہ شاید اسلام کے اصل احکام وہ نہیں ہیں جو بیان کیے گئے ہیں، یا اس کے احکام میں اختلاف اور تضاد ہے، یا رسول اللہ ﷺ اور صحابہؓ کا عمل اسلامی قوانین کے خلاف تھا۔ اس لیے اس باب کو ختم کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ ان مستثنیٰ واقعات کی تشریح بھی کر دی جائے۔

 

۱۔ بنو نضیر کا اخراج:

 

اس سلسلے میں پہلا واقعہ بنو نضیر کے اخراج کا ہے۔ یہ یہودیوں کا ایک قبیلہ تھا جو صدیوں سے یثرب (مدینہ) میں آباد تھا۔ ہجرت کے بعد آنحضرت ﷺ کا ان سے معاہدہ ہوا اور جنگِ بدر کے بعد آپ ﷺ نے ان کو مدینہ سے نکال دیا۔ مخالفین اس واقعے کو یہ معنی پہناتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے بنو نضیر کے ساتھ نعوذ باللہ مکر کیا، یعنی جب کمزور تھے تو ان سے معاہدہ کر لیا اور جب طاقتور ہو گئے تو عہد توڑ کر انہیں جلا وطن کر دیا۔ لیکن یہ واقعے کی محض ایک سادہ صورت فرض کر لینے کا نتیجہ ہے، ورنہ اگر اس کی تمام تفصیلات پر نظر کی جائے تو صورتِ واقعہ بالکل برعکس نظر آئے گی۔ عہد شکنی کے مجرم رسول اللہ ﷺ نہیں بلکہ بنو نضیر تھے، اور ان کے خلاف آپ ﷺ کی جنگی کارروائی ظلم نہیں بلکہ عین حق ثابت ہو گی۔

 

واقعہ یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ جب مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تھے تو آپ ﷺ نے یہودیوں کے دوسرے قبائل کی طرح بنو نضیر سے بھی ایک معاہدہ کیا تھا، جس کی بنیادی شرط یہ تھی کہ فریقین ایک دوسرے کے خلاف کسی قسم کی معاندانہ کارروائی نہ کریں گے اور نہ ایک دوسرے کے دشمنوں کی امداد کریں گے۔ حافظ ابن حجرؒ نے لکھا ہے کہ: وادعهم على أن لا يحاربوه ولا يمالئوا عليه عدوه۔ (فتح الباری: جلد ۷، صفحہ ۳۳۱) "ان سے مصالحت کی تھی اس بات پر کہ نہ وہ آپ ﷺ سے جنگ کریں گے اور نہ آپ ﷺ کے خلاف آپ کے دشمنوں کی اعانت کریں گے۔" ۱

 

اس معاہدے کے بعد آنحضرت ﷺ اور عام مسلمان ان کی طرف سے مطمئن ہو گئے تھے اور ان سے دوستانہ میل جول شروع کر دیا تھا۔ لیکن شرائطِ معاہدہ کے بالکل خلاف وہ کفارِ قریش سے ساز باز کرتے رہے اور چپکے چپکے ان کو مسلمانوں کے متعلق خفیہ اطلاعات فراہم کرنے لگے۔ موسیٰ بن عقبہ نے مغازی میں لکھا ہے: كانت نضير قد دسوا إلى قريش وحضوهم على قتال رسول الله ﷺ، ودلوهم على العورة۔ (فتح الباری: جلد ۷، صفحہ ۳۳۳) "بنو نضیر قریش کو خفیہ پیغام بھیجتے رہے، انہیں رسول اللہ ﷺ سے قتال پر ابھارتے رہے اور مسلمانوں کے کمزور پہلوؤں کی نشاندہی کرتے رہے۔"

 

پھر انہوں نے اسی پر بس نہ کی بلکہ آنحضرت ﷺ کو قتل کرنے کی بھی متعدد مرتبہ کوشش کی۔ ایک مرتبہ آپ ﷺ کو کہلا کر بھیجا کہ آپ ﷺ اپنے ساتھ تین آدمی لے کر آئیں اور ہم بھی اپنے تین عالم بھیجتے ہیں، ایک درمیانی مقام پر ان سے آپ ﷺ کی بحث ہو، اور اگر آپ ﷺ ان پر اپنے دین کی حقانیت ثابت کر دیں تو ہم آپ ﷺ پر ایمان لے آئیں گے۔ آنحضرت ﷺ نے اس دعوت کو منظور کر لیا۔ مگر ابھی جائے معینہ کی جانب روانہ نہ ہوئے تھے کہ خود بنی نضیر کی ایک عورت نے اپنے بھائی کو جو مسلمان تھا یہ اطلاع دی کہ یہودی خنجر لے کر آرہے ہیں اور تمہارے نبی ﷺ کے قتل کا ارادہ رکھتے ہیں۔ یہ سن کر آپ ﷺ نے جانے کا ارادہ ترک کر دیا۔ ۲

 

ایک دوسرے موقع پر آنحضرت ﷺ بنو عامر کے دو آدمیوں کی دیت کا معاملہ طے کرنے کے لیے بنو نضیر کے ہاں تشریف لے گئے۔ ان لوگوں نے بظاہر دوستانہ برتاؤ کیا اور آپ ﷺ سے کہا کہ ہم مدد دینے کو تیار ہیں، مگر آپس میں جا کر مشورہ کیا کہ "یہ شخص تم کو ایسی حالت میں پھر نہ ملے گا، بہتر ہے کہ ہم میں کا ایک آدمی مکان کی چھت پر چڑھے اور اس پر ایک بھاری پتھر پھینک دے۔" چنانچہ یہ بات طے ہو گئی اور اس کام کے لیے عمرو بن جحاش بن کعب مقرر کیا گیا۔ مگر عین وقت پر آپ ﷺ کو (بذریعہ وحی) اطلاع ہو گئی اور آپ ﷺ وہاں سے اٹھ کر چلے آئے۔ ۳

 

اب پیمانۂ صبر لبریز ہو چکا تھا۔ مسلسل بد عہدیوں اور سازشوں کے باعث اندیشہ تھا کہ کہیں یہ آستین کے سانپ کسی بیرونی حملے کے وقت مدینہ کی سلامتی کو خطرے میں نہ ڈال دیں۔ یہی نہیں بلکہ یہاں تک اندیشہ تھا کہ کہیں یہ لوگ خفیہ طریقے سے آنحضرت ﷺ کو شہید نہ کر دیں۔ مسلمان ان سے ایسے خوف زدہ ہو گئے تھے کہ ایک مرتبہ جب ایک صحابیؓ کا انتقال ہونے لگا تو انہوں نے اپنے عزیزوں کو وصیت کی کہ میرے مرنے کی اطلاع رسول اللہ ﷺ کو رات کے وقت نہ دینا، کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ ﷺ جنازے کی شرکت کے لیے نکلیں اور کوئی یہودی آپ ﷺ کو قتل کر دے۔ ۴ ایسی حالت میں ان عہد شکن دشمنوں سے مزید چشم پوشی نہیں کی جاسکتی تھی۔ مگر آنحضرت ﷺ نے پھر بھی ان کے ساتھ رعایت کی اور دفعۃً ان پر حملہ کر دینے کے بجائے محمد بن مسلمہؓ کے ذریعے ان کو یہ الٹی میٹم دیا کہ: "تم نے میرے ساتھ غدر کیا ہے، لہٰذا تم دس دن کے اندر مدینہ خالی کر دو، ورنہ میں مجبوراً تم سے جنگ کروں گا۔"

 

دوسری طرف عبداللہ بن ابی، سردارِ منافقین نے انہیں کہلا بھیجا کہ تم ہرگز نہ نکلنا ہم تمہاری مدد کریں گے۔ چنانچہ انہوں نے آنحضرت ﷺ کے الٹی میٹم کا جواب یہ دیا کہ: إنا لا نريم ديارنا، فاصنع ما بدا لك! "ہم اپنا وطن نہ چھوڑیں گے، تمہارا جو جی چاہے کر لو۔"

 

اس کے بعد کون کہہ سکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ ان کے خلاف جنگ کرنے میں حق بجانب نہ تھے۔ آپ ﷺ نے اتمامِ حجت کا پورا پورا حق ادا کر دیا تھا اور معاہدے کی صریح خلاف ورزی کے مقابلے میں جو زیادہ سے زیادہ نرمی کی جاسکتی تھی وہ بھی کر چکے تھے۔ اب مجبوراً جنگ کے لیے نکلے اور ان کا محاصرہ کر لیا۔ قبل اس کے کہ خوں ریزی کی نوبت آتی، محض محاصرے کی شدت نے بنی نضیر کو بدحواس کر دیا۔ انہوں نے خود ہی تجویز پیش کی کہ آپ ﷺ ہمارے خون معاف کر دیں، ہم مدینہ سے نکل کر اذْرِعات (شام) چلے جائیں گے اور جو کچھ مال ہمارے اونٹ اٹھا سکیں گے وہ تو لے جائیں گے اور باقی سب کچھ یہیں چھوڑ جائیں گے۔ اس شرط کو آنحضرت ﷺ نے منظور کر لیا اور بغیر کسی ادنیٰ ضرر کے بنو نضیر اسلامی علاقے سے گزر کر شام کی طرف چلے گئے۔ اس مصالحت کے متعلق بلاذری لکھتے ہیں:

ثم صالحوه على أن يخرجوا من بلده ولهم ما حملت الإبل إلا الحلقة والآلة۔ (فتوح البلدان: صفحہ ۲۴)

"پھر انہوں نے اس شرط پر آپ ﷺ سے صلح کر لی کہ وہ آپ ﷺ کے شہر سے نکل جائیں گے اور سوائے اسلحہ اور زرہوں کے باقی جو مال ان کے اونٹ اٹھا سکیں گے وہ ان کا ہے۔"

 

حافظ ابن حجرؒ نے لکھا ہے:

فسألوا أن يجلوا عن أرضهم على أن لهم ما حملت الإبل، فصالحوا على ذلك۔ (فتح الباری: جلد ۷، صفحہ ۳۳۲)

"پھر انہوں نے درخواست کی کہ ہمیں اپنے علاقے سے نکل جانے دیا جائے اور جو کچھ ہمارے اونٹ اٹھا سکیں وہ مال ہمارا ہو۔ چنانچہ اسی پر ان سے صلح ہو گئی۔"

 

اب یہ ظاہر ہے کہ اعلانِ جنگ ہونے کے بعد ایسی حالت میں جب کہ ان کو آسانی کے ساتھ مغلوب کر کے پورا پورا انتقام لیا جا سکتا تھا، ان کی شرائط مان لینا اور ان کو امن و سلامتی کے ساتھ صاف اپنی جانیں ہی نہیں بلکہ اپنا مال بھی لے کر جانے دینا بجز رحم دلی اور صلح پسندی کے اور کسی چیز کا نتیجہ نہیں ہو سکتا تھا۔ صرف وہی شخص ایسا کر سکتا تھا جس کا مقصد خون ریزی و غارت گری نہ ہو بلکہ محض دفعِ شر ہو۔

 

مگر اس احسان کا جو بدلہ آنحضرت ﷺ کو ملا وہ بہت ہی تلخ تھا۔ جن دشمنوں کو آپ ﷺ نے قابو میں آجانے کے بعد محض رحم کھا کر چھوڑ دیا تھا انہوں نے مدینہ سے نکل کر تمام عرب میں آپ ﷺ کے خلاف سازش کا جال پھیلا دیا اور دو ہی سال بعد وہ دس بارہ ہزار کا لشکرِ جرار اکٹھا کر کے مدینہ پر حملہ آور ہوئے۔ اگر آپ ﷺ اس وقت ان سانپوں کا سر کچل دیتے تو یہ طوفان ہرگز نہ اٹھتا۔ لیکن رحمۃ للعالمین ﷺ کی شان اس سے بالاتر تھی کہ کسی مغلوب دشمن کی التجائے رحم کو رد کر دیتے۔ آپ ﷺ کو ان کے جذبۂ عناد کا حال خوب معلوم تھا اور آپ ﷺ یہ بھی جانتے تھے کہ یہ فتنہ پرور چین سے نہ بیٹھیں گے، مگر اس کے باوجود جب انہوں نے جان بخشی کی درخواست کی تو آپ ﷺ نے اسے قبول کر لیا۔

 

۱۔ ابن ہشام نے سیرت میں اس معاہدے کو تفصیل سے نقل کیا ہے۔

۲۔ اس واقعے کو تھوڑے اختلاف کے ساتھ ابو داؤد، باب فی خبر النضیر اور فتح الباری: جلد ۷، صفحہ ۳۳۳ میں بیان کیا گیا ہے۔

۳۔ طبری، مطبوعہ مصر، جلد ۳ صفحہ ۳۷؛ فتح الباری، جلد ۷، صفحہ ۳۳۲؛ فتوح البلدان، صفحہ ۲۴۔

۴۔ اسد الغابہ، جلد ۳، صفحہ ۵۷، ذکر طلحہ بن براءؓ۔

 

۲۔ بنو قریظہ کا واقعہ:

 

بنو قریظہ کے قتلِ عام کو اس سے بھی زیادہ اعتراضات کا مورد بنایا گیا ہے۔ یہ لوگ بھی مذہباً یہودی تھے اور بنو نضیر کی طرح مدینہ میں آباد تھے۔ آنحضرت ﷺ جب مدینہ تشریف لائے تو آپ ﷺ نے ان سے بھی دوسرے یہودی قبائل کی طرح وہی معاہدہ کیا جس کا ذکر اوپر ہو چکا ہے۔ پھر جب بنو نضیر سے جنگ ہوئی تو آپ ﷺ نے دوبارہ بنو قریظہ کو معاہدے کی دعوت دی اور قدیم معاہدے کی تجدید کر لی۔ مگر جب جنگِ احزاب (غزوہ خندق) میں انہوں نے کھلم کھلا دشمنوں کا ساتھ دیا تو آپ ﷺ نے ادھر سے فارغ ہو کر ان پر حملہ کیا، ان کے بالغ مردوں کو قتل کر دیا، بچوں اور عورتوں کو غلام بنا لیا اور ان کا مال مسلمانوں میں تقسیم کر دیا۔ اس واقعے کی بنا پر مخالفین نے آنحضرت ﷺ پر بد عہدی اور شقاوت و سنگدلی کے شدید الزامات لگائے ہیں۔ مگر جب تفصیلات پر نظر ڈالی جاتی ہے تو اس کی حقیقت بھی مخالفین کے زعم و بیان سے بالکل مختلف نظر آتی ہے۔

 

اوپر بیان ہو چکا ہے کہ بنو قریظہ سے دو مرتبہ معاہدہ ہوا تھا۔ ایک عام معاہدہ جو دوسرے یہودی قبائل کی معیت میں ہوا، دوسرا خاص معاہدہ جو بنی نضیر سے لڑائی کے موقع پر ان سے کیا گیا۔ ان دو معاہدات کے بعد بنو قریظہ کا فرض تھا کہ رسول اللہ ﷺ اور آپ ﷺ کے متبعین کے خلاف کسی قسم کی معاندانہ کارروائی میں حصہ نہ لیتے۔ لیکن جنگِ احزاب میں بنو نضیر کی تحریض پر عرب کے بڑے بڑے قبائل اسلام کو مٹانے کے لیے متفق ہو کر مدینہ پر حملہ آور ہوئے، تو بنو قریظہ نے حیی بن اخطب نضری کے بھڑکانے سے علانیہ معاہدہ توڑ دیا اور جنگ میں (دشمنوں کا ساتھ دینے کے لیے) شامل ہو گئے۔ ۱ آنحضرت ﷺ کو ان کے نقضِ عہد کی خبر ہوئی تو آپ ﷺ نے سعد بن معاذؓ اور سعد بن عبادہؓ کو ان کے پاس بھیجا اور وفائے عہد کی نصیحت کی۔ مگر انہوں نے صاف کہہ دیا کہ ہمارا تمہارا کوئی معاہدہ نہیں ہے۔ ۲

 

ان کے اس طرح عین وقت پر عہد توڑ دینے اور جنگ میں شریک ہو جانے سے مدینہ دو طرف سے محصور ہو گیا۔ ایک طرف قریش اور غطفان وغیرہ کی فوجیں تھیں اور دوسری طرف بنو قریظہ کی۔ سب سے زیادہ خطرہ یہ تھا کہ مسلمانوں نے جس قلعے میں اپنی عورتوں اور بچوں کو حفاظت کے لیے بھیج دیا تھا وہ بنو قریظہ کی عین زد میں تھا اور یہ لوگ اس کا محاصرہ کرنے کی دھمکی دے رہے تھے۔ اس صورتِ حال نے مسلمانوں کو انتہائی دہشت و پریشانی میں مبتلا کر دیا، حتیٰ کہ آنحضرت ﷺ نے (ایک موقع پر) مجبور ہو کر یہ ارادہ کر لیا کہ مدینہ کی پیداوار کا تیسرا حصہ دے کر حملہ آوروں سے مصالحت کر لیں ۳۔ قرآن مجید میں اس پریشانی کی کیفیت اس طرح بیان کی گئی ہے:

إِذْ جَاءُوكُم مِّن فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنكُمْ وَإِذْ زَاغَتِ الْأَبْصَارُ وَبَلَغَتِ الْقُلُوبُ الْحَنَاجِرَ وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا (الاحزاب: ۱۰)

"جب کہ وہ تم پر بالائے شہر (مشرق) اور پائینِ شہر (مغرب) کی جانب سے چڑھ آئے اور جب کہ (خوف سے) آنکھیں پتھرا گئیں اور دل گلوں تک آپہنچے اور تم اللہ کے متعلق طرح طرح کے گمان کرنے لگے۔"

 

اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے حضرت حذیفہؓ بیان کرتے ہیں: "اس رات ہماری پریشانی دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ ایک طرف ابو سفیان اور اس کے ساتھی زبردست فوجیں لیے ہوئے اوپر سے آئے، اور دوسری طرف بنو قریظہ نیچے سے بڑھے اور ان کے حملے سے ہمارے بال بچوں کی سلامتی بھی خطرے میں پڑ گئی۔" ۴

 

اس شدید اور خطرناک بد عہدی کے بعد ان لوگوں کے ساتھ کسی قسم کی رعایت کرنا خود کشی کرنا تھا۔ چنانچہ جب احزاب کے دل بادل چھٹ گئے اور بیرونی حملے کا خوف جاتا رہا تو آنحضرت ﷺ نے فوراً بنو قریظہ کا محاصرہ کر لیا۔ ۱۵ دن یا ۲۵ دن تک اسلامی فوجیں ان کے قلعے کے گرد پڑی رہیں۔ جب انہوں نے دیکھا کہ یہ قضا کا پیغام ٹل نہیں سکتا تو آنحضرت ﷺ کی خدمت میں کہلا بھیجا کہ سعد بن معاذؓ (ان کے حلیف قبیلہ اوس کے سردار) ہمارے حق میں جو فیصلہ کریں گے وہ ہمیں منظور ہے۔ ۵ بعض روایتوں میں یہ بھی آیا ہے کہ انہوں نے اپنی قسمت کا فیصلہ آپ ﷺ پر چھوڑ دیا اور آپ ﷺ نے اس خیال سے سعد بن معاذؓ کو حکم بنایا کہ وہ بنو قریظہ کے حلیف تھے، ان پر کسی کو شک نہ ہو سکتا تھا کہ ان کے حق میں ناجائز فیصلہ کریں گے۔ ۶ بہرحال جو صورت بھی ہو، سعد بن معاذؓ بالاتفاق حکم بنائے گئے اور انہوں نے فیصلہ دیا کہ بنو قریظہ کے بالغ مرد قتل کیے جائیں، عورتوں اور بچوں کو لونڈی غلام بنا لیا جائے اور ان کا مال مسلمانوں میں بانٹ دیا جائے۔ چنانچہ یہی فیصلہ نافذ کیا گیا اور اس کے مطابق ان کے مرد قتل کر دیے گئے۔

 

اب جہاں تک بد عہدی کے الزام کا تعلق ہے وہ تو صاف ہو چکا۔ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ آنحضرت ﷺ نے ان پر حملہ کر کے عہد شکنی کی۔ لیکن دوسرا الزام یہ باقی رہ جاتا ہے کہ ان سے انتقام بہت سخت لیا گیا۔ مگر اس کو سختی اور سنگدلی سے تعبیر کرنے سے پہلے چند امور کو اچھی طرح ذہن نشین کر لینا چاہیے:

 

(۱)۔ بنو قریظہ اور ان کے ہم قوم بنو نضیر کی بد عہدیوں کو دیکھ کر یہ ناممکن تھا کہ ان سے از سرِ نو کوئی معاہدہ کیا جاتا اور یہ توقع قائم کی جاسکتی کہ پھر کسی نازک موقع پر وہ اسے نہ توڑ دیں گے۔

(۲)۔ ان کے قلعے مدینہ سے بالکل متصل تھے اور ایسی صریح غداری کے بعد ان کے اتنے قریب رہنے سے ہر وقت خطرہ تھا کہ کب کسی دشمن کو عین مسلمانوں کے گھروں پر چڑھا لائیں۔

(۳)۔ ان کو جلا وطن بھی نہیں کیا جا سکتا تھا، کیونکہ ان سے پہلے ان کے بھائی بنو نضیر کو جلا وطن کرنے کا نتیجہ یہ ہوا تھا کہ انہوں نے مسلمانوں سے دور بیٹھ کر اطمینان کے ساتھ جنگ کی تیاریاں کیں اور فوجیں جمع کر کے مدینہ پر چڑھ آئے۔

(۴)۔ ان باتوں کے باوجود آنحضرت ﷺ نے خود ان کے لیے کوئی سزا تجویز نہیں کی بلکہ ان کی مرضی اور اتفاق سے ایک ایسے شخص کو حکم بنایا جو خود ان کا پشتینی حلیف تھا۔

(۵)۔ ثالثی اور پنچایت کے متعلق یہ تمام دنیا کا مسلمہ قانون ہے کہ جب فریقین کے اتفاق سے کوئی شخص حکم، ثالث یا پنچ بنایا جائے تو جو فیصلہ وہ کر دے اس کی پابندی فریقین پر لازم ہوتی ہے۔

(۶)۔ سعد بن معاذؓ نے جو کچھ فیصلہ کیا وہ تورات کے احکام کے مطابق تھا۔ ۷ اسی لیے کسی یہودی نے اس کے خلاف ایک لفظ نہ کہا۔

(۷)۔ ان میں سے صرف وہ مرد قتل کیے گئے جو ہتھیار اٹھانے کے قابل تھے، کیونکہ انہی سے جنگ و غدر کا اندیشہ تھا۔ باقی رہیں عورتیں اور بچے، تو ان کے سرپرستوں کے قتل ہو جانے کے بعد ان کی پرورش کا بجز اس کے اور کیا وسیلہ ہو سکتا تھا کہ مسلمان خود ان کے کفیل بنتے۔

 

ان وجوہ کو ذہن نشین کر لینے کے بعد یہ تسلیم کرنے میں کوئی روک باقی نہیں رہتی کہ بنو قریظہ کے ساتھ جو سلوک کیا گیا وہ عین انصاف کے مطابق تھا اور اس کے سوا ان سے کوئی سلوک نہیں کیا جا سکتا تھا۔

 

۱۔ ابو داؤد: کتاب الخراج والفئے والامارۃ، باب فی خبر النضیر۔

۲۔ ابن اثیر، طبع مصر، جلد ۲، صفحہ ۱۶۷؛ فتح الباری، جلد ۷، صفحہ ۳۹۹۔

۳۔ ابن اثیر، جلد ۲، صفحہ ۱۶۸؛ فتح الباری، جلد ۷، صفحہ ۴۰۰۔

۴۔ فتح الباری، جلد ۷، صفحہ ۴۰۱؛ ابن اثیر، جلد ۲، صفحہ ۱۷۰۔

۵۔ صحیح مسلم، کتاب الجہاد، باب جواز قتال من نقض العہد؛ فتوح البلدان، صفحہ ۲۹۔

۶۔ زمانہ جاہلیت میں حضرت سعدؓ کے قبیلے (اوس) اور بنی قریظہ کے درمیان حلف کا تعلق تھا اور قدیم عرب میں حلف کا تعلق خونی رشتوں سے کچھ کم مضبوط نہ ہوتا تھا۔

۷۔ تورات، کتاب استثناء، باب ۲۰، آیات ۱۰-۱۴ میں لکھا ہے: "جب تو کسی شہر کے پاس اس سے لڑنے کے لیے پہنچے تو پہلے اس سے صلح کا پیغام کر۔ تب یوں ہو گا کہ اگر وہ تجھے جواب دے کہ صلح منظور، اور دروازہ تیرے لیے کھول دے تو ساری خلق جو اس شہر میں پائی جائے تیری باجگزار ہو گی اور تیری خدمت کرے گی۔ اور اگر وہ تجھ سے صلح نہ کرے بلکہ تجھ سے جنگ کرے تو تو اس کا محاصرہ کر۔ جب خداوند تیرا خدا اسے تیرے قبضے میں کر دے تو وہاں کے ہر ایک مرد کو تلوار کی دھار سے قتل کر، مگر عورتوں اور بچوں اور جانوروں کو اور جو کچھ اس شہر میں ہو... اپنے لیے غنیمت کے طور پر لے لے۔"

 

۳۔ کعب بن اشرف کا قتل:

 

عہدِ رسالت کا ایک اور واقعہ جس پر سخت اعتراضات کیے جاتے ہیں یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اپنے ایک دشمن کعب بن اشرف کو خفیہ طریقے سے قتل کرا دیا۔ مخالفین کا اعتراض یہ ہے کہ یہ وہی جاہلیت کا "فتک" (دھوکے سے قتل) تھا اور بزدلی کے علاوہ آدابِ جنگ کے بھی خلاف تھا۔ لیکن اس واقعے کے بھی چند مخصوص اسباب تھے جن کو معترضین نے نظر انداز کر دیا ہے۔

 

یہ شخص یہود بنی نضیر میں سے تھا اور اپنی قوم کے ساتھ اس معاہدے میں شریک تھا جو ہجرت کے بعد رسول اللہ ﷺ اور ان کے درمیان ہوا تھا۔ مگر اسے اسلام اور خاص کر داعیٔ اسلام ﷺ سے سخت عداوت تھی۔ آپ ﷺ کی شان میں ہجویہ اشعار کہتا، مسلمان عورتوں کے متعلق نہایت گندے عشقیہ قصائد کہتا ۱، اور کفارِ قریش کو آنحضرت ﷺ کے خلاف اشتعال دلاتا تھا ۲۔ جب جنگِ بدر میں آنحضرت ﷺ کو فتح ہوئی تو اس کو سخت رنج ہوا اور شدتِ غضب میں پکار اٹھا کہ: والله لئن كان محمد أصاب هؤلاء القوم لبطن الأرض خير لنا من ظهرها۔ "خدا کی قسم اگر محمد (ﷺ) نے قریش کو واقعی شکست دے دی ہے تو زمین کا پیٹ ہمارے لیے اس کی پیٹھ سے زیادہ بہتر ہے۔"

 

پھر وہ مدینہ سے مکہ پہنچا اور وہاں نہایت دردانگیز طریقے سے قریش کے مقتولوں کے مرثیے کہہ کہہ کر ان کی عوام اور سرداروں کو انتقام کا جوش دلانے لگا۔ اس کی یہ سب حرکات اس معاہدے کے خلاف تھیں جو مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان ہوا تھا اور جس میں وہ بھی اپنی

قوم کے ساتھ شریک تھا۔ تاہم انہیں کسی نہ کسی طرح معاف کیا جا سکتا تھا۔ لیکن جب سب سے گزر کر وہ اپنے جذبۂ عناد میں یہاں تک پہنچا کہ آنحضرت ﷺ کی جان تک لینے کا تہیہ کر لیا۔ اس نے ایک سازش تیار کی جس کا مقصد آپ ﷺ کو دھوکے سے قتل کرنا تھا۔ علامہ ابن کثیرؒ نے ابو مالک کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ اس نے ایک جماعت کے ساتھ مل کر یہ انتظام کیا تھا کہ آنحضرت ﷺ کو اپنے گھر بلائے اور چپکے سے قتل کرا دے۔ چنانچہ اسی پر یہ آیت نازل ہوئی کہ:

إِذْ هَمَّ قَوْمٌ أَن يَبْسُطُوا إِلَيْكُمْ أَيْدِيَهُمْ فَكَفَّ أَيْدِيَهُمْ عَنكُمْ (المائدہ: ۱۱)

"جب کہ ایک جماعت نے تم پر دست درازی کا قصد کیا اور اللہ نے ان کے ہاتھ تم پر بڑھنے سے روک دیے۔"

 

ابن حجرؒ بھی اس روایت کو فتح الباری میں لائے ہیں، مگر جس طریق سے انہوں نے اسے لیا ہے وہ ضعیف ہے۔ تاہم یعقوبی نے، جو ایک بڑا مورخ ہے، بنو نضیر کا حال بیان کرتے ہوئے صاف لکھا ہے کہ: أراد أن يمكر برسول الله ﷺ۔ "اس نے رسول اللہ ﷺ کو دھوکے سے قتل کرنے کا ارادہ کیا تھا۔"

 

ان تمام بیانات سے اس واقعے کی صداقت تسلیم ہو جاتی ہے کہ اس کے جرائم کی فہرست کو اس سازشِ قتل نے مکمل کر دیا اور اس کے بعد اس کے کشتنی (قتل کیے جانے کے لائق) ہونے میں کوئی کسر باقی نہ رہی۔ ایک شخص اپنے قومی معاہدے کو توڑتا ہے، مسلمانوں کے دشمنوں سے ساز باز کرتا ہے، مسلمانوں کے خلاف جنگ کی آگ بھڑکاتا ہے، اور مسلمانوں کے امام کو قتل کرنے کی خفیہ سازشیں کرتا ہے۔ ایسے شخص کی سزا بجز قتل کے اور کیا ہو سکتی ہے؟ تنہا اس کے فعل کی بنا پر اس کی قوم کے خلاف اعلانِ جنگ نہیں کیا جا سکتا تھا کہ کھلے میدان میں اس سے مقابلہ ہوتا اور اسے قتل کیا جاتا۔ خود اس کی قوم سے بھی یہ امید رکھنی فضول تھی کہ وہ اس کو ان حرکات سے روکے گی، کیونکہ ساری قوم کا رویہ اسی کی طرح عداوت و بغض سے بھرا ہوا تھا۔ پھر وہ دوسرے اعدائے اسلام کے ساتھ بھی مل کر کبھی کھلے میدان میں لڑنے کے لیے نہیں آیا بلکہ ہمیشہ پردے کے پیچھے بیٹھ کر ہی سازشیں کرتا رہا۔ اس لیے اس کے شر کے استیصال (جڑ سے اکھاڑنے) کی صرف یہی ایک صورت باقی رہ گئی تھی کہ پردے کے پیچھے ہی اس کی زندگی کا خاتمہ کر دیا جاتا۔ چنانچہ آنحضرت ﷺ نے مجبوراً اسی آخری تدبیر کو اختیار کیا اور محمد بن مسلمہؓ کو بھیج کر اسے قتل کرا دیا۔

 

اس واقعے سے یہ نتیجہ نکالنا صحیح نہیں ہے کہ خفیہ طریقے سے دشمن کے سرداروں کو قتل کرا دینا اسلام کے قانونِ جنگ کی کوئی مستقل دفعہ ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو یقیناً آنحضرت ﷺ سب سے پہلے ابو جہل اور ابو سفیان جیسے دشمنوں کو قتل کراتے، اور صحابہؓ میں ایسے فدائیوں کی کمی نہ تھی جو اس قسم کے تمام دشمنوں کو ایک ایک کر کے قتل کر سکتے تھے۔ لیکن عہدِ رسالتِ اسلام اور عہدِ صحابہؓ کی پوری تاریخ میں ہم کو کعب بن اشرف اور ابو رافع ۳ کے سوا کسی اور شخص کا نام نہیں ملتا جسے اس طرح خفیہ طریقے سے قتل کیا گیا ہو، حالانکہ آپ ﷺ کے دشمن صرف یہی دو شخص نہ تھے۔ پس یہ واقعہ خود اس بات کا کافی ثبوت ہے کہ خفیہ طریقے سے دشمن کو قتل کرنا اسلام کی کوئی مستقل جنگی پالیسی نہیں ہے، بلکہ ایسے مخصوص حالات میں اس کی اجازت ہے جب کہ دشمن خود سامنے نہ آتا ہو اور پردے کے پیچھے بیٹھ کر سازشیں کیا کرتا ہو۔

 

۱۔ ابن اثیر، جلد ۲، صفحہ ۹۳؛ فتح الباری: جلد ۷، صفحہ ۳۳۶ میں ہے کہ: وشبّب بنساء المسلمين حتى آذاهم۔ "اور مسلمان عورتوں کے بارے میں عشقیہ اشعار کہتا یہاں تک کہ انہیں اذیت پہنچائی۔"

۲۔ ابو داؤد: کتاب الجہاد، باب کیف کان اخراج الیہود میں ہے: ويحرض عليه كفار قريش۔ "اور کفار قریش کو آپ ﷺ کے خلاف بھڑکاتا تھا۔"

۳۔ ابو رافع کے متعلق صحیح بخاری میں صرف اتنا بیان کیا گیا ہے کہ كان أبو رافع يؤذي رسول الله ﷺ ويعين عليه۔ "ابو رافع آنحضرت ﷺ کو اذیت پہنچاتا تھا اور آپ ﷺ کے خلاف (دشمنوں کی) اعانت کرتا تھا۔" (کتاب المغازی: باب مقتل ابی رافع) لیکن ابن عائذ نے عروہ کے طریق سے یہ روایت نقل کی ہے کہ كان ممن أعان غطفان وغيرهم من مشركي العرب بالمال الكثير۔ "اس نے غطفان وغیرہ مشرکین عرب کو رسول اللہ ﷺ کے خلاف جنگ میں بہت روپے سے مدد دی تھی۔" (فتح الباری: جلد ۷، صفحہ ۳۴۳) طبری نے اس پر یہ اضافہ کیا ہے کہ حزّب الأحزاب على رسول الله ﷺ۔ "اس نے رسول اللہ ﷺ کے خلاف جنگِ احزاب میں فوجیں اکٹھی کی تھیں۔" (جلد ۳، صفحہ ۷) ابن سعد نے طبقات میں لکھا ہے کہ قد أجلب في غطفان ومن حوله من مشركي العرب وجعل لهم الحفل العظيم لحرب رسول الله ﷺ۔ "اس نے غطفان اور دوسرے مشرکینِ عرب کی ایک بہت بڑی جمعیت رسول اللہ ﷺ سے لڑنے کے لیے اکٹھی کی تھی۔" (جلد ۲، صفحہ ۹۱) ابن اثیر نے لکھا ہے کہ كان ظاهر كعب بن الأشرف على رسول الله ﷺ۔ "وہ کعب بن اشرف کو رسول اللہ ﷺ کے خلاف مدد دیتا تھا۔" (جلد ۲، صفحہ ۱۱۲، طبع یورپ) ان تمام بیانات کے ساتھ یہ بھی ثابت ہے کہ وہ بھی کعب کی طرح خود کبھی کھلے میدان میں لڑنے نہیں آیا اور پردے کے پیچھے سے دشمنوں کو مال اور فوجوں سے مدد دے کر رسول اللہ ﷺ کے خلاف استعمال کرتا رہا۔

 

۴۔ یہودِ خیبر کا اخراج:

 

عہدِ رسالت ﷺ کے بعد عہدِ خلافت میں یہودِ خیبر کے اخراج کو خاص طور پر ہدفِ ملامت بنایا گیا ہے۔ مخالفین کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ نے اہلِ خیبر سے پیداوار کے نصف حصے پر معاملہ کر لیا تھا اور وہ مستقل طور پر اسلام کی رعایا بن چکے تھے تو حضرت عمرؓ کو انہیں جلا وطن کرنے کا کیا حق تھا؟ کیا اس طرح انہوں نے عہد شکنی اور اہلِ الذمہ کی حق تلفی نہیں کی؟ یہ اعتراض بظاہر بہت وزنی ہے مگر تاریخ نے وہ تمام حقائق محفوظ رکھے ہیں جن سے اس اعتراض کا سارا تار و پود بکھر جاتا ہے۔

 

خیبر جب فتح ہوا تھا تو ابتداءً آنحضرت ﷺ سے یہودیوں کی صلح اس شرط پر ہوئی تھی کہ آپ ﷺ ان کی جان بخشی کر دیں گے اور وہ اس علاقے کو چھوڑ کر کہیں اور چلے جائیں گے۔ ۱ لیکن صلح ہونے کے بعد جب زمین کے باقاعدہ بندوبست کا موقع آیا تو اہلِ خیبر نے آپ ﷺ سے درخواست کی کہ: "آپ ﷺ ہم کو یہیں رہنے دیں اور ہم سے معاملہ کر لیں، کیونکہ ہم زراعت اور نخلستان کے کام سے خوب واقف ہیں۔"

 

آنحضرت ﷺ نے ان کی یہ درخواست قبول کر لی اور ان سے عارضی طور پر معاملہ کر لیا۔ لیکن معاملہ کی شرائط تحریر کرتے وقت صاف طور پر یہ تصریح کر دی کہ: نقرّكم ما أقرّكم الله۔ "میں تم کو (یہاں) برقرار رکھوں گا جب تک اللہ تم کو برقرار رکھے گا۔" ۲ اس کا مطلب یہ تھا کہ تم کو مستقل طور پر نہیں رکھا جائے گا بلکہ جب تک احکامِ خداوندی کے مطابق ہمارے قومی مصالح تمہیں رکھنے کی اجازت دیں گے اس وقت تک تمہیں رہنے دیا جائے گا، اور جب تمہارا طرزِ عمل نامناسب ہو گا تو ہمیں آزادی ہو گی کہ اس صلحنامہ کی شرائط کو نافذ کر کے تمہیں جلا وطن کر دیں۔ ابن حجرؒ نے اس جملے کی یہ تشریح کی ہے:

وأن المراد بقوله "ما أقركم الله" أي ما قدر الله بقاءكم فيها، فإذا شئنا إخراجكم دلّ ذلك على أن الله قدّر خروجكم۔

"یہ جو آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ 'جب تک اللہ تم کو رکھے گا' تو اس کا مطلب یہ تھا کہ جب تک اللہ نے تمہارا یہاں رہنا مقدر کر رکھا ہے تو تم کو رہنے دیں گے، اور جب ہم تمہیں نکالنا چاہیں گے اور نکال دیں گے تو یہ فعل خود اس بات کی دلیل ہو گا کہ تمہارے اخراج کے لیے اللہ کی تقدیر پوری ہو چکی ہے۔" ۳

 

ابو داؤد نے ایک اور روایت میں اس سے بھی زیادہ صاف تصریح کی ہے: كان عامل خيبر على أن نخرجهم إذا شئنا۔ "آنحضرت ﷺ نے ان سے اس شرط پر معاملہ کیا تھا کہ ہم جب چاہیں گے ان کو نکال دیں گے۔" ۴

 

اس سے یہ بات تو بالکل صاف ہو جاتی ہے کہ ان سے کوئی ایسا معاہدہ نہ تھا جس کے لحاظ سے ان کے اخراج کو بد عہدی کہا جا سکتا ہو، بلکہ اس کے برعکس اصل معاہدہ ان کے اخراج ہی کا مقتضی تھا، اب رہا یہ سوال کہ نصف خراج پر جو عارضی معاملہ ان سے کیا گیا تھا اسے کن وجوہ کی بنا پر فسخ کیا گیا؟ تو اس کی تحقیق کے لیے ذیل کے واقعات پیشِ نظر رکھنے چاہئیں:

 

(۱)۔ صلح کو چند ہی روز گزرے تھے کہ ان بد عہد یہودیوں میں سے ایک عورت زینب بنت الحارث نے آنحضرت ﷺ کی دعوت کی اور اس میں آپ ﷺ کو (بکری کے گوشت میں) زہر کھلا دیا۔ بعد میں جب تحقیق کی گئی تو خود مجرمہ نے اعترافِ جرم کیا اور اس فعل میں دوسرے یہودیوں کی سازش بھی ثابت ہو گئی ۵۔ جس کے اثر سے آخر عمر تک آپ ﷺ بیمار رہے۔

 

(۲)۔ یہ بد عہدی صرف اسی سازش تک محدود نہ رہی بلکہ مسلمانوں کے خلاف وہ ہمیشہ ریشہ دوانیاں کرتے رہے۔ آنحضرت ﷺ ہی کے زمانے میں انہوں نے عبداللہ بن سہل بن زید الانصاریؓ کو قتل کر کے ایک نہر کے کنارے ڈال دیا۔ ۶

 

(۳)۔ حضرت عمرؓ کے زمانے میں وہ علانیہ برسرِ بغاوت ہو گئے اور حضرت عبداللہ بن عمرؓ کو سوتے میں پکڑ کر کوٹھے سے نیچے پھینک دیا جس سے ان کے ہاتھ پاؤں ٹوٹ گئے۔ ۷ ابتدائی واقعات خاص لوگوں کے ساتھ مخصوص تھے اس لیے عامۃ الناس کو ان کے جرم کا ذمہ دار نہ سمجھا گیا۔ مگر یہ آخری جرم کھلے بندوں کیا گیا تھا اور تمام قوم کا معاندانہ رویہ ظاہر نظر آرہا تھا، اس لیے حضرت عمرؓ نے اس معاملے کو صحابہؓ کی مجلس میں پیش کیا اور اس پر تقریر کرتے ہوئے فرمایا:

إن رسول الله ﷺ كان عامل يهود خيبر على أموالهم، وقال: نقركم ما أقركم الله، وإن عبد الله بن عمر خرج إلى ماله هناك فَعُدِيَ عليه من الليل فَفُدِعَتْ يداه ورجلاه، وليس لنا هناك عدو غيرهم، هم عدونا وتُهْمَتُنَا، وقد رأيت إجلاءهم۔

"رسول اللہ ﷺ نے یہودِ خیبر سے ان کے اموال پر معاملہ کیا تھا اور یہ فرمایا تھا کہ 'ہم تمہیں برقرار رکھیں گے جب تک اللہ تم کو برقرار رکھے گا۔' اب عبداللہ بن عمرؓ وہاں اپنی جائیداد پر گئے تھے، رات کے وقت ان پر حملہ کیا گیا اور ان کے ہاتھ پاؤں توڑ دیے گئے۔ اس ملک میں ان کے سوا ہمارا کوئی دشمن نہیں ہے، وہی ہمارے دشمن رہ گئے ہیں اور ہمیں انہی سے اندیشہ ہے، اس لیے میری رائے میں ان کو جلا وطن کر دینا چاہیے۔" ۸

 

حضرت عمرؓ کی اس تجویز سے تمام مجلس نے اتفاق کیا اور یہودیوں کے اخراج کا فیصلہ ہو گیا۔ چنانچہ حضرت عمرؓ نے یہودِ خیبر کو بلا کر کہا: "تم کو معلوم ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے تم سے کیا کہا تھا: 'نقركم ما أقركم الله'، جس کا مطلب یہ تھا کہ جب تک اللہ چاہے گا تمہیں رکھا جائے گا۔ اور تم نے عبداللہ بن عمرؓ کے ساتھ جو سلوک کیا ہے وہ بھی تم کو معلوم ہے۔ اس لیے اب تم یہاں سے نکل جاؤ۔" چنانچہ انہیں جلا وطن کر دیا گیا۔

 

لیکن ان مجرموں کو بھی اس طرح جلا وطن نہیں کیا گیا کہ ان کے اموال و اراضی پر قبضہ کر کے انہیں بے سر و سامان نکال دیا گیا ہو۔ بلکہ ان کی زمینوں اور باغات کی پوری قیمت کا تخمینہ لگوا کر وہ قیمت انہیں ادا کی گئی۔ جو منقولہ جائیداد وہ لے جا سکتے تھے، لے جانے کی اجازت دی گئی۔ سفر کی آسانی کے لیے اونٹ اور کجاوے دیے گئے، یہاں تک کہ کجاوے باندھنے کی رسیاں تک حکومت کی طرف سے مہیا کی گئیں۔ (بخاری: کتاب الشروط؛ فتوح البلدان)

 

اس میں شک نہیں کہ بعض روایات میں ان کے اخراج کی یہ وجہ بھی بتائی گئی ہے کہ حضرت عمرؓ نے جب رسول اللہ ﷺ کی یہ حدیث سنی کہ: لا يجتمع دينان في جزيرة العرب "جزیرہ عرب میں دو دین جمع نہ ہونے پائیں"، تو آپؓ نے اس کی تحقیق کی اور صحیح ثابت ہو جانے کے بعد یہودیوں کے اخراج کا فیصلہ کر لیا۔ بلاذری نے اس روایت کو ابن شہاب کے طریق سے نقل کیا ہے (فتوح البلدان: صفحہ ۳۴)۔ اور امام زہریؒ نے عبداللہ بن غلبہ کے طریق سے (فتح الباری: جلد ۵، صفحہ ۲۰۷)۔ لیکن اس حدیث کا منشا ہرگز یہ نہ تھا کہ غیر مسلم قوموں کو بلا قصور عرب سے نکال دیا جائے۔ امام زہریؒ نے اپنی روایت میں خود یہ تصریح کی ہے کہ جب اس حدیث کی صحت ثابت ہو گئی تو حضرت عمرؓ نے اعلان کرایا کہ: من كان له من أهل الكتابين عهد فليأت به أنفذه له۔ (فتح الباری، جلد ۵، صفحہ ۲۰۷) "دونوں کتابوں (انجیل و تورات) کے متبعین میں سے جس کسی کے پاس کوئی معاہدہ ہو وہ لے آئے تاکہ میں اسے نافذ کروں۔"

 

ظاہر ہے کہ اگر اس حدیث کا منشا یہ ہوتا کہ بلا امتیاز تمام غیر مسلم جزیرۂ عرب سے نکال دیے جائیں تو حضرت عمرؓ یہ اعلان ہرگز نہ کراتے بلکہ تمام غیر مسلموں کو یک قلم خارج البلاد کر دیتے خواہ ان سے معاہدہ ہوتا یا نہ ہوتا۔ مگر جب انہوں نے ایسا نہیں کیا بلکہ اہلِ معاہدہ سے ان کے عہد نامے طلب کیے تو یہی ہو سکتا ہے کہ اس حدیث سے مطلقاً اخراج مقصود نہ تھا بلکہ ایک عام پالیسی کی تعیین مقصود تھی جس پر دوسرے واجبات کا لحاظ رکھتے ہوئے عمل درآمد کیا جانا چاہیے تھا۔ پس یہ سمجھنے کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ ایک ذمی قوم محض اس بنا پر ملک سے نکال دی گئی کہ عرب میں دو دینوں کا اجتماع مرغوب نہ تھا، بلکہ زیادہ قرینِ قیاس یہ معلوم ہوتا ہے کہ جب یہودِ خیبر کی مسلسل بدعنوانیوں سے تنگ آکر حضرت عمرؓ نے انہیں جلا وطن کرنے کا خیال کیا ہو گا تو لازمی طور پر انہیں ایک ذمی قوم کے ساتھ یہ معاملہ کرنے میں تامل ہوا ہو گا اور وہ کسی شرعی حجت کی تلاش میں ہوں گے، اسی دوران میں یہ حدیث ان کو پہنچی ہو گی اور اس کی اچھی طرح تحقیق کرنے کے بعد مطمئن ہو کر انہوں نے اپنی رائے کو عمل میں لانے کا فیصلہ کیا ہو گا۔ بعد میں راویوں نے اپنے اپنے رجحانِ طبع کے موافق اس ایک واقعے کو دو الگ الگ واقعے بنا لیا اور دو مختلف روایتوں کی صورت میں بیان کرنے لگے۔

 

۱۔ فتوح البلدان، صفحہ ۳۸-۳۹؛ ابن ہشام، صفحہ ۷۷۹؛ ابن سعد، جلد ۲، صفحہ ۷۶، ۸۰۔

۲۔ بخاری: کتاب الشروط، باب اذا اشترط فی المزارعۃ؛ فتوح البلدان: صفحہ ۲۹۔

۳۔ فتح الباری: جلد ۵، صفحہ ۲۰۷۔

۴۔ ابو داؤد: باب ما جاء فی حکم ارض خیبر۔

۵۔ فتح الباری: جلد ۷، صفحہ ۴۶۶؛ زرقانی: جلد ۳، صفحہ ۲۴۳؛ فتوح البلدان: صفحہ ۲۹۔

۶۔ صحیح بخاری میں یہ واقعہ کئی جگہ مذکور ہے۔ غزوہ خیبر کے بیان اور کتاب الطب میں اس کی تفصیل ملتی ہے۔

۷۔ اسد الغابہ: جلد ۳، صفحہ ۱۷۹۔

۸۔ فتوح البلدان: صفحہ ۳۱؛ ابن ہشام: صفحہ ۷۸۰۔

۹۔ بخاری: کتاب الشروط، باب اذا اشترط فی المزارعۃ۔

 

۵۔ اہل نجران کا اخراج:

 

خلفائے راشدہؓ کا دوسرا اہم واقعہ جو خیبر کے معاملے سے بھی زیادہ طعن و ملامت کا ہدف بنا ہوا ہے، نجران کے عیسائیوں کا اخراج ہے۔ خیبر کے یہودی عنوۃً فتح ہوئے تھے اور ان سے ابتداءً جلا وطنی ہی کی شرط پر صلح ہوئی تھی، اس لیے مخالفین کو اس میں اعتراض کی زیادہ گنجائش نہ مل سکی۔ لیکن اہلِ نجران نے تو بغیر جنگ کے خود بخود اطاعت قبول کی تھی اور جزیہ دے کر آنحضرت ﷺ سے باقاعدہ عہد نامہ لکھوایا تھا، اس لیے ان کے اخراج کو مخالفینِ اسلام صریح عہد شکنی قرار دیتے ہیں۔ ان کا سارا زور اس پر ہے کہ معاہدے میں غیر مشروط امان دی گئی تھی اور حضرت عمرؓ نے ناجائز طور پر اس امان کو فسخ کیا۔ مگر واقعات کی تحقیق سے یہ دعویٰ غلط ثابت ہوتا ہے۔

 

نجران سے رسول اللہ ﷺ کا جو معاہدہ ہوا تھا اس میں نصاریٰ کو اس شرط کے ساتھ امان دی گئی تھی کہ جب تک وہ حکومتِ اسلامیہ کے وفادار رہیں گے، اور اپنے واجبات کو ٹھیک ٹھیک ادا کرتے رہیں گے اس وقت تک انہیں اللہ کی پناہ اور رسول اللہ ﷺ کی حفاظت حاصل رہے گی۔ بلاذری اور امام ابو یوسفؒ نے جو معاہدہ نقل کیا ہے اس میں یہ صریح الفاظ موجود ہیں کہ:

لهم ما في هذه الصحيفة جوار الله وذمة محمد النبي ﷺ أبداً حتى يأتي أمر الله، ما نصحوا وأصلحوا فيما عليهم! ۱

"ان کے لیے جو کچھ اس عہد نامے میں ہے اس پر اللہ کی پناہ اور محمد نبی ﷺ کی دائمی حفاظت ہے، جب تک کہ اللہ کا حکم آئے اور جب تک وہ خیر خواہ رہیں اور جو کچھ ان کے ذمے واجب ہے اسے ٹھیک ٹھیک ادا کرتے رہیں۔"

 

اسی طرح حضرت ابو بکرؓ نے منصبِ خلافت پر فائز ہونے کے بعد جو عہد نامہ ان کو لکھ کر دیا تھا اس میں بھی وضاحت کے ساتھ یہ شرط لگا دی تھی کہ:

وعليهم النصح والإصلاح فيما عليهم من الحق۔ ۲

"ان پر واجب ہے کہ خیر خواہ رہیں اور جو حق ان پر واجب ہے اسے ٹھیک ٹھیک ادا کرتے رہیں۔"

 

اس معاہدے کی رو سے جس طرح اسلامی حکومت نے ان کی حفاظت کرنے اور ان کی قدیم حالت کو برقرار رکھنے کا عہد کیا تھا، اسی طرح اہلِ نجران سے بھی یہ عہد لے لیا تھا کہ وہ حکومتِ اسلامیہ کے وفادار رہیں گے، اور یہ وہ عہد ہے جو دنیا کی ہر حکومت اپنی رعایا سے لیتی ہے۔ مگر اہلِ نجران نے اس عہد کو کہاں تک پورا کیا؟ وہ {نصحوا وأصلحوا} کی شرط پر کس حد تک عامل رہے؟ انہوں نے خیر خواہی اور وفاداری کا حق کہاں تک ادا کیا؟ تاریخ سے اس کا جواب ہم کو یہ ملتا ہے کہ انہوں نے گھوڑے اور اسلحہ جمع کر کے بغاوت کا سامان کیا اور حکومتِ اسلامیہ کے قلب کو خطرے میں ڈال دیا۔ امام ابو یوسفؒ نے اپنی کتاب الخراج میں صاف لکھا ہے کہ:

أجلاهم عمر لأنه خافهم على المسلمين، وقد كانوا اتخذوا الخيل والسلاح في بلادهم۔ ۳

"حضرت عمرؓ نے ان کو اس لیے جلا وطن کیا کہ آپؓ کو ان سے مسلمانوں کے خلاف بغاوت کا خوف ہو گیا تھا۔ انہوں نے اپنے ملک میں اسلحہ اور گھوڑے جمع کر لیے تھے۔"

 

عرب کے نقشے پر ایک نظر ڈالو تو صاف معلوم ہو جائے گا کہ اہلِ نجران کی یہ تیاریاں کس قسم کے خطرات کا پیش خیمہ تھیں۔ ایک طرف ان کے عین شمال میں حکومتِ اسلامیہ کا مرکز حجاز واقع تھا اور دوسری طرف ان کے سامنے بحرِ احمر کے دوسرے ساحل پر حبش کی عیسائی سلطنت موجود تھی۔ اگر وہ اپنی تیاریاں مکمل کر کے حجاز پر حملہ کر دیتے اور اپنے ہم مذہب اہلِ حبش کو ابرہہ کا ناتمام منصوبہ پورا کرنے کے لیے اپنی مدد پر بلا لیتے تو ہر شخص اندازہ کر سکتا ہے کہ مسلمانوں کو کس شدید مصیبت کا سامنا کرنا پڑتا۔

 

ابن اثیر اور بلاذری نے بیان کیا ہے کہ امن و امان کی برکات سے ان کی تعداد بڑھتے بڑھتے چالیس ہزار تک پہنچ گئی تھی اور دولت کی زیادتی نے ان میں خانہ جنگی کا سلسلہ بھی شروع کر دیا تھا۔ ان کے مختلف گروہ حضرت عمرؓ کے پاس آکر ایک دوسرے کی شکایتیں کرتے تھے اور ہر پارٹی کے لوگ دوسری پارٹی کو نکال دینے کا مشورہ دیا کرتے تھے۔ اول اول حضرت عمرؓ نے اس فتنے سے درگزر کیا، مگر جب ان کی روز افزوں قوت سے خود اسلامی حکومت کا قلب خطرے میں پڑ گیا تو آپؓ نے موقع کو غنیمت سمجھ کر ان کو جلا وطنی کا حکم صادر کر دیا۔ ۴

 

تاہم ایک ایسی قوم جس کے خلاف بغاوت کی تیاری کا ثبوت بہم پہنچ چکا تھا، اسے حدودِ حکومتِ اسلامیہ سے خارج نہیں کیا گیا بلکہ صرف عرب سے خارج کیا گیا۔ اس کو اللہ کی پناہ اور محمد نبی ﷺ کے ذمے سے محروم نہیں کیا گیا بلکہ اسی پناہ اور ذمے میں ایک نامناسب مقام سے دوسرے مناسب مقام کی طرف منتقل کر دیا گیا۔ نجران (یمن) سے ان کے اخراج کا مقصد صرف یہ تھا کہ وہ حجاز اور حبش کے درمیان ایک نازک سیاسی و حربی پوزیشن پر قابض نہ رہیں۔ اس سے زیادہ کوئی اور سزا دینی مقصود نہ تھی۔ اس لیے حضرت عمرؓ نے ان کو نجرانِ یمن سے منتقل کر کے نجرانِ عراق کی طرف بھیج دیا۔ ان کی زمینوں کے بدلے زمینیں دیں، دو سال کا جزیہ معاف کیا، یمن سے عراق تک کے سفر کے لیے پوری آسانیاں بہم پہنچائیں اور اپنے عمال کو حکم دیا کہ انہیں کسی قسم کی تکلیف نہ ہونے پائے۔ امام ابو یوسفؒ نے اس فرمان کو لفظ بلفظ نقل کیا ہے جس کے چند فقرے یہ ہیں:

"شام و عراق کے افسروں میں سے جس کے پاس یہ جائیں وہ ان کو قابلِ کاشت زمین عطا کرے۔ جس زمین میں یہ کاشت کریں وہ ان کے لیے خدا واسطے کا صدقہ ہے اور اس زمین کا عوض ہے جو یمن میں ان سے لی گئی ہے۔ اس زمین میں ان پر کوئی دست درازی اور مداخلت نہ کی جائے............ اگر کوئی شخص ان پر ظلم کرتا ہے تو ہر مسلمان جو وہاں موجود ہو، لازم ہے کہ ان کی مدد کرے، کیونکہ وہ ایسی قوم ہے جو ہماری پناہ میں ہے۔ ان کا جزیہ ۲۴ مہینے کے لیے معاف ہے۔" ۵

 

معترضین نے ان سب باتوں کو بھلا کر صرف اتنا یاد رکھا ہے کہ اہلِ نجران سے عہد تھا، حضرت عمرؓ نے اسے توڑا اور انہیں جلا وطن کر دیا، مگر ان تمام حالات کو دیکھ کر کوئی بتائے کہ اگر آج بیسویں صدی میں بھی کوئی قوم وہ روش اختیار کرے جو اہلِ نجران نے کی تھی اور اس کی سیاسی و جنگی پوزیشن وہی ہو جو اہلِ نجران کی تھی، تو ایک مہذب حکومت جو اپنی مملکت کے امن کو محفوظ رکھنا چاہتی ہو، اس کے ساتھ کیا سلوک کرے گی؟

 

۱۔ کتاب الخراج: صفحہ ۴۱؛ فتوح البلدان: صفحہ ۷۲۔

۲۔ ایضاً، کتاب الخراج: صفحہ ۴۲۔

۳۔ ایضاً، کتاب الخراج: صفحہ ۴۱۔

۴۔ فتوح البلدان: صفحہ ۷۳؛ ابن اثیر: جلد ۲، صفحہ ۴۸۴۔

۵۔ کتاب الخراج: صفحہ ۴۱۔

 

جدید قانونِ جنگ کی تدوین

 

اس باب میں جو کچھ عرض کیا گیا ہے اس کے مطالعے سے یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ شریعتِ اسلامیہ نے جنگ کے عملی پہلوؤں میں سے کسی پہلو کو بھی ایک مضبوط قانون سے منضبط کیے بغیر نہیں چھوڑا ہے۔ اس نے جنگ کے وہ تمام وحشیانہ طریقے جو دنیا میں رائج تھے یک قلم موقوف کر دیے، جنگ اور متعلقاتِ جنگ کے متعلق نئے مہذب قوانین وضع کیے، کچھ پرانے طریقوں کو وقت کی روح کے لحاظ سے ایک بدلی ہوئی شکل میں اگر باقی رکھا بھی تو ان کے اندر تدریجی اصلاح پذیری کی ایسی لچک پیدا کر دی کہ زمانے کی ترقی اور حالات کے تغیر اور انسانی افکار کے نشوونما کے ساتھ ساتھ ان میں خود بخود اصلاح ہو جائے۔ اسی طرح کچھ نئے اصول بھی وضع کیے جن میں ترقی کی ایسی صلاحیت رکھ دی کہ ہر زمانے کی ضروریات کے مطابق ان سے فروعی و جزئی احکام نکالے جا سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ نبی ﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہؓ نے ایک ایسا نمونہ عمل چھوڑا ہے جو روحِ شریعت کو پوری طرح ظاہر کرتا ہے اور اس روح کو پیشِ نظر رکھ کر ہم ہر نئی پیش آمدہ صورت میں یہ معلوم کر سکتے ہیں کہ اسلام اس میں عمل کا کون سا پہلو اختیار کرے گا۔

 

قرونِ وسطیٰ میں فقہاء نے اسی مواد سے ایک مکمل ضابطہ قوانینِ جنگ مرتب کیا تھا جو صدیوں تک اسلامی سلطنتوں میں رائج رہا۔ مگر اس زمانے کے قوانینِ جنگ، آج کے حالات کے لیے کافی نہیں ہیں۔ بہت سے فروعی و جزئیات جو اس زمانے میں مستنبط کیے گئے تھے آج بے کار ہیں۔ بہت سے نئے حالات جو دورِ جدید کے حربی طریقوں اور تمدنی تغیرات کی وجہ سے پیدا ہو گئے ہیں ان کے بارے میں فروعی احکام قدیم کتبِ فقہیہ میں موجود نہیں ہیں۔ ان کو ہم باقی رکھیں اور جو ماضی کے ساتھ پرانی ہو چکی ہیں ان کو چھوڑ کر براہِ راست اصولِ شریعت سے فروع اخذ کریں۔ مثال کے طور پر قرآن و حدیث میں ہم کو اسیرانِ جنگ، زخمیوں اور بیماروں اور غیر جانبداروں کے حقوق و فرائض اور ایسے ہی دوسرے مسائل کے متعلق صرف اصول ملتے ہیں، فروع کی کوئی تفصیل نہیں ملتی۔ اس عدمِ تفصیل اور بیانِ اصول پر اکتفا کے معنی یہ ہیں کہ شریعت ہر زمانے کے مسلمانوں کو یہ حق دیتی ہے کہ اپنے عہد کی ضروریات کے مطابق خود فروع اخذ کر لیں۔ لہٰذا ہم کو اس بات کی ضرورت نہیں ہے کہ ان فروع کے لیے پانچویں اور چھٹی صدی ہجری کی لکھی ہوئی کتبِ فقہیہ کی طرف رجوع کریں اور ان میں جو کچھ تفصیلات ملیں ان کو بلا تامل قبول کر لیں۔ بلکہ ہمارا کام یہ ہے کہ خود اپنے زمانے کے حالات کو دیکھ کر ان اصولِ شریعت سے ایسے قوانین مستنبط کر لیں جو موجودہ حالات کے لیے مناسب ہوں، بلکہ شریعت ہم کو یہ حق بھی دیتی ہے کہ موجودہ رائج الوقت قوانین جس حد تک روحِ شریعت کے مطابق ہوں ان کو ہم اختیار کر لیں، اور زمانہ حال کی سلطنتوں کے درمیان جو مفاہمتیں ہوں ان میں بھی احکامِ شرعیہ کو ملحوظ رکھ کر شریک ہو جائیں۔

 

اسی خیال سے میں نے اس باب میں شریعت کے اصلی مآخذ یعنی قرآن و حدیث سے وہ اصول و فروع نقل کر دیے ہیں جو ایک مکمل ضابطہ قانون کے لیے مواد مہیا کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ جہاں جہاں علمائے سلف کی تصریحات عہدِ جدید کی اسپرٹ کے مطابق پائی گئی ہیں ان کو بھی نقل کر دیا ہے اور ان مستثنیات کی بھی تشریح کر دی ہے جن کی ظاہری شکل کو دیکھ کر لوگوں کو اسلامی قانون کے اندر تناقض ہونے کا شبہ ہو سکتا ہے۔ اب اس تمام مواد کو پیشِ نظر رکھ کر فقہ کی جدید کتاب الجہاد مرتب کرنا فقہائے عصر کا کام ہے۔

 

باب ششم: جنگ دوسرے مذاہب میں

 

کسی چیز کے عیب و صواب کی جب تحقیق کی جاتی ہے تو پہلے یہ دیکھا جاتا ہے کہ وہ خود کیسی ہے؟ پھر یہ دریافت کیا جاتا ہے کہ دوسری چیزوں کے درمیان اس کا درجہ کیا ہے۔ جب ان دونوں حیثیتوں سے وہ بہتر ثابت ہو جائے تب ہی اسے پسندیدگی کی سند بخشی جا سکتی ہے۔ اس طریقِ تحقیق کے لحاظ سے جہاں تک پہلے مرحلے کا تعلق ہے اس کو ہم طے کر چکے ہیں۔ اب دوسرا مرحلہ باقی ہے، سو اس میں ہم پہلے اسلام کو دوسرے مذاہب کے مقابلے میں رکھ کر دیکھیں گے، اور پھر جدید زمانے کے قوانین سے موازنہ کر کے تحقیق کریں گے کہ مسئلہ جنگ میں ان کا طریقہ اسلام کے طریقے سے کیا نسبت رکھتا ہے۔ اگر وہ جنگ کو جائز رکھتے ہیں تو ان کے مقاصد اور مناہج (طریقے) اسلام سے بہتر ہیں یا بدتر؟ اور اگر جائز نہیں رکھتے تو اس باب میں ان کی تعلیم انسانی فطرت کے مطابق ہے یا اسلام کی۔

 

تقابلِ ادیان کے اصول

 

ادیان کا مقابلہ درحقیقت ایک بہت مشکل کام ہے۔ انسان جس عقیدے اور رائے پر ایمان رکھتا ہو اس کے مخالف عقائد و آراء کے ساتھ بہت کم انصاف کر سکتا ہے۔ یہ کمزوری انسانی طبائع میں بہت عام ہے۔ مگر خصوصیت کے ساتھ مذہبی گروہ میں تو اس نے تعصب و تنگ نظری کی بدترین شکل اختیار کر لی ہے۔ ایک مذہب کے پیرو جب دوسرے مذاہب پر تنقید کرتے ہیں تو ہمیشہ ان کے تاریک پہلو ہی تلاش کرتے ہیں اور روشن پہلو کو یا تو دیکھنے کی کوشش ہی نہیں کرتے یا اگر دیکھ بھی لیتے ہیں تو اسے دیدہ و دانستہ چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مذہبی تنقید سے ان کا مدعا دراصل حق کی تلاش نہیں ہوتا بلکہ محض اس رائے کو جسے وہ تحقیق سے پہلے اختیار کر چکے ہیں درست ثابت کرنا ہوتا ہے۔ اس طریقے سے تقابلِ ادیان کے تمام فوائد زائل ہو جاتے ہیں اور خود اس مذہب کو بھی کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا جس کی تائید میں یہ گمراہ کن طریقہ اختیار کیا جاتا ہے۔

 

اگر تقابل کا مقصد حق کی تحقیق اور اس کے احقاق کے سوا کچھ اور نہیں ہے تو یقیناً اس مقصد کے حصول کا بھی یہ کوئی صحیح طریقہ نہیں ہے کہ آدمی پہلے سے دوسرے مذاہب کے متعلق ایک مخالفانہ رائے قائم کر لے اور ان کا مطالعہ صرف اس نیت سے کرے کہ ان کی خوبیوں پر پردہ ڈالنا ہے اور ان کی برائیوں کو تلاش کر کے ان سے اپنے مذہب کی برتری ثابت کرنی ہے۔ اس قسم کی بددیانتی سے نہ حق ثابت ہو گا، نہ ایسی کامیابی کسی دینِ حق کے لیے باعثِ فخر ہو سکتی ہے، اور نہ حق و صداقت کی نظر میں ایسے مذہب کو کوئی وقعت حاصل ہو سکتی ہے۔ اگر اس طرح دھوکا کھا کر کوئی شخص اس کی حقانیت کا معتقد ہو جائے تو یہ اعتقاد بالکل ناقابلِ اعتماد ہو گا، کیونکہ اس کی بنیاد ہی غلط ہو گی۔

 

ان مفاسد سے احتراز کر کے تقابلِ ادیان کی بحث کو کسی صحیح نتیجے تک پہنچانے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے تقابل کے لیے چند اصول طے کر لیے جائیں اور ان کی سختی کے ساتھ پابندی کی جائے۔ ہماری رائے میں وہ اصول یہ ہونے چاہئیں:

 

(۱)۔ ایک مذہب کی تعلیم کو صحیح ثابت کرنے کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ دوسرے مذاہب کی تعلیمات کو کلیتاً غلط ثابت کیا جائے، اور نہ یہ ضروری ہے کہ ایک مذہب میں حق و صداقت کے موجود ہونے سے دوسرے مذہب میں اس کا عدم لازم آئے۔ حق ایک کلی حقیقت ہے جس کے افراد خواہ کہیں ہوں بہرحال اسی ایک کلی کے فرد رہتے ہیں۔ حال و مقام کے بدلنے سے ان کی حقیقت و اصلیت نہیں بدلتی۔ جو حق ہمارے مذہب میں پایا جاتا ہے اسی کا دوسرے مذہب میں پایا جانا دونوں میں سے کسی مذہب کے بھی نقص کی دلیل نہیں ہے کہ اس پر خواہ مخواہ پردہ ڈالنے کی کوشش کی جائے، بلکہ دراصل وہ اس بات کی دلیل ہے کہ دونوں کسی ایک مشترک سرچشمۂ حق سے ماخوذ ہیں جس کا فیض دونوں کے پاس محفوظ رہا ہے۔ پس حق اور جتنا اور جیسا فیضان بھی کہیں موجود ہے اس کا مستحق ہے کہ اس کی قدر کی جائے نہ کہ خواہ مخواہ کھینچ تان کر اسے بے قدر ثابت کرنے پر زور صرف کیا جائے۔

 

(۲)۔ جو شخص یہ دعویٰ کرتا ہے کہ حق اس کے مذہب کے سوا کہیں اور موجود نہیں ہے وہ دوسرے مذاہب ہی پر نہیں خود حق پر بھی ظلم کرتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ حق و صداقت کی روشنی کم و بیش سب جگہ موجود ہے۔ البتہ اربابِ تحقیق جب کسی ایک مذہب کو دوسرے مذاہب پر ترجیح دیتے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ان کی نگاہ میں وہ مذہب تجلیاتِ حقیقت کا مظہرِ اتم ہوتا ہے۔ پس تقابلِ ادیان کے کسی متعلم کو کبھی یہ پیشگی فیصلہ کر کے نہ بیٹھ جانا چاہیے کہ اس کے مرغوب مذہب کے سوا تمام مذاہب حق کی روشنی سے خالی ہیں، بلکہ اسے یہ سمجھنا چاہیے کہ اس کے سامنے حق اور باطل دونوں ملے جلے آئیں گے اور اس کا کام یہ ہو گا کہ اپنی عقل اور قوتِ تمیز سے کام لے کر حق کو حق اور باطل کو باطل دیکھے اور ایک دوسرے سے مختلط نہ ہونے دے۔

 

(۳)۔ مذہبی تحقیقات میں اس امر کا خاص اہتمام کرنا چاہیے کہ کسی مذہب کے متعصب مخالفین اور غالی متبعین دونوں کی تصنیفات کا مطالعہ کرنے سے پرہیز کیا جائے۔ ابتدائی تحقیقات میں اس قسم کے لوگوں کی تصنیفات کے مطالعے سے ایک ناظر کبھی صحیح نتیجے پر نہیں پہنچ سکتا، کیونکہ زیرِ تحقیق مذہب کے اصلی چہرے کو دیکھنے سے پہلے ہی اس کی آنکھوں پر ایک خاص رنگ کی عینک چڑھ جاتی ہے جس سے وہ اس مذہب کو اس کے اصلی رنگ میں نہیں دیکھ سکتا۔ اگر اس تحقیقات کو کسی صحیح نتیجے تک پہنچانا ہو تو یہ ضروری ہے کہ کسی مذہب کو اس حیثیت سے نہ دیکھا جائے کہ دوسرے اس کو کس شکل میں دیکھتے ہیں، بلکہ اس حیثیت سے دیکھا جائے کہ وہ خود اپنے آپ کو کس شکل میں دکھاتا ہے۔ اس کے لیے حتی الامکان ہر مذہب کے مآخذِ اصلیہ کا مطالعہ کرنا چاہیے، اور ان کو پڑھ کر خود اپنی عقل سے فیصلہ کرنا چاہیے کہ وہ مذہب کہاں تک صحیح اور کہاں تک غلط ہے۔ پھر جب آدمی خود ایک رائے قائم کر لے تو اس کے بعد دوسروں کی آراء و افکار کا مطالعہ کرنے میں کچھ مضائقہ نہیں، کیونکہ اس وقت وہ حق اور باطل میں بآسانی امتیاز کر سکے گا۔

 

آئندہ صفحات میں مسئلہ جنگ کے متعلق مختلف مذاہب کی تعلیمات پر جو گفتگو کی گئی ہے اس میں انہی تین اصولوں کو ملحوظ رکھا گیا ہے اور اس امر کی پوری کوشش کی گئی ہے کہ اپنے مذہب کی تائید و حمایت کے جذبے سے خالی ہو کر حق کو حق اور باطل کو باطل ثابت کیا جائے۔

 

دنیا کے چار بڑے مذاہب

 

اس مختصر کتاب میں یہ ممکن نہیں ہے کہ جنگ کے متعلق دنیا کے تمام چھوٹے بڑے مذاہب کی تعلیمات کا جائزہ لیا جائے۔ اس قسم کا احاطہ و استیعاب نہ تو آسان ہے اور نہ ضروری۔ عموماً تقابلِ ادیان کی بحثیں صرف ان مذاہب تک محدود رہتی ہیں جو اپنے پیرووں کی کثرت، اپنے اثرات کی وسعت اور اپنی گزشتہ و موجودہ عظمت کے اعتبار سے دنیا کے بڑے مذہب شمار کیے جاتے ہیں۔ اسی قاعدے کی پیروی کر کے ہم اپنی بحث کو چار بڑے مذاہب تک محدود رکھیں گے یعنی ہندو مذہب، بودھ مت، یہودیت، مسیحیت۔

 

مسئلہ جنگ کے لحاظ سے یہ چار مذاہب دو فریقوں میں تقسیم ہو جاتے ہیں۔ ایک فریق وہ جس نے جنگ کو جائز رکھا ہے۔ اس میں ہندو مذہب اور یہودیت شامل ہیں۔ دوسرا فریق وہ جس نے جنگ کو جائز نہیں رکھا، یہ بودھ مذہب اور مسیحیت پر مشتمل ہے۔ ہم اپنی بحث کی ابتدا فریقِ اول سے کریں گے۔

 

۱۔ ہندو مذہب

 

اس مذہب پر گفتگو کرنے میں ایک شخص کو سب سے پہلے یہ مشکل پیش آتی ہے کہ وہ کس چیز کو ہندو مذہب قرار دے؟ ہندومت ان معنوں میں کوئی مذہب ہی نہیں ہے جن میں عموماً یہ لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ مذہب کے لیے ضروری ہے کہ اس کا ایک مرکزی عقیدہ ہو جس پر اس کی بنیاد رکھی گئی ہو۔ مگر ہندو مذہب میں ہم کو ایسا کوئی مرکزی عقیدہ نہیں ملتا۔ مختلف طبقے اور گروہ جن کے عقائد، شعائر، عبادات اور کتب وغیرہ ایک دوسرے سے بالکل جدا ہیں، اس میں شامل ہیں اور سب کے سب ہندو کہلاتے ہیں۔ ۱ اس لیے جب ہم کبھی کسی مسئلے میں ہندو مذہب کا فتویٰ طلب کرتے ہیں تو ہمیں یہ فیصلہ کرنے میں بڑی دقت پیش آتی ہے کہ اس کے مختلف مذاہب میں سے کس کو خطاب کریں۔

 

تاہم اس مشکل کو ہندوؤں کے جدید مذہبی رجحان نے ایک حد تک آسان کر دیا ہے۔ گو مذاہب و مسالک کا اختلاف اب بھی باقی ہے لیکن چند مخصوص کتابوں پر اپنی مذہبی عقیدت کو مرکوز کرنے کی طرف ہندوؤں کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے اور ان کی ایک بڑی اکثریت نے ان کتابوں کو اپنے دین کی اساس و بنیاد کے طور پر تسلیم کر لیا ہے۔ یہ کتابیں تین ہیں: چار وید، گیتا، منو سمرتی۔ یہاں ہندو مذہب کے متعلق جو کچھ کہا جائے گا اس کا ماخذ یہی تین کتابیں ہوں گی۔

 

ہندو مذہب کے تین دور:

 

یہ تینوں کتابیں تاریخی حیثیت سے تین مختلف دوروں سے تعلق رکھتی ہیں اور مسئلہ جنگ میں ہندو مذہب کے تین پہلوؤں کو پیش کرتی ہیں۔

 

   ویدوں کا دور: ویدوں کا تعلق اس دور سے ہے جب آریہ قوم وسط ایشیا سے نکل کر ہندوستان پر حملہ آور ہوئی تھی اور اس ملک کے اصلی باشندوں سے، جو رنگ و نسل اور مذہب میں اس سے بالکل مختلف تھے، برسرِ جنگ تھی۔ اس جنگ میں اپنے اجنبی دشمنوں کے خلاف ان حملہ آوروں کے جذبات کیا تھے؟ ان کو وہ کس نظر سے دیکھتے تھے؟ ان سے بنائے مخاصمت کیا تھی؟ ان کے خلاف جنگ کے مقاصد کیا تھے؟ اور وہ ان سے کس قسم کا معاملہ کرنا پسند کرتے تھے؟ ویدوں کی نظمیں ان سوالات پر کافی روشنی ڈالتی ہیں۔

   گیتا کا دور: گیتا اس دور کی کتاب ہے جب شمالِ ہند پر آریوں کا تسلط قائم ہو چکا تھا اور تفوق و برتری کے لیے خود آریوں کے دو بااثر خاندانوں میں کشمکش ہو رہی تھی۔ یہ کتاب ہم کو کرشن جی جیسے مذہبی پیشوا کی زبان سے جنگ کے متعلق ہندوؤں کے فلسفیانہ افکار کا علم دیتی ہے۔

   منو سمرتی کا دور: منو سمرتی اس دور کے مذہبی و سیاسی اور تمدنی قوانین کا مجموعہ ہے جب ہندوستان پوری طرح آریہ ورت بن چکا تھا، غیر آریہ قوموں کی طاقت فنا ہو چکی تھی اور اس ملک میں آریہ قوم کی تہذیب عروج پر تھی۔ اس کتاب میں ہم کو جنگ کے قواعد و ضوابط اور مفتوح اقوام کے حقوق و فرائض کے متعلق بہت کچھ تفصیلات ملتی ہیں۔

 

آئندہ بحث میں یہی ترتیب ملحوظ رکھی جائے گی۔

 

(الف) ویدوں کی جنگی تعلیم: ۲

 

لفظ وید چار کتابوں پر بولا جاتا ہے جو الگ الگ ناموں سے مشہور ہیں۔ ان میں سب سے قدیم رگِ وید ہے۔ پھر یجروید، پھر سام وید، پھر اتھروید۔ ان کے منتروں کو مضامین کے اعتبار سے مرتب کرنا مشکل ہے، کیونکہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ایک ایک منتر میں متعدد مضامین آجاتے ہیں۔ اس لیے ہم مضامین کے اعتبار کو نظر انداز کر کے ہر کتاب کے ان منتروں کو الگ الگ نقل کریں گے جو جنگ سے کسی نوع کا تعلق رکھتے ہیں۔

 

   رگ وید: رگ وید کے وہ منتر جن میں جنگ کا مضمون پایا جاتا ہے حسبِ ذیل ہیں:

       ”اے اندر! وہ دولت لا جو مسرت بخشے، فاتح کی دائمی فاتحانہ دولت جو ہماری خوب مدد کرے، جس کے ذریعے سے ہم دست بدست لڑائی میں اپنے دشمنوں کو دفع کر سکیں۔“ (۱: ۸: ۲۷)

       ”اے روشن آگ! تو جس پر متبرک (گھی) ڈالا جاتا ہے ہمارے دشمنوں کو جلا دے جن کی حفاظت خبیث روحیں کرتی ہیں۔“ (۱: ۱۲: ۵)

       ”(اندر اور ورون) کی نصرت سے ہم دولت کا بڑا خزانہ جمع کر لیں اور اس کے کٹھے (ذخیرے) بھر لیں، کافی اور بچا رکھنے کے قابل۔ اے اندر اور ورون! تم کو میں دولت کے لیے متعدد صورتوں سے پکارتا ہوں، ہم کو تم فتح مند رکھو۔“ (۱: ۱۷: ۶-۷)

       ”ہر بدگو (برا کہنے والے) کو قتل کر دے اور جو کوئی ہم کو خفیہ طریقوں سے (غالباً جادو سے) تکلیف پہنچائے اسے برباد کر۔ اے اندر! ہم کو خوبصورت گھوڑے اور گائیں دلوا، ہزاروں کی تعداد میں، اے بڑے دولت مند!“ (۱: ۲۹: ۷)

       ”تو آریوں اور دسیووں ۳ کے درمیان امتیاز کر، جو ادھرمی (بے دین) ہیں ان کو سزا دے اور انہیں اس کے حوالے کر دے جس کی گھاس (دیوتاؤں کے نذرانے کے لیے) کٹی رکھی ہے۔“ (۱: ۵۱: ۸)

       ”ان خوبصورت شعلوں اور سوم رس کے قطروں سے خوش ہو کر ہمارے گھوڑوں اور گایوں کے افلاس کو دور کر دے۔ ان قطروں کے باعث اے اندر! دسیوں کو منتشر کر دے اور ان کی نفرت سے محفوظ ہو کر ہم وافر سامانِ خوراک حاصل کر لیں۔ اے اندر! ہم کو خوب دولت اور خوراک جمع کر لینے دے... ہم بہادروں کی سی طاقت پیدا کر لیں جو مواشی اور گھوڑے حاصل کرنے کا خاص وسیلہ ہے۔“ (۱: ۵۳: ۴-۵)

       ”پس اے اندر! ہم کو بڑھنے والی شوکت عطا کر، ہم کو وہ قہر اور طاقت عطا کر جو قوموں کو مغلوب کرے، ہمارے دولت مند سرداروں کو برقرار رکھ، ہمارے راجاؤں کی حفاظت کر، ہم کو دولت اور خوراک شریف اولاد کے ساتھ عنایت کر۔“ (۱: ۵۴: ۱۱)

       ”اے آگنی! تیرے مالدار پوجاری خوراک حاصل کریں اور امر (لمبی) ابدی عمریں پائیں۔ ہم اپنے دشمنوں سے لڑائی میں مالِ غنیمت حاصل کریں، اور دیوتاؤں کو ان کا حصہ نذر کریں۔ اے اگنی! ہم تیری مدد سے گھوڑوں کے ذریعے گھوڑے، آدمیوں کے ذریعے سے آدمی اور بہادروں کے ذریعے سے بہادر فتح کریں۔“ (۱: ۷۴: ۵-۹)

       ”طاقتور اندر راجہ نے اپنے حسین رنگ ۴ والے دوستوں کے ساتھ مل کر زمین فتح کی، سورج کی روشنی اور پانیوں کو فتح کیا، اندر ہمارا محافظ ہو اور ہم بے خوف و خطر مال لوٹیں۔“ (۱: ۱۰۰: ۱۸-۱۹)

       ”اے اندر! تو نے پورو کے لیے، اپنے غلام دیوداس کے لیے، اپنے پوجاری کے لیے نوے قلعوں کے پرخچے اڑا دیے۔ اس طاقتور نے اتیتھگو کے لیے شمبر کو پہاڑوں سے اتارا، اپنی قوت سے زبردست خزانے تقسیم کیے اور تمام خزانوں کو بانٹ دیا۔ اندر نے جنگ میں اپنے آریہ پوجاریوں کی مدد کی، اس نے جو ہر جنگ میں سینکڑوں نصرتیں مہیا رکھتا ہے...“ (۱: ۱۳۰: ۷-۸)

       ”اے اندر مگھون! ہم جنگ میں تجھ سے امداد پاکر ان لوگوں کو مغلوب کریں جو ہمارا مقابلہ کرتے ہیں، ان کو فتح کریں جو ہم سے لڑتے ہیں۔ آج کے دن سوم رس انڈیلنے والوں کو برکت دے، ہم اپنی اس قربانی میں اپنی قوت دکھا کر مالِ غنیمت تقسیم کریں، لڑائی کا مالِ غنیمت۔“ (۱: ۱۳۲: ۱)

       ”ہم تیری مدد سے دولت حاصل کریں، تیری اعانت سے اور آریوں کی قوت سے اپنے تمام دشمن دسیوں کو مغلوب کر کے۔“ (۲: ۱۱: ۱۹)

       ”اے بہادر! تو ہمارے من چلے بہادروں کے ساتھ مل کر وہ شجاعانہ کارنامے دکھا جنہیں تجھ کو پورا کرنا ہے۔ وہ (یعنی دشمن) اپنی قوت کے زعمِ باطل سے پھولے ہوئے ہیں، ان کو قتل کر اور ان کی املاک یہاں ہمارے پاس لے آ۔“ (۲: ۳۰: ۱۰)

       ”اے اندر! تو جنگ کے میدانوں میں مواشی حاصل کرنے کے لیے لڑتا رہا ہے، کیونکہ بہت لوگ تیری حمد و ثنا کرتے ہیں۔“ (۵: ۳۳: ۴)

       ”اندر نے سورج اور گھوڑوں پر قبضہ کر کے اس گائے کو حاصل کیا جو بہت سوں کو سیر کرتی ہے، اس نے سونے کے خزانے فتح کیے، اس نے دسیوں کو زیر کیا اور آریہ ورن (نسل) کو محفوظ کر دیا۔“ (۳: ۳۴: ۹)

       ”اے آگ کے دیوتا! جو کوئی خفیہ طور سے ہم پر حملہ کرے، جو ہمسایہ ہم کو ضرر پہنچائے اس کو تو مترا کی طاقت سے، ہمیشہ مشتعل رہنے والے شعلے سے، جلانے والی تیز حرارت سے، جلا دے... ہماری مدد کر تاکہ ہم یہ خواہش پوری کریں، دولت حاصل کریں بہادروں کے ذخیرے کے ساتھ۔“ (۳: ۵۳: ۲۱-۲۳)

       ”اے اندر! ہم کو بہادرانہ سطوت عطا کر، آزمودہ کاری اور اس روز افزوں قوت کے ساتھ جو مالِ غنیمت حاصل کرتی ہے۔ تیری مدد سے ہم جنگ میں اپنے دشمنوں کو مغلوب کریں چاہے وہ اپنے ہوں یا پرائے۔ ہم ہر دشمن پر فتح مند ہوں۔ اے بہادر! تیری مدد سے دونوں قسم کے دشمنوں کو قتل کر کے خوش حال ہوں، بڑی دولت کے ساتھ۔“ (۶: ۱۶: ۱۳-۱۴)

       ”تو نے داس ۵ قبائل کے نوے قلعے توڑ دیے جو ان کی جائے پناہ تھے، تو نے ان کو تہِ تیغ کر دیا اور پوروکستا کی مدد کی۔“ (۶: ۲۰: ۱۰)

       ”اے اندر! ہم کو وہ دولت دے جو دشمن کو جنگ میں اس طرح مغلوب کر دے جیسے آسمان زمین پر چھایا ہوا ہے، دولت جو ہزاروں مال لاتی ہے، جو غلبہ پیدا کرنے والی زمینیں فتح کرتی ہے، وہ دولت جو دشمن کو شکست دیتی ہے۔“ (۶: ۳۰: ۱)

       ”اے دیوتاؤ! ہم ایک ایسے ملک میں آپہنچے ہیں جو چراگاہوں سے خالی ہے، ایسی سرزمین جو وسیع ہونے کے باوجود ہمیں پرورش کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔ اے برہسپتی! مواشی حاصل کرنے کے لیے جنگ میں مدد کر۔ اے اندر! اس بھجن گانے والے کے لیے ایک راہ نکال... روز بروز وہ ان کی (یعنی آریوں کی) جائے سکونت سے اس سیہ رو مخلوق کو دور بھگا رہا ہے۔ اس بہادر نے ان کمینے پھیری والے داسوں یعنی ورچین اور شامبر کو دریاؤں کے سنگم پر قتل کر ڈالا۔“ (۶: ۴۷: ۲۰-۲۱)

       ”تیر کمان کی مدد سے ہم مواشی حاصل کریں، تیر کمان کی مدد سے ہم لڑائی جیتیں، تیر کمان کی مدد سے اپنی گھمسان کی لڑائیوں میں فتح مند ہوں، تیر کمان دشمنوں کو غمگین کرتی ہے، اس سے مسلح ہو کر ہم تمام ممالک فتح کریں۔“ (۶: ۷۵: ۲-۴) [نیز یجروید ابیض ادھیائے ۲۹ منتر ۳۹]

       ”اے اندر! جب میدانِ جنگ گرم ہو تو تو ہمارے دشمنوں کو، ان فانی لوگوں کو جو ہماری ہجو کرتے ہیں، ہلاک کر دے۔ بدگوؤں کی بددعائیں ہم سے دور رکھ، ہمارے پاس مال و دولت کے جمع کیے ہوئے خزانے لا، ہمارے فانی حریفوں کے ہتھیار توڑ دے، ہمیں عظیم الشان شہرت اور مال و دولت عطا کر، ہمارے حریفوں کو آسانی کے ساتھ مغلوب ہو جانے والا بنا دے۔ اے بہادر! ہم فتح مند ہوں، مالِ غنیمت حاصل کریں۔ اس طرح اے اندر! قیمتی چیزوں سے ہم کو مطمئن کر، ہم تیری بلند پایہ مہربانی حاصل کریں، ہمارے بہادروں کو بکثرت سامانِ خوراک اور بہادر اولاد حاصل ہو۔“ (۷: ۳۲: ۲-۳، ۵)

       ”اے مگھون! ہمارے دشمنوں کو بھگا دے، مال و دولت کی فتح کو آسان کر، تو مالِ غنیمت حاصل کرنے کے لیے لڑائی میں ہمارا چھا (بہترین) محافظ بن۔“ (۷: ۳۲: ۲۵)

       ”اے بہادر! ہم تیری دوستانہ معیت میں اس شخص کا مقابلہ کریں جو ہمارے خلاف غصے سے بھڑک رہا ہے اور اس قوم کے ساتھ لڑائی میں ثابت قدم رہیں جو کثرت سے گائیں رکھتی ہے۔“ (۸: ۲۱: ۱۱)

       ”ہم جنگ میں ایسے ہو جائیں کہ تیری کرپا (مہربانی) کے یقینی مستحق ہوں۔ دیوتاؤں کے لیے متبرک نذرانوں اور مناجاتوں سے ہمارا مدعا یہ ہے کہ ہم مالِ غنیمت حاصل کر سکیں۔“ (وال کھلّیہ ۸: ۵۴: ۷)

       ”اے اندر! خزانوں کے خزانچی! ہم نے خزانوں کی خواہش سے تیرا سیدھا ہاتھ تھام لیا ہے کیونکہ ہم تجھ کو جانتے ہیں۔ اے بہادر! مویشیوں کے مالک! ہم کو زبردست درخشاں زر و مال عطا کر... نامور رشیوں کے ساتھ مضبوط ہو کر ہمارے دشمنوں کو مغلوب کر کے ہمیں زبردست درخشاں زر و مال عطا کر... سچے اندر! قلعوں کو مسمار کر کے، دسیوں کو قتل کر کے، ہم کو زبردست درخشاں زر و مال عطا کر۔“ (۱۰: ۴۷: ۱-۳)

       ”ہمارے گرد وہ دسیو ہیں جن کا کوئی دھرم نہیں ہے، عقل سے محروم، انسانیت سے خارج، غیر مانوس قوانین کے پابند ہیں۔ اے قاتلِ دشمناں! ان کا قلع قمع کر، داس نسل کو تباہ کر دے۔“ (۱۰: ۲۲: ۸)

       ”دشمنوں کو قتل کرنے والے ورترا (اندر)! دسیو کو ہلاک کرنے والے! تو ہمارے پاس ہر قسم کی دولت اور خزانے لا۔“ (۱۰: ۸۳: ۶)

       ”تو ہمارے دشمنوں کو قتل کر، ان کی جائیداد و املاک بانٹ دے، اپنی قوت کے کرشمے دکھا، ان لوگوں کو منتشر کر دے جو ہم سے نفرت کرتے ہیں۔ اے مینو (منتر)! ہم سے لڑنے والوں پر غالب آ، توڑے جا، قتل کیے جا، دشمنوں کو کچلے جا۔“ (۱۰: ۸۴: ۲-۳)

       ”لڑ، اے صداقت سے مضبوط ہو کر لڑنے والے، تو لڑائی لڑ اور ہم کو اس دولت سے حصہ دلوا جو ابھی تک تقسیم نہیں ہوئی ہے۔“ (۱۰: ۱۱۲: ۱۰)

       ”اے اندر! تو سوریہ (سورج) کے ساتھ داس قوموں پر غالب آ۔“ (۱۰: ۱۱۳: ۱۰)

       ”مجھ کو اپنے ہمسروں میں سانڈ (طاقتور) بنا۔ مجھ کو اپنے حریفوں کو فتح کرنے والا بنا۔ مجھ کو اپنے دشمنوں کا قتل کرنے والا، بااختیار حکمراں، مویشیوں کا مالک بنا۔“ (۱۰: ۱۶۶: ۱)

 

   یجروید: یجروید (ابیض) میں ہم کو جنگ کے متعلق حسبِ ذیل منتر ملتے ہیں:

       ”یہ اگنی ہم کو وسیع مکان اور آرام و آسائش بخشے اور ہمارے دشمنوں کو ہمارے آگے مارتی بھگاتی چلے، وہ مالِ غنیمت حاصل کرنے کی جنگ میں مالِ غنیمت لوٹے، وہ اپنی فاتحانہ پیش قدمی میں دشمنوں کو زیر کرے۔“ (۸: ۴۴)

       ”اے اگنی! ہماری مزاحمت کرنے والی جماعتوں کو مغلوب کر، ہمارے دشمنوں کو بھگا دے۔ اے اجیت (ناقابلِ شکست)! دیوتاؤں کو نہ ماننے والے حریفوں کو قتل کر اور اپنے پوجاری کو عظمت و شوکت نصیب کر۔“ (۹: ۳۷)

       ”اے دسیوں کے حق میں سب سے زیادہ تباہ کن! تجھ کو پاتھیا نے روشن کیا ہے، تو ہر لڑائی میں مالِ غنیمت حاصل کرتی ہے۔“ (۱۱: ۳۴)

       ”جو شخص ہم کو نقصان پہنچانے کی فکر کرتا ہے، جو ہم کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے، اور جو کوئی ہم پر تہمت لگائے اور ہمیں ایذا دے، اسے تو جلا کر راکھ کر دے۔“ (۱۱: ۸۰)

       ”اے آگ! تو جس کے شعلے تیری طرح تیز ہو رہے ہیں، ہمارے آگے آگے پھیل، ہمارے دشمنوں کو جلا دے، اے بھڑکتی ہوئی آگ! جس نے ہمارے ساتھ بدی کی ہے تو اس کو سوکھی لکڑی کی طرح بالکل بھسم کر دے۔ اے اگنی! اٹھ، ان لوگوں کو بھگا دے جو ہمارے خلاف لڑتے ہیں، اپنی آسمانی طاقت کا مظاہرہ کر۔“ (۱۳: ۱۲-۱۳)

       ”درندہ جانور اس کے ہتھیار ہیں، مردہ خور (جانور) اس کا پھینکا ہوا ہتھیار ہے، ان (درندوں) کو سلام ہو، وہ ہماری حفاظت کریں، وہ ہم پر رحم کھائیں، ہم اس آدمی کو ان کے منہ میں ڈال دیں جس سے ہم نفرت کرتے ہیں اور جو ہم سے نفرت کرتا ہے۔“ (۱۶: ۱۵)

       ”اے اندر! تو کہ اپنی طاقت کے لیے مشہور ہے، مضبوط ہے، زبردست لڑنے والا ہے، شہزور و خونخوار ہے، فتح مند اور ہر ایک کو زیر کرنے والا ہے، فتح و کامرانی کا بیٹا ہے، گائیں لوٹنے والا ہے... تو آدمیوں اور بہادروں سے نکل کر اپنی فتح کی گاڑی پر سوار ہو... اصطبلوں کا کھولنے والا، گائیں لوٹنے والا، اس صاعقہ (بجلی) سے مسلح ہے جو ایک پوری فوج کو شکست دیتا ہے اور طاقت سے اس کو تباہ کر دیتا ہے۔ بھائیو! اس کے پیچھے پیچھے آؤ، اپنے تئیں بہادروں کی طرح آزاد چھوڑ دو اور اس اندر کی طرح اپنی شجاعت اور جسارت کا اظہار کرو... ہمارے دشمنوں کے حواس باختہ کر دے۔ اے اپوا ۶! تو ان کو پکڑ لے جا، ان پر حملہ کر، ان کے دلوں کو آگ پر رکھ، انہیں جلا دے، اس طرح ہمارے دشمن ہمیشہ تاریکی میں رہیں گے۔“ (۱۷: ۳۳-۳۴، ۳۷-۳۸، ۴۴)

