اسلام بیسویں صدی میں سید ابو الاعلی مودودی

اسلام بیسویں صدی میں

مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی

سعید پبلی کیشنز، رامپور، یوپی، انڈیا

جملہ حقوق بحق ناشر محفوظ

تعارف (کتابی مواد)

پنجاب یونیورسٹی کے سالانہ میگزین "المیزان" کے معاون ایڈیٹر کے تحریری سوالات اور مولانا مودودی کے تحریری جوابات۔

یہ گراں قدر علمی اور تحریکی تحفہ تحریک اسلامی سے وابستہ نوجوانوں کی نذر ہے۔

  • مطبع: شیروانی آفسٹ پرنٹر، دہلی
  • تعداد: دو ہزار
  • قیمت: تین روپے
  • پہلا ایڈیشن: جون ۱۹۶۴ء

فہرست

  • عرض ناشر
  • کلمات تعارف
  • سید ابوالاعلیٰ مودودی (مختصر تعارف)
  • ترقی یافتہ دور کا رہنما: اسلام یا عیسائیت؟
  • اسلامی نظام کے نفاذ کی رکاوٹیں
  • نظریاتی حکومت میں کلیدی منصب کا اہل
  • اقلیتی فرقوں کے حقوق
  • غیر مسلم اقلیتوں سے جزیہ؟
  • مستشرقین، گمراہ کن لٹریچر اور اسلامی حکومت کا رویہ
  • اسلامی حکومت اور سود پر قرض
  • پگڑی، گڈول، دلالی کمیشن کے لیے اجتہاد
  • اسلامی قوانین کے نفاذ میں تدریج
  • اسلامی عدالتی نظام میں وکلاء کی حیثیت
  • ہاتھ کاٹنے اور سنگسار کرنے کی سزا؟
  • اجتہاد کے پانچ اصول
  • اسلامی حکومت اور عمل اجتہاد
  • شیعہ ائمہ کے اجتہاد کی حیثیت
  • اجتہاد کی بنیاد: الفاظ یا اسپرٹ
  • مویشی نہ ہونے کی صورت میں قربانی کا حکم
  • زکوٰۃ ٹیکس نہیں، رکن دین ہے
  • جذبہ جہاد کو زندہ رکھنے کا طریق کار
  • نظام مملکت میں فوج کا مقام
  • اسلامی حکومت میں خواتین کا مقام
  • اسلام اور مخلوط سوسائٹی
  • عورت اور ریاست کی ذمہ داریاں؟
  • عریاں فلمیں، مقابلہ حسن، ثقافتی محفلیں
  • فحش گانے اور اسلامی حکومت کا انداز اصلاح
  • اسلام اور برتھ کنٹرول
  • لاش کی چیر پھاڑ اسلامی نقطہ نظر سے
  • زندگی میں آنکھوں کا عطیہ
  • خدمت خلق کے لیے انسانی اعضاء کی قربانی

عرض ناشر

بسم اللہ الرحمن الرحیم

آج سے بیس سال پہلے ۱۹۶۴ء میں پنجاب یونیورسٹی لا کالج لاہور کے سالانہ میگزین "المیزان" کے معاون ایڈیٹر صاحب نے "اسلام بیسویں صدی میں" کے عنوان کے تحت کچھ اہم علمی، تحقیقی اور اجتہادی سوالات تحریری طور پر برصغیر کے اصحاب بصیرت علماء کی خدمت میں بھیج کر تحریری جوابات طلب کیے تھے۔

ملت کے قابل فخر علماء نے نہایت شرح و بسط کے ساتھ ان سوالات کے جوابات سپرد قلم کیے تھے، مگر کسی وجہ سے اس وقت یہ جوابات لا کالج لاہور کے سالانہ میگزین میں شائع نہ ہو سکے تھے۔ البتہ بعد میں یہ ایک مجموعے کی شکل میں ادارہ "اوراق زریں" لاہور سے شائع ہوئے۔

ہم اپنے قابل احترام رفیق جناب سلیم منصور خالد صاحب کے تہ دل سے شکر گزار ہیں کہ انہی کے مخلصانہ تعاون سے ہم یہ سوالات و جوابات کتابی شکل میں شائع کرنے کی سعادت حاصل کر رہے ہیں۔ ہم نے سوالات کے ساتھ صرف مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کے جوابات ہی نقل کیے ہیں۔

ہمیں امید ہے یہ کتاب اہل فکر و نظر میں پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھی جائے گی اور ملت کے بیدار مغز نوجوان اس سے خاطر خواہ فائدہ اٹھائیں گے۔

سعید اختر خاں

کلمات تعارف

بسم اللہ الرحمن الرحیم

بیسویں صدی کے اس ترقی یافتہ دور میں روز افزوں عملی مسائل کو کامیاب طریقے پر حل کرنے اور موجودہ بے دین اور الحاد زدہ معاشرے کو روحانی سکون بہم پہنچانے کی صلاحیت اگر کسی نظام میں ہے تو وہ صرف اسلام ہے جو کائنات کے خالق نے روز اول سے، انسانوں کی ہدایت کے لیے بھیجا ہے۔ اور ہر دور میں خدا کے نمائندے، نبی اور رسول اس کی تجدید کرتے رہے ہیں، اور سب سے آخر میں اپنی انتہائی مکمل شکل میں خدا کے آخری رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو پیش کیا، اور اپنے قول و عمل سے اس کی ایسی تشریح و توضیح فرمائی کہ اب رہتی زندگی تک کسی دوسرے نبی یا رسول کے آنے کی ضرورت نہیں۔

اسلام ہی وہ واحد دین اور نظام زندگی ہے، جو رہتی دنیا تک، پورے نوع انسانی کا دین بننے اور ہر طرح سے پیدا ہونے والے حالات و مسائل میں انسانیت کی قابل اعتماد رہنمائی کرنے کی حقیقی صلاحیت رکھتا ہے۔ بے شک یہ ایک بہت بڑا دعویٰ ہے اور علم و اجتہاد کے موجودہ روشن دور میں اس قسم کا دعویٰ کرنا، اور مضبوط دلائل، اطمینان بخش توجیہات اور بصیرت افروز حقائق کے ساتھ ہر چیلنج کو قبول کرنا بڑے حوصلے اور ہمت کا کام ہے۔

بیسویں صدی میں مغربی علوم کے عام غلبے، اسلام اور مغربی فکر کی آویزش، مغربی مفکرین کے مسلسل فکری کاوش و اجتہاد، اور زوال کے مارے علماء دین کے فکری جمود و تعطل نے بے شمار ایسے پیچیدہ سوالات ابھار دئیے ہیں کہ آج کا ہر روشن دماغ اور تعلیم یافتہ طالب علم بجاطور پر ان کا اطمینان بخش جواب چاہتا ہے، وہ جواب نہیں جس کا حاصل محض زبان بند کرنا ہو اور جس کی پشت پر فکر و استدلال کے بجائے محض ٹھٹھری ہوئی عقیدت اور تقلیدی علم کا رعب ہو، بلکہ وہ جواب چاہتا ہے جو دل کے دریچے کھول دینے والا، فکر و نظر کو اطمینان بخشنے والا اور سینے کو یقین کی ٹھنڈک دینے والا ہو اور جس سے یہ حقیقت سامنے آئے کہ اسلام صدیوں پہلے کا محض یادگار اور گرد آلود دین نہیں ہے، بلکہ ایک زندہ اور تابندہ نظام زندگی ہے، جو آج کے تقاضوں کو پورا کرنے کی بھر پور صلاحیت رکھتا ہے، آج کے دور کی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے، انسان کے عملی مسائل سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتا ہے، اور زندگی کے کسی میدان میں بھی بیچارگی محسوس نہیں کرتا۔

ہماری خوش نصیبی ہے، کہ خدا نے اس بیسویں صدی میں اسلام کی نمائندگی، اس کی بہترین وضاحت و وکالت کے لیے بر صغیر کے اندر ایک ایسی قد آور شخصیت کو پیدا فرمایا، جس کے عظیم کارناموں، بے مثال علمی اور دینی خدمات اور وقیع انقلابی لٹریچر کو صدیوں تک ملت یاد رکھے گی اور اس سے فائدہ اٹھاتی رہے گی۔ مولانا مودودی مرحوم و مغفور عالم اسلام کے وہ عظیم مفکر اور قائد تحریک تھے جو قدیم و جدید علوم پر یکساں مجتہدانہ نظر رکھتے تھے۔ اسلام کو دور حاضر کی ذہنی اور فکری ساخت اور ضرورت کے پیش نظر پیش کرنے کی بے مثال صلاحیت رکھتے تھے۔ خدا نے انھیں ہر پیدا ہونے والے سوال کے سمجھنے اور اس کی تہ تک پہنچنے کا بہترین ملکہ عطا فرمایا تھا، اور زبردست استدلالی قوت، بے پایاں سوز دروں، قابل رشک دعوتی تڑپ، مقصد کا گہرا شعور، اپنے مشن سے والہانہ لگاؤ اور یکسوئی، فکر و نظر کی وسعت، اور دل نشیں انداز بیان کی بہترین صلاحیتوں اور جوہروں سے بھی نوازا تھا۔ اس مختصر کتاب میں آپ مولانا مرحوم کی ان غیر معمولی صلاحیتوں اور جوہروں کی کچھ جھلک دیکھ سکیں گے، اور بقامت کہتر بقیمت بہتر کے مصداق آپ محسوس کریں گے کہ مولانا مودودی کی یہ مختصر کتاب بہت سی ضخیم کتابوں پر بھاری ہے۔

۱۹۶۴ء میں پنجاب یونیورسٹی لاہور کے قانون کالج (LAW COLLEGE) کے سالانہ میگزین "المیزان" کے معاون ایڈیٹر نے "اسلام بیسویں صدی میں" کے زیر عنوان کچھ تفصیلی سوالات برصغیر کے جید اور بالغ نظر علماء کی خدمت میں روانہ کر کے ان سے تحریری اظہار خیال کی درخواست کی تھی۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مرحوم نے کبھی ان سوالات کے مفصل اور شافی جوابات دیے تھے۔ یہ جوابات اس وقت کسی وجہ سے لا کالج کے اس مجلے میں تو شائع نہ ہو سکے تھے، البتہ ایک سال بعد ۱۹۶۵ء میں ادارہ "اوراق زریں" لاہور نے ایک مجموعے کی صورت میں یہ سوالات اور جوابات شائع کیے تھے۔

اس مجموعے میں سوالات کے ساتھ صرف مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کے جوابات شائع کیے جا رہے ہیں۔ ہمیں وثوق ہے کہ یہ کتاب عام پڑھے لکھے مسلمانوں کے لیے بالعموم اور کارکنان تحریک اسلامی کے لیے بالخصوص بہت مفید ہو گی اور مختلف ملکوں میں، تحریک اسلامی سے وابستہ نوجوانوں کے لیے تو یہ بفضلہ انتہائی گراں قدر تحفہ ثابت ہو گا۔

خدا سے دعا ہے کہ وہ اس مجموعے کو شرف قبول بخشے، تحریک اسلامی کی راہ ہموار کرنے اور اس کے لیے دلوں کو کھولنے کا بہترین ذریعہ بنائے اور اس کی ترتیب و طباعت میں حصہ لینے والے سب ہی مخلصین کو اجر عظیم سے نوازے۔ آمین۔

محمد یوسف اصلاحی
دوشنبہ ۲۰ جمادی الاولیٰ ۱۳۸۴ھ
۵ اپریل ۱۹۶۵ء

سید ابوالاعلیٰ مودودی (مختصر تعارف)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

بر صغیر میں بڑی بڑی ہستیاں پیدا ہوئیں، اور ہر میدان میں انہوں نے وہ زندہ جاوید کارنامے انجام دیے جو رہتی زندگی تک روشن رہیں گے، لیکن مولانا مودودی کی شان ہی نرالی تھی۔ مولانا مودودی کو جو مقبولیت، پذیرائی، اور شان قیادت حاصل ہوئی پچھلی چند صدیوں میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔

لاہور میں مولانا محترم کی نماز جنازہ میں عقیدتمندوں کا بے مثال ہجوم، نوجوانوں کا جگر خراش غم و اندوہ اور پورے عالم اسلام میں ماتم کی بدلیاں گواہ ہیں کہ خداوند عالم نے عالم اسلام کے دلوں میں ان کے لیے محبت و عظمت بھر دی تھی۔ قرآن بھی اس محبت و عقیدت پر گواہ ہے:

إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَيَجْعَلْ لَهُمُ الرَّحْمَنُ وُدًّا ﴿مريم﴾
یقیناً جو لوگ ایمان لے آتے ہیں اور عمل صالح کر رہے ہیں عنقریب رحمن ان کے لیے دلوں میں محبت پیدا کر دے گا۔

اپنوں نے بھی ان کے ساتھ زیادتیاں کیں، پرایوں نے بھی ان کو بے وزن کرنا چاہا۔ دین کے اجارہ داروں نے بھی ان کے خلاف دل کی بھڑاس نکالی، فتووں کی بوچھار سے انہیں اڑانے کی ناکام کوشش کی۔ اقتدار کے نشے میں مست بداندیشوں نے بھی ناقابل فہم الزامات لگائے، سزائیں دیں، دھمکیاں دیں، سازشیں کر کے ملک و ملت کا غدار ٹھیرانے کی ناپاک کوششیں کیں، اور آسمان کی آنکھ نے یہ نظر بھی دیکھا کہ اپنی دین و دنیا خراب کرنے والوں نے ان کے چراغ ہستی کو گل کرنے کی گستاخی بھی کرنی چاہی، لیکن خدا کو ان سے کام لینا تھا۔ انہیں وہ عزم و حوصلہ عطا کیا، کہ ناقابل تسخیر چٹان سے تیز و تند موجیں بار ہا ٹکرائیں اور سرٹیک کر پاش پاش ہو گئیں۔ خدا نے اپنے بندے کی عزت و عظمت کو اور دوبالا کیا، اور کینہ دوزوں کو وہ وہ عبرتناک اور شرمناک سزائیں ملیں، کہ نہ آسمان ان پر رویا نہ زمین نے آنسو بہائے:

فَمَا بَكَتْ عَلَيْهِمُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ وَمَا كَانُوا مُنْظَرِينَ ﴿الدخان ۲۹﴾
پھر نہ آسمان ان پر رویا نہ زمین اور ذراسی مہلت بھی ان کو نہ دی گئی۔

سورج کے روشن چہرے پر دھول اور مٹی پھینکنے والے خود دھول میں اٹ گئے بلکہ خاک میں مل گئے مگر سورج کی تابناکی بڑھتی ہی چلی گئی۔

اللہ اکبر! اس عظمت مقبولیت، اور شان قیادت کا کوئی ٹھکانہ ہے کہ ایک ایک لفظ حرز جاں بنایا جا رہا ہے۔ ہر ہر مجلس کی گفت گو قلم بند کی جا رہی ہے۔ تفریح کی مجلس ہے، یا کھانے کی، ہر ہر جملے کو ہدایت نامہ سمجھ کر نوٹ کیا جا رہا ہے۔ ۱۴ اور ۱۷ سال کی نو عمری کی نگارشات ڈھونڈ ڈھونڈ کر اور اخبارات کے بوسیدہ فائل تلاش کر کر کے نکالی جا رہی ہیں، اور حیرت کی بات یہ ہے کہ اس ناپختہ عمرکی تحریروں میں بھی وہی پختگی ہے، وہی چاشنی ہے، وہی آن ہے، وہی تازگی ہے، وہی فکر کا تسلسل ہے، اور وہی سوز و درد ہے، وہی بصیرت و حکمت ہے۔

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ قضا و قدر کو ان سے یہ کام لینا ہی تھا۔ نہ کسی دارالعلوم سے دستار فضیلت حاصل کی نہ کسی کالج سے ڈگری پائی نہ کسی ٹاپک پر ڈاکٹریٹ کیا۔ مگر ہر میدان کے ایسے شہسوار کہ ہر ایک رشک کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ ہر قد آور اپنے کو بونا محسوس کرتا ہے۔ ہر ذی علم کو تابناک سورج کے سامنے اپنے علم و بصیرت کا دیا ٹمٹماتا نظر آتا ہے۔ ہر فن کے ماہر کو اپنی مہارت ہیچ نظر آنے لگتی ہے۔ انصاف پسند حقیقت کا اعتراف کر کے مولانا کی عظمت کو تسلیم کرتا ہے اور خدا کے فیصلوں کو چیلنج کرنے والا آگ اور مٹی کے فلسفے میں الجھ کر حسد و جلن کی آگ میں جھلستا رہتا ہے، اسے اس مثالی زندگی میں خیر کے پہلو بہت ہی کم نظر آتے ہیں اور اگر کبھی حقیقت کی بے پناہ قوت سے مجبور ہو کر بادل نخواستہ کسی خیر کو تسلیم کرتا بھی ہے، تو ایسے لہجے اور ایسے انداز میں کہ اس پر شر چھایا ہوا ہی محسوس ہو۔

مولانا محترم کی سب سے بڑی خوبی جس کی طرف ایک دیرینہ رفیق مولانا معین الدین صاحب محدث گوجرانوالہ نے اپنے ایک انٹرویو میں اشارہ کیا ہے، واقعی ایک ایسی عظیم خوبی ہے جس میں مولانا اپنے تمام ہم عصروں میں نہ صرف ممتاز نظر آتے ہیں بلکہ قدرت کا شاہ کار معلوم ہوتے ہیں۔ محدث صاحب فرماتے ہیں:

"مولانا کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ وہ بہت جلد سوال کی تہ تک پہنچ جاتے تھے اور چند لفظوں میں اس کا جامع اور شافی جواب عنایت فرما دیتے تھے۔ میں نے ایسی ہی ایک مجلس میں کہا کہ بعض مصنفین کہتے ہیں کہ فلسفہ اشتراکیت کی بنیاد یہ ہے کہ انسان پیدائشی مجرم اور گنہ گار ہے، اگر وسائل پیداوار کسی انسانی فرد کے حوالے کیے جائیں تو وہ یقیناً اپنی فطرت کے مطابق معاشی استحصال اور ظلم و جبر کی راہ اختیار کر لے گا۔ گویا اشتراکیت نے انسان کے متعلق یہ تصور مسیحی کلیسا سے چرا لیا ہے، لیکن میرا خیال ہے اشتراکیت اس کے برعکس، انسان کے متعلق نہایت خوش فہم واقع ہوئی ہے۔ اس لیے کہ پرولتاریہ آمریت کا دور اشتراکی فلسفے میں ایک عبوری دور ہے جس کے ذریعے سرمایہ دارانہ نظام کے بچے کھچے اثرات کا قلع قمع کیا جائے گا اور بین الاقوامی اشتراکی انقلاب بر پا کیا جائے گا۔ اس میں پرولتاریہ آمریت خود بخود مستعفی ہو جائے گی کوئی حکومت باقی نہیں رہے گی۔ آزادی مطلق کا دور دورہ ہو گا۔ اس کا مطلب یہی نکلتا ہے کہ انہیں انسانیت کے متعلق یہی خوش فہمی ہے کہ ایک ایسا دور آسکتا ہے جب اجتماعی نظام اور قانون کی حکمرانی کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔ آپ کا اس ضمن میں کیا خیال ہے؟

مولانا نے میری بات خاموشی سے سنی اور فرمایا، دراصل دونوں نقطہ ہائے نظر غلط ہیں۔ اشتراکیت کے نزدیک انسان میں فطرت نام کی کوئی چیز سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔

ایک اور ملاقات میں میں نے عربی اور دینی مدرسوں میں انحطاط پذیر معیار تعلیم پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ مولانا سو میں سے بمشکل ایک یا دو آدمی ایسے نکل سکتے ہیں جو ان کتابوں کو پڑھا سکیں جو انہوں نے پڑھی ہیں۔ اس سلسلے میں نے انہیں ایک واقعہ سنایا کہ دورہ حدیث کے ایک طالب علم نے جب ابو موسیٰ اشعری کا نام سنا تو کہنے لگا کہ حضرت موسیٰ کے والد کی عمر تو بڑی لمبی تھی، رسول اللہ کے زمانے تک زندہ رہے۔

مولانا نے اس کے جواب میں یہ لطیفہ سنایا کہ ایک عالم فاضل صاحب میرے پاس آئے اور پوچھا کہ مولانا حضرت عیسیٰ کا زمانہ پہلے ہے یا حضرت موسیٰ کا۔ پھر فرمایا کہ اس تصور کو پیش نظر رکھ کر کام کیجئے کہ سو آدمیوں کو پڑھاتے پڑھاتے ایک کام کا آدمی نکل آئے، یہ بھی فرمایا کہ جدید تعلیمی اداروں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کا حال اس سے بھی خراب ہے۔ یہاں تک کہ خود اہل مغرب پریشان ہیں کہ ان کے ہاں معیار تعلیم تیزی سے زوال کی نذر ہو رہا ہے۔

اس پر میں نے پوچھا کہ کہیں اس کا سبب یہ تو نہیں کہ پوری دنیا میں مغربی تہذیب کے اثرات فروغ پا رہے ہیں اور چونکہ وہ مادی و حتیٰ تہذیب ہے ظاہری شکل صورت اور فیشن پر زور دیتی ہے، لیکن حقیقت کے اعتبار سے کھوکھلی ہے اس لیے علم کو زوال آرہا ہے تو میری بات کی تائید فرمائی کہ آپ ٹھیک فرما رہے ہیں۔"

حقیقت یہ ہے کہ قضا و قدر نے اپنے خصوصی منصوبے کے تحت خصوصی صلاحیتوں سے نواز کر مولانا کو اس صدی کی قیادت کے لیے پیدا کیا تھا۔ جس موضوع پر بھی بولتے ایسا محسوس ہوتا کہ حق ادا کر دیا۔ جس طبقے کو خطاب کرتے، محسوس ہوتا کہ اس طبقے کی قیادت کے لیے ہی خدا نے ان کو وجود بخشا ہے۔ جس سوال کا جواب دیتے ایسا لگتا کہ دلی اطمینان کی ٹھنڈک محسوس کر رہا ہے۔ ایسی برگد جیسی ہستیاں صدیوں میں پیدا ہوتی ہیں، پھر بہت سی پیدا ہو کر مر جاتی ہیں اور تاریخ انسانی پر ان کی کوئی قابل ذکر چھاپ نہیں پڑتی لیکن مولانا اپنے کارناموں کی بدولت زندہ جاوید ہیں۔ ان کی عظمت کے نقوش، ان کی عقیدت کے نشانات دلوں سے کھرچنا ممکن نہیں۔ وہ ہمارے درمیان نہیں رہے لیکن وہ اپنی عظیم رہنمائی، اپنے ناقابلِ فراموش کارناموں، اپنے جاندار لٹریچر، اپنے مربوط اور صحیح فکر اور اپنی قابل رشک عزیمت و حسن عمل کی بدولت رہتی زندگی تک یاد کیے جاتے رہیں گے۔ وہ دینی اور علمی کاموں کی اس قدر راہیں سمجھا گئے، علم و اجتہاد کے اس قدر دروازے کھول گئے ہیں، اور اقامت دین کا ایسا ہمہ گیر اور دل کش نصب العین بتا گئے ہیں کہ دنیا صدیوں تک ان خطوط پر کوشش و کاوش کرتی رہے، دین کے خدوخال نکھارتی رہے گی، اور خدمت دین کی سعادت سے سرفراز ہوتی رہے گی۔

مولانا کی تحریریں شکوہ الفاظ، علمی رعب کے اظہار اور تکلفات سے پاک ہیں مگر سیلاب کی تیز رو سے زیادہ ان میں زور ہے۔ پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تمام باطل مزعومات، غلط افکار اور الجھے ہوئے خیالات کے خس و خاشاک اس سیلاب میں اس طرح بہہ رہے ہیں کہ پانی کی سطح صاف شفاف ہوتی نظر آرہی ہے اور آدمی کو اپنی منزل خواہ وہ کتنی ہی دور ہو اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ نہ صرف نظر آنے لگتی ہے بلکہ جانی پہچانی معلوم ہوتی ہے۔

مولانا مرحوم کے سامنے آپ کیسا ہی الجھا ہوا سوال رکھ دیں، اس کا ایسا روشن، آنکھیں روشن کر دینے والا اور دل پر اثر کرنے والا جواب دیں گے، کہ آدمی قدر و عظمت کے اعتراف کے ساتھ بے اختیار کہہ اٹھتا ہے:

دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے

انداز ایسا آسان کہ آدمی کو ہر جواب سامنے کا معلوم ہوتا ہے، اور کچھ ایسا احساس ہوتا ہے کہ مولانا مرحوم کے سامنے کوئی صفحہ کھلا ہوا ہے، اور وہ اس میں سے ڈھلا ڈھلایا، سوچا سمجھا، جاँचा پرکھا اقتباس پڑھ رہے ہیں۔ اہل علم و ادب کی مجلس میں اسے دہرائیے تو وہ عش عش کریں۔ کاغذ پر اتار دیتے تو وہ ادب و علم کا شہ پارہ معلوم ہو۔ سوالات کے جوابات دیکھ کر اور سن کر دل اعتراف کرتا ہے، کہ اس شخص کے سامنے نصب العین اپنی پوری رعنائی کے ساتھ ہر وقت جلوہ گر ہے۔ نصب العین کی راہ کا ایک ایک مرحلہ، ایک ایک موڑ اس کی نگاہ میں ہے، حالات ایک کھلی ہوئی کتاب کی طرح اس کے سامنے ہیں۔ سوال حلال و حرام اور پاک و ناپاک کا ہو تو بے بدل فقیہ، قرآن و سنت کے کسی علمی نکتے سے متعلق ہو تو قرآن و سنت میں ڈوبا ہوا مفسر و محدث، قرآن و سنت کے کسی حکم و ہدایت کے انطباق کا ہو تو صاحب بصیرت مجتہد، سماجی اور معاشرتی مسئلہ ہو تو قابل فخر مصلح اور معاملہ فہم، ادب و زبان کا ہو تو بے بدل ادیب اور زباں داں، سیاست کا ہو تو میدان سیاست کا رعنا شہسوار، حالات کے نشیب و فراز کا ہو تو حیرت انگیز نبض شناس، تیز و تند ناسازگار موجوں سے لوہا لینے کا ہو تو عزم و استقلال کی چٹان، دعوت و تبلیغ کی بات ہو تو حکمت و دانائی کا پیکر، غرض جس پہلو سے دیکھئے:

یہ کرشمہ دامن دل می کشد کہ جا اینجاست

کوئی سوال لے کر جائیے، ایسا محسوس ہو گا کہ گویا خدا نے انہیں اسی کا جواب دینے کے لیے پیدا کیا ہے، کوئی اُلجھن لے کر جائیے، شرح صدر کی دولت سے مالا مال لوٹیں گے۔ خدا شاہد ہے کہ مولانا مرحوم و مغفور نے اپنی زندگی سے خوب خوب کام لیا، ۶۷ سال کی ایک زندگی میں وہ کام کر گئے کہ سیکڑوں زندگیاں مل کر بھی وہ کارنامے انجام نہیں دے سکتیں اور اتنا کچھ چھوڑ گئے کہ برسوں امت اس سے روشنی اور فیض حاصل کرتی رہے گی۔ خدا سے دعا ہے کہ وہ مولانا کو ان بلند درجات سے نوازے جن درجات کا ہم اس آب و گل کی محدود دنیا میں تصور بھی نہیں کر سکتے، اور انہیں اس نعمت عظمیٰ سے سرفراز فرمائے جس کے بعد ساری نعمتیں ہیچ ہیں، اور ہمیں بھی ان کی اور ابرار و صالحین کی معیت نصیب فرمائے۔ آمین۔

اَنْتَ وَلِيٌّ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ تَوَفَّنِي مُسْلِمًا وَالْحِقْنِي بِالصَّالِحِينَ ﴿یوسف ۱۰۱﴾

محمد یوسف اصلاحی

سوال

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ترقی یافتہ دور کا رہنما۔ اسلام یا عیسائیت

بیسویں صدی کے اس مہذب و ترقی یافتہ دور کی رہنمائی مذہبی نقطہ نظر سے اسلام کر سکتا ہے، یا عیسائیت؟

  1. کیا انسان کو سیکولرزم یا دہریت روحانی و مادی ترقی کی معراج نصیب کر سکتی ہے؟
  2. بالخصوص کمیونزم کے بڑھتے ہوئے سیلاب کو روکنے اور ختم کرنے کی صلاحیت کس میں ہے؟

جواب

یہ سوال کئی سوالات کا مجموعہ ہے۔ اس لیے اس کے ایک ایک جزو پر علیحدہ بحث کرنی ہو گی۔

  1. جہاں تک عیسائیت کا تعلق ہے اس دور کی رہنمائی سے وہ پہلے ہی دستبردار ہو چکی ہے۔ بلکہ درحقیقت وہ کسی دور میں بھی انسانی تہذیب و تمدن کی رہنمائی نہیں کر سکتی ہے۔ عیسائیت سے مراد اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وہ تعلیمات ہیں جو اب عیسائیوں کے پاس ہیں تو بائبل کے عہدِ جدید کو دیکھ کر ہر شخص معلوم کر سکتا ہے کہ وہ انسانی تہذیب و تمدن کے متعلق کیا رہنمائی اور کتنی رہنمائی کرتی ہے؟ اس میں بجز چند مجرد (ABSTRACT) اخلاقی اصولوں کے سرے سے کوئی چیز موجود نہیں جس سے انسان اپنی معاشرت اور معیشت اور عدالت اور سیاست اور قانون کے متعلق کوئی ہدایت حاصل کر سکے۔ لیکن اگر عیسائیت سے مراد وہ نظام زندگی ہے جو عیسائی پادریوں نے بنایا تھا تو سب کو معلوم ہے کہ یورپ میں احیائے علوم کی نئی تحریک کے رونما ہونے کے بعد وہ ناکام ہو گیا اور مغربی قوموں نے اس کے بعد جتنی کچھ بھی مادی ترقی کی وہ عیسائیت کی رہنمائی سے آزاد ہو کر ہی کی۔ اگرچہ اسلام کے خلاف عیسائیت کا تعصب اور عیسائیت کے ساتھ ایک جذباتی تعلق ان میں اس کے بعد بھی موجود رہا اور اب بھی ہے۔
  2. جہاں تک اسلام کا تعلق ہے وہ اپنے آغاز ہی سے تمدن و تہذیب کے معاملے میں نہ صرف یہ کہ رہنمائی کرتا رہا ہے بلکہ اس نے خود اپنا ایک مستقل تمدن اور اپنی ایک خاص تہذیب پیدا کی ہے۔ انسانی زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جس کے متعلق قرآن مجید اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسان کو ہدایت نہ دی ہو اور ان ہدایات کے مطابق عملی ادارے قائم نہ کر دیتے ہوں۔ یہ چیزیں جس طرح ساتویں صدی عیسوی میں قابل عمل تھیں اسی طرح اس بیسویں صدی میں بھی قابل عمل ہیں اور ہزاروں برس آئندہ بھی انشاء اللہ قابل عمل رہیں گی۔ اس ترقی یافتہ دور میں کسی ایسی چیز کی نشاندہی نہیں کی جا سکتی جس کی وجہ سے اسلام آج نہ چل سکتا ہو یا انسان کی رہنمائی نہ کر سکتا ہو۔ جو شخص اس معاملہ میں اسلام کو ناقص سمجھتا ہو، یہ اس کا کام ہے کہ کسی ایسی چیز کی نشاندہی کرے جس کے معاملے میں اسلام اس کی رہنمائی سے قاصر نظر آتا ہو۔
  1. سیکولرزم یا دہریت در حقیقت نہ روحانی ترقی میں مددگار ہیں اور نہ مادی ترقی میں معراج نصیب کرنے کا تو ذکر ہی کیا ہے؟ میں یہ سمجھتا ہوں کہ موجودہ زمانے کے اہل مغرب نے جو ترقی مادی حیثیت سے کی ہے وہ سیکولرزم یا مادہ پرستی یا دہریت کے ذریعے سے نہیں کی بلکہ اس کے بغیر کی ہے۔ مختصراً میری اس رائے کی دلیل یہ ہے کہ انسان کوئی ترقی اس کے بغیر نہیں کر سکتا کہ وہ کسی بلند مقصد کے لیے اپنی جان و مال، اپنے اوقات اور محنتوں کی اور اپنے ذاتی مفاد کی قربانی دینے کے لیے تیار ہو۔ لیکن سیکولرزم اور دہریت ایسی کوئی بنیاد فراہم کرنے سے قاصر ہیں جس کی بنا پر انسان یہ قربانی دینے کو تیار ہو سکے۔ اسی طرح کوئی انسانی ترقی اجتماعی کوشش کے بغیر نہیں ہو سکتی اور اجتماعی کوشش لازماً انسانوں کے درمیان ایسی رفاقت چاہتی ہے جس میں ایک دوسرے کے لیے محبت اور ایثار ہو۔ لیکن سیکولرزم اور دہریت میں محبت و ایثار کے لیے کوئی بنیاد نہیں ہے۔ اب یہ ساری چیزیں مغربی قوموں نے مسیحیت سے بغاوت کرنے کے باوجود ان مسیحی اخلاقیات ہی سے لی ہیں جو ان کی سوسائٹی میں روایتی باقی رہ گئی تھیں۔ ان چیزوں کو سیکولرزم یا دہریت کے حساب میں درج کرنا غلط ہے۔ سیکولرزم اور دہریت نے جو کام کیا ہے وہ یہ کہ مغربی قوموں کو خدا اور آخرت سے بے فکر کر کے خالص مادہ پرستی کا عاشق اور مادی لذات و فوائد کا طالب بنا دیا ہے مگر ان قوموں نے اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے جن اخلاقی اوصاف سے کام لیا وہ ان کو سیکولرزم یا دہریت سے نہیں ملے بلکہ اس مذہب ہی سے ملے جس سے وہ بغاوت پر آمادہ ہو گئے تھے۔ اس لیے یہ خیال کرنا سرے سے غلط ہے کہ سیکولرزم یا دہریت ترقی کی موجب ہیں۔ وہ تو اس کے برعکس انسان کے اندر خود غرضی، ایک دوسرے کے خلاف کشمکش اور جرائم پیشگی کے اوصاف پیدا کرتی ہیں۔ جو انسان کی ترقی میں مددگار نہیں بلکہ رکاوٹ بنتے ہیں۔
  2. کمیونزم کے سیلاب کو روکنے کی صلاحیت کسی ایسے ہی نظام زندگی میں ہو سکتی ہے جو انسانی زندگی کے عملی مسائل کو اس سے بہتر طریقہ پر حل کر سکے اور اس کے ساتھ انسان کو وہ روحانی اطمینان بھی بہم پہنچا سکے۔ جس کا کمیونزم میں فقدان ہے۔ ایسا نظام اگر بن سکتا ہے تو صرف اسلام کی بنیاد پر بن سکتا ہے۔

سوال

اسلامی نظام کے نفاذ کی رکاوٹیں

اگر بیسویں صدی میں بھی اسلامی نظام قابل نفاذ ہے تو موجودہ رجحانات و نظریات کی جگہ لینے میں جو مشکلات یا موانع (HANDICAPS) در پیش ہوں گی۔ ان کا بہترین حل ابن خلدون کے ہر دو نظریہ حکومت و ریاست یعنی "الخلافت" یا "الحکومت" کے نظریات سے کیسے ممکن ہے؟

جواب

اس زمانے میں اسلامی نظام کو جو چیز نافذ ہونے سے روک رہی ہے اور جو رجحانات اور نظریات اس کے راستے میں سر راہ ہیں ان کا تجزیہ کر کے دیکھا جائے تو صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ انہیں مسلمان ملکوں پر مغربی قوموں کے طویل سیاسی غلبہ نے پیدا کیا ہے۔ مغربی قومیں جب ہمارے ملکوں پر مسلط ہوئیں تو انہوں نے ہمارے قانون کو ہٹا کر اپنا قانون ملک میں رائج کیا۔ ہمارے نظام تعلیم کو قتل کر کے اپنا نظام تعلیم رائج کیا۔ تمام چھوٹی بڑی ملازمتوں سے ان سب لوگوں کو برطرف کیا جو ہمارے تعلیمی نظام کی پیداوار تھے اور ہر ملازمت ان لوگوں کے لیے مخصوص کر دی جو ان کے قائم کردہ نظام تعلیم سے فارغ ہو کر نکلے تھے۔ معاشی زندگی میں بھی اپنے ادارے اور طور طریق رائج کیے اور معیشت کا میدان بھی رفتہ رفتہ اُن لوگوں کے لیے مخصوص ہو گیا جنہوں نے مغربی تہذیب و تعلیم کو اختیار کیا تھا۔ اس طریقہ سے انہوں نے ہماری تہذیب اور ہمارے تمدن اور اس کے اصولوں اور نظریات سے انحراف کرنے والی ایک نسل خود ہمارے اندر پیدا کر دی جو اسلام اور اس کی تاریخ، اس کی تعلیمات اور اس کی روایات ہر چیز سے عملی طور پر بھی بیگانہ ہے اور اپنے رجحانات کے اعتبار سے بھی بیگانہ۔ یہی وہ چیز ہے جو دراصل ہمارے اسلام کی طرف پلٹنے میں مانع ہے اور یہی اس غلط فہمی کا موجب بھی ہے کہ اسلام اس وقت قابل عمل نہیں ہے۔ جن لوگوں کو ساری تعلیم اور تربیت غیر اسلامی طریقے پر دی گئی ہو وہ آخر اس کے سوا اور کہہ بھی کیا سکتے ہیں کہ اسلام قابل عمل نہیں ہے۔ کیونکہ نہ تو وہ اسلام کو جانتے ہیں اور نہ اس پر عمل کرنے کے لیے تیار کیے گئے ہیں۔ جس نظام زندگی کے لیے وہ تیار کیے گئے ہیں اسی کو وہ قابل عمل تصور کر سکتے ہیں۔ اب لا محالہ ہمارے لیے دو ہی راستے رہ جاتے ہیں۔ یا تو ہم من حیث القوم کافر ہو جانے پر تیار ہو جائیں اور خواہ مخواہ اسلام کا نام لے کر دنیا کو دھوکا دینا چھوڑ دیں۔ یا پھر خلوص اور ایمانداری کے ساتھ (منافقانہ طریقہ سے نہیں) اپنے موجودہ نظام تعلیم کا جائزہ لیں اور اس کا پورے طریقہ سے تجزیہ کر کے دیکھیں کہ اس میں کیا کیا چیزیں ہم کو اسلام سے منحرف بنانے والی ہیں اور اس میں کیا تغیرات کیے جائیں جن سے ہم ایک اسلامی نظام کو چلانے کے قابل لوگ تیار کر سکیں۔ یہ مسئلہ بڑی سنجیدگی سے غور کرنے کے قابل ہے اور جب تک ہم اسے حل نہیں کر لیں گے اس وقت تک اسلامی نظام کے نفاذ کی راہ کبھی ہموار نہ کر سکیں گے۔

ابن خلدون کے کسی نظریہ کی طرف رجوع کرنے سے اس مسئلہ کے حل کرنے میں مدد نہیں مل سکتی کیونکہ اس مسئلہ کی جو نوعیت اب پیدا ہوتی ہے وہ ابن خلدون کے زمانے میں پیدا نہیں ہوتی تھی۔ مسئلہ کی حقیقی نوعیت یہ ہے کہ مغربی استعمار رخصت ہوتے ہوتے ہمارے ملکوں میں اس نسل کو حکمران بنا کر چھوڑ گیا ہے جس کو اس نے اپنی تعلیم اور اپنی تہذیب کا دودھ پلا پلا کر اس طرح تیار کیا تھا کہ وہ جسمانی حیثیت سے تو ہماری قوم کا حصہ ہے لیکن علمی اور ذہنی اور اخلاقی اعتبار سے انگریزوں، فرانسیسیوں یا ولندیزیوں کا پورا جانشین ہے۔ اس طبقہ کی حکومت جو مشکلات پیدا کرتی ہے ان کو رفع کرنے کا معاملہ ایک پیچیدہ معاملہ ہے جسے حل کرنا ابن خلدون کے نظریات کا کام نہیں۔ اس کے لیے بڑے سنجیدہ غور و فکر کی اور حالات کو سمجھ کر اصلاح کے لیے نئی راہیں نکالنے کی ضرورت ہے۔

سوال

نظریاتی حکومت میں کلیدی منصب کا اہل

اگر اسلامی نظریہ حکومت کی افادیت بین الاقوامی طور پر عوامی جمہوریت کی شکل میں تسلیم کر لی جائے تو

  1. بالخصوص مسلم ممالک میں کیا سر براہ حکومت (THE HEAD OF THE STATE) ایک مسلمان کے علاوہ ایک غیر مسلم بھی (خواہ قائم مقام سربراہ ملک کی حیثیت سے ہی) عہدہ سنبھال سکے گا؟ یا
  2. اس وقت قانون ساز اسمبلی کا اسپیکر غیر مسلم چنا جا سکے گا؟
  3. یا عدلیہ کے کسی منصب پر غیر مسلم فائز ہو سکے گا؟
  4. اگر اسلامی مملکت میں یہی نظم قائم رہے (کیونکہ تمام ڈھانچہ (SET UP) یک دم بدل دینا ممکن نہ ہو گا) تو کیا پھر بھی قابلیت پر مذہب کو ہی ترجیح دینا اس ترقی یافتہ دور میں مبنی بر انصاف ہو گا؟

جواب

اگر اسلامی نظریہ پر کوئی حکومت قائم ہو تو اس کا سر براہ مملکت یا چیف جسٹس یا اس کی قانون ساز اسمبلی کا صدر کوئی غیر مسلم نہیں ہو سکتا۔ اس کے معنی قابلیت یہ مذہب کو ترجیح دینے کے نہیں ہیں۔ اس کے معنی صرف یہ ہیں کہ ایک نظریاتی مملکت میں اس طرح کے مناصب صرف انہی لوگوں کو دیے جا سکتے ہیں جو اس کے بنیادی نظریہ کو مانتے ہوں۔ نظریاتی مملکت میں قابلیت محض علمی قابلیت کا نام نہیں ہوتا بلکہ اس میں اس نظریہ کو جس پر مملکت قائم کی گئی ہے جاننا اور اس کی اسپرٹ کو سمجھنا اور ایمانداری کے ساتھ اس کو عمل میں لانا بھی قابلیت ہی کا ایک لازمی جزو قرار دیا جاتا ہے۔ اس پر اگر کسی کو اعتراض ہے تو ہمیں بتایا جائے کہ انگلستان میں کیا ایک رومن کیتھولک بادشاہ ہو سکتا ہے یا امریکہ میں کسی کمیونسٹ کو صدارت کا منصب دیا جا سکتا ہے۔ اگر یہ نہیں ہو سکتا تو پھر ہم پر اعتراض کیوں کیا جاتا ہے۔

سوال

اقلیتی فرقوں کے حقوق

غیر مسلم اقلیتوں سے جزیہ؟

اسلامی مملکت میں اقلیتی فرقوں کو مثلاً عیسائی، یہودی، بدھ، جین، پارسی، ہندو وغیرہ کو دیگر مسلمانوں کی طرح پورے حقوق حاصل ہوں گے؟

  1. کیا ان کو اپنے مذہب کی تبلیغ بھی اسی طرح کرنے کی اجازت ہو گی جیسا کہ آج کل دیگر مسلم ممالک میں دوسرے ملکوں کی طرح کھلے بندوں پر چار ہوتا ہے؟
  2. کیا اسلامی مملکت میں ایسے مذہبی یا نیم مذہبی ادارے مثلاً ادارہ مکتی فوج (SALVATION ARMY) یا کیتھیڈرل، کانونٹ، سینٹ جان و سینٹ فرانسس وغیرہ جیسے ادارے کیا قانوناً بند کر دیے جائیں گے؟
  3. کیا اس صدی میں بھی ان اقلیتی فرقوں سے جزیہ وصول کرنا مناسب ہو گا (عالمی حقوق انسانی کی روشنی میں بھی، جبکہ وہ نہ صرف فوج بلکہ سرکاری عہدوں پر فائز اور حکومت کے وفادار ہوں)؟

جواب

اسلامی مملکت میں غیر مسلم گروہوں کو تمام مدنی حقوق (CIVIL RIGHTS) مسلمانوں کی طرح حاصل ہوں گے۔ مگر سیاسی حقوق (POLITICAL RIGHTS) مسلمانوں کے برابر نہیں ہو سکتے۔ اور اس کی وجہ وہی ہے جو اوپر سوال نمبر میں بیان کی گئی ہے۔ اسلام میں ریاست کے نظام کو چلانا مسلمانوں کی ذمہ داری ہے اور مسلمان اس بات پر مامور ہیں کہ جہاں بھی ان کو حکومت کے اختیارات حاصل ہوں وہاں وہ قرآن اور سنت کی تعلیمات کے مطابق حکومت کا نظام چلائیں۔ چونکہ غیر مسلم نہ قرآن اور سنت کی تعلیمات پر یقین رکھتے ہیں اور نہ اس کی اسپرٹ کے مطابق ایمانداری سے کام چلا سکتے ہیں اس لیے وہ اس ذمہ داری میں شریک نہیں کیے جا سکتے۔ البتہ نظم ونسق میں ایسے عہدے ان کو دیے جا سکتے ہیں جن کا کام پالیسی بنانا نہ ہو۔ اس معاملہ میں غیر مسلم حکومتوں کا طرز عمل منافقانہ ہے اور اسلامی حکومت کا طرز عمل صاف صاف ایماندارانہ۔ مسلمان اس بات کو صاف صاف کہتے ہیں اور اس پر عمل درآمد کرنے میں خدا کے سامنے اپنی ذمہ داری ملحوظ رکھتے ہوئے غیر مسلموں کے ساتھ انتہائی شرافت اور فراخ دلی کا برتاؤ کرتے ہیں۔ غیر مسلم بظاہر کاغذ پر قومی اقلیتوں (NATIONAL MINORITIES) کو سب قسم کے حقوق دے دیتے ہیں مگر عملاً انسانی حقوق تک نہیں دیتے۔ اس میں اگر کسی کو شک ہو تو دیکھ لے کہ امریکہ میں سیاہ فام لوگوں (NEGROES) کے ساتھ اور روس میں غیر کمیونسٹ باشندوں کے ساتھ اور چین و ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ کیا سلوک ہو رہا ہے! میں نہیں سمجھتا کہ خواہ مخواہ دوسروں سے شرما کر ہم اپنے مسلک کو صاف صاف کیوں نہ بیان کریں اور اس پر صاف صاف کیوں نہ عمل کریں۔

جہاں تک غیر مسلموں کی تبلیغ کا معاملہ ہے اس کے بارے میں یہ خوب سمجھ لینا چاہیے کہ جب تک ہم بالکل خود کشی کے لیے ہی تیار نہ ہو جائیں ہمیں یہ حماقت نہ کرنی چاہیے کہ اپنے ملک کے اندر ایک طاقتور اقلیت پیدا ہونے دیں جو غیر ملکی سرمایہ سے پرورش پائے اور بڑھے اور جس کی پشت پناہی بیرونی حکومتیں کر کے ہمارے لیے وہی مشکلات پیدا کریں جو ایک مدت دراز تک ترکی کے لیے عیسائی اقلیتیں پیدا کرتی رہی ہیں۔

عیسائی مشنریوں کو یہاں مدارس اور ہسپتال جاری رکھ کر مسلمانوں کے ایمان خریدنے کی کوشش کرنے اور مسلمانوں کی نئی نسلوں کو اپنی ملت سے بیگانہ (DE-NATIONALISE) کرنے کی کھلی اجازت دینا بھی میرے نزدیک قومی خود کشی ہے۔ ہمارے حکمران اس معاملے میں انتہائی کم نظری کا ثبوت دے رہے ہیں۔ ان کو قریب کے فائدے تو نظر آتے ہیں، مگر دور رس نتائج دیکھنے سے ان کی آنکھیں عاجز ہیں۔

اسلامی حکومت میں غیر مسلموں سے جزیہ لینے کا حکم اس حالت کے لیے دیا گیا ہے جبکہ وہ یا تو مفتوح ہوئے ہوں یا کسی معاہدے کی رو سے جزیہ دینے کی واضح شرط پر اسلامی حکومت کی رعایا بنائے گئے ہوں۔ پاکستان میں چونکہ یہ دونوں صورتیں پیش نہیں آئی ہیں۔ اس لیے یہاں غیر مسلموں پر جزیہ عائد کرنا میرے نزدیک شرعاً ضروری نہیں ہے۔

سوال

مستشرقین، گمراہ کن لٹریچر اور اسلامی حکومت کا رویہ

کیا اسلامی ملک میں ان مغربی مستشرقین، غیر مسلم اسکالرز اور پروفیسروں کو تعلیم یا تقریر کے لیے مدعو کیا جا سکتا ہے جنہوں نے اپنے نقطہ نظر سے اسلام کے موضوعات پر کتابیں لکھتے ہوئے نہ صرف اسلام پر بے جا تنقیدی تبصرے کیے ہیں بلکہ عمداً یا کم علمی و تعصب سے اسلامی تاریخ لکھی ہے، حضور اکرم، اہل بیت، خلفائے راشدین، صحابہ کرام و ائمہ کرام (جن پر اسلام اور مسلمانوں کو فخر ہے) کی شان میں نازیبا فقرات لکھ کر ہدف ملامت بنایا ہے؟ مثلاً امریکی و برطانوی قابل ترین پروفیسروں کی نظر ثانی شدہ انسائیکلو پیڈیا بریٹینیکا میں بھی دیگر اعتراضات کے علاوہ رسول مقبول کی ازواج مطہرات کو (CONCUBINES) (لونڈیاں) لکھا ہے۔

  1. ان میں اکثر کے یہاں آکر لیکچر دینے اور ان کی تشہیر کرنے پر کیا اسلامی حکومت بالکل پابندی عائد نہ کر دے گی؟
  2. ان کتابوں اور زہر آلود لٹریچر کی ہر لائبریریوں میں موجودگی گوارا کی جا سکتی ہے؟ حکومت ان کے جوابات و تردید شائع کرنے، ان کی تصحیح کرانے یا ان سے رجوع کرانے کے لیے کیا اقدام کر سکتی ہے؟

جواب

یہ زمانے کے انقلابات ہیں۔ ایک وقت وہ تھا کہ یورپ کے عیسائی اندلس (SPAIN) جا کر مسلمانوں سے انجیل کا سبق لیا کرتے تھے۔ اب معاملہ الٹا ہو گیا ہے کہ مسلمان یورپ والوں سے پوچھتے ہیں کہ اسلام کیا ہے اور اسلام کی تاریخ اور اس کی تہذیب کیا ہے! یہاں تک کہ عربی زبان بھی مغربی مستشرقین سے سیکھی جاتی ہے۔ مغربی ممالک سے استاد درآمد کر کے ان سے اسلامی تاریخ پڑھوائی جاتی ہے۔ اسلام اور مسلمانوں کے متعلق جو کچھ وہ لکھتے ہیں نہ صرف اسے پڑھا جاتا ہے، بلکہ اس پر ایمان بھی لایا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ لوگ خود اپنے مذہب اور اس کی تاریخ کے متعلق اپنے ہم مذہبوں کے سوا کسی کی رائے کو ذرہ برابر دخل دینے کی اجازت نہیں دیتے۔ یہودیوں نے اپنی انسائیکلو پیڈیا (JEWISH ENCYCLOPAEDIA) میں "ARTICAL" شائع کی ہے اور اس میں کوئی ایک مضمون بھی کسی مسلمان تو در کنار کسی عیسائی مصنف کا بھی نہیں ہے۔ بائبل کا ترجمہ بھی یہودیوں نے اپنا کیا ہے۔ عیسائیوں کے ترجمے کو وہ ہاتھ نہیں لگاتے۔ اس کے برعکس یہودی مصنفین اسلام کے متعلق مضامین اور کتابیں لکھتے ہیں اور مسلمان ہاتھوں ہاتھ ان کو لیتے ہیں اور ان کا یہ حق مانتے ہیں کہ ہمارے مذہب اور ہماری فقہ اور ہماری تہذیب اور ہمارے بزرگوں کی تاریخ کے متعلق وہ محققانہ کلام فرمائیں اور ہم یہ چیزیں ان سے سیکھیں۔ یہ صورت حال کسی صحیح اسلامی حکومت میں نہیں رہ سکتی اور نہ رہنی چاہیے۔ اور کوئی وجہ نہیں کہ رہ سکے۔ اسلامی حکومت بھی ہو اور اسلام اور مسلمان یتیم بھی ہوں؟ یہ دونوں باتیں ایک دوسرے سے بالکل متضاد ہیں۔ یہ رویہ مسلمانوں کی غیر اسلامی حکومت ہی کو مبارک رہے۔

سوال

اسلامی حکومت اور سود پر قرض

پگڑی، گڈول، دلالی کمیشن کے لیے اجتہاد

کیا اسلامی حکومت موجودہ دور میں جبکہ ایک ملک دوسرے ملک سے قطع تعلق کر کے ترقی نہیں کر سکتا، غیر ممالک سے مطلق اقتصادی، فوجی، ٹیکنیکل امداد یا بین الاقوامی بینک سے شرح سود پر قرض لینا بالکل حرام قرار دے گی؟

  1. پھر مادی، صنعتی، زراعتی و سائنسی ترقی وغیرہ کی جو عظیم خلیج مغربی ترقی یافتہ (ADVANCED) ممالک اور مشرقی وسطیٰ بالخصوص اسلامی ممالک یا اس ایٹمی دور میں HAVE اور HAVE NOT کے درمیان حائل ہے کس طرح پر ہو سکے گی؟
  2. نیز کیا اندرون ملک تمام بینکوں سے سود ترک کرنے کا حکم دیا جائے گا؟
  3. سود، پگڑی، منافع و ربح اور گڈول (GOOD WILL) و خرید و فروخت میں دلالی و کمیشن کے لیے کونسی اجتہادی راہ نکالی جا سکتی ہے؟
  4. کیا اسلامی ممالک آپس میں سود، منافع، ربح وغیرہ پر کسی صورت میں قرض کا لین دین کر سکتے ہیں؟

جواب

اسلامی حکومت نے کسی دور میں بھی غیر مسلم ملک سے قطع تعلق کی پالیسی اختیار نہیں کی اور نہ آج کرے گی۔ لیکن تعلق کے معنی قرض مانگتے پھرنے کے نہیں ہیں، اور وہ بھی ان کی شرائط پر۔ یہ تعلق اس زمانے کے کم ہمت لوگوں نے ہی پیدا کیا ہے۔ اگر کسی ملک میں ایک صحیح اسلامی حکومت قائم ہو تو وہ مادی ترقی سے پہلے اپنی قوم کی اخلاقی حالت سدھارنے کی کوشش کرے گی۔ اخلاقی حالت سدھارنے سے معنی یہ ہیں کہ قوم کے حکمران اور اس کی انتظامی مشینری کے کار پرداز اور قوم کے افراد ایماندار ہوں، اپنے حقوق سے پہلے اپنے فرائض کو ملحوظ رکھنے اور سمجھنے والے ہوں۔ اور سب کے سامنے ایک بلند نصب العین ہو جس کے لیے جان، مال اور وقت اور محنتیں اور قابلیتیں سب کچھ قربان کرنے کے لیے وہ تیار ہوں۔ نیز یہ کہ حکمرانوں کو قوم پر اور حکمرانوں پر قوم کو پورا اعتماد ہو اور قوم ایمانداری کے ساتھ یہ سمجھے کہ اس کے سربراہ در حقیقت اس کی فلاح کے لیے کام کر رہے ہیں۔ یہ صورت حال اگر پیدا ہو جائے تو ایک قوم کو باہر سے سود پر قرض مانگنے کی صورت پیش نہیں آسکتی۔ ملک کے اندر جو ٹیکس لگائے جائیں گے وہ سو فیصدی وصول ہوں گے اور سو فیصدی ہی وہ قوم کی ترقی پر صرف ہوں گے۔ نہ ان کی وصولی میں بے ایمانی ہو گی اور نہ اُن کے خرچ میں بے ایمانی ہو گی۔ اس پر بھی اگر قرض کی ضرورت پیش آئے تو قوم خود سرمایہ کا ایک بڑا حصہ رضا کارانہ چندے کی صورت میں اور ایک اچھا خاصہ غیر سودی قرض کی صورت میں، یا منافع میں شرکت کے اصول پر فراہم کرنے کو تیار ہو جائے گی۔

میرا اندازہ یہ ہے کہ پاکستان میں اگر اسلامی اصولوں کا تجربہ کیا جائے تو شاید بہت جلدی پاکستان دوسروں سے قرض لینے کے بجائے دوسروں کو قرض دینے کے لیے تیار ہو جائے۔

بالفرض اگر ہمیں بیرونی قوموں سے سود پر قرض لینے کی کوئی ناگزیر صورت پیش آجائے یعنی ہمیں اپنی ضرورت کو پورا کرنا بھی لازم ہو اور اس کے لیے ملک میں سرمایہ کہیں نہ مل سکے، تو دوسروں سے سود پر قرض لیا جا سکتا ہے۔ لیکن ملک کے اندر سودی لین دین جاری رکھنے کا پھر بھی کوئی جواز نہیں۔ ملک میں سود بند کیا جا سکتا ہے، اور پورا مالی نظام (FINANCIAL SYSTEM) سود کے بغیر چلایا جا سکتا ہے۔ میں اپنی کتاب "سود" میں یہ ثابت کر چکا ہوں کہ بینکنگ کا نظام سود کے بجائے منافع میں شرکت (PROFIT SHARING) کے اصول پر چلایا جا سکتا ہے۔ اسی طرح انشورنس کے نظام میں ایسی ترمیمات کی جا سکتی ہیں جن سے انشورنس کے سارے فوائد غیر اسلامی طریقہ اختیار کیے بغیر حاصل ہو سکیں۔ دلالی، سود، پگڑی یا کمیشن یا گڈویل (GOODWILL) وغیرہ کی علیحدہ علیحدہ شرعی پوزیشن ہے۔ جب اسلامی ریاست کا قیام عمل میں آئے گا۔ تو اس کا جائزہ لے کر یا تو سابق پوزیشن بحال رکھی جائے گی یا پھر ضروری اصطلاحات کی جائیں گی۔

سوال

اسلامی قوانین کے نفاذ میں تدریج

اسلامی عدالتی نظام میں وکلاء کی حیثیت

ہاتھ کاٹنے اور سنگسار کرنے کی سزا؟

اس بر صغیر جنوبی ایشیا میں چونکہ تمام قانونی ضابطہ ہائے دیوانی، فوجداری، مالیاتی اور عمل درآمد (PROCEDURAL LAWS) وغیرہ عرصہ سے ہر عدالت میں جاری و ساری ہیں اور چونکہ ڈیڑھ صدی سے تمام لوگ بالخصوص جج و وکلاء وغیرہ نہ صرف ان قوانین سے پوری طرح مانوس بلکہ اس کا وسیع علم رکھتے ہیں اس لیے بھی اسلامی مملکت کے قیام سے یہاں برطانوی دور کے نظام عدل (BRITISH RULE OF LAW) کا سارا ڈھانچہ بدلنا ممکن نہ ہو گا۔ تو کیا پھر بھی عدالتی ریفارم لائی جائیں گی جبکہ اسلامی قانون کسی پہلو سے جامع، مرتب یا مکمل اور مدون (CODIFIED) نہیں ہے؟

  1. اسلامی عدالتی نظام میں وکلاء کی حیثیت کیا ہو گی؟ کیا اسی طرح (CEDRAL LAWS) کے تحت انہیں مقدمہ جات لڑنے اور مقدمہ بازی (LITIGATION) کو طول دینے کا اختیار ہو گا؟
  2. کیا اس موجودہ ترقی یافتہ دور میں بھی چور کے ہاتھ کاٹنے اور زانی کو سنگسار کرنے کی سزائیں دی جائیں گی؟
  3. کیا قاضیوں کو موجودہ نافذ قانون شہادت (EVIDENCE LAW) کی مدد کے بغیر فیصلے صادر کرنے ہوں گے؟
  4. پھر بین الاقوامی قسم کے ادارے مثلاً اقوام متحدہ (UNITED NATIONS) کی جنرل اسمبلی، سیکورٹی کونسل، بین الاقوامی عدالت انصاف یا کمرشل ٹریبیونل اور بیرونی قوانین وغیرہ کی عمل داری دخل اندازی یا انٹر نیشنل لا پر عمل پیرا ہونے اور ان کی من و عن قبولیت کے لیے اسلامی حکومت کا کیا رویہ ہو گا؟
  5. اگر اسی قسم کے ادارے اسمبلی، کنفیڈریشن یا اسلامی بلاک بنا کر عمل میں لائے جائیں تو ان کو کیا حیثیت حاصل ہو گی؟
  6. کیا اسلامی قانون ساز اسمبلی کے پاس شدہ یا اجتہادی احکام کی اسلامی عدلیہ کو نظر ثانی (REVIEW) کرنے کا اختیار ہو گا؟
  7. اسلامی ممالک اور تمام مسلمانوں کو ایک اسٹیج پر لانے کے لیے اختلافات کس طرح رفع کیے جا سکتے ہیں؟

جواب

اس سوال کے جواب میں یہ بات پہلے ہی سمجھ لینی چاہیے کہ جب انگریزی حکومت اس ملک میں آئی تھی تو اس وقت سارا قانونی نظام (LEGAL SYSTEM) اسلامی فقہ پر قائم تھا۔ انگریز نے یک لخت تبدیل نہیں کیا بلکہ انگریزی حکومت میں سالہا سال تک اسلامی نظام قانون ہی چلتا رہا۔ انگریز اس کو بتدریج تبدیل کرتے رہے اور رفتہ رفتہ انہوں نے اپنا نظام قانون رائج کیا۔ اب اگر ہم اسلامی نظام قانون کو از سر نو قائم کرنا چاہیں تو یہ تبدیلی بھی یک لخت نہیں، بتدریج ہو گی اور اس کے لیے بہت حکمت کے ساتھ ایک ایک قدم اٹھانا پڑے گا۔

اسلامی قوانین اگر مدون (CODIFIED) نہیں ہیں تو ان کے مدون (CODIFY) کرنے میں کوئی دقت نہیں ہے۔ اسی طرح اسلامی قانون کی شرحیں کثرت سے موجود ہیں۔ ان کو آسانی سے اُردو زبان میں منتقل کیا جا سکتا ہے، اور آگے نئی شرحوں کا سلسلہ چل سکتا ہے۔

اسی موجودہ ترقی یافتہ دور میں سعودی عرب میں زنا اور چوری کی سزائیں جاری ہیں۔ اور پورے تجربے نے تمام دنیا کے سامنے یہ ثابت کر دیا ہے کہ انہی سزاؤں کی وجہ سے سعودی عرب میں جرائم کی اتنی کمی ہو گئی ہے جتنی دنیا کے کسی ملک میں نہیں ہے۔ اب اگر اس دور کے ترقی یافتہ ہونے سے معنی یہی ہیں کہ جرائم میں ترقی ہو تو بسم اللہ، مغربی قانونی سسٹم پر عمل کرتے رہیں۔ لیکن جرائم کا انسداد بھی اگر ترقی کے لیے ضروری ہے تو پھر یہ تجربے نے ثابت کر دیا ہے کہ اسلامی قانون سے زیادہ کارگر کوئی قانون نہیں ہے۔ دراصل اس زمانے کی مذہبی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس کی ساری ہمدردیاں مجرموں کے ساتھ ہیں۔ اسی لیے یہ نقطہ نظر پیش کیا جاتا ہے کہ یہ سزائیں وحشیانہ ہیں۔ اس کا دوسرا مطلب یہ ہوا کہ چوری کرنا کوئی وحشیانہ کام نہیں ہے۔ البتہ اس پر ہاتھ کاٹنا وحشیانہ کام ہے۔ اور زنا کا ارتکاب تو مغربی دنیا میں ایک تفریح ہے ہی۔

مجھے نہیں معلوم کہ اس خیال کا ماخذ کیا ہے کہ اسلامی قانون میں قاضیوں کو قانون شہادت (LAW OF EVIDENCE) کی مدد کے بغیر فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل ہے یا کوئی ایسا دستور العمل رہا ہے۔ حالانکہ خود قرآن نے قانون شہادت کے بہت سے اصول بیان کیے ہیں اور اس کی بیشتر تشریحات حدیث کا ذخیرہ اور خلفائے راشدین کے فیصلوں سے ملتی ہیں۔ بالخصوص فقہا نے ان اصولوں کو نہایت محنت سے ترتیب دیا ہے اور اسلامی دور میں کوئی ایسا قاضی نہیں گزرا جس نے ثبوت کے بغیر فیصلے صادر کیے ہوں۔

وکالت کے بارے میں میرے نزدیک صرف اتنی اصلاح درکار ہے کہ پرائیویٹ قانون کی پریکٹس بند کر دی جائے اور وکلاء کو اسٹیٹ معاوضہ دے۔ اب بھی قانون کا نظریہ یہ ہے کہ وکیل کا اصل کام اپنے موکل کی حمایت کرنا نہیں ہے۔ بلکہ عدالت کو قانون سمجھنے اور منطبق (APPLY) کرنے میں مدد دیتا ہے۔ وکالت کے پیشہ بن جانے کی وجہ سے یہ خرابی پیدا ہوتی ہے کہ وکیل عدالت کو گمراہ (MISLEAD) کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ گواہوں کو سکھاتے پڑھاتے ہیں۔ عدالت کے سامنے مقدمے کی روداد غلط لانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مقدمات کو طول بھی دیتے ہیں۔ اور مقدمہ بازی کو بڑھاتے بھی ہیں۔

بین الاقوامی قسم کے تمام اداروں میں ہم شریک ہو سکتے ہیں۔ ان کے اندر اگر کوئی چیز بھی ہمارے اصول کے مطابق نہ ہو گی تو ہم اس کی حد تک اپنی الگ پالیسی بنائیں گے۔ اور اسی حد تک ہماری شرکت میں استثناء ہو گا۔ مسلمان ممالک خود اپنی دولت متحدہ (WEALTH UNION) (CONFEDRATION) (التحالف) بنا سکتے ہیں اور اسلامی اصول کے مطابق باہمی تعلقات کے طریقے مقرر کر سکتے ہیں۔

اسلامی قانون ساز اسمبلی کے طے کیے ہوئے اجتہادی احکام پر اسلامی عدلیہ نظرثانی (REVIEW) نہیں کر سکے گی۔ البتہ اگر وہ احکام قانون ساز اسمبلی کے اختیار سے متجاوز ہوں تو ان کو حدود اختیار سے تجاوز (ULTRA VIRES) قرار دے سکتی ہے۔

اسلامی ممالک اور مسلمانوں کو ایک اسٹیج پر لانے کے لیے اختلافات رفع کرنے کی صورت ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ مسلمان ایمانداری کے ساتھ قرآن اور سنت کی ہدایات پر چلنے کے لیے تیار ہوں۔ قرآن کی تاویل اور سنت کی تحقیق میں اختلافات ہو سکتے ہیں۔ لیکن وہ مل کر کام کرنے میں مانع نہیں ہو سکتے۔ اگر ہم اس اصول کو مان لیں کہ جو شخص بھی قرآن اور سنت کو سند و حجت (AUTHORITY) مانتا ہے وہ ہماری برادری کا آدمی ہے تو یہ چیز کسی آدمی کو ہماری برادری سے خارج نہیں کر سکتی کہ وہ قرآن کے معنی ہم سے مختلف سمجھ رہا ہے یا اس کے نزدیک کسی معاملہ میں سنت سے کوئی اور بات ثابت ہوتی ہے۔ اس کی مثال بالکل ایسی ہے کہ جتنی عدالتیں بھی پاکستان کے دستور اور قانون کو واجب الاطاعت قانون مان کر کام کرتی ہیں۔ وہ سب اس ملک کی بائنر عدالتیں ہیں اس کے لیے ضروری نہیں ہے۔ کہ تمام عدالتوں کے فیصلے بھی یکساں ہوں۔

سوال

اجتہاد کے پانچ اصول

اسلامی حکومت اور عمل اجتہاد

شیعہ ائمہ کے اجتہاد کی حیثیت

کیا اجتہاد کے اُس دروازے کو جسے صدیوں پیشتر بند کر دیا گیا تھا، آج کھولنے کی شدید ضرورت نہیں ہے؟

  1. اور وہ اجتہادی اصول جو آج سے ہزار سال قبل بنائے گئے تھے کیا ان کو بڑی سختی سے آج بیسویں صدی کے مسائل پر بھی نافذ کیا جائے گا؟
  2. حکومت اس صورت حال سے کس طرح نمٹے گی جب کہ ہر طبقہ فکر یعنی (SUB-SECTS) کے پیرو اپنے ائمہ سے اجتہادی احکام کو بدلنے کے خلاف ہیں اور نہایت شد و مد سے آج کے مسائل کے لیے بھی انہی کی تشریح و توضیح کر کے فیصلے کرنے کے حق میں ہیں؟
  3. اگر ہر مکتب فکر کے علماء کو اکثریت آرا سے اجتماعی طور پر اجماع کے لیے مامور کیا جائے تو کیا جو اجتہاد اس طرح کیا گیا ہو وہ تمام مسلمانوں کے لیے قابل قبول ہو گا؟
  4. کیا حکومت کو اس پر سختی سے عمل پیرا ہونے پر مجبور کیا جا سکے گا؟
  5. خلاف ورزی اور مخالفہ کہاں تک برداشت ہو سکتی ہے؟
  6. کیا حضرت علی و جعفر صادق و شیعہ ائمہ کا اجتہاد اور قوانین جو نہایت مناسب ہیں تمام مسلمانوں کے لیے اسلامی حکومت نافذ کر سکتی ہے؟

جواب

یہ سوال بہت سے اصولی سوالات پر مشتمل ہے میں اس کے ایک ایک جزو کا جواب نمبر وار دوں گا۔

  1. اجتہاد کا دروازہ کھولنے سے کسی ایسے شخص کو انکار نہیں ہو سکتا جو زمانے کے بدلتے ہوئے حالات میں ایک اسلامی نظام کو چلانے کے لیے اجتہاد کی اہمیت و ضرورت کو اچھی طرح سمجھتا ہو لیکن اجتہاد کا دروازہ کھولنا جتنا ضروری ہے اتنا ہی احتیاط کا متقاضی بھی ہے۔ اجتہاد کرنا ان لوگوں کا کام نہیں ہے جو ترجموں کی مدد سے قرآن پڑھتے ہوں، حدیث کے پورے ذخیرے سے نہ صرف یہ کہ نا واقف ہوں بلکہ اس کو دفتر بے معنی سمجھ کر نظر انداز کر دیتے ہوں پچھلی تیرہ صدیوں میں فقہائے اسلام نے اسلامی قانون پر جتنا کام کیا ہے اس سے سرسری واقفیت بھی نہ رکھتے ہوں اور اس کو فضول سمجھ کر پھینک دیں۔ پھر اس پر مزید یہ کہ مغربی نظریات و اقدار کو لے کر ان کی روشنی میں قرآن کی تاویلیں کرنا شروع کر دیں۔ اس طرح کے لوگ اگر اجتہاد کریں گے تو اسلام کو مسخ کر کے رکھ دیں گے اور مسلمان، جب تک اسلامی شعور کی رمق بھی ان کے اندر موجود ہے، ایسے لوگوں کے اجتہاد کو ہرگز ضمیر کے اطمینان کے ساتھ قبول نہ کریں گے۔ اس طرح کے اجتہاد سے جو قانون بھی بنایا جائے گا وہ صرف ڈنڈے کے زور سے ہی قوم پر مسلط کیا جا سکے گا اور ڈنڈے کے ساتھ ہی وہ رخصت ہو جائے گا۔ قوم کا اسے کس طرح اگل کر پھینک دے گا جس طرح انسان کا معدہ نکلی ہوئی لکھی کو اگل کر پھینک دیتا ہے۔ مسلمان اگر اطمینان کے ساتھ کسی اجتہاد کو قبول کر سکتے ہیں، تو صرف ایسے لوگوں کا اجتہاد ہے جن کے علم دین اور خداترسی اور احتیاط پر ان کو اطمینان اور بھروسہ ہو اور جن کے متعلق وہ یہ جانتے ہوں کہ یہ لوگ غیر اسلامی نظریات و تصورات کو اسلام میں نہ ٹھونسیں گے۔
  2. جو اجتہادی اصول آج سے ہزار سال پہلے بنائے گئے تھے وہ صرف اس لیے رد کر دینے کے قابل نہیں ہیں کہ وہ ہزار سال پرانے ہیں۔ معقولیت کے ساتھ جائزہ لے کر دیکھتے کہ وہ اصول تھے کیا اور اس بیسویں صدی میں ان کے سوا اور کچھ اصول ہو بھی سکتے ہیں یا نہیں؟ ان میں سے پہلا اصول یہ تھا کہ آدمی اس زبان کو اور اس کے قواعد اور محاوروں اور ادبی نزاکتوں کو اچھی طرح سمجھتا ہو جس میں قرآن نازل ہوا ہے۔ بتائیے کیا یہ اصول غلط ہے؟ انگریزی زبان میں قانون کی جو کتابیں لکھی گئی ہیں کیا ان کی تعبیر کا حق کسی ایسے شخص کو دیا جا سکتا ہے جو انگریزی زبان کی ایسی واقفیت نہ رکھتا ہو؟ وہاں تو ایک کاما (Comma) کے ادھر سے ادھر ہو جانے سے معنی میں عظیم فرق پیدا ہو جاتا ہے حتیٰ کہ بسا اوقات ایک کاما کی تبدیلی کے لیے پارلیمنٹ کو ایک قانون (ACT) پاس کرنا پڑتا ہے۔ مگر یہاں یہ مطالبہ ہے کہ قرآن کی وہ لوگ تعبیر کریں گے جو ترجموں کی مدد سے قرآن سمجھتے ہوں اور ترجمے بھی وہ جو انگریزی زبان میں ہوں۔ دوسرا اصول یہ ہے کہ آدمی نے قرآن مجید کا اور ان حالات کا جن حالات میں قرآن مجید نازل ہوا ہے گہرا اور وسیع مطالعہ کیا ہو۔ کیا اس اصول میں کوئی غلطی ہے؟ کیا موجودہ قوانین کی تعبیر کا حق کسی ایسے شخص کو دیا جا سکتا ہے جس نے قانون کی کسی کتاب کا محض سرسری مطالعہ کیا ہو یا صرف ترجمہ پڑھ لیا ہو؟ تیسرا اصول یہ ہے کہ آدمی اس عمل درآمد سے اچھی طرح واقف ہو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کے دور میں اسلامی قوانین پر ہوتا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ قرآن خلا میں سفر کرتا ہوا براہ راست ہمارے پاس نہیں پہنچ گیا ہے۔ اس کو خدا کی طرف سے ایک نبی لایا تھا۔ اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بنیاد پر افراد تیار کیے تھے، معاشرہ بنایا تھا، ایک ریاست قائم کی تھی، ہزار ہا آدمیوں کو اس کی تعلیم دی تھی اور اس کے مطابق کام کرنے کی تربیت دی تھی۔ ان ساری چیزوں کو آخر کیسے نظرانداز کیا جا سکتا ہے۔ ان کا جو ریکارڈ موجود ہے اس کی طرف سے آنکھیں بند کر کے صرف قرآن کے الفاظ سے احکام نکالنا کس طرح صحیح ہو سکتا ہے۔ چوتھا اصول یہ ہے کہ آدمی اسلامی قانون کی پچھلی تاریخ سے واقف ہو۔ وہ یہ جانے کہ یہ قانون کس طرح ارتقاء کرتا ہوا آج تک ہمیں پہنچا ہے۔ پچھلی تیرہ صدیوں میں صدی بہ صدی اس پر کیا کام ہوا ہے اور مختلف زمانوں میں وقت کے حالات پر قرآن اور سنت کے احکام کو منطبق کرنے کے لیے کیا کیا طریقے اختیار کیے گئے ہیں۔ اور تفصیلاً کیا احکام مرتب کیے جاتے رہے ہیں۔ اس تاریخ اور اس کام سے واقف ہوئے بغیر اجتہاد کر کے ہم اسلامی قانون کے ارتقاء کا تسلسل (CONTINUITY) آخر کس طرح برقرار رکھ سکتے ہیں۔ ایک نسل اگر یہ طے کر لے کہ پچھلی نسلوں کے کیے ہوئے سارے کاموں کو چھوڑ دے گی اور نئے سرے سے اپنی عمارت بنائے گی تو ایسا ہی احمقانہ فیصلہ ہمارے بعد آنے والی نسلیں کر سکتی ہیں۔ ایک دانشمند قوم اپنے اسلاف کے کیے ہوئے کام کو بر باد نہیں کرتی بلکہ جو کچھ انہوں نے کیا ہے اس کو لے کر آگے وہ کام کرتی ہے۔ جو انہوں نے نہیں کیا اور اس طرح ترقی جاری رہتی ہے۔ پانچواں اصول یہ ہے کہ آدمی ایمانداری کے ساتھ اسلامی اقدار اور طرزفکر اور خدا اور رسول کے احکام کی صحت کا معتقد ہو اور رہنمائی کے لیے اسلام سے باہر نہ دیکھے بلکہ اسلام کے اندر ہی رہنمائی حاصل کرے۔ یہ شرط ایسی ہے جو دنیا کا ہر قانون اپنے اندراجتہاد کرنے کے لیے لازمی طور پر لگائے گا۔ در حقیقت اجتہاد کے یہی پانچ اصول ہیں۔ اگر کوئی صاحب معقول دلیل سے اس بیسویں صدی کے لیے کچھ اور اصول تجویز کر سکیں تو ہم ان کے ممنون احساس ہوں گے۔
  3. مسلمانوں میں فرقوں کے جتنے اختلافات ہیں ان کے بارے میں پہلے ہی پاکستان کے علماء اس بات پر اتفاق کر چکے ہیں کہ جہاں تک پرسنل لا کا تعلق ہے ہر فرقے پر وہی احکامات نافذ ہوں گے جو اس فرقے کے نزدیک مسلم ہیں اور جہاں تک ملکی قوانین کا تعلق ہے وہ اکثریت کے مسلک کے مطابق ہوں گے۔ کیا اس کے بعد وہ مشکلات باقی رہتی ہیں جن کا حوالہ دیا جاتا ہے؟ اگر مجلس قانون ساز میں ہمارے نمائندے احتیاط کے ساتھ اس اصول پر عمل کریں تو فرقہ وارانہ اختلافات آہستہ آہستہ کم ہوتے چلے جائیں گے اور ہمارے قوانین کا ارتقا بڑی اچھی طرح ہو سکے گا۔
  4. فقہ جعفری اور شیعہ علماء کا اجتہاد اسی ملک میں نافذ کیا جا سکتا ہے جہاں شیعہ فرقے کی اکثریت ہو۔ چنانچہ ایران میں وہ نافذ ہے۔ لیکن پاکستان میں وہ شیعوں کے پرسنل لا کی حیثیت سے ہی رہ سکتا ہے۔ سنّی اکثریت پر اس کو نافذ کرنے کی کیسے کوشش کی جا سکتی ہے؟

سوال

اجتہاد کی بنیاد: الفاظ یا اسپرٹ

مویشی نہ ہونے کی صورت میں قربانی کا حکم

کیا اجتہاد، جو کیا جائے گا وہ قرآن و حدیث و سابقہ اجتہادی احکام و قوانین جو خلفائے راشدین کے عہد میں نافذ کیے گئے تھے ان کے محض الفاظ پر ہی زور دے کر عمل کیا جائے گا یا آیت و حدیث کی صحیح اسپرٹ کو مد نظر رکھ کر (دیکھیں اور کب و کونسے حالات، ماحول و رجحان کے تحت وہ جاری ہوتے)؟

  1. آج موجودہ قانونی دفعات میں بھی الفاظ (WORDING OF THE SECTION) کی بندش جتنی اہمیت رکھتی ہے اس سے زیادہ دیباچہ قانون (PREAMBLE) اہمیت رکھتا ہے جس کی روشنی میں آئین و قانون کی دفعات تک کالعدم قرار دے دی جاتی ہیں۔ فرض کیجئے جیسا کہ مسلمان روزہ طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک رکھتے ہیں لیکن نماز روزہ کے لیے اوقات کا تعین قطبین (POLES) پر رہنے والے مسلمانوں کے لیے کیا ہو گا؟ جہاں مہینوں لمبی راتیں اور دن ہوتے ہیں؟
  2. اور فرض کیجئے کہ کسی جگہ اونٹ، بھیڑ، بکری، دنبہ وغیرہ دستیاب نہ ہوتے ہوں اور مثلاً وہاں صرف سور، خرگوش، مچھلی، گینڈے، ہاتھی اور کتے وغیرہ موجود ہوں یا کچھ نہ ہوں تو وہاں قربانی کی کیا صورت ہو گی؟
  3. کیا قربانی کی صحیح اسپرٹ اور اصل جذبے کے تحت جانور کی قیمت کے بقدر رقم کی صورت میں حکومت وقت کے بیت المال میں جمع کر دی جائے یا قوم کی فلاح و بہبود پر خرچ کر دی جائے تو شریعت اس پر اکتفا کرے گی؟

جواب

اجتہاد کے لیے الفاظ اور اسپرٹ دونوں ہی کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے لیکن اسپرٹ کا مسئلہ خاصا پیچیدہ ہے۔ اگر اسپرٹ سے مراد وہ چیز ہے جو بحیثیت مجموعی قرآن کی تعلیمات، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل، خلفائے راشدین کے طریقے اور بحیثیت مجموعی فقہائے امت کے فہم سے ظاہر ہوتی ہے تو بلا شبہ یہ اسپرٹ ملحوظ رکھنے کے قابل ہے اور اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن اگر الفاظ قرآن اور سنت سے لیے جائیں اور اسپرٹ کہیں اور سے لائی جائے تو یہ سخت قابل اعتراض چیز ہے اور ایسی اسپرٹ کو ملحوظ رکھنے کے معنی یہ ہیں کہ ہم خدا اور رسول کا نام لے کر ان سے بغاوت کرنا چاہتے ہیں۔

قطبین کے متعلق روزہ اور نماز کے معاملہ میں ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ قرآن اور حدیث کی رو سے اصل مقصود خدا کی عبادت ہے یا ان دونوں عبادتوں کو اُن خاص اوقات کے اندر ادا کرنا جن کی علامات قرآن اور سنت میں بتائی گئی ہیں۔ تمام دنیا کا یہ مسلم قاعدہ ہے کہ کسی حکم سے جو اصل مقصود ہو وہ زیادہ اہمیت رکھتا ہے اور اگر اس حکم کے متعلقات میں سے کوئی ایسی چیز آجائے جو حکم کے مقصد کو پورا کرنے میں رکاوٹ بن رہی ہو تو اس کے ان متعلقات میں ترمیم کی جائے گی۔ اب یہ ظاہر بات ہے کہ قرآن مجید اور سنت کی رو سے نماز ادا کرنا اور روزہ رکھنا اصل مقصد ہے اور جو اوقات ان عبادتوں کے لیے مقرر کیے گئے ہیں وہ زمین کی بہت بڑی آبادی کی سہولت کو ملحوظ رکھ کر مقرر کیے گئے ہیں۔ زمین کی آبادی کا بہت بڑا حصہ ان علاقوں میں آباد ہے جہاں رات دن کا الٹ پھیر جو چوبیس گھنٹوں میں ہو جاتا ہے اور ان علاقوں میں چونکہ اکثریت کے پاس ہر وقت گھڑی نہیں رہ سکتی اس لیے ان کی سہولت کو مد نظر رکھ کر اوقات کے لیے وہ علامات بیان کی گئی ہیں جو افق پر یا آسمان پر ظاہر ہونے والی ہیں تاکہ ہر انسان اپنی عبادت کے لیے اوقات بآسانی معلوم کرے۔ قطبین پر انسانی آبادی کا بہت چھوٹا حصہ آباد ہے۔ اس آبادی کو نماز اور روزے کے احکام پر عمل کرنے کے لیے اپنے حالات کے لحاظ سے اوقات مقررہ میں مناسب ترمیمیں کرنی ہوں گی۔ کیونکہ ان اوقات کی پابندی اور عبادت کی ادائیگی دونوں ایک ساتھ نہیں ہو سکتیں اس لیے عبادت کے حکم کو اوقات کے حکم پر قربان نہیں کیا جا سکتا ہے۔

قربانی کے حکم پر عمل کرنے کے صرف دو اصول پر نظر رکھنے ہوں گے۔ ایک تو یہ کہ جانور وہ ہو جو اسلام میں حرام نہیں کیا گیا ہے۔ دوسرے یہ کہ جانور وہ ہو جو کسی آبادی میں مویشی (CATTLE) کی حیثیت سے استعمال ہوتا ہو۔ اس طرح قربانی کے حکم پر دنیا کی ہر آبادی میں عمل کیا جا سکتا ہے۔ قربانی بہر حال جانور ہی کی ہونی چاہیئے اس کے بدلے میں مالی اتفاق کی کوئی شکل اختیار نہیں کی جا سکتی۔ میں اس موضوع پر اپنی کتاب "مسئلہ قربانی" میں مفصل بحث کر چکا ہوں۔

سوال

زکوٰۃ ٹیکس نہیں رکن دین ہے

موجودہ آزاد تمدنی دور میں بھی کیا غربا و مساکین کے لیے امر اور ڈسا سے زکوٰۃ فنڈ جبراً وصول کیا جانا مناسب ہو گا؟ جبکہ وہ دیگر کئی ٹیکسوں کے علاوہ انکم ٹیکس بھی حکومت وقت ہی کو ادا کرتے ہوں؟

جواب

زکوٰۃ کے متعلق پہلی بات یہ سمجھ لینی چاہیے کہ یہ ٹیکس نہیں ہے بلکہ ایک عبادت اور رکن اسلام ہے جس طرح نماز، روزہ اور حج ارکان اسلام ہیں۔ جس شخص نے کبھی قرآن مجید کو آنکھیں کھول کر پڑھا ہے وہ دیکھ سکتا ہے کہ قرآن بالعموم نماز اور زکوٰۃ کا ایک ساتھ ذکر کرتا ہے اور اُسے اس دین کا ایک رکن قرار دیتا ہے۔ اس لیے اُس کو ٹیکس سمجھنا اور ٹیکس کی طرح اس سے معاملہ کرنا پہلی بنیادی غلطی ہے۔ ایک اسلامی حکومت جس طرح اپنے ملازموں سے دفتری کام اور دوسری خدمات لے کر یہ نہیں کہہ سکتی کہ اب نماز کی ضرورت باقی نہیں رہی کیونکہ انہوں نے سرکاری ڈیوٹی دے دی ہے، اسی طرح وہ لوگوں سے ٹیکس لے کر یہ نہیں کہہ سکتی کہ اب زکوٰۃ کی ضرورت باقی نہیں کیونکہ ٹیکس لے لیا گیا ہے۔ اس کو نظام اوقات لازماً اس طرح مقرر کرنے ہوں گے تاکہ اس کے ملازمین نماز وقت پر ادا کر سکیں۔ اسی طرح اس کو اپنے ٹیکسیشن کے نظام میں زکوٰۃ کی جگہ نکالنے کے لیے مناسب ترمیمات کرنی ہوں گی۔

اس کے علاوہ یہ بات بھی سمجھ لینی چاہئے کہ حکومت کے موجودہ ٹیکسوں سے کوئی ٹیکس ان مقاصد کے لیے اس طرح استعمال نہیں ہوتا ہے جن کے لیے قرآن میں زکوٰۃ فرض کی گئی ہے اور جس طرح اس کے تقسیم کرنے کا حکم ہے۔

سوال

جذبہ جہاد کو زندہ رکھنے کا طریق کار

نظام مملکت میں فوج کا مقام

مسلمانوں کے جذبہ جہاد کو زندہ رکھنے کے لیے آج بیسویں صدی میں کیا طریق کار اختیار کیا جائے گا؟ جبکہ آج کی جنگ شمشیر و سنان سے یا میدان جنگ میں صف آرا ہو کر دست بدست نبرد آزمائی سے نہیں ہوتی بلکہ سائنسی ہتھیاروں، دماغوں، ESPIONAGE اور STRATEGY سے لڑی جاتی ہے؟

  1. آپ اس طرح کی سائنسی ایجادات وغیرہ کا سہارا لے کر اس سائنسی دور میں جذبہ جہاد کس طرح پیدا کریں گے؟
  2. کیا چاند، مریخ و مشتری پر اترنے اور سٹیلائٹ چھوڑنے یا فضا میں راکٹ سے پرواز کرنے اور نت نئی ایجادات کرنے والے مجاہدین کے زمرے میں آسکتے ہیں؟
  3. انتظامی اور ملکی نظام (CIVIL ADMINISTRATION) میں فوج کو کیا مقام دیا جا سکتا ہے؟ موجودہ دور کے فوجی انقلاب میں ملکی نظام میں فوج کی شمولیت اور افادیت بہت حد تک ثابت ہو چکی ہے۔ کیا فوج کو دور امن میں بٹھا کر کھلانے کے بجائے ہر فیلڈ میں قوم کی خدمت سپرد ہو؟

جواب

جہاد کے متعلق اولین بات یہ سمجھنی چاہیے کہ جہاد اور لڑاکا پن میں بہت فرق ہے۔ اسی طرح قومی اغراض کے لیے جہاد اور چیز ہے اور جہاد فی سبیل اللہ اور چیز۔ مسلمانوں میں جس جذبہ جہاد کے پیدا کرنے کی ضرورت ہے وہ اس وقت تک پیدا نہیں ہو سکتا جب تک ان کے اندر ایمان ترقی کرتے کرتے اس حد تک نہ پہنچ جائے کہ وہ خدا کی زمین سے برائیوں کو مٹانے اور اس زمین میں خدا کا حکم بلند کرنے کے لیے اپنا سب کچھ قربان کرنے کو تیار نہ ہو جائیں۔ سر دست تو ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ سب کچھ اس جذبے کی جڑ کاٹ دینے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ تعلیم وہ دی جا رہی ہے جو ایمان کے بجائے شک اور انکار پیدا کرے۔ تربیت وہ دی جا رہی ہے جس سے افراد میں اور سوسائٹی میں وہ برائیاں پھیلیں جنہیں ہر مسلمان جانتا ہے کہ اسلام کے نزدیک برائیاں ہیں۔ اس کے بعد یہ سوال اصل ہے کہ مسلمانوں میں جذبہ جہاد کیسے پیدا ہو گا۔ موجودہ حال یہ ہے کہ وہ یا تو ایک سپاہی (MERCENARY) بنے گا یا حد سے حد قومی اغراض کے لیے لڑے گا۔ رہے سائنسی ہتھیار اور فن حرب (STRATEGY) تو وہ اسباب ہیں جو جائز اغراض اور ناجائز اغراض سب کے لیے استعمال ہو سکتے ہیں۔ اگر مسلمان میں صحیح ایمان موجود ہو اور اسلام کا نصب العین اس کا اپنا نصب العین بن جائے تو وہ پورے جذبے کے ساتھ تمام وہ قابلیتیں اپنے اندر پیدا کر لے گا جو اس زمانے میں لڑنے کے لیے درکار ہیں اور تمام اُن ذرائع اور وسائل سے کام لے گا جو آج یا آئندہ جنگ کے لیے درکار ہوں۔

چاند اور مریخ اور مشتری پر اترنا اپنی نوعیت کے لحاظ سے کولمبس کے امریکہ پر اترنے اور واسکوڈے گاما کے جزائر شرق الہند پر اترنے سے زیادہ مختلف نہیں۔ اگر یہ لوگ مجاہد فی سبیل اللہ مانے جا سکتے ہیں تو چاند اور مریخ پر اترنے والے بھی مجاہدین بن جائیں گے۔

انتظامی امور اور ملکی نظام (CIVIL ADMINISTRATION) میں فوج کا داخل ہونا فوج کے لیے اور ملک کے لیے بھی سخت تباہ کن ہے۔ فوج بیرونی دشمنوں سے ملک کی حفاظت کرنے کے لیے منظم کی جاتی ہے۔ ملک پر حکومت کرنے کے لیے منظم نہیں کی جاتی۔ اس کو تربیت دشمنوں سے لڑنے کی دی جاتی ہے۔ اس تربیت سے پیدا ہونے والے اوصاف ملک کے باشندوں سے معاملہ کرنے کے لیے موزوں نہیں ہوتے۔ علاوہ بریں ملکی معاملات کو جو لوگ بھی چلائیں خواہ وہ سیاست کار (POLITICIAN) ہوں یا ملکی انتظام کے منتظم (CIVIL ADMINISTRATOR)، حالت ہی ایسی ہوتی ہے کہ ملک میں بہت سے لوگ اس سے ناراض بھی ہوں۔ فوج کا اس میدان میں اترنا لا محالہ فوج کو غیر ہر دل عزیز (UNPOPULAR) بنانے کا موجب ہو گا، حالانکہ فوج کے لیے یہ نہایت ضروری ہے کہ سارے ملک کے باشندے اس کی پشت پر ہوں اور جنگ کے موقع پر ملک کا ہر فرد اس کی مدد کرنے کے لیے تیار ہو۔ موجودہ دور کے فوجی انقلابات نے ملکی نظام میں فوج کی شمولیت کو مفید ثابت نہیں کیا ہے بلکہ درحقیقت تجربے سے اس کے برے نتائج ثابت ہوئے ہیں۔

سوال

اسلامی حکومت میں خواتین کا مقام

اسلام اور مخلوط سوسائٹی

عورت اور ریاست کی ذمہ داریاں؟

کیا اس دور میں اسلامی حکومت خواتین کو مردوں کے برابر سیاسی و معاشرتی حقوق ادا نہ کرے گی؟ جبکہ اسلام کا دعویٰ ہے کہ اس نے سب سے تاریک ترین دور میں بھی عورت کو ایک مقام (STATUS) عطا کیا؟

  1. کیا آج خواتین کو مردوں کے برابر حصہ لینے کا حق دیا جا سکتا ہے؟
  2. کیا ان کو اسکولوں اور کالجوں میں تعلیم یا مردوں کے شانہ بشانہ کام کر کے ملک و قوم کی اقتصادی حالت بہتر بنانے کی اجازت نہ ہو گی؟
  3. فرض کیجئے اگر اسلامی حکومت خواتین کو برابر کا حق رائے دہندگی دے اور وہ کثرت آراء سے وزارت و صدارت کے عہدوں کے لیے الیکشن لڑ کر کامیاب ہو جائیں تو موجودہ بیسویں صدی میں بھی کیا ان کو منصب اعلیٰ سنبھالنے کا حق اسلامی احکام کی رو سے نہیں مل سکتا جبکہ بہت سی مثالیں ایسی آج موجود ہیں مثلاً سیلون (سری لنکا) میں وزارت عظمیٰ ایک عورت کے پاس ہے، یا نیدرلینڈ میں ایک خاتون ہی حکمران اعلیٰ ہے، برطانیہ پر ملکہ کی شہنشاہیت ہے؟
  4. کیا آج بھی خواتین کو ڈاکٹر، وکلاء، مجسٹریٹ، جج، فوجی افسر یا پائلٹ وغیرہ بننے کی مطلق اجازت نہ ہو گی؟
  5. خواتین کا یہ بھی کار نامہ کہ وہ نرسوں کی حیثیت سے کس طرح مریضوں کی دیکھ بھال کرتی ہیں قابل ذکر ہے۔ خود اسلام کی پہلی جنگ میں خواتین نے مجاہدین کی مرہم پٹی کی، پانی پلایا اور حوصلے بلند کیے۔ تو کیا آج بھی اسلامی حکومت میں آدھی قوم کو مکانات کی چار دیواری میں مقید رکھا جائے گا؟

جواب

اسلامی حکومت دنیا کے کسی معاملے میں کبھی اسلامی اصولوں سے ہٹ کر کوئی کام کرنے کی نہ تو مجاز ہے اور نہ وہ اس کا ارادہ ہی کر سکتی ہے اگر فی الواقع اس کو چلانے والے ایسے لوگ ہوں جو اسلام کے محلوں کو سچے دل سے مانتے ہوں اور اس پر عمل کرتے ہوں۔ عورتوں میں اصولی بات یہ ہے کہ عورت اور مرد عزت و احترام کے لحاظ سے بھی برابر ہیں لیکن دونوں کا دائرہ عمل ایک نہیں ہے۔ سیاست اور ملکی انتظام اور فوجی خدمات اور اسی طرح کے دوسرے کام مرد کے دائرہ عمل سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس دائرے میں عورت کو گھسیٹ لانے کے دو بڑے نتیجے ہو سکتے ہیں یا تو یہ کہ ہماری خانگی زندگی بالکل تباہ ہو گی جس کی بیشتر ذمہ داریاں عورتوں سے تعلق رکھتی ہیں یا پھر عورتوں پر دہرا بار ڈالا جائے گا کہ وہ اپنے فطری فرائض بھی انجام دیں جن میں مرد قطعا شریک نہیں ہو سکتا اور پھر مرد کے فرائض کا بھی نصف حصہ اپنے اوپر اٹھائیں۔ عملاً یہ دوسری صورت ممکن نہیں ہے۔ لازماً پہلی صورت ہی رونما ہو گی اور مغربی ممالک کا تجربہ یہ بتاتا ہے کہ وہ رونما ہو چکی ہے۔ آنکھیں بند کر کے دوسروں کی حماقتوں کی نقل اتارنا عقلمندی نہیں ہے۔

اسلام میں اس کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے کہ وراثت میں عورت کا حق مرد کے برابر ہو۔ اس باب میں قرآن کا صریح حکم مانع ہے۔ نیز یہ انصاف کے بھی خلاف ہے کہ عورت کا حصہ مرد کے برابر ہو۔ کیونکہ اسلامی احکام کی رو سے خاندان کی پرورش کا سارا مالی بار مرد پر ڈالا گیا ہے۔ بیوی کا مہر و نفقہ بھی اس پر واجب ہے۔ اس کے مقابلے میں عورت پر کوئی مالی بار نہیں ڈالا گیا ہے۔ اس صورت میں آخر عورت کو مرد کے برابر حصہ کیسے دلایا جا سکتا ہے۔

اسلام اصولاً مخلوط سوسائٹی کا مخالف ہے اور کوئی ایسا نظام جو خاندان کو اہمیت دیتا ہو اس کو پسند نہیں کرتا کہ عورتوں اور مردوں کی مخلوط سوسائٹی ہو۔ مغربی ممالک میں اس کے بدترین نتائج ظاہر ہوئے ہیں۔ اگر مغربی ملک کے لوگ ان نتائج کو بھگتنے کے لیے تیار ہوں تو شہ پائیں۔ آخر یہ کیا ضروری ہے کہ اسلام میں ان افعال کی گنجائش زبردستی نکالی جائے جن سے وہ شدت کے ساتھ روکتا ہے۔

اسلام میں اگر جنگ کے موقع پر عورتوں سے مرہم پٹی وغیرہ کا کام لیا گیا ہے تو اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ امن کی حالت میں عورتوں کو دفتروں اور کارخانوں اور کلبوں اور پارلیمنٹوں میں لاکھڑا کیا جائے۔ مرد کے دائرہ عمل میں آکر عورتیں کبھی مردوں کے مقابلے میں کامیاب نہیں ہو سکتیں اس لیے کہ وہ ان کاموں کے لیے بنائی ہی نہیں گئی ہیں۔ ان کاموں کے لیے جن اخلاقی اور ذہنی اوصاف کی ضرورت ہے وہ دراصل مرد میں پیدا کیے گئے ہیں۔ عورت مصنوعی طور پر مرد بن کر کچھ تھوڑا بہت ان اوصاف کو اپنے اندر ابھارنے کی کوشش کرے بھی تو اس کا دُہرا نقصان خود اس کو بھی ہوتا ہے اور معاشرہ کو بھی۔ اس کا اپنا نقصان یہ ہے کہ وہ نہ پوری عورت رہتی ہے، نہ پوری مرد بن سکتی ہے اور اپنے اصل دائرہ عمل میں جس کے لیے وہ فطرتاً پیدا کی گئی ہے ناکام رہ جاتی ہے۔ معاشرہ اور ریاست کا نقصان یہ ہے کہ وہ اہل کارکنوں کے بجائے نااہل کارکنوں سے کام لیتا ہے اور عورت کی آدھی زنانہ اور آدھی مردانہ خصوصیات سیاست اور معیشت کو خراب کر کے رکھ دیتی ہیں۔ اس سلسلہ میں گنتی کی چند سابقہ معروف خواتین کے نام گنانے سے کیا فائدہ؟ دیکھنا تو یہ ہے کہ جہاں لاکھوں کارکنوں کی ضرورت ہو گی کیا وہاں تمام خواتین موزوں رہ سکیں گی؟ ابھی حال ہی میں مصر کے سرکاری محکموں اور تجارتی اداروں نے شکایت کی ہے کہ وہاں بحیثیت مجموعی ایک لاکھ دس ہزار خواتین جو حسِابی ہیں، بالعموم نااہل ہیں اور ان کی کارکردگی پچاس فیصدی سے زیادہ نہیں۔ پھر ملک کے تجارتی اداروں نے یہ عام شکایت کی ہے کہ عورتوں کے پاس پہنچ کر کوئی راز، راز نہیں رہتا۔ مغربی ممالک میں جاسوسی کے جتنے واقعات پیش آتے ہیں ان میں بھی عموماً کسی نہ کسی طرح عورت کا دخل ہوتا ہے۔

عورتوں کی تعلیم سے اسلام ہرگز نہیں روکتا۔ اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم ان کو دلوائی جانی چاہیے۔ لیکن چند شرطوں کے ساتھ: اول یہ کہ ان کو وہ تعلیم خاص طور پر دی جائے جس سے وہ اپنے دائرہ عمل میں کام کرنے کے لیے ٹھیک ٹھیک تیار ہو سکیں اور ان کی تعلیم بعینہ وہ نہ ہو جو مردوں کی ہو۔ دوسرے یہ کہ تعلیم مخلوط نہ ہو اور عورتوں کو زنانہ تعلیم گاہوں میں عورتوں ہی سے تعلیم دلوائی جائے۔ مخلوط تعلیم کے ملک نتائج مغربی ترقی یافتہ ممالک میں اس حد تک سامنے آچکے ہیں۔ جو انسانیت کے لیے بد نما داغ ہیں۔ مثلاً صرف امریکہ میں سال تک عمر کی لڑکیاں جو ہائی اسکولوں میں پڑھتی ہیں مخلوط تعلیم کی وجہ سے ہر سال ان میں سے اوسطاً ایک ہزار حاملہ نکلتی ہیں۔ گو ابھی یہ شکل ہمارے سامنے رونما نہیں ہوئی۔ لیکن اس مخلوط تعلیم کے نتائج کچھ ہمارے سامنے بھی آنے شروع ہو گئے ہیں، تیسرے یہ کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین سے ایسے اداروں میں کام لیا جائے جو صرف عورتوں کے لیے ہی مخصوص ہوں مثلاً زنانہ ہسپتال اور زنانہ تعلیم گاہیں وغیرہ۔

سوال

عریاں فلمیں، مقابلہ حسن، ثقافتی محفلیں

فحش گانے اور اسلامی حکومت کا انداز اصلاح

کیا اسلامی حکومت خواتین کی بڑھتی ہوئی آزادی سختی سے روکے گی جیسے کہ ان کی زیبائش اور نیم عریاں لباس زیب تن کرنے اور فیشن کا رجحان اور جیسے آج کل نوجوان لڑکیاں نہایت تنگ و دلفریب سینٹ سے معطر لباس اور غازہ و سرخی سے مزین اپنے خدوخال و نشیب و فراز کی نمائش بر سر عام کرتی ہیں اور آج کل نوجوان لڑکے بھی ہالی وڈ فلموں سے متاثر ہو کر ٹیڈی بوائز بن رہے ہیں تو کیا حکومت قانون (LEGISLATION) کے ذریعہ تمام مسلم وغیر مسلم لڑکے ولڑکی کے آزادانہ رجحان کو روکے گی؟ خلاف ورزی پر سزا دے گی؟ والدین و سر پرستوں کو جرمانہ کیا جا سکے گا؟ تو اس طرح کیا ان کی شہری آزادی پر ضرب نہ لگے گی؟

  1. کیا حکومت گرلز گائیڈ، APWA یا دیگر Y.W.C.A جیسے ادارے اسلامی نظام کا حصہ بننے کی اجازت دیتی ہے؟
  2. کیا خواتین اسلامی عدالت سے طلاق حاصل کرنے کی مجاز ہو سکیں گی اور مردوں پر ایک سے زیادہ شادی کی پابندی آج جائز ہو گی؟
  3. خواہ اسلامی عدالت کے روبرو ہی ان کو اپنی پسند سے (CIVIL MARRIAGE) کرنے کا حق حاصل ہو سکتا ہے؟
  4. کیا خواتین کو یوتھ فیسٹیول، کھیلوں، نمائشوں، ڈراموں، ناچ، فلموں یا مقابلوں میں شرکت یا (AIR HOSTESS) وغیرہ بننے کی آج بھی اسلامی حکومت مخالفت کرے گی؟
  5. ساتھ ہی قومی کردار تباہ کرنے والے ادارے مثلاً سینیما، فلمیں، ٹیلی ویژن، ریڈیو کے فحش گانے و عریاں رسائل و لٹریچر، موسیقی، ناچ و رنگ کی ثقافتی محفلیں وغیرہ کو بند کر دیا جائے گا یا فائدہ اٹھانا ممکن ہو گا؟

جواب

اسلام معاشرہ کی اصلاح و تربیت کا سارا کام محض قانون کے ڈنڈے سے نہیں لیتا۔ تعلیم، نشر و اشاعت اور رائے عامہ کا دباؤ اس کے ذرائع اصلاح میں خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ ان تمام ذرائع کے استعمال کے بعد اگر کوئی خرابی باقی رہ جائے تو وہ قانونی وسائل اور انتظامی تدابیر استعمال کرنے میں بھی غافل نہ کرے گا۔ عورتوں کی عریانی اور بے حیائی فی الواقع ایک بہت بڑی بیماری ہے جسے کوئی صحیح اسلامی حکومت برداشت نہیں کر سکتی۔ یہ بیماری اگر دوسری تدابیر اصلاح سے درست نہ ہو یا اس کا وجود باقی رہ جائے تو یقینا اس کو از روئے قانون روکنا پڑے گا۔ اس کا نام اگر شہری آزادی پر ضرب لگتا ہے تو جوار اور کاموں کو سزائیں دینا سبھی شہری آزادی پر ضرب لگانے کے مترادف ہو گا۔ ہر حکومت لازماً افراد پر کچھ پابندیاں عائد کرتی ہے۔ افراد کو اس کے لیے آزاد نہیں چھوڑا جا سکتا کہ وہ اپنے ذاتی رجحانات اور دوسروں سے سیکھی ہوئی برائیوں سے اپنے معاشرہ کو برباد کریں۔

گرلز گائیڈ (GIRLS GUIDES) کے لیے اسلام میں کوئی جگہ نہیں۔ APWA قائم رہ سکتی ہے بشرطیکہ وہ اپنے دائرہ عمل میں رہ کر کام کرے اور قرآن کا نام لے کر قرآن کے خلاف طریقے استعمال کرنا چھوڑ دے۔ Y.W.C.A عیسائی عورتوں کے لیے رہ سکتا ہے مگر کسی مسلمان عورت کو اس میں گھسنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ مسلمان عورتیں چاہیں تو (تنظیمیں) بنا سکتی ہیں بشرطیکہ وہ اسلامی حدود میں رہیں۔

مسلمان عورت اسلامی عدلیہ کے ذریعہ سے خلع حاصل کر سکتی ہے۔ فسخ نکاح (NULLIFICATION) اور تفریق (JUDICIAL SEPARATION) کی ڈگری بھی عدالت سے حاصل کر سکتی ہے بشرطیکہ وہ شریعت کے مقرر کردہ قوانین کے مطابق ان میں سے کوئی ڈگری حاصل کرنے کی مجاز ہو۔ لیکن طلاق (DIVORCE) کے اختیارات قرآن نے صریح الفاظ میں صرف مرد کو دیے ہیں اور کوئی قانون مردوں کو اس اختیار سے محروم نہیں کر سکتا۔ یہ اور بات ہے کہ قرآن کا نام لے کر قرآن کے خلاف قوانین بنائے جانے لگیں۔ پوری اسلامی تاریخ عہد رسالت سے لے کر اس صدی تک اس تصویر سے نا آشنا ہے کہ طلاق دینے کا اختیار مرد سے سلب کر لیا جائے اور کوئی عدالت یا پنچائیت اس میں دخل دے۔ یہ تخیل سیدھا یورپ سے چل کر ہمارے ہاں درآمد ہوا ہے اور اس کے درآمد کرنے والوں نے کبھی آنکھیں کھول کر نہیں دیکھا ہے کہ یورپ میں اس قانون طلاق کا پس منظر (BACKGROUND) کیا ہے اور وہاں اس کے کتنے برے نتائج رونما ہوئے ہیں۔ اس کا معنی یہ ہے کہ گھروں کے سکینڈل نکل کر بازاروں میں پہنچیں گے تو لوگوں کو پتہ چلے گا کہ خدا کے قوانین کی نافرمانی کے کیا نتائج ہوتے ہیں۔

مردوں پر ایک سے زیادہ شادی کے معاملہ میں از روئے قانون پابندی عائد کرنے کا یا اس میں رکاوٹ ڈالنے کا تخیل بھی ایک بیرونی مال ہے جسے اسلامی تعلیمات کے جعلی پرمٹ پر درآمد کیا گیا ہے۔ یہ اس سوسائٹی میں سے آیا ہے جس میں ایک ہی عورت اگر منکوحہ بیوی کے ساتھ داشتہ کے طور پر رکھی جائے تو نہ صرف یہ کہ وہ قابلِ برداشت ہے بلکہ اس کے حرامی بچوں کے حقوق محفوظ کرنے کی بھی فکر کی جاتی ہے (فرانس کی مثال ہمارے سامنے ہے)، لیکن اگر اسی عورت سے نکاح کر لیا جائے تو یہ مجرم ہے۔ گویا ساری پابندیاں حلال کے لیے ہیں حرام کے لیے نہیں ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر کوئی شخص قرآن مجید کی ابجد سے بھی واقف ہو تو کیا وہ یہ اقدام (VALUES) اختیار کر سکتا ہے؟ کیا اس کے نزدیک زنا قانوناً جائز اور نکاح قانوناً حرام ہونے کا عجیب و غریب فلسفہ برحق ہو سکتا ہے؟ اس طرح کے قوانین بنانے کا حاصل اس کے سوا کچھ نہ ہو گا کہ مسلمانوں میں زنا کا رواج بڑھے گا، گرلز فرینڈز اور داشتائیں (MISTRESSES) فروغ پائیں گی اور دوسری بیوی ناپید ہو جائے گی۔ یہ ایک ایسی سوسائٹی ہو گی جو اپنے خدو خال میں اسلام کی اصل سوسائٹی سے بہت دور اور مغربی سوسائٹی سے بہت قریب ہو گی۔ اس صورت حال کے تصور سے جس کا جی چاہے مطمئن ہو، مسلمان کبھی مطمئن نہیں ہو سکتا۔

سول میرج (CIVIL MARRIAGE) کا سوال ظاہر ہے کہ مسلمان عورت کے ساتھ تو پیدا نہیں ہوتا۔ یہ سوال اگر کسی ایسی عیسائی یا یہودی عورت سے شادی کے معاملہ میں جو اسلامی قانون کے تحت کسی مسلمان سے نکاح کرنے کے لیے تیار نہ ہو اور مسلمان مرد اس کے عشق میں مبتلا ہوکر اس اقرار کے ساتھ شادی کرلے کہ وہ کسی مذہب کا پابند نہ ہو گا۔ یہ کام اگر کسی کو کرنا ہی ہو تو اسے اسلام سے فتویٰ لینے کی کیا ضرورت ہے؟ اور اسلام کیوں اپنے ایک پیرو کو اس کی اجازت دے؟ اور ایک اسلامی عدالت کا یہ کام کب ہے کہ مسلمانوں کی اس طریقہ پر شادیاں کروائے؟

اگر ایک اسلامی حکومت بھی یوتھ فیسٹیول (YOUTH FESTIVAL) اور کھیلوں کی نمائشوں اور ڈراموں اور رقص و سرود اور مقابلہ شیشن میں مسلمان عورتوں کو لائے یا ایر ہوسٹس (AIR HOSTESS) بناکر مسافروں کے دل موہنے کی کوشش کرے تو ہمیں معلوم ہونا چاہیئے کہ اسلامی حکومت کی کیا ضرورت ہے؟ یہ سارے کام کفر اور کفار کی حکومت میں بآسانی ہو سکتے ہیں بلکہ زیادہ آزادی کے ساتھ ہو سکتے ہیں۔

سنیما، فلم، ٹیلی ویژن اور ریڈیو وغیرہ تو خدا کی عطا کردہ طاقتیں ہیں جن میں بجائے خود خرابی نہیں۔ خرابی ان کے استعمال میں ہے جو انسانی اخلاق کو تباہ کرنے والا ہے۔ اسلامی حکومت کا کام ہی یہ ہے کہ وہ ان ذرائع کو انسانیت کی فلاح کے لیے استعمال کرے اور اخلاقی فساد کے لیے استعمال ہونے کا دروازہ بند کر دے۔

سوال

اسلام اور برتھ کنٹرول

دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی کے لیے آج اسلام کیا حل پیش کرتا ہے؟

  1. برتھ کنٹرول (پیدائش روکنے) کے لیے دواؤں کا استعمال، فیملی پلاننگ وغیرہ کو کیا آج بھی غیر شرعی قرار دے کر ممنوع قرار دیا جائے گا؟

جواب

دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی کے لیے اسلام صرف ایک ہی حل پیش کرتا ہے اور وہ یہ ہے کہ خدا نے اپنے رزق کے لیے جو ذرائع پیدا کیے ہیں ان کو زیادہ سے زیادہ بڑھانے اور استعمال کرنے کی کوشش کی جائے اور جو ذرائع اب تک مخفی ہیں ان کو دریافت کرنے کی پیہم سعی کی جاتی رہے۔ آبادی روکنے کی ہر کوشش، خواہ وہ قتل اولاد ہو یا اسقاط حمل یا منع حمل، غلط ہے اور بے حد تباہ کن۔ ضبط ولادت کی تحریک کے چار نتائج ایسے ہیں جن کو رونما ہونے سے کسی طرح نہیں روکا جا سکتا: (۱) زنا کی کثرت (۲) انسان کے اندر خود غرضی اور اپنا معیار زندگی بڑھانے کی خواہش کا اس حد تک ترقی کر جانا کہ اسے اپنے بوڑھے ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں اور اپنے دوسرے محتاج امداد رشتہ داروں کا وجود گوارا نہ ہو۔ جو آدمی اپنی روٹی میں خود اپنی اولاد کو شریک نہیں کر سکے گا تو دوسروں کو کیسے شریک کرے گا؟ (۳) آبادی کے اضافے کا کم سے کم مطلوب معیار بھی جو ایک قوم کو زندہ رکھنے کے لیے ناگزیر ہے برقرار نہ رہنا۔ اس لیے کہ جب یہ فیصلہ کرنے والے افراد ہوں گے کہ وہ کتنے بچے پیدا کریں اور کتنے نہ کریں اور اس فیصلہ کا مدار اس بات پر ہو گا کہ وہ اپنے معیار زندگی کو نئے بچوں کی آمد کی وجہ سے گرنے نہ دیں تو بالآخر وہ اتنے بچے بھی پیدا کرنے کے لیے تیار نہ ہوں گے جتنے ایک قوم کو اپنی قومی آبادی برقرار رکھنے کے لیے درکار ہوتے ہیں۔ اس طرح کے حالات میں کبھی کبھی نوبت یہ بھی آجاتی ہے کہ شرح پیدائش شرح اموات سے کمتر ہو جاتی ہے۔ چنانچہ یہ نتیجہ فرانس دیکھ چکا ہے۔ حتیٰ کہ اس کو ”بچے زیادہ پیدا کرو“ کی تحریک چلانی پڑی اور انعامات کے ذریعے سے اس کی ہمت افزائی کرنے کی ضرورت پیش آگئی۔ (۴) قومی دفاع کا کمزور ہو جانا۔ یہ نتیجہ خصوصی طور پر کسی ایسی قوم کے لیے بے حد خطر ناک ہے جو اپنے سے تیرہ گنی زیادہ دشمن آبادی میں گھرا ہوا ہو۔ پاکستان کے تعلقات پڑوسی ملکوں کے ساتھ جیسے کچھ ہیں سب کو معلوم ہے۔ اور امریکہ کی ”دوستی“ نے کمیونسٹ ممالک سے بھی اس کے تعلقات خراب کر دیے ہیں۔ بحیثیت مجموعی ہندوستان، چین، روس اور افغانستان کی آبادی ہم سے تیرہ گنی ہے۔ ان حالات میں لڑنے کے قابل افراد کی تعداد گھٹانا جیسی کچھ عقلمندی ہے اسے ایک صاحب عقل آدمی خود سوچ سکتا ہے۔

سوال

لاش کی چیر پھاڑ اسلامی نقطہ نظر سے

زندگی میں آنکھوں کا عطیہ

خدمت خلق کے لیے انسانی اعضاء کی قربانی؟

کیا ایک مسلمان زندگی میں اپنی آنکھیں عطیہ کر سکتا ہے کہ اس کی موت کے بعد وہ کسی اندھے یا مریض کے لیے استعمال ہو سکیں؟

  1. اس طرح بنی نوع انسان کی خدمت کے لیے انسانی اعضاء کی قربانی روز قیامت سزا کی مستوجب تو نہ ہو گی؟
  2. موت کے بعد ایک مسلمان کی لاش کا پوسٹ مارٹم یا ریسرچ کے لیے چیر پھاڑ مذہبی نقطہ نگاہ سے کیا اہمیت رکھتی ہے؟

جواب

آنکھوں کے عطیہ کا معاملہ ہو یا دوسرے اعضاء کا جو مریضوں کے کام آ سکیں، اسلامی نقطہ نظر سے اس دروازے کو کھولنا جائز نہیں۔ اگر یہ دروازہ کھولا جائے گا تو اس کا سارا جسم ہی چندے میں تقسیم ہونا شروع ہو جائے گا۔ اسلامی نظریہ یہ ہے کہ کوئی آدمی اپنے جسم کا مالک نہیں ہے۔ اس کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ مرنے سے قبل اپنے جسم کو تقسیم کرنے یا چندہ دینے کی وصیت کرے۔ جسم اس وقت تک اس کے تصرف میں ہے جب تک وہ جسم میں خود رہتا ہے۔ اس کے نکل جانے کے بعد اس جسم پر اس کا کوئی حق نہیں ہے کہ اس معاملہ میں اس کی وصیت نافذ ہو۔ اسلامی احکام کی رو سے اس کا جسم احترام کے ساتھ دفن کر دینا چاہیے۔

اسلام نے انسانی لاش کی حرمت کا جو حکم دیا ہے وہ دراصل انسانی جان کی حرمت کا ایک لازمہ ہے۔ ایک دفعہ اگر انسانی لاش کا احترام ختم ہو جائے تو بات صرف اس حد تک محدود نہ رہے گی۔ کہ مردہ انسان کے بعض کارآمد اجزاء زندہ انسانوں کے علاج میں استعمال کیے جانے لگیں گے، بلکہ رفتہ رفتہ انسانی جسم کی چربی سے صابن بھی بننے لگیں گے، جیسے کہ فی الواقع جنگ عظیم دوم کے زمانے میں جرمنوں نے بنائے تھے۔ کھال بھی اتار کر اس کو دباغت دینے کی کوشش کی جائے گی تاکہ اس کے جوتے یا پرس وغیرہ بنائے جا سکیں۔ چنانچہ یہ تجربہ بھی چند سال قبل مدراس کی ایک ٹینری (Tannery) کر چکی ہے۔ انسان کی ہڈیوں اور آنتوں اور دوسری چیزوں کو استعمال کرنے کی بھی فکر کی جائے گی یہاں تک کہ اس کے بعد ایک مرتبہ انسان پھر اس دور وحشت کی طرف پلٹ جائے گا جب آدمی، آدمی کا گوشت کھاتا تھا۔ میں نہیں سمجھتا کہ اگر ایک دفعہ مردہ انسان کے اعضاء نکال کر علاج وغیرہ کرنا جائز قرار دیا جائے تو پھر کس جگہ حد بندی کر کے آپ اسی جسم سے دوسرے اجزاء کے استعمال کو روک سکتے ہیں، یا کس منطق سے اس بندش کو معقول ثابت کر سکتے ہیں۔