تحریک اسلامی: ایک تاریخ ایک داستان
حرف اول
اسلام ایک آفاقی و انقلابی دین ہے۔ یہ تمام باطل ادیان کا مقابلہ کرنے اور انہیں زیر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کے تصورات کے مقابل غلط تصورات و عقائد کے محل باقی نہیں رہ سکتے۔ یہ حقیقت کل بھی واضح تھی اور آج بھی واضح ہے، لیکن ملت اسلامیہ کی سب سے بڑی بد نصیبی یہ تھی کہ خلافت کے ملوکیت میں تبدیل ہونے اور بعد میں ایک عرصے تک محکومیت کی زندگی بسر کرنے کے نتیجے میں اسلام کی انقلابیت سے اس کا تعلق ٹوٹ گیا، اسلام کی کاملیت اس کے ذہن سے محو ہو گئی۔ اب یہ ملت پستی کے اس مقام پر پہنچ چکی تھی جہاں اپنے اندر انقلابیت پیدا کرنے کی بجائے اس نے اسلام کو ہی ایک جامد مذہب کی حیثیت سے پیش کرنا شروع کیا۔ جس کا مطالبہ اور تقاضا سوائے نماز روزے یا کلمے کے زبانی اقرار کے اور کچھ نہ تھا۔
برصغیر کی حد تک یہ ٹھیک وہی زمانہ ہے جب ہندو مسلم بھائی بھائی کے نعرے بلند ہونا شروع ہوئے، شدھی کی تحریک چلنے لگیں اور مسلمانوں کو انگریزوں کی فوج میں شامل ہوتے ہوئے خانہ خدا پر گولیاں برسانے میں بھی کسی قسم کی جھجک محسوس نہ ہوئی۔ ان حالات میں ایک بائیس سال کا نوجوان اُٹھتا ہے اور زمانے کی روش کے علی الرغم اسلام کی اصل انقلابیت سے لوگوں کو متعارف کراتا ہے۔ انھیں بتاتا ہے کہ تمہارے دکھوں کا مداوا، نہ قوم پرستی میں ہے، نہ مغرب و مشرق پرستی میں، بلکہ صرف اسلام پرستی میں ہے۔ اس کا کہنا یہ ہے کہ جس دین کے تم وارث ٹھیرائے گئے ہو اس نے ایک عرصے تک دنیا پر حکمرانی کی ہے، اس کے مقابلے میں بڑی بڑی جاندار تہذیبیں دم توڑ چکی ہیں، اس نے انسانیت کے گیسوؤں کو سنوارا ہے۔ آج بھی وہ انسانیت کی قیادت کرنے کی اہلیت و صلاحیت رکھتا ہے۔ انسانیت کا مقدر اس دین سے تعلق کے نتیجے میں ہی سنور سکتا ہے۔ تم میں جرات ہے تو شعوری طور پر اس دین کے پرچم کو تھامو، ورنہ اس کے راستے سے ہٹ جاؤ کہ کہیں اس کا راستہ روکنے کے مرتکب نہ ٹھہرو۔
یہ آواز اس اعتماد سے اُٹھتی ہے کہ فضاؤں میں ارتعاش محسوس ہوتا ہے۔ وہ لوگ جو کچھ کرنے کا عزم رکھتے تھے مگر اندھیروں میں گھرے ہوئے تھے یا انقلابیت کے جوش میں انکار خدا کی وادی میں داخل ہونے والے تھے، انھیں پہلی مرتبہ روشنی دکھائی دی۔ تعداد میں وہ کم تھے مگر وہ شمع کے گرد جمع ہو گئے اور جنھیں شمع محفل بننے کا اعزاز حاصل ہوا، دنیا انھیں مفکر اسلام مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کے نام سے جانتی ہے۔ مولانا محترم نے بر عظیم میں دعوت حق کا جو پودا لگایا تھا، اب وہ ایک تناور درخت کی حیثیت اختیار کر چکا ہے اور اُس کی شاخیں ایک عالم کو ٹھنڈک اور سایہ بہم پہنچانے کے لیے بڑھ رہی ہیں اور پھل پھول رہی ہیں۔
وہ نوجوان جن کی شریانوں میں گرم خون موجود ہے، جو کچھ کر گزرنے کا فطری داعیہ رکھتے ہیں، اُن کی اکثریت آج اسلام کی پر جوش مبلغ بن کر اٹھی ہے۔ مایوسیوں کے پردے چھٹ رہے ہیں۔ اُمید کا سورج طلوع ہو رہا ہے۔ بگاڑ کی قوتوں کی تمام تر ریشہ دوانیوں کے باوجود خیر کی قوتیں روز بروز قوت و توانائی حاصل کر رہی ہیں۔
آج تحریک اسلامی ایک قوت کا نام ہے، ایک ہمہ گیر اور ہمہ پہلو دعوت کا نام ہے اور آج اس تحریک سے تعلق رکھنا گویا دوسرے لفظوں میں معاشرے میں اہم مقام حاصل کرنا، نیز لوگوں کی توجہات کا مرکز ٹھیرنا ہے۔ ان حالات میں جب کہ لوگوں نے تحریک کے عروج کو دیکھا ہے مگر اس کے آغاز کی داستان سے واقف نہیں، شاید اس تحریک کی صحیح قدر و قیمت سے واقف نہ ہوسکیں۔ اس لحاظ سے ضرورت تھی کہ کوئی کتابچہ اس ضرورت کے پیش نظر مرتب کیا جائے تاکہ تحریک کی اصل قدر و قیمت زیادہ نکھر کر سامنے آسکے۔
تحریک اسلامی ایک امانت بھی ہے۔ اگر خدا نخواستہ یہ تحریک غیروں کی بدخواہی اور اپنوں کی نا سمجھی کی بنا پر ختم ہو گئی تو ایک عرصے تک نئی تحریک چلانے کی ہمت نہ ہو سکے گی کیوں کہ تحریکیں چلانا جان جوکھوں کا کام ہے۔ یہاں اپنی قوتوں ،صلاحیتوں، مال و اسباب سبھی کچھ کو داؤں پہ لگانا پڑتا ہے تب کہیں تحریکیں معاشرے میں جڑ پکڑتی ہیں۔
اس تحریک کی حفاظت تبھی ہو سکتی ہے جب جماعت کے قیام سے قبل اور بعد کے حالات، نیز داعی تحریک کے تحریک برپا کرنے کے سلسلہ میں تدریجی فکری سفر کی تفصیلات سے آگاہی حاصل ہو۔ یہ تحریر جسے میرے محترم بھائی پروفیسر خورشید احمد نے داعی تحریک کی تحریروں سے مرتب کیا تھا، ہمیں شائع کرنے کی سعادت حاصل ہو رہی ہے۔
مجھے یقین ہے کہ اگر آپ نے شعوری طور پر اس کتابچہ کا مطالعہ کیا تو آپ یوں محسوس کریں گے کہ جیسے ہر نازک موڑ پر داعی تحریک کی انگلی پکڑے ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔ یہ اندازِ فکر آپ کی شخصیت میں تبدیلی پیدا کرے گا، تحریکی اصولوں کی حفاظت کرنے کا داعیہ پیدا ہو گا۔ پھر آپ کو تحریک سے محبت ہوگی، داعی تحریک سے عقیدت ہو گی اور کام کرنے کا بے پناہ جوش و جذبہ آپ کو سکون سے بیٹھنے نہ دے گا۔ یہی چیزیں کسی تحریک کے لیے زادِ راہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔
سلیم احمد فاروقی
پہلا اڈیشن
8
مقدمہ
زندگی کی سب سے بڑی حقیقت اللہ اور اس کی عنایت کی ہوئی وہ نعمتیں ہیں جن کا شمار ممکن نہیں۔ دل گواہی دیتا ہے کہ اگر ہم اللہ کی نعمتوں کو گننا چاہیں تو انھیں گن نہیں سکتے۔ بلا شبہہ وہ بڑا درگزر کرنے والا اور رحیم ہے
(وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللهِ لَا تُحْصُوهَا إِنَّ اللهَ لَغَفُورٌ رَّحِيمٌ النحل ۱۸:۱۶)
یہ محض ایک معروضی سچ کا اعتراف ہی نہیں، ہر باشعور انسان کا ہر لمحہ واقع ہونے والا تجربہ بھی ہے____ اور اس پر اللہ کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے ، کم ہے۔
اپنی زندگی پر غور کرتا ہوں تو دل شکر کے جذبات سے معمور ہو جاتا ہے کہ خالق کائنات نے اپنے کرم سے انسان بنایا، ورنہ جمادات، نباتات، حیوانات، کسی بھی دائرے میں وجود بخش سکتا تھا۔ پھر انسان ہی نہیں بنایا، مسلمان گھرانے میں پیدا کیا جس کی بدولت ایمان کی دولت شیر مادر کے ساتھ میسر آئی۔ دنیا میں زندگی کے سفر کا آغاز کلمہ اور اذان کی آواز سے ہوا، اور ایک اچھے دینی گھرانے میں پرورش کی سعادت حاصل ہوئی۔ پھر جس دور میں زندگی بخشی وہ بڑا انقلابی اور تبدیلیوں کا دور تھا۔ پیدایش برطانوی سامراج کے دور میں ہوئی۔ طالب علمی ہی کے زمانے میں آزادی کی جدوجہد میں شرکت نصیب ہوئی، اور پھر ایک آزاد مسلمان ملک میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے اور زندگی کے سفر کی اگلی منزلیں طے کرنے کا موقع ملا۔ پھر آزادی ہی کی نعمت سے نہیں نوازا بلکہ اُس دور میں شعور کی آنکھیں کھولنے کا موقع ملا جب بر عظیم میں تحریک اسلامی بھی سرگرم عمل تھی ورنہ کتنی ہی نسلیں ہیں جو ایسے کسی دور کو نہ پاسکیں جب غلبہ اسلام کی عملی جدوجہد ہورہی ہو۔ پھر طالب علمی ہی کے دور میں تحریک اسلامی سے واقفیت اور اس کی دعوت پر لبیک کہنے کی سعادت سے بھی نوازا، اور الحمد للہ زندگی کے لیے جو راستہ ۱۹۴۹ء کے آخر میں اختیار کیا تھا، اس پر اپنی ساری کمزوریوں اور حالات کے نشیب و فراز کے باوجود سرگرم رہنے کی توفیق بخشی۔ بلا شبہہ اللہ تعالیٰ کے تمام ہی انعام و اکرام میں یہ نعمت سب سے قیمتی اور دنیا اور آخرت دونوں کی اعلیٰ ترین متاع ہے، فالحمد للہ علیٰ ذلک۔
تحریک اسلامی اللہ تعالیٰ کا کتنا بڑا انعام ہے، اس پر جتنا بھی غور کرتا ہوں دل میں ایک تلاطم برپا ہوتا ہے، آنکھیں اشک بار ہو جاتی ہیں اور سر سجدہ شکر میں جھک جاتا ہے۔ ایمان اور اسلام کی دولت تو الحمد للہ مسلمان گھرانے میں پیدا ہونے اور دینی ماحول والے گھر میں پرورش پانے سے حاصل ہو گئی تھی لیکن اس دولت کا اصل شعور صرف تحریک اسلامی کو سمجھنے اور اس کا حصہ بننے سے حاصل ہوا۔ یہی وہ چیز ہے جس نے زندگی کے اصل مقصد کا شعور بخشا اور جینے اور مرنے کے اُس اسلوب سے واقف کر دیا جو ہمارے پیدا کرنے والے کو مطلوب اور اس کی رضا کے حصول کا ذریعہ ہے۔
تحریک اسلامی نے مجھے اور مجھ جیسے لاکھوں انسانوں کو غفلت، جہالت اور بغاوت کی تاریکیوں سے نکال کر اسلام کی روشن شاہراہ کی طرف رہنمائی کی، اور اپنی تمام کمزوریوں، کوتاہیوں، غلطیوں کے باوصف ہم اس قافلے کا حصہ ہیں اور اپنے رب کی رضا اور اس کی رحمتوں کے سائل اور طلب گار ہیں۔ تحریک نے ہمیں یہ سمجھنے کا موقع دیا کہ ہماری، تمام انسانوں کی، اور کم از کم ان تمام انسانوں کی جو اپنے رب کو پہچان لیں، اس زندگی میں اصل حیثیت اللہ کے خلیفہ اور نمایندہ کی ہے اور اس طرح، استخلاف ہی ہمارا اصل تشخص ہے جو ہمیں اپنے رب سے جوڑتا ہے۔ رب سے ہمارا رشتہ آقا، مالک اور معبود کا ہے، اور ہماری معراج اس کا عبد ہونے میں ہے۔
اللہ سے اس رشتے کے تقاضے کے طور پر انسان اس دنیا اور تمام انسانوں سے ایک نئے رشتے میں جڑ جاتا ہے۔ اللہ کو رب ماننے والوں کی اصل ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اللہ کی رضا کو جانیں، اس کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالنے کی کوشش کریں، اور اللہ کی مرضی کو اس کی زمین پر پھیلانے اور قائم کرنے کی جدوجہد کریں۔ اس طرح تحریک نے ہمیں اپنے صحیح مقام کو سمجھنے اور اللہ ، اللہ کے بندوں، دنیا کے تمام وسائل اور کائنات کے پورے نظام سے اپنے رشتے اور تعلق کو شعوری طور پر اس ہدایت کی روشنی میں استوار کرنے کا شعور، عزم اور موقع دیا جو اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی رہنمائی کے لیے اپنے انبیاے کرامؑ کے ذریعے فراہم کی ہے۔ اور جو اپنی آخری اور مکمل شکل میں قرآن اور سنت ِ رسول کی شکل میں ہمارے پاس موجود ہے۔
اسلام کا جو وژن تحریک نے دیا ہے، اس کے پانچ پہلو ہیں جو ایک دوسرے سے مربوط ہیں۔ ان میں سے کسی کو بھی دوسروں سے جدا نہیں کیا جاسکتا کہ اللہ کا واضح حکم ہے کہ:
يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً ۖ وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوتِ الشَّيْطَنِ ۚ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ (البقرة ٢:٢٠٨)
اے ایمان لانے والو، تم پورے کے پورے اسلام میں آجاؤ اور شیطان کی پیروی نہ کرو کہ وہ تمھارا کھلا دشمن ہے۔
اور______
قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ ۙ لَا شَرِيكَ لَهُ ۖ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ (الانعام ١٦٢:٦ - ١٦٣)
کہو، میری نماز، میرے تمام مراسم عبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا، سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے جس کا کوئی شریک نہیں۔ اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور سب سے پہلے سر اطاعت جھکانے والا میں ہوں۔
اسلام کی پہلی اور سب سے اہم بنیاد ایمان ہے: اللہ پر، اللہ کے رسول پر، اللہ کی کتاب پر، اللہ کے فرشتوں پر اور یوم جزا و سزا پر ۔ یہ ایمان صرف زبان کے اقرار ہی سے عبارت نہیں، بلکہ دل کی گہرائیوں سے تصدیق اور اس کے عملی تقاضوں کو پورا کرنے کا عزم اور کوشش اس کا لازمی حصہ ہے۔ اللہ ہی اوّل اور آخر ہے اور صرف اس کی رضا ہی اصل مقصود و مطلوب ہے۔ اللہ سے گہرا قلبی تعلق، اس سے محبت اور اس کا خوف ہی زندگی کی سب سے کار فرما قوتیں ہیں، اور ایمان کا لطف اور مزہ انسان اسی وقت حاصل کر سکتا ہے جب وہ صرف اللہ کو اپنا رب، اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا آقا اور رہبر، اور اللہ کی دی ہوئی ہدایت اسلام کو اپنا نظامِ زندگی بنالے اور اس پر صرف قانع ہی نہ ہو، اس پر راضی اور مطمئن ہو جائے۔ اس کے سوا رہنمائی کے لیے کسی اور سمت نہ دیکھے جیسا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ذَاقَ طَعْمُ الْإِيمَانِ مَنْ رَضِيَ بِاللهِ رَبًّا وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا وَبِمُحَمَّدٍ رَسُولًا (بخاری و مسلم)
ایمان کا مزہ چکھا اس شخص نے جو اللہ کو اپنا رب ماننے اور اسلام کو اپنا دین ماننے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا رسول تسلیم کرنے پر راضی ہو گیا۔
اور جب انسان اللہ کے رنگ میں رنگ جاتا ہے تو پھر وہ اس مقام کو حاصل کر لیتا ہے جسے اللہ سبحانہ و تعالیٰ خود اس کے بندے کا ولی اور دوست بن جانے کے اعلیٰ مقام سے تعبیر کرتا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں بندے کی خواہشات اپنے مالک کی رضا سے اس طرح ہم آہنگ ہو جاتی ہیں کہ اس کی پوری زندگی اپنے آقا کی رضا کی مظہر بن جاتی ہے۔ پھر بندہ اللہ کی طرف ایک قدم بڑھتا ہے تو مالک حقیقی اس کی طرف دو قدم بڑھتا ہے ، جیسا کہ حدیث قدسی میں آتا ہے ، سُبْحَانَ اللهِ عَلى ذلِكَ :
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَقُولُ اللَّهُ أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي ، وَأَنَا مَعَهُ إِذَا ذَكَرَنِي، فَإِنْ ذَكَرَنِي فِي نَفْسِهِ، ذَكَرْتُهُ فِي نَفْسِي ، وَإِنْ ذَكَرَنِي فِي مَلَأٍ ذَكَرْتُهُ فِي مَلَأٍ خَيْرٍ مِنْهُ، وَإِنْ تَقَرَّبَ إِلَيَّ ذِرَاعًا تَقَرَّبْتُ إِلَيْهِ بَاعًا ، وَإِنْ أَتَانِي يَمْشِي، أَتَيْتُهُ هَرْوَلَةً - (رواه البخاري وكذلك مسلم والترمذي وابن ماجه)
حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تبارک و تعالی ارشاد فرماتا ہے کہ ”میرا بندہ مجھ سے جو توقع رکھتا ہے اور جیسا گمان اس نے میرے متعلق قائم کر رکھا ہے ویسا ہی مجھے پائے گا۔ جب وہ مجھے یاد کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں۔ اگر وہ مجھے تنہائی میں یاد کرتا ہے تو میں بھی اسے تنہائی میں یاد کرتا ہوں، اور اگر وہ مجھے کسی جماعت کے ساتھ بیٹھ کر یاد کرتا ہے تو میں اس سے بہتر جماعت میں اس کو یاد کرتا ہوں۔ اگر وہ میری طرف ایک بالشت بھر بڑھتا ہے تو میں اس کی طرف ایک ہاتھ بڑھ جاتا ہوں، اور اگر وہ میری طرف ایک ہاتھ بڑھتا ہے تو میں اس کی طرف چار ہاتھ بڑھتا ہوں، اور اگر وہ میری طرف آہستہ آہستہ آتا ہے تو میں اس کی طرف دوڑ کر جاتا ہوں“۔
اللہ پر کامل ایمان اور اس کے سامنے مکمل سپردگی کا تقاضا ہے کہ بندہ اپنے آپ کو اپنے رب اور محبوب کی مرضی کے مطابق ڈھالے اور وہ سیرت و کردار اختیار کرے جو مالک کے انسان مطلوب کا طرۂ امتیاز ہے۔ تزکیہ نفس ایمان کا فطری مطالبہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ اللہ کے رسول کی اولین ذمہ داری تلاوتِ کتاب اور تعلیم کتاب کے ساتھ تزکیہ نفس ہے یعنی انسان سازی ۔ تزکیے کا یہ دائرہ محض ذاتی کردار تک محدود نہیں بلکہ زندگی کے ہر پہلو پر حاوی ہے جس میں انفرادی زندگی کے ساتھ اجتماعی زندگی کا ہر پہلو شامل ہے۔ البتہ ایمان کی بنیاد پر اور اس کے مطابق انفرادی اور اجتماعی تبدیلی میں مرکزی حیثیت فرد کی ہے اور دنیا اور آخرت میں آخری جواب دہی ہر ہر فرد کی ہے۔ رہا معاملہ دنیا کا، تو یہاں بھی ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا۔ یہی وجہ ہے کہ جن اینٹوں سے یہ عمارت تعمیر ہوتی ہے، ان میں ہر اینٹ کا مضبوط ہونا ضروری ہے، اور یہی وجہ ہے کہ تحریک اسلامی نے اسلام کا جو وژن دیا ہے اس کی پہلی بنیاد ایمان ہے تو دوسری بنیاد فرد کی اصلاح اور تزکیہ ہے۔
فرد کی اصلاح اور سیرت سازی کو یہ مرکزی مقام دینے کے ساتھ اسلام یہ بھی واضح کرتا ہے کہ عمل صالح اور صراط مستقیم کا دائرہ صرف انفرادی زندگی تک محدود نہیں بلکہ انسان کے تمام تعلقات _ سب انسانوں سے اور معاشرے اور اس کے تمام اداروں سے _ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی فراہم کردہ رہنمائی کے مطابق ہونے چاہییں اور اس میں کسی بھی پہلو کو اللہ کی حاکمیت اور اس کی ہدایت کی فرماں روائی سے باہر رکھنا اللہ سے بغاوت اور طاغوت سے سمجھوتے کے مترادف ہے۔ اسلام ایک مکمل نظام زندگی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اسے روایتی مفہوم میں مذہب نہیں کہا گیا بلکہ الدین کہا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے صاف صاف الفاظ میں فیصلہ فرما دیا ہے:
إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلَامُ ۗ وَمَا اخْتَلَفَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَبَ إِلَّا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ ۗ وَمَنْ يَكْفُرْ بِآيَتِ اللَّهِ فَإِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ ۙ (آل عمران ۱۹:۳)
اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے۔ اس دین سے ہٹ کر جو مختلف طریقے ان لوگوں نے اختیار کیے جنھیں کتاب دی گئی تھی، ان کے اس طرزِ عمل کی کوئی وجہ اس کے سوا نہ تھی کہ انھوں نے علم آجانے کے بعد آپس میں ایک دوسرے پر زیادتی کرنے کے لیے ایسا کیا، اور جو کوئی اللہ کے احکام اور ہدایات کی اطاعت سے انکار کر دے، اللہ کو اس سے حساب لیتے کچھ دیر نہیں لگتی۔
پھر یہ بھی صاف لفظوں میں انسان کو بتا دیا کہ اللہ کی ہدایت مکمل ہے اور اس میں نہ کسی کمی کی گنجایش ہے نہ کسی اضافے کی ضرورت۔ یہ بجائے خود مکمل (self-contained) ہے اور ہر دور کے لیے اس میں وہ تمام گنجایشیں موجود ہیں جن کے باعث اہل ایمان اس دین کی حدود (frame work) میں رہتے ہوئے زمانے کی تبدیلیوں کا ساتھ دے سکتے ہیں۔
الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِيْنًا (المائدہ ۵:۳)
آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے۔
اور ساتھ ہی یہ انتباہ (warning) بھی فرما دیا کہ:
وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ (آل عمران ۸۵:۳)
اس فرماں برداری (اسلام) کے سوا جو شخص کوئی اور طریقہ اختیار کرنا چاہے اس کا وہ طریقہ ہر گز قبول نہ کیا جائے گا اور آخرت میں وہ ناکام و نامراد رہے گا۔
پس اہل ایمان کے لیے کامیابی کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے مکمل اطاعت، سپردگی اور رب کی مرضی کے حصول کی پیہم جدوجہد کا راستہ ، فرمایا:
إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوا وَجَهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ۚ أُولَئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ (الحجرات ۱۵:۴۹)
حقیقت میں تو مومن وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے، پھر اس میں کوئی شک نہ کیا اور اپنی جانوں اور مالوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا۔ وہی سچے لوگ ہیں۔
ایمان کے استحکام اور اس کی افزایش، سیرت و کردار کی تعمیر اور پوری زندگی کو اللہ کی ہدایت اور اس کی مرضیات کے تابع کرنے کی جدوجہد کے ساتھ ایک چوتھا تقاضا اللہ کے دین کو اللہ کے تمام بندوں تک پہنچانے کی سعی و جہد ہے۔ فرد اور اُمت دونوں کے لیے لازم کیا گیا ہے کہ شہادتِ حق کی ذمہ داری کو ادا کریں۔ اسلام ہماری زندگیوں ہی کو نور الہی سے منور کرنے پر قانع نہیں۔ وہ بلا شبہہ ہر صاحب ایمان کو نور کا ایک مینار بنا دینا چاہتا ہے تاکہ اس کے ذریعے یہ نور زمین و آسمان میں پھیلے اور پوری دنیا اس سے رہنمائی حاصل کرے اور پورا عالم اس سے منور ہو جائے۔
یہ ایک تاریخی جدوجہد ہے جس میں تمام ہی انبیاے کرام شامل رہے ہیں اور یہ آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کبری کی حیثیت رکھتی ہے۔ سورئہ فاتحہ میں جس صراط مستقیم کی دعا کی تعلیم بندے کو دی گئی ہے اس میں یہ حقیقت بھی اُسے سمجھا دی گئی ہے کہ یہ سیدھا راستہ کوئی محض نظری چیز نہیں بلکہ ان لوگوں کا راستہ ہے جن پر اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمتیں نازل فرمائیں اور جن کا شمار انبیاء صدیقین، شہدا اور صالحین میں ہوتا ہے:
وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّنَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَئِكَ رَفِيقًا (النِّسَاء ٤:٦٩)
جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کریں گے وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے، جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے، یعنی انبیا، صدیقین اور شہدا اور صالحین۔ کیسے اچھے ہیں یہ رفیق جو کسی کو میسر آجائیں۔
معلوم ہوا کہ استخلاف کا چوتھا تقاضا یہ ہے کہ اہل ایمان کی زندگی، دعوت اور تحریک کی زندگی ہو۔ اللہ کے انعام یافتہ افراد کی رفاقت کے طلب گاروں کو اللہ کے دین کے قیام اور حق کی شہادت کی ذمہ داری کو اپنی زندگی کا مقصد اور اپنی تمام سعی و جہد کا آخری ہدف بنانا ہو گا۔ ہر مسلمان کو بحیثیت مسلمان اور اُمت مسلمہ کو بحیثیت قوم اور ایک منظم گروہ یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ وہ انسانوں کو خیر کی طرف بلانے والے، بدی سے روکنے والے، حق کی شہادت دینے والے اور دین کو قائم کرنے والے بنیں:
وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا ۗ ... (البقرة ٢:١٤٣)
اور اسی طرح تو ہم نے تم مسلمانوں کو ایک اُمت وسط بنایا تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو۔
اور ____
كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ ۗ .... (آل عمران ۳: ۱۱۰)
اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو،بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔
پھر واضح الفاظ میں اقامت دین کو اُمت کا اصل نصب العین قرار دیا:
شَرَعَ لَكُمْ مِّنَ الدِّينِ مَا وَصَّى بِهِ نُوحًا وَالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى وَعِيسَى أَنْ أَقِيمُوا الدِّينَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِيهِ ..... ط (الشوری ٤٢:١٣)
لوگو! اس نے تمہارے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا ہے جس کا حکم اس نے نوح کو دیا تھا، اور جسے (اے محمد) اب تمھاری طرف ہم نے وحی کے ذریعے بھیجا ہے اور جس کی ہدایت ہم ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ کو دے چکے ہیں، اس تاکید کے ساتھ کہ قائم کرو اس دین کو اور اس میں متفرق نہ ہو جاؤ۔
ایمان، اصلاح نفس، پورے نظام زندگی کی اللہ کی ہدایت کی روشنی میں صورت گری اور دین کی اس دعوت کو تمام انسانوں تک پہنچانے کی جدوجہد اور بالآخر اقامت دین اور مال اور جان کی قربانی کے ساتھ غلبے کی جدوجہد ____ یہ ہے وہ تصور دین جو قرآن و سنت سے ہمارے سامنے آتا ہے، جو اسوئہ نبوی اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے منہج انقلاب کا طرئہ امتیاز ہے۔ یہی وہ چار بنیادیں ہیں جن کے تقاضے کے طور پر پانچویں چیز رُونما ہوتی ہے اور وہ وہ عملی اور منظم جدوجہد ہے جو دین کے قیام اور غلبے کے لیے برپا کی جائے اور صرف اللہ کی رضا کے لیے برپا کی جائے___حالات خواہ کیسے بھی ہوں۔ البتہ یہ کام مقصد کے واضح شعور، اور ان اخلاقی حدود کی مکمل پاس داری کے ساتھ انجام دینا مطلوب ہے جن کا شریعت حکم دیتی ہے۔ اس کے لیے قلب و نظر اور جان و مال کے تمام وسائل کو اس اجتماعی اور منظم جدوجہد کے لیے بخوشی پیش کر دینا شریعت کا تقاضا ہے۔ یہ کام ہر دور میں حکمت اور اپنے زمانے کی ضروریات اور تقاضوں کے ادراک کے ساتھ انجام دینا مطلوب ہے۔
یہی وہ پانچ عناصر ہیں جن سے اسلام کا مفصل وژن عبارت ہے اور جن کا نام آج کے دور میں تحریک اسلامی ہے۔ جہاں یہ جدوجہد اپنے متعین مقاصد، اہداف، لائحہ عمل، حکمت عملی اور پروگرام رکھتی ہے وہیں داعی کے لیے ضروری ہے کہ وہ صرف اللہ کی رضا کے لیے جدوجہد کرے اور اس راستے میں جو بھی مشکلات پیش آئیں، ان کا مقابلہ صبر اور استقامت کے ساتھ کرے۔
تحریک اسلامی کی پہچان یہ دعوت اور داعی کی وہ کیفیات ہیں جو اسے اللہ کے انعام پانے والوں کی صف میں شامل ہونے کی سعادت بخشتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تحریک اسلامی کے دونوں پہلو ایک تصویر کے دو رخ ہیں داعی کی عملی جدوجہد اور اس کی قلبی کیفیات اور محرکات۔
حضرت آدم کے بعد قرآن حضرت نوح کی دعوت کا تفصیل سے ذکر کرتا ہے ____ اللہ کی بندگی کی دعوت، تقویٰ اور اللہ کے رسول کی اطاعت اور انسان کی پوری زندگی کو رب کی مرضی کے تابع کرنے کی دعوت ____ سورة نوح میں اس کا بڑا ایمان افروز اور تاریخی حقائق پر مبنی احوال اللہ کے نبی ہی کے الفاظ میں کچھ اس طرح بیان کیا گیا ہے:
قَالَ يَا قَوْمِ إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُّبِينٌ ۙ أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاتَّقُوهُ وَأَطِيعُونِ ۙ يَغْفِرْ لَكُمْ مِّنْ ذُنُوبِكُمْ وَيُؤَخِّرْكُمْ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ إِنَّ أَجَلَ اللَّهِ إِذَا جَاءَ لَا يُؤَخَّرُ ۖ لَوْ كُنتُمْ تَعْلَمُونَ ۙ قَالَ رَبِّ إِنِّي دَعَوْتُ قَوْمِي لَيْلًا وَنَهَارًا ۙ فَلَمْ يَزِدْهُمْ دُعَاءِ إِلَّا فِرَارًا ۙ وَإِنِّي كُلَّمَا دَعَوْتُهُمْ لِتَغْفِرَ لَهُمْ جَعَلُوا أَصَٰبِعَهُمْ فِي آذَانِهِمْ وَاسْتَغْشَوْا ثِيَابَهُمْ وَأَصَرُّوا وَاسْتَكْبَرُوا اسْتِكْبَارًا ۙ ثُمَّ إِنِّي دَعَوْتُهُمْ جِهَارًا ۙ ثُمَّ إِنِّي أَعْلَنتُ لَهُمْ وَأَسْرَرْتُ لَهُمْ إِسْرَارًا ۙ فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كَانَ غَفَّارًا ۙ يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُمْ مِّدْرَارًا ۙ وَيُمْدِدْكُمْ بِأَمْوَالٍ وَبَنِينَ وَيَجْعَل لَّكُمْ جَنَّاتٍ وَيَجْعَل لَّكُمْ أَنْهَرًا ۙ مَّا لَكُمْ لَا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقَارًا ۙ وَقَدْ خَلَقَكُمْ أَطْوَارًا ۙ أَلَمْ تَرَوْا كَيْفَ خَلَقَ اللَّهُ سَبْعَ سَمُوَٰتٍ طِبَاقًا ۙ وَجَعَلَ الْقَمَرَ فِيهِنَّ نُورًا وَجَعَلَ الشَّمْسَ سِرَاجًا ۙ وَاللَّهُ أَثْبَتَكُمْ مِنَ الْأَرْضِ نَبَاتًا ۙ ثُمَّ يُعِيدُكُمْ فِيهَا وَيُخْرِجُكُمْ إِخْرَاجًا ۙ وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ بِسَاطًا ۙ لِتَسْلُكُوا مِنْهَا سُبُلًا فِجَاجًا ۗ قَالَ نُوحٌ رَّبِّ إِنَّهُمْ عَصَوْنِي وَاتَّبَعُوا مَن لَّمْ يَزِدْهُ مَالُهُ وَوَلَدُهُ إِلَّا خَسَارًا ۙ وَمَكَرُوا مَكْرًا كُبَّارًا ۙ (نوح ٢:٢٢-٢٢)
اس نے کہا: اے میری قوم کے لوگو، میں تمہارے لیے ایک صاف صاف خبر دار کر دینے والا (پیغمبر) ہوں۔ تم کو آگاہ کرتا ہوں کہ اللہ کی بندگی کرو اور اس سے ڈرو اور میری اطاعت کرو، اللہ تمہارے گناہوں سے درگزر فرمائے گا اور تمہیں ایک وقت مقرر تک باقی رکھے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کا مقرر کیا ہوا وقت جب آجاتا ہے تو پھر ٹالا نہیں جاتا، کاش تمہیں اس کا علم ہو۔ اس نے عرض کیا: اے میرے رب، میں نے اپنی قوم کے لوگوں کو شب و روز پکارا مگر میری پکار نے اُن کے فرار ہی میں اضافہ کیا۔ اور جب بھی میں نے اُن کو بلایا تاکہ تو انھیں معاف کر دے، انھوں نے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں اور اپنے کپڑوں سے منہ ڈھانک لیے اور اپنی روش پر اڑ گئے اور بڑا تکبر کیا۔ پھر میں نے ان کو ہانکے پکارے دعوت دی۔ پھر میں نے علانیہ بھی ان کو تبلیغ کی اور چپکے چپکے بھی سمجھایا۔ میں نے کہا: اپنے رب سے معافی مانگو، بے شک وہ بڑا معاف کرنے والا ہے۔ وہ تم پر آسمان سے خوب بارشیں برسائے گا، تمہیں مال اور اولاد سے نوازے گا، تمہارے لیے باغ پیدا کرے گا اور تمہارے لیے نہریں جاری کر دے گا۔ تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ اللہ کے لیے تم کسی وقار کی توقع نہیں رکھتے؟ حالانکہ اُس نے طرح طرح سے تمہیں بنایا ہے۔ کیا دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ نے کس طرح سات آسمان تہ بہ تہ بنائے اور اُن میں چاند کو نور اور سورج کو چراغ بنایا؟ اور اللہ نے تم کو زمین سے عجیب طرح اگایا، پھر وہ تمہیں اسی زمین میں واپس لے جائے گا اور اس سے یکا یک تم کو نکال کھڑا کرے گا۔ اور اللہ نے زمین کو تمہارے لیے فرش کی طرح بچھا دیا تاکہ تم اس کے اندر کھلے راستوں میں چلو۔ نوح نے کہا: میرے رب، اُنھوں نے میری بات رد کر دی اور اُن (رئیسوں) کی پیروی کی جو مال اور اولاد پاکر اور زیادہ نامراد ہو گئے ہیں۔ اِن لوگوں نے بڑا بھاری مکر کا جال پھیلا رکھا ہے۔
اللہ کے تمام انبیائے کرامؑ نے یہی دعوت دی اور اسی تحریک کو برپا کیا بلالحاظ اس کے کہ رد عمل کیا ہو۔ اسی دعوت کا ایک منظر فرعون کے دربار میں نظر آتا ہے جب حضرت موسیٰ کی دعوت کی تائید میں ایک صاحب ایمان وقت کے فرعون اور اپنی قوم کو مخاطب کرکے کہتا ہے:
وَقَالَ الَّذِي آمَنَ يَا قَوْمِ اتَّبِعُونِ أَهْدِكُمْ سَبِيلَ الرَّشَادِ ﴿٣٨﴾ يَا قَوْمِ إِنَّمَا هَذِهِ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا مَتَاعٌ وَإِنَّ الْآخِرَةَ هِيَ دَارُ الْقَرَارِ ﴿٣٩﴾ مَنْ عَمِلَ سَيِّئَةً فَلَا يُجْزَىٰ إِلَّا مِثْلَهَا ۖ وَمَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَا يُجْزَىٰ إِلَّا مِثْلَهَا ۖ الْجَنَّةَ يُرْزَقُونَ فِيهَا بِغَيْرِ حِسَابٍ ﴿٤٠﴾ وَيَا قَوْمِ مَا لِيَ أَدْعُوكُمْ إِلَى النَّجَاةِ وَتَدْعُونَنِي إِلَى النَّارِ ﴿٤١﴾ تَدْعُونَنِي لِأَكْفُرَ بِاللَّهِ وَأُشْرِكَ بِهِ مَا لَيْسَ لِي بِهِ عِلْمٌ وَأَنَا أَدْعُوكُمْ إِلَى الْعَزِيزِ الْغَفَّارِ ﴿٤٢﴾ لَا جَرَمَ أَنَّمَا تَدْعُونَنِي إِلَيْهِ لَيْسَ لَهُ دَعْوَةٌ فِي الدُّنْيَا وَلَا فِي الْآخِرَةِ وَأَنَّ مَرَدَّنَا إِلَى اللَّهِ وَأَنَّ الْمُسْرِفِينَ هُمْ أَصْحَابُ النَّارِ ﴿٤٣﴾ فَسَتَذْكُرُونَ مَا أَقُولُ لَكُمْ ۚ وَأُفَوِّضُ أَمْرِي إِلَى اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ بَصِيرٌ بِالْعِبَادِ ﴿٤٤﴾ (المؤمن ٤٠:٣٨-٤٤)
وہ شخص جو ایمان لایا تھا، بولا: ”اے میری قوم کے لوگو، میری بات مانو، میں تمہیں صحیح راستہ بتاتا ہوں۔ اے قوم، یہ دنیا کی زندگی تو چند روزہ ہے، ہمیشہ کے قیام کی جگہ آخرت ہی ہے۔ جو بُرائی کرے گا اُس کو اتنا ہی بدلہ ملے گا جتنی اُس نے بُرائی کی ہوگی اور جو نیک عمل کرے گا، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، بشرطیکہ ہو وہ مومن، ایسے سب لوگ جنت میں داخل ہوں گے جہاں ان کو بے حساب رزق دیا جائے گا۔ اے قوم، آخر یہ کیا ماجرا ہے کہ میں تو تم لوگوں کو نجات کی طرف بلاتا ہوں اور تم لوگ مجھے آگ کی طرف دعوت دیتے ہو! تم مجھے اس بات کی دعوت دیتے ہو کہ میں اللہ سے کفر کروں اور اس کے ساتھ اُن ہستیوں کو شریک ٹھیراؤں جنھیں میں نہیں جانتا، حالانکہ میں تمہیں اُس زبردست مغفرت کرنے والے خدا کی طرف بلا رہا ہوں۔ نہیں، حق یہ ہے اور اس کے خلاف نہیں ہو سکتا کہ جن کی طرف تم مجھے بلا رہے ہو اُن کے لیے نہ دنیا میں کوئی دعوت ہے ، نہ آخرت میں، اور ہم سب کو پلٹنا اللہ ہی کی طرف ہے اور حد سے گزرنے والے آگ میں جانے والے ہیں۔ آج جو کچھ میں کہہ رہا ہوں، عنقریب وہ وقت آئے گا جب تم اُسے یاد کرو گے۔ اور اپنا معاملہ میں اللہ کے سپرد کرتا ہوں، وہ اپنے بندوں کا نگہبان ہے۔