 

   سام وید: سام وید کے جن منتروں میں جنگ کا مضمون آیا ہے وہ یہ ہیں:

       ”اندر! ہماری مدد کے لیے ایسی کارآمد دولت دے جو ہنرمند ہوشیار لوگوں پر حکومت کرنے والی ہو۔ ہاں وہ قوت والا ہم کو اقتدار کی دولت دے۔ اندر اور پوشن کو ہم دوستی اور خوشحالی کے لیے پکاریں اور مالِ غنیمت لوٹنے کے لیے۔“ (حصہ اول، ۱: ۶: ۳-۴)

       ”ہم تجھے پکارتے ہیں تاکہ ہم اپنے لیے دولت اور اقتدار حاصل کریں، اے اندر! اے بہادروں کے سردار! لوگ جنگ میں تجھ کو پکارتے ہیں، گھوڑ دوڑ میں تجھ کو پکارتے ہیں۔ عملی آدمی اپنے سچے حلیف بورندھی کے ساتھ مالِ غنیمت حاصل کرے گا۔“ (۲: ۵: ۱: ۶)

       ”جب ہم رس نکالتے ہیں تو اے اندر! بڑے بہادر! ہم تیری حمد و ثنا کرتے ہیں حتیٰ کہ مالِ غنیمت لوٹتے وقت بھی۔ ہمیں خوش حال بنا۔ بڑی ہوشیاری کے ساتھ ہم خاص تیری حفاظت میں فتح حاصل کریں۔ اے اندر! ہم تیرا سیدھا ہاتھ پکڑتے ہیں، تو کہ دولت کا مالک تو ہی ہے، ہم تجھ سے خزانوں کی خواہش کرتے ہیں۔ چونکہ ہم تجھ کو بہادر، مویشیوں کا مالک جانتے ہیں، ہم کو زبردست درخشاں زر و مال عطا کر۔ لڑائی اور عظمت و شان کے ہیرو! ہم کو مویشیوں کے تھان کا مالک بخش دے۔“ (۱: ۴: ۵-۶)

       ”نذر و نیاز کے ساتھ گا، اس کی حمد و ثنا کر جو خوش کرتا ہے جس نے رحبوان کے ساتھ مل کر کالے غولوں ۷ کو بھگا دیا۔“ (۱: ۴: ۱۱: ۲)

       ”اے بہادر! افراط کے ساتھ گائیں رکھنے والی قوم کے خلاف جنگ میں تو ہمارا دوست ہو اور ہم اس شخص کا مقابلہ کریں جو اپنے غصے میں ہم پر بھڑکتا ہے۔“ (۲: ۵: ۵)

       ”غضب ناک، چمکتے ہوئے، اپنی چال میں تھکے بغیر، وہ کالے رنگ والوں کو بھگاتے ہوئے سانڈوں کی طرح آگے بڑھے۔ اے سوم رس! تو دشمنوں کو شکار کرتا ہوا بہتا ہے۔ اے عقل اور مسرت بخشنے والے! تو دیوتاؤں کو نہ ماننے والے لوگوں کو بھگا دے۔“ (۶: ۱: ۱: ۵-۶)

       ”گاڑیوں کے آگے آگے بہادر سپہ سالار مالِ غنیمت تلاش کرتا ہوا آگے بڑھتا ہے۔ اس کی فوج خوشیاں مناتی ہے۔“ (۶: ۱: ۵: ۱)

       ”مالِ غنیمت لوٹتے وقت ہم پر اس بہترین زر و مال کے دریا بہا دے جس کی سینکڑوں تمنا کرتے ہیں۔“ (۶: ۲: ۱: ۵)

       ”اس کے ساتھ فتح حاصل کرنے کی کوشش میں ہم دشمن سے تمام مال و دولت لے لیں۔ ہاں، آدم زاد کی تمام عظمت و شان حاصل کر لیں۔“ (حصہ دوم، ۱: ۳: ۸: ۱)

       ”اس سے ہم ایسے مالِ غنیمت کے طالب ہیں جو سامانِ خوراک سے مالا مال ہو، جس میں سینکڑوں ہزاروں گائیں ہوں۔“ (۱: ۲: ۱۳: ۱)

       ”اے دیوتاؤں کے محبوب! اپنے اچھے مسرت بخش رس کے ساتھ ابل، بد ذات پاپیوں کو قتل کرتے ہوئے، دشمنوں کو ان کی نفرت سمیت ہلاک کرتے ہوئے، روز بروز زور پکڑتے اور مالِ غنیمت حاصل کرتے ہوئے ابل، تو گھوڑوں اور گایوں کو حاصل کرنے والا ہے۔“ (۱: ۱۵: ۱-۲)

       ”اندر کی عنایات قدیم ہیں، اس کی حمایت و حفاظت کبھی بند نہیں ہوتی جب وہ اپنے پوجاریوں کو گایوں سے بھرا ہوا مالِ غنیمت عطا کرتا ہے۔“ (۲: ۱: ۳)

       ”اے مگھون! اے کڑکنے والے! اپنی حیرت انگیز اعانتوں کے ساتھ ہم کو گایوں سے بھرے ہوئے کسی باڑے پر لے چل۔“ (۲: ۲: ۱۱: ۲)

       ”اے چابکدست بہادرو! کنو کے بیٹوں کے ساتھ بے دھڑک ہو کر ہزار در ہزار مالِ غنیمت لوٹ، اے سرگرم کار مگھون! پر شوق دعاؤں کے ساتھ ہم زرد رنگ کے مال ۸ اور گایوں کے ایک بڑے گلے کی تمنا کرتے ہیں۔“ (۲: ۲: ۱۲: ۳)

       ”سچے دیوتاؤ! ہم تم سے وافر سامانِ خوراک حاصل کریں اور ایک سکونت کی جگہ، اے متر و ورون! ہم تمہارے اپنے ہو جائیں۔ اے متر و ورون! ہماری حفاظت کرو، اپنی حفاظتوں کے ساتھ ہمیں بچاؤ۔ اے مشتاق محافظو! ہم دسیو کو اپنے ہاتھ سے زیر کر لیں۔“ (۲: ۳: ۸: ۲)

       ”اے بہادر! اے مالِ غنیمت لوٹنے والے! تو آدمی کی گاڑی کو تیز چلا۔ اے فاتح! ایک مشتعل جہاز کی طرح بے دین دسیوں کو جلا دے۔“ (۳: ۲: ۶: ۳)

       ”وہ مندر جب ہمارے گیت سنتا ہے تو اپنی گایوں کی کثیر دولت کو ہم سے بچا کر نہیں رکھتا۔ وہ اپنی قوت سے ہمارے لیے گایوں کا باڑہ کھول دے۔ خواہ وہ کسی کا ہو، جس کی طرف دسیوں کو قتل کرنے والا جاتا ہے۔“ (۸: ۴: ۲: ۳)

       ”اندر اور اگنی! تم دونوں نے ایک زور دار کارروائی سے نوے قلعوں کو جو داسوں کے قبضے میں تھے (توڑ دیا)۔“ (۸: ۱۷: ۲: ۱)

 

   اتھروید: اتھروید میں جنگ کا مضمون بکثرت آیا ہے۔ اس میں سے چند منتروں کو یہاں نقل کیا جاتا ہے:

       ”اے اگنی! تو یا تو دھانوں ۹ کو یہاں باندھ کر لا اور پھر اپنی کڑک سے ان کے سروں کو پاش پاش کر دے۔“ (۱: ۷: ۷)

       ”اے سوم رس پینے والے! یا تو دھانوں کی آل اولاد کو کھینچ لا اور ہلاک کر دے۔ اقراری گناہ گاروں کی دونوں آنکھیں سر سے باہر نکال لے۔“ (۱: ۸: ۳-۴)

       ”اے مینو! طاقتور سے زیادہ طاقتور ہو کر ادھر آ اور اپنے غضب سے ہمارے تمام دشمنوں کو ہلاک کر دے۔ دشمنوں اور ورتروں (شیطانوں) اور دسیوں کو قتل کرنے والے! تو ہمارے پاس ہر قسم کی دولت اور خزانے لا۔“ (۴: ۳۲: ۱، ۳)

       ”اے راکششوں ۱ کو ہلاک کرنے والے! راکششوں کو نیست و نابود کر، ہر طرف کے یا تو دھانوں کو مار ڈال۔“ (۲: ۱۴: ۴)

       ”اس کو جلا دے جو ہم کو دکھ اور تکلیف دے اور جو ہم سے دشمنوں کا سا سلوک کرے۔ جو کوئی دکھ پائے بغیر ہمیں تکلیف دے یا دکھ پا کر ہم سے ستائے اس کو میں آگ اور ویسوانر ۲ کے دو طرفہ عذاب میں رکھ دوں۔“ (۴: ۳۶: ۲، ۴)

       ”میں پشاچوں ۳ کو اپنی قوت سے فتح کروں اور ان کی دولت چھین لوں، جو کوئی ہم کو ایذا دے اسے میں قتل کر دوں اور میرے ارادے کو کامیابی ہو۔“ (۴: ۳۶: ۹)

       ”رورا تمہاری گردنیں توڑ دے اے پشاچو! اور تمہاری پسلیاں چور چور کر دے اے یا تو دھانو! یہاں ہم شان کے ساتھ رہیں۔ اے متر و ورون! تو حریص راکششوں کو مار بھگا، ان کو کوئی جائے پناہ اور کوئی اطمینان کی جگہ نہ ملے، بلکہ وہ سب چرپھٹ کر اکٹھے موت کے منہ میں چلے جائیں۔“ (۶: ۳۲: ۲-۳)

       ”ہمارے یہ دشمن بے ہاتھ کے ہو جائیں، ہم ان کے ست بازوؤں کو بے کار کر دیں اور اس طرح اے اندر! ہم ان کی ساری دولت آپس میں بانٹ لیں۔“ (۶: ۶۶: ۳)

       ”ان کو بیل کی کھال میں سی دو، ان کو ہرن کی طرح نڈھال بنا دو، دشمن بھاگ جائیں اور ان کے مواشی ہمارے پاس آجائیں۔“ (۶: ۷۶: ۳)

       ”ہم اندر کی مدد سے دشمن کے تمام جمع کیے ہوئے خزانے کو بانٹ لیں اور میں ورون کے قانون کے مطابق تیرے غرور اور پدری شرارت کا سر نیچا کروں۔“ (۷: ۸۳: ۲)

       ”اے آگ کے دیوتا! تو یا تو دھانوں کی کھال میں گھس جا، تیرا انتباہ کن تیر (یعنی شعلہ) بھسم کر ڈالے۔ اے جات ویدا! ان کے جوڑوں کو کچل ڈال، کچا گوشت کھانے والا اور گوشت کی تلاش کرنے والا اس کو ہلاک کر دے۔“ (۸: ۳: ۴)

       ”اے آگ کے راجہ! جہاں کہیں تو کسی یا تو دھان کو کھڑے ہوئے یا پھرتے ہوئے دیکھے یا اس کو جو ہوا میں اڑتا ہے تو غصہ سے مشتعل ہو کر اسے تیر سے چھید ڈال۔“ (۸: ۳: ۵)

       ”یا تو دھانوں کے دلوں کو تیر سے چھید ڈال اور ان کے بازوؤں کو جو تجھ پر حملہ کرنے کے لیے اٹھیں توڑ دے۔ ان شیطانوں کے سامنے بھڑک کر اے اگنی! انہیں مار گرا۔ مردار خوار چتکبرے گدھ اسے کھائیں۔ اس پلید کو آدمیوں میں سے آدم خور کی طرح تاک کر اس کے تینوں اوپر کے اعضاء کو توڑ ڈال۔ اپنے شعلوں سے اس کی پسلیوں کو کچل دے۔ اے اگنی! اس کے نیچے کے اعضاء کو تین ٹکڑے کر دے۔“ (۸: ۳: ۶-۷، ۱۰)

       ”اندر اور سوما! تو خبیث دشمن کو جلا دے، تباہ کر دے، اے دیوتاؤ! جو رنج پر رنج پہنچاتے ہیں انہیں نیچا دکھا، ان احمقوں کو نیست و نابود کر دے، جلا ڈال، ذبح کر دے، ہمارے پاس سے دفع کر اور ان بندۂ شکم راکشسوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے۔“ (۸: ۴: ۱) [رگ وید ۱۰: ۸۷: ۱۵]

       ”پس اے دیوی گائے! برہمن پر ظلم کرنے والے، مجرم، بخیل، دیوتاؤں کی مذمت کرنے والے کو اپنی سو گرہوں والی بان (رسی/پھندا) سے، جو استرے کے پھل کی طرح تیز ہے، ہلاک کر، اس کے سر کو کندھوں سے الگ کر دے، اس کے سر کے بال نوچ ڈال، اس کے بدن کی کھال کھینچ لے، اس کے پیٹھے (ریڑھ کی ہڈی) کو کھینچ لے، اس کے ڈھانچے پر سے گوشت کی بوٹی بوٹی اتار لے، اس کی ہڈیوں کو کچل دے، اس کے سر سے بھیجا نکال لے اور اس کے سب اعضاء اور جوڑوں کو الگ کر دے۔“ (۱۲: ۵: ۶۵-۷۱)

       ”قلعہ شکن، دولت کے مالک اندر نے دشمنوں کا ناس کر دیا اور بجلی کی سی کڑک کے ساتھ داسوں کو مغلوب کر لیا۔ اس نے اپنی قوت، اپنی ہر ایک پر غالب آنے والی جرات، اپنی حیرت انگیز مہارتِ فن سے بد باطن دسیو کو کچل دیا۔ تو نے سونے کے خزانے فتح کیے، اس نے دسیوں کو تہس نہس کر دیا اور آریہ نسل کے لوگوں کو محفوظ کر دیا۔“ (۲۰: ۱۱: ۱، ۶، ۹)

 

(ویدوں کی تعلیمِ جنگ پر ایک نظر):

 

اوپر جنگ کے متعلق چاروں ویدوں کے منتر لفظ بلفظ نقل کر دیے گئے ہیں اور ان کی اصلی اسپرٹ کو ظاہر کرنے کے لیے ایک ایک مضمون کے کئی کئی منتر نقل کیے گئے ہیں۔ ان کے مطالعے سے جن اہم نکات پر روشنی پڑتی ہے وہ مختصر یہ ہیں:

 

۱۔ جنگ کا پس منظر: آریوں کی جنگ ایک ایسی قوم سے تھی جو رنگ، نسل، مذہب اور وطن میں ان سے مختلف تھی۔ آریہ ان کے ملک پر حملہ آور ہوئے تھے اور ان کی جگہ خود بسنا چاہتے تھے۔

 

۲۔ دشمن کا تصور: وہ اس قوم کو بھوت پریت، شیطان اور ارواحِ خبیثہ میں سے سمجھتے تھے۔ انہیں داس، دسیو، راکشس، یا تو دھان اور پشاج وغیرہ نفرت انگیز ناموں سے یاد کرتے تھے۔ ان کو انسانیت سے خارج، عقل و شعور سے عاری اور آریہ نسل کے مقابلے میں ذلیل و کمینہ خیال کرتے تھے۔ انہی خیالات کے ماتحت انہوں نے اپنے ان دشمنوں کو وہ درجہ دینے سے انکار کر دیا جو برابر کے ابنائے نوع کو دیا جانا چاہیے۔

 

۳۔ جنگ کے مقاصد: ان کے پیشِ نظر جنگ کا کوئی بلند اخلاقی مقصد نہ تھا۔ انہیں دولت اور خزانوں کی تلاش تھی، وہ گائے، بیل، گھوڑے اور دوسری قسم کے مویشیوں کی افراط چاہتے تھے۔ وہ زرخیز زمینوں اور آرام دہ مکانوں اور سامانِ خوراک سے بھرپور ذخائر کے خواہشمند تھے۔ ان کے اندر قوموں کو مغلوب کرنے کی، ہمسروں میں شجاعت و بہادری کی شہرت حاصل کرنے کی، اور ملکوں پر دبدبہ و شوکت کے ساتھ حکمرانی کرنے کی خواہش پائی جاتی تھی۔ ویدوں میں کہیں ہم کو ان مقاصد سے بہتر اور بلند تر مقصدِ جنگ کا نشان نہیں ملا۔

 

۴۔ نزاع کی نوعیت: غیر آریہ قوم کے لوگوں سے ان کی جنگ کسی قابلِ تصفیہ نزاع پر مبنی نہ تھی، بلکہ ایک ایسی نزاع پر مبنی تھی جو فریقین میں سے کسی ایک کے کلیتاً مٹ جانے یا پامال و مغلوب ہو جانے کے سوا کسی اور صورت سے ختم نہ ہو سکتی تھی۔ ان کی جنگ اس بنا پر تھی کہ یہ قومیں آریہ نہ تھیں اور آریوں کے دیوتاؤں کی پرستش نہ کرتی تھیں۔ پہلی وجہ کا رفع ہونا تو بداہتاً ناممکن تھا کیونکہ نسل کوئی بدلنے کی چیز نہیں ہے۔ رہی دوسری وجہ، تو وہ بھی اس لیے رفع نہ ہو سکتی تھی کہ آریوں کا مذہب تبلیغی مذہب نہ تھا۔ ویدوں سے کہیں اشارتاً بھی یہ نہیں معلوم ہوتا کہ آریوں نے غیر آریہ قوموں کو کسی مذہبی عقیدے و مسلک کی دعوت دی ہو اور ان کے سامنے یہ بات پیش کی ہو کہ اگر تم فلاں فلاں اصول قبول کر لو تو ہم مساویانہ حیثیت سے تم کو اپنی سوسائٹی میں لے لیں گے۔ برعکس اس کے ہمیں اس امر کی بین شہادتیں ملتی ہیں کہ آریہ ورن کے لوگ غیر آریہ لوگوں کو فطرتاً ذلیل و نجس سمجھتے تھے اور اس قابل نہیں سمجھتے تھے کہ وہ ان کی مذہبی عبادات میں شریک ہو سکیں یا ان کی دینی کتابوں کو ہاتھ لگا سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان دونوں حریفوں کی جنگ اس وقت تک ختم نہ ہوئی جب تک ملک کے اصلی باشندوں نے شودر بن کر رہنا یا جنگلوں اور پہاڑوں کی طرف نکل جانا قبول نہ کر لیا۔

 

۵۔ دشمن سے سلوک کی خواہش: ویدوں کے منتروں سے یہ تو معلوم نہیں ہوتا کہ آریہ حملہ آور اپنے دشمنوں کے ساتھ جنگ میں فی الواقع کیا سلوک کرتے تھے، مگر اتنا ضرور معلوم ہوتا ہے کہ ان کے دل میں ان لوگوں کو سخت ہولناک عذاب دینے کی خواہش موجود تھی۔ زندہ آدمی کی کھال کھینچنا، اس کی بوٹیاں کاٹنا، اسے آگ میں جلانا، اس کے اعضاء کا مثلہ کرنا، اس کو درندہ جانوروں سے پھڑوانا، اسے جانوروں کی کھال میں سی دینا، اس کے بال بچوں تک کو ذبح کر ڈالنا، یہ وہ مرغوب سزائیں ہیں جو وہ چاہتے تھے کہ ان کے دیوتا ان کے دشمنوں کو دیں۔ یہ آرزوئیں جن دلوں میں پرورش پا رہی ہوں ان کے عمل کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔

 

۱۔ ہندو مذہب کی تعریف کرنے میں محققین کو بہت دقتیں پیش آئی ہیں، کوئی کہتا ہے کہ ”ہندو مذہب وہی ہے جو ایک ہندو مانتا ہے۔“ (G.P. Sen, Introduction to the study of Hinduism, p.9) کوئی کہتا ہے کہ ”وہ ان رسوم، عبادات، عقائد، روایات اور ضمنیات کا مجموعہ ہے جن کو برہمنوں کے احکام اور ان کی متبرک کتابوں کی تصدیق حاصل ہے، جنہیں برہمنوں کی تعلیمات نے پھیلایا ہے۔“ (Lyall, Religious Systems of the world, p.114) اور کوئی کہتا ہے کہ "تمام وہ باشندگانِ ہند جو اسلام، جین مت، بودھ مت، مسیحیت، پارسی مذہب، یہودی مذہب یا دنیا کے کسی دوسرے مذہب سے تعلق نہیں رکھتے اور جن کا طریقِ عبادت وحدانیت سے لے کر بت پرستی تک وسیع ہو اور جن کے دینیاتِ کلیہ سنسکرت زبان میں لکھے ہوئے ہوں، ہندو ہیں۔" (Census Report, Baroda, 1901, p.120)

۲۔ میرے پیشِ نظر ویدوں کے وہ انگریزی ترجمے ہیں جو مسٹر گرفتھ (Griffith) کے قلم سے نکلے ہیں۔ اس کے ساتھ میں نے میکس مولر کے ترجموں کو بھی نگاہ میں رکھا ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ میں سنسکرت نہ جاننے کی وجہ سے ان کتابوں کو ان کی اصلی زبان میں نہیں پڑھ سکتا اور یورپین مترجمین کا جو تجربہ ہمیں قرآن مجید کے معاملے میں ہوا ہے اس کی وجہ سے ہم ہندوؤں کی مذہبی کتابوں کے معاملے میں بھی مغربی مترجمین پر کچھ زیادہ اعتماد نہیں کر سکتے۔ لہٰذا میں اہلِ علم سے درخواست کرتا ہوں کہ وید کے اشلوکوں کے تراجم پر میں جو کچھ لکھ رہا ہوں اس کو براہِ کرم تنقیدی نگاہ سے دیکھیں اور اگر کہیں ترجمے میں کوئی غلطی ہو اور اس کی بنا پر میں نے کوئی غلط نتیجہ اخذ کیا ہو تو مجھے اس سے مطلع فرمائیں۔

۳۔ ڈاکٹر راجندر لال مترا نے اپنی کتاب (Indo-Aryans) میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ دسیو سے خود آریوں کے نابکار قبائل مراد ہیں (جلد اول: صفحہ ۱۲۱) لیکن خود ویدوں کے مطالعے سے یہ صاف محسوس ہوتا ہے کہ آریہ حملہ آور اس لفظ سے ہندوستان کے ان اصلی باشندوں کو یاد کرتے تھے جن سے ان کی جنگ تھی۔ یہ صرف میرا اپنا احساس ہی نہیں ہے بلکہ وید کے دوسرے مطالعہ کرنے والوں نے بھی یہی محسوس کیا ہے۔ گرفتھ لکھتا ہے: ”یہ نام اکثر ان دیسی اقوام کے لیے مستعمل ہوتا ہے جو آریوں کی مہاجرت میں مزاحم ہوئی تھیں، بعد میں یہ لفظ ان تمام لوگوں کے لیے بولا جانے لگا جو وید کی عبادت اور مخصوص برہمنی رسوم ادا نہیں کرتے۔“ (ترجمہ اتھروید: جلد ۱، صفحہ ۹)؛ انسائیکلوپیڈیا آف ریلیجنز (Vol. VIII, P.107) میں ہے: ”ایک نامعلوم زمانے میں... آریہ قبائل نے... شمال مغربی ہندوستان... میں ہجرت کرنی شروع کی۔ ملک کے اصلی غیر آریہ باشندے جو آریوں سے ممیز کرنے کے لیے دسیو کہے جاتے ہیں آسانی سے مغلوب ہو گئے۔“؛ پروفیسر میکڈونل لکھتا ہے: ”رگ وید میں داس اور دسیو کی اصطلاحیں عموماً ان سیاہ رنگ قدیم باشندوں کے لیے استعمال کی گئی ہیں جنہیں فاتح آریوں نے مغلوب کیا تھا۔“ (Encyclopedia of Religions Vol. VI, P.610)؛ ولیم کروک لکھتا ہے: ”بڑے بڑے دیوتا اپنے پجاریوں کے فیاض مربی ہیں، وہ دسیو یا سیاہ رنگ دیسی باشندوں کے خلاف جنگ کرنے میں ہندو آریہ کی قیادت کرتے ہیں۔“ (Encyclopedia of Religions Vol. VI, P.691)

۴۔ حسین رنگ والوں سے مراد وہ گورے رنگ کے آریہ قبائل ہیں جنہوں نے ماوراء النہر سے آکر ہندوستان پر حملہ کیا تھا۔ ان کے مقابلے میں ہندوستان کے اصلی باشندے کالے رنگ کے تھے (دیکھو گرفتھ کا ترجمہ رگ وید، جلد اول صفحہ ۱۳۰)۔

۵۔ دسیوں کی طرح لفظ داس بھی ان دیسی قوموں کے لیے بولا جاتا تھا جو آریہ حملہ آوروں سے برسرِ پیکار تھیں۔ بعض لوگوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ داس اور دسیو سے مراد ارواحِ خبیثہ ہیں مگر یہ تاویل محتاجِ دلیل ہے۔ گرفتھ کہتا ہے: ”یہ اصطلاح اصلاً ان خاص بدروحوں کے لیے وضع کی گئی تھی جو اندر اور انسانوں کی دشمن سمجھی جاتی تھیں، مگر بالعموم اس سے وہ وحشی لوگ مراد لیے جاتے تھے جو اس ملک کے اصلی باشندے تھے اور جن سے ابتدائی آریہ مہاجرین کی جنگ تھی۔“ دوسری جگہ یہی مصنف ’داسم ورنم‘ کی تشریح کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ: ”اس سے مراد وہ وحشی بدشکل باشندے ہیں جنہیں آریہ مہاجرین نے بھوت پریت کی جماعت میں شامل کر دیا تھا۔“ (گرفتھ کا ترجمہ اتھروید، جلد اول، صفحہ ۱۷۴)؛ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ہم شیطان کا لفظ اصلاً جن کے لیے استعمال کرتے ہیں، لیکن جب کبھی شیاطین کا لفظ ان انسانوں کے لیے بولا جائے گا جن کے متعلق ہم بری رائے رکھتے ہیں تو سیاق و سباق سے خود ہی معلوم ہو جائے گا کہ یہاں شیاطین سے مراد انسان ہیں نہ کہ جن۔ ایسے مواقع پر یہ کہنا کہ شیاطین کے اصل معنی شیاطینِ جن کے ہیں ایک بے جا تاویل ہو گی۔ داس اور دسیو کے مسمیٰ کی تعیین میں اس وقت کسی شک کی گنجائش نہیں رہتی جب ہم خود رگ وید میں ان کے انسان ہونے کے متعلق بین شہادتیں دیکھتے ہیں، ان کو جگہ جگہ بے دین اور ادھرمی کہا گیا ہے۔ وہ دیوتاؤں کو نہ ماننے والے، اجنبی قوانین کی پابندی کرنے والے اور عقل سے محروم قرار دیے گئے ہیں۔ ان کے پاس گائے، بیل اور مواشی کی کثرت ہے، ان کے پاس قلعے ہیں جن کو آریہ فتح کرتے ہیں۔ ان سب سے زیادہ روشن دلیل یہ ہے کہ ان کی ناکیں چپٹی، ان کے جبڑے چوڑے اور رنگ کالے بتائے گئے ہیں جو بعینہٖ قدیم ڈراویڈین نسل کے لوگوں میں ہم کو آج بھی نظر آتے ہیں۔ رگ وید میں ایک جگہ لکھا ہے: ”اے بہادر تو نے لڑائیوں میں چپٹے جبڑے والے داسوں کے جادو ٹونے تک کو مغلوب کر لیا۔“ (۵: ۲۹: ۱۰)؛ ایک اور جگہ داسوں کے غلامی میں دیے جانے کا ذکر اس طرح کیا جاتا ہے: ”یادو اور توروانے بھی ہم کو خدمت کے لیے دو داس دیے ہیں اور بہت سی گائیں۔“ (۸: ۶: ۴۶)؛ پھر ایک جگہ داس عورتوں کے بھی غلامی میں دیے جانے کا ذکر ہے۔ چنانچہ ایک شخص تراسد دیو کو ہم پچاس لونڈیوں کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ (۸: ۱۹: ۳۶) ان بین شہادتوں کی موجودگی میں خواہ مخواہ یہ تاویل کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ یہ لوگ آدمی نہ تھے بلکہ بھوت پریت تھے۔

۶۔ وبائی امراض کی دیوی کا نام ویدک دیومالا میں "اپوا" ہے۔ یہاں غالباً وہ بیماریاں مراد لی گئی ہیں جو لڑائی کے وقت فوجوں میں پھیلتی ہیں۔ (گرفتھ کا ترجمہ یجروید صفحہ ۱۵۴)

۷۔ یہ اور اس کے بعد والا منتر جن کالے رنگ کے لوگوں کی طرف اشارہ کرتا ہے ان سے وہی ملک کے اصلی باشندے مراد ہیں جن کو داس اور دسیو کے القاب سے یاد کیا جاتا ہے۔

۸۔ زرد رنگ کے مال سے مراد سونا ہے۔ عربی میں بھی اکثر سونے اور چاندی کا نام لینے کے بجائے صفراء اور بیضاء بولتے ہیں۔

۹۔ یہ لفظ کبھی ارواحِ خبیثہ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور کبھی غیر آریہ دشمنوں کے لیے۔ جیسا کہ ڈاکٹر بریڈیل کیتھ کہتا ہے، یہ تمیز کرنا مشکل ہے کہ یہ القاب کس جگہ غیر آریہ دشمنوں کے لیے استعمال کیے گئے ہیں اور کس جگہ ارواحِ خبیثہ کے لیے، تاہم اندازِ بیان سے کہیں کہیں اس کا پتا چل جاتا ہے۔

۱۔ راکشش بھی غیر آریہ دشمنوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

۲۔ غضب کا دیوتا۔

۳۔ پشاج عموماً کچا گوشت کھانے والے بھوتوں کو کہتے ہیں، مگر یہاں صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ اس لفظ سے انسانی دشمن مراد ہیں۔

 

(ب) گیتا کا فلسفہ جنگ: ۹

 

ہندو مذہب میں گیتا کو جو عظمت حاصل ہے اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ وہ سری کرشن جیسے ممتاز مذہبی پیشوا کی طرف منسوب ہے۔ مسٹر تلک کے بقول وہ "بھگوت دھرم کا سب سے بڑا گرنتھ ہے۔" اس میں ہندو مذہب کے فلسفے کو جس وضاحت اور فصاحت و بلاغت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اس کی مثال پورے سنسکرت لٹریچر میں نہیں ملتی۔ گو اس میں ہندو تصوف کے بیسیوں مسائل زیرِ بحث آئے ہیں، لیکن اس کا اصل مرکزی نقطہ جنگ ہی ہے، کیونکہ وہ ایک پست ہمت سپاہی کو جنگ پر ابھارنے اور اس کے خون ریزی سے بیزار دل میں رزم آرائی کا شوق پیدا کرنے کے لیے لکھی گئی ہے۔

 

تاریخِ ہند کا مشہور واقعہ ہے کہ جب ہندوستان میں قدیم آریہ تہذیب پورے عروج پر تھی تو ہستناپور کے شاہی خاندان میں دولت و اقتدار کی خواہش نے پھوٹ ڈال دی۔ کورو اور پانڈو دو مقابل فریق بن گئے اور دونوں کی تائید میں ہندوستان کے بڑے بڑے امراء و اعیان کھڑے ہو گئے۔ اول اول سمجھوتے کی کوششیں کی گئیں مگر کامیابی نہ ہوئی۔ آخر دونوں نے قاضیٔ شمشیر کو حکم بنایا اور میدانِ جنگ کی عدالت میں قسمت کا فیصلہ کرنے کے لیے جمع ہو گئے۔ کرشن جی اس جنگ میں پانڈووں کے حامی تھے۔ پانڈووں کا سردار ارجن ان کا چیلا تھا۔ اس کی فوج کو کامیابی کی منزل تک پہنچانے کے لیے کرشن جی نے خود اس کے رتھ کی باگیں اپنے ہاتھ میں لے لی تھیں۔ ۱۰

 

جب میدانِ کارزار میں دونوں فوجیں آمنے سامنے کھڑی ہوئیں اور ارجن نے اپنی آنکھوں سے اپنے دوستوں، عزیزوں اور بھائیوں کو آمادۂ قتال دیکھا تو اس کا دل ٹوٹنے لگا۔ اس نے محبت کے لطیف جذبات سے متاثر ہو کر ارادہ کیا کہ جنگ سے پھر جائے، اس پر کرشن جی نے اس کو ایک طویل اپدیش (نصیحت) دیا جو جنگ کے فلسفے اور اس کے مختلف پہلوؤں پر حاوی تھا۔ یہی اپدیش بھگوت گیتا ہے۔

 

اس اپدیش کا آغاز اس طرح ہوتا ہے کہ جب ارجن کا دل اپنے عزیزوں کو دیکھ کر جنگ سے بیزار ہونے لگا تو اس نے غمزدہ ہو کر کرشن جی سے کہا:

"اے کرشن! جنگ کرنے کی خواہش سے جو لوگ یہاں جمع ہوئے ہیں، ان رشتہ داروں کو دیکھ کر میرے اعضا بے حس و حرکت ہوئے جا رہے ہیں، منہ خشک ہو رہا ہے، جسم پر لرزہ چڑھ کر میرا رواں رواں کھڑا ہو گیا ہے، کمان میرے ہاتھ سے گری پڑتی ہے... اے کیشو! مجھے تمام شگون الٹے نظر آرہے ہیں، اپنے عزیزوں کو مار کر مجھے کوئی بھلائی حاصل ہوتی ہوئی نظر نہیں آتی۔ اے کرشن! مجھے فتح کی خواہش نہیں، نہ راج چاہیے، اور نہ سکھ۔ اے گووندا! راج بھوگ اور زندگی ہی سے ہمیں کیا لطف مل جائے گا؟ جن کے لیے راج، عیش و عشرت کے ساز و سامان اور سکھ کی خواہش کی جاتی ہے، وہی لوگ زندگی اور خوشحالی کی امید چھوڑ کر یہاں جنگ کے لیے کھڑے ہوئے ہیں... اگرچہ یہ ہمیں مارنے کے لیے کھڑے ہیں، مگر پھر بھی اے مدھو سودن! تین لوک کے راج کے لیے بھی میں انہیں مارنا پسند نہیں کرتا، پھر اس دنیا کی تو ہستی ہی کیا ہے... خود اپنے رشتہ داروں کو مارنا ہمارے لیے کسی طرح مناسب نہیں ہے، کیونکہ اے مادھو! اپنے عزیزوں کو مار کر ہم کس طرح سکھی ہو سکیں گے؟... ہمیں وہ خرابیاں صاف نظر آرہی ہیں جو خاندان کی تباہی سے پیدا ہوتی ہیں، اس لیے کیوں کر ممکن ہے کہ ہمارے دل میں اس پاپ سے بچنے کا خیال نہ آئے؟... خاندان کی تباہی سے تمام پرانے خاندانی دھرم تباہ ہو جاتے ہیں اور خاندان کے ان دھرموں کے مٹ جانے سے خاندان پر ادھرم (بے دینی) کی دھاک جم جاتی ہے... اے جناردن! ہم ایسا سنتے آئے ہیں کہ جن انسانوں کے خاندانی دھرم غائب ہو جاتے ہیں وہ یقینی طور پر نرک میں جاتے ہیں۔ دیکھو تو سہی، ہم شاہانہ عیش کے لالچ سے اپنے عزیزوں کو مارنے کھڑے ہوئے ہیں، یہ ہم نے پاپ کرم (گناہ کا کام) کرنے کی تیاری کی ہے۔ اس سے تو میرے لیے یہ زیادہ بہتر ہو گا کہ اپنے ہتھیار پھینک دوں، انہیں کچھ روک ٹوک نہ کروں اور ہتھیار بند کورو مجھے میدانِ جنگ میں مار ڈالیں۔" (ادھیائے ۱، اشلوک ۲۸-۴۶)

 

ارجن کے ان پاکیزہ اور لطیف خیالات کو سن کر کرشن جی نے تعجب کے ساتھ پوچھا:

"اے ارجن! اس نازک موقع پر تیرے من میں یہ غلط خیال کہاں سے آگیا جس کی طرف اعلیٰ انسان نے کبھی توجہ نہیں کی اور جو ذلیل حالت کو پہنچانے والا اور بدنامی کا باعث ہے؟ اے پارتھ! ایسا نامرد نہ بن۔ یہ تیری شان کے شایاں نہیں، دل کی کمزوری کو چھوڑ اور کھڑا ہو جا۔" (۲: ۲-۳)

 

اس پر ارجن نے کہا:

"ان مہاتما کورووں کو مارنے سے اس دنیا میں بھیک مانگ کر پیٹ بھر لینا اچھا ہے۔ کیونکہ اگر ان مال و دولت کے لوبھی (لالچی) بزرگوں کو میں نے مار لیا تو مجھے ان کے خون سے رنگے ہوئے سامانِ عیش و عشرت کو اس دنیا میں استعمال کرنا پڑے گا... جن کو مار کر پھر ہمیں زندہ رہنے کی خواہش نہیں ہو سکتی، وہی کورو ہمارے سامنے صف آرا ہیں۔" (۲: ۵-۶)

 

ارجن کی اس تقریر سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک خانہ جنگی تھی جس میں ایک خاندان کے دو فریق حکومت و پادشاہی حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے کو مٹا دینا چاہتے تھے۔ ارجن کے دل نے اس برادر کشی اور حرصِ جاہ کے خلاف اسے ملامت کی اور ضمیر کی اس سرزنش سے متاثر ہو کر وہ شریف سپاہی جنگ سے متنفر ہونے لگا۔ مگر کرشن جی نے اس کے ان خیالات کی تردید کی اور اس کے سامنے ایک جدید فلسفہ پیش کیا جسے گیتا کے راوی نے ان الفاظ میں نقل کیا ہے:

 

کرشن جی کا فلسفۂ جنگ (گیتا کے مطابق):

 

   روح کی لافانیت: "جن کا शोक (غم) نہیں کرنا چاہیے تو انہیں کا शोक کر رہا ہے اور پھر گیان (علم) کی باتیں بھی بگھارتا ہے۔ حالانکہ چاہے کسی کی جان جائے یا رہے گیانی اس کا کچھ افسوس نہیں کرتے... جس طرح جسم میں رہنے والے (روح) کو اسی جسم میں بچپن، جوانی، بڑھاپا حاصل ہوتا ہے، اس طرح آئندہ دوسرا جسم بھی ملا کرتا ہے، اس لیے گیانی لوگ اس بارے میں کچھ موہ (محبت/لگاؤ) نہیں کرتے۔" (۲: ۱۱-۱۳)

    "جسم کی مالک آتما (روح) غیر فانی اور ناقابلِ ادراک ہے اور اس کو حاصل ہونے والے اجسام فانی ہیں، اس لیے اے ارجن! تو جنگ کر۔ جو شخص سمجھتا ہے کہ آتما مارتی ہے یا آتما ماری جاتی ہے، اس کو سچا گیان حاصل نہیں ہے، کیونکہ یہ آتما نہ تو مارتی ہے اور نہ ماری جاتی ہے۔ یہ آتما نہ کبھی پیدا ہوتی ہے اور نہ مرتی ہے۔ یہ کبھی بوڑھی نہ ہونے والی، دائم، مسلسل اور قدیم ہے۔ اس لیے جسم کے مارے جانے سے یہ نہیں ماری جاتی۔ اے پارتھ! جس نے یہ جان لیا کہ یہ آتما غیر فانی، دائم، کبھی نہ بوڑھی ہونے والی اور کبھی نہ مٹنے والی ہے، وہ ایک انسان کو کیسے مار ڈالے گا یا مروا دے گا؟ جس طرح کوئی شخص پرانے کپڑوں کو اتار کر نئے کپڑے پہن لیتا ہے، اسی طرح جسم کی مالک آتما بھی پرانے جسم کو چھوڑ کر نیا جسم اختیار کر لیتی ہے۔ اس آتما کو ہتھیار نہیں کاٹ سکتے، آگ نہیں جلا سکتی، نہ اسے پانی تر کر سکتا ہے اور نہ ہوا خشک کر سکتی ہے... اس لیے اس آتما کو اس طرح سمجھ کر اس کے لیے افسوس کرنا تجھے مناسب نہیں ہے۔" (۲: ۱۸-۲۵)

    "اگر تو یہ خیال کرتا ہے کہ آتما دائمی نہیں ہے، جسم کے ساتھ ہی پیدا ہوتی اور اس کے ساتھ ہی مر جاتی ہے، تب بھی، اے مہا باہو! اس کے لیے افسوس کرنا تجھے مناسب نہیں، کیونکہ جو پیدا ہوا ہے اس کی موت یقینی ہے اور جو مرتا ہے اس کا پیدا ہونا لابدی (ضروری) ہے، اس لیے اس اٹل بات پر افسوس کرنا تیرے شایانِ شان نہیں ہے۔" (۲: ۲۶-۲۷)

    "سب کے جسموں میں رہنے والی جسم کی مالک آتما کو کبھی کوئی نہیں مار سکتا، اس لیے اے بھارت! کسی جاندار کے لیے افسوس کرنا تجھے مناسب نہیں ہے۔" (۲: ۳۰)

 

   گیان اور کرم یوگ: آگے چل کر کرشن جی نے ایک اور فلسفہ بیان کیا جس کی تقریر خود ان کے الفاظ میں نقل کی جاتی ہے:

    "اگر تو سب پاپیوں سے بھی زیادہ پاپ کرنے والا ہو تب بھی اس گیان کی کشتی ہی سے تو پاپوں کو پار کر جائے گا۔ جس طرح روشن کی ہوئی آگ تمام ایندھن کو جلا کر خاک کر دیتی ہے، اسی طرح اے ارجن! یہ گیان روپ آگ بھی سب کاموں کی (نیکی و بدی کی) قیود کو جلا ڈالتی ہے۔" (۴: ۳۶-۳۷)

    "اے دھننجے! اس آتم گیانی شخص کو کرم (اعمال) اپنی قیود میں نہیں پھنسا سکتے جس نے کرم یوگ (بے غرض عمل) کے سہارے سے کرموں کی قیود کو ترک کر دیا ہے، اور جس کے سب شکوک و شبہات گیان سے دور ہو گئے ہیں۔ اس لیے تیرے دل میں اگیان (عدمِ عرفان) سے جو شبہ پیدا ہو گیا ہے اسے تو گیان روپ تلوار سے کاٹ دے اور کرم یوگ کا سہارا لے کر جنگ کے لیے کھڑا ہو جا۔" (۴: ۴۱-۴۲)

    "جو کرم یوگ میں لگ گیا، جس کا دل پاک ہو گیا، جس نے اپنے من اور اپنے حواس پر قابو پا لیا اور سب جانداروں کی آتما ہی جس کی آتما ہو گئی، وہ سب کام کرنے کے باوجود کرموں کے عذاب و ثواب سے غیر متاثر رہتا ہے۔" (۵: ۷)

    "جو برہم (خدا) کو ارپن (پیش) کر کے اور کرم کے تعلق (پھل کی خواہش) سے بالاتر ہو کر کام کرتا ہے، اس کو اسی طرح پاپ نہیں لگتا جس طرح کمل کے پتے کو پانی نہیں لگتا۔" (۵: ۱۰)

 

(گیتا کے فلسفے پر ایک نظر):

 

کرشن جی کی اس تعلیم کا ماحصل صاف الفاظ میں یہ ہے:

 

۱۔ چونکہ عقیدۂ تناسخ کی رو سے انسان ایک دفعہ مر کر پھر دوسرے جنم میں آجاتا ہے اس لیے اسے قتل کر دینا کوئی بری بات نہیں ہے۔ مرنے کے بعد وہ پھر جنم لے لے گا اور اس کی غیر فانی روح پر قتل کا کوئی اثر نہ ہو گا۔

 

۲۔ روح کے لیے جسم کی حیثیت وہی ہے جو جسم کے لیے کپڑوں کی ہے۔ لہٰذا کسی کے جسم و روح کا تعلق کاٹ دینا ایسا ہی ہے جیسے کسی کے پرانے کپڑے پھاڑ دینا۔ اس فعل کو قتل سے اور اس کے نتیجے کو موت سے تعبیر کرنا، پھر اسے گناہ اور جرم سمجھنا اور اس پر رنج کرنا، محض جہالت ہے۔ علم و عرفان کی نگاہ میں تو جو شخص کسی انسان کو بظاہر قتل کرتا ہے وہ دراصل اسے قتل نہیں کرتا بلکہ صرف اس کی روح پر سے جسم کا لبادہ اتار دیتا ہے اور یہ کوئی افسوس کی بات نہیں ہے۔ افسوس کی بات تو اس وقت ہوتی جب قتل سے روح پر بھی موت واقع ہوتی۔

 

۳۔ جو چیز حادث ہے اس کا فنا ہو جانا یقینی ہے۔ پھر جب انسان کو ایک دن مرنا ہی ہے تو اسے مار ڈالنے میں کیا برائی ہے؟ جو اٹل بات ہے وہ ہو کر رہے گی، خواہ ہمارے ہاتھ سے ہو یا قدرت کے ہاتھ سے۔ کل قدرت تو اسے مارنے والی ہے ہی، پھر آج اگر ہم نے اسے مار ڈالا تو آخر مضائقہ کیا ہے؟

 

۴۔ جس شخص کو گیان (معرفت) حاصل ہو اس کے لیے نیکی اور بدی کی کوئی قید باقی نہیں رہتی، اس کے لیے تمام اعمال مباح ہو جاتے ہیں۔ اعمال میں نیک و بد کا امتیاز صرف ان لوگوں کے لیے ہے جو گیانی نہیں ہیں۔ بس گیان حاصل کر لو، پھر کوئی بدتر سے بدتر فعل بھی تمہارے لیے گناہ نہیں ہے۔

 

اس تعلیم کا قدرتی نتیجہ یہ ہونا چاہیے کہ انسان کے دل میں انسانی جان کی کوئی قدر و قیمت ہی باقی نہ رہے، جس کا جی چاہے اپنے دوسرے بھائی کے جسم کو پرانا کپڑا سمجھ کر پھاڑ دے اور جب باز پرس ہو تو جسم کی فنا پذیری اور روح کی دائمی زندگی کا فلسفہ پیش کر کے قتل کی ذمہ داری سے بری ہو جائے۔ پھر جو شخص گیانی ہونے کا مدعی ہو اس کے لیے تو قتل کیا معنی، کوئی جرم، جرم اور کوئی گناہ، گناہ ہی نہیں رہتا۔ وہ آزادی کے ساتھ ہر قسم کے جرائم کا ارتکاب کر کے بھی بے جرم و بے قصور رہ جاتا ہے۔

 

ایک طرف گیتا نے اس قدر آزادی کے ساتھ جنگ کی تلقین کی ہے۔ دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ اپنے پورے ۱۸ ابواب میں ایک جگہ بھی اس نے یہ نہیں بتایا کہ جس خوں ریزی پر وہ اس طرح انسان کو اکسا رہی ہے اس کا مقصد کیا ہے اور کن اغراض کے لیے وہ بنی نوع انسان کا خون بہانا یا ارواح و اجساد کے تعلق کو قطع کرنا جائز سمجھتی ہے۔ جنگ کے مسئلے میں مقصدِ جنگ کا سوال درحقیقت ایک بنیادی سوال ہے۔ کیونکہ اس خطرناک کام کو اگر کوئی چیز مقدس بنا سکتی ہے تو وہ صرف مقصد کی پاکی و طہارت ہی ہے۔ ورنہ ناجائز مقاصد کے لیے تو خواہ کتنی ہی شرافت کے ساتھ جنگ کی جائے بہرحال وہ ناجائز ہو گی اور قانونِ اخلاق کی نظر میں درندگی و بہیمیت کے سوا کچھ نہ ہو گی۔ لیکن گیتا نے اس بنیادی سوال کو صاف نظر انداز کر دیا ہے اور اس باب میں انسان کی رہنمائی کرنے کا کوئی اہتمام نہیں کیا۔

 

تاہم بعض اشلوکوں کے اندازِ بیان سے کسی حد تک اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ مقصدِ جنگ کے بارے میں گیتا کا نقطۂ نظر کیا ہے۔ ایک جگہ کرشن جی فرماتے ہیں:

"اے ارجن! یہ جنگ ایک سورگ کا دروازہ ہے جو تیرے لیے خود بخود کھل گیا ہے۔ ایسا موقع خوش قسمت کشتریوں ہی کو ملا کرتا ہے۔ لہٰذا اگر تو اپنے دھرم کی پیروی میں جنگ نہ کرے گا تو اپنے دھرم اور شہرت کو برباد کر کے پاپ جمع کرے گا، بلکہ سب لوگ تیری کبھی نہ ختم ہونے والی مذمت کے گیت گاتے رہیں گے۔ یہ مذمت و بدنامی انسان کے لیے موت سے بدتر ہے۔" (۲: ۳۲-۳۴)

"سب مہار تھی یہ سمجھیں گے کہ تو خوفزدہ ہو کر میدانِ جنگ سے بھاگ گیا ہو۔ جن کی نظروں میں آج تو نہایت تعظیم کے قابل بنا ہوا ہے وہ تجھے حقیر سمجھنے لگیں گے۔ اسی طرح تیرے زور و طاقت کی مذمت کر کے تیرے بدخواہ اور دشمن ایسی ایسی بہت سی باتیں کہیں گے جو نہ کہی جانی چاہئیں۔ پھر اس سے بڑھ کر دکھ کی بات اور کیا ہو گی؟ اگر تو مر گیا تو سورگ کو جائے گا اور اگر فتحیاب ہوا تو دنیا کے راج کو بھوگے گا۔ اس لیے جنگ کرنے کا مستقل ارادہ کر کے اٹھ۔" (۲: ۳۵-۳۷)

"علاوہ بریں اگر تو اپنے دھرم کی طرف بھی دیکھے تو اس وقت ہمت ہارنا تجھے مناسب نہیں ہے، کیونکہ دھرم کی رو سے حق بجانب جنگ ۱۱ سے بڑھ کر اور کوئی بات کشتری کے لیے بھلائی کی نہیں ہو سکتی۔" (۲: ۳۱)

"میں لوگوں کا خاتمہ کرنے والا اور بڑھا ہوا کال (وقت/موت) ہوں، یہاں لوگوں کا ناش (ہلاک) کرنے آیا ہوں۔ تو اگر نہ ہو تب بھی فوجوں کی صفوں میں یہ جتنے جنگ آزما کھڑے ہیں سب تباہ ہونے والے ہیں، اس لیے تو اٹھ، نیک نامی حاصل کر اور دشمنوں کو مغلوب کر کے وسیع سلطنت کا لطف اٹھا، میں نے انہیں پہلے ہی مار دیا ہے۔" (۱۱: ۳۲-۳۳)

 

یہ خیالات ان عام خیالات سے کچھ بھی مختلف نہیں ہیں جو جنگ کے موقع پر ہمیشہ سپاہیوں کو لڑنے کی ترغیب دینے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ نہ یہ مقاصدِ جنگ ان مقاصد سے کچھ بلند ہیں جن کے لیے اہلِ دنیا اپنے ابنائے نوع کا خون بہایا کرتے ہیں۔ وہی مال و زر کی خواہش، وہی شہرت و ناموری کا شوق، وہی حکومت و سلطنت کی طلب، وہی شکست کی ذلت اور بدنامی کا خوف، یہاں بھی جنگ کی تحریک کر رہا ہے جو عام دنیا پرست لوگوں میں جنگ کا جوش اور قتل و غارت گری کی خواہش پیدا کرتا ہے۔ اس میں کوئی بلند پایہ تعلیم نہیں ہے، کوئی اعلیٰ اخلاقی ہدایت نہیں ہے، کوئی بہتر نصب العین نہیں ہے، حیوانی خواہشات و جذبات سے بلند تر کسی جذبے و خواہش کی طرف انسان کی رہنمائی نہیں کی گئی ہے۔

 

۹۔ میرے پیشِ نظر گیتا کی دو مستند حامل المتن شرحیں ہیں: ایک مسٹر بال گنگا دھر تلک کی مشہور شرح جس کا ترجمہ مسٹر شانتی نرائن لاہوری نے کیا ہے۔ دوسری مسٹر کے ٹی ٹیلنگ کی شرح جو سلسلہ کتبِ مقدسہ شرق (Sacred Books of the East Series) اکسفورڈ سے شائع ہوئی ہے۔

۱۰۔ یہ اپدیش دراصل زبانی دیا گیا تھا۔ مہا بھارت کے مصنف نے اس کے معرضِ تحریر میں آنے اور عام طور پر شائع ہونے کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ جب کورووں کے بزرگ دھرت راشٹر نے اپنی آنکھوں سے اپنے خاندان کی تباہی کا منظر دیکھنا پسند نہ کیا تو ویاس جی نے ایک رتھ بان کو جس کا نام سنجے تھا، اس کے پاس مقرر کر دیا تاکہ وہ جنگ کی مفصل کیفیت من و عن بیان کرتا جائے۔ اس رپورٹر نے کیفیتِ جنگ کے سلسلے میں اس گفتگو کا بھی پورا حال دھرت راشٹر کو سنا دیا، جو پانڈووں کے لشکر میں کرشن جی اور ارجن کے درمیان ہوئی تھی، اور وہ اپدیش بھی نقل کر دیا جو ارجن کی ہمت افزائی کے لیے کرشن جی نے ارشاد فرمایا تھا۔ بعد میں یہی سنجے کی روایت مہا بھارت کی پوتھی "بھیشم پرب" میں نقل کر دی گئی اور اس کا نام "بھگوت گیتا" رکھا گیا۔ (دیکھو ٹیلنگ کا مقدمہ بھگوت گیتا صفحہ ۳، اور تلک کی شرح گیتا حصہ چہارم صفحہ اول) اس سے معلوم ہوا کہ کرشن جی کا یہ اپدیش براہِ راست ان سے ان کے حامیوں کے کیمپ سے نقل ہو کر نہیں آیا ہے بلکہ مخالف کیمپ کے ایک راوی نے اسے (غالباً بطریقِ الہام) سن کر ان کی طرف سے روایت کیا ہے۔

۱۱۔ صرف یہی ایک فقرہ گیتا میں ہم کو ایسا ملا ہے جو جنگ کے ایک بہتر اخلاقی مقصد کی طرف اشارہ کرتا ہے، مگر افسوس ہے کہ اس کی کوئی تشریح گیتا میں نہیں کی گئی کہ "حق بجانب جنگ" سے اس کی مراد کیا ہے۔ اگر حق بجانب جنگ کا مطلب صرف یہی ہے کہ ایک خاندان کی دو شاخیں اگر تخت کی مدعی ہوں اور بادشاہی نظام کے دستورِ آئین کی رو سے ایک شاخ کو راج کا حق پہنچتا ہو تو اس کا برادر کشی کے لیے اٹھنا اور لڑ کر تخت حاصل کرنا "حق بجانب جنگ" ہے، تو اس فقرے کی ساری اخلاقیت ختم ہو جاتی ہے۔ ایسی حق بجانب لڑائیاں تو شاہی خاندانوں میں ہمیشہ ہوتی ہی رہی ہیں اور کسی معقول آدمی نے کبھی یہ گمان نہیں کیا ہے کہ تخت و تاج کے لیے اپنے ہی بھائی بندوں سے لڑنا اور ہزارہا دوسرے انسانوں کی زندگیاں اپنی شاہانہ خود غرضیوں پر قربان کرانا کوئی پاکیزہ اخلاقی کام ہے۔

 

(ج) منو کے احکامِ جنگ: ۱۲

 

منو کی دھرم شاستر ہندوؤں کے مذہبی قوانین کا بہترین مجموعہ ہے اور تقریباً چودہ سو برس سے اس کے احکام ہندو قوموں اور سلطنتوں میں معمول بہ (جن پر عمل کیا جائے) ہیں۔ اس کے مصنف کی شخصیت بڑی حد تک تاریکی میں ہے، اس کی تصنیف کا زمانہ بھی متعین نہیں ہے ۱۳، مگر یہ حقیقت مسلم ہے کہ وہ آریہ قوم کے اس عہد کی تصنیف ہے جب اس کا نظامِ تمدن زیادہ ترقی کر چکا تھا اور سلطنتوں کے معاملات کی تنظیم کے لیے باقاعدہ مرتب کیے ہوئے دساتیرِ عمل کی ضرورت پیدا ہو گئی تھی۔ اس مقصد کے لیے منو کے علاوہ اور بھی بہت سی شاستریں اور سمرتیاں لکھی گئی ہیں، مگر ان سب پر منو کو ترجیح حاصل ہے، کیونکہ دوسری کتابیں یا تو منو کی خوشہ چیں ہیں یا اس سے نقیض (مخالف) واقع ہونے کی صورت میں ہندو علماء نے ان کو رد کر دیا ہے۔ مذہبی کتابوں میں عام طور پر یہ خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ "جو کچھ منو کہتا ہے وہی صحیح ہے" اور "جو سمرتی منو کے خلاف ہے وہ معتبر نہیں ہے۔" پس ہندو مذہب کے قوانین معلوم کرنے کے لیے ہمارے پاس اس سے بہتر اور کوئی ذریعہ نہیں ہے۔

 

چونکہ یہ مجموعہ ایک ایسے زمانے میں مرتب ہوا ہے جب ہندوستان میں آریہ قوم کی باقاعدہ سلطنتیں قائم ہو چکی تھیں اور تہذیب و تمدن کی ترقی نے اس کو اپنے معاملات کے اجرا میں ایک مخصوص ضابطے کی پابندی کرنا سکھا دیا تھا، اس لیے ہم کو اس میں جنگ کے تمام ضروری پہلوؤں کے متعلق احکام و قوانین ملتے ہیں۔

 

   جنگ کا مقصد: سب سے پہلا سوال مقصدِ جنگ کا ہے۔ منو نے اس پر کچھ زیادہ تفصیل کے ساتھ بحث نہیں کی ہے، تاہم حسبِ ذیل تصریحات سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ کن مقاصد کے لیے جنگ کو جائز رکھتا ہے:

       "روئے زمین کے جو حکمراں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے (یا قتل کرنے) کی خواہش سے اپنی تمام قوت کے ساتھ جنگ کرتے ہیں اور کبھی منہ نہیں موڑتے، وہ مرنے کے بعد سیدھے بہشت کی طرف جاتے ہیں۔" (۷: ۸۹)

       "جس راجہ کی فوجیں ہر وقت جنگ کے لیے تیار رہتی ہیں، اس سے تمام دنیا خوفزدہ و مرعوب رہتی ہے۔ پس ایسے راجہ کو اپنی مستعد فوج کے ساتھ تمام مخلوقات کو اپنا تابعِ فرمان بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔" (۷: ۱۰۳)

       "اس طرح فتح کی تیاری کرانے کے بعد اپنے تمام مخالفین کو یا تو صلح و رضا کے ساتھ اپنا تابعِ فرمان بنانا چاہیے یا (اگر وہ بخوشی اطاعت قبول نہ کریں تو) دوسرے ذرائع اختیار کرنے چاہئیں، یعنی رشوت، توڑ جوڑ، اور جنگی طاقت۔" (۷: ۱۰۷)

       "کامیابی کے ان چاروں ذرائع میں سے عقلمند لوگ سلطنت کی توسیع کے لیے صلح و رضا اور جنگی طاقت کو زیادہ پسند کرتے ہیں۔" (۷: ۱۰۹)

       "اس طرح جب راجہ دھرم کے مقرر کیے ہوئے تمام فرائض ادا کر لے تو اس کو ان علاقوں پر قبضہ کرنے کی کوشش کرنی چاہیے جو ابھی تک اس کے قبضے میں نہ آئے ہوں، اور اپنے مقبوضہ ممالک کی خوب حفاظت کرنی چاہیے۔" (۹: ۲۵۱)

       "(دھرم کے مطابق عمل کرنے والے) راجہ کا فرض یہ ہے کہ وہ ممالک فتح کرے اور جنگ سے کبھی نہ ٹلے۔" (۱۰: ۱۱۹)

 

    ان اشلوکوں سے معلوم ہوتا ہے کہ مقصد کے سوال میں منو کی پروازِ فکر بھی کرشن جی سے کچھ زیادہ اونچی نہیں ہے۔ سلطنت کی توسیع، ممالک کی فتح و تسخیر اور ہمسایہ قوموں اور حریف طاقتوں کو نیچا دکھانے کی جہانگیرانہ خواہش سے بلند تر کسی اخلاقی نصب العین تک اس کی بھی رسائی نہیں ہوئی۔ عام دنیا داروں کی طرح وہ بھی حکومت و بادشاہی کو طاقتوروں کا منتہائے مقصود سمجھتا ہے اور انہیں ترغیب دیتا ہے کہ وہ اپنی قوت کو ہر وقت اسی ملک گیری کے کام میں صرف کرتے رہیں۔ فرماں روائی کے استحقاق اور قوت کے مصرف کا یہ تصور ہرگز کسی اخلاقی بلند نظری و پاکیزہ خیالی کا نتیجہ نہیں ہو سکتا۔ اخلاق کی نظر میں بادشاہوں کی حرصِ جہانگیری سے انسان کا خون، قوموں کی آزادی اور ملکوں کا امن و سکون زیادہ قیمت رکھتا ہے۔ کسی کی حرص و ہوس کا پورا کرنا اخلاق کا مقتضی نہیں ہو سکتا۔ اخلاق تو بنی نوع انسان کی مجموعی اصلاح و فلاح کا خواہشمند ہے اور جنگ جیسے مہلک عمل کی اجازت صرف اسی صورت میں دے سکتا ہے جب کہ انسان کی مادی، روحانی اور اخلاقی زندگی کو حریص طاقتوں کے ہاتھوں تباہ ہونے سے بچانے کے لیے اس کے سوا کوئی دوسری صورت باقی نہ رہے۔ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ اس نظریے تک منو کیا، کسی ہندو فلسفی اور مقنن کی رسائی بھی نہیں ہوئی، اور جنہوں نے کچھ اونچا اڑنے کی کوشش کی وہ حدِ اعتدال سے گزر کر اہنسا کی سرحد پر پہنچ گئے جو انسان کی مجموعی صلاح و فلاح کے لیے خوں ریزی کی کھلی اجازت سے کچھ کم نقصان رساں نہیں ہے، بلکہ عملاً دونوں کا نتیجہ ایک ہی ہے، یعنی قوموں اور ملکوں کی تباہی اور شریر و فاسد لوگوں کا غلبہ و تسلط۔

 

   جنگ کے اخلاقی حدود: منو نے جنگ کے عملی پہلو میں بہت کچھ ترقی کی ہے اور اعمالِ جنگ کو ایک ضابطے کے تحت لانے کے لیے ایسی حدود مقرر کی ہیں جو کسی حد تک اسلام کی مقرر کردہ حدود سے ملتی جلتی ہیں۔ ذیل میں ہم اس کے احکام لفظ بلفظ نقل کرتے ہیں:

       "کوئی شخص جو جنگ میں شامل ہو اپنے دشمن کو چھپے ہوئے ہتھیار سے یا زہر میں بجھے ہوئے یا کانٹے دار تیر سے یا آگ میں گرم کیے ہوئے برچھے سے قتل نہ کرے۔" (۷: ۹۰)

       "نہ (گاڑی یا گھوڑے پر سوار جنگجو) پیدل کو قتل کرے، نہ زنانے (ہیجڑے) کو، نہ اس کو جو ہاتھ جوڑ کر جان کی امان مانگے، نہ اس کو جس کے بال کھل گئے ہوں (پریشان حال ہو)، نہ اس کو جو بیٹھا ہوا ہو، اور نہ اس کو جو کہے کہ 'میں تیرا قیدی ہوں'، نہ اس کو جو سوتا ہو، نہ اس کو جس کے پاس زرہ نہ ہو، نہ اس کو جو ننگا ہو، نہ اس کو جو نہتا ہو، نہ اس کو جو محض تماشائی ہو (اور) شریکِ جنگ نہ ہو، نہ اس کو جو کسی دوسرے سے گتھا ہوا ہو۔" (۷: ۹۱-۹۲)

       "گاڑی، گھوڑا، ہاتھی، چھتری، لباس (سوائے ان جواہر کے جو اس میں ٹکے ہوئے ہیں)، غلہ، مواشی، عورتیں اور ہر قسم کی رقیق (مائع) اور جامد (ٹھوس) چیزیں (سوائے چاندی سونے کے) اس شخص کی جائز ملک ہیں جو لڑائی میں ان کو جیتے۔" (۷: ۹۶)

       "ان چیزوں میں جو قیمتی اشیاء ہوں، ان کے ایک حصے کو وہ شخص جس نے انہیں لوٹا ہو، راجہ کے سامنے پیش کرے... اور جو چیزیں فرداً فرداً نہ لوٹی گئی ہوں، انہیں راجہ کو تمام فوج میں تقسیم کر دینا چاہیے۔" (۷: ۹۷)

       "جب وہ (راجہ) دشمن کا محاصرہ کرے تو خیمہ زن ہونے کے بعد وہ دشمن کے ملک کو تاراج کر دے۔ مخالف راجہ کے سامانِ رسد (چارہ اور غلہ وغیرہ)، پانی اور ایندھن کو غارت کرتے رہنا چاہیے۔" (۷: ۱۹۵)

       "اسے تالاب، کنوئیں اور خندقیں سب کو برباد کر دینا چاہیے۔ وہ دن اور رات دشمن کو خوفزدہ اور پریشان کرتا رہے۔" (۷: ۱۹۶)

       "ملک کو فتح کرنے کے بعد وہ دیوتاؤں ۱۴ کی عبادت کرے اور نیکوکار برہمنوں کی بھی۔ وہ لوگوں میں داد و دہش کرے اور ظلم و زیادتی سے بے خوفی کی عام منادی کر دے۔" (۷: ۲۰۱)

       "مگر ان لوگوں کے طرزِ عمل اور ارادوں کا حال اچھی طرح معلوم کرنے کے بعد وہ اس ملک میں خود وہیں کے شاہی خاندان میں سے کسی فرد کو حکمراں بناوے اور اس کو باقاعدہ ہدایات دے ۱۵۔" (۷: ۲۰۲)

       "اور وہ ان کے قوانین کو جس طرح وہ ان کے ہاں بیان کیے گئے ہوں مستند قرار دے، اور (نئے راجہ) اور دوسرے امراء کو زر و جواہر کے عطایا سے ممنونِ احسان بنائے۔" (۷: ۲۰۳)

 

    ان احکام میں سے بعض ایسے بھی ہیں جنہیں معرکۂ کارزار میں ملحوظ رکھنا قطعاً ناممکن ہے، مثلاً یہ کہ سوار پیدل کو قتل نہ کرے، دشمن کے بال کھل جائیں تو اس پر حملہ نہ کیا جائے، دشمن کے پاس زرہ نہ ہو تو اسے چھوڑ دیا جائے، ننگے یا نہتے یا غمزدہ یا دہشت زدہ کو قتل نہ کیا جائے، دشمن کسی دوسرے شخص سے لڑنے میں مشغول ہو تو اس پر وار نہ کیا جائے۔ اس قسم کے احکام میں اصلاح کے جذبے پر نمائشِ اخلاق غالب آگیا ہے اس لیے ضروریاتِ جنگ اور اخلاقی حدود کا توازن برقرار نہیں رہا۔ ظاہر ہے کہ جب میدانِ جنگ میں گھمسان کی لڑائی ہوتی ہے تو سپاہی ان باتوں کا لحاظ نہیں کر سکتا اور لحاظ کرے تو لڑ نہیں سکتا۔ دوسری طرف بعض احکام میں منو نے ضروریاتِ جنگ پر اخلاقی ذمہ داری کے احساس کو قربان بھی کر دیا ہے، مثلاً یہ حکم کہ دشمن کے تمام وسائل کو برباد کر کے سارے ملک کو بھوکا مار دیا جائے، کسی طرح شریف تر اخلاقی حسیات کے ساتھ مناسبت نہیں رکھتا۔ تاہم مجموعی حیثیت سے منو کے یہ احکام بہت مہذب ہیں اور ایسے تربیت یافتہ اخلاقی شعور کا پتہ دیتے ہیں جو عداوت اور جنگ کی حالت میں بھی محاربین کے انسانی فرائض کا احساس رکھتا ہے اور اس بلند اخلاقی تخیل تک پہنچ چکا ہے کہ انسان پر انسانی حیثیت سے اس کے دشمن کے بھی کچھ حقوق ہیں جنہیں بہرحال اسے ملحوظ رکھنا چاہیے۔ اس معاملے میں اصولاً منو کے احکام اسلام سے قریب تر ہیں، اگرچہ اتنے معتدل اور ترقی یافتہ نہیں ہیں۔

 

   مفتوح قوموں کے ساتھ برتاؤ: اوپر بیان کیا جا چکا ہے کہ منو کا قانون اس عہد میں مدون ہوا تھا جب غیر آریہ اقوام کی سیاسی قوت فنا ہو چکی تھی اور ہندوستان میں ان کی ایک بھی حکومت باقی نہ رہی تھی جس سے آریوں کی جنگ ہوتی۔ اس لیے منو کی دھرم شاستر میں ایسے قوانین کی تلاش فضول ہے جو آریہ اور غیر آریہ اقوام کی جنگ کے لیے مقرر کیے گئے ہوں۔ اس زمانے میں وہ تمام غیر آریہ قومیں جو ویدوں میں داس، دسیو، راکشس اور اسور وغیرہ ناموں سے یاد کی گئی ہیں، یا تو آبادیوں کو چھوڑ کر پہاڑوں میں پناہ گزین ہو چکی تھیں یا مغلوب و مفتوح ہو کر ملک کی آبادی کا جزو بن چکی تھیں اور مجموعی طور پر ان کا نام "شودر" رکھ دیا گیا تھا۔ پس منو سے ہم کو جو کچھ معلوم ہو سکتا ہے وہ صرف یہ ہے کہ ہندو قانون ہندوؤں کی باہمی جنگ میں فاتح ہندو کو مفتوح ہندو کے ساتھ کیا سلوک کرنے کی ہدایت کرتا ہے۔ اس کے احکامِ جنگ ہم کو یہ نہیں بتاتے کہ مفتوح غیر آریہ قوم کے ساتھ فاتح آریہ کو کیا سلوک کرنا چاہیے۔ اس چیز کے معلوم کرنے کے لیے ہمیں شودروں کے متعلق منو کے احکام پر نظر ڈالنی چاہیے:

 

    (۱)۔ شودروں کی فطری ذلت: منو شودروں کو فطرتاً ذلیل قرار دیتا ہے۔ وہ اعمال کی بنا پر نہیں بلکہ پیدائش کی بنا پر ان کو سب سے ادنیٰ مخلوق سمجھتا ہے:

           "برہما نے اپنے منہ سے برہمن کو، ہاتھ سے کشتری کو، ران سے ویش کو اور اپنے پاؤں سے شودر کو پیدا کیا۔" ۱۶

           "برہمن کے نام کا پہلا حصہ تقدس کو ظاہر کرنے والا ہو، کشتری کا طاقت کو، ویش کا دولت کو اور شودر کا ذلت کو۔" (۲: ۳۱)

           "برہمن کے نام کا دوسرا حصہ خوشحالی کو ظاہر کرے، کشتری کا تحفظ کو، ویش کا دولت کو اور شودر کا غلامی و خدمت گاری کو۔" (۲: ۳۲)

           "دویج (دو بار جنم لینے والی/اعلیٰ) ذاتیں صرف تین ہیں: برہمن، کشتری اور ویش۔ چوتھی شودر کی ذات کا صرف ایک جنم ہے۔" (۱۰: ۴)

           "ہاتھی، گھوڑے، شودر، قابلِ نفرت ملیچھ لوگ، شیر، تیندوے اور سور (تناسخ کے) وہ ادنیٰ مدارج ہیں جو تاریکی (تموگن) سے حاصل ہوتے ہیں۔" (۱۲: ۴۳)

 

    (۲)۔ شودروں سے پرہیز: منو شودروں کو بالذات نجس و ناپاک اور کمینہ سمجھتا ہے اور معاشرے میں دویج یعنی شریف آریہ قوموں کو ان سے کامل پرہیز کا حکم دیتا ہے:

           "شودر کی لڑکی کو اپنے پلنگ پر بٹھانے سے برہمن نرک میں جاتا ہے۔" (۳: ۱۷)

           "وہ (برہمن) کسی برادری سے خارج کیے ہوئے شخص یا چنڈال ۱۷ کے ساتھ ایک درخت کے سائے میں بھی نہ ٹھہرے۔" (۴: ۷۹)

           "جو کوئی شودر کو دھرم کی تعلیم دے گا اور جو اسے مذہبی مراسم ادا کرنا سکھائے گا وہ اس شودر کے ساتھ ہی اسم ورت نامی جہنم میں جائے گا۔" (۴: ۸۱)

           "وہ شودر کے سامنے وید نہ پڑھے۔" ۱۸ (۴: ۹۹)

           "وہ شودر کا کھانا نہ کھائے۔" ۱۹ (۴: ۲۱۱)

           "شودر کا کھانا روحانیت کو زائل کرتا ہے۔" (۴: ۲۱۸)

           "اگر برہمن بھولے سے شودر کا کھانا کھالے تو تین دن تک روزہ رکھے... اور اگر عمداً کھالے تو اس کا وہی کفارہ ادا کرنا چاہیے جو حیض، پیشاب یا پاخانہ پینے اور کھانے والے کے لیے مقرر ہے۔" (۱۱: ۱۵۲-۱۵۳) (نوٹ: متن میں ۴:۲۲۲ غلط حوالہ معلوم ہوتا ہے، ۱۱:۱۵۳ زیادہ متعلقہ ہے)

           "جس شخص نے چنڈال کو چھو لیا ہو وہ صرف نہانے ہی سے پاک ہو سکتا ہے۔" (۵: ۸۵)

           "شودر کا جنازہ شہر کے جنوبی حصے سے جائے اور دویجوں کے جنازے مغربی، شمالی اور مشرقی سمتوں سے۔" (۵: ۹۲)

           "اگر کسی برہمن کی اپنی ذات کا آدمی موجود نہ ہو تو اس کی میت کو شودر کے ہاتھ سے نہ اٹھوانا چاہیے، کیونکہ جو مراسمِ تجہیز ایک شودر کا ہاتھ لگنے سے آلودہ ہو جائیں وہ بہشت کی طرف نہیں جا سکتے۔" (۵: ۱۰۴)

           "چنڈال اور شوپاچ لوگوں کی سکونت بستی کے باہر ہونی چاہیے۔ انہیں ثابت برتن استعمال نہ کرنے چاہئیں۔ ان کی جائیداد صرف کتے اور گدھے ہوں۔ ان کو مردوں کے کپڑے پہنائے جائیں۔ ان کے کھانے کے برتن ٹوٹے ہوئے ہوں۔ ان کے زیور لوہے کے ہوں۔ وہ ہمیشہ خانہ بدوش پھرتے رہیں۔ جو شخص اپنے دینی و دنیوی فرائض کا پابند ہو وہ ان سے کوئی ربط ضبط نہ رکھے۔ ان کے تمام تعلقات آپس ہی میں ہوں اور برابر والوں ہی میں وہ شادی بیاہ کریں۔" (۱۰: ۵۱-۵۳)

           "ان کو کھانا ٹھیکروں میں دیا جائے۔ مگر دینے والا اپنے ہاتھ سے ان کے ہاتھ میں نہ دے۔ راتوں کو وہ بستیوں میں نہ پھریں۔ دن کو کام کاج کے لیے آئیں تو راجہ کے مقرر کیے ہوئے مخصوص نشانات ان کے بدن پر لگے ہوئے ہوں۔ وہ لاوارث مردوں کو لے جانے کا کام کریں۔ جن لوگوں کو قانوناً سزائے موت دی گئی ہو انہیں چنڈال قتل کریں اور وہی مقتول کے کپڑے، بچھونا اور زیور لے لیں۔" (۱۰: ۵۴-۵۶)

           "برہمن شودر سے کبھی دان نہ لے۔ اگر وہ اس سے دان لے کر قربانی کرے گا تو آئندہ جون میں چنڈال پیدا ہو گا۔" (۱۱: ۲۴)

 

    (۳)۔ شودروں کی غلامی: منو شودر کو دویجوں کی غلامی پر مجبور کرتا ہے۔ اس کے نزدیک شودر کا پیدائشی اور فطری وظیفہ ہی یہ ہے کہ وہ دویجوں کی خدمت کرے:

           "قادرِ مطلق نے شودر کے لیے صرف ایک فرض رکھا ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ بے چوں و چراں ان تینوں (برہمن، کشتری اور ویش) کی خدمت کرتا رہے۔" (۱: ۹۱)

           "برہمن کی خدمت میں نگاہ رکھنا شودر کا سب سے بہتر کام ہے۔ اس کے سوا جو کام وہ کرے گا وہ اسے کچھ فائدہ نہ دے گا۔" (۱۰: ۱۲۳)

           "راجہ شودر ذات کے ہر آدمی کو دویجوں کی خدمت کا حکم دے۔" (۸: ۴۱۰)

           "شودر ذات کا ہر آدمی خواہ خریدہ ہو یا نا خریدہ، اسے برہمن اپنی خدمت پر مجبور کر سکتا ہے، کیونکہ اس کو واجب الوجود (برہما) نے برہمن کی غلامی ہی کے لیے پیدا کیا ہے۔" (۸: ۴۱۳)

           "شودر کو اگر اس کا آقا آزاد کر دے تب بھی وہ آزاد نہیں ہو سکتا، کیونکہ جو حالت اس کی فطرت میں ودیعت کی گئی ہے اس سے کون اس کو نکال سکتا ہے؟" (۸: ۴۱۴)

 

    (۴)۔ شودر کے حقوقِ ملکیت کا انکار: منو شودر کو اس کی اپنی کمائی ہوئی دولت و جائیداد پر بھی حقوقِ ملکیت دینے سے انکار کرتا ہے:

           "ایک برہمن بلا تامل اپنے شودر غلام کا مال لے سکتا ہے، کیونکہ کوئی مال بھی شودر کی ذاتی ملک نہیں ہے۔ وہ ایک ایسی ہستی ہے جس کی جائیداد اس کا آقا لے سکتا ہے۔" (۸: ۴۱۷)

           "شودر اگر مال و دولت حاصل کرنے کی قوت رکھتا ہو تب بھی اسے حاصل نہ کرنا چاہیے، کیونکہ جو غلام دولت جمع کر لیتا ہے وہ برہمن کو اذیت دیتا ہے۔" (۱۰: ۱۲۹)

 

    (۵)۔ قانونِ وراثت میں امتیاز: قانونِ وراثت میں بھی منو نے دویجوں اور شودروں کے درمیان امتیاز رکھا ہے۔ بعض حالات میں وہ شودر کو حقِ میراث سے بالکل محروم کرتا ہے اور بعض حالات میں دویجوں سے کمتر درجہ دیتا ہے:

           "اگر برہمن کی چار بیویاں چاروں ذاتوں کی ہوں اور چاروں سے اس کے ہاں بیٹے پیدا ہوں تو ان کے درمیان تقسیم اس طرح ہو گی: عمدہ ترین حصہ (مثلاً کاشتکار، ملازم، سانڈ، سواری کے گھوڑے، گاڑیاں، زیورات اور مکان) برہمن (بیوی) کے لڑکے کو ملیں گے... برہمن لڑکا باقی ماندہ ترکے میں سے تین سہام، کشتری عورت کا لڑکا دو سہام، ویش عورت کا لڑکا ڈیڑھ سہام اور شودر عورت کا لڑکا ایک سہم لے گا۔" (۹: ۱۵۱، ۱۵۳)

           "یا پھر ایک عالم قانون دان آدمی مجموعی طور پر تمام جائیداد کو دس حصوں میں تقسیم کر کے اس طرح بانٹے: برہمن کے لڑکے کو چار حصے، چھترانی کے لڑکے کو ۳ حصے، ویشنی کے لڑکے کو ۲ حصے، اور شودرانی کے لڑکے کو ایک حصہ۔" (۹: ۱۵۴)

           "اس برہمن کے ہاں خواہ پہلی تین ذاتوں کی بیویوں سے بیٹے ہوں یا نہ ہوں، بہر صورت شودرانی کے لڑکے کو دسویں حصے سے زیادہ نہ ملے گا۔" ۲۰ (۹: ۱۵۵)

           "شودر عورت کے پیٹ سے برہمن، کشتری یا ویش مرد کا لڑکا باپ کے ترکے میں سے کوئی حصہ نہ پاسکے گا، اس کا باپ جو کچھ اسے دے دے وہی اس کی ملک ہے۔" (۹: ۱۵۵، مکرر)

           "دویج ذات کے مردوں کی جو اولاد خود اپنی ذات کی عورت سے پیدا ہوئی ہو وہ باہم ترکہ کی مساویانہ تقسیم کرے۔" (۹: ۱۵۶)

 

    (۶)۔ فوجداری قوانین میں سختی: فوجداری قوانین میں منو نے شودروں کے ساتھ انتہائی سختی برتی ہے۔ وہ ان کی جان و عزت کو قانون کی پناہ دینے میں حد درجہ بخل سے کام لیتا ہے اور اس کے مقابلے میں دویجوں کے حقوق کی تعیین اور تحفظ میں اتنی فیاضی برتتا ہے کہ شودروں کی آئینی حیثیت بالکل صفر کے برابر رہ جاتی ہے:

           "ایک شودر اگر دویج کی شان میں گستاخی کرے تو اس کی زبان کاٹ دی جائے، کیونکہ وہ برہما کے حصۂ اسفل سے پیدا ہوا ہے۔" (۸: ۲۷۰)

           "اگر وہ ان کا نام اور ان کی ذات کا نام لے کر توہین کرے تو دس انگلی لمبی لوہے کی سلاخ آگ میں سرخ کر کے اس کے حلق میں اتار دی جائے۔" (۸: ۲۷۱)

           "اگر وہ غرور کی راہ سے برہمن کو اس کے فرائض کے متعلق ہدایت دے تو راجہ اس کے منہ اور کان میں جلتا ہوا تیل ڈالنے کا حکم دے۔" (۸: ۲۷۲)

           "جو ادنیٰ ترین ذات کا آدمی (شودر) اعلیٰ ذات کے آدمی (برہمن) کے برابر بے ادبی سے ایک ہی جگہ بیٹھ جائے، اس کے پچھلے حصے پر نشان لگا کر راجہ یا تو اس کو ملک بدر کر دے یا اس کے سرین کٹوا دے۔" (۸: ۲۸۱)

           "اگر وہ برہمن پر غرور سے تھوک دے تو راجہ اس کے دونوں ہونٹ کٹوا دے، اگر وہ اس پر پیشاب کرے تو اس کی شرمگاہ کو قطع کرا دے، اگر وہ برہمن کی طرف گوز (ریاح) صادر کرے تو اس کی مقعد کٹوا ڈالے۔" (۸: ۲۸۲)

           "اگر وہ برہمن کے سر کے بال یا اس کے پاؤں یا اس کی داڑھی یا اس کا گلا یا اس کے خصیتین پکڑے تو راجہ بلا تامل اس کے ہاتھ کٹوا ڈالے۔" (۸: ۲۸۳)

           "اگر ایک شودر کسی دویج عورت سے زنا کرے تو اس عورت کے غیر شادی شدہ ہونے کی صورت میں اس کا وہ عضو کاٹا جائے گا جس سے اس نے ارتکابِ جرم کیا ہے اور اس کی تمام جائیداد ضبط کی جائے گی۔ اور اگر وہ عورت شادی شدہ ہو تو وہ اپنی جان سے بھی محروم کر دیا جائے گا۔" (۸: ۳۷۴)

           "برہمن عورت سے زنا کرنے کا جرم اگر ویش سے سرزد ہو تو اسے ایک سال قید اور کل جائیداد کی ضبطی کی سزا دی جائے گی۔ اگر کشتری یہ فعل کرے تو اس پر ایک ہزار پن جرمانہ کیا جائے گا یا گدھے کے پیشاب سے اس کی داڑھی مونچھ مونڈی جائے گی۔... اگر ایک برہمن مرد کسی (شودر) شادی شدہ عورت سے زنا بالجبر کرے تو اس پر ۱۰۰۰ پن جرمانہ کیا جائے گا، اور اگر اس کی مرضی سے کرے تو صرف ۵۰۰ پن۔" (۸: ۳۷۵-۳۷۸) (نوٹ: متن میں ذاتوں کی تفصیل میں کچھ گڑبڑ ہے، ترجمہ ممکنہ مفہوم کے مطابق کیا گیا ہے)

           "راجہ کسی برہمن کو ہرگز نہ قتل کرے خواہ وہ کیسی ہی شدید معصیت کا مرتکب ہوا ہو۔ وہ برہمن مجرم کو اس کی ذات و جائیداد سے ادنیٰ تعرض کیے بغیر صرف جلا وطن کر سکتا ہے۔ روئے زمین پر برہمن کے قتل سے زیادہ عظیم گناہ اور کوئی نہیں ہے۔ اس لیے بادشاہ اپنے دل میں اس حرکت کا خیال بھی نہ لائے۔" (۸: ۳۸۰-۳۸۱)

           اپستمبھ دھرم شاستر سے معلوم ہوتا ہے کہ قتل، چوری اور ڈاکہ کے شدید جرائم کی پاداش میں برہمن کو صرف اتنی سزا دی جاسکتی ہے کہ اسے اندھا کر دیا جائے (۲: ۱۰: ۲۷: ۱۶-۱۷) لیکن اگر شودر انہیں جرائم کا ارتکاب کرے تو اس کے لیے موت کی سزا ہے۔ (۲: ۱۰: ۲۷: ۱۴) (نوٹ: متن میں حوالہ جات میں فرق ہے، ممکنہ درست حوالہ دیا گیا ہے)

           "نیچ ذات کا آدمی اگر ارادۃً برہمن کو دکھ پہنچائے تو راجہ اس کو مختلف قسم کی عبرتناک جسمانی سزائیں دے۔" (۹: ۲۴۸) (نوٹ: متن میں ۳۴۸ غلط ہے)

           "ایک کشتری کو قتل کرنے کا کفارہ اس سے چوتھائی ہے جو برہمن کو قتل کرنے والے کے لیے مقرر ہے۔ ویش کو قتل کرنے کا کفارہ اس کا آٹھواں حصہ ہے۔ اور شودر (اگر نیکوکار ہو) کو قتل کرنے کا کفارہ اس سے سولہواں حصہ ہے۔" (۱۱: ۱۲۶) (نوٹ: متن میں ۱۲۷ غلط ہے)

           "اگر برہمن کسی کشتری کو بلا ارادہ قتل کرے تو وہ اپنے آپ کو گناہ سے پاک کرنے کے لیے ایک سانڈ اور ایک ہزار گائیں دان دے یا تین سال تک نفس کش ریاضتیں کرے۔ اور اگر وہ بلا ارادہ کسی نیکوکار ویش کو قتل کرے تو ایک سال نفس کش ریاضت کرے یا سو گائیں اور ایک سانڈ دان دے۔ اور اگر شودر کو بلا ارادہ قتل کر دے تو یہی ریاضت چھ مہینہ تک کرے یا دس سفید گائیں اور ایک سانڈ برہمنوں کو دان دے۔" (۱۱: ۱۲۷-۱۳۰) (نوٹ: متن میں حوالہ جات میں فرق ہے)

           "اگر برہمن کسی بلی یا نیولے یا چوہے یا مینڈک یا کتے یا چھپکلی یا الو یا کوے کو مار ڈالے تو اس کا وہی کفارہ ہے جو شودر کو مارنے پر مقرر کیا گیا ہے۔" (۱۱: ۱۳۱) (نوٹ: متن میں ۱۳۲ غلط ہے)

 

    یہ احکام اپنی تفسیر و تشریح آپ کر رہے ہیں۔ ہندو قانون مفتوح قوموں کو جس ذلت کی نظر سے دیکھتا ہے اور سوسائٹی میں ان کو جو ادنیٰ درجہ دیتا ہے اس کی کیفیت ان احکام سے صاف ظاہر ہو جاتی ہے۔ اس کے مقابلے میں اگر اسلام کے ماتحت غیر مسلم ذمیوں کے حقوق کو دیکھا جائے تو زمین و آسمان کا فرق نظر آئے گا۔

 

   نسلی امتیاز: موجودہ زمانے کے بعض ہندو اہلِ قلم نے عہدِ جدید کے افکار سے متاثر ہو کر یہ دعویٰ کیا ہے کہ ہندو مذہب میں ذاتوں کی تقسیم پیدائش اور نسل پر نہیں بلکہ گن (صفات) اور کرم (اعمال) پر ہے۔ اگر واقعہ یہی ہوتا تو ہم کو اس پر بڑی خوشی ہوتی۔ مگر افسوس ہے کہ ہندو قانون کی اصلی کتابیں اپنے الفاظ اور اسپرٹ دونوں میں اس دعوے کی تصدیق نہیں کرتیں۔ ان سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہندو مذہب اعمال اور خصائل کی بنا پر فرقِ مراتب کے تخیل سے قطعاً ناآشنا ہے۔ اس میں ذاتوں کی تقسیم "کرم" پر نہیں بلکہ "ورن" (رنگ/ذات) پر مبنی ہے۔ ابتدائی زمانے میں جن لوگوں کو داس اور دسیو کے خطاب دیے گئے تھے اور بعد میں جنہیں شودر قرار دیا گیا، ان کی یہ تذلیل اس بنا پر نہ تھی کہ وہ بداعمال تھے، بلکہ اس بنا پر تھی کہ وہ غیر آریہ نسل سے پیدا ہوئے تھے۔ اوپر قانونِ وراثت، قانونِ تعزیرات اور قوانینِ معاشرت کے جو احکام نقل کیے گئے ہیں، ان کی رو سے ایک نیکوکار شودر کو بھی وہ حقوق نہیں دیے گئے ہیں جو بدکار اور شدید جرائم کا ارتکاب کرنے والے برہمن کو حاصل ہیں۔ برہمن کا لڑکا اگر شودرانی کے پیٹ سے پیدا ہو تو نیکوکار ہونے کے باوجود اس کو خود اپنے اس بھائی کے برابر حقوق نہیں دیے جاتے جو باپ کی برہمن بیوی سے پیدا ہوا ہے۔ شودر مرد کی اولاد اگر برہمن عورت کے پیٹ سے پیدا ہو تو محض یہ پیدائش ہی اسے چنڈال بنا دے گی اور اس کو وہ ذلیل زندگی بسر کرنی ہو گی جو منو نے چنڈالوں کے لیے مخصوص کر دی ہے۔ یہ کس لیے؟ کیا یہ کرم کا پھل ہے؟ کیا شودر کے ہاں پیدا ہونا بھی کوئی بدعملی اور برہمن کے ہاں پیدا ہونا کوئی نیکوکاری ہے؟ اگر ایسا نہیں ہے تو ہم سوائے اس کے اور کیا کہہ سکتے ہیں کہ یہ نیکی اور بدی کا نہیں، نسل اور قومیت کا امتیاز ہے، ہندو مذہب نے شرافت اور ذلت کو انسان کے ذاتی اعمال و خصائص سے نہیں بلکہ نطفے اور بطن سے مخصوص کر رکھا ہے۔

 

    اس باب میں منو نے بھی کافی تصریح سے کام لیا ہے۔ وہ کہتا ہے:

       "جو شخص شریف مرد اور کمینہ عورت سے پیدا ہو وہ اپنے اچھے اعمال سے شریف ہو سکتا ہے ۲۱۔ مگر جو کمینہ مرد سے شریف عورت کے ہاں پیدا ہو وہ کمینہ ہی رہے گا۔" (۱۰: ۶۷)

       "جس طرح اچھا درخت صرف اچھے بیج اور اچھی زمین ہی سے پیدا ہوتا ہے، اسی طرح جو شخص شریف مرد اور شریف عورت سے پیدا ہو وہی پورے دویج کا درجہ حاصل کر سکتا ہے۔" (۱۰: ۶۹)

       "خود برہما نے دویجوں کے کرم کرنے والے شودر اور شودروں کے کرم کرنے والے دویج کا موازنہ کر کے فیصلہ کیا کہ 'دونوں نہ مساوی ہیں اور نہ غیر مساوی' (یعنی نہ وہ رتبے میں مساوی ہیں نہ برے اعمال میں غیر مساوی)۔" ۲۲ (۱۰: ۷۳)

 

    ان تصریحات کے بعد کون کہہ سکتا ہے کہ ہندو مذہب میں انسانی برادریوں کی تقسیم نسل پر نہیں بلکہ عمل پر مبنی ہے؟

 

    نئے زمانے کے ہندو محققین نے یہ ثابت کرنے کی بھی کوشش کی ہے کہ شودر دراصل غیر آریہ دیسی باشندے نہیں تھے بلکہ خود آریہ نسل کے ادنیٰ طبقات سے تعلق رکھتے تھے۔ لیکن افسوس ہے کہ عملی تحقیق کی روشنی میں یہ دعویٰ بھی قابلِ قبول نہیں ہے۔ اس میں شک نہیں کہ شودروں میں آریہ نسل کے وہ لوگ بھی شامل کر دیے جاتے تھے جو ورن آشرم کے قوانین کی خلاف ورزی کرنے کے باعث برادری سے خارج کیے جاتے تھے۔ مگر اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ شودروں کا طبقہ بالعموم ان غیر آریہ اقوام پر مشتمل تھا جنہوں نے اپنے گھر بار چھوڑ کر پہاڑوں میں نکل جانے کے بجائے آریہ فاتحین کی غلامی میں رہنے کو قبول کر لیا تھا۔ لسانی اور تاریخی تحقیقات سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ شودر دراصل ایک قدیم ہندوستانی قبیلے کا نام تھا جسے آریوں نے آکر دریائے سندھ کی وادی میں سب سے پہلے مغلوب کیا تھا۔ اس کے بعد جو ہندی قبائل آریوں کی حکومت کے تابع ہو جاتے ان کو شودر کے نام سے موسوم کیا جاتا اور جو قبائل برسرِ جنگ ہوتے ان کو دسیو اور ملیچھ کہا جاتا تھا۔ ۲۳ تیتیریہ برہمن میں ایک جگہ لکھا ہے کہ "برہمن ایک جاتی ہے جو دیوتاؤں سے نکلی ہے اور شودر ایک دوسری جاتی ہے جو اسروں یا ارواحِ خبیثہ سے نکلی ہے۔" ۲۴ یہ عبارت اس بات کو بالکل واضح کر دیتی ہے کہ شودر انہی اسلاف کے اخلاف ہیں جنہیں ابتدائی زمانہ میں ارواحِ خبیثہ کہا گیا تھا۔

 

    تاریخِ ہندِ قدیم کے تمام ممتاز محققین اسی رائے کے مؤید ہیں۔ مثال کے طور پر ہم ان میں سے چند کے نتائجِ تحقیق یہاں نقل کرتے ہیں:

 

