مسئلہ کشمیر: ایک جامع جائزہ سید ابو الاعلی مودودی

مسئلہ کشمیر: ایک جامع جائزہ

پیش لفظ

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

برصغیر جنوب ایشیا کی آزادی کے ربع صدی گزر جانے کے باوجود اس خطۂ اراضی میں ریاست جموں و کشمیر کے مسلمان ابھی تک محکومیت اور بھارتی جارحیت کے بے رحم پنجوں میں آزادی کے لیے تڑپ رہے ہیں، سسک رہے ہیں۔ وہ اپنے چاروں طرف آزادی کے پرچم بلند دیکھ کر اپنی مجبوری کے خلاف علم بغاوت بلند کیے ہوئے ہیں۔ بظاہر آزادی کی منزل کے نشانات دھندلے دھندلے دکھائی دیتے ہیں مگر یقین و عزم کے جذبۂ گراں قدر سے معمور دل اس ظاہری دھندلاہٹ میں آزادی کی حقیقی شمع کو روشن ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ خدا کے فضل سے آزادی کی یہ چنگاری اب شعلہ جوالا بن چکی ہے۔ یقیناً اندھیاروں کا چلن زیادہ دیر تک ممکن نہیں۔

آج پوری مسلم دنیا سرخ و سفید سامراج اور اس کے حواریوں کے ہاتھوں اسی نوع کے مسائل سے نبرد آزما ہے جس میں ترکستان، فلسطین، مورو لینڈ، افغانستان، قبرص، عربی ریاستیں، تھائی لینڈ، برما، بوسنیا اور کشمیر سرفہرست ہیں۔ ہر جگہ، ہر محاذ پر جدوجہد جاری ہے۔ یقین محکم کے ساتھ، عزم راسخ کے ساتھ اور جذبۂ جہاد سے معمور دلوں کے ساتھ حریت کا علم بلند ہو رہا ہے، رابطہ و احتجاج، سنگ و آہن اور جان و لہو کے ساتھ۔

کشمیر کے محاذ پر اب تک بھارت اور پاکستان کے مابین تین جنگیں (1948ء، 1965ء، 1971ء) ہو چکی ہیں، جبکہ لاتعداد جھڑپوں اور بے شمار حریت پسندانہ مظاہروں میں آزاد جذبے قربان ہو ہو کر جاوداں ہو گئے۔ اگرچہ ان تمام سرفروشانہ جذبات اور سیاسی و فوجی مدبروں کی تمام تر کاوشوں کے باوجود یہ مسئلہ ہنوز روز اول کی طرح ہے۔ حکومت پاکستان کی طرف سے اس مسئلے کے لیے وقتاً فوقتاً جو کچھ کیا گیا وہ تو اس کا فرض منصبی تھا۔ مگر غیر سرکاری سطح پر جس شخص کی آواز سب سے زیادہ موثر ثابت ہوئی وہ عصر حاضر کے مفکر اسلام اور مجاہد کبیر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمۃ اللہ علیہ کی آواز تھی۔

بالخصوص عالم عرب میں کشمیر کے مسئلے کو بطور مسلمانوں کے ایک قضیے کے متعارف کرانے اور عالم اسلام کے اجتماعی پلیٹ فارموں سے وقتاً فوقتاً عالمی ضمیر اور رائے عامہ کو جھنجھوڑنے میں موصوف کا جو کردار رہا اس سے کوئی بھی معقول اور منصف مزاج انسان انکار نہیں کر سکتا۔ زیر نظر مجموعہ ان کی انہی کاوشوں کا مظہر ہے۔

یہ مجموعہ دو حصوں پر مشتمل ہے جس میں پہلا مولانا محترم کے ایک مسلسل اور مربوط مضمون پر مشتمل ہے۔ جبکہ دوسرا حصہ مولانا محترم کی وقتاً فوقتاً سامنے آنے والی آراء اور موقف پر محیط ہے، جس میں وہ حکومت و ملت کو لمحہ بہ لمحہ اپنی رائے سے آگاہ اور خطرات سے متنبہ کرتے رہے ہیں۔ دوسرے پہلو کی افادیت اس لحاظ سے بھی بڑھ جاتی ہے کیونکہ اس کے ذریعے ایک نظر میں قاری یہ جان سکتا ہے کہ مسئلہ کشمیر گزشتہ تیس سالوں میں کس مد و جزر کا شکار رہا اور برصغیر پاک و ہند کی آزادی کے بعد اس مسئلے کا تاریخی ارتقاء کیسا رہا۔

حصہ اول: مسئلہ کشمیر ایک تعارف

مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمۃ اللہ علیہ مارچ 1966ء میں حج بیت اللہ کی غرض سے سفر حجاز پر روانہ ہوئے۔ حج کے موقع پر دنیا بھر سے آنے والے حجاج کرام کو مسئلہ کشمیر سے روشناس کرانے کے لیے انہوں نے مکہ میں خطاب بھی فرمایا اور ایک مضمون بھی تحریر فرمایا جس کا ترجمہ تقسیم کیا گیا۔ مولانا کے اس پمفلٹ کا ترجمہ عربی، فرانسیسی، انگریزی، بنگالی، سواحلی، ترکی اور انڈونیشی زبان میں ہوا۔ (مرتب)

سید مودودی شاہ فیصل سے ملاقات کے دوران

سید مودودی شاہ فیصل سے ملاقات کے دوران

کشمیر ایک آتش فشاں

آج کشمیر ایک آتش فشاں ہے جو خود بھی جل رہا ہے اور اپنے قرب و جوار پر بھی آگ کی بارش کر رہا ہے۔ وہ خطۂ زمین جو کبھی جنت نشان تھا اب ایک جہنم سوزاں بن چکا ہے۔ پچاس لاکھ انسانوں کا یہ دیش ظلم و ستم اور استعماری جارحیت کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔ مشرق سے ابھرتی ہوئی نئی بھارتی جارحیت نے مغرب کی سامراجی قوتوں کے تعاون سے ظلم اور اندھی قوت کے سہارے اس پر اپنے پنجے جمائے اور حق و انصاف اور بین الاقوامی قول و قرار کے پرخچے اڑا کر محض جبر و تشدد کے ذریعہ اس پر اپنا غاصبانہ تسلط جمائے رکھا ہے۔

کشمیر بتیس سال سے آگ کے شعلوں کی لپیٹ میں ہے اور ظلم و استبداد کے اس سلسلہ کی کوئی انتہا نظر نہیں آتی۔ بھارت جارحیت کو اپنا شعار بنا چکا ہے۔ بڑی طاقتیں اپنے اپنے مفاد کی خاطر اس جارحیت سے نہ صرف کوئی تعرض نہیں کرتیں بلکہ اس کی حوصلہ افزائی کر رہی ہیں اور کشمیر کے پچاس لاکھ انسان، جن میں سے اسی فی صد مسلمان اور جو ہندوستانی استعمار سے گلو خلاصی حاصل کرنے کے لیے بے چین اور مضطرب ہیں، ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں۔ نہتے کشمیری اپنی آزادی کے لیے بے پناہ قربانیاں دے رہے ہیں۔ وہ زمین کو اپنے خون سے لالہ زار کر رہے ہیں۔ لیکن آزادی کی جدوجہد جتنی بڑھتی ہے ظلم و ستم میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے۔ بیسویں صدی کے اس آخری حصہ میں جب ہر جگہ سامراج کے قدم پیچھے ہٹ رہے ہیں اور وہ میدان چھوڑنے پر مجبور ہو رہا ہے، مسلمانوں کے اس قلب میں ہندو سامراج کی خنجر زنی تیز تر ہوتی جا رہی ہے۔ کشمیر میں آج جو چیز سب سے ارزاں ہے وہ مسلمان کا لہو اور اس کی آبرو ہے۔

کشمیر کا مسئلہ کیسے پیدا ہوا؟ کن پارٹیوں نے اسے پیدا کیا اور ہوا دی؟ جغرافیائی، تاریخی، قانونی، سیاسی اور اخلاقی نقطہ ہائے نظر سے اہل کشمیر اور پاکستان کا موقف کیا ہے اور ہندوستان کس طرح ان میں سے ہر ایک کے تقاضوں کی خلاف ورزی کر رہا ہے؟ وہ کیا طریقے ہیں جن کے ذریعے ہندوستان نے اس خطۂ زمین پر اپنا غاصبانہ تسلط قائم کیا اور اب اسے برقرار رکھے ہوئے ہے؟ مسئلہ کی حقیقت کو سمجھنے کے لیے ان تمام سوالات پر غور کرنا ضروری ہے اور ہم اس سلسلہ کے تمام ضروری حقائق بلا کم و کاست پوری انسانی برادری کے سامنے رکھتے ہیں اور اس سے پوچھتے ہیں کہ حق و باطل اور مظلوم و ظالم کے درمیان وہ کس کو منتخب کرتی ہے؟ کیا انسانیت کا خمیر اس ظلم کو گوارا کر لینے کے لیے تیار ہے جو کشمیر میں دن دہاڑے کیا جا رہا ہے؟ کیا ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ دنیا کے تمام حق پرست انسان مظلوم کی مدد اور ظالم کا ہاتھ روکنے کے لیے صف بستہ ہو جائیں؟ کیا ہم اس تاریخی صداقت کو بھول چکے ہیں کہ ظلم خواہ وہ زمین کے کسی بھی خطے میں کیا جا رہا ہو، پوری انسانیت کے لیے خواہ وہ کہیں بھی پائی جائے ایک زندہ خطرہ ہے؟ جو لوگ دوسروں پر کیے جانے والے ظلم کو گوارا کر لیتے ہیں وہ بالآخر خود بھی اس کا نشانہ بننے سے نہیں بچ سکتے۔

آج کشمیر کے سینہ سے ٹپکنے والا لہو پوری انسانیت کو اور خصوصیت سے عالم اسلام کو پکار رہا ہے کہ کون ہے جو حق کی آواز پر اور مظلوم کی پکار پر لبیک کہتا ہے؟

پس منظر: جغرافیائی، تاریخی، سیاسی

جغرافیائی و آبادیاتی حقائق

ریاست جموں و کشمیر برصغیر پاک و ہند کے انتہائی شمال میں اور جنوبی وسط ایشیا کے قلب میں واقع ہے۔ اس کی سرحدیں پانچ ممالک کے ساتھ ملتی ہیں، یعنی پاکستان، افغانستان، روس، چین اور بھارت۔ ریاست کی سات سو میل لمبی سرحد پاکستان کے ساتھ ملتی ہے۔

نقشه: آزاد و مقبوضہ کشمیر

نقشه: آزاد و مقبوضہ کشمیر

1921ء کی مردم شماری کی رو سے اس کی آبادی 40 لاکھ 21 ہزار افراد تھی اور آبادی میں مسلمانوں کا تناسب تقریباً 80 فیصدی تھی۔ گلگت کے علاقہ کی سو فیصد آبادی مسلمان ہے۔ وادی کشمیر میں مسلمانوں کا تناسب 90 فیصدی ہے اور جموں میں بھی ان کو عددی اکثریت حاصل ہے۔ اس طرح یہ علاقہ خالص مسلم اکثریت کا علاقہ ہے۔

ریاست کا مجموعی رقبہ 84471 مربع میل ہے۔ اس میں دو میدانی علاقے ہیں۔ ایک وادی کشمیر جو 84 میل لمبی اور 25 میل چوڑی ہے اور دوسرا میدانی علاقہ جموں کا ہے۔ آبادی کی پوزیشن 1921ء میں یہ تھی:

  • صوبہ جموں: کل آبادی 1981433، مسلمان 1215676 (62%)
  • صوبہ کشمیر: کل آبادی 1728705، مسلمان 1215478 (94%)
  • سرحدی اضلاع: کل آبادی 270093، مسلمان 211478 (80%)
  • کل آبادی: 4021616، مسلمان 3101247 (78%)

1951ء کی مردم شماری کی رو سے کل آبادی 43 لاکھ 70 ہزار تھی اور تمام قتل و غارت گری کے باوجود اب یہ آبادی 50 لاکھ سے تجاوز ہے۔

(مزید معلومات کے لیے ملاحظہ ہو: Sir Walter Lawrence, "The India we Served” New York 1927; Sardar Ibrahim, "The Kashmir Saga” Lahore, 1965; Sufi, Dr. Gh. Mohyuddin, "The History of Kashmir", Lahore)

تاریخی پس منظر: ڈوگرہ راج کا آغاز

تاریخی حیثیت سے ریاست جموں و کشمیر گزشتہ سات سو سال سے مسلمانوں کے زیر نگیں ہے۔ اس علاقہ میں اسلام کی شعاعیں عین اسی زمانے میں پہنچیں جب برصغیر ہند میں دین کا فروغ شروع ہو چکا تھا اور پھر اس کا سارا ارتقاء اسلام کے زیر سایہ ہوا۔ 1310ء سے 1552ء تک یہاں مقامی مسلمان حکمرانوں کی سلطنت قائم رہی۔ 1551ء سے 1715ء تک یہاں مغلوں کا اقتدار رہا اور پھر 1819ء تک افغان گورنر حکمرانی کے اختیارات کا حامل تھا۔ 1819ء میں جبکہ پورے برصغیر میں مسلمانوں پر ادبار کا دور شروع ہو چکا تھا اور وہ اپنی آزادی اور اقتدار دوسروں کے ہاتھوں کھو رہے تھے، سکھوں نے کشمیر پر فوج کشی کی اور اس پر اپنا راج قائم کر لیا۔

یہ دور 1846ء تک چلا اور اس میں اقلیتی حکمرانوں نے جبر و تشدد اور قوت و استبداد کے ذریعہ مسلمان اکثریت پر عرصہ حیات تنگ کر دیا اور ظلم و بہیمیت کی تاریخ میں ایک ایسے شرمناک باب کا اضافہ کیا جس کی مثال ہندوستان کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ دریں اثناء انگریزوں نے ہندوستان پر اپنا اقتدار مستحکم کر لیا اور سکھوں کو شکست دینے کے بعد صوبہ جموں کے ایک جاگیر دار گلاب سنگھ کے ہاتھ یہ پوری ریاست 75 لاکھ روپے نانک شاہی (موجودہ پچاس لاکھ روپے جو تقریباً ایک ملین ڈالر کے برابر ہوتے ہیں) کے عوض فروخت کر دی۔ گویا ایک کشمیری کی قیمت 7 روپے مقرر ہوئی۔ یہ تاریخی سانحہ 16 مارچ 1846ء کو واقع ہوا ہے اور اسے معاہدہ امرتسر کہتے ہیں۔

گلاب سنگھ جس نے انگریز کے ساتھ کشمیر کا سودا کیا

تصویر: گلاب سنگھ جس نے انگریز کے ساتھ کشمیر کا سودا کیا

یہ ہے وہ دن جب سے کشمیر پر ڈوگرہ راج شروع ہوا اور جس کی جانشین اب ہندوستان کی حکومت اور اس کے کشمیری ایجنٹ ہیں۔ قضیہ کشمیر کو سمجھنے کے لیے اس بات کا جاننا ضروری ہے کہ کشمیر پر ڈوگرہ راج ایک باطل اور ظالمانہ اقدام کے ذریعہ ہوا جس میں ایک پوری قوم کو بیرونی حکمرانوں نے چند سکوں کے عوض کچھ انسانی درندوں کے ہاتھوں فروخت کر دیا تھا جن کا کوئی تاریخی، سیاسی، قانونی یا تہذیبی استحقاق نہ تھا۔

پھر اس حکمران خاندان نے اہل کشمیر کو لوٹنے اور تباہ و برباد کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ کشمیر کی اسی فیصدی مسلمان آبادی کو چند پنڈتوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا تھا۔ تمام کلیدی مناصب ان کے پاس تھے۔ فوج اور پولیس کی قوت انہیں حاصل تھی۔ محنت و مشقت مسلمان کرتے اور دادِ عیش یہ ہندو حکمران دیتے تھے۔ مسلمان کاشتکار تھے اور یہ زمیندار اور جاگیر دار۔ یہ ظالم، غریب کاشتکاروں کے پاس اتنا بھی نہ چھوڑتے کہ جسم اور روح کا رشتہ برقرار رکھ سکیں۔ پھر ان پر ایسے ایسے ناروا ٹیکس عائد کیے جاتے کہ ان کا تصور بھی محال ہے۔ مثلاً کھڑکیوں پر ٹیکس تھا، گھر کے چولہوں پر ٹیکس تھا، بیوی پر، گھریلو مویشیوں پر، ہر پیشے پر حتیٰ کہ چینی کھانے پر بھی ٹیکس تھا۔ پھر ان سب پر مستزاد جبری محنت یا بیگار (Forced Labour) تھی جس کے جوئے میں مسلمان نوجوانوں کو کسا جاتا تھا اور ڈوگرہ سپاہیوں کی سنگینیوں کے سائے میں انہیں غلاموں کی طرح کام کرنا پڑتا تھا۔

مسلمان کشمیر کے باہر کے لوگوں سے کوئی رابطہ قائم نہ کر سکتے تھے اور نہ انگریزی حکومت (British Government) کے سائے میں اپنی زبوں حالی کی داستان بیان کر سکتے تھے۔ جب بھی اس طرح کی کوئی کوشش کی گئی تو جیلیں بھر دی گئیں اور جرات کرنے والوں کو گولیوں کا نشانہ بنا دیا گیا۔ انگریزی اقتدار اس ظلم و ستم کا پشتیبان تھا اور ریاست کی مدد کے لیے انگریزی فوجیں موجود تھیں۔ یہ تھا وہ نظام جس کے مقابلہ میں کشمیری مسلمان کو اپنی آزادی کی جدوجہد کرنی پڑی اور جب انگریزی اقتدار کے رخصت ہو جانے پر (اگست 1947ء) اس نظام ظلم و استبداد نے یہ محسوس کیا کہ وہ اپنے بل بوتے پر قائم نہیں رہ سکتا تو اس نے ہندوستان کی حکومت کے ساتھ گٹھ جوڑ کیا۔ جس گروہ نے ہندوستان کے ساتھ نام نہاد الحاق (Accession) کیا وہ یہی گروہ تھا، اس کے بعد مسلمان ہندوستانی حکومت اور کشمیر کے ظالم حکمران درندوں کا نشانہ ستم بنے اور چکی کے ان دو پاٹوں کے درمیان پسنے لگے۔ ان کے لیے پہلا پروانہ غلامی معاہدہ امرتسر 1846ء تھا اور دوسرا ہندوستان سے اعلان الحاق 1947ء۔

اہل کشمیر کی جدوجہد آزادی

یہ تو ہے اس تاریخی اور سیاسی پس منظر کا ایک پہلو۔ اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اہل کشمیر نے کسی موقع پر بھی ظلم و استبداد کے اس نظام کے آگے ہمت نہیں ہاری۔ وہ قوی تر ظالم کے سامنے مجبور تو ضرور ہو گئے لیکن غلامی کے ساتھ انہوں نے کوئی ذہنی سمجھوتہ نہیں کیا۔ آزادی کے حصول کے لیے وہ برابر جدوجہد کرتے رہے۔ 1846ء ہی میں معاہدہ امرتسر کے خلاف میر پور، پونچھ، راجوری اور رانی پور کے غیور مسلمانوں نے آواز بلند کی اور بلتستان اور گلگت کے حریت پسندوں نے اپنی جانوں پر کھیل کر اس کے خلاف علم بغاوت بلند کیا۔ آزادی کے ان پروانوں کو ظلم اور طاقت کے بل پر مٹا دینے کی کوئی کوشش ان کے عزم کو مردہ نہ کر سکی اور وقتاً فوقتاً آزادی کی صدا بلند ہوتی رہی۔ 1922ء کی ریشم خانہ سرینگر کے مزدوروں کی بغاوت ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ 1930ء میں جموں میں چودھری غلام عباس نے "مسلم ینگ مین ایسوسی ایشن" قائم کی۔

اس دور کی سیاسی تاریخ جلسوں، جلوسوں، اجتماعات، گرفتاریوں اور گولیوں کی بوچھاڑ سے بھری پڑی ہے۔ ہزاروں مسلمانوں نے جام شہادت نوش کیا اور ان سے کئی گنا زیادہ افراد سے جیلیں بھر دیں۔ اہل پنجاب نے بھی کشمیریوں کی آزادی کے لیے جدوجہد کا آغاز کیا اور خود علامہ محمد اقبال (1877ء سے 1938ء) نے اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔

جد و جہد آزادی کے کارکن چودھری غلام عباس کی یاد میں جاری کیا گیا ڈاک ٹکٹ

تصویر: جد و جہد آزادی کے کارکن چودھری غلام عباس کی یاد میں جاری کیا گیا ڈاک ٹکٹ

اہل کشمیر نے اپنی جدوجہد آزادی کی تمام کوششوں کو متحد کرنے کے لیے ایک اہم قدم اٹھایا اور وہ 16-17 اکتوبر 1932ء کی وہ کانفرنس ہے جس میں "آل جموں اینڈ کشمیر مسلم کانفرنس" کی بنیاد رکھی گئی اور چودھری غلام عباس اور شیخ محمد عبد اللہ ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو گئے۔ بعد کی پوری جدوجہد مسلم کانفرنس کی رہنمائی میں ہوئی۔ آل انڈیا کانگریس نے ان حالات سے متاثر ہو کر اور مسلمانوں کے اتحاد کو توڑنے کے لیے نیشنل کانفرنس قائم کی جو کہ انگریز کے نیشنلسٹ خیالات کی حامل تھی۔ اب مسلمانوں کی نمائندہ جماعت مسلم کانفرنس (Muslim Conference) تھی اور کانگریسی نقطہ نظر کی ترجمان نیشنل کانفرنس (National Conference)۔ دونوں نے متوازی طور پر آزادی کے لیے جدوجہد جاری رکھی۔

1940ء میں جب قرار داد پاکستان منظور کی گئی تو مسلمانان جموں و کشمیر نے بھی حصول پاکستان کو اپنا مطمع نظر بنایا اور مسلم کانفرنس نے اسے اپنے سیاسی مقصد کی حیثیت سے اختیار کر لیا۔ حکومت نے مسلم کانفرنس پر ہر طرح کے مظالم کیے اور اس کے کارکنوں کو بڑے پیمانے پر گرفتار اور ریاست بدر کیا۔ لیکن اس کے باوجود 1947ء کے ریاستی انتخابات میں جبکہ مسلم کانفرنس کے تمام بڑے لیڈر گرفتار تھے، مسلمانوں کی منتخب کردہ 2 نشستوں پر اس کانفرنس کے نمائندوں کو کامیابی ہوئی اور باقی 2 پر صورتحال یہ تھی کہ ان کے نمائندوں کے کاغذات نامزدگی ہی رد کر دیے گئے تھے۔

مسلمانان کشمیر کی جدوجہد آزادی دوسری جنگ عظیم کے بعد اپنے شباب پر تھی اور سیاسی اعتبار سے 1946ء اور 1947ء نہایت اہم اور فیصلہ کُن ہیں۔ اس زمانہ میں یہ بات بالکل صاف ہو کر سامنے آ گئی تھی کہ اپنے تمام استبداد و ظلم و طغیان کے باوجود ڈوگرہ حکمران اپنا اقتدار قائم نہیں رکھ سکتے اور کھلی کھلی لاقانونیت کے باوجود مسلمانوں کو آزادی اور پاکستان کے حصول سے روک نہ سکیں گے۔ یہ تھے وہ حالات جس میں تقسیم کا منصوبہ رو بہ عمل آیا۔

تقسیم ہند اور مسئلہ کشمیر

برصغیر پاک و ہند پر مسلمان تقریباً آٹھ سو سال تک حکمران رہنے کے بعد برطانوی سامراج سے شکست کھا گئے۔ انگریزوں نے اس ملک پر قابض ہونے کے بعد پوری کوشش کی کہ سیاسی، عسکری، تعلیمی، سماجی اور اخلاقی حیثیت سے مسلمانوں کو کمزور تر کر دیں۔ تمام سرکاری ملازمتوں کے دروازے ان کے لیے بند کر دیے گئے اور زندگی کے ہر میدان میں ان کو غیر موثر بنا دیا گیا۔ انگریز مسلمانوں کو اپنا اصل حریف سمجھتا تھا اور مقامی آبادی میں سے ہندوؤں کو اس نے اپنے حلیف کے طور منتخب کیا۔ مسلمانوں کے مقابلے میں ہندوؤں کو پوری منصوبہ بندی کے ساتھ اوپر اٹھایا گیا تاکہ مسلمان انگریزوں اور ہندوؤں کی دوہری غلامی میں گرفتار ہو جائیں۔

مسلمانوں کے لیے یہ صورتحال کسی حیثیت سے بھی قابل قبول نہ تھی۔ ہندوؤں سے ان کا اشتراک ممکن نہ تھا۔ ہندو اور مسلمان دو مختلف مذاہب کے پیرو اور دو مختلف تہذیبوں کے علم بردار تھے۔ وہ اپنے عقیدہ و مسلک، تہذیب و ثقافت، بودو باش، زبان و ادب، تاریخ و تمدن، رسوم و روایات، اصول حیات و معاشی مفاد اور سیاسی عزائم اور قومی تصورات کے نقطہ نظر سے ایک دوسرے سے بالکل مختلف تھے اور اس بات کا کوئی سوال نہ تھا کہ مسلمان ہندوؤں کے تحت اپنے طریقہ کے مطابق زندگی کا نظام قائم کر سکیں۔ ہندو چاہتا تھا کہ ملک آزاد ہو جائے اور اقدار اس کے ہاتھوں میں آ جائے تاکہ اپنی اکثریت کے بل پر وہ مسلمانوں پر حکمرانی کر سکے۔ مسلمانوں نے ہندوؤں کے اس کھیل کو اچھی طرح بھانپ لیا تھا اور ان کا قومی مؤقف ہی یہ تھا کہ سر زمین ہندوستان پر ایک قوم نہیں دو قومیں آباد ہیں.... ہندو اور مسلمان .... اور آزادی کی وہ صورت ہونی چاہیے جس میں دونوں آزاد ہو سکیں ۔ مسلمانوں کے لیے ہندو کی بالا دستی بھی اتنی ہی ناقابل قبول ہے جتنی انگریزوں کی غلامی۔

اس نقطہ نظر سے مسئلہ کا حل یہ تھا کہ یہاں ایک کی بجائے دو آزاد مملکتیں قائم ہوں۔ جن علاقوں میں مسلمانوں کو اکثریت حاصل ہے وہ ایک آزاد مملکت کی شکل اختیار کر لیں اور جن میں ہندوؤں کو اکثریت حاصل ہے وہ دوسری مملکت بنا دیے جائیں۔ تقسیم ہند کی بنیاد ہی دو قومی نظریہ تھا اور تقسیم کا اصول یہ تھا کہ مسلمانوں کے وہ ملحقہ علاقے جن میں ان کو اکثریت حاصل ہے (Contiguous Muslim Majority Area) پاکستان کا جزو ہوں۔ اگلا سوال ان ریاستوں کے مستقبل کے بارے میں تھا جو انگریزوں کے دور میں باقی رکھی گئی تھیں اور اب ان کو دونوں میں سے کسی ایک آزاد ملک سے وابستہ ہونا تھا۔

ان کے الحاق کا اساسی اصول بھی یہی قرار پایا کہ اصولِ تقسیم کی روشنی میں وہ جغرافیائی حالات اور آبادی کی نوعیت کی مناسبت سے باشندوں کی خواہش کے مطابق کسی ایک ریاست سے ملحق ہو جائیں۔ خود وائسرائے ہند لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے 25 جولائی 1947ء کو ہندوستانی ریاستوں کی تنظیم "چیمبر آف پرنسز" (Chamber of Princes) کو خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ:

"یہ ریاستیں آزاد ہیں کہ دونوں مملکتوں میں سے جس کے ساتھ چاہیں الحاق کر سکتی ہیں۔ لیکن جب میں یہ کہتا ہوں کہ وہ جس سے چاہیں الحاق کے لیے آزاد ہیں تو میں اس بات کا اضافہ بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ کچھ جغرافیائی مجبوریاں ہیں جن سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔ آپ اس مملکت کی حکومت سے جو آپ کی ہمسایہ ہے دور نہیں جا سکتے اور اسی طرح آپ اس رعایا کی مرضی کے خلاف بھی نہیں جا سکتے جس کی فلاح و بہبود کے آپ ذمہ دار ہیں۔"

لارڈ ماؤنٹ بیٹن چیمبر آف پرنسز سے خطاب کرتے ہوئے

تصویر: لارڈ ماؤنٹ بیٹن چیمبر آف پرنسز سے خطاب کرتے ہوئے

ریاستوں کے لیے ناگزیر تھا کہ وہ اصول تقسیم کے مطابق اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں اور خود ہندوستان کی حکومت نے بھی بعض ریاستوں کے معاملے میں اسی اصول پر اصرار کیا۔ جب ریاست جونا گڑھ (Junagadh State) نے پاکستان کے ساتھ الحاق کیا تو ہندوستان نے یہی بات کی کہ یہ ان اصولوں کے یکسر منافی ہے جن پر تقسیم طے ہوئی اور رو بہ عمل آئی اور اسی دلیل کی بنیاد پر اس نے قانون اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے فوج کشی کے ذریعہ اس علاقہ پر قبضہ کر لیا۔ ریاست حیدرآباد (Hyderabad State) کے سلسلہ میں بھی ہندوستان نے یہی بات کا دعویٰ کیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہندوستان کے اپنے تسلیم کیے ہوئے اصولِ تقسیم کی رو سے کشمیر کو سیدھے سیدھے پاکستان سے الحاق کرنا چاہیے اور اسی چیز کا مطالبہ وہاں کی آبادی کر رہی تھی۔

مسلم کانفرنس کا الحاق پاکستان کا مطالبہ

مسلم کانفرنس نے 19 جولائی 1947ء کو پاکستان سے الحاق کی قرار داد منظور کی اور مہاراجہ سے مطالبہ کیا کہ وہ بلا تاخیر اس پر عمل کرے۔ قرار داد کے الفاظ میں کہا گیا تھا:

"مسلم کانفرنس کی یہ کنونشن اس نتیجہ پر پہنچی ہے کہ جغرافیائی حقائق ریاست کی آبادی کی 80 فیصدی اکثریت کے مسلمان ہونے، پنجاب کے اہم دریاؤں کے ریاست سے نکلنے، زبان، ثقافت، نسل اور معاشی تعلقات و روابط اور پاکستان کی سرحد پر اتصال کے پیش نظر تمام حقائق اس بات کو ناگزیر قرار دیتے ہیں کہ ریاست جموں و کشمیر کا الحاق پاکستان کے ساتھ ہو۔"

یہ تھا جغرافیائی حالات، تاریخی حقائق اور عوام کی سوچی سمجھی رائے کا واضح اور حتمی فیصلہ۔ تقسیم ہند کا عمل اس کے بغیر نامکمل رہتا تھا اور آزادی کا خاکہ اس کے بغیر پورا ہی نہیں ہوتا تھا لیکن جو کچھ کیا گیا وہ دغا، بے اصولی، نا انصافی، حق تلفی، مسلم کشی اور پاکستان دشمنی کی ایسی شرمناک داستان ہے جو ظلم اور جارحیت کی تاریخ میں ایک منفرد مقام رکھتی ہے۔ اس کا حال درج ذیل ہے۔

مہاراجہ کی دھوکہ دہی اور پاکستان سے معاہدہ

جموں اور کشمیر کے مہاراجہ نے شروع ہی سے دوہرا کھیل کھیلنے کی کوشش کی۔ ایک طرف وہ ہندوستانی قیادت اور انگریزوں سے ساز باز کرتا رہا اور دوسری طرف پاکستان کو دھوکہ دینے اور اپنے عوام کو بے وقوف بنانے میں مصروف رہا۔ اس مقصد کے لیے اس نے سیدھے سیدھے الحاق (Accession) کے بجائے پاکستان سے ایک ایسا معاہدہ کیا جس کی رو سے پاکستان عارضی طور پر ان امور کا نگران ہو گیا جو برطانوی حکومت انجام دے رہی تھی اور تعلقات کی نوعیت میں کوئی بنیادی تغیر واقع نہیں ہوا۔ پاکستان یہ سمجھتا رہا کہ مکمل الحاق کی طرف پہلا قدم ہے جبکہ مہاراجہ کسی اور ہی سازش میں مصروف ہو گیا ہے۔

مسلمانوں پر مظالم اور انتہا پسند تنظیموں کا گٹھ جوڑ

ریاست جموں و کشمیر میں مہاراجہ نے بڑی عیاری کے ساتھ مسلمانوں کو دبانے اور مٹانے کا کام شروع کیا۔ جولائی 1947ء میں تمام مسلمان رعایا کو حکم دیا گیا کہ اپنے تمام ہتھیار حکومت کے حوالے کر دیں۔ فوج اور پولیس میں جتنے مسلمان تھے ان کو اگست 1947ء میں غیر مسلح کر دیا گیا۔ اس کے ساتھ ہندوستان کی انتہا پسند مسلم دشمن ہندو تنظیموں سے رابطہ قائم کیا گیا جن میں راشٹریہ سیوک سنگھ (RSS)، جن سنگھ اور ہندو مہا سبھا قابل ذکر ہیں۔

آرایس ایس کے انتہا پسند ہندو جن کی انسانیت سوز انتہا پسندی وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی جارہی ہے

تصویر: آرایس ایس کے انتہا پسند ہندو جن کی انسانیت سوز انتہا پسندی وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی جا رہی ہے۔

ان تنظیموں نے جموں کو اپنا مرکز بنایا اور پوری تنظیم کے ساتھ ایک ایسی فوج تیار کی گئی جس کا واحد مقصد مسلمانوں کو ختم کرنا تھا۔ ریاست کی پولیس اور فوج کی حفاظت میں بلکہ ان کے تعاون سے، ان مسلح گروہوں نے مسلمانوں پر حملے اور ان کی پوری پوری آبادیوں کو تہ تیغ کرنا شروع کر دیا۔ ویسے تو یہ خوفناک سرگرمیاں پوری ریاست میں شروع ہو گئی تھیں لیکن پونچھ، میر پور اور صوبہ جموں کے تقریباً تمام اضلاع ان کا خصوصی مرکز تھے اور یہاں ڈوگرہ فوج، پولیس، آرایس ایس، ہندو مہاسبھا اور مقامی ہندوؤں نے مل کر ستمبر 1947ء میں بڑے پیمانے پر مسلمانوں کا قتل عام شروع کر دیا۔ ہزاروں مسلمانوں کو قتل کیا گیا، لوٹ مار کا بازار گرم کیا گیا۔ نوجوان مسلمان لڑکیوں کو اغوا کیا گیا اور جو مسلمان اس قتل و غارت گری سے بچے ان کو پاکستان کی طرف دھکیل دیا گیا۔

سرحدی نا انصافی اور گورداسپور کا مسئلہ

ریاست کے اندر تو مسلمانوں کے ساتھ یہ کچھ کیا جا رہا تھا اور اوپر انگریز وائسرائے اور کانگریس کے ہندو لیڈر کے ساتھ سیاسی جوڑ توڑ ہو رہا تھا۔ جس کی بدولت پاکستان اور ہندوستان کی سرحدوں میں وہ نا انصافی کی گئی جس نے پاکستان کی شہ رگ پر ضرب لگائی۔ اس سازش کے تحت ضلع گورداسپور کا وہ مسلم اکثریتی علاقہ ہندوستان کے سپرد کر دیا گیا جو ہندوستان کو ریاست جموں و کشمیر سے ملاتا تھا اور اس طرح ہندوستان کے لیے کشمیر میں گھسنے کا دروازہ کھول دیا گیا تاکہ وہ ہندو مہاراجہ کے طلب کرنے پر اس کی مدد کو آ سکے۔ انگریزوں نے چلتے چلتے ہندوؤں کے ساتھ ساز باز کر کے پاکستان پر ہی ایک ایسی ضرب لگائی جس کی کوئی تلافی نہ ہو سکتی تھی۔ اس طرح مسئلہ کشمیر کو پیدا کرنے میں برطانیہ کے سیاستدانوں نے نہایت ہی گھناؤنا کردار ادا کیا اور پاکستان کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا۔

کشمیریوں کا علم بغاوت اور پاکستانی قبائل کی آمد

ریاست میں جس تیزی کے ساتھ اور جس منظم انداز میں مسلمانوں کو ختم کیا جا رہا تھا اس نے مسلمانوں میں ایک آگ لگا دی۔ مہاراجہ کے ناپاک عزائم اب کھل کر سامنے آ گئے تھے اور یہ صاف نظر آ رہا تھا کہ پاکستان کے ساتھ حالات کو برقرار رکھنے کا دھوکہ ایک ایسا پردہ ہے جس کی آڑ میں مسلمانوں کی قسمت کا سودا کیا جا رہا ہے۔ کشمیری مسلمانوں نے محسوس کر لیا کہ اب ان کے لیے یہ آخری موقع ہے کہ وہ جان کی بازی لگا کر اپنی ریاست کو ڈوگرہ استبداد اور ہندو سیاست سے بچائیں۔ کمزور مسلمانوں پر بڑھتے ہوئے مظالم نے اس آگ پر تیل کا کام کیا۔

اکتوبر 1947ء میں پونچھ کے غیور مسلمان جو 1846ء سے آزادی کی جدوجہد میں پیش پیش تھے، اٹھ کھڑے ہوئے۔ وہ مہاراجہ کو ٹیکس ادا کرنے سے تو پہلے ہی انکار کر چکے تھے۔ اب انہوں نے آزادی کے لیے باقاعدہ ہتھیار سنبھال لیے۔ مہاراجہ نے قوت کے ذریعے ان کو دبانے کی کوشش کی، لیکن ناکام رہا۔ بغاوت کی آگ اب ہر طرف جل چکی تھی اور یہ تاریخی کشمکش ایک نئے دور میں داخل ہو رہی تھی۔ ادھر کشمیر سے آنے والی اطلاعات سے پورے پاکستان میں غم و غصہ کی ایک لہر دوڑ گئی اور مغربی پاکستان اور سرحدی قبائل کے لوگ اپنے کشمیری بھائیوں کی مدد کے لیے پہنچنے شروع ہو گئے۔ تاریخی حیثیت سے یہ پورا علاقہ ہمیشہ سے ایک وحدت رہا ہے اور مغربی پاکستان کے مسلمانوں نے کشمیریوں کی جدوجہد میں ہر دور اور ہر مرحلہ میں شرکت کی ہے۔ ظلم و تشدد کی ان اطلاعات اور لٹے پٹے کشمیری مہاجرین کے قافلوں کی مسلسل آمد کے بعد خاموش رہنے کا کوئی سوال ہی نہ تھا۔

22 اکتوبر کو قبائلی مسلمانوں کی ایک تعداد پونچھ میں اپنے بھائیوں کی مدد کو پہنچی اور ڈوگرہ فوج کے ساتھ باقاعدہ جنگ کا آغاز ہوا۔ اس دوران برطانیہ نے جاتے جاتے ہندوؤں کے ساتھ ساز باز کر کے پاکستان پر ہی ایک ایسی ضرب لگائی جس کی کوئی تلافی نہ ہو سکتی تھی۔ اس طرح مسئلہ کشمیر کو پیدا کرنے میں برطانیہ کے سیاستدانوں نے نہایت ہی گھناؤنا کردار ادا کیا اور پاکستان کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا۔

کشمیری مسلمانوں کی مدد کو پہنچنے والے قبائلی مجاہدین کا ایک گروپ

تصویر: کشمیری مسلمانوں کی مدد کو پہنچنے والے قبائلی مجاہدین کا ایک گروپ

کشمیری مجاہدین اور مسلمان رضا کاروں کی اس جدوجہد نے جنگ کا پانسہ ہی پلٹ دیا۔ ڈوگرہ فوج کو قدم قدم پر شکست ہوئی اور اکتوبر کے آخری ہفتہ میں مجاہدین سری نگر کے قریب تک پہنچ گئے اور مہاراجہ حواس باختہ ہو کر سرینگر سے بھاگا اور جموں میں پناہ گزین ہوا۔ حریت پسندوں نے جتنا علاقہ آزاد کرایا تھا اس پر 24 اکتوبر 1947 کو انہوں نے اپنی حکومت آزاد جموں و کشمیر حکومت قائم کر لی۔

مہاراجہ کی بھارت سے مدد کی درخواست اور بھارتی فوج کا داخلہ

مہاراجہ نے جموں کے علاقے میں اپنے قدم جمانے کی کوشش کی اور مسلمانوں کے قتل کی کھلی چھوٹ دے دی۔ لیکن اس کے باوجود زمین اس کے پاؤں تلے سے نکلتی جا رہی تھی اور آزاد کشمیر کے رضا کار تیزی کے ساتھ فتوحات کر رہے تھے۔ جب مجاہدین آزادی نے مہاراجہ کے عزائم کو شکست دے دی تو اس نے دوسری چال چلی اور وہ یہ کہ پاکستان سے معاہدہ کے باوجود ایک ملی بھگت کے تحت بھارت کی حکومت سے مدد کی درخواست کر دی۔ ہندوستان کی دفاعی کمیٹی نے یہ درخواست وصول ہوتے ہی اسلحہ اور گولہ بارود بھیجنے کے احکام جاری کر دیے اور اس کے ساتھ ہی بھارت کے سیکریٹری آف اسٹیٹ کو الحاق کی دستاویز حاصل کرنے کے لیے بھیجا۔ 26 اکتوبر 1947ء کو بھاگتے ہوئے مہاراجہ نے الحاق کی دستاویز پر دستخط کر دیے اور بھارت نے عارضی طور پر الحاق کو منظور کر کے بلا تاخیر اپنی فوجیں کشمیر میں داخل کر دیں۔ پاکستان نے اس الحاق کو ماننے سے انکار کر دیا اور بھارت کے فوجیں بھیجنے کو صریح جارحیت قرار دیا۔

مسئلہ اقوام متحدہ میں

اب صورت حال بڑی نازک تھی ۔ ایک طرف بھارت کی افواج تھیں اور ان کی ایئر فورس تھی جو جدید ترین اسلحہ سے آراستہ تھیں اور جن کی مدد بھارت کی حکومت کر رہی تھی اور دوسری طرف کشمیری مسلمان اور رضا کارانِ حریت تھے جو خالی ہاتھ یا معمولی قسم کے اسلحہ سے ان کا مقابلہ کر رہے تھے۔ آزادی کے ان فداکاروں نے بڑی قیمتی قربانیاں دے کر بھارت کا مقابلہ کیا اور اس کی افواج کی پیش قدمی کو روکا۔ لیکن جب مئی 1948ء میں لڑائی پاکستان کی سرحدوں تک پہنچ گئی تو پاکستان کی افواج کو مجبوراً جنگ میں اترنا پڑا۔ خود پاکستان کی فوج بھی غیر منظم تھی اور اس کا اسلحہ ہندوستان دبائے ہوئے تھا۔ اس کے باوجود ایک محدود تعداد میں پاکستانی فوج نے آزاد کشمیر کی افواج اور رضا کاروں کی مدد کی اور بڑی سرفروشی کے ساتھ علاقہ کا دفاع کیا۔

پاکستان بھارتی فوجیوں کی آمد کے بعد ہی اس قضیہ کو اقوام متحدہ میں لے جانا چاہتا تھا۔ لیکن بھارت نے مختلف سیاسی حربوں سے اس کو روکا اور گفت و شنید سے اس مسئلے کو حل کرنے کی دعوت دی جو دراصل کشمیر میں اس کی فوجی کارروائی جاری رکھنے کے لیے ایک پردہ سے زیادہ کوئی حیثیت نہ رکھتی تھی اور جب اس نے دیکھا کہ یہ حربہ زیادہ دیر تک نہ چل سکے گا تو یکم جنوری 1948ء کو بھارت نے پہل کر کے یہ مسئلہ سیکورٹی کونسل کے سامنے ایک بالکل غلط رنگ میں پیش کر دیا اور پاکستان نے اس کے بعد 15 جنوری 1948ء کو جوابی شکایت سلامتی کونسل میں پیش کی۔ اب لڑائی دونوں میدانوں میں ہو رہی تھی۔ کشمیر کی وادیوں میں بھی اور اقوام متحدہ کے ایوانوں میں بھی۔

اقوام متحدہ میں پورا سال بحث و مذاکرہ کا بازار گرم رہا۔ بھارت طرح طرح کی چالبازیوں سے کام لے رہا تھا اور اس کی پوری کوشش تھی کہ ریاست جموں و کشمیر کے الحاق کے مسئلہ کو پس پشت ڈال کر جنگ بندی پر بات ہو۔ پاکستان اس بات پر زور دے رہا تھا کہ اصل مسئلہ کشمیر کے مستقبل کا ہے اور قضیہ صرف اس وقت حل ہو سکتا ہے جب ریاست کے عوام کی مرضی کے مطابق کشمیر کے الحاق کا مسئلہ طے ہو۔ بالآخر 13 اگست 1948ء اور 5 جنوری 1949ء کی قراردادوں میں سلامتی کونسل نے جنگ بندی اور آزاد غیر جانبدار استصواب کی تجاویز کو منظور کیا جنہیں دونوں حکومتوں نے منظور کیا۔ جنوری 1949ء میں جنگ بندی کر دی گئی لیکن اس صدی کا معتد بہ حصہ گزرنے کے باوجود ہندوستان کا غاصبانہ قبضہ جاری ہے، ظلم و ستم کا کاروبار اسی طرح ہو رہا ہے، مسلمان کا خون پانی کی طرح بہہ رہا ہے اور اقوام متحدہ اپنی قراردادوں کو نافذ کرانے میں یکسر ناکام رہی ہے۔

اب ہم مختصراً اس داستان کے اس دلخراش پہلو کا مطالعہ کریں گے جس سے معلوم ہو سکے کہ سیاسی میدان میں ہندوستان نے کس دھوکہ بازی، وعدہ خلافی اور صریح دھاندلی کا مظاہرہ کیا ہے۔

مسلم کشمیر اور پاکستان کا موقف

کشمیر کے بارے میں پاکستان کا موقف جوع الارض کے کسی جذبہ پر مبنی نہیں ہے۔ وہ اس اصول کی تنفیذ کا مطالبہ کر رہا ہے جس پر ظلم اور دھاندلی کے بل پر ہندوستان نے اب تک عمل درآمد نہیں ہونے دیا اور اس کے نتیجہ میں اس نے ایک طرف کشمیر کے 50 لاکھ انسانوں کو اپنا غلام بنا لیا ہے اور دوسری طرف پاکستان پر مستقلاً معاشی اور دفاعی دباؤ ڈالنا چاہتا ہے۔ پاکستان کا موقف صرف اتنا ہے کہ ریاست جموں و کشمیر پر اصولِ تقسیم کا نفاذ آج تک نہیں ہوا ہے اور ہندوستان نے اس پر محض جبر اور قوت کے ذریعے قبضہ کر لیا ہے جو سر تا سر ناحق اور ظالمانہ ہے۔

پاکستان کا مطالبہ یہ ہے کہ اس علاقہ کے شہریوں کو آزاد استصواب کے ذریعے اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کرنے کا اختیار دیا جائے۔ اگر وہ آزاد اور غیر جانبدار استصواب کے ذریعے ہندوستان سے الحاق چاہتے ہیں تو ہمیں ان سے کوئی شکایت نہیں۔ لیکن اگر وہ اس رائے شماری میں پاکستان سے الحاق کا فیصلہ کریں تو اس پورے علاقے کو پاکستان میں آنا چاہیے۔ مگر ہندوستان خوب اچھی طرح جانتا ہے کہ اہل کشمیر پاکستان اور صرف پاکستان سے الحاق چاہتے ہیں۔ اس لیے وہ صاف اور صریح وعدے کرنے کے باوجود اس سے پہلو تہی کر رہا ہے اور جبر و تشدد کے ذریعے اپنے اقتدار کو مستحکم کرتا جا رہا ہے۔ وہ بھی اچھی طرح سمجھتا ہے کہ:

جغرافیائی تعلق

جغرافیائی حیثیت سے کشمیر پاکستان سے ملتا ہے۔ اس کی سات سو میل کی سرحد پاکستان سے ملتی ہے، اس کا رسل و رسائل کا سارا فطری نظام پاکستان سے مشترک ہے، اس کی معیشت پاکستان سے وابستہ ہے اور سارے حقائق اسے پاکستان سے جوڑتے اور ہندوستان سے کاٹتے ہیں۔

تاریخی و نسلی وحدت

تاریخی اعتبار سے جموں، کشمیر اور پنجاب و سرحد کی تاریخ ایک ہے۔ ایک ہی نسل ہے جو یہاں آباد ہے۔ ایک ہی طریق بودو باش ہے جو پورے علاقہ میں رائج ہے۔ اس کی روایات، رسوم و عادات، تاریخی جدوجہد ایک ہے اور یہ پورا علاقہ ایک ناقابل تقسیم وحدت رہا ہے اور ہے۔

مذہبی ہم آہنگی

مذہبی اعتبار سے دونوں کی عظیم آبادیوں کا دین ایک ہی ہے، دین اسلام۔ کشمیر میں مسلمانوں کو 80 فیصدی کی اکثریت حاصل ہے اور وہ پاکستان سے ملحق ہونا چاہتے ہیں جو ایک اسلامی مملکت ہے۔ قیام پاکستان کی جدوجہد میں کشمیری اور پاکستانی علاقہ کے لوگ برابر کے شریک تھے اور اصول تقسیم کی رو سے بھی انہیں پاکستان میں شمولیت کا حق حاصل ہے۔

دو قومی نظریہ اور تقسیم کی بنیاد

تقسیم ملک کی بنیاد ہی دو قومی نظریہ پر تھی اور برصغیر کو جن دو ملکوں میں تقسیم کیا گیا وہ قائم ہی اس اصول پر ہوئی تھیں کہ مسلمانوں کی اکثریت کے متصل علاقے پاکستان میں اور ہندو اکثریت کے متصل علاقے ہندوستان میں جائیں گے۔ اس کی رو سے کشمیر پاکستان کا جزو بنتا ہے، چنانچہ اہل کشمیر پاکستان سے الحاق چاہتے ہیں۔

ہندوستانی نظام کا تجربہ

اہل کشمیر ہندوستان کے نام نہاد سیکولر اور دراصل متعصب ہندو نظام جبر و ظلم کا پورا پورا تجربہ کر چکے ہیں اور انہوں نے بہ چشم سر یہ دیکھ لیا ہے کہ ہندوستان اس کا کیا حشر کرنا چاہتا ہے۔ وہ اس تجربے کے بعد ایک لمحہ کے لیے بھی اس کے ساتھ رہنے کو تیار نہیں ہیں۔

دین و ایمان کا تحفظ

پھر وہ یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ ہندوستان کے لادینی نظام میں 8 کروڑ مسلمانوں کے ساتھ کیا ہو رہا ہے اور کس طرح منظم اور مرتب انداز میں ان کی شدھی کی جا رہی ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ ان کا دین و ایمان ان کی ثقافت و تمدن صرف اس صورت میں محفوظ رہ سکتی ہیں جب وہ پاکستان سے ملحق ہوں۔

ہندوستان کا ناپاک منصوبہ

یہ حقائق ہندوستان کی نگاہ میں ہیں۔ اس لیے وہ جبر و ظلم اور قوت اور تشدد کے ذریعہ کشمیر کو اپنے پنجہ میں رکھنا چاہتا ہے اور اہل کشمیر کو آزاد استصواب کے ذریعے سے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا کوئی موقع دینے کو تیار نہیں۔ بلکہ اب وہ پورے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اس بات کی کوشش کر رہے ہیں کہ مسلمان اکثریت کو قتل و غارت اور جبری انخلاء (Ethnic cleansing) کے ذریعہ ایک اقلیت میں بدل دے اور ہندوستان کے ہندوؤں اور سکھوں کی بڑی تعداد کو کشمیر میں لا کر آباد کر دے۔ بالکل اسی طرح جس طرح یہودیوں نے برس ہا برس کی کوشش سے دنیا بھر کے یہودیوں کو لا لا کر فلسطین میں آباد کیا اور پھر اس مصنوعی "آبادی" کی بناء پر اپنا استحقاق ثابت کرنے کی کوشش کی۔

یہ ہیں اصل حقائق اور کشمیر کے بارے میں پاکستان کا مؤقف۔ اب ذرا یہ دیکھیے کہ ہندوستان کشمیر کے بارے میں کس طرح سیاسی قلابازیاں کھاتا رہا ہے اور دنیا کی بڑی قوموں نے کس طرح ظلم اور چالبازی سے اس کاروبار کی حوصلہ افزائی کی ہے۔

اس کا اعتراف خود ہندوستان کے متعلقہ لیڈروں نے بلاواسطہ یا بالواسطہ طور پر کیا ہے۔ ہم صرف کانگریس کے سابق صدر اور ہندوستان کے چوٹی کے لیڈر جے پر کاش نرائن کا ایک جملہ نقل کرتے ہیں:

"When we are so sure of the verdict of the people (of Kashmir), why are we so opposed to giving them another opportunity to reiterate it? The answer given is that this would start the process of disintegration of the country. The assumption behind the agreement is that the states of India are held together by force and not by sentiment of a common nationality. It is an assumption that makes a mockery of the Indian Nation and a tyrant of the Indian State."

مسئلہ کشمیر حل کی کوششیں: ہندوستان کی شرمناک پالیسی

ہم اوپر بھی واضح کر چکے ہیں کہ ہندوستان نے کشمیر پر کس طرح قبضہ کیا۔ یہ قبضہ سراسر غاصبانہ اور اس کے لیے کوئی قانونی، سیاسی یا اخلاقی جواز موجود نہ تھا۔ ریاست کا الحاق ہر دلیل کی بنیاد پر صرف پاکستان سے ہونا چاہیے تھا۔ قانونی طور پر پاکستان سے کشمیر کا ایک معاہدہ بھی ہو گیا تھا جسے الحاق کی طرف پہلا قدم سمجھا گیا تھا۔ ریاست میں زبردست عوامی تحریک برپا تھی اور لوگ پاکستان سے الحاق کا مطالبہ کر رہے تھے۔ مگر عین اس وقت جب کشمیر پر مہاراجہ کا اقتدار عملاً ختم ہو چکا تھا اور وہ ریاست چھوڑ کر بھاگ رہا تھا، اس نے عوام کی مرضی اور اصول تقسیم کے خلاف ہندوستان کے ساتھ نام نہاد پروانہ الحاق پر دستخط کر دیے اور ہندوستان نے اس سیاسی جھوٹ کا سہارا لے کر بلا تاخیر فوج کشی کر دی۔

ان حقائق کی روشنی میں ہندوستان کو کشمیر میں فوجیں بھیجنے اور اس پر قبضہ جمانے کا کوئی حق نہ تھا اور اس کا اعتراف خود ہندوستان نے بھی یہ کہہ کر کر لیا تھا کہ "الحاق" عارضی ہے اور اصل فیصلہ اہل کشمیر کی رائے سے ہو گا۔ نیز سلامتی کونسل نے اپنی متعدد قراردادوں میں اس بات کا اعتراف و اظہار کیا کہ کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ صرف آزادانہ استصواب کے ذریعے ہو گا۔ اس سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ خواہ ہندوستان کو کشمیر پر بالفعل (De Facto) تسلط حاصل ہو لیکن قانونی طور پر اسے کوئی استحقاق حاصل نہیں اور کشمیر جائز طور پر (De Jure) اس کا حصہ نہیں ہے۔ لیکن اس بات کا اعتراف کرنے کے باوجود ہندوستان نے خالص سامراجی انداز میں اپنے غیر قانونی قبضہ کو باقی رکھنے کے لیے مسلسل کشمیر کے حل کی ہر کوشش کو ناکام بنایا ہے اور محض قوت کے ذریعے اس ظلم کو جاری رکھنے پر تلا ہوا ہے۔

ہندوستان اور اقوام متحدہ کا اعتراف

آگے بڑھنے سے پہلے اس بات کو اچھی طرح سامنے رکھنے کی ضرورت ہے کہ ہندوستان نے اور اقوام متحدہ نے اس حقیقت کو صاف طور پر تسلیم کیا ہے کہ الحاق عارضی ہے اور اصل فیصلہ اہل کشمیر کی رائے کے مطابق ہو گا۔ 27 اکتوبر 1948ء کو ہندوستان کے گورنر جنرل نے مہاراجہ کے نام اپنے خط میں لکھا:

"اپنی اس پالیسی کے مطابق کہ ہر اس ریاست کے بارے میں جس کے الحاق کا مسئلہ متنازعہ فیہ ہو جائے اس کے الحاق کے سوال کا فیصلہ اس ریاست کے عوام کی مرضی کے مطابق ہونا چاہیے۔ میری حکومت چاہتی ہے کہ جیسے ہی کشمیر میں امن و امان بحال ہو، ریاست کے الحاق کا فیصلہ عوام کی طرف رجوع کے ذریعہ کیا جائے۔"

انہی دنوں پنڈت نہرو نے وزیر اعظم لیاقت علی خان کے نام اپنے تار میں لکھا:

"ہماری یہ یقین دہانی کہ جیسے ہی امن و امان قائم ہو گا ہم کشمیر سے اپنی فوجیں واپس بلائیں گے اور کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ ریاست کے عوام پر چھوڑ دیں گے، صرف آپ کی حکومت کے ساتھ ایک عہد نہیں ہے بلکہ کشمیر کے عوام اور پوری دنیا کے ساتھ ایک وعدہ ہے۔"

سلامتی کونسل کے سامنے ہندوستان کے نمائندہ نے جنوری 1948ء میں کہا:

"اپنے ہمسایوں اور پوری دنیا کے ساتھ کشمیر کے تعلق کا مسئلہ اور پھر یہ سوال کہ وہ ہندوستان سے اپنا الحاق کر لے یا آزاد رہے۔ ہم نے اس بات کا اقرار کیا ہے کہ ان امور کا انحصار کشمیری عوام کے بے قید فیصلہ پر ہے جو امن بحال ہوتے ہی وہ کر لیں گے۔"

بھارتی حکومت اور اس کے لیڈروں نے اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ مہاراجہ کا کیا الحاق محض وقتی اور عارضی (Provisional) ہے اور الحاق کا آخری فیصلہ عوام ہی کریں گے۔ پنڈت نہرو کے الفاظ میں:

"خواہ کچھ بھی ہو، شروع ہی سے ہندوستان نے اس اصول کی پابندی کا عہد کیا ہے کہ ریاست کے بارے میں آخری فیصلہ عوام کے ہاتھوں میں ہو گا اور اس عہد سے کسی صورت میں بھی فرار اختیار نہیں کیا جا سکتا۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کی بنا پر ہندوستان نے 1947ء میں کشمیر کے الحاق کو صرف عارضی طور پر منظور کیا تھا۔ اصل فیصلہ عوام کی مرضی کے اظہار پر ہوتا ہے۔"

بھارت کے سیکریٹری آف اسٹیٹ مسٹر وی پی مین جنھوں نے مہاراجہ سے الحاق کا معاہدہ حاصل کیا تھا، اپنی کتاب "Story of the Integration of Indian States" میں اس بات کا صاف الفاظ میں اعتراف کیا ہے کہ معاہدہ عارضی تھا۔ یہی بات سیکورٹی کونسل میں بھارتی نمائندہ مسٹر گوپال سوامی آئنگر نے کہی۔ اسی کی وجہ سے ہندوستانی دستور کی دفعہ 370 ایک عارضی دفعہ کے طور پر رکھی گئی۔ بھارتی اخبار "The Statesman" نے اس بات کو بڑی خوبی سے بیان کیا ہے:

"کشمیر کا ہندوستان کے ساتھ الحاق عارضی تھا اس لیے کہ ریاست نے ترقی اور عارضی طور پر دفاع اور تعلقات خارجہ اور مواصلات کو مرکز کے سپرد کیا تھا۔ کشمیر نے اختیارات باقی (Residuary Powers) ہندوستان کے حوالے نہیں کیے اور ان سپرد کردہ امور میں بھی مستقل الحاق منحصر تھا عوام کی تائید و توثیق پر۔ یہی وجہ تھی کہ دستور کی دفعہ 370 ایک عارضی دفعہ تھی۔"

یہی بات ہے کہ جس کا اقرار سیکورٹی کونسل نے کیا اور اس کی قراردادوں کو حکومت ہندوستان نے منظور کیا۔ 21 اپریل 1948ء کی قرار داد میں کہا گیا:

"ہندوستان اور پاکستان دونوں چاہتے ہیں کہ ریاست جموں و کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ رائے شماری کے ذریعہ ہو گا"۔

13 اگست 1948ء کی قرارداد میں ہے:

"ریاست جموں و کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ اس کے عوام کی رائے سے ہو گا"۔

5 جنوری 1949ء کی قرارداد کے الفاظ میں:

"دونوں حکومتیں تسلیم کرتی ہیں کہ ریاست جموں و کشمیر کا مسئلہ جمہوری طریقہ سے آزادانہ اور غیر جانبدارانہ رائے شماری سے طے ہونا چاہیے۔ مزید شرائط یہ ہیں:
(1) ووٹروں پر نہ تو ناجائز دباؤ ڈالا جائے گا، نہ دھونس دھمکی یا رشوت سے کام لیا جائے گا۔
(2) ہر فرد کو بلا امتیاز مذہب و ملت اظہار رائے کی پوری آزادی ہو گی اور کسی سیاسی سرگرمی پر کوئی پابندی نہ ہو گی۔
(3) تمام سیاسی قیدی رہا کر دیے جائیں گے۔
(4) کسی شخص کو اظہار رائے پر نشانہ انتقام نہ بنایا جائے گا۔"

23 دسمبر 1952ء کی قرار داد میں کہا گیا ہے:

"سیکورٹی کونسل اس قرارداد کی پھر یاد دہانی کراتی ہے۔ جس میں ہندوستان اور پاکستان دونوں نے کشمیر میں آزادانہ غیر جانبدارانہ رائے شماری کے فیصلہ پر صاد کیا تھا۔"

16 نومبر 1957ء کی قرارداد کے الفاظ یہ ہیں:

"دونوں حکومتیں (ہندوستان و پاکستان) اب بھی 13 اگست 1948ء اور 15 جنوری 1949ء کی قراردادوں کو تسلیم کرتی ہیں جن میں ریاست جموں و کشمیر کی آزادانہ اور غیر جانبدارانہ رائے شماری کا فیصلہ کیا گیا تھا۔"

یہ ہیں وہ وعدے جو ہندوستان نے اہل کشمیر سے، پاکستان سے، سیکورٹی کونسل سے اور پوری دنیا سے کیے۔ لیکن ان کے باوجود برابر وعدوں سے انحراف کی روش اختیار کرتا رہا، پوری بے شرمی کے ساتھ اپنے تسلط کو مضبوط تر کرنے کے لیے مصروف رہا اور بالآخر تمام دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک کر اب کشمیر کو اپنا جزو لا ینفک کہہ رہا ہے۔

ہندوستان کی شرمناک پالیسی کے اہم موڑ

ان وعدوں کے بعد ہندوستان کی شرمناک پالیسی کے اہم موڑ اور اس کے خدو خال یہ ہیں:

  1. پاکستان نے نام نہاد الحاق کو اسی وقت چیلنج کیا جب یہ الحاق کیا گیا تھا۔ یکم نومبر 1947ء کو دونوں ملکوں کے گورنر جنرل ملے اور قائد اعظم محمد علی جناح نے یہ تجویز پیش کی کہ "جنگ بندی کر دی جائے، فوجیں واپس بلائی جائیں، دونوں گورنر جنرل ریاست کا انتظام سنبھال لیں اور ان کے مشترکہ انتظام میں استصواب کر لیا جائے"۔ لیکن ہندوستان نے یہ بات ماننے سے انکار کر دیا۔
  2. مسئلہ سیکورٹی کونسل کے سامنے پہنچا۔ ہندوستان نے غلط انداز میں شکایت کی۔ پاکستان نے جوابی شکایت کی۔ بحث سے واضح ہو گیا کہ سیکورٹی کونسل جنگ بندی کی نہیں بلکہ اس کے ساتھ استصواب کی ضمانت بھی چاہتی ہے۔ لیکن ہندوستان پہلے فوجی قوت سے مسئلے کا فیصلہ کر لینا چاہتا تھا، اس لیے اس نے التوا کی درخواست دے دی اور کئی ماہ کے لیے بحث و فیصلہ مؤخر ہو گئے۔
  3. بالآخر اگست 1948ء اور جنوری 1949ء کی قراردادوں کے ذریعہ جنگ بندی، معاہدہ صلح اور فوجوں کی واپسی اور استصواب رائے کی سہ نکاتی تجویز منظور ہوئی۔ ہندوستان نے صرف جنگ بندی کو تو مانا لیکن صلح نامے، فوجوں کی واپسی اور پھر آزاد استصواب رائے کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنا شروع کر دیں اور کوئی تجویز بھی نہ مانی۔
  4. پاکستان نے صلح نامہ (Truce Agreement) کے بغیر ہی تمام قبائلی رضا کاروں کو واپس بلا لیا لیکن ہندوستان نے اپنی فوجیں واپس بلانے سے انکار کر دیا۔
  5. اقوام متحدہ کے کمیشن برائے پاک و ہند نے 1949ء میں دونوں ممالک کو قرار داد کی باقی چیزوں کی تعمیل کے لیے کہا لیکن ہندوستان نے ایک نہ سنی۔
  6. پھر سر اوون ڈکسن آئے اور انہوں نے فوجوں کے انخلاء کے مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کی لیکن ہندوستان تیار نہ ہوا۔ سر ڈکسن نے اپنی رپورٹ میں کہا:

    "بالآخر مجھے یہ یقین ہو گیا کہ فوری انخلاء کی کسی بھی شکل پر ہندوستان کی رضامندی کا حصول ناممکن ہے اور نہ استصواب کے زمانہ کے بارے میں ایسے قواعد و ضوابط پر اس کی رضامندی حاصل کی جاسکے گی جو میری نگاہ میں استصواب کو ہر خوف و تشدد یا اثر و رسوخ یا طاقت کے ناجائز استعمال کے خطرات سے محفوظ رکھ سکے اور ان تمام چیزوں کے خلاف ضمانت دے سکے جن سے استصواب کا آزادانہ اور منصفانہ نہ ہونا معرض خطر میں پڑ سکتا ہے۔"

  7. اس طرح ہندوستان کی رضامندی کے حصول سے مایوس ہو کر کمیشن نے تجویز پیش کی کہ دونوں حکومتیں کمیشن کو ثالث مان لیں اور اس کا فیصلہ فریقین پر لازم ہو۔ کمیشن نے ایڈمرل چیسٹر ڈبلیو نمٹز (Admiral Chester W. Nimitz) کو ثالث مقرر کیا۔ پاکستان نے کمیشن کی اس تجویز کو منظور کر لیا، ہندوستان نے انکار کر دیا۔ ثالثی کی تجویز تین بار تین مختلف شکلوں میں پیش کی گئی۔ پاکستان نے ہر ایک کو منظور کیا، بھارت نے ہر ایک سے انکار کیا۔
  8. فوجوں کے انخلاء کے پروگرام اور باقی رکھی جانے والی افواج کے بارے میں اقوام متحدہ کے نمائندوں نے متعدد تجاویز پیش کیں۔ پاکستان نے شدید اختلاف کے باوجود تقریباً سب کو تسلیم کر لیا۔ لیکن بھارت نے ایک کو بھی نہ مانا۔ ڈاکٹر گراہم (Dr. Graham) نے، جو استصواب کے ایڈمنسٹریٹر مقرر ہوئے تھے، متعدد بار کوشش کی لیکن لا حاصل۔ موصوف نے اپنی رپورٹ میں کہا:

    "یہ بالکل واضح تھا کہ پاکستان سیکورٹی کونسل کی 23 دسمبر 1952ء کی قرار داد کی پابندی اور تعمیل کرنے کے لیے تیار تھا اور اس کی بنیاد پر فوری گفت و شنید کے لیے بھی تیار تھا۔ مگر حکومت ہندوستان قرار داد کو گفت و شنید کی بنیاد کے طور پر ماننے کو تیار نہ ہو سکی۔"

  9. سر اوون ڈکسن نے دوسرے متبادل حل پیش کرنے اور ان پر حکومت ہند کو تیار کرنے کی بے حد کوشش کی لیکن ان تجاویز میں سے کوئی بھی وزیر اعظم ہند کے لیے قابل قبول نہ بن سکی۔
  10. ڈاکٹر گراہم نے ستمبر 1957ء میں پھر کوشش کی۔ پاکستان نے ان کی پانچویں تجاویز منظور کر لیں لیکن بھارت نے سب مسترد کر دیں۔
  11. پاکستان نے ہندوستان کی حکومت سے براہ راست گفت و شنید کر کے حل کی کوئی راہ نکالنے کی کوشش کی لیکن وہ بھی ناکام رہی۔

ہندوستان کی ہٹ دھرمی اور عالمی طاقتوں کی بے بسی

اس جائزہ سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ براہ راست گفت و شنید، اقوام متحدہ کی وساطت، اقوام متحدہ کے نمائندوں کی ثالثی... غرض ہر تجویز کو ہندوستان نے مسترد کر دیا اور استصواب کی کوئی صورت پیدا نہ ہونے دی۔

اقوام متحدہ ہندوستان کی ہٹ دھرمی کے آگے بے بس ہو کر رہ گئی۔ بڑی طاقتوں نے بھارت کی خلاف ورزیوں کو گوارا کیا اور اس پر کوئی دباؤ ڈالنے کی کوشش نہ کی۔ روس نے بھارت کے حق میں اپنا ویٹو استعمال کیا اور اس کے وزیر اعظم نے دورہ ہندوستان کے دوران کشمیر کو ہندوستان کا حصہ مان لیا۔ امریکہ اربوں ڈالرز سے ہندوستان کی مدد کرتا رہا لیکن کشمیر کے مسئلہ پر اسے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کرنے کے لیے پھر بھی مجبور نہ کیا۔ خود اقوام متحدہ نے ہندوستان کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی نہ کی، کسی قسم کی کوئی پابندیاں (Sanctions) اس پر عائد نہ کیں۔ ایسا بھی ہوا 1964ء میں مسئلہ سلامتی کونسل کے سامنے آیا اور کونسل کوئی قرارداد منظور کیے بغیر ملتوی ہو گئی۔

اقوام متحدہ اور بڑی طاقتوں کے اس درجہ غیر موثر ہونے سے ہندوستان کو برابر شہ ملتی رہی اور وہ پر امن ذرائع سے اس مسئلے کو حل کرنے کے تمام دروازے بند کرتا رہا۔ اپنے تمام عہد و پیمان اور وعدوں سے کھلم کھلا انحراف کرتا رہا اور جبر و تشدد کے بل پر اس مسئلے کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دینے کے سوچے سمجھے منصوبہ پر عمل کرتا رہا۔

بھارت کا منصوبہ: استبداد و انضمام

  • کشمیر میں اس نے سیاسی استبداد کا نظام قائم کیا اور قوت کے بے بہا استعمال سے وہاں کے حریت پسند عناصر کو مٹانے کی منظم کوشش جاری رکھی۔
  • مسلمانوں پر قتل و غارت گری کا سلسلہ برابر چل رہا ہے، ان کی عددی قوت کو کمزور کیا جا رہا ہے، غیر مسلموں کو ہندوستان سے لا کر بسایا جا رہا ہے اور مسلمانوں کو بے گھر اور بے سہارا کر کے پاکستان کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔
  • ایک خانہ ساز دستور ساز اسمبلی کے ذریعہ کشمیر کے الحاق کو بزعم خود مستقل شکل دے دی گئی اور اس کے بعد خود ہندوستان کے دستور میں ترمیم کر کے کشمیر کو قانون، تاریخ، اخلاق، بین الاقوامی قول و قرار اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے برعکس ہندوستان میں ضم کرنے کا فیصلہ کر دیا گیا اور اب عملی طور پر ریاست کے سیاسی اور معاشی نظام کو ہندوستان کے ساتھ متحد کیا جا رہا ہے۔

یہ ہے بھارت کا منصوبہ جس کے ذریعہ وہ کشمیر کے مسئلہ کو "حل" کرنے میں مصروف ہے۔

بھارت کا پروپیگنڈا اور اس کی حقیقت

ہم نے اوپر تاریخی شواہد اور حقائق کی روشنی میں یہ واضح کیا ہے کہ بھارت کا اصل کھیل کیا رہا ہے اور وہ کس طرح اپنے سامراجی عزائم کو پورا کرنے میں مصروف ہے۔ لیکن جس طرح ہر ظالم اپنے ظلم کے جواز میں کچھ حسین توجیہات پیش کرتا ہے اسی طرح بھارت بھی عالمی رائے عامہ کو دھوکہ دینے کے لیے چند باتیں پیش کرتا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ بھارت کی ان توجیہات کا بھی مختصر جائزہ لے لیں۔

مہاراجہ کے الحاق نامے کی حقیقت

پہلی چیز یہ کہی جاتی ہے کہ مہاراجہ نے کشمیر کا الحاق ہندوستان سے کیا تھا۔ ہم دیکھ چکے ہیں کہ پروانہ الحاق کن حالات میں اور کس طرح حاصل کیا گیا تھا۔ جو چیز خاص طور پر قابل ذکر ہے، وہ یہ ہیں کہ مہاراجہ پاکستان سے پہلے معاہدہ کر چکا تھا اور اس معاہدہ کی موجودگی میں وہ ہندوستان سے الحاق کا کوئی حق نہ رکھتا تھا۔ ہندوستان نے خود تسلیم کیا کہ الحاق عارضی ہے اور اصل فیصلہ کشمیری عوام کے آزادانہ استصواب کے ذریعے ہو گا جو آج تک نہیں ہوا ہے۔ یہی فیصلہ سلامتی کونسل کا بھی ہے۔ کشمیری عوام بے شمار ذرائع سے ہندوستان سے الحاق کے خلاف اپنی رائے ظاہر کر چکے ہیں اور ہندوستان خود یہ اصول تسلیم کر چکا ہے کہ کسی ریاست کے محض حکمران کا فیصلہ الحاق اس وقت تک بے معنی ہے جب تک باشندے اس کے حق میں رائے نہ دیں۔ جونا گڑھ، مانوا در اور حیدرآباد کے بارے میں ہندوستان خود یہ موقف اختیار کر چکا ہے کہ پروانہ الحاق کوئی اہمیت نہیں رکھتا اگر عوام اس کے خلاف ہوں تو ایسے پروانہ الحاق کی کوئی قانونی یا اخلاقی حیثیت نہیں ہے۔

مہاراجہ نے جس وقت الحاق کیا ہے اس وقت وہ خود ریاست کو چھوڑ کر بھاگ رہا تھا اور ریاست کے ایک بڑے حصہ پر اس کا اقتدار عملاً ختم ہو چکا تھا۔ خود ہندوستان کی حکومت کو بھی اس کا احساس تھا اس لیے نام نہاد الحاق کے کچھ ہی عرصہ بعد یعنی 20 جون 1949ء کو مہاراجہ کو ریاست سے نکال دیا گیا۔ (لارڈ برڈ وڈ نے تبصرہ کیا کہ: "مہاراجہ کو قانون کا پیٹ بھرنے کے لیے استعمال کرنے کے بعد مہاراجہ کی قسمت سے ہندوستان کی دلچسپی ختم ہو گئی۔ اپنے رخصت ہونے پر وہ سرکاری توجہ کا مستحق نہ بھی ہو لیکن بلا شبہ اس کے انخلاء کے نتیجہ میں الحاق کی قانونی حیثیت مصنوعی اور وضعی سی ہو گئی ہے۔")

دستور ساز اسمبلی اور انتخابات کا ڈھونگ

اپنے موقف کی کمزوری کے پیش نظر بھارت اب یہ کہہ رہا ہے کہ دستور ساز اسمبلی کے ذریعے اور عام انتخابات کے ذریعے عوام کی مرضی معلوم کر لی گئی ہے۔ یہ بات انتہائی احمقانہ اور خبث سے بھری ہوئی ہے۔ آئیے اس امر کا ایک جائزہ لیتے ہیں۔

اہل کشمیر اور پوری دنیا سے ہندوستان کا وعدہ یہ تھا کہ آزاد استصواب کے ذریعے ریاست جموں و کشمیر کی قسمت کا فیصلہ کیا جائے گا۔ یہ استصواب پورے کشمیر میں ہونا تھا، اقوام متحدہ کی نگرانی میں ہونا تھا، ایسی حالت میں ہونا تھا جب کہ بھارت اور پاکستان دونوں کی فوجیں ریاست سے نکل جائیں اور صرف اس مسئلہ پر ہونا تھا کہ کشمیر کا الحاق کس ملک سے ہو۔ محض کسی خانہ ساز اسمبلی کا ریزولیوشن یا عام انتخابات جب کہ وہ پوری ریاست میں نہیں ہوئے اور بھارت کی افواج کی موجودگی میں ہوئے، استصواب رائے کا بدل نہیں ہو سکتے۔

ہندوستان نے اور پھر خود سلامتی کونسل نے صاف الفاظ میں یہ اقرار کیا تھا کہ کشمیر کی دستور ساز اسمبلی کا کوئی فیصلہ اس معاملہ میں مؤثر نہ ہو گا۔ سلامتی کونسل میں ہندوستان کے نمائندہ نے کہا کہ "میری حکومت کا نقطہ نظر یہ ہے کہ اگر دستور ساز اسمبلی چاہے تو رائے ظاہر کر سکتی ہے۔ لیکن وہ اس سلسلہ میں کوئی فیصلہ نہیں کر سکتی"۔ یہی بات پنڈت نہرو نے وزیر اعظم پاکستان کے نام اپنے خط مورخہ 5 مارچ 1954ء میں کہی اور خود سلامتی کونسل نے کہا: "ہمیں سر اوون ڈکسن کے ذریعے اطلاع ملی ہے کہ آل جموں و کشمیر نیشنل کانفرنس، ریاست کے مستقبل کے فیصلے کے لیے ایک دستور ساز اسمبلی بنانے کی تجویز کر رہی ہے۔ ہم یاد دلاتے ہیں کہ ریاست جموں و کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لیے آزادانہ اور غیر جانبدارانہ رائے شماری کی قرارداد منظور ہو چکی ہے۔ اس کے علاوہ کوئی بھی دوسری تجویز اس طے شدہ اصول کے منافی ہوگی۔"

پھر انتخاب جس طرح ہوئے وہ یہ ہے کہ سارے مخالفین کو جیل میں ڈال دیا گیا۔ مخالفین کے نامزدگی کے کاغذات مسترد کر دیے گئے۔ 75 میں سے صرف دو نشستوں پر انتخاب ہوا اور باقی سب بلا مقابلہ کامیاب قرار دیے گئے۔ پھر یہ انتخاب بھی صرف کشمیر کے ایک علاقہ میں ہوا، جہاں ہندوستان کا تسلط ہے اور جو انتخاب ہوا وہ بھی اس مسئلہ پر نہیں ہوا کہ ریاست کو ہندوستان یا پاکستان میں سے کسی کے ساتھ ملنا ہے۔

ایسے "انتخابات" سے آخر کیا ثابت کیا جا سکتا ہے؟ انہیں کون استصواب کا بدل سمجھ سکتا ہے؟ اور محض انتخابات کس نتیجہ کی طرف رہنمائی کرتے ہیں؟ ایسے انتخابات تو انگریزوں کی حکومت کے تحت بھی ہو جاتے تھے اور کئی حیثیتوں سے وہ انتخاب کشمیر میں ہندوستان کے تحت ہونے والے انتخابات سے بہتر، آزاد اور زیادہ غیر جانبدار ہوتے تھے۔ دراصل ہندوستان کی اصل "دلیل" صرف ایک ہے اور وہ ہے "قبضہ"۔ لیکن محض قبضہ کو عالم انسانیت نے کبھی بھی جائز قبضہ نہیں سمجھا ہے۔ نیو یارک ٹائمز کی بات قابل غور ہے کہ:

"ہندوستان کہتا ہے کہ کشمیر کا (یا اس کے اس حصے کا جس پر ہندوستانی فوجیں قابض ہیں اور جو بڑا حصہ ہے) قانون اور واقعہ کے اعتبار سے اچھی طرح انضمام ہو چکا ہے۔ لیکن اس طرف توجہ دلانا شاید مفید ہو کہ الساس لورین (Alsace-Lorraine) کا علاقہ بھی بسمارک کے تحت جرمنوں کے اسے فتح کر لینے کے بعد خوب اچھی طرح ضم کر لیا گیا تھا اور پارلیمنٹ (جرمن پارلیمنٹ) میں یہ علاقہ اپنے نمائندے بھی بھیجتا تھا پھر ہٹلر نے بھی اس علاقہ کو خوب ضم کر لیا تھا۔ لیکن کسی کو اس میں قطعاً کلام نہیں ہے کہ یہ علاقہ آج بجا طور پر اور صحیح طور پر فرانس کا حصہ ہے۔ دستوری عمل یا قوت کا استعمال رائے عامہ کا بدل نہیں ہو سکتے وہی عوامی رائے جسے ہندوستان کشمیر میں بروئے کار لانے سے برابر انکاری ہے۔"

کشمیر میں کیا ہو رہا ہے؟ (زمینی حقائق)

یہ تو تھا مسئلہ کا قانونی پہلو۔ اب دیکھئے کہ عملاً ہندوستان کشمیر میں ظلم و جور کا کیا کاروبار کر رہا ہے اور ننگی قوت کے وہ کون کون سے حربے ہیں جن کے ذریعے وہ اس علاقہ پر وہاں کے عوام کی مرضی کے خلاف اپنا تسلط قائم رکھے ہوئے ہے۔

شروع میں شیخ عبد اللہ کو جیل سے رہا کر کے وزیر اعلیٰ بنایا گیا اور ان کے ذریعہ ریاست کے لوگوں کو بے وقوف بنانے کی کوشش کی گئی۔ لیکن جلد ہی خود شیخ عبد اللہ بھی ہندوستان کے لیے ناقابل قبول ہو گئے اور ان کو جیل میں ڈال دیا گیا۔ جہاں 11 سال تک وہ بھارت کے زیر سماعت مقدمہ کے سلسلے میں قید رہے۔ دوسرے سینکڑوں سیاسی کارکنوں کو گرفتار کیا گیا۔ آزادی کی ہر آواز کا گلا گھونٹ دیا گیا۔ طلبہ پر بار بار تشدد کیا گیا اور لمبی لمبی مدت کے لیے تعلیمی ادارے بند کیے گئے ۔ انتخابات میں ہر قسم کی دھاندلی کی گئی اور آزاد فکر رکھنے والے لوگوں کو اوپر آنے ہی نہیں دیا گیا۔ پھر جوں جوں آزادی کی تحریک استصواب کا مطالبہ زور پکڑتا گیا، جبر و تشدد میں اضافہ ہوتا گیا اور اب حالت یہ ہے کہ ایک مدت سے کشمیر ایک پولیس اسٹیٹ ہے جسے پستول کے نشانہ پر چلایا جا رہا ہے۔ ہم صرف چند مثالیں پیش کرتے ہیں۔

انتخابات کا ڈھونگ

ہندوستان جن انتخابات کا ڈھنڈورا پیٹتا ہے ان کی حقیقت یہ ہے کہ وہ سنگینوں کے سایہ میں ہوئے ہیں۔ تمام اہم رہنماؤں کو جیل میں ڈال دیا گیا۔ جن لوگوں نے نامزدگی کے کاغذ پیش کیے اُن کو گرفتار کر لیا گیا۔ مخالفین کے تمام کاغذات مسترد کر دیے گئے اور کٹھ پتلی جماعت نیشنل کانفرنس کے بے ضمیر نمائندوں کو بلا مقابلہ کامیاب قرار دے دیا گیا۔ پہلے انتخاب 1950ء میں کرنے کا فیصلہ تھا۔ لیکن "انتظامات" کرنے میں دو سال لگ گئے۔ اصل "انتخابات" 1952ء میں ہوئے لیکن ان کے بارے میں ایک مبصر کی رائے سن لیجیے:

"مغربی دنیا کی اکثریت مایوس اور نا امید ہو گئی۔ لیکن 1952ء کے موسم خزاں میں انتخابات ہوئے اور شیخ عبد اللہ کی پارٹی اور ہندوستانی فوج کے زیر نگرانی ہوئے۔ 75 نشستوں میں سے صرف دو نشستیں ایسی تھیں جن پر انتخاب ہوا (باقی سب بلا مقابلہ کامیاب ہو گئے) اور اس طرح تمام نشستوں پر نیشنل کانفرنس کا قبضہ ہو گیا۔"

انتخاب کے بعد خود شیخ عبد اللہ کو گرفتار کر لیا گیا اور اس اسمبلی سے ہندوستان کے حق میں رائے لی گئی لیکن جن حالات میں یہ رائے لی گئی ان کی داستان خود شیخ عبد اللہ کی زبانی سنیے:

"مجھے اعتراف ہے کہ دستور ساز اسمبلی کو قائم کرنے کا میں ذمہ دار ہوں لیکن اس اسمبلی میں الحاق کا فیصلہ اس وقت ہوا ہے جب مجھے اور میرے تمام ساتھیوں کو جیل میں ڈالا جا چکا تھا۔ اس فیصلہ کو حاصل کرنے کے لیے متعدد ارکان کو رشوتیں دی گئیں۔ نقد روپے کی شکل میں بھی اور پرمٹوں کی صورت میں بھی، اور بہت سوں پر جبر و تشدد کیا گیا۔ آپ یہ ہر گز نہیں کہہ سکتے کہ یہ فیصلہ آزادانہ اور منصفانہ طریقہ پر حاصل کیا گیا تھا۔"

یہی وہ "فیصلہ" ہے جس کے متعلق دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ ریاست کی دستور ساز اسمبلی تو الحاق کا فیصلہ دے چکی ہے۔ دوسرے انتخابات 1957ء میں ہوئے۔ ان کے بارے میں مانچسٹر گارڈین کی نمائندہ مسز ٹایا زنکن (Taya Zinkin) جو متعصبانہ حد تک ہندوستان کی حامی ہے، لکھتی ہے:

"(انتخاب تو ہو رہا ہے) لیکن نہ کوئی انتخابی جوش و ولولہ ہے، نہ پوسٹر ہیں، نہ تقاریر ہیں، اور 43 میں سے 8 نشستوں کے سوا کہیں انتخاب ہی نہیں ہے۔ نیشنل کانفرنس (بر سر اقتدار پارٹی) کے 35 نمائندے "بلا مقابلہ کامیاب ہو چکے ہیں۔ کچھ تو اس لیے کہ استصواب فرنٹ اور پولٹیکل کانفرنس نے انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا ہے اور کچھ اس لیے کہ سوشلسٹوں کے 9 اور دوسروں کے 5 پرچہ ہائے نامزدگی کو مسترد کر دیا گیا ہے۔ یہ چیز اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ انتخابات جعلی ہیں۔"

حد یہ ہے کہ ہندوستان مہا سبھا جیسی متشدد ہندو تنظیم کے سرکاری ترجمان نے اپنے اداریہ میں تمام حقائق پیش کرنے کے بعد لکھا کہ:

"ہم آخر یہ توقع کیسے رکھتے ہیں کہ ایسے انتخابات کہ جو محض دھوکہ اور ڈھونگ ہیں، جمہوری دنیا ایک آزاد انتخاب تسلیم کرے گی؟ خود اپنے کو مطمئن کر لینا اور بات ہے اور دوسروں کو مطمئن کرنا کار دیگر۔"

کشمیر کی سیاسی فضا: جبر و استبداد کا راج

عام سیاسی فضا کے بارے میں کشمیر پولٹیکل کانفرنس (مقبوضہ کشمیر کی ایک تنظیم) کے اس ریزولیوشن سے صورتحال کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

"دم گھونٹ دینے والی پابندیاں، سیاسی تشدد، بلا مقدمہ گرفتاریاں، ذہنی اور جسمانی شدائد، معاشی افراتفری، انحطاط، انتظامی بدعنوانی، سرکاری استبداد اور بے یقینی اور عدم تحفظ کی حواس شکن فضا یہ ہے کشمیر۔"

برطانوی پارلیمنٹ کے مبصر ایف ایم، بینٹ (F. M. Benette) نے 10 جنوری 1958 کو کیکسٹن ہال میں اپنے دور کشمیر کے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا:

"(کشمیر میں) میں نے جو داستانیں سنی ہیں وہ ان حالات کی یاد تازہ کر دیتی ہیں جن کا نظارہ ہم نے آمرانہ ریاستوں میں جنگ عظیم کے دوران اور اس سے قبل کیا ہے۔"

ڈیلی ٹیلی گراف کا نمائندہ انتھونی مان حالات کی عکاسی اسی طرح کرتا ہے:

"کشمیر کو کرملین کی ایک ایشیائی کٹھ پتلی سے ممتاز کرنے والی شکل ہی سے کوئی چیز ہے۔ پوری ریاست پولیس، ملیشیا، خاص پولیس (Special Police)، حکومت کے مخبروں اور ایک مضبوط مسلح تنظیم سے جس کو بطور تفنن "امن بریگیڈ" کہا جاتا ہے اور جس کے لٹیرے تنقید کرنے والوں کو زدو کوب کرتے ہیں، پٹی پڑی ہے۔ حکمران گروہ کے دوسرے مخالفین برابر تھانوں میں بلائے جاتے ہیں اور ریکارڈ اور اندراجات کے کھیکڑ کے بغیر ان کی گوشمالی کی جاتی ہے۔"

اور آخر میں خود دہلی کے ایک ہفت روزہ رسالہ "Free Thinkers" کا بیان پڑھ لیجیے جو وہاں کی سیاسی حالت کی نقشہ کشی ان الفاظ میں کرتا ہے:

"آج بیرونی اقتدار اور ظالم اور جابر اندرونی انتظامیہ نے مل کر کشمیر میں وہ فضا قائم کر دی ہے جس میں کشمیریوں کی آزادی پابہ زنجیر ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ آج ریاست کے عوام ان آزادیوں کو بھی کھو چکے ہیں جو انہوں نے اپنی 1931ء اور اس کے بعد کی بہادرانہ قربانیوں کے ذریعہ حاصل کی تھیں۔ ریاست میں خوف و ہراس اور ظلم و تشدد نے ڈیرے ڈال لیے ہیں۔ حکمران پارٹی کے لوگ پرامن شہریوں کو زدو کوب کرتے ہیں اور تشدد کا شکار بناتے ہیں محض اس لیے کہ وہ حق خود ارادیت کا مطالبہ کرتے ہیں اور حکمرانوں کی بد عنوانیوں اور بالا دستیوں پر تنقید کرتے ہیں۔ حکومت نے تشدد اور استبداد کی ایک ایسی مشینری پایہ تکمیل کو پہنچا دی ہے جو اس مشینری کے مشابہ ہے جو ہٹلر کے دور میں جرمن نے اختلافی عناصر کو ختم کرنے کے لیے وضع کی تھی۔"

اس ہفت روزہ نے ایک اور اداریہ میں صاف الفاظ میں کہا:

"کشمیر ایک پولیس اسٹیٹ ہے جس میں جنگل کے قانون نے انسانی قانون پر غلبہ پا لیا ہے۔"

یہ ہے وہ کیفیت جو پنڈت نہرو کے پورے زمانہ حکومت میں رہی اور آج بھی جاری ہے۔ خاص طور پر گزشتہ کئی سالوں میں اس میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ حضرت بل کے واقعہ نے پورے کشمیر میں آگ لگا دی اور اس کے بعد تشدد اور ظلم و طغیان کا ایک سیلاب ٹوٹ پڑا۔ ہزاروں سیاسی کارکنوں کو گرفتار کر لیا گیا اور ہزاروں کو قتل کرایا گیا۔ پولیس اور فوج کی چیرہ دستیاں روز بروز بڑھتی گئیں۔ سینکڑوں گاؤں نذر آتش کر دیے گئے ۔ اخبارات پر پابندیاں لگا دی گئی تھیں۔ مئی 1965ء کو جب شیخ عبد اللہ از سر نو گرفتار کیے گئے، اس کے بعد سے 16 اخبار بند کر دیے گئے۔ صرف اس ایک دن احتجاجات پر فائرنگ کے نتیجہ میں 27 کشمیری شہید ہوئے، 126 زخمی اور 619 گرفتار کیے گئے۔ کشمیری کارکن مسز سارا بائی کے بقول:

"مسلح پولیس کو پوری ریاست میں ہر جگہ ظلم و تشدد کی کھلی چھٹی دے دی گئی ہے۔ یہ انسانوں کو اس طرح قتل کر رہی ہے جس طرح پرندوں کو شکار کیا جاتا ہے۔ کوئی پابندی نہیں، کوئی مجسٹریٹ نہیں۔ یہ سب کچھ جان بوجھ کر کیا جا رہا ہے۔"

نیو یارک ٹائمز کا نمائندہ لکھتا ہے۔

"ہندوستانی بندوقیں اور لاٹھیاں خود سرینگر کی اپنی آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے ضروری ہو گئی ہیں۔ بلاشبہ لوگوں کی اکثریت ہندوستان کے خلاف ہے۔ آپ جہاں بھی جائیں پولیس اور فوج نظر آتی ہے۔ فوجیں دن رات جیپوں اور ٹرکوں میں رائفلیں اور اسٹین گنیں لیے پھر رہی ہیں۔ بار بار ایسا ہوتا ہے کہ مسلمان اخباری نامہ نگاروں کے پاس آتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ خدارا آپ جو کچھ دیکھ رہے ہیں اسے لکھئے ۔ ہماری آخری امید آپ ہی ہیں۔"

نیو یارک ٹائمز کا نامہ نگار 25 اکتوبر 1965ء کے شمارے میں مزید لکھتا ہے:

"جیلیں ان لوگوں سے بھر دی گئیں جو استصواب کے ذریعہ کشمیر کے مستقبل کے فیصلے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ شہر میں تمام اسکول اور کالج بند کر دیے گئے۔ کچھ طلبا کا مستقلاً اخراج کر دیا گیا۔ 200 سے زیادہ طلبا کو گرفتار کر لیا گیا۔"

رولے فاکس ڈیلی ٹیلی گراف میں لکھتا ہے:

"ہندوستانی سیاسی لیڈروں کے لیے جو دنیا بھر کا دورہ کرتے پھر رہے ہیں تا کہ کشمیر پر اپنے ملک کے مؤقف کو بیان کریں، یہ زیادہ بہتر ہو گا کہ وہ اپنے اس دور کا آغاز خود سرینگر سے کریں۔ یہاں وہ دیکھیں گے کہ طلبہ پاکستان کے حق میں نعرے لگا رہے ہیں۔ پولیس پر پتھر پھینکتے جا رہے ہیں اور وہ اس کے بدلے بندوق کی گولیوں کی بوچھاڑ کر رہی ہے، ہینڈ گرنیڈ پھٹ رہے ہیں اور پراسرار طور پر مکانوں کو آگ لگ رہی ہے۔ عام ہڑتال کے بعد کے ہفتہ میں سرینگر میں تمام اہم مسلمان حزب اختلاف کے سیاستدان حوالہ زنداں کر دیے گئے۔"

کینیڈا کے مشہور اخبار "ٹرونٹو گلوب" کا نمائندہ لکھتا ہے:

"فولادی خود والی پولیس نے نئے ہتھیار سنبھال لیے ہیں تا کہ اپنی لاٹھیوں، رائفلوں اور اسٹین گنوں میں اضافہ کر لیں۔ پولیس کے ذریعے تشدد کی مہم ہندوستان کی لادینی جمہوریت کے نام پر کی جا رہی ہے اور یہ پولیس والے بھی وہ ہیں جو ہندوستان کی دوسری ریاستوں سے خاص طور پر لائے گئے ہیں۔"

"کونٹیمپوریری ریویو" میں جارج بلینک رقمطراز ہے:

"صدیوں سے کشمیر کی حسین وادی شام کا خواب تھی لیکن آج صاف و شفاف نیلگوں آسمان سے خوبصورت مردوں اور تنہا و بے سہارا عورتوں پر آنسو ہی آنسو برستے ہیں۔"

واشنگٹن پوسٹ کا نمائندہ سرینگر سے لکھتا ہے:

"اس مہینے کی پہلی تاریخ سے آج تک سینکڑوں انسان جیلوں میں ڈالے جا چکے ہیں۔ کچھ کو زدو کوب کیا گیا ہے اور کالج کی طالبات اور میڈیکل کالج کے طلباء پر فوجی گھوڑے چھوڑ دیے گئے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ عام شہریوں کو لوہے کی آنی والی لاٹھیوں سے پیٹا گیا ہے۔ سرینگر ایک مسلح کیمپ بن چکا ہے اور ہر دو قدم پر ایک سپاہی موجود ہے۔ نوجوان کشمیریوں کے ہجوم چلاتے ہیں کہ "ہندوستانی کتو واپس جاؤ" اور ان حقائق کو دبانے کی سوچی سمجھی کوشش کی جا رہی ہے۔ آج پورا کشمیر ایک بہت بڑا قید خانہ ہے۔"

سرینگر کے جلسہ عام میں طلبا کی منظور کردہ قرار داد کے الفاظ بھی صور تحال پر روشنی ڈالتے ہیں:

"ہندوستانی حکومت نے اپنے ڈنڈا بردار (Gestapo) ہر طرف بھیج دیے ہیں جو پوری طرح حرکت میں آ گئے ہیں۔ ہم تشدد و استبداد کی ایک کے بعد دوسری سیلابی لہر کا شکار ہوئے ہیں۔ کشمیر نازیوں کے قیدیوں کے باڑے (Concentration Camps) سے بھی بدتر حالت میں ہے اور پوری بے شرمی کے ساتھ ہماری نسل کشی ہو رہی ہے۔ آئیکمین (Eichmann) کا ڈرامہ دوبارہ اسٹیج کیا جا رہا ہے۔"

اس ظلم و تشدد کا نتیجہ ہے کہ پاکستان میں جولائی سے اکتوبر 1965ء کے اندر ایک لاکھ 34 ہزار مہاجر مقبوضہ کشمیر سے آئے۔

مہاجرین کی داستانیں

آخر میں ایک فرانسیسی اخبار (Le Figaro) کے خاص نمائندہ ایک شیلووین کی رپورٹ کے چند اقتباسات پیش کیے جاتے ہیں جو مہاجرین سے بلا واسطہ ان کی داستانیں سننے کے بعد اس نے لکھی ہے:

"ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستانی جنگ بندی کی لائن کے اس طرف لوگوں کو قتل کر کے اور علاقہ چھوڑنے پر مجبور کر کے اپنے لیے میدان صاف کرنے میں مصروف ہیں۔"

وہ مزید لکھتا ہے:

"ہم سے آخر اس طرح کا سلوک کیوں کیا جا رہا ہے؟ ہم نے کیا کیا ہے؟ ان کو آخر کس لیے یہ حق دیا ہے کہ ہم سے اس طرح پیش آئیں؟ تم ہندوستان کی کیوں مدد کر رہے ہو؟ کشمیر چھوڑ دو ہم اپنے گھروں کو واپس جانا چاہتے ہیں تا کہ آزاد ہو سکیں؟ میں ایک عظیم انبوہ کے درمیان گھرا ہوں جس کے جذبات مشتعل ہیں جو اپنے ہاتھ اٹھا اٹھا کر چلا رہے ہیں اور مجھے اس طرح دھکیل رہے ہیں جس طرح گیند کو لڑھکایا جاتا ہے۔"

ہندوستان کے مقبوضہ کشمیر میں چار ماہ سے گوریلا جنگ ہو رہی ہے اور کئی ہفتہ سے مہاجروں کا تانتا لگا ہوا ہے جو جدوجہد آزادی کے تاریک سائے کی طرح پاکستانی کشمیر میں آ رہے ہیں۔ یہ غریب دیہاتی اپنے گھروں سے نکال دیے گئے ہیں اور ان کے ساتھ جلے ہوئے دیہاتوں، عصمت لٹی ہوئی عورتوں اور موت کے گھاٹ اتارے ہوئے انسانوں کی غم زدہ داستانیں ہیں۔

ایک غصے سے بے قابو نوجوان مجھے ٹہوکا دیتا ہے اور اپنے گاؤں منڈی کی داستان سناتا ہے جو پونچھ کے قریب ہے وہ کہتا ہے "ہندوستانیوں نے ہماری لڑکیوں کی چھاتیاں کاٹ ڈالی ہیں اور پھر یہ ان کی طرف پھینکتے ہوئے کہا کہ (یہ لو، یہ ہے تمہارا پاکستان)۔ میرے خاندان کے سات افراد کو فوجی پکڑ کر لے گئے اور ان کو ذبح کر ڈالا"۔ اس کی آنکھیں آنسوؤں سے لبریز تھیں۔ ایک دوسرا شخص آگے بڑھتا ہے اور کہتا ہے "انہوں نے لوگوں کو گھروں میں بند کر دیا اور پھر گھروں کو آگ لگا دی۔ پورا دیہات اور اس کی پوری آبادی جل کر راکھ ہو گئی"۔

ہزاروں مہاجر آزاد کشمیر میں آ رہے ہیں اور ہر ایک کی داستان ایسی ہی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستانی جنگ بندی لائن کے اس طرف لوگوں کو قتل کر کے اور علاقہ چھوڑنے پر مجبور کر کے اپنے لیے میدان صاف کرنے میں مصروف ہیں... اور لڑائی جاری ہے۔ سیاستدان کہتے ہیں: "جب کشمیر میں امن ہو جائے گا تو استصواب کرایا جائے گا۔ لیکن استصواب کے معنی ہی کیا ہیں جب وہ تمام لوگ جو اس میں ووٹ دیتے، مار دیے گئے ہوں گے؟ یا اپنے گھروں سے نکال دیے گئے یا خوف و ہراس کے ہاتھوں خاموش کر دیے گئے ہوں گے۔"

اور یہی ہے بھارت کا ناپاک منصوبہ!

پس چہ باید کرد (حل کی تجاویز)

کشمیر کی یہ دلخراش داستان آپ کے سامنے ہے۔ ہندوستان محض ظلم اور استبداد کے ذریعہ 50 لاکھ انسانوں کو اپنا غلام بنائے ہوئے ہے اور ان کو صفحۂ ہستی سے مٹا دینے کے درپے ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہندوستان ایسا کیوں کر رہا ہے۔ مختصراً اس کو سمجھ لینا بھی ضروری ہے۔

ہندو قوم کا سامراجی مزاج

ہندو قوم کا ایک تاریخی مزاج ہے اور یہ مزاج خالص سامراجی ہے۔ یہ قوم مسلمانوں کی تاریخی دشمن ہے اور اسے یہ چیز بالکل گوارا نہیں کہ مسلمان ایک مؤثر قوت کی حیثیت سے زندہ رہیں۔ ایک ہزار سال سے وہ ایک ہی خواہشات رکھتے ہیں۔ مسلمان ہمیشہ اس کا مقابلہ مردانہ وار کرتے رہے ہیں۔ اب ہندوستان کو وہ قوت حاصل ہوئی ہے کہ وہ اپنے ملک میں بھی 8 کروڑ مسلمانوں کو غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور کر رہا ہے اور ان کے دین، قومی اور ثقافتی وجود کو مٹا دینے کے درپے ہے اور کشمیر کے بھی 50 لاکھ مسلمانوں کو اپنے چنگل میں لیے ہوئے ہے۔

جوع الارض کا شکار

ہندوستان ہر سامراجی طاقت کی طرح جوع الارض میں مبتلا ہے۔ اس نے جونا گڑھ، مانوا در اور حیدرآباد کی مسلمان ریاستوں پر فوج کشی کے ذریعہ قبضہ کیا اور کشمیر پر بھی اس سلسلہ میں قبضہ کیا۔ اگر اس جوع الارض کو روکا نہ گیا تو ہندوستان کے عزائم بڑے ہی خطرناک ہیں۔

پاکستان پر قبضے کی سازش

کشمیر پر قبضہ دراصل پاکستان پر قبضہ کرنے کے سلسلہ کی پہلی کڑی ہے۔ ہندوستان پاکستان کے وجود کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں اور اس کے ناپاک عزائم یہ ہیں کہ مسلمانوں کی اس مملکت کو ختم کر دے۔ کشمیر پر اربوں روپے جس مقصد کے لیے صرف کیا جا رہا ہے وہ یہی ہے کہ اس طرح ایک تو اس علاقہ کے مسلمانوں کو ختم کیا جا سکے اور دوسری طرف کشمیر پر قبضہ کے ذریعہ پاکستان کو تین طرف سے گھیر ا جا سکے گا۔ معاشی حیثیت سے بھی اسے نقصان پہنچایا جا سکے گا اور اس پر بیک وقت کئی سمتوں سے فوج کشی کے لیے بھی امکان پیدا ہو سکے گا۔

ایشیا و افریقہ پر عزائم

پھر ہندوستان کی آنکھیں صرف پاکستان ہی پر نہیں بلکہ دراصل وہ ایک خالص سامراجی طاقت کی طرح ایشیا اور افریقہ کے تمام ملحقہ اور قریبی ممالک پر دانت لگائے بیٹھا ہے۔ پنڈت جواہر لال نہرو نے اپنی کتاب "The Discovery of India" میں لکھا تھا کہ:

"ہندوستان جیسا کہ فطرت نے اس کو بنایا ہے، دنیا کے امور میں ایک ثانوی درجہ کا رول ادا نہیں کر سکتا۔ وہ یا تو عظیم قوت تسلیم کیا جائے گا یا پھر کچھ بھی نہ ہو گا۔ کوئی درمیانی چیز میرے لیے جاذبیت نہیں رکھتی اور نہ میں بیچ کی کسی صورت حال کو ممکن ہی سمجھتا ہوں۔"

ہندوستان کی خارجہ پالیسی کے ایک اہم خالق ڈاکٹر کے ایم پاٹیکر کی کتاب "India and the Indian Ocean" اور خاص طور پر "The Future Of India And South-east Asia" بڑی اہم ہیں۔ موصوف ہندوستان کی خارجہ پالیسی کا یہ فلسفہ پیش کرتے ہیں کہ قلیل مدت کے لیے اس ملک کی پالیسی یہ ہونی چاہیے کہ بحر ہند پر اقتدار اور کنٹرول کے سلسلہ میں انگلستان سے تعاون کرے۔ لیکن طویل المدت پالیسی یہ ہونی چاہیے کہ پورے بحر ہند پر اس کا اپنا قبضہ ہو۔ وہ لکھتے ہیں:

"اس لیے جب تک دور دراز کے مقامات بھی جیسے سنگا پور، ماریشس، عدن اور سماٹر مکمل طور پر ہمارے تسلط میں نہ ہوں اور ہماری ہوائی اور بحری فوج اتنی ترقی نہ کرلے کہ ہم ان علاقوں کا پورا تحفظ کر سکیں۔ ہندوستان کی حفاظت اور اس کی سلامتی کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا۔ ہندوستان کی آزادی کا تحفظ اسی طرح ممکن ہے کہ ہم مضبوطی کے ساتھ طے کر لیں کہ ان تمام علاقوں کے دفاع کی ذمہ داری ہم اٹھائیں گے جو ہمارے تحفظ کے لیے ضروری ہیں۔"

یہ بعینہ وہی زبان ہے جو ہٹلر نے 1934ء سے 1940ء تک یورپ اور افریقہ کے سلسلہ میں استعمال کی اور اسرائیل کے حکمران برابر استعمال کرتے رہتے ہیں۔

ہندوستان کے ایک اور صاحب قلم ڈاکٹر ستیہ ورتہ دینارام داس پٹیل نے ہندوستان کی خارجہ پالیسی پر ایک مقالہ پر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے۔ اس کتاب میں وہ ہندوستان کی خارجہ پالیسی کے مقاصد اور مفادات کے بارے میں لکھتے ہیں:

"جغرافیائی عوامل ایک فیصلہ کن چیز ہیں۔ اس لیے ہندوستان کا خصوصی مفادان علاقوں میں ہے جو اس سے قریب ہیں۔ پس نیپال، پاکستان، افغانستان، برما، ملایا، انڈونیشیا اور سیلون ہندوستان کے مقاصد کے لیے بہت اہم ہیں" (صفحہ 12) "لہذا ہندوستان کے لیے ضروری ہے کہ سنگا پور اور سویز پر اس کا قبضہ ہو جو ہندوستان کے لیے صدر دروازہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اگر کوئی مخالف قوت ان پر قابض ہو تو ہندوستان کا وجود اور اس کی آزادی خطرہ میں پڑ جائے گی" (صفحہ 13) "ایک مدت تک افغانستان ہندوستان کا حصہ رہا ہے... دورِ جدید میں تیل کی ضروریات کی بناء پر ایران ہندوستان کے لیے بہت اہم ہے۔ اس لیے ہندوستان کا مفاد اس علاقہ سے وابستہ ہے"۔ "اسی طرح ہندوستان کی تیل کی ضروریات اسے عرب میں دلچسپی لینے پر مجبور کرتی ہیں۔ یہی صورت عراق کی ہے۔"

"برطانیہ کے چلے جانے کے بعد پورے علاقہ میں ایک سیاسی خلا واقعہ ہو گیا ہے جسے بھرنے کی ضرورت ہے۔"

"ہندوستان کے لیے ایک عظیم بحری قوت ہونے کی حیثیت سے ضروری ہے کہ بحر ہند، سنگاپور سے لے کر سویز تک اس کی اپنی جھیل کی حیثیت رکھے۔" (صفحہ 22)

یہ ہیں ہندوستان کے اصل عزائم ۔ کشمیر اس کی پہلی منزل ہے۔ پھر پاکستان اور اس کے بعد دوسرے ممالک اسلامیہ اور ایشیا اور افریقہ کے چھوٹے ممالک۔ یہ ایک خالص سامراجی قوت ہے جو ابھر رہی ہے اور ایک اژدھے کی مانند ہے جو آس پاس کے تمام ممالک کو نگل لینا چاہتا ہے۔ اگر یہ خدانخواستہ کشمیر میں کامیاب ہو جاتا ہے تو اس کے حوصلے اور بھی بلند ہو جائیں گے اور وہ دوسرے ملکوں پر دست درازیاں شروع کر دے گا۔ اگر ہندوستان کے سامراجی عزائم کو شکست دینا ہے تو پہلے ہی قدم پر اس کے منصوبوں کو خاک میں ملانے کی ضرورت ہے۔

عالمی طاقتوں کا کردار اور حل کی راہ

سیکورٹی کونسل کا بتیس سال کا ریکارڈ اس بات کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ وہ اس معاملہ کے حل سے پہلو تہی کر رہی ہے اور ہندوستانی استعمار کی چیرہ دستیوں کو روکنے میں بالکل ناکام ہے۔ اس مسئلہ کے ساتھ اس کا سلوک بالکل ویسا ہی ہے جیسا سلوک اس نے مسئلہ فلسطین کے ساتھ کیا اور اسرائیلی استعمار کو مستحکم ہونے میں مدد دی۔ تمام بڑی طاقتیں بھی اس سلسلہ میں کوئی سنجیدہ دلچسپی نہیں لے رہیں۔ برطانیہ نے اس مسئلہ کو پیدا کیا۔ امریکہ اور روس دونوں نے مختلف طرح ہندوستان کی حوصلہ افزائی کی اور نہ صرف یہ کہ کبھی انہوں نے ہندوستان پر اثر ڈال کر اسے حل کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ ہندوستان کو مسلسل شہ دیتے رہے۔ دونوں اس کی فوجی اور اقتصادی مدد کرتے رہے اور روس اپنے ویٹو کے ذریعہ بھی ہندوستان کی پشت پناہی کرتا رہا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں بڑی طاقتیں ہندوستان کے ایک سامراجی ملک کی حیثیت سے ابھرنے کو خود اپنے استعماری مقاصد کے لیے مفید سمجھتی ہیں۔ امریکہ اور روس دونوں ہی چین کے مقابلہ میں ہندوستان کو ترقی دینا چاہتے ہیں اور اسے ایک جوہری طاقت (Nuclear Power) کی حیثیت سے بھی پروان چڑھا رہے ہیں۔

اس لیے ان بڑی طاقتوں سے اس مسئلہ کے حل کے سلسلے میں کوئی توقع نہیں کی جا سکتی ہے۔ اس کا آخری ثبوت تاشقند کانفرنس ہے جس کے ذریعہ امریکہ اور روس دونوں نے مسئلہ کشمیر کو سرد خانے میں ڈالنے کی کوشش کی ہے اور مقبوضہ کشمیر پر ہندوستان کے تسلط کو دائمی شکل دینے کی چال چلی ہے۔

مسئلہ کا حل: جہاد اور عالم اسلام کی ذمہ داری

اب سوال یہ ہے کہ اس مسئلہ کا حل کیا ہے اور اس کے لیے کیا کیا جا سکتا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ مسئلہ کا حل صرف جہاد ہے اور کشمیر کے جواں ہمت مجاہد اسی میں مصروف ہیں۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ عالم اسلام ان کی مدد کرے اور ان کے جہادِ حق کو کامیابی تک پہنچائے۔ ہماری کم سے کم ذمہ داری یہ ہے کہ:

  1. کشمیر کے بارے میں حقائق کی زیادہ سے زیادہ تشہیر کریں اور پوری عالمی رائے کو اس کے حق میں ہموار کریں۔
  2. عالم اسلام اور ایشیا اور افریقہ کے ان تمام چھوٹے ممالک میں بیداری پیدا کریں جو استعمار کے خلاف لڑ رہے ہیں تا کہ بھارتی سامراج کے بارے میں انہیں کوئی غلط فہمی یا خوش فہمی نہ رہے اور وہ اس کے مقابلہ کے لیے اپنے آپ کو تیار رکھیں۔
  3. ہندوستان کی حکومت پر اخلاقی، سیاسی اور معاشی دباؤ ڈالا جائے کہ وہ کشمیر میں استصواب کرائے ورنہ پورے عالم اسلام اور تمام مخالف استعمار ممالک کو اپنے مد مقابل پائے گا۔
  4. بڑی طاقتوں اور اقوام متحدہ پر بھی دباؤ ڈالا جائے کہ وہ اس نئے استعمار کی پشت پناہی کرنے سے احتراز کرے۔
  5. جہاد کشمیر کے لیے اخلاقی اور مادی مدد فراہم کی جائے تاکہ کشمیر کے مسلمان ہندوستان کی غلامی سے آزاد ہو سکیں اور اپنی سیاسی قسمت اپنی آزاد مرضی سے اپنے مقاصد اور نظریات کے مطابق تعمیر کر سکیں۔

وَمَن يُقَاتِلْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَيُقْتَلْ أَوْ يَغْلِبُ فَسَوْفَ نُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا ﴿٧٤﴾ وَمَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ هَذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ وَلِيًّا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ نَصِيرًا ﴿٧٥﴾

ترجمہ : "پھر جو اللہ کی راہ میں لڑے گا اور مارا جائے گا یا غالب رہے گا، اسے ضرور ہم اجر عظیم عطا کریں گے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں ان بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو، جو کمزور پا کر دبا لیے گئے ہیں اور فریاد کر رہے ہیں کہ خدایا ہم کو اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں، اور اپنی طرف سے ہمارا کوئی حامی و مددگار پیدا کر دے۔" (النساء: 74،75)

حصہ دوئم: ہمارا موقف

مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے قیام پاکستان کے بعد مسئلہ کشمیر کے بارے میں جو ارشادات فرمائے انہیں رہنمائی کا ایک ذریعہ سمجھتے ہوئے یہاں یکجا کر دیا گیا ہے۔ (مرتب)

مصالحت یا جنگ

"کشمیر کے معاملے میں ہمارے لیے دو ہی طریق کار ہو سکتے ہیں۔ یا تو ہم مصالحانہ طریق کار سے باشندگان کشمیر کے حق خودارادیت کو تسلیم کرائیں اور یا کھلم کھلا اپنی فوجیں کشمیر میں اسی طرح اتاریں، جس طرح بھارت نے جونا گڑھ میں اتار دی تھیں۔ ان دونوں راہوں کے درمیان کوئی تیسری راہ دیانت اور سچائی کی راہ نہیں ہے۔ میں حالات کو جس طرح دیکھ رہا ہوں، مجھے یقین ہے کہ بالآخر یہی کرنا ہی پڑے گا۔ لیکن بعد از وقت کرنے سے کچھ حاصل نہ ہو گا۔"

(بیان: روزنامہ تسنیم، لاہور 12 اگست 1948ء)

پاکستان کی زندگی کشمیر

مجھے معلوم ہوا ہے کہ کشمیر کے متعلق میرے بیانات کو جموں ریڈیو، آل انڈیا ریڈیو اور شیخ عبد اللہ صاحب کی حکومت نے بہت سے غلط معنی پہنا کر نشر کیا ہے اور اس سے جموں اور کشمیر کی آزادی کے لیے لڑنے والوں کو نیز اہل کشمیر کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ میں نے تو خود ان کے کسی نشری بیان کو نہیں سنا اور نہ کوئی شائع کردہ چیز دیکھی ہے۔ لیکن ان کی جو باتیں معتبر ذرائع سے مجھ تک پہنچی ہیں وہ میرے بیانات کے بالکل خلاف ہیں۔ لہذا میں ان کی پھیلائی ہوئی غلط فہمیوں کو رفع کرنے کے لیے حسب ذیل امور کی توضیح کرنا ضروری سمجھتا ہوں:

  1. میں کشمیر کو پاکستان کا ایک قدرتی حصہ سمجھتا ہوں۔ میرے نزدیک جغرافیائی، نسلی، تاریخی، معاشی، تمدنی ہر لحاظ سے کشمیر پاکستان سے تعلق رکھتا ہے نہ کہ ہندوستان سے۔
  2. میں قطعی طور پر یہ رائے رکھتا ہوں کہ بھارت نے ریاست کشمیر کی شمولیت قبول کر کے سخت غلطی کی ہے۔ جونا گڑھ کے معاملے میں جس اصول پر اس نے اصرار کیا تھا اسے خود کشمیر میں توڑ دیا۔ پھر دونوں جگہ دو متضاد بنیادوں پر فوجی مداخلت کر کے اس نے ایسی پوزیشن اختیار کی ہے جسے کسی طرح حق بجانب ثابت نہیں کیا جا سکتا۔
  3. مشرقی پنجاب سے مسلمانوں کے اخراج کے بعد بھارت میں کشمیر کی شمولیت میرے نزدیک مسلمانان کشمیر کے لیے مہلک ہے۔ ان کو ہندوستان کے ساتھ اور تمام دنیا کے ساتھ تعلق رکھنے کے لیے جس راستے سے گزرنا ہو گا وہ پٹھان کوٹ سے لے کر نواح دہلی تک مسلمانوں سے خالی ہو چکا ہے اور ایک مدت دراز تک وہ مسلمانوں کی آمد ورفت کے لیے خطرناک رہے گا۔ یہ بھی کچھ بعید نہیں ہے کہ جن اغراض کے لیے پاکستان کی سرحد سے قریب تمام علاقے مسلمانوں سے خالی کرائے گئے ہیں انہی اغراض کے لیے کل کشمیر مسلمانوں سے خالی کرانے کی کوشش کی جائے، لہذا خود باشندگان کشمیر کی سلامتی بھی اسی میں ہے کہ وہ پاکستان سے اپنا تعلق جوڑیں۔ انہی وجوہ سے تحریک اسلامی یہ قطعی ارادہ رکھتی ہے کہ وہ استصواب رائے کے موقع پر پاکستان کے حق میں اہل کشمیر کی رائے ہموار کرنے کی پوری کوشش کرے گی۔
  4. ریاست کشمیر کے مسلمان ڈوگروں اور ہندوستانی فوجوں کے ہاتھوں اپنی جان و مال، آبرو اور آزادی بچانے کے لیے جو جدوجہد کر رہے ہیں، میں اسے بالکل حق بجانب سمجھتا ہوں اور متعدد بار کہہ چکا ہوں کہ ان کی یہ جنگ اسلامی نقطہ نظر سے جہاد کے حکم میں ہے۔
  5. آزاد سرحدی علاقے کے جو لوگ نیک نیتی کے ساتھ محض خدا کے لیے اپنے کشمیری بھائیوں کی مدد کو گئے اور جنہوں نے وہاں اسلامی حدود کی پابندی کرتے ہوئے جنگ کی، وہ بھی میرے نزدیک مجاہد ہیں۔ انہوں نے اپنا اخلاقی اور دینی فرض انجام دیا اور امید ہے کہ وہ خدا سے اپنا اجر پائیں گے۔
  6. پاکستان کے باشندوں کے لیے بھی میں شرعاً بالکل جائز سمجھتا ہوں کہ وہ کشمیر کی جنگ آزادی میں خوراک، پوشاک اور طبی امداد کی حد تک حصہ لیں۔ اگر مجاہدین کشمیر ان سے اسلحہ خریدیں تو وہ فروخت کرنے کے بھی شرعاً مجاز ہیں۔ لیکن جب تک حکومت ہند اور حکومت پاکستان کے درمیان معاہدانہ تعلقات قائم ہیں، میں براہ راست جنگی کارروائی میں ان کی شرکت کو جائز نہیں سمجھتا۔ شریعت کے احکام میری دانست میں یہی ہیں اور اس کے خلاف جو دلائل پیش کیے گئے ہیں ان سے میرا اطمینان نہیں ہو سکا ہے۔ مگر میں نے کبھی نہیں کہا کہ جو لوگ میری رائے کے خلاف کسی دوسرے عالم کے فتویٰ کی پیروی میں محاذ کشمیر پر جا کر لڑیں گے وہ حرام موت مریں گے۔ یہ بالکل غلط بات ہے جو میری طرف منسوب کر دی گئی ہے۔"
  7. میری مذکورہ بالا رائے کا منشا یہ ہر گز نہیں ہے کہ حکومت پاکستان، حکومت ہند کے ساتھ ان معاہدانہ تعلقات کو باقی رکھے اور پاکستان کے لوگ کشمیر کی جنگ آزادی میں شرکت کرنے سے باز رہیں ۔ اس کے برعکس میرا اصل منشا یہ ہے کہ حکومت پاکستان ان تعلقات کو ختم کر کے ہمارے راستے سے وہ اخلاقی اور شرعی رکاوٹ دور کر دے جو میرے نزدیک ہمیں کشمیر کے لیے اپنی پوری طاقت صرف کرنے سے روک رہی ہے۔ میں کشمیر کو پاکستان کی زندگی کے لیے ناگزیر سمجھتا ہوں ۔ میرے نزدیک اسے بچانے کے لیے اس سے بہت زیادہ کوشش کرنی چاہیے جو اب تک کی گئی ہیں اور میں اچھی طرح یہ بات سمجھتا ہوں کہ یہ ظاہری تعلقات ہی اب تک اس راہ میں اصل رکاوٹ بنے رہے ہیں۔"

(اگست 1947ء کا بیان جو دوبارہ روزنامہ قاصد لاہور 18 ستمبر 1950ء میں شائع ہوا)

بیرونی طاقتوں پر اعتماد خود فریبی

"کشمیر کے معاملہ میں سر اوون ڈکسن (Sir Owen Dixon) کی ناکامی نے ایک مرتبہ پھر یہ بات واضح کر دی ہے کہ اس دنیا میں آج بھی اصل فیصلہ کن چیز طاقت ہی ہے۔"

اور ابھی تک اس خواب کے شرمندہ تعبیر ہونے کی کوئی توقع نہیں ہے کہ کوئی قوم مصالحانہ گفت و شنید یا ثالثی کے ذریعہ سے کسی زبردست کی دست درازی کے مقابلے میں اپنے حق کا تحفظ کر سکے۔ ہندوستان نے حیدر آباد، جونا گڑھ اور کشمیر میں طاقت پر حق کا مدار رکھا اور جو کچھ لینا چاہا بزور لے لیا۔ ہم نے اس کے برعکس اپنا حق وصول کرنے کے لیے بحث، استدلال اور بین الاقوامی وساطت پر انحصار کیا اور ہماری ناکامی آج بھی اسی نقطہ پر ہے جہاں آج سے چند سال پہلے تھی۔ یہ درحقیقت کوئی نیا راز نہیں ہے جو آج پہلی مرتبہ منکشف ہوا ہو۔ جن لوگوں کو سابق مجلس اقوام کی تاریخ اور موجودہ مجلس اقوام متحدہ کی ترکیب سے کچھ بھی واقفیت ہے وہ جانتے ہیں کہ ان اداروں کے قیام سے بین الاقوامی سیاست کے مزاج میں فی الواقع کوئی ایسا تغیر رونما نہیں ہوا ہے جس کی بنا پر یہ امید کی جا سکے کہ طاقت کے بغیر استقرار حق ممکن ہو گیا ہے۔"

اچھا ہوتا اگر اس حقیقت کو ہم اسی وقت سمجھ لیتے جب کشمیر کے قضیہ کا آغاز ہوا تھا۔ لیکن اگر اُس وقت ہم نے اس کو نہ سمجھا تھا تو کم از کم اب اتنے سال کی سر گردانی کے بعد ہی ہمیں اس کو سمجھ لینا چاہیے۔ صاف بات یہ ہے کہ جب تک پاکستانی قوم اور حکومت کی طرف سے یہ امر بالکل عیاں نہ کر دیا جائے گا کہ یہ ملک اپنے حق کو حاصل کرنے کے لیے محض گفت و شنید پر انحصار کرنے والا نہیں ہے اور جب تک اقوام متحدہ کو یہ یقین نہ ہو جائے گا کہ اس مقصد کے لیے طاقت بھی استعمال کی جا سکتی ہے۔ کسی سلامتی کونسل اور کسی ثالث سے یہ امید رکھنا فضول ہے کہ وہ کشمیر کے معاملہ کو سنجیدگی سے حل کرنے کی کوشش کرے گا اور خود ہندوستان سے بھی یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ منصفانہ مصالحت کی کسی تجویز کو قبول کرنا تو در کنار درخور اعتنا تک سمجھنے کے لیے آمادہ ہو گا۔"

میں اس بات کو بغیر کسی لاگ لپیٹ کے اس لیے کہہ رہا ہوں کہ پاکستان کے عوام اور حکام دونوں اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین کر کے اپنا مؤقف طے کریں، اگر وہ اس کا بل بوتا رکھتے ہوں تو عزم کے ساتھ آگے بڑھیں ورنہ اس حیثیت پر قانع ہونے کے لیے تیار ہو جائیں جو اس دور شیطنت میں کمزوروں کے لیے مقدر ہے۔"

(روزنامہ قاصد، لاہور، 18 ستمبر 1950)

مکمل اتحاد

"اگر کبھی ہندوستان نے کشمیر کے مسئلے کا فیصلہ آزاد استصواب کے بجائے فوجی طاقت سے کرنے کی کوشش کی اور اس کے نتیجہ میں جنگ تک نوبت پہنچی تو یقیناً اس جنگ میں حق پاکستان کی طرف ہو گا اور پاکستان کے باشندے اپنے تمام اندرونی اختلافات کو بھول کر اپنی پوری طاقت کے ساتھ اس جنگ میں حملہ آور کا مقابلہ کریں گے۔ کسی کو بھی اس غلط فہمی میں نہ رہنا چاہیے کہ اپنے قومی وجود اور اپنے جائز قومی حقوق کی حفاظت میں ہمارے آپس کے اصولی یا فروعی اختلافات کسی درجے میں بھی مانع ہو سکیں گے۔"

"ہم اپنے کسی ہمسائے کے امن اور سلامتی پر یا اس کے جائز حقوق پر دست درازی کرنے کے قائل نہیں ہیں۔ لیکن اگر کوئی ہمسایہ ہماری سلامتی یا ہمارے جائز حقوق پر دست درازی کرے تو وہ یقیناً ہم کو نرم چارہ نہ پائے گا اور اسے اپنے اس غلط اقدام کی اتنی بھاری قیمت دینی ہو گی جو شاید اسی کے لیے تباہ کن ثابت ہو۔"

(بیان۔ سہ روزہ "کوثر" لاہور، 21 جولائی 1951ء)

مسئلہ کشمیر میں ہمارا نقطہ نظر

اس معاملہ میں ہمارا نقطہ نظر نہ وطن پرستانہ ہے نہ قوم پرستانہ۔ ہم سارے معاملات کو سراسر حق پرستی کی نظر سے دیکھتے ہیں اور یہی ہمارا نقطہ نظر کشمیر کے معاملہ میں بھی ہے۔ ہماری قطعی رائے ہے کہ کشمیر پر قبضہ کرنے میں ہندوستان نے سراسر زیادتی کی ہے اور اس کے مقابلے میں پاکستان کا دعویٰ بالکل حق بجانب ہے۔ سیدھی اور صاف بات یہ ہے کہ ہندوستان نے کشمیر پر قبضہ اس وجہ سے نہیں کیا کہ وہ اس کا حق تھا بلکہ صرف اس وجہ سے کیا کہ تقسیم کے وقت پاکستان کمزور تھا اور ہندوستان اتنی طاقت رکھتا تھا کہ اپنے حق سے زائد ایک چیز حاصل کر لے۔ میں اس وقت اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا کہ ہماری کمزوریوں کے ساتھ ہماری کوتاہیاں کیا تھیں۔ بہر حال یہ واقعہ اپنی جگہ بالکل عیاں ہے کہ اگر پاکستان نے اس وقت کشمیر پر قبضہ کر لیا ہوتا تو کوئی معقول آدمی یہ تصور نہیں کر سکتا کہ ہندوستان بھی اسی طرح کشمیر کا دعویٰ لے کر اٹھتا جس طرح آج پاکستان اٹھا ہے اور وہ بھی پاکستان کی طرح چیلنج کرتا کہ آؤ، کشمیر میں استصواب رائے عام کر کے دیکھ لو کیونکہ وہ خود جانتا ہے کہ ہندوستان و پاکستان کی تقسیم محض مذہب کی بنیاد پر ہوئی تھی۔ وہ خود جانتا ہے کہ وہی علاقے پاکستان بنائے گئے جہاں مسلمان اکثریت میں تھے اور وہی علاقے ہندوستان میں شامل کیے گئے جن میں ہندوؤں کی اکثریت تھی۔ وہ خود جانتا ہے کہ تقسیم سے پہلے اور تقسیم کے دوران میں جو کشت و خون ہوا، جو قتل عام ہوا، جو لوٹ مار ہوئی، وہ سراسر اسی بنیاد پر ہوئی کہ ہندوستانی سکھوں کے نزدیک ہر مسلمان کشتنی تھا اور مسلمانوں کے نزدیک ہر ہندو اور سکھ گردن زنی تھا۔ ان ساری باتوں کو جانتے ہوئے کون مان سکتا ہے کہ کشمیر جیسے مسلم اکثریت کے علاقے کو ہندوستان واقعی ایمان داری کے ساتھ اپنا حق سمجھتا تھا، اور اگر پاکستان اس پر قابض ہو گیا ہوتا تو وہ بھی یہ دعویٰ کرنے کی جرات کر سکتا تھا کہ استصواب رائے کرا کر دیکھ لیا جائے، کشمیر کے باشندے ہندوستان کے حق میں رائے دیں گے ۔ پس یہ ایک کھلی ہوئی حقیقت ہے جسے ایک ہٹ دھرم آدمی کے سوا کوئی بھی جھٹلا نہیں سکتا کہ کشمیر پر ہندوستان کا قبضہ حق کی بنیاد پر نہیں ہوا۔ بلکہ سراسر طاقت کی دھاندلی سے ہوا ہے اور اس معاملے کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ہندوستان نے یہ صریح بے شرمانہ دھاندلی اس زمانہ میں کی جب کہ گاندھی جیسا اخلاق کا علمبردار وہاں موجود تھا اور اس شخص کے ہاتھوں کی جو انگریز کی غلامی کے دور میں سیاست کو طاقت کے بجائے اخلاق پر قائم کرنے کا سب سے زیادہ بلند بانگ مدعی بنا ہوا تھا، یعنی پنڈت جواہر لال نہرو۔"

کشمیر اور جونا گڑھ کے معاملہ میں ہندوستان نے بیک وقت جو دو مختلف پالیسیاں اختیار کی ہیں، پنڈت نہرو کے سوا اور کون آدمی ایسا ہو گا جو عقل رکھتے ہوئے ان دونوں پالیسیوں کو متضاد ماننے سے انکار کر سکے؟ ایک جگہ آپ اس بنیاد پر قبضہ کرتے ہیں کہ وہاں کا حکمران چاہے مسلمان ہو مگر آبادی کی اکثریت ہندو ہے۔ دوسری جگہ آپ اس بنیاد پر قبضہ کر لیتے ہیں کہ وہاں کی آبادی کی اکثریت چاہے مسلمان ہو مگر حکمران ہندو ہے۔ ایک جگہ کا حکمران پاکستان سے الحاق کا اعلان کرتا ہے تو آپ اس لیے ماننے سے انکار کرتے ہیں کہ حکمران نے الحاق کا فیصلہ باشندوں کی رضامندی حاصل کیے بغیر کر دیا ہے۔ دوسری جگہ کا حکمران ٹھیک اسی طرح باشندوں کی رضامندی حاصل کیے بغیر ہندوستان سے الحاق کا اعلان کرتا ہے تو آپ اسے فوراً قبول کر لیتے ہیں اور اس الحاق کی دستاویز کو ایک سراسر آئینی دستاویز سمجھ کر دانتوں سے پکڑ لیتے ہیں۔ ایک جگہ آپ کے نزدیک اپنے علاقے کی قسمت کا فیصلہ کرنا باشندوں کا کام ہے اور حکمراں کا فیصلہ بالکل بے معنی ہے، کیونکہ وہاں کے باشندوں کی اکثریت ہندو ہے۔ حکمران مسلمان ہے۔ دوسری جگہ اس کے بالکل بر عکس حکمراں کا فیصلہ آپ کے نزدیک بالکل بے معنی اور سو فیصدی قانونی ہے اور اس کو تسلیم کرنے کے لیے باشندوں کی مرضی معلوم کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ کیونکہ وہاں حکمراں ہندو ہے اور باشندوں کی اکثریت مسلمان۔ کیا یہ کھلا ہو ا تضاد نہیں ہے؟ یہ حرکتیں ایک ایسے سیاسی لیڈر کے سوا اور کون کر سکتا ہے جو حق اور انصاف اور راستی کے بجائے قوت اور زور کی بنا پر اپنی پالیسی بناتا ہوا اور بالکل ایک ابن الوقت (Opportunist) کی طرح ہر موقع کے لیے نیا اصول گھڑ لیتا ہو؟ واقعہ یہ ہے کہ پنڈت نہرو نے اپنے اس طرز عمل سے اپنی اس ساری عزت و وقعت کو خاک میں ملا دیا ہے جو انہوں نے عمر بھر سیاست میں اخلاق کی علمبرداری کر کے حاصل کی تھی۔"

ان لاکھوں انسانوں کی خاطر جو کشمیر میں بستے ہیں، ان کی جان اور مال اور آبرو کی خاطر اور ان کے پیدائشی انسانی حقوق کی خاطر، ہم یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ انہیں ہندوستان کے چنگل سے نکالا جائے اور ہم صاف کہتے ہیں کہ اس مقصد کے لیے ہم آخری حدود تک جانے کو تیار ہیں۔"

(تقریر سالانہ اجتماع ۔ کراچی 10 نومبر 1951ء، روداد جماعت اسلامی حصہ ششم صفحہ 56 تا 60)

ہمارا مطالبہ: حق خودارادیت

بھارت اور پاکستان کے درمیان کشمیر کے متعلق تنازعہ اس بات کا ہے کہ پاکستان باشندگان کشمیر کو اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنے کا حق دلوانا چاہتا ہے۔ لیکن ہندوستان اس سے انکار کرتا ہے۔ درآں حالیکہ آغاز ہی میں یہ بات بین الاقوامی سطح پر بالا تفاق طے ہو چکی تھی کہ کشمیر میں استصواب کرایا جائے گا اور باشندگان کشمیر کی اکثریت کا منشا جیسا ہو گا اس کے مطابق یہ فیصلہ ہو گا کہ اس ریاست کو بھارت کے ساتھ ملنا چاہیے یا پاکستان کے ساتھ۔ لیکن بعد میں بھارت نے جو رویہ اختیار کیا وہ صاف طور پر اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ اسے یہ یقین ہے کہ اگر کشمیر میں استصواب ہوا تو فیصلہ اس کے خلاف ہو گا۔ اس لیے وہ طاقت کے بل پر حاصل کی ہوئی چیز کو طاقت ہی کے بل پر اپنے قبضہ میں رکھنا چاہتا ہے۔ یہ مسئلہ بین الاقوامی مسئلہ اس لیے بنتا ہے کہ بھارت آغاز ہی میں اس بات کا فیصلہ انصاف سے کرنے کے بجائے اس مسئلے کو اقوام متحدہ میں لے گیا اور بین الاقوامی سطح پر اس مسئلے میں پیچیدگی فقط اس لیے پیدا ہوئی کہ دنیا کی طاقت ور قوموں نے انصاف کی بنا پر اسے طے کرنے کے بجائے اس کو اس نقطہ نظر سے دیکھنا شروع کر دیا کہ بھارت اور پاکستان میں سے کون ان کے مفاد کے لیے زیادہ اہمیت رکھتا ہے اور ان کے لیے کس کی دلداری کر نا زیادہ مفید ہو گا۔ ان کا یہ نقطہ نظر نہ ہوتا اور وہ سراسر انصاف کی بنیاد پر، جیسا کہ اقوام متحدہ کے چارٹر کا منشا تھا، اس مسئلے کو حل کرنا چاہتیں تو یہ مسئلہ آج سے دس برس پہلے ہی حل ہو چکا ہوتا اور کسی بین الاقوامی مسئلے کی حیثیت سے اس کا وجود باقی نہ رہتا۔"

یہ کہنا کہ پاکستان کن وجوہ سے کشمیر کا مطالبہ کرتا ہے اس لیے غلط ہے کہ پاکستان نے کشمیر کا مطالبہ کبھی کیا ہی نہیں۔ بلکہ وہ باشندگانِ کشمیر کے لیے حق خود مختاری کا مطالبہ کرتا رہا ہے اور آج بھی یہی کرتا ہے۔ اس معاملے میں پاکستان کا مؤقف یہ نہیں ہے کہ کشمیر ہمارے حوالے کر دیا جائے۔ اس کا موقف تو یہ ہے کہ کشمیر کے باشندوں کو یہ حق دیا جائے کہ وہ اپنی قسمت کا فیصلہ خود کریں اور اگر ان کی اکثریت کا یہ فیصلہ ہو کہ یہ ریاست پاکستان سے ملحق ہونی چاہیے تو پھر اسے پاکستان ہی سے ملحق ہونا چاہیے۔ اس مطالبے کی وجہ صاف ظاہر ہے۔ ہمیں اس امر کا پورا یقین ہے کہ کشمیر کے باشندوں کی اکثریت بھارت کے ساتھ ملحق نہیں ہونا چاہتی۔ بھارت نے انہیں زبردستی اپنے تسلط میں رکھ چھوڑ ہے اور چونکہ یہ اکثریت ہماری ہی ہم مذہب ہے اس لیے ہمیں ان کا غصب شدہ حق اسے دلوانے سے لازماً دلچسپی ہے اور ہونی بھی چاہیے۔ کشمیر میں ہماری دلچسپی کی نوعیت ٹھیک وہی ہے جو حیدرآباد دکن کے سلسلے میں بھارت کی تھی۔ فرق اگر ہے تو یہ ہے کہ بھارت نے اپنی دلچسپی کے تقاضے زبردستی پورے کیے لیکن ہم اپنے مطالبات حتی الوسع ایک پر امن، منصفانہ اور جمہوری طریقے سے پورا کرنا چاہتے ہیں۔"

(انٹرویو ہفت روزہ "نصرت" لاہور (کشمیر نمبر) 28 فروری 1960ء)

مسلمانوں کی شرعی اور اخلاقی ذمہ داری

"کشمیر کے ساتھ میرا تعلق در حقیقت وہی ہے جو میرے اپنے جسم کے کسی حصے کا تعلق میرے ساتھ ہے۔ جس طرح میں اپنے جسم کے کسی حصے کا قطع کیا جانا گوارا نہیں کر سکتا۔ اسی طرح کشمیر کی جدائی بھی گوارا نہیں کر سکتا۔ لیکن اپنے جسم کی حفاظت بھی میں شریعت و اخلاق کی حدود میں رہ کر ہی کرنا ضروری سمجھتا ہوں اور اس طرح میں اس کی حفاظت کے لیے حکمت و دانائی سے ہی بہتر تدبیر کروں گا۔ نادانی کے ساتھ کوئی کام نہ کروں گا۔ جہاں تک سابق ریاست جموں و کشمیر (خواہ وہ آزاد کشمیر میں ہو یا مقبوضہ کشمیر میں) کے باشندوں کا تعلق ہے، ان کا یہ حق شریعت اور اخلاق کے لحاظ سے بالکل ناقابل انکار ہے کہ وہ اپنے وطن کو ہندوستان کے غاصبانہ قبضے سے نکالنے کے لیے جہاد کریں۔ کوئی ان کا یہ حق ان سے سلب نہیں کر سکتا، اور وہ شرعاً و اخلاقاً معاہدات کے پابند نہیں جو پاکستان نے کسی سے کیے ہوں۔ نیز باشندگان پاکستان کے لیے بھی شریعت و اخلاق کے لحاظ سے یہ بالکل جائز ہے کہ وہ اپنے کشمیری بھائیوں کو اس کام میں ہر طرح سے مدد دیں ...... البتہ .... عملاً جنگ کرنے یا نہ کرنے کے معاملہ میں پاکستان کے باشندے اپنی حکومت کے پابند ہیں۔ وہ جنگ کرے تو ہم جنگ کریں گے، اور اگر وہ جنگ سے باز رہے تو ہمیں بھی باز رہنا ہو گا۔ بین الاقوامی تعلقات میں اسلام ہمیں ان تمام معاہدات کا پابند کر دیتا ہے جو ہماری قوم نے اپنی حکومت کے توسط سے دنیا کی دوسری قوموں کے ساتھ کیے ہوں۔"

(خط بنام چیف آرگنائزر ہائی کمان جہاد کونسل، پشاور، 3 نومبر 1923ء مکاتیب حصہ اول صفحہ 110 تا 111)

عالم اسلام کی نظر میں مسئلہ کشمیر

"کشمیر کا مسئلہ جب بھی رابطہ عالم اسلامی کے اجلاس میں زیر بحث آیا ہے۔ رابطہ کے ممبران نے نہ صرف اپنے نازک جذبات کا اظہار کیا بلکہ ہمیشہ باشندگان کشمیر کے لیے آزادی اور حق خودارادیت کا مطالبہ کیا ہے۔ میری ایک قرار داد کو جس میں یہ کہا گیا تھا کہ ہندوستان نے کشمیر کے الحاق کا جو فیصلہ کیا ہے وہ قطعاً غلط، اقوام متحدہ کی قراردادوں کے خلاف اور اپنے ہی کیے ہوئے وعدوں سے انحراف ہے اور ایسا ہی ہے جیسے کبھی فرانس نے الجزائر کے متعلق کیا تھا، متفقہ طور پر پاس کیا۔"

(انٹرویو ہفت روزہ شہاب، لاہور، جنوری 1964ء)

حوالہ جات

  1. Letter from Governor General of India to Maharaja of Kashmir, Oct 27, 1947 - vide "Defending Kashmir", Government of India Publication, Delhi, 149, P.164.
  2. Telegram No. 225 to Pakistani Prime Minister, Oct 31, 1947.
  3. 227th Meeting of the Security Council, January 15, 1948.
  4. "The Times of India", Bombay, July 7, 1952.
  5. Menon V. P. "The Story of the Integration of the Indian States", London, PP 399-400.
  6. 227th meeting of the Security Council, January 15, 1948. (Macmillan)
  7. "The Statesman, New Delhi, April 15, 1964".
  8. Sir Owen Dixon's Report September 15, 1950 - s/1791 - Paragraph 52.
  9. Dr. Graham's Fifth Report, March 27 1953 - s/2967, Paragraph 37.
  10. Sir Owen Dixon's Report, Paragraph, 51.
  11. Birdwood Lord, "Two Nations and Kashmir", London 1956.62.
  12. Meeting of the Security Council, March 9, 1951.
  13. Editorial "New York Times", April 13, 1964.
  14. Richard V. Wheels, Pakistan: Birth and Growth of Muslim nation, 1964, PP 233-341.
  15. "The Hindustan Standard”, Calcutta, (India) April 11, 1964.
  16. "The Manchester Guardian", March 29, 1957.
  17. "The Organizer", Delhi March 11, 1957.
  18. "The Times", London, May 14, 1957.
  19. Authority Mann, "The Telegraph", London.
  20. "The Free Thinker", Delhi, June 21, 1956.
  21. "The Free Thinker", Delhi, June 7, 1956.
  22. "The New York Times", October, 16 1965.
  23. Royal Maaks, "The Daily Telegraph", October 12, 1965.
  24. David V. Praagh, "Toronto Globe and Mail", October 31, 1965.
  25. George Bilaink, "Contemporary Review", October 1965.
  26. Heveno Johnson, "The Washington Post", October 20, 1965.
  27. جولائی اگست ستمبر، اکتوبر 1965ء
  28. Le Figaro, Vide, "Dawn" Karachi October 3, 1965.
  29. Nehru J. L. "Discovery of India", P. 50.
  30. Dr. Satyavrata, R. Patel, Foreign Policy of India: Inquiry and Criticism” Bombay 1960.
  31. مئی 1972ء میں بھارت نے کامیاب ایٹمی دھماکہ کر لیا۔ (مرتب)۔