اس انقلابی دعوت کو اللہ کے جن برگزیدہ بندوں نے پیش کیا وہ بے غرضی و بے لوثی کا مجسمہ تھے۔ وہ اپنی قوم سے کسی اجر کے طالب نہیں تھے ۔ وہ صرف اللہ کے بندوں کو جہنم کے عذاب سے بچانے اور زمین و آسمان کے خالق کے بتائے ہوئے راستے کو اختیار کر کے دنیا اور آخرت کی کامیابی کی شاہراہ دکھانے والے تھے۔ وہ خیر خواہی، دل سوزی اور درمندی کے ساتھ اللہ کے بندوں کو اللہ کی طرف بلاتے ہیں اور اس میں اپنی جان تک ہلکان کر دیتے ہیں:
وَيَا قَوْمِ لَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مَالًا ۖ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ ۚ وَمَا أَنَا بِطَارِدِ الَّذِينَ آمَنُوا (هود ۲۹:۱۱)
اے برادرانِ قوم، میں اس کام پر تم سے کوئی مال نہیں مانگتا، میرا اجر تو اللہ کے ذمے ہے اور میں ان لوگوں کو دھکے دینے سے بھی رہا جنھوں نے میری بات مانی ہے۔
داعی اپنے تمام مخاطبین کے لیے سراپا رحمت اور محبت ہوتا ہے اور تکلیف دینے والوں کے لیے بھی دوست اور بہی خواہ کا کردار ادا کرتا ہے۔
دیکھیے قرآن اس کا سراپا کس طرح بیان کرتا ہے:
لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ ﴿١٢٨﴾ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِيَ اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَهُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ ﴿١٢٩﴾ (التوبۃ ۹:١٢٨-١٢٩)
دیکھو! تم لوگوں کے پاس ایک رسول آیا ہے جو خود تم ہی میں سے ہے، تمھارا نقصان میں پڑنا اس پر شاق ہے، تمھاری فلاح کا وہ حریص ہے، ایمان لانے والوں کے لیے وہ شفیق اور رحیم ہے۔ اب اگر یہ لوگ تم سے منہ پھیرتے ہیں تو اے نبی، ان سے کہہ دو کہ ”میرے لیے اللہ بس کرتا ہے، کوئی معبود نہیں مگر وہ اُسی پر میں نے بھروسا کیا اور وہ مالک ہے عرش عظیم کا“۔
اور اس دعوت میں وہ جس طرح اپنی جان کھپاتا ہے اور دوسروں کے لیے جس طرح فکرمند رہتا ہے اس کا بیان زبانِ حق نے یوں کیا ہے:
فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ عَلَى آثَارِهِمْ إِن لَّمْ يُؤْمِنُوا بِهَذَا الْحَدِيثِ أَسَفًا (الكهف ۶:۱۸)
اچھا، تو اے نبی! شاید تم ان کے پیچھے غم کے مارے اپنی جان کھو دینے والے ہو، اگر یہ اس تعلیم پر ایمان نہ لائے۔
تحریک اسلامی نے دین کا یہ وژن ہمیں دیا ہے اور اس کے مطابق عملی جدوجہد کے راستے پر بھی گامزن کر دیا ہے۔ استخلاف کی زندگی حق و باطل کے درمیان کش مکش کی زندگی ہے اور زندگی کا اصل لطف حق کا ساتھ دینے اور غلبہ حق کی جدوجہد میں مشکلات کا مردانہ وار مقابلہ کرنے اور اس جدوجہد کے درمیان لگنے والی ہر چوٹ کو اعزاز اور افتخار کے جذبات کے ساتھ انگیز کرنے میں ہے:
وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاءَ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا لَعِبِينَ ﴿١٦﴾ لَوْ أَرَدْنَا أَن نَّتَّخِذَ لَهْوًا لَاتَّخَذْنَاهُ مِن لَّدُنَّا إِن كُنَّا فَاعِلِينَ ﴿١٧﴾ بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْبَاطِلِ فَيَدْمَغُهُ فَإِذَا هُوَ زَاهِقٌ ۚ وَلَكُمُ الْوَيْلُ مِمَّا تَصِفُونَ ﴿١٨﴾ (الانبیاء ٢١:١٦-١٨)
ہم نے اس آسمان اور زمین کو اور جو کچھ ان میں ہے، کچھ کھیل کے طور پر نہیں بنایا ہے۔ اگر ہم کوئی کھلونا بنانا چاہتے اور بس یہی کچھ ہمیں کرنا ہوتا تو اپنے ہی پاس سے کر لیتے۔ مگر ہم تو باطل پر حق کی چوٹ لگاتے ہیں جو اس کا سر توڑ دیتی ہے اور وہ دیکھتے دیکھتے مٹ جاتا ہے اور تمہارے لیے تباہی ہے اُن باتوں کی وجہ سے جو تم بناتے ہو۔
اس کش مکش میں اہل حق کی ذمہ داری ہے کہ وہ حق پر جمے رہیں:
فَلِذَلِكَ فَادْعُ ۚ وَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ ۖ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ ۚ وَقُلْ آمَنتُ بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ مِن كِتَابٍ ۖ وَأُمِرْتُ لِأَعْدِلَ بَيْنَكُمُ ۖ اللَّهُ رَبُّنَا وَرَبُّكُمْ ۖ لَنَا أَعْمَالُنَا وَلَكُمْ أَعْمَالُكُمْ ۖ لَا حُجَّةَ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ ۖ اللَّهُ يَجْمَعُ بَيْنَنَا ۖ وَإِلَيْهِ الْمَصِيرُ ﴿١٥﴾ (الشوری ٤٢:١٥)
اے محمد ! تم اسی دین کی طرف دعوت دو اور جس طرح تمہیں حکم دیا گیا ہے اس پر مضبوطی کے ساتھ قائم ہو جاؤ، اور ان لوگوں کی خواہشات کا اتباع نہ کرو، اور ان سے کہہ دو کہ “اللہ نے جو کتاب بھی نازل کی ہے میں اس پر ایمان لایا۔ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمہارے درمیان انصاف کروں۔ اللہ ہی ہمارا رب بھی ہے اور تمھارا رب بھی۔ ہمارے اعمال ہمارے لیے ہیں اور تمہارے اعمال تمہارے لیے۔ ہمارے اور تمہارے درمیان کوئی جھگڑا نہیں۔ اللہ ایک روز ہم سب کو جمع کرے گا اور اس کی طرف سب کو جانا ہے۔
پھر اسی راہ پر استقامت دکھانے والوں کو اللہ کی مدد کی یقین دہانی ایمان افروز انداز میں کرائی جاتی ہے اور انھیں دعوت پر قائم رہنے اور بدی کو نیکی سے دفع کرنے کی تلقین کی جاتی ہے:
إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنتُمْ تُوعَدُونَ ﴿٣٠﴾ نَحْنُ أَوْلِيَاؤُكُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ ۖ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِي أَنفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُونَ ﴿٣١﴾ نُزُلًا مِّنْ غَفُورٍ رَّحِيمٍ ﴿٣٢﴾ وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّن دَعَا إِلَى اللَّهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ ﴿٣٣﴾ وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ۚ ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ ﴿٣٤﴾ وَمَا يُلَقَّهَا إِلَّا الَّذِينَ صَبَرُوا وَمَا يُلَقَّهَا إِلَّا ذُو حَظٍّ عَظِيمٍ ﴿٣٥﴾ (حم السجدۃ ۴۱: ۳۰-۳۵)
جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور پھر اس پر ثابت قدم رہے ، یقینا ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ “نہ ڈرو نہ غم کرو اور خوش ہو جاؤ۔ اس جنت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے۔ ہم اس دنیا کی زندگی میں بھی تمہارے ساتھی ہیں اور آخرت میں بھی۔ وہاں جو کچھ تم چاہو گے تمہیں ملے گا اور ہر چیز جس کی تم تمنا کرو گے وہ تمھاری ہوگی، یہ ہے وہ سامانِ ضیافت اس ہستی کی طرف سے جو غفور و رحیم ہے” اور اس شخص کی بات سے اچھی بات اور کس کی ہوگی جس نے اللہ کی طرف بلایا، اور نیک عمل کیا اور کہا کہ میں مسلمان ہوں۔
اور اے نبی، نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں۔ تم بدی کو اس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو۔ تم دیکھو گے کہ تمہارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی وہ جگری دوست بن گیا ہے۔ یہ صفت نصیب نہیں ہوتی مگر ان لوگوں کو جو صبر کرتے ہیں اور یہ مقام حاصل نہیں ہوتا مگر ان کو جو بڑے نصیبے والے ہیں۔
آخرت کی کامیابی کے ساتھ ان کو دنیا میں بھی عزت اور کامیابی کی نوید سنائی گئی ہے بشرطیکہ وہ اپنے ایمان میں سچے ہوں اور دعوت اور جدوجہد کا حق ادا کریں۔
وَأَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ (آل عمران ۳: ۱۳۹)
دعوت اور جہاد کیسی نفع بخش تجارت ہے۔ اس کا صاف الفاظ میں اظہار کر دیا گیا ہے:
يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَى تِجَارَةٍ تُنْجِيكُمْ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ ﴿١٠﴾ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَتُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ ۚ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ ﴿١١﴾ يَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَيُدْخِلْكُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهُرُ وَمَسَاكِنَ طَيِّبَةً فِي جَنَّاتِ عَدْنٍ ۚ ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمِ ﴿١٢﴾ وَأُخْرَىٰ تُحِبُّونَهَا نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ ۗ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ ﴿١٣﴾ (الصف ٦١ : ١٠-١٣)
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، میں بتاؤں تم کو وہ تجارت جو تمہیں عذاب الیم سے بچادے؟ ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول پر، اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں سے اور اپنی جانوں سے۔ یہی تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو۔ اللہ تمہارے گناہ معاف کر دے گا اور تم کو ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، اور ابدی قیام کی جنتوں میں بہترین گھر تمہیں عطا فرمائے گا۔ یہ ہے بڑی کامیابی۔ اور دوسری چیز جو تم چاہتے ہو وہ بھی تمہیں دے گا۔ اللہ کی طرف سے نصرت اور قریب ہی میں حاصل ہو جانے والی فتح اے نبی، اہل ایمان کو اس کی بشارت دے دو۔
اور پھر لسانِ نبوت سے دلوں میں طمانیت پیدا کرنے والی یہ خوش خبری بھی سنا دی گئی کہ :
وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ۚ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا ﴿٨١﴾ (بنی اسرائیل ۱۷: ۸۱)
اور اعلان کردو کہ “حق آگیا اور باطل مٹ گیا اور باطل تو مٹنے ہی والا ہے”۔
تحریک اسلامی نے اسلام کا جو فہم دیا ہے، اس نے زندگی کی اس حقیقت کو روزِ روشن کی طرح واضح کر دیا ہے کہ زندگی نام ہے کش مکش کا اور قرآن وہ کتاب ہدایت ہے جو حق و باطل کے درمیان کش مکش میں قدم قدم پر رہنمائی فرماتی ہے اور کش مکش کے ہر مرحلے میں راہِ صواب کی نشان دہی کرتی ہے۔ سید مودودی نے تفہیم القرآن کے مقدمے میں جس موثر انداز میں اس حقیقت کو بیان کیا ہے اس کی نظیر دینی ادب میں مشکل سے ملے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ سوچ اور فکر و عمل کی یہی وہ شاہراہ ہے جسے سامنے لانا تحریک اسلامی کا سب سے بڑا کارنامہ ہے۔ مولانا مذکورہ مقدمے میں لکھتے ہیں:
لیکن فہم قرآن کی ان ساری تدبیروں کے باوجود آدمی قرآن کی روح سے پوری طرح آشنا نہیں ہونے پاتا جب تک کہ عملاً وہ کام نہ کرے جس کے لیے قرآن آیا ہے۔ یہ محض نظریات اور خیالات کی کتاب نہیں ہے کہ آپ آرام کرسی پر بیٹھ کر اسے پڑھیں اور اس کی ساری باتیں سمجھ جائیں۔ یہ دنیا کے عام تصورِ مذہب کے مطابق ایک نری مذہبی کتاب بھی نہیں ہے کہ مدرسے اور خانقاہ میں اس کے سارے رموز حل کر لیے جائیں۔ یہ ایک دعوت اور تحریک کی کتاب ہے۔ اس نے آتے ہی ایک خاموش طبع اور نیک نہاد انسان کو گوشہ عزلت سے نکال کر خدا سے پھری ہوئی دنیا کے مقابلے میں لاکھڑا کیا۔ باطل کے خلاف اس سے آواز اُٹھوائی اور وقت کے علم برداران کفر و فسق و ضلالت سے اس کو لڑا دیا۔ گھر گھر سے ایک ایک سعید روح اور پاکیزہ نفس کو کھینچ کھینچ کر لائی اور داعی حق کے جھنڈے تلے ان سب کو اکٹھا کیا۔ گوشے گوشے سے ایک ایک فتنہ جو اور فساد پرور کو بھڑکا کر اُٹھایا اور حامیان حق سے ان کی جنگ کرائی۔
ایک فردِ واحد کی پکار سے اپنا کام شروع کرکے خلافت ِ الٰہیہ کے قیام تک پورے ۲۳ سال یہی کتاب اس عظیم الشان تحریک کی رہنمائی کرتی رہی، اور حق و باطل کی اس طویل و جاں گسل کش مکش کے دوران میں ایک ایک منزل اور ایک ایک مرحلے پر اسی نے تخریب کے ڈھنگ اور تعمیر کے نقشے بتائے۔ اب بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ سرے سے نزاع کفرودین اور معرکہ اسلام و جاہلیت کے میدان میں قدم ہی نہ رکھیں اور اس کش مکش کی کسی منزل سے گزرنے کا آپ کو اتفاق ہی نہ ہوا ہو اور پھر محض قرآن کے الفاظ پڑھ پڑھ کر اس کی ساری حقیقتیں آپ کے سامنے بے نقاب ہو جائیں۔ اسے تو پوری طرح آپ اُسی وقت سمجھ سکتے ہیں جب اسے لے کر اُٹھیں اور دعوت الی اللہ کا کام شروع کریں اور جس جس طرح یہ کتاب ہدایت دیتی جائے، اُس طرح قدم اُٹھاتے چلے جائیں۔ تب وہ سارے تجربات آپ کو پیش آئیں گے جو نزول قرآن کے وقت پیش آئے تھے۔ مکہ اور حبش اور طائف کی منزلیں بھی آپ دیکھیں گے اور بدر و احد سے لے کر حُنین اور تبوک تک کے مراحل بھی آپ کے سامنے آئیں گے۔ ابوجہل اور ابولہب سے بھی آپ کو واسطہ پڑے گا، منافقین اور یہود بھی آپ کو ملیں گے ، اور سابقین اولین سے لے کر مولفة القلوب تک سبھی طرح کے انسانی نمونے آپ دیکھ بھی لیں گے اور برت بھی لیں گے۔ یہ ایک اور ہی قسم کا سلوک ہے جس کو میں سُلوک قرآنی کہتا ہوں۔ اس سلوک کی شان یہ ہے کہ اس کی جس جس منزل سے آپ گزرتے جائیں گے، قرآن کی کچھ آیتیں اور سورتیں خود سامنے آکر آپ کو بتاتی چلی جائیں گی کہ وہ اسی منزل میں اتری تھیں اور یہ ہدایت لے کر آئی تھی۔ اس وقت یہ تو ممکن ہے کہ لغت اور نحو اور معانی اور بیان کے کچھ نکات سالک کی نگاہ سے چھپے رہ جائیں، لیکن یہ ممکن نہیں ہے کہ قرآن اپنی روح کو اس کے سامنے بے نقاب کرنے سے بخل برت جائے۔ (تفہیم القرآن، جلد اول، ص ۳۳-۳۴)
قرآن، اس کے پیغام اور اس کی دعوت کی صحیح صحیح تفہیم، اور خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قرآن کی روشنی میں ۲۳ سالہ جدوجہد، جس نے تاریخ کے رُخ کو موڑ دیا اور رہتی دنیا تک انسانیت کی رہنمائی کا سامان فراہم کر دیا، وہ ہر دور میں اُس دور کے حالات کی روشنی میں انھی خطوط پر تبدیلی اور تعمیر نو کے لیے نمونہ فراہم کرتی ہے۔
بیسویں صدی میں اللہ تعالیٰ نے اپنے جن نیک بندوں کو اس توفیق سے نوازا کہ وہ اپنے اپنے حالات کے مطابق اسلام کو ایک تصورِ حیات اور مکمل نظامِ زندگی اور ایک دعوت اور تحریک کے طور پر پیش کریں اور اس دعوت پر لبیک کہنے والوں کو اس تاریخی جدوجہد میں لگادیں جو اقامت ِ دین کے لیے مطلوب ہے، مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ان میں نمایاں ہیں۔ انھوں نے بر عظیم پاک و ہند میں اس دعوت کا آغاز ۱۹۳۳ء میں ترجمان القرآن کے ذریعے کیا تھا۔ یہ دعوت ایک فکری تحریک کی شکل میں آغاز کرنے کے بعد اجتماعی اصلاح کی ایک انقلابی تحریک کی شکل میں ۱۹۴۱ء میں منظم ہو سکی اور الحمد للہ، آج پاکستان ہی نہیں برعظیم کے تمام ہی ممالک میں اپنے اپنے آزاد نظم کے ساتھ سرگرم عمل ہے اور اس کے اثرات بر عظیم تک محدود نہیں، دنیا کے گوشے گوشے میں پھیلے ہوئے ہیں۔
۱۹۶۳ء میں ماہنامہ چراغ راہ کے تحریک اسلامی نمبر میں میں نے ایک طالب علمانہ کوشش یہ بھی کی تھی کہ مولانا مودودی کی ان تحریروں کو جو ترجمان القرآن میں جماعت اسلامی کے قیام سے پہلے شائع ہوئی تھیں اور جو باقاعدہ لٹریچر کا حصہ نہیں تھیں مگر تحریک، اس کی تاریخ، اس کے مزاج اور سب سے بڑھ کر داعی کے افکار و احساسات، جذبات و محرکات اور عزائم کی آئینہ دار تھیں، ان کو جمع کروں۔ یہ تحریر تحریک اسلامی: ایک تاریخ ایک داستان کے عنوان سے شائع ہوئی اور پھر کتابی شکل میں بھی اسے شائع کیا گیا۔ یہ داستان ہماری تاریخ کے ایک ایسے باب سے متعلق ہے جس سے بعد کے ادوار میں تحریک سے وابستگی اختیار کرنے والے بالعموم واقف نہیں تھے حالانکہ یہ تحریریں تحریک کے مزاج اور اس کی روح کو سمجھنے کے لیے شاہ کلید کی حیثیت رکھتی ہیں۔
آج نصف صدی بعد مولانا محترم کی ان تحریروں کو از سر نو پڑھتا ہوں تو ان کی تازگی میں کوئی کمی محسوس نہیں کرتا، البتہ اس نئے اڈیشن کے موقع پر میں نے ضروری سمجھا کہ اس مقدمے کی شکل میں تحریک کے فراہم کردہ تصور دین کو جو قرآن و سنت پر مبنی ہے اور منہج نبوی کی صحیح ترجمانی ہے، مختصر الفاظ میں پیش کر دوں، اور ۱۹۴۱ء کے بعد کے دور کی بھی مولانا کی تحریروں اور تقریروں سے کچھ جھلکیاں اس میں شامل کروں تاکہ یہ سب جو ایک تاریخی امانت ہے اور نئی نسلوں کے لیے اپنے اندر تحریک کو سمجھنے کا بڑا سامان رکھتی ہے، ان کے مطالعہ اور غوروفکر کے لیے دستیاب ہو۔
کئی صدیوں کے سامراجی دور، مغربی تہذیب کے غلبے، اور خود مسلمانوں کے ذہنی جمود کے نتیجے میں دین کے قرآنی تصور اور منہج نبوی پر جو پردے پڑگئے تھے یا تجدد، اصلاح اور موڈرنٹی (modernity) کے نام پر جس قطع و برید کا ان کو نشانہ بنایا گیا تھا، الحمد للہ تحریک اسلامی نے اس فکری انتشار اور خلفشار کا بھر پور مقابلہ کیا اور اسلام کی روشن شاہراہ کو ہر گردوغبار سے پاک کر کے اس کی اصل شکل میں پیش کیا اور قرآن و سنت کے محکم دلائل کے ساتھ پیش کیا اور پھر اس فکر کی روشنی میں انفرادی اور اجتماعی تبدیلی کی جدوجہد کو عملی طور پر برپا کیا جو نظروں کا محور بن سکے۔
نئی نسلوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ نئے لٹریچر کے مطالعے کے ساتھ تحریک کے پورے فکری سرمایے اور تاریخی روایات سے گہری واقفیت حاصل کریں۔ ہمارے تعلیمی اور تربیتی پروگراموں میں ان کو شامل کرنا وقت کی ضرورت ہے۔
تحریک کے فکری مثالی نمونے (paradigm) کو سمجھنے کے لیے جن کتابوں کو اچھی طرح پڑھنا، سمجھنا اور ہضم کرنا ضروری ہے ان میں میرے خیال میں مولانا محترم کی کتب میں تفہیم القرآن تو سب سے بنیادی کتاب ہے لیکن اس کے علاوہ اسلامی تہذیب اور اس کے اصول و مبادی، اسلامی نظامِ زندگی اور اس کے بنیادی تصورات، خطبات، تفہیمات اور تنقیحات سب سے ضروری ہیں۔ مولانا صدرالدین اصلاحی کی اساسِ دین کی تعمیر اور فریضہ اقامت دین اور میری مرتب کردہ اسلامی نظریہ حیات بھی بے حد مفید ہیں۔ ان کے ساتھ تحریک اسلامی کے مقصد اور تاریخ کو سمجھنے کے لیے تجدید و احیای دین، دعوتِ اسلامی اور اس کے مطالبات، مولانا امین احسن اصلاحی کی دعوت دین اور اس کا طریق کار، تحریک اسلامی اور اس کا آیندہ لائحہ عمل اور تحریک اور کارکن بنیادی اہمیت کی حامل ہیں۔
ان کے علاوہ دستورِ جماعت، جماعت اسلامی کی تمام رودادیں اور مرکزی شوریٰ کی رودادیں لازمی مطالعہ کی کتب کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان سب کے ساتھ داعی کی سوچ، اس کے جذبات و احساسات، اس کے عزم اور اس کی تڑپ کو سمجھنے میں تحریک اسلامی: ایک تاریخ ایک داستان بڑی مدد و معاون ہو سکتی ہے۔ خود مجھے تحریک کو سمجھنے میں ان تمام تحریروں نے بے پناہ مدد دی ہے اور میری خواہش ہے کہ ہماری نئی نسلیں ان کو غور سے پڑھیں اور ظاہر کی آنکھ ہی سے نہیں، دل کی آنکھ سے بھی پڑھیں اور پھر اسے جسم و جاں کا حصہ بنالیں۔ اسی جذبے سے میں نے اس اڈیشن میں ضروری اضافے بھی کیے ہیں لیکن اصل ہدف وہی رہا ہے یعنی تحریک کو داعی کے الفاظ میں سمجھنے کی کوشش _ داعی کے وہ الفاظ جو اس کے ذہن اور فکر ہی کے لیے دریچہ نہیں بلکہ اس کے قلب اور جذبات تک بھی رسائی دیتے ہیں۔
تازہ اڈیشن کی اشاعت کا کریڈیٹ اگر کسی کو جاتا ہے تو وہ برادرم مسلم سجاد ہیں جن کے لیے بہترین دعاؤں کے ساتھ یہ مجموعہ ملت اسلامیہ کے نوجوانوں کی نذر ہے۔
وما علينا الا البلاغ
۲۷ رمضان المبارک ۱۴۳۴ھ
۵ / اگست ۲۰۱۳ء
لسٹر ، یوکے
خورشید احمد
12
ایک تاریخ، ایک داستان
كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَآزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَىٰ عَلَىٰ سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ (الفتح ۲۹:۴۸)
وہ اس کھیتی کی طرح ہے، جس نے اپنی (باریک سی) سوئی نکالی۔ پھر اس نے اسے قوی کیا۔ پھر وہ کھیتی اور موٹی (اور سرسبز و شاداب) ہوئی۔ اور اپنے تنے پر مضبوطی سے کھڑی ہو گئی۔ تاکہ کسانوں کو بھلی لگے (ان کے لیے خوش منظر ہو) اور کافروں کو جلائے (کہ اس کی شادابی ان کی امنگوں کے لیے پیغام موت ہے)
جس طرح ایک ننھا سا بیج اپنے سینے میں ایک عظیم تناور درخت کے امکانات لیے ہوتا ہے اسی طرح دعوت اسلامی بھی ایک عظیم الشان تاریخ ساز انقلابی تحریک کی حامل ہے۔ دعوتِ اسلام کا آغاز بڑا حقیر اور معمولی سا معلوم ہوتا ہے لیکن یہ تنہا سا بیج بہت جلد ایک مضبوط پودے اور بالآخر ایک تناور درخت میں بدل جاتا ہے جس کی چھاؤں ٹھنڈی، پھل لذیذ اور جس سے چھو کر آنے والی ہو الطیف اور عطر بیز ہوتی ہیں۔
خدا کا احسان ہے کہ آج جماعت اسلامی ملک کی ایک موثر قوت ہے اور اس کی دعوت جغرافیائی حدود سے آگے بڑھ کر عالمگیر وسعتیں اختیار کر رہی ہے، لیکن جس مقام پر آج تحریک اسلامی ہے، یہاں تک پہنچنے کے لیے اسے بہت سے مرحلوں سے گزرنا پڑا ہے۔ جو لوگ آج جماعت سے متاثر ہو رہے ہیں، ان کے لیے تحریک کے آغاز اور نشو و ارتقا کی داستان جاننا بڑا ضروری ہے اور بے حد دلچسپی کا باعث بھی فطری طور پر ہر شخص میں یہ پیاس ہے کہ وہ جانے کہ یہ تحریک کیسے برپا ہوئی؟ پاک و ہند کی سرزمین پر حق کی اذان کب اور کس طرح دی گئی ہے؟ اس اذانِ حق کو کن کانوں سے سنا گیا؟ اس کا کیا رد عمل ہوا، جماعت کیسے قائم ہوئی اور یہ قافلہ کیوں کر بنا؟
یہ داستان جو بھی سنائے بڑی دلچسپ اور ایمان پرور ہوگی، لیکن اگر اس کا سنانے والا خود تحریک کا داعی ہو، اگر خود مؤذن ہی کی زبان سے پوری کہانی سننے کو مل جائے تو اس کی دلچسپی اور اثر انگیزی کے کیا کہنے؟ ہم تھوڑی سی کوہ کنی کرکے خود داعی کی زبان سے یہ داستان آپ کو سنوارہے ہیں۔
ہندوستان کی تاریخ میں جو کارنامہ ایک ماہانہ رسالے“ ترجمان القرآن“ نے انجام دیا ہے، اس کی مثال مشکل ہی سے ملتی ہے۔ ایک مغربی مبصر نے بہت صحیح کہا ہے کہ آئندہ کا مؤرّخ اس پرچے کو نظر انداز نہیں کر سکتا! اس پرچے کے صفحات پر تحریک اسلامی کے آغاز و ارتقا کی پوری داستان ثبت ہے۔ اس کے اوراق پر وہ تمام مراحل نقش ہیں جن سے دعوتِ اسلامی کو گزرنا پڑا ہے۔ کن جذبات و احساسات سے یہ کام کیا گیا؟ کن مشکلات سے سابقہ پیش آیا؟ کیسی کیسی پیچیدگیاں راہ میں حائل ہوئیں؟ “ اپنوں“ نے کیا کیا ستم ڈھائے اور “غیروں“ نے کیا کیا زخم لگائے؟ داعی کے دل پر کیا بیتی؟ مسلمانوں کی ٹوٹی ہوئی کشتی کے اس ملاح نے کیا کیا جتن کیے؟ حالات نے کیسی کیسی کروٹیں لیں؟ اور بالآخر خلوص، توکل، استطاعت اور استعانت الہی نے بند راہوں کو کیوں کر کھولا اور مشکلات کو کس طرح آسان کیا؟ ترجمان القرآن کے اوراق اس ساری داستان کو اپنے سینے میں چھپائے ہوئے ہیں اور کم لوگ ہیں جن کی رسائی ۱۹۳۳ء سے ۱۹۴۱ء تک کے ان پرچوں تک ہے۔ ہم نے کوشش کی ہے کہ اس داستان کو ترجمان القرآن کے اوراق سے یہاں منتقل کر دیں تاکہ دین کے خادم اس پردۂ کاغذی پر دعوتِ اسلامی کی پوری فلم دیکھ لیں۔ اس کے ذریعے ہر دور، ہر مرحلہ اور ہر کیفیت ان کے سامنے آجائے گی اور تحریک کے حقیقی مزاج کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔
ان تحریرات کا ایک پہلو اور بھی ہے۔ مولانا مودودی کی تحریر بالعموم منطقی اور غیر جذباتی ہوتی ہے لیکن ان تحریرات میں ہمیں ذھن رسا کے ساتھ ساتھ ایک دھڑکتا ہوا دل اور اشک بار آنکھیں نظر آتی ہیں۔ یہاں داعی کی زبان اور دعوت کی پکار ہے اور یہ زبان یہ پکار بڑی ایمان افروز اور حوصلہ پرور ہے۔ اس کے مطالعے سے تحریک اسلامی ہی نہیں بلکہ خود داعی کی شخصیت کے چھپے ہوئے گوشے بھی سامنے آتے ہیں۔
سید احمد شہید کی تحریک کی ناکامی کے بعد پوری ملت اسلامیہ ہند ذہنی انتشار، جذباتی درماندگی اور اخلاقی تنزل کا شکار ہو جاتی ہے۔ مختلف سرابوں کے پیچھے دوڑتی ہے اور ناکام واپس آتی ہے اور تحریک خلافت کی ناکامی سے تو ظلمات فوق ظلمات کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ ان حالات میں ایک بندۂ خدا اٹھتا ہے ، اپنے ماحول کا جائزہ لیتا ہے لیکن اس میں کوئی کشش نہیں پاتا۔ تھذیب جدید کا مطالعہ کرتا ہے لیکن اس کا اندرون تاریک تر پاتا ہے۔ قرآن اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹتا ہے اور یہاں اسے وہ آب حیات ملتا ہے جس کے لیے اس کی روح بے تاب ہے۔ از سرِ نو مسلمان ہوتا ہے اور نو مسلم کے عزم کے ساتھ اٹھ کھڑا ہوتا ہے اور پوری جرأت کے ساتھ اعلان کرتا ہے:
میں نو مسلم ہوں
”ہم نے برسوں اسلام کا تنقیدی اور تحقیقی مطالعہ کیا۔ ہم نے اس کی اعتقادی اساس، اس کے نظریۂ حیات، اس کے اصولِ اخلاق، اس کے نظام تمدن، اس کے قوانین معاشرت و معیشت اس کے آئین سیاست و طرزِ حکومت، غرض اس کی ایک ایک چیز کو جانچا اور پرکھا۔ ہم نے دنیا کے دوسرے اجتماعی نظریات اور تمدنی مسلکوں کو کھنگال کر دیکھا ہے اور اسلام سے ان کا تقابل کیا۔ اس تمام مطالعے و تحقیق و تنقید نے ہمیں اس امر پر پوری طرح مطمئن کر دیا کہ انسان کے لیے حقیقی فلاح و سعادت اگر کسی مسلک میں ہے تو وہ صرف اسلام ہے۔ اس کے مقابلے میں ہر مسلک ناقص ہے۔ کسی دوسرے مسلک کی اخلاقی بنیاد صالح اور مستحکم نہیں۔ کسی دوسرے مسلک میں انسان کی شخصیت کے ارتقا (Development of Personality) کا پورا موقع نہیں۔ کسی دوسرے مسلک میں اجتماعی عدل (Social Justice) اور بین الانسانی تعلقات کا صحیح توازن (balance) نہیں۔ کسی دوسرے مسلک میں فطرت انسانی کے تمام پہلوؤں کی متناسب رعایت نہیں۔ اسلام کے سوا کوئی مسلک دنیا میں ایسا موجود نہیں جو انسان کو حقیقی آزادی سے ہمکنار کرتا ہو، اسے عزت کے بلند ترین مدارج کی طرف لے جاتا ہو، اور ایک ایسا اجتماعی ماحول پیدا کرتا ہو جس میں ہر شخص اپنی قوت و استعداد (capacity) کے مطابق اخلاقی و روحانی اور مادی ترقی کے انتہائی مدارج تک پہنچ سکے اور ساتھ ہی اپنے دوسرے ابنائے جنس کے لیے بھی ایسی ہی ترقی میں مدد گار ہو۔
اسلام کے متعلق ہماری رائے کچھ اس وجہ سے نہیں کہ ہم مسلمان گھر میں پیدا ہوئے ہیں اور اسلام کے حق میں ایک طرح کا پیدایشی میلان رکھتے ہیں۔ اپنے دوسرے رفقا کے متعلق تو میں نہیں کہہ سکتا کہ ان کا کیا حال ہے مگر اپنی ذات کی حد تک میں کہہ سکتا ہوں کہ اسلام کو جس صورت میں میں نے اپنے گردو پیش کی مسلم سوسائٹی میں پایا، میرے لیے اس میں کوئی کشش نہ تھی۔ تنقید و تحقیق کی صلاحیت پیدا ہونے کے بعد پہلا کام جو میں نے کیا وہ یہی تھا کہ اُس بے رُوح مذہبیت کا قلاوہ اپنی گردن سے اتار پھینکا جو مجھے میراث میں ملی تھی۔ اگر اسلام صرف اُسی مذہب کا نام ہوتا جو اس وقت مسلمانوں میں پایا جاتا ہے تو شاید میں بھی آج ملحدوں اور لامذہبوں میں جا ملا ہوتا، کیوں کہ میرے اندر نازی فلسفہ کی طرف کوئی میلان نہیں ہے کہ محض حیاتِ قومی کی خاطر اجداد پرستی کے چکر میں پڑا رہوں۔ لیکن جس چیز نے مجھے الحاد کی راہ پر جانے یا کسی دوسرے اجتماعی مسلک کو قبول کرنے سے روکا اور از سر نو مسلمان بنایا وہ قرآن اور سیرتِ محمدی کا مطالعہ تھا۔ اُس نے مجھے انسانیت کی اصل قدر و قیمت سے آگاہ کیا۔ اُس نے آزادی کے اُس تصور سے مجھے روشناس کیا، جس کی بلندی تک دنیا کے کسی بڑے سے بڑے لبرل اور انقلابی کا تصور بھی نہیں پہنچ سکتا۔ اس نے انفرادی حُسن سیرت اور اجتماعی عدل کا ایک ایسا نقشہ میرے سامنے پیش کیا جس سے بہتر کوئی نقشہ میں نے نہیں دیکھا اس کے تجویز کردہ لائحہ زندگی (Scheme of Life) میں مجھے ویسا ہی کمال درجے کا توازن (balance) نظر آیا جیسا کہ ایک سالمہ (Atom) کی بندش سے لے کر اجرام فلکی کے قانون جذب و کشش تک ساری کائنات کے نظم میں پایا جاتا ہے۔ اور اسی چیز نے مجھے قائل کر دیا کہ یہ نظام اسلامی بھی اُسی حکیم کا بنایا ہوا ہے جس نے اس جہانِ ارض و سما کو عدل اور حق کے ساتھ بنایا ہے۔
پس در حقیقت میں ایک نو مسلم ہوں، خوب جانچ کر اور پرکھ کر اُس مسلک پر ایمان لایا ہوں، جس کے متعلق میرے دل و دماغ نے گواہی دی ہے کہ انسان کے لیے فلاح و صلاح کا کوئی راستہ اس کے سوا نہیں ہے۔ میں صرف غیر مسلموں ہی کو نہیں، بلکہ خود مسلمانوں کو بھی اسلام کی طرف دعوت دیتا ہوں اور اس دعوت سے میرا مقصد اس نام نہاد مسلم سوسائٹی کو باقی رکھنا، اور بڑھانا نہیں ہے جو خود ہی اسلام کی راہ سے بہت دور ہٹ گئی ہے، بلکہ یہ دعوتِ اس بات کی طرف ہے کہ آؤ! اُس ظلم و طغیان کو ختم کر دیں جو دنیا میں پھیلا ہوا ہے، انسان پر سے انسان کی خدائی کو مٹا دیں اور قرآن کے نقشے پر ایک نئی دنیا بنائیں جس میں انسان کے لیے بحیثیت انسان کے شرف و عزت ہو، حریت اور مساوات ہو، عدل اور احسان ہو۔
یہ نئی دنیا کیسے بنے؟
راہیں خواہ کتنی بھی مسدود ہوں، جس کے دل میں آگ لگی ہو، وہ چین سے نہیں بیٹھ سکتا۔ اس کی سوچیں اس کام کے لیے وقف ہو جاتی ہیں کہ راستہ کیسے نکالے ۔ دوسرے اگر پیش قدمی نہیں کرتے تو وہ مایوس ہو کر نہیں بیٹھتا، کانپتی ہوئی ٹانگوں اور لرزتے ہوئے ہاتھوں، لیکن مضبوط عزم اور پختہ ارادوں کے ساتھ آگے بڑھتا ہے۔ کام کا آغاز ایک رسالے کی ادارت سنبھال کر کرتا ہے تاکہ ذہنوں میں وہ روشنی پیدا کرے، جو اپنی ضو قرآن پاک سے حاصل کر رہی ہو ! ۱۹۳۳ء میں ترجمان نئے دور کا آغاز کرتا ہے۔
نیا دور، نئے عزائم
یہ رسالہ آج جس مرحلے میں قدم رکھ رہا ہے، وہ بہت کٹھن اور دشوار ہے۔ کٹھن اور دشوار صرف اسی معنی میں نہیں کہ اس کے پیش نظر اب پہلے سے زیادہ مشکل کام ہے بلکہ اس معنی میں بھی کہ جن ہاتھوں میں وہ منتقل ہو رہا ہے، وہ پہلے کام کرنے والے ہاتھوں سے زیادہ کمزور ہیں۔ اب یہ کام اس شخص کے سپرد کیا جا رہا ہے جو انکسار کے طور پر نہیں، اعترافِ حقیقت کے طور پر اپنی کمزوری، اپنی بے چارگی، اپنی مائیگی کو تسلیم کرتا ہے اور ہر شخص سے زیادہ خود اپنے عجز و درماندگی سے واقف ہے۔
ایک طرف یہ ضعف و ناتوانی ہے، دوسری طرف پیش نظر یہ کام ہے کہ
مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش، حصہ سوم، ص ۲۸/۲۵، بحوالہ تحریک آزادی ہند اور مسلمان، دوم، ص۲۲-۲۵اسلام کو اس اصلی روشنی میں پیش کیا جائے جس میں قرآن حکیم نے اس کو پیش کیا ہے۔ اور قرآن حکیم کی تعلیمات اور اس کے حقائق و مصارف کو اُس طریق سے بیان کیا جائے جس طریقے سے سلف صالح نے اُن کو بیان کیا ہے۔ کہنے کو یہ کام بہت آسان ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ مشکاۃ نبوت سے بعد، علم صحیح کی کمی، سلامت قلب و استعداد نظر کے فقدان، یونانی تفلسف، عجمی موشگافی، مغربی تشکیک اور سب سے بڑھ کر خود پرستی، عقلیت کے گھمنڈ اور ہوائے نفس کے اتباع نے ہمارے اور معارف قرآنی کے درمیان ایسے پردے ڈال دیے ہیں کہ جو قرآن آسان کیا گیا تھا وہ اب سب سے زیادہ مشکل ہو گیا ہے۔ جو نہ صرف روشن، بلکہ روشن گر، نہ صرف نور، بلکہ منیر تھا وہ اب خود اپنی اصلی شکل میں نظر نہیں آتا ۔ ان حالات میں قرآن مجید کو اس کی اصلی صورت میں پیش کرنا ایک بڑا مشکل کام ہے، اور اس مشکل کام کے لیے اس رسوخ علم، سلامت قلب اور طہارتِ نفس و روح کی ضرورت ہے جس کی قلت میں اپنے اندر محسوس کرتا ہوں..