       راگوزن لکھتا ہے: "یہ تقسیم آریوں اور دسیوں کے درمیان ہوتی ہے۔ مقدم الذکر کو تو ہم خوب جانتے ہیں۔ رہے مؤخر الذکر، سو طبعی مناسبت ہم کو اس نتیجے کی طرف لے جاتی ہے کہ وہ دیسی باشندوں، یعنی غیر آریہ اقوام کے سوا اور کوئی نہیں ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو آریہ مہاجرین نے اس ملک میں پایا اور ایک طویل دورِ جنگ و نزاع کے بعد کم و بیش ایک غیر مرغوب انقیاد کی حالت تک پہنچا دیا۔ اس میں کسی شک کی گنجائش نہیں ہے کہ یہیں سے ذاتوں کی تقسیم کا ابتدائی سررشتہ ہمارے ہاتھ لگتا ہے، کیونکہ یہی مجموعی تقسیم اس تقسیم سے مشابہتِ تام رکھتی ہے جو موجودہ زمانے میں دویجوں اور شودروں کے درمیان پائی جاتی ہے۔ علاوہ بریں جات پات کے لیے آریوں کی زبان میں لفظ "ورن" استعمال کیا گیا ہے جس کے معنی "رنگ" کے ہیں، اور آگے چل کر ہم دیکھیں گے کہ گورے فاتحین اور سیاہ رنگ دیسی باشندوں کے درمیان اسی رنگ کے فرق کو ویدک نظموں میں جگہ جگہ بیان کیا گیا ہے۔ پھر خود لفظ دسیو بھی ان معنوی تغیرات کے ساتھ جو اس پر گزرے ہیں ہمارے سامنے ایک واضح داستان بیان کرتا ہے۔ یہ ایک قدیم آریہ لفظ ہے جسے ایرانی لوگ اس کے اصلی بے ضرر معنی (قوم ۲۵ اور گروہ) میں استعمال کرتے تھے... ہندوستان آکر اس نے ایک معاندانہ رنگ اختیار کر لیا۔ وہ دشمن کے معنی میں بولا جانے لگا۔ پھر اس معنی سے ترقی کر کے ویدک اوہام کی سرزمین میں اس نے بآسانی بھوت پریت اور ارواحِ خبیثہ کا مفہوم اختیار کر لیا اور اس سے تاریکی اور قحط سالی کی قوتیں مراد لی جانے لگیں جن سے اندر ہمیشہ برسرِ پیکار رہتا ہے... یہ تحول جس قدر منطقی اور فطری ہے، اسی قدر وہ ویدوں کے فہم و تعبیر کی مشکلات میں اضافہ کرتا ہے، کیونکہ جب اندر یا اگنی سے دسیوں کو نکالنے اور ہلاک کرنے کی درخواست کی جاتی ہے، یا جب بیان کیا جاتا ہے کہ انہوں نے دسیوں کی طاقت کو مٹا دیا تو اکثر اوقات یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ اس سے کون سے دشمن مراد ہیں؟ مادی دشمن یا خیالی دشمن؟ اس لفظ میں آخری تغیر معنی خیز ہے۔ وہ محض خادم و غلام کے معنی میں بولا جانے لگا اور ذرا سا لفظی تغیر کر کے اسے داس بنا دیا گیا۔ اس طرح وہ تکمیلِ فتح کی خبر دیتا ہے اور زیادہ جدید لفظ شودر کے قریب جا پہنچتا ہے۔ پس اس ترتیب کے مطابق ہم یہ صحیح مساوات قائم کر سکتے ہیں: آریہ - دسیو = دویج - شودر۔ اگر اس امر کا کوئی مزید ثبوت کہ شودر جاتی کو فتح کے ذریعے سے خادم طبقہ بنا لیا گیا تھا، درکار ہو تو وہ ہم کو منو کے مجموعۂ قوانین میں ملتا ہے جس میں دویج کے لیے ایک شودر کی معیت ہر حال میں ممنوع قرار دی گئی ہے، خواہ وہ شودر راجہ ہی کیوں نہ ہو۔ اب ایک شودر راجہ اس کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے کہ اس سے ایک دیسی حکمراں مراد ہے۔ اگرچہ آریہ اور دسیو یا داس کے الفاظ اور دویج اور شودر کے الفاظ کا مقابل اصطلاحیں ہونا ایک پوری طرح ثابت اور صریح واقعہ ہے، تاہم یہ سمجھنا ایک غلطی ہے کہ دسیو اور شودر کسی خاص قوم کے نام ہیں۔ دراصل ان کا اطلاق ان تمام قوموں پر ہوتا ہے جو آریہ نہیں ہیں، بالکل اسی طرح جیسے قدیم زمانے میں وہ تمام لوگ "بربر" (Barbarians) کہلاتے تھے جو رومی یا یونانی نہ تھے۔" (Vedic India, pp. 282-85)

 

       پروفیسر ریپسن لکھتا ہے: "رگ وید کے شعراء ان محدود معنوں میں جات پات سے واقف نہ تھے جو اس لفظ نے بعد میں حاصل کر لیے۔ مگر وہ اتنا جانتے تھے کہ آدمیوں کے مختلف طبقات ہیں: مذہبی طبقہ یا برہمن، اشراف یعنی راجنیہ یا کشتری، زمین کو جوتنے والے وش یا ویشیہ، اور خدمت پیشہ طبقات یعنی شودر۔ پہلے تین طبقات اور چوتھے طبقے کے درمیان ایک وسیع خلیج حائل ہے۔ مقدم الذکر آریہ لوگ ہیں اور مؤخر الذکر محکوم دسیو۔ ان کے درمیان فرق رنگ (ورن) کا ہے۔ آریہ مجموعی حیثیت سے گورے رنگ کے لوگ سمجھے جاتے ہیں اور دسیو کالے رنگ کے۔" ۲۶ (Cambridge, History of India, Vol. I, p. 54)

 

       ڈاکٹر بریڈیل کیتھ لکھتا ہے: "آریوں اور داسوں میں بڑا اور اہم فرق رنگ کا ہے۔ آریہ ورن اور کالے رنگ کا امتیاز بلاشک و شبہ ہندوستان کے ورن آشرم (Caste System) کے اہم ترین مآخذ میں سے ایک ہے۔ کالے چمڑے کو مغلوب کرنا دراصل ویدک ہندو کے نہایت اہم اعمال میں سے ہے۔.. اگرچہ رگ وید میں زیادہ تر داسوں کے خلاف جنگ و پیکار اور ان سے نئی نئی زمینیں چھیننے کے لیے دریاؤں کے عبور کرنے کا تذکرہ آتا ہے، لیکن یہ بات واضح ہے کہ آریوں نے اصل باشندوں کو بالکل تہس نہس کرنے کی کوشش نہیں کی۔ بے شک بہت سے قدیم باشندے آریوں کے حملوں سے بھاگ کر شمال و جنوب کے پہاڑوں میں پناہ گزیں ہو گئے، مگر دوسرے لوگ (جو باقی بچ رہے) غلام بنا لیے گئے۔" ۲۷ (Cambridge, History of India, Vol. I, pp. 84-86)

 

       پروفیسر ہاپکنس لکھتا ہے: "غلام، شودر اور نیچے طبقے کے لوگ اجتماعی عمارت کے اجزاء تسلیم کیے گئے ہیں۔ خود یہ نام ہی بتاتا ہے کہ شودر دراصل مفتوح قوم کے لوگ تھے۔ جس طرح ایتھنز میں لفظ 'کارین' (Karian) غلام کا مترادف ہو گیا تھا، اسی طرح شودر بھی غلام کا ہم معنی ہو گیا ہے۔ تاہم شودر پاریہ (انسانی جماعت سے خارج) نہیں تھے بلکہ گھریلو زندگی میں شامل کر لیے گئے تھے اور بعض خانگی رسموں میں حصہ لیتے تھے۔" ۲۸ آگے چل کر یہی مصنف لکھتا ہے: "گوتم (۱۲: ۳) نے ایک آریہ عورت سے ایک شودر کے ناجائز تعلقات پیدا کرنے کے متعلق جو قوانین بیان کیے ہیں ان کو جب اپستمبھ دھرم شاستر (۲: ۱۰: ۲۷: ۹) سے مقابلہ کر کے دیکھا جاتا ہے تو قطعی طور پر ثابت ہو جاتا ہے کہ آریہ نسلاً برتر ہے اور سیہ رنگ لوگوں سے ممتاز ہے... مسٹر کیتکر نے اپنی کتاب 'ہندوستان میں ذاتوں کی تقسیم کی تاریخ' (ص ۸۲) میں یہ رائے ظاہر کرنے میں بے احتیاطی سے کام لیا ہے کہ 'آریوں اور دراوڑوں کے درمیان کوئی نسلی امتیاز محسوس نہیں ہوتا تھا۔' یہ سچ ہے کہ جو لوگ جات برادری سے خارج کر دیے جاتے وہ پھر آریہ نہیں کہلاتے تھے۔ مگر کوئی شودر کبھی آریہ نہیں سمجھا گیا۔ آریہ قوم نے رگ وید کے زمانے سے لے کر بعد تک ہمیشہ نسلی امتیاز ظاہر کیا ہے۔" ۲۹

 

    ان شہادتوں کے مطالعے سے یہ بات صاف ہو جاتی ہے کہ ہندو قانون میں جن لوگوں کو شودر قرار دیا گیا ہے وہ دراصل غیر آریہ مفتوح اقوام ہیں۔ لہٰذا ان کے لیے جو قوانین ہندو دھرم شاستروں میں بیان کیے گئے ہیں وہ ان قوموں کے ساتھ ہندو دھرم کے برتاؤ کو ظاہر کرتے ہیں جو مفتوح و مغلوب ہو کر اس کی حکومت کے تابع ہو جائیں۔

 

۱۲۔ میرے پیشِ نظر منو کے دو انگریزی ترجمے ہیں: ایک سر ولیم جونز کا ترجمہ جو ۱۷۹۴ء میں فورٹ ولیم کالج کلکتہ سے شائع ہوا تھا، دوسرا ڈاکٹر برنل کا ترجمہ مع شرح جسے پروفیسر ہاپکنس نے ایڈٹ کر کے ۱۸۸۴ء میں شائع کیا۔ ان میں سے اول الذکر ترجمہ گورنمنٹ کے حکم سے ہوا تھا اور آج تک نہایت معتبر سمجھا جاتا ہے۔

۱۳۔ سر ولیم جونز کا خیال ہے کہ اس کی تدوین ۲۵۰ تا ۵۰۰ ق م کے درمیان ہوئی ہے۔ پروفیسر مونیئر ۵۰۰ ق م کا اندازہ لگاتا ہے۔ جرمن مستشرق یو ہانینگن کی رائے میں ۳۵۰ ق م اس کی صحیح تاریخ ہے۔ شلیگل کی رائے ہے کہ ۱۰۰۰ ق م کے قریب اس کی تصنیف ہوئی ہے۔ پروفیسر کروک کہتا ہے کہ وہ ۲۰۰ عیسوی سے زیادہ پرانی نہیں ہے۔ مگر ڈاکٹر برنل کی تحقیق یہ ہے کہ وہ ۱۰۰ء سے ۵۰۰ء تک کسی زمانے میں مدون ہوئی ہے اور غالباً چالوکیہ خاندان کے کسی راجہ نے اس کو اپنی سلطنت کا دستور العمل بنانے کے لیے لکھوایا تھا۔

۱۴۔ منو کے شارح کلوکا نے دیوتاؤں سے مراد مفتوح ملک کے دیوتا لیے ہیں، لیکن ساتھ ہی لفظ "برہمن" اس امر کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ یہ حکم غیر آریہ قوموں کے دیوتاؤں سے متعلق نہیں ہے، اور یہ امید بھی نہیں کی جا سکتی کہ منو نے آریوں کو غیر آریہ قوموں کے دیوتاؤں اور معبودوں کی پرستش کا حکم دیا ہو گا۔

۱۵۔ یہ حکم بھی صرف آریہ قوموں کی (اور صحیح تر یہ ہے کہ "ہندو آریہ" قوموں کی) باہمی جنگ سے متعلق ہے، کیونکہ اشلوک نمبر ۲۰۲ کوئی مستقل اشلوک نہیں بلکہ نمبر ۲۰۶ سے نمبر ۲۰۳ تک ایک مسلسل جملے کا جزو ہے۔ اس خیال کی تائید دوسرے ذرائع سے بھی ہوتی ہے۔ پروفیسر ہاپکنس لکھتا ہے: "یہ معلوم کرنا دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کہ منو اور وشنو دونوں کہتے ہیں کہ جب ایک راجہ کسی بیرونی دشمن کو مغلوب کرے تو وہ خود اس ملک کے (نہ کہ اپنے ملک کے) ایک شاہزادے کو وہاں کا راجہ بنا دے، اسے اپنے دشمن کے شاہی خاندان کو برباد نہ کرنا چاہیے، مگر یہ اس صورت میں جائز ہے جب کہ وہ شاہی خاندان نیچ ذات کا نہ ہو۔" (Cambridge, History of India, Vol. I, p. 290) تاریخِ ہندِ قدیم کا ایک اور ماہر پروفیسر ہیول (Havell) جو ہندو تہذیب کا بڑا دلدادہ ہے، اپنی تاریخ میں لکھتا ہے: "مختلف آریہ قبائل کے درمیان لڑائیاں اور آریوں سے غیر آریہ وحوش (داس اور دسیو) کی جنگیں اکثر ہوتی رہتی تھیں، مگر چونکہ مقدم الذکر صورت میں (یعنی آریوں کی باہمی لڑائیوں میں) یہ ایک مقررہ قاعدہ تھا کہ جنگ محض توسیعِ مملکت کی غرض سے نہ ہونی چاہیے اور یہ کہ ایک مغلوب آریہ راجہ کو معزول نہ کیا جائے، بلکہ غالب اسے اپنا باج گزار بنا لے، اس لیے قبائلی نزاعات نے آریوں کے اجتماعی نظام کو درہم برہم نہ ہونے دیا۔" (History of Aryan Rule in India, pp. 33-34)

۱۶۔ یہی مضمون رگ وید (۱۰: ۹۰: ۱۲) اور بھاگوت پران (۲: ۵: ۳۷) میں بھی آیا ہے۔

۱۷۔ جو شخص برہمن عورت کے بطن اور شودر مرد کے نطفے سے پیدا ہو وہ "چنڈال" ہے۔ (منو ۱۰: ۱۲)

۱۸۔ "اگر کوئی شودر بلا ارادہ وید کے الفاظ سن لے تو اس کے کان میں پگھلی ہوئی رانگ یا لاکھ ڈال دی جائے۔ اور اگر وہ اس کو یاد کرے تو اس کے جسم کے دو ٹکڑے کر دیے جائیں۔" (گوتم ۱۲: ۴-۶)

۱۹۔ "جو کھانا شودر کا تیار کیا ہوا ہو، خواہ اس کا ہاتھ اسے لگا ہو یا نہ لگا ہو، بہرحال اس کا کھانا جائز نہیں ہے۔" (اپستمبھ ۱: ۵: ۱۶: ۲۲)؛ "اگر کوئی برہمن ایسی صورت میں مرے کہ اس کے پیٹ میں شودر کا کھانا موجود ہو تو آئندہ جنم میں وہ بستی کا سور پیدا ہو گا۔" (وششٹھ ۶: ۲۷)؛ "اگر کسی برہمن کو کھانا کھاتے میں کوئی شودر ہاتھ لگا دے تو وہ کھانا چھوڑ دے۔" (اپستمبھ ۱: ۶: ۱۸: ۱۴) (نوٹ: متن میں حوالہ مختلف ہے)

۲۰۔ اس اشلوک کا مضمون اوپر کے اشلوک سے صراحتاً متناقض ہے۔ اس تناقض کو منو کے شارحین (کلوکا اور مدھاتیتھی) نے بھی محسوس کیا ہے اور اس کی تاویل وہ یہ کرتے ہیں کہ شودرانی کے لڑکے کو حصہ ملنے کا انحصار اس کے اعمال پر ہے۔ اگر وہ نیکوکار اور اس کی ماں باقاعدہ باپ کے نکاح میں آئی ہو تو اسے حصہ مل سکتا ہے۔

۲۱۔ مگر حقوق کے لحاظ سے پھر بھی شریف النسل لوگوں کے برابر نہیں ہو سکتا، دیکھو منو ۹: ۱۵۱-۱۵۵، ۱۱: ۱۲۶۔

۲۲۔ رتبے میں مساوی نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ذاتی طور پر دویج اور شودر کا درجہ سوسائٹی میں وہی رہے گا جو ان کے لیے مقرر ہے۔ البتہ شودر کا اچھا عمل بجائے خود دویج کے برے عمل سے ضرور افضل ہو گا، یعنی عمل پر عمل کو فضیلت ہو گی مگر عامل کو عامل پر فضیلت نہ ہو گی۔

۲۳۔ (Vedic Index of Names and Subjects, Vol. II, pp. 265, 387-391)؛ (Wilson, Indian Caste, Vol. I, p. III)۔

۲۴۔ (Muir, Sanskrit Texts, Vol. I, p. 21) (نوٹ: متن میں حوالہ مختلف ہے)۔

۲۵۔ عربی زبان میں بھی اکثر قوم کا لفظ بول کر دشمن قوم مراد لیتے ہیں۔

۲۶۔ (Cambridge, History of India, Vol. I, p. 54)۔

۲۷۔ (Cambridge, History of India, Vol. I, pp. 84-86)۔

۲۸۔ (Cambridge, History of India, Vol. I, p. 234)۔

۲۹۔ (Cambridge, History of India, Vol. I, p. 246)۔

 

۲۔ یہودی مذہب

 

یہودی مذہب کے قوانین کی تلاش و تحقیق میں ہم کو وہ دقتیں پیش نہیں آتیں جو ہندو مذہب کے قوانین تلاش کرنے میں پیش آتی ہیں۔ صرف ایک کتاب تورات کو لے کر ہم یہودی مذہب کی تعلیم اور اس کے احکام و قوانین معلوم کر سکتے ہیں اور اس میں یہودیت کو اس کے اصلی رنگ میں دیکھا جا سکتا ہے۔ اگرچہ متاخرین علمائے یہود نے شریعتِ یہود کے قوانین کو مرتب کرنے کے لیے بہت سی کتابیں لکھی ہیں جو جزئیات کی تفصیلات پر حاوی ہیں، مثلاً عقیبہ بن یوسف کی مشناہ اور مدراش جو دوسری صدی عیسوی کی تصنیفیں ہیں، اور تالمود جو مشناہ اور گمارا کو ملا کر چھٹی صدی عیسوی میں مرتب کی گئی، اور اسحاق الفاسی کی ہلاخوت جو گیارہویں صدی میں لکھی گئی اور تالمودی قوانین کی بہترین شرح سمجھی جاتی ہے، اور موسیٰ میمونی کی مشنہ تورات جو بارہویں صدی کے اواخر میں مرتب ہوئی، اور یعقوب بن اشہر کی طور جو چودھویں صدی کی یادگار ہے، اور یوسف قارو کی شولخان عاروخ جو سولہویں صدی میں لکھی گئی ہے اور جس میں یہودی احکام و عبادات کے سارے احکام روایاتِ قدیمہ کے مطابق مرتب کیے گئے ہیں، لیکن ہمارے لیے ان کتابوں سے احتجاج چنداں مفید نہیں ہے، کیونکہ ان میں سے کوئی بھی ایسی نہیں ہے جو یہودیوں کے تمام فرقوں میں متفق علیہ ہو اور نہ کسی کو یہ رتبہ حاصل ہے کہ اسے الہامی کتاب کی حیثیت سے تسلیم کیا گیا ہو۔ خصوصاً صدوقیوں اور قرائین جیسے یہودیوں کے قدیم و جدید فرقوں نے ان کتابوں سے بیزاری ظاہر کی ہے اور تورات کے سوا سب کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ چنانچہ جولائی ۱۹۰۶ء میں ربیونِ امریکہ کی مرکزی موتمر کا جو اجتماع انڈیانا پولس میں ہوا تھا اس نے مذہبی ضوابط کی ہمہ گیری کے خلاف علانیہ اظہارِ بغاوت کر دیا تھا۔ لہٰذا ہم ان سب کتابوں کو نظر انداز کر کے مسئلہ جنگ میں صرف تورات کی طرف رجوع کرتے ہیں ۳۰۔

 

   مقصدِ جنگ: تورات میں نہایت کثرت سے لڑائیوں کا ذکر آیا ہے اور جگہ جگہ لڑنے کا حکم دیا گیا ہے۔ مگر سوائے اس ایک مقصد کے جو استثناء باب ۱۲ اور اعداد باب ۳۳ میں بیان کیا گیا ہے، اور کسی مقصد کا نشان ہم کو نہیں ملتا۔ یہ مقصد کتابِ اعداد میں اس طرح بیان کیا گیا ہے:

       "اور خداوند نے موآب کے میدانوں میں یردون (دریائے اردن) کے کنارے پر یریحو کے مقابل موسیٰ کو خطاب کر کے فرمایا: بنی اسرائیل کو خطاب کر اور انہیں کہہ، جب تم یردون سے پار ہو کر زمینِ کنعان میں داخل ہو تو تم ان سب کو جو اس زمین کے باشندے ہیں اپنے سامنے سے بھگاؤ، ان کی مورتیں فنا کر دو اور ان کے ڈھالے ہوئے بتوں کو توڑ دو اور ان کے سب اونچے مکانوں (عبادت گاہوں) کو ڈھا دو، اور ان کو جو اس زمین کے بسنے والے ہیں خارج کر دو اور وہاں آپ بسو، کیونکہ میں نے وہ سرزمین تم کو دی ہے کہ اس کے مالک بنو۔" (اعداد ۳۳: ۵۰-۵۴)

 

    اور کتابِ استثناء میں ہے:

       "سو تم اٹھو، کوچ کرو، اور نہر ارنون کے پار جاؤ۔ دیکھو میں نے حسبون کے بادشاہ اموری سیحون کو اس کی سرزمین سمیت تیرے ہاتھ میں دیا ہے، سو اس کی میراث لینا شروع کر اور جنگ میں اس کا مقابلہ کر۔" (استثناء ۲: ۲۴)

       "لیکن حسبون کے بادشاہ سیحون نے ہم کو اپنے ہاں سے گزرنے نہیں دیا، کیونکہ خداوند تیرے خدا نے اس کا مزاج کڑا کر دیا اور اس کے دل کو سخت تاکہ اسے تیرے ہاتھ میں دیوے جیسا آج ہے۔ پھر خداوند نے مجھے فرمایا، دیکھ میں نے سیحون کو اس کی سرزمین سمیت تجھے دینا شروع کیا، تو میراث لینا شروع کر تاکہ اس کی زمین کا وارث ہو جائے۔ تب سیحون یہص میں ہمارے مقابلے کے لیے نکلا، وہ اور اس کی ساری قوم تاکہ ہم سے لڑیں۔ سو خداوند ہمارے خدا نے اسے ہمارے حوالے کر دیا اور ہم نے اسے اور اس کے بیٹوں کو اور اس کی سب قوم کو ہلاک کیا۔ اور ہم نے اسی وقت اس کے سارے شہروں کو لے لیا اور مردوں اور عورتوں اور بچوں کو ہر ایک شہر میں حرم کیا (یعنی قتل کیا) اور کسی کو باقی نہ چھوڑا، سوا چارپایوں کے جنہیں ہم نے اپنے لیے غنیمت جان کر پکڑا اور اس مال کے جو ہم نے شہروں میں سے لوٹا۔" (استثناء ۲: ۳۰-۳۵)

       "تب ہم پھرے اور بسن کی راہ میں چڑھ گئے اور بسن کا بادشاہ عوج ادرعی میں، وہ اور اس کی ساری قوم، ہمارے مقابلے کے لیے نکلی تاکہ ہم سے لڑے۔ اور خداوند نے اس وقت مجھے فرمایا: اس سے مت ڈر کہ میں اس کو اور اس کی ساری قوم کو اس کی سرزمین سمیت تیرے قبضے میں کر دوں گا، تو اس سے وہی کر جو تو نے اموریوں کے بادشاہ سیحون سے جو حسبون میں رہتا تھا کیا۔ چنانچہ خداوند ہمارے خدا نے بسن کے بادشاہ عوج کو بھی اس کی ساری قوم سمیت ہمارے قابو میں کر دیا اور ہم نے انہیں یہاں تک مارا کہ ان میں سے کوئی باقی نہ رہا۔ اور ہم نے اسی وقت اس کے سب شہر لے لیے... اور ہم نے ان کو، یعنی ان کے مردوں اور عورتوں اور لڑکوں کو ہر ایک شہر میں، حسبون کے بادشاہ سیحون کی طرح حرم کیا، لیکن سارے مواشی اور شہروں کا مال اسباب ہم نے اپنے واسطے لوٹ لیا۔" (استثناء ۳: ۱-۷)

 

    ان عبارات سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ تورات کی جنگ کا مقصد ملک گیری ہے۔ ایک ملک کے باشندوں کو تلوار کے زور سے مغلوب کرنا اور قوت کے حق کی بنا پر ان کے اموال و املاک اور خود ان کی جانوں کو اپنے قبضے میں لے لینا اس کی نگاہ میں جائز ہے۔ اور اس کے نزدیک یہی قہر و تسلط اس وراثتِ ارضی کا مفہوم ہے جس کا خدا نے بنی اسرائیل سے وعدہ کیا ہے۔

 

    قرآنِ مجید نے بھی وراثتِ ارضی کا ذکر کیا ہے:

    إِنَّ الْأَرْضَ لِلَّهِ يُورِثُهَا مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ (الاعراف: ۱۲۸)

    "بے شک زمین اللہ کی ہے، وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اس کا وارث بنا دیتا ہے، اور انجام کار کامیابی صرف پرہیزگاروں کا حصہ ہے۔"

    وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُورِ مِن بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ (الانبیاء: ۱۰۵)

    "اور ہم نے زبور میں نصیحت کے بعد لکھ دیا تھا کہ زمین کے وارث میرے صالح بندے ہوں گے۔"

 

    لیکن اس وراثت کا تخیل تورات کے تخیل سے بالکل مختلف ہے۔ تورات زمین کی وراثت صرف بنی اسرائیل کو دیتی ہے، جیسا کہ اعداد (۳۳: ۵۳) سے صاف ظاہر ہوتا ہے۔ مگر قرآنی تعلیم اسے کسی ایک نسل یا قوم کا نہیں بلکہ صالحین کا حق قرار دیتی ہے۔ تورات میں وراثتِ ارضی کا مفہوم یہ ہے کہ ایک قوم دوسری قوم کے گھر بار، ملک و مال اور جان و آبرو کی مالک بن جائے اور اس کو فنا کر کے خود اس کی جگہ لے۔ مگر قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کی جانب سے کسی قوم کو وراثتِ ارضی دیے جانے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے اس قوم کو صالح ہونے کی بنا پر اپنی خلافت و نیابت کے لیے چن لیا اور اپنی زمین کا انتظام اس کے سپرد کیا تاکہ وہ ظلم و جور کو مٹا کر اس کی جگہ عدل و انصاف کا نظام قائم کرے۔ پھر تورات میں میراثِ زمین حاصل کرنے کے لیے جنگ کا حکم دیا گیا ہے، مگر قرآنی تعلیم میں کہیں یہ نہیں کہا گیا کہ فلاں ملک تمہاری قومی میراث ہے لہٰذا تم اسے لڑ کر فتح کرو۔ پس تورات کی "وراثتِ ارضی" کھلی کھلی ملک گیری ہے۔ اسلام کے جہاد فی سبیل اللہ کے برعکس، اس کی جنگ کا مقصد محض ملک و دولت کا حصول اور دوسری قوموں پر ایک خاص قوم کی برتری قائم کرنا ہے۔

 

   حدودِ جنگ: جنگ کے حدود و ضوابط کے متعلق ہم کو تورات میں کچھ زیادہ تفصیلات نہیں ملتیں، تاہم اس سے اتنا معلوم ہوتا ہے کہ یہودی مذہب اپنے پیرووں کو دشمن کے ساتھ کس قسم کا سلوک کرنے کی ہدایت کرتا ہے۔ اس کے لیے ذیل کے احکام قابلِ مطالعہ ہیں:

 

    کتابِ استثناء میں ہے:

       "اور جب تو کسی شہر کے پاس اس سے لڑنے کے لیے آپہنچے تو پہلے اس سے صلح کا پیغام کر۔ تب یوں ہو گا کہ اگر وہ تجھے جواب دے کہ صلح منظور ہے اور دروازہ تیرے لیے کھول دے تو ساری خلق جو اس شہر میں پائی جائے، تیری خراج گزار ہو گی اور تیری خدمت کرے گی۔ اور اگر وہ تجھ سے صلح نہ کرے بلکہ جنگ کرے تو تو اس کا محاصرہ کر، اور جب خداوند تیرا خدا اسے تیرے قبضے میں دے دے تو وہاں کے ہر ایک مرد کو تلوار کی دھار سے قتل کر، مگر عورتوں اور لڑکوں اور مواشی کو اور جو کچھ اس شہر میں ہو، اس کی ساری لوٹ اپنے لیے لے، اور اپنے دشمن کی اس لوٹ کو جو خداوند تیرے خدا نے تجھے دی ہے کھائیو۔" (۲۰: ۱۰-۱۴)

       "جب تم کسی شہر کو اس ارادے سے کہ لڑائی کر کے اسے لو، مدت تک محاصرہ کیے رہو تو کلہاڑی چلا کر اس کے درختوں کو خراب مت کیجیو، کیونکہ ہو سکتا ہے کہ تو ان کا میوہ کھائے۔ سو تو انہیں محاصرے کے کام میں لانے کے لیے کاٹ نہ ڈالیو، کیونکہ کیا میدان کے درخت آدمی ہیں کہ تو ان کا محاصرہ کرے؟" (۲۰: ۱۹)

       "لیکن ان قوموں کے شہروں میں جنہیں خداوند تیرا خدا تیری میراث کر دیتا ہے کسی چیز کو جو سانس لیتی ہے جیتا نہ چھوڑیو، بلکہ تو ان کو حرم کیجیو (یعنی بالکل نیست و نابود کر دیجیو)۔" (۲۰: ۱۶-۱۷)

       "اور جب کہ خداوند تیرا خدا انہیں تیرے حوالے کر دے تو تو انہیں ماریو اور حرم کیجیو۔ نہ تو کوئی ان سے عہد کیجیو اور نہ ان پر رحم کریو... تم ان کے مذبحوں کو ڈھا دو، ان کے بتوں کو توڑ دو، ان کے گھنے باغوں کو کاٹ ڈالو اور ان کی تراشی ہوئی مورتیں آگ میں جلا دو۔" (۷: ۲-۵)

       "تم ان جگہوں کو جہاں ان قوموں نے جن کے تم وارث ہو گے، اپنے معبودوں کی بندگی کی ہے، اونچے پہاڑوں پر اور ٹیلوں پر اور ہر ایک ہرے درخت کے نیچے، نیست و نابود کر دیجیو۔ ان کے مذبحوں کو ڈھا دیجیو اور ان کے ستونوں کو توڑیو اور ان کے گھنے باغوں کو آگ لگائیو اور ان کے معبودوں کی کھدی ہوئی مورتوں کو چکنا چور کیجیو اور ان کے ناموں کو اس جگہ سے مٹا دیجیو۔" (۱۲: ۲-۳)

 

    کتابِ خروج میں ہے:

       "آج کے دن جو حکم میں تجھے کرتا ہوں تو اسے یاد رکھیو کہ میں اموریوں اور کنعانیوں اور حتیوں اور فرزیوں اور حویوں اور یبوسیوں کو تیرے آگے سے ہانکتا ہوں۔ ہوشیار رہنا کہ تو اس سرزمین کے باشندوں کے ساتھ جس میں تو جاتا ہے کچھ عہد نہ باندھ لیوے۔ ایسا نہ ہو کہ وہ عہد تیرے درمیان پھندا ہو۔ بلکہ تو ان کی قربان گاہوں کو ڈھا دو اور ان کے بتوں کو توڑ دو اور ان کی یسیرتوں (مقدس ستونوں) کو کاٹ ڈالو۔" (۳۴: ۱۱-۱۳)

 

    کتابِ اعداد میں ہے:

       "پھر خداوند نے موسیٰ علیہ السلام کو خطاب کر کے فرمایا کہ اہلِ مدیان سے بنی اسرائیل کا انتقام لے اور تو بعد اس کے اپنی قوم کے لوگوں سے مل جائے گا۔ تب موسیٰ علیہ السلام نے لوگوں کو فرمایا کہ بعض تم میں سے لڑائی کے لیے تیار ہوں... سو ہزاروں بنی اسرائیل میں سے ہر فرقے کے ایک ایک ہزار حاضر ہو گئے۔ یہ سب جو لڑائی کے لیے ہتھیار بند تھے ۱۲ ہزار ہوئے... اور انہوں نے مِدیانیوں سے لڑائی کی جیسا خداوند نے موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا تھا اور سارے مردوں کو قتل کیا... اور بنی اسرائیل نے مدیان کی عورتوں اور ان کے بچوں کو اسیر کیا اور ان کے مواشی اور بھیڑ بکری اور مال و اسباب سب کچھ لوٹ لیا، اور ان کے سارے شہروں کو جن میں وہ رہتے تھے اور ان کے سب قلعوں کو پھونک دیا، اور انہوں نے ساری غنیمت اور سارے اسیر، انسان اور حیوان لیے، اور وہ قیدی اور غنیمت اور لوٹ موسیٰ علیہ السلام اور اِلیعزر کاہن اور بنی اسرائیل کے پاس خیمہ گاہ میں، موآب کے میدانوں میں، یردن کے کنارے جو یریحو کے مقابل ہے لائے... اور موسیٰ علیہ السلام لشکر کے رئیسوں پر... غصہ ہوا اور ان کو کہا کہ کیا تم نے سب عورتوں کو جیتا رکھا؟... سو تم ان بچوں میں سے جتنے لڑکے ہیں سب کو قتل کرو اور ہر ایک عورت کو جو مرد کی صحبت سے واقف تھی جان سے مارو، لیکن وہ لڑکیاں جو مرد کی صحبت سے واقف نہیں ہوئیں ان کو اپنے لیے زندہ رکھو۔" (۳۱: ۱-۱۸)

 

    کتابِ یشوع میں ہے:

       "اور انہوں نے ان سب کو جو شہر (یریحو) میں تھے، کیا مرد کیا عورت، کیا جوان کیا بوڑھا، کیا بیل کیا بھیڑ، کیا گدھا، سب کو یک لخت تہِ تیغ کر کے حرم کیا... پھر انہوں نے اس شہر کو اس سب سمیت جو اس میں تھا پھونک دیا۔ مگر روپا (چاندی) اور سونا اور پیتل اور لوہے کے ظروف خداوند کے خزانے میں داخل کیے۔" (۶: ۲۱، ۲۴)

       "اور انہوں نے عی کے بادشاہ کو جیتا پکڑا اور اسے یشوع پاس لائے۔ اور ایسا ہوا کہ جب اسرائیل میدان میں... عی کے لوگوں کو قتل کر چکے... تو سارے بنی اسرائیل عی کو پھرے اور اسے تلوار کی دھار سے مارا۔ چنانچہ وہ جو اس دن مارے گئے مرد اور عورت ۱۲ ہزار تھے، یعنی عی کے سب لوگ... اسرائیل نے اس شہر کے فقط مواشی اور اسباب کو اپنے لیے لوٹا، خداوند کے حکم کے مطابق جو اس نے یشوع کو فرمایا تھا۔" (۸: ۲۳-۲۸)

 

    ان عبارات سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہودی مذہب اپنے دشمنوں کو دو قسموں پر تقسیم کرتا ہے۔ ایک وہ جنہیں خداوند نے بنی اسرائیل کی میراث میں نہیں دیا ہے۔ دوسرے وہ جنہیں اس نے ان کی میراث میں دیا ہے۔ ان دونوں کے ساتھ اس کا معاملہ جدا جدا رنگ کا ہے۔ پہلی قسم کے دشمنوں کے لیے اس کا حکم یہ ہے کہ پہلے انہیں صلح کا پیغام دیا جائے اور اگر وہ اسے قبول کر کے اپنا ملک بنی اسرائیل کے سپرد کر دیں تو ان کو باجگزار اور خدمت گزار بنا لیا جائے۔ لیکن اگر وہ صلح نہ کریں تو ان کے ساتھ جنگ کی جائے اور فتح پانے کے بعد ان کے تمام مردوں کو قتل کر دیا جائے، عورتوں اور بچوں کو غلام بنا لیا جائے اور مال اسباب پر قبضہ کر لیا جائے۔ دورانِ جنگ میں باغوں اور کھیتوں اور میوہ دار درختوں کو خراب کرنے کی ممانعت ہے، مگر اس لیے نہیں کہ یہ ایک مفسدانہ فعل ہے بلکہ اس لیے کہ انہیں اس طرح خراب کر دینے سے فتح حاصل ہونے کی صورت میں فاتح کو کوئی فائدہ نہ پہنچ سکے گا۔ دوسری قسم کے دشمنوں کو وہ تمام انسانی حقوق اور رعایات سے محروم کر دیتا ہے۔ اس کا حکم یہ ہے کہ ان قوموں سے کوئی صلح و معاہدہ نہ کیا جائے، ان کے خلاف بلا تامل جنگ چھیڑ دی جائے، ان کی بستیوں کو تباہ و برباد کیا جائے، ان کی کھیتیاں اور باغات اور عمارتیں اور عبادت گاہیں سب تہس نہس کر دی جائیں، ان کی عورتیں، مرد، بچے حتیٰ کہ جانور تک تہِ تیغ کر دیے جائیں اور روئے زمین سے ان کا نام و نشان مٹا دیا جائے۔ اس جنگ کی غایت صرف یہ قرار دی گئی ہے کہ میراث میں دی ہوئی قومیں کلیتاً نیست و نابود کر دی جائیں۔ ان قوموں کے سامنے کوئی ایسی شرط پیش ہی نہیں کی گئی جسے پورا کرنے کے بعد ان کی جان بخشی ممکن ہو۔

 

    اس تعلیم پر کسی تبصرے کی حاجت نہیں، وہ اپنے اوپر خود تبصرہ کر رہی ہے۔ اس پر جیتا جاگتا تبصرہ فلسطین کی اسرائیلی ریاست ہے جو اسی میراثِ ارضی کے تخیل پر قائم ہوئی ہے اور بیسویں صدی میں بھی اس نے عربوں کے ساتھ وہی کچھ کر کے دکھا دیا جس کی ہدایت بائبل میں دی گئی تھی۔

 

۳۰۔ یہاں اس امر کا اظہار ضروری ہے کہ تورات کے متعلق ہم جو کچھ کہیں گے وہ اس تورات کے متعلق نہیں ہو گا جو حضرت موسیٰؑ پر نازل ہوئی تھی، بلکہ اس تورات سے متعلق ہو گا جو آج عہدِ عتیق (Old Testament) کے نام سے دنیا میں موجود ہے۔ ہماری تحقیق یہ ہے کہ "عہدِ عتیق کی کتبِ خمسہ (Pentateuch) اصلی تورات نہیں ہیں۔ اصلی تورات گم ہو چکی ہے۔" اس نظریے کی تائید خود "عہدِ عتیق" سے ہوتی ہے۔ اس سے ہم کو معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰؑ نے اپنی زندگی کے آخری زمانے میں حضرت یشوعؑ کی مدد سے تورات کو مرتب کر کے ایک صندوق میں رکھوا دیا تھا (استثناء ۳۱: ۲۴-۲۶)۔ ان کے انتقال کے بعد چھٹی صدی ق م میں جب بخت نصر نے بیت المقدس کو آگ لگا دی تو وہ مقدس صندوق ان تمام کتابوں سمیت جل گیا جو حضرت موسیٰؑ کے بعد شریعتِ موسویہ کے مجددین نے مرتب کی تھیں۔ اس تباہی کے دو ڈھائی سو برس بعد حضرت عزیرؑ نے (بائبل کی روایت کے مطابق) بنی اسرائیل کے کاہنوں اور لاویوں کے ساتھ مل کر آسمانی الہام سے اس کتاب کو از سرِ نو مرتب کیا (۲ ایسدرس باب ۱۴)۔ مگر حوادثِ زمانہ نے اس نئے نسخے کو بھی اپنی اصلی صورت میں باقی نہ رہنے دیا۔ سکندرِ اعظم کی عالمگیر فتوحات کا سیلاب جب یونانی حکومت کے ساتھ یونانی علوم و آداب کو بھی لے کر شرقِ ادنیٰ پر پھیل گیا تو ۲۸۰ ق م میں تورات کی تمام کتابیں یونانی زبان میں منتقل کر دی گئیں (Septuagint) اور رفتہ رفتہ اصلی عبرانی نسخہ متروک ہو کر یہی یونانی ترجمہ رائج ہو گیا۔ پس آج جو تورات ہمارے سامنے ہے اس کی سند کسی طرح حضرت موسیٰؑ تک نہیں پہنچتی۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ موجودہ تورات میں اصلی تورات کا کوئی جزو بھی شامل نہیں ہے یا یہ سراسر جعلی ہے۔ دراصل جو کچھ ہم کہنا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ اس تورات کے ساتھ بہت سی دوسری چیزیں مل جل گئی ہیں اور بعید نہیں کہ اس کی بعض چیزیں اس میں سے غائب بھی ہو گئی ہوں۔ آج جو شخص بھی محققانہ نظر سے اس کتاب کو پڑھے گا وہ صریح طور پر یہ محسوس کرے گا کہ اس میں خدا کے کلام کے ساتھ یہودی علماء کی تفسیریں، بنی اسرائیل کی قومی تاریخ، اسرائیلی فقہاء کے قانونی اجتہادات اور دوسری بہت سی چیزیں خلط ملط ہو گئی ہیں جنہیں الگ کر کے کلامِ الٰہی کو چھانٹ نکالنا سخت مشکل کام ہے۔ اس کے ساتھ ہم یہ بھی واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ قرآنِ مجید کے مطابق تورات کا دین وہی تھا جو خود قرآن کا دین ہے اور موسیٰ علیہ السلام اسی طرح اسلام کے پیغامبر تھے جس طرح حضرت محمد ﷺ ہیں۔ بنی اسرائیل ابتداءً اسی دینِ اسلام کے پیرو تھے مگر بعد میں انہوں نے اصل دین میں اپنی خواہشات کے مطابق بہت کچھ کمی بیشی کر کے ایک نیا مذہبی نظام "یہودیت" کے نام سے بنا لیا۔ لہٰذا یہاں ہم جس چیز پر بحث کر رہے ہیں وہ یہی یہودیت ہے نہ کہ وہ دین جو حضرت موسیٰؑ لائے تھے۔

 

۳۔ بودھ مذہب

 

یہاں تک ان مذاہب کا ذکر تھا جن سے اسلام کو اختلاف نفسِ جنگ کے جواز و عدم جواز میں نہیں بلکہ محض اس کی اخلاقی اور عملی نوعیت میں تھا۔ اب دوسری قسم ان مذاہب کی ہے جو سرے سے جنگ ہی کے مخالف ہیں اور اسلام سے اس بنا پر اختلاف رکھتے ہیں کہ وہ جہاد بالسیف کی اجازت ہی کیوں دیتا ہے؟ ان مذاہب میں تاریخی ترتیب کے اعتبار سے پہلا نمبر بودھ مذہب کا ہے۔

 

بودھ مذہب کے مآخذ:

 

مسئلہ زیرِ بحث میں بودھ مذہب کے طریقے کی تحقیق کرنے سے قبل یہ امر ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ آج ہمارے پاس یہ معلوم کرنے کا کوئی یقینی ذریعہ نہیں ہے کہ فی الواقع بودھ کی تعلیم کیا تھی۔ بودھ نے اپنی زندگی میں کوئی کتاب نہیں لکھی۔ اس نے اپنے قائم کردہ مذہب کے عقائد اور احکام کا کوئی مجموعہ بھی مرتب نہیں کرایا جس سے اس کی تعلیمات خود اس کی زبان سے معلوم کی جا سکتیں۔ تاریخ سے ثابت ہوتا ہے کہ اس کے کسی پیرو نے بھی اس کی زندگی میں یا اس کے بعد کسی قریبی زمانے میں اس کی تعلیمات کو ضبطِ تحریر میں لانے کی کوشش نہیں کی۔ بعض روایات سے اتنا معلوم ہوتا ہے کہ اس کے انتقال کے بعد راج گریہ میں ایک بڑی کونسل منعقد ہوئی تھی جس میں اس کے ایک دو مخصوص مریدوں (آنند اور اُپالی) نے اس کی تعلیمات پر زبانی لکچر دیے تھے، لیکن اول تو خود انہی روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ ان لکچروں کو ضبطِ تحریر میں نہیں لایا گیا۔ دوسرے تاریخی حیثیت سے یہ بھی پوری طرح ثابت نہیں ہوتا کہ آیا یہ کونسل فی الواقع منعقد ہوئی بھی تھی یا نہیں۔ مہاپرنروان سوتر، جو ہمارے پاس بودھ کی زندگی اور اس کے بعد کے حالات معلوم کرنے کا سب سے زیادہ مستند ذریعہ ہے، اس کونسل کے بارے میں بالکل خاموش ہے۔ ۳۱

 

اب رہیں موجودہ کتابیں جو اس مذہب کے متعلق ہماری معلومات کا تنہا ذریعہ ہیں، سو یہ سب بودھ کے بہت بعد کی تصنیف ہیں۔ اس کے انتقال پر ایک صدی گزر چکی تھی جب ویسالی میں اس مذہب کے اعیان و ائمہ کی ایک کونسل منعقد ہوئی اور بڑے مباحثے کے بعد اس کے اصول اور عقائد و احکام کو مرتب کرنے کی کوشش کی گئی۔ مگر اس کے متعلق دیپ ومسا کا مصنف ہم کو خبر دیتا ہے کہ اس میں بھکشوؤں نے اصل مذہب کے اصول بدل دیے، اس کے عقائد اور احکام میں بہت کچھ ترمیم و تنسیخ کی اور اصل سوتروں کو بدل کر نئے سوتر بنا لیے ۳۲۔ اسی زمانے میں بودھ مذہب (کے اصولوں) کو ضبطِ تحریر میں لانے کا سلسلہ شروع ہوا اور پہلی صدی عیسوی یعنی ۴۰۰ برس تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ لیکن آخری زمانے میں اس مذہب کو پھر تحریف سے دوچار ہونا پڑا، یہاں تک کہ اس کے بنیادی اصول بھی بدل گئے۔ ابتدائی بودھ مت میں خدا کا کوئی وجود نہ تھا، مگر اب ایک غیر فانی ہستی کا وجود مان لیا گیا جو تمام کائنات سے برتر ہے اور جس کا محض ایک مادی ظہور بودھ کی شکل میں ہوا ہے۔ ابتدائی بودھ مت میں جنت اور دوزخ کا کوئی تصور نہ تھا، مگر اب نیک اعمال کا صلہ جنت اور برے افعال کا عوض دوزخ کو تسلیم کر لیا گیا۔ ابتدائی بودھ مت میں زاہدانہ زندگی کے قواعد بے انتہا سخت تھے، مگر اب ان کو بدل کر ضروریات کے لحاظ سے نسبتاً نرم کر دیا گیا۔

 

بودھ مت میں یہ آخری تحریف کنشک کے زمانے میں ہوئی جو پہلی صدی عیسوی میں گزرا ہے۔ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے ماتحت کشمیر میں جو کونسل منعقد ہوئی تھی اس میں اس تحریف و تنسیخ کے ساتھ بودھ مذہب کے قوانین مرتب کیے گئے تھے ۳۳۔ ان جدید قوانین کو ایک چھوٹے سے فرقے (ہنایان) نے رد کر دیا مگر پیروانِ بودھ کے سوادِ اعظم نے جو اصطلاح میں مہایانا فرقہ کہلاتا ہے انہیں تسلیم کر لیا۔

 

اس سے ظاہر ہے کہ صحیح معنوں میں جس چیز پر "مذہبی کتاب" کا اطلاق ہوتا ہے وہ بودھ مذہب میں موجود نہیں ہے اور ہم کسی مسئلے کی بنا پر وثوق کے ساتھ یہ معلوم نہیں کر سکتے کہ بودھ کی اصلی تعلیم کیا تھی۔ زیادہ سے زیادہ اعتماد ان کتابوں (تری پٹک) پر کیا جا سکتا ہے جو عہدِ کنشک کے آخری عملِ تحریف سے بچ کر ہم تک پہنچی ہیں اور وہ تین ہیں:

۱)۔ ونائے پٹک: جو زاهدانہ زندگی کے قوانین کا مجموعہ ہے اور ۳۵۰ ق م سے تقریباً ۲۵۰ ق م تک مختلف ایام میں مرتب ہوا ہے۔ مگر اس کے مصنف یا مصنفوں کا پتا نہیں ملتا۔

۲)۔ ست پٹک: جس میں حصولِ نجات کے طریقے یا بودھ کے فلسفہ اخلاق پر زیادہ تر بودھ کے اقوال جمع کیے گئے ہیں۔ اس مجموعے کے مصنف اور زمانہ تصنیف کے متعلق بھی تاریخ میں کسی قسم کی معلومات محفوظ نہیں ہیں۔

۳)۔ ابھیدھم پٹک: جو زیادہ تر بودھ مت کے فلسفہ اخلاق و مابعد الطبیعات پر مشتمل ہے۔ اس کے متعلق ہم صرف اتنا جانتے ہیں کہ یہ تیسری صدی قبل مسیح کے خاتمے سے پہلے موجود تھی۔ ۳۴

 

آئندہ صفحات میں ہم بودھ کی تعلیم کے متعلق جو کچھ کہیں گے وہ دراصل اس بودھ کے متعلق ہو گا جسے یہ کتابیں ہمارے سامنے پیش کرتی ہیں، نہ کہ اس بدھ کے متعلق جس کو ہم نہیں جانتے کہ وہ دراصل کس چیز کی تعلیم دیتا تھا۔

 

اہنسا کی تعلیم:

 

بودھ مت ایک اہنسائی (عدم تشدد کا) مذہب ہے۔ اس میں ہر ذی روح شے کو معصوم قرار دیا گیا ہے اور انسان سے لے کر چھوٹے سے چھوٹے کیڑے تک ہر جاندار کی عصمت اس معنی میں تسلیم کی گئی ہے کہ اس پر کسی حال میں تجاوز نہیں کیا جا سکتا۔ بودھ کے احکامِ عشرہ میں سب سے پہلا تاکیدی حکم یہ ہے کہ "کسی جاندار کو ہلاک نہ کرو۔" جو بھکشو (راہب) عمداً کسی جاندار شے کو اس کی زندگی سے محروم کرے وہ اس کے قانون میں ناقابلِ عفو جرم کا مرتکب ہے ۳۵۔ حد یہ ہے کہ وہ بھکشوؤں کو برسات کے تین مہینوں (وسا) میں گوشۂ عزلت سے باہر نکلنے تک کی ممانعت کرتا ہے تاکہ زمین پر چلنے سے حشرات الارض نہ کچلے جائیں ۳۶۔

 

ان شدید اہنسائی احکام کے ساتھ جنگ کی اجازت تو درکنار، اس کا تصور بھی ناممکن ہے۔ جب جان کا احترام اس کی نگاہ میں اس قدر بڑھا ہوا ہے تو لامحالہ اسے ایک ایسے عمل کو شدید نفرت کی نظر سے دیکھنا ہی چاہیے جس میں کیڑوں کی نہیں آدمیوں کی، ایک دو نہیں ہزاروں لاکھوں جانیں تلوار کی دھار اور گھوڑوں کی ٹاپ کے نیچے قربان کی جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بودھ نے ایک بھکشو کے لیے اس کی اجازت بھی نہیں دی ہے کہ وہ میدانِ جنگ میں تماشائی کی حیثیت ہی سے جا کر خوں ریزی کا نظارہ کرے۔ چنانچہ پچتیہ دھما (Pācittiya Dhamma) کی اڑتالیسویں دفعہ یہ ہے: "جو بھکشو بلا کسی وجہ معقول کے ایک ایسی فوج کو دیکھنے جائے جو جنگ کے لیے صف بستہ ہو تو وہ پچتیہ جرم کا مرتکب ہو گا۔" ۳۷

 

"اگر اس بھکشو کے فوج کی طرف جانے کی کوئی معقول وجہ ہو تو وہ صرف دو یا تین راتوں تک وہاں ٹھہر سکتا ہے۔ اگر وہ اس سے زیادہ ٹھہرے تو یہ پچتیہ ہے۔" ۳۸

 

"اور اگر وہ وہاں دو یا تین رات کے دورانِ قیام میں میدانِ جنگ کی صف آرائی یا افواج کی سپہ سالاری یا قوائے حرب کی صف بندی یا معائنے کے موقع پر جائے تو یہ بھی پچتیہ جرم ہے۔" ۳۹

 

بودھ کا فلسفہ:

 

ان احکام سے جنگ کے متعلق بودھ کا مسلک صاف معلوم ہو جاتا ہے۔ لیکن اس مسلک کے حسن و قبح کا صحیح اندازہ کرنے کے لیے صرف ان مختصر احکام ہی کا جان لینا کافی نہیں ہے بلکہ اس پورے نظامِ فلسفہ کو سمجھنا ضروری ہے جس کا ایک جز اہنسا کا یہ عقیدہ ہے۔ اہنسا خود تو دراصل ان وسائل میں سے ایک وسیلہ ہے جو انسانی زندگی کو اس خاص شکل میں ڈھالنے اور اس مخصوص راستے پر لے جانے میں مددگار ہوتے ہیں جسے بودھ نے انسان کے لیے پسند کیا ہے۔ لہٰذا دیکھنا یہ چاہیے کہ وہ کون سی شکل ہے جس میں بودھ انسان کی زندگی کو ڈھالنا چاہتا ہے؟ وہ کون سا راستہ ہے جس پر وہ اس کو لے جانے کی کوشش کرتا ہے؟ وہ کون سی منزل ہے جسے اس نے اپنا نصب العین بنایا؟ اور وہ کیا عملی وسائل ہیں جنہیں اس غرض کے لیے وہ استعمال کرتا ہے؟ ان مسائل کو سمجھے بغیر اہنسا کی اصلی روح اور حیاتِ انسانی پر اس کے عمیق اثرات کو سمجھنا مشکل ہے۔

 

بودھ نے انسان کی زندگی کا مطالعہ جس نقطۂ نظر سے کیا ہے وہ دنیا کے دوسرے حکماء اور معلمینِ مذہب و اخلاق کے نقطۂ نظر سے بالکل مختلف ہے۔ اس نے یہ سمجھنے کی سرے سے کوئی کوشش ہی نہیں کی ہے کہ انسان دنیا میں کیوں پیدا ہوا ہے اور اس کی زندگی کا مقصد کیا ہے۔ اس لیے قدرتی طور پر وہ اس سوال سے بھی کوئی بحث نہیں کرتا کہ اس دنیا میں انسان کے لیے زندگی بسر کرنے کا کون سا طریقہ ہے جو اس کی اور اس کے ابنائے نوع کی حقیقی فلاح کا موجب ہو۔ اس نے اپنی ساری توجہ صرف اس سوال کے حل کرنے میں صرف کر دی ہے کہ انسان کی زندگی میں تغیر و انقلاب کیوں ہوتا ہے؟ بچپن، جوانی، بڑھاپا، تندرستی، بیماری، پیدائش، موت، رنج، خوشی، راحت، مصیبت اور اسی قسم کے مختلف تغیرات کی علت کیا ہے؟ اور اس چکر (سنسار) سے نجات حاصل کرنے کی صورت کیا ہے؟

 

انسان کی پوری انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اس کو صرف یہی ایک سوال قابلِ توجہ نظر آیا ہے اور تمام دوسرے عملی و اعتقادی مسائل سے اس نے بالکل آنکھیں بند کر لی ہیں۔ اس بنیادی سوال پر کئی سال تک گیان دھیان (غور و فکر) کرنے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ زندگی فی نفسہٖ ایک مصیبت (دُکھ) ہے جس میں انسان مبتلا ہو گیا ہے اور پیدائش سے لے کر موت تک اس پر جتنے انقلابات گزرتے ہیں وہ سب اسی مصیبت کے مظاہر ہیں۔ اس کے دنیا میں آنے کا کوئی مقصد نہیں ہے۔ وہ محض عبث اور بے کار پیدا ہوا ہے۔ یا اگر اس کا کوئی کام ہے تو وہ صرف مصیبت سہنا اور تکلیف اٹھانا ہے۔ اس لیے یہ دنیا اس کے رہنے کی جگہ نہیں ہے۔ یہاں اس کے لیے حقیقتاً کوئی راحت اور مسرت نہیں ہے۔ کیونکہ ہر راحت کے پیچھے ایک نقصان، ہر شگفتگی کے پیچھے ایک پژمردگی، اور ہر پیدائش کے پیچھے ایک موت لگی ہوئی ہے۔ اور یہ سب کچھ تحول و انقلاب کے ایک دائمی عمل کے تابع ہے جو خود ایک مصیبت ہے۔

 

اس مصیبت میں انسان کیوں مبتلا ہے؟ اس کا جواب بودھ یہ دیتا ہے کہ خواہش (ترشنا)، احساس اور شعور اس کو زندگی کی مصیبت میں مبتلا کرتے ہیں۔ نفس کی انہی قوتوں کے باعث دنیا سے انسان کا تعلق قائم ہوتا ہے اور یہی تعلق اسے بار بار دنیا میں لاتا ہے۔ وہ بار بار اس کو ایک جون سے دوسری جون میں، ایک قالب سے دوسرے قالب میں اور ایک زندگی سے دوسری زندگی میں لیے پھرتا ہے، اور جب تک خواہش کا یہ پھندا اس کی گردن سے نہیں نکلتا اس وقت تک وہ بار بار مرنے اور بار بار زندہ ہو کر کسی نہ کسی شکل میں پھر پیدا ہونے کے سلسلے سے چھٹکارا نہیں پا سکتا۔

 

پھر اس مصیبت، اس زندگی کے چکر سے نجات کیسے حاصل ہو؟ اس سوال کو بودھ نے صرف ایک لفظ "نروان" سے حل کیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ جب زندگی مصیبت ہے اور خواہش اس مصیبت کی جڑ، تو انسان کے لیے اصلی راحت صرف نیستی، فنا اور عدمِ محض میں ہے، اور وہ خواہش، احساس اور شعور کو بالکل مٹا دینے سے حاصل ہو سکتی ہے۔ انسان دنیا کے تمام علائق سے منقطع ہو جائے۔ کسی چیز کی محبت، کسی شے کی تمنا، کسی لذت کی چاشنی، غرض اس دنیا کی کسی چیز کی طرف اپنے دل میں کشش نہ رکھے اور اپنے تمام جذبات، احساسات اور خواہشات کو اس طرح فنا کر دے کہ اس دنیا سے اس کا کوئی واسطہ و تعلق باقی ہی نہ رہے جو اسے یہاں دوبارہ لانے کا موجب ہو، اس طرح وہ "وجود" کی قید سے نکل کر "عدم" یا فنائے محض کی حالت میں چلا جائے گا۔ یہی "نروان" ہے ۴۰، اور یہی بودھ کے نزدیک انسان کا منتہائے نظر ہے یا ہونا چاہیے۔

 

اب چوتھا سوال یہ ہے کہ نروان تک پہنچنے کی صورت کیا ہے؟ یہاں پہنچ کر بودھ کا مذہب عملی شکل اختیار کرتا ہے۔ اس نے نروان تک پہنچنے کے لیے طریقِ ہشت گانہ (آٹھ راستے) تجویز کیا ہے ۴۱ اور وہ مختصر الفاظ میں یہ ہے ۴۲:

۱)۔ صحیح عقیدہ (سمّک دِٹھّی): یعنی مذکورہ بالا چاروں بنیادی صداقتوں (دکھ، دکھ کی وجہ، دکھ کا خاتمہ، خاتمے کا راستہ) کو اچھی طرح سمجھنا۔

۲)۔ صحیح ارادہ (سمّک سنکپّ): یعنی ترکِ لذات کا مصمم فیصلہ اور دوسروں کو تکلیف پہنچانے اور ذی روح ہستیوں کو ایذا دینے سے کامل پرہیز۔

۳)۔ صحیح گفتار (سمّک واچا): یعنی بد زبانی، یاوہ گوئی، غیبت اور جھوٹ سے احتراز۔

۴)۔ صحیح چلن (سمّک کمّنت): یعنی بدکاری، قتلِ نفس اور چوری سے اجتناب۔

۵)۔ صحیح معیشت (سمّک آجیوا): یعنی جائز طریقے سے روزی حاصل کرنا (خصوصاً بھیک مانگنا)۔

۶)۔ صحیح کوشش (سمّک وایام): یعنی دھرم کے احکام کے مطابق عمل کرنا۔

۷)۔ صحیح حافظہ/توجہ (سمّک ستی): یعنی اپنے اعمال، خیالات اور احساسات سے باخبر رہنا۔

۸)۔ صحیح تخیل/مراقبہ (سمّک سمادھی): یعنی راحت اور مسرت سے بے نیاز ہو کر نروان کی طرف دھیان لگانا۔

 

اس طریقِ ہشت گانہ کو عملی شکل میں لانے کے لیے بودھ نے دس اخلاقی احکام دیے ہیں، جن میں سے پانچ (پہلے پانچ) عام پیروکاروں کے لیے موکد ہیں اور باقی پانچ بھکشوؤں کے لیے زیادہ تاکیدی ہیں۔ یہ احکام حسبِ ذیل ہیں:

(۱)۔ کسی کی جان نہ لو (پاناتپاتا ویرمنی)۔

(۲)۔ چوری نہ کرو (ادنّادانا ویرمنی)۔

(۳)۔ زنا نہ کرو (کامیسو مچھّچارا ویرمنی)۔

(۴)۔ جھوٹ نہ بولو (موساوادا ویرمنی)۔

(۵)۔ نشہ آور چیزیں نہ پیو (سُرامیرے یمَجّپمادٹھانا ویرمنی)۔

(۶)۔ مقرر وقت (دوپہر) کے سوا کھانا نہ کھاؤ۔

(۷)۔ ناچ گانے اور کھیل تماشے سے پرہیز کرو۔

(۸)۔ پھول، عطر، زیورات وغیرہ سے پرہیز کرو۔

(۹)۔ اونچے اور نرم بستر پر سونے سے پرہیز کرو۔

(۱۰)۔ سونا چاندی (دولت) اپنے پاس نہ رکھو۔ ۴۳

 

یہی طریقِ ہشت گانہ اور احکامِ عشر بودھ مذہب کے پورے اخلاقی نظام کی بنیاد ہیں۔ بودھ نے اپنے پیرووں کو معیشت و معاشرت کے متعلق جتنی ہدایات دی ہیں ان سب کا بنیادی پتھر "نفس کشی" اور "ترکِ دنیا" ہے۔ چونکہ اس کی منزلِ مقصود "نروان" ہے اور وہ بغیر نفس کشی کے حاصل نہیں ہو سکتی، اس لیے وہ خودی کو مٹانے کے لیے نہایت سخت ریاضتیں تجویز کرتا ہے۔ مثلاً داڑھی، مونچھ اور سر کے بالوں کو نوچنا تاکہ غرورِ حسن خاک میں مل جائے، ہمیشہ کھڑے رہنا، کانٹوں یا کیلوں کے بستر پر لیٹنا، ہمیشہ ایک ہی پہلو پر سونا، بدن پر خاک ملے رہنا اور اسی قسم کے دوسرے اعمال جو جسم کو انتہائی تکلیف میں مبتلا کر کے روح کو مضمحل اور احساس کو باطل کرنے والے ہوں ۴۴۔

 

ان کے علاوہ زندگی بسر کرنے کے عام طریقوں کے متعلق بھی بودھ نے ایسے ہی احکام دیے ہیں۔ اس جگہ ان سب کی تفصیل دینا بہت مشکل ہے کیونکہ وہ کئی جلدوں پر محیط ہیں، تاہم مثال کے طور پر چند نقل کیے جاتے ہیں:

 

   چار سنگین گناہ (پاراجیکا): چار چیزیں جن سے پرہیز کی سخت تاکید ہے اور ان کا مرتکب بھکشو سنگھ (برادری) سے خارج ہو جاتا ہے، یہ ہیں:

    (۱)۔ عورت اور مرد کا جنسی تعلق ۴۵۔

    (۲)۔ چوری، حتیٰ کہ گھاس کے ایک تنکے کی بھی۔

    (۳)۔ کسی جاندار حتیٰ کہ چھوٹے سے چھوٹے کیڑے کو بھی عمداً ہلاک کرنا۔

    (۴)۔ اپنی طرف کسی فوق العادت روحانی قوت کو منسوب کرنا (جو حاصل نہ ہو)۔ ۴۶

   لباس: مذہبی زندگی اختیار کرنے کے بعد انسان نئے کپڑے نہ پہنے، کوڑے پر پڑے ہوئے چیتھڑے یا قبرستان سے مردوں کے کفن لے کر ان کی گدڑیاں سی لینی چاہئیں ۴۷۔ مگر اس قسم کی گدڑیاں بھی ایک وقت میں تین سے زیادہ نہ ہوں۔

   معاش: بسر اوقات کے لیے کوئی پیشہ نہ کرے، ایک لکڑی کا بھکشا پاتر (کاسہ گدائی) لے کر خاموشی کے ساتھ در بدر بھیک مانگتے پھرنا چاہیے۔ یہ بھیک کی روزی ہی بودھ مذہب میں سب سے زیادہ پاک روزی ہے ۴۸۔

   رہائش: رہنے کے لیے کوئی مکان نہ بنائے، جنگل میں رہنا چاہیے اور درختوں کے سائے میں پناہ لینی چاہیے۔

   علاج: بیمار ہو تو کوئی دوا استعمال نہ کرے، پیشاب کی تخلیل (Fermented Urine) اس کے لیے کافی وسیلۂ علاج ہے ۴۹۔

   صفائی: اپنے جسم کو صاف رکھنے کی کوشش بھی نہ کرے، حد سے حد پندرہ دن میں ایک مرتبہ نہانا جائز ہے ۵۰۔

   مال و دولت: اپنے پاس روپیہ پیسہ بالکل نہ رکھے، تجارت، لین دین، خرید و فروخت اور تمام ایسے کاموں سے پرہیز کرنا چاہیے جن میں چاندی سونا استعمال کیا جاتا ہو ۵۱۔

   بستر: اچھی قسم کا بستر بھی نہ رکھے، ایک موٹا جھوٹا کمبل رکھنا چاہیے اور اس ایک کمبل کو کم از کم چھ سال چلانا چاہیے ۵۲۔

 

بودھ مذہب کی اصلی کمزوری:

 

یہ اس پورے اخلاقی نظام کا خلاصہ ہے جس کا جز اہنسا کی تعلیم ہے۔ بلاشبہ اس میں بعض نہایت عمدہ اخلاقی ہدایات بھی موجود ہیں۔ ناانصافی ہو گی اگر ہم اس پرہیزگاری اور پاک سیرتی کی تعریف نہ کریں جس کی تعلیم بودھ نے دی ہے اور جس کا ایک مکمل عملی نمونہ خود اس نے اپنی پرعظمت زندگی میں پیش کیا ہے۔ لیکن فروع میں اپنے اندر بہت سی خوبیاں رکھنے کے باوجود، اصول میں یہ پورا نظام اول سے لے کر آخر تک غلط ہے۔ اس کی بنیاد ایک غلط عقیدے پر ہے۔ حیاتِ انسانی کے متعلق اس کا نظریہ غلط ہے۔ اس نے ایک غلط مقام سے انسان اور اس کی زندگی پر نظر ڈالی ہے، ایک غلط مقام کو انسان کی منزلِ مقصود قرار دیا ہے، اور ایک غلط راستہ اس تک پہنچنے کے لیے تجویز کیا ہے۔

 

بودھ دراصل دنیا کے حوادث و تغیرات اور زندگی کے انقلاب و تحول کو دیکھ کر مبہوت ہو گیا ہے۔ وہ ان کی اصلی علت کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتا۔ ان کی گہرائیوں میں اتر کر حقیقت کا سراغ نہیں لگاتا ہے۔ نہ مردانگی کے ساتھ ان کا مقابلہ کر کے کسی بلند نصب العین کی طرف اقدام کا عزم کرتا ہے۔ اس کے بجائے وہ ان کا ایک سطحی مطالعہ کرتا ہے اور ایک سرسری نظر ڈال کر اس نتیجے پر پہنچ جاتا ہے کہ انسان کی زندگی عبث ہے، یہ سارا کارخانۂ دنیا بے معنی ہے، اس میں انقلاب اور گردش کا جو سلسلہ جاری ہے وہ کسی سبب و علت اور مقصد و منشا کے بغیر صرف انسان کو دکھ دینے اور ستانے کے لیے چل رہا ہے۔ انسان کی عقل، احساس، ادراک، شعور، جذبات، خواہشات اور جسمانی قوتیں جو کچھ حاصل ہیں سب اسے مصیبت میں مبتلا کرنے کے لیے ہیں اور ان کا کوئی بہتر مصرف نہیں ہے۔ دنیا کی دولت و ثروت، اس کی تہذیب، اس کا تمدن، اس کی سیاست، اس کی حکومت، اس کی صنعت و تجارت، غرض اس کے سارے کاروبار بے فائدہ ہیں۔ یہ سب حقیقت کے پھندے ہیں جو انسان کو بار بار زندگی کی طرف کھینچ لاتے ہیں اور تناسخ کے ایک دائمی چکر میں مبتلا رکھتے ہیں۔ پس اس دنیا میں بجز اس کے انسان کا اور کوئی کام نہیں ہے کہ وہ اپنی ذات کے سوا تمام خارجی تعلقات سے منقطع ہو جائے اور اپنی ذات کو بھی ہر قسم کی لذتوں سے محروم کر کے طرح طرح کی تکلیفوں میں مبتلا کر کے اس حد تک مٹا دے کہ وہ "ہستی" اور "وجود" کی قید سے چھوٹ کر "نیستی" اور "عدم" (نروان) کی سرحد میں چلا جائے۔

 

اب یہ ظاہر ہے کہ جو شخص دنیا کے مصائب سے خوفزدہ ہو کر خود دنیا ہی کو چھوڑ دیتا ہے، اس کے تمام تمدنی و اجتماعی علائق سے الگ ہو کر صرف اپنی نجات کی فکر میں لگ جاتا ہے، اور اس نجات یا عدم کی منزل تک پہنچنے کے لیے بھی وہ راستہ اختیار کرتا ہے جو دنیا کے اندر سے نہیں بلکہ باہر ہی باہر گزر جاتا ہے، اس سے ہرگز امید نہیں کی جا سکتی کہ وہ اپنے خاندان، اپنی قوم، اپنے وطن، اور اپنے ابنائے نوع کی فلاح و بہبود کے لیے کوئی شجاعانہ جدوجہد کرے گا، اپنے دل و دماغ کی قوتوں اور اپنے مادی و معنوی وسائل کو اولوالعزمی کے ساتھ سوسائٹی کی ترقی و اصلاح کے کام میں لگائے گا، ظلم و عدوان، فتنہ و فساد، طغیان و سرکشی اور گمراہی و ضلالت سے بہادرانہ جنگ کر کے دنیا میں عدل و انصاف، امن و امان اور حق و صداقت کا علم بلند کرے گا، اور ان مشکلات کا مردانہ وار مقابلہ کرے گا جو قدرتی اسباب کے ماتحت ہر کام میں انسان کو پیش آتی ہیں۔ یہ جدوجہد، یہ عملی سرگرمی، یہ سرفروشی و جانبازی، یہ میدانِ جنگ کی مصیبتیں، یہ تیر و تفنگ کی جراحتیں، یہ سیاست و فرماں روائی کی بوجھل ذمہ داریاں تو وہی شخص اٹھا سکتا ہے جو اس دنیا کو جائے عمل سمجھتا ہے، جس کے پیشِ نظر زندگی کا ایک بلند نصب العین اور ایک اعلیٰ مقصد ہے، جو اپنے آپ کو ایک اہم خدمت پر مامور اور ایک بالاتر ہستی کے سامنے جوابدہ سمجھتا ہے، اور جس کو یہ یقین ہے کہ اس دنیا میں وہ جتنا زیادہ عمل کرے گا اتنا ہی زیادہ انعام مستقبل کی دائمی زندگی میں پائے گا۔ ورنہ جو غریب پہلے ہی اپنی جان سے بیزار ہو، اپنے عمل کے نتائج سے مایوس ہو، اپنے گرد و پیش کی مشکلات سے شکستہ خاطر ہو، دنیا کے ہر حادثے سے ڈر کر، ہر مصیبت سے سہم کر، ہر انقلاب سے خوف کھا کر عدم کی گود میں پناہ لے رہا ہو، اس بزدل، پست ہمت، اور بے چارۂ عزم انسان سے کب یہ امید کی جا سکتی ہے کہ وہ ذمہ داریوں کے اس بھاری بوجھ کو اٹھائے گا اور خواہ مخواہ اپنی جان کو جہاد و قتال اور سیاست و فرماں روائی کی مصیبت میں مبتلا کرے گا؟ اس نے پہلے ہی دنیا کے بکھیڑوں کو چھوڑ کر موت اور دائمی موت (نروان) کو اپنی زندگی کا منتہائے نظر بنایا ہے۔ پھر اس کو کیا پڑی ہے کہ شمشیر بکف ہو کر میدانِ عمل میں نکلے اور اس دنیا کے انتظام میں اپنا وقت ضائع کرے جس کی زندگی کو وہ بے کار اور جس کے سارے کارخانے کو وہ بے معنی و بے نتیجہ سمجھتا ہے۔

 

پس بودھ مذہب جو اہنسا کا قائل ہے تو اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ وہ دنیا اور اس کے معاملات کی ذمہ داریوں کو قبول کرتا ہے اور اس کے باوجود جنگ و خوں ریزی کو غیر ضروری سمجھتا ہے، بلکہ دراصل اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کو دنیا اور اس کے معاملات سے کوئی سروکار ہی نہیں ہے، اس لیے قدرتی طور پر اس کو جنگ و پیکار سے بھی اجتناب ہے۔ اس نے اہنسا کو اس لیے اختیار کیا ہے کہ ترکِ دنیا اور رہبانیت کی زندگی میں تلوار کا کوئی کام نہیں ہے اور اس نصب العین تک پہنچنے میں اس سے کسی قسم کی مدد نہیں ملتی جو ایک بودھ سنیاسی کا منتہائے نظر ہے۔

 

پیروانِ بودھ کی زندگی پر اہنسا کا اثر: ۵۳

 

بودھ مذہب کی تعلیم کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ دنیا میں کوئی طاقتور تہذیب قائم نہ کر سکا۔ اس میں اتنی قوت کبھی پیدا نہیں ہوئی کہ کسی تہذیب کو شکست دے کر اپنا اثر قائم کر دے۔ جن جن ملکوں میں وہ پہنچا ان کی اخلاقی زندگی میں ایک منفی تغیر پیدا کرنے میں تو اسے ضرور کامیابی ہوئی مگر ان کے طرزِ سیاست اور ان کے نظامِ تمدن کو بدل کر ایک بہتر نظام قائم کرنے میں نہ وہ کامیاب ہو سکا اور نہ اس نے اس کی کوشش کی۔ بلاشبہ اس کو دنیا میں بہت اشاعت نصیب ہوئی۔ شرقِ اوسط اور شرقِ اقصی میں اس کو جتنا عروج حاصل ہوا کسی اور کو نہ ہو سکا۔ انسانی آبادی نے اس کو اتنی کثرت سے قبول کیا کہ آج بھی اس کے پیرووں کی تعداد دنیا کے کئی مذاہب سے بڑھی ہوئی ہے۔ لیکن تاریخ میں ایسی ایک مثال بھی نہیں ملتی کہ بودھ مذہب کے اثر سے کسی قوم کی زندگی میں کوئی بڑا انقلاب ہوا ہو یا اس نے دنیا میں کوئی عظیم الشان کارنامہ انجام دیا ہو۔

 

بخلاف اس کے ہم دیکھتے ہیں کہ جہاں کہیں اس کا مقابلہ کسی طاقتور تہذیب سے ہوا اس کو سخت شکست اٹھانی پڑی۔ ہندوستان جو اس کی جنم بھومی ہے، ایک عرصہ تک اس کا حلقہ بگوش رہا۔ پہلی صدی عیسوی میں تقریباً سارا ملک اس کا پیرو تھا۔ تیسری صدی عیسوی میں بھی تین چوتھائی سے زیادہ آبادی بودھ مذہب رکھتی تھی۔ چوتھی صدی میں جب فاہیان ہندوستان آیا ہے تو اس وقت بھی یہاں اس مذہب کا بول بالا تھا، لیکن اس کے بعد جب برہمنی مذہب نے کروٹ بدلی تو اس کو تین صدی کے اندر اندر اس کے لیے میدان خالی کر دینا پڑا اور اس ملک سے اس کا نام ایسا مٹ گیا کہ آج بھارت کی آبادی میں بمشکل ایک فیصد بودھ نظر آتے ہیں ۵۴۔

 

اسی طرح افغانستان میں اشوک کے اثر سے بودھ مذہب کو کافی اشاعت نصیب ہوئی اور دوسری صدی عیسوی میں تو خود کابل کا بادشاہ میناندر (یا ملندا) بودھ مذہب کا پیرو ہو گیا تھا ۵۵، مگر جب اسلام کی طاقتور تہذیب سے اس کا مقابلہ ہوا تو وہ ایک لمحہ کے لیے بھی نہ ٹھہر سکا۔ چین میں اس کو جو کچھ ثبات نصیب ہوا وہ صرف تاؤ ازم کی مساعدت کا نتیجہ تھا، ورنہ کنفیوشس کے مذہب نے تو اس کا خاتمہ ہی کر دیا ہوتا ۵۶۔ جاپان میں بھی شنٹو مذہب سے بہت کچھ لے دے کر اسے مصالحت کرنی پڑی، حتیٰ کہ اس کے مقابلے میں اپنی ہستی کو برقرار رکھنے کے لیے اپنے بنیادی عقائد بھی بدل دینے پڑے ۵۷۔ باقی رہے دوسرے ممالک مثلاً سیلون (سری لنکا)، برما (میانمار)، تبت وغیرہ، تو وہاں کوئی ایسی طاقتور تہذیب ہی نہ تھی جو اس کی مزاحمت کرتی، اس لیے وہ آسانی سے ان پر چھا گیا۔ لیکن تاریخ شاہد ہے کہ اس نے کسی زمانے میں بھی ان ملکوں میں تہذیب و تمدن کی روح نہیں پھونکی۔ جس طرح پہلے وہ بے جان اور غیر متحرک تھے اسی طرح بودھ مت کے عہد میں بھی رہے۔

 

علاوہ بریں یہ ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ بودھ مذہب نے کسی جگہ حکومت کا مقابلہ کرنے اور سوسائٹی کے بگڑے ہوئے نظام کو درست کرنے کی جرات نہیں کی۔ بودھ کے دستور العمل میں سیاست کو ذرہ برابر بھی دخل نہیں ہے۔ اس نے حکومت میں حصہ لینے یا اس کو بدلنے کے بجائے ہر حال میں اس کی اطاعت کرنے کا حکم دیا ہے، عام اس سے کہ وہ جابر و ظالم ہو یا عادل و منصف ۵۸۔ اسی پر بس نہیں بلکہ اس نے شیطانی قوت کے مقابلے میں عجز و انکسار اور ظلم کے مقابلے میں مجبورانہ برداشت کی ایسی تعلیم دی ہے کہ اس کا کوئی پیرو سخت سے سخت مظالم پر بھی اف نہیں کر سکتا۔ اس کا عقیدہ یہ ہے کہ انسان پر اس زندگی میں جتنے مصائب نازل ہوتے ہیں سب ان گناہوں (کرموں) کا نتیجہ ہیں جو اس نے اپنی پچھلی زندگیوں میں کیے تھے۔ لہٰذا جب کسی شخص پر کوئی دشمن ظلم کرے تو اسے یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ ظالم قصوروار نہیں ہے بلکہ میں خود قصوروار ہوں، میں نے گزشتہ جنم میں کوئی ایسا ہی گناہ کیا ہو گا جس کی یہ سزا مجھ کو مل رہی ہے ۵۹۔ یہ مذہبی عقیدہ بودھ کے پیرووں میں غیرت و انتقام کے جذبات کو ٹھنڈا کر کے ایک ایسی انفعالی کیفیت پیدا کر دیتا ہے کہ وہ خوشی کے ساتھ ہر تذلیل و توہین اور ہر ظلم و جور کو برداشت کر لیتے ہیں۔

 

ظاہر ہے کہ ایک جابر حکومت کے لیے اس سے زیادہ مرغوب چیز اور کوئی نہیں ہو سکتی۔ ایسا مذہب اس کے لیے خطرہ ہونے کے بجائے مزید استحکام کا موجب ہوتا ہے۔ جو رعایا اس قسم کے عقائد پر ایمان رکھتی ہو اسے اطمینان کے ساتھ ہر قسم کے ظالمانہ قوانین اور جابرانہ احکام کا تابع بنایا جا سکتا ہے، اس کو ہر طرح ٹیکسوں اور رشوتوں کے ذریعے لوٹا جا سکتا ہے، اس کی جان و مال اور عزت و آبرو پر ہر قسم کے حملے کیے جا سکتے ہیں، اسے ظالم حکمرانوں کی شیطانی خواہشات کے لیے ہر طرح استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بودھ مذہب کو حکومتوں سے بہت کم مقابلے کی نوبت پیش آئی ہے۔ بلکہ اکثر ملکوں میں تو حکومتوں نے اس کی مزاحمت کرنے کے بجائے سرگرمی کے ساتھ اس کی تائید و حمایت کی ہے۔ بودھ کی دعوت شروع ہوتے ہی مگدھ کے راجہ بمب سار نے اس کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور اس کے مذہب کی حمایت میں ایک فرمان شائع کیا ۶۰۔ اس کے بعد اس کا بیٹا اجات سترو بھی بودھ کا معتقد اور اس کے مذہب کا سرگرم حامی رہا۔ کوسالا کے راجہ پاسنادی (پرسینajit) نے خود اس کو اپنے ملک میں آنے کی دعوت دی، اس کے مذہب کو قبول کیا اور اس سے تعلقات بڑھانے کے لیے شاکیہ خاندان کی ایک لڑکی سے شادی کر لی۔ اس کے علاوہ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ سوراسین (متھرا) کا راجہ اونتی پت اور ایک دوسرا راجہ ادین بھی بودھ کا مرید اور موید تھا ۶۱۔

 

اس دور سے گزر کر تیسری صدی قبل مسیح میں ہم دیکھتے ہیں کہ اشوک نے اس مذہب کی سرپرستی کی اور اپنے تمام شاہانہ وسائل استعمال کر کے نہ صرف اطراف و اکنافِ ہند میں بلکہ دور دور کے ممالک میں بھی اس کو پھیلا دیا۔ پھر پہلی صدی عیسوی میں کنشک نے اس مذہب کی سرگرمی کے ساتھ حمایت کی۔ اس کے بعد (غالباً) چھٹی صدی عیسوی میں شیلا دتیہ (ہرش وردھن) کی سرپرستی اس کو حاصل ہوئی اور اس نے اتنے زور کے ساتھ اس کی حمایت کی کہ برہمنی مذہب کے شیدائی اس کے قتل کی سازشیں کرنے لگے ۶۲۔ ہندوستان سے باہر تبت اور منگولیا میں قبلائی خان نے اس مذہب کی اشاعت میں اپنی قوت صرف کر دی، کیونکہ وہ سیاسی وجوہ سے اپنی مملکت کے لیے اس کو مفید سمجھتا تھا ۶۳۔ چین میں شاہ منگ ٹی نے خود اس کے مبلغوں کو دعوت دی اور بڑھ کر اس کا استقبال کیا ۶۴۔ اس کے بعد بھی اکثر بادشاہ اس کی تائید و حمایت کرتے رہے۔ یہی حال دوسرے ممالک کا بھی ہے جس کا حال تاریخ کا تتبع کرنے سے اچھی طرح معلوم ہو سکتا ہے۔

 

پس بودھ مذہب کو دنیا میں جو اشاعت نصیب ہوئی اور صدیوں کے پیہم انقلابات کے باوجود وہ اکثر ممالک میں زندہ رہا، اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ وہ اپنی کوئی طاقتور تہذیب رکھتا تھا یا اس کی قوتِ حیات مضبوط تھی، بلکہ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ وہ جابرانہ فرمانروائی کے آگے ہمیشہ سر جھکاتا رہا، اس نے ظلم کے مقابلے کی کبھی جرات نہیں کی اور انسانیت کو سرکش حکمرانوں کے تسلط سے نجات دلانا کیا معنی، اس کا خیال تک نہیں کیا۔

 

اس مختصر تبصرے سے معلوم ہو سکتا ہے کہ جنگ کے معاملے میں اسلام اور بودھ مذہب کے درمیان کس قسم کا اختلاف ہے۔ اسلام کے نزدیک دنیا میں انسان ایک بہت بڑے مقصد کے لیے پیدا کیا گیا ہے اور اس کی نجات کا راز اسی دنیا کو بہترین اسلوب سے برتنے میں مضمر ہے۔ اس لیے وہ انسان کو ہر اس طریقِ عمل کے اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے جو اس کی اور اس کے ابنائے نوع کی اخلاقی و مادی فلاح اور دنیوی زندگی کے بہترین انتظام کے لیے ضروری و مفید ہے۔ بخلاف اس کے بودھ مذہب کی نظر میں انسان کی زندگی کا کوئی مقصد نہیں ہے اور اس کی نجات بس اسی میں ہے کہ اس دنیا اور اس کے تمام تعلقات حتیٰ کہ خود اپنی ذات سے بھی کنارہ کش ہو جائے۔ اس لیے وہ اس کو کسی ایسی عملی کوشش یا ذہنی دلچسپی کی اجازت نہیں دیتا جس کی بدولت دنیا کی کسی چیز سے اس کا رابطہ و تعلق قائم رہتا ہو۔ اب عقلِ سلیم خود فیصلہ کر سکتی ہے کہ آیا اسلام کا جہاد انسانیت کے لیے زیادہ مفید ہے یا بودھ مذہب کی اہنسا؟

 

۳۱۔ T. W. Rhys Davids, Introduction to Mahāparinibbāna Sutta, Sacred Books of the East, Vol. XI, pp. xi-xiii.

۳۲۔ دیکھو میکس مولر کا دیباچہ "Sacred Books of the Buddhists" پر۔

۳۳۔ Hackmann, Buddhism as a Religion, pp. 51-55.

۳۴۔ مزید تفصیل کے لیے سلسلہ کتبِ مقدسہ شرق کی گیارہویں جلد کے مقدمے کی طرف رجوع کرنا چاہیے جو پروفیسر رہس ڈیوڈس کی تحقیق کا نتیجہ ہے۔

۳۵۔ Vinaya Texts, Part I (Pārājika I), Sacred Books of the East, Vol. XIII, p. 4.

۳۶۔ Vinaya Texts, Part I (Mahāvagga III.1), SBE, Vol. XIII, pp. 298-301.

۳۷۔ Vinaya Texts, Part I (Pācittiya XLVIII), SBE, Vol. XIII, p. 43.

۳۸۔ Vinaya Texts, Part I (Pācittiya XLIX), SBE, Vol. XIII, p. 43.

۳۹۔ Vinaya Texts, Part I (Pācittiya L), SBE, Vol. XIII, p. 44.

۴۰۔ لفظ "نروان" کے مفہوم میں علماء کے درمیان اختلاف ہے۔ بعض جیسے اولڈن برگ اور رہس ڈیوڈس کے نزدیک وہ نفس کی ایک حالت ہے جس میں وہ معصیت اور خواہش سے پاک، دنیوی زندگی سے بے نیاز اور کامل امن و سکون سے متمتع ہو۔ لیکن میکس مولر، چائلڈرز، ہارڈی، سان ہلیر اور برناؤف جیسے محققین اس مبہم تعریف پر اکتفا نہیں کرتے، بلکہ صاف تصریح کرتے ہیں کہ اس سے مراد انسان کا معدوم ہو جانا یا ہستی کی قید سے بالکل آزاد ہو جانا ہے۔

۴۱۔ یہ چار مسائل یعنی مصیبت، وجہ مصیبت، صورتِ دفعِ مصیبت اور طریقِ دفعِ مصیبت، بودھ مذہب کی اصطلاح میں چار آریہ سچائیاں (چتواری آریہ ستیانی) کہلاتے ہیں۔

۴۲۔ Vinaya Texts, Part I (Mahāvagga I.6.17-29), SBE, Vol. XIII, pp. 94-97.

۴۳۔ H. C. Warren, Buddhism in Translations, p. 373. (یہ دس احکام دسا سیکھا پادا کہلاتے ہیں)۔

۴۴۔ بودھ نے اس قسم کی بہت سی ریاضتیں تجویز کی تھیں جن کی تفصیل "دیگھ نکائے" (مثلاً کسیپ سیہناد ست میں) ملے گی۔

۴۵۔ اس میں جائز اور ناجائز کا کوئی امتیاز نہیں ہے۔ ونائے پٹک میں ایک واقعہ لکھا ہے کہ ایک بھکشو نے مذہبی زندگی اختیار کرنے کے بعد جب اپنی بیوی سے تعلق قائم کیا تو بودھ نے اسے سنگھ سے خارج کر دیا۔ (Pārājika I)

۴۶۔ Vinaya Texts, Part I (The Pārājika Rules), SBE, Vol. XIII, pp. 1-68.

۴۷۔ بودھ مذہب کی روایات میں یہ واقعہ مشہور ہے کہ ایک روز بودھ نے ایک مردہ عورت کا کفن لیا، قریب کے ایک تالاب میں لے جا کر اس کو دھویا اور اپنے ہاتھ سے اس کا چغہ سی کر پہن لیا۔ (Jātaka Introduction; cf. Mahāvagga VIII.14)

۴۸۔ خود بودھ اپنے وہار سے نکل کر روزانہ بھیک مانگنے جایا کرتا تھا۔ اسی لیے وہ اپنے پیرووں کو بھکشو (بھکاری) اور خود اپنے آپ کو مہا بھکشو یعنی سب سے بڑا بھکاری کہتا ہے۔ (Saint-Hilaire, The Buddha and His Religion, p. 101)

۴۹۔ Vinaya Texts, Part I (Mahāvagga VI.14.7), SBE, Vol. XVII, p. 82.

۵۰۔ Vinaya Texts, Part I (Pācittiya LVII), SBE, Vol. XIII, p. 47. (یہ بھکونیوں کے لیے ہے، بھکشوؤں کے لیے بھی اسی قسم کی پابندیاں ہیں)۔

۵۱۔ Vinaya Texts, Part II (Nissaggiya Pācittiya XVIII), SBE, Vol. XIII, p. 26-27.

۵۲۔ Vinaya Texts, Part I (Nissaggiya Pācittiya XIV), SBE, Vol. XIII, p. 24-25.

۵۳۔ بودھ مذہب نے ترکِ دنیا کی جو تعلیم دی ہے اس پر یہاں تبصرہ نہیں کیا گیا۔ چونکہ آگے چل کر مسیحیت کے باب میں بھی ہم کو یہی بحث کرنی ہے اس لیے یہاں اسے چھوڑ دیا گیا ہے۔

۵۴۔ T. W. Rhys Davids نے اپنی کتاب Buddhist India میں اس مذہب کے اسبابِ زوال پر بحث کرتے ہوئے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ برہمنی مذہب کے پیرووں نے اسے تلوار سے نہیں مٹایا۔ اگر اس تاریخی تحقیق کو مان لیا جائے تو یہ بودھ مذہب کی کمزوری پر اور بھی زیادہ قوی حجت ہے۔ تلوار کے زور سے مٹ جانا تو صرف مادی قوت کی کمی پر دلالت کرتا ہے، لیکن تلوار کے بغیر محض پرامن مقابلہ ہی میں فنا ہو جانا تو اس بات کی کھلی ہوئی دلیل ہے کہ یہ مذہب معنوی قوت کے اعتبار سے برہمنی مذہب کے مقابلے میں کمزور تھا۔

۵۵۔ V. A. Smith, Early History of India, 4th Ed., p. 225.

۵۶۔ Hackmann, Buddhism as a Religion, p. 81.

۵۷۔ Ibid, pp. 90-91.

۵۸۔ Vinaya Texts, Part I (Mahāvagga I.40.4), SBE, Vol. XIII, p. 191.

۵۹۔ Saint-Hilaire, The Buddha and His Religion, pp. 150-151.

۶۰۔ Vinaya Texts, Part I (Mahāvagga I.22.18), SBE, Vol. XIII, pp. 136-137. (یہاں شاہ بمب سار کے ویلوون باغ دینے کا ذکر ہے)۔

۶۱۔ Buddhist India, pp. 10-11.

۶۲۔ V. A. Smith, Early History of India, p. 359.

۶۳۔ Buddhism as a Religion, pp. 73-74.

۶۴۔ Buddhism as a Religion, p. 177.

 

۴۔ مسیحیت ۶۵

 

دوسرا مذہب جو جنگ کے مسئلے میں اسلام سے اصولی اختلاف رکھتا ہے، مسیحی مذہب ہے۔ یہودی مذہب کی طرح اس کے متعلق بھی ہماری معلومات کا واحد ذریعہ ایک ہی کتاب ہے جس کو تمام مسیحی دنیا اپنے مذہب کی بنیادی کتاب تسلیم کرتی ہے، اور وہ انجیل (عہد نامہ جدید) ہے۔ لیکن قبل اس کے کہ ہم اصل مسئلے کے متعلق اس سے استفسار کریں، یہ ظاہر کر دینا ضروری ہے کہ آج وہ جس صورت میں موجود ہے اس سے صرف موجودہ مسیحیت کے معتقدات ہی ہم کو معلوم ہو سکتے ہیں، ورنہ یہ سوال کہ فی الاصل حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیم کیا تھی اس سے حل نہیں ہوتا۔ چونکہ آئندہ مباحث کو سمجھنے کے لیے اس مقدمے کو ذہن نشین کر لینا ضروری ہے، اس لیے آگے بڑھنے سے پہلے صحائف کی تاریخی حیثیت پر ایک نظر ڈال لیجیے۔

 

ماخذ کی تحقیق:

 

آج ہم جس مجموعے کو انجیل (Gospel) یا عہد نامہ جدید (New Testament) کہتے ہیں وہ دراصل چار اناجیل (متی، مرقس، لوقا، یوحنا)، اعمال الرسل، پولوس اور دیگر حواریوں کے خطوط اور مکاشفہ پر مشتمل ہے۔ ان میں سے کوئی صحیفہ بھی براہِ راست حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا لکھا ہوا یا ان کے حکم سے لکھوایا ہوا نہیں ہے۔ جس طرح قرآن مجید میں وہ تمام منزل من اللہ آیات اور سورتیں جمع ہیں جو رسول اللہ ﷺ پر نازل ہوئی تھیں، اس طرح کسی کتاب میں وہ وحی ہم کو یکجا نہیں ملتی جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی تھی (جسے اصلاً انجیل کہا جاتا ہے)۔ پھر وہ مواعظ و نصائح بھی ہم کو خود حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اپنے الفاظ میں کہیں نہیں ملتے جو انہوں نے اپنی پیغمبرانہ زندگی کے زمانے میں مختلف مواقع پر ارشاد فرمائے تھے۔

 

یہ صحیفے جو ہم تک پہنچے ہیں، خدا کا کلام نہیں بلکہ زیادہ تر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں یا ان کے شاگردوں کی لکھی ہوئی سوانح عمریاں اور خطوط ہیں جن میں ان لوگوں نے اپنے اپنے علم و فہم اور نقطۂ نظر کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حالات اور ان کی تعلیمات کو جمع کیا ہے۔ لیکن یہ کتابیں خود اس قدر مجہول الاصل اور مختلف فیہ ہیں کہ ان پر مکمل تاریخی اعتماد نہیں کیا جا سکتا:

 

   انجیل متی:  پہلی انجیل مسیح علیہ السلام کے حواری متی کی طرف منسوب ہے۔ جدید علمی تحقیق یہ ثابت کرتی ہے کہ یہ براہِ راست متی کی لکھی ہوئی نہیں ہے۔ متی کی اصل کتاب، جو آرامی زبان میں تھی اور غالباً اقوالِ مسیح کا مجموعہ تھی (جسے Logia کہا جاتا ہے)، مفقود ہے۔ موجودہ یونانی انجیل، جو متی کی طرف منسوب کی جاتی ہے، اس کا مصنف کوئی گمنام شخص ہے جس نے دوسری صدی میں دیگر مآخذ (بشمول مرقس اور لوجیا) سے استفادہ کر کے اسے مرتب کیا۔ خود متی کا ذکر اس میں تیسرے صیغے میں کیا گیا ہے (متی ۹: ۹)۔ پھر اس کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ زیادہ تر مرقس کی انجیل سے ماخوذ ہے، کیونکہ اس کی ۱۰۷۱ آیات میں سے تقریباً نصف مرقس کی انجیل میں بھی ملتی ہیں۔ اگر اس کا مصنف متی حواری ہوتا تو اسے مرقس جیسے غیر حواری سے اس قدر مواد لینے کی ضرورت نہ ہوتی۔ مسیحی علماء کا خیال ہے کہ یہ کتاب ۷۰ء اور ۱۰۰ء کے درمیان کسی وقت لکھی گئی ہے۔

 

   انجیل مرقس: دوسری کتاب مرقس کی طرف منسوب ہے اور عموماً تسلیم کیا جاتا ہے کہ یوحنا مرقس ہی اس کا مصنف ہے۔ لیکن یہ ثابت ہے کہ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا براہِ راست شاگرد نہ تھا اور نہ ان سے کبھی ملا تھا۔ وہ دراصل پطرس حواری (St. Peter) کا شاگرد اور ساتھی تھا اور جو کچھ ان سے سنتا تھا اسے غالباً رومی سامعین کے لیے یونانی زبان میں لکھ لیا کرتا تھا۔ اسی وجہ سے قدیم مسیحی مصنفین اسے عموماً "پطرس کا ترجمان" کہتے ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ کتاب ۶۵ء اور ۷۰ء کے درمیان کسی زمانے میں روم میں لکھی گئی۔

 

   انجیل لوقا:  تیسری کتاب لوقا کی طرف منسوب ہے۔ یہ بالکل مسلم ہے کہ لوقا نے کبھی مسیح علیہ السلام کو نہیں دیکھا اور نہ ان سے براہِ راست تعلیم حاصل کی۔ وہ پولوس (St. Paul) کا شاگرد اور رفیقِ سفر تھا، اور اس نے اپنی انجیل اور اعمال الرسل میں زیادہ تر پولوسی مسیحیت کی ترجمانی کی ہے۔ چونکہ پولوس خود بھی مسیح علیہ السلام کی صحبت سے محروم تھا اور مسیحی روایات کے مطابق واقعہ صلیب کے کئی سال بعد مسیحیت میں داخل ہوا، اس لیے لوقا اور مسیح علیہ السلام کے درمیان سلسلۂ روایت مستند نہیں۔ انجیل لوقا کی تاریخ تحریر بھی متعین نہیں ہے۔ بعض اسے ۶۰ء کی دہائی کی تصنیف بتاتے ہیں اور بعض ۸۰ء یا اس کے بعد کی۔

 

   انجیل یوحنا:  چوتھی کتاب جو یوحنا کی انجیل کہلاتی ہے، جدید تحقیقات کے مطابق مشہور یوحنا حواری کی لکھی ہوئی نہیں ہے، بلکہ غالباً دوسری صدی کے اوائل میں کسی اور مجہول الحال شخص کی ہے جس کا نام یوحنا تھا۔ یہ کتاب اسلوب، مواد اور الٰہیات کے اعتبار سے پہلی تین اناجیل (Synoptic Gospels) سے بہت مختلف ہے اور اس میں فلسفیانہ اور صوفیانہ خیالات کا گہرا اثر پایا جاتا ہے جو پہلی صدی عیسوی کے اواخر اور دوسری صدی کے اوائل میں مسیحی دنیا میں پھیل گئے تھے۔

 

استناد پر مزید شبہات

 

ان کتابوں کی دستاویزی حیثیت پر مزید شبہات درج ذیل ہیں:

 

   اختلافِ بیانات:  چاروں انجیلوں کے بیانات میں واقعات، ترتیب اور اقوال میں نمایاں اختلاف پایا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ پہاڑی کے وعظ کو بھی، جو مسیحی تعلیم کا اصل الاصول سمجھا جاتا ہے، متی اور لوقا نے مختلف انداز اور مواد کے ساتھ بیان کیا ہے۔

   مصنفین کے ذاتی رجحانات: چاروں انجیلوں میں ان کے مصنفین کے ذاتی خیالات، مقاصد اور مخاطبین کا اثر صاف طور پر نمایاں ہے۔ متی یہودیوں کو قائل کرنے کی کوشش کرتا نظر آتا ہے۔ مرقس رومیوں کو مخاطب کرتا ہے۔ لوقا پولوسی مسیحیت کی وکالت کرتا ہے۔ یوحنا ایک مخصوص الٰہیاتی اور فلسفیانہ نقطۂ نظر پیش کرتا ہے۔

   زبان کا فرق: اناجیل سب کی سب یونانی زبان میں لکھی گئی ہیں، حالانکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے تمام حواریوں کی زبان آرامی (سریانی کی ایک بولی) تھی۔ زبان کے اس فرق سے اصل پیغام کی تعبیر میں فرق آجانا ایک قدرتی امر ہے۔

   تدوین میں تاخیر: اناجیل کو موجودہ شکل میں مدون کرنے اور انہیں حتمی طور پر مستند تسلیم کرنے کا عمل دوسری صدی عیسوی کے اواخر اور تیسری چوتھی صدی میں مکمل ہوا۔ اس سے پہلے زبانی روایات اور مختلف غیر مستند تحریروں کا رواج تھا۔ عہد نامہ جدید کی کتب کا پہلا مستند مجموعہ (Canon) چوتھی صدی عیسوی کے آخر میں (قرطاجنہ کی کونسل، ۳۹۷ء) منظور کیا گیا۔

   قدیم نسخوں کی عدم دستیابی: اناجیل کا قدیم ترین مکمل یونانی نسخہ جو اس وقت دنیا میں موجود ہے (Codex Sinaiticus اور Codex Vaticanus)، چوتھی صدی عیسوی کا ہے۔ اس سے پہلے کے صرف چند اوراق یا ٹکڑے ہی دستیاب ہوئے ہیں۔ پس یہ کہنا مشکل ہے کہ پہلی تین صدیوں میں جو انجیلیں رائج تھیں وہ موجودہ اناجیل سے کس حد تک مطابقت رکھتی تھیں۔

   حفظ اور نقل میں تحریف کا امکان: اناجیل کو قرآن مجید کی طرح لفظ بہ لفظ حفظ کرنے کا اہتمام کبھی نہیں کیا گیا۔ ان کی اشاعت کا انحصار ابتداءً زبانی روایت پر رہا جس میں حافظے کی غلطی اور راویوں کے ذاتی خیالات کا اثر آنا ممکن تھا۔ بعد میں جب کتابت کا سلسلہ شروع ہوا تو نقل نویسوں کی دانستہ یا نادانستہ غلطیوں، کمی بیشی اور تبدیلیوں کا امکان بھی پیدا ہو گیا، جس کے شواہد نسخوں کے تقابلی مطالعے سے ملتے ہیں۔

 

یہ وجوہ ہیں جن کی بنا پر ہم وثوق کے ساتھ یہ نہیں کہہ سکتے کہ اناجیل اربعہ میں ہم کو مسیح علیہ السلام کی اصل تعلیم من و عن ملتی ہے۔ پس آئندہ صفحات میں مسیحیت کے متعلق جو کچھ کہا جائے گا وہ اس دین کے متعلق نہ ہو گا جس کی تعلیم مسیح علیہ السلام نے دی تھی، بلکہ اس مسیحیت کے متعلق ہو گا جس پر آج کل کی مسیحی دنیا اعتقاد رکھتی ہے۔

 

"محبت" کی تعلیم

 

انجیل کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیحیت (بمطابق اناجیل) جنگ کی سخت مخالف ہے۔ عام اس سے کہ جنگ حق کے لیے ہو یا غیر حق کے لیے۔ مسیح علیہ السلام کے نزدیک مذہب کا سب سے بڑا حکم یہ ہے کہ "خداوند اپنے خدا سے اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری عقل سے محبت رکھ" اور دوسرا اس کے مانند یہ ہے کہ "اپنے پڑوسی سے اپنی مانند محبت رکھ۔" (متی ۲۲: ۳۷-۳۹)۔ اور اس محبت کے ساتھ یہ بھی لازم ہے کہ "تو اپنے بھائی پر غصہ نہ کر۔" (متی ۵: ۲۲)۔

 

لیکن وہ صرف محبت کرنے اور غصہ نہ کرنے ہی پر بس نہیں کرتے بلکہ صاف الفاظ میں ایک سچے مسیحی کو ہدایت کرتے ہیں کہ وہ ظلم اور شرارت کا مقابلہ قوت سے نہ کرے، بلکہ سر جھکا دے۔ ان کی تعلیم کا گلِ سرسبد پہاڑی کا وعظ ہے جس پر مسیحی اخلاق کی بنیاد قائم ہے۔ اس میں وہ فرماتے ہیں:

"تم سن چکے ہو کہ کہا گیا تھا کہ آنکھ کے بدلے آنکھ اور دانت کے بدلے دانت۔ لیکن میں تم سے کہتا ہوں کہ شریر کا مقابلہ نہ کرنا بلکہ جو کوئی تیرے دہنے گال پر طمانچہ مارے دوسرا بھی اس کی طرف پھیر دے۔ اور اگر کوئی تجھ پر نالش کر کے تیرا کرتا لینا چاہے تو چوغہ بھی اسے لینے دے۔ اور جو کوئی تجھے ایک کوس بیگار میں لے جائے تو اس کے ساتھ دو کوس چلا جا... تم سن چکے ہو کہ کہا گیا تھا کہ اپنے پڑوسی سے محبت رکھو اور اپنے دشمن سے عداوت۔ لیکن میں تم سے کہتا ہوں کہ اپنے دشمنوں سے محبت رکھو اور اپنے ستانے والوں کے لیے دعا کرو... جو تم پر لعنت کریں ان کے لیے برکت چاہو، جو تم سے نفرت کریں ان سے بھلائی کرو۔" (متی ۵: ۳۸-۴۴، لوقا ۶: ۲۷-۲۸)

"میں تم سننے والوں سے کہتا ہوں کہ اپنے دشمنوں سے محبت رکھو۔ جو تم سے عداوت رکھیں ان کا بھلا کرو۔ جو تم پر لعنت کریں ان کے لئے برکت چاہو۔ جو تمہاری بے عزتی کریں ان کے لئے دعا مانگو۔ جو تیرے ایک گال پر طمانچہ مارے اس کے آگے دوسرا بھی پھیر دے۔ اور جو تیرا چوغہ چھینے اس کو کرتا لینے سے بھی منع نہ کر... اور جیسا تم چاہتے ہو کہ لوگ تمہارے ساتھ کریں تم بھی ان کے ساتھ ویسا ہی کرو۔ اگر تم اپنے محبت رکھنے والوں ہی سے محبت رکھو تو تمہارا کیا احسان ہے؟ کیونکہ گناہ گار بھی اپنے محبت رکھنے والوں سے محبت رکھتے ہیں۔" (لوقا ۶: ۲۷-۳۲)

 

یہ تعلیم مسیحیت کی اصل الاصول ہے اور اس کا منشا خود اس کے الفاظ سے ظاہر ہے۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ایک سچے مسیحی کو، جو "آسمانی باپ کی طرح کامل" (متی ۵: ۴۸) بننا چاہتا ہو اور جس کا نصب العین "خدائے برتر کا بیٹا" (لوقا ۶: ۳۵) بننا ہو، کسی حال میں ظلم و تعدی کا مقابلہ قوت سے نہ کرنا چاہیے، بلکہ شریروں اور مفسدوں کے سامنے اپنے حقوق سے خود بخود دستبردار ہو جانا چاہیے۔

 

مسیحیت کا فلسفۂ اخلاق

 

اس تعلیم کے حسن و قبح کا پورا پورا اندازہ اس وقت تک نہیں کیا جا سکتا جب تک مسیحیت کی روح کو اچھی طرح نہ سمجھ لیا جائے۔ مسیحی مذہب جس شکل میں ہم تک پہنچا ہے اس کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ دراصل سنیاس، رہبانیت اور تیاگ (ترکِ دنیا) کا مذہب ہے۔ اس میں انسان کی تمدنی زندگی کے لیے کوئی دستور العمل، کوئی شریعت، کوئی ضابطۂ قانونِ حیات وضع نہیں کیا گیا ہے۔ وہ انسان کو یہ نہیں بتاتا کہ اس پر اس کی ذات، اس کے خاندان، اس کی قوم، اس کے ابنائے نوع اور اس کے خدا کے کیا حقوق ہیں اور ان کو ادا کرنے کی صحیح صورت کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو مادی وسائل اور ذہنی و جسمانی قویٰ عطا کیے ہیں ان کا مصرف کیا ہے اور اسے ان چیزوں کو کس طرح استعمال کرنا چاہیے۔ عملی زندگی کے ان مسائل سے وہ کوئی بحث نہیں کرتا۔

 

اس کی ساری توجہات کا مرکز صرف ایک سوال ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان کس طرح "آسمان کی بادشاہی" (Kingdom of Heaven/God) میں داخل ہو؟ یہی ایک سوال پورے مسیحی اخلاقیات کا محور ہے اور مسیح نے جو کچھ تعلیم دی ہے اس کا اصلی مقصد اسی نصب العین تک لے جانے کے لیے انسانی جماعت کو تیار کرنا ہے۔

 

لیکن "آسمان کی بادشاہی" مسیحیت کی نگاہ میں زمین کی بادشاہی کی ارتقائی صورت کا نام نہیں ہے۔ وہ ان دونوں کے درمیان بیج اور پھل کا تعلق تسلیم نہیں کرتی بلکہ ان دونوں میں تضاد اور کلی اختلاف کی قائل ہے۔ اس کے نزدیک دنیوی بادشاہت اور آسمانی بادشاہت دو الگ الگ چیزیں ہیں اور دونوں بالکل اسی طرح بہم (اکٹھی) نہیں ہو سکتیں جس طرح آگ اور پانی بہم نہیں ہو سکتے۔ ان دونوں چیزوں کو ایک دوسرے کی ضد سمجھنے کا قدرتی نتیجہ یہ ہے کہ وہ آسمانی بادشاہت حاصل کرنے کا راستہ بھی زمین کی بادشاہت کے راستے سے بالکل الگ اختیار کرتی ہے۔ ہر وہ چیز جو زمین کی بادشاہت کے ساز و سامان میں داخل ہے، آسمانی بادشاہت کے ساز و سامان سے خارج ہے، اور صرف خارج ہی نہیں بلکہ اس کا وجود انسان کو آسمانی بادشاہت میں داخل ہونے سے روکنے والا ہے۔ اسی لیے مسیحیت قدم قدم پر انسان کو تاکید کرتی ہے کہ اگر وہ آسمانی بادشاہت میں داخل ہونا چاہتا ہے تو زمین کی بادشاہت کے سروسامان سے کلی اجتناب کرے اور اگر اس سے اجتناب نہیں کر سکتا تو آسمانی بادشاہت کی امید نہ رکھے۔

 

اسی اصل پر وہ انسانی زندگی کے تمام شعبوں میں رہبانیت کی تعلیم دیتی ہے اور تمدن و تہذیب سے الگ کر کے انسان کو کلیتاً تارک الدنیا بنا دینا چاہتی ہے۔ اس کی توضیح میں مسیح علیہ السلام کے چند احکام (بمطابق اناجیل) نقل کر دینا کافی ہے:

 

   ترکِ تعلقات: "اگر کوئی میرے پاس آئے اور اپنے باپ اور ماں اور بیوی اور بچوں اور بھائیوں اور بہنوں بلکہ اپنی جان سے بھی دشمنی نہ رکھے تو وہ میرا شاگرد نہیں ہو سکتا۔" (لوقا ۱۴: ۲۶) (نوٹ: یہاں "دشمنی" کا ترجمہ زیادہ موزوں نہیں، اصل یونانی لفظ "miseo" کا مطلب نفرت، کم محبت رکھنا یا ترجیح نہ دینا ہو سکتا ہے)۔

    "کیا تم گمان کرتے ہو کہ میں زمین پر صلح کرانے آیا ہوں؟ میں تم سے کہتا ہوں نہیں بلکہ جدائی ڈالنے۔ کیونکہ اب سے ایک گھر کے پانچ آدمی آپس میں مخالفت رکھیں گے، تین دو کے خلاف اور دو تین کے خلاف۔ باپ بیٹے سے مخالفت رکھے گا اور بیٹا باپ سے، ماں بیٹی سے اور بیٹی ماں سے، ساس بہو سے اور بہو ساس سے۔" (لوقا ۱۲: ۵۱-۵۳)

 

   ترکِ مال و اسباب: "تم نے مفت پایا مفت دے دو۔ نہ سونا اپنے توڑے میں رکھنا نہ چاندی نہ تانبا۔ نہ راہ کے لئے جھولی لو نہ دو کرتے نہ جوتیاں نہ لاٹھی۔" (متی ۱۰: ۸-۱۰)

    "اے چھوٹے گلے نہ ڈر! کیونکہ تمہارے باپ کو پسند آیا کہ تمہیں بادشاہی دے۔ اپنا مال اسباب بیچ کر خیرات کر دو اور اپنے لئے ایسے بٹوے بناؤ جو پرانے نہیں ہوتے یعنی آسمان پر ایسا خزانہ جو خالی نہیں ہوتا۔" (لوقا ۱۲: ۳۲-۳۳)

    "اگر تو کامل ہونا چاہتا ہے تو جا اپنا مال اسباب بیچ کر غریبوں کو دے۔ تجھے آسمان پر خزانہ ملے گا اور آ کر میرے پیچھے ہو لے۔" ۶۶ (متی ۱۹: ۲۱)

    "میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ دولت مند کا آسمان کی بادشاہی میں داخل ہونا مشکل ہے۔ اور پھر تم سے کہتا ہوں کہ اونٹ کا سوئی کے ناکے میں سے نکل جانا اس سے آسان ہے کہ دولت مند خدا کی بادشاہی میں داخل ہو۔" (متی ۱۹: ۲۳-۲۴)

    "اپنے لئے زمین پر مال جمع نہ کرو جہاں کیڑا اور زنگ خراب کرتا ہے اور جہاں چور نقب لگاتے اور چراتے ہیں۔ بلکہ اپنے لئے آسمان پر مال جمع کرو... کیونکہ جہاں تیرا مال ہے وہیں تیرا دل بھی لگا رہے گا۔" (متی ۶: ۱۹-۲۱)

 

   ترکِ انتقام و فکرِ معاش: "اگر تم آدمیوں کے قصور معاف کرو گے تو تمہارا آسمانی باپ بھی تمہیں معاف کرے گا۔ اور اگر تم آدمیوں کے قصور معاف نہ کرو گے تو تمہارا باپ بھی تمہارے قصور معاف نہ کرے گا۔" (متی ۶: ۱۴-۱۵)

    "اس لئے میں تم سے کہتا ہوں کہ اپنی جان کی فکر نہ کرنا کہ ہم کیا کھائیں گے یا کیا پئیں گے؟ اور نہ اپنے بدن کی کہ کیا پہنیں گے؟ کیا جان خوراک سے اور بدن پوشاک سے بڑھ کر نہیں؟ ہوا کے پرندوں کو دیکھو۔ نہ بوتے ہیں نہ کاٹتے۔ نہ کوٹھیوں میں جمع کرتے ہیں۔ تو بھی تمہارا آسمانی باپ ان کو کھلاتا ہے۔ کیا تم ان سے زیادہ قدر نہیں رکھتے؟ تم میں کون ہے جو فکر کر کے اپنی عمر میں ایک گھڑی بھی بڑھا سکے؟ اور پوشاک کے لئے کیوں فکر کرتے ہو؟ جنگلی سوسن کے درختوں کو غور سے دیکھو کہ وہ کیسے بڑھتے ہیں۔ وہ نہ محنت کرتے نہ کاتتے ہیں۔ تو بھی میں تم سے کہتا ہوں کہ سلیمان بھی اپنی ساری شان و شوکت میں ان میں سے کسی کی مانند ملبس نہ تھا۔ پس جب خدا میدان کی گھاس کو جو آج ہے اور کل بھاڑ میں جھونکی جائے گی ایسی پوشاک پہناتا ہے تو اے کم اعتقادو تم کو کیوں نہ پہنائے گا؟ اس لئے فکر مند ہو کر یہ نہ کہو کہ ہم کیا کھائیں گے یا کیا پئیں گے؟" (متی ۶: ۲۵-۳۱)

 

ان اقوال سے صاف ظاہر ہے کہ آسمانی بادشاہت کی طرف لے جانے کے لیے مسیحیت جس ڈھنگ پر انسانی جماعت کی تربیت کرنا چاہتی ہے وہ تمدن اور تہذیب سے کامل انقطاع پر مبنی ہے۔ ہر شخص جانتا ہے کہ خاندانی تعلقات تمدنی زندگی کی بنیاد ہیں۔ جماعت سے انسان کا ابتدائی تعلق اپنے رشتہ داروں ہی کے واسطے سے ہوتا ہے، انہی کے باہمی روابط سے ہیئتِ اجتماعیہ کی تشکیل ہوتی ہے، اور درحقیقت انسان کے لیے اخلاق کی بہترین درسگاہ بھی یہی ہے۔ مگر "مسیح" کے تیشے کا سب سے پہلا وار اسی اصل الاصول پر پڑتا ہے اور وہ سب سے پہلے اس رشتے کو کاٹ دیتا ہے جو آدمی کو سوسائٹی سے منسلک کیے ہوئے ہے۔ دنیا کو برتنے اور اس کے معاملات میں حصہ لینے کے لیے سب سے پہلے جو شے انسان کو عمل پر مجبور کرتی ہے وہ پیٹ بھرنے اور تن ڈھانکنے کی فکر ہے۔ لیکن "مسیح" اس ابتدائی محرک ہی کو ختم کر دینا چاہتے ہیں تاکہ آدمی دنیا میں ویسی ہی زندگی بسر کرے جیسی ہوا کے پرندوں اور جنگلی سوسن کے درختوں کی ہے۔ انسان کی راحت و آسائش اور انفرادی و اجتماعی فلاح کے لیے مال و دولت حاصل کرنا ناگزیر ہے۔ مگر "مسیح" کے نزدیک روحانی ترقی اور آسمانی بادشاہت کے لیے اس کو چھوڑ دینا ضروری ہے۔ دنیا میں نظامِ امن و عدل کا قیام سیاست و تعزیر اور قصاص و انتقام کے قانون پر منحصر ہے۔ مگر "مسیح" کہتے ہیں کہ آسمانی باپ اس وقت تک تمہارے قصور معاف نہ کرے گا جب تک مکافاتِ عمل کے اس پورے قانون کو لپیٹ کر نہ رکھ دیا جائے۔

 

غرض یہ کہ "مسیح" کے نزدیک دینداری دراصل ترکِ دنیا کا نام ہے۔ جو شخص دنیا اور اس کے اسباب کو نہیں چھوڑتا، اجتماعی تعلقات کو قطع نہیں کرتا، دنیوی کاروبار کو ترک نہیں کرتا اور کامل ترک و تجرید کی زندگی بسر نہیں کرتا، اس کے لیے آسمان کی بادشاہت میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ انسان بیک وقت ان دونوں بادشاہتوں میں داخل نہیں ہو سکتا۔ دین اور دنیا دونوں کی خدمت نہیں کر سکتا۔ یہ دو متضاد چیزیں ہیں، اس لیے جو ایک کا طالب ہو اسے دوسرے کی طلب چھوڑنی پڑے گی۔

 

"مسیح" کی اس تعلیم کو خود مسیحی علماء جس رنگ میں پیش کرتے ہیں اس کا اندازہ کرنے کے لیے ریورنڈ ڈومیلو کی تفسیرِ انجیل کے چند فقرات یہاں نقل کر دینا کافی ہے۔ یہ تفسیر ۴۰ سے زیادہ مسیحی علماء کی مدد سے تیار کی گئی ہے اور انجیل کی بہترین تفاسیر میں سے ہے۔ اس کے مقدمے میں ایک مستقل مقالہ "تعلیماتِ مسیح" کے عنوان پر ہے جس میں لکھا ہے:

"مسیح نے انسانی سیرت کے لیے وہ طرز پسند کیا ہے جو بڑی حد تک دنیا کے پسند کیے ہوئے طرز سے مختلف ہے۔ خودداری کے بجائے فروتنی، اپنے حقوق پر جمے رہنے کے بجائے بدی کے آگے سر جھکا دینا، اور وسعت طلبی کی جگہ قناعت۔ شرافت، عجز، صبر، ہمدردی، مصیبت میں خوش ہونا، درد سے راحت حاصل کرنا، یہ دنیا کو مسیحیت کے عطایا ہیں... مگر ایک مسیحی کے کیرکٹر کی سب سے زیادہ جامع تعریف غالباً یہ ہے کہ وہ ایک یکسو آدمی ہوتا ہے۔ وہ ایک پاؤں دنیا میں اور دوسرا دین (چرچ) میں نہیں رکھ سکتا۔ وہ ایک ہی وقت میں خدا اور متاعِ دنیا (Mammon) دونوں کی خدمت نہیں کر سکتا۔ چونکہ انسان کو دنیا کی خدمت پر مجبور کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ دولت ہے، لہٰذا ایک مسیحی بننے کے لیے پہلی اور سب سے ضروری شرط یہ ہے کہ انسان دولت سے بے تعلق ہو جائے۔" ۶۷

 

مسیحی اخلاقیات کا اصلی نقص

 

اب یہ اچھی طرح معلوم ہو گیا کہ مسیحیت میں محبت، عفو و درگزر اور تذلل و انفعال کی جو تعلیم دی گئی ہے وہ ایک ایسے اخلاقی نظام کے اجزاء میں سے ہے جو رہبانیت کی بنیاد پر قائم کیا گیا ہے۔ چونکہ اس نے اخروی نجات کا راستہ دنیوی فلاح کے راستے سے الگ اختیار کیا ہے، اس لیے وہ دنیا کے معاملات کو دنیا داری پر چھوڑ دیتی ہے اور خود اپنے دینداروں کو لے کر الگ ہو جاتی ہے تاکہ گوشۂ عزلت میں بیٹھ کر "آسمانی بادشاہت" حاصل کرنے کی تیاری کرے۔ ایسے مذہب میں جنگ نہ ہونے کے یہ معنی نہیں ہیں کہ وہ دنیا اور اس کے معاملات کی ذمہ داریاں قبول کرتا ہے اور اس کے باوجود ان سے عہدہ برآ ہونے کے لیے قوت کے استعمال کی ضرورت نہیں سمجھتا، بلکہ دراصل اس کے معنی یہ ہیں کہ جب اس کو دنیا کے معاملات ہی سے کچھ تعلق نہیں ہے تو قدرتی طور پر جنگ و خونریزی سے بھی اسے انکار ہے۔

 

وہ یہ نہیں کہتا کہ فساد کو فرو کرنے کے لیے تلوار کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ وہ کہتا ہے کہ خود فساد ہی کو فرو کرنے کی ضرورت نہیں۔ وہ نہیں کہتا کہ شرارت کا استیصال جنگ کے بغیر بھی ہو سکتا ہے، بلکہ وہ کہتا ہے کہ سرے سے اس کے استیصال ہی کی فکر فضول ہے، اس سے لڑنے کے بجائے تم اس کے آگے سر جھکا دو۔ وہ نہیں کہتا کہ ظلم و تعدی کے مقابلے میں حق کی حفاظت خوں ریزی کے بغیر بھی ممکن ہے، بلکہ وہ کہتا ہے کہ حق کی حفاظت ہی نہ کرو، اگر ظالم تمہارا حق چھینتا ہے تو چھین لینے دو۔ وہ نہیں کہتا کہ مجرموں کو تشدد کے بغیر سزا دی جا سکتی ہے اور مظلوموں کا قصاص قوت کے بغیر بھی لیا جا سکتا ہے، بلکہ وہ کہتا ہے کہ تم سرے سے سزا اور قصاص ہی کو چھوڑ دو اور کوئی "سات دفعہ نہیں بلکہ سات کے ستر دفعہ تک" (متی ۱۸: ۲۲) قصور کیے جائے تو اسے معاف کرتے رہو۔

 

غرض یہ کہ دنیا میں امن قائم کرنا، اس کو بدی و شرارت سے پاک کرنا، اس میں عدل و انصاف کی حکومت قائم کرنا اور انسانیت کو ظلم و فساد کے تسلط سے نجات دلانا سب کچھ مسیحیت کے دائرۂ عمل سے خارج ہے۔ اس نے اپنے لیے محکومی و مغلوبی اور مظلومی و منکوبی کی زندگی پسند کر لی ہے۔ اس لیے اگر وہ جنگ کی مخالف ہے اور بلا تمیز حق و باطل، نفسِ جنگ ہی کو برا سمجھتی ہے تو یہ کوئی تعجب کی بات نہیں۔ ایسی زندگی کے لیے یہی رویہ زیادہ موزوں ہے۔

 

لیکن سوال یہ ہے کہ تذلل اور انفعال کی یہ تعلیم کیا انسان کے لیے ایک دائمی اور عالمگیر قانون بن سکتی ہے؟ اس کا جواب مسیحیت خود اپنے منہ سے دے رہی ہے۔ جب یہ ثابت ہو چکا ہے کہ جنگ سے احتراز کا حکم خود کوئی مستقل قانون نہیں ہے بلکہ رہبانیت و ترکِ دنیا کے ایک وسیع قانون کی دفعات میں سے ایک دفعہ ہے، تو اس سے یہ بات خود بخود لازم آتی ہے کہ ترکِ جنگ کا قاعدہ اسی صورت میں نافذ ہو سکتا ہے جب کہ ترکِ دنیا کا پورا قانون نافذ ہو۔ مسیحیت خود بھی یہ نہیں کہتی کہ تم دنیا کا انتظام تو ضرور ہاتھ میں لو مگر جنگ ہرگز نہ کرو۔ اس کی اپنی تعلیم کی رو سے بھی انسان یہ عاجزانہ انفعالی زندگی اسی وقت اختیار کر سکتا ہے جب کہ وہ دنیا کو چھوڑ دے اور اس کی مختلف تمدنی ذمہ داریوں سے دستبردار ہو جائے۔ ان سب ذمہ داریوں کو قبول کرنے اور پورا کرنے کے ساتھ اس طریقے کو اختیار کرنا نہ تو ممکن ہے اور نہ خود مسیح کا یہ منشا ہے۔

 

اب اگر اس کو ایک عالمگیر قانون قرار دیا جائے تو لامحالہ ساری نوعِ انسانی کو تمدن و تہذیب سے کنارہ کش ہو جانا پڑے گا۔ اگر انسان کی منزلِ مقصود "آسمانی بادشاہت" ہو اور یہ بھی مان لیا جائے کہ دنیوی زندگی کے تمام معاملات اس بادشاہت میں داخل ہونے سے روکتے ہیں تو ضروری ہو جاتا ہے کہ نوعِ بشر پوری کی پوری اس منزل تک پہنچنے کے لیے اس روکنے والی چیز سے اجتناب کرے اور رہبانہ زندگی اختیار کر کے نفس کشی و ریاضت میں لگ جائے۔ لیکن ظاہر ہے کہ ایسا ہونا غیر ممکن ہے۔ تمام دنیا بیک وقت اپنے کاروبار بند نہیں کر سکتی۔ معاش کی فکر چھوڑ کر "ہوا کے پرندوں" اور "جنگلی سوسن کے درختوں" کی سی زندگی اختیار نہیں کر سکتی۔ تجارت، صنعت، زراعت اور تمام دوسرے مشاغل کو ترک کر کے تعطل و بے کاری کی حالت قبول نہیں کر سکتی۔ حکومت اور اس کے انتظام کو چھوڑ کر خانقاہوں میں نہیں بیٹھ سکتی۔ اور اگر بفرضِ محال وہ ایسا کر بھی لے تو ہرگز اس شرف و عزت کی مالک نہیں رہ سکتی جو اس کو اللہ تعالیٰ نے دیگر مخلوقات کے مقابلے میں عطا فرمایا ہے۔ بلکہ سچ یوں ہے کہ زندہ بھی نہیں رہ سکتی۔ انسانی سوسائٹی کی یہ ایک ایسی حالت ہے جس کا متحقق ہونا ایک شاداب تخیل کے سوا کسی خارجی عالم میں ممکن نہیں ہے۔ اور جو خدانخواستہ ممکن ہو بھی جائے تو کم از کم وہ کسی ذی عقل انسان کو مطلوب و مرغوب نہیں ہو سکتی۔

 

پس یہ کہنا بالکل بعید از عقل ہے کہ مسیحیت کا قانونِ اخلاق تمام بنی نوع انسان کے لیے ایک دائمی اور عالمگیر قانون ہے، کیونکہ عالمگیر اور دائمی قانون صرف وہی ہو سکتا ہے جس پر تمام دنیا کے باشندے ہر حالت میں عمل کر سکتے ہوں۔

 

پھر یہ قانون کسی ایک پوری قوم کے لیے بھی قابلِ عمل نہیں ہے۔ اگر کوئی قوم من حیث المجموع اس کی پابندی قبول کر لے اور "آسمانی بادشاہت" میں داخل ہونے کے لیے اس کی تمام ہدایات پر عمل پیرا ہونے لگے تو اس کو سب سے پہلے اپنی حکومت کا نظام معطل کرنا پڑے گا۔ اپنی فوج اور پولیس منتشر کرنی ہو گی اور اپنی سرحدوں کی حفاظت اور قلعوں کی نگہبانی چھوڑنی پڑے گی۔ پھر جب اس کی کوئی ہمسایہ قوم میدان خالی دیکھ کر حملہ کر دے گی تو مسیحی تعلیم کے مطابق یہ نیک نہاد قوم شریر کا مقابلہ نہ کرے گی بلکہ ایک گال کے ساتھ دوسرا گال بھی اور کرتے کے ساتھ چوغہ بھی پیش کر دے گی۔ پھر وہ اپنی ساری دولت، اپنی تجارتی کوٹھیاں، اپنی دکانیں، حتیٰ کہ اپنے گھروں کا مال و اسباب بھی چھوڑ دے گی، کیونکہ "دولت مند آسمان کی بادشاہی میں داخل نہیں ہو سکتا" اور حکم ہے کہ "تو اپنا سارا مال بیچ کر خیرات کر دے۔" اس کے بعد وہ کسبِ معاش کے لیے محنت مزدوری کرنا بھی چھوڑ دے گی، اپنے کارخانے بند کر دے گی، صنعت، حرفت، خدمت سب کچھ ترک کر دے گی اور اس کے تمام کاروباری آدمی اپنے اپنے کام چھوڑ کر صومعوں (خانقاہوں) میں جا بیٹھیں گے، کیونکہ "تم خدا اور دولت دونوں کی ایک ساتھ خدمت نہیں کر سکتے" اور مسیح کا حکم ہے کہ "تم اپنی جان کی فکر نہ کرو۔" آخر میں اس کے لیے صرف ایک ذریعۂ معاش رہ جائے گا کہ زمین کی کاشت کرے اور اپنی خوراک کے لیے غلہ حاصل کرے۔ لیکن آسمانی بادشاہت میں داخل ہونے کے لیے اسے یہ بھی چھوڑنا پڑے گا، کیونکہ مسیح کا ارشاد ہے کہ "ہوا کے پرندوں کو دیکھو کہ نہ بوتے ہیں نہ کاٹتے ہیں پھر بھی تمہارا آسمانی باپ ان کو کھلاتا ہے۔"

 

اس طرح وہ قوم اپنی حکومت، اپنی زمین، اپنی دولت، اپنی صنعت و تجارت، غرض اپنا سب کچھ ان بیرونی حملہ آوروں کے سپرد کر دے گی اور ساری کی ساری قوم ان کی غلام بن جائے گی۔ پھر وہ "ایک کوس بیگار میں لے جائیں گے" تو یہ "دو کوس" جائے گی، وہ ظلم کریں گے اور یہ ان کے لیے دعا مانگے گی، وہ اس پر "لعنت" کریں گے اور یہ ان کے لیے "برکت" چاہے گی، وہ اس کی عزت و حرمت پر حملے کریں گے اور یہ انہیں خاموشی کے ساتھ برداشت کرتی رہے گی۔ مسیحی نقطۂ نظر سے یہ اس کے اخلاق کا منتہائے کمال ہے جس کے بعد کوئی چیز اس کو آسمانی بادشاہت میں داخل ہونے سے نہیں روک سکتی، مگر عقل و دانش کے نقطۂ نظر سے یہ ایک ایسی قوم کی پستی و ذلت کا انتہائی درجہ ہے جس کے حصول کی کوشش کو ایک عقلمند آدمی خودکشی کے سوا کسی اور لفظ سے تعبیر نہیں کر سکتا... اور میں نہیں سمجھتا کہ آخر وہ آسمانی بادشاہت ہے کس قسم کی جس میں ایسے ناکارہ لوگوں کی مانگ اور کھپت ہے؟... بہرحال جہاں تک اس دنیا کا تعلق ہے، یہ ظاہر ہے کہ اس معنی میں دنیا کی کوئی قوم بھی مسیحیت کے قانونِ اخلاق کو اپنا قانونِ حیات نہیں بنا سکتی، کیونکہ اس کی فطرت اسے اپنے وجود کی حفاظت اور اپنی ضروریات کی تکمیل کے لیے اس قانون کی ایک ایک دفعہ کو توڑنے پر مجبور کر دے گی، اور عملاً اس کی خلاف ورزی کے بعد اعتقاداً اس پر ایمان رکھنا بے معنی ہو گا۔

 

اب تیسری صورت یہ ہے کہ اس کو ایک پوری قوم کے لیے بھی ہمہ گیر قانون نہ مانا جائے بلکہ ایک خاص گروہ (راہبوں/پادریوں) کے لیے مخصوص سمجھ لیا جائے، جیسا کہ خود "مسیح" کی تصریحات سے ظاہر ہوتا ہے۔ یہ صورت یقیناً ممکن العمل ہے۔ اگر انسانی جماعت کے مختلف گروہ اس کی مختلف ضروریات کو انجام دیتے رہیں۔ کوئی تجارت میں مشغول رہے، کوئی صنعت و حرفت کا کام کرے، کوئی زراعت کرتا رہے، کوئی سیاسی امور کی تنظیم میں لگا رہے اور اس طرح تمدن کا کارخانہ برابر چلتا رہے، تو یہ ممکن ہے کہ سوسائٹی اپنے ایک قلیل حصے کو "ہوا کے پرندوں" اور "جنگلی سوسن کے درختوں" کی طرح بے عمل اور بے کار زندگی بسر کرنے کے لیے چھوڑ دے اور اس کے چند افراد مسیحی اخلاق کے اس منتہائے کمال تک پہنچنے کی کوشش میں مشغول ہو جائیں جو ترکِ اسباب، قطعِ علائق، تذلل و انفعال اور نفس کشی و خود انکاری سے حاصل ہوتا ہے۔

 

مگر ایک مخصوص گروہ کے لیے اس قانون کو محدود مان لینے اور دوسری طرف اسی کو برحق اور واحد ذریعۂ نجات تسلیم کرنے کے صاف معنی یہ ہیں کہ ہم نجات یا "آسمانی بادشاہت" پر راہبوں اور سنیاسیوں کی ایک مختصر جماعت کا اجارہ تسلیم کر لیں اور مان لیں کہ اس چھوٹی سی "بادشاہت" کے تنگ دائرے میں عالمِ انسانیت کے سوادِ اعظم کو جگہ نہیں مل سکتی۔ جو لوگ نظامِ تمدن کو چلاتے ہیں، حکومت و سیاست کی تدبیر کرتے ہیں، قوم و ملک کی حفاظت میں جان لڑاتے ہیں اور مختلف انسانی ضروریات کو مہیا کرنے کے لیے مختلف قسم کے کاروبار میں لگے ہوئے ہیں، ان کے لیے اس "بادشاہت" کے دروازے بند ہیں، کیونکہ مسیحیت کا اصل الاصول یہ ہے کہ انسان بیک وقت دنیا اور دین دونوں میں پاؤں نہیں رکھ سکتا اور "آسمانی بادشاہت کا دروازہ اسی وقت کھل سکتا ہے جب کہ وہ دنیا کو چھوڑ کر مسیح کی بتائی ہوئی دینی زندگی اختیار کر لے۔"

 

اس طرح ایک مختصر سے گروہ کو "آسمانی باپ کی بادشاہت" میں داخل ہونے کا موقع ملتا ہے اور باقی اللہ کی ساری مخلوق اس سے محروم کر دی جاتی ہے۔ حتیٰ کہ ان لوگوں کو بھی وہاں بار نہیں مل سکتا جو دنیا میں نیکی اور پاکیزگی کے ساتھ رہتے ہیں، قتل نہیں کرتے، زنا نہیں کرتے، چوری اور جھوٹ وغیرہ منہیات سے پرہیز کرتے ہیں، ماں باپ کی عزت کرتے ہیں، اپنے پڑوسی سے اپنے مانند محبت رکھتے ہیں، مگر اپنا سارا مال بیچ کر خیرات نہیں کر دیتے۔

 

اس نظریے کو صحیح مان لینے کے معنی یہ ہیں کہ ہم پھر پہلی صورت کی طرف رجوع کر رہے ہیں۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ "آسمانی بادشاہت" یعنی نجات کی منزل تک پہنچنے کا ذریعہ صرف مسیحیت کا قانونِ اخلاق ہی ہے، اور جو کوئی اس پر عمل نہیں کرتا وہ اس منزل تک نہیں پہنچ سکتا، تو پھر لازمی طور پر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ وہ نوعِ انسانی کے لیے عالمگیر قانون نہیں ہے، کیونکہ نجات ہر انسان کی منزلِ مقصود ہے اور کسی راستے کو اس تک پہنچنے کا واحد راستہ قرار دینا یہی معنی رکھتا ہے کہ وہ تمام انسانوں کے لیے بنایا گیا ہے اور سب کو اس کی طرف دعوت دینا مطلوب ہے۔ لیکن یہ ثابت ہو چکا ہے کہ اس راستے پر تمام نوعِ انسانی کا جمع ہو جانا اور بالاتفاق گامزن ہونا عقلاً و عملاً ناممکن ہے۔ لہٰذا نتیجہ یہ نکلا کہ مسیحیت کا بنایا ہوا قانون جس طرح دائمی اور عالمگیر نہیں ہے اسی طرح برحق اور واحد ذریعۂ نجات بھی نہیں ہے۔ ۶۸

 

عالمگیر، دائمی اور واحد ذریعۂ نجات تو صرف وہی قانون ہو سکتا ہے جس پر حاکم حاکم رہتے ہوئے، تاجر تاجر رہتے ہوئے، کسان کسان رہتے ہوئے، اور ہر شخص اپنے اجتماعی و انفرادی فرائض ادا کرتے ہوئے عمل پیرا ہو سکتا ہو، اور جس کی تعمیل میں کسی انسان کے لیے ناقابلِ عبور مشکلات، ناقابلِ برداشت خطرات و مصائب اور مالا یطاق تکالیف نہ ہوں۔ جو قانون ایسا نہیں ہے وہ نہ حق کا سیدھا راستہ ہے، نہ نجات کا واحد ذریعہ ہے، نہ فطرت کا سچا قانون ہے۔

 

لیکن ہم اس نقطے پر بھی نہیں ٹھہر سکتے۔ ہم کو ایک قدم اور آگے بڑھ کر کہنا چاہیے کہ مسیحیت کا قانونِ اخلاق اپنی موجودہ شکل میں فطرت کے بالکل خلاف ہے۔ وہ دراصل اخلاقی فضیلت کے ایک غلط تصور کا نتیجہ ہے جس میں بے اعتدالی کے ساتھ بعض فضائل پر ضرورت سے زیادہ زور دیا گیا اور بعض کو بلا ضرورت معطل کر کے انسانیت کو مفلوج کر دیا گیا۔ اس نے انسانی اخلاق کی جن خوبیوں پر زور دیا ہے ان کی فضیلت یقیناً مسلم ہے۔ فروتنی، عجز و انکسار، عفو و درگزر، حلم و بردباری، صبر و تحمل کی فضیلت سے کسے انکار ہو سکتا ہے؟ مگر تنہا انہی صفات پر انسانی زندگی کی تعمیر کرنا صحیح نہیں ہے۔ اگر دنیا سے بدی و شرارت بالکل مٹ جائے، زمین پر انسانوں کی جگہ فرشتے بسنے لگیں اور شیطان اپنی ذریات کو لے کر کسی اور کرے میں چلا جائے، تب تو یہ ممکن ہے کہ انسان اپنی جسمانی قوت و شدت کا استعمال کیے بغیر اپنے حقوق، اپنی عزت اور خود اپنے وجود کی حفاظت کر سکے۔ لیکن جب دنیا میں نیکی کے ساتھ بدی بھی موجود ہے اور انسانی فطرت سے وہ شیطانی ملکات مٹ نہیں گئے ہیں جو ملکوتی فضائل کو مغلوب کرنے کے لیے ہر وقت مستعد رہتے ہیں، تو ایسی صورت میں نیکی کو نہتا چھوڑ دینا اور اللہ کی دی ہوئی قوتوں کو اس کی حفاظت کے لیے استعمال نہ کرنا صرف خودکشی ہی نہیں ہے بلکہ بدی و شرارت کی بالواسطہ مدد بھی ہے۔

 

حقیقتاً یہ کوئی نیکی ہی نہیں ہے کہ ظالموں کو عمداً ظلم کا موقع دیا جائے اور مفسدوں کو جان بوجھ کر فساد پھیلانے کی آزادی دے دی جائے۔ اس کو ہم کمزوری کہہ سکتے ہیں، بزدلی و کم حوصلگی سے موسوم کر سکتے ہیں، مگر خیر و صلاح اور نیکی و احسان سے تعبیر نہیں کر سکتے۔ نیکی دراصل اصلاح کا دوسرا نام ہے اور وہ محبت و غضب دونوں کے معتدل امتزاج سے پیدا ہوتی ہے۔ اگر بدی کی اصلاح عفو و درگزر، صبر و تحمل اور لطف و رحم سے ہو سکے تو اسی سے کرنی چاہیے، اور اگر یہ محبت کی قوتیں اس میں کامیاب نہ ہو سکیں تو پھر سیاست و تعزیر اور قصاص و انتقام کی قوتوں سے کام لینا ضروری ہے، کیونکہ اصل مقصود اصلاح ہے، اور انسان کا فرض ہے کہ ضرورت کی حد تک ہر اس طریقے کو استعمال کرے جو اس مقصد کے حصول کے لیے مفید اور ناگزیر ہو۔ اس میں طریقوں کا امتیاز کرنا اور ایک ہی طریقے پر اس حد تک اصرار کرنا کہ وہ اصلاح کے بجائے مزید فساد کا موجب ہو جائے، نہ تو عقلمندی ہے اور نہ نیکی۔

 

مسیحیت کا یہ نظریہ کہ دین کا اصل الاصول "محبت" ہے اور اس کے سوا انسان کے تمام جذبات اور اخلاقی خصائص باطل ہیں جن کو مٹا دینے ہی سے دینداری کو نشوونما حاصل ہو سکتا ہے، دراصل ایک غلط تخیل پر قائم ہے۔ اس نظریے کے موجدوں کی نظر اس حقیقت تک نہیں پہنچ سکی کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں کوئی چیز عبث نہیں پیدا کی ہے۔ انہوں نے سمجھ لیا کہ انسان کے اندر غضب، شہوت اور حبِ نفس وغیرہ جذبات خواہ مخواہ بلا ضرورت پیدا ہو گئے ہیں اور انسانی زندگی میں شجاعت و خودداری، جرات و شہامت، تدبر و سیاست، عدل و انصاف وغیرہ کا کوئی مصرف نہیں ہے۔ حالانکہ یہ بالکل غلط ہے۔ انسان کے اندر جتنے ملکات و قویٰ اور عواطف و جذبات ودیعت کیے گئے ہیں سب کے سب اپنا ایک مصرف اور مدعا رکھتے ہیں۔ جس طرح انسان کا کوئی عضو حتیٰ کہ کوئی رونگٹا بھی بے کار نہیں ہے، اسی طرح انسان کی کوئی ذہنی و جسمانی قوت، اس کا کوئی ظاہری و باطنی ملکہ اور کوئی نفسانی جذبہ و داعیہ بھی بے کار نہیں ہے۔ فاطرِ کائنات نے اس کو بغیر کسی مصلحت کے نہیں بنایا ہے۔ اگر یہ قوتیں غلط صورتوں میں ظاہر ہوں اور غلط راستے اختیار کر لیں تو اس کے یہ معنی ہرگز نہیں ہیں کہ وہ فی نفسہٖ غلط اور مذموم ہیں، بلکہ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ انسان نے ان کا صحیح مصرف نہیں سمجھا اور اس کے شعور نے اتنی ترقی نہیں کی کہ وہ ان کے صحیح استعمال کی طرف اس کی رہنمائی کرے۔

 

مثال کے طور پر شہوت ایک جذبہ ہے جو انسان کو بندۂ غرض بنا کر بدترین گناہوں پر آمادہ کرتا ہے، مگر اس کو بالکل فنا کر دینے کا فیصلہ نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ یہی چیز عمل کی اصلی محرک ہے۔ غضب ایک جذبہ ہے جس نے دنیا میں بے شمار جھگڑے اور ظلم و ستم کرائے ہیں، مگر اس سے یہ نتیجہ نہیں نکالا جا سکتا کہ وہ سراسر بدی ہی بدی ہے اور اس میں کوئی فائدہ متصور نہیں ہے، کیونکہ یہی چیز دنیا میں امن و امان کی ضامن ہے، ورنہ بدی و شرارت کی قوتیں اس کو تباہ کر ڈالیں۔

 

بالکل یہی حال ان جذبات و ملکات کا ہے جو لطیف اور افضل سمجھے جاتے ہیں۔ ان میں بھی جہاں بہت سی خوبیاں ہیں وہاں بہت سی خرابیاں بھی ہیں۔ شجاعت اگر حد سے بڑھ جائے تو تہوّر اور حماقت کے درجے تک پہنچ جاتی ہے۔ دور اندیشی اگر افراط کا پہلو اختیار کر لے تو بزدلی و نامردی بن جاتی ہے۔ رحم اگر اپنی قدرت حدود میں نہ رہے تو جرائم و معاصی کا مددگار بن جاتا ہے۔ فیاضی اگر حد سے گزر جائے تو اسراف و تبذیر کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ کفایت شعاری اگر زیادہ ہو جائے تو بخل اور کنجوسی سے بدل جاتی ہے۔ محبت اگر اپنی حدود میں نہ رہے تو انسان کی عقل کو اندھا کر دیتی ہے۔ مروت اگر بے موقع استعمال کی جائے تو بدکاریوں میں جسارت و بے باکی پیدا کر دیتی ہے۔ حلم و بردباری اگر بے محل ہو تو گستاخی اور ظلم کی محرک بن جاتی ہے۔ فروتنی و انکساری اگر بے محل ہو تو خودداری و عزتِ نفس خاک میں مل جاتی ہے۔

 

غرض یہ کہ نفسِ انسانی کو جتنی قوتیں عطا کی گئی ہیں سب اپنے اچھے برے دونوں پہلو رکھتی ہیں، اور ان کے ایک ہی پہلو کو دیکھ کر نہ تو ان کی اچھائی یا برائی کا فیصلہ کیا جا سکتا ہے اور نہ کسی کے ترک اور کسی کے اختیار کا فتویٰ دیا جا سکتا ہے۔ جس طرح ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ انسان کے لیے صرف ہاتھ پاؤں اور قلب و دماغ ہی مفید ہیں، آنکھ، ناک، معدہ و جگر وغیرہ کی ضرورت نہیں، محض سامعہ اور لامسہ ہی کافی ہیں، باصرہ اور شامہ کی ضرورت نہیں، بالکل اسی طرح ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ انسان میں صرف محبت و رحم، عفو و درگزر، عجز و فروتنی ہی کی ضرورت ہے، نفرت و غضب، شجاعت و شہامت، خودداری و عزتِ نفس، غیرت و حمیت وغیرہ کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر معدے کی کمی جگر پوری نہیں کر سکتا، اگر دل کی جگہ دماغ کام نہیں دے سکتا، تو یقیناً غضب و انتقام کی جگہ محبت و رحم اور سیاست و تعزیر کی جگہ عفو و درگزر بھی مفید نہیں ہے۔ جس طرح بدن کی صحت کا انحصار تمام جسمانی قوتوں کے اعتدال پر ہے، اور جس طرح صحتِ عقل اسی وقت حاصل ہوتی ہے جب تمام قوائے ذہنی تناسب کے ساتھ اپنا اپنا کام کرتے رہیں، ٹھیک اسی طرح کمالِ اخلاق بھی اسی وقت متحقق ہوتا ہے جب جذبات و خواہشات میں اعتدال ہو، نفس کی تمام قوتیں اپنے اپنے موقع و محل پر توازن کے ساتھ استعمال کی جائیں اور قدرت کے دیے ہوئے تمام ملکات کو اپنی حدود میں کام کرنے کا پوری طرح موقع دیا جائے۔

 

ایک فطری مذہب کا کام اسی اعتدال کی طرف رہنمائی کرنا ہے، نہ کہ ایک بے اعتدالی کے جواب میں دوسری بے اعتدالی اور افراط کے مقابلے میں تفریط پیدا کر دینا۔ مسیحیت اس حقیقتِ کبریٰ کے فہم سے قاصر رہی ہے۔ اسی لیے اس نے انسان کو ترکِ دنیا اور رہبانیت کی تعلیم دی اور فیصلہ کر دیا کہ انسان محض تذلل و انفعال ہی کو اپنی زندگی کا دستور العمل بنا لے۔ مگر یہ نہ تو کمالِ اخلاق کا کوئی درجہ ہے اور نہ انسانیت کی کوئی خدمت، بلکہ سچ یہ ہے کہ یہ انسانیت پر ایک ظلمِ عظیم ہے۔ اس طریقِ زندگی کو اختیار کرنے والے ایک طرف اپنی ذات کو ان جائز لذتوں اور آسائشوں سے محروم کر دیتے ہیں جو اللہ نے ان کے لیے پیدا کی ہیں، اور دوسری طرف اپنے وجود کو بے کار و معطل کر کے انسانی جماعت کو اپنی خدمات سے محروم کر دیتے ہیں۔

 

مسیحیت نے دنیوی بادشاہت کو آسمانی بادشاہت سے الگ کر دیا ہے۔ خدا اور دولت دو متضاد قوتیں قرار دی ہیں اور سچے دینداروں کو حکم دیا ہے کہ وہ دولت کو چھوڑ کر خدا کے ہو جائیں اور دنیوی بادشاہت سے دست کش ہو کر صرف آسمانی بادشاہت کے ہو رہیں۔ اس کا قدرتی نتیجہ یہی ہو سکتا ہے کہ نیک نہاد، شریف الطبع، دیندار، خدا ترس، ایماندار اور سچے لوگ تو دنیا کو چھوڑ کر الگ ہو جائیں اور دنیا کا تمام کاروبار سوسائٹی کے ان بدترین طبقوں کے ہاتھ میں چلا جائے جو خدا ترسی و ایمانداری کے جوہر سے خالی ہوں۔ حکومت پر جباروں اور ظالموں کا قبضہ ہو، تجارت طماع اور بددیانت لوگوں کے حصے میں آئے، صنعت و حرفت پر دھوکہ باز اور جعلساز قابض ہو جائیں اور شر و فساد کی قوتیں سوسائٹی کے سارے نظام کو خراب کر کے رکھ دیں۔ جب وہ نیکوکار لوگ جو سوسائٹی کو صحیح راستے پر چلا سکتے ہیں ہاتھ پاؤں توڑ کر بیٹھ جائیں گے تو یقیناً بدکار لوگ برسرِ اقتدار آئیں گے، اور ان کی بدکاریوں کی کم از کم آدھی ذمہ داری ان نیکوکاروں پر بھی عائد ہو گی جنہوں نے ذمہ داریوں سے جی چرا کر میدانِ عمل کو بدمعاشوں کے لیے خالی چھوڑ دیا۔

 

دعوتِ مسیح کی حقیقت:

 

اس بحث سے یہ بات اظہر من الشمس ہو جاتی ہے کہ مسیحیت میں جنگ اور سیاست و تعزیر کا نہ ہونا اس کے کمال کی دلیل نہیں بلکہ نقص کی دلیل ہے، اور مسیحیت جس شکل میں ہمارے سامنے پیش کی گئی ہے وہ اتنے نقائص سے بھری ہوئی ہے کہ اس کے بتائے ہوئے طریقے کی پیروی دنیا کی کوئی قوم نہیں کر سکتی۔

 

لیکن مسیحیت اور اس کی تاریخ کے گہرے مطالعے سے ایک اور حقیقت منکشف ہوتی ہے۔ جب ہم مسیح کی تعلیمات پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ان میں عقائد و اخلاق کی موٹی موٹی باتوں کے سوا کچھ نہیں ہے۔ نہ ان کی کوئی شریعت ہے، نہ کوئی مستقل ضابطۂ قوانینِ اخلاق ہے، نہ حقوق و فرائض اور معاملات کے متعلق کسی قسم کی ہدایات ہیں، حتیٰ کہ عبادت کا کوئی طریقہ بھی متعین نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسا مذہب کوئی مستقل مذہب نہیں ہو سکتا۔ عقائد اور چند اخلاقی ہدایات کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد بہت سی ایسی چیزیں باقی رہ جاتی ہیں جن کے لیے ایک مذہب کے پیرووں کو اپنی زندگی کے مختلف شعبوں میں ہدایات کی ضرورت پیش آتی ہے۔ جس مذہب میں یہ ہدایات موجود نہ ہوں اس میں ایک جداگانہ دینی نظام بننے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔

 

اب قدرتی طور پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا مسیح علیہ السلام نے ایسے ہی غیر مکمل مذہب کو ایک مستقل مذہب بنایا تھا؟ اور کیا مسیح علیہ السلام اس حقیقت سے ناواقف تھے کہ ایسا مذہب تمام بنی نوعِ بشری بلکہ کسی ایک قوم کے لیے بھی ہر حالت میں، ہر زمانے میں قابلِ عمل نہیں ہو سکتا؟ مسیحیت کے متبعین اس سوال کا جواب اثبات میں دیتے ہیں۔ مگر جب ہم مسیحیت کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں اور ان حالات پر نظر ڈالتے ہیں جن میں وہ پیدا ہوئی تھی اور ان اغراض کی تحقیق کرتے ہیں جن کے لیے وہ وجود میں آئی تھی تو ہمیں اس کا جواب کچھ اور ملتا ہے۔

 

واقعہ یہ ہے کہ مسیحی مذہب خود کوئی مستقل مذہب نہیں تھا بلکہ موسوی شریعت کی تکمیل اور بنی اسرائیل کی اصلاح کے لیے پیدا ہوا تھا۔ موسوی شریعت جس زمانے میں بھیجی گئی تھی وہ بنی اسرائیل کی ذہنی طفولیت کا زمانہ تھا۔ ان میں کسی گہری اخلاقی تعلیم کو قبول کرنے کی صلاحیت نہیں تھی۔ اس لیے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان کو ایک سادہ عقیدہ اور ایک سیدھے سے ضابطۂ اخلاق کی تعلیم دے کر چھوڑ دیا تھا جس میں اخلاقی فضائل، روحانی پاکیزگی اور ایمانی روح کی بہت کمی تھی۔ چند صدیوں تک بنی اسرائیل اس شریعت پر بری بھلی طرح چلتے رہے، مگر بعد کے زمانے میں جب ان کے معاملات نے وسعت اختیار کی تو وہ کمی جو شریعت میں رہ گئی تھی رنگ لانے لگی۔ رفتہ رفتہ بنی اسرائیل کی اخلاقی حالت خراب ہوتی چلی گئی اور فسادِ اخلاق کا طبیعی نتیجہ اضمحلالِ قویٰ (قوتوں کی کمزوری) کی شکل میں ظاہر ہوا۔ پہلے ان کی جماعت کا شیرازہ منتشر ہوا، پھر منتشر اجزاء میں باہم تصادم شروع ہوا اور آخر میں غلامی کی لعنت ان پر مسلط ہو گئی جس نے انہیں پستی و تنزل کی انتہا کو پہنچا دیا۔

 

مسیح کی پیدائش سے ۷۲۲ برس پہلے آشوریوں نے سلطنتِ اسرائیل کو تباہ کیا، اور ۵۸۶ ق م میں اہلِ بابل نے سلطنتِ یہودیہ کا خاتمہ کر کے یروشلم کو تباہ کیا اور انہیں غلام بنا لیا۔ پھر ۵۳۹ ق م میں ایرانی آئے اور دو سو برس تک ان کا دور دورہ رہا۔ ان کے بعد سکندرِ اعظم کی قیادت میں یونانیوں نے ان کو مغلوب کیا (۳۳۲ ق م) اور سکندر کی وفات کے بعد مصر کے بطالسہ (Ptolemies) اور پھر شام کے سلوقیوں (Seleucids) نے ان پر حکومت کی۔ سلوقی بادشاہ انطاکس چہارم (Antiochus IV Epiphanes) نے ۱۶۷ ق م میں جبراً ان میں یونانی مذہب اور رسوم رائج کرنے کی کوشش کی۔ دوسری صدی قبل مسیح کے وسط میں مکابیوں (Maccabees) نے بغاوت کر کے ۱۴۲ ق م میں ایک آزاد یہودی حکومت قائم کر لی جو تقریباً ۸۰ برس تک زندہ رہی۔ مگر ان کے اخلاق اس قدر بگڑ چکے تھے کہ جماعت کا شیرازہ بندھنا مشکل تھا۔ اس لیے ان میں پھوٹ پڑی اور انہوں نے خود ہی رومیوں کو اپنے ملک میں آنے کی دعوت دی۔ مسیح علیہ السلام کی پیدائش سے ۶۳ برس پہلے رومیوں نے فلسطین پر قبضہ کر لیا اور جب مسیح علیہ السلام نے آنکھ کھولی تو ان کی پوری قوم رومیوں کی غلامی میں جکڑی ہوئی تھی۔ ان کا خاص وطن یہودیہ ۶ء میں براہِ راست رومی صوبہ داروں کے زیرِ انتظام آ گیا تھا جو پروکیوریٹر (Procurator) کہلاتے تھے۔ جب ان کی پیغمبرانہ دعوت کا آغاز ہوا تو یروشلم کا پروکیوریٹر پونتس پیلاطس (Pontius Pilate) جیسا بے انصاف اور بے ضمیر شخص تھا۔

 

ان بے دین آقاؤں کی غلامی میں بنی اسرائیل کی ذہنی و اخلاقی حالت اس حد تک خراب ہو چکی تھی کہ وہ کلمۂ حق سننے کے لیے بھی تیار نہ تھے۔ مسیح علیہ السلام کی آنکھوں کے سامنے گلیل کا حاکم ہیرودیس انتپاس محض ایک رقاصہ (ہیرودیاس کی بیٹی) کو خوش کرنے کے لیے حضرت یحییٰ علیہ السلام (John the Baptist) کو قتل کرا چکا تھا۔ اور خود مسیح علیہ السلام کی قدر و قیمت بھی ان کی قوم کی نگاہ میں جیسی کچھ تھی اس کا حال اس سے ظاہر ہے کہ آخر میں بنی اسرائیل نے برابا نامی ڈاکو کی رہائی کو مسیح علیہ السلام کی سزا پر ترجیح دی۔ ایسی حالت میں مسیح علیہ السلام کے لیے کیوں کر ممکن تھا کہ اپنی دعوت کے آغاز ہی میں جنگ کا جھنڈا لے کر اٹھ کھڑے ہوتے اور لڑ کر ایک آزاد دینی حکومت قائم کر دیتے۔

 

وہ دیکھ رہے تھے کہ یہودیوں کی روح مر چکی ہے، ان کی سیرت میں کوئی مضبوطی اور ان کی قومیت میں کوئی زندگی باقی نہیں ہے۔ اس لیے ان کا سب سے پہلا کام یہی تھا کہ اپنی قوم کو اس اخلاقی پستی کے گڑھے سے نکالتے جس میں وہ گری ہوئی تھی اور اس میں فضیلتِ اخلاق کی وہ روح پھونکتے جس کے بغیر کوئی قوم غلامی کی زنجیروں کو توڑنے اور دنیا میں اپنے آزاد وجود کو برقرار رکھنے پر قادر نہیں ہو سکتی۔ چنانچہ اول اول انہوں نے قومی سیرت کی تعمیر ہی کی طرف توجہ کی اور اپنے اس کام کو تکمیل تک پہنچانے کے لیے وہ برابر کوشش کرتے رہے کہ اس تعمیری کام کے دوران میں کہیں حکومتِ وقت سے تصادم کا موقع نہ آجائے، کیونکہ اگر ابتداء ہی میں حکومت سے مقابلہ شروع ہو جاتا تو اصل اصلاح کا کام بھی نہ ہوتا اور اس کے انجام پائے بغیر حکومت کے مقابلے میں بھی ناکامی ہوتی۔ اسی لیے انہوں نے حکومت کے ساتھ تصادم کرنے سے انتہائی پہلو تہی کی، اور جب یہودی علماء کے شاگردوں نے ان کو پھنسانے کے لیے مسئلہ پوچھا کہ قیصر کو ہم ٹیکس دیں یا نہیں؟ تو انہوں نے یہ ذومعنی جواب دے کر ٹال دیا کہ: "جو قیصر کا ہے وہ قیصر کو دو اور جو خدا کا ہے وہ خدا کو دو۔" (لوقا ۲۰: ۲۵)

 

انہوں نے حکم دیا کہ شریر کا مقابلہ نہ کرو، جو تم پر ظلم کرے اسے دعا دو اور اس کے لیے برکت چاہو، جو تمہیں بیگار میں پکڑے اس کے ساتھ ایک کوس کے بجائے دو کوس جاؤ، جو تمہارا کرتا چھینے اس کو چوغہ بھی اتار دو، جو تمہارے ایک گال پر طمانچہ مارے اس کے سامنے دوسرا گال بھی پیش کر دو۔ ابتداءً ان سب احکام کا مدعا یہ تھا کہ حکومت سے تصادم نہ ہو اور قوم میں مصیبت جھیلنے کی قوت پیدا ہو جائے۔

 

اس کے بعد انہوں نے آہستہ آہستہ اپنی قوم کو استقامت، صبر، تحمل، اور بے خوفی کی تعلیم دینی شروع کی، ان کو مصائب و شدائد کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار کیا اور ان کے دل سے موت کا خوف اور حاکمانہ قہر و طاقت کا ڈر نکالنے کی کوشش کی۔ انہوں نے کہا کہ: "جب تم عدالتوں اور حاکموں اور اختیار والوں کے سامنے لے جائے جاؤ... تو ثابت قدم رہنا۔" (مرقس ۱۳: ۹، لوقا ۲۱: ۱۲-۱۹)

 

انہوں نے جان کی محبت دلوں سے نکالنے اور مرنے کی آمادگی پیدا کرنے کے لیے کہا کہ: "جو کوئی اپنی جان بچانا چاہے وہ اسے کھوئے گا اور جو کوئی میری خاطر اپنی جان کھوئے گا وہی اسے بچائے گا۔" (لوقا ۹: ۲۴)

 

انہوں نے حکومت اور اس کی عنایت پر بھروسہ رکھنے کے بجائے خدا اور اس کی رزاقی پر بھروسہ رکھنے کی تعلیم دی تاکہ غلامی کی وہ سب سے بڑی کمزوری دور ہو جو ایک غلام قوم کو حکمراں قوم کے طلسم میں گرفتار رکھتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ: "جب تم برے ہو کر اپنی اولاد کو اچھی چیزیں دینا جانتے ہو تو تمہارا آسمانی باپ اپنے مانگنے والوں کو روح القدس کیوں نہ دے گا؟" (لوقا ۱۱: ۱۳)

 

انہوں نے حکومت کا رعب دلوں سے دور کرنے کی کوشش کی اور ان کو بتایا کہ جو لوگ محض جسم کو قتل کر سکتے ہیں روح کو قتل نہیں کر سکتے، ان سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اصل میں ڈرنے کے قابل وہ ہے جو روح اور جسم دونوں کو جہنم میں ہلاک کر سکتا ہے۔ (متی ۱۰: ۲۸؛ لوقا ۱۲: ۴-۵)

 

یہ سب باتیں ایک صدیوں کی غلام قوم میں آزادی حاصل کرنے کی صلاحیت پیدا کرنے کے لیے ضروری تھیں، اور ابتداءً مسیح علیہ السلام نے انہی تک اپنی تعلیم کو محدود رکھا۔ اس مرحلے کو طے کرنے کے بعد آخری زمانے میں وہ جہاد و قتال کے مضمون کی طرف بڑھ رہے تھے، جیسا کہ ان کے اس قول سے ظاہر ہوتا ہے:

"مت سمجھو کہ میں زمین پر صلح کرانے آیا ہوں۔ میں صلح کرانے نہیں بلکہ تلوار چلوانے آیا ہوں۔" (متی ۱۰: ۳۴)

 

اسی طرح انہوں نے اپنے متبعین کو تلوار رکھنے کا حکم بھی دے دیا تھا جیسا کہ لوقا نے لکھا ہے:

"پھر اس نے ان سے کہا... جس کے پاس تلوار نہ ہو وہ اپنی پوشاک بیچ کر خرید لے۔.. انہوں نے کہا اے خداوند دیکھ یہاں دو تلواریں ہیں۔ اس نے ان سے کہا کافی ہیں۔" (لوقا ۲۲: ۳۶-۳۸)

 

لیکن مسیح علیہ السلام کو اپنی قوم کی ہدایت و رہنمائی کے لیے صرف ڈھائی تین سال کی مدت نصیب ہوئی اور یہ مختصر مدت ایک پوری قوم کو جہاد فی سبیل اللہ کے قابل بنانے کے لیے کافی نہیں تھی۔ اس عرصے میں نہ تو ان کے پیرووں کی تعداد اس حد تک پہنچی تھی کہ وہ رومیوں کے مقابلے پر ان سے کوئی کام لے سکتے، اور نہ خود ان لوگوں کی جو ان کے پیرو ہو چکے تھے، اخلاقی تربیت اس قدر مکمل ہوئی تھی کہ وہ رسولِ عربی ﷺ کے صحابیوں کی طرح جرات و عزیمت کے ساتھ ہر قسم کے خطرات کا مقابلہ کرتے، گھر بار چھوڑ کر ہجرت کر جاتے، اور بڑی سے بڑی طاقتوں کے مقابلے میں بھی بے خوف ہو کر جانیں لڑا دیتے۔ ان لوگوں کے ایمان ابھی اتنے بھی قوی نہ ہوئے تھے کہ وہ علانیہ اظہارِ حق کی جرات کرتے۔ مسیح علیہ السلام کے سب سے زیادہ محبوب اور معتمد علیہ حواری پطرس کا یہ حال تھا کہ ان کی گرفتاری کے وقت جب اس سے پوچھا گیا کہ کیا تم بھی مسیح علیہ السلام کے پیرو ہو؟ تو اس نے "مرغ کے دوسری بار بانگ دینے سے پہلے تین بار مسیح علیہ السلام کا انکار کر دیا۔" (مرقس ۱۴: ۷۲)۔ ان کے ایک اور حواری یہوداہ اسکریوتی نے چاندی کے ۳۰ سکوں کی خاطر ان کو گرفتار کروا دیا (متی ۲۶: ۱۴-۱۶) اور جب ان کو گرفتار کر لیا گیا تو "سب شاگرد اسے چھوڑ کر بھاگ گئے۔" (متی ۲۶: ۵۶)

 

ظاہر ہے کہ جب ان کے خاص حواریوں اور بھروسے کے شاگردوں کا یہ حال تھا تو وہ ایسی ناقابلِ اعتماد فوج کو لے کر جہاد کی جرات کیوں کر کر سکتے تھے۔ اگر رسولِ عربی ﷺ کی طرح ان کو بھی تعلیم و تربیت کا کافی موقع ملتا تو ممکن تھا کہ وہ بھی اپنے حواریوں میں وہی مجاہدانہ روح پیدا کر دیتے جو صحابہؓ میں آنحضرت ﷺ نے پیدا کی تھی۔ لیکن ان کی سرکش قوم نے ان کی نبوت کو پورے تین سال بھی برداشت نہ کیا اور انہیں اتنی مہلت ہی نہ دی کہ وہ اس کی فلاح و بہبود کے لیے کوئی بڑا کام کر سکیں۔ اس قلیل مدت میں زیادہ سے زیادہ اتنا ہی کام ہو سکتا تھا جتنا حضرت مسیح علیہ السلام نے کیا۔ خود محمد ﷺ کی مکی زندگی کے ابتدائی سالوں پر اگر نظر ڈالی جائے تو اس میں بھی کہیں جہاد و قتال کا نشان نہ ملے گا۔ وہی صبر و تحمل، ثبات و استقامت، تقویٰ اور خشیت، توکل علی اللہ اور تزکیۂ نفس اور تزکیۂ اخلاق کی تعلیمات وہاں بھی پائی جائیں گی جو مسیح علیہ السلام کی حیاتِ نبویہ میں پائی جاتی ہیں۔

 

مسیحیت اور موسوی شریعت کا تعلق:

 

اس علم و بصیرت کی روشنی میں اگر مسیح علیہ السلام کی تعلیمات کا تجزیہ کیا جائے تو وہ دو بڑی اقسام پر منقسم ہو جائیں گی:

 

۱۔ تکمیلِ شریعت:  ایک قسم وہ ہے جس میں مسیح علیہ السلام نے شریعتِ موسویہ کی تکمیل کی ہے اور اس میں ضروری اضافے کیے ہیں۔ موسوی شریعت میں رافت و رحمت و شفقت و لینت (نرمی) کی کمی تھی، مسیح علیہ السلام نے اس کا اضافہ کیا۔ اس کے قوانین میں لچک بالکل نہ تھی اور اس کی تعلیمات میں انسانی برادری کا وسیع تخیل بہت دھندلا تھا۔ مسیح علیہ السلام نے اس کمی کو پورا کیا اور بنی اسرائیل کو تمام بنی نوع انسان کے ساتھ یکساں محبت کرنے کی تلقین کی۔ اس میں انسان کے محض فرائض پر زور دیا گیا تھا اور احسان یا فضیلتِ اخلاق کے حصے کو اچھوتا چھوڑ دیا گیا تھا، مسیح علیہ السلام نے سب سے زیادہ اسی پہلو پر زور دیا اور خیرات، فیاضی، ہمدردی، ایثار اور لطف و رحم وغیرہ فضائل کی خصوصیت کے ساتھ تلقین کی۔ مسیح علیہ السلام کی تعلیم کا یہ حصہ خود کوئی مستقل قانون نہ تھا بلکہ موسوی شریعت کا تتمہ اور ایک ضروری ضمیمہ تھا۔

 

۲۔ وقتی و اصلاحی تعلیم:  دوسری قسم وہ ہے جس میں مسیح علیہ السلام نے اپنے زمانے کے بنی اسرائیل کی مخصوص اخلاقی، اجتماعی اور سیاسی حالت کو پیشِ نظر رکھ کر اصلاح کی کوشش کی تھی۔ مثلاً یہودیوں میں مال و دولت کی حرص اور دنیا کی محبت بڑھی ہوئی تھی۔ مسیح علیہ السلام نے اس کے مقابلے میں قناعت و توکل اور متاعِ دنیا کی تحقیر پر زور دیا۔ یہودیوں میں بے رحمی، سنگدلی اور شقاوت کی زیادتی تھی۔ مسیح علیہ السلام نے اس کے جواب میں عفو و درگزر اور رحم کی تلقین کی۔ یہودیوں میں کنجوسی اور تنگ دلی حد سے بڑھی ہوئی تھی۔ مسیح علیہ السلام نے اس کی اصلاح کے لیے سخاوت و فراخ حوصلگی کا درس دیا۔ یہودی امراء و فقہاء خود پسند، نفس پرست، متکبر اور مغرور تھے، مسیح علیہ السلام نے ان کو اعتدال پر لانے کے لیے فروتنی، انکسار، زہد و تقویٰ اور خدا ترسی پر زور دیا۔ یہودی قوم رومی حکومت میں غلام، بے بس اور کمزور تھی۔ مسیح علیہ السلام نے ان کی سلامتی اور نجات کے لیے انہیں ایک طرف حکومت کے مقابلے سے روکا، ظلم و تعدی کو برداشت کرنے کی تلقین کی، حقوق کی حفاظت میں قوت استعمال کرنے سے منع کیا، اور دوسری طرف ان میں جنگ کی معنوی قوت پیدا کرنے کے لیے صبر و استقامت، بے خوفی اور پختگی، عزم و ارادہ کی قوت پیدا کرنے کی کوشش کی۔ مسیح علیہ السلام کی تعلیم کا یہ دوسرا حصہ بنی اسرائیل کی خاص اسی حالت کے لیے مخصوص تھا جس میں بعثتِ مسیح علیہ السلام کے وقت وہ مبتلا تھے۔ اس کو کوئی دائمی اور عالمگیر قانون بنانا ہرگز مقصود نہ تھا۔ خصوصیت کے ساتھ تذلل و انفعال کی یہ تعلیم کہ "شریر کا مقابلہ نہ کر"، "جو کوئی تیرے ایک گال پر طمانچہ مارے اس کے آگے دوسرا گال بھی پیش کر دے"، "جو کوئی تیرا کرتا چھینے اسے چوغہ بھی اتار دے"، یہ دراصل غلامی و بے بسی کی ایک مخصوص حالت کے لیے تھی، اس کو کسی آزاد قوم کی سیاسی پالیسی بنانا نہ تو مطلوب تھا اور نہ یہ کسی طرح درست اور معقول ہو سکتا تھا۔

 

شریعت اور مسیحیت کی علیحدگی

 

لیکن مسیح علیہ السلام کے اس دنیا سے اٹھ جانے کے چند ہی برس بعد ان تمام اصول و قواعد کو یک لخت منہدم کر دیا گیا جن پر انہوں نے اپنی دینی تجدید و اصلاح کی بنیاد رکھی تھی، اور مسیح علیہ السلام کی اصل تعلیم کو ایسا بدل دیا گیا کہ دنیا میں اس کے وجود کا نام و نشان تک نہ رہا۔ اس عملِ تحریف و تنسیخ کا محرک سینٹ پال (پولوس) تھا۔ ہم اس کی نیت کے متعلق کچھ نہیں کہہ سکتے۔ ممکن ہے کہ مسیح علیہ السلام کی زندگی میں اور ان کے بعد بھی کئی سال تک ان کی دعوت کا شدید دشمن رہنے کے بعد آخر کار وہ سچے دل سے مسیح کا پیرو اور وکیل بن گیا ہو۔ لیکن اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ وہ مسیح علیہ السلام کا صحبت یافتہ نہیں تھا، ان کی تربیت میں رہ کر اسے تعلیماتِ مسیح علیہ السلام کی اصلی روح کو سمجھنے کا کوئی موقع نہیں ملا تھا، اور وہ ان حواریوں کے مقابلے میں جو مسیح علیہ السلام کے زیرِ تربیت رہ چکے تھے، مسیحی تعلیمات کو زیادہ سمجھنے کی صلاحیت نہ رکھتا تھا۔ اس لیے جب اس نے پطرس جیسے حواریوں کی رائے کے خلاف مسیح علیہ السلام کے دین کی تعبیر و تاویل کی اور اسے اپنی نوایجاد بنیادوں پر قائم کیا، تو یہ بدنیتی نہ سہی، جہل و ناواقفیت کی بنا پر یقیناً ایک کھلی ہوئی تحریف تھی۔ ۷۰

 

اس سلسلے میں پولوس نے دین کے اصول میں جو تحریفات کیں ان میں سب سے پہلی تحریف یہ تھی کہ مسیح علیہ السلام کی تعلیم کو تمام عالمِ انسانی کے لیے ایک عام پیغام قرار دیا۔ حالانکہ دراصل وہ محض بنی اسرائیل کے لیے تھی۔ مسیح نے اپنی زندگی میں جب حواریوں کو تبلیغ و دعوت کے لیے بھیجا تھا تو صاف طور پر یہ حکم دیا تھا کہ: "غیر قوموں کی طرف نہ جانا اور سامریوں کے کسی شہر میں داخل نہ ہونا۔ بلکہ اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے پاس جانا۔" (متی ۱۰: ۵-۶)

 

خود مسیح علیہ السلام نے اپنے پورے عہدِ نبوت میں کبھی ایک لمحہ کے لیے بھی غیر اسرائیلی قوموں کو اپنی طرف دعوت نہیں دی اور نہ کسی غیر اسرائیلی کو داخلِ جماعت کیا۔ سینٹ پال کے ظہور سے پہلے مسیح علیہ السلام کے حواری بھی اسرائیلیوں ہی کو دعوت دیتے رہے۔ مبلغ بھی اسرائیلی تھے اور ان کے مخاطب بھی اسرائیلی۔ اس وقت تک مسیحی دعوت یہودی مذہب میں ایک اصلاحی تحریک شمار ہوتی تھی۔ حواریوں میں یہ ایک مسلم مسئلہ تھا کہ انجیل کی منادی صرف ان لوگوں کے لیے ہے جو شریعتِ موسویہ کے پیرو ہیں ۷۱۔ پیروانِ مسیح علیہ السلام کی جو موتمرِ عام ۴۹ء میں بمقامِ یروشلم منعقد ہوئی تھی اس میں ایک بڑی جماعت اسی رائے کی مؤید تھی ۷۲۔ لیکن پولوس نے دعوتِ مسیح علیہ السلام کی حقیقت، مسیح علیہ السلام کی تصریحات اور حواریوں کے علم و یقین، سب کو نظر انداز کر کے یہ فیصلہ کیا کہ مسیح علیہ السلام کی دعوت تمام دنیا کی قوموں کے لیے ہے، اور اس فیصلے کو حق بجانب قرار دینے کے لیے یہ دعویٰ کیا کہ مسیح علیہ السلام صلیب پر چڑھنے اور وفات پا جانے کے بعد (زندہ ہو کر) اپنے شاگردوں کے پاس آئے اور یہ حکم دیا تھا کہ "تم جا کر سب قوموں کو شاگرد بناؤ۔" (متی ۲۸: ۱۹) ۷۳۔

 

لیکن غیر اسرائیلی قوموں کو موسوی قوانین کا پابند بنانا مشکل تھا۔ بہت سے رسوم و شعائر ایسے تھے جن سے ان قوموں کو نفرت تھی۔ اس لیے فوراً ہی یہ سوال پیدا ہو گیا کہ جب ان قوموں کو مسیحیت کی طرف دعوت دی جائے تو موسوی شریعت کی پابندی پر زور دیا جائے یا نہیں؟ اس بارے میں مسیح علیہ السلام کی تصریحات بالکل واضح تھیں، وہ فرما چکے تھے کہ "زمین و آسمان ٹل سکتے ہیں مگر تورات کا ایک شوشہ یا ایک نقطہ ہرگز نہ ٹلے گا۔" (متی ۵: ۱۸؛ لوقا ۱۶: ۱۷) اور یہ کہ "میں تورات یا نبیوں کی کتابوں کو منسوخ کرنے نہیں بلکہ پورا کرنے آیا ہوں۔" (متی ۵: ۱۷) اور "آسمان کی بادشاہی میں وہی داخل ہو سکتا ہے جو (تورات کے) حکموں پر عمل کرے۔" (متی ۵: ۱۹-۲۰)۔ ان تصریحات کے بعد کسی سچے مسیحی کے لیے ممکن نہ تھا کہ مسیحیت کو موسوی شریعت سے الگ کرتا۔

 

مگر پولوس نے ان کے علی الرغم یہ فیصلہ کیا کہ ہر غیر اسرائیلی مسیحی بن سکتا ہے خواہ شریعت پر عمل کرے یا نہ کرے۔ چنانچہ وہ تمام غیر اسرائیلی مشرکین جو شریعتِ موسویہ کے کلی یا جزوی طور پر پابند نہ تھے، مسیحیت میں داخل کر لیے گئے۔ ۷۴ اس ترمیم و تنسیخ پر حواریوں نے سخت ناراضی کا اظہار کیا (اعمال باب ۲۱) اور خود مسیحی جماعت کے اعیان نے بھی اس کی سخت مخالفت کی، مگر پولوس نے سینٹ پیٹر (پطرس) اور سینٹ برنا باس جیسے جلیل القدر حواریوں کو ریاکار اور گمراہ قرار دیا (گلتیوں ۲: ۱۱-۱۴) اور علی الاعلان شریعتِ موسویہ کی مخالفت شروع کر دی۔ وہ گلتیوں کے نام اپنے خط میں لکھتا ہے:

"ہم یہ جان کر کہ آدمی شریعت کے اعمال سے نہیں بلکہ صرف یسوع مسیح پر ایمان لانے سے راست

 

باز ٹھہرتا ہے... شریعت کے اعمال سے کوئی بشر راست باز نہ ٹھہرے گا... اگر راستبازی شریعت کے وسیلے سے ملتی تو مسیح کا مرنا عبث ہوتا۔" (گلتیوں ۲: ۱۶-۲۱)

"کیونکہ جتنے شریعت کے اعمال پر تکیہ کرتے ہیں وہ سب لعنت کے ماتحت ہیں... پس ظاہر ہے کہ شریعت کے وسیلے سے کوئی شخص خدا کے نزدیک راستباز نہیں ٹھہرتا کیونکہ لکھا ہے کہ راستباز ایمان سے جیتا رہے گا۔ اور شریعت کو ایمان سے کچھ واسطہ نہیں... مسیح نے جو ہمارے لئے لعنتی بنا ہمیں مول لے کر شریعت کی لعنت سے چھڑایا۔" (گلتیوں ۳: ۱۰-۱۳)

"پس شریعت مسیح تک پہنچانے کو ہمارا استاد بنی تاکہ ہم ایمان کے سبب سے راستباز ٹھہریں۔ مگر جب ایمان آچکا تو ہم استاد کے ماتحت نہ رہے۔" (گلتیوں ۳: ۲۴-۲۵)

"مسیح نے ہمیں اسی آزادی کے لئے آزاد کیا ہے۔ پس قائم رہو اور دوبارہ غلامی (یعنی شریعت کی پابندی) کے جوئے میں نہ جتو... دیکھو میں پولس تم سے کہتا ہوں کہ اگر تم ختنہ کراؤ گے تو مسیح سے تمہیں کچھ فائدہ نہ ہوگا۔ بلکہ ہر ایک ختنہ کرانے والے آدمی پر میں پھر گواہی دیتا ہوں کہ اسے ساری شریعت پر عمل کرنا فرض ہے۔ تم جو شریعت کے وسیلے سے راستباز ٹھہرنا چاہتے ہو مسیح سے الگ اور فضل سے محروم ہو گئے۔ کیونکہ ہم روح کے سبب سے ایمان کے ساتھ راستبازی کی امید بر آنے کے منتظر ہیں۔" (گلتیوں ۵: ۱-۵)

 

اس طرح مسیحیت شریعت سے الگ ہو گئی۔ تمدن، معاشرت، سیاست اور اجتماعی و انفرادی زندگی کے متعلق تمام قوانین منسوخ ہو گئے اور صرف چند اخلاقی و روحانی تعلیمات کے ایک نامکمل مجموعے کو، جو دراصل شریعت کے ضمیمے کے طور پر ایک خاص قوم کی خاص حالت کو درست کرنے کے لیے وضع کیا گیا تھا، ایک مستقل، دائمی اور عالمگیر مذہب بنا دیا گیا۔

 

مسیحی سیرت پر علیحدگی کا اثر:

 

سینٹ پال کے مقلدوں نے اس غیر مکمل مذہب کو، جو دراصل مسیحی نہیں بلکہ پولوسی مذہب تھا، بنی اسرائیل کو چھوڑ کر روم و یونان کی آزاد قوموں میں پھیلانا شروع کیا۔ لیکن کسی شریعت اور کسی ضابطۂ قانون کے بغیر محض ایک اخلاقی تعلیم، اور وہ بھی ایسی تعلیم جو دراصل ایک غلام اور پسماندہ قوم کے لیے وضع کی گئی تھی، آزاد اور صاحبِ حکومت و سیاست قوموں کے لیے بالکل بے کار اور بے معنی چیز تھی۔ اس میں کوئی ایسی مکمل ہدایت تو تھی ہی نہیں کہ عام انسانی جماعت کے لیے مختلف حالات میں مفید و مناسب ہو سکتی۔ وہ تو صرف چند اخلاقی نصائح کا مجموعہ تھی جو زیادہ تر انتہا پسندانہ تھیں، اور ظاہر ہے کہ تنہا ان پر عمل کر کے کسی قوم کا زندہ رہنا محال تھا۔

 

لہٰذا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ابتدائی ڈھائی تین سو برس تک تو عیسائی ہر قسم کے مظالم و شدائد کے تختۂ مشق بنتے رہے، کیونکہ یہی اخلاق ان کو سکھایا گیا تھا اور اس منزل سے آگے چلنے کے لیے ان کے پاس کوئی ہدایت نہ تھی۔ پھر جب ان کی اپنی تدبیر سے نہیں بلکہ محض اتفاقاً ان کو حکومت حاصل ہو گئی تو پولوسی مسیحیت کے ناممکن العمل دائرے میں زندگی بسر کرنا ان کے لیے ناممکن ہو گیا۔ اس لیے انہوں نے مسیحیت کی ساری اخلاقی حدیں توڑ ڈالیں اور ظلم و ستم اور قتل و غارت گری کی انتہا کر دی۔

 

ابتدائی دورِ مظالم:

 

ابتداء میں تو مسیحیوں کو یقین دلایا گیا تھا کہ ایک گال کے ساتھ دوسرا گال بھی پیش کر دینا اور شریر کا مقابلہ کبھی نہ کرنا مسیح علیہ السلام کی دائمی تعلیم ہے۔ اس لیے جب ان کی تعداد خوب بڑھ گئی اور ان کے اثرات وسیع ہو گئے اس وقت بھی ان میں ظلم کا مقابلہ کرنے اور اپنے حقوق کی حفاظت کرنے کی روح پیدا نہ ہو سکی۔ ۶۴ء میں جب کہ یونان و روم اور شام و فلسطین میں مسیحیوں کی تعداد ہزاروں سے متجاوز ہو چکی تھی، نیرو (Nero) نے ان پر حریقِ روم کا جھوٹا الزام لگایا اور اس کے حکم سے ہر وہ شخص جس نے مسیحی ہونے کا اقرار کیا گرفتار کر لیا گیا۔ کسی کو صلیب پر چڑھایا گیا، کسی کو زندہ جلا دیا گیا، کسی کو کتوں سے پھڑوایا گیا اور سینکڑوں عیسائی عورتوں، مردوں اور بچوں کو روم کے اکھاڑوں میں وحشیانہ کھیلوں کا تختۂ مشق بنایا گیا۔ ۷۰ء میں تیتوس (Titus) کے زیرِ قیادت بیت المقدس پر چڑھائی کی گئی، ۹۷ ہزار یہودی گرفتار کر کے غلام بنا لیے گئے، گیارہ ہزار آدمیوں کو بھوکا مار دیا گیا، ہزاروں آدمی پکڑ کر روم کے اکھاڑوں اور ایمفی تھیٹروں میں جنگلی جانوروں کا لقمہ بننے یا گلیڈی ایٹرز کی شمشیر زنی کا تختۂ مشق بننے کے لیے بھیج دیے گئے۔ ۷۵

 

نیرو کے بعد مارکوس آریلیوس، سیپٹیموس سیوروس، ڈیسیوس، اور والیرین نے مسیحیت اور اس کے پیرووں کو کچلنے کی کوششیں کیں۔ آخر میں ڈایوکلیشیان (Diocletian) نے تو ظلم و ستم کی حد کر دی۔ اس نے عام حکم جاری کر دیا کہ کلیسا مسمار کر دیے جائیں، انجیلیں جلا دی جائیں اور کلیساؤں کے اوقاف ضبط کر لیے جائیں۔ ۳۰۳ء میں خود شہنشاہ نے نیکومیڈیا کے مرکزی کلیسا کو پیوندِ خاک کر دیا اور مقدس کتابیں جلوا دیں۔ ۳۰۴ء میں اس نے عام حکم دے دیا کہ جو شخص مسیحی مذہب پر اصرار کرے وہ قتل کر دیا جائے۔ اس کے بعد سختیاں اور ستم اور بڑھیں، یہاں تک کہ جو لوگ مسیحی مذہب چھوڑنے سے انکار کرتے ان کے بدن زخمی کر کے ان پر سرکہ اور نمک ڈالا جاتا اور بعد میں ان کی بوٹی بوٹی کاٹی جاتی تھی، بعض اوقات ان کو کنیسوں میں بند کر کے آگ لگا دی جاتی اور زیادہ لطف اٹھانے کے لیے ایک ایک عیسائی کو پکڑ کر دہکتے ہوئے انگاروں پر لٹا دیا جاتا تھا یا لوہے کے کانٹے اس کے بدن میں چبھوئے جاتے تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب کہ تمام سلطنت میں عیسائی پھیلے ہوئے تھے۔ سلطنت کے بڑے سے بڑے اور چھوٹے سے چھوٹے عہدے بکثرت ان کے ہاتھ میں تھے، اور خود شہنشاہ کے قصر میں عیسائیوں کی ایک کثیر جماعت موجود تھی۔ ۷۶

 

لیکن مسیحیوں کو یقین دلایا گیا تھا کہ اس کثرت و قوت کے زمانے میں بھی وہی "شریر کا مقابلہ نہ کرنے" اور "ایک گال کے ساتھ دوسرا گال بھی پیش کر دینے" کی تعلیم ہی واجب العمل ہے جو اسرائیلیوں کو انتہائی بے بسی و کمزوری کی حالت میں دی گئی تھی۔ اس لیے شام، فلسطین، عراق، مصر، افریقہ، اسپین، گال، سسلی، اٹلی، الیریا، ایشیائے کوچک، غرض کہیں بھی کسی عیسائی نے ان مظالم پر دم نہ مارا اور ساری قوم ان تجاوزات کو خود کشانہ بے عملی کے ساتھ برداشت کرتی رہی۔ حالانکہ رسولِ عربی ﷺ کی امت جس کو جہاد کی تعلیم دی گئی تھی، جب ڈھائی تین سو کی تعداد کو پہنچ گئی تو وہ تمام عرب کا مقابلہ کرنے کے لیے کھڑی ہو گئی اور اس نے دنیا کو بتا دیا کہ جس جماعت میں یہ مجاہدانہ اسپرٹ موجود ہو وہ قلتِ تعداد اور بے سروسامانی کے باوجود کسی سے دب کر نہیں رہ سکتی۔

 

دورِ اقتدار اور ظلم و ستم:

 

یہ تو تھی مسیحیت کی تفریط۔ اس کے بعد جب قسطنطین اعظم نے اسے قبول کر لیا اور وہ عملاً سلطنت کا مذہب بن گئی، تو وہ تفریط کے انتہائی نقطے سے جست لگا کر دفعۃً افراط کے انتہائی نقطے پر جا پہنچی۔ پہلی خرابی تو اس لیے پیدا ہوئی تھی کہ پولوسی مسیحیت کو سیاست و تمدن سے کوئی تعلق نہ تھا اور اس کے پیرووں نے اپنے مذہب کی پابندی کرتے ہوئے ایک خالص انفعالی زندگی اختیار کر رکھی تھی۔ مگر جب اتفاقِ وقت سے ان پر سلطنت کی ذمہ داریاں آپڑیں تو دوسری اور پہلے سے زیادہ شدید خرابی پیدا ہو گئی، اور وہ یہ تھی کہ جہاں بانی و حکمرانی کے لیے چونکہ مسیحیت نے ان کی کوئی رہنمائی نہ کی تھی، اس لیے یہ سارا کاروبار انہوں نے شریعتِ خدا کے بجائے شریعتِ نفس کے مطابق انجام دینا شروع کر دیا۔ معاملاتِ سلطنت میں تو جنگ بھی ہے اور صلح بھی، سیاست بھی ہے اور تعزیر بھی، انتقام بھی ہے اور عفو بھی۔ مگر موسوی شریعت سے جدا کی ہوئی مسیحیت کے پاس ان میں سے کسی کام کے لیے بھی کوئی ضابطہ و قانون اور دستور العمل موجود نہ تھا۔ اس نے زندگی کے معاملات کے لیے بجز اس ایک قانون کے کہ "شریر کا مقابلہ نہ کر" اور "کرتا چھیننے والے کو چوغہ بھی اتار دے" اور کوئی قانون نہ بنایا تھا۔ مگر اس انفعال و تذلل کی تعلیم کے تنگ دائرے میں رہ کر مسیحیوں کے لیے ناممکن تھا کہ سلطنت کے اہم معاملات کو انجام دے سکیں۔ اس لیے وہ اس دائرے کو توڑ کر باہر نکلنے پر مجبور ہوئے، اور جب وہ اسے توڑ کر باہر نکل آئے تو اپنے نفس کے فتوے پر عمل کرنے میں بالکل آزاد تھے۔ اس عملی دنیا میں ان کے لیے کوئی ایسی دینی ہدایت اور الٰہی روشنی موجود ہی نہ تھی جو انہیں صحیح راستہ دکھا سکتی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ عیسائیوں نے خدا کی زمین میں فتنہ و فساد برپا کرنا شروع کر دیا اور طغیان و سرکشی کا وہ ہنگامہ برپا کیا کہ آج تک سرد نہ ہو سکا۔

 

قسطنطین کے عہد میں تو سلطنت کے تقریباً نصف باشندے صنم پرست تھے اس لیے اس نے ان لوگوں پر زیادہ ظلم کرنے کی جرات نہ کی۔ بس اتنے ہی پر اکتفا کیا کہ مندروں کے دروازے اور ان کی چھتیں منہدم کرا دیں، بتوں کے کپڑے اور زیور اتروا دیے اور ان کو معبدوں سے باہر نکلوادیا ۷۷۔ مگر چند سال بعد جب کلیسا کو ملک پر پورا تسلط حاصل ہو گیا تو مسیحیت کے مقتداؤں نے وثنیت (بت پرستی) کو کچلنے کا عزم کر لیا اور مذہبی قوانین کے حسبِ ذیل دو اصول مقرر کیے جن سے غیر مذاہب کو جبراً مٹانے کے بے شمار احکام مستنبط ہوتے تھے:

۱)۔ جن گناہوں کو مجسٹریٹ منع نہ کرے یا ان پر سزا نہ دے ان کی ذمہ داری میں وہ خود بھی ایک حد تک شریک ہوتا ہے۔

۲)۔ مصنوعی دیوتاؤں اور حقیقی ارواحِ خبیثہ کی بت پرستانہ عبادت، خالقِ برتر کی بزرگی کے خلاف سخت قابلِ نفرت جرم ہے۔

 

ان اصولِ موضوعہ کو عملی جامہ پہنانے کے لیے سب سے پہلے رومن سینیٹ نے باضابطہ یہ قرارداد منظور کی کہ "رومیوں کا مذہب جوپیٹر (Jupiter) کی عبادت نہیں بلکہ مسیح علیہ السلام کی عبادت ہے۔" اس کے بعد بتوں کی پرستش اور ان پر نذر و نیاز چڑھانا اور قربانیاں کرنا سب کچھ قانوناً ممنوع قرار دے دیا گیا اور ان افعال کے مرتکبوں کے لیے شدید سزائیں مقرر کی گئیں۔ شاہ تھیوڈوسیوس (Theodosius) نے اپنے فرامین میں ہر قسم کی غیر مسیحی عبادتوں کو، خواہ وہ علانیہ کی جائیں یا گھروں میں چھپ کر، حکومتِ وقت کے خلاف بغاوت اور جرمِ مستلزمِ سزائے موت قرار دیا۔ اس کے ساتھ ہی اس نے مندروں کو توڑنے، ان کی جائیدادیں ضبط کرنے اور عبادت کے سامانوں کو مٹا دینے کا بھی عام حکم دے دیا۔

 

اس حکم کے مطابق سب سے پہلے مرکزِ حکومت میں وثنیت کا جبراً خاتمہ کیا گیا۔ پھر صوبوں میں یہی مشق کی گئی۔ گال کے صوبے میں تورس کے بشپ (مارٹن آف تورس) نے دیندار پادریوں کی ایک پوری فوج لے کر مندروں، معبدوں اور بتوں کو، حتیٰ کہ ان درختوں کو بھی جو مقدس سمجھے جاتے تھے، پیوندِ خاک کر دیا۔ شام میں مسیحیت کے مقدس پیشوا مارسیلوس (Marcellus)، جو حلقۂ افامیا (Diocese of Apamea) کا بشپ تھا، نے جوپیٹر کے عظیم الشان مندر کو تباہ کر دیا اور ایک پوری فوج فراہم کی جسے ساتھ لے کر وہ اپنے حلقے کے غیر مسیحی معابد کو توڑتا پھرتا تھا۔ اسکندریہ میں مصر کے آرچ بشپ تھیوفیلوس (Theophilus) نے سیرایپس (Serapis) کے مندر کو، جو یونانی فنِ تعمیر کا بے نظیر نمونہ تھا، مسمار کر دیا۔ اس کے کتب خانے کو، جس میں خاندانِ بطالسہ نے علوم و فنون کا بہترین ذخیرہ جمع کیا تھا، نذرِ آتش کر دیا ۷۸۔ سراپیس کے بت کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا، اس کے بازوؤں کو سکندریہ کے بازاروں میں گھسٹوایا تاکہ اس کے معتقدین دیکھ کر جلیں اور آخر میں اس کے ٹکڑوں کو ہزارہا آدمیوں کے سامنے جلا دیا۔ اسی طرح دوسرے صوبوں میں بھی "مذہبی دیوانوں کی ایک پوری فوج کسی باضابطہ اختیار اور کسی نظم و تربیت کے بغیر پُرامن باشندوں پر حملے کرتی اور قدیم فنِ تعمیر کے بہترین نمونوں کو برباد کرتی پھرتی تھی۔" ۷۹

 

ان مظالم کا نتیجہ یہ ہوا کہ بت پرست رعایا نے تلوار کے خوف سے اس مذہب کو قبول کر لیا جس کو وہ دل سے پسند نہ کرتی تھی۔ بددل اور بے اعتقاد پیرووں سے مسیحی کلیسا بھر گئے۔ ۳۸ برس (تھیوڈوسیوس کے عہد) کے اندر روم کی عظیم الشان سلطنت سے وثنیت کا نام و نشان مٹ گیا اور یورپ، افریقہ اور شرقِ ادنیٰ میں تلوار کے زور پر مسیحیت پھیل گئی۔

 

انکویزیشن اور مذہبی مظالم:

 

اس کے بعد مسیحیوں اور غیر مسیحیوں کے درمیان، اور خود مسیحیوں میں باہم جس قدر لڑائیاں ہوئی ہیں ان میں اخلاق و انسانیت کے مبادی و اصول کو بالائے طاق رکھ کر جنگ کے ایسے ایسے وحشیانہ طریقے اختیار کیے گئے ہیں جن کے ہولناک ذکر سے تاریخ کے اوراق سیاہ ہیں۔ غیر مسیحی عقائد کو مٹانے کے لیے قوت کے استعمال کے جن طریقوں کو مسیحیت کے پیرووں نے جائز کر رکھا تھا ان کا ایک نمونہ وہ مذہبی عدالتیں ہیں جو انکویزیشن (Inquisition) کے نام سے خود پاپایانِ روم کے ماتحت قائم تھیں۔ ان میں کفر و الحاد (Heresy)، یہودیت، اسلام اور تعددِ ازواج جیسے "جرائم" کی سزا دینے کے لیے جو قانونِ تعزیرات رائج تھا اس میں منجملہ بہت سی سزاؤں کے انسان کو زندہ جلا دینا، زبان کاٹ ڈالنا، اور مرے ہوئے شخص کی قبر کھود کر ہڈیاں نکال پھینکنا بھی شامل تھا۔ تنہا اسپین میں اس مذہبی عدالت کے حکم سے (۱۴۸۱ء سے ۱۸۰۸ء تک) ایک محتاط اندازے کے مطابق ۳۱,۹۱۲ افراد کو زندہ جلایا گیا اور ۲,۹۱,۴۵۰ کو دیگر سخت سزائیں دی گئیں۔ ۸۰ اس کے علاوہ اٹلی، فرانس، پرتگال، میکسیکو، پیرو اور گوا وغیرہ علاقوں کی مذہبی عدالتوں نے اپنی مدتِ حیات میں جتنے آدمیوں کو غیر مسیحی یا غیر کیتھولک عقائد رکھنے کی پاداش میں ہلاک کرایا ان کی تعداد کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔

 

نتیجہ:

 

یہ پولوسی مسیحیت کی ناقص تعلیم کا دوسرا نتیجہ ہے۔ پہلا نتیجہ تو یہ تھا کہ جب مسیحیوں نے اس مذہب کے احکام کی پابندی کی تو حد سے زیادہ نرم بن گئے، اور مقاومت کی استطاعت کے باوجود ظلم و ستم کو برداشت کر کے تین سو برس تک اپنے آپ کو تباہ کراتے رہے۔ اور دوسرا نتیجہ یہ ہے کہ جب زمانے کے انقلاب نے ان کو قوت بخشی اور سلطنت کی ذمہ داریاں ان پر آپڑیں تو انہیں مسیحیت کے تنگ دائرے سے نکلنا پڑا، اور یہاں مذہب کی ہدایت و رہنمائی نہ پا کر انہوں نے اپنے ابنائے نوع پر ہر قسم کے ظلم و ستم کرنے شروع کیے اور نفس کی پیروی میں آزادی کے ساتھ جو چاہا کیا۔ ۸۱

 

اس میں شک نہیں کہ ظلم و ستم بعض مسلمان بادشاہوں نے بھی کیے ہیں۔ جنگ کے وحشیانہ طریقے مسلمانوں کی بھی بعض لڑائیوں میں پائے گئے ہیں۔ مذہب کے نام پر غیر مذہبی جنگ کرنے کے داغ سے مسلمانوں کا دامن بھی پاک نہیں رہا ہے۔ مگر دونوں میں اصولی فرق یہ ہے کہ مسلمانوں کے کسی عمل کی ذمہ داری اسلام پر نہیں آتی، کیونکہ اس نے ان کی فطری ضروریات کے لحاظ سے مکمل قوانین بنا کر دیے ہیں جن میں نہ تو غیر طبعی حدود و قیود ہیں کہ ان کی پابندی ناممکن ہو، اور نہ ایسی بے قیدی اور کھلی ہوئی آزادی ہے کہ انسان جو چاہے کرے۔ اس لیے پیروانِ اسلام سے جو نامناسب حرکات سرزد ہوئی ہیں وہ دراصل قانون شکنی کی تعریف میں آتی ہیں جن کی کوئی ذمہ داری قانون پر عائد نہیں ہوتی۔

 

بخلاف اس کے مسیحیت نے اپنے پیرووں کو ان کی عملی زندگی کے لیے کوئی قانون بنا کر نہیں دیا۔ اس نے نہیں بتایا کہ اگر کمزور ہوں تو طاقت کیسے حاصل کریں، طاقت پائیں تو اسے استعمال کس طرح کریں، دوسری قوموں سے صلح ہو تو کس اصول پر ہو، جنگ ہو تو کن مقاصد کے لیے ہو، میدانِ جنگ میں جائیں تو دشمن سے کیا برتاؤ کریں، دشمن پر فتح پائیں تو اس کے ساتھ کیا سلوک کریں، غیر مذاہب کے باشندوں سے مراعات کریں تو کس حد تک، اور ان پر سختی کریں تو کن امور میں۔ اس لیے پیروانِ مسیحیت نے پہلے اس کے دائرے میں رہ کر اور پھر اس کے دائرے سے نکل کر جتنے اخلاقی گناہ کیے ہیں ان کی ذمہ داری میں خود مسیحیت بھی شامل ہے، کیونکہ اس نے انہیں سیدھی راہ نہیں بتائی۔ اسلام کی طرح مسیحیت اپنے پیرووں کے گناہوں سے اس بنا پر تبریٰ (بیزاری) نہیں کر سکتی کہ انہوں نے اس کے بتائے ہوئے اصول و قواعد کی پیروی نہیں کی۔ وہ ان دو صورتوں میں سے ایک کو اختیار کرنے پر مجبور ہے کہ یا تو ان سب عیسائیوں کو گناہگار قرار دے جنہوں نے سیاست و حکمرانی کی ذمہ داری قبول کی ہے، خواہ حق کے ساتھ اس کو انجام دیا ہو یا غیر حق کے ساتھ؛ یا پھر اسے ان تمام عیسائیوں کو بے گناہ قرار دینا پڑے گا جنہوں نے جہانبانی و فرماں روائی کے بوجھ کو اٹھایا اور اس کے امور کو انجام دیا، خواہ حق کے ساتھ یا غیر حق کے ساتھ۔ وہ ان دونوں کے درمیان کوئی تیسری صورت اختیار نہیں کر سکتی، اور یہ بالکل ظاہر ہے کہ یہ دونوں صورتیں غیر معقول ہیں۔

 

۶۵۔ مسیحی مذہب سے مراد فی الحقیقت وہ مذہب نہیں ہے جس کی تعلیم حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے دی تھی بلکہ وہ مذہب ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف منسوب کیا جاتا ہے۔ ہمارے پاس اس بات کے لیے قوی دلائل ہیں کہ اس مسیحیت کی تعلیم حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے نہیں دی تھی بلکہ وہ تو وہی اسلام لے کر آئے تھے جو ان سے پہلے سارے پیغمبر لائے تھے اور ان کے بعد محمد ﷺ لائے۔ آگے چل کر ہم ان دلائل میں سے بعض کو بیان بھی کریں گے۔ یہاں ہم صرف اس بات پر تنبیہ کرنا چاہتے ہیں کہ ہم مسیحیت پر یہاں جو بحث کر رہے ہیں وہ دراصل دینِ مسیح علیہ السلام سے متعلق نہیں ہے بلکہ اس دین سے متعلق ہے جو مسیح علیہ السلام کے نام پر بنایا گیا ہے۔

۶۶۔ مسیح علیہ السلام نے یہ حکم اس شخص کو دیا تھا جو متی، مرقس، اور لوقا کے متفقہ بیان کے مطابق قتل، زنا، چوری اور جھوٹ سے پرہیز کرتا تھا، اپنے ماں باپ کی عزت کرتا تھا اور اپنے پڑوسی سے اپنی مانند محبت رکھتا تھا۔ مسیح علیہ السلام نے اس سے کہا کہ تو کامل اس وقت ہو گا جب اپنا مال اسباب بیچ کر خیرات کر دے گا۔

۶۷۔ J. R. Dummelow, ed., A Commentary on the Holy Bible, Introduction, p. lxxx.

۶۸۔ اس اشکال کو خود مسیحیوں نے بھی محسوس کیا ہے اور اسی لیے یہ مسئلہ پیدا کیا گیا ہے کہ نجات کے لیے مسیحیت کے قانون پر پوری طرح عمل درآمد کرنے کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ مسیح نے خود صلیب پر چڑھ کر تمام اہلِ ایمان کا کفارہ ادا کر دیا ہے، اور مسیح ان تمام لوگوں کے نجات دہندہ ہیں جو ان پر ایمان رکھتے ہیں۔ مگر اس مسئلے کی کمزوری ظاہر ہے۔ اس کو تسلیم کر لینے کے بعد تو مسیحیت کے قانونِ اخلاق کی کوئی ضرورت باقی ہی نہیں رہتی۔ اگر یہ کفارے کا عقیدہ صحیح ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ آدمی قتل کر کے، چوری اور زنا کر کے، ہمسائے کو ستا کر اور حرام کی کمائی کے ذخیرے جمع کر کے بھی "آسمان کی بادشاہی" میں داخل ہو سکتا ہے بشرطیکہ مسیح پر ایمان لے آئے۔ اس صورت میں وہ ساری اخلاقی تعلیم مہمل ہو جاتی ہے جو مسیح نے اپنے مواعظ میں دی ہے، بلکہ خود مسیح کا اپنا قول بھی غلط ہو جاتا ہے کہ ان اعمال کے ساتھ کوئی شخص آسمان کی بادشاہی میں داخل نہیں ہو سکتا۔ اور اگر مسیح کی یہ بات سچی ہے تو یقیناً کفارے کا عقیدہ باطل ہے۔ بہرحال یہ دونوں باتیں ایک ساتھ نہیں چل سکتیں اور عقل و منطق کی رو سے کسی طرح یہ ممکن نہیں ہے کہ صریح تناقض کے بغیر یہ دونوں ایک ہی مذہبی نظام کا جزو بن سکیں۔

۶۹۔ یہاں پھر ایک بار میں اس امر پر ناظرین کو متنبہ کر دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ یہ ساری گفتگو موجودہ تورات و انجیل، اسرائیلی اور مسیحی لٹریچر اور زمانہ حال کی تاریخی تحقیقات پر مبنی ہے۔ قرآنی تعلیم اس سارے معاملے کو ایک دوسرے ہی رنگ میں پیش کرتی ہے جس کے بیان کا یہ موقع نہیں ہے۔ جو لوگ اس سے واقفیت بہم پہنچانا چاہیں وہ میری تفسیر "تفہیم القرآن" ملاحظہ فرمائیں۔

۷۰۔ خود سینٹ پال کے شاگرد لوقا کی کتاب "اعمال" سے ثابت ہوتا ہے کہ مسیح علیہ السلام کی زندگی میں اس کو ان کی صحبت اور تربیت سے فائدہ اٹھانے کا کوئی موقع نہیں ملا تھا۔ نیز یہ کہ جب اس نے دینِ مسیح علیہ السلام میں تحریف شروع کی تو مسیح علیہ السلام کے خاص تربیت یافتہ حواریوں نے اس کی سخت مخالفت کی تھی۔ پس خود انجیل کی سند پر کہا جا سکتا ہے کہ سینٹ پال کے ایجاد کردہ اصول نہ صرف دینِ مسیح علیہ السلام کی اسپرٹ کے خلاف تھے بلکہ خود مسیح علیہ السلام کی صریح ہدایات کے بھی خلاف تھے۔

۷۱۔ Millman, History of Christianity, Vol. I, p. 377.

۷۲۔ Dummelow, Commentary on the Holy Bible, p. lxxxix.

۷۳۔ Millman, History of Christianity, Vol. I, p. 393.

۷۴۔ Dummelow, Commentary on the Holy Bible, p. lxxxix.

۷۵۔ Gibbon, Decline and Fall of the Roman Empire, Vol. II, Chap. 16; F. W. Farrar, Early Days of Christianity, pp. 488-89.

۷۶۔ Rev. E. L. Cutts, Constantine the Great, pp. 55-60.

۷۷۔ Rev. E. L. Cutts, Constantine the Great, p. 278.

۷۸۔ اس کتب خانے کو تنہا مارک انتھونی نے دو لاکھ کتابیں دی تھیں، اور اوروسیوس لکھتا ہے کہ ۴۰ برس بعد اس کتب خانے کی خالی الماریوں کو دیکھ کر ہر وہ دل رنج و الم اور نفرت اور غضب سے بھر جاتا تھا جو مذہبی تعصب سے بالکل سیاہ نہ ہو گیا ہو۔ یہی کتب خانہ ہے جس کے جلانے کا الزام بعض عیسائی مورخوں نے مسلمانوں پر لگایا ہے۔

۷۹۔ یہ تمام تفصیلات گبن کی تاریخ زوال و سقوطِ سلطنتِ روم کے باب ۲۸ سے لی گئی ہیں۔

۸۰۔ Encyclopaedia Britannica, 11th Ed., Art. "Inquisition". (یہ اعداد و شمار صرف اسپینش انکویزیشن کے لیے ہیں اور ان میں بھی مؤرخین کا اختلاف ہے)۔

۸۱۔ تیسرا اور آخری نتیجہ یہ ہے کہ مذہب کے نام سے جبر و ظلم اور جاہلانہ تعصب کا طوفان جب حد سے گزر گیا تو انہیں خود مذہب سے نفرت ہو گئی اور وہ دنیا بھر میں لامذہبی پھیلانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔

 

مذاہبِ اربعہ کی تعلیم پر ایک نظر

 

ہم نے یہاں جنگ کے مسئلے میں دنیا کے چار بڑے ادیان کے مسلک بیان کر دیے ہیں۔ یہ مسلک افراط و تفریط کے دو مختلف نمونے پیش کرتے ہیں۔

 

   ہندو مت و یہودیت (افراط): مقدم الذکر دو مذہب (ہندو مت اور یہودیت) جنگ کو جائز رکھتے ہیں، مگر اس طرح کہ انسان کو ان تمام اغراض کی خاطر لڑنے کی اجازت دیتے ہیں جن کے لیے اس کا نفس خواہش مند ہو۔ وہ اغراض و مقاصد میں حق و ناحق کا امتیاز نہیں کرتے، انسان کے سامنے کوئی بلند نصب العین نہیں پیش کرتے، اس کو کسی اعلیٰ اخلاقی مقصد کی طرف توجہ نہیں دلاتے، بلکہ خالص حیوانی فطرت پر اس کو یہ حق دیتے ہیں کہ اپنے ابنائے جنس پر جب چاہے، جس طرح چاہے، جس غرض کے لیے چاہے، دست درازی کرے اور جو کچھ چاہے ان سے حاصل کر لے۔ انہوں نے تہذیب کی جانب اگر کچھ پیش قدمی کی بھی ہے تو وہ صرف اتنی کہ اس دست درازی کے کچھ طریقے مقرر کر دیے ہیں، اور اپنے پیرووں سے مطالبہ کیا ہے کہ جب کبھی وہ اپنے ابنائے جنس کا شکار کرنا چاہیں تو فلاں طریقے سے کریں اور فلاں طریقے سے نہ کریں۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے انسانیت کو جغرافیائی، نسلی اور لونی اصولوں پر تقسیم کیا ہے اور کسی خاص نسل کے لوگوں کو کچھ ایسی رعایتیں دی ہیں جن سے باقی تمام ابنائے نوع محروم ہیں۔

 

   بودھ مت و مسیحیت (تفریط): دوسری طرف مؤخر الذکر دو مذاہب (بودھ مت اور مسیحیت) یہ محسوس کرتے ہیں کہ انسان کو خود انسان کا شکار کرنے کی آزادی دینا درست نہیں ہے، مگر یہ احساس ان کو ایک دوسرے انتہائی نقطے کی طرف لے جاتا ہے۔ وہ جنگ سے جنگ کرتے کرتے خود انسانی فطرت ہی سے جنگ کرنے لگتے ہیں۔ اللہ نے انسان کی زندگی میں اعتدال قائم رکھنے کے لیے اس کے اندر جو مختلف قوتیں ودیعت کی ہیں، وہ ان میں سے بعض کو بالکل فنا کر دینا چاہتے ہیں اور بعض کو پوری انسانیت پر حاوی کر دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جو لوگ ان کی ہدایات پر عمل کرتے ہیں وہ تنزل و انحطاط اور مغلوبی و مقہوری کی انتہائی پستیوں میں گر جاتے ہیں۔ اور جو باقتضائے فطرت اپنے آپ کو ان کی تقلید کے قابل نہیں پاتے اور اپنے انسانی فرائض ادا کرنے پر مجبور ہوتے ہیں، ان کو عملی زندگی کے کسی شعبے میں ہدایت کی روشنی نہیں ملتی۔ ناچار وہ خود اپنے تخیلات اور میلانات کی پیروی اختیار کر کے کبھی ادھر اور کبھی ادھر بھٹکتے پھرتے ہیں۔

 

اسلام کا معتدل راستہ:

 

افراط و تفریط کے ان دو انتہائی نقطوں کے درمیان اسلام نے توسط و اعتدال کی ایک درمیانی راہ نکالی ہے۔ وہ انسانی فطرت، انسانی ضروریات کے صحیح اقتضاء، اور سب سے زیادہ انسانیت کی اصلاح کے مقصد کو پیشِ نظر رکھ کر جنگ کو دو قسموں پر تقسیم کرتا ہے۔

 

۱۔ فساد فی الارض: ایک وہ جنگ جو ملک و مال، جاہ و اقتدار اور نفسانی اغراض کے حصول کے لیے لڑی جائے۔ اس جنگ کو وہ فتنہ و فساد سے تعبیر کرتا ہے اور اس کو ایک بدترین معصیت قرار دے کر اس سے کامل اجتناب کا حکم دیتا ہے۔

۲۔ جہاد فی سبیل اللہ: دوسری وہ جنگ جو حق کی حمایت کے لیے، ظلم و جور کو رفع کرنے کے لیے، اور فتنہ و فساد کو مٹانے کے لیے ہو۔ دوسری جنگ اس کے نزدیک اگر خالص حق کے لیے کی جائے اور اس میں کوئی نفسانی غرض شامل نہ ہو تو وہ جہاد فی سبیل اللہ ہے، ایک بہترین عبادت ہے، ایک مقدس ترین فرض ہے، اور ایک ایسی چیز ہے جس سے زیادہ افضل و احسن انسانی خدمت کوئی نہیں ہے۔

 

پھر اس عبادت (جہاد) کے لیے اس نے حدود مقرر کیے ہیں۔ اس کے مواقع بتائے ہیں، اس کے مقاصد کی تفصیل دی ہے اور اس کے طریقے پوری وضاحت کے ساتھ بیان کیے ہیں تاکہ خدا کے نام سے شیطان کا کام نہ ہونے لگے اور انسان اپنے نفسانی میلانات و خواہشات کی پیروی اختیار کر کے غلط راستے پر نہ پڑ جائے۔

 

یہ ایک ایسا مکمل ضابطۂ قانون ہے جس کی نظیر اسلام کے سوا کسی مذہب اور کسی تہذیب میں نہیں ملتی۔ کہیں مناہجِ عمل موجود ہیں تو مقاصدِ کار کی تعیین نہیں ہے؛ کہیں مقاصد موجود ہیں تو مناہجِ عمل کا پتا نہیں؛ کہیں مقاصد و مناہج کو کسی حد تک مقرر کیا گیا ہے تو اس میں وہ بلندی و فضیلت نہیں ہے جو اسلام کی امتیازی خصوصیت ہے۔ پس یہ حقیقت آج قطعاً ناقابلِ انکار ہے کہ جنگ کو کامل طریقے پر اس کی قدرتی حدود میں محدود کرنے اور اسے ایک وحشیانہ تصادم سے مہذب مقابلے تک، اور ظلم سے عدل کے درجے تک، اور معصیت سے نیکی اور فرض کے مرتبے تک پہنچانے کی اگر کسی نے کوشش کی ہے تو وہ صرف اسلام ہے۔ اسی قانون کو اختیار کر کے دنیا اس لعنت سے بھی بچ سکتی ہے جس کا نام ظلم ہے اور اس لعنت سے بھی جس کا نام مظلومی ہے۔

 

باب ہفتم: جنگ تہذیبِ جدید میں

 

اس باب میں ہم موجودہ تہذیب کے مقاصدِ جنگ اور قوانینِ جنگ کا جائزہ لے کر دیکھنا چاہتے ہیں کہ اخلاق و انسانیت کے لحاظ سے ان کا کیا حال ہے۔ ہماری پچھلی بحثوں کو دیکھ کر ایک شخص کہہ سکتا ہے کہ "بے شک اسلام نے اپنے عہد کی تہذیب میں بڑی قابلِ قدر اصلاح کی تھی اور جنگ کے ایسے مقاصد و مناہج کی طرف اس نے انسان کی رہنمائی کی جس سے اس کے ہم عصر تمدن اور ادیان ناآشنا تھے، مگر آج صدیوں کی ترقیات کے اثر سے جنگ کے متعلق انسانی افکار میں جو بلوغ پیدا ہو گیا اور اس کی بدولت جو مہذب قوانینِ جنگ وجود میں آئے ہیں، ان سے اس عہد کے قوانین و افکار کا کیا مقابلہ ہو سکتا ہے جب کہ انسان کے قوائے فکر بستہ عالمِ طفلی میں تھے؟ اس لیے ایک دوسرے تقابل کی ضرورت ہے جس میں اسلام اور تہذیبِ جدید کو آمنے سامنے رکھ کر دیکھا جائے کہ جنگ کے متعلق کس کے مقاصد و مناہج زیادہ صحیح، زیادہ مفید اور زیادہ مضبوط ہیں۔"

 

قبل اس کے کہ اس تقابل کا سلسلہ شروع کیا جائے، یہ طے کر لینا ضروری ہے کہ ہمیں جنگ کے متعلق مغربی تہذیب کا اصل قانون معلوم کرنے کے لیے کس چیز کی طرف رجوع کرنا چاہیے؟ ایک مسئلے میں کسی انسانی جماعت کے عقائد اور طریقِ کار کا حال عموماً تین چیزوں سے معلوم ہوتا ہے: مذہب، ادبیات، اور سوسائٹی کا طرزِ عمل۔

 

   مذہب: جہاں تک مذہب کا تعلق ہے، اس کو تو تہذیبِ جدید نے افراد کا شخصی معاملہ بنا دیا ہے اور موجودہ زمانے کی تمدنی زندگی کے معاملات پر اس کا کوئی قابو نہیں ہے۔

   ادبیات: جہاں تک ادبیات کا تعلق ہے، بلاشبہ ان کا ایک بہت بڑا ذخیرہ مغرب میں موجود ہے۔ مغربی فقہاء اور علمائے اخلاق نے جنگ اور متعلقاتِ جنگ پر بہت کچھ لکھا ہے اور ہر پہلو سے ان پر بحث کی ہے۔ لیکن اس قسم کے اہلِ قلم حضرات کے افادات کو اجتماعی افکار کے نشوونما میں خواہ کتنا ہی گہرا اثر حاصل ہو اور سوسائٹی کے قوانین کی تشکیل میں ان کے خیالات نے کیسا ہی زبردست حصہ لیا ہو، مگر وہ خود اپنے اندر کوئی ایسی قوت نہیں رکھتے جس کی بنا پر ان کو انسانی جماعت کے لیے حجت قرار دیا جا سکے۔ دنیا کے کسی بڑے سے بڑے مصنف کو بھی یہ فخر حاصل نہیں ہے کہ اس کا کوئی قول اس کی قوم کے لیے قانون کی حیثیت رکھتا ہو۔ یہ ضرور ممکن ہے کہ اس کے اقوال سے متاثر ہو کر اس کی قوم نے اپنے لیے بہت سے قوانین بنا لیے ہوں، مگر وہ قوانین اس قوم پر اس دلیل سے حجت نہیں ہوں گے کہ وہ فلاں مصنف کے اقوال ہیں، بلکہ اس بنا پر حجت ہوں گے کہ انہیں قوم نے اپنے لیے قانون کے طور پر تسلیم کر لیا ہے۔ پس جنگ کے مسئلے میں ہمارے لیے وہ وسیع لٹریچر بھی بے کار ہے جو مغربی زبانوں میں علمائے مغرب کی قابلِ قدر کوششوں نے مہیا کیا ہے۔

   تعامل (طرزِ عمل): اب صرف تیسری چیز رہ جاتی ہے جس سے ہم مغربی تہذیب کے مقاصد و مناہجِ جنگ معلوم کر سکتے ہیں، اور وہ مغربی اقوام کا تعامل ہے۔ یہ تعامل دو قسم کا ہے:

       مدون (Written): جسے اصطلاح میں بین الاقوامی قانون (International Law) کہتے ہیں۔

       غیر مدون (Unwritten): جو عبارت ہے سلطنتوں کے باہمی معاملات اور عملی سیاسیات سے۔

 

ان دونوں قوانین میں زیادہ معتبر اور مستند کون ہے؟ اختلاف کی صورت میں کس پر اعتماد کیا جائے گا؟ اور مغربی قوموں پر حجت بننے کی اصلی صلاحیت کس میں ہے؟ یہ ایسے مسائل ہیں جن پر خود علمائے مغرب میں سخت اختلاف ہے اور آج تک ان کا کوئی فیصلہ نہیں ہو سکا۔ مگر ہمیں اس اصولی بحث میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔ قدرتی طور پر مسئلہ جنگ کے مختلف پہلو دونوں کے درمیان کچھ اس طرح تقسیم ہو گئے ہیں کہ جنگ کا اخلاقی پہلو کلیتاً غیر مدون قانون کے حصے میں آگیا ہے اور عملی پہلو پر مدون قانون حاوی ہو گیا ہے۔ اس لیے ہم ترجیح کے سوال کو چھوڑ کر دونوں پہلوؤں پر دونوں سے الگ الگ بحث کریں گے۔

 

جنگ کا اخلاقی پہلو

 

مسئلہ جنگ کی تحقیقات میں اب تک ہم نے جس طریقے کی پیروی کی ہے اس کے اعتبار سے ترتیب میں جنگ کا اخلاقی پہلو پہلے آتا ہے۔ سب سے پہلے ہم کو یہ دیکھنا ہے کہ مغربی تہذیب جنگ کو کس نظر سے دیکھتی ہے؟ اس کے نظامنامۂ اخلاق میں جنگ کی کیا حیثیت ہے؟ اس کے نزدیک جنگ کن مقاصد کے لیے جائز ہے اور کن کے لیے ناجائز؟ اگر اس پہلو میں وہ اپنے پاس کوئی بلند اور پاکیزہ نصب العین رکھتی ہے تو وہ کیا ہے؟ اور اگر نہیں رکھتی تو عالمِ اخلاق اور دنیائے تہذیب میں اس کا کیا مقام قرار پاتا ہے؟ ان سوالات کو حل کرنے کے بعد طریقِ جنگ کے قانون کی صحت و عدمِ صحت کا سوال زیرِ بحث آئے گا۔

 

مذکورہ بالا سوالات کے بارے میں مغرب کا مدون قانون بالکل خاموش ہے۔ ابتدائی زمانے میں تو اخلاق کا سوال بین الاقوامی قانون میں ایک متعلق (Relevant) سوال سمجھا جاتا تھا۔ چنانچہ اس قانون کے مدونِ اول گروٹیوس (Grotius) نے اپنی کتاب (De Jure Belli ac Pacis) میں متعدد مقامات پر جنگ کے جائز و ناجائز مقاصد میں امتیاز پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن عہدِ جدید کے بین الاقوامی قانون نے اس سوال کو قطعاً خارج از بحث کر دیا ہے۔ پروفیسر لارنس اپنی کتاب "اصولِ قانون بین الاقوام" میں لکھتا ہے:

"جدید بین الاقوامی قانون ان اخلاقی مسائل سے بالکل ناآشنا ہے۔ وہ ان کے متعلق کچھ نہیں کہتا، بلکہ انہیں صاف نظر انداز کر جاتا ہے۔ اس کے نزدیک جنگ خواہ حق بجانب ہو یا غیر حق بجانب، منصفانہ ہو یا غیر منصفانہ، بہرحال وہ فریقین کے تعلقات کو متعدد اور مختلف صورتوں سے بدل دیتی ہے، اور اس لحاظ سے قانون کا کام صرف یہ ہے کہ وہ اس تغیر کے حدود اور قانونی صورتوں کو واضح کر دے۔ وہ ہم کو صرف یہ بتائے گا کہ کس طرح حربیت (Belligerency) کا تعلق پیدا ہوتا ہے، اور محاربین ایک دوسرے کے متعلق اور غیر جانبداروں کے متعلق کیا حقوق و فرائض رکھتے ہیں... اخلاقی سوالات بذاتِ خود خواہ کتنے ہی غور و توجہ کے مستحق ہوں، لیکن ایک بین الاقوامی قانون کی کتاب میں وہ اسی قدر بے محل ہیں جس قدر شخصی قانون کی بحث میں اخلاقیاتِ ازدواج کا سوال ہو سکتا ہے۔" ۸۲

 

ایک جرمن مصنف ایلتس باخر (Eltzbacher) لکھتا ہے:

"بین الاقوامی قانون نے ہمیشہ جنگی اعمال پر صرف اس قسم کی پابندیاں عائد کی ہیں جن کو مقاصدِ جنگ سے قابلِ لحاظ حد تک تعرض کیے بغیر مرعی و ملحوظ رکھنا ممکن ہو۔ اس نے صرف یہ تجویز کرنے پر اکتفا کی ہے کہ حتی الامکان دشمن کو غیر ضروری نقصانات سے معاف رکھا جائے، یعنی ایسے نقصانات پہنچانے سے پرہیز کیا جائے جو کسی طرح مقاصدِ جنگ کے حصول میں مددگار نہیں ہوتے یا اپنے ماحصل کی نسبت سے بہت زیادہ گراں قیمت ہوتے ہیں۔" ۸۳

 

پروفیسر نیپولڈ لکھتا ہے:

"اس بنا پر جنگ میں گناہ کا سوال بین الاقوامی قانون کا سوال نہیں ہے بلکہ اخلاقیات کا سوال ہے۔ بین الاقوامی قانون ایک جائز اور ایک ناجائز جنگ میں امتیاز نہیں کر سکتا، کیونکہ جنگ بین الاقوامی قانون کے نقطۂ نظر سے ہمیشہ قانون کی نقیض سمجھی جاتی ہے۔" ۸۴

 

اس سے معلوم ہوا کہ جہاں تک لکھے ہوئے یا مدون بین الاقوامی قانون کا تعلق ہے، اس میں حق اور ناحق، جائز اور ناجائز جنگ کے درمیان کوئی امتیاز قائم نہیں کیا گیا ہے، اور اس سے ہم یہ نہیں معلوم کر سکتے کہ مغربی تہذیب کن مقاصد کے لیے جنگ کو جائز سمجھتی ہے اور کن مقاصد کے لیے ناجائز؟

 

لیکن جیسا کہ ڈاکٹر ہال (Hall) نے کہا ہے، "ایک بین الاقوامی قانون غیر مدون یا بے لکھا بھی ہے اور اصلی قانون وہی ہے۔" اس لیے اب ہم کو دیکھنا چاہیے کہ اس بارے میں مغرب کی مہذب ترین قوموں کا عمل کیا ہے۔ وہ قومیں جن کا عمل تہذیبِ جدید کا معیار ہے، جن کی حرکات و سکنات تہذیب سازی کا درجہ رکھتی ہیں، اور جن کے کردار و گفتار کے سوا کسی دوسری چیز کو تہذیبِ جدید سے تعبیر بھی نہیں کیا جا سکتا، ان کے درمیان جب جنگ برپا ہوتی ہے تو کن اغراض و مقاصد کے لیے ہوتی ہے اور کس قسم کی جنگ کو ان کے ہاں حق و انصاف کی جنگ کہا جاتا ہے۔

 

اس کے لیے ہم ان چھوٹی چھوٹی لڑائیوں سے بحث نہیں کریں گے جو انیسویں اور بیسویں صدی میں مہذب اور (مغربی نقطۂ نظر سے) غیر مہذب قوموں کے درمیان ہوئیں۔ کیونکہ ان میں جو کچھ ہوا اس کو ہم مغربی تہذیب کا مکمل نمونہ نہیں کہہ سکتے۔ ان سب کو چھوڑ کر ہم صرف بیسویں صدی کی اس جنگِ عظیم پر نظر ڈالتے ہیں جس میں مغربی تہذیب کے تمام علمبردار شامل تھے، یا بہ الفاظِ دیگر جس کی مجلسِ عاملہ میں دنیائے جدید کی تمام مہذب قوموں کی نمائندگی ہوئی تھی۔ ۸۵ اس جنگ کی روداد ہم کو بتا سکتی ہے کہ مغربی تہذیب کی نگاہ میں جائز و ناجائز جنگ کے امتیاز کا اخلاقی معیار کیا ہے۔

 

جنگِ عظیم (اول) کے اسباب و وجوہ:

 

۱۹۱۴ء-۱۹۱۸ء کی جنگِ عظیم دراصل یورپ کی چھ بڑی قوموں کے درمیان ہوئی تھی، اگرچہ ضمنی طور پر دوسری چھوٹی بڑی قومیں بھی اس میں شامل ہو گئی تھیں۔ اس کا ایک فریق جرمنی اور آسٹریا-ہنگری پر مشتمل تھا، اور دوسرا برطانیہ، فرانس، روس اور (بعد میں) اٹلی پر۔ یہ دو مقابل جتھے جن قوموں سے مرکب تھے ان میں باہم شدید اور تاریخی عداوتیں تھیں۔ برطانیہ فرانس کا پرانا حریف تھا، یہاں تک کہ ۱۸۹۸ء میں فشودہ کے مسئلے پر ان کی جنگ ہوتے ہوتے رہ گئی تھی۔ روس اور برطانیہ کے درمیان سخت رقابت تھی، حتیٰ کہ بیسویں صدی کے آغاز تک ہندوستان پر روسی حملے کا خطرہ ہر وقت برطانوی سلطنت کو آمادۂ جنگ رکھتا تھا۔ فرانس اور اٹلی کے درمیان مسئلۂ تیونس تقریباً نصف قرن سے رقابت اور عداوت کا منبع بنا ہوا تھا، اور اسی کی وجہ سے عین آغازِ جنگِ عظیم تک اٹلی، جرمنی کے ساتھ تہرے اتحاد (Triple Alliance) میں شامل تھا۔

 

لیکن بیسویں صدی کے ابتدائی عشرے میں ان معاند قوموں کے درمیان چند اغراض و مقاصد کا رشتہ پیدا ہو گیا جس کے باعث وہ سب متحد ہو گئیں اور دوسرے جتھے کے خلاف دوش بدوش جنگ میں شریک ہوئیں۔ دوسری طرف جرمنی ۱۹۰۴ء تک برطانیہ کا دوست بننے کی کوشش کرتا رہا، اٹلی سے ۱۹۱۴ء تک اس کے حلیفانہ تعلقات رہے، روس ۱۹۰۷ء تک اس کا دوست تھا، بلکہ زار و قیصر کے درمیان جنگ کی ابتداء تک گہرے دوستانہ تعلقات تھے۔ مگر کچھ دوسری اغراض تھیں جنہوں نے اس دوستی کو دشمنی میں تبدیل کر دیا اور جرمنی کو اس آسٹریا کے ساتھ متحد ہو کر اپنے ان قدیم دوستوں کے خلاف جنگ کرنی پڑی جو ایک زمانے میں اس کا حریف رہ چکا تھا۔

 

قوموں کی جتھہ بندی:

 

یہ خاص اغراض کیا تھیں؟ مذہب کا کوئی سوال نہ تھا کہ سب کے سب عیسائی تھے۔ مدافعتِ وطن کا بھی کوئی سوال نہ تھا کہ کسی نے کسی پر حملہ نہ کیا تھا۔ حقوق کا بھی کوئی سوال نہ تھا کہ سب اپنے اپنے حقوق سے پوری طرح متمتع ہو رہے تھے۔ پھر کیا چیز تھی جس نے ان کو ایک دوسرے کے خلاف لڑنے پر آمادہ کیا؟ تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ چیز سوائے اس کے اور کچھ نہ تھی کہ ہر قوم اپنے حصے سے کچھ زیادہ لینا چاہتی تھی، اور ہر فریق کی خواہش تھی کہ دوسرے فریق کو دبا کر یا مٹا کر اس کے منافع سے خود مستفید ہو۔

 

ان کے درمیان عداوت کا پہلا بیج ۱۸۷۰ء-۷۱ء کی فرانکو-پرشین جنگ میں پڑا جب کہ جرمنی نے فرانس سے السیس (Alsace) اور لورین (Lorraine) کے علاقے چھین لیے۔ اگرچہ السیس کی آبادی جرمن نسل سے تھی اور لورین کی آبادی کا بھی ایک بڑا حصہ نسلی اور لسانی حیثیت سے جرمن تھا، پھر بھی فرانس نے اس کو اپنی ایک قومی حق تلفی قرار دیا اور اس وقت سے فرانسیسی سیاست کا غالب نصب العین یہ ہو گیا کہ وہ جرمنی کو نیچا دکھا کر یہ صوبے پھر حاصل کرے۔

 

اس کے بعد جرمنی کی تجارت اور صنعت کی ترقی شروع ہوئی، یہاں تک کہ انیسویں صدی کے اختتام پر وہ دنیا کا ایک عظیم الشان صناع اور تاجر ملک بن گیا۔ ۱۹۰۰ء کے قریب اس نے محسوس کیا کہ بحری تجارت کے تمام وسائل پر برطانیہ مسلط ہے اور اس تسلط کو ایک زبردست جنگی بیڑے کے بغیر دور نہیں کیا جا سکتا۔ چنانچہ اس نے اپنی بحری قوت کو تیزی کے ساتھ ترقی دینی شروع کر دی۔ اس اٹھتے ہوئے خطرے کو برطانیہ نے فوراً محسوس کیا۔ پہلے اس نے کوشش کی کہ جرمنی کو دوست بنا لے۔ ۱۸۹۹ء سے ۱۹۰۲ء تک مسٹر چیمبرلین، لارڈ لینس ڈاؤن اور دوسرے برطانوی مدبرین پیہم اس پر ڈورے ڈالتے رہے۔ لیکن جرمنی برطانیہ کے بحری اور تجارتی تفوق کو چیلنج کرنے کے لیے تیار تھا اور خود دنیا کی تجارت میں بالاتر قوت بننا چاہتا تھا، اس لیے دونوں حریف حلیف نہ بن سکے اور دنیا کی سیاست میں دفعۃً ایک انقلاب رونما ہو گیا۔

 

اس انقلاب کا پہلا ظہور ۱۹۰۴ء میں ہوا جب کہ صدیوں کے دشمن برطانیہ اور فرانس گلے مل گئے (Entente Cordiale)۔ فرانس نے مصر پر برطانوی قبضے کو تسلیم کر لیا۔ اس کے جواب میں برطانیہ نے مراکش پر فرانسیسی قبضے کو تسلیم کر لیا، اور دونوں قوموں نے متحد ہو کر آئندہ کے لیے اپنی اغراض کی خاطر عہد و پیمان کر لیے۔

 

اس کے بعد ۱۹۰۷ء میں روس بھی اس جتھے میں شامل ہو گیا (Triple Entente)۔ اس کے پیشِ نظر دو عظیم الشان مقاصد تھے۔ ایک درۂ دانیال اور باسفورس پر قبضہ، جس کے لیے وہ کامل ڈیڑھ سو سال سے جدوجہد کر رہا تھا۔ دوسرے جزیرہ نمائے بلقان پر غلبہ و تسلط تاکہ بحرِ ایجین اور بحرِ متوسط تک اس کو راستہ مل سکے۔ ان دونوں اغراض میں جرمنی اور آسٹریا اس کے حریف تھے۔ جرمنی کے پیشِ نظر برلن سے بغداد تک ایک ریلوے لائن قائم کر کے اپنی مشرقی تجارت کو فروغ دینا تھا جس کے لیے وہ چاہتا تھا کہ ترکی اور بلقان روسی اثر سے آزاد رہیں۔ دوسری طرف آسٹریا کو توسیعِ مملکت اور توسیعِ تجارت کی ہوس پوری کرنے کی صرف یہی ایک صورت نظر آتی تھی کہ جزیرہ نمائے بلقان پر قبضہ کر کے ایجین اور ایڈریاٹک کے بندرگاہوں سے فائدہ اٹھائے۔ چنانچہ اس غرض کے لیے اس نے ۱۹۰۸ء میں بوسنیا اور ہرزیگووینا کو باقاعدہ ملحق کر لیا تھا۔ ۱۹۰۷ء تک برطانیہ روس کی سیاسی اغراض کا مخالف رہا۔ لیکن جب اس کو معلوم ہو گیا کہ روس کی مدد کے بغیر وہ جرمنی کا گلا گھونٹ کر مار دینے میں کامیاب نہیں ہو سکتا، تو اس نے اپنے اس قدیم حریف کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا اور اسے یقین دلا دیا کہ کسی مناسب موقع پر درۂ دانیال اور باسفورس پر قبضہ کرنے میں وہ اس کی مدد کرے گا۔

 

اس طرح ۱۹۰۷ء تک دو زبردست جتھے بن گئے۔ ایک جتھے میں برطانیہ، فرانس اور روس تھے، دوسرے میں جرمنی اور آسٹریا-ہنگری (اٹلی بھی تہرے اتحاد کا حصہ تھا مگر اس کی وفاداری مشکوک تھی)۔ پہلے جتھے والوں کے درمیان وجۂ اتحاد یہ تھی کہ وہ اپنی سلطنت کو وسیع کرنے اور اپنے تجارتی تفوق کو باقی رکھنے کے لیے جرمنی اور آسٹریا کی مزاحم قوتوں کو دور کرنا چاہتے تھے۔ اور دوسرے جتھے والوں کو اس خواہش نے متحد کیا تھا کہ انہیں اپنی سلطنت کو وسیع کرنے اور دنیا کی تجارتی و اقتصادی زندگی پر فوقیت حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے کی مدد درکار تھی۔

 

اس جتھہ بندی میں ابھی اٹلی پوری طرح شریک نہ تھا۔ بظاہر وہ جرمنی کے ساتھ ایک معاہدۂ اتحاد (Triple Alliance) سے مربوط تھا۔ لیکن وہ کس طرح اپنے جرمن دوست کو چھوڑ کر فرانسیسی دشمن کے ساتھ مل گیا؟ یہ ایک عجیب داستان ہے۔ اٹلی نے بیک وقت دونوں کیمپوں سے تعلقات رکھے۔ جب اسے طرابلس (لیبیا) پر قبضے کے لیے ترکی (جسے جرمنی کی حمایت حاصل تھی) سے لڑنا پڑا تو اس نے فرانس اور برطانیہ سے مفاہمت کی۔ جب اسے آسٹریا سے علاقے (Trentino, Trieste وغیرہ) چھیننے تھے تو اس نے برطانیہ اور فرانس سے خفیہ معاہدہ (Treaty of London, 1915) کیا۔ جنگِ عظیم کے آغاز میں جب اس نے دیکھا کہ برطانیہ کی عظیم الشان بحری طاقت فرانس کے ساتھ ہے اور اس کے مقابلے پر فرانس سے تیونس کا علاقہ فتح کرنے میں جرمنی اس کے کام نہیں آ سکتا (بلکہ آسٹریا اس کا دشمن ہے)، تو اس نے ۱۹۱۵ء میں اپنا رخ اتحادیوں (Entente) کی طرف پھیر دیا اور "حق پرستی" کا دعویٰ کرنے لگا کہ وہ جرمنی اور آسٹریا کو باطل پر سمجھتا ہے اس لیے ان کا ساتھ نہیں دے سکتا۔

 

جنگ کا آغاز:

 

جون ۱۹۱۴ء میں جب آسٹریا کا ولی عہد آرچ ڈیوک فرڈینینڈ سراجیوو میں ایک سربی قوم پرست کے ہاتھ سے مارا گیا تو فتنہ و فساد کی وہ فصل دفعۃً پک کر کٹنے کے لیے تیار ہو گئی جس کی تخم ریزی و آبیاری کئی دہائیوں سے کی جا رہی تھی۔ آسٹریا نے سربیا کے سنگِ راہ کو ہٹانے کے لیے اس موقع کو غنیمت سمجھا کیونکہ بلقان کی جانب اس کی پیش قدمی میں وہی حائل تھا۔ جرمنی بھی اپنی تجارتی اسکیم (برلن-بغداد ریلوے) کی تکمیل کے لیے سربیا کا استیصال ضروری سمجھتا تھا، اس لیے وہ بھی آسٹریا کا ہمنوا ہو گیا۔ دوسری طرف روس سربیا کو اپنا "چھوٹا سلاوی بھائی" سمجھتا تھا اور بلقان میں اس کی تمام امیدیں اسی سے وابستہ تھیں۔ نیز یہ امر بھی یقینی تھا کہ اگر آسٹریا کو سربیا کے استیصال میں کامیابی ہو گئی تو پھر بلقان پر اس کے تسلط کو کوئی چیز نہ روک سکے گی، اس لیے وہ اپنے چھوٹے بھائی کی حمایت پر کھڑا ہو گیا۔ ادھر فرانس کو خطرہ تھا کہ روس اور سربیا کو مغلوب کر کے جرمنی اور آسٹریا کی قوت اتنی بڑھ جائے گی کہ السیس اور لورین کو واپس لینا تو درکنار، خود پیرس پر بھی قابض رہنا ناممکن ہو جائے گا، اس لیے وہ بھی روس کی حمایت پر آمادہ ہو گیا۔

 

ان حلیفوں کے بعد برطانیہ کے لیے علیحدہ رہنا ناممکن تھا۔ اس "حق پرست" نے اپنے ذمے بہت سی اخلاقی ذمہ داریاں (مثلاً بلجیم کی غیر جانبداری کا تحفظ) لے رکھی تھیں، لیکن اصل محرک یہ تھا کہ جرمنی کے بڑھتے ہوئے بحری اور تجارتی خطرے کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا جائے، اس لیے وہ بھی ہتھیار لے کر اٹھ کھڑا ہوا۔ اور دنیا میں "مہذب قوموں" کی وہ عظیم الشان جنگ برپا ہوئی جس کے سامنے پچھلی غیر مہذب قوموں کی لڑائیاں ہیچ ہو گئیں۔

 

شرکائے جنگ کے اغراض و مقاصد:

 

اس جنگ میں شریک ہونے والی ہر قوم کا دعویٰ یہ تھا کہ وہ اپنے "مقدس" حقوق کی حفاظت کے لیے جنگ پر مجبور ہوئی ہے۔ اور صرف اپنے حقوق کی حفاظت ہی نہیں بلکہ دنیا کی دوسری ضعیف و کمزور قوموں کو "آزادی" دلانا اور جبر و قہر کی طاقتوں کو مغلوب کر کے دنیا میں حق و انصاف اور امن و امان کا بول بالا کرنا بھی ان کا عین مقصود ہے۔ لیکن دورانِ جنگ میں اور اختتامِ جنگ کے بعد ان "حق پرستوں" نے جس طرح قوموں اور ملکوں کا لین دین کیا اور سلطنتوں کی بانٹ اور علاقوں کی تقسیم کا کاروبار جس وسیع پیمانے پر پھیلایا، اس کی کیفیت دیکھ کر معلوم ہو جاتا ہے کہ مغربی تہذیب میں "حق" کس چیز کا نام ہے۔

 

۱۹۱۷ء میں آسٹریا-ہنگری کے بادشاہ کارل (Charles I) نے کوشش کی تھی کہ اپنے ساتھیوں سے الگ ہو کر برطانیہ، فرانس اور اٹلی کے ساتھ علیحدہ صلح کر لے۔ اس مقصد کے لیے اس نے بوربون کے شہزادے سکستس (Prince Sixtus of Bourbon-Parma) کی معرفت اتحادیوں سے گفت و شنید کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ اس گفت و شنید کے تمام حالات شہزادے نے خود اپنے قلم سے لکھے تھے جو بعد میں (Austria's Peace Offer) "آسٹریا کی تقدیمِ صلح" کے نام سے شائع ہوئے۔ ان مذاکرات کے مطالعے سے اس کاروبار کی پوری کیفیت معلوم ہوتی ہے جو ملکوں اور قوموں کی جنس میں کیا جا رہا تھا۔

 

فرانس اور برطانیہ نے اٹلی کو اس وعدے کے ساتھ شرکتِ جنگ پر آمادہ کیا تھا کہ آسٹریا کا جنوبی علاقہ (Trentino, South Tyrol, Trieste, Istria, Dalmatia) اس کے حصے میں دیا جائے گا۔ اس تقسیم کی بنا پر اٹلی نے آسٹریا کے ساتھ علیحدہ صلح کی مخالفت کی۔ فرانس خصوصیت کے ساتھ یہ چاہتا تھا کہ آسٹریا کو جرمنی سے توڑے، اس لیے اس نے قبولِ صلح کے لیے اٹلی پر بہت زور دیا۔ لیکن اٹلی نے اس کی اتنی سختی کے ساتھ مخالفت کی کہ اتحادیوں کو یہاں تک اندیشہ پیدا ہو گیا کہ کہیں وہ "حق" کا ساتھ چھوڑ کر "باطل" (یعنی جرمنی) کے ساتھ نہ جا ملے۔ ایم پال کیمبون (Paul Cambon) جو اس وقت لندن میں فرانس کا سفیر تھا، پرنس سکستس سے ایک ملاقات کے دوران میں کہتا ہے کہ: "اٹلی کی حرص اسے ہر قسم کی بدمعاشیوں پر آمادہ کر سکتی ہے۔" ۸۶

 

ایک دوسری ملاقات میں وہ بیان کرتا ہے کہ: "اٹلی نے بارہا اس امر کا اعلان کیا ہے کہ وہ جنگ میں محض ان علاقوں کو حاصل کرنے کے لیے شریک ہوا ہے جن کو وہ آسٹریا سے حاصل کرنے کی خواہش رکھتا تھا۔" ۸۷

 

پال کیمبون کا بھائی، ایم ژول کیمبون (Jules Cambon)، جو پہلے برلن میں فرانس کا سفیر تھا، اس گفت و شنید کی مخالفت اس بنا پر کرتا ہے کہ: "اگر آسٹریا کے ساتھ صلح کر لی گئی تو بلاشک و ریب اس صلحنامے پر دستخط ہونے کے ۴۸ گھنٹے کے اندر اندر اٹلی جرمنی کی گود میں ہو گا۔" ۸۸

 

ایک دوسرے موقع پر وہ کہتا ہے کہ: "اٹلی ہمارے لیے کچھ نہیں کرے گا۔ وہ صرف ایک ہی خیال رکھتا ہے، وہ یہ ہے کہ جنگ کے بعد جب دوسرے ساتھی بالکل تھک کر چور ہو چکے ہوں تو وہ اقتصادی جدوجہد میں ان پر سبقت لے جانے کی کوشش کرے۔" ۸۹

 

یہ ان "حق پرستوں" کے اندرونی مقاصد تھے۔ اور یہ رائے تھی ان لوگوں کی خود ایک دوسرے کے متعلق جو باہم مل کر "حق" کی خاطر جنگ کر رہے تھے۔ آخر جب یہ بات تحقیق ہو گئی کہ اٹلی کسی طرح توسیعِ مملکت کے ارادوں کو چھوڑ کر آسٹریا سے صلح کرنے پر آمادہ نہیں ہے، تو اس کے "حق پرست" حلیفوں (فرانس) نے آسٹریا سے کہا کہ تم اٹلی کے لیے ان علاقوں کو چھوڑ دو جن کی وہ طمع رکھتا ہے اور اس کے عوض ہم تم کو سلیشیا (Silesia) اور بویریا (Bavaria) کے علاقے جرمنی سے چھین کر دلوا دیں گے۔ جیسا کہ معلوم ہے یہ دونوں صوبے خاص جرمن نسل کے لوگوں سے آباد ہیں اور جرمنوں کے وطنِ قومی کے غیر منفک اجزاء ہیں۔ لیکن "حق پرست" اتحادی ان کو بالکل اس طرح آسٹریا کے حوالے کرنے پر آمادہ ہو گئے گویا کہ وہ انہیں کی ملک ہیں۔ اور لطف یہ ہے کہ "حق پرست" آسٹریا نے بھی انہیں قبول کرنے سے انکار اس بنا پر نہیں کیا کہ وہ اس کے دوست جرمنی کے علاقے تھے، بلکہ صرف اس بنا پر کہ وہ فی الحال فرانس کی ملک نہیں تھے اور یہ امر مشتبہ تھا کہ فرانس انہیں چھین کر اس کے حوالے کرنے کی قدرت بھی رکھتا ہے یا نہیں! اس کے بعد کچھ اور علاقوں کی تلاش شروع ہوئی تاکہ انہیں آسٹریا کے حوالے کر کے اس کے نقصان کی تلافی کی جائے۔ پہلے طرابلس پر نگاہ ڈالی گئی مگر اٹلی نے اسے چھوڑنے سے انکار کر دیا کیونکہ وہ قدیم رومن سلطنت کا خواب دیکھ رہا تھا اور اس کے لیے قرطاجنہ کا پورا ترکہ اسے درکار تھا۔ پھر مصوع (اریتریا) اور صومالی لینڈ پر نظر گئی۔ اٹلی ان دونوں علاقوں سے کوئی خاص دلچسپی نہ رکھتا تھا اور آسٹریا بھی انہیں قبول کرنے پر راضی تھا، لیکن بعض وجوہ کی بنا پر یہ معاملہ بھی نہ پٹ سکا اور اٹلی کی طمع کی بنا پر اتحادیوں کے ساتھ آسٹریا کی گفتگوئے صلح منقطع ہو گئی۔ ۹۰

 

خفیہ معاہدات:

 

اس کاروبار کی داستان کا ایک دوسرا باب وہ خفیہ معاہدات ہیں جو زمانۂ جنگ میں اتحادی سلطنتوں کے درمیان ہوئے۔ بین الاقوامی ڈاکہ زنی کی یہ اسکیم شاید پردۂ راز ہی میں رہ جاتی اگر دورانِ جنگ میں روس انقلاب کا شکار نہ ہو جاتا۔ ۱۹۱۷ء میں جب زار کی حکومت کا تختہ الٹا اور بالشویکوں کی حکومت قائم ہو گئی تو انہوں نے سرمایہ داروں کو بے نقاب کرنے کے لیے وہ تمام خفیہ معاہدات شائع کر دیے جو انہیں زار کی حکومت کے نہاں خانوں سے دستیاب ہوئے تھے۔ اس طرح ان "مہذب" قوموں کی گھناؤنی ڈپلومیسی یک لخت ساری دنیا کے سامنے برہنہ ہو گئی۔ ان معاہدات میں کوئی دفعہ ایسی نہیں تھی جس میں مخالف سلطنتوں کے کسی نہ کسی علاقے یا ان کی اقتصادی ثروت کے کسی نہ کسی وسیلے کو ان "حق پرستوں" نے آپس میں بانٹنے کا فیصلہ نہ کیا ہو۔

 

   فرانس کا حصہ: پہلا طے شدہ امر یہ تھا کہ السیس اور لورین کو فرانس سے ملحق کر دیا جائے گا۔ دوسری بات یہ طے ہوئی کہ دریائے رہائن کے مغرب میں جرمنی کا جتنا علاقہ (Rhineland) ہے، وہ فرانس کے زیرِ اثر آجائے گا یا ایک الگ ریاست بنا دیا جائے گا (اس تجویز کو فرانس اور روس نے خود اپنے حلیف برطانیہ تک سے ایک حد تک پوشیدہ رکھا)۔ تیسرا فیصلہ یہ تھا کہ مراکش مکمل طور پر فرانسیسی مقبوضہ تسلیم کیا جائے گا، جرمنی کے تمام افریقی مقبوضات کا بڑا حصہ (کیمرون، ٹوگو) بھی فرانس کے حصے میں آئے گا اور سلطنتِ عثمانیہ کے ترکے میں سے بھی اس کو شام اور کیلیکیا (Cilicia) کا علاقہ دیا جائے گا۔

 

   اٹلی کا حصہ: اس کے ساتھ اٹلی کو بھی مطمئن کرنا ضرور تھا، کیونکہ وہ بے چارہ محض "حق" کی خاطر "باطل" کا ساتھ چھوڑ کر جنگ میں شریک ہوا تھا۔ اس کے لیے ترنتینو، تریستے اور جنوبی تیرول کے علاقے مخصوص کیے گئے۔ بحرِ ایڈریاٹک کے مشرقی ساحل کا بڑا حصہ (Istria اور Dalmatia) اور البانیہ پر تسلط بھی اس کے حصے میں آیا اور ترکی کے مقبوضات میں سے بھی اس کو جنوب مغربی اناطولیہ (بشمول ازمیر) دینے کا وعدہ کیا گیا۔ (Treaty of London, 1915)

 

   روس کا حصہ: روس میں "حق" کا سب سے بڑا علمبردار زار حکمراں تھا۔ کیسے ممکن تھا کہ اس کاروبار میں اس کا حصہ اس کی "حق پرستی" کے شایانِ شان نہ ہوتا۔ اس کے ساتھ پہلا سمجھوتہ پولینڈ کے متعلق ہوا جس کا خلاصہ یہ تھا کہ جنگ کے بعد پولینڈ کا بڑا حصہ روس کے زیرِ تسلط رہے گا (یہ وہی پولینڈ ہے جس کو آغازِ جنگ میں آزادی کی امید دلائی گئی تھی اور اختتامِ جنگ کے بعد اس کی آزادی کا نعرہ بلند کیا گیا)۔ دوسرا عہد نامہ قسطنطنیہ اور آبناؤں (باسفورس و درہ دانیال) کے متعلق تھا۔ جنگ شروع ہونے سے پہلے ہی روس نے اپنے اتحادیوں سے یہ تسلیم کرا لیا تھا کہ جنگ کے غنائم میں سے اس کو قسطنطنیہ، آبنائیں اور مشرقی اناطولیہ (بشمول آرمینیائی علاقے) ضرور دیے جائیں گے۔ ۱۹۲۲ء کا ایک روسی مورخ بیرن کورف (Baron S. A. Korff) لکھتا ہے: "اس خفیہ عہد نامے کی رو سے دولتِ عثمانیہ اور آسٹریا-ہنگری پورے کے پورے غنائمِ جنگ قرار دیے گئے جنہیں اتحادیوں کے درمیان تقسیم کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا۔ اس تقسیم میں قسطنطنیہ اور درۂ دانیال و باسفورس قطعی طور پر روس کو تفویض کیے گئے تھے۔"

 

   برطانیہ کا حصہ: اب رہ گیا برطانیہ جو تمام "حق پرستوں" کی رہنمائی کر رہا تھا۔ سو اس نے اپنے لیے جرمنی کے افریقی اور ایشیائی مستعمرات (مشرقی افریقہ، جنوب مغربی افریقہ، نیو گنی وغیرہ) کو کافی نہیں سمجھا اور ایک دوسرا میدان پیدا کیا جو اس کی ہمتِ عالی کے شایانِ شان تھا۔ ترکی سے اعلانِ جنگ کے ۵ مہینے بعد مارچ ۱۹۱۵ء میں اس نے فرانس کے ساتھ ایک ابتدائی خفیہ معاہدہ کیا جس میں سلطنتِ عثمانیہ کے عرب علاقوں کو دو منطقوں پر تقسیم کیا گیا تھا: ایک منطقہ شام، دوسرے منطقہ عراق۔ پہلا منطقہ فرانسیسی نفوذ و اثر کے ماتحت تسلیم کیا گیا اور دوسرے منطقے پر برطانوی سلطنت کے حقوق قائم ہو گئے۔

 

    اس تقسیم کی کامیابی بغیر اس کے ممکن نہ تھی کہ خود اہلِ عرب اس میں برطانیہ و فرانس کا ہاتھ بٹاتے۔ اور اہلِ عرب کے لیے یہ بہت مشکل تھا کہ اپنے وطن کی اس تقسیم کے راز سے آگاہ ہونے کے بعد اس کی فتح میں خود دشمنوں کے معین و مددگار بننا قبول کر لیتے۔ اس لیے ان کے ساتھ یہ چال چلی گئی کہ تقسیم کے ابتدائی معاہدے کو بالکل خفیہ رکھا گیا، اور عرب لیڈروں (شریف حسین آف مکہ) سے مل کر انہیں یقین دلایا گیا کہ اگر انہوں نے اتحادیوں کے ساتھ مل کر بلادِ عرب میں ترکی حکومت کا تختہ الٹ دیا تو اس کے عوض ایک آزاد عربی سلطنت قائم کی جائے گی جو (کچھ ساحلی علاقوں کے سوا) تمام عرب ممالک پر حاوی ہو گی۔ اس آزادی کے خوشنما خواب نے عربوں میں دفعۃً ایک نئی روح پھونک دی اور اکتوبر ۱۹۱۵ء میں (حسین-میکماہن خط و کتابت کے ذریعے) انہوں نے اتحادیوں سے ایک معاہدہ کر لیا جس کی رو سے ان کی پوری قوت دولِ حلفاء کے ساتھ ہو گئی۔ اس امداد کے عوض ان کو اس امر کا ایک کاغذی میثاق مل گیا کہ اختتامِ جنگ کے بعد عرب ممالک کو ایک مستقل سلطنت بنا دیا جائے گا۔

 

    اس معاہدے کے بعد ہی جون ۱۹۱۶ء میں شریف حسین نے ترکی کے خلاف بغاوت (عرب بغاوت) کا اعلان کر دیا۔ رفتہ رفتہ عراق، شام اور فلسطین میں بھی بغاوت کی آگ بھڑک اٹھی۔ چند ہی مہینوں کے اندر یہ امر یقینی ہو گیا کہ ممالکِ عربیہ میں ترکی حکومت نہیں ٹھہر سکے گی اور برطانیہ و فرانس کے مشترک مقاصد ضرور حاصل ہو جائیں گے۔ اس لیے مئی ۱۹۱۶ء میں دونوں سلطنتوں کے درمیان ایک دوسرا خفیہ عہد نامہ طے ہوا جو معاہدۂ سائیکس-پیکو (Sykes-Picot Agreement) کے نام سے مشہور ہے۔ اس معاہدے میں طے ہوا کہ عراق کا بڑا حصہ (بغداد و بصرہ) براہِ راست برطانیہ کے قبضے میں رہے گا۔ شام کا ساحلی علاقہ اور کیلیکیا فرانس کے براہِ راست قبضے میں رہے گا۔ فلسطین ایک بین الاقوامی علاقہ ہو گا۔ باقی اندرونی علاقے (دمشق، حلب، موصل) اور اردن کو دو حلقوں میں تقسیم کیا جائے گا: شمالی حلقہ (بشمول موصل) فرانس کے زیرِ اثر ہو گا اور جنوبی حلقہ برطانیہ کے زیرِ اثر۔ اس معاہدے میں برطانوی نمائندے سر مارک سائیکس نے موصل کو فرانسیسی اثر میں دینے پر اتفاق کر لیا تھا۔ کیونکہ اس سے پہلے ۱۹۱۶ء کے ایک اور خفیہ عہد نامے کی رو سے یہ طے ہو چکا تھا کہ آرمینیا، کردستان کا کچھ حصہ اور شمالی اناطولیہ روس کے حصے میں دیے جائیں گے، اور برطانوی سیاست اس امر کی مقتضی تھی کہ اس کی سرحد روس کی سرحد سے نہ ملنے پائے، لہٰذا اس نے روس کی ہمسائیگی کے سیاسی خطرات سے بچنے کے لیے برطانوی اور روسی علاقے کے درمیان ایک فرانسیسی علاقہ (موصل) کو حائل کر دینا مناسب سمجھا۔ لیکن موصل کے چشمہ ہائے روغنِ نفط پر ابتداء سے برطانیہ کا دانت تھا، اس لیے جب روسی خطرہ (بالشویک انقلاب کی وجہ سے) جاتا رہا تو اس نے فرانس کی دوستی کی پروا کیے بغیر آخر انہیں حاصل کر ہی چھوڑا۔

 

جنگ کے بعد ملکوں کی تقسیم:

 

یہ ارادے اور منصوبے تھے جنہیں لے کر "حق پرست" مغربی قومیں جنگ میں شریک ہوئی تھیں۔ آئیے اب ہم دیکھیں کہ جنگ کے بعد انہوں نے اپنی "حق پرستی" کا کس طرح ثبوت دیا۔

 

جنگ کے آخری ایام میں دو واقعات ایسے پیش آگئے جنہوں نے اس نقشے کو بہت کچھ بدل دیا جو ۱۹۱۵ء اور ۱۹۱۷ء کے درمیان خفیہ معاہدوں کے ذریعے سے قائم کیا گیا تھا۔ ان میں سے ایک واقعہ تو امریکہ کا شریکِ جنگ ہونا تھا (۱۹۱۷ء) اور دوسرا روس کا انقلاب (۱۹۱۷ء)۔ امریکہ نے یورپ کے معاملات سے بے تعلق رہنے کی قدیم پالیسی کو چھوڑ کر جنگ میں شرکت کی، اور صدر ولسن نے اپنے چودہ نکات میں قومی حقِ خود ارادیت اور کھلی ڈپلومیسی پر زور دیا۔ لہٰذا اس کی کوشش یہ تھی کہ جنگ کے بعد غنائمِ جنگ کی تقسیم میں ایسی بے اعتدالیاں نہ ہونے پائیں جن سے ایک دوسری جنگ کی بنیاد پڑ جائے۔ دوسری طرف روس جس شاہی حکومت کے ماتحت جنگ میں شریک ہوا تھا، ۱۹۱۷ء کے آخر میں اس کا تختہ الٹ گیا اور اس پر بالشویک جماعت کو غلبہ حاصل ہو گیا جو برطانیہ، فرانس اور اٹلی کی سامراجی اغراض کے لیے جرمنی سے بھی زیادہ خطرناک تھی۔ اس لیے غنائمِ جنگ کی تقسیم میں روس کا جو حصہ مقرر کیا گیا تھا وہ سارا کا سارا منسوخ کر دیا گیا اور "حق پرست" اتحادیوں کو ایک نیا نقشہ بنانا پڑا جس میں امریکہ کے "آدرش واد" کا لحاظ رکھنا بھی ضروری تھا۔

 

   فرانس اور رہائن لینڈ: بیان کیا جا چکا ہے کہ ۱۹۱۷ء کے خفیہ معاہدے میں فرانس نے روس کے ساتھ مل کر یہ طے کیا تھا کہ دریائے رہائن کے مغربی جانب کا تمام علاقہ جرمنی سے چھین کر فرانس کے ساتھ ملحق کر دیا جائے گا۔ اسی زمانے میں پرنس سکستس نے جب صدرِ جمہوریۂ فرانس ایم پوانکارے (Poincaré) کے سامنے علاقۂ رہائن کو غیر جانبدار علاقہ قرار دینے کی تجویز پیش کی تھی تو "حق پرست" فرانس کے صدرِ محترم نے مسکرا کر فرمایا تھا کہ: "آدمی کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ جو کچھ دل میں ہو اس کو ہمیشہ ظاہر بھی کر دیا کرے۔ عملاً میرے خیالات بھی وہی ہیں جو آپ کے ہیں۔" ۹۱

 

    اس طرح فرانس نے دورانِ جنگ ہی میں جرمنی کے ساتھ وہی عمل کرنے کی ٹھان لی تھی جو ۱۸۷۱ء میں جرمنی نے اس کے ساتھ کیا تھا۔ لیکن اسے معلوم تھا کہ رہائن کے زرخیز علاقے کا فرانس کے ساتھ الحاق، امریکہ اور برطانیہ دونوں کی پالیسی کے خلاف ہے۔ اس لیے اس نے جنگ کے زمانے میں اپنے ارادے کو پوشیدہ رکھا۔ اختتامِ جنگ کے بعد جب اس نے صلح کانفرنس (پیرس، ۱۹۱۹ء) میں یہ مطالبہ پیش کیا تو جیسی کہ امید تھی، امریکہ اور برطانیہ دونوں نے اس تجویز کی سختی کے ساتھ مخالفت کی۔ صلح کانفرنس میں اس پر تیز تیز گفتگوئیں ہوئیں اور فرانس کے انتہائی اصرار کے باوجود دونوں طاقتیں دائمی الحاق پر کسی طرح راضی نہ ہوئیں۔ آخر موسیو کلیمنسیاؤ (Clemenceau) نے (جو اس وقت فرانس کے وزیرِ اعظم تھے) یہ تجویز پیش کی کہ جرمنی پر جو تاوانِ جنگ عائد کیا گیا ہے اس کی ضمانت کے طور پر رہائن کا علاقہ ۱۵ سال کے لیے اتحادی (عملاً فرانسیسی) قبضے میں دے دیا جائے۔

 

    اس تجویز کے منشا کو اولاً خود فرانس کے بہت سے اہلِ سیاست نہ سمجھ سکے۔ اور فرانس کے ایوانِ مبعوثین میں مارشل فوش، ایم ژول کیمبون اور ایم تاردیو (Tardieu) جیسے لوگوں نے اس کی مخالفت کی۔ لیکن جب ایم کلیمنسیاؤ نے کھڑے ہو کر بتایا کہ ۱۵ سال کی تعیین کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جرمنی کے ہاتھ سے اس کے بہترین علاقے (مثلاً سار کا کوئلہ) چھین کر اس پر اتنا تاوان ڈال دیا جائے کہ وہ اس کو مدتِ معینہ کے اندر ادا نہ کر سکے اور ہم پندرہ سال گزرنے کے بعد علاقۂ رہائن پر مستقل قبضہ کر لیں، تو اس پر تمام ایوان مطمئن ہو گیا۔ موسیو کلیمنسیاؤ کی اس تقریر کا ایک فقرہ خصوصیت کے ساتھ قابلِ ملاحظہ ہے جس سے ان کی "حق پرستی" کا حال خوب معلوم ہوتا ہے۔ انہوں نے موسیو پوانکارے کو خطاب کر کے کہا: "جناب صدر! آپ مجھ سے عمر میں بہت چھوٹے ہیں۔ ۱۵ سال کے اندر جرمنی کسی طرح معاہدے کی تمام دفعات کو پورا نہ کر سکے گا، اور مجھے یقین ہے کہ ۱۵ سال کے بعد اگر آپ میری قبر پر آنے کی عزت بخشیں گے تو ضرور مجھے خوشخبری دیں گے کہ ہم رہائن پر ہیں اور وہیں رہیں گے۔"

 

    یہ چال کامیاب ہو گئی۔ فرانس نے اپنے حلیفوں سے اس تجویز کو منظور کرا لیا اور اس کا مقصد پورا کرنے کے لیے جرمنی کو بالائی سلیشیا (Upper Silesia) کے صنعتی علاقے سے بھی (پولینڈ کو دے کر) محروم کر دیا گیا تاکہ وہ اس گراں قدر تاوان کو کسی طرح ۱۵ سال کے اندر ادا نہ کر سکے جو معاہدۂ ورسائی (Treaty of Versailles) میں اس پر عائد کیا گیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی اس نے پولینڈ کی نئی ریاست کا نقشہ اس طرح مرتب کرایا کہ اس سے مشرقی پروشیا، جرمنی کے باقی علاقوں سے بالکل منقطع ہو گیا (Polish Corridor) اور ایک ایسی مشکل صورتِ حال پیدا ہو گئی جس کا حل بغیر اس کے نہیں ہو سکتا تھا کہ جرمنی جنگِ عظیم کے مصائب سے افاقہ پاتے ہی سب سے پہلے پولینڈ کے ساتھ الجھ جائے۔ ۹۲

 

   روہر پر قبضہ: پھر ۱۹۲۳ء میں جب فرانس کو اندیشہ ہوا کہ جرمنی ان تمام باتوں کے باوجود تاوان ادا کر کے رہائن کو واگزار کرا لینے میں کامیاب ہو جائے گا، تو اس نے جرمنی پر تاوان کی ادائیگی میں کوتاہی کا الزام لگا کر (برطانیہ کی مخالفت کے باوجود) بیلجیم کے ساتھ مل کر روہر (Ruhr) کے صنعتی علاقے پر قبضہ کر لیا تاکہ جرمنی کی معاشی کمر بالکل توڑ دی جائے۔ موسیو داریئک (Dariac) نے اس قبضے کی سفارش کرتے ہوئے لکھا تھا کہ جرمنی کی صنعتی اور معاشی زندگی کا تمام تر انحصار روہر کے کوئلے اور لوہے پر ہے۔ جنگ کے بعد سار اور بالائی سلیشیا چھن جانے سے اس کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی ہے۔ اس پر قبضہ کرنے سے جرمنی معاشی طور پر مفلوج ہو جائے گا اور فرانس نہ صرف اس کے وسائل سے مستفید ہو گا بلکہ تاوانِ جنگ وصول نہ ہونے کے بہانے رہائن پر بھی دائمی تسلط قائم کر سکے گا۔ ۹۳

 

   اٹلی اور یوگوسلاویہ: دوسری طرف اٹلی کے حریصانہ مقاصد پورے کرنے کے لیے اسے نہ صرف تریستے اور ترنتینو (جنوبی ٹائرول سمیت، جو زیادہ تر جرمن آبادی کا علاقہ تھا) دیے گئے، بلکہ خفیہ معاہدے کے تحت اسے ڈلمیشیا کا ساحل اور کچھ جزائر بھی ملنے تھے۔ لیکن اختتامِ جنگ پر آسٹریا-ہنگری کی شکست سے سربیا، کروشیا اور سلووینیا پر مشتمل ایک نئی ریاست یوگوسلاویہ کا قیام اس مقصد کی تکمیل میں حائل ہو گیا۔ فiume (اب Rijeka) اور ڈلمیشین ساحل کی تقسیم پر اٹلی اور یوگوسلاویہ میں شدید تنازعہ پیدا ہوا جو کئی سال تک جاری رہا اور مستقبل میں بھی کش مکش کا باعث بنا رہا۔

 

    یورپ کو اس غیر متناسب نقشے پر تقسیم کرنے کے خطرات کو خود ان لوگوں نے محسوس کر لیا تھا جو اس وقت دنیا کی قسمت کا فیصلہ کر رہے تھے۔ چنانچہ مارچ ۱۹۱۹ء میں برطانیہ کے وزیرِ اعظم مسٹر لائڈ جارج نے صلح کانفرنس کے سامنے ایک یادداشت (Fontainebleau Memorandum) پیش کی تھی جس میں انہوں نے جرمن قوم کے لاکھوں افراد کو دوسری حکومتوں (پولینڈ، چیکوسلواکیہ) کے تسلط میں دینے کو ایک خطرناک فعل بتایا تھا اور کہا تھا کہ یہ حرکت یورپ کو دوبارہ جنگ کی مصیبت میں مبتلا کر دے گی۔ اس یادداشت کے یہ الفاظ خصوصیت کے ساتھ قابلِ غور ہیں: "یورپ کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک عام باشندے موجودہ نظامِ حیات پر سیاسی، معاشی اور اجتماعی تمام حیثیات سے معترض ہیں... سب سے بڑا خطرہ جو مجھے اس صورتِ حال میں نظر آرہا ہے یہ ہے کہ کہیں جرمنی اپنی قسمت بالشوزم کے ساتھ وابستہ نہ کر دے اور اپنے وسائلِ ثروت، اپنے دماغ اور اپنی زبردست تنظیمی قوت ان انقلابی مجنونوں کے ہاتھ میں نہ دے دے جو دنیا کو تلوار کے زور سے بالشوزم کے لیے فتح کرنے کے خواب دیکھ رہے ہیں!" ۹۴

 

    یہ مسٹر لائڈ جارج کوئی بے بس اخبار نویس نہ تھے بلکہ اس وقت صلح کانفرنس کے اکابرِ اربعہ (Big Four) میں (صدر ولسن، کلیمنسیاؤ اور اورلینڈو کے ساتھ) سب سے زیادہ بااثر شخصیت کے مالک تھے۔ اگر وہ چاہتے تو یورپ کو ایسے غیر متناسب طریقے پر تقسیم نہ کرتے جس کے خطرات وہ خود اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔ لیکن حرص و طمع نے یا اس "حق پرستی" نے جس کی خاطر یہ لوگ جنگ کی آگ میں کودے تھے، ان کو اور ان کے رفقاء کو وہ سب کچھ کرنے پر آمادہ کر دیا جسے خود وہ بھی ایک دوسری جنگ کا پیش خیمہ سمجھتے تھے۔

 

   ایشیا (عرب علاقوں) کی تقسیم: یہ "حق پرستی" کا مظاہرہ تو یورپ میں ہوا۔ آئیے اب ایشیا کو دیکھیں کہ یہاں "حق" کی خاطر جنگ کرنے والوں نے لڑائی جیتنے کے بعد کیا کیا۔ عرب کی تقسیم کے متعلق ۱۹۱۵ء اور ۱۹۱۶ء میں جو خفیہ سمجھوتے ہوئے تھے ان کا حال اوپر گزر چکا ہے۔ ان سمجھوتوں کے مطابق دورانِ جنگ ہی میں عراق، شام اور فلسطین، برطانیہ اور فرانس کے درمیان تقسیم ہو چکے تھے۔ لیکن جنگ کے آخر تک عربوں کو برابر یقین دلایا جاتا رہا کہ یہ جنگ محض ان کو ترکی کے پنجۂ ستم سے آزاد کرانے، اور ان کی ایک مستقل سلطنت بنانے کے لیے لڑی جا رہی ہے۔

 

    ۱۱ مارچ ۱۹۱۷ء کو جب جنرل سر اسٹینلے ماڈ (Maude) بغداد میں داخل ہوا تو اس نے اہلِ عرب کے نام ایک عام اعلان شائع کیا جس کے الفاظ یہ تھے: "ہم آپ کے شہروں میں فاتح یا دشمن بن کر نہیں بلکہ نجات دہندہ بن کر آئے ہیں... اہلِ بغداد کو جان لینا چاہیے کہ برطانوی حکومت انہیں غیر ملکی تسلط سے آزاد کرانے اور ان کی قدیم عظمت و خوشحالی بحال کرنے آئی ہے... ہمارا مقصد یہ ہے کہ عرب خود عربوں پر حکومت کریں۔"

 

    جنگ کے خاتمے پر ۷ نومبر ۱۹۱۸ء کو پھر فرانس اور برطانیہ کی جانب سے ایک مشترکہ اعلامیہ (Anglo-French Declaration) شائع کیا گیا جس میں نہایت بلند آہنگی کے ساتھ یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ: "برطانیہ اور فرانس کا مقصد ان قوموں کی مکمل اور حتمی آزادی ہے جو ایک طویل عرصے سے ترکوں کے ظلم کا شکار رہی ہیں، اور ایسی قومی حکومتوں اور انتظامیوں کا قیام ہے جن کا اختیار عوام کی آزادانہ خواہش سے ماخوذ ہو۔" ۹۵

 

    لیکن ان لفظی اعلانات کے ساتھ جب عربوں نے اتحادیوں کا عمل یہ دیکھا کہ شام کے ساحل پر فرانس کی فوجیں مسلط ہیں اور عراق و فلسطین میں انگریزوں کا پنجۂ استبداد گڑا ہوا ہے، تو ان کو معلوم ہو گیا کہ حقیقت میں ان کے ساتھ مکر کیا گیا ہے اور یہ چال محض ترکوں اور عربوں میں نفاق ڈال کر ملک چھیننے کے لیے چلی گئی تھی۔ آخر انہوں نے عراق، شام اور فلسطین میں آزادی کی جدوجہد شروع کی اور دمشق میں امیر فیصل بن حسین کے تحت ایک قومی حکومت قائم کر لی (۱۹۲۰ء)۔

 

    اسی اثناء میں خود اتحادیوں کے درمیان غنائمِ جنگ کی تقسیم پر تنازع شروع ہو گیا تھا۔ سائیکس-پیکو معاہدے کی رو سے موصل کا علاقہ فرانسیسی منطقۂ اثر میں دیا گیا تھا، مگر وہاں تیل کے چشموں کی کثرت دیکھ کر برطانیہ کی نیت بدل گئی اور اس نے خود اس پر قبضہ کر لیا۔ اسی طرح فلسطین کے متعلق یہ طے ہوا تھا کہ وہ ایک بین الاقوامی علاقہ رہے گا اور صرف حیفا پر برطانوی کنٹرول ہو گا، مگر مصر کی بڑھتی ہوئی قوم پرستی نے برطانیہ کو مجبور کر دیا کہ ہندوستان کے راستے (نہر سویز) کی حفاظت کے لیے نہر کے مشرقی جانب (فلسطین) پر بھی اپنا اقتدار مضبوط کر لے اور ممکن ہو تو حیفا سے خلیج فارس تک ایک دوسرا زمینی یا ہوائی راستہ اپنے لیے پیدا کرے۔ لہٰذا فلسطین پر بھی اس نے پورا پورا قبضہ جمانے کا تہیہ کر لیا (جسے بالفور اعلامیہ ۱۹۱۷ء نے مزید تقویت دی)۔ دوسری طرف شام پر بھی فرانسیسی اثر و نفوذ برطانیہ کو ناگوار تھا اور وہ اپنی مصلحت کے لیے زیادہ بہتر یہ سمجھتا تھا کہ اس کے اپنے زیرِ اثر کوئی وطنی حکومت وہاں قائم ہو۔

 

    ان مسائل پر تقریباً ڈیڑھ سال تک دونوں دوستوں میں کشمکش ہوتی رہی اور لوٹ کے مال کی تقسیم کا کوئی فیصلہ نہ ہو سکا۔ مگر جب دونوں سلطنتوں نے اس باہمی نزاع کا نتیجہ دیکھا کہ عرب کی وطنی تحریک ترقی کر رہی ہے تو وہ اپنے مشترکہ فوائد کی خاطر عربوں کے خلاف متحد ہو گئے، اور اپریل ۱۹۲۰ء میں بمقام سان ریمو (San Remo Conference) انہوں نے یہ تصفیہ کر لیا کہ عراق و فلسطین (بشمول اردن) برطانیہ کے مینڈیٹ (انتداب) میں رہیں گے اور شام و لبنان فرانس کے مینڈیٹ میں۔ یہ تقسیم کسی طرح اس تقسیم سے مختلف نہ تھی جو ڈاکوؤں کے گروہ کسی گھر کو لوٹنے کے بعد کیا کرتے ہیں۔ مگر یورپ کے مہذب ڈاکوؤں نے اس کو بھی "حق" اور "انصاف" کا رنگ دینے کی کوشش کی اور دنیا کو دھوکہ دینے کے لیے ظاہر کیا کہ یہ تینوں ملک ان کو جمعیتِ اقوام (League of Nations) کی طرف سے انتداباً دیے گئے ہیں، تاکہ وہاں کے باشندوں کو خود حکومتی کے قابل بنایا جا سکے۔ حالانکہ نہ کسی جمعیتِ اقوام کو یہ حق پہنچتا ہے کہ کسی قوم کو بھیڑ بکریوں کی طرح دوسری قوم کے حوالے کر دے، نہ اس وقت تک جمعیتِ اقوام کا باقاعدہ قیام عمل میں آیا تھا (اس کا پہلا اجلاس نومبر ۱۹۲۰ء میں ہوا) اور نہ انتداب کا نظام باقاعدہ وضع ہوا تھا۔ ۹۶

 

    بہرحال، اس قرار داد کے مطابق شام، فرانس کی ملک بن گیا۔ اس کے بعد ہی جنرل گورو (Gouraud) نے دمشق میں قائم امیر فیصل کی قومی حکومت پر حملہ کر دیا (جولائی ۱۹۲۰ء، جنگِ میسلون)، اور انہی عربوں کو تلوار کے زور سے اطاعت و بندگی پر مجبور کیا جنہیں چار سال پہلے دوست بنایا گیا تھا، جن کی مدد سے ترکوں کو شکست دے کر ملک فتح کیا گیا تھا، جن کو دو سال پہلے تک یقین دلایا گیا تھا کہ ہم محض تم کو آزاد کرانے کے لیے جنگ کر رہے ہیں، جن سے جنگ کے بعد تک یہ وعدہ کیا جاتا رہا تھا کہ تمہارے ملک پر خود تمہاری حکومت ہو گی۔

 

   عراق اور برطانوی مینڈیٹ: دوسری طرف اہلِ عراق کو جو برطانوی انتداب کا اعلان سنتے ہی بھڑک اٹھے تھے (۱۹۲۰ء کی عراقی بغاوت)، تلوار کے زور سے کچلا گیا۔ جس سرزمین پر "ظالم" ترکوں نے کبھی ۱۴ ہزار سے زیادہ فوج نہیں رکھی تھی، اس پر "نجات دہندہ" سلطنتِ برطانیہ نے تقریباً ایک لاکھ فوج مسلط کر دی۔ جس سرزمین پر "ظالم" ترکوں نے سالانہ چند سو سے زیادہ عربوں کو کبھی قتل نہیں کیا تھا، وہاں "حق پرست" برطانیہ نے ایک ہی موسمِ گرما (۱۹۲۰ء) میں ہزاروں عربوں کو قتل و غارت کیا۔ اور یہ سب کچھ اس وقت کیا گیا جب کہ انہی عربوں سے یہ کہہ کر جنگ میں امداد حاصل کی جا چکی تھی کہ "ہم تمہارے دشمن بن کر نہیں آئے بلکہ تم کو آزادی دلوانے آئے ہیں۔"

 

    اس طرح عرب کی تحریکِ آزادی کو کچلنے کے بعد برطانیہ نے ایک طرف اپنے مواعید کی ظاہری حرمت برقرار رکھنے کے لیے اور دوسری طرف اس برطانوی پبلک کو مطمئن کرنے کے لیے جو عراق میں خطیر اخراجات سے سخت ناراض تھی، یہ ضروری سمجھا کہ عراق پر براہِ راست حکومت کرنے کے بجائے ایک ایسی نام نہاد قومی حکومت قائم کر دی جائے جو جنرل ماڈ کے اعلان کے برعکس اہلِ عراق کی نہیں بلکہ اہلِ برطانیہ کی خواہشات کی تابع ہو۔ اس غرض کے لیے ۱۹۲۱ء میں اعلان کیا گیا کہ اہلِ عراق کو خود اپنا بادشاہ منتخب کرنے کا اختیار ہے۔ لیکن اس اعلان کی تعمیل یوں کی گئی کہ اہلِ عراق کو انتخاب کا کوئی حقیقی حق نہیں دیا گیا۔ ان کی خواہش کے برعکس امیر فیصل بن حسین کو، جو شام کے تخت سے محروم ہونے کے بعد کسی اور تخت کا خواہشمند تھا، اس شرط پر تختِ عراق کے لیے نامزد کیا گیا کہ وہ برطانیہ کے زیرِ اثر رہ کر کام کرے گا۔ اہلِ عراق کی اکثریت فیصل کی بادشاہت پر راضی نہ تھی، مگر برطانیہ نے زبردستی ان کی آواز کو دبایا۔ عراق کے بااثر لیڈر طالب پاشا نقيب الاشراف (جس نے جنگ کے زمانے میں برطانیہ کی عظیم الشان خدمات انجام دی تھیں) کو گرفتار کر کے سیلون (سری لنکا) میں قید کر دیا گیا۔ اور عراق کی بڑھتی ہوئی ناراضی کو دبانے کے لیے ۲۳ اگست ۱۹۲۱ء کو شاہ فیصل کی تخت نشینی کا اعلان کر دیا گیا۔

 

    اس طرح فیصل کو عراق کا بادشاہ بنانے کے بعد برطانیہ نے، اسی برطانیہ نے جو عراقیوں کو نجات دلانے کے لیے عراق گیا تھا، تختِ شاہی کی قیمت طلب کی۔ وہ قیمت کیا تھی؟ وہ صرف یہ تھی کہ عراق کو ایک ایسا معاہدہ (Anglo-Iraqi Treaty, 1922) کرنے پر مجبور کیا گیا جس کی رو سے وہ بالواسطہ پورے طور پر برطانوی اثر و اقتدار کے تحت آ جاتا ہے اور اس کی خارجہ پالیسی، معیشت اور فوجی معاملات پر برطانیہ کا کنٹرول قائم رہتا ہے۔ یہ معاہدہ عراقی قوم کو ایک لمحے کے لیے بھی منظور نہ تھا، مگر دنیا کو دھوکہ دینے کے لیے اس پر عراقی قوم کی رضامندی ثبت کرانے کا یہ انوکھا طریقہ ایجاد کیا گیا کہ اسے راتوں رات عراق کی دستور ساز اسمبلی میں پیش کیا گیا، ارکانِ اسمبلی کو گھروں سے اٹھا کر پولیس کی نگرانی میں لایا گیا اور جبراً ان سے منظوری کا ووٹ لے کر اعلان کر دیا گیا کہ عراقی پارلیمنٹ نے معاہدے کی تصدیق کر دی ہے۔

 

   ترکی کی تقسیم: اب رہی ترکی کی دوسری تقسیم جس کے متعلق ۱۹۱۵ء میں روس سے سمجھوتا ہوا تھا۔ سو اس کو بالشویک انقلاب کے باعث منسوخ کر دیا گیا اور ایک دوسری اسکیم (معاہدہ سیورے، ۱۹۲۰ء) بنائی گئی جس میں روس کے بجائے یونان کو ترکی کے ترکے کا بڑا حصہ دینے کا فیصلہ ہوا۔ اس اسکیم کے مطابق یونان نے مغربی اناطولیہ (ازمیر/سمرنا) اور مشرقی تھریس پر حملہ کیا (۱۹۱۹ء-۱۹۲۲ء) اور ترکوں کو ان کے اصلی وطن کے ایک بڑے حصے سے محروم کرنے کی کوشش کی۔ اس کے ساتھ ہی برطانیہ، فرانس اور اٹلی کی متحدہ فوجوں نے خاص شہر قسطنطنیہ پر بھی قبضہ کر لیا (۱۹۱۸ء-۱۹۲۳ء) اور درۂ دانیال و باسفورس کے وہ راستے ترکوں سے چھین کر بین الاقوامی کنٹرول میں دے دیے گئے جنہیں پہلے روس کو دینے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ یہ دوسری تقسیم بعد کو مصطفیٰ کمال اتاترک کی قیادت میں ترکوں کی جنگِ آزادی (۱۹۱۹ء-۱۹۲۲ء) کی کامیابی کے بعد معاہدہ لوزان (۱۹۲۳ء) میں بڑی حد تک منسوخ ہو گئی، لیکن اس تنسیخ میں انصاف پسندی کے جذبے کو کوئی دخل نہ تھا بلکہ حقیقتاً اس کی وجہ ترکی قوم کی مزاحمت اور فوجی کامیابی تھی، جس نے یونان اور اتحادیوں کو ترکی سرزمین سے نکلنے پر مجبور کر دیا۔

 

جنگ کے "جائز" مقاصد (مغربی تہذیب کے مطابق):

 

یہ ان قوموں کے جنگی اعمال کی روداد ہے جو تہذیبِ مغرب کی علمبردار ہیں، بلکہ حقیقتاً جن کی تہذیب کا نام تہذیبِ مغرب ہے۔ یورپ کے چند اہلِ بصیرت فلسفیوں اور عالموں کو چھوڑ کر، جن کا درحقیقت کوئی اثر نہیں ہے، باقی تمام انگلستان، فرانس، اٹلی، جرمنی اور (سابقہ) آسٹریا-ہنگری کی رائے عامہ اپنی اپنی قوموں کے ان اعمال کی مؤید تھی اور اسی کی پرجوش امداد سے ان سلطنتوں کے مدبرین اتنی بڑی جنگ لڑنے میں کامیاب ہوئے۔ اس لیے ان کے تعامل اور طریقِ کار کو دیکھ کر ہم یہ نتیجہ نکالنے میں حق بجانب ہیں کہ جنگ کے دوران میں اور جنگ کے بعد جو جو افعال "حق" اور "انصاف" کے نام سے کیے گئے وہی دراصل مغربی تہذیب میں "حق" اور "انصاف" کے مصداق ہیں اور ایسے ہی "حقوق" کی خاطر تلوار اٹھانا مغربی تہذیب جائز رکھتی ہے۔

 

اس معیار کے مطابق جنگ کے وہ مقاصد جو مغربی تہذیب میں (عملاً) جائز رکھے گئے ہیں، حسبِ ذیل قرار پاتے ہیں:

۱۔ اپنی تجارت کو فروغ دینے کے لیے دنیا کی منڈیوں اور وسائلِ ثروت پر اجارہ حاصل کرنا۔

۲۔ اگر کوئی حریف تجارت و صنعت کے میدان میں آگے بڑھ رہا ہو تو اس کا سر کچل دینا یا اسے کمزور کر دینا۔

۳۔ اپنے تزویراتی (Strategic) مفادات اور مقبوضات کے راستوں کی حفاظت کے لیے دوسرے ممالک پر اثر و رسوخ قائم کرنا یا انہیں اپنے زیرِ اثر لانا۔

۴۔ ملکوں اور سلطنتوں کے حصے بخرے کرنا اور کمزور قوموں کو براہِ راست یا بالواسطہ غلام بنانا۔

۵۔ اگر کسی قوم سے دشمنی ہو جائے، خواہ کسی وجہ سے ہو، تو اسے مٹا دینا یا کم از کم اس کا زور توڑ دینا۔

 

ان اغراض کو جنہیں اکثر "مقدس حقوق"، "قومی مفاد" یا "تہذیب کی اشاعت" سے تعبیر کیا گیا ہے، کسی توضیح و تشریح کی ضرورت نہیں ہے۔ ہر شخص کا ضمیر خود ان کے جواز و عدم جواز اور تقدس و عدم تقدس کا فیصلہ کر سکتا ہے۔

 

ممکن ہے کہ بعض حضرات اس طریقِ استدلال کو مبالغہ اور غلو پر مبنی قرار دیں۔ مگر ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ مغربی قوموں کے اجتماعی عمل کے سوا مغربی تہذیب اور کس چیز کا نام ہو سکتا ہے؟ مذہب قابلِ استناد ہو سکتا تھا، مگر نہ یورپین قومیں اپنے مذہب کو اپنی سیاست میں دخل دینے کی اجازت دیتی ہیں اور نہ ان کا مذہب خود سیاسی امور سے تعلق رکھنا پسند کرتا ہے۔ قانون کو بھی معتبر سمجھا جا سکتا تھا، مگر آپ سن چکے ہیں کہ وہ جنگ کے جائز اور ناجائز مقاصد سے کوئی بحث ہی نہیں کرتا۔ اب ان دونوں چیزوں کو الگ کر دینے کے بعد ہم مغربی تہذیب کا عقیدہ کس سے دریافت کریں؟ کیا علمائے اخلاقیات سے دریافت کریں؟ کیا امن کا وعظ کہنے والے مفکرین سے دریافت کریں؟ کیا ان گنتی کے چند مصنفوں اور اخبار نویسوں سے دریافت کریں جن کے قلم سے کبھی کبھی انسانیت اور انسانی اخوت کے دل خوش کن خیالات ٹپک پڑتے ہیں؟ ہمیں ان لوگوں سے استفتاء کرنے میں تامل نہیں ہے، مگر ہم کو ان میں سے ہزار دو ہزار نہیں، صرف ایک دو ہی ایسے آدمیوں کے نام بتا دیے جائیں جن کا کوئی قول مغربی اقوام کے لیے حجت کا حکم رکھتا ہو اور جن کے خیالات پر تمام اہلِ مغرب یا ان کی اکثریت کا ایمان ہو۔ اگر کوئی ایسی متفق علیہ چیز مغرب میں موجود نہیں ہے تو ہمارے پاس مغربی قوموں کے معمول بہ طریقوں (تعامل) کے سوا اور کون سی چیز رہ جاتی ہے جس سے ہم جنگ کے متعلق مغربی قوموں کا اخلاقی عقیدہ معلوم کر سکیں؟

 

قیامِ امن اور خلعِ سلاح کی تجویزیں:

 

جنگ کے مسئلے میں یورپ کی نیک نیتی ثابت کرنے کے لیے ان کوششوں کا ضرور حوالہ دیا جائے گا جو (پہلی جنگِ عظیم کے بعد) جنگ کو روکنے، دائمی امن قائم کرنے، آلات و اسلحہ کے استعمال پر قیود عائد کرنے اور جنگی طاقتوں کو توڑ دینے یا حتی الامکان کم کر دینے کے سلسلے میں کی جا رہی تھیں۔ لیکن ان کوششوں کی ظاہر فریب صورت سے قطع نظر کر کے جب ہم ان کی حقیقت پر نگاہ ڈالتے ہیں تو ہم کو معلوم ہوتا ہے کہ ان میں جنگ کو روکنے کی نہیں بلکہ اسے پہلے سے بھی زیادہ بڑھا دینے کی خواہش نہاں تھی۔

 

تخفیفِ اسلحہ کی تجویز رسمی طور پر سب سے پہلے ۱۸۹۹ء میں پیش کی گئی تھی۔ اگست ۱۸۹۸ء میں زارِ روس نکولس دوم کی جانب سے بڑی بڑی سلطنتوں کو ایک سرکلر بھیجا گیا تھا جس میں ایک بین الاقوامی کانفرنس کی ضرورت ظاہر کرتے ہوئے لکھا تھا:

"امن و صلح کا تحفظ بین الاقوامی سیاست کا سب سے بڑا مقصد قرار دیا جاتا ہے۔ اسی مقصد کے لیے بڑی بڑی سلطنتوں نے طاقتور ایتلافات قائم کر رکھے ہیں؛ اسی امن کی ضمانت کے لیے انہوں نے اپنی فوجی طاقت کو اس قدر بڑھا دیا ہے کہ اس سے پہلے اتنی طاقت کبھی نہ دیکھی گئی تھی؛ اور وہ اسے برابر ترقی دیے جا رہی ہیں اور اس کی خاطر کسی قربانی میں تامل نہیں کرتیں۔ لیکن اس کے باوجود وہ شریف تر مقصد یعنی قیامِ امن کسی طرح حاصل نہیں ہوتا۔ روز افزوں مالی مصارف عام رفاہیت و خوشحالی کے چشموں کو خشک کیے دے رہے ہیں۔ قوموں کی ذہنی و جسمانی طاقت، ان کی محنت اور ان کا سرمایہ سب کچھ اپنے اصلی مصرف کے بجائے ایسے کاموں میں صرف ہو رہا ہے جن سے کوئی منفعت حاصل نہیں ہوتی۔ کروڑوں روپیہ تخریب کے ان آلات کی ساخت میں صرف ہو رہا ہے جو آج چاہے سائنس کے منتہائے کمال ہوں مگر کل اسی میدان میں کسی نئے اکتشاف سے اپنی قدر و قیمت ضرور کھو دیں گے۔ اس کی بدولت قومی تہذیب، اقتصادی ترقی اور دولت کی پیداوار یا تو خطرے میں پڑ گئی ہے یا اس کا نشوونما رک گیا ہے۔ مزید برآں، جس نسبت سے ہر سلطنت کی فوجی قوت میں اضافہ ہوتا ہے اسی نسبت سے اس مقصد کا حصول بعید تر ہوتا جا رہا ہے جسے سلطنتیں حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ معاشی مشکلات جو زیادہ تر فوجوں کے ناقابلِ برداشت حد تک بڑھ جانے سے پیدا ہوتی ہیں، اور وہ دائمی خطرات جو آلاتِ جنگ کی اتنی کثرت میں مضمر ہیں، ہمارے موجودہ زمانے کی ہتھیار بند صلح کو ایک جاں گسل بوجھ کی صورت میں تبدیل کر رہے ہیں جس کا اٹھانا باشندوں کے لیے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ پس یہ بالکل ظاہر معلوم ہوتا ہے کہ اگر یہ صورتِ حال دائم رہی تو وہ لازماً دنیا کو اسی مہلکہ (تباہی) کی طرف لے جائے گی جس سے بچنا مقصود ہے اور جس کے آلام کا محض تصور ہی انسانی فکر کے لیے بہت ہولناک ہے۔"

 

یہ خیالات آج سے تقریباً ۱۳۰ سال پہلے ایک ایسی سلطنت کی جانب سے ظاہر کیے گئے تھے جو خود جنگی تیاریوں اور جنگ آزمائی کے ارادوں میں سب سے پیش پیش تھی۔ جس وقت دنیا میں ان خیالات کی اشاعت ہوئی تو ہر طرف سے ان کا خیر مقدم کیا گیا، مبارکباد کی صدائیں بلند ہوئیں اور دنیا کی بہت سی سلطنتوں نے بین الاقوامی کانفرنس کی دعوت پر لبیک کہا۔ چنانچہ دوسرے ہی سال ۱۸۹۹ء میں پہلی ہیگ کانفرنس (Hague Peace Conference) منعقد ہوئی جس کے لائحہ عمل کی سب سے پہلی دفعہ یہ تھی کہ جلد سے جلد بری و بحری قوتوں کی روز افزوں ترقی کو روکا جائے۔ لیکن جب کانفرنس کے مباحث شروع ہوئے تو بہت جلدی یہ منکشف ہو گیا کہ سلطنتوں میں تخفیفِ اسلحہ کی طرف کوئی حقیقی میلان نہیں ہے۔ مسٹر اینڈریو ڈکسن وائٹ جو کانفرنس میں امریکہ کے نمائندے تھے، اس رنگ کو ابتداء ہی میں سمجھ گئے تھے اور انہوں نے نہایت صفائی کے ساتھ یہ کہہ دیا تھا کہ: "ہر شخص جو سادہ لوحی کی بنا پر تخفیفِ اسلحہ کی تجویزوں سے توقعات وابستہ کیے بیٹھا ہے یا یہ امید رکھتا ہے کہ ایک بین الاقوامی عدالتِ عالیہ ایک بین الاقوامی پولیس کے ساتھ قائم ہو گی اور اس کے فیصلے دنیا پر نافذ کرائے جائیں گے، اس کو آخر میں یقیناً مایوس ہونا پڑے گا۔" ۹۷

 

چنانچہ یہی ہوا۔ کانفرنس نے پہلے تو خلعِ سلاح یا تخفیفِ اسلحہ کی تجویز پر غور ہی کرنے سے اعراض کیا۔ پھر جب اس پر زیادہ زور دیا گیا تو ہر سلطنت کی طرف سے اعتراضات کی بوچھاڑ شروع ہو گئی۔ آخر اس مسئلے کو محض ایک ریزولیوشن پاس کر کے ختم کر دیا گیا جس کے الفاظ یہ تھے:

"یہ کانفرنس یہ رائے رکھتی ہے کہ فوجی مصارف کو، جو بحالتِ موجودہ دنیا پر ایک بھاری بوجھ ہیں، کم کرنا نوعِ بشری کی اخلاقی و مادی بہبود کے لیے حد درجہ مطلوب ہے۔"

 

اس "رائے" اور "حد درجہ مطلوب" کی جو کچھ قیمت تھی وہ اس سے ظاہر ہے کہ پہلی ہیگ کانفرنس کے بعد سے دوسری ہیگ کانفرنس تک کسی ایک سلطنت نے بھی اس کا لحاظ نہ کیا اور جنگی قوتوں کی کمیت و کیفیت میں روز بروز اضافہ ہوتا چلا گیا۔ ۱۹۰۷ء میں جب دوسری ہیگ کانفرنس منعقد ہوئی تو اس کے ایجنڈے میں خلعِ سلاح کی تجویز کا ذکر تک نہ تھا، بلکہ تصریح کر دی گئی تھی کہ "ایسے مسائل کو ہاتھ نہ لگایا جائے گا جو بری و بحری قویٰ کی تحدید سے تعلق رکھتے ہیں۔" تاہم بعض مصالح کی بنا پر پہلی کانفرنس کے ریزولیوشن کا اعادہ کر دینا مناسب سمجھا گیا اور اس کے ساتھ یہ فقرہ بھی بڑھا دیا گیا:

"اور چونکہ اس وقت (یعنی پہلی کانفرنس) کے بعد سے تقریباً ہر سلطنت کے فوجی مصارف میں کافی اضافہ ہوا ہے، اس لیے یہ کانفرنس اعلان کرتی ہے کہ یہ امر خاص طور پر مطلوب ہے کہ سلطنتیں اس سوال پر دوبارہ سنجیدگی کے ساتھ غور کریں۔"

 

اس قرارداد کا منشا صرف اس قدر تھا کہ سلطنتیں خلعِ سلاح کے سوال پر محض "غور" کریں۔ چنانچہ سلطنتوں نے بہت "سنجیدگی" کے ساتھ "غور" کیا اور جس نتیجے پر پہنچیں وہ یہ تھا کہ اپنی جنگی تیاریوں کو اور زیادہ بڑھا دیں۔

 

جنگِ عظیم سے تھوڑے عرصہ پہلے یورپ کے اربابِ فکر میں پھر اس سوال پر بحث و مباحثہ کا سلسلہ شروع ہوا تھا کہ جنگ کو بزور روکا جائے اور مناسب تدابیر اختیار کی جائیں۔ ان سوالات پر گفتگو ہی ہو رہی تھی کہ جنگ چھڑ گئی اور دنیا ایک دوسرے اور اہم تر سوال یعنی بقائے حیات کے سوال کو حل کرنے میں منہمک ہو گئی۔ اگرچہ بعض تخیل پرست اب بھی گوشہ ہائے عزلت میں بیٹھے خلعِ سلاح اور منعِ اسلحہ سازی کی تجویزوں پر کلام کیے جا رہے تھے اور جنگ کو زبردستی روکنے کے وسائل پر غور کرنے میں مشغول تھے، مگر عملی دنیا میں ہر آن ان کے خیالات کی تردید ہو رہی تھی۔ دنیا کے لوگوں کو ان کے افکار پر غور کرنا تو درکنار، ان کو سننے کی بھی فرصت نہ تھی۔ تاہم ان کا اتنا اثر ضرور ہوا کہ حکومتِ امریکہ نے سرکاری طور پر اس تحریک کو اٹھانا قبول کر لیا اور ۲۲ جنوری ۱۹۱۷ء کو صدرِ جمہوریۂ امریکہ مسٹر ووڈرو ولسن نے سینیٹ کے نام ایک طویل پیغام بھیجا، جس میں منجملہ اور امور کے ایک یہ تجویز بھی تھی:

"فوجوں کے استعمال میں اعتدال کو ملحوظ رکھا جائے جس سے قوائے حرب محض قیامِ امن کا ذریعہ ہوں نہ کہ حملہ اور خود غرضانہ جبر و تشدد کا آلہ۔ اگر ہر ملک میں زبردست سامانِ جنگ کی صنعت اور افواج کی ترتیب کا سلسلہ جاری رہے تو دنیا کی قوموں میں سکون و اطمینان کا احساس کبھی پیدا نہیں ہو سکتا۔ بری و بحری افواج اور آلاتِ جنگ کا مسئلہ نہایت اہم اور ضروری مسئلہ ہے جو اقوامِ عالم اور نوعِ بشری کی آئندہ قسمت کے ساتھ گہرا تعلق رکھتا ہے۔"

 

۱۹۰۷ء کے بعد یہ دوسرا موقع تھا جب کہ ایک مغربی سلطنت کی جانب سے خلعِ سلاح کا مسئلہ باضابطہ چھیڑا گیا۔ لیکن اس مرتبہ یہ آواز پہلے سے بھی زیادہ بے معنی اور لغو تھی، کیونکہ جس سلطنت نے اسے بلند کیا تھا وہ خود چند ماہ بعد (اپریل ۱۹۱۷ء) جنگ میں شریک ہو گئی اور اپنے عمل سے اس نے خود اپنے قول کی تردید کر دی۔

 

جمعیتِ اقوام (League of Nations):

 

جنگِ عظیم کے بعد فتحیاب مغربی سلطنتوں نے پریذیڈنٹ ولسن کے مشورے سے ایک انجمن قائم کی جس کو جمعیتِ اقوام کا خطاب دیا گیا۔ اس انجمن کا اولین مقصد یہ قرار دیا گیا تھا کہ جنگ اور اسبابِ جنگ کو ختم کیا جائے۔ چنانچہ اسبابِ جنگ کے استیصال کے لیے اس نے ایک بین الاقوامی محکمۂ انصاف (Permanent Court of International Justice) قائم کیا تاکہ وہ سلطنتوں کے باہمی نزاعات کا تصفیہ کرے، اور خود جنگ کو روکنے کے لیے سلطنتوں کے درمیان ایک معاہدہ (Covenant) کرایا جس کا منشا یہ تھا کہ سلطنتیں اپنے باہمی نزاعات کو مصالحانہ طریقوں (ثالثی یا عدالتی تصفیہ) سے طے کیا کریں، اور اگر کوئی سلطنت اپنی اغراض کے لیے تلوار سے کام لے تو تمام سلطنتیں مل کر اس کو راہِ راست پر لائیں۔ اس معاہدے کی دفعہ ۱۶ کے الفاظ یہ تھے:

"اگر جمعیت کا کوئی رکن، دفعات ۱۲، ۱۳ یا ۱۵ میں دیے گئے اپنے عہدناموں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے، جنگ کا سہارا لیتا ہے تو اسے فی الفور جمعیت کے دیگر تمام اراکین کے خلاف جنگ کا ارتکاب کرنے والا سمجھا جائے گا۔ جمعیت کے اراکین اس کے ساتھ تمام تجارتی یا مالی تعلقات فوری طور پر منقطع کرنے کا عہد کرتے ہیں، اور اپنی اپنی ریاستوں کے شہریوں کے درمیان ہر قسم کی بات چیت ممنوع قرار دیتے ہیں، اور عہد شکن ریاست کے شہریوں اور کسی دوسری ریاست، خواہ وہ جمعیت کی رکن ہو یا نہ ہو، کے شہریوں کے درمیان تمام مالی، تجارتی یا ذاتی روابط منقطع کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ اس صورت میں کونسل کا فرض ہو گا کہ وہ متعلقہ حکومتوں کو سفارش کرے کہ وہ کونسی مؤثر بحری، بری یا فضائی افواج مہیا کریں گی جنہیں اراکینِ جمعیت بالترتیب جمعیت کے عہدناموں کے تحفظ کے لیے استعمال کریں گے۔"

 

یہ سمجھوتہ جنگ کو روکنے کا نہایت مؤثر اور بے خطا ہتھیار معلوم ہوتا تھا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ اس جتھہ بندی کی زیادہ مہذب اور زیادہ معصوم، مگر زیادہ خطرناک صورت ثابت ہوئی جس کی بدولت ۱۹۱۴ء میں جنگِ عظیم برپا ہوئی تھی۔ چونکہ جنگ کے زمانے میں اس جتھہ بندی کے ہولناک نتائج دیکھ کر تمام یورپ اس سے متنفر ہو گیا تھا اور اسی کو اپنے تمام مصائب کا باعث سمجھنے لگا تھا، اس لیے مغربی سلطنتیں اس پرانے طریقے کو چھوڑنے پر مجبور ہو گئیں۔ مگر اس کے بغیر ان کی سیاسی اغراض کا حاصل ہونا بھی ناممکن تھا، کیونکہ فرداً فرداً کسی سلطنت کا اتنا اثر نہیں ہو سکتا کہ تمام دنیا کو مرعوب کر کے اپنی اغراض پوری کر لے، اور مشترک اغراض کے لیے بہرحال یہ ضروری ہے کہ بڑی بڑی سلطنتیں متحدہ قوت کے ساتھ دنیا پر اپنی گرفت کو مضبوط رکھنے کی کوشش کریں۔ اس لیے انہوں نے اسی جتھہ بندی کو ایک دوسری وضع و شکل دے دی جس میں کھلم کھلا ہجومی و دفاعی اتحاد کے بجائے صلح کوشی و امن پروری کے "لباسِ تقویٰ" میں وہی مجرمانہ اتحادِ عمل و اشتراکِ کار کی روح بھری ہوئی تھی۔

 

جہاں تک چھوٹی سلطنتوں کو دبانے کا تعلق ہے، جمعیت کا یہ سمجھوتہ بہت کارآمد ہو سکتا تھا۔ اگر یونان اور بلغاریہ میں اختلاف ہو یا پولینڈ اور لتھوینیا میں جھگڑا ہو جائے تو جمعیتِ اقوام کے بڑے بڑے ارکان ایک دھمکی سے ان کو درست کر سکتے تھے۔ اس طرح صرف یہی نہیں ہوتا کہ چھوٹی چھوٹی لڑائیوں کا سلسلہ بند ہو سکتا ہے، بلکہ اس سے زیادہ بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ جمعیت کے لیڈروں کا رعب و اثر بھی ساری دنیا پر قائم ہو جاتا ہے اور وہ "خدائی فوجدار" بن کر نظامِ عالم میں ترمیم و تنسیخ کرنے، طاقتوں کو گھٹانے بڑھانے، مرغوب قوتوں کو ممنون کرنے اور غیر مرغوب قوتوں کو خوفزدہ کرنے کی خدمات بڑی خوبی کے ساتھ انجام دے سکتے ہیں۔

 

لیکن اگر خود بڑی طاقتوں میں سے کوئی جمعیت کے سمجھوتے کی خلاف ورزی کر بیٹھے تو جمعیت اس پر کسی قسم کی کارروائی کرنا تو درکنار، زبانی بازپرس کی بھی جرات نہیں کر سکتی، اور اگر وہ اس کی جرات کرے بھی تو اس کا کوئی اثر نہیں ہو سکتا۔ فرض کرو کہ آج برطانیہ جمعیت کے سمجھوتے کی خلاف ورزی کر کے امنِ عام کے منافی کوئی جرم کرتا ہے، جمعیت کی کونسل اس پر غور کرنے کے لیے جمع ہوتی ہے، تمام ارکان کے اتفاق سے مجرم کو تہدید کی جاتی ہے کہ وہ ارتکابِ جرم سے باز آئے ورنہ اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی، مگر مجرم جو دنیا میں سب سے بڑی بحری قوت کا مالک ہے، اس کی کوئی پروا نہیں کرتا اور جو کچھ کرنا چاہتا ہے کیے جاتا ہے۔ آخر جمعیت مجبور ہو کر اپنے ارکان سے درخواست کرتی ہے کہ وہ دولتِ برطانیہ سے ہر قسم کے تجارتی، مالی اور سفارتی تعلقات منقطع کر لیں اور اپنی جنگی قوت سے اس کو حکم ماننے پر مجبور کریں۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا دنیا کی تمام وہ سلطنتیں جو جمعیت کی رکن ہیں، محض جمعیت کے حکم کی تعمیل میں اس بات پر آمادہ ہو جائیں گی کہ ان بے شمار معاشی، سیاسی، تجارتی اور مالی مصالح کو قربان کر دیں جو برطانیہ جیسی عظیم الشان سلطنت سے وہ وابستہ رکھتی ہیں؟ کیا دنیا کی آبادی کے ایک بڑے حصے سے بقیہ حصوں کے تعلقات یک لخت منقطع ہو جائیں گے؟ کیا یورپ اور امریکہ کی بڑی بڑی سلطنتیں اپنے مخصوص مصالح کو نظر انداز کر کے محض اس لیے ایک زبردست سلطنت کے مقابلے میں جنگ کے نقصانات برداشت کرنے پر راضی ہو جائیں گی کہ جمعیتِ اقوام ان سے ایسا کرانا چاہتی ہے؟ کوئی شخص جو عملی سیاست سے ذرہ برابر بھی مَس (واقفیت) رکھتا ہو، ان سوالات کا جواب اثبات میں نہیں دے سکتا۔ اور جب اس کا جواب اثبات میں نہیں ہے تو تسلیم کرنا پڑے گا کہ جمعیتِ اقوام دنیا کی بڑی سلطنتوں کو قابو میں رکھنے سے عاجز ہے، حالانکہ امنِ عالم کو اصلی خطرہ انہیں بڑی سلطنتوں کی حرص و طمع سے ہے۔ ۹۸

 

یہ محض ایک مفروضہ صورت نہیں ہے۔ ۱۹۲۰ء کی دہائی تک اس کا تجربہ کیا جا چکا تھا۔ جس روز سے جمعیتِ اقوام عالم وجود میں آئی ہے، اس کو ایک مرتبہ بھی یہ جرات نہیں ہوئی کہ بڑی بڑی سلطنتوں میں سے کسی کے ظالمانہ افعال پر بازپرس کرے۔ دمشق میں فرانس نے علانیہ قتلِ عام کیا اور جمعیت خاموش بیٹھی دیکھتی رہی، حالانکہ اسی کے نام پر شام کا علاقہ فرانس کو انتداباً دیا گیا تھا۔ ریف کی چھوٹی سی قوم کو ہسپانیہ اور فرانس نے مل کر کچل دیا اور جمعیت ایک لفظ زبان سے نہ نکال سکی۔ کورفو کے معاملے (۱۹۲۳ء) میں اٹلی نے جمعیت کی پروا نہ کی۔ برطانیہ نے عراق میں خون کی ندیاں بہا دیں مگر جمعیت نے پلٹ کر یہ بھی نہ پوچھا کہ جس ملک کو اس کے انتداب میں دیا گیا ہے اس کے ساتھ وہ کیا سلوک کر رہا ہے۔ پھر جمعیت کی پنچایت میں آج تک جتنے ایسے مسائل پیش ہوئے ہیں جو چھوٹی اور بڑی سلطنتوں کے درمیان متنازع فیہ تھے ان میں ہمیشہ بڑی سلطنتوں کی جیت ہوئی اور کبھی یہ نہ دیکھا گیا کہ کسی کمزور کو طاقتور کے مقابلے میں کامیابی نصیب ہوئی ہو۔ موصل کا مسئلہ اس کی ایک مثال ہے۔ اس کو محض برطانیہ کی معاشی حرص (تیل) کی خاطر ترکی سے الگ کر کے عراق (برطانوی مینڈیٹ) سے ملحق کر دیا گیا۔ اس سے یہ راز بالکل آشکارا ہو جاتا ہے کہ جمعیتِ اقوام دراصل دنیا کی طاقتور سلطنتوں کا ایک جتھہ ہے جس کو ان سلطنتوں نے زیادہ خوبصورتی کے ساتھ اپنی اغراض حاصل کرنے کے لیے قائم کر رکھا ہے۔

 

اس جتھے کی قوت جن قوموں کے خلاف استعمال کی گئی ہے اور کی جا رہی ہے، ان میں ناراضی کے جذبات پیدا ہو گئے ہیں، اور وہ اپنے حقوق بلکہ عین وجود کی حفاظت کے لیے ایک دوسرا جتھہ قائم کرنا چاہتی ہیں تاکہ جب کبھی بڑی سلطنتیں اپنی متحدہ قوت سے ان کو دبانے کی کوشش کریں تو یہ بھی متحدہ قوت کے ساتھ ان کا جواب دے سکیں۔ یہ خواہش اگر قوت سے فعل میں آگئی تو وہی دو مقابل جتھے پھر بن جائیں گے جو جنگِ عظیم سے پہلے بنے تھے اور دنیا میں پھر ایک عالمگیر جنگ برپا ہو گی جو شاید پہلے سے بھی زیادہ مہلک ہو۔

 

خلعِ سلاح کی جدید تجویزیں:

 

(۱۹۲۰ء کی دہائی میں) یورپ اور امریکہ میں خلعِ سلاح، تخفیفِ قوائے حربیہ اور تحریمِ جنگ (جنگ کو غیر قانونی قرار دینا) کے مسائل پر پھر مختلف تجویزیں سرگرمی کے ساتھ زیرِ بحث آ رہی تھیں اور بہت سے خوش گمان لوگ ان کو مغربی اقوام کے حسنِ نیت کی دلیل سمجھ رہے تھے، مگر واقعہ یہ ہے کہ اس تمام قیل و قال میں بھی حقیقت کا شائبہ تک نہیں تھا۔ چونکہ مغرب کے عام باشندے لڑتے لڑتے تھک گئے تھے، اور ان کو اپنی اجتماعی اور خصوصیت کے ساتھ تجارتی و صنعتی زندگی میں سکون کی سخت ضرورت تھی، اس لیے وہ کم از کم دل بہلانے کے لیے ایسی تجویزوں اور خیالی باتوں کو سننا پسند کرتے تھے جن سے سکون نہیں تو سکون کی موہوم توقع ہی قائم ہو جاتی ہے۔

 

ورنہ جہاں تک عمل کا تعلق ہے، اس میں ان توقعات کے بر آنے کا کوئی سامان نہیں تھا۔ بلکہ جنگِ عظیم کے بعد کے سالوں میں مغربی ممالک میں وسائلِ جنگ کو جو ترقی نصیب ہوئی تھی وہ تو اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی، حتیٰ کہ ۱۹۱۴ء میں بھی نہ تھی جب کہ تمام یورپ جنگ کی تیاریوں میں منہمک تھا۔

 

جنگِ عظیم کے بعد ۱۹۲۱ء میں پہلی مرتبہ جمہوریۂ امریکہ نے اس مسئلے کو چھیڑا اور اس کی تحریک سے نومبر ۲۱ء میں بمقام واشنگٹن ایک بین الاقوامی کانفرنس (Washington Naval Conference) منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس کا مقصد بظاہر بڑی بحری طاقتوں (برطانیہ، امریکہ، جاپان، فرانس، اٹلی) کے جنگی جہازوں (Capital Ships) کی تعداد کو محدود کرنا تھا۔ امریکہ، جاپان، فرانس اور اٹلی یہ چاہتے تھے کہ کسی طرح برطانیہ کی عظیم الشان بحری طاقت کو کم کیا جائے یا اس کے برابر آیا جائے۔ برطانیہ اپنی بحری برتری قائم رکھنا چاہتا تھا۔ یہی باطنی کشمکش واشنگٹن کانفرنس کے مباحثات میں جاری رہی۔ ہر فریق دوسروں پر پابندیاں عائد کرنا چاہتا تھا مگر جب خود اس کا اپنا سوال پیش آتا تو صاف کہہ دیتا تھا کہ ہماری جنگی پالیسی دوسروں کے اثر سے بالکل پاک ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ واشنگٹن کانفرنس اس سے زیادہ کچھ نہ کر سکی کہ اس نے پانچ بڑی سلطنتوں کے درمیان بڑے جنگی جہازوں کا ایک تناسب (۵:۵:۳:۱.۷۵:۱.۷۵) مقرر کر دیا، لیکن آبدوزوں اور کروزر جیسے چھوٹے جہازوں پر کوئی پابندی عائد نہ ہو سکی۔ اس کے بعد اسی امریکہ نے، جو تخفیفِ اسلحہ کا علمبردار بن کر اٹھا تھا، نئے کروزر تعمیر کرنے اور نہرِ پانامہ کو جدید ترین آلاتِ جنگ سے آراستہ کرنے کا تہیہ کر لیا۔

 

اسی واشنگٹن کانفرنس میں آبدوز کشتیوں (Submarines) کا معاملہ بھی پیش ہوا۔ ان کشتیوں سے اصلی خطرہ برطانیہ کو ہے، کیونکہ اسی کی زندگی سب سے زیادہ بیرونی ممالک کی درآمد پر منحصر ہے اور وہی سب سے زیادہ جنگی و تجارتی جہازوں کا مالک ہے۔ جنگِ عظیم میں جرمن آبدوزوں نے اس کی بحری تجارت کو برباد کر کے جس طرح اس پر عرصۂ حیات تنگ کر دیا تھا اس کا سبق برطانیہ کو یاد تھا۔ اس لیے اس نے واشنگٹن کانفرنس میں اپنی ساری قوت اس کوشش میں صرف کر دی کہ آبدوز کشتیوں کا استعمال ممنوع قرار دیا جائے۔ دوسری طرف فرانس خصوصیت کے ساتھ اس کا مخالف تھا، کیونکہ اس کی بحری قوت کمزور تھی، اور برطانیہ کے مقابلے میں اس کے پاس حفاظت کا ایک مؤثر ذریعہ یہی آبدوز کشتیاں تھیں۔ اس کے نمائندوں نے صاف طور پر کہہ دیا کہ یہ کشتیاں دراصل حملہ کا ذریعہ نہیں ہیں بلکہ مدافعت کا ذریعہ ہیں اور وہ ممالک انہیں استعمال کرنے پر مجبور ہیں جن کی بحری قوت کمزور ہو۔ آخر اس مسئلے میں امریکہ نے ایک متوسط راہ نکالی جس پر فریقین متفق ہو گئے، اور وہ یہ تھی کہ حالتِ جنگ میں غنیم کی تجارت کو برباد کرنے کے لیے آبدوز کشتیوں کا استعمال بین الاقوامی قانون (خاص طور پر تلاشی اور مسافروں کے تحفظ) کے مطابق کیا جائے گا۔

 

ایک اور میثاق زہریلی گیسوں کے استعمال کے متعلق بھی طے ہوا۔ اول ۱۸۹۹ء کی ہیگ کانفرنس میں زہریلی اور دم گھونٹنے والی گیسوں کا استعمال ممنوع قرار دیا گیا تھا، جس کی برطانیہ اور امریکہ نے مخالفت کی تھی۔ پھر ۱۹۰۷ء کی دوسری ہیگ کانفرنس میں برطانیہ اس پر راضی ہو گیا، مگر امریکہ پھر بھی مخالف رہا۔ جنگِ عظیم میں جرمنی اور اس کے حریفوں نے آزادی کے ساتھ ایک دوسرے کے خلاف ان گیسوں کو استعمال کیا اور جو کچھ قانونی بندشیں تھیں وہ سب سلطنتوں کے متفقہ عمل سے ٹوٹ گئیں۔ اس کے بعد واشنگٹن کانفرنس (۱۹۲۲ء) میں دوبارہ اس پر پابندی لگانے کی کوشش کی گئی اور ایک جدید معاہدہ لکھا گیا، لیکن اس کی بھی توثیق نہ ہو سکی۔ (بعد میں ۱۹۲۵ء کے جنیوا پروٹوکول میں اس پر پابندی عائد کی گئی، لیکن اس کی بھی مکمل پابندی نہیں ہوئی)۔ فرانسیسی نمائندے ایم ساراؤ (Sarraut) نے اس پر دستخط کرتے وقت یہ نوٹ لکھ دیا کہ: "زہریلی گیسوں کے استعمال کو روکنے کی کوشش ناممکن العمل معلوم ہوتی ہے۔" مسٹر بالفور نے بھی برطانیہ کی طرف سے یہ تصریح کرنی ضروری سمجھی کہ: "یہ اقرار نامہ قوموں کو اپنی حفاظت کی اس ضرورت سے بے نیاز نہیں کرتا جو ایک شریر دشمن کی جانب سے گیسوں کے استعمال کی صورت میں پیش آتی ہے۔"

 

واشنگٹن کانفرنس کے بعد اپریل ۱۹۲۲ء میں مسٹر لائڈ جارج کی تحریک پر جینووا (Genoa) میں ایک یورپی اقتصادی کانفرنس منعقد کی گئی جس کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ آئندہ دس سال کے لیے یورپی ممالک ایک دوسرے پر حملہ نہ کرنے کا عہد کریں۔ لیکن اس کانفرنس میں امریکہ نے شرکت سے انکار کر دیا۔ فرانس نے ابتدا ہی میں اعلان کر دیا کہ ہم اس کے فیصلوں کی ذمہ داری نہیں لیتے۔ ترکی کو شرکت کی دعوت نہیں دی گئی۔ روس کو بلایا گیا تو اس لیے کہ اس پر دباؤ ڈال کر ان نقصانات کا تاوان وصول کیا جائے جو انقلاب کے زمانے میں یورپی سلطنتوں کی املاک کو پہنچے تھے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کانفرنس ناکام ہوئی اور جنگی تیاریوں میں کوئی کمی واقع نہ ہوئی۔

 

جینووا کے بعد ہیگ میں ایک دوسری کانفرنس (۱۹۲۲ء) ہوئی مگر اس کا بھی وہی حشر ہوا جو جینووا کانفرنس کا ہوا تھا۔ پھر ایک بین الاقوامی کانفرنس لندن (۱۹۲۴ء، Dawes Plan پر غور کے لیے) میں منعقد ہوئی، مگر وہاں برطانیہ اور فرانس کے درمیان اختلافات رہے۔ ستمبر ۱۹۲۵ء میں جمعیتِ اقوام نے تحدیدِ قوائے حربیہ اور تحریمِ جنگ کے مسئلے کو اپنے ہاتھ میں لیا اور اس کی درخواست پر کونسل نے ایک بین الاقوامی کانفرنس برائے خلعِ سلاح (World Disarmament Conference) کے انعقاد کا راستہ صاف کرنے کے لیے ایک مجلسِ تحضیری (Preparatory Commission) مقرر کی تاکہ وہ جملہ امور پر غور کر کے بتائے کہ کس طرح اور کن اصولوں پر ایسی کانفرنس کو دعوت دی جا سکتی ہے۔ یہ کمیشن کئی سال تک کام کرتا رہا مگر کوئی ٹھوس نتیجہ نہ نکلا۔ ۱۹۳۲ء میں کانفرنس منعقد ہوئی لیکن وہ بھی ناکام رہی۔

 

ان حالات سے ظاہر ہے کہ خلعِ سلاح کی تحریک کا کوئی حقیقی نتیجہ نہیں نکلا تھا، بلکہ اس کے برعکس جنگی تیاریاں بڑھتی رہیں۔ اگر دولِ مغرب میں حقیقتاً خلعِ سلاح کی کوئی قلبی خواہش موجود ہوتی تو وہ روس کی ان تجاویز پر (جو اس نے پیش کی تھیں) غور کرتے۔ لیکن بڑی طاقتیں ان کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھیں۔ برطانیہ کے نمائندے لارڈ کشنڈن (Cushendun) نے تو صاف کہہ دیا تھا کہ: "کامل خلعِ صلاح قوموں کو غارت گری، لوٹ مار اور انقلاب کے خطرے میں مبتلا کر دے گا۔"

 

اس سے ظاہر اور باطن کا فرق صاف معلوم ہو جاتا ہے۔ زبان سے تو بے شک اس قسم کی باتیں کہی جا رہی تھیں جن سے گمان ہوتا تھا کہ مغربی قومیں جنگ و خوں ریزی سے بیزار ہیں، امن و صلح کی قدر شناس ہیں اور دل سے چاہتی ہیں کہ اپنے ابنائے نوع کی تباہی کا کھیل چھوڑ کر اپنے اپنے قدرتی حدود میں اپنی تعمیر و ترقی کے لیے سرگرمِ عمل رہیں؛ مگر حال یہ تھا کہ ان قوموں کے درمیان شدید عداوتیں پرورش پا رہی تھیں، ان کے دلوں میں آتش فشاں مادے پک رہے تھے، ان کی فوجیں تعداد اور قوت میں بڑھ رہی تھیں، ان کے آلاتِ جنگ روز بروز ترقی کر رہے تھے، اور ہر قوم اس کوشش میں لگی ہوئی تھی کہ آئندہ جنگ میں اپنے حریفوں سے زیادہ طاقتور ثابت ہو اور تمام مخالف قوتوں کو مٹا کر اپنی برتری کا سکہ بٹھا دے۔ اس رقابت و مسابقت کو دیکھ کر کون کہہ سکتا تھا کہ دولِ مغرب میں امن پسندی کا حقیقی میلان موجود ہے اور جنگ جوئی سے وہ فی الواقع توبہ کر چکی ہیں؟

 

۱۹۱۹ء کے میمورنڈم میں، جس کا حوالہ اوپر دیا جا چکا ہے، برطانوی وزیرِ اعظم مسٹر لائڈ جارج نے لکھا تھا:

"جمعیتِ اقوام کی کامیابی کی اولین شرط یہ ہے کہ سلطنتِ برطانیہ، ریاستہائے متحدہ امریکہ، فرانس اور اٹلی کے درمیان ایک سمجھوتہ ہو جائے جس کے مطابق ان سلطنتوں میں جنگی جہازوں کی تعمیر اور فوجوں کی تکثیر و توفیر کی مسابقت بند ہو جائے۔ جب تک جمعیت کے معاہدے پر دستخط کرنے سے پہلے یہ نہ ہو لے گا، جمعیت محض ایک اضحوکہ (مذاق) اور ایک سوانگ رہے گی۔"

 

اس قول کے مطابق جمعیتِ اقوام ایک "اضحوکہ" اور ایک "سوانگ" ثابت ہو چکی تھی۔ جنگی طاقت بڑھانے کی دوڑ ۱۹۱۴ء سے بھی زیادہ تیز تھی۔ جدید تہذیب نے فوجوں کی کثرت، مہلک آلاتِ جنگ کی ترقی، دیو ہیکل جنگی جہازوں کی صنعت، تباہ کن ہوائی جہازوں کی ساخت، زہریلی گیسوں اور غارت گر سامانِ جنگ کی تیاری سے انسانیت کو ہلاک و برباد کرنے کے لیے وہ سامان فراہم کیا تھا جس کی نظیر تاریخِ عالم میں نہیں ملتی تھی۔ ۹۹ ان حقائق کو دیکھ کر کون تھا جو امن پسندی کی بناوٹی باتوں اور صلح کوشی کی نمائشی کانفرنسوں سے دھوکہ کھاتا؟

 

جنگ کا عملی پہلو:

 

یہاں تک جو کچھ عرض کیا گیا ہے اس کا تعلق مغربی جنگ کی اخلاقی حیثیت سے تھا۔ اس پہلو میں آپ نے دیکھ لیا کہ جہاں تک جنگ کے اغراض و مقاصد کا تعلق ہے، مغربی دنیا اپنی تمام تہذیب و تمدن کے باوجود اس نقطے سے ایک انچ بھی آگے نہیں بڑھی تھی جس پر عہدِ تاریک کی غیر متمدن اور وحشی قومیں صدیوں پہلے قائم تھیں۔ وسائلِ جنگ میں تو بے شک انہوں نے ترقی کے آسمان کو چھو لیا تھا۔ ان کی فوجوں کی اعلیٰ ترتیب، ان کے سپاہیوں کی خوبصورت وردیاں، ان کے جرنیلوں کی زبردست مہارتِ فن، ان کے آلاتِ حرب کی دلفریب سجاوٹ دیکھ کر کون تھا جس کی آنکھیں خیرہ نہ ہو جائیں گی۔ مگر اس جنگ کے اندر جو روح کام کر رہی تھی وہ اسی عہدِ وحشت کی روح تھی جس کی درندگی و بہیمیت آلات و وسائل کی ترقی سے کم نہیں ہوئی بلکہ پہلے سے بھی زیادہ خطرناک ہو گئی تھی۔ قدیم وحشیوں کی طرح ان جدید وحشیوں کے پیشِ نظر بھی نہ کوئی بلند نصب العین تھا، نہ کوئی اعلیٰ مطمحِ نظر، نہ کوئی ایسا اخلاقی مقصد جس کی بنا پر یہ ان کے مقابلے میں کسی سبقت و فوقیت کا دعویٰ کر سکیں۔ وہی حصولِ جاہ و مال اور توفیرِ ثروت و توسیعِ اقتدار کی خواہش جو اب سے چار ہزار برس پہلے کسی غیر متمدن قبیلے کو جنگ پر ابھار سکتی تھی، اس وقت کی مہذب قوموں کو بھی مردم کشی و خوں ریزی پر آمادہ کرتی تھی۔ تہذیب و تمدن کی ترقی سے اخلاقی حالت میں تو کوئی ترقی نہیں ہوئی، البتہ اگر کوئی ترقی ہوئی تھی تو یہ کہ پہلے ان ادنیٰ و اسفل مقاصد کے لیے جتنی قوت استعمال کی جاتی تھی، اب اس سے کئی گنا زیادہ شدید، ہولناک، اور تباہ کن قوت استعمال کی جاتی تھی۔ ۱۰۰

 

ظاہر ہے کہ جب مقصد شرافت و پاکیزگی سے خالی ہے تو طریقِ حصولِ مقصد خواہ کتنا ہی بہتر اور پاکیزہ تر ہو، اس سے کوئی عمل صلاحیت و صواب کے درجے کو نہیں پہنچ سکتا۔ تاہم اتمامِ حجت کے لیے ہمیں یہ بھی دیکھ لینا چاہیے کہ تہذیبِ مغرب نے اپنے اعمالِ جنگ کو کیسے قوانین و ضوابط سے منضبط کیا ہے، اور ان قوانین کی معنوی قوت اور عملی حیثیت اسلامی قوانین کے مقابلے میں کیسی ہے۔

 

اہلِ مغرب کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے پرانے زمانے کے وحشیانہ طریقوں کو بدل کر جنگ کے نہایت مہذب طریقے اختیار کیے ہیں اور جنگ کو، جو پہلے درندوں کے کھیل سے کچھ زیادہ مختلف نہ تھی، ایک مہذب کشمکش اور شریفانہ زور آزمائی کی صورت میں تبدیل کر دیا ہے۔ یہ دعویٰ اس بلند آہنگی کے ساتھ کیا گیا ہے اور اس کے ساتھ ظاہری شان و شوکت کا اتنا سامان ہے کہ ناواقف دنیا اسے سن کر بلا تامل ایمان لے آتی ہے۔ مگر ہم اس کو امتحان کی کسوٹی پر کس کر دیکھنا چاہتے ہیں کہ فی الواقع یہ کہاں تک درست ہے؟

 

بین الاقوامی قانون کی حقیقت:

 

مغربی قوموں اور سلطنتوں کے باہمی معاملات اور صلح و جنگ کے تعلقات پر جو قانون حاوی ہے اسے اصطلاح میں بین الاقوامی قانون (International Law) کہا جاتا ہے۔ علمائے قانون نے اس کی مختلف تعریفیں کی ہیں مگر سب سے زیادہ جامع تعریف یہ ہے: "وہ اصول اور قواعد کا مجموعہ ہے جنہیں مہذب ریاستیں اپنے باہمی تعلقات میں واجب التعمیل سمجھتی ہیں۔"

 

اس قانون کو کسی بالاتر قانون ساز اتھارٹی نے وضع نہیں کیا ہے کہ اس کی پیروی کرنے پر یہ ریاستیں مجبور ہوں اور اس میں رد و بدل کرنے کا انہیں اختیار نہ ہو۔ بلکہ اس کو زیادہ تر خود انہوں نے باہمی رضامندی، معاہدات اور رواج (Custom) کے ذریعے اپنی آسانی کے لیے وضع کیا ہے اور وضع کرنے والی ہونے کی حیثیت سے انہی کو یہ حق پہنچتا ہے کہ جس طرح چاہیں اسے اپنے حسبِ منشا بنا لیں اور جب چاہیں (معاہدے سے نکل کر یا نئے رواج قائم کر کے) اس کو چھوڑ کر کوئی اور رواج یا قانون وضع کر لیں۔ پس زیادہ صحیح یہ ہے کہ مغربی قومیں بین الاقوامی قانون کی پیرو نہیں ہیں بلکہ بین الاقوامی قانون بڑی حد تک ان کا پیرو ہے۔ ان کی آسانی کے لیے جو طریقہ وہ اختیار کریں وہی قانون بن جاتا ہے اور جس طریقے کو وہ ترک کر دیں وہ قانون نہیں رہتا۔ آج جن اصولوں کی پابندی پر مغربی قومیں متفق ہیں وہ آج کا بین الاقوامی قانون ہے۔ مگر یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ کل کا قانون بھی ہو۔ کل اگر یہ اصول بدل کر انہوں کچھ دوسرے اصول وضع کر لیے تو یہ قانون منسوخ ہو جائے گا اور وہ نئے اصول بین الاقوامی قانون بن جائیں گے۔

 

یہی وجہ ہے کہ بعض ممتاز علمائے مغرب کی رائے میں اس رواج کو لفظ "قانون" سے تعبیر کرنا ہی پوری طرح درست نہیں۔ آسٹن (John Austin) اپنی کتاب "حدودِ علمِ قانون کی تعیین" (The Province of Jurisprudence Determined) میں لکھتا ہے: "بین الاقوامی قانون کی قوت کا انحصار محض رائے عام کی تائید پر ہے (اور اس کی کوئی حقیقی پابند کرانے والی اتھارٹی نہیں)، اس لیے وہ صحیح معنوں میں قانون نہیں کہا جا سکتا (بلکہ مثبت اخلاقیات Positive Morality ہے)۔"

 

لارڈ سالسبری (Lord Salisbury) کہتا ہے: "اسے کوئی عدالت بزور نافذ نہیں کر سکتی، اس لیے اسے لفظ قانون سے تعبیر کرنا گمراہ کن ہے۔"

 

۱۸۹۵ء میں امریکہ کے سپریم کورٹ نے ایک مقدمے (Hilton v. Guyot) کا فیصلہ کرتے ہوئے یہ تصریح کی تھی: "بین الاقوامی قانون، قومی قانون کے برعکس، کسی ایک ریاست کے قانون ساز ادارے کی پیداوار نہیں ہوتا... بلکہ یہ مہذب ریاستوں کی عمومی رضامندی پر مبنی ہوتا ہے۔"

 

لارڈ برکنہیڈ اپنی کتاب قانونِ بین الاقوامی (International Law) میں کہتا ہے کہ اس قانون کا بقاء و استحکام صرف تین چیزوں پر ہے:

۱۔ قومی عزت کا لحاظ جو بین الاقوامی رائے عام کے اثر سے پیدا ہوتا ہے (اگرچہ وہ اکثر ضروریاتِ وقت کے اثر سے دب بھی جاتا ہے)۔

۲۔ اہم ترین قومی مقاصد کے سوا چھوٹے چھوٹے مقاصد کے لیے جنگ کے نقصانات برداشت کرنے پر آمادہ نہ ہونا۔

۳۔ قوموں کا اس امر کو محسوس کر لینا کہ یہ طے شدہ قوانین ان کی اپنی آسانی کے لیے ہیں اور ان کا بقاء اس پر منحصر ہے کہ وہ فرداً فرداً ان قوانین کی اطاعت کرتی رہیں۔

 

ایک دوسری جگہ برکنہیڈ لکھتا ہے: "اصولاً بین الاقوامی قانون کے احکام کی پشت پر رائے عام اور حکومتِ متعلقہ کے خود اپنے رضاکارانہ انقیاد کے سوا کوئی مجبور کن طاقت نہیں ہے۔"

 

ان اقوال سے ظاہر ہوتا ہے کہ بین الاقوامی قانون محض چند قوموں کا ٹھہرایا ہوا رواج اور معاہدات کا مجموعہ ہے جس کی نہ کوئی حتمی قانونی بالادستی ہے اور نہ کوئی مستحکم بنیاد۔

 

بین الاقوامی قانون کے عناصر ترکیبی:

 

اس قانون کی ترکیب میں مختلف عناصر شامل ہیں اور ان عناصر کی قانونی قدر و قیمت کے بھی مختلف مدارج ہیں۔ بعض عناصر وہ ہیں جنہیں وضعِ قانون میں صرف اخلاقی اثر حاصل ہے، اور بعض وہ ہیں جو صرف مادی اثر رکھتے ہیں اور بسا اوقات ان کا اثر اخلاقی اثر کے خلاف واقع ہوتا ہے۔ آئندہ مباحث کو سمجھنے کے لیے بین الاقوامی قانون کے ان مآخذ کی تشریح ضروری ہے:

 

۱۔ علمائے قانون کی آراء: گروٹیوس سے لے کر آج تک بین الاقوامی قانون کے جتنے ماہرین گزرے ہیں سب کے خیالات کتابوں میں موجود ہیں اور قانون کی تدوین میں انہوں نے بڑا حصہ لیا ہے۔ لیکن ان کی آراء کی قانونی قیمت صرف اتنی ہے کہ پیچیدہ بین الاقوامی مسائل میں ان سے مشورہ کر لیا جاتا ہے اور ان کی تحریریں قانون کے موجودہ اصولوں اور رواج کی شہادت فراہم کرتی ہیں۔ باقی رہا فیصلہ، تو اس کا ان پر براہِ راست انحصار نہیں ہے۔ لارنس اپنی کتاب "اصولِ قانون بین الاقوامی" (Principles of International Law) میں لکھتا ہے: "مختلف فیہ امور میں ان کے خیالات کا عزت کے ساتھ حوالہ دیا جاتا ہے، اور ان پر غور کیا جاتا ہے، مگر وہ کسی حیثیت سے بھی فیصلہ کن نہیں ہیں۔" برکنہیڈ لکھتا ہے: "وہ کوئی قانون نہیں بناتے بلکہ ہم کو صرف یہ بتاتے ہیں کہ فی الواقع سلطنتوں کا عمل کس چیز پر ہے۔" جسٹس گرے اپنے ایک فیصلے میں لکھتا ہے: "اس قسم کے مصنفین کی کتابوں سے عدالتوں میں جو حوالے دیے جاتے ہیں ان کا منشا یہ بتانا نہیں ہوتا کہ قانون کیا ہونا چاہیے، بلکہ صرف اس امر کی ایک معتبر شہادت پیش کرنا ہوتا ہے کہ قانون فی الواقع کیا ہے۔" چیف جسٹس کاک برن (Cockburn) اپنے ایک فیصلے میں لکھتا ہے: "ان مصنفین کی آراء خود کوئی قانون نہیں بنا سکتیں، البتہ مہذب اقوام کی رضامندی ان کو قانون کی حیثیت دے سکتی ہے۔" ان مستند اقوال سے ثابت ہوتا ہے کہ قانونِ بین الملل کے ماہرین کی تحریروں کو براہِ راست کوئی تشریعی قوت حاصل نہیں ہے۔

 

۲۔ بین الاقوامی معاہدات: ان معاہدات کی دو قسمیں ہیں: ایک قانون ساز (Law-making) یا عمومی، دوسرے غیر قانون ساز یا خصوصی۔

       قانون ساز معاہدات: یہ وہ ہیں جن میں تمام یا اکثر ریاستیں باہمی رضامندی سے کسی عمومی اصول یا قاعدے پر متفق ہو جائیں، جیسے ۱۸۵۶ء کا اعلانِ پیرس، ۱۸۶۴ء اور ۱۹۰۶ء کے جنیوا کنونشنز، ۱۸۹۹ء اور ۱۹۰۷ء کے ہیگ کنونشنز، ۱۹۲۸ء کا کیلاگ-بریاں معاہدہ وغیرہ۔ یہ معاہدات ان ریاستوں کے لیے واجب العمل ہیں جو ان پر دستخط کر کے ان کی توثیق (Ratification) کر دیں۔ مگر ہر ریاست کو معاہدے کی شرائط کے مطابق اس سے نکلنے کا حق بھی حاصل ہو سکتا ہے۔ ایسے معاہدات بین الاقوامی قانون کے اہم مآخذ ہیں۔

       خصوصی معاہدات: ان میں وہ سمجھوتے شامل ہیں جو دو یا چند ریاستوں نے مل کر اپنے مخصوص معاملات کی انجام دہی کے لیے طے کیے ہوں۔ یہ معاہدات عموماً عمومی بین الاقوامی قانون کے اصول وضع نہیں کرتے، بلکہ صرف فریقین کے باہمی تعلقات کو منظم کرتے ہیں۔ لارنس کہتا ہے: "یہ دوسری قسم کے معاہدات اس بات کی علامت نہیں ہیں کہ بین الاقوامی قانون کیا ہے؟ بلکہ بسا اوقات اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ فریقین عمومی قانون سے ہٹ کر کیا انتظام کر رہے ہیں۔"

 

    اگرچہ قانون ساز معاہدات اصول وضع کرتے ہیں، لیکن ان اصولوں کا نفاذ اور بقاء بھی ریاستوں کے متفقہ تعامل اور رضامندی پر منحصر ہے۔ اگر کوئی بڑی ریاست یا چند ریاستیں مل کر ان کو توڑ دیں تو اکثر ان کی عملی حیثیت ختم ہو جاتی ہے۔

 

۳۔ بین الاقوامی عدالتوں اور ٹریبونلز کے فیصلے: بین الاقوامی عدالتِ انصاف (ICJ)، اس سے پہلے کی مستقل بین الاقوامی عدالتِ انصاف (PCIJ)، اور مختلف ثالثی ٹریبونلز کے فیصلے بھی قانون کا اہم ماخذ ہیں۔ یہ فیصلے اگرچہ براہِ راست صرف مقدمے کے فریقین پر لاگو ہوتے ہیں، لیکن یہ موجودہ قانون کی تشریح کرتے ہیں اور نئے اصولوں کی وضاحت میں مدد دیتے ہیں۔ اس لیے انہیں قانون کی ترقی میں اہم مقام حاصل ہے۔ اسی طرح قومی عدالتوں، خصوصاً پرائز کورٹس (Prize Courts) کے فیصلے بھی، جو بین الاقوامی قانون کے نکات پر مبنی ہوں، بالواسطہ طور پر قانون کی شہادت فراہم کرتے ہیں۔

 

۴۔ ریاستوں کا تعامل اور رواج (Custom): ریاستوں کا مسلسل اور یکساں طرزِ عمل، جسے وہ قانونی طور پر واجب التعمیل سمجھتی ہوں (opinio juris)، بین الاقوامی رواج کو جنم دیتا ہے جو قانون کا ایک بنیادی ماخذ ہے۔ بہت سے بین الاقوامی قوانین، خصوصاً قوانینِ جنگ، ابتداً رواج ہی کے ذریعے وجود میں آئے۔

 

۵۔ قانون کے عمومی اصول: مہذب اقوام کے تسلیم کردہ قانون کے عمومی اصول، جو ان کے قومی قوانین میں مشترک ہوں، بھی بین الاقوامی قانون کا ماخذ سمجھے جاتے ہیں۔ (Statute of the ICJ, Art. 38)

 

۶۔ ریاستوں کی داخلی ہدایات اور قوانین: مختلف ریاستیں اپنی افواج، بحریہ یا سفارت کاروں کے لیے جو ہدایات جاری کرتی ہیں یا جو داخلی قوانین بین الاقوامی معاملات سے متعلق بناتی ہیں، وہ بھی بالواسطہ طور پر بین الاقوامی قانون کے رواج یا اصولوں کی شہادت فراہم کر سکتی ہیں۔

 

بین الاقوامی قانون کی ناپائیداری:

 

یہ وہ عناصر ہیں جن کے مجموعی اشتراک و امتزاج سے بین الاقوامی قانون بنتا ہے۔ ان میں سے کوئی بھی عنصر بذاتِ خود ایسی حتمی تشریعی قوت نہیں رکھتا جو اقوامِ عالم کو غیر مشروط طور پر پابند بنانے والی ہو۔ ظاہر ہے کہ جن ستونوں میں بذاتِ خود کمزوری ہو، ان پر کھڑی کی گئی عمارت بھی کمزور ہو گی۔ اس قانون کی ترکیب میں خرابی کی بے شمار صورتیں مضمر ہیں۔ اس میں ہر چیز ریاستوں کی مفاہمت اور رضامندی پر موقوف ہے۔ جس کو وہ نہ مانیں یا کچھ عرصہ تک مانتے رہنے کے بعد چھوڑ دیں، وہ قانون نہیں رہتا۔ اس طرح یہ قانون بڑی حد تک ریاستوں کے سیاسی مصالح اور اغراض و مطامع کا آلہ کار بن کر رہ گیا ہے، جسے بنانے اور حسبِ منشا کام میں لانے اور حسبِ ضرورت بدلنے کے اختیارات ریاستوں، خصوصاً طاقتور ریاستوں، کے ہاتھ میں ہیں۔

 

پھر اس میں تاویل و تعبیر کی اتنی گنجائش، اختلافِ رائے کے لیے اتنی لچک، اور واجبات سے بری الذمہ ہونے کے لیے اتنی کشادگی رکھی گئی ہے کہ ہر ریاست اپنی اغراض کے مطابق جب چاہے اسے توڑ مروڑ سکتی ہے یا نظر انداز کر سکتی ہے۔ گویا خود قانون ہی نے اپنے اندر قانون شکنی کے لیے بھی کافی وسعت مہیا کر رکھی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ "قانون" آج صرف اس لیے قائم ہے کہ ریاستیں خود اپنی ضروریات اور باہمی انحصار کے باعث ایک ضابطے کو قائم رکھنا چاہتی ہیں، ورنہ اگر وہ اپنی مختلف و متضاد سیاسی اغراض کے لیے اس کی وسعتوں اور کمزوریوں سے فائدہ اٹھانا شروع کر دیں تو بین الاقوامی قانون کا یہ نظام درہم برہم ہو سکتا ہے۔

 

بین الاقوامی قانون کا شعبۂ جنگ:

 

لیکن اس قانون کا جو حصہ قانونِ جنگ (Law of War / International Humanitarian Law) سے موسوم ہے، اس کی بنیاد صلح کے قانون سے بھی کمزور ہے۔ مغرب کا قانونِ جنگ حقیقتاً کسی ٹھوس اخلاقی بنیاد پر قائم نہیں ہے، بلکہ زیادہ تر "مراعاتِ باہمی" (Reciprocity) اور "فوجی ضرورت" (Military Necessity) کے متضاد اصولوں کے درمیان توازن قائم رکھنے کی کوشش ہے۔ ریاستیں جنگ کے وحشیانہ اثرات سے خود اپنے فوجیوں اور شہریوں کو بچانے کی خواہش مند ہوتی ہیں، اسی لیے وہ باہم مل کر یہ طے کر لیتی ہیں کہ جب کبھی ہم ایک دوسرے سے لڑیں گے تو فلاں فلاں قواعد کی پیروی کریں گے۔ مثال کے طور پر ۱۹۴۹ء کے جنیوا کنونشنز میں اسیرانِ جنگ اور شہری آبادی کے لیے بے شمار رعایات اور تحفظات مقرر کیے گئے ہیں۔ ان وسیع رعایتوں پر ریاستوں کے متفق ہو جانے کی وجہ صرف یہ نہیں تھی کہ وہ انسانیت کا احترام کرتی ہیں، بلکہ ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ ہر ریاست خود اپنے شہریوں اور سپاہیوں کے لیے بھی اسی قسم کے سلوک کی خواہش مند تھی۔ اگر آج کوئی ریاست ان معاہدات کو توڑ دے اور مخالف کے شہریوں یا اسیروں کے ساتھ وحشیانہ سلوک کرنے لگے، تو دوسرا فریق بھی انتقاماً یا "مراعاتِ باہمی" کے اصول کے تحت ویسا ہی کرنے پر مائل ہو سکتا ہے، جس سے قانون کی دھجیاں بکھر جاتی ہیں۔ ۱۰۱

 

یہی حال ان قوانین کا بھی ہے جو بعض ہتھیاروں (مثلاً کیمیائی، حیاتیاتی) کے استعمال، جنگی ہسپتالوں اور طبی عملے کے احترام، اور ایسے ہی دوسرے جنگی معاملات سے متعلق ہیں۔ ان کے بارے میں جتنے معاہدات ہیں، ان کی بنیاد بھی بڑی حد تک باہمی مفاد اور "خوفِ انتقام" پر ہے۔

 

جنگی قوانین کی معنوی حیثیت:

 

پس یہ قواعد و ضوابط جن کو جنگ کے "مہذب" قوانین کہا جاتا ہے، دراصل قوانین سے زیادہ معاہدے ہیں۔ وہ صرف اسی صورت میں نافذ ہو سکتے ہیں جب تمام متعلقہ فریق ان کو تسلیم کر لیں۔ اور ہر ریاست صرف اسی وقت تک ان کی پابند رہ سکتی ہے جب تک دوسری ریاستیں بھی ان کی پابند رہیں۔ جوں ہی کسی بڑی ریاست یا چند ریاستوں کے کسی مجموعے نے ان کی خلاف ورزی کی، باقی ریاستیں بھی اپنی پابندیوں سے خود کو آزاد سمجھنے لگتی ہیں۔ ایسے قواعد کسی طرح غیر مشروط "قانون" نہیں کہلا سکتے۔ قانون کی تعریف یہ ہے کہ ہر فرد فی حد ذاتہٖ اس کی پابندی پر (کم از کم اصولی طور پر) مجبور ہو، بلالحاظ اس کے کہ دوسرے افراد اس کی پابندی کریں یا نہ کریں۔ جس "قانون" میں ایک فرد کی پابندی دوسرے افراد کی پابندی پر موقوف ہو، وہ درحقیقت قانون نہیں بلکہ معاہدہ ہے، اور معاہدہ خواہ کیسے ہی عمدہ قواعد و ضوابط پر مشتمل ہو، اس کی اخلاقی بنیاد کمزور رہتی ہے اگر وہ محض خود غرضی اور باہمی لین دین پر مبنی ہو، نہ کہ اخلاقی فرض کے احساس پر۔

 

یہ صرف ہمارا ہی خیال نہیں ہے، خود یورپ کے بڑے بڑے اہلِ سیاست اور علمائے قانون بھی یہی کہتے ہیں۔ سر تھامس بارکلے (Barclay) اپنے ایک مضمون کے آخر میں لکھتا ہے: "جنگ کے عمل کو منضبط کرنے کے لیے جو ضوابط بنائے گئے ہیں، ان پر بہت زیادہ اعتماد نہیں کرنا چاہیے۔ جنگی ضروریات، جوش اور ہیجانِ جذبات جو ہمیشہ حالتِ جنگ میں برسرِ کار آجاتے ہیں، ان بہتر سے بہتر قواعد کو بھی توڑ ڈالتے ہیں جنہیں ڈپلومیسی اپنی انتہائی ذہانت کے ساتھ وضع کر سکتی ہے۔ تاہم یہ قواعد اس رائے عامہ کی حالت کو ظاہر کرتے ہیں جو مہذب قوموں میں وحشیانہ اعمال کے ارتکاب کی روک تھام کرتی ہے۔" ۱۰۲

 

جنگِ عظیم (اول) سے کچھ عرصہ قبل جرمنی کے محکمۂ جنگ کی جانب سے ایک کتاب شائع کی گئی تھی جس کا نام "بری جنگ کے لیے ہدایت نامہ" (Kriegsbrauch im Landkriege) تھا۔ اس کے ابتدائی فقرات یہ ہیں: "قانونِ جنگ کوئی ایسا واجب العمل دستور نہیں ہے جسے بین الاقوامی قانون نے پیدا کیا ہو۔ بلکہ وہ محض ایک مراعاتِ باہمی کا سمجھوتہ اور مطلق آزادیٔ عمل کی ایک تجدید ہے جسے رواج اور مفاہمت، نیک طبعی اور ریاکاری نے مل جل کر پیدا کیا ہے، مگر جس کی پابندی کے لیے کوئی مجبور کن قوت بجز ایک قطعی خوفِ انتقام کے نہیں ہے۔" ۱۰۳

 

یہ "خوفِ انتقام" درحقیقت یورپ کے قوانینِ جنگ کا ایک بڑا پشتیبان ہے۔ گزشتہ جنگِ عظیم (اول) میں جب ریاستوں کے جوشِ انتقام نے اس خوفِ انتقام کو دلوں سے دور کر دیا اور بعض طاقتوں نے جوابی کارروائی کے خطرے سے بے پروا ہو کر ہیگ اور جنیوا کے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی شروع کر دی، تو دنیا نے دیکھ لیا کہ وہ تمام ریاستیں جنہیں "مہذب قوانینِ جنگ" کے احترام کا دعویٰ تھا، دفعتاً قانون کی پابندی سے آزاد ہو گئیں۔ ہر گناہ جو ایک فریق نے کیا، اس کے مخالف فریق کے لیے صواب بن گیا۔ ہر قانون شکنی جو ایک ریاست نے کی، دوسرے کے لیے جائز ہو گئی۔ تمام یورپ نے مل کر ان قوانینِ جنگ کی دھجیاں اڑا دیں جنہیں خود یورپ ہی نے سات برس پہلے ہیگ اور جنیوا میں وضع کیا تھا۔ اگر یہ قوانین کسی حقیقی اخلاقی احساس پر مبنی ہوتے تو کیا اسی طرح ان کے چیتھڑے بکھیرے جاتے؟

 

جنگی ضروریات کا غالب تر قانون:

 

اس کے بعد ان قوانین میں جو کچھ جان باقی رہ جاتی ہے اس کو "جنگی ضرورت" (Military Necessity) کا غالب تر قانون اور بھی مضمحل کر دیتا ہے۔ میدانِ جنگ کی وقتی ضروریات ہمیشہ ان قوانین سے ٹکراتی رہتی ہیں اور ان کے مقابلے میں کتابوں کے لکھے ہوئے اور صلح کانفرنسوں کے بنائے ہوئے قوانین کو ہمیشہ شکست نصیب ہوتی رہتی ہے۔ پروفیسر نیپولڈ لکھتا ہے: "قانونِ جنگ کے ضوابط میں قانونِ بین الاقوامی کے دوسرے شعبوں کی بہ نسبت تناقض اور اختلاف بہت زیادہ واقع ہوتا ہے، کیونکہ جنگی قوانین اور جنگی ضروریات میں بآسانی تصادم ہو جایا کرتا ہے۔ اس بنا پر قانونِ جنگ کو بین الاقوامی قوانین میں شامل رکھنے کا نتیجہ صرف یہی ہو سکتا ہے کہ جو بے ثباتی و ناپائیداری قانونِ جنگ کو حاصل ہے وہی عام بین الاقوامی قوانین کو بھی حاصل ہو جائے۔" ۱۰۴

 

ایک دوسرے موقع پر یہی مصنف لکھتا ہے: "جنگ ہمیشہ جنگی ضروریات کے تابع رہے گی نہ کہ کسی اور چیز کے تابع... اس خود امدادی کی حالت کے لیے جو قانونی ضابطے وضع کیے جائیں ان کی تدوین میں کامل اعتدال اور خاص حدود کو ملحوظ رکھنا پڑے گا۔ اگر ان حدود کو ملحوظ نہ رکھا گیا تو قرینِ قیاس یہ ہے کہ قانونی قیود کلیتاً توڑ دی جائیں گی۔ اس خیال کی صداقت کو جنگِ عظیم نے اچھی طرح ظاہر کر دیا ہے۔ لہٰذا آئندہ جو قوانینِ جنگ وضع کیے جائیں ان میں اس کو ہمیشہ مدِنظر رکھنا ضروری ہو گا۔" ۱۰۵

 

نمائش اور حقیقت کا فرق:

 

جس وقت ہیگ کانفرنس میں قوانینِ جنگ وضع کیے جا رہے تھے، یورپ کے اہلِ سیاست پر نمائشِ تہذیب کا اس قدر غلبہ تھا کہ انہوں نے اپنی قوموں کے حقیقی جنگی رجحانات و میلانات اور ان کی جنگی عادات کو نظر انداز کر کے کچھ اس قسم کے قوانین بنا لیے جو دیکھنے میں تو نہایت مہذب، نہایت شاندار اور حد درجہ انسانیت پرور تھے، مگر فی الواقع ان کے فوجی گروہ ان کی پابندی کرنے کے لیے ہرگز راضی نہ تھے۔ جرمنی کے فوجی نمائندے بیرن مارشل فان بیبرسٹائن (Marschall von Bieberstein) نے کانفرنس کی ابتدا ہی میں یہ تنبیہ کر دی تھی کہ: "جو بین الاقوامی قانون ہم بنانا چاہتے ہیں اسے صرف انہی دفعات پر مشتمل ہونا چاہیے جن کی تعمیل جنگی نقطۂ نظر سے مخصوص احوال میں بھی ممکن ہو۔"

 

لیکن اس وقت اس تنبیہ کی پروا نہیں کی گئی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہیگ کانفرنس کے چند سال بعد پہلی مرتبہ جب طرابلس اور بلقان کی لڑائیوں میں ان قوانین کی عملی تنفیذ کا موقع آیا تو ان کی علانیہ خلاف ورزی کی گئی، اور اس کے سال بھر بعد جنگِ عظیم کے سیلاب نے تو یک لخت تمام بند توڑ کر رکھ دیے۔ یہ حال دیکھ کر یورپ کے اہلِ سیاست اور علمائے قانون کو عقل آئی اور انہوں نے تسلیم کرنا شروع کیا کہ جنگ کو خیالی قوانین اور نمائشی ضوابط سے محدود کرنے کی کوشش قطعاً بے سود ہے۔ اس کے بعد سے ان لوگوں نے جس قسم کے خیالات ظاہر کرنے شروع کیے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اب علمائے قانون کا میلان کس طرف ہے۔

 

ایک جرمن عالم میکس ہوبر (Max Huber) لکھتا ہے:

"مستقبل میں بین الاقوامی قانون کے فن کا یہ فرض ہونا چاہیے کہ وہ تمام خیالی اور مبہم قوانین سے میدان کو صاف کر کے یقینی حدود قائم کرے۔ بین الاقوامی قانون کی فوری اور وسیع ترقی کی خواہش اور امید سے مغلوب ہو کر ایسا نہ ہو کہ وہ 'ناتمامی' اور 'غیر یقینیت' سے مطمئن ہو جائے۔ اس کو سختی کے ساتھ ان تمام ظاہر فریبیوں کو مٹا دینا چاہیے جنہیں ڈپلومیسی نے محض رائے عام کی تسکینِ خاطر کے لیے بین الاقوامی قانون کی ترقی کا بے معنی طلسم بنا کر کھڑا کر دیا تھا۔" ۱۰۶

 

پروفیسر نیپولڈ تو اس ناکامی سے یہاں تک متاثر ہوا ہے کہ قانونِ جنگ کو بین الاقوامی قانون کی حدود سے کلیتاً خارج کر دینے کا مشورہ دیتا ہے۔ بلکہ اسے تو یہ بھی تسلیم کرنے سے انکار ہے کہ جنگ فی الواقع قانون سے کوئی تعلق رکھتی ہے یا اس کو کسی قانون سے محدود و مقید کرنا درست ہو سکتا ہے۔ وہ کہتا ہے:

"بین الاقوامی قانون مسئلہ جنگ سے تعرض کرنے میں اب تک اپنی اصلی حد سے بہت تجاوز کرتا رہا ہے۔ جنگ کو قانونی حیثیت سے تعبیر کرنے کی کوشش میں اسے یہ نظریہ قائم کرنا پڑا کہ جنگ ایک قانونی ادارہ (Legal Institution) ہے۔ اور اس نظری بحث میں وہ اکثر اوقات حقائق کی حدود سے بہت دور نکل گیا۔ ان نظریہ دانوں نے اس حقیقت کو نظر انداز کر دیا کہ قانون کبھی جنگ پر حاوی نہیں ہو سکتا، اور نہ تمام حیثیات سے اس کو ضبط میں لا سکتا ہے۔ اس کی سیدھی سی وجہ یہ ہے کہ جنگ فی نفسہٖ قانون کی نقیض ہے۔ لڑائی میں قانونی ملحوظات نہیں بلکہ جنگی ضروریات انسان کے لیے محرکِ عمل ہوا کرتی ہیں، اور یہ ایک واقعہ ہے کہ جنگ کوئی قانونی ادارہ نہیں ہے، بلکہ قوت سے کام نکالنے کی کوشش ہے۔ وہ ایک کشمکش ہے، قوت کا استعمال ہے، اور اس حیثیت سے کہ وہ بزور اپنا دعویٰ منوانے کے لیے لڑی جاتی ہے، خود امدادی (Self-help) کا فعل ہے۔ فنِ حرب میں جنگ کی یہی تعریف کی گئی ہے اور اسی تعریف پر بین الاقوامی قانون کو بھی قناعت کرنی چاہیے۔ اس تعریف سے اگر قطع نظر کر بھی لیا جائے تو اب یہ ظاہر ہو چکا ہے کہ جنگ بحیثیتِ مجموعی قانون کی حد سے خارج ہے۔ اگرچہ اس کو مختلف صورتوں سے ضابطے میں لانے کی کوششیں کی گئیں اور ایک جدید قانونِ جنگ مدون بھی کر لیا گیا، مگر اصلی واقعہ جوں کا توں رہا۔" ۱۰۷

 

ایک اور ماہرِ قانون اے ہوروِٹس (Hurwicz) لکھتا ہے:

"قانون، طبیعتِ جنگ سے اس قدر بے لگاؤ ہے کہ جو بین الاقوامی قانونِ جنگ حالتِ جنگ میں سلطنتوں کے تعلقات کو منضبط کرتا ہے، اس کی نوعیت محض بے ضابطہ (Anarchical) ہے۔ بین الاقوامی قانونِ جنگ اپنی عین فطرت کے لحاظ سے صرف ایک قراردادِ باہمی کی کوشش ہے اور رہے گا۔" ۱۰۸

 

اسی رائے سے میکس ہوبر نے بھی اتفاق کیا ہے۔ وہ کہتا ہے:

"جنگِ عظیم سے پہلے ہی اس خیال نے جڑ پکڑنی شروع کر دی تھی کہ جنگ عہدِ وحشت کے باقیات میں سے ہے اور قوانینِ جنگ کی غیر معمولی ترقی ایک قسم کی ڈھٹ بندی اور شعبدہ گری سے زیادہ نہیں ہے، کیونکہ وہ ہم کو حقیقتِ جنگ کے بارے میں دھوکہ دیتی ہے اور سیاست کے اس بنیادی مسئلے سے غافل کر دیتی ہے کہ ہمیں یا تو پرامن قانونی حالت قائم رکھنی چاہیے یا جبر و زور کی غیر قانونی حالت میں مبتلا ہو جانا چاہیے۔" ۱۰۹

 

ایک دوسرے موقع پر یہی مصنف لکھتا ہے:

"جنگ کو ایک قانونی ادارہ سمجھ کر اس کی کارروائیوں کو ایک عدالت کے مقدمے کی طرح ضابطے میں لانے کا تخیل بین الاقوامی قانون کی خطا ہے جو روم اور قرونِ وسطیٰ کے تخیلات میں سے ہے۔" ۱۱۰

 

یہ ان لوگوں کے اقوال ہیں جو یورپ میں بین الاقوامی قانون کے مسلمہ ماہر ہیں۔ ان کو اپنے مایہ ناز قوانینِ جنگ کی کمزوری و پیچیدگی کا اعتراف کرتے ہوئے یقیناً اذیت ہوتی ہو گی، مگر جب مغرب کی پہلی بین الاقوامی جنگ ہی نے یہ ثابت کر دیا کہ اتنی محنتوں سے انہوں نے قانونِ جنگ کا جو عالی شان قصر تعمیر کیا ہے وہ مکڑی کے جالے اور پانی کے بلبلے سے بھی زیادہ ناپائدار ہے، تو انہیں خوف پیدا ہو گیا کہ کہیں بین الاقوامی قانون کے اس شعبۂ جنگ کی ناپائیداری پورے بین الاقوامی قانون ہی کا اعتبار نہ کھو دے۔ اس لیے انہوں نے صاف صاف اعتراف کر لیا کہ جنگ کو کسی ضابطے اور قانون کے تحت لانا سرے سے ممکن ہی نہیں ہے۔ جنگ اور قانون میں ایک فطری تناقض ہے، جنگ قانون کی عین طبیعت کے خلاف ہے، اور جنگ کا اصلی قانون وہ نہیں ہے جو ہیگ اور جنیوا میں مرتب کیا گیا ہے، بلکہ وہ ہے جسے میدانِ جنگ میں توپیں اور سنگینیں مدون کرتی ہیں! یہ ہے اس قانونِ جنگ کی حقیقت جسے بیسویں صدی کا مہذب قانون کہا جاتا ہے۔

 

فوجی اور قانونی گروہوں کا اختلاف:

 

اس نمائش اور حقیقت کے اختلاف کی اصلی وجہ یہ ہے کہ یورپ میں ابتداء سے دو مختلف خیال کے گروہ رہے ہیں۔

 

   قانونی و سیاسی گروہ: ایک گروہ فلاسفۂ اخلاق اور علمائے قانون اور سیاسی مدبرین کا ہے جو زیادہ تر نمائش و تصنع کی خاطر، اور کمتر لطیف احساسات سے مغلوب ہو کر، جنگ کو اخلاقی حدود کا پابند بنانے اور اسے محض ایک مہذب مقابلے کی صورت میں ڈھال دینے کی کوشش کر رہا ہے۔

   فوجی گروہ: اور دوسرا گروہ فوجی ہے جس کے نزدیک جنگ ایک خود امدادی (Self-help) کا فعل ہے اور انسان تمام قانونی تدابیر میں ناکام ہو کر اسے اختیار ہی اس لیے کرتا ہے کہ ہر ممکن طریقے سے دشمن کو مغلوب کر کے اپنا مقصد حاصل کرے۔

 

ان دونوں زاویہ ہائے نظر میں اصولی تباین (فرق) ہے۔ ایک گروہ صرف حصولِ مقصد کو اصلِ کار سمجھتا ہے، دوسرا تہذیب و اخلاق کو غالب رکھنے کا خواہشمند ہے۔ ایک گروہ کی رائے میں قانون کو توڑ کر قانون ہی کی پابندی کرنا بے معنی ہے، دوسرے گروہ کے نزدیک قانون کی پابندی تہذیب کی خصوصیات میں سے ہے، اس لیے مہذب انسانوں کو قانون شکنی بھی ایک قسم کی پابندیٔ قانون کے ساتھ کرنی چاہیے۔

 

یہ اصولی اختلاف صرف فکر و خیال ہی کی حد تک محدود نہیں ہے بلکہ دونوں کے دوائرِ عمل بھی مختلف ہیں۔ قانونی و سیاسی گروہ کو بین الاقوامی کانفرنسوں اور بین الدولی مجلسوں پر اقتدار حاصل ہے، اس لیے وہ اپنے اثرات سے کام لے کر صفحۂ کاغذ پر جنگ کو ایک خوشنما شکنجے میں خوب جکڑ دیتا ہے۔ مگر عرصۂ جنگ میں اس شکنجے کی بندش کو قائم رکھنا اس کے بس کا کام نہیں ہے۔ فوجوں کی قیادت و رہنمائی، جنگی محکموں کی تنظیم و ترتیب، قوائے حربیہ کی ہدایت و نگرانی، اور حالتِ جنگ کی سربراہی کلیتاً فوجی گروہ کے ہاتھ میں ہے۔ اس لیے جب جنگ کا موقع آتا ہے تو وہ اس خوشنما شکنجے کا ایک ایک تار الگ کر کے رکھ دیتا ہے اور قانونی گروہ کے علی الرغم، عمل کی دنیا میں وہ سب کچھ کرتا ہے جو ہیگ کے قانون میں ناجائز مگر "ضروریاتِ جنگ" کے قانون میں جائز ہے۔

 

ظاہر ہے کہ اصل اعتبار قول کا نہیں بلکہ عمل کا ہے۔ کہنے والا کچھ کہا کرے، ہمیں تو یہ دیکھنا ہے کہ کرنے والا کیا کرتا ہے۔ ہمارے نزدیک مغرب کا اصلی قانونِ جنگ وہ نہیں ہے جو کاغذوں میں لکھا ہوا ہے، بلکہ وہ ہے جس پر اہلِ مغرب حالتِ جنگ میں عمل کرتے ہیں۔ اس لیے ہم اعتبار کے قابل قانونی گروہ کو نہیں بلکہ فوجی گروہ کو سمجھتے ہیں، جو دراصل واحد بااختیار گروہ ہے۔ قوانینِ جنگ کے متعلق اس گروہ کے جو کچھ خیالات ہیں ان کے مطالعے سے اہلِ مغرب کا اصلی میلانِ طبع معلوم ہوتا ہے اور وہی درحقیقت معلوم کرنے کے قابل ہے۔

 

یورپ کا مشہور ماہرِ حربیات کلاؤزوٹز (Clausewitz) اپنی کتاب "جنگ پر" (Vom Kriege) میں لکھتا ہے:

"قوانینِ جنگ محض خود عائد کردہ قیود ہیں، تقریباً ناقابلِ ادراک، اور مشکل سے قابلِ ذکر، جنہیں اصطلاح میں 'رواجاتِ جنگ' کہا جاتا ہے۔.. اب محبانِ انسانیت کے لیے اپنے خیال میں یہ سمجھ لینا بہت آسان ہے کہ دشمن کو کسی بڑی خونریزی کے بغیر نہتا اور مغلوب کر لینے کا ایک دانشمندانہ طریقہ موجود ہے اور یہی فنِ حرب کا مناسب مقصد ہے۔ لیکن یہ خیال خواہ کتنا ہی دل خوش کن معلوم ہو، حقیقتاً بالکل غلط ہے اور اس کو جتنی جلدی دور کر دیا جائے اتنا ہی بہتر ہے۔ کیونکہ ایسی ایک خوفناک چیز میں جیسی کہ جنگ ہے، رحم و کرم کی روح کو داخل کرنے سے جو خرابیاں پیدا ہوتی ہیں وہ اور بھی زیادہ بری ہیں... خود جنگ کے فلسفے ہی میں نرمی و اعتدال کے اصول کو داخل کرنا ایک غلطی ہے... جنگ دراصل ایک جبر اور زبردستی کا عمل ہے جس کا ارتکاب کسی قسم کے حدود و قیود کی پابندی قبول نہیں کر سکتا۔" ۱۱۱

 

جرمنی کی "کتابِ جنگ" جس کا حوالہ اوپر دیا جا چکا ہے، ایک موقع پر ضروریاتِ جنگ کے قانون کو اس طرح بیان کرتی ہے:

"فوجی سپاہی کو تاریخ پر نظر ڈالنی چاہیے۔ وہ دیکھے گا کہ ایک قسم کی سختیاں بہرحال جنگ میں ناگزیر ہیں اور بسا اوقات سچی انسانیت کا تقاضا یہی ہوتا ہے کہ ان کو بے دھڑک استعمال کیا جائے۔" ۱۱۲

اسی کتاب میں ایک دوسرے موقع پر ہیگ کے مہذب قوانینِ جنگ اور ایسے ہی دوسرے سمجھوتوں کو "لطیف و رقیق جذبات کی ایک ایسی لہر" قرار دیا گیا ہے جو "خود جنگ کی فطرت اور مقاصد سے بنیادی تناقض رکھتی ہے۔" ۱۱۳

 

فرانسیسی امیر البحر اوبے (Admiral Aube) اپنے ایک مضمون میں لکھتا ہے:

"جنگ کی تعریف ہم اس طرح کرتے ہیں کہ وہ حق کی اپیل ہے اس قوت کے خلاف جو اس حق سے انکار کرتی ہو۔ اس سے قدرتی طور پر یہ لازم آتا ہے کہ جنگ کا غالب مقصد یہ ہے کہ دشمن کو ہر ممکن طریقے سے نقصان پہنچایا جائے۔ اور چونکہ ایک قوم کے وسائلِ ثروت دراصل جنگ کے اعصاب ہیں، اس لیے ہر وہ چیز جو دشمن قوم کی ثروت پر ضرب لگاتی ہو، اس کا استعمال نہ صرف جائز بلکہ واجب ہے۔ قطع نظر اس سے کہ دنیا اس کو کس نظر سے دیکھتی ہو۔" ۱۱۴

 

ان اقوال سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یورپ کے اخلاقیین و سیاسین نے دنیا میں اپنی تہذیب کی نمائش کرنے کے لیے جو دلکش اور انسانیت پرور قوانینِ جنگ وضع کیے ہیں، ان کی عملی تنفیذ کا انحصار جس گروہ کی مرضی اور پسند پر ہے، وہ ان قوانین کو کس قدر لغو اور مہمل سمجھتا ہے، اور ضروریاتِ جنگ کے مقابلے میں ان کی پابندی سے کس قدر نفور ہے۔ ابتداءً قانونی گروہ اس کے خلاف اپنے دعوائے تہذیب و انسانیت کی تائید میں جدوجہد کرتا رہا، مگر جب جنگِ عظیم میں فوجی گروہ نے اپنی قدرت و طاقت کو عملاً ثابت کر دیا تو آخر اس تخیل پرست گروہ کو تلخ حقائق کے آگے سپر ڈال دینی پڑی اور اس نے بھی جنگ کے اسی نظریے کو قبول کر لیا جسے عملی طاقت کے ساتھ فوجی گروہ نے پیش کیا تھا۔ پروفیسر نیپولڈ اور میکس ہوبر وغیرہ علمائے قانون کی زبان سے آپ اس اعترافِ شکست کو سن چکے ہیں۔ آگے چل کر آپ یہ بھی دیکھیں گے کہ ان مادی حقائق کے زور سے دب کر جزئیاتِ قانون میں کس کس طرح ترمیمیں کی گئیں۔

 

مغربی قوانینِ جنگ کی اصولی حیثیت:

 

جہاں تک اصول کا تعلق تھا، ہم نے تہذیبِ مغربی کے بین الاقوامی قانون اور اس کے شعبۂ جنگ کی حقیقت کو اچھی طرح واضح کر دیا ہے۔ یہ قانون کیا چیز ہے؟ بحیثیت ایک قانون کے اس کی قدر و قیمت کیا ہے؟ معنوی حیثیت سے وہ کیا وزن رکھتا ہے؟ پھر خود اس کی اپنی نظر میں اس کے شعبۂ جنگ کا کیا مرتبہ ہے؟ اس میں جنگ کو اخلاقی حدود کا پابند بنانے کی قدرت کہاں تک موجود ہے؟ عملی و نظری حیثیات سے جنگ کو ضبط و نظام کے تحت لانے میں وہ کس حد تک کارگر ہو سکتا ہے؟ ان سوالات کو اوپر کی مختصر بحث نے ایک حد تک صاف کر دیا ہے اور اس سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ جس چیز کو مغرب کا قانونِ جنگ کہا جاتا ہے وہ دراصل کوئی حقیقی "قانون" ہی نہیں ہے۔

 

اب ہم یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ یہ نام نہاد قانون جیسا کچھ بھی ہے، جنگ کی تحدید و تنظیم میں کہاں تک کامیاب ہوا ہے۔ اس نے جو حدود و ضوابط مقرر کیے ہیں وہ اسلامی قانون کے مقرر کردہ حدود کے مقابلے میں کیسے ہیں؟ اس کے نمائشی اور اصلی قواعد میں کیا فرق ہے؟ مسئلہ جنگ کے سلسلے میں انسانی افکار کی جو ترقی اس سے ظاہر ہوتی ہے وہ اسلامی قانون کے ساتھ کیا نسبت رکھتی ہے؟ اور اس نے فی الواقع انسانیت کی کتنی خدمت انجام دی ہے؟

 

قوانینِ جنگ کی تاریخ:

 

سترہویں صدی کی ابتداء تک یورپ قوانینِ جنگ کے منظم تصور سے بڑی حد تک خالی تھا۔ اصولاً اور عملاً جنگ کو اخلاقی حدود اور قواعد و ضوابط کی پابندیوں سے بالا تر سمجھا جاتا تھا اور محاربین کو ایک دوسرے کی ضرر رسانی کا مطلق اور غیر محدود حق حاصل تھا۔ اس زمانے کی لڑائیوں کے جو حالات تاریخوں میں محفوظ ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ جب دو قومیں آپس میں لڑتی تھیں تو اپنے دشمن کو نقصان پہنچانے کے لیے کسی بڑے سے بڑے ظلم اور ہولناک سے ہولناک جرم سے بھی دریغ نہ کرتی تھیں۔ صرف عملاً ہی نہیں بلکہ اعتقاداً بھی ان کے اندر اہلِ قتال و غیر اہلِ قتال کے امتیاز کا کوئی واضح احساس موجود نہ تھا۔ گروٹیوس جیسے قانون دان کی بھی یہ رائے تھی کہ: "قانونِ اقوام (اس وقت کے رواج کے مطابق) ان تمام لوگوں کو قتل کر دینا جائز سمجھتا ہے جو دشمن کے حدود میں پائے جائیں... اس میں عورتوں اور بچوں کا کوئی استثناء نہیں ہے۔" ۱۱۵

 

یہ غیر محدود حق ۱۶۱۸ء-۱۶۴۸ء کی تیس سالہ جنگ (Thirty Years' War) میں اتنی بے دردی کے ساتھ استعمال کیا گیا تھا کہ تمام یورپ تھرا اٹھا اور اس کے دردناک وقائع نے یورپ کے اربابِ فکر میں عام طور پر یہ خواہش پیدا کر دی کہ جنگ کے اعمال پر کسی قسم کے اخلاقی حدود ضرور قائم ہونے چاہئیں۔ اس خواہش نے سب سے پہلے ہالینڈ کے مقنن ہیوگو گروٹیوس (Hugo Grotius) کے ذہن میں راستہ پیدا کیا اور اس سے قانون کی وہ مشہور تاریخی کتاب (De Jure Belli ac Pacis - جنگ اور صلح کا قانون) لکھوائی جو بین الاقوامی قانون کی بنیاد سمجھی جاتی ہے۔ یہ کتاب ۱۶۲۵ء میں شائع ہوئی اور اس نے یورپ کے اہلِ علم میں ایک عام ذہنی حرکت پیدا کر دی۔ مصنفین و مؤلفین نے اس نئی راہ میں مغربی افکار کو ترقی دینی شروع کی۔ گروٹیوس کے تقریباً نصف صدی بعد اس کے شاگرد پوفنڈورف (Pufendorf) نے اپنی کتاب (De Jure Naturae et Gentium) شائع کی، اور اس کے بعد کتابوں کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا جس نے اٹھارہویں صدی تک پہنچ کر بین الاقوامی قانون کے ایک نظام کی شکل اختیار کر لی۔ ۱۷۸۰ء کی دہائی میں انگلستان کے مشہور مقنن جیرمی بینتھم (Jeremy Bentham) نے اس فن کا نام "بین الاقوامی قانون" (International Law) رکھا جس سے آج وہ دنیا میں مشہور ہے۔

 

عملی حیثیت سے یورپ کی جنگ پر ان ترقی یافتہ افکار کا پہلا اثر ویسٹفالیا (Westphalia) کی کانگریس (۱۶۴۸ء) میں رونما ہوا جب کہ یورپ کے مدبرین نے تیس سالہ جنگ کے خاتمے پر گروٹیوس کی اس سفارش کو ایک حد تک قبول کر لیا کہ: "جنگ میں بطور ایک رعایت کے (نہ کہ بطور ایک قانون کے) بچوں، بوڑھوں، عورتوں، پادریوں، کاشتکاروں، تاجروں، اور اسیرانِ جنگ کو قتل و غارت سے محفوظ رکھنا چاہیے۔"

 

یہ روشنی کی پہلی کرن تھی جو مسیح علیہ السلام کی پیدائش کے ساڑھے سولہ سو برس بعد یورپ کے تاریک مطلع پر نمودار ہوئی۔ اس کے بعد لڑائیوں میں وحشیانہ حرکات کے ارتکاب کا وہ زور نہیں رہا جو تیس سالہ جنگ میں دیکھا گیا تھا۔ لیکن جہاں تک فوجوں کے جنگی اخلاق کی عملی تحسین اور اعمالِ جنگ کی حقیقی اصلاح کا تعلق ہے، دو سو برس تک یورپ نے اس میں کوئی خاص ترقی نہیں کی۔ حتیٰ کہ انیسویں صدی کے وسط میں ہندوستان کی جنگِ آزادی (۱۸۵۷ء) کے موقع پر انگریزی فوجوں نے وہ ہولناک مظالم کیے جن کے تصور سے بھی انسانی ضمیر کانپ اٹھتا ہے۔

 

جہاں تک ہمیں معلوم ہے، انیسویں صدی کے وسط تک یورپ میں قوانینِ جنگ کا کوئی ایسا مدون ضابطہ موجود نہ تھا جس کو ریاستوں نے باقاعدہ منظور کیا ہو یا جس کو یورپین فوجوں میں جنگی قانون کی حیثیت سے رائج کیا گیا ہو۔ مغربی قوموں میں سب سے پہلے امریکہ نے اس راہ میں اقدام کیا اور ۱۸۶۳ء میں اپنی خانہ جنگی کے دوران اپنی فوجوں کے لیے ایک ہدایت نامہ (Lieber Code) مرتب کیا جس کا مقصد جنگ کے زمانے میں فوجوں کے طریقِ عمل کو منضبط کرنا تھا۔ اس کے بعد جرمنی، فرانس، روس اور برطانیہ نے بھی اپنی فوجوں کو اسی قسم کی ہدایات دینے کا سلسلہ شروع کیا اور رفتہ رفتہ یورپ کی تمام قوموں نے وہی طریقہ اختیار کر لیا جو ان سے تقریباً ۱۲ سو برس پہلے عرب کے "غیر متمدن" ملک میں ایک امی پیغمبر ﷺ اور ان کے خلفاء نے رائج کیا تھا۔ ۱۱۶

 

اس کے ایک سال بعد ۱۸۶۴ء میں سوئٹزرلینڈ کی حکومت نے بمقام جنیوا ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقد کی جس میں پہلی مرتبہ بیماروں، زخمیوں اور طبی عملے کے تحفظ کے متعلق قوانین مرتب کیے گئے (First Geneva Convention)۔ ۱۸۶۸ء میں سینٹ پیٹرزبرگ میں ایک اعلامیہ (Saint Petersburg Declaration) جاری کیا گیا جس میں بعض قسم کے دھماکہ خیز یا پھیلنے والے چھوٹے ہتھیاروں کے استعمال پر پابندی لگائی گئی۔

 

۱۸۷۴ء میں برسلز میں ایک کانفرنس ہوئی جس نے بری جنگ کے قوانین کا ایک مسودہ تیار کیا، مگر ریاستوں نے اس کی توثیق نہیں کی، اس لیے وہ قانون نہ بن سکا۔

 

بالآخر ۱۸۹۹ء میں زار نکولس دوم کی تحریک پر پہلی ہیگ امن کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس میں دنیا کی ۲۶ ریاستوں نے حصہ لیا اور جنگ کے مختلف شعبوں کے متعلق کئی کنونشنز اور اعلامیے مرتب کیے گئے:

(۱)۔ بین الاقوامی نزاعات کے پرامن تصفیے کا کنونشن۔

(۲)۔ بری جنگ کے قوانین و رواج کا کنونشن (بشمول ضوابطِ ہیگ)۔

(۳)۔ بحری جنگ میں ۱۸۶۴ء کے جنیوا کنونشن کے اصولوں کو لاگو کرنے کا کنونشن۔

(۴)۔ پھیلنے والی گولیوں (Dum-dum bullets) پر پابندی کا اعلامیہ۔

(۵)۔ دم گھونٹنے والی یا زہریلی گیسوں والے ہتھیاروں پر پابندی کا اعلامیہ۔

(۶)۔ غباروں سے گولے یا دھماکہ خیز مواد گرانے پر (عارضی) پابندی کا اعلامیہ۔

 

یہ کانفرنس اپنے کام کو مکمل نہ کر سکی اور ۸ سال تک قوانینِ جنگ کی مزید تدوین کا سلسلہ رکا رہا۔ ۱۹۰۷ء میں امریکہ کے صدر تھیوڈور روزویلٹ اور زار نکولس دوم کی تحریک پر دوبارہ ہیگ امن کانفرنس منعقد ہوئی اور اس کی کوشش سے یورپ کو پہلی مرتبہ قوانینِ جنگ کا ایک زیادہ مفصل ضابطہ میسر آیا۔ اس مرتبہ ۴۴ ریاستوں نے شرکت کی۔ ۱۸۹۹ء کے کنونشنز اور اعلامیوں میں ترمیم و اضافہ کرنے کے علاوہ حسبِ ذیل مزید کنونشنز مرتب کیے گئے:

(۱)۔ معاہداتی قرضوں کی وصولی کے لیے قوت کے استعمال کی تحدید۔

(۲)۔ جنگ شروع کرنے (اعلانِ جنگ) کے متعلق کنونشن۔

(۳)۔ بری جنگ میں غیر جانبداروں کے حقوق و فرائض۔

(۴)۔ حالتِ جنگ میں دشمن کے تجارتی جہازوں کی حیثیت۔

(۵)۔ تجارتی جہازوں کو جنگی جہازوں میں تبدیل کرنے کے متعلق۔

(۶)۔ خودکار زیرِ آب بارودی سرنگیں بچھانے کے متعلق۔

(۷)۔ بحری افواج کی جانب سے گولہ باری کے متعلق۔

(۸)۔ بحری جنگ میں گرفتاری کے حق کے بعض قیود کے متعلق۔

(۹)۔ بین الاقوامی پرائز کورٹ (Prize Court) کے قیام کے متعلق (یہ نافذ نہ ہو سکا)۔

(۱۰)۔ بحری جنگ میں غیر جانبداروں کے حقوق و فرائض (Declaration of London, 1909ء میں اس کی مزید وضاحت ہوئی، مگر وہ بھی نافذ نہ ہو سکا)۔

 

یہ کانفرنس اگرچہ ایک نہایت وسیع ضابطۂ قانون وضع کرنے میں کامیاب ہو گئی، مگر اس کا ضابطہ پھر بھی مکمل نہ تھا، اور اس کے نفاذ میں بھی مسائل رہے۔ بعد میں ہوائی جہازوں اور آبدوزوں کے جنگی استعمال نے نئے سوالات پیدا کر دیے۔ ۱۹۲۵ء کے جنیوا پروٹوکول میں کیمیائی و حیاتیاتی ہتھیاروں پر پابندی لگی۔ ۱۹۲۹ء اور پھر ۱۹۴۹ء میں جنیوا کنونشنز کو مزید وسیع اور بہتر بنایا گیا، خاص طور پر جنگی قیدیوں اور شہری آبادی کے تحفظ کے لیے۔ لیکن یہ کہنا مشکل ہے کہ آئندہ پیش آنے والے مسائل کے متعلق اور کتنی کانفرنسوں اور قوانین کی ضرورت ہو گی۔

 

اس مختصر تاریخ سے واضح ہو جاتا ہے کہ مغربی دنیا کو ابھی منظم اور مدون قوانینِ جنگ سے آشنا ہوئے ڈیڑھ صدی سے زیادہ عرصہ نہیں گزرا ہے، اور ان قوانین کو ایک جامع شکل ۱۹۰۷ء میں ملی۔ اس کے مقابلے میں اسلام کو دیکھو کہ وہ ساڑھے تیرہ سو برس سے اپنا ایک مکمل ضابطۂ قانون رکھتا ہے۔ اور جہاں تک اصول کا تعلق ہے، اس میں حذف و ترمیم یا اضافے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ مگر اس کے باوجود اس کے اصول بڑی حد تک وہی ہیں جن کو آج کی مغربی دنیا نے بعد از خرابیٔ بسیار اختیار کیا ہے، اور بعض اصول ایسے بھی ہیں جن تک مغربی دنیا کی اب بھی پوری طرح رسائی نہیں ہوئی ہے۔

 

ہیگ کے سمجھوتوں کی قانونی حیثیت:

 

اوپر کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ ۱۹۰۷ء کی ہیگ کانفرنس کی کارروائی ان تمام سمجھوتوں اور اقرار ناموں پر حاوی تھی جو اس سے قبل ریاستوں کے درمیان ہوئے تھے۔ اس لیے جب مغرب کے قوانینِ جنگ پر تبصرہ کرنا ہو تو دوسری ہیگ کانفرنس کے وضع اور توثیق کیے ہوئے معاہدات ہی پر تبصرہ کرنا کافی ہے۔ لیکن اس تبصرے کو شروع کرنے سے قبل یہ تحقیق کرنا ضروری ہے کہ اس کانفرنس کی آئینی حیثیت کیا تھی اور اس کے سمجھوتے اور اقرار نامے بحیثیت ایک "قانون" کے کیا وقعت رکھتے ہیں؟ اس کے لیے ہمیں خود ہیگ کے سمجھوتوں کی طرف رجوع کرنا چاہیے اور ان کی اسی تشریح پر اعتماد کرنا چاہیے جو مغرب کے ماہرینِ قانون نے کی ہے۔

 

ان سمجھوتوں کی قانونی حیثیت متعین کرنے کے لیے پہلا امر تنقیح طلب یہ ہے کہ حکومتیں کس حد تک ان کی پابندی کی ذمہ دار ہیں؟ اس کے متعلق خود سمجھوتوں میں یہ تصریح کر دی گئی ہے کہ حکومتیں حرف بحرف ان کی پابندی کرنے پر مجبور نہیں ہیں، بلکہ صرف اس امر کا ذمہ لیتی ہیں کہ اپنی مسلح افواج کے لیے ایسی ہدایات جاری کریں گی جو ان ضوابط سے مطابقت رکھتی ہوں گی۔ چنانچہ چوتھے ہیگ کنونشن (بری جنگ کے قوانین و رواج) کی دفعہ اول کے الفاظ یہ ہیں:

"متعاہد طاقتیں اپنی مسلح بری افواج کے لیے ایسی ہدایات جاری کریں گی جو ان ضوابط سے مطابقت رکھتی ہوں گی جو بری جنگ کے قوانین و رواج کے متعلق اس کنونشن کے ساتھ ملحق کیے گئے ہیں۔" ۱۱۷

 

دوسرا سوال یہ ہے کہ ان قوانین کی حدودِ عمل کیا ہیں؟ اس کا جواب ہیگ کے سمجھوتوں سے ہمیں یہ ملتا ہے کہ یہ تمام سمجھوتے اور اقرار نامے صرف انہی لڑائیوں میں نافذ ہوں گے جن کے دونوں فریق ان سمجھوتوں اور اقرار ناموں کے متعاقدین میں سے ہوں۔ اگر کوئی ایک فریق غیر متعاقد ہو، یا کسی متعاقد فریق کے ساتھ کوئی غیر متعاقد بھی شریکِ جنگ ہو گیا ہو، تو ان سمجھوتوں پر عمل درآمد نہیں کیا جائے گا (si omnes clause)۔ اسی چوتھے ہیگ کنونشن کی دفعہ دوم کے الفاظ یہ ہیں:

"اس کنونشن کے ضوابط، نیز ملحقہ ضابطے، صرف متعاہد طاقتوں کے مابین جنگ کی صورت میں لاگو ہوں گے، اور صرف اسی صورت میں جب تمام محاربین کنونشن کے فریق ہوں۔" ۱۱۸

 

اسی قسم کی ایک دفعہ اکثر سمجھوتوں میں رکھی گئی ہے جس سے یہ بات صاف ہو جاتی ہے کہ یہ تمام مہذب قوانین بطور ایک اخلاقی فرض کے اختیار نہیں کیے گئے ہیں بلکہ محض چند ریاستوں کے باہمی سمجھوتے ہیں جن کی بنیاد صرف یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے سے اس شرط پر شرافت و انسانیت کا سلوک کرنے کا وعدہ کرتی ہیں کہ ان کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک کیا جائے۔

 

تیسرا سوال یہ ہے کہ یہ قوانین اپنے اندر پابند کرنے والی قوت کس حد تک رکھتے ہیں؟ اس کے متعلق ہیگ کے سمجھوتے تصریح کرتے ہیں کہ کوئی ریاست ان کی ہمیشہ پابندی کرتے رہنے پر مجبور نہیں ہے بلکہ ہر وقت (معاہدے کی شرائط کے مطابق) ان کی ذمہ داری سے سبکدوش ہو سکتی ہے۔ چنانچہ ہر کنونشن کے آخر میں اس مضمون کی ایک دفعہ ملتی ہے کہ کوئی بھی متعاہد طاقت ایک سال کا تحریری نوٹس دے کر کنونشن سے دستبردار ہو سکتی ہے۔

 

ان دفعات کا مفہوم بالکل واضح ہے۔ لیکن مزید توضیح کے لیے ہم مسٹر جیمز براؤن اسکاٹ (James Brown Scott) کی وہ تصریحات یہاں نقل کرتے ہیں جو انہوں نے "ہیگ امن کانفرنسوں کی رپورٹیں" (The Reports to the Hague Conferences of 1899 and 1907) کے مقدمے میں کی ہیں۔ مسٹر اسکاٹ کارنیگی انڈوومنٹ برائے بین الاقوامی امن کے شعبۂ قانونِ بین الاقوامی کے ڈائریکٹر تھے اور امریکہ میں اس قانون کے بڑے ماہر سمجھے جاتے تھے۔ وہ لکھتے ہیں:

"ہیگ کانفرنس کو اکثر 'نوعِ انسانی کی پارلیمنٹ' کہا جاتا ہے، مگر یہ کہنا غلط اور گمراہ کن ہے۔ وہ اصطلاحی معنی میں پارلیمنٹ نہیں ہے اور اس کے اعمال صرف ان ریاستوں پر اثر انداز ہوتے ہیں جن کی نمائندگی اس میں ہوئی ہے۔" (صفحہ ix)

"اس وضع کی ایک جماعت، جیسا کہ اس کا نام ظاہر کرتا ہے، محض ایک کانفرنس ہے، وہ کوئی مجلسِ تشریعی نہیں ہے۔ اس کے کنونشنز محض سفارشات ہیں جو کانفرنس میں حصہ لینے والی حکومتوں سے کی گئی ہیں، تاکہ وہ اپنے قوانین کے مطابق ان کو اختیار کر لیں۔.. ہیگ میں کسی کنونشن پر کسی ریاست کے نمائندے کا دستخط کر دینا اس ریاست کے لیے کوئی حتمی قانونی ذمہ داری پیدا نہیں کرتا جب تک کہ اس کی باقاعدہ توثیق نہ کر دی جائے۔.. یہ کنونشنز صرف اسی وقت واجب العمل ہوتے ہیں جب ان کی باقاعدہ توثیق ہیگ میں جمع کرا دی جائے۔" (صفحہ x)

 

پروفیسر مورگن (J. H. Morgan) اپنی کتاب "جنگ، اس کا طرزِ عمل اور قانونی نتائج" (War: Its Conduct and Legal Results) میں لکھتا ہے:

"یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ ہیگ کے کنونشنز کا دائرۂ اثر اور ان کی تشریعی طاقت ایک حد تک مشکوک و غیر معین ہے۔ تاہم جن کنونشنز کو تمام یا اکثر متعاقد ریاستوں نے منظور کر لیا ہو، انہیں ہم تقریباً ایک عمومی ضابطۂ قانون سمجھ سکتے ہیں، اور ان کے مطابق متعاقد ریاستوں کے جنگی اعمال کو مہذب قومیں جانچ سکتی ہیں۔"

 

اسلامی قانونِ جنگ کی برتری:

 

ان تصریحات سے صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ ہیگ کے وضع کردہ قوانینِ جنگ اپنی قانونی نوعیت کے اعتبار سے کسی طرح بھی اسلام کے قوانینِ جنگ کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔

 

   ماخذ و لزوم: اسلام کے قوانین تمام مسلمانوں کے لیے کلیتاً واجب العمل بنائے گئے ہیں۔ کسی مسلمان کو مسلمان رہتے ہوئے ان کی بندش سے نکلنے کا حق نہیں دیا گیا۔ یہ ضرور ممکن ہے کہ ایک شخص اسلام ہی کو چھوڑ دے اور اس طرح اسلام کے قانونِ جنگ کی پابندی سے بھی سبکدوش ہو جائے، مگر یہ جائز نہیں ہے کہ کوئی شخص مسلمان رہتے ہوئے اسلام کے ان قوانین کی کم از کم اعتقادی اطاعت سے نکل جائے یا ان کو اپنے اوپر حجت نہ مانے یا ان قوانین کو اپنے حسبِ منشا بدل کر یا منسوخ کر کے کچھ دوسرے قوانین وضع کر لے اور وہ نئے قوانین اسلام کے قوانین قرار دیے جائیں۔ اہلِ مغرب کے قوانین کی طرح اسلام کے قوانین مسلمانوں کے وضع کردہ نہیں ہیں، بلکہ ایک بالاتر قوت (اللہ تعالیٰ) نے ان کو وضع کیا ہے اور انہیں مسلمانوں کے سامنے صرف اس لیے پیش کیا ہے کہ وہ اس کی اطاعت کریں۔ اب مسلمانوں کے لیے اس میں صرف دو راہیں ہیں: اگر وہ مسلمان رہنا چاہیں اور اس بالاتر قوت کی حاکمیت کو تسلیم کرتے ہوں تو ان قوانین کو بھی تسلیم کریں؛ اور اگر ان کو تسلیم نہ کرنا چاہیں تو ناگزیر ہے کہ وہ اس بالاتر قوت کو بھی تسلیم نہ کریں اور اسلام کے دائرے سے نکل جائیں۔ اس کے سوا کوئی تیسری راہ مسلمانوں کے لیے نہیں ہے۔ بخلاف اس کے مغربی قوانینِ جنگ کے واضع خود اہلِ مغرب ہیں۔ اس لیے ان کو حق ہے کہ جب تک چاہیں اپنے بنائے ہوئے قوانین پر عمل کریں اور جب چاہیں ان کو منسوخ کر کے دوسرے قوانین وضع کر لیں۔ اصولِ قانون کے لحاظ سے جب کبھی وہ ایسا کریں گے، پہلا قانون بحیثیت ایک قانون کے منسوخ ہو جائے گا اور دوسرا قانون اس کی جگہ لے لے گا۔ لیکن اگر مسلمان قومیں اسلام سے بغاوت کر کے دس ہزار قوانین بھی وضع کر لیں، تو ان میں سے کوئی بھی اسلام کا قانون نہ بن سکے گا۔ بلکہ اسلام کا قانون وہی رہے گا جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے وضع کر دیا ہے۔

 

   بنیاد (اخلاقی فرض بمقابلہ معاہدہ): مغربی قوانین دراصل قوانین نہیں، معاہدے ہیں جن کی پابندی اس شرط پر کی جائے گی کہ دوسرے معاہدین بھی ان کی پابندی کریں۔ بخلاف اس کے اسلامی قانون معاہدہ نہیں بلکہ فی الحقیقت قانون ہے۔ اس میں اس قسم کی کوئی شرط نہیں رکھی گئی ہے کہ ان احکام پر صرف اسی حالت میں عمل کیا جائے گا جب کہ دوسرا فریق بھی ان کی پابندی کرے۔ جس زمانے میں یہ قوانین وضع کیے گئے تھے اس وقت تو غیر مسلم ریاستوں سے اس قسم کا کوئی سمجھوتہ ممکن ہی نہ تھا۔ بلکہ اس کے برعکس صورتِ حال یہ تھی کہ غیر مسلم محاربین ہمیشہ مسلمانوں کے مقابلے میں وحشیانہ طریقے سے جنگ کرتے تھے اور ان حرکات پر اس بات نے ان کو اور بھی زیادہ جری کر دیا تھا کہ مسلمانوں کا مذہب ان کو جواب میں ویسے ہی وحشیانہ افعال کرنے سے روکتا تھا۔ پس ان تمام حیثیات سے اسلام کا قانون مغرب کے قانون پر بدرجہا فوقیت رکھتا ہے اور یہ ایسی حقیقت ہے جس سے کسی طرح انکار نہیں کیا جا سکتا۔

 

جنگ کے احکام و ضوابط (تفصیلی جائزہ):

 

اب ہم اصولی مباحث چھوڑ کر تفصیلی احکام و ضوابط کی طرف توجہ کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں ہم یہ دیکھنے کی کوشش کریں گے کہ مختلف جنگی معاملات کے متعلق ہیگ میں کیا قوانین مقرر کیے گئے ہیں اور مغربی قومیں ان کو کس حد تک قابلِ عمل تسلیم کرتی ہیں۔

 

۱۔ اعلانِ جنگ:

 

جنگی مسائل میں پہلا مسئلہ یہ ہے کہ جنگ کس طرح شروع کی جائے؟ ابتدائی زمانے میں یہ عام طریقہ تھا کہ جنگ شروع کرنے سے قبل نقیبوں اور ایلچیوں کی معرفت دشمن کو اطلاع دے دی جاتی تھی۔ اس زمانے میں بین الاقوامی قانون کے مصنفین بھی اعلان و انذار کی ضرورت پر بہت زور دیتے تھے، بلکہ بعض کی تو یہ رائے تھی کہ اعلان کے بغیر حملہ کر دینا درست نہیں ہے۔ لیکن بعد میں (اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں) ماہرینِ قانون کا میلان اس طرف ہو گیا کہ رسمی اعلانِ جنگ کی ضرورت نہیں ہے۔ چنانچہ ریاستوں نے بالعموم یہ دستور اختیار کر لیا کہ اعلانِ جنگ کے بغیر ہی مخاصمانہ کارروائیاں شروع کر دیتی تھیں۔

 

تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ۱۷۰۰ء سے ۱۸۷۰ء تک یورپ میں ۱۱۸ لڑائیاں ہوئیں جن میں سے صرف دس لڑائیوں میں رسمی اعلانِ جنگ کیا گیا۔ ۱۱۹ ان میں بعض لڑائیاں ایسی تھیں جو سفارتی تعلقات منقطع ہونے سے بھی قبل چھیڑ دی گئیں، مثلاً ۱۸۰۴ء میں برطانیہ کا اسپینی فریگیٹس پر حملہ۔

 

اس کے بعد انیسویں صدی کے آخر میں یورپ نے پھر پہلے طریقے کی طرف رجوع کیا اور جنگ سے قبل عام طور پر اعلانِ جنگ کیا جانے لگا۔ چنانچہ ۱۸۷۰ء کی جنگِ جرمنی و فرانس، ۱۸۷۷ء کی جنگِ ترکی و روس، ۱۸۹۷ء کی جنگِ ترکی و یونان، ۱۸۹۸ء کی جنگِ امریکہ و اسپین، اور ۱۹۰۰ء کی باکسر بغاوت میں مداخلت میں رسمی اعلان سے جنگ کی ابتدا ہوئی۔ لیکن بیسویں صدی کی ابتداء میں روس اور جاپان کی جنگ (۱۹۰۴ء) اعلان کے بغیر چھڑ گئی اور جاپان نے اچانک پورٹ آرتھر پر حملہ کر دیا۔

 

بیسویں صدی کی ابتداء تک جنگ شروع کرنے کے متعلق کوئی متفقہ قاعدہ موجود نہ تھا۔ ریاستیں خود اپنی مرضی کے مطابق جب چاہتی تھیں دشمن پر اچانک جا پڑتی تھیں اور جب مناسب سمجھتیں پہلے سے اعلانِ جنگ بھی کر دیتی تھیں۔ ۱۹۰۷ء کی ہیگ کانفرنس میں پہلی مرتبہ اس کی ضرورت محسوس کی گئی کہ اس کے متعلق ایک قاعدہ مقرر کر دیا جائے، چنانچہ ایک کنونشن (Hague Convention III) کیا گیا جس کی دفعات یہ ہیں:

   دفعہ اول: متعاہد طاقتیں تسلیم کرتی ہیں کہ ان کے درمیان مخاصمت کا آغاز واضح اور غیر مبہم پیشگی انتباہ کے بغیر نہیں ہونا چاہیے۔ یہ انتباہ یا تو وجوہ بیان کرتے ہوئے اعلانِ جنگ کی صورت میں ہو گا، یا پھر مشروط اعلانِ جنگ پر مشتمل الٹی میٹم کی شکل میں۔

   دفعہ دوم: حالتِ جنگ کے وجود میں آنے کی اطلاع بلا تاخیر غیر جانبدار طاقتوں کو دے دی جائے، اور یہ اطلاع ان پر اس وقت تک مؤثر نہ ہو گی جب تک وہ اسے وصول نہ کر لیں، تاہم، اگر یہ واضح طور پر ثابت ہو جائے کہ وہ فی الواقع حالتِ جنگ سے واقف تھیں تو وہ عدم اطلاع کا عذر پیش نہیں کر سکتیں۔

 

یہ "مہذب" قانون آج سے صرف ایک صدی قبل یورپ میں وضع ہوا ہے ۱۲۰ اور یہ بھی صرف سمجھوتے کے شرکاء کے لیے ہے، اور اس کی پابندی بھی ہمیشہ نہیں کی گئی ۱۲۱۔ لیکن اسلام میں ساڑھے تیرہ سو برس سے یہ قانون موجود ہے کہ جس قوم سے تمہارا معاہدہ ہے اس کے خلاف جنگ کی ابتداء نہ کرو جب تک اسے خبردار نہ کر دو کہ اب تمہاری فلاں فلاں حرکات کی وجہ سے ہمارے اور تمہارے درمیان معاہدہ باقی نہیں رہا ہے اور اب ہم اور تم دشمن ہیں (سورۃ الانفال: ۵۸)۔ یہ قانون اس شرط کے ساتھ مشروط نہیں ہے کہ اس کی پابندی صرف انہی قوموں کے معاملے میں کی جائے گی جو ہم سے یہ وعدہ کر چکی ہوں کہ وہ بھی ہمارے خلاف کبھی اچانک جنگ نہ چھڑیں گی۔ ۱۲۲

 

۲۔ اہلِ قتال اور غیر اہلِ قتال:

 

دو قوموں میں حالتِ جنگ قائم ہو جانے کے بعد سب سے اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ محارب قوم کے افراد سے کس قسم کا سلوک کیا جائے؟

 

سترہویں صدی تک یورپ محارب (Belligerent) اور مقاتل (Combatant) کے فرق سے بڑی حد تک ناآشنا تھا۔ اس کے نزدیک ہر محارب فرد دشمن تھا، اس لیے اس کا قتل اور اس کی املاک کا سلب و نہب جائز تھا، عام اس سے کہ وہ عورت ہو، بچہ ہو، بوڑھا ہو، بیمار ہو یا دوسرے غیر مقاتل طبقات سے تعلق رکھتا ہو۔

 

اس کے بعد سترہویں اور اٹھارہویں صدی میں بین الاقوامی قانون کے مصنفین نے مقاتلین اور غیر مقاتلین (Non-Combatants) کے درمیان فرق کرنے کی کوشش کی، لیکن کوئی ایسی جامع تقسیم نہ ہو سکی جس پر سب کو اتفاق ہو اور جسے حالتِ جنگ میں ملحوظ رکھا جا سکتا ہو۔

 

انیسویں صدی میں یہ اصول قرار دیا گیا کہ صرف غنیم کی باقاعدہ مسلح افواج ہی مقاتلین میں شمار کی جائیں گی اور باقی سب طبقات غیر مقاتلین میں داخل ہوں گے۔ لیکن اس سے یہ پیچیدہ مسئلہ پیدا ہو گیا کہ اگر کسی ملک کی عام آبادی دشمن کے حملے کے وقت اچانک اپنے وطن کی مدافعت کے لیے ہتھیار لے کر کھڑی ہو جائے اور بغیر کسی باقاعدہ تنظیم کے غنیم سے جنگ شروع کر دے، تو ان کی حیثیت کیا ہو گی؟ آیا ان کو مقاتلین میں شمار کر کے وہی حقوق دیے جائیں گے جو دشمن کی باضابطہ فوج کے لیے مقرر ہیں؟ یا انہیں غیر مقاتلین کی طرح تحفظ دیا جائے گا؟ یا انہیں قانون سے خارج باغی یا ڈاکو سمجھا جائے گا؟

 

مروجہ قانون کا رجحان یہ تھا کہ غیر مقاتل اگر جنگی کارروائی میں حصہ لے تو اس کو نہ مقاتلین کی مراعات حاصل ہوں گی اور نہ غیر مقاتلین کی حفاظت، بلکہ اسے جنگی مجرم سمجھ کر سزا دی جائے گی۔ اس قانون کی رو سے مقاتلین و غیر مقاتلین کے امتیاز کا جو اصول قائم کیا گیا وہ ان قوموں کے لیے غیر معمولی بربادی و مصیبت کا موجب ہو گیا جو آزادی حاصل کرنے کے لیے یا اپنے وطن کی مدافعت کے لیے محض جذبۂ حبِ وطن سے متاثر ہو کر لڑنے کھڑی ہو جاتی ہیں اور کسی باقاعدہ جنگی نظام میں منسلک نہیں ہوتیں۔ ۱۸۷۰ء کی جنگ میں جب فرانس نے اپنی عام آبادی کو بے ضابطہ جماعتوں (Francs-tireurs) کی صورت میں منظم کرنا شروع کیا اور جرمنی نے ان کو مقاتلین کے حقوق دینے سے انکار کر دیا تو بین الاقوامی قانون کے سامنے یہ مسئلہ اپنی پوری اہمیت کے ساتھ آ گیا۔

 

۱۸۷۴ء کی برسلز کانفرنس میں اس پر زبردست بحث ہوئی۔ آخر مقاتلین و غیر مقاتلین کے درمیان ایک واضح امتیاز قائم کیا گیا جس کی رو سے صرف وہی لوگ اہل قتال قرار دیے گئے جو:

(الف)۔ ایک ایسے کمانڈر کے ماتحت ہوں جو اپنے ماتحتوں کے افعال کا ذمہ دار ہو۔

(ب)۔ ایک مخصوص امتیازی نشان رکھتے ہوں جسے دور سے پہچانا جا سکے۔

(ج)۔ کھلم کھلا ہتھیار اٹھائیں۔

(د)۔ جنگ میں قوانین و رواجِ جنگ کی پابندی کریں۔ ۱۲۳

 

اسی تعریف کو ۱۸۹۹ء اور ۱۹۰۷ء کی ہیگ کانفرنسوں میں تسلیم کیا گیا اور ہیگ کے ضوابط (Hague Regulations attached to Convention IV) کی دفعہ اول میں اسے شامل کیا گیا۔ دفعہ دوم میں اس امر کی بھی تصریح کر دی گئی کہ: "کسی علاقے کے باشندے جو ابھی تک مقبوضہ نہیں ہوا ہے، دشمن کی آمد پر اگر فوراً اپنے دفاع کے لیے اٹھ کھڑے ہوں، بغیر اس کے کہ انہیں منظم ہونے کا وقت ملا ہو، تو انہیں محارب سمجھا جائے گا بشرطیکہ وہ کھلم کھلا ہتھیار اٹھائیں اور قوانین و رواجِ جنگ کا احترام کریں۔"

 

دفعہ سوم میں مزید کہا گیا: "محارب فریقین کی مسلح افواج مقاتلین اور غیر مقاتلین پر مشتمل ہو سکتی ہیں۔ غنیم کے ہاتھوں گرفتار ہونے کی صورت میں دونوں کو اسیرانِ جنگ کے طور پر برتاؤ کا حق حاصل ہے۔"

 

اس طریقے سے باقاعدہ فوج اور منظم ملیشیا کے علاوہ غیر منظم عوامی مزاحمت کو بھی کچھ شرائط کے ساتھ قانونی حیثیت مل گئی۔ لیکن یہ سوال پھر بھی باقی رہا کہ وہ قومیں جو کسی تسلیم شدہ ریاست کا حصہ نہیں ہیں یا جو نوآبادیاتی تسلط کے خلاف آزادی کی جنگ لڑ رہی ہیں، ان کے جنگجوؤں کی کیا حیثیت ہو گی؟ ہیگ کنونشنز نے اس سوال کو حل کرنے کی کوئی واضح کوشش نہیں کی، اور عملاً بڑی طاقتوں کا رویہ یہی رہا کہ ایسی قوموں کو نہ مقاتلین کے حقوق دیے گئے اور نہ غیر مقاتلین کی رعایت۔ ان کی قسمت میں یہی لکھا رہا کہ انہیں باغی یا دہشت گرد قرار دے کر کچل دیا جائے۔ برطانوی ہند کی شمال مغربی سرحد میں، ریف میں ہسپانیہ اور فرانس نے، اور الجزائر میں فرانس نے جو مظالم کیے، وہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ مغربی تہذیب کا قانون ہر قوم کے حقِ خود ارادیت یا حصولِ آزادی کے لیے جنگ کرنے کے حق کو عملی طور پر تسلیم نہیں کرتا تھا (اگرچہ بعد میں اس تصور میں تبدیلی آئی)۔

 

اہلِ قتال و غیر اہلِ قتال کے درمیان امتیاز کا یہ قاعدہ اس لحاظ سے بھی کمزور تھا کہ اس میں ان تمام لوگوں کو غیر اہلِ قتال قرار دیا گیا تھا جو براہِ راست ہتھیار نہیں اٹھاتے۔ اگرچہ اہلِ مغرب کو ایک عرصے تک اس بات پر فخر رہا کہ انہوں نے دشمنی و مخاصمت صرف فوجوں تک محدود کر دی ہے اور غیر فوجی جماعتیں جنگ کے اثرات سے بڑی حد تک مستثنیٰ کر دی گئی ہیں۔ لیکن آج وہ خود تسلیم کر رہے ہیں کہ فوجیت و غیر فوجیت کی بنا پر مقاتلین و غیر مقاتلین میں واضح فرق کرنا اصولاً اور عملاً، خصوصاً جدید "مکمل جنگ" (Total War) کے تناظر میں، مشکل ہے۔

 

اس بارے میں اپنی ذاتی رائے بیان کرنے کے بجائے زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم خود ان یورپی مصنفین کے اقوال یہاں نقل کر دیں جنہوں نے جنگِ عظیم (اول) کے تجربات سے فائدہ اٹھا کر اس امر کو محسوس کر لیا تھا کہ مقاتلین و غیر مقاتلین کی وہ تفریق جس پر اب تک ان کو اس قدر ناز تھا، کتنی بے بنیاد ہے۔ ۱۲۴

 

پروفیسر نیپولڈ لکھتا ہے:

"جدید تجربات نے ثابت کر دیا ہے کہ موجودہ تجارتی عہد میں جب کہ لاکھوں آدمی غیر ملکوں میں پھیلے ہوئے ہوتے ہیں اور ادھر سے ادھر گردش کرتے پھرتے ہیں، یہ بالکل ناممکن ہے کہ جنگ محض متعلقہ حکومتوں کے فوجی اشخاص کی باہمی لڑائی قرار دی جائے۔ انہوں نے ثابت کر دیا ہے کہ صرف محارب ممالک ہی میں نہیں بلکہ غیر جانبدار دنیا میں بھی کوئی شخص کسی نہ کسی صورت میں ایک بڑی جنگ سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ مختلف اشخاص و افراد کے درمیان آج زندگی کے تمام شعبوں میں ایسے پیچ در پیچ تعلقات پیدا ہو گئے ہیں کہ کوئی شخص ایسی جنگ کے اثرات سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔ ان اثرات کو محدود رکھنے اور روکنے کی تمام کوششیں بے کار ثابت ہو چکی ہیں۔ لہٰذا یہ نظریہ ایک بے معنی نظریہ ہے کہ جنگ محض ریاستوں کا ایک معاملہ ہے اور جنگ کا تمام کاروبار صرف فوجی اشخاص ہی سے تعلق رکھتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اس تجارت کے عہد میں جنگ دراصل قوموں کا معاملہ ہے جو اس کو اپنی تمام جسمانی اور معاشی قوت سے چلاتی ہیں!" ۱۲۵

 

آگے چل کر یہی مصنف کہتا ہے:

"جنگ کا مقصد دشمن ریاست کو مغلوب کرنے کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا۔ اس لحاظ سے بے شک اس ضرر رسانی کا سلسلہ بند ہونا چاہیے جو اس مقصد کے لیے مفید نہ ہو، لیکن یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ریاستیں صرف سپاہیوں سے آباد نہیں ہوتیں بلکہ عام باشندوں پر بھی مشتمل ہوتی ہیں۔ اسی بنا پر مولٹکے (Moltke) نے اس نظریے سے اختلاف کیا ہے کہ 'جنگ کا کام محض غنیم کی فوجی قوت کو ضعیف کرنا ہے۔' وہ کہتا ہے: 'برسرِ جنگ ریاست کے لیے اپنے تمام ذرائع، اپنے مالیات، ریل کی سڑکیں، غذا کے وسائل، حتیٰ کہ اپنا اخلاقی اثر بھی جنگ میں استعمال کرنا ناگزیر ہے۔' اگر دشمن کے ارادے کو زبردستی جھکانا ہی جنگ کا مقصد ہو تو یہ ضروری ہی نہیں بلکہ جائز بھی ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے فوجی ذرائع نہ صرف مخالف فوج کے خلاف بلکہ غنیم کی تمام معاشی قوتوں کے خلاف بھی استعمال کرے۔.. اب چونکہ ایک ریاست کی معاشی قوت اشخاص و افراد کی قوت سے مرکب ہوتی ہے، اس لیے یہ ناگزیر ہے کہ افراد کی ذات و جائیداد اور ان کے معاشی مفاد کو بھی اس حد تک جنگ کا ہدف بنایا جائے جس حد تک کہ وہ جنگ کا مقصد حاصل کرنے کے لیے ضروری اور مفید ہو۔" ۱۲۶

 

ایک دوسری جگہ یہی مصنف لکھتا ہے:

"ریاستوں کو معاشی جنگ میں بھی اسی طرح ضروریاتِ جنگ کی پیروی کرنی چاہیے جس طرح وہ فوجی جنگ میں کرتی ہیں۔ دونوں صورتوں میں تمام وہ ذرائع جن سے غنیم کو مغلوب کرنے کی توقع ہو، استعمال کیے جانے چاہئیں۔ لہٰذا معاشی جنگ صرف تجارت ہی میں مزاحمت تک محدود نہ رہنی چاہیے بلکہ اس کو غنیم کی معاشی زندگی پر ایک مہلک ضرب لگانے کی کوشش کرنی چاہیے، اور اس لحاظ سے اس میں پرائیویٹ اشخاص (یعنی غیر مقاتلین) پر بھی ضرب پڑنی ناگزیر ہے۔" ۱۲۷

 

پروفیسر نیومائیر (Neumeyer) اپنی کتاب "بحری جنگ کے قوانین و اصول" میں لکھتا ہے:

"بحری جنگ میں دشمن قوم پر ہر ممکن ذریعے سے، حتیٰ کہ انتہائی وحشیانہ ذرائع سے بھی، زندگی دوبھر کر دینی چاہیے۔" ۱۲۸

 

برک ہارٹ (Burckhardt) لکھتا ہے:

"یہ خوش آئند اصول کہ جنگ محض مسلح افواج کے درمیان کشمکش کا نام ہے جس کا غیر فوجی لوگوں کے پرامن روابط پر کوئی اثر نہیں پڑتا، اپنے آپ کو ایک خیالی جنت ثابت کر چکا ہے۔ فوج نہ اپنے تئیں قوم سے جدا کر سکتی ہے اور نہ ریاست سوسائٹی سے الگ ہو سکتی ہے۔ تمام نظریات کے علی الرغم، جنگ ہمیشہ قوموں کے درمیان ہوا کرتی ہے، کیونکہ آبادی کے تمام طبقات اس میں حصہ لیتے ہیں، اگرچہ ان سب کے ہتھیار مختلف ہوتے ہیں۔ جہاں تک ریاست سے ان کا گہرا تعلق ہے، ریاست اور اہلِ ملک میں کوئی امتیاز قائم نہیں کیا جا سکتا۔ لہٰذا جنگ جس طرح دو فوجوں کے درمیان ایک فوجی کشمکش ہے، اسی طرح وہ دو قوموں کے درمیان ایک معاشی کشمکش بھی ہے۔" ۱۲۹

 

ایک دوسرے موقع پر یہی مصنف لکھتا ہے:

"سمندر کی تہہ میں تجارت کو غرق کر دینا آدمیوں کو ڈبو دینے سے بدرجہا زیادہ انسانیت پرور طریقۂ جنگ ہے۔ بلکہ زیادہ گہرا تجزیہ کرو تو دشمن کی فوجی قوت کو مغلوب کرنے کی کوشش ایسی حالت میں بالکل بے کار معلوم ہو گی جب کہ دشمن کی معاشی قوت اتنی مضبوط ہو کہ وہ اسے ہتھیار رکھنے پر مجبور نہ ہونے دے۔ اسی وجہ سے یہ ناگزیر ہے کہ ہر محارب فریق اپنے دشمن کی معاشی قوت برباد کر دینے کی کوشش کرے۔.. ایک ریاست کی عسکری قوتِ دفاع اس کی معاشی قوت کے ساتھ اس طرح گتھی ہوئی ہے کہ ان دونوں کو الگ نہیں کیا جا سکتا۔ اس کی صنعتی زندگی جنگ جاری رکھنے میں اس کے لیے اتنی ہی مفید ہوتی ہے جتنی اس کے سپاہی کی زندگی ہو سکتی ہے۔ اس لیے کوئی محارب قوت دشمن کے معاشی وسائل پر حملہ کرنے سے باز نہیں رہ سکتی۔ دشمن کی عام آبادی کو بھوکا مار دینا خواہ کتنا ہی بے رحمی کا فعل ہو، مگر میری رائے میں یہ کوئی ممنوع طریقِ جنگ نہیں ہے۔" ۱۳۰

 

آگے چل کر یہ مصنف پھر لکھتا ہے:

"جنگ کا کلیتاً فوجی طبقے تک محدود رکھنا بہت سے تخیل پسندوں کا مطمحِ نظر ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ خشکی اور تری دونوں پر شخصی املاک محفوظ رہیں، محاربین تک میں اموالِ تجارت کا لین دین جاری رہے، اور جنگ محارب فریقین کی فوجی قوتوں کے درمیان ہو نہ کہ محارب ریاستوں کی عام رعایا کے درمیان۔ لیکن آج کوئی عملی آدمی اس تخیل کا پرستار نہیں ہے۔ صرف اسی بنا پر نہیں کہ وہ حقیقتِ واقعہ سے بہت دور ہے، بلکہ اس لیے بھی کہ یہ صراحتاً ایک مصنوعی اور غیر فطری حالت ہے۔... یہ بات عقل و خرد کے بالکل منافی معلوم ہوتی ہے کہ ایک طرف ایک ریاست اپنے ہزاروں نوجوانوں کو جنگ کی آگ میں جھونک رہی ہو اور دوسری طرف دشمن کو چین سے تجارت بھی کرنے دے..." ۱۳۱

 

ایک اور مصنف ایلتز باشر (Eltzbacher) لکھتا ہے:

"چونکہ دشمن کی فوجی قوت کی جڑیں دشمن قوم کی مجموعی قوت میں بہت گہری جمی ہوئی ہوتی ہیں، اس لیے اس قوت کو تمام ممکن ذرائع سے کچل دینا نہایت ضروری ہے۔ اس طرح ایک دشمن فوج کے خلاف جو جنگ شروع کی جاتی ہے وہ اس پوری دشمن قوم کے خلاف جنگ کی صورت اختیار کر لیتی ہے، اور جب جنگ اس منزل پر پہنچ جاتی ہے تو بین الاقوامی قانون اس کے پیچھے چلنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ پہلے زمانے میں جو یہ اصول تسلیم کر لیا گیا تھا کہ جنگ محض دشمن کی مسلح فوجوں تک محدود رہنی چاہیے، اور محاربین کی عام آبادی تک چند مخصوص و متعین صورتوں کے سوا اس کے شدائد کو وسیع نہ ہونا چاہیے، اس پر آج تباہی عارض ہو چکی ہے۔ موجودہ زمانے کی جنگ نے اس کو دور پھینک دیا ہے۔ وہ صرف انفرادی واقعات ہی میں نہیں توڑا گیا بلکہ اسے ہمیشہ کے لیے اور کلیتاً توڑ دیا گیا ہے۔ آئندہ لڑائیوں میں اس کا کوئی لحاظ نہ رکھا جائے گا، کیونکہ ماضی کے ساتھ فنا ہو جانے والی چیز کا پھر اعادہ نہیں ہوا کرتا۔" ۱۳۲

 

اسلام کا متوازن نقطۂ نظر:

 

ان طویل اقتباسات سے ثابت ہوتا ہے کہ جنگ میں تمام غیر فوجی طبقوں کو غیر اہلِ قتال قرار دینا، ان کو جنگی کارروائیوں سے محفوظ رکھ کر آزادی سے کاروبار کرنے دینا اور انہیں ان تمام رعایتوں سے جو غیر اہلِ قتال کے لیے مخصوص ہیں مستفید کرنا، نہ صرف عملاً ناممکن ہے بلکہ اصولاً بھی ایک حد تک غلط ہے۔ اس میں شک نہیں کہ جنگ میں غیر فوجی طبقوں کو خاص طور پر ہدف بنانا اور ان کی اقتصادی زندگی برباد کرنے کی اس حیثیت سے کوشش کرنا کہ گویا یہ بھی جنگ کے مقاصد میں سے ہے، یقیناً ایک زیادتی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی درست نہیں کہ ان تمام لوگوں کو غیر اہلِ قتال کے مکمل حقوق دیے جائیں جو براہِ راست ہتھیار نہ اٹھانے کے باوجود دشمن کی جنگی طاقت کو تقویت پہنچانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

 

اس لحاظ سے مغربی قانون نے اہلِ قتال و غیر اہلِ قتال کے درمیان تفریق کا جو خط کھینچا ہے وہ کسی حیثیت سے بھی مکمل یا متوازن نہیں ہے۔ ایک طرف وہ بہت سے ان طبقات (مثلاً آزادی کے لیے لڑنے والے غیر منظم جنگجو) کو اہلِ قتال کے حقوق سے محروم کر دیتا ہے جو درحقیقت اس کے مستحق ہیں۔ دوسری طرف بہت سے ان طبقات (مثلاً جنگی صنعت میں کام کرنے والے یا فوج کو رسد پہنچانے والے) کو غیر اہلِ قتال کی رعایتیں دیتا ہے جو درحقیقت جنگی کوشش کا اہم حصہ ہوتے ہیں۔

 

اس افراط اور تفریط کے درمیان اسلام نے ایک متوازن خط کھینچا ہے۔ اس نے محارب قوم کو "مقاتلہ" (لڑنے کی صلاحیت) کے اصول پر تقسیم کیا ہے۔

   اہلِ قتال: جو لوگ عملاً مقاتلہ کرتے ہیں (یعنی لڑتے ہیں) یا فطرت اور عادت کے اعتبار سے مقاتلہ کے قابل ہیں (یعنی بالغ، صحت مند مرد)، وہ سب اہلِ قتال ہیں۔

   غیر اہلِ قتال: اور جو فطرت اور عادت کے اعتبار سے مقاتلہ کی قدرت نہیں رکھتے، مثلاً عورتیں، بچے، بوڑھے، بیمار، معذور، راہب اور کاشتکار وغیرہ جو جنگ میں حصہ نہ لیں، وہ سب غیر اہلِ قتال میں داخل ہیں۔

 

دشمن قوم کا ہر فرد جو مسلمانوں سے لڑنے آئے گا، خواہ وہ باقاعدہ فوجی ہو یا نہ ہو، اسے بہرحال مقاتل سمجھا جائے گا اور اس سے جنگ کی جائے گی۔ اگر وہ گرفتار ہو تو اسے اسیرانِ جنگ کے حقوق حاصل ہوں گے، بشرطیکہ وہ غدر و عہد شکنی کا عادی مجرم نہ ہو۔

 

اسی طرح ہر وہ شخص جو جنگ پر قادر (یعنی لڑنے کی صلاحیت رکھنے والا مرد) ہو گا، اصولاً اہلِ قتال میں شمار کیا جائے گا۔ لیکن اگر وہ عملاً جنگ میں حصہ نہ لے رہا ہو، تو اس کے ساتھ خصوصی رعایت کی جائے گی۔ اگر وہ امان مانگے تو اسے امان دی جائے گی۔ اگر وہ دارالحرب اور دارالاسلام کے درمیان پرامن طریقے سے تجارت کرنا چاہے تو مصالحِ جنگ کی رعایت سے اس کی بھی اجازت دی جا سکتی ہے۔ اگر وہ جنگی کارروائیوں سے محترز رہ کر اپنے پرامن کاروبار میں مشغول رہے تو اس کو غیر اہلِ قتال کی طرح تحفظ دیا جا سکے گا۔ لیکن نوعیت کے اعتبار سے وہ اہلِ قتال ہی کے طبقے میں شمار ہو گا اور غیر مقاتلین کے مکمل حقوق اسے محض رعایتاً دیے جائیں گے، جبکہ براہِ راست غیر مقاتلین (عورتیں، بچے وغیرہ) کا تحفظ ایک لازمی اصول ہے۔

 

اہلِ قتال اور غیر اہلِ قتال کے درمیان تفریق کی یہی ایک فطری اور متوازن صورت ہے، اور ان دونوں انتہائی نقطوں (سب کو مارنا یا صرف فوجیوں کو مارنا) کے درمیان اسی ایک متوسط نقطے پر جنگی اور قانونی تقاضوں کا اجتماع ممکن ہے۔

 

۳۔ مقاتلین کے حقوق و فرائض:

 

محاربین کی یہ دو بڑی اقسام، یعنی اہلِ قتال و غیر اہلِ قتال، اپنے حقوق و فرائض کے اعتبار سے مختلف قوانین کے تابع ہیں۔ اس لیے ہم ان دونوں سے الگ الگ بحث کریں گے۔ ان میں ترتیب کے اعتبار سے اہلِ قتال مقدم ہیں۔

 

جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے، یورپ میں اہلِ قتال کے حقوق کا مکمل احساس انیسویں صدی کے اواخر کی پیداوار ہے۔ اگرچہ اس سے بہت پہلے نظری حیثیت سے ان پر بحث و کلام کی ابتدا ہو چکی تھی اور شعورِ اجتماعی کی ترقی کے ساتھ ساتھ بعض حقوق عملی دنیا میں بھی تسلیم کیے جا چکے تھے، لیکن کامل طور پر ان حقوق کے تسلیم و اعتراف کا دور بہت بعد میں شروع ہوا ہے۔ ۱۸۲۹ء تک ریاستیں اس بارے میں کسی متعین قانون کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہ تھیں، اور خود اپنے آپ کو اس امر کے فیصلے کا مختار سمجھتی تھیں کہ کن محاربین کو وہ اہلِ حرب (Lawful Combatants) کے حقوق دیں اور کن کو نہ دیں۔ چنانچہ امریکہ کی خانہ جنگی (۱۸۶۱ء-۱۸۶۵ء) کے دوران بھی یہ بحث جاری رہی کہ باغی فوجیوں کو محارب تسلیم کیا جائے یا نہیں۔

 

آخرکار ریاستوں نے یہ اصول تسلیم کیا کہ محاربین کو حالتِ حربیت (Belligerency) کے حقوق دیے جائیں گے، اور اس کا فیصلہ کچھ معروضی معیار پر ہونا چاہیے، نہ کہ صرف فریقین کی مرضی پر۔

 

سب سے پہلے ۱۸۶۸ء کے سینٹ پیٹرزبرگ اعلامیے میں ایک قاعدہ کلیہ وضع کیا گیا جس کے الفاظ یہ تھے:

"جنگ میں ریاستوں کا واحد جائز مقصد دشمن کی فوجی قوت کو کمزور کرنا ہے۔ اس مقصد کے لیے یہ کافی ہے کہ دشمن کے آدمیوں کی زیادہ سے زیادہ ممکن تعداد کو ناکارہ (Disable) کر دیا جائے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے ضروری حد سے تجاوز کرتے ہوئے ایسے ہتھیار استعمال کرنا جو مسلح افراد کی تکالیف میں بے جا اضافہ کریں یا ان کی موت کو ناگزیر بنا دیں، اس مقصد کے منافی ہو گا۔"

 

یہ ابتدائی قاعدہ تھا۔ اس کے چند سال بعد ۱۸۷۴ء کی برسلز کانفرنس میں کچھ حقوق و فرائض بھی متعین کرنے کی کوشش کی گئی۔ لیکن انیسویں صدی کے خاتمے تک اس موضوع پر کوئی ایسا قانون نہ بنایا جا سکا جس کو تمام مغربی طاقتوں نے تسلیم کر لیا ہو۔

 

صدی کے اختتام پر جب پہلی ہیگ کانفرنس (۱۸۹۹ء) منعقد ہوئی تو اس نے یہ جامع اصول وضع کیا کہ: "محاربین کا ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کے ذرائع استعمال کرنے کا حق غیر محدود نہیں ہے۔" (ضوابطِ ہیگ، دفعہ ۲۲) ۱۳۳

 

اس کے ساتھ ہی اس نے اہلِ قتال کے حقوق و فرائض بھی متعین کیے جن کو ضوابطِ ہیگ (منسلکہ کنونشن چہارم، ۱۹۰۷ء) کی دفعہ ۲۳ میں اس طرح بیان کیا گیا ہے:

"بین الاقوامی معاہدات کے تحت عائد کردہ ممانعتوں کے علاوہ، خصوصاً ممنوع ہے:

(الف)۔ زہر یا زہریلے ہتھیار استعمال کرنا۔

(ب)۔ دشمن قوم یا فوج سے تعلق رکھنے والے افراد کو غداری سے ہلاک یا زخمی کرنا۔

(ج)۔ کسی ایسے دشمن کو ہلاک یا زخمی کرنا جس نے ہتھیار ڈال دیے ہوں، یا اس کے پاس دفاع کا کوئی ذریعہ نہ رہا ہو، اور اس نے رحم کی درخواست کی ہو۔

(د)۔ یہ اعلان کرنا کہ کسی کو امان نہیں دی جائے گی۔

(ر)۔ ایسے ہتھیار، گولہ بارود یا مادے استعمال کرنا جو غیر ضروری تکلیف پہنچانے کے لیے بنائے گئے ہوں۔

(س)۔ صلح کے جھنڈے (Flag of Truce)، قومی پرچم، یا دشمن کے فوجی نشانات یا وردی، نیز جنیوا کنونشن کے امتیازی نشانات کا ناجائز استعمال کرنا۔

(ش)۔ دشمن کی املاک کو تباہ یا ضبط کرنا، سوائے اس کے کہ جنگی ضروریات کے تحت ایسا کرنا قطعی طور پر ناگزیر ہو۔

(ص)۔ متعاہد فریق کے شہریوں کے حقوق اور قانونی چارہ جوئی کے حق کو معطل، ختم یا ناقابلِ سماعت قرار دینا۔"

 

اس اجمالی بیان سے یہ تو معلوم ہو گیا کہ اہلِ قتال کے حقوق و فرائض کی تعیین کب اور کس طرح ہوئی۔ اس کے بعد اب ہم خاص خاص حقوق و فرائض کا الگ الگ تذکرہ کریں گے۔

 

   قواعدِ حرب کی پابندی: اہلِ قتال کا سب سے بڑا فرض جس پر ریاستیں بڑا اصرار کرتی ہیں یہ ہے کہ وہ فوجی ضبط و نظام کے پابند ہوں اور قواعدِ حرب کو ملحوظ رکھیں۔ جو محاربین بے ضابطہ جنگ کرتے ہیں (مثلاً جاسوس، یا غیر قانونی جنگجو) ان کے حقوقِ حربیت کو تقریباً تمام ریاستوں نے تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے۔ (تاہم، جیسا کہ اوپر بیان ہوا، عوامی مزاحمت کی کچھ صورتیں اب قانونی طور پر تسلیم شدہ ہیں)۔

 

   امان (Quarter): اہلِ قتال کا ایک بنیادی حق یہ ہے کہ جب وہ ہتھیار ڈال دیں یا جنگ سے عاجز آ کر رحم کی درخواست کریں تو انہیں امان دی جائے (یعنی قتل نہ کیا جائے) اور انہیں جنگی قیدی بنایا جائے۔ جیسا کہ ضوابطِ ہیگ کی دفعہ ۲۳ (ج) اور (د) میں صراحت ہے۔ سترہویں صدی تک یورپ میں امان دینے سے انکار عام تھا۔ اٹھارہویں صدی کے آخر تک بھی اس کی مثالیں ملتی ہیں (مثلاً ۱۷۹۴ء میں فرنچ کنونشن کا انگریزوں کو امان نہ دینے کا حکم، اگرچہ اس پر عمل نہیں ہوا)۔ لیکن انیسویں صدی میں یہ حق بتدریج تسلیم کر لیا گیا کہ ہتھیار ڈالنے والے یا رحم طلب کرنے والے دشمن کو قتل نہیں کیا جائے گا۔ ۱۳۴

    مگر یہ قانون صرف ان لوگوں کے لیے ہے جو میدانِ جنگ میں دشمن کے قابو میں آئیں۔ باقی رہے وہ محاربین جو حالتِ جنگ شروع ہوتے وقت دشمن کے ملک میں موجود ہوں، سو ان کے متعلق کوئی حتمی قاعدہ موجود نہیں تھا۔ اٹھارہویں صدی تک عام قاعدہ یہ تھا کہ ایسے لوگوں کو گرفتار کر لیا جاتا اور جنگ کے اختتام تک قید رکھا جاتا تھا۔ ۱۷۵۶ء میں پہلی مرتبہ برطانیہ نے فرانس کے ساتھ یہ رعایت کی کہ جنگ کے آغاز میں جتنے فرانسیسی اس کی حدود میں موجود تھے ان کو مخصوص شرائط پر رہنے کی امان دے دی۔ ۱۷۹۴ء کے جے معاہدے (Jay Treaty) میں برطانیہ اور امریکہ نے اس قسم کا سمجھوتہ کیا۔ مگر ۱۸۰۳ء میں معاہدۂ ایمینس (Amiens) کے ٹوٹنے پر نپولین نے پھر پچھلے طریقے کا اعادہ کیا اور ان تمام انگریزوں کو گرفتار کر لیا جو فرانسیسی علاقے میں موجود تھے۔ انیسویں صدی میں ایک دوسرا طریقہ ملک سے اخراج کا بھی اختیار کیا گیا، اور ان تینوں طریقوں (امان، قید، اخراج) پر مختلف اوقات میں عمل درآمد ہوتا رہا۔ ۱۸۵۴ء کی جنگِ کریمیا، ۱۸۷۷ء کی جنگِ ترکی و روس، ۱۸۹۷ء کی جنگِ ترکی و یونان اور ۱۸۹۸ء کی جنگِ امریکہ و اسپین میں فریقین نے ایک دوسرے کے شہریوں کو نکل جانے کی مہلت یا رہنے کی امان دی۔ مگر ۱۸۷۰ء کی جنگِ جرمنی و فرانس میں فرانس نے جرمنوں کو نکال دیا۔ ۱۸۹۹ء کی جنگِ بوئر میں ٹرانسوال نے انگریزوں کو ملک سے خارج کر دیا۔

    پہلی جنگِ عظیم (۱۹۱۴ء) میں برطانیہ، فرانس اور روس نے دشمن ملک کے ان تمام افراد کو جو فوجی عمر کے تھے، نظر بند کر دیا، جبکہ جرمنی اور آسٹریا نے بھی ایسا ہی کیا۔ پرتگال نے غیر فوجی عمر کے لوگوں کو نکال دیا اور فوجی عمر والوں کو نظر بند کیا۔ امریکہ اور جاپان نے سب کو امان دی۔ اس کے متعلق کوئی واضح قانون نہ بن سکا۔ لیکن موجودہ زمانے میں بین الاقوامی قانون کا رجحان یہ ہے کہ دشمن ملک کے شہریوں کو فوراً گرفتار یا ملک بدر نہ کیا جائے جب تک کہ وہ ریاست کی سلامتی کے لیے خطرہ نہ ہوں۔ ۱۲۲

    اس کے مقابلے میں اسلام میں ساڑھے تیرہ سو برس سے یہ عام قانون موجود ہے کہ اہلِ حرب میں سے کوئی شخص اگر دارالاسلام میں امان لے کر (مثلاً ویزا پر) داخل ہو تو اسے امان حاصل ہے اور اس کی جان و مال محفوظ ہیں۔ اسے معاہدے کی شرائط کے مطابق رہنے یا اپنے "مأمن" (محفوظ مقام) تک واپس جانے کی سہولت دی جائے گی۔ اس کے علاوہ اسلام نے حربی مستامن (امان طلب کرنے والے غیر مسلم) کو جو وسیع حقوق دیے ہیں، ان تک مغرب کا قانون اب بھی پوری طرح نہیں پہنچا ہے۔ ۱۲۳

 

   اسیرانِ جنگ (Prisoners of War - POWs): اسیرانِ جنگ کے متعلق یورپ کے قوانین بہت مکمل ہیں۔ مگر پروفیسر مورگن کے بقول ان کے مکمل ہونے کی اصلی وجہ یہ ہے کہ ان کے بارے میں تمام ریاستوں کے مفاد مشترک ہیں۔ ہر ریاست خود اپنے سپاہیوں اور افسروں کی آسائش چاہتی ہے، اس لیے وہ محض مبادلے (Reciprocity) کے طور پر مخالف کے سپاہیوں اور افسروں کو بھی آسائش پہنچانے پر راضی ہو جاتی ہے۔ ۱۲۴

    لیکن یہ مہذب قوانین بہت قریبی عہد کی پیداوار ہیں۔ سترہویں صدی تک یورپ میں اسیرانِ جنگ کو غلام بنانے یا قتل کرنے کا رواج تھا۔ گروٹیوس نے اس طریقے کے خلاف آواز بلند کی اور عیسائی اقوام کو مشورہ دیا کہ وہ ایک دوسرے کو غلام بنانے یا بیچنے کے بجائے اسیرانِ جنگ کا فدیہ لے کر یا تبادلہ کر کے چھوڑ دیا کریں۔ مگر ایک صدی تک اس کی سفارشات بے اثر رہیں۔ اٹھارہویں صدی کی ابتداء میں فدیہ اور تبادلۂ اسیرانِ جنگ کا طریقہ جاری ہوا اور صدی کے اختتام تک ریاستیں اس پر کاربند رہیں۔ ۱۷۸۰ء میں فرانس اور برطانیہ کے درمیان مبادلہ اور فدیہ کے متعلق جو معاہدہ ہوا تھا اس میں ایک سپاہی کی قیمت ایک پاؤنڈ اور ایک امیر البحر یا مارشل کی قیمت ۶۰ پاؤنڈ یا ۶۰ سپاہی قرار دی گئی تھی۔ انیسویں صدی میں فدیہ کا طریقہ متروک ہو گیا اور صرف تبادلہ یا غیر مشروط رہائی کا طریقہ باقی رہا۔

    لیکن تہذیب کے اس شباب کے زمانے میں بھی اسیرانِ جنگ کو قتل کرنے کا طریقہ بالکل موقوف نہیں ہوا تھا۔ چنانچہ ۱۷۹۹ء میں نپولین بونا پارٹ نے یافا (Jaffa) میں تقریباً چار ہزار عثمانی قیدیوں کو، جنہوں نے جان بخشی کا وعدہ لے کر ہتھیار ڈالے تھے، صرف اس عذر کی بنا پر قتل کرا دیا کہ وہ انہیں کھلانے کے لیے خوراک مہیا نہیں کر سکتا تھا اور نہ مصر بھیجنے کا انتظام کر سکتا تھا۔ ۱۲۵

    اس کے تقریباً ایک صدی بعد مغربی دنیا میں پھر اسی قسم کے جرائم کا ارتکاب کیا گیا۔ ۱۸۹۶ء میں کیوبا میں ہسپانوی کیپٹن جنرل ویلر (Weyler) نے باغی قیدیوں کو قتل کرایا اور ہزارہا نہتے باشندوں کو حراستی کیمپوں میں اس طرح قید کیا کہ وہ بیماری اور بھوک سے ہلاک ہو گئے۔

    بہر حال، اسیرانِ جنگ کے متعلق باضابطہ قواعد ۱۸۷۴ء کی برسلز کانفرنس میں وضع کرنے کی کوشش کی گئی۔ ۱۸۹۹ء کی ہیگ کانفرنس نے ان کی توثیق کی اور ۱۹۰۷ء کی دوسری ہیگ کانفرنس نے ان کو ضوابطِ ہیگ (Hague Regulations, Section I, Chapter II, Articles 4-20) کی شکل میں مدون کیا۔ بعد ازاں ۱۹۲۹ء اور پھر ۱۹۴۹ء کے جنیوا کنونشنز (Geneva Convention relative to the Treatment of Prisoners of War) نے ان قوانین کو مزید تفصیل اور وسعت دی۔ ان قواعد کا خلاصہ (بنیادی طور پر ۱۹۰۷ء کے ضوابط کے مطابق) یہاں نقل کیا جاتا ہے:

           دفعہ ۴: اسیرانِ جنگ قابض حکومت کے اختیار میں ہوتے ہیں، نہ کہ ان افراد یا کور کے جنہوں نے انہیں گرفتار کیا ہو۔ ان کے ساتھ انسانی سلوک کیا جانا چاہیے۔ ان کی ذاتی اشیاء، سوائے ہتھیاروں، گھوڑوں اور فوجی کاغذات کے، ان کی ملکیت رہیں گی۔

           دفعہ ۵: اسیرانِ جنگ کو قصبوں، قلعوں، کیمپوں یا کسی اور جگہ نظر بند کیا جا سکتا ہے، اور انہیں ایک خاص حد سے آگے نہ جانے کا پابند کیا جا سکتا ہے؛ لیکن انہیں صرف اسی صورت میں قید کیا جا سکتا ہے جب یہ عوامی تحفظ کے لیے ناگزیر اقدام ہو۔

           دفعہ ۶: ریاست اسیرانِ جنگ سے ان کے رتبے اور اہلیت کے مطابق کام لے سکتی ہے (افسر مستثنیٰ ہیں)۔ یہ کام حد سے زیادہ مشقت والا نہ ہو اور جنگی کارروائیوں سے کوئی تعلق نہ رکھتا ہو۔ قیدیوں کو ان کے کام کا معاوضہ دیا جائے گا۔

           دفعہ ۷: حکومت جس کے قبضے میں اسیرانِ جنگ ہوں، ان کی خوراک، رہائش اور لباس کی ذمہ دار ہے۔ اگر کوئی خصوصی معاہدہ نہ ہو، تو ان کے ساتھ ویسا ہی سلوک کیا جائے گا جیسا قابض حکومت کی اپنی فوجوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔

           دفعہ ۸: اسیرانِ جنگ قابض ریاست کی مسلح افواج کے قوانین، ضوابط اور احکامات کے تابع ہوں گے۔ نافرمانی کا ہر فعل ان کے خلاف ضروری سخت اقدامات کا جواز پیدا کرے گا۔ بھاگنے والے قیدی اگر اپنی فوج تک پہنچنے سے پہلے دوبارہ پکڑے جائیں تو تادیبی سزا کے مستحق ہوں گے۔ اگر وہ فرار ہو کر اپنی فوج میں شامل ہو جائیں اور پھر پکڑے جائیں تو ان پر پچھلی فراری کی سزا نہیں ہو گی۔

           دفعہ ۹: ہر اسیرِ جنگ کا فرض ہے کہ اگر اس سے پوچھا جائے تو وہ اپنا صحیح نام اور عہدہ بتائے۔ اگر وہ اس قاعدے کی خلاف ورزی کرے تو اسے اس طبقے کے قیدیوں کو ملنے والی مراعات سے محروم کیا جا سکتا ہے۔

           دفعہ ۱۰: اسیرانِ جنگ کو پیرول (قول یا حلف) پر رہا کیا جا سکتا ہے اگر ان کے اپنے ملک کے قوانین اس کی اجازت دیں۔ اس صورت میں وہ اپنی ذاتی عزت، نیز اپنی حکومت کے سامنے، ان شرائط کو پورا کرنے کے پابند ہوں گے جن پر وہ متفق ہوئے ہیں۔

           دفعہ ۱۱: کسی اسیرِ جنگ کو پیرول قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا؛ نہ ہی کوئی محارب حکومت پابند ہے کہ ہر اسیر کی پیرول کی درخواست منظور کرے۔

           دفعہ ۱۲: پیرول پر رہا ہونے والا کوئی بھی قیدی اگر دوبارہ اسی حکومت یا اس کے اتحادیوں کے خلاف ہتھیار اٹھائے ہوئے پکڑا جائے تو وہ اسیرِ جنگ کے طور پر سلوک کا حق کھو دیتا ہے اور اسے عدالت کے سامنے لایا جا سکتا ہے۔

           دفعہ ۱۳: جو افراد فوج کے ساتھ ہوں لیکن براہِ راست اس کا حصہ نہ ہوں، مثلاً اخباروں کے نامہ نگار، رسد پہنچانے والے وغیرہ، اگر وہ دشمن کے ہاتھ لگ جائیں اور دشمن انہیں حراست میں رکھنا مناسب سمجھے، تو انہیں اسیرانِ جنگ کے طور پر سلوک کا حق حاصل ہے، بشرطیکہ ان کے پاس اس فوج سے اجازت نامہ ہو جس کے وہ ساتھ ہیں۔

           دفعہ ۱۴: جنگ کے آغاز سے ہی ہر محارب ریاست میں، اور غیر جانبدار ممالک میں جہاں محاربین کو رکھا گیا ہو، ایک اطلاعاتی بیورو (Information Bureau) قائم کیا جائے گا جو اسیرانِ جنگ سے متعلق تمام پوچھ گچھ کا جواب دے گا۔ یہ بیورو ہر قیدی کے بارے میں تفصیلات جمع کرے گا اور ان کا ریکارڈ رکھے گا۔

           دفعہ ۱۵: اسیرانِ جنگ کی امدادی سوسائٹیاں جو اپنے ملک کے قانون کے مطابق قائم کی گئی ہوں اور جن کا مقصد خیرات کرنا ہو، محارب فریقین سے ہر قسم کی مراعات کی مستحق ہوں گی۔ ان کے مندوبین کو، بشرطیکہ ان کے پاس فوجی حکام سے اجازت نامہ ہو، قیدیوں میں امداد تقسیم کرنے، اور ان کے قید کے مقامات تک جانے کی اجازت ہو گی۔

           دفعہ ۱۶: اطلاعاتی بیورو ڈاک کے محصول سے مستثنیٰ ہو گا۔ اسیرانِ جنگ کے لیے بھیجے گئے یا ان کی طرف سے بھیجے گئے خطوط، منی آرڈر، قیمتی اشیاء اور پارسل، مبدا اور منزل کے ممالک اور درمیان کے ممالک میں، تمام ڈاک کے خرچ سے مستثنیٰ ہوں گے۔ قیدیوں کے لیے تحائف اور امدادی سامان ہر قسم کی درآمدی ڈیوٹی اور ریلوے کے کرائے سے مستثنیٰ ہوں گے۔

           دفعہ ۱۷: گرفتار شدہ افسروں کو وہی تنخواہ مل سکتی ہے جو قابض فوج کے اسی رینک کے افسروں کو ملتی ہے، بشرطیکہ رقم ان کی اپنی حکومت بعد میں ادا کرے۔ (۱۹۴۹ء کے کنونشن میں اس میں تبدیلی کی گئی)۔

           دفعہ ۱۸: اسیرانِ جنگ کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی مکمل آزادی ہو گی، بشمول ان کی اپنی رسومات کی ادائیگی، بشرطیکہ وہ فوجی حکام کے مقرر کردہ نظم و ضبط کے ضروری قواعد کی پابندی کریں۔

           دفعہ ۱۹: اسیرانِ جنگ کی وصیتیں انہی شرائط کے تحت وصول یا تیار کی جائیں گی جو قابض فوج کے ارکان کے لیے ہیں۔ ان کی وفات کی صورت میں ان کی تجہیز و تکفین ان کے رتبے اور درجے کا لحاظ رکھتے ہوئے کی جائے گی۔

           دفعہ ۲۰: صلح کے خاتمے کے بعد، اسیرانِ جنگ کی وطن واپسی جلد از جلد عمل میں لائی جائے گی۔ ۱۲۶

 

    ان قواعد کو اگر ضابطے کی جزئیات سے مجرد کر کے محض اصول کے اعتبار سے دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ انہوں نے اسلام کے مقرر کیے ہوئے اصول پر کوئی خاص اضافہ نہیں کیا ہے ۱۲۷۔ مغربی قانون اسیرانِ جنگ کو زیادہ سے زیادہ وہ آسائش بہم پہنچانا چاہتا ہے جو ایک ریاست خود اپنے اسی درجے کے سپاہیوں اور افسروں کو بہم پہنچاتی ہے۔ مگر محمد ﷺ اور ان کے صحابہؓ کا طرزِ عمل یہ تھا کہ انہوں نے اسیرانِ جنگ کو اپنے سے بہتر کھانا کھلایا اور اپنے سے بہتر کپڑا پہنایا، حالانکہ دشمنوں کے ہاں ان کے اسیرانِ جنگ کو روٹی کپڑا تو درکنار، الٹی جسمانی اذیتیں نصیب ہوتی تھیں۔ مغربی ریاستیں اسیرانِ جنگ کے خرچ کا ایک حصہ خود ان کی اپنی قوم سے وصول کرتی ہیں۔ مگر اسلام نے ان پر اس وقت اپنا مال خرچ کیا جب کہ دشمن ریاستوں سے اس معاملے میں کسی سمجھوتے کا امکان تھا ہی نہیں۔ مغربی ریاستیں ان کو صرف تبادلے کی صورت میں رہا کرنے کو ترجیح دیتی ہیں، مگر اسلام نے تبادلے کے بغیر بھی ان کو اکثر رہا کیا ہے اور بطریقِ احسان (بغیر فدیہ) رہا کر دینے کو افضل سمجھا ہے۔

 

    تاہم بعض چیزیں ان میں اسلام سے زائد بھی نظر آتی ہیں (مثلاً تفصیلی انتظامی ضوابط)۔ لیکن ان کے متعلق کوئی رائے قائم کرتے وقت اس حقیقت کو نظر انداز نہ کرنا چاہیے کہ ہر ریاست دوسری ریاست کے سپاہیوں کو یہ رعایتیں اس امید پر دیتی ہے کہ اس کے اپنے سپاہیوں کو بھی ایسی ہی رعایتیں دی جائیں گی۔ بخلاف اس کے اسلام نے کسی معاہدے اور سمجھوتے کے بغیر، ایسی حالت میں اسیرانِ جنگ کو وہ رعایتیں دی تھیں جب کہ اسے اپنے مخالفوں سے کسی قسم کی رعایت حاصل ہونے کی کوئی امید نہ تھی۔ اس نے غزوۂ بدر کے قیدیوں پر اس زمانے میں لطف و احسان کیا تھا جب کہ کفارِ قریش کے قبضے میں بیسیوں مسلمان تپتی ہوئی ریت پر لٹائے جاتے تھے۔ آج کی طرح اس وقت ایسا کوئی سمجھوتہ اور معاہدہ ممکن نہ تھا۔ اس لیے اسیرانِ جنگ کو زیادہ سے زیادہ وہی رعایتیں دی جا سکتی تھیں جو اسلام نے دیں۔ لیکن آج جب کہ اس بارے میں سمجھوتہ اور معاہدہ ممکن ہے، اسلام پچھلے قوانین پر اضافہ کرنے سے ہرگز انکار نہ کرے گا۔ وہ مسلمانوں کو غیر مسلموں کے ساتھ ہر ایسے معاہدے کی اجازت دیتا ہے جس میں مساوات کے ساتھ مراعات کا تبادلہ کیا گیا ہو۔

 

   مجروحین، مرضیٰ (بیمار) اور مقتولین: فوج کے مجروحین اور بیماروں کے لیے سترہویں صدی تک یورپ میں کوئی خاص منظم انتظام نہ تھا۔ غالباً سترہویں صدی میں پہلی مرتبہ جنگی ہسپتال قائم کرنے اور میدانِ جنگ میں فوری امداد کے لیے طبیب اور جراح رکھنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ لیکن دشمنوں کے مجروحوں اور بیماروں کا احترام اور اس کے ہسپتالوں اور معالجوں کی محفوظیت کا تخیل انیسویں صدی تک یورپ میں ناپید تھا۔ مجروح اور بیمار لوگ بسا اوقات قتل کر دیے جاتے اور اکثر اوقات ان کو نہایت خستہ حالت میں مرنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا تھا۔ ہسپتالوں کو فوجی حملے سے مستثنیٰ نہ رکھا جاتا تھا۔ معالجوں اور تیمارداروں کو اسیرانِ جنگ میں شمار کیا جاتا اور عام مقاتلین کی طرح وہ بھی قید کر لیے جاتے تھے۔ انیسویں صدی کے وسط میں بین الاقوامی قانون کے ماہرین اسی مسئلے میں مختلف تھے کہ ڈاکٹروں اور تیمارداروں کو اسیرانِ جنگ میں شمار کیا جائے یا نہیں ۱۲۸۔ امریکہ کی خانہ جنگی میں ریاستہائے متحدہ نے یہ امر جائز قرار دیا تھا کہ اگر غنیم کے ڈاکٹروں کی خدمات درکار ہوں تو انہیں پکڑ کر زبردستی ان سے کام لیا جا سکتا ہے۔

 

    غرض یہ کہ ۱۸۶۴ء تک یورپ مجروحوں، مریضوں اور معالجوں کے متعلق مہذب قوانین سے ناآشنا تھا۔ پہلی مرتبہ وہ اس تہذیب سے اس وقت آشنا ہوا جب سوئٹزرلینڈ کے ایک مشہور محبِ انسانیت ہنری ڈونانٹ (Henry Dunant) نے ۱۸۵۹ء کی جنگِ سولفرینو (Solferino) میں زخمیوں کی حالتِ زار دیکھ کر اس کے تدارک کے لیے آواز بلند کی۔ اس نے ۱۸۶۲ء میں ایک کتاب (A Memory of Solferino) شائع کی جس نے یورپ کی رائے عامہ کو بیدار کیا۔ اکتوبر ۱۸۶۳ء میں جنیوا میں ایک غیر سرکاری کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس کی تجاویز پر ۱۸۶۴ء میں جنیوا میں ایک باضابطہ بین الاقوامی کانفرنس منعقد ہوئی، اور اس نے ایک کنونشن (پہلا جنیوا کنونشن) تیار کیا جس پر ۲۲ اگست ۱۸۶۴ء کو ۱۲ یورپی ریاستوں نے دستخط کیے۔

 

    اس کنونشن میں فوجی ہسپتالوں اور طبی عملے کو غیر جانبدار قرار دیا گیا۔ ان کو جنگی قیدی بنانے یا ان کے شفاخانوں کو جنگی اعمال کا ہدف بنانے کی ممانعت کر دی گئی اور بیماروں اور زخمیوں کے علاج اور تیمارداری کے کام میں مزاحمت کرنے کو ناجائز قرار دیا گیا۔ نیز اس میں زخمیوں اور بیماروں سے متعلق ہر چیز (افراد، عمارت، سامان) کے لیے سفید زمین پر سرخ صلیب (Red Cross) کا نشان تجویز کیا گیا تاکہ دور سے اس کو دیکھ کر امتیاز کیا جا سکے اور کسی ایسی چیز کو جنگی کارروائیوں کا نشانہ نہ بنایا جائے جس پر وہ نشان لگا ہوا ہو۔ (بعد میں مسلم ممالک کے لیے سرخ ہلال Red Crescent بھی تسلیم کیا گیا)۔ اس کے ساتھ ہی ہر محارب فریق پر فرض کیا گیا کہ وہ اپنے زخمیوں کی طرح دشمن کے زخمیوں کا بھی علاج کرائے اور ان کی دیکھ بھال کرے۔

 

    یہ کنونشن متعدد حیثیات سے ناقص تھا، مثلاً اس کا اطلاق بحری جنگ پر نہیں ہوتا تھا اور خلاف ورزی کی سزا مقرر نہیں تھی۔ ۱۸۶۸ء میں ایک اضافی کانفرنس نے ان کمیوں کو پورا کرنے کی کوشش کی مگر اس کی توثیق نہ ہو سکی۔ ۱۸۹۹ء کی ہیگ کانفرنس نے ۱۸۶۴ء کے اصولوں کو بحری جنگ پر لاگو کرنے کے لیے ایک کنونشن (Hague Convention III) منظور کیا۔

 

    بالآخر ۱۹۰۶ء میں جنیوا میں ایک اور کانفرنس منعقد ہوئی جس نے ۱۸۶۴ء کے کنونشن پر نظر ثانی کر کے ایک نیا اور بہتر کنونشن (Geneva Convention of 1906) مرتب کیا جو بری جنگ میں زخمیوں اور بیماروں سے متعلق تھا۔ اس کے بعد ۱۹۰۷ء کی ہیگ کانفرنس نے اسی کنونشن کی بنیاد پر ایک اور کنونشن (Hague Convention X) کیا جس میں انہی قوانین کو بحری جنگ پر منطبق کیا گیا۔ مگر اس بحری کنونشن کی توثیق کئی اہم طاقتوں (بشمول برطانیہ) نے نہیں کی ۱۲۹، اس لیے یہ عملاً مؤثر نہ ہو سکا اور پہلی جنگِ عظیم میں ہسپتالی جہازوں پر حملے کیے گئے۔ (بعد ازاں ۱۹۲۹ء اور ۱۹۴۹ء کے جنیوا کنونشنز نے ان قوانین کو مزید جامع اور مؤثر بنایا)۔

 

    ان تمام سمجھوتوں کا اصلی الاصول صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ جو دشمن جنگ سے معذور ہو چکا ہو، جس کو زخم یا بیماری نے بے کار کر دیا ہو، اسے کسی قسم کی ایذا پہنچانا انسانیت کے خلاف ہے۔ اسی اصل سے وہ فروعی قواعد نکلتے ہیں جو ہسپتالوں اور ان کے کارکنوں کے متعلق جنیوا اور ہیگ کے کنونشنز میں وضع کیے گئے ہیں۔ ان قواعد کا ایک بڑا حصہ محض عملی جزئیات پر مشتمل ہے جو ظاہر ہے کہ حالات اور طریقوں کے تغیر کے ساتھ ساتھ بدلتے رہیں گے۔ دیکھنے کی چیز صرف اصول ہے، سو اس کو مغربی دنیا نے تو آج دریافت کیا ہے لیکن اسلام ساڑھے تیرہ سو برس قبل اسے طے کر چکا ہے۔ فرق یہ ہے کہ مغربی دنیا نے اسے اس وقت طے کیا جب سب طاقتیں اس اصول کو ماننے پر راضی ہو گئیں، مگر اسلام نے اس اصول کو اپنے مستقل قوانینِ جنگ میں اس وقت شامل کیا جب غیر مسلم دنیا اس کے ساتھ کسی سمجھوتے پر تیار نہ تھی اور لڑائیوں میں مسلمان زخمیوں کو بے تکلف مار ڈالا جاتا تھا۔ ایسے وقت میں اسلام نے اپنی فوجوں کو حکم دیا کہ تم کو دوسرے فریق کے اچھے یا برے طرزِ عمل سے بے پروا ہو کر خود اپنے ذاتی فرض کے طور پر زخمیوں اور ان تمام لوگوں پر رحم کھانا چاہیے جو زخمیوں کی طرح معذور ہیں۔

 

   مہلک اشیاء کا استعمال: جب سے جدید سائنسی علوم نے جنگ کے لیے نئے نئے مہلک سامان اختراع کرنے شروع کیے ہیں، یورپ میں ایک مسئلہ یہ بھی پیدا ہو گیا ہے کہ ان ہلاکت خیز چیزوں کا استعمال روک دیا جائے۔ زہریلی گیسیں، پھیلنے والی گولیاں (Expanding bullets)، آگ لگانے والے مادے، اور ایسی ہی دوسری چیزیں انسانی جسم پر جو ہولناک اثر پیدا کرتی ہیں، ان کو دیکھ کر یورپ کا ضمیر ملامت کرنے لگتا ہے اور انسانیت اور اخلاق کا نام لے کر وہ رائے عامہ کو بھڑکا کر اربابِ سیاست پر دباؤ ڈالتا ہے کہ جنگ میں ایسے وحشیانہ آلات اور اشیاء استعمال نہ کریں۔ مگر فوجی گروہ کو مقاصدِ جنگ کے حصول میں ان چیزوں سے جو مدد ملتی ہے اس کی وجہ سے وہ ان کا استعمال چھوڑنے پر راضی نہیں ہوتا۔

 

    ان دونوں گروہوں کے درمیان ایک عرصہ سے کشمکش برپا ہے، اور اس کا علاج سیاسی مدبرین نے یہ سوچ رکھا ہے کہ اخلاقیین کو تو وہ بین الاقوامی کانفرنسیں منعقد کر کے اور ان میں انسانیت پرور اقرار نامے تیار کر کے مطمئن کر دیتے ہیں، اور فوجی گروہ کو آزادی کے ساتھ نہ صرف ان تمام چیزوں کے استعمال کی بلکہ ایسی ہی دوسری نئی نئی چیزیں ایجاد کر کے رائج کرنے کی بھی اجازت دے دیتے ہیں۔

 

    ان مہلک اشیاء میں سے بعض چیزیں جو بظاہر زیادہ وحشیانہ صورت رکھتی ہیں، ان کو تو یورپ نے ایک عرصہ سے چھوڑ رکھا ہے۔ زہر (مثلاً کنوؤں میں ملانا) یا زہر آلود ہتھیاروں کا استعمال قدیم زمانے سے ممنوع سمجھا جاتا رہا ہے۔ کانٹے، شیشے کے ٹکڑے، یا ایسی ہی دوسری چیزیں ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا بھی غیر مہذب سمجھا جاتا ہے۔

 

    لیکن دوسری چیزیں جو حقیقت کے اعتبار سے کم وحشیانہ نہیں، آج تک برابر استعمال ہو رہی ہیں اور یورپ کی مہذب ترین ریاستیں ان کے استعمال پر سب سے زیادہ مصر رہی ہیں۔ ۱۸۶۸ء کے سینٹ پیٹرزبرگ اعلامیے، ۱۸۹۹ء اور ۱۹۰۷ء کی ہیگ کانفرنسوں میں یہ اصول تسلیم کیا گیا کہ دشمن کو ایسا جسمانی نقصان نہ پہنچانا چاہیے جو جنگ کے مقاصد (یعنی دشمن کو ناکارہ بنانے) کے لیے ضروری نہ ہو اور غیر ضروری تکلیف کا باعث بنے۔ چنانچہ اس اصول کے مطابق حسبِ ذیل اشیاء کا استعمال ممنوع قرار دیا گیا:

    ۱۔ ایسے دھماکہ خیز یا آگ لگانے والے گولے جن کا وزن ۴۰۰ گرام سے کم ہو۔ (سینٹ پیٹرزبرگ، ۱۸۶۸ء)

    ۲۔ ایسی گولیاں جو جسم میں داخل ہو کر آسانی سے پھیل جائیں یا چپٹی ہو جائیں (مثلاً ڈم ڈم گولیاں)۔ (ہیگ اعلامیہ، ۱۸۹۹ء)

    ۳۔ ایسے گولے جن کا واحد مقصد دم گھونٹنے والی یا زہریلی گیسیں پھیلانا ہو۔ (ہیگ اعلامیہ، ۱۸۹۹ء)

    ۴۔ غباروں یا دیگر نئے طریقوں سے گولے اور دھماکہ خیز مواد گرانا (عارضی پابندی، ہیگ اعلامیہ، ۱۸۹۹ء، جسے ۱۹۰۷ء میں دہرایا گیا مگر سب نے قبول نہیں کیا)۔

 

    ان میں سے نمبر ۴ کی قید تو مؤثر نہ ہو سکی اور ہوائی بمباری عام ہو گئی۔ نمبر ۳ کی قید کو پہلی جنگِ عظیم میں بڑے پیمانے پر توڑا گیا۔ جنگ کے بعد واشنگٹن کانفرنس (۱۹۲۲ء) اور پھر جنیوا پروٹوکول (۱۹۲۵ء) میں دوبارہ کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیاروں کے استعمال پر پابندی لگائی گئی، لیکن اس کی مکمل پابندی پھر بھی مشکوک رہی۔ نمبر ۲ (پھیلنے والی گولیوں) کے متعلق بھی تعریف اور اطلاق پر بحث رہی۔ نمبر ۱ کی پابندی بھی عملی طور پر محدود رہی۔ جنگِ عظیم (اول و دوم) میں ہر قسم کے دھماکہ خیز اور آگ لگانے والے ہتھیار آزادانہ استعمال کیے گئے۔ ۱۳۰

 

    اس معاملے میں اسلامی قانون نے کسی خاص قسم کے ہتھیار کی ممانعت نہیں کی ہے، کیونکہ ہتھیار زمانے کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ البتہ اس نے عمومی اصول دیے ہیں جیسے مثلہ (اعضاء کاٹنا) کی ممانعت، غیر ضروری تباہی سے گریز، اور دھوکہ دہی سے ممانعت۔ کسی خاص قسم کے ہتھیار یا سامانِ جنگ کے استعمال کو ممنوع قرار دینا محاربین کے باہمی سمجھوتے پر منحصر ہے۔ اگر ایک محارب فریق ایک مہلک چیز استعمال کرتا ہے تو دوسرے فریق کے لیے اس کا جواب دینا بسا اوقات ناگزیر ہو جاتا ہے۔ اس پر ایسی یک طرفہ پابندی عائد کرنا اس کے حق میں شکست کا پیشگی فیصلہ کر دینا ہے۔ اس لیے اسلام نے مسلمانوں کو ایسے ہتھیار اور طریقِ جنگ اختیار کرنے کی عمومی اجازت دی ہے جو ان کے زمانے میں رائج ہوں (جب تک وہ اسلامی اصولوں کے منافی نہ ہوں)، اور اس کے ساتھ ان کو اس معاملے میں بھی آزاد چھوڑ دیا ہے کہ اگر غیر قوموں سے کوئی ایسا سمجھوتہ ممکن ہو جس سے کسی خاص طریقِ جنگ یا آلۂ جنگ کو مساویانہ اصول پر ترک کیا جا سکتا ہو، تو وہ اپنے وقتی مصالح کو دیکھ کر اسے منظور کر لیں۔

 

   جاسوس (Spies): جاسوس کو کسی قانون نے مکمل پناہ نہیں دی ہے۔ دوسرے قوانین کی طرح مغربی قانون بھی اس کی حیثیت کو محدود تسلیم کرتا ہے۔ ضوابطِ ہیگ (۱۹۰۷ء) کی دفعہ ۳۰ میں جاسوس کو یہ رعایت دی گئی ہے کہ اسے مقدمہ چلائے بغیر سزا نہیں دی جا سکتی۔ اور دفعہ ۳۱ کی رو سے اس کو دوسری رعایت یہ دی گئی ہے کہ اگر وہ جاسوسی کر کے کامیابی سے اپنی فوج میں واپس پہنچ جائے اور اس کے بعد پکڑا جائے تو اسے پچھلے جاسوسی کے جرم کی سزا نہیں دی جائے گی (بلکہ اسے جنگی قیدی سمجھا جائے گا)۔ ان دو رعایتوں کے ساتھ، ضوابطِ ہیگ فوجی حکام کو پورا اختیار دیتے ہیں کہ جس شخص پر جاسوسی کا جرم (دشمن کے علاقے میں خفیہ طور پر معلومات حاصل کرتے ہوئے پکڑے جانے پر) ثابت ہو، اس کو سزا دیں (جو عموماً سزائے موت ہوتی ہے)۔

 

    اس معاملے میں اسلامی قانون بھی مغربی قانون سے بڑی حد تک متفق ہے۔ دونوں صرف اس حربی کو جاسوس قرار دیتے ہیں جو خفیہ طریقے سے دشمن کے علاقے میں گھس کر اس کے فوجی راز معلوم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اور جو شخص بغیر کسی دھوکے اور فریب کے کھلم کھلا (مثلاً فوجی وردی میں) دشمن کے حالات معلوم کرنے کے لیے جائے، اس کو جاسوس شمار نہیں کرتے (بلکہ اسے جنگی قیدی یا محارب سمجھا جاتا ہے)۔ البتہ اسلامی قانون نے حربی جاسوس کو مغربی قانون جیسی رسمی عدالتی کارروائی کی ضمانت تو نہیں دی، لیکن اس کے قتل کو لازمی بھی قرار نہیں دیا۔ امام یا فوجی کمانڈر صورتِ حال کے مطابق فیصلہ کر سکتا ہے (مثلاً قتل کرنا، قید کرنا، یا معاف کر دینا)۔ یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ مسلمان اگر دشمن کے لیے جاسوسی کرے تو اس کی سزا زیادہ سخت (قتل یا تعزیر) ہو سکتی ہے کیونکہ یہ غداری ہے۔

 

   خدع فی الحرب (Ruses of War): جنگ میں خدع (جنگی چالیں) جائز ہیں۔ فریڈرک اعظم کہتا ہے: "جنگ میں ایک شخص کبھی شیر کی کھال اوڑھتا ہے اور کبھی لومڑی کی۔ چالاکی اس جگہ کامیاب ہو جاتی ہے جہاں محض قوت ناکام ہوتی ہے۔" ۱۳۱

    مگر خدع اور دغا (Treachery/Perfidy) میں فرق ہے۔ کمین گاہوں میں بیٹھنا، دشمن کو غلط اطلاعات سے دھوکہ دینا، اپنی تعداد یا ارادوں کو چھپانا، دکھاوے کی پسپائی اختیار کر کے دشمن کو گھیر لینا، یہ اور ایسی ہی تمام جنگی چالیں خدع میں داخل ہیں۔ اور ہر دشمن کا خود اپنا فرض ہے کہ ان کے مقابلے کے لیے مستعد رہے۔

    بخلاف اس کے، دشمن کو صلح کے جھنڈے (Flag of Truce) کے دھوکے میں بلا کر حملہ کر دینا، طبی عملے یا ہسپتال کے نشان (سرخ صلیب/ہلال) کا غلط استعمال کر کے فوجی کارروائی کرنا، ہتھیار ڈالنے کا جھوٹا ناٹک کر کے دشمن پر وار کرنا، یہ دغا ہیں، اور ان کا ارتکاب بین الاقوامی قانون (ضوابطِ ہیگ، دفعہ ۲۳ ب، ف) اور اسلامی اخلاقیات دونوں کے تحت ناجائز ہے۔

    لیکن بعض امور ایسے بھی ہیں جن کے متعلق یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو سکتا ہے کہ وہ دغا ہیں یا جائز خدع۔ مثلاً دشمن کا قومی پرچم یا اس کی فوجی وردی استعمال کرنا۔ بین الاقوامی قانون اس کی اجازت مخصوص حالات میں (مثلاً حملے سے عین قبل تک) دیتا ہے، مگر اس پر بھی اختلاف پایا جاتا ہے اور اس کا غلط استعمال دغا سمجھا جا سکتا ہے۔ جرمنی کے قانون میں یہ ممنوع تھا، اور امریکہ کا قانون جنگ اسے ایک ایسی "بے ایمانی" سے تعبیر کرتا تھا جس کا ارتکاب دشمن کو کسی رعایت کا مستحق نہیں رہنے دیتا۔ ۱۳۲

    پس درحقیقت خدع و فریب کے متعلق کوئی ایسا قانون نہیں بن سکتا جو تمام جزئیات پر حاوی ہو۔ یہ سوال ایک قوم کے سپاہیانہ اخلاق سے تعلق رکھتا ہے اور ہر قوم اپنے احساسِ شرافت کی بنا پر خود ہی فیصلہ کر سکتی ہے کہ کون سے اعمال اس کی شجاعت و بہادری کے منافی ہیں اور کون سے نہیں۔ اسی لیے ہیگ کے ضوابط میں خدع کی کوئی مکمل فہرست نہیں دی گئی اور صرف یہ لکھ دیا گیا کہ "جنگی چالیں (Ruses of War) اور دشمن کے متعلق اطلاعات حاصل کرنے کے لیے ضروری اقدامات جائز ہیں۔" (دفعہ ۲۴) ۱۳۳

    اس مسئلے میں بھی اسلام کا قانون مغرب کے قانون سے متفق ہے۔ اس نے بھی خدع فی الحرب (جنگی چال) کو جائز قرار دیا ہے (جیسا کہ حدیث "الحرب خدعة" سے ظاہر ہے) اور تفصیلات کو حالات اور اجتہاد پر چھوڑ دیا ہے تاکہ وقتی حالات کے مطابق فیصلہ کیا جائے کہ کون سی چیزیں جائز خدع کی تعریف میں آتی ہیں اور کون سی ناجائز دغا کی حد میں داخل ہیں۔

 

   انتقامی کارروائیاں (Reprisals): ہیگ کے قوانین اور اس سے قبل یا بعد کے قوانین میں انتقام (یعنی دشمن کی غیر قانونی حرکت کے جواب میں ویسی ہی غیر قانونی جوابی کارروائی) کے متعلق کوئی واضح اور متفقہ ضابطہ موجود نہیں تھا۔ مغربی ریاستیں اسے ایک ناگزیر برائی کے طور پر تسلیم کرتی تھیں مگر اس کے حدود و قیود پر اتفاق نہیں تھا۔ شخصی طور پر بین الاقوامی قانون کے بعض ماہرین نے اس کے حدود مقرر کرنے کی کوشش کی ہے۔ خصوصیت کے ساتھ پروفیسر اوپن ہائیم (Oppenheim) اور دیگر ماہرین نے اس کے لیے کچھ شرائط تجویز کی ہیں، مثلاً:

    ۱۔ انتقامی کارروائی صرف دشمن کی غیر قانونی حرکت کے جواب میں ہو۔

    ۲۔ اس کا مقصد دشمن کو آئندہ ایسی حرکتوں سے باز رکھنا ہو۔

    ۳۔ جوابی کارروائی متناسب (Proportional) ہو، یعنی اصل جرم سے زیادہ نہ ہو۔

    ۴۔ کارروائی سے پہلے دشمن کو خلاف ورزی روکنے کا موقع دیا جائے۔

    ۵۔ یہ کارروائی آخری چارۂ کار کے طور پر ہو۔

 

    لیکن یہ شرائط ہمیشہ متفق علیہ یا قابلِ عمل نہیں رہیں۔ جنگِ عظیم (اول و دوم) کا تجربہ بتاتا ہے کہ اس مسئلے میں بین الاقوامی تعامل یہ رہا ہے کہ ہر وہ زیادتی جو ایک فریق کی طرف سے کی جائے، دوسرے فریق کے لیے بھی ویسی ہی زیادتیوں کا جواز پیدا کر دیتی ہے۔ مثال کے طور پر، اسیرانِ جنگ کو اذیت پہنچانا، ہسپتالوں یا شہری آبادیوں پر حملہ کرنا، ممنوعہ ہتھیار استعمال کرنا قوانینِ جنگ کی رو سے ناجائز ہے، مگر جنگوں میں فریقین ایک دوسرے پر ان حرکات کے ارتکاب کا الزام لگا کر جوابی کارروائی کے طور پر خود بھی ان کا ارتکاب کرتے رہے۔

 

    اس مسئلے میں اسلام کا قانون بالکل صاف اور متوازن ہے۔ وہ کہتا ہے:

    وَجَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِّثْلُهَا فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ (الشورى: ۴۰)

    "اور برائی کا بدلہ اسی طرح کی برائی ہے۔ پھر جو کوئی معاف کر دے اور اصلاح کرے تو اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے۔ بے شک وہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔"

    وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوا بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُم بِهِ وَلَئِن صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِّلصَّابِرِينَ (النحل: ۱۲۶)

    "اور اگر تم بدلہ لو تو بس اسی قدر لو جس قدر تم پر زیادتی کی گئی ہو۔ اور اگر تم صبر کرو تو یقیناً یہ صبر کرنے والوں کے لیے زیادہ بہتر ہے۔"

    فَمَنِ اعْتَدَىٰ عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَىٰ عَلَيْكُمْ وَاتَّقُوا اللَّهَ (البقرہ: ۱۹۴)

    "پس جو کوئی تم پر زیادتی کرے، تم بھی اس پر اسی طرح زیادتی کرو جیسی اس نے تم پر کی ہے۔ اور اللہ سے ڈرتے رہو۔"

    وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ (البقرہ: ۱۹۰)

    "اور اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں، اور زیادتی نہ کرو۔ بے شک اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔"

 

    ان آیات میں اول تو انتقام نہ لینے اور صبر کرنے کو زیادہ بہتر قرار دیا گیا ہے۔ اگر انتقام یا بدلہ لیا بھی جائے تو اس کی اجازت صرف "بالمثل" (برابر) دی گئی ہے، زیادتی کی نہیں۔ پھر یہ بھی تاکید کی گئی ہے کہ انتقام میں تقویٰ کو ملحوظ رکھا جائے اور کسی حال میں شریعت کی عمومی حدود (مثلاً عورتوں، بچوں، غیر مقاتلین کو قتل نہ کرنا، مثلہ نہ کرنا وغیرہ) سے تجاوز نہ کیا جائے۔ تقویٰ اور حدود کی پابندی سے مراد یہ ہے کہ جو افعال شریعت میں فی نفسہٖ حرام و ناجائز ہیں (جیسے زنا، بے گناہ کا قتل، مثلہ) ان کا ارتکاب دشمن کے ویسا ہی فعل کرنے کے جواب میں بھی جائز نہیں ہو گا۔ مثلاً اگر دشمن کے سپاہی مسلمان عورتوں کی بے حرمتی کریں یا مقتولین کا مثلہ کریں تو مسلمانوں کے لیے جائز نہیں کہ وہ بھی جواب میں دشمن کی عورتوں سے زنا کریں یا ان کے مقتولوں کا مثلہ کریں۔ یا مثلاً وہ دورانِ جنگ مسلمان بچوں، بوڑھوں، زخمیوں اور بیماروں کو قتل کریں تو مسلمانوں کو ان کے اس فعل کی پیروی نہیں کرنی چاہیے۔ البتہ اگر وہ کوئی خاص جنگی حربہ یا ہتھیار استعمال کریں جو فی نفسہٖ حرام نہ ہو (مثلاً قلعہ شکن آلات، یا خاص قسم کے میزائل) تو مسلمانوں کو بھی دفاع یا جواب میں ویسا ہی حربہ یا ہتھیار استعمال کرنے کی اجازت ہو سکتی ہے، بشرطیکہ اسلامی اصولوں کی خلاف ورزی نہ ہو۔

 

۴۔ غیر مقاتلین کے حقوق و فرائض

 

مقاتلین کے باہمی معاملات کا ذکر ہو چکا، اب ہم ان قوانین کی طرف توجہ کرتے ہیں جو مقاتلین اور غیر مقاتلین کے باہمی معاملات سے تعلق رکھتے ہیں۔

 

جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے، یورپ میں غیر مقاتلین کے حقوق کا واضح اور مؤثر احساس بہت بعد میں پیدا ہوا ہے۔ نظری حیثیت سے تو اس کی ابتداء اٹھارہویں صدی میں ہو گئی تھی، لیکن عملی حیثیت سے انیسویں صدی کے وسط تک کوئی ایسا قانونِ جنگ موجود نہ تھا جو ان کو مقاتلین سے ممیز رکھنے اور ان کے تحفظ کی مؤثر تاکید کرتا ہو۔ الجزائر میں فرانس نے، ۱۸۵۷ء میں ہندوستان میں برطانیہ نے، اور جنگِ جزیرہ نما (Peninsular War) میں نپولین کی افواج نے جس آزادی کے ساتھ غیر مقاتلین کا قتلِ عام کیا، اس سے عہدِ وحشت کی یاد تازہ ہو گئی تھی۔

 

یوں تو علمائے قانون گروٹیوس کے عہد سے ان کے حقوق کی تعیین پر زور دے رہے تھے، مگر عملاً یہ کام پہلی مرتبہ ۱۸۶۴ء کے جنیوا کنونشن (زخمیوں کے لیے) اور پھر ۱۸۷۴ء کی برسلز کانفرنس نے شروع کیا۔ ۱۸۹۹ء اور ۱۹۰۷ء کی ہیگ کانفرنسوں نے اس میں مزید باقاعدگی پیدا کی اور غیر مقاتلین کے تحفظ کے اصولوں کو مدون کیا۔ لہٰذا غیر مقاتلین کے متعلق مغربی تہذیب کے مدون قانون کی عمر زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ صدی قرار دی جا سکتی ہے۔

 

اس جدید قانون نے غیر مقاتلین کے حقوق و فرائض کی تعیین ایک حد تک کی ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ یورپ میں جنگ کے جو جدید طریقے اور "مکمل جنگ" (Total War) کے اصول پیدا ہوئے ہیں، ان کی بدولت مقاتلین و غیر مقاتلین کے درمیان عملی فرق و امتیاز تقریباً ناممکن ہو گیا ہے۔ اور یہ کہنا کسی طرح مبالغہ نہیں ہے کہ آج کل کی جنگ غیر مقاتلین کے حق میں کئی پہلوؤں سے پہلے سے زیادہ خطرناک ہو گئی ہے۔ اس حقیقت کو خود یورپ کے اکابرِ فن محسوس کر رہے ہیں۔ چنانچہ برکن ہیڈ اپنی کتاب "بین الاقوامی قانون" میں لکھتا ہے:

"بدقسمتی سے گزشتہ جنگِ عظیم جس طریقے پر لڑی گئی ہے اس سے بلاشائبہ ریب یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ شہری آبادی اور مسلح فوج کے درمیان تمیز کرنے کا ترقی یافتہ اصول اب شدید خطرے میں ہے۔" ۱۳۴

 

اس کی ایک بڑی وجہ تو یہ ہے کہ فرق و امتیاز جن قوانین کی بنیاد پر قائم کیا گیا ہے، وہ خود جنگ کی جدید حقیقتوں سے پوری طرح ہم آہنگ نہیں ہیں۔ جیسا کہ گارنر (Garner) اپنی کتاب "بین الاقوامی قانون اور جنگِ عظیم" میں لکھتا ہے، ۱۹۰۷ء کے ہیگ کنونشنز کی توثیق تمام محاربین نے نہیں کی تھی، جس سے ان کے اطلاق پر شبہات پیدا ہوئے۔ ۱۳۵

 

لیکن اس کے اصلی وجوہ کچھ اور ہیں جنہیں پروفیسر اوپن ہائیم نے اپنی کتاب "بین الاقوامی قانون" میں بیان کیا ہے۔ اس کی تحقیق کے مطابق موجودہ عہد کی جنگ میں مقاتلین اور غیر مقاتلین کے امتیازی خط کے مٹ جانے کی علت چار چیزوں میں پوشیدہ ہے:

(۱)۔ جبریہ بھرتی (Conscription) کے طریقے کی اشاعت اور ایک قوم کی پوری آبادی کا جنگی کوشش (War Effort) میں اس طرح لگ جانا کہ لڑنے کے قابل لوگ میدان میں چلے جائیں اور ان کی جگہ عورتیں اور دیگر افراد جنگی سامان بنانے، رسد پہنچانے اور دوسرے معاون فرائض ادا کرنے میں مشغول ہو جائیں۔

(۲)۔ ہوائی جہازوں کا استعمال، جو صرف فوجی اہداف ہی پر نہیں بلکہ مواصلات، صنعتی مراکز اور شہری آبادیوں کو بھی نشانہ بنانے کے لیے کیا جاتا ہے۔ ۱۳۶

(۳)۔ (پہلی جنگِ عظیم کے تناظر میں) بعض حکومتوں کا عوامی رائے سے ایک حد تک آزاد ہونا۔

(۴)۔ دشمن پر معاشی دباؤ ڈالنے اور اس کے وسائلِ ثروت برباد کرنے کی بڑھتی ہوئی جنگی اہمیت (Economic Warfare)۔ ۱۳۷

 

پس موجودہ زمانے کی "مہذب" جنگ میں غیر مقاتلین کے حقوق محفوظ نہ رہنے کی وجہ صرف یہی نہیں ہے کہ مغرب کے قوانینِ جنگ کی بنیاد کمزور ہے، بلکہ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ اس زمانے کی جنگ جن وسائل اور جن طریقوں سے لڑی جاتی ہے ان میں غیر مقاتلین کو مقاتلین سے مکمل طور پر ممتاز کرنا اور ان کے امتیازی حقوق کا احترام ہر حال میں ملحوظ رکھنا عملاً انتہائی مشکل، بلکہ بعض اوقات ناممکن ہو گیا ہے۔

 

تاہم ان اصولی نقائص کے باوجود ہمیں دیکھنا چاہیے کہ مغربی قانون نے غیر مقاتلین کے لیے کیا حقوق و فرائض مقرر کیے ہیں اور وہ بذاتِ خود کیا قیمت رکھتے ہیں؟

 

   غیر مقاتلین کا اولین فرض: غیر مقاتلین کا اولین فرض، جس کا ہر محارب دشمن مطالبہ کرتا ہے، یہ ہے کہ وہ جنگی کارروائیوں میں کسی قسم کا حصہ نہ لیں۔ جس وقت ان کے علاقے پر دشمن قابض ہو جائے تو انہیں فیصلہ کر لینا چاہیے کہ آیا انہیں جنگ میں حصہ لینا ہے یا پرامن رہنا ہے۔ اگر وہ جنگ میں حصہ لینے کا فیصلہ کریں تو انہیں (قانونی طور پر تسلیم شدہ) مسلح افواج میں باقاعدہ شریک ہو جانا چاہیے۔ اور اگر وہ حصہ نہ لینا چاہیں تو اپنے کاروبار میں پرامن طریقے سے مشغول رہنا چاہیے۔ ان میں سے جو لوگ غیر قانونی طریقے سے (بغیر شرائط پوری کیے) جنگ میں حصہ لیں گے، ان کو مغربی قوانینِ جنگ کی رو سے نہ تو مقاتلین کے حقوق حاصل ہوں گے اور نہ غیر مقاتلین کی مکمل حفاظت۔ ان کے ساتھ جنگی مجرموں یا جاسوسوں جیسا سلوک کیا جا سکتا ہے۔ ۱۳۸

 

    اس مسئلے میں اسلامی قانون اس حد تک تو بین الاقوامی قانون سے متفق ہے کہ جو غیر مقاتلین جنگ میں حصہ لیں گے، انہیں وہ حقوق حاصل نہ رہیں گے جو جنگ سے لاتعلق غیر مقاتلین کے لیے مخصوص ہیں۔ لیکن اسلام اس سے متفق نہیں ہے کہ انہیں ہر صورت میں مقاتلین کے حقوق بھی نہ دیے جائیں۔ وہ ہر اس شخص سے جو عملاً لڑائی کرے، مقاتل کے طور پر ہی نمٹے گا، اور اگر وہ گرفتار ہو تو اسے جنگی قیدی کے حقوق حاصل ہوں گے۔ البتہ اسلام ان کے ساتھ کوئی رعایت نہیں کرتا جب کہ وہ مقاتلہ کے ساتھ غدر اور دغا بھی کرتے ہوں، مثلاً کوئی عورت اگر خفیہ طریقے سے مسلمانوں کے پانی میں زہر ملائے تو وہ یقیناً سزا کی مستحق ہو گی۔ یا کوئی شخص مسلمانوں کی امان میں آکر انہیں دھوکے سے نقصان پہنچائے تو اس پر ہرگز رحم نہ کیا جائے گا۔ قبیلۂ عکل و عرینہ کے لوگوں نے یہی کیا تھا کہ آنحضرت ﷺ کے پاس آکر اسلام قبول کیا، پھر مدینہ سے باہر جا کر دھوکے سے آپ ﷺ کے چرواہوں کو قتل کر کے اونٹ ہانک لے گئے۔ اس لیے آنحضرت ﷺ نے ان کو عام مقاتلین کے حقوق سے محروم کر دیا اور انہیں ڈاکو اور محارب قرار دے کر سخت عبرتناک سزا دی۔

 

   دشمن سے تعاون: غیر مقاتلین کا ایک فرض یہ بھی ہے کہ جب دشمن کی فوج ان کے علاقے پر قابض ہو جائے تو وہ اس کے خلاف معاندانہ کارروائیاں نہ کریں۔ ان سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ قابض فوج کے جائز احکامات کی پابندی کریں (جب تک کہ وہ انہیں اپنے ملک کے خلاف لڑنے یا جنگی جرائم میں حصہ لینے پر مجبور نہ کریں)۔ ان سے رہنمائی یا وسائلِ حمل و نقل طلب کیے جا سکتے ہیں (جس کا انہیں معاوضہ ملنا چاہیے)، لیکن انہیں براہِ راست فوجی کارروائیوں میں مدد دینے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا (ضوابطِ ہیگ، دفعہ ۲۳، ۵۲)۔ ان احکامات کی خلاف ورزی کی صورت میں قابض فوج کو انہیں سزا دینے کا حق حاصل ہے۔ ۱۳۹

 

    اس مسئلے میں اسلامی اور مغربی قوانین میں مماثلت پائی جاتی ہے، اگرچہ اسلام میں ذمیوں کے حقوق زیادہ واضح اور مستقل ہیں۔

 

   غیر مقاتلین کی عصمت (تحفظ): ان فرائض کے مقابلے میں غیر مقاتلین کا ایک بنیادی حق یہ ہے کہ ان کی جان، مال اور عزت کو جنگ میں تحفظ حاصل ہو۔ انہیں دانستہ طور پر قتل و غارت کا نشانہ نہیں بنایا جانا چاہیے۔ اگرچہ حالتِ جنگ میں بعض اوقات ان کا بھی فوجوں کی زد میں آجانا ناگزیر ہے۔ مثلاً ایک فوجی ہدف پر گولہ باری ہو رہی ہو اور اس کے قریب شہری آبادی ہو تو اس کا متاثر ہونا ممکن ہے۔ یا مثلاً دشمن کے فوجی غیر مقاتلین کی آڑ لے رہے ہوں۔ لیکن اس طرح نادانستہ اور اتفاقاً جنگ کی زد میں آجانے سے ان کی حفاظت کے بنیادی اصول پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ قانون کی رو سے حملہ آور فوج کا فرض ہے کہ وہ جان بوجھ کر اپنی جنگی کارروائی کا رخ غیر مقاتلین کی طرف نہ پھیرے اور جہاں تک ممکن ہو (feasible ہو) ان کو نقصان سے بچانے کی کوشش کرے (Distinction and Precaution کا اصول)۔ ۱۴۰

 

    اس معاملے میں بھی اسلامی قانون اور مغربی قانون اصولی طور پر متفق ہیں۔ اسلامی قانون نے بھی غیر مقاتلین (عورتوں، بچوں، بوڑھوں وغیرہ) پر دانستہ حملے کو سختی سے ممنوع قرار دیا ہے۔ باقی رہی یہ صورت کہ جنگی اعمال کے دوران میں نادانستہ ان پر بھی ضرب لگ جائے، سو اس پر (اگر تمام احتیاطی تدابیر اختیار کی گئی ہوں تو) مواخذہ نہیں ہے۔ چنانچہ طائف کے محاصرے میں جب دبابہ (ٹینک جیسی مشین) اور منجنیق وغیرہ قلعہ شکن آلات استعمال کیے گئے تو یہ سوال پیدا ہوا کہ ان کی سنگ باری سے شہر کے غیر اہلِ قتال کو بھی نقصان پہنچنا ممکن ہے۔ مگر رسول اللہ ﷺ نے اس بنا پر ان کے استعمال کو جائز رکھا کہ اس کا اصل مقصد فوجی ہدف (فصیل) کو نشانہ بنانا تھا، غیر مقاتلین کو ہدف بنانا مقصود نہ تھا۔ ۱۴۱

 

   غیر محفوظ آبادیوں پر گولہ باری: غیر مقاتلین کے حقِ تحفظ کو تسلیم کرنے کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جنگی اعمال، خصوصاً گولہ باری، میں اس حق کو کس طرح ملحوظ رکھا جائے؟ اس مسئلے میں جنگی اور قانونی گروہوں کے درمیان بڑا اختلاف رہا ہے، اور اب قانونی گروہ کی رائے بھی جنگی گروہ کی رائے سے مغلوب ہوتی جا رہی ہے۔

 

    اگر لڑائی دست بدست ہو یا دو مقابل فوجوں کے درمیان ہو تو غیر مقاتلین کو ایک حد تک محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔ لیکن جہاں دور فاصلے سے گولہ باری ہو رہی ہو، یا ہوائی بمباری کی جا رہی ہو، اور خصوصیت کے ساتھ جہاں غنیم کے کسی شہر یا علاقے کو فتح کرنا یا اس کی جنگی صلاحیت کو کمزور کرنا مقصود ہو، وہاں غیر مقاتلین کو جنگ کے مہلک اثرات سے کیسے محفوظ رکھا جائے؟

 

    اس سوال کا جواب قانونی گروہ یہ دیتا ہے کہ گولہ باری صرف فوجی اہداف (Military Objectives) تک محدود ہونی چاہیے اور غیر محفوظ (Undefended) مقامات پر حملہ نہیں کرنا چاہیے۔ انیسویں صدی کے وسط میں یہ طریقہ بھی تجویز کیا گیا تھا کہ گولہ باری سے قبل غیر مقاتلین کو مہلت دینی چاہیے کہ وہ شہر چھوڑ کر چلے جائیں۔ ۱۸۷۰ء کی جنگ میں جرمنی نے ایک دو مقامات پر اس پر عمل بھی کیا۔ مگر بعد میں فوجی گروہ نے بالاتفاق فیصلہ کیا کہ اس قسم کی مہلت دینا جنگی مصالح کے بالکل خلاف ہے۔ چنانچہ جب جرمن فوجوں نے پیرس پر گولہ باری شروع کی تو غیر مقاتلین کو نکلنے کی اجازت نہیں دی بلکہ بالفاظِ صریح یہ کہہ دیا کہ اس موقع پر شہر میں غیر مقاتلین کا موجود رہنا ہی مطلوب ہے تاکہ غنیم فاقہ اور دباؤ کی مصیبت میں مبتلا ہو کر شہر کو ہمارے حوالے کر دے۔

 

    اس کے تھوڑے عرصے بعد فرانسیسی امیر البحر آؤبے کا وہ مشہور مضمون (۱۸۸۲ء) شائع ہوا جس نے فوجی گروہ میں بڑی مقبولیت حاصل کی۔ اس نے جنگ میں غنیم کے معاشی وسائل کو برباد کرنے کی ضرورت پر بہت زور دیا اور یہاں تک لکھ دیا کہ: "آئندہ جنگ میں ہمیں توقع رکھنی چاہیے کہ مسلح بیڑے اپنی قوتِ ضرب و تخریب کا رخ ساحلی شہروں کی طرف پھیر دیں گے، خواہ وہ شہر قلعہ بند ہوں یا نہ ہوں... وہ ان کو جلائیں گے، تباہ کریں گے اور کم از کم اتنا تو ضرور کریں گے کہ پوری بے دردی سے ان سے تاوان وصول کریں گے۔" ۱۴۲

 

    اس کے چند سال بعد ۱۸۸۸ء میں انگلستان کے بحری بیڑے کی مشقوں میں ساحلی آبادیوں پر "حملے" کیے گئے اور ان سے "تاوان" وصول کیا گیا۔ اس پر پروفیسر ہالینڈ (Holland) نے سخت اعتراض کیا، اور لندن ٹائمز میں مضامین لکھے جن سے یہ سوال پھر چھڑ گیا کہ آیا شہری آبادیوں پر گولہ باری کرنی جائز ہے یا نہیں؟ قانونی گروہ کی رائے یہ تھی کہ یہ فعل ناجائز ہے مگر امارۃِ بحریہ کے اعلیٰ افسروں نے اسے جائز قرار دیا اور ۱۸۸۹ء میں برطانوی امراء البحر کی ایک کمیٹی نے بالاتفاق اس کے حق میں رپورٹ دی۔

 

    ۱۸۹۹ء میں جب پہلی ہیگ کانفرنس منعقد ہوئی تو یہ مسئلہ از سرِ نو پیش ہوا۔ اس وقت کانفرنس پر قانونی گروہ کا غلبہ تھا، اس لیے بری جنگ کے ضوابط میں گولہ باری کے حق پر کچھ قیود عائد کی گئیں اور ۱۹۰۷ء کی کانفرنس میں بحری جنگ پر بھی ان قیود کو وسیع کرنے کی کوشش کی گئی۔ یہ قیود حسبِ ذیل ہیں:

           "کسی بھی ذریعے سے، غیر دفاعی قصبوں، دیہاتوں، مکانات یا عمارتوں پر حملہ کرنا یا بمباری کرنا ممنوع ہے۔" (ضوابطِ ہیگ، ۱۹۰۷ء، دفعہ ۲۵)

           "حملہ آور افواج کے کمانڈر پر لازم ہے کہ بمباری شروع کرنے سے پہلے، سوائے اچانک حملے کی صورت کے، حکام کو خبردار کرنے کے لیے ہر ممکن اقدام کرے۔" (دفعہ ۲۶)

           "محاصروں اور بمباریوں میں، ہر ممکن احتیاط برتی جانی چاہیے تاکہ مذہب، آرٹ، سائنس یا خیراتی مقاصد کے لیے مخصوص عمارتوں، تاریخی یادگاروں، ہسپتالوں، اور بیماروں و زخمیوں کو جمع کرنے کے مقامات کو نقصان نہ پہنچے، بشرطیکہ وہ اس وقت فوجی مقاصد کے لیے استعمال نہ ہو رہے ہوں۔ محصورین کا فرض ہے کہ وہ ان عمارتوں یا مقامات کو مخصوص اور نظر آنے والے نشانات سے واضح کریں، جن کی پیشگی اطلاع محاصرہ کرنے والے کو دی جائے گی۔" (دفعہ ۲۷)

 

    اسی طرح بحری جنگ کے قوانین کے متعلق ہیگ کنونشن نمبر ۹ (۱۹۰۷ء) میں گولہ باری پر حسبِ ذیل قیود عائد کی گئیں:

           دفعہ اول: غیر دفاعی بندرگاہوں، قصبوں، دیہاتوں، مکانات یا عمارتوں پر بحری افواج کی بمباری ممنوع ہے۔ کوئی مقام محض اس وجہ سے بمباری کا ہدف نہیں بن سکتا کہ اس کے قریب خودکار زیرِ آب تماسی بارودی سرنگیں لنگر انداز ہیں۔

           دفعہ دوم: تاہم، فوجی تعمیرات، فوجی یا بحری ادارے، اسلحہ یا جنگی سازوسامان کے ڈپو، ورکشاپس یا پلانٹ جو فوج یا بحریہ کی ضروریات کے لیے استعمال ہو سکتے ہوں، اور بندرگاہ میں موجود جنگی جہاز اس ممانعت میں شامل نہیں ہیں۔ کمانڈر انچیف ایک معقول مہلت دینے کے بعد انہیں توپوں سے تباہ کر سکتا ہے اگر دوسرے ذرائع سے انہیں تباہ کرنا ممکن نہ ہو؛ بشرطیکہ مقامی حکام نے اس مہلت کے اندر انہیں خود تباہ نہ کر دیا ہو۔ ایسے معاملے میں وہ کوئی جانی نقصان نہیں اٹھائے گا۔ اگر فوجی ضرورت کے تحت فوری کارروائی لازم ہو اور مہلت دینا ممکن نہ ہو، تو بھی بحری فوج کا کمانڈر پابند ہے کہ وہ قصبے یا گاؤں کو کم سے کم ممکنہ نقصان پہنچانے کے لیے تمام ضروری اقدامات کرے۔

           دفعہ سوم: اگر مقامی حکام، باقاعدہ مطالبے کے باوجود، بحری فوج کی فوری ضروریات کے لیے رسد فراہم کرنے سے انکار کر دیں، تو غیر دفاعی مقام پر بمباری کی جا سکتی ہے۔

           دفعہ چہارم: محض رقم کا تاوان ادا نہ کرنے کی پاداش میں کسی غیر دفاعی مقام پر بمباری نہیں کی جا سکتی۔

           دفعہ پنجم: بری بمباری کی طرح، بحری بمباری میں بھی کمانڈر کو مقدس عمارات، آرٹ، سائنس یا خیراتی اداروں، تاریخی یادگاروں، ہسپتالوں وغیرہ کو نقصان پہنچانے سے حتی الامکان گریز کرنا چاہیے، بشرطیکہ وہ فوجی مقاصد کے لیے استعمال نہ ہو رہی ہوں۔ باشندوں کا فرض ہے کہ وہ ان عمارتوں کو مخصوص نشانات (سیاہ اور سفید مستطیل) سے واضح کریں۔

           دفعہ ششم: اگر فوجی حالات اجازت دیں، تو بمباری کرنے سے قبل حملہ آور کمانڈر کو مقامی حکام کو مطلع کرنے کی پوری کوشش کرنی چاہیے۔

 

    یہ قیود فی نفسہٖ نہایت ناقص اور مبہم تھیں۔

       پہلا نقص: ان میں "غیر دفاعی" (Undefended) مقام کی کوئی واضح تعریف نہیں کی گئی۔ کیا صرف فوج کی عدم موجودگی کافی ہے یا توپ خانے کا نہ ہونا؟ اس ابہام نے عملی طور پر اس قید کو بڑی حد تک بے اثر کر دیا۔

       دوسرا نقص: بمباری سے قبل خبردار کرنے کا معاملہ بڑی حد تک حملہ آور کمانڈر کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا ("اگر فوجی حالات اجازت دیں"، "سوائے اچانک حملے کی صورت کے")۔

       تیسرا نقص: مقدس یا محفوظ عمارتوں کے تحفظ کو اس شرط سے مشروط کر دیا گیا کہ وہ "فوجی مقاصد کے لیے استعمال نہ ہو رہی ہوں"۔ اس سے فائدہ اٹھا کر حملہ آور فوج یا بیڑے کا کمانڈر ہمیشہ یہ بہانہ کر سکتا تھا کہ اس کے علم میں وہ عمارتیں فوجی مقاصد کے لیے استعمال ہو رہی تھیں، لہٰذا وہ ان پر گولہ باری کرنے کا مجاز تھا۔

       چوتھا نقص (بحری جنگ): ان میں حملہ آور بحری فوج کو ایسی حالت میں غیر دفاعی آبادیوں پر بمباری کا حق دے دیا گیا جب ان کے باشندے اس کے لیے سامانِ رسد فراہم کرنے سے انکار کر دیں۔ اس ایک بات نے بھی ان قیود کو کمزور کر دیا۔ کیونکہ حملہ آور فوج کے لیے یہ بالکل آسان تھا کہ جب وہ کسی غیر دفاعی آبادی پر حملہ کرنا چاہے تو اس سے اتنا سامانِ رسد طلب کرے جسے وہ ادا نہ کر سکتی ہو، اور جب وہ ادا نہ کرے تو اس پر گولہ باری شروع کر دے۔ اگرچہ یہ شرط لگائی گئی تھی کہ مطالبہ مقامی وسائل کے مطابق ہو، لیکن "وسائل کی مناسبت" کا فیصلہ کون کرے گا؟

 

    لیکن ان قانونی نقائص کے باوجود، فوجی گروہ نے ان قیود سے عملی طور پر علانیہ اختلاف کیا۔ گولہ باری سے قبل دشمن کو متنبہ کرنے اور مہلت دینے کے متعلق وہ کہتا تھا کہ ایسا کرنا "قیمتی وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے۔" ۱۴۳ سامانِ رسد کا مطالبہ مقامی وسائل کی مناسبت سے کرنے کی شرط کے متعلق یہ گروہ کہتا تھا کہ وہ نظری طور پر بہت خوب ہے مگر عمل میں لانا مشکل یا ناممکن ہے۔ ۱۴۴ سب سے زیادہ یہ کہ اس گروہ کے نزدیک گولہ باری کے موقع پر غیر مقاتلین کی رعایت کرنا نہ صرف غیر ضروری تھا بلکہ ان کو خاص طور پر ہدف بنانا (دہشت پھیلانے اور حوصلے پست کرنے کے لیے) جنگی مصالح کے عین مطابق تھا۔ چنانچہ جرمن "کتابِ جنگ" کہتی ہے: "گولہ باری کے وقت محصورین میں عورتوں، بچوں اور دوسرے غیر مقاتلین کا موجود ہونا ہی جنگی نقطۂ نظر سے مطلوب ہے، کیونکہ صرف اسی صورت سے محاصرہ کرنے والی فوج محصورین کو خوفزدہ کر کے ہتھیار ڈالنے پر جلدی سے جلدی مجبور کر سکتی ہے۔" ۱۴۵

 

    یہ خیالات صرف زبان و قلم ہی سے ظاہر نہیں کیے گئے، بلکہ عمل میں بھی ہیگ کانفرنس کی مقرر کردہ قیود کا تار و پود بکھیر دیا گیا۔ ۱۹۰۷ء کی ہیگ کانفرنس کے بعد یورپ میں پہلی جنگ اٹلی اور ترکی کے درمیان (۱۹۱۱ء-۱۹۱۲ء) ہوئی اور اس میں اٹلی نے طرابلس اور بیروت جیسے شہروں پر گولہ باری کی۔ اس کے بعد بلقان جنگوں (۱۹۱۲ء-۱۹۱۳ء) میں غیر مقاتلین کے خلاف مظالم ہوئے۔ پھر جب ۱۹۱۴ء میں یورپ کی مہذب ترین ریاستوں کے درمیان جنگِ عظیم برپا ہوئی تو یہ تمام قیود اس طرح توڑ دی گئیں گویا کہ وہ قائم ہی نہیں ہوئی تھیں۔ برکن ہیڈ اپنی کتاب "بین الاقوامی قانون" میں لکھتا ہے:

    "جنگِ عظیم سے قبل دفاعی اور غیر دفاعی قصبوں کے درمیان جو امتیاز قائم کیا گیا تھا، جنگِ عظیم نے اس کا تار و پود بکھیر دیا ہے۔ اب سرے سے دفاعی یا غیر دفاعی کی تعریف و تحدید ہی میں بہت بڑا اختلاف پیدا ہو گیا ہے اور جنگ کے بعد سے آج تک ان کے درمیان حد بندی کرنے اور خطِ امتیاز کھینچنے کی کوئی خاص کوشش بھی نہیں کی گئی ہے۔" ۱۴۶

 

    اس سلسلے میں سب سے زیادہ جس چیز نے ہیگ کی قیود کو مٹانے میں حصہ لیا ہے وہ ہوائی جہازوں کا جنگی استعمال ہے۔ ہوائی جہاز دراصل اس معنی میں کوئی روایتی آلۂ جنگ ہی نہیں تھا کہ اس سے براہِ راست دشمن کی فوج کو شکست دی جائے یا علاقے پر قبضہ کیا جائے۔ جنگِ عظیم (اول) میں اس کا بنیادی استعمال دشمن کی فوجی طاقت کو کمزور کرنا (مثلاً فوجی اڈوں، کارخانوں، رسد کے راستوں پر بمباری) اور دشمن قوم کے عوام کو خوفزدہ اور پریشان کر کے ان کے حوصلے پست کرنا تھا۔ جنگِ عظیم (اول) سے قبل قانونی گروہ اس طریقِ جنگ (شہری آبادیوں پر بمباری) کو ناجائز سمجھتا تھا (جیسا کہ ہیگ اعلامیہ سے ظاہر ہے)۔ مگر جنگِ عظیم میں جب یہ ایک عام اور مؤثر طریقِ جنگ بن گیا تو خود قانونی گروہ کے نقطۂ نظر میں بھی تغیر واقع ہو گیا اور وہ اسے ایک ناگزیر حقیقت سمجھنے لگا۔ چنانچہ ایلتز باشر لکھتا ہے:

    "جنگی کارروائی کی بہت سی اقسام ایسی ہیں جو صرف اس بنا پر جائز ہیں کہ ان کا مدعا غنیم کی قوتِ جنگ کی معنوی بنیاد (حوصلے) کو پراگندہ کرنا ہوتا ہے۔.. اسی دلیل کی بنا پر ہوائی جہازوں سے بم گرانے پر بھی کوئی پابندی عائد نہ ہونی چاہیے۔ ان حملوں کے مسئلے میں مستحکم یا غیر مستحکم مقامات کے درمیان کوئی امتیاز قائم کرنا بے سود ہے، کیونکہ اکثر حالات میں کسی مقام پر بم اس لیے نہیں گرائے جاتے کہ اسے فتح کیا جائے، بلکہ ان سے محض دشمن کی معاشی زندگی کو پراگندہ کرنا اور دشمن قوم میں ہراس اور جنگ سے بیزاری پیدا کرنا مقصود ہوتا ہے، اور یہ مقصد انہی گولوں سے حاصل ہوتا ہے جو غیر مستحکم مقامات پر گرائے جاتے ہیں!" ۱۴۷

 

    جنگِ عظیم (اول) کے بعد خاص طور پر ہوائی جہازوں کی گولہ باری کے لیے حدود مقرر کرنے کا سوال پیدا ہوا اور یورپ و امریکہ کی رائے عامہ نے زور دیا کہ اس کے لیے قواعد و ضوابط مقرر کیے جائیں۔ ۱۹۲۲ء میں واشنگٹن کانفرنس نے اس غرض کے لیے ایک کمیشن مقرر کیا جس میں برطانیہ، فرانس، اٹلی، ہالینڈ، جاپان اور امریکہ کے نمائندے شامل تھے۔ انہوں نے بہت کچھ غور و خوض کے بعد ۱۹۲۳ء میں چند سفارشات (Hague Rules of Air Warfare) پیش کیں جن کا خلاصہ یہ ہے:

    (۱)۔ ہوائی بمباری صرف فوجی اہداف (Military Objectives) پر جائز ہے۔ فوجی اہداف سے مراد ہیں فوجی دستے، فوجی تعمیرات، فوجی اڈے، فوجی رسد کے ڈپو، جنگی سازوسامان بنانے والے کارخانے، مواصلات کے راستے جو فوجی نقل و حمل کے لیے استعمال ہوں۔

    (۲)۔ شہری آبادیوں پر دہشت پھیلانے کے مقصد سے بمباری ممنوع ہے۔

    (۳)۔ اگر فوجی اہداف ایسی جگہ واقع ہوں کہ ان پر بمباری سے شہری آبادی کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو تو خاص احتیاط برتی جائے۔ غیر فوجی آبادی پر اندھا دھند بمباری ممنوع ہے۔

    (۴)۔ تاریخی یادگاروں، مقدس مقامات، ہسپتالوں وغیرہ کو حتی الامکان بچایا جائے۔

    (۵)۔ جو ہوائی جہاز ران پیراشوٹ کے ذریعے گر رہا ہو (سوائے ان کے جو فوجی مشن پر ہوں)، اس پر حملہ کرنا ممنوع ہے۔ ۱۴۸

 

    مگر یہ قوانین اس وقت محض سفارشات ہی رہے، ریاستوں نے ان کی توثیق نہیں کی اور یہ بین الاقوامی قانون کا حصہ نہ بن سکے۔ ۱۴۹ چنانچہ دوسری جنگِ عظیم میں ان اصولوں کی بدترین خلاف ورزیاں ہوئیں اور شہری آبادیوں پر ہولناک بمباریاں کی گئیں۔ برکن ہیڈ نے ۱۹۲۷ء میں ہی لکھ دیا تھا:

    "ان مجوزہ قوانین، جن کا مقصد ہوائی گولہ باری کو ضابطے کا پابند بنانا ہے، ان کی فیاضانہ روح کے باعث بہت کچھ نکتہ چینی کی گئی ہے۔ یہ بات صراحتاً مشکوک ہے کہ اگر ان کو منظور کر لیا جائے تو آیا کسی ایسی جنگ میں ان کی پابندی کی بھی جا سکتی ہے جس میں اس سے زیادہ بڑے پیمانے پر ہوائی قوتیں استعمال کی جائیں جس کا تصور ۱۹۱۸ء کے خاتمے پر کیا جا سکتا تھا۔" ۱۵۰

 

    اس مفصل بحث سے یہ صاف ظاہر ہو جاتا ہے کہ مغربی قانونِ جنگ میں محفوظ و غیر محفوظ آبادیوں کا جو امتیاز قائم کیا گیا ہے، اور غیر محفوظ آبادیوں کے لیے جو حقوق مقرر کیے گئے ہیں، وہ بڑی حد تک نظری اور نمائشی ہیں اور عملی طور پر جنگ کی جدید صورتوں اور فوجی ضروریات کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں۔

 

   عنوۃً فتح ہونے والے شہروں کا حکم: غیر مقاتلین کے حقوق کی بحث میں ایک دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ جب کوئی شہر پوری طرح مقابلہ کرنے کے بعد بزورِ شمشیر فتح ہو تو اس کے باشندوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا؟ قدیم زمانے میں یہ عام رواج تھا کہ فاتح فوج کو حق حاصل ہے کہ جس شہر کو وہ عنوۃً فتح کرے، اس میں لوٹ مار کرے اور باشندوں کو قتل یا غلام بنا لے۔ یورپ میں بھی زمانۂ قریب تک یہ دستور موجود تھا۔ مذہبی جنگوں (مثلاً تیس سالہ جنگ) اور اس کے بعد بھی فریقین نہایت آزادی سے ایک دوسرے کے شہروں میں گھس کر قتلِ عام اور لوٹ مار کرتے تھے۔ اگرچہ جنگِ سی سالہ کے بعد اس فعل کو یورپ کے ضمیر نے ظلم سے تعبیر کرنا شروع کر دیا تھا، لیکن انیسویں صدی کے وسط تک بھی یہ مکمل طور پر ممنوع نہ تھا۔ چنانچہ ڈیوک آف ویلنگٹن کی رائے میں کسی شہر کے محافظین اگر آخر تک مزاحمت کریں اور شہر بزور فتح ہو تو انہیں امان کا حق نہیں رہتا۔ جنگِ جزیرہ نما میں فرانسیسی افواج نے کئی شہروں (مثلاً Ciudad Rodrigo, Badajoz, San Sebastian) کی فتح کے بعد قتل و غارت کا بازار گرم کیا۔ ۱۷۹۰ء میں روسی افواج نے اسماعیل (Izmail) میں داخل ہو کر مقاتلین و غیر مقاتلین سب کو تلوار کے گھاٹ اتارا۔ ۱۸۳۰ء کی دہائی میں فرانس نے الجزائر کی فتح کے دوران مظالم کیے۔ ۱۸۵۷ء میں ہندوستان میں انگریزی فوجوں نے دہلی، کانپور اور لکھنؤ وغیرہ میں قتلِ عام اور لوٹ مار کی۔

 

    اس زمانے تک یورپ میں کوئی متفقہ بین الاقوامی قانون نہیں تھا جو اس فعل کو واضح طور پر ممنوع قرار دیتا ہو۔ ۱۸۷۴ء کی برسلز کانفرنس نے بے شک یہ قرار دیا تھا کہ کسی شہر کو فتح کرنے کے بعد فوجوں کو لوٹ مار (Pillage) کے لیے آزاد نہیں چھوڑنا چاہیے۔ مگر اس کانفرنس کے مقرر کردہ قوانین کی توثیق نہیں ہوئی تھی۔ پس یورپ میں پہلی مرتبہ اس فعل کو جس چیز نے واضح طور پر ممنوع قرار دیا ہے وہ ۱۸۹۹ء اور ۱۹۰۷ء کے ضوابطِ ہیگ ہیں، جن کی دفعہ ۲۸ کہتی ہے: "کسی قصبے یا مقام کو، خواہ اس پر حملہ کر کے قبضہ کیا گیا ہو، لوٹنا ممنوع ہے۔"

 

    اگرچہ نظری طور پر یہ طریقہ ممنوع قرار پایا، مگر عملاً اس کی خلاف ورزیاں ہوتی رہیں۔ پہلی جنگِ عظیم اور اس کے بعد بھی مفتوح علاقوں میں لوٹ مار اور زیادتیوں کی مثالیں ملتی ہیں۔ ازمیر (سمرنا) پر یونانی قبضے (۱۹۱۹ء) کے دوران ہونے والے مظالم اس کی ایک مثال ہیں۔ یہ ثابت کرتا ہے کہ بیسویں صدی کے عہدِ تہذیب میں بھی عہدِ وحشت کی یہ یادگاریں ابھی تک باقی تھیں۔ تاہم، نظری حیثیت سے یورپ کو بیسویں صدی کے آغاز میں فاتحانہ داخلے کے اس مہذب طریقے کو قانوناً تسلیم کرنے کی توفیق نصیب ہوئی جسے آج سے چودہ سو سال قبل رسولِ عربی ﷺ نے فتحِ مکہ کے موقع پر پیش کیا اور مسلمانوں نے خلفائے راشدینؓ کے زمانے میں ایران، عراق، شام، مصر اور افریقہ کے سینکڑوں شہروں کی فتح کے موقع پر برت کر دکھا دیا۔

 

   احتلال (Occupation) اور اس کے قوانین: احتلال ایک جدید اصطلاح ہے اور اس کا تصور بھی جدید ہے۔ عہدِ قدیم میں تو جب ایک ریاست کسی ملک پر قابض ہو جاتی تھی تو وہ ملک اس کی جائز ملکیت سمجھا جاتا تھا۔ اسلامی قانون میں بھی کسی ملک کا مفتوح ہو جانا یہ معنی رکھتا تھا کہ وہ دارالاسلام بن گیا اور اس کی مسلم آبادی مسلمانوں کے برابر اور غیر مسلم آبادی (اگر صلح یا معاہدے کے تحت ہو) ذمیوں کے حقوق کے ساتھ رہے گی۔

 

    لیکن جدید بین الاقوامی قانون کی رو سے ایک ملک کا غنیم کے عارضی قبضے میں آجانا یہ معنی نہیں رکھتا کہ وہ باضابطہ اس کی مملکت کا حصہ بن گیا، بلکہ جب تک جنگ جاری ہے یا باقاعدہ صلح نامے کے ذریعے وہ علاقہ فاتح کے حوالے نہ کر دیا جائے، اس وقت تک فاتح کا قبضہ صرف ایک عارضی فوجی قبضہ (Military Occupation) سمجھا جاتا ہے۔ اس حالت کو "احتلال" سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس احتلال کے تحت جو علاقہ واقع ہوتا ہے، اس کے باشندے نہ تو عملاً اپنی سابقہ حکومت کی رعیت رہتے ہیں (کیونکہ اس کی عملداری ختم ہو چکی ہوتی ہے) اور نہ اصولاً قابض حکومت ہی کی رعایا بنتے ہیں۔ بلکہ وہ ایک غیر ملکی فوجی حکومت کے تحت مغلوب قوم کی حیثیت سے زندگی بسر کرتے ہیں۔

 

    ۱۸۹۹ء اور ۱۹۰۷ء کے ضوابطِ ہیگ (سیکشن سوم، دفعات ۴۲-۵۶) نے اس حالت کے لیے کچھ قوانین مقرر کیے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ علاقۂ محتلہ میں قابض حکومت اور باشندوں کے حقوق و فرائض کیا ہیں۔ ذیل میں ہم ان قوانین کا خلاصہ نقل کرتے ہیں:

 

           (۱)۔ نظم و نسق کا قیام: "جب ایک علاقے پر جائز حکمران کے اختیارات فی الواقع قابض کے ہاتھوں میں منتقل ہو جائیں، تو مؤخر الذکر ہر ممکن کوشش کرے گا کہ جہاں تک ہو سکے، امنِ عامہ اور شہری زندگی کو بحال اور یقینی بنائے، اور، جب تک کہ قطعی طور پر ناممکن نہ ہو، ملک میں نافذ قوانین کا احترام کرے۔" (دفعہ ۴۲)

            یہ دفعہ قابض حکومت کے لیے صرف ایک عمومی ذمہ داری عائد کرتی ہے۔ "جہاں تک ہو سکے" اور "قطعی طور پر ناممکن نہ ہو" جیسی مبہم حدود قابض حکومت کو وسیع اختیارات دے دیتی ہیں کہ وہ جنگی ضرورت یا اپنی صوابدید کے مطابق سابقہ قوانین کو معطل یا تبدیل کر دے۔ اس طرح احتلال اور باقاعدہ الحاق میں عملی فرق بہت کم رہ جاتا ہے۔

 

           (۲)۔ معلومات دینے پر عدمِ جبر: "کسی محارب فریق کے لیے ممنوع ہے کہ وہ مقبوضہ علاقے کے باشندوں کو اپنی (سابقہ) قوم کی فوج یا اس کے دفاعی وسائل کے متعلق معلومات دینے پر مجبور کرے۔" (دفعہ ۴۴)

            اس دفعہ کو جرمنی، جاپان، روس اور آسٹریا-ہنگری نے ۱۹۰۷ء میں قبول نہیں کیا تھا۔ فوجی گروہ کو اس پر سخت اعتراض ہے، کیونکہ وہ جنگی مصالح کے لیے معلومات کے حصول پر کسی قسم کی پابندی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ جرمنی کی "کتابِ جنگ" میں اس پر جو تنقید کی گئی ہے اس کے الفاظ یہ ہیں: "ایک ملک کے باشندوں کو خود اپنی قومی فوج... کے متعلق معلومات بہم پہنچانے پر مجبور کرنا یقیناً ایک سخت کارروائی ہے... لیکن اس کے باوجود کوئی جنگی قائد ہمیشہ اس سے احتراز کرنے کا اہتمام نہیں کر سکتا... جنگ کے دلائل بسا اوقات اس کو اس ذریعے سے استفادہ کرنے پر مجبور کر دیں گے۔" ۱۵۱ آگے چل کر پھر لکھا ہے: "ایک شخص کو خود اپنے ملک کی ضرر رسانی... میں آسانی پیدا کرنے پر مجبور کرنا انسانی حسیات کے لیے خواہ کتنا ہی تکلیف دہ ہو، مگر کوئی محارب فوج جو غنیم کے ملک میں پڑی ہوئی ہو، اس ذریعۂ معلومات سے اجتناب نہیں کر سکتی۔" ۱۵۲ یہ خیالات صرف جرمن محکمۂ جنگ ہی کے نہیں تھے بلکہ تمام یورپ کا فوجی گروہ کم و بیش یہی رائے رکھتا تھا۔ پہلی جنگِ عظیم میں اس دفعہ ۴۴ پر عمل درآمد شاذ و نادر ہی ہوا۔

 

           (۳)۔ دشمن کے خلاف جنگ پر عدمِ جبر: "کسی محارب فریق کے لیے ممنوع ہے کہ وہ دشمن ریاست کے شہریوں کو خود ان کی اپنی ریاست کے خلاف جنگی کارروائیوں میں حصہ لینے پر مجبور کرے۔" (دفعہ ۲۳، آخری پیراگراف) نیز، "قابض (حکومت) مقبوضہ علاقے کے باشندوں کو اپنی مسلح افواج یا دفاعی ذرائع کے بارے میں معلومات دینے پر مجبور نہیں کر سکتی۔" (دفعہ ۴۴) (نوٹ: دفعہ ۲۳ کا تعلق براہِ راست مقبوضہ علاقے سے نہیں بلکہ عمومی طور پر دشمن شہریوں سے ہے، لیکن اس کا اطلاق مقبوضہ علاقے پر بھی ہوتا ہے)۔

            یہ دفعہ بھی عملی طور پر کمزور ثابت ہوئی۔ پروفیسر مورگن کے بقول، یہ صرف ایک "عمومی بیانِ اصول" کی حیثیت رکھتی تھی۔ ۱۵۳ پہلی جنگِ عظیم میں محارب ریاستوں نے مقبوضہ علاقوں کے باشندوں سے نہ صرف رسد اور نقل و حمل کے کام لیے بلکہ خندقیں کھودنے اور فوجی تعمیرات جیسے کام بھی زبردستی ان سے لیے۔ ۱۵۴

 

           (۴)۔ وفاداری کا حلف نہ لینا: "علاقۂ محتلہ کے باشندوں کو قابض طاقت کی وفاداری کا حلف اٹھانے پر مجبور کرنا ممنوع ہے۔" (دفعہ ۴۵)

 

           (۵)۔ جان و مال اور مذہب کا احترام: "خاندانی عزت اور حقوق، افراد کی جانیں، اور نجی املاک، نیز مذہبی عقائد اور عبادات کا احترام کیا جانا چاہیے۔ نجی املاک ضبط نہیں کی جا سکتیں۔" (دفعہ ۴۶)

 

           (۶)۔ لوٹ مار کی ممانعت: "لوٹ مار باضابطہ ممنوع ہے۔" (دفعہ ۴۷)

            یہ تینوں دفعات (۴۵، ۴۶، ۴۷) اہم اصول بیان کرتی ہیں، لیکن ان کی عملی قدر و قیمت کا انحصار قابض فوج کے رویے اور بین الاقوامی دباؤ پر رہا ہے۔

 

           (۷)۔ ٹیکسوں کی وصولی: "اگر قابض (حکومت) مقبوضہ علاقے میں ریاست کے لیے قائم کردہ ٹیکس، واجبات اور ٹولز وصول کرتی ہے، تو وہ جہاں تک ممکن ہو، تشخیص اور تقسیم کے رائج الوقت قواعد کے مطابق ایسا کرے گی، اور اس کے نتیجے میں وہ علاقے کے انتظامات کے اخراجات اسی حد تک برداشت کرنے کی پابند ہو گی جس حد تک کہ جائز حکومت اس کی پابند تھی۔" (دفعہ ۴۸)

 

           (۸)۔ دیگر مالی وصولیاں: "اگر قابض (حکومت)، مذکورہ بالا ٹیکسوں کے علاوہ، مقبوضہ علاقے میں دیگر رقوم وصول کرتی ہے، تو یہ صرف فوج کی ضروریات یا علاقے کے نظم و نسق کے لیے ہونا چاہیے۔" (دفعہ ۴۹)

 

           (۹)۔ نقدی وصولی (Contributions in cash): "کوئی نقدی وصولی صرف قابض فوج کی ضروریات یا علاقے کے نظم و نسق کی ضروریات کے لیے ہی کی جائے گی۔" (دفعہ ۴۹، مکرر)

            "کوئی اجتماعی جرمانہ، مالی یا دیگر نوعیت کا، پوری آبادی پر انفرادی افعال کی پاداش میں عائد نہیں کیا جا سکتا جن کے لیے انہیں مجموعی طور پر ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔" (دفعہ ۵۰)

            "کوئی نقدی وصولی صرف ایک کمانڈر انچیف یا اعلیٰ ترین فوجی افسر کے تحریری حکم کے تحت ہی کی جائے گی۔ یہ وصولی جہاں تک ممکن ہو، ٹیکسوں کی تشخیص کے رائج الوقت قواعد کے مطابق کی جائے گی۔ ہر وصولی کے لیے ایک رسید دی جانی چاہیے۔" (دفعہ ۵۱)

 

           (۱۰)۔ اشیاء اور خدمات کی وصولی (Requisitions in kind and services): "اشیاء اور خدمات کی وصولی بلدیات یا باشندوں سے صرف قابض فوج کی ضروریات کے لیے طلب کی جا سکتی ہے۔ وہ ملک کے وسائل کے تناسب میں ہونی چاہئیں، اور اس نوعیت کی نہ ہوں کہ باشندوں کو اپنے ملک کے خلاف جنگی کارروائیوں میں حصہ لینے پر مجبور کریں۔ ایسی اشیاء اور خدمات صرف قابض علاقے کے کمانڈر کی اجازت سے طلب کی جا سکتی ہیں۔ اشیاء کی فراہمی کا جہاں تک ممکن ہو نقد معاوضہ دیا جائے گا؛ اگر نہیں، تو رسید دی جائے گی اور واجب الادا رقم کی ادائیگی جلد از جلد کی جائے گی۔" (دفعہ ۵۲)

 

           (۱۱)۔ سرکاری املاک پر قبضہ: "ایک قابض فوج صرف ان نقدی، فنڈز، اور قابلِ حصول سیکیورٹیز پر قبضہ کر سکتی ہے جو براہِ راست ریاست کی ملکیت ہوں، نیز اسلحہ ڈپو، ذرائع نقل و حمل، اسٹورز اور رسد، اور عمومی طور پر ریاست کی ہر قسم کی منقولہ جائیداد جو جنگی کارروائیوں کے لیے استعمال ہو سکتی ہو۔ تمام وہ آلات، خواہ زمین پر ہوں، سمندر میں یا ہوا میں، جو خبروں کی ترسیل، یا افراد یا اشیاء کی نقل و حمل کے لیے استعمال ہوتے ہوں (سوائے ان کے جو بحری قانون کے تحت آتے ہیں)، ڈپو آف آرمز، اور عمومی طور پر ہر قسم کا جنگی سازوسامان، خواہ وہ نجی افراد کی ملکیت ہی کیوں نہ ہوں، ضبط کیے جا سکتے ہیں، مگر صلح کے وقت انہیں واپس کرنا ہو گا اور ہرجانہ ادا کرنا ہو گا۔" (دفعہ ۵۳)

            "قابض ریاست مقبوضہ علاقے میں موجود غیر منقولہ سرکاری املاک (مثلاً عمارتیں، جنگلات، زرعی زمینیں) کی صرف منتظم اور نفع گیر (usufructuary) سمجھی جائے گی۔ وہ ان املاک کے سرمائے کو محفوظ رکھنے، اور نفع گیری کے قواعد کے مطابق ان کا انتظام کرنے کی پابند ہو گی۔" (دفعہ ۵۵)

            "بلدیات کی املاک، اور مذہب، خیرات، تعلیم، آرٹ اور سائنس کے اداروں کی املاک، خواہ وہ ریاست کی ملکیت ہی کیوں نہ ہوں، نجی املاک کے طور پر سمجھی جائیں گی۔ ان اداروں، تاریخی یادگاروں، آرٹ اور سائنس کے کاموں کی ضبطی، تباہی یا دانستہ نقصان ممنوع ہے اور قانونی کارروائی کا موجب ہونا چاہیے۔" (دفعہ ۵۶)

 

    یہ تمام دفعات قابض حکومت کے اختیارات اور باشندوں کے حقوق کے درمیان توازن قائم کرنے کی کوشش کرتی ہیں، لیکن ان میں "فوجی ضرورت"، "جہاں تک ممکن ہو"، "وسائل کے تناسب سے" جیسی مبہم اصطلاحات نے عملی طور پر قابض فوج کو وسیع اختیارات دے رکھے ہیں۔ فوجی گروہ ان پابندیوں کو اپنی جنگی ضروریات کے تابع سمجھتا ہے۔ جرمنی کی "کتابِ جنگ" میں واضح طور پر کہا گیا ہے: "جنگی ضرورت کے موقع پر ہر قسم کی ضبطی، ہر قسم کا... استعمال، ہر قسم کی ضرر رسانی اور تخریب جائز ہے۔" ۱۵۵ وسائل کو ملحوظ رکھنے کی شرط کے جواب میں یہ گروہ کہتا ہے: "یہ تناسب کا نظریہ بس نظریے کی حیثیت سے تو بہت خوب ہے مگر اس کو عمل میں لانا مشکل بلکہ محال ہے۔" ۱۵۶ کلاؤزوٹز کی رائے اس گروہ میں بہت مقبول ہے کہ فوجوں کی ضروریات کے لیے مفتوح ملک سے ہر چیز حاصل کرنا، حتیٰ کہ آبادی کو خوفزدہ کر کے مجبور کرنا بھی جائز ہے، اور اس کی کوئی حد نہیں سوائے اس کے کہ ملک بالکل قلاش ہو جائے۔ ۱۵۷ یہاں بھی فوجی گروہ کی رائے قانونی گروہ کی تجاویز پر غالب رہی ہے اور جنگوں میں ہیگ کے مہذب قوانینِ احتلال کی وسیع پیمانے پر خلاف ورزیاں ہوئی ہیں۔ ۱۵۸

 

    دفعہ ۵۰، جو اجتماعی سزاؤں سے منع کرتی ہے، وہ بھی جنگِ عظیم (اول و دوم) میں کالعدم ہو گئی۔ محاربین نے مقبوضہ علاقوں میں اجتماعی جرمانے عائد کیے اور بسا اوقات پوری آبادی کو انفرادی جرائم کی سزا دی، خصوصاً جب اصل مجرم کا سراغ نہ مل سکا۔ ۱۵۹

 

۵۔ غارت گری و تباہ کاری:

 

سترہویں صدی تک یورپ میں عام دستور تھا کہ جب ایک فوج دشمن کے ملک میں پیش قدمی کرتی تھی تو ہر چیز کو تباہ کرتی چلی جاتی تھی۔ دشمن کی املاک کو غارت کرنے اور تباہ کرنے کا حق اس زمانے میں غیر محدود تھا۔ انیسویں صدی کے وسط تک ہمیں اس حق کے استعمال کی مثالیں ملتی ہیں۔ چنانچہ ۱۸۱۳ء میں امریکہ نے کینیڈا میں، ۱۸۱۴ء میں انگریزوں نے واشنگٹن میں، ۱۸۳۰ء کی دہائی میں فرانس نے الجزائر میں، ۱۸۵۷ء میں انگریزوں نے ہندوستان میں، اور جنگِ کریمیا سے پہلے روسی فوجوں نے ترکی میں عام تباہی پھیلائی۔

 

تاہم نظری حیثیت سے اس حق کو محدود کرنے کا تخیل سترہویں صدی میں گروٹیوس کے ہاں پیدا ہو چکا تھا۔ اس نے یہ قاعدہ وضع کیا تھا کہ صرف اتنی تباہ کاری جائز ہے جس سے دشمن جلد صلح پر مجبور ہو جائے۔ ۱۶۰ اٹھارہویں صدی میں واٹل (Vattel) نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ دشمن کے ملک میں عام تخریب و تباہ کاری تین صورتوں میں جائز ہے: (۱) جب ایک ظالم اور وحشی دشمن کے وحشیانہ اعمال کا سلسلہ بند کرنا مقصود ہو؛ (۲) جب اپنی سرحد کی حفاظت کے لیے کوئی رکاوٹ کھڑی کرنی مقصود ہو؛ (۳) جب کسی فوجی کارروائی یا محاصرے کے لیے اس کی ضرورت ہو۔ ۱۶۱

 

انیسویں صدی کے اواخر میں مغربی افکار نے تہذیب کی جانب کچھ اور ترقی کی اور یہ عام اصول وضع کیا گیا کہ: "صرف اسی قدر تباہ کاری جائز ہے جس قدر جنگی ضروریات کے لحاظ سے ناگزیر ہو۔" ۱۶۲

 

لیکن بیسویں صدی کے یورپی مصنفین اور ماہرینِ جنگ کا میلان اس طرف رہا ہے کہ "جنگی ضرورت" کے تحت ہر قسم کی تباہ کاری جائز ہے، البتہ جس تباہ کاری کا مقصد محض تباہ کاری یا لوٹ مار ہو، وہ ناجائز ہے۔ لارنس اپنی کتاب "اصولِ قانون بین الملل" میں لکھتا ہے: "قوانینِ جنگ ایک شہر کے مضافات کو تباہ کر دینا جائز رکھتے ہیں تاکہ محصورین کو ان میں پناہ لینے سے روکا جائے، یا توپ خانے کی کارروائی کے لیے میدان صاف کیا جائے۔ اس غرض کے لیے عمارتیں توڑی جا سکتی ہیں، درخت کاٹے جا سکتے ہیں، بلکہ پسپائی کے لیے راستہ صاف رکھنے کی غرض سے گاؤں بھی جلائے جا سکتے ہیں۔ مگر یہ کارروائی صرف اس صورت میں ہونی چاہیے جب کہ فوری اغراضِ جنگ کے لیے ایسا کرنا بے حد ضروری ہو۔" ۱۶۳

 

پروفیسر ویسٹ لیک (Westlake) لکھتا ہے: "غنیم کے ملک میں عام تباہی صرف اس وقت جائز ہے جب کہ زیرِ عمل جنگی کارروائی کی کامیابی کے لیے ایسا کرنا ضروری ہو۔" ۱۶۴

 

جرمنی کی "کتابِ جنگ" اس مسئلے میں یہ فیصلہ دیتی ہے: "بلا ضرورت تو ذرہ برابر تباہ کاری بھی ناجائز ہے، لیکن اگر ضرورت پڑے تو بڑی سے بڑی تباہ کاری بھی جائز ہے۔" ۱۶۵

 

یہاں آکر مغربی قانون ایک حد تک اسلامی قانون سے مل جاتا ہے۔ اسلامی قانون بھی یہی ہے کہ کسی شہر کی تسخیر یا کسی اور فوجی کارروائی کے لیے تخریب کی ضرورت ہو تو وہ جائز ہے، مگر صرف اس حد تک کہ ایسا کرنا اس کارروائی کی کامیابی کے لیے ناگزیر ہو۔ اس کی تفصیل اس کتاب کے باب پنجم، عنوان "تباہ کاری کی ممانعت" میں گزر چکی ہے۔

 

لیکن مسئلے کے ایک پہلو میں اسلام اور مغربی قانون کے درمیان اختلاف ہے۔ اسلام مہذب اور غیر مہذب دشمن میں کوئی تمیز نہیں کرتا۔ اس کے نزدیک غیر مہذب دشمن کی فصلیں تباہ کرنا اور بستیاں اجاڑنا بھی ویسا ہی ظلم ہے جیسا کہ مہذب دشمن کی بستیوں اور کھیتوں کو غارت کرنا۔ بلکہ درحقیقت اسلامی قانون جس زمانے میں وضع ہوا تھا اس وقت "مہذب دشمن" کا تو کہیں وجود ہی نہ تھا۔ ہر طرف غیر مہذب ہی غیر مہذب تھے۔ مگر مغربی قانون ان دونوں قسم کے دشمنوں میں امتیاز کرتا تھا۔ اس کے نزدیک تباہ کاری کے لیے "حسبِ ضرورت" کی قید صرف "مہذب" دشمن کے لیے تھی۔ رہا بے چارہ "غیر مہذب"، تو اس کو تباہ و برباد کرنے کا حق مہذب قوموں کے لیے غیر محدود سمجھا جاتا تھا۔ پروفیسر لارنس صاف تصریح کرتا ہے:

"وحشی یا نیم وحشی قوموں سے جنگ کرتے وقت، واٹل کے پہلے استثناء پر عمل کیا گیا ہے۔ عام طور پر یہ فرض کیا گیا ہے کہ وحشی و غیر مہذب قوموں کے مواشی کو ہانک لے جانا، ان کی فصلوں کو تباہ کر دینا، ان کے چھپروں اور جھونپڑیوں میں آگ لگا دینا، ان کے ذہن پر نہایت گہرا اثر پیدا کرتا ہے۔ اگر یہ تباہ کاری شیل (گولوں) کے ذریعے سے کی جائے اور اس کے ناگہانی نتیجے کے طور پر بہت سے باشندے بھی ہلاک ہو جائیں تو اس سے ایسا گہرا اور پائدار اثر پیدا ہو گا کہ اس قوم کے بقیۃ السیف افراد کے دلوں میں سفید فام انسان کے عدل اور اس کی طاقت کے مستقل احساس کا نشوونما پانا یقینی ہے!" ۱۶۶

 

۶۔ غیر جانبداروں کے حقوق و فرائض:

 

اب مغربی قوانینِ جنگ میں صرف ایک غیر جانبداری (Neutrality) کا قانون باقی رہ گیا ہے جس کا ذکر کرنا باقی ہے۔ اس پر تبصرہ کرنے کے بعد ہم اس طویل باب کو ختم کر دیں گے۔

 

   غیر جانبداری کی تاریخ: مغربی اقوام میں غیر جانبداری کا واضح اور قانونی تصور بہت قریبی عہد کی پیداوار ہے۔ اب سے دو صدی قبل تک ان کے ذہن میں اس کا کوئی مکمل تصور نہیں تھا، یا اگر تھا تو وہ بہت مبہم اور غیر مؤثر تھا۔ اسی لیے مغربی زبانوں میں اس مفہوم کو ادا کرنے کے لیے کوئی مستقل اور متفقہ لفظ بھی موجود نہ تھا۔ گروٹیوس اس کو لفظ "متوسط" (Medii) سے ادا کرتا ہے اور بائنکر شویک (Bynkershoek) اس کے لیے لفظ "غیر عدو" (Non Hostes) استعمال کرتا ہے۔ سترہویں صدی کے آخر میں لفظ "نیوٹرل" (Neutral) مختلف زبانوں میں رائج ہوا۔ اٹھارہویں صدی کے وسط میں واٹل نے اسے بین الاقوامی قانون میں رواج دیا۔

 

    سولہویں اور سترہویں صدی تک یورپ میں غیر جانبداری کی حالت کو اکثر ناممکن اور خطرناک سمجھا جاتا تھا اور عملاً اس کا کوئی واضح مفہوم ہی نہ تھا۔ فلارنس کا مدبر میکیاویلی (Machiavelli) ایک حکمران کے لیے ضروری قرار دیتا ہے کہ جب اس کے ہمسایوں میں کبھی لڑائی ہو تو وہ ایک نہ ایک فریق کے ساتھ شریک ہو جائے۔ اس کے ایک صدی بعد گروٹیوس بھی یہ مشورہ دیتا ہے کہ ایک حکمران کو محارب فریقین میں سے اس کا ساتھ دینا چاہیے جس کو وہ حق پر دیکھے، اور اس کی مخالفت کرنی چاہیے جو ناحق پر ہو۔ البتہ جب یہ تمیز مشکل ہو جائے کہ کون حق پر ہے اور کون ناحق پر، تو اس صورت میں اس کو دونوں سے یکساں سلوک کرنا چاہیے۔

 

    علمی حیثیت سے بھی اٹھارہویں صدی کے خاتمے تک غیر جانبداروں کے حقوق و فرائض واضح اور مستحکم نہ تھے۔ محارب قوتیں لڑتے لڑتے ان کے حدود میں بے تکلف تجاوز کر جاتی تھیں، اور غیر جانبدار طاقتیں بھی جس فریق سے ہمدردی رکھتیں، اس کو خفیہ یا اعلانیہ امداد پہنچانے میں دریغ نہ کرتی تھیں۔

 

    قانون کے اس شعبے میں حقوق و فرائض اور حدود و قیود مقرر کرنے کی سنجیدہ ابتداء ۱۷۹۳ء-۹۴ء سے ہوئی جب کہ امریکہ نے فرانسیسی انقلابی جنگوں کے دوران اپنی غیر جانبداری کا اعلان کیا اور اس کے نفاذ کے لیے قوانین وضع کیے۔ اس کے بعد اس شعبے میں قانون سازی کا سلسلہ برابر جاری رہا، یہاں تک کہ ۱۸۱۸ء میں امریکہ نے ایک جامع نیوٹرلٹی ایکٹ منظور کیا۔ ۱۸۱۹ء میں برطانیہ نے بھی فارن انلسٹمنٹ ایکٹ (Foreign Enlistment Act) منظور کیا۔ اس کے بعد دوسری ریاستوں نے بھی اسی قسم کے قوانین اپنے ہاں رائج کیے اور انیسویں صدی کے اندر مغربی ریاستوں میں غیر جانبداری کے قوانین بن گئے۔ تاہم صحیح معنوں میں غیر جانبداری کا بین الاقوامی قانون ۱۹۰۷ء کی ہیگ کانفرنس میں وضع کیا گیا (Hague Convention V respecting the Rights and Duties of Neutral Powers and Persons in Case of War on Land اور Hague Convention XIII concerning the Rights and Duties of Neutral Powers in Naval War)، کیونکہ اسی میں پہلی مرتبہ کثیر تعداد میں ریاستوں نے مل کر غیر جانبداروں کے حقوق و فرائض کو مدون کیا۔

 

   موجودہ زمانے میں غیر جانبداروں کی حیثیت: لیکن یہ عجیب بات ہے کہ بیسویں صدی میں غیر جانبداری کا قانون پایۂ تکمیل کو پہنچا اور بیسویں ہی صدی میں اس پر سوالات اٹھنے لگے اور اس کا عملی نفاذ کمزور پڑ گیا۔ دوسری ہیگ کانفرنس کو قانون سازی کا کام ختم کیے ابھی سات سال بھی نہ ہوئے تھے کہ یورپ میں عالمگیر جنگ (پہلی جنگِ عظیم) شروع ہوئی اور اس نے غیر جانبداری کے پورے قانون کی دھجیاں اڑا دیں۔ ۱۶۷ ۱۸-۱۹۱۴ء کی جنگِ عظیم میں غیر جانبداروں کا کوئی حق ایسا نہ تھا جسے آزادی کے ساتھ پامال نہ کیا گیا ہو۔ ان کی سرحدوں پر تجاوز کیا گیا (مثلاً بلجیم)، ان کے جہاز ڈبوئے گئے، ان کی تجارت میں شدید رکاوٹیں ڈالی گئیں (بحری ناکہ بندی)، ان کے جہازوں کی تلاشی لی گئی، ان کے شہریوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، غرض یہ کہ ان کے ساتھ بہت سے معاملات میں محاربین جیسا سلوک کیا گیا۔ حتیٰ کہ یہ سوال پیدا ہو گیا کہ آیا فی الواقع غیر جانبداروں کا کوئی قانونی حق باقی بھی ہے یا نہیں؟

 

    پھر اسی پر بس نہیں، خود غیر جانبداری کی حقیقت بھی بڑی حد تک مشکوک ہو گئی۔ چونکہ جنگ اب صرف فوجی جنگ نہیں رہی تھی بلکہ اس سے زیادہ معاشی جنگ (Economic Warfare) ہو گئی تھی، اس لیے یہ سوال پیدا ہو گیا کہ جو طاقت دشمن کے ساتھ تجارتی تعلقات رکھتی ہو، اس کو ضروری سامان بہم پہنچاتی ہو اور اس کی معاشی زندگی کے لیے بقاء و استحکام کے وسائل فراہم کرتی ہو، کیا وہ فی الواقع غیر جانبدار ہے؟ کیا وہ جائز طور پر اپنے اس کام کے لیے مکمل آزادی اور تحفظ کا مطالبہ کر سکتی ہے؟ اس مسئلے نے غیر جانبداری کی عین بنیاد پر ایک کاری ضرب لگائی اور یہ واقعہ ہے کہ بین الاقوامی قانون اس وقت تک یہ پوری طرح فیصلہ نہیں کر سکا تھا کہ ان جدید مسائل کی روشنی میں غیر جانبداروں کے کیا فرائض مقرر کرے اور ان کو کیا حقوق دلوائے۔

 

    یہ حالات کا ایک مبالغہ آمیز تخمینہ نہیں ہے بلکہ ٹھیک یہی خیالات تھے جو بین الاقوامی قانون کے علماء کو پریشان کیے ہوئے تھے۔ پروفیسر نیپولڈ نے اپنی کتاب "بین الاقوامی قانون کا ارتقاء جنگِ عظیم کے بعد" میں اس پر تفصیل سے بحث کی ہے اور اکابر علمائے قانون کے خیالات سے استشہاد کیا ہے۔ ذیل میں ہم اس سے ایلتز باشر کے خیالات نقل کرتے ہیں، وہ لکھتا ہے:

    "موجودہ جنگ نے غیر جانبداروں کی حیثیت بہت زیادہ خراب کر دی ہے۔ ان کے بہت سے حقوق پر اس کثرت کے ساتھ دست درازی کی گئی ہے کہ اب مشکل ہی سے یہ خیال کیا جا سکتا ہے کہ یہ حقوق فی الواقع قانون میں موجود ہیں... چونکہ اب وہ ضرورت سے زیادہ پامال ہو چکے ہیں اس لیے آئندہ لڑائیوں میں ان کو زیادہ عرصہ تک تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ حق اور انصاف کے نئے عقائد نے پرانے حقوق کو الگ پھینک دیا ہے، اور جو رخنہ پڑ گیا ہے وہ اب ناقابلِ تلافی ہے۔ پہلے قوانین، خصوصاً اعلانِ پیرس (۱۸۵۶ء) کے بحری قانون کی دفعات کو بین الاقوامی قانون میں جو پوزیشن حاصل تھی اس پر اب ایک انقلابی تشکیلِ جدید کے حملے نے ایک نئے غیر نوشتہ قانون کو مسلط کر دیا ہے، اور یہ ایسا قانون ہے جو غیر جانبدار حکومتوں کی زندگی پر بہت زیادہ گہرے حملوں کو جائز رکھتا ہے!" ۱۶۸

 

    آگے چل کر یہ مصنف پھر لکھتا ہے:

    "دنیا میں عالمگیر لڑائیوں کا دور شروع ہو چکا ہے اور ہر بڑی طاقت کو یہ یقین رکھنا چاہیے کہ وہ ان میں ضرور کھینچی جائے گی۔ بین الاقوامی قانون آخرالامر بڑی قوموں کی خواہش ہی پر قائم ہے، کیونکہ ان کی مدد کے بغیر بین الاقوامی قانون کا کوئی حکم قائم نہیں رہ سکتا۔ لہٰذا ایسے زمانے میں جب کہ غیر جانبداروں کا ناقابلِ تعدی ہونا بڑی قوموں کی اکثریت کو ایک ناگوار قید معلوم ہو رہا ہے، اگر بین الاقوامی قانون میں بھی غیر جانبداروں کی پوزیشن روز بروز خراب ہوتی جائے تو کچھ جائے تعجب نہیں ہے۔" ۱۶۹

 

    اس بیان سے معلوم ہو جاتا ہے کہ مغربی قانون میں غیر جانبداری کی حیثیت کیا ہے۔ اب ہم غیر جانبداری کے قانون کی تفصیلات و جزئیات پر نظر ڈال کر دیکھیں گے کہ یہ قانون بجائے خود کس حد تک مکمل اور پائیدار ہے اور اسلامی قانون کے مقابلے میں اس کی حیثیت کیا ہے۔

 

   محاربین کے فرائض غیر جانبداروں کے متعلق: ہیگ کنونشن نمبر ۵ (بری جنگ) اور ۱۳ (بحری جنگ) کی رو سے غیر جانبداروں کے متعلق محاربین کے جو فرائض مقرر کیے گئے ہیں وہ حسبِ ذیل ہیں:

    (۱)۔ غیر جانبدار ریاست کے علاقے کا ناقابلِ تعدی (inviolable) ہونا۔ (دفعہ ۱، کنونشن ۵ و ۱۳)

    (۲)۔ محاربین کے لیے ممنوع ہے کہ اپنی فوجیں یا سامانِ جنگ اور رسد غیر جانبدار علاقے سے گزار کر لے جائیں۔ (دفعہ ۲، کنونشن ۵)

    (۳)۔ غیر جانبدار علاقے کو جنگی تیاریوں کے لیے اڈہ (Base of operations) نہیں بنایا جا سکتا۔ وہاں فوجیں بھرتی کرنا یا جنگی قوتیں منظم کرنا ممنوع ہے۔ (دفعہ ۴، کنونشن ۵)

    (۴)۔ غیر جانبدار علاقے یا پانیوں میں دشمن کو پکڑنا یا اس پر حملہ کرنا یا پرائز کورٹ قائم کرنا ممنوع ہے۔ (دفعہ ۲، ۸، کنونشن ۱۳)

    (۵)۔ محاربین کا فرض ہے کہ ایک غیر جانبدار ریاست اپنے فرائضِ غیر جانبداری ادا کرنے کے لیے جو قوانین وضع کرے ان کا وہ احترام کریں۔

    (۶)۔ اگر کسی غیر جانبدار ریاست کے حقوق پر تعدی ہو جائے تو تعدی کرنے والے فریق کا فرض ہے کہ اس کی تلافی کرے۔

 

    یہ تمام فرائض فروع ہیں۔ اصول ایک ہی ہے اور وہ یہ ہے کہ "غیر جانبدار ریاست کا علاقہ واجب الاحترام ہے اور اس پر تجاوز نہ کرنا چاہیے۔" یہ اصول بعینہٖ اسلام میں موجود ہے۔ اسلامی قانون کے مستقل ضابطوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جس قوم سے اسلامی حکومت کی مصالحت ہو، اور جو جنگ میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کسی قسم کا حصہ نہ لے، اس کے حدود پر کسی قسم کا تجاوز نہیں کیا جا سکتا۔ دشمن کے جو افراد اس کے ملک میں مقیم ہوں ان پر کوئی حملہ نہیں کیا جا سکتا۔ بلکہ مجموعی طور پر دورانِ جنگ میں اس کے افراد سے یا اس کے حدودِ سلطنت سے ہر قسم کا تعرض قطعاً حرام ہے۔ ۱۷۰

 

   غیر جانبداروں کے فرائض محاربین کے متعلق: جدید بین الاقوامی قانون غیر جانبدار ریاستوں پر محارب فریقین کے متعلق جو فرائض عائد کرتا ہے وہ حسبِ ذیل ہیں:

    (۱)۔ عدمِ شرکت و غیر جانبداری: کسی محارب فریق کو جنگ میں براہِ راست یا بالواسطہ مدد نہ دینا اور فریقین کے ساتھ یکساں (Impartial) سلوک کرنا (تاہم، یکساں سلوک کا مطلب ہمیشہ مساوی سلوک نہیں ہوتا)۔ یہ غیر جانبداری کا بنیادی فرض ہے۔

    (۲)۔ فوجی امداد کی ممانعت: محاربین میں سے کسی کو یا دونوں کو براہِ راست اسلحہ، گولہ بارود یا جنگی سازوسامان فراہم نہ کرنا۔ نہ ہی انہیں قرض دینا یا مالی امداد فراہم کرنا۔

           اس کا مطلب یہ ہے کہ غیر جانبدار ریاست بطورِ ریاست یہ کام نہ کرے۔ لیکن یہ امر متنازعہ رہا ہے کہ کیا غیر جانبدار ریاست کے نجی شہری یا کمپنیاں محاربین کو اسلحہ بیچ سکتی ہیں یا قرض دے سکتی ہیں؟ عام طور پر ریاست پر یہ ذمہ داری نہیں سمجھی جاتی کہ وہ اپنے شہریوں کی نجی تجارت کو مکمل طور پر روکے، بشرطیکہ وہ دونوں فریقوں کے ساتھ امتیاز نہ برتے۔ ۱۸۷۰ء کی جنگ میں امریکہ کا فرانس کو اسلحہ بیچنا اس کی مثال ہے۔ تاہم، جدید قانون اس پر زیادہ پابندیاں عائد کرنے کی طرف مائل ہے۔ ۱۷۱

           اسی طرح نجی افراد یا بینکوں کا محاربین کو قرض دینا بھی عام طور پر ریاست کی غیر جانبداری کے منافی نہیں سمجھا جاتا تھا، جیسا کہ ۱۹ ویں اور ۲۰ ویں صدی کی کئی جنگوں میں ہوا۔ ۱۸۲۳ء میں برطانوی لاء آفیسرز کی رائے بھی یہی تھی۔ ۱۷۲ لیکن یہاں بھی حکومت کی براہِ راست شمولیت ممنوع ہے۔

 

    (۳)علاقے سے گزرنے کی ممانعت:  محاربین کی فوجوں کو اپنے علاقے سے نہ گزرنے دینا۔

        یہ فرض بھی بتدریج مستحکم ہوا ہے۔ پہلے زمانے میں، جیسا کہ گروٹیوس اور واٹل کے حوالے سے ذکر ہوا، راستہ دینے کو بعض حالات میں جائز سمجھا جاتا تھا۔ ۱۷۳ انیسویں صدی میں بھی اس کی مثالیں ملتی ہیں (مثلاً ۱۸۱۵ء میں اتحادیوں کا سوئٹزرلینڈ سے گزرنا، ۱۸۷۰ء میں پروشیا کا زخمیوں کو بیلجیم سے گزارنا)۔ لیکن ۱۹۰۷ء کے ہیگ کنونشن (نمبر ۵، دفعہ ۲ و ۵) نے واضح طور پر محارب فوجوں یا رسد کو غیر جانبدار علاقے سے گزارنے کو ممنوع قرار دیا اور غیر جانبدار ریاست پر یہ فرض عائد کیا کہ وہ اسے روکے۔ پہلی جنگِ عظیم میں جرمنی کا بیلجیم سے زبردستی راستہ حاصل کرنا اس قانون کی صریح خلاف ورزی سمجھا گیا۔ ۱۷۴ اگرچہ طاقتور ریاستیں اب بھی کمزور غیر جانبدار ریاستوں پر دباؤ ڈال سکتی ہیں، لیکن قانونی طور پر یہ اصول مسلمہ ہے۔ ۱۷۵

 

    (۴)۔ جنگی تیاریوں کی ممانعت: محاربین کو اپنے حدود میں جنگی مہمیں تیار کرنے، فوجیں بھرتی کرنے یا جنگی جہازوں کو مسلح کرنے کی اجازت نہ دینا۔ (ہیگ کنونشن ۵، دفعہ ۴؛ کنونشن ۱۳، دفعہ ۸)۔ یہ فرض بھی غیر جانبداری کے بنیادی اصول کا حصہ ہے اور ۱۸۷۱ء کے معاہدۂ واشنگٹن (Treaty of Washington) کی مشہور "تین شرائط" (Three Rules of Washington) سے اسے مزید تقویت ملی، جو الاباما تنازعے (Alabama Claims) کے بعد طے ہوئی تھیں۔

 

    (۵)۔ نجی شہریوں کی بھرتی: اپنی رعایا کو محاربین کی فوج میں بھرتی ہونے سے روکنے کے لیے مناسب اقدامات کرنا۔

        یہ فرض بھی بتدریج تسلیم کیا گیا۔ پہلے زمانے میں غیر جانبدار ریاستوں کے شہری آزادانہ طور پر محارب افواج میں شامل ہوتے رہے (مثلاً یونان کی جنگِ استقلال، امریکہ کی خانہ جنگی)۔ سوئٹزرلینڈ تو باقاعدہ کرائے کے فوجی مہیا کرتا تھا۔ لیکن انیسویں صدی کے آخر تک یہ اصول تسلیم کر لیا گیا کہ غیر جانبدار ریاست کا فرض ہے کہ وہ اپنی سرزمین پر محاربین کے لیے بھرتی کے دفاتر نہ کھلنے دے اور اپنے شہریوں کو بڑے پیمانے پر بھرتی ہونے سے روکے (اگرچہ انفرادی طور پر جانے والوں کو روکنا مشکل ہے)۔ (ہیگ کنونشن ۵، دفعہ ۴ و ۶)

 

    یہ ان فرائض کا خلاصہ ہے جو بین الاقوامی قانون غیر جانبدار ریاستوں پر عائد کرتا ہے۔ ان کی تفصیلات میں جو کچھ کمزوریاں یا ابہام ہیں وہ صفحاتِ بالا میں بیان ہو چکے ہیں۔ تاہم ان سب کا اصل الاصول صرف ایک فرض ہے اور وہ یہ کہ "غیر جانبدار قوم کو جنگ میں کسی فریق کی (حکومتی سطح پر) اعانت نہ کرنی چاہیے اور نہ ایسا فعل کرنا چاہیے جو اعانت کی حد تک پہنچتا ہو۔" یہ اصول الاصول بعینہٖ اسلام کے قانون میں موجود ہے۔ اسلامی قانون میں غیر جانبدار (معاہد) کی تعریف یہ ہے کہ {لَمْ يَنقُصُوكُمْ شَيْئًا وَلَمْ يُظَاهِرُوا عَلَيْكُمْ أَحَدًا} (التوبہ: ۴) یعنی " جن مشرکوں سے تم نے عہد کیا تھا پھر انہوں نے تمہارے ساتھ کوئی قصور نہیں کیا اور تمہارے مقابلے میں کسی کی مدد نہیں کی سو ان سے ان کا عہد ان کی مدت تک پورا کر دو

" اس اصل سے فروع خود نکالی جا سکتی ہیں۔ ہر وہ فعل جو "مظاہرہ" اور "نقص" کی تعریف میں آتا ہو غیر جانبداری کے لیے

ناقص ہے اور اس سے احتراز کرنا غیر جانبدار کا فرض ہے۔

 

تبصرہ

یہ باب امید سے زیادہ طویل ہو گیا ہے لیکن اسے ختم کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ پچھلے مباحث پر ایک آخری تبصرہ کر کے واضح کر دیا جائے

کہ اسلامی قانون کسی حیثیت سے مغربی قوانین پر ترجیح کا حق رکھتا ہے۔ اگر گزشتہ اوراق آپ کے ذہن میں محفوظ ہیں تو مباحث کو دوبارہ نقل

کرنے کی حاجت نہیں، صرف وجوہِ ترجیح کی طرف اشارہ کافی ہے۔

 

اولاً: بین الملی قانون فی الحقیقت کوئی "قانون" ہی نہیں ہے۔ وہ اپنے اصول و فروع کے لحاظ سے کلیۃً سلطنتوں کی مرضی پر منحصر ہے۔ وہ

جس طرح چاہتی ہیں اپنے مصالح و اغراض کے مطابق اس کو بناتی اور بدلتی ہیں، اور جس چیز کو سب یا چند بڑی سلطنتوں پسند نہیں کرتیں وہ آخر

الامر قانون میں شامل ہی نہیں رہ سکتی۔ اس طرح دراصل قانون یہ فیصلہ نہیں کرتا کہ حکومتوں کا طرزِ عمل کیا ہونا چاہیے؟۱

۱۔ تفصیل کے لیے دیکھو اس کتاب کا باب پنجم، عنوان "غیر جانبداروں کے حقوق"

بلکہ حکومتیں خود یہ فیصلہ کرتی ہیں کہ قانون کیا ہونا چاہیے؟ بخلاف اس کے اسلام کا قانون صحیح معنوں میں ایک "قانون" ہے۔ اس کو ایک

بالاتر قوت نے وضع کیا ہے۔ مسلمانوں کو اس میں حذف و ترمیم کا کوئی حق نہیں دیا گیا۔ وہ صرف اس لیے وضع کیا گیا ہے کہ جو اسلام کے پیرو

ہوں وہ اس کی بے چون و چرا پابندی کریں، اور جو اس کی پابندی نہ کریں وہ قانون شکن اور نافرمان قرار دیے جائیں۔ اہلِ مغرب اگر اپنے بین

الملی قانون کی خلاف ورزی کریں تو وہ سرے سے قانون ہی نہیں رہتا، لیکن مسلمان اگر سب مل کر بھی اسلام کے خلاف عمل کریں تب بھی

اسلامی قانون بجائے خود قانون رہتا ہے۔

ثانیاً: بین الملی قانون کا وہ شعبہ جس کو قانونِ جنگ کہا جاتا ہے اصلی الملی قانون سے بھی زیادہ ناپائدار اور ناقابلِ اعتبار ہے۔ ضروریاتِ جنگ

سے اس کا ہر وقت تصادم ہوتا رہتا ہے اور وہ ہمیشہ اس کو مغلوب کرتی رہتی ہیں۔ پھر فوجی اور قانونی گروہوں کے اختلاف اس کو اور بھی زیادہ

کمزور کر دیتے ہیں۔ قانونی گروہ ایک چیز کو قانون میں داخل کرتا ہے اور فوجی گروہ اسے خارج کر دیتا ہے۔ قانونی گروہ ایک مہذب قاعدہ

وضع کرتا ہے اور فوجی گروہ اسے قبول کرنے سے انکار کر دیتا ہے، اور چونکہ عمل کی تمام قوتیں فوجی گروہ کے ہاتھ میں ہوتی ہیں اس لیے

کتابوں میں لکھا ہوا قانونِ جنگ کتابوں ہی میں دھرا رہتا ہے اور اصلی قانونِ جنگ وہ ہوتا ہے جس کو فوجیں خود اپنے عمل سے میدانِ جنگ

میں وضع کرتی ہیں۔ اس کے مقابلہ میں اسلام کا قانونِ جنگ پورے اسلامی قانون کی طرح ایک پختہ اور ناقابلِ تغیر قانون ہے۔ اس میں

جنگی ضروریات کی رعایت ملحوظ رکھ کر جو قواعد و ضوابط مقرر کر دیے گئے ہیں ان کو اب کوئی نہیں بدل سکتا۔ کسی اسلامی فوج یا جنرل کو یہ حق

نہیں دیا گیا کہ اس میں کسی کی ترمیم و تنسیخ کرے یا اس کی کسی چیز کو ماننے سے انکار کر دے۔

ثالثاً: بین الملی قانونِ جنگ کی بنیاد لڑنے والوں کی باہمی مفاہمت پر رکھی گئی ہے۔ چند سلطنتیں آپس میں مل کر طے کر لیتی ہیں کہ جب ہم آپس

میں لڑیں گے تو فلاں فلاں قواعد کی پابندی کریں گے۔ اس مفاہمت میں جو قومیں شریک نہیں ہیں ان سے جنگ ہونے کی صورت میں اس

قانون پر عمل نہیں ہو گا۔ جو قومیں اس مفاہمت سے الگ ہو جائیں وہ بھی اس قانون کی حدود سے نکل جائیں گی اور انہیں مہذب قوموں کے

مہذب سلوک کا استحقاق باقی نہیں رہے گا۔ خود مفاہمت کے شرکاء میں سے بھی اگر کوئی مفاہمت کی خلاف ورزی کرے تو باقی شرکاء کے

لیے جائز ہو جائے گا کہ اس کے مقابلہ میں قوانین جنگ کو بالائے طاق رکھ دیں۔ آخرالامر اس قانون شکنی سے خود قانون ہی بدل جاتا ہے۔

اس طرح یہ قانون کسی اخلاقی فرض کے احساس پر قائم نہیں ہے بلکہ محض مبادلہ اور باہمی مراعات پر قائم ہے۔ ایک فریق جنگ سے اس

لیے مہذب سلوک نہیں کرتا کہ اسے بذاتِ خود ایسا کرنا چاہیے بلکہ اس شرط کے ساتھ کرتا ہے کہ اگر اس کے ساتھ مہذب سلوک کیا گیا تو

وہ بھی مہذب سلوک کرے گا اور اگر نہ کیا گیا تو نہیں کرے گا۔ اسلامی قانون اس مفاہمت پر قائم نہیں ہے، اس نے جو ضوابط مقرر کیے ہیں

ان کی پابندی مسلمانوں پر ہر حال میں واجب ہے خواہ غیر مسلم اس کے معاوضہ میں ان کے ساتھ مہذب سلوک کریں یا نہ کریں۔ اسلامی

قانون کسی مسلمان کا یہ حق تسلیم نہیں کرتا کہ وہ کسی حال میں ان کی پابندی سے بری الذمہ ہو جائے۔ جسے مسلمان رہنا ہے اس کو بہرحال

اس قانون کی سیادت تسلیم کرنی ہے۔

رابعاً: مغرب کے مہذب قوانین کو وجود میں آئے آج نصف صدی سے زیادہ عرصہ نہیں گزرا ہے، حالانکہ اسلامی قانون

ساڑھے تیرہ سو برس سے دنیا میں تہذیب کا علم بلند کیے ہوئے ہے۔ اتنے بڑے تفاوتِ زمانی کے باوجود جہاں تک اصول کا تعلق ہے مغربی

قانون نے اسلامی قانون پر ایک حرف کا اضافہ نہیں کیا ہے۔ رہے فروع، تو ان میں بھی ان عملی جزئیات کو مستثنیٰ کر کے جن کا تعلق ہر

زمانہ کے وقتی حالات سے ہے، اسلامی قانون سے مغربی قانون کسی طرح بڑھا ہوا نہیں ہے، بلکہ اکثر پہلوؤں سے اسلام اب بھی مغربی قانون

کے مقابلہ میں فوقیت رکھتا ہے۔

خامساً: مغربی تہذیب نے انسان کو چند عملی قوانین کا پابند بنا کر آزاد چھوڑ دیا ہے کہ اپنی قوت کو جہاں چاہے اور جس غرض کے لیے چاہے

استعمال کرے۔ وہ اس سے صرف یہ مطالبہ کرتی ہے کہ جب کسی کو مارے تو فلاں طریقوں سے مارے اور فلاں طریقوں سے نہ مارے۔ باقی

رہا یہ سوال کہ کس غرض کے لیے مارے اور کس غرض کے لیے نہ مارے، اس سے وہ کوئی تعرض نہیں کرتی۔ جہاں تک ان مہذب قوموں

کا عمل بتاتا ہے اس سے ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ مغربی تہذیب ملک گیری، توسیع تجارت، حصولِ مال و جاہ، جہانگیرانہ لوٹ مار، غرض

تمام حیوانی خواہشات کے لیے جنگ کرنا جائز رکھتی ہے۔ بخلاف اس کے اسلام اپنے پیرووں کو صرف لڑنے کے مہذب طریقوں ہی کا پابند

نہیں بناتا بلکہ ان کو یہ بھی بتاتا ہے کہ فلاں فلاں مقاصد کے لیے تم جنگ کر سکتے ہو اور فلاں مقاصد کے لیے نہیں کر سکتے۔ اس مسئلہ کو اس

نے انسان کی اپنی ذاتی پسند پر نہیں چھوڑا ہے بلکہ اس کو مخصوص اخلاقی حدود کا پابند بنا دیا ہے جن سے نکلنے کا اس کو حق نہیں دیا۔

یہ وجوہ ہیں جن کی بنا پر اسلام کا قانونِ جنگ مغرب کے قانون کے مقابلہ میں زیادہ صحیح، زیادہ مفید، زیادہ معقول اور زیادہ مضبوط ہے۔

یہاں یہ اعتراض ہو سکتا ہے کہ مغرب کے معاملہ میں تو تم مغربی قوموں کے عمل کو دیکھتے ہو مگر اسلام کے معاملہ میں مسلمانوں کے عمل کو

نہیں دیکھتے بلکہ محض اسلامی قانون کو دیکھتے ہو۔ لیکن گزشتہ مباحث کو بغور دیکھنے سے یہ اعتراض خودبخود رفع ہو جاتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ

اسلامی قانون اور مسلمانوں کا عمل دو بالکل الگ چیزیں ہیں۔ قانون سازی میں مسلمانوں کے عمل کو، بلکہ ان کی مرضی کو بھی کوئی دخل نہیں

ہے۔ اس لیے جب قانون کے حسن و قبح پر بحث ہو تو عمل کا سوال قدرتی طور پر خارج از بحث ہونا چاہیے۔ برعکس اس کے مغربی قانون اور

مغربی قوموں کا عمل دو مختلف چیزیں نہیں ہیں۔ قانون سازی میں ان قوموں کی مرضی کو ہی نہیں بلکہ ان کے عمل کو بھی خاص دخل حاصل

ہے۔ اوپر یہ ثابت کیا جا چکا ہے کہ جہاں تک قانونِ جنگ کا تعلق ہے مغربی قوموں کا عمل آگے آگے چلتا ہے اور قانون کو اس کی پیروی کرنی

پڑتی ہے۔ اس لیے ہم مغرب کے معاملہ میں ان کے عمل کو دیکھنے پر مجبور ہیں۔

 

تمت بالخیر بحمد الله تعالیٰ