دعوتِ دین کی ذمہ داری سید ابو الاعلی مودودی

دعوتِ دین کی ذمہ داری

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ہم آج کل کے مسلمان اس ذوقِ تبلیغ سے بالکل ہی نا آشنا ہیں، جو کسی زمانے میں اسلام کی فاتحانہ قوتوں کا ضامن اور اس کی عالم گیری اور جہاں کشائی کا سب سے زیادہ کارگر ہتھیار تھا۔ اگر آج ہمارے اندر وہی ذوق موجود ہوتا تو شاید کانفرنسوں اور مجلسوں کی ضرورت ہی پیش نہ آتی اور اغیار کی چیرہ دستیوں سے ہمارے گھر میں ماتم بپا ہونے کے بجائے خود اغیار کے مجمع میں دین اسلام کی بڑھتی ہوئی قوت سے کھلبلی مچی ہوئی ہوتی۔ بعض وقت جب ہم غور کرتے ہیں کہ یہ اس مذہب کی چیخ پکار ہے، جس کے عناصر ترکیبی میں دعوت الی الخیر اور تبلیغ دین الٰہی کا فرض ایک لازمی عنصر کی حیثیت سے شامل تھا، جس کے داعی نے اپنی ساری زندگی خدا کا آخری پیغام اس کے بندوں تک پہنچانے میں صرف کر دی تھی، اور جس کے مقدس پیروؤں نے ایک صدی کے اندر اندر بحر الکاہل کے کناروں سے لے کر بحر اوقیانوس کے ساحل تک کلمۂ حق کی اشاعت کر دی تھی، تو ہم حیران ہو کر سوچنے لگتے ہیں کہ آیا یہ وہی مذہب ہے یا ہم مسلمانوں نے بنی اسرائیل کی طرح اپنے پیغمبر کے بعد کوئی اور نیا مذہب بنا لیا ہے۔

دعوتِ دین کی ذمہ داری

ہماری زبانوں پر تبلیغ کا ورد جاری ہے اور ہم تبلیغ کے لیے انجمنیں بنا کر اسلام کی اشاعت کرنا چاہتے ہیں، مگر شاید یہ اسلام کی تاریخ میں پہلا واقعہ ہے کہ اس کے پیروؤں نے عیسائیوں کی طرح مشنری سوسائٹیاں بنانے کی کوشش کی ہے یا اس بے تابی کے ساتھ تبلیغ کا شور مچایا ہے۔ اگر کامیابی کا حقیقی راز صرف انجمن سازیوں اور شور و شغب میں ہوتا تو یقیناً ہماری ترقی کی رفتار ہمارے اسلاف سے زیادہ تر ہونی چاہیے تھی۔ لیکن اس کے بر خلاف ہم دیکھ رہے ہیں کہ اس ساز و سامان کو لے کر ہمارا ہر قدم پیچھے اُٹھ رہا ہے اور اس بے سامانی کے عالم میں ہمارے اسلاف کی کامیابیوں کا یہ عالم تھا کہ ان کی بدولت آج دنیا کے گوشے گوشے میں اسلام کے پیرو موجود ہیں۔ پھر آخر سوچنا تو چاہیے کہ ہم میں کس چیز کی کمی ہے اور اشاعتِ اسلام کا اصلی راز کیا ہے؟

مسلمان کا مقصدِ وجود

پروفیسر میکس ملر (Max Muller) کے بقول: "اسلام دراصل ایک تبلیغی مذہب ہے جس نے اپنے آپ کو تبلیغ کی بنیادوں پر قائم کیا، اسی کی قوت سے ترقی کی اور اسی پر اس کی زندگی کا انحصار ہے۔" اسلامی تعلیمات پر غور کیجیے تو معلوم ہوتا ہے کہ اسلام اگر کسی چیز کا نام ہے تو وہ صرف دعوتِ حق ہے اور مسلمان کی زندگی کا اگر کوئی مقصد ہے تو وہ صرف امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے۔ قرآن حکیم میں مسلمان کا مقصدِ حیات یہی بیان کیا گیا ہے:

كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ . [آل عمران ۳ : ۱۱۰]

اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔

اور دنیا کے لیے اس کے وجود کی ضرورت صرف یہی ظاہر کی گئی ہے:

وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ . [ آل عمران ۳ : ۱۰۴]

تم میں کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہی ہونے چاہیں جو نیکی کی طرف بلائیں، بھلائی کا حکم دیں اور برائیوں سے روکتے رہیں۔

اور اسے جگہ جگہ یہی حکم دیا گیا ہے:

ادْعُ إِلَىٰ سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ . [ النحل ١٦ : ۱۲۵]

اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ۔

فَذَكِّرْ بِالْقُرْآنِ مَن يَخَافُ وَعِيدِ . [ ق ۵۰ : ۴۵]

بس تم اس قرآن کے ذریعے سے ہر اس شخص کو نصیحت کرو جو میری تنبیہ سے ڈرے۔

فَذَكِّرْ إِنَّمَا أَنتَ مُذَكِّرٌ . [ الغاشیہ ۸۸ : ۲۱]

اچھا تو (اے نبی) نصیحت کیے جاؤ، تم بس نصیحت ہی کرنے والے ہو۔

یہی تعلیم تھی کہ جس کا اثر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی پر سب سے زیادہ غالب تھا اور اسی نے حضرات صحابہ کرام کی زندگیوں کو بالکل بدل دیا تھا۔ ان کی مقدس زندگیاں عبارت تھیں صرف دعوت و تبلیغ سے۔ ان کا اٹھنا بیٹھنا، چلنا پھرنا، غرض ہر کام اپنے اندر یہ معنوی مقصد پوشیدہ رکھتا تھا کہ خدا کی طرف لوگوں کو بلائیں اور اللہ کے بندوں کو صراط مستقیم پر چلنے کی تلقین کریں۔

جب تک مسلمانوں میں قرآن حکیم اور اسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ان تعلیمات کا اثر باقی رہا اس وقت تک ہر مسلمان کی زندگی ایک مبلغ اور داعی کی سی زندگی رہی۔ انھوں نے صنعت، تجارت، زراعت، حکومت اور دنیا کے سارے کام کیے مگر دل میں یہی لگن رہی کہ اسلام کی جو نعمت خدا نے ان کو عطا کی ہے اس سے تمام بنی نوع انسان کو بہرہ مند کرنے کی کوشش کریں۔ وہ حقیقتاً اسلام کو دنیا کے لیے بہترین نعمت سمجھتے تھے اور اس لیے ان کا ایمان تھا کہ ہر انسان تک اس نعمت کو پہنچانا ان کا فرض ہے۔ جو شخص جس حال میں تھا اسی حال میں وہ یہ فرض انجام دیتا تھا۔ تاجروں نے تجارت کے کام میں، مسافروں نے اپنے سفر کے دوران میں، قیدیوں نے اپنے قید خانوں میں، ملازموں نے اپنے دفتروں میں اور مزارعوں نے اپنے کھیتوں میں یہ مقدس خدمت انجام دی۔ یہ ذوق اس حد تک ترقی کر گیا کہ عورتوں تک نے نہایت مستعدی اور سرگرمی کے ساتھ اسلام کی تبلیغ کی۔

اسلام کی قوت کا بنیادی سر چشمہ

یہی ذوق دراصل اسلام کی قوت کا اصلی سر چشمہ تھا۔ آج جو دنیا میں کروڑوں مسلمان نظر آرہے ہیں اور دنیا کی مختلف نسلوں، مختلف قوموں اور مختلف ملکوں پر اسلام کی حکومت قائم ہے وہ صرف اسی ذوقِ تبلیغ کا نتیجہ ہے۔

اسلام کے دشمن کہتے ہیں کہ اس کی اشاعت صرف تلواروں کی رہینِ منت ہے۔ لیکن تاریخ شاہد ہے کہ وہ صرف تبلیغ کی منت پذیر ہے۔ اگر اس کی زندگی تلوار پر ہی منحصر ہوتی تو وہ تلوار ہی سے فنا بھی ہو جاتی اور اب تک تلوار سے اس پر جتنے حملے ہوئے ہیں وہ اسے فنا کر دینے میں قطعاً کامیاب ہو جاتے ۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ اکثر اوقات اس نے تلوار سے مغلوب ہو کر تبلیغ سے فتح حاصل کی۔ ایک طرف بغداد میں قتلِ عام جاری تھا اور دوسری طرف سماٹرا میں اسلام کی حکومت قائم ہو رہی تھی۔ ایک طرف قرطبہ (اندلس) سے اسلام مٹایا جا رہا تھا اور دوسری طرف جاوا میں اس کا علم بلند ہو رہا تھا۔ ایک طرف صقلیہ سے اسے ختم کیا جا رہا تھا، دوسری طرف جاوا میں اس کو ایک نئی زندگی حاصل ہو رہی تھی۔ ایک طرف تاتاری، ایک طرف ترک اسے غلامی کا طوق پہنا رہے تھے اور دوسری طرف خود ان کے دل اپنے آپ کو اس کی غلامی کے لیے پیش کر رہے تھے۔

اگر یہ اس کی تبلیغ کی فتح نہیں تھی تو اور کیا تھا؟ آج اسلام کی وہ فتوحات جنھیں شمشیری فتوحات کہا جا سکتا ہے دنیا سے مٹ چکی ہیں۔ اسپین فنا ہو چکا، صقلیہ مٹ گیا، یونان تباہ ہو گیا، مگر وسط افریقہ، جاوا، سماٹرا، چین اور جزائر ملایا، جنھیں اس نے تبلیغ کے ہتھیار سے فتح کیا ہے، بدستور موجود ہیں اور اس بات کی شہادت دے رہے ہیں، کہ اسلام کی زندگی تبلیغ اور صرف تبلیغ پر منحصر ہے۔

پھر کیا یہ تبلیغی مشنری سوسائٹیوں کے ذریعے کی گئی تھی؟ کیا یہ عظیم الشان فتوحات اسی بے عمل چیخ پکار کے ذریعے حاصل ہوئی تھیں جس میں آج ہم مشغول ہیں؟ کیا یہ عالمگیریاں ان رسالہ بازیوں، ان کاغذی لڑائیوں اور ان قلمی ترکتازیوں کی منت کش ہیں، جنھیں ہم نے عیسائی مبلغین کی تقلید میں اختیار کیا ہے۔ تاریخ اس کا جواب نفی میں دیتی ہے۔

اشاعتِ اسلام کے اسباب

اگر واقعات و حقائق کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کی اشاعت میں تین چیزیں لازمی عنصر کی حیثیت سے شریک ہیں:

  • ایک اس کے سادہ عقائد اور دل کش عبادات۔
  • دوسرے مسلمانوں کی زندگی میں اس کی تعلیم کے حیرت انگیز نتائج۔
  • اور تیسرے مسلمانوں کا ذوقِ تبلیغ۔

پہلی چیز عقل سے اپیل کرتی ہے، دوسری جذبات کو ابھارتی ہے اور تیسری ایک مشفق رہنما کی طرح بھولے بھٹکوں کو راہِ راست پر لگاتی ہے۔ جس طرح بازار میں ایک متاع کی مقبولیت کے لیے صرف اس کی ذاتی خوبی ہی ضمانت نہیں ہوتی، بلکہ اس کے لیے ایسے کارکنوں کی ضرورت بھی ہوتی ہے جو اس کی خوبیاں اور فوائد لوگوں کے ذہن نشین کرائیں اور ایسے شاہد بھی درکار ہوتے ہیں جو اپنے اندر اس کے منافع کی عملی شہادت دیں۔ اسی طرح دنیا میں اسلام کی اشاعت کے لیے بھی ان تینوں چیزوں کے مساویانہ اشتراکِ عمل کی ضرورت رہی ہے اور جب کبھی اس میں کسی ایک کی کمی رہ گئی تو ضرور اشاعتِ اسلام کی تیز رفتاری پر بھی اس کا اثر پڑا ہے۔

مسلمانوں کے ذوقِ تبلیغ کی جہانگیری

اس میں شک نہیں کہ اصل چیز تو وہی اسلام کی ذاتی خوبیاں اور عملی محاسن ہیں، جو ہر قلبِ سلیم سے اس کو ایک سچے دین کے طور پر قبول کر لیتی ہیں۔

اسلام خواہ کتنا ہی سچا اور بہتر مذہب ہو مگر اس کی اشاعت کے لیے صرف اس کی ذاتی خوبیاں ہی کافی نہیں ہو سکتیں، بلکہ اس کے پیروؤں کا ذوقِ تبلیغ بھی ضروری ہے بلکہ زیادہ صحیح طور پر یہ ذوقِ تبلیغ اشاعتِ اسلام کے ارکانِ ثلاثہ میں عملی رکن کی حیثیت رکھتا ہے۔

آج ہم بے عمل مسلمان اس حیرت انگیز ذوقِ تبلیغ کا ٹھیک ٹھیک تصور بھی نہیں کر سکتے جو گزشتہ زمانے کے دین دار مسلمانوں میں کام کر رہا تھا۔ ان لوگوں کے وظائفِ حیات میں سب سے زیادہ اہم وظیفہ اگر کوئی تھا تو وہ صرف اس دین کی صداقت کو بنی نوع انسان کے زیادہ سے زیادہ افراد تک پہنچانا تھا، جس کی روشنی سے ان کے دل معمور تھے۔ ان کے دلوں پر یہ عقیدہ پتھر کی لکیر بنا ہوا تھا کہ مسلمان کی حیثیت سے ان کی پیدائش کا مقصد صرف دعوت الی الخیر، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے۔ وہ جہاں جاتے تھے یہ مقصد ان کے ساتھ جاتا تھا اور ان کی زندگی کے ہر عمل میں اس کی شرکت لازمی تھی ۔ وہ قریش کے مظالم سے نکل کر حبشہ گئے تو وہاں بھی انھوں نے صرف یہی کام کیا۔ انھیں مکہ سے نکل کر مدینہ میں امن کی زندگی نصیب ہوئی تو اپنی تمام قوت انھوں نے اسی تبلیغ دین الٰہی میں صرف کر دی۔ ان کو ساسانی اور رومی تہذیبوں کے بوسیدہ قصر گرا دینے کی خدمت عطا کی گئی تو شام و عراق اور ایران و روم میں بھی انھوں نے صرف یہی مقدس فرض انجام دیا۔

انھیں خدا نے زمین کی خلافت عطا فرمائی تو اس سے بھی انھوں نے عیش پرستی نہیں کی بلکہ وہ اللہ کے دین کی اشاعت کرتے چلے گئے ۔ یہاں تک کہ ایک طرف اوقیانوس کی طوفانی موجوں نے انھیں روک دیا اور دوسری طرف چین کی سنگین دیوار ان کے راستے میں حائل ہو گئی۔ وہ اپنے تجارت کے مال لے کر نکلے تو اس میں بھی ان کے دلوں پر یہی خواہش چھائی رہی۔ انھوں نے افریقہ کے تپتے ہوئے ریگستانوں میں، ہندستان کی سرسبز وادیوں میں، بحر الکاہل کے دور افتادہ جزیروں میں اور یورپ کے سفید رنگ کفر زاروں میں ملتِ حنیفی کی روشنیوں کو پھیلا دیا۔

یہ ذوقِ تبلیغ یہاں تک ترقی کر گیا تھا کہ قید خانوں کی کڑی سے کڑی مصیبتیں جھیلتے وقت بھی ان کے دلوں سے اس کی لذت محو نہیں ہوتی تھی۔ وہ اندھیری کوٹھڑیوں میں اپنے اصحابِ سجن (جیل کے ساتھیوں) کو بھی اسلام کی تبلیغ کرتے تھے۔ اور حد یہ ہے کہ دار پر بھی انھیں اگر کسی چیز کی تمنا ستاتی تھی تو وہ صرف یہی تھی کہ اپنے آخری لمحاتِ زندگی کو اللہ کا پیغام اس کے بندوں تک پہنچانے میں صرف کر دیں۔

کانگو کا ایک واقعہ مشہور ہے کہ جب حکومتِ بلجیم نے وہاں کے ایک مسلمان امیر کو گرفتار کر کے سزائے موت کا حکم سنا دیا تو اس نے دنیا سے چلتے چلتے خود اس پادری کو بھی مسلمان کر لیا جو اسے عیسائیت کا پیغامِ نجات دینے گیا تھا۔

مشرقی یورپ میں تو اسلام کی اشاعت تنہا ایک مسلمان عالم کی کوششوں کا نتیجہ تھی، جو نصاریٰ سے جہاد کرتا ہوا گرفتار ہو گیا تھا۔ قید کی حالت میں وہ پابہ زنجیر ڈان اور ڈینیوب (دریاؤں) کے درمیانی علاقے میں بھیج دیا گیا۔ وہاں اس کے خلوصِ قلب کی روشنی اس قدر پھیلی کہ تھوڑے عرصے میں بارہ ہزار آدمی مسلمان ہو گئے اور چھٹی صدی ہجری کے وسط میں تقریباً سارا علاقہ اسلام کی برکات سے معمور ہو گیا۔

مسلمان خواتین کا ذوقِ تبلیغ

اس عالمگیر ذوق سے مسلمانوں کی عورتیں بھی خالی نہ تھیں۔

تاتاری مغلوں سے جن ہاتھوں نے مسلم کشی کی تلوار چھین کر اسلام کی اطاعت کا طوق پہنایا تھا وہ ضعیف اور نازک عورتوں کے ہاتھ تھے جنھیں یہ لوگ ممالکِ اسلامیہ سے لونڈیاں بنا کر لے گئے تھے۔ غازان شاہ کے بھائی اولجایتو خاں کو اس کی بیوی ہی نے مسلمان کیا تھا اور اس کی بدولت ایلخانی حکومت ایک اسلامی حکومت بن گئی تھی۔ چغتائی خاندان مسلمانوں کا سب سے بڑا دشمن تھا مگر قرہ ہلاکو خاں کی مسلمان بیوی نے اسے سب سے پہلے اسلام سے متعارف کیا اور اس کے اثر سے مبارک شاہ اور براق خاں مسلمان ہوئے۔ تاتاری فوجوں کے ہزار ہا سپاہی اپنے ساتھ مسلمان عورتوں کو لے گئے تھے۔ انھوں نے اپنے مذہب کو چھوڑ کر اپنے کافر شوہروں کا مذہب اختیار کرنے کے بجائے انھیں اور زیادہ تر ان کے بچوں کو مسلمان کر لیا اور انھی کی بدولت تمام تاتار علاقوں میں اسلام پھیل گیا ہے۔ اسی طرح ملک حبش میں بھی خواتین ہی نے اشاعتِ اسلام کا کام کیا ہے۔ چنانچہ متعدد ایسے حبشی رئیسوں کا تذکرہ تواریخ میں مذکور ہے، جنھیں ان کی مسلمان بیویوں نے اسلام کے حلقہ بگوش بنا لیا تھا۔ سنوسی مبلغین نے تو وسط افریقہ میں مستقل طور پر اشاعتِ اسلام کے لیے خواتین کے اداروں سے کام لیا ہے۔ چنانچہ وہاں سیکڑوں زنانہ مدارس قائم ہیں، جن میں لڑکیوں کو اسلامی تعلیم دی جاتی ہے۔

صوفیائے کرام کی خدمات

مگر مسلمانوں میں جو جماعت سب سے زیادہ تبلیغ دین الٰہی کے لیے ذوق و شوق سے گرمِ سعی رہی ہے وہ وہی صوفیائے کرام کی جماعت ہے جو آج اس طرف سے تقریباً بالکل ہی غافل ہے۔ خود اولیا و صوفیا نے جس بے نظیر استقلال اور دینی شغف کے ساتھ اسلام کی روشنیوں کو پھیلایا ہے وہ ہمارے آج کل کے حضراتِ متصوفین کے لیے اپنے اندر ایک گہرا درسِ بصیرت رکھتا ہے۔

یہاں کے سب سے بڑے اسلامی مبلغ حضرت خواجہ معین الدین اجمیری تھے جن کی برکت سے راجپوتانہ میں اسلام کی اشاعت ہوئی اور جن کے بالواسطہ اور بلا واسطہ مریدین ملک کے تمام علاقوں میں اسلام کی شمعِ ہدایت لے کر پھیل گئے۔ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی نے دہلی کے اطراف میں، حضرت فرید الدین گنج شکر نے علاقہ پنجاب میں، حضرت نظام الدین محبوب الٰہی نے دہلی اور اس کے نواح میں، حضرت سید محمد گیسو دراز، حضرت شیخ برہان الدین اور حضرت شیخ زین الدین اور آخر میں حضرت شاہ کلیم اللہ جہاں آبادی نے دہلی مرحوم میں یہی دعوت الی الخیر اور تبلیغ اوامرِ اسلام کی خدمت انجام دی۔

ان کے علاوہ دوسرے سلسلوں کے اولیائے عظام نے بھی اس کام میں ان تھک مستعدی سے کام لیا۔ پنجاب میں سب سے پہلے اسلامی مبلغ حضرت سید اسماعیل بخاری تھے جو پانچویں صدی ہجری میں لاہور تشریف لائے تھے۔ ان کے متعلق مشہور ہے کہ لوگ ہزاروں کی تعداد میں ان کے ارشادات سننے آتے تھے اور کوئی شخص جو ایک مرتبہ ان کا وعظ سن لیتا وہ اسلام لائے بغیر نہ رہتا۔ مغربی پنجاب میں اسلام کی اشاعت کا فخر سب سے زیادہ حضرت بہاؤ الدین زکریا ملتانی کو حاصل ہے۔ علاقہ بہاولپور اور مشرقی سندھ میں حضرت سید جلال بخاری کے فیضانِ تعلیم سے معرفتِ حق کی روشنی پھیلی۔ ان کی اولاد میں سے حضرت مخدوم جہانیاں نے پنجاب کے بیسیوں قبائل کو مسلمان کیا۔ ایک اور بزرگ حضرت سید صدر الدین اور ان کے صاحبزادے حضرت حسن کبیر الدین بھی پنجاب کے بہت بڑے اسلامی مبلغ تھے۔ حضرت حسن کبیر الدین کے متعلق تواریخ میں لکھا ہے کہ ان کی شخصیت میں عجیب کشش تھی، محض ان کے دیکھ لینے سے دل پر اسلام کی عظمت و صداقت کا نقش مرتسم ہو جاتا تھا اور لوگ خود بخود ان کے گرد جمع ہو جاتے تھے۔

سندھ میں اشاعتِ اسلام کا اصلی زمانہ وہ ہے جب عرب مسلمانوں کی حکومت کا دور ختم ہو چکا تھا۔ آج سے تقریباً چھ سو برس پہلے حضرت سید یوسف الدین وہاں تشریف لائے اور ان کے فیض اثر سے لوہانہ ذات کے سات سو خاندانوں نے اسلام قبول کر لیا۔ کچھ اور گجرات میں حضرت امام شاہ پیرانویؒ اور ملک عبداللطیف کی مساعی سے اسلام کی اشاعت ہوئی۔ بنگال میں سب سے پہلے شیخ جلال الدین تبریزی نے اس مقدس فرض کو انجام دیا جو حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی کے مریدانِ خاص میں سے تھے ۔ آسام میں اس نعمتِ عظمیٰ کو حضرت شیخ جلال الدین فارسی اپنے ساتھ لے گئے جو سلہٹ میں مدفون ہیں۔ کشمیر میں اسلام کا علم سب سے پہلے بلبل شاہ نامی ایک درویش نے بلند کیا اور ان کے فیض صحبت سے خود راجہ مسلمان ہو گیا جو تاریخوں میں صدر الدین کے نام سے مشہور ہے۔ پھر ساتویں صدی ہجری میں سید علی ہمدانی سات سو سادات کے ساتھ یہاں تشریف لائے اور تمام خطۂ کشمیر میں اس مقدس جماعت نے نورِ عرفان کو پھیلایا۔ اورنگزیب عالمگیر کے عہد میں سید شاہ فرید الدین نے کشتواڑ کے راجہ کو مسلمان کیا اور اس کے ذریعے علاقہ مذکور میں اسلام کی اشاعت ہوئی۔

صوفیائے کرام کی انہی تبلیغی سرگرمیوں کا اثر آج تک ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ہندوؤں کی ایک بہت بڑی جماعت اگر چہ مسلمان نہ ہو سکی، مگر اب تک اسلامی پیشواؤں کی گرویدہ ہے۔ چنانچہ ۱۸۹۱ ء کی مردم شماری میں صوبہ شمال مغربی (موجودہ اتر پردیش) کے ۲۳ کروڑ ۲۳ لاکھ سے زائد ہندوؤں نے اپنے آپ کو کسی خاص دیوتا کا پرستار بتلانے کے بجائے کسی نہ کسی مسلمان پیر کا پجاری ظاہر کیا تھا۔ وہ لوگ ہندوؤں کی ایک کثیر آبادی پر اسلام کا غیر معمولی اثر چھوڑ گئے مگر افسوس کہ آج ہم اس اثر سے بھی فائدہ اٹھانے کے قابل نہیں ہیں۔ بعض دوسرے ممالک میں بھی اس مقدس جماعت کی تبلیغی سرگرمیوں نے حیرت انگیز نتائج پیدا کیے ہیں۔

خصوصیت کے ساتھ قرونِ وسطیٰ کی تاریخ میں تو یہ واقعہ ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ جب فتنۂ تاتار نے اسلامی حکومت کے قصرِ فلک بوس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تو تمام وسط ایشیا میں صرف ایک صوفیائے اسلام کی روحانی قوت تھی، جو اس کے مقابلے کے لیے باقی رہ گئی تھی، بالآخر اسی نے اسلام کے اس سب سے بڑے دشمن پر فتح حاصل کی۔ یہ قوت تھی جس نے اقطاع عالم (دنیا کے علاقوں) میں اسلام کی روشنی پھیلائی اور تاتار کے زبردست فتنے تک کو مسخر کر دیا جو قریب تھا کہ وسط ایشیا سے اس کو بالکل فنا کر دیتا، لیکن آج مسلمانوں کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ یہ زبردست قوت بھی بالکل مضمحل ہو گئی ہے۔

اگر ہمارے محترم حضراتِ متصوفین ہمیں معاف کریں تو ہمیں اس امر واقعی کے اظہار میں بھی کچھ تامل نہیں ہے کہ اب وہ قوت اسلام کی برکات و فیوض سے دنیا کو معمور کرنے کے بجائے بہت حد تک خود ہی غیر اسلامی مفاسد سے مغلوب ہو کر رہ گئی ہے۔

دعوتِ عمل

یہ داستان سرائی محض اس لیے نہیں کہ اس سے کچھ افسانہ ہائے پارینہ کو چھیڑنا مقصود ہے ۔ بلکہ اس سے دراصل ہم یہ بتانا چاہتے تھے کہ اسلام کی دینی اور دنیاوی قوت کا اصلی سرچشمہ وہی دعوت الی الخیر، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے جس پر اس کی ساری زندگی کی بنیاد رکھی گئی تھی اور جس کے لیے مسلم نام کی ایک قوم کو حق جل شانہ نے پیدا کیا تھا۔ اور چونکہ پیغام کی فطرت اس بات کو چاہتی ہے کہ اسے مرسل الیہ تک پہنچایا جائے اس لیے تبلیغ خود اسلام کی فطرت میں شامل ہے۔ اس احساس نے اسلامی تاریخ میں جو حیرت انگیز کرشمے دکھائے ہیں، ان کا ایک نہایت مختصر سا خاکہ پیش کیا جا چکا ہے۔

افریقہ کے وسیع براعظم میں بغیر کسی جبر و لالچ اور مکر و دغا کے جس طرح کروڑوں انسان اسلام کے حلقہ بگوش ہو گئے، چین میں بغیر کسی مادی اور جباری قوت کے جس طرح آبادیوں کی آبادیاں اسلام کی تابع فرمان بن گئیں، جزائر ملایا میں نہتے اور بے زور تاجروں کے ہاتھوں جس طرح ۸۰ فیصد آبادی خدائے واحد کی پرستار بن گئی، تاتارستان کے مسلم کش اور خونخوار وحشیوں کو ضعیف اور نازک عورتوں اور بے نوا درویشوں نے جس طرح اسلام کے آستانۂ رحمت پر لاکر جھکا دیا، اس کی بصیرت افروز داستان ہم نے اسی احساس کے کرشمے دکھانے کے لیے اپنے برادرانِ ملت کے سامنے پیش کی ہے اور اس سے ہمارا مقصد یہ ہے کہ ان میں بھی کسی طرح یہ احساس جاگ اٹھے۔

۱۸۵۷ء کے بعد تبلیغی سرگرمیاں

۱۸۵۷ء کی ناکام جنگِ آزادی کے زمانے میں مسلمانانِ ہند کی اسلامی حمیت کو جو دل گداز صدمات پہنچے تھے انھوں نے کچھ عرصے کے لیے ان کی دینی حسیات کو بیدار کر دیا تھا اور اس کی بدولت ۱۸۵۷ء کے بعد تقریباً چالیس سال تک اشاعتِ اسلام کا کام نہایت تیزی کے ساتھ ہوتا رہا۔ مگر افسوس کہ بعد میں غلبۂ حاکمیتِ کفار کے اثر سے وہ دینی احساس اور وہ ذوقِ تبلیغ ختم ہو گیا اور خدمتِ دین کا وہ عام جوش جو کچھ عرصے کے لیے پیدا ہو گیا تھا آپس کی کفر بازیوں اور باہمی جنگ و فساد میں کام آنے لگا۔

انیسویں صدی کے نصفِ آخر کی تاریخ پر جب ہم نظر ڈالتے ہیں تو یہ حیرت انگیز واقعہ ہمارے سامنے آتا ہے کہ اس زمانے میں کوئی باقاعدہ تبلیغی نظام قائم نہ ہونے کے باوجود نو مسلموں کی تعداد میں ہر سال دس ہزار سے لے کر چھ لاکھ تک اضافہ ہوتا رہا۔ اس زمانے میں علما اور واعظین کی ایک بہت بڑی جماعت ایسی پیدا ہو گئی تھی، جس نے اپنی زندگی تبلیغ دین کے لیے وقف کر دی تھی اور اپنی انفرادی حیثیت میں شہر در شہر پھر کر سیکڑوں آدمیوں کو مشرف بہ اسلام کیا تھا۔ ان کے علاوہ عام کاروباری مسلمانوں میں بھی یہ ذوق اس قدر پھیل گیا تھا کہ دفتروں کے ملازم اور معمولی دکان دار تک اسلام کی اشاعت کرتے تھے۔

لیکن اب ....

موجودہ دور میں اشاعتِ اسلام کی سست رفتاری کی وجوہ پر اگر غور کریں تو یہ بات بالکل صاف نظر آتی ہے کہ اس کی ذمہ داری صرف ہماری اپنی ہی غفلت اور دینی بے حسی پر عائد ہوتی ہے ورنہ ظاہر ہے کہ اسلام آج بھی وہی ہے جو پہلے تھا۔ اس کی فطرت میں کوئی تغیر نہ ہوا ہے اور نہ ہو سکتا ہے البتہ ہم بدل گئے ہیں۔ ہماری زندگی بدل گئی ہے، ہمارے جذبات و حسیات بدل گئے ہیں اور یہ سب تنزل اسی کا نتیجہ ہے۔

پس آج اگر اشاعتِ اسلام کا مسئلہ ایک نازک صورت اختیار کر گیا ہے تو اس کا صحیح حل یہ نہیں ہے کہ کانفرنسوں پر کانفرنسیں منعقد کریں، انجمنوں پر انجمنیں بنائیں، رسالوں پر رسالے شائع کریں اور محض شور و شغب میں اپنا وقت ضائع کر دیں بلکہ اس کا اصلی حل یہ ہے کہ ہم مسلمانوں کو مسلمان بنائیں، ان میں صحیح اسلامی روح پھونک دیں، ان کی زندگیوں کو خالص اسلامی زندگی کے قالب میں ڈھال دیں، ان کے اندر سے ان تمام باطل عقائد، مبتدعانہ رسوم اور غلط عادات کو دور کر دیں، جو صدیوں تک ایک مشرک قوم کے ساتھ رہتے رہتے پیدا ہو گئی ہیں، اور ان کے اندر (دینی وابستگی) کا ایک ایسا جذبہ پیدا کر دیں جو ہر مسلمان کو اپنے دین کا ایک سرگرم اور باعمل مبلغ بنا دے۔

محض تبلیغی جماعتیں یا ہمہ گیر ذوقِ تبلیغ ؟

ہم نے اس بات پر زور دیا ہے کہ مسلمانوں نے عیسائیوں کی طرح مشنری سوسائٹیاں بنا کر کام نہیں کیا۔ اس سے مراد یہ نہیں کہ ہم تنظیم کے ساتھ کام کرنے کے مخالف ہیں، بلکہ دراصل مراد یہ ہے کہ یہ کام محض ایک جماعت یا چند جماعتوں کا نہیں ہے بلکہ اس کے لیے مسلمانوں میں تبلیغِ دین کی ایک ایسے عام ذوق کی ضرورت ہے کہ ہر مسلمان اپنے آپ کو اس مقدس کام کے لیے مامور سمجھنے لگے۔

اگر عام مسلمان اس ذوق سے بے بہرہ رہیں اور محض ایک انجمن یا چند انجمنوں پر یہ کام چھوڑ دیا جائے تو ہم کبھی غیر مسلموں کے مقابلے میں کامیاب نہیں ہو سکتے ۔ کیونکہ ہر جگہ مسلمانوں کا عام ذوقِ تبلیغ ہی فتح و کامرانی سے سرفراز ہوا ہے۔ اگر افریقہ میں مسلمانوں کا یہ عام ذوق نہ ہوتا اور صرف انجمنیں ہی فریضۂ تبلیغ کو انجام دینے کے لیے چھوڑ دی جاتیں تو عیسائیوں کی بدرجہا زیادہ طاقتور اور دولت مند سوسائٹیوں کے مقابلے میں انھیں قیامت تک وہ کامیابی نصیب نہیں ہو سکتی تھی جس پر آج ساری مسیحی دنیا انگشت بدنداں رہ گئی ہے۔ اسی طرح اگر مجمع الجزائر ملایا (انڈونیشیا) میں عام تاجروں اور سیاحوں کا دینی جذبۂ خدمت کام نہ کرتا اور صرف وہ چند عربی اور مقامی واعظین اور علما ہی دعوتِ اسلام کا فرض انجام دیتے جو وقتاً فوقتاً وہاں پہنچتے رہے تھے تو شاید آج بحر الکاہل کے ساحلوں پر اذان کی وہ گونج اس کثرت سے سنائی نہ دیتی جو آج بت پرستی اور عیسائی استعمار کی متحدہ مزاحمت کے باوجود سنائی دے رہی ہے۔

اس میں شک نہیں کہ دعوتِ اسلام ایک فرضِ کفایہ ہے جس کے لیے کسی ایک جماعت کا کھڑا ہونا تمام امت کے لیے کفایت کرتا ہے۔ لیکن شریعت کی یہ رخصت محض مسلمانوں کی آسانی کے لیے ہے۔ اس رخصت کا مطلب اگر کچھ ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ یہ فرض عائد تو تمام مسلمانوں پر ہوتا ہے جسے سب کو ادا کرنا چاہیے، لیکن کم از کم ایک جماعت تو ایسی ضرور رہنی چاہیے جو ہمیشہ بالالتزام اسے ادا کرتی رہے اور وہ جماعت یقیناً علما و صلحائے امت کی جماعت ہے۔

پس ہمارے نزدیک اسلام کی اشاعت کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہم غیر مسلموں کو مخاطب کرنے کے بجائے خود مسلمانوں کو مخاطب کریں اور ان میں اس قسم کی مذہبی روح پھونک دیں کہ ہر مسلمان ایک مبلغ بن جائے۔ اس سے نہ صرف فریضۂ تبلیغ ہی بہترین صورت سے انجام پائے گا بلکہ ہمارے سیکڑوں دینی امراض کو بھی خود بخود شفا ہو جائے گی۔

اصلاحِ حال کے لیے چند عملی تدابیر

ان مختلف اصلاحی تدابیر میں سے چند تدبیریں، جو دیگر ممالک کے تبلیغی تجربات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہمارے خیال میں اشاعتِ اسلام کے لیے مفید ہیں، ہم یہاں درج کرتے ہیں۔ امید ہے کہ زعما و ملت ان پر غور کریں گے:

ذات پات اور عدم مساوات کا خاتمہ:

مسلمانوں میں سے ذات پات کے اس امتیاز کو مٹا دیا جائے جو ہندوؤں کی ہمسایگی سے ان کے اندر پیدا ہو گیا ہے۔ اسلام کا یہ مساوات پرور عقیدہ کہ کوئی انسان اپنی خلقت کے اعتبار سے نجس یا ذلیل نہیں ہے، ہمیشہ اس کی کامیابی کا بڑا ذریعہ رہا ہے اور ضرورت ہے کہ ہم دوبارہ اس کو اپنے تمام معاملات میں ایک بنیادی اصول کی حیثیت سے داخل کر لیں۔

نسبی امتیازات کا خاتمہ:

ہمارے ہاں نو مسلموں کو نسبی مسلمانوں کے مقابلے میں ادنیٰ سمجھا جاتا ہے۔ اس غیر اسلامی عقیدے کا سختی کے ساتھ استیصال کر دینا چاہیے اور نو مسلم عورتوں اور مردوں سے شادی بیاہ کے تعلقات قائم کرنے کی رسم دوبارہ زندہ ہونی چاہیے۔ ہمارے ہاں شرفا اس سے پر ہیز کرتے ہیں، مگر ہم میں کا کوئی شریف ترین آدمی بھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں اپنی شرافت کو پیش نہیں کر سکتا، جنہوں نے عملاً اس تصور کو رد کر دیا تھا۔

عام دینی اور اخلاقی زندگی کی اصلاح:

اگر مسلمانوں کی اندرونی زندگی کی اصلاح کسی عمیق تحریک کی محتاج ہو تو کم از کم ان کی ظاہری زندگی میں ایسی اسلامی کشش پیدا کرنی چاہیے کہ غیر مسلم اقوام خود بخود ان کی طرف کھنچنے لگیں۔ مثلاً نماز با جماعت اور روزوں کی پابندی، مشرکانہ رسوم و بدعات سے احتراز اور منہیاتِ شرعیہ سے پرہیز کی عام تلقین کی جائے اور خصوصاً مسلمانوں میں اخلاقی جرائم کے استیصال کی سخت کوشش کی جائے ۔ کیونکہ جب مسلمانوں کا اخلاقی درجہ بلند ہوگا تو غیر مسلموں کے دل میں ان کی عظمت قائم ہو جائے گی۔

دینی سرگرمیوں کی تحریک و ترغیب:

جمعہ کے مواعظ، شبینہ مجالس اور عام رسائل کے ذریعے مسلمانوں کو مذہبی مسائل کی تعلیم دی جائے۔ تقابلِ ادیان کے معمولی مباحث نہایت وضاحت کے ساتھ بتائے جائیں اور ان کے اندر تبلیغ کا شوق پیدا کیا جائے۔ خصوصیت کے ساتھ تعلیمی اداروں کے اساتذہ، سرکاری محکموں کے ملازموں اور عام کاروباری لوگوں میں اس تحریک کو پھیلانا بہت مفید ہے کیونکہ انھیں عوام سے بہت زیادہ میل جول کا موقع ملتا ہے اور وہ بہت کامیابی کے ساتھ تبلیغ کر سکتے ہیں۔

دینی شعور کی بیداری:

ہماری سب سے بڑی کمزوری جہالت ہے۔ مسلمانوں کا ایک بہت بڑا طبقہ دینِ اسلام کی تعلیمات، اس کے عقائد اور شعائر سے یکسر جاہل ہے۔ یہی چیز ہے جو دشمنانِ اسلام کو اسے مرتد بنانے میں سب سے زیادہ مدد دیتی ہے۔ پس اس لحاظ سے ہماری پہلی ضرورت یہ ہے کہ ہم اپنے ارد گرد تمام مسلمانوں میں اسلامی تعلیمات کی اشاعت کریں۔ اسلام کے سادہ عقائد ان کے ذہن نشین کر دیں اور ان کے اندر اس حد تک دینی روح پیدا کر دیں کہ وہ صوم و صلوٰۃ کے پابند ہو جائیں۔ اس کے لیے ہم کو عام طور پر دیہات و قصبات میں ایک ایک شخص ایسا مقرر کرنا چاہیے جو عوام کو ان کے فرصت کے اوقات میں نہایت تدریج کے ساتھ دینی تعلیم دے سکے اور خود انھی کی زبان میں انھیں اسلام کی خوبیوں سے آگاہ کرتا رہے۔

اگرچہ اس سلسلے میں غیر مسلموں کو بھی اسلام کی طرف دعوت دی جاسکتی ہے مگر اس وقت ہماری تمام تر توجہ کافروں کو مسلمان بنانے کے بجائے خود مسلمانوں کو مسلمان بنانے کی طرف مبذول رہنی چاہیے۔ ان کی سوئی ہوئی دینی حس کو جگا دینے کے بعد جب ہم ایک دفعہ اپنے اندرونی استحکامات کو تمام بیرونی حملوں کے خطروں سے محفوظ کر لیں گے تو پھر ہمیں دوسروں کی طرف رخ کرنے کا زیادہ موقع مل سکے گا۔

مدارس کا قیام:

دوسری چیز یہ ہے کہ مسلمان بچوں کو ابتدائی دینی تعلیم دینے کے لیے گاؤں گاؤں میں مدارس قائم کیے جائیں۔ اس کے لیے بھی کسی لمبے چوڑے نظام اور کسی خاص درسی نصاب کی ضرورت نہیں بلکہ ابتداً نہایت سادگی کے ساتھ اسلامی عقائد ان کے ذہن نشین کر دیے جائیں۔ وضو، طہارت، نماز، روزہ وغیرہ کے متعلق مسائل یاد کرا دیے جائیں اور قرآن مجید پڑھا دیا جائے ۔ قرآن مجید کو پڑھ لینا ہی انسان پر اتنا اثر کرتا ہے کہ اسلام کی عظمت دل میں بیٹھ جاتی ہے اور پھر بمشکل ہی کوئی چیز اسے زائل کر سکتی ہے۔ پس، کم از کم ان بچوں کی لوحِ سادہ پر قرآن کا گہرا نقش تو ضرور بٹھا دینا چاہیے۔ یہ وہ کم سے کم کام ہے جسے انجام دینے میں ہمیں ذرہ برابر بھی توقف نہیں کرنا چاہیے ۔ اس کے لیے ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو مستقل طور پر ایک مقام پر رہ پڑیں، دیہاتی زندگی کی تکلیفیں برداشت کر کے پورے عزم و استقلال کے ساتھ دین و ملت کی خدمت انجام دیں۔ ان میں اتنی استقامت ہونی چاہیے کہ کامیابی کے ساتھ لوگوں کی جاہلانہ فطرت کا مقابلہ کر سکیں۔ ناکامیوں سے ہمت نہ ہاریں، مشرکانہ عقائد اور رسوم و بدعات کو دور کرنے میں اگر کئی کئی برس بھی لگ جائیں تو بد دل نہ ہوں اور جلد بازی کر کے جہالت سے جنگ نہ کریں۔ بلکہ آہستہ آہستہ وعظ و تلقین اور تعلیم و تبلیغ کے ذریعے طبیعتوں کو اصلاح کی طرف مائل کریں۔ اس کے ساتھ ان میں قربانی کا اتنا جذبہ بھی ہونا چاہیے کہ وہ کم سے کم مالی تعاون پر ہی اپنی خدمت انجام دے سکیں۔ ان کے اخلاق میں اتنی پاکیزگی بھی ہونی ضروری ہے کہ سادہ لوح دیہاتیوں کو اپنے اعمال سے برگشتہ کر دینے کے بجائے انھیں اپنے حسنِ خلق کا گرویدہ بنا لیں، اور خود اپنے اندر اسلامی زندگی کا ایسا نمونہ پیش کریں کہ لوگ ان سے اسلامی تعلیمات کا عملی سبق حاصل کر سکیں۔

عیسائی مشنری تعلیمی اداروں کا مقاطعہ:

ایک اور ضروری تدبیر یہ ہے کہ مسلمان بچوں کو عیسائی مشنری اسکولوں اور کالجوں سے اٹھانے کی ایک باقاعدہ تحریک شروع کی جائے۔ ان تعلیمی اداروں کا مقصد علم و فن کی روشنی پھیلانا نہیں ہے بلکہ بچوں کو ان کے مذہب سے پھیر کر سینٹ پال کے خود ساختہ مذہب کی دعوت دینا ہے اور عام طور پر ان کی تعلیم کا لازمی اثر یہ ہوتا ہے کہ اگر طلبہ علانیہ مرتد نہیں ہوتے تو کم از کم اپنے مذہب سے برگشتہ ضرور ہو جاتے ہیں۔ ان کے دل میں اسلام کی کوئی وقعت باقی نہیں رہتی، اسلامی عقائد سے صریحاً انحراف پیدا ہو جاتا ہے، عبادات کو کھیل سمجھنے لگتے ہیں، اور صرف خاندانی قیود اور رسمی مزاحمت کے باعث اسلام کے ساتھ ان کا رشتہ برائے نام رہ جاتا ہے۔ یہ ضرور ہے کہ بقول مسٹر آرنلڈ، مصنفِ 'اشاعت اسلام'، مشنری اداروں کی تعلیم نے بعض اوقات بالکل الٹا اثر بھی کیا ہے اور بعض طلبہ عیسائیت کی کمزوریوں سے واقف ہو کر اس کے زبردست حریف بن گئے ہیں۔ مگر ایسی سعید روحیں بہت کم پائی جاتی ہیں ۔ عام طور پر تو مشنری تعلیمی اداروں کے طلبہ کی وہی حالت دیکھی جاتی ہے جو ہم پہلے عرض کر چکے ہیں اور یقیناً انھیں اس بے دینی کے خطرے سے نکالنا اور ان کے نظامِ کار کو بے نقاب کرنا ایک عظیم دینی خدمت ہے۔ اس مقصد کے لیے سرگرمی سے ایک تحریک پیدا کی جائے اور عملاً ہر مسلمان کو اس بات پر آمادہ کیا جائے کہ وہ اپنے بچوں کو ان اداروں سے اٹھا لے۔

حرفِ آخر

یہ ایک نہایت زبردست کام ہے اور اس کو انجام دینے کے لیے ضرورت ہے کہ ہمارے علما اور سجادہ نشین حضرات اپنے حجروں سے نکلیں۔ علما کا فرض تو ظاہر ہے کہ انھیں درجۂ خشیت اور انبیائے بنی اسرائیل سے مشابہت جیسی فضیلتیں کچھ مفت ہی نہیں مل گئی ہیں، بلکہ ان پر امت کی اصلاح و ہدایت کا ایک بہت بڑا بار رکھ دیا گیا ہے جسے اٹھانے میں ذرہ برابر بھی کوتاہی کرنے پر وہ خدا کی شدید گرفت سے نہیں بچ سکتے۔

ہم حضراتِ صوفیائے کرام کو بھی ان کا فرض یاد دلانا چاہتے ہیں۔ جن سجادہ ہائے طریقت پر وہ جلوہ افروز ہیں، وہ ارشاد و ہدایت کی مسندیں ہیں۔ ان کی وراثت اپنے ساتھ چند فضیلتیں اور دنیاوی فوائد ہی نہیں رکھتی بلکہ وہ بہت سی ذمہ داریاں اور بہت سی مسئولیتیں بھی رکھتی ہیں۔

آج اگر یہ حضرات ان ذمہ داریوں کو محسوس کر لیں، جو ایک مسلمان سے بیعت لینے کے بعد اس کی اصلاح و تزکیہ نفس کے لیے ان پر عائد ہوتی ہیں، تو مسلمانوں کے سیکڑوں مصائب کا علاج ہو سکتا ہے۔ بڑے بڑے سجادہ نشینوں اور پیرانِ طریقت کا حلقۂ ارادت کروڑوں مسلمانوں پر مشتمل ہے اور اس میں ان کو ایسا زبردست اثر حاصل ہے کہ وہ اپنے ایک اشارے سے ان کی زندگیوں کا نظام بدل سکتے ہیں۔ ایسی کثیر جماعت میں اسلامی خدمت کا جوش پیدا کر دینا یہ معنی رکھتا ہے کہ چند ہی سال میں اس سرزمین کا نقشہ بدل جائے۔

کیا ہم یہ امید کر سکتے ہیں کہ یہ حضرات اپنے کاشانۂ امن و عافیت سے نکل کر اس نازک وقت میں کچھ خدا اور اس کے دین حق کے لیے بھی دوڑ دھوپ کریں گے؟