پس سلامتی کی راہ تو در حقیقت اس میں تھی کہ جو شخص رسوخ علم اور طہارتِ قلب کا مالک نہیں، وہ ترجمان القرآن کی تحریر و ترتیب کا کام اپنے ہاتھ میں نہ لیتا، مگر کام کی دشواری اور اپنی کمزوری کو جاننے کے باوجود محض خدمت کے جذبے نے مجھ کو اس دعوت کے قبول کرنے پر مجبور کر دیا ہے، جو مجھے اس کام کی جانب دی گئی تھی۔ اور اس بھروسے نے میری ہمت بڑھائی کہ جس خدا نے میرے دل میں یہ جذبہ پیدا کیا ہے، وہی رسوخ علم، صحتِ فکر، سلامت قلب اور طہارتِ نفس و روح بھی ارزانی فرمائے گا۔
۲۔ ترجمان القرآن، جلد ۲، عدد ۱، ص ۲-۵داعی ایک سال تک دن رات ایک کر کے لوگوں کو قرآن کی طرف بلاتا ہے۔ خود قرآن کے ماننے والوں کو جھنجھوڑتا ہے اور بیدار کرتا ہے۔ سال بھر کی محنت کے بعد پھر اپنا اور اپنے ماحول کا جائزہ لیتا ہے اور کہتا ہے:
ایک سال بیت گیا
ترجمان القرآن کو میری تحریر و ادارت میں شائع ہوتے ہوئے ایک سال ہو چکا ہے، اور اب اس پرچے کے ساتھ اس کا دوسرا سال شروع ہو رہا ہے۔ اس مدت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے دین اور اپنی کتاب کی خدمت کے لیے جو توفیق مجھ کو عطا فرمائی، اور سخت ہمت شکن حالات میں خدمت کے لیے کمر بستہ رہنے کی جو استقامت بخشی، اس کے لیے شکر بجالانا میرا فرض ہے، اگرچہ میرا شکر اس کے فضل و انعام کے مقابلے میں بہت حقیر ہے۔ میں نے جن حالات میں اس رسالے کی ادارت سنبھالی تھی اور بعد میں مسلسل کئی مہینے تک جو مشکلات مجھے پیش آتی رہیں، ان سے یقینا میرے حوصلے پست ہو جاتے اگر میرا اعتماد خدا کے بجائے دنیوی اسباب اور خود اپنی قوت پر ہوتا۔ لیکن خدا کا شکر ہے کہ میرا بھروسا دُنیا اور اسباب دنیا پر نہیں بلکہ ہمیشہ خدا پر رہا ہے اور خدا کا یہ سچا وعدہ ہے کہ جو اس پر بھروسہ کر کے اس کی راہ میں صبر و استقامت کے ساتھ سعی کرے گا، اس کو آخر کار کامیابی نصیب ہو گی اور خوف و حزن اس کے پاس پھٹک نہ سکے گا۔
یہ زمانہ ہندوستان میں اسلام کے لیے بڑا ہی نازک زمانہ ہے۔ کوئی حکومت موجود نہیں ہے جو زندقہ و الحاد کی اشاعت کو روکتی۔ مذہب قانون کی طاقت سے محروم ہو چکا ہے... روشن خیالی کے مدعی اپنا حق سمجھتے ہیں کہ اسلامی سوسائٹی میں رہ کر اسلام کے اصولی مسائل میں جس طرح چاہیں قطع و برید کریں، ایمانیات پر ضرب لگائیں، اعمال پر حملے کریں، قوانین اسلامی میں ترمیم و تنسیخ کریں، اور اگر کوئی اس پر ٹوکے تو ان کے نزدیک وہ تنگ نظر، تنگ خیال، کٹھ ملا ہے، کیونکہ وہ حریت ضمیر اور آزادی تحریر و تقریر کا حق ان سے سلب کرنا چاہتا ہے...
آج کل ہندوستان کے مسلمانوں کی دماغی رو جس طرف جا رہی ہے، اس کو دیکھتے ہوئے میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت اصطلاحی علوم اور خاص علمی تحقیقات کی اتنی ضرورت نہیں ہے جتنی اس امر کی ضرورت ہے کہ مسلمانوں کی نئی نسلیں جو دینی تعلیم سے بے بہرہ، جدید تعلیم میں ناپختہ، مدرسوں اور کالجوں سے صرف یہ سبق لے کر نکلی ہیں کہ روشن خیالی صرف مذہب میں شک کرنے اور ہر پرانی چیز کو فرسودہ سمجھنے کا نام ہے، انھیں تعلیم قرآنی کے اصل مقصود سے روشناس کرایا جائے، اسلام کے صحیح اصول سمجھائے جائیں اور ٹھیک انہی قوانین عقلی کے مطابق جو بیسویں صدی کے دماغوں کو اپیل کر سکتے ہیں، اسلام اور اس کے عقائد و احکام کو کتاب و سنت کی روشنی میں پیش کیا جائے۔ معانی و بیان کی بحثوں، قصص قرآنی کی تاریخی اور جغرافی تحقیقات، آیات متشابہات کے معانی کی تعین کے لیے فرصت کے اور بہت سے اوقات مل سکتے ہیں۔ یہاں تو دماغ خود قرآن اور اس کی تعلیم کے بنیادی مسائل سے منحرف ہوئے جا رہے ہیں۔ خدا کی خدائی، رسول کی رسالت، کتاب کی تنزیل ہی میں شکوک پیدا ہو رہے ہیں۔ دینِ اسلام جن ارکان پر قائم ہے وہی معرض بحث میں ہیں۔ ایسی حالت میں زیادہ تر ضرورت نفس اسلام کے تحفظ کی ہے، اور اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ترجمان القرآن کا بیشتر حصہ وقف کر دیا گیا ہے۔
ترجمان القرآن جلد ۴، عدد ۱، ص ۲-۸نازک زمانہ
ان حالات میں داعی ایک چومکھی لڑائی لڑتا ہے۔ ہر محاذ پر مقابلے کے لیے اترتا ہے اور مسلمانوں کو بے تابی کے ساتھ راہِ حق کی طرف بلاتا ہے:
قَالَ رَبِّ إِنِّي دَعَوْتُ قَوْمِي لَيْلًا وَنَهَارًا فَلَمْ يَزِدْهُمْ دُعَائِي إِلَّا فِرَارًا . وَإِنِّي كُلَّمَا دَعَوْتُهُمْ لِتَغْفِرَ لَهُمْ جَعَلُوا أَصَابِعَهُمْ فِي آذَانِهِمْ وَاسْتَغْشَوا ثِيَابَهُمْ وَأَصَرُّوا وَاسْتَكْبَرُوا اسْتِكْبَارًا
نوح: ۵-۷اے میرے رب! میں اپنی قوم کو رات دن پکارتا رہا، لیکن وہ میری پکار سے اور بھی زیادہ بھاگے اور جب میں نے انھیں دعوتِ (حق) دی تاکہ (اے میرے رب) تو اُن کی مغفرت فرما، تو انھوں نے اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں ٹھونس لیں اور کپڑے ڈھانکنے لگے، اور (کفر پر) اصرار کرتے ہی چلے گئے اور غرور پر غرور کرتے گئے۔
ان حالات میں داعی نے کہا:
آہ میری قوم!
جو لوگ زہر سے متاثر ہیں، ان کو خود اپنے زہر خوردہ ہونے کا احساس نہیں ہے۔ وہ دوا کی حاجت ہی محسوس نہیں کرتے بلکہ دوا کے نام سے بھاگتے ہیں۔ ان سے یہ امید نہیں کی جاسکتی کہ وہ اپنے ذاتی شوق سے اس قسم کا کوئی رسالہ خریدیں گے۔ اول اول ان کو کسی غیر معمولی تشویق کے ذریعے سے اس بات پر آمادہ کرنے کی ضرورت ہے کہ کم از کم جانب مخالف کا مقدمہ بھی سن لیں، پھر فیصلے کا انھیں اختیار ہے، جو چاہیں کریں۔
اس رسالے کی ادارت ہاتھ میں لینے سے پہلے میں سمجھتا تھا کہ مسلمان علم قرآن کے پیاسے ہیں، قرآن کی دعوت سُننے کے لیے ان میں ایک پوشیدہ تڑپ موجود ہے، کسر جو کچھ بھی ہے، صرف اس بات کی ہے کہ اس جنس کے پیش کرنے والے کمیاب ہیں۔
لیکن گزشتہ ایک سال کے تجربے نے اس خیال کو غلط ثابت کر دیا۔ معلوم ہوا کہ مسلمانوں کے لیے قرآن کے نام میں اتنی کشش بھی نہیں ہے جتنی فلم اسٹاروں کی تصویروں میں ہے۔ کسی کتاب یا رسالے پر قرآن کا نام آجانا ہی اس کے لیے کافی ہے کہ مسلمان اس سے بھاگیں اور شجر ممنوع سمجھ کر اس کو ہاتھ نہ لگائیں۔
افسوس! یہ کیسی مصیبت ہے کہ بیماروں میں اب یہ احساس بھی نہ رہا کہ وہ بیمار ہیں۔ زخمیوں کی بے خبری اس حد کو پہنچ گئی کہ انھیں اپنے زخموں کی بھی خبر نہ رہی۔ عقل کا فقدان یہاں تک بڑھا کہ دوا سے بھاگتے اور زہر کی طرف لپکتے ہیں، مرہم کو چھوڑ کر نمک اپنے زخموں پر چھڑکتے ہیں، اور امیدوار ہیں کہ اس سے ان کو شفا نصیب ہو گی۔
اس شخص کی روحانی اذیت کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا جو تفریح کے لیے نہیں، لوگوں کی اصلاح و تعلیم کے لیے اپنا خونِ جگر کھپا کر، اپنے دل و دماغ کی ساری قوتیں خرچ کرکے لکھتا ہے، اور پھر اسے معلوم ہوتا ہے کہ در حقیقت جن کے فائدے کے لیے اس نے لکھا تھا، انھوں نے ہی اس کی طرف توجہ نہ کی، اسے پڑھنے تک کی تکلیف گوارا نہ کی ...
اگر آپ ظلمات کا سفر کر کے بڑی محنتوں اور تکلیفوں کے بعد کسی کو آب حیات کا ایک جام لا کر دیں، اور وہ آپ کی آنکھوں کے سامنے اس کو پھینک کر زہر کا پیالہ اُٹھا لے، تو غور کیجیے کہ اس وقت آپ کو کس قدر سخت صدمہ ہوگا۔ بس اسی پر اس صدمے کو قیاس کر لیجیے جو ان صفحات کے لکھنے والے کو برداشت کرنا پڑتا ہے، مگر میں اپنی قوم سے شکایت نہ کروں گا... وہی مقلب القلوب ہے۔ اسی سے اُمید ہے کہ مسلمانوں کے دل پھیر دے گا، اور جب ان کے دل پھریں گے تو ان شاء اللہ دن بھی پھریں گے۔
۴۔ ترجمان القرآن، جلد ۴، عدد ۱، ص ۱۰۸داعی خدا کے بھروسے پر اپنے کام کو برابر جاری رکھتا ہے، اور قوم میں مغربی تہذیب سے ٹکر لینے کا ولولہ پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے:
تہذیب جدید سے ٹکر کی دعوت
اس میں شک نہیں کہ مسلمانوں کا سوادِ اعظم اب بھی اسلام کی صداقت پر ایمان رکھتا ہے اور مسلمان رہنا چاہتا ہے، لیکن دماغ مغربی افکار اور مغربی تہذیب سے متاثر ہو کر اسلام سے منحرف ہو رہے ہیں اور یہ انحراف بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ دیکھنے والوں کے لیے مسلمان کی نظر سے دیکھنا اور سوچنے والوں کے لیے اسلامی طریق پر سوچنا مشکل ہو گیا ہے۔ اسلام میں ایک نشاۃ جدیدہ (Renaissance) کی ضرورت ہے۔ پرانے اسلامی مفکرین و محققین کا سرمایہ اب کام نہیں دے سکتا۔ دنیا اب بہت آگے بڑھ چکی ہے... علم و عمل کے میدان میں رہنمائی وہی کر سکتا ہے، جو دنیا کو آگے کی جانب چلائے نہ کہ پیچھے کی جانب۔ لہٰذا اب اگر اسلام دوبارہ دُنیا کا رہنما بن سکتا ہے تو اس کی بس یہی ایک صورت ہے کہ مسلمانوں میں ایسے محقق اور مفکر پیدا ہوں، جو فکر و تحقیق و اکتشاف کی قوت سے ان بنیادوں کو ڈھا دیں جن پر مغربی تہذیب کی عمارت قائم ہوئی ہے۔... ملحدانہ نظریے کو توڑ کر الٰہی نظریے پر فکر و تحقیق کی اساس قائم کریں اور اس جدید فکر و تحقیق کی عمارت کو اس قوت کے ساتھ اٹھائیں کہ وہ تمام دنیا پر چھا جائے اور اس میں مغرب کی مادی تہذیب کے بجائے اسلام کی حقانی تہذیب جلوہ گر ہو۔
۵۔ ترجمان القرآن جلد ۴، عدد ۶، ص ۱۴-۱۵جسمانی تکلیفیں اور روحانی اذیتیں قدم قدم پر آتی ہیں اور داعی قوم کو مخاطب کر کے بار بار کہتا ہے: کونوا انصار الله۔
ربیع الاول اور ربیع الثانی کے دونوں مہینے مجھ پر سخت جسمانی تکلیفوں کے ساتھ گزرے۔ ربیع الاول کا پرچہ طبیعت پر جبر کرکے حسب دستور مرتب کیا، مگر بیماری کی محنت نے دل اور دماغ پر ایسا برا اثر کیا کہ ربیع الثانی کے پرچے میں اشارات اور نقد و نظر کے سوا اور کچھ نہ لکھ سکا۔ جو مضامین مسلسل شائع ہو رہے تھے، ان کا سلسلہ مجبوراً توڑنا پڑا۔ اور حل طلب مسائل جو آئے ہوئے تھے ان پر بھی کچھ نہ لکھا جا سکا۔ میں جانتا ہوں کہ اس سے ترجمان القرآن کے ناظرین کو تکلیف ہوئی ہوگی، مگر مجھے اُمید ہے کہ میری مجبوریوں کی طرف نظر کرتے ہوئے وہ مجھے معاف کر دیں گے۔
میں امکانی حد تک کوشش کرتا ہوں کہ رسالے کو بہتر سے بہتر مرتب کروں اور مفید مضامین فراہم کروں، مگر افسوس ہے کہ چند مخلص احباب کے سوا کوئی میری مدد کرنے والا نہیں ہے۔ ہندوستان کے اہل علم جو اعلیٰ معیار کے مضامین لکھ سکتے ہیں، کوئی توجہ نہیں فرماتے، اور دست ِ سوال دراز کرنے کی مجھے عادت نہیں۔ ناچار خود ہی جو کچھ بن پڑتا ہے، کرتا ہوں اور جب تک دل و دماغ کی قوتیں ساتھ دیں گی، کیسے جاؤں گا۔
ترجمان القرآن، جلد ۴، عدد ۵، ص ۲جس خدا نے مجھ جیسے ایک عاجز اور حقیر بندے کو اس خدمت پر لگایا ہے، اسی سے اُمید ہے کہ یا تو مجھے تنہا خدمت بجالانے کی قوت عطا کرے گا یا میرے لیے مدد گار پیدا کر دے گا۔
انھی حالات میں ایک سال اور بیت گیا۔ حالات بد سے بدتر اور شدید حد تک مایوس کن ہوتے جاتے ہیں لیکن جس کا یقین زمین و آسمان کے مالک پر ہو، اس ہستی پر ہو جو ہر رات کے بعد دن کی روشنی نمودار کرتا ہے، وہ کیسے مایوس ہو سکتا ہے ؟ داعی اپنی قوم کو بھی جھنجھوڑتا ہے اور اپنے رب کے سامنے بھی گریہ و زاری کرتا ہے۔ زمین بنجر سہی، مگر داعی کا کام تو ہل چلانا ہے۔
بنجر زمین میں ہل چلاؤ
اس مہینے سے ترجمان القرآن کا تیسرا سال شروع ہو رہا ہے۔ پہلا سال عُسر کے ساتھ ختم ہوا، دوسرے سال میں خدا کے فضل نے تیسر کی صورت دکھائی، اور اب تیسرے سال کے آغاز میں پھر عُسر کے آثار نظر آ رہے ہیں۔ مگر خواہ عُسر ہو یا تیسر، ہر حال میں اللہ ہی پر بھروسہ ہے اور وہی بھروسہ کرنے کے لائق ہے۔... ہم یقین رکھتے ہیں کہ اگر عُسر میں ہم خدمت پر ثابت قدم رہے اور اس کے سوا کسی کو مستعان و مجیب الدعوات نہ بنایا اور اس کے فضل پر بھروسہ رکھا، تو انجام کار میں پھر اس کی رحمت تیسر کے ساتھ ہمارے شامل حال ہو جائے گی۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ عسر و یسر کا توارد ہماری آزمایش کے لیے ہے ۔ یہ ہمارے صبر کا امتحان ہے، ہمارے توکل علی اللہ کا امتحان ہے اور اس چیز کا امتحان ہے کہ ہمارے دل میں اللہ کی کتاب اور اس کے دین کی خدمت کا جذبہ صادق ہے یا اس میں کچھ کھوٹ بھی ملی ہوئی ہے۔ ہم خدا سے دُعا کرتے ہیں کہ وہ اس امتحان میں ہم کو کامیابی کی توفیق عطا فرمائے ...
مسلمان قوم کی حالت اس زمانے میں ایک بنجر زمین کی سی ہو رہی ہے جس میں اشجار خبیثہ تو خوب بڑھتے اور پھلتے ہیں، مگر اشجارِ طیبہ کو نشوونما نصیب نہیں ہوتا۔ ہماری آنکھوں کے سامنے بہت سے خیر و صلاح کے بیج تو زمین ہی میں خاک ہو گئے اور کسی کو تھوڑی بہت بالیدگی حاصل ہوئی بھی تو وہ جڑ نہ پکڑ سکا۔
میں اس حالت سے خود بھی واقف تھا اور جب میں نے اس کام کو شروع کیا تو اُن لوگوں نے بھی جن کو میری ذاتی فلاح و بہبود سے دلچسپی تھی، مجھے نصیحت کی تھی۔
زمین شوره سنبل بر نیارد
در تخم عمل ضائع مگردان
لیکن میرے خیال میں مردِ مسلمان کا کام یہ نہیں ہے کہ زمین کی خرابی، موسم کی ناموافقت پانی کی کمیابی کو دیکھ کر ہمت ہار بیٹھے۔ اس کے لیے تو ازل سے یہی قسمت کیا گیا ہے کہ بنجر زمینوں میں ہل چلائے، ان کی شوریدگی کے خلاف جنگ کرے، اپنے پسینے بلکہ ہو سکے تو خون سے ان کو سیراب کرے اور نتائج سے بے پروا ہو کر تخم ریزی کیے جائے۔ اگر زمین اس کی کوششوں سے سیر حاصل ہو گئی، تب تو اس کی سرفرازیوں کا پوچھنا ہی کیا ہے۔ لیکن اگر وہ اس ناکارہ زمین میں تمام عمر محنت ِ بے حاصل کرتا رہے اور آخر ایک روز اسی کام میں جان دے دے، تب بھی وہ حقیقت میں ناکام نہیں ہے۔ اس کے لیے یہی کامیابی کیا کم ہے کہ جس کام کو وہ فرض سمجھتا تھا، اس پر اپنی زندگی کی آخری ساعت تک قائم رہا، اور کوئی ناکامی اس کو ادائے فرض سے باز نہ رکھ سکی۔ ایسی ناکامی پر وہ ہزاروں کامیابیاں قربان جو ایک بگڑے ہوئے زمانے کی روش پر چلنے اور اشجار خبیثہ کو پرورش کرنے اور ان کے زہریلے ثمرات بیچنے سے حاصل کی جاتی ہیں۔
ان حالات میں جس شخص کو کام کرنا ہو، اس کو تو بدرجہ اولی صرف خدا کی تائید و نصرت پر بھروسہ رکھنا چاہیے، کیوں کہ جس قوم کی بگڑی ہوئی ذہنیت کے خلاف وہ جہاد کر رہا ہے اس سے کسی مدد کی اُمید نہیں کی جا سکتی۔ اور اگر چند نیک دل افراد اس کو مل بھی گئے تو محض ان کی تائید کے اعتماد پر کوئی بڑا کام نہیں کیا جا سکتا۔
ہزاروں خواہشیں ایسی ...
جو لوگ ابتدا سے اس رسالے کی روش دیکھ رہے ہیں، انھوں نے خود ہی اندازہ کر لیا ہو گا کہ ادارہ ترجمان القرآن کوئی تجارتی ادارہ نہیں ہے۔ ہمارے پیش نظر صرف ایک مقصد ہے اور وہ مسلمانوں کو قرآن کی طرف دعوت دینا ہے۔ رسالے کی اشاعت فی نفسہ مقصود نہیں بلکہ محض اس دعوت کی اشاعت کے لیے ہے۔ ہر داعی و مبلغ کی طرح ہماری بھی یہ دلی خواہش ہے کہ زیادہ سے زیادہ آدمیوں تک ہمارا پیغام پہنچے۔ ہمیں خریداروں کی ضرورت نہیں، پڑھنے والوں کی ضرورت ہے۔ اگر ایک رسالے کو ہزار ہزار آدمی بھی پڑھیں تو ہمیں رنج نہ ہو گا بلکہ مسرت ہوگی۔ اگر ہمارے مضامین اخباروں اور رسالوں میں نقل کیے جائیں تو ہم اُن کا شکریہ ادا کریں گے کہ انھوں نے اس دعوت میں ہمارا ہاتھ بٹایا... ہماری دلی خواہش ہے کہ ترجمان القرآن کا ہر خریدار صرف خریدار اور ناظر ہی نہ ہو، بلکہ داعی اور مبلغ بھی ہو۔ ہندوستان کے کروڑوں مسلمانوں میں سے جس قلیل جماعت کو اللہ نے اس رسالے کا مطالعہ کرنے کی توفیق عطا کی ہے، اگر وہ مطمئن ہے کہ یہ رسالہ جس راستے کی طرف بلا رہا ہے وہ سیدھا راستہ ہے، اور مسلمانوں کی دینی و دنیوی فلاح اسی راستے پر چل کر حاصل ہو سکتی ہے، تو اس کو لازم ہے کہ اپنے عزیزوں، دوستوں اور عام برادرانِ دینی کو بھی اس کی طرف دعوت دے۔
ادارہ ترجمان القرآن اور اس کے ناظرین کے درمیان محض بائع اور مشتری کا سا تعلق نہ ہونا چاہیے۔ ہم اپنے ناظرین میں یہ احساس پیدا کرنا چاہتے ہیں کہ ہم اور وہ ایک ہی مشن کے خادم ہیں۔ وہ اشاعت کی ذمہ داری تنہا ہم پر نہ چھوڑ دیں، بلکہ خود بھی حتی الوسع اس میں حصہ لیں... دل چاہتا ہے کہ ہزاروں پرچے مفت تقسیم کیے جائیں بلکہ سرے سے اس پرچے کی قیمت ہی لیتے ہوئے ہم کو کراہت محسوس ہوتی ہے لیکن افسوس ہے کہ ہمارے پاس ایسے ذرائع نہیں ہیں کہ جن سے ہم اس پرچے کے تمام مصارف پورے کرکے لوگوں کے چندوں سے بالکل بے نیاز ہو جائیں۔
۶۔ ترجمان القرآن، جلد ۶، عدد ۱، ص ۲-۵ساتھی ملیں نہ ملیں، نتائج نکلیں یا نہ نکلیں ، کامیابی حاصل ہو یا ناکامیوں کا منہ دیکھنا پڑے ، جو دردِ دل کی دولت سے مالا مال ہے وہ تو دیوانہ وار اپنا کام کیے جائے گا اور برابر کہتا رہے گا کہ:
مرض اور اس کا علاج
جو غیر مسلم ہیں وہ تو سرے سے جانتے ہی نہیں کہ وہ چشمہ آبِ حیواں کہاں ہے، جو ان کی پیاس بجھا سکتا ہے اور جو مسلمان ہیں وہ اس کو جانتے ہیں مگر اس کو پیتے نہیں۔ اس کے ساقی اصل منبع کو چھوڑ کر ندیوں اور نالوں پر معتکف ہو گئے اور اس کے دہانے کو جہالت کے پتھروں سے پاٹ دیا گیا۔ اس کے بجائے گندے اور زہریلے پانی کی نہروں کا ایک جال روئے زمین پر پھیل گیا جس کو بعض نادان اب تک آب حیات سمجھ رہے ہیں اور بہت سے دانا محض اس مجبوری سے پیے جا رہے ہیں کہ ان کو آبِ حیات کا پتہ معلوم نہیں۔ ایسی حالت میں ایک دو نہیں بہت سے ایسے منادیوں کی ضرورت ہے جو اطراف و اکناف عالم میں خدا کے بھٹکے ہوئے بندوں کو اس چشمے کی طرف بلائیں جس کو محمد ﷺ تمام دنیا کی سیرابی کے لیے چھوڑ گئے ہیں اور صرف بلانے ہی پر اکتفا نہ کریں بلکہ جو درماندگان اس راہ تک آنے کی قوت نہیں رکھتے، ان کے پاس خود اس کا پانی لے کر پہنچ جائیں۔
مشرق ہو یا مغرب، مسلمان ہو یا غیر مسلم، بلا استثنا سب ایک ہی مصیبت میں گرفتار ہیں، اور وہ یہ ہے کہ ان پر ایک ایسی تہذیب مسلط ہو گئی ہے جس نے سراسر مادیت کی آغوش میں پرورش پائی ہے۔ اس کی حکمت نظری اور حکمت عملی دونوں کی عمارت غلط بنیادوں پر اٹھائی گئی، اس کا فلسفہ، اس کی سائنس، اس کے اخلاق، اس کی معیشت، اس کی معاشرت، اس کی سیاست، اس کے قوانین، غرض اس کی ہر چیز ایک غلط نقطہ آغاز سے چل کر ایک غلط رُخ پر ترقی کرتی چلی گئی اور اب اس مرحلے پر پہنچ چکی ہے، جہاں سے ہلاکت کی آخری منزل قریب نظر آرہی ہے۔...
اہل مغرب جنھوں نے اس شجر خبیث کو اپنے ہاتھوں سے لگایا تھا، اب خود اس سے بیزار ہیں۔ اس نے زندگی کے ہر شعبے میں ایسی الجھنیں اور پریشانیاں پیدا کر دی ہیں کہ جن کو حل کرنے کی ہر کوشش بہت سی نئی الجھنیں پیدا کر دیتی ہے۔ جس شاخ کو کاٹتے ہیں اس کی جگہ بہت سی خار دار شاخیں نکل آتی ہیں۔ سرمایہ داری پر تیشہ چلایا تو “بالشویکیت ” نمودار ہو گئی، جمہوریت پر ضرب لگائی تو ڈکٹیٹر شپ پھوٹ نکلی، اجتماعی مشکلات کو حل کرنے کی کوشش ہوئی تو نسوانیت اور برتھ کنٹرول کا ظہور ہوا... یہ وقت ہے کہ مغربی قوتوں کے سامنے قرآن اور محمد ﷺ کے طریقے کو پیش کیا جائے کہ یہ ہے وہ مطلوب جس کی طلب میں تمھاری روحیں بے قرار ہیں، یہ ہے وہ امرت رس جس کے تم پیاسے ہو۔ یہ ہے وہ شجر طیب جس کی اصل بھی صالح ہے اور شاخیں بھی صالح، جس کے پھول خوشبودار بھی ہیں اور بے خار بھی، جس کے پھل میٹھے بھی ہیں اور جاں بخش بھی۔ جس کی ہوا لطیف بھی ہے اور روح پرور بھی! یہاں تم کو حکمت ملے گی، یہاں تم کو فکرونظر کے لیے ایک صحیح نقطہ آغاز ملے گا، یہاں تم کو وہ فکر و علم ملے گا جو نظری اور عملی دونوں قسم کے علوم کو ایک مستقیم و محکم بنیاد فراہم کرتا ہے۔
یہاں تم کو وہ ایمان ملے گا، جو انسانی سیرت کی بہترین تشکیل کرتا ہے۔ یہاں تم کو وہ روحانیت ملے گی، جو راہبوں اور سنیاسیوں کے لیے نہیں بلکہ کارزارِ دنیا میں جدوجہد کرنے والوں کے لیے سکونِ قلب اور جمعیت خاطر کا سرچشمہ ہے۔ یہاں تم کو اخلاق اور قانون کے وہ بلند اور پائیدار اور تمدن کے وہ صحیح اصول ملیں گے جو طبقات کے جعلی امتیازات اور اقوام کی وضعی تفریقوں کو مٹا کر خالص عقلی بنیادوں پر انسانی جمعیت کی تنظیم کرتے ہیں۔
اگر تم ہلاکت سے بچنا چاہتے ہو تو قبل اس کے کہ تمھاری تہذیب ایک ہولناک صدمے سے پاش پاش ہو کر تاریخ کی برباد شدہ تہذیبوں میں ایک اور کا اضافہ کرے، تم کو چاہیے کہ اسلام کے خلاف ان تمام تعصبات کو جو تمہیں قرونِ وسطی کے مذہبی دیوانوں سے وراثت میں ملے ہیں، اپنے دلوں سے نکال ڈالو اور کھلے دل کے ساتھ قرآن اور محمد ﷺ کی تعلیم کو سنو، سمجھو اور قبول کرو۔
مسلمانوں کا حال
مسلمان قوموں کا حال مغربی قوموں کے حال سے مختلف ہے، مرض اور ہے۔ اور اسباب مرض بھی دوسرے ہیں مگر علاج ان کا بھی وہی ہے جو اہل مغرب کا ہے، یعنی اس علم و ہدایت کی طرف رجوع جس کو اللہ نے اپنی آخری کتاب اور اپنے آخری نبی کے ذریعہ سے بھیجا ہے۔
مسلمان صدیوں تک دنیا میں قلم اور تلوار کے ساتھ فرمانروائی کرتے کرتے آخر کار تھک گئے، ان کی روحِ جہاد سرد پڑ گئی، قوتِ اجتہاد شل ہو گئی۔ جس کتاب نے ان کو علم کی روشنی اور عمل کی طاقت بخشی تھی، اس کو انھوں نے محض ایک متبرک یاد گار بنا کر غلافوں میں لپیٹ دیا۔ جس ہادی اعظم کی سنت نے ان کی تہذیب کو ایک مکمل فکری و عملی نظام کی صورت میں متشکل کیا تھا اس کی پیروی کو انھوں نے چھوڑ دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی ترقی کی رفتار رک گئی۔ بہتا ہوا دریا یکا یک جمود کی وادی میں ٹھہر کر تالاب بن گیا۔ امامت کے منصب سے مسلمان معزول ہوئے۔ جہاد اور اجتہاد کا جھنڈا جس کو مسلمانوں نے پھینک دیا تھا، مغربی قوموں نے اُٹھا لیا اور مسلمان سوتے رہے اور اہل مغرب اس جھنڈے کو لے کر علم و عمل کے میدان میں آگے بڑھے، یہاں تک کہ امامت کا منصب ان کو مل گیا۔ آخر صدیوں کی نیند کے بعد جب مسلمانوں کی آنکھیں کھلیں تو انھوں نے دیکھا کہ میدان ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ دوسرے اس پر قابض ہو چکے ہیں۔ اب علم ہے تو ان کا ہے۔ تہذیب ہے تو ان کی ہے۔ قانون ہے تو ان کا ہے۔ حکومت ہے تو ان کی ہے۔ مسلمانوں کے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ ایک شمع رہ گئی ہے سو وہ بھی خموش ہے۔...
داعی کی کیفیت
ہم اس حالت کو دیکھ رہے ہیں اور اس کا خوفناک انجام ہماری آنکھوں کے سامنے ہے۔ اگرچہ رہنمائی کے لیے جس علم و فضل اور جامعیت کی ضرورت ہے وہ ہم کو حاصل نہیں۔ نہ اتنی قوت میسر ہے کہ ایسے بگڑے ہوئے حالات میں اتنی بڑی قوم کی اصلاح کر سکیں، لیکن اللہ نے دل میں ایک درد دیا ہے، اور وہی درد مجبور کرتا ہے کہ جو تھوڑا سا علم اور نورِ بصیرت اللہ تعالیٰ نے بخشا ہے، اس سے کام لے کر مسلمانوں کو اسلامی تعلیم کے اصل منبع اور اسلامی تہذیب کی حقیقی اساس کی طرف رجوع کرنے کی دعوت دیں اور کامیابی و ناکامی سے بے پروا ہو کر اپنی سی کوشش کر دیکھیں۔ کام کی بزرگی اور اپنی کمزوری کو دیکھ کر اپنی کوشش خود ہم کو بیچ میرز معلوم ہوتی ہے، مگر کامیابی اور ناکامی جو کچھ بھی ہے اس قادرِ مطلق کے ہاتھ میں ہے۔ ہمارا کام کوشش کرنا ہے اور اپنی حد وسع تک اپنی کوشش کے دائرے کو پھیلانا چاہتے ہیں۔
۷۔ ترجمان القرآن، جلد ۷، عدد ۱، ص ۱۴۳لیجیے کام کرتے کرتے تین سال بیت گئے۔ داعی کا دل شکر کے جذبات سے لبریز ہے کہ یہ سال حق کے کلمے کو بلند کرنے میں گزرا۔ وہ حریص ہے کہ جو کچھ کرنا چاہتا ہے، نہیں کر پا رہا ہے ، وہ مطمئن ہے کہ خدا کا خزانہ بے حساب ہے اس کے آگے گڑگڑاتا ہے، اور اپنا دامن پھیلا کر کہتا ہے۔
داعی کی دعا
اس زمانے میں اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان سے جو انعامات ہوئے ہیں، ان کا شکر بجا لانا میرا پہلا فرض ہے۔ اول تو یہی احسان کیا کم ہے کہ ایک حقیر گناہ گار بندے کو دینِ حق کی خدمت کے لیے منتخب فرمایا گیا۔ حالاں کہ اگر انتخاب کا معیار علم، تقویٰ، اخلاص اور کمالاتِ ظاہری و باطنی پر ہوتا تو شاید میں آخری شخص ہوتا جس کی طرف نگاہ انتخاب مائل ہوتی ۔ پھر اس پر مزید احسان یہ ہے کہ میری تمام کو تاہیوں کی تلافی اپنے فضل و انعام سے کی گئی۔ بے علم تھا، نورِ علم عطا کیا گیا، ناواقف راہ تھا، راہِ راست کی طرف ہدایت بخشی گئی، کمزور اور پست ہمت تھا، صبر و ثبات اور استقامت کی توفیق دی گئی، بے سروسامان اور بے یارومددگار تھا، خزانہ غیب سے ہر ہر قدم پر سروسامان بہم پہنچایا گیا۔ یہ تو وہ احسانات ہیں، جن کو میں جانتا ہوں اور ان کا بھی پورا پورا شکر ادا کرنا میری قدرت سے باہر ہے۔ رہے وہ بے شمار احسانات جن کی مجھ کو خبر تک نہیں تو ان کا شکر کیسے بجا لاؤں؟ بجز اس کے اور کیا کہہ سکتا ہوں!
شکر نعمت ہائے تو چندانکہ نعمت ہائے تو
(اے اللہ تیری ان گنت نعمتوں کا شکر نعمتوں جتنا ہی ہونا چاہیے۔)مگر حق تعالیٰ اپنے فضل و احسان میں جیسا فیاض ہے، یہ بندہ اس سے فضل و احسان کی طلب میں ویسا ہی حریص ہے۔ اس نے جو کچھ دیا ہے اس پر شکر ضرور ہے مگر قناعت نہیں۔ خدا کے مقابلے میں قناعت کیسی؟ وہ دینے سے نہیں تھکتا تو بندہ مانگنے سے کیوں تھکے؟ اور اس سے نہ مانگے تو کس سے مانگے؟
میں علم کا پیاسا ہوں اور اس پیاس کو بجھانے والا اس کے سوا کوئی نہیں۔ میری عقل و فہم میں ہزاروں کو تاہیاں ہیں اور ان کو دور کرنے والا اگر کوئی ہے تو وہی ہے۔ میرا دل بے چین ہے۔ میری روح مضطرب ہے۔ میرا دماغ سکون سے محروم ہے۔ خدا ہی ہے جو اس بیماری کا مداوا کر سکتا ہے۔ میں گناہوں میں گھرا ہوا ہوں۔ میرے عمل میں لاکھوں خامیاں ہیں۔ میری فطرت کی کمزوریاں قدم قدم پر مرضاتِ الٰہی کے اتباع سے مجھ کو روکتی ہیں۔ خدا کے سوا کوئی نہیں، جو میرے عیوب کی اصلاح کرے اور عمل صالح کی توفیق بخشے۔ میں اس سے خلوص نیت کا طلب گار ہوں، صحت فکر و نظر مانگتا ہوں۔...
میں اس سے دُعا کرتا ہوں کہ مجھے بندوں سے بے نیاز کر کے صرف اپنا نیاز مند بنائے۔ محبت اور طمع سب سے توڑ کر صرف اپنے ساتھ جوڑ دے اور اتنی قوت و طاقت عطا فرمائے کہ میں اسلام اور مسلمانوں کی خدمت میں اپنے دِل کے سب حوصلے نکال سکوں۔...
پچھلے دنوں تبدیلی آب و ہوا کے لیے بیدر اور اس کے نواح میں جانے کا اتفاق ہوا۔ یہ شہر تقریباً دو سو برس تک اسلامی تمدن و تہذیب کا مرکز رہا ہے۔ بڑے بڑے علما، صلحا، سپہ سالار اور مدبرین اس کی خاک میں مدفون ہیں، مگر افسوس کہ اسلام کی عظمت رفتہ اینٹ و پتھر کی صورتوں میں زندہ اور انسانی شکلوں میں مردہ ہے۔ جن ناموروں نے اس سرزمین میں اپنی شوکت و حشمت کے یہ زندہ آثار چھوڑے ہیں، ان کی جسمانی یاد گاریں اب بھی وہاں محفوظ ہیں، مگر ان میں زندگی نہیں ہے۔ ان کے علوم و فنون مر گئے۔ ان کے کمالات مر گئے۔ ان کے دِل مر گئے، ان کی روحوں پر مردنی چھا گئی۔
اس قدیم اسلامی بستی میں آنکھوں نے تلاش کیا کہ کوئی عالم نظر آئے، یا کوئی بزرگِ خدا ملے۔ کوئی فنون قدیمہ کا ماہر دکھائی دے۔ کوئی ایسا باکمال انسان ملے جس کے وجود کو دیکھ کر کم از کم دل کو یہ دھوکہ ہی دیا جا سکے کہ اسلامی تہذیب و تمدن میں ابھی کچھ زندگی باقی ہے۔ لیکن ہر جستجو میں نگاہیں ناکام ہوئیں اور دل نے گواہی دی کہ اسی کو قوموں کی موت کہتے ہیں... بستیوں کو دیکھیے تو خون اور گوشت کے چلتے پھرتے مجسمے لاکھوں نظر آئیں گے مگر اہل کمال مفقود، اہل دل ناپید، نظم ملت پراگندہ، رُوح ملت افسردہ۔ کہیں اگر دور سے کچھ نظر فریب چمک دمک نظر آئی بھی ہے تو قریب جا کر معلوم ہوتا ہے کہ یہ اپنا کمال نہیں، دوسروں کے کمالات کا عکس ہے، اور عکس لینے میں بھی اپنی بے کمالی نمایاں ہو رہی ہے۔
۹۔ ترجمان القرآن جلد ۸، عدد ۱، ص ۲-۵ایک طرف خدا سے بھیک مانگتا ہے تو دوسری طرف قوم کو جھنجھوڑتا اور بیدار کرتا ہے اور اسے مخاطب کر کے صاف صاف کہتا ہے:
کیش مردان
یہ شریعت بزدلوں اور نامردوں کے لیے نہیں اتری ہے۔ نفس کے بندوں اور دنیا کے غلاموں کے لیے نہیں اُتری ہے۔ ہوا کے رخ پر اُڑنے والے خس و خاشاک اور پانی کے بہاؤ پر بہنے والے حشرات الارض اور ہر رنگ میں رنگ جانے والے بے رنگوں کے لیے نہیں اُتری ہے۔ یہ ان بہادروں اور شیروں کے لیے اُتری ہے جو ہوا کا رخ بدل دینے کا عزم رکھتے ہیں، جو دریا کی روانی سے لڑنے اور اس کے بہاؤ کو پھیر دینے کی ہمت رکھتے ہیں جو صبغۃ اللہ کو ہر رنگ سے زیادہ محبوب رکھتے ہیں۔ مسلمان جس کا نام ہے، وہ دریا کے بہاؤ پر بہنے کے لیے پیدا ہی نہیں کیا گیا ہے۔ اس کی آفرینش کا تو مقصد ہی یہ ہے کہ زندگی کے دریا کو اس راستے پر رواں کر دے جو اس کے ایمان و اعتقاد میں راہِ راست ہے، صراط مستقیم ہے۔ اگر دریا نے اپنا رُخ اس راستے سے پھیر دیا ہے تو اسلام کے دعویٰ میں وہ شخص جھوٹا ہے جو اس بدلے ہوئے رُخ پر بہنے کے لیے راضی ہو۔ حقیقت میں جو سچا مسلمان ہے وہ اس غلط رو دریا کی رفتار سے لڑے گا۔ اس کا رُخ پھیرنے کی کوشش میں اپنی پوری قوت صرف کر دے گا۔ کامیابی و ناکامی کی اس کو قطعاً پروانہ ہوگی۔ وہ ہر اس نقصان کو گوارا کرے گا جو اس لڑائی میں پہنچے یا پہنچ سکتا ہو۔ حتیٰ کہ اگر دریا کی روانی سے لڑتے لڑتے اس کے بازو ٹوٹ جائیں، اس کے جوڑ بند ڈھیلے ہو جائیں اور پانی کی موجیں اس کو نیم جان کر کے کسی کنارے پھینک دیں تب بھی اس کی رُوح ہر گز شکست نہ کھائے گی۔ ایک لمحے کے لیے بھی اس کے دل میں اپنی اس ظاہری نامرادی پر افسوس یا دریا کے اوپر بہنے والے کافروں اور منافقوں کی کامرانیوں پر رشک کا جذبہ راہ نہ پائے گا...
انقلاب یا ارتقا ہمیشہ قوت ہی کے اثر سے رونما ہوا ہے، اور قوت ڈھل جانے کا نام نہیں ہے ڈھال دینے کا نام ہے۔ مُڑ جانے کو قوت نہیں کہتے، موڑ دینے کو کہتے ہیں۔ دنیا میں کبھی نامردوں اور بزدلوں نے کوئی انقلاب پیدا نہیں کیا۔ جو لوگ اپنا کوئی اصول، کوئی مقصدِ حیات کوئی نصب العین نہ رکھتے ہوں ، جو خطرات اور مشکلات کے مقابلے کی ہمت نہ رکھتے ہوں، جن کو دنیا میں محض آسائش اور سہولت ہی مطلوب ہو، جو ہر سانچے میں ڈھل جاتے اور ہر دباؤ سے دب جانے والے ہوں، ایسے لوگوں کا کوئی قابلِ ذکر کارنامہ انسانی تاریخ میں نہیں پایا جاتا۔ تاریخ بنانا صرف بہادر مردوں کا کام ہے۔ انھی نے اپنے جہاد اور قربانیوں سے زندگی کے دریا کا رُخ پھیرا ہے، دنیا کے خیالات بدلے ہیں، مناہج عمل میں انقلاب برپا کیا ہے اور زمانے کے رنگ میں رنگ جانے کے بجائے زمانے کو خود اپنے رنگ میں رنگ دیا ہے۔...
خود محمد ﷺ دنیا میں تشریف لائے تو زندگی کا یہ دریا کس رُخ پر بہہ رہا تھا ؟ کیا تمام دنیا پر کفر و شرک کا غلبہ نہ تھا؟ کیا استبداد اور ظلم کی حکومت نہ تھی؟ کیا انسانیت کو طبقات کی ظالمانہ تقسیم نے داغ دار نہ کر رکھا تھا؟ کیا اخلاق پر فواحش، معاشرت پر نفس پرستی، معیشت پر سرمایہ داری اور قانون پر بے اعتدالی کا دور دورہ نہ تھا؟ مگر ایک تن واحد نے اُٹھ کر تمام دنیا کو چیلنج دے دیا۔ تمام ان غلط خیالات کو اور غلط طریقوں کو رد کر دیا جو اس وقت دنیا میں رائج تھے اور چند سال کی مختصر مدت میں اپنی تبلیغ اور جہاد سے دریا کے رُخ کو پھیر کر اور زمانے کے رنگ کو بدل کر چھوڑا ۔ پس یہ نہ کہو کہ دنیا جس راستے پر جا رہی ہے، اس سے وہ پھیری ہی نہیں جا سکتی اور زمانے کی جو روش ہے اس کا اتباع کیے بغیر چارہ ہی نہیں۔ مجبوری کا جھوٹا دعویٰ کرنے کے بجائے تم کو خود اپنی کمزوری کا ہی اعتراف کرنا چاہیے، اور جب تم اس کا اعتراف کر لو گے تو تم کو یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ کمزور کے لیے دنیا میں نہ کوئی مذہب ہو سکتا ہے، نہ کوئی اُصول اور نہ کوئی ضابطہ۔ اس کو تو ہر زور آور سے دبنا پڑے گا، ہر طاقت کے آگے جھکنا پڑے گا، ہر قومی اثر سے متاثر ہونا پڑے گا... وہ کبھی اپنے کسی اُصول اور کسی ضابطے کا پابند نہیں ہو سکتا۔ اگر کوئی مذہب اس کے لیے اپنے اصول بدلتا چلا جائے تو وہ سرے سے کوئی مذہب ہی نہ رہے گا।...
محض دولت ہرگز وہ چیز نہیں ہے جو کسی قوم کو معزز اور طاقت ور بناتی ہو۔ تمھارا ایک ایک شخص اگر لکھ پتی اور کروڑ پتی بن جائے مگر تم میں کیریکٹر کی طاقت نہ ہو تو یقین رکھو کہ دنیا میں تمھاری عزت نہ ہوگی۔ بخلاف اس کے اگر تم میں در حقیقت اسلامی سیرت موجود ہو، تم صادق اور امین ہو، لالچ اور خوف سے پاک ہو، اپنے اصول میں سخت اور اپنے معاملات میں کھرے ہو، حق کو حق اور فرض کو فرض سمجھنے والے ہو، حرام وحلال کی تمیز کو ہر حال میں ملحوظ رکھنے والے ہو اور تم میں اتنی اخلاقی قوت موجود ہو کہ کسی نقصان کا خوف اور کسی فائدے کی طمع تم کو راستی سے نہ ہٹا سکے اور کسی قیمت پر تمھارا ایمان نہ خریدا جا سکے تو دُنیا میں تمھاری ساکھ قائم ہو جائے گی۔ دلوں میں تمھاری عزت بیٹھ جائے گی۔ تمھاری ایک بات کا وزن لکھ پتی کی ساری دولت سے زیادہ ہو جائے گا۔ تم جھونپڑیوں میں رہ کر اور پیوند لگے کپڑے پہن کر بھی دولت سراؤں میں رہنے والوں سے زیادہ احترام کی نظر سے دیکھے جاؤ گے اور تمھاری قوم کو ایسی طاقت حاصل ہوگی، جس کو کبھی نیچا نہیں دکھایا جا سکتا۔
تم نے تاریخ اسلام کا سبق تو فراموش کر ہی دیا ہے۔ مگر دنیا کی جس قوم کی چاہو تاریخ اُٹھا کر دیکھ لو تم کو ایک مثال بھی ایسی نہیں ملے گی کہ کسی قوم نے محض سہولت پسندی اور آرام طلبی اور منفعت پرستی سے عزت اور طاقت حاصل کی ہو۔ تم کسی ایسی قوم کو معزز اور سر بلند نہ پاؤ گے، جو کسی اصول اور ڈسپلن کی پابند نہ ہو، کسی بڑے مقصد کے لیے تنگی اور مشقت اور سختی برداشت نہ کرتی ہو۔ اگر اس کا حوصلہ تم میں نہیں ہے، اگر تم صرف نرمی اور کشادگی اور مٹھاس ہی کے متوالے ہو، اور کسی سختی ، کسی تنگی اور کسی کڑواہٹ کو گوارا کرنے کی طاقت تم میں نہیں تو اسلام کی قید و بند سے نکل کر جہاں چاہو جا کر دیکھ لو، کہیں تم کو عزت کا مقام نہ ملے گا اور کسی جگہ طاقت کا خزانہ تم نہ پا سکو گے۔ قرآن نے اس قاعدہ کلیہ کو صرف چار لفظوں میں بیان کیا ہے اور وہ چار لفظ ایسے ہیں جن کی صداقت پر پوری تاریخ عالم گواہ ہے۔
إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا
یسر کا دامن ہر حال میں عُسر کے ساتھ وابستہ ہے جس میں عسر کو برداشت کرنے کی طاقت نہیں ، وہ کبھی تیسر سے ہمکنار نہیں ہو سکتا۔
یہ راستہ کوئی آسان راستہ نہیں ہے ۔ یہ پھولوں کی سیج نہیں، کانٹوں کا فرش ہے ۔ یہاں قدم قدم پر مزاحمتیں ہیں۔ یہاں چپے چپے پر مشکلات و مصائب ہیں۔ دعوت کی فطرت ہے کہ وہ ان تمام راستوں سے گزرے اور داعی کا فرض ہے ان تمام مراحل کو ہنسی خوشی برداشت کرے۔ کبھی اُف بھی نہ کرے، کسی کو کانوں کان خبر بھی نہ ہو - لیکن کبھی کبھی پیمانہ چھلک بھی جاتا ہے اور آنسو نظر بھی آجاتے ہیں۔ ایسے ایک موقع پر:
داعی کی مشکلات
ترجمان القرآن دراصل میری زندگی کا مشن ہے۔ میں نے جس کام کو اپنا مقصد حیات بنایا ہے، اسی کو انجام دینے کے لیے اس پرچے کو چلا رہا ہوں۔ اب تک اس کام میں جو کچھ بھی مشکلات پیش آئیں، ان کا حال بجز میرے مخصوص دوستوں کے کسی کو معلوم نہ تھا کیونکہ رسالے کا حال گویا میرا ذاتی حال ہے اور پبلک میں میں نے اس کا اظہار کبھی مناسب نہیں سمجھا۔
۱۰۔ ترجمان القرآن، جلد ۸، عدد ۲، ص ۱۳۷لیکن اب ”صدق“ اور ”ٹرتھ“ اور ”الجمعیۃ“ میں اتفاقاً ان کے شائع ہو جانے سے بہت سے ان حضرات تک یہ حالات پہنچ گئے ہیں جو ترجمان القرآن کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور متعدد اصحاب نے اپنے خطوط میں تشویش کا اظہار فرمایا ہے، اس لیے آج مجبوراً احوال واقعی کا اظہار کرتا ہوں۔
ترجمان القرآن کی اشاعت اس وقت چھ سو ہے۔ دوسری قوموں کے علمی ذوق اور جرائد کی اشاعت کو دیکھتے ہوئے تو یہ تعداد بہت کم ہے، مگر مسلمانوں کی ذہنی حالت کے لحاظ سے اس کو بہت زیادہ سمجھنا چاہیے، کیونکہ ان کی دلچسپیوں کا دائرہ دوسرا ہے۔ اس چھ سو کی تعداد میں ہے کہ پورے نصف کی خریدار سرکار آصفیہ ہے۔ اگر ان تین سو پرچوں کو الگ کر دیا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ کروڑوں مسلمانوں کی اس آبادی میں صرف تین سو اصحاب ایسے ہیں جو ترجمان القرآن کی وضع کا ایک رسالہ پڑھنے کے لیے کچھ خرچ کر سکتے ہیں۔ پھر ان تین سو میں سے بھی دس فی صدی حضرات اپنے بجٹ میں اس رسالے کی پوری قیمت کے لیے گنجایش نہیں نکال سکتے مگر چونکہ ہم خود ان تک اپنی آواز پہنچانے کے غرض مند ہیں، اس لیے ہم کو مجبوراً رعایتی قیمت پر، بلکہ بسا اوقات برائے نام قیمت پر، پرچہ ان کے نام جاری کرنا پڑتا ہے۔
ظاہر ہے کہ اس معیار کا کوئی پرچہ اتنی کم اشاعت پر زندہ نہیں رہ سکتا۔ حیدرآباد میں کتابت، طباعت اور کاغذ تینوں چیزیں ہندوستان کے دوسرے مراکز اشاعت کی بہ نسبت سوائی ڈیوڑھی گراں ہیں۔ اس وجہ سے پرچے کی آمدنی اس کی ضرورت کے لیے اور بھی زیادہ غیر مکتفی ہو گئی ہے۔ پھر اس آمدنی میں اتنی گنجایش کہاں کہ وہ ایک اعلیٰ درجے کے علمی رسالہ کی وہ ضروریات فراہم کر سکے، جو طباعت کے مصارف سے بالاتر ہیں۔ نہ اس میں کتابیں خریدی جا سکتی ہیں، جو علمی تحقیق کے لیے ناگزیر ہیں۔ نہ اس میں علمی رسالے خریدے جا سکتے ہیں جو نئی معلومات حاصل کرنے کے لیے ضروری ہیں۔ نہ اس میں بلند پایہ مضامین لکھنے والوں کو ان کے وقت اور ان کی محنت کا کم سے کم معاوضہ دیا جا سکتا ہے۔ نہ اس میں اتنی گنجایش ہے کہ کسی ایک لائق آدمی کی بھی خدمات مستقل طور پر حاصل کی جا سکیں تاکہ وہ ادارت کے کاموں میں ایڈیٹر کا ہاتھ بٹا سکے۔ ایسی حالت میں پرچے کو نہ صرف زندہ رکھنے بلکہ اس کا معیار بھی قائم رکھنے کا تمام تر بار ایک تنہا شخص پر ہے۔ وہ اس دو گونہ مشکل میں مبتلا ہو گیا ہے کہ ایک طرف تو وہ اپنا تمام وقت، اپنی پوری دماغی قوت اس پرچے کی ترتیب میں صرف کر دے اور دوسری طرف اپنی ذاتی ضروریات بلکہ خود پرچے کی ضروریات کا بھی ایک معتدبہ حصہ کہیں اور سے فراہم کرے، جس کے لیے نہ اس کے پاس وقت بچتا ہے، اور نہ اس کے دل و دماغ میں اتنی طاقت باقی رہتی ہے کہ دوسرا کام کر سکے۔
اس حالت پر شکایت کا کوئی محل نہیں۔ اس لیے کہ ترجمان القرآن سے مسلمانوں کی کوئی غرض وابستہ نہیں ہے جس میں مدد نہ دینے کی کوئی شکایت ان سے کی جا سکے۔ یہ تو میری اپنی غرض ہے کہ میں اپنی آواز ان تک پہنچانا چاہتا ہوں۔ جو شخص کوئی ایک بھی دل خوش کن بات نہ سنا سکتا ہو، بلکہ جس سے قریب قریب ہر گروہ کو کچھ نہ کچھ تلخ اور ناگوار طبع باتیں سننی پڑتی ہوں، وہ نہ تو کسی سے مدد طلب کرنے کا حق رکھتا ہے اور نہ اس کو ایسی کوئی اُمید رکھنی چاہیے۔ در حقیقت ان لوگوں کا احسان ہے جو اس رسالے کو پڑھ لیتے ہیں اور اس سے زیادہ احسان ان لوگوں کا ہے جو اس کو پڑھنے کے ساتھ اس کی پوری یا ادھوری قیمت بھی ادا کرتے ہیں۔ اب اس کے بعد کسی مزید احسان کی درخواست نہ میں کر سکتا ہوں، نہ کرنا چاہتا ہوں۔ رہی پرچے کی زندگی، تو جو حضرات اس کے خریدار ہیں، ان کو میں اطمینان دلاتا ہوں کہ یہ پرچہ ان شاء اللہ اس وقت تک زندہ رہے گا جب تک میں زندہ ہوں۔ میں بے مقصد زندگی بسر کرنا نہیں چاہتا، اس لیے توفیق الٰہی سے جس قدر کوشش خود اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے لیے کرتا ہوں، اسی قدر کوشش اپنے مقصد وجود کو بھی برقرار رکھنے کے لیے کروں گا، لہذا کسی صاحب کو یہ خوف نہ ہو کہ پرچہ بند ہو جائے گا۔ اور بالفرض اگر بند بھی ہو گیا تو خدا کے فضل سے میں اُمید رکھتا ہوں کہ کسی شخص کا ایک پیسہ بھی ضائع نہ ہونے پائے گا۔ جن لوگوں کے چندے باقی رہ جائیں گے، ان کی پائی پائی واپس کر دی جائے گی۔
۱۱۔ ترجمان القرآن، جلد ۸، عدد ۶ ، ص ۳-۴آندھیوں کی یورش کے باوجود بفضلِ خدا یہ شمع جلتی رہی - دعوت کے چار سال پورے ہوئے۔ بظاہر یقین نہ آتا تھا کہ یہ ننھی سی شمع آندھیوں کا مقابلہ کر سکے گی۔ یہ ٹوٹی ہوئی کشتی ایسے عظیم طوفان بادوباراں کو سہہ لے گی لیکن جسے خدا پر بھروسہ ہوتا ہے وہ پوری دنیا کو مخاطب کرکے کہا کرتا ہے وہ خدا کی طرف رجوع کرتا ہے۔ اس کے دامن کو تھامتا ہے:
اچھا یقین نہیں ہے تو کشتی ڈبو کے دیکھ
اک تو ہی ناخدا نہیں ظالم، خدا بھی ہے
فقد استمسك بالعروة الوثقى
اور جس نے خدا کی رسی کو تھام لیا، اس نے ایک بڑے ہی مضبوط سہارے کو تھاما۔
إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ
اس اشاعت کے ساتھ ”ترجمان القرآن“ کی زندگی کا پانچواں سال شروع ہو رہا ہے۔ سفر کی اس نئی منزل میں قدم رکھنے سے پہلے مجھ پر اللہ تعالیٰ کا شکر واجب ہے۔ پچھلے دو برس اس طرح گزرتے رہے کہ ہر سال کی ابتدا میں خوف ہوتا تھا کہ شاید اب یہ پرچہ پورا سال نہ پکڑ سکے گا اور ہر سال کے خاتمے پر حیرت ہوتی تھی کہ آخر یہ زندہ کیسے رہ گیا ؟
نشیب و فراز کے ان مسلسل تجربات اور نصرتِ الٰہی کے پیہم مظاہرات نے اب دِل میں اس امر کا اطمینان سا پیدا کر دیا کہ یہ خدمت بارگاہِ الٰہی میں کسی حد تک مقبول ضرور ہے اور اس مقبولیت کی بنا پر اس کے ساتھ یَرْزُقُهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ کا سا معاملہ ہو رہا ہے۔ گو ظاہر حالات سے خارج میں کوئی تغیر نہیں ہوا۔ اب بھی زمانے کا وہی رنگ ہے، جسے دیکھ دیکھ کر دل ٹوٹا جاتا تھا، ہمت بیٹھی جاتی تھی، حوصلے پست ہوئے جاتے تھے لیکن اب باطن کا وہ حال نہیں جو پہلے تھا۔ اب دل میں ایک اطمینان ہے، روح میں ایک سکون ہے، حوصلوں میں ایک نئی قوتِ پرواز اور عزائم میں ایک خاص طاقت ثبات محسوس ہوتی ہے۔ پہلے صبر اور توکل کے الفاظ ذہن میں تھے، روح میں ان کے معانی کا تحقق اب شروع ہوا ہے۔ پہلے صرف یہ اعتقاداً سمجھتے تھے کہ خدا پر بھروسہ کرنا چاہیے، چار سال کی مشق و تمرین کے بعد اب کچھ سمجھ میں آنے لگا ہے کہ خدا پر بھروسہ کرنے کے معانی کیا ہیں؟ اور اس پر بھروسہ کرنے والوں کے ساتھ کیا معاملہ ہوتا ہے۔ یہی وہ نعمت ہے برسوں سے جس کی طلب تھی اور اب کہ اس بخشش کا آغاز ہوا ہے، صمیم قلب کے ساتھ بخشنے والے کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور ادائے شکر کے ساتھ یہ دعا بھی کرتا ہوں کہ اس نعمت کا اتمام فرمایا جائے۔ کیونکہ اب جو مرحلہ درپیش ہے ، اس میں سب سے بڑھ کر اسی کی ضرورت ہے۔ میں ایک مجاہد کے سے ایمان کا طالب ہوں۔ ایسا دل مانگتا ہوں جو سمندر کی طوفانی موجوں کے مقابلے میں ٹوٹی ہوئی کشتی لے جانے پر بے جھجک آمادہ ہو جائے، ایسی رُوح مانگتا ہوں جو شکست کھانے اور سپر رکھ دینے کا تصور بھی نہ کر سکتی ہو، ایسی عزیمت مانگتا ہوں جو مادی سہاروں سے قطعاً مستغنی ہو، اور تمام سہاروں کے چھوٹ جانے پر بھی نہ ٹوٹ سکے۔ ایسا ارادہ مانگتا ہوں، جسے کوئی طاقت اپنے مقصد کے راستے سے نہ ہٹا سکے۔...
ملک کے حالات روز بروز خراب تر ہوتے جا رہے ہیں، اور خصوصیت سے ہندو سامراج کے عزائم اب بالکل برہنہ ہو کر سامنے آگئے تھے۔ داعی کسی خلا میں کام نہیں کر رہا۔ اسے قوم کی ہر حالت پر نگاہ رکھنی ہے، اس کا ہاتھ بیمار کی نبض پر ہے اور اپنی قوم کو حالات کی شدت سے ہر قدم پر آگاہ کرتا ہے۔
یک لحظه غافل بودم و صد ساله راهم دور شد
(ایک لمحے کی غفلت ہوئی، منزل سو برس دور ہو گئی)
مسلمانوں کی اصلی کمزوری کو تاڑ لیا گیا ہے۔ انھیں کھینچنے کے لیے جو صدا بلند کی جا رہی ہے وہی پیٹ اور روٹی کی ذلیل صدا ہے جو ہمیشہ خود غرض اور شکم پرست حیوانات کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ ان سے کہا جا رہا ہے کہ تہذیب کیا بلا ہے؟ اور تمھاری تہذیب کی خصوصیت بجز پاجامے اور داڑھی کے اور ہے ہی کیا؟ اس میں آخر کون سی اہمیت ہے؟ اصلی سوال تو پیٹ کا سوال ہے۔ اسی سوال کو حل کرنے کے لیے ہم اٹھے ہیں۔ اب اگر دہریت اور کمیونزم کا زہر بھی تھوڑا تھوڑا ہر نوالے کے ساتھ پیٹ میں اتر جائے تو اس سے گھبرانے کی کوئی وجہ نہیں ۔ جو قوم اس سے پہلے انھی نوالوں کے ساتھ الحاد و فرنگیت کا زہر بھی اُتار چکی ہے، اس کے حلق میں ویسی ہی چند اور چٹنیاں کیوں پھنسنے لگیں؟
اس نوعیت کا ہے وہ انقلاب جو آ رہا ہے۔ مسلمانوں میں سے جو لوگ اس انقلاب کے دامن سے وابستہ ہیں، ان کی زندگیاں ہمارے سامنے ہیں۔ ان کی صورتیں، ان کے لباس، ان کی بات چیت، ان کی چال ڈھال، ان کے آداب و اطوار، ان کے خیالات سب کچھ ہمارے سامنے اس مسلمان کا نمونہ پیش کر رہے ہیں جو اس آنے والے انقلاب میں پیدا ہو گا۔ ہم ابھی سے دیکھ رہے ہیں کہ اس دور میں مسٹروں کے بجائے مہاشے اور رشیوں کے بجائے شریمتیاں ہمارے ہاں پیدا ہوں گی۔ گڈمارننگ کی جگہ نمستے لے گا۔ ہیٹ کی جگہ گاندھی کیپ ہو گی۔ پیشانیوں پر قشقے اور بندیاں نظر آئیں گی اور دماغ اور دل اور جسم سب اپنا رنگ بدلیں گے۔
دنیا میں انقلاب کی رفتار بہت تیز ہے اور روز بروز تیز تر ہوتی چلی جا رہی ہے۔ جو تغیرات صدیوں میں ہوتے تھے، اب وہ برسوں میں ہو رہے ہیں۔ پہلے انقلاب بیل گاڑیوں اور ٹٹوؤں پر سفر کرتا تھا، اب ریل اور تار اور اخبار اور ریڈیو پر حرکت کر رہا ہے۔ آج وہ حالت ہے کہ:
یک لحظه غافل بودم صد سالہ راہم دور شد
(ایک لمحے کی غفلت ہوئی، منزل سو برس دور ہو گئی)
اگر ہندوستان کے باہر کوئی اچانک واقعہ نہ بھی پیش آیا، تب بھی اس متوقع انقلاب کے رونما ہونے میں کچھ زیادہ دیر نہ لگے گی اور اگر کوئی عالم گیر جنگ چھڑ گئی، جو قضائے مبرم کی طرح دنیا کے سر پر لٹک رہی ہے، تو غالباً فیصلہ کا وقت اور بھی قریب آجائے گا۔
۱۲۔ ترجمان القرآن، جلد ۱۰، عدد ۱، ص ۲-۱۳، ۳-۱۴یہ خاموش بیٹھنے کا وقت نہیں
”تحریک خلافت کی ناکامی کے بعد سے کامل پندرہ برس تک مسلمان جس انتشارِ فکر و عمل میں مبتلا رہے، اس کو دیکھ دیکھ کر دل خون ہوا جاتا تھا، مگر یہی خیال لب کشائی سے روکتا رہا، کہ میدان میں مجھ سے زیادہ علم اور تجربہ اور قوت اور اثر رکھنے والے موجود ہیں۔ وہ کبھی نہ کبھی حالات کی اصل خرابی کو محسوس کریں گے اور ان کو رفع کرنے کے لیے متحد ہو کر وہ تدبیریں اختیار کریں گے جو مسلمان ہونے کی حیثیت سے ان کو اختیار کرنی چاہیں۔ لیکن دن پر دن گزرتے چلے گئے اور یہ اُمید بر نہ آئی۔ یہاں تک کہ وہ وقت آگیا جو ہندوستانی مسلمانوں کے لیے قسمت کے فیصلے کا آخری وقت ہے۔ دل کی آنکھوں نے صاف دیکھ لیا کہ اب اگر اس قوم نے کوئی غلط اقدام اٹھایا تو سیدھی ہلاکت کے گڑھے کی طرف جائے گی، اور اس کے ساتھ چشم دل نہیں چشم سر نے بھی دیکھا کہ جن کی تدبیر و تدبر پر اس قوم کے مستقبل کا انحصار ہے، وہ بھی اب حالات کو اس راستی کے ساتھ سمجھنے کی کوشش نہیں کر رہے ہیں جسے فراست مومن کہا گیا ہے اور اسی کو تاہی کی بنا پر ایسے نازک وقت میں مسلمانوں کو ان مختلف راستوں پر چلائے جا رہے ہیں جن میں سے کوئی بھی منزل نجات کی طرف نہیں جاتا۔ اس مرحلے پر پہنچ کر ضمیر نے آواز دی کہ یہ وقت خاموش بیٹھنے کا نہیں ہے۔ اب دین و ملت کی سب سے بڑی خدمت یہی ہے کہ مسلمانوں کو، ان کے عوام اور خواص، علما و زعما سب کو ان حقیقی خطرات کی طرف توجہ دلائی جائے جو مسلم قوم ہونے کی حیثیت سے ہمیں درپیش ہیں۔ اس کے ساتھ انھیں یہ بھی یاد دلایا جائے کہ تمہارے لیے ہدایت کا اصلی سرچشمہ خدا کی کتاب اور اس کے رسول کی سیرتِ پاک میں ہے جس کو چھوڑ کر محض اپنی فکر اور تدبیر پر اعتماد کر لینا ہلاکت کا پیش خیمہ ثابت ہو گا۔
۱۳۔ ترجمان القرآن جلد ۱۱، عدد ۵، ص ۴۳ان حالات میں داعی ساری توجہ ساتھیوں کی تلاش پر صرف کرتا ہے۔ وہ حالات کا تجزیہ کرتا ہے، صحیح منزل کی نشاندھی کرتا ہے، اور قوم کے حساس دلوں کو پکارتا ہے کہ آؤ میرے ساتھی بنو!
مَنْ اَنْصَارِیْ اِلَی اللّٰهِ
شاید یہ بات میں کسی خود ستائی یا استکبار کے بغیر کہہ سکتا ہوں کہ ترجمان القرآن سے میرا کوئی ذاتی مفاد وابستہ نہیں ہے بلکہ پوری قوم کا مفاد وابستہ ہے۔ گو اپنی حد تک میں اپنا فرض سمجھ کر ہی اس کو چلا رہا ہوں، اور اپنے آپ کو ہی اس کا ذمہ دار سمجھتا ہوں، مگر کم از کم مجھے یہ کہنے کا حق تو ضرور ہے کہ جس طرح اس خدمت کو انجام دینا میرا فرض ہے، اسی طرح مجھے اس کی انجام دہی کے لیے قابل بنانا قوم کا بھی فرض ہے۔ ہو سکتا ہے کہ فروعی معاملات میں کسی کو بھی مجھ سے اختلاف ہو، اور ایسا کون ہے جس کی ہر بات سے ہر شخص متفق ہو جائے، لیکن اصول کی حد تک میں سمجھتا ہوں کہ جن لوگوں نے مذکورہ بالا مضامین کو پڑھا ہے وہ بالاتفاق تسلیم کریں گے کہ میں نے ایک صحیح اور متوسط راستے کی طرف مسلمانوں کو دعوت دی ہے اور اسلامی تعلیمات کی تشریح و تفہیم میں وہ طریقہ اختیار کیا ہے جو افراط و تفریط سے پاک اور ضروریاتِ زمانہ کے مطابق ہے۔
دورِ جدید کی گمراہیوں کے استیصال اور مسلمانوں کے بگڑے ہوئے نقطہ نظر کی اصلاح اور ان کے اندر دین کی سمجھ اور عمل کی روح اور اطاعت کا جذبہ پیدا کرنے کے لیے ان مضامین کی اشاعت ضروری ہے۔ میں ایک مدت سے اس ضرورت کو محسوس کر رہا تھا۔ مگر میری خواہش یہ تھی کہ مجھے خود اپنی قوتِ بازو سے اس کام کو انجام دینے کی توفیق میسر آجائے اور کسی سے مدد مانگنے کی حاجت نہ ہو۔ اسی انتظار میں مہینوں پر مہینے اور سال پر سال گزر گئے۔ اب دیکھتا ہوں کہ ایک طوفانِ عظیم مسلمانوں کے سر پر آپہنچا ہے اور اس طوفان سے ان کا بسلامت گزر جانا بغیر اس کے ممکن نہیں کہ ان کے اندر دین کی سمجھ اور طریق اسلام و طریق کفر و فسق کی تمیز پیدا کی جائے۔ اسی خطرے نے مجھ کو اپنی ہٹ سے باز آجانے پر مجبور کر دیا ہے اور آج میں اس کام میں اپنی قوم کے دولت مندوں سے مدد مانگتا ہوں۔
اجتماعی کوشش کی ضرورت
اجتماعی مفاد کے لیے اجتماعی کوشش ناگزیر ہے۔ تنہا ایک شخص اپنی قوت اور اپنے ذرائع سے کوئی بڑا کام نہیں کر سکتا۔ خود ہمارے آقا و مولی علیہ والہ التحیہ والسلام نے بھی تبلیغ دین اور جہاد فی سبیل اللہ میں اپنی امت سے مدد لی ہے۔ پس اگر ان کی ملت کا ایک خادم اسی کام کے لیے قوم سے مدد مانگے تو یہ کوئی عیب نہیں۔ لیکن جو چیز آج تک مجھ کو یہ طریقہ اختیار کرنے سے روکتی رہی اور جس کی وجہ سے آج بھی میں اس میں کراہت محسوس کرتا ہوں وہ صرف یہ ہے کہ ایک طرف قومی کارکنوں نے اپنی حرکات سے نہ صرف اپنا بلکہ قومی خدمت کا بھی اعتبار کھو دیا ہے اور دوسری طرف آج مسلمانوں کے حوصلے پست اور اخلاق ان سے بھی زیادہ پست ہو گئے ہیں۔ اوّل تو خدا کی راہ میں صرف کرنے کا خالص جذبہ ہی ان میں برائے نام باقی رہ گیا ہے۔ پھر اگر وہ اس راہ میں کچھ نکالتے بھی ہیں تو دل کی تنگی ان کے نفس میں ہزار قسم کی بدگمانیاں پیدا کرتی ہے اور اس پر اخلاق کی حالت ہے کہ اپنے بھائی کو بے ایمان، خائن، چور کہہ دینے میں ان کو ذرا تامل نہیں ہوتا۔ پچھلے چند برسوں میں پبلک فنڈ سے کام کرنے والوں کی جو رسوائیاں ہو چکی ہیں، ان کا حال اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا ہوں۔ ایسی حالت میں کسی عام چندے کی ذمہ داری اپنے سر لیتے ہوئے میری روح کا نپتی ہے۔۔۔..
آپ کیا کریں
میں جانتا ہوں کہ مسلمانوں میں دین کے لیے ایثار اور قربانی کا جو تھوڑا بہت جذبہ باقی ہے، وہ مال داروں سے زیادہ غریبوں میں پایا جاتا ہے۔ اس بنا پر وہ لوگ شکایت کریں گے جو سو روپے دینے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ وہ کہیں گے کہ تم اس سعادت کو مال داروں کے لیے مخصوص کرنا چاہتے ہو اور ہمیں محض اس بنا پر محروم کر رہے ہو کہ ہم مال دار نہیں ہیں؟ لیکن در حقیقت میں ان کو محروم کرنا نہیں چاہتا۔ ان کے لیے اس سعادت میں حصہ لینے کی ایک دوسری صورت ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ حسب حیثیت ان کتابوں اور رسالوں کو زیادہ سے زیادہ تعداد میں خرید کر قوم کے ان طبقات تک پہنچانے کی کوشش کریں جن کی اصلاح مقصود ہے۔ میں دراصل ایک شفاخانہ قائم کر رہا ہوں۔ دین داروں میں سے جو مال دار ہیں، وہ اس شفا خانے کے قائم کرنے میں حصہ لیں اور ان میں سے جو غریب ہیں، وہ اس کی دوائیں مریضوں تک پہنچانے میں حصہ لیں۔ اصل سعادت یہ ہے کہ آپ کے دل میں قومی امراض کے استیصال اور شفائے ربانی کے ایصال کا جذبہ ہو۔ آپ کا دل ایک ایسی ماں کا سا دل ہونا چاہیے جو اپنے بچوں کو بیمار دیکھ کر بے چین ہو جاتی ہے اور ان کے علاج میں کسی امکانی کوشش اور کسی بڑی قربانی سے بھی دریغ نہیں کرتی۔ آپ جن لوگوں میں رہتے ہیں، جن سے ملتے جلتے ہیں، ان میں دیکھیے کہ کون کون بیمار ہیں اور کس کس مرض کے بیمار ہیں۔ جو شخص جس مرض میں مبتلا ہو، اسی مرض کی دوا اس کو دیجیے۔ زندقہ و الحاد کا مریض ہو تو اسے اسلامی تہذیب اور اس کے اصول و مبادی پڑھائیے۔ وطن پرستی کا بیمار ہو تو قومیت اسلام دیجیے کمیونزم کا حملہ کسی پر ہو گیا ہو تو اس کا علاج سود کے مضمون سے کیجیے۔ آزادی نسواں کی بیماری میں پردہ کی خوراک استعمال کرائیے۔ فرنگیت کے بیماروں کو ”اشارات“ کے مختلف مجموعے دیجیے تنقیحات، تفہیمات۔ غرض جتنی وبائیں آج کل آپ کی قوم میں پھیلی ہوئی ہیں، ان کو مٹانے پر کمر بستہ ہو جائیے۔ آپ خدا کے ثواب کی خواہش رکھتے ہیں تو خدا کا ثواب اتنا سستا نہیں کہ محض دس پانچ روپے دے کر خرید لیا جائے۔ اس کے لیے جہاد کی ضرورت ہے اور جہاد یہی ہے کہ آج رسول اللہ کے گھر میں جو آگ لگ رہی ہے اس کو بجھانے کی کوشش کیجیے۔...
ہماری منزل
ہماری منزل مقصود جیسا کہ اشارۃ عرض کر دیا گیا ہے، صاف اور واضح طور پر یہ ہے کہ ہندوستان میں اسلام نہ صرف قائم رہے بلکہ عزت و طاقت والا بن جائے۔ آزادی ہند ہمارے نزدیک مقصود بالذات نہیں بلکہ اس اصل مقصد کے لیے ایک ضروری اور ناگزیر وسیلہ ہونے کی حیثیت سے مقصود ہے۔ ہم صرف اس آزادی کے لیے لڑنا چاہتے ہیں، بلکہ صحیح تو یہ ہے کہ اپنے مذہب کی رو سے لڑنا فرض جانتے ہیں، جس کا نتیجہ یہ ہو کہ یہ ملک کلیہ نہیں تو ایک بڑی حد تک دارالاسلام بن جائے۔ لیکن اگر آزادی ہند کا نتیجہ یہ ہو کہ یہ جیسا دارالکفر ہے، ویسا ہی رہے یا اس سے بدتر ہو جائے تو ہم بلا کسی مداہنت کے صاف صاف کہتے ہیں کہ ایسی آزادی وطن پر ہزار مرتبہ لعنت ہے اور اس کی راہ میں بولنا، لکھنا، روپیہ صرف کرنا، لاٹھیاں کھانا اور جیل جانا سب کچھ حرام، قطعی حرام ہے۔
یہ ایسی صاف بات ہے جس میں دورائیں ہونے کی کوئی گنجایش ہی نہیں۔ خصوصاً جو شخص قرآن و سنت پر نظر رکھتا ہو اور منافق نہ ہو، وہ تو اس کے برحق ہونے میں چون و چرا نہیں کر سکتا۔...
جیسا کہ میں پہلے عرض کر چکا ہوں، مسلمانوں کے لیے ایسی آزادی وطن کے لیے لڑنا تو قطعی حرام ہے جس کا نتیجہ انگلستانی غیر مسلموں سے ہندستانی غیر مسلموں کی طرف اقتدار حکومت کا انتقال ہو۔ پھر ان کے لیے یہ بھی حرام ہے کہ وہ اس انتقال کے عمل کو بیٹھے ہوئے خاموشی سے دیکھتے رہیں، اور ان کے لیے یہ بھی حرام ہے کہ اس انتقال کو روکنے کے لیے انگلستانی غیر مسلموں کا اقتدار قائم رکھنے میں معاون بن جائیں۔ اسلام ہم کو ان تینوں راستوں پر جانے سے روکتا ہے۔ اب اگر ہم مسلمان رہنا چاہتے ہیں اور ہندوستان میں اسلام کا وہ حشر دیکھنے کے لیے تیار نہیں ہیں جو اسپین اور سسلی میں ہو چکا ہے، تو ہمارے لیے صرف ایک ہی راستہ باقی ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم آزادی ہند کی تحریک کا رُخ حکومتِ کفر کی طرف سے حکومتِ حق کی طرف پھیرنے کی کوشش کریں اور اس غرض کے لیے ایک ایسی سرفروشانہ جنگ پر کمر بستہ ہو جائیں جس کا انجام یا کامیابی ہو یا موت۔
۱۴۔ ترجمان القرآن، جلد ۱۰، عدد ۳، ص ۲-۱۳داعی کی پکار رائیگاں نہیں جاتی
کچھ اللہ کے بندے آگے بڑھتے ہیں اور داعی سے مطالبہ کرتے ہیں کہ جب منزل کی نشاندھی کی ہے اور دل میں خدمت دین اور اقامت حق کی چنگاری روشن کی ہے تو آؤ اور کچھ عملی اقدام کرو۔
خطرات و مشکلات کا ایک سمندر ہے جو عملی اقدام کی راہ میں حائل ہے لیکن داعی گھر بار چھوڑ کر ایک نئی بستی آباد کرنے کے لیے اُٹھ کھڑا ہوتا ہے۔
اور یہ بستی ہے ”دار الاسلام“
دار الاسلام
پنجاب کے ضلع گورداس پور میں پٹھان کوٹ ایک مشہور قصبہ ہے۔ اس سے چند ہی میل کے فاصلے پر کوہستان ہمالیہ کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ مناظر کے لحاظ سے یہ علاقہ بہت فرحت بخش ہے، آب و ہوا اچھی ہے، زمین زرخیز ہے، پانی کی افراط ہے۔ اسی علاقے میں پٹھان کوٹ سے چار میل کے فاصلے پر ایک چھوٹا سا گاؤں جمال پور واقع ہے جہاں چند بزرگانِ خدا نے ”دارالاسلام“ کی بنیاد رکھنے کا ارادہ کیا ہے۔ اسی غرض کے لیے ساٹھ ستر ایکڑ زمین حاصل کر لی ہے۔ ایک مسجد، ایک کتب خانہ کی عمارت ایک دارالاقامہ اور دو مکان تعمیر کر دیے گئے ہیں۔ نیز اطراف و اکناف میں پھیلنے کے لیے بھی کافی جگہ موجود ہے اور وقف کی زمین اتنی زرخیز اور شاداب ہے کہ اگر اسے صحیح طریقہ پر استعمال کیا جائے تو پانچ چھ ہزار روپیہ سالانہ کی آمدن دے سکتی ہے۔ یہ ان ابتدائی کاموں کے لیے کافی ہے جو پیش نظر ہیں۔ یہاں ترقی کے امکانات غیر محدود ہیں اور اس کے ساتھ یہ مقام شہری آبادیوں سے اتنی دور ہے کہ ہم کو ایک آزاد ماحول میسر آسکتا ہے جس میں ہم اپنی دنیا الگ بنا سکتے ہیں۔
اس الگ تھلگ باہمہ و بے ہمہ مقام پر جس تخیل کو ہم عملی جامہ پہنانا چاہتے ہیں اس کے لیے ”دارالاسلام" کے سوا اور کوئی نام جامع و مانع نہیں ہو سکتا۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس وقت جیسے کچھ حالات بھی ہندوستان کے ہیں، انھی میں کم از کم زمین کا ایک گوشہ ایسا بہم پہنچایا جائے جہاں خالص اسلامی ماحول پیدا کیا جا سکے، جہاں اخلاق اسلامی ہوں، معاشرت اسلامی ہو، عملی زندگی مسلمانوں کی سی ہو، گردو پیش ہر طرف اسلام اپنی روح اور اپنی صورت کے ساتھ نمایاں ہو۔ جہاں کسی چیز کے صحیح ہونے کے لیے صرف یہ دلیل کافی ہو کہ خدا اور رسول نے اس کا حکم دیا ہے یا اس کی اجازت دی ہے اور کسی چیز کا غلط ہونا صرف اس دلیل سے تسلیم کیا جائے کہ خدا اور اس کے رسول نے اس سے منع کیا ہے یا اس کو ناپسند کیا ہے۔ جہاں یہ بغاوت اور سرکشی کا ماحول، یہ غیر اسلامی فضا نہ ہو، جس نے سارے ہندوستان کا احاطہ کر لیا ہے۔ جہاں ہم کو کم از کم اتنا اختیار ہو کہ بیرونی دنیا کے جن اثرات کو ہم روح اسلام کے موافق پائیں، صرف انھی کو داخل ہونے دیں اور جن کو منافی پائیں ان کو اپنی زندگی پر مسلط ہونے اور اپنے دل و دماغ میں نفوذ کرنے سے روک سکیں۔ سیاسی اقتدار کے بغیر محض اجتماعی کوشش سے جس حد تک بھی اسلامی ماحول پیدا کیا جا سکتا ہے، ہم چاہتے ہیں کہ اسے پیدا کریں اور ایسے ماحول میں رہ کر مسلمانوں کی طرح سوچیں، مسلمان کی نظر سے دیکھیں، مسلمانوں کی سی صفات اپنے اندر پیدا کریں اور اپنے اندر سے ان گندگیوں اور آلائشوں کو نکالیں جو غیر اسلامی ماحول میں آنکھیں کھولنے اور نشو و نما پانے کی وجہ سے ہمارے افکار و اعمال میں گھس گئی ہیں اور جن کو ہم محسوس بھی کر لیتے ہیں تو ماحول کی طاقت اتنی جابر و قاہر ثابت ہوتی ہے کہ باوجود کوشش کرنے کے ہم اپنے آپ کو ان سے نہیں بچا سکتے۔
ہم چاہتے ہیں کہ اس نظام زندگی کو نافذ کرکے بتایا جائے جسے اسلام پیش کرتا ہے۔ ان اصولوں کو واقعات کی دنیا میں برت کر دکھایا جائے جن کی تعلیم اسلام نے دی ہے۔ تیرہ سو برس کے پرانے اسلام کو اس جدید دورِ حیات میں کام کرتے ہوئے دکھایا جائے، تاکہ مسلمان اور غیر مسلم سب اس کو اس کی اصلی صورت میں، ایک زندہ، متحرک، کار کن، کار فرما اور پیش رو طاقت کی حیثیت سے دیکھیں اور اس کا بہترین نظام زندگی ہونا ہمارے زبانی ادعا سے نہیں بلکہ دماغوں کو مطمئن کرنے والے علمی استدلال اور آنکھوں کو نظر آنے والے عملی مظاہر سے ثابت ہو جائے۔
دارالاسلام کی تحریک نہ تو ایک ارتجاعی تحریک ہے اور نہ اس قسم کی ایک ارتقائی تحریک ہے جس کے پیش نظر صرف مادی ارتقا ہو۔ دارالاسلام کے دروازے تمام مسلمانوں کے لیے کھلے ہوئے ہیں خواہ وہ اسلام کے کسی فرقے سے تعلق رکھتے ہوں۔ ہر وہ شخص ہمارا رفیق بن سکتا ہے جس کے پیشِ نظر یہی مقصد ہو۔ صرف آٹھ برس کی قلیل مدت میں دنیا کے سب سے بڑے ہادی و رہبر نے مدینہ کے پاور ہاؤس میں اتنی زبردست قوت بھر دی کہ اس نے دیکھتے دیکھتے سارے عرب کو منور کر ڈالا اور پھر عرب سے نکل کر اس کی روشنی روئے زمین پر پھیل گئی۔ ہم اسی پاور ہاؤس کی نقل کرنا چاہتے ہیں۔ وہ عظیم الشان طاقت تو ہم گنہگار کہاں سے لائیں گے مگر جب ہم اس کی نقل اتاریں گے تو کچھ نہ کچھ طاقت ہم میں پیدا ہو جائے گی۔ ساری دنیا نہ سہی، ہندوستان نہ سہی اور سارا ہندوستان بھی نہ سہی، اس کا ایک حصہ ہی سہی، اگر ایک حصے میں ہم آفتاب رسالت سے لی ہوئی روشنی اور حرارت پھیلا سکے تو ہماری زندگی کا مقصد حاصل ہو گیا۔ اللہ دوسروں کو بھی توفیق دے گا کہ یہی کام ہندوستان کے دوسرے حصوں میں بھی کریں۔
کام تو اچھا ہے مگر ...
اس تمام داستان کو پڑھتے ہوئے بار بار یہ سوال ناظرین کے دل میں کھٹکا ہوگا کہ کام تو بہت اچھا ہے اور کرنے کا ہے مگر روپے کا کیا انتظام ہو گا؟
اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ دنیا نے جس چیز کو قاضی الحاجات سمجھ رکھا ہے ہم اس کو قاضی الحاجات نہیں سمجھتے۔ اصل چیز روپیہ نہیں ہے بلکہ عزم و ارادہ ہے۔ البتہ خدا کی یہ سنت ہمیشہ رہی ہے کہ وہ ارادوں کی طاقت کا امتحان ضرور لیا کرتا ہے۔ سو ہم تو یہ امتحان دینے کے لیے تیار ہیں اور پہلے سے کہے دیتے ہیں کہ جو لوگ ہماری رفاقت کرنا چاہتے ہیں وہ بھی اس کے لیے تیار ہو کر آئیں۔ ہمارے پاس نہ تنخواہیں ہیں، نہ وظائف ہیں، نہ یہاں چندے کا کاروبار ہے اور نہ جلوسوں اور نعروں کی بہار۔ جن لوگوں کو روزگار کی تلاش ہو یا جنھیں شہرت یا ناموری مطلوب ہو ان کے لیے ہمارے پاس کچھ نہیں ہے، البتہ جو لوگ اپنی زندگی کا وہی مقصد رکھتے ہوں جو ہماری زندگی کا ہے، اور وہی امتحان دینے کے لیے تیار ہوں جس کے لیے ہم تیار ہوئے ہیں، تو ان کے لیے دارالاسلام میں جگہ موجود ہے۔ جس حد تک وہ اپنی روزی کا انتظام کر سکتے ہوں، وہ خود کریں اور جس حد تک ہم ان کی مدد کر سکیں گے، اس میں دریغ نہ کریں گے۔ یہ تو مشترک مقصد کے لیے ایک مشترک جہاد ہے۔ اس میں خدمت کے معاوضے کا کوئی سوال ہی نہیں، یہاں نہ کوئی معاوضہ دینے والا ہے نہ لینے والا یہ ابتدا سے ہی ارادہ کر لیا گیا ہے کہ کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلایا جائے گا۔ اب تک جو کچھ کام ہوا ہے، دارالاسلام کے رفقا نے اپنی ذات سے کیا ہے اور آئندہ جو کچھ کریں گے اپنی ذات سے کریں گے۔ اگر کوئی شخص اپنے فرض کو محسوس کرے اور اس کام میں روپیہ صرف کرنے کو خود اپنی غرض سمجھے تو لائے، ہم اس سے بخوشی لیں گے، لیکن اگر کوئی اسے اپنی غرض نہیں بلکہ ہماری غرض سمجھتا ہے تو ہم غرض مند نہیں ہیں۔ ہم اس کے پاس مانگنے کے لیے کبھی نہ جائیں گے۔
۱۵۔ ترجمان القرآن، جلد ۱۱، عدد ۴، ص ۴۴-۶۵انفرادی کوشش اب اجتماعی تحریک میں تبدیل ہو ا چاہتی ہے ۔ برصغیر پاک و ہند کے سارے طول و عرض سے چند بیدار ذہن اور درد مند دل رکھنے والے دینِ حق کی خدمت کے لیے اُٹھتے ہیں اور ایک نئی دنیا تعمیر کرنے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ یہ جان کی بازی کھیلنے کے عزم سے اٹھتے ہیں اور داعی سب سے پہلے ترکِ وطن کرکے اس نئی بستی میں پہنچتا ہے۔
ہے ترک وطن سنت محبوب الہی
شوال کی اشاعت میں اعلان کیا گیا تھا کہ وسط ذی القعدہ ۵۶ھ میں دفتر ترجمان القرآن ”دارالاسلام" منتقل ہو جائے گا۔ لیکن اس وقت تک ان مشکلات کا اندازہ نہ تھا جو بعد میں پیش آنے والی تھیں۔ اگرچہ اعلان کے مطابق ذی القعدہ میں ہی دفتر منتقل کر دیا گیا اور ذی القعدہ کا پرچہ بھی دارالاسلام سے شائع ہوا مگر صاحب دفتر کو حیدرآباد کی سرزمین پکڑ کر بیٹھ گئی اور ۱۰ محرم تک اس کو نہ چھوڑا۔ جن لوگوں کو ترکِ وطن کی مصیبت سے کبھی سابقہ ہوا ہے، وہ خود ہی ان مشکلات کو اندازہ کر سکتے ہیں جو مجھے پیش آئی ہوں گی۔ دس سال تک جو شخص ایک جگہ رہا ہو اور من کل الوجوہ اس کو وطن بنا چکا ہو، اس کے لیے یکا یک اپنا گھر بار اٹھا کر ڈیڑھ ہزار میل دور لے جانا بہر حال کچھ نہ کچھ پریشانیوں کا موجب تو ہونا ہی چاہیے۔ چنانچہ پریشانیاں پیش آئیں اور انھی کی وجہ سے ذی الحجہ اور محرم کے پرچے شائع نہ ہو سکے۔ رسالے کے ناظرین کو پہلے ہی سے پرچہ کے شائع نہ ہونے کی شکایت تھی۔ اب اتنے طویل التوا نے ان کو بالکل بے صبر کر دیا اور دفتر میں شکایات کے انبار لگ گئے۔ میں در حقیقت اس بات پر بہت شرمندہ ہوں کہ خریداروں کو بار بار شکایات کا موقع ملتا ہے لیکن اگر اس رسالے کے ناظرین میں یہ احساس پیدا ہو چکا ہے کہ وہ محض رسالے کے خریدار نہیں ہیں، بلکہ میرے رفیق کار ہیں تو ان کا رفیق ان سے توقع رکھتا ہے کہ وہ اس کی مشکلات میں شکایت سے زیادہ ہم دردی سے کام لیں گے۔...
کام کا نیا طریقہ
دارالاسلام پہنچ کر پہلا کام جو کیا گیا وہ یہ تھا کہ یہاں کی مسجد کو اس علاقے کی مسجد جامع قرار دے کر پانچ پانچ میل تک دیہات میں اعلان کر دیا گیا کہ آئندہ سے وہ جمعہ کی نماز پڑھنے کے لیے یہاں آیا کریں۔ خطیب کے فرائض میں نے خود اپنے ذمے لیے اور نہایت سہل زبان میں، جس کو ایک ان پڑھ دیہاتی بھی سمجھ سکے، خطبات کا سلسلہ شروع کر دیا ۔ الحمد للہ کہ اس کا اثر خاطر خواہ رونما ہوا۔ پہلے جمعے میں قریب قریب ۵۰ آدمی تھے اور دوسرے میں ۶۰ آئے اور تیسرے میں ۱۵۳ تک تعداد پہنچ گئی۔ اردو کے خطبے سے لوگوں میں اتنی دلچسپی پیدا ہو گئی کہ ۵ میل کی حد سے باہر کے لوگ بھی خطبہ سننے کے لیے آجاتے۔ خطبات کو کافی دلچسپی کے ساتھ سنتے ہیں، سمجھتے ہیں اور نماز سے واپس جا کر ان کا مفہوم دوسرے لوگوں سے بیان کرتے ہیں۔
۱۶۔ یہی وہ خطبات جمعہ ہیں جو بعد میں مکمل شکل میں ”خطبات“ اور موضوعات کی ترتیب سے «حقیقت اسلام» «حقیقت صوم و صلوة» «حقیقت زکوة» ”حقیقت حج“ اور ”حقیقت جہاد“ کے طور پر شائع ہوئے۔یہ مسلمانوں کی تنظیم کا پہلا قدم ہے۔ ہر مسلمان کے اندر منظم ہونے کی فطری استعداد ہر وقت قوت سے فعل میں آنے کے لیے تیار ہے۔ وہ خدا اور رسول پر ایمان لانے کے ساتھ ساتھ ہی ایک انجمن کا ممبر بن چکا ہے۔ اب اس کے سوا کسی چیز کی حاجت نہیں کہ اس کی ممبر شپ کو تازہ کر دیجیے۔ اسے یاد دلا دیجیے کہ یہی وہ انجمن ہے جس کا تو ممبر ہے اور خدا کے مقررہ پروگرام کے مطابق ہر ہفتہ اس کو اپنے مرکز کی طرف سمٹتے رہنے کی عادت ڈال دیجیے۔ جمعہ کی طاقت وہ زبردست طاقت ہے جو آٹھ کروڑ مسلمانوں کو دیکھتے دیکھتے ایک کانگریس بنا سکتی ہے۔ یہ ایسا ماس کانٹیکٹ (ربط عوام) ہے جس کا تصور بھی کسی جواہر لال اور کسی گاندھی کے دماغ میں نہیں آسکتا۔ اس کے ذریعے سے آپ جمہور مسلمین کی تمدنی اصلاح، معاشی فلاح، تعلیم عمومی اور سیاسی تنظیم کے سارے پروگرام بتدریج عمل میں لا سکتے ہیں بشرطیکہ جمعہ کی طاقت کے سمجھنے والے اور اس سے حکمت کے ساتھ کام لینے والے پیدا ہو جائیں۔ ہمارے نئے تعلیم یافتہ نوجوان اور پرانے گروہ کے علما جو خیالات خام کے پیچھے دوڑتے پھر رہے ہیں، ایک ضابطے کے ساتھ ایک ان تھک کوشش کرنے کے لیے آمادہ ہو جائیں۔ مگر یہ ضرور ہے کہ یہ کام کسان کا سا صبر چاہتا ہے اور اسے وہی لوگ کر سکتے ہیں جو جلسوں اور جلوسوں کی چاشنی کے بغیر خشک اور بے مزہ محنت کی تلخیاں اپنے مقصد کی دھن میں گوارا کر سکتے ہیں۔
جو حضرات در حقیقت کچھ کام کرنا چاہتے ہیں، ان کو میں مشورہ دوں گا کہ اسی طرز پر اپنے حلقوں میں جمعہ کی مرکزیت قائم کرنے کی کوشش کریں اور اس اجتماع سے زیادہ سے زیادہ جتنا کام لینا ممکن ہو، لیں۔ اپنے خطبات کو میں نمونے کے طور پر ترجمان القرآن میں شائع کرتا رہوں گا۔ ان سے لوگوں کو معلوم ہو گا کہ اختلافی مسائل سے بچ کر خطبہ جمعہ سے عامۃ المسلمین کو اصول دین کی تعلیم دینے اور ان کے اندر مسلمان ہونے کا احساس زندہ کرنے کا کام کس طرح کیا جا سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہاں جمعہ کی مدد سے تنظیم اور اصلاح عوام کا کام جس جس طریقہ سے کیا جائے گا اس کی تفصیلات بھی شائع کی جاتی رہیں گی تاکہ جو لوگ کام
کرنا چاہتے ہیں وہ اس طریقے کی پیروی کر سکیں۔ اس کا یہ مدعا نہ سمجھ لیا جائے کہ لوگ بجنسہ انھی خطبوں کو پڑھیں یا ہو بہو ان کاموں کی نقل اتاریں۔ میرا مقصد صرف یہ ہے کہ لوگوں کو اصول اور طریق کار سمجھ لینا چاہیے اور اپنے اپنے مقامی حالات کے لحاظ سے اس کو عمل میں لانا چاہیے۔
نئی حرکت، نئی حرارت
شوال کی اشاعت میں ”دارالاسلام“ کا مضمون شائع ہوتے ہی ناظرینِ ترجمان القرآن میں ایک حرکت پیدا ہو گئی اور اس کثرت سے خطوط آنے شروع ہو گئے جن سے مجھے اندازہ ہوا کہ مسلمان اس وقت ایک صحیح راہ عمل کے لیے کس قدر بے چین ہو رہے ہیں۔ میں اس کو نیک فال سمجھتا ہوں۔ پیاس کا احساس ہی پانی کے فراہم ہونے کی تمہید ہے لیکن میں اپنے بھائیوں سے کہوں کہ زیادہ بے صبری نہ کریں۔ شور و ہنگامہ کے ساتھ قوم میں ایک وقتی ہیجان پیدا کر دینے کا طریقہ بارہا آزمایا جا چکا ہے۔ اب ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ صحیح اسلامی اصولوں کے مطابق مضبوط بنیادوں پر ایک تعمیری تحریک اٹھے اور وہ پھیلنے کی اتنی حریص نہ ہو جتنی استحکام کی حریص ہو۔ ہم آگ ضرور لگانا چاہتے ہیں کہ بے حرارت کی زندگی نہیں مگر ہمیں وہ آگ درکار نہیں ہے جو گھر پھونکنے والی ہو بلکہ وہ آگ درکار ہے جس کا ٹمپریچر ضرورت کے مطابق گھٹایا یا بڑھایا جا سکے، یعنی ضابطے کے اندر رہنے والی آگ۔ ایسے کام کے لیے سب سے زیادہ نازک وقت، ابتدائے کار ہی کا وقت ہوتا ہے کیونکہ اگر بنیاد کمزور پڑ جائے تو اس پر پوری عمارت کمزور اٹھتی ہے۔ لہذا ہمارے درد مند بھائی ذرا صبر سے کام لیں۔ ان شاء اللہ الکریم ایک ایک قدم تدریج اور ترتیب کے ساتھ اٹھایا جائے گا اور ہر قدم اٹھانے کے بعد ساتھ ہی ناظرین رسالہ کو اس کی اطلاع دی جاتی رہے گی۔[1]
داعی کی پکار
برادران اسلام ! میں ایک دور دراز علاقے کا رہنے والا، اپنا گھر بار اور اپنے عزیزوں اور دوستوں کو چھوڑ کر آپ کی اس بستی میں صرف اس لیے آیا ہوں کہ میں اسلام اور مسلمانوں کی کچھ خدمت کرنا چاہتا ہوں۔ مجھے یہاں کوئی لالچ کھینچ کر نہیں لایا ہے، نہ میں آپ سے کسی اجرت کا طالب ہوں۔ میں صرف آپ کے لیے اور سب مسلمانوں کے لیے دنیا اور عاقبت کی بھلائی چاہتا ہوں اور اس کام میں مجھے اگر کوئی لالچ ہے تو بس اتنا کہ شاید اس طرح میرا مالک مجھ سے راضی ہو جائے اور میرے گناہوں کو بخش دے۔ بھائیو! اگر تمھارا دل گواہی دے کہ اس کام میں میری مدد کرنا تمھارا فرض ہے تو میری مدد کرو اور میری مدد اس کے سوا اور کچھ نہیں ہے کہ خدا اور اس کے رسول ﷺ کی تعلیم کے مطابق جو کچھ میں تم سے کہوں، اس کو قبول کرو اور جس بات سے منع کروں اس سے باز آجاؤ، اور تمھاری فلاح دارین کے لیے جو کام میں کروں اس میں میرا ساتھ دو۔ اگر تم ایسا کرو گے تو خدا اپنے فضل سے میری اور تمھاری، سب کی تائید کرے گا اور ہمیں کامیابی عطا کرے گا۔
بھائیو! مجھے نہ علم میں کامل ہونے کا دعویٰ ہے اور نہ عمل میں کامل ہونے کا۔ میں تو گناہوں کی دنیا سے بھاگ کر یہاں پناہ لینے آیا ہوں تاکہ شاید یہاں مجھ کو اپنی اصلاح کرنے اور پورا مسلمان بن جانے کا موقع مل جائے۔ جس طرح دوسرے انسانوں کی علم اور عمل میں کوتاہیاں ہیں اسی طرح میرے علم و عمل میں بھی ہیں۔ اس لیے میں کبھی یہ نہ چاہوں گا کہ تم آنکھیں بند کرکے میری پیروی کرو اور اگر میں غلطی کروں تو اس میں میرا ساتھ دو۔ تم میں سے ہر شخص کو اپنے دین کے معاملے میں چوکنا رہنا چاہیے کہ جو کچھ میں کہتا ہوں خدا اور رسول ﷺ کی تعلیم کے مطابق کہتا ہوں یا نہیں؟ اگر تمہیں شبہ ہو تو مجھ سے دلیل طلب کرو اور اگر میں غلطی کروں تو مجھے ٹوک دو اور میری اصلاح کرو اور اگر کبھی تم دیکھو کہ میں خدا نخواستہ گمراہ ہو گیا ہوں تو میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ مجھے اپنی بستی سے نکال دینا ۔[2]
دعوتِ اسلامی کی یہ منظم سعی اپنے دور میں داخل ہوتی ہے اور تحریک کی قیادت کا بار اس ہی شخص کے کندھوں پر ڈالا جاتا ہے جس نے اذان دی تھی۔ داعی اپنی کمزور حالت دیکھتا ہے اور اپنی ٹوٹی ہوئی کشتی پر ایک نگاہ ڈالتا ہے۔
ٹوٹی ہوئی کشتی کی ملاحی
اس اشاعت سے ترجمان القرآن کی زندگی کا چھٹا سال شروع ہو رہا ہے۔ پچھلے سال کے آغاز میں جو دعا میں نے اپنے مالک سے مانگی تھی، اس وقت ذہن میں اس امر کا تصور بھی نہ تھا کہ سال پورا ہونے سے پہلے ہی ایک ٹوٹی ہوئی کشتی کو سمندر کی طوفانی موجوں کے مقابلے میں لے جانے کا حوصلہ فرسا کام میرے سپرد کیا جائے گا۔ اس وقت محض ایک دھندلا سا خیال تھا کہ شاید مستقبل قریب میں ایسی کوئی صورت پیش آجائے۔ اس لیے میں نے تمنا کی تھی کہ اگر میرا آقا ایسا کوئی بوجھ میرے کندھوں پر رکھنے والا ہے تو اس کو سنبھالنے کی طاقت بھی عطا کرے۔ مجاہد کا سا سامان دے۔ ایسی روح دے جو شکست کھانے اور سپر رکھ دینے کا تصور ہی نہ کر سکتی ہو۔ ایسی عزیمت دے جو مادی سہاروں سے قطعاً مستغنی ہو اور تمام سہاروں کے چھوٹ جانے پر بھی نہ ٹوٹے۔ ایسا ارادہ دے جسے کوئی طاقت اپنے مقصد کے راستے سے نہ ہٹا سکے۔[3]
آج جب اپنے حال پر غور کرتا ہوں تو پھر ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ اور بھی زیادہ لجاجت اور الحاح کے ساتھ اسی دعا کا اعادہ کروں۔ اب فی الواقع وہ صورت پیش آ چکی ہے۔ ساحل کے سکون و عافیت سے نکال کر سمندر کے منجدھار میں پھینک دیا گیا ہوں۔ وہی خواب تصور والی ٹوٹی ہوئی کشتی میرے حوالے کی گئی ہے جس کا تختہ تختہ الگ اور جس کے بادبان تار تار ہیں۔ سب سے بڑا مادی سہارا جس سے مدد کی توقع تھی، اقبال کا سہارا تھا۔ سو وہ بھی یہاں قدم رکھتے ہی چھین لیا گیا (رحمہ اللہ و طاب ثراہ)۔ خود اپنی طاقت کو دیکھتا ہوں تو وہ بمنزلہ ”صفر“ ہے۔ دوچار ساتھی جو ملے ہیں، ان کو دیکھتا ہوں تو وہ مجھ سے بھی زیادہ خستہ و درماندہ ہیں۔ اب سوائے خدا کے کوئی سہارا نہیں۔ سب مادی سہارے جھوٹے اور ناقابلِ اعتماد ہیں۔ وہی اصل اور حقیقی سہارا ہے، وہی طاقت کا منبع ہے، وہی اسباب کا مالک اور مسبب ہے اور وہی حامی و ناصر ہے۔[4]
ساتھیوں کی کمی اور افراد کار کی قلت کا احساس اب اور بھی بڑھتا ہے۔ اتنا بڑا کام اور یہ مٹھی بھر رفیقانِ سفر! داعی پھر قوم کے ضمیر کو آواز دیتا ہے۔
درکار ہیں دیوانے چند
اب وہ وقت آگیا ہے کہ ہم کو مسلمان رہنے کا آخری فیصلہ کرنا ہے۔ اگر ہم مسلمان رہنا چاہتے ہیں، تو ہمیں اپنے ماحول کو اور پھر تمام دنیا کو ”دارالاسلام“ بنانے کا عزم لے کر اٹھنا چاہیے۔ اور اگر ہم اتنی جرات و ہمت نہیں رکھتے تو پھر اسلام سے ہمیشہ کے لیے ہاتھ دھونے پر تیار ہو جانا چاہیے۔ یہ سوال کہ اسلامی انقلاب لانا ممکن بھی ہے یا نہیں، بعد کا سوال ہے۔ پہلا سوال یہ ہے کہ تم میں مسلمان بن کر رہنے کا عزم و ارادہ بھی موجود ہے یا نہیں ؟ مان لیجیے کہ ناممکن ہے! تسلیم کر لیجیے کہ اس وقت کفر کی طاقتوں کے قاہرانہ اور ہمہ گیر تسلط کو دیکھتے ہوئے جو شخص ”دارالاسلام“ کا نصب العین لے کر اٹھتا ہے، وہ قطعی دیوانہ ہے اور آگ سے کھیلنا چاہتا ہے۔ یہ بھی یقین کر لیجیے کہ اس وقت بازی قریب قریب بالکل ہاری جاچکی ہے اور میدان ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ اس حالت میں مقابلے کے لیے اٹھنا فی الواقع دیوانوں ہی کا کام ہے۔ یہ بھی خوب سمجھ لیجیے کہ اس کا انجام حقیقت میں یہی ہے جیسا کہ ہماری قوم کے ضعفا خیال کرتے ہیں کہ زمین و آسمان کا ذرہ ذرہ آپ کا دشمن ہو جائے گا۔ پھر یہ بھی پہلے ہی سے جان رکھیے کہ کفر و نفاق کی طاقتیں تو متحد ہو کر آپ کے خلاف امنڈ آئیں گی مگر مسلمان متحد ہو کر آپ کا ساتھ دینے کے لیے نہیں اٹھیں گے بلکہ آپ کی دیوانگی کا مذاق اڑائیں گے۔ ان سب باتوں کو جان کر اور خوب سمجھ کر اپنے قلب کا جائزہ لیجیے کہ آیا اس میں مسلمان رہنے کا جذبہ اس دیوانگی کی حد تک پہنچا ہوا ہے یا نہیں ؟ جن لوگوں میں یہ دیوانگی موجود ہے صرف انھی کی ہم کو ضرورت ہے اور وہی ”دارالاسلام“ کی تحریک کو چلا سکتے ہیں۔[5]
ساری کشتیاں جلا کر اور گھر بار پھونک کر ایک ننھی سی بستی بنائی جاتی ہے۔ چند جانباز وہاں پہنچ جاتے ہیں اور ایک نئی زندگی کا آغاز کرتے ہیں۔ لیکن شاید انھیں خبر نہیں کہ ابھی اور بھی آزمائشیں ان کے لیے ہیں۔ ابھی اس نئی بستی کو بھی ان سے چھینا جائے گا اور انھیں بالکل بے یارو مدد گار چھوڑا جائے گا تاکہ کھرے اور کھوٹے کو ممیز کر دیا جائے۔ اس بستی سے بھی دیوانوں اور سرپھروں کا یہ گروہ محروم کر دیا جاتا ہے اور یہ واپس لاہور آجاتا ہے۔
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
آج کی اشاعت میں پہلے صفحہ پر ناظرین کو یہ اعلان دیکھ کر حیرت ہوگی کہ ادارہ ”دار الاسلام“ کا مرکز اور ترجمان القرآن کا دفتر اس مقام سے (جس کا نام ہی اس نصب العین کی رعایت سے دارالاسلام رکھا گیا تھا) منتقل ہو رہا ہے، بلکہ جو حضرات اس اسکیم سے نسبتاً زیادہ گہری دلچسپی لیتے ہیں ان کے لیے تو یہ امر شاید حیرت سے بڑھ کر کچھ پریشانی کا موجب ہو۔ اس لیے مختصراً اس نقل مکان کے وجوہ و اسباب کی طرف اشارہ کر دینا مناسب معلوم ہوتا ہے، ورنہ قابل ترجیح تو یہی تھا کہ یہ معاملہ یوں ہی خاموشی کے ساتھ گزر جاتا۔
واقعہ یہ ہے کہ اس ادارہ کے تخیل کو کسی خاص مقام یا سرزمین سے کوئی تعلق نہیں۔ حقیقتًا ”دارالاسلام" تو ہندوستان میں کوئی ایک چپہ بھر زمین بھی نہیں۔ البتہ ہمارا مقصد پورے ہندوستان کو ”دارالاسلام“ بنانا ضرور ہے۔ سو اس مقصد کے لیے اس جزیرہ نما کے ہر خطے میں ادارہ دارالاسلام قائم ہو سکتا ہے۔ رہا یہ مقام خاص تو اس کو میں نے شخصی طور پر بعض حضرات کی دعوت اور وعدۂ اعانت پر ایک ایسی نمونے کی بستی کے لیے پسند کیا تھا جہاں دارالاسلام کا نصب العین رکھنے والے ہر حصہ ملک سے سمٹ کر مجتمع ہو سکیں اور اپنے مقصد کے لیے اجتماعی سعی و جدوجہد کرنے کی قوت و قابلیت بہم پہنچا سکیں۔ اسی خیال کو سامنے رکھ کر میں حیدرآباد سے یہاں ڈیڑھ ہزار میل پر اپنا گھر بار اٹھا لایا تھا اور اپنے نزدیک یہ سمجھ رہا تھا کہ شاید یہی میرا مستقر بھی ہوگا اور مستودع بھی۔ لیکن جب ادارہ باقاعدہ قائم ہوا اور رفقائے کار مجتمع ہوئے تو تمام حالات کو سامنے رکھ کر بالاتفاق یہ رائے قائم کی گئی کہ جو مقاصد اور اصول ہمارے پیش نظر ہیں ان کے تتبع میں کام کرنے کا موقع یہاں نہیں مل سکتا۔ خود میرا اپنا دس مہینہ کا تجربہ بھی اس پر شاہد تھا۔ لہذا یہ طے ہوا کہ ادارہ کا مرکز یہاں سے کسی مناسب مقام پر منتقل کر دیا جائے۔ اور اس کے لیے متعدد حیثیات سے لاہور کو پسند کیا گیا۔
جیسا کہ عرض کیا گیا ہے ہمیں کسی زمین کی خاک سے کوئی دلچسپی و محبت نہیں ہے، محبت اس نصب العین سے ہے کہ اللہ کا حکم و کلمہ سب کلموں پر غالب اور اس کا قانون سب قوانین سے بالا تر ہو۔ اس لیلائے مقصود کے پیچھے جہاں جہاں جانے کی ضرورت ہو گی جائیں گے اور جس جس سر زمین کی خاک چھاننی پڑے گی چھانیں گے۔ مقصد اگر عزیز ہے تو اس کے لیے زحمت گوارا ہونی چاہیے اور زحمت اگر خوفناک ہے تو مقصد کا نام بھی زبان پر نہ آنا چاہیے، خصوصاً دارالاسلام جیسے مقصد عالی کا نام جسے زبان پر لانے کا حق ہی اس وقت تک کسی کو نہیں پہنچتا جب تک کہ اس کے قلب پر لَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ کی عزیمت اور اِنَّ اللهَ اشْتَرَى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ کے سودے پر کامل رضا مندی ثبت نہ ہو جائے۔
اس نقل مقام سے ادارہ کے دستور العمل اور لائحہ عمل میں ان شاء اللہ یک سر مو فرق نہ آئے گا۔ البتہ اس لائحہ عمل کا صرف یہ حصہ سردست معرض التوا میں رہے گا کہ شہری آبادی سے ہٹ کر ایک علیحدہ مقام میں دارالاسلام کا ماحول پیدا کیا جائے اور وہاں تعلیم و تربیت کے اسباب فراہم کیے جائیں۔ بلاشبہ یہی اس ساری سکیم کی جان ہے لیکن جس خدا کے نام پر سب کچھ کیا جا رہا ہے اس سے کچھ بعید نہیں کہ اس کا بھی سامان کر دے۔ وَمَا ذَلِكَ عَلَى اللهِ بِعَزِيزِ[6]
حالات نے اب ایک ایسی کروٹ لے لی تھی کہ محض علمی کام ان کا مقابلہ نہ کر سکتا تھا۔ اب ضرورت ایک جوان تحریک کی تھی جو مسلمانوں کو اسلام کی بنیادوں پر جمع کرے اور اسلام کے دیے ہوئے لائحہ عمل کے مطابق ان کے اجتماعی معاملات کو طے کرے۔ ان حالات کے مقابلہ کرنے اور جنگ کے نئے نقشے کو ترتیب دینے کے لیے داعی پھر قوم کو پکارتا ہے۔
مسلمانوں کو پکار
تمام مسلمانوں کو جان لینا چاہیے کہ بحیثیت ایک مسلم جماعت ہونے کے ہمارا تعلق اس تحریک سے ہے جس کے لیڈر انبیاء علیہم السلام تھے۔ ہر تحریک کا ایک خاص نظامِ فکر اور ایک خاص طریق کار ہوتا ہے۔ اسلام کا طریق کار اور نظام فکر وہ ہے جو ہم کو انبیاء علیہم السلام کی سیرتوں میں ملتا ہے۔ ہم خواہ کسی ملک اور کسی زمانے میں ہوں اور ہمارے گردو پیش زندگی کے مسائل و معاملات خواہ کسی نوعیت کے ہوں، ہمارے لیے مقصد و نصب العین وہی ہے جو انبیا کا تھا اور اس منزل تک پہنچنے کا راستہ وہی ہے جس پر انبیا ہر زمانے میں چلتے رہے: أُولَئِكَ الَّذِينَ هَدَى اللَّهُ فَبِهُدُهُمُ اقْتَدِهْ ہمیں زندگی کے سارے معاملات کو اسی نظر سے دیکھنا چاہیے جس سے انھوں نے دیکھا۔ ہمارا معیار قدر وہی ہونا چاہیے جو ان کا تھا۔ اور ہماری اجتماعی پالیسی انھی خطوط پر قائم ہونی چاہیے جن پر انھوں نے قائم کی تھی۔ اس مسلک کو اگر ہم چھوڑ کر کسی دوسرے مسلک کا نظریہ اور طرزِ عمل اختیار کریں گے تو گمراہ ہو جائیں گے۔
یہ بات ہمارے مرتبے سے بہت فروتر ہے کہ ہم اس تنگ زاویے سے معاملاتِ دنیا پر نگاہ ڈالیں جس سے ایک قوم پرست یا ایک وطن پرست یا ایک جمہوریت پسند یا ایک اشتراکی ان کو دیکھتا ہے۔ جو چیزیں ان کے لیے بلند ترین منتہائے نظر ہیں، وہ ہمارے لیے اتنی پست ہیں کہ ادنیٰ التفات کی بھی مستحق نہیں۔ اگر ہم ان کے سے ڈھنگ اختیار کریں گے یا انھی کی زبان میں باتیں کریں گے اور انھی گھٹیا درجے کے مقاصد پر زور دیں گے جن پر وہ فریفتہ ہیں، تو ہم اپنی وقعت کو خود ہی خاک میں ملا دیں گے۔ شیر اگر بکری کی سی بولی بولنے لگے اور بزغالوں کی طرح گھاس پر ٹوٹ پڑے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ جنگل کی بادشاہی سے وہ آپ ہی دست بردار ہو گیا ہے۔ اب وہ اس کی توقع کیسے کر سکتا ہے کہ جنگل کے لوگ اس کی وہ پوزیشن تسلیم کریں گے جو شیر کی ہونی چاہیے؟ یہ تعداد کی بنا پر قومی حکومت کے مطالبے، یہ اکثریت اور اقلیت کے نوحے، یہ تحفظات اور حقوق کی چیخ و پکار، یہ انگریزی سلطنت اور والیانِ ریاست کے ظلِ عاطفت، قومی مفاد کے تحفظ کی تدبیریں اور دوسری طرف یہ آزادی وطن کے نعرے اور پنڈت نہرو کے سُروں میں امپیریلزم کی مخالفت، یہ سب ہمارے لیے بکری کی بولیاں ہیں۔ یہ بولیاں بول کر ہم خود ایک غلط پوزیشن اختیار کر لیتے ہیں اور اپنی پوزیشن اس قدر غلط طور پر دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں کہ دنیا ہمیں بکری ہی سمجھنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔ خدا نے ہمیں اس سے بہت اونچا منصب دیا ہے۔ ہمارا منصب یہ ہے کہ ہم کھڑے ہو کر تمام دنیا سے غیر اللہ کی حاکمیت مٹا دیں اور خدا کے بندوں پر خدا کے سوا کسی کی حاکمیت باقی نہ رہے۔ یہ شیر کا منصب ہے اور اس منصب کو ادا کرنے کے لیے کسی قسم کی خارجی شرائط درکار نہیں بلکہ صرف شیر کا سا دل درکار ہے۔ وہ شیر شیر نہیں جو پنجرے میں اگر بند ہو تو بکری کی طرح ممیانے لگے اور شیر وہ بھی نہیں جو بکریوں کی کثرت کو دیکھ کر یا بھیڑیوں کی چیرہ دستی دیکھ کر اپنی شیریت بھول جائے۔[7]
ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ پیش نظر مقصد اور اس تک پہنچنے کے مدارج کو اچھی طرح واضح کیا جائے۔ داعی کہتا ہے۔
سوئے منزل
چونکہ میرے پیش نظر تحریک اسلامی کا احیا ہے اس لیے مجھے بھی اُسی تدریج کے ساتھ اپنے مقصد کی طرف پیش قدمی کرنی پڑی ہے جس کی طرف اُوپر اشارہ کیا گیا ہے۔ ترجمان القرآن کی زندگی کے ابتدائی چار سال اس کوشش میں صرف ہوئے کہ مسلمانوں کے مختلف طبقوں میں گمراہی کی جو شکلیں پیدا ہو گئی ہیں اُن پر گرفت کی جائے اور اسلام سے جو روز افزوں بعد اُن میں پیدا ہو رہا ہے اسے روکا جائے۔ ابھی یہ کوشش جاری تھی کہ ۱۹۳۷ء میں یکایک یہ خطرہ سامنے آگیا کہ ہندوستان کے مسلمان کہیں اس وطنی تحریک کا شکار نہ ہو جائیں جو آندھی اور طوفان کی طرح ملک پر چھائی چلی جا رہی ہے۔ ہم موجودہ ظالمانہ نظامِ حکومت کے خواہ کتنے ہی مخالف ہوں، مگر ہم کسی طرح بھی یہ گوارا نہیں کر سکتے کہ جو لوگ اس وقت تک تھوڑے یا بہت اسلام کے حلقہ اثر میں ہیں، اُن کو ہندوستانی قوم پرستی کی تحریک اپنی ربط عوام کی تدبیروں سے اور واردھا اسکیم اور ودیا مندر اسکیم کے ذریعہ سے اپنے اندر جذب کر لے اور دو پشتوں کے بعد ہندوستان کی آبادی میں اسلام اتنا ہی اجنبی ہو کر رہ جائے جتنا جاپان یا امریکا میں ہے۔ لہذا اس خطرے کا سدباب کرنے کے لیے میں نے ”مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش ” کے عنوان سے مضامین کا ایک سلسلہ ۱۹۳۷ء کے آخر میں اور پھر دوسرا سلسلہ ۱۹۳۹ء کے آغاز میں شائع کیا۔ ان دونوں مجموعوں میں میرے پیش نظر صرف یہ چیز تھی کہ مسلمان کم از کم اپنی مسلمانیت کے موجودہ مرتبے سے نیچے نہ جانے پائیں اور اپنے تشخص کو کم نہ کریں۔ ان کے سامنے دارالاسلام کا نصب العین پیش کیا تاکہ کسی نصب العین کے موجود نہ ہونے سے خیالات اور اعمال کی جو پراگندگی ان کے اندر پیدا ہو گئی ہے، وہ بھی دور ہو اور ان کی نظر جمانے کے لیے ایک ایسا مطمح نظر بھی مل جائے جو نہ تو اصل اسلامی نصب العین سے ہٹا ہوا ہو اور نہ اتنا زیادہ بلند ہو کہ اس کی بلندی کو دیکھ کر ان کی ہمتیں پست ہو جائیں۔ اس وقت چونکہ تحفظ کا کام مقدم تھا اس لیے میں نے آزادی، قومیت، قومی تہذیب حکومت خود اختیاری اقلیت اور اکثریت وغیرہ جیسی چیزوں کے متعلق رائج الوقت تصورات کے خلاف کچھ کہنے سے قصداً احتراز کیا اور ان الفاظ کے جو مفہوم ذہنوں میں راسخ تھے اُن کو جوں کا توں قبول کرکے اُسی زبان میں گفتگو کی جس کو لوگ سمجھ سکتے تھے۔ یہ کام جس غرض کے لیے کیا گیا تھا۔
تھا اللہ کے فضل و کرم سے وہ پچھلے دو تین سال سے حاصل ہو چکی ہے اور اب اس امر کا کوئی خطرہ نہیں ہے کہ ہندوستان کے مسلمان کسی وطنی قومیت میں اپنے آپ کو گم کر دیں گے۔ یہ جو کچھ ہوا کسی انسانی کوشش سے نہیں بلکہ محض اللہ کے فضل سے ہوا۔ اس سلسلہ میں جن جن لوگوں کو اس نے تھوڑی یا بہت خدمت کی توفیق بخشی ان کے لیے فخر کا مقام نہیں بلکہ شکر کا مقام ہے۔
اس مرحلے کے طے ہو جانے کے بعد اب میرے سامنے دوسرا سوال یہ تھا کہ مسلمانوں کو اس نتیجہ پر مطمئن ہو جانے دیا جائے جو حاصل ہو چکا ہے یا ان میں مزید بے چینی پیدا کر کے انھیں اسلام کے اصلی نصب العین کی طرف دھکیلنے کی کوشش کی جائے ... آیا مسلمانوں کو محض اپنی انفرادیت کے سنبھالنے ہی میں لگا رہنے دیا جائے یا انھیں اب یہ بتایا جائے کہ تمھاری انفرادیت مقصود بالذات نہیں بلکہ ایک عظیم تر مقصد کے لیے مقصود ہے؟ یہ سوال سامنے آتے ہی میرے ضمیر نے قطعی فیصلہ صادر کیا کہ پہلی شق غلط ہے اور صرف دوسری شق صحیح ہے چنانچہ اگر کوئی دوسرا سبب نہ پیش آتا تب بھی مجھے وہ کام کرنا ہی تھا جو میں نے کیا۔[8]
منظم جدوجہد کی ضرورت اب سب پر عیاں تھی۔ داعی جماعت کا نقشہ پیش کرتا ہے۔ محرم کے ”ترجمان القرآن“ میں اس تنظیم کا خاکہ اور پورا دستور العمل پیش کیا جاتا ہے اور تمام ہم خیال لوگوں کو پیش قدمی کی دعوت دی جاتی ہے۔
جانب سحر
آج دنیا کا مستقبل در حقیقت اس امر پر منحصر نہیں ہے کہ کوئی نظریہ حق انسان کو ملتا ہے یا نہیں، کیونکہ نظریہ حق تو موجود ہے البتہ وہ اگر منحصر ہے تو اس امر پر ہے کہ انسانوں میں سے کوئی ایسا گروہ اُٹھتا ہے یا نہیں جو سچے ایمان دار، دُھن کے پکے اور اپنی ہر عزیز و محبوب چیز کو خدا کی راہ میں قربان کرنے والے لوگوں پر مشتمل ہو۔
محرم کی اشاعت میں جماعت اسلامی کی تشکیل کا جو نقشہ پیش کیا گیا ہے، اس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ جو حضرات اس نصب العین اور اس طریق کار سے متفق ہیں اور اس کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں یا کر رہے ہیں، وہ افراد ترجمان القرآن کو اپنے عزم سے مطلع فرمائیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ جہاں جہاں اس فکر کے آدمی موجود ہیں، ان کے درمیان ربط پیدا کیا جائے اور ان کے اجتماع کی کوئی صورت نکالی جائے۔ لہذا اگر ہمیں ان کے پتے معلوم ہوں تو ایک اجتماعی ہیئت بنانے میں بڑی سہولت ہو جائے گی۔ بہت سے حضرات ایسے ہیں جو مقصد سے متفق ہیں اور کام کرنا چاہتے ہیں مگر صرف یہ دیکھ کر خاموش بیٹھے ہیں کہ بظاہر کوئی کام ہی نہیں ہو رہا ہے۔ اب انھیں مہر سکوت توڑنی چاہیے اور اپنے ارادے کا اظہار کر دینا چاہیے۔ بہت سے حضرات ایسے بھی ہیں جو اپنی اپنی جگہ اس سلسلے میں کچھ کام کر رہے ہیں مگر انھیں سمجھنا چاہیے کہ ایک فکر اور ایک مقصد رکھنے والے لوگوں کا الگ الگ رہنا اصولاً غلط اور عملاً غیر مفید ہے۔ ایسے سب حضرات اگر دفتر ترجمان القرآن کو ایک واسطے کی حیثیت سے استعمال کریں تو ان کے در میان ربط پیدا ہو سکتا ہے۔ کیا ہم امید کریں کہ ایسے تمام حضرات غیر ضروری تامل کے بغیر ہمیں اپنے پتوں اور ضروری حالات سے آگاہ کریں گے۔[9]
اس دعوت پر سرپھروں نے لبیک کہا۔ نوجوان آگے بڑھے اور ۲۵ اگست ۱۹۴۱ء کو لاہور میں ایک تاریخی اجتماع ہوا۔ اور مسلمانانِ ہند کے اس قلب میں ۷۵ خدا کے مخلص بندوں نے دین کو قائم کرنے کا حلف اٹھایا اور جماعت اسلامی قائم ہوئی۔
محرم کی اشاعت میں جماعت اسلامی کی تشکیل کا جو نقشہ پیش کیا گیا تھا اس کو دیکھ کر بہت سے اللہ کے بندوں نے ایسی ایک جماعت میں شامل ہونے کا ارادہ ظاہر کر دیا تھا، بلکہ ہندوستان کے مختلف حصوں سے مقامی جماعتیں بننے کی اطلاعیں بھی آنی شروع ہو گئی تھیں۔ پھر صفر کی اشاعت میں درخواست کی گئی تھی کہ جو لوگ اس نقشے پر کام کرنا پسند کرتے ہوں وہ براہِ کرم ہم کو اطلاع دیں تاکہ ان کے در میان ربط پیدا کرنے کی کوئی صورت نکالی جاسکے۔ اس کے جواب میں بہت سے وہ لوگ بھی گویا ہوئے جو دل میں ارادہ رکھتے تھے مگر اب تک خاموش تھے۔ اس طرح وسط ماہِ اگست تک تقریباً ڈیڑھ سو اصحاب کی فہرست تیار ہو گئی۔ پھر یہ مناسب سمجھا گیا کہ ۲۵ / اگست کو لاہور میں ان اصحاب کا ایک اجتماع عام منعقد کر لیا جائے۔ تاریخ مقررہ پر ۷۵ اصحاب تشریف لائے تھے۔ چار روز تک مشاورت جاری رہی اور باہمی مشورے سے بالاتفاق ایک دستور جماعت مرتب ہوا۔ پھر تمام اصحاب نے دستور کے مطابق پورے احساسِ ذمہ داری کے ساتھ کلمہ شہادت ادا کیا اور جماعتی نظم کے ساتھ اسلامی نصب العین کے لیے جدوجہد کرنے کا عہد کیا۔ پھر آئندہ کام کے متعلق پروگرام بھی طے ہو گیا۔ جس پر توکل علی اللہ کام شروع کر دیا گیا۔ یہ سب مراحل خدا کے فضل سے بخوبی طے ہو گئے۔ اب آئندہ مراحل کی کامیابی رفقا کے خلوصِ نیت اور اللہ کی توفیق پر منحصر ہے۔
دستور کی بنیاد جس خیال پر رکھی گئی ہے وہ یہ ہے کہ ہم اسلام کے کسی ایک جزو کو، مسلمانوں کے دنیوی مقاصد میں سے کسی ایک مقصد کو لے کر نہ اٹھیں، بلکہ پورے اسلام کو لے کر اٹھیں۔ جس مقصد کے لیے انبیاء علیہم السلام دنیا میں تشریف لائے وہی ہمارا مقصد ہو۔ جس چیز کی طرف انھوں نے دعوت دی اسی کی طرف ہم دعوت دیں۔ جس طرز پر وہ ایمان لانے والوں کی جماعت بناتے تھے اسی طرز پر ہم جماعت بنائیں۔ جو نظام جماعت ان کا تھا وہی ہمارا ہو۔ جن ضوابط کو وہ اپنی جماعت میں نافذ کرتے تھے انھی کو ہم بلا کسی کمی و بیشی کے نافذ کریں اور جس طریقے سے وہ جدوجہد کرتے تھے اسی طریقے سے ہم جدوجہد کریں۔ غرض یہ کہ ہماری یہ تحریک ذرہ برابر نہ اسلام سے کم کسی چیز پر ہو اور نہ اس سے زائد، بلکہ پورے کے پورے اسلام کو ہم اپنی تحریک بنا لیں۔ اسی لیے ہم اس جماعت کو جو اس دستور پر بنی ہے ”جماعت اسلامی“ کہتے ہیں، کیونکہ اس کا عقیدہ، نصب العین، نظام جماعت اور طریق کار یقینا وہی ہے جو اسلامی جماعت کا رہا ہے۔[10]
الحمدللہ، حق کا قافلہ منظم ہو گیا۔ آئیے ذرا دیکھیں اس اجتماع میں کیا ہوا اور کیسے ہوا۔
تشکیل جماعت، چند جھلکیاں
مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش کے حصہ سوم اور پھر ترجمان القرآن کی اشاعتوں میں جس جماعت کی ضرورت ظاہر کی گئی تھی اور پھر عامتہ الناس کو دعوت دی گئی تھی کہ جو لوگ اس نظریے کو قبول کر کے اس طرز پر عمل کرنا چاہتے ہوں، دفتر کو مطلع کریں۔ پرچہ چھپنے کے تھوڑے ہی دنوں بعد اطلاعات آنی شروع ہو گئیں اور معلوم ہوا کہ ملک میں ایسے آدمیوں کی خاصی تعداد موجود ہے جو جماعت اسلامی کی تشکیل اور اس کے قیام و بقا کے لیے جدوجہد کرنے پر تیار ہیں۔ اس غرض کے لیے یکم شعبان ۱۳۶۰ھ (۲۵ / اگست ۱۹۴۱ء) اجتماع کی تاریخ مقرر ہوئی۔ شرکائے اجتماع کی کل تعداد ۷۵ تھی۔ ۲ شعبان آٹھ بجے صبح دفتر کے ایوان میں پہلا اجتماع ہوا۔ مولانا مودودی نے فرمایا:
تاریخی تقریر
ایک وقت تھا کہ میں روایتی اور نسلی مسلمانیت کا قائل اور اس پر عمل پیرا تھا۔ جب ہوش آیا تو محسوس ہوا کہ اس طرح کی پیروی ایک بے معنی چیز ہے۔ آخر کار کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہ کی طرف متوجہ ہوا، اور اسلام کو ازسر نو سمجھا اور اس پر ایمان لایا۔ پھر آہستہ آہستہ اسلام کے مجموعی اور تفصیلی نظام کو سمجھنے اور معلوم کرنے کی کوشش کی۔ جب اللہ تعالیٰ نے قلب کو اس طرف سے مطمئن کر دیا تو جس پر میں خود ایمان لایا تھا، اس کی طرف دوسروں کو دعوت دینے کا سلسلہ شروع کیا اور اس مقصد کے لیے ترجمان القرآن جاری کیا۔ ابتدائی چند سال اُلجھنوں کو صاف کرنے اور دین کا ایک واضح تصور پیش کرنے میں صرف ہوئے۔ اس کے بعد دین کو ایک تحریک کی شکل میں جاری کرنے کے لیے پیش قدمی شروع کی۔ ادارہ ”دار الاسلام" کا قیام اس سلسلے کا پہلا قدم تھا۔ اُس وقت صرف چار رفیق کار بنے۔ اس چھوٹی سی ابتدا کو اس وقت حقیر سمجھا گیا مگر الحمد للہ کہ ہم بددل نہ ہوئے اور اسلامی تحریک کی طرف دعوت دینے اور اس تحریک کے لیے نظری حیثیت سے ذہن ہموار کرنے کا کام لگاتار کرتے چلے گئے۔ اس دوران میں ایک ایک دو دو کرکے رفقا کی تعداد بڑھتی رہی، ملک کے مختلف حصوں میں ہم خیال لوگوں کے چھوٹے چھوٹے حلقے بھی بنتے رہے، اور لٹریچر کی اشاعت کے ساتھ ساتھ زبانی دعوت و تبلیغ کا سلسلہ بھی چلتا رہا آخر کار تحریک کے اثرات کا گہرا جائزہ لینے کے بعد محسوس ہوا کہ اب جماعت اسلامی کی تاسیس اور تحریک اسلامی کو منظم طور پر اُٹھانے کے لیے زمین تیار ہو چکی ہے اور یہ وقت دوسرا قدم اُٹھانے کے لیے موزوں ترین وقت ہے۔ چنانچہ اسی بنا پر یہ اجتماع منعقد کیا گیا ہے۔
جماعت اسلامی کے لیے دُنیا میں کرنے کا جو کام ہے اس کا کوئی محدود تصور اپنے ذہن میں قائم نہ کیجیے۔ دراصل اس کے لیے کام کا کوئی ایک ہی میدان نہیں ہے بلکہ پوری انسانی زندگی اپنی تمام وسعتوں کے ساتھ اس کے دائرہ عمل میں آتی ہے۔ اسلام تمام انسانوں کے لیے ہے اور ہر چیز جس کا انسان سے کوئی تعلق ہے اس کا اسلام سے بھی تعلق ہے۔ یہاں ہر انسان کے لیے کام موجود ہے، کوئی انسان بیکار نہیں ہے۔ عورت، مرد، بوڑھا، جوان، دیہاتی، شہری، کسان، مزدور، تاجر، ملازم، مقرر، محرر، ادیب، اَن پڑھ اور فاضلِ اجل سب یکساں کار آمد اور یکساں مفید ہو سکتے ہیں بشرطیکہ وہ جان بوجھ کر اسلام کے عقیدے کو اختیار کرلیں اور اس کے مطابق عمل کرنے کا فیصلہ کر لیں اور اس مقصد کو، جسے اسلام نے مسلمان کا نصب العین قرار دیا ہے، اپنی زندگی کا مقصد بنا کر کام کرنے پر تیار ہو جائیں۔ البتہ یہ بات ہر اُس شخص کو، جو جماعت اسلامی میں آئے، اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ جو کام اس جماعت کے پیش نظر ہے وہ کوئی ہلکا اور آسان کام نہیں ہے۔ اسے دنیا کے پورے نظام زندگی کو بدلنا ہے۔ اسے دنیا کے اخلاق، سیاست، تمدن، معیشت، معاشرت ہر چیز کو بدل ڈالنا ہے۔ دنیا میں جو نظامِ حیات خدا سے بغاوت پر قائم ہے، اسے بدل کر خدا کی اطاعت پر قائم کرنا ہے اور اس کام پر تمام شیطانی قوتوں سے اس کی جنگ ہے۔ اس کو اگر کوئی ہلکا کام سمجھ کر آئے گا تو بہت جلدی مشکلات کے پہاڑ اپنے سامنے کھڑے دیکھ کر اس کی ہمت ٹوٹ جائے گی۔ اس لیے ہر شخص کو قدم آگے بڑھانے سے پہلے خوب سمجھ لینا چاہیے کہ وہ کس خار زار میں قدم رکھ رہا ہے۔ یہ وہ راستہ نہیں ہے جس میں آگے بڑھنا اور پیچھے ہٹ جانا دونوں یکساں ہوں۔ جو قدم بڑھاؤ، اس عزم کے ساتھ بڑھاؤ کہ اب یہ قدم پیچھے نہیں پڑے گا۔ جو شخص اپنے اندر ذرا بھی کمزوری محسوس کرتا ہے، بہتر ہے کہ وہ اسی وقت رُک جائے۔
اس اجتماع کے انعقاد کی غرض یہ ہے کہ جولوگ اسلامی عقیدے کو جان بوجھ کر قبول کریں اور اس کے نصب العین کے لیے کام کرنے پر تیار ہوں، وہ اپنی انفرادی حیثیت کو ختم کر کے اللہ اور رسول کی ہدایت کے مطابق ایک جماعت بنائیں اور باہمی مشورے سے جماعتی طریق کار پر آئندہ کام کرنے کے لیے ایک نظام بنالیں۔ میرا کام آپ کو ایک جماعت بنا دینے کے بعد ختم ہو جاتا ہے۔ میں صرف ایک داعی تھا۔ بھولا ہوا سبق یاد دلانے کی کوشش کر رہا تھا۔ میری تمام مساعی کی غایت یہ تھی کہ ایسا ایک نظام جماعت بن جائے۔ جماعت بن جانے کے بعد میں آپ میں سے ایک فرد ہوں۔ اب یہ جماعت کا کام ہے کہ اپنے میں سے کسی اہل تر آدمی کو اپنا امیر منتخب کرے۔ اور پھر یہ اس امیر کا کام ہے کہ آئندہ اس تحریک کو چلانے کے لیے اپنی صواب دید کے مطابق ایک پروگرام بنائے اور اُسے عمل میں لائے۔ میرے متعلق کسی کو یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ جب دعوت میں نے دی ہے تو آئندہ اس تحریک کی رہنمائی کو بھی میں اپنا ہی حق سمجھتا ہوں۔ ہر گز نہیں، نہ میں اس کا خواہش مند ہوں، نہ مجھے اپنے متعلق یہ گمان ہے کہ اس عظیم الشان تحریک کا لیڈر بننے کی اہلیت مجھ میں ہے اور نہ اس کام کی بھاری ذمہ داریوں کو دیکھتے ہوئے کوئی صاحب عقل آدمی یہ حماقت کر سکتا ہے کہ اس بوجھ کو اپنے کندھوں پر لادے جانے کی خود تمنا کرے۔ در حقیقت میری غایت تمنا اگر کچھ ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ ایک صحیح اسلامی نظام جماعت موجود ہو اور میں اس میں شامل ہوں۔ اسلامی نظام جماعت کے ماتحت ایک چپڑاسی کی خدمت انجام دینا بھی میرے نزدیک اس سے زیادہ قابلِ فخر ہے کہ کسی غیر اسلامی نظام میں صدارت اور وزارتِ عظمیٰ کا منصب مجھے حاصل ہو۔ لہذا اس مفروضے پر نہ چلیے کہ جس طرح تشکیل جماعت سے پہلے سارے کام میں اپنی ذمہ داری پر چلاتا رہا ہوں، اسی طرح تشکیل جماعت کے بعد بھی میں ہی آپ سے آپ امارت کا کام اپنے ہاتھ میں لے لوں گا۔ جماعت بن جانے کے بعد میری اب تک کی حیثیت ختم ہو چکی ہے۔ آئندہ کے کام کی پوری ذمہ داری جماعت کی طرف منتقل ہوئی جاتی ہے۔ جماعت اپنی طرف سے اس ذمہ داری کو جس کے بھی سپرد کرنے کا فیصلہ کرے اُس کی اطاعت اور خیر خواہی اور اس کے ساتھ تعاون کرنا ہر فرد جماعت کی طرح میرا بھی فرض ہوگا۔
دستور بنتا ہے
اس کے بعد آپ نے دستور جماعت اسلامی کا مسودہ پڑھنا شروع کیا۔ ایک ایک لفظ پر بحث ہوئی۔ شام تک دستور بعض ترمیمات اور اضافوں کے ساتھ پورا پورا اتفاقِ کلی پاس ہو گیا۔ اس کے بعد سب سے پہلے مولانا مودودی صاحب اٹھے اور کلمہ شہادت کا اعادہ کیا اور کہا کہ لوگو! گواہ رہو کہ میں آج از سر نو ایمان لاتا اور جماعت اسلامی میں شریک ہوتا ہوں۔ اس کے بعد محمد منظور نعمانی صاحب کھڑے ہوئے اور تجدید ایمان کا اعلان کیا۔ بعد ازاں حاضرین میں سے باری باری کرکے ہر شخص اٹھا، کلمہ شہادت ادا کیا اور جماعت میں شریک ہوا۔ اکثر حضرات کی آنکھوں میں آنسو جاری تھے بلکہ بعض لوگوں پر تو روتے روتے رقت طاری ہو گئی تھی۔ اگلے دن بہ اتفاقِ کلی لوگوں نے سید ابوالا اعلیٰ مودودی کو اپنا امیر منتخب کر لیا۔ امیر جماعت نے مختصر تقریر کی اور کہا:
میں آپ کے درمیان نہ سب سے زیادہ علم رکھنے والا تھا نہ سب سے زیادہ متقی، نہ کسی اور خصوصیت میں مجھے فضیلت تھی۔ بہر حال جب آپ نے مجھ پر اعتماد کر کے اس کار عظیم کا بار میرے اوپر رکھ دیا تو میں اب اللہ سے دُعا کرتا ہوں، اور آپ لوگ بھی دُعا کریں، کہ مجھے اس بار کو نبھانے کی قوت عطا فرمائے، اور آپ کے اس اعتماد کو مایوسی میں تبدیل نہ ہونے دے۔ میں اپنی حد تک انتہائی کوشش کروں گا کہ اس کام کو پوری خدا ترسی اور پورے احساسِ ذمہ داری کے ساتھ چلاؤں۔ میں قصداً اپنے فرض کی انجام دہی میں کوتاہی نہ کروں گا۔ میں اپنے علم کی حد تک کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ اور خلفائے راشدین کے نقش قدم کی پیروی میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھوں گا۔ تاہم اگر مجھ سے کوئی لغزش ہو اور آپ میں سے کوئی محسوس کرے کہ میں راہِ راست سے ہٹ گیا ہوں تو مجھ پر یہ بدگمانی نہ کرے کہ میں عمداً ایسا کر رہا ہوں بلکہ حسن ظن سے کام لے اور نصیحت سے مجھے سیدھا کرنے کی کوشش کرے۔ جب تک میں راہِ راست پر چلوں آپ میرا ساتھ دیں، میرے حکم کی اطاعت کریں، نیک مشوروں سے اور امکانی امداد و اعانت سے میری تائید کریں اور جماعت کے نظم کو بگاڑنے والے طریقوں سے پر ہیز کریں۔ مجھے اس تحریک کی عظمت اور خود اپنے نقائص کا پورا احساس ہے۔ میں جانتا ہوں کہ یہ وہ تحریک ہے جس کی قیادت اولوالعزم پیغمبروں نے کی ہے اور زمانہ نبوت گزر جانے کے بعد وہ غیر معمولی انسان اس کو لے کر اٹھتے رہے ہیں جو نسل انسانی کے گل سرسبد تھے۔ مجھے ایک لمحے کے لیے بھی اپنے بارے میں یہ غلط فہمی نہیں ہوئی کہ میں اس عظیم الشان تحریک کی قیادت کا اہل ہوں، بلکہ میں تو اس کو ایک بدقسمتی سمجھتا ہوں کہ اس وقت اس کارِ عظیم کے لیے آپ کو مجھ سے بہتر کوئی آدمی نہ ملا۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اپنے فرائض امارت کی انجام دہی کے ساتھ میں برابر اس تلاش میں رہوں گا کہ کوئی اہل تر آدمی اس کام کا بار اٹھانے کے لیے مل جائے اور جب میں ایسے آدمی کو پاؤں گا تو خود سب سے پہلے اس کے ہاتھ پر بیعت کروں گا۔ نیز میں ہر اجتماع عام کے موقع پر جماعت سے بھی درخواست کرتا رہوں گا کہ اگر اب اُس نے کوئی مجھ سے بہتر آدمی پا لیا ہے تو وہ اُسے اپنا امیر منتخب کرے اور میں اس منصب سے بخوشی دست بردار ہو جاؤں گا۔ بہر حال میں ان شاء اللہ اپنی ذات کو کبھی خدا کے راستے میں سدِّ راہ نہ بننے دوں گا اور کسی کو یہ کہنے کا موقع نہ دوں گا کہ ایک ناقص آدمی اس جماعت کی رہنمائی کر رہا ہے، اس لیے ہم اس میں داخل نہیں ہو سکتے۔ میں کہتا ہوں کہ کامل آئے اور یہ مقام جو آپ نے میرے سپرد کیا ہے، ہر وقت اُس کے لیے خالی ہو سکتا ہے۔ البتہ میں اس کے لیے تیار نہیں ہوں کہ اگر کوئی دوسرا اس کام کو چلانے کے لیے نہ اُٹھے تو میں بھی نہ اُٹھوں۔ میرے لیے تو یہ تحریک عین مقصدِ زندگی ہے۔ میرا مرنا اور جینا اس کے لیے ہے۔ کوئی اس راہ پر چلنے کے لیے تیار ہو یا نہ ہو، بہر حال مجھے تو اس راہ پر چلنا ہے اور اسی راہ میں جان دینا ہے۔ کوئی آگے نہ بڑھے گا تو میں بڑھوں گا۔ کوئی ساتھ نہ دے گا تو میں اکیلا چلوں گا۔ ساری دنیا متحد ہو کر مخالفت کرے گی تو مجھے تن تنہا اُس سے لڑنے میں باک نہیں ہے۔[11]
الحمدللہ داعی نے جس تصور اور ضرورت کو دلیل کی قوت اور ایمان کی حرارت کے ساتھ پیش کیا تھا، وہ ایک حقیقت بن کر جماعت اسلامی کی انقلابی تحریک کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ اس تصور اور وژن کے ہمہ پہلو سب کے سامنے آگئے تھے اور جن مراحل سے گزر کر اس پیغام نے ایک دعوت اور تحریک کی شکل اختیار کی، وہ ہم نے دیکھ لیے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں تھوڑا سا توقف کرکے اس پوری تاریخی جدوجہد کے ایک اور پہلو کو بھی دل و دماغ میں تازہ کرلیں۔ داعی تحریک نے قیام جماعت کے ۲۹ سال بعد اگست ۱۹۷۰ء میں اپنے ذہنی سفر اور فکری اور عملی جدوجہد کی اس داستان کو آنے والی نسلوں کی ایک امانت تصور کرتے ہوئے پہلی بار بیان کیا اور ہمارے اس تحریکی رپورتاژ میں بھی وہ مقام ہے جب اس پہلو کو بھی اچھی طرح سمجھ لیا جائے اور اس کی روشنی میں مستقبل کے مراحل، مسائل، چیلنجوں اور امکانات کو سمجھا جائے اور دیکھا جائے کہ کس طرح داعی اور تحریک نے آنے والے ادوار میں دعوت و تحریک کے اس سلسلے کو آگے بڑھایا:
آج پہلی مرتبہ میں جماعت اسلامی کے اس تاریخی پس منظر کو بیان کر رہا ہوں جسے میں نے آج تک اپنی کسی تحریر یا تقریر میں بیان نہیں کیا ہے۔ اپنے قریبی ساتھیوں کے سامنے بھی میں نے کبھی کبھی اس کے بعض اجزا ہی کا ذکر کیا ہے، لیکن ایک مربوط شکل میں تاریخ کے طور پر اس کے بیان کرنے کی کبھی نوبت نہیں آئی تھی۔ آج اس لیے اسے بیان کرنے کی ضرورت محسوس کر رہا ہوں کہ کہیں میں اس تاریخ کو اپنے ساتھ قبر ہی میں نہ لے جاؤں اور لوگوں کو یہ معلوم نہ ہو سکے کہ میرے وہ کیا تجربات اور مشاہدات اور مطالعہ و غوروخوض کے نتائج تھے جنھوں نے جماعت اسلامی کی اسکیم کی شکل اختیار کی۔
میں نے جب ہوش سنبھالا تو اس برصغیر ہند میں ایک عظیم الشان تحریک برپا تھی ایک طرف مسلمان جنگ عظیم اوّل کے بعد مقاماتِ مقدسہ اور خلافت اسلامیہ کی حفاظت کے لیے تن من دھن کی بازی لگانے کے لیے تیار ہو گئے تھے تا کہ بری بھلی جیسی کچھ بھی خلافت قائم ہے، اس کا تحفظ کیا جائے اور مقاماتِ مقدسہ کو کفار کے قبضے سے نکالا جائے۔ یہ ایک مقدس دینی جذبہ تھا جو ساری مسلمان قوم کو لے کر کھڑا ہو گیا تھا۔ دوسری طرف جلیانوالہ باغ کے حادثے کے بعد پورے ہندوستان میں آگ لگ گئی تھی اور انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کا جذبہ ملک میں بھڑک اٹھا تھا ہندستان کے ہندو اور مسلمان اس وقت باہم متحد ہو گئے تھے۔ مسلمانوں کے ذہن پر تحفظ خلافت کے جذبے کا غلبہ تھا جس کی قیادت تحریک خلافت کر رہی تھی، اور ہندوؤں کے ذہن پر سوراج کے حصول کا جذبہ غالب تھا جس کی قیادت کانگریس کر رہی تھی۔ گاندھی جی کو سب نے قائد مان کر بالاتفاق ترک موالات کی ایک زبردست تحریک شروع کی جس کو انگریزی میں non-cooperation کہتے ہیں۔ اس وقت مسلمان قوم کے تمام اکابر، چند مستثنیٰ شخصیتوں کو چھوڑ کر، اس تحریک میں شریک تھے۔
میں اس وقت سولہ سترہ سال کی عمر کا ایک نوجوان لڑکا تھا۔ فطری طور پر میرے دل میں اپنی قوم کے لیڈروں پر اعتماد تھا اور ہونا ہی چاہیے تھا۔ ہر مسلمان کی طرح میرے دل میں بھی یہ غم تھا کہ مسلمانوں کی ایک رہی سہی سلطنت جو دنیا میں باقی رہ گئی تھی، یعنی ترکوں کی سلطنت، وہ مٹ رہی ہے۔ خلافت جیسی کچھ باقی رہ گئی تھی جو دنیا کے مسلمانوں کو جمع کر سکتی تھی وہ ختم ہوتی نظر آرہی ہے، اور مسلمانوں کے تمام مقامات مقدسہ خطرے میں پڑ گئے ہیں۔ مسلمان ہونے کی حیثیت سے میرے احساسات بھی وہی تھے جو ساری مسلمان قوم میں پائے جاتے تھے اور اسی بنا پر میں بھی اس تحریک میں ایک ادنیٰ کارکن کی حیثیت سے شریک ہو گیا۔
لیکن ابتدا سے میری افتادِ طبع یہ رہی ہے کہ جس مسئلے سے بھی مجھے سابقہ پیش آیا یا جس سے مجھے دل چسپی ہوئی، میں نے اس کے متعلق زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی تاکہ اسے اچھی طرح سمجھ سکوں۔ چنانچہ میں نے خلافت کے مسئلے کا مطالعہ کیا اور اس سے جو چیز میرے سامنے آئی وہ یہ تھی کہ ترکی قوم میں جو قیادت کار فرما تھی وہ ترک قوم پرستی کی بنیاد پر کھڑی ہوئی تھی اور اس کے مزاج میں وہ لادینیت بھی شامل تھی جو ترکی کے تعلیم یافتہ نوجوان مغرب سے لے کر آئے تھے۔ دوسری طرف اسی مطالعے سے مجھے یہ بھی معلوم ہوا کہ اسلام کے دشمنوں نے ترکی قوم پرستی کے جواب میں عربوں کے اندر بھی عرب قوم پرستی کی ایک زبردست تحریک اُبھار دی جس کے نتیجے میں جنگ عظیم اوّل میں بجاے اس کے کہ عرب اور ترک مسلمان مل کر اکٹھے ہوتے، دونوں ایک دوسرے کی جان کے دشمن ہو گئے۔ نادان تھے وہ ترک لیڈر جن کی سلطنت ایک طرف تو خلافت ِ اسلامیہ کا بار سنبھالے ہوئے تھی اور دوسری طرف وہ اسے لادینیت کی بنیاد پر چلانا چاہتے تھے۔ اسی طرح یہ بھی ان کی سخت نادانی تھی کہ اپنی سلطنت کو انھوں نے ترک قوم پرستی کی بنیاد پر چلانا چاہا، حالانکہ اس میں عرب، کرد، اور دوسرے غیر ترک مسلمان بھی آباد تھے، جو خلافت اسلامیہ کے وفادار تو ہو سکتے تھے مگر ترکی سلطنت کے وفادار نہیں ہو سکتے تھے۔ دوسری طرف سخت بے وقوف تھے وہ عرب لیڈر جنھوں نے عیسائیوں اور یہودیوں کے فریب میں آکر ترک قوم پرستی کے مقابلے میں عرب قوم پرستی اختیار کی اور جنگ میں انگریزوں کا ساتھ دے کر عرب ممالک پر ان کو مسلط کرا دیا جن میں ہمارے مقامات مقدسہ بھی شامل تھے۔ یہ تاریخ جب میرے سامنے آئی تو میرے دل میں یہ کھٹک پیدا ہو گئی کہ جس خلافت کی خاطر ہندوستان کے مسلمانوں نے اپنا سب کچھ داؤ پر لگادیا ہے، اس کی سرے سے کوئی جڑ ہی نہیں ہے۔ ہماری پوری قوم ایک ایسے بیرونی مسئلے کو لے کر کھڑی ہو گئی ہے جو ہمارے قابو سے باہر ہے۔ اگر خلافت اسلامیہ کا خاتمہ لادینی کے قائل ترکوں نے خود اپنے ہاتھوں سے کر دیا تو پھر ہماری اس تحریک کا حشر کیا ہو گا؟ لیکن بہر حال میں ایک نوجوان تھا۔ کھٹک میرے دل میں ضرور تھی، لیکن مجھ میں یہ ہمت نہ تھی کہ اپنی قوم کے بڑے بڑے لیڈروں کے متعلق یہ خیال کرتا کہ وہ ایک معاملے کو نہیں سمجھ رہے ہیں اور میں اسے سمجھتا ہوں۔ اس لیے میں اس کھٹک کو دل میں لیے ہوئے اس تحریک میں کام کرتا رہا۔
اسی طرح جب ہندو مسلم اتحاد ہوا اور کانگریس کے ساتھ مل کر مسلمانوں نے کام شروع کیا اور سوراج کی آوازیں ہر طرف بلند ہونے لگیں تو میں نے اس مسئلے کا بھی مطالعہ کیا۔ کانگریس کی تاریخ پڑھی، اس کے مقاصد معلوم کیے۔ ہندوستان میں جمہوری ادارے کا ارتقا جس طرز پر ہوا تھا اور کانگریس جس راہ پر اسے آگے بڑھانا چاہتی تھی اس کو سمجھنے کی کوشش کی۔ اس مطالعے سے مجھے معلوم ہوا کہ انگریزوں نے ہندوستان میں آکر اپنے ملک پر قیاس کرتے ہوئے اس ملک کی آبادی کو بھی ایک قوم فرض کر لیا ہے اور اس مفروضے پر وہ اپنے ملک کے نظام کے مطابق یہاں بھی جمہوری ادارے قائم کر رہے ہیں۔ ہندو قوم کے لیے یہ بات سب سے زیادہ مفید تھی، کیونکہ وہ اکثریت میں تھے۔ وہ یہ سمجھتے تھے کہ ہندوستان کے تمام باشندوں کو ایک قوم قرار دے کر جو جمہوری نظام بھی قائم ہو گا اس کا سارا فائدہ انھیں کو حاصل ہو گا اور آخر کار مسلمان ان کے ماتحت بلکہ ایک طرح سے ان کے عملاً غلام بن کر رہ جائیں گے۔ یہ بات کانگریس کی تحریک کا مطالعہ کرنے کے بعد جب میرے سامنے آئی تو دوسری کھٹک میرے دل میں یہ پیدا ہوئی کہ ہماری قوم کے اکابر آخر کیا سوچ کر کانگریس کے ساتھ اتحاد کر رہے ہیں؟ میں اس بات پر حیران تھا کہ اسی زمانے میں نہیں، بلکہ اس کے بعد بھی کئی سال تک، مسلمانوں کے تمام بڑے بڑے سیاسی لیڈر اس بات کو تسلیم کرتے رہے کہ واقعی یہاں ہندوستان میں ایک آزاد جمہوری حکمت اسی اصول پر بننی چاہیے کہ یہاں کے باشندے ایک قوم ہیں اور اس کے اندر مسلمانوں کو صرف آئینی تحفظات حاصل ہونے چاہییں۔ میرے دماغ میں یہ بات کسی طرح نہیں اُترتی تھی کہ مسلم اور غیر مسلم ایک قوم کیسے ہو سکتے ہیں اور ان کو ایک قوم مان کر جو جمہوری نظام بنایا جائے گا اس میں مسلمانوں کے لیے آخر کیا تحفظ ہو سکتا ہے ؟ آئینی تحفظات کے متعلق جتنا بھی میں غور کرتا تھا مجھے یہ محسوس ہوتا تھا کہ وہ اس وقت تک تو کام دے سکتے ہیں جس وقت تک ہندوستان پر انگریزوں کی حکومت قائم رہے اور وہ ان آئینی تحفظات کا تحفظ کرے، لیکن اگر کبھی ہندوستان انگریزوں کے قبضے سے نکلے گا تو آزاد ہندوستان میں مسلمان آئینی تحفظات کی دستاویز کو ہاتھ میں لیے پھریں گے اور ہندو جو چاہیں گے کریں گے۔ مسلمانوں کے پاس کوئی طاقت نہیں ہوگی کہ وہ ہندو اکثریت کی دستبرد سے اپنے آپ کو بچا سکیں۔ یہ کھٹک بھی برابر میرے دل میں رہی لیکن جیسا کہ میں پہلے سے آپ سے کہہ چکا ہوں، ایک نوجوان کے لیے اپنے بارے میں یہ خیال کرنا بڑا مشکل تھا کہ میں قوم کے معاملات کو زیادہ سمجھتا ہوں اور میری قوم کے بڑے بڑے لیڈر نہیں سمجھتے، اس لیے میں دل کی اس کھٹک کے باوجود اس تحریک کے ساتھ چلتا رہا جو اکابر ملت کی رہنمائی میں جاری تھی۔
۱۹۲۴ء میں وہ تمام اندیشے جو میرے دل میں تھے یکایک واقعے کی شکل میں سامنے آگئے اور اپنی قومی قیادت پر سے میرا اعتماد متزلزل ہو گیا۔ ۱۹۲۴ء میں ترکی کے حکمرانوں نے اسی خلافت عثمانیہ کے خاتمے کا خود اعلان کر دیا جس خلافت کی حفاظت کے لیے ہندوستان کی پوری مسلمان قوم کھڑی ہوئی تھی۔ اپنے ملک کے تمام مسائل کو نظر انداز کر کے جس خلافت کے لیے ہماری قوم دنیا بھر سے لڑنے کے لیے تیار تھی، اس خلافت کے حاملین نے خود ہی اس بوجھ کو اُتار کر پھینک دیا اور ہندوستان کے مسلمان دیکھتے کے دیکھتے رہ گئے۔ اس واقعے کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان قوم کی یکایک کمر ٹوٹ گئی۔
دوسری طرف اسی ۱۹۲۴ء کے آخری زمانے میں وہ ہندو مسلم اتحاد بھی ختم ہو گیا جس کی بنا پر ہندوستان میں یہ زبردست تحریک اٹھی تھی۔ ہندوستان میں جگہ جگہ ہندو مسلم فسادات کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا اور ان فسادات میں گاندھی سے لے کر نیچے تک تمام ہندو لیڈروں کا متفقہ طرزِ عمل یہ رہا کہ جہاں تک ہو سکے ہر فساد پر مسلمانوں کی مذمت کی جائے، چاہے وہ مظلوم ہی ہوں اور جہاں تک ہو سکے ہندوؤں کی حمایت کی جائے، چاہے وہ ظالم ہوں۔ یہ طرزِ عمل ۱۹۲۴ء کے آخر میں کھلم کھلا سامنے آگیا تھا جس سے یہ معلوم ہو گیا کہ ہندو مسلم اتحاد کوئی معنی نہیں رکھتا اور یہ کبھی عملی جامہ نہیں پہن سکتا۔
اس کے بعد ۱۹۲۵ء میں سوامی شردھانند نے شدھی (مسلمانوں کو ہندو بنانے کی تحریک شروع کی۔ یہ وہی شردھانند تھا جسے ہندو مسلم اتحاد کے زمانے میں مسلمان دہلی کی جامع مسجد میں خود لے کر گئے تھے اور وہاں مکبر پر اس کو کھڑا کر کے اس سے تقریر کرائی تھی بعض لوگوں کو یہ غلط فہمی ہے کہ اسے منبر پر کھڑا کیا گیا تھا، حالانکہ دراصل اسے منبر پر نہیں بلکہ مکبر پر کھڑا کیا گیا تھا۔ یہ دہلی کی جامع مسجد میں ایک چبوترہ ہے جس پر کھڑے ہو کر مؤذن تکبیر کی آواز بلند کرتے ہیں)۔ میں خود اس وقت اس مجمع میں موجود تھا جب شردھانند سے مکبر پر تقریر کرائی گئی اور میں حیران تھا کہ مسلمان کس جنون میں مبتلا ہو گئے ہیں کہ اب یہاں تک نوبت پہنچ گئی تھی کہ ایک ہندو سوامی کو لاکر جامع مسجد میں مکبر پر کھڑا کر کے تقریر کرا رہے ہیں۔ دو تین سال کے اندر ہی مسلمانوں کو اس شخص نے یہ بدلہ دیا کہ وہ علانیہ شدھی کی تحریک لے کر کھڑا ہو گیا۔
جب شدھی کی یہ تحریک اُٹھی اس وقت پھر میں نے اس مسئلے کا مطالعہ کرنا شروع کیا کہ آخر وجہ کیا ہے کہ ایک زمانے میں تو مسلمان تمام دنیا کے اندر اسلام کی تبلیغ کرتے تھے، آج نوبت یہ پہنچ گئی کہ اس سرزمین میں کسی کو یہ ہمت ہو رہی ہے کہ وہ مسلمانوں کو ہندو بنانا شروع کردے؟ میں نے اس زمانے میں جو کچھ مطالعہ کیا، اس سے میں اس نتیجے پر پہنچا کہ مسلمان حقیقت میں ایک مشنری قوم کا نام ہے، محض ایک قوم کا نام نہیں ہے۔ مسلمان اس قوم کا نام ہے جو دنیا میں اپنا ایک مشن رکھتی ہے۔ اسلام کی تبلیغ کبھی پیشہ ور مبلغین کے ذریعے سے نہیں ہوئی ہے بلکہ ہر مسلمان، مسلمان ہونے کی حیثیت سے دراصل ایک مبلغ ہے۔ اس کا کام یہ ہے کہ نہ صرف خود مسلمان ہو بلکہ اپنے قول سے، اپنے عمل سے، اپنے کردار سے، اپنی گفتار سے، اپنی رفتار سے، غرض اپنی ہر چیز سے اسلام کی تبلیغ کرے۔ جب تک مسلمانوں میں ایک مشنری قوم کی یہ حیثیت اور کیفیت برقرار رہی، اُنھوں نے تلوار کے بغیر محض اپنی تبلیغ سے ملک کے ملک فتح کر ڈالے۔ پورا انڈونیشیا اسی تبلیغ کی بدولت مسلمان ہوا، کبھی وہاں مسلمان تلوار لے کر نہیں پہنچے۔ ملائشیا، مشرقی افریقہ مغربی افریقہ اور دوسرے متعدد ملک ایسے ہیں جہاں مسلمانوں نے اپنے کردار سے، اپنے اخلاق سے، اپنی گفتار سے، غرض اپنی ایک ایک چیز سے لوگوں پر اثر ڈالا اور قوموں کی قوموں کو مسلمان بنا دیا۔ خود اسی ہندوستان کو دیکھ لیجیے۔ یہاں کروڑوں مسلمان جو پائے جاتے ہیں یہ سارے باہر سے تو نہیں آئے۔ کبھی یہاں کی مسلمان حکومتوں اور بادشاہوں نے طاقت کے زور سے اسلام کی اشاعت نہیں کی۔ یہ سب تبلیغ ہی سے تو مسلمان ہوئے ہیں۔
میں نے غور کیا کہ آخر اب کیا وجہ ہے کہ اسلام کی رفتار اشاعت رُک گئی ہے اور اس کے برعکس اب ہندوؤں کو یہ ہمت ہو رہی ہے کہ اُلٹا ہندو مذہب کی تبلیغ مسلمانوں میں شروع کر دیں؟ اس مسئلے پر مطالعہ اور غوروخوض کرنے کے بعد میں نے محسوس کیا کہ مسلمانوں نے ایک مدت سے اپنے ایک مبلغ قوم ہونے کی حیثیت کو فراموش کر دیا ہے اور اب وہ صرف ایک قوم بن کر رہ گئے ہیں۔ اب اگر وہ وہ اپنے عمل سے کسی چیز کی تبلیغ کر رہے ہیں تو وہ یہ ہے کہ کلمہ پڑھنے اور نہ پڑھنے سے آدمی کی زندگی میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جتنا جھوٹا ایک غیر مسلم ہو سکتا ہے اتنا ہی جھوٹا ایک مسلمان بھی ہو سکتا ہے۔ جتنا بد دیانت ایک غیر مسلم ہو سکتا ہے اتنا ہی ایک مسلمان بھی ہو سکتا ہے۔ مسلمان بھی بدکاریاں کرتا ہے اور غیر مسلم بھی۔ مسلمان بھی رشوت خوری کرتا ہے اور غیر مسلم بھی۔ جب مسلمان اپنی یہ حیثیت دوسروں کے سامنے پیش کر رہے ہیں، تو کوئی معقول وجہ نہیں کہ یہاں اسلام پھیل سکے۔ اس کے بعد ہی تو ہندوؤں میں یہ ہمت پیدا ہو سکتی ہے کہ وہ مسلمانوں میں شدھی کی تحریک چلائیں اور ان سے کہیں کہ تمہارے آباؤاجداد ہندو تھے، اب تم اپنے آبائی مذہب کی طرف پلٹ آؤ، کیونکہ کوئی خاص فرق تمہارے مسلمان ہونے سے واقع نہیں ہوا ہے۔ اسی زمانے میں میں نے اخبار الجمعیۃ دہلی میں ایک سلسلہ مضامین لکھا جو اب اسلام کا سرچشمہ قوت کے نام سے کتابی شکل میں بھی شائع ہو چکا ہے۔ میں نے اس میں اپنے مطالعے کے سارے نتائج بیان کر دیے تھے اور اس وقت سے آج تک میرے دماغ میں یہ بات بھی ہوئی ہے کہ مسلمانوں کی نجات اگر ہے تو اسی میں ہے کہ وہ پھر سے ایک مبلغ قوم کی حیثیت اختیار کرلیں۔ صرف اسی طرح ہندوستان میں مسلمان اس پیچیدگی سے نکل سکتے ہیں جس میں وہ مبتلا ہیں، ورنہ محض ایک قوم کی حیثیت سے یہاں ان کی خیر نہیں ہے۔
اس کے بعد دوسرے سال ۱۹۲۶ء میں سوامی شردھانند کو ایک مسلمان نے قتل کر دیا اور پورے ہندوستان میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف حملوں کا ایک زبر دست سلسلہ شروع ہو گیا۔ گاندھی جی تک بول اُٹھے کہ اسلام تلوار کا مذہب ہے، تشدد کا مذہب ہے۔ اس زمانے میں مجھے یہ خیال پیدا ہوا کہ میں جہاد کے پورے مسئلے کا مطالعہ کروں، اسے سمجھوں اور اسے واضح طور پر بیان کروں[12] اس مطالعے کا نتیجہ میری کتاب الجہاد فی الاسلام ہے جو آج شائع شدہ موجود ہے۔ اس مطالعے کے دوران میں یہ بات مجھ پر واضح ہوئی کہ اسلام دراصل اس لیے دنیا میں نہیں آیا ہے کہ حکومت کفر کی ہو اور مسلمان اس کے ماتحت ذمی بن کر رہیں بلکہ اسلام اس لیے آیا ہے کہ دنیا میں اقتدار اس کا ہو اور غیر مسلم اس کے ماتحت ہو کر رہیں۔
اس مطالعے سے مجھ پر یہ بھی منکشف ہوا کہ مسلمان قوم کی طرح اسلامی حکومت بھی دراصل ایک مشنری حکومت ہوتی ہے جو اپنے عدل و انصاف سے، اپنی دیانت داری سے، اپنی غربا پروری سے، اپنے نیک طرزِ عمل سے تمام دنیا کے سامنے اسلام کی صداقت کی شہادت پیش کرتی ہے۔ اس کی عدالت، اس کی پولیس، اس کی فوج، اس کی سفارت، غرض اس کی ہر چیز سے یہ ظاہر ہونا چاہیے کہ مسلمان اور غیر مسلم میں کیا فرق ہے، اسلام ایک ملک اور ایک قوم کو کیا بنا دیتا ہے، اور کفر اسے کیا بناتا ہے۔ اس طرح اسلامی حکومت فی الحقیقت ایک مبلغ حکومت ہے، اس کا کام دنیا میں خدا کا کلمہ بلند کرنا ہے اور جہاد کا اصل مقصود یہ ہے کہ کفر پر اسلام غالب ہو۔ یہ چیز بھی اس زمانے میں میرے ذہن نشین ہو گئی تھی اور بعد میں مسلسل یہ میرے ذہن میں کام کرتی رہی۔
۱۹۲۴ء کے بعد ہندوستان کے مسلمانوں میں ایک شدید انتشار برپا ہو گیا، اور ۱۴،۱۵ سال تک پوری قوم سخت پراگندگی میں مبتلا رہی۔ اس زمانے میں پے در پے ایسے حالات پیدا ہوتے چلے گئے، جنھیں دیکھ کر مجھے یہ محسوس ہو رہا تھا کہ مسلمان سیدھے تباہی کی طرف چلے جارہے ہیں۔ میں تین چار چیزیں بطور مثال آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں۔
وہی زمانہ تھا جب ترکی میں اور اس کی تقلید کرتے ہوئے دوسرے مسلمان ملکوں میں مغربی تہذیب و تمدن کی پیروی کا طوفان پورے زور شور سے اُٹھ کھڑا ہوا۔ مسلمانوں کے قومی لباس کو تبدیل کیا گیا۔ ترکی میں یکایک رسم الخط تبدیل کر دیا گیا۔ شریعت اسلامی کو منسوخ کیا گیا۔ مغربی ممالک سے قوانین لاکر نافذ کیے گئے۔ مسلمانوں کا پرسنل لا تک تبدیل کر دیا گیا جس کی ہمت مغربی استعمار نے بھی مسلمان ملکوں میں نہ کی تھی۔ ان ساری چیزوں کا اثر ہندوستان کے مسلمانوں پر بھی پڑا۔ ہندوستان کے مسلمانوں میں بھی یہ خیال پیدا ہونا شروع ہو گیا کہ ہمیں مغربی لباس اختیار کرنا چاہیے، مغربی تہذیب اختیار کرنی چاہیے۔ حتیٰ کہ بہت سے لوگ ایسے کھڑے ہو گئے جو رسم الخط تک تبدیل کرنے کو تیار تھے۔ اس زمانے میں میں نے ایک مضمون لکھا تھا جس میں لباس کے مسئلے پر تفصیل سے بحث کر کے یہ بتایا تھا کہ لباس کوئی معمولی چیز نہیں ہے کہ آپ نے ایک طرح کا لباس اُتارا اور دوسری طرح کا پہن لیا بلکہ اس کے پیچھے بہت گہرے تہذیبی، تاریخی اور نفسیاتی عوامل کار فرما ہوتے ہیں اور اس کی تبدیلی کے اثرات بہت دور رس ہوا کرتے ہیں۔ یہ مضمون ۱۹۲۹ء میں پہلی مرتبہ رسالہ معارف میں شائع ہوا تھا اور اب یہ میری کتاب تفہیمات میں شامل ہے۔
اسی زمانے میں کھلم کھلا مسلمانوں میں الحاد و بے دینی کی تبلیغ شروع ہوئی۔ پورے پورے پرچے اس غرض کے لیے نکالے گئے کہ مسلمانوں کے ایمان کی بنیادوں کو متزلزل کر دیا جائے۔ اسی زمانے میں ایسے پرچے بھی شائع ہونے لگے جنھوں نے ادب کے نام سے مسلمانوں میں علانیہ بداخلاقی، بے حیائی، عریانی اور عشق بازی کی وبا پھیلانی شروع کی۔ ان کے بعض نمونے میں نے اپنی کتاب پردہ میں نقل کیے ہیں۔ ان مضامین میں جس قسم کا پروپیگنڈا ہو رہا تھا اور جیسا لٹریچر لوگوں میں پھیل رہا تھا اس کو دیکھ کر میں نے محسوس کیا کہ ایسی قوم جو کفار کی اکثریت کے درمیان رہتی ہو، اگر اس کا ایمان بھی متزلزل ہو جائے اور اس کے اخلاق کا بھی ستیاناس کر دیا جائے تو اس کے بعد وہ کیسے زندہ اور قائم رہ سکتی ہے۔ اسی زمانے میں مسلمانوں کے اندر کمیونزم کی تبلیغ بھی شروع ہوئی۔ علی گڑھ یونیورسٹی کو کمیونسٹوں نے اپنی تبلیغ کا اڈا بنا لیا اور ملک کے تعلیم یافتہ لوگوں میں کمیونزم کا پروپیگنڈا بڑے زور شور سے شروع ہو گیا۔[13]
اسی زمانے میں میں نے یہ بھی محسوس کیا کہ مسلمانوں میں دو تعلیمی نظام بالکل الگ الگ قسم کے مزاج پیدا کر رہے ہیں۔ ایک جدید تعلیمی نظام ہے جس میں لوگ اسلام سے بے گانہ ہوتے ہیں اور ان کی پوری ذہنیت مغربی علوم سے تیار ہوتی ہے۔ دوسرا قدیم تعلیمی نظام ہے جس کے فارغ التحصیل دینی علوم سے تو بخوبی واقف ہوتے ہیں مگر دنیا کے معاملات سے واقف نہیں ہوتے۔ میرا احساس یہ تھا کہ یہ دونوں گروہ بجائے اس کے کہ مسلمان قوم میں ایک مزاج پیدا کریں، دو مختلف اور متضاد مزاج پیدا کر رہے ہیں۔ ایک مزاج وہ ہے جو اس دنیا کا نظام چلانے کی قابلیت تو رکھتا ہے مگر ذہنی طور پر لادینیت کی طرف چلا جارہا ہے اور دوسرا مزاج وہ ہے جو دین داری کی حفاظت تو کر رہا ہے مگر اس دنیا کا انتظام چلانے کے قابل نہیں ہے۔ میں دیکھ رہا تھا کہ دونوں کے درمیان بعد بڑھتا جا رہا تھا حتیٰ کہ دونوں ایک دوسرے کی زبان تک سمجھنے سے قاصر ہیں۔ اس حالت کو دیکھ کر میرا یہ یقین بڑھتا جا رہا تھا کہ مسلمان جس نازک بحران سے دوچار ہیں اس سے بخیریت وہ نہیں گزر سکتے جب تک یہ بعد دور نہیں ہوتا۔
اب ذرا اس دور کی سیاسی صورت حال پر بھی ایک نظر ڈال لیجیے۔ ۱۹۲۸ء تک تو ہندوستان میں عام خیال یہ پایا جاتا تھا کہ آزادی کی کوئی تحریک مسلمانوں کو ساتھ ملائے بغیر نہیں چل سکتی، اور مسلمان بھی اس بھروسے پر تھے کہ کانگریس آزادی کے راستے پر ہمیں ساتھ لیے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتی۔ لیکن ۱۹۲۹ء تک پہنچتے پہنچتے گاندھی نے مسلمانوں کی اس کمزوری کو بھانپ لیا کہ یہ قوم بالکل پراگندہ ہو چکی ہے۔ اس کے اندر کوئی قیادت باقی نہیں رہی ہے۔ اس میں کوئی تنظیم باقی نہیں رہی ہے۔ اور اب میں صرف ہندوؤں کو لے کر انگریزی حکومت سے لڑ کر آزادی حاصل کر سکتا ہوں۔ ۱۹۲۹ء میں پہلی مرتبہ اس نے مسلمانوں کو مخاطب کرکے کہا کہ میں آزادی کی جنگ لڑوں گا، تم ساتھ آؤ تو تمہیں ساتھ لے کر، تم نہ آؤ تو تمہارے بغیر، اور تم مزاحمت کرو تو تمھاری مزاحمت کے باوجود۔ اس کے الفاظ یہ تھے کہ with you or without you or inspite of you جب اس شخص نے یہ بات کہی اسی وقت میں نے اندازہ کرلیا کہ اب اس ملک میں مسلمانوں کی خیر نہیں ہے، اس لیے کہ وہ واقعی اس وقت اس پوزیشن میں تھا کہ صرف ہندو قوم کو ساتھ لے کر انگریز قوم کو عاجز کر کے آزادی دینے پر مجبور کر سکتا تھا اور مسلمان اس بُری طرح بکھرے ہوئے تھے کہ وہ اس کا راستہ نہ روک سکتے تھے۔ اس نے مسلمانوں کو اس پوزیشن میں ڈال دیا کہ یا تو وہ غیر مشروط طور پر اس کی قیادت میں ہندو اقتدار قائم کرنے کے لیے آلہ کار بنیں یا خاموش تماشائی بن کر اپنی قسمت کا فیصلہ ہوتے دیکھتے رہیں، یا مزاحمت کر کے انگریزی اقتدار کی حمایت کا الزام اپنے سر لیں۔ بدقسمتی سے اس وقت مسلمانوں کے تین گروہوں نے یہ تینوں راستے اختیار کیے اور پوری قوم متحد ہو کر کسی ایک قیادت کے تحت کوئی ایک راستہ اختیار نہ کر سکی۔ میں اس طوفان کو اُٹھتے دیکھ رہا تھا، اس کے نتائج کو بھی سمجھ رہا تھا، مگر اس وقت میری یہ حیثیت نہ تھی کہ اس کے مقابلے میں کچھ کر سکتا۔ اپنی بے بسی پر کڑھنے کے سوا میرے لیے کوئی چارہ کار نہ تھا۔
اسی زمانے میں میں دہلی سے حیدرآباد منتقل ہو گیا۔ وہاں ایک ایسی بڑی ریاست قائم تھی جو اپنے رقبے کے اعتبار سے، اپنی آبادی کے اعتبار سے، اپنی آمدنی کے اعتبار سے، دنیا کی بعض آزاد حکومتوں سے بھی زیادہ بڑی تھی۔ مسلمان اس کے حکمران تھے۔ مسلمانوں کے بہترین دماغ وہاں جمع تھے۔ ایک بڑی حکومت کا نظام وہ چلا رہے تھے۔ اس کے وسائل صرف حیدرآباد ہی میں نہیں، اس کے باہر بھی ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے بڑی تقویت کا باعث بنے ہوئے تھے۔ اسی ریاست نے عثمانیہ یونیورسٹی ایسی عظیم یونیورسٹی قائم کر کے اُردو زبان کو تمام علوم کی اعلیٰ تعلیم کا ذریعہ بنا کر دکھا دیا تھا۔ وہاں پہنچ کر مسلمان یہ فخر محسوس کرتا تھا کہ ہندوستان میں ایک ایسی سرزمین بھی ہے جہاں مسلمان ایک عظیم سلطنت کا نظام چلا رہے ہیں۔ لیکن اس ظاہری خوش نما پردے کے پیچھے نگاہ ڈال کر میں نے دیکھا تو نظر آیا کہ نظام کی عظیم الشان حکومت کا قصر ریت پر کھڑا ہے۔ ریاست حیدرآباد میں مسلمانوں کی آبادی صرف ۱۵ فی صد تھی، باقی ۸۵ فی صد ہندو تھے۔ مسلمانوں کا تمام انحصار سرکاری ملازمتوں یا حکومت کے مناصب پر تھا۔ تجارت، صنعت و حرفت سب ہندوؤں کے ہاتھ میں تھی۔ مسلم آبادی شہروں میں سمٹی ہوئی تھی۔ دیہات میں مسلمان آٹے میں نمک کے برابر بھی نہ تھے۔ میں نے محسوس کیا کہ آزادی کی جو تحریک ہندوستان میں چل رہی ہے، اس کا ریلا جب یہاں پہنچے گا تو نظام کی حکومت کا یہ قصر جو اتنا عظیم الشان نظر آرہا ہے، ایک پل میں زمین پر آ جائے گا۔ میں نے وہاں کے بعض بااثر لوگوں سے بات کرکے ان کو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ خدارا یہاں اسلام کی تبلیغ کے لیے کچھ کرو تاکہ مسلمانوں کی آبادی بڑھے۔ مگر میں نے محسوس کیا کہ نظام کی حکومت گویا ایک افیون ہے جسے کھا کر مسلمان غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔ ان کو اگر کچھ فکر تھی تو صرف یہ کہ نظام کی حکومت کو تھا میں اور اس کی حفاظت کریں، لیکن یہ فکر نہیں تھی کہ اس کی جڑ کو مضبوط کریں، جو ظاہر ہے کہ اسلام کی اشاعت ہی سے مضبوط ہو سکتی تھی۔
یہ حالات تھے جب میں نے حیدرآباد سے ۱۹۳۲ء میں رسالہ ترجمان القرآن کی ابتدا کی۔ اس وقت کام کی جو ترتیب میرے ذہن میں تھی وہ یہ تھی کہ سب سے پہلے مغربی تہذیب و افکار کے اس غلبے کو توڑا جائے جو مسلمانوں کے ذہین طبقے پر مسلط ہو رہا ہے۔ یہ بات ان کے ذہن نشین کی جائے کہ اسلام اپنا ایک نظام زندگی رکھتا ہے، اپنا ایک نظام تہذیب رکھتا ہے، اپنا ایک سیاسی نظام رکھتا ہے، اپنا ایک معاشی نظام رکھتا ہے، اپنا ایک نظامِ فکر اور نظامِ تعلیم رکھتا ہے جو ہر لحاظ سے مغربی تہذیب اور اس کے متعلقات سے فائق ہے۔ یہ خیال ان کے دماغ سے نکالا جائے کہ تہذیب و تمدن کے معاملے میں انھیں کسی سے بھیک مانگنے کی کوئی ضرورت ہے۔ ان کو بتایا جائے کہ تمہارے پاس اپنا ایک پورا نظامِ زندگی موجود ہے جو دنیا کے تمام نظاموں سے بہتر ہے۔ بھر پور تنقید کر کے ان پر یہ واضح کیا جائے کہ مغرب کے جس نظام سے وہ مرعوب ہیں وہ اپنے ہر پہلو میں کیا کیا کمزوریاں رکھتا ہے۔
مجھے یہ کام کرتے ہوئے چند سال گزرے تھے کہ ۱۹۳۷ء میں مجھ کو حیدرآباد سے دہلی آنے کا اتفاق ہوا۔ اس سفر کے دوران میں نے محسوس کیا کہ ہندوستان کے چھے صوبوں میں کانگریس کی حکومت قائم ہو جانے کے بعد مسلمانوں پر کھلی کھلی شکست خوردگی کے آثار طاری ہو چکے ہیں۔ دہلی سے جب میں واپس حیدرآباد جا رہا تھا تو ریل میں ایک مشہور ہندو لیڈر ڈاکٹر کھرے اتفاق سے اسی کمپارٹمنٹ میں سفر کر رہے تھے جس میں میں تھا اور بہت سے مسلمان بھی اس میں موجود تھے۔ میں نے دیکھا کہ مسلمان، ڈاکٹر کھرے سے بالکل اس طرح باتیں کر رہے تھے جیسے ایک محکوم قوم کے افراد ایک حاکم قوم کے فرد سے کرتے ہیں۔ یہ منظر میرے لیے ناقابلِ برداشت تھا۔ حیدرآباد پہنچا تو یقین کیجیے کہ میری راتوں کی نیند اڑ گئی تھی۔ سوچتا رہا کہ یا اللہ اب اس سرزمین میں مسلمانوں کا کیا انجام ہونا ہے۔ آخر کار میں نے وہ سلسلہ مضامین لکھا جو مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش (حصہ اول) کے نام سے شائع ہوا ہے۔[14]
۱۹۳۸ء میں میں نے دیکھا کہ کانگریس اب اپنی اس پالیسی سے ایک قدم اور آگے بڑھا رہی ہے جس کا اعلان ۱۹۲۹ء میں کیا گیا تھا۔ اس وقت تو صرف یہی کہا گیا تھا کہ مسلمان آتے ہیں تو آئیں ورنہ ہم اپنی آزادی کی جنگ خود لڑیں گے،” مگر اب یہ نئی پالیسی بنائی گئی کہ مسلمانوں کو فرداً فرداً کانگرس کی تحریک میں جذب کر لیا جائے اور مسلمانوں کی کسی جماعت سے بحیثیت جماعت کوئی معاملے کی بات سرے سے ہو ہی نہ جائے۔ چنانچہ اسی غرض کے لیے مسلم رابطہ عوام کی مہم شروع کی گئی جس کے اصل کارکن (Muslim Mass Contact) ”مسلمان کمیونسٹ“ تھے اور غضب یہ ہے کہ اس کام میں علمائے کرام کا ایک گروہ بھی ان کا ساتھ دے رہا تھا۔ یہ گروہ اس بات کا قائل تھا کہ ہندو اور مسلمان مل کر ایک قوم بن سکتے ہیں اور اس ایک قوم کے اندر ایک ایسا جمہوری نظام رائج ہو سکتا ہے جس میں فیصلہ اکثریت کرنے والی ہو۔ اس پر میں نے وہ مضامین لکھنے شروع کیے جو ۱۹۳۸ء میں ”مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش“ (حصہ دوم) اور مسئلہ قومیت کے نام سے شائع ہوئے۔ اس وقت میرے پیش نظر اولین کام یہ تھا کہ مسلمانوں کی کسی طرح اپنی قومی شخصیت اور قومی انفرادیت فراموش نہ ہونے دوں اور ان کو غیر مسلم قومیت کے اندر جذب ہونے سے بچاؤں۔ ظاہر بات ہے کہ جو شخص بھی اسلام کو یہاں سربلند کرنا چاہے گا وہ ضرور یہ خیال کرے گا کہ میرے پاس پہلے سے جو سرمایہ موجود ہے وہ ضائع نہ ہو جائے، اس کے بعد وہ مزید سرمایہ حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔ جو لوگ پہلے سے کلمہ لا الہ الا اللہ کے قائل ہیں اور اپنے آپ کو مسلمان سمجھتے ہیں، پہلے ہمیں ان کی فکر ہونی چاہیے کہ کہیں وہ بھی ضائع نہ ہو جائیں۔ دوسروں کو مسلمان بنانے کی فکر تو بعد ہی میں کی جاسکتی ہے۔ اس لیے میں نے اپنا پورا زور اس کام میں صرف کر دیا کہ مسلمانوں کو غیر مسلم قومیت کے اندر جذب ہونے سے بچایا جائے اور ان کے اندر یہ احساس پیدا کیا جائے کہ تم اپنی ایک مستقل قومیت رکھتے ہو، تمہارے لیے کسی طرح یہ ممکن نہیں ہے کہ تم کسی دوسری قومیت میں ضم ہو جاؤ۔
اس کے بعد ۱۹۳۹ء اور اس کے بعد کا دور آیا۔ مسلم لیگ کی تحریک نے زور پکڑا۔ پاکستان کی تحریک اٹھنی شروع ہوئی جس نے آخر کار ۱۹۴۰ء میں قرارداد پاکستان کی شکل اختیار کی۔ اس زمانے میں جو بات میرے نزدیک اہم تھی وہ یہ تھی کہ مسلمانوں کو اس بات کا احساس دلایا جائے کہ تم محض ایک قوم نہیں اور تمھارا مقصود بھی محض ایک قومی حکومت کا قیام نہیں ہونا چاہیے۔ تم ایک مبلغ قوم ہو، تم ایک مشنری قوم ہو، تم اپنے مشن کو کبھی نہ بھولو۔ تمہیں وہ حکومت قائم کرنی چاہیے جو دنیا میں اسلام کے لیے ایک مشنری حکومت بن جائے۔ میں اس وقت یہ دیکھ رہا تھا کہ مسلمان قوم خدا کے فضل سے اب ہندو قوم کے اندر جذب ہونے سے تو بچ گئی ہے۔ اس کے اندر اپنی قومیت کا احساس اب اتنا مضبوط ہو گیا ہے کہ کسی نہرو اور کسی گاندھی کے بس کا یہ کام نہیں رہا ہے کہ ان کو ہندوؤں یا ہندوستانی قومیت کے اندر جذب کر سکے۔ اب جو مسئلہ میری نگاہ میں اہم تھا وہ یہ تھا کہ مسلمان قوم کو احساس دلایا جائے کہ اسلامی حکومت کیا چیز ہوتی ہے، اسے قائم کرنے کے لیے کس سیرت و کردار کی ضرورت ہے، کس طرح کی تحریک سے وہ قائم کی جاسکتی ہے، اور ایک اسلامی حکومت اور مسلمانوں کی قومی حکومت میں اصولاً اور عملاً کیا فرق ہوتا ہے۔ اسی غرض کے لیے میں نے وہ سلسلہ مضامین لکھنا شروع کیا جو بعد میں ”مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش“ (حصہ سوم) کے نام سے شائع ہوا۔ اس کے مضامین زیادہ تر ۱۹۳۹ء سے ۱۹۴۰ء تک لکھے گئے تھے اور اس کا کچھ حصہ ۱۹۴۱ء کا لکھا ہوا ہے۔
آج اس کے متعلق جس کا جو جی چاہے کہتا رہے، مجھے اس کی کوئی پروا نہیں۔ میں اپنی جگہ ایمان داری سے یہ سمجھتا ہوں کہ اس وقت میرا فرض یہی تھا کہ مسلمانوں کو اس بات کا احساس دلاؤں کہ محض قومی حکومت تمھارا مقصود نہیں ہونا چاہیے بلکہ تمھارا مقصود یہ ہونا چاہیے کہ تم ایک اسلامی حکومت قائم کرو اور ایک اسلامی حکومت قائم کرنے کے لیے جس سیرت و کردار کی ضرورت ہے وہ اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرو۔ لیکن جب میں نے دیکھا کہ میری آواز صدا بصحرا ثابت ہو رہی ہے تو پھر دوسرا قدم جو میری سمجھ میں آیا، یہ تھا کہ اپنی طرف سے ایک ایسی جماعت منظم کرنی چاہیے جو صاحب کردار لوگوں پر مشتمل ہو اور ان فتنوں کا مقابلہ کر سکے جو آگے آتے نظر آرہے تھے۔ جس وقت تحریک پاکستان اٹھنی ہے اور ۱۹۴۰ء میں قراردادِ پاکستان منظور ہوئی ہے، ظاہر بات ہے کہ اس وقت کوئی شخص بھی یقین کے ساتھ یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ ملک یقینا تقسیم ہو جائے گا اور پاکستان ضرور بن جائے گا۔ حتیٰ کہ ۱۹۴۷ء کے آغاز تک بھی یہ بات یقینی نہیں تھی کہ واقعی پاکستان بن جائے گا۔ اس وقت جو اہم ترین سوالات میرے سامنے تھے وہ یہ تھے کہ حالات جس رُخ پر جارہے ہیں ان میں ایک شکل تو یہ پیش آسکتی ہے کہ پاکستان کے لیے کوشش کر کے مسلم لیگ ناکام ہو جائے اور ہندوستان میں انگریز واحد ہندوستانی قومیت کی بنا پر ایک جمہوری حکومت قائم کر کے اسے ہندوؤں کے حوالے کر کے چلا جائے۔ اس صورت میں کیا کرنا ہو گا؟ دوسری شکل یہ پیش آسکتی ہے کہ مسلم لیگ اپنے مقاصد میں کامیاب ہو جائے اور ملک تقسیم ہو جائے۔ اس صورت میں جو کروڑوں مسلمان ہندوستان میں رہ جائیں گے ان کا کیا حشر ہوگا؟ اور خود پاکستان میں اسلام کا حشر کیا ہو گا؟ جس قسم کے عناصر پاکستان کی تحریک میں شامل ہو رہے تھے ان کو دیکھتے ہوئے میں یقینی طور پر یہ سمجھ رہا تھا کہ یہ عناصر جمع ہو کر ایک ملک بنا سکتے ہیں، ایک قومی حکومت قائم کر سکتے ہیں، لیکن ان عناصر سے کبھی یہ امید نہیں کی جاسکتی کہ یہ ایک اسلامی حکومت بنالیں گے۔ میں اس کو بالکل صاف دیکھ رہا تھا۔ مسئلہ ایک شخص کا یا چند اشخاص کا نہیں ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اس تحریک میں جو لوگ شامل ہو رہے تھے، جو اس میں پیش پیش تھے، جو اس تحریک کو چلا رہے تھے، ان کے کیریکٹر کو دیکھتے ہوئے، ان کی زندگیوں کو دیکھتے ہوئے، ان کی تعلیم، ان کے خیالات اور ان کی ہر چیز کو دیکھتے ہوئے ان سے کیا توقعات وابستہ کی جاسکتی تھیں۔ میں یہ اندازہ کر رہا تھا کہ یہ ایک ملک بنا سکتے ہیں لیکن اس کو اسلامی حکومت نہیں بنا سکتے۔
اب گویا تین مسئلے درپیش تھے۔ اگر ملک تقسیم نہ ہو تو مسلمانوں کو بچانے کے لیے کیا کیا جائے۔ ملک تقسیم ہو جائے تو جو مسلمان ہندوستان میں رہ جائیں گے ان کے لیے کیا کیا جائے۔ اور جو ملک مسلمانوں کے قبضے میں آئے گا اس کو مسلمانوں کی کافرانہ حکومت بننے سے کیسے بچایا جائے اور اسے اسلامی حکومت کے راستے پر کیسے ڈالا جائے۔ یہ موقع تھا جب میں نے قطعی طور پر یہ فیصلہ کر لیا کہ جماعت اسلامی کے نام سے ایک جماعت قائم کی جائے۔ کئی سال سے میں جن خیالات کی اشاعت کر رہا تھا، اگرچہ ان کی بنا پر مختلف حلقوں کی طرف سے مجھے گالیاں بھی دیجارہی تھیں، لیکن بہت سے لوگ ایسے بھی تھے جو ان سے متفق تھے اور سمجھتے تھے کہ حق بات یہی ہے جو میں کہہ رہا ہوں۔ انھی لوگوں کے اتفاق و اشتراک سے جماعت قائم کی گئی۔ جیسا کہ میں نے ابتدا میں آپ سے بیان کیا ہے، یہ اسکیم یکایک میرے دماغ میں نہیں آگئی تھی بلکہ بائیس سال تک جو کچھ میں دیکھتا رہا تھا، جو میرے مشاہدات اور تجربات تھے ان سب کو پیش نظر رکھ کر میں نے اس جماعت کی تشکیل کی اور وہ تمام احتیاطیں ملحوظ رکھیں جو ان مشاہدات کی بنا پر ضروری تھیں۔ اب ان میں سے ایک ایک چیز کو میں آپ کے سامنے بیان کرتا ہوں۔
میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ ۱۹۲۵ء سے میں یہ یقین رکھتا تھا کہ مسلمانوں کی نجات اسی میں ہے کہ وہ ایک مشنری قوم کی حیثیت اختیار کریں، اس بات کو نہ بھولیں کہ ایک مسلمان قوم ہونے کی حیثیت سے دنیا میں ان کا ایک مشن ہے، اور اس غلط فہمی میں نہ پڑ جائیں کہ وہ بھی دوسری قوموں کی طرح محض ایک قوم ہیں۔ اس لیے میں نے اولین چیز یہ پیش نظر رکھی کہ ان لوگوں کو جمع کیا جائے جن کے اندر مشنری اسپرٹ موجود ہو، جو اپنے اندر بھی یہ احساس رکھیں کہ ہم ایک مشنری قوم کے فرد ہیں اور مسلمان قوم کو بھی ایک مشنری قوم بنانے کی کوشش کریں۔
میں یہ بات بھی پہلے عرض کر چکا ہوں کہ ۱۹۲۶ء سے، جب کہ میں نے اپنی کتاب الجہاد فی الاسلام لکھی تھی، میرے دماغ میں یہ تصور پوری طرح مستحکم ہو چکا تھا کہ مسلمانوں کا اصل نصب العین اسلامی نظام زندگی کا قیام ہے۔ ان کا نصب العین اپنی ایک قومی حکومت کا قیام نہیں ہے بلکہ ان کا حقیقی نصب العین ایک ایسی ریاست قائم کرنا ہے جو دنیا میں اللہ کا کلمہ بلند کرے، جس کی تہذیب و ثقافت، جس کا معاشرتی نظام، جس کا معاشی نظام، جس کا اخلاقی ماحول، جس کی عدالت، جس کی پولیس، جس کے قوانین، جس کی فوج، جس کی سفارت، غرض جس کی ہر چیز دنیا کے سامنے اسلام کا نمونہ پیش کرنے والی ہو، جس کو دیکھ کر دنیا یہ جانے کہ اسلام اور کفر میں کیا فرق ہے اور اسلام ہر حیثیت سے کتنا بلند ہے۔ اسی چیز کو ہم نے جماعت اسلامی کا نصب العین قرار دیا۔ اسلام کی اصطلاح میں اس کا نام اقامت دین ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے کہ آنْ آقِیمُوا الدِّينَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِيهِ ۔
اس کے ساتھ جو چیز میں نے جماعت کی تشکیل میں پیش نظر رکھی وہ یہ تھی کہ جماعت ایسے افراد پر مشتمل ہونی چاہیے جو نہ صرف عقیدے میں مخلص ہوں بلکہ اپنی انفرادی سیرت و کردار میں بھی قابلِ اعتماد ہوں۔ میرے بائیس سال کے مشاہدات یہ بتا رہے تھے کہ مسلمانوں کی جماعتوں اور تحریکوں کو جس چیز نے آخر کار خراب کیا وہ اچھے لوگوں کے ساتھ بہت سے ناقابلِ اعتماد لوگوں کا شریک ہو جانا تھا۔ تحریک خلافت میں بڑے بڑے نیک اور فاضل اور بہترین اخلاق کے لوگ شامل تھے لیکن ایک کثیر تعداد اس میں ایسے کارکنوں کی بھی آکر شامل ہو گئی تھی جو سیرت و کردار کے لحاظ سے ناقص تھے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انھوں نے اپنے اعمال سے تحریک کو بدنام کیا، اپنے بہترین لیڈروں کو بدنام کیا۔ مسلمانوں نے جو لاکھوں کروڑوں روپیہ جمع کرکے اس کار خیر کے لیے دیا تھا، اس کا اچھا خاصا حصہ ان غلط کارکنوں کے ہاتھوں خورد برد ہوا اور ایک مدت دراز تک مسلمانوں میں چندے کا نام لینا مشکل ہو گیا کیونکہ عوام سے چندہ لے کر کام کرنے والے کارکنوں کا اعتماد اس بُری طرح مجروح ہو چکا تھا کہ مخلص اور نیک نیت کارکن بھی اگر کسی اچھے کام کے لیے لوگوں سے مالی مدد طلب کرتے تھے تولوگ سمجھتے تھے کہ یہ چندہ کھا جائیں گے۔
انھی مشاہدات کی بنا پر میں نے یہ رائے قائم کی کہ اصل اہمیت کثرتِ تعداد کی نہیں بلکہ قابلِ اعتماد سیرت و کردار رکھنے والے کارکنوں کی ہے۔ خواہ تھوڑے ہی افراد ملیں، مگر بہر حال ہماری جماعت صرف ایسے لوگوں پر مشتمل ہونی چاہیے جن میں سے ایک ایک فرد کی سیرت قابلِ اعتماد ہو، جس کے قول اور عمل پر لوگ بھروسا کر سکیں، جس کے ہاتھ میں مسلمان اپنا مال اطمینان کے ساتھ دے سکیں اور ان کو پورا یقین ہو کہ جس کام کے لیے یہ مال اس کے ہاتھ میں دیا جا رہا ہے، اسی کام میں یہ صرف ہو گا۔
اس کے ساتھ میں نے اپنے طویل تجربات و مشاہدات کے بعