اسلامی تحریک کی کامیابی دو باتوں پر منحصر ہے:
¶ اسلامی تحریک کی کامیابی دو باتوں پر منحصر ہے:
- ایک مضبوط نظم اور ٹھوس منصوبہ بندی، اور
- دوسرے کارکنوں کی اعلیٰ فکری اور اخلاقی تربیت۔
¶ چنانچہ اِس وقت ہم تحریک کے تربیتی پہلو کو سامنے رکھ کر قارئین کے سامنے ”تحریک اور کارکن“ کے نام سے ایک نئی اور مفید کتاب پیش کر رہے ہیں۔
¶ یہ کتاب مولانا محترم کی ان تقریروں اور تحریروں کا مجموعہ ہے جو مختلف مراحل میں مولانا محترم نے اسلامی تحریک کے کارکنوں کے سامنے کی ہیں۔ مولانا محترم کا یہ طریقہ تھا کہ وہ جماعت کے سالانہ اجتماعات کے موقع پر جماعت کی کارکردگی کی رپورٹیں سننے اور جماعت کے سال بھر کے کام کا جائزہ لینے کے بعد آخر میں کارکنوں کو اخلاقی ہدایات دیتے۔ اور جائزے کے دوران انہیں کارکنوں کے اندر جس لحاظ سے کوئی خامی محسوس ہوتی، اُس پر انگلی رکھ کر اُس کا علاج تجویز فرماتے۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ قافلۂ تحریک میں شامل افراد جوں جوں منزل کی طرف بڑھتے گئے، دورانِ سفر اُن کے اندر انفرادی یا اجتماعی جس نوعیت کی خرابی یا کمزوری ظہور پذیر ہوتی رہی، قائدِ تحریک اُسے دور کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ چنانچہ یہ مجموعۂ ہدایات جو اب مرتب شکل میں قارئین کے سامنے ہے، دراصل ایسا تحریری ریکارڈ ہے جس میں تحریک کی اخلاقی تاریخ پڑھی جا سکتی ہے اور ساتھ ساتھ یہ بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس راہ میں کن کن کمزوریوں سے بچ کر، کن کن خوبیوں سے سج کر چلنا پڑتا ہے۔
¶ اس میں شک نہیں کہ عہدِ حاضر کی اسلامی تحریکیں ہمیشہ کارکنوں کی تربیت پر زور دیتی رہی ہیں، لیکن پچھلے سالوں کے تجربات و حوادث نے یہ بات مزید عیاں کر دی ہے کہ کارکنوں کے اندر تربیت کی کمی وہ کچھ نقصان پہنچا سکتی ہے جو دشمن بھی نہیں پہنچا سکتا۔ ہمارے سامنے عالمِ اسلام کی اسلامی تحریکوں کی ایسی مثالیں موجود ہیں کہ جہاں ایک طرف اعلیٰ تربیت نے تحریک کو کڑی سے کڑی آزمائش سے سرخرو کر کے نکالا، وہاں دوسری طرف نقصِ تربیت کی وجہ سے تحریک سالوں پیچھے رہ گئی۔ اور یہ ناخوشگوار منظر دیکھنے میں آیا کہ:
رفتم کہ خار از پاکشم، محمل نہاں شد از نظریک لحظہ غافل بودم و صد سالہ راہم دور شد
¶ اب یہ بات انتہائی باعثِ اطمینان ہے کہ اسلامی تحریکوں نے تجربات کی روشنی میں تربیتی پہلو پر نسبتاً زیادہ توجہ دے رکھی ہے اور نئے جوش و ولولہ کے ساتھ تربیتی پروگرام رو بہ عمل لائے جا رہے ہیں۔ چند سال پیشتر ہمیں تربیت کے موضوع پر صرف ایک کتاب عربی زبان میں ملی تھی۔ وہ تھی مصر کے اخوانی رہنما البہی الخولی کی کتاب "تذکرة الدعاة" (داعیانِ حق کو نصیحت)، مگر اب اس میدان میں اچھی اچھی کتابیں منصہ ظہور پر آرہی ہیں۔
- ڈاکٹر عبدالکریم زیدان (عراق) کی ضخیم کتاب "اصول الدعوۃ"،
- سعد حوی (شام) کی کتاب: ”جند اللہ اخلاقاً وثقافة“ (خدا کے سپاہی علم و اخلاق کے لحاظ سے)،
- سید قطب شہید (مصر) کی کتاب ”فی ظلال الدعوۃ“ جو اُن کی مشہور تفسیر فی ظلال القرآن کے مضامین سے مرتب کی گئی ہے، اور
- فتحی یکن (لبنان) کی کتاب ”مشکلات الدعوۃ والداعیۃ“ (دعوت اور داعی کے مسائل) اِس موضوع پر قابلِ ذکر کاوشیں ہیں۔
¶ یہ کتابیں اس مادہ پرستی کے دور میں نفسانی خواہشات کے حملوں کے اندر دعوتِ اسلامی کے کارکنوں کو اخلاق و روحانیت کے اسلحہ سے مسلح کرنے میں بڑی مدد دینے والی ہیں۔
¶ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی مدظلہ العالی کے جن افکار کا مجموعہ آج ہم قارئین کرام کے سامنے پیش کر رہے ہیں، اسے آج سے دس بارہ سال پیشتر ہم نے عربی زبان میں "تذکرۃ دعاة الاسلام" کے نام سے بیروت سے شائع کیا تھا۔ آج تک اس کے کئی ایڈیشن چھپ چکے ہیں۔ اور اسے اس قدر مقبولیت حاصل ہوئی ہے کہ عربی کے علاوہ دیگر زبانوں میں بھی اس کے تراجم چھپ رہے ہیں، اور ہر جگہ اسلامی تحریکوں نے اسے اپنے تربیتی نصاب میں شامل کر رکھا ہے۔ اس کتاب کے بارے میں ایک عرب دوست نے ان الفاظ میں اپنے تاثر کا اظہار کیا ہے کہ ”اس کتاب نے اکثر نوجوانوں کی نیند اڑا دی ہے“۔ یہ مضامین نئے نہیں ہیں۔ کیونکہ یہ مسلسل کسی نہ کسی صورت میں چھپ رہے ہیں۔
♦ باب اول
• دعوتِ اسلامی کی فکری بنیادیں
• دعوتِ اسلامی کی اساسات
• دعوتِ اسلامی کے تین نکات
• دعوتِ اسلامی کی اساسات
¶ دعوتِ اسلامی کی اساسات کو بیان کرنے سے پہلے میں چاہتا ہوں کہ آپ یہ واضح طور پر سمجھ لیں کہ وہ اصول کیا ہیں جن کو ہم مٹانا چاہتے ہیں اور ان کی جگہ ہم اسلام کے صالح اصول قائم کرنا چاہتے ہیں۔
♦ مغربی تہذیب کے فاسد اصول
¶ موجودہ تہذیب جس پر آج دنیا کا پورا فکری، اخلاقی، تمدنی، سیاسی اور معاشی نظام چل رہا ہے، دراصل تین بنیادی اصولوں پر قائم ہے:
- سیکولرزم (Secularism) یعنی لادینیت
- نیشنلزم (Nationalism) یعنی قوم پرستی
- ڈیموکریسی (Democracy) یعنی حاکمیتِ جمہور
¶ ان میں سے پہلے اصول، یعنی لادینیت کا مطلب یہ ہے کہ "خدا اور اس کی ہدایت اور اس کی عبادت کے معاملے کو ایک ایک شخص کی ذاتی حد تک محدود کر دیا جائے اور انفرادی زندگی کے اس چھوٹے سے دائرے کے سوا دنیا کے باقی تمام معاملات کو ہم خالص دنیوی نقطۂ نظر سے اپنی صوابدید کے مطابق خود جس طرح چاہیں طے کریں۔ ان معاملات میں یہ سوال خارج از بحث ہونا چاہیے کہ خدا کیا کہتا ہے اور اس کی ہدایت کیا ہے اور اس کی کتابوں میں کیا لکھا ہے۔"
¶ ابتداً یہ طرزِ عمل اہلِ مغرب نے عیسائی پادریوں کی اس خود ساختہ تھیالوجی (Theology) سے بیزار ہو کر اختیار کیا تھا جو ان کے لیے زنجیرِ پا بن کر رہ گئی تھی، لیکن رفتہ رفتہ یہ طرزِ عمل ایک مستقل نظریۂ حیات بن گیا اور تہذیبِ جدید کا پہلا سنگِ بنیاد قرار پایا۔ آپ نے اکثر یہ فقرہ سنا ہو گا کہ ”مذہب ایک پرائیویٹ معاملہ ہے خدا اور بندے کے درمیان۔“ یہ مختصر سا فقرہ دراصل تہذیبِ حاضر کا ”کلمہ“ ہے۔ اس کی شرح یہ ہے کہ اگر کسی کا ضمیر گواہی دیتا ہے کہ خدا ہے اور اس کی پرستش کرنی چاہیے تو وہ اپنی انفرادی زندگی میں بخوشی اپنے خدا کو پوجے، مگر دنیا اور اس کے معاملات سے خدا اور مذہب کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس ”کلمہ“ کی بنیاد پر جس نظامِ زندگی کی عمارت اٹھی ہے، اس میں انسان اور انسان کے تعلق اور انسان اور دنیا کے تعلق کی تمام صورتیں خدا اور مذہب سے آزاد ہیں۔ معاشرت ہے تو اس سے آزاد، تعلیم ہے تو اس سے آزاد، معاشی کاروبار ہے تو اس سے آزاد، قانون ہے تو اس سے آزاد، پارلیمنٹ ہے تو اس سے آزاد، سیاست اور انتظامِ ملکی ہے تو اس سے آزاد، بین الاقوامی ربط و ضبط ہے تو اس سے آزاد۔ زندگی کے ان بے شمار مختلف پہلوؤں میں جو کچھ بھی طے کیا جاتا ہے، اپنی خواہش اور دانست کے مطابق طے کیا جاتا ہے اور اس سوال کو نہ صرف ناقابلِ لحاظ، بلکہ اصولاً غلط اور انتہائی تاریک خیالی سمجھا جاتا ہے کہ ان امور کے متعلق خدا نے بھی کچھ اصول اور احکام ہمارے لیے مقرر کیے ہیں یا نہیں؟
¶ رہی انفرادی زندگی، تو وہ بھی غیر دینی تعلیمی اور بے دین جماعت کی بدولت اکثر و بیشتر افراد کے معاملے میں نری دنیوی (Secular) ہی ہو کر رہ گئی ہے اور ہوتی چلی جا رہی ہے، کیونکہ اب بہت ہی کم افراد کا ضمیر واقعی یہ گواہی دیتا ہے کہ خدا ہے اور اس کی بندگی کرنی چاہیے۔ اس وقت تمدن کے اصلی کار فرما اور کارکن ہیں، ان کے لیے تو مذہب اب ایک پرائیویٹ معاملہ بھی باقی نہیں رہ گیا ہے۔ ان کا ذاتی تعلق بھی خدا سے ٹوٹ چکا ہے۔
¶ دوسرے اصول، یعنی قوم پرستی کی ابتدا تو پوپ اور قیصر کے عالمگیر استبداد کے خلاف بغاوت کے طور پر ہوئی تھی اور اس کا مطلب صرف اتنا تھا کہ مختلف قومیں اپنی اپنی سیاست و مملکت کی آپ ہی مالک و مختار ہوں، کسی عالمگیر روحانی یا سیاسی اقتدار کے ہاتھوں میں شطرنج کے مہروں کی طرح نہ کھینچیں، مگر اس معصوم آغاز سے چل کر جب یہ تخیل آگے بڑھا تو رفتہ رفتہ نوبت یہاں پہنچ گئی کہ جس جگہ بے دینیت کی تحریک نے خدا کو بے دخل کیا تھا، وہاں قوم پرستی قومیت کو لا بٹھایا۔ اب ہر قوم کے لیے بلند ترین اخلاقی قدر اُس کا قومی مفاد اور اس کے قومی حوصلے (Aspirations) ہیں۔ نیک وہ ہے جو قوم کے لیے مفید ہو، خواہ وہ جھوٹ ہو، بے ایمانی ہو، ظلم ہو یا اور کوئی ایسا فعل ہو جو پرانے مذہب و اخلاق میں بدترین گناہ سمجھا جاتا تھا۔ اور بُرا وہ ہے جس سے قوم کے مفاد کو نقصان پہنچے، خواہ وہ سچائی ہو، انصاف ہو، وفائے عہد ہو، ادائے حق ہو یا اور کوئی ایک چیز جسے کبھی فضائلِ اخلاق میں شمار کیا جاتا تھا۔ افرادِ قوم کی خوبی اور زندگی و بیداری کا پیمانہ یہ ہے کہ قوم کا مفاد ان سے جس قربانی کا مطالبہ بھی کرے، خواہ وہ جان و مال اور وقت کی قربانی ہو یا ضمیر و ایمان کی، اخلاق و انسانیت کی قربانی ہو یا شرافتِ نفس کی، بہرحال وہ اس میں دریغ نہ کریں اور متحد و منظم ہو کر قوم کے بڑھتے ہوئے حوصلوں کو پورا کرنے میں لگے رہیں۔ اجتماعی کوششوں کی غایت اب یہ ہے کہ ہر قوم ایسے افراد کی زیادہ سے زیادہ تعداد بہم پہنچائے اور ان میں ایکا اور نظم پیدا کرے تاکہ وہ دوسری قوموں کے مقابلے میں اپنی قوم کا جھنڈا بلند کریں۔
¶ تیسرے اصول، یعنی جمہور کی حاکمیت (Sovereignty of the people) کو ابتداءً بادشاہوں اور جاگیرداروں کے اقتدار کی گرفت توڑنے کے لیے پیش کیا گیا تھا، اور اس حد تک بات درست تھی کہ ایک شخص یا ایک خاندان یا ایک طبقہ کو لاکھوں کروڑوں انسانوں پر اپنی مرضی مسلط کر دینے اور اپنی اغراض کے لیے انہیں استعمال کرنے کا کوئی حق نہیں ہے، لیکن اس منفی پہلو کے ساتھ اس کا مثبت پہلو یہ تھا کہ ایک ایک ملک اور ایک ایک علاقے کے باشندے اپنے آپ حاکم اور اپنے آپ مالک ہیں۔ اسی مثبت پہلو پر ترقی کر کے جمہوریت نے اب جو شکل اختیار کی ہے، وہ یہ ہے کہ ہر قوم اپنی مرضی کی مختارِ کل ہے۔ اس کی مجموعی خواہش (یا عملاً اس کی اکثریت کی خواہش) کو پابند کرنے والی کوئی چیز نہیں ہے۔ اخلاق ہو یا تمدن، معاشرت ہو یا سیاست، ہر چیز کے لیے برحق اصول وہ ہیں جو قومی خواہش سے طے ہوں اور جن اصولوں کو قوم کی رائے
اسلامی نظامِ زندگی: ایک جامع تجزیہ اور دعوت
عوام رد کر دے، وہ باطل ہیں۔ قانون، قوم کی مرضی پر منحصر ہے، جو قانون چاہے بنائے اور جس قانون کو چاہے توڑ دے یا بدل دے۔ حکومت قوم کی رضا کے مطابق بننی چاہیے، قوم ہی کی رضا کا اسے پابند ہونا چاہیے اور اس کی پوری طاقت قومی خواہش کو پورا کرنے پر صرف ہونی چاہیے۔
یہ تین اصول، جن کی تشریح میں نے مختصر آپ کے سامنے بیان کی ہے، موجودہ دور کے نظامِ زندگی کی بنیاد ہیں اور انہی اصولوں پر وہ بے دین جمہوری قومی ریاست (Secular democratic national state) بنتی ہے جسے آج کل اجتماعی تنظیم کی مہذب ترین معیاری صورت سمجھا جاتا ہے۔
ہمارے نزدیک یہ تینوں اصول غلط ہیں۔ صرف غلط ہی نہیں، ہم پوری بصیرت کے ساتھ یہ یقین رکھتے ہیں کہ یہ اصول ان تمام مصائب کی جڑ ہیں جن میں آج انسانیت مبتلا ہے۔ ہماری عداوت دراصل انہی اصولوں سے ہے اور ہم اپنی پوری طاقت کے ساتھ ان کے خلاف لڑنا چاہتے ہیں۔ ہمیں ان اصولوں پر کیا اعتراض ہے اور کیوں اعتراض ہے؟ اس کی تفصیلات کے لیے تو بڑی لمبی بحث درکار ہے، مگر میں اسے چند الفاظ میں آپ کے ذہن نشین کروں گا تاکہ آپ ہماری اس لڑائی کی اہمیت اچھی طرح سمجھ سکیں اور آپ کو اندازہ ہو کہ کیوں یہ معاملہ اتنا سنگین ہے کہ ان اصولوں کے خلاف جنگ کرنا ناگزیر ہے۔
لادینیت اور اس کی قباحت
سب سے پہلے اس لادینیت یا دہریت کو لیں۔ جو اس نظامِ زندگی کا اوّلین سنگِ بنیاد ہے۔ یہ نظریہ کہ خدا اور مذہب کا تعلق صرف آدمی کی انفرادی زندگی سے ہے، سراسر ایک مہمل نظریہ ہے جسے عقل و خرد سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ ظاہر بات ہے کہ خدا اور انسان کا معاملہ دو حال سے خالی نہیں ہو سکتا: یا تو خدا انسان کا اور اس ساری کائنات کا جس میں انسان رہتا ہے، خالق اور مالک اور حاکم ہے، یا نہیں ہے۔ اگر وہ نہ خالق ہے نہ مالک اور نہ حاکم، تب تو اس کے ساتھ پرائیویٹ تعلق کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ نہایت لغو بات ہے کہ ایک ایسے غیر متعلق ہستی کی خواہ مخواہ پرستش کی جائے جس کا ہم سے کوئی واسطہ نہیں ہے اور اگر وہ فی الواقع ہمارا اور اس تمام جہانِ ہست و بود کا خالق، مالک اور حاکم ہے تو اس کے کوئی معنی نہیں ہیں کہ اس کی عملداری (Jurisdiction) محض ایک ایک شخص کی پرائیویٹ زندگی تک محدود ہو اور جہاں سے ایک اور ایک دو آدمیوں کا اجتماعی تعلق شروع ہوتا ہے، وہیں سے اس کے اختیارات ختم ہو جائیں۔ یہ حد بندی اگر خدا نے خود کی ہے تو اس کی کوئی سند ہونی چاہیے اور اگر اپنی اجتماعی زندگی میں انسان نے خدا سے بے نیاز ہو کر خود ہی خود مختاری اختیار کی ہے تو یہ اپنے خالق اور مالک اور حاکم سے اس کی کھلی بغاوت ہے۔ اس بغاوت کے ساتھ یہ دعویٰ کہ ہم اپنی انفرادی زندگی میں خدا کو اور اس کے دین کو مانتے ہیں، صرف وہی شخص کر سکتا ہے جس کی عقل ماری گئی ہو۔ اس سے زیادہ لغو بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ ایک ایک شخص فرداً فرداً تو خدا کا بندہ ہو، مگر یہ الگ الگ بندے جب مل کر معاشرہ بنائیں تو بندے نہ رہیں۔ اجزاء میں سے ہر ایک بندہ اور اجزاء کا مجموعہ غیر بندہ، یہ ایک ایسی بات ہے جس کا تصور صرف ایک پاگل ہی کر سکتا ہے۔ پھر یہ بات کسی طرح ہماری سمجھ میں نہیں آتی کہ اگر ہمیں خدا کی اور اس کی رہنمائی کی ضرورت نہ اپنی خانگی معاشرت میں ہے، نہ محلے اور شہر میں، نہ مدرسے اور کالج میں، نہ منڈی اور بازار میں، نہ پارلیمنٹ اور گورنمنٹ ہاؤس میں، نہ ہائی کورٹ اور نہ سول سیکرٹریٹ میں، نہ چھاؤنی اور پولیس لائن میں اور نہ میدانِ جنگ اور صلح کانفرنس میں، تو آخر اس کی ضرورت ہے کہاں؟ کیوں ایسے خدا کو مانا جائے اور اس کی خواہ مخواہ پوجا پاٹ کی جائے جو یا تو اتنا بے کار ہے کہ زندگی کے کسی معاملے میں بھی ہماری رہنمائی نہیں کرتا، یا معاذ اللہ ایسا نادان ہے کہ کسی معاملے میں بھی اس کی کوئی ہدایت ہمیں معقول اور قابلِ عمل نظر نہیں آئی؟
یہ تو اس معاملے کا محض عقلی پہلو ہے۔ عملی پہلو سے دیکھیں تو اس کے نتائج بڑے ہی خوفناک ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ انسان کی زندگی کے جس معاملے کا تعلق بھی خدا سے ٹوٹتا ہے، اس کا تعلق شیطان سے جڑ جاتا ہے۔ انسان کی پرائیویٹ زندگی درحقیقت کسی چیز کا نام نہیں۔ انسان ایک متمدن ہستی ہے اور اس کی پوری زندگی اصل میں اجتماعی زندگی ہے۔ وہ پیدا ہی ایک ماں اور ایک باپ کے معاشرتی تعلق سے ہوتا ہے۔ دنیا میں آتے ہی وہ ایک خاندان میں آنکھیں کھولتا ہے۔ ہوش سنبھالتے ہی اس کو ایک سوسائٹی سے، ایک برادری سے، ایک بستی سے، ایک قوم سے، ایک نظامِ تمدن اور نظامِ معاشرت و سیاست سے واسطہ پیش آتا ہے۔ یہ بے شمار روابط جو اس کو دوسرے انسانوں سے اور دوسرے انسانوں کو اس سے جوڑے ہوئے ہیں، ان کی درستی پر ایک ایک انسان کی اور مجموعی طور پر تمام انسانوں کی فلاح و بہبود کا انحصار ہے اور وہ صرف خدا ہی ہے جو انسانوں کو ان روابط کے لیے صحیح اور منصفانہ اور پائیدار اصول و حدود بتاتا ہے۔ جہاں انسان اس کی ہدایت سے بے نیاز ہو کر خود مختار بنا، پھر نہ تو کوئی مستقل اصول باقی رہتا ہے اور نہ انصاف اور راستی۔ اس لیے کہ خدا کی رہنمائی سے محروم ہو جانے کے بعد خواہش اور ناقص علم و تجربہ کے سوا کوئی چیز ایسی باقی نہیں رہتی جس کی طرف انسان رہنمائی کے لیے رجوع کر سکے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ جس سوسائٹی کا نظام لادینیت یا دہریت کے اصول پر چلتا ہے، اس میں خواہشات کی بنا پر روز اصول بنتے اور ٹوٹتے ہیں۔ آپ خود دیکھ رہے ہیں کہ انسانی تعلقات کے ایک ایک گوشے میں ظلم، بے انصافی، بے ایمانی اور آپس کی بے اعتمادی گھس گئی ہے۔ تمام انسانی معاملات پر انفرادی، طبقاتی، قومی اور نسلی خود غرضیاں مسلط ہو گئی ہیں۔ دو انسانوں کے تعلق سے لے کر قوموں کے تعلق تک کوئی رابطہ ایسا نہیں رہا جس میں ٹیڑھ نہ آگئی ہو۔ ہر ایک شخص نے، ہر ایک گروہ نے، ہر ایک طبقے نے، ہر ایک قوم اور ملک نے اپنے دائرۂ اختیار میں، جہاں تک بھی اس کا بس چلا ہے، پوری خود غرضی کے ساتھ اپنے مطلب کے اصول اور قاعدے اور قانون بنا لیے ہیں اور کوئی بھی اس کی پرواہ نہیں کرتا کہ دوسرے اشخاص، گروہوں، طبقوں اور قوموں پر اس کا کیا اثر پڑے گا۔ پرواہ کروانے والی صرف ایک ہی طاقت رہ گئی ہے اور وہ ہے جوتا۔ جہاں مقابلے میں جوتا یا جوتے کا اندیشہ ہوتا ہے، صرف وہیں اپنے حد سے زیادہ پھیلے ہوئے ہاتھ اور پاؤں کچھ سکڑ جاتے ہیں۔ مگر ظاہر ہے کہ جوتا کسی عالم اور منصف ہستی کا نام نہیں ہے، وہ تو ایک اندھی طاقت کا نام ہے، اس لیے اس کے زور سے کبھی توازن قائم نہیں ہوتا۔ جس کا جوتا زبردست ہوتا ہے، وہ دوسروں کو صرف اتنا ہی نہیں سکڑتا جتنا سکڑنا چاہیے، بلکہ وہ خود اپنی حد سے زیادہ پھیلنے کی فکر میں لگ جاتا ہے۔ پس لادینیت اور دہریت کا ماحصل صرف یہ ہے کہ جو بھی اس طرزِ عمل کو اختیار کرے گا، بے لگام، غیر ذمہ دار اور بندۂ نفس ہو کر رہے گا، خواہ وہ ایک شخص ہو یا ایک گروہ یا ایک ملک اور قوم یا مجموعۂ اقوام۔
قوم پرستی اور اس کی تباہ کاریاں
اب دوسرے اصول کو لیں۔ قوم پرستی کی جو تشریح ابھی تھوڑی دیر پہلے میں نے آپ کے سامنے کر چکا ہوں، وہ اگر آپ کے ذہن میں تازہ ہے تو آپ خود سمجھ سکتے ہیں کہ یہ کتنی بڑی لعنت ہے جو اس دور میں انسانیت پر مسلط ہوئی ہے۔ ہمارا اعتراض قومیت (Nationality) پر نہیں ہے، کیونکہ وہ ایک فطری حقیقت ہے۔ ہم قومی خیر خواہی کے بھی مخالف نہیں ہیں، بشرطیکہ اس کے اندر دوسری قوموں کی بد خواہی شامل نہ ہو۔ ہمیں محبت پر بھی کوئی اعتراض نہیں ہے بشرطیکہ وہ قومی تعصب اور اپنی قوم کی بے جا پاسداری اور دوسروں سے نفرت کی حد تک نہ جا پہنچے۔ ہم قومی آزادی کو بھی صحیح سمجھتے ہیں کیونکہ اپنے معاملات کو خود انجام دینا اور اپنے گھر کا آپ انتظام کرنا ہر قوم کا حق ہے اور ایک قوم پر دوسری قوم کی حکومت درست نہیں ہے۔ دراصل جو چیز ہمارے نزدیک قابلِ اعتراض بلکہ قابلِ نفرت ہے، وہ قوم پرستی (Nationalism) ہے۔ اس قوم پرستی کی کوئی حقیقت اس کے سوا نہیں ہے کہ یہ قومی خود پرستی کا دوسرا نام ہے۔ اگر ایک سوسائٹی کے اندر شخص کا وجود ایک لعنت ہے جو اپنے نفس اور اپنی غرض کا بندہ ہو اور اپنے مفاد کے لیے سب کچھ کر گزرنے کے لیے تیار ہو۔ اگر ایک قوم کے اندر وہ خاندان ایک لعنت ہے جس کے افراد اپنے خاندانی مفاد کے اندھے پرستار ہوں اور جائز و ناجائز تمام ذرائع سے بس اپنا بھلا کرنے کی پرواہ کیے بغیر صرف اپنے فائدے کے پیچھے پڑ جائے (مثلاً بلیک مارکیٹنگ کرنے والے) تو آخر انسانیت کے وسیع دائرے میں وہ خود غرض قوم ایک لعنت کیوں نہیں ہے جو اپنے قومی مفاد کو اپنا خدا بنا لے اور ہر جائز و ناجائز طریقے سے اس کی پوجا کرنے لگے؟ آپ کا ضمیر گواہی دے گا کہ تمام خود غرضیوں اور نفسانیتوں کی طرح یہ قومی خود غرضی و نفسانیت یقیناً ایک لعنت ہے، مگر آپ دیکھ رہے ہیں کہ آج اس تہذیبِ جدید نے تمام قوموں کو اسی لعنت میں مبتلا کر دیا ہے اور اس کی بدولت ساری دنیا ایسے قومی اکھاڑوں میں تبدیل ہو گئی ہے جن میں سے ہر اکھاڑے کی دوسرے اکھاڑے سے لاگ ڈانٹ ہے اور دو عالمگیر دنگل ہو چکنے کے بعد ابھی پسینہ بھی خشک نہیں ہوا ہے کہ تیسرے دنگل کے لیے ڈنڈ پیل تازہ کیے جا رہے ہیں۔
مغربی جمہوریت کا فساد
تیسرا اصول پہلے دونوں اصولوں کے ساتھ مل کر اس بلا کی تکمیل کر دیتا ہے۔ جیسا کہ میں ابھی عرض کر چکا ہوں، موجودہ تہذیب میں جمہوریت کے معنی ہیں جمہور کی حاکمیت، یعنی ایک علاقے کے لوگوں کی مجموعی خواہش کا اپنے علاقے میں مختارِ مطلق ہونا اور ان کا قانون کے تابع نہ ہونا بلکہ قانون کا ان کی خواہش کے تابع ہونا اور حکومت کی غرض صرف یہ ہونا کہ اس کا نظم اور اس کی طاقت لوگوں کی اجتماعی خواہشات کو پورا کرنے کے کام آئے۔ اب غور کیجیے کہ پہلے تو لادینیت نے ان لوگوں کو خدا کے خوف اور اخلاق کے مستقل اصولوں کی گرفت سے آزاد کر کے بے لگام اور غیر ذمہ دار اور بندۂ نفس بنا دیا۔ پھر قوم پرستی نے ان کو شدید قسم کی قومی خود غرضی اور اندھی عصبیت اور قومی غرور کے نشے سے بدمست کر دیا اور اب یہ جمہوریت انہی بے لگام بدمست بندگانِ نفس کی خواہشات کو قانون سازی کے مکمل اختیارات دیتی ہے اور حکومت کا واحد مقصد یہ قرار دیتی ہے کہ اس کی طاقت ہر اُس چیز کے حصول میں صرف ہو جس کی یہ لوگ اجتماعی طور پر خواہش کریں۔ سوال یہ ہے کہ اس طرح کی خود مختار صاحبِ حاکمیت قوم کا حال آخر ایک طاقتور بدمعاش سے کس بات میں مختلف ہو گا؟ جو کچھ ایک بدمعاش فرد خود مختار اور طاقتور ہو کر چھوٹے پیمانے پر کرے گا، وہی تو اس سے بہت زیادہ بڑے پیمانے پر اس طرح کی ایک قوم کرے گی۔ پھر جب دنیا میں صرف ایک ہی قوم ایسی نہ ہو بلکہ ساری متمدن قومیں اسی ڈھنگ پر بے دین، قوم پرستی اور جمہوریت کے اصولوں پر منظم ہوں تو دنیا بھیڑیوں کا میدانِ جنگ نہ بنے گی تو اور کیا بنے گی؟
یہ وجوہ ہیں جن کی بنا پر ہم ہر اُس نظامِ اجتماعی کو فاسد سمجھتے ہیں جو ان تین اصولوں کی بنیاد پر ہے۔ ہماری دشمنی لادینی، قومی، جمہوری نظام سے ہے، خواہ اس کے قائم کرنے اور چلانے والے مغربی ہوں یا مشرقی، غرض مسلم ہوں یا نام نہاد مسلمان۔ جہاں، جس ملک اور جس قوم پر بھی یہ بلا مسلط ہو گی، ہم بندگانِ خدا کو اس سے ہوشیار کرنے کی فکر کریں گے کہ اسے دفع کرو۔
تین صالح اصول
ان تینوں اصولوں کے جواب میں ہم دوسرے تین اصول پیش کرتے ہیں۔ اور سب انسانوں کے ضمیر سے اپیل کرتے ہیں کہ انہیں جانچ کر، خود دیکھ لو کہ تمہارا اپنا بھلا اور ساری دنیا کا بھلا ان پاک اصولوں میں ہے یا ان خبیث اصولوں میں؟
- لادینیت کے مقابلے میں خدا کی بندگی و اطاعت
- قوم پرستی کے مقابلے میں انسانیت
- جمہور کی حاکمیت کے مقابلے میں خدا کی حاکمیت اور جمہور کی خلافت
خدا پرستی کے معنی
پہلے اصول کا مطلب یہ ہے کہ ہم سب اس خدا کو اپنا آقا تسلیم کریں جو ہمارا اور تمام کائنات کا خالق، مالک اور حاکم ہے۔ ہم اس سے آزاد اور بے نیاز بن کر نہیں بلکہ اس کے تابع فرمان اور اس کی رہنمائی کے پیرو بن کر زندگی بسر کریں۔ ہم صرف اس کی پوجا ہی نہ کریں بلکہ اس کی اطاعت اور بندگی بھی کریں۔ ہم صرف فرداً فرداً اپنی پرائیویٹ حیثیت ہی میں اس کے احکام اور ہدایات کے پابند نہ ہوں بلکہ اپنی اجتماعی زندگی کے بھی ہر پہلو میں اسی کے پابند ہوں۔ ہماری معاشرت، ہمارا تمدن، ہماری معیشت، ہمارا نظامِ تعلیم و تربیت، ہمارے قوانین، ہماری عدالتیں، ہماری حکومت، ہماری صلح و جنگ اور ہمارے بین الاقوامی تعلقات، سب کے سب اُن اصولوں اور حدوں کے پابند ہوں جو خدا نے مقرر کیے ہیں۔ ہم اپنے دنیوی معاملات کو طے کرنے میں، بالکل آزاد نہ ہوں بلکہ ہماری آزادی اُن سرحدوں کے اندر محدود ہو جو خدا کے مقرر کیے ہوئے اصول اور حدود نے کھینچ دی ہیں۔ یہ اصول اور حدود ہر حال میں ہمارے اختیارات سے بالاتر ہیں۔
انسانیت کا مطلب
دوسرے اصول کا مطلب یہ ہے کہ خدا پرستی کی بنیاد پر جو نظامِ زندگی بنے، اس میں قوم، نسل، وطن، رنگ اور زبان کے فرق و امتیاز کی بنا پر کسی قسم کے تعصبات اور خود غرضیاں راہ نہ پائیں۔ وہ ایک قومی نظام کے بجائے ایک اصولی نظام ہونا چاہیے جس کے دروازے ہر اُس انسان کے لیے کھلے ہوئے ہوں جو اُس کے بنیادی اصولوں کو مان لے اور جو انسان بھی ان کو مان جائے، وہ بغیر کسی امتیاز کے پورے مساویانہ حقوق کے ساتھ اس میں شریک ہو سکے۔ اس نظام میں شہریت (Citizenship) کی بنیاد پیدائش اور نسل و وطن پر نہ رکھی جائے بلکہ صرف اصول پر رکھی جائے۔ رہے وہ لوگ جو ان اصولوں پر مطمئن نہ ہوں یا کسی وجہ سے اُن کو ماننے کے لیے تیار نہ ہوں تو اُن کو مٹانے اور دبانے اور ہضم کرنے کی کوشش نہ ہو، بلکہ وہ متعین حقوق کے ساتھ اس نظام کی حفاظت (Protection) میں رہیں اور ان کے لیے ہر وقت یہ موقع کھلا رہے کہ جب بھی ان اصولوں کی صحت و درستی پر ان کا اطمینان ہو جائے، وہ برابر کے حقوق کے ساتھ اپنی آزادانہ مرضی سے اس نظام کے شہری بن سکیں۔ یہ چیز جس کو ہم اصولِ انسانیت سے تعبیر کر رہے ہیں، قومیتوں کی نفی نہیں کرتی بلکہ اسے اس کی صحیح فطری حد میں رکھتی ہے۔ اس میں قومی محبت کے لیے جگہ ہے مگر قومی تعصب کے لیے جگہ نہیں۔ قومی خیر خواہی جائز ہے مگر قومی خود غرضی حرام ہے۔ قومی آزادی مسلم ہے اور ایک قوم پر دوسری قوم کے خود غرضانہ تسلط سے بھی سخت انکار ہے، مگر ایسی قومی آزادی ہرگز تسلیم نہیں ہے جو انسانیت کو ناقابلِ عبور سرحدوں میں تقسیم کر دے۔ اصولِ انسانیت کا مطالبہ یہ ہے کہ اگرچہ ہر قوم اپنے گھر کا انتظام آپ کرے، اور کوئی قوم من حیث القوم دوسری قوم کی تابع نہ ہو، لیکن تمام وہ قومیں جو تہذیبِ انسانی کے بنیادی اصولوں میں متفق ہو جائیں، ان کے درمیان انسانی فلاح و ترقی کے کاموں میں پورا تعاون ہو، مسابقت (Competition) کے بجائے معاونت ہو، باہم امتیازات اور تعصبات اور تفریقیں نہ ہوں بلکہ تہذیب و تمدن اور اسبابِ زندگی کا آزادانہ لین دین ہو، اور اس مہذب نظام کے نہ ماننے والی دنیا کا ہر انسان اس پوری دنیا کا شہری ہو نہ کہ ایک ملک یا قوم کا، حتیٰ کہ وہ کہہ سکے کہ ”ہر ملک ملکِ ماست کہ ملکِ خدائے ماست“۔ موجودہ حالت کو ہم ایک قابلِ نفرت حالت سمجھتے ہیں جس میں ایک انسان نہ تو خود ہی اپنی قوم اور ملک کے سوا کسی دوسری قوم اور ملک کا وفادار ہو سکتا ہے اور نہ کوئی قوم اپنے افراد کے سوا دوسری کسی قوم کے افراد پر اعتماد کر سکتی ہے۔ آدمی اپنے ملک کے حدود سے باہر نکلتے ہی یہ محسوس کرتا ہے کہ خدا کی زمین میں ہر جگہ اس کے لیے رکاوٹیں ہی رکاوٹیں ہیں، ہر جگہ وہ چوروں اور اچکوں کی طرح شبہ کی نظر سے دیکھا جاتا ہے، ہر جگہ پوچھ گچھ ہے، تلاشیاں ہیں، زبان و قلم اور نقل و حرکت پر پابندیاں ہیں، اور کہیں اس کے لیے نہ آزادی ہے نہ حقوق۔ ہم اس کے مقابلے میں ایسا عالمگیر نظام چاہتے ہیں جس میں اصولوں کی وحدت کو بنیاد بنا کر قوموں کے درمیان وفاق قائم ہو اور اس وفاق میں بالکل مساویانہ اور مشترک شہریت (Common Citizenship) اور بے روک ٹوک آمد و رفت کا طریقہ رائج ہو۔ ہماری آنکھیں پھر ایک دفعہ یہ منظر دیکھنا چاہتی ہیں کہ آج کا کوئی ابنِ بطوطہ اٹلانٹک کے ساحل سے بحرالکاہل کے جزائر تک اس طرح جائے کہ کہیں بھی وہ غیر (Alien) نہ ہو اور ہر جگہ اس کے لیے حج، مجسٹریٹ، وزیر یا سفیر بن جانے کا موقع ہو۔
خلافتِ جمہور کا مفہوم
اب تیسرے اصول کو لیں۔ ہم جمہوری حاکمیت کے بجائے جمہوری خلافت کے قائل ہیں۔ شخصی بادشاہی (Monarchy) اور امراء کے اقتدار اور طبقوں کی اجارہ داری کے ہم بھی اتنے ہی مخالف ہیں جتنا موجودہ زمانے کا کوئی بڑے سے بڑا جمہوریت پرست ہو سکتا ہے۔ اجتماعی زندگی میں تمام لوگوں کے یکساں حقوق، مساویانہ حیثیت، اور کھلے مواقع پر ہمیں بھی اتنا ہی اصرار ہے جتنا مغربی جمہوریت کے کسی بڑے سے بڑے حامی کو ہو سکتا ہے۔ ہم بھی اس بات کے قائل ہیں کہ حکومت کا انتظام اور حکمران کا انتخاب تمام باشندوں کی آزادانہ مرضی اور رائے سے ہونا چاہیے۔ ہم بھی اُس نظامِ زندگی کے سخت مخالف ہیں جس میں لوگوں کے لیے اظہارِ رائے کی آزادی، اجتماع کی آزادی اور سعی و عمل کی آزادی نہ ہو، یا جس میں پیدائش اور نسل اور طبقات کی بنا پر بعض لوگوں کے لیے مخصوص حقوق اور بعض دوسرے لوگوں کے لیے مخصوص رکاوٹیں ہوں۔ یہ امور جو جمہوریت کا اصل جوہر (Essence) ہیں، ان میں ہماری جمہوریت اور مغربی جمہوریت کے درمیان کوئی اختلاف نہیں۔ ان میں سے کوئی چیز بھی ایسی نہیں ہے جو اہلِ مغرب نے ہمیں سکھائی ہو۔ ہم اس جمہوریت کو اس وقت سے جانتے ہیں اور دنیا کو اس کا بہترین عملی نمونہ دکھا چکے ہیں جب کہ مغربی جمہوریت پرستوں کی پیدائش میں ابھی سینکڑوں برس کی دیر تھی۔ دراصل ہمیں اس نوزائیدہ جمہوریت سے جس چیز میں اختلاف اور نہایت سخت اختلاف ہے، وہ یہ ہے کہ یہ جمہورِ العنان بادشاہی کا اصول پیش کرتی ہے اور ہم اس کو حقیقت کے اعتبار سے غلط اور نتائج کے اعتبار سے تباہ کن سمجھتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بادشاہی (Sovereignty) صرف اس کا حق ہے جس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے، جو ان کی پرورش اور بالیدگی کا سامان کر رہا ہے، جس کے زبردست قانون کی گرفت میں کائنات کی ایک ایک چیز جکڑی ہوئی ہے، جس کی واقعی اور حقیقی بادشاہی کا بھی دعویٰ کیا جائے گا، خواہ ایک شخص اور ایک خاندان کی بادشاہی ہو یا ایک قوم اور اس کے عوام کی، بہرحال وہ ایک غلط فہمی کے سوا کچھ نہ ہو گا اور اس غلط فہمی کی چوٹ کائنات کے اصل بادشاہ پر نہیں بلکہ اس احمق مدعی پر پڑے گی جس نے اپنی قدر خود نہ پہچانی۔ اس حقیقت کی موجودگی میں صحیح بھی یہی ہے اور نتائج کے اعتبار سے انسان کی بھلائی بھی اسی میں ہے کہ خدا کو حاکم مان کر انسانی زندگی کا نظامِ حکومت خلافت و نیابت کے نظریہ پر بنایا جائے۔ یہ خلافت بلاشبہ جمہوری ہونی چاہیے۔ جمہور کی رائے ہی سے حکومت کے امراء یا ناظمِ اعلیٰ کا انتخاب ہونا چاہیے۔ انہی کی رائے سے اہلِ شوریٰ منتخب ہونے چاہئیں، انہی کے مشورے سے حکومت کے سارے انتظامات چلنے چاہئیں۔ ان کو تنقید و احتساب کا کھلا حق ہونا چاہیے، لیکن یہ سب کچھ اس احساس و شعور کے ساتھ ہونا چاہیے کہ ملک خدا کا ہے، ہم مالک نہیں بلکہ نائب ہیں اور ہمیں اپنے ہر کام کا حساب اصل مالک کو دینا ہے۔ پس وہ اخلاقی اصول اور وہ قانونی احکام اور حدود اپنی جگہ اٹل ہونے چاہئیں جو خدا نے ہماری زندگی کے لیے مقرر کر دیے ہیں۔ ہماری پارلیمنٹ کا اساسی نظریہ یہ ہونا چاہیے کہ جن امور میں خدا نے ہمیں ہدایات دی ہیں، ان میں ہم قانون سازی نہیں کریں گے بلکہ اپنی ضروریات کے لیے خدا کی ہدایات سے تفصیلی قوانین اخذ کریں گے۔ اور جن امور میں خدا نے ہدایات نہیں دی ہیں، ان میں ہم یہ سمجھیں گے کہ خدا نے خود ہی ہم کو آزادیِ عمل بخشی ہے، اس لیے صرف انہی امور میں باہمی مشورے سے قوانین بنائیں گے۔ مگر یہ قوانین لازماً اس مجموعی سانچے کے مزاج سے مطابقت رکھنے والے ہوں گے جو خدا کی اصولی ہدایات نے ہمارے لیے بنا دیا ہے۔
پھر یہ ضروری ہے کہ اس پورے نظامِ تمدن و سیاست کی کارفرمائی اور اس کا انتظام ان لوگوں کے سپرد ہو جو خدا سے ڈرنے والے اور اس کی اطاعت کرنے والے اور ہر کام میں اس کی رضا چاہنے والے ہوں، جن کی زندگی گواہ ہو کہ وہ خدا کے حضور اپنی پیشی اور جواب دہی کا یقین رکھتے ہیں، جن کی پبلک اور پرائیویٹ دونوں قسم کی زندگیوں سے یہ شہادت ملے کہ وہ بے لگام گھوڑے کی طرح نہیں ہیں جو ہر کھیت میں چرتا اور ہر حد کو پھاندتا پھرتا ہو، بلکہ ایک الٰہی ضابطہ کی رسی سے بندھے ہوئے اور ایک خدا پرستی کے کھونٹے سے مربوط ہیں اور ان کی ساری چلت پھرت اسی حد تک محدود ہے جہاں تک وہ رسی انہیں جانے دیتی ہے۔
حضرات! یہ تینوں اصول، جن کی بہت ہی مختصر تشریح میں نے آپ کے سامنے بیان کی ہے، موجودہ تہذیب کی قوم پرستانہ لادینی جمہوری حاکمیت کے مقابلے میں ایک خدا پرستانہ انسانی جمہوری خلافت قائم کرنا چاہتے ہیں اور اسی کا قیام ہمارا نصب العین ہے۔ یہ بات تو آپ بآسانی معلوم کر سکتے ہیں کہ ان دونوں نظاموں کے درمیان کیا اختلاف ہے۔ اب یہ فیصلہ آپ کے اپنے ضمیر پر منحصر ہے کہ ان میں سے کون بہتر ہے، کس میں آپ کی فلاح ہے، کس کے قیام کا آپ کو خواہشمند ہونا چاہیے اور کس کے قائم کرنے اور قائم رکھنے میں آپ کی قوتیں صرف ہونی چاہئیں۔
دعوتِ اسلامی کے تین نکات
اگر ہم اپنی اس دعوت کو مختصر طور پر صاف اور سیدھے الفاظ میں بیان کرنا چاہیں تو یہ تین نکات (Points) پر مشتمل ہو گی:
- یہ کہ ہم بندگانِ خدا کو بالعموم اور جو سیدھے مسلمان ہیں اُن کو بالخصوص اللہ کی بندگی کی دعوت دیتے ہیں۔
- یہ کہ جو شخص بھی اسلام قبول کرنے یا اس کو ماننے کا دعویٰ یا اظہار کرے، اُس کو ہم دعوت دیتے ہیں کہ وہ اپنی زندگی سے منافقت اور تناقض کو خارج کر دے اور جب وہ مخلص ہے، یا بننا ہے، تو مخلص مسلمان بنے۔ اور اسلام کے رنگ میں رنگ کر یک رنگ ہو جائے۔
- یہ کہ زندگی کا نظام جو آج باطل پرستوں اور فساق و فجار کی رہنمائی اور قیادت و فرمانروائی میں چل رہا ہے اور معاملاتِ دنیا کے نظام کی زمامِ کار جو خدا کے باغیوں کے ہاتھ میں آگئی ہے، ہم یہ دعوت دیتے ہیں کہ اسے بدلا جائے اور رہنمائی و امامت نظری اور عملی دونوں حیثیتوں سے مومنین و صالحین کے ہاتھ میں منتقل ہو۔
بندگیِ رب کا حقیقی مفہوم
اللہ تعالیٰ کی بندگی کی طرف دعوت دینے کا مطلب صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ خدا کو خدا اور اپنے آپ کو خدا کا بندہ تو مان لیا جائے، مگر اس کے بعد اخلاقی و عملی اور اجتماعی زندگی ویسی کی ویسی ہی رہے جیسا کہ خدا کو نہ ماننے اور اس کی بندگی کا اعتراف نہ کرنے کی صورت میں ہوتی ہے۔ اسی طرح خدا کی بندگی کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ خدا کو فوق الفطری طریق پر خالق اور رازق اور معبود تسلیم کر لیا جائے مگر عملی زندگی کی فرمانروائی و حکمرانی سے اس کو بے دخل کر دیا جائے۔ اسی طرح خدا کی بندگی کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ زندگی کو مذہبی اور دنیوی دو الگ الگ حصوں میں تقسیم کیا جائے اور صرف مذہبی زندگی میں، جس کا تعلق عقائد اور عبادات اور حرام و حلال کی چند محدود قیود سے سمجھا جاتا ہے، خدا کی بندگی سے بالکل آزاد ہے اور جس نظام کو چاہے خود وضع کرے یا دوسروں کے وضع کیے ہوئے کو اختیار کر لے۔ بندگیِ رب کے ان سب مفہومات کو ہم سراسر غلط سمجھتے ہیں، ان کو مٹانا چاہتے ہیں اور ہماری لڑائی جتنی شدت کے ساتھ نظامِ کفر کے ساتھ ہے، اتنی ہی بلکہ اس سے زیادہ شدت کے ساتھ بندگی کے ان مفہومات کے خلاف ہے، کیونکہ ان کی بدولت دین کا تصور ہی سرے سے مسخ ہو گیا ہے۔
ہمارے نزدیک قرآن اور اس سے پہلے کی تمام آسمانی کتابیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ سے پہلے کے تمام پیغمبر جو دنیا کے مختلف گوشوں میں آئے، ان کی بالاتفاق دعوت جس بندگیِ رب کی طرف تھی، وہ یہ تھی کہ انسان خدا کو پورے معنی میں، اللہ اور رب، معبود اور حاکم، آقا اور مالک، رہنما اور قانون ساز، محاسب اور مجازی (جزا دینے والا) تسلیم کرے اور اپنی پوری زندگی کو، خواہ وہ شخصی (Private) ہو یا اجتماعی، اخلاقی ہو یا مذہبی، تمدنی و سیاسی اور معاشی ہو یا علمی اور نظری، اسی ایک خدا کی بندگی میں سپرد کر دے۔ یہی مطالبہ ہے جو قرآن میں اس طرح کیا گیا ہے کہ إدْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً (تم پورے کے پورے اسلام میں داخل ہو جاؤ)۔ یعنی اپنی زندگی کے کسی پہلو اور کسی شعبے کو بندگیِ رب سے محفوظ (Reserve) کر کے نہ رکھو۔ اپنے تمام وجود کے ساتھ، اپنی پوری ہستی کے ساتھ خدا کی غلامی و اطاعت میں آ جاؤ۔ زندگی کے کسی معاملے میں بھی تمہارا یہ طرزِ عمل نہ ہو کہ اپنے آپ کو خدا کی بندگی سے آزاد سمجھو اور اس کی رہنمائی اور ہدایت سے مستغنی ہو کر اور اس کے مقابلے میں خود مختار بن کر یا کسی خود مختار بنے ہوئے بندے کے پیرو یا مطیع ہو کر وہ راہ چلنے لگو، جس کی ہدایت خود خدا نے نہ دی ہو۔ بندگی کا یہی وہ مفہوم ہے جس کی ہم تبلیغ کرتے ہیں اور جسے قبول کرنے کی سب لوگوں کو، مسلمانوں اور غیر مسلموں سب کو دعوت دیتے ہیں۔
منافقت کی حقیقت
دوسری چیز جس کی ہم دعوت دیتے ہیں، وہ یہ ہے کہ اسلام کی پیروی کا دعویٰ کرنے والے یا اسلام قبول کرنے والے سب لوگ منافقانہ رویے کو بھی چھوڑ دیں اور اپنی زندگی کو تناقضات (Inconsistencies) سے بھی پاک کریں۔ منافقانہ رویے سے ہماری مراد یہ ہے کہ آدمی جس دین کی پیروی کا دعویٰ کرے، اس کے بالکل برخلاف نظامِ زندگی کو اپنے اوپر حاوی و مسلط پا کر راضی و مطمئن رہے۔ اس کو بدل کر اپنے دین کو اس کی جگہ قائم کرنے کی کوئی سعی نہ کرے بلکہ اس کے برعکس اسی فاسقانہ و باغیانہ نظامِ زندگی کو اپنے لیے سازگار بنانے اور اس میں اپنے لیے آرام کی جگہ پیدا کرنے کی فکر کرتا رہے یا اگر اس کو بدلنے کی کوشش بھی کرے تو اس کی غرض یہ نہ ہو کہ اس فاسقانہ نظامِ زندگی کی جگہ دینِ حق قائم ہو، بلکہ صرف یہ کوشش کرے کہ ایک فاسقانہ نظام ہٹا کر دوسرا فاسقانہ نظام اس کی جگہ قائم ہو جائے۔ ہمارے نزدیک یہ طرزِ عمل سراسر منافقانہ ہے اس لیے کہ ہمارا ایک نظامِ زندگی پر ایمان رکھنا اور دوسرے نظامِ زندگی میں راضی رہنا بالکل ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ مخلصانہ ایمان کا اوّلین تقاضا یہ ہے کہ جس طریقِ زندگی پر ہم ایمان رکھتے ہیں، اسی کو ہم اپنا قانونِ حیات دیکھنا چاہیں اور ہماری روح اپنی آخری گہرائیوں تک ہر اس رکاوٹ کے پیش آجانے پر بے چین و مضطرب ہو جائے، جو اس طریقِ زندگی کے مطابق جینے میں سدِ راہ بن رہی ہو۔ ایمان تو ایسی کسی چھوٹی سے چھوٹی رکاوٹ کو بھی برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہو سکتا، کجا کہ اس کا پورے کا پورا دین کسی دوسرے نظامِ زندگی کا تابعِ مہمل بن کر رہ گیا ہو۔ اس دین کے کچھ اجزاء پر عمل ہوتا بھی ہو، تو صرف اس وجہ سے کہ غالب نظامِ زندگی نے ان کو بے ضرر سمجھ کر رعایتاً باقی رکھا ہو اور ان رعایات (Concessions) کے ماسوا ساری زندگی کے معاملات دین کی بنیادوں سے ہٹ کر غالب نظامِ زندگی کی بنیادوں پر چل رہے ہوں اور پھر بھی ایمان اپنی جگہ نہ صرف خوش اور مطمئن ہو بلکہ جو کچھ بھی سوچے اسی غلبۂ کفر کو اصولِ موضوعہ کے طور پر تسلیم کر کے سوچے۔ اس قسم کا ایمان چاہے فقہی اعتبار سے معتبر ہو، لیکن دینی لحاظ سے تو اس میں اور نفاق میں کوئی فرق نہیں ہے اور قرآن کی متعدد آیات اس بات پر شاہد ہیں کہ یہ حقیقت میں نفاق ہی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ لوگ بھی اپنے آپ کو بندگیِ رب کے اس مفہوم کے مطابق، جس کی ابھی میں نے تشریح کی ہے، خدائے واحد کی بندگی میں دینے کا اقرار کریں۔ ان کی زندگی اس نفاق سے پاک ہو۔ بندگیِ حق کے اس مفہوم کا تقاضا یہ ہے کہ ہم سچے دل سے یہ چاہیں کہ زندگی، قانونِ حیات، جو اصولِ تمدن و اخلاق و معاشرت و سیاست، جو نظامِ فکر و عمل اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء کے واسطے سے ہمیں دیا، ہماری زندگی کا پورا پورا کاروبار اسی کی پیروی میں چلے اور ہم ایک لمحے کے لیے بھی اپنی زندگی کے کسی چھوٹے سے چھوٹے شعبے کے اندر بھی اس نظامِ حق کے خلاف کسی دوسرے نظام کے تسلط کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہ ہوں۔ اب آپ خود سمجھ لیں کہ نظامِ باطل کے سبب کو برداشت کرنا بھی جب کہ تقاضائے ایمان کے خلاف ہو، تو اس پر راضی و مطمئن رہنا، اس کے قیام و بقا کی سعی میں حصہ لینا، یا ایک نظامِ باطل کی جگہ دوسرے نظامِ باطل کو سرفراز کرنے کی کوشش کرنا ایمان کے ساتھ کیسے میل کھا سکتا ہے۔
تناقض کی حقیقت
اس نفاق کے بعد دوسری چیز جس کو ہم ہر پرانے اور نئے مسلمان کی زندگی سے خارج کرنا چاہتے ہیں اور جس کے خارج کرنے کی ہر مدعیِ ایمان کو دعوت دیتے ہیں، وہ تناقض ہے۔ تناقض سے ہماری مراد یہ ہے کہ آدمی جس چیز کا زبان سے دعویٰ کرے، عمل سے اس کی خلاف ورزی کرے۔ نیز یہ بھی تناقض ہے کہ آدمی کا اپنا عمل ایک معاملے میں کچھ ہو اور دوسرے معاملے میں کچھ۔ اس لیے اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس نے اپنی پوری زندگی کو خدا کی بندگی میں دے دیا ہے تو اسے جان بوجھ کر کوئی حرکت بھی ایسی نہ کرنی چاہیے جو بندگیِ رب کی ضد ہو اور اگر بشری کمزوری کی بنا پر ایسی کوئی حرکت اس سے سرزد ہو جائے تو اسے اپنی غلطی کا اعتراف کر کے پھر بندگیِ رب کی طرف پلٹنا چاہیے۔ ایمان کے مقتضیات میں سے یہ بھی ایک اہم مقتضا ہے کہ پوری زندگی صبغۃ اللہ میں رنگی ہوئی ہو، پچرنگی اور چورنگی تو درکنار، دورنگی زندگی بیچ دعوائے ایمان کے ساتھ میل نہیں کھاتی۔ ہمارے نزدیک یہ بات بہروپے پن سے کم نہیں ہے کہ ہم ایک طرف تو خدا اور آخرت اور وحی اور نبوت اور شریعت کو ماننے کا دعویٰ کریں اور دوسری طرف دنیا کی طلب میں لپکے ہوئے ان درسگاہوں کی طرف خود دوڑیں، دوسروں کو اُن کا شوق دلائیں اور آپ خود اپنے اہتمام میں ایسی درسگاہیں چلائیں جن میں انسان کو خدا سے دور کرنے والی، آخرت کو بھلا دینے والی، مادہ پرستی میں غرق کر دینے والی تعلیم دی جاتی ہے۔ ایک طرف ہم خدا کی شریعت پر ایمان رکھنے کا دعویٰ کریں اور دوسری طرف ان عدالتوں کے وکلاء اور جج بنیں اور انہی عدالتوں سے بے دخل کر کے شریعتِ غیر الٰہی کی بنیاد پر قائم کی گئی ہوں۔ ایک طرف ہم مسجد میں جا جا کر نمازیں پڑھیں اور دوسری طرف مسجد سے باہر نکلتے ہی اپنے گھر کی زندگی میں، اپنے لین دین میں، اپنی معاش کی فراہمی میں، اپنی شادی بیاہ میں، اپنی میراثوں کی تقسیم میں، اپنی سیاسی تحریکوں میں اور اپنے سارے دنیوی معاملات میں خدا اور اُس کی شریعت کو بھول کر، کہیں اپنے نفس کے قانون کی، کہیں اپنی برادری کے رواج کی، کہیں اپنی سوسائٹی کے طور طریقوں کی اور کہیں خدا سے پھرے ہوئے حکمرانوں کے قوانین کی پیروی میں کام کرنے لگیں۔ ایک طرف ہم اپنے خدا کو بار بار یقین دلائیں کہ ہم تیرے ہی بندے ہیں اور تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور دوسری طرف ہر اس بت کی پوجا کریں جس کے ساتھ ہمارا مفاد، ہماری دلچسپیاں اور ہماری محبتیں اور آسائشیں کچھ بھی وابستگی رکھتی ہیں۔ یہ اور ایسے ہی بے شمار متناقضات جو آج مسلمانوں کی زندگی میں پائے جاتے ہیں، جن کے موجود ہونے سے کوئی ایسا شخص جو بینائی رکھتا ہو، انکار نہیں کر سکتا۔ ہمارے نزدیک وہ اصلی گھر میں دن بھر بھی وفادار اور مخلص مسلمہ کی سیرت و اخلاق کو اور اس کے دین و ایمان کو اندر ہی اندر کھائے جاتے ہیں اور آج زندگی کے ہر پہلو میں مسلمانوں سے کمزوریوں کا اظہار ہو رہا ہے، ان کی اصل جڑ یہی تناقضات ہیں۔ ایک مدت تک مسلمانوں کو یہ اطمینان دلایا جاتا رہا ہے کہ تم شہادتِ توحید و رسالت زبان سے ادا کرنے اور روزہ و نماز وغیرہ چند مذہبی اعمال کو لانے کے بعد خواہ کتنے ہی غیر دینی اور غیر ایمانی طرزِ عمل اختیار کر جاؤ، بہرحال نہ تمہارے اسلام پر کوئی آنچ آسکتی ہے اور نہ تمہاری نجات کو کوئی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے، حتیٰ کہ اس ڈھیلے (Allowance) کی حدود اس حد تک بڑھیں کہ نماز روزہ بھی مسلمان ہونے کے لیے شرط نہ رہا اور مسلمانوں میں عام طور پر یہ تخیل پیدا کر دیا گیا کہ ایک طرف ایمان اور اسلام کا اقرار ہو اور دوسری طرف ساری زندگی اس کی ضد ہو، تب بھی کچھ نہیں بگڑتا۔ (لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّامًا مَّعْدُودَةً) اس چیز کا نتیجہ آج ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ اسلام کے نام کے ساتھ ہر فسق، ہر کفر اور ہر معصیت و نافرمانی اور ہر ظلم و سرکشی کا جوڑ آسانی سے لگ جاتا ہے اور مسلمان مشکل ہی سے یہ محسوس کرتے ہیں کہ جن راہوں میں وہ اپنے اوقات، اپنی محنتیں، اپنے مال، اپنی قوتیں اور قابلیتیں اور اپنی جانیں کھپا رہے ہیں اور جن مقاصد کے پیچھے ان کی انفرادی اور اجتماعی کوششیں صرف ہو رہی ہیں، وہ اکثر ان کے ایمان کی ضد ہیں، جس کا وہ دعویٰ رکھتے ہیں۔ یہ صورتِ حال جب تک جاری رہے گی، اسلام کے دائرے میں نو مسلموں کا داخلہ بھی کوئی مفید نتیجہ پیدا نہ کر سکے گا، کیونکہ جو منتشر افراد اس کانِ نمک میں آتے جائیں گے، وہ اسی طرح نمک بنتے چلے جائیں گے۔ پس ہماری دعوت کا ایک لازمی عنصر یہ ہے کہ ہم ہر مدعیِ ایمان کی زندگی کو ان تناقضات سے پاک دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہمارا مطالبہ ہر مومن سے یہ ہے کہ وہ حنیف ہو، یکسو ہو، یک رنگ مومن و مسلم ہو۔ ہر اس چیز سے کٹ جائے اور نہ کٹ سکتا ہو تو پیہم کٹنے کی جدوجہد کرتا رہے جو ایمان کی ضد اور مسلمان طریقِ زندگی کے منافی ہو اور خوب اچھی طرح مقتضیاتِ ایمان میں سے ایک ایک تقاضے کو سمجھے اور اسے پورا کرنے کی پیہم سعی کرتا رہے۔
امامت میں تغیر کی ضرورت
اب ہماری دعوت کے تیسرے نکتہ کو لیں۔ ابھی جن دو نکات کی تشریح میں آپ کے سامنے کر چکا ہوں، یہ تیسرا نکتہ اُن سے بالکل ایک منطقی نتیجہ کے طور پر نکلتا ہے۔ ہمارا اپنے آپ کو بندگیِ رب کے حوالے کر دینا اور اس کی حوالگی و سپردگی میں، ہمارا منافق نہ ہونا، بلکہ مخلص ہونا اور پھر ہمارا اپنی زندگی کو تناقضات سے پاک کر کے مسلم حنیف بننے کی کوشش کرنا، لازمی طور پر اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ہم اس نظامِ زندگی میں انقلاب لائیں جو آج کفر، دہریت، شرک، فسق و فجور اور بداخلاقی کی بنیادوں پر چل رہا ہے اور جس کے نقشے بنانے والے مفکرین اور جس کا عملی انتظام کرنے والے مدبرین سب کے سب خدا سے پھرے ہوئے اور اس کی شرائع کے قیود سے نکلے ہوئے لوگ ہیں۔ جب تک زمامِ کار ان لوگوں کے ہاتھ میں رہے گی اور جب تک علوم و فنون، آرٹ اور ادب، تعلیم و تدریس، نشر و اشاعت، قانون سازی اور تنفیذِ قانون، مالیات، صنعت و حرفت، تجارت اور ان تمام تعلقاتِ بین الاقوامی، ہر چیز کی باگ ڈور یہ لوگ سنبھالے ہوئے رہیں گے، کسی شخص کے لیے کہاں سے ثابت کر دی؟ اور اس پر غضب یہ ہے کہ تم اس حاکمیت کو اللہ کے لیے مخصوص کرتے ہو اور انسانی حاکمیت کے، تمہاری طرح خارجی بھی یہی کہتے ہیں کہ (اِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ)۔ ہمارے نزدیک قرآن و حدیث کی رو سے خدا کا حق صرف عبادت و پرستش ہی نہیں ہے بلکہ طاعت و عبدیت بھی ہے۔ ان میں سے جس حق میں بھی خدا کے ساتھ دوسروں کو شریک کیا جائے گا، شرک ہو گا۔ بندوں میں سے کسی کی اطاعت اگر کی جاسکتی ہے تو صرف خدا کے اِذنِ شرعی کی بنا پر کی جاسکتی ہے اور وہ بھی خدا کی مقرر کردہ حدود کے اندر۔ خدا سے بے نیاز ہو کر مستقل بالذات مطاع ہونا تو وہ تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حق بھی نہیں ہے، کجا کہ کسی انسانی ریاست یا سیاسی و تمدنی ادارے کا حق ہو۔ جس قانون، عدالت اور حکومت میں خدا کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت کو سند نہ مانا جائے، جس کا بنیادی اصول یہ ہو کہ اجتماعی زندگی کے جملہ معاملات میں اصول اور فروع تجویز کرنا انسانوں کا اپنا کام ہے اور جس میں قانون ساز مجلسیں خدائی احکام کی طرف رجوع کرنے کی سرے سے ضرورت ہی نہ تسلیم کرتی ہوں اور عملاً ان کے خلاف قوانین بناتی ہوں، اس کی اطاعت کے لزوم تو درکنار جواز تک کا کوئی ثبوت قرآن و حدیث میں موجود نہیں ہے۔ اس بلا کو زیادہ سے زیادہ صرف برداشت کیا جا سکتا ہے جب کہ انسان اس کے پنجۂ اقتدار میں گرفتار ہو جائے۔ مگر جو شخص ایسی حکومتوں کے حقِ فرمانروائی کو تسلیم کرتا ہے اور اس بات کو ایک اصولِ برحق کی حیثیت سے مانتا ہے کہ خدائی ہدایت کو چھوڑ کر انسان بطورِ خود اپنے تمدن، سیاست اور معیشت کے اصول و قوانین وضع کر لینے کے مجاز ہیں، وہ اگر خدا کو مانتا ہے تو شرک میں مبتلا ہے ورنہ زندقہ میں۔ ہمارے اس مسلک کو "خارجیت" سے تعبیر کرنا مذہبِ اہلِ سنت اور مذہبِ خوارج، دونوں سے ناواقفیت کا ثبوت ہے۔ علمائے اہلِ سنت کی لکھی ہوئی کتبِ اصول میں سے جس کو چاہے اٹھا کر دیکھ لے۔ اس میں یہی لکھا ملے گا کہ حکم دینے کا حق اللہ کے لیے خاص ہے۔
[اعلم انه لا حاكم سوى الله و لا حكم إلا ما حكم به]
”جان لو کہ حاکم اللہ کے سوا کوئی نہیں ہے اور حکم صرف وہ ہے جو اللہ نے دیا ہے۔“
اور شیخ محمد خضری اپنی "اصول الفقہ" میں کہتے ہیں:
[ان الحكم هو خطاب الله فلا حكم الا الله وهذه قضية اتفق عليها المسلمون قاطبة]
”درحقیقت حکم اللہ کے فرمان کا نام ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ حکم دینے کا حق اللہ کے سوا کسی کو نہیں ہے۔“
یہ ایسی بات ہے جس پر تمام مسلمان متفق ہیں۔ یہ صرف دو "خارجیوں" کے اقوال ہم نے بطورِ مثال نقل کر دیے ہیں۔ اس طرح کے "خارجیوں" کی آپ جس قدر چاہیں طویل فہرست دی جاسکتی ہے۔
فساق و فجار اور کفار ہی کے ہاتھ میں رہنے دے۔ پس ہماری دعوت صرف اسی حد تک نہیں ہے کہ دنیا کی زمامِ کار فساق و فجار کے ہاتھ سے نکل کر مومنینِ صالحین کے ہاتھ میں آئے، بلکہ ایجاباً (Positively) ہماری دعوت یہ ہے کہ اہلِ ایمان و صلاح کا ایک ایسا گروہ منظم کیا جائے جو نہ صرف اپنے ایمان میں پختہ، نہ صرف اپنے اسلام میں مخلص و یک رنگ اور نہ صرف اپنے اخلاق میں صالح و پاکیزہ ہو، بلکہ اس کے ساتھ ان تمام اوصاف اور قابلیتوں سے بھی آراستہ ہو جو دنیا کی کارگاہِ حیات کو بہترین طریقے پر چلانے کے لیے ضروری ہیں اور صرف آراستہ ہی نہ ہو بلکہ موجودہ کار فرماؤں اور کارکنوں سے ان اوصاف اور قابلیتوں میں اپنے آپ کو فائق تر ثابت کر دے۔
جماعتِ اسلامی کا مقصد اور مسلک
مقصد
جماعتِ اسلامی جس مقصد کے لیے قائم کی گئی ہے، وہ یہ ہے کہ:
"انسانی زندگی کے پورے نظام کو اس کے تمام شعبوں (فکر و نظر، عقیدہ و عمل، مذہب و اخلاق، سیرت و کردار، تعلیم و تربیت، تہذیب و ثقافت، تمدن و معاشرت، معیشت و تجارت، قانون و عدالت، صلح و جنگ اور بین الاقوامی تعلقات) سمیت خدا کی بندگی اور انبیاء علیہم السلام کی ہدایت پر قائم کیا جائے۔"
یہ مقصد اول روز سے ہمارے پیشِ نظر رہا ہے اور آج بھی یہی ایک مقصد ہے جس کے لیے ہم کام کر رہے ہیں۔ اس کے سوا کوئی دوسرا مقصد نہ ہمارے پیشِ نظر کبھی تھا، نہ آج ہے، نہ ان شاء اللہ کبھی ہو گا۔ آج تک جس کام سے بھی ہم نے دلچسپی لی ہے، اسی مقصد کے لیے لی ہے اور اسی حد تک لی ہے جس حد تک ہماری دانست میں اس کا تعلق اس مقصد سے تھا۔
جس چیز کو ہم قائم کرنا چاہتے ہیں، اس کا جامع نام قرآن کی اصطلاح میں "دینِ حق" ہے، یعنی وہ نظامِ زندگی (دین) جو پیغمبروں کی لائی ہوئی ہدایت کے مطابق اللہ کی بندگی و اطاعت پر مبنی ہو، مگر اس کے لیے کبھی کبھی ہم نے "حکومتِ الٰہی" کی اصطلاح بھی استعمال کی ہے جس کا مفہوم دوسروں کے نزدیک چاہے جو کچھ بھی ہو، ہمارے نزدیک یہ ہے کہ "اللہ کو حاکمِ حقیقی مان کر پوری انفرادی و اجتماعی زندگی اس کی محکومیت میں بسر کرنا۔" اس لحاظ سے یہ لفظ بالکل اسلام کا ہم معنی ہے۔ اسی بنا پر ہم ان تینوں اصطلاحوں (دینِ حق، حکومتِ الٰہی اور اسلام) کو مترادف الفاظ کی طرح بولتے رہے ہیں اور اس مقصد کے حصول کی جدوجہد کا نام ہم نے اقامتِ دین، شہادتِ حق اور تحریکِ اسلامی رکھا ہے، جن میں سے پہلے دو لفظ قرآن سے ماخوذ ہیں اور دوسرا لفظ عام فہم ہونے کی وجہ سے اختیار کیا گیا ہے۔ ان الفاظ میں سے کسی پر اگر لوگوں نے ناک بھوں چڑھائی ہے تو اس لیے کہ انہوں نے ہماری اصطلاح سے اپنا مفہوم مراد لیا۔ ہمارا مفہوم مراد لیتے تو اُمید نہ تھی کہ اس پر وہ ناراض ہوتے۔
ماخوذ از کتاب "جماعتِ اسلامی کا مقصد، تاریخ اور لائحۂ عمل"۔ یہ کتاب پہلی مرتبہ نومبر ۱۹۵۱ء میں شائع ہوئی۔ اس لیے اس مضمون کو پڑھتے وقت اس وقت کے حالات کو سامنے رکھنا چاہیے۔ (مرتب)
ہماری دعوت تمام انسانوں کے لیے ہے
ہمارے نزدیک اسلام ان لوگوں کی جائیداد نہیں ہے جو پہلے سے مسلمان ہیں، بلکہ خدا نے یہ نعمت ان سب کے لیے بھیجی ہے جو انسان پیدا ہوئے ہیں، خواہ وہ روئے زمین کے کسی خطے میں بستے ہوں۔ اس بنا پر ہمارا مقصد محض مسلمانوں ہی کی نہیں بلکہ پوری نوعِ انسانی کی زندگی کو دینِ حق پر قائم کرنا ہے۔ مقصد کی یہ وسعت آپ سے آپ تقاضا کرتی ہے کہ ہماری اپیل عام رہے اور کسی مخصوص قوم کے مفاد کو مدِنظر رکھ کر کوئی ایسا طرزِ عمل نہ اختیار کیا جائے جو اسلام کی اس عام اپیل کو نقصان پہنچانے والا ہو یا اس کی ناقض واقع ہو۔
مسلمانوں سے ہم کو دلچسپی اس بنا پر نہیں ہے کہ ہم اُن میں پیدا ہوئے ہیں اور وہ ہماری قوم ہیں، بلکہ ان کے ساتھ ہماری دلچسپی کی وجہ صرف یہ ہے کہ وہ اسلام کو مانتے ہیں، دنیا میں اس کے نمائندے سمجھے جاتے ہیں، نوعِ انسانی تک اس کا پیغام پہنچانے کے لیے انہی کو ذریعہ بنایا جا سکتا ہے اور دوسروں کے لیے اس پیغام کو مؤثر بنانا اس کے بغیر ممکن بھی نہیں ہے کہ جو لوگ پہلے سے مسلمان ہیں، وہ اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی میں پورے اسلام کا صحیح نمونہ پیش کریں۔ اس بنا پر ہمارا راستہ ان لوگوں کے راستے سے ہمیشہ الگ رہا ہے اور آج بھی الگ ہے جنہیں مسلمانوں سے اصل دلچسپی اس لیے ہے کہ وہ ان کی قوم ہیں اور اسلام سے یا تو کوئی دلچسپی ہی نہیں ہے یا ہے تو اس وجہ سے کہ وہ ان کی قوم کا مذہب ہے۔
اسلام، مسلم قومیت اور ہم
ہم نے اپنے مقصد کے لحاظ سے اپنی تحریک کو اس طرز پر اُٹھایا ہے کہ ایک طرف اس کی دعوت تمام انسانوں کے لیے عام رہے اور دوسری طرف مسلمانوں کو اسلام کی مکمل اور صحیح علمی اور عملی شہادت دینے کے لیے تیار کیا جائے۔ ہم نے کبھی اسلام اور مسلم قومیت کے فرق اور امتیاز کو نگاہوں سے اوجھل نہیں ہونے دیا ہے۔ ہم نے اسلام کے اصول و احکام اور اسلامی دعوت کے مفاد کو ہمیشہ قوم اور قومی مفاد پر مقدم رکھا ہے اور جہاں کہیں ان دونوں چیزوں میں تناقض واقع ہوا، ہمیں ایک لمحے کے لیے بھی اسلام کی خاطر قوم اور اس کے مفاد سے لڑ جانے میں تامل نہیں ہوا ہے۔ ہم نے مسلمان کے قومی تحفظ کے لیے کوشش کی تو اس لیے نہیں کہ دوسری قوموں کی طرح اس قوم کا بھی امتیازی وجود برقرار رہے، بلکہ صرف اس لیے کہ یہ قوم دنیا میں حق کی شہادت ادا کرنے کے لیے قائم و دائم رہے۔ ہم نے ایک آزاد مسلم مملکت کا قیام بھی چاہا تو اس غرض سے نہیں کہ روئے زمین پر ایک اور ترکی یا ایک اور مصر یا ایران کا اضافہ ہو جائے، بلکہ صرف اس غرض سے کہ ایک خالص اسلامی ریاست قائم ہو جو اسلامی نظامِ زندگی کا مکمل نمونہ دنیا کے سامنے پیش کرے۔ ہماری اس پوزیشن کو وہ لوگ کبھی نہ سمجھ سکے جو اسلام اور مسلم قومیت کو گڈمڈ کرتے ہیں یا قوم کو دین پر مقدم رکھتے ہیں، یا دین کے بجائے صرف قوم سے دلچسپی رکھتے ہیں۔ ہمارے اور ان کے راستے اگر کبھی کہیں ملے بھی تو عارضی طور پر اس جگہ جہاں اتفاقاً اسلام نے ہمیں اور اُن کو جمع کر دیا، ورنہ اکثر ہمارے اور ان کے طرزِ فکر و عمل میں تصادم ہی رہا۔ اس تصادم کے نتیجہ میں ہم کو بارہا "غداری" کے طعنے بھی سننے پڑے ہیں، مگر یہ طعنے ہمارے لیے بالکل بے معنی ہیں۔ ہم وفاداری کا مستحق صرف خدا اور رسول کو سمجھتے ہیں، پھر اس کو جو خدا اور رسول کا وفادار ہو۔ اس وفاداری سے انحراف تو البتہ ہمارے نزدیک دنیا و آخرت میں لعنت کا موجب ہے، لیکن اگر اس وفاداری میں ہم ثابت قدم ہوں تو پھر دوسری جس چیز کا بھی ہمیں غدار ٹھہرایا جائے، وہ ہمارے لیے باعثِ شرم نہیں بلکہ باعثِ فخر ہے۔
ہمارا تصورِ دین
"دینِ حق" اور "اقامتِ دین" کے تصور میں بھی ہمارے اور بعض دوسرے لوگوں کے درمیان اختلاف ہے۔ ہم دین کو محض پوجا پاٹ اور چند مخصوص مذہبی عقائد و رسوم کا مجموعہ نہیں سمجھتے، بلکہ ہمارے نزدیک یہ لفظ طریقِ زندگی اور نظامِ حیات کا ہم معنی ہے اور اس کا دائرہ انسانی زندگی کے سارے پہلوؤں اور تمام شعبوں پر حاوی ہے۔ ہم اس بات کے قائل نہیں ہیں، کہ زندگی کو الگ الگ حصوں میں بانٹ کر الگ الگ اسکیموں کے تحت چلایا جا سکتا ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ اس طرح کی تقسیمیں اگر کی بھی جائیں تو وہ قائم نہیں رہ سکتیں، کیونکہ انسانی زندگی کے مختلف پہلو، انسانی جسم کے اعضاء کی طرح، ایک دوسرے سے ممتاز ہونے کے باوجود آپس میں اس طرح پیوستہ ہیں کہ وہ سب مل کر ایک کُل بن جاتے ہیں اور ان کے اندر اکائی ہے تو ساری ہوتی ہے۔
یہ روح اگر خدا اور آخرت سے بے نیازی اور تعلیمِ انبیاء سے بے خبر ہو تو پوری زندگی کا نظام ایک دینِ باطل بن کر رہتا ہے اور اس کے ساتھ خدا پرستانہ مذہب کا ضمیمہ اگر لگا کر رکھا بھی جائے تو مجموعۂ نظام کی فطرت بتدریج اس کو مضمحل کرتے کرتے آخر کار بالکل محو کر دیتی ہے اور اگر یہ روح خدا اور آخرت پر ایمان اور تعلیمِ انبیاء کے اتباع کی روح ہو تو اس سے زندگی کا پورا نظام ایک دینِ حق بن جاتا ہے جس کے حدودِ عمل میں ناخداشناسی کا فتنہ اگر کہیں رہ بھی جائے تو زیادہ دیر تک پنپ نہیں سکتا۔ اس لیے ہم جب ”اقامتِ دین“ کا لفظ بولتے ہیں تو اس سے ہمارا مطلب محض مسجدوں میں دین قائم کرنا یا چند مذہبی عقائد اور اخلاقی احکام کی تبلیغ کر دینا نہیں ہوتا، بلکہ اس سے ہماری مراد یہ ہوتی ہے کہ گھر اور مسجد، کالج اور منڈی، تھانے اور چھاؤنی، ہائی کورٹ اور پارلیمنٹ، ایوانِ وزارت اور سفارت خانے سب پر اسی ایک خدا کا دین قائم کیا جائے جس کو ہم نے اپنا رب اور معبود تسلیم کیا ہے اور سب کا انتظام اسی ایک رسول کی تعلیم کے مطابق چلایا جائے جسے ہم اپنا ہادیِ برحق مان چکے ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ اگر ہم مسلمان ہیں تو ہماری ہر چیز کو مسلمان ہونا چاہیے۔ اپنی زندگی کے کسی پہلو کو بھی ہم شیطان کے حوالے نہیں کر سکتے۔ ہمارے ہاں سب کچھ خدا کا ہے، شیطان یا قیصر کا کوئی حصہ نہیں۔
مذہب اور سیاست کی یکجائی
ہماری ان باتوں پر وہ سب لوگ برہم ہیں جنہوں نے مذہب کا ایک محدود تصور اختیار کر رکھا ہے، جو تفریقِ دین اور دنیا اور امتیازِ مذہب و سیاست کے قائل ہیں، جن کے نزدیک خدا اور قیصر کے درمیان تقسیم ہو سکتی اور ہونی چاہیے اور جن کی نگاہ میں خدا پرستی کا دین، بے خدا تمدن و سیاست کے ساتھ زندگی کا بٹوارہ قبول کر سکتا ہے اور صرف مسجد و خانقاہ کو اپنے ہاتھ میں لے کر باقی سب کچھ اپنے حریف کے لیے چھوڑ سکتا ہے۔ یہ لوگ ہم پر طرح طرح کے اعتراضات کرتے ہیں۔
کوئی کہتا ہے کہ تم مذہب کی تبلیغ کرو، سیاست میں کیوں دخل دیتے ہو؟ مگر ہم اس بات کے قائل ہیں۔ کہ "جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی"۔ اب کیا یہ لوگ ہم سے یہ چاہتے ہیں کہ ہماری سیاست پر چنگیزی مسلط رہے اور ہم مسجد میں "مذہب کی تبلیغ" کرتے رہیں؟ اور آخر وہ مذہب کونسا ہے جس کی تبلیغ کے لیے وہ ہم سے کہہ رہے ہیں؟ اگر وہ پادریوں والا مذہب ہے جو سیاست میں دخل نہیں دیتا تو ہم اس پر ایمان نہیں رکھتے اور اگر وہ قرآن و حدیث کا مذہب ہے جس پر ہم ایمان رکھتے ہیں تو وہ سیاست میں محض دخل ہی نہیں دیتا بلکہ اس کو اپنا ایک جز بنا کر رکھنا چاہتا ہے۔
کوئی کہتا ہے کہ تم پہلے مذہبی لوگ تھے، اب سیاسی گروہ بن گئے ہو۔ حالانکہ ہم پر کبھی ایک دن بھی ایسا نہیں گزرا ہے جب ہم غیر سیاسی مذہب کے لحاظ سے "مذہبی" رہے ہوں اور آج خدا کی لعنت ہو ہم پر اگر ہم غیر مذہبی سیاست کے لحاظ سے "سیاسی" بن گئے ہوں۔ ہم تو "اسلام" کے پیرو ہیں اور اسی کو قائم کرنا چاہتے ہیں۔ وہ جتنا "مذہبی" ہے اتنے ہی ہم مذہبی ہیں اور ابتداء سے تھے۔ تم نے نہ کل ہمیں سمجھا تھا جب کہ ہم کو "مذہبی" گروہ قرار دیا اور نہ آج سمجھا ہے جب کہ ہمارا نام "سیاسی جماعت" رکھا۔ سیاست اور مذہب میں تمہارا استاد یورپ ہے۔ اس لیے نہ تم نے اسلام کو سمجھا۔
کوئی کہتا ہے کہ خدا تو صرف معبود ہے، تم نے یہ سیاسی حاکمیت کہاں سے ثابت کر دی؟ اور اس پر غضب یہ ہے کہ تم اس حاکمیت کو اللہ کے لیے مخصوص کرتے ہو اور انسانی حاکمیت کے، تمہاری طرح خارجی بھی یہی کہتے ہیں کہ (اِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ)۔ ہمارے نزدیک قرآن و حدیث کی رو سے خدا کا حق صرف عبادت و پرستش ہی نہیں ہے بلکہ طاعت و عبدیت بھی ہے۔ ان میں سے جس حق میں بھی خدا کے ساتھ دوسروں کو شریک کیا جائے گا، شرک ہو گا۔ بندوں میں سے کسی کی اطاعت اگر کی جاسکتی ہے تو صرف خدا کے اِذنِ شرعی کی بنا پر کی جا سکتی ہے اور وہ بھی خدا کی مقرر کردہ حدود کے اندر۔ خدا سے بے نیاز ہو کر مستقل بالذات مطاع ہونا تو وہ تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حق بھی نہیں ہے، کجا کہ کسی انسانی ریاست یا سیاسی و تمدنی ادارے کا حق ہو۔ جس قانون، عدالت اور حکومت میں خدا کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت کو سند نہ مانا جائے، جس کا بنیادی اصول یہ ہو کہ اجتماعی زندگی کے جملہ معاملات میں اصول اور فروع تجویز کرنا انسانوں کا اپنا کام ہے اور جس میں قانون ساز مجلسیں خدائی احکام کی طرف رجوع کرنے کی سرے سے ضرورت ہی نہ تسلیم کرتی ہوں اور عملاً ان کے خلاف قوانین بناتی ہوں، اس کی اطاعت کے لزوم تو درکنار جواز تک کا کوئی ثبوت قرآن و حدیث میں موجود نہیں ہے۔ اس بلا کو زیادہ سے زیادہ صرف برداشت کیا جا سکتا ہے جب کہ انسان اس کے پنجۂ اقتدار میں گرفتار ہو جائے۔ مگر جو شخص ایسی حکومتوں کے حقِ فرمانروائی کو تسلیم کرتا ہے اور اس بات کو ایک اصولِ برحق کی حیثیت سے مانتا ہے کہ خدائی ہدایت کو چھوڑ کر انسان بطورِ خود اپنے تمدن، سیاست اور معیشت کے اصول و قوانین وضع کر لینے کے مجاز ہیں، وہ اگر خدا کو مانتا ہے تو شرک میں مبتلا ہے ورنہ زندقہ میں۔ ہمارے اس مسلک کو "خارجیت" سے تعبیر کرنا مذہبِ اہلِ سنت اور مذہبِ خوارج، دونوں سے ناواقفیت کا ثبوت ہے۔ علمائے اہلِ سنت کی لکھی ہوئی کتبِ اصول میں سے جس کو چاہے اٹھا کر دیکھ لو۔ اس میں یہی لکھا ملے گا کہ حکم دینے کا حق اللہ کے لیے خاص ہے۔
اعلم انه لا حاكم سوى الله و لا حكم إلا ما حكم به
”جان لو کہ حاکم اللہ کے سوا کوئی نہیں ہے اور حکم صرف وہ ہے جو اللہ نے دیا ہے۔“
اور شیخ محمد خضری اپنی "اصول الفقہ" میں کہتے ہیں:
ان الحكم هو خطاب الله فلا حكم الا الله وهذه قضية اتفق عليها المسلمون قاطبة
”درحقیقت حکم اللہ کے فرمان کا نام ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ حکم دینے کا حق اللہ کے سوا کسی کو نہیں ہے۔“
یہ ایسی بات ہے جس پر تمام مسلمان متفق ہیں۔ یہ صرف دو "خارجیوں" کے اقوال ہم نے بطورِ مثال نقل کر دیے ہیں۔ اس طرح کے "خارجیوں" کی آپ جس قدر چاہیں طویل فہرست دی جاسکتی ہے۔
اسلامی حکومت
کچھ اور لوگ ہیں جو چیں بہ چیں ہو کر پوچھتے ہیں کہ الٰہی یا اسلامی حکومت کا قیام کس نبی کی دعوت کا مقصد رہا ہے؟ مگر ہم پوچھتے ہیں کہ یہ قرآن اور نورِ نبوت میں جو علمی اور عملی اور دیوانی اور فوجداری قوانین اور صلح و جنگ کے احکام اور معیشت و معاشرت کے قواعد و ضوابط اور سیاسی تعلیمات کے اصول بیان ہوئے ہیں، کیا یہ تفننِ طبع کے لیے ہیں؟ کیا یہ آپ کے اختیارِ تمیزی پر چھوڑا گیا ہے کہ کتاب اللہ کی تعلیمات میں سے جس چیز کو چاہیں جزوِ دین مان لیں اور جسے چاہیں غیر ضروری زوائد میں شمار کریں؟ کیا انبیاء بنی اسرائیل علیہم السلام اور خاتم النبیین محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جو سیاسی نظام قائم کیے، وہ ان کی پیغمبرانہ دعوت کے مقاصد میں سے نہ تھے، محض اتفاقات سے فائدہ اٹھا کر انہوں نے اپنا شوقِ فرمانروائی پورا کیا تھا؟ کیا دنیا میں کوئی قانون اس لیے بھی بنایا جاتا ہے کہ صرف اس کی تلاوت کر لی جائے، اس کا نفاذ سرے سے مقصود ہی نہ ہو؟ کیا واقعی ایمان اسی چیز کا نام ہے کہ ہم روز اپنی نمازوں میں کتاب اللہ کی وہ آیات پڑھیں جن میں زندگی کے مختلف پہلوؤں کے متعلق اصول اور احکام بیان ہوئے ہیں اور رات دن ہماری زندگی کے اکثر و بیشتر معاملات ان کے خلاف چلتے رہیں؟
مسلک
خدا کی بندگی جس پر ہم پورے نظامِ زندگی کو قائم کرنا چاہتے ہیں، اس کے بارے میں بھی ہمارا ایک واضح مسلک ہے اور وہ مختلف گروہوں کو مختلف وجوہ سے پسند نہیں آتا۔ ہمارے نزدیک ہر شخص اس کا مختار نہیں ہے کہ اپنی مرضی اور خواہش کے مطابق جس طرح چاہے خدا کی بندگی کرے، بلکہ اس کی ایک ہی صحیح صورت ہے اور وہ اس شریعت کی پابندی ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے ہیں۔ اس شریعت کے معاملے میں کسی مسلمان کے اس حق کو ہم تسلیم نہیں کرتے کہ وہ شریعت کی جن باتوں کو چاہے قبول کرے اور جن باتوں کو چاہے رد کر دے، بلکہ ہم اسلام کے معنی ہی اطاعتِ حکمِ خداوندی اور اتباعِ شریعتِ محمدی سمجھتے ہیں۔ شریعت کے علم کا ذریعہ ہمارے نزدیک صرف قرآن پاک نہیں ہے بلکہ حدیثِ رسول بھی ہے اور قرآن و حدیث سے استدلال کا صحیح طریقہ ہمارے نزدیک یہ نہیں ہے کہ آدمی اپنے نظریات پر خدا اور رسول کی ہدایت کو ڈھالے، بلکہ یہ ہے کہ آدمی اپنے نظریات کو خدا اور رسول کی ہدایات پر ڈھالے۔ پھر ہم نہ تو تقلیدِ جامد کے قائل ہیں جس میں اجتہاد کی جگہ نہ ہو اور نہ ایسے اجتہاد کے قائل ہیں کہ ہر بعد کی نسل اپنے سے پہلے کی نسلوں کے سارے کام پر پانی پھیر دے اور بالکل نئے سرے سے ساری عمارت اٹھانے کی کوشش کرے۔
اس مسلک کا ہر جزو ایسا ہے جس سے ہماری قوم کا کوئی نہ کوئی گروہ ہم سے ناراض ہے۔ کوئی سرے سے خدا کی بندگی کا قائل ہی نہیں۔ کوئی شریعت سے بے نیاز ہو کر اپنی صوابدید کے مطابق خدا کی بندگی کرنا چاہتا ہے۔ کوئی شریعت میں اپنا اختیار چلانا چاہتا ہے اور اس کا مطالبہ یہ ہے کہ جو کچھ اسے پسند ہے وہ اس شریعت میں رہے اور جو اسے پسند نہیں ہے وہ شریعت سے خارج ہو جائے۔ کوئی قرآن و حدیث سے قطع نظر کر کے اپنے من گھڑت اصولوں کا نام اسلام رکھے ہوئے ہے۔ کوئی حدیث کو چھوڑ کر صرف قرآن کو مانتا ہے۔ کوئی اصول اور نظریات کہیں باہر سے لے آیا ہے یا اپنے دل سے گھڑ کر لایا ہے اور پھر زبردستی قرآن و حدیث کے ارشادات کو ان پر ڈھالنے کی کوشش کر رہا ہے۔ کسی کو تقلیدِ جامد پر اصرار ہے اور کوئی تمام پچھلے ائمہ کے کارناموں کو دریا برد کر کے نیا اجتہاد کرنا چاہتا ہے۔
باب دوم
دعوتِ اسلامی کی اخلاقی بنیادیں
- بنیادی انسانی اخلاقیات
- اسلامی اخلاقیات
بنیادی انسانی اخلاقیات
بنیادی انسانی اخلاقیات سے مراد وہ اوصاف ہیں جن پر انسان کے اخلاقی وجود کی اساس قائم ہے۔ ان میں وہ تمام صفات شامل ہیں جو دنیا میں انسان کی کامیابی کے لیے بہرحال شرطِ لازم ہیں۔ خواہ وہ صحیح مقصد کے لیے کام کر رہا ہو یا غلط مقصد کے لیے۔ ان اخلاقیات میں اس سوال کا کوئی دخل نہیں ہے کہ آدمی خدا اور وحی اور رسول اور آخرت کو مانتا ہے یا نہیں، طہارتِ نفس اور تزکیۂ اخلاص اور عملِ صالح سے آراستہ ہے یا نہیں، اچھے مقصد کے لیے کام کر رہا ہے یا برے مقصد کے لیے۔ قطع نظر اس سے کہ کسی میں ایمان ہو یا نہ ہو، اور اس کی زندگی پاک ہو یا ناپاک، اس کی سعی کا مقصد اچھا ہو یا بُرا، جو شخص اور جو گروہ بھی اپنے اندر وہ اوصاف رکھتا ہو گا جو دنیا میں کامیابی کے لیے ناگزیر ہیں، وہ یقیناً کامیاب ہو گا اور ان لوگوں سے بازی لے جائے گا جو ان اوصاف کے لحاظ سے اس کے مقابلے میں ناقص ہوں گے۔
مومن ہو یا کافر، نیکو ہو یا بد، مصلح ہو یا مفسد، غرض جو بھی ہو، وہ اگر کارگر انسان ہو سکتا ہے تو صرف اُسی صورت میں جب کہ اس کے اندر ارادے کی طاقت اور فیصلے کی قوت ہو، عزم اور حوصلہ، صبر و ثبات اور استقلال ہو، تحمل اور برداشت ہو، ہمت اور شجاعت ہو، مستعدی اور جفاکشی ہو، اپنے مقصد کا عشق اور اس کے لیے ہر چیز قربان کر دینے کا جذبہ ہو، حزم و احتیاط اور معاملہ فہمی و تدبر ہو، حالات کو سمجھنے اور ان کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنے اور مناسب تدبیریں کرنے کی قابلیت ہو، اپنے جذبات و خواہشات اور ہیجانات پر قابو ہو، اور دوسرے انسانوں کو موہنے اور ان کے دل میں جگہ پیدا کرنے اور ان سے کام لینے کی صلاحیت ہو۔
پھر ناگزیر ہے کہ اس کے اندر وہ شریفانہ خصائل بھی کچھ نہ کچھ موجود ہوں، جو فی الحقیقت جوہرِ آدمیت ہیں اور جن کی بدولت آدمی کا وقار و اعتبار دنیا میں قائم ہوتا ہے۔ مثلاً خود داری، فیاضی، رحم، ہمدردی، انصاف، وسعتِ قلب و نظر، سچائی، امانت، راست بازی، پاسِ عہد، معقولیت، اعتدال، شائستگی، طہارت و نظافت اور ذہن و نفس کا انضباط۔
یہ مولانا محترم کی اس تقریر کا ایک حصہ ہے جو انہوں نے ۲۱ اپریل ۱۹۴۵ء کو جماعتِ اسلامی کے کل ہند اجتماع منعقدہ دارالاسلام نزد پٹھانکوٹ (مشرقی پنجاب) میں کی۔ اور پھر "تحریکِ اسلامی کی اخلاقی بنیادیں" کے عنوان سے پمفلٹ کی صورت میں شائع ہوئی۔
یہ اوصاف اگر کسی قوم یا گروہ کے بیشتر افراد میں موجود ہوں تو گویا یوں سمجھیے کہ اس کے پاس وہ سرمایہِ انسانیت موجود ہے جس سے ایک طاقتور اجتماعی ہستی وجود میں آسکتی ہے، لیکن یہ سرمایہ مجتمع ہو کر بالفعل ایک مضبوط و مستحکم اور کارگر اجتماعی طاقت نہیں بن سکتا، جب تک کچھ دوسرے اخلاقی اوصاف بھی اس کی مدد پر نہ آئیں۔ مثلاً تمام یا بیشتر افراد کسی اجتماعی نصب العین پر متفق ہوں اور اس نصب العین کو اپنی انفرادی اغراض، بلکہ اپنی جان، مال اور اولاد سے بھی عزیز تر رکھیں۔ ان کے اندر آپس کی محبت اور ہمدردی ہو۔ انہیں مل کر کام کرنا آتا ہو۔ وہ اپنی خودی و نفسانیت کو کم از کم اس حد تک قربان کر سکیں جو منظم سعی کے لیے ناگزیر ہے۔ وہ صحیح و غلط رہنما میں تمیز کر سکتے ہوں اور موزوں آدمیوں ہی کو اپنا رہنما بنائیںَ۔ ان کے رہنماؤں میں اخلاص اور حسنِ تدبر اور رہنمائی کی دوسری ضروری صفات موجود ہوں۔ اور خود قوم یا جماعت بھی اپنے رہنماؤں کی اطاعت کرنا جانتی ہو، ان پر اعتماد رکھتی ہو اور اپنے تمام ذہنی، جسمانی اور مادی ذرائع اُن کے تصرف میں دے دینے پر تیار ہو۔ نیز پوری قوم کے اندر ایسی زندہ اور حساس رائے عام پائی جاتی ہو جو کسی ایسی چیز کو اپنے اندر پنپنے نہ دے جو اجتماعی فلاح کے لیے نقصان دہ ہو۔
یہ ہیں وہ اخلاقیات جن کو میں "بنیادی اخلاقیات" کے لفظ سے تعبیر کرتا ہوں، کیونکہ فی الواقع یہ انسان کی اخلاقی طاقت کا اصل منبع ہیں اور انسان کسی مقصد کے لیے بھی دنیا میں کامیاب سعی نہیں کر سکتا جب تک اِن اوصاف کا زور اس کے اندر موجود نہ ہو۔ ان اخلاقیات کی مثال ایسی ہے جیسے فولاد کہ وہ اپنی ذات میں مضبوطی و استحکام رکھتا ہے اور اگر کوئی کارگر ہتھیار بن سکتا ہے تو اس سے بن سکتا ہے، قطع نظر اس سے کہ وہ غلط مقصد کے لیے استعمال ہو یا صحیح مقصد کے لیے۔ آپ کے پیشِ نظر صحیح مقصد ہو تب بھی آپ کے لیے مفید وہی ہتھیار ہو سکتا ہے جو فولاد سے بنا ہو نہ کہ سڑی گلی پھس پھسی لکڑی سے جو ایک ذرا سے بوجھ اور معمولی سی چوٹ کی بھی تاب نہ لا سکتی ہو۔ یہی وہ بات ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں بیان فرمایا ہے:
خِيَارُكُمْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ خِيَارُكُمْ فِي الْإِسْلَامِ
”تم میں جو لوگ جاہلیت میں اچھے تھے وہی اسلام میں اچھے ہیں۔“
یعنی زمانۂ جاہلیت میں جو لوگ اپنے اندر جوہرِ قابل رکھتے تھے وہی زمانۂ اسلام میں مردانِ کار ثابت ہوئے۔ فرق صرف یہ ہے کہ ان کی قابلیتیں پہلے غلط راہوں میں صرف ہو رہی تھیں اور اسلام نے آکر انہیں صحیح راہ پر لگا دیا۔ مگر بہرحال ناکارہ انسان نہ جاہلیت کے کسی کام کے تھے نہ اسلام کے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو عرب میں جو زبردست کامیابی حاصل ہوئی اور جس کے اثرات تھوڑی ہی مدت گزرنے کے بعد دریائے سندھ سے لے کر اٹلانٹک کے ساحل تک دنیا کے ایک بڑے حصے نے محسوس کر لیے، اُس کی وجہ یہی تو تھی کہ آپ کو عرب میں بہترین انسانی مواد مل گیا تھا جس کے اندر کردار کی زبردست طاقت موجود تھی۔ اگر خدانخواستہ آپ کو بودے، کم ہمت، ضعف الارادہ اور ناقابلِ اعتماد لوگوں کی بھیڑ مل جاتی تو کیا پھر بھی وہ نتائج نکل سکتے تھے؟
اسلامی اخلاقیات
اب اخلاقیات کے دوسرے شعبے کو لیں۔ جسے میں "اسلامی اخلاقیات" کے لفظ سے تعبیر کر رہا ہوں۔ یہ بنیادی انسانی اخلاقیات سے الگ کوئی چیز نہیں ہے بلکہ اس کی تصحیح اور تکمیل ہے۔
اسلام کا پہلا کام یہ ہے کہ وہ بنیادی انسانی اخلاقیات کو ایک صحیح مرکز و محور مہیا کر دیتا ہے جس سے وابستہ ہو کر وہ سراپا خیر بن جاتے ہیں۔ اپنی ابتدائی صورت میں تو یہ اخلاقیات مجرد ایک قوت ہیں جو خیر بھی ہو سکتی ہے اور شر بھی۔ جس طرح تلوار کا حال ہے کہ وہ بس ایک کاٹ ہے جو ڈاکو کے ہاتھ میں جا کر آلۂ ظلم بھی بن سکتی ہے، مجاہد فی سبیل اللہ کے ہاتھ میں جا کر وسیلۂ خیر بھی، اسی طرح ان اخلاقیات کا بھی کسی شخص یا گروہ میں ہونا بجائے خود خیر نہیں ہے، بلکہ یہ موقوف ہے اس امر پر کہ یہ قوت صحیح راہ میں صرف ہو اور اس کو صحیح راہ پر لگانے کی خدمت اسلام انجام دیتا ہے۔ اسلام کی دعوتِ توحید کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ دنیا کی زندگی میں انسان کی تمام کوششوں اور محنتوں کا اور اس کی دوڑ دھوپ کا مقصدِ واحد اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہو۔
وَإِلَيْكَ نَسْعَىٰ وَنَحْفِدُ
اور اس کا پورا دائرۂ فکر و عمل ان حدود سے محدود ہو جائے جو اللہ نے اس کے لیے مقرر کر دی ہیں۔
إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَلَكَ نُصَلِّي وَنَسْجُدُ
اسی اساسی اصلاح کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ تمام بنیادی اخلاقیات جن کا ابھی میں نے آپ سے ذکر کیا ہے، صحیح راہ پر لگ جاتے ہیں اور وہ قوت جو ان اخلاقیات کی موجودگی سے پیدا ہوتی ہے، بجائے اس کے کہ نفس یا خاندان یا قوم یا ملک کی سربلندی پر ہر ممکن طریقے سے صرف ہو، خالص حق کی سربلندی پر صرف جائز طریقوں ہی سے صرف ہونے لگتی ہے۔ یہی چیز اس کو ایک مجرد قوت کے مرتبے سے اٹھا کر ایجاباً ایک بھلائی اور دنیا کے لیے ایک رحمت بنا دیتی ہے۔
دوسرا کام جو اخلاق کے باب میں اسلام کرتا ہے، وہ یہ ہے کہ وہ بنیادی انسانی اخلاقیات کو مستحکم بھی کرتا ہے۔ مثال کے طور پر صبر کو لیجیے۔ بڑے سے بڑے صابر آدمی میں بھی جو صبر دنیوی اغراض کے لیے ہو اور جسے شرک یا مادہ پرستی کی فکری جڑوں سے غذا مل رہی ہو، اس کی برداشت اور اس کے اثبات و قرار کی بھی ایک حد ہوتی ہے جس کے بعد وہ گھبرا اٹھتا ہے۔ لیکن جس صبر کو توحید کی جڑ سے غذا ملے اور جو دنیا کے لیے نہیں بلکہ اللہ رب العالمین کے لیے ہو، وہ تحمل و برداشت اور پامردی کا ایک اتھاہ خزانہ ہوتا ہے جسے دنیا کی تمام ممکن مشکلات مل کر بھی لوٹ نہیں سکتیں۔
پھر غیر مسلم کا صبر نہایت محدود نوعیت کا ہوتا ہے۔ اس کا حال یہ ہوتا ہے کہ ابھی تو گولوں اور گولیوں کی بوچھاڑ میں نہایت استقلال کے ساتھ ڈٹا ہوا تھا اور ابھی جو جذباتِ شہوانی کی تسکین کا کوئی موقع سامنے آیا تو نفسِ امارہ کی ایک معمولی تحریک کے مقابلے میں بھی نہ ٹھہر سکا۔ لیکن اسلام صبر کو انسان کی پوری زندگی میں پھیلا دیتا ہے اور اسے صرف چند مخصوص قسم کے خطرات، مصائب اور مشکلات ہی کے مقابلے میں نہیں بلکہ ہر اُس خوف، ہر اُس اندیشے اور ہر اُس خواہش کے مقابلے میں ٹھہراؤ کی ایک زبردست طاقت بنا دیتا ہے جو آدمی کو راہِ راست سے ہٹانے کی کوشش کرے۔ درحقیقت اسلام مومن کی پوری زندگی کو ایک صابرانہ زندگی بناتا ہے جس کا بنیادی اصول یہ ہے کہ عمر بھر صحیح طرزِ عمل پر قائم رہو خواہ اس میں کتنے ہی خطرات و نقصانات اور مشکلات ہوں اور اس دنیا کی زندگی میں اس کا کوئی مفید نتیجہ نکلتا نظر نہ آئے، اور کبھی فکر و عمل کی برائی اختیار نہ کرو خواہ فائدوں اور اُمیدوں کا کیسا ہی خوشنما سبز باغ تمہارے سامنے ہویا ہو۔ یہ آخرت کے قطعی نتائج کی توقع پر دنیا کی ساری زندگی میں بدی سے رکنا اور خیر کی راہ پر جم کر چلنا اسلامی صبر ہے اور لازماً ان شکلوں میں بھی ہوتا ہے جو بہت محدود پیمانے پر کفار کی زندگی میں نظر آتی ہیں۔
اسی مثال پر دوسرے تمام بنیادی اخلاقیات کو بھی آپ قیاس کر سکتے ہیں۔ کفار کی زندگی میں صحیح فکری بنیاد نہ ہونے کی وجہ سے وہ ضعیف اور محدود رہتے ہیں اور اسلام ان سب کو یکجا کر کے محکم بھی کرتا ہے اور وسیع بھی کر دیتا ہے۔
اسلام کا تیسرا کام یہ ہے کہ وہ بنیادی اخلاقیات کی ابتدائی منزل پر اخلاقِ فاضلہ کی ایک نہایت شاندار بالائی منزل تعمیر کرتا ہے جس کی بدولت انسان اپنے شرف کی انتہائی بلندیوں پر پہنچ جاتا ہے۔ وہ اس کے نفس کو خود غرضی سے، نفسانیت سے، ظلم سے، بے حیائی اور خلاعت و بے قیدی سے پاک کر دیتا ہے۔ اس میں خدا ترسی، تقویٰ و پرہیزگاری اور حق پرستی پیدا کرتا ہے۔ اس کے اندر اخلاقی ذمہ داریوں کا شعور و احساس ابھارتا ہے۔ اُس کو ضبطِ نفس کا خوگر بناتا ہے۔ اُسے تمام مخلوقات کے لیے کریم، فیاض، رحم دل، ہمدرد، امین، بے غرض خیر خواہ، بے لوث منصف، اور ہر حال میں صادق و راست باز بنا دیتا ہے اور اس میں ایک ایسا بلند پایہ سیرت پرورش کرتا ہے جس سے ہمیشہ صرف بھلائی ہی متوقع ہو اور برائی کا کوئی اندیشہ نہ ہو۔ پھر اسلام آدمی کو محض نیک ہی بنانے پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ میں وہ اُسے مِفْتَاحٌ لِلْخَيْرِ مِغْلَاقٌ لِلشَّرِّ (بھلائی کا دروازہ کھولنے والا اور بُرائی کا دروازہ بند کرنے والا) بناتا ہے، یعنی وہ ایجاباً یہ مشن اس کے سپرد کرتا ہے کہ دنیا میں بھلائی پھیلائے اور برائی کو روکے۔ اس سیرت و اخلاق میں فطرتاً وہ حسن ہے، وہ کشش ہے، وہ بلا کی قوتِ تسخیر ہے کہ اگر کوئی منظم جماعت اس سیرت کی حامل ہو اور عملاً اپنے اس مشن کے لیے کام بھی کرے جو اسلام نے اس کے سپرد کیا ہے تو اس کی جہانگیری کا مقابلہ کرنا دنیا کی کسی قوت کے بس کا کام نہیں۔
امامت کے بارے میں اللہ کی سنت
اب میں چند الفاظ میں اس سنت اللہ کو بیان کیے دیتا ہوں جو امامت کے باب میں ابتدائے آفرینش سے جاری ہے اور جب تک نوعِ انسانی اپنی موجودہ فطرت پر زندہ ہے اس وقت تک برابر جاری رہے گی، اور وہ یہ ہے:
اگر دنیا میں کوئی منظم انسانی گروہ ایسا موجود نہ ہو جو اسلامی اخلاقیات اور بنیادی انسانی اخلاقیات دونوں سے آراستہ ہو اور پھر مادی اسباب و وسائل بھی استعمال کرے، تو دنیا کی امامت و قیادت لازماً کسی ایسے گروہ کے قبضے میں دے دی جاتی ہے جو اسلامی اخلاقیات سے چاہے بالکل ہی عاری ہو لیکن بنیادی انسانی اخلاقیات اور مادی اسباب و وسائل کے اعتبار سے دوسروں کی بہ نسبت زیادہ بڑھا ہوا ہو، کیونکہ اللہ تعالیٰ بہرحال اپنی دنیا کا انتظام چاہتا ہے اور انتظام اسی گروہ کے سپرد کیا جاتا ہے جو موجود الوقت گروہوں میں اہل تر ہو۔
لیکن اگر کوئی منظم گروہ ایسا موجود ہو جو اسلامی اخلاقیات اور بنیادی انسانی اخلاقیات دونوں میں باقی ماندہ انسانی دنیا پر فضیلت رکھتا ہو، اور وہ مادی اسباب و وسائل کے استعمال میں بھی کوتاہی نہ کرے، تو یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ اس کے مقابلے میں کوئی دوسرا گروہ دنیا کی امامت و قیادت پر قابض رہ سکے۔ ایسا ہونا فطرت کے خلاف ہے، اللہ کی اس سنت کے خلاف ہے جو انسانوں کے معاملے میں اُس نے مقرر کر رکھی ہے، ان وعدوں کے خلاف ہے جو اللہ نے اپنی کتاب میں مومنینِ صالحین سے کیے ہیں، اور اللہ ہرگز فساد پسند نہیں کرتا کہ اُس کی دنیا میں ایک صالح گروہ انتظامِ عالم کو ٹھیک ٹھاک اس کی رضا کے مطابق درست رکھنے والا موجود ہو اور پھر بھی وہ مفسدوں ہی کے ہاتھ میں اس انتظام کی باگ ڈور رہنے دے۔
مگر یہ خیال رہے کہ اس نتیجہ کا ظہور صرف اسی وقت ہو سکتا ہے جب کہ ایک جماعتِ صالحہ ان اوصاف کی موجود ہو۔ کسی ایک صالح فرد، یا متفرق طور پر بہت سے صالح افراد کے موجود ہونے سے استخلاف فی الارض کا نظام تبدیل نہیں ہو سکتا، خواہ وہ افراد اپنی جگہ کیسے ہی اولیاء اللہ بلکہ پیغمبر ہی کیوں نہ ہوں۔ اللہ نے استخلاف کے متعلق جتنے وعدے بھی کیے ہیں، منتشر و متفرق افراد سے نہیں، بلکہ ایک ایسی جماعت سے کیے ہیں جو دنیا میں اپنے آپ کو عملاً "خیر امت" اور "امتِ وسط" ثابت کر دے۔
نیز یہ بھی ذہن نشین رہے کہ ایسے ایک گروہ کے محض وجود میں آجانے ہی سے نظامِ امامت میں تغیر واقع نہ ہو جائے گا کہ ادھر وہ بنے اور ادھر اچانک آسمان سے کچھ فرشتے اُتریں اور فساق و فجار کو اقتدار کی گدی سے ہٹا کر انہیں مسند نشین کر دیں، بلکہ اس جماعت کو کفر و فسق کی طاقتوں سے زندگی کے ہر میدان میں، ہر ہر قدم پر کشمکش اور مجاہدہ کرنا ہو گا اور اقامتِ حق کی راہ میں ہر قسم کی قربانیاں دے کر اپنی محبتِ حق اور اپنی اہلیت کا ثبوت دینا پڑے گا۔ یہ ایسی شرط ہے جس سے انبیاء تک مستثنیٰ نہ رکھے گئے، کجا کہ آج کوئی اس سے مستثنیٰ ہونے کی توقع کرے۔
بنیادی اخلاقیات اور اسلامی اخلاقیات کی طاقت کا فرق
مادی طاقت اور اخلاقی طاقت کے تناسب کے باب میں قرآن اور تاریخ کے غائر مطالعہ سے جو سنت اللہ میں سمجھا ہوں، وہ یہ ہے کہ جہاں اخلاقی طاقت کا سارا انحصار صرف بنیادی انسانی اخلاقیات پر ہو، وہاں مادی وسائل بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ حتیٰ کہ اس امر کا بھی امکان ہے کہ اگر ایک گروہ کے پاس مادی وسائل کی طاقت بہت زیادہ ہو تو وہ تھوڑی اخلاقی طاقت سے بھی دنیا پر چھا جاتا ہے اور دوسرے گروہ اخلاقی طاقت میں فائق تر ہونے کے باوجود محض وسائل کی کمی کے باعث دبے رہتے ہیں۔ لیکن جہاں اخلاقی طاقت میں اسلامی اور بنیادی دونوں قسم کے اخلاقیات کا پورا زور شامل ہو، وہاں مادی وسائل کی انتہائی کمی کے باوجود اخلاق کو آخرکار ان تمام طاقتوں پر غلبہ حاصل ہو کر رہتا ہے جو مجرد بنیادی اخلاقیات اور مادی سر و سامان کے بل بوتے پر اُٹھی ہوں۔ اس نسبت کو یوں سمجھیے کہ بنیادی اخلاقیات کے ساتھ اگر سو درجے مادی طاقت کی ضرورت ہوتی ہے تو اسلامی اور بنیادی اخلاقیات کی مجموعی قوت کے ساتھ صرف ۲۵ درجے مادی طاقت کافی ہو جاتی ہے، باقی پچھتر فی صدی قوت کی کمی کو محض اسلامی اخلاق کا زور پورا کر دیتا ہے، بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد کا تجربہ تو یہ بتاتا ہے کہ اسلامی اخلاق اس پیمانے کا ہو جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کا تھا تو صرف پانچ فی صدی مادی طاقت سے بھی کام چل جاتا ہے۔ یہی حقیقت ہے جس کی طرف آیت (إِن يَكُن مِّنكُمْ عِشْرُونَ صَابِرُونَ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ) میں اشارہ کیا گیا ہے۔
یہ آخری بات جو میں نے عرض کی ہے، اسے محض خوش عقیدگی پر محمول نہ کیجیے، اور نہ گمان کیجیے کہ میں کسی معجزے و کرامت کا آپ سے ذکر کر رہا ہوں۔ نہیں، یہ بالکل فطری حقیقت ہے جو اسی عالمِ اسباب میں قانونِ علت و معلول کے تحت پیش آتی ہے اور ہر وقت رونما ہو سکتی ہے اگر اس کی علت موجود ہو۔ میں مناسب سمجھتا ہوں کہ آگے بڑھنے سے پہلے چند الفاظ میں اس کی تشریح کر دوں کہ اسلامی اخلاقیات سے، جن میں بنیادی اخلاقیات خود بخود شامل ہیں، مادی اسباب کی ۸۰ فی صدی بلکہ ۹۵ فی صدی تک کمی کس طرح پوری ہو جاتی ہے۔
اس چیز کو سمجھنے کے لیے آپ ذرا خود اپنے زمانے ہی کی بین الاقوامی صورتِ حال پر ایک نگاہ ڈال کر دیکھیں۔ ابھی آپ کے سامنے وہ فسادِ عظمیٰ جو آج سے ساڑھے پانچ سال پہلے شروع ہوا تھا، جرمنی کی شکست پر ختم ہوا ہے اور جاپان کی شکست بھی قریب نظر آرہی ہے۔ جہاں تک بنیادی اخلاقیات کا تعلق ہے، اُن کے اعتبار سے اس فساد کے دونوں فریق تقریباً مساوی ہیں، بلکہ بعض پہلوؤں سے جرمنی اور جاپان نے اپنے حریفوں کے مقابلے میں زیادہ زبردست اخلاقی طاقت کا ثبوت دیا ہے۔ جہاں تک علومِ طبعی اور ان کے عملی استعمال کا تعلق ہے، اس میں بھی دونوں فریق برابر ہیں، بلکہ اس معاملے میں کم از کم جرمنی کی فوقیت تو کسی سے مخفی نہیں۔ مگر صرف ایک چیز ہے جس میں ایک فریق دوسرے فریق سے بہت زیادہ بڑھا ہوا ہے اور وہ ہے مادی اسباب کی موافقت۔ اس کے پاس آدمی اپنے دونوں حریفوں (جرمنی و جاپان) سے کئی گنے زیادہ ہیں۔ اس کو مادی وسائل اُن کی نسبت بدرجہا زیادہ حاصل ہیں، اس کی جغرافیائی پوزیشن ان سے بہتر ہے، اور اس کو تاریخی اسباب نے ان کے مقابلے میں بہت زیادہ بہتر حالات فراہم کر دیے ہیں۔ اسی وجہ سے اُس کو فتح نصیب ہوئی ہے اور اسی وجہ سے آج کسی ایسی قوم کے لیے بھی جس کی تعداد کم ہو اور جس کی دسترس میں مادی وسائل کم ہوں، اس امر کا کوئی امکان نظر نہیں آتا کہ وہ کثیر التعداد اور کثیر الوسائل قوموں کے مقابلے میں سر اٹھا سکے۔ خواہ وہ بنیادی اخلاقیات میں اور طبعی علوم کے استعمال میں، ان سے کچھ بڑھ ہی کیوں نہ جائے۔ اس لیے کہ بنیادی اخلاقیات اور طبعی علوم کے بل پر اُٹھنے والی قوم کا معاملہ دو حال سے خالی نہیں ہو سکتا: یا تو وہ خود اپنی قومیت کی پرستار ہو گی اور دنیا کو اپنے لیے مسخر کرنا چاہے گی، یا پھر وہ کچھ عالمگیر اصولوں کی حامی بن کر اُٹھے گی اور دوسری قوموں کو ان کی طرف دعوت دے گی۔ پہلی صورت میں تو اس کے لیے کامیابی کی کوئی شکل بجز اس کے ہے ہی نہیں کہ وہ مادی طاقت اور وسائل میں دوسروں سے فائق تر ہو، کیونکہ وہ تمام قومیں جن پر اُس کی اس حرصِ اقتدار کی زد پڑ رہی ہو گی، انتہائی غصے و نفرت کے ساتھ اس کی مزاحمت کریں گی اور اس کا راستہ روکنے میں اپنی حد تک کوئی کسر نہ اٹھا رکھیں گی۔ رہی دوسری صورت تو اس میں شبہ نہیں کہ اس کا امکان تو ضرور ہے کہ قوموں کے دماغ خود بخود اس کی اصولی دعوت سے مسخر ہوتے چلے جائیں اور اسے مزاحمتوں کو راستے سے ہٹانے میں بہت تھوڑی قوت استعمال کرنی پڑے، لیکن یہ یاد رہنا چاہیے کہ دل صرف چند خوش آئند اصولوں ہی سے مسخر نہیں ہو جایا کرتے، بلکہ انہیں مسخر کرنے کے لیے وہ حقیقی خیر خواہی، نیک نیتی، راست بازی، بے غرضی، فراخ دلی، فیاضی، ہمدردی اور شرافت و عدالت درکار ہے جو جنگ اور صلح، فتح اور شکست، دوستی اور دشمنی، تمام حالات کی کڑی آزمائشوں میں کھری اور بے لوث ثابت ہو۔ اور یہ چیز اخلاقِ فاضلہ کی اس بلند منزل سے تعلق رکھتی ہے جس کا مقام بنیادی اخلاقیات سے بہت برتر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مجرد بنیادی اخلاقیات اور مادی طاقت کے بل پر اُٹھنے والے خواہ کھلے قوم پرست ہوں یا پوشیدہ قوم پرستی کے ساتھ کچھ عالمگیر اصولوں کی دعوت و حمایت کا ڈھونگ رچائیں، آخر کار ان کی ساری جدوجہد اور کشمکش خالص شخصی یا طبقاتی یا قومی خود غرضی ہی پر آ ٹھہرتی ہے، جیسا کہ آج آپ امریکہ، برطانیہ اور روس کی سیاستِ خارجہ میں نمایاں طور پر دیکھ سکتے ہیں۔ ایسی کشمکش میں یہ ایک بالکل فطری امر ہے کہ ہر قوم دوسری قوم کے مقابلے میں ایک مضبوط چٹان بن کر کھڑی ہو جائے، اپنی پوری اخلاقی و مادی طاقت اس کی مزاحمت میں صرف کر دے اور اپنے حدود میں اس کو ہرگز راہ دینے کے لیے تیار نہ ہو جب تک کہ مخالف کی برتر مادی قوت اس کو پس کر نہ رکھ دے۔
اچھا، اب ذرا تصور کیجیے کہ اسی ماحول میں ایک ایسا گروہ (خواہ وہ ابتداء ایک ہی قوم میں سے اٹھا ہو، مگر "قوم" کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک "جماعت" کی حیثیت سے اٹھا ہو) پایا جاتا ہے جو شخصی، طبقاتی اور قومی خود غرضیوں سے بالکل پاک ہے۔ اس کی سعی و جہد کی کوئی غرض اس کے سوا نہیں ہے کہ وہ نوعِ انسانی کی فلاح چند اصولوں کی پیروی میں دیکھتا ہے اور انسانی زندگی کا نظام ان پر قائم کرنا چاہتا ہے۔ اُن اصولوں پر جو سوسائٹی وہ بناتا ہے، اس میں قومی و وطنی اور طبقاتی و نسلی امتیازات بالکل مفقود ہیں۔ تمام انسان اس میں یکساں حقوق اور مساوی حیثیت سے شامل ہو سکتے ہیں۔ اس میں رہنمائی و قیادت کا منصب ہر اس شخص یا مجموعۂ اشخاص کو حاصل ہو سکتا ہے جو ان اصولوں کی پیروی میں سب پر فوقیت لے جائے، قطع نظر اس سے کہ اس کی نسلی و وطنی قومیت کچھ ہی ہو۔ حتیٰ کہ اس میں اس امر کا بھی امکان ہے کہ اگر مفتوح ایمان لا کر اپنے آپ کو صالح تر ثابت کر دے تو فاتح اپنی سرفروشیوں اور جانفشانیوں کے سارے ثمرات اس کے قدموں میں لا کر رکھ دے اور اس کو امام مان کر خود مقتدی بننا قبول کرے۔ یہ گروہ جب اپنی دعوت لے کر اٹھتا ہے تو وہ لوگ جو اس کے اصولوں کو چلنے دینا نہیں چاہتے، اس کی مزاحمت کرتے ہیں اور اس طرح فریقین میں کشمکش شروع ہو جاتی ہے۔ مگر اس کشمکش میں جتنی شدت بڑھتی جاتی ہے، یہ گروہ اپنے مخالفوں کے مقابلے میں اتنے ہی زیادہ افضل و اشرف اخلاق کا ثبوت دیتا چلا جاتا ہے۔ وہ اپنے طرزِ عمل سے ثابت کر دیتا ہے کہ واقعی وہ خلق اللہ کی بھلائی کے سوا کوئی دوسری غرض پیشِ نظر نہیں رکھتا۔ اس کی دشمنی اپنے مخالفوں کی ذات یا قومیت سے نہیں بلکہ صرف ان کی ضلالت و گمراہی سے ہے، جسے وہ چھوڑ دیں تو وہ اپنے خون کے پیاسے دشمن کو بھی سینے سے لگا سکتا ہے۔ اسے لالچ ان کے مال و دولت یا ان کی تجارت و صنعت کا نہیں بلکہ خود انہی کی اخلاقی اور روحانی فلاح کا ہے جو حاصل ہو جائے تو ان کی دولت انہیں کو مبارک ہے۔ وہ سخت سے سخت آزمائش کے موقعوں پر بھی جھوٹ، دغا اور مکر و فریب سے کام نہیں لیتا۔ ٹیڑھی چالوں کا جواب بھی سیدھی تدبیروں سے دیتا ہے۔ انتقام کے جوش میں بھی ظلم و زیادتی پر آمادہ نہیں ہوتا۔ جنگ کے سخت لمحوں میں بھی اپنے ان اصولوں کی پیروی نہیں چھوڑتا، ان کے اس معیار پر پورا اترتا ہے جسے ابتداء اس نے دنیا کے سامنے معیار کی حیثیت سے پیش کیا تھا۔ مخالفین کی زانی، شرابی، جواری اور سنگدل و بے رحم فوجوں سے جب اس گروہ کے خداترس، پاکباز، عبادت گزار، نیک دل اور رحم دل و کریم مجاہدوں کا مقابلہ پیش آتا ہے تو فرداً فرداً ان کی انسانیت اُن کی درندگی و حیوانیت پر فائق نظر آتی ہے۔ وہ ان کے پاس زخمی یا قیدی ہو کر آتے ہیں تو یہاں ہر طرف نیکی، شرافت اور پاکیزگیِ اخلاق کا ماحول دیکھ کر ان کی آلودۂ نجاست روحیں بھی پاک ہونے لگتی ہیں۔ اور یہ وہاں گرفتار ہو کر جاتے ہیں تو ان کا جوہرِ انسانیت اس تاریک ماحول میں اور زیادہ چمک اٹھتا ہے۔ ان کو کسی علاقے پر غلبہ حاصل ہوتا ہے تو مفتوح آبادی کو انتقام کی جگہ عفو، ظلم و جور کی جگہ رحم و انصاف، شقاوت کی جگہ ہمدردی، تکبر و نخوت کی جگہ حلم و تواضع، گالیوں کی جگہ دعوتِ خیر، جھوٹے پروپیگنڈوں کی جگہ اصولِ حق کی تبلیغ کا تجربہ ہوتا ہے اور وہ یہ دیکھ کر عش عش کرنے لگتے ہیں کہ فاتح سپاہی نہ ان سے عورتیں مانگتے ہیں، نہ دبے چھپے مال ٹٹولتے پھرتے ہیں، نہ ان کے صیغہ رازوں کا سراغ لگاتے ہیں، نہ ان کی معاشی طاقت کو کچلنے کی فکر کرتے ہیں، نہ ان کی قومی عزت کو ٹھوکر مارتے ہیں، بلکہ انہیں اگر کچھ فکر ہے تو یہ کہ جو ملک اب ان کے چارج میں ہے، اس کے باشندوں میں سے کسی کی عصمت خراب نہ ہو، کسی کے مال کو نقصان نہ پہنچے، کوئی اپنے جائز حقوق سے محروم نہ ہو، کوئی بداخلاقی ان کے درمیان پرورش نہ پاسکے اور اجتماعی ظلم و جور کسی شکل میں بھی وہاں باقی نہ رہے۔ بخلاف اس کے جب فریقِ مخالف کسی علاقے میں گھس آتا ہے تو ساری آبادی اس کی زیادتیوں اور بے رحمیوں سے چیخ اٹھتی ہے۔
اب آپ خود ہی اندازہ کر لیں کہ ایسی لڑائی میں قوم پرستانہ لڑائیوں کی بہ نسبت کتنا بڑا فرق واقع ہو جائے گا۔ ظاہر ہے کہ ایسے مقابلے میں بالاتر انسانیت کمتر مادی سروسامان کے باوجود اپنے مخالفوں کی آہن پوش حیوانیتوں کو آخرکار شکست دے کر رہے گی۔ اخلاقِ فاضلہ کے ہتھیار توپ و تفنگ سے زیادہ دور مار ثابت ہوں گے۔ عین حالتِ جنگ میں دشمن دوستوں میں تبدیل ہوں گے۔ جسموں سے پہلے دل مسخر ہوں گے۔ آبادیوں کی آبادیاں لڑے بھڑے بغیر مفتوح ہو جائیں گی اور یہ صالح گروہ جب ایک مرتبہ مٹھی بھر جمعیت اور تھوڑے سے سر و سامان کے ساتھ اپنا کام شروع کر دے گا تو رفتہ رفتہ خود مخالف کیمپ ہی سے اس کو جنرل، سپاہی، ماہرینِ فنون، اسلحہ، رسد، سامانِ جنگ سب کچھ حاصل ہوتے چلے جائیں گے۔
یہ جو کچھ میں عرض کر رہا ہوں، یہ نرا قیاس اور اندازہ نہیں ہے، بلکہ اگر آپ کے سامنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کے دورِ مبارک کی تاریخی مثال موجود ہو تو آپ پر واضح ہو جائے گا کہ فی الواقع اس سے پہلے یہ کچھ ہو چکا ہے اور آج بھی یہی کچھ ہو سکتا ہے، بشرطیکہ کسی میں یہ تجربہ کرنے کی ہمت ہو۔
حضرات! مجھے توقع ہے کہ اس تقریر سے یہ حقیقت آپ کے ذہن نشین ہو گئی ہو گی کہ طاقت کا اصل منبع اخلاقی طاقت ہے۔ اگر دنیا میں کوئی منظم گروہ ایسا موجود ہو جو بنیادی اخلاقیات کے ساتھ اسلامی اخلاقیات کا زور بھی اپنے اندر رکھتا ہو اور بنیادی وسائل سے بھی کام لے تو یہ بات عقلاً محال اور فطرتاً غیر ممکن ہے کہ اس کی موجودگی میں کوئی دوسرا گروہ دنیا کی امامت و قیادت پر قائم رہ سکے۔ اس کے ساتھ مجھے اُمید ہے کہ آپ نے یہ بھی اچھی طرح سمجھ لیا ہو گا کہ مسلمانوں کی موجودہ پست حالی کا اصل سبب کیا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ جو لوگ نہ مادی وسائل سے کام لیں، نہ بنیادی اخلاقیات سے آراستہ ہوں اور نہ اجتماعی طور پر ان کے اندر اسلامی اخلاقیات ہی پائے جائیں، وہ کسی طرح بھی امامت کے منصب پر فائز نہیں رہ سکتے۔ خدا کی اٹل سنت کا تقاضا یہی ہے کہ ان پر ایسے کافروں کو ترجیح دی جائے، جو اسلامی اخلاقیات سے عاری سہی مگر کم از کم بنیادی اخلاقیات اور مادی وسائل کے استعمال میں تو ان سے بڑھے ہوئے ہیں اور اپنے آپ کو ان کی بہ نسبت انتظامِ دنیا کے لیے اہل تر ثابت کر رہے ہیں۔ اس معاملے میں اگر آپ کو کوئی شکایت ہو تو سنت اللہ سے نہیں بلکہ اپنے آپ سے ہونی چاہیے اور اس شکایت کا نتیجہ یہ ہونا چاہیے کہ آپ اب اپنی اس خامی کو دور کرنے کی فکر کریں جس نے آپ کو امام سے مقتدی اور پیشرو سے پسرو بنا کر چھوڑا ہے۔
اس کے بعد ضرورت ہے کہ میں صاف اور واضح طریقے سے آپ کے سامنے اسلامی اخلاقیات کی بنیادوں کو بھی پیش کر دوں، کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ اس معاملے میں عام طور پر مسلمانوں کے تصورات بُری طرح اُلجھے ہوئے ہیں۔ اس الجھن کی وجہ سے بہت ہی کم آدمی یہ جانتے ہیں کہ اسلامی اخلاقیات فی الواقع کس چیز کا نام ہے اور اس پہلو سے انسان کی تربیت و تکمیل کے لیے کیا چیزیں کس ترتیب و تدریج کے ساتھ اس کے اندر پرورش کی جانی چاہئیں۔
اسلامی اخلاقیات کے چار مراتب
جس چیز کو ہم اسلامی اخلاقیات سے تعبیر کرتے ہیں، وہ قرآن و حدیث کی رو سے دراصل چار مراتب پر مشتمل ہے: ایمان، اسلام، تقویٰ اور احسان۔ یہ چاروں مراتب یکے بعد دیگرے اِس فطری ترتیب پر واقع ہیں کہ ہر بعد کا مرتبہ پہلے مرتبے سے پیدا اور لازماً اسی پر قائم ہوتا ہے اور جب تک نیچے والی منزل پختہ و محکم نہ ہو جائے، دوسری منزل کی تعمیر کا تصور تک نہیں کیا جا سکتا۔ اسی پوری عمارت میں ایمان کو بنیاد کی حیثیت حاصل ہے۔ اس بنیاد پر اسلام کی منزل تعمیر ہوتی ہے۔ پھر اس کے اوپر تقویٰ اور سب سے اوپر احسان کی منزلیں اٹھتی ہیں۔ ایمان نہ ہو تو اسلام و تقویٰ یا احسان کا سرے سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ ایمان کمزور ہو تو اس پر کسی بالائی منزل کا بوجھ نہیں ڈالا جاسکتا، یا ایسی کوئی منزل تعمیر کر دی جائے تو وہ بودی اور متزلزل ہو گی۔ ایمان محدود ہو تو جتنے حدود میں محدود ہو گا، اسلام، تقویٰ اور احسان بھی بس انہی حدود تک محدود رہیں گے۔ پس جب تک ایمان پوری طرح صحیح، پختہ اور وسیع نہ ہو، کوئی مردِ عاقل جو دین کا فہم رکھتا ہو، اسلام، تقویٰ یا احسان کی تعمیر کا خیال نہیں کر سکتا۔ اسی طرح تقویٰ سے پہلے اسلام اور احسان سے پہلے تقویٰ کی تصحیح، پختگی اور توسع ضروری ہے۔ لیکن اکثر ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ اس فطری و اصولی ترتیب کو نظر انداز کر کے ایمان و اسلام کی تکمیل کے بغیر تقویٰ و احسان کی باتیں شروع کر دیتے ہیں اور اس سے بھی زیادہ افسوسناک یہ ہے کہ بالعموم لوگوں کے ذہنوں میں ایمان و اسلام کا ایک نہایت محدود تصور جاگزیں ہے۔ اسی وجہ سے وہ سمجھتے ہیں کہ محض وضع قطع، لباس، نشست و برخاست، اکل و شرب اور ایسی ہی چند ظاہری چیزوں کو ایک مقرر نقشے پر ڈھال لینے سے تقویٰ کی تکمیل ہو جاتی ہے، اور پھر عبادات میں نوافل و اذکار اور اوراد و وظائف اور ایسے ہی بعض اعمال اختیار کر لینے سے احسان کا بلند مقام حاصل ہو جاتا ہے، حالانکہ بسا اوقات اسی "تقویٰ" اور "احسان" کے ساتھ ساتھ لوگوں کی زندگیوں میں ایسی صریح علامات بھی نظر آتی ہیں جن سے ابھی ان کا ایمان ہی سرے سے درست اور پختہ نہیں ہوا ہے۔ یہ غلطیاں جب تک موجود ہیں، کسی طرح یہ اُمید نہیں کی جاسکتی کہ نصاب پورا کرنے میں کبھی کامیاب ہو سکیں گے۔ لہٰذا یہ ضروری ہے کہ ہمیں ایمان، اسلام، تقویٰ اور احسان کے ان چاروں مراتب کا پورا پورا تصور بھی حاصل ہو اور اس کے ساتھ ہم ان کی فطری ترتیب کو بھی اچھی طرح سمجھ لیں۔
ایمان
اس سلسلے میں سب سے پہلے ایمان کو لیجیے جو اسلامی زندگی کی بنیاد ہے۔ ہر شخص جانتا ہے کہ توحید و رسالت کے اقرار کا نام ایمان ہے۔ اگر کوئی شخص اس کا اقرار کر لے تو اس سے وہ قانونی شرط پوری ہو جاتی ہے جو دائرۂ اسلام میں داخل ہونے کے لیے رکھی گئی ہے اور وہ اس کا مستحق ہو جاتا ہے کہ اس کے ساتھ مسلمانوں کا سا معاملہ کیا جائے۔ مگر کیا یہی سادہ اقرار جو ایک قانونی ضرورت پوری کرنے کے لیے کافی ہے، اس غرض کے لیے بھی کافی ہو سکتا ہے کہ اسلامی زندگی کی ساری سہ منزلہ عمارت صرف اسی بنیاد پر قائم ہو سکے؟ لوگ ایسا ہی سمجھتے ہیں اور اسی لیے جہاں یہ اقرار موجود ہوتا ہے وہاں عملی اسلام اور تقویٰ اور احسان کی تعمیر شروع کر دی جاتی ہے، جو اکثر ہوائی قلعہ سے زیادہ پائیدار ثابت نہیں ہوتی۔ لیکن فی الواقع ایک مکمل اسلامی زندگی کی تعمیر کے لیے یہ ناگزیر ہے کہ ایمان اپنی تفصیلات میں پوری طرح وسیع اور اپنی گہرائی میں اچھی طرح مستحکم ہو۔ ایمان کی تفصیلات میں سے جو شعبہ بھی چھوٹ جائے گا، اسلامی زندگی کا وہی شعبہ تعمیر ہونے سے رہ جائے گا اور اس کی گہرائی میں جہاں بھی کسر رہ جائے گی، اسلامی زندگی کی عمارت اسی مقام پر بودی ثابت ہو گی۔
مثال کے طور پر ایمان باللہ کو دیکھیں۔ آپ دیکھیں گے کہ خدا کا اقرار اپنی سادہ صورت سے گزر کر جب تفصیلات میں پہنچتا ہے تو لوگوں کے ذہن میں اس کی بے شمار صورتیں بن جاتی ہیں۔ کہیں وہ صرف اس حد پر ختم ہو جاتا ہے کہ بے شک خدا موجود ہے اور دنیا کا خالق ہے اور اپنی ذات میں یکتا ہے۔ کہیں اس کی انتہائی وسعت بس اتنی ہوتی ہے کہ خدا ہمارا معبود ہے اور ہمیں اس کی پرستش کرنی چاہیے۔ کہیں خدا کی صفات اور اس کے حقوق و اختیارات کا تصور کچھ زیادہ وسیع ہو کر بھی اس سے آگے نہیں بڑھتا کہ عالم الغیب، سمیع و بصیر، سمیع الدعوات و قاضی الحاجات اور پرستش کی تمام جزوی شکلوں کا مستحق ہونے میں خدا کا کوئی شریک نہیں ہے، اور یہ کہ "مذہبی معاملات" میں آخری سند خدا ہی کی کتاب ہے۔ ظاہر ہے کہ ان مختلف تصورات سے ایک ہی طرز کی زندگی نہیں بن سکتی، بلکہ جو تصور جتنا محدود ہو گا، زندگی اور اخلاق میں بھی لازماً اسلامی رنگ اتنا ہی محدود ہو گا، حتیٰ کہ جہاں عام مذہبی تصورات کے مطابق ایمان باللہ اپنی انتہائی وسعت پر ہو گا، وہاں بھی اسلامی زندگی اس سے آگے نہ بڑھ سکے گی کہ خدا کے باغیوں کی وفاداری اور خدا کی وفاداری ایک ساتھ نباہ لی جائے، کفر اور نظامِ اسلام کو سمو کر ایک مرکب بنا لیا جائے۔
اسی طرح ایمان باللہ کی گہرائی کا پیمانہ بھی مختلف ہے۔ کوئی شخص خدا کا اقرار کرنے کے باوجود اپنی کسی معمولی سے معمولی چیز کو بھی خدا پر قربان کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہوتا۔ کوئی شخص خدا کو بعض چیزوں سے عزیز تر (سمجھتا ہے)، اور بعض چیزیں اسے خدا سے بھی عزیز تر ہوتی ہیں۔ کوئی اپنی جان مال تک خدا پر قربان کر دیتا ہے مگر اپنے رجحاناتِ نفس اور اپنے نظریات و افکار کی قربانی یا اپنی شہرت کی قربانی اسے گوارا نہیں ہوتی۔ ٹھیک ٹھیک اسی تناسب سے اسلامی زندگی کی پائیداری و ناپائیداری بھی متعین ہوتی ہے اور انسان کا اسلامی اخلاق ٹھیک اسی مقام پر دغا دے جاتا ہے جہاں اس کے نیچے ایمان کی بنیاد کمزور رہ جاتی ہے۔
ایک مکمل اسلامی زندگی کی عمارت اگر اُٹھ سکتی ہے تو صرف اُسی اقرارِ توحید پر اُٹھ سکتی ہے جو انسان کی پوری انفرادی و اجتماعی زندگی پر وسیع ہو۔ جس کے مطابق انسان اپنے آپ کو اور اپنی ہر چیز کو خدا کی ملکیت سمجھے۔ اس کو اپنا اور تمام دنیا کا ایک ہی جائز مالک، معبود، مطاع اور صاحبِ امر و نہی تسلیم کرے۔ اسی کو ہدایت کا سرچشمہ مانے اور پورے شعور کے ساتھ اس حقیقت پر مطمئن ہو جائے کہ خدا کی اطاعت سے انحراف، یا اس کی ہدایت سے بے نیازی، یا اس کی ذات و صفات اور حقوق و اختیارات میں غیر کی شرکت جس پہلو اور رنگ میں بھی ہے، سراسر ضلالت ہے۔ پھر اس عمارت میں اگر استحکام پیدا ہو سکتا ہے تو صرف اسی وقت جب کہ آدمی پورے ارادے کے ساتھ یہ فیصلہ کرے کہ وہ اور اس کا سب کچھ اللہ کا ہے اور اللہ ہی کے لیے ہے۔ اپنے معیارِ پسند و ناپسند کو ختم کر کے اللہ کی پسند و ناپسند کے تابع کر دے۔ اپنی خود سری کو مٹا کر اپنے نظریات و خیالات، خواہشات، جذبات اور اندازِ فکر کو اُس علم کے مطابق ڈھال لے جو خدا نے اپنی کتاب میں دیا ہے۔ اپنی تمام اُن وفاداریوں کو دریا برد کر دے جو خدا کی وفاداری کے تابع نہ ہوں بلکہ اس کے مدِمقابل بنی ہوئی ہوں یا بن سکتی ہوں۔ اپنے دل میں سب سے بلند مقام پر خدا کی محبت کو بٹھائے، اور ہر اُس بت کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر اپنے نہاں خانۂ دل سے نکال پھینکے جو خدا کے مقابلے میں عزیز تر ہونے کا مطالبہ کرتا ہو۔ اپنی محبت اور نفرت، اپنی دوستی اور دشمنی، اپنی رغبت اور کراہت، اپنی صلح اور جنگ، ہر چیز کو خدا کی مرضی میں اس طرح گم کر دے کہ اس کا نفس وہی چاہنے لگے جو خدا چاہتا ہے اور اس سے بھاگنے لگے جو خدا کو ناپسند۔ یہ ہے ایمان باللہ کا حقیقی مرتبہ اور آپ خود سمجھ سکتے ہیں کہ جہاں ایمان ہی ان حدود سے اپنی وسعت و ہمہ گیری اور اپنی پختگی و مضبوطی میں ناقص ہو، وہاں تقویٰ یا احسان کا کیا امکان ہو سکتا ہے؟ کیا اس نقص کی کسر داڑھیوں کے طول اور لباس کی تراش خراش یا سبحہ گردانی و تہجد خوانی سے پوری کی جاسکتی ہے؟
اُسی پر دوسرے ایمانات کو بھی قیاس کر لیجیے۔ نبوت پر ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک انسان کا نفس زندگی کے سارے معاملات میں نبی کو اپنا رہنما نہ مان لے اور اس کی رہنمائی کے خلاف یا اس سے آزاد جتنی رہنمائیاں ہوں ان کو رد نہ کر دے۔ کتاب پر ایمان اس وقت تک ناقص ہی رہتا ہے، جب تک نفس میں کتاب اللہ کے بتائے ہوئے اصولِ زندگی کے سوا کسی دوسری چیز کے تسلط پر رضامندی کا شائبہ بھی باقی نہ ہو یا اتباعِ ما انزل اللہ کو اپنی اور ساری دنیا کی زندگی کا قانون دیکھنے کے لیے قلب و روح کی بے چینی میں کچھ کسر ہو۔ اسی طرح آخرت پر بھی ایمان مکمل نہیں (ہوتا)، (جب) تک نفس پوری طرح آخرت کو دنیا پر ترجیح دے اور اخروی قدروں کے مقابلے میں دنیوی قدروں کو ٹھکرا دے، (اور جب تک) یہ آخرت کی جوابدہی کا خیال اسے زندگی کی ہر راہ پر چلتے ہوئے قدم قدم پر کھٹکنے نہ لگے۔ یہ بنیادیں ہی جہاں پوری نہ ہوں، آخر وہاں اسلامی زندگی کی عالیشان عمارت کس شے پر تعمیر ہو گی؟ جب لوگوں نے ان بنیادوں کی توسع و تکمیل (کو سطحی طور پر) سمجھا، تب ہی تو نوبت یہاں تک پہنچی کہ کتاب اللہ کے خلاف فیصلہ کرنے والے جج، غیر شرعی قوانین کی بنیاد پر مقدمے لڑنے والے وکلاء، نظامِ کفر کے مطابق معاملاتِ زندگی کا انتظام کرنے والے کارکن، کافرانہ اصولِ تمدن و ریاست پر زندگی کی تشکیل و تاسیس کے لیے لڑنے والے لیڈر اور پیرو، غرض سب کے لیے تقویٰ و احسان کے مراتبِ عالیہ کا دروازہ کھل گیا، بشرطیکہ وہ اپنی زندگی کے ظاہری انداز و اطوار کو ایک خاص نقشے پر ڈھال لیں اور کچھ نوافل و اذکار کی عادت ڈال لیں۔
اسلام
ایمان کی یہ بنیادیں جن کا میں نے ابھی آپ سے ذکر کیا ہے، جب مکمل اور گہری ہو جاتی ہیں، تب ان پر اسلام کی منزل شروع ہوتی ہے۔ اسلام دراصل ایمان کے عملی ظہور کا دوسرا نام ہے۔ ایمان اور اسلام کا باہمی تعلق ویسا ہی ہے جیسا بیج اور درخت کا تعلق ہوتا ہے۔ بیج میں جو کچھ اور جیسا کچھ موجود ہوتا ہے، وہی درخت کی شکل میں ظاہر ہو جاتا ہے، حتیٰ کہ درخت کا امتحان کر کے بآسانی یہ معلوم کیا جا سکتا ہے کہ بیج میں کیا تھا اور کیا نہیں تھا۔ آپ نہ یہ تصور کر سکتے ہیں کہ بیج نہ ہو اور درخت موجود ہو، اور نہ یہ ممکن ہے کہ زمین بنجر بیا بان ہو اور بیج اس میں موجود بھی ہو، پھر بھی درخت پیدا نہ ہو۔ ایسا ہی معاملہ ایمان اور اسلام کا ہے۔ جہاں ایمان موجود ہو گا، لازماً اس کا ظہور آدمی کی عملی زندگی میں، اخلاق میں، برتاؤ میں، تعلقات کے کٹنے اور جڑنے میں، دوڑ دھوپ کے رخ میں، مذاق و مزاج کی افتاد میں، سعی و جہد کے راستوں میں، اس کے طرزِ زندگی اور معاشرت میں، اس کی کمائی اور خرچ میں، غرض اس کی حیاتِ دنیوی کے سارے ہی پہلوؤں میں رفتہ رفتہ نمایاں ہوتا چلا جائے گا۔ بخلاف اس کے اگر مظاہر کو حقیقت پر مقدم رکھا جائے گا اور ان پر بے جا زور دیا جائے گا اور حقیقی تقویٰ کی تخم ریزی اور آبیاری کے بغیر مصنوعی طور پر چند ظاہری احکام کی تعمیل کرا دی جائے گی، تو نتائج وہی کچھ ہوں گے جن کا میں نے ابھی آپ سے ذکر کیا ہے۔ پہلی چیز دیر طلب اور صبر آزما ہے۔ بتدریج نشو و نما پاتی اور ایک مدت کے بعد برگ و بار لاتی ہے، جس طرح بیج سے درخت کے پیدا ہونے اور پھل پھول لانے میں کافی دیر لگا کرتی ہے۔ اسی لیے سطحی مزاج کے لوگ اس سے اُکتا جاتے ہیں۔ بخلاف اس کے دوسری چیزیں جلدی اور آسانی سے پیدا کر لی جاتی ہیں، جیسے ایک لکڑی میں پتے اور پھل اور پھول باندھ کر درخت کی سی شکل بنا دی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ تقویٰ کی پیداوار کا یہی ڈھنگ آج مقبول ہے، لیکن ظاہر ہے کہ جو توقعات ایک فطری درخت سے پوری ہوتی ہیں، وہ اس قسم کے مصنوعی درختوں سے تو کبھی پوری نہیں ہو سکتیں۔
ذہن نشین کر لیں کہ اوپر کی یہ دونوں منزلیں کبھی نہیں اُٹھ سکتیں جب تک ایمان کی بنیاد مضبوط نہ ہو جائے اور اس کی مضبوطی کا ثبوت عملی اسلام یعنی بالفعل اطاعت و فرمانبرداری سے نہ مل جائے۔
تقویٰ
تقویٰ کی بات کرنے سے پہلے یہ سمجھنے کی کوشش کیجیے کہ تقویٰ ہے کیا چیز۔ تقویٰ حقیقت میں کسی وضع و ہیئت اور کسی خاص طرزِ معاشرت کا نام نہیں ہے بلکہ دراصل وہ نفس کی اس کیفیت کا نام ہے جو خدا ترسی اور احساسِ ذمہ داری سے پیدا ہوتی ہے اور زندگی کے ہر پہلو میں ظہور کرتی ہے۔ حقیقی تقویٰ یہ ہے کہ انسان کے دل میں خدا کا خوف ہو، عبدیت کا شعور ہو، خدا کے سامنے اپنی ذمہ داری و جواب دہی کا احساس ہو، اور اس بات کا زندہ ادراک موجود ہو کہ دنیا ایک امتحان گاہ ہے جہاں خدا نے ایک مہلتِ عمر دے کر مجھے بھیجا ہے اور آخرت میں میرے مستقبل کا فیصلہ بالکل اس چیز پر منحصر ہے کہ میں اس دیے ہوئے وقت کے اندر اس امتحان گاہ میں اپنی قوتوں و قابلیتوں کو کس طرح استعمال کرتا ہوں، اس سروسامان پر کس طرح تصرف کرتا ہوں جو مشیتِ الٰہی کے تحت مجھے دیا گیا ہے، اور ان انسانوں کے ساتھ کیا معاملہ کرتا ہوں جن سے قضائے الٰہی نے (میرا) واسطہ (قائم کیا ہے)۔ (یہ احساس) جب کسی شخص کے اندر پیدا ہو جائے (تو) اُس کا ضمیر بیدار ہو جاتا ہے۔ اس کی بصیرت تیز (ہو جاتی ہے اور وہ پہچان لیتا اس چیز) کو) جو خدا کی پسند سے مختلف ہو۔ وہ اپنے نفس کا آپ جائزہ لینے لگتا ہے کہ میرے اندر کس قسم کے رجحانات و میلانات پرورش پا رہے ہیں۔ وہ اپنی زندگی کا خود محاسبہ کرنے لگتا ہے کہ میں کن کاموں میں اپنا وقت اور اپنی قوتیں صرف کر رہا ہوں۔ وہ صریح ممنوعات تو درکنار، مشتبہ امور میں بھی مبتلا ہوتے ہوئے خود بخود جھجکنے لگتا ہے۔ اس کا احساسِ فرض اسے مجبور کر دیتا ہے کہ تمام اوامر کو پوری فرمانبرداری کے ساتھ بجالائے۔ اس کی خدا ترسی ہر اس موقع پر اُس کے قدم میں لرزش پیدا کر دیتی ہے جہاں حدود اللہ سے تجاوز کا اندیشہ ہو۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی نگہداشت آپ سے آپ اس کا وظیفہ بن جاتی ہے اور اس خیال سے بھی اس کا ضمیر کانپ اٹھتا ہے کہ کہیں اس سے کوئی بات حق کے خلاف سرزد نہ ہو جائے۔ یہ کیفیت کسی ایک شکل یا کسی مخصوص دائرے میں ہی ظاہر نہیں ہوتی بلکہ آدمی کے پورے طرزِ فکر اور اس کے تمام کارنامۂ زندگی میں اس کا ظہور ہوتا ہے اور اس کے اثر سے ایک ایسی ہموار و یک رنگ سیرت پیدا ہوتی ہے جس میں آپ ہر پہلو سے ایک ہی طرز کی پاکیزگی و صفائی پائیں گے۔ بخلاف اس کے جہاں تقویٰ بس اس چیز کا نام رکھ لیا گیا ہے کہ آدمی چند مخصوص شکلوں کی پابندی اور مخصوص طریقوں کی پیروی اختیار کرے اور مصنوعی طور پر اپنے آپ کو ایک ایسے سانچے میں ڈھال لے جس کی پیمائش کی جاسکتی ہو، وہاں آپ دیکھیں گے کہ وہ چند اشکالِ تقویٰ جو سکھا دی گئی ہیں، اُن کی پابندی تو انتہائی اہتمام کے ساتھ ہو رہی ہے، مگر اس کے ساتھ زندگی کے دوسرے پہلوؤں میں وہ اخلاق، وہ طرزِ فکر اور وہ طرزِ عمل بھی ظاہر ہو رہے ہیں جو مقامِ تقویٰ تو درکنار، ایمان کے ابتدائی مقتضیات سے بھی مناسبت نہیں رکھتے۔ یعنی حضرت مسیح کی تمثیلی زبان میں مچھر چھانے جا رہے ہیں اور اونٹ بے تکلفی کے ساتھ نگلے جا رہے ہیں۔
حقیقی تقویٰ اور مصنوعی تقویٰ کے اس فرق کو یوں سمجھیے کہ ایک شخص تو وہ ہے جس کے اندر طہارت و نظافت کی حس موجود ہے اور پاکیزگی کا ذوق پایا جاتا ہے۔ ایسا شخص گندگی سے فی نفسہٖ نفرت کرے گا خواہ وہ جس شکل میں بھی ہو اور طہارت کو بجائے خود اختیار کرلے گا خواہ اس کے مظاہر کا احاطہ نہ ہو سکتا ہو۔ بخلاف اس کے ایک دوسرا شخص ہے جس کے اندر طہارت کی حس موجود نہیں ہے مگر وہ گندگیوں اور طہارتوں کی ایک فہرست لیے پھرتا ہے جو کہیں سے اس نے نقل کر لی ہیں۔ یہ شخص ان گندگیوں سے تو سخت اجتناب کرے گا جو اس نے فہرست میں لکھی ہوئی پائی ہیں، مگر بے شمار ایسی گھناؤنی چیزوں میں آلودہ پایا جائے گا جو ان گندگیوں سے بدرجہا زیادہ ناپاک ہوں گی جن سے وہ بچ رہا ہے، صرف اس وجہ سے کہ وہ اس فہرست میں درج ہونے سے رہ گئیں۔ یہ فرق جو میں آپ سے عرض کر رہا ہوں، یہ محض ایک نظری فرق نہیں ہے بلکہ آپ اس کو اپنی آنکھوں سے اُن حضرات کی زندگیوں میں دیکھ سکتے ہیں جن کے تقویٰ کی دھوم مچی ہوئی ہے۔ ایک طرف اُن کے ہاں جزئیاتِ شرع کا یہ اہتمام ہے کہ داڑھی ایک خاص مقدار سے کچھ بھی کم ہو تو فسق کا فیصلہ نافذ کر دیا جاتا ہے۔ پائنچہ ٹخنے سے ذرا نیچے ہو جائے تو جہنم کی وعید سنا دی جاتی ہے۔ ان کے نزدیک (مقررہ ہیئت) سے ہٹنا گویا دین سے نکل جانا ہے، لیکن دوسری طرف دین کے اصول و کلیات سے اُن کی غفلت اس حد کو پہنچی ہوئی ہے کہ مسلمانوں کی پوری زندگی کا مدار انہوں نے رخصتوں اور سیاسی مصلحتوں پر رکھ دیا ہے۔ اقامتِ دین کی سعی سے گریز کی بے شمار راہیں انہوں نے نکال رکھی ہیں۔ غلبۂ کفر کے تحت "اسلامی زندگی" کے نقشے بنانے ہی میں ان کی ساری محنتیں اور کوششیں صرف ہو رہی ہیں اور انہی کی غلط رہنمائی نے مسلمانوں کو اس چیز پر مطمئن کیا ہے کہ ایک غیر اسلامی نظام کے اندر رہتے ہوئے، بلکہ اس کی خدمت کرتے ہوئے بھی ایک محدود دائرے میں مذہبی زندگی بسر کر کے وہ دین کے سارے تقاضے پورے کر سکتے ہیں۔ اس سے آگے کچھ مطلوب نہیں ہے جس کے لیے وہ سعی کریں۔ پھر اس سے بھی زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ اگر کوئی ان کے سامنے دین کے اصلی مطالبے پیش کرے اور سعیِ اقامتِ دین کی طرف توجہ دلائے تو صرف یہی نہیں کہ وہ اس کی بات سنی ان سنی کر دیتے ہیں، بلکہ کوئی حیلہ، کوئی بہانہ اور کوئی چال ایسی نہیں چھوڑتے جو اس کام سے خود بچنے اور مسلمانوں کو بچانے کے لیے استعمال نہ کریں۔ اس پر بھی اُن کے تقویٰ پر کوئی آنچ نہیں آتی اور نہ مذہبی ذہنیت رکھنے والوں میں سے کسی کو یہ شک ہوتا ہے کہ ان کے تقویٰ میں کوئی کسر ہے۔ اسی طرح حقیقی اور مصنوعی تقویٰ کا فرق بے شمار شکلوں میں ظاہر ہوتا رہتا ہے مگر آپ اسے تب ہی محسوس کر سکتے ہیں کہ تقویٰ کا اصلی تصور آپ کے ذہن میں واضح طور پر موجود ہو۔
یعنی ان باتوں کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ وضع قطع، لباس اور معاشرت کے ظاہری پہلوؤں کے متعلق جو آداب و احکام حدیث سے ثابت ہیں، میں ان کا استخفاف کرنا چاہتا ہوں یا انہیں غیر ضروری قرار دیتا ہوں۔ خدا کی پناہ اس سے کہ میرے دل میں ایسا کوئی خیال ہو۔ دراصل جو کچھ میں آپ کے ذہن نشین کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اصل شے حقیقتِ تقویٰ ہے نہ کہ یہ مظاہر۔ حقیقتِ تقویٰ جس کے اندر پیدا ہو گی، اس کی پوری زندگی ہمواری و یک رنگی کے ساتھ اسلامی زندگی بنے گی۔ اسلام اپنی پوری ہمہ گیری کے ساتھ اس کے خیالات میں، اس کے جذبات و رجحانات میں، اس کے مذاقِ طبعیت میں، اس کے اوقات کی تقسیم اور اس کی قوتوں کے مصارف میں، سعی و جہد کے راستوں میں، اس کے طرزِ زندگی اور معاشرت میں، اس کی کمائی اور خرچ میں، غرض اس کی حیاتِ دنیوی کے سارے ہی پہلوؤں میں رفتہ رفتہ نمایاں ہوتا چلا جائے گا۔ بخلاف اس کے اگر مظاہر کو حقیقت پر مقدم رکھا جائے گا اور ان پر بے جا زور دیا جائے گا اور حقیقی تقویٰ کی تخم ریزی اور آبیاری کے بغیر مصنوعی طور پر چند ظاہری احکام کی تعمیل کرا دی جائے گی، تو نتائج وہی کچھ ہوں گے جن کا میں نے ابھی آپ سے ذکر کیا ہے۔ پہلی چیز دیر طلب اور صبر آزما ہے۔ بتدریج نشو و نما پاتی اور ایک مدت کے بعد برگ و بار لاتی ہے، جس طرح بیج سے درخت کے پیدا ہونے اور پھل پھول لانے میں کافی دیر لگا کرتی ہے۔ اسی لیے سطحی مزاج کے لوگ اس سے اُکتا جاتے ہیں۔ بخلاف اس کے دوسری چیزیں جلدی اور آسانی سے پیدا کر لی جاتی ہیں، جیسے ایک لکڑی میں پتے اور پھل اور پھول باندھ کر درخت کی سی شکل بنا دی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ تقویٰ کی پیداوار کا یہی ڈھنگ آج مقبول ہے، لیکن ظاہر ہے کہ جو توقعات ایک فطری درخت سے پوری ہوتی ہیں، وہ اس قسم کے مصنوعی درختوں سے تو کبھی پوری نہیں ہو سکتیں۔
احسان
اب احسان کو لے کر جو اسلام کی بلند ترین منزل ہے۔ احسان درحقیقت اللہ اور اس کے رسول اور اس کے دین کے ساتھ اُس گہرے لگاؤ، اُس گہری محبت، اُس کی وفاداری اور فدائیت و جاں نثاری کا نام ہے جو انسان کو فنا فی الاسلام کر دے۔ تقویٰ کا اساسی تصور خدا کا خوف ہے جو انسان کو اس کی ناراضی سے بچنے پر آمادہ کرے اور احسان کا اساسی تصور خدا کی محبت ہے جو آدمی کو اُس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اُبھارے۔ ان دونوں چیزوں کے فرق کو ایک مثال سے یوں سمجھیے کہ حکومت کے ملازموں میں سے ایک تو وہ لوگ ہیں جو نہایت فرض شناسی و تن دہی سے وہ تمام خدمات ٹھیک ٹھاک بجالاتے ہیں جو اُن کے سپرد کی گئی ہوں۔ تمام ضابطوں اور قاعدوں کی پوری پوری پابندی کرتے ہیں اور کوئی کام ایسا نہیں کرتے جو حکومت کے لیے قابلِ اعتراض ہو۔ دوسرا طبقہ ان مخلص وفاداروں اور جاں نثاروں کا ہوتا ہے جو دل و جان سے حکومت کے خیر خواہ ہوتے ہیں۔ صرف وہی خدمات انجام نہیں دیتے جو ان کے سپرد کی گئی ہوں، بلکہ اُن کے دل کو ہمیشہ یہ فکر لگی رہتی ہے کہ سلطنت کے مفاد کو زیادہ سے زیادہ کس طرح ترقی دی جائے۔ اس دُھن میں وہ فرض اور مطالبے سے زائد کام کرتے ہیں۔ سلطنت پر کوئی آنچ آئے تو وہ جان و مال اور اولاد سب کچھ قربان کرنے کے لیے آمادہ ہو جاتے ہیں۔ قانون کی کہیں خلاف ورزی ہو تو اُن کے دل کو چوٹ لگتی ہے۔ کہیں بغاوت کے آثار پائے جائیں تو وہ بے چین ہو جاتے ہیں اور اسے فرو کرنے میں جان لڑا دیتے ہیں۔ جان بوجھ کر خود سلطنت کو نقصان پہنچانا تو درکنار، اس کے مفاد کو کسی طرح نقصان پہنچتے دیکھنا بھی ان کے لیے ناقابلِ برداشت ہوتا ہے اور اس خرابی کے رفع کرنے میں وہ اپنی حد تک کوشش کا کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھتے۔ اُن کی دلی خواہش یہ ہوتی ہے کہ دنیا میں بس ان کی سلطنت ہی کا بول بالا ہو اور زمین کا کوئی چپہ ایسا باقی نہ رہے جہاں اس کا پرچم نہ اُڑے۔ ان دونوں میں سے پہلی قسم کے لوگ اس حکومت کے متقی ہوتے ہیں اور دوسری قسم کے لوگ اس کے محسن۔ اگرچہ ترقیاں متقی کو بھی ملتی ہیں اور بہرحال اُن کے نام اچھے ہی ملازموں کی فہرست میں لکھے جاتے ہیں، مگر جو سرفرازیاں محسنین کے لیے ہیں، ان میں کوئی دوسرا اُن کا شریک نہیں ہوتا۔ بس اسی مثال پر اسلام کے متقیوں اور محسنوں کو بھی قیاس کر لیجیے۔ اگرچہ متقی بھی قابلِ قدر اور قابلِ اعتماد لوگ ہیں، مگر اسلام کی اصل طاقت محسنین کا گروہ ہے۔ اصلی کام جو اسلام چاہتا ہے کہ دنیا میں ہو، وہ اسی گروہ سے بن آسکتا ہے۔
احسان کی اس حقیقت کو سمجھ لینے کے بعد آپ خود ہی اندازہ کر لیں کہ جو لوگ اپنی آنکھوں سے خدا کے دین کو کفر سے مغلوب دیکھیں، جن کے سامنے حدود اللہ پامال ہی نہیں بلکہ کالعدم کر دی جائیں، خدا کا قانون عملاً ہی نہیں بلکہ باضابطہ منسوخ کر دیا جائے، خدا کی زمین پر خدا کا نہیں بلکہ اُس کے باغیوں کا بول بالا ہو رہا ہو، نظامِ کفر کے تسلط سے نہ صرف انسانی سوسائٹی میں اخلاقی و تمدنی فساد برپا ہو بلکہ خود امتِ مسلمہ بھی نہایت سرعت کے ساتھ اخلاقی و عملی گمراہیوں میں مبتلا ہو رہی ہو، اور یہ سب کچھ دیکھ کر بھی ان کے دلوں میں نہ کوئی بے چینی پیدا ہو، نہ اس حالت کو بدلنے کے لیے کوئی جذبہ بھڑکے، بلکہ اس کے برعکس وہ اپنے نفس کو اور عام مسلمانوں کو غیر اسلامی نظام کے غلبے پر اصولاً و عملاً مطمئن کر دیں، اُن کا شمار آخر محسنین میں کس طرح ہو سکتا ہے؟ اس جرمِ عظیم کے ساتھ محض یہ بات کہ وہ کچھ نوافل و اذکار اور اوراد و وظائف کے پابند ہیں یا چند ظاہری شکلوں میں دینداری کا مظاہرہ کرتے ہیں، انہیں احسان کے مقام پر فائز نہیں کر سکتی۔
باب سوم
عملی خاکہ
- ہمارا طریقِ کار اور اس کی حکمتیں اور فائدے
- ہمارا طریقِ تربیت
- لائحۂ عمل
ہمارا طریقِ کار اور اس کی حکمتیں اور فائدے
پہلا فائدہ
میں آپ کے سامنے مختصر طور پر اس طریقِ کار کو پیش کروں گا جو ہم نے اپنی اس دعوت کے لیے اختیار کیا ہے۔ ہماری دعوت کی طرح ہمارا یہ طریقِ کار بھی دراصل قرآن اور انبیاء علیہم السلام کے طریقے سے ماخوذ ہے۔ جو لوگ ہماری دعوت قبول کرتے ہیں، ان سے ہمارا اوّلین مطالبہ یہ ہوتا ہے کہ اپنے آپ کو عملاً اور بالکل بندگیِ رب میں دے دو اور ان تمام چیزوں سے اپنی زندگی کو پاک کرنے کی کوشش کرو جو تمہارے ایمان کی ضد ہیں۔ یہیں سے ان کے اخلاق و سیرت کی تعمیر اور ان کی آزمائش کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ جن لوگوں نے بڑی بڑی امنگوں (Ambitions) کے ساتھ تعلیم حاصل کی تھی، انہیں اپنے اونچے اونچے خوابوں کی عمارتیں اپنے ہاتھ سے ڈھا دینی پڑتی ہیں اور اس زندگی میں قدم رکھنا پڑتا ہے جس میں جاہ و منصب اور معاشی خوشحالیاں کے امکانات انہیں اپنی زندگی میں تو درکنار، اپنی دوسری تیسری پشت میں بھی دور دور نظر نہیں آتے۔ جن لوگوں کی معاشی خوشحالی کسی مرہونہ زمین یا کسی مغصوبہ جائیداد یا کسی ایسی میراث پر قائم تھی جس میں حقداروں کے دامن جھاڑ کر، اس خوشحالی سے کنارہ کش ہو جانا پڑتا ہے۔ صرف اس لیے کہ جس خدا کو انہوں نے اپنا آقا تسلیم کیا ہے، اس کے منشاء کے خلاف کسی مال کا کھانا ان کے ایمان کے منافی ہے۔ جن لوگوں کے وسائلِ زندگی غیر شرعی تھے یا نظامِ باطل سے وابستہ تھے، ان کو ترقیوں کے خواب دیکھنا تو درکنار، موجودہ وسائل سے حاصل کی ہوئی روٹی کا بھی ایک ایک ٹکڑا حلق سے اتارنا ناگوار ہونے لگتا ہے اور وہ ان وسائل کو پاک تر وسائل سے، خواہ وہ حقیر ترین ہی کیوں نہ ہوں، بدلنے کے لیے ہاتھ پاؤں مارنے لگتا ہے۔ پھر جیسا کہ ابھی میں آپ کے سامنے بیان کر چکا ہوں، اس مسلک کو عملاً اختیار کرتے ہی آدمی کا قریب ترین ماحول اس کا دشمن بن جاتا ہے۔ اس کے اپنے والدین، اس کے بھائی بند، اس کی بیوی اور بچے اور اس کے جگری دوست سب سے پہلے اس کے ایمان کے ساتھ قوت آزمائی شروع کر دیتے ہیں اور بسا اوقات اس مسلک کا پہلا اثر ظاہر ہوتے ہی آدمی کا اپنا گہوارہ جس میں وہ نازوں سے پالا گیا تھا، اس کے لیے زنبور خانہ بن کر رہ جاتا ہے۔ یہ ہے وہ ابتدائی تربیت گاہ جو صالح و مخلص اور قابلِ اعتماد سیرت کے کارکن فراہم کرنے کے لیے قدرتِ الٰہی نے ہمارے لیے خود بخود پیدا کر دی ہے۔ ان ابتدائی آزمائشوں میں جو لوگ ناکام ہو جاتے ہیں، وہ آپ سے آپ چھٹ کر الگ ہو جاتے ہیں اور ہمیں ان کو چھانٹ پھینکنے کی زحمت گوارا نہیں کرنی پڑتی اور جو لوگ ان میں پورے اترتے ہیں، وہ ثابت کر دیتے ہیں کہ ان کے اندر کم از کم اتنا اخلاص، اتنی یکسوئی، اتنا صبر اور عزم، اتنی مضبوطیِ سیرت ضرور موجود ہے جو خدا کی راہ میں قدم رکھنے اور پہلے مرحلۂ امتحان سے کامیاب گزر جانے یہ مضمون مولانا محترم کی اس تقریر کا دوسرا حصہ ہے جس کا عنوان ہے ”دعوتِ اسلامی اور اس کا طریقِ کار“۔ اس کا پہلا حصہ ہم کتاب کے پہلے باب میں نقل کر آئے ہیں۔ اس حصے کو بھی پڑھتے وقت برِعظیم ہند کی تقسیم سے پہلے کے حالات کو ذہن میں رکھنا چاہیے۔ (مرتب) کے لیے ضروری ہے۔ اس مرحلے کے کامیاب لوگوں کو ہم نسبتاً زیادہ بھروسے اور اطمینان کے ساتھ لے کر دوسرے مرحلے کی طرف پیش قدمی کر سکتے ہیں جو آگے آنے والا ہے اور جس میں اس سے زیادہ آزمائشیں پیش آنے والی ہیں۔ وہ آزمائشیں پھر ایک دوسری بھٹی تیار کریں گی جو اسی طرح کھوٹے سکوں کو چھانٹ کر پھینک دے گی اور زرِ خالص کو اپنی گود میں رکھ لے گی۔ جہاں تک ہمارا علم ساتھ دیتا ہے، ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ انسانی معادن سے کارآمد عناصر کو چھانٹنے اور ان کو زیادہ کارآمد بنانے کے لیے یہی طریقہ اختیار کیا جاتا رہا ہے اور جو تقویٰ ان بھٹیوں میں تیار ہوتا ہے، چاہے وہ فقہی ناپ تول میں پورا نہ اترے اور خانقاہی معیاروں پر بھی ناقص نکلے، مگر صرف اسی طرز سے تیار کیے ہوئے تقویٰ میں یہ طاقت ہو سکتی ہے کہ انتظامِ دنیا کی بھاری ذمہ داریوں کا بوجھ سنبھال سکے اور ان عظیم الشان امانتوں کا بار اٹھا سکے جن کے ایک قلیل جزو کا وزن بھی خانقاہی تقویٰ کی برداشت سے باہر ہے۔
دوسرا فائدہ
اس کے ساتھ دوسری چیز جو ہم اپنے ارکان پر لازم کرتے ہیں، یہ ہے کہ جس حق کی روشنی انہوں نے پائی ہے، اس سے وہ اپنے قریب ترین ماحول کو اور ان سب لوگوں کو جن سے قرابت یا لین دین کا تعلق ہے، روشناس کرانے کی کوشش کریں اور انہیں اس کی طرف آنے کی دعوت دیں۔ یہاں پھر آزمائشوں کا ایک سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ سب سے پہلے تو اس تبلیغ کی وجہ سے مبلغ کی اپنی زندگی درست ہوتی ہے کیونکہ یہ کام شروع کرتے ہی بے شمار خود بین اور دیدہ بان (Searchlight) اس کی ذات کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں اور مبلغ کی زندگی میں، اگر کوئی چھوٹی چیز بھی اُس کے ایمان اور اس کی دعوت کے منافی موجود ہو تو یہ مفت کے محتسب اسے نمایاں کر کے مبلغ کے سامنے رکھ دیتے ہیں اور تازیانے لگا لگا کر اسے مجبور کرتے ہیں کہ اپنی زندگی کو اس سے پاک کرے۔ اگر مبلغ فی الواقع اس دعوت پر سچے دل سے ایمان لایا ہو تو وہ ان تنقیدوں پر جھنجھلانے اور تاویلوں سے اپنے عمل کی غلطی کو چھپانے کی کوشش نہ کرے گا، بلکہ ان لوگوں کی خدمات سے فائدہ اٹھائے گا جو مخالفت کی نیت سے ہی سہی، مگر بہرحال اس کی اصلاح میں بغیر کسی معاوضے کے سعی و محنت کرتے رہتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جس برتن کو بہت سے ہاتھ مانجھنے میں لگ جائیں اور مانجھتے ہی چلے جائیں، وہ چاہے کتنا ہی کثیف ہو، آخرکار مجلّٰی و مصفا ہو کر رہے گا۔
تیسرا فائدہ
پھر اس تبلیغ سے ہمارے کارکنوں میں بہت سے اوصاف کو بالیدگی حاصل ہوتی ہے جنہیں آگے چل کر دوسرے میدانوں میں کسی اور شکل سے ہم کو استعمال کرنا ہے۔ جب مبلغ کو طرح طرح کے دل شکن حالات سے گزرنا پڑتا ہے، کہیں اس کی ہنسی اڑائی جاتی ہے، کہیں اس پر طعنے اور آوازے کسے جاتے ہیں، کہیں گالیوں اور دوسری جہالتوں سے اس کی تواضع کی جاتی ہے، کہیں اس پر الزامات کی بوچھاڑ کی جاتی ہے، کہیں اسے فتنوں میں الجھانے کی نت نئی تدبیریں کی جاتی ہیں، کہیں اسے گھر سے نکال دیا جاتا ہے، میراث سے محروم کیا جاتا ہے، دوستیاں اور رشتہ داریاں اس سے منقطع کر لی جاتی ہیں اور اس کے لیے اپنے ماحول میں سانس تک لینا دشوار کر دیا جاتا ہے، تو ان حالات میں جو کارکن نہ ہمت ہارے، نہ حق سے پھرے، نہ باطل پرستوں کے آگے سپر ڈالے، نہ مشتعل ہو کر اپنے دماغ کا توازن کھوئے، بلکہ اس کے برعکس حکمت اور تدبر اور ثابت قدمی اور راست بازی اور پرہیزگاری اور ایک سچے حق پرست کی سی ہمدردی و خیر خواہی کے ساتھ اپنے مسلک پر قائم اور اپنے ماحول کی اصلاح میں پیہم کوشاں رہے، اس کے اندر ان اوصافِ عالیہ کا پیدا ہونا اور نشوونما پانا ایسا ہے جو آگے چل کر ہماری اس جدوجہد کے دوسرے مرحلوں میں اس سے بہت زیادہ پیمانے پر درکار ہوں گے۔
طریقِ دعوت
اس تبلیغ کے سلسلے میں ہم نے وہی طریقِ کار اپنے کارکنوں کو سکھانے کی کوشش کی ہے جو قرآن مجید میں تعلیم فرمایا گیا ہے، یعنی یہ کہ حکمت اور موعظۂ حسنہ کے ساتھ خدا کے راستے کی طرف دعوت دیں، تدریج اور فطری ترتیب کو ملحوظ رکھتے ہوئے لوگوں کے سامنے دین کے اوّلین بنیادی اصولوں کو اور پھر رفتہ رفتہ ان کے مقتضیات اور لوازم کو پیش کریں، کسی کو اس کی قوتِ ہضم سے بڑھ کر خوراک دینے کی کوشش نہ کریں، فروع کو اصول پر مقدم نہ کریں، غفلت اور اعتقادی و عملی گمراہیوں میں پھنسے ہوئے لوگوں کے ساتھ نفرت و کراہت کا برتاؤ کرنے کے بجائے ہمدردی و خیر خواہی کے ساتھ ان کے علاج کی فکر کریں۔ گالیوں اور پتھروں کے جواب میں دعائے خیر کرنا سکھائیں، ظلم اور ایذا رسانی پر صبر کریں، جاہلوں سے بحثوں اور مناظروں اور نفسانی مجادلوں میں نہ الجھیں، لغو اور بیہودہ باتوں سے عالی ظرف اور شریف لوگوں کی طرح درگزر کریں، جو لوگ حق سے مستغنی بنے ہوئے ہیں، اُن کے پیچھے پڑنے کے بجائے ان لوگوں کی طرف توجہ کریں جن کے اندر کچھ طلبِ حق پائی جاتی ہو، خواہ وہ دنیوی اعتبار سے کتنے ہی ناقابلِ توجہ سمجھے جاتے ہوں اور اپنی اس تمام سعی و جہد میں ریا اور نمود و نمائش سے بچیں، اپنے کارناموں کو گنوانے اور فخر کے ساتھ ان کا مظاہرہ کرنے اور لوگوں کی توجہات اپنی طرف کھینچنے کی ذرہ برابر کوشش نہ کریں، بلکہ جو کچھ کریں اس نیت اور اس یقین و اطمینان کے ساتھ کریں کہ ان کا سارا عمل خدا کے لیے ہے اور خدا بہرحال ان کی خدمات سے بھی واقف ہے اور ان کی خدمات کی قدر بھی اسی کے ہاں ہونی ہے، خواہ خلق اس سے واقف ہو یا نہ ہو اور خلق کی طرف سے سزا ملے یا جزا۔ یہ طریقِ کار غیر معمولی صبر اور حلم اور لگاتار محنت چاہتا ہے۔ اس میں ایک مدتِ دراز تک مسلسل کام کرنے کے بعد بھی شاندار نتائج کی وہ ہری بھری فصل لہلہاتی نظر نہیں آتی جو سطحی اور نمائشی کام شروع کرتے ہی دوسرے دن سے تماشائیوں اور مداریوں کا دل لبھانا شروع کر دیتی ہے۔ اس میں ایک طرف خود کارکن کے اندر وہ گہری بصیرت، وہ سنجیدگی، وہ پختہ کاری اور وہ معاملہ فہمی پیدا ہوتی ہے جو اس تحریک کے زیادہ صبر آزما اور زیادہ محنت و حکمت چاہنے والے مراحل میں درکار ہونے والی ہے اور دوسری طرف اس سے تحریک اگرچہ آہستہ رفتار سے چلتی ہے مگر اس کا ایک ایک قدم مستحکم چلا جاتا ہے۔ صرف ایسے ہی طریقِ تبلیغ سے سوسائٹی کا مکھن نکال کر تحریک میں جذب کیا جا سکتا ہے۔ اوچھے اور سطحی لوگوں کی بھیڑ جمع کرنے کی بجائے اس طریقِ تبلیغ سے سوسائٹی کے صالح ترین عناصر تحریک کی طرف کھنچتے ہیں اور وہ سنجیدہ (Serious) کارکن تحریک کو میسر آتے ہیں جن میں سے ایک ایک آدمی کی شرکت ہزار بوالفضولوں کے انبوہ سے زیادہ قیمت ہوتی ہے۔
طریقِ کار کا ایک اہم جز اور اس کے مضمرات
ہمارے طریقِ کار کا ایک بڑا اہم جز یہ ہے کہ ہم نے اپنے آپ کو نظامِ باطل کی قانونی اور عدالتی حفاظت سے خود بخود محروم کر لیا ہے اور علی الاعلان دنیا کو بتا دیا ہے کہ ہم اپنے انسانی حقوق، اپنے مال و جان اور عزت و آبرو، کسی چیز کی عصمت بھی قائم رکھنے کے لیے اس نظام کی مدد حاصل کرنا نہیں چاہتے جس کو ہم باطل سمجھتے ہیں، لیکن اس چیز کو ہم نے تمام ارکان پر لازم نہیں کیا ہے بلکہ ان کے سامنے ایک بلند معیار رکھ دینے کے بعد ان کو اختیار دے دیا ہے کہ چاہیں تو اس معیار کی انتہائی بلندیوں تک پہنچ جائیں ورنہ حالات کی مجبوریوں سے شکست کھا کھا کر جس قدر پستی میں گرنا چاہیں، گرتے چلے جائیں۔ البتہ پستی کی ایک حد ہم نے مقرر کر دی ہے کہ اس سے گزر جانے والے کو ہم اپنی جماعت میں نہ رکھیں گے۔ یعنی جو شخص جھوٹا مقدمہ بنا لے یا جھوٹی شہادت دے یا ایسی مقدمہ بازی میں الجھے جس کے لیے کسی مجبوری کا عذر نہ پیش کیا جا سکے، بلکہ وہ سراسر منفعت طلبی یا نفسانیت کی تسکین یا دوستی اور رشتہ داری کی عصبیت ہی پر مبنی ہو، ہماری جماعت میں جگہ نہیں پا سکتا۔
بظاہر لوگ ہمارے اس طریقِ کار کی حکمتوں کو، جو ہم نے قانون و عدالت کے معاملے میں اختیار کیا ہے، پوری طرح نہیں سمجھتے۔ اس لیے وہ طرح طرح کے سوالات ہمارے سامنے پیش کرتے ہیں۔ مگر فی الحقیقت اس کے بے شمار فائدے ہیں۔ اس کا اوّلین فائدہ یہ ہے کہ ہم اپنا ایک بااصول جماعت ہونا اپنے عمل سے اور ایسے عمل سے ثابت کر دیتے ہیں جو محض تفریحی نوعیت ہی نہیں رکھتا بلکہ صریح طور پر نہایت تلخ اور انتہائی کڑی آزمائشیں اپنے دامن میں لیے ہوئے ہے۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ خدا کے سوا کسی کو انسانی زندگی کے لیے قانون بنانے کا حق نہیں ہے اور جب ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ حاکمیت (Sovereignty) صرف خدا کا حق ہے اور خدا کی اطاعت اور اس کے قانون کی پابندی کے بغیر کوئی زمین میں حکم چلانے کا مجاز نہیں ہے اور جب ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ جو قانونِ الٰہی کی سند کے بغیر معاملاتِ انسانی کا فیصلہ کرے وہ کافر اور فاسق اور ظالم ہے، تو ہمارے اس عقیدے اور ہمارے اس دعوے سے خود بخود یہ بات لازم آجاتی ہے کہ ہم اپنے حقوق کی بنیاد کسی غیر الٰہی قانون پر نہ رکھیں اور حق اور غیر حق کا فیصلہ کسی ایسے حاکم کی حکومت پر نہ چھوڑیں جس کو ہم باطل سمجھتے ہیں۔ اپنے عقیدے کے اس تقاضے کو اگر ہم سخت سے سخت نقصانات اور انتہائی خطرات کے مقابلے میں پورا کر کے دکھا دیں تو یہ ہماری راستی اور ہماری مضبوطیِ سیرت اور ہمارے عقیدے اور عمل کی مطابقت کا ایسا بیّن ثبوت ہو گا جس سے بڑھ کر کسی دوسرے ثبوت کی حاجت نہیں رہتی اور اگر کسی نفع کی اُمید یا کسی نقصان کا خطرہ یا کسی ظلم و ستم کی چوٹ ہم کو مجبور کر دے کہ ہم اپنے عقیدے کے خلاف کام کر گزریں تو یہ ہماری کمزوری کا اور ہماری سیرت کے بودے پن کا ایک نمایاں ترین ثبوت ہو گا جس کے بعد کسی دوسرے ثبوت کی ضرورت نہ رہے۔
اس کا دوسرا فائدہ یہ ہے کہ اپنے ارکان کی پختگی اور ان کے قابلِ اعتماد یا ناقابلِ اعتماد ہونے کا اندازہ کرنے کے لیے ہمارے پاس یہ ایک ایسی کسوٹی ہو گی جس سے ہم بآسانی یہ معلوم کرتے رہیں گے کہ ہم میں سے کون لوگ کتنے پختہ ہیں اور کس سے کس قسم کی آزمائشوں میں ثابت قدم رہنے کی توقع کی جاسکتی ہے۔
اس کا تیسرا اور عظیم الشان فائدہ یہ ہے کہ ہمارے ارکان یہ مسلک اختیار کرنے کے بعد آپ سے آپ اس بات پر مجبور ہو جائیں گے کہ سوسائٹی کے ساتھ اپنے تعلقات کو قانون کی بنیادوں پر قائم کرنے کے بجائے اخلاق کی بنیادوں پر قائم کریں۔ ان کو اپنا اخلاقی معیار اتنا بلند کرنا پڑے گا، اپنے آپ کو اپنے ماحول میں اس قدر راست باز، متدین، اتنا خدا ترس اور اس قدر خیر مجسم بنانا پڑے گا کہ لوگ خود بخود ان کے حقوق، ان کی عزت اور ان کی جان و مال کا احترام کرنے پر مجبور ہو جائیں۔ کیونکہ اس اخلاقی تحفظ کے سوا ان کے لیے دنیا میں اور کوئی تحفظ نہ ہو گا۔ اور قانونی تحفظ سے محروم ہونے اور پھر اخلاقی تحفظ بھی حاصل نہ کرنے کی صورت میں ان کی حیثیت دنیا میں بالکل ایسی ہو کر رہ جائے گی جیسے جنگل میں ایک بکری بھیڑیوں کے درمیان رہتی ہو۔
اس کا چوتھا فائدہ یہ ہے، اور یہ فائدہ بھی کچھ کم اہم نہیں ہے کہ ہم اس طرح اپنے آپ کو اور اپنے مفادات و حقوق کو خطرے میں ڈال کر موجودہ سوسائٹی کی اخلاقی حالت کو برہنہ کر کے دنیا کے سامنے رکھ دیں۔ جب لوگ یہ ماننے کے بعد کہ ہم پولیس اور عدالت سے اپنی حفاظت کے لیے کوئی مدد لینے والے نہیں ہیں، ہمارے حقوق پر علی الاعلان ڈاکے ماریں گے تو یہ اس بات کا نمایاں ترین ثبوت ہو گا کہ ہمارے ملک کی اور ہماری سوسائٹی کی اخلاقی حالت کس قدر کھوکھلی ہے، کتنے آدمی ہیں جو صرف اس وجہ سے شریف بنے ہوئے ہیں کہ قانون نے ان کو شریف بنا رہنے پر مجبور کر رکھا ہے، کتنے آدمی ہیں جو ہر قسم کی خیانت اور بے ایمانی کرنے پر آمادہ ہو سکتے ہیں بشرطیکہ ان کو اطمینان ہو جائے کہ دنیا میں ان پر کوئی گرفت کرنے والا نہیں ہے، کتنے آدمی ہیں جنہوں نے مذہب اور اخلاق اور انسانیت کے جھوٹے لبادے اوڑھ رکھے ہیں حالانکہ اگر موقع میسر آجائے اور کوئی رکاوٹ موجود نہ ہو تو ان سے بدترین اخلاقی بے راہ روی اور حیوانیت کا صدور نہایت آسانی سے ہو سکتا ہے۔ یہ اخلاقی ناسور جو چھپا ہوا ہے اور اندر ہی اندر قومی سیرت کو گلا اور سڑا رہا ہے، ہم اس کو علی رؤوس الاشہاد بے پردہ کر کے رکھ دیں گے تاکہ ہمارے ملک کا اجتماعی ضمیر چونک پڑے اور اسے ٹھیک ٹھیک اندازہ ہو کہ جس مرض سے وہ اب تک غفلت برت رہا ہے، وہ کتنی دور پہنچ چکا ہے۔
استدراک
مارچ ۱۹۴۹ء میں پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے قراردادِ مقاصد منظور کی۔ اس کے بعد پاکستان اصول و عقیدہ کے لحاظ سے اسلامی ریاست کی حیثیت اختیار کر گیا۔ اس آئیڈیائی تغیر کے بعد جماعتِ اسلامی کے نقطۂ نظر میں بھی تبدیلی واقع ہونا لازمی تھی۔ چنانچہ اس کے بعد جماعت نے جو نیا لائحۂ عمل وضع کیا، وہ چار بڑے بڑے مقاصد پر مشتمل ہے:
اوّل یہ کہ اس مملکت کو ان تمام فکری اور عملی رجحانات سے بچایا جائے جو اسے اسلام کے راستے سے منحرف کرنے والے ہیں۔
دوم یہ کہ عوام الناس کی ذہنی اور اخلاقی اصلاح کی جائے یہاں تک کہ ہمارا معاشرہ جاہلیت کی بنیادوں سے ہٹ کر اسلام کی صالح بنیادوں پر قائم ہو اور اس قابل بن جائے کہ اس میں برائیاں دبیں اور بھلائیاں نشوونما پائیں۔
سوم یہ کہ ہماری اس نئی مملکت کی تعمیر لازماً انہی بنیادوں پر ہو جو قراردادِ مقاصد میں متعین کر دی گئی ہیں اور کسی ایسی تدبیر کو نہ چلنے دیا جائے جو قراردادِ مقاصد کو بالائے طاق رکھ کر یہاں ایک غیر اسلامی طرز کا نظامِ حکومت قائم کرنے کے لیے اختیار کی جائے۔
چہارم یہ کہ آئینی ذرائع سے اس مملکت کی موجودہ قیادت کو ایک صالح قیادت سے تبدیل کیا جائے اور اسے بروئے کار لا کر قوانین، نظم و نسق، تعلیم، مالیات، معاشی نظام عمومی، دفاع اور خارجی سیاست میں ایسی اصلاحات کی جائیں جن سے پاکستان دنیا میں اسلام کی صحیح نمائندہ ریاست بن جائے۔
(۱) ملاحظہ ہو کتاب: ”جماعتِ اسلامی کا مقصد، تاریخ اور لائحۂ عمل“۔ اس کتاب کا پہلا ایڈیشن یکم نومبر ۱۹۵۱ء کو شائع ہوا۔ (مرتب)
ہمارا طریقِ تربیت
ہمارے نصب العین، مقصد اور مسلک سے جو لوگ متفق ہو جاتے ہیں، ان کی تربیت کے لیے ہمیں کوئی خانقاہ یا تربیت گاہ قائم کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ اوّل روز سے ہمارا اعتماد تربیت کے اس فطری طریقے پر رہا ہے جس سے مکے کے ابتدائی مسلمان تیار کیے گئے تھے۔ ان مسلمانوں کے لیے ان کے اپنے گھر اور ان کی اپنی بستی کے کوچہ و بازار ہی تربیت گاہ تھے۔ زندگی کی آزمائشیں ہی ان کو بنانے اور نکھارنے کے لیے کافی تھیں۔ دعوتِ حق کو قبول کر کے جب انہوں نے ایک اصول کی پابندی کا فیصلہ کر لیا تو انہیں تربیت دینے کے لیے کسی جنگل یا کھوہ میں لے جانے کی ضرورت پیش نہ آئی، نہ ان کی سیرت سازی کے لیے کوئی الگ ادارہ قائم کرنا پڑا۔ وہی معاشرہ جس کے اندر وہ رہتے تھے، ان کی زبان سے اُصولِ حق کی پابندی کا اعلان سنتے ہی اور ان کی زندگی میں اس اعلان کا اثر محسوس کرتے ہی ان کو رگڑنے، مانجھنے اور توانا کر پختہ کرنے میں لگ گیا اور اسی تربیت گاہ سے وہ مردانِ کار تیار ہو کر نکلے جو گرچہ مٹھی بھر تھے مگر انہوں نے چند سال کے اندر عرب کا نقشہ بدل کر رکھ دیا۔ ٹھیک یہی طریقہ تھا جس کی ہم نے تقلید کی۔ اسی فطری طریقِ تربیت کی جماعت نے اقتداء کی۔ چنانچہ جو شخص بھی جماعتِ اسلامی میں داخل ہوا، اس سے بس یہ عہد لے کر چھوڑ دیا گیا کہ اب وہ اللہ رب العالمین کا مطیعِ فرمان اور محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کا پیرو بن کر رہے گا اور اس مقصد کے لیے کام کرے گا کہ اللہ اور رسول کا دین دنیا میں غالب ہو کر رہے۔ اس کے بعد جو جس ماحول میں تھا، وہیں اس کے لیے ایک ہمہ گیر اور ہمہ وقت تربیت گاہ کھل گئی۔ یہ روش اختیار کرتے ہی ہر شخص کو ہر جگہ ایک کشمکش سے سابقہ پیش آیا، جس کی ابتدا اس کے اپنے نفس سے ہوئی اور پھر اس کا دائرہ ان تمام گوشوں تک پھیلتا چلا گیا جہاں اس کی اس نئی روش کا اس بگڑی ہوئی سوسائٹی کے طور طریقوں سے تصادم ہوتا تھا۔ جو لوگ اپنی سرشت کے جس گوشے میں بھی خامی رکھتے تھے، وہ اسی گوشے میں شکست کھا گئے اور اس کشمکش نے ان کو آپ ہی آپ چھانٹ کر الگ پھینک دیا۔ مگر جو ”ربنا اللہ“ کہہ کر اپنے اس قول پر مضبوطی کے ساتھ جم گئے، ان کے لیے یہ کشمکش ایک بہترین مربی اور مزکی ثابت ہوئی۔ اس نے ان کو صبر کی، تحمل کی، ایثار و قربانی کی مشق کرائی۔ اس نے ان کو دھن کا پکا اور ارادے میں پختہ بنایا۔ اس نے ان میں اپنے نصب العین سے عشق اور اس کے لیے جدوجہد کا ولولہ پیدا کیا۔ اس نے ان کو جذبات اور خواہشات پر قابو پانا سکھایا۔ اس نے ان کو اس قابل بنایا کہ جس چیز کو حق سمجھیں، اس کے لیے کسی خارجی دباؤ یا لالچ کے بغیر اپنے ایمان کے تقاضے سے اپنا وقت، اپنی محنتیں اور اپنے اموال (۱) ماخوذ از کتاب: ”جماعتِ اسلامی کا مقصد، تاریخ اور لائحۂ عمل“، طبع اوّل یکم نومبر ۱۹۵۱ء صرف کریں اور اسی نے ان میں یہ طاقت پیدا کی کہ اپنے مقصد کی راہ میں نقصانات اٹھائیں، خطرات سہیں، مشکلات کا مقابلہ کریں اور بعد کے مراحل کی شدید تر آزمائشوں کا سامنا کر سکیں۔
دعوت و تبلیغ
دعوت و تبلیغ کا صرف یہی ایک فائدہ نہیں ہے کہ آدمی دوسروں کی اصلاح کا فریضہ انجام دیتا ہے جو اس کی عاقبت کے لیے مفید ہے، بلکہ اس کا فائدہ یہ بھی ہے کہ آدمی کی اپنی اصلاح بھی ساتھ ساتھ ہوتی جاتی ہے۔ جو شخص کسی چیز کو حق مان کر اپنی جگہ بیٹھا رہ جاتا ہے اور صرف اپنی زندگی کو اس کے مطابق ڈھالنے پر قائم ہو جاتا ہے، اس کی مثال اس شخص کی سی ہے جو ایک سرمایہ لے کر گھر بیٹھ جائے اور اسی پر گزر بسر کرتا رہے۔ ایسے شخص کا سرمایہ نہ صرف یہ کہ بڑھتا نہیں ہے بلکہ کام میں نہ لگنے کی وجہ سے الٹا گھٹتا یہاں تک کہ ایک وقت ایسا بھی آجاتا ہے جب اس میں سے کچھ بھی باقی نہیں رہتا۔ بخلاف اس کے جو شخص حق بات کو پا کر اسے پھیلانے کی کوشش میں لگ جاتا ہے، اس کی مثال اس تاجر کی سی ہے جو اپنے سرمائے کو کاروبار میں لگا دے۔ اسی طرح وہ دوسرے لوگوں کی رزق رسانی کا موجب بھی بنتا ہے اور اس کا اپنا سرمایہ بھی بہ فضلِ خدا بڑھتا چلا جاتا ہے۔ تبلیغِ حق کی یہ خاصیت ہے کہ جو شخص اس میں مشغول ہو، اس کی اپنی ذات پر وہ حق خود بخود طاری ہوتا چلا جاتا ہے جس کی تبلیغ میں وہ سرگرم ہوتا ہے۔ اس کا چرچا کرنے، اس کی اشاعت کی راہیں تلاش کرنے، اس کی تائید میں دلائل ڈھونڈنے اور اس کی راہ کی رکاوٹیں دور کرنے کی فکر جتنی زیادہ اس کو لاحق ہوتی ہے، اسی قدر زیادہ وہ اس میں مستغرق ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس کی خاطر جب وہ طرح طرح کی مزاحمتوں کا مقابلہ کرتا ہے، گالیاں سنتا ہے، طعنے سہتا ہے، الزامات اور اعتراضات برداشت کرتا ہے اور بسا اوقات چوٹیں کھاتا ہے اور ستایا جاتا ہے، تو یہ ساری تکلیفیں حق کے ساتھ اس کے عشق کو اور زیادہ بڑھاتی چلی جاتی ہیں۔ پھر یہ تبلیغ اس کی تکمیل میں ایک اور طرح سے بھی مددگار ہوتی ہے: جب وہ کہتا ہے کہ اپنی پوری زندگی خدا کی بندگی میں دے دو، اپنی زندگی سے تضاد اور منافقت کو دور کرو اور جاہلیت کے ایک ایک اثر کو اپنے اندر سے نکالو، تو اس کے گرد و پیش کی دنیا میں سے سینکڑوں نگاہیں خوردبین لگا لگا کر اس کی اپنی زندگی کا جائزہ لینا شروع کر دیتی ہیں اور اس کی کوئی خامی ایسی نہیں رہ جاتی جس کی نشان دہی کرنے سے زبانیں چوک جائیں۔ اسی طرح ایک آدمی کو مانجھنے اور صاف کرنے میں بہت سے بندگانِ خدا، دانستہ یا نادانستہ لگ جاتے ہیں۔ جو اپنے ناقدین کی اس خدمتِ بے مزد سے فائدہ اٹھاتا ہے، اس کی تکمیل آپ سے آپ ہوتی چلی جاتی ہے اور جو اس تنقیدِ عام سے شکست کھا کر بھاگ نکلتا ہے، وہ خود ہی ثابت کر دیتا ہے کہ وہ دعوتِ حق کے کام کا آدمی نہیں۔
نظمِ جماعت
نظمِ جماعت کے لیے ہم نے اوّل روز سے جو بات لوگوں کے ذہن نشین کی، وہ یہ تھی کہ اس جماعت میں وہی شخص داخل ہو جو اس کو جانچ پرکھ کر پہلے اچھی طرح اس بات کا اطمینان کر لے کہ یہ جماعت فی الواقع اقامتِ دین کے لیے قائم ہوئی ہے اور اس کی دعوت، طریقِ کار اور اصولِ تنظیم وہی ہیں جو قرآن و سنت کے مطابق اقامتِ دین کی سعی کرنے والی ایک جماعت کے ہونے چاہئیں۔ پھر جب اس معاملے میں پوری طرح مطمئن ہو جانے کے بعد وہ جماعت میں آئے تو اسے ٹھیک اسی سمع و طاعت فی المعروف کا التزام کرنا چاہیے جس کا حکم قرآن اور حدیث میں دیا گیا ہے۔ اس کے بعد جماعت کے ڈسپلن کو توڑنا محض یہ معنی نہیں رکھتا کہ آدمی نے ایک پارٹی کے ڈسپلن کی خلاف ورزی کی ہے، بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ اس نے خود اپنے عقیدے میں جس کام کو خدا کا کام سمجھا تھا، اس کو جان بوجھ کر خراب کیا اور قصداً خدا اور رسول کے حکم کی خلاف ورزی کی۔
جماعتِ اسلامی نے اس قاعدے کی پابندی سے پہلا فائدہ یہ اٹھایا کہ اس میں ایسے لوگ بہت کم داخل ہو سکے جو اس کے برحق ہونے پر مطمئن نہ ہوں اور محض کسی دماغی لہر کی وجہ سے یا عارضی جوش کے باعث جماعت کی طرف مائل ہو گئے ہوں، اور دوسرا فائدہ یہ اٹھایا کہ جو لوگ بھی جماعت میں آئے، وہ ڈسپلن کی پابندی کے لیے کسی خارجی دباؤ کے محتاج نہ تھے۔ انہوں نے زیادہ تر خود اپنے ایمان کے تقاضے سے ڈسپلن کو قبول کیا اور انہیں باقاعدگی، نظم اور ضبط کے ساتھ کام کرنے کا عادی بنانے میں کچھ زیادہ زحمت پیش نہیں آئی۔
اب اگر ہمارا ڈسپلن ایک اسلامی جماعت کے معیارِ مطلوب سے کم ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا ایمان اس درجے کا نہیں ہے جیسا صحابۂ کرام کا ایمان تھا، لیکن اس لحاظ سے اپنی ساری خامیوں کے باوجود ہم بلا شائبۂ مبالغہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ جماعتِ اسلامی اپنے نظم و ضبط اور اپنے کارکنوں کی باقاعدگی کے اعتبار سے اس ملک کی دوسری تمام جماعتوں کے مقابلے میں نمایاں امتیاز رکھتی ہے اور یہ وہ حقیقت ہے جس کو جماعت کے مخالفین بھی تسلیم کرتے ہیں۔
روحِ تنقید
جماعت کی اندرونی خرابیوں کی اصلاح اور اس کے کارکنوں کی تربیت اور تکمیل کے لیے تیسری اہم چیز جس سے ہم نے مدد لی، وہ یہ تھی کہ اوّل روز سے ہم نے جماعت کے اندر روحِ تنقید کو بیدار رکھنے کی کوشش کی۔ تنقید ہی وہ چیز ہے جو ہر خرابی کی بروقت نشان دہی کرتی اور اس کی اصلاح کا احساس پیدا کرتی ہے۔ اجتماعی زندگی کے لیے اخلاقی حیثیت سے تنقید کی وہی اہمیت ہے جو مادی حیثیت سے صفائی کی اہمیت ہے۔ جس طرح نجاست و طہارت کی حس مٹ جانے اور صفائی کی کوشش بند ہو جانے سے ایک بستی کا سارا ماحول گندا ہو جاتا ہے اور اس کی فضا ہر طرح کے امراض کے لیے سازگار ہو جاتی ہے، ٹھیک اسی طرح تنقیدی نگاہ سے خرابیوں کو دیکھنے والی آنکھیں، بیان کرنے والی زبانیں اور سننے والے کان اگر بند ہو جائیں تو جس قوم، سوسائٹی یا جماعت میں یہ حالت پیدا ہو گی، وہ خرابیوں کی آماجگاہ بن کر رہے گی اور پھر اس کی اصلاح کسی طرح نہ ہو سکے گی۔ اس حقیقت سے ہم کبھی غافل نہیں ہوئے۔ ہم نے عام انسانیت کی، اپنے ملک کی اور اپنی ملت کی خرابیوں پر تنقید کرنے میں جو آزادی برتی، اسی آزادیِ تنقید کو اپنی جماعت میں بھی برقرار رکھا تاکہ جماعت کے اندر جہاں جو خرابی بھی موجود ہو، اس کی بروقت نشان دہی ہو جائے اور اسے دور کرنے کی کوشش کی جاسکے۔ جماعت کے ہر شخص کو محض تنقید کا حق ہی حاصل نہیں ہے بلکہ یہ اس کا فرض ہے کہ کسی خرابی کو محسوس کر کے خاموش نہ رہ جائے۔ یہ بات ہر رکنِ جماعت کے اجتماعی فرائض میں داخل ہے کہ اپنے ساتھی ارکان کی ذات میں یا ان کے جماعتی کردار میں، یا اپنی جماعت کے نظم میں، یا جماعت کے لیڈروں میں اگر وہ کوئی نقص پائے تو اسے بلا تکلف بیان کرے اور اصلاح کی دعوت دے۔ اسی طرح جن لوگوں پر تنقید کی جائے، ان کو بھی اس بات کا عادی بنایا گیا ہے کہ وہ نہ صرف تنقید کو برداشت کریں بلکہ ٹھنڈے دل سے اس پر غور کریں اور جس نقص کی نشان دہی کی گئی ہے، وہ اگر واقعی موجود ہو تو اسے دور کرنے کی طرف توجہ کریں، ورنہ تنقید کرنے والے کی غلط فہمی رفع کریں۔ اس معاملے میں تنقید کے جائز حدود اور معقول طریقے نہ معلوم ہونے کی وجہ سے بسا اوقات غلطیاں بھی ہوئی ہیں اور ان کا کچھ نہ کچھ نقصان بھی ہمیں اٹھانا پڑا ہے، لیکن اس کے باوجود ہم نے کبھی جماعت میں روحِ تنقید کو خوابیدہ نہ ہونے دیا اور اسی کا یہ فائدہ ہے کہ جماعت کا ہر رکن دوسری جماعت کی تربیت اور تعمیر میں برابر حصہ لیتا رہا ہے۔
لائحۂ عمل
ہمارے مقصد و مسلک کو سمجھ لینے کے بعد کسی کو ہمارے لائحۂ عمل کے سمجھنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آسکتی۔ اس کے چار بڑے بڑے اجزاء ہیں جنہیں میں الگ الگ بیان کروں گا۔
۱۔ تطہیرِ افکار و تعمیرِ افکار
اس کا پہلا جزو تطہیرِ افکار و تعمیرِ افکار ہے۔ ہم کئی سال سے اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں اور ہماری کوشش کا سلسلہ برابر جاری ہے کہ ایک طرف غیر اسلامی قدامت کے جنگل کو صاف کر کے اصلی اور حقیقی اسلام کی شاہراہِ مستقیم کو نمایاں کیا جائے، دوسری طرف مغربی علوم و فنون اور نظامِ تہذیب و تمدن پر تنقید کر کے بتایا جائے کہ اس میں کیا کچھ غلط اور قابلِ ترک ہے اور کیا کچھ صحیح اور قابلِ اخذ، اور تیسری طرف وضاحت کے ساتھ یہ دکھایا جائے کہ اسلام کے اصولوں کو زمانۂ حال کے مسائل و معاملات پر منطبق کر کے ایک صالح تمدن کی تعمیر کس طرح ہو سکتی ہے اور اس میں ایک ایک شعبۂ زندگی کا نقشہ کیا ہو گا۔ اس طریقے سے ہم خیالات کو بدلنے اور ان کی تبدیلی سے زندگیوں کا رخ پھیرنے اور ذہنوں کو تعمیرِ نو کے لیے فکری غذا بہم پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس کوشش کے نتائج ہمارے لٹریچر اور ہماری شائع شدہ تقریروں کی شکل میں آپ کے سامنے موجود ہیں۔ ہر شخص انہیں دیکھ کر معلوم کر سکتا ہے کہ ہم کس رخ پر جا رہے ہیں اور کدھر اپنی قوم کو لے جانا چاہتے ہیں۔
۲۔ صالح افراد کی تنظیم و تربیت
اس کا دوسرا جزو صالح افراد کی تلاش، تنظیم اور تربیت ہے۔ ہم اپنی آبادیوں میں اُن مردوں اور عورتوں کو ڈھونڈ رہے ہیں جو پرانی اور نئی خرابیوں سے پاک ہوں یا اب پاک ہونے کے لیے تیار ہوں، جن کے اندر اصلاح کا جذبہ موجود ہو، جو حق کو حق مان کر اس کے لیے وقت، مال اور محنت کی کچھ قربانی کرنے پر بھی آمادہ ہوں، خواہ وہ نئے تعلیم یافتہ ہوں یا پرانے، خواہ وہ عوام میں سے ہوں یا خواص میں سے، خواہ وہ غریب ہوں یا امراء یا متوسط۔ ایسے لوگ جہاں کہیں بھی ہیں، ہم انہیں گوشۂ عافیت سے نکال کر میدانِ سعی و عمل میں لانا (۱) ماخوذ از ”مسلمانوں کا ماضی و حال اور مستقبل کے لیے لائحۂ عمل“۔ یہ وہ تقریر ہے جو مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے ۱۱ نومبر ۱۹۵۱ء کو جماعتِ اسلامی کے اجتماعِ عام منعقدہ کراچی میں کی۔ (مرتب) چاہتے ہیں۔ اگر ہمارے مقصد، طریقِ کار اور نظامِ جماعت کو قبول کر لیں تو انہیں اپنی جماعت کا کارکن بنا لیتے ہیں، اور اگر وہ رکنیت کی شرائط پوری کیے بغیر صرف تائید اور اتفاق پر اکتفا کریں تو ان کو اپنے حلقۂ متفقین میں شامل ہونے کی دعوت دیتے ہیں۔ اس سے ہمارا مقصد یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں جو ایک صالح عنصر بچا کچھا موجود ہے، مگر منتشر ہونے کی وجہ سے، یا جزوی اصلاح کی پراگندہ کوشش کرنے کی وجہ سے کوئی مفید نتیجہ پیدا نہیں کر رہا ہے، اسے چھانٹ چھانٹ کر ایک مرکز پر جمع کیا جائے اور ایک حکیمانہ پروگرام کے مطابق اس کو اصلاح و تعمیر کی منظم سعی میں لگایا جائے۔
ہم صرف اس تنظیم ہی پر قناعت نہیں کر رہے ہیں بلکہ ساتھ ساتھ ان منظم ہونے والوں کی ذہنی و اخلاقی تربیت کا بھی انتظام کر رہے ہیں تاکہ ان کی فکر زیادہ سے زیادہ پاکیزہ، مضبوط اور قابلِ اعتماد ہو۔ ہمارے پیشِ نظر ابتداء سے یہ حقیقت ہے کہ اسلامی نظام محض کاغذی نقشوں اور زبانی دعوؤں کے بل پر قائم نہیں ہو سکتا۔ اس کے قیام اور نفاذ کا سارا انحصار اس پر ہے کہ آیا اس کی پشت پر تعمیری صلاحیت اور صالح انفرادی سیرتیں موجود ہیں یا نہیں۔ کاغذی نقشے کی خامی تو اللہ کی توفیق سے علم اور تجربہ ہر وقت رفع کر سکتا ہے، لیکن صلاحیت اور صالحیت کا فقدان سرے سے کوئی عمارت اٹھا ہی نہیں سکتا اور اٹھا بھی لے تو سنبھال نہیں سکتا۔
۳۔ اصلاحِ معاشرہ
اس کا تیسرا جزو ہے اجتماعی اصلاح کی سعی۔ اس میں سوسائٹی کے ہر پہلو کے حالات کے لحاظ سے اصلاح شامل ہے اور اس کا دائرہ اتنا ہی وسیع ہو سکتا ہے جتنے ہمارے ذرائع وسیع ہوں۔ ہم اپنے ارکان اور متفقین کو ان کی صلاحیتوں کے لحاظ سے مختلف حلقوں میں تقسیم کرتے ہیں اور ہر ایک کے سپرد وہ کام کرتے ہیں جس کے لیے وہ اہل تر ہو۔ ان میں سے کوئی شہری عوام میں کام کر رہا ہے تو کوئی دیہاتی عوام میں۔ کوئی کسانوں کی طرف متوجہ ہے اور کوئی مزدوروں کی طرف۔ کوئی متوسط طبقے کو خطاب کر رہا ہے اور کوئی اونچے طبقے کو۔ کوئی سرکاری ملازمین کی اصلاح کے لیے کوشاں ہے اور کوئی تجارت پیشہ لوگوں کی اصلاح کے لیے۔ کسی کی توجہ پرانی درسگاہوں کی طرف ہے اور کسی کی نئے کالجوں کی طرف۔ کوئی جمود کے قلعوں کو توڑنے میں لگا ہوا ہے اور کوئی الحاد و فسق کے سیلاب کو روکنے میں۔ کوئی شعر و ادب کے میدان میں کام کر رہا ہے اور کوئی علم و تحقیق کے میدان میں۔ یہ سب اگرچہ اپنے الگ حلقہائے کار رکھتے ہیں، مگر سب کے سامنے ایک ہی مقصد اور ایک اسکیم ہے جس کی طرف وہ قوم کے سارے طبقوں کو گھیر کر لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کا متعین نصب العین یہ ہے کہ اسی ذہنی، اخلاقی اور عملی انارکی کو ختم کیا جائے جو پرانے جمودی اور نئے انفعالی رجحانات کی وجہ سے ساری قوم میں پھیلی ہوئی ہے اور عوام سے لے کر خواص تک، سب میں صحیح اسلامی فکر، سیرت اور سچے مسلمانوں کی سی عملی زندگی پیدا کی جائے۔
یہ کام صرف وعظ و تلقین اور نشر و اشاعت اور شخصی ربط و مکالمہ ہی سے نہیں کیا جا رہا ہے، بلکہ مختلف سمتوں میں باقاعدہ تعمیری پروگرام بنا کر پیش قدمی کی جا رہی ہے۔ مثلاً ہمارے کارکن جہاں کہیں اپنی تبلیغ سے چند آدمیوں کو متفق بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، وہاں وہ انہیں ملا کر ایک حلقۂ متفقین منظم کرتے ہیں اور پھر ان کی مدد سے ایک پروگرام کو عمل میں لانے کی کوشش شروع کر دیتے ہیں، جس کے چند اجزاء یہ ہیں:
- بستی کی مسجدوں کی اصلاحِ حال۔
- عام باشندوں کو اسلام کی بنیادی تعلیمات سے روشناس کرانا۔
- تعلیمِ بالغاں کا انتظام۔
- کم از کم ایک دارالمطالعہ کا قیام۔
- لوگوں کو ظلم و ستم سے بچانے کے لیے اجتماعی جدوجہد۔
- باشندوں کے تعاون سے صفائی اور حفظانِ صحت کی کوشش۔
- بستی کے یتیموں، بیواؤں، معذوروں اور غریب طالب علموں کی فہرستیں مرتب کرنا اور جن جن طریقوں سے ممکن ہو ان کی مدد کا انتظام کرنا اور اگر ذرائع فراہم ہو جائیں، تو کوئی پرائمری اسکول، یا ہائی اسکول، یا مذہبی تعلیم کا ایسا مدرسہ قائم کرنا جس میں تعلیم کے ساتھ اخلاقی تربیت کا بھی انتظام ہو۔
اسی طرح ہم مزدوروں کو اشتراکیت کے زہر سے بچانے کے لیے صرف تبلیغ ہی پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ عملاً ان کے مسائل کو حل کرنے کی سعی بھی کرتے ہیں۔ چنانچہ کئی نئی تنظیمات کا سلسلہ شروع کر دیا ہے جن کی بنیاد اسلامی فکر پر رکھی گئی ہے۔ ان تنظیمات کا مقصد انصاف کا قیام ہے نہ کہ ذرائع پیداوار کو قومی ملکیت بنانا۔ اُن کا مسلک جائز اور معقول حقوق کا حصول ہے نہ کہ طبقاتی کشمکش۔ اُن کا طریقِ کار اخلاقی اور آئینی ہے نہ کہ توڑ پھوڑ اور تخریب۔ اُن کے پیش نظر صرف اپنے حقوق ہی نہیں ہیں بلکہ فرائض بھی ہیں اور جو مزدور یا کارکن بھی ان میں شامل ہوتے ہیں، ان پر یہ شرط عائد کی جاتی ہے کہ وہ ایمانداری کے ساتھ اپنے حصے کا فرض ضرور ادا کریں گے۔ پھر ان کا دائرۂ عمل صرف اپنے تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ یہ تنظیمات جس طبقے سے بھی تعلق رکھتی ہیں، اس کی دینی، اخلاقی اور معاشرتی حالت کو بھی درست کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔
اس عمومی اصلاح کے پورے لائحۂ عمل کا بنیادی اصول یہ ہے کہ جو شخص جس حلقے اور طبقے میں بھی کام کرے، مسلسل اور منظم طریقے سے کرے اور اپنی سعی کو ایک نتیجہ تک پہنچائے بغیر نہ چھوڑے۔ ہم اس کے قائل نہیں ہیں کہ ہوا کے پرندوں اور آندھی کے جھکڑوں کی طرح بیج پھینکتے چلے جائیں۔ اس کے برعکس ہم کسان کی طرح کام کرنا چاہتے ہیں جو ایک متعین رقبے کو لیتا ہے، پھر زمین کی تیاری سے لے کر فصل کی کٹائی تک مسلسل کام کر کے اپنی محنتوں کو ایک نتیجہ تک پہنچا کر دم لیتا ہے۔ پہلے طریقے سے جنگل پیدا ہوتے ہیں اور دوسرے طریقے سے باقاعدہ کھیتیاں تیار ہوا کرتی ہیں۔
۴۔ نظامِ حکومت کی اصلاح
اس لائحۂ عمل کا چوتھا جزو نظامِ حکومت کی اصلاح ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ زندگی کے موجودہ بگاڑ کو دور کرنے کی کوئی تدبیر بھی کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک کہ اصلاح کی دوسری کوششوں کے ساتھ ساتھ نظامِ حکومت کو درست کرنے کی کوشش بھی نہ کی جائے۔ اس لیے کہ تعلیم اور قانون اور نظم و نسق اور تقسیمِ رزق کی طاقتوں کے بل پر جو بگاڑ اپنے اثرات پھیلا رہا ہو، اس کے مقابلے میں بناؤ اور سنوار کی وہ تدبیریں جو صرف وعظ اور تلقین کے ذرائع پر منحصر ہوں، کبھی کارگر نہیں ہو سکتیں۔ لہٰذا اگر ہم فی الواقع اپنے ملک کے نظامِ زندگی کو فسق و ضلالت کی راہ سے ہٹا کر دینِ حق کی صراطِ مستقیم پر چلانا چاہتے ہیں تو ہمارے لیے ناگزیر ہے کہ بگاڑ کو مسندِ اقتدار سے ہٹانے اور بناؤ کو اس کی جگہ متمکن کرنے کی براہِ راست کوشش کریں۔ ظاہر ہے کہ اگر اہلِ خیر و اصلاح کے ہاتھ میں اقتدار ہو تو تعلیم اور قانون اور نظم و نسق کی پالیسی کو تبدیل کر کے چند سال کے اندر وہ کچھ کر ڈالیں گے جو غیر سیاسی تدبیروں سے ایک صدی میں بھی نہیں ہو سکتا۔
یہ تبدیلی کس طرح ہو سکتی ہے؟ ایک جمہوری نظام میں اس کا راستہ صرف ایک ہے اور وہ ہے انتخابی جدوجہد۔ رائے عام کی تربیت کی جائے، عوام الناس کے معیارِ انتخاب کو بدلا جائے، انتخاب کے طریقوں کی اصلاح کی جائے اور پھر ایسے صالح لوگوں کو اقتدار کے مقام پر پہنچایا جائے جو ملک کے نظام کو خالص اسلام کی بنیادوں پر تعمیر کرنے کا ارادہ بھی رکھتے ہوں اور قابلیت بھی۔ خوش قسمتی سے قراردادِ مقاصد نے ہمارے راستے سے وہ دوسری رکاوٹیں دور کر دی ہیں جو ہمارے لیے اب تک اس طریقے کو اختیار کرنے میں سدِ راہ بنی ہوئی تھیں۔ ان رکاوٹوں کے دور ہوتے ہی ہم نے اس کام میں وہی مقصد ہمارے پیشِ نظر ہے جو میں نے ابھی آپ سے بیان کیا ہے۔
باب چہارم
تحریکِ اسلامی کے علمبرداروں کی لازمی خصوصیات
- صالح گروہ کے لیے کم از کم ضروری صفات
- تحریک سے وابستگی کا معیار
- کارکنوں کا اصل سرمایہ
- راہِ حق کے لیے ضروری توشہ
صالح گروہ کے لیے کم از کم ضروری صفات
آپ حضرات یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لیں کہ آپ دراصل امۃِ وسط بننے کے اُمیدوار ہیں۔ آپ کا مقصود یہ ہے کہ اس مقامِ بلند کو حاصل کر لیں۔ اتنے بڑے منصب کی اُمیدواری کے لیے اُٹھ کھڑے ہونا اور پھر نہ اس کی عظمت کو محسوس کرنا، نہ اس کے لیے اپنے آپ کو تیار کرنا، ایک عظیم الشان بے خبری ہے۔ اس سے بڑھ کر بے خبری یہ ہے کہ ایک طرف تو آپ ان کم سے کم صفات سے بھی ابھی تک متصف نہ ہوئے ہوں جو اس کارِ عظیم کے لیے ضروری ہیں، اور دوسری طرف آپ تقاضا کریں کہ فوراً ہی کوئی بڑا قدم اٹھا دیا جائے۔ کیا آپ اتنا نہیں سمجھتے اور اس سے ڈرتے نہیں کہ اگر آپ نے کوئی ایسا قدم اٹھایا جس کے لیے ضروری استعداد آپ نے اپنے اندر پیدا نہیں کی ہے، تو آپ منہ کی کھا کر گریں گے اور اس راہ میں پیٹھ پھیرنا فرار من الزحف ہے جو خدا کی شریعت میں بہت بڑا گناہ ہے۔
اب میں مختصر طور پر آپ کو بتاؤں گا کہ وہ کم سے کم ضروری صفات کیا ہیں جو اس دعوت کے لیے کام کرنے والوں میں ہونی چاہئیں۔ ایک وہ جو شخصی اوصاف کہلاتی ہیں، دوسری جو ایک صالح جماعت بنانے کے لیے ضروری ہیں، اور تیسری وہ جو مجاہدہ فی سبیل اللہ کے لیے ناگزیر ہیں۔
(۱) یہ مولانا مودودی کی اس تقریر کا ایک حصہ ہے جو انہوں نے جماعتِ اسلامی کے اجتماع دارالاسلام (متصل پٹھانکوٹ) میں ۲۶ مارچ ۱۹۴۴ء کو فرمائی تھی۔ اس اجتماع میں پنجاب، سندھ، سرحد، کشمیر و بلوچستان کے ارکانِ جماعت شریک ہوئے تھے۔ تقریر کے آغاز میں مولانا محترم نے جماعت کی بعض کمزوریوں کی طرف توجہ دلائی اور پھر آخر میں وہ کم از کم لازمی صفات بیان کیں جن کا صالح گروہ کے ہر ہر فرد میں پایا جانا ضروری ہے۔ (مرتب)
شخصی اوصاف
مجاہدۂ نفس
شخصی اوصاف میں پہلا اور بنیادی وصف یہ ہے کہ ہم میں سے ہر ہر شخص اپنے نفس سے لڑ کر پہلے اسے مسلمان اور خدا کا مطیعِ فرمان بنائے۔ یہ وہی بات ہے جسے حدیث میں یوں بیان فرمایا گیا ہے کہ:
الْمُجَاهِدُ مَنْ جَاهَدَ نَفْسَهُ فِي طَاعَةِ اللهِ
”حقیقی مجاہد وہ ہے جو اللہ کی اطاعت میں اپنے نفس سے کشمکش کرے۔“
یعنی قبل اس کے کہ آپ باہر کی دنیا میں خدا کے باغیوں سے مقابلے کے لیے نکلیں، اس باغی کو مطیع بنائیں جو خود آپ کے اندر موجود ہے، اور خدا کے قانون اور اس کی رضا کے خلاف چلنے کے لیے ہر وقت تقاضا کرتا رہتا ہے۔ اگر یہ باغی آپ کے اندر پل رہا ہے، اور آپ پر اتنا قابو یافتہ ہے کہ آپ سے رضائے الٰہی کے خلاف اپنے مطالبے منوا سکتا ہے، تو یہ ایک بالکل بے معنی بات ہے کہ آپ بیرونی باغیوں کے خلاف اعلانِ جنگ کریں۔ یہ تو بالکل وہی بات ہوئی کہ گھر میں شراب کی بوتل پڑی ہے اور باہر شرابیوں سے لڑائی ہو رہی ہے۔ یہ تضاد ہماری تحریک کے لیے تباہ کن ہے۔ پہلے خود خدا کے آگے سر جھکائیے، پھر دوسروں سے اطاعت کا مطالبہ کیجیے۔
ہجرت وسیع معنی کے لحاظ سے
جہاد کے بعد دوسرا درجہ ہجرت کا ہے۔ ہجرت کا اصل مدعا گھر بار چھوڑنا نہیں ہے بلکہ خدا کی نافرمانی سے بھاگ کر خدا کی رضا جوئی کی طرف بڑھنا ہے۔ اصلی مہاجر ترکِ وطن اگر کرتے ہیں تو اس لیے کہ اس کے وطن میں قانونِ الٰہی کے مطابق زندگی بسر کرنے کے مواقع نہیں ہیں۔ لیکن اگر کوئی شخص نے گھر بار چھوڑا اور خدا کی فرمانبرداری اختیار نہ کی تو اس نے حماقت کی۔ یہ حقیقت بھی احادیث میں اچھی طرح واضح کر دی گئی ہے۔ بطورِ مثال ایک حدیث کو لیجیے: نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا کہ:
مَا الْهِجْرَةُ أَفْضَلُ يَا رَسُولَ اللهِ
”یا رسول اللہ! کون سی ہجرت بہتر ہے؟“
جواب ملا:
أَنْ تَهْجُرَ مَا كَرِهَ رَبُّكَ
”یہ کہ تو ان چیزوں کو چھوڑ دے جو اللہ کو ناپسند ہیں۔“
اندر کا باغی اگر مطیع نہ ہو تو آدمی کا ترکِ وطن کر دینا خدا کی بارگاہ میں کوئی وزن نہیں رکھتا۔ اس لیے میں یہ چاہتا ہوں کہ آپ حضرات باہر کی قوتوں سے پہلے اپنے اندر کی سرکش قوتوں سے لڑیے اور اصطلاحی کفار کو مسلمان بنانے سے پہلے اپنے نفس کو مسلمان بنائیے۔ اس معنی کو جامع تر الفاظ میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق اپنے آپ کو اس گھوڑے کی طرح بنائیے جو ایک کھونٹے سے بندھا ہوا ہے، اور وہ کتنا ہی گھومے پھرے، ہر حال میں اس حد سے آگے نہیں جا سکتا جہاں تک رسی اُسے جانے دیتی ہے۔
مَثَلُ الْإِيمَانِ كَمَثَلِ الْفَرَسِ فِي أَخِيَّتِهِ يَجُولُ ثُمَّ يَرْجِعُ إِلَى أَخِيَّتِهِ
ایسے گھوڑے کی حالت آزاد گھوڑے سے بالکل مختلف ہوتی ہے جو ہر میدان میں گھومتا ہے، ہر کھیت میں گھس جاتا ہے، اور جہاں ہری گھاس دیکھتا ہے، وہیں پوری بے صبری کے ساتھ ٹوٹ پڑتا ہے۔ پس آپ آزاد گھوڑے کی سی کیفیت اپنے اندر سے نکالیں اور کھونٹے سے بندھے ہوئے گھوڑے کی سی کیفیت اپنے اندر پیدا کریں۔
اس کیفیت کو پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ دوسرا قدم یہ اٹھائیے، کہ اپنے قریب ترین ماحول سے، جسے میں ”ہوم فرنٹ“ کہوں گا، لڑنا شروع کر دیجیے۔ گھر کے لوگ، اعزہ، دوست اور سوسائٹی جس میں آپ کا گہرا ربط ہے، ان سب سے ایک عملی کشمکش شروع ہو جانی چاہیے۔ کشمکش اس معنی میں نہیں کہ آپ اپنے متعلقین سے کشتی لڑیں یا ان سے تو تو میں میں اور مناظرہ شروع کر دیں۔ بلکہ یہ کشمکش اس معنی میں ہونی چاہیے کہ آپ بحیثیت فرد اور بحیثیت جماعت اپنے نصب العین کے اتنے دلدادہ اور اپنے اصول و ضوابط کے اتنے پابند ہو جائیں کہ آپ کے گرد و پیش جو لوگ کسی نصب العین کے بغیر، بے اصول زندگیاں بسر کر رہے ہیں، وہ آپ کی پابندِ اصول زندگی کو گوارا نہ کر سکیں۔ آپ کی بیویاں، آپ کی اولادیں، آپ کے والدین، آپ کے رشتہ دار اور دوست آپ کے رویے کے خلاف مزاحمت کرنے پر مجبور ہو جائیں۔
آپ اپنے شہر میں اجنبی ہو کر رہ جائیں۔ جہاں آپ کسبِ معاش کے لیے رہتے ہوں، وہاں آپ کا وجود نمایاں طور پر کھٹکنے لگے۔ دفتر کی آرام کرسی جس پر بیٹھ کر جاہ و ترقی کے خواب دیکھے جاتے ہیں، آپ کے لیے انگاروں کی انگیٹھی بن کر رہ جائے۔ غرض جو جتنا زیادہ قریب ہو، اس سے اتنا ہی پہلے تصادم شروع ہو جانا چاہیے۔ یہ کشمکش ہر شخص کے گھر ہی سے شروع ہونی چاہیے۔ اب تک جہاں جہاں سے اس کشمکش کی اطلاعات آرہی ہیں، وہاں کے لوگوں سے میں مطمئن ہو رہا ہوں اور جہاں سے ایسی اطلاعات نہیں آرہی ہیں، وہاں کے لیے بے تابی سے منتظر ہوں کہ ایسی کوئی اطلاع ملے۔
فنا فی الاسلام ہو جانا
مگر میں بروقت یہ واضح کر دوں کہ یہ ہماری کشمکش اس ذہنیت کے ساتھ ہونی چاہیے جس کے ساتھ ایک ڈاکٹر بیماروں سے کشمکش کرتا ہے۔ دراصل وہ بیمار سے نہیں لڑتا بلکہ بیماری سے لڑتا ہے۔ اور اس کی تمام تر جدوجہد ہمدردی کی روح سے لبریز ہوتی ہے۔ وہ اگر بیمار کو کڑوی دوائیں پلاتا ہے، یا اس کے کسی عضو پر نشتر چلاتا ہے، تو یہ تمام تر بربنائے اخلاص ہوتا ہے، دشمنی نہیں۔ اس کی نفرت اور اس کا غصہ بالکل مرض کے خلاف ہوتا ہے، نہ کہ مریض کے خلاف۔ بالکل اسی طرح اپنے ایک گمراہ بھائی کو ہدایت کی طرف لائیے۔ وہ کبھی کسی سے یہ محسوس نہ کرے کہ اسے تحقیر سے دیکھا جا رہا ہے یا براہِ راست اس کی ذات سے دشمنی کی جا رہی ہے، بلکہ وہ آپ کے اندر انسانی ہمدردی، محبت اور اخوت کو کام کرتا ہوا پائے۔ میں نے اجتماعِ دربھنگہ کے موقع پر یہ مختصراً یہ کہا تھا کہ اصلی تبلیغ تقریری اور تحریری مناظروں سے نہیں ہوا کرتی۔ یہ کام کرنے کے بہت ہی ادنیٰ طریقے ہیں۔ اصل تبلیغ یہ ہے کہ آپ اپنی دعوت کا مجسم ظہور اور نمونہ ہوں۔ جہاں کہیں لوگوں کی نگاہوں کے سامنے یہ نمونہ گزر جائے، وہ آپ کے طرزِ عمل سے پہچان لیں کہ یہ ہیں خدا کی راہ کے راہی۔ جس طرح کوئی فنا فی کانگریس آدمی سامنے آجاتا ہے تو کانگریس کی پوری تصویر آنکھوں کے سامنے پھر جاتی ہے۔ اسی طرح آپ ایسے فنا فی الاسلام بن جائیے کہ جہاں آپ سامنے آئیں، اسلامی تحریک کا پورا نقشہ واضح ہو جائے۔ یہی وہ چیز ہے جسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ إِذَا رُؤُوا ذُكِرَ اللهُ۔
میں یہ نہیں کہتا کہ ایسا فوراً ہو جانا چاہیے، یہ مقام تو تدریجاً ہی حاصل ہو گا۔ خدا کی راہ میں جب اپنے ماحول سے پیہم آپ کا تصادم ہوتا رہے گا، اور آپ ہر آن، ہر لمحہ اپنے مقصد کے لیے کوشش کرتے ہوئے قربانیاں دیتے رہیں گے، تو ایک مدت میں جا کر فنائیت کی کیفیت آپ پر طاری ہو گی، اور آپ اپنی دعوت کا مجسم ظہور بن سکیں گے۔ اس مقصد کے لیے قرآن و حدیث کو بامیعانِ نظر بار بار مطالعہ کیجیے۔ اور دیکھیے کہ اسلام کس قسم کا انسان چاہتا ہے اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کس طرز کے آدمی تیار کیا کرتے تھے۔ وہ کیا صفات تھیں جو اس تحریک کے کارکنوں میں پہلے پیدا کی گئیں، اور اس کے بعد جہاد کا علم بلند کیا گیا۔ آپ میں سے ہر شخص جانتا ہے کہ دنیا کے سب سے بڑے مزکی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو انسان تیار کیے تھے، انہیں ۱۵ برس کی تیاری کے بعد میدان میں لایا گیا۔ اس تیاری کی تفصیلات معلوم کیجیے اور دیکھیے کہ یہ کس تدریج کے ساتھ ہوئی تھی۔ اس میں کن صفات کی پرورش مقدم تھی، اور کن کی مؤخر۔ کون سی صفات کس درجہ میں مطلوب تھیں، اور انہیں کس حد تک ترقی دی گئی تھی، اور کس مقام پر پہنچ کر اس جماعت سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اب تم دنیا کا بہترین گروہ ہو گئے ہو، کہ نوعِ انسانی کی اصلاح کے لیے نکلو۔ یہی نمونہ خود اپنی تیاری کے لیے بھی آپ کے سامنے ہونا چاہیے۔
یہاں تفصیل کا موقع نہیں۔ میں صرف دو مثالیں آپ کی رہنمائی کے لیے پیش کروں گا، جن سے آپ کو معلوم ہو گا کہ اس کام کے لیے کن صفات کے آدمی درکار ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ:
مَنْ أَحَبَّ لِلَّهِ وَأَبْغَضَ لِلَّهِ وَأَعْطَى لِلَّهِ وَمَنَعَ لِلَّهِ فَقَدِ اسْتَكْمَلَ الْإِيمَانَ
”یعنی آدمی پورا مومن اس وقت بنتا ہے جب اس کی کیفیت یہ ہو جائے کہ اس کی دوستی اور دشمنی، اور اس کا دینا اور روکنا، جو کچھ ہو خالص اللہ کے لیے ہو۔ نفسانی اور دنیوی محرکات اس کے لیے ختم ہو جائیں۔“
دوسری حدیث ہے کہ:
أَمَرَنِي رَبِّي بِتِسْعٍ:
- خَشْيَةُ اللهِ فِي السِّرِّ وَالْعَلَانِيَةِ
- وَكَلِمَةُ الْعَدْلِ فِي الْغَضَبِ وَالرِّضَا
- وَالْقَصْدُ فِي الْفَقْرِ وَالْغِنَى
- وَأَنْ أَصِلَ مَنْ قَطَعَنِي
- وَأُعْطِيَ مَنْ حَرَمَنِي
- وَأَعْفُوَ عَمَّنْ ظَلَمَنِي
- وَأَنْ يَكُونَ صَمْتِي فِكْرًا
- وَنُطْقِي ذِكْرًا
- وَنَظَرِي عِبْرَةً
”میرے رب نے مجھے نو چیزوں کا حکم دیا ہے:
- کھلے اور چھپے ہر حال میں خدا سے ڈرتا رہوں۔
- کسی پر مہربان ہوں یا کسی کے خلاف غصے میں ہوں، دونوں حالتوں میں انصاف ہی کی بات کہوں۔
- خواہ فقر کی حالت میں ہوں یا امیری کی حالت میں، بہرحال راستی و اعتدال پر قائم رہوں۔
- اور یہ کہ جو مجھ سے کٹے ہیں، ان سے جڑوں۔
- اور جو مجھے محروم کرے، میں اسے دوں۔
- اور جو مجھ سے زیادتی کرے، میں اسے معاف کروں۔
- اور یہ کہ میری خاموشی تفکر کی خاموشی ہے۔
- اور میری گفتگو ذکرِ الٰہی کی گفتگو ہو۔
- اور میری نگاہ عبرت کی نگاہ ہو۔“
ان اوصافِ مطلوبہ کا ذکر کرنے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ إِنْ آمُرَ بِالْمَعْرُوفِ وَأَنْهَى عَنِ الْمُنْكَرِ یعنی ”مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں نیکی کا حکم دوں اور بدی سے روکوں۔“
معلوم ہوا کہ نیکی کو پھیلانے اور بدی کو ختم کرنے کے لیے جو امتِ وسط ہے، اس کے فرد فرد میں یہ اوصاف ہونے چاہئیں۔ انہی اوصاف کے ساتھ یہ فریضہ ادا ہو سکتا ہے۔ یہ نہ ہوں تو ہم کبھی اپنے منصب کے مقتضیات کو پورا نہیں کر سکتے۔
جماعتی اوصاف
باہمی ہمدردی و محبت
یہ تو شخصی اصلاح کا پروگرام ہوا۔ اس سے آگے جماعتی حیثیت سے کچھ دوسرے اخلاقی اوصاف کی ضرورت ہے۔ جماعتی نظم کو مستحکم اور کارگر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ارکانِ جماعت کے درمیان محبت و ہمدردی ہو، آپس میں حسنِ ظن ہو، بے اعتمادی کی جگہ اعتماد ہو، آپس میں مل کر کام کرنے کی صلاحیت ہو، ایک دوسرے کو حق کی نصیحت کرنے کی عادت ہو، خود آگے بڑھیں اور دوسروں کو اپنے ساتھ آگے بڑھائیں۔ یہ اوصاف ہر جماعتی نظم کے لیے ناگزیر ہیں۔ ورنہ اگر فرداً فرداً سب لوگ اعلیٰ درجے کی صفاتِ حسنہ اپنے اندر پیدا کر لیں، لیکن منظم و مربوط نہ ہوں، آپس میں متعاون نہ ہوں، شانہ سے شانہ ملا کر چل نہ سکیں، تو ہم دنیا میں علمبردارانِ باطل کا بال تک بیکا نہیں کر سکتے۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ شخصی حیثیت سے بہترین افراد ہم میں ہمیشہ موجود رہے ہیں، اور آج بھی اگر انفرادی نیکی کا چیلنج کیا جائے تو اس کا جواب کسی قوم سے نہ دیا جا سکے۔ مگر یہ معاملہ صرف انفرادی اصلاح کی حد تک ہے۔ جن لوگوں نے اپنی انفرادی اصلاح میں کمال حاصل کیا ہے، انہوں نے زیادہ سے زیادہ یہ کیا کہ چند سو یا چند ہزار افراد پر اپنا اثر پھیلا دیا، اور تقدس کی چند یادگاریں چھوڑ کر رخصت ہو گئے۔ یہ طریقہ بڑے کام کرنے کا نہیں ہے۔ بڑے سے بڑا پہلوان جو بھاری بوجھ اٹھانے اور کئی کئی آدمیوں کو کشتی میں پچھاڑنے کی طاقت رکھتا ہو، ایک مربوط رجمنٹ کے مقابلے میں بالکل بے کار ہے۔ اسی طرح اگر ہم میں سے کچھ لوگ انفرادی تزکیے کی تمام منازل طے کیے ہوئے ہوں، لیکن ان میں اجتماعی رابطہ اور تعاون نہ ہو، تو ان کی حیثیت اسی پہلوان کی سی ہے جو کسی رجمنٹ کا عضو بن کر کام نہیں کرتا بلکہ منفرداً ایک رجمنٹ کو دعوتِ مبارزت دیتا ہے۔ انفرادی تزکیے کے لحاظ سے ہماری اپنی جماعت میں بھی ایسے رفقاء کی کمی نہیں ہے جن کی حالت پر خود مجھے رشک آتا ہے۔ مگر جہاں تک جماعتی عزیمت کا تعلق ہے، حالات افسوسناک ہیں۔ قرآن میں اس مسئلے پر اصولی حد تک مفصل روشنی ڈالی گئی ہے، اور حدیث میں اصول کی مکمل تشریحات موجود ہیں۔ پھر سیرتِ نبوی اور سیرتِ صحابہ کے مطالعے سے مطلوبہ اجتماعی اخلاق کے عملی نمونے بھی ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں۔ ان چیزوں کی ورق گردانی کیجیے اور ناپ تول کر دیکھیے کہ کس پہلو سے ہمارے اجتماعی نظم میں کمی ہے اور کتنی کمی ہے، اور اس کمی کو پورا کرنے کی فکر کیجیے۔
صاف بات ہے کہ اجتماعی نظم میں ایک فرد کو دوسرے افراد سے لامحالہ سابقہ پیش آتا ہے۔ اگر حسنِ ظن، ہمدردی، ایثار اور رواداری نہ ہو تو مزاجوں کا اختلاف تعاون کو چار دن بھی جاری نہیں رہنے دے گا۔ جماعتی نظم چلتا ہی اس اصول پر ہے کہ دوسروں کے لیے آپ اپنا کچھ چھوڑیں اور دوسرے آپ کے لیے کچھ چھوڑیں۔ اس ایثار کی ہمت نہ ہو تو کسی انقلاب کا نام بھی زبان پر نہ لانا چاہیے۔
مجاہدہ فی سبیل اللہ کے لوازم
تیسری قسم کی صفات وہ ہیں جو مجاہدہ فی سبیل اللہ کے لوازم میں شمار ہوتی ہیں۔ اُن کا بھی قرآن و حدیث میں مفصل تذکرہ موجود ہے۔ صرف تذکرہ ہی نہیں، ایک ایک مطلوبہ صفت کی وضاحت بھی کی گئی ہے کہ وہ کس نوعیت اور کس درجے کی ہونی چاہیے۔ اس سلسلے میں احکام و ہدایات کو جمع کریں، اور سمجھیے کہ مجاہدہ فی سبیل اللہ کے لیے کیا کیا تیاریاں کرنی ہیں۔ میں مختصراً ان کی طرف بھی اشارہ کر دینا چاہتا ہوں۔
صبر
سب سے پہلی صفت جس پر زور دیا گیا ہے، صبر ہے۔ صبر کے بغیر خدا کی راہ میں کیا، کسی راہ میں مجاہدہ نہیں ہو سکتا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ خدا کی راہ میں اور قسم کا صبر مطلوب ہے اور دنیا کا مجاہدہ کرتے ہوئے اور قسم کا صبر، مگر بہرحال صبر ناگزیر ہے۔ صبر کے بہت سے پہلو ہیں۔ ایک پہلو یہ ہے کہ جلد بازی سے شدید اجتناب کیا جائے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ کسی راہ میں جدوجہد کرتے ہوئے مخالفتوں اور مزاحمتوں کے مقابلے میں استقامت دکھائی جائے اور قدم پیچھے نہ ہٹایا جائے۔ تیسرا پہلو یہ ہے کہ کوششوں کا کوئی نتیجہ اگر جلدی حاصل نہ ہو تب بھی ہمت نہ ہاری جائے اور پیہم سعی جاری رکھی جائے۔ ایک اور پہلو یہ ہے کہ مقصد کی راہ میں بڑے سے بڑے خطرات، نقصانات اور خوف اور طمع کے مواقع بھی اگر پیش آجائیں تو قدم کو لغزش نہ ہونے پائے۔ اور یہ بھی صبر ہی کا ایک شعبہ ہے کہ اِشتعالِ جذبات کے سخت سے سخت مواقع پر بھی آدمی اپنے ذہن کا توازن نہ کھوئے۔ جذبات سے مغلوب ہو کر کوئی قدم نہ اٹھائے۔ ہمیشہ سکونِ عقل، اور ٹھنڈی قوتِ فیصلہ کے ساتھ کام کرے۔ پھر حکم صرف صبر ہی کا نہیں، مصابرت کا بھی ہے، یعنی مخالف طاقتیں اپنے باطل مقاصد کے لیے جس صبر کے ساتھ ڈٹ کر سعی کر رہی ہیں، اسی صبر کے ساتھ آپ بھی ڈٹ کر اُن کا مقابلہ کریں۔ اسی لیے "اِصْبِرُوا" کے ساتھ "صَابِرُوا" کا حکم بھی دیا گیا ہے۔ جن لوگوں کے مقابلے میں آپ حق کی علمبرداری کے لیے اٹھنے کا دعویٰ رکھتے ہیں، اُن کے صبر کا اپنے صبر سے موازنہ کیجیے، اور سوچیے کہ آپ کے صبر کا کیا تناسب ہے۔ شاید ہم ان کے مقابلے میں دس فی صدی کا دعویٰ کرنے کے قابل بھی نہیں ہیں۔ باطل کے غلبے کے لیے جو صبر وہ دکھا رہے ہیں، اس کا اندازہ کرنے کے لیے موجودہ جنگ کے حالات پر نظر ڈالیے۔ کس طرح وقت آپڑنے پر ان لوگوں نے اپنے ان کارخانوں، شہروں اور ریلوے اسٹیشنوں کو اپنے ہاتھوں سے پھونک ڈالا جن کی تعمیر اور تیاری میں سالوں کی محنتیں اور بے شمار روپے صرف کیا گیا تھا۔ یہ ان ٹینکوں کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہو جاتے ہیں جو فوجوں کو اپنے آہنی پیروں تلے کچل ڈالتے ہیں۔ یہ دشمن کے ان بمبار طیاروں کے سائے میں استقامت سے کھڑے رہتے ہیں جو موت کے پر لگا کر اڑتے ہیں۔ جب تک ان کے مقابلے میں ہمارا صبر ۱۰۵ فی صد کے تناسب پر نہ پہنچ جائے، ان سے کوئی ٹکر لینے کی جرأت نہیں کی جاسکتی ہے۔ جب سروسامان کے لحاظ سے ہم ان کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتے تو پھر سروسامان کی کمی کو صبر ہی سے پورا کیا جا سکتا ہے۔
ایثار
دوسری چیز جو مجاہدے کا لازمہ ہے، ایثار کی صفت ہے۔ وقت کا ایثار، محنتوں کا ایثار، اور مال کا ایثار۔ ایثار کے اعتبار سے بھی باطل کا جھنڈا اٹھانے والی طاقتوں کے مقابلے میں ہم بہت پیچھے ہیں۔ حالانکہ بے سروسامانی کی تلافی کے لیے ہمیں ایثار میں بھی ان سے دوگنا آگے ہونا چاہیے۔ مگر یہاں صورتِ واقعہ یہ ہے کہ ایک شخص، پچاس، سو اور ہزار روپے ماہانہ تنخواہ کے عوض اپنی پوری صلاحیتیں خود اپنے دشمن کے ہاتھ بیچ دیتا ہے اور اس طرح ہماری قوم کا کارآمد جوہر بیکار ہو جاتا ہے۔ یہ دماغی صلاحیتیں جب رکھنے والا طبقہ اتنی ہمت نہیں رکھتا کہ ایک بڑی آمدنی کو چھوڑ کر یہاں محض بقدرِ ضرورت قلیل معاوضے پر اپنی خدمات پیش کر دے۔ پھر فرمائیے کہ اگر یہ لوگ اتنا ایثار بھی نہ کریں گے، اور اس راہ میں پیٹ مار کر کام نہ کریں گے، تو پھر اسلامی تحریک کیسے پھل پھول سکتی ہے؟ ظاہر بات ہے کہ کوئی تحریک محض والنٹیروں کے بل پر نہیں چل سکتی۔ جماعتی نظم میں والنٹیروں کو اسی درجے کی اہمیت حاصل ہے جتنی ایک آدمی کے نظامِ جسمانی میں ہاتھ اور پاؤں کو ہے۔ یہ ہاتھ اور پاؤں اور دوسرے اعضاء کس کام کے ہو سکتے ہیں، اگر ان سے کام لینے کے لیے دھڑکنے والے دل اور سوچنے والے دماغ موجود نہ ہوں۔ دوسرے لفظوں میں، ہمیں والنٹیروں سے کام لینے کے لیے اعلیٰ درجے کے جنرل چاہئیں، مگر مصیبت یہ ہے کہ جن کے پاس دل اور دماغ کی قوتیں ہیں، وہ دنیوی ترقی کے دلدادہ ہیں اور مارکیٹ میں اسی کی طرف جاتے ہیں جو زیادہ قیمت پیش کرے۔ نصب العین سے ہماری قوم کے بہترین افراد کی وابستگی ابھی اس درجے کی نہیں ہے کہ وہ اس کی خاطر اپنے منافع کو، بلکہ منافع کے امکانات تک کو قربان کر سکیں۔ اس ایثار کو لے کر اگر آپ یہ توقع کریں کہ وہ مفسدینِ عالم جو روزانہ کروڑوں روپے اور لاکھوں جانوں کا ایثار کر رہے ہیں، ہم سے کبھی شکست کھا سکتے ہیں، تو یہ چھوٹا منہ بڑی بات ہے۔
دل کی لگن
مجاہدہ فی سبیل اللہ کے لیے تیسری صفت دل کی لگن ہے۔ محض دماغی طور پر ہی کسی شخص کا اس تحریک کو سمجھ لینا اور اس پر صرف عقلاً مطمئن ہو جانا، یہ اس راہ میں اقدام کے لیے صرف ایک ابتدائی قدم ہے۔ لیکن اتنے سے تاثر سے کام چل نہیں سکتا۔ یہاں تو اس کی ضرورت ہے کہ دل میں ایک آگ بھڑک اُٹھے۔ زیادہ نہیں تو کم از کم اتنی آگ تو شعلہ زن ہونی چاہیے جتنی اپنے بچے کو بیمار دیکھ کر ہو جاتی ہے، اور آپ کو کھینچ کر ڈاکٹر کے پاس لے جاتی ہے، یا اتنی جتنی گھر میں غلہ نہ پا کر بھڑکتی ہے، اور آدمی کو تگ و دو پر مجبور کر دیتی ہے اور چین سے نہیں بیٹھنے دیتی۔ سینوں میں وہ جذبہ ہونا چاہیے جو ہر وقت آپ کو اپنے نصب العین کی دُھن میں لگائے رکھے۔ دل و دماغ کو یکسو کر دے اور توجہات کو اس کام پر ایسا مرکوز کر دے کہ اگر ذاتی یا خانگی یا دوسرے غیر متعلق معاملات کبھی آپ کی توجہ کو اپنی طرف کھینچیں بھی تو آپ سخت ناگواری کے ساتھ ان کی طرف کھینچیں۔ کوشش کیجیے کہ اپنی ذات کے لیے آپ قوت اور وقت کا کم سے کم حصہ صرف کریں، اور آپ کی زیادہ سے زیادہ جدوجہد اپنے مقصدِ حیات کے لیے ہو۔ جب تک یہ دل کی لگن نہ ہو گی، اور آپ ہمہ تن اپنے آپ کو اس کام میں جھونک نہ دیں گے، محض زبانی جمع خرچ سے کچھ نہ بنے گا۔ بیشتر لوگ دماغی طور پر ہمارا ساتھ دینے پر آمادہ ہو جاتے ہیں، لیکن کم لوگ ایسے ملتے ہیں جو دل کی لگن کے ساتھ تن من دھن سے اس کام میں شریک ہوں۔ میرے ایک قریب ترین رفیق نے، جن سے میرے ذاتی اور جماعتی تعلقات بہت گہرے ہیں، حال ہی میں دو برس کی رفاقت کے بعد مجھ سے یہ اعتراف کیا کہ اب تک میں محض دماغی اطمینان کی بنا پر شریکِ جماعت تھا، مگر اب یہ چیز دل میں اتر گئی ہے اور اس نے نہاں خانۂ روح پر قبضہ جما لیا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ ہر شخص اسی طرح اپنے اوپر خود تنقید کر کے دیکھے کہ کیا ابھی تک وہ اس جماعت کا محض ایک دماغی رکن ہے یا اس کے دل میں مقصد کے عشق کی آگ مشتعل ہو چکی ہے؟ پھر اگر دل کی لگن اپنے اندر نہ محسوس ہو تو اسے پیدا کرنے کی فکر کی جائے۔ جہاں دل کی لگن ہوتی ہے، وہاں کسی ٹھیلنے اور اکسانے والے کی ضرورت نہیں رہتی۔ اس قوت کے ہوتے ہوئے یہ صورتِ حال کبھی پیدا نہیں ہو سکتی کہ اگر کہیں جماعت کا ایک رکن پیچھے ہٹ گیا، یا نقلِ مقام پر مجبور ہو گیا تو وہاں کا سارا کام ہی چوپٹ ہو گیا۔ بخلاف اس کے، ہر شخص اس طرح کام کرے گا جس طرح وہ اپنے بچے کو بیمار پا کر کیا کرتا ہے۔
خدا نخواستہ اگر آپ کا بچہ بیمار ہو تو آپ اس کی زندگی اور موت کے سوال کو بالکل کسی دوسرے پر ہرگز نہیں چھوڑ سکتے۔ ممکن نہیں کہ آپ یہ عذر کر کے اسے اس کے حال پر چھوڑ دیں کہ کوئی تیار نہیں، کوئی دوا لانے والا نہیں، کوئی ڈاکٹر کے پاس جانے والا نہیں۔ اگر کوئی نہ ہو تو آپ سب کچھ خود بنیں گے کیونکہ بچہ کسی کا نہیں، آپ کا اپنا ہے۔ سوتیلا باپ تو بچے کو مرنے کے لیے چھوڑ بھی سکتا ہے، مگر حقیقی باپ اپنے جگر کے ٹکڑے کو کیسے چھوڑ دے گا؟ اس کے تو دل میں آگ لگی ہوتی ہے۔ اسی طرح اس کام سے بھی اگر آپ کا قلبی تعلق ہو تو آپ دوسروں پر نہیں چھوڑ سکتے اور نہ یہ ممکن ہے کہ کسی بہانے کو بہانہ بنا کر آپ اسے مر جانے دیں گے اور اپنے دوسرے مشاغل میں جا کر منہمک ہو جائیں گے۔ یہ سب باتیں اس بات کا پتہ دیتی ہیں کہ خدا کے دین اور اس کی اقامت و سربلندی کے مقصد سے آپ کا رشتہ محض ایک سوتیلا رشتہ ہے۔ حقیقی رشتہ ہو تو آپ میں سے ہر شخص اس راہ میں اپنی جان لڑا کر کام کرے۔ میں آپ سے صاف کہتا ہوں کہ اگر آپ اس راہ میں کم از کم اتنے قلبی لگاؤ کے بغیر قدم بڑھائیں گے، جتنا آپ اپنے بیوی بچوں سے رکھتے ہیں، تو انجام پسپائی کے سوا کچھ نہ ہو گا اور یہ ایسی بری پسپائی ہو گی کہ مدتوں تک ہماری نسلیں اس تحریک کا نام لینے کی جرأت بھی نہ کر سکیں۔ بڑے بڑے اقدامات کا نام لینے سے پہلے اپنی قوتِ قلب کا، اپنی اخلاقی طاقت کا جائزہ لیجیے اور مجاہدہ فی سبیل اللہ کے لیے جس دل گردے کی ضرورت ہے، وہ اپنے اندر پیدا کیجیے۔
سعیِ پیہم
چوتھی ضروری صفت اس راہ میں یہ ہے کہ ہمیں مسلسل اور پیہم سعی اور منظم (systematic) طریقے سے کام کرنے کی عادت ہو۔ ایک مدتِ دراز سے ہماری قوم اس طریقِ کار کی عادی رہی ہے کہ جو کام ہو، کم سے کم وقت میں ہو جائے۔ جو قدم اٹھایا جائے، ہنگامہ آرائی اس میں ضرور ہو۔ چاہے مہینے دو مہینے میں سب کام کرایا غارت ہو کے رہ جائے۔ اس عادت کو ہمیں بدلنا چاہیے۔ اس کی جگہ بتدریج اور بے ہنگامہ کام کرنے کی مشق ہونی چاہیے۔ چھوٹے سے چھوٹا کام بھی جو بجائے خود ضروری ہو، اگر آپ کے سپرد کر دیا جائے، تو بغیر کسی نمایاں اور معجل نتیجہ کے اور بغیر کسی داد کے آپ اپنی پوری عمر صبر کے ساتھ اسی کام میں کھپا دیں۔ مجاہدہ فی سبیل اللہ میں ہر وقت میدان گرم ہی نہیں رہا کرتا ہے اور نہ ہر شخص اگلی ہی صفوں میں لڑ سکتا ہے۔ ایک وقتی میدانی لڑائی کے لیے بسا اوقات پچیسوں پچاس سال تک لگاتار خاموش تیاری کرنی پڑتی ہے۔ اور اگلی صفوں میں اگر ہزاروں آدمی لڑتے ہیں تو ان کے پیچھے لاکھوں آدمی جنگی ضروریات کے لیے اُن چھوٹے چھوٹے کاموں میں لگے رہتے ہیں جو ظاہر بین نظر میں بہت حقیر ہوتے ہیں۔
تحریکِ اسلامی سے وابستگی کا معیار
تحریک سے وابستگی کا معیار
میں اس وقت جماعتِ اسلامی کی بعض خصوصیات کی طرف اشارہ کروں گا۔ لیکن ان خصوصیات کے بیان کرنے سے مقصود یہ نہیں ہے کہ یہ بالفعل جماعت کے اندر موجود ہیں، بلکہ یہ ہے کہ یہ آپ کے اندر ہونی چاہئیں۔ اور آپ کا فرض ہے کہ آپ برابر اپنا جائزہ لے کر دیکھتے رہیں کہ یہ آپ کے اندر موجود ہیں اور اگر موجود ہیں تو کس حد تک؟ اور انہی کو جماعت کے ساتھ وابستگی کے لیے معیار بنائیں۔ اگر یہ خصوصیات پورے طور پر موجود ہیں تو سمجھیے کہ جماعت کے ساتھ آپ کی وابستگی پوری ہے، اور اگر ناقص طور پر موجود ہیں تو سمجھیے کہ جماعت کے ساتھ آپ کا تعلق ادھورا ہے۔ اور اگر سرے سے موجود ہی نہیں ہیں تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ جماعت کے ساتھ آپ کی وابستگی محض رسمی و ظاہری ہے۔ حقیقت سے اس کو کچھ تعلق نہیں۔
- ان خصوصیات میں سب سے مقدم خصوصیت یہ ہے کہ موجودہ ماحول کے اندر آپ غربت کا احساس کریں۔ غربت سے میری مراد مقصد مال و اسباب کی کمی نہیں ہے۔ اس چیز کا احساس تو ایک مسلمان، اگر وہ سچا مسلمان ہے، کبھی کرتا ہی نہیں۔ غربت سے میری مراد یہ ہے کہ موجودہ فضا میں آپ کو ہر جگہ اجنبیت کا احساس ہو۔ خاندان میں، سوسائٹی میں، قوم میں، آپ کو اپنے ہمدرد و آشنا اور ہم خیال و ہم مشرب بہت کم نظر آئیں۔ آپ کو ہر مجلس میں احساس ہو کہ آپ جو کچھ چاہتے ہیں، دوسروں کی چاہت سے مختلف ہے۔ آپ جو کچھ سوچتے ہیں، دوسروں کا فکر اس سے بالکل الگ ہے۔ آپ کا مذاق، آپ کا رجحان، آپ کا خیال اور آپ کا ارادہ، ہر چیز دوسروں کے مذاق، رجحان اور خیال و ارادہ سے متباین بلکہ متصادم نظر آئے۔ آپ کو ایسا محسوس ہو کہ آپ خشکی کی مخلوق ہیں اور آپ کو سمندر میں ڈال دیا گیا ہے۔ یا آپ سمندر کے جانور ہیں اور آپ کو خشکی میں پھینک دیا گیا ہے۔ دوسروں کو اپنی کامیابی کی راہیں بہت فراخ نظر آ رہی ہوں، مگر آپ کو اپنی کامیابی کی راہ رندھی ہوئی ملے۔ دوسرے جس راہ پر چل رہے ہوں، وہ قافلوں سے بھری ہوئی ہو، مگر آپ کو ہر راہ میں قلتِ اعوان و انصار سے سابقہ پڑے۔ دوسروں کے لیے وسائلِ زندگی کے انبار لگے ہوں، مگر آپ کو سدِ رمق کی خاطر چند خشک نوالے حاصل کرنے کے لیے بھی چوٹی کا پسینہ ایڑی تک پہنچانا پڑے۔ جب آپ موجودہ دنیا میں اس طرح اپنے آپ کو مشکلات کے شکنجوں میں کسا ہوا پائیں اور (۱) یہ حصہ رودادِ چہارم سے لیا گیا ہے۔ یہ اس تقریر کے اقتباسات ہیں جو جماعت کے دوسرے کل ہند اجتماع کے اختتام پر مولانا امین احسن اصلاحی نے کی تھی۔ یہ اجتماع ہردوارہ (الہ آباد) کے مقام پر ۱۵-۱۴ اپریل ۱۹۴۶ء کو منعقد ہوا تھا۔ (مرتب) آپ کے قریب سے قریب اعزہ بھی ان مشکلات کے حل کرنے میں آپ کی کوئی مدد نہ کریں بلکہ اُلٹے اِن میں اور زیادہ اضافہ کی کوشش کریں، تب آپ سمجھیے کہ جماعتِ اسلامی کے مقاصد کا سچا شعور آپ کے اندر پیدا ہو گیا ہے اور اس کی علامتیں آپ کے ظاہر و باطن دونوں میں اچھی طرح ابھر رہی ہیں اور اگر یہ باتیں نہ پائی جائیں بلکہ جماعتِ اسلامی میں داخل ہونے کے بعد بھی اس ماحول کے ساتھ آپ کی سازگاری اور موافقت اسی طرح باقی رہے جیسی جماعت میں داخل ہونے سے پہلے تھی اور آپ کے پھیلے ہوئے تعلقات کے کسی گوشے میں کوئی رخنہ اور خلل نہیں پیدا ہوا ہے، آپ کے احباب بدستور آپ سے خوش، اور آپ کے اقرباء حسبِ سابق آپ سے راضی ہیں، آپ کے معاش اور معیشت کی ساری راہیں پہلے کی طرح اب بھی کھلی ہیں، اور کسی جہت سے آپ اجنبیت اور بیگانگی کا احساس نہیں کر رہے ہیں، تو اس کے معنی یہ ہیں کہ آپ نے جماعتِ اسلامی کا صرف لیبل اپنے اوپر لگا لیا ہے۔ اس کی حقیقت آپ کے دل کے اندر نہیں اُتری ہے۔
- دوسری خصوصیت جو مطلوب ہے، اور درحقیقت پہلی خصوصیت کا منطقی نتیجہ ہے، یہ ہے کہ آپ اپنی ساری وابستگی اور دلچسپی ان لوگوں کے ساتھ بڑھائیں جو اصول و مقاصد میں آپ کے ساتھ متحد ہوں۔ اگر ان کی تعداد کم ہو تو اس کی پروا نہ کیجیے۔ انہی کی رفاقت اور نصرت کی قدر کیجیے اگرچہ وہ آپ کے عزیز نہ ہوں۔ لیکن آپ ان کو عزیزوں سے بڑھ کر عزیز رکھیے۔ اگرچہ وہ آپ کی قوم سے باہر کے ہوں، لیکن آپ کی عصبیت و ہمت ان کے لیے اپنی قوم سے بھی زیادہ ہو۔ اگرچہ وہ ہمیشہ سے آپ کے اور آپ کی قوم کے دشمن رہے ہوں، لیکن آج اگر انہوں نے اس حق کو قبول کر لیا ہے جس حق کو آپ نے قبول کیا ہے، تو آپ کی طرف سے ان کے لیے صرف سچی دوستی ہونی چاہیے۔ آپ ہر طرف سے کٹ کر اپنی ساری دلچسپیاں ان کے اندر ڈھونڈیے۔ یہی آپ کے عزیز ہوں، یہی آپ کے دوست ہوں، یہی آپ کے غم خوار ہوں۔ ان کے سوا دوسروں کے ساتھ آپ کا تعلق دوستی اور محبت کا نہ ہو، بلکہ صرف خیر خواہی اور خیر سگالی کا ہو۔ یعنی آپ اُن کو بھی اس حق سے آشنا کیجیے جو اللہ تعالیٰ نے آپ پر کھولا ہے۔
- تیسری صفت جو آپ کو اپنے اندر پیدا کرنی چاہیے، وہ اس کی مقابل صفت ہے۔ یعنی یہ کہ جو لوگ اصول اور مقصد میں آپ سے مختلف ہوں، وہ آپ کو نرم چارہ نہ پائیں۔ وہ جب آپ کو ٹٹولیں تو انہیں محسوس ہو کہ ان کے لیے آپ کے اندر انگلی دھنسانے کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ وہ اپنے اغراض و مقاصد کی تکمیل کے لیے آپ کو آلۂ کار نہ بنا سکیں۔ پہلی جماعت کے لیے آپ جتنے سادہ لوح، کریم النفس اور بھولے بھالے ہوں، دوسری جماعت کے لیے آپ کو اسی قدر ہوشیار، بیدار مغز اور اصول پرست ہونا چاہیے۔ ان کو آپ ہرگز اس بات کا موقع نہ دیں کہ وہ آپ پر اپنا رنگ چڑھا دیں اور آپ کو اپنے سانچے میں ڈھال لیں۔ جب تک آپ میں یہ صفت نہ پیدا ہو، اس وقت تک نہ آپ کے اندر جماعت کے مقاصد کا صحیح شعور پیدا ہوا ہے، اور نہ آپ میں وہ سیرت پیدا ہوئی ہے، جو جماعتِ اسلامی کے پیشِ نظر مقاصد کی تکمیل کے لیے مطلوب ہے۔ قرآن مجید میں اہلِ ایمان کی جو تعریف کی گئی ہے کہ وہ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ (کفار پر سخت ہیں)، اس کے معنی یہی ہیں کہ جو لوگ اللہ کی فوج میں بھرتی ہو چکے ہیں، ان کے لیے یہ بات جائز نہیں ہو سکتی کہ وہ دشمن کے بگل پر بھی لیفٹ رائٹ شروع کر دیں، اور عارضی فوائد کے لیے اس کا کلمہ بلند کر دینے اور اس کی لڑائی لڑ دینے میں بھی کوئی ہرج نہ خیال کریں۔ جو لوگ حق اور باطل دونوں کے ساتھ رشتہ رکھنا چاہتے ہیں، ان کا رشتہ صرف باطل کے ساتھ رہتا ہے۔ حق اس قسم کی شرکت اور آلودگی کو گوارا نہیں کرتا۔ آپ کی سیرت کی وہ ساری کمزوریاں جو آپ کے اندر باطل کو گھسنے کی راہ دیتی ہیں، آپ کے ضعفِ ایمان کی دلیل ہیں، اور اب جس زندگی کا آپ نے آغاز کیا ہے، اس کا اوّلین تقاضا ہے کہ آپ ان کمزوریوں کو دور کرنے کی کوشش کریں۔
- نماز: نہ صرف فرض اور سنت، بلکہ حسبِ استطاعت نوافل بھی۔ مگر یاد رکھیں کہ نوافل زیادہ سے زیادہ اخفاء کے ساتھ پڑھنے چاہئیں، تاکہ اللہ سے آپ کا ذاتی تعلق نشوونما پائے اور اخلاص کی صفت آپ میں پیدا ہو، نفل خوانی کا اور خصوصاً تہجد خوانی کا اظہار بسا اوقات ایک خطرناک قسم کا ریا اور کبر انسان میں پیدا کر دیتا ہے، جو نفسِ مومن کے لیے سخت مہلک ہے اور یہی نقصانات دوسرے نوافل اور صدقات اور اذکار کے اظہار و اعلان میں بھی پائے جاتے ہیں۔
- ذکرِ الٰہی: جو زندگی کے تمام احوال میں جاری رہنا چاہیے۔ اس کے وہ طریقے صحیح نہیں ہیں جو بعد کے ادوار میں صوفیاء کے مختلف گروہوں نے خود ایجاد کیے یا دوسروں سے لیے، بلکہ بہترین اور صحیح ترین طریقہ وہ ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار فرمایا اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو سکھایا۔ آپ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے تعلیم کردہ اذکار اور دعاؤں میں سے جس قدر بھی یاد کر سکیں، یاد کر لیں۔ مگر الفاظ کے ساتھ ان کے معانی بھی ذہن نشین کیجیے، اور معانی کے استحضار کے ساتھ ان کو وقتاً فوقتاً پڑھتے رہا کیجیے۔ یہ اللہ کی یاد تازہ رکھنے اور اللہ کی طرف دل کی توجہ مرکوز رکھنے کا ایک نہایت مؤثر ذریعہ ہے۔
- روزہ: نہ صرف فرض بلکہ نفل بھی۔ نفل روزوں کی بہترین اور معتدل ترین صورت یہ ہے کہ ہر مہینے تین دن کے روزوں کا التزام کر لیا جائے اور ان ایام میں خاص طور پر تقویٰ کی اس کیفیت کو حاصل کرنے کی کوشش کی جائے جسے قرآن مجید روزے کی اصل خاصیت بتاتا ہے۔
- انفاق فی سبیل اللہ: نہ صرف فرض بلکہ نفل بھی۔ جہاں تک بھی آدمی کی استطاعت ہو۔ اس معاملے میں یہ بات اچھی طرح سمجھ لی یہ چاہیے کہ اصل چیز مال کی وہ مقدار نہیں ہے جو آپ خدا کی راہ میں صرف کرتے ہیں، بلکہ اصل چیز وہ قربانی ہے جو اللہ کی خاطر آپ نے کی ہو۔ ایک غریب آدمی اگر اپنا پیٹ کاٹ کر خدا کی راہ میں ایک پیسہ صرف کرے تو وہ اللہ کے ہاں اُس ایک ہزار روپے سے زیادہ قیمت ہے جو کسی دولت مند نے اپنی آسائشوں کا دسواں یا بیسواں حصہ قربان کر کے دیا ہو۔ اس کے ساتھ یہ بھی آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ صدقہ اُن اہم ترین ذرائع میں سے ہے جو تزکیۂ نفس کے لیے اللہ اور اس کے رسول نے بتائے ہیں۔ آپ اس کے اثرات کا تجربہ خود کر کے اس طرح دیکھ سکتے ہیں کہ ایک دفعہ آپ سے کوئی لغزش سرزد ہو جائے تو آپ صرف نادم ہونے اور توبہ کر لینے پر اکتفا کریں اور دوسری مرتبہ اگر کسی لغزش کا صدور ہو تو آپ توبہ کے ساتھ خدا کی راہ میں کچھ صدقہ بھی کریں۔ دونوں حالتوں میں موازنہ کر کے آپ خود دیکھ لیں گے کہ توبہ کے ساتھ صدقہ آدمی کے نفس کو زیادہ پاک کرتا ہے اور بڑے میلانات کے مقابلے کے لیے زیادہ مستعد کرتا ہے۔
- تنقید ہر وقت ہر صحبت میں نہ ہو۔
- تنقید کرنے والا اللہ کو شاہد سمجھ کر پہلے خود اپنے دل کا جائزہ لے لے کہ وہ اخلاص اور خیر خواہی کے جذبے سے تنقید کر رہا ہے یا اس کا محرک کوئی نفسانی جذبہ ہے۔ اگر پہلی صورت ہو تو بے شک تنقید کی جائے ورنہ زبان بند کر کے خود اپنے نفس کو اس ناپاکی سے بچانے کی فکر کرنی چاہیے۔
- تنقید کا لہجہ اور زبان دونوں ایسے ہونے چاہئیں جن سے ہر سننے والے کو محسوس ہو کہ آپ فی الواقع اصلاح چاہتے ہیں۔
- تنقید کے لیے زبان کھولنے سے پہلے یہ اطمینان کر لیں کہ آپ کے اعتراض کی کوئی بنیاد واقعے میں موجود ہے۔ بلا تحقیق کسی کے خلاف کچھ کہنا ایک گناہ ہے جس سے فساد رونما ہوتا ہے۔
- جس شخص پر تنقید کی جائے، اسے تحمل کے ساتھ بات سننی چاہیے۔ انصاف کے ساتھ غور کرنا چاہیے۔ جو بات حق ہو، اسے سیدھی طرح مان لینا چاہیے۔ اور جو بات غلط ہو، اس کی نرمی کے ساتھ تردید کر دینی چاہیے۔ تنقید سن کر طیش میں آجانا کبر اور غرورِ نفس کی علامت ہے۔
- تنقید اور جوابِ تنقید اور جواب الجواب کا سلسلہ بلا نہایت نہیں چلنا چاہیے کہ وہ ایک مستقل ردّ و قد بن کر رہ جائے۔ بات صرف اس وقت تک ہونی چاہیے جب تک دونوں طرف سے معقول دلائل سامنے آجائیں۔ اس کے بعد اگر معاملہ صاف نہ ہو تو گفتگو ملتوی کر دیں، تاکہ فریقین ٹھنڈے دل سے اپنی اپنی جگہ غور کر سکیں۔
- انفرادی اوصاف
- اجتماعی اوصاف
- تکمیلِ اوصاف
- وہ عیوب جو ہر بھلائی کی بیخ کنی کر دیتے ہیں
- وہ نقائص جن کی تاثیر کام کو بگاڑ دیتی ہے
- وہ اوصاف جو اقامتِ اسلام کے لیے کام کرنے والے ہر فرد میں بذاتِ خود ہونے چاہئیں۔
- وہ اوصاف جو ان کے اندر من حیث الجماعت ہونے چاہئیں۔
- وہ بڑی بڑی برائیاں جن سے ان کو فرداً فرداً بھی اور من حیث الجماعت بھی پاک ہونا چاہیے۔
آپ کا گھرانہ اہلِ حق اور اہلِ ایمان کا گھرانہ ہو۔ جن کا رشتہ حق کے ساتھ جتنا ہی ضعیف ہو، آپ کا رشتہ ان کے ساتھ اتنا ہی ضعیف ہونا چاہیے۔ اور جن کا رشتہ ایمان کے ساتھ جتنا ہی مضبوط ہو، آپ کا رشتہ اُن کے ساتھ اتنا ہی مضبوط ہونا چاہیے۔ اس اصول کو سامنے رکھ کر اپنی دوستیوں اور دشمنیوں کا پورا جائزہ لیجیے۔ اور اگر کہیں آپ کو نظر آئے کہ آپ دوستی کے مستحق کے ساتھ دشمنی اور دشمنی کے حقدار کے ساتھ دوستی کا معاملہ کر رہے ہیں، تو اللہ کے ڈر سے اس کی اصلاح کیجیے۔ اگر آپ ایک اصول کے ساتھ دوستی رکھتے ہیں تو اس کے دشمنوں کے ساتھ آپ کی دوستی نہیں ہو سکتی۔ اس طرح جو لوگ اس اصول سے دوستی رکھتے ہیں، ان کے ساتھ آپ کی دشمنی بھی خلافِ فطرت ہے۔ آپ نسل و نسب کے بت کے پجاری نہیں ہیں اور نہ آپ کو رنگ و خون کے امتیازات ہی سے کوئی دلچسپی ہے، آپ کی نفرت و محبت تو تمام تر اللہ اور رسول کے تعلق کے تابع ہے۔ جو لوگ اللہ و رسول کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑ لیں، آپ ان کے بن گئے، وہ آپ کے بن گئے۔ آپ کا اور اُن کا رشتہ مادی رشتہ نہیں ہے، اخلاقی اور روحانی رشتہ ہے۔ یہی معنی ہیں رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ کے۔ اگر ایمان اور اسلام کے رشتے کے سوا کوئی اور رشتہ بھی آپ نے باقی رکھ چھوڑا ہے تو اس کی اصلاح کی کوشش کیجیے اور جلد سے جلد اس کو حق کے تابع کیجیے، نہیں معلوم کب آپ کے سامنے آزمائش کی گھڑی آجائے اور وہ آپ سے مطالبہ کرے کہ حق کے لیے چچا بھتیجے کی گردن پر تلوار چلائیے اور بھانجا ماموں کے سینے پر نیزہ مارے۔
باطل اور باطل کے تمام رشتوں سے قلبی انقطاع، انتہا درجہ روحانی ہجرت ہے۔ جس کا آغاز اس دن سے ہوتا ہے جس دن ایک بندہ حق کو قبول کرتا ہے اور اس راہ میں جو دشواریاں پیش آتی ہیں، ان کا مقابلہ کر کے قلب و دماغ کو اس کے لیے تیار کرتا اور اس کی مشق بہم پہنچاتا ہے۔ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس کے لیے پہلے سے کسی اہتمام کی ضرورت نہیں۔ جب وقت آئے گا، وہ حق کے لیے بڑی سے بڑی قربانی بھی پیش کریں گے، اور عزیز سے عزیز رشتوں پر قینچی بھی چلا دیں گے۔ لیکن یہ خیال بالکل غلط ہے۔ آزمائش کی گھڑیوں میں قلب و دماغ کی صرف وہی قوت کام دیتی ہے جو بالفعل موجود ہو، اور جس کا ذخیرہ پہلے سے فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہو۔ جو لوگ اپنی فوج کو اس وقت ٹریننگ دیتے ہیں جب دشمن نے حملہ کر دیا ہو، ان کے حصے میں ناکامی کے سوا اور کچھ نہیں آتا۔
یہ دو تین باتیں میں نے آپ کے سامنے کسوٹی کی حیثیت سے پیش کی ہیں۔ آپ ان کے اوپر اپنے آپ کو جانچ کر معلوم کر سکتے ہیں کہ جماعت کے ساتھ آپ کا تعلق کس نوعیت کا ہے؟ محض زبان سے آپ اس کے ساتھ ہو گئے ہیں اور دل آپ کا انہی کوچوں میں ابھی آوارہ گردی کر رہا ہے جن میں پہلے آوارہ گردی کر رہا تھا، یا آپ دل اور زبان دونوں سے اس کے ساتھ ہیں۔
کارکنوں کا اصل سرمایہ
میں نے الہ آباد کے اجتماع میں سب سے پہلے جس چیز کی طرف توجہ دلائی تھی، وہ اللہ تعالیٰ کی یاد ہے۔ آج بھی میں آپ کو سب سے پہلے اسی چیز کی تاکید کرتا ہوں۔ سال بھر پہلے جو بات میں نے عرض کی تھی، اب مزید غور و فکر اور مطالعۂ کتاب و سنت سے اس بات کا یقین اور پختہ ہو گیا ہے اور اب ذرا بھی شبہ نہیں رہا ہے کہ انسان کے علم، انسان کی عقل، انسان کے دل و دماغ اور اس کے فکر و نظر کو جو روشنی بھی نصیب ہوتی ہے، وہ صرف اللہ تعالیٰ کی یاد ہی سے ہوتی ہے۔ اگر یہ نہ ہو تو انسان کا تمام باطن بالکل تاریک رہتا ہے اور اس کا ہر کام، گو بظاہر وہ کتنا ہی اچھا نظر آتا ہو، بالکل غلط رخ پر ہوتا ہے۔ اس کا دل اس کو غلط مشورے دیتا ہے، اور اس کا دماغ غلط رہنمائی کرتا ہے اور اس کے ہاتھ پاؤں جس راہ میں اور جس مقصد کے لیے بھی اٹھتے ہیں، غلط ہی اٹھتے ہیں۔ یہاں تک کہ اگر کوئی شخص دین کا نام لے کر اٹھے اور دین ہی کا کام کرنا چاہے، لیکن خدا کی یاد سے اس کا دل خالی ہو جائے تو اس کی وہ دینداری بھی دنیا داری بن جاتی ہے۔ آپ اگرچہ دین کے کام کے لیے اٹھے ہیں، لیکن اس کے باوجود شیطان آپ کے اس سارے کام کو خراب کر دے اور آگے کی کسی منزل میں بھی شیطان آپ کو گمراہ کر سکتا ہے۔ اگر اس خطرے سے آپ محفوظ رہنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے اس کے سوا کوئی تدبیر نہیں ہے کہ آپ اپنے دلوں کو اللہ کی یاد سے نورانی رکھیں تاکہ آپ کے دل و دماغ اور آپ کے اعضاء و جوارح سب صحیح طریقے پر صحیح راہ میں کام کریں۔
(میں نے اس بات کی طرف الہ آباد کے اجتماع میں تفصیلات کے ساتھ آپ کی توجہ دلائی تھی اور میری وہ پوری تقریر اب چھپ کر شائع ہو چکی ہے۔ آپ اس کو پھر پڑھ کر اس کی یاد تازہ کریں۔)
دوسری چیز جس کی طرف میں آپ کو توجہ دلانا چاہتا ہوں، وہ جماعتی سیرت کی تعمیر ہے۔ آپ کو اس بات کا اچھی طرح علم ہے کہ مسلمانوں میں صالح افراد نہ پہلے ناپید تھے اور نہ اب مفقود ہیں۔ ان کی ایک اچھی خاصی تعداد پہلے بھی موجود تھی اور اب بھی خدا کے فضل سے موجود ہے۔ لیکن صالحین کی اس جماعت کی موجودگی کے باوجود یہ قوم گرتے گرتے پستی کے اس درجے تک پہنچ گئی جو آج آپ دیکھ رہے ہیں۔ اس کی وجہ بجز اس کے اور کیا ہو سکتی ہے کہ یہ صالحین، صلاح و تقویٰ کی خوبیاں رکھنے کے باوجود نہ جماعتی زندگی کی اہمیت سے آشنا تھے اور نہ جماعتی سیرت ہی کے اعتبار سے کوئی وزن رکھتے تھے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ نہ اپنی قوم ہی کو گرنے سے بچا سکے، اور نہ اپنے آپ ہی کو موجودہ فتنوں سے دور رکھ سکے۔ آپ کو اس غلطی کی اصلاح اور اس کی تلافی کرنی ہے۔ آپ کو صالح بننے کے (۱) یہ اقتباس مولانا امین احسن اصلاحی کے اس افتتاحی خطاب سے ماخوذ ہے جو موصوف نے ۲۵-۱۹۴۷ اپریل ء کو جماعتِ اسلامی کے حلقہ وار اجتماع میں حلقۂ مشرقی ہند کے ایک مقام پٹنہ میں کیا۔ (مرتب) ساتھ ساتھ اپنے اندر وہ جماعتی سیرت بھی پیدا کرنی ہے جو صالحین کی جماعت کے لیے ضروری ہے۔ اس کے بغیر ”جماعتِ اسلامی“ کے قیام کا منشاء پورا نہیں ہو سکتا۔ ہم صرف انفرادی نیکی کے داعی نہیں ہیں، بلکہ آپ کو اجتماعی نیکی کی جدوجہد کے لیے تیار کرنا چاہتے ہیں۔ اس وجہ سے آپ کو اجتماعی سیرت اور اجتماعی اخلاق کے لحاظ سے نہایت اعلیٰ اور برتر دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ مقصد اسی وقت حاصل ہو سکتا ہے جب کہ آپ ایک جماعتی نظم اور ایک جماعتی ڈسپلن کے تحت ہو کر یہ دکھا دیں کہ آپ باہم دگر جڑ کر اور مل کر کس خوبی کے ساتھ ایک مقصد اور ایک نصب العین کے لیے مارچ کر سکتے ہیں۔ آپ کو قیادت اور اطاعت دونوں چیزوں کا گُر معلوم کرنا ہے، اور دونوں کے حقوق پورے پورے ادا کرنے ہیں۔ آپ میں سے ہر فرد کو اپنی روزمرہ کی زندگی میں یہ ثابت کرنا ہے کہ آپ جماعتی مقصد کے لیے بڑی سے بڑی قربانی کر سکتے ہیں، بڑی سے بڑی بازی کھلا سکتے ہیں، اپنے جان و مال اور آل و اولاد کے لیے بڑے سے بڑا خطرہ مول لے سکتے ہیں، اور ایثار، نفیِ نفس، تواضع، خاکساری، محبت، ہمدردی اور خیر خواہی کی بہترین مثال پیش کر سکتے ہیں۔
اس میں ذرا بھی شبہ نہیں ہے کہ دنیا کی دوسری قومیں جس میدان میں بازی لے گئی ہیں، وہ یہی میدان ہے۔ ہم شخصی اور انفرادی نیکیوں میں بھی ان سے کم نہیں تھے، بلکہ شاید ان سے بھی بڑھ کر تھے، لیکن اجتماعی نیکیوں میں ہم ان سے پیچھے رہ گئے اور برابر پیچھے ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ اور مصیبت پر مصیبت یہ ہے کہ اب تک ہمارے بہت سے پڑھے لکھے لوگ بھی بیماری کی تہہ کو نہیں پہنچے۔ وہ خود بھی اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں (اور دوسروں کو بھی اس غلط فہمی میں مبتلا کرنا چاہتے ہیں) کہ ہماری اس پستی میں سولہ آنے دخل دوسروں کا ہے نہ کہ ہمارا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ مذہب صرف انفرادی نیکیوں کا مطالبہ کرتا ہے اور وہ اس کو پورا کر رہے ہیں۔ اجتماعی نیکیوں کے لیے ان کے نزدیک نہ مذہب نے کوئی ضابطہ بنایا ہے اور نہ اس کے لیے اس کا کوئی مطالبہ ہے۔ وہ صرف روزہ، نماز، حج اور زکوٰۃ کے احکام دیتا ہے اور اسی حد پر اس کا مطالبہ ختم ہو جاتا ہے۔ یہ خیال بے شمار خرابیوں کی جڑ ہے۔ اس چیز نے مسلمانوں کے سارے تصورِ دین کو غلط کر دیا ہے اور ان کو اس درجے تک لا گرایا ہے جس کو آپ دیکھ رہے ہیں۔ اسلام نے آپ کو انفرادی زندگی کے لیے جس طرح احکام و قوانین دیے ہیں، اور جس طرح آپ کی انفرادی زندگی کے لیے اس نے ایک نظامِ اخلاق بنایا ہے، اس طرح آپ کی اجتماعی زندگی کے لیے بھی ایک نظامِ اخلاق مقرر کیا ہے، اور ہر مسلمان سے اس کی پابندی کا مطالبہ کیا ہے اور اس کی عدم پابندی کی صورت میں ہم میں سے ہر شخص اسی طرح سے گنہگار ہوتا ہے جس طرح سے انفرادی زندگی کے احکام و قوانین یا نظامِ اخلاق کو توڑنے سے ہوتا ہے، بلکہ اگر میں یہ عرض کروں تو شاید غلطی نہیں کروں گا کہ اجتماعی احکام و قوانین اور اجتماعی نظامِ اخلاق کی خلاف ورزی کرنے والا (انفرادی زندگی کے احکام کی خلاف ورزی کرنے والے سے) زیادہ بڑا گنہگار ہو سکتا ہے کیونکہ جو شخص اپنی اجتماعی زندگی کے دائرے میں کوئی کوتاہی یا کوئی غلطی یا نافرمانی کرتا ہے، اس کا ضرر اس سے کہیں زیادہ وسیع اور دور رس ہوتا ہے جتنا کہ انفرادی زندگی کے کسی دائرے میں غلطی کرنے والے شخص کا ہو سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جماعتی نظم میں خرابیاں پیدا کرنے والوں کے لیے اسلام نے جو سزائیں رکھی ہیں، وہ اس سے کہیں زیادہ سخت ہیں۔ جو انفرادی زندگی کے آداب و قوانین میں خرابیاں پیدا کرنے والوں کے لیے رکھی ہیں۔ لیکن ایک عرصہ تک اجتماعی زندگی سے ناآشنا رہنے کی وجہ سے آج ہندوستان کے مسلمان جماعتی اخلاق و کردار کی اہمیت سے اس قدر بے پروا ہو گئے ہیں کہ سرے سے ان کی نظر میں اس کی کوئی مذہبی حیثیت ہی باقی نہیں رہ گئی ہے اور اگر اس قسم کی ذمہ داری ان پر ڈالی جاتی تو وہ اس کو ایک بوجھ محسوس کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب تک ہمارا یہ حال رہے گا، اس وقت تک ہماری حیثیت فرد فرد کی ہے نہ کہ جماعت کی۔ اور اس صورت میں ہم کو ہرگز یہ حق حاصل نہیں ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں اور برکتوں کے متوقع ہوں جن کا وعدہ اس جماعت سے کیا گیا ہے جس کے افراد اپنے اندر بہترین جماعتی سیرت، اور بہترین جماعتی اخلاق رکھتے ہوں۔ آپ اگر مسلمانوں کو یہ بھولا ہوا سبق یاد دلانا چاہتے ہیں اور ان کو تشتت اور انفرادیت کی اس ذلت سے نکال کر وحدت و اجتماعیت کی بلندیوں پر لے جانا چاہتے ہیں تو اس کا واحد طریقہ یہی ہے کہ ہر جگہ، ہر وقت اور ہر آن آپ کی جماعتی حیثیت نمایاں ہو۔ آپ کے افراد سے انانیت، خود غرضی، خود رائی، خود پرستی اور اس طرح کی ساری بیماریاں نکل جائیں اور ان کی جگہ ایثار، اخلاص، خیر خواہی اور ہمدردی کے جذبات لے لیں۔ صرف یہی ایک راستہ ہے جس پر چل کر آپ دنیا اور آخرت میں عزت حاصل کر سکتے ہیں اور صرف یہی ایک چیز ہے جس کے بل بوتے پر آپ اپنے دشمنوں کو شکست دے سکتے ہیں۔
میں اس سلسلے میں یہ امر بھی واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ جماعتی سیرت اور جماعتی اخلاق کے جو الفاظ میں بار بار بول رہا ہوں، اس سے میری مراد محض قومی کردار (National character) ہے۔ بلاشبہ اس چیز کی بھی ایک خاص اہمیت ہے اور کوئی قوم اس کے بغیر اپنی اجتماعی ہستی برقرار نہیں رکھ سکتی، لیکن ہم اس سے کہیں زیادہ بلند، پائیدار اور نفع بخش چیز کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ ہم اس اجتماعی کریکٹر کا آپ سے مطالبہ کر رہے ہیں جو اسلام نے اس شرعی جماعت کے لیے ضروری قرار دیا ہے، جس کو اسلامی اصطلاح میں ”الجماعۃ“ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یہ چیز نیشنل کریکٹر سے بہت اونچی ہے۔ نیشنل کریکٹر سے اگر ایک محدود دائرے کے اندر کچھ بھلائیاں اور خوبیاں وجود میں آتی ہیں تو ایک وسیع دائرے کے اندر اسی سے بہت سی خرابیاں بھی پیدا ہوتی ہیں۔ لیکن ہم جس اجتماعی سیرت کو پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، اُس سے تمام عالمِ انسانی کے لیے صرف بھلائی پیدا ہو سکتی ہے۔
دنیا میں بعض چیزیں گز سے ناپی جاتی ہیں، اور بعض چیزیں پیمانے سے ناپی جاتی ہیں۔ لیکن افراد اور جماعتوں کے ناپنے کی کسوٹی وہ عقیدہ ہوتا ہے جس کا وہ اعلان کرتی ہیں۔ آپ نے بھی ایک واضح عقیدے کا دنیا کے سامنے اعلان کیا ہے اور دنیا آپ کو اسی عقیدے سے جانچے اور پرکھے گی۔ اب یہ دیکھا جائے گا کہ آپ نے اس عقیدے کے لیے کتنی قربانی کی ہے، مشکلات میں اس پر کتنی استقامت دکھائی ہے، اس کے لیے کتنے خطرات کا مقابلہ کیا ہے، اور اس کے عشق میں کیا کیا بازیاں کھیلی ہیں۔ اگر اس اعتبار سے آپ کا کوئی وزن ہوا تو دنیا میں بھی آپ کا ایک مقام ہے اور آخرت میں بھی آپ کا ایک درجہ ہے۔ لیکن اگر اس لحاظ سے آپ بودے اور ناکارہ ثابت ہوئے تو نہ دنیا میں آپ کے لیے کوئی جگہ ہے اور نہ آخرت میں آپ کے لیے کوئی درجہ ہے۔ یہ ممکن ہے کہ آپ اپنے آپ کو خود فریبی میں پڑ کر کوئی بڑی چیز سمجھ بیٹھیں، اور کچھ نہ کرنے کے باوجود سمجھنے لگیں کہ آپ نے بہت کچھ کر لیا ہے، لیکن تمام دنیا کو آپ دھوکا نہیں دے سکتے ہیں، تو خدا کو بہرحال دھوکا نہیں دے سکتے۔ خلق اور خدا کی طرف سے آپ کو وہی صلہ ملے گا جس کے فی الواقع آپ حقدار ہوں گے، نہ کہ جس کا دعویٰ کریں۔ مجھے اس موقع پر امام احمد بن حنبل اور مشہور ڈاکو ابوالہیثم کا واقعہ یاد آگیا جو تاریخوں میں مذکور ہے اور جس کو آپ نے بھی شاید پڑھا ہو۔ امام احمد بن حنبل جیسے جلیل القدر محدث نے چور کی عزیمت سے سبق حاصل کیا، اور اس سبق کے لیے وہ اس کے زندگی بھر ممنون رہے، کیونکہ درحقیقت آدمی کا اصلی جوہر وہ عزیمت و استقامت ہے جو وہ اپنے پیشِ نظر مقصد کے لیے مزاحمتوں کے مقابلے میں دکھاتا ہے۔ اگر ایک شخص ایک باطل مقصد کے لیے سچا عزم و حوصلہ رکھتا ہے تو وہ بھی اس شخص کے مقابلے میں قابلِ قدر ہے جو دعویٰ تو ایک سچے مقصد کا کرتا ہے لیکن اس کے لیے قربانی کا کوئی جذبہ نہیں رکھتا۔
وفاداری بشرطِ استواری اصلِ ایمان ہے
میرے بت خانے میں تو کعبے میں گاڑو برہمن کو
اب میں اس افتتاحی تقریر کو ختم کرتا ہوں اور آپ کو دعوت دیتا ہوں کہ ان امور کو سامنے رکھ کر اس اجتماع کی کارروائی شروع کریں۔ اللہ تعالیٰ مدد فرمائے اور ہم کو صراطِ مستقیم کی ہدایت دے۔
راہِ حق کے لیے ضروری توشہ
خطبۂ مسنونہ کے بعد:
رفقائے عزیز، چار دن کے اجتماع کے بعد اب ہم لوگ ایک دوسرے سے الگ ہو رہے ہیں۔ جتنا کام اس اجتماع میں کرنا تھا، ہم کر چکے ہیں اور ایک حد تک ہم اس کا جائزہ بھی اپنے اجتماعِ خاص میں لے چکے ہیں۔ اب رخصت ہونے سے پہلے میں چاہتا ہوں کہ اپنے رفقاء سے خطاب کر کے انہیں وہ ضروری ہدایات دے دوں جو آئندہ اس کام کو صحیح طریقے پر چلانے کے لیے مطلوب ہیں۔
تعلق باللہ
اوّلین چیز جس کی ہدایت ہمیشہ سے انبیاء، خلفائے راشدین اور صلحائے امت ہر موقع پر اپنے ساتھیوں کو دیتے رہے ہیں، وہ اللہ سے ڈرنے اور اس کی محبت دل میں بٹھانے (کی نصیحت ہے)۔ میں نے بھی سب سے پہلے یہی نصیحت کی ہے، اور آئندہ بھی جب بھی موقع ملے گا اسی کی نصیحت کرتا رہوں گا کیونکہ یہ وہ چیز ہے جس کو ہر دوسری چیز پر مقدم ہی ہونا چاہیے۔ عقیدے میں اللہ پر ایمان مقدم ہے۔ عبادت میں اللہ سے دل کا لگاؤ مقدم ہے۔ اخلاق میں اللہ کی خشیت مقدم ہے۔ معاملات میں اللہ کی رضا کی طلب مقدم ہے۔ اور فی الجملہ ہماری ساری زندگی ہی کی درستی کا انحصار اس پر ہے کہ ہماری دوڑ دھوپ اور سعی و جہد میں رضائے الٰہی کی مقصودیت ہر دوسری غرض پر مقدم ہو۔ پھر خصوصیت کے ساتھ یہ کام، جس کے لیے ہم ایک جماعت کی صورت میں اُٹھے ہیں، یہ تو سراسر تعلق باللہ ہی کے بل پر چل سکتا ہے۔ یہ اتنا ہی مضبوط ہو گا، جتنا اللہ کے ساتھ ہمارا تعلق مضبوط ہو گا۔ اور یہ اتنا ہی کمزور ہو گا جتنا خدانخواستہ اللہ کے ساتھ ہمارا تعلق کمزور ہو گا۔
(۱) مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے یہ تقریر ”ہدایات“ کے عنوان سے ۱۳-۱۹۵۱ء کو جماعت کے اجتماعِ عام منعقدہ کراچی کے آخری اجلاس میں فرمائی۔ (مرتب)
ظاہر بات ہے کہ آدمی جو کام بھی کرنے اٹھتا ہے، خواہ وہ دنیا کا کام ہو یا دین کا، اس کی اصل محرک وہ غرض ہوتی ہے جس کی خاطر وہ کام کرنے اُٹھا ہے اور اس میں سرگرمی اسی وقت پیدا ہوتی ہے جب کہ اس غرض کے ساتھ آدمی کی دلچسپی میں گہرائی اور گرم جوشی ہو۔ نفس کے لیے کام کرنے والا خود غرضی کے بغیر نفس پرستی نہیں کر سکتا اور نفس کی محبت میں جتنی شدت ہوتی ہے، اتنی ہی سرگرمی کے ساتھ وہ اس کی خدمت بجالاتا ہے۔ اولاد کے لیے کام کرنے والا اولاد کی محبت میں دیوانہ ہوتا ہے، تب ہی وہ اپنے عیش و آرام کو اولاد کی بھلائی پر قربان کرتا ہے، اور اپنی دنیا ہی نہیں، اپنی عاقبت تک اس غرض کے لیے خطرے میں ڈال دیتا ہے کہ اس کے بچے زیادہ سے زیادہ خوشحال ہوں۔ قوم یا وطن کے لیے کام کرنے والا قوم و ملک کے عشق میں گرفتار ہوتا ہے، تب ہی وہ قوم و ملک کی آزادی، حفاظت اور برتری کی فکر میں مالی نقصانات اٹھاتا ہے، قید و بند کی سختیاں جھلتا ہے، شب و روز کی محنتیں صرف کرتا ہے اور جان تک قربان کر دیتا ہے۔ اب اگر ہم یہ کام نہ اپنے نفس کے لیے کر رہے ہیں، نہ کوئی خاندانی غرض اس کی محرک ہے، نہ کوئی ملکی و قومی مفاد اس میں ہمارے پیشِ نظر ہے، بلکہ صرف ایک اللہ کو راضی کرنا ہمیں مطلوب ہے اور اسی کا کام سمجھ کر ہم نے اسے اختیار کیا ہے، تو آپ خود سمجھ سکتے ہیں کہ جب تک اللہ ہی سے ہمارا تعلق گہرا اور مضبوط نہ ہو، یہ کام کبھی نہیں چل سکتا، اور اس میں سرگرمی آسکتی ہے تو اسی وقت جب کہ ہماری ساری رغبتیں اعلائے کلمۃ اللہ کی سعی میں مرکوز ہو جائیں۔ اس کام میں جو لوگ شریک ہوں، ان کے لیے صرف اتنی بات کافی نہیں ہے کہ ان کا تعلق اللہ سے بھی ہو، بلکہ ان کا تعلق اللہ سے ہی ہونا چاہیے۔ اسے تعلقات میں سے ایک تعلق نہیں بلکہ ایک ہی اصلی اور حقیقی تعلق ہونا چاہیے، اور انہیں ہر روز یہ فکر دامن گیر رہنی چاہیے کہ اللہ سے ان کا تعلق گھٹے نہیں بلکہ روز بروز زیادہ بڑھتا اور گہرا ہوتا چلا جائے۔
اس معاملے میں ہمارے درمیان دو رائیں نہیں ہیں کہ تعلق باللہ ہی ہمارے اس کام کی جان ہے۔ جماعت کا کوئی رفیق الحمدللہ اس کی اہمیت کے احساس سے غافل نہیں۔ البتہ جو سوالات ذہن میں خلش رکھتے ہیں، وہ یہ ہیں کہ تعلق باللہ سے ٹھیک مراد کیا ہے؟ اس کو پیدا کرنے اور بڑھانے کا طریقہ کیا ہے؟ اور آخر ہم کس طرح یہ معلوم کریں کہ ہمارا تعلق واقعی اللہ سے ہے یا نہیں؟ اور ہے تو کتنا ہے؟ ان سوالات کا کوئی واضح جواب معلوم نہ ہونے کی وجہ سے میں نے یہ خدشہ محسوس کیا ہے کہ لوگ گویا اپنے آپ کو ایک بے نشان صحرا میں پا رہے ہیں جہاں کچھ پتہ نہیں چلتا کہ ان کی منزلِ مقصود ٹھیک کس سمت میں ہے اور کوئی اندازہ نہیں ہوتا کہ انہوں نے کتنا راستہ طے کیا اور اب کس مرحلے میں ہیں اور آگے کتنے مراحل باقی ہیں۔ اس وجہ سے بسا اوقات ہمارا کوئی رفیق مبہم تصورات میں گم ہونے لگتا ہے، کوئی ایسے طریقوں کی طرف مائل ہو جاتا ہے جو موصل الی المقصود نہیں ہیں، کسی کے لیے مقصود سے قریب کا تعلق اور دور کا تعلق رکھنے والی چیزوں میں امتیاز کرنا مشکل ہو رہا ہے، اور کسی پر حیرت کا عالم طاری ہے۔ اس لیے آج میں صرف تعلق باللہ کی نصیحت ہی پر اکتفا نہ کروں گا بلکہ اپنے علم کی حد تک ان سوالات کا بھی ایک واضح جواب دینے کی کوشش کروں گا۔
تعلق باللہ کے معنی
تعلق باللہ سے مراد، جیسا کہ قرآن مجید میں بتایا گیا ہے، یہ ہے کہ آدمی کا جینا اور مرنا اور اس کی عبادتیں اور قربانیاں سب کی سب اللہ کے لیے ہوں۔
إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ
اور وہ پوری طرح یکسو ہو کر، اپنے دل کو بالکل اللہ کے لیے خالص کر کے اس کی بندگی کرے۔
وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاءَ
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف مواقع پر اپنے ارشادات میں اس تعلق کی ایسی تشریح فرما دی ہے کہ اس کے مفہوم و مدعا میں کوئی ابہام باقی نہیں رہا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کا تتبع کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ تعلق باللہ کے معنی ہیں ”خَشْيَةِ اللهِ فِي السِّرِّ وَالْعَلَانِيَةِ“ (کھلے اور چھپے ہر کام میں اللہ کا خوف محسوس کرنا)، اور یہ کہ "أَنْ تَكُونَ بِمَا فِي يَدَيِ اللَّهِ أَوْثَقَ بِمَا فِي يَدَيْكَ" (اپنے ذرائع و وسائل کی بہ نسبت تیرا بھروسہ اللہ کی قدرت پر زیادہ ہو)، اور یہ کہ ”مَنِ الْتَمَسَّ رِضَى اللَّهِ بِسَخَطِ النَّاسِ“ (آدمی اللہ کو راضی کرنے کے لیے لوگوں کو ناراض کر لے)، اور اس کے بالکل برعکس بات یہ ہے کہ آدمی لوگوں کو راضی کرنے کے لیے اللہ کی ناراضگی مول لے گیا۔ ”مَنِ الْتَمَسَّ رِضَى النَّاسِ بِسَخَطِ اللهِ“۔ پھر جب یہ تعلق بڑھتے بڑھتے اس حد کو پہنچ جائے کہ آدمی کی محبت اور دشمنی اور اس کا دینا اور روکنا جو کچھ بھی ہو، اللہ کے لیے اور اللہ ہی کی خاطر ہو، اور نفسانی اغراض کی لاگ اس کے ساتھ نہ لگی رہے، تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس نے تعلق باللہ کی تکمیل کر لی ہے۔
مَنْ أَحَبَّ لِلَّهِ وَأَبْغَضَ لِلَّهِ وَأَعْطَى لِلَّهِ وَمَنَعَ لِلَّهِ فَقَدِ اسْتَكْمَلَ الْإِيمَانَ
پھر یہ جو آپ ہر روز رات کو اپنی دعائے قنوت میں پڑھتے ہیں، اس کا لفظ لفظ اس تعلق کی نشاندہی کرتا ہے جو آپ کا اللہ کے ساتھ ہونا چاہیے۔ اس کے الفاظ پر غور کیجیے اور دیکھتے جائیے کہ آپ ہر رات اللہ کے ساتھ کس قسم کا تعلق رکھنے کا اقرار کیا کرتے ہیں:
اللَّهُمَّ إِنَّا نَسْتَعِينُكَ وَنَسْتَهْدِيكَ وَنَسْتَغْفِرُكَ وَنُؤْمِنُ بِكَ وَنَتَوَكَّلُ عَلَيْكَ وَنُثْنِي عَلَيْكَ الْخَيْرَ كُلَّهُ وَنَشْكُرُكَ وَلَا نَكْفُرُكَ وَنَخْلَعُ وَنَتْرُكُ مَنْ يَفْجُرُكَ، اللَّهُمَّ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَلَكَ نُصَلِّي وَنَسْجُدُ وَإِلَيْكَ نَسْعَىٰ وَنَحْفِدُ وَنَرْجُو رَحْمَتَكَ وَنَخْشَىٰ عَذَابَكَ إِنَّ عَذَابَكَ بِالْكُفَّارِ مُلْحِقٌ۔
”خدایا! ہم تجھ سے مدد مانگتے ہیں، تجھ سے رہنمائی طلب کرتے ہیں، تجھ سے معافی چاہتے ہیں، تجھ پر ایمان لاتے ہیں، تیرے ہی اوپر بھروسہ رکھتے ہیں اور سب اچھی تعریفیں تیرے ہی لیے مخصوص کرتے ہیں، ہم تیرے شکر گزار ہیں، کفرانِ نعمت کرنے والے نہیں ہیں۔ ہم ہر اس شخص کو چھوڑ دیں گے جو تیری نافرمانی کرے۔ خدایا! ہم تیری ہی بندگی کرتے ہیں، تیرے ہی لیے نماز پڑھتے ہیں اور سجدہ کرتے ہیں، اور ہماری ساری دوڑ دھوپ تیری طرف ہی ہے۔ ہم تیری رحمت کے اُمیدوار ہیں اور تیرے عذاب سے ڈرتے ہیں، یقیناً تیرا سخت عذاب ان لوگوں کو پہنچنے والا ہے جو کافر ہیں۔“
پھر اسی تعلق باللہ کی تصویر اس دعا میں پائی جاتی ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات کو تہجد کے لیے اٹھتے وقت پڑھا کرتے تھے۔ اس میں آپ اللہ کو خطاب کر کے عرض کرتے ہیں:
اللَّهُمَّ لَكَ أَسْلَمْتُ وَبِكَ آمَنْتُ وَعَلَيْكَ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْكَ أَنَبْتُ وَبِكَ خَاصَمْتُ وَإِلَيْكَ حَاكَمْتُ
”خدایا! میں تیرا ہی مطیعِ فرمان ہوا اور تجھ پر ایمان لایا، اور تیرے ہی اوپر میں نے بھروسہ کیا اور تیری ہی طرف میں نے رجوع کیا، اور تیری ہی خاطر میں لڑا اور تیرے ہی حضور اپنا مقدمہ لایا۔“
تعلق باللہ بڑھانے کا طریقہ
یہ ہے ٹھیک ٹھیک نوعیت اس تعلق کی جو ایک مومن کو اللہ سے ہونا چاہیے۔ اب دیکھنا چاہیے کہ اس تعلق کو پیدا کرنے اور بڑھانے کا طریقہ کیا ہے۔ اُس کو پیدا کرنے کی صورت صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ آدمی سچے دل سے اللہ وحدہ لاشریک کو اپنا اور ساری کائنات کا مالک، معبود، اور حاکم تسلیم کرے۔ الوہیت کی تمام صفات اور حقوق اور اختیارات کو اللہ کے لیے مخصوص مان لے۔ اور اپنے قلب کو شرک کے ہر شائبے سے پاک کر دے۔ یہ کام جب آدمی کر لیتا ہے تو اللہ سے اس کا تعلق قائم ہو جاتا ہے۔
رہا اس تعلق کا نشوونما، تو وہ دو طریقوں پر منحصر ہے: ایک فکر و فہم کا طریقہ اور دوسرا عمل کا طریقہ۔
فکر و فہم کے طریقے سے اللہ کے ساتھ تعلق بڑھانے کی صورت یہ ہے کہ آپ قرآن مجید اور احادیثِ صحیحہ کی مدد سے ان نسبتوں کو تفصیل کے ساتھ اور زیادہ سے زیادہ وضاحت کے ساتھ سمجھیں جو آپ کے اور خدا کے درمیان فطرتاً ہیں اور بالفعل ہونی چاہئیں۔ ان نسبتوں کا ٹھیک ٹھیک احساس و ادراک اور ذہن میں ان کا استحضار صرف اس طریقے سے ممکن ہے کہ آپ قرآن و حدیث کو سمجھ کر پڑھیں۔ بار بار اس کے مطالعے کی تکرار کرتے رہیں اور ان میں جو جو نسبتیں آپ کے اور خدا کے درمیان معلوم ہوں، ان پر غور و فکر کر کے اور اپنی حالت کا جائزہ لے کر دیکھتے رہیں کہ ان میں سے کس نسبت کو آپ نے بالفعل قائم کر رکھا ہے، کہاں تک اس کے تقاضے آپ پورے کر رہے ہیں اور کس کس پہلو میں آپ کیا کمی محسوس کرتے ہیں۔ یہ احساس اور یہ استحضار جتنا جتنا بڑھے گا، ان شاء اللہ اسی تناسب کے ساتھ اللہ سے آپ کا تعلق بھی بڑھے گا۔
مثال کے طور پر ایک نسبت آپ کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان یہ ہے کہ آپ عبد ہیں اور وہ معبود ہے۔ دوسری نسبت یہ ہے کہ آپ زمین پر اس کے خلیفہ ہیں اور اس نے اپنی بے شمار امانتیں آپ کے سپرد کر رکھی ہیں۔ تیسری نسبت یہ ہے کہ آپ ایمان لا کر اس کے ساتھ ایک بیعت کا معاہدہ کر چکے ہیں جس کے مطابق آپ نے اپنی جان و مال اس کے ہاتھ بیچا ہے اور اس نے جنت کے وعدے پر خریدی ہے۔ چوتھی نسبت آپ کے اور اس کے درمیان یہ ہے کہ آپ اس کے سامنے جواب دہ ہیں اور وہ آپ کا حساب صرف آپ کے ظاہر ہی کے لحاظ سے لینے والا نہیں ہے بلکہ آپ کی جملہ حرکات و سکنات، بلکہ آپ کی نیتوں اور ارادوں تک کا ریکارڈ اس کے پاس محفوظ ہو رہا ہے۔ غرض یہ اور دوسری بہت سی نسبتیں ایسی ہیں جو آپ کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان موجود ہیں۔ بس انہی نسبتوں کو سمجھنے، محسوس کرنے، یاد رکھنے، اور ان کے تقاضے پورے کرنے پر اللہ کے ساتھ آپ کے تعلق کا بڑھنا اور قریب تر ہونا موقوف ہے۔ آپ جس قدر ان سے غافل ہوں گے، اللہ سے آپ کا تعلق اتنا ہی کمزور ہو گا، اور جس قدر زیادہ ان سے خبردار اور ان کی طرف متوجہ رہیں گے، اسی قدر آپ کا تعلق گہرا اور مضبوط ہو گا۔“
لیکن یہ فکری طریقہ اس وقت تک نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکتا، بلکہ زیادہ دیر تک نبھایا بھی نہیں جا سکتا، جب تک کہ عملی طریقے سے اس کو مدد اور قوت نہ پہنچائی جائے، اور وہ عملی طریقہ ہے احکامِ الٰہی کی مخلصانہ اطاعت اور ہر ہر اس کام میں جان لڑا لڑا کر دوڑ دھوپ کرنا جس کے متعلق آدمی کو معلوم ہو جائے کہ اس میں اللہ کی رضا ہے۔ احکامِ الٰہی کی مخلصانہ اطاعت کا مطلب یہ ہے کہ جن کاموں کا اللہ نے حکم دیا ہے، ان کو آپ بادلِ نخواستہ نہیں بلکہ اپنے دل کی رغبت اور شوق کے ساتھ خفیہ اور علانیہ انجام دیں اور اس میں کسی دنیوی غرض کو نہیں بلکہ صرف اللہ کی خوشنودی کو ملحوظِ خاطر رکھیں، اور جن کاموں سے اللہ نے روکا ہے، ان سے قلبی نفرت و کراہت کے ساتھ خفیہ اور علانیہ پرہیز کریں، اور اس پرہیز کا محرک کسی دنیوی نقصان کا خوف نہیں، بلکہ اللہ کے غضب کا خوف ہو۔ یہ طرزِ عمل آپ کو تقویٰ کے مقام پر پہنچا دے گا، اور اس کے بعد دوسرا طرزِ عمل آپ کو احسان کی منزل پر پہنچائے گا، یعنی یہ کہ آپ دنیا میں ہر اس بھلائی کو فروغ دینے کی کوشش کریں جسے اللہ پسند فرماتا ہے، اور ہر اس برائی کو دبانے کی کوشش کریں جسے اللہ ناپسند فرماتا ہے، اور اس کی کوشش میں جان، مال، وقت، محنت اور دل و دماغ کی صلاحیتیں، غرض کسی چیز کے قربان کرنے میں بھی بخل سے کام نہ لیں۔ پھر اس راہ میں جو قربانی بھی آپ کریں، اس پر کوئی فخر آپ کے دل میں پیدا نہ ہو، نہ یہ خیال کبھی آپ کے دل میں آئے کہ آپ نے کسی پر احسان کیا ہے، بلکہ بڑی سے بڑی قربانی کر کے بھی آپ یہی سمجھتے رہیں کہ آپ کے خالق کا جو حق آپ پر تھا، وہ پھر بھی ادا نہیں ہو سکا ہے۔
تعلق باللہ کی افزائش کے وسائل
اس طرزِ عمل کو اختیار کرنا درحقیقت کوئی آسان کام نہیں۔ یہ ایک نہایت دشوار گزار گھاٹی ہے جس پر چڑھنے کے لیے بڑی طاقت درکار ہے اور یہ طاقت جن تدبیروں سے آدمی کے اندر پیدا ہو سکتی ہے، وہ یہ ہیں:
یہ وہ سیدھا سادہ سلوک ہے جو قرآن و سنت نے ہمیں بتایا ہے۔ اس پر اگر عمل پیرا ہوں تو بغیر کسی قسم کی ریاضتوں اور مجاہدوں اور مراقبوں کے، آپ اپنے گھروں میں، اپنے بال بچوں کے درمیان رہتے ہوئے اور اپنے سارے دنیوی کام انجام دیتے ہوئے اپنے خدا سے اپنا تعلق بڑھا سکتے ہیں۔
تعلق باللہ کو ناپنے کا پیمانہ
اس کے بعد یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ ہم کس طرح یہ معلوم کریں کہ اللہ کے ساتھ ہمارا تعلق کتنا ہے اور ہمیں کیسے پتہ چلے کہ وہ بڑھ رہا ہے یا گھٹ رہا ہے؟ میں کہتا ہوں کہ اسے معلوم کرنے کے لیے آپ کو خواب کی بشارتوں اور کشف و کرامات کے ظہور، اور اندھیری کوٹھڑی میں انوار کے مشاہدے کا انتظار کرنے کی کوئی حاجت نہیں۔ اس تعلق کو ناپنے کا پیمانہ تو اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے قلب میں رکھ دیا ہے۔ آپ بیداری کی حالت میں اور دن کی روشنی میں ہر وقت اس کو ناپ کر دیکھ سکتے ہیں۔ اپنی زندگی کا، اپنی مساعی کا، اور اپنے جذبات کا جائزہ لیجیے۔ اپنا حساب آپ خود لے کر دیکھیے کہ ایمان لا کر اللہ سے بیعت کا جو معاہدہ آپ کر چکے ہیں، اسے آپ کہاں تک نباہ رہے ہیں؟ اللہ کی امانتوں میں آپ کا تصرف ایک امین ہی کا سا تصرف ہے یا کچھ خیانت بھی پائی جاتی ہے؟ آپ کے اوقات اور محنتوں، قابلیتوں اور اموال کا کتنا حصہ خدا کے کام میں جا رہا ہے اور کتنا دوسرے کاموں میں؟ آپ کے اپنے مفاد اور جذبات پر چوٹ پڑے تو آپ کے غصے اور بے کلی کا کیا حال ہوتا ہے، اور جب خدا کے معاملے میں بغاوت ہو رہی ہو تو اسے دیکھ کر آپ کے دل کی کڑھن اور آپ کے غضب اور بے چینی کی کیا کیفیت رہتی ہے؟ یہ اور دوسرے بہت سے سوالات ہیں جو آپ خود اپنے نفس پر کر سکتے ہیں، اور اس کا جواب لے کر ہر روز معلوم کر سکتے ہیں کہ اللہ سے آپ کا کوئی تعلق ہے یا نہیں، اور ہے تو کتنا ہے اور اس میں کمی ہو رہی ہے یا اضافہ ہو رہا ہے۔ رہیں بشارتیں اور کشوف و کرامات اور انوار و تجلیات، تو آپ ان کے اکتساب کی فکر میں نہ پڑیں۔ سچی بات یہ ہے کہ اس مادی دنیا کے دھوکا دینے والے مظاہر میں توحید کی حقیقت کو پا لینے سے بڑا کوئی کشف نہیں۔ شیطان اور اس کی ذریت کے دلائے ہوئے ڈراووں اور لالچوں کے مقابلے میں راہِ راست پر قائم رہنے سے بڑی کوئی کرامت نہیں۔ کفر و فسق اور ضلالت کے اندھیروں میں حق کی روشنی دیکھنے اور اس کا اتباع کرنے سے بڑا کوئی مشاہدۂ انوار نہیں ہے، اور مومن کو اگر کوئی سب سے بڑی بشارت مل سکتی ہے تو وہ اللہ کو رب مان کر اس پر جم جانے اور ثابت قدمی کے ساتھ اس کی راہ پر چلنے سے ملتی ہے۔
إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنتُمْ تُوعَدُونَ۔
ترجیحِ آخرت
تعلق باللہ کے بعد دوسری چیز جس کی میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں، وہ یہ ہے کہ ہر حال میں دنیا پر آخرت کو ترجیح دیجیے اور اپنے ہر کام میں آخرت ہی کی فوز و فلاح کو مقصود بنائیے۔
قرآن مجید ہمیں بتاتا ہے کہ دائمی اور ابدی زندگی کا مقام آخرت ہے اور دنیا کے اس عارضی قیام میں ہم صرف اس امتحان کے لیے بھیجے گئے ہیں کہ خدا کے دیے ہوئے تھوڑے سے سروسامان، تھوڑے سے اختیارات اور گنے چنے اوقات و مواقع میں کام کر کے ہم میں سے کون اپنے آپ کو خدا کی جنت کا مستقل آباد کار بننے کے لیے موزوں ثابت کرتا ہے۔ یہاں جس چیز کا امتحان ہم سے لیا جا رہا ہے، وہ یہ نہیں کہ ہم صنعتیں اور تجارتیں اور کھیتیاں اور سلطنتیں چلانے میں کیا کمالات دکھاتے ہیں، اور عمارتیں اور سڑکیں کتنی اچھی بناتے ہیں، اور ایک شاندار تمدن پیدا کرنے میں کتنی کامیابی حاصل کرتے ہیں، بلکہ سارا امتحان صرف اس امر کا ہے کہ ہم خدا کی دی ہوئی امانتوں میں خدا کی خلافت کا حق ادا کرنے کی کتنی قابلیت رکھتے ہیں۔ باغی اور خود مختار بن کر رہتے ہیں، یا مطیع و فرمانبردار بن کر؟ خدا کی زمین پر خدا کی مرضی پوری کرتے ہیں یا اپنے نفس اور اَرْبَابٍ مِّنْ دُونِ اللهِ کی مرضی؟ خدا کی دنیا کو خدائی معیار کے مطابق سنوارنے کی کوشش کرتے ہیں یا بگاڑنے کی؟ اور خدا کی خاطر شیطانی قوتوں سے کشمکش اور مقابلہ کرتے ہیں یا ان کے آگے سپر ڈال دیتے ہیں؟ جنت میں آدم و حوا علیہما السلام کا جو پہلا امتحان ہوا تھا، وہ دراصل اسی امر میں تھا اور آخرت میں جنت کی مستقل آبادی کے لیے نوعِ انسانی کے افراد کا جو انتخاب ہو گا، وہ بھی اسی فیصلہ کن سوال پر ہو گا۔ پس کامیابی و ناکامی کا اصل معیار یہ نہیں ہے کہ امتحان دینے کے دوران میں کس نے تختِ شاہی پر بیٹھ کر امتحان دیا اور کس نے تختۂ دار پر، اور کس کی آزمائش ایک سلطنتِ عظمیٰ دے کر کی گئی اور کسے ایک جھونپڑی میں آزمایا گیا۔ امتحان گاہ کے یہ وقتی اور عارضی حالات اگر اچھے ہوں تو یہ فوز و فلاح کی دلیل نہیں اور بُرے ہوں تو یہ خائب و خاسر رہ جانے کے ہم معنی نہیں۔ اصل کامیابی جس پر ہماری نگاہیں جمی رہنی چاہئیں، یہ ہے کہ دنیا کی اس امتحان گاہ میں جس جگہ بھی ہم بٹھائے گئے ہوں اور جو کچھ دے کر بھی ہمیں آزمایا گیا ہو، اس میں ہم اپنے آپ کو خدا کا وفادار بندہ اور اس کی مرضیات کا متبع ثابت کریں تاکہ آخرت میں ہم کو وہ پوزیشن ملے جو خدا نے اپنے وفاداروں کے لیے رکھی ہے۔
حضرات، یہ ہے اصل حقیقت۔ مگر یہ ایسی حقیقت ہے جسے محض ایک دفعہ سمجھ لینا اور مان جانا کافی نہیں ہے، بلکہ اسے ہر وقت ذہن میں تازہ رکھنے کے لیے سخت کوشش کرنی پڑتی ہے۔ ورنہ ہر وقت اس کا امکان رہتا ہے کہ ہم آخرت کے منکر نہ ہونے کے باوجود دنیا میں اس طریقے پر کام کرنے لگیں جو آخرت کو بھول کر اور دنیا کو مقصود بنا کر کام کرنے والوں کا طریقہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آخرت ایک غیر محسوس چیز ہے جو مرنے کے بعد سامنے آنے والی ہے۔ اس دنیا میں ہم اس کا اور اس کے اچھے بُرے نتائج کا ادراک صرف ذہنی توجہ ہی سے کر سکتے ہیں۔ اس کے برعکس دنیا ایک محسوس چیز ہے جو اپنی تلخیوں اور شیرینیوں ہر وقت ہمیں چکھاتی رہتی ہے، اور جس کے اچھے اور بُرے نتائج ہر آن ہمارے سامنے آکر ہمیں یہ دھوکا دیتے رہتے ہیں کہ اصل نتائج بس یہی ہیں۔ آخرت بگڑے تو اس کی تھوڑی بہت تلخی ہمیں صرف ایک گوشۂ دل کے پھیلے ہوئے غم میں محسوس ہوتی ہے، بشرطیکہ وہ زندہ ہو۔ مگر دنیا بگڑے تو اس کی چبھن ہمارا رونگٹا رونگٹا محسوس کرتا ہے اور ہمارے سارے عزیز و اقارب، دوست آشنا اور سوسائٹی کے لوگ، سب مل جل کر اسے محسوس کرتے اور کراتے ہیں۔ اسی طرح آج اس کی بھلائی کی کوئی ٹھنڈک ہمیں ایک گوشۂ دل کے سوا کہیں محسوس نہیں ہوتی اور وہاں بھی صرف اس صورت میں جب کہ نفسِ امارہ نے دل کے اس گوشے کو سُن نہ کر دیا ہو۔ بخلاف اس کے، دنیا کی بھلائی ہمارے پورے وجود کے لیے لذت بن جاتی ہے، ہمارے تمام حواس اس کو محسوس کرتے ہیں اور ہمارا سارا ماحول اس کے احساس میں شریک ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آخرت کو بطور ایک عقیدے کے مان لینا چاہے بہت مشکل نہ ہو، مگر اسے اندازِ فکر اور اخلاق و اعمال کے پورے نظام کی بنیاد بنا کر زندگی بھر کام کرنا سخت مشکل ہے اور دنیا کو زبان سے ہیچ کہہ دینا چاہے کتنا ہی آسان ہو، مگر دل سے اس کی محبوبیت اور خیال سے اس کی مطلوبیت کو نکال پھینکنا کوئی آسان کام نہیں۔ یہ کیفیت بڑی کوشش سے حاصل ہوتی ہے اور پیہم کوشش کرتے رہنے سے قائم رہ سکتی ہے۔
فکرِ آخرت کی تربیت کے ذرائع
آپ پوچھیں گے کہ یہ کوشش ہم کیسے کریں اور کن چیزوں سے اس میں مدد لیں؟ میں عرض کروں گا کہ اس کے بھی دو طریقے ہیں: ایک فکری طریقہ اور دوسرا عملی طریقہ۔
فکری طریقہ یہ ہے کہ آپ صرف آمَنْتُ بِالْيَوْمِ الْآخِرِ کہہ دینے پر اکتفا نہ کریں، بلکہ قرآن کو سمجھ کر پڑھنے کی عادت ڈالیں۔ جس سے رفتہ رفتہ آپ کو آخرت کا عالم، دنیا کے اس پردے کے پیچھے غیب کی آنکھوں سے نظر آنے لگے گا۔ قرآن کا شاید کوئی ایک صفحہ بھی ایسا نہیں جس میں کسی نہ کسی ڈھنگ سے آخرت کا ذکر نہ کیا گیا ہو۔ جگہ جگہ آپ کو اس میں عالمِ آخرت کا نقشہ ایسی تفصیل کے ساتھ ملے گا جیسے کوئی وہاں کا آنکھوں دیکھا حال بیان کر رہا ہو۔ بلکہ بہت سے مقامات پر تو یہ نقشہ کشی ایسے عجیب طریقے سے کی گئی ہے کہ پڑھنے والا تھوڑی دیر کے لیے اپنے آپ کو وہاں پہنچا ہوا محسوس کرتا ہے اور اتنی کسر رہ جاتی ہے کہ اس مادی دنیا کا دھندلا سا پردہ ذرا سامنے سے ہٹ جائے تو آدمی آنکھوں سے وہ سب کچھ دیکھ لے جو الفاظ میں بیان کیا جا رہا ہے۔ پس قرآن کریم کو بالتزام سمجھ کر پڑھتے رہنے سے بتدریج آدمی کو یہ کیفیت حاصل ہو سکتی ہے کہ اس کے ذہن پر آخرت کا خیال مسلط ہو جائے اور وہ ہر وقت یہ محسوس کرنے لگے کہ اس کی مستقل قرار گاہ موت کے بعد کا عالم ہے جس کی اسے دنیا کی اس عارضی زندگی میں تیاری کرنی ہے۔
اس ذہنی کیفیت کو مزید تقویت حدیث کے مطالعے سے حاصل ہوتی ہے، جس میں بار بار زندگی بعد الموت کے حالات بالکل ایک چشم دید مشاہدے کی شان سے آدمی کے سامنے آتے ہیں اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کس طرح ہر وقت آخرت کے یقین سے معمور رہتے تھے۔ پھر اس کیفیت کو راسخ کرنے میں مزید مدد زیارتِ قبور سے ملتی ہے، جس کی واحد غرض نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بتائی ہے کہ آدمی کو اپنی موت یاد رہے اور وہ دنیا کی اس متاعِ غرور کے ساتھ مشغول رہتے ہوئے اس بات کو نہ بھول جائے کہ آخرکار اسے جانا وہیں ہے جہاں سب گئے ہیں اور روز چلے جا رہے ہیں۔ البتہ یہ خیال رہے کہ اس غرض کے لیے وہ مزارات (مفید نہیں) جنہیں (لوگ) سجدہ گاہ بنا چکے ہیں اور جن کے متعلق یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ وہاں کے مدفون بزرگ ان کی حاجتیں پوری کر سکتے ہیں، یا پھر بادشاہوں کے اُن عالی شان مقبروں کو دیکھ کر (بھی عبرت حاصل نہیں ہوتی) جن کے آس پاس کہیں کوئی حاجب و دربان ادب کے قاعدے سکھانے والا (موجود نہ ہو)۔
اس کے بعد عملی طریقے کو لیجیے۔ آپ کو دنیا میں رہتے ہوئے، اپنی گھریلو زندگی میں، اپنے محلے اور اپنی برادری کی زندگی میں، اپنے حلقۂ احباب اور حلقۂ تعارف میں، اپنے شہر اور اپنے ملک کے معاملات میں، اپنے لین دین اور اپنی معاش کے کاموں میں، غرض ہر آن قدم قدم پر ایسے دوراہے ملتے ہیں، جن میں سے ایک راستے کی طرف جانا ایمان بالآخرۃ کا تقاضا ہوتا ہے اور دوسرے کو اختیار کرنا دنیا پرستی کا کوئی نہ کوئی تقاضا۔ ایسے ہر موقع پر پوری کوشش کیجیے کہ آپ کا قدم پہلے راستے ہی کی طرف بڑھے، اور اگر نفس کی کمزوری سے یا غفلت کی وجہ سے کبھی دوسرے راستے پر آپ چل نکلے ہوں تو ہوش آتے ہی پلٹنے کی کوشش کیجیے، خواہ کتنے ہی دور پہنچ چکے ہوں۔ پھر وقتاً فوقتاً اپنا حساب لے کر دیکھتے رہیے کہ کتنے مواقع پر دنیا آپ کو کھینچنے میں کامیاب ہوئی، اور کتنی بار آپ اپنے کو آخرت کی طرف کھینچنے میں کامیاب ہوئے۔ یہ جائزہ آپ کو خود ہی ناپ تول کر بتاتا رہے گا کہ آپ کے اندر فکرِ آخرت نے کتنا نشوونما پایا، اور ابھی کتنی کچھ کمی آپ کو پوری کرنی ہے۔ جس قدر کمی آپ خود محسوس کریں، اسے خود ہی پورا کرنے کی کوشش کریں۔ بیرونی مدد آپ کو زیادہ سے زیادہ پہنچ سکتی ہے تو اس طرح پہنچ سکتی ہے کہ دنیا پرست لوگوں کی صحبت سے بچیں، اور ایسے صالح لوگوں سے ربط ضبط بڑھائیں جو آپ کے علم میں دنیا پر آخرت کو ترجیح دینے والے ہوں۔ مگر یہ یاد رکھیں کہ آج تک کوئی ذریعہ ایسا دریافت نہیں ہو سکا ہے جو آپ کے اندر خود آپ کی اپنی کوشش کے بغیر کسی صفت کو گھٹا سکے یا ایسی کوئی نئی صفت آپ میں پیدا کر سکے جس کا مادہ آپ کی طبیعت میں موجود نہ ہو۔
بے جا پندار سے احتراز
تیسری بات جس کی میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں، وہ یہ ہے کہ گزشتہ پیہم کوشش سے جو کچھ بھی اصلاح آپ کی انفرادی سیرت اور آپ کے اجتماعی اخلاق میں رونما ہوئی ہے، اس پر فخر کا جذبہ آپ کے دل میں ہرگز پیدا نہ ہو۔ آپ نہ فرداً فرداً، نہ من حیث الجماعت، کبھی اس غلط فہمی میں مبتلا ہوں کہ ہم اب کامل ہو گئے ہیں، جو کچھ بننا تھا بن چکے ہیں، کوئی مزید کمال مطلوب ایسا نہیں رہا ہے جو ہمیں حاصل کرنا ہو۔
مجھے اور جماعت کے دوسرے ذمہ دار لوگوں کو بسا اوقات ایک فتنے سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ ایک زمانے سے بکثرت لوگ جماعت کی، اور دراصل اس تحریک کی جس کے لیے یہ جماعت کام کرنے اٹھی ہے، قدر گھٹانے کے لیے یہ مشہور کر رہے ہیں کہ یہ جماعت تو محض ایک سیاسی جماعت ہے، عام سیاسی پارٹیوں کی طرح کام کر رہی ہے، اس میں تزکیۂ نفس اور روحانیت کا کہیں نام و نشان تک نہیں ہے، اس میں تعلق باللہ اور فکرِ آخرت کا فقدان ہے، اس کے چلانے والے خود بے پیر ہیں، نہ انہوں نے کسی سلسلۂ خانقاہی سے تقویٰ اور احسان کی تربیت پائی ہے، نہ ان کے رفقاء کو اس طرح کی تربیت ملنے کا امکان ہے۔ یہ باتیں اس لیے کی جاتی ہیں کہ تحریکِ اسلامی کے کارکنوں میں اور اس سے دلچسپی رکھنے والے لوگوں میں بددلی پھیلے اور وہ پلٹ کر انہی آستانوں سے وابستہ ہو جائیں جہاں آج تک اسلام زیرِ سایۂ کفر کسی نہ کسی جزوی خدمت (میں مصروف) ہوتا رہا ہے۔ ان (خیالات) سے (مقصد یہ ہے کہ) اس صحیح اور مکمل اسلامی نظامِ زندگی کے قیام کی سعی کے راستے میں، جسے ہم نے اپنا نصب العین بنایا ہے، خلل اگر پیش کیا گیا ہے تو ہر طرح کی سخن سازیوں سے اس کو ایک غیر دینی تخیل ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور اسے یوں مطعون کیا گیا ہے کہ گویا کفر و فسق کے مقابلے میں اسلام کو نظامِ غالب بنانے کی فکر سراسر ایک دنیا پرستانہ فکر ہے۔ اس حالت میں ہم کو مجبوراً خانقاہی تزکیۂ نفس اور اسلامی تزکیۂ نفس کا فرق واضح کرنا پڑتا ہے اور یہ بتانا پڑتا ہے کہ وہ حقیقی تقویٰ اور احسان کیا ہے جو اسلام میں مطلوب ہے اور وہ اس ٹکسالی تقویٰ اور احسان سے کس قدر مختلف ہے، جس کی تربیت ہمارے ہاں فنِ دینداری کے ماہرین دیا کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہمیں تحریکِ اسلامی کے طریقِ اصلاح و تربیت اور نتائج بھی کھول کر بیان کرنے پڑتے ہیں تاکہ ایک صحیح دینی حس رکھنے والا آدمی خود یہ محسوس کر لے کہ اس تحریک کا اثر قبول کرنے کے بعد ابتدائی مرحلے ہی میں انسان کے اندر تقویٰ اور احسان کی جو حقیقی کیفیت پیدا ہونے لگتی ہے، وہ عمر بھر تزکیۂ نفس کی تربیت پانے بلکہ تربیت دینے والوں میں بھی نظر نہیں آتی۔
یہ باتیں ہمیں مجبوراً اپنے معترضین کی بے انصافیوں کی وجہ سے کہنی پڑتی ہیں، اپنی مدافعت کے لیے نہیں بلکہ تحریکِ اسلامی کو بچانے کے لیے کہنی پڑتی ہیں۔ لیکن انہیں کہتے وقت ہم خدا کی پناہ مانگتے ہیں کہ کہیں یہ باتیں ہمارے اندر اور ہمارے رفقاء کے اندر عجب و غرور، اپنی کاملیت کی غلط فہمی نہ پیدا کر دیں۔ اس لیے کہ اگر خدانخواستہ یہ چھوٹا پندار ہمارے اندر پیدا ہو گیا تو ہم نے آج تک جو کچھ حاصل کیا ہے، وہ کھو بیٹھیں گے۔
اس خطرے سے بچنے کے لیے میں چاہتا ہوں کہ تین حقائق، آپ اچھی طرح سمجھ لیں اور انہیں کبھی فراموش نہ کریں۔
پہلی بات یہ ہے کہ کمال ایک لامتناہی چیز ہے جس کی آخری حد ہماری نگاہوں سے اوجھل ہے۔ آدمی کا کام یہ ہے کہ پیہم اس کی بلندیوں پر اٹھنے کی کوشش کرتا رہے اور کسی مقام پر بھی پہنچ کر یہ گمان نہ کرے کہ وہ کامل ہو گیا ہے۔ جس آن کسی شخص کو یہ غلط فہمی لاحق ہوتی ہے، اس کی ترقی فوراً رک جاتی ہے اور صرف رُک ہی نہیں جاتی، الٹا تنزل شروع ہو جاتا ہے۔ یاد رکھیں کہ بلندی پر چڑھنے ہی کے لیے نہیں، ایک بلند مقام پر ٹھہرنے کے لیے بھی ایک مسلسل جدوجہد درکار ہوتی ہے اور اس کا سلسلہ بند ہوتے ہی پستی کی کشش آدمی کو نیچے کھینچنا شروع کر دیتی ہے۔ ایک دانشمند آدمی کو کبھی نیچے جھک کر نہیں دیکھنا چاہیے کہ وہ اوپر کتنا چڑھ چکا ہے، اسے اوپر دیکھنا چاہیے کہ جو بلندیاں ابھی چڑھنے کے لیے باقی ہیں، وہ اس سے کس قدر دور ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ اسلام نے ہمارے سامنے انسانیت کا اتنا بلند معیار رکھا ہے جس کی ابتدائی منزلیں بھی غیر اسلامی مذاہب و ادیان کے معیارِ کمال سے اونچی ہیں۔ اور یہ کوئی خیالی معیار نہیں ہے، بلکہ عمل کی دنیا میں انبیاء کرام علیہم السلام اور اکابرِ صحابہ رضی اللہ عنہم اور صلحائے امت کی پاکیزہ زندگیاں اس کی بلندیوں کی شہادت دے رہی ہیں۔ اس معیار کو آپ ہمیشہ ذہن میں رکھیں، یہ آپ کو کاملیت کی غلط فہمی سے بچائے گا، اپنی پستی کا احساس دلائے گا اور ترقی کے لیے ہر وقت اتنی بلندیاں آپ کے سامنے پیش کرتا رہے گا کہ عمر بھر کی جدوجہد کے بعد بھی آپ یہی محسوس کریں گے کہ بہت سی بلندیاں ابھی چڑھنے کے لیے باقی ہیں۔ اپنے گرد و پیش کے دم توڑتے ہوئے مریضوں کو دیکھ کر اپنی ذرا سی تندرستی پر ناز نہ کیجیے۔ اخلاق کے ان پہلوانوں پر نگاہ رکھیے جن کی جگہ آپ اپنے شیطان سے نبرد آزما ہونے کے لیے اکھاڑے میں اترے ہیں۔ مومن کا کام یہ ہے کہ دولتِ دین کے معاملے میں وہ ہمیشہ اپنے سے اونچے لوگوں کی طرف دیکھے تاکہ یہ دولت کمانے کی حرص کبھی اس کے اندر بجھ نہ پائے، اور دولتِ دنیا کے معاملے میں ہمیشہ اپنے سے کمتر لوگوں کی طرف دیکھے، تاکہ جتنا کچھ بھی اس کے رب نے اسے دیا ہے، اس پر وہ خدا کا شکر بجالائے اور زیادہ مال کی ہوس تھوڑے ہی سے بجھ جائے۔
(۱) ٹھیک یہی مضمون ہے ایک حدیث کا جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: مَنْ نَظَرَ فِي دِينِهِ إِلَى مَنْ هُوَ فَوْقَهُ فَاقْتَدَى بِهِ وَنَظَرَ فِي دُنْيَاهُ إِلَى مَنْ هُوَ دُونَهُ فَحَمِدَ اللهَ عَلَى مَا فَضَّلَهُ اللهُ عَلَيْهِ، كَتَبَهُ اللهُ شَاكِرًا صَابِرًا. وَمَنْ نَظَرَ فِي دِينِهِ إِلَى مَنْ هُوَ دُونَهُ وَنَظَرَ فِي دُنْيَاهُ إِلَى مَنْ هُوَ فَوْقَهُ تَأَسَّفَ عَلَى مَا فَاتَهُ مِنْهُ، لَمْ يُكْتَبْهُ اللهُ شَاكِرًا وَلَا صَابِرًا۔ (جس نے اپنے دین کے معاملے میں اپنے سے اوپر والے کو دیکھا اور اس کی پیروی میں آگے بڑھا، اور اپنی دنیا کے معاملے میں اپنے سے کمتر کو دیکھا اور اللہ کے دیے ہوئے فضل پر اس کا شکریہ ادا کیا، وہ اللہ کے ہاں شاکر اور صابر لکھا جائے گا۔ بخلاف اس کے جس نے اپنے دین کے معاملے میں اپنے سے کمتر کو اور دنیا کے معاملے میں اپنے سے اونچے کو دیکھا اور دنیا پانے میں جو کمی رہ گئی اس پر حسرت و اندوہ میں مبتلا ہوا، وہ اللہ کے ہاں نہ شاکر لکھا جائے گا نہ صابر۔)
تیسری بات یہ ہے کہ فی الواقع ہم نے اب تک اپنے اندر جو خوبیاں پیدا کی ہیں، وہ بس اس لیے خوب ہیں کہ ہمارے گرد و پیش کا بگاڑ حد سے بڑھا ہوا ہے۔ اس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں ذرا سا دیا بھی، جسے روشن کرنے کی توفیق لوگوں کو نصیب ہو گئی، نمایاں نظر آنے لگا۔ ورنہ سچی بات یہ ہے کہ اسلام کے کم سے کم معیارِ مطلوب کو بھی سامنے رکھ کر جب اپنا جائزہ لیں تو ہر پہلو سے اپنی ذات میں خامیاں ہی خامیاں نظر آتی ہیں۔ پس اگر ہم اپنی کوتاہیوں کا اعتراف کریں تو یہ محض ایک انکسار کے طور پر نہ ہو بلکہ ایک حقیقی اعتراف ہونا چاہیے، اور اس کا نتیجہ یہ ہونا چاہیے کہ اپنی ایک ایک کوتاہی کو سمجھیں اور اسے دور کرنے کی کوشش کریں۔
تربیت گاہوں سے فائدہ اٹھائیے
اسی چیز میں آپ کی مدد کرنے کے لیے ہم نے تربیت کے نئے پروگرام کا آغاز کیا ہے۔ اس پروگرام کے تحت جو تربیت گاہیں قائم کی گئی ہیں، ان میں بلا تخصیص سب آسکتے ہیں۔ تربیت کی مدت قصداً کم رکھی گئی ہے تاکہ کاروباری لوگ اور ملازمین اور زراعت پیشہ حضرات، سب کے سب اس سے بآسانی فائدہ اٹھ سکیں۔ تربیت کے دو اجزاء رکھے گئے ہیں، ایک علمی اور دوسرا عملی۔ علمی جزو میں کوشش کی جاتی ہے کہ تھوڑے وقت ہی میں قرآن و حدیث کی تعلیمات، احکامِ فقہ اور لٹریچر کا ایک ضروری خلاصہ آدمی کے ذہن نشین ہو جائے جس سے وہ دین کو، اس کے پورے نظام کو، اس کے تقاضوں کو، اس کے مطابق زندگی بسر کرنے کے طریقوں کو، اور اس کی اقامت کے لائحۂ عمل کو اچھی طرح سمجھ لے اور یہ بھی جان لے کہ اقامتِ دین کی اس سعی کے لیے کس قسم کی انفرادی سیرت اور کس طرح کا جماعتی کردار مطلوب ہے۔ عملی جزو میں کوشش کی جاتی ہے کہ چند روز تک ہمارے کارکن بیک وقت ایک جگہ رہ کر ایک ستھری اور پاکیزہ اسلامی زندگی بسر کرنے کی مشق کریں۔ نظمِ اوقات کا، نظمِ عمل کا، حسنِ رفاقت کا اور اخوت و محبت کا سبق سیکھیں۔ ایک دوسرے کی خوبیاں اپنے اندر جذب کریں۔ اپنی کوتاہیوں کو دور کرنے میں دوسروں سے مدد لیں۔ اور چند روز ہر طرح کی دنیوی مشغولیتوں سے منقطع ہو کر خالص اللہ کے لیے اپنی فکر اور توجہ اور عمل کو وقف کر دیں۔
ہماری دلی خواہش تھی کہ ایسی تربیت گاہیں کم از کم ہر ضلع میں قائم کی جاتیں اور ہمہ وقت کام کرتی رہتیں۔ لیکن ابھی ہمارے پاس ایسے آدمیوں کی کمی ہے جو اس کام کو چلانے کے اہل ہوں، اور دوسرے ضروری وسائل بھی کافی نہیں ہیں۔ اس لیے سرِ دست صرف لاہور، راولپنڈی، ملتان اور کراچی میں تھوڑی تھوڑی مدت کے لیے اس کا انتظام کیا گیا ہے۔ تاہم مجھے توقع ہے کہ اس تھوڑے سے انتظام کا بھی آپ کو بہت کچھ فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ ان شاء اللہ اس کورس سے گزر کر آپ خود محسوس کریں گے کہ یہ ایک بڑا مفید پروگرام ہے جو جماعت نے شروع کیا ہے۔ میں تمام رفقاء سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اس کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں۔
اپنے گھروں کی طرف توجہ کیجیے
اس کے بعد میں آپ سب حضرات کو یہ بھی نصیحت کرتا ہوں کہ آپ اپنی اولاد کی اور اپنے گھر والوں کی اصلاح پر خاص توجہ دیں:
قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا
جس اولاد کے لیے اور جن بیویوں کے لیے آپ کو کھانے پینے اور پہننے کی فکر ہوتی ہے، ان کے لیے سب سے بڑھ کر فکر اس بات کی ہونی چاہیے کہ وہ جہنم کا ایندھن نہ بننے پائیں۔ آپ کو اپنی حد تک ان کی عاقبت سنوارنے اور جنت کے راستے پر ڈالنے ہی کی کوشش کرنی چاہیے۔ پھر اگر خدانخواستہ ان میں سے کوئی خود بگڑے تو آپ بری الذمہ ہیں۔ بہرحال اس کی عاقبت خراب ہونے میں آپ کا کوئی حصہ نہ ہو۔ بسا اوقات میرے پاس اس قسم کی شکایات آتی رہتی ہیں کہ رفقائے جماعت اصلاحِ خلق کی جتنی فکر کرتے ہیں، اصلاحِ اہل و عیال اور اصلاحِ خاندان کی نہیں کرتے۔ ممکن ہے کہ بعض لوگوں کے معاملے میں یہ شکایات درست ہوں، اور بعض کے معاملے میں مبنی بر مبالغہ۔ فرداً فرداً ایک ایک شخص کے حال کی تحقیق میرے لیے مشکل ہے، اس لیے میں یہاں اس بارے میں ایک عام نصیحت پر اکتفا کرتا ہوں۔ ہم سب کی یہ تمنا ہونی چاہیے اور تمنا کے ساتھ ہماری کوشش بھی یہی ہونی چاہیے کہ ہمارے گھر والے، ہمارے بیوی بچے اور ہمارے عزیز و اقارب، سب اللہ کے نیک بندے بنیں اور ان سے ہماری آنکھیں ٹھنڈی ہوں۔
رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا
اس معاملے میں رفقاء کو چاہیے کہ وہ ایک دوسرے کی زندگی میں دلچسپی لیں اور نہ صرف اپنی اولاد کو بلکہ اپنے رفقاء کی اولاد کو بھی سنوارنے میں حصہ لیں۔ بارہا ایسا ہوتا ہے کہ ایک بچہ اپنے باپ کا اثر قبول نہیں کرتا مگر اپنے باپ کے دوستوں کا اثر قبول کر لیتا ہے۔
آپس کی اصلاح اور اس کا طریقہ
میں آپ کو یہ نصیحت بھی کرتا ہوں کہ آپ اپنی گھر والوں کی اصلاح کے ساتھ آپس میں بھی ایک دوسرے کی اصلاح کریں۔ جو لوگ خدا کی خاطر کلمۂ حق کی سربلندی کے لیے ایک جماعت کی حیثیت سے اٹھے ہیں، انہیں ایک دوسرے کا ہمدرد و مددگار اور غمخوار ہونا چاہیے۔ انہیں یہ سمجھنا چاہیے کہ وہ اپنے مشترکہ مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتے جب تک کہ بحیثیت مجموعی اخلاق اور نظم کے لحاظ سے مضبوط نہ ہوں اور اس احساس کا نتیجہ یہ ہونا چاہیے کہ وہ سب ایک دوسرے کی تربیت میں مددگار بنیں اور ان میں سے ہر ایک دوسرے کو سہارا دے کر خدا کی راہ میں آگے بڑھانے کی کوشش کرے۔ اسلام میں اجتماعی تربیت کا طریقہ یہی ہے کہ میں گرتا نظر آؤں تو آپ دوڑ کر مجھے سنبھالیں، اور آپ لغزش کھا رہے ہوں تو میں بڑھ کر آپ کا ہاتھ تھام لوں۔ میرے دامن پر کوئی دھبہ نظر آئے تو آپ اسے صاف کریں اور آپ کا دامن آلودہ ہو رہا ہو تو میں اسے پاک کروں۔ جس چیز میں میری فلاح و بہتری آپ کو محسوس ہو، اسے آپ مجھ تک پہنچائیں اور جس چیز میں میں آپ کی درستی مجھے محسوس ہو، اسے میں آپ تک پہنچاؤں۔ مادی دنیا میں جب لوگ ایک دوسرے سے لین دین کرتے ہیں تو مجموعی طور پر سب کی خوشحالی میں اضافہ ہوتا ہے، اسی طرح اخلاق و روحانیت کی دنیا میں بھی جب یہ امدادِ باہمی اور داد و ستد کا طریقہ چل پڑتا ہے تو پوری قوم کا سرمایہ بڑھتا چلا جاتا ہے۔
باہمی اصلاح کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ جس شخص کی کوئی بات آپ کو کھٹکے، یا جس سے کوئی شکایت آپ کو ہو، اس کے معاملے میں آپ جلدی نہ کریں، بلکہ پہلے اسے اچھی طرح سمجھنے کی کوشش کریں۔ پھر اولین فرصت میں خود اس شخص سے مل کر خلوت میں اس سے بات کریں۔ اس پوری مدت میں اِس معاملے کا ذکر غیر متعلق لوگوں سے کرنا اور شخصِ متعلق کی غیر موجودگی میں اس کا چرچا کرنا صریحاً غیبت ہے جس سے قطعی اجتناب کرنا چاہیے۔
اجتماعی تنقید کا صحیح طریقہ
آپس میں ایک دوسرے کی غلطیوں اور کمزوریوں پر تنقید بھی اجتماعی اصلاح کا ایک مفید طریقہ ہے، مگر تنقید کے صحیح حدود اور آداب ملحوظ نہ رکھنے سے یہ سخت نقصان دہ بھی ہو سکتا ہے۔ اس لیے میں وضاحت کے ساتھ بتا دینا چاہتا ہوں کہ اس کی حدود اور آداب کیا ہیں:
ان حدود کو ملحوظ رکھ کر جو تنقید کی جائے، وہ نہ صرف یہ کہ مفید ہے بلکہ اجتماعی زندگی کو درست رکھنے کے لیے نہایت ضروری ہے۔ اس کے بغیر کوئی تنظیم زیادہ دیر تک صحیح راستے پر گامزن نہیں رہ سکتی۔ اس تنقید سے کسی کو بھی بالاتر نہ ہونا چاہیے۔ میں اس کو جماعت کی صحت برقرار رکھنے کے لیے ناگزیر سمجھتا ہوں، اور مجھے یقین ہے کہ جس روز خدانخواستہ ہمارے ہاں اس کا دروازہ بند ہوا، اسی روز ہمارے بگاڑ کا دروازہ کھل جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ میں ابتداء سے ایک اجتماعِ خاص اس غرض سے منعقد کرتا رہا ہوں کہ اس میں سارے کام اور نظام کا پورا تنقیدی جائزہ لیا جائے۔ ایسے اجتماعات میں سب سے پہلے میں خود اپنے آپ کو تنقید کے لیے پیش کرتا ہوں، تاکہ جس کو مجھ پر یا میرے کام پر کوئی اعتراض ہو، وہ اسے سب کے سامنے بے تکلف پیش کرے اور اس کی تنقید سے یا تو میری اصلاح ہو جائے، یا میرے جواب سے اس کی اور اس طرح سوچنے والے دوسرے لوگوں کی غلط فہمی رفع ہو جائے۔
سمع و طاعت اور نظمِ جماعت کی پابندی
ایک اور چیز جس کا احساس آپ کو دلانے کی ضرورت مجھے محسوس ہوتی ہے، وہ یہ ہے کہ ابھی آپ کے اندر سمع و طاعت اور نظم کی بہت کمی ہے۔ اگرچہ اپنے ماحول کو دیکھتے ہوئے ہمیں اپنے اندر بڑا ڈسپلن نظر آتا ہے، لیکن ایک طرف جب ہم اسلام کے معیارِ مطلوب کو دیکھتے ہیں اور دوسری طرف اس کٹھن کام کو دیکھتے ہیں جو ہمیں کرنا ہے، تو سچی بات یہ ہے کہ ہمارا موجودہ ڈسپلن بہت ہی حقیر محسوس ہوتا ہے۔
آپ چند مٹھی بھر آدمی ہیں جو تھوڑے سے وسائل لے کر میدان میں آئے ہیں اور کام آپ کے سامنے یہ ہے کہ فسق اور جہالت کی ہزاروں گنی زیادہ طاقت اور لاکھوں گنے زیادہ وسائل کے مقابلے میں نہ صرف ظاہری نظامِ زندگی کو بلکہ اس کی باطنی روح تک کو بدل ڈالیں۔ آپ خواہ تعداد کے لحاظ سے دیکھ لیں یا وسائل کے لحاظ سے، آپ کے اور آپ کے (مخالفین کے) درمیان کوئی نسبت نہیں۔ اب آخر اخلاق اور نظم کی طاقت کے سوا اور کون سی طاقت آپ کے پاس ایسی ہو سکتی ہے، جس سے آپ ان کے مقابلے میں اپنی جیتنے کی اُمید کر سکیں؟ آپ کی امانت و دیانت کا سکہ اپنے ماحول پر بیٹھا ہوا ہو، اور آپ کا نظم اتنا زبردست ہو کہ آپ کے ذمہ دار لوگ جس وقت جس نقطے پر جتنی طاقت جمع کرنا چاہیں، ایک اشارے پر جمع کر سکیں، تب ہی آپ اپنے مقصدِ عظمیٰ میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔
اسلامی نقطۂ نظر سے اقامتِ دین کی سعی کرنے والی جماعت میں، جماعت کے اولی الامر کی اطاعت فی المعروف دراصل اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کا ایک جز ہے۔ جو شخص اللہ کا کام سمجھ کر یہ کام کر رہا ہے اور اللہ ہی کے کام کی خاطر جس نے کسی کو اپنا امیر مانا ہے، وہ اس کے جائز احکام کی اطاعت کر کے دراصل اس کی نہیں بلکہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرتا ہے۔ جس قدر اللہ سے اور اس کے دین سے آدمی کا تعلق زیادہ ہو گا، اتنا ہی وہ سمع و طاعت میں بڑھا ہوا ہو گا، اور جتنی اس تعلق میں کمی ہو گی، اتنی ہی سمع و طاعت میں بھی کمی ہو گی۔ اس سے بڑی قابلِ قدر قربانی اور کیا ہو سکتی ہے کہ جس شخص کا آپ پر کوئی زور نہیں ہے اور جسے محض خدا کے کام کے لیے آپ نے امیر مانا ہے، اس کا حکم آپ ایک وفادار ماتحت کی طرح مانیں اور اپنی خواہش اور پسند اور مفاد کے خلاف اس کے ناگوار احکام تک کی بسر و چشم تعمیل کرتے جائیں۔ یہ قربانی چونکہ اللہ کے لیے ہے، اس لیے اس کا اجر بھی اللہ کے ہاں بہت بڑا ہے۔ اس کے برعکس جو شخص اس کام میں شریک ہونے کے بعد بھی کسی حال میں چھوٹا بننے پر راضی نہ ہو، اور اطاعت کو اپنے مرتبے سے گری ہوئی چیز سمجھے، یا حکم کی چوٹ اپنے نفس کی گہرائیوں میں محسوس کرے اور تلخی کے ساتھ اس پر تلملائے، یا اپنی خواہش اور مفاد کے خلاف احکام کو ماننے میں ہچکچائے، وہ دراصل اس بات کا ثبوت پیش کرتا ہے کہ ابھی اس کے نفس نے اللہ کے آگے پوری طرح سرِ اطاعت خم نہیں کیا ہے اور ابھی اس کی انانیت اپنے دعوؤں سے دستبردار نہیں ہوئی ہے۔
اصحابِ امر کو نصیحت
رفقاء کو اطاعتِ حکم کی نصیحت کرنے کے ساتھ میں اصحابِ امر کو بھی یہ نصیحت کرنا ضرور سمجھتا ہوں کہ وہ حکم چلانے کا صحیح طریقہ سیکھیں۔ جس شخص کو بھی نظمِ جماعت کے اندر کسی ذمہ داری کا منصب سونپا جائے اور کچھ لوگ اس کے تحتِ امر دیے جائیں، اس کے لیے یہ ہرگز حلال نہیں ہے کہ وہ اپنے آپ کو کوئی بڑی چیز سمجھنے لگے اور اپنے تابع رفقاء پر بے جا تحکم جتانے لگے۔ اسے حکم چلانے میں کبریائی کی لذت نہ لینی چاہیے۔ اسے اپنے رفقاء سے نرمی اور ملاطفت کے ساتھ کام لینا چاہیے۔ اسے اس بات سے ڈرنا چاہیے کہ کہیں کسی رکن میں عدمِ اطاعت اور خود سری کا جذبہ اُبھار دینے کی ذمہ داری خود اس کے اپنے کسی غلط طریقِ کار پر عائد نہ ہو جائے۔ اسے جوان اور بوڑھے، کمزور اور طاقتور، خوشحال اور خستہ حال، سب کو ایک ہی لکڑی سے نہ ہانکنا چاہیے، بلکہ جماعت کے مختلف افراد کی مخصوص انفرادی حالتوں پر نگاہ رکھنی چاہیے اور جو جس لحاظ سے بھی بجا طور پر رعایت کا مستحق ہو، اس کو ویسی ہی رعایت دینی چاہیے۔ اسے جماعت کو ایسے طریقے پر تربیت دینی چاہیے کہ امراء جو کچھ مشورے اور اپیل کے انداز میں کہیں، رفقاء اس کو حکم کے انداز میں لیں اور اس کی تعمیل کریں۔ یہ دراصل جماعتی شعور کی کمی کا نتیجہ ہے کہ امیر کی ”اپیل“ اثر انداز نہ ہو کر ”حکم“ دینے کی ضرورت محسوس کرے۔ حکم تو تنخواہ دار فوج کے سپاہیوں کو دیا جاتا ہے۔ وہ رضاکار سپاہی جو اپنے دل کے جذبے سے اپنے خدا کی خاطر اکٹھے ہوئے ہوں، خدا کے کام میں خود اپنے بنائے ہوئے امیر کی اطاعت کے لیے حکم کے محتاج نہیں ہوا کرتے۔ ان کو تو صرف یہ اشارہ مل جانا کافی ہے کہ فلاں جگہ تم کو اپنے رب کی فلاں خدمت بجالانے کا موقع مل رہا ہے۔ یہ کیفیت جس روز اصحابِ امر اور ان کے رفقاء میں پیدا ہو جائے گی، آپ دیکھیں گے کہ آپس کی وہ بہت سی بدمزگیاں آپ سے آپ کم ہو جائیں گی جو وقتاً فوقتاً پیدا ہوتی رہتی ہیں۔
آخری نصیحتیں
میری آخری نصیحتیں یہ ہیں کہ وہ سب لوگ جو اس تحریک کے ساتھ ہیں، خدا کے کام کو اپنے ذاتی کاموں پر ترجیح دیں اور اس کام میں دل کی وہ لگن پیدا کریں جو انہیں چین سے نہ بیٹھنے دے۔
صدقہ و خیرات کا جذبہ اپنے اندر ابھاریں۔ آپ خود ہی مسلمان نہ بنیں بلکہ اپنی جیبوں کو بھی مسلمان بنائیں۔ یہ بات نہ بھولیں کہ خدا کے حقوق آپ کے جسم و جان اور وقت ہی پر نہیں ہیں، آپ کے مال پر بھی ہیں۔ اس حق کے لیے خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کم سے کم کی حد تو مقرر کر دی ہے، مگر زیادہ سے زیادہ کی کوئی حد مقرر نہیں کی ہے۔ یہ حد تجویز کرنا آپ کا اپنا کام ہے۔ اپنے ضمیر سے پوچھیے کہ کتنا کچھ خدا کی راہ میں صرف کر کے آپ یہ خیال کرنے میں حق بجانب ہوں گے کہ جو کچھ آپ کے مال پر خدا کا حق تھا، وہ آپ نے ادا کر دیا ہے۔ اس باب میں کوئی شخص کسی دوسرے کا جج نہیں بن سکتا۔ بہترین جج ہر شخص کا اپنا ضمیر و ایمان ہی ہے۔ البتہ میں اتنا ضرور کہوں گا کہ ان لوگوں کے طرزِ عمل سے سبق حاصل کیجیے جو نہ خدا کے قائل ہیں، نہ آخرت کے، اور پھر بھی وہ اپنے باطل نظریات کو فروغ دینے کے لیے ایسی ایسی قربانیاں کرتے ہیں جنہیں دیکھ کر ہم خدا اور آخرت کے ماننے والوں کو شرم آنی چاہیے۔
اقامتِ دین کے کام میں رفقاء کو جس قدر انہماک ہونا چاہیے، اس میں بھی ابھی مجھے بہت کمی محسوس ہوتی ہے۔ بعض رفقاء تو بلاشبہ پوری سرگرمی سے کام کر رہے ہیں، جسے دیکھ کر جی خوش ہو جاتا ہے اور دل سے ان کے حق میں دُعا نکلتی ہے۔ مگر بیشتر حضرات میں ابھی تک دل کی لگن نظر نہیں آتی۔ فسق و فجور کی گرم بازاری اور خدا کے دین کی بے بسی دیکھ کر ایک مومن کے قلب میں جو آگ لگنی چاہیے، اس کی تپش کم ہی لوگوں میں پائی جاتی ہے۔ آپ کو اس پر کم سے کم اتنی بے چینی تو لاحق ہو جتنی اپنے بچے کو بیمار دیکھ کر، یا اپنے گھر میں آگ لگنے کا خطرہ محسوس کر کے ہوا کرتی ہے۔ یہ معاملہ بھی ایسا نہیں ہے جس میں کوئی شخص کسی دوسرے شخص کے لیے سرگرمی اور انہماک کی حد تجویز کر سکتا ہو۔ اس کا فیصلہ تو ہر شخص کو اپنے ضمیر کا جائزہ لے کر خود ہی کرنا چاہیے کہ کتنا کچھ کام کر کے وہ یہ سمجھنے میں حق بجانب ہو سکتا ہے کہ حق پرستی کے تقاضے اس نے پورے کر دیے ہیں۔ البتہ آپ کی عبرت کے لیے ان باطل پرستوں کی سرگرمیوں پر ایک نگاہ ڈال لینا کافی ہے جو دنیا میں کسی نہ کسی دینِ باطل کو فروغ دینے کے درپے ہیں اور اس کے لیے سر دھڑ کی بازیاں لگا رہے ہیں۔
خواتین کے لیے ہدایات
اب تک جو کچھ میں نے کہا ہے، اس کا بیشتر حصہ مردوں اور عورتوں کے لیے مشترک تھا۔ اب میں خاص طور پر کچھ باتیں ان خواتین سے عرض کروں گا جو ہمارے ساتھ وابستہ ہیں یا ہمارے اس کام سے دلچسپی رکھتی ہیں۔
اوّلین ضرورت اس بات کی ہے کہ آپ اپنے دین سے زیادہ واقفیت حاصل کریں۔ نہ صرف قرآن سمجھ کر پڑھیں بلکہ کچھ حدیث اور فقہ کا مطالعہ بھی کریں۔ نہ صرف دین کی بنیادی باتوں اور ایمان کے تقاضوں کو جانیں بلکہ یہ بھی معلوم کریں کہ آپ کی ذاتی زندگی، گھر کی زندگی، خاندان کی زندگی اور عام معاشرتی کاروبار میں دین کے احکام کیا ہیں۔ احکامِ دین سے عورتوں کی عام ناواقفیت ان اسباب میں سے ایک اہم سبب ہے جن کی بدولت مسلمانوں میں غیر شرعی طریقے رائج ہوئے ہیں، بلکہ جہالت کی رسموں تک نے راہ پالی ہے۔ آپ کو سب سے پہلے خود اپنی اس خامی کو رفع کرنے کی توجہ کرنی چاہیے۔
دوسرا کام یہ ہے کہ آپ کو دین کا جو علم حاصل ہو، اس کے مطابق آپ اپنی عملی زندگی کو، اپنے اخلاق اور سیرت کو، اور اپنے گھر کی زندگی کو ڈھالنے کی کوشش کریں۔ ایک مسلمان عورت میں کردار کی یہ مضبوطی ہونی چاہیے کہ وہ جس چیز کو حق سمجھے، اس پر سارے گھر اور سارے خاندان کی مخالفت و مزاحمت کے باوجود ڈٹ جائے اور جس چیز کو باطل سمجھے، اسے کسی کے زور دینے پر بھی قبول نہ کرے۔ ماں، باپ، شوہر اور خاندان کے دوسرے بزرگ یقیناً اس کے مستحق ہیں کہ ان کی فرمانبرداری کی جائے، ان کا ادب و لحاظ کیا جائے، ان کے مقابلے میں نشوز اور خود سری نہ اختیار کی جائے، مگر سب کے حقوق اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حقوق سے نیچے ہیں، نہ کہ اُن کے اوپر۔ خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کے راستے پر جو بھی آپ کو چلانا چاہے، آپ اس کی فرمانبرداری سے صاف انکار کر دیں، خواہ وہ باپ ہو یا شوہر۔ اس معاملے میں آپ ہرگز کسی سے نہ دبیں بلکہ اس کا جو بدتر سے بدتر نتیجہ آپ کی دنیوی زندگی کو برباد کرتا نظر آئے، اس کو بھی توکلاً علی اللہ گوارا کرنے کے لیے تیار ہو جائیں۔ دین کے اتباع میں آپ جتنی مضبوطی دکھائیں گی، ان شاء اللہ اتنا ہی آپ کے ماحول پر اچھا اثر پڑے گا اور بگڑے ہوئے گھروں کو درست کرنے کا آپ کو موقع ملے گا۔ اس کے برعکس بے جا اور غیر شرعی مطالبات کے آگے آپ جس قدر جھکیں گی، آپ کی اپنی زندگی بھی برکات سے محروم رہے گی اور آپ اپنے گرد و پیش کی سوسائٹی کو بھی ایمان و اخلاق کی کمزوری کا ایک برا نمونہ دیں گی۔
تیسرا کام آپ کے ذمے یہ ہے کہ تبلیغ و اصلاح کے معاملے میں اپنے گھر کے لوگوں، اپنے بھائی بہنوں، اور اپنے قریب ترین رشتہ داروں کی طرف سب سے پہلے اور سب سے زیادہ توجہ کریں۔ جن بہنوں کو اللہ نے اولاد دی ہے، ان کے ہاتھ میں تو گویا اللہ نے امتحان کے وہ پرچے دے دیے ہیں جن پر اگر وہ کامیابی کے نمبر نہ لے سکیں تو پھر دوسرا کوئی پرچہ بھی ان کے اس نقصان کی تلافی نہ کر سکے گا۔ ان کی توجہ کی مستحق سب سے بڑھ کر ان کی اولاد ہے جسے دین اور دینی اخلاق کی تربیت دینا ان کی ذمہ داری ہے۔ شادی شدہ خواتین کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ اپنے شوہروں کو راہِ راست دکھائیں۔ اور اگر وہ راہِ راست پر ہوں تو اس پر چلنے میں ان کی زیادہ سے زیادہ مدد کریں۔ ایک لڑکی ادب و احترام کے پورے حدود ملحوظ رکھتے ہوئے اپنے باپ اور اپنی ماں تک بھی کلمۂ حق پہنچا سکتی ہے اور کم از کم اچھی کتابیں تو ان کے مطالعے کے لیے پیش کر ہی سکتی ہے۔
چوتھا کام، جسے آپ کو فرض سمجھتے ہوئے انجام دینا چاہیے، یہ ہے کہ جس قدر وقت بھی آپ اپنے خانگی فرائض سے بچا سکتی ہوں، وہ دوسری عورتوں تک دین کا علم پہنچانے میں صرف کریں۔ چھوٹی لڑکیوں کو تعلیم دیں۔ بڑی عمر کی ان پڑھ عورتوں کو پڑھائیں۔ پڑھی لکھی عورتوں تک رسائی پیدا کر کے ان کو دین سمجھائیں۔ یا تقریر نہیں کر سکتی ہوں تو مفید دینی کتابیں پہنچائیں۔ عورتوں کے اجتماعات میں اچھی چیزیں سنائیں۔ غرض آپ جس جس طرح بھی کام کر سکتی ہوں، اسلامی تعلیمات کو پھیلانے اور امکانی حد تک پوری کوشش کریں کہ آپ کے حلقۂ تعارف میں عورتوں سے جہالت اور جہالت دور ہو۔
تعلیم یافتہ خواتین پر اس وقت ایک اور فرض بھی عائد ہوتا ہے جو ایک لحاظ سے موجودہ مہمات میں دوسرے تمام کاموں سے بڑھ کر ہے۔ وہ یہ کہ اس وقت مغرب زدہ طبقے کی خواتین پاکستان کی عورتوں کو جس گمراہی، بے حیائی اور ذہنی و اخلاقی آوارگی کی طرف دھکیل رہی ہیں، اور جس طرح حکومت کے ذرائع و وسائل سے کام لے کر عورتوں کو غلط راستے پر ڈالنے کی کوشش کر رہی ہیں، ان کا پوری طاقت سے مقابلہ کیا جائے۔ یہ کام صرف مردوں کے لیے نہیں ہو سکتا۔ مرد جب اس گمراہی کی مخالفت کرتے ہیں تو عورتوں کو یہ کہہ کہہ کر بہکایا جاتا ہے کہ یہ مرد تو تم کو غلام رکھنے پر تلے ہوئے ہیں، ان کی تو ہمیشہ سے یہی مرضی رہی ہے کہ عورتیں چار دیواریوں میں گھٹ گھٹ کر مرتی رہیں، اور انہیں آزادی کی ہوا نہ لگنے پائے۔ اس لیے ہمیں اس فتنے کا سدِ باب کرنے میں عورتوں کی مدد کی سخت ضرورت ہے۔ خدا کے فضل سے ہمارے ملک میں ایسی شریف اور خدا پرست خواتین کی کمی نہیں ہے جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور ان اپ ٹو ڈیٹ بیگمات سے علم اور ذہانت اور زبان و قلم کی طاقت میں کسی طرح کم نہیں۔ اب یہ ان کا کام ہے کہ آگے بڑھ کر ان کو منہ توڑ جواب دیں۔ وہ انہیں بتائیں کہ مسلمان عورت حدود اللہ سے باہر قدم نکالنے کے لیے ہرگز تیار نہیں ہے۔ وہ ڈنکے کی چوٹ کہیں کہ مسلمان عورت اس ترقی پر لعنت بھیجتی ہے جسے حاصل کرنے کے لیے خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مقرر کی ہوئی حدیں توڑنی پڑیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ ان کا یہ کام بھی ہے کہ منظم ہو کر اس حقیقی ضرورت کو جس کی خاطر حدود شکنی کو ناگزیر کہا جاتا ہے، اسلامی حدود کے اندر پورا کر کے دکھائیں۔ تاکہ ہر گمراہ کرنے والی کا ہمیشہ کے لیے منہ بند ہو جائے۔
باب پنجم
اسلامی کارکن کن اوصاف سے آراستہ اور کن عیوب سے مبرا ہونا چاہیے
اسلامی انقلاب کے لیے کن اوصاف سے آراستہ اور کن عیوب سے مبرا ہونا لازمی ہے
آئندہ صفحات میں ہم اس مضمون کو حسبِ ذیل ترتیب کے ساتھ بیان کریں گے:
دنیا میں عملاً اسلامی نظامِ زندگی قائم کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی مدد کے بعد دوسری اہم ترین چیز جس پر کامیابی کا انحصار ہے، وہ اس کام کی سعی کرنے والوں کے اپنے اوصاف ہیں۔ چند اوصاف ایسے ہیں جو فرداً ان میں سے ہر ایک کی ذات میں ہونے چاہئیں۔ چند دوسرے اوصاف ان کے اندر اجتماعی طور پر پائے جانے چاہئیں۔ چند اور اوصاف اصلاح و تعمیر کی خدمت انجام دینے کے لیے ضروری ہیں۔ اور چند برائیاں ایسی ہیں جن سے اگر وہ اپنے آپ کو محفوظ نہ رکھیں تو ان کے سارے کیے دھرے پر پانی پھر سکتا ہے۔ ان امور کو سب سے پہلے ذہن نشین ہونا چاہیے تاکہ وہ تمام لوگ جو اس خدمت کا سچا جذبہ رکھتے ہیں، مطلوب اوصاف اپنے اندر پرورش کرنے اور نامطلوب سے اپنے آپ کو پاک کرنے کی طرف خاص طور سے متوجہ ہوں۔ تعمیرِ معاشرہ کے لیے یہ تعمیرِ ذات شرطِ اوّل ہے کیونکہ جو خود نہ سنورے، وہ دوسروں کو سنوارنے کے لیے کچھ نہیں کر سکتا۔
(مضامین کا یہ بقیہ سلسلہ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کے قلم سے ترجمان القرآن جون ۱۹۵۶ء تا مارچ ۱۹۵۷ء کے اشارات میں کئی قسطوں میں چھپ چکا ہے۔ یہ مضامین اسلامی تحریک کے کارکنوں کے لیے ایک سچی اور صحیح تصویر پیش کرتے ہیں جن میں ہر شخص اپنا چہرہ بآسانی دیکھ سکتا ہے۔ (مرتب))
انفرادی اوصاف
اسلام کا صحیح فہم
انفرادی اوصاف میں سب سے پہلی چیز اسلام کا صحیح فہم ہے۔ جو آدمی اسلامی نظامِ زندگی کو برپا کرنا چاہتا ہو، اسے پہلے خود اس چیز کو اچھی طرح جاننا اور سمجھنا چاہیے جسے وہ برپا کرنا چاہتا ہے۔ اس غرض کے لیے اسلام کا محض اجمالی علم کافی نہیں ہے، بلکہ کم و بیش تفصیلی علم درکار ہے۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ اِس راہ کا ہر راہرو اور اس تحریک کا ہر کارکن مفتی یا مجتہد ہو، لیکن یہ بہرحال ضروری ہے کہ ان میں سے ہر ایک اسلامی عقائد کو جاہلی افکار و اوہام سے، اور اسلامی طرزِ عمل کو غیر اسلامی طرزِ عمل سے ممتاز کر کے جان لے، اور اِس بات سے واقف ہو جائے کہ زندگی کے مختلف شعبوں میں اسلام نے انسان کو کیا رہنمائی دی ہے۔ اس علم و واقفیت کے بغیر نہ آدمی خود صحیح راہ پر چل سکتا، نہ دوسروں کو راستہ دکھا سکتا ہے، اور نہ تعمیرِ معاشرہ کے لیے کوئی کام صحیح خطوط پر کر سکتا ہے۔ عام کارکنوں کو یہ واقفیت اس حد تک ہونی چاہیے کہ وہ دیہاتی اور شہری عوام کو سیدھے سادھے طریقے سے دین سمجھا سکیں، لیکن عمدہ ذہنی صلاحیتیں رکھنے والے لوگوں کو اس میں اتنا درک بہم پہنچانا چاہیے کہ وہ ذہین طبقوں کو متاثر کر سکیں، تعلیم یافتہ لوگوں کے شکوک اور الجھنیں رفع کر سکیں، مخالفین کے اعتراضات کا مدلل اور اطمینان بخش جواب دے سکیں، زندگی کے مختلف النوع مسائل کو اسلام کی روشنی میں حل کر سکیں، اسلامی نقطۂ نظر سے علوم و فنون کی تدوینِ جدید کر سکیں، اور اسلام کی ازلی و ابدی بنیادوں پر ایک نئی تہذیب اور نئے تمدن کی عمارت اُٹھا سکیں۔ ان میں اتنی تنقیدی صلاحیت ہونی چاہیے کہ موجودہ زمانے کے نظامِ فکر و عمل میں سے سقیم اجزاء کو سلیم اجزاء سے الگ کر سکیں، اور ساتھ ساتھ اتنی تعمیری صلاحیت بھی ہونی چاہیے کہ جو کچھ توڑنے کے لائق ہے، اُسے توڑ کر ایک بہتر چیز اس کی جگہ بنا سکیں اور جو کچھ رکھنے کے لائق ہے، اُسے باقی رکھ کر ایک بہتر نظام میں اس کو استعمال کر سکیں۔
اسلام پر پختہ ایمان
علم و معرفت کے بعد دوسرا ضروری وصف جو اس مقصد کے لیے کام کرنے والوں میں ہونا چاہیے، وہ یہ ہے کہ جس دین پر وہ نظامِ زندگی کی تعمیر کرنا چاہتے ہوں، وہ خود اس پر پختہ ایمان رکھتے ہوں، ان کا اپنا دل اس کے صحیح و برحق ہونے پر مطمئن ہو اور اُن کا اپنا ذہن اس معاملے میں پوری طرح یکسو ہو جائے۔ شک اور تذبذب اور تردد لیے ہوئے کوئی شخص اس کام کو نہیں کر سکتا۔ دماغی الجھنیں اور نظر و فکر کی پراگندگیاں لے کر یہ کام نہیں کیا جا سکتا۔ کوئی ایسا آدمی اس کام کے لیے موزوں نہیں ہو سکتا جس کا دل ڈانواڈول ہو، جس کا ذہن یکسو نہ ہو اور جسے خیال و عمل کی مختلف راہیں اپنی طرف کھینچ رہی ہوں یا کھینچ سکتی ہوں۔ یہ کام تو جسے بھی کرنا ہو، اُسے قطعی طور پر اس بات کا یقین ہونا چاہیے کہ خدا ہے اور انہی صفات سے متصف، انہی اختیارات کا مالک، اور انہی حقوق کا مستحق ہے جو قرآن میں بیان ہوئے ہیں۔ آخرت ہے اور ٹھیک ٹھیک ویسی ہے جو قرآن میں بتائی گئی ہے۔ راہِ راست صرف وہی ایک ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دکھائی ہے۔ ہر وہ چیز باطل ہے جو اُس کے خلاف ہو، یا اس سے موافقت نہ رکھتی ہو۔ جو خیال بھی کسی دوسرے نے پیش کیا ہے اور جو طریقہ بھی کسی دوسرے نے نکالا ہے، اس کو جانچنے کی کسوٹی صرف ایک ہے اور وہ ہے اللہ کی کتاب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت۔ اس کسوٹی پر جو کھرا اترے وہ کھرا ہے اور جو کھوٹا اُترے وہ کھوٹا۔ اسلامی نظامِ زندگی کی تعمیر کے لیے ان حقائق پر پختہ یقین درکار ہے۔ دل کا پورا اطمینان درکار ہے۔ دماغ کی کامل یکسوئی درکار ہے۔ جو لوگ اس معاملے میں ادنیٰ تذبذب رکھتے ہوں، یا جن کی دلچسپیاں ابھی دوسری راہوں سے وابستہ ہوں، انہیں اس مقدس عمارت کے معمار بن کر آنے سے پہلے اپنی اس کمزوری کا علاج کرنا چاہیے۔
قول و عمل میں مطابقت
تیسرا لازمی وصف یہ ہے کہ آدمی کا عمل اس کے قول کے مطابق ہو۔ جس چیز کو وہ حق مانتا ہے، اس کا اتباع کرے۔ جس کو باطل قرار دیتا ہے، اس سے اجتناب کرے۔ جسے اپنا دین کہتا ہے، اسے اپنی سیرت و کردار کا دین بنائے۔ اور جس چیز کی طرف وہ دنیا کو دعوت دیتا ہے، سب سے پہلے خود اس کی پیروی اختیار کرے۔ اُسے اوامر کے اتباع اور نواہی سے اجتناب کے لیے کسی خارجی دباؤ یا اثر کا محتاج نہ ہونا چاہیے۔ صرف یہ چیز کہ ایک کام اللہ کی خوشنودی کا موجب ہے، اس بات کے لیے کافی ہونی چاہیے کہ وہ دلی رغبت اور شوق کے ساتھ اسے کرے اور صرف یہ بات کہ ایک کام اللہ کے ہاں ناپسندیدہ ہے، اس حد تک مؤثر ہونی چاہیے کہ وہ اس سے رُک جائے۔ اس کی یہ کیفیت صرف معمولی حالات ہی میں نہ ہونی چاہیے، بلکہ اس کی سیرت میں اتنی طاقت ہونی چاہیے کہ وہ غیر معمولی بگاڑ کے ماحول میں ہر خوف اور ہر لالچ کا مقابلہ کر کے اور ہر مزاحمت سے نبرد آزما ہو کر بھی راہِ راست پر ثابت قدم رہ سکے۔ جو لوگ اِس وصف سے خالی ہوں، وہ اصلاح و تعمیر میں مددگار تو ہو سکتے ہیں، مگر اس کے اصل کارکن نہیں ہو سکتے۔ اس کام میں مددگار تو ہر وہ شخص ہو سکتا ہے جو اسلام کے لیے کوئی ہمدردی اپنے اندر رکھتا ہے، بلکہ جو منکر اور مخالف مزاحم نہیں ہے، وہ بھی ایک حد تک مددگار ہے۔ لیکن ایسے مددگار کروڑوں کی تعداد میں بھی موجود ہوں تو عملاً اسلامی نظام برپا نہیں ہو سکتا اور جہالت کے فروغ کی رفتار رک نہیں سکتی۔ عملاً یہ کام صرف اُسی وقت ہو سکتا ہے جب کہ اسے کرنے کے لیے ایسے لوگ اٹھیں جو علم و یقین کی نعمت کے ساتھ سیرت و کردار کی طاقت بھی رکھتے ہوں اور جن کے ایمان و ضمیر میں اتنی زندگی موجود ہو کہ وہ کسی خارجی محرک کے بغیر خود اپنی اندرونی تحریک سے دین کے تقاضے پورے کرنے لگیں۔ اس طرح کے کارکن برسرِکار آجائیں تو ان بہت سے ہمدردوں اور مددگاروں کی موجودگی بھی اپنا فائدہ دے سکتی ہے جو مسلم معاشرے ہی میں نہیں، غیر مسلم معاشرے تک میں ہر جگہ پائے جاتے ہیں۔
دین بحیثیت مقصد
ان تین صفات کے ساتھ ایک چوتھی صفت بھی اصلاح و تعمیر کے کارکنوں میں پائی جانی چاہیے۔ اور وہ یہ ہے کہ اعلائے کلمۃ اللہ اور اقامتِ دین ان کے لیے محض ایک خواہش اور تمنا کا درجہ نہ رکھتی ہو، بلکہ وہ اسے اپنی زندگی کا مقصد بنائیں۔ ایک قسم کے لوگ تو وہ ہوتے ہیں جو دین سے واقف ہوتے ہیں، اور اس کے مطابق عمل بھی کرتے ہیں، مگر اس کو قائم کرنے کی سعی و جہد ان کا وظیفۂ زندگی نہیں ہوتا، بلکہ وہ نیک نیت اور نیک عمل کے ساتھ اپنی دنیا کے معاملات میں لگے رہتے ہیں۔ یہ بلاشبہ صالح لوگ ہیں اور اگر اسلامی نظامِ زندگی عملاً قائم ہو چکا ہو تو یہ اس کے اچھے شہری ہو سکتے ہیں، لیکن جہاں نظامِ جہالت پوری طرح چھایا ہو اور کام یہ درپیش ہو کہ اُسے ہٹا کر نظامِ اسلام اس کی جگہ قائم کرنا ہے، وہاں صرف اس درجے کے نیک لوگوں کی موجودگی سے کچھ نہیں بن سکتا۔ وہاں ضرورت ان لوگوں کی ہوتی ہے جن کے لیے یہ کام عنو ان کا مقصدِ زندگی ہو۔ وہ دنیا کے دوسرے کام تو جینے کے لیے کریں، مگر ان کا جینا صرف اس ایک ہی مقصد کے لیے ہو، اس مقصد میں وہ مخلص ہوں، ان کی لگن ایسی ہو کہ دوسری تمام دلچسپیوں اور خواہشات کو اس کے حصول کی کوشش پر قربان کر دیں، وہ اس کا پختہ عزم رکھتے ہوں، اس کام میں اپنا وقت، اپنا مال، اپنے جسم و جان کی قوتیں اور اپنے دل و دماغ کی صلاحیتیں کھپا دینے کے لیے وہ تیار ہوں۔ حتیٰ کہ اگر سر دھڑ کی بازی لگا دینے کی ضرورت پیش آجائے تو وہ اس سے بھی منہ نہ موڑیں۔ جہالت کے جنگل کو کاٹ کر اسلام کی راہ ہموار کرنا ایسے ہی لوگوں کا کام ہے۔
یہ اوصاف: دین کا صحیح فہم، اس پر پختہ ایمان، اس کے مطابق سیرت و کردار اور اس کی اقامت کو مقصدِ زندگی بنانا، وہ بنیادی اوصاف ہیں جو فرداً فرداً ان تمام لوگوں میں موجود ہونے چاہئیں، جو اسلامی نظامِ زندگی کی تعمیر کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہوں۔ ان کی اہمیت یہ ہے کہ اگر ان اوصاف کے حامل افراد بہم نہ پہنچیں تو اس کام کا سرے سے تصور ہی نہیں کیا جا سکتا۔
اب یہ کہنے کی کوئی حاجت نہیں کہ اس طرح کے افراد کا، اگر وہ فی الواقع کچھ کرنا چاہتے ہوں، مل کر ایک جماعت کی صورت میں کام کرنا بہرحال ضروری ہے۔ قطع نظر اس کے کہ وہ کس جماعت میں ملیں اور کس نام سے کام کریں۔ ہر صاحبِ عقل آدمی اس بات کو خود جانتا ہے کہ اجتماعی نظام میں کوئی تغیر محض انفرادی کوششوں سے نہیں ہو سکتا۔ اس کے لیے بکھری ہوئی مساعی نہیں بلکہ سمٹی ہوئی مساعی درکار ہوتی ہے۔ لہٰذا اسے ایک مسلمہ حقیقت فرض کرتے ہوئے اب ہم ان اوصاف کو لیتے ہیں جو اس طرح کی جماعت میں من حیث الجماعت پائے جانے چاہئیں۔
اجتماعی اوصاف
اخوت و محبت
ایسی جماعت کا اوّلین وصف یہ ہونا چاہیے کہ اس کے شرکاء آپس میں محبت کرنے والے ہوں۔ ایک دوسرے کے ساتھ ایثار کا معاملہ کریں، جس طرح ایک عمارت اسی وقت مستحکم ہوتی ہے جب کہ اس کی اینٹیں باہم مضبوطی کے ساتھ پیوستہ ہوں اور اینٹوں کو جوڑنے والی چیز سیمنٹ ہے۔ اسی طرح ایک جماعت بھی اس وقت بنیانِ مرصوص بنتی ہے جب کہ اس کے ارکان کے دل ایک دوسرے سے جُڑے ہوئے ہوں اور دلوں کو جوڑنے والی چیز مخلصانہ محبت، آپس کی خیر خواہی اور ہمدردی ہے، اور ایک دوسرے کے ساتھ ایثار۔ روکھا سوکھا کاروباری معاملہ، نفرت کرنے والے دلوں کو نہیں ملا سکتا۔ منافقانہ اتحاد کوئی حقیقی اتحاد پیدا نہیں کر سکتا۔ خود غرضانہ اتحاد نفاق کا پیش خیمہ ہوتا ہے اور محض ایک روکھا سوکھا تعلق کسی مضبوط جماعت کی بنیاد نہیں بن سکتا۔ کوئی دنیوی غرض ایسے بے جوڑ عناصر کو جمع بھی کر دے تو وہ صرف بکھرنے کے لیے جمع ہوتے ہیں اور پھر کچھ بنانے کے بجائے آپس ہی میں کٹ مرتے ہیں۔ ایک مضبوط جماعت صرف اسی وقت وجود میں آتی ہے جب کہ اپنے خیالات میں مخلص اور اپنے مقصد سے محبت رکھنے والے لوگ باہم مجتمع ہوں اور پھر خیالات کا یہی اخلاص اور مقصد سے یہی محبت ان کے اندر آپس میں بھی اخلاص و محبت پیدا کر دے۔ اس طرح کی جماعت حقیقت میں ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہوتی ہے جس کے اندر فساد ڈالنے کے لیے شیطان کوئی شگاف نہیں پاتا اور باہر سے مخالفتوں کے سیلاب اٹھا اٹھا کر لاتا بھی ہے تو اُسے اپنی جگہ سے ہلا نہیں سکتا۔
باہمی مشاورت
دوسرا ضروری وصف یہ ہے کہ اس جماعت کو باہمی مشورے سے کام کرنا چاہیے اور آدابِ مشاورت کو ہمیشہ ملحوظ رکھنا چاہیے۔ خود سر لوگوں کی جماعت جس میں ہر شخص اپنی من مانی کرے، حقیقت میں کوئی جماعت نہیں ہوتی، بلکہ محض ایک منڈلی ہوتی ہے، جس سے کوئی کام بھی بن نہیں آسکتا اور وہ جماعت بھی زیادہ دیر تک نہیں چل سکتی، جس میں کوئی شخص یا چند بااثر اشخاص کا ایک ٹولہ مختارِ کُل بن جائے، باقی سب لوگوں کا کام اس کے اشاروں پر چلنا ہو۔ صحیح کام صرف مشاورت ہی سے ہو سکتا ہے کیونکہ اس طرح نہ صرف یہ کہ بہت سے دماغ بحث و تمحیص سے ہر معاملے کے اچھے اور بُرے پہلوؤں کا جائزہ لے کر ایک بہتر نتیجہ پر پہنچ سکتے ہیں، بلکہ اس سے دو فائدے اور بھی ہوتے ہیں: ایک یہ کہ جس کام میں پوری جماعت کا مشورہ بالواسطہ یا بلاواسطہ شامل ہو، اُسے پوری جماعت اطمینانِ قلب کے ساتھ انجام دینے کی کوشش کرتی ہے، اور کسی کو یہ خیال نہیں ہوتا کہ ہم پر ایک چیز اوپر سے ٹھونس دی گئی ہے۔ دوسرے یہ کہ اس طریقے سے پوری جماعت کو معاملہ فہمی کی تربیت ملتی ہے۔ ہر فردِ جماعت معاملے سے دلچسپی لیتا ہے اور اس کے فیصلوں میں اپنی ذمہ داری محسوس کرتا ہے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ مشاورت کے ساتھ آدابِ مشاورت کو بھی ملحوظ رکھا جائے۔ آدابِ مشاورت یہ ہیں کہ ہر شخص ایمانداری کے ساتھ اپنی رائے پیش کرے، اور کوئی بات دل میں چھپا کر نہ رکھے۔ بحث میں ضد، ہٹ دھرمی اور کسی قسم کے تعصب کا دخل نہ ہو اور جب کثرتِ رائے سے ایک فیصلہ ہو جائے تو اختلاف رکھنے والے چاہے اپنی رائے نہ بدلیں، مگر جماعتی فیصلے کو پوری خوش دلی کے ساتھ عمل میں لانے کی کوشش کریں۔ یہ تین باتیں اگر نہ ہوں تو مشاورت کے تمام فوائد ضائع ہو جاتے ہیں، بلکہ یہی چیز آخرکار جماعت میں پھوٹ ڈال دیتی ہے۔
نظم و ضبط
تیسرا اہم وصف ہے نظم و ضبط، باضابطگی اور باقاعدگی، باہمی تعاون، اور ٹیم کی طرح کام کرنا۔ ایک جماعت اپنی تمام خوبیوں کے باوجود صرف اس وجہ سے ناکام ہو سکتی ہے کہ وہ اپنے اچھے سے اچھے فیصلوں کو عمل میں نہیں لا سکتی، اور یہ نتیجہ ہوتا ہے ضبط و نظم کی کمی اور تعاون کے فقدان کا۔ تخریبی کام محض بھیڑ سے بھی انجام پا سکتے ہیں، مگر کوئی پائیدار تعمیری کام منظم سعی کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ منظم سعی نام ہے اس چیز کا کہ جو ضابطہ تجویز کیا گیا ہو، پوری جماعت اس کی پابندی کرے۔ جماعت میں جس کو جس درجے میں بھی صاحبِ امر بنایا گیا ہو، اس کے احکام کی اطاعت کی جائے۔ جماعت کا ہر شخص فرض شناس ہو، کام ٹھیک وقت پر مستعدی کے ساتھ انجام دینے کی کوشش کرے۔ جن کارکنوں کو جو کام مل کر کرنا ہو، وہ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں۔ اور جماعت کی مشین اس قدر چست ہو کہ ایک فیصلہ ہوتے ہی اس کو عمل میں لانے کے لیے تمام پرزے حرکت میں آجائیں۔ دنیا میں اگر کوئی کام بنا سکتی ہیں تو ایسی ہی جماعتیں بنا سکتی ہیں۔ ورنہ ان جماعتوں کا عدم اور وجود برابر ہوتا ہے، جنہوں نے پرزے تو فراہم کر لیے ہوں مگر ان کے جوڑنے اور کس کر مشین کی طرح باقاعدہ چلانے کا کوئی انتظام نہ کیا ہو۔
تنقید بغرضِ اصلاح
آخری اور انتہائی اہم وصف یہ ہے کہ جماعت میں تنقید بغرضِ اصلاح کی روح بھی موجود ہو اور اُس کا سلیقہ بھی پایا جاتا ہو۔ اندھے مقلدوں اور سادہ لوح معتقدوں کا گروہ خواہ کیسے ہی صحیح مقام سے کام کا آغاز کرے، اور کیسے ہی صحیح مقصد کو سامنے رکھ کر چلے، بہرحال آخرکار بگڑتا چلا جاتا ہے۔ کیونکہ انسانی کام میں کمزوریوں کا رونما ہونا فطرتاً ناگزیر ہے اور جہاں کمزوریوں پر نگاہ رکھنے والا کوئی نہ ہو، یا ان کی نشان دہی کرنا معیوب ہو، وہاں غفلت کی وجہ سے یا مجبوراً سکوت کے باعث ہر کمزوری سکون و اطمینان کا آشیانہ پاتی چلی جاتی ہے اور انڈے بچے دینے لگتی ہے۔ جماعت کی صحت اور تندرستی کے لیے روحِ تنقید کے فقدان سے بڑھ کر کوئی چیز نقصان دہ نہیں، اور تنقیدی فکر کو دبانے سے بڑھ کر جماعت کے ساتھ کوئی اور بدخواہی نہیں ہو سکتی۔ یہی تو وہ چیز ہے جس کے ذریعے سے خرابیاں بروقت سامنے آجاتی ہیں اور ان کی اصلاح کی سعی کی جاسکتی ہے۔ لیکن تنقید کے لیے شرطِ لازم یہ ہے کہ وہ عیب چینی کی نیت سے نہ ہو بلکہ اخلاص کے ساتھ اصلاح کی نیت سے ہو۔ اور اس کے ساتھ دوسری اتنی ہی ضروری شرط یہ ہے کہ تنقید کرنے والوں کو تنقید کا سلیقہ آتا ہو۔ ایک نیک نیت ناقد بھی بے ڈھنگی، بے موقع اور بھونڈی تنقید سے جماعت کو وہی نقصان پہنچا سکتا ہے جو ایک عیب چین اور بد نیت مفسد کے ہاتھوں پہنچنا ممکن ہے۔
تکمیلِ اوصاف
اب تک یہ بتایا جا چکا ہے کہ معاشرے کی اصلاح اور اسلامی نظامِ زندگی کی تعمیر کا جو کام اب درپیش ہے، اس کے لیے کن صفات کے حامل افراد درکار ہیں اور اُن افراد کی اجتماعی تنظیم میں کن اوصاف کا پایا جانا ضروری ہے۔ اس سلسلے میں اب تک جن امور کا ذکر کیا گیا ہے، ان کی حیثیت دراصل محض ابتدائی اور بنیادی اوصاف کی ہے۔ جس طرح ایک کاروبار کی ابتداء کرنے کے لیے ایک کم سے کم سرمایہ درکار ہوتا ہے جس کے بغیر اُسے شروع ہی نہیں کیا جا سکتا، اسی طرح اس کام کے لیے یہ کم سے کم اخلاقی سرمایہ ہے جو آغازِ کار ہی میں موجود ہونا چاہیے، ورنہ اس کا حوصلہ کرنا ہی فضول ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسے افراد کے ہاتھوں کسی اسلامی نظام کے قیام کا خیال بھی نہیں کیا جا سکتا، جو اسلام کو جانتے ہی نہ ہوں، یا اس کے بارے میں خود اپنے اندر ہی قلبی اطمینان اور ذہنی یکسوئی نہ رکھتے ہوں، یا اس کو خود اپنے اخلاق و کردار اور اپنی عملی زندگی کا دین بنانے سے قاصر ہوں، یا اس کے قیام کی سعی کو انہوں نے اپنا مقصود ہی نہ ٹھہرایا ہو۔ اسی طرح یہ بھی ظاہر ہے کہ اگر مطلوبہ اوصاف کے افراد جمع تو ہو جائیں، مگر ان کے دل باہم جڑے ہوئے نہ ہوں، اُن میں تعاون اور نظم و ضبط نہ ہو، ان کو مل کر کام کرنے کا ڈھنگ نہ آتا ہو اور وہ باہمی مشورہ و تنقید کے صحیح طریقوں سے نابلد ہوں، تو محض ان کا جمع ہو جانا کوئی مفید نتیجہ برآمد نہیں کر سکتا۔ لہٰذا یہ بات اچھی طرح سمجھ لی یہ چاہیے کہ وہ چار انفرادی اور چار اجتماعی اوصاف، جن کا ذکر ہم نے اب تک کیا ہے، درحقیقت اس کام کا سرمایہِ آغاز ہیں اور ان کی جو کچھ بھی اہمیت ہے، اسی لحاظ سے ہے۔ لیکن یہ خیال کرنا صحیح نہیں ہے کہ اس کام کے فروغ اور اس کی کامیابی کے لیے بس یہی اخلاقی اور روحانی سرمایہ کافی ہے۔
اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ وہ مزید اوصاف کون سے ہیں جو اصلاح و تعمیر کے مقصد میں کامیاب ہونے کے لیے ضروری ہیں۔
تعلق باللہ اور خلوص
ان میں اوّلین وصف تعلق باللہ اور اخلاص للہ ہے۔ دنیا کے دوسرے کام تو نفس یا خاندان یا قبیلے یا قوم و وطن کی خاطر کیے جا سکتے ہیں، ذاتی اغراض اور مادی مقاصد کی ساری آلائشوں کے ساتھ کیے جا سکتے ہیں، خدا پرستی ہی نہیں، انکارِ خدا تک کے ساتھ کیے جا سکتے ہیں اور ان میں ہر طرح کی دنیوی کامیابیاں ممکن ہیں۔ لیکن اسلامی نظامِ زندگی کا برپا کرنا ایک ایسا کام ہے جس میں کوئی کامیابی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک آدمی کا تعلق اللہ کے ساتھ صحیح اور مضبوط اور گہرا نہ ہو اور اس کی نیت خالصتاً اللہ ہی کے لیے کام کرنے کی نہ ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں جس چیز کو آدمی قائم کرنا چاہتا ہے، وہ اللہ کا دین ہے اور اسے قائم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی سب کچھ اس خدا کے لیے کرے جس کا یہ دین ہے۔ اس کی رضا اِس کام میں مطلوب ہونی چاہیے، اسی کی محبت اس کے لیے واحد محرک ہونی چاہیے۔ اسی کی تائید و نصرت پر کلی اعتماد ہونا چاہیے۔ اسی سے اجر کی ساری اُمیدیں وابستہ ہونی چاہئیں۔ اسی کی ہدایات اور اسی کے امر و نہی کا اتباع ہونا چاہیے اور اسی کی پکڑ کا خوف دل پر چھایا رہنا چاہیے۔ اس کے سوا جس خوف، جس لالچ اور جس محبت اور جس اتباع و اطاعت کی آمیزش بھی ہو گی اور جو دوسری غرض بھی اس کام میں شامل ہو جائے گی، وہ راہِ راست سے قدم ہٹا دے گی اور اس کے نتیجہ میں اور جو کچھ بھی قائم ہو جائے، بہرحال اللہ کا دین قائم نہ ہو سکے گا۔
فکرِ آخرت
اسی سے قریب تر تعلق رکھنے والا دوسرا وصف فکرِ آخرت ہے۔ مومن کے کام کرنے کی جگہ اگرچہ دنیا ہے اور جو کچھ اسے کرنا ہے، یہیں کرنا ہے، مگر وہ کام اس دنیا کے لیے نہیں کرتا بلکہ آخرت کے لیے کرتا ہے اور اس کا مطمحِ نظر دنیوی نتائج نہیں بلکہ اخروی نتائج ہوتے ہیں۔ اسے ہر لحاظ سے وہ کام کرنا چاہیے جو آخرت میں نافع ہے اور ہر اس مشغلے سے دست کش ہو جانا چاہیے جس کا وہاں کوئی پھل نہ ہو، اسے ہر اُس فائدے کو ٹھکرا دینا چاہیے جو آخرت میں نقصان کا موجب ہو اور ہر اُس نقصان کو انگیز کر لینا چاہیے جو آخرت میں نفع بخش ہو۔ اسے فکر صرف آخرت کے عذاب و ثواب کی ہونی چاہیے۔ دنیا کے کسی عذاب و ثواب کی کوئی اہمیت اس کی نگاہ میں نہ ہونی چاہیے۔
اس کی کوشش اس دنیا میں بار آور ہوں یا نہ ہوں، یہاں اس کی کامیابی ہوتی نظر آئے یا ناکامی، یہاں اس کی تعریف ہو یا مذمت، یہاں وہ انعام پائے یا آزمائشوں میں ڈالا جائے، ہر حال میں اُس کو اِس یقین کے ساتھ کام کرنا چاہیے کہ وہ خدا سب کچھ دیکھ رہا ہے جس خدا کے لیے وہ یہ ساری محنتیں کر رہا ہے، اس کی نگاہ سے کچھ پوشیدہ نہیں ہے، اور اُس کے ہاں دارِ آخرت کی ابدی جزا سے وہ ہرگز محروم نہ رہے گا، اور وہیں کی کامیابی اصل کامیابی ہے۔ اس ذہنیت کے بغیر آدمی کے لیے چند قدم بھی اس راہ میں صحیح رخ پر چلنا مشکل ہے۔
حسنِ سیرت
ان دو اوصاف کی تاثیر کو جو چیز عملاً ایک زبردست قوتِ تسخیر میں تبدیل کر دیتی ہے، وہ حسنِ سیرت ہے۔ خدا کی راہ میں کام کرنے والے لوگوں کو عالی ظرف اور فراخ حوصلہ ہونا چاہیے۔ ہمدردِ خلائق اور خیر خواہِ انسانیت ہونا چاہیے اور کریم النفس اور شریف الطبع ہونا چاہیے۔ خوددار اور خوگرِ قناعت ہونا چاہیے۔ متواضع اور منکسرالمزاج ہونا چاہیے۔ شیریں کلام اور نرم خُو ہونا چاہیے۔
وہ ایسے لوگ ہونے چاہئیں جن سے کسی کو شر کا اندیشہ نہ ہو اور ہر ایک اُن سے خیر خواہی کا متوقع ہو، جو اپنے حق سے کم پر راضی ہوں اور دوسروں کو، اُن کے حق سے زیادہ دینے پر تیار ہوں، جو برائی کا جواب بھلائی سے دیں یا کم سے کم بُرائی سے نہ دیں۔ جو اپنے عیوب کے معترف اور دوسروں کی بھلائی کے قدردان ہوں، جو اتنا بڑا دل رکھتے ہوں کہ لوگوں کی کمزوریوں سے چشم پوشی کر سکیں، قصوروں کو معاف کر سکیں، زیادتیوں سے درگزر کر سکیں، اور اپنی ذات کے لیے کسی کا انتقام نہ لیں۔ جو خدمت لے کر نہیں، خدمت کر کے خوش ہوتے ہوں، اپنی غرض کے لیے نہیں بلکہ دوسروں کی بھلائی کے لیے کام کریں، ہر تعریف سے بے نیاز اور ہر مذمت سے بے پروا ہو کر وہ اپنا فرض انجام دیں، اور خدا کے سوا کسی کے اجر پر نگاہ نہ رکھیں، جو طاقت سے دبائے نہ جا سکیں، دولت سے خریدے نہ جا سکیں، مگر حق اور راستی کے آگے بے تامل سر جھکا دیں۔ جن کے دشمن بھی ان پر بھروسہ رکھتے ہوں کہ کسی حال میں ان سے شرافت اور انصاف کے خلاف کوئی حرکت سرزد نہیں ہو سکتی۔
یہ دلوں کو موہ لینے والے اخلاق ہیں۔ ان کی کاٹ تلوار کی کاٹ سے بڑھ کر، اور ان کا سرمایہ سیم و زر کی دولت سے گراں تر ہے۔ کسی فرد کو یہ اخلاق میسر ہوں تو وہ اپنے گرد و پیش کی آبادی کو مسخر کر لیتا ہے۔ لیکن اگر کوئی جماعت ان اوصاف سے متصف ہو، اور پھر وہ کسی مقصدِ عظیم کے لیے عظیم سعی بھی کر رہی ہو تو ملک کے ملک اس کے آگے مسخر ہوتے چلے جاتے ہیں، حتیٰ کہ دنیا کی کوئی طاقت اس کو شکست دینے میں کامیاب نہیں ہو سکتی۔
صبر و استقامت
اس کے ساتھ ایک اور صفت بھی ہے جسے کامیابی کی کلید کہنا چاہیے اور وہ ہے صبر۔ یہ ایک وسیع لفظ ہے جس کے بہت سے مفہومات ہیں اور راہِ خدا میں کام کرنے والوں کو ان میں سے ہر مفہوم کے لحاظ سے صابر ہونا چاہیے۔
صبر کا ایک مفہوم یہ ہے کہ آدمی جلد باز نہ ہو، اپنی کوششوں کے نتائج فوراً اور جلدی دیکھنے کے لیے بے تاب نہ ہو اور دیر لگتے دیکھ کر ہمت نہ ہار جائے۔ صابر آدمی کی خوبی یہ ہے کہ وہ تمام عمر ایک مقصد کے پیچھے مسلسل محنت کرتا چلا جاتا ہے، اور پیہم ناکامیوں کے باوجود اپنے کام میں لگا رہتا ہے۔ اصلاحِ خلق اور تعمیرِ حیات کا کام ایسا صبر آزما ہے کہ اس صفت کے بغیر کوئی شخص اس سے عہدہ برآ نہیں ہو سکتا۔ یہ بہرحال ہتھیلیوں پر سرسوں جمانا نہیں ہے۔
صبر کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ آدمی تلون مزاجی اور ضعفِ رائے اور قلتِ عزم کی بیماری میں مبتلا نہ ہو۔ اس میں یہ صفت موجود ہو کہ جس راہ کو اس نے سوچ سمجھ کر اختیار کر لیا ہے، اس پر ثابت قدم رہے اور دل کے پورے عزم و ارادے کی پوری قوت کے ساتھ اس پر بڑھتا چلا جائے۔
صبر ہی کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ آدمی مشکلات اور مصائب کا مردانہ وار مقابلہ کرے اور اپنے مقصد کی راہ میں جو تکلیف بھی پیش آجائے، اُسے ٹھنڈے دل کے ساتھ برداشت کر لے۔ صابر آدمی کسی طوفان اور کسی سیلاب کے تھپیڑوں سے شکست خوردہ ہو کر منہ نہیں موڑتا۔
صبر کے مفہوم میں یہ بات بھی داخل ہے کہ آدمی زود رنج اور مشتعل مزاج نہ ہو، بلکہ متحمل اور بردبار ہو۔ جس شخص کو اصلاح و تعمیر کا کام کرنا ہو اور جسے تعمیر کے لیے کچھ نہ کچھ ناگزیر تخریب بھی کرنی پڑے، خصوصیت کے ساتھ جب یہ خدمت اُسے مدتوں کی بگڑی ہوئی سوسائٹی میں انجام دینی ہو، اسے لامحالہ بڑی گندی اور گھناؤنی اور کمینی قسم کی مخالفتوں سے سابقہ پیش آکر رہتا ہے۔ اگر وہ اتنی طاقت نہیں رکھتا کہ گالیاں کھا کر ہنس دے، طعنے سُن کر ٹال دے، الزام اور بہتان اور جھوٹے پروپیگنڈے کو یکسر نظر انداز کر کے پورے سکون اور جمعیتِ خاطر کے ساتھ اپنا کام کرتا رہے تو بہتر یہی ہے کہ وہ اس راہ میں قدم ہی نہ رکھے۔ اس لیے کہ یہ کانٹوں بھری راہ ہے، اس کا ہر کانٹا یہ عزم کیے بیٹھا ہے کہ آدمی اور جس طرف بھی چلا جائے، مگر اس سمت میں اسے ایک انچ بھی نہ بڑھنے دیا جائے گا۔ اس حالت میں جو شخص ہر کانٹے سے الجھنے لگے، وہ کیا؟ کوئی کانٹا اُلجھ جائے تو وہ دامن کا وہ حصہ پھاڑ کر اس کے حوالے کر دیں اور ایک لمحہ کے لیے بھی اپنی راہ کھوٹی نہ کریں۔ یہ صبر صرف مخالفوں ہی کے مقابلے میں درکار نہیں ہے بلکہ بسا اوقات اس راہ کے راہرو کو، خود اپنے ساتھیوں سے تلخ اور ناگوار باتوں سے سابقہ پیش آجاتا ہے اور ان کے معاملے میں اگر وہ حلم و تحمل سے کام نہ لے تو پورے قافلے کی راہ مار سکتا ہے۔
صبر اس چیز کا نام بھی ہے کہ آدمی ہر خوف اور ہر لالچ کے مقابلے میں راہِ راست پر جما رہے، شیطان کی ساری ترغیبات اور نفس کی تمام خواہشات کے علی الرغم اپنا فرض بجالائے، حرام سے پرہیز کرے اور حدود اللہ پر قائم رہے۔ گناہ کی ساری لذتوں اور منفعتوں کو ٹھکرا دے اور خیر اور راستی کے ہر نقصان اور ہر تکلیف کو انگیز کر کے بھی اسی راہ پر بات چیت کرتا رہے جو اپنے مقصد کی خدمت کرتے ہوئے اسے نظر آئے یا ناکامی، یہاں اس کی تعریف ہو یا مذمت، یہاں وہ انعام پائے یا آزمائشوں میں ڈالا جائے۔ ہر حال میں اُس کو اِس یقین کے ساتھ کام کرنا چاہیے کہ وہ خدا سب کچھ دیکھ رہا ہے جس خدا کے لیے وہ یہ ساری محنتیں کر رہا ہے، اس کی نگاہ سے کچھ پوشیدہ نہیں ہے، اور اُس کے ہاں دارِ آخرت کی ابدی جزا سے وہ ہرگز محروم نہ رہے گا، اور وہیں کی کامیابی اصل کامیابی ہے۔ اس ذہنیت کے بغیر آدمی کے لیے چند قدم بھی اس راہ میں صحیح رخ پر چلنا مشکل ہے۔
حکمت
ان سب اوصاف کے ساتھ ایک نہایت اہم وصف حکمت ہے جس پر بہت بڑی حد تک کامیابی کا انحصار ہے۔ دنیا میں جو نظامِ زندگی بھی قائم ہیں، اُن کو اعلیٰ درجے کے ذہین اور ہوشیار لوگ چلا رہے ہیں اور ان کی پشت پر مادی وسائل کے ساتھ عقلی و فکری طاقتیں اور علمی و فنی قوتیں کام کر رہی ہیں۔ اُن کے مقابلے میں ایک دوسرے نظام کو قائم کر دینا اور کامیابی کے ساتھ چلا لینا کوئی بچوں کا کھیل نہیں۔ یہ بسم اللہ کے گنبد میں رہنے والوں کے کرنے کا کام نہیں۔ سادہ لوح لوگ خواہ کتنے ہی نیک اور نیک نیت ہوں، اس سے عہدہ برآ نہیں ہو سکتے۔ اس کے لیے گہری بصیرت اور تدبر کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے دانشمندی اور معاملہ فہمی درکار ہے۔ اس کام کو وہی لوگ کر سکتے ہیں جو موقع شناس اور باتدبیر ہوں اور زندگی کے مسائل کو سمجھنے اور حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ حکمت ان سب اوصاف کے لیے ایک جامع لفظ ہے اور اس کا اطلاق دانائی و زیرکی کے متعدد مظاہر پر ہوتا ہے۔
یہ حکمت ہے کہ آدمی انسانی نفسیات کی سمجھ رکھتا ہو اور انسانوں سے معاملہ کرنا جانتا ہو۔ لوگوں کے اذہان کو اپنی دعوت سے متاثر کرنے اور ان کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کرنے کے طریقوں سے واقف ہو۔ ہر شخص کو ایک ہی لگی بندھی دوا دیتا نہ چلا جائے بلکہ ہر ایک کے مزاج اور مرض کی تشخیص کر کے علاج کرے۔ سب کو ایک لکڑی سے نہ ہانکے بلکہ جن جن اشخاص اور طبقوں اور گروہوں سے اس کو سابقہ پیش آئے، اُن کے مخصوص حالات کو سمجھ کر اُن کے ساتھ معاملہ کرے۔
یہ بھی حکمت ہے کہ آدمی اپنے کام کو اور اس کے کرنے کے طریقوں کو جانتا ہو اور اُس کے راستے میں پیش آنے والی دشواریوں، مخالفتوں اور مزاحمتوں سے نمٹنا بھی اس کو آتا ہو۔ اُسے ٹھیک ٹھیک معلوم ہونا چاہیے کہ جس مقصد کے لیے وہ سعی کرنے اٹھا ہے، اس کے لیے اسے کیا کچھ کرنا ہے، کس کس طرح کرنا ہے اور کس کس قسم کی رکاوٹوں کو دور کرنا ہے۔
یہ بھی حکمت ہی ہے کہ آدمی اس وقت کے حالات پر نظر رکھتا ہو، مواقع کو سمجھتا ہو اور یہ جانتا ہو کہ کس موقع پر کیسی تدبیر کی جانی چاہیے۔ حالات کو سمجھے بغیر اندھا دھند کام کرنا اور موقع پر چوک جانا مغفل لوگوں کا کام ہے۔ اور ایسے لوگ خواہ کتنے ہی پاکیزہ مقصد کے لیے، کتنی ہی نیک اور نیک نیت کے ساتھ کام کر رہے ہوں، کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔
اور ان سب حکمتوں سے بڑھ کر رأس الحکمت یہ ہے کہ آدمی دین میں تفقہ اور معاملاتِ دنیا میں بصیرت رکھتا ہو۔ محض احکام اور مسائلِ شریعت سے واقف ہونا اور انہیں پیش آمدہ حوادث پر چسپاں کر دینا منصبِ افتاء کے لیے کافی ہو سکتا ہے، مگر بگڑے ہوئے معاشرے کو درست کرنے اور نظامِ زندگی کو جہالت کی بنیادوں سے اکھاڑ کر ازسرِنو اسلام کی بنیادوں پر قائم کرنے کے لیے کافی نہیں ہو سکتا۔ اس مقصد کے لیے تو ضروری ہے کہ آدمی جزئیاتِ احکام کے ساتھ کلیاتِ احکام، بلکہ پورے نظامِ دین پر نظر رکھتا ہو، پھر احکام کے ساتھ ان کی حکمت کا بھی اسے علم ہو اور وقت کے ان حالات و مسائل کو بھی وہ سمجھتا ہو جن میں احکام کو رائج کرنا مطلوب ہو۔
مطلوبہ اوصاف کے اس مرقع کو دیکھ کر بادی النظر میں ایک آدمی ہول کھا جاتا ہے اور یہ خیال کرنے لگتا ہے کہ یہ کام تو پھر کاملین کے کرنے کا ہے۔ عام انسان کہاں سے اتنے وصف لے کر آسکتے ہیں؟ اس غلط فہمی کو رفع کرنے کے لیے یہ سمجھ لینا ضروری ہے کہ ہر صفت کا ہر شخص میں بدرجۂ کمال پایا جانا لازم نہیں ہے، اور نہ یہ لازم ہے کہ کسی میں وہ پہلے ہی قدم پر اپنی پوری تربیت یافتہ شکل میں موجود ہو۔ ہمارا مقصود ان باتوں کے بیان کرنے سے صرف یہ بات ذہن نشین کرنا ہے کہ جو لوگ اس کام کو کرنے کے لیے اٹھیں، وہ محض خدمتِ قوم کا ایک کام سمجھ کر یوں ہی کھڑے نہ ہو جائیں، بلکہ اپنے نفس کا جائزہ لے کر یہ معلوم کرنے کی کوشش کریں کہ اس کام کے لیے جو اوصاف مطلوب ہیں، ان کا مادہ ان کے اندر موجود ہے یا نہیں۔ بس مادہ اگر موجود ہے تو آغازِ کار کے لیے کافی ہے۔ اس کو پرورش کرنا اور اپنی استعداد کے مطابق زیادہ سے زیادہ ممکن حد تک ترقی دینا بعد کے مراحل سے تعلق رکھتا ہے، جس طرح ایک ذرا سا بیج زمین میں جڑ پکڑنے کے بعد آہستہ آہستہ غذا پا کر تناور درخت بن جاتا ہے۔ لیکن بیج ہی موجود نہ ہو تو کچھ بھی نہیں بن سکتا۔ اسی طرح صفاتِ مطلوبہ کا مادہ آدمی میں موجود ہو تو مناسب سعی و کوشش سے وہ بتدریج کمال تک پہنچ سکتا ہے، مگر سرے سے مادہ موجود ہی نہ ہو تو کسی سعی اور تربیت سے اس کا پیدا ہو جانا ممکن نہیں۔
جو کچھ اب تک کہا جا چکا ہے، اُس کا خلاصہ یہ ہے کہ اصلاح و تعمیر کے لیے ایک صحیح لائحۂ عمل جتنا ضروری ہے، اس سے بہت زیادہ ضروری ایسے کارکنوں کا وجود ہے جو اس کام کے لیے موزوں اخلاقی اوصاف رکھتے ہوں، کیونکہ آخرکار جس چیز کو معاشرے کے بگاڑ سے نبرد آزما اور تعمیرِ صالح اور اقامتِ دین کی آزمائشوں سے دوچار ہونا ہے، وہ کسی لائحۂ عمل کی دفعات نہیں بلکہ ان لوگوں کی اجتماعی و انفرادی سیرت ہے جو میدانِ عمل میں کام کرنے کے لیے آگے بڑھیں۔ اس لیے ہمیں کسی لائحۂ عمل اور پروگرام کو طے کرنے سے پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ اس کام کے لیے کیسے کارکن درکار ہیں۔ ان کو کن اوصاف سے متصف اور کن برائیوں سے پاک ہونا چاہیے اور ایسے کارکنوں کی تیاری کے ذرائع کیا ہیں۔ اس حقیقت کو واضح کرنے کے بعد ہم نے اوصافِ مطلوبہ کو تین حصوں میں بیان کیا ہے۔
اولاً وہ اوصاف جو بنیادِ کار کی حیثیت سے اس کام میں حصہ لینے والے ہر فرد کے اندر موجود ہونے چاہئیں، اور وہ یہ ہیں:
- دین کا صحیح فہم
- اس پر پختہ ایمان
- اس کے مطابق سیرت و کردار اور
- اس کی اقامت کو مقصدِ زندگی بنانا۔
ثانیاً وہ اوصاف ہیں جو اِس خدمت کے لیے جماعت میں من حیث الجماعت پائے جانے چاہئیں، اور وہ یہ ہیں:
- باہمی محبت، حسنِ ظن، اخلاص، ہمدردی و خیر خواہی، ایک دوسرے کے لیے ایثار
- آپس کے مشورے سے کام کرنا اور مشاورت کے اسلامی آداب کو ملحوظ رکھنا۔
- نظم و ضبط و باقاعدگی، تعاون اور ٹیم اسپرٹ۔
- تنقید بغرضِ اصلاح، جو سلیقے اور معقول طریقے سے ہو جس سے جماعت کے اندر رونما ہونے والی خامیوں کا ہر وقت تدارک ہو سکے، نہ کہ خرابیوں میں الٹا اضافہ ہو۔
ثالثاً وہ اوصاف جو اقامتِ دین کی جدوجہد کو صحیح خطوط پر چلانے اور کامیابی کی منزل تک پہنچانے کے لیے ناگزیر ہیں، یعنی:
- اللہ کے ساتھ گہرا تعلق اور اسی کی رضا کے لیے کام کرنا۔
- آخرت کی بازپرس کو یاد رکھنا اور اجرِ آخرت کے سوا کسی دوسری چیز پر نگاہ نہ رکھنا۔
- حسنِ اخلاق
- صبر
- حکمت
اب ہمیں یہ دکھانا ہے کہ وہ بڑی بڑی برائیاں کیا ہیں جن سے اس مقصدِ عظیم کے خادموں کو پاک ہونا چاہیے۔
وہ عیوب جو ہر بھلائی کی بیخ کنی کر دیتے ہیں
کبر و غرور
اوّلین اور بدترین عیب، جو ہر بھلائی کی جڑ کاٹ دیتا ہے، کبر و فخر، غرور، خود پسندی اور تعلّی ہے۔ یہ ایک سراسر شیطانی جذبہ ہے جو شیطانی کاموں کے لیے ہی موزوں ہو سکتا ہے۔ خیر کا کوئی کام اس کے ساتھ نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے کہ بڑائی صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہے۔ بندوں میں بڑائی کا گھمنڈ ایک جھوٹ کے سوا کچھ نہیں۔
جو شخص یا گروہ اس جھوٹے پندار میں مبتلا ہو، وہ اللہ تعالیٰ کی ہر تائید سے محروم ہو جاتا ہے، کیونکہ اللہ کو یہ چیز اپنی مخلوق میں سب سے زیادہ ناپسند ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس مرض کے مریض کو کبھی راہِ راست کی طرف ہدایت نہیں ملتی۔ وہ پے در پے غلطیوں اور حماقتوں کا ارتکاب کرتا ہے، یہاں تک کہ آخرکار ناکامی کا منہ دیکھتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ بھی ہوتا ہے کہ خلقِ خدا کے ساتھ برتاؤ میں اس سے جتنا جتنا اس کا اظہار ہوتا جاتا ہے، اتنی ہی اس کے خلاف نفرت پیدا ہوتی چلی جاتی ہے، حتیٰ کہ مبغوضِ خلائق ہو کر وہ اس قابل ہی نہیں رہتا کہ اس کا کوئی اخلاقی اثر لوگوں میں قائم ہو سکے۔
خیر کے لیے کام کرنے والوں میں یہ بیماری کئی راہوں سے آتی ہے۔ کم ظرف لوگوں میں یہ اس راہ سے آتی ہے کہ جب ان کی دینی و اخلاقی حالت گرد و پیش کے معاشرے کی بہ نسبت کسی حد تک بہتر ہو جاتی ہے، اور کچھ قابلِ قدر خدمات بھی وہ بجا لاتے ہیں جن کا اعتراف دوسروں کی زبانوں سے ہونے لگتا ہے، تو شیطان ان کے دلوں میں یہ وسوسہ ڈالنا شروع کر دیتا ہے کہ اب تم واقعی بڑی چیز ہو گئے ہو، اور شیطان ہی کی اکساہٹ سے وہ اپنی زبان اور اپنے طرزِ عمل سے جتانے پر اُتر آتے ہیں۔ اس طرح وہ کام جس کا آغاز نیکی کے جذبے سے ہوا تھا، رفتہ رفتہ ایک نہایت ہی غلط راہ پر چل پڑتا ہے۔ دوسرا راستہ اس کے آنے کا یہ ہے کہ جو لوگ نیک نیتی کے ساتھ ایک طرف اپنی اور دوسری طرف خلقِ خدا کی اصلاح کے لیے کوشش کرتے ہیں، ان کے اندر لامحالہ کچھ بھلائیاں پیدا ہوتی ہیں، اور یہ کسی نہ کسی حد تک وہ اپنے معاشرے کی عام حالت سے ممتاز ہوتے ہیں۔ کچھ نہ کچھ اُن کی خدمات قابلِ قدر ہوتی ہیں اور یہ ایسے اُمور ہیں جو بہرحال محسوس ہوئے بغیر نہیں رہتے۔ یہ امرِ واقعہ کا احساس بجائے خود فطری اور ناگزیر ہے۔ مگر نفس کی ایک ذرا سی اکساہٹ اسے تکبر اور خود پسندی میں تبدیل کر دیتی ہے۔ پھر بسا اوقات ایسی صورتیں پیش آتی ہیں کہ جب ان کے مخالفین ان کے کام سے گزر کر اُن کی ذات میں کیڑے ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ اپنی مدافعت میں چند باتیں کہنی پڑتی ہیں جو چاہے مبنی بر واقعہ ہوں، مگر اپنے محاسن کے اظہار سے خالی نہیں ہوتیں۔ اس چیز کو ایک ذرا سی بے اعتدالی جائز حد سے بڑھا کر تفاخر کے حدود میں پہنچا دیتی ہے۔ یہ ایک خطرناک چیز ہے۔
احساسِ بندگی
اپنے محاسن کے اظہار سے ہر فرد اور جماعت کو خبردار رہنا چاہیے جو خلوص کے ساتھ اصلاح کا مقصد لے کر اُٹھے۔ بلکہ ایسے ہر شخص میں فرداً فرداً اور ایسی ہر جماعت میں مجتمعاً عبدیت کا احساس نہ صرف موجود بلکہ زندہ اور تازہ رہنا چاہیے کہ کبریائی صرف خدا کی ذات کے لیے مخصوص ہے۔ بندے کا مقام عجز و نیاز کے سوا اور کچھ نہیں۔ کسی بندے میں اگر فی الواقع کوئی بھلائی پیدا ہو تو یہ اللہ کا فضل ہے، فخر کا نہیں، شکر کا مقام ہے۔ اس پر اللہ کے حضور اور زیادہ عاجزی پیش کرنی چاہیے، اور اس تھوڑی سی پونجی کو خیر کی خدمت میں لگا دینا چاہیے تاکہ اللہ مزید فضل سے نوازے اور یہ پونجی ترقی کرے۔ بھلائی پاکر غرورِ نفس میں مبتلا ہونا تو دراصل اسے برائی سے بدل لینا ہے اور یہ ترقی کا نہیں بلکہ تنزل کا راستہ ہے۔
جو انسان بندگی و عاجزی کے احساس کے بعد دوسری چیز تکبر کے رجحانات سے بچا سکتی ہے، وہ محاسبۂ نفس ہے۔ جو شخص اپنا ٹھیک ٹھیک محاسبہ کر کے یہ بھی دیکھے کہ وہ کن کمزوریوں اور خامیوں اور کوتاہیوں میں مبتلا ہے، وہ کبھی خود پسندی اور خود پرستی کے مرض کا شکار نہیں ہو سکتا۔ گناہوں اور قصوروں پر جس کی نگاہ ہو، استغفار سے اس کو اتنی فرصت ہی نہ ملے کہ استکبار کی ہوا اس کے سر میں سما سکے۔
اس غلط رجحان کو روکنے والی ایک اور چیز یہ ہے کہ آدمی صرف ان پستیوں کی طرف نہ دیکھے، جن سے وہ اپنے آپ کو بلند پاتا ہے، بلکہ دین و اخلاق کی ان بلندیوں کو بھی دیکھے جن کے مقابلے میں وہ ابھی بہت پست ہے۔ اخلاق و روحانیت کی پستیاں بھی لامتناہی ہیں اور بلندیاں بھی لامتناہی۔ بُرے سے بُرا آدمی بھی نیچے کی طرف دیکھے تو کسی اور کو اپنے سے بدتر پا کر اپنی برتری پر فخر کر سکتا ہے، مگر اس فخر کا نتیجہ اس کے سوا کچھ نہیں ہوتا کہ وہ اپنی موجودہ حالت پر مطمئن ہو کر بہتر بننے کی کوشش چھوڑ دیتا ہے، بلکہ اس سے گزر کر نفس کی شیطنت اُسے یہ اطمینان بھی دلاتی ہے کہ کچھ اور زیادہ نیچے اُتر جانے کی بھی ابھی گنجائش ہے۔ یہ نقطۂ نظر صرف وہی لوگ اختیار کر سکتے ہیں جو اپنی ترقی کے دشمن ہوں۔ ترقی کی سچی طلب رکھنے والے ہمیشہ نیچے دیکھنے کی بجائے اُوپر دیکھتے ہیں۔ ہر بلندی پر پہنچ کر مزید بلندیاں ان کے سامنے آتی ہیں جنہیں دیکھ کر فخر کی بجائے اپنی پستی کا احساس اُن کے دل میں خلش پیدا کرتا ہے اور یہی خلش انہیں اور زیادہ اوپر چڑھنے پر آمادہ کرتی ہے۔
اِن سب چیزوں کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ جماعت ہر وقت اس معاملے میں چوکنّی رہے۔ اور اپنے دائرے میں کبر اور تعلّی اور فخر و غرور کے ہر ظہور کا نوٹس لے کر بروقت اس کا تدارک کرے۔ مگر تدارک کی یہ کوشش کبھی ایسے طریقوں سے نہ ہونی چاہیے کہ لوگوں میں بناوٹی انکسار اور نمائشی تواضع کی بیماری پیدا ہو جائے۔ کبر کی اس سے بدتر کوئی قسم نہیں جس پر تصنع کے ساتھ عجز و انکسار کا پردہ ڈالا گیا ہو۔
نمود و نمائش
دوسرا بڑا عیب جو خیر کی جڑوں کو کھا جانے میں کبر سے کسی طرح کم نہیں، یہ ہے کہ کوئی شخص اگر بھلائی کا کام نمود و نمائش کے لیے کرے اور اس کام میں اُسے خلق کی تحسین حاصل کرنے کی فکر یا اس کی پروا ہو۔ یہ چیز صرف خلوص ہی کی نہیں، حقیقت میں ایمان کی بھی ضد ہے، اور اسی بناء پر اُسے چھپا ہوا شرک قرار دیا گیا ہے۔ خدا اور آخرت پر ایمان کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ انسان صرف خدا کی رضا کے لیے کام کرے۔ اسی سے اجر کی آس لگائے اور دنیا کی بجائے آخرت کے نتائج پر نگاہ رکھے۔ لیکن ریاکار انسان خلق کی رضا کو مقصود بناتا ہے، خلق ہی کے اجر کا طالب ہوتا ہے، اور دنیا ہی میں اپنا اجر نام و نمود، شہرت، ہر دلعزیزی، نفوذ و اثر اور حشمت و جاہ کی شکل میں پانا چاہتا ہے۔ اُس کے معنی یہ ہیں کہ اس نے خلق کو خدا کا شریک بنایا، یا اس کو مدِمقابل بنایا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس صورت میں آدمی خدا کے دین کی خواہ کتنی اور کیا ہی خدمت کرے، بہرحال وہ نہ خدا کے لیے ہو گی، نہ اس کے دین کی خاطر ہو گی اور نہ اس کا شمار خدا کے ہاں نیک اعمال میں ہو گا۔
صرف یہی نہیں کہ یہ ناپاک جذبہ نتیجہ کو ضائع کر دیتا ہے، بلکہ درحقیقت اس کے ساتھ کوئی صحیح عمل کرنا ممکن ہی نہیں۔ اس جذبے کی فطری خاصیت یہ ہے کہ آدمی کام سے زیادہ کام کے اشتہار کی فکر کرتا ہے اور اس کو وہ کام سمجھتا ہے جس کا ڈھنڈورا دنیا میں پیٹے اور تحسین و آفرین کا خراج وصول لائے۔ خاموش کام جس کا خدا کے سوا کسی کو پتہ نہ ہو، اس کے نزدیک کوئی کام نہیں ہوتا۔ اس طرح آدمی کے عمل کا دائرہ صرف قابلِ اشتہار اعمال تک محدود ہو جاتا ہے اور اشتہار کا مقصود حاصل ہو جانے کے بعد خود ان اعمال کے ساتھ بھی اسے کوئی دلچسپی باقی نہیں رہتی۔ آغازِ کار میں خواہ کتنے ہی خلوص کے ساتھ عملی زندگی کی ابتدا کی گئی ہو، یہ بیماری لگتے ہی خلوص اس طرح غائب ہونا شروع ہو جاتا ہے جیسے دق کی بیماری آدمی کی قوتِ حیات کو کھاتی چلی جاتی ہے۔ پھر اس کے لیے یہ ممکن نہیں رہتا کہ منظرِ عام سے ہٹ کر بھی نیک رہے، اور اپنا فرض سمجھ کر بھی کوئی فرض بجالائے۔ وہ ہر چیز کو اس کی نمائشی قدر اور تحسینِ خلق کی قیمت کے لحاظ سے جانچتا ہے۔ ہر معاملے میں صرف یہ دیکھتا ہے کہ دنیا کس روش کو پسند کرتی ہے اور کسی ایسے کام کا تصور کرنا بھی اس کے لیے ناممکن ہوتا ہے جو دنیا میں اُسے غیر مقبول بنا دے، خواہ ایمانداری کے ساتھ اس کے ضمیر کی آواز یہی ہو کہ وہی ہے کرنے کا کام۔
گوشوں میں بیٹھ کر اللہ اللہ کرنے والوں کے لیے اس فتنے سے بچنا نسبتاً آسان ہے۔ مگر جو لوگ پبلک میں آکر اصلاح اور خدمت اور تعمیر کے کام کریں، وہ ہر وقت اس خطرے میں مبتلا رہتے ہیں کہ نہ معلوم کب اس اخلاقی دق کے جراثیم اُن کے اندر نفوذ کر جائیں۔ انہیں عوام الناس کو اپنا ہم نوا بنانے اور اُن کے اندر اثر حاصل کرنے کی کوشش کرنی ہوتی ہے۔ ان کے کام کی بہت سی ضروریات اس بات پر بھی مجبور کرتی ہیں کہ وہ اپنے کاموں کی رودادیں شائع کریں۔ ان کی کچھ نہ کچھ خدمات ایسی بھی ہوتی ہیں جو اُن کی طرف خلق کا رجوع بڑھاتی اور زبانوں سے اُن کے لیے تحسین کے کلمات نکلواتی ہیں۔ انہیں مخالفتوں سے بھی سابقہ پیش آتا ہے اور اپنی مدافعت میں بادلِ ناخواستہ ہی سہی، انہیں مجبوراً اپنے اچھے پہلوؤں کو نمایاں کرنا پڑتا ہے۔ ان حالات میں یہ کوئی آسان کام نہیں ہے کہ شہرت ہو، مگر شہرت کی چاٹ نہ لگے۔ نمود و نمائش ہو، مگر نمود و نمائش کی خاطر کام کرنے کی بیماری نہ لگے۔ مقبولیت ہو، مگر وہ مقصود نہ بننے پائے۔ تحسینِ خلق ہو، مگر اس کے حصول کی فکر یا اس کی پروا نہ ہو، ریا کی پیدائش کے اسباب چاروں طرف سے گھرے ہوئے ہوں مگر ریا سے دامن بچا رہے۔ اس کے لیے بڑی کاوش، بڑی توجہ اور بڑی محنت کی ضرورت ہے۔ ایک ذرا سا تساہل بھی اس معاملے میں ریاکاری کے جراثیم کو گھس آنے کا راستہ دے سکتا ہے۔
اس سے بچنے کے لیے انفرادی کوشش بھی ہونی چاہیے اور اجتماعی کوشش بھی۔ انفرادی کوشش کا طریقہ یہ ہے کہ ہر شخص کچھ نہ کچھ ایسے نیک اعمال کا التزام کرے جو زیادہ سے زیادہ اخفاء کے ساتھ ہوں اور ہمیشہ اپنے نفس کا جائزہ لے کر دیکھتا رہے کہ اسے زیادہ دلچسپی ان مخفی نیکیوں میں محسوس ہوتی ہے، یا ان نیکیوں میں جو منظرِ عام پر آنے والی ہیں۔ اگر دوسری صورت ہو تو آدمی کو فوراً خبردار ہو جانا چاہیے کہ ریا اس کے اندر نفوذ کر رہا ہے اور اللہ سے پناہ مانگتے ہوئے پوری قوتِ ارادی کے ساتھ نفس کی اس کیفیت کو فوراً بدلنے کی سعی کرنی چاہیے۔
اجتماعی کوشش کی صورت یہ ہے کہ جماعت اپنے دائرے میں ریاکارانہ رجحانات کو کبھی نہ پنپنے دے۔ اپنے کاموں میں اظہار و اعلان کو بس حقیقی ضرورت تک محدود رکھے۔ شوقِ نمائش کا ادنیٰ سا اثر بھی جہاں محسوس ہو، فوراً اس کا سدِباب کرے۔ جماعتی مشوروں میں یہ بات کبھی اشارتاً و کنایتاً بھی برداشت نہ کی جائے کہ فلاں کام اس لیے کرنا چاہیے کہ وہ مقبولیت کا ذریعہ ہے، اور فلاں کام اس لیے نہ کرنا چاہیے کہ لوگ اسے پسند نہیں کرتے۔ جماعت کا داخلی مزاج ایسا ہونا چاہیے کہ وہ لوگوں کی تعریف اور مذمت ہر دو سے بے نیاز ہو کر کام کرنے کی ذہنیت پیدا کرے اور اس ذہنیت کی پرورش نہ کرے جو مذمت سے دل شکستہ ہو اور تعریف سے غذا پائے۔ اس کے باوجود اگر کچھ افرادِ جماعت میں ایسے پائے جائیں جن میں ریا کی بُو محسوس ہو تو ان کی ہمت افزائی کرنے کی بجائے ان کے علاج کی فکر کرنی چاہیے۔
نیت کا کھوٹ
تیسرا بنیادی عیب نیت کا کھوٹ ہے جس پر کسی خیر کی عمارت قائم نہیں ہو سکتی۔ خیر کا کام صرف اس خالص نیت ہی سے ہو سکتا ہے کہ دنیا میں بھلائی پھیلے اور ہم اس کے لیے سعی کر کے اللہ کے ہاں سُرخرو ہوں۔ اس نیت کے ساتھ اپنی کوئی ذاتی یا گروہی غرض شامل نہ ہونی چاہیے۔ اپنا کوئی دنیوی مفاد پیشِ نظر نہ ہونا چاہیے، حتیٰ کہ کسی تاویل کے ساتھ بھی اس مقصدِ خیر کے ساتھ اپنی کسی منفعت کی طلب یا اُمید کی لاگ لگی نہ رہنی چاہیے۔ ایسا ہر لوث نہ صرف یہ کہ اللہ کے ہاں آدمی کے اجر کو ضائع کر دے گا، بلکہ دنیا میں بھی اس آلودگی کو لیے ہوئے کوئی صحیح کام نہ ہو سکے گا۔ نیت کی خرابی لامحالہ کردار پر اثر انداز ہو گی، اور کردار کی خرابی کے ساتھ اس جدوجہد میں کامیاب ہونا ممکن نہیں ہے، جس کا اصل مقصود برائی کو مٹا کر بھلائی کو قائم کرنا ہے۔
یہاں پھر وہی مشکل پیش آتی ہے جس کی طرف ہم اوپر اشارہ کر چکے ہیں۔ جزوی بھلائیوں کے لیے کام کرنے کی صورت میں نیت کو اس کھوٹ سے پاک رکھنا کچھ زیادہ دشوار نہیں۔ تھوڑا سا تعلق باللہ اور جذبۂ صادق بھی اس کے لیے کافی ہو سکتا ہے، مگر جن لوگوں کے پیشِ نظر یہ ہو کہ ایک پورے ملک کے نظامِ زندگی کی اصلاح کی جائے اور اسے بحیثیت مجموعی ان بنیادوں پر استوار کیا جائے جو اسلام نے ہمیں دی ہیں، وہ اپنے مقصد کے حصول کے لیے صرف تعمیرِ افکار یا صرف تبلیغ و تلقین، یا صرف اصلاحِ اخلاق کی کوششوں پر اکتفا نہیں کر سکتے، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ انہیں لامحالہ ملک کے سیاسی نظام کا رُخ بھی اپنے مقصد کی طرف موڑنے کے لیے بالواسطہ یا بلاواسطہ جدوجہد کرنی پڑتی ہے تاکہ اقتدار یا تو براہِ راست اُن کے ہاتھ میں آئے یا کسی ایسے گروہ کی طرف منتقل ہو جسے ان کی تائید اور پشت پناہی حاصل ہو۔ دونوں صورتوں میں سے خواہ کوئی بھی صورت ہو، اقتدار کا تصور سیاسی نظام کی تبدیلی سے منفک نہیں ہو سکتا۔ یہ تو قعرِ دریا میں رہ کر دامن تر نہ ہونے دینے کا معاملہ ہے کہ ایک جماعت یہ کام کرے اور پورے انہماک کے ساتھ کرے اور پھر بھی اس کے افراد کی انفرادی نیتوں اور پوری جماعت کی مجموعی نیت کو، اپنے لیے اقتدار کی طلب کا لوث نہ لگنے پائے۔ یہ چیز بڑا مجاہدۂ نفس اور بڑا تزکیۂ قلب و روح چاہتی ہے۔
اس معاملے میں صحیح نقطۂ نظر پیدا کرنے کے لیے دو بظاہر متماثل چیزوں کا جوہری فرق اچھی طرح ذہن نشین ہونا چاہیے۔ یہ بات تو ظاہر ہے کہ مجموعی نظامِ زندگی کی تبدیلی چاہنے والا دوسری تبدیلیوں کے ساتھ سیاسی نظام کی تبدیلی بھی چاہتا ہے اور یہ تبدیلی آپ سے آپ اس امر کی مقتضی ہے کہ اقتدار اُن لوگوں کی طرف یا ان کی پسند کے لوگوں کی طرف منتقل ہو جو اس تبدیلی کے خواہشمند ہیں۔ مگر فرق اور بہت بڑا فرق ہے اپنے لیے اقتدار چاہنے میں اور اپنے اصول کے لیے اقتدار چاہنے میں۔ اصول کا اقتدار چاہے عملاً اصول کے علمبرداروں کا ہی اقتدار کیوں نہ ہو، لیکن ”اپنے لیے اقتدار“ چاہنا اور ”اپنے اصول کے لیے اقتدار“ چاہنا، حقیقت میں دو الگ الگ چیزیں ہیں جن میں روح اور جوہر کا بہت بڑا فرق ہے۔ نیتوں کا امتحان دوسری چیز میں ہے، نہ کہ پہلی چیز میں۔ جس چیز پر مرکوز ہونا چاہیے، وہ یہ ہے کہ پہلی چیز کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دی جائے، دوسری چیز کا ذہن میں شائبہ تک نہ آنے پائے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا نمونہ ہمارے سامنے ہے۔ انہوں نے مجموعی نظامِ زندگی کو بدل کر اسلام کے اصولوں پر قائم کرنے کی جدوجہد کی۔ یہ چیز سیاسی غلبہ و اقتدار کی بھی متقاضی تھی کیونکہ دین کو پوری طرح غالب کر دینا اس کے بغیر ممکن نہ تھا اور عملاً اس جدوجہد کے نتیجہ میں اقتدار ان کے ہاتھ میں آیا بھی، لیکن اس کے باوجود کوئی ایماندار آدمی یہ شبہ تک نہیں کر سکتا کہ ان کی جدوجہد کا مقصود ”اپنا اقتدار“ تھا۔ دوسری طرف اپنے اقتدار کے طالبوں سے تاریخ بھری پڑی ہے اور تاریخ میں ان کو ڈھونڈنے کی کیا ضرورت ہے؟ ہماری آنکھوں کے سامنے وہ دنیا میں موجود ہیں۔
عملاً اقتدار پانے کو اگر ایک واقعے کی حیثیت سے لیا جائے تو دونوں گروہوں میں کوئی فرق نہیں، لیکن نیت کے لحاظ سے دونوں میں عظیم الشان فرق ہے۔ اس فرق پر دونوں کا کردار، جدوجہد کے دور کا کردار بھی اور کامیابی کے دور کا کردار بھی، ناقابلِ انکار شہادت دے رہا ہے۔ جو لوگ صدقِ دل سے اصولِ اسلام کے مطابق نظامِ زندگی کا ہمہ گیر اقتدار چاہتے ہیں، انہیں فرداً فرداً بھی اس فرق کو ٹھیک ٹھیک سمجھ کر اپنی نیت درست رکھنی چاہئیں، اور ان کی جماعت کو مجموعی طور پر اس امر کی کوشش کرنی چاہیے کہ ”اپنا اقتدار“ چاہنے کی نیت کسی شکل میں بھی اس کے دائرے میں جگہ نہ پاسکے۔
وہ نقائص جن کی تاثیر کام کو بگاڑ دیتی ہے
اس کے بعد دوسرا درجہ ان برائیوں کا ہے جو اساس و بنیاد کو تو نہیں ڈھاتیں مگر اپنی تاثیر کے لحاظ سے کام بگاڑنے والی ہیں، اور اگر تساہل و تغافل برت کر ان کو پرورش پانے کا موقع دیا جائے تو تباہ کن ثابت ہوتی ہیں۔ شیطان انہی ہتھیاروں سے خیر کی راہ مارنے اور انسانی کوششوں کو بھلائی سے بُرائی کی طرف موڑنے اور معاشرے میں فساد ڈلوانے کا کام لیتا ہے۔ اگرچہ معاشرے کی صحت کے لیے ہر حال میں ان عیوب کا سدِباب ضروری ہے، لیکن خصوصاً کے ساتھ ان افراد اور جماعت کو تو ان سے بالکل پاک رہنا چاہیے جن کے پیشِ نظر اصلاحِ معاشرہ اور اقامتِ دینِ حق کا مقصدِ عظیم ہو۔
اس نوعیت کے عیوب کا گہری نظر سے جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کا منبع دراصل انسان کی بعض مخصوص کمزوریاں ہیں جن میں سے ہر ایک عیوب کے ایک پورے خاندان کو جنم دیتی ہے۔ سہولتِ فہم کے لیے مناسب طریقہ یہ ہو گا کہ ہم ایک ایک کمزوری کو لے کر پہلے اس کی حقیقت کو سمجھیں، پھر یہ دیکھیں کہ وہ کس تدریج سے عیب آفریں بنتی ہے اور نشوونما پا کر کیا خرابیاں پیدا کرتی ہے۔ اس طرح ہر برائی کا سرا ہمیں مل جائے گا اور ہم جان سکیں گے کہ اس کی اصلاح کے لیے کس جگہ مرہمِ تدبیر استعمال کرنا چاہیے۔
نفسانیت
انسان کی کمزوریوں میں سب سے بڑی اور سخت فساد انگیز کمزوری ”نفسانیت“ ہے۔ اس کی اصل تو حبِ نفس کا وہ فطری جذبہ ہے جو بجائے خود کوئی بُری چیز نہیں بلکہ اپنی حد کے اندر ضروری بھی ہے اور مفید بھی۔ اللہ تعالیٰ نے یہ جذبہ انسان کی فطرت میں اس کی بھلائی کے لیے ودیعت فرمایا ہے تاکہ وہ اپنی حفاظت اور اپنی فلاح و ترقی کے لیے کوشش کرے، لیکن جب یہی جذبہ شیطان کی اکساہٹ سے عشقِ نفس اور پرستشِ نفس اور خود مرکزیت میں تبدیل ہو جاتا ہے تو مصدرِ خیر ہونے کی بجائے منبعِ شر بن جاتا ہے اور پھر ہر درجہِ ارتقاء میں اس سے عیوب کا ایک نیا سلسلہ وجود میں آتا چلا جاتا ہے۔
برائی کی طرف اس جذبے کی پیش قدمی کا آغاز اس طرح ہوتا ہے کہ آدمی اپنی جگہ اپنے آپ کو بے عیب اور مجموعۂ محاسن سمجھ بیٹھتا ہے۔ اپنی خامیوں اور کمزوریوں کا احساس کرنے سے اغماض برتتا ہے اور اپنے ہر نقص یا قصور کی تاویل کر کے اپنے دل کو مطمئن کر لیتا ہے کہ میں ہر لحاظ سے بہت اچھا ہوں۔ یہ خود پسندی پہلے ہی قدم پر اس کی اصلاح و ترقی کا دروازہ اس کے اپنے ہاتھوں بند کر دیتی ہے۔ پھر جب یہ ”من چہ خوبم“ کا احساس لیے ہوئے آدمی اجتماعی زندگی میں آتا ہے تو اس کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ جو کچھ اُس نے اپنے آپ کو فرض کر رکھا ہے، وہی کچھ دوسرے بھی اسے سمجھیں۔ وہ صرف تعریف و تحسین سننا چاہتا ہے، تنقید اسے گوارا نہیں ہوتی، تو خیر خواہانہ نصیحت تک سے اس کی خودی کو ٹھیس لگتی ہے۔ اس طرح یہ شخص اپنے لیے داخلی وسائلِ اصلاح کے ساتھ خارجی وسائلِ اصلاح کا بھی سدِباب کر لیتا ہے۔
مگر کوئی شخص بھی دنیا میں ایسا نہیں ہو سکتا جس کو اجتماعی زندگی میں ہر لحاظ سے اپنی خواہش اور اپنی پسند ہی کے مطابق حالات مل جائیں۔ خصوصیت کے ساتھ خود پسند اور خود پرست آدمی کو تو یہاں ہر طرف سے چرکے لگتے ہیں کیونکہ اس کی خودی اپنے اندر وہ اسباب لیے ہوئے آتی ہے جو معاشرے کی بے شمار خودیوں کے ساتھ اس کا تصادم ناگزیر کرا دیتے ہیں اور معاشرے کے مجموعی حالات بھی اس کی توقعات اور خواہشات سے خواہ مخواہ ٹکراتے ہیں۔
یہ صورتِ حال اس شخص کو صرف اس حد پر نہیں رہنے دیتی کہ وہ بس اپنی اصلاح کے داخلی و خارجی وسائل سے محروم ہو کر رہ جائے، بلکہ دوسروں کے تصادم سے چرکے اور توقعات کی شکست کے صدمے اس کی مجروح خودی کو پیہم ایک سے ایک شدید تر برائی میں مبتلا کرتے چلے جاتے ہیں۔ وہ بہت سے لوگوں کو زندگی میں اپنے سے بہتر پاتا ہے، بہت سے لوگ اس کے مراتب تک پہنچنے میں مانع ہوتے ہیں، بہت سے لوگوں کے متعلق وہ محسوس کرتا ہے کہ معاشرہ ان کو اس سے زیادہ وقعت دے رہا ہے، بہت سے لوگ اس کو وہ وقعت نہیں دیتے جس کا وہ طالب ہوتا ہے، جن کا وہ اپنے آپ کو مستحق سمجھتا ہے، بہت سے لوگ اس پر تنقید کرتے ہیں بلکہ اس کی تنقیص تک کر ڈالتے ہیں۔ یہ مختلف حالات اس کے دل میں کسی کے خلاف بغض اور کینے کی آگ بھڑکا دیتے ہیں۔ وہ دوسروں کے حالات کا تجسس کر کے عیب ڈھونڈتا ہے، غیبت سن کر لذت لیتا ہے، چغلیاں کھاتا ہے، نجویٰ اور سرگوشیاں اور سازشیں کرتا پھرتا ہے، اور اگر اخلاق کی بندشیں ڈھیلی ہوں یا ان مشاغل میں پیہم مشغول رہنے سے ڈھیلی ہو جائیں تو پھر ان گناہوں سے بڑھ کر جھوٹ، افترا، بہتان اور دوسرے فتیح تر جرائم کا ارتکاب کرنے لگتا ہے۔
ان برائیوں کے چکر میں پھنس کر وہ اخلاق کی انتہائی پستیوں تک پہنچنے سے نہیں بچ سکتا، الا یہ کہ کسی مرحلے پر پہنچ کر اُسے خود ہی اپنی اس ابتدائی غلطی کا احساس ہو جائے جس نے اسے اس راستے پر ڈالا تھا۔
یہ کیفیت اگر کسی ایک شخص کی ہو تو اس سے کوئی اجتماعی فساد رونما نہیں ہوتا، اس کا اثر زیادہ سے زیادہ چند اشخاص تک پہنچ کر رہ جاتا ہے، لیکن اگر اسی نفسانیت کے بہت سے مریض موجود ہوں تو ان کے شر سے پوری اجتماعی زندگی میں فساد پھیل جاتا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ جہاں آپس کی بدظنی، تجسس، عیب جوئی، غیبت اور چغل خوری کا ایک سلسلہ چل رہا ہو، جہاں بہت سے لوگ دلوں میں ایک دوسرے کے خلاف برائی پال رہے ہوں اور بغض و حسد کی بنا پر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہوں، اور جہاں بہت سی مجروح خودیاں انتقام کے جذبات سے لبریز ہوں، وہاں پھوٹ پڑے بغیر نہیں رہ سکتی۔ وہاں کوئی چیز دھڑے بندیوں کو روک نہیں سکتی۔ وہاں کسی تعمیری تعاون کا تو درکنار، تعلقات کی خوشگواری تک کا امکان باقی نہیں رہتا۔ ایسے ماحول میں کشیدگی اور کشمکش ناگزیر ہے اور وہ صرف نفسانیت کے مریضوں تک ہی محدود نہیں رہتی بلکہ رفتہ رفتہ اچھے خاصے نیک نفس لوگ اس میں مبتلا ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اس لیے کہ ایک نیک نفس آدمی تو منہ پر تو بجا تنقید ہی کو نہیں، بے جا تنقید کو بھی گوارا کر سکتا ہے، مگر غیبت اس کے دل میں غبار پیدا کیے بغیر نہیں رہتی، اور اس کا کم از کم اتنا اثر تو ہوتا ہی ہے کہ غیبت کرنے والوں پر اعتماد کرنا اس کے لیے ممکن نہیں رہتا۔ اس طرح ایک نیک نفس آدمی ان سب زیادتیوں کو معاف کر سکتا ہے جو بغض یا حسد کی بنا پر اس کے ساتھ کی جائیں، وہ بدگوئی، الزام تراشی، جھوٹے پروپیگنڈے اور ان سے بھی زیادہ اذیت بخش چیزوں کو بہ آسانی نظر انداز کر سکتا ہے، لیکن اس کے لیے یہ ممکن نہیں ہوتا کہ جن لوگوں سے ان صفات کا ذاتی تجربہ اس کو ہو چکا ہو، ان سے وہ اطمینان کے ساتھ کوئی معاملہ کر سکے۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جس اجتماعی ماحول میں یہ عیوب بروئے کار آجاتے ہیں، وہ کس طرح شیطان کی من بھاتی چراگاہ بن کر رہتا ہے، حتیٰ کہ اس میں بہتر سے بہتر آدمی بھی چاہے کشمکش سے بچ جائیں، کشیدگی سے نہیں بچے رہ سکتے۔
اس کے بعد یہ کہنے کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی کہ جو لوگ اصلاح و تعمیر کے لیے اجتماعی جدوجہد کرنا چاہتے ہوں، ان کی جماعت کا اِن افراد سے پاک ہونا کس قدر ضروری ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نفسانیت کے جراثیم ایسی جماعت کے لیے طاعون اور ہیضے کے جراثیم سے زیادہ خطرناک ہیں۔ ان کی موجودگی میں کسی تعمیرِ صالح کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔
شریعتِ الٰہی اس مرض کے آغاز سے اس کا علاج شروع کرتی ہے، پھر ہر مرحلے پر اس کے سدِباب کے لیے ہدایات دیتی ہے۔ قرآن و حدیث میں جگہ جگہ اہلِ ایمان کو توبہ و استغفار کی جو تلقین کی گئی ہے، اُس کا منشاء یہی ہے کہ مومن کسی وقت بھی اعجابِ نفس اور خود پسندی میں مبتلا نہ ہو۔ کبھی اپنے آپ کو بڑی چیز نہ سمجھے، اور خامیوں کا احساس اور اپنی خطاؤں اور لغزشوں کا ہر وقت اپنی ذات میں اعتراف ہی کرتا رہے، اور بڑے سے بڑا کارنامہ انجام دینے کے بعد بھی اس پر پھولنے کے بجائے عاجزی و انکساری کے ساتھ اپنے خدا کے حضور یہی درخواست پیش کرے کہ خدمت میں جو کوتاہیاں رہ گئی ہیں، ان سے درگزر فرمایا جائے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر مجموعۂ کمالات اور کون ہو سکتا ہے؟ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑا کارنامہ دنیا میں کس انسان نے انجام دیا ہے؟ مگر تاریخ کے اس عظیم ترین کارنامے کو انتہا تک پہنچا کر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم فارغ ہوئے تو دربارِ الٰہی سے جو تلقین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمائی گئی، وہ یہ تھی: إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا "جب اللہ کی مدد آگئی اور فتح نصیب ہو گئی اور تم نے لوگوں کو اللہ کے دین میں فوج در فوج داخل ہوتے دیکھ لیا تو اب اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرو اور اس سے مغفرت چاہو، یقیناً وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا ہے۔" چنانچہ بخاری میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے کہ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُكْثِرُ أَنْ يَقُولَ قَبْلَ مَوْتِهِ: سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ، أَسْتَغْفِرُ اللهَ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی وفات سے پہلے اکثر فرمایا کرتے تھے کہ میں اللہ کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتا ہوں، اور اللہ سے مغفرت مانگتا ہوں اور اس کے حضور توبہ کرتا ہوں۔ اور ویسے بھی توبہ و استغفار ہمیشہ ہی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا۔" بخاری میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا کہ: [وَاللهِ إِنِّي لَأَسْتَغْفِرُ اللهَ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ فِي الْيَوْمِ أَكْثَرَ مِنْ سَبْعِينَ مَرَّةً] "خدا کی قسم! میں ہر روز ستر مرتبہ سے زیادہ اللہ سے استغفار اور توبہ کرتا ہوں۔" اس تعلیم کی روح اگر کوئی شخص اپنے اندر جذب کرے تو اس کے ذہن میں نفسانیت کا وہ بیج کبھی جڑ ہی نہیں پکڑ سکتا جو برگ و بار لا کر فتنہ و فساد کے زہر بھرے پھل دیتا ہے۔
اس پر بھی اگر نفس میں یہ خرابی پیدا ہو ہی جائے تو شریعت اس کے اخلاقی اور عملی رویے میں اس کے ظہور اور نشوونما کو ہر قدم پر روکتی ہے۔ شریعتِ الٰہی اس کے برعکس امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو تمام اہلِ ایمان پر لازم کرتی ہے، اور خاص طور پر ذی اقتدار ظالموں کے مقابلے میں کلمۂ حق کہنے کو تو افضل الجہاد قرار دیتی ہے تاکہ مسلم معاشرے میں برائی پر ٹوکنے اور بھلائی کرنے کی تلقین کرنے کا ایسا ماحول پیدا ہو جائے جس میں نفسانیت پنپ نہ سکے۔
اس کا دوسرا ظہور بغض و حسد کی شکل میں ہوتا ہے جسے آدمی ہر اس شخص کے خلاف دل میں پالنا شروع کر دیتا ہے جس سے اس کی نفسانیت پر چوٹ لگی ہو، اور پھر اس سے تعلقات کی خرابی کا آغاز ہوتا ہے۔ شریعتِ الٰہی اس چیز کو گناہ قرار دیتی ہے اور اس پر سخت وعید سناتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ”خبردار! حسد نہ کرو، کیونکہ حسد آدمی کی نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جیسے آگ سوکھی لکڑیوں کو چاٹ کر جاتی ہے۔“ احادیث میں متعدد الفاظ کے ساتھ حضور کے یہ تاکیدی ارشادات وارد ہوئے ہیں کہ ایک دوسرے سے قطع کلام نہ کرو۔ کسی مسلمان کے لیے حلال نہیں کہ تین دن سے زیادہ اپنے مسلمان بھائی سے تعلقات توڑے رکھے۔
اس کا تیسرا قدم بدگمانی کی طرف اٹھتا ہے اور پھر تجسس کر کے آدمی دوسروں کے عیوب ٹٹولنے لگتا ہے۔ بدگمانی کی حقیقت یہ ہے کہ آدمی اپنے سوا ہر ایک کے متعلق یہ ابتدائی مفروضہ قائم کرتا ہے کہ وہ ضرور بُرا ہے اور بظاہر اس کی جو چیز قابلِ اعتراض نظر آتی ہے، اس کی کوئی اچھی توجیہ کرنے کی بجائے ہمیشہ بُری توجیہ کرتا ہے اور تحقیق کی بھی ضرورت نہیں سمجھتا۔ تجسس اسی بدگمانی کا شاخسانہ ہے۔ آدمی دوسروں کے متعلق پہلے ایک بری رائے قائم کرتا ہے، پھر اس کا ثبوت فراہم کرنے کے لیے ان کے حالات کی ٹوہ لگانی شروع کرتا ہے۔ قرآن ان دونوں چیزوں کو گناہ قرار دیتا ہے۔ سورۂ حجرات میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ ۖ وَلَا تَجَسَّسُوا "بہت گمان کرنے سے بچو کیونکہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں، اور تجسس نہ کرو۔" حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ”خبردار! بدگمانی نہ کرو، کیونکہ بدگمانی بدترین جھوٹ ہے۔“ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ ”ہم کو ٹوہ لگانے اور عیوب ٹٹولنے سے منع کیا گیا ہے۔ البتہ اگر ہمارے سامنے کوئی بات کھل جائے تو ہم اس کو پکڑیں گے۔“ حضرت معاویہ کا بیان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم مسلمانوں کے پوشیدہ احوال کی کھوج کرید کرو گے تو ان کو بگاڑ دو گے۔“
ان مراحل کے بعد غیبت کا دور شروع ہوتا ہے۔ اس کی بنیاد خواہ بدگمانی پر ہو، یا حقیقت پر، دونوں صورتوں میں کسی شخص کی تذلیل کرنے اور اس کی تذلیل سے لذت یا فائدہ اٹھانے کی خاطر اس کی پیٹھ پیچھے اُس کی برائی کرنا غیبت ہے۔ حدیث میں اس کی تعریف یہ بیان کی گئی ہے کہ ”تیرا اپنے بھائی کی غیر موجودگی میں اس کا ذکر اس طرح کرنا کہ اسے معلوم ہو تو ناگوار ہو۔“ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ ”اگر ہمارے بھائی میں وہ برائی موجود ہو جس کا ذکر کیا گیا ہے تو کیا پھر بھی غیبت ہو گی؟“ آپ نے فرمایا: ”اگر اس میں وہ برائی موجود ہے تو تُو نے غیبت کی، اور اگر اس میں وہ نہیں ہے تو غیبت سے بڑھ کر بہتان لگایا۔“ قرآن اس فعل کو حرام قرار دیتا ہے۔ سورۂ حجرات میں ارشاد ہے: وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا ۚ أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَن يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ "اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے۔ کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرے گا کہ وہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے؟ اس سے تم ضرور نفرت کرو گے۔" نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ”ہر مسلمان کی جان و مال اور عزت دوسرے مسلمان پر حرام ہے۔“
اس سے مستثنیٰ صرف وہ صورتیں ہیں، جن میں کسی کی برائی کرنے کی جائز ضرورت ہو اور اس میں بدخواہی کی نیت نہ ہو۔ مثلاً کسی مظلوم کی شکایت اس لیے کرنا کہ کوئی اس کی فریاد رسی کرے۔ اس کی اجازت خود قرآن میں دی گئی ہے: لَّا يُحِبُّ اللَّهُ الْجَهْرَ بِالسُّوءِ مِنَ الْقَوْلِ إِلَّا مَن ظُلِمَ "اللہ برائی پر زبان کھولنا پسند نہیں کرتا، الا یہ کہ کسی شخص پر ظلم ہوا ہو۔" یا مثلاً ایک شخص دوسرے شخص سے بیاہ شادی کر رہا ہو یا اس سے کوئی کاروباری معاملہ طے کر رہا ہو، اور فریقین میں سے کوئی اس معاملے میں کسی جاننے والے سے مشورہ لے۔ اس صورت میں جو بُرائی واقعاً آدمی کے علم میں ہو، اسے خیر خواہی کی بناء پر بیان کر دینا نہ صرف جائز بلکہ ضروری ہے۔ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے مواقع پر بُرائی بیان کی ہے۔ چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ دو صاحبوں نے فاطمہ بنتِ قیس کو نکاح کا پیغام دیا۔ انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے مشورہ طلب کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں خبردار کیا کہ ان میں سے ایک صاحب کنگال ہیں اور دوسرے صاحب بیویوں کو پیٹنے کے عادی ہیں۔ اسی طرح شریعت کو غیر معتبر راویوں کی روایت سے محفوظ کرنے کے لیے ان کے عیوب بیان کرنا تمام علمائے امت نے بالاتفاق جائز رکھا اور ائمۂ حدیث نے عملاً اس خدمت کو انجام دیا کیونکہ دین کے لیے اس کی ضرورت تھی۔ خلقِ خدا پر علانیہ ظلم کرنے والوں اور فسق و فجور پھیلانے والوں اور کھلے کھلے بدکردار لوگوں کی غیبت کرنا بھی جائز ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے عمل سے اس کا جواز ثابت ہوتا ہے۔ اس طرح مستثنیٰ صورتوں کے ماسوا غیبت ہر حال میں حرام ہے اور اس کا سننا بھی گناہ ہے۔ سننے والوں پر لازم ہے کہ یا تو غیبت کرنے والوں کو روکیں، یا اس شخص کی مدافعت کریں جس کی غیبت کی جا رہی ہو، یا بدرجۂ آخر اس محفل سے اُٹھ جائیں، جہاں ان کے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھایا جا رہا ہے۔
غیبت سے جو آگ لگتی ہے، اسے پھیلانے کی خدمت چغل خوری انجام دیتی ہے اور اس میں بھی اصل محرک وہی نفسانیت کا جذبہ ہوتا ہے۔ چغل خور کسی کا خیر خواہ بھی نہیں ہوتا، نہ اس کا جس کی بُرائی کی گئی ہو، اور نہ اس کا جس سے بُرائی کی ہو۔ وہ دوست دونوں کا بنتا ہے، مگر دراصل دونوں کا بدخواہ ہوتا ہے۔ اسی لیے ایک ایک کی بات کان لگا کر سنتا ہے، اور اس کی تردید نہیں کرتا، پھر دوسرے کو اس کی خبر پہنچاتا ہے تاکہ جو آگ اب تک ایک جگہ لگی ہوئی تھی، وہ دوسری جگہ بھی لگ جائے۔ شریعتِ الٰہی میں اس چیز کو حرام کیا گیا ہے، کیونکہ یہ فساد انگیزی میں غیبت سے بھی بڑھ کر ہے۔ قرآن مجید میں جن اوصاف کو آدمی کی بدترین صفات میں شمار کیا گیا ہے، ان میں سے ایک چغل خوری کرتے پھرنا بھی ہے۔ حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: [لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ نَمَّامٌ] "کوئی چغل خور جنت میں داخل نہیں ہو سکتا۔" ایک دوسری حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم بدترین انسان اس شخص کو پاؤ گے جس کے دو منہ ہیں۔ کچھ لوگوں کے پاس ایک منہ لے کر آتا ہے اور کچھ دوسرے لوگوں کے پاس دوسرا منہ لے کر جاتا ہے۔“ صحیح اسلامی رویہ یہ ہے کہ آدمی جہاں کسی کی غیبت سنے، یا تو اس کی تردید کرے یا پھر فریقین کی موجودگی میں اس معاملے کو چھیڑ کر اس کی صفائی ایسے طریقے سے کرائے جس سے ایک فریق کو یہ شبہ نہ ہو کہ دوسرے فریق نے اس کی غیر موجودگی میں اس کی برائی کی تھی، اور اگر غیبت کسی ایسی برائی پر ہو جو واقعی شخصِ مذکور میں پائی جاتی ہو تو ایک طرف غیبت کرنے والے کو اس کے گناہ پر متنبہ کرے اور دوسری طرف اس شخص کو بھی اپنی اصلاح کے لیے توجہ دلائے، جس کی بُرائی بیان کی گئی تھی۔
اِس سلسلۂ فساد کی انتہائی کڑی نجویٰ ہے، یعنی کھسر پھسر، سرگوشیاں اور خفیہ مشورے جن سے بالآخر سازشوں اور جتھہ بندیوں تک نوبت پہنچتی ہے اور ایک دوسرے کے خلاف کشمکش کرنے والے دھڑے وجود میں آتے ہیں۔ شریعتِ الٰہی اس کو بھی سختی کے ساتھ منع کرتی ہے۔ قرآن مجید میں اس کو ایک شیطانی حرکت قرار دیا گیا ہے: إِنَّمَا النَّجْوَىٰ مِنَ الشَّيْطَانِ۔ اور اس کے بارے میں یہ اصولی ہدایت دی گئی ہے کہ إِذَا تَنَاجَيْتُمْ فَلَا تَتَنَاجَوْا بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَمَعْصِيَتِ الرَّسُولِ وَتَنَاجَوْا بِالْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ۔ یعنی دو یا چند آدمیوں کی علحدگی میں گفتگو کرنا اگر نیک مقاصد کے لیے اور تقویٰ کے حدود میں ہو تو اس نجویٰ کی تعریف میں نہیں آتا جو ممنوع ہے۔ البتہ وہ گفتگو ضرور نجویٰ اور ممنوع نجویٰ ہے جو جماعت سے آنکھ بچا کر، اخفاء کے اہتمام کے ساتھ اس غرض کے لیے کی جائے کہ کسی بُرے کام کی اسکیم بنانی ہے، یا کسی دوسرے شخص یا گروہ کے خلاف کوئی کارروائی کرنی ہے، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام و فرامین کی خلاف ورزی کا ارتکاب کرنا ہے۔ ایماندارانہ اور مخلصانہ اختلافات کبھی نجویٰ کے محرک نہیں ہو سکتے۔ اُن کی بات چیت کھلم کھلا ہوتی ہے، برسرِعام جماعت کے سامنے ہوتی ہے، دلیل کے ساتھ قائل کرنے یا قائل ہونے کے لیے ہوتی ہے، اور اس بات چیت سے اگر اختلافات باقی بھی رہ جاتے ہیں تو وہ کبھی موجبِ فساد نہیں ہوتے۔ جماعت سے الگ ہٹ کر، اخفاء کے اہتمام کے ساتھ سرگوشیاں کرنے کی ضرورت صرف انہی اختلافات میں پیش آتی ہے جو اگر بالکل نفسانیت پر مبنی نہ بھی ہوں تو کم از کم ان میں نفسانیت کی آمیزش ضرور ہوتی ہے۔ ایسی سرگوشیاں کبھی نیک نتیجہ پیدا نہیں کرتیں۔ اُن کی ابتداء چاہے کتنی ہی معصوم ہو، رفتہ رفتہ وہ پوری جماعت کو آپس کی بدگمانیوں، تفرقوں اور دھڑے بندیوں کی چھوت لگا دیتی ہیں۔ باہم پخت و پز کرنے اور جتھے بنانے کا رجحان پیدا ہو جاتا ہے اور یہیں سے اس بگاڑ کی ابتداء ہوتی ہے جو بہترین اہلِ خیر کی جماعتوں کو بھی ٹکڑے ٹکڑے کر کے باہم دست و گریبان کر دیتا ہے۔
آخری مرحلہ وہ ہے کہ یہ بگاڑ عملاً رونما ہو جائے۔ یہ وہ چیز ہے جس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو بار بار متنبہ کیا ہے، شدت کے ساتھ ڈرایا ہے اور سختی کے ساتھ بچنے کی تاکید فرمائی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شیطان اب اس بات سے مایوس ہو چکا ہے کہ عرب میں جو لوگ نماز پڑھنے لگے ہیں، وہ پھر اس کی عبادت کرنے لگیں گے۔ اب اس کی ساری اُمیدیں صرف ان کے اندر بگاڑ پیدا کرنے اور ان کو باہم لڑانے ہی سے وابستہ رہ گئی ہیں۔“ حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں تک فرمایا کہ ”میرے بعد کافر نہ ہو جانا کہ ایک دوسرے کی گردن مارنے لگو۔“ اس طرح کی حالت پیدا ہو جانے کی صورت میں اہلِ ایمان کو جو طریقہ سکھایا گیا ہے، وہ یہ ہے کہ اول تو آدمی خود فتنے میں حصہ لینے سے بچے: ”خوش قسمت ہے وہ جو فتنوں سے بچ گیا، اور جو جتنا بھی اس سے دور رہے، اتنا ہی زیادہ بہتر ہے۔“ اس حالت میں سونے والا جاگنے والے سے بہتر ہے اور جو کھڑا ہو، دوڑنے والے سے بہتر ہے۔ دوسرے اگر وہ حصہ لے تو لڑنے والوں میں سے ایک فریق بن کر نہیں، بلکہ صدقِ دل سے اصلاح کی کوشش کرنے والا بن کر لے، جس کے متعلق صاف صاف ہدایات سورۂ حجرات کے پہلے رکوع میں دی گئی ہیں۔
نفسانیت کی اس حقیقت اور اس کے نشوونما اور ظہور کے ان مراتب اور ہر مرتبے کے متعلق شریعتِ الٰہی کے ان احکام کو ذہن نشین کر لینا ان تمام لوگوں کے لیے ضروری ہے جو خیر و اصلاح کی خدمت کرنے کے لیے مجتمع ہوں۔ ان میں سے ہر ایک شخص کو پوری کوشش کرنی چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو خود پسندی کے مرض سے بچائے اور ان اخلاقی و روحانی نقصانات کو سمجھے جو اس مرض میں مبتلا ہونے سے پہنچتے ہیں۔ ان کی جماعت کو بھی بحیثیت مجموعی اس معاملے میں چوکنّا رہنا چاہیے کہ کہیں اس کے اندر نفسانیت کے جراثیم کو انڈے بچے دینے کا موقع نہ مل جائے۔ انہیں اپنے دائرے میں کسی ایسے شخص کی ہمت افزائی نہ کرنی چاہیے جو اپنے اندر تنقید سن کر بپھر جائے، اپنی غلطی کا اعتراف کرنے سے استکبار برتے۔ انہیں ہر اس شخص کو دبانا چاہیے جس کی باتوں سے بغض و عداوت کی بُو آئے یا جس کا طرزِ عمل یہ بتا رہا ہو کہ وہ کسی شخص سے ذاتی کدورت رکھتا ہے۔ انہیں ایسے لوگوں کی بھی خبر لینی چاہیے جو دوسروں کے معاملے میں بدگمانی سے کام لیں یا دوسروں کے حالات کی ٹوہ لگا کر ان کے عیوب تلاش کرنے کی کوشش کریں۔ انہیں اپنی سوسائٹی میں غیبت و نمامی کا بھی سدِباب کرنا چاہیے، اور جہاں کہیں یہ بلا اپنا سر نکالے، وہاں فوراً وہ سیدھا سادہ اسلامی رویہ اختیار کرنا چاہیے جس کی تشریح اوپر کی جا چکی ہے۔ انہیں خصوصیت کے ساتھ نجویٰ کے خطرات سے ہوشیار رہنا چاہیے۔ کیونکہ یہ جماعت میں تفرقے کی تمہید ہے۔ کسی مخلص آدمی کو اس بات کے لیے ہرگز راضی نہ ہونا چاہیے کہ کوئی شخص سرگوشی کر کے کسی اختلافی مسئلے میں اسے اپنا ساتھی بنائے، اور جس وقت بھی اس امر کی ابتدائی علامات ظاہر ہوں کہ کچھ لوگ جماعت میں یہ طریقہ اختیار کر رہے ہیں، اُسی وقت جماعت کو اُن کی اصلاح یا پھر اُن کی سرکوبی کے لیے تیار ہو جانا چاہیے۔ ان ساری کوششوں کے باوجود اگر جماعت کے اندر کسی جتھہ بندی کا فتنہ رونما ہو ہی جائے تو پھر مخلصین کا کام یہ نہیں ہے کہ خود بھی کونوں اور گوشوں میں خفیہ سرگوشیاں کر کے کوئی دوسرا جتھا بنانے کے لیے ساز باز شروع کر دیں، بلکہ انہیں اس فتنے سے اپنا دامن بچا کر اس کو روکنے کے لیے انفرادی تدبیریں کرنی چاہئیں، اور ان میں ناکام ہونے کے بعد جماعت کے سامنے کھلم کھلا اس معاملے کو لے آنا چاہیے۔ جس جماعت میں مخلص افراد کی کثرت ہو گی، وہ اس طرح کے فتنوں سے خبردار ہو کر فوراً ہی ان کا استیصال کر دے گی، اور جس میں فتنہ پسند یا بے فکر افراد زیادہ ہوں گے، وہ انہیں فتنوں کا شکار ہو کر رہ جائے گی۔
مزاج کی بے اعتدالی
دوسرا درجہ ان خرابیوں کا ہے جس کے لیے موزوں ترین نام ”مزاج کی بے اعتدالی“ ہے۔ نفسانیت کے مقابلے میں یہ ایک معصوم کمزوری ہے کیونکہ اس میں کسی بدنیتی، کسی نفسانی غرض و خواہش کا دخل نہیں ہوتا، لیکن خرابی پیدا کرنے کی نوعیت کے لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ نفسانیت کے بعد دوسرے نمبر پر آتی ہے۔ اس کے اثرات و نتائج اتنے ہی خراب ہوتے ہیں جتنے نفسانیت کے اثرات و نتائج۔
مزاج کی بے اعتدالی کا فطری نتیجہ نظر و فکر کی بے اعتدالی اور عمل و سعی کی بے اعتدالی ہے، اور یہ چیز زندگی کے حقائق سے براہِ راست متصادم ہوتی ہے۔ انسانی زندگی بے شمار متضاد عناصر کی مصالحت اور بہت سے مختلف عوامل کے مجموعی عمل کا نتیجہ ہے۔ جس دنیا میں انسان رہتا ہے، اس کا بھی یہی حال ہے۔ انسانی افراد میں سے ہر ایک فرداً فرداً بھی ایسا ہی بنایا گیا ہے، اور انسانوں کے ملنے سے جو اجتماعی ہستی بنتی ہیں، اُس کی کیفیت بھی یہی ہے۔ اس ساری زندگی میں کام کرنے کے لیے فکر و نظر کا ایسا توازن اور سعی و عمل کا ایسا اعتدال درکار ہے جو مزاجِ کائنات کے توازن و اعتدال کے ساتھ زیادہ سے زیادہ ہم آہنگ ہو۔ حالات کے ہر پہلو پر نگاہ رکھی جائے، معاملات کے ہر رُخ کو دیکھا جائے، ضروریات کے ہر گوشے کو اس کا حق دیا جائے، فطرت کے ہر تقاضے کو ملحوظ رکھا جائے۔ کمال درجے کا معیاری اعتدال چاہے نصیب نہ ہو، مگر یہاں کامیابی کے لیے بہرحال اعتدال ناگزیر ہے۔ جتنا بھی وہ معیار سے قریب ہو گا، اتنا ہی مفید ہو گا، اور جس قدر وہ اس سے دُور ہو گا، اسی قدر زندگی کی حقیقتوں سے متصادم ہو کر نقصان کا موجب بنے گا۔ دنیا میں آج تک جتنا بھی فساد رونما ہوا ہے اور آج رونما ہے، اسی وجہ سے ہے کہ غیر متوازن دماغوں نے انسانی مسائل کو یک رخے پن سے دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کی۔ ان کو حل کرنے کے لیے غیر متوازن اسکیمیں بنائیں اور ان کو نافذ کرنے کے لیے غیر معتدل طریقے اختیار کیے۔ یہی بگاڑ کا اصل سبب ہے اور بناؤ کا جو کچھ کام بھی ہو سکتا ہے، فکر و نظر کے توازن اور طریقِ عمل کے اعتدال ہی سے ہو سکتا ہے۔
یہ وصف خاص طور پر تعمیر و اصلاح کی اس اسکیم کو نافذ کرنے کے لیے اور بھی زیادہ ضروری ہے جو اسلام نے ہمیں دی ہے، کیونکہ وہ بجائے خود توازن و اعتدال کے انتہائی کمال کا نمونہ ہے۔ اس کو کتابوں کے صفحات سے واقعات کی دنیا میں منتقل کرنے کے لیے تو خصوصیت کے ساتھ وہی کارفرما اور کارکن موزوں ہو سکتے ہیں جن کی نظر اسلام کے نقشۂ تعمیر کی طرح متوازن اور جن کا مزاج اسلام کے مزاجِ اصلاح کی طرح معتدل ہو۔ افراط و تفریط میں مبتلا ہونے والے انتہا پسند لوگ اس کام کو بگاڑ تو سکتے ہیں، بنا نہیں سکتے۔
نتائج کے اعتبار سے بے اعتدالی کا ایک نقصان یہ بھی ہے کہ وہ بالعموم ناکامی کی موجب ہوتی ہے۔ نظامِ زندگی میں اصلاح و تغیر کی کوئی اسکیم بھی لے کر آپ اٹھیں، آپ کی کامیابی کے لیے صرف یہ بات کافی نہیں ہے کہ آپ خود اس کے برحق ہونے پر مطمئن ہوں، بلکہ اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ آپ اپنے معاشرے کے عام انسانوں کو اس کے صحیح، مفید اور قابلِ عمل ہونے پر مطمئن کر دیں اور اپنی تحریک کو اس شکل میں لائیں اور ایسے طریقے سے چلائیں جس سے لوگوں کی اُمیدیں اور رغبتیں اس کے ساتھ وابستہ ہوتی چلی جائیں۔ یہ بات صرف اُسی تحریک کو نصیب ہو سکتی ہے جو فکر و نظر میں بھی متوازن ہو اور طریقِ عمل میں بھی متوازن۔ ایک انتہا پسندانہ اسکیم جو انتہا پسندانہ طریقوں سے چلائی جائے، اس کے لیے کچھ انتہا پسند لوگ اکٹھے ہو بھی جائیں تو سارے معاشرے کو اپنے جیسا انتہا پسند بنا لینا اور دنیا بھر کی آنکھیں حقائق سے بند کر دینا آسان کام نہیں۔
خود اُس جماعت کے لیے بھی یہ چیز زہر کا حکم رکھتی ہے جو اجتماعی اصلاح و تعمیر کا کوئی پروگرام لے کر اٹھی ہو۔
مزاج کی بے اعتدالی کا اوّلین مظہر انسان کے ذہن کا ایک رخا پن ہے۔ اس کیفیت میں مبتلا ہو کر آدمی بالعموم ہر چیز کا ایک رُخ دیکھتا ہے، دوسرا رخ نہیں دیکھتا۔ ہر معاملے میں ایک پہلو کا لحاظ کرتا ہے، دوسرے کسی پہلو کا لحاظ نہیں کرتا۔ ایک سمت جس میں اس کا ذہن ایک دفعہ چل پڑتا ہے، اسی کی طرف وہ بڑھتا چلا جاتا ہے، دوسری سمتوں کی جانب توجہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ اس سے معاملات کو سمجھنے میں مسلسل ایک خاص طرح کا عدمِ توازن کا ظہور ہوتا ہے۔ رائے قائم کرنے میں بھی وہ ایک ہی طرف جھکتا چلا جاتا ہے۔ جس چیز کو اہم سمجھ لیتا ہے، بس اسی کو پکڑ بیٹھتا ہے، دوسری ویسی ہی اہم چیزیں بلکہ اس سے بھی اہم چیزیں اس کے نزدیک غیر واقعہ ہو جاتی ہیں۔ جس چیز کو بُرا سمجھ لیتا ہے، اُسی کے پیچھے پڑ جاتا ہے، دوسری ویسی ہی بلکہ اس سے زیادہ بڑی برائیاں اس کے نزدیک قابلِ توجہ نہیں ہوتیں۔ اصول اختیار کرتا ہے تو جمود کی حد تک اصول پرستی میں شدت دکھانے لگتا ہے، کام کے عملی تقاضوں کی کوئی پرواہ نہیں کرتا۔ عملیت کی طرف جھکتا ہے تو بے اصولی کی حد تک عملی بن جاتا ہے اور کامیابی کو مقصود بالذات بنا کر اس کے لیے ہر قسم کے ذرائع و وسائل استعمال کر ڈالنا چاہتا ہے۔
یہ کیفیت اس حد پر نہ رُک جائے تو آگے بڑھ کر یہ سخت انتہا پسندی کی شکل اختیار کر لیتی ہے، پھر آدمی اپنی رائے پر ضرورت سے زیادہ اصرار کرنے لگتا ہے، اختلافِ رائے میں شدت برتنے لگتا ہے، دوسروں کے نقطۂ نظر کو انصاف کے ساتھ نہ دیکھتا ہے اور نہ سمجھنے کی کوشش کرتا ہے، بلکہ ہر مخالف رائے کو بدتر سے بدتر معنی پہنا کر ٹھکرانا اور تذلیل کرنا چاہتا ہے۔ یہ چیز روز بروز اسے دُوسروں کے لیے اور دوسروں کو اس کے لیے ناقابلِ برداشت بناتی چلی جاتی ہے۔
اس مقام پر بھی بے اعتدالی رُک جائے تو خیریت ہے، لیکن اگر اسے خوبی سمجھ کر مزید پرورش کی جائے تو پھر معاملہ بدمزاجی اور چڑچڑے پن اور تلخ زبانی اور دوسروں کی نیتوں پر شک اور حملوں تک پہنچ جاتا ہے، جو کسی اجتماعی زندگی میں نبھنے والی چیز نہیں۔
ایک آدمی یہ روش اختیار کرے تو زیادہ سے زیادہ اتنا ہی ہو گا کہ وہ اکیلا جماعت سے کٹ جائے گا اور اس مقصد کی خدمت سے محروم ہو جائے گا جس کی خاطر وہ جماعت سے وابستہ ہوا تھا۔ اس سے کوئی اجتماعی نقصان نہ ہو گا، مگر جب کسی اجتماعی ہیئت میں بہت سے غیر متوازن ذہن اور غیر معتدل مزاج جمع ہو جائیں تو پھر ایک ایک قسم کا عدمِ توازن ایک ایک ٹولی کی شکل اختیار کرنے لگتا ہے۔ ایک انتہا کے جواب میں دوسری انتہا پیدا ہوتی ہے، اختلافات شدید سے شدید تر ہوتے جاتے ہیں، پھوٹ پڑتی ہے، دھڑے بندی ہوتی ہے، اور اس کشمکش میں وہ کام خراب ہو کر رہتا ہے جسے بنانے کے لیے بڑی نیک نیتی کے ساتھ کچھ لوگ جمع ہوئے تھے۔
حقیقت یہ ہے کہ جو کام انفرادی کوششوں سے نہیں ہوتے بلکہ جن کی نوعیت ہی اجتماعی ہوتی ہے، انہیں انجام دینے کے لیے بہرحال بہت سے لوگوں کو ساتھ مل کر کام کرنا ہوتا ہے۔ ہر ایک کو اپنی بات سمجھانی اور دوسروں کی بات سننی ہوتی ہے۔ طبیعتوں کا اختلاف، قابلیتوں کا اختلاف، ذاتی خصوصیات کا اختلاف اپنی جگہ رہتا ہے، اس کے باوجود سب کو آپس میں موافقت کا ایک تعلق پیدا کرنا ہوتا ہے، جس کے بغیر کوئی تعاون ممکن نہیں ہوتا۔ اس موافقت کے لیے کسر و انکسار ناگزیر ہے، اور یہ کسر و انکسار صرف معتدل مزاج کے لوگوں ہی میں ہو سکتا ہے جن کے خیالات بھی متوازن ہوں اور طبیعت بھی۔ غیر متوازن لوگ بھی جمع ہو جائیں تو زیادہ دیر تک جمع نہیں رہ سکتے۔ اُن کی جمعیت پھٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گی اور جن ٹکڑیوں میں تقسیم ہو کر ایک ایک قسم کے عدمِ توازن کے مریض جمع ہوں گے، ان میں پھر تفرقہ رونما ہو گا یہاں تک کہ آخرکار ایک ایک امام مقتدیوں کے بغیر ہی کھڑا نظر آئے گا۔
جن لوگوں کو اسلام کے لیے کام کرنا ہو اور جنہیں جمع کرنے والی چیز اسلامی اصول پر نظامِ زندگی کی اصلاح و تعمیر کرنے کا جذبہ و ولولہ ہو، انہیں اپنا محاسبہ کر کے اس بے اعتدالی کی ہر شکل سے خود بھی بچنا چاہیے اور ان کی جماعت کو بھی یہ فکر ہونی چاہیے کہ اس کے دائرے میں یہ مرض نشوونما نہ پائے۔ اس باب میں کتاب اللہ اور سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ ہدایات ان کے پیشِ نظر رہنی چاہئیں جو انتہا پسندی اور شدت سے منع کرتی ہیں۔ قرآن جس چیز کو اہلِ کتاب کی بنیادی غلطی قرار دیتا ہے، وہ غلو فی الدین ہے: يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لَا تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ۔ اور اس سے بچنے کی تاکید نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے منبر پر ان الفاظ میں فرماتے ہیں: [إِيَّاكُمْ وَالْغُلُوَّ، فَإِنَّمَا هَلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ بِالْغُلُوِّ فِي الدِّينِ] "خبردار! انتہا پسندی میں نہ پڑنا، کیونکہ تم سے پہلے کے لوگ دین میں انتہا پسندی اختیار کر کے ہی تباہ ہوئے ہیں۔" ابنِ مسعود کی روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک تقریر میں تین بار فرمایا: [هَلَكَ الْمُتَنَطِّعُونَ] ”برباد ہو گئے شدت اختیار کرنے والے، مبالغے اور تعمق سے کام لینے والے۔“ دعوتِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کا امتیازی وصف اس کے لانے والے نے یہ بتایا ہے کہ [بُعِثْتُ بِالْحَنِيفِيَّةِ السَّمْحَةِ] یعنی آپ پچھلی امتوں کے افراط و تفریط کے درمیان وہ حنیفیت لے کر آئے ہیں جس میں وسعت اور معاملاتِ زندگی کے ہر پہلو کی رعایت ہے۔ اس دعوت کے علمبرداروں کو جس طریقے پر کام کرنا چاہیے، وہ اس کے داعیِ اوّل نے یہ سکھایا ہے: [يَسِّرُوا وَلَا تُعَسِّرُوا، وَبَشِّرُوا وَلَا تُنَفِّرُوا] "سہولت دو، تنگ نہ کرو، بشارت دو، نفرت نہ دلاؤ۔" [إِنَّمَا بُعِثْتُمْ مُيَسِّرِينَ، وَلَا تُبْعَثُوا مُعَسِّرِينَ] "تم سہولت دینے کے لیے بھیجے گئے ہو، تنگ کرنے کے لیے نہیں بھیجے گئے۔" [مَا خُيِّرَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ أَمْرَيْنِ قَطُّ إِلَّا أَخَذَ أَيْسَرَهُمَا، مَا لَمْ يَكُنْ إِثْمًا] "کبھی ایسا نہیں ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دو معاملوں میں سے ایک کے اختیار کرنے کا موقع دیا گیا ہو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے آسان ترین کو نہ لیا ہو، الا یہ کہ وہ گناہ ہو۔" (بخاری و مسلم) [إِنَّ اللَّهَ رَفِيقٌ يُحِبُّ الرِّفْقَ فِي الْأَمْرِ كُلِّهِ] "اللہ نرم خو ہے، ہر معاملے میں نرم رویے کو پسند کرتا ہے۔" (بخاری و مسلم) [مَنْ يُحْرَمِ الرِّفْقَ يُحْرَمِ الْخَيْرَ كُلَّهُ] "جو نرم خوئی سے محروم ہوا، وہ بھلائی سے بالکل محروم ہو گا۔" (مسلم) [إِنَّ اللَّهَ رَفِيقٌ يُحِبُّ الرِّفْقَ، وَيُعْطِي عَلَى الرِّفْقِ مَا لَا يُعْطِي عَلَى الْعُنْفِ، وَمَا لَا يُعْطِي عَلَى مَا سِوَاهُ] "اللہ نرم خو ہے اور نرم خو آدمی کو پسند کرتا ہے، وہ نرمی پر وہ کچھ عطا کرتا ہے جو شدت پر اور کسی دوسرے رویے پر عطا نہیں کرتا۔" ان جامع ہدایات کو ملحوظ رکھنے کے ساتھ اسلامی نظامِ زندگی کے لیے کام کرنے والے لوگ اگر قرآن و سنت سے اپنے مطلب کی چیزیں چھانٹنے کے بجائے اپنے مزاج اور نقطۂ نظر کو ان کے مطابق ڈھالنے کی عادت ڈالیں تو ان کے اندر آپ سے آپ وہ توازن اور توسط و اعتدال پیدا ہوتا چلا جائے گا جو دنیا کے حالات و معاملات کو قرآن و سنت کے دیے ہوئے نقشے پر درست کرنے کے لیے درکار ہے۔
تنگ دلی
بے اعتدالیِ مزاج سے ملتی جلتی ایک اور کمزوری بھی انسان میں ہوتی ہے جسے ”تنگ دلی“ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے، جسے قرآن میں ”شُحَّ نَفْسٍ“ سے تعبیر کیا گیا ہے، جس کے متعلق قرآن کہتا ہے کہ فلاح اس شخص کے لیے ہے جو بچ گیا: وَمَن يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ۔ اور جسے قرآن تقویٰ اور احسان کے برعکس ایک غلط میلان قرار دیتا ہے: أُحْضِرَتِ الْأَنفُسُ الشُّحَّ ۚ وَإِن تُحْسِنُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا۔
اس مرض میں جو شخص مبتلا ہو، وہ اپنی زندگی کے ماحول میں دوسروں کے لیے کم ہی گنجائش چھوڑنا چاہتا ہے۔ وہ خود جتنا بھی پھول جائے، اپنی جگہ اسے تنگ ہی نظر آتی ہے اور دوسرے جس قدر بھی اس کے لیے سکڑ جائیں، اسے محسوس ہوتا ہے کہ وہ بہت پھیلے ہوئے ہیں۔ اپنے لیے وہ ہر رعایت چاہتا ہے مگر دوسروں کے ساتھ کوئی رعایت نہیں کر سکتا۔ اپنی خوبیاں اس کے نزدیک ایک صفت ہوتی ہیں اور دوسروں کی خوبیاں محض ایک اتفاقی حادثہ۔ اپنے عیوب اس کی نگاہ میں قابلِ معافی ہوتے ہیں، مگر دوسروں کا کوئی عیب وہ معاف نہیں کر سکتا۔ اپنی مشکلات کو تو وہ مشکلات سمجھتا ہے، مگر دوسروں کی مشکلات اس کی رائے میں محض بہانہ ہوتی ہیں۔ اپنی کمزوریوں کے لیے جو الاؤنس وہ خود چاہتا ہے، دوسروں کو وہ الاؤنس دینے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ دوسروں کی مجبوریوں کی پرواہ کیے بغیر وہ ان سے انتہائی مطالبات کرتا ہے جو خود اپنی مجبوری کی صورت میں وہ کبھی پورے نہ کرے۔ اپنی پسند اور اپنا ذوق وہ دوسروں پر ٹھونسنے کی کوشش کرتا ہے، مگر دوسروں کی پسند اور ان کے ذوق کا لحاظ کرنا ضروری نہیں سمجھتا۔
یہ چیز ترقی کرتی ہے تو آگے چل کر خوردہ گیری و عیب چینی کی شکل اختیار کرتی ہے۔ دوسروں کی ذرا ذرا سی باتوں پر آدمی گرفت کرنے لگتا ہے اور پھر جوں جوں یہ مرض بڑھتا ہے، آدمی دوسروں کی معمولی لغزشوں پر بلبلا اُٹھتا ہے اور ان کی بڑی سے بڑی خوبیوں کو بھی نظر انداز کر دیتا ہے۔
اسی تنگ دلی کی ایک اور شکل زود رنجی، تَنک چڑھا پن اور دوسروں کی باتوں کو برداشت نہ کرنا ہے، جو اجتماعی زندگی میں اس شخص کے لیے بھی مصیبت ہے جو اس میں مبتلا ہو اور ان لوگوں کے لیے بھی مصیبت ہے جنہیں ایسے شخص سے واسطہ پڑے۔ کسی جماعت کے اندر اس بیماری کا گھس آنا حقیقت میں ایک خطرے کی علامت ہے۔ اجتماعی جدوجہد بہرحال آپس کی اُلفت اور باہمی تعاون چاہتی ہے جس کے بغیر چار آدمی بھی مل کر کام نہیں کر سکتے۔ مگر یہ تنگ دلی اس کے امکانات کو کم ہی نہیں، بسا اوقات ختم کر دیتی ہے۔ اس کا لازمی نتیجہ تعلقات کی تلخی اور باہمی منافرت ہے۔ یہ دلوں کو پھاڑ دینے والی اور ساتھیوں کو آپس میں الجھا دینے والی چیز ہے۔
اس مرض میں جو لوگ مبتلا ہوں، وہ عام معاشرتی زندگی کے لیے بھی موزوں نہیں ہو سکتے، کجا کہ کسی مقصدِ عظیم کی خدمت کے لیے موزوں قرار پاسکیں۔ خصوصاً یہ صفت ان صفات کے بالکل ہی برعکس ہے جو اسلامی نظامِ زندگی کے قیام کی جدوجہد کے لیے مطلوب ہیں۔ وہ تنگ دلی کے بجائے فراخ دلی، بخل کے بجائے فیاضی، گرفت کے بجائے عفو و درگزر اور سخت گیری کے بجائے مراعات چاہتا ہے۔ اس کے لیے حلیم اور متحمل لوگ درکار ہیں۔ اس کا بوجھ وہی لوگ اٹھا سکتے ہیں جو بڑا ظرف رکھتے ہوں، جن کی سختی اپنی ذات کے لیے ہو اور نرمی دوسروں کے لیے، جو خود کم سے کم الاؤنس چاہیں اور دوسروں کو زیادہ سے زیادہ الاؤنس دیں۔ جو اپنے عیوب اور دوسروں کی خوبیوں پر نگاہ رکھیں، جو تکلیف دینے کے بجائے تکلیف سہنے کے خوگر ہوں اور چلتیوں کو گرانے کے بجائے گرتوں کو تھامنے کا بل بوتا رکھتے ہوں۔ جو جماعت ایسے لوگوں پر مشتمل ہو گی، وہ نہ صرف خود آپس میں مضبوطی کے ساتھ جڑی رہے گی بلکہ اپنے گرد و پیش کے معاشرے میں بھی بکھرے ہوئے اجزاء کو سمیٹے اور اپنے ساتھ جوڑتی چلی جائے گی۔ اس کے برعکس تنگ دل اور کم ظرف لوگوں کا مجمع خود بھی بکھرے گا اور باہر بھی جس سے اس کو سابقہ پیش آئے گا، اسے نفرت دلا کر اپنے سے دور بھگا دے گا۔
ضعفِ ارادہ
انسانوں میں ایک کمزوری بہ کثرت پائی جاتی ہے جسے ہم ”ضعفِ ارادہ“ کا نام دے سکتے ہیں۔
اس کی حقیقت یہ ہے کہ انسان ایک تحریک کی دعوت سُن کر اسے صدقِ دل سے لبیک کہتا ہے اور اوّل اوّل خاصا جوش بھی دکھاتا ہے، مگر وقت گزرنے کے ساتھ اس کی دلچسپی کم ہوتی چلی جاتی ہے، یہاں تک کہ اسے نہ اس مقصد سے کوئی حقیقی لگاؤ باقی رہتا ہے جس کی خدمت کے لیے وہ آگے بڑھا تھا اور نہ اس جماعت کے ساتھ کوئی عملی وابستگی باقی رہتی ہے جس میں وہ دلی رغبت کے ساتھ شامل ہوا تھا۔ اس کا دماغ بدستور ان دلائل پر مطمئن رہتا ہے جن کی بناء پر اس تحریک کو اُس نے برحق مانا تھا، اس کی زبان بدستور اس کے برحق ہونے کا اقرار کرتی رہتی ہے، اس کے دل کی شہادت بھی یہی رہتی ہے کہ یہ کام کرنے کا ہے اور ضرور ہونا چاہیے، لیکن اس کے جذبات سرد پڑ جاتے ہیں اور قوائے عمل کی حرکت سست ہوتی چلی جاتی ہے۔ اس میں کسی بدنیتی کا ذرہ برابر دخل نہیں ہوتا، مقصد سے انحراف بھی نہیں ہوتا، نظریے کی تبدیلی بھی قطعاً واقع نہیں ہوتی۔ اسی وجہ سے آدمی جماعت کو چھوڑنے کا خیال نہیں کرتا، مگر بس وہ دل کی کمزوری ہوتی ہے جو ابتدائی جوش ٹھنڈا پڑ جانے کے بعد مختلف شکلوں میں اپنے کرشمے دکھانے شروع کر دیتی ہے۔
ضعفِ ارادے کا ابتدائی ظہور کام چوری کی صورت میں ہوتا ہے۔ آدمی ذمہ داریاں قبول کرنے سے جی چرانے لگتا ہے، مقصد کی راہ میں وقت، محنت اور مال خرچ کرنے سے گریز کرنے لگتا ہے، دنیا کے ہر دوسرے کام کو اس کام پر ترجیح دینے لگتا ہے۔ وہ زندگی کے جس میدان میں ہو، اس کے نام نہاد مقصدِ حیات کا حصہ کم سے کم ہوتا چلا جاتا ہے، اور جس جماعت کو وہ برحق جماعت مان کر اس سے وابستہ ہوا تھا، اس کے ساتھ بھی وہ صرف نام اور ضابطے کا تعلق باقی رکھتا ہے، اس کے بھلے اور بُرے سے کوئی غرض نہیں رکھتا، نہ اس کے معاملات میں کسی قسم کی دلچسپی لیتا ہے۔
یہ حالت کچھ اس طرح بتدریج طاری ہوتی ہے جیسے جوانی یا بڑھاپا آتا ہے، مگر آدمی اپنی اس کوتاہی پر نہ خود متنبہ ہو اور نہ کوئی اسے متنبہ کرے، تو کسی وقت بھی یہ سوچنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا کہ جس چیز کو میں اپنا مقصدِ زندگی قرار دے کر جان و مال کی بازی لگانے کے لیے اُٹھا تھا، اس کے ساتھ اب یہ معاملہ کرنے لگا ہوں۔ یوں محض غفلت اور بے خبری کے عالم میں آدمی کی دلچسپی و وابستگی بے جان ہوتی چلی جاتی ہے، حتیٰ کہ کسی روز بے خبری ہی میں اس کی طبعی موت واقع ہو جاتی ہے۔
جماعتی زندگی میں اگر پہلے ہی آدمی کے اندر اس کیفیت کے ظہور کا نوٹس نہ لیا جائے اور اس کے نشوونما کو روکنے کی فکر نہ کی جائے تو ایک ضعیف الارادہ شخص کی چھوت دوسرے تمام ان لوگوں کو لگنا شروع ہو جاتی ہے جن کے اندر ضعفِ ارادہ پیدا ہو رہا ہو، اونگھتے کو ٹھیلتے کا بہانہ مل جاتا ہے۔ اچھے خاصے سرگرم آدمی دوسروں کو کام نہ کرتے دیکھ کر خود بھی کام چھوڑ بیٹھتے ہیں، اور کوئی اللہ کا بندہ یہ نہیں سوچتا کہ میں کسی اور کے نہیں، خود اپنے مقصدِ حیات کی خدمت کے لیے آیا تھا۔ اگر دوسرے اپنا مقصد چھوڑ چکے ہیں تو میں اپنے مقصد سے کیوں دستبردار ہو جاؤں؟ ان لوگوں کی مثال اس شخص کی سی ہوتی ہے جو صرف اس لیے جنت کے راستے پر چلنا چھوڑ دے کہ دوسرے ساتھیوں نے چھوڑ دیا ہے۔ گویا جنت اس کی اپنی منزلِ مقصود نہ تھی یا وہ اس شرط کے ساتھ جانا چاہتا تھا کہ دوسرے بھی وہاں جائیں اور شاید دوسروں ہی کے ساتھ وہ جہنم جانے کا ارادہ بھی کرے اگر انہیں اس طرف جاتے دیکھے، کیونکہ اس کا اپنا مقصد کوئی نہیں ہے، جو کچھ دوسروں کا مقصد ہے وہی اس کا بھی ہے۔ اس ذہنی کسمپرسی میں مبتلا ہو جانے والے لوگ ہمیشہ کام نہ کرنے والوں کی مثالیں پیش کرتے ہیں، کام کرنے والوں میں انہیں کوئی قابلِ تقلید مثال نہیں ملتی۔
تاہم بڑی غنیمت ہے کہ کوئی شخص بس سیدھے سادھے طریقے پر ضعفِ ارادہ کی بنا پر سست پڑ جائے اور سست ہی پڑ کر رہ جائے، لیکن انسانی فطرت جب ایک دفعہ کمزوری میں مبتلا ہو جاتی ہے تو دوسری کمزوریاں بھی اُبھرنے لگتی ہیں اور کم ہی لوگ اس پر قادر ہوتے ہیں کہ اپنی ایک کمزوری کی مدد پر دوسری کمزوریوں کو نہ آنے دیں۔ بالعموم آدمی کو اس میں شرم محسوس ہوتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو ایک کمزور انسان کی حیثیت سے ظاہر کرے یا اسے برداشت کر لیا جائے کہ لوگ اسے کمزور سمجھیں، وہ سیدھی طرح اس کا اعتراف نہیں کرتا کہ ضعفِ ارادہ نے اُسے سست کر دیا ہے۔ اس کے بجائے وہ اس پر پردہ ڈالنے کے لیے مختلف طریقے اختیار کرتا ہے جن میں سے ہر طریقہ دوسرے سے بدتر ہوتا ہے۔
مثلاً وہ کام نہ کرنے کے لیے طرح طرح کے بہانے تراشتا ہے اور آئے دن کوئی نہ کوئی عذرِ لنگ پیش کر کے ساتھیوں کو یہ فریب دینے کی کوشش کرتا ہے کہ اس کے کام نہ کرنے کا اصل سبب مقصد سے لگاؤ اور دلچسپی میں کمی نہیں ہے بلکہ واقعی رکاوٹیں اس کی راہ میں حائل ہیں۔ یہ گویا سستی کی مدد پر جھوٹ کو بلانا ہے اور یہاں سے اس شخص کا اخلاقی تنزل شروع ہوتا ہے جس نے اوّل اوّل صرف خیر کی بلندیوں پر چڑھنا چھوڑ دیا تھا۔
یہ حیلہ جب پرانا ہو کر بے کار ثابت ہونے لگتا ہے اور آدمی کو خطرہ ہوتا ہے کہ کمزوری کا راز فاش ہوا چاہتا ہے، تو وہ یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ دراصل کمزوری کی وجہ سے سست نہیں ہوا ہے بلکہ جماعت کی کچھ خرابیوں نے اسے بددل کر دیا ہے۔ گویا آپ خود تو بہت کچھ کرنا چاہتے تھے مگر کیا کریں، ساتھیوں کے بگاڑ نے دل توڑ کر رکھ دیا۔ اس طرح یہ گرتا ہوا انسان جب ایک قدم نہیں جما سکتا تو اور زیادہ نیچے اُتر جاتا ہے، اور اپنی کمزوری کو چھپانے کی خواہش اسے یہ مظلمہ اپنی گردن پر لینے کے لیے آمادہ کر دیتی ہے کہ جس کام کو بنانے کے قابل وہ نہ رہا تھا، اسے اب بگاڑنے کی کوشش شروع کر دے۔
ابتدائی مرحلے میں یہ بددلی کا معاملہ مجمل رہتا ہے، کچھ پتہ نہیں چلتا کہ حضرت کیوں بددل ہیں؟ خرابیوں کی مبہم شکایتیں دبی زبان سے ظاہر ہوتی ہیں، مگر ان کی کوئی تفصیل معلوم نہیں ہوتی۔ ساتھی اگر حکمت سے کام لیں اور اصل مرض کو سمجھ کر اس کا مداوا کرنے کی فکر کریں تو یہ گرتا ہوا شخص مزید گرنے سے رک بھی سکتا ہے اور اوپر اٹھایا بھی جاسکتا ہے، لیکن اکثر نادان دوست کچھ بے جا جوش کی وجہ سے اور کچھ اپنے جذبۂ استعجاب کی خاطر کھوج کرید شروع کر دیتے ہیں اور اسے اجمال کی تفصیل بیان کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ اس کے بعد وہ اپنی بددلی کو حق بجانب ثابت کرنے کے لیے ہر طرف نظر دوڑاتا ہے، مختلف افراد کی انفرادی کمزوریاں چن چن کر جمع کرتا ہے، جماعت کے نظام اور اس کے کام میں نقائص ڈھونڈتا ہے اور ایک فہرست بنا کر سامنے رکھ دیتا ہے کہ یہ ہیں وہ خرابیاں جنہیں دیکھ دیکھ کر آخرکار یہ خاکسار بددل ہو گیا ہے۔ یعنی اس کا استدلال یہ ہوتا ہے کہ مجھ جیسے مردِ کامل جو سب کمزوریوں سے پاک تھا، ان کمزور ساتھیوں اور ان نقائص سے لبریز جماعت کے ساتھ کس طرح آگے چل سکتا ہے؟ اور یہ طرزِ استدلال اختیار کرتے وقت شیطان اسے یہ بات بھلا دیتا ہے کہ اگر واقعی معاملہ یہ تھا تو سست پڑنے کے بجائے یہ تو اور زیادہ سرگرم ہونے کا متقاضی تھا۔ جس کام کو آپ اپنی زندگی کا نصب العین ٹھہرا کر انجام دینے کے لیے اٹھتے تھے، اُسے اگر دوسرے اپنی خامیوں سے بگاڑ رہے تھے، تو آپ اور زیادہ جوش و خروش کے ساتھ اُسے بنانے میں لگ جاتے اور اپنی خوبیوں سے دوسروں کی ان خامیوں کا تدارک فرماتے۔ آپ کے گھر میں آگ لگی ہو اور گھر کے دوسرے افراد اُسے بجھانے میں کوتاہی برتیں تو آپ بددل ہو کر بیٹھ جائیں گے یا جلتے ہوئے گھر کو بچانے کے لیے ان کوتاہ دستوں سے بڑھ کر چابک دستی دکھائیں گے؟
اس معاملے کا سب سے زیادہ افسوسناک پہلو یہ ہوتا ہے کہ آدمی اپنی غلطی پر پردہ ڈالنے اور اپنے آپ کو حق بجانب ثابت کرنے کی کوشش میں خود اپنے نامۂ اعمال کا سارا حساب دوسروں کے نامۂ اعمال میں درج کر ڈالتا ہے، اور بھول جاتا ہے کہ نامہ ہائے اعمال کا کوئی ریکارڈ ایسا بھی ہے جس میں کسی کی مکاری سے ایک شوشہ بھی نہیں بدل سکتا۔ وہ دوسروں کے نامۂ اعمال میں بہت سی کمزوریاں گنواتا ہے جن میں وہ خود مبتلا ہوتا ہے۔ وہ جماعت کے نظام میں بہت سی اُن خرابیوں کی نشان دہی کرتا ہے جن کے پیدا کرنے میں اُس کا اپنا حصہ دوسروں سے کم نہیں، کچھ زیادہ ہی ہوتا ہے۔ وہ ان کاموں پر سراپا شکایت بنا ہوا نظر آتا ہے جو اس کے اپنے کیے ہوئے ہوتے ہیں، اور جن چیزوں سے وہ خود بری الذمہ ہے، ان سے دوسروں کو بھی بری الذمہ قرار دیتا ہے۔ جب وہ کہتا ہے کہ یہ کچھ دیکھ کر اس کا دل ٹوٹ گیا ہے تو اس کے معنی صاف یہ ہوتے ہیں کہ ان خرابیوں سے اس کا اپنا دامن بالکل پاک ہے۔
کوئی انسانی جماعت کمزوریوں سے خالی نہیں ہوتی، نہ کوئی انسانی کام کبھی بے نقص ہوا ہے اور نہ آئندہ ہو سکتا ہے۔ انسانی معاشرے کی اصلاح و تعمیر کے لیے فرشتے فراہم نہیں ہوتے اور سارا کام معیارِ کمال کے مطابق نہیں ہوتا۔ کمزوریاں ڈھونڈیے تو کہاں نہ مل جائیں گی؟ نقائص تلاش کیجیے تو کس جگہ وہ نہ پائے جائیں گے؟ انسانی کام کمزوریوں اور خامیوں کے ساتھ ہی ہوا کرتے ہیں اور معیارِ کمال تک پہنچنے کی ساری کوششوں کے باوجود کسی ایسی حالت پر پہنچنے کی، کم از کم اس دنیا میں، اُمید نہیں کی جاسکتی جہاں انسان اور اس کا کام سبوح و قدوس ہو جائے۔
اس حالت میں اگر کمزوریوں اور خامیوں کی نشان دہی اس غرض کے لیے ہو کہ انہیں رفع کرنے اور معیارِ کمال کی طرف بڑھنے کے لیے مزید جدوجہد کی جائے تو اس سے زیادہ مبارک کام کوئی نہیں، انسانی کاموں میں جو اصلاح و ترقی بھی ممکن ہے، اسی طریقے سے ممکن ہے اور اس سے غفلت تباہ کن ہے، لیکن اگر انفرادی کمزوریاں اور اجتماعی خامیاں اس لیے تلاش کی جائیں کہ انہیں کام نہ کرنے اور بددل ہو کر بیٹھ جانے کے لیے بہانہ بنانا ہو تو یہ خالص شیطانی وسوسہ اور نفسِ امارہ کا مکر ہے۔ یہ بہانہ بہتر سے بہتر ممکن حالات میں بھی ہر اس شخص کو مل سکتا ہے جو کام سے جی چرانا چاہتا ہو، اور اس بہانے کا سدِباب اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک فرشتوں کی کوئی ٹولی انسانی جماعتوں کی جگہ لینے کے لیے نہ آجائے۔ اور اس بہانے کو پیش کرنا کسی ایسے شخص کو زیب نہیں دیتا جو خود کمزوریوں اور خامیوں سے اپنی ذاتِ اقدس کے پاک ہونے کا ثبوت مہیا نہ کر دے۔ اس طرح کی باتوں کا حاصل کبھی یہ نہیں ہوتا کہ کوئی کمزوری دور ہو یا کوئی خامی رفع ہو جائے، بلکہ یہ کمزوریوں اور خامیوں کو بڑھانے کا مجرب نسخہ ہے۔ اس کا حاصل یہ ہوتا ہے کہ ایک شخص کمزوریاں اختیار کر کے اپنے اردگرد و پشت کے دوسرے تمام ضعیف الارادہ لوگوں کے لیے ایک غلط مثال بن جاتا ہے، وہ ان سب کو یہ راہ دکھا دیتا ہے کہ اپنے ضعف کا اعتراف کر کے نیکی کمانے سے بچیں اور خود اپنے نفس کو بھی فریب دے کر مطمئن کریں۔ اس کی پیروی میں ہر بے عمل آدمی بددلی کا ڈھونگ رچانے لگتا ہے اور اس بددلی کو حق بجانب ثابت کرنے کے لیے ساتھیوں کی کمزوریاں اور جماعت کی خامیاں ڈھونڈ ڈھونڈ کر ایک فہرست تیار کرنی شروع کر دیتا ہے، پھر اس سے بدی کا ایک چکر چل نکلتا ہے۔ ایک طرف جماعت میں عیب چینی و خوردہ گیری اور الزام و جوابِ الزام کی ایک وبا پھوٹ پڑتی ہے جو اس کے اخلاقی مزاج کا ستیاناس کر دیتی ہے۔ دوسری طرف اچھے خاصے سرگرم عمل اور مخلص آدمی جو کسی ضعفِ ارادہ میں مبتلا نہ تھے، کمزوریوں اور خامیوں کے اس چرچے سے متاثر ہو کر بددلی کا شکار ہو جاتے ہیں اور جب اس مرض کی روک تھام کے لیے کچھ کیا جاتا ہے تو بددلوں کا ایک بلاک بننے لگتا ہے۔ بددلی ایک مسلک اور تحریک کی شکل اختیار کرتی ہے۔ بددل ہونا، بددل کرنا اور بددلی کے حق میں دلائل فراہم کرنا بجائے خود ایک کام بن جاتا ہے، اور جو لوگ اصل مقصد کے لیے کام کرنے میں سُست ہو چکے تھے، وہ اس کام میں خوب چستی دکھانے لگتے ہیں، یوں ان کی مری ہوئی دلچسپی زندہ ہوتی ہے مگر اس شان کے ساتھ کہ اس کا زندہ ہونا اس کی موت سے زیادہ افسوسناک ہوتا ہے۔
یہ ایک خطرہ ہے جس سے ہر اُس جماعت کو خبردار رہنا چاہیے جو اصلاح و تعمیر کی سعی کے لیے اُٹھے اور اس کے کارکنوں کو ضعفِ ارادہ کے نقصانات اور اس کی بسیط و مرکب صورتوں کے فرق اور ان میں سے ہر ایک کے اثرات و نتائج سے اچھی طرح واقف ہونا چاہیے اور اس کے ابتدائی آثار نمودار ہوتے ہی اصلاح کی فکر کرنی چاہیے۔
ضعفِ ارادہ بسیط یہ ہے کہ جماعت میں کوئی شخص اس کام کو برحق اور اس کا بوجھ اٹھانے والی جماعت کو صحیح مانتے ہوئے عملاً سستی اور دلچسپی میں کمی دکھانی شروع کر دے۔ اس صورت کے رونما ہوتے ہی چند تدبیریں اختیار کرنی چاہئیں:
- ایک یہ کہ ایسے شخص کے حالات کی تحقیق کر کے یہ معلوم کیا جائے کہ اس کی سستی کی وجہ آیا ضعفِ ارادہ ہی ہے یا کچھ حقیقی مشکلات ہیں جو اسے سُست کر رہی ہیں۔ اگر حقیقی مشکلات پائی جائیں تو جماعت کو ان سے باخبر ہونا چاہیے تاکہ انہیں رفع کرنے میں ایک رفیق کی مدد بھی کی جائے اور اس کی سستی دوسروں کی نگاہ میں کوئی غلط معنی بھی نہ پہن سکے، نہ کسی کے لیے غلط نظارہ بن سکے، اور اگر اصل سبب ضعفِ ارادہ ہی متحقق ہو تو بھونڈے طریقوں سے اجتناب کرتے ہوئے حکمت کے ساتھ ایسے شخص کے معاملے کو جماعت کے سامنے ان لوگوں کے معاملے سے ممتاز ہو جانا چاہیے، جو حقیقی مشکلات کی وجہ سے کام میں سرگرم نہ ہوں۔
- دوسرے یہ کہ ضعف الارادہ آدمی کی حالت جس وقت بھی نوٹس میں آئے، اس کے ضعف کو تذکر و تلقین اور نصیحت کے ذریعے سے دُور کرنے کی کوشش شروع کر دینی چاہیے۔ خصوصیت کے ساتھ جماعت کے بہتر آدمیوں کو اس کی طرف توجہ کرنی چاہیے کہ اس کے مرتے ہوئے جذبے کو اکسائیں اور عملاً اسے اپنے ساتھ لگا کر حرکت میں لانے کی سعی کریں۔
- تیسرے یہ کہ ایسے شخص کو ٹوکتے رہنا چاہیے تاکہ جماعت میں اس طرح کی سستی اور بے عملی ایک معمولی چیز نہ بن جائے اور دوسرے لوگ ایک دوسرے کا سہارا لے کر بیٹھتے نہ چلے جائیں اور جماعت کے اندر وقتاً فوقتاً اس امر کا محاسبہ ہوتا رہے کہ کون وقت اور محنت اور مال کا کتنا ایثار کر سکتا ہے اور کتنا کر رہا ہے اور کس کی کارگزاری اس کی واقعی استعداد سے کیا نسبت رکھتی ہے، تو پھر یہ اس شخص کے لیے کسی نہ کسی حد تک خجالت کا موجب ہو گا جو محاسبے کی میزان میں ہلکا اتر رہا ہو اور یہ خجالت لوگوں کو سست پڑنے سے روکتی رہے گی۔
لیکن یہ محاسبہ اس انداز سے نہ ہونا چاہیے کہ بسیط ضعفِ ارادہ کا مریض مرکب ضعفِ ارادہ میں مبتلا ہو جائے۔ حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ ایک شخص میں جو کمزوری پیدا ہو رہی ہے، اسے اگر رفع نہ کیا جاسکے تو کم از کم بڑھنے نہ دیا جائے۔ نادانی کے ساتھ ضرورت سے زیادہ جوش دکھانے کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ برائی میں پڑا ہوا آدمی اس سے شدید تر برائی کی طرف زبردستی دھکیل دیا جاتا ہے۔
ضعفِ ارادہ مرکب یہ ہے کہ آدمی اپنی کمزوری پر جھوٹ اور مکر کے پردے ڈالنے کی کوشش کرے، اور بڑھتے بڑھتے یہ ثابت کرنے کی کوشش پر اتر آئے کہ خرابی اس میں نہیں ہے بلکہ جماعت میں ہے۔ یہ محض ایک کمزوری نہیں ہے بلکہ ایک بداخلاقی ہے جسے کسی ایسی جماعت میں پھلنے پھولنے نہ دینا چاہیے جو اخلاقی بنیادوں، اخلاقی بنیادوں ہی پر دنیا کی اصلاح کرنا چاہتی ہو۔
اس کا پہلا درجہ یہ ہے کہ آدمی کام نہ کرے تو صاف صاف اپنی کمزوری کا اعتراف کرنے کے بجائے جھوٹے عذرات اور بے بنیاد بہانے پیش کرے، اس چیز سے چشم پوشی کرنا خود اس شخص سے بھی بے وفائی ہے جس میں یہ اخلاقی عیب اُبھرتا آرہا ہو اور اُس جماعت سے بھی بے وفائی ہے جس کے ساتھ بہت سے لوگوں نے ایک مقصدِ عظیم کی خاطر جان و مال کی بازی لگائی ہو۔ ایسی جماعت میں شریک ہونے والے ہر شخص کے اندر کم از کم اتنی اخلاقی جرأت اور ضمیر کی زندگی ہونی چاہیے کہ اگر اپنے جذبے کی کمزوری کے باعث وہ کام نہ کر سکے تو صاف صاف اپنی کمزوری کا اعتراف کر لے۔ اعترافِ قصور کے ساتھ ایک شخص کا عمر بھر اس کمزوری میں مبتلا رہنا اس سے بدرجہا بہتر ہے کہ وہ ایک مرتبہ بھی اس کو چھپانے کے لیے جھوٹے بہانوں سے مدد لے۔ یہ عیب جب بھی ظاہر ہو، اُس پر سرزنش کی جانی چاہیے۔ اس طریقے سے باز نہ آئے تو علانیہ جماعت میں اُسے ملامت کی جائے اور ان عذرات کی حقیقت کھول دی جائے جنہیں وہ اپنے لیے حجت بنا رہا ہو۔ اس میں تساہل برتنے کے معنی یہ ہیں کہ جماعت کے اندر ان خرابیوں کا دروازہ کھول دیا جائے جن کی تفصیل ہم ابھی اوپر بیان کر آئے ہیں۔
اس کا دوسرا درجہ یہ ہے کہ ایک کوتاہ عمل اور سست کار آدمی اپنی اس حالت کے لیے جماعت کے افراد کی کمزوریوں اور جماعت کے کام اور نظام کی خامیوں کو ذمہ دار ٹھہرائے اور انہیں اپنی بددلی کا سبب قرار دے۔ یہ درحقیقت خطرے کی سُرخ جھنڈی ہے جو اس بات کا پتہ دیتی ہے کہ اب یہ شخص فتنہ پردازی کی طرف مائل ہو رہا ہے۔ اس موقع پر اس سے بددلی کے اسباب کی تفصیل پوچھنا غلط ہے۔ یہ سوال اس سے کرنے کے معنی یہ ہیں کہ اُسے اس فتنے کے راستے پر چلا دیا جائے جس کے سرے پر ابھی وہ پہنچا ہے۔ یہاں اُسے عیب چینی کا اذنِ عام دینے کے بجائے اس کے دوستوں کو اُسے خدا سے ڈرانا چاہیے اور اس کو شرم دلانی چاہیے کہ خود ایک ناقص کارنامہ اور خام کردار لے کر وہ کس منہ سے دوسروں پر تنقید کی جسارت کر رہا ہے؟ محنت کرنے والے، خدمت میں سرگرمی دکھانے والے، وقت اور مال کا ایثار کرنے والے اگر تیری کوتاہیِ عمل کو اپنے لیے بددلی کا موجب ٹھہرائیں تو حق بجانب ہوں گے، مگر تو کہاں بددلی کا روپ دھارنے چلا ہے، جب کہ بددل کرنے والی خرابیوں کو پیدا کرنے میں تیرا اپنا حصہ دوسروں سے بڑھ کر ہی ہے اور کام خراب کرنے میں تیرا اپنا عمل دوسروں کے لیے نظارہ بن رہا ہے؟
اس میں شک نہیں کہ اپنی تمام کمزوریاں اور خامیاں جماعت کے علم میں ضرور آنی چاہئیں اور جماعت کو بھی کبھی ان کے جاننے سے کترانا اور ان کی اصلاح کی سعی سے منہ نہ موڑنا چاہیے۔ لیکن انہیں بیان کرنا جماعت کے ان سرگرم خادموں کا کام ہے جو سب سے بڑھ کر خدمت میں جان لڑانے والے ہوں، وہی اس کا حق رکھتے ہیں اور وہی ایمانداری کے ساتھ تنقید بھی کر سکتے ہیں۔ کسی اخلاقی تحریک میں اس بے حیائی کی ہمت افزائی نہ کی جانی چاہیے کہ کام چور لوگ جو خدمت میں سست اور کردار میں خام ہوں، وہ لمبی زبان لے کر جماعت کی خامیوں اور کمزوریوں بیان کرنے لگیں۔ ایسی تحریک میں ان کا صحیح مقام شرمندگی و ندامت اور اعترافِ قصور کا ہے، ناقد اور مصلح کا نہیں۔ اس مقام پر اگر وہ خود آکر کھڑے ہوں تو یہ سخت اخلاقی بیماری کی علامت ہے اور اگر جماعت میں اُن کے لیے یہ مقام تسلیم کیا جائے تو اس کے یہ معنی ہیں کہ جماعت پر اخلاقی دیوالیہ پن مسلط ہو رہا ہے۔
ایک اور بات جو اس مقام پر خوب سمجھ لینی چاہیے، وہ یہ ہے کہ ایک مقصد کے لیے کام کرنے والی جماعت کو اپنے سامنے اخلاق اور صلاحیتِ کار کے دو معیار رکھنے ہوتے ہیں۔ ایک معیارِ مطلوب، یعنی وہ انتہائی بلند معیار جس تک پہنچنے کی مسلسل جدوجہد جاری رہنی چاہیے، دوسرا کم سے کم قابلِ عمل ہونے کا معیار، جس کو لے کر کام چلایا جا سکتا ہو اور جس کے نیچے گر جانا قابلِ برداشت نہ ہو۔ ان دونوں قسموں کے معیاروں کے معاملے میں مختلف ذہنوں کے لوگ مختلف طرزِ عمل اختیار کرتے ہیں۔
ایک ذہن اصل مقصد کے لیے کام کرنے کو چنداں اہمیت نہیں دیتا۔ کام بنے یا بگڑے یا بالکل ختم ہو جائے، یہ اس کے لیے کوئی زندگی اور موت کا مسئلہ نہیں ہوتا۔ وہ اس کام کو چھوڑ کر بھی مزے سے جی سکتا ہے اور کام میں شریک رہ کر بھی اس طرح شرکت کر سکتا ہے کہ اس کے وقت، مال اور قوتوں کو جوں تک نہ لگنے پائے۔ یہ ذہن بسا اوقات فکر و نظر کی عیاشی کے طور پر اور کبھی اپنے فرار کے لیے پرفریب معذرت کے طور پر اخلاق کے آسمانوں پر اُڑتا ہے اور معیارِ مطلوب سے کم پر کسی طرح مطمئن نہیں ہوتا۔ اس سے کم جو کچھ بھی نظر آتا ہے، اس پر وہ بڑی بے چینی اور بددلی کا اظہار کرتا ہے، مگر یہ بے چینی کام کے لیے نہیں، کام سے فرار کے لیے ہوتی ہے، خواہ یہ فراری ذہنیت شعوری ہو یا غیر شعوری۔
دوسرا ذہن اگرچہ مقصد اور اس کے لیے کام کرنے کو بڑی اہمیت بلکہ پوری اہمیت دیتا ہے، مگر تخیل پرستی میں مبتلا ہونے کی وجہ سے معیارِ مطلوب اور کم سے کم قابلِ عمل ہونے کے معیار کا فرق ٹھیک ٹھیک ملحوظ نہیں رکھتا۔ یہ خود بھی بار بار الجھن میں پڑتا ہے اور پہلے قسم کے ذہن کی چھوت بڑی آسانی سے اس کو لگ جاتی ہے۔ اس طرح وہ اپنے آپ کو بھی پریشان کرتا ہے اور کام کرنے والوں کے لیے اچھی خاصی پریشانیوں کا موجب بن جاتا ہے۔
تیسرا ذہن وہ ہوتا ہے جسے مقصد کے لیے کام کرنا اور کام چلانا ہوتا ہے اور جسے کام کے بناؤ اور بگاڑ کی پوری ذمہ داری اپنے اوپر ہونے کا احساس ہوتا ہے۔ اسے اس کا مقام خود ہی اس بات پر مجبور کرتا ہے کہ ہر وقت دونوں قسموں کے معیاروں کا ٹھیک ٹھیک فرق ملحوظ رکھتے ہوئے کام کرے اور یہ دیکھتا رہے کہ مقصد کی طرف پیش قدمی کی رفتار کسی معقول اور وزنی سبب کے بغیر متاثر نہ ہونے پائے۔ وہ معیارِ مطلوب کو کبھی فراموش نہیں کرتا، اس تک پہنچنے کی فکر سے کبھی غافل نہیں ہوتا، اس سے گری ہوئی ہر چیز پر سخت تشویش محسوس کرتا ہے، مگر کم سے کم قابلِ عمل معیار سے کام چلاتا رہتا ہے اور معیار سے گر جانے والے لوگوں کی وجہ سے اپنی اسکیم بدلنے کے بجائے انہیں ہٹا کر پھینک دینا زیادہ پسند کرتا ہے۔ اس کے لیے اپنی طاقت کا صحیح اندازہ لگانا اور اس کے مطابق کام کے پھیلاؤ اور اس کی رفتار میں کمی بیشی کرنا تو بے شک ضروری ہے۔ اس میں وہ غلطی کر جائے تو اپنے مقصد کو نقصان پہنچا دے، لیکن سخت نادان ہو گا وہ شخص جو اس چیز کا اندازہ لگانے میں پہلی اور دوسری قسم کے ذہنوں سے رہنمائی حاصل کرے، اس کے لیے اگر مددگار ہو سکتے ہیں تو تیسری قسم کے ذہن ہی ہو سکتے ہیں اور ان کی معرفت اسے حاصل ہونی چاہیے۔