قوموں کے عروج و زوال پر علمی تحقیقات کے اثرات
سید ابوالاعلیٰ مودودی
بسم الله الرحمن الرحيم
قُلْ أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ
علمی تحقیقات ہی پر قوموں کے عروج و زوال کا دارو مدار ہے
جو لوگ ہماری خاطر مجاہدہ کریں گے انہیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے ۔ (القرآن)
جہانِ تازہ کی ہے افکارِ تازہ سے نمود
کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا
(اقبال)
عرض مرتب
اسلام میں علمی اور تحقیقی کام کی ضرورت اور اہمیت جتنی آج ہے اتنی شاید پہلے کبھی نہ تھی، جب یونانی فکر کا سیلاب آیا تو اس وقت بھی فکر اسلامی ایک شدید چیلنج سے دو چار تھی لیکن اس وقت مسلم معاشرے کی بنیادیں بڑی مضبوط اور محفوظ تھیں۔ مسلمانوں نے زمانہ کے چیلنج کا مقابلہ بڑی بالغ نظری، اخلاقی جرأت اور تخلیقی ولولہ کے ساتھ کیا۔ لیکن آج ہم جن حالات سے دو چار ہیں۔ انہوں نے ہمارے دور کے چیلنج کو اور بھی سنگین بنا دیا ہے۔ آج زندگی کے ہر میدان میں احیائے اسلام کی جو قوتیں وقت کے چیلنج کا مقابلہ کر رہی ہیں ان کو فکری اور علمی غذا میدان تحقیق ہی سے حاصل ہو سکتی ہے۔
اسی مقصد کو حاصل کرنے کے لئے ادارہ معارف اسلامی قائم کیا گیا جس کا افتتاح صدر ادارہ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے ۲۲ ستمبر ۱۹۶۳ء کو فرمایا اور ادارہ کے قیام کی غرض و غایت بیان کرتے ہوئے "علمی تحقیقات کیوں اور کیسے؟" کے عنوان سے ایک فکر انگیز تقریر فرمائی اور نقطہ اسلامی کی روشنی میں علمی تحقیقات کی ضرورت و اہمیت پر سیر حاصل گفتگو کی ۔ اور مسلم مفکرین کو دعوت فکر دی کہ وہ مغرب کے ملحدانہ افکار کے چیلنج کا جواب نقطہ اسلامی کی روشنی میں جرأت و ہمت کے ساتھ دیں۔ جنہوں نے پوری انسانیت کو ایک نہ ختم ہونے والی ذہنی فکری انتشار اور اضطرابی کیفیت سے دو چار کر رکھا ہے۔
ہم مولانا مرحوم کی اس تقریر اور کچھ دوسرے علمی افکار کو ایک نئے عنوان "قوموں کے عروج و زوال پر علمی تحقیقات کے اثرات" کے نام سے ایک مجموعہ کی صورت میں شائع کر رہے ہیں۔ امید ہے کہ یہ چند اوراق اہل علم کے سامنے تحقیق کی نئی نئی راہیں وا کرنے میں ممد و معاون ثابت ہوں گے اور پروفیسر خورشید احمد صاحب کا مقالہ "وقت کی اہم ترین ضرورت" جو اسی ادارہ کی ضرورت و اہمیت کو واضح کرتا ہے اور جناب نعیم صدیقی صاحب کا مقالہ "مکمل تعلیمی انقلاب کی منفرد آواز" جو مولانا مودودی کے تعلیمی نظریات کے متعلق ہے، بھی شامل ہے۔
آخر میں ہم جناب سید اسعد گیلانی صاحب کے ممنون ہیں جنہوں نے اس مجموعہ پر نظرثانی فرمائی اور حرف آغاز کے طور پر چند سطور میں اس کی ضرورت، اہمیت اور افادیت کا احساس دلایا ۔ اللہ کرے یہ مجموعہ علمی تحقیقات کی طرف پیش قدمی کا سبب بنے ۔
یکم دسمبر ۱۹۸۸ء
اختر حجازی
رفیق پارک، شاد باغ، لاہور
حرف آغاز
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی دور جدید میں فکر اسلامی کے زبردست داعی، متکلم اور مجتہد تھے ۔ انہوں نے اپنی ذاتی صلاحیت و مساعی سے دور حاضر کے چیلنج کو سامنے رکھ کر اسلامی افکار کی تشریحات و توضیحات پر مشتمل ادب عالیہ کا ایسا ہمہ جہتی ذخیرہ علم و ادب تیار کیا ہے جو کسی بڑے سے بڑے علمی ادارے کے لیے بھی تیار کرنا ممکن نہ تھا ۔ انہوں نے ایک طرف افکار کی دنیا میں غیر اسلامی نظریات کو ہر ہر گوشہ فکر میں چیلنج کیا تو دوسری طرف انسانی اجتماعی زندگی کی اصلاح کے لیے عملی طور پر ایک ایسی زبردست نظریاتی اسلامی تحریک اٹھا کھڑی کی جو ملکی سرحدوں سے نکل کر پوری دنیا میں اپنے افکار و اعمال صالحہ کے ساتھ پھیل گئی۔ مولانا مودودی کا یہ فکری اور عملی کام اس نوعیت کا ہے کہ ہمیں اس نوعیت کا جامع کام ماضی کی کئی صدیوں میں دور دور تک دکھائی نہیں دیتا۔
اس کتابچہ میں مولانا مودودی کی وہ تقریر بھی شامل ہے جو انہوں نے علمی تحقیقات کے لیے قائم کردہ ایک ادارے "معارف اسلامی" کا افتتاح کرتے ہوئے ۲۲ ستمبر ۱۹۶۳ء کو کراچی میں ارشاد فرمائی تھی ۔ انہوں نے اس تقریر میں تحقیقات کی اہمیت ، ضرورت، نوعیت اور اس کے مختلف ضروری مدارج کی ترتیب کا ذکر فرمایا ہے، جس سے کام کرنے والوں کے سامنے کام کا ایک واضح اور جامع نقشہ اور اس کی ترتیب کار آجاتی ہے۔
انہوں نے ثابت کیا ہے کہ علمی تحقیقات محض کوئی شعبہ جاتی کام نہیں ہے بلکہ تہذیبوں کے ارتقاء اور قوموں کے عروج و زوال کا دار و مدار انہیں علمی تحقیقات پر ہے اور جو قومیں اس میدان سے پیچھے ہٹ جاتی ہیں، وہ در حقیقت دنیا کی رہنمائی و قیادت کے مقام سے پیچھے ہٹ کر پسماندگی، غلامی اور بالآخر فنا کے مقام کی طرف چلی جاتی ہیں ۔ حرکت، زندگی، پیش قدمی اور غلبہ کے لیے طبعی معلومات کی فراہمی اور انہیں اپنے افکار و نظریات کے مطابق ترتیب و تشکیل دینا ہے ۔
آخر میں انہوں نے مختلف زبانوں میں تبلیغی لٹریچر کی تیاری کی اہمیت پر بھی گفتگو کی ہے۔ یہ حقیقت گزرنے والے ہر دن کے ساتھ ساتھ روشن سے روشن تر ہوتی چلی جا رہی ہے کہ سرمایہ داری اور اشتراکیت کی طرف سے انسان کی مایوسی کے بعد اسے ایک نئے نظریے کی تلاش لاحق ہے جو اسلام کے بغیر دوسرا کوئی نظریہ ممکن نہیں ہے، لیکن اسلام کو دنیا کے سامنے اس کے فہم و دانش اور ضرورت کے مطابق پیش کرنے کا مسئلہ اس کے تبلیغی مسائل میں سب سے اہم مسئلہ ہے۔
ظاہر ہے کہ اسلام کے دور جمود کا قدیم لٹریچر اس کام کے لیے مفید نہیں ہے اور اگر مستقبل کا مذہب انسانیت اسلام ہی ہے تو پھر انسانیت کو دور حاضر کے حالات میں اسلام سے روشناس کرانا انتہائی ضروری ہے ۔ اس کے لیے مخصوص طرز کا تبلیغی لٹریچر تیار کرنے کی ضرورت ہے جو مختصر ہو، جامع ہو، عام فہم اور سہل ہو، براہ راست اسلام کے عقائد و نظریات کو پیش کرے، دور جمود کی فرقہ بندی کی آلائشوں سے پاک ہو اور دماغ کو استدلال سے اور دل کو اس کے فطری جذبات کے مطابق اپیل کرنے والا ہو ۔
ان مسلمانوں کے لیے بھی لٹریچر کی ضرورت ہے جو غیر اسلامی افکار سے مرغوب ہو کر اسلام کو ان کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں ۔
ان مسلمانوں کے لیے بھی اسلامی لٹریچر کی ضرورت ہے جو اسلام سے بے بہر ہیں۔
ان نو مسلموں کے لیے بھی لٹریچر کی ضرورت ہے جو نئے نئے اسلام میں داخل ہو رہے ہیں اور اسلام کی معلومات بالکل نہیں رکھتے ۔
ان غیر مسلموں کے لیے بھی لٹریچر کی ضرورت ہے جو اسلام کے بارے میں یا تو معلومات نہیں رکھتے یا پھر یک طرفہ غلط معلومات رکھتے ہیں ۔
ظاہر ہے کہ ان چاروں اقسام کے لوگوں کے لیے علیحدہ علیحدہ نوعیت کا لٹریچر درکار ہے ۔
مولانا مودودی ایک عظیم مفکر اور مبلغ اسلام کی حیثیت سے یہ سارا نقشہ اپنے ذہن میں رکھتے تھے جس کا اجمالی سا خاکہ انہوں نے اپنی اس تقریر میں پیش کر دیا ہے ۔ یہ کام صرف ایک فرد کے سرانجام دینے کا نہیں ہے بلکہ یہ عظیم عملی منصوبہ کسی ایک یا دو علمی اداروں کے بھی بس کا کام نہیں ہے ۔ اس نقشے کو سامنے رکھ کر جتنے بھی ادارے وجود میں آئیں اور اس سمت میں کام کو آگے بڑھائیں اسی قدر منزل قریب آ سکتی ہے ۔ اس کام کے لیے پوری قوم کے اہل علم جاگیں، سارے اہل علم اپنی ساری قوت، صلاحیت اور ذوق کے مطابق اس کام کے مجموعی نقشہ میں سے اپنی پسند اور حصے کا منصوبہ لے کر اس پر کام کریں۔ متعدد ادارے علمی اور تبلیغی وجود میں آئیں ۔ پھر وہ کام مسلسل اور پیہم ہو اور مدت تک ہوتا رہے، تب کہیں جا کر ایک قوم زندگی، حرکت اور فکری ارتقاء کے میدان میں قدم رکھتی ہے اور اپنا مستقبل خود بنانے سے لے کر دنیا کی رہنمائی کے مقام تک پہنچتی ہے۔
قوموں کے عروج و زوال میں جہاں علمی تحقیقات کے اثرات نمایاں ہوتے ہیں وہاں ان کے نظام تعلیم کے اثرات بھی نمایاں کردار ادا کرتے ہیں ۔ غلامانہ نظام ہائے تعلیم اوپری سطح پر صرف نوشت و خواند سکھاتے ہیں اور روزگار معاش کے لیے منشی تیار کرتے ہیں، ان میں تحقیق و جستجو کا دخل نہیں ہوتا۔ تحقیق و جستجو ترقی یافتہ، آزاد اور فاتح قوموں کا کام ہوتا ہے۔ معاش کے لیے نوشت و خواند کا حصول غلام قوموں کا شیوہ رہا ہے، اس لیے نظام تعلیم کا بھی گہرا تعلق علمی تحقیقات اور قوموں کے عروج و زوال سے ہوتا ہے۔ اس لیے ہم مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کا ایسا ہی ایک خطبہ اس کتابچے میں جمع کر رہے ہیں جو نظام تعلیم کے عنوان کے تحت انہوں نے دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنو میں پیش فرمایا تھا اور جو اپنی معنویت اور فکر انگیزی میں علمی تحقیقات والے خطاب سے بہت کچھ ہم آہنگ ہے۔ اب ان دونوں کے یکجا مطالعہ سے قوموں کے عروج و زوال میں علمی تحقیقات کا کردار نمایاں ہوکر سامنے آجائے گا۔
آخر میں "ایک اسلامی یونیورسٹی کا نقشہ" کے عنوان سے مولانا کا ایک مقالہ بھی شامل کیا جا رہا ہے، جس میں طلبہ کے لیے ایسا نصاب اور تربیت کے اہتمام پر زور دیا ہے، جس کے ذریعے ایسے صالح علماء تیار ہوسکیں جو اس دور جدید میں ٹھیک ٹھیک دین حق کے مطابق دنیا کی رہنمائی کرنے کے لائق ہوں اور بالآخر امت مسلمہ منصب امامت پر فائز ہو سکے ۔
سید اسعد گیلانی
منصورہ، لاہور
وقت کی اہم ترین ضرورت
دنیائے اسلام کے اہل فکر میں اس وقت یہ عام احساس پایا جاتا ہے کہ ہم اپنی تاریخ کے شدید ترین دور اضطراب سے دوچار ہیں ۔ ایک طرف نئے مسلمان ملک آزادی سے ہم کنار ہو رہے ہیں اور آزادی اپنے جلو میں تعمیر نو کے مسائل کا ایک نجوم لیے ہوئے آگرہی ہے۔ دوسری طرف مغرب کا ذہنی، فکری اور ثقافتی غلبہ اپنی انتہا کو پہنچا جا رہا ہے۔ نوجوانوں کے ذہن شک و تردد کی آماجگاہ بنے ہوئے ہیں ۔ مغربیت زدہ تعلیم کی نسلوں کو ہماری ملی روایات اور تہذیبی ورثہ سے کاٹ کر ہمارے معاشرے کی بیخ کنی کر رہی ہے ۔ جدید فلسفہ اور سائنس کے حملوں نے ذہنی اطمینان اور قلبی سکون کو پامال کر دیا ہے اور قوم کے ذہین و فعال طبقے عقیدہ و عمل دونوں کے اعتبار سے نیم مسلمان، بلکہ بعض حالات میں نامسلمان بنتے جا رہے ہیں ۔ آج ہماری حالت اس جہاز کی سی ہے جس کے سامنے ایک عظیم سفر کے امکانات ہوں، لیکن جس کے لنگر ٹوٹ چکے ہوں ۔ آج ہم اس قافلہ کی طرح ہیں جس کے پاس جو ان ہمتیں تو ہوں مگر جو منزل کا پتہ بھول گیا ہو۔ تاریخ نے ہمیں اس مقام پر لاکھڑا کیا ہے جہاں ۵۲ کروڑ مسلمانوں کی یہ عظیم جمعیت اپنی ۳۴ آزاد مملکتوں کے ذریعہ ایک بے مثال عالمی کردار ادا کر سکتی ہے، لیکن اپنی اندرونی کمزوری، ذہنی غلامی اور فکری انتشار کی وجہ سے وقت کے اس چیلنج کا مردانہ وار جواب دینے کے بجائے محض گھبراہٹ اور سراسیمگی کا شکار ہے۔ تاریخ نے آج مسلمانوں کو اس عظیم آزمائش میں ڈال دیا ہے کہ ہم دور جدید کا مقابلہ کرنے کے لیے اٹھ سکتے ہیں یا نہیں ۔ صحیح حکمت عملی اور دانشمندانہ جدوجہد کے ذریعے ہم تاریخ کا رخ بدل سکتے ہیں اور ایک نئے دور کے بانی بن سکتے ہیں، لیکن اگر فکر و دانش کی کمزوری اور تدبیر کی غلطی کے باعث سیلاب مخالف میں ہمارے قدم اکھڑ جائیں تو پھر ہم خس و خاشاک کی طرح بہہ جائیں گے اور بعید نہیں کہ ایک مسلم ملت کی حیثیت سے ہمارا نام و نشان بھی باقی نہ رہے ۔
وقت کے اس چیلنج کا مقابلہ جن محاذوں پر کیا جانا ہے ان میں سے ایک اہم ترین محاذ علم و ادب اور فکر و فن کا میدان ہے ۔ یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ انسانی زندگی میں افکار و نظریات کو حکمران قوت حاصل ہے ۔ جس طرح انسان کے جسم میں دماغ کی حیثیت حکمران کی ہے اور تمام اعضاء و جوارح اس کے احکام کی اطاعت کرتے ہیں، اسی طرح ایک نظام تہذیب میں افکار و نظریات اور عقائد و خیالات رہنما قوت ہوتے ہیں اور تمام معاشی، سیاسی اور عمرانی امور اسی کے زیر اثر چلتے ہوتے ہیں۔ وہی زمانے کا مزاج بناتی ہے ، وہی خیر و شر کے پیمانے مقرر کرتی ہے ، وہی اقدار اور معیارات دیتی ہے، اسی سے سوچنے کے انداز، غور وفکر کے زاویے اور عمل کے ضابطے مقرر ہوتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام اپنی اصلاحی دعوت کا آغاز ایمان سے کرتا ہے اور پوری زندگی کی اصلاح کو ایمان کی اصلاح سے وابستہ کرتا ہے ۔ آج جس بنا پر صورت حال سب سے زیادہ تشویشناک ہو گئی ہے وہ یہ ہے کہ بگاڑ صرف ماحول ہی میں نہیں ہے بلکہ ایمان مضمحل ہو رہا ہے ۔ مغرب کے فکری استیلاء کا سب سے بڑا نشانہ ایمان اور عقائد ہی ہیں ۔
پچھلی چند صدیوں سے مغربی فکر و فلسفہ کے ذریعے مسلمانوں کے ایمان پر تیشہ چلایا جا رہا ہے، ان کے افکار و نظریات کو ہدف بنایا جا رہا ہے، ان کے دل و دماغ کو مسموم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، اور اب یہ کوششیں اپنے نتائج بھی ہمارے سامنے لارہی ہیں۔ یہ حملہ فلسفہ اور سائنس کے ہتھیاروں سے بھی کیا جا رہا ہے اور تعلیم و تربیت کے اسلحہ سے بھی ۔ اس جنگ میں پروپیگنڈا، نشر و اشاعت اور اثر و نفوذ کے تمام ذرائع کو استعمال کیا جا رہا ہے ۔ اخبارات و رسائل، پریس اور ریڈیو ٹیلی ویژن اور تقریر و تحریر کا ہر حربہ اس مقصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے اور اس کا توڑ کرنے کے لیے گو محدود کوششیں تو ہوتی رہی ہیں، لیکن منظم اور ہمہ گیر جدوجہد کا فقدان ہے۔
ضرورت ہے کہ :
۱- اسلام کے فلسفہ زندگی اور اس کے نظام حیات کا تحقیقی مطالعہ کیا جائے اور اس کی تعلیمات کو عقلی دلائل کے ساتھ آج کی زبان میں پیش کیا جائے تاکہ اسلام کی شاہراہ مستقیم بالکل واضح اور نمایاں ہو کر سامنے آجائے اور مختلف ذہنی سطح کے لوگ اس کو اچھی طرح سمجھ بھی لیں اور اس پر ان کے دل بھی مطمئن ہو جائیں ۔ ہماری مشکلات کا بڑا سرچشمہ جہل اور لاعلمی ہے ۔ اسلام کا علمی سرمایہ جن زبانوں میں ہے، ان تک ہماری نئی نسلوں کی رسائی نہیں اور جن اصطلاحات میں ہے اس سے آج کے لوگ نامانوس ہو گئے ہیں ۔ اگر اسلام کی حقیقی تعلیمات کو آج کی زبان میں مختلف علمی سطحوں پر لوگوں کے سامنے پیش کر دیا جائے تو دین سے انحراف اور مغرب کی غلامی کا ایک بڑا سبب دور ہو جائے گا اور اسلامی نشاۃ ثانیہ کی بنیادیں مستحکم ہو جائیں گی ۔
۲- مغربی علوم و فنون اور نظام تہذیب و تمدن کا تنقیدی جائزہ لیا جائے ۔ علم جدید کے پورے سرمایہ کا کھلی آنکھوں اور ناقدانہ ذہن کے ساتھ مطالعہ کیا جائے اور بتایا جائے کہ اس میں کیا کچھ غلط اور قابل ترک ہے اور کیا کچھ صحیح اور قابل اخذ ۔ یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ خود مغرب کی ذہنی ترقی مسلمانوں کے اثرات کی پیدا کردہ ہے، لیکن ایک غلط نظام تہذیب اور خالص مادہ پرستانہ زاویہ نظر نے علوم و فنون کی ترقی کو بالکل غلط رخ دے دیا ، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ فکر و فلسفہ کا عمومی مزاج زہر آلود ہو گیا ہے اور وہ اپنی صحیح نہج پر ترقی نہیں کر رہا ہے ۔ آج کی بہت بڑی ضرورت یہ ہے کہ غلامانہ ذہنیت ترک کر کے مغربی افکار کا مطالعہ کیا جائے ، اس کی غلطیوں کو صاف الفاظ میں بیان کیا جائے اور جو کچھ اس میں صحیح ہے اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے تمام علوم کو اسلام کی دی ہوئی اقدار پر مرتب اور مدون کیا جائے اور صحیح سمت میں ان کو ترقی دی جائے ۔ اسلام کا نقطہ نظر بڑا وسیع ہے ۔ وہ تمام علوم و فنون کی ترقی چاہتا ہے اور اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ یہ ترقی صحیح بنیادوں پر اور صحیح سمت میں ہو ۔
۳- آج کی دنیا میں جو مسائل پیدا ہوئے ہیں ، خصوصیت سے معیشت، معاشرت، سیاست اور قانون کے میدانوں میں جو نئی پیچیدگیاں رونما ہوئی ہیں ، ان کا مطالعہ بیدار ذہن کے ساتھ اور بالغ نظری کے ساتھ کیا جائے اور پوری وضاحت کے ساتھ بتایا جائے کہ اسلام کے اصولوں کو زمانہ حال کے مسائل و معاملات پر منطبق کر کے ایک صالح اور ترقی پذیر تمدن کی تعمیر کس طرح ہو سکتی ہے اور اس میں ایک ایک شعبہ زندگی کا عملی نقشہ کیا ہوگا ۔ اسلامی اصولوں کی روشنی میں آج کا سیاسی نظام کیا ہوگا، معیشت کا ڈھانچہ کیسے بنے گا، سود کیونکر ختم کیا جا سکے گا، اخلاقی اور معاشی ترقی میں مطابقت کس طرح پیدا کی جائے گی ، قانون تجارت ، قانون فوجداری ، قانون شہادت وغیرہ کی شکل کیا بنے گی، بین الاقوامی سیاست کے ضابطے کیا ہوں گے، معاشرتی زندگی کی گتھیوں کو کس طرح سلجھایا جائے گا ؟ غرض جو عملی مسائل آج مسلم معاشرہ کو درپیش ہیں، انہیں اسلام کی رہنمائی میں کس طرح حل کیا جا سکتا ہے ۔ اس طرح خیالات کو بدلنے کے ساتھ ساتھ زندگیوں کے رخ کو تبدیل کیا جا سکے گا اور تہذیبی نظام قائم ہو سکے گا جو اسلام قائم کرنا چاہتا ہے ۔
یہ کام آج وقت کی اہم ترین ضرورت ہے ۔ خدا ان نیک بندوں اور اجتماعی تحریکوں پر اپنی رحمتوں کی بارش کرے جنہوں نے اس کام کو انجام دینے کی کوشش کی ہے اور ذہنی غلامی کے اس سیلاب کے آگے بند باندھے ہیں ۔ لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کام کو منظم طریقے پر اور ایک وسیع پیمانے پر انجام دیا جائے ، ایسے ادارے قائم کیے جائیں جو اپنی ساری قوتوں اور توانائیوں کو اس علمی اور فکری جہاد کے لیے صرف کر دیں، اعلیٰ صلاحیت والے نوجوانوں کی ایک کھیپ اٹھے جو اپنی زندگیوں کو اس عظیم کام کے لیے وقف کر دے، دوسری تمام چیزوں سے اپنی نگاہیں ہٹا کر صرف اسلام کی خدمت کو اپنا مشغلہ حیات (career) بنا لے اور اس کے لیے اپنی زندگیوں کو تیاگ دے ۔
مکمل تعلیمی انقلاب کی منفرد آواز
کسی قوم کی حقیقی آزادی کا نقطہ آغاز در اصل باہر کے مسلط کردہ نظریات و تصورات کے سلاسل و اغلال سے اُس کے ایمان و فکر کا آزاد ہونا ہے ۔ بیرونی سیاسی استیلا کے خاتمے اور سامراجی طاقت سے نجات پالینے سے تو محض اس امر کا موقع پیدا ہوتا ہے کہ آزادی کی سمت میں گامزن ہونے والی قوم خارجی مداخلت کے اندیشے سے فارغ ہو کر اپنے جہانِ افکار کو تعمیر کر سکے ، اپنے قومی تشخص کو اس کے مخصوص تہذیبی خدوخال کے ساتھ تاریخی حوادث کے اس ملبے سے نکال کر اور گرد و غبار سے پاک کر کے از سر نو استوار کر سکے جس کے تو دے کے تو دے سامراجی یلغار کے نتیجے میں معاشرے کے ہر گوشے میں نمودار ہو جایا کرتے ہیں ۔ مگر ہم لوگ جنہیں اللہ کے فضل و کرم سے برطانوی شہنشاہیت اور اس کے سائے میں پال پوس کر ہمیں دبوچ لینے کی تیاری کرنے والے بریٹیش مہاجنی سامراج سے نجات پائے آج ۲۹ سال پورے ہونے کو ہیں ، اب تک ہمارے معاشرے کے افق سے ایمان و فکر کا خورشید زندگی افروز طلوع نہیں ہوا ۔ ابھی ہم حقیقی آزادی کے اس نقطہ آغاز تک پہنچنے کے لیے نت نئے راہزنوں کا دامن تھام کر خوف اور محرومیوں کی وادی میں ٹامک ٹوٹیے مارتے پھرتے ہیں ۔
ہماری ۲۹ ساله داستان آزادی کتنی دُکھ بھری ہے ! اس مدت میں ہمارے سروں سے کبھی خون کی موجیں گزرگئیں اور کبھی آگ کی لہریں، یہاں تک کہ بہار نو تشکیل پا کر وطن دو لخت ہو کر رہ گیا ۔
تعمیر معاشرہ میں تعلیم کی اہمیت :
در اصل ایمان و فکر کو کسی بھی نقشے پر نشود نما دینے میں کسی قوم کے نظام تعلیم کو بہت ہی مؤثر دخل حاصل ہوتا ہے ۔ نظام تعلیم ہی نئی نسلوں کو کسی بلند نصب العین کی طرف پرواز کرنے کے لیے فکر و حکمت کے بال و پر دیتا ہے ۔ مگر ہماری مصیبت یہ ہوئی کہ ہم آزادی کے ۲۹ سال گزار کر بھی رخصت ہو جانے والی سامراجی قوت کے بنائے ہوئے اس تعلیمی قفس میں گرفتار ہیں، جس کی شان ہی یہ رہی ہے کہ نہ وہ بال و پر اُگنے دیتا ہے اور نہ ذوق پرواز ہی سے اپنے پروردگان کو بہرہ مند ہونے دیتا ہے ۔ یہ قفس تعلیم نہ جانے کیوں ایک ایسی مقدس میراث قرار پا گیا ہے کہ اس میں اب تک معمولی قسم کے رد و بدل سے آگے بڑھ کر کسی حکمراں قوت نے یہ سوچنے تک کی جرات نہیں کی کہ اس قفس کو توڑ کر ملت کا اپنا ایک آزاد نشین وجود میں لایا جائے ۔ دوسرے لفظوں میں ہم تعلیمی غلامی سے نجات پانے کے قابل نہیں ہو سکے ۔
قومی زندگی میں نظام تعلیم کی وہی حیثیت ہے جو فرد کے لیے اس کے دماغ کی ہوتی ہے۔ اگر دماغ کسی ساحر کی ساحری اور کسی سامری کے ظلم کا شکار ہو جائے تو فرد کی ساری حرکات و سکنات اسی کے منشا کے مطابق نمودار ہوں گی ، خواہ وہ اپنی جگہ یہ سمجھتا ہے کہ وہ اپنی آزاد سوچ سے ہر اقدام کر رہا ہے۔ اگر اس کے اپنے دینی اور ملی اور خاندانی رجحانات کے خلاف متضاد قسم کے تہذیبی افکار و تصورات اس کے دماغ میں فاتحانہ شان سے گھس کر مستقل محاذ آرائی کی کیفیت پیدا کر دیں تو اس کے عقیدے اور اقدار ہر لمحہ ایک ایسی جنگ مسلسل سے دو چار رہیں گے جس میں روز اس کے اصول و روایات میں سے کچھ موت کے گھاٹ اُتر جاتے ہیں اور کچھ زخمی اور اپاہج ہو کے رہ جاتے ہیں ۔ ایسی صورت میں پراگندگی افکار اور ذہنی انتشار کے روگ سے کوئی بچاؤ نہیں ۔ ایسے ہی تضادات کے غیر مختم تصادم کی وجہ سے بسا اوقات دماغ بالکل ہی چل جاتا ہے اور پھر جسم و اعضا کی تمام حرکات لا یعنی بلکہ تخریبی ہو کے رہ جاتی ہیں ۔ ٹھیک اسی طرح اگر ایک قوم کا نظام تعلیم فساد و اختلال کی کسی بھی خاص صورت کا شکار ہو جائے تو اس قوم کی تمام سیاسی، معاشی اور ثقافتی سرگرمیوں میں بگاڑ اور مضر پیدا ہو جاتا ہے۔
نظام تعلیم جو مسلط ہے :
بد قسمتی سے ہم جس نظام تعلیم سے دوچار ہیں وہ ہمارے قومی وجود اور تہذیبی تشخص سے غیر ہم آہنگ اور ہر لحظہ بر سر تصادم ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ معاشرے کے کسی بھی شعبے کی کل سیدھی نہیں اور جو پہلے کچھ سیدھی تھی بھی وہ بھی روز بروز ٹیڑھی ہوتی جارہی ہے۔ لیکن کارفرما قوتوں نے کبھی تعلیم کے بنیادی نقطے پر صحیح طور پر توجہ ہی نہیں دی ۔
ہماری متذکرہ بنیادی قومی کوتاہی کے نتائج بد کی فصل ہمارے چاروں طرف لہلہا رہی ہے۔ ذہنی بانجھ پن ، لا مقصدیت ، جعل سازی، خیانت، ضمیر فروشی، ناشائستگی، قانون شکنی، بے ضابطگی، ہوس پرستی اور بخش پسندی کے روگ کتنے عام ہیں۔ اخلاقی کوڑھ میں اضافہ کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ ہر شخص کام کے بغیر یا قلیل وقت میں کم کام کر کے جلد از جلد بہت کچھ حاصل کر لینے کے درپے ہے ۔ انفرادی اور قومی آمدنیوں کی افزائش سے پہلے معیار زندگی کو اونچا کرتے جانے کا ماحصل اس کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے کہ جائز وناجائز کی تمیز اٹھ جائے ۔ حد یہ ہے کہ لوگ قوم کو بے وقوف بنا کر اور قومی مفاد کو بیچ کر ذاتی زندگی کی جنتیں آراستہ کرتے ہیں۔ یہ خرابی احوال تعلیم کی توسیع کے ساتھ ساتھ تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اس وجہ سے اس کی زیادہ تر ذمہ داری نظام تعلیم پر جاتی ہے۔ راقم کا مدعا یہ ہے کہ تعلیم کا قوم کا بے حد اہم اور بالکل اہم مسئلہ ہے اور اس پر توجہ نہ دی جائے تو سارا معاشرہ بے فیض ہو کے رہ جاتا ہے ۔
مولانا مودودی کے تعلیمی افکار پر تحقیقی کام :
ہماری تاریخ میں اپنے وقت کے حالات کو ملحوظ رکھ کر سرسید ایک تعلیمی اسکیم لے کر اُٹھے تھے ، لیکن اس اسکیم کا جو وقتی مقصد تھا وہ اپنے اچھے اور بڑے پہلوؤں کے ساتھ حاصل ہو چکا، اور اب دور آزادی میں ایک آزاد مسلم ریاست کے لیے وہ اسکیم ذرہ بھر کار آمد نہیں رہی ۔
اس بر صغیر میں آزادی ملنے سے کچھ عرصہ پہلے صحیح اسلامی زاویہ نگاہ سے پہلی بار ایک مکمل تعلیمی انقلاب کی آواز اٹھی ۔ یہ مولانا مودودی کی آواز تھی ۔ صرف آواز ہی نہیں اُٹھی، بلکہ آہستہ آہستہ مولانا نے اپنی تحریروں اور تقریروں میں ایک جامع حکمت تعلیم ، اس پر عمل پیرا ہونے کی اسکیم اور اس کے لیے نصابیات وغیرہ مسائل پر اتنا مواد ہمارے سامنے رکھ دیا کہ اگر مولانا مودودی اور کوئی کام نہ کرتے تو یہی ایک کارنامہ انہیں ہماری تاریخ کی ایک عظیم شخصیت بنانے کے لیے کافی تھا۔
مولانا مودودی ماضی سے لے کر حال تک پھیلی ہوئی اس صف رجال میں سے ہیں جس کے ہر فرد کا سانحہ یہ ہے کہ اس کے سرچشمہ علم سے استفادہ کرنے والے مخلصین کے مقابلے میں اس پر کیچڑ پھینکنے والوں کا انبوہ ہمیشہ کثیر التعداد رہا ہے۔ دراصل زمانہ ہر اس شخص سے انتقام لیتا ہے جو اس کے دھارے کا رُخ بدلنے کی سعی کرے۔ مولانا مودودی نے یہ انقلابی سعی نہ صرف تعلیم کے دائرے میں کی بلکہ دینی شعور و حکمت کے دائرے میں، سیاست و اقتصادیات کے دائرے میں، معاشرت و ثقافت کے دائرے میں اور دستور و قانون کے دائرے میں بھی پر زور طریق سے جاری رکھی۔ اتنے بڑے جرم کی کچھ تو پاداش ہونی چاہیے تھی ، مگر معاندین و حاسدین کے اُٹھائے ہوئے طوفانوں کے درمیان قوم کے کچھ ذہین عناصر آہستہ آہستہ مولانا مودودی کے پیغام کے خدوخال پہچاننے لگے اور ان کے افکار سے استفادہ کرنے والوں کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا۔
ہر نظام تعلیم کسی نہ کسی تہذیب کا خادم ہوتا ہے :
سب سے پہلے ہمیں گزشتہ پچاس سال سے نشو و نما پائی ہوئی تاریخ کی وسعتوں میں تعلیمی انقلاب کے داعی کی حیثیت کو مشخص کر لینا چاہیے ۔ اس طرح ان کے افکار و اصطلاحات کو سمجھنا سہل تر ہو جائے گا ۔
اصل میں مولانا مودودی مسلمانوں کے خلاف مغرب کی ملحدانہ و نفس پرستانہ تہذیب کی بڑھتی ہوئی فتوحات کے دور میں اُٹھے اور انہوں نے اس انسانیت کش اور اسلام دشمن تہذیب کی مزاحمت کا مجاہدانہ عزم باندھا اور کچلی پسی ہوئی مسلمان قوم کے اندر سے بیدار دل، زندہ ضمیر اور محکم ایمان افراد کی بچی کھچی تعداد کو اپنی دردمندانہ پکار سے اُٹھا کر ایک محاذ پر لاکھڑا کیا ۔
کوئی شخص جو اپنی تہذیب کے احیاء اور بیرونی تہذیب کی مزاحمت کے لیے اُٹھا ہو، وہ اگر نظام تعلیم کے مسئلے سے تعرض نہ کرے تو اس کا شعور کیسے قابل اعتماد ہو سکتا ہے۔ چنانچہ مولانا نے جہاں اعتقادی، اخلاقی، سیاسی، اقتصادی اور معاشرتی موضوعات کو نئے انداز سے چھیڑا، وہاں انہوں نے مروجہ نظام تعلیم کو اپنی شدید تنقید کا ہدف بنایا اور اسلامی حکمت تعلیم کے خطوط اچھی طرح اُجاگر کیے۔ اس سلسلے میں بنیادی کام تو حصول آزادی اور تشکیل پاکستان سے پہلے ہی ہو چکا تھا۔ مگر پاکستان چونکہ بھاری مسلم اکثریت کی مملکت بنا اور اس کو اسلام کے نام پر استوار کیا گیا ، اس وجہ سے تعلیم کی بحث کو مولانا مودودی نے اور بھی زور سے آگے بڑھایا ، یہاں تک کہ اب اسلامی نظام تعلیم کا مکمل تصور ان کے آئینہ افکار میں صاف دکھائی دیتا ہے۔
متذکرہ سطور کی تائید میں میں مولانا مودودی کے چند الفاظ یہاں درج کر رہا ہوں جن سے صاف عیاں ہے کہ مسئلہ تعلیم کو مولانا تہذیبی زاویہ نگاہ سے دیکھتے ہیں :
ہر یونیورسٹی کسی کلچر کی خادم ہوتی ہے۔ ایسی مجرد تعلیم جو ہر رنگ اور ہر صورت سے خالی ہو ، نہ آج تک دنیا کی کسی درس گاہ میں دی گئی ہے نہ آج دی جا رہی ہے۔ ہر درس گاہ کی تعلیم ایک خاص رنگ اور ایک خاص صورت میں ہوتی ہے اور اس رنگ و صورت کا انتخاب پورے غور و فکر کے بعد اس مخصوص کلچر کی مناسبت سے کیا جاتا ہے جس کی خدمت وہ کرنا چاہتی ہے ۔
اس موضوع پر میرا مطالعہ اگر قابل اعتماد حد تک جامع ہوتا تو میں حتمی طور پر دعوی کرتا کہ تعلیم کو ہمارے یہاں مولانا سے پہلے کسی شخص نے اس واضح سائنٹفک نظریے سے نہیں دیکھا اور تعلیم و تہذیب یا کلچر سے ربط با ہم کو یوں نمایاں نہیں کیا۔
کچھ اقتباس اور :
ترقی علم و تمدن کے موجب فلاح یا موجب ہلاکت ہونے کا تمام تر انحصار اس تہذیب پر ہے جس کے زیر اثر علوم و فنون اور تمدن و حضارت کا ارتقاء ہوتا ہے ۔ اور یہ تمام تر انسانی مساعی کا مقصد اور حاصل شدہ قوتوں کا مصرف متعین کرنے والی چیز در اصل تہذیب ہے ۔
حقیقت میں تعلیم کا مسئلہ ایک مملکت کے بنیادی مسائل میں سے ہے .... اس کے سربراہ کاروں کو سب سے پہلے اس کی فکر ہونی چاہیے تھی ۔
اب اگر ہم اپنی ایک کلچر رکھتے ہیں، ہم ایک ایسی قوم ہیں جس کے اپنے کچھ عقائد ہیں، جس کا اپنا ایک نظریہ زندگی ہے جس کا اپنا ایک نصب العین ہے، جو اپنی زندگی کے کچھ اصول رکھتی ہے تو لازماً ہمیں اپنی نسلوں کو اس غرض کے لیے تیار کرنا چاہیے کہ وہ ہماری اسی کلچر کو نہ صرف یہ کہ زندہ رکھیں بلکہ آگے انہی بنیادوں پر اسے ترقی دیں جس پر ہماری یہ کلچر قائم ہے ۔ مجھے کوئی قوم ایسی معلوم نہیں جس نے اپنا نظام تعلیم خالص معروضی بنیادوں پر قائم کیا ہو اور اپنی نسلوں کو بے رنگ تعلیم دینے کی کوشش کی ہو۔ اس طرح مجھے ایسی بھی کوئی قوم معلوم نہیں ہے جو دوسروں سے ان کا نظام تعلیم جوں کا توں لے لیتی ہو اور اپنی تہذیب کا کوئی رنگ اس میں شامل کیسے بغیر اسی سانچے میں اپنی نئی نسلوں کو ڈھالتی چلی جاتی ہو ۔
مولانا مودودی نے "تعلیمات" میں وہ چار وجوہ بیان کیے ہیں جن کی بنا پر موصوف انقلاب تعلیم کو لازم گردانتے ہیں۔ یہاں ہم دوبارہ درج نہیں کر رہے، بس واضح یہ کرنا مقصود ہے کہ انقلاب تعلیم کی اصطلاح بھی خود موصوف کی وضع کردہ ہے اور ان کے تعلیمی افکار میں اس اصطلاح کا مفہوم مرکزی اہمیت رکھتا ہے۔
تعلیمی نظام میں اسلام اور سائنس کا تعلق :
نہایت اہم گفتگو وہ ہے جو مولانا نے نظام تعلیم کی بحث میں اسلام اور سائنس کے باہمی تعلق کے بارے میں کی ہے۔ اس سے تعلیمی انقلاب کا وہ تصور اجاگر ہو جاتا ہے جس کے علمبردار مولانا مودودی ہیں ۔ ملاحظہ ہو :
بہت سے لوگ اس خیال کو سن کر بڑے پریشان ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ سائنس کا آخر اسلام سے کیا تعلق ، حالانکہ ان کے سامنے روس کی مثال موجود ہے جو سوویٹ سائنس کا قائل ہے۔ کوئی کمیونسٹ اپنے اشتراکی معاشرے کے افراد کو بورژوا سائنس اور بورژوا فلسفہ و تاریخ اور معاشیات و سیاسیات وغیرہ پڑھانا پسند نہیں کرتا ۔ وہ ان سب علوم کو مارکسزم کے رنگ میں رنگ کر پڑھاتا ہے تاکہ اشتراکی سائنس دان اور اشتراکی ماہر علوم پیدا ہوں ۔ بورژوا نقطۂ نظر سے مرتب کیے ہوئے علوم کو پڑھا کر کوئی اشتراکی معاشرہ نہیں بن سکتا ۔
یہ کہنا کہ سائنس تو ایک عالمگیر چیز ہے ، اس کا کسی مذہب سے کوئی تعلق نہیں، فی الواقع بڑی ناسمجھی کی بات ہے۔ سائنس میں ایک چیز تو ہیں حقائق (Facts) اور قوانین فطرت (Natural Laws) جو تجربے اور مشاہدے سے انسان کے علم میں آتے ہیں ۔ یہ بلا شبہ عالمگیر ہیں۔ دوسری چیز ہے وہ ذہن جو ان حقائق اور معلومات کو مرتب کر کے ان پر نظریات قائم کرتا ہے اور وہ زبان جس میں وہ ان کو بیان کرتا ہے ۔ یہ چیز عالمگیر نہیں ہے، بلکہ اس میں ہر تہذیب کے پیروں کا اسلوب الگ الگ ہے اور فطرتاً الگ ہونا چاہیے۔ ہم اس دوسری چیز کو بدلنا چاہتے ہیں نہ کہ پہلی چیز کو ۔
سائنس کے دائرے میں تجربات و مشاہدات تو اس کے ساتھ مفروضات قیاس مل کر کام کرتے ہیں ۔ سائنس کے ایک ایک ذرہ حقیقت کے گرد بالعموم پورا ایک جہان مفروضات تعمیر ہو جاتا ہے اور اصطلاح عام میں یہ سب کچھ سائنس کہلاتا ہے ۔ مولانا نے ایک مثال دے کر مدعا کو واضح تر کر دیا ہے :
مثال کے طور پر دیکھیے ، یہ ایک سائنٹیفک حقیقت ہے کہ دنیا کی تمام دوسری چیزیں تو سرد ہو کر سکڑتی چلی جاتی ہیں ، مگر اس کے برعکس پانی جب سرد ہوتے ہوتے جمنے کے قریب پہنچتا ہے تو پھیل جاتا ہے اور برف بن کر ہلکا ہو جاتا ہے۔ اسی وجہ سے برف سطح آب پر تیرنے لگتی ہے ۔ یہ ایک امر واقعہ ہے ۔ اب ایک شخص اس چیز کو اس طرح بیان کرتا ہے کہ یہ پانی کی خاصیت ہے اور واقعہ ایسا ہوا کرتا ہے ۔ دوسرا شخص اس واقعہ کو اس طرح بیان کرتا ہے کہ خدا نے اپنی حکمت اور ربوبیت سے پانی میں یہ خصو صیت اس لیے رکھی ہے کہ دریاؤں اور تالابوں اور سمندروں میں جاندار مخلوق باقی رہ سکے ۔
دیکھیے ایک ہی امر واقعہ کو دو شخص اپنے اپنے طرز فکر کے مطابق دو مختلف طریقوں سے بیان کرتے ہیں اور ہر ایک کا بیان پڑھنے سے آدمی کے ذہن پر دو مختلف اثرات مرتب ہوتے ہیں۔۔۔ ایک طریقے سے اگر سائنس کو پڑھایا جائے تو اس سے ایک مادہ پرست سائنس دان تیار ہو گا اور دوسرے طریقے سے وہی سائنس پڑھایا جائے تو ایک مسلمان سائنس دان تیار ہو جائے گا ۔
موجودہ سائنس اور اسلامی نقطہ نظر :
مروجہ سائنس جن بنیادی تصورات پر کھڑی ہے ان میں اس سے زیادہ غیر عقلی تصور شاید ہی کوئی ہو کہ سائنس جہانِ مادی پر ایک ایک ذرے پر قانون کی کار فرمائی کا دعویٰ کرتی ہے، لیکن اتنے وسیع و بے پایاں عقلی قانونی نظام کے بارے میں وہ یہ رائے رکھتی ہے کہ اس سارے عقلی نظام قانون نے غیر عقلی اتفاق سے جنم لیا ہے۔ سیدھی بات ہے کہ جہاں قانون ہے وہاں کسی علیم و حکیم قانون ساز کے وجود کو ماننا ہو گا اور قانون کے صحیح طور پر مسلسل چلتے رہنے کے معنی یہ ہیں کہ وہ قانون کو چلانے کے لیے قانون ساز قوت کے ساتھ اقتدار بھی رکھتا ہے۔ لیکن مادہ پرستوں کی مرتب کردہ سائنس کی اتنی بڑی عقلی حماقت کو نظام تعلیم کے واسطے سے ہم مسلمانوں نے بلاکسی رد و قدح کے قبول کر لیا ہے۔ فی الحقیقت سائنس نام ہے اُن مساعی کا جن کے ذریعے ہم خدا کے جاری کردہ طبعی، تکوینی، جسمانی، حیوانی، نفسیاتی اور تاریخی قوانین کو دریافت کرتے ہیں ۔
تعلیمی انقلاب کے داعی نے سائنس کی تعلیم کے بارے میں کلمہ تکمیل کے طور پر کہا ہے کہ:
حقیقت یہ ہے کہ سائنس کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جو انسانوں کے دل میں ایمان کو گہری جڑوں سے راسخ کر دینے والا نہ ہو ۔ فزکس ، بیالوجی، فیزیالوجی، اناٹومی، اسٹرانومی، غرض جس علم کو بھی آپ دیکھیں، اس میں ایسے ایسے حقائق سامنے آتے ہیں جو انسان کو پکا اور سچا مومن بنا دینے کے لیے کافی ہیں۔ یہی تو وہ آیات الہی ہیں جن کی طرف قرآن بار بار توجہ دلاتا ہے۔ مگر صرف اس وجہ سے کہ کافر سائنسدانوں نے ان حقائق کو اپنے نقطۂ نظر سے مرتب اور بیان کیا ہے، ان کو پڑھ کر آدمی مادہ پرست اور ملحد بنتا ہے اور خدا کے تصور پر ہنستا ہے اور اس کا مذاق اڑاتا ہے ۔ ہم بے خدا سائنس اور بے خدا فلسفہ اور بے خدا اجتماعی علوم پڑھ کر خدا پرست انسان تیار نہیں کر سکتے ۔
زیر تحقیق انقلابی نظریہ تعلیم اسلامی فکر کو پورے مضامین و نصابات پر جس طرح غالب و مسلط کر دینا چاہتا ہے ، اس کا اندازہ سائنس کے متعلق متذکرہ اقتباسات سے بخوبی ہو سکتا ہے ۔
نظام تعلیم اور مسئلہ قیادت و امامت :
مولانا مودودی نے ستمبر ۱۹۳۴ء میں لکھا تھا کہ :
دنیا گویا ایک ریل گاڑی ہے جس کو فکر و تحقیق کا انجن چلا رہا ہے ۔
جنوری ۱۹۴۷ء میں دار العلوم ندوۃ العلماء میں انجمن اتحاد طلبا کے سامنے جو خطبہ مولانا نے پڑھا ، اس میں فرمایا کہ :
امامت کا دامن ہمیشہ علم سے وابستہ رہے گا ۔
دنیائے انسانیت کی امامت یا قیادت (Leadership) کے اسی تصورکی بنا پر اسلامی یونیورسٹی کا خاکہ مرتب کرتے ہوئے مولانا نے مقصد تعلیم یہ قرار دیا کہ، وہ ایسے صالح علماء تیار کرے جو اس دور جدید میں ٹھیک ٹھیک دین حق کے مطابق دنیا کی رہنمائی کرنے کے لائق ہوں ۔
اگر میں یہ کہوں تو شاید بات غلط نہ ہو گی کہ تعلیم و امامت کے اس تعلق کی بنا پر ۱۹۴۴ء میں دارالاسلام پٹھانکوٹ کی مجلس تعلیمی کے سامنے موصوف نے صراحت سے کہا تھا کہ :
اس وقت ہمارے ملک میں جتنے نظام ہائے تعلیم رائج ہیں، ان میں سے کوئی بھی اس مقصد کے لیے آدمی تیار نہیں کرتا جو ہمارے پیش نظر ہے ۔ ہمیں صرف یہی نہیں کرنا ہے کہ نو خیز نسلوں کی علمی اور ذہنی تربیت کا انتظام اپنے نصب العین کے مطابق کریں بلکہ اس کے ساتھ ان کی اخلاقی اور ملی تربیت کا بندوبست بھی کرنا ہے ۔
یہاں بات اصل تصور سے کسی قدر محدود شکل میں سامنے آتی ہے۔ اس کی وجہ بھی سن لیجیے :
اس وقت ہم کسی ملک کے انتظام کا چارج نہیں لے رہے ہیں کہ ہمیں اپنے نظام تعلیم میں ان ضرورتوں کے لیے آدمی تیار کرنے ہوں جو ایک ملک کے تمدن کی پوری مشینری کو چلانے میں پیش آتی ہیں۔ ہمارے سامنے اس وقت صرف ایک کام ہے اور وہ یہ ہے کہ دنیا میں اخلاقی، فکری اور عمرانی انقلاب برپا کرنے کے لیے موزوں لیڈر اور کارکن تیار کریں ۔
بہر حال مولانا جس انقلابی دعوت تعلیم کو لے کر اٹھے ہیں ، اس کی رو سے علم و تعلیم اور امامت و قیادت کا پورا دامن کا ساتھ ہے۔ جو قوم تعلیم اور علم و تحقیق میں آگے بڑھتی ہے وہی دوسروں کے لیے پیشرو بنتی ہے اور اس کی تقلید کی جانے لگتی ہے ۔ علم اسے اس فکری و ذہنی استیلا اور سیاسی و اقتصادی فوقیت کا راستہ بنا کے دیتا ہے ۔
اس خاص بحث کے لیے تنقیحات (از مولانا مودودی) کے بیشتر مضامین خصوصا اس کے پہلے مقالے "ہماری ذہنی غلامی اور اس کے اسباب" سے بہت مفید مواد اخذ کیا جا سکتا ہے۔
نشاۃ جدید کی ضرورت :
تعلیم اور امامت کے تعلق کو سامنے رکھ کر نظام تعلیم پر سوچنے کے لحاظ سے بھی مولانا بڑی حد تک منفرد مقام رکھتے ہیں اور پھر اس تعلق کی وضاحت بھی انہوں نے اپنی تحریروں میں بڑے زور بیان سے کی ہے۔
علم برائے امامت عالم کے اسی نظریے کے فریم میں تعلیم کے متعلق ان کی انقلابی فکر نصب ہوئی ہے اور اسی کلمے کی روشنی میں ان کے مختصر سے اس فقرے کا مدعا سمجھ میں آسکتا ہے کہ :
اسلام میں ایک نشاۃ جدید (Renaissance) کی ضرورت ہے ۔
کیونکہ :
پرانے اسلامی مفکرین و محققین کا سرمایہ اب کام نہیں دے سکتا ۔ علم و عمل کے میدان میں وہی رہنمائی کر سکتا ہے جو دنیا کو آگے کی جانب چلائے ، نہ کہ پیچھے کی جانب ۔ لہٰذا اب اگر اسلام دوبارہ دنیا کا رہنما بن سکتا ہے تو اس کی بس ایک صورت ہے کہ مسلمانوں میں ایسے مفکر اور محقق پیدا ہوں جو فکر و نظر اور تحقیق و انکشاف کی قوت سے ان بنیادوں کو ڈھا دیں جس پر مغربی تہذیب کی عمارت قائم ہے ۔
اتنا بڑا معرکہ ہے مولانا کے سامنے ۔ وہ عالمگیر تسلط رکھنے والی مغربی تہذیب کی بنیادیں ڈھا دینا چاہتے ہیں اور اس کے لیے علم و تحقیق اور نظام تعلیم کی قوت کو برسر عمل لانا چاہتے ہیں ۔
مسلم تعلیم گاہوں کا ناقدانہ جائزہ :
مولانا مودودی کی انقلابی تعلیمی فکر کو سمجھنے میں ان کی وہ تنقیدی تحریریں بہت مدد دیتی ہیں جو جدید اور قدیم ہر دو قسم کی علمی مسلم تعلیم گاہوں کی اسکیموں کے اساسی تصورات کا احتساب کرتی ہیں ۔ کسی ڈھانچے کے اندر جامد ذہن کے لوگ تو سکون سے چلتی رو میں بہتے رہتے ہیں اور کسی ڈھانچے کے اندر بعض پسندیدہ اجزا دیکھ کر راضی ہو جاتے ہیں پھر کچھ مصلحین ہوتے ہیں جو اساسیات کو چھیڑے بغیر تفصیلی مظاہر میں دو چار تبدیلیوں کے لیے کوشش کرتے ہیں ۔ لیکن انقلابی ذہن کا آدمی اساسیات اور ڈھانچے کی مجموعی حیثیت کی غلط ساخت پر گرفت کرتا ہے اور اس میں تبدیلی کی دعوت دیتا ہے۔ جدید و قدیم دونوں قسم کی علمی تعلیم گاہوں اور ان کی تعلیمی اسکیموں پر مولانا مودودی نے اسی حیثیت سے ناقدانہ نگاہ ڈالی ہے۔
علی گڑھ یونیورسٹی کا قیام جن اُمنگوں اور آرزوؤں کے ساتھ کیا گیا تھا ان کے لحاظ سے دیکھیں تو یہ تعلیمی مرکز بڑی تاریخی اہمیت کا حامل تھا اور اس کے داعی اول سرسید احمد خاں کے حصے میں یہ کریڈٹ ضرور جاتا ہے کہ وہ مسلم قوم کے ایک خوفناک دور شکست میں فکری لیڈر بن کے ابھرے اور ڈوبتی ہوئی قوم کو بچانے کے لیے جو کچھ بھی ان کی سمجھ میں آیا اس کے لیے جد و جہد شروع کر دی ۔
ان کی مساعی کی قیمت وقتی اور فوری بلکہ اضطراری تدبیر کے لحاظ سے جو ہے سو ہے، مگر ان کی اسکیم نے آگے چل کر کچھ اچھے نتائج کے ساتھ جو بہت سے بڑے نتائج پیدا کیے، ان کا احساس خود سرسید کو بھی ہو گیا تھا ۔ مگر اب جو دریا بہہ نکلا تھا ، اس کا رخ بدلنا ان کے بس میں نہ تھا ، اور نہ ان کے بعد مضطرب ہو کر اصلاحات کرنے والے کوئی موثر اقدام کر سکے ۔ خرابی خود اسکیم کے اندر ایسی تھی کہ اس کے سانچے میں ڈھل کر مسلم تہذیب کی علمبرداری کرنے والے اور مغربی تہذیب کے مفاسد کا مقابلہ کرنے والے دل و دماغ پیدا نہ ہو سکتے تھے ۔
وہ صرف ابتدائی دور تھا جس کے جذباتی ماحول میں چند قابل قدر نمایاں شخصیتیں ابھریں۔ اس کے بعد مسلم قوم پرستوں سے لے کر ملحدوں اور کمیونسٹوں تک کی کھیپیں تیار ہونے لگیں ۔ "مسلم بلا اسلام" یا "افرنگ زدہ مسلم" کا نیا کردار بھی اس اسلامی ادارے نے ڈھالنا شروع کر دیا ۔ اور یہ کردار مسلمانوں کے پیشرو طبقوں میں آج نمایاں دکھائی دیتا ہے اور اس کے کارناموں کے برگ و بار زندگی کے ہر شعبے میں پھیلے ہوئے ملتے ہیں ۔
مولانا کا مطالعہ احوال یہ تھا کہ یہ سب کچھ اتفاقی حادثے کے طور پر نہیں ہو رہا بلکہ علی گڑھ کی تعلیمی اسکیم سے اسی کی توقع کی جاسکتی تھی ۔
علی گڑھ کے نظام تعلیم پر تبصرہ :
آئیے خود مولانا کے الفاظ کے آئینے میں حقیقت کا انعکاس دیکھیں :
علی گڑھ سے جو تعلیمی تحریک اٹھی تھی ، اس کا وقتی مقصد یہ تھا کہ مسلمان اس نئے دور کی ضرورت کے لحاظ سے اپنی دنیا درست کرنے کے قابل ہوں ۔ اس وقت اس سے زیادہ کچھ کرنے کا شاید موقع نہ تھا ... اس وقت اتنی مہلت نہ تھی کہ غور و تفکر کے بعد کوئی ایسی محکم تعلیمی پالیسی متعین کی جاتی جو نقصانات سے پاک اور فوائد سے لبریز ہوتی ... مسلمانوں کو اس طرز تعلیم کی طرف دھکیل دیا گیا جو ملک میں رائج ہو چکا تھا اور خطرات سے بچنے کے لیے کچھ تھوڑا سا عنصر اسلامی تعلیم و تربیت کا بھی رکھ دیا گیا جس کو جدید تعلیم اور جدید تربیت کے ساتھ کوئی مناسبت نہ تھی .... اس تحریک نے ہماری دنیا تو ضرور بنا دی مگر جتنی دنیا بنائی اس سے زیادہ ہمارے دین کو بگاڑ دیا ... اس نے ہم میں کالے فرنگی پیدا کیے ۔ اس نے ہماری قوم کے طبقہ علیا اور طبقہ متوسط کو جو در اصل قوم کے اعضائے رئیسہ ہیں، باطنی اور ظاہری دونوں حیثیتوں سے یورپ کی مادی تہذیب کے ہاتھ فروخت کر دیا ، صرف اتنے معاوضے پر کہ چند عہدے، چند خطاب، چند کرسیاں ایسے لوگوں کو مل جائیں جن کے نام مسلمانوں سے ملتے جلتے ہوں ۔
سوال یہ ہے کہ کیا اب دائما ہماری یہی تعلیمی پالیسی رہنی چاہیے ۔ اگر یہی ہماری پالیسی ہے تو اس کے لیے علی گڑھ کی کوئی ضرورت اب باقی نہیں رہی، ہندوستان کے ہر بڑے مقام پر ایک علی گڑھ موجود ہے ۔
اس تعلیمی پالیسی میں خرابی کی وجہ کیا ہے اس پر بھی مولانا کی رائے سنیے :
آپ ان کو (یعنی نئی نسلوں کو) وہ فلسفہ پڑھاتے ہیں جو کائنات کے مسئلے کو خدا کے بغیر حل کرنا چاہتا ہے ۔ آپ ان کو وہ سائنس پڑھاتے ہیں جو معقولات سے منحرف اور محسوسات کا غلام ہے ۔ آپ ان کو تاریخ ، سیاسیات ، معاشیات اور تمام علوم عمرانی کی وہ تعلیم دیتے ہیں جو اپنے اصول سے لے کر فروع تک اور نظریات سے لے کر عملیات تک اسلام کے نظریات اور اصولِ عمرانی سے یکسر مختلف ہے۔ اس کے بعد کس بنا پر آپ یہ امید رکھتے ہیں کہ ان کی نظر اسلامی نظر ہو گی ، ان کی سیرت اسلامی سیرت ہو گی، ان کی زندگی اسلامی زندگی ہوگی ۔ یہ قدیم طرز پر قرآن و حدیث اور فقہ کی تعلیم اس نئی تعلیم کے ساتھ بے جوڑ ہے ..... اس کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے فرنگی اسٹیمر میں پرانے بادبان محض نمائش کے لیے لگا دیے جائیں ، مگر ان بادبانوں سے فرنگی اسٹیمر قیامت تک اسلامی اسٹیمر نہ بنے گا ۔
چند سطور اور ملاحظہ کیجیے :
اس وقت مسلم یونیورسٹی میں جو طریق تعلیم رائج ہے، وہ تعلیم جدید اور اسلامی تعلیم کی ایک ایسی آمیزش پر مشتمل ہے جس میں کوئی امتزاج اور کوئی ہم آہنگی نہیں ۔ یہ دونوں عنصر نہ صرف ایک دوسرے سے الگ رہتے ہیں بلکہ ایک دوسرے کی مزاحمت کر کے طلبہ کے ذہن کو دو مخالف سمتوں کی طرف کھینچتے ہیں ۔
میری نظر میں مسلم یونیورسٹی کی دینی و دنیاوی تعلیم بہ حیثیت مجموعی بالکل ایسی ہے کہ آپ ایک شخص کو از سرتا پا غیر مسلم بناتے ہیں، پھر اس کی بغل میں دین کی چند کتابوں کا ایک بستہ دے دیتے ہیں ۔
اگر آپ ان حالات اور طرز تعلیم کو بعینہ جاری رکھیں .... تو اس کا حاصل صرف یہ ہو گا کہ فرنگیت اور اسلامیت کی کش مکش زیادہ شدید ہو جائے گی اور ہر طالب علم کا دماغ ایک رزم گاہ بن جائے گا۔
مروجہ نظام تعلیم :
جنوری ۱۹۴۷ء کو دارالعلوم ندوۃ العلماء کے طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے مولانا نے اس تعلیمی ادارے کی اسکیم پر بھی ایک تنقیدی نگاہ ڈالی ۔ فرمایا :
لوگ اس گمان میں ہیں کہ پرانی تعلیم میں خرابی صرف اتنی ہے کہ نصاب بہت پرانا ہو گیا ہے اور اس میں بعض علوم کا عنصر بعض علوم سے کم یا زیا دہ ہے اور جدید زمانہ کے بعض علوم اس میں شامل نہیں ہیں۔ اس لیے اصلاح کی ساری بحث اس حد تک محدود ہو کر رہ جاتی ہے کہ کچھ کتابوں کو نصاب سے خارج کر کے دوسری کتابوں کو داخل کر دیا جائے ..... اور بہت زیادہ روشن خیالی پر جو لوگ اتر آتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ صاحب ہر مولوی کو میٹرک تک انگریزی پڑھ کر نکالو، تاکہ کم ازکم تار پڑھنے اور لکھنے کے قابل تو ہو جائے ۔... اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اگر کچھ ہو سکتا ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ پہلے سے کچھ زیادہ کامیاب قسم کے مولوی پیدا ہو جائیں جو کچھ جرمنی اور امریکہ کی باتیں بھی کرنے لگیں ۔ اس ذراسی اصلاح کا نتیجہ یہ کبھی نہیں نکل سکتا کہ دنیا کی امامت و قیادت کی باگیں علمائے اسلام کے ہاتھ میں آجائیں گے ۔
مولانا کے نزدیک اس تعلیم کا متوقع حاصل بس یہ ہے کہ :
آپ گھٹیا قسم کے نرسی، بڑھیا قسم کے مقتدی بن جائیں، امامت بہر حال آپ کو نہیں مل سکتی۔ اس وقت تک جتنی اصلاحی تجویزیں میری نظر سے گزری ہیں وہ سب کی سب بہتر مقتدی بنانے والی ہیں ، امام بنانے والی کوئی تجویز ابھی تک سوچی نہیں گئی ہے ۔
عام قسم کے اسلامی کالج :
انگریزی نظام تعلیم پر کام کرنے کے لیے جو اسلامی کا لج قائم ہوتے رہے ، ان پر مولانا کی تنقید نسبتاً زیادہ سخت مگر درد بھرے انداز میں سامنے آتی ہے اور اس تنقید میں ان کا ذوق انقلابیست خوب نمایاں ہے۔ ایک ایسے ہی کالج کے جلسہ تقسیم اسناد کی زلزلہ افگن خطبہ مولانا نے دیا اس کے چند جملے پیش ہیں :
در اصل میں آپ کی اس مادرِ تعلیمی کو، اور مخصوص طور پر اسی کو نہیں بلکہ ایسی تمام مادران تعلیم کو درس گاہ کی بجائے قتل گاہ سمجھتا ہوں ، اور میرے نزدیک آپ فی الواقع یہاں قتل کیے جا رہے ہیں اور یہ ڈگریاں جو آپ کو ملنے والی ہیں یہ در اصل موت کے صداقت نامے (Death Certificates) ہیں جو قاتل کی طرف سے آپ کو اس وقت دیے جاتے ہیں جب کہ وہ اپنی حد تک اس بات کا اطمینان کر چکا ہے کہ اُس نے آپ کی گردن کا تسمہ تک لگا رہنے نہیں دیا ۔
میری مثال اس شخص کی سی ہے جو اپنے بھائی بندوں کا قتل عام ہو چکنے کے بعد لاشوں کے ڈھیر میں یہ ڈھونڈتا پھرتا ہو کہ کہاں کوئی سخت جان نسل ابھی سانس لے رہا ہے ۔
اس سلسلے میں آگے چل کر مولانا نے کہا کہ :
ہر قوم کے بچے دراصل اس کے مستقبل کا محضر ہوتے ہیں۔ قدرت کی طرف سے یہ محضر ایک سادہ لوح کی شکل میں آتا ہے اور قوم کو یہ اختیار دیا جاتا ہے کہ وہ خود اس پر اپنے مستقبل کا فیصلہ لکھے ۔ ہم وہ دیوالیہ قوم ہیں جو اس محضر پر اپنے مستقبل کا فیصلہ خود لکھنے کے بجائے اسے دوسروں کے حوالے کر دیتے ہیں کہ وہ اس پر جو چاہیں ثبت کر دیں ، خواہ وہ ہماری اپنی موت ہی کا فتوی کیوں نہ ہوں ۔
اس نظام تعلیم کا یہ مایوس کن پہلو ہے کہ وہ کوئی مقصد طلبہ کو نہیں دیتا۔ اس کی طرف مولانا نے خصوصی توجہ دی ہے :
مجھے بکثرت ایسے نوجوانوں سے ملنے کا موقع ملتا ہے جو اعلیٰ تعلیم پارہے ہیں، یا تازہ تازہ فارغ ہوئے ہیں ..... مگر میری مایوسی کی انتہا نہیں رہتی جب میں دیکھتا ہوں کہ مشکل سے ہزاروں میں سے کوئی ایسا ملتا ہے جو اپنے سامنے زندگی کا کوئی مقصد رکھتا .... اعلی تعلیم یافتہ نوجوانوں کی یہ حالت دیکھ کر میرا سر چکرانے لگتا ہے ۔ میں حیران ہو کر سوچنے لگتا ہوں کہ اس نظام تعلیم کو کس نام سے یاد کروں جو پندرہ بیس سال کی مسلسل دماغی تربیت کے بعد بھی اس قابل نہیں بناتا کہ وہ اپنی قوتوں اور قابلیتوں کا کوئی مصرف اور اپنی کوششوں کا کوئی مقصود متعین کر سکے۔ یہ انسانیت کو بنانے والی تعلیم ہے یا اس کو قتل کرنے والی ہے ۔
اور اسلامی نقطہ نگاہ سے :
کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ موجودہ نظام تعلیم میں ملت اسلام کے نو نہالوں کی تعلیم و تربیت کے لیے جو انتظام کیا جاتا ہے وہ دراصل ان کو اس ملت کی پیشوائی کے لیے نہیں بلکہ غارت گری کے لیے تیار کرتا ہے ؟
مثبت دعوت :
مولانا مودودی نے ایک صحیح اسلامی نظام تعلیم کے سلسلے میں متعدد اہم چیزیں تحریر کی ہیں۔ ان کا احاطہ کرنا مشکل ہے۔ یہاں اجمال سے ان کا مرکزی نقطہ نظر عرض کیا جاتا ہے :
اگر فی الحقیقت ہم ایک اسلامی نظام تعلیم قائم کرنا چاہتے ہیں تو محض باتیں اور زبانی جمع خرچ کرنے سے کام نہیں چل سکتا بلکہ اس کے لیے ایک انقلابی قدم اٹھانے کی ضرورت ہے ۔ در حقیقت اب یہ ناگزیر ہو چکا ہے کہ وہ دونوں نظام تعلیم ختم کر دیے جائیں جو اب تک ہمارے ہاں رائج رہے ہیں۔ پرانا مذہبی نظام تعلیم بھی ختم کیا جائے ۔ اور یہ موجودہ نظام تعلیم بھی جو انگریز کی راہنمائی میں قائم ہوا تھا ۔ ان دونوں کی جگہ ہمیں ایک نیا نظام تعلیم بنانا چاہیے جو ان کے نقائص سے پاک ہو اور ہماری ان ضرورتوں کو پورا کر سکے جو ہمیں ایک مسلمان قوم اور ایک آزاد قوم اور ایک ترقی کی خواہش مند قوم کی حیثیت سے اس وقت لاحق ہیں ۔
انقلاب تعلیم کا یہ پیغام دیتے ہوئے مولانا نے ایک سے زیادہ مقالات میں مطلوبہ اسلامی نظام تعلیم کا خاکہ اور اس کے اساسی اصول واضح کیے ہیں اور مزید تفصیل کوئی دیکھنا چاہے تو اصل مقالات و مباحث میں دیکھی جاسکتی ہے۔ میرے لیے یہاں موقع کی مناسبت کے لحاظ سے مثبت بحث میں آگے جانا ممکن نہیں، کیونکہ انتہائی طور پر کسی نظریہ و تصور یا کسی خاکے اور اس کے اصول و مقاصد کو سامنے لانے کے لیے بیان کو وسعت دیے بغیر چارہ نہیں، اور یہ اوراق ایسی وسعت بیان کے متحمل نہیں ۔
علمی تحقیقات کیوں اور کیسے ؟ :
آج یہ اجتماع اس غرض کے لیے منعقد کیا گیا ہے کہ ادارہ معارف اسلامی کے کام کا آغاز کرتے ہوئے ہم اپنی قوم )ISLAMIC RESEARCH ACADEMY( کے نجیدہ اور تعلیم یافتہ طبقے کے سامنے اسے متعارف کرائیں اور ان کی تائید اور ہمدردی حاصل کرنے کی کوشش کریں ۔ اس موقع پر میں یہ ضرورت محسوس کرتا ہوں کہ پہلے مختصر طور پر یہ بتاؤں کہ اس کام کی اہمیت اور اس کی ضرورت کیا ہے اور پھر ہمارے پیش نظر جو کام ہے اس کی نوعیت کیا ہے اور یہ کہ کس کس قسم کے کام ہم اس سلسلے میں کرنا چاہتے ہیں ۔
معلومات اور ان کی ترتیب :
جمود و انحطاط کے اسباب :
اسلامی تحریک کا دور عروج :
خدا ہیں۔ انہوں نے اپنے عقیدوں کی تاویل اس طرح سے کرنی شروع کر دی کہ وہ مانتے تو ایک ہی خدا کو ہیں لیکن یہ دوسری چیزیں جو ہم کر رہے ہیں یہ اسی خدا تک تقرب و شفاعت کا ذریعہ و وسیلہ ہیں۔ مختلف مشترک قوموں کے اندر توحیدی مسلک و مذاہب پیدا ہو گئے ۔ غرض مسلمانوں کا مرتب کردہ فلسفہ، ان کی مرتب کردہ سائنس، ان کے مرتب کردہ علوم عمرانی، یہ ساری چیزیں دنیا کے اوپر چھاتی چلی گئیں۔ مغرب میں نشاۃ ثانیہ کی جو تحریک اٹھی تھی، وہ مسلمانوں ہی کے سکھائے ہوئے علوم کی بدولت اٹھی تھی۔
جو کچھ اسپین میں مسلمانوں کے علوم فنون تھے اور جو ان کی درس گاہیں تھیں، ان سے استفادہ کر کے جو لوگ تیار ہوئے تھے وہی لوگ مغرب میں اس تحریک کے علمبردار اور موجب بنے۔ ایک زمانہ وہ تھا کہ یورپ کے اہل علم عربی زبان میں لکھنا اور بولنا قابل فخر سمجھتے تھے۔ بہت سے لوگ ایسے تھے جو ان کے مذہبی پیشواؤں میں شمار ہوتے تھے، لیکن وہ اپنے پرائیویٹ خطوط عربی زبان میں لکھتے تھے۔ اس زمانے کے لوگوں کی شکایت آج تک تحریری شکل میں موجود ہیں کہ ہماری قوم کے اہل علم و فکر پر عربی زبان اس طرح مسلط ہو گئی ہے کہ وہ اپنی پرائیویٹ زندگی تک میں عربی زبان کو استعمال کرتے ہیں اور اپنی قومی زبان کو چھوڑ بیٹھے ہیں۔ یہ سب کچھ اس بات کا نتیجہ تھا کہ اس وقت علمی تحقیقات کا کام مسلمان کرتے تھے اور دوسری قومیں ان کا پس خوردہ کھاتی تھیں۔ ان کے مرتب کردہ علوم کو سیکھتی تھیں۔ جس طرز پر مسلمانوں نے ان کو مرتب کیا تھا، اسی طرز پر وہ ان کو پڑھتی اور حاصل کرتی تھیں۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ ان کی بنتیں اسلام کے طریقے پر ڈھلتی تھیں۔ مغربی ممالک میں تو مسیحی متکلمین کا ایک گروہ گزرا ہے، اس کی کتابیں پڑھیے۔ آپ کو محسوس ہوگا کہ مسلمانوں کے متکلمین اور ان کے علم کلام کی ہو بہو نقل اتاری جا رہی ہے۔ وہی مسائل ہیں، وہی اصطلاحات ہیں، وہی بحثیں ہیں بجز اس کے کہ انہوں نے مسیحی عقیدے کو اس کے اندر شامل کر دیا ہے۔
لیکن آپ مسیحی متکلمین کی تحریروں اور مسلمان متکلمین کی تحریروں میں بجز تثلیث اور ابنیت کے عقیدے کے اور کوئی فرق نہیں پائیں گے۔
مسلمان اور ترک تحقیق:
اس کے بعد ایک دوسرا دور آیا جس میں مسلمانوں نے نئی تحقیقات کا کام قریب قریب ترک کر دیا۔ جو کچھ علوم محققین سلف سے ملے تھے، انہی کو پڑھتے پڑھاتے رہے۔ انہی کے اوپر حاشیے لکھتے چلے گئے، حاشیے در حاشیے، لیکن نئی تحقیقات اور علوم و فنون میں آگے بڑھنے کا کام انہوں نے چھوڑ دیا۔ دوسری طرف اسی زمانے میں اہل مغرب نے اس کام کا بیڑا اٹھایا اور تحقیقات علمی شروع کیں۔ انہوں نے نئی نئی معلومات جمع کرنی شروع کیں۔ انہوں نے ان کو مرتب کر کے نئے فلسفے اور نئے نظام ہائے فکر و عمل کی تشکیل شروع کر دی۔
اس کا یہ نتیجہ ہوا کہ ایک طرف مسلمان رفتہ رفتہ جمود میں مبتلا ہوتے چلے گئے اور دوسری طرف اس علمی تحریک کی بدولت مغرب کی طاقت روز بروز بڑھنی شروع ہو گئی۔ ظاہر ہے کہ جب وہ نئی نئی معلومات جمع کریں گے اور نئی نئی تحقیقات کریں گے تو نئے نئے ذرائع اور وسائل ان کے ہاتھ میں آئیں گے۔ ان کے ذہنوں میں زندگی اور بیداری پیدا ہو گی اور آپ اگر تحقیق کو چھوڑ دیں گے، تو آپ کے اندر لا محالہ جمود اور تعطل پیدا ہو گا۔ آپ اپنی تاریخ کو اٹھا کر دیکھیے، اٹھارہویں صدی تک پہنچتے پہنچتے مسلمان اور اہل مغرب کے درمیان اتنا نمایاں فرق ہو گیا کہ مسلمان مغلوب ہونا شروع ہو گئے اور مغربی قومیں ان پر غالب آنی شروع ہو گئیں۔ دو تین سو برس جمود میں لگے اور اس جمود کا نتیجہ آخر کار یہ ہوا کہ مسلمان مغلوب ہونا شروع ہو گئے اور مغربی قومیں غالب آنے لگیں۔ اٹھارہویں صدی سے مسلمانوں پر مغربی قوموں کی یورشیں اور ان کی فتوحات خود اس بات پر شاہد ہیں کہ علمی تحقیقات چھوڑ دینے اور جو اختیار کرنے کے نتائج ہم نے بھگتے اور انہوں نے اس کام کا بیڑا اٹھانے کے کیا فوائد حاصل کیے۔
تحقیق، حرکت اور غلبہ:
جمود کا لازمی نتیجہ انحطاط ہے اور انحطاط کا لازمی نتیجہ مغلوبیت ہوتا ہے، لیکن اگر علمی تحقیقات کی جائے اور مسلسل کی جائے اور نئی نئی معلومات فراہم کی جائیں اور ان کی بنیاد پر نئے نئے فلسفہ زندگی تیار کیے جائیں تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ حرکت پیدا ہوتی ہے اور اس قوم کو قوت تسخیر حاصل ہوتی ہے۔ قوت تسخیر حاصل ہونے کے بعد غلبہ پر ہی معاملہ ختم نہیں ہو جاتا بلکہ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جو قوم غالب ہے اور جو تحقیقات کر رہی ہے، علوم و فنون کو جمع کر رہی ہے، معلومات فراہم کر رہی ہے اور ان کو مرتب کر کے ایک تہذیب بنا رہی ہے، وہ لازماً اپنی تہذیب کے ساتھ غالب آتی ہے۔
وہ محض اپنی سیاست، اپنے اسلحہ اور اپنی فوج ہی سے غلبہ نہیں پاتی بلکہ اس کی پوری تہذیب مغلوب قوم پر غالب آنی شروع ہو جاتی ہے۔ یہ نقشہ پہلے بھی ہم دیکھ چکے ہیں اور آج بھی دیکھ رہے ہیں۔
اسلام کے غلبہ کے دور میں تمام دنیا یہ محسوس کرتی تھی کہ تہذیب ہے تو مسلمانوں کی ہے، تمدن ہے تو مسلمانوں کا ہے، فکر و علم ہے تو مسلمانوں کا ہے۔ پھر اس کے برعکس یہ صورت حال پیدا ہوئی کہ خود مسلمانوں کے دلوں میں یہ بات اتر گئی کہ کوئی تہذیب ہے تو اہل مغرب کی ہے، کوئی تمدن ہے تو اہل مغرب کا ہے، علم و فن جو کچھ بھی ہے اہل مغرب کا ہے۔ ہمارا کام ان کا پس خوردہ کھانا ہے۔ ہمارا کام ان کے پیچھے چلنا ہے۔ ہمارا کام ان کی تقلید کرنا ہے۔ عملاً یہ صورت پیدا ہو چکی ہے، خواہ زبان سے ہم مزاحمت کرنے کی کوشش کریں اور زبان سے ہم اظہارِ جذبات بھی کریں۔ لیکن دیکھیے عملاً کیا ہو رہا ہے؟ عملاً یہ ہو رہا ہے کہ ہمارے اوپر مغرب کے افکار اور فلسفے، ان کی طرز زندگی، ان کی تہذیب اور تمدن سب کچھ چھاتا چلا جا رہا ہے۔
اس سے میں جو بات آپ کے ذہن نشین کرنا چاہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ اگر ہم اپنی زندگی چاہتے ہیں تو ہمارے لیے اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں ہے کہ ہم نئے سرے سے علمی تحقیقات کا کام کریں۔
مطلوب علمی تحقیقات کی نوعیت:
البتہ یہ بات وضاحت طلب ہے کہ علمی تحقیقات کی نوعیت کیا ہمیں مطلوب ہے؟ ایک تو وہ ریسرچ ہے جو مغربی محققین ہم کو سکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ ایک بے مقصد اور بے رنگ ریسرچ ہے۔ وہ محض ریسرچ برائے ریسرچ ہے۔ مثلاً کتابوں کو ایڈٹ کرنا، ان کے مختلف نسخوں کا مقابلہ کر کے ان کی عبارتوں کا فرق پرکھنا اور مصنفین کے سنین وفات و پیدائش کو جمع کرنا اور اسی قبیل کی جو ریسرچ ہے، یہ بے مقصد اور بے معنی ریسرچ ہے۔ اس میں شک نہیں کہ یہ علوم و فنون میں مددگار ہوتی ہے، لیکن بجائے خود یہ وہ ریسرچ نہیں ہے جو کسی قوم کو زندگی کی حرارت عطا کرتی اور حیات میں حرکت پیدا کرتی ہے۔ یہ ٹھنڈی اور بے معنی ریسرچ ہے۔ اہل مغرب ایک ریسرچ اور بھی کرتے ہیں۔ وہ محرک قسم کی ریسرچ ہے، وہ اس مقصد کے لیے ہوتی ہے کہ ان کے پاس وہ طاقتیں فراہم ہوں جو ان کو دنیا پر غالب کر سکیں۔
ایک اور قسم کی ریسرچ ہمارے ہاں بھی شروع کی جا رہی ہے کہ ریسرچ تو اسلام کی کی جائے، مگر اس غرض کے لیے کہ ایک نیا اسلام تصنیف کیا جائے جو تمام مغربی افکار و اقدار کے بالکل مطابق ہو یعنی جو کچھ مغرب میں حلال ہے، وہ حلال ثابت کیا جائے اور جو کچھ مغرب کی نگاہ میں حرام ہے اسے حرام ثابت کیا جائے اور اسلام کو کسی نہ کسی طرح ڈھال کر ایسا دکھایا جائے کہ گویا یہ بھی مغربی تہذیب و تمدن کا ایک دوسرا ایڈیشن ہے۔ یہ ریسرچ بھی ہمارے کسی کام کی نہیں ہے۔ یہ محض مرعوبیت اور ذہنی شکست خوردگی ہے۔
مغربی فلسفہ حیات کا رد:
سب سے پہلا کام ہم یہ کرنا چاہتے ہیں کہ مغربی فکر اور مغربی فلسفہ حیات کا جو طلسم بندھا ہوا ہے، اس کو توڑ ڈالا جائے۔ ایک معقول اور مدلل علمی تنقید کے ذریعے یہ بات ثابت کی جائے کہ مغربی علوم و فنون میں جتنے حقائق اور واقعات ہیں وہ دراصل تمام دنیا کا مشترک علمی سرمایہ ہیں اور ان کے ساتھ کسی تعصب کا کوئی سوال نہیں ہے، لیکن ان معلومات و حقائق کو جمع کر کے جو فلسفہ حیات اہل مغرب نے بنایا ہے وہ قطعی باطل ہے۔ ان کو مرتب کر کے جو طرز فکر اور کائنات کے متعلق جو تصور اور انسان کے بارے میں جو خیال انہوں نے قائم کیا ہے اور جس کے اوپر اپنی پوری تہذیب کی عمارت انہوں نے اٹھائی ہے، وہ ساری کی ساری از اول تا آخر باطل ہے۔ جو معاشرتی علوم (Social Sciences) انہوں نے مرتب کیے ہیں، جو معاشرتی فلسفہ (Social Philosophies) انہوں نے گھڑا ہے، وہ موجب فتنہ و فساد ہے، وہ انسان کی فلاح کے لیے نہیں، بلکہ انسان کی تباہی کے لیے ہے، خود ان کی اپنی تباہی کے لیے ہے۔ یہ پہلا ضروری کام ہے جس کے ذریعے سے ہم یہ توقع رکھتے ہیں کہ مسلمانوں پر مغربی فکر و فلسفے کا جو سحر ہے وہ ختم ہو جائے گا، جس کے بغیر مسلمانوں کو اس ذہنی مرعوبیت اور ذہنی شکست خوردگی کی حالت سے نہیں نکالا جا سکتا اور جب تک وہ اس ذہنی شکست خوردگی میں مبتلا ہیں اس وقت تک آپ توقع نہیں کر سکتے کہ وہ مقلد کی زندگی چھوڑ کر مجتہد کی زندگی اختیار کریں گے۔ اس وقت تک تو ان کا کام آنکھیں بند کر کے اہل مغرب کے پیچھے چلنا ہے۔ اس حالت کو آپ نہیں بدل سکتے جب تک اس سحر کو نہ توڑ دیں اور اس حقیقت کو واضح نہ کر دیں کہ علمی حقائق اور چیز ہیں اور علمی حقائق کو ترتیب دے کر ایک فلسفہ زندگی اور نظام حیات مرتب کرنا بالکل دوسری چیز ہے۔
حقائق اپنی جگہ بالکل صحیح، لیکن ان کو مرتب کر کے جو فلسفہ حیات بنایا گیا ہے، وہ فی الحقیقت بالکل غلط ہے۔
اسلامی نقطہ نظر سے علوم و فنون کی ترتیب نو:
ہمارا دوسرا کام یہ ہونا چاہیے کہ اسلامی نقطہ نظر سے تمام علوم و فنون کو نئے اسلوب اور نئے طریقے سے مرتب کیا جائے تاکہ وہ ایک اسلامی تہذیب کی بنیاد بن سکیں۔ پھر اسلام کے مطابق ہمیں ایک فلسفہ بھی درکار ہے جو انسان کے ذہن کی اس تلاش کو تسکین دے کہ حقیقت کیا ہے مگر یہ تسکین اس عقیدے کے مطابق دے جو اسلام نے ہمیں دیا ہے۔ حقیقت کی تلاش اور اس کی تڑپ انسان کی فطرت میں موجود ہے، وہ اس کے بغیر نہیں رہ سکتا، مگر تلاش حقیقت کے مختلف راستوں میں صحیح راستہ ہمارے نزدیک وہ ہے جو انبیاء علیہم السلام کا تھا۔ اس راستے کے مطابق تلاش حقیقت اور کائنات کی حقیقت اور حیات انسانی کی حقیقت، نیز اس کے مال کو ایک فلسفے کی شکل میں مرتب کرنا تاکہ آدمی کو اس کے مطابق ڈھالا جائے۔ ظاہر ہے کہ یہ اس کے بغیر نہیں ہو سکتا کہ ہم ایک فلسفہ اسلام کے نقطہ نظر کے مطابق مرتب کریں۔ آخر اس کے بغیر یہ کس طرح ممکن ہے کہ یونیورسٹیوں اور کالجوں میں جو فلسفہ پڑھایا جاتا ہے یا نفسیات اور دوسرے فلسفیانہ علوم کی تعلیم دی جاتی ہے، ان کو تبدیل کیا جا سکے اور ان کی جگہ کوئی دوسرا فلسفہ پڑھایا جا سکے۔
آپ دیکھتے ہیں کہ روس میں مغربی تہذیب سے بالکل ایک مختلف تہذیب اٹھانے کی کوشش کی گئی اور جب روسیوں نے کمیونسٹ طرز فکر کو اختیار کیا تو وہ کسی طرح سے بھی اس بات کو گوارا نہیں کر سکتے تھے کہ جس کو وہ بورژوا فلسفہ کہتے تھے، وہ اسے اپنی یونیورسٹیوں اور کالجوں میں پڑھائیں۔ کیونکہ بحیثیت کمیونسٹ ان کے اپنے وجود کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایک کمیونسٹ فلسفہ مرتب کریں اور اسے اپنی نئی نسلوں کو پڑھائیں کیونکہ جب تک نہ تو طرز فکر بدل سکتا ہے اور نہ ایک کمیونسٹ نظام کھڑا ہو سکتا ہے۔ اسی طرح ہمارے لیے بھی یہ ضروری ہے کہ ہم ایک اسلامی فلسفہ مرتب کریں، تمام علوم عمرانی کو نئے سرے سے ترتیب دیں۔ بلاشبہ واقعات اور حقائق وہی رہیں گے جو دنیا کا مشترک علمی سرمایہ ہیں لیکن ان واقعات اور حقائق پر ایک پورا نظام فکر و عمل مرتب کرنا خواہ وہ معیشت کا علم ہو اور خواہ قانون و فلسفہ قانون کا علم ہو۔ غرض جتنے بھی علوم عمرانی ہیں، ان میں سے ہر ایک کو باقاعدہ مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ جب تک ان کو اسلامی نقطہ نظر سے از سر نو مرتب نہ کیا جائے گا اور کالجوں اور یونیورسٹیوں میں یہ علوم نہ پڑھائے جائیں گے، اس وقت تک آپ یہ توقع نہیں کر سکتے کہ یہاں کبھی اسلامی تہذیب اٹھ سکتی ہے، بلکہ اس کا باقی رہنا بھی مشکل ہے۔
آپ اپنے گھر میں اپنے بچے کو چاہے یہ عقیدہ سکھا دیں کہ خدا ایک ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے نبی تھے اور چاہے آپ اس کے ذہن میں یہ بٹھا دیں کہ قرآن مجید اللہ کی کتاب ہے، اگرچہ بہت سے لوگوں نے اب یہ کام بھی چھوڑ دیا ہے اور اپنے بچوں کو وہ مشنریوں کے حوالے کر دیتے ہیں تاکہ وہ جو عقیدہ چاہیں ان کے ذہنوں میں اتار دیں، البتہ بعض لوگ احتیاطاً یہ ساری باتیں اپنے بچوں کے ذہن میں اتار بھی دیتے ہیں، لیکن وہ بچے جب کالجوں میں جاتے ہیں اور جب ان کے سامنے یہ صورت آتی ہے کہ تمام علوم جو وہ پڑھ رہے ہیں، ان کے اندر خدا کہیں بیچ میں آتا ہی نہیں۔ وہ سائنس پڑھ رہے ہوں یا علوم عمرانی، کبھی ان کو یہ محسوس ہی نہیں ہوتا کہ اس کائنات کے اندر خدا کا بھی کوئی کام ہے، وہ بھی کچھ کر رہا ہے۔ ان کے سامنے یہ آتا ہی نہیں کہ رسولوں نے بھی کوئی علم الاقتصاد دیا ہے، رسولوں نے بھی کوئی فلسفہ قانون دیا ہے، بلکہ اس کے برعکس ایک ایک علم جو وہ پڑھتے ہیں، ان کے ذہنوں میں یہ بات بٹھاتا چلا جاتا ہے کہ اسلام نے (معاذ اللہ) بہت سارے غلط کام کر ڈالے ہیں۔ مثلاً اس نے سود کو حرام کیا، گویا (نعوذ باللہ) ایک بڑا فضول کام کیا کہ اس سے دنیا کا کوئی معاشی نظام نہیں چل سکتا اور کوئی فنانشل سسٹم (financial system) کھڑا نہیں ہو سکتا ہے۔ ان کے سامنے یہ بات آتی ہے کہ اسلام نے چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا قرار دیا، گویا (معاذ اللہ) بڑا وحشیانہ کام کیا۔ پھر اس نے زنا جیسی پر لطف اور تفریحی چیز پر خواہ مخواہ اتنی سخت سزا تجویز کی کہ کوڑے مار مار کر پیٹھ کی کھال اڑا دی جائے، یہ بھی جیسے بڑا وحشیانہ کام کیا۔
ذرا سوچیے! اس طرح کا طرز عمل ان کے سامنے آئے گا تو کیا آپ توقع رکھتے ہیں کہ اس قسم کے لوگ اسلامی تہذیب کے سچے دل سے قائل اور اس کے پیرو کبھی ہو سکتے ہیں؟ اور پھر وہی لوگ جو ان کالجوں اور یونیورسٹیوں سے نکلتے ہیں، وہی آپ کے ملک کا نظام چلاتے ہیں، وہی آپ کے ملک کے سیکرٹری بنتے ہیں، وہی جنرل بنتے ہیں، وہی آپ کی حکومت کے کارپرداز بنتے ہیں۔ ان کے دماغ میں یہ بات کیسے اتر سکتی ہے کہ یہ اسلام چلنے اور چلانے کے قابل ہے۔ چنانچہ آپ تعلیم یافتہ لوگوں کے ایک بڑے گروہ سے یہ بات کر کے دیکھ لیں، آپ کو تھوڑی ہی دیر میں یہ محسوس ہو جائے گا کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام اس زمانے میں چلنے والی چیز نہیں ہے۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ سارے علوم انہوں نے جس انداز سے پڑھے ہیں، اس کی وجہ سے ان کی سمجھ میں یہ بات آ نہیں سکتی کہ کوئی طرز زندگی یا نظام حیات مغربی نظام زندگی سے بہتر بھی ہو سکتا ہے اور وہ چل بھی سکتا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ قابل عمل صورت وہی ہے جو مغربی زندگی کی ہے کیونکہ ایک چیز چل رہی ہے، کامیابی کے ساتھ چل رہی ہے جب کہ دوسری چیز معطل ہے اور اس کا کوئی اثر ان علوم و فنون پر نہیں ہے جن کو وہ پڑھ رہے ہیں۔
پھر تنقید کے کام کے ساتھ ساتھ دوسرا تعمیری کام جو ناگزیر ہے اور جسے کرنے کی شدید ضرورت پیدا ہوگئی ہے، وہ یہ کہ تمام علوم کو اسلام کے نقطۂ نظر سے مرتب کیا جائے تاکہ ہماری نئی نسلیں اسلام کے برحق ہونے پر واقعی مطمئن ہو سکیں اور ان کو یہ اطمینان ہو کہ یہ چیز چلنے کے قابل ہے اور ان کے اندر یہ ارادہ پیدا ہو کہ اس کو چلانا چاہیے۔
درس گاہوں کے لیے اسلامی نصابی تشکیل:
دسرا کام ہمارے سامنے یہ ہونا چاہیے کہ ایک ایسا نصاب مرتب کیا جائے جو اس طرز پر تعلیم کے قابل کتابیں تیار کرے ورنہ ابھی تک جو صورت حال ہے وہ ناگفتہ بہ ہے۔ نیچے سے اوپر تک جس کو دیکھیے، وہ یہ بات کہتا ہے کہ ہم اسلامی تعلیم اس ملک میں رائج کرنا چاہتے ہیں، لیکن اس وقت تک کوئی ایسی کوشش نہیں کی گئی کہ یہ مختلف علوم جو ہماری یونیورسٹیوں میں پڑھائے جاتے ہیں، ان پر کتابیں بھی اسلام کے نقطۂ نظر سے تیار کی جائیں۔ میں آپ سے عرض کر چکا ہوں کہ کمیونسٹ تو اس بات کے لیے تیار نہیں ہیں کہ وہ اکنامکس کی ایسی کتابیں پڑھائیں جو بورژوا اکنامسٹ نے لکھی ہوں۔ وہ اس کے لیے بھی تیار نہیں ہیں کہ وہ ایسا فلسفہ قانون پڑھائیں جو سرمایہ داروں کے ماہرین قانون نے مرتب کیا ہے۔ وہ تو سوشل سائنس بھی بورژوا لوگوں کی لکھی ہوئی کتابیں پڑھانے کے لیے تیار نہیں ہیں، بلکہ وہ ایک علیحدہ سوویٹ سائنس تیار کر رہے ہیں یعنی معاملہ محض علوم عمرانی تک محدود نہیں ہے، بلکہ وہ سائنس کو بھی کہتے ہیں کہ یہ سوویٹ سائنس ہے۔ تمام سائنٹیفک کتابوں کو انہوں نے اپنے نقطہ نظر سے از سر نو مرتب کیا ہے اور وہ اس کے لیے تیار نہیں ہیں کہ کمیونسٹوں کی نئی نسل کی پرورش سائنسی ذخیرے سے کریں۔
لیکن ہمارے ہاں معاملہ یہ ہے کہ اسلامی تعلیم کے معنی یہ سمجھے جاتے ہیں کہ تمام اوقات (گھنٹوں) میں تو ہم وہ علوم پڑھائیں جو مغربی مصنفین کی کتابوں میں ملتے ہیں، اور صرف ایک پیریڈ میں لوگوں سے یہ بھی کہہ دیا جائے کہ ایک ہستی کا نام خدا بھی ہے جسے تم کو جاننا چاہیے اور ایک ہستی کو اللہ نے رسول بھی بنا کے بھیجا تھا، لیکن اس خدا اور اس رسول کا کوئی مظاہرہ اور مصرف (Function) ان کو باقی اسباق میں نظر نہیں آتا، بلکہ اس کے برعکس تمام علوم و فنون اس طرز پر پڑھائے جا رہے ہیں جس طرز پر اہل مغرب نے مرتب کیا ہے یا ہمارے ہاں کے ان لوگوں کی لکھی ہوئی کتابیں ہیں جو اہل مغرب کی مکھی پر مکھی مارنے کے عادی ہیں۔ اس سے آپ بالکل توقع نہ رکھیں کہ آپ کے ہاں وہ نسل کبھی پروان چڑھ سکے گی جو یہاں اسلام کا اختیار کرے اور احیا کرنا تو درکنار اسلام کو باقی بھی رکھ سکے۔ یہ راستہ سیدھا اپنی انفرادیت کو ختم کرنے کی طرف جا رہا ہے۔ روز بروز ہماری انفرادیت فنا ہوتی چلی جا رہی ہے اور ہماری حکومت اور ہمارے برسراقتدار طبقے اور ہمارے با اثر طبقے خواہ وہ تجار کے ہوں خواہ صناعوں کے، اہل مغرب کے سامنے یہ نقشہ پیش کر رہے کہ ہم میں اور تم میں کسی لحاظ سے بھی کوئی فرق نہیں ہے جو تمہاری تہذیب وہ ہماری تہذیب، جو تمہارا تمدن وہ ہمارا تمدن، جو تمہارے اخلاق وہ ہمارے اخلاق، جو تمہاری قدریں وہ ہماری قدریں، حتی کہ ہم اس بات کو بھی مان گئے ہیں کہ جس حرام کو تم نے حلال کیا ہے، وہ واقعی حلال ہے اور غلطی ہماری تھی کہ اسے حرام قرار دے دیا تھا یا غلط فہمی تھی کہ وہ حرام ہے۔ اس صورت حال میں کیا آپ توقع رکھتے ہیں کہ یہاں اسلام باقی بھی رہ سکے گا؟ کیا آپ یہ توقع کریں کہ وہ نسلیں جو اس طریقے پر پرورش پا رہی ہیں اور یہ ذہنی تربیت پا رہی ہیں وہ یہاں کبھی اسلام کے احیاء کے لیے کام کر سکیں گی اور اسلامی تہذیب و تمدن کی علمبردار بھی بن سکیں گی۔
دوسری زبانوں میں اسلامی لٹریچر کی ضرورت:
ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ اس ادارے میں جو کچھ مرتب کیا جائے وہ صرف اردو میں ہی نہ ہو بلکہ انگریزی اور عربی زبانوں میں بھی ہو۔ یعنی ترجمہ کا کام بھی ساتھ ساتھ کرتے چلے جائیں اور انگریزی اور عربی دونوں زبانوں میں ان چیزوں کو لائیں۔ عربی میں لانا اس لیے ضروری ہے کہ دجلہ سے لے کر اٹلانٹک تک تمام مسلمان قومیں عربی زبان بولتی ہیں، ان کی زبان عربی ہے۔ اس وقت ان کی سولہ سترہ آزاد ریاستیں موجود ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک بہت بڑی طاقت ہے اور دنیائے اسلام کا دل ہے۔ جب تک قرآن مجید سے مسلمان وابستہ ہیں، لا محالہ وہ قرآن مجید کی زبان یعنی عربی کی اہمیت محسوس کریں گے اور اس کا اثر ہو گا۔ لہٰذا اگر وہ زبان کفر کی اشاعت کرنے لگے، اگر اس زبان میں لوگوں کو فسق و فجور ملے، اگر اس زبان میں لوگوں کو الحاد ملے، تو آپ غور کیجیے کہ اس سے زیادہ خطرناک کیا ہو سکتا ہے۔ مزید برآں افسوس کی بات یہ ہے کہ عرب ممالک کے مسلمانوں پر مغربی تہذیب اور تمدن کا غلبہ ہم سے بہت زیادہ ہے۔ ہم ان سے بہت پہلے مغرب سے مغلوب ہوئے تھے، لیکن اتنے مغلوب ہم نہیں ہوئے جتنے کہ وہ ان سے متاثر ہوئے درآنحالیکہ وہ ہمارے بعد مغلوب ہوئے۔ جتنی ریاستیں اس وقت عرب ممالک میں ہیں ان کے کار فرما زیادہ تر مغربی ذہن کے لوگ ہیں اور ایسا عملی کام وہاں بہت کم ہو رہا ہے جو اسلام کے نقطہ نظر کے ٹھیک مطابق ہو، تاہم وہاں بھی کام ہو رہا ہے اور یہ خیال کرنا کہ وہاں کام نہیں ہو رہا ہے، غلط ہے۔ وہاں بھی کام ہو رہا ہے۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ وہاں جو کچھ کام ہو رہا ہے، اس کا مفید حصہ اردو زبان میں منتقل کریں تاکہ وہاں کی تحقیقات سے یہاں والے بھی بہرہ ور ہوں اور جو کچھ ہم کریں، اس کو عربی کے ذریعے وہاں منتقل کر دیں تاکہ یہ ایک مشترک ذخیرہ بن سکے اور دوسرے مسلمان ملکوں میں بھی ایک صحیح اسلامی ذہن پرورش پا سکے اور وہاں کے کار فرما بھی اس بات پر مطمئن ہو سکیں کہ اسلام کو چلایا جا سکتا ہے اور ان کے اندر یہ جذبہ پیدا ہو کہ وہ اس کو چلائیں اور ان کو وہ طریقہ معلوم ہو جس سے اسلام کو چلایا جا سکے۔
اس ضرورت کو ہم بھی پورا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور عرب ممالک میں بھی بعض حصوں میں یہ کام ہو رہا ہے۔
انگریزی میں اس کی متعدد وجوہ سے ضرورت ہے اور آپ خود بھی محسوس کرتے ہوں گے کہ انگریزی میں اس چیز کا ہونا نہایت ضروری ہے۔ اول تو خود ہمارے ملک کا بالائی طبقہ انگریزی زبان کے سوا کسی دوسری زبان میں کچھ پڑھنے کے لیے تیار نہیں ہے اور ان میں سے ایک اچھا خاصا گروہ ایسا ہے جو پڑھنے کے قابل بھی نہیں ہے۔ پچھلے دنوں ہمارے ملک کے ایک بہت بڑے آدمی کو یہ خیال پیدا ہوا کہ ان کے صاحبزادے جو انجینئر ہیں، ان کو کچھ اسلام سے واقفیت ہو۔ چنانچہ ایک صاحب ان کو اسلام کی تعلیم دینے کے لیے مقرر کیے گئے۔ معلوم یہ ہوا کہ وہ اردو زبان میں کوئی دینی تعلیم حاصل نہیں کر سکتے کیونکہ اردو زبان میں وہ کچھ پڑھ ہی نہیں سکتے۔ لامحالہ ان کو انگریزی میں تعلیم دینے کی ضرورت پیش آئی، حالانکہ وہ اسی ملک میں پیدا ہوئے تھے اور اسی ملک میں ان کا پورا خاندان پیدا ہوا تھا لیکن وہ اسی ملک کی زبان سے واقف نہیں تھے کہ دین کی تعلیم اردو میں حاصل کر سکیں۔ اس کے بعد کوشش کی گئی کہ کسی طرح وہ کم از کم قرآن مجید تو پڑھنے کے قابل ہو جائیں، تو ان کو اس قابل بنانے میں پورا ایک مہینہ لگا کہ وہ بسم اللہ الرحمن الرحیم اور سورۃ فاتحہ پڑھ سکیں۔ وہ بیچارے کافی دنوں تک یہ کہتے رہے کہ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ الٹا کیسے لکھا ہوا ہے۔ یعنی جو سیدھا ہے ان کے نزدیک الٹا ہے۔ چونکہ ساری عمر ان کی بائیں طرف سے لکھنے پڑھنے میں گزری، اس لیے دائیں طرف سے جو کچھ لکھا اور پڑھا جاتا ہے، ان کی سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ ان کے سر میں درد ہونے لگتا تھا کہ بھلا کوئی زبان ایسے بھی لکھی جاتی ہے۔ یہی طبقہ ہمارے ہاں موجود ہے اور یہی طبقہ ملک کے معاملات کو چلا رہا ہے۔ اسی کے ہاتھوں میں ملک کی باگیں ہیں۔ اب کہاں یہ لڑائی لڑنے جائیں کہ پہلے اردو زبان سیکھو تو ہم تمھیں دین سکھائیں گے۔ اس لیے ہمیں ان کے لیے اسی زبان میں مواد فراہم کرنا ہے جس میں وہ سیکھ سکتے ہیں تاکہ کم از کم ان کے عقیدے اور ایمان کو تو بچایا جا سکے۔
اس کے علاوہ باہر کے ملکوں میں اگر اسلام کی تعلیمات کو پھیلانا چاہیں تو کم از کم ہمارے لیے انگریزی ہی وہ واسطہ ہے کہ جس کے ذریعہ ہم یہ خدمت انجام دے سکتے ہیں۔ یوں تو تنہا ایک انگریزی ہی بین الاقوامی زبان نہیں ہے، دوسری زبانیں بھی ہیں جن میں اسلام کے متعلق لٹریچر تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن ہمارے پاس انگریزی کے سوا کسی اور زبان میں نشر و اشاعت کے ذرائع نہیں ہیں اور اگر ایک مرتبہ انگریزی زبان میں اسلامی علوم کو ان کی صحیح شکل میں پیش کیا جائے تو اس کے بعد دنیا کی تمام زبانوں میں ترجمے ہونے کا امکان ہے۔ مثلاً ہماری ایک کتاب رسالہ دینیات ہے، جس کا انگریزی زبان میں ترجمہ ہو چکا تھا، اب اس ترجمے سے جرمن زبان، جاپانی زبان اور فرنچ زبان میں بھی ترجمے ہوئے ہیں۔ غرض دوسری زبانوں میں اسلام کی دعوت پہنچانے کا کام اللہ کے دوسرے بندے بھی کریں گے۔ بالفعل ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ انگریزی زبان میں اسلام کے متعلق صحیح معلومات پہنچائی جا سکیں۔ یہ دنیا میں اسلام کی ترویج کا ایسا ذریعہ ہے جس کو پوری طرح استعمال کیے جانے کی شدید ضرورت ہے۔
اسلام کا مختصر نصاب:
ہمارے پیش نظر اس کے ساتھ ساتھ دو کام اور بھی ضروری ہیں اگر چہ اہمیت میں کم ہی سمجھے جائیں، لیکن فی الواقع ان کی بڑی ضرورت ہے۔
ایک کام یہ ہے کہ دنیا کے مختلف حصوں میں جو مسلمانوں کی آبادیاں منتشر ہیں، وہاں ان کی نئی نسلوں کے ارتداد کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ مثلاً ویسٹ انڈیز میں اور دوسرے دور دراز کے جزائر میں، خود امریکہ، کینیڈا اور جنوبی امریکہ کے مختلف حصوں میں جو مسلمان آبادیاں منتشر ہیں، وہاں وہ اقلیت میں ہیں۔ کفار کی حکومت بھی ہے اور اکثریت بھی ہے۔ ان کی تعلیم کا سارا نظام غیر اسلامی ہے، مسلمانوں کی تعلیم کا کوئی خاص الگ انتظام نہیں ہے۔ مسلمانوں کی نسلیں روز بروز غیر مسلم اکثریت میں جذب ہوتی چلی جا رہی ہیں۔ ان کو اسلام کے بارے میں اس کے سوا کچھ نہیں معلوم کہ ہم مسلمانوں کی اولاد ہیں اور اس لیے ہم مسلمان ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ان کی ضروریات کے مطابق کچھ مختصر نصاب ایسا تیار کر دیا جائے کہ کم از کم وہاں کی جو نئی مسلمان نسلیں ہیں وہ مسلمان رہ سکیں اور ان کو اسلام کے متعلق ضروری معلومات حاصل ہو سکیں۔
دوسرا ضروری کام یہ ہے کہ مختلف علاقوں میں اسلام کی تبلیغ کی کوششوں کے نتیجے میں جو افراد اسلام قبول کرتے ہیں، ان کو اسلام کے متعلق ضروری معلومات فراہم کی جائیں۔ اس کے بغیر کوئی امکان نہیں ہے کہ وہ اسلام قبول کرنے کے بعد بھی ایک مسلمان کی سی زندگی بسر کرنے کے قابل ہو سکیں۔
اس مقصد کے لیے ایک ایسا مختصر سا نصاب تیار کرنے کی ضرورت ہے جو ضروری فقہی مسائل پر مشتمل ہو تاکہ جو لوگ اسلام قبول کرتے جائیں، وہ اس کی مدد سے مسلمان کی سی زندگی بسر کرنے کے قابل ہو سکیں۔ وہ جان سکیں کہ طہارت اور نجاست کیا چیزیں ہیں اور ان میں کیا فرق ہے، طہارت کیسے حاصل کی جائے، نماز کیسے پڑھی جائے، روزے کے احکام کیا ہیں، زکوۃ کے احکام کیا ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ان کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ خود اسلام کے مبلغ بن سکیں۔ اس کے لیے ان کو ایسا مواد فراہم کر کے دیا جائے جس سے وہ اسلام کو ٹھیک ٹھیک سمجھیں اور اس کی تبلیغ کر سکیں۔ اس مقصد کے لیے بھی کچھ چیزیں تیار کرنا ہمارے پیش نظر ہے۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ انگریزی کے ماسوا اگر دوسری زبانوں میں بھی اس کا انتظام ہو سکے تو بہتر ہے۔ مثلاً ہمارے پیش نظر یہ ہے کہ یہ کام سواحلی زبانوں میں بھی کریں تاکہ افریقہ میں یہ چیزیں پھیل سکیں۔ پھر جیسے جیسے دوسری زبانوں میں یہ کام کرنے کے امکانات پیدا ہوتے جائیں گے، انشاء اللہ ان سے فائدہ اٹھایا جائے گا۔
یہ اس کام کا ایک مختصر سا نقشہ ہے جو ہمارے پیش نظر ہے۔ ہم نے یہ کام جس غرض کے لیے شروع کیا ہے اور جس ضرورت کو سامنے رکھ کر شروع کیا ہے، اس کی وضاحت مختصر طور سے میں نے آپ کے سامنے کر دی ہے۔
میں چاہتا ہوں کہ آپ میں سے ہر ایک کے دل میں اس کام کے لیے ہمدردی کا جذبہ پیدا ہو ۔ ہمدردی کا جذبہ پیدا ہونے کے بعد اب یہ ہر شخص کے خود فیصلہ کرنے کا کام ہے کہ وہ اس میں کسی کس طرح سے حصہ لے۔ اگر کوئی اپنی دماغی قابلیت اس کام میں صرف کرنے کے لیے تیار ہو تو ہم بڑی خوشی سے اس کا خیر مقدم کریں گے کہ یہ کسی خاص گروہ کا کام نہیں ہے۔ اس ادارے کے دروازے ہر اس شخص کے لیے کھلے ہوئے ہیں جو اسلام پر ایمان رکھتا ہے اور اپنی دماغی قابلیت اور اپنی ذہانت اور معلومات صرف کر کے اس کام میں ہمارا ہاتھ بٹانے کو تیار ہے۔ یہ ہماری سب سے بڑی ضرورت ہے اور جتنے لوگ بھی ہمارے ساتھ شریک ہوں ہم ان سے بھی شکر گزار ہوں گے اور اللہ تعالیٰ سے بھی ان کے حق میں اجر کی دعا کریں گے۔
جو لوگ اس معاملہ میں مادی ذرائع سے ہماری مدد کریں گے، اللہ تعالیٰ ان کو بھی اجر دے گا۔ ہمارے پیش نظر وہ کام ہے، اس کے پس پشت کوئی ذاتی غرض نہیں ہے۔ ہمارا کام اسی دین کے لیے ہے جس کے ماننے والے باقی سب ہیں۔ جو شخص جن ذرائع سے جو بھی مدد کر سکتا ہو، اس کا یہ فرض ہے کہ وہ اس میں کمی نہ کرے۔ ہمارے ساتھ جو کم سے کم تعاون ہو سکتا ہے، وہ یہ ہے کہ اس ادارہ کے حق میں گو اور کچھ نہیں تو کم از کم ایک کلمہ خیر ہی کہہ دیں، بلکہ اگر کوئی شخص اس کام کو برائی سے یاد نہیں کرتا اور اس کے متعلق بدگمانی پھیلانے کی کوشش نہیں کرتا، تو وہ بھی ہمارے اوپر مہربانی کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کو بھی اس مہربانی کا اجر عطا کرے گا۔
یہ اس مقصد کا مختصر سا بیان ہے جس کے لیے ہم نے یہ ادارہ قائم کیا ہے اور اس کام میں ہاتھ بٹانے کے لیے یہ مختصر سی دعوت ہے جو آپ کے سامنے پیش کر دی گئی ہے۔ مجھے توقع ہے کہ جو اصحاب ہمارے ساتھ ہمدردی کر سکتے ہیں وہ اس سے دریغ نہیں کریں گے۔
نظام تعلیم کا انقلابی تصور
علم اور امامت کا رشتہ:
سب سے پہلے یہ امر غور طلب ہے کہ اس دنیا میں امامت و قیادت (Leadership) کا مدار آخر ہے کسی چیز پر؟ کیا چیز ہے جس کی بنا پر کبھی مصر امام بنتا ہے اور دنیا اس کے پیچھے چلتی ہے، کبھی بابل امام بنا ہے اور دنیا اس کی پیروی کرتی ہے، کبھی یونان امام بنتا ہے اور دنیا اس کا اتباع کرتی ہے، کبھی اسلام قبول کرنے والی اقوام امام بنتی ہیں اور دنیا ان کے نقش قدم پر ہو لیتی ہے اور کبھی یورپ امام بنتا ہے اور دنیا اس کی متبع بن جاتی ہے؟ پھر وہ کیا چیز ہے جس کی وجہ سے امامت آج ایک کو ملتی ہے، کل اس سے چھین کر دوسرے کی طرف چلی جاتی ہے اور پرسوں اس سے بھی سلب ہو کر تیسرے کی طرف منتقل ہو جاتی ہے؟ کیا یہ محض ایک بے ضابطہ اتفاقی امر ہے یا اس کا کوئی ضابطہ اور اصل مقرر بھی ہے؟ اس مسئلہ پر جتنا زیادہ غور کیا جائے اس کا جواب یہ ملتا ہے کہ ہاں اس کا ضابطہ ہے اور وہ ضابطہ یہ ہے کہ امامت کا دامن ہمیشہ علم سے وابستہ رہے گا۔ انسانیت کو بہ حیثیت ایک نوع کے زمین کی خلافت ملی ہی علم کی وجہ سے ہے۔ اس کو سمع، بصر اور فؤاد تین چیزیں ایسی دی گئی ہیں جو دوسری مخلوقات ارضی کو یا تو نہیں دی گئیں یا اس کی بہ نسبت کمتر دی گئی ہیں، اس لیے وہ اس بات کا اہل ہوا کہ دوسری مخلوقات پر خداوند عالم کا خلیفہ بنایا جائے۔ اب خود اس نوع میں سے جو طبقہ یا گروہ علم کی صفت میں دوسرے طبقوں اور گروہوں سے آگے بڑھ جائے گا، وہ اسی طرح ان سب کا امام بنے گا جس طرح انسان من حیث النوع دوسری انواع ارضی پر اسی چیز کی وجہ سے خلیفہ بننے کا اہل ہوا ہے۔
تقسیم امامت کا ضابطہ:
اس جواب سے خود بخود دوسرا سوال پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ علم سے مراد کیا ہے؟ اور اس میں آگے بڑھنے اور پیچھے رہ جانے کا مفہوم کیا ہے؟ اس مسئلہ کا حل سمع، بصر اور فؤاد ہی کے الفاظ میں پوشیدہ ہے۔ کلام الٰہی میں یہ تینوں لفظ مجرد سننے، دیکھنے اور سوچنے کے معنی میں استعمال نہیں ہوئے ہیں بلکہ سمع سے مراد دوسروں کی فراہم کردہ معلومات حاصل کرنا ہے۔ بصر سے مراد خود مشاہدہ کر کے واقفیت بہم پہنچانا ہے اور فؤاد سے مراد ان دونوں ذرائع سے حاصل کی ہوئی معلومات کو مرتب کر کے نتائج اخذ کرنا ہے۔ یہی تین چیزیں مل کر وہ علم بنتا ہے جس کی قابلیت انسان کو دی گئی ہے۔ بر سبیل اطلاق اگر دیکھا جائے تو تمام انسان ان تینوں قوتوں سے کام لے رہے ہیں اور اسی وجہ ہ سے مخلوقات ارضی پر خلیفانہ تسلط ہر انسان کو حاصل ہے۔ ذرا زیادہ تفصیل کے ساتھ دیکھیے گا تو معلوم ہو گا کہ جو انسان انفرادی طور پر ان تینوں قوتوں سے کام لے رہے ہیں وہ پست اور مغلوب رہتے ہیں، انہیں تابع اور مطیع بن کر رہنا پڑتا ہے۔ ان کا کام پیچھے چلنا ہوتا ہے۔ بخلاف اس کے جو ان تینوں سے زیادہ کام لیتے ہیں وہ برتر و غالب ہوتے ہیں، متبوع اور مطاع بنتے ہیں، رہنمائی اور پیشوائی ان ہی کے حصے میں آتی ہے۔ مگر امامت ملنے اور چھننے کا ضابطہ معلوم کرنے کے لیے آپ کو اس سے بھی زیادہ تفصیلی نگاہ ڈالنی ہو گی۔ اس تفصیلی نگاہ میں آپ کو یہ حقیقت نظر آئے گی کہ ایک گروہ انسانوں کا امام اس وقت بنتا ہے جب وہ ایک طرف ان معلومات کا زیادہ سے زیادہ حصہ جمع کرتا ہے جو ماضی اور حال کے انسانوں سے حاصل ہو سکتی ہیں۔ دوسری طرف خود اپنے مشاہدے سے مزید معلومات فراہم کرنے میں لگا رہتا ہے۔ تیسری طرف ان دونوں قسم کی معلومات کو مرتب کر کے ان سے نتائج اخذ کرتا ہے اور پھر ان نتائج سے کام لیتا ہے۔ پہلے کی جو چیزیں کم از کم اس کے اخذ کردہ نتائج کے لحاظ سے غلط ثابت ہوتی ہیں، ان کی اصلاح کرتا ہے۔ پہلے کی جن چیزوں کا نقص کم از کم اس کے فہم کے لحاظ سے، اس پر کھلتا ہے، ان کی تکمیل کرتا ہے اور نئی چیزیں علم میں آتی ہیں، ان سے اپنی حد وسع تک زیادہ سے زیادہ کام لینے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ صفات جب تک اس گروہ میں تمام دوسرے انسانی گروہوں سے زیادہ رہتی ہیں، وہی پوری نوع کا امام ہوتا ہے اور جو ان صفات کے اعتبار سے کمتر ہوتے ہیں۔ ان کے لیے اللہ کی اٹل تقدیر یہ ہے کہ وہ اس کی اطاعت بھی کریں اور اتباع بھی، اگر قسمت کی یاوری نے اطاعت سے بچا بھی لیا، تو ان کے لیے اتباع سے تو کوئی مفر نہیں ہوتا، خواہ جان بوجھ کر بالا ارادہ کریں، خواہ نادانستہ طور پر اضطراراً کریں۔ اس دورِ عروج کے بعد جب اس گروہ کے زوال کا وقت آتا ہے تو وہ تھک کر اور اپنے کیے ہوئے کام کو کافی سمجھ کر مشاہدے سے مزید معلومات حاصل کرنے اور فؤاد سے مزید اخذ نتائج کی کوشش چھوڑ دیتا ہے اور اس کا تمام سرمایہ علمی صرف سمع سے حاصل شدہ معلومات تک محدود ہو کر رہ جاتا ہے۔ اب اس کے لیے علم کے معنی صرف جاننے کے ہو جاتے ہیں کہ پہلے جو معلومات حاصل کی گئی تھیں اور جو نتائج اخذ کیے گئے تھے، وہ کیا تھے؟ اب وہ غلط فہمی میں پڑ جاتا ہے کہ جو علم پہلے حاصل کیا جا چکا ہے وہ کافی ہے۔ اس میں کسی اضافہ کی گنجائش نہیں۔ پہلے جو نتائج اخذ کیے جا چکے ہیں وہ صحیح ہیں۔ ان میں کسی اصلاح و ترقی کا موقع نہیں۔ پہلے جتنی تعمیر ہو چکی ہے وہ مکمل ہے۔ نہ اس میں ترمیم کی جا سکتی ہے اور نہ اس سے آگے مزید تعمیر ممکن ہے۔ اس مرحلہ پر پہنچ کر یہ گروہ خود امامت سے ہٹ جاتا ہے اور نہ ہٹنا چاہے تو زبردستی ہٹا دیا جاتا ہے۔ پھر جو دوسرا گروہ مزید اکتساب علم، مزید اخذ نتائج اور مزید تعمیر حیات کا عزم لے کر آگے بڑھتا ہے، امامت و قیادت، اس کا حصہ ہوتی ہے اور وہ صاحب جو پہلے امام تھے، اب مقتدی بنتے ہیں، جو پہلے مطاع و متبوع تھے، اب مطیع و تابع بنتے ہیں۔ جو پہلے جیتے جاگتے علم کے مالک اور استاد بنے ہوئے تھے، اب عجائب خانہ آثار قدیمہ میں بھیج دیے جاتے ہیں تاکہ بیٹھے علومِ اوائل کی تشریح کرتے رہیں۔
موجودہ مذہبی نظام تعلیم کا بنیادی نقص:
اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ امامت خواہ وہ آگ کی طرف لے جانے والی ہو یا جنت کی طرف۔ بہرحال اس گروہ کا حصہ ہے جو سمع و بصر و فؤاد کو تمام انسانی گروہوں سے بڑھ کر استعمال کرے۔ یہ انسان کے حق میں اللہ کا بنایا ہوا اٹل ضابطہ ہے اور اس میں کوئی رو رعایت نہیں ہے۔ کوئی گروہ خدا شناس ہو یا خدا ناشناس۔ بہرحال یہ شرط پوری کرے گا تو دنیا کا امام بن جائے گا اور نہ کرے گا تو مقتدی ہی نہیں بلکہ اکثر حالات میں مطیع بھی بننے سے نہ بچ سکے گا۔
آپ کو جس چیز نے امامت کے منصب سے ہٹایا اور خدا ناشناس اہل مغرب کو اس پر لا بٹھایا، وہ دراصل یہی ضابطہ ہے۔ آپ کے ہاں مدت ہائے دراز سے علم کی جو حالت تھی، اس میں بصر و فؤاد دونوں معطل تھے اور سمع کا کام بھی صرف پہلے کی حاصل شدہ معلومات فراہم کرنے تک محدود تھا۔ بخلاف اس کے خدا ناشناس یورپ علم کے میدان میں آگے بڑھا اور اس نے سمع سے بھی آپ سے بڑھ کر کام لیا اور بصر و فؤاد کا کام پچھلی ڈھائی تین صدیوں میں تمام تر اسی نے انجام دیا۔ اس کا لازمی نتیجہ یہی ہونا تھا اور یہی ہوا کہ وہ امام بن گیا اور آپ مقتدی بن کر رہ گئے۔ آپ کی دینی تعلیم کے تمام مراکز ابھی تک اپنی اس غلطی پر اڑے ہوئے ہیں جس نے آپ کو اس درجہ پر پہنچایا ہے۔ ان کے ہاں علم محض علومِ اوائل کے پڑھانے تک محدود ہے۔ ندوہ اور الازہر نے اصلاح کی طرف قدم بڑھایا مگر اس کا حاصل صرف اس قدر ہے کہ سمع کا دائرہ حال کی معلومات تک بڑھا دیا جائے۔ بصر اور فؤاد پھر بھی معطل کے معطل رہے۔ اس علم کا فائدہ زیادہ سے زیادہ اگر کچھ ہو سکتا ہے تو وہ یہ ہے کہ آپ گھٹیا قسم کے مقتدی بن جائیں۔ امامت بہرحال آپ کو نہیں مل سکتی۔ اس وقت تک جتنی اصلاحی تجویزیں میری نظر سے گزری ہیں وہ سب کی سب بہتر مقتدی بنانے والی ہیں۔ امام بنانے والی کوئی تجویز ابھی تک نہیں سوچی گئی حالانکہ دنیا کی واحد خدا شناس جماعت ہونے کی وجہ سے آپ پر جو فرض عائد ہوتا، آپ اس کو انجام نہیں دے سکتے جب تک آپ، نا خدا شناس لوگوں سے دنیا کی امامت کا منصب چھین کر خود اس پر قبضہ نہ کریں اور اس کی اس کے سوا کوئی صورت نہیں ہے کہ آپ مجرد سماعی علم پر قناعت کا خیال چھوڑ دیں اور بصر و فؤاد سے نہ صرف کام لیں بلکہ اس میں دنیا کے تمام گروہوں پر فوقیت لے جائیں۔
کس قسم کی اصلاح درکار ہے؟
یہ جو میں نے عرض کیا ہے کہ دنیا کی واحد خدا شناس جماعت ہونے کی حیثیت سے آپ پر جو فرض عائد ہوتا ہے اس کو آپ انجام نہیں دے سکتے جب تک یہ کام نہ کریں۔ یہ دراصل میری اس تمام بحث کا مرکزی نقطہ ہے، اس لیے میں اس کی مزید تشریح کروں گا۔ اگر محض ایک انسانی گروہ ہونے کی حیثیت سے مطلقاً امام بننے کا سوال ہو، تب تو آپ کو کسی اصلاحِ تعلیم یا تجدید نظامِ تعلیم کی ضرورت نہیں۔ سیدھا راستہ کھلا ہوا ہے کہ علی گڑھ یونیورسٹی یا مصر، ایران و ترکی کی سرکاری یونیورسٹیوں کے طرزِ تعلیم کے میدان میں پیش قدمی فرمائیے اور اسی قسم کی امامت کے لیے اُمید وار بن جائیے جیسی اس وقت یورپ اور امریکہ کو حاصل ہے اور جس کے لیے اب جاپان مسابقت کر رہا ہے۔ مگر خدا شناس گروہ ہونے کی حیثیت سے آپ کی یہ پوزیشن نہیں ہے۔ آپ کی یہ پوزیشن ہرگز نہیں ہے کہ آپ محض اپنے لیے امامت چاہتے ہوں خواہ وہ امامت داعیہ الی النار ہو یا داعیہ الی الجنۃ۔ یورپ سے آپ کا جھگڑا اس بات پر نہیں ہے کہ وہ دنیا کا امام نہ رہے، اس کی جگہ آپ امام ہو جائیں، بلکہ اس سے آپ کا جھگڑا اصول اور مقصد کا جھگڑا ہے۔ وہ نا خدا شناسی بلکہ خدا سے بغاوت اور طغیان کی بنا پر دنیا کی امامت کر رہا ہے اور آگ کی طرف ساری دنیا کو لے جا رہا ہے۔ بخلاف اس کے آپ خدا شناس گروہ انسانی ہیں۔ خدا کی اطاعت پر آپ کے مسلک کی بنیاد ہے۔ آپ کے ایمان کی رو سے آپ پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ نہ صرف خود آگ کے راستے سے بچ کر جنت کے راستے پر جائیں، بلکہ دنیا کو بھی اسی راستے پر چلائیں اور یہ فرض آپ انجام نہیں دے سکتے جب تک کہ آپ اس سے امامت چھین کر خود امام نہ بنیں۔ یہاں سوال نسلی یا جغرافیائی نہیں، خالص اصولی ہے۔ نا خدا شناسی کی امامت اگر ترک یا ایرانی یا مصری یا ہندوستانی کی ہو تو وہ بھی اسی طرح مٹا دینے کے قابل ہے جس طرح فرنگی یا جاپانی کی اور خدا شناسی کی بنیاد پر جو امامت ہو، وہ مطلوب ہے خواہ اس کے علمبردار ہندی ہوں یا فرنگی ہوں یا کوئی اور۔
نا خدا شناس امام کے نتائج:
کسی امامت کے داعی الی الجنۃ یا داعی الی النار ہونے کا مدار بالکل اس کے خدا شناس یا نا خدا شناس ہونے پر ہے۔ جب کوئی ایسا گروہ جو خدا شناس نہ ہو، اپنے عملِ اجتہاد کی بدولت دنیا کا امام بن جاتا ہے تو وہ تمام سمعی و بصری معلومات کو اس نقطہ نظر سے جمع کرتا ہے اور اسی نقطہ نظر کے مطابق انہیں مرتب کرتا ہے کہ اس کائنات کا کوئی خدا نہیں ہے۔ انسان اس کے لیے محض ایک غیر مسئول ہستی ہے۔ دنیا کی جو چیزیں اس کے مسخر ہیں وہ سب اس کی ملک ہیں، جن سے کام لینے کا مقصد اور طریقہ متعین کرنے میں وہ خود مختار محض ہے اور اس کی تمام سعی و جہد کا منتہائے مقصود اس کے سوا کچھ نہیں کہ اپنی خواہشات نفس کی خدمت کرے۔ معلومات کے اس اساس پر مرتب ہونے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ حکمت نظری اور حکمت عملی دونوں کا نشو و نما خدا پرستی کی بالکل مختلف سمت میں ہوتا ہے۔ یہی حکمت تمام دنیا کے قلوب و اذہان پر چھا جاتی ہے۔ اسی سے خالص مادہ پرستانہ اخلاقیات پیدا ہوتے ہیں۔ اسی پر انسان اور انسان کے درمیان تعلق کے تمام ضابطے بنتے ہیں۔ اسی کے مطابق انسان اپنی حاصل شدہ قوتوں کا مصرف تعین کرتا ہے اور فی الجملہ ساری انسانی زندگی کا بہاؤ اس راستے کی طرف چل پڑتا ہے، جس کی آخری منزلوں پر پہنچ کر اس کو دنیا ہی سے عذاب جہنم کی ابتدا ہو جاتی ہے۔ جیسا کہ آج آپ خود اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ یہ نا خدا شناس حکمت جب تک دنیا کے افکار، اخلاق، تمدن ہر چیز پر چھائی رہتی ہے۔ خدا شناسی کے نقطہ نظر اور اس اخلاق و تمدن کے لیے جو اس نقطہ نظر پر مبنی ہو، زمین و آسمان کے درمیان کوئی جگہ نہیں رہتی، لوگوں کے سوچنے کا انداز اس کے خلاف ہوتا ہے۔ طبائع کی افتاد اور مزاجوں کی پسند اس کے خلاف ہوتی ہے۔ انسانی معلومات کی بگڑی ہوئی ترتیب اس کے خلاف شہادت دیتی ہے۔ اخلاق کے سارے اصول اور قدر و قیمت کے سارے معیار اس سے منحرف ہو جاتے ہیں، زندگی کے تمام ضابطے اور انسانی سعی و عمل کے سارے ہنگامے اس کو اپنے درمیان جگہ دینے سے انکار کر دیتے ہیں اور اس صورت حال میں صرف یہ نہیں ہوتا کہ خدا پرستی کے مسلک کی ہر چیز دنیا میں نامقبول اور نامعقول ہو کر رہ جاتی ہے، بلکہ خود وہ لوگ جو اس مسلک کی پیروی کا دعویٰ کرتے ہیں، فی الواقع اس کی پیروی نہیں کر سکتے۔ زندگی کے دریا کا بہاؤ زبردستی کھینچ کر ان کو اپنے راستے پر لے جاتا ہے اور اس کے خلاف زیادہ سے زیادہ کش مکش وہ بس اتنی ہی کر سکتے ہیں کہ سر کے بل سونے کے بجائے احتجاجاً پاؤں کے بل چلیں۔
جو گروہ خیالات کے میدان میں امام بنتا ہے اور کائنات فطرت کی طاقتوں کو اپنے علم سے مسخر کر کے ان سے کام لیتا ہے۔ اس کی امامت صرف خیالات ہی کے عالم تک محدود نہیں رہتی بلکہ زندگی کے پورے دائرے پر چھا جاتی ہے۔ زمین پر اس کا تسلط ہوتا ہے، رزق کی کنجیاں اس کے قبضے میں ہوتی ہیں، حاکمانہ اختیارات اسے حاصل ہوتے ہیں۔ اس لیے انسانی حیات اجتماعی کا سارا کاروبار اس ڈھنگ اور اس نقشے پر چلنے لگتا ہے جس پر وہ گروہ اپنی ذہنیت اور اپنے زاویہ نظر کے مطابق اسے چلانا چاہتا ہے۔ اب یہ ظاہر ہے کہ اگر وہ گروہ جس کو یہ تسلط دنیا اور اس کے معاملات پر حاصل ہے خدا سے پھرا ہوا ہو تو اس حیطۂ اقتدار میں رہتے ہوئے کوئی ایسا گروہ پنپ نہیں سکتا جو خدا کی طرف پھرنا چاہتا ہو۔ جس گاڑی میں آپ بیٹھے ہوئے ہیں اگر اس کا ڈرائیور اسے کلکتہ کی طرف لے جا رہا ہو تو آپ کراچی کی طرف جا ہی کب سکتے ہیں۔ چار و ناچار آپ کو اسی طرف جانا پڑے گا جدھر ڈرائیور جانا چاہتا ہے۔ آپ بہت بگڑیں گے تو اتنا کر لیں گے کہ اسی گاڑی میں بیٹھے ہوئے اپنا رخ کلکتہ سے کراچی کی طرف پھیر لیں اور برضا و رغبت نہ سہی کشاں کشاں اس منزل پر جا پہنچیں جو آپ کی منزل مقصود کے عین مخالف سمت میں واقع ہے۔
موجودہ صورت حال:
یہی صورت حال فی الواقع اس وقت در پیش ہے۔ آپ کے امامت سے ہٹنے کے بعد یورپ نے علم کے میدان میں پیش قدمی کی تو ناگزیر اسباب نے اس کی نگاہ کا رخ خدا سے بیزاری (Theophobia) کی طرف پھیر دیا۔ اسی نقطہ نظر سے اس نے تمام سمعی معلومات کو جمع کیا، اسی نقطہ نظر سے اس نے آثار کائنات کا مشاہدہ کیا، اسی نقطہ نظر سے اس نے معلومات کو مرتب کر کے نتائج اخذ کیے۔ اسی نقطہ نظر سے اس نے زندگی کے مقاصد، اخلاق کے اصول، تمدن کے ضوابط اور انفرادی و اجتماعی برتاؤ کے ڈھنگ متعین کیے اور اسی نقطہ نظر سے اس نے ان تمام قوتوں کے مصرف تجویز کیے جو اسے تحقیق و اجتہاد کی بدولت حاصل ہوئی تھیں۔ پھر جب اس علم کے زور پر وہ اٹھا تو ایک طرف زمینیں اور قومیں اس کے آگے مسخر ہوتی چلی گئیں، اور دوسری طرف وہی علم، وہی ذہنیت، وہی مقاصد، وہی فکری ساخت، وہی اخلاقی روش، وہی تمدنی قواعد و ضوابط، غرض وہی سب کچھ جو اس امام غالب کے پاس تھا، تمام دنیا پر چھا گیا۔ اب حال یہ ہے کہ ایک بچہ جب سے ہوش سنبھالتا ہے، اسی وقت سے اس کے ذہن اور اس کی زندگی کی تعمیر اس نقشے پر ہونے لگتی ہے جو یورپ کی امامت نے بنایا ہے۔ سمعی معلومات اسی ترتیب سے اس کے دماغ میں اترتی ہیں۔ مشاہدے کے لیے وہی نقطہ نظر اسے ملتا ہے، نتائج اخذ کرنے کی ساری تربیت اسی طرز پر اسے حاصل ہوتی ہے۔ حق اور باطل، صحیح اور غلط، مقبول اور مردود کی تعین کے لیے یہی معیار اسے میسر آتا ہے، اخلاق کے وہی اصول، زندگی کے وہی مقاصد اور سعی و عمل کے وہی ڈھنگ اس کے سامنے روشن ہوتے ہیں، اپنے گرد و پیش زندگی کا سارا کارخانہ اسی ڈھنگ پر چلتا ہوا ملتا ہے اور جب وہ اس طرح پروان چڑھنے کے بعد چراگاہ حیات میں حصہ لینے کے لیے تیار ہوتا ہے تو چونکہ یہی ایک مشین دنیا میں چل رہی ہے اور کوئی دوسری مشین چلنے والی موجود نہیں ہے، اس لیے اسی کا پرزہ اس کو بن جانا پڑتا ہے۔ نا خدا شناس تہذیب و تمدن کے اس کامل تسلط میں اول تو یہی سخت مشکل ہے کہ خدا پرستانہ نظریہ حیات، مقصد زندگی اور اصول اخلاق کو دلوں اور دماغوں میں راہ مل سکے کیونکہ علوم و فنون کی ساری ترتیب اور زندگی کی پوری روش اس کے بالکل برعکس سمت میں بھری ہوئی ہے، لیکن اگر کچھ لوگ ایسے بھی نکل آئیں جن کے ذہن میں یہ نظم پکڑ لے، تب بھی گرد و پیش کی پوری فضا اس کو غذا دینے سے انکار کر دیتی ہے۔ اس کو نہ کہیں علوم سے تائید ملتی ہے، نہ زندگی کے بنے اور جمے ہوئے نقشے اس کا ساتھ دیتے ہیں، نہ دنیا کے چلتے ہوئے معاملات ہی میں کہیں اس کی جگہ نظر آتی ہے۔ جس قدر معلومات گذشتہ پانچ سو برسوں کی مدت میں انسان کو حاصل ہوئی ہیں، ان کو مرتب کرنے اور ان سے نتائج اخذ کرنے کا سارا کام نا خدا شناس لوگوں نے کیا ہے۔ خدا پرستی کے نقطہ نظر سے ان کی ترتیب کا اور اخذ نتائج کا کوئی کام ہوا ہی نہیں۔ فطرت کی جو طاقتیں اس دوران میں انسان کے لیے مسخر ہوئیں اور قوانین طبیعی کی مزید دریافت سے جو فوائد حاصل ہوئے ہیں، ان سے بھی خدا پرستوں نے نہیں بلکہ خدا کے باغیوں نے کام لیا۔ اس لیے ناگزیر تھا کہ تمدن انسانی میں ان سب کا مصرف وہی مقرر ہوتا جو ان کے مقاصد زندگی اور اصول اخلاقی کے مناسب حال تھا۔ اسی طرح اجتماعی معاملات کی تنظیم کے جتنے نظری خاکے اور عملی طریقے اس دوران میں سوچے اور عملاً چلائے گئے، ان سب کے سوچنے اور چلانے والے وہ دماغ اور وہ ہاتھ نہ تھے جن پر خدا پرستی کا مسلک فرماں روا ہوتا، بلکہ وہ تھے جو خدا کی اطاعت سے منحرف تھے۔ اس لیے نظریات اور عملیات کے میدان پر آج سارے کے سارے وہی نقشے چھائے ہوئے ہیں جو انہوں نے بنائے ہیں اور ایسا کوئی نقشہ جو خدا پرستانہ مسلک کی بنیاد پر بنا ہو، عملاً تو کیا موجود ہوتا، نظریے کی شکل میں ایسی ترتیب کے ساتھ مرتب نہیں جو آج کے حالات سے ربط رکھتا ہو اور جس میں آج کے مسائل حیات کا پورا پورا حل مل سکے۔ اب اگر اس مسلک پر اعتقاد رکھنے والا کوئی شخص راہب بن کر دنیا اور اس کی زندگی سے الگ تھلگ کسی گوشے میں جا بیٹھے اور پانچ سو برس پہلے کی فضا اپنے اوپر طاری کر لے، تب تو بات دوسری ہے ورنہ اس دنیا کے معاملات میں ایک زندہ انسان کی حیثیت سے حصہ لینے کی صورت میں تو قدم قدم پر اس کے لیے مشکلات ہی مشکلات ہیں۔ اپنے مسلک میں نیک نیت اور صحیح الاعتقاد ہونے کے باوجود بارہا وہ دانستہ ان فکری اور عملی راہوں پر چل پڑتا ہے جو اس کے مسلک سے بالکل مختلف ہیں۔ نئی معلومات جب اس کے سامنے آتی ہیں تو اس کے لیے سخت دشوار ہوتا ہے کہ حقائق (Facts) کو ان ناخدا شناس لوگوں کے نقطہ نظر اور اخذ کردہ نتائج سے الگ کر سکے جنہوں نے ان کی دریافت، ترتیب اور استنتاج کا سارا کام انجام دیا ہے۔ اس لیے اکثر وہ اس طرح حقائق کے ساتھ ان کے نظریات اور نتائج کو بھی ہضم کر جاتا ہے کہ اسے اس امر کا شعور تک نہیں ہوتا کہ امرت کے ساتھ کتنا زہر اس کے اندر اتر گیا۔ اسی طرح زندگی کے عملی معاملات سے جب اس کو واسطہ پیش آتا ہے تو وہ سخت مشکل میں پڑ جاتا ہے کہ کون سی راہ اختیار کرے۔ بہت سے اجتماعی نظریات، جو فی الاصل اس کے مسلک کے خلاف ہیں، اس کے دل و دماغ پر زبردستی چھا جاتے ہیں، کیونکہ دنیا میں ہر طرف چلن ہی ان کا ہے۔ بہت سے عملی طریقوں کو غلط سمجھنے کے باوجود محض اس بنا پر وہ اختیار کرتا ہے کہ ان سے ہٹ کر وہ کوئی دوسری راہ سوچ نہیں سکتا اور بہت سی غلط راہوں پر اسے مجبوراً اس لیے چلنا پڑتا ہے کہ ان پر چلے بغیر کوئی چارہ کار نہیں ہے۔
انقلاب امامت کے لیے انقلاب تعلیم ناگزیر ہے:
یہ ہے وہ صورت حال جس میں اس وقت آپ مبتلا ہیں۔ میں نے اس صورت حال کا جو تجزیہ کیا ہے، اگر اس میں کوئی غلطی آپ پاتے ہیں تو براہ کرم مجھے بھی اس سے آگاہ کریں تاکہ میں اس پر نظر ثانی کر سکوں لیکن اگر یہ تجزیہ صحیح ہے تو اس سے حسب ذیل نتائج نکلتے ہیں:
- نا خدا شناس امامت میں رہ کر خدا شناسی و خدا پرستی کا مسلک زندہ نہیں رہ سکتا۔ لہٰذا جو کوئی اس مسلک پر اعتقاد رکھتا ہو، اس سے عین ایمان و اعتقاد کا اقتضا یہ ہے کہ اس امامت کو مٹانے اور خدا شناس امامت کو دنیا میں قائم کرنے کے لیے تیار ہو جائے۔
- جو نظام تعلیم محض پرانے سمعی علوم کی حد تک محدود ہے، اس میں یہ طاقت ہرگز نہیں ہے کہ امامت میں اتنا بڑا انقلاب کرنے کے لیے آپ کو تیار کر سکے۔ لہٰذا اگر آپ اس پر راضی ہوں کہ خدا پرستی کا مسلک بتدریج ہٹتے ہٹتے دنیا سے فنا ہو جائے تب تو شوق سے اس نظام تعلیم پر جمے رہیں، ورنہ اسے آپ کو بدلنا ہو گا۔
- جو نظام تعلیم تمام علوم کو اسی ترتیب اور اسی زاویہ نظر سے لیتا ہے جو نا خدا شناس ائمہ کی ترتیب اور ان کا زاویہ نظر ہے اور جو اس تمدنی مشین کا پرزہ بننے کے لیے انسانوں کو تیار کرتا ہے جو اہل ضلال نے بنائی ہے، وہ دراصل ارتداد کا مجرب نسخہ ہے۔ اس سے بڑھ کر کوئی عیب نہیں ہو سکتا کہ اس نوعیت کی تعلیم گاہ پر "پیغامِ نور" یا "اسلامیہ کالج" یا "اسلامیہ ہائی اسکول" کے الفاظ کا اطلاق کیا جائے اور اس تعلیم کے ساتھ دینیات کے کسی کورس کو الگ سے جوڑ دیا جائے ۹۵ فی صدی تو بالکل ہی لا حاصل ہے اور ۵ فی صدی فائدہ اگر اس سے حاصل ہو بھی سکتا ہے تو وہ بیش ازیں نیست کہ لوگ کچھ مدت تک کفر کے راستے پر خدا کا نام لیتے ہوئے چلتے رہیں۔
- اصلاحِ تعلیم کا یہ لائحہ کہ علومِ اسلامی کے ساتھ نئے علوم کا جوڑ لگایا جائے، یہ بھی امامت میں انقلاب پیدا کرنے کے لیے آپ کو تیار نہیں کر سکتا، اس لیے کہ فلسفہ، سائنس، تاریخ، سیاسیات، معاشیات اور دوسرے علوم جو اس وقت مدون و مرتب صورت میں آپ کو ملتے ہیں، وہ سب کے سب ناخدا شناس لوگوں کی فکر و تحقیق کا نتیجہ ہیں اور ان کی ترتیب و تدوین میں اس گروہ کا نقطہ نظر اس طرح پیوست ہے کہ حقائقِ واقعہ کو نظریات اور اوہام و تعصبات اور اہواء و رجحانات سے الگ چھانٹ دینا اور خدا پرستی کے نقطہ نظر سے ان کو بطور خود مرتب کر کے دوسرے نظریات قائم کرنا نہ ہر طالب علم کے بس کی بات ہے نہ ہر استاد کے بس کی ہے۔ اب اگر آپ ایک طرف پرانے علوم کو پرانی ترتیب کے ساتھ اور نئے علوم کو اس خاص ترتیب کے ساتھ جو اس وقت پائی جاتی ہے، ملا کر پڑھائیں گے تو ان دو متضاد طاقتوں کے میل سے عجیب عجیب قسم کے مرکبات ہوں گے۔ کوئی پرانے علوم سے مغلوب ہو گا تو مولوی بن جائے گا، کوئی نئے علوم سے مفتوح ہو گا تو مغربیت کی طرف چلا جائے گا بلکہ کامریڈیت تک جا پہنچے گا، کوئی دونوں کے درمیان مذبذب ہو کر مضمحل ہو جائے گا۔ بہت ہی کم آدمی اس نظامِ تعلیمی سے ایسے نکل سکتے ہیں جو دونوں قسم کے علوم کو توڑ کر کوئی صحیح مرکب بنا سکیں، اور ان کا بھی اس قدر طاقت ور ہونا بہت مشکل ہے کہ اٹھ کر خیالات اور زندگی کے دھارے کو ایک طرف سے دوسری طرف پھیر دیں۔
یہ نتائج جو میں نے حالات کے تجزیہ سے اخذ کیے ہیں، اگر ان میں کوئی غلطی ہو تو میں پھر عرض کرتا ہوں کہ آپ مجھے اس سے آگاہ فرمائیں، لیکن اگر آپ نتائج کو بھی تسلیم کرتے ہیں، تو اب میں کہتا ہوں کہ امامت میں انقلاب کرنے کی اس کے سوا کوئی صورت نہیں کہ ان تینوں نظام ہائے تعلیمی سے ہٹ کر ایک بالکل نیا نظام تعلیم بنایا جائے جس کا نقشہ ابتدائی تعلیم سے لے کر انتہائی مدارج تک تینوں سے مختلف ہو۔
نئے نظام تعلیم کا خاکہ:
پہلی خصوصیت:
پہلی چیز جو اس نئے نظام میں ہونی چاہیے، وہ یہ ہے کہ دینی اور دنیوی علوم کی انفرادیت مٹا کر دونوں کو ایک جان کر دیا جائے۔ علم کو دین اور دنیا دو الگ الگ قسموں میں منقسم کرنا دراصل دین اور دنیا کی علیحدگی کے تصور پر مبنی ہے اور یہ تصور بنیادی طور پر غیر اسلامی ہے۔ اسلام جس چیز کو دین کہتا ہے وہ دنیا سے الگ کوئی چیز نہیں ہے، بلکہ دنیا کو اس نقطہ نظر سے دیکھنا کہ یہ اللہ کی سلطنت ہے اور اپنے آپ کو یہ سمجھنا کہ ہم اللہ کی رعیت ہیں اور دنیوی زندگی میں ہر طرح سے وہ رویہ اختیار کرنا جو اللہ کی رضا اور اس کی ہدایت کے مطابق ہو، اسی چیز کا نام دین ہے۔ اس تصور دین کا اقتضا یہ ہے کہ تمام دنیوی علوم کو دینی علوم بنا دیا جائے، ورنہ اگر کچھ علوم دنیوی ہوں اور وہ خدا پرستی کے نقطہ نظر سے خالی رہیں اور کچھ علوم دینی ہوں اور وہ دنیوی علوم سے الگ پڑھائے جائیں تو ایک بچے شروع ہی سے اس ذہنیت کے ساتھ پرورش پائے گا کہ دنیا کسی اور چیز کا نام ہے اور دین کسی اور چیز کا۔ اس کے لیے یہ دونوں دو مختلف عنصر ہوں گے اور ان کے درمیان توافق پیدا کر کے ایک ایسی ہموار زندگی بنانا اس کے لیے مشکل ہو گا جو "اُدْخِلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً" کی مصداق ہو سکے۔
مثال کے طور پر اگر آپ تاریخ، جغرافیہ، طبیعیات، کیمیا، حیاتیات (Biology)، ہیئت (Astronomy)، ارضیات (Geology)، حیوانیات (Zoology)، معاشیات (Economics)، سیاسیات اور دوسرے تمام علوم ایک شخص کو اس طرح پڑھاتے ہیں کہ اول سے آخر تک کسی جگہ خدا کا نام نہیں آتا، نہ آفاق و انفس کے آثار پر اس حیثیت سے نظر ڈالی جاتی ہے کہ یہ آیات الٰہی ہیں، نہ قوانین طبیعی کا ذکر اس حیثیت سے کیا جاتا ہے کہ یہ ایک حکیم کے بنائے ہوئے قوانین ہیں، نہ واقعات کی توجیہ اس حیثیت سے کی جاتی ہے کہ ان میں کسی قادر و توانا کا ارادہ کام کر رہا ہے، نہ عملی علوم میں اس مقصد کا کہیں نشان پایا جاتا ہے کہ ان سے خدا کی رضا کے مطابق کام لینا ہے، نہ معاملات زندگی کی بحث میں اس ضابطہ کا کہیں بیان آتا ہے جو ان کو چلانے کے لیے خدا نے بنایا ہے، نہ سرگزشت حیات میں اس کے الٰہی مبداء و غایت کی بحث کسی جگہ آتی ہے تو علوم کے اس پورے مجموعہ سے اس کے ذہن میں دنیا اور اس کی زندگی کا جو تصور پیدا ہو گا وہ خدا کے تصور سے بالکل خالی ہو گا۔ ہر چیز سے اس کا تعارف خدا کے بغیر ہو گا اور ہر معاملہ میں وہ اپنا راستہ خدا اور اس کی رضا سے الگ بنائے گا۔ پھر جب تمام شعبوں سے یہ نقطہ نظر اور معلومات کی یہ ترتیب لیے ہوئے ایک شعبے میں جا کر وہ الگ سے خدا کا ذکر سنے گا اور ان مقاصد زندگی اور ان قوانین اخلاقی اور ان ضوابط شرعی کی تعلیم حاصل کرے گا جنہیں آپ دینیات کے لفظ سے تعبیر کرتے ہیں، تو اس کی سمجھ میں نہ آئے گا کہ اس نقشے میں خدا کو اور اس سے تعلق رکھنے والی ساری چیزوں کو کہاں جگہ دوں۔ پہلے تو اسے خدا کی ہستی کا ثبوت ہی درکار ہو گا۔ پھر وہ اس بات کا ثبوت مانگے گا کہ مجھے اس کی ہدایت درکار بھی ہے اور اس کے پاس سے ہدایت آئی بھی ہے یا نہیں؟ اور ان سب باتوں کے بعد بھی اس کے لیے اپنی دنیوی معلومات کو اس نئی چیز کے ساتھ یک جان کر کے ہم رنگ نقشہ بنانا مشکل ہو گا۔ وہ خواہ کتنا ہی پختہ ایمان لے آئے مگر بہرحال اس کے لیے دین عین اس کی زندگی نہ ہو گا، بلکہ زندگی کا ایک ضمیمہ ہی بن کر رہ جائے گا۔ یہ ساری خرابی دینی اور دنیوی علم کی تقسیم کا نتیجہ ہے اور جیسا کہ میں ابھی عرض کر چکا، یہ تقسیم بالکل اسلامی نقطہ نظر کے خلاف ہے، نئے نظام تعلیم میں دینیات کے الگ کورس کی ضرورت نہیں، بلکہ سارے کورس کو دینیات کے کورس میں تبدیل کر دینا چاہیے۔ شروع ہی سے ایک بچے کو دنیا سے اس طرح روشناس کرائیے کہ گویا وہ خدا کی سلطنت میں ہے۔ اس کے اپنے وجود میں اور تمام آفاق میں خدا کی آیات پھیلی ہوئی ہیں۔ ہر چیز میں وہ خدا کی حکمت اور قدرت کے آثار دیکھ رہا ہے۔ اس کا اور ہر شے کا براہ راست تعلق خداوند عالم سے ہے جو آسمان سے زمین تک تمام معاملات دنیا کی تدبیر کر رہا ہے۔ دنیا میں جتنی قوتیں اس کو حاصل ہیں اور وہ اشیاء اس کے لیے مسخر ہیں سب کی سب خدا نے اس کو دی ہیں۔ ان سب سے خدا کی مرضی کے مطابق اور اس کے بنائے ہوئے طریقے پر اسے کام لینا ہے اور اپنے اس کام کی جواب دہی خدا کے سامنے اس کو کرنی ہے۔
ابتدائی مراحل میں تو کوئی دوسرا نقطہ نظر طالب علم کے سامنے آنا ہی نہیں چاہیے، البتہ بعد کے مراحل میں تمام علوم اس کے سامنے اس طرح آنے چاہئیں کہ معلومات کی ترتیب، حقائق کی توجیہ اور واقعات کی تعبیر تو بالکلیہ اسلامی نقطہ نظر سے ہو، مگر اس کے مخالف تمام دوسرے نظریات بھی پوری تنقید و تنقیح کے ساتھ اس حیثیت سے اس کے سامنے رکھ دیے جائیں کہ یہ ضالین اور "مَغضُوبِ عَلَيْهِمُ" کے نظریات ہیں۔ اسی طرح عملی زندگی سے تعلق رکھنے والے جملہ علوم کی بنیاد میں تو مقصد حیات، اصول اخلاق اور مناہج عمل اسلام کے پیوست کیسے جائیں اور دوسروں کے اصول اور طریقے اس حیثیت سے طالب علم کو پڑھائے جائیں کہ ان کی فکری اساس، منزل مقصود اور راہ عمل اسلام سے کتنی اور کس کس پہلو سے مختلف ہے۔ یہ طریقہ ہے تمام علوم کو دینی علوم میں تبدیل کرنے کا اور جب اس طریقہ سے تعلیم دی جائے تو ظاہر ہے کہ اس میں دینیات کے لیے کسی علیحدہ کورس کی کوئی حاجت ہی پیش نہیں آسکتی۔
دوسری خصوصیت:
دوسری اہم خصوصیت جو اس نظام تعلیم میں ہونی چاہیے وہ یہ ہے کہ اس میں ہر طالب علم کو مجموعہ علوم بنانے اور تکمیل کے بعد ہر ایک کو "مولانا" اور ہر ایک کو جملہ مسائل میں فتویٰ کا مجاز قرار دینے کا وہ طریقہ جو اب تک رائج ہے، ختم کر دیا جائے اور اس کی جگہ اختصاصی تعلیم کا وہ طریقہ اختیار کیا جائے جو سالہا سال کے تجربات کے بعد دنیا میں مفید پایا گیا ہے۔ انسان کا علم اب اتنی ترقی کر چکا ہے اور اتنے شعبے اس میں پیدا ہو گئے ہیں کہ کسی ایک شخص کا ان سب کو پڑھنا محال ہے اور اگر تمام علوم میں محض معمولی سی شد بد اسے کرادی جائے، وہ کسی شعبہ علم میں بھی کامل نہیں ہو سکتا۔ اس کے بجائے بہتر یہ ہے کہ پہلے آٹھ یا دس سال کا کورس ایسا رکھا جائے کہ ایک بچے کو دنیا اور انسان اور زندگی کے متعلق حقیقی معلومات کم سے کم حاصل ہونی ضروری ہیں، وہ اس کو خالص اسلامی نقطہ نظر سے دے دی جائیں۔ اس کے ذہن میں کائنات کا وہ تصور بیٹھ جائے جو مسلمان کا تصور ہونا چاہیے ۔ زندگی کا وہ خاکہ جم جائے جو ایک مسلمان کی زندگی ہونی چاہیے۔ عملی زندگی کے متعلق وہ تمام معلومات اسے حاصل ہو جائیں جن کی ایک آدمی کو ضرورت ہوتی ہے اور وہ ان سب چیزوں کو ایک مسلمان کے طریقے پر برتنے کے لیے تیار ہو جائے، اسے اپنی مادری زبان بھی آجائے، عربی زبان بھی وہ اتنی جان لے کہ آگے مزید مطالعہ میں اسے مدد مل سکے اور کسی ایک یورپی زبان سے بھی واقف ہو جائے تا کہ معلومات کے اس وسیع ذخیرے سے فائدہ اٹھا سکے جو ان زبانوں میں موجود ہے۔ اس کے بعد اختصاصی تعلیم کے الگ کورس ہوں جن میں چھ یا سات سال کی محققانہ تربیت حاصل کر کے ایک طالب علم اس شعبہ علم کا ڈاکٹر قرار دیا جائے جس کی تعلیم اس نے حاصل کی ہے۔ مثال کے طور پر میں چند شعبوں اور ان کے طریقِ تعلیم کی تشریح کروں گا جس سے آپ اندازہ کر سکیں گے کہ میرے ذہن میں اس اختصاصی تعلیم کا کیا نقشہ ہے۔
ایک شعبہ فلسفہ اور علوم عقلیہ کے لیے مخصوص ہونا چاہیے۔ اس شعبہ میں طالب علم کو پہلے قرآن کا علم پڑھایا جائے تاکہ اس ذریعے سے وہ معلوم کرے کہ انسانی حواس سے جو چیزیں محسوس ہوتی ہیں، ان کی تہہ میں حقائق کی جستجو کرنے کی کیا سبیل ہے۔ عقل انسانی کی رسائی کہاں تک ہے اور کن حدود سے وہ محدود ہے۔ مجرد استدلال پر تخیلات کی عمارت کھڑی کرنے میں کس طرح انسان واقعات اور حقیقت کی دنیا سے الگ ہو کر خیالات کی تاریک دنیا میں گم ہو جاتا ہے۔ مابعد الطبیعی امور سے متعلق کتنا علم انسان کے لیے فی الواقع ضروری ہے۔ اس ضروری علم تک پہنچنے کے لیے مشاہدہ (Observation) اور استقرا (Induction) سے کس طرح کام لینا چاہیے کن امور ما بعد الطبیعی کا تعین ہم کر سکتے ہیں کن کے متعلق ایک مجمل اور مطلق حکم سے آگے ہم نہیں بڑھ سکتے اور کہاں پہنچ کر اجمال کو تقیید میں تبدیل کرنے کی کوشش نہ صرف بے بنیاد ہو جاتی ہے، بلکہ انسان کو تخیلاتِ لاحاصل کی بھول بھلیوں میں بھٹکا دیتی ہے۔ اس بنیاد کو سمجھنے کے بعد طالب علم کو تاریخ فلسفہ کا مطالعہ کرایا جائے اور یہاں قرآنی فلسفہ کی مدد سے اس کو تمام مذاہب فلسفہ کی سیر کرا دی جائے تاکہ وہ خود دیکھ لے کہ حقائق تک پہنچنے کے جو ذرائع انسان کو دیے گئے تھے، ان سے کام نہ لے کر یا ان سے غلط طریقے پر کام لے کہ کس طرح انسان بھٹکتا رہا ہے۔ کس طرح اس نے اوہام کو حقیقت سمجھا ہے اور اس سے کس طرح اس کی زندگی متاثر ہوئی کس طرح اس نے اپنی پہنچ سے ماورا، چیزوں کے متعلق رحماً بالغیب کا حکم لگایا اور اس کے کیا اثرات زندگی پر مترتب ہوئے۔ کس طرح اس نے اپنے حواس اور اپنی عقل کی حدود کا تعین کیے بغیر ان حقیقتوں کا تعین کرنے میں اپنا وقت ضائع کیا جن کا تعین اس کے بس کی چیز ہی نہ تھا۔ کہاں ہندو فلسفیوں نے ٹھوکر کھائی، کہاں سے یونانی فلسفہ بھٹکا، کدھر مسلمان فلاسفہ قرآن کی بتائی ہوئی راہوں سے ہٹ کر نکل گئے، متکلمین نے مختلف اسکولوں میں صدیوں تک جن مسائل پر بحثیں کیں، ان میں قرآن کی رہنمائی سے کہاں کہاں اور کتنا کتنا تجاوز تھا۔ فلسفیانہ تصوف کے مختلف مذاہب نے مجمل کو مفصل اور مطلق کو مقید بنانے کی کس طرح کوششیں کیں اور وہ کس قدر غلط تھیں۔ یورپ میں فلسفیانہ تفکر نے کیا کیا راہیں اختیار کیں۔ ایک ہی حقیقت کی جستجو میں کتنے مختلف مذہب بن گئے۔ ان مختلف مذاہب میں حق کتنا ہے اور باطل کی آمیزش کتنی ہوئی اور کن راہوں سے آئی۔ کون سے ما بعد الطبیعی تصورات ہیں جنہوں نے یورپ میں جڑ پکڑ لی ہے۔ ان سے اخلاق و اعمال پر کیا اثرات مترتب ہوئے ہیں اور اگر کتاب اللہ کی رہنمائی سے فائدہ اٹھایا جاتا تو فضول دماغی کاوشوں میں وقت ضائع کرنے اور غلط بنیادوں پر زندگی کی تعمیر کرنے سے کس طرح دنیا بچ سکتی تھی۔ اس تمام مطالعے کے بعد طالب علم اپنی تحقیق کے نتائج مرتب کرے اور جب اہل علم کی جرح و تنقید کے بعد وہ اپنا کامل الفن ہونا ثابت کر دے تو اس کو فلسفہ میں فضیلت کی سند دے کر چھوڑ دیا جائے۔
ایک تیسرا شعبہ تاریخ کا ہونا چاہیے جس میں قرآن کا فلسفہ تاریخ، مقصد مطالعہ تاریخ اور طرز مطالعہ تاریخ طالب علم کے ذہن نشین کرایا جائے تاکہ اس کے قلب سے تمام تعصبات نکل جائیں۔ وہ حقائق کو بے رنگ نگاہ سے دیکھنے اور ان سے بے لاگ نتائج اخذ کرنے کے لیے مستعد ہو جائے۔ نوع انسان کی سرگزشت اور تہذیب انسانی کے نشو و ارتقا کا مطالعہ کر کے انسان کی فلاح و خسران اور سعادت و شقاوت اور عروج و زوال کے مستقل اصول مستنبط کرے۔ مداولت ایام بین الناس جس ڈھنگ پر اور جس ضابطے کے مطابق ہوتی ہے، اسے معلوم کرے، جو اوصاف انسان کو اوپر اٹھاتے ہیں اور جو اسے نیچے گرا دیتے ہیں، ان سے واقف ہو اور خود اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کر لے کہ کس طرح فطرت کا ایک خط مستقیم ابتدا سے آج تک سیدھا کھنچا ہوا نظر آتا ہے جو انسان کی ترقی کا اصلی راستہ ہے۔ اس طرزِ مطالعہ سے جب طالب علم کو معلوم ہو جائے گا کہ خدا کا قانون کس قدر بے لاگ ہے اور کیسی غیر جانبداری کے ساتھ اس نے قوموں سے معاملہ کیا ہے، تو کوئی قوم بھی نہ اس کی چہیتی رہے گی اور نہ کسی کے خلاف اس کے دل میں نفسانی عداوت کا جذبہ رہے گا۔ جس قوم کے کارنامے پر بھی وہ نظر ڈالے گا، بے لاگ طریقے پر ڈالے گا اور فلاح و خسران کے ابدی اصولوں کی کسوٹی پر کس کر کھرے کو الگ اور کھوٹے کو الگ کر کے سامنے رکھ دے گا۔ اس تربیت ذہنی کے بعد اسے تاریخی دستاویزوں اور آثار قدیمہ اور ماخذ اصلیہ سے بطور خود نتائج اخذ کرنے کی مشق کرائی جائے اور اتنا تیار کر دیا جائے کہ وہ جاہلی مورخین کے پڑھائے ہوئے پردوں سے اصل حقائق کو الگ کر کے خود بے لاگ رائیں قائم کر سکے۔
ایک اور شعبہ علوم عمرانی (Social Sciences) کا ہونا چاہیے، جس میں پہلے قرآن اور حدیث سے انسانی تمدن کے بنیادی اصول بتائے جائیں، پھر تفصیل کے ساتھ اصول سے فروع کا استنباط کر کے اور انبیاء کی رہنمائی میں جو تمدن بنے تھے، ان کے نظائر سے استشہاد کرتے ہوئے یہ بتایا جائے کہ ان قواعدِ اصلیہ (Fundamental Principles) پر کس طرح ایک صالح نظامِ معاشرت، نظامِ معیشت، نظامِ سیاست، تدبیرِ مملکت اور تعلقات بین الاقوامی کی عمارت اٹھتی ہے۔ پھر یہ بتایا جائے کہ کس طرح ان ہی اصولوں پر اس عمارت کی مزید توسیع ہو سکتی ہے اور اجتہاد سے توسیع کا نقشہ مرتب کرنے کا کیا طریقہ ہے اور انسانی علم کی ترقی سے جو نئی قوتیں دریافت ہوتی ہیں اور تمدن کے فطری نشو و نما سے جو نئے طرز عمل پیدا ہوتے ہیں، ان سب کو اللہ کی مقرر کردہ حدود کے اندر رہتے ہوئے اس صالح تمدن میں جذب کرنے اور اپنے اپنے ٹھیک مقام پر رکھنے کی کیا صورت ہے۔ اس کے علاوہ ایک طرف طالب علم کو پچھلی قوموں اور مسلمانوں کی تمدنی تاریخ کا مطالعہ کرایا جائے تاکہ وہ دیکھے کہ تمدن کے ان اساسی اصول اور الٰہی حدود کے قریب رہنے اور ان سے انحراف کرنے سے کیا نتائج رو نما ہوئے ہیں اور دوسری طرف اسے دور جدید کے سیاسی، معاشی، اجتماعی نظریات و عملیات کا تنقیدی مطالعہ کرایا جائے تاکہ وہ یہ بھی دیکھ لے کہ انسان نے الٰہی ہدایت سے بے نیاز بن کر بطور خود اپنی زندگی کے لیے جو راستے تجویز کیے ہیں وہ کہاں تک اس کے لیے موجب سعادت و شقاوت ہیں۔
سائنس کی مختلف شاخوں کے لیے چند شعبے علیحدہ ہونے چاہئیں جن میں قرآن کی رہنمائی سے فائدہ اُٹھا کر نہ صرف اب تک کی جمع شدہ سائنٹیفک معلومات کا جائزہ لیا جائے بلکہ آثار فطرت کے مزید مشاہدے اور قوانین فطرت کی مزید دریافت کا کام بھی انہی خطوط پر کیا جائے جو قرآن نے کھینچ دیے ہیں۔ اگر چہ یہ کتاب سائنس کی کتاب نہیں ہے نہ اس کے موضوع کا براہ راست سائنس سے کوئی تعلق ہے، لیکن چونکہ یہ اسی مصنف کی تصنیف ہے جس نے کائنات کو تصنیف کیا ہے اور وہ مصنف اپنی ایک کتاب سے دوسری کتاب میں جگہ جگہ استدلال و استشہاد کا کام لیتا ہے، اس لیے اس کے گہرے مطالعہ سے سائنس کے ایک طالب علم کو نہ صرف نظام کائنات کا بنیادی فارمولا معلوم ہو جاتا ہے بلکہ قریب قریب ہر شعبہ علم میں اسے ایک صحیح نقطہ آغاز (Starting Point) اور تلاش و تجسس کے لیے ایک صحیح سمت (Direction) بھی ملتا ہے۔ یہ وہ ماسٹر کی (Master Key) ہے جس سے تحقیق کا سیدھا راستہ صاف کھل جاتا ہے، جس کی مدد سے اگر آدمی کام لے، تو اس کا بہت سا وقت گتھیوں کے سلجھانے اور سلجھاتے سلجھاتے خود اُلجھ جانے میں ضائع نہ ہو! موجودہ سائنس کی گمراہی میں ایک بڑا سبب یہ ہے کہ حقائقِ واقعیہ کے مشاہدے کی حد تک تو ٹھیک رہتا ہے، مگر جب حقائق کو جوڑ کر ان سے نظریات بناتا ہے تو کائناتِ فطرت کے مبداء و غایت سے ناواقف ہونے کے باعث ٹھوکریں کھاتا جاتا ہے اور اس سے نہ صرف بہت سی انسانی قوت فضول ضائع ہوتی ہے، بلکہ ان غلط نظریات کو جب انسانی تمدن میں جذب کر کے عملیات کی بنیاد اٹھائی جاتی ہے تو وہ فساد تمدن کی موجب ثابت ہوتی ہے۔ قرآن کی رہنمائی میں جب ایک مسلم سائنٹسٹ ثابت شدہ حقائق کو نظریات سے الگ کر کے مرتب کرے گا اور مزید حقائق دریافت کر کے ان سے بہتر نظریات نکال کر بتائے گا تو کوئی وجہ نہیں کہ دنیا ان سائنٹیفک گمراہیوں کو چھوڑنے پر مجبور نہ ہو جائے جن میں آج وہ مبتلا ہے۔
جن علوم کو اس وقت علوم دینی کہا جاتا ہے، ان کے لیے بھی الگ الگ شعبے مخصوص ہونے چاہئیں۔ مثلاً ایک شعبہ قرآن کے تحقیقی مطالعہ کا ہو جس میں پچھلے مفسرین کے کام کا جائزہ لینے کے بعد آگے مزید کام کیا جائے، مختلف پہلوؤں سے قرآن کی گہرائیوں میں اترنے کی کوشش کی جائے اور علوم انسانی کے تمام شعبوں سے استفادہ کر کے قرآن میں مزید بصیرت حاصل کی جائے۔ اسی طرح ایک شعبہ علوم حدیث کا ہونا چاہیے، جس میں قدیم محدثین کے کام سے پورا فائدہ اٹھانے کے بعد حدیث میں تحقیق، تنقید، ترتیب معلومات اور اخذ نتائج کا مزید کام کیا جائے۔ دور سعادت کے متعلق زیادہ سے زیادہ تفصیلات ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالی جائیں اور ان سے وہ نتائج اخذ کیے جائیں جو اب تک ہمارے علم سے مخفی ہیں۔ ایک شعبہ قانون کا ہونا چاہیے جس میں قرآن کے احکام، حدیث نبوی کی قولی و عملی تشریحات، صحابہ کرام اور تابعین کے اجتہادات اور ائمہ مجتہدین کے طرزِ استنباط اور جزئیات میں ان کی تصریحات کا مفصل تحقیقاتی مطالعہ کیا جائے۔ نیز دنیا کی دوسری پرانی اور نئی قوموں کے قوانین اور قانونی نظامات پر بھی گہری نظر رکھی جائے۔ اور زندگی کے روز بروز بدلنے والے معاملات و مسائل پر اصولِ قانونِ اسلامی کو منطبق کر کے فقہ کے ان چشموں کو پھر سے رواں کیا جائے جو صدیوں سے سوکھ کر رہ گئے ہیں۔ یہ شعبے نہ صرف بجائے خود بہت عظیم الشان کام انجام دیں گے، بلکہ دوسرے تمام شعبوں کو بھی کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہ کے متعلق ان ہی سے وہ مواد ملے گا جس کی بنیاد پر علم کی تمام راہوں میں تحقیق و اکتشاف کا کام چلایا جائے۔
تیسری خصوصیت:
میں نے یہ چند شعبے محض تمثیلاً بیان کیے ہیں جن سے پورے نقشے کی تفصیلات کا تصور باآسانی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اب میں اس نئے تعلیمی نظام کی آخری مگر نہایت اہم خصوصیت کا ذکر کروں گا اور وہ یہ ہے کہ اس میں وہ بے مقصد تعلیم نہیں ہو گی جو آج کل یہاں دی جا رہی ہے، بلکہ اس میں تعلیم دینے والے اور تعلیم پانے والے دونوں کے سامنے ایک متعین اور واضح مقصدِ زندگی اور منتہائے سعی و عمل ہو گا، یعنی یہ کہ ان سب کو مسلک خدا پرستی کی امامت دنیا میں قائم کرنے کے لیے جہاد کبیر کرنا ہے۔ یہ مقصد اس نظام کی ہر چیز میں اسی طرح کام کرے گا، جس طرح انسانی جسم کے ہر رگ اور ہر ریشے اور ہر حرکت میں اس کی روح کام کرتی ہے۔ طلبہ کی شخصی زندگی، ان کے باہمی اجتماعات، ان کے کھیل کود اور تفریحات اور ان کے درس و تدریس اور مطالعہ و تحقیق کے تمام مشاغل میں اسی مقصد کی کار فرمائی ہو گی۔ اسی کے مطابق ان کی سیرت و کردار کی تعمیر کی جائے گی۔ اسی پر ان کے اخلاق ڈھالے جائیں گے اور تمام ماحول ایسا بنایا جائے گا کہ ہر شخص کو ایک مجاہد فی سبیل اللہ میں تبدیل کر دے۔
نتائج جو مطلوب ہیں:
اس قسم کی تربیت اور اس قسم کی تعلیم پاکر جو لوگ تیار ہوں گے، ان میں یہ طاقت ہو گی کہ ان حالات کی رفتار بدل دیں۔ ان کی محققانہ تنقید جاہلیت کے علوم اور جاہلی تہذیب کی ساری بنیادوں کو ہلا دے گی۔ ان کے مدون کیے ہوئے علوم میں اتنا زور ہو گا کہ جو لوگ آج جاہلیت کے نقطہ نظر پر جمے ہوئے ہیں، ان کو وہ اسلامی نقطۂ نظر کی طرف پھیر لائیں گے۔ ان کی تحقیق کے نتائج یورپ اور امریکہ اور جاپان تک کو متاثر کر دیں گے اور ہر طرف سے معقول انسان ان کے نظریات کی طرف کھنچے چلے آئیں گے۔ ان کا مرتب نظریہ حیات اور طرزِ زندگی اتنی قوت کے ساتھ فکر و نظر کی دنیا پر چھا جائے گا کہ عمل کی دنیا میں اس کے خلاف کسی دوسرے لائحہ زندگی کا چلنا مشکل ہو گا۔ پھر اس تعلیم سے اس سیرت اور اس عزم کے لوگ پیدا ہوں گے جو امامت کے نظام میں عملاً انقلاب برپا کرنے کے لیے ضروری ہے۔ وہ اس انقلاب کے فن کو بھی جانتے ہوں گے، ان میں اس کے برپا کرنے کا مضبوط داعیہ بھی ہو گا اور انہیں اپنی انقلابی تحریک کو خالص اسلامی راہوں پر چلانا بھی آتا ہو گا۔ پھر ان ہی میں یہ اہلیت بھی ہو گی کہ کامیابی کی منزل پر پہنچ کر اسلامی اصول کے مطابق ایک اسٹیٹ ایک مکمل نظامِ تمدن کے ساتھ بنا کر کھڑا کر دیں جس کی شکل اور روح اسلامی ہو اور جو دنیا میں امامت کرنے کی پوری طاقت و صلاحیت رکھتا ہو۔
عملی مشکلات:
حضرات! اس مرحلہ پر پہنچ کر تین سوالات سامنے آتے ہیں اور میں محسوس کرتا ہوں کہ میرے یہ معروضات سننے کے دوران میں ان سوالات نے آپ کے دلوں میں خلش پیدا کرنی شروع کی ہو گی۔
نصاب اور معلمین کی تیاری:
پہلا سوال یہ ہے کہ یہ نیا نظام قائم کیسے کیا جائے گا جب کہ اس نئے طرز پر نہ تو پڑھانے والے ہی اس وقت کہیں مل سکتے ہیں اور نہ ایسی کتابیں موجود ہیں جن سے ایک صحیح علم کی تعلیم بھی اس نقشے سے فراہم کی جا سکے۔ بلکہ شاید الٹا ہو گا اگر کہا جائے کہ پہلی جماعت کے بچے کو بھی اس طرز کی تعلیم دینے کے لیے کسی مدرس اور کسی کتاب کا ملنا اس وقت مشکل ہے۔ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ جس طرح ایک عمارت بنانے کے لیے پہلے بنیاد کھودنا پڑتا ہے تاکہ اینٹیں بچھائی جائیں، اسی طرح ایک نیا نظام تعلیم بنانے کے لیے بھی ایک تربیت گاہ بنانا ضروری ہے تاکہ اس میں وہ آدمی تیار کیے جائیں جو اس طریقہ کی تعلیم دینے کے قابل ہوں۔ انہیں بھی تو آپ کو کئی کئی نہیں ملیں گے، کافی بنانے پڑیں گے۔ اس ناقص تعلیم سے کچھ ایسے بندے بھی فارغ ہو کر نکلے ہیں جو فطرت ابراہیمی پر پیدا ہوئے ہیں۔ کافر تعلیم و تربیت کے سارے مرحلوں سے گزرنے کے باوجود اپنا ایمان بچا لائے ہیں۔ ان کا نقطہ نظر اور مقصد زندگی اسلامی ہے یا ذرا سی محنت سے اسے اسلامی بنایا جا سکتا ہے۔ ان میں یہ طاقت بھی موجود ہے کہ جس غیر خدا پر وہ ایمان لائے ہیں، اس کی راہ میں جماعتیں کریں۔ ان میں اجتہادی صلاحیتیں بھی موجود ہیں۔ ایسے لوگوں کو تیار کر کے اگر خالص قسم کی ذہنی و اخلاقی تربیت دی جائے اور معلومات جو اب تک ان کے ذہن میں جمع ہوتی رہی ہیں، اس کو ذرا حکمت کے ساتھ بدل دیا جائے اور زاویہ نگاہ اچھی طرح اسلام کی سمت میں کر دیا جائے تو یہی لوگ تحقیق و مطالعہ سے اس قابل ہو سکتے ہیں کہ علوم کو اس نقشے کے مطابق از سر نو مدون کر کے مرتب کر دیں۔ پھر جب تدوین علوم کا کام کسی حد تک انجام پا جائے تو ایک دور کی درس گاہ ابتدائی تجزیہ کے لیے بنائی جا سکتی ہے اور بعد میں آہستہ آہستہ ترقی دے کر اسے یونیورسٹی کے مرتبے تک پہنچایا جا سکتا ہے۔
معلمین کی فراہمی:
دوسرا سوال یہ ہے کہ اس قسم کا نظام تعلیم اگر کبھی ہم کروا بھی جائے تو اس میں جاذبیت کون سی ہو گی جو پڑھنے والوں کو اس کی طرف کھینچے گی؟ یہ نظام تعلیم موجودہ نظامات تمدن و سیاست کی خدمت کے لیے نہیں، بلکہ ان سے لڑنے کے لیے بنایا جائے، اس میں شریک ہونے والے کو یہ تو امید ہو ہی نہیں سکتی کہ کل وہ وہاں سے نکل کر کچھ کما سکے گا۔ پھر کتنے ایسے لوگ ہوں گے جو کمانے سے بے نیاز ہو کر اس تعلیم کو حاصل کرنے کے لیے آئیں گے جس کے بعد دنیوی لحاظ سے کوئی شاندار مستقبل نہیں ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس نظام تعلیم میں حق اور صداقت کے سوا کوئی کشش نہیں ہے اور کسی دوسری کشش کی حاجت ہی نہیں۔ جن لوگوں کے لیے اس چیز میں جاذبیت نہ ہو اور صرف روٹی ہی جن کو کھینچ سکتی ہو ان کی توجہ سے یہ نظام تعلیم خود بھی اتنا ہی بے نیاز ہو گا جتنے وہ اس سے بے نیاز ہیں۔ اس کے لیے تو وہ لوگ درکار ہیں جو جان بوجھ کر اس مقصد اور اس کام کے لیے اپنی اور اپنے بچوں کی زندگی وقف کرنے کے لیے تیار ہوں جس کے لیے یہ نظام تعلیم بنایا جائے گا اور ایسے لوگ بالکل ہی مفقود نہیں ہیں۔ پوری قوم سے پچاس بچے بھی کیا اس کام کے لیے نہ مل سکیں گے؟ اگر اتنے بچے بھی وہ قوم فراہم نہیں کر سکتی جو مدتوں سے اسلام اسلام چیخ رہی ہے، تب بھی کچھ پروا نہیں۔ اللہ دوسری قوموں کو یہ سعادت بخشے گا۔
مال کا سوال:
تیسرا اور آخری سوال یہ ہے کہ اس کام کے لیے مال کہاں سے آئے گا؟ اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ ان لوگوں کے پاس سے جو مال اور ایمان دونوں رکھتے ہوں اور اتنی عقل بھی رکھتے ہوں کہ اپنے مال کا صحیح مصرف سمجھ سکیں۔ ایسے لوگ بھی اگر اس قوم میں نہ پائے گئے جو رات دن اسلام کے درد میں تڑپ رہی ہے، تو میں پھر یہی کہوں گا کہ کچھ پروا نہیں، اللہ دوسری قوم میں سے ایسے آدمی پیدا کرے گا۔ آخر پہلے بھی تو کفر و شرک کی گود ہی سے وہ اللہ کے بندے نکل کر آئے تھے جن کی مالی قربانیوں سے دنیا میں اسلام کا فروغ ہوا۔
ایک اسلامی یونیورسٹی کا نقشہ
ایک اسلامی یونیورسٹی کا نقشہ
مختلف مسلم ممالک میں اس طرح کی تجویزیں کی جا رہی ہیں کہ مسلمانوں کے نظام تعلیم میں بنیادی تغیرات کیے جائیں اور ایک ایسے جدید طرز پر اسلامی تعلیم کے ادارے قائم کیے جائیں جو مسلم نوجوانوں کو اسلام کے نصب العین کے مطابق دنیا کی رہنمائی کے لیے تیار کر سکیں۔ لیکن اس سلسلے میں اب تک جتنے ادارے قائم ہوئے ہیں، ان کے نقشے اور کام کو دیکھ کر عالمِ اسلام کے اصحاب فکر میں سے غالباً کوئی بھی پوری طرح مطمئن نہیں ہے۔ اس وقت در حقیقت عالم اسلام کو جس چیز کی ضرورت ہے، وہ نہ تو ایک دارالعلوم یا کلیہ شرعیہ ہے جو قدیم طرز کے علماء تیار کرے اور نہ ایک جدید یونیورسٹی جو مغربی علوم کے ماہرین پیدا کرے، بلکہ وہ ایک ایسی جامعہ ہے جو دنیا میں اسلام کے علمبردار تیار کر سکے۔
انڈونیشیا سے لے کر مراکش تک تمام مسلمان ملکوں میں اس وقت دو طرح کے نظام تعلیم رائج ہیں۔ ایک نظام تعلیم خالص مغربی ذہن و فکر رکھنے والے اور مغربی تہذیب و تمدن کے رنگ میں رنگے ہوئے آدمی تیار کر رہا ہے اور اس کے تیار کیے ہوئے لوگ مسلم ممالک کی حکومتوں کے نظام چلا رہے ہیں۔ انہی کے ہاتھ میں معیشت کا سارا کاروبار ہے، وہی سیاست کی باگیں تھامے ہوئے ہیں اور وہی تمدن و تہذیب کی صورت گری کر رہے ہیں، لیکن یہ لوگ بالعموم دین کے علم و فہم سے عاری اور مغربیت سے مرعوب و مغلوب ہیں، اس لیے یہ دنیا بھر میں امت مسلمہ کی گاڑی کو روز بروز نہایت تیزی کے ساتھ اسلام کی مخالف سمت میں لیے جا رہے ہیں۔ دوسرا نظام تعلیم علوم دینی کے علماء تیار کر رہا ہے جو دنیوی علوم سے بالعموم ناواقف ہوتے ہیں اور مسلمانوں کے محض مذہبی شعبہ حیات کی محافظت کی خدمت انجام دیتے ہیں۔ یہ لوگ دنیا میں کہیں بھی ان قابلیتوں اور ان اوصاف سے متصف نہیں ہیں جن سے یہ زندگی کی گاڑی کے ڈرائیور بن سکیں۔ ہر جگہ یہ صرف ایک بریک کا کام دے رہے ہیں جس کا کام اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے کہ مقدم الذکر گروہ جس تیزی کے ساتھ امت کی گاڑی کو مخالف سمت میں لے جانا چاہتا ہے، اس میں رکاوٹ پیدا کرے اور رفتار کو سست کرتا رہے، بلکہ بعض ملکوں میں تو بدمست ڈرائیور اس بریک کو توڑ چکے ہیں اور الحاد و فجور کے راستے پر بے تحاشا اپنی قوم کو دوڑائے لیے جا رہے ہیں۔ قبل اس کے کہ باقی مسلمان ملکوں میں وہ وقت آئے جب کہ ہر جگہ یہ بریک ٹوٹ چکا ہو، ہمیں ایک ایسا نظام تعلیم قائم کرنے کی فکر کرنی چاہیے جس سے بیک وقت دین و دنیا کے عالم تیار ہوں، جس سے نکلنے والے بریک کی جگہ نہیں، بلکہ امت کی گاڑی کے ڈرائیور کی جگہ سنبھالنے کے قابل ہوں اور اپنے اخلاق و کردار کے اعتبار سے بھی اور ذہنی صلاحیتوں کے اعتبار سے بھی مغربی طرز کے نظام تعلیم سے فارغ ہونے والوں کی بہ نسبت فائق تر ہوں۔
اس ضرورت کو مسلم دنیا کا کوئی تعلیمی ادارہ پورا نہیں کر رہا ہے۔ عالمِ اسلام کے تمام اہل فکر پریشان ہیں کہ اگر ایسا ایک نظام تعلیم قائم نہ ہوا تو امت مسلمہ کو دین و اخلاق کی مکمل تباہی سے کیسے بچایا جا سکے گا۔ اس طرح کا نظام تعلیم بنانے کے لیے جن وسائل کی ضرورت ہے، وہ صرف حکومتیں ہی فراہم کر سکتی ہیں۔ اور مسلم ممالک کی حکومتیں کیسے لوگوں کے ہاتھ میں ہیں، ان کا حال کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ اس حالت میں میرے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ میرے ذہن میں اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ایک تعلیمی ادارے کا جو خاکہ ہے، اسے عالم اسلام کے سامنے پیش کر دوں شاید کہ اہل علم و فکر اسے پسند کریں اور دنیا کی کوئی مسلم حکومت اس کو جامہ پہنانے کے لیے تیار ہو جائے، یا اللہ کچھ اہل عزیمت، اور اہل خیر اصحاب کا سینہ اس کام کے لیے کھول دے۔
اس یونیورسٹی کے لیے میں اپنی تجاویز نہایت اختصار کے ساتھ حسب ذیل میں پیش کرتا ہوں:
- سب سے پہلی ضروری چیز یہ ہے کہ اس یونیورسٹی کا مقصد واضح طور پر معین کر دیا جائے تاکہ اس کا سارا نظام اس کے لحاظ سے وضع کیا جائے، اس میں کام کرنے والے بھی اس کو نگاہ میں رکھ کر کام کریں اور اسے دیکھنے والے بھی اس معیار پر جانچ کر اسے دیکھ سکیں کہ وہ اپنے مقصد کو کہاں تک پورا کر رہی ہے۔ میرے نزدیک اس کا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ وہ ایسے صالح علماء تیار کرے جو اس دور جدید میں ٹھیک ٹھیک دین حق کے مطابق دنیا کی رہنمائی کرنے کے لائق ہوں۔
- اس کو اپنا دائرہ کار صرف علوم اسلامیہ تک محدود رکھنا چاہیے۔ دوسرے علوم اس میں اس حیثیت سے پڑھائے جائیں کہ وہ علومِ اسلامیہ کے لیے مددگار ہوں، نہ اس حیثیت سے کہ اس یونیورسٹی کو ان علوم کے ماہرین تیار کرنے ہیں۔
- اسے لازماً ایک اقامتی یونیورسٹی ہونا چاہیے جس میں طالب علم ہمہ وقت رہیں اور اساتذہ بھی یونیورسٹی کی حدود میں سکونت پذیر ہوں۔
- اسے تمام دنیا کے مسلمانوں کے لیے کھلا ہونا چاہیے تاکہ ہر جگہ کے طالب علم آزادی کے ساتھ اس میں آکر داخل ہو سکیں۔
- اس کا پورا ماحول ایسا ہونا چاہیے جو طلبہ میں تقویٰ اور اخلاق فاضلہ پیدا کرنے والا اور ان کے اندر اسلامی ثقافت کو مستحکم کرنے والا ہو۔ اس کو مغربی ثقافت کے اثرات سے محفوظ رکھا جانا چاہیے تاکہ اس کے طلبہ میں وہ شکست خوردہ ذہنیت پیدا نہ ہونے پائے جو مغرب سے مغلوب اور مرعوب ہونے والی قوموں میں ہر جگہ پیدا ہو رہی ہے۔ اس کے حدود میں مغربی لباس کا استعمال ممنوع ہونا چاہیے۔ اس میں طلبہ کے کھیل اور تفریحات کے لیے بھی مغربی کھیلوں کے بجائے گھوڑے کی سواری، تیراکی، نشانہ بازی، اسلحے کا استعمال، موٹر سائیکل اور موٹر چلانے کی مشق اور ایسی ہی دوسری تفریحات رائج کی جانی چاہئیں۔ اس کے ساتھ انہیں کسی حد تک فوجی تربیت بھی دی جانی چاہیے۔
- اس کے لیے اساتذہ کا انتخاب بھی صرف علمی قابلیت کی بنا پر ہی نہ ہونا چاہیے بلکہ اس کے تمام اساتذہ اپنے عقائد و نظریات اور اپنی عملی زندگی کے لحاظ سے صالح اور متقی ہونے چاہئیں۔ اس جامعہ کے لیے گہری چھان بین کے بعد ایسے اساتذہ کو عالمِ اسلام کے مختلف ممالک سے منتخب کیا جائے جو اعلیٰ درجہ کی علمی قابلیت رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے عقائد و افکار کے لحاظ سے پورے مسلمان ہوں، عملاً احکامِ اسلامی کا اتباع کرنے والے ہوں اور مغربی ثقافت سے شکست خوردہ نہ ہوں، بلکہ میں تو یہ بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ اس جامعہ کے لیے جن اساتذہ کو منتخب کیا جائے، ان کے متعلق یہ اطمینان بھی کر لیا جائے کہ ان کے گھر والے بھی حدودِ شرعیہ کی پابندی سے آزاد نہ ہوں۔ اس لیے کہ جامعہ کے حدود میں اگر طلبہ کے ساتھ ایسے اساتذہ رہیں جن کے گھر کی خواتین تبرجِ جاہلیت میں مبتلا ہوں اور جن کے گھر سے نغموں کی آوازیں بلند ہوتی رہیں تو طلبہ کو ان سے کوئی اچھا سبق نہ مل سکے گا۔
- اس کے طلبہ کو ایسی تربیت دی جانی چاہیے کہ ان میں خصوصیت کے ساتھ حسب ذیل اوصاف پیدا ہوں:
- (الف) اسلام اور اس کی تہذیب پر فخر اور اسے دنیا میں غالب کرنے کا عزم۔
- (ب) اسلامی اخلاق سے اتصاف اور اسلامی احکام کی پابندی۔
- (ج) دین میں تفقہ اور مجتہدانہ بصیرت۔
- (د) تنگ نظرانہ فرقہ بندی سے پاک ہونا۔
- (ھ) تحریر و تقریر اور بحث کی عمدہ صلاحیتیں اور تبلیغ دین کے لیے مناسب قابلیتیں۔
- (و) جفاکشی، محنت، چستی اور اپنے ہاتھ سے ہر طرح کے کام کر لینے کی صلاحیت۔
- (ز) تنظیم و انتظام اور قیادت کی صلاحیتیں۔
- اس میں صرف وہ لوگ داخل کیے جانے چاہئیں جو ثانوی تعلیم کے مرحلے سے فارغ ہو چکے ہوں۔ عرب ممالک سے آنے والے طلبہ براہ راست اس میں داخل ہو سکتے ہیں، لیکن غیر عرب ممالک کے طلبہ اگر عربی زبان میں کافی استعداد نہ رکھتے ہوں تو ان کے لیے کم از کم ایک سال کا کورس الگ ہونا چاہیے تاکہ انہیں عربی زبان کی کتابوں سے استفادہ کے قابل بنایا جا سکے۔
- اس کی تعلیم کو ۹ سال کے تین مرحلوں پر مشتمل ہونا چاہیے۔ مرحلہ اولیٰ ۴ سال، مرحلہ ثانیہ ۳ سال اور مرحلہ ثالثہ ۲ سال۔
- مرحلہ اولیٰ میں حسب ذیل مضامین کی تعلیم ہونی چاہیے اور ان کو تعلیم کی چار سالہ مدت پر مناسب طریقے سے تقسیم کر دینا چاہیے۔
- (الف) عقائدِ اسلام: اس تفصیل کے ساتھ کہ قرآن و سنت کی رو سے اسلام کے عقائد کیا ہیں اور ان کے حق میں کیا نقلی اور عقلی دلائل ہیں۔ اس سلسلے میں اختصار کے ساتھ یہ بھی بتایا جائے کہ مسلمانوں میں اختلاف عقائد کیسے اور کس ترتیب سے رونما ہوا ہے اور اس لحاظ سے دنیائے اسلام میں اس وقت کتنے مذاہب پائے جاتے ہیں، اس درس کو بیانِ علمی کے حدود سے متجاوز نہ ہونا چاہیے اور حربِ عقائد سے حتی الامکان پرہیز کرنا چاہیے۔
- (ب) اسلامی نظامِ حیات: اس مضمون میں طلبہ کو پورے اسلامی نظام سے روشناس کرا دیا جائے۔ اسلام کی بنیاد کن اساسی تصورات پر قائم ہے، ان تصورات کی بنا پر وہ اخلاق اور سیرت کی تشکیل کس طرح کرتا ہے، پھر گھر اور خاندان سے لے کر معیشت، سیاست اور بین الاقوامی تعلقات تک مسلم سوسائٹی کی زندگی کے مختلف شعبوں کو وہ کن اصولوں پر منظم کرتا ہے اور اس سے پوری اسلامی تہذیب کی کیا شکل بنتی ہے۔
- (ج) قرآن: چار سال کی مدت میں پورا قرآن مختصر تفسیر کے ساتھ پڑھا دیا جائے ۔ اس کے لیے تفسیر کی کوئی خاص کتاب مقرر کرنے کے بجائے استاد کو خود کتب تفاسیر سے استفادہ کرتے ہوئے اس طرح قرآن کا درس دینا چاہیے کہ طلبہ کتابِ الٰہی کا مقصود و مدعا اچھی طرح سمجھ لیں اور جو شکوک و شبہات ان کے ذہن میں پیدا ہوں وہ رفع کر دیے جائیں۔
- (د) حدیث: اس مضمون میں اجمالاً تاریخِ علمِ حدیث اور اصولِ حدیث، دلائلِ حجیتِ حدیث سے طلبہ کو ضروری حد تک آگاہ کرنے کے بعد، سنن کے مجموعوں میں سے کوئی ایک کتاب مکمل پڑھا دی جائے۔ مثلاً مُنتقیٰ الاخبار، یا بلوغ المرام، یا مشکوٰۃ المصابیح۔
- (ہ) فقہ: اس مضمون میں تاریخِ فقہ اور اصولِ فقہ پر ایک ایک مختصر کتاب پڑھانے کے بعد طلبہ کو فقہ کی تعلیم اس طرح دی جائے کہ وہ مسائلِ فقہیہ میں مختلف فقہاء کے مذاہب سے بھی واقف ہوتے جائیں اور ان کو یہ بھی معلوم ہو جائے کہ مآخذِ شریعت سے ائمہ مجتہدین نے کس طرح مسائل کا استنباط کیا ہے۔
- (و) تاریخِ اسلام: اس کا آغاز تاریخِ انبیاء علیہم السلام سے کیا جائے اور پھر خصوصیت کے ساتھ سیرتِ محمدی علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام اور خلفائے راشدین کے دور کو زیادہ تفصیل کے ساتھ پڑھائے جانے کے بعد، مختصراً پوری اسلامی تاریخ سے طلبہ کو روشناس کرا دیا جائے۔
- (ز) علومِ عمرانی (Social Sciences): خصوصاً معاشیات، سیاسیات اور سوشیالوجی۔ ان مضامین کی تعلیم کے لیے ایسے اساتذہ کا انتخاب کیا جائے جو اسلامی نقطہ نظر سے تنقید کے ساتھ تعلیم دے سکیں، مغربی افکار و نظریات جوں کے توں طلبہ کے ذہن میں نہ اتار دیں۔
- (ح) ادیان عالم: خصوصاً یہودیت، عیسائیت، بودھ مذہب اور ہندو مذہب سے اجمالی واقفیت۔
- (ط) جدید مغربی افکار کی مختصر تاریخ اور ان کے مذاہب: خصوصاً مغربی جمہوریت، اشتراکیت اور فسطائیت وغیرہ۔
- (ی) انگریزی، جرمن اور فرنچ میں سے کوئی ایک زبان۔
- مرحلہ ثانیہ میں پانچ فیکلٹیاں ہونی چاہئیں۔ تفسیر، حدیث، فقہ، علم الکلام اور تاریخ۔
- تفسیر کی فیکلٹی میں حسب ذیل مضامین ہونے چاہئیں۔
- تاریخ القرآن۔
- تاریخِ علمِ تفسیر اور مفسرین کے مختلف مذاہب اور ان کی خصوصیات۔
- اختلافِ قراءات۔
- اصولِ تفسیر۔
- قرآن مجید کا تفصیلی اور گہرا مطالعہ۔
- مخالفین کی طرف سے قرآن پر آج تک جتنے اعتراضات کیے گئے ہیں، ان کا جائزہ اور ان کے جوابات۔
- احکام القرآن۔
- حدیث کی فیکلٹی میں:
- تاریخِ تدوینِ حدیث۔
- علومِ حدیث اپنے تمام شعبوں کے ساتھ۔
- حدیث کی امہاتِ کتب میں سے کوئی ایک کتاب تفصیلی تنقید کے ساتھ تاکہ طلبہ کو محدثانہ طریقے پر احادیث کے پرکھنے کی اچھی طرح مشق ہو جائے۔
- کتبِ صحاح پر ایک جامع نظر۔
- حدیث پر مخالفین کی طرف سے اب تک جتنے اعتراضات کیے گئے ہیں، ان کا تفصیلی جائزہ اور اس کے جوابات۔
- فقہ کی فیکلٹی میں:
- اصولِ فقہ۔
- تاریخِ فقہ۔
- فلسفہ قانون جدید۔
- رومی و ایرانی قوانین، یہودی شریعت، جدید وضعی قوانین اور اسلامی قوانین کا تقابلی مطالعہ۔
- فقہائے اسلام کے مختلف مذاہب اور ان کے اصول۔
- قرآن و سنت سے براہ راست استنباطِ مسائل کی مشق۔
- اہلِ سنت کے چاروں مذاہب کی فقہ اور اس کے ساتھ فقہ ظاہری، فقہ زیدی اور فقہ جعفری بھی۔
- علم الکلام کی فیکلٹی میں:
- مبادیِ منطق۔
- فلسفہ قدیم و جدید۔
- مسلمانوں میں علم الکلام کے آغاز سے اب تک کی تاریخ اور ان مذاہب کی تفصیل جو اندرونی اور بیرونی اثرات سے مسلمانوں کے اندر پیدا ہوئے ہیں۔
- علم الکلام کے مسائل اور ان میں قرآن و سنت کی رہنمائی۔
- اسلام پر مخالفین کے اعتراضات کا تفصیلی جائزہ اور اس کے جوابات۔
- تقابلِ ادیان، خصوصاً مسیحیت کی تاریخ اور اس کے فرقوں اور اس کے علم کلام کا تفصیلی مطالعہ۔
- مسیحی مشنریوں کا کام اور ان کے طریقے۔
- تاریخِ اسلام کی فیکلٹی:
- فلسفہ تاریخ، مقصدِ مطالعہ تاریخ اور طرزِ مطالعہ تاریخ قرآن مجید کی رو سے۔
- فلسفہ تاریخ کے مختلف مذاہب ابن خلدون سے اب تک۔
- تاریخِ عرب و شرقِ اوسط قبل اسلام۔
- تاریخِ اسلام عہدِ نبوی سے اب تک بلحاظ فکر، اخلاق، علوم، تمدن و سیاست۔
- تجدید و احیائے دین کی تحریکات۔
- مسلمان ممالک پر مغربی استعمار کے غلبے کی تاریخ اور اس کے اثرات و نتائج۔
- مرحلہ ثالثہ میں داخل ہونے والا طالب علم مذکورہ بالا فیکلٹیوں میں سے کسی ایک میں کسی خاص موضوع پر دو سال تک علمی تحقیق کرنے کے بعد کوئی مقالہ پیش کرے گا جس کو اہل علم جانچنے کے بعد اسے سند فضیلت دیں گے۔
- اس جامعہ کے لیے ایک اعلیٰ درجے کی لائبریری ہونی چاہیے جس میں جامعہ کی مذکورہ بالا ضروریات کے مطابق وسیع پیمانے پر کتابیں فراہم کی جائیں۔
- ایک کمیٹی کا تقرر اس غرض کے لیے کیا جائے کہ جامعہ کی تعلیم کے مختلف مراحل اور شعبوں کے لیے مناسب کتابوں کا انتخاب کرے۔
- ایک اکیڈمی کا قیام اس غرض کے لیے کہ جامعہ کی ضروریات کے لیے مناسب کتابیں تیار کرے۔
عہد حاضر کا تقاضا (اسلامی جامعات کا قیام)
اسلام ایک کامل نظام حیات ہے جو انسانی زندگی کے ہر شعبے میں رہنمائی کرتا ہے، ریاست و سیاست کے معاملات ہوں یا معیشت کے مسائل، اخلاق و معاشرت کی دنیا ہو یا تعلیمی ادارے، ہر شعبے کے لیے اسلام کی رہنمائی موجود ہے اور پھر یہ اصول محض کاغذ پر ہی نہیں بلکہ آقائے دو جہاں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان اصولوں کے مطابق ایک معاشرہ تشکیل دیا جس میں سیاسی ادارے بھی تھے، تعلیم گاہیں بھی تھیں، معاشی مشکلات کا حل بھی تھا اور کردار سازی بھی۔ یہ معاشرہ پھلا پھولا اور دنیا نے اسے دیکھا۔
اسلام کے مابہ الامتیاز پہلوؤں میں سے ایک یہ ہے کہ اس نظام حیات میں دین اور دنیا کی کوئی تفریق نہیں ہے۔ زندگی خدا وند اور قیصر کے درمیان بٹی ہوئی نہیں ہے۔ مسلمان کا ہر کام جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں انجام پاتا ہے، عین دین ہے، اس لیے مسلمان ہونے کا تقاضا یہ ہے کہ زندگی کے سب ہی شعبے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں مرتب ہوں۔ انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اسی کا عمل دخل ہو۔
عالم اسلام کا ایک بڑا حصہ طویل غلامی کے بعد گزشتہ چالیس بیالیس سالوں میں آزاد ہوا ہے اور اس عہد غلامی سے پہلے مسلمان اپنے دور زوال سے گزرے ہیں۔ اسلام کے زریں دور اور آج کے درمیان صدیوں کا فاصلہ حائل ہے۔ اس عرصہ میں بحیثیت مجموعی فکر و عمل کے میدان میں خاموشی رہی ہے۔ اس کوتاہی کی تلافی اس صورت میں ہو سکتی ہے کہ آج ایسی درسگاہیں قائم کی جائیں جنہیں قدیم و جدید علم کی تعلیم اسلام کی روشنی میں دی جائے اور ان درس گاہوں سے نکلنے والے افراد مستقبل کے وہ معمار ہوں جو دنیا کو اسلامی فکر کی روشنی سے منور کریں اور ایک بار پھر کلمۃ اللہ بلند ہو۔
ہمارا موجودہ نظام تعلیم
مراکش سے انڈونیشیا تک پورے عالمِ اسلام کے موجودہ تعلیمی نظام پر ایک نظر ڈالنے سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ یہ تعلیم دنیا اور دین کی تفریق پر مبنی ہے۔ ہر اسلامی ملک میں کچھ ادارے صرف دینی تعلیم کے لیے مختص ہیں اور کچھ دینی رہنمائی سے بے نیاز دنیا کے مروجہ افکار و نظریات پھیلا رہے ہیں۔ ہمارے دینی مدارس قرآن و حدیث اور فقہ کی تعلیم تو ایک حد تک مہیا کر دیتے ہیں مگر ان کے فارغ التحصیل دنیا کے مسائل اور مروجہ نظاموں سے ناواقفیت کے باعث نظام زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں کر پاتے۔ اس طرح ہماری یونیورسٹیاں اور کالج ایسے افراد مہیا کرتے ہیں جو اپنے اپنے شعبہ مطالعہ میں تو دنیا کے افکار و نظریات سے آگاہ ہوتے ہیں مگر بالعموم ان میں یہ صلاحیت نہیں ہوتی کہ وہ قرآن حکیم اور سنتِ رسول سے رہنمائی لیتے ہوئے پیش آمدہ مسائل کا حل تجویز کر سکیں۔
یہ تعلیمی ثنویت کیوں؟
اس سوال کا جواب ہمیں گزشتہ دو صدیوں کی تاریخ سے ملتا ہے جب استعماری طاقتوں نے عالم اسلام کے مختلف خطوں پر قبضہ کیا تو ہر جگہ ان کی مزاحمت ہوئی مگر امت مسلمہ کے اخلاقی و دینی اضمحلال، باہمی نفاق اور دوسری کوتاہیوں کے باعث استعماری قوتوں نے غلبہ پا لیا۔ ان استعماری طاقتوں نے اپنے زیر تسلط لوگوں کے لیے ایک تعلیمی نظام وضع کیا۔ کسی بھی تعلیمی نظام میں بنیادی سوال یہ ہوتا ہے کہ کس قسم کے آدمی تیار کرنا مقصود ہیں۔ ظاہر ہے کہ استعماری طاقتوں کے اپنے مخصوص مقاصد تھے۔ وہ مقامی آبادی میں سے ایسے افراد حاصل کرنا چاہتے تھے جو ان کی زبان سمجھ سکیں جن سے وہ تعلق و ربط پیدا کر کے بہتر طور پر داد حکمرانی دے سکیں جو حکمرانوں کے اصولوں اور طریقہ کار کو جانتے ہوں، جس پر ملک کو چلانا مقصود تھا اور جن میں یہ خوبی ہو کہ وہ حکمرانوں کی منشا کو خود ان کی طرح عملی جامہ پہنا سکیں۔ یہی مقصد وحید تھا۔ جس کے لیے برصغیر میں جدید نظام تعلیم متعارف کرایا گیا اور خود انگریز پالیسی سازوں نے اس مقصد کو اپنی تحریروں میں واضح کیا۔
اس نظام تعلیم میں جتنے بھی علوم پڑھائے جاتے رہے ہیں ان میں اسلام کا عمل دخل نہ تھا اور نہ ہو سکتا تھا۔ خود مغرب میں ان علوم کا ارتقا اس دور میں ہوا۔ جب اہل مغرب نے دین کو اپنی دنیوی زندگی سے الگ کر دیا تھا۔ وہاں کا مذہبی طبقہ عملی زندگی سے بے دخل ہو چکا تھا اور زیادہ سے زیادہ وعظ کہتے یا مذہبی مراسم ادا کرتے کے لیے معاشرے کو اس کی ضرورت تھی۔ اس لیے مغرب میں علوم کا ارتقا خواہ وہ طبیعیات و حیاتیات جیسے طبعی علوم ہوں یا تاریخ و عمرانیات جیسے سماجی علوم ایسے لوگوں کے ہاتھوں ہوا جو اگر خدا پر یقین رکھتے بھی تھے۔ تو کم از کم انہوں نے اپنی دنیوی زندگی سے خدائی ہدایت کو خارج کر رکھا تھا۔ انگریز حکمرانوں نے ان ہی علوم کو یہاں رائج کیا اور وہی کتابیں استعمال کیں جو خدا بیزار ماہرین نے لکھ کر رکھی تھیں۔ اس تعلیمی نظام کے تحت جو لوگ پڑھتے رہے غیر شعوری طور پر ان کی ذہنی اٹھان اس طرح ہوئی کہ وہ دین اور دینی انداز فکر سے دور ہو گئے۔ بر صغیر کے مسلمان اہل فکر کے سامنے تعلیم کے حوالے سے مسلمان قوم کا مستقبل تھا۔ ایک طبقہ جو مسلمانوں کی معاشی فلاح کے حوالے سے سوچ رہا تھا اور مسلمان قوم کو خوشحال اور با اثر دیکھنا چاہتا تھا وہ اس نظام تعلیم کو اپنا لینے کے حق میں تھا۔ کیونکہ اسی سے روزگار کے دروازے کھلتے تھے اور یہی راستہ سرکاری دربار تک پہنچتا تھا۔
دوسرا طبقہ یہ خیال کرتا تھا کہ انگریز کے ساتھ جو نئی تہذیب اور تمدن آیا ہے اس سے ہمارے ایمان و یقین اور تہذیبی اقدار کو شدید خطرہ ہے اس لیے اس کی سر پرستی میں ابھرنے والے تعلیمی نظام سے الگ رہنا چاہیے اور اپنی اقدار کی حفاظت کے لیے پرانے نظام تعلیم سے وابستہ رہنا چاہیے۔
دونوں طبقوں کی یہ سوچ جو اپنے اپنے طور پر خلوص سے پیش کی گئی تھیں دو مختلف طرز کے تعلیمی اداروں کی شکل میں سامنے آئی اور معاشرہ قدیم اور جدید کے خانوں میں بٹ گیا۔
وقت کا تقاضا
آج جب عالمِ اسلام میں بیداری کی ایک لہر ہے اور مسلمان اہل فکر اس پختہ یقین رکھتے ہیں کہ انسانیت کے مسائل کا واحد حل اسلام ہے تو اس امر کی شدت سے ضرورت محسوس کی جا رہی ہے کہ ایک ایسا نظام تعلیم وجود میں آئے جس میں دین اور دنیا کی تفریق نہ ہو۔ ایک ماہر معاشیات دنیا کے معاشی نظاموں، ان کے طریق کار اور فوائد و نقصانات سے کما حقہ واقف ہونے کے ساتھ ساتھ قرآن و سنت پر گہری نظر رکھتا ہو۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا اسوہ اس کے پیش نظر ہو اور وہ قرآن و سنت کی روشنی میں پیش آمدہ مسائل کا حل تجویز کر سکتا ہو۔
آج عالم اسلام کے لیے ایسے اہل علم کی ضرورت ہے جو علمی مہارت کے ساتھ اپنے ایمان و یقین، اخلاق و کردار اور ذہنی صلاحیتوں کے اعتبار سے عہد غلامی کے تعلیم یافتہ لوگوں سے زیادہ فائق ہوں۔
اس مقصد کی خاطر مسلمان اہل دانش نے ایسی جامعات جو امت کو دین و اخلاق سے آراستہ کرنے اور اسلامی نظامِ حیات کو ایک فعال قوت کی حیثیت سے نافذ کرنے میں معاون ثابت ہوں، اشد ضروری ہیں۔
اسلامی جامعات کے مقاصد
اسلامی جامعات کی تعلیم کا دائرہ کار اسلامی تعلیم ہے۔ ان میں دوسرے مضامین کی تعلیم بھی ہونی چاہیے، مگر وہ سارے مضامین و علوم اس حیثیت سے پڑھائے جائیں کہ وہ اسلامی تعلیم کے لیے مددگار ہوں۔
ان جامعات کو لازمی طور پر اقامتی جامعات ہونا چاہیے جن میں طالب علم ہمہ وقت رہیں تاکہ ان کی تربیت کا بطور خاص انتظام کیا جائے۔ اساتذہ بھی جامعات کے قریب رہائش رکھیں۔ ایسی جامعات کسی ایک ملک سے وابستہ نہ ہوں بلکہ ان کے دروازے پوری امت کے لیے کھلے ہوں۔
ان جامعات کا ماحول اخلاق فاضلہ پیدا کرنے والا اور طلبہ میں اسلامی سیرت و کردار مستحکم کرنے والا ہو۔ ان جامعات کو غیر اسلامی اثرات سے محفوظ رکھنے کی شعوری کوششیں ہونی چاہئیں۔
ان جامعات کے اساتذہ کا انتخاب صرف ان کی علمی قابلیت کی بنیاد پر نہ ہو بلکہ اس کے ساتھ وہ اپنے عقائد و افکار اور عملی زندگی کے اعتبار سے بھی صالح مسلمان ہوں۔ طلبہ کی تعلیم و تربیت اس نہج پر کی جائے کہ وہ اسلامی نظامِ حیات پر فخر کریں اور اسے دنیا پر غالب رکھنے کا عزم رکھیں۔ اپنے اپنے شعبہ میں تحقیق میں گہری نظر کے ساتھ ان میں تنظیم اور قیادت کی صلاحیتیں ابھریں۔