بسم اللہ الرحمن الرحیم
فریضہ اقامت دین
مولانا صدر الدین اصلاحی
عرض
ناشر
مولانا
صدر الدین اصلاحی صاحب علمی دنیا میں اب کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ آپ کی متعدد
بلند پایہ تصانیف، مثلاً "اساس دین کی تعمیر"، "اختلافی مسائل میں
اعتدال کی راہ"، "حقیقت نفاق" وغیرہ علوم دین میں گہری بصیرت و
تدبر کی آئینہ دار ہیں اور علمی و دینی حلقوں سے زبردست خراج تحسین حاصل کر چکی
ہیں۔
اب
ہم آپ کی ایک اور بلند پایہ تصنیف "فریضہ اقامت دین" کا جدید ایڈیشن پیش
کر رہے ہیں۔ اس کتاب کو پیش کر کے مصنف نے ایک بہت بڑی دینی خدمت انجام دی ہے اور
وقت کی ایک اہم ضرورت کو پورا کیا ہے۔ اس تازہ ایڈیشن میں مصنف موصوف نے سابقہ
ایڈیشن پر پورے طور پر نظر ثانی کرنے کے بعد اس کو کافی اضافوں کے ساتھ پیش کیا
ہے، اب یہ تازہ ایڈیشن پچھلے ایڈیشن کے مقابلے میں تقریباً دو گنی ضخامت کا حامل
ہے۔
ایک
عرصہ سے امت مسلمہ اپنے مقصد وجود کو بھولتی چلی جارہی ہے، اور اب اسے یہ بھی یاد
نہیں رہا ہے کہ اس کی زندگی کا حقیقی نصب العین کیا ہے اور اسے کس لیے برپا کیا
گیا ہے۔ اس کتاب میں امت کو وہی بھولا ہوا سبق یاد دلایا گیا ہے اور اس کو خواب
غفلت سے چونکانے کے لیے پوری قوت سے جھنجھوڑا گیا ہے۔ کتاب و سنت کے ناقابل تردید
دلائل و شواہد سے بتایا گیا ہے کہ امت مسلمہ کا واحد نصب العین اقامت دین ہے اور
اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے اسے اپنی تمام قوتیں اور صلاحیتیں، ذرائع اور وسائل
بروئے کار لانے چاہئیں۔
ہمیں
یقین ہے کہ یہ کتاب اقامت دین کی جدوجہد کے لیے دل کو مطمئن کرنے والے دلائل، ایک
نیا ولولہ اور جوش مہیا کرے گی اور خدمت دین کے جذبہ کے لیے مہمیز ثابت ہو گی۔
ہمیں امید ہے کہ ہمارے قارئین اس کتاب کو اسی گرم جوشی کے ساتھ قبول کریں گے جو
ہماری دیگر مطبوعات کے ساتھ ظاہر کی ہے اور اس طرح معیاری اسلامی کتب کو پیش کرنے
میں ہمارا ہاتھ بٹائیں گے۔
مقدمہ
انسانی
زندگی کا بنیادی شرف یہ ہے کہ وہ ایک بامقصد زندگی ہو۔ بے مقصد زندگی بسر کرنے
والا انسان دراصل بے انسانیت کا انسان ہے۔ "مسلمان" اس انسان کا نام ہے
جو صرف با مقصد ہی نہیں بلکہ صحیح مقصد والی زندگی گزارتا ہے۔ اس لیے ایک شخص اگر
مسلمان ہے تو یہ اس کا سب سے بڑا اور سب سے مقدم فریضہ ہے کہ وہ اپنے مقصد حیات سے
بخوبی واقف ہو۔ اسے ہمیشہ اپنی نظروں میں رکھے۔ اور اپنی پوری عملی زندگی اسی مرکز
کے گرد گھماتا رہے۔
اس
کتاب کی غرض و غایت اسی اہم ترین مسئلے کی طرف وابستگان اسلام کو پوری شدت سے
متوجہ کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ یہ غرض پوری ہو اور جو باتیں اس کتاب میں
حق کے مطابق ہوں وہ دلوں میں جگہ پائیں۔ اور اگر کچھ باتیں ایسی نہ ہوں تو ان کے
اثر سے مسلمان محفوظ رہے۔
یہ
کتاب اس سے پہلے دو بار شائع ہو چکی ہے۔ مگر دونوں بار ایسے حالات میں شائع ہوئی
کہ راقم الحروف کو مسودے پر نظر ثانی کرنے اور ترتیب و تدوین کا موقع نہ مل سکا،
اس لیے جب بھی وہ شائع ہوئی ناقص انداز ہی میں شائع ہوئی۔ اب کی بار اللہ تعالی نے
اس بات کا موقع عنایت فرمایا تو پچھلی اشاعتوں کے مقابلے میں بحمد اللہ، اس بار
کافی مختلف حالت میں شائع ہو رہی ہے۔ زبان بھی قدرے آسان کر دی گئی ہے۔ بعض ضروری
مباحث بھی بڑھا دیے گئے ہیں۔ اور بعض غیر ضروری چیزیں حذف بھی کر دی گئی ہیں۔ نیز
مباحث کی ترتیب بھی بہتر بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ امید ہے کہ اس طرح اس کی افادیت
ضرور بڑھ گئی ہو گی۔
صدر
الدین
باب
اول: امت مسلمہ اور اس کا مقصد وجود
امت
کی امتیازی حیثیت:
امت
مسلمہ جس وقت وجود میں لائی جارہی تھی، اس کے لانے والے نے اس کے بارے میں فرمایا:
"كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ " آل عمران : ۱۱۰
"تم ایک بہترین امت ہو جو سب انسانوں کے لیے
وجود میں لائی گئی ہے۔"
یہ
کلمات دو اجزاء پر مشتمل ہیں:-
۱۔
مسلمانوں کی جماعت تمام انسانی جماعتوں میں سب سے اچھی جماعت ہو گی۔ دوسری کوئی
جماعت، کوئی قوم، کوئی پارٹی فکر و عمل کی خوبیوں میں اس جیسی نہ ہو گی كُنْتُمْ
خَيْرَ أُمَّةٍ۔
۲۔ یہ جماعت، یہ امت مسلمہ، دنیا کی عام
جماعتوں، قوموں اور گروہوں کی طرح زندگی کے اسٹیج پر معمول کے مطابق یوں ہی نہیں
آنکلی ہے بلکہ ایک خاص اہتمام سے نکال کر لائی گئی ہے۔ اس کے لائے جانے کے پیچھے
ایک خاص مقصد کام کر رہا ہے۔ دنیا کے دوسرے تمام گروہوں کے اور اس کے درمیان ایک
بنیادی فرق ہے، اور وہ یہ کہ یہ انہی میں سے ایک نہیں ہے۔ بلکہ ان سب سے الگ اور
ممتاز ہے، اور ان کی کسی خاص ضرورت کے لیے اسے وجود بخشا گیا اور اہتمام کے ساتھ
بھیجا گیا اور اب وہ ہمیشہ کے لیے اسی کی بجا آوری پر مامور ہے، أُخْرِجَتْ
لِلنَّاسِ۔
چنانچہ
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں بھی اس امت کو صریح لفظوں میں
"مبعوث" یعنی بھیجی اور مامور کی ہوئی امت قرار دیا گیا ہے مثلاً:
"فانما بعثتم میسرین و لم تبعثوا معسرين" (بخاری
جلد دوم)
"تم نرمی سے کام لینے والے بنا کر بھیجے گئے ہو تنگیوں میں ڈالنے
والے بنا کر نہیں بھیجے گئے ہو۔"
اللہ
اور رسول اسلام کے ان ارشادات سے صاف واضح ہوتا ہے کہ دوسری تمام امتیں اور قومیں
ایک سطح پر ہیں اور امت مسلمہ ایک دوسری سطح پر ہے۔ وہ ایک جداگانہ نوعیت کی مالک
ہے اور ایک امتیازی حیثیت کی حامل ہے۔ جب اس کی نوعیت اور حیثیت دوسری تمام قوموں
سے مختلف اور ممتاز ہے تو اس سے آپ یہ بات لازم ہے کہ وہ اپنے طرز فکر میں، اپنے
طریق عمل میں، اپنی دلچسپیوں میں، اپنی قدروں میں، اپنی غرض ایک ایک پہلو سے وہ
اپنا الگ اور مخصوص مقام رکھتی ہے اور اس کے کسی معاملے کو دوسری کسی قوم یا جماعت
پر ہر گز نہیں قیاس کیا جا سکتا۔
مقصد
وجود (اقامت دین):
اس
وضاحت سے اتنی بات تو متعین طور سے معلوم ہو جاتی ہے کہ اس امت کے وجود کا کوئی
خاص اور ممتاز مقصد ہے۔ اب دریافت طلب یہ رہ جاتی ہے کہ اس کے وجود کا یہ خاص اور
ممتاز مقصد کیا ہے؟ قرآن مجید نے مذکورہ بالا الفاظ فرمانے کے معاً بعد ہی اس سوال
کا بھی جواب دے دیا ہے۔ وہ فرماتا ہے:
"تَأْمَرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ
وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ"
"تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر
ایمان رکھتے ہو۔"
یعنی
وہ خاص کام جس کے لیے مسلمانوں کا یہ گروہ برپا کیا گیا ہے، یہ ہے کہ وہ پوری نوع
انسانی کو غلط فکریوں اور غلط کاریوں سے روک کر صحیح راہ پر لائے۔ اس خاص کام یا
خاص مقصد کے بیان کے لیے اللہ تعالیٰ نے دو اور تعبیریں اختیار فرمائی ہیں۔
- شہادت حق: چنانچہ اس کا
ارشاد ہے:
"وَكَذَالِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ" (بقرہ - ۱۴۳)
"اور اسی طرح ہم نے (اے مسلمانو!) تمہیں ایک معتدل امت بنایا ہے تاکہ تم (دوسرے تمام) انسانوں کے لیے گواہ بنو۔"
اس مفہوم کی اور انہی جیسے لفظوں میں ایک آیت سورہ حج میں بھی موجود ہے۔ اگرچہ ان میں سے کسی آیت کے اندر بھی اس چیز کی صراحت نہیں کی گئی ہے جس کی گواہی (شہادت) دینے کے لیے یہ امت مبعوث کی گئی ہے، مگر اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ وہ بجائے خود بالکل صریح تھی۔ ظاہر ہے کہ وہ شئے جو اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی جارہی تھی اس کے سوا اور کون سی چیز ہو سکتی ہے جس کی اہل دنیا کے سامنے شہادت دینے کا اسے ذمہ دار بنایا جاتا؟ اس کا ثبوت خود انہی آیتوں کے ان لفظوں میں بھی موجود ہے جو مذکورہ لفظوں کے بعد لائے گئے ہیں اور جن میں فرمایا ہے کہ "اور پیغمبر تمہارے لیے گواہ ہو۔" (وَيَكُونِ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا)۔ غور کر لیجیے وہ کیا چیز تھی جس کی اہل ایمان کے سامنے گواہی دینے کے لیے اللہ کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھیجا گیا تھا؟ اگر یہ چیز صرف وہ دین حق تھی جو اس پر نازل ہو رہا تھا (اور اس میں دو رائیں ممکن نہیں) تو جس چیز کی گواہی دینے کے لیے امت مبعوث ہوئی وہ بھی یہی "دین حق" ہے۔ اسے دین حق کہہ لیجیے چاہے صرف حق۔ - اقامت دین:
"شرع لكم من الدين ما وصى به نوحاً و الذي أوحينا اليك و ما وصينا به ابراهیم و موسی و عیسی ان اقیموا الدین" (شوریٰ : ۱۳)
"(مسلمانو!) اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے وہی دین مقرر کیا ہے جس کا حکم اس نے نوح کو دیا تھا اور جس کی (اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم) ہم نے تم پر وحی کی ہے اور جس کا حکم ہم نے ابراہیم کو موسیٰ کو اور عیسیٰ کو دیا تھا کہ اس دین کو قائم کرو۔"
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ، صحابہ کرامؓ کا مقام اور مرتبہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
"اختارهم الله لصحبة نبيه ولاقامة دينه" (مشکوٰۃ)
"انہیں اللہ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت اور اپنے دین کی اقامت کے لیے پسند فرمایا تھا۔"
یہ بات بھی اس امر کو ایک واقعہ بتاتی ہے کہ اس امت کی غایت وجود اللہ کے دین کی اقامت تھی۔
قرآن
و حدیث کے ان تینوں بیانات کی بنا پر امت مسلمہ کے مقصد وجود کے لیے آپ جس تعبیر
کو چاہیں اختیار کر سکتے ہیں۔ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اس امت کا مقصد وجود امر
بالمعروف و نہی عن المنکر ہے۔ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ "شہادت حق" ہے،
اور یہ بھی کہ "اقامت دین" ہے۔ کیونکہ یہ تینوں ایک ہی مدعا کی مختلف
تعبیریں ہیں اور ان میں سے جس کو بھی استعمال کریں گے، معنی و مقصود ہر حال میں
ایک ہی ہو گا۔
لیکن
معنی و مقصود کی اس یکسانی کے باوجود، اگر آپ ان تینوں تعبیرات کا گہری نظر سے
جائزہ لے کر ان کا ہر پہلو سے موازنہ کریں گے تو یہ پائیں گے کہ آخری تعبیر
("اقامت دین") میں جو جامعیت، ہمہ گیری اور جو صراحت ہے وہ دوسری
تعبیروں میں نہیں ہے۔
- زیادہ جامعیت: اس طرح ہے کہ
اس میں "اقامت" کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ اقامت کا لفظ، جیسا کہ
آگے چل کر وضاحت سے معلوم ہو گا، ایک مکمل کیفیت کا تصور پیش کرتا ہے۔
- زیادہ ہمہ گیری: یوں ہے کہ
متعلقہ آیت میں صرف اتنا ہی نہیں فرمایا گیا ہے کہ فلاں شئے مسلمانوں کا
فریضہ حیات ہے بلکہ یہ بھی واضح کر دیا گیا ہے کہ یہی فریضہ ہر نبی کا اور اس
کے ساتھیوں کا رہا ہے۔ دوسرے لفظوں میں گویا بات یہ فرمائی گئی ہے کہ اللہ پر
ایمان لانے اور اس کی بندگی کا عہد کرنے کے معنی یہ ہیں کہ اس کے دین کی
اقامت کی جائے۔
- زیادہ صراحت: اس طرح ہے کہ
اس چیز کا ذکر جس کی اقامت اہل ایمان کو کرنی ہے متعلقہ آیت میں بالتصریح
موجود ہے اور نام لے کر فرمادیا گیا ہے کہ یہ چیز "الدین" یعنی
اللہ تعالیٰ کا بھیجا ہوا دین ہے۔
ان
خصوصیتوں کی بنا پر "اقامت دین" کی تعبیر کو غالب اصطلاح ہونے کا حق
حاصل ہوتا ہے۔ اس لیے امت مسلمہ کا مقصد وجود ظاہر کرنے کے لیے اسی کا استعمال
زیادہ مناسب رہے گا۔
اقامت
دین کا مفہوم:
"اقامت
دین" کی اصطلاح دو لفظوں سے مرکب ہے: ایک "اقامت"، دوسرا
"دین"۔ اس لیے اس کا مفہوم سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے ان دونوں
لفظوں کے الگ الگ معنی سمجھ لیے جائیں۔
- اقامت: کا لفظ جب کسی
ٹھوس چیز کے لیے بولا جائے تو اس وقت اس کے معنی سیدھا کر دینے کے ہوتے ہیں۔
قرآن مجید میں ہے:
"يُرِيدُ أَن يَنقَضَّ فَأَقَامَهُ" (کہف : ۷۷)
"دیوار (ایک طرف کو جھک گئی تھی اور) گرا چاہتی تھی تو اس (خضرؑ) نے اسے سیدھا کر دیا۔"
اور جب یہ کسی ٹھوس چیز کے بجائے معنوی اشیاء کے لیے بولا جاتا ہے تو اس وقت اس کا مفہوم پورا پورا حق ادا کر دینے کا ہوتا ہے۔ یعنی یہ کہ کام کو پوری توجہ اور کامل اہتمام کے ساتھ بہترین شکل میں انجام دے دیا جائے۔ امام اللغۃ علامہ راغب اصفہانیؒ فرماتے ہیں:
"اقامة الشئ توفية حقه... وقال قل يا اهل الكتاب لستم على شئ حتى تقيموا التوراة و الانجيل، اي توفون حقوقها بالعلم و العمل" (المفردات)
"کسی چیز کو قائم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے حقوق اچھی طرح پورے کر دیے جائیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے پیغمبر! کہہ دو اے اہل کتاب! تم کسی اصل پر نہیں ہو جب تک کہ تورات اور انجیل کو قائم نہ کر لو۔ یعنی جب تک کہ علمی اور عملی دونوں حیثیتوں سے ان کے حقوق ادا نہ کر دو۔"
اس مفہوم کو ایک مثال سے سمجھیے۔ قرآن میں نماز کی اقامت کا حکم
دیا گیا ہے۔ "اقامت" کے اس مفہوم کی رو سے نماز کی اقامت یہ ہو گی کہ
اسے اس کے تمام ظاہری آداب و شرائط اور سارے باطنی محاسن کے ساتھ ادا کیا جاتا
رہے۔ اس طرح کہ نماز کا جو مقصد ہے وہ بحسن و خوبی حاصل ہوتا رہے۔ لہذا دین کی
اقامت یہ ہوئی کہ اس کے ماننے والے علمی اور عملی دونوں حیثیتوں سے اس کے ماننے کا
حق ادا کر دیں۔
- دین: کا لغوی معنی
اطاعت کے ہیں۔ اور اصطلاحاً اس سے مراد اللہ کی بندگی کا وہ طریقہ اور انسانی
زندگی کا وہ نظام ہے جو اللہ تعالی کی جناب سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ
وسلم کے ذریعہ اس کے بندوں کو عمل درآمد کے لیے دیا گیا ہے۔ اور جس کی
تفصیلات اس کی کتاب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں موجود ہیں۔
ان تفصیلات کے دیکھنے سے اس بات میں کسی شک کی گنجائش مطلق نہیں رہ جاتی کہ
انسانیت کا کوئی مسئلہ اور انسانی زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جو اس کے
دائرے میں نہ آگیا ہو۔ یہ دین انسان کی عقل و فہم اور اس کے دل کی گہرائیوں
سے شروع ہو کر اس کی عبادت گاہوں، اس کے گھر کی چار دیواریوں، اس کے خاندانی
حلقوں، اس کے تمدنی اداروں سے ہوتا ہوا اس کے تمام اجتماعی اور بین الاقوامی
مسئلوں کے آخری کنارے تک پہنچتا ہے اور ہر مسئلے، ہر معاملے اور ہر شعبے کے
متعلق اپنی مستقل ہدایت دیتا ہے۔ وہ انسان کی کسی نجی اور پرائیوٹ زندگی کا
بالکل قائل نہیں۔ جس میں وہ اپنی سی کرنے میں آزاد ہو، وہ انسانی زندگی کے
لیے کسی ایسی دنیا کا وجود تسلیم کرنے کے لیے قطعاً تیار نہیں جہاں وہ خود
موجود نہ ہو۔ وہ ایمانیات کو، عقائد کو، عبادات کو، اخلاق کو، تقویٰ اور
احسان کو تو اپنے اجزاء کہتا ہی ہے، بیت الخلاء کے آداب اور ازدواجی تعلقات
جیسی چیزوں کو بھی اپنے سے بے تعلق نہیں قرار دیتا، وہ مجرموں پر سزا کے نفاذ
کو بھی اللہ کا دین ہی کہتا ہے:
"وَلَا تَأْخُذْكُم بِهِمَا رَأْفَةٌ فِي دِينِ اللَّهِ" (نور : ۲)
اقامت
اور "دین" کے ان مفہوموں کو سامنے رکھیے۔ "اقامت دین" کا
مفہوم خود بخود معلوم ہو جائے گا۔ جب اقامت کے معنی علمی اور عملی دونوں حیثیتوں
سے پورا پورا حق ادا کرنے کے ہیں اور دین کا مفہوم اللہ تعالی کی ایسی کامل اطاعت
ہے جس سے زندگی کا ایک گوشہ بھی بے تعلق نہیں اور جس کے مطالبے وہاں ختم ہوتے ہیں
جہاں انسانیت کے مسائل کی آخری حد آجاتی ہے، تو اقامت دین کا مفہوم لازماً یہی ہو
گا اور صرف یہی ہو سکتا ہے کہ اس دین پر ایمان رکھنے والے:
- اس سے پوری طرح واقف ہوں (اس کے بنیادی تصورات، اصول،
احکام و ہدایات، مقصد و منشا)۔
- انہیں معلوم ہو کہ دنیا میں ان کی کیا پوزیشن ہے؟ وجود کی
غایت کیا ہے؟ اس غایت تک پہنچنے کی راہیں کیا ہیں؟ کن باتوں کا حکم ہے، کن سے
روکا گیا ہے؟ مختلف شعبوں میں کیا رویہ اختیار کرنا ہے؟ فرد اور جماعت کی
حیثیت سے ان سے کیا مطالبہ ہے؟
- یہ سب کچھ جاننے کے بعد اپنے عمل کو اس کے مطابق ڈھالنے
میں لگ جائیں۔
- قرآن و سنت کی ایک ایک ہدایت پر عمل ہو۔ شریعت کا ایک ایک
حکم نافذ ہو۔
- حیات ملی کی عمارت صرف دینی اصولوں پر بنائی جائے۔
- ہر معاملے میں نقطہ نظر صرف دین کا اختیار کیا جائے۔
- پوری سوسائٹی پر دین کا رنگ چھا جائے۔
- یہاں تک کہ پورا دین انسانی زندگی پر اس طرح غالب اور
نافذ ہو جائے کہ وہ دور سے "دیکھ" اور "پہچان" لیا جائے۔
یعنی
جس طرح کوئی بلند قامت شئے سیدھی کھڑی کر دی جاتی ہے تو دیکھنے والے بیک نگاہ دیکھ
لیتے ہیں کہ وہ کیا ہے اور کیسی ہے؟ اسی طرح یہ پورا دین انسانی زندگی پر اس طرح
غالب اور نافذ ہو جائے کہ وہ دور سے "دیکھ" اور "پہچان" لیا
جائے۔
باب
دوم: مقصد فراموشی اور اس کے نتائج
اصول
و مقاصد کی اہمیت:
کسی
خاص اور اہم مقصد کی علمبردار جماعت کی زندگی اس بات پر موقوف ہے کہ اس کی نگاہ
اپنے مقصد اور نصب العین پر اچھی طرح جمی رہے اور مقصد و نصب العین پر نگاہ کا جما
رہنا اس بات پر موقوف ہے کہ اس مقصد تک پہنچنے کے جو اصول ہیں انہیں یہ جماعت دل و
جان سے عزیز رکھتی ہو۔ اگر اس کے افراد میں اپنے مقصد کا گہرا عشق، اور اپنے اصول
کا گہرا یقین موجود ہو تو موت اس کو آنکھیں نہیں دکھا سکتی۔ یہ عشق و یقین اس بات
کی ضمانت ہے کہ اس جماعت سے عزت و اقبال منہ نہیں موڑ سکتے۔
اور
پھر اسی عشق و یقین کا یہ لازمی و فطری تقاضا ہے کہ جماعت کا اجتماعی نظم و نسق اس
کے اپنے ہاتھوں میں ہو۔ وہ ایک لمحے کے لیے بھی اس صورت حال کو برداشت نہیں کر
سکتی کہ کوئی ایسا اجتماعی نظم اس پر مسلط ہو جو اس کے محبوب اصولوں پر تعمیر نہ
کیا گیا ہو۔ اور اگر سوء اتفاق سے اس پر کبھی ایسے دن آ ہی پڑیں تو اس کا ایک ایک
فرد اس مچھلی کی طرح بے قرار رہے گا جس کو پانی سے نکال کر خشکی پر ڈال دیا گیا
ہو۔ اور اپنے مقصد، اپنے اصول اور اپنے نظام حیات کی محبت اسے موت کی بازی کھیلنے
پر مجبور کر دے گی۔ وہ رائج الوقت نظام کے خلاف سراپا اضطراب بن جائے گا۔ اور اس
کے ساتھ کسی قسم کے اختیاری تعاون یا مداہنت کا تصور تک اس کے لیے ناقابل برداشت
ہو گا، کیونکہ وہ جانتا ہو گا کہ میری انفرادی اور جماعتی زندگی کا تشخص جن اصولوں
سے قائم ہے ان کا اسی نظام نے گلا گھونٹ رکھا ہے۔ یہ اضطراب سکون سے اسی وقت بدل
سکے گا جب کہ وہ اس نظام کی دھجیاں بکھیر چکا ہو گا۔
اس
کے بخلاف اگر کسی جماعت کے اندر اپنے اصولوں کا یقین مرجھا گیا اور اپنے مقصد و
نصب العین کا عشق بے جان ہو گیا ہو تو یہ اس کے مٹ جانے کی ناقابل انکار علامت ہے۔
اس کم یقینی اور سرد مہری کے نتیجے میں اگر اس کے اندر کسی دوسرے نظام کے ساتھ
تعاون اور مداہنت کا رجحان ابھر آئے تو اس پر ہر گز کوئی تعجب نہ کرنا چاہیے اور
کسی ایسے رجحان کا ابھر آنا اس کے سوا کوئی معنی نہیں رکھتا کہ حیات ملی کے
محافظوں نے خزانہ کی کنجیاں دشمنوں کے حوالے کر دیں۔ اور اب اس پونجی کا لٹ جانا
بس کوئی دن کی بات ہے جسے کوئی معجزہ ہی روک سکتا ہو تو روک سکے۔
پھر
چونکہ زوال ہو یا کمال، اس دنیا میں کسی کی فطرت میں ٹھیراؤ نہیں ہے۔ اس لیے اس کے
یقین و عشق میں اس زوال کا عمل اپنی رفتار سے برابر آگے بڑھتا جاتا ہے۔ اور آخر
کار ایک مقام پر پہنچ کر وہ اس لٹی ہوئی پونجی کے لٹ جانے کے احساس کو بھی لوٹ لیتا
ہے۔ یہ وقت ہوتا ہے جب افراد جماعت میں کسی دوسرے اصول و نظام زندگی کی غلامی کا
ذوق پیدا ہو جاتا ہے۔ جب وہ تعاون اور مداہنت کی بھی حدیں پھاند چکے ہوتے ہیں۔ جب
انہیں اپنا اصولی اور اخلاقی موقف ہی نہیں یاد رہ جاتا۔ جب وہ اپنے مقصد اور اصول
سے اتنے بے گانہ ہو جاتے ہیں کہ ان کا عملی رویہ تو ان چیزوں کے غلط اور ناقابل
قبول ہونے کی گواہی دینے ہی لگتا ہے، ان کی نظری طور پر بھی یہ گوارا نہیں رہ جاتا
کہ معاشرے اور مملکت کی باگ ڈور پھر سے ان اصولوں کے ہاتھ میں دے لیے جانے کی کوئی
جدوجہد کی جائے اور اگر کسی گوشے سے اس طرح کی پکار بلند ہو جاتی ہے تو وہ اسے
حیرت کے کانوں سے سنتے اور اختلاف و عناد کی زبانوں سے اس کا جواب دیتے ہیں۔ یہ وہ
مقام ہے جہاں پہنچ کر جماعت بحیثیت ایک اصولی جماعت ہونے کے فنا ہو جاتی ہے اور اس
کے نالائق فرزند اپنے ہی ہاتھوں اسے قبر کی گہرائیوں میں سلا دیتے ہیں۔
اصول
اسلام کی شرکت بیزاری:
اس
اصولی حقیقت کا اطلاق دنیا کی ہر جماعت پر ہوتا ہے، امت مسلمہ بھی اس کلیہ سے کسی
طرح مستثنیٰ نہیں ہو سکتی۔ اس کی بھی اپنی واقعی زندگی کا دار و مدار، اول و آخر،
اپنے اصل مقصد وجود اور اپنے اصول حیات ہی پر ہے۔ اس کے لیے بھی اپنے اصولوں کی
اہمیت ویسی ہی ہے جیسی کہ کسی اور جماعت کے لیے اس کے اصولوں کی ہو سکتی ہے بلکہ
اس سے بھی کہیں زیادہ۔ کیونکہ زندگی کے دوسرے مسلکوں کے مقابلہ میں اسلامی مسلک
حیات کی ایک ممتاز نوعیت ہے۔ وہ ایک ایسی خصوصیت کا حامل ہے جو کسی اور مسلک (ازم)
اور نظام میں نہیں پائی جاتی۔
دنیا
میں اسلام کے علاوہ دوسرے جتنے بھی نظام پیش کیے گئے ہیں وہ سب انسان کے اپنے دماغ
کی پیداوار ہیں۔ اس لیے مزید غور اور نئے تجربات اور معلومات کی روشنی میں ان کے
اندر ترمیم کی گنجائش ہمیشہ موجود رہتی ہے۔ حتی کہ ضرورت جب مجبور کر دیتی ہے تو
ان میں کتنے ہی بیرونی اصولوں کا پیوند بھی لگا لیا جاتا ہے جس پر ان کے مخلص سے
مخلص اور پر جوش سے پر جوش عقیدت مندوں کو بھی عموماً کسی احتجاج کا خیال تک نہیں
آتا۔
لیکن
اسلام کا معاملہ اس باب میں بالکل دوسرا ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ میرا پیش کیا ہوا
مسلک حیات اور میرے اصول کسی انسانی دماغ کا نتیجہ نہیں ہیں بلکہ یہ اس علیم و
خبیر کے تجویز فرمائے ہوئے ہیں جو نوع انسانی کے فطری تقاضوں، اس کی انفرادی اور
اجتماعی مصلحتوں اور اس کی تمام داخلی اور خارجی ضرورتوں کا صحیح اندازہ داں ہے۔
اور جس کی نگاہ سے انسانی سرشت کا کوئی گوشہ بھی مخفی نہیں۔ اس لیے یہ مسلک کامل
عدل اور توازن کا مسلک ہے، فطرت کے ٹھوس حقائق پر مبنی ہے، عالمگیر اور جہانی ہے۔
وقت اور جگہ کی حد بندیوں سے آزاد اور کسی ترمیم کی ضرورت سے ہمیشہ کے لیے بے نیاز
ہے۔ بشری علوم و افکار اور نئے نئے تجربات اور معلومات اس کی کسی ایک اصل پر بھی
کبھی انگلی نہیں رکھ سکتے۔ اس لیے اگر کسی نے اس کی پیروی کا دعویٰ رکھتے ہوئے بھی
ایسی کوئی جسارت کرنی چاہی تو اس کا شمار اس کے باغیوں میں ہو گا، نہ کہ
فرمانبرداروں میں۔
کہا
جا سکتا ہے کہ اسلام کا یہ رویہ بہت سخت اور سر تا سر آمرانہ ہے لیکن یہ بات وہی
شخص کہہ سکتا ہے جو یا تو اسلام کے اس دعویٰ ہی کا منکر ہے کہ یہ ایک خداوندی مسلک
حیات ہے۔ یا پھر وہ حقیقت اور گمان میں فرق ہی کرنا نہ جانتا ہو اور علم الہی کو
علم انسانی پر قیاس کرتا ہو۔ ورنہ اس سے بڑا عقلی دیوالیہ پن اور کیا ہو گا کہ ایک
شخص یہ بھی کہتا ہو کہ اسلام کے پیش کیے ہوئے اصولوں کا سر چشمہ علم الہی ہے اور
ساتھ ہی یہ بھی کہتا ہو کہ یہ اصول قابل ترمیم بھی ہو سکتے ہیں۔ اس مسلک حیات کا
کٹر سے کٹر مخالف بھی از روئے انصاف کسی کو یہ حق آزادی نہیں دے سکتا کہ ایک طرف
تو وہ اسلام کی عقیدت کا دم بھرے، دوسری طرف اس کے اصولوں پر عمل جراحی بھی کرتا
پھرے۔ ہاں اس کو یہ آزادی ہر وقت حاصل ہے کہ وہ سرے سے اسلام ہی کو چھوڑ دے اگر اس
کے پورے دعوے کی پوری سچائی میں اسے تردد ہو اور اس کے نزدیک اس کے اصول ترمیم و
اصلاح کے محتاج ہوں۔
اس
فرق کو ذہن نشین کر لینے کے بعد یہ بات آسانی سے سمجھ میں آجاتی ہے کہ اگر کسی اور
جماعت کے لیے اپنے مسلک کے مخالف اصولوں سے تعاون یا مصالحت کرنا ممکن ہو تو ہو،
مگر اسلام کے نام پر بننے والی جماعت کے لیے تو کسی غیر اسلامی نظام زندگی سے
مصالحت یا مداہنت کا تصور بھی حرام ہے۔ چنانچہ جب قرآن نازل ہو رہا تھا اور ملت
اسلامیہ کی بنیادیں بھری جارہی تھیں تو اس کی مخالف کیمپ سے اس پالیسی کے اختیار
کر لینے کی بار بار ترغیب ملتی رہی۔ مگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے قطعی ہدایت تھی کہ
پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھی اس ترغیب کو ہر گز خاطر میں نہ لائیں۔
مثلاً اس کیمپ نے اپنی اسلام دشمن تدبیروں اور سر گرمیوں کو کسی طرح بھی کامیاب
ہوتے نہ دیکھا تو اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ تجویز رکھی کہ:
"ائْتِ بِقُرْآنٍ غَيْرِ هَـٰذَا أَوْ بَدِّلْهُ" (یونس:
۱۵)
"اس قرآن کے بجائے کوئی دوسری کتاب لائیے، یا پھر اس میں رد و
بدل کر دیجیے۔"
اس
تجویز کے پیش کرنے والوں کا منشاء صاف ظاہر ہے۔ دراصل یہ ایک تجویز یا مطالبے سے
زیادہ ان کی طرف سے ایک پیشکش تھی۔ ان کا مدعا یہ تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم
اپنی تعلیمات میں ہمارے مشرکانہ افکار و عقائد کے لیے بھی کوئی گنجائش نکال دیں تو
ہم ان کی مخالفت سے باز آجائیں گے اور ان کی بات مان کر ان کے پیرو بن جائیں گے۔
ان کی اس تجویز یا پیشکش کا جو جواب اللہ تعالی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے
دلوایا وہ یہ تھا:
"قُلْ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أُبَدِّلَهُ مِن تِلْقَاءِ نَفْسِي ۖ إِنْ
أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ" (یونس : ۱۵)
"ان سے کہہ دو کہ مجھے اس بات کا قطعاً کوئی استحقاق نہیں کہ میں
اپنی طرف سے اس قرآن میں کوئی رد و بدل کر دوں، میں تو بس اس چیز کی پیروی کرتا
ہوں جو میری طرف وحی کی جاتی ہے۔"
اصولی
اور بنیادی باتیں تو خیر بڑی چیز ہوتی ہیں، اللہ تعالیٰ نے تو اپنے پیغمبر کو اس
بات سے بھی پوری سختی کے ساتھ خبردار کر دیا تھا کہ خواہ حالات کا تقاضا اور وقت
کی مصلحت کچھ ہی کیوں نہ ہو۔ وہ شریعت کے کسی ایک جزوی قانون کو بھی نظر انداز
نہیں کر سکتے:
"وَأَنِ احْكُم بَيْنَهُم بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ وَلَا تَتَّبِعْ
أَهْوَاءَهُمْ وَاحْذَرْهُمْ أَن يَفْتِنُوكَ عَن بَعْضِ مَا أَنزَلَ اللَّهُ
إِلَيْكَ" (مائدہ
: ۴۹)
"اے پیغمبر! ان کے درمیان اس قانون کے مطابق فیصلہ کرو جسے اللہ
نے نازل فرمایا ہے اور ان کی خواہشوں کی پیروی نہ کرو، اور دیکھو! اس بات سے
ہوشیار رہو کہ کہیں یہ لوگ تم کو اس ہدایت کے کسی جز سے (غافل کر کے) فتنہ میں نہ
ڈال دیں جس کو اللہ نے تم پر اتارا ہے۔"
یہ
تو اسلامی تعلیمات میں کسی بنیادی یا جزئی ترمیم کی خواہش اور کوشش کا معاملہ تھا۔
اس کے بعد دوسرے درجے پر ان کی ایک اور خواہش اور کوشش ہوئی اور وہ یہ کہ کاش محمد
صلی اللہ علیہ وسلم، تبلیغ دین کے بارے میں مداہنت سے کام لیں تو وہ بھی یہی
پالیسی اختیار کر لیں۔
"وَدُّوا لَوْ تُدْهِنُ فَيُدْهِنُونَ" (قلم : ۹)
"وہ تو چاہتے ہیں کہ تم کچھ مداہنت (نرمی) کرو تو وہ بھی مداہنت
کریں۔"
اور یوں یہ کش مکش ختم ہو جائے۔ "مداہنت سے کام لینے"
کا مطلب یہ تھا کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم شرک کی تردید سے باز آجائیں اور اپنی
دعوت توحید کو صرف اثباتی پہلو سے پیش کرنے پر اکتفا کر لیں۔ گویا ان کی پہلی
تجویز یا پیشکش، اسلام اور شرک کا آمیزہ بنا لینے کی خواہش تھی۔ تو دوسری پیشکش
اسلام اور شرک کے "پر امن باہمی وجود" کی خواہش تھی۔ مگر جس طرح پہلی کے
منظور کر لیے جانے کو ناممکن فرمایا گیا اسی طرح اس دوسری خواہش کو بھی یک لخت
ٹھکرا دیا گیا۔ اور اللہ تعالی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہی حکم دیا کہ اس
طرح کی باتیں ہر گز نہ مانیں۔
یہ
قرآنی تصریحات اسلام کے اصولوں ہی کا نہیں بلکہ اس کی جمیع تعلیمات اور اس کے
مخصوص مزاج، سب کا مقام بالکل واضح طور پر متعین کر دیتی ہیں۔ ان کے بعد کسی شخص
کو یہ کہنے کی اجازت ہر گز نہیں دی جاسکتی کہ اسلام کو اپنا لینے یا اپنائے رکھنے
کے باوجود اس کے اصولوں کی پیروی میں انسان آزاد ہے اور حسب ضرورت ان میں ترمیم کر
سکتا ہے۔
مقصد
شناسی کا معیاری نمونہ:
عملاً
آج امت مسلمہ کی جو حالت بھی ہو مگر اپنی زندگی کے آغاز میں ہر با اصول جماعت کی
طرح یہ جماعت بھی اپنے مقصد کا گہرا عشق اور اپنے اصولوں کا سچا یقین لے کر اٹھی
تھی۔ اور اس طرح اٹھی کہ رکاوٹوں کی کوئی بڑی سے بڑی چٹان بھی اس کا رخ نہ موڑ
سکی۔ اس راہ میں اسے کیا کچھ پیش نہیں آیا؟ جانی اور مالی مصیبتوں نے اس پر یورش
کی، سخت ترین خطرات نے اسے دھمکایا، رات کی نیند اس کی چھٹی، دن کا سکون اس کا
برہم ہوا۔ قید و بند کی آزمائشوں نے اسے آنکھیں دکھائیں۔ مگر تاریخ گواہ ہے اور اس
گواہی کو کوئی بھی جھٹلا نہیں سکتا کہ ہولناک مصائب اور مشکلات کے اس امنڈتے ہوئے
طوفان میں یہ جماعت اپنے اصل موقف سے ایک انچ ہٹنے پر بھی کبھی راضی نہیں ہوئی۔
حالانکہ
اگر وہ مصالحت اور مداہنت کو ذرا بھی راہ دے دیتی تو یہ سارا ہنگامہ مصائب ایک دم
سرد پڑ جاتا۔ دن رات کی بے اطمینانیاں امن و سکون سے بدل جاتیں۔ معاشی تنگیاں بھی
دور ہو جاتیں اور پورا عرب اس کی سیاسی برتری کو بھی بڑی آسانی سے تسلیم کر لیتا۔
جیسا کہ تاریخ بتاتی ہے¹ اور قرآن کے کھلے ہوئے اشارات سے ثابت ہوتا ہے۔ لیکن اس
کے لیڈر اور پیرو بھی جانتے تھے کہ یہ مداہنت، یعنی شرک اور توحید کے پر امن باہمی
وجود کی دعوت، ان کے لیے موت کی دعوت ہے کیونکہ اپنے اصولوں کو چھوڑ دینے کے بعد
ہمارا وجود اپنے مقصد کے لحاظ سے بالکل بے معنی ہو کر رہ جائے گا۔ اس لیے یہ لوگ
آگ اور خون کے طوفانوں میں بھی اپنے مرکز پر جمے رہتے۔ اور حالات کی کوئی سازگاری
یا مصلحت انہیں اپنے مسلک سے بال برابر بھی نہ ہٹا سکی۔
ایسا
معلوم ہوتا تھا کہ انہوں نے تمام ہنگامی مسئلوں، مادی مصلحتوں، تدبیروں اور وقت و
ماحول کے تقاضوں سے آنکھیں بند کر لی ہیں۔ بس ایک "جنون" ہے جس نے انہیں "عقل و دانش" کا
دشمن بنا ڈالا ہے۔ چنانچہ اس زمانے کے سیاست دانوں اور مدبروں کا متفقہ فیصلہ ان
کے بارے میں یہی تھا کہ "انہیں ان کے دین نے فریب میں مبتلا کر رکھا ہے۔" (غر هؤلاء
دینھم) اور
یہ کہ "سفہاء" ہیں۔ اگرچہ دنیا نے جلد ہی اس "خود فریبی" اور
"سفاہت" کی حقیقت دیکھ لی اور زیادہ دن نہیں گزرے تھے کہ تاریخ انسانی
کا وہ حیرت انگیز انقلاب وجود میں آیا جس کی منطقی توجیہہ کرنے میں بڑی بڑی عقلیں
دنگ ہیں۔ جن کو اپنے گھروں میں بھی سر چھپانے کی جگہ نہ ملتی تھی، قیصر و کسریٰ کے
تاج ان کے قدموں پر آپڑے، اور ایک صدی بھی ختم نہ ہونے پائی تھی کہ وہ یورپ، ایشیا
اور افریقہ کے بیشتر حصوں پر چھا گئے۔ صرف ان کی زمینوں پر ہی نہیں بلکہ وہاں رہنے
والوں کے دلوں اور دماغوں پر بھی۔ یہ سب کچھ یقیناً اسی گہری فدویت اور وفاداری کے
طفیل ہوا جو ان کے دلوں میں اپنے مقصد وجود اور اپنے اصول حیات کے لیے موجود تھی
اور جس نے انہیں انہی کے لیے جینا اور مرنا سکھا دیا تھا۔
¹ قریش
نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لفظوں میں یہ پیش کش کی تھی کہ اگر ہمارے
معبودوں کے خلاف تنقیدیں کرنے سے باز آجائیں تو ہم نہ صرف یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ
وسلم کی مخالفت ترک کر دیں گے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش پر مال و دولت
بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لا کر ڈھیر کر دیں گے اور آپ صلی اللہ علیہ
وسلم کو اپنا سردار بلکہ بادشاہ بنالیں گے۔ (سیرت ابن ہشام ۔ جلد اول)
مقصد
شناسی کازوال:
اسلام
کے اس ابتدائی دور کے گزر جانے کے بعد اس امت پر وہ دور آیا جب اس کے افراد کے
ذہنوں میں اپنے مقصد زندگی کے نقوش ماند پڑنے شروع ہوئے۔ اور مختلف اسباب کے تحت
ان کے اندر مداہنت کی بیماری جڑ پکڑنے لگی اور زمانے کے ساتھ ساتھ برابر ترقی کرتی
گئی۔ غیر اسلامی اصول و نظریات مسلمانوں میں اس طرح پھیلنے لگے جیسے کسی دریا کا
بند ٹوٹ گیا ہو۔ ان کی روک تھام کے لیے علمائے حق کی طرف سے بہت کچھ کوششیں بھی
ہوتی رہیں۔ مگر نا تربیت یافتہ عوام کی خام مذہبیت اور حکومتوں کی نافرض شناسی نے
ان کی کوششوں کو پوری طرح کامیاب نہ ہونے دیا، اور یہ بیماری مسلم معاشرے کے اندر
آہستہ آہستہ اسلامی اصولی و افکاری جڑیں کھوکھلی کرتی رہی۔
جب
تک اس جماعت کا سیاسی اقتدار قائم رہا اس وقت تک تو ان اصولوں کے بارے میں اس نے
مجموعی حیثیت سے خود فراموشی اور خود کشی کی راہ نہیں اختیار کی۔ مگر جب سیاسی
زوال نے بھی اسے آ لیا تو اس فکری زوال کی تیز رفتاری سیلاب سے باتیں کرنے لگی۔
اور ہوتے ہوتے اب وہ وقت آپہنچا ہے کہ یہ جماعت اپنے آپ کو گویا پہچانتی بھی نہیں۔
اس کے افراد کی بہت بڑی اکثریت اپنے اصول و مقاصد، اپنے مسلک اور اپنے وجود کی غرض
وغایت کو اس طرح بھول چکی ہے کہ اگر ان چیزوں کو سامنے رکھا جائے تو وہ نہ صرف یہ
کہ ان سے اجنبیت محسوس کرتی ہے بلکہ بسا اوقات پورے اطمینان اور ادعائے تحقیق کے
ساتھ اس کو غیر اسلام یا زائد از اسلام ثابت کرنے کی کوشش کرنے لگتی ہے۔ جو چیزیں
ان اصولوں کے بالکل مخالف ہیں وہ ان پر دیوانہ وار ٹوٹ پڑتی ہے اور انہیں مطابق
اسلام قرار دینے پر مصر ہو جاتی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ان کی تمام تر جدوجہد اپنے ہی
مقصد حیات کی پامالی میں صرف ہو رہی ہے۔ اگرچہ خوش فہمی یہ ہے کہ یہ سب کچھ اسلام
اور امت مسلمہ کی سرفرازی کا باعث ہو گا۔ بظاہر یہ محض ایک دعویٰ ایسا ہے جو دلیل
سے بے نیاز ہے۔ اللہ نے جس کسی کی پیشانی پر دو آنکھیں دی ہیں وہ خود دیکھ سکتا ہے
کہ حقیقت واقعہ اس کے سوا اور کچھ ہے ہی نہیں۔
اس
سے انکار نہیں کہ ایک چھوٹی سی اقلیت ایسے لوگوں کی بھی اس جماعت میں موجود ہے جو
بحمد اللہ خود فراموشی اور خود کشی کے اس مقام تک ابھی نہیں پہنچی ہے بلکہ اس کی
نگاہ اپنے نصب العین کے جلوؤں سے ابھی تک آشنا ہے اور وہ اسلام کے اصول و مقاصد کی
یاد اپنے سینے سے لگائے ہوئے ہے، لیکن انکار اس بات کا بھی تو نہیں کیا جا سکتا کہ
اس خود شناس اقلیت کے بیشتر افراد کا حال بھی عملی نقطہ نگاہ سے کچھ قابل اطمینان
نہیں اور ان کے اندر یہ یاد محض ایک متبرک یادگار بن کر رہ گئی ہے۔ جس میں زندگی
کی حرارت یا تو رہی نہیں یا مدھم پڑ چکی کہ محسوس نہیں ہوتی۔ حالات کی ناسازگاری
اور مخالف قوتوں کی قہاری نے ان کے سروں میں وہ سودا ہی باقی نہیں رہنے دیا جس کے
بغیر کسی بڑے مقصد اور اصول کا نام لینا کچھ زیب نہیں دیا کرتا۔ اس لیے ان لوگوں
نے بھی خاموش مصالحت کی پر امن روش اختیار کر رکھی ہے اور اس بات کی احتیاط رکھنا
گویا ان کی مستقل پالیسی بن گئی ہے کہ ان پر "سیاست و تدبر" کی طرف سے
"مذہبی مجنون" ہونے کا الزام نہ لگنے پائے۔ وہ دیکھتے اور جانتے سب کچھ
ہیں مگر اپنے کو یہ "سمجھا کر" خاموش ہیں کہ دین میں آسانی رکھی گئی ہے۔
اللہ تعالی نے کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ مکلف نہیں قرار دیا بلکہ ایسے اقدام
و عمل سے باز رہنے کی وصیت فرمائی ہے جس میں ہلاکتیں ہوں۔
امت
"نقمت بقدر رحمت" کے قانون کی زد میں:
ان
حالات میں یہ جماعت اگر آج دنیوی جاہ و اقبال کی مالک ہوتی تو بھی اسلام کو اس سے
کوئی دلچسپی نہ تھی۔ کیونکہ اس کا مجرد سیاسی اقتدار اس کی نظروں میں کوئی وقعت
رکھتا ہی نہیں، اس کو تو جو کچھ بحث اور دلچسپی ہے صرف اپنی اقامت سے ہے۔ اس نصب
العین کو پس پشت ڈال کر اس کے نام لینے والوں نے ہفت اقلیم کی شہنشاہی بھی حاصل کر
لی تو اس کے کسی کام کی؟ مگر قدرت نے یہ چیز بھی تو آج ان کے پاس باقی نہیں رہنے
دی۔ انہوں نے اپنے مقصد وجود کو دیوار پر پھینک کر جو کچھ پایا وہ محکومی یا نیم
محکومی کا وہ داغ ہے جو ہر جماعت کی پیشانی پر تو لگ سکتا ہے مگر سلطان کائنات کی
پارٹی، حزب اللہ کی پیشانی پر ہر گز نہیں لگ سکتا۔ یہ داغ اتنا گھناؤنا ہے کہ ہر
دیکھنے والے کو اس پر حیرت ہوتی ہے۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح کہ امت کے ابتدائی دور
میں اس کے عروج کو دیکھ کر حیرت ہوا کرتی تھی۔ یعنی عروج و زوال کے عام فلسفے کی
رو سے امت مسلمہ کا عروج بھی ایک معجزہ تھا اور اب اس کا زوال بھی ایک "جوابی
معجزہ" ہے۔ عقلیں نہ اس غیر معمولی اقبال کی کوئی اطمینان بخش توجیہہ کر پاتیں
اور نہ اس غیر معمولی ادبار کی۔
حد
یہ ہے کہ خود اس امت کی بہت بڑی اکثریت بھی حیرت زدہ ہے کہ یہ کیا ہو گیا؟ وہ رہ
رہ کر سوچتی ہے کہ آخر ہماری ایسی زبوں حالی کا سبب کیا ہے؟ ہمیں یہ تسلیم ہے کہ
ہمارے ایمان میں کمزوری آگئی ہے، ہم بد عمل ہو گئے ہیں۔ ہمارے اخلاق تباہ ہو چکے
ہیں۔ ہم احکام دین سے غافل ہیں۔ یہ سب کچھ سہی مگر پھر بھی برے بھلے جیسے ہیں آج
اس دنیا میں صرف ہم توحید کے تنہا علم بردار ہیں۔ ہم اگر سر جھکاتے ہیں تو خدا ہی
کے سامنے جھکاتے ہیں، اس کے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا حلقہ اطاعت ہے تو صرف
ہماری گردنوں میں ہے، اس کے احکام پر اگر کچھ عمل کرتے ہیں تو ہم ہی کرتے ہیں۔ اور
ہمارے بالمقابل ساری دنیا کافر و مشرک ہے۔ خدا کی باغی اور توحید کی منکر ہے۔ رسول
صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالف اور قرآن کی دشمن ہے؟ پھر یہ کیا بات ہے کہ ہم پست
اور وہ سر بلند، ہم مفلس اور وہ دولت مند، ہم ذلیل و خوار اور وہ صاحب اقتدار، ہم
غلام و محکوم اور وہ آزاد و حکمراں! حالانکہ جب ہم بہر حال غیروں کی بہ نسبت اللہ
سے زیادہ قریب ہیں تو ان کے مقابلے میں ان الہٰی انعامات کے زیادہ مستحق ہم تھے نہ
کہ وہ۔
یہ
حیران کن سوال دراصل اس لیے پیدا ہوتا ہے کہ ہم قوموں کے عروج وزوال کے اس فلسفے
سے ناواقف ہو گئے ہیں۔ جسے قرآن حکیم نے بیان فرمایا ہے۔ ورنہ طبعی اور اخلاقی
دونوں حیثیتوں سے ہم ٹھیک اسی مقام پر ہیں جہاں ہونا چاہیے تھا۔
صورت
واقعہ یہ ہے کہ زندگی کے میدان میں دو قسم کے قوانین کار فرما ہیں: ایک تو قوانین طبعی،
دوسرے قوانین اخلاقی۔ قوموں کے اٹھانے اور گرانے میں یہ دونوں ہی قسم کے قوانین
کام کرتے ہیں۔ مگر دونوں میں ایک فرق ہے اور وہ یہ کہ تنہا قوانین طبعی¹ تو ایک
قوم کو میدان مقابلہ میں فتح و غلبہ دلا سکتے ہیں۔ لیکن قوانین اخلاقی میں مشیت نے
یہ قوت نہیں رکھی ہے کہ وہ طبعی قوانین کی تھوڑی بہت مدد لیے بغیر بھی اکیلے ہی
کسی قوم کو غالب و فتح مند بنادیں۔
قوانین
اخلاقی کو دراصل قوموں کی باہمی کشمکش اور جنگی معرکوں میں "خصوصی اختیار
فیصلہ" کا مقام حاصل ہے اور اس خصوصی اختیار کا استعمال وہ طبعی قوانین اور
مادی قوتوں کی موجودگی ہی میں کرتے ہیں۔ یعنی:
- اگر دونوں فریق جنگ صرف مادی تیاریوں کے ساتھ نبرد آزما
ہوں تو فتح اس کی ہو گی جو لڑائی کے اسباب و ذرائع زیادہ لے کر میدان مقابلہ
میں آیا ہو گا۔
- اگر ایک طرف صرف مادی قوتیں ہوں اور دوسری طرف محض اخلاقی
اور روحانی قوتیں ہوں تو فریق ثانی کا شکست کھانا یقینی ہے۔ بلکہ اسباب و علل
کی اس دنیا میں فی الواقع یہ مقابلہ کوئی مقابلہ ہی نہیں۔
- لیکن اگر مادی تدابیر اور اسباب و ذرائع کے اعتبار سے
دونوں فریق برابر ہوں مگر ساتھ ہی ایک فریق اخلاقی قوتوں سے بھی مسلح ہو تو
بلا شک و شبہ اسی کو غلبہ حاصل ہو گا اور ان کی اخلاقی قوتیں بڑھ کر اس جنگ
کا فیصلہ اس کے حق میں کر دیں گی۔ جسے فریقین کے یکساں مادی سر و سامان کے
باعث بظاہر کبھی ختم ہی نہ ہونا چاہیے تھا۔
- بلکہ اس سے بھی بڑھ کر قرآنی تصریحات تو یہاں تک بتاتی
ہیں کہ اگر مادی وسائل میں وہ فریق مخالف کا دسواں حصہ ہو تو بھی اس کی
اخلاقی قوتیں "اختیار فیصلہ" بن کر اسے فتح یاب بنادیتی ہیں اور یہ
اس طرح ہوتا ہے کہ یہ قوتیں اللہ تعالی کی غیبی مدد اور مافوق الطبیعی نصرت
کا ذریعہ بن جاتی ہیں۔ بشر طیکہ ایک طرف تو اس نے اپنے مقدور بھر مادی وسائل
و تدابیر سے کام لینے میں دریغ نہ کیا ہو اور دوسری طرف اپنے ایمان کو خوب
راسخ اور اپنے اعمال کو صالح بنالیا ہو، یا یوں کہئے کہ اس کے اندر اپنے
اصولوں کا حقیقی عشق اور اپنے مسلک زندگی کا زندہ جنون موجود ہو۔
اس
غیبی مدد اور مافوق الطبیعی نصرت کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے صریح وعدے کیے گئے ہیں،
مثلاً:
(۱) - "كَم
مِّن فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً بِإِذْنِ اللَّهِ" (بقرہ
: ۲۴۹)
"کتنی ہی چھوٹی جماعتیں بڑی جماعتوں پر اللہ کے حکم سے غالب ہوتی
ہیں۔"
(۲) - "وَلَا
تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ" (آل
عمران : ۱۳۹)
"یہ سست پڑو اور نہ غمگیں ہو۔ تم ہی اونچے رہو گے بشرطیکہ تم
مومن ہو۔"
(۳) - "إِن
يَكُن مِّنكُمْ عِشْرُونَ صَابِرُونَ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ" (انفال:
۶۵)
"اگر تمہارے بیس ثابت قدم اشخاص ہوں گے تو وہ دو سو پر غالب
آجائیں گے۔"
(۴) - "أَنَّ
الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ" (الانبیاء : ۱۰۵)
"یقیناً زمین کے وارث میرے صالح بندے ہوں گے۔"
(۵) - "وَمَن
يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا فَإِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ
الْغَالِبُونَ" (مائدہ:
۵۶)
"اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کو اور مومنوں کو اپنا ساتھی
بنائے گا تو (وہ بامراد اور سر بلند ہو گا) بے شک اللہ کی جماعت ہی غالب رہنے والی
ہے۔"
اس
غیبی مدد کے ظہور کی مثالیں ہر دور میں پائی جاسکتی ہیں۔ خود اس امت کی ابتدائی
تاریخ اس قسم کے واقعات سے بھری ہوئی ہے۔ بدر، احد اور احزاب و حنین کے معرکوں میں
خدا کی ان دیکھی فوجوں نے جو کرشمے انجام دیئے، قرآن کے صفحوں میں وہ آج بھی محفوظ
ہیں۔
یہ
ہے مخصوص ضابطہ کسی مومن گروہ کے عروج کا اور یہی مخصوص ضابطہ تھا جس نے امت مسلمہ
کا ابتدائی دور غیر معمولی عظمت اور سر بلندی کا دور بنا دیا تھا۔
لیکن
جہاں دوسری اہل ایمان جماعتوں کی طرح اس جماعت کو بھی قدرت کی یہ خصوصی نظر عنایت
حاصل ہے وہیں اس کی ذمہ داریاں بھی بہت نازک ہیں اور اس کے اس خاص وعدے کے ساتھ
ایک خاص وعید سے بھی باخبر کیا جا چکا ہے جس کی طرف سے افسوس ہے کہ اس نے اپنے کان
بند کر لیے ہیں اور یہی کان بند کر لینا ہی دراصل اس کے لیے غلط فہمیوں اور
ہلاکتوں کا باعث بنا ہے۔ اور وہ سوال پیدا کر دیا گیا ہے جس کا ہم اوپر ذکر کر چکے
ہیں۔
اس
اجمال کی شرح یہ ہے کہ قرآن نے اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور نعمتوں کا جو قانون بیان
فرمایا ہے اس کی رو سے جس فرد یا گروہ پر اللہ تعالی کا فضل و کرم جتنا ہی زیادہ
ہوتا ہے اس فضل و کرم کی ناشکری یعنی احکام الہی سے بے پروائی برتنے پر اس کی پکڑ
بھی اتنی ہی زیادہ سخت اور ہولناک ہوتی ہے۔ محکومی و نامرادی کی جتنی سزا وہ دوسری
قوموں کو برے اعمال کی پاداش میں دیا کرتا ہے، اتنے برے اعمال کے ارتکاب پر اس قوم
کو اس سے دوگنی یا کئی گنا سزائیں دیتا ہے جو اس کے کچھ مخصوص انعامات سے سرفراز
کی جاچکی ہو۔
قرآن
حکیم کی چند شہادتیں سنیے:
- نبی صلی اللہ علیہ وسلم: سب سے پہلے
خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات عالی مقام کو لے لیجیے۔ جن سے بڑھ کر
محبوب اور مقرب بندہ عالم وجود میں آیا ہی نہیں۔ مگر یہ بات اس محبوب ترین
بندے کو مخاطب کر کے کہی گئی تھی کہ:
"وَلَوْلَا أَن ثَبَّتْنَاكَ لَقَدْ كِدتَّ تَرْكَنُ إِلَيْهِمْ شَيْئًا قَلِيلًا ﴿٧٤﴾ إِذًا لَّأَذَقْنَاكَ ضِعْفَ الْحَيَاةِ وَضِعْفَ الْمَمَاتِ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَكَ عَلَيْنَا نَصِيرًا" (بنی اسرائیل : ۷۴-۷۵)
"اگر ہم تم کو حق پر ثابت قدم نہ رکھتے تو قریب تھا کہ تم کفار کی طرف کچھ نہ کچھ جھک پڑتے۔ اگر ایسا ہو جاتا تو یقیناً ہم اس وقت تم کو زندگی اور موت دونوں میں (یعنی دونوں جہان میں) دوہرا عذاب چکھاتے، پھر تم ہمارے خلاف کسی کو اپنا مددگار نہ پاتے۔" - ازواج مطہرات: دوسری مثال
ازواج مطہرات کی لیجیے۔ ان کو جہاں یہ رتبہ بخشا گیا تھا کہ وہ امہات
المومنین ہیں اور ان کی حیثیت عام عورتوں جیسی نہیں ہے
(يَا
نِسَاءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِّنَ النِّسَاءِ) (احزاب: ۳۲)، نیز یہ کہ اگر وہ اللہ
اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی صدق دل سے تابعداری کریں اور اچھے کام
کریں تو عام لوگوں کی بہ نسبت ان کو دو گنا اجر ملے گا۔
"وَمَن يَقْنُتْ مِنكُنَّ لِلَّهِ وَرَسُولِهِ وَتَعْمَلْ صَالِحًا نُّؤْتِهَا أَجْرَهَا مَرَّتَيْنِ وَأَعْتَدْنَا لَهَا رِزْقًا كَرِيمًا" (احزاب: ۳۱)
وہیں اس حقیقت سے بھی انہیں آگاہ کر دیا گیا تھا کہ:
"يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ مَن يَأْتِ مِنكُنَّ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ يُضَاعَفْ لَهَا الْعَذَابُ ضِعْفَيْنِ" (احزاب : ۳۰)
"اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویو! تم میں سے جو کوئی کھلی ہوئی بے حیائی کی مرتکب ہو گی اس کو دو گنا عذاب دیا جائے گا۔" - یہودی قوم: افراد کے بعد
قوموں کی مثال لیجیے۔ یہودی قوم وہ قوم ہے جس پر مدتوں انعامات الہی کی
بارشیں ہوتی رہیں، جس کو دشمن سے بچانے کے لیے سمندر خشک کر دیا گیا۔ جس کی
معاشی مشکلات کے وقت من و سلویٰ کا نزول ہوتا رہا۔ لق و دق بیابانوں میں جس
کے سر پر رحمت کے فرشتے بدلیوں کی چھتریاں تانے ساتھ ساتھ چلتے تھے اور جس کو
تمام اقوام عالم پر برتری دی گئی تھی۔ لیکن جب اسی سر بلند اور محبوب جماعت،
اور موجودہ توریت کے لفظوں میں "خدا کی اپنی قوم" نے اپنے عہد
بندگی کو فراموش کر دیا، اور احکام الہی سے سرتابی کر کے فسق و فجور میں غرق
ہو گئی تو اس پر اللہ کا غضب ٹوٹ پڑا۔ اور اس طرح ٹوٹا کہ یہ قوم پہلے جتنی
سر بلند تھی اب اتنی ہی ذلیل ہو گئی۔ جس قدر محبوب تھی اسی قدر مغضوب ہو گئی۔
غرض
یہ اللہ تعالیٰ کی ایک کبھی نہ بدلنے والی سنت ہے کہ اس کی نقمت بقدر رحمت ہوا
کرتی ہے۔ اور جیسا کہ چاہیے، یہ سنت ٹھیک ٹھیک عدل پر مبنی ہے۔ چنانچہ عام انسانی
فطرت بھی اسی روش پر عمل پیرا ہے۔ ہم ایک اجنبی آدمی سے اس حسن سلوک کے امیدوار
نہیں ہوتے جس کی امید ہمیں اپنے اعزہ سے ہوتی ہے۔ ایک غیر شخص اگر ہماری باتوں کو
نہیں مانتا، یا اس کی تکذیب اور مخالفت کرتا ہے تو ہم اس پر زیادہ رنجیدہ یا مشتعل
نہیں ہوتے۔ لیکن یہی بات اگر اپنے ایک نمک خوار نوکر یا ناز پروردہ بیٹے سے سرزد
ہو جائے تو اس وقت ہمارے غم و غصہ کی انتہا نہیں رہتی۔ اور ہم اس کی اس حرکت کا وہ
جواب دیتے ہیں جو ایک غیر آدمی کو کبھی نہیں دے سکتے۔ اس فرق کی وجہ بالکل کھلی
ہوئی ہے۔ غیر کی مخالفت کا مطلب زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ وہ ایک سچی بات کا منکر
اور دشمن ہے، لیکن اس اپنے کی مخالفت کا مطلب یہ ہے کہ اس میں مخالفت حق کے ساتھ
نمک حرامی بھی موجود ہے۔ اور یہ وہ جرم ہے جسے انسانیت کا ضمیر کبھی معاف نہیں
کرتا۔ بالکل یہی اصول اللہ تعالیٰ بھی اپنے بندوں کے بارے میں برتتا ہے اور ان
افراد یا قوم کو جو اس کی مخصوص عنایتوں سے سرفراز ہونے کے باوجود اس کے احکام کی
مخالفت پر اتر آتی ہے، عام حالت کی بہ نسبت دو گنی سزائیں دیتا ہے۔ کیونکہ وہ بیک
وقت دو جرموں کی مرتکب ہوتی ہیں۔ ایک تو مخالفت حق کی، دوسرے احسان کشی اور نمک
حرامی کی۔
اسی
سنت الہی کی روشنی میں امت مسلمہ کے ماضی اور حال کا جائزہ لینا چاہیے۔ اللہ
تعالیٰ کا اس امت کے ساتھ کیا معاملہ رہا ہے؟ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ اس نے اس
امت کو تقریباً وہ ساری نعمتیں بھی بخشیں جو اس سے پہلے دوسری تمام امتوں کو دی
گئی تھیں، اور ان کے علاوہ وہ نعمتیں بھی جواب تک کسی امت کو نہیں ملی تھیں؟ آخر
یہ سارے جہان کی امامت کا منصب اور سب سے بہترین امت ہونے کا اعزاز (كُنتُمْ
خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ - آل عمران : ۱۱۰: "تم بہترین امت ہو جو تمام لوگوں کی (امامت و
رہنمائی) کے لیے برپا کی گئی ہے۔")، یہ امت اوسط اور شہداء علی الناس² کے
خطابات، یہ اکمال دین³ اور اتمام نعمت کے انعامات، اس سے پہلے بھی کسی امت کو ملے
تھے؟ اگر نہیں، اور یقیناً نہیں، تو پھر غور کیجیے کہ اس امت کی ذمہ داری کتنی
بھاری ہو گی؟ اور اس ذمہ داریوں کو چھوڑ بیٹھنے کے نتائج کتنے خطرناک ہو سکتے ہیں؟
جزا
و سزا کا جو قانون اللہ تعالیٰ کے محبوب ترین پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم اور
پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی محترم ازواج کے حق میں بھی اتنا بے لچک تھا وہ
دوسروں کے بارے میں کوئی نرمی دکھا سکتا ہے؟ اگر "اس بہترین امت" کا
عملی ریکارڈ ویسا ہی یا قریب قریب ویسا ہی ہے جس کے لیے وہ مبعوث کی گئی تھی تو
یقیناً اسے اپنی موجودہ زبوں حالی پر تعجب کرنے کا پورا حق ہے۔ لیکن اگر وہ اپنے
مقصد وجود سے غافل ہو چکی ہے تو پھر اسے تعجب اپنی حالت پر نہیں، بلکہ اپنی سادہ
لوحی اور اپنی خوش فہمی پر کرنا چاہیے۔ آخر قدرت نے کب اور کس پر ظلم کیا ہے، جو
آج وہ اس امت کے بارے میں انصاف کو بھول گئی ہو گی اور بھول کر اسے بلاوجہ پستی کے
گڑھے میں دھکیل گئی ہو گی؟
ذرا
دیکھ تو لیجیے کہ اس امت کی ذمہ داری کیا تھی؟ اور اس وقت وہ اسے ادا کس طرح کر
رہی ہے؟ اس کی ذمہ داریوں کا ضروری تعارف تو اگرچہ ابھی پچھلے باب میں نظروں سے
گزر چکا ہے لیکن مناسب ہو گا کہ بعض اور تصریحات بھی سن لی جائیں۔ قرآن مجید
مسلمانوں سے کہتا ہے کہ:
"اتَّبِعُوا مَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْ وَلَا
تَتَّبِعُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ" (اعراف: ۳)
"تمہارے رب کی طرف سے جو کچھ نازل ہوا ہے اس کی پیروی کرو اور
اسے چھوڑ کر (دوسرے جھوٹے) خداوندوں کا اتباع نہ کرو۔"
مسلمانوں
کا کیا رویہ ہونا چاہیے اور اسے کارزار حیات میں کون سا کردار ادا کرنا ہے؟ قرآن
مجید کا صرف یہی ایک جملہ اس سوال کا مثبت اور منفی پہلو سے واضح جواب دے دیتا ہے۔
اس سے یہ بھی صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ اسے کیا کرنا چاہیے اور یہ بھی کہ کیا نہ
کرنا چاہیے۔
- مثبت پہلو: ہر وہ حکم اور
ہدایت جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئی ہو اس کے لیے واجب التعمیل ہے۔ خواہ اس
کا تعلق عقائد اور عبادات سے ہو، خواہ اخلاق اور معاملات سے، انفرادی مسائل
سے ہو یا اجتماعی سے، مسجد اور مدرسہ سے ہو یا گھر اور بازار سے، اسمبلی اور
پارلیمنٹ سے ہو یا بزم صلح اور میدان جنگ سے، غرض کوئی موقع ہو یہی احکام و
ہدایت اس کے نظریوں کی بنیاد ہوں گے۔ یہی اس کے رویے کا فیصلہ کریں گے۔ اور
انہی کا پابند ہو کر اسے رہنا پڑے گا۔
- منفی پہلو: دوسری طرف
اپنے اس حقیقی مالک کے سوا (اور اس کے بھیجے ہوئے پیغمبر کے علاوہ) اگر کسی
اور جانب سے کوئی نظریہ، کوئی اسوہ، کوئی ضابطہ اور کوئی فیصلہ اس کے سامنے
آتا ہے تو وہ لازماً اس کے لیے قابل رد ہے۔ جیسا ضروری اس کے لیے یہ ہے کہ وہ
اپنے رب کے ہر حکم کو بجالائے ٹھیک ویسا ہی ضروری امر یہ بھی ہے کہ ہر بیرونی
شے کو دیوار پر دے مارے۔
² وَكَذَٰلِكَ
جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ (بقرہ - ۱۴۳) "اور اسی طرح ہم نے تم کو ایک معتدل امت بنایا
ہے تاکہ تم سب لوگوں کے لیے حق کے گواہ بنو۔"
³ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ
نِعْمَتِي (مائدہ
: ۳) "آج میں نے
تمہارے لیے دین کو مکمل کر دیا، اور تم پر اپنی نعمت تمام کر دی۔"
قرآن
کے اس مطالبے کو سننے کے بعد دو ہی راہیں اختیار کی جاسکتی ہیں: یا تو اس کا انکار
کر دیا جائے، یا پھر غیر مشروط طریقے سے سر تسلیم خم کر دیا جائے۔ انکار کرنے کے
معنی جس طرح یہ ہیں کہ انسان قرآن کو حق نہیں مانتا اور امر و حکم کو اللہ تعالیٰ
ہی کے لیے مخصوص نہیں سمجھتا، اسی طرح اس مطالبے کو غیر مشروط طریقے پر تسلیم کرنے
کے معنی یہ ہیں کہ تسلیم کرنے والا قرآن کو بر حق مانتا ہی ہے، وہ اس بات کا بھی
اقرار و اعلان کر رہا ہے کہ اللہ تعالی کی کسی ایک ہدایت کی بھی پابندی سے گریز نہ
کرے گا۔ یہ ایک بالکل کھلی ہوئی اور سادہ سی حقیقت ہے کہ جس سے کسی اختلاف کی بابت
سوچا بھی نہیں جا سکتا۔
اب
اس حقیقت کے ہوتے ہوئے دین کی صرف بعض پابندیوں کو قبول کرنے اور بعض سے کترا کر
نکل جانے کا رویہ جتنا غیر معقول اور مضحکہ خیز ہو سکتا ہے اس کا اندازہ کرنا مشکل
نہیں۔ جہاں تک قرآن کا تعلق ہے اس نے تو ایسی بین بین کی روش اختیار کرنے والوں کو
اپنا فیصلہ ان صاف اور صریح لفظوں میں سنا رکھا ہے:
"أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ ۚ فَمَا
جَزَاءُ مَن يَفْعَلُ ذَٰلِكَ مِنكُمْ إِلَّا خِزْيٌ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَيَوْمَ
الْقِيَامَةِ يُرَدُّونَ إِلَىٰ أَشَدِّ الْعَذَابِ" (بقرہ: ۸۵)
"کیا تم کتاب الہی کی بعض باتوں کو مانتے ہو اور بعض کو نہیں
مانتے؟ سو ایسا کرنے والوں کی سزا اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ دنیا میں ذلیل و خوار
ہوں اور آخرت میں شدید ترین عذاب کی طرف لے جائے جائیں۔"
قرآن
کا یہ فیصلہ اس امر کا قطعی ثبوت ہے کہ اس کا مطالبہ کامل حوالگی کا ہے۔ یعنی وہ
کچھ بھی کہے اس پر، اور صرف اسی پر عمل ہونا ضروری ہے۔ اس نے اپنے پیروؤں کے لیے
زندگی کے مختلف شعبوں میں جو حدیں قائم کر دی ہیں۔ ان کے آگے قدم اٹھانے کی ان کے
لیے کوئی گنجائش نہیں۔ ایسا کرنے والوں کو وہ ظالم قرار دیتا ہے۔ (وَمَن
يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ) (بقرہ: ۲۲۹)۔ اس لیے قرآن پر ایمان لانے اور مسلم ہونے
کا مطلب یہ ہوا کہ اس کے اندر جو کچھ ہے اس کے کسی ادنیٰ سے ادنیٰ جزو کو بھی ترک
نہیں کیا جاسکتا۔
اب
ذرا اک سرسری نظر سے یہ بھی دیکھ ڈالیے کہ یہ امت اپنی اس ذمہ داری کو پورا کس طرح
کر رہی ہے؟ دماغ کو تمام خارجی تاثرات سے آزاد کر کے "مَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْ" پر
اول سے آخر تک نظر ڈال جائیے اور اس کے بعد امت کے پورے عملی رویے کا گہرا جائزہ
لیجیے۔ پھر اندازہ کیجیے کہ قرآن کے احکام پر عمل ہو رہا ہے؟ چھوڑ دیجیے ان لوگوں
کو جو "مسلمان" ہوتے ہوئے بھی اسلام کے اعلانیہ باغی اور اس کے اصولوں کی
سچائی کے منکر ہیں۔ یا جن کی زندگی کے لمحات ایک ایک کر کے اسلامی قوانین کے توڑنے
بلکہ مٹانے ہی میں صرف ہوتے رہتے ہیں اور جن کو فقہی اصطلاح میں فاسق و فاجر کہا
جاتا ہے۔ ان افراد اور حلقوں کی طرف نگاہ دوڑائیے جو نیکی اور تقویٰ اور ایمان و
عمل کے لحاظ سے اگلی صفوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔
یہاں
بھی آپ کو جو کچھ دکھائی دے سکتا ہے وہ زیادہ سے زیادہ یہی ہو گا کہ ان احکام الہی
سے جن کا تعلق انفرادی زندگی سے ہے وہ غفلت نہیں برتتے، نمازوں اور روزوں کی پوری
پوری پابندی ہوتی ہے، اور وظائف کی کثرت ہے، زکوٰۃ و صدقات ادا ہو رہے ہیں۔ جھوٹ،
غیبت، بد گوئی، اور بہتان تراشی سے زبان آلودہ ہونے نہیں پاتی۔ کبر و غرور، نمود و
ریا، خیانت، ظلم اور غصب، رشوت اور حرام خوری، اور فتنہ و فساد کے دھبوں سے ان کے
ایمان کا دامن پاک رہتا ہے۔
لیکن
ان تمام باتوں کے باوجود جہاں تک دین کے اجتماعی احکام و مسائل کا تعلق ہے اس سے
غفلت و بے اعتنائی کا حال ان حلقوں میں بھی وہی ہے جو غیر متقی حلقوں میں نظر آتا
ہے۔ قرآن نے اگر زندگی کے صرف انفرادی پہلو سے ہی بحث کی ہوتی تب تو بلاشبہ اس طرح
اتباع قرآن کا حق ادا ہو جاتا۔ مگر وہ تو زندگی کے اجتماعی مسائل کو بھی اتنی ہی
اہمیت کے ساتھ لیتا ہے جتنی اہمیت سے اس نے انفرادی مسائل کو لیا ہے۔ اس نے نماز،
روزے، حج اور زکوٰۃ کے فرائض ادا کرنے اور دیانت، امانت، راست گوئی، اخلاص، وفائے
عہد، حسن سلوک، اکل حلال وغیرہ اخلاق فاضلہ پر کاربند ہونے کی ہدایتیں دینے کے
ساتھ ساتھ ہی یہ بھی کہا ہے کہ:
- اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق اور آقائی و فرمانروائی
کا مستحق نہیں۔ اس لیے اسی کو اپنا آقا اور سلطان مانو
(لَا
إِلَـٰهَ إِلَّا
هُوَ... إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا
لِلَّـهِ - یوسف : ۴۰؛ أَلَا لَهُ
الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ - الاعراف: ۵۴)۔
- خدا کی بندگی کرو اور تمام باطل خداؤں (طاغوت) کو چھوڑ
دو۔ (أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ
وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ - نحل : ۳۶)۔
- خدائی اور فرمانروائی کے ان تمام جھوٹے مدعیوں کے دعوے
تسلیم کرنے سے انکار کر دو، جو خدا کی بادشاہت سے باغی ہو کر اس کی رعایا پر
اپنا حکم چلانا چاہتے ہیں۔ (وَقَدْ
أُمِرُوا أَن يَكْفُرُوا بِهِ - نساء: ۶۰)۔
- ان لوگوں کا کہنا نہ مانو جو اللہ کے حقوق سے غافل اور اس
کی حدود کو توڑنے والے ہیں۔ (وَلَا
تُطِيعُوا أَمْرَ الْمُسْرِفِينَ -
شعراء:
۱۵۱)۔
- جب فیصلہ کرو تو احکام الہی کے مطابق کرو۔ (وَأَنِ احْكُم بَيْنَهُم بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ - مائدہ : ۴۹)۔
- جب اپنا فیصلہ کراؤ تو انہی احکام کے تحت کام کرنے والی
عدالتوں سے کراؤ، ورنہ غیر الہی قوانین کی عدالت میں اپنا معاملہ لے جانے
والا منافق ہے۔ (يُرِيدُونَ أَن
يَتَحَاكَمُوا إِلَى الطَّاغُوتِ -
نساء
۶۰)۔
- اور قوانین الہی کو چھوڑ کر ان قوانین کے مطابق فیصلہ
کرنے والا، ظالم، فاسق، اور کافر ہے۔
(وَمَن
لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ
الْكَافِرُونَ... الظَّالِمُونَ... الْفَاسِقُونَ - مائدہ: ۴۴ تا ۴۷)۔
- کسی برائی اور کسی ظلم کو پروان چڑھانے میں کسی طرح کا
تعاون نہ کرو۔ (وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى
الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ - مائدہ: ۲)۔
(آیت نمبر درست کیا گیا ہے، اصل متن میں ۳ تھا)
- کفر کے علم برداروں سے لڑو، یہاں تک کہ کفر کا علم سرنگوں
ہو جائے اور اللہ ہی کی اطاعت رہ جائے۔
(وَقَاتِلُوهُمْ
حَتَّىٰ لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لِلَّـهِ - بقرہ : ۱۹۳)۔
- جو کوئی اللہ اور اس کے رسول سے لڑے (اور زمین میں فساد
پھیلائے) اس سے خدا کی زمین پر زندہ رہنے کا حق چھین لو۔ (إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللَّهَ
وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا أَن يُقَتَّلُوا أَوْ
يُصَلَّبُوا... الخ - مائدہ: ۳۳)۔
- جو چوری کرے اس کے ہاتھ کاٹ دو۔
(وَالسَّارِقُ
وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا -
مائدہ:
۳۸)۔
- جو بدکاری کرے اس کو سو کوڑوں کی سزا دو۔ (الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ
مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ - نور : ۲)۔
- جو کوئی کسی پاک دامن پر زنا کا جھوٹا الزام لگائے (اور
چار گواہ نہ لائے) اس کو اسی (۸۰) درے لگاؤ۔ (وَالَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ
يَأْتُوا بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَاجْلِدُوهُمْ ثَمَانِينَ جَلْدَةً - نور : ۴)۔
- جو کوئی کسی کو عمداً قتل کر دے اس کی بھی گردن اڑا دو
(قصاص لو)۔ (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ
آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلَى ۖ الْحُرُّ
بِالْحُرِّ... - بقرہ: ۱۷۸)۔
غرض
یہ اور انہی جیسے بے شمار احکام شریعت ایسے بھی ہیں جو ہماری انفرادی زندگی سے آگے
بڑھ کر ہماری اجتماعی زندگی کو بھی اپنا پابند بنا کر رکھنا چاہتے ہیں اور یہ سب
کے سب اسی قرآن میں موجود ہیں، جس میں نماز، روزے کے احکام درج ہیں۔ اس لیے جب تک
ان احکام پر بھی عمل نہ کر لیا جائے یہ کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ اتباع دین اور
عمل بالقرآن کا حق ادا ہو رہا ہے؟
اس
حقیقت کے پیش نظر اس جماعت کے لیے جس نے اللہ کی کتاب پر پورا پورا عمل کرنے کا
عہد کیا ہے، یہ سارے احکام بھی بالیقین اسی طرح واجب التعمیل ہیں جس طرح وہ دوسری
قسم کے احکام۔ بلکہ امر واقعی تو یہ ہے کہ اپنی ساری اہمیتوں کی بنا پر ان میں سے
اکثر احکام ایسے ہیں جو مدار ایمان اور شرط نجات ہیں۔ اس لیے وہ ایک مسلمان کے لیے
اولین توجہ کے مستحق ہیں۔
لیکن
"خالص دینی اور متقی حلقوں" میں بھی ان پر عمل کا سراغ ملنا تو درکنار،
عمل کی خواہش کا وجود بھی تقریباً نایاب سا ہے۔ آج ہمارے معبود اور شہنشاہ اللہ
تعالیٰ ضرور ہے مگر مسجد کی چار دیواریاں اس کی معبودیت اور شہنشاہت کی آخری حدیں
ہیں اور مسجد سے باہر ہمارے آقا اور حکمران وہ لوگ ہیں جو ہماری ہی طرح مخلوق ہیں۔
اور خود بھی اسی ایک حاکم حقیقی کے قانون کی پیروی کے لیے پیدا ہوئے ہیں۔ ان میں
سے اکثر تو وہ ہیں جو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے علانیہ باغی اور کفر و
ضلال کے امام ہیں اور کچھ ایسے بھی ہیں جو مسلمان ہیں۔ لیکن ایسے مسلمان جنہوں نے
اللہ کے ان حقوق فرمانروائی کو جن کا تعلق دنیا میں انسانوں کی اختیاری زندگی سے
ہے اپنے ہاتھوں میں لے لیا ہے۔ قریب قریب پوری امت مسلمہ انہی دو قسم کے
"ارباباً من دون اللہ" کو اپنا صاحب امر و حکم بنائے ہوئے ہے۔ اب اس کے
لیے قانون وہ ہے جو یہ خداوند ارضی نافذ کریں۔ نہ کہ وہ جو کتاب و سنت میں ہے۔
پھر
جب انسانی زندگی کے ایسے بنیادی مسئلے میں اس امت نے پہلے مداہنت کی اور بالآخر
تعاون کی پالیسی اختیار کر لی اور اپنے ہی جیسے انسانوں کے ہاتھوں میں اپنے نظام
سیاست کی باگیں دے کر انہی کو اپنا صاحب امر تسلیم کر لیا تو اس کے وہ بہت سے
مسائل زندگی جن کا تعلق براہ راست حکومت سے ہوا کرتا ہے آپ سے آپ غیر اسلامی
بنیادوں پر طے ہونے لگے۔ اب اس کے کتنے ہی اصول زندگی، اس کے سیاسی نظریات، اس کے
معاشی تصورات اور اس کے عمرانی افکار کی بنیاد ہی بدل گئی اور اس کی زندگی کا پورا
ڈھانچہ اور مسائل زندگی پر غور و فکر کرنے کا طرز ہی کچھ اور ہو گیا۔ اب وہ اللہ
وحدہ لا شریک لہ کی غیر منقسم حاکمیت کی بجائے انسانوں کی حاکمیت کی داعی اور علم
بردار ہے۔ اب وہ اس نظام زندگی کو، جو اپنے اصول و فروع میں سر تا پا غیر اسلامی،
غیر قرآنی بلکہ کافرانہ ہے، نہ صرف انگیز کر رہی ہے بلکہ اس کی مشین چلانے میں
مسابقت دکھا رہی ہے۔ اب اس کے افراد نہایت اطمینان کے ساتھ اللہ کے نازل کردہ
قوانین کو چھوڑ کر انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین کے مطابق فیصلہ کرتے اور کراتے
ہیں۔ حالانکہ انہیں علم ہے کہ اس معاملہ میں اللہ کا حکم یہ نہیں ہے۔ اب ارتداد،
چوری، زنا، بہتان، اور قتل کے جرائم کی سزائیں کہیں بھی وہ نہیں دی جاتیں جو کتاب
و سنت میں مقرر ہیں، حالانکہ انہوں نے اپنے فرمانروائے حقیقی سے عہد کیا تھا اور
وفاداری کا حلف اٹھایا تھا کہ ہم ان تعزیرات کو جاری کریں گے۔
اس
طرح قرآن کا ایک بڑا حصہ صرف کتابت اور تلاوت کے لیے محدود ہو کر رہ گیا ہے اور اس
کے ماننے والوں کی عملی زندگی سے اس کا کوئی تعلق باقی نہیں رہا۔ اگر ہمارے اندر
قرآنی تعلیمات کا سچا فہم اور اسلام کی صحیح بصیرت موجود ہو، اور نفس کی چالبازیوں
نے ہماری روح ایمانی کو تھپکیاں دے کر سلا نہ دیا ہو، تو یہ اعتراف کرنا پڑے گا کہ
قرآن کے ساتھ ہم بڑی حد تک وہی سلوک کر رہے ہیں جو اہل کتاب نے تورات اور انجیل کے
ساتھ کیا تھا۔ البتہ قرآن اللہ تعالیٰ کا چونکہ آخری ہدایت نامہ تھا جس کے باعث اس
نے خود اس کی حفاظت کا وعدہ کر رکھا ہے، اس لیے یہ تو ممکن نہیں کہ گزشتہ آسمانی
کتابوں کی طرح اس کتاب میں بھی لفظوں کا رد و بدل اور عبارتوں کی کاٹ چھانٹ کی
کوئی جسارت کامیاب ہو سکے۔ لیکن اس کے علاوہ اور کوئی ظلم اور خیانت نہیں ہے جو
دوسری امتوں نے اپنے صحیفوں کے ساتھ روا رکھی ہو اور مسلمان اس سے باز رہے ہوں۔
عملی طور پر انہوں نے قرآن کے ایک حصے کو فراموش کر رکھا ہے۔ مراحل زندگی میں اس
کو آگے رکھنے کے بجائے پیٹھ پیچھے رکھ چھوڑا ہے، اور "کچھ اقرار اور کچھ
انکار" کی روش پر پورے اطمینان کے ساتھ چلے جارہے ہیں۔
اس
لیے کوئی وجہ نہیں کہ قدرت أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ وَتَكْفُرُونَ
بِبَعْضٍ کا الزام (ایک محدود معنی ہی میں سہی) ان پر عائد نہ کرے اور پھر خِزْيٌ
فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا کی اس پاداش کا انہیں مستحق نہ ٹھیرائے جس کا اس کا
قانون مطالبہ کرتا ہے۔
باب
سوم: چہ باید کرد؟ (کیا کرنا چاہیے؟) - فرض کی پکار
اگر
ہم یہ پسند نہیں کرتے کہ ہماری موجودہ حالت جوں کی توں برقرار رہے، اور ہم پر خود
اپنے وجود سے دشمنی کرنے کا، ایک فرض ناشناس گروہ ہونے کا جو واقعی الزام لگ چکا
ہے وہ نہ خلق کے سامنے سے دور ہو نہ خدا کے سامنے سے۔ تو اس کی واحد تدبیر صرف یہی
ہو سکتی ہے کہ ہم خود شناس بنیں، اپنا فرض یاد کریں اور پھر اسی نصب العین کے ہو
رہیں جس کے سوا ہمارا کوئی دوسرا نصب العین نہیں اور نہ مسلمان ہوتے ہوئے کبھی ہو
سکتا ہے۔
یہ
بات نہ کسی خوش عقیدگی کی پیداوار ہے نہ ماضی پرستی کا نتیجہ، بلکہ یہ اس کتاب کا
فیصلہ ہے جسے ہم انسانی کلام نہیں بلکہ الہی کلام مانتے ہیں۔ جس کو سچی ہدایت اور
یقینی علوم کا سر چشمہ قرار دیتے ہیں اور جس کی ہر بات کو بلا چون و چراں تسلیم
کرنے کا ہم نے عہد کیا ہے۔
جس
وقت یہ کتاب نازل ہو رہی تھی اس وقت پچھلی آسمانی کتابوں کے پیرو (یہود و نصاریٰ)
کچھ اسی قسم کے حالات سے دوچار تھے۔ جب اس نے ان کی اعتقادی گمراہیوں اور عملی
کجروی پر تنقید کی اور ان کے برے انجام سے انہیں ڈرایا اور اللہ کا سچا دین پیش کر
کے اس کے اتباع کی انہیں دعوت دی تو ان کی رگوں میں الٹی جاہلی حمیت کی آگ بھڑک
اٹھی، کیونکہ انہیں غصہ تھا کہ ہم خود آسمانی مذہب رکھنے والے ہیں۔ بلکہ اس سے بھی
بڑھ کر یہ کہ ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے لاڈلے ہیں۔ اس لیے انہیں گوارا نہ ہو سکا
کہ کوئی اور ان کے سامنے ہدایت اور امامت کا علم بردار بن کر آئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ
جواب میں وہ جارحانہ حملوں پر اتر آئے، اور ایک طرف اسلام کی تردید و تکذیب پر،
دوسری طرف اپنی عظمت و امامت پر زور بیان صرف کرنے لگے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی ان
کٹھ حجتیوں کے اور ان کے اس ادعا کے جواب میں فرمایا:
"قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لَسْتُمْ عَلَىٰ شَيْءٍ حَتَّىٰ
تُقِيمُوا التَّوْرَاةَ وَالْإِنجِيلَ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْ" (مائدہ
: ٦٨)
"اے پیغمبر! ان لوگوں سے کہہ دو کہ اے اہل کتاب! تم ہر گز کسی
اصل پر نہیں ہو جب تک کہ تم قائم نہ کر لو تورات اور انجیل کو، اور اس چیز کو جو
تمہارے رب کی طرف سے تمہاری طرف اتری ہے۔"
یعنی
تم اپنی موجودہ حالت میں رہتے ہوئے ہر گز اس امر کے مستحق نہیں ہو کہ دلیل و برہان
کے ساتھ حق کے بارے میں کلام کر سکو۔ تم نے وہ بنیاد ہی کھود کر پھینک رکھی ہے جس
پر تمہارے وجود ملی کی عمارت کھڑی تھی۔ اس معاملہ میں تم بحث و جدال کے حقدار اسی
وقت ہو سکتے ہو، جب تم ان ہدایات پر کاربند ہو جاؤ، اور اپنی زندگیوں کو ان تمام
احکام کا پابند بنا دو جو سلطان حقیقی کی جانب سے تم پر مختلف وقتوں میں نازل ہوتے
رہے ہیں۔ تم نے کتاب الہی کے جن حصوں کو اپنی دنیائے عمل سے خارج کر رکھا ہے ان کو
از سر نو نافذ کر لو، جن صداقتوں کا تمہیں علم دیا گیا تھا ان کی حفاظت اور برملا
اشاعت کا بھولا ہوا فریضہ یاد کر لو۔ اور تمہاری زندگی کا جو مقصد ٹھہرایا گیا
تھا، اسے پھر اپنا لو۔
اب
غور کیجیے اسی فیصلہ قرآنی کی روشنی میں خود اپنے معاملے پر۔ امت مسلمہ کے اتباع
کی عملی حالت بھی جب یہی ہے کہ کتاب الہی کا ایک حصہ صرف برکت تلاوت کے لیے رہ گیا
ہے اور اس سے اس کا کوئی عملی تعلق باقی نہیں رہا تو انصاف کیا کہتا ہے؟ کیا اس کے
سوا کچھ اور کہ اسے بھی لَسْتُمْ عَلَىٰ شَيْءٍ کا سزاوار ٹھیرایا جائے؟
اور جب تک وہ "قرآن کی اقامت" نہ کرے اس وقت تک اسے شہداء حق اور خیر
امۃ ہونے کے اعزاز کا حقدار نہ سمجھا جائے؟ یقیناً نہیں! اور بلاشبہ یہ اس کی ایک
طرح کی دھاندلی ہو گی اگر وہ ایک اعزاز کے تمغے کو اس حالت میں بھی اپنے سینے پر
آویزاں کیے رہے۔
اس
لیے اگر وہ واقعی اپنی ملی زندگی کی بقا اور ترقی چاہتی ہے تو اس کا پہلا اور آخری
فرض صرف یہ ہے کہ وہ اپنے فرض کا بار گراں پھر سے اپنے کاندھوں پر اٹھالے، اور
دنیا کے ہر کام، ہر ہنگامے، ہر مشغولیت اور ہر دلچسپی سے منہ موڑ کر اپنی نظریں
اسی ایک کام پر جما لے۔ یہ اس کے منصب اور اس کے مقصد وجود کا مطالبہ ہے۔ اس کے
ملی تشخص کی بحالی کی اس کے سوا کوئی تدبیر ہی نہیں کہ وہ اس مطالبے کے آگے سر
جھکا دے۔
ملی
نجات کی شاہراہ:
اسی
طرح اس امت کے لیے دنیوی عزت و اقبال کی بازیافت کی راہ بھی اس کے سوا کوئی دوسری
نہیں۔ جس کا ناقابل انکار ثبوت قرآن مجید کا وہ ارشاد ہے جو اس نے ذلت و مسکنت کے
مارے ہوئے بنی اسرائیل کے بارے میں فرمایا تھا:
"وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْكِتَابِ آمَنُوا وَاتَّقَوْا
لَكَفَّرْنَا عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ وَلَأَدْخَلْنَاهُمْ جَنَّاتِ النَّعِيمِ
﴿٦٥﴾ وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقَامُوا التَّوْرَاةَ وَالْإِنجِيلَ وَمَا أُنزِلَ
إِلَيْهِم مِّن رَّبِّهِمْ لَأَكَلُوا مِن فَوْقِهِمْ وَمِن تَحْتِ أَرْجُلِهِم" (مائدہ
: ۶۵ ،۶۶)
"اگر یہ اہل کتاب ایمان رکھتے اور خدا ترسی کی راہ چلتے تو ہم ان
کی برائیاں ان سے دور کر دیتے اور نعمت کے باغوں میں انہیں داخل کرتے، اور اگر وہ
تورات اور انجیل کو اور ان ہدایتوں کو جو ان کے رب کی طرف سے انہیں پہنچی ہیں قائم
کرتے تو اپنے اوپر سے بھی رزق بٹورتے اور اپنے قدموں کے نیچے سے بھی۔"
یہ
تھی وہ تدبیر جس کے ذریعے امت اسرائیل کو اس کا کھویا ہوا اقبال واپس مل سکتا تھا۔
اس ارشاد قرآنی کی روشنی میں امت مسلمہ کا معاملہ بھی کچھ مشکل نہیں رہ جاتا، مرض
کی یکسانی چاہتی ہے کہ علاج بھی ایک ہی ہو۔ ہلاکت و نامرادی جس راہ سے اہل کتاب کے
یہاں آئی تھی، آپ دیکھ چکے ہیں کہ اہل قرآن کے پاس بھی اسی راہ سے آئی ہے، اس لیے
کھلی بات ہے کہ اس سے نجات بھی اسی طریقے سے مل سکتی تھی جس کی اہل کتاب کو تلقین
کی گئی تھی۔
قرآن
کہتا ہے، اور ظاہر ہے کہ اسی کا کہنا ایک مومن کے لیے حرف آخر کا حکم رکھتا ہے کہ
اہل کتاب نے خداوندی احکام و ہدایات کے کچھ حصوں کو چھوڑ دیا اور بھلا رکھا تھا۔
جس کے نتیجے میں رحمت الہی ان سے روٹھ گئی۔ اور غضب خداوندی ان پر ٹوٹ پڑا، جس سے
نجات کی واحد تدبیر صرف یہ تھی کہ ان احکام و ہدایات پر وہ پھر سے عمل کرنے لگتے۔
اب
اگر کسی کے دل و دماغ قرآن حکیم کی "زبان" سمجھنے کی صلاحیتوں سے بالکل
محروم نہیں ہو چکے ہیں تو اس کے لیے اس پیغام کا سمجھ لینا ذرا بھی دشوار نہیں جس
کی طرف وہ اپنے اس ارشاد میں صاف طور سے انگلی اٹھا کر اشارہ کر رہا ہے۔ چنانچہ جس
کسی کو اللہ تعالیٰ نے ہوشمندی اور عبرت کے کان دیئے ہیں۔ وہ قرآن کے انہی لفظوں
میں سے یہ آواز بھی سن سکتا ہے کہ:
"اگر قرآن کے پیرو ایمان رکھتے اور خدا ترسی کی راہ چلتے تو ہم
ان کی برائیاں ان سے دور کر دیتے اور نعمت کے باغوں میں انہیں داخل کرتے اور اگر
وہ قرآن کو قائم کرتے تو اپنے اوپر سے بھی رزق بٹورتے اور اپنے قدموں کے نیچے سے
بھی۔"
نیز یہ کہ:
"اے اہل قرآن! تم ہر گز کسی اصل پر نہیں جب تک کہ قرآن کو قائم
نہ کرو۔"
غرض
"اقامت قرآن"، دوسرے لفظوں میں "اقامت دین" ہی وہ واحد نسخہ
شفا ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اس امت کے لیے پہلے تجویز فرما دیا تھا اور یہ بتا
دیا تھا کہ یہی وہ چیز ہے جس پر تمہاری اخروی سعادت کا بھی انحصار ہے اور تمہاری
دنیوی فلاح کا بھی، تم کو جب بھی ان چیزوں کی تلاش ہو، اس کے لیے راستہ یہی اختیار
کرنا، باقی ہر طرف سراب ہی سراب ہو گا جہاں ٹھوکریں کھانے کے سوا تمہارے کچھ ہاتھ
نہ لگ سکے گا۔
یعنی
قرآن ہمیں پھر اسی مقام پر واپس جانے کا حکم دے رہا ہے جہاں سے ہم ہٹ آئے ہیں۔
حضرت امام مالکؒ نے یہ پیش گوئی نہیں کی تھی کہ نہ اپنے کسی کشف کا اظہار کیا تھا
جب فرمایا تھا کہ:
"لن يصلح اخر هذه الامة الا بما صلح به اولها"
"یہ امت اپنے آخری دور میں بھی بہرحال اسی چیز سے خیر و اصلاح
پاسکے گی جس سے اس نے اپنے ابتدائی دور میں پائی تھی۔"
بلکہ یہ ایک روشن حقیقت تھی جس کا ان کی مومنانہ بصیرت نے پورے
تیقن سے ادراک کیا اور جس کے سوا کسی صاحب ایمان کے ذہن میں کوئی دوسری بات آ ہی
نہیں سکتی۔
جہاں
تک "اصلاح دین" کا تعلق ہے اس کے لیے اتباع دین کے سوا اور کوئی ذریعہ
تصور ہی میں نہیں آسکتا۔ کھلی بات ہے کہ دینی سدھار دین ہی کے اپنانے سے ہو سکتا
ہے۔ رہ گئی امت کی "دینی اصلاح" تو یہ بھی اس کے شہادت حق کے منصب پر
فائز جماعت ہونے کے باعث اسی دین سے وابستہ ہے۔ کیونکہ اسے جو عروج و اقبال بھی
بخشا گیا تھا وہ سب اسی نصب العین سے وفاداری کا صلہ تھا اور اس سے اللہ تعالیٰ نے
فتح و نصرت کے جتنے وعدے کیے تھے وہ سب اسی اقامت دین کی شرط سے مشروط تھے۔ چنانچہ
جب مسلمانوں کو یہ بشارت دی گئی کہ تم ہی سر بلند ہو گے اور تمہارے مقابلے میں
تمہارے دشمنوں کا انجام محکومیت ہو گا (انتم الاعلون) تو اسی کے ساتھ (ان کنتم مؤمنین) کی بھی شرط لگا دی گئی تھی۔ ظاہر ہے یہ مشروط وعدہ کوئی وقتی
اور خصوصی وعدہ نہیں تھا بلکہ ایک ابدی اور اصولی وعدہ تھا۔
احادیث
سے تو یہاں تک معلوم ہے کہ خود اس امت کے اندر بھی خاص طور پر وہی گروہ اس کے
اعزاز و اقبال کا نمائندہ اور علم بردار ہو گا جو اقامت دین کے فریضے کو پورا کر
رہا ہو گا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
"ان هذا الامر فى قريش لا يعاديهم احد الاكبه الله على وجهه ما
اقاموا الدین" (بخاری
بحوالہ مشکوٰۃ)
"بلاشبہ یہ خلافت اس وقت تک قریش میں رہے گی جب تک وہ دین کو قائم
رکھنے کا فریضہ ادا کرتے رہیں گے جو کوئی بھی ان سے عداوت کرے گا اللہ اس کو
اوندھا گرا دے گا۔"
پچھلی
بحثوں کا خلاصہ:
اب
تک کی تمام بحثوں سے چند اصولی نکتے بکھر کر سامنے آجاتے ہیں:
- اس امت کا مقصد وجود اور نصب العین اللہ کے دین کی اقامت
تھا اور ہے۔
- اس فریضے کو انجام دینے میں اللہ تعالیٰ کی غیبی اعانتیں
اس کے شامل حال رہتی ہیں اور دراصل یہی غیبی اعانتیں تھیں جن کے طفیل وہ
مثالی عزت و اقبال سے سرفراز ہوئی تھی۔
- اس امت کے عروج و زوال کا اصل انحصار طبعی قوانین اور
مادی اسباب و تدابیر پر نہیں ہے بلکہ اخلاقی قانون پر ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ
کہ اس کا عروج اپنے اس فریضے کے بجالانے پر موقوف ہے جس کے لیے وہ مبعوث کی
گئی ہے، اور موقوف بھی اس طرح کہ اگر اس نے اس فرض سے پہلو تہی کی تو دوسری
قوموں کی بہ نسبت وہ اللہ تعالیٰ کے دربار سے دوگنی سزا کی مستحق ہو گی۔
- اس امت کے موجودہ حالات اس بات پر صاف دلالت کرتے ہیں کہ
اس نے کتاب اللہ کے ایک بڑے حصے کو عملاً چھوڑ رکھا ہے اور اقامت دین کے
فریضے سے غافل ہو گئی ہے۔
- قرآنی فیصلے کی رو سے اس امت کے لیے فلاح و نجات کا راستہ
ہر طرف سے بند ہے ماسوا اس ایک راستے کے کہ وہ اپنے فریضہ حیات کو پہچان لے
اور اللہ کے دین کو از سر نو قائم کر دینے میں تن من دھن سے لگ جائے۔ ورنہ
اگر اس نے اس راہ کے سوا کوئی اور راہ اختیار کرنے کی کوشش کی تو اس کی تمام
تدبیریں اور کوششیں نہ صرف یہ کہ ضائع جائیں گی، بلکہ وہ اسے اس کے اپنے مقام
سے اور دور پھینک دیں گی۔ اور رہا سہا ملی وقار و اقبال بھی چھین لیں گی۔ وہ
دوسری قوموں کے مقابلے میں دین کا سررشتہ چھوڑ کر کبھی آگے نہیں بڑھ سکتی اور
اگر بظاہر کوئی سر بلندی اس کو مل بھی گئی تو وہ غیروں کا عطیہ ہو گی جس کا
وجود بھی غیروں کے رحم و کرم پر ہو گا اور یہ بجائے خود ایک بڑی ذلت ہے۔
باب
چہارم: گریز کی راہیں
خواہش
فرار کا دباؤ:
ان
حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے ایک ایسے شخص کے لیے جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ
علیہ وسلم پر ایمان رکھتا ہو، جو مسلمان ہی مرنا چاہتا ہو اور جس کو کل قیامت کے
دن اپنے فریضہ حیات کی بابت جواب دہی کا پورا احساس ہو۔ نیز جسے اس بات کا یقین ہو
کہ کلام الہی جو کچھ فرماتا ہے، عروج و زوال، عزت و دولت کے جو فلسفے بتاتا ہے وہ
انسانی عقل کے گھڑے ہوئے فلسفوں کی طرح گمان و قیاس پر مبنی نہیں ہیں۔ بلکہ اس کی
بنیاد حقیقت نفس الامری پر رکھی گئی ہے، وہ حق ہے، سراپا حق ہے، ایسے شخص کے لیے
اس کے سوا اور کوئی راہ قابل اختیار رہ ہی نہیں جاتی کہ ہر طرف سے اپنی آنکھیں
پھیر کر، ہر آواز کے لیے اپنے کان بند کر کے، نفس کے ہر فریب اور شیطان کے ہر
وسوسے سے دل کو پاک کر کے اور تمام اندیشوں سے بے پروا ہو کر صراط مستقیم پر اپنے
قدم مضبوطی سے جما لے اور اپنے جسم و دماغ کی ساری قوتیں دین حق کے قائم کر دینے
میں لگا دے۔
وہ
اپنے فہم و تدبر سے کام لے کر اس کے لیے مناسب وقت تدبیریں سوچ سکتا ہے، حالات
زمانہ کے لحاظ سے ایک خاص طریقہ عمل اختیار کر سکتا ہے۔ ماحول کے تقاضے سے کوئی
پالیسی مرتب کر سکتا ہے لیکن یہ ہر گز نہیں کر سکتا کہ اپنے نصب العین اور مقصد
حیات ہی میں کوئی ترمیم کرلے۔ یا اس کو ملتوی کر دے۔ یقیناً اس طرح کی کوئی بھی
کاروائی اس کے اختیار سے باہر ہے۔ وہ اس راہ سے ہٹ کر اور اس نصب العین کو چھوڑ کر
جو قدم بھی اٹھائے گا وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بغاوت کا، اور
ملی خود کشی کا قدم ہو گا۔
اس
وقت اس کی مثال اس نادان اندھے کی سی ہو گی، جو کسی گہرے کھڈ کی طرف بڑھ رہا ہو
اور اس کا بہی خواہ رہنما چلا چلا کر اسے ادھر جانے سے منع کر رہا ہو اور صحیح راہ
پر لانے کی کوشش کر رہا ہو۔ مگر وہ ہے کہ ایک طرف تو وہ اپنے اس رہنما کی باخبری،
راست گوئی، اس کی خیر خواہی اور اس کے خلوص کا قصیدہ پڑھ رہا ہو اور دوسری طرف اسی
سمت بڑھے جانے پر محض اس لیے اصرار بھی کر رہا ہو کہ اس سمت کی زمین اسے کچھ
ڈھلوان معلوم ہو رہی ہے۔ جس پر قدم آسانی کے ساتھ پڑتے جارہے ہیں اور اس کی مخالف
سمت کی زمین کچھ بلند دکھائی دیتی ہے جس پر قدم رکھنے میں چڑھائی کی دقتیں اٹھانی
پڑتی ہیں۔
لیکن
بد قسمتی سے بحیثیت مجموعی آج یہ امت بالکل اسی اندھے کا پارٹ ادا کر رہی ہے۔ وہ
ہر اس سمت دوڑ پڑنے کے لیے تیار ہے جس پر کسی قوم کو سرگرم سفر دیکھ پائے۔ بشرطیکہ
یہ راہ اسے سہل اور ہموار اور دلکش دکھائی دیتی ہو، چاہے وہ ٹھیک ہلاکت و نامرادی
کی جہنم ہی تک کیوں نہ لے جاتی ہو۔ اگر کسی سمت اس کے قدم اٹھنے سے انکار کرتے ہیں
تو وہ وہی سمت ہے جو اقامت دین کی سمت کہلاتی ہے، اور یہ صرف اس لیے کہ یہ راہ اس
کو مشکلات کے کانٹوں سے بھری ہوئی دکھائی پڑتی ہے۔
قرآن
اس کو دوسری تمام راہوں سے روک کر اسی راہ کی طرف بلاتا ہے، مگر وہ سنی ان سنی کر
دیتی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ میں ہی تیرا بہی خواہ ہوں، وہ جواب دیتی ہے کہ یہی ہمارا
ایمان ہے۔ وہ کہتا ہے کہ میں ہی تیرا ہادی اور نجات دہندہ ہوں، وہ جواب دیتی ہے کہ
اس سے کس کافر کو انکار ہے؟ وہ کہتا ہے میں کبھی جھوٹ نہیں بولتا، کبھی غلط بات
نہیں کہتا، کبھی اپنے دعوؤں کی بنیاد وہم و گمان اور اٹکل پچو پر نہیں رکھتا، وہ
جواب دیتی ہے کہ لاریب! وہ قرآن کہتا ہے میرے پاس اور صرف میرے پاس علم حقیقت ہے،
میں ہمیشہ صحیح راہ بتاتا ہوں، تمہاری اور ساری انسانیت کی نجات کا راز صرف میری
تعلیمات میں مضمر ہے۔ وہ جواب دیتی ہے کہ "بلاشبہ!" وہ کہتا ہے کہ جو
کچھ میرے سوا ہے باطل ہے، جو کچھ میرے خلاف ہے سراسر جہل ہے۔ جو کچھ مجھ سے ہم
آہنگ نہیں، اس میں تباہی و نامرادی کے علاوہ کچھ نہیں۔ وہ جواب دیتی ہے کہ یقیناً!
لیکن
جب وہ یہ کہتا ہے کہ تیرے لیے میرے پاس صرف ایک وصیت ہے، اقامت دین کی وصیت، تو اس
کی زبان جواب تک اس کے ہر دعوے کی تصدیق میں اتنی تیز تھی، معاً بند ہو جاتی ہے
اور اس کی جگہ ان کا نفس حیلوں اور تاویلوں کا لشکر تیار کر کے سامنے آجاتا ہے
تاکہ اس اضطراب کو کچل ڈالے، جو اس منافقانہ خاموشی کے باعث اس کی روح کی گہرائیوں
میں رونما ہوتا ہے۔
مجرم
انسان اگر اس کے اندر غیرت و عزت نفس کی کوئی رمق باقی ہو، لوگوں کے سامنے مجرم کی
حیثیت سے آنا کبھی گوارا نہیں کرتا۔ اگر اس غیرت اور عزت نفس کی حس میں احساس فرض
کی حرارت بھی موجود ہوتی ہے تو وہ اسے مجبور کر دیتی ہے کہ اپنے جرم کا کفارہ ادا
کرے اور اپنے عمل کے ذریعے اپنے دامن سے اس داغ کو دھو ڈالے۔ اور اگر یہ صورت حال
نہیں ہوتی اور اس کا سینہ اس حس اور اس احساس سے خالی ظاہر ہوتا ہے تو پھر اس کی
تمام دماغی قابلیتیں اس بات پر صرف ہونے لگتی ہیں کہ کس طرح اس جرم کو عین حق و
صواب ثابت کر دے۔ اس وقت اس کا نفس اسے بے گناہی کا فریب دینے میں ہمہ تن مشغول ہو
جاتا ہے اور اس کے حکم سے اس کا دماغ تاویلوں کی ایک خوشنما نقاب تیار کر دیتا ہے
جس کو وہ اپنے چہرے پر ڈال کر اپنے آپ کو یہ محسوس کرا لیتا ہے کہ میں برسر غلط
قطعاً نہیں ہوں۔ اس کے بعد اس کی خواہش اور کوشش یہ ہوتی ہے کہ دوسروں کو بھی ایسا
ہی محسوس کرادے تاکہ اس کے داغ گناہ کی طرف کوئی انگلی اٹھانے والا نہ رہ جائے۔
ٹھیک
یہی حال ہے اپنے فریضہ ملی اور مقصد زندگی کی بجا آوری میں امت مسلمہ کا۔ وہ اپنے
فرض کو چھوڑ بیٹھنے پر اسی قسم کے ادعائے بے گناہی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ صدیوں کے
انحطاط اور زوال نے اس کے احساس فرض کو بری طرح کچل کر رکھ دیا ہے اور ان بلند
جذبات سے اس کا سینہ تقریباً اجڑ گیا ہے جو کسی نصب العین کی بجا آوری کے لیے
ضروری ہوا کرتے ہیں۔ خصوصاً اقامت دین کے نصب العین کے لیے جو کبھی بھی آسان نہ
تھا اور جس میں جان و مال کی بازی، عیش و آرام کی قربانی اور امیدوں اور تمناؤں کی
پامالی شرط اول قدم ہے۔ اس لیے بجائے اس کے کہ وہ اپنے جرم کو تسلیم کر کے تلافی
کی کوشش کرتی اور اپنے نصب العین کو سنبھال لیتی، سرے سے اپنی کوئی ذمہ داری ہی
نہیں تسلیم کرنا چاہتی۔ بلکہ طرح طرح کی دور از کار تاویلوں سے اپنے رہے سہے احساس
کو بھی دباتی جا رہی ہے۔
گریز
کے "فلسفے":
یہ
تاویلیں مختلف قسم کی ہوتی ہیں اور مختلف لوگ ادائے فرض کے مطالبے پر جواب میں
مختلف معذرتیں پیش کرتے ہیں۔ چونکہ یہی تاویلیں اور یہی معذرتیں، دوسرے لفظوں میں
فرار اور گریز کے یہی "فلسفے"، امت کے ۹۹ فیصد سے زیادہ افراد کے لیے حجاب نظر بنے ہوئے ہیں اور جب تک
ان کی بے حقیقتی واضح نہیں کر دی جاتی کہ ان کا اپنے فرض کی طرف پلٹ آنا محال سا
ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ان کا جائزہ لیا جائے اور پھر ان پر تنقید کر کے بتا دیا
جائے کہ فی الواقع ان کی کیا قدر و قیمت ہے؟ جہاں تک عام جائزے کا تعلق ہے، یہ
تاویلیں یا گریز کے یہ "فلسفے" پانچ ہیں:
- پہلا گروہ: کہتا ہے کہ
عمل کرنے والے کے لیے کسی حال میں بھی اپنی واقعی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہو
جانے کی راہ بند نہیں۔ چنانچہ جن کو اللہ تعالیٰ نے حسن عمل اور خشیت و انابت
کی توفیق بخشی ہے وہ آج بھی دین پر ٹھیک ٹھیک عامل ہیں، اپنے فریضے کو انجام
دے رہے ہیں، اور امر بالمعروف کرتے رہتے ہیں۔ رہ گئے قرآن و سنت کے اس طرح کے
اجتماعی احکام، جن کا اوپر حوالہ دیا گیا ہے، تو ان کا تعلق اسلامی حکومت سے
ہے، اس کے مخاطب مسلمانوں کے اولوالامر ہیں۔ عوام نہیں ہیں۔ اس وقت چونکہ
اسلامی حکومت قائم نہیں ہے اس لیے ان احکام کے اجراء و نفاذ کی ذمہ داریوں کا
سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ اور اگر کچھ احکام ایسے ہیں بھی جن کا تعلق براہ
راست عام افراد سے ہے لیکن جن پر عمل نہیں ہو رہا ہے، مثلاً غیر اسلامی
عدالتوں سے معاملات کا فیصلہ نہ کرانا اور غیر اسلامی قوانین کے مطابق فیصلے
نہ کرنا وغیرہ، تو ایسا وہ اضطراراً کر رہے ہیں۔ اور یہ شریعت کا ایک عام
اصول ہے کہ اضطرار کے وقت ناجائز کام بھی مباح ہو جاتے ہیں۔ اس لیے قرآن کے
ایک حصے کو چھوڑ بیٹھنے اور اقامت دین کا فریضہ بھول جانے کا عمومی الزام
صحیح نہیں ہے۔
- دوسرا گروہ: کہتا ہے کہ
بلاشبہ ملت اسلامیہ کا مقصد وجود یہی اقامت دین ہی ہے لیکن موجودہ ناسازگار
حالات میں اس نصب العین کی کامیابی کا کوئی امکان نہیں ہے، لہذا اس وقت اس کی
خاطر جدوجہد کرنا وقت اور قوت کو ضائع کرنا ہے اور دنیا کے سامنے اسے علانیہ
پیش کرنا صرف مصلحت کے خلاف اور ناعاقبت اندیشی کی دلیل ہی نہیں ہے بلکہ مفاد
ملت کے لیے سراسر مضر اور مہلک بھی ہے۔ اس لیے سر دست خدمت دین کی کچھ ایسی
جزئی تدبیریں اختیار کی جانی چاہیئیں جو ممکن العمل ہوں اور تجربے سے دین کے
احیاء میں مفید ثابت ہو چکی ہوں اور جو آگے چل کر ہمارے اس نصب العین کے لیے
حالات کو نسبتاً کچھ زیادہ سازگار بنا دینے والی ہوں۔ پھر جب یہ آج کے حالات
بدل جائیں گے اور ہمارے اس مشن کے لیے وہ اتنے ناسازگار نہ رہ جائیں گے جتنے
کہ اب ہیں، اس وقت اس کے لیے براہ راست جدوجہد شروع کی جائے گی۔
- تیسرے گروہ: کا انداز فکر
یہ ہے کہ اس نصب العین کے برحق ہونے میں کوئی کلام نہیں، مگر اس کے لیے صدیقؓ
اور فاروقؓ درکار ہیں، اور ہم ایسے بن نہیں سکتے، اس لیے ہمارے بس کا یہ کام
ہی نہیں ہے۔ جس مشن کو پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت یافتہ جماعت بھی
تیس برس سے زیادہ نہ چلا سکی، اس کے لیے ہم جیسے ضعیف الایمانوں کا دم خم
دکھانا تقدیر سے لڑنا ہے۔ اب وہ زمانہ نہیں آسکتا جو تیرہ سو برس پہلے گزر
چکا۔
- چوتھا گروہ: یوں سوچتا ہے
کہ کام کی کوئی راہ کھلے اور کوئی قافلہ اس پر کامیاب گامزنی کا مظاہرہ کرے
تو ہم بھی اٹھ کر کھڑے ہوں گے۔ گویا کسی جدوجہد کا شروع ہو جانا بھی ان کے
لیے اقدام کو ضروری نہیں ٹھہرا سکتا، بلکہ یہ اقدام ان کے لیے صرف اس وقت
ضروری ہو گا، جب کہ کچھ لوگ آگے چلنے والے انہیں نظر آجائیں اور وہ مضبوطی
اور ثابت قدمی دکھا کر ایک حد تک راستے صاف بھی کر دیں، جب تک ایسا نہیں ہو
جاتا اس کے لیے اس جدوجہد میں شریک ہو جانے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
(یہ تربص کا رویہ ہے)۔
- پانچواں گروہ: ایسے لوگوں کا
بھی ہے جو حضرت امام مہدی کے آنے کے منتظر بیٹھے ہیں۔ اس گروہ کو اگرچہ اس
نصب العین کے برحق ہونے سے اختلاف نہیں۔ مگر اس کے سوچنے کا انداز کچھ اس طرح
کا ہے کہ اس کام کے لیے اللہ تعالی نے امام مہدی کے بھیجنے کا وعدہ فرمایا ہے
اور انہی کی زیر سرکردگی یہ مہم چلائی جائے گی۔ ان کی آمد سے پہلے اس کام کی
عام امت پر کوئی خاص ذمہ داری ہے ہی نہیں ۔ اس لیے ہم خواہ مخواہ یہ درد سر
نہیں خریدنا چاہتے۔
یہ
سارے گروہ اور ان کے خیالات مسلمانوں کے ان حلقوں سے تعلق رکھتے ہیں جو مذہبی اور
دیندار حلقے کہے جاتے ہیں۔ رہ گئے وہ لوگ جو دین کے قلاوے کو اپنی گردن سے عملاً
اتار کر پھینک چکے ہیں اور جو اپنے مسائل زندگی میں قرآن و سنت کو اتھارٹی تسلیم
کرنے کے لیے تیار ہی نہیں، تو ان کے خیالات سے تعرض کرنا فضول ہے کیونکہ وہ اس بات
کے حقدار ہی نہیں کہ اس بحث میں ان کی باتوں کو بھی کوئی جگہ دی جائے بلکہ وہ شاید
خود بھی اسے پسند نہ کریں۔
اب
آیئے ترتیب وار ہر گروہ کے خیالات کو دلائل کی میزان میں تول کر دیکھیں تاکہ ان کا
صحیح وزن معلوم ہو سکے اور یہ بات کھل کر سامنے آجائے کہ آیا ان تاویلوں میں سے
کوئی تاویل بھی ایسی ہے جس سے واقعاً ہماری ذمہ داری اور مسئولیت کچھ ہلکی ہو جاتی
ہے۔
۱۔
دین کے جزوی اتباع پر اطمینان
(پہلے
فلسفہ گریز کا رد)
پورے
مجموعہ شریعت کی پیروی کا جواب:
اس
امر کا دعویٰ تو کوئی بھی نہیں کر سکتا کہ قرآن و سنت میں صرف نماز، روزے اور حج و
زکوٰۃ ہی کے فرائض کا ذکر ہے اور مومن سے صرف انہی احکام کی بجا آوری کا مطالبہ
کیا گیا ہے۔ اسی طرح یہ کہنے کی بھی کوئی جسارت نہیں کر سکتا کہ عبادات اور اخلاق
کے ماسوا جو احکام ہیں وہ (نعوذ باللہ) محض بھرتی کے مضامین کی حیثیت رکھتے ہیں۔
بخلاف اس کے یہ ایک مسلم حقیقت ہے کہ کتاب و سنت میں جو احکام ہیں وہ بندگی کا ایک
جامع نظام اور زندگی کا ایک جامع ضابطہ ہیں اور ان کا ایک ایک جزو اتباع اور عمل
ہی کے لیے ہے۔
آپ
ان میں علمی طور پر جو فرق مراتب چاہیں کر لیں اور ان کے اجر و ثواب میں بھی باہم
جو نسبت چاہیں متعین کر لیں۔ لیکن عملی طور پر کسی تفریق کے نہ آپ حقدار ہیں اور
نہ اس کی کوئی ضرورت ہے۔ ایک غلام کا فرض اپنے آقا کے ہر چھوٹے بڑے حکم کی تعمیل
ہے۔ اس کو یہ حق کبھی نہیں پہنچتا کہ ضروری اور غیر ضروری کی بحثیں پیدا کر کے بعض
حکموں کو تو مانے اور بعض سے بے رخی برت جائے۔ آقا کا حکم بہرحال حکم ہے، جسے ہر
صورت میں پورا ہونا چاہیے۔
مسلمان
نے بھی اللہ تعالیٰ کی کامل بندگی اور ہمہ وقتی غلامی کا عہد کیا ہے۔ اب اگر (بطور
مثال) اس آقا کی طرف سے اس کے پاس دو حکم آتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ نماز پڑھو۔ دوسرا
یہ کہ چور کے ہاتھ کاٹ دو۔ تو اس کا فرض ہے کہ وہ یکساں توجہ کے ساتھ ان دونوں
حکموں پر عمل کرے۔ اس لیے اگر وہ ان میں سے پہلے حکم پر عمل کرتا ہے اور دوسرے کو
سن کر خاموش ہو رہتا ہے۔ تو کون ہے جو اس کے اس طرز عمل کو اللہ تعالی کی کامل
اطاعت اور اس کی کتاب الاحکام قرآن کی پوری پابندی قرار دے سکے؟ پھر یہ کیا ستم ہے
کہ قرآن کے ایک دو نہیں بیسیوں احکام معطل ہو کر رہ گئے ہیں اور پھر بھی ہمیں خوش
فہمی ہے کہ ہم اتباع دین کے مطالبے سے پوری طرح عہدہ برآ ہو رہے ہیں؟
سیاسی
اقتدار سے محرومی کا عذر:
رہا
یہ عذر کہ ہم تو ان (اجتماعی) احکام کے سرے سے مکلف اور مخاطب ہی نہیں، ان کے نفاذ
کی ذمہ داری تو مسلمانوں کے اولوالامر پر ہے۔ آج چونکہ اسلامی حکومت موجود نہیں اس
لیے ان احکام کے نافذ کرنے کا سوال ہی باقی نہیں رہ گیا ہے اور اس وقت یہ ذمہ داری
ہی ساقط ہے۔ تو یہ کھلا ہوا عذر گناہ ہے اور ایسا عذر گناہ جو خود اس گناہ سے بھی
بدتر ہے۔
قرآن
میں کہیں بھی یہ نہیں کہا گیا ہے کہ اے مسلمانوں کے اولوالامر! تم چور کے ہاتھ کاٹ
دو، یا یہ کہ اے اسلامی حکومت کے ذمہ دارو! تم زانی کو کوڑے مارو۔ بلکہ اس طرح کے
قوانین کا اور ان کے نفاذ کا جب وہ حکم دیتا ہے تو مخاطب پوری امت کو بناتا ہے۔
مثلاً آیت سرقہ ہی کو لے لیجیے جس کے الفاظ یہ ہیں:
"وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا" (مائدہ
: ۳۸)
"چور مرد و چور عورت کے ہاتھ کاٹ دو۔"
ان
لفظوں کے اندر اگرچہ یہ صراحت نہیں کہ خطاب اس حکم کا کن سے ہے؟ مگر دو وجوہ یہاں
ایسے ہیں جن کے باعث بنیادی طور پر اس حکم کا مخاطب اہل ایمان کا پورا گروہ ہی
قرار دیا جا سکتا ہے۔
- اصول عموم: جب تک کسی حکم
کے بارے میں یہ صراحت نہ ہو یا کوئی زبردست قرینہ نہ موجود ہو کہ یہ حکم فلاں
خاص شخص یا خاص گروہ کے لیے ہے، اس وقت تک اس کو سارے اہل ایمان کے لیے عام
سمجھا جائے گا۔
- سیاق و سباق: اس آیت سے تین
آیتیں پہلے جو کچھ فرمایا گیا ہے اسے "يَا أَيُّهَا
الَّذِينَ آمَنُوا..." کہہ کر، یعنی
تمام اہل ایمان کو خطاب کر کے فرمایا گیا ہے۔ درمیان کی دو آیتوں میں کفار کے
انجام بد کا ذکر ہے اور اس کے بعد ہی یہ آیت سرقہ ارشاد ہوئی ہے۔ اس کے صاف
معنی یہ ہیں کہ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا کے خطاب سے جو کچھ
یہاں بیان فرمایا گیا ہے، ہاتھ کاٹنے کا یہ حکم بھی اسی کے اندر شامل ہے اور
اس کا مخاطب نہ کوئی خاص فرد ہے نہ مسلمانوں کا کوئی خاص گروہ، بلکہ سارے
مسلمان ہیں۔
چنانچہ
علامہ ابن جریر طبریؒ اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"يقول جل ثناؤه: من سرق من رجل او امراة فاقطعوا ايها الناس
يده... فلا تفرطوا ايها المؤمنون في اقامة حكمي على السراق و غيرهم من اهل الجرائم
الذين او جبت عليهم حدودا في الدنيا"
"اللہ عز و جل فرماتا ہے کہ اے لوگو! جو مرد یا عورت چوری کرے اس
کے ہاتھ کاٹ دو... اے مسلمانو! چوروں اور ان تمام مجرموں پر، جن کے لیے میں نے
دنیا میں سزائیں مقرر کر دی ہیں، میرے احکام جاری کرنے میں ذرا بھی کوتاہی نہ
کرنا۔" (تفسیر ابن جریر جلد ے، صفحہ : ۱۳۳)
غور
سے دیکھیے، ایک جگہ "فاقطعوا" کے مخاطب حقیقی کی تصریح علامہ نے
"ایھا الناس" کے لفظ سے کی ہے اور دوسری جگہ "ایھا المؤمنون"
کے لفظ سے، "یا اولی الامر" کہیں نہیں فرمایا۔ یہی نہیں بلکہ ساتھ ہی یہ
بات بھی واضح کر دی کہ مخاطبت کا یہ عموم صرف اسی آیت سرقہ تک محدود نہیں ہے۔ بلکہ
تمام کے تمام تعزیراتی احکام کا حال یہی ہے اور ان سب میں بنیادی خطاب سارے اہل
ایمان کی طرف ہوتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہیے کہ ان احکام کے نفاذ کی اصل ذمہ
داری پوری امت پر ہے۔ اس لیے یہ عذر کہ چونکہ ان احکام کے مخاطب اولی الامر ہیں اس
لیے امت کے عام افراد کی ان کے سلسلے میں کوئی مسئولیت ہے ہی نہیں، ایک واہمی عذر
ہے اور کسی طرح بھی قابل تسلیم نہیں ہے۔
البتہ
اس سلسلے میں ایک بات ضرور صحیح ہے، صرف صحیح ہی نہیں بلکہ قطعاً ضروری بھی ہے،
اور وہ یہ کہ ان قوانین کا اجراء اولوالامر ہی کے ذریعہ ہو گا کیونکہ نظم مملکت کا
تقاضا یہی چاہتا ہے ورنہ معاشرے میں افراتفری پھیل جائے گی اور کوئی اجتماعی نظام
باقی ہی نہیں رہ سکے گا۔ حالانکہ اسلام سے بڑھ کر نظم و انضباط کا اور کوئی خواہاں
نہیں۔
اب
جب کہ دو باتیں اپنی اپنی جگہ ثابت شدہ اور مسلم ہو چکیں:
- اجتماعی احکام کی اصل مخاطب اور ذمہ دار پوری امت ہے۔
- ان کا بالفعل نفاذ اولوالامر کرتے ہیں۔
تو
ان دونوں مسلم باتوں کا متفقہ مطلب یہ ہے کہ اولوالامر ان احکام کا اجراء و نفاذ
پوری امت کی طرف سے اور اس کی نیابت میں کرتے ہیں۔ نہ کہ اصل مخاطب اور ذمہ دار کی
حیثیت سے۔ اس حقیقت واقعی کے پیش نظر ایسی حالت میں، جب کہ یہ نیابت کرنے والے کسی
وجہ سے موجود نہ ہوں یا موجود ہیں مگر وہ اپنا یہ فرض ادا نہ کر رہے ہوں، اس ذمہ
داری کا رخ لازماً آپ سے آپ اصل مخاطب، یعنی پوری امت کی طرف ہو جائے گا اور اس کے
لیے یہ ضروری ہو جائے گا کہ:
- اگر اولوالامر موجود نہ ہوں تو وہ ان کا تقرر کرے۔
- اور اگر موجود ہوتے ہوئے وہ ان احکام کو نافذ نہ کر رہے
ہوں تو وہ انہیں اس کے لیے مجبور کرے، یا انہیں ہٹا کر دوسرے لوگوں کو ان کی
جگہ پر لائے۔
زیادہ
واضح لفظوں میں یوں سمجھیے کہ ان احکام کی نوعیت فرض کفایہ کی سی ہے۔ اگر اولوالامر
کے گروہ نے ان کی تعمیل کر دی تو پوری امت کے سر سے یہ فرض اتر جاتا ہے، بصورت
دیگر یہ ایک اجتماعی گناہ ہو گا جس کا وبال پوری امت پر رہے گا۔
یہاں
پہنچ کر ایک اور سوال کیا جائے گا اور وہ یہ کہ ہمارے پاس وہ سیاسی اقتدار کہاں ہے
جو ان احکام کے نفاذ کے لیے ضروری ہے اور جس کی موجودگی ہی میں امت اپنے اندر سے
اولوالامر کا تقرر کر سکتی اور پھر ان کے ذریعہ اپنے اس فریضے سے عہدہ برآ ہو سکتی
ہے؟ یقیناً یہ ایک سنجیدہ سوال ہے اور اس بات سے اختلاف کی گنجائش نہیں کہ ایسے
احکام کے نفاذ کی اصل ذمہ دار اور مخاطب اگر پوری جماعت ہے مگر عملاً ان کا نفاذ
ایک قوت قاہرہ یعنی اقتدار حکومت ہی کی موجودگی میں ہو گا۔ اس اقتدار کے بغیر ان
احکام کا جاری کرنا ممکن ہی نہیں۔
اس
لیے اس کام کے لیے، یا یوں کہیے کہ قرآن کے ایک بڑے حصے پر عمل کے لیے سیاسی
اقتدار کا وجود ضروری ہے۔ لیکن اس سوال کے سلسلے میں سوچنے کی بات کیا ہے؟ آیا یہ
کہ سیاسی اقتدار کے نہ ہونے کی صورت میں ہماری اور آپ کی ذمہ داریوں میں کمی آجاتی
ہے؟ یا یہ کہ وہ اور زیادہ سخت اور گراں ہو جاتی ہیں؟ آیا ہم کو خدا کا شکر ادا کر
کے اس بات پر اطمینان کا سانس لینا چاہیے کہ چلو قرآن کے ایک حصے پر تو عمل کرنے
سے آزادی ہو گئی؟ یا اس اقتدار کے حاصل کرنے کی سعی کرنی چاہیے جس کے نہ ہونے کی
وجہ سے ہم اپنے پروردگار کے کتنے ہی احکام پر عمل پیرا ہونے کی سعادت سے محروم
ہیں؟ نہ صرف یہ کہ سعادت سے محروم ہیں بلکہ اس کی بندگی کا حق ادا کرنے کی کوئی صورت
ہی باقی نہیں رہ گئی ہے اور کتاب الہی کو چھوڑ بیٹھنے اور بھول جانے کی قدیم سنت
ضلال دہرانی پڑ رہی ہے۔
تھوڑی
دیر کے لیے اپنے دماغ کو منطقیانہ قیل و قال سے پاک کر کے، کان اپنے قلب و ضمیر کی
آواز پر لگا لیجیے اور سنیے کہ وہ ان سوالوں کا کیا جواب دے رہے ہیں؟ یقین جانیے
جس قلب میں بھی ایمان کی حرارت موجود ہو گی وہ کبھی سکون اور اطمینان کے ساتھ اس
صورت حال کو برداشت کرنے کی اجازت نہ دے گا۔ اس لیے ان احکام کو نافذ کرنے والی
قوت کے موجود ہونے کی شکل میں اگر امت پر صرف ایک فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ ان کو
نافذ کرائے تو اس کے موجود نہ ہونے کی صورت میں اس پر دو فرض عائد ہو جاتے ہیں:
- پہلے وہ اس قوت (سیاسی اقتدار) کو حاصل کرے۔
- دوسرا یہ کہ قوت حاصل ہو چکنے پر ان احکام کو نافذ کرائے۔
کیونکہ
یہ ایک مانا ہوا اصول ہے کہ جس چیز پر کسی فرض کی ادائیگی موقوف ہوتی ہے اس کا
حاصل کرنا خود فرض ہو جاتا ہے (ما لا يتم الواجب إلا به فهو واجب)۔ آپ اس شخص کو ملامت کرنے میں شاید ایک لمحہ بھی توقف نہ کریں گے
جو نماز اس عذر سے نہیں پڑھتا کہ اسے قرآن یاد نہیں یا جائے نماز ناپاک ہے، اور اس
پر یہی الزام لگائیں گے کہ یہ اپنے فرض سے جی چرا رہا ہے، اس کے دل میں نماز کی نہ
کوئی اہمیت ہے نہ محبت، ورنہ ایسا عذر لنگ نہ کرتا۔ اور دنیا کے سارے کاروبار چھوڑ
کر سب سے پہلے قرآن یاد کرنے کی کوشش میں یا جائے نماز پاک کرنے کی تدبیر میں لگ
جاتا۔
پھر
یہ کتنی عجیب بات ہے کہ مسلمان آج قرآنی احکام کے ایک بڑے حصے کو معطل کر کے صرف
اس لیے مطمئن بنا بیٹھا ہے کہ ان پر عمل کرنے کے لیے جس اقتدار کی ضرورت ہے وہ
میسر نہیں اور اس جھوٹے اطمینان پر اس کی مومنانہ حس کو ذرا ٹھیس نہیں لگتی۔ اور
نہ اس کے تقویٰ پر اس کی نگاہ احتساب کوئی حرف رکھتی، نہ اسے اپنا یہ عذر، عذر لنگ
معلوم ہوتا ہے۔ وہ ذرا نہیں سوچتا کہ اگر یہ اقتدار اسے میسر نہیں تو اس کا اولین
فرض ہے کہ اپنی ساری قوتیں اور تدبیریں صرف کر کے اسے حاصل کرے۔
بلاشبہ
یہ ایک بڑا دشوار کام ہے اور یہ اس وقت تک پورا نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس کے لیے
ساری طاقت نچوڑ نہ دی جائے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ مومن کی طاقت خواہ وہ ذہنی اور
دماغی ہو، خواہ جسمانی، مالی ہو خواہ جانی، ہے کس کام کے لیے؟ آخر اس کے دل و دماغ
کی قوتیں اور اس کی جان و مال اس کی اپنی ملکیت تو ہیں نہیں کہ انہیں سینت کر رکھے
رہے، بلکہ جس روز اس نے ایمان کا اقرار کیا تھا اسی روز یہ چیزیں وہ اللہ تعالیٰ
کے ہاتھ، اس کی رضا کے عوض بیچ چکا ہے:
"إِنَّ اللَّهَ اشْتَرَىٰ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنفُسَهُمْ
وَأَمْوَالَهُم بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ" (توبہ : ۱۱۱)
"اللہ نے مومنوں سے ان کی جانیں اور ان کے مال جنت کے عوض خرید
لیے ہیں۔"
اس
خرید و فروخت کے ہو جانے کے بعد ان چیزوں کی حیثیت اب اس کے سوا اور کچھ نہیں رہ
جاتی کہ وہ اس کے پاس اللہ تعالی کی طرف سے امانت کے طور پر رکھی ہوئی ہیں۔
"امانت" کے بارے میں یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ جب بھی اس کا مالک اسے طلب
کرے بے چون و چراں اس کے حوالے کر دینا امانت دار کا فرض ہے۔ اس لیے جب تک کوئی
مومن اپنے مومن ہونے سے انکار نہیں کرتا اس کا یہ فرض ہے کہ اللہ تعالٰی اس کے پاس
رکھی ہوئی اپنی امانت جب اور جس طرح طلب کرے وہ اسی وقت اور اسی طرح اسے لاکر حاضر
کر دے۔
یہ
بات کہ یہ اپنی امانت اس نے اپنے مومن بندے کے پاس کس لیے رکھ چھوڑی ہے؟ اس کی
کتاب ہی بتا سکتی ہے۔ یہ کتاب کہتی ہے کہ:
"جَاهِدُوا بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ" (توبہ:
۴۱)
"اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کرو۔"
بات
بالکل واضح ہو گئی۔ یعنی یہ کہ وہ مقصد، جس میں مومن کی جان و مال خرچ ہونے کے لیے
ہے وہ "اللہ کی راہ"، دوسرے لفظوں میں اس کا دین ہے۔ اس لیے وہ اپنے فرض
بندگی سے سبکدوش اگر ہو سکتا ہے تو صرف اسی شکل میں کہ ان چیزوں کو "اللہ کی
راہ" میں شمار کرنے سے دریغ نہ کرے۔ ورنہ جو چیز خدا کی خریدی ہوئی اور ہمارے
پاس بطور امانت رکھی ہوئی ہے اسے عند المطالبہ اس کی راہ میں خرچ کرنے سے گریز
کرنا کوئی معمولی جرم نہ ہو گا، بلکہ بدترین قسم کی خیانت اور کمینہ پن ہو گا۔ کیا
نہیں کہا جا سکتا کہ وہ شخص اپنے اوپر کتنا بڑا ظلم کر رہا ہے جس کے پاس خدا نے
اپنی چند امانتیں اس لیے رکھ چھوڑی ہیں کہ جب اس کی اطاعت امر کی راہ میں کوئی
مانع پیش آئے تو وہ ان کے ذریعے اس مانع کو دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کرے۔ لیکن اس
کا حال یہ ہو کہ موانع پیش آنے کی صورت میں بجائے اس کے کہ وہ اپنی امانتوں سے کام
لے کر انہیں دور کرے، کرتا یہ ہے کہ موانع کا عذر کر کے اس حکم ہی سے اپنے آپ کو
بری الذمہ قرار دے لیتا ہے اور پھر اطمینان کے ساتھ ان امانتوں کو غاصبانہ طور پر
اپنی خواہشوں کی چاکری میں لگائے رکھتا ہے۔
اضطرار
کا عذر:
یہ
عذر لنگ تو ان احکام کے سلسلے میں تھا جن پر غیر اسلامی اقتدار بالا کی موجودگی
میں عمل فی الواقع نہیں ہو سکتا۔ اب رہ گئے بعض وہ احکام دین جن پر عمل کرنے سے یہ
اقتدار کفر بھی مانع نہیں ہے۔ لیکن پھر بھی انہیں چھوڑ رکھا گیا ہے، تو ان کے
سلسلے میں یہ عذر پیش کیا جاتا ہے کہ ایسا اضطراراً ہو رہا ہے، اور اضطرار کی حالت
میں حرام بھی جائز ہو جاتا ہے۔
غور
کیجیے تو صاف نظر آئے گا کہ یہ عذر بھی ویسا ہی بے وزن عذر ہے اور یہ کہ اس طرح کی
بات یا تو اپنی عام اجتماعی ذہنیت کے غلط مطالعے کی بناء پر کہی جاسکتی ہے یا پھر
رخصت اضطرار کی ضروری حدود و شرائط سے انتہائی ناواقفیت کی بنا پر۔ چنانچہ آئیے،
جس قانون اضطرار کی آڑ لی جاتی ہے، اس کے الفاظ دیکھیے:
"فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَلَا إِثْمَ
عَلَيْهِ ۚ
إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ" (بقرہ: ۱۷۳)
"البتہ جو شخص مجبور ہو جائے (اور بحالت مجبوری حرام کھا کر اپنی
جان بچالے) اس حال میں کہ (اس حرام شے کے کھانے کی نہ تو وہ کوئی رغبت رکھتا ہو
اور نہ ناگزیر مقدار سے) تجاوز کرتا ہو تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔ یقینا اللہ
تعالیٰ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔"
اس
میں شک نہیں کہ یہ الفاظ ایک حرام شے کے استعمال کی رخصت دیتے ہیں مگر آپ دیکھتے
ہیں کہ یہ رخصت بلا قید و شرط نہیں ہے۔ بلکہ وہ اس کے لیے تین شرطیں بھی عائد کرتے
ہیں اور اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے ان میں سے ایک ایک شرط کا پورا ہونا ضروری قرار
دیتے ہیں:
- حقیقی مجبوری: حالت واقعی
مجبوری کی ہو اور کسب حلال کی تمام تدبیریں اس حد تک بے کار ہو چکی ہوں کہ بس
لقمہ حرام کے سوا اب جان بچانے کا کوئی ممکن ذریعہ باقی ہی نہ رہ گیا ہو۔
- عدم رغبت (غیر باغ): حرام کا یہ
استعمال "غیر باغ" ہو یعنی دل میں اس کی کوئی رغبت نہ ہو، بلکہ اس
کا استعمال کیا جائے تو پورے احساس ناگواری اور شدید جذبہ کراہت کے ساتھ کیا
جائے۔
- عدم تجاوز (ولا عاد): حرام کا یہ
استعمال بھی بس اسی حد تک کیا جائے جس حد تک کہ جان بچانے کے لیے ناگزیر ہو۔
اگر
ان تینوں شرطوں کے ساتھ کوئی شخص ایک ناجائز شے کا استعمال کرے تو یقیناً اللہ
تعالی کے یہاں اس کی کوئی پکڑ نہ ہو گی۔ لیکن اگر ان میں سے کوئی ایک شرط بھی پوری
ہونے سے رہ گئی تو پھر اس رخصت سے فائدہ نہیں اٹھایا جا سکتا اور اگر اس شکل میں
بھی اس سے فائدہ اٹھاتا ہے تو یہ اس کی کھلی ہوئی دھاندلی ہو گی اور اسے اللہ
تعالیٰ کے حضور اس کا خمیازہ لازماً بھگتنا پڑے گا۔
اسلامی
قانون اضطرار کی وضاحت آپ کے سامنے آچکی۔ اب اس کی روشنی میں اپنے اجتماعی طرز عمل
کا ٹھیک ٹھیک جائزہ لیجیے اور پھر اپنی ملت کے ان خدا پرستوں کی تعداد بتائیے جو
اقتدار باطل کے زیر سایہ زندگی بسر کرنے، "مسرفین" کی اطاعت کرنے، لادین
اسمبلیوں میں جاکر قانون ساز بننے، غیر اسلامی عدالتوں میں اپنے معاملات لے جانے
اور طاغوتی قوانین کے مطابق فیصلہ کرنے میں وہی مجبوری، وہی ناگواری اور وہی کراہت
محسوس کرتے ہوں جو ایک مومن کی سور کی بوٹی حلق سے نیچے اتارنے میں محسوس ہو سکتی
ہے۔
کیا
کروڑوں انسانوں کا یہ بھاری انبوہ غیر اللہ کی حاکمیت اور مشرکین کی اطاعت کو
حقیقتاً اسی اضطرار کے ساتھ برداشت کر رہا ہے جس کا قرآن میں ذکر ہے؟ کیا مسلمانوں
کے یہ گروہ، جو صبح سے شام تک طاغوتی عدالتوں کا طواف کیا کرتے ہیں۔ یہ سب اپنے اس
فعل کو اصلاً حرام ہی سمجھتے اور اس کو محض انتہائی مجبوری کے وقت ہی اختیار کرتے
ہیں؟ اور ان میں اپنی اغراض نفس کی پیروی، حدود اللہ سے بے اعتنائی اور احکام
شریعت سے سرتابی کا کوئی داعیہ کارفرما نہیں ہوتا؟ کیا وہاں وہ فی الواقع صرف اس
لیے جاتے ہیں کہ انہیں اپنی جان و مال کی حفاظت کا کوئی امکانی راستہ باوجود جستجو
کے نہیں ملتا؟
کیا
یہ جج اور مجسٹریٹ صاحبان جو اپنی زندگیاں غیر اسلامی آئین و قانون کے مطابق داد
انصاف دینے میں گزار دیتے ہیں درحقیقت "مخمصہ" (فقر و فاقہ) ہی کے شکار
ہوتے ہیں اور اپنی اسی مجبوری کی بنا پر اپنے مشغلے کو گوارا کرتے ہیں؟ کیا جس وقت
وہ اللہ جل مجدہ کے قوانین پس پشت ڈال کر خدا ناشناس انسانوں کے بنائے ہوئے قانون
کے مطابق معاملات کا فیصلہ کرتے ہیں، تو ان کا دل اپنے اس فعل کی برائی کا کوئی
احساس رکھتا ہوتا ہے اور اپنی اس حالت پر کڑھ رہا ہوتا ہے؟ کیا وہ یہ کام بالکل غَيْرَ
بَاغٍ وَلَا عَادٍ ہو کر انجام دیتے ہیں؟
اگر
ان سوالوں کا جواب نفی میں نہیں ہے تو یقیناً یہ سب لوگ "فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ" کی
رخصت اور رعایت کے مستحق ہیں۔ کاش ایسا ہی ہوتا۔ مگر خود احتسابی کی جرات سے کام
لے کر حقیقت حال کا جائزہ لیجیے تو مشاہدہ آپ کو یہ ماننے پر مجبور کر دے گا کہ ان
عدالتوں میں جاتے وقت یا ان کی کرسیوں تک وہ مسلمان پہنچتا ہی کب ہے جو فقر و فاقہ
کے ہاتھوں مجبور ہو اور جس کے لیے اس کے سوا اور کوئی چارہ کار رہ ہی نہ گیا ہو کہ
بقائے حیات کی خاطر بس یہی رزق خبیث قبول کرلے۔ ان جگہوں تک تو پہنچ ہی وہ لوگ
پاتے ہیں جو پہلے ہی سے آسودہ حال ہوتے ہیں۔ یا کم از کم یہ کہ اس انتہائی قسم کے
افلاس میں مبتلا نہیں ہوتے جس کو مخمصہ کہا جا سکے۔
اس
لیے تسلیم کرنا پڑے گا کہ یہ سب کچھ نہایت ٹھنڈے دل سے اور خوش رغبتی کے ساتھ کیا
جا رہا ہے۔ اولاد کی تعلیم دے کر تیار ہی اس لیے کیا جاتا ہے کہ ان کرسیوں تک پہنچ
جائیں اور جو پہنچ جاتا ہے وہ ترقی درجات کی کوششوں میں مصروف رہتا ہے۔ حالانکہ
اگر واقعتاً اضطراری حالت ہی کی وجہ سے کوئی یہ ذریعہ معاش اختیار کیے ہوتا تو اس
کے اطمینان کا فطری تقاضا یہ تھا کہ اس پر ہر گز مطمئن نہ ہوتا۔ اور اسے چھوڑ کر
کوئی جائز ذریعہ معاش پالینے کے لیے بے چین رہتا۔ مگر ایسے لوگ چراغ لے کر
ڈھونڈھنے سے بھی شاید نہ مل سکیں۔ پھر سمجھ میں نہیں آتا کہ اس کھلی ہوئی طاغوت
نوازی کو اضطرار کا نام کس طرح دیا جا سکتا ہے؟
اس
طرح اگر فی الحقیقت ہم غیر اللہ کی حاکمیت کے دل سے منکر ہوتے اور ہماری غیرت
ایمانی اس سے متنفر ہوتی تو ہم یوں گھروں کے عیش اور مدرسوں کی قیل و قال اور
حجروں کے اوراق گردانی میں سکون کے ساتھ مشغول نہ رہتے۔ اگر ہم سے کچھ نہ بن پڑتا
تو کم از کم یہ تو کرتے ہی کہ اس "منکر اعظم" کے ساتھ کسی قسم کا تعاون
نہ کرتے اور نہ اس کے سلسلے میں کسی اعتقادی اور قولی مداہنت کے روادار ہوتے۔ اس
کے بخلاف ہوتا یہ کہ وہ اپنی زبان کی پوری قوت سے اس کی کھلی مخالفت کرتے اور اگر
یہ بھی نہ ہو سکتا تو اس سے دلی نفرت تو بہرحال رکھتے ہیں۔ کیونکہ رسول خدا صلی
اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق یہ ایمان کی آخری حد ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم
برائیوں اور برے لوگوں کے سلسلے میں اہل ایمان کا رویہ بتاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
"من جاهدهم بیده فهو مؤمن و من جاهدهم بلسانه فهو مؤمن و من
جاهدهم بقلبه فهو مؤمن، ليس وراء ذالك من الايمان حبة خردل" (مسلم
جلد اول)
"جس نے ان سے اپنے ہاتھ کے ذریعے جہاد کیا وہ مومن ہے، جس نے
اپنی زبان کے ذریعے جہاد کیا وہ (بھی) مومن ہے، جس نے اپنے دل کے ذریعہ جہاد کیا
وہ (بھی) مومن ہے۔ اس کے بعد رائی برابر بھی ایمان (متصور) نہیں۔"
مگر
یہاں حال یہ ہے کہ اتنی بڑی برائی سے کسی نفرت اور کراہت کی ضرورت کا سوال تو الگ
رہا۔ اسے برا سمجھنا بھی چھوڑ دیا گیا ہے۔ حتی کہ اس کے قیام کے لیے حلف وفاداری
اٹھا لینے میں بھی کوئی مضائقہ باقی نہیں رہ گیا ہے اور اس کی بقا کے لیے علانیہ
جسم و دماغ کی ساری قوتیں شمار کی جارہی ہیں۔ کیا ایک قابل نفرت شے سے یہی برتاؤ
کیا جانا چاہیے؟
ایسی
کھلی ہوئی برائیوں کے بارے میں بھی اگر ایمان کے اس کم سے کم تقاضے کا اظہار نہ ہو
سکا جس کی حدیث مذکور میں وضاحت کی گئی ہے تو پھر ایسے ایمان کو زندہ ایمان کیسے
کہا جا سکتا ہے؟ آخر اضطرار کی بھی تو کوئی حد ہونی چاہیے۔ اگر اس کے دامن کو اتنی
وسعت دے دی جائے، جتنی کہ ہمارے عام رویے سے ظاہر ہو رہی ہے تو یقین رکھنا چاہیے
کہ دنیا کی کوئی برائی اور قرآن کی کوئی قانون شکنی بھی اس کے دائرے سے باہر نہیں
رہ سکتی۔ ایسی حالت میں تو ایک "مسلمان" اپنے نفس کی پیروی اسی آزادی سے
کرتا رہے گا، جس آزادی سے خدا کے منکر کیا کرتے ہیں اور اخلاق و خدا پرستی کے وہ
سارے اصول و ضوابط بے کار رہ جائیں گے جن کی تعلیم کے لیے قرآن کو اتارا اور صاحب
قرآن کو بھیجا گیا تھا۔ لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ اضطرار کا یہ وہ من مانا مفہوم ہے
جس سے اللہ تعالی اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم بالکل بری ہیں۔
ہم
اس پستی تک جس طرح پہنچے ہیں اسے بھی سمجھ لینا چاہیے۔ ہوتا یہ ہے کہ جب ایک برائی
کسی سوسائٹی میں پہلے نمودار ہوتی ہے تو سوسائٹی کا اجتماعی ضمیر اس پر نفرت اور
ملامت کا اظہار ضرور کرتا ہے۔ لیکن اگر اس نفرت اور ملامت کا جذبہ قوی اور عام
ہوتا ہے تب وہ برائی دب جاتی ہے، ورنہ وہ جڑیں پکڑنے لگتی اور آہستہ آہستہ برگ و
بار لانے لگتی ہے۔ اب اگر اس سوسائٹی کے خیر پسند لوگ بھی اپنے امکان بھر اس کی
جڑیں اکھیڑنے کی کوشش میں برابر لگے نہ رہیں اور اس کے خلاف رسمی اظہار خیال کر
دینے ہی کو کافی سمجھ لیں تو رفتہ رفتہ ان کے اندر سے بھی اس کی نفرت کا احساس
مدھم ہوتا چلا جاتا ہے اور زیادہ دن نہیں گزرنے پاتے کہ وہ برائی، برائی نہیں رہ
جاتی اور خاص و عام کم و بیش سبھی اس کے رنگ میں رنگے نظر آنے لگتے ہیں۔ وہ اس وقت
معاشرے کی ایک ضرورت بن جاتی ہے، اس پر استحسان یا کم از کم اباحت کا ٹھپہ لگا دیا
جاتا ہے اور اس کے لیے اپنی اصولی اخلاقیات تک میں رد و بدل گوارا کر لیا جاتا ہے۔
یہ
ایک مسلمہ نفسیاتی حقیقت ہے اور سوسائٹی میں برائیوں کا پھیلاؤ ہمیشہ اسی نہج پر
ہوتا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کو جہاں اس بات کی ہدایت کی گئی تھی کہ:
"والله لتامرون بالمعروف ولتنهون عن المنكر..." (الحدیث)
"بخدا تم معروف کا حکم ضرور ہی کرتے رہنا اور منکر سے ضرور روکتے
رہنا..."
وہیں اس بات سے باخبر کر دیا گیا تھا کہ:
"...اوليضربن الله بقلوب بعضكم على بعض" (ابو داؤد بحوالہ ریاض الصالحین)
"...ورنہ اللہ تعالی تم سب کے دلوں کو ایک جیسا (منکر پسند) بنا دے
گا۔"
لیکن
بد قسمتی سے مسلمانوں نے اس ہدایت اور اس تنبیہ کو اپنے دماغوں میں محفوظ نہیں
رکھا اور یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ برائیوں میں غرق ہو جانے کے مذکورہ بالا نفسیاتی
اصول نے انہیں پوری طرح اپنی زد میں لے لیا۔ جس وقت فکری گمراہی اور عملی خرابیوں
نے ان کے اندر گھسنے کی کوشش کی انہوں نے ان کی مسلسل مزاحمت نہیں کی۔ اور آہستہ
آہستہ ان سے مانوس ہوتے گئے۔ پھر جب اسی حالت پر صدیاں گزر گئیں تو اب وہ صورت
پیدا ہو چکی ہے جس کا ہم مشاہدہ کر رہے ہیں۔ یعنی عام مسلمانوں کے دل، ان کے دماغ،
ان کے نقطہ ہائے نظر اور ان کے انداز فکر بھی بدل کر کچھ سے کچھ ہو چکے ہیں۔ جس
چیز سے نفرت ہونی چاہیے تھی اس سے رغبت کی جارہی ہے، جس چیز سے بھاگنا چاہیے تھا
اس کی طلب میں دوڑ لگائی جارہی ہے۔ جس چیز کو پیروں تلے روند ڈالنا چاہیے تھا، وہ
دانتوں سے پکڑی جارہی ہے۔
ان
کے پیغمبر نے انہیں ایمان کی آخری حد یہ بتلائی تھی کہ برائی کوئی بھی ہو اس سے دل
میں نفرت رکھی جائے، ایسی نفرت جو اس برائی کو مٹا ڈالنے کے لیے برابر ابھارتی
رہے۔ اس سے نیچے ایمان کا کوئی درجہ ہی نہیں۔ دوسرے لفظوں میں یوں سمجھئے کہ نبی
صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی برائی کا پسند کرنا ہی ایمان کے منافی نہیں قرار دیا
تھا۔ بلکہ اسے دیکھ کر اپنے اندر جذبہ نفرت نہ پانے کو بھی ایمانی موت کی یقینی
علامت ٹھہرایا تھا۔
مگر
اب آپ کے پیروؤں کو اس امر پر اصرار سا ہے کہ ہم کسی کراہت اور احساس نفرت کے بغیر
انسانی حاکمیتوں کو سلامیاں دیں گے۔ ان کی اطاعتوں کا جوا اپنی گردنوں پر رکھیں
گے۔ ان لوگوں سے اپنے معاملات کا فیصلہ کرائیں گے جنہوں نے اپنی "عدالت
گاہوں" میں خدا کا "داخلہ" بند کر رکھا ہے، بلکہ خود بھی انہی کے
بتائے ہوئے قوانین کے مطابق فیصلے کریں گے، اور اگر موقع ملا تو خود بھی اپنی
حاکمیت کا پرچم لہرا دیں گے۔ اپنی آزاد مرضی سے قانون سازیاں کریں گے، جس چیز کو
چاہیں گے جائز اور جس کو چاہیں گے ناجائز ٹھیرائیں گے اور پھر نہ ہمارا دین جائے
گا نہ ہمارا ایمان خراب ہو گا۔ نہ ہماری توحید متاثر ہو گی۔ نہ ہماری عبودیت پر
حرف آئے گا، نہ ہمارا اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا دعویٰ غلط ٹھہرے گا، نہ ہم
پر کتاب الہی کے چھوڑ بیٹھنے کا الزام عائد ہو گا اور نہ ہم اپنے اللہ سے عہد شکنی
کے مجرم ہوں گے۔ کیوں؟ اس لیے کہ ہم حالت اضطرار میں ہیں۔
اسے
فریب نظر کہیے یا فریب نفس، بہرحال اس میں ذرا شک نہیں کہ یہ ایک انتہائی مہلک اور
خطرناک فریب ہے۔ اس کی خطرناکیوں اور ہلاکتوں کا پورا پورا اندازہ آپ کو اس وقت ہو
سکتا ہے جب آپ اس کے دور رس نتائج کا قدرے تفصیلی جائزہ لے لیں جو ہماری انفرادی
اور اجتماعی زندگیوں پر مرتب ہوتے ہیں۔
- غیر اللہ کی حاکمیت میں وفادار رعایا بننا: اس کا مطلب صرف یہ نہیں کہ ہم نے اسلام کی ایک بنیادی
تعلیم کی خلاف ورزی کی۔ بلکہ اس کے معنی یہ بھی ہیں کہ اب ہماری پوری زندگی،
شعوری یا غیر شعوری طور پر، ایسے سانچے میں ڈھلتی چلی جائے گی جو اسلام کے
مطلوبہ سانچے سے بالکل مختلف ہو گا۔ اب ہمارے معاشرے کی تاسیس، ہمارے تمدن کی
اٹھان، ہمارے نظام تعلیم کی تربیت اور ہمارے معاشی اور اقتصادی مسائل کی
تنظیم ایسی بنیادوں پر ہو گی جو ہماری خواہشوں کے علی الرغم، ہم کو اپنے
اجتماعی مسلک اور اپنے تصورات زندگی سے دور پھینکتی چلی جائیں گی۔
- غیر الہی قوانین کے مطابق فیصلہ کرنا/کرانا: اس کا مطلب صرف یہ نہیں ہے کہ ایک گناہ سرزد ہو رہا ہے،
بلکہ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ ان بہت سے احکام اسلامی کو لپیٹ کر رکھ دیا
گیا۔ اور ان کی وقعت دلوں سے محو ہو جانے دی گئی جو ہماری زندگی کے ایک دو
نہیں بلکہ بے شمار معاملات سے تعلق رکھتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں اس کا مطلب یہ
ہے کہ ہم نے اپنے دین اور قرآن کو سمیٹ کر مسجدوں اور حجروں میں بند کر دیا
اور اس کے صرف اتنے حصے پر اکتفا کر لیا جس کا تعلق بس چند مذہبی رسوم اور
عبادات سے ہے۔
یہ
محض عالم قیاس کی باتیں نہیں ہیں بلکہ واقعات اور حقائق ہیں جنہیں ہر وہ شخص اپنی
آنکھوں سے دیکھ سکتا ہے جس نے اپنے دینی احساس کو کند نہ بنا لیا ہو۔ ملت کے علم
برداروں نے قرآن کے ایک حصے کو اقتدار کے حاصل نہ ہونے کا عذر کر کے اور اولوالامر
کو اس کا بنیادی مخاطب قرار دے کر، اور پھر اضطرار کی آڑ لے کر زمانہ سازی کی جو
روش اختیار کی تھی اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ قرآن کے کتنے ہی احکام اور اصول سے
ان کا علمی رشتہ کٹ کر رہ گیا ہے اور دین کے ان بنیادی اصولوں اور اس کے ان اہم
تقاضوں سے اس جبری علیحدگی پر ایمانی خودی مضطرب تو ضرور ہوئی، مگر جوں جوں وقت
گزرتا گیا یہ اضطراب سکون و اطمینان سے بدلتا گیا اور اب نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے
کہ دین صرف انہی چند عبادات اور مذہبی رسوم تک محدود ہو کر رہ گیا ہے جن کو لوگ
عموماً ادا کر لیا کرتے ہیں اور ان کے علاوہ جو کچھ ہے دین سے اس کا تعلق، غیر
محسوس طور پر، بس برائے نام ہی خیال کر لیا گیا ہے۔
اگر
فکر و نظر کے زاویے ایسے نہ بن گئے ہوتے تو یہ کیسے ممکن تھا کہ ان اجزائے دین پر
اگر عمل نہیں ہو رہا تھا تو اسی کے ساتھ ان کی نظری اہمیت بھی گھٹ جاتی؟ اور اس حد
تک گھٹ جاتی کہ دل ان کے لیے اضطراب، کسی تمنا، اور کسی حسرت سے بھی محروم ہو
جاتے؟ ہم تو دیکھتے ہیں کہ مسجد کی ایک اینٹ بھی اگر کھود کر پھینک دی جائے تو اس
گئی گزری حالت میں بھی مسلمانوں کی گردنیں خون کے دریا بہانے کے لیے تیار ہو جاتی
ہیں۔ مگر اللہ کے بے شمار احکام کی مظلومیت پر بہانے کے لیے ان کے پاس چند قطرے
آنسو بھی نہیں ہوتے۔ اس فرق کی وجہ اس کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے کہ وہ تو دین کا
کام سمجھا جاتا ہے اور یہ کچھ دنیا کا۔
لیکن
چونکہ یہ احکام بھی اسی قرآن میں موجود ہیں، جس میں ان چند مخصوص عبادات اور رسوم
کا ذکر ہے اور ہر حکم کی اتباع کا قول دیا گیا ہے جو قرآن و سنت میں ہو، اس لیے
زبان سے یہ کہنے کی جرات تو نہیں ہوتی کہ یہ احکام دین سے غیر متعلق ہیں مگر جب ان
پر عمل کرنے اور ان کے سلسلے میں دیئے ہوئے قول کو پورا کرنے کا سوال پیدا ہوتا ہے
تو غیر شعوری طور پر دین کا وہی محدود تصور اور سہل پسندی کا مخفی جذبہ کبھی ان
احکام کا اصل مخاطب بننے ہی سے انکار کر دیتا ہے اور کبھی رخصت اضطرار کی ڈھال
ہاتھ میں تھما دیتا ہے۔
غرض
حقیقت حال اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ غیرت ایمانی کی کمی، احساس فرض کی پژمردگی
اور سہل پسندی کے غلبے نے کافرانہ اقتدار اور باطل اصول و نظریات کے سامنے سپر
ڈالنے پر آمادہ کیا۔ پھر اس آمادگی نے قرآن کے ایک بڑے حصے کو عمل و اتباع کی حدود
سے خارج کر دینے پر مجبور کر دیا۔ بعد ازاں اس مجبوری نے خدا پرستی کا بھرم رکھنے
اور اپنی نگاہوں سے آپ اپنی خطا کار صورت چھپائے رکھنے کے لیے دین کے تصور ہی کو
محدود اور بے روح بنا کر رکھ دیا۔ ایسا محدود کہ جن احکام پر عمل نہیں ہو رہا ہے
نظری طور پر بھی وہ ہماری آزاد روی پر کبھی انگلی تک نہ اٹھا سکیں۔ پھر اس محدود
اور بے روح تصور دین نے ملت کی اس عظیم معصیت اور بے عملی کے اس احساس کو بھی سلا
دیا۔ سب سے آخر میں سیاسی اقتدار سے محرومی اور اضطرار کے حیلے آئے، اور انہوں نے
آکر ان تمام رخنوں کو ڈھک لیا جو ہزار کوششوں کے باوجود ان نظریات کے اندر دکھائی
پڑ ہی جاتے تھے۔
اور
اب یہ تمام چیزیں ایک دوسرے سے غذا حاصل کر رہی ہیں اور سب نے مل کر مغالطوں اور
خوش فہمیوں کا ایسا جال تیار کر دیا ہے جس کے اندر غور و فکر کی قوتیں صید زبوں بن
کر رہ گئی ہیں۔ نتیجہ اس پوری صورت حال کا یہ ہے کہ مسلمان پر حقیقت بینی کی راہ
بند سی ہو گئی ہے اور اس میں تلاش منزل کی امنگیں بھی دم توڑتی جارہی ہیں۔
ظاہر
ہے کہ یہ سب سے بڑی بد قسمتی ہے جس میں کوئی مسلمان مبتلا ہو سکتا ہے۔ اگر ایک شخص
میں اپنی غلطی کا احساس زندہ ہو تب تو یہ امید ضرور کی جاسکتی ہے کہ وہ ایک نہ ایک
دن اس کی اصلاح کرے گا لیکن اگر یہ احساس ہی مردہ ہو گیا۔ اور اس کی نظر میں غلطی
غلطی ہی نہ رہ گئی تو پھر اس کے اصلاح پذیر ہونے کی کوئی توقع باقی نہیں رہ جاتی۔
اس لیے اگر اس ملت نے اپنی کامل تباہی اور دین و دنیا دونوں کی رسوائی کا تہیہ نہ
کر لیا ہو تو اسے چاہیے کہ اپنی بے گناہی کے زعم باطل سے جلد از جلد باز آجائے اور
اتباع دین کے معاملے میں جو کوتاہیاں اس سے سرزد ہوتی چلی آرہی ہیں ان کو سیدھی
طرح تسلیم کر کے اس کی تلافی کی کوشش کرے۔
نگاہ
مسلم کی بے بصیرتی:
اللہ
تعالیٰ کی ہدایت بخشی کا معاملہ بھی عجیب شان رکھتا ہے۔ ایک ہی چیز ہوتی ہے جس سے
کسی کے سامنے ہدایت کے دروازے کھل جاتے ہیں اور وہ حقیقت کو پالیتا ہے۔ مگر وہی
چیز دوسروں کے لیے ضلالت کا پیام بن جاتی ہے۔ اور وہ اس کے باعث راہ راست سے اور
دور ہو جاتے ہیں۔ اس معاملے کی بنیاد اللہ تعالیٰ کے اس قانون عدل پر ہے کہ جو حق
کی سچی طلب رکھتا ہے اس کے سامنے اس کی راہ کھولی جاتی ہے اور جو حق سے بے اعتنائی
برتتا ہے اس کے سامنے اس کی تجلی کبھی نہیں چمکتی۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح کہ سورج کی
کرنیں بینائی والوں کے لیے پوری دنیا کو روشن کر دیتی ہیں۔ مگر الوؤں اور چمگادڑوں
کی نگاہیں اپنے جبلی نقص کی بنا پر ان کے فیضان سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا پاتیں۔
چنانچہ قرآن نے اپنی صفت جہاں یہ بتائی ہے کہ میں لوگوں کے لیے مشعل ہدایت ہوں،
وہیں یہ بھی کہا ہے کہ بہتوں کے لیے گمراہی کا ذریعہ بھی ہوں۔ (يُضِلُّ بِهِ
كَثِيرًا وَيَهْدِي بِهِ كَثِيرًا - بقرہ: ۲۶)۔
اس کے اس قول میں اسی قانون ہدایت کی طرف اشارہ ہے۔
کہنے
کا مطلب یہ ہے کہ وہ راہ راست اسی شخص کو دکھاتا ہے جو دیکھنا چاہے اور اسی وقت
دکھاتا ہے جب دیکھنے کی اسے حقیقی آرزو ہو۔ لیکن جو اپنی آنکھیں بند ہی رکھتا ہے۔
اسے زبردستی دھکیل کر اس راہ پر ڈال نہیں دیا جاتا۔ بلکہ اس کے برعکس ہوتا ہے، کہ
اس بے اعتنائی کے رد عمل میں وہ اس سے کچھ اور دور جا پڑتا ہے۔
یہ
نہ سمجھنا چاہیے کہ یہ قانون صرف کفار ہی کے لیے ہے، اور مومن چونکہ اس پر ایمان
لا چکے ہیں اس لیے اب وہ قانون کے دائرہ نفاذ سے باہر ہیں۔ نہیں، بلکہ یہ کافر اور
مومن سب کے لیے عام ہے۔ ایک مومن بھی قرآن پر ایمان رکھنے کے باوجود زندگی کے
مختلف معاملات میں اس سے کسب ہدایت اسی وقت کر سکتا ہے جب وہ پورے اخلاص کے ساتھ
اس کی خواہش اور کوشش بھی کرے۔ ورنہ جس وقت بھی اور زندگی کے جن معاملات میں بھی،
اس نے اس سے رہنمائی کی خواہش نہ کی، اور غیر مشروط طور پر اس کی پیروی کرنے کی
اور اس غرض سے اس کا زاویہ نگاہ معلوم کرنے کی کوشش نہ کی، تو یقیناً وہ اسے
گمراہیوں کی تاریکیوں میں بھٹکتا چھوڑ دے گا اور اس بات کا لحاظ نہ کرے گا کہ وہ
میرا منکر نہیں، بلکہ میرا ماننے والا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مومن کو اس امر کی تلقین
کی گئی ہے کہ ایمان لانے اور ہدایت پالینے کے بعد بھی اپنے قلب و نظر کو کجروی سے
مامون نہ سمجھے، اور ہر وقت اللہ تعالی سے دعا کرتا رہے کہ خدایا! میرے سامنے سے
ہدایت کی روشنی گل نہ ہونے پائے:
"رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا" (آل
عمران : ۸)
قرآن
کے ان احکام کے بارے میں جو اس وقت زیر بحث ہیں دراصل یہی قانون ہدایت کام کر رہا
ہے۔ چونکہ ان کے سلسلے میں امر حق معلوم کرنے کی سچی خواہش باقی نہیں رہی اس لیے
نتیجہ اس کے بغیر اور کیا نکل سکتا تھا کہ جہاں سے سمت منزل کی رہنمائی ہو رہی تھی
ٹھیک اسی جگہ سے بھٹکنے کا سامان فراہم کر لیا گیا۔
قرآن
و سنت میں جو اس انداز خطاب کے ساتھ احکام آتے ہیں کہ "اے مومنو! ایک خدا کی
فرمانروائی کے آگے خود جھکو اور سارے عالم کو اس راہ راست کی طرف بلاتے رہو"،
"اے ایمان رکھنے والو! کفر کے علمبرداروں سے لڑ کر فتنہ و فساد کا سر کچل
دو"، "اے اہل ایمان! زانی کو درے لگاؤ"، وغیرہ ذالک... تو اس انداز
خطاب کی اصل بنیاد ایک ایسی عظیم الشان حقیقت پر تھی کہ اس کا صحیح تصور ہی اس
کارگہ حیات میں مومن کا مقام متعین کر دینے کے لیے کافی تھا۔ اگر ہم امر حق کی سچی
طلب لے کر قرآن پر نگاہ ڈالتے تو پاتے کہ یہ طرزِ خطاب اس امر کی کھلی ہوئی دلیل
ہے کہ اللہ تعالی کی نگاہ میں اس امت کی حیثیت ایک صاحب اقتدار پارٹی سے کم کی ہے
ہی نہیں، وہ اس کا مقام رہبانیت کے حجروں میں یا محکومی کے جوتے تلے نہیں، بلکہ امامت
و جہانبانی کے تخت پر بتا رہا ہے اور اس مقام سے نیچے وہ اس کی حیثیت کو فرض ہی
نہیں کرتا، نہ اس سے نیچی سطح پر وہ کبھی اسے دیکھنا چاہتا ہے۔
سوچئے
تو سہی، ملی زندگی کا کتنا بلند تصور تھا جو اس اسلوب بیان کے پیچھے موجود ہے۔ اور
قلب مسلم کو کیسے پاکیزہ اور عالی عزائم سے معمور کر دینے والا پیام تھا جو یہ
اشارہ قرآنی دے رہا ہے؟ مگر تصور و نظر کا برا ہو، اس چشمہ حیوان کو بھی ہم نے
اپنے لیے بحر ہلاکت بنا لیا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ اللہ رب العزت کے اس طرز خطاب کی
حکمت کو سمجھ کر اپنا کھویا ہوا مقام اور بھولا ہوا فریضہ یاد کر لیا جاتا، اپنی
کوتاہیوں پر نادم ہو کر ان کی تلافی کی کوشش کی جاتی اور پھر اس مقام کی بازیافت
کی سرفروشانہ جدوجہد میں لگ جایا جاتا۔ جہاں ہمارا آقا ہم کو دیکھنا چاہتا ہے اور
جہاں پہنچے بغیر ہم اس کے بہت سے احکام کی تعمیل اور اس کی پوری رضامندی کی تحصیل
کر ہی نہیں سکتے۔ مگر افسوس کہ یہ کچھ بھی نہ ہوا۔ بلکہ یہ کہہ کر کہ ان احکام کے
مخاطب تو حکام اور اولو الامر ہیں، ہم نے اپنی ذمہ داری کا بوجھ ہی اتار کر پھینک
دیا۔
بالکل
اسی انداز سے آیت اضطرار پر بھی نظر ڈالی گئی۔ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ کی
شرطوں میں غیرت حق کے تحفظ کا جو راز چھپا ہوا تھا، اور ناموافق سے ناموافق مواقع
میں بھی اپنے ایمانی ذوق کی بلندی برقرار رکھنے کا ان میں جو مطالبہ موجود تھا اس
کی طرف نظریں گئی ہی نہیں یا گئی ہوئی نظریں پھیر لی گئیں اور فَلَا إِثْمَ
عَلَيْهِ پر انہیں لا کر اس طرح جما دیا گیا کہ پھر دین کی پیروی میں نہ کسی
قربانی کا سوال باقی رہ گیا نہ وہ نفس پر کچھ ایسی گراں رہ گئی۔ بلاشبہ اس آیت میں
بحالت مجبوری حرام سے استفادے کی رخصت عطا کی گئی ہے لیکن یہ آیت کا صرف ایک پہلو
ہے اور اس کا ایک پہلو اور بھی ہے، ضروری ہے کہ وہ بھی نگاہ میں رہے۔ آیت کے اس دوسرے پہلو کی
ترجمانی "غیر باغ ولا عاد" کے الفاظ کرتے ہیں۔ ان لفظوں میں حرام سے
استفادہ پر جو شرطیں لگائی گئی ہیں ان کا مطلب صرف یہی نہیں ہے
کہ مسلمان اگر کسی حرام سے استفادہ کرنے پر مجبور ہو جائے تو چاہیے کہ اسے استعمال
کرتے وقت اپنے اندر اس کی کوئی رغبت محسوس نہ کرے، نہ بالکل ناگزیر مقدار سے زیادہ
اسے استعمال کرے، بلکہ ان کا مطلب یہ بھی ہے کہ اس حالت سے نکلنے اور اس استعمالِ
حرام سے نجات پا جانے کی اسے گہری فکر اور بے تابانہ کوشش کرنی چاہیے، بالکل اسی
طرح کہ کسی شخص کا پاؤں اگر نکیلے اور تپتے ہوئے سنگریزوں پر پڑ جاتا ہے تو وہ
تلملا کر اسے جلد از جلد اٹھا لینا چاہتا ہے۔ جب تک اس حالت سے نجات نہ مل سکے، بس
یوں سمجھتا رہے کہ مردار کا سڑا گوشت ہے جس کو دانتوں سے نوچ رہا ہوں، یا خنزیر کی
بوٹیاں ہیں جن کو نگل رہا ہوں، یا سڑاند بھری غلاظت ہے جس سے جسم اور کپڑے لت پت
ہو گئے ہیں۔
ایمانی
ذوق کی اہمیت اور موجودہ حالتِ زار
یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ آیت کا یہ پہلو
بھی اگر ہماری نظروں میں ہوتا اور اس کے بتائے ہوئے اس ایمانی ذوق کے اگر ہم قدر
شناس ہوتے تو اس وقت ہماری دنیا یہ دنیا نہ ہوتی۔ اور وہ شکست خوردہ ذہنیت، وہ پست
نگاہ اور وہ ایمان سوز طرزِ فکر ہماری قوتوں کو اس طرح مفلوج نہ کر دیتا۔ اور
کروڑوں انسانوں کی اتنی بھاری جمعیت اضطرار کے نام پر صدیوں تک باطل کے ساتھ اس
طرح کی قابلِ شرم سازگاری نہ دکھاتی کہ اتباعِ قرآن کا دعویٰ رکھنے کے باوجود اس
کا ضمیر کبھی اسے جھٹکتا نہیں، نہ اس کی ایمانی غیرت کبھی اس کا دامن پکڑتی ہے۔
اس کے بخلاف ہوتا یہ کہ باطل افکار، غلط
نظریات اور غیر اسلامی نظام ہائے حیات کے خلاف ہم مجسم احتجاج ہوتے۔ ہمارا ایمانی
مزاج ہماری زندگی کو تلخ بنا دیتا اور ہماری اسلامی حس ہمیں مجبور کر دیتی کہ اس
گندگی کو جس طرح بھی ہو سکے اپنے دامن سے دھو کر دم لیں۔ لیکن افسوس ہے کہ ہم کو
اضطرار کی رخصت تو یاد رہ گئی مگر "غیر باغ ولا عاد" کی شرطیں اور ان
شرطوں کے تقاضے سب فراموش ہو گئے۔
جزوی
اتباعِ دین پر اطمینان کا خطرہ
امید ہے ان بحثوں کے بعد یہ اب کوئی مشکوک
حقیقت نہ رہ گئی ہو گی کہ دین کے جزوی اتباع پر مطمئن رہنا اور اسے اپنے ایمانی
فرائض سے عہدہ برآ ہو سکنے کے لیے کافی سمجھ بیٹھنا کسی طرح صحیح نہیں۔ یہ ایک
ایسی غلط فہمی، بلکہ نافہمی ہے جسے افسوس ناک بھی کہنا چاہیے اور خطر ناک بھی۔
ایسا سمجھنا دراصل ایمان کے بے جان ہونے کی دلیل ہے یا پھر دین کی بصیرت سے محروم
ہو جانے کا ثبوت۔ یہ فریبِ نفس کا ایسا خطر ناک طلسم ہے جو اگر پوری قوت سے نہ
توڑا گیا تو قلبِ ملت کی وہ کمزور دھڑکنیں بھی ختم ہو جائیں گی جو ابھی تک کبھی
کبھی محسوس ہو جایا کرتی ہیں۔
دوسرا
گروہ: ناسازگار حالات کا عذر
اب اس گروہ کے خیالات کو لیجیے جو اس نصب
العین اور واحد فریضۂ حیات کی بجا آوری سے اس لیے کترا رہا ہے، اور دوسروں کو بھی
کترا کر چلنے کا مشورہ دے رہا ہے کہ موجودہ حالات اس کام کے لیے کسی طرح سازگار
نہیں اور ان کے اندر اس کی کامیابی کا کوئی امکان نہیں۔ پھر حالات کے اس مطالعہ کا
تقاضا وہ یہ بتاتا ہے کہ فی الحال اس کام کا نام بھی نہ لیا جائے اور اس کے بجائے
اپنی ساری قوتیں کسی ایسے مورچہ پر سمیٹ دی جائیں جہاں سے ہم حالات کی رفتار پر اس
طرح اثر انداز ہو سکیں کہ مستقبل کی فضا اس کام کے لیے اتنی تاریک نہ رہ جائے۔
یہاں تک کہ ایک وقت چل کر ہم اپنی اس حقیقی منزلِ مقصود کی طرف علانیہ مارچ کر
سکیں۔
چند
تنقیحی سوالات
اس نظریے پر غور کیجیے تو قدرتاً ذہن میں
یہ چند سوالات پیدا ہوتے ہیں:
۱۔ کیا اس فریضے کی ادائیگی کے لیے براہ
راست جد و جہد کرنے میں حالات کی ناسازگاری اور اس جد وجہد کے امکان و عدم امکان
کی بحث پیدا بھی ہو سکتی ہے؟
۲۔
کیا آج کے حالات میں دین کی اقامت واقعی نا ممکن ہے؟
۳۔
ناسازگاریِ حالات کی بنا پر اس منزل کی طرف پھیر کے راستوں سے پیش قدمی کرنے کی
کوئی عملی مثال، کوئی انسانی تجربہ، یا کوئی صحیح فکری بنیاد موجود ہے؟
ان سوالوں کا صحیح جواب جب تک معلوم نہ ہو
جائے اس نظریئے کا حق یا نا حق ہونا بھی معلوم نہیں ہو سکتا۔ اس لیے ضروری ہے کہ
اللہ کی کتاب اور اس کے پیغمبروں کے طریقِ کار اور اسوۂ اعمال سے ان کے واضح
جوابات حاصل کیے جائیں۔ اللہ کی کتاب سے، اس لیے کہ اسی نے اپنے پیروؤں پر یہ بارِ
عظیم ڈالا ہے، اور ساتھ ہی اس کا یہ دعویٰ ہے، جس کی صداقت کا کوئی مسلمان انکار
نہیں کر سکتا کہ وہ "تبیان لکل شیء" ہے اس لیے یہ ممکن نہیں کہ دوسرے
تمام امور میں تو اس نے ہماری رہنمائی کی ہو اور اسی مسئلے کو تاریکی میں چھوڑ دیا
ہو جو سارے مسائل سے زیادہ اہم تھا اور جو تمام فرائضِ دینی کا صدر نشین ہے۔ اللہ
کے رسولوں کا طریقِ کار اور اسوۂ اعمال سے، اس لیے کہ ان پاکانِ خاص اور ان کے سچے
پیروؤں کے سوا دنیا کسی ایسے انسان یا انسانی گروہ سے واقف ہی نہیں جس نے اس نصب
العین کو اپنایا ہو۔
امکان
کی بحث سے ادائے فرض کی بے نیازی
پہلے سوال کا جواب اللہ کی کتاب یہ دیتی ہے
کہ مومن کے لیے اپنے اصل فریضے اور مقصدِ وجود کی خاطر جد و جہد ہر حال میں ضروری
ہے اور اسے چاہیے کہ انجام کی پروا کیے بغیر اس میں ہر وقت لگا رہے۔ اسی طرح
انبیائے کرام کا اسوہ بھی ٹھیک اسی بات کی گواہی دیتا ہے۔ چنانچہ قرآن کا ارشاد ہے
کہ جو نبی بھی دنیا میں آیا اسے لوگوں کے سامنے آتے ہی یہ مطالبہ رکھ دینے کا حکم
تھا کہ:
"ان
اعبدوا الله واجتنبوا الطاغوت" (النحل: ۳۶)
"لوگو!
اللہ کی بندگی کرو اور طاغوت کی پیروی سے بچو۔"
"انه
لا اله الا انا فاعبدون" (الانبیاء: ۲۵)
"بلا
شبہ میرے سوا کوئی معبود نہیں لہذا میری بندگی کرو۔"
یہ چند حرفی مطالبہ در اصل اسی انقلابی مشن
کا ایک اجمالی تعارف ہے جس کو اقامتِ دین کہتے ہیں۔ بہت ممکن ہے کہ اس وقت
"عبادت" اور "طاغوت" کے جن محدود مفہوموں سے عام ذہن آشنا ہیں
ان کی بنا پر اس بات میں کچھ غلو محسوس ہو، لیکن قرآن مجید نے "شرع لكم من
الدين ما وصى به نوحاً... ان اقيموا الدين" فرما کر اس خیال کی کوئی گنجائش
باقی نہیں رہنے دی ہے۔ کیونکہ اس کے ان لفظوں سے یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہو
رہی ہے کہ نوح ہوں یا ابراہیم، موسیٰ ہوں یا عیسیٰ، محمد (صلی اللہ علیہم اجمعین)
ہوں یا کوئی اور پیغمبر، بلا استثناء ہر نبی کو اللہ کے نازل کیے ہوئے دین کی دعوت
و اقامت ہی کا فریضہ سونپا گیا تھا۔ اس لیے "فاعبدوا اللہ" کا پورا اور
صحیح مفہوم اس مفہوم کے سوا اور کوئی ہو ہی نہیں سکتا، جو "اقيموا
الدين" کا ہے۔
انبیاء
کرام کا طریقِ کار
اب رہا یہ سوال کہ ان حضرات نے اپنے اس
فریضے کو کس طرح ادا کیا؟ تو اس کے جواب میں کیا یہ بات بھی کہی جاسکتی ہے کہ جس
مشن اور مقصد کو لے کر یہ اصحابِ عزیمت تشریف لاتے رہے ہیں اس کے اظہار و اعلان
میں، یا اس کی جدوجہد میں انہوں نے ایک لمحہ کی بھی دیر لگائی ہو گی؟ یا یہ کہ
حالات کی سازگاریوں کا جائزہ لیا گیا ہو؟ یا یہ کہ امکان و عدم امکان کی بحثوں میں
الجھے ہوں گے؟ اور جب اس جائزے اور بحث سے کامیابی کے روشن امکانات سامنے آگئے ہوں
گے تب جا کر انہوں نے اپنی کشتیوں میں بادباں لگائے ہوں گے؟
ہو سکتا ہے کہ عقلِ مصلحت اندیش کا فتویٰ
اس بارے میں کچھ اور ہو، مگر قرآن کا کہنا تو یہی ہے کہ ان میں سے کوئی بات بھی
نہیں ہوئی۔ اس کے بخلاف ہر نبی نے اپنے اس فرضِ منصبی کی ادائیگی اس شان سے کی کہ
نہ تو کبھی اس مہم کے کامیاب ہو جانے کی اس نے خدا سے گارنٹی طلب کی، نہ ایک لمحہ
اس کا انجام سوچنے میں ضائع کیا، نہ اس کے امکان و عدم امکان کا اس کے ذہن نے سوال
اٹھایا، نہ حالات کی کوئی ناسازگاری ایک دن کے لیے اس سے اس آواز کو سینے میں دبا
رکھنے کا مطالبہ کر سکی۔ بلکہ وہ اپنی بعثت کی ابتداء سے زندگی کے آخری لمحے تک
اپنے اس فرض کو مسلسل بجالاتا رہا۔
ان میں اگر کچھ ایسے تھے کہ ان کی دعوت الی
الحق کامیاب ہو گئی اور وہ دنیا چھوڑنے سے پہلے سچے خدا پرستوں کا ایک گروہ پیدا
کر کے دینِ اللہ کو غالب اور نافذ فرما گئے تو بے شمار ایسے بھی تھے جن کی آواز
آخر تک بے حس دلوں کی چٹانوں سے ٹکرا ٹکرا کر واپس ہوتی رہی۔ نوح علیہ السلام نے
تقریباً ایک ہزار سال کے لیل و نہار، اس ادائے فرض میں صرف کر ڈالے۔ مگر اس طویل
اور صبر آزما جد و جہد کا انجام زیادہ تر صرف ان گالیوں اور پتھروں کی شکل میں
نمودار ہوتا رہا جن سے ان کی "قوم" رات دن انہیں نوازتی رہتی تھی اور جب
وہ اپنا فرض بجالا کر دنیا سے رخصت ہونے لگے تو ان کی دعوت قبول کرنے والوں کی
تعداد گنتی کے چند افراد سے زیادہ نہ تھی۔
ابراہیم علیہ السلام بڑھاپے کی عمر تک
بندگیِ رب کا پیغام سناتے پھرے اور اللہ کے دین کو قائم کرنے کی لگاتار کوششیں
کرتے رہے۔ اس کوشش اور پیغام رسانی میں انہیں جیسی جیسی ابتلاؤں اور مصیبتوں سے
گزرنا پڑا وہ شاید ہی اپنی نظیر رکھتی ہوں گی۔ لیکن اس ساری تگ و دو اور پیہم
قربانیوں کا ظاہر میں جو ثمرہ نکلا وہ یہ تھا کہ ان کے اپنے اہل و عیال اور بعض قریبی
اعزہ کے سوا مشکل ہی سے کوئی ان کی آواز پر لبیک کہنے والا تھا۔
حضرت لوط، شعیب، ہود، صالح، اور عیسیٰ،
جیسے حضرات بھی موجود ہیں، جن کی تبلیغ و ہدایت کا انجام یہ ہوا کہ حق کا فدائی تو
انہیں ایک نہ ملا، لیکن ان میں سے کسی کی گردن اڑا دی گئی اور کسی کے سر پر آرے
چلا دیئے گئے۔ "ویقتلون النبيين بغير حق" (آل عمران: ۲۱)
خاتم
النبیین ﷺ کا طرزِ عمل
اور قریب آکر دیکھیے، خاتم النبیین صلی
اللہ علیہ وسلم کا طرزِ عمل اس واقعیت کا سب سے واضح اور مفصل ثبوت ہے۔ ہر شخص
جانتا ہے کہ آپ ﷺ کی پیغمبرانہ ذمے داریاں ہر نبی سے زیادہ تھیں۔ کیونکہ آپ ﷺ کو
جو دین قائم کرنے کے لیے دیا گیا تھا، وہ جامع ترین دین تھا۔ دوسری طرف اس دین کا
مخاطب کسی ایک مخصوص قوم اور ملک کے بجائے پورا عالمِ انسانی تھا، اور اس عالمِ
انسانی کا یہ حال تھا کہ اس کے ایک ایک گوشے میں طاغوت کا علم گڑا ہوا اور کفر و
شرک کا اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ لیکن ان تمام باتوں کے باوجود آپ ﷺ جب منصبِ نبوت
پر سرفراز ہوتے ہیں تو حکم ہوتا ہے کہ:
"فاصدع
بما تؤمر واعرض عن المشركين" (الحجر: ۹۴)
"جس
تعلیم کا تمہیں حکم دیا گیا ہے اسے واشگاف پہنچا دو۔ اور مشرکین سے اعراض کرو۔"
آپ اس حکم کی تعمیل میں جیسا کہ چاہیے تھا،
کوئی دقیقہ نہیں اٹھا رکھتے اور بغیر کسی لاگ لپیٹ کے اپنی دعوت لوگوں کے سامنے
رکھ دیتے ہیں اور اسے فطری رفتار سے وسعت دیتے جاتے ہیں۔ چند سال بھی نہیں گزرنے
پاتے کہ یہ پکار گھروں، گلیوں، مجلسوں اور قرابتی حلقوں سے آگے بڑھ کر پہاڑ کی
چوٹیوں سے بلند ہونے لگتی ہے۔ سننے والوں نے جس طرح اس پکار کا جواب دیا اس کو مکہ
اور طائف کی گلیاں قیامت تک نہ بھولیں گی۔ لیکن خدا کے فرض شناس بندے کو ان باتوں
کی ذرا بھی پروا نہیں ہوتی۔ اس کو اگر پرواہ ہوتی ہے تو صرف اس بات کی کہ جس کلمۂ
حق کو پہنچانے کا فریضہ مجھ پر عائد کیا گیا ہے اس کو پہنچا دینے میں کوئی کسر نہ
رہ جائے یا پھر اس بات کی کہ بھٹکتی ہوئی انسانیت کی نجات اور بہبود جس صداقت پر
منحصر ہے اس کو یہ سنتی اور مانتی کیوں نہیں؟ اس کی ساری تمنائیں بس اسی ایک تمنا
میں آکر سمٹ گئی ہیں کہ کسی طرح میری بات دلوں میں اتر جائے اور جس دین کو اللہ نے
میرے ذریعے نازل فرمایا ہے اس کے بندے اپنے کو اس کے حوالے کر دیں۔ مگر اللہ تعالی
ہے کہ اس کو بار بار اور محبت کے ساتھ جھڑکتا ہے اور یہ حقیقت ذہن نشین کراتا ہے
کہ تمہارا کام امرِ حق کو صرف پہنچا دینا اور کھول کھول کر بیان کر دینا ہے۔ اس کے
بعد اگر ایک شخص بھی اسے سن کر نہیں دیتا تو اس کی پروا نہ کرو ("فان تولوا
فانما عليك البلاغ المبين")۔ اس لیے تم اپنی دعوت کا کام انجام سے بالکل بے
پرواہ ہو کر بجالاتے رہو، یہ نہ سوچو کہ کیا ہو گا؟ ہو سکتا ہے کہ تم اپنی ہی آنکھوں
سے اس دعوت کو کامیاب اور اس کے دشمنوں کو تباہ و برباد دیکھ لو، اور اس کا بھی
امکان ہے کہ ایسا نہ ہو:
"و
اما نرينك بعض الذي نعدهم او نتوفينك فالينا مرجعهم ثم الله شهيد على ما
يفعلون" (یونس: ۴۶)
"(چاہے
ہم تمہیں دکھا دیں کچھ وہ عذاب جس کا ہم ان سے وعدہ کرتے ہیں یا ہم تمہیں وفات دے
دیں) تو ہماری ہی طرف ان کو پلٹ کر آنا ہے پھر اللہ گواہ ہے اس پر جو وہ کرتے ہیں۔"
انبیاء
کی تاریخ سے سبق
یہ تاریخِ انبیاء کے چند مشہور و معروف
ابواب ہیں جو سوجھ بوجھ رکھنے والوں کی ہدایت اور سبق آموزی کے لیے قرآن حکیم میں
بیان کیے گئے ہیں۔ ان سرگزشتوں میں اتباعِ حق کا جو اصول سب سے زیادہ، اور جو نقشِ
حقیقت میں سب سے زیادہ ابھرا ہوا دکھائی دیتا ہے وہ یہی ہے کہ اللہ کے دین کی
اقامت کے لیے کوئی شگون لینے کی ضرورت نہیں۔ نہ حالات کی ناسازگاریوں کا اندازہ
لگانے کی کوئی گنجائش ہے اور نہ کامیابی کے امکانات ٹٹولنے کا کسی کو حق ہے۔ جو
چیز ہمارا فریضۂ زندگی قرار پا چکی وہ ہر حیثیت سے اس بات کی مستحق ہے کہ جب تک
زندگی ہے اس کے لیے پوری پوری جدوجہد کرتے رہیے۔ وہ فرض دراصل دل سے فرض مانا ہی
نہیں گیا جس کو مشکلات کے اندیشے سرد خانے میں ڈلوا دیں اور جو امکان و عدم امکان
کی بحثوں کا زخم کھا سکے۔
اگر دعوتِ توحید اور اقامتِ دین کا کام
شروع کرنے سے پہلے امکانات کا جائزہ لینا صحیح ہوتا تو یقین جانیے کہ انبیاء کی
ایک بڑی تعداد اپنے مشن کا نام بھی زبان پر نہ لاتی۔ اس کے لیے عملی جدوجہد کا تو
کیا سوال پیدا ہوتا؟ کیونکہ انبیاء علیہم السلام اقامتِ دین کا مشن لے کر دنیا میں
عموماً بھیجے ہی اس وقت جاتے تھے جب اس کام کے لیے حالات کی ناسازگاریاں اپنی
انتہا کو پہنچی ہوئی ہوتی تھیں۔ اور جب کلمۂ حق کا نشو و نما بظاہر ناممکن سے
ناممکن تر ہو چکا ہوتا تھا۔ لیکن حالات کی ان شدید ناسازگاریوں اور امکانِ کامیابی
کی بظاہر ان انتہائی کم یابیوں کے باوجود، جن سے ہم اپنے زمانے کی ناسازگاریوں اور
دقتوں کا کوئی مقابلہ ہی نہیں کر سکتے، انہوں نے بلا توقف کشتی سمندر میں ڈال دی،
اور ذرا نہ سوچا کہ ساحل کہاں اور کدھر ہے؟ موسم پر سکون ہے یا طوفانی؟ ہوا موافق
ہے یا مخالف؟ کشتی کھیلنے والے بازوؤں میں توانائی کتنی ہے؟ سمندر پیدا کنار ہے یا
نا پیدا کنار؟ راستہ صاف ہے یا پانی کے اندر چٹانیں ہیں؟ اس طرح کا کوئی ایک بھی
سوال نہ تھا، جس نے ان کے ذہنوں میں کبھی بار پایا ہو۔
پھر اب وہ کن لوگوں کا اسوہ ہے جو اس
معاملہ میں ہماری رہنمائی کا حق رکھتا ہے؟ اور جس کی سند پر ہم مشکلوں اور
ناسازگاریوں کے پیشِ نظر اپنے مقصدِ وجود سے عارضی طور پر بھی "غائب" ہو
جا سکتے ہیں؟ انبیاء علیہم السلام کا تو جو اسوہ ہے، آپ نے دیکھا وہ اس طرح کی
کوئی رعایت ہمیں دینے کے لیے بالکل تیار نہیں۔ ہاں اگر ہم نے انبیاء علیہم السلام
کی سرگذشتوں کو عملاً، خدا نخواستہ، مشرکینِ عرب کی طرح "اساطیر
الاولین" کی حیثیت دے رکھی ہے، اور انہیں ایسی گزری ہوئی داستانیں سمجھ بیٹھے
ہیں جن کو ہمارے افکار و اعمال کا رخ متعین کرنے میں کوئی دخل ہی حاصل نہیں، تب تو
بات ہی دوسری ہے لیکن اگر صورتِ واقعہ یہ نہیں ہے اور ہماری بد بختیوں نے ابھی تک
ہمیں "نسوا الله فانساهم انفسهم" کی حد تک نہیں گرایا ہے بلکہ ہم ان
سرگذشتوں کو اسی طرح ہدایت کا مینار اور بصیرت کا سر چشمہ یقین کرتے ہیں جس طرح
قرآن بتاتا ہے، تو ان کے ورق ورق سے ہمیں یہی ہدایت ملے گی کہ جو چیز تمہارا فریضۂ
حیات قرار پا چکی اس کی خاطر جد و جہد تم کسی حال میں بھی نہیں چھوڑ سکتے۔
ناسازگاریِ
احوال کا واقعی تقاضا
کہا جائے گا کہ حالات بہر حال اپنا ایک وزن
رکھتے ہیں اور انسان کے فکر و عمل پر لازماً اثر انداز ہوتے ہیں اس لیے عقل یہ کس
طرح تسلیم کر لے کہ دعوتِ حق کے سلسلے میں وہ کسی اعتنا کے قابل ہیں ہی نہیں؟
بلاشبہ یہ ایک صحیح اور معقول بات ہے اور اس کی صحت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
لیکن اوپر کی سطروں میں یہ بات کب اور کہاں کہی گئی ہے کہ حالات کا دعوتِ حق کی جد
و جہد پر اثر بالکل پڑتا ہی نہیں؟ ان میں تو جو بات کہی گئی ہے وہ صرف یہ ہے کہ
حالات کی ناسازگاریاں اس جدوجہد کو ملتوی یا منسوخ نہیں کر سکتیں۔
اب رہا یہ سوال کہ پھر وہ اس جد وجہد پر کس
حیثیت سے اثر انداز ہوتی ہیں؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ وہ جتنی ہی زیادہ سخت و شدید
ہوتی ہیں اس جدوجہد کو اتنا ہی زیادہ ضروری بنا دیتی ہیں۔ یہ جواب نقل اور عقل
دونوں ہی کا ہے۔
۱۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہر نبی عموماً
ایسے ہی وقت میں اس کام پر مامور کیا جاتا ہے جب کہ حق کی روشنی اس زمین سے بالکل
ہی مفقود ہو چکی ہوتی تھی، اور کفر و مادیت کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں اس کی دعوت کا
امکانِ کامیابی دور دور تک بھی کہیں نظر نہ آتا تھا۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ
جد و جہد ایسے ہی ماحول سے زیادہ مانوس ہے اور حق تعالیٰ کی مرضی اسی بات میں ہے
کہ اس طرح کے تاریک حالات میں صداقت کا چراغ ضرور جلایا جائے اور اس کے بندے اس کے
دین کے لیے جو کچھ بھی کر سکتے ہوں اس سے ہر گز دریغ نہ کریں اور یہ غالباً اس لیے
کہ اس کی رحمت کو اس گہری تاریکی کا اور بڑھ جانا گوارا نہیں رہ جاتا۔
۲۔ ٹھیک یہی بات عقل بھی کہتی ہے۔ وہ کہتی
ہے کہ جب اللہ کا دین نوعِ انسانی کے لیے ہدایت اور روشنی ہے تو جس جگہ کا انسان
جتنا زیادہ گمراہی اور تیرگی کا شکار ہو گا اس جگہ اس ہدایت اور روشنی کی ضرورت
بھی اتنی ہی زیادہ ہو گی۔ دعوتِ حق کے لیے سخت و شدید ناسازگاریوں کے معنی یہ ہیں
کہ حق سے بے اعتنائی اور دوری حد سے آگے بڑھ چکی ہے اور لوگ اندھیارے سے محبت کرنے
لگے ہیں۔ اس لیے ان ناساز گاریوں کا واقعی تقاضا صرف یہی ہو گا کہ جو لوگ انسانیت
کو نورِ حق دکھانے پر مامور ہیں، وہ خاموشی کو اپنے اوپر حرام کر لیں اور اونچی سی
آواز میں انہیں اپنا پیغام سنائیں۔ جو ہلاکت کی راہ پر اندھا دھند بھاگے چلے جا
رہے ہیں اگر دوسری طرف کے حالات میں ان کے لیے کچھ سہل انگاری کی گنجائش مان بھی
لی جائے تو کم از کم اس طرح کی غیر معمولی بیزاری کی حالت میں ایسی کوئی گنجائش
قطعاً نہیں مانی جا سکتی۔ حفظانِ صحت کا کوئی محکمہ اگر وبا پھوٹ پڑنے پر بھی
خوابِ خرگوش سے نہ جاگے تو اس کی فرض شناسی کی داد کون دے سکتا ہے؟
عقل اور نقل دونوں کے اس متفقہ جواب کے بعد
یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ جس زمانہ میں لوگ حق سے جتنا ہی زیادہ بے گانہ ہوں، دہریت
اور مادیت کی جتنی ہی زیادہ گرم بازاری ہو، طاغوت کی حکمرانی جتنی ہی زیادہ وسیع،
ہمہ گیر، اور پائیدار ہو، حق کے علمبرداروں پر دینِ اللہ کی اقامت کا فریضہ اتنا
ہی زیادہ اہم اور ضروری ہو جاتا ہے۔ اس لیے اگر موجودہ حالات کے بارے میں یہ
اندازہ صحیح ہے کہ اس وقت دنیا حق سے بری طرح متنفر اور برگشتہ ہو رہی ہے اور شاید
اس کا نام سننا بھی گوارا نہیں تو یہ صورتِ حال اقامتِ دین کی جد و جہد میں کسی
رعایت کی موجب بالکل نہیں ہوتی بلکہ یہ مطالبہ اس بات کا کرتی ہے کہ اس مہم کو
معمولی سے زیادہ جوش، سرگرمی اور انہماک سے انجام دیا جائے۔
اقامتِ
دین: وجودِ مسلم کی لازمی شرط
ایک اور پہلو سے دیکھیے تو معاملہ کی اہمیت
اور بھی آگے بڑھی ہوئی معلوم ہو گی۔ یعنی بات صرف اتنی ہی نہ رہ جائے گی کہ اقامتِ
دین کی جد و جہد امکان و عدم امکان کی بحث سے بالا تر ہے اور اس کو ہر وقت، ہر
ماحول اور ہر حالت میں جاری رکھنا چاہیے۔ بلکہ اس حد کو پہنچ جائے گی کہ اگر حالات
کے اندازے اس جدوجہد کی ناکامی کا یقین دلا رہے ہوں، حتی کہ بالفرض اگر کوئی اپنی
آنکھوں سے نوشتۂ الٰہی میں اس ناکامی کو مقدر دیکھ لے تو بھی اس کے لیے اس میں لگے
رہے بغیر چارہ نہیں۔ کیونکہ یہ دنیا کی عام تحریکوں اور اسکیموں جیسی کوئی تحریک
اور اسکیم نہیں ہے کہ اگر اس کی کامیابی کے ذرائع مفقود اور امکانات ناپید نظر
آئیں تو اس سے دست کش ہو جانے میں بھی کوئی حرج نہ ہو۔ نہ یہ مسلمانوں کے سر پر
کوئی اوپر سے چپکی ہوئی ذمے داری ہے کہ چاہا تو قبول کر لیا ورنہ ٹھکرا دیا۔ اور
اگر قبول بھی کر لیا تو پھر جب چاہا اس کو اپنے پروگرام سے خارج کر دیا۔
اس کے برعکس ایک شخص کے مسلمان ہونے کے
معنی ہی یہ ہیں کہ اس نے اس دین کی اقامت کے لیے اپنے کو وقف کر دیا ہے۔ اللہ پر
ایمان لانے اور حق سے محبت کرنے کا فطری مطالبہ ہی یہ ہے کہ جو چیزیں خدا کو محبوب
ہوں اور جو باتیں حق ہوں انسان ان کو خود بھی اپنائے اور انہی کو اپنے گرد و پیش
بھی زندہ اور کار فرما دیکھنے کا دل سے آرزو مند ہو اور انہیں کار فرما بنا دینے
کے لیے ہمہ دم کوشاں رہے۔ اسی طرح ہر اس چیز کو مٹا دینے کے لیے بے قرار اور
مصروفِ تگ و تاز نظر آئے جو خدا کو ناپسند اور خلافِ حق ہوں۔ چنانچہ اوپر نبی ﷺ کے
ارشادات سے یہ حقیقت بالکل واضح کی جا چکی ہے کہ جس طرح آگ اور پانی کا اتحاد ممکن
نہیں اسی طرح ایمان اور منکرات میں مصالحت ممکن نہیں۔ لہٰذا منکرات کو مٹانے اور
ان کی جگہ معروفات کو قائم کرنے کی جدوجہد، اقامتِ دین کی جدوجہد ہی کا دوسرا نام
ہے، اسلام سے علیحدہ اور اس پر زائد کوئی چیز نہیں ہے۔ بلکہ اس کی اصل روح اور اس
کی حرکتِ قلب ہے۔ اگر یہ تصور نہیں کیا جاسکتا کہ کوئی جاندار زندہ تو ہو مگر اس
کے قلب میں حرکت نہ ہو تو اسی طرح یہ بھی تصور نہیں کیا جا سکتا کہ ایک شخص ہو تو
مومن، مگر اقامتِ حق کی تڑپ سے اس کے دل و دماغ خالی ہوں اور عملی جدوجہد سے اس کے
دست و بازو یکسر نا آشنا۔ اس تڑپ سے خالی اور اس جدوجہد سے نا آشنا ہونا کوئی
معمولی بات نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب دراصل اپنے مقصدِ حیات ہی سے کنارہ کش ہو جانے
کے ہیں جس کے بعد ظاہر ہے کہ مسلمان کا وجود ہی بے معنی ہو جاتا ہے۔ چنانچہ اہل
کتاب کے متعلق جنہوں نے کہ اپنے اس مقصدِ زندگی کو فراموش کر رکھا تھا، قرآن نے
صاف صاف کہہ دیا تھا کہ جب تک تم تورات و انجیل کو قائم نہ کرو تم کسی اصل پر نہیں
ہو اور تمہارا ملی وجود ایک وجودِ موہوم کے سوا کچھ نہیں۔ ("لستم على شي حتى
تقيموا التوراة والانجيل وما انزل اليكم من ربكم")۔ اس لیے یہ کہنا کہ اس
زمانے میں اقامتِ دین نا ممکن ہے گویا یہ کہنا ہے کہ اس زمانے میں مسلمان ہونا
ممکن نہیں ہے اور حالاتِ زمانہ کی ناسازگاری کے پیشِ نظر اقامتِ دین کی جدوجہد کو
ترک کرنے کے معنی یہ ہیں کہ خود اسلام ہی سے دست بردار ہو جانے کو بھی غلط نہ
سمجھا جائے۔
غیرت
کا سبق: اہل باطل سے عبرت
یہ بات کہ جو چیز زندگی کا اصل فریضہ قرار
پا چکی ہو وہ امکان اور عدم امکان کی بحث سے بالا تر ہو جاتی ہے، کچھ اسلام اور
مسلمان ہی کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ ایک عام اور مسلمہ حقیقت ہے۔ چنانچہ انبیاء
اور ان کے سچے پیروؤں نے اس مطالبہ کو پورا کر دکھایا ہے تو کافروں اور دہریوں کے
یہاں بھی اس مطالبے کو ایک واجب التسلیم مطالبے ہی کی حیثیت حاصل ہے اور وہ بھی
نصب العین کے معنی یہی سمجھتے ہیں کہ نصب العین وہ چیز ہے جو آنکھوں سے کبھی اوجھل
نہ ہو۔ جو زندگی کے میدان میں آنے کے لیے ایسے حالات کی اجازت کی محتاج نہ ہو، جو
ماحول کی سازگاریوں کی خواہش مند تو ہو مگر ناسازگاریوں سے خوف بھی نہ کھاتی ہو
اور جس کی خاطر جدوجہد میں اگر زندگی ختم نہ کی جا سکے تو بالکل رائیگاں ہے۔
چنانچہ ان کی تاریخ اس بات کی عملی شہادتوں سے بھری پڑی ہے۔
مارکس
کے پیروؤں کی مثال
مارکس کے پیروؤں ہی کو لے لیجیے۔ اس کے چند
مخصوص نظریات تھے جن پر وہ ایمان لائے اور انہی نظریات کی اقامت کو انہوں نے
انسانی مسائل کا صحیح حل سمجھا۔ اس لیے اسی کام کو انہوں نے اپنی زندگیوں کا نصب
العین بنا لیا اور اس کے لیے پوری یکسوئی اور کامل انہماک سے سعی و جدوجہد شروع کر
دی۔ یہ سعی و جہد سب سے زیادہ زور و قوت سے اس مملکت میں شروع کی گئی جس میں وقت
کی سب سے مستبد حکومت قائم تھی۔ جہاں زار نکولس کی شخصی آمریت اور قہاریت کے خلاف
سانس لینا بھی بظاہر ممکن نہ تھا مگر اشتراکی اصولوں پر معاشرے اور حکومت کی تنظیم
کو اپنا مقصدِ زندگی قرار دینے والوں نے ان دشواریوں، ناسازگاریوں اور مصیبتوں کی
طرف سے آنکھیں بند کر لیں جو اس جدوجہد کے پردے میں چھپی انہیں گھور رہی تھیں۔ جب
زار کے کانوں تک ان کی سرگرمیوں کی اطلاع پہنچی تو وہ ظلم اور انتقام کے تمام
اسلحوں سے مسلح ہو کر پوری خشمناکی کے ساتھ ان پر ٹوٹ پڑا۔ کتنوں ہی کو تو اس نے موت
کے گھاٹ اتار دیا، جو بچ رہے ان کو سائبیریا کے برفانی جہنم میں جھونک دیا۔ ظلم
اور ایذا دہی کی کوئی ممکن صورت ایسی نہ تھی جس سے اشتراکیت کے ان
"مومنوں" کو سابقہ نہ پڑا ہو۔ سالہا سال تک داروگیر کا یہی ہنگامہ بپا
رہا۔ مگر کوئی بڑی سے بڑی مصیبت اور ناسازگاری بھی ان کے عزم کو نہ ہلا سکی اور
اشتراکیت کا عشق آلام و مصائب کے طوفانوں سے انہیں برابر لڑاتا رہا اور منزلِ
مقصود کی طرف ان کے قدم لگاتار بڑھواتا ہی رہا۔
ٹراٹسکی
کی مثال
انہیں اشتراکیوں میں آگے چل کر، جب کہ وہ
زار کا تختِ سلطنت الٹ کر اپنا اشتراکی نظام قائم کرنے میں کامیاب ہو چکے تھے،
باہم اختلاف ہو گیا۔ لینن کی وفات کے بعد سیاست کی باگ ڈور اسٹالین کے ہاتھوں میں
آگئی جس نے آہستہ آہستہ اشتراکی نظام کو بین الاقوامیت کی سطح سے ہٹا کر قومی
اشتراکیت کی سطح پر لانا شروع کیا۔ اس کی اس پالیسی سے جو اصولی اشتراکیت سے فی
الواقع بالکل ہٹی ہوئی پالیسی تھی اور دراصل مارکس نظریات کے ساتھ کھلی ہوئی غداری
تھی، ٹراٹسکی نے اختلاف کیا، اور اشتراکیت کی اصلی روح اور خالص مارکسیت کے قائم
کرنے پر اور قائم رکھنے پر زور دیا۔ اسٹالین نے نہ صرف یہ کہ اس کی بات ماننے سے
انکار کر دیا بلکہ اس کو اس جرم کی پاداش میں حکومتی ادارے سے ہی نکال دیا۔ خفیہ
پولیس نے اس پر اور اس کے ہم خیالوں پر کڑی نگرانی عائد کر دی اور اس کی زبان پر
تالے چڑھا دیئے گئے۔ مگر وہ جن اصولوں پر ایمان رکھتا تھا اور جن کے نفاذ میں اس
کو دنیا کی فلاح نظر آرہی تھی ان کی تبلیغ سے وہ باز نہ رہا۔ آخر جلا وطن کر دیا
گیا۔ امریکہ پہنچا اور وہاں سے اپنے مشن کو پھیلانے اور اپنے نصب العین کو حاصل
کرنے کے لیے ہاتھ پاؤں مارنے لگا۔ اس کے دشمن وہاں بھی پہنچے، اور ایک روز سازشوں
کے ذریعے انہوں نے اس کے سامنے موت کا پیالہ پیش کر دیا، جسے مارکسیت کے اس
"مومن قانت" نے نہایت صبر و سکون کے ساتھ قبول کر لیا اور اپنے مقصد و
نصب العین پر قربان ہو گیا۔
جاپانی
اور جرمن قوموں کی مثالیں
یہ تو کچھ پرانی باتیں ہیں، ذرا قریب کی
تاریخ دیکھیے۔ یہ جاپانی اور جرمن قومیں جو زخموں سے چور آپ کے سامنے پڑی ہیں ان کے
واقعات سنئے۔ ان کے رہنماؤں نے ان کے سامنے ایک نصب العین رکھا۔ وہ اس پر ایمان
لائیں اور پھر اس کے حصول کے لیے سرگرمِ عمل ہو گئیں۔ حریف قوموں نے روکا، انہوں
نے اس روک کو تلوار کی نوک سے دور کرنے کی ٹھان لی، لڑائی کا میدان گرم ہو گیا اور
یہ دونوں قومیں اپنے اپنے دائروں میں سیلاب کی طرح آگے بڑھنے لگیں اور چند ہفتوں
کے اندر اندر ہزاروں مربع میل علاقوں پر قابض ہو گئیں۔ مگر قسمت نے یکا یک پلٹا
کھایا تو پھر اسی تیزی سے وہ پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو گئیں اور تباہیوں کی ان پر
بری طرح بارش ہونے لگی۔ مگر اپنے نصب العین کا یہ عشق تھا کہ ان کے نوجوان موت کو
منہ کھولے ہوئے دیکھتے اور اس میں کود جاتے۔ ہوائی جہازوں سے چھلانگ لگاتے اور بم
لے کر سیدھے دشمن کے جنگی جہازوں کی چمنیوں میں جا پڑتے۔ بموں سے لدا ہوا ہوائی
جہاز لے کر ان کے جہازوں پر جا گرتے۔ اور اس طرح دنیا کی جنگی لغت میں "خود
کش ہوائی جہاز" اور "کفن بر دوش" طیارے کی اصطلاحوں کا اضافہ کر
گئے۔ پھر آخر میں جب قدرت نے ان کو اپنی آرزوؤں میں قطعی حد تک ناکام بنا دیا تو
وہ اس عقیدے کے تحت "ہرکیری" (خودکشی) کرنے لگے کہ مرنے کے بعد دیوتا بن
کر اپنی قوم کی خدمت اور اپنے مقصد کی خاطر جنگ کریں گے۔ اور ان کی عورتیں اپنے
نوزائیدہ بچوں کی پرورش اس جذبے سے کرنے لگیں کہ یہ بڑے ہو کر دشمنوں سے اپنی قومی
عظمت کی تباہی کا انتقام لیں گے۔
مسلمانوں
کے لیے لمحۂ فکریہ
یہ ان لوگوں کے نظریئے اور کارنامے ہیں جن
کا کوئی مستقبل نہیں۔ جن کی قربانیوں کا کوئی ثمرہ مرنے کے بعد ان کو ملنے والا
نہیں۔ اور جن کے سامنے اگر کچھ ہے تو صرف اسی دنیا کے رذیل مقاصد ہیں۔ کیا ان
واقعات اور حقائق میں ہمارے لیے عبرت کا کوئی درس اور غیرت کا کوئی پیام نہیں؟ کیا
رضائے الہی اور سعادتِ اخروی میں اتنی بھی گہرائی نہیں جتنی کہ ان چند روزہ مادی
مقاصد میں ہے؟ کیا ایمان باللہ میں اتنی بھی حرارت نہیں ہو سکتی جتنی کہ ایمان
بالطاغوت میں دیکھی جا رہی ہے؟ کیا حق کی شہادت میں اتنی بھی حرارت نہیں دکھائی
جانی چاہیے جتنی کہ باطل کی شہادت میں اس کے ماننے والے دکھایا کرتے ہیں؟ اور کیا
اپنے فریضۂ حیات کو اتنی اہمیت بھی اہل اسلام دینے کو تیار نہیں جتنی کہ اہل کفر
دیتے رہے ہیں؟
انبیائے کرام کے واقعات کو نفسِ حیلہ گر
پیغمبرانہ جوشِ تبلیغ اور روح کی غیبی تائید کا نتیجہ قرار دے کر ٹال سکتا ہے۔ مگر
اہل کفر و ضلال کی ان سرفروشیوں کے پیچھے کسی معجزے اور غیبی تائید کا سراغ کیسے
بتایا جا سکے گا؟ کاش ہم امکان و عدم امکان کی بحثیں چھیڑتے وقت باطل پرستوں ہی کے
اعمال و اخلاق پر ایک نظر ڈال لیتے اور انہی سے مقصدِ زندگی کا حق ادا کرنا سیکھ
لیتے۔ افسوس یہ منظر بھی کتنا عبرت ناک ہے۔ جن کی نظر اسی عالمِ آب و گل تک ہے وہ
تو ادائے فرض میں فکرِ انجام سے اتنے بلند ہوں اور وہ جن کا دعویٰ ہے کہ ہماری
نماز اور ہماری قربانی، ہماری زندگی اور ہماری موت سب کچھ صرف اللہ کے لیے ہے،
ناکامی کے اندیشے ڈھونڈنے میں مصروف ہیں۔ جو نقشِ حقیقت ایک اندھا ملحد بھی ہاتھوں
سے ٹٹول کر معلوم کر لیتا ہے وہ ایمان کی روشنی رکھنے والی آنکھوں کو ذرا سجھائی
نہیں دیتا۔
جذباتیت
کا بے بنیاد طعنہ
اگرچہ اس تقریر کے بعد یہ بات بالکل صاف ہو
جاتی ہے کہ ادائے فرض کے سلسلے میں امکان کی بحث پیدا ہی نہیں ہوتی۔ اور ایمان کی
غیرت اس کے تصور تک کو برداشت نہیں کر سکتی۔ نیز ایمان کی غیرت تو الگ رہی، کوئی
خود دار اور باحمیت کفر بھی اس کا روادار نہیں ہو سکتا۔ مگر اس کے باوجود ہمیں
اندیشہ ہے کہ یہ بات اس وقت کے مصلحت پرست اور عاقبت اندیش دماغوں میں شاید ہی گھس
پائے گی۔ اور ہر گز خلافِ توقع نہ ہو گا اگر دانش و تدبر کے کتنے ہی دعویدار اک
خاص بزرگانہ شان سے بول اٹھیں کہ یہ سب جذباتی باتیں ہیں جن کا دنیائے عمل سے کوئی
تعلق نہیں۔
"اہل
دانش" کے اس ریمارک کو بڑی خوشی کے ساتھ قبول کر لیا جاتا، اگر قبول کرنے کی
کچھ بھی گنجائش ہوتی، کیونکہ ذمے داری کا ایسا بھاری بوجھ اٹھانے اور خطروں سے اس
طرح روندی ہوئی راہ اختیار کرنے کا خواہ مخواہ کسی کو کوئی شوق نہیں ہو سکتا۔ مگر
دشواری یہ ہے کہ اس رائے کے قبول کرنے سے ہماری مشکل حل نہیں ہوتی بلکہ اس میں
مزید گرہیں پڑ جاتی ہیں۔ کیونکہ پھر وہی عقل جس کی دہائی دی جا رہی ہے پکار کر
پوچھتی ہے کہ ایسا دین قبول ہی کیوں کیا جائے جو بار بار اور کھلم کھلا اس جذباتی
طرزِ عمل کی تلقین کرتا ہو؟ اگر ایک شخص کسی دین کی سچائی تسلیم کرتا اور اس کی
اتباع کا عہد کرتا ہے تو اس کو لازم ہے کہ دہکتے ہوئے الاؤ کے اندر بھی کود پڑنے
میں کوئی پس و پیش نہ کرے اگر اس کے دین کا بالفرض اس سے یہ مطالبہ ہو۔ لیکن اگر
وہ اس کے مطالبات کو سن کر ٹال دیتا ہے اور انہیں جذباتی، دوسرے لفظوں میں ناقابلِ
عمل اور غیر معقول خیال کرتا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ فی الواقع اس کا اس پر
ایمان ہی نہیں۔ اس کا ایمان اگر ہے تو اپنی عقل و فہم پر ہے۔ اس لیے ایمانداری کا
تقاضا یہ ہے کہ اس دین کے نام سے اصول و مسائل پر بحث کرنے سے پہلے وہ اپنی پوزیشن
کی تعیین کرے۔
عقل
اور جذبات کا کردار
لیکن کیا واقعتاً یہ بات جذباتی ہی ہے اور
اس مطالبے کی بنیاد نرے جذبات ہی پر ہے؟ نیز کیا جذبات کی ہماری عملی زندگی میں
کوئی اہمیت اور ضرورت بالکل ہے ہی نہیں؟
جہاں تک پہلے سوال کا تعلق ہے اس کے بارے
میں کچھ اور کہنے کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ پچھلے صفحات میں جو بحثیں کی جا چکی ہیں
ان میں اس خیال کی تردید کا پورا پورا مواد موجود ہے۔
رہ گیا دوسرا سوال تو تھوڑے سے غور و فکر
کے بعد اس کا جواب بھی آسانی سے سمجھ میں آجائے گا۔ جائزہ لے کر دیکھیے کہ دنیا
میں بڑی بڑی مہمیں کس طرح سر کی جایا کرتی ہیں؟ آیا محض نظری فلسفوں ہی سے یا
جذبات کی مدد بھی ضروری ہوتی ہے؟ یہ جائزہ آپ کو یقیناً اس نتیجہ پر پہنچائے گا کہ
کسی بھی بڑے کام میں کامیابی کا انحصار عقل اور جذبات دونوں پر ہوتا ہے۔ اس میں جس
طرح عقل و تدبر کے ٹھنڈے فلسفوں سے بے اعتنائی نہیں برتی جا سکتی، اسی طرح جذبات
کی گرم لہروں سے بھی بے نیازی ممکن نہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ دونوں کے وظائف الگ
الگ ہو سکتے ہیں۔ اس لیے اگر وہ کام جو عقل کے کرنے کا ہے جذبات کے ہاتھوں میں دے
دیا گیا تو اس کا نتیجہ لازماً ناکامی ہی کی شکل میں نمودار ہو گا۔
اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ کسی مقصد کی
تعیین تو صرف عقل ہی کرتی ہے۔ یہ عقل ہی کا کام ہے کہ پوری پوری چھان بین کر کے
بتائے کہ انسان کو کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں کرنا چاہیے۔ پھر یہ کہ کرنے کے
کاموں میں سے کون سے کام صرف بہتر ہیں اور کون سے ضروری؟ نیز جو ضروری ہیں ان کے
مراتب کیا ہیں؟ ان میں سے کس کی حیثیت بنیادی قسم کی ہے اور کس کی غیر بنیادی
نوعیت کی؟ جب اس بارے میں وہ اپنا فیصلہ دے دے تو پھر انسان پر یہ لازم ہو جاتا ہے
کہ وہ مختلف کاموں کو اپنے پروگرام میں وہی جگہ دے جو اس نے دینے کو کہا ہو اور اس
طرح اسی چیز کو اپنے لیے ضروری یا بنیادی اہمیت کا مالک ٹھیرائے جسے اس کی عقل
ایسا ٹھیرا چکی ہو۔ اس مسئلہ میں اپنے جذبات کو چوں کرنے کی بھی اجازت نہ دے۔ ورنہ
اسے بجا طور پر جذباتی اور احمق کہا جائے گا۔
مگر جب عقل اپنا فریضہ انجام دے چکی اور
گہرے سوچ و بچار کے بعد ایک شے کو ضروری قرار دے چکی تو اب وہ موقع آجاتا ہے جہاں
جذبات کی شرکت اور ضرورت نا گزیر ہو جاتی ہے۔ کیونکہ آگے عقل محض کے بس کا یہ کام
ہے ہی نہیں کہ وہ اس منزلِ مقصود کی طرف قدموں کو مطلوبہ رفتار سے بڑھا سکے۔ یہ
کام وہ اسی وقت انجام دے سکتی ہے جب جذبات کی معاونت بھی حاصل کر لے۔ بلکہ زیادہ
صحیح بات تو یہ ہے کہ یہاں عملی اہمیت کے لحاظ سے جذبات عقل پر بھی مقدم ہو جاتے
ہیں۔ معاملے کے یہاں تک پہنچ چکنے کے بعد اب دراصل یہ جذبات ہی ہوتے ہیں جو دلوں
میں عمل کا ولولہ اور قدموں میں حرکت و اقدام کا وہ جوش پیدا کرتے ہیں جن کے بغیر
منزل تک رسائی نا ممکن ہے۔ یہ جذبات اگر آمادۂ کار نہ ہوں تو عمل کی قوتیں سوئی
پڑی رہ جائیں گی اور مقصد کی بڑی سے بڑی جاذبیت بھی انہیں جھنجھوڑ کر بیدار نہ کر
سکے گی۔ یوں کہیے کہ عقل صرف سمتِ سفر متعین کرتی اور انجن اور پٹڑی تیار کرتی ہے
مگر اس انجن کو حرکت دینے والی اور منزلِ مقصود تک اسے دوڑا دینے والی اسٹیم یہی
جذبات مہیا کرتے ہیں۔
جذبات نے انسانی زندگی کی تعمیر میں اور
اہم مقاصد کے حصول میں یہ مقام غاصبانہ طور پر حاصل نہیں کیا ہے بلکہ ان کا یہ ایک
فطری حق ہے اور عقل نے اس حق کو تسلیم کرنے سے کبھی انکار نہیں کیا ہے۔ اس لیے جس
طرح مقاصد کی تعیین میں جذبات سے کام نہ لینا عقلیت ہے، اسی طرح ان مقاصد کے حصول
میں جذبات سے بیش از بیش کام لینا بھی عقلیت ہی ہے، جذباتیت نہیں ہے۔
عقل اور جذبات کے ان الگ الگ وظائف کو
سامنے رکھیے اور پھر انصاف سے فیصلہ کیجیے کہ جب عقل نے پورے اطمینان کے ساتھ
اسلام کو اللہ کا واجب الاتباع دین مان لیا تو اس کے مطالبات کی تکمیل میں جذبات
کی پوری قوت لگا دینا آیا جذباتیت ہے یا عقلیت؟ کوئی شبہ نہیں کہ اس کا فیصلہ یہی
ہو گا کہ یہ خالص عقلیت ہے۔ لہٰذا اسلام پر ایمان رکھنے اور اقامتِ دین کو اپنا
فریضۂ حیات تسلیم کرنے کے باوجود اس کے لیے اٹھ کھڑے ہونے سے لیت و لعل کرنا دانش
مندی نہیں بلکہ دانش فروشی ہے۔ عقل و تدبر کا نام لے کر عقلیت کو رسوا کرنا ہے۔
غلط
روی کے اسباب: دو بنیادی غلط فہمیاں
بحث کے ان سارے پہلوؤں کے روشن ہو جانے کے
بعد ذہن میں قدرتاً ایک بڑا نازک سوال ابھرنے لگتا ہے اور وہ یہ کہ جب بات اتنی
واضح تھی تو پھر لوگ حالات کی سازگاریوں اور ناسازگاریوں کی بحث میں کیوں جا
الجھے؟ اور امکان و عدم امکان کے اس مسئلے نے ان کے ذہنوں میں کہاں سے بار پالیا؟
جس کے نتیجے میں وہ اپنے فریضۂ حیات سے یوں بے تعلق ہو کر رہ گئے۔
حقیقت کا علم تو اللہ ہی کے پاس ہے، مگر
جہاں تک انسانی فہم کی رسائی کا تعلق ہے، یہ غلط روی بظاہر ان دو باتوں کو نہ سمجھ
پانے کا نتیجہ معلوم ہوتی ہے:
۱۔ اقامتِ دین کا فریضۂ حیات ہونے، اور پھر
اس فریضے سے عہدہ برآ ہونے کے اصل معنی کیا ہیں؟
۲۔
اس فریضے کی خاطر کی جانے والی جدوجہد میں کامیابی کا مفہوم کیا ہے؟
اس لیے اگر ان دونوں باتوں کو اچھی طرح سے
سمجھ لیا جائے اور ذہن کو ٹھیک اس سانچے میں ڈھال لیا جائے جو قرآن عطا کرتا ہے تو
پھر نہ حالات کی ناسازگاریوں کا کوئی سوال باقی رہے گا، نہ امکان اور عدم امکان کی
بحث پیدا ہو گی۔
مومن
کی اصل ذمے داری: استطاعت بھر جدوجہد
جب یہ کہا جاتا ہے کہ دین کی اقامت اہل
ایمان پر فرض ہے تو اس کا مطلب غالباً یہ لے لیا جاتا ہے کہ زمین پر اسلامی نظامِ
زندگی کو بالفعل قائم اور نافذ کر دینا ہمارا فرض کہا جا رہا ہے، حالانکہ یہ صریح
غلط فہمی ہے۔ ہم پر تو جو چیز فرض ہے اور جس کی ہم سے اللہ تعالی کے یہاں پرسش ہو
گی وہ دین کو بالفعل قائم کر دینا نہیں ہے، بلکہ اس کو قائم کر دینے کی اپنی پوری
طاقت سے جدوجہد کرنا ہے۔ جس نے یہ کر لیا وہ اپنے فرض کو پورا کر گیا، اگرچہ ایک
شخص نے بھی اس کی بات نہ مانی ہو، اور ایک ذرۂ زمین پر بھی وہ دینِ حق کو قائم نہ
کر پایا ہو۔
اللہ تعالیٰ نے ہر انسان پر اتنا ہی بوجھ
ڈالا ہے جتنا وہ اٹھا سکتا ہے ("لا يكلف الله نفساً الا وسعها")۔ اس نے
کسی پر کوئی ایسی ذمے داری ڈالی ہی نہیں ہے جو اس کی فطری صلاحیتوں اور قوتوں سے
زیادہ ہو۔ مثلاً اس نے ہم سے مطالبہ کیا ہے کہ ہم اس کا تقویٰ اختیار کریں۔ مگر اس
کا یہ مطالبہ ہماری واقعی سکت سے بڑھ کر نہیں ہے بلکہ اسی حد تک ہے جتنا ہماری
خلقی استطاعت کے بس میں ہو۔ چنانچہ وہ فرماتا ہے:
"اتقوا
الله ما استطعتم" (التغابن: ١٦)
"اللہ
کا تقویٰ اختیار کرو، جس قدر تم کر سکتے ہو۔"
یا
مثلاً مسلمانوں پر فرض کیا گیا ہے کہ وہ اعدائے دین کا مقابلہ کرنے اور ان کا زور
توڑ ڈالنے کے لیے تیار رہیں۔ مگر اس کے لیے ان سے یہ مطالبہ نہیں کیا گیا ہے کہ جس
طرح بھی ہو دشمنوں کی قوتِ جنگ کے برابر قوت لازماً فراہم کریں، بلکہ صرف یہ کہا
گیا ہے اور اتنا ہی ان پر واجب کیا گیا ہے کہ:
"اعدوا لهم
ما استطعتم من قوة..." (الانفال: ٦٠)
"دشمنوں کا
مقابلہ کرنے کے لیے اتنی قوت تیار رکھو جتنی کہ تم کر سکتے ہو۔"
اسی طرح نبی ﷺ سے جب لوگ اطاعت کی بیعت کرتے تو آپ ان کے الفاظِ
بیعت میں خود اپنی طرف سے "تاحدِ استطاعت" کی قید بڑھا دیتے، چنانچہ
حضرت عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں:
"كنا نبايع رسول الله صلى الله عليه وسلم على السمع والطاعة يقول
لنا فيما استطعت" (مسلم: جلد دوم)
"ہم نبی ﷺ سے سمع و طاعت کی بیعت کرتے تو آپ ﷺ فرماتے کہ یہ بھی
کہو کہ جہاں تک میری طاقت ہو۔"
غرض دین کا یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے احکام
کی بجا آوری کا جو مطالبہ فرمایا ہے وہ انسان کی واقعی طاقت کی حد ہی تک کا ہے، اس
سے زیادہ کا قطعاً نہیں ہے۔ اس لیے کوئی وجہ نہیں کہ اقامتِ دین کے معاملے میں بھی
اس اصول کا لحاظ نہ ہو۔ یقیناً ہو گا اور اس کام میں حالات کی ناسازگاریاں، ماحول
کی دقتیں اور ذرائع کی کمیابیاں جس قدر مزاحم ہوں گی اسی قدر ہمیں اللہ تعالی کی
جناب سے رعایت بھی ضرور ملے گی۔ اسی طرح مختلف افراد کے حق میں ان موانع کی
نوعیتوں کا جو تفاوت ہو گا، اس تفاوت کا بھی پورا پورا لحاظ فرمایا جائے گا اور ہر
فرد کو اس کے دربارِ عدل میں صرف اسی حد تک جواب دہی کرنی پڑے گی جس حد تک اسے
جدوجہد کی طاقت میسر تھی۔
اگر ایک شخص کو کام
کے اچھے ذرائع اور ماحول کی سازگاریاں حاصل ہیں لیکن اس کے باوجود اپنے مقدور بھر
قیامِ دین کی کوشش بجا نہیں لاتا تو لازماً ادائے فرض میں کوتاہی دکھانے کا مجرم
قرار پائے گا۔ خواہ اپنی اس کم توجہی کے باوجود ظاہری نتائج کے اعتبار سے کتنا ہی
آگے کیوں
آگے کیوں نہ نکل گیا ہو۔ اس کے بخلاف اگر
دوسرے شخص نے اپنی تمام ممکن کوششیں صرف کر ڈالیں لیکن ذرائع کے ناپید اور حالات
کے ناسازگار ہونے کے باعث آخر تک کچھ نہ کر پایا، اور بس منزل مقصود کی سمت اپنا
رخ جمائے وہیں کا وہی کھڑا رہ گیا تو جہاں سے اس نے اپنی کوششوں کا آغاز کیا تھا
تو اس میں ذرا بھی شبہ نہیں کہ وہ ہر طرح اپنے فرض کو ادا کر گیا اور اللہ کے حضور
اس پر کوئی الزام نہ لگے گا۔
اس لیے مومن کی ذمہ داری صرف یہ ہے کہ جیسی
کچھ اسے طاقت حاصل ہو اور جس طرح کے حالات میں وہ ہو، انہی کے مطابق اپنی کوششیں
انجام دیتا رہے۔ پھر جیسے جیسے ان حالات میں تغیر ہوتا، اور اس کی اپنی قوت کار
میں فرق آتا جائے، اپنی جدوجہد کا دائرہ بھی اسی کی مناسبت سے وسیع کرتا رہے۔ اس
بات کو ایک مثال سے سمجھیے، نماز ہم پر فرض ہے جس میں قیام، رکوع اور سجدہ وغیرہ
چند چیزوں کا ادا کرنا ضروری ہے۔ ایک شخص اگر قیام پر قادر ہونے کے باوجود بیٹھ کر
نماز پڑھتا ہے تو اس کی نماز نہیں ہوتی۔ حتی کہ اگر کسی واقعی مجبوری کی وجہ سے وہ
بیٹھ کر نماز پڑھ رہا ہو، لیکن دو رکعتیں پڑھ چکنے کے بعد اس کی یہ مجبوری دور ہو
جاتی ہو اور اب وہ کھڑے ہو کر نماز پڑھنے پر قادر ہو گیا ہو تو اس کے لیے ضروری ہو
جاتا ہے کہ باقی رکعتیں وہ کھڑے ہو کر ہی پڑھے اور جیسے ہی اسے اپنے عذر کے جاتے
رہنے کا احساس ہو جائے فوراً اٹھ کھڑا ہو۔
ٹھیک یہی حال اقامت دین کی جدوجہد کا بھی
ہے۔ جس شخص کو جس وقت جتنی قوت میسر ہو اس وقت اتنی ہی جدوجہد اس کے لیے ضروری ہے،
نہ اس سے زیادہ کا وہ مکلف ہے نہ اس سے کم میں اس کی خیر ہے۔ زمین پر مکمل طور پر
اللہ کے دین کو بالفعل قائم اور نافذ کر دینا، ایک آخری غایت (Goal) ہے
جہاں تک پہنچنے کی مسلسل کوشش مسلمانوں کی منصبی ذمے داری ہے اور جہاں تک پہنچ جانا
ہر مسلمان کی لازماً محبوب آرزو ہونی چاہیے۔ مگر وہاں بہر صورت پہنچ جانا اس پر
واجب ہر گز نہیں قرار دیا گیا ہے۔ اس پر جو کچھ واجب قرار دیا گیا ہے وہ صرف یہ ہے
کہ اس گول کی طرف اتنے قدم آگے بڑھتا جائے جتنے قدم کہ وہ فی الواقع آگے بڑھ سکتا
ہے۔
ناکامی
کا عدم امکان
جب اقامت دین کے فرض ہونے کا مدعا یہ ہے تو
یہیں سے یہ سوال بھی حل ہو جاتا ہے کہ اس فریضے کی خاطر کی جانے والی جدوجہد میں
کامیابی کا واقعی مفہوم کیا ہے؟ ظاہر بات ہے کہ جب اپنی استطاعت کے مطابق ہی کوشش
کرنے کے ہم مکلف ہیں تو پھر اس راہ میں ناکامی کا کیا امکان باقی رہتا ہے؟ یہ تو
وہ راہ ہے جو خود ہی راہ بھی ہے، خود ہی منزل بھی۔ دنیا کی دوسری تمام تحریکوں اور
سرگرمیوں کا معاملہ تو ضرور ایسا ہے کہ ان میں پوری پوری کوشش کے باوجود کامیابی
کا بھی امکان ہوتا ہے اور ناکامی کا بھی۔
لیکن اقامت دین کی جدوجہد ایک ایسی جدوجہد
ہے جس میں اگر پوری پوری کوشش انجام دے دی گئی تو پھر ناکامی کا کوئی امکان باقی
ہی نہیں رہتا۔ کیونکہ مومن سے اس کے رب کا مطالبہ اس سے زیادہ کا ہے ہی نہیں کہ بس
وہ اپنی طاقت اس کام میں لگا دے، اور اپنی آخری سانس تک لگائے رکھے۔ کل اس سے حساب
بھی صرف اسی بات کا لیا جائے گا جس میں اگر ثابت ہو گیا کہ اس کا عمل ایسا ہی کچھ
رہا ہے تو رضائے الہی اس کے لیے اپنی آغوش کھول دے گی اور آخرت کی فلاح سے وہ بہر
حال شاد کام ہو کر رہے گا۔ اس لیے اس نے جب دنیا میں اس کوشش کا حق ادا کر دیا تو
واضح طور پر اپنی زیست کا مقصد اور اپنے ایمان کا بنیادی تقاضا پورا کر گیا۔ تو
اپنی زیست کے اصل مقصد اور اپنے ایمان کے بنیادی تقاضے کو پورا کر دینے کے سوا بھی
کوئی چیز ہے جس کی تعبیر کے لیے کامیابی اور بامرادی کے الفاظ محفوظ کر لیے جانے
چاہیں؟
ہاں اس راہ میں ایک ناکامی ضرور ہے وہ یہ کہ
اپنی قوتوں کو اس میں خرچ کرنے سے دریغ کیا جائے اور اپنی استطاعت کے مطابق کلمہ
حق کی سربلندی میں سعی نہ کی جائے، اس کے علاوہ اس میں کسی ناکامی کا کوئی خدشہ ہی
نہیں۔ مومن اپنی قوتیں میدان سعی و جہد میں ڈال دینے کے بعد جس انجام سے بھی دوچار
ہوتا ہے وہ بہر حال کامرانی کا انجام ہے۔ مایوسی و نامرادی کے نام سے بھی اس کی
جدوجہد آشنا نہیں۔
کامیابی
کا اسلامی تصور
اس بارے میں جو چیز مسلمانوں کی نگاہوں کا
حجاب بن گئی ہے وہ دراصل اشیاء کی قدریں متعین کرنے کا وہ مادی اصول ہے جو آج ہر
طرف ذہنوں پر چھایا ہوا ہے۔ لیکن جس کو قرآن مٹانا چاہتا ہے۔ آج مسلمان بھی کسی
چیز کے رد و قبول میں اسی دنیا میں ظاہر ہونے والے نتائج کو، اسی زندگی کے نفع و
نقصان کو سامنے رکھنے لگا ہے، اسی لیے وہ اس کوشش کو لا حاصل اور ناکام سمجھتا ہے
جس کا کوئی فوری اور مادی فائدہ ظاہر ہوتا ہوا دکھائی نہ دے۔ حالانکہ قرآن نے اسے
ترک و اختیار کی بنیاد اور کامیابی کا مفہوم کچھ اور ہی بتایا ہے۔ اس کے نزدیک
مسلمان کی پہچان ہی یہ تھی کہ وہ آخرت کے مفاد کو دنیا کے مفاد پر ترجیح دینے والا
ہوتا ہے اور اپنی کامیابی صرف اس بات میں سمجھتا ہے کہ اپنی ساری پونجی قیام حق کی
راہ میں لگا دے۔ اس کے بعد اگر وہ پہلے ہی قدم پر اپنا سب کچھ کھو بیٹھتا ہے تو
بھی، اگر سارے عالم پر دین حق کا جھنڈا لہرا دیتا ہے تب بھی، ہر حال میں کامیاب ہی
کامیاب ہے۔
ضرورت ہو تو قرآن کی واضح شہادت بھی سن
لیجیے۔ منافقوں کی تمنا بھی تھی اور توقع بھی کہ اب جو روم کے افق سے طوفان جنگ
نمودار ہو رہا ہے وہ ان مٹھی بھر سر پھرے مسلمانوں کو جو تمام دنیا کو دشمن بنائے
بیٹھے ہیں پوری طرح اپنی لپیٹ میں لے لے گا اور ان کے پرخچے اڑا کر رکھ دے گا۔
اللہ تعالی نے اپنے پیغمبر ﷺ کو حکم دیا کہ:
قُلْ
هَلْ تَرَبَّصُوْنَ بِنَاۤ اِلَّاۤ اِحْدَی الْحُسْنَیَیْنِ ؕ
(التوبہ: ۵۲)
"ان
منافقوں سے کہہ دو کہ تم ہمارے حق میں جس بات کا انتظار کرتے ہو وہ ہمارے لیے دو
بھلائیوں میں سے ایک بھلائی ہی تو ہے۔"
یہ آیت جو کچھ کہہ رہی ہے اسے غور سے سن
رکھیے۔ وہ صاف اعلان کر رہی ہے کہ جس طرح مسلمانوں کا میدان جنگ جیت جانا ان کے
لیے بھلائی اور کامیابی ہے اسی طرح ان کا ہار جانا اور جان بہ حق ہو جانا بھی
بھلائی اور کامیابی ہی ہے۔ اللہ تعالی کے نزدیک ان کی فتح بھی "حسنیٰ"
ہے اور ان کی شکست بھی۔ گویا ایک مرد مومن جب جہاد فی سبیل اللہ کے لیے گھر سے
نکلتا ہے تو ہر صورت میں تمغہ کامرانی ہی لے کر لوٹتا ہے۔ بے شک یہ اللہ کے نزدیک
کامیابی بہت بڑی کامیابی ہے کہ وہ اپنی تلوار سے دشمنوں کو زیر کرلے اور حق کا بول
بالا کر دے، لیکن دوسری صورت حال کو بھی ناکامی نہیں کہا جا سکتا۔ بلکہ اگر وہ اور
اس کے تمام ساتھی خدا نخواستہ لڑائی میں قتل ہو جائیں تو ایک مومن کے حقیقی مطمع
نظر کے لحاظ سے یہ بھی اسی کے ہم پلہ ایک کامیابی ہے، قابل صد رشک کامیابی، ایسی
کامیابی جس پر دنیا کی ساری کامیابیاں قربان ہو جائیں۔ جس سے بڑی کامیابی کی آرزو
ہی نہیں کی جاسکتی۔
یہ ایک جزئی مثال تھی جس کا تعلق مومن کی
ایمانی زندگی کے صرف ایک مخصوص گوشے سے ہے۔ اسی جزو سے کل کی طرف آیئے اور اسی فرع
کو اصل بنا کر مومن کی پوری ایمانی زندگی... اقامت دین کی جدوجہد... پر پھیلا
دیجیے۔ پھر معلوم ہو گا کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام، جن کو اسی جدوجہد کے جرم میں
دار پر لٹکا دیا گیا تھا اور جو ایک بالشت بھر زمین پر بھی دین حق کا نفاذ نہ کر
سکے تھے، اللہ تعالیٰ کی نگاہوں میں ٹھیک اسی طرح دنیا سے کامران و با مراد تشریف
لے گئے جس طرح کہ محمد رسول اللہ ﷺ، جنہوں نے ایک وسیع خطہ ارض پر عملاً اللہ کا
دین قائم کر دیا تھا۔ مگر اس کھلے راز کو بھی سمجھنے اور قبول کرنے کے لیے مومن کا
دل چاہیے۔ عقل مصلحت پرست کے اندر یہ جذباتی باتیں کہاں سما سکتی ہیں؟
عملاً
قیام دین کے روشن امکانات
لیکن کامیابی کا جو مفہوم عام طور پر لیا
جاتا ہے اس کے لحاظ سے بھی یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ آج کی دنیا
میں اس جدوجہد کی ناکامی کی بہ نسبت اس کی کامیابی کا امکان زیادہ ہے۔ اگر امت
مسلمہ کا دسواں بیسواں حصہ بھی اپنے اس فریضے کی انجام دہی میں دل و جان سے لگ
جائے اور ٹھیک اسی طریقے سے لگ جائے، جس کا اس کا مزاج تقاضا کرتا ہے اور جس کی
کتاب و سنت اور اسوۂ انبیاء سے ہدایت ملتی ہے تو اس کوشش کا بار آور ہونا اسی طرح
یقینی ہے جس طرح اندھیری رات کے بعد چمکتے ہوئے سورج کا نکلنا یقینی ہوتا ہے۔
اس دعوے کی حقانیت آپ پر بڑی آسانی سے واضح
ہو جائے گی اگر ان چیزوں پر اور ان کے تقاضوں پر اچھی طرح غور کر لیں:
۱۔
اقامت دین کے مخاطب اور ذمے دار گروہ کی خاص نوعیت
۲۔
انسانی فطرت کی اصل پسند
۳۔
انسان کی موجودہ فکری، عملی اور تمدنی ارتقاء اور اس کے ارتقاء کے ساتھ ساتھ اس کی
ذہنی بے چینی۔
۱۔
اقامت دین کے مخاطب گروہ کی نوعیت
عموماً لوگ کامیابی کے امکانات کا اندازہ
لگاتے وقت پہلے ہی قدم پر ایک عظیم الشان حقیقت فراموش کر جاتے ہیں اور وہ یہ کہ
یہ کام کسی بے اصول، خود غرض، تھڑدلے اور پست نظر گروہ کے سپرد نہیں ہے بلکہ ان
لوگوں کے سپرد ہے جو مومن ہونے کا دعویٰ رکھتے ہیں۔ یعنی جو قرآنی بیان کے مطابق
ایک خدا پر ایمان رکھنے والے ہوتے ہیں اور اس کے سوا کسی کو پرستش اور رضا جوئی کا
حق دار، حقیقی اطاعت کا سزاوار اور طاقت و اقتدار کا مالک نہیں سمجھتے۔ جو محمد ﷺ
کو اپنا ہادی مانتے ہوں اور اپنی زندگی کے کسی شعبے میں ان کے سوا کسی کو قابل
اتباع نہیں تسلیم کرتے۔ جو آخرت کو دنیا پر ہمیشہ مقدم رکھتے ہیں، جو نماز، روزے
اور حج و زکوۃ وغیرہ عبادات کے بجالانے والے ہیں۔ جو حق کے شاہد، سچائی کے مجاہد،
معروف کے مبلغ، عدل کے علمبردار، باطل کے حریف، منکر کے فطری دشمن، جھوٹ سے متنفر
اور ظلم سے مجتنب ہوتے ہیں۔ جن کی پہچان یہ ہے کہ وہ برائی کو نیکی سے اور جہالت
کو شرافت سے مٹائیں۔ جن کا شعار یہ ہے کہ وہ انصاف پر قائم رہیں اگرچہ اس کی زد
خود ان کے اپنے ہی اوپر کیوں نہ پڑتی ہو۔ جن کا شیوہ یہ ہے کہ دشمن کے ساتھ بھی
زیادتی کا سلوک نہ کریں، اگرچہ کتنے ہی مظالم ان کے ہاتھوں جھیل چکے ہوں۔ جو ہر
حال میں اپنی راستی پر قائم رہتے ہیں، اگرچہ دنیا ہاتھ سے نکلی جاتی ہو۔ جو دوسروں
کی عزت کو اپنی عزت سمجھتے اور دوسروں کی جان اور مال کی حرمت کو کعبہ کی طرح حرمت
کا مستحق باور کرتے ہیں۔ جو غیر کے لیے بھی وہی پسند کرتے ہیں جو اپنے لیے کرتے
ہیں۔ جو خود ننگے اور بھوکے رہ کر غریبوں کو کھلانے پلانے میں خوشی محسوس کرتے
ہیں۔ جن کے دامن یتیموں، بیواؤں اور کمزوروں کے لیے امن و سلامتی کی پناہ گاہیں
ہوتی ہیں۔
اب اگر دنیا میں "مومنوں" کا
کوئی گروہ موجود ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ کسی نہ کسی حد تک یہ صفات بھی اپنے
اندر ضرور رکھتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ جب قیام دین کے امکانات کا جائزہ لیا جائے
تو اسی گروہ اور اس کی انہی صفات کو سامنے رکھ کر لیا جائے۔ یہ نکتہ اگر نظر انداز
ہو گیا تو ہر گز صحیح نتیجے پر نہیں پہنچا جا سکتا۔ اور اگر یہ نظروں کے سامنے رہا
تو کوئی وجہ نہیں کہ "نا ممکن" کا لفظ پھر بھی منہ سے نکل سکے۔ غور تو
کیجیے جو گروہ ایسے ایمانی اور اخلاقی اسلحوں سے مسلح ہو اس کے بارے میں یہ بد
گمانی اور مایوسی کیسے کی جاسکتی ہے کہ وہ اللہ کے دین کو قائم کر ہی نہیں سکتا؟
خصوصاً ایسی حالت میں جب کہ اس کی عددی کثرت بھی غیر معمولی حد تک زیادہ ہو اور دنیا
کی کسی اور پارٹی کے ممبروں کی تعداد اس کی آدھی تہائی بھی نہ ہو؟
یہ صحیح ہے کہ یہ بھاری گروہ جن افراد پر
مشتمل ہے ان کی بہت بڑی اکثریت ان مذکورہ بالا صفات سے تہی دامن ہو چکی ہے۔ مگر یہ
کسی طرح صحیح نہیں ہے کہ اس گروہ میں ایسے لوگ باقی ہی نہیں رہے جن میں یہ صفات
موجود ہوں۔ نہیں، ایسے لوگ اب بھی نایاب نہیں ہیں۔ البتہ کمیاب ضرور ہیں۔ اگر
خاکستر کی ان چنگاریوں کو دنیا میں اجالا پھیلانے کا خیال اور بھڑکانے کا ڈھنگ
آجائے تو یہ اندھیرے سنسار کو ایک دن جگمگا کر دم لیں گی۔
۲۔
انسانی فطرت کی اصل پسند
اب انسانی فطرت کو لیجیے۔ انسان اپنی اصل
فطرت کے اعتبار سے خیر پسند ہے اور ایک قلیل تعداد کو چھوڑ کر عام افراد انسانی
نیکی کی مقناطیسیت سے کھنچ اٹھنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔ خالص باطل پر باطل
پرست اور شر پسند لوگ، جو اس حالت کو دراصل اپنی فطرت کو مسخ کر لینے سے پہنچ جاتے
ہیں، دنیا میں بہت تھوڑے ہوتے ہیں۔ البتہ جب یہی گنتی کے شیطان انسانی زندگی کی
اجتماعی مشینری پر قابض ہو جاتے ہیں اور قوموں کی زمام قیادت ان کے ہاتھوں میں چلی
جاتی ہے تو عام لوگ محض ان کے پیچھے چل پڑنے کی وجہ سے برائی کی نجاستوں سے لتھڑ
جاتے ہیں۔ مگر اس کے باوجود خیر پسندی کا فطری ذوق ان کے اندر سے فنا نہیں ہو
جاتا۔ اس لیے اگر نظری اور علمی دونوں طریقوں سے نور حق ان کے سامنے بے حجاب کر کے
چمکایا جائے تو ان میں سے کچھ تو اس کی طرف عملاً بھی لپک پڑیں گے اور دوسروں میں
اگر اتنی جرات نہ ہو گی تو اتنا ضرور ہی ہو گا کہ وہ اسے پسندیدگی کی نظروں سے
دیکھنا شروع کر دیں گے۔ کوئی وجہ نہیں کہ عام انسان اس چیز کو اس کی اپنی صحیح شکل
میں دیکھ لینے کے بعد بھی رد کر دے، جو اس کی فطرت کو مطلوب ہے اور اس چیز سے
بدستور چپٹا رہے جس سے اس کی اصل فطرت ہم آہنگ نہیں۔
۳۔
زمانے کا ارتقائی رجحان اور انسان کی ذہنی بے چینی
آخری قابل لحاظ چیز جسے اس سلسلے میں نظر
انداز نہیں کیا جا سکتا، زمانے کا ارتقائی رجحان اور انسان کی ذہنی بے چینی ہے۔
پچھلے زمانوں میں ایک تو انسانی فکر اپنی پختگی کو پہنچی نہیں تھی۔ دوسرے لوگوں
میں گروہی اور مذہبی عصبیتیں حد سے زیادہ ہوتی تھیں اور وہ اپنے دلوں کے دروازے
بیرونی آواز کے لیے مضبوطی سے بند رکھتے تھے۔ تیسرے تبلیغ واشاعت کے ذرائع نہایت
محدود تھے۔ ان اسباب کی بنا پر دین حق کی تبلیغ کے ظاہری نتائج اکثر ناکامی کی شکل
میں نمودار ہوا کرتے تھے۔ مگر اب حالات بالکل بدلے ہوئے ہیں۔ انسان تحکمی عقائد کی
اندھی پیروی اور اوہام پرستی سے اونچا اٹھ رہا ہے، اور روز بروز حقائق پسندی کی
طرف آرہا ہے۔ عقلیں ان اصول و نظریات کو چھانٹ کر دور پھنکتی جارہی ہیں جو انسانی
زندگی کے مسائل کو تسلی بخش طور پر حل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔
مغربی تہذیب نے جہاں دنیا کو بے شمار
نقصانات پہنچائے ہیں وہیں وہ ایک ایسی کیفیت بھی ذہنوں میں پیدا کر گئی ہے جس سے
ایک ایسا دین عظیم الشان فائدے حاصل کر سکتا ہے جو مسائل زندگی کا صحیح، متوازن
اور اطمینان بخش حل پیش کر سکے۔ اس تہذیب نے ان اوہام کی بہت کچھ بنیاد ڈھادی ہے
جو انسانی دماغ کا پردہ بنے ہوئے تھے، ان اوہام کے ڈھ جانے کے ساتھ ہی ان مذاہب کی
چھتیں بھی زمین پر آگئی ہیں جن کی تعمیر ان اوہام پر ہوئی تھی اور جو صرف جذباتی
عصبیتوں کے حصار ہی میں جی سکتے تھے۔ اس تہذیب کا جنم دراصل ایک فکری انقلاب کا
نتیجہ تھا۔ ایک تو انقلاب کی فطرت ہی بحرانی ہوتی ہے۔ دوسرے جہاں تک خاص اس انقلاب
کا تعلق ہے تو اسے صحیح رخ پر موڑنے کی کوئی کوشش بھی نہ ہوئی۔ بلکہ اس کا راستہ
روکا گیا اور وہ بھی نہایت بھونڈے بلکہ احمقانہ طریقے سے۔ اس لیے وہ اپنے جوش میں
اوہام کے ساتھ بہت سے حقائق بھی بہا لے گیا اور دیگر مذاہب کی طرح خود اسلام کو
بھی چیلنج کر گیا جو اپنی فطرت اور عقلیت کی وجہ سے اس کا صحیح رہنما ہو سکتا تھا۔
مگر اس بے اعتدالی کی طرف لوٹنا چاہتے ہیں۔
مختصر یہ کہ اس انقلاب نے ذہنوں میں جو
بھونچال پیدا کر دیا ہے اس نے جاہلانہ مذہبی عصبیتوں کی بندش بڑی حد تک ڈھیلی کر
دی ہیں اور ایسے بے شمار افراد پیدا کر دیے ہیں جو کسی بات کو صحیح سمجھ لینے کے
بعد اسے تسلیم کر لینے میں اپنی روایتی معتقدات کو مانع نہیں پاتے۔ پھر فکر کی اس
آزادی اور ذہن کی اس بے تعصبی کے علاوہ وقت کے تمدنی، معاشی اور سیاسی حالات نے
بھی اسلام کے لیے کچھ زمین ہموار کر دی ہے۔ جب سے نظام عالم کی سیاسی باگ دوڑ فاسق
و فاجر اور خدا سے باغی ہاتھوں میں آئی ہے اور انہوں نے ہدایت الہی کو پس پشت ڈال
کر زندگی کے نظام کو اپنے من مانے اصولوں پر چلانا شروع کیا ہے اس وقت سے نوع
انسان برابر اپنی خود سری کے برے نتائج بھگتی چلی آ رہی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ
انسانی دماغ کے بنائے ہوئے تمام نظام ہائے زندگی ایک ایک کر کے ناکام ثابت ہو چکے
ہیں۔ نہ صرف یہ کہ ناکام ثابت ہو چکے ہیں، بلکہ ان کی پیدا کی ہوئی پیچیدگیوں اور
ان کی نازل کی ہوئی ہلاکتوں سے دنیائے انسانیت چیخ اٹھی ہے اور بڑی بے تابی سے ایک
ایسے نظام حیات کی فی الواقع طلب گار ہے جو اس کے دکھوں کا مداوا ہو سکے۔
کیا
قیام دین ممکن ہے؟
صورت واقعہ کے ان تینوں روشن پہلوؤں کو
نگاہ میں رکھیے اور پھر فیصلہ کیجیے کہ دین کا قیام ممکن ہے یا نا ممکن؟ کیا یہ
صورت واقعہ ڈرنے، سہمنے، اور مایوس ہونے کی ہے؟ اگر نہیں، تو وہ لوگ کیوں نہ پورے
اعتماد اور حوصلے کے ساتھ آگے بڑھیں، جو ایک طرف تو اس بات کا یقین رکھتے ہیں کہ
پورا حق صرف اسلام کے پاس ہے اور زندگی کے مسائل کا صحیح اور تسلی بخش حل اس کے
سوا اور کہیں ہے ہی نہیں۔ دوسری طرف انہیں اس بات میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ انسان
بھلائی کا فطری طلب گار اور خدا کی بہترین مخلوق ہے، پیدائشی مجرم اور بدی کا
پجاری نہیں ہے۔
البتہ ان لوگوں سے اس طرح کے کسی اقدام کی
توقع رکھنا ضرور غلط ہو گا جن کے اندر کا یہ یقین رسمی عقیدے کی حدوں سے آگے نہ
بڑھا ہو۔ کیونکہ ایسے "کامل ایمان" خواہ اسلام کے ان فضائل و محامد کا
کیسے ہی فخر اور جوش سے اظہار کرتے ہوں، اور اس کی شان میں کیسے ہی عمدہ قصیدے
پڑھتے ہوں، مگر چونکہ ان کی مدح سرائیوں کی جڑیں دل کی گہرائیوں میں نہیں ہوتیں اس
لیے وہ عمل و اقدام کے پھل بھی نہیں دے سکتیں۔ ایسے لوگ اگر خدا کے دین سے مایوس
ہوں تو انہیں مایوس ہونا چاہیے اور خود یہ دین بھی ان سے مایوس ہی ہے مگر ان لوگوں
کے لیے مایوسی کی کوئی وجہ نہیں جو دین حق کی ان خوبیوں اور صلاحیتوں پر اپنی عقل
اور بصیرت کے ساتھ ایمان رکھتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں اور اگر نہیں جانتے تو انہیں
جاننا چاہیے کہ دنیا کے عام حالات اور انسانی حقائق آج اسلام کے حق میں ہیں۔
آگے ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ جو فکری اور
عملی طاقت انہیں حاصل ہے اسے وہ اسی کام پر مرکوز کر دیں۔ یہ دنیا اسباب کی دنیا
ہے۔ یہاں جو کام بھی انجام پاتا ہے اپنے مقررہ طرز ہی پر انجام پاتا ہے۔ آپ کے
اپنے دستر خوان کا لقمہ بھی آپ کے منہ میں نہیں پہنچ سکتا، جب تک اس کے لیے آپ
اپنے ہاتھ کو حرکت نہیں دیتے۔ اس لیے حالات کسی نصب العین کے حق میں کیسے ہی
سازگار کیوں نہ ہوں، وہ کامیابی کی منزل پر اس وقت تک ہر گز نہیں پہنچ سکتا، جب تک
کہ اس کے لیے ضروری تدبیر اور مطلوبہ کوششیں زیر عمل نہ لائی جا چکیں۔ اقامت دین
کا نصب العین بھی اس کلیے سے مستثنیٰ نہیں ہے۔
فکری
اور عملی شہادت
اس لیے ان تمام روشن پہلوؤں کے باوجود جن
کا ابھی تذکرہ کیا جا چکا ہے اس مقصد میں کامیابی اسی وقت ہو سکے گی جب کہ اس کے
لیے مناسب تدبیریں اور مطلوبہ کوششیں اختیار کر لی جائیں۔ یہ تدبیریں اور کوششیں
کیا ہیں؟ ان کو دو لفظوں میں اسلام کی "فکری اور عملی" شہادت سے تعبیر
کیا جا سکتا ہے۔
·
فکری
شہادت:
تو یہ ہے کہ اسلام کا بیسویں صدی کی زبان میں تعارف کرایا جائے اور
آج کے ذوق و ذہن کو اپیل کرنے والے طرز استدلال سے اسے مدلل کر کے دنیا کے سامنے
پیش کیا جائے۔ زندگی کے مختلف شعبوں سے متعلق اس نے جو ہدایات و احکام دیئے ہیں
انہیں زمانہ حال کی تعبیروں میں ڈھال کر لوگوں پر واضح کر دیا جائے کہ انسانی
مسائل کا صحیح حل اور تمدن عالم کی صحیح رہنمائی صرف انہی ہدایات میں مضمر ہے۔
·
عملی
شہادت:
یہ ہے کہ عمل کی زبان سے بھی اس پر اپنے یقین کا اظہار کیا جائے
اور مشکل سے مشکل مواقع میں بھی اس کی راہ راست سے قدموں کو ہٹنے نہ دیا جائے۔
اللہ تعالیٰ سے اپنا تعلق مضبوط سے مضبوط تر کیا جائے۔ عبادتوں میں وہ روح پیدا کی
جائے جس سے دلوں میں زندگی اور سیرتوں میں پاکیزگی آتی جائے۔ انفرادی اور اجتماعی
دونوں قسم کے معاملات میں اسلامی اخلاق کی پوری پابندی کی جائے۔ قومی، وطنی، نسلی،
خاندانی، طبقاتی اور ذاتی مفادات سے آنکھیں بند کر کے اصلاً صرف اسلام کے مفاد کو
سامنے رکھا جائے۔ ظلم کا جواب عدل اور عفو و در گزر سے، بدی کا جواب نیکی سے، جھوٹ
کا جواب سچ سے اور بے اصولی کا جواب اصول پسندی سے دیا جائے کہ یہ سعی و جہد صرف
اس مسلک حیات کی تبلیغ و اقامت کے لیے ہے جس پر ساری انسانیت کی فلاح موقوف ہے۔ اور
پھر اس سعی و جہد میں حسب ضرورت اپنے عیش و آرام کو خیر باد کہنے، اپنی آرزوؤں کو
پامال کرنے اور جانی و مالی قربانیاں دینے میں کم از کم اتنی ہی پامردی دکھائی
جائے، جتنی کہ لینن اور اسٹالن کے ساتھیوں نے کمیونزم کی اقامت میں، نازیوں نے
نازیت کی حمایت و سربلندی میں اور جاپانیوں نے میکاڈو کی رضا جوئی میں ابھی پچھلے
دنوں دکھائی ہے۔
کامیابی
کی یقینی امید
اگر فکری اور عملی شہادت کا یہ فریضہ انجام
دے دیا گیا - جو دیا یقیناً جا سکتا ہے - تو حق کی ساحرانہ قوت تسخیر کا دعویٰ ہے
اور خدا کی سنت اس دعویٰ کی گواہ ہے کہ ایک دن یہ جدوجہد کامیاب ہو کر رہے گی۔
ذہنوں کی گرہیں کھل جائیں گی، دل اس کی طرف کھنچے آئیں گے، آنکھیں اس کے سامنے فرط
عقیدت سے جھک پڑیں گی اور دنیا پھر سر سے یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللہِ
اَفْوَاجًا کا روح پرور منظر دیکھ لے گی۔
ہم جانتے ہیں کہ آج خدا کی زمین پر باطل کی
مضبوط گرفت قائم ہے مگر ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ باطل اپنے ابدی اقتدار کا وثیقہ لے
کر نہیں آیا ہے نہ وہ اس زمین کا جائز وارث ہے۔ قدرت نے زمیں کو اصل مسکن حق کا
بنایا ہے باطل کا نہیں۔ مگر ہوتا یہ ہے کہ جب حق اپنے علمبرداروں کی غفلت اور فرض
ناشناسی کی وجہ سے اپنے اس گھر کو چھوڑ دیتا ہے تو باطل کا دیو اسے خالی پا کر
قبضہ جمالیتا ہے۔ کیونکہ اس گھر کے بنانے والے نے اس کے لیے ضابطہ ہی یہ بنایا ہے
کہ وہ کبھی بے آباد نہ رہے۔ اس لیے اگر وہ اپنے اصل حق دار سے آباد نہیں رہ جاتا
تو ناچار غاصب ہی کے لیے اپنے دروازے کھول دیتا ہے۔ مگر ظاہر ہے کہ یہ ایک غیر
فطری صورت حال ہوتی ہے جسے یہ گھر مجبوراً ہی گوارا کرتا رہتا ہے۔ اس لیے جب بھی
اس کا اصل مکین اپنا قبضہ واپس لینے پر تل جاتا ہے تو قدرت کے مضبوط ہاتھ اس غاصب
کو نکال کر لازماً باہر کر دیتے ہیں۔
یہ ایک اصولی حقیقت ہے جس کی بنیاد کسی خوش
گمانی پر نہیں بلکہ قرآن حکیم کے محکم بیان پر ہے۔ اس نے فرمایا ہے:
جَآءَ
الْحَقُّ وَ زَہَقَ الْبَاطِلُ ؕ اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ
زَہُوۡقًا (بنی اسرائیل: ۸۱)
"حق
آگیا اور باطل مٹ گیا، بلاشبہ باطل مٹنے ہی والی چیز ہے۔"
معلوم ہوا ہے کہ باطل کی زندگی صرف حق کی
غیر موجودگی تک ہے۔ جب حق آئے گا - آئے گا نہیں بلکہ یوں کہیے کہ جب لانے والے اسے
لائیں گے - تو باطل خود جگہ چھوڑ دے گا۔ اس لیے یہ گمان کرنا کہ مطلوبہ کوششوں کے
باوجود حق کا قیام ممکن نہیں دراصل اللہ تعالی پر بے اعتمادی کا اظہار کرنا اور
عہد شکنی کا بہتان لگانا ہے۔ جو خدا اس باطل کی خاطر دی گئی قربانیوں کو بھی
کامیاب بنا دیتا ہے، جو اسے مبغوض ہے، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ وہ اس حق کی خاطر دی
ہوئی قربانیوں کو رائیگاں جانے دے گا جو اس کو محبوب ہے؟ حالانکہ اس کی طرف سے
وعدے پر وعدے بھی کئے گئے ہیں کہ:
وَ
لَیَنۡصُرَنَّ اللّٰہُ مَنۡ
یَّنۡصُرُہٗ ؕ
(الحج : ۴۰)
"اللہ
ان لوگوں کی ضرور مدد کرتا ہے جو اس (کے دین) کی مدد کرتے ہیں۔"
مَنۡ
یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مِنْ اَمْرِہٖ یُسْرًا (الطلاق : ۴)
"جو
خدا ترسی کی روش اختیار کرتا ہے تو خدا اس کے کام میں اس کے لیے آسانی فراہم کر
دیتا ہے۔"
وَ مَنۡ
یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا ۙ
وَّ یَرْزُقْہُ مِنْ حَیۡثُ لَا یَحْتَسِبُ ؕ
وَ مَنۡ یَّتَوَکَّلْ عَلَی
اللّٰہِ فَہُوَ حَسْبُہٗ ؕ (الطلاق : ۲-۳)
"جو
کوئی خدا ترسی کی راہ پر چلتا ہے وہ اس کو راستہ مہیا کر دیتا ہے، اور اسے وہاں سے
روزی دیتا ہے جہاں سے اسے روزی ملنے کا شان و گمان بھی نہیں ہوتا، اور جو اللہ پر
بھروسہ رکھتا ہے تو وہ اس کے لیے کافی (ثابت) ہوتا ہے۔"
اور اسی لیے اس سعی و جہد کے نتیجے میں اس
نے ہمیں یقین دلایا ہے کہ:
اَلَاۤ
اِنَّ حِزْبَ اللّٰہِ ہُمُ الْغٰلِبُوۡنَ
(المائدہ: ۵۶)
"سن
رکھو! اللہ کی پارٹی ہی غالب رہنے والی ہے۔"
نیز اس نے یہ بات بھی فرما رکھی ہے اور کسی
اشارے کنائے کے انداز میں نہیں، بلکہ صریح لفظوں میں فرما رکھی ہے کہ جب یہ پارٹی
دشمن کے مقابل ہوتی ہے تو اس کی غیبی نصرتیں اس کی پشت پر ہوتی ہیں یہاں تک کہ
آسمان کے فرشتے بھی اس کے پہلو بہ پہلو لڑنے کے لیے اتر آتے ہیں اور اس لیے وہ
اپنے سے دس گنے دشمنوں پر بھی غالب آکر رہتی ہے۔ بدر، احزاب، اور حنین کی لڑائیوں
میں یہ وعدے واقعہ بن چکے ہیں۔ لہٰذا یقین رکھنا چاہیے کہ جو فرشتے ان میدانوں میں
آئے تھے وہ کہیں بھی آسکتے ہیں اور قرآن بتاتا ہے کہ خدا کے بندے اور حق کے مجاہد
جب چاہیں انہیں بلا سکتے ہیں۔ چنانچہ غزوہ بدر کے واقعات پر تبصرہ کرتے وقت جب
اللہ نے ملائکہ کے اترنے کا ذکر کر کے اپنی غیر معمولی نصرت فرمائی کا تذکرہ کیا
تو ساتھ ہی اس خیال کو بھی دور کر دیا کہ ممکن ہے یہ نصرت کوئی وقتی قسم کی اور
صرف اسی ایک واقعہ کے لیے رہی ہو۔ فرمایا:
وَ
مَا النَّصْرُ اِلَّا مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ ؕ
(الانفال: ۱۰)
"یہ
مدد خاص اللہ ہی کی جناب سے ہوتی ہے۔"
فرمانے کا مدعا یہ ہے کہ فتح و نصرت خدا ہی
کے ہاتھ میں ہے۔ جس طرح آج ہے کل بھی رہے گی۔ اس لیے اہل ایمان کو یہ تائید و نصرت
حاصل ہو سکتی ہے اور اگر انہوں نے "انصار اللہ" ہونے کا حق ادا کر دیا
تو اللہ تعالیٰ بھی ان کا "مولیٰ اور نصیر" بننے میں دیر نہ لگائے گا۔
یاد رکھیے! یہ سب وعدے اور ارشادات اس اللہ کے ہیں جس کے بارے میں مومن کا یہ یقین
ہے کہ وہ کبھی غلط وعدہ نہیں کرتا اور جو وعدہ کرتا ہے اسے ضرور پورا کرتا ہے۔ اور
اگر کوئی اس یقین سے محروم ہے تو وہ مومن ہی نہیں۔ جھوٹ کہتا ہے اگر اپنے آپ کو
مومن کہتا ہے۔ حتیٰ کہ غلط نہ ہو گا اگر اسے انہی پیش روؤں کا "خلف الصدق"
کہا جائے جو دین کی راہ میں مشکلات کو دیکھ کر بول اٹھتے تھے کہ اللہ ہم سے فتح
اور غلبے کے وعدے کر کے دراصل دھوکہ دے رہا ہے۔ (مَا وَعَدَنَا اللّٰہُ وَ رَسُوۡلُہٗۤ
اِلَّا غُرُوۡرًا ۔ الاحزاب : ۱۲)
کیا
حالات ناسازگار ہیں؟
کیا ان تمام حقیقتوں کے باوجود دین کے قیام
کو نا ممکن ہی کہا جاتا رہے گا؟ اور کیا ایسا کہنا قلب و نظر کی بے بصیرتی یا پھر
ادائے فرض سے بزدلانہ فرار کی دلیل نہیں؟ امکان کامیابی کے ان تمام روشن پہلوؤں کی
موجودگی میں بھی اگر کوئی شخص قیام دین کی طرف سے مایوس ہی رہتا ہے تو یقیناً وہ
مومن کا کردار ادا کرتا ہے نہ مومنانہ ذہن کا ثبوت دیتا ہے۔ وہ بھولتا ہے کہ
مایوسی ایمان کے نہیں بلکہ کفر کے خصائص میں سے ہے۔ ایسے لوگ حالات کی نام نہاد
ناسازگاریوں کو دراصل اپنی فراری روش کا جواز ثابت کرنے کے لیے بہانے کے طور پر
استعمال کیا کرتے ہیں ورنہ انہیں بتانا چاہیے کہ آخر وہ کون سے حالات ہیں جن میں
دین اللہ کا قیام و نفاذ ممکن ہوا کرتا ہے؟
یہ تو بالکل ظاہر بات ہے کہ دین حق کو قائم
کرنے کی کوشش جہاں بھی اور جس وقت بھی درکار ہو گی وہاں اور اس وقت کوئی نہ کوئی
دین باطل بالفعل قائم اور نافذ ضرور ہو گا۔ اس لیے معلوم ہونا چاہیے کہ باطل
نظاموں میں سے وہ کون سا نظام "شریف" نظام ہے جو نظام حق کے قیام و نفاذ
کے لیے اپنی مملکت از خود چھوڑ دیا کرتا ہے تاکہ اس کی آمد کا انتظار کیا جائے اور
جب وہ آکر نظام حق کی تاجپوشی کے لیے دربار حکومت سجا دیں۔ کیا دنیا کی پوری زندگی
میں اس طرح کا کوئی حق نواز باطل کبھی پایا گیا ہے؟ اور کیا دین حق کی امامت کے
لیے جب جب کوششیں کی گئی ہیں اس وقت کے حالات اس کام کے لیے ضرور ہی سازگار تھے؟
اور آئندہ ہمیں بھی ایسے خوش آئند حالات پیدا ہو جانے کی امید ہے؟
مستقبل کے پردے میں کیا کچھ چھپا ہوا ہے اس
کا علم تو خدا ہی کو ہے۔ مگر ماضی کے حالات اور واقعات کے آئینے میں تو صورت واقعہ
کا مشاہدہ ہم بھی کر سکتے ہیں۔ ان حالات اور واقعات کا گہری نظر سے جائزہ لیجیے۔
پھر بتائیے کہ دینی تاریخ کے اس پورے سلسلے میں، جو حضرت آدم علیہ السلام سے شروع
ہو کر ہم تک پہنچا ہے، اقامت دین کے لیے جتنی کوششیں کی جاچکی ہیں کیا ان سب کے
زمانے اس کام کے لیے آج کی بہ نسبت لازماً زیادہ سازگار تھے؟ اس کے ثبوت میں کیا
حضرت نوح علیہ السلام کے زمانے کا نام لیا جا سکتا ہے جب کہ ساڑھے نو سو برس تک ان
پر گالیوں اور پتھروں کی بارش ہی ہوتی رہی تھی؟ یا کیا حضرت ابراہیم علیہ السلام
کے زمانے کا حوالہ دیا جا سکتا ہے، جب کہ نمرود کی "خدائی" قائم تھی اور
حضرت ممدوح کو آخر کار انگاروں کی بھٹی میں جھونک دیا گیا تھا؟ یا کیا حضرت عیسیٰ
کا زمانہ اس خیال کی شہادت بن سکتا ہے، جس میں چاروں طرف رومن ایمپائر کی طاغوتیت
چھائی ہوئی تھی اور چند برسوں کے اندر ہی اندر انہیں پھانسی کا حکم سننا پڑ گیا؟
پھر کیا پیغمبر آخر الزماں ﷺ کا زمانہ اس
نقطہ نظر کے حق میں پیش کیا جا سکتا ہے جب کہ خود مرکز توحید تین سو ساٹھ بتوں کا
گڑھ اور جاہلیت کی راجدھانی بنا ہوا تھا، اور دعوت حق کا جواب دل آزاریوں اور
ایذارسانیوں، کانٹوں اور پتھروں، سماجی بائیکاٹ اور قتل کے منصوبوں سے دیا جارہا
تھا۔ اگر انبیائی دعوتوں کو کسی تاویل سے اپنے لیے ماورائے مثال قرار دے لیا جائے
تو اچھا ذرا نیچے بھی اتر کر دیکھ لیجیے! دیکھیے، یہ مجدد الف ثانی کا زمانہ ہے، اس
میں "مسلمان" حکومت اسلام کے خلاف اپنا پورا زور صرف کرتی نظر آرہی ہے
اور یہ سید احمد بریلوی اور شاہ اسماعیل شہید کا زمانہ ہے جس میں اہل اسلام کے
سینوں پر ایک طرف انگریز اور دوسری طرف سکھ سوار دکھائی دے رہے ہیں اور داڑھیوں تک
پر ٹیکس لگا ہوا ہے۔ نام لے کر بتائیے ان زمانوں میں سے کون سا زمانہ ہے جس کو
دعوت حق کے لیے موجودہ زمانے سے زیادہ سازگار کہا جا سکتا ہے؟
کیا یہ ایک حقیقت نہیں ہے کہ ان میں سے ہر
زمانہ اقامت دین کے لیے اس سے کہیں زیادہ پر خطر اور مایوس کن اور ناسازگار تھا
جتنا کہ آج ہے؟ پس اگر ناسازگاریوں کا لحاظ کیا جائے تو تسلیم کرنا پڑے گا کہ آغاز
آفرینش سے اب تک ایک فیصدی دور بھی ایسے نہیں آئے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ کوئی دور
بھی نہیں آیا جو اس جدوجہد کے لیے ساز گار تھا۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ایسے سخت
زمانوں اور ناموافق حالات میں بھی کتنی ہی کوششیں کامیاب ہو گئیں۔ پھر سمجھ میں
نہیں آتا کہ ہم نے دنیا جہاں کی ساری ناکامیاں اس زمانے کے لیے کیوں مقدر مان لی
ہیں؟ اور ساری مایوسیوں کو اپنے ہی لیے مخصوص سمجھ لیا ہے؟
مزید ستم ظریفی یہ کہ "نا ممکن"
ہونے کا یہ فتویٰ بھی کسی عملی تجربے کی سند کے بغیر ہی دیا جارہا ہے۔ جب اس کام
کی خاطر کبھی براہ راست کوشش ہم نے کی ہی نہیں، تو آخر کس دلیل کی بنا پر یہ نا
ممکن نا ممکن کا شور کیا جا رہا ہے؟ اگر ہم نے فکر و عمل کی ساری قوتوں کے ساتھ،
اور طریق انبیاء کے مطابق، یہ کوشش کر لی ہوتی اور اس کے بعد بھی ساحل مراد دکھائی
نہ دیا ہوتا تو بہر حال یہ ایک تجربہ ہوتا جو عدم امکان کے دعوے کے حق میں بطور
دلیل پیش کیا جا سکتا تھا۔ مگر یہ عجیب دھاندلی ہے کہ دریا میں اترتے نہیں اور دور
کھڑے کھڑے اس کی گہرائی کے اتھاہ ہونے کا دعویٰ کر رہے ہیں!
یقین فرمائیے جو ذہنیت آج کے حالات کو
ناسازگار کہتی ہے اور ان کی موجودگی میں کامیابی کو نا ممکن قرار دے رہی ہے، وہ
قیامت تک کسی امکان کے پالینے میں ناکام ہی رہے گی۔ اور اس کے لیے کوئی زمانہ ایسا
آہی نہیں سکتا، جس میں اس جدوجہد کو شروع کیا جا سکتا ہو۔ جس باطل سے آج وہ لرزاں
ہے وہی ہمیشہ رہے گا۔ صرف اس کی شکلیں بدلتی رہیں گی۔ مگر قیام حق کے مقابلے میں
ہر باطل ایک ہی ہے۔ وہ اپنے کسی دور اور اپنی کسی شکل میں بھی حق کو زندگی کا
رہنما سمجھنے کا روادار نہیں ہو سکتا ہے۔ جب بھی اقامت حق کے لیے جدوجہد کی جائے
گی، وقت کا باطل اپنے ہتھیاروں سے مسلح ہو کر لازماً سامنے آئے گا اور اہل حق کو
مختلف شکلوں میں وہی تمام زحمتیں، رکاوٹیں، مشکلیں اور مصیبتیں استقبال کے لیے
موجود ملیں گی جن کا آج تصور کیا جا سکتا ہے۔ بھولنا نہ چاہیے کہ یہ راہ ہمیشہ خار
زاروں اور شعلہ زاروں ہی سے گزرے گی۔ وہ امکان اور وہ سازگاری، جس کی تلاش ہے اس راہ
کے مسافروں کو نہ کبھی ملی ہے نہ مل سکتی ہے۔
قرآن نے اس حقیقت کو اتنی وضاحت سے بیان کر
دیا ہے کہ غلط فہمی یا خوش گمانی کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ گئی ہے۔ وہ بار بار
فرما چکا ہے کہ ایمان کو طرح طرح کی آزمائشوں سے جانچا پرکھا جاتا ہے اور اللہ کے
حضور وہ اس وقت تک مقبول نہیں ٹھہرتا جب تک کہ وہ اس بھٹی میں تپائے جانے کے بعد
اپنے کو کھرا نہ ثابت کر دے۔ حتی کہ حالات اگر بظاہر بالکل سازگار اور بے خطر
دکھائی دیتے ہوں تو بھی قدرت انہیں... (متن نامکمل)... حقیقت کے ہوتے ہوئے اس منطق
کی داد بھلا کون دے سکتا ہے کہ حالات سخت ناسازگار ہیں اور فضا خطرات سے بھری ہوئی
ہے اس لیے دین کی اقامت کا نام لینا صحیح نہیں۔ قرآن حکیم کے نزدیک تو مشکلات اور
مصائب کے ذریعے دعوائے ایمان کی آزمائش ضروری ہے لیکن اس کے ماننے والوں کا حال یہ
ہے کہ وہ آزمائش میں کامیاب ہو کر اپنے مومن ہونے کا ثبوت پیش کرنے کے بجائے اسے
الٹا اپنے ادائے فرض سے سبکدوش ہونے کی سند جواز بنائے لے رہے ہیں! یہ بالکل ایسا
ہی ہے کہ فوج کا کوئی سپاہی میدان جنگ کا رخ کرنے سے اس لیے انکار کر دے کہ وہاں
سے توپوں کے چھوٹنے اور بموں کے پھٹنے کی دہشت ناک آوازیں آرہی ہیں۔ لیکن اس کے
باوجود وہ سمجھے یہی جارہا ہو کہ مجھے ملک و ملت کا ایک وفادار اور فرض شناس سپاہی
کہا جانا اور بہادری کے تمغے کا مستحق تسلیم کیا جانا چاہیے۔ حالانکہ یہ میدان جنگ
ہی وہ جگہ ہے جہاں اعزاز کا استحقاق حاصل کیا جا سکتا ہے۔
قومی
مفاد کا بت
اس سلسلے میں قومی مفادات کی دہائی بھی کچھ
کم حیرت انگیز نہیں، کیونکہ اس "دلیل" کا مطلب اس کے سوا اور کچھ نہیں
ہو سکتا کہ جس مسلمان کو ہر حال میں انصاف پر مضبوطی سے قائم رہنے اور اللہ کے لیے
حق کی بے لاگ شہادت دینے کی تعلیم دی گئی تھی، خواہ اپنی ہی ذات کے لیے، اپنے
والدین ہی کے یا اپنے اقربا ہی کے خلاف صف آرا ہونا پڑ جائے (کُوْنُوْا
قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ) اور جس کے متعلق یہ طے کیا جا چکا ہے کہ اللہ نے اس کے
جان و مال کو جنت کے عوض خرید لیا ہے (اِنَّ اللّٰہَ اشْتَرٰی...)، اب اسی مسلمان
کو گویا اس بات کی تلقین کی جارہی ہے کہ اگر انصاف کی راہ پر چلنے اور حق کی شہادت
دینے میں تیری ذات کا یا تیرے خاندان کا یا تیری قوم کا نقصان ہوتا ہے تو ایسے
انصاف کو دیوار پر دے مار اور ایسی شہادت حق پر لعنت بھیج! اگر اللہ کی رضا جوئی
اختیار کرنے سے تیری جان یا تیرے مال پر آنچ آتی ہو تو ایسی خدا طلبی کو دور سے
سلام کر!
غور تو کیجیے قومی مفاد کی محبت میں اپنے
مقصد وجود ہی کو چھوڑ بیٹھنے کا خیال کوئی معمولی خیال ہے؟ یا یہ زندگی کا ایک
مستقل بنیادی نظریہ ہے، جس کی اساس پر بننے والی عمارت اس عمارت سے یکسر مختلف
ہوتی ہے جس اسلام یا قرآن تعمیر کرنا چاہتا ہے؟ اس نظریے کو اختیار کر لینے والا
اگر اپنے کو مسلمان کہتا ہے تو کہے مگر اسے تسلیم کرنا پڑے گا کہ وہ ایک ایسا
"مسلمان" ہے جس کی نگاہ میں بنیادی اہمیت دین اور قیام دین کو نہیں بلکہ
اس کے اپنے معاشی اور سیاسی مفاد کو حاصل ہے۔ جو ایسا کوئی راستہ اختیار کرنے سے
ڈرتا ہے جس سے اس کو اپنا یا اپنی قوم کا کوئی مادی مفاد خطرے میں پڑا دکھائی دیتا
ہو اور جو دین کو دنیا پر، آخرت کو عاجلہ پر، معاد کو معاش پر، رضائے الہی کو قومی
مفاد پر یعنی مقصد زندگی کو زندگی پر قربان کر دینے ہی کو دانش مندی سمجھتا ہے۔
کیا اس ذہنیت کو مومنانہ ذہنیت سمجھا جا
سکتا ہے؟ کیا یہ وہی انداز فکر ہے جو قرآن کا ہو سکتا ہے؟ اگر یہ ذہنیت اور یہ
انداز فکر ایک مومن اور پیرو قرآن کا ہو سکتا ہے تو پھر وہ کون سی ذہنیت اور انداز
فکر ہے جسے ہم کفر اور مادیت کا مخصوص انداز کہہ سکتے ہیں؟ کیا ہمیں قرآن کی یہ
بات یاد نہیں رہی کہ "اللہ نے کسی شخص کے سینے میں دو دل نہیں بنائے
ہیں" (مَا جَعَلَ اللّٰہُ لِرَجُلٍ مِّنۡ
قَلۡبَیۡنِ
فِیۡ جَوۡفِہٖ
۔ الاحزاب : ۴)۔
اور جب ہر شخص کے سینے میں دل ایک ہی ہے تو اس میں بیک وقت دو محبوبوں اور دو
معبودوں کی گنجائش کہاں سے نکل سکتی ہے؟ اس میں آباد تو صرف ایک ہی کی محبت ہو
سکتی ہے، یا خدا کی یا قوم اور قومی مفاد کی۔ اس لیے حضرت مسیح کی زبان میں اسی
بات کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ "آدمی دو مالکوں کی خدمت نہیں کر سکتا۔
کیونکہ یا تو ایک سے عداوت رکھے گا اور دوسرے سے محبت، یا ایک سے ملا رہے گا اور
دوسرے کو ناچیز جانے گا۔ تم خدا اور دولت دونوں کی خدمت نہیں کر سکتے۔" (متی
باب ۶)
غرض اس نظریئے کے ساتھ خدا پرستی کا جوڑ
کبھی نہیں لگ سکتا۔ یہ ایک روشن حقیقت ہے، آسمان کے سورج سے زیادہ روشن۔ اس لیے جس
قسم کے مفاد قومی کی دہائی دی جارہی ہے وہ ایک خطرناک بت ہے جسے توڑے بغیر اسلام
کا مفاد پورا نہیں کیا جا سکتا۔ زمانہ نبوت میں بہت سے منافقوں کے نفاق کی بنیاد
بھی اسی مفاد پرستانہ ذہنیت پر تھی۔ ایمانی اخلاص کے مطالبے کے جواب میں وہ کہا
کرتے تھے کہ:
نَخْشٰۤی
اَنْ تُصِیۡبَنَا دَآئِرَۃٌ ؕ
(المائدہ: ۵۲)
"ہمیں
ڈر ہے کہ ہم پر کوئی مصیبت آجائے گی۔"
یعنی اگر ہم اخلاص کے ساتھ اور بالکل یکسو
ہو کر ملت اسلامی میں علانیہ شامل ہو گئے تو ہم کو مصیبتیں گھیر لیں گی۔ ماحول
ہمارا دشمن ہو جائے گا اور اسلام کی وجہ سے ہم سارے جہاں کی عداوتوں کا نشانہ بن
جائیں گے۔ اسی طرح بہت سے تھڑدلے کفار کا بھی یہی کہنا تھا کہ "محمد ﷺ! ہم
تمہاری تعلیمات کی سچائی سے انکار نہیں کرتے، مگر ہماری مشکل کا کیا علاج کہ:
اِنۡ
نَّتَّبِعِ الْہُدٰی مَعَکَ نُتَخَطَّفْ مِنْ اَرْضِنَا ؕ
(القصص: ۵۷)
"اگر
ہم آپ کے ساتھ ہدایت الہی کے پیرو بن جائیں تو (مادر) وطن کی گود سے اچک لیے جائیں
گے۔"
یہ دونوں گروہ اتباع حق کے معاملے میں جس
انداز فکر اور طرز استدلال سے کام لے رہے تھے کیا آج قومی مفاد کی باتیں انہی کی
یاد تازہ نہیں کر رہی ہیں؟ قرآن سراپا حق ہے، پیغمبر صادق و مصدوق ﷺ ہے۔ اسلام کی
صحیح پیروی ہی فلاح اور خوش بختی کا واحد ذریعہ ہے۔ لیکن اگر قرآن کے مطالبے، رسول
کی ہدایات اور اسلام کے تقاضوں پر عمل ہوا تو ہم برباد ہو جائیں گے! ہمیں اندیشہ
نہیں بلکہ یقین ہے کہ زمانہ بھر کی آفتیں ہم پر ٹوٹ پڑیں گی، ذرہ ذرہ ہماری مخالفت
پر کمر باندھ لے گا۔ ہم معاشی غلام اور سیاسی چھوت بن جائیں گے! افسوس! ذرا نہ
سوچا گیا کہ یہ قومی مفاد کا بچانا ہے یا اللہ کے غضب کو دعوت دینا؟
صحیح
مفادات کے تحفظ کی قطعی ضمانت
یہ جو کچھ عرض کیا گیا، یہ فرض کر کے عرض
کیا گیا کہ قومی مفادات کی تباہی کا اندیشہ ایک واقعی اندیشہ ہے۔ لیکن کیا حقیقت بھی
اس مفروضے کے مطابق ہی ہے؟ کیا امت اگر دین کی ہو رہی تو دنیا سے فی الواقع اسے
ہاتھ دھو ہی لینا پڑے گا؟ قرآن مجید کا کہنا ہے کہ نہیں، ایسا ہر گز نہیں ہے بلکہ
حقیقت حال اس کے بالکل برعکس ہے۔ یعنی اقامت دین کا فریضہ اگر بجا لایا گیا تو اس
سے صرف آخرت ہی نہیں سنورے گی بلکہ اس کی دنیا بھی اجلی ہو جائے گی اور کسی ایسی
چیز سے محروم نہ رہ جائے گی، جس کی عالی حوصلہ قو میں طلب گار اور آرزومند ہوا
کرتی ہیں۔ چنانچہ وہ ان محبوب و مطلوب چیزوں میں سے ایک ایک چیز کا نام لے کر
"با ایمان" مومنوں کو اس کے لازمی حصول کی بشارت دیتا ہے۔
مثلا با عزت امن واطمینان کی زندگی کے بارے
میں، جو صحیح قومی مفادات میں سے ایک اہم مفاد ہے، وہ فرماتا ہے:
اَلَّذِیۡنَ
اٰمَنُوۡا وَ لَمْ یَلْبِسُوۡۤا
اِیۡمٰنَہُمۡ
بِظُلْمٍ اُولٰٓئِکَ لَہُمُ الْاَمْنُ وَ ہُمۡ
مُّہۡتَدُوۡنَ
(الانعام : ۸۲)
"جو
لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان کو شرک (ظلم) سے آلودہ نہیں کیا، ان کے
لیے امن ہے۔"
اسی طرح معاشی خوشحالی کے متعلق وہ اللہ جل
شانہ کے یہ ارشادات سناتا ہے کہ:
وَ
لَوْ اَنَّ اَہۡلَ الْقُرٰۤی اٰمَنُوۡا
وَ اتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیۡہِمۡ
بَرَکٰتٍ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الۡاَرْضِ (الاعراف : ٩٦)
"اگر
بستیوں والے ایمان لائے اور تقوی کی راہ چلے ہوتے تو ہم ان پر آسمانوں اور زمین سے
برکتوں کے دروازے کھول دیتے۔"
وَ لَوْ اَنَّہُمْ اَقَامُوا التَّوْرٰىۃَ
وَ الْاِنۡجِیۡلَ
وَ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡہِمۡ
مِّنۡ رَّبِّہِمۡ
لَاَکَلُوۡا مِنۡ
فَوْقِہِمْ وَ مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِہِمْ ؕ
(المائدہ : ٦٦)
"اگر
یہ اہل کتاب توراۃ اور انجیل کو اور ان ہدایتوں کو جو ان کے رب کی طرف سے ان پر
اتاری گئی تھیں قائم کرتے تو اپنے اوپر سے بھی رزق پاتے اور اپنے قدموں کے نیچے سے
بھی۔"
سیاسی سربلندی کے بارے میں، جسے غالباً
قومی مفادات میں سب سے زیادہ نمایاں حیثیت حاصل ہے، وہ اللہ رب العزت کی طرف سے یہ
قول دیتا ہے کہ:
اَنَّ
الۡاَرْضَ یَرِثُہَا
عِبَادِیَ الصّٰلِحُوۡنَ (الانبیاء : ۱۰۵)
"بے
شک زمین کی وراثت میرے صالح بندوں کو ملتی ہے۔"
وَ اَنۡتُمُ
الۡاَعْلَوْنَ اِنْ
کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ (آل عمران : ۱۳۹)
"تم
ہی غالب رہو گے اگر ایمان والے ہوئے۔"
ان الگ الگ یقین دہانیوں کے علاوہ اس کی
ایک جامع یقین دہانی بھی سنیے۔
وَعَدَ
اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا
مِنۡکُمْ وَ عَمِلُوا
الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّہُمْ فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیۡنَ
مِنۡ قَبْلِہِمْ۪
وَ لَیُمَکِّنَنَّ لَہُمْ دِیۡنَہُمُ الَّذِی ارْتَضٰی
لَہُمْ وَ لَیُبَدِّلَنَّہُمْ مِّنۡۢ بَعْدِ خَوْفِہِمْ
اَمْنًا ؕ (النور : ۵۵)
"اللہ
تعالیٰ کا تم میں سے ان لوگوں سے، جو ایمان لائے اور جنہوں نے اچھے عمل کیے یہ
وعدہ ہے کہ وہ انہیں زمین میں اقتدار عطا فرمائے گا، اور ان کے لیے ان کے اس دین
کی جڑیں گہری جما دے گا جسے ان کے لیے اس نے پسند فرمایا ہے اور ان کے خوف کو امن
و سلامتی سے بدل دے گا۔"
پھر اسی بات کو منفی شکل میں بھی دیکھیے۔
لَا
یَضُرُّکُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اہۡتَدَیۡتُمْ
ؕ
(المائدہ : ۱۰۵)
"بھٹکے
ہوئے لوگ تمہارا کچھ بگاڑ نہ سکیں گے جب تم سیدھی راہ پر ہو گے۔"
قرآن مجید کے یہ سارے وعدے اور اس کی یہ
یقین دہانیاں آپ کے سامنے ہیں۔ ان کی روشنی میں اس خوفِ بربادی کی حقیقت پوری طرح
عیاں ہو جاتی ہے جو اقامت دین کا نام سنتے ہی قومی مفاد کے نام نہاد پاسبانوں پر
طاری ہو جایا کرتا ہے۔ کیا اب بھی اس ایمان کش خام خیالی کو کوئی وزن دیا جا سکتا
ہے کہ یہ جدوجہد مسلم مفادات کو نگل جائے گی؟ یا اس کے برعکس یہ باور کرنا ضروری
ہو جاتا ہے کہ اگر ایمان و عمل صالح کی جرات مندانہ زندگی اختیار کر کے صحیح معنوں
میں یہ فریضہ انجام دیا گیا تو اس کے نتیجے میں ہمیں ہر وہ چیز مل جائے گی - اور
قطعاً مل جائے گی - جسے قوم و ملت کا واقعی مفاد کہا جا سکتا ہے۔
لیکن اگر کسی بد نصیب کو خود ایمان کی قوت
تسخیر ہی سے بد گمانی ہو اور اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر اعتماد نہ ہو تو بڑی زبردستی
کرتا ہے اگر اس کے باوجود بھی وہ امت مسلمہ کے معاملے میں کچھ بولنے کا اپنے کو حق
دار سمجھتا ہے۔ بلا شبہ ایسے لوگوں کو کوئی بڑی سے بڑی دلیل بھی خوف اور مایوسی کی
دلدل سے نہیں نکال سکتی۔ ان کے نزدیک تو اقامت دین کی جدوجہد کیا، نفس اسلام ہی
خوف اور تباہی کا سامان ہے۔
ہاں اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ
اس جدوجہد کے نتیجے میں عزت و اقبال اور امن و خوشحالی کا حصول بڑی دشواریوں اور
قربانیوں کے بعد ہی ہو گا اور ابتداء میں ملت کو کچھ نہ کچھ کھونا ضرور پڑے گا۔
لیکن ظاہر ہے کہ یہ دشواری کچھ اسی مقصد کی راہ میں نہیں آتی بلکہ یہاں ہر بڑے
مقصد کی خاطر اسی طرح کی قربانیاں دینی پڑتی ہیں اور جسے کچھ پانا ہوتا ہے وہ پہلے
کچھ نہ کچھ کھو ضرور لیتا ہے۔ ایک کسان فصل اٹھانے کے زمانے میں اپنے کھیتے اسی
وقت بھر سکتا ہے جب کہ تخم ریزی کے زمانے میں اس نے اسے بقدر ضرورت خالی بھی کیا
ہو۔ اس لیے قومی مفادات کی اگر فصل کاٹنی ہو تو اس کے لیے پہلے تخم ریزی کا صرفہ
اور دیگر ضروری مشقتیں برداشت کرنی ہی پڑیں گی اور اس حد تک مفادات سے دستبرداری
کا اندیشہ ہی نہیں بلکہ یقین بالکل بجا ہے۔ لیکن کیا چند پیسے دے کر اشرفیوں کا
توڑا حاصل کر لینا کوئی گھاٹے کا سودا ہے؟ اور کیا اسے مفادات کی تباہی کہا جائے،
یا ان کے بہتر سے بہتر حصول اور تحفظ کی بہتر سے بہتر ضمانت؟
پھیر
کا راستہ؟
اب رہا یہ سوال کہ آیا ناسازگار حالات کے
پیش نظر ہم نصب العین کے لیے براہ راست جدوجہد کرنے کے بجائے پھیر کا راستہ اختیار
کر سکتے ہیں؟ تو اس سوال کا جواب کسی طرح بھی اثبات میں نہیں دیا جا سکتا۔ نہ تو
عقل اس کی حمایت کرتی ہے، نہ حق کی فطرت اسے گوارہ کرنے کو تیار ہے اور نہ اب تک
کی تاریخ سے اس بات کا کوئی ثبوت ملتا ہے، کہ اس مقصد کو صحیح معنوں میں اپنا مقصد
زندگی قرار دینے والے کسی شخص یا گروہ نے یہ پالیسی اختیار کی ہو۔
یہ جدوجہد متمدن اور غیر متمدن، آزاد اور
غلام، دولت مند اور غریب غرض ہر طرح کی قوموں کے اندر چلتی رہی ہے اور ہر طرح کے
حالات میں انبیاء آتے رہے ہیں۔ مگر ہر ایک نے آتے ہی سب سے پہلی آواز جو منہ سے
نکالی وہ یہی اور صرف یہی تھی کہ:
اَنِ
اعْبُدُوا اللّٰہَ وَ اجْتَنِبُوا الطَّاغُوۡتَ
ۚ
(النحل : ۳۶)
"(اے
بندگان خدا!) خدا کی بندگی کرو اور طاغوت کی اطاعت سے دور رہو۔"
کاوش کے باوجود بھی کسی نبی کو ہم اس راست
پالیسی سے ہٹ کر کوئی پھیر والی پالیسی اختیار کرتے ہوئے نہیں پاتے۔ ابھی اس سوال
کو چھوڑ دیجیے کہ ان حضرات نے ایسا کیوں کیا؟ پہلے اس حقیقت کو اچھی طرح پرکھ کر
دیکھ لیجیے کہ ایسا ہی ہوا یا نہیں؟ اگر ایسا ہی ہوا، جیسا کہ واقعہ ہے، تو پھر ان
لوگوں کے لیے جو اسوۂ انبیاء ہی کو اپنا مرجع کامل مانتے ہوں، اس طریق کار کو چھوڑ
بیٹھنا جائز کس حجت شرعی کی بنا پر ہو سکتا ہے؟
اگر حالات زمانہ کے اختلافات کوئی چیز ہیں
تو کیا اس بات کا دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ تمام انبیاء کے زمانے تو بالکل یکساں
نوعیت کے تھے جس کی وجہ سے ان سب کے طرز عمل میں ایسی مکمل یکسانی اور ہم رنگی
پائی جاتی ہے اور یہی بیسویں صدی کا زمانہ ایک ایسا انوکھا اور غیر معمولی زمانہ
ہے جس کے حالات یکا یک اب تک کی پوری انسانی تاریخ کے حالات سے یکسر مختلف ہو گئے
ہیں؟ یقینا کوئی بھی سمجھ بوجھ رکھنے والا انسان اس طرح کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ سب
جانتے ہیں کہ کچھ بنیادی حقائق تو ایسے ہیں کہ جو کبھی بدلتے نہیں اور جو تمام
انسانوں میں یکساں طور سے کار فرما رہے ہیں اور آئندہ بھی رہیں گے۔ یہ صرف ظاہری
حالات اور عارضی کیفیات ہوتی ہیں جو ہر دور کی الگ الگ ہوتی ہیں اور آئندہ بھی
ہوتی رہیں گی۔ اس لیے اگر ظاہر باتوں کا لحاظ کیا جائے تو جس طرح آج کا زمانہ پہلی
صدی ہجری سے مختلف ہے اسی طرح پہلی صدی ہجری کا زمانہ دور عیسوی سے اور دور عیسوی
دور موسوی سے بھی لازماً مختلف تھا۔
اب اگر اس اختلاف احوال کے باوجود تمام
انبیاء نے یکساں طور پر ہمیشہ براہ راست جدوجہد کی پالیسی اختیار کی، تو اس ظاہری
اختلاف کے باوجود بھی، جو ہمارے زمانے اور پچھلے زمانوں میں نظر آتا ہے ہمارے لیے
ضروری ہے کہ ہم بھی یہی پالیسی اختیار کریں۔ کیونکہ اس کام کے لیے کوئی دوسرا
طریقہ اپنایا ہی نہیں گیا اور تمام انبیاء کا اسی طریق کار کو اختیار کرنا اس بات کی
دلیل ہے کہ اس جدوجہد کا مزاج ہی براہ راست اقدام کا طالب ہے۔
یہ دلیل یقین سے بڑھ کر ہم کو حق الیقین کی
حد تک پہنچا دے سکتی ہے اگر اس میں تاریخ انبیاء کی یہ گواہی بھی شامل کر دی جائے
کہ بعض انبیاء کو پھیر کی پالیسی اختیار کرنے کے بہتر سے بہتر مواقع ہاتھ آئے۔ مگر
انہوں نے پوری صفائی اور طمانیت کے ساتھ ان کو ٹھکرا دیا۔ خود سید الانبیاء ﷺ کے
سامنے قریش کی جس پیش کش کا تذکرہ پچھلے صفحوں میں آچکا ہے غور فرمائیے، اس نے اس
پالیسی کا کیسا سنہری موقع فراہم کر دیا تھا؟ جب انہوں نے کہا کہ "آپ کو ہم
اپنا بادشاہ بنائے لیتے ہیں اور اس کے لیے ہم آپ سے یہ مطالبہ بھی نہیں کرتے کہ آپ
اپنی 'دعوت توحید' سے دست کش ہو جائیں۔ آپ سے ہماری صرف اتنی گزارش ہے کہ آپ ہمارے
بتوں کی تردید اور تحقیر کرنے اور ہمارے دین کی عیب چینیاں فرمانے سے باز
آجائیں"۔
آج کے اہل سیاست و تدبر کے نقطہ نظر سے یہ
پیش کش یقیناً ایک نعمت غیر مترقبہ ہی تھی اور اس کو ٹھکرا دینے کی بابت سوچنا بھی
حرام مطلق سے کم نہ تھا۔ انہیں اگر مشورہ دینے کا موقع ملتا تو ان کا مشورہ اس کے
سوا اور کچھ نہ ہوتا کہ آپ اس پیش کش کو فوراً قبول فرما لیں۔ تاکہ اس سے ایک طرف
تو ان مصیبتوں اور فتنوں کا بھی خاتمہ ہو جائے جو آپ ﷺ اور آپ ﷺ کے پیروؤں کی
زندگی اجیرن کیے ہوئے ہیں، دوسری طرف تخت حجاز پر قابض ہو چکنے کے بعد آپ اپنے
حاکمانہ اثر واقتدار سے کام لیتے ہوئے "حکمت" کے ساتھ اپنے دین کی جڑیں
مضبوط کرتے جائیں، یہاں تک کہ رفتہ رفتہ وہ پورے عرب پر قائم ہو جائے۔
مگر آپ کو معلوم ہے کہ پیغمبر عالم ﷺ نے اس
"سنہرے" موقع پر کیا طرز عمل اختیار کیا؟ اور اس پیش کش کا کیا جواب
دیا؟ یہ کہ:
"میں
تمہارے پاس جو پیغام لے کر آیا ہوں اس سے میری غرض یہ نہیں ہے کہ اس کے ذریعے
تمہاری دولت حاصل کر لوں یا جاہ و عظمت کا مالک بن جاؤں یا تمہارا بادشاہ بن جاؤں۔
میں نے تمہیں اپنے رب کے پیغام پہنچا دیئے اور تمہاری خیر خواہی کا حق ادا کر دیا۔
اب اگر تم میری دعوت کو مان لیتے ہو تو وہ تمہارے لیے دنیا و آخرت میں باعث خیر
ثابت ہو گی اور اگر اسے رد کر دیتے ہو تو میں پوری مضبوطی سے اپنے کام میں لگا
رہوں گا یہاں تک کہ اللہ میرے اور تمہارے درمیان فیصلہ کر دے۔" (ابن ھشام:
جلد ۱)
یہ کسی جوشیلے اور جذبات کی رو میں بہنے
والے انقلابی نوجوان کے الفاظ نہ تھے بلکہ اس معلم حکمت و دانش ﷺ کے الفاظ تھے، جس
کے متعلق ہمارا ایمان ہے کہ اس کے دل اور زبان پر خدا کی نگرانی قائم تھی اور جس
نے کبھی کوئی بات جذبات سے بے قابو ہو کر نہیں کہی۔ اس لیے ایک مومن تو اس وہم کو
قریب بھی نہ پھٹکنے دے گا کہ آنحضرت ﷺ نے اس پیش کش کا حق نہیں پہچانا اور ایک
ایسے طریق کار کے ہاتھ آتے ہوئے بھی اسے عمداً ترک کر دیا، جو حصول مقصد کے لیے
راست جدوجہد سے زیادہ موزوں اور کارگر تھا۔ یا یہ کہ آپ ﷺ میں نعوذ باللہ آج کے
نام نہاد مدبروں جیسی بھی انجام بینی نہ تھی کہ ماحول اور زمانے کے تقاضوں کا
اندازہ کر سکتے اور اس کے نتیجے میں اس پالیسی کو اختیار کر لیتے۔ ایسا کوئی گمان
بھی مسلمان کے لیے ممکن نہیں۔ اب اگر آپ ﷺ نے موقع ملنے کے باوجود دعوت حق اور
اقامت دین کا براہ راست طریقہ ترک نہیں کیا تو یہ اس بات کی قطعی دلیل ہے کہ پھیر
کا راستہ اختیار کرنا کسی اور "حکمت و دانش" کے مطابق ہو تو ہو مگر نبوی
حکمت و دانش کے مطابق ہر گز نہیں ہے۔
خالص عقلی حیثیت سے بھی دیکھیے تو اس طرز
فکر اور اس نظریئے میں حیلہ جوئیوں، خوش گمانیوں اور خود فریبیوں کے سوا کچھ نظر
نہ آئے گا۔ پھیر کے راستے اختیار کرنے کے معنی یہی ہیں کہ ایک زمانے تک حق کو باطل
نما بنا کر پیش کیا جائے، اور جس باطل میں مسلمان گھرا ہوا ہے اس سے نکل کر حق کی
طرف بھاگنے کے بجائے ایک دوسرے باطل کے سائے میں جا کھڑا ہو۔ کیونکہ اگر وہ موجودہ
باطل کو درہم برہم کر کے ایک ایسا ماحول قائم کرنے کی کوشش کرے گا جو حق نہ ہو تو
وہ لازماً باطل ہی ہو گا۔ جس کا رنگ و روغن تو نیا ضرور ہو گا مگر اصل فطرت اس کی
بھی بہر حال وہی ہو گی جو موجودہ باطل کی ہے۔ آپ کہتے ہیں کہ ہم اس پر اثر ڈال کر
اپنے نصب العین کے لیے نسبتاً زیادہ سازگار بنالیں گے۔ مگر افسوس ہے کہ دنیائے عمل
میں اس خام خیالی کی کوئی قیمت نہیں۔ کیونکہ باطل خواہ کوئی قالب اختیار کرے وہ حق
کے لیے کبھی سازگار نہیں ہو سکتا اور اگر اس میں حق کے کچھ پیوند آپ بہ ہزار دقت
لگا بھی لیں گے تو بھی وہ آپ کے اصل مقصد کے لیے خالص باطل سے کم مضر ثابت نہ ہو
گا۔
دور نہ جائیے۔ اسی ہندوستان میں بہت سی
اسلامی ریاستیں قائم ہیں (یا تھیں) جن میں کم و بیش وہ تمام باتیں موجود ہیں جن کا
آپ آئندہ نظام ملکی میں جوڑ لگانا چاہتے ہیں۔ مگر وہاں اقامت دین کا نام ہی لے کر
دیکھیے، زندگی عذاب بنے بغیر نہ رہ سکے گی۔ آپ اپنی اس جدوجہد میں غیر ملکی حکومت
ہی کو سد راہ سمجھتے ہیں اور اسی لیے اس کے ہٹ جانے کا انتظار کر رہے ہیں۔ مگر آپ
شاید بھولتے ہیں کہ حضرت مسیح علیہ السلام کے مشن کے متعلق رومی اقتدار بھی خاموش
ہی تھا کہ ان کی اپنی قوم، یا یوں کہیے کہ اس وقت کے "مسلمانوں" ہی نے
بڑھ کر اس کی مسکیں کس دیں۔ پھر اپنی حال کی تاریخ پر نظر ڈالیے، شیخ جمال الدین
افغانی نے ایک ایسی تحریک اٹھائی جو صرف فی الجملہ دینی تحریک تھی، مگر آپ کی انہی
موجودہ "اسلامی" حکومتوں نے ان کو رہنے کے لیے جگہ دینے تک سے انکار کر
دیا اور اگر آج بھی کسی کو ہمت ہو تو ان ممالک میں یہ آواز اٹھا کر قدر عافیت
معلوم کر سکتا ہے۔¹
¹ یہ
الفاظ اس وقت لکھے گئے تھے جب لا الہ الا اللہ کی بنیاد پر قائم کی جانے والی
"مملکت خداداد پاکستان" بھی وجود میں نہیں آئی تھی۔ وجود میں آچکنے کے
بعد اس کے ناخداؤں نے وہاں کی اسلامی تحریک کے ساتھ جو کچھ کیا اور پھر چاہنے کے
باوجود جو کچھ وہ کر نہ سکے وہ سب کے سامنے ہے۔ اسی طرح مصر کی فوجی حکومت نے وہاں
کے اسلام پسندوں کے ساتھ جس بربریت کا سلوک کیا وہ اس تلخ حقیقت کی سب سے زیادہ
نمایاں اور عبرت ناک مثال ہے۔
درحقیقت یہ دفع الوقتی کی باتیں ہیں اور یہ
نظریہ اسی ذہنیت کی پیداوار ہے جس نے دعوت قرآنی کے جواب میں حالات کی
"ناسازگاریوں" سے گھبرا کر نبی ﷺ سے مطالبہ کیا تھا: ائْتِ بِقُرْاٰنٍ
غَیۡرِ ہٰذَاۤ اَوْ
بَدِّلْہُ ؕ (یونس: ۱۵) یعنی اس کے بجائے کوئی
اور قرآن لائیے یا پھر اس میں کچھ ایسی ترمیمیں کر دیجیے، جن کے بعد وہ ہماری
خواہشوں کے ساتھ اور زمانہ و ماحول سے ہم آہنگ ہو جائے۔
اس طرز پر سوچنے والوں کی نگاہ شاید اس طرف
نہیں جاتی کہ دنیا کے ہنگامے جیسے آج ہیں کل بھی ویسے ہی رہیں گے، اور جو مصالح
اور مشکلات آج ان کا راستہ روک رہی ہیں آئندہ بھی ان میں کوئی کمی رونما نہ ہو گی۔
اس لیے اس پالیسی کا حاصل صرف یہ ہو گا کہ نہ کبھی پھیر کے راستے اختیار کرنے کے
اسباب و محرکات ختم ہوں گے نہ اقامت دین کے لیے براہ راست جدوجہد کی کبھی نوبت
آسکے گی۔²
² جس
وقت یہ الفاظ لکھے گئے تھے اس وقت تک یہ بات بھی محض ایک قیاس کی حیثیت رکھتی تھی
لیکن تقسیم ہند کے بعد سے لے کر اب تک کی تاریخ اسے بھی ایک حقیقت واقعی ثابت کر
چکی ہے۔ آزادی سے پہلے ہمارے جہاندیدہ ارباب دین و سیاست بڑی بزرگانہ شان سے
فرمایا کرتے تھے کہ اس وقت یہاں انگریز اپنے پنجے گاڑے ہوئے ہے۔ پہلے اسے اکھاڑ
دو، پھر آزادی کی فضا میں اس کام کو یکسو ہو کر کیا جائے گا۔ مگر آج آزادی کی کھلی
فضا میں بھی یہ مبارک زبانیں اس طرح بند ہیں کہ حال تو حال، مستقبل بعید کے بارے
میں بھی کوئی کلمہ تشفی سنانے کی جرات نہیں ہو رہی ہے۔
کلی
اور ابدی مایوسی / حیرت انگیز حیا کشی
تیسرا گروہ جو کچھ کہتا ہے، اس کے سوچنے کا
جو انداز ہے اور اس کے جو دلائل ہیں، وہ سب قریب قریب وہی ہیں جو دوسرے گروہ کی
زبانی گزشتہ بحث میں آپ سن چکے ہیں۔ اس لیے انہیں دوبارہ نقل کرنے اور ان کی غلطی
واضح کرنے کی ضرورت نہیں۔ البتہ ایک حیثیت سے یہ لوگ ان سے مختلف ضرور ہیں اور وہ
یہ کہ فرض ناشناسی اور مقصد فراموشی کی جو بیماری وہاں سیاسی دور اندیشی اور زمانے
کی مصلحتوں کے پردے میں چھپا دی گئی تھی، یہاں وہ صاف گوئی اور جرات کے ساتھ ظاہر
کر دی گئی ہے۔ اس لیے ان لوگوں کے ظاہر و باطن کی ہم رنگی کا اعتراف کرنا پڑے گا۔
یہ دوسری بات ہے کہ اس ایمانی بے غیرتی کا تصور، جو اس صاف گوئی اور جرات اظہار کے
پیچھے کام کر رہی ہے، دل پر بڑی سخت چوٹ لگاتا ہے اور کچھ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ
گویا ان لوگوں نے اپنے جسم سے کپڑے اتار کر پھینک دیئے ہیں۔ خدا ہی بہتر جانتا ہے
کہ ان میں کتنوں نے یہ حیا کشی ہوش اور بیداری کے عالم میں کی ہے اور کتنوں نے
غفلت اور بے ہوشی کی حالت میں؟
ایک طرف تو اقامت دین کی اس اہمیت کو
دیکھیے کہ اس کے بغیر مسلمان کا کوئی موقف ہی باقی نہیں رہ جاتا! دوسری طرف ان
حضرات کا یہ ارشاد سنیے کہ یہ نصب العین ہے تو بالکل برحق، مگر ہم جیسے کمزور
لوگوں کے بس کا یہ کام نہیں ہے۔ جس مشن کو پیغمبر ﷺ کی تربیت یافتہ جماعت بھی تیس
برس سے زیادہ نہ چلا سکی، اس کے لیے ہم جیسے ضعیف الایمان لوگوں کا دم خم دکھانا
تقدیر سے لڑنا ہے۔ اب وہ زمانہ واپس نہیں آسکتا جو تیرہ سو برس پہلے گزر چکا ہے۔
اس ارشاد کا ظاہر یقیناً بڑا عاجزانہ ہے
مگر تہہ میں اتر کر دیکھیے تو یہ عاجزانہ نہیں بلکہ باغیانہ نظر آئے گا۔ جب اقامت
دین کی جدوجہد سے از خود کنارہ کش ہو کر اور باطل و منکر کے ساتھ عدم تعرض کی
پالیسی اختیار کر کے انسان پیروان اسلام کی صف پائیں میں بھی جگہ نہیں پا سکتا اور
اللہ کے رسول ﷺ نے ایسے شخص کو ایمان کے آخری ذرے سے بھی محروم قرار دیا ہے، تو
سوچنے کی بات ہے کہ بڑی سے بڑی کمزوری اور مایوسی بھی اس فرض کی انجام دہی سے بے
تعلق ہو جانے کا کوئی حق کیسے دلا سکتی ہے؟ اگر کہیں فی الواقع یہ بے تعلقی ہے تو
ماننا پڑے گا کہ کسی کمزور سے کمزور ایمان کی تلاش بھی وہاں بے سود ہے۔ اسلام نے
اپنا کوئی "سستا ایڈیشن" شائع نہیں کیا ہے جس کے تحت اس "دم خم
دکھانے" سے نجات ممکن ہو۔ وہ شخص دھوکے میں ہے جو یہ سمجھے بیٹھا ہے کہ اس
قطعی لازمہ ایمانی سے بے بہرہ رہ کر بھی ایمان اور رضائے الہی کی کوئی مقدار حاصل
کی جاسکتی ہے۔
تاریخ
خلافت کا "استدلال"
اس طرز فکر کی بنیادوں میں سب سے زیادہ
اہمیت اور مرکزیت جس چیز کو حاصل ہے اور جو ایک نئی "دلیل" کی حیثیت بھی
رکھتی ہے وہ یہ ہے کہ جو چیز صحابہؓ کے ہاتھوں میں تیس برس سے زیادہ پوری طرح قائم
نہ رہ سکی، اس کے لیے اب کوئی سعی بالکل لا حاصل ہے۔ یہ "دلیل" ان معنوں
میں یقیناً ایک زبردست دلیل ہے کہ اس کا عام لوگوں کے حوصلوں پر بڑا مرعوب کن اثر
پڑتا ہے۔ چنانچہ واقعات شہادت دیتے ہیں کہ مسلمانوں کے اندر مایوسی اور دل شکستگی
کا زہر پیدا کرنے میں اس خیال نے جتنا مؤثر پارٹ ادا کیا ہے اس کا اندازہ بھی مشکل
ہے، لیکن یہ بات کہ یہ "دلیل" واقعتاً بھی دلیل ہے اور وہ عام جذبات ہی
کو متاثر نہیں کرتی بلکہ عقل سے بھی اپنا وزن تسلیم کرا سکتی ہے، حقیقت سے بالکل
دور ہے۔
کیونکہ اس استدلال میں جس چیز کو بنیاد
قرار دے کر اقامت دین کے فریضے کو اپنے حق میں ساقط سمجھ لیا گیا ہے اس کا اس
فریضے کی ادائیگی سے فی الواقع کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔ کسی اصول اور نصب العین پر
جب آپ ایمان لا چکے تو اس کے مطالبات آپ کو بہر حال پورے کرنے پڑیں گے۔ اور اس بات
کا آپ کی ذمہ داری پر ہر گز اثر نہیں پڑ سکتا کہ اسے کبھی ایک لمبے عرصے تک نافذ
العمل نہیں رکھا جا سکا ہے۔ اور اگر اس بنیاد پر کسی نے اپنی ذمہ داری کو ادا کرنا
چھوڑ دیا تو یہ اس کے قول و عمل کے تضاد کی ایک بدترین مثال ہو گی۔
سوچنا چاہیے کہ ہم نے اسلام کی علم برداری
آیا اس لیے قبول کر رکھی ہے کہ وہ فی نفسہ حق ہے، یا اس کا کوئی اور سبب ہے؟ اگر
کوئی اور سبب ہے تو پھر ہم پر دینی اور اخروی جہت سے اس کا کوئی مطالبہ واجب ہو ہی
نہیں سکتا، نہ ہم پر اس کے لیے کسی جدوجہد کے ترک کر بیٹھنے کا الزام لگ سکتا ہے۔
لیکن اگر پہلی بات ہے، جیسا کہ ایک ایک مسلمان کے بارے میں توقع کی جانی چاہیے، تو
ایک غیر مسلم بھی تاریخ خلافت کی آڑ لینے میں ہمیں حق بجانب نہیں قرار دے سکتا۔
تیس اور چالیس برس تو در کنار، اگر یہ نظام
اپنی اصل اور معیاری شکل میں کامیابی کے ساتھ کبھی ایک دن بھی قائم نہ رہ سکا ہوتا
تو بھی اس کے قائم کرنے کی ہماری ذمہ داری اپنی جگہ جوں کی توں باقی ہی رہتی اور
اس کے لیے سر دھڑ کی بازی بہر حال لگانی ہی پڑتی۔ جب ہم نے اس کو حق مانا اور اس
کی علمبرداری کا دعویٰ کیا ہے تو ہمارے لیے یہ دیکھنے کی کوئی گنجائش باقی نہیں
رہی کہ اس راہ میں کس نے کیا کیا اور کب کیا؟ اب ہمارے فرائض کی تعیین وہ نصب
العین کرے گا جس کو حق سمجھ کر ہم نے قبول کر رکھا ہے، تاریخ نہیں کرے گی۔
غالباً اس نام نہاد دلیل کے قریب ترین منطقی
نتائج پر بھی غور نہیں کیا گیا۔ ورنہ اتنی غلط بات منہ سے نہ نکالی جاتی۔ اگر
اقامت دین کی جدوجہد کے بارے میں اس طرح کے صغریٰ کبری سے کام لینا صحیح ہے تو
آئیے یہ بھی دیکھ لیجیے کہ یہ منطق ہمیں کہاں پہنچا دیتی ہے؟ آپ نے پڑھا ہو گا کہ
کتاب و سنت میں ایک مثالی مومن کی فلاں فلاں صفات بیان ہوئی ہیں اور یہ کہ اللہ و
رسول ﷺ نے معیاری ایمان و اسلام کا بڑا اونچا تصور پیش کیا ہے۔ اتنا اونچا تصور کہ
اس پر پورے اترنے والے انسان ابو بکر صدیق، عمر فاروق، عثمان غنی، علی مرتضی،
ابوذر غفاری، سلمان فارسی، بلال حبشی اور انہی کی طرح کے چند سو یا چند ہزار نفوس
سے زیادہ نہیں پیدا ہو سکے اور اس وقت تو اس معیار کا مسلمان شاید ڈھونڈنے سے بھی
نہ ملے۔
تو اب ذرا اسی منطق سے، جس نے خلافت راشدہ
کے مثالی اور معیاری دور کا حوالہ دے کر ہم کو اقامت دین کی جدوجہد سے دور ہی رہنے
کی ہدایت کی ہے، معیاری مسلمان بننے کی خواہش اور کوشش بلکہ مطلقاً مسلمان ہی باقی
رہنے کی بابت بھی فتویٰ پوچھیے۔ اسے یقیناً فتویٰ یہی دینا پڑے گا کہ اب ایسے
معیاری ایمان کا ذکر اور خیال چھوڑ دینا چاہیے اور ان مطلوبہ مثالی صفات کے لیے
کوشش بند کر دینا چاہیے۔ حتی کہ مسلمان باقی رہنے کی خواہش بھی غلط ہو گی! اگر آپ
اس استدلال کو غلط نہیں سمجھتے تو اس دوسرے استدلال کو بھی رد نہیں کر سکتے۔
اگر خلافت راشدہ کی قلیل العمری اجتماعی
اور سیاسی پہلو سے ہمیں اس امر کا حق دلا سکتی ہے کہ اب قیامت تک کے لیے قیام دین
کے تصور سے ذہنوں کو خالی کر لیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ تدین و تقویٰ کے سلسلے
میں اس "استحقاق معذرت" کو قبول نہ کیا جائے۔ لیکن عجیب ماجرا ہے کہ
اگرچہ اب ایک "ابوبکر" بھی پیدا نہیں ہو رہا ہے مگر ایک شخص بھی صدیقی
اور فاروقی ایمان کے حصول سے مایوس ہو کر اسلام سے علیحدگی پر، یا معیاری ایمان کی
خواہش و کوشش سے دست برداری پر تیار نہیں۔ اس کے بخلاف ہو یہ رہا ہے کہ خود بھی
اوپر اٹھنے کی کوششیں جاری ہیں اور دوسروں کو اچھا مسلمان بنانے کے لیے تبلیغی
انجمنیں قائم کی جاتی ہیں، اشاعت دین کے ادارے کھولے جاتے ہیں، تعلیم کتاب وسنت کے
لیے درسگاہیں جاری کی جاتی ہیں۔ آخر ایسا کیوں ہے؟ ایسا کیوں نہیں ہوتا کہ صدیق و
فاروق کی سی اسلامیت کے حصول سے مایوس ہونے کے باعث اسلام کا نام لینا چھوڑ دیا
جاتا؟
اس کے جواب میں آخر یہی تو کہا جائے گا نا
کہ ابو بکر صدیق اور عمر فاروق اسلام کے اعلیٰ اور مثالی نمونے تھے۔ ان کے جیسا
ایمان و تقویٰ اگر ہم اپنے اندر پیدا نہیں کر سکتے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ
سرے سے اسلام ہی چھوڑ دیں بلکہ ہمارے کرنے کا کام یہ ہے کہ ان نمونوں کو سامنے رکھ
کر اپنی استطاعت کے مطابق پوری کوشش کریں اور جہاں تک ہو سکے، اسی طرح کا تدین
پیدا کرنے کی فکر میں برابر لگے رہیں۔ تاریخ نے ہمارے سامنے اسلام کے یہ اعلیٰ
ترین نمونے رکھ دیئے ہیں تاکہ وہ ہمارے لیے معیار اور مثال کا کام دیں اور ہم میں
سے جسے جتنی توفیق ملے اپنے آپ کو ان کا ہم رنگ بنانے کی کوشش کرتا رہے اور جس
مقام پر وہ تھے اس کی طرف جتنے قدم بڑھا سکتا ہے، بڑھاتا رہے۔
سوال یہ ہے کہ یہی بات اقامت دین کے سلسلے
میں بھی کیوں نہیں سوچی اور کہی جاتی؟ اس اصولی بات کو ایمان و عمل کے ایک دائرے
ہی تک کیوں محدود کر لیا جاتا ہے؟ اس کے اطلاق کو کیوں نہیں وسیع تر مسائل تک
پھیلنے دیا جاتا؟ اس تحدید کی کوئی معقول وجہ نہیں ہو سکتی۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس
اصولی نقطہ نگاہ سے آپ خلافت راشدہ سے تعلق رکھنے والی اس بحث کو بھی دیکھیں۔
حضرات ابوبکر و عمر اور عثمان و علی رضوان اللہ علیہم کی انفرادی زندگیوں کی طرح
ان کا طرز خلافت بھی ایک معیاری اور مثالی نمونہ ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اس نمونے کو
سامنے رکھ کر اقامت دین کی جدوجہد میں لگے رہیں اور جس حد تک ان کے دست و بازو میں
خدا نے توانائی بخشی ہو اس نمونے کے اتباع میں برابر کوشاں رہیں اور اس وقت تک
اطمینان کا سانس نہ لیں جب تک کہ ان کا قائم کیا ہوا نظام اس نمونے کا عکس نہ بن جائے۔
ٹھیک اسی طرح جس طرح کہ ان پاکانِ خاص کا ایمان و تقویٰ انفرادی زندگیوں میں ہمارے
لیے ایک ایسا معیاری نمونہ ہے جسے سامنے رکھ کر ہمیں اپنے ایمان و تقویٰ کو مسلسل
فروغ دینے کی پوری پوری کوشش کرنا ضروری ہے۔ اس سعی و کوشش میں جس حد تک کامیابی
ہو جاتی ہے اسی حد تک ہم مکلف اور مسئول بھی ہیں اور اسلام کو اس کے صحیح رنگ میں
جس حد تک قائم کر سکتے ہیں اسے دین اللہ کا قیام ہی کہا جائے گا۔
جس طرح ابوبکر صدیق اور عمر فاروق بن جانا
ہم پر فرض نہیں، بلکہ ان کے کامل نمونوں کو سامنے رکھ کر حتی الامکان ان سے بیش از
بیش مماثلت پیدا کرنا ہی ہمارا فریضہ ہے، اسی طرح ہم پر ہر حال میں انہی جیسی
معیاری خلافت کا قائم کر دینا ہماری ذمے داری نہیں ہے۔ ہماری اصل ذمے داری صرف یہ
ہے کہ جہاں تک ہو سکے ان کی قائم کی ہوئی خلافتوں سے زیادہ سے زیادہ مشابہت رکھنے
والا اجتماعی نظام قائم کرنے کی پوری سعی کریں، اور آگے آنے والی نسلیں یکے بعد
دیگرے اس مشابہت کے رنگ کو اور زیادہ نکھارتے رہنے کی کوشش کرتی رہیں۔
خلافت
راشدہ سے درس عمل
اس لیے اس تیس سالہ دور خلافت کو اپنے لیے
مثال اور اسوہ بنائیے اور اس کی بلندیوں سے دہشت کھا کر بھاگ کھڑے ہونے کے بجائے
اس سے درس عمل لیجیے۔ انسانیت کا یہ دور سعادت اقامت دین کی جدوجہد پر ابھارنے
والی چیز ہے نہ کہ اس سے بد دل کرنے والی۔ اگر اس کے نام سے دلوں میں مایوسی اور
افسردگی کی لہریں اٹھیں... (متن نامکمل)... اس نام میں تو بلا کی کشش، اور اس کشش
میں طوفان کا سا جوش بھرا ہوا ہے۔ اگر مسلمان کو یقین ہے کہ انسانیت کی فلاح صرف
دین حق کے قیام ہی سے وابستہ ہے اور اگر اس کا سینہ اس مبارک زمانے کی سچی قدر و
محبت سے خالی نہیں ہو گیا ہے جس میں خدا کی مرضی زمین پر بھی اسی طرح پوری ہو رہی
تھی جس طرح کہ آسمان پر پوری ہوتی رہتی ہے، تو اس یقین اور اس قدر و محبت کا فطری
تقاضا ہے کہ دل اس گزری ہوئی خوشگوار حقیقت کو واقعات کی دنیا میں پھر سے کار فرما
دیکھنے کے لیے مسلسل بے قرار رہے۔ جس شخص کے ایمان میں یہ بے قرار روح نہ ہو وہ
دراصل ایمان نہیں بلکہ ٹھنڈے تصورات کا ایک بت کدہ ہے۔
اسلامی
نظام کے متعلق ایک شدید غلط فہمی
اوپر کی سطروں میں جو کچھ عرض کیا گیا ہے
اس سے فی نفسہ یہ خیال ہی غلط ثابت ہوتا ہے کہ اسلامی نظام تیس سال قائم رہا۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ عجیب و غریب خیال کچھ ٹھوس علمی اور تاریخی حقائق سے پیدا نہیں
ہوا ہے بلکہ اسے بالقصد پیدا کیا گیا ہے۔ اس خیال کے پیدا کرنے میں چالاک دشمنوں
کی عیاری اور نادان دوستوں کی سادہ لوحی دونوں ہی شامل ہیں۔
امر واقعہ صرف یہ ہے کہ جس طرح حضرت
ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے بعد بھی مسلمان پیدا ہوئے اور برابر ہوتے رہے اس طرح ان
کی خلافتوں کے بعد بھی مدتوں اسلامی نظام قائم رہا۔ فرق صرف یہ تھا کہ جس طرح ان
حضرات کی شخصیتیں بے داغ تھیں، اسی طرح ان کی خلافتیں بھی خیر کامل کا نمونہ تھیں
اور جس طرح بعد میں آنے والی شخصیتیں ناقص تھیں اسی طرح ان کے وقت کا طرز خلافت
بھی ناقص تھا۔ شخصیتوں کا ناقص ہونا اگر کسی حال میں بھی ان کے غیر مسلم ہونے کے
ہم معنی نہیں تو اس طرز خلافت کے ناقص ہونے کے معنی بھی یہ نہیں ہو سکتے کہ یہ
خلافتیں غیر دینی اور ان کا زیر عمل نظام غیر اسلامی تھا۔
دوسرے لفظوں میں یوں سمجھیے کہ جس طرح مسلم
افراد میں اسلامیت کے مدارج مختلف ہوتے ہیں اس طرح کتاب و سنت کو اصل ماخذ قانون
تسلیم کر کے چلائے جانے والے سیاسی نظاموں کے بھی مدارج مختلف ہوتے ہیں۔ جس طرح
اشخاص میں کمزوریاں ہوتی ہیں اسی طرح اسٹیٹ میں بھی ہوتی ہیں۔ چنانچہ خود اس تیس
سالہ خلافت راشدہ کے ادوار بھی اپنی روح میں یکساں نہ تھے، بلکہ عثمانی اور علوی
خلافتیں صدیقی اور فاروقی خلافتوں سے کم معیاری تھیں جس پر احادیث اور تاریخ دونوں
شاہد ہیں۔ اس لیے جب ہم افراد کی کمزوریوں پر تنقید تو کرتے ہیں مگر ان کو دائرہ
اسلام سے خارج نہیں سمجھتے تو اس تیس سالہ دور خلافت کے بعد قائم رہنے والے سیاسی
ڈھانچوں پر بھی سخت سے سخت تنقید تو کی جاسکتی ہے اور ان کو جاہلیت کے عناصر سے
مخلوط بھی کہا جا سکتا ہے، مگر انتہائی زیادتی ہو گی اگر انہیں بالکلیہ غیر اسلامی
اور جاہلی قرار دیا جائے۔
یہی وجہ ہے کہ جس طرح علمائے حق بد عمل
مسلمانوں کی ہدایت و تذکیر کا فرض ادا کرتے آئے ہیں، اسی طرح وہ ان ناقص حکمرانوں
کی غلط کاریوں پر ضرور ٹوکتے رہے اور ان کے طرز حکومت کے نقائص پر اظہار نگیر کرتے
ہوئے ان کی اصلاح کی برابر کوششیں کرتے رہے ہیں، مگر اس سے آگے بڑھ کر انہوں نے ان
کے خلاف یہ فتویٰ کبھی صادر نہیں کیا کہ یہ حکومتیں سراسر غیر اسلامی اور کافرانہ
ہیں۔ غرض خلافت راشدہ کے بعد بھی مدتوں جو سیاسی نظام اسلامی ممالک میں جاری رہے
وہ کم و بیش اسلامی ہی تھے۔ عدالتیں اسلامی قانون کے مطابق فیصلے کرتی تھیں،
سزائیں احکام شریعت کے تحت دی جاتی تھیں، جائیدادیں دینی ضوابط کی رو سے تقسیم کی
جاتی تھیں۔ مختصر یہ کہ جو کچھ خرابی تھی حکمرانوں کے طرز انتخاب میں اور ان کی
ذات میں تھی ورنہ جہاں تک زندگی کے عام معاملات کا تعلق ہے اتھارٹی کتاب و سنت ہی
کو حاصل تھی اور اس کے گوشے گوشے پر نظام دین کی بالا دستی بدستور چھائی ہوئی تھی۔
حتی کہ خراب سے خراب حکمران بھی اپنی کوئی غیر اسلامی کاروائی انجام دینے کے لیے
اس بات پر مجبور تھا کہ چہرے پر تشرع کی نقاب ڈال لے اور اس بات کا وہ تصور تک
نہیں کر سکتا تھا کہ خدا کے دین اور قانون کی جگہ اپنا دین اور قانون چلا دے۔
غلط فہمی نہ ہو! اس تقریر کا منشا یہ نہیں
ہے کہ ان تمام حکومتوں کو خالص اسلامی حکومت قرار دے دیا جائے، جو خلافت راشدہ کے
بعد قائم ہوتی رہی ہیں اور نہ اقامت دین کا فریضہ یاد دلانے کا یہ مقصد ہے کہ
معتصم باللہ یا ہارون رشید کی طرح کوئی نظام حکومت قائم کرنے کی دعوت دی جارہی ہے
اور اس پر مطمئن ہو جانے کی... (متن نامکمل)... مگر ان تمام نقائص کے باوجود اس کے
بحیثیت ایک اسلامی نظام کے قائم و نافذ رہنے کی نفی ہر گز نہیں کی جاسکتی۔ اس لیے
یہ پروپیگنڈہ کرنا کہ یہ نظام صرف چند دنوں قائم رہا، ایک علمی بد دیانتی اور
تاریخ سے بہت بڑی فریب کاری ہے۔ اس کا مقصد یا نتیجہ اس کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتا
کہ اسلام اور اسلامی نظام سے لوگوں میں بد گمانی پیدا کر دی جائے۔
اسلامی
نظام سب سے زیادہ عملی نظام
جو لوگ خلافت راشدہ کو، دوسرے لفظوں میں
اسلامی نظام کے معیاری قیام و نفاذ کی قلیل العمری کو، اس بات کی دلیل بناتے ہیں
کہ یہ اپنی داخلی نوعیت ہی کے اعتبار سے اب ایک ناممکن العمل نظام ہے، انہوں نے یہ
نہیں بتایا کہ اسلام کے مقابلے میں وہ کون سا نظام ہے جو اپنے نظریاتی معیار کے
مطابق اس سے زیادہ مدت تک قائم اور نافذ رہ سکا ہے؟ اگر وہ بتانا بھی چاہیں گے تو
شاہی یا آمریت کا نام تو بہر حال نہ لیں گے کیونکہ یہ دراصل نظام ہی نہیں اور اگر
وہ نظام ہیں تو بھی ایسے نظام ہیں جن کی بنیاد جنگل کے آئین پر ہوتی ہے اور جس کو
پوری انسانیت متفقہ طور سے رد کر چکی ہے۔
اس لیے لے دے کر وہ صرف جمہوری اور اشتراکی
نظاموں کا نام لے سکتے ہیں جن کا کہ آج پوری دنیا پر سکہ چل رہا ہے اور جن کی مدح
و منقبت میں اپنے اپنے کیمپ سے بہت کچھ کہا جاتا رہا ہے، لیکن ہمیں نہیں معلوم کہ
آج تک ان کے بارے میں یہ دعویٰ کیا گیا ہو کہ وہ کبھی، تیس سال نہیں، تیس مہینے،
بلکہ تیس دن بھی اپنے معیاری رنگ میں قائم اور نافذ کیے جاسکے ہیں۔ اس کے بخلاف
تاریخ و سیاست کا پورا لٹریچر اس بات کے اعتراف سے بھرا پڑا ہے کہ جمہوریت ہو یا
اشتراکیت، کوئی بھی عملاً اپنے نظریاتی معیار تک نہیں پہنچ سکی ہے اور کتابوں میں
درج نظریات واقعات کی دنیا میں اپنا کوئی وجود نہیں رکھتے۔
جمہوریت کے بارے میں مشہور مفکر برنارڈ شا
کہتا ہے کہ "اس مقصد کے حصول میں ایک ایسی مشکل حائل ہے جو تقریباً ناقابل حل
ہے اور وہ یہ خوش فہمی ہے کہ ہر فرد کو ووٹ دینے کا حق مل جانا جمہوریت کی کامیابی
کی ضمانت ہے حالانکہ یہی وہ چیز ہے جس سے جمہوریت کے مقاصد قطعی طور پر فوت ہو
جاتے ہیں۔ بالغ رائے دہندگی کا اصول جمہوریت کو موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے۔ پڑھے
لکھے اور اونچی فکر رکھنے والے لوگ جمہوریت چاہتے ہیں لیکن پولنگ اسٹیشنوں پر ان
کی حیثیت ایک معمولی اقلیت کی ہوتی ہے۔"
اطالوی رہبر میزینی لکھتا ہے کہ
"انسان بادشاہ کی شکل میں ایک ہو یا جمہوریت کی شکل میں زیادہ ہوں، بات یکساں
ہی رہے گی۔"
ڈین رنج صاف کہتا ہے کہ "ایک مکمل
جمہوریت بھی اس حد تک جمہوری نہیں ہو سکتی جس حد تک نظریہ جمہوریت اسے جمہوری
بتاتا ہے۔"
لارڈ برائس اور جمہوریت کے دوسرے بہت سے
حامیوں نے اپنے کو اس اعتراف پر مجبور پایا ہے کہ: "حقیقی جمہوریت کبھی بھی،
اور دنیا کے کسی گوشے میں بھی معرض وجود میں نہیں آسکی ہے۔"
رہی اشتراکیت، تو اس کا مقدمہ جمہوریت سے
بھی زیادہ کمزور ہے حتی کہ جو نکتہ اس وقت گفتگو کا موضوع ہے اس کی بحث میں وہ کسی
ذکر کے قابل ہی نہیں ہے۔ یہ مخالفانہ پروپیگنڈے کی بات نہیں ہے بلکہ ایک تسلیم شدہ
اور بدیہی حقیقت کا اظہار ہے۔ چنانچہ اگر وہ غرض و غایت سن لی جائے جو اس اشتراکیت
کے پیش نظر ہے تو یہ حقیقت سورج کی طرح خود عیاں ہو جائے گی۔ اشتراکیت کے مشہور و
مستند امام فریڈرک اینجلز کے بیان کے مطابق اشتراکی نظام کی غایت مقصود یہ ہے:
"ایک
ایسے سماج کی تشکیل جس میں نہ مختلف طبقات ہوں گے نہ انفرادی بقاء کے لیے کش مکش
ہو گی۔ انسان فطرت کا باشعور آقا ہو گا۔ اپنی تاریخ خود بنائے گا۔ مادی اسباب اس
کی اپنی مرضی کے مطابق نتائج پیدا کریں گے۔ وہ احتیاج کی دنیا سے نکل کر اختیار کی
دنیا میں داخل ہو چکا ہو گا اور ریاست و حکومت ماضی کی یادگاریں بن چکی ہوں
گی۔" (سوشلزم)
آج اشتراکیت کو اقتدار حاصل کیے ہوئے
تقریباً چالیس سال ہو چکے ہیں (تحریر کے وقت کے مطابق) اور اس وقت وہ متعدد ملکوں
میں داد حکمرانی دے رہی ہے۔ مگر کیا کہیں بھی یہ نظریاتی سماج دکھائی دے رہا ہے؟
روس اس کا سب سے پہلا گہوارہ اور مضبوط قلعہ ہے مگر کیا کبھی کسی کی زبان سے یہ
دعویٰ سنا گیا ہے کہ وہاں نہ طبقات ہیں نہ احتیاج ہے، نہ ریاست ہے نہ حکومت ہے،
اور ہر شخص اپنی تاریخ خود بنا رہا ہے؟ ظاہر ہے کہ جب وہاں یہ سب چیزیں موجود نہیں
ہیں تو ایسا پہاڑ جیسا جھوٹ کون بول سکتا ہے؟ چنانچہ اشتراکیت کے سارے حامیوں کا
کہنا ہے کہ ابھی یہ نظام اپنے عبوری دور سے گزر رہا ہے اور ارتقاء و تغییر کے
متعدد مرحلے طے کر چکنے کے بعد اپنے اس نظریاتی معیار تک پہنچے گا۔
یہ بات کہ اشتراکی نظام آئندہ چل کر کبھی
اپنے دعوے اور وعدے کے مطابق ایسا سماج پیدا کر بھی سکے گا؟ اس وقت خارج از بحث
ہے۔ اس وقت تو دکھانا صرف یہ تھا کہ اشتراکیت ابھی تک، ایک دن کے لیے بھی، اپنی
معیاری شکل میں کہیں قائم اور نافذ نہیں ہو سکی ہے۔ یہ بات واقعات کو بھی تسلیم ہے
اور اشتراکیت کے ایک ایک حامی اور علمبردار کو بھی۔
دوسرے نظاموں کے اس جائزے سے صورت واقعہ
کیا قرار پائی؟ یہی نا کہ دنیا کے قابل ذکر نظاموں میں سے اگر کوئی نظام اپنے
معیاری رنگ میں قائم اور نافذ ہو سکا ہے تو وہ صرف اسلامی نظام ہے۔ اس کے سوا دنیا
کسی دوسرے ایسے نظام سے واقف نہیں جو تھوڑی مدت کے لیے بھی اپنا مثالی کردار پیش
کر سکا ہو۔ اس لیے اگر کسی نظام کا معیاری قیام و نفاذ ہی اس کے قابل قبول ہونے کی
دلیل ہے تو یہ دلیل صرف اسلام کے پاس ہے اور اس کی اس امتیازی حیثیت کو کوئی اور
نظام چیلنج نہیں کر سکتا۔ اس حقیقت کی موجودگی میں یہ بات بھی کتنی عجیب بات ہو گی
کہ اسلامی نظام کا قیام چونکہ بہت تھوڑے دنوں رہ سکا تھا اس لیے اب اسے دوبارہ
قائم کرنے کی جدوجہد ایک فضول جدوجہد ہو گی!
تربص
کا رویہ (انتظار اور دیکھنے کی پالیسی)
اب ان حضرات کے افکار کا جائزہ لیجیے جو
تربص کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں اور خود سلامتی و بے فکری کے محفوظ گوشوں میں
بیٹھے ہوئے دوسروں کی ثابت قدمی اور تیز گامی کا حساب لگا رہے ہیں اور اسی کام کو
اپنی زندگی کا اصل فریضہ کہنے کے باوجود میدان عمل میں اس لیے نہیں اترتے کہ پہلے
سے میدان میں اترے ہوئے لوگوں کی عزیمت انہیں مشکوک نظر آتی ہے۔
نفاق
زدہ ذہنیت
اس انداز فکر کی لغویت پر عقل حیران ہے کہ
کیا کہے؟ ایک چیز کو تسلیم تو فرض عین کیا جارہا ہے مگر ساتھ ہی اس سے عملی تعلق
کا یہ حال ہے کہ جب تک دوسرے اس کا حق ادا کر کے دکھا نہ دیں ہم اس کے لیے اپنی
جگہ سے جنبش نہ دیں گے۔ یہ بالکل ایسی ہی بات ہے کہ اگر امام ان لوگوں کے خیال کے
مطابق صالح اور متقی اور مقبول الصلوۃ نہ ہو تو یہ حضرات نہ صرف یہ کہ اس کے پیچھے
ہی نماز پڑھنے سے انکار کر دیں گے بلکہ سرے سے نماز ہی چھوڑ بیٹھیں گے اور اپنے
خیال میں کل، حشر کی عدالت میں یہ کہہ کر بری الذمہ ہو جائیں گے کہ خدایا! ہم تو
نماز کو فرض عین ہی سمجھتے تھے اور چوبیس گھنٹے اس کے لیے باوضو رہتے تھے مگر مؤذن
کی اذانوں اور امام کی نمازوں میں ہم کو خلوص وللہیت کی روح نظر نہیں آتی تھی، اس
لیے ہم نے نماز نہیں پڑھی!
کیا غور و فکر کے باوجود بھی اس طرز فکر و
استدلال کے لیے کوئی شرعی یا عقلی بنیاد فراہم کی جاسکتی ہے؟ فرض کیجیے کہ زید
اقامت دین کی دعوت دے رہا ہے اور ہماری فرض شناسیوں پر جھنجوڑ کر ہمارا فرض زندگی
ہمیں یاد دلا رہا ہے، نیز اپنے طور پر اس راہ میں قدم بھی رکھ دیتا ہے، لیکن جہاں
تک اس کی عملی صلاحیت، خلوص اور عزیمت کا تعلق ہے آپ کو اس پر پورا اطمینان نہیں
ہوتا، بلکہ وہ اور اس کے سارے ہم سفر آپ کو نااہل، بے عمل، غیر مخلص اور غیر متقی
دکھائی پڑتے ہیں۔ تو سوال یہ ہے کہ ان کی یہ ساری خامیاں آپ کے اپنے فرض کو ساقط،
اور آپ کو اپنی ذمے داریوں سے سبکدوش کس طرح کرادیں گی؟
کیا آپ نے دین حق کی اقامت کو اپنی زندگی
کا اصل فریضہ اس شرط کے ساتھ تسلیم کیا تھا کہ پہلے... (متن نامکمل)... نرم گرم
بستروں سے اٹھیں گے اور اپنی آرام گاہوں سے قدم باہر نکالیں گے؟ کیا قرآن کی مرکزی
دعوت پر لبیک کہنے کے آپ اسی وقت مکلف ہیں جب دوسروں کو اس کی حمایت میں قربانیاں
کرتے دیکھ لیں؟ اگر ایسا نہیں ہے - اور قرآن گواہ ہے کہ ایسا ہر گز نہیں ہے - تو
خود اپنے نفس کی حیلہ سازیاں اور غفلتیں کیا کم ہیں کہ دوسروں کی کمزوریاں ٹٹولنے
کی آپ کو فرصت مل جاتی ہے!
دوسرے اگر فی الواقع ویسے ہی ہیں جیسا کہ
آپ کا گمان ہے تو خدا کے روبرو اس کے جواب دہ وہ خود ہوں گے۔ آپ اس کھود کرید کی
زحمت، کہ کس کے اندر کیا ہے، بلاوجہ کیوں اٹھائیں؟ ہر شخص کو صرف اپنے نامہ اعمال
کی فکر کرنی چاہیے۔ دوسروں کی ناقابل اطمینان حالت پر اگر نظر جائے تو صرف درس
عبرت کے لیے، کہ حکمت و دانش کا یہی تقاضا ہے۔ حضرت لقمان سے پوچھا گیا کہ "آپ
نے ادب کس سے سیکھا؟" جواب دیا کہ "بے ادبوں سے۔" مومن کو بھی اللہ
تعالیٰ حکیم دیکھنا چاہتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ عبرت پذیر اور حکمت پسند نگاہوں سے
کام لینے کی اس نے اسے تاکید کی ہے۔ سارا قرآن اس نے مغضوب اور گمراہ قوموں کے
تفصیلی تذکروں سے اسی لیے تو بھر رکھا ہے کہ مسلمان ان کی جیسی فکری اور عملی غلط
کاریوں سے اچھی طرح باخبر رہیں (وَ لِتَسْتَبِیۡنَ
سَبِیۡلُ الْمُجْرِمِیۡنَ
- الانعام: ۵۵) اور
ان سے ہمیشہ بچتے رہیں۔
اس لیے اس صورت حال کا مطالبہ کہ اقامت دین
کا داعی شخص یا گروہ نااہلی کا مظاہرہ کر رہا ہے، ہم سے اگر کچھ ہو سکتا ہے تو صرف
یہی کہ ان کی خامیوں، ظاہر داریوں اور غلط کاریوں کو اپنے لیے بے عملی کی سند بنا
لینے کے بجائے ان سے خود اپنے دامن کو بچائیں اور پوری للہیت اور عزیمت کے ساتھ اس
جھنڈے کو لے کر آگے بڑھیں۔ اس کے سوا اگر کوئی اور صحیح بات ہو سکتی ہے تو صرف یہ
کہ ان کے لیے ہدایت، عزیمت، خلوص اور توفیق عمل کی دعا کرتے جائیں کہ ان کی چیخ و
پکار اگرچہ ان کی اپنی حد تک محض "زبانی نعرہ اور بے جان دعویٰ" تھی،
مگر ہمارے آپ کے حق میں تو وہی ہادی اور مذکر ثابت ہوئی۔ اس لیے فی الواقع وہ تو
ہمارے اور آپ کے شکریے کے مستحق ہیں، نہ کسی طنز یا مخالفت کے۔ اس نادان اور بد
نصیب انسان پر جو تاریکیوں کے ہجوم میں سر راہ چراغ لے کر کھڑا ہو اور دوسروں کو
تو ان کی منزل مقصود دکھا رہا ہو مگر خود آنکھوں پر اس نے پٹی باندھ رکھی ہو، آپ
کو افسوس تو ضرور آنا چاہیے، مگر اس پر بے دردانہ اعتراضات کرتے رہنا بے انصافی ہے
اور اس کی پیروی کرتے ہوئے چراغ کی روشنی سے فائدہ نہ اٹھانا حماقت اور بد بختی
ہے۔ خوش بخت وہ ہے جو دوسروں سے عبرت اور نصیحت حاصل کرے۔ اور دانائی کا تقاضا یہ
ہے کہ قائل کی شخصیت کے بجائے اس کے قول کو دیکھا جائے۔
"جو
اللہ کی باتوں کو کان لگا کر سنتے ہیں اور پھر ان کی بہترین باتوں کی پیروی میں لگ
جاتے ہیں۔" (الَّذِیۡنَ یَسْتَمِعُوۡنَ
الْقَوْلَ فَیَتَّبِعُوۡنَ اَحْسَنَہٗ ؕ
- الزمر : ۱۸)
دعوت اقامت دین کے بارے میں اس طرح کی کوئی
بحث تو ہے نہیں کہ وہ "القول" (اللہ کا قول) ہے یا نہیں؟ کیونکہ وہ
مسلمہ طور پر "القول" ہے۔ اس لیے بلا تامل اور بغیر توقف اس پر لبیک
کہیے اور اگر ساری دنیا بھی اس کے اپنانے سے جی چرا رہی ہو تو بھی یقین رکھیے کہ
اس سے آپ کی اپنی ذمے داریوں میں کوئی کمی واقع نہیں ہو سکتی، اور نہ آپ کو یہ حق
حاصل ہو سکتا ہے کہ دوسروں کے اخلاص و عزیمت کا انتظار کرتے رہیں۔ یہ انتظار تو حق
پرستی کی ضد ہے اور جو شخص حق کو جان پہچان لینے کے بعد بھی انتظار کی پالیسی
اختیار کرتا ہے وہ دراصل حق کی قدر ہی نہیں پہچانتا، اور ایک گونہ اس کی راہ بھی
روکتا ہے۔
بہت ضروری ہے اس موقع پر اس رسوائے عالم
گروہ کا حال اور انجام یاد کر لیا جائے جس نے رسول ﷺ اور اصحاب رسول ﷺ کی جان
فروشانہ دعوتی سرگرمیوں کے معاملے میں یہی پالیسی اختیار کر رکھی تھی۔ جس کے لیے
اس مہم میں شریک ہو جانے کے سلسلے میں یہ احساس فرض کافی نہ تھا کہ یہ لوگ جس کام
کے لیے اپنی جانیں کھپا رہے ہیں اسی کو ہم نے بھی حق تسلیم کر رکھا ہے، بلکہ حق و
باطل کی اس کش مکش سے دور کھڑے اس کے انجام کا اندازہ لگاتے رہتے تھے اور مسلمانوں
کی جماعت میں صرف اس وقت آملتے تھے، جب ان کی فتح کے جھنڈے لہراتے دیکھ لیتے:
الَّذِیۡنَ
یَتَرَبَّصُوۡنَ بِکُمْ ۚ
فَاِنۡ کَانَ لَکُمْ فَتْحٌ
مِّنَ اللّٰہِ قَالُوۡۤا اَلَمْ نَکُنۡ
مَّعَکُمْ ۫ۖ (النساء : ۱۴۱)
"یہ
لوگ تمہارے سلسلے میں انتظار کرتے رہتے ہیں، اگر تمہیں اللہ کی طرف سے فتح مل جاتی
ہے تو کہنے لگتے ہیں کہ کیا ہم تمہارے ساتھ نہیں تھے؟"
غور فرمائیے کہ جو لوگ اقامت دین کو اپنا
منصبی فریضہ سمجھتے ہوئے بھی محض دوسروں کے انتظار میں بیٹھے ہوئے ہیں اور اس کی
خاطر آمادہ عمل نہیں ہوتے، ان کی ذہنیت کتنی قریبی مشابہت رکھتی ہے اس ذہنیت سے جس
پر ان منافقوں کے طرز عمل کی بنیاد تھی؟ جس طرح وہ "منافق" حق کی حمایت
حق کی خاطر نہیں کرتے تھے اسی طرح ان "مسلمانوں" کے نزدیک بھی حق کا
مجرد حق ہونا ہی آمادگی عمل کے لیے کافی نہیں۔ فرق اگر ہے تو صرف یہ کہ وہ لوگ
مسلمانوں کی فتح کا انتظار کیا کرتے تھے اور یہ حضرات اقامت دین کے داعیوں کے عزم
واخلاص کے بارے میں کسی "شرح صدر" کے منتظر ہیں! لیکن اتباع حق اور
ادائے فرض سے بھاگنے میں دونوں مشترک ہیں۔
ایک
قدم اور آگے
کاش بات یہیں تک رہتی اور انتظار و تربص کے
صرف اسی پہلو پر ہی اکتفا کر لیا گیا ہوتا۔ مگر یہ دیکھ کر صبر و ضبط کا دامن
سنبھالنا دشوار ہو جاتا ہے کہ لوگ اسی حد پر رکے رہنے کے لیے تیار نہیں۔ بلکہ خدا
پرستی، اتباع قرآن اور عشق محمدی ﷺ کی دعوے دار امت میں کچھ ایسے افراد بھی موجود
ہیں جنہیں انتظار اس بات کا ہے کہ اقامت دین کے "جھوٹے مدعی" میدان سے
کب بھاگ کھڑے ہوتے ہیں اور انہیں اپنے جذبات طعن و تشنیع کی تسکین دہی کا موقع کب
نصیب ہوتا ہے۔ یہ حضرات ایک سنجیدہ تبسم کے ساتھ فرمایا کرتے ہیں کہ "یہ ہوش
سے عاری اور جوش کے اندھے لوگوں کا ایک گروہ ہے جو 'قیام دین، قیام دین' کا شور
مچا رہا ہے۔ زمانے کے حوادث خود ہی اس کی فاتحہ پڑھ دیں گے۔" اور یہ فرما کر
گویا اپنی ذمے داریوں کا حق ادا کر دیتے ہیں! لیکن شاید انہیں خبر نہیں کہ ان کے
اس نشتر طعن کی زد خود ان کی اپنی رگ گلو تک جا پہنچتی ہے۔
افسوس! مسلمانوں کا دل اب قیام دین کی
مسرتوں سے بھی اس درجہ محروم ہو گیا ہے کہ اگر خود نہیں کچھ کر سکتا تو دوسروں کا
کچھ کرنا بھی اس کو گوارا نہیں۔ آخر یہ باور کرنے کے لیے کہاں سے دل و دماغ لائے
جائیں کہ جو سینہ دین حق کی محبت اور فدویت کا امین بنایا گیا تھا اب اس میں ان
آرزوؤں کی پرورش کی جارہی ہے جو صرف کفر و فروغ کفر کے خلاف مخصوص ہونی چاہیے تھی۔
حالانکہ اگر کسی کے اندر اتنی غیرت اور ہمت موجود نہیں ہے کہ اللہ کے دین کو زندہ
کرنے کے لیے قدم اٹھا سکے تو اس کے ایمان کا کم سے کم تقاضا یہ ہونا ہی چاہیے تھا
کہ اس تمنا سے اپنے قلب و دماغ کو ایک لمحہ کے لیے بھی خالی نہ ہونے دیتا، اور اگر
اللہ کے کچھ بندے اس کے لیے قدم اٹھا رہے ہوں تو ان کے لیے اخلاص عمل، ثبات قدم،
نصرت حق اور حسن انجام کی دعائیں ہی کرتا رہتا۔
لیکن اگر کوئی اتنا بھی نہیں کر سکتا تو اس
کا مطلب یہ ہے کہ غیرت حق کی آخری چنگاری بھی اس کے اندر بجھ رہی ہے۔ اور اگر
خدانخواستہ اس سے بھی آگے بڑھ کر وہ اس دعوت حق کو فتنہ قرار دے، لوگوں کو اس کی
طرف بڑھنے سے روکنے لگ جائے اور اس کے لیے حوادث روزگار کی تمنائیں کرنے لگے، تو
اس کی بدبختی کی یہ انتہا ہو گی اور ایسی صورت میں اس کو اسلام کا نام لیتے ہوئے
شرم آنی چاہیے۔ کیونکہ اس وقت وہ ذہنیت اور طرز اظہار کے تھوڑے سے اختلاف کے ساتھ
بالکل اسی مقام پر ہو گا جہاں سے کبھی کچھ بد نصیب محمد ﷺ اور آپ ﷺ کے اولوالعزم
ساتھیوں کے بارے میں ہلاکتوں کی راہ تکا کرتے تھے، جس کا تذکرہ قرآن نے ان لفظوں
میں کیا ہے:
وَ
مِنَ الۡاَعْرَابِ مَنۡ
یَّتَّخِذُ مَا یُنۡفِقُ مَغْرَمًا وَّ
یَتَرَبَّصُ بِکُمُ الدَّوَآئِرَ ؕ (التوبہ : ۹۸)
"اور
کچھ دیہاتی ایسے ہیں جو (اللہ کی راہ میں) کچھ خرچ کرتے ہیں اسے تاوان سمجھتے ہیں
اور تم مسلمانوں کے حق میں آفات زمانہ کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔"
یا پھر اس مقام پر جہاں سے پیغمبر عالم ﷺ
کی دلوں کو جیت لینے والی دعوت حق کو یہ کہہ کر ٹالا گیا تھا کہ:
اَمْ
یَقُوۡلُوۡنَ
شَاعِرٌ نَّتَرَبَّصُ بِہٖ رَیۡبَ الْمَنُوۡنِ
(الطور: ۳۰)
"یہ
ایک شاعر ہے ہم اس کے لیے حوادث روزگار کی راہ دیکھ رہے ہیں۔"
لہٰذا جنہیں اللہ نے عقل دی ہے اور عقل کے
ساتھ ایمان کی تھوڑی سی محبت بھی عطا کی ہے تو وہ اس خطرناک اور ایمان سوز ذہنیت
کے قریب بھی نہیں جا سکتے۔
مہدی
موعود کا انتظار
آخری گروہ ان لوگوں کا ہے جو امام مہدی کے
انتظار میں بیٹھے ہیں۔ ان کے فکر و استدلال کا نقطہ آغاز یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے تیس
سال کے بعد خلافت راشدہ کے ختم ہو جانے کی خبر دی تھی، چنانچہ وہ اس مدت پر ختم
بھی ہو گئی۔ دوسری طرف حضور ﷺ یہ بھی بشارت سنا گئے ہیں کہ جب دنیا اپنی زندگی کے
دن پورے کر چکنے کو ہو گی تو مرد صالح (الامام المہدی) کا ظہور ہو گا۔ جن کے
ہاتھوں میں اللہ کی زمین پر خلافت علی منہاج النبوۃ کا قیام عمل میں آئے گا۔ اور
اس نقطہ آغاز کا نقطہ انجام یہ ہے کہ اس نصب العین کے برحق ہونے کے باوجود اب ہم
اس کے لیے کسی جدوجہد کے مکلف ہی نہیں۔
استدلال
یا فریب استدلال؟
دین اور اس کے اصول و مقاصد سے بے خبری کا
یہ عالم ہے کہ اب اس قسم کی باتوں کو بھی دلیل سمجھا جاتا ہے! اور دلیل بھی اتنی
زبردست جو مسلمان کی زندگی کا مقصد اور رویہ ہی بدل سکتی ہے اور جس نے افیون کی
گولی بن کر کتنے ہی عوام اور خواص کو اپنے فریضہ زندگی کی طرف سے غافل اور بے حس
بنا رکھا ہے۔ اس لیے یہ واضح کر دینے کی بہر حال ضرورت ہے کہ یہ دلیل نہیں ہے بلکہ
نفس کا یا پھر نگاہ کا ایک فریب ہے۔
اس سلسلے میں سب سے پہلے یہ دیکھ لینا
چاہیے کہ ظہور مہدی کی خبر ہمیں ملی کہاں سے ہے؟ اور دینی حقائق کی فہرست میں اس
کا مقام کیا ہے؟ اس سوال کا جواب معلوم کرنے کے لیے فطرتاً ہماری نگاہ سب سے پہلے
قرآن پر جاتی ہے مگر اس کے صفحات کو ہم اس کے ذکر سے بالکل خالی پاتے ہیں۔ حالانکہ
دین کی اصولی تعلیمات میں اس مسئلے کو اگر کوئی ایسی اہمیت حاصل ہوتی جو ہماری
زندگی کے بنیادی فریضے پر ایک فیصلہ کن انداز میں اثر ڈال سکتی ہو، تو عقل عام
کہتی ہے کہ قرآن اس کے متعلق ہم کو لازماً واضح ہدایتیں دیتا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔
تو یہ اس بات کا قطعی ثبوت ہے کہ اس مسئلے کو دین اور دینی افکار و تصورات میں
کوئی بنیادی اہمیت حاصل ہی نہیں۔ اور جب صورت واقعہ یہ ہے تو امت مسلمہ کے مقصد
وجود جیسے اہم ترین معاملے کے متعلق اسے کوئی فیصلہ کرنے کا حق دینا فکر و نظر کی
زبردست کوتاہی ہے۔
اب قرآن کے بعد صحیح احادیث کی طرف رجوع
کیجیے تو یہاں بھی اس کی کوئی مضبوط شہادت نہیں ملتی۔ کیونکہ ایک طرف تو ہم دیکھتے
ہیں کہ طبقہ اولیٰ کی کتب احادیث میں ظہور مہدی سے متعلق ایک روایت بھی موجود نہیں
ہے۔ نہ امام بخاری نے ان روایتوں کو قبول کیا ہے، نہ امام مسلم نے، نہ امام مالک
نے۔ دوسری طرف ان روایتوں میں بھی جنہیں بعد کے ائمہ حدیث نے اپنی کتابوں میں نقل
کیا ہے، شاید ہی کوئی روایت ایسی ہو گی جو محدثانہ معیار تحقیق پر بالکل بے داغ
ثابت ہوتی ہو اور اس کا کوئی نہ کوئی راوی شیعہ یا تشیع سے متاثر نہ نکلتا ہو۔ ان
وجوہ سے بعض علماء نے تو ظہور مہدی کی پیش گوئی یا بشارت کو تسلیم کرنے ہی سے
انکار کر دیا ہے اگرچہ یہ رائے ایک محتاط رائے نہیں کہی جاسکتی۔ لیکن اس میں کوئی
بھی شک نہیں کہ معاملہ، جس اہمیت کا ہے اس کے پیش نظر اس کی روایت زیادہ مضبوط
سندوں سے ہونی چاہیے تھی، اور اگر ایسا نہیں ہوا تو اس کے معنی یہ ہیں کہ نہ تو
خود نبی ﷺ کے نزدیک اس معاملے کی کوئی خاص دینی اہمیت تھی نہ آپ ﷺ کی ہدایتوں اور
آپ ﷺ کے علوم و ارشادات کو باقی امت تک منتقل کرنے والے صحابہ کے نزدیک۔
لیکن ان تمام باتوں سے اگر صرف نظر کر لیں
تو سوال یہ ہے کہ اس خبر کا ان ذمے داریوں سے آخر تعلق کیا ہے جو اہل اسلام پر
اقامت دین کے ضمن میں عائد ہوتی ہیں؟ اس سے جو کچھ ثابت ہوتا ہے وہ صرف اتنا ہی تو
ہے کہ اس دنیا کا نظام فنا ہونے سے پہلے ایک مبارک دور آئے گا، دنیا عدل سے بھر
جائے گی اور حضرت ابوبکر صدیقؓ اور عمر فاروقؓ کی طرح "خلافت علی منہاج
النبوت" سارے عالم میں قائم ہو جائے گی۔ اس سے یہ کسی طرح لازم نہیں آتا کہ
بیچ کے زمانوں کے لیے ساری دنیا پر کفر اور طاغوت کی فرمانروائی مقدر ہو چکی ہے۔
اس پیش گوئی میں تو کوئی دور کا بھی اشارہ اس امر کا موجود نہیں ہے کہ ابتدائے
اسلام کی تیس سالہ خلافت راشدہ کے اختتام سے لے کر ظہور مہدی تک زمین کے کسی خطے
پر بھی اللہ کا دین قائم نہ ہو گا۔ بخلاف اس کے تاریخ گواہ ہے کہ اس دور سعادت کے
ختم ہونے کے ستر برس بعد ہی حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے ہاتھوں مملکت اسلام میں
قریب قریب ویسی ہی بہار سعادت پھر آگئی جو اس دور میں تھی اور اس زمانے کو بھی خلافت
راشدہ کا زمانہ تسلیم کیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ جس پائے کی ظہور مہدی والی یہ
روایات ہیں، قریب قریب اسی پائے کی کچھ دوسری روایات ایسی بھی ملتی ہیں جن میں
مہدی موعود کے علاوہ اور ان سے پہلے اقامت دین کی کچھ اور تحریکوں کے اٹھنے کی پیش
گوئیاں کی گئی ہیں اور مسلمانوں پر ان کی حمایت واجب قرار دی گئی ہے۔ مثال کے طور
پر ذیل میں ملاحظہ ہوں:
۱۔ "جب تم دیکھنا کہ خراسان کی طرف سے
کالے جھنڈے آرہے ہوں تو وہاں پہنچنا اگرچہ تمہیں برف کے اوپر گھسٹ کر ہی کیوں نہ
جانا پڑے، اس لیے کہ ان کے اندر اللہ کا خلیفہ مہدی ہو گا۔" (مختلف کتب حدیث
میں یہ روایت مختلف الفاظ سے آئی ہے)
۲۔
"ماوراء النہر سے 'حارث حراث' نامی ایک شخص نکلے گا جس کے آگے (یعنی جس کا
سپہ سالار) منصور نامی ایک آدمی ہو گا۔ وہ آل محمد ﷺ کے لیے قوت اور اقتدار پیدا
کرے گا، جس طرح کہ قریش نے رسول اللہ ﷺ کے لیے کیا تھا۔ ہر مسلمان پر واجب ہے کہ
اس کی مدد کرے یا یوں فرمایا کہ اس کی پکار پر لبیک کہے۔" (ابوداؤد: جلد دوم،
کتاب المہدی)
یہ گمان نہ کرنا چاہیے کہ ان روایتوں میں
جن اشخاص کے ظہور کی خبر دی گئی ہے ان سب سے مراد ایک ہی شخص، یعنی وہی "مہدی
موعود" ہیں۔ کیونکہ مہدی موعود کا ظہور جیسا کہ روایات کا بیان ہے، مدینہ
منورہ سے ہو گا نہ کہ ماوراء النہر یا خراسان سے۔ اسی طرح ان کا نام آنحضرت ﷺ کے
نام پر ہو گا (نہ کہ حارث حراث)، نیز یہ کہ وہ اہل عرب کے جلو میں نکلیں گے، نہ کہ
خراسانی یا تورانی افواج کو لے کر۔
پھر یہ غلط فہمی بھی نہ ہونی چاہیے کہ ان
روایات میں حصر ہو گیا ہے اور رسول اللہ ﷺ نے ان میں ان تمام داعیان حق کی فہرست
گنا دی ہے جو قیامت تک اقامت دین کا علم لے کر اٹھنے والے ہیں۔ اس کے بخلاف ان
روایتوں میں صرف بعض افراد اور چند زمانوں کا ذکر کیا گیا ہے اور مقصود اس امر کی
تاکید ہے کہ جب کبھی بھی ایسے مواقع پیش آئیں تو ہر مسلمان کا فرض ہو گا کہ اقامت
حق کی اس مہم سے اپنے کو وابستہ کر دے۔
غرض ان روایات میں نہ صرف یہ کہ مہدی موعود
کے ماسوا حق کے کچھ علمبرداروں کی آمد کی بشارت سنائی گئی ہے بلکہ ہر مسلمان پر
واجب گردانا گیا ہے کہ سر کے بل چل کر ان کے پاس پہنچے اور ان کی اعانت و اطاعت
میں جان کی بازی لگا دے۔ کیا یہ بات اس بے بنیاد تخیل کا کھوکھلا پن واضح نہیں
کرتی کہ اب مہدی موعود کے آنے سے پہلے قیام دین کی جدوجہد سے امت فارغ البال قرار
پاچکی ہے؟
پھر اس مسئلے پر اصولی حیثیت سے بھی غور
کیجیے اور دیکھیے کہ ایک بنیادی فریضے کی خود اپنی نوعیت کیا چاہتی ہے؟ جب یہ ایک
ثابت شدہ حقیقت ہے کہ اقامت دین ہی ہر مسلمان کی زندگی کا تنہا مقصد ہے، جب اس
فریضے کی خاطر جدوجہد کرنا ہی اس کے ایمان کی کسوٹی ہے، جب مومن کا اصل مزاج ہی یہ
بنایا گیا ہے کہ باطل اور منکر سے ابدی بیزار ہے اور اسے وہ دنیا کے کسی گوشے میں
بھی موجود دیکھنا گوارا نہیں کر سکتا، اور جب اللہ تعالیٰ کی بندگی اور اتباع قرآن
کے عہد کا سب سے آخری مطالبہ ہی یہ ہے کہ مسلمان کی سعی و جہد اس وقت تک نہ رکنی
چاہیے جب تک کہ دین حق کی کوئی ایک دفعہ بھی معطل ہو، یا زمین کا کوئی ایک ذرہ بھی
باطل کے پاؤں تلے دبا پڑا ہو، تو ہر مومن کو اپنے طور پر یہ جدوجہد لازماً کرنی ہی
پڑے گی۔ اور ہر حال میں، ہر دور میں، ہر ماحول میں اور ہر جگہ کرنی پڑے گی۔
امام مہدی جب آئیں گے تو وہ فرض اپنا ادا
کریں گے نہ کہ میرا اور آپ کا۔ ان کی تمام دوڑ دھوپ صرف اپنے اس بوجھ کو اتارنے کے
لیے ہو گی جو اللہ رب العالمین کی طرف سے خود ان پر ڈالا گیا ہو گا۔ کسی دوسرے کا
بوجھ وہ اپنے سر نہ لیں گے نہ لے سکیں گے۔ اس لیے ان کی سعی و جدوجہد کسی بھی
دوسرے مدعی اسلام کے ادائے فرض کی قائم مقام نہ ہو گی۔ جس طرح وہ کسی کی طرف سے نہ
تو نماز پڑھیں گے، نہ روزے رکھیں گے، اسی طرح وہ کسی کی طرف سے اقامت دین کی
جدوجہد بھی نہ کریں گے۔ آپ نے آج ہی سے ان کی جدوجہد پر تکیہ کر کے بیٹھ گئے ہیں
جب کہ ان کا وجود عالم تصور اور دنیائے آرزو سے باہر بھی نہیں آیا ہے، مگر یقین
کیجیے کہ وہ اس وقت کے بھی کسی مسلمان کی طرف سے کوئی دینی فریضہ ادا نہ کریں گے
جو ان کے اپنے زمانے میں موجود ہو گا۔ اس وقت بھی ہر مسلمان کو اپنا فرض ٹھیک اسی
طرح خود ہی ادا کرنا ہو گا جس طرح کہ امام موصوف کو اپنا فرض۔ یعنی حضرت مسیحؑ کے
لفظوں میں، ہر "شخص کو اپنی صلیب خود اٹھانی ہو گی۔" اور جو ایسا نہ کرے
گا "آسمانی بادشاہت" میں داخل نہ ہو سکے گا۔
اس حقیقت کے پیش نظر ہر مسلمان کو یہ دعا،
یہ آرزو تو ضرور کرنی چاہیے کہ اس کو کوئی ایسا دور سعادت دیکھنا نصیب ہو، جس میں
ظلم و فساد کے بوجھ سے کراہتی ہوئی دنیا امن اور انصاف کی رحمتوں سے باغ و بہار بن
جائے۔ مگر کسی ایک لمحہ کے لیے بھی خوش فہمی کا یہ فریب نہ کھانا چاہیے کہ کسی آنے
والے مرد کامل کے صدقے میں اب سارے مسلمان بندگی کی بنیادی ذمے داری - اقامت دین
کی جدوجہد - سے سبکدوش کر دیئے گئے ہیں، ورنہ یہ کچھ ویسا ہی ہو گا جیسا کہ عیسائی
حضرات نے گمان کر رکھا ہے کہ مسیحؑ نے سولی پر چڑھ کر ہم سے عمل کی ذمے داریاں
ساقط کرا دی ہیں۔
احتساب
نفس کی ضرورت
اقامت دین کی جدوجہد سے دامن بچانے کے حق
میں جو مختلف "فلسفے" پیش کیے جاتے ہیں، اوپر کی مفصل معروضات میں ان کا
اور ان کے استدلال کے وزن کا حال آپ نے دیکھ لیا۔ اگر ان معروضات پر ٹھنڈے دل سے
غور کیا جائے اور گروہی، سیاسی اور تقلیدی تعصبات سے بالا تر ہو کر خالص حق
پسندانہ نقطہ نظر سے اپنے افکار و اعمال کا جائزہ لیا جائے تو توقع ہے کہ وہ
تاریکیاں ضرور چھٹ جائیں گی، جو غفلت اور کج فکری کی بدولت نہ جانے کب سے ہمارے
ذہنوں پر چھائی چلی آرہی ہیں، اور جنہوں نے ہمارے مقصد وجود کو ہماری نگاہوں سے
اوجھل بنا رکھا ہے۔
مگر بھولنا نہ چاہیے کہ نفس اپنا احتساب
کرنے میں سخت حیلہ گر اور فریب کار واقع ہوا ہے۔ اس پر کسی غیر مانوس اور نامرغوب
حقیقت کا سامنا کرنا بڑا ہی شاق ہوتا ہے اور اس حقیقت کے خلاف تو وہ اپنے ترکش دجل
کا آخری تیر تک استعمال کر ڈالتا ہے جو اس سے قربانیوں کی طلب گار ہو۔ صرف جان اور
مال ہی کی قربانیوں کی نہیں بلکہ جذبات و میلانات کی قربانیوں کی بھی، پندار علم و
فہم کی قربانیوں کی بھی، سابق طرز عمل کی محبت اور عصبیت کی بھی۔ کہ بسا اوقات ان
چیزوں کی قربانیاں جان و مال کی قربانیوں سے بھی زیادہ دشوار ہوتی ہیں۔ ادھر سے
نور حق کی تجلی دکھائی دیتی ہے اور دل پکار اٹھتا ہے کہ سمت قبلہ یہی ہے، اور ادھر
نفس کے حیلے اور وسوسے اٹھتے ہیں اور انسان سے پوچھتے ہیں کہ کیا اب تک کی تیری
ساری دوڑ دھوپ باطل کی راہ میں تھی؟ کیا زمانے کے شیوخ و اکابر اور وقت کے ارباب
علم و دانش جن راہوں پر چل رہے ہیں، وہ سب کے سب ترکستان ہی کی طرف جاتی ہیں؟
یہ سوالات نفسیاتی حربوں سے ایسے مسلح ہوتے
ہیں کہ انسان ان کا شکار ہو جانے سے بہت کم بچتا ہے اور انجام کار ایک چیز کو حق
سمجھنے کے باوجود اسے حق تسلیم نہیں کرتا۔ یہ نفس انسانی کی وہی جبلی کمزوری ہے جو
ہمیشہ سے اطاعت کے جواب میں بد بخت انسانوں کی زبان سے یہ آواز بلند کراتی رہی ہے
کہ:
بَلْ
نَتَّبِعُ مَاۤ اَلْفَیۡنَا عَلَیۡہِ
اٰبَآءَنَا ؕ (البقرہ: ۱۷۰)
"بلکہ
ہم تو اسی چیز کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے۔"
اس لیے اگر راہ حق و صواب کی سچی طلب ہو تو
ضروری ہے کہ نفس کی اس مہلک کمزوری اور دسیسہ کاری سے انسان پوری طرح چوکنا رہے
اور اس عظیم اصول کو ہر گز نہ بھولے کہ حق و باطل کا معیار نہ تو کوئی شخص ہے -
بجز ایک شخص کے جس کا نام محمد ﷺ ہے - اور نہ کوئی جماعت ہے - سوائے ایک جماعت کے،
جس کو دنیا اصحاب محمد ﷺ کے نام سے پکارتی ہے - ورنہ وہ اپنے فکر و عمل کا بے لاگ
احتساب کر ہی نہیں سکتا۔ اور جب تک یہ توفیق میسر نہ ہو ہدایت یابی کی توقع ہی
فضول ہے۔
اس لیے مسئلہ زیر بحث کے سلسلے میں صرف
اللہ کی کتاب، اس کے رسول ﷺ کی سنت اور اصحاب رسول ﷺ کا اسوہ ہی ہمارے سامنے ہونا
چاہیے۔ اگر حق اور ہدایت کے ان سرچشموں میں ایک مسلمان کی زندگی کا مقصد اس کے سوا
اور کچھ نہیں بتایا گیا ہے کہ اس کا ہر سانس اقامت دین کے ذکر و فکر اور سعی و جہد
میں بسر ہونا چاہیے تو پھر اس کام کے لیے اپنے کو وقف کر دیجیے اور ہر چیز کو
ٹھکرا دیجیے، جو اس عزم کی مزاحمت کرے۔ خواہ وہ کسی پیر و مرشد کی ارادت ہو یا کسی
شخص و امام کی عقیدت، کوئی جماعتی رشتہ ہو یا اب تک کا طرز فکر و عمل۔ یہ چیزیں
اگر اس صراط مستقیم پر قدم بڑھانے سے روکتی ہیں تو باور کیجیے کہ یہ سب نفس کے
حجابات اور شیطان کے فتنے ہیں اور قدرت نے ان کو انسان کے لیے صرف اس مقصد سے پیدا
کر رکھا ہے تاکہ اس کی حق پرستی کی آزمائش ہو۔
مبارک ہے وہ بندہ جو ان حجابوں کو چاک کر
کے اور ان فتنوں کو کچل کر اپنے فرض کی پکار پر حرکت میں آجائے ورنہ یاد رہے کہ
کوئی عقیدت، کوئی ارادت، کوئی رشتہ اور کوئی تاویل بھی ہم کو خدا کی گرفت سے نہیں
بچا سکتی۔ جب تک راز حق دل پر نہ کھلا ہو اس وقت تک تو انسان کسی حد تک معذور مانا
بھی جاسکتا ہے مگر جب حقیقت بے حجاب نظر آگئی اور دل نے اس کی صداقت کا اعتراف کر
لیا تو سمجھ لیجیے کہ اللہ کی حجت تمام ہو گئی اور اعتذار کے سارے دروازے بند ہو
گئے۔ اب آگے یا تو آمادگی عمل اور کامرانی حیات ہے، یا پھر فرض کا انکار اور
نامرادی کا عذاب۔ کیونکہ حق کو حق سمجھ لینے کے بعد اس سے منہ موڑنا اس سنت فرعونی
کی پیروی کرنا ہے جس کا تذکرہ قرآن نے ان لفظوں میں کیا ہے:
فَلَمَّا
جَآءَتْہُمْ اٰیٰتُنَا مُبْصِرَۃً قَالُوۡا
ہٰذَا سِحْرٌ مُّبِیۡنٌ ۚ
وَ جَحَدُوۡا بِہَا وَ اسْتَیۡقَنَتْہَاۤ
اَنۡفُسُہُمْ ظُلْمًا وَّ
عُلُوًّا ؕ (النمل : ۱۳-۱۴)
"جب
ان کے سامنے ہماری واضح نشانیاں آئیں تو انہوں نے کہا یہ صاف جادو ہے۔ اور باوجود
اس کے کہ ان کے دل ان نشانیوں کی حقانیت پر یقین رکھتے تھے انہوں نے ظلم و سرکشی
کی بنا پر ان کا انکار کر دیا۔"
اور اس سنت کی پیروی کا جو انجام ہو سکتا
ہے وہ سب کو معلوم ہے۔ بلاشبہ بڑی کٹھن راہ ہے اور اس کا ہر قدم کانٹوں سے بھرا
ہوا ہے مگر رضائے الہی کی منزل تک پہنچانے والی اس کے سوا کوئی دوسری راہ نہیں ہے۔
اس لیے اگر دنیا کو برباد اور آخرت کو تباہ نہ کرنا ہو تو اسے اختیار ہی کرنا پڑے
گا۔ لیکن اگر کسی کے تلوے کانٹوں کا خطرہ مول لینے کی ہمت نہیں رکھتے تو اس کے لیے
آخری چارہ کار جس کو برداشت کیا جا سکتا ہے صرف یہ ہے کہ وہ جہاں ہے وہیں قدم روکے
کھڑا رہے اور اگر کوئی پوچھنے والا اس سے پوچھے تو اسے ضرور بتا دے کہ اگرچہ مجھے
اس پر چلنے کی عملی توفیق حاصل نہیں، مگر حق و نجات کی شاہراہ یہی ہے۔ یہ اس لیے
تاکہ کل اللہ تعالیٰ کے حضور ترک فرض کے ساتھ کتمان حق کے جرم میں بھی نہ پکڑا
جائے، اور اگر بد قسمتی سے اس میں اتنی جرات بھی نہ ہو تو پھر اپنے قدموں کی طرح
اپنی زبان کو بھی روکے رہے اور کسی حال میں بھی دوسروں کو اس راہ سے روکنے کا وبال
اپنی گردن پر نہ لے۔ کیونکہ یہ رویہ کھلا ہوا "صد عن سبیل اللہ" (اللہ
کی راہ سے روکنا) ہے اور صد عن سبیل اللہ ایک ایسی لعنت ہے جس کے تصور ہی سے ایک
مسلمان کے رونگٹے کھڑے ہو جانے چاہئیں۔
اس موقع پر اس بحث میں جانا فضول ہے کہ آج
امت مسلمہ کا کوئی فرد یا گروہ اس بد بختی میں مبتلا ہے یا نہیں؟ کیونکہ یہ صورت
حال اگر آج موجود نہیں ہے تو کل موجود ہو سکتی ہے۔ یہ اندیشہ گزشتہ امتوں کے اس
عملی ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے قطعاً بے بنیاد نہیں جس کی عکاسی حضرت مسیح علیہ
السلام اپنی اس طرح کی تنقیدوں میں فرما گئے ہیں:
"اے
ریا کار فقیہو اور فریسیو! تم پر افسوس! کہ آسمان کی بادشاہی لوگوں پر بند کرتے ہو
کیونکہ نہ تو آپ داخل ہوتے ہو اور نہ داخل ہونے والوں کو داخل ہونے دیتے ہو۔"
(متی باب ۲۳)
ویسے دعا یہی ہے کہ خدا وہ دن کبھی نہ لائے
جب کوئی مسلمان حق دشمنی کی اس لعنت میں مبتلا نظر آئے۔
اقامت
دین کا طریق کار
مقصد
سے اصول کار کا فطری ربط (پانچواں باب)
جب یہ بات واضح ہو چکی کہ ہماری زندگی کا
عملی نصب العین دین حق کی اقامت ہی ہے اور کوئی تاویل یا عذر اس کی ذمے داری سے
ہمیں کبھی سبکدوش نہیں کر سکتا، تو اب پوری سنجیدگی اور اہمیت سے اس بات پر غور
کرنا چاہیے کہ اس نصب العین کے لیے جدوجہد کس طرح کی جائے؟ آیا اس کا کوئی مخصوص
طریق کار ہے یا جس سمت سے چاہیں اس منزل مقصود کی طرف مارچ کر سکتے ہیں؟
جن لوگوں نے اجتماعیات کا سرسری مطالعہ بھی
کیا ہو گا وہ اس حقیقت سے ناواقف نہیں ہو سکتے کہ ہر جماعت کا جو کسی مقصد کو لے
کر اٹھی ہو، جس طرح ایک مخصوص مزاج اور ایک مخصوص انداز فکر ہوتا ہے اسی طرح اس کی
تشکیل، تنظیم اور تعمیر کا بھی ایک مخصوص انداز ہوتا ہے۔ اس انداز فکر کی طرح اس
انداز تعمیر کا تعین بھی وہی مقصد کرتا ہے جس کو لے کر یہ جماعت اٹھی ہوتی ہے۔
اس اصولی حقیقت کو چند مثالوں سے اچھی طرح
سمجھا جا سکتا ہے۔ فرض کیجیے کہ آپ کو ایک قومی حکومت قائم کرنا ہے۔ اس مقصد کو
حاصل کرنے کے لیے آپ کو جو کچھ کرنا ہو گا وہ یہ ہو گا کہ آپ پہلے تو اپنے افراد
قوم کے دلوں کو وطنی سربلندی اور قومی اقتدار کے عشق سے معمور کریں۔ ان میں اپنے
اوپر آپ حکمراں ہونے کا عقیدہ اور عزم پیدا کریں، پھر قومی آن پر نثار ہو جانے کے
لیے ان کے اندر سرفروشی کی آگ بھڑکائیں اور اپنے محبوب مقصد کو حاصل کرنے کے لیے
ان کی قوتوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کر دیں۔ جب یہ سب آپ کر لیں تو بس سمجھ لیجیے
کہ کامیابی کی تمام شرطیں آپ نے پوری کر لیں۔ اب آپ کو یہ دیکھنے کی قطعاً ضرورت
نہیں کہ میرے جھنڈے کے نیچے جو لوگ جمع ہیں وہ توحید کے متعلق، رسالت کے متعلق،
قیامت کے متعلق اور جزائے عمل کے متعلق کیا خیال رکھتے ہیں؟ ان کے اندر دین کی
پابندی کتنی ہے؟ انہوں نے سچائی، رحمدلی، پاک دامنی، خوش خلقی اور خدا ترسی جیسے
اوصاف سے اپنے کو کہاں تک آراستہ کر لیا ہے؟ ان میں سے کسی چیز کے بھی دیکھنے کی
آپ کو حاجت نہیں، کیونکہ جو مقصد اور نصب العین آپ کے سامنے ہے اس کے لیے یہ چیزیں
سرے سے مطلوب ہی نہیں ہیں بلکہ شاید کچھ مضر ہی ہوں۔ یہاں تو جو چیزیں مطلوب ہیں
وہ صرف یہ ہیں کہ حریف طاقتوں سے اندھی دشمنی اور قوم سے اندھی محبت رکھے اور اس
دشمنی اور محبت میں سب کچھ کر گزرے۔
اسی طرح اگر آپ ملک میں کمیونزم کا اقتدار
اور کمیونسٹ نظام قائم کرنا چاہتے ہوں تو آپ کو پہلے وہاں کے باشندوں کے ذہن میں
کمیونسٹ فلسفہ زندگی، کمیونسٹ نظام معیشت و حکومت اور کمیونسٹ نظریہ اخلاق کی
خوبیاں اتارنی ہوں گی۔ سرمایہ پرستی ہی نہیں بلکہ سرمایہ داری کے بھی خلاف دلوں
میں شدید نفرت پیدا کرنی ہو گی۔ مارکس اور لینن کے ساتھ وہ عقیدت پیدا کرنی ہو گی
جو خدا اور پیغمبر کے لیے اہل مذہب کے دلوں میں ہوا کرتی ہے۔ اور خدا، رسول، عالم
آخرت، دین، اخلاق اور اعمال صالحہ کے الفاظ کو خود غرض سرمایہ پرستوں کے ہتھکنڈے
قرار دے کر اور ان کے اثر کو ذہنوں سے مٹا کر خالص مادی تصور حیات اور حیوانی
کائنات ان پر ثبت کرنا ہو گا۔ پھر جب آپ یہ بنیاد جمالیں اور ایک بڑی تعداد میں
لوگوں کو ان خیالات اور نظریات کا گرویدہ بنالیں تو ان کا ایک حصہ بنا کر ایک طرف
باقی قوم کو اپنے پروپیگنڈے کے زور پر مسحور کرنے کی جدوجہد جاری رکھیں اور دوسری
طرف خفیہ اور علانیہ تمام ممکن ذرائع سے موجودہ نظام حکومت کے تخت کو الٹنے کی مہم
شروع کر دیں۔ تا آنکہ عوام کے ہاتھوں یہ تخت الٹ کر اشتراکی حکومت قائم ہو جائے۔
علیٰ ہذا القیاس اگر ایک منظم طریقے پر
رہزنی کرنا چاہتا ہو تو وہ ایسے لوگوں کو تلاش کرے گا جو مضبوط جسم، بے خوف دل اور
خونخوار فطرت رکھتے ہوں۔ ایسے آدمی اس کے کسی کام کے نہ ہوں گے جو نرم دل ہوں اور
غارت گری و خون ریزی سے متنفر ہوں۔ جب ایسے لوگوں کو وہ حاصل کرلے گا تو ان
"ضروری اور کارآمد" صفتوں کا ان میں مزید استحکام پیدا کرنے کی تدبیریں
کرے گا۔ لوٹ مار کے انہیں گر سکھائے گا، اسلحے مہیا کرے گا، تب کہیں جا کر اپنی
مہم کا آغاز کر سکے گا۔
غرض دنیا کی ہر بامقصد جماعت کا یہی حال ہے
کہ وہ ہمیشہ ایسے ہی لوگوں کو اپنے اندر جگہ دیتی ہے جو اس کے پیش نظر مقصد سے
فطری لگاؤ رکھتے ہوں اور لازماً ایسے ہی طریق کار اور ایسی ہی پالیسیاں اختیار
کرتی ہے جو اس مقصد کے مزاج سے پوری طرح ہم آہنگ ہوں۔ "امت مسلمہ"
کہلانے والی جماعت اور قیام دین کا مقصد بھی اس کلیے سے مستثنیٰ نہیں ہو سکتا۔ اس
مقصد کے حصول کے لیے بھی ایک خاص طریق کار ہونا چاہیے۔ آئیے دیکھیں وہ طریق کار
کیا ہے؟
طریق
کار کے ماخذ
اس غرض کے لیے ہماری نگاہ اٹھتی ہے تو فطرتاً
وہ قرآن اور سنت ہی پر جا کر ٹھہرتی ہے۔ کیونکہ جہاں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اقامت
دین ہمارا فریضہ حیات ہے، حق یہ ہے کہ اس فریضے کو ادا کرنے کے اصول کار بھی وہیں
سے ملیں۔ کیا قرآن اور سنت نے ہماری اس ضرورت کو محسوس کیا ہے؟ اس سوال کا جواب ہر
حق میں مکمل اثبات میں ہے۔ اسلام سے تھوڑی بہت واقفیت رکھنے والا بھی اچھی طرح
جانتا ہے کہ قرآن اور صاحب قرآن ﷺ نے جس طرح امت مسلمہ کا مقصد وجود بالکل وضاحت
سے بیان کر دیا ہے اسی طرح اس کے طریق کار کے بارے میں بھی انہوں نے کوئی حجاب
باقی نہیں رہنے دیا ہے۔ چنانچہ ہر اس آنکھ کو جو اندھی نہ ہو، قرآن اور سنت کے
صفحوں میں یہ طریق کار اسی طرح نمایاں اور روشن دکھائی دے سکتا ہے جس طرح اندھیری
راتوں میں آسمان کے سینے پر جگمگاتی کہکشاں۔
قرآن، قرآن کے طریق نزول اور صاحب قرآن ﷺ
کے اسوہ، تینوں سے طریق کار کی کھلی کھلی نشاندہی ہوتی ہے۔ جو کہنے میں تو تین الگ
الگ وجود ہیں مگر زیر بحث مقصد کے اعتبار سے تینوں دراصل ایک ہی ہیں۔ قرآن کے نصوص
کو چونکہ اس معاملے میں بنیاد کی حیثیت حاصل ہے اور باقی دو چیزیں اسی کے توابع
اور لوازمات کا درجہ رکھتی ہیں، اس لیے اقامت دین کے اصول و طریق کار کی بنیادی
وضاحت بھی ہمیں اسی سے لینی چاہیے۔
اقامت
دین کے قرآنی اصول
قرآن حکیم کو غور سے پڑھیے تو وہ اصول و
نکات بڑی آسانی کے ساتھ سامنے آجاتے ہیں جن کے مطابق اقامت دین کی جدوجہد کی جانی
چاہیے۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ان اصولوں کی تفصیلات سے پورا قرآن بھرا ہوا ہے۔ اور
یہ ایک ایسی بات ہے جو توقع کے عین مطابق ہے کیونکہ جب اس کے مباحث کا اصل مرکز ہی
یہی اقامت دین ہے تو قدرتی طور پر اس کی ساری تفصیلات بلا واسطہ یا بالواسطہ اسی
کے اصول و ذرائع کی شرح و تفصیل ہی ہوں گی۔ لیکن چونکہ قرآن اپنے مدعا کو انسانی
ذہن میں پوری طرح بٹھا دینے اور اچھی طرح محفوظ کر دینے کے لیے کوئی ضروری تدابیر
اٹھا نہیں رکھتا اور جہاں تک اقامت دین کے مسئلے کا تعلق ہے وہ تو اس کا سب سے اہم
بنیادی مسئلہ تھا، اس لیے اس کے اصول و طریق کار کو اس نے جہاں سینکڑوں صفحات میں
پھیلا کر بیان کیا ہے، اور مختلف جگہوں میں اس کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے،
وہاں بعض مقامات پر اس نے انہیں اکٹھا سمیٹ کر بھی بیان کیا ہے تاکہ چند جملوں کے
مختصر سے آئینے میں ان کی پوری تصویر کو بیک نظر بھی دیکھا جاسکے۔ اس طرح کے
"جوامع الکلم" میں سب سے زیادہ جامع اور ساتھ ہی سب سے زیادہ واضح آیات
یہ ہیں:
یٰۤاَیُّہَا
الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا
اللّٰہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ وَ لَا تَمُوۡتُنَّ اِلَّا وَ اَنۡتُمۡ
مُّسْلِمُوۡنَ ﴿۱۰۲﴾ وَ اعْتَصِمُوۡا
بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیۡعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوۡا
۪
وَ اذْکُرُوۡا نِعْمَتَ اللّٰہِ
عَلَیۡکُمْ اِذْ کُنۡتُمْ
اَعْدَآءً فَاَلَّفَ بَیۡنَ قُلُوۡبِکُمْ
فَاَصْبَحْتُمۡ بِنِعْمَتِہٖۤ
اِخْوَانًا ۚ ... وَ لْتَکُنۡ
مِّنۡکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوۡنَ
اِلَی الْخَیۡرِ وَ یَاۡمُرُوۡنَ
بِالْمَعْرُوۡفِ وَ یَنْہَوْنَ عَنِ
الْمُنۡکَرِ ؕ
وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوۡنَ ﴿۱۰۴﴾ وَ لَا تَکُوۡنُوۡا
کَالَّذِیۡنَ تَفَرَّقُوۡا
وَ اخْتَلَفُوۡا مِنۡۢ
بَعْدِ مَا جَآءَہُمُ الْبَیِّنٰتُ ؕ (آل عمران : ۱۰۲-۱۰۵)
"اے
ایمان والو! اللہ کا کما حقہ تقویٰ اختیار کرو اور دنیا سے نہ رخصت ہو مگر اس حال
میں کہ تم "مسلم" ہو۔ اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑ لو اور
ٹولی ٹولی نہ ہو جاؤ۔ اللہ کے اس احسان کو یاد رکھو جو تم پر ہوا ہے جب تم ایک
دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دل باہم جوڑ دیئے۔ اور اس کے فضل و کرم سے
بھائی بھائی ہو گئے... اور چاہیے۔ کہ تم میں سے وہ گروہ بنے جو لوگوں کو بھلائی کی
طرف بلائے، نیکی کا حکم دے اور بدی سے روکتا رہے، ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔
اور (دیکھو) کہیں تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جو واضح ہدایتیں پانے کے باوجود
ٹولیوں میں بٹ گئے اور اختلاف میں مبتلا ہو گئے۔"
یہ آیات مدینہ کی زندگی، یعنی ۳ھ میں نازل ہوئی تھیں۔
یہ وہ زمانہ ہے جب امت مسلمہ کی اجتماعی اور سیاسی زندگی تاسیس و تعمیر کے ابتدائی
مرحلوں سے گزر رہی تھی۔ عین اس زمانے میں یہ آیت کریمہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے
اقامت دین اور نظام مومنین کا ایک مختصر مگر جامع ربانی پروگرام لے کر آئیں۔ جس
میں اقامت دین کے طریق کار کے نہ صرف عملی اصول ہی بتا دیئے گئے ہیں بلکہ یہ بھی
واضح فرما دیا گیا ہے کہ ان اصولوں میں باہم ترتیب کیا ہونی چاہیے؟ نیز یہ بات بھی
کہ اس نصب العین کی خاطر کی جانے والی جدوجہد کن تدریجی مرحلوں سے گذرتی ہوئی اپنی
غایت مقصود تک پہنچا کرتی ہے۔ اس ربانی پروگرام پر غور کیجیے تو وہ تین اجزاء یا
اصولی نکات پر مشتمل دکھائی دے گا:
۱۔ تقویٰ کا التزام
۲۔
مضبوط و منظم اجتماعیت
۳۔
امر بالمعروف و نہی عن المنکر
یہی تین نکات ہیں جو اقامت دین کے بنیادی
اصول کار ہیں۔ ان کو تفصیل کی روشنی میں دیکھیے:
۱۔
تقویٰ کا التزام
اقامت دین کے لیے سب سے پہلے جس چیز کی
ضرورت ہے اور جس کو اس راہ کی شرط اول یا پہلا قدم کہنا چاہیے، وہ "اتَّقُوا
اللّٰہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ وَ لَا تَمُوۡتُنَّ اِلَّا وَ اَنۡتُمۡ
مُّسْلِمُوۡنَ" کے فرمان
خداوندی میں مذکور ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر وہ شخص جو اپنے کو "ایمان
والا" سمجھتا ہو، اور جو اس ایمان کی عائد کی ہوئی ذمے داری سے عہدہ برآ ہونا
چاہتا ہو، اس کے لیے لازم ہے کہ اللہ کا "تقویٰ" اختیار کرے اور اپنے
آخری سانس تک ہر آن اور ہر لمحہ ایک "مسلم" بن کر زندگی بسر کرے۔
"تقویٰ"
کا پورا عملی مفہوم جو قرآن کی زبان سے بیان ہوا ہے اس سے ذرہ برابر بھی کم نہیں
کہ اللہ کے تمام حکموں کا ٹھیک ٹھیک اتباع کیا جائے۔ اس کے کسی امر کو چھوڑ دینے
سے بھی ڈرا جائے اور اس کے کسی نہی کے کر گزرنے سے بھی خوف کھایا جائے۔ اسی طرح
"مسلم" کے معنی بھی قرآنی بیانات کی روشنی میں سچے فرماں بردار اور مخلص
اطاعت شعار کے ہیں۔ یعنی مسلم وہ شخص ہے جس نے احکام خداوندی کے سامنے اپنی گردن
رضا کارانہ جھکا دی ہو۔
سیاسی حالات نے آنکھیں دکھائیں۔ وطنی مفاد
نے آڑے آنے کی کوشش کی، وقت اور ماحول نے ساتھ دینے سے انکار کیا۔ مصلحتوں نے دامن
پکڑا، مشکلات نے راستہ روکا، ہلاکتوں کا طوفان نمودار ہوا، مگر اللہ کے اس بندے نے
اپنی آواز میں کبھی کوئی پستی نہیں آنے دی، اور حالاتِ زمانہ، رفتارِ واقعات اور مستقبل
کے امکانی خدشات، غرض ہر چیز سے آنکھیں بند کر کے برابر اسی حقیقت کو دوسروں پر
کھولتا رہا جو خود پر کھل چکی تھی، اور باوجود اس کے کہ وہ اپنے عقیدہ توحید اور
تصورِ زندگی میں بالکل اکیلا تھا، لیکن اس نے ایک لمحہ کے لیے بھی یہ گوارا نہ کیا
کہ اس عقیدے اور تصور کو چھپائے رکھے حالانکہ پوری دنیا اس کی زبان بندی پر کمر
بستہ تھی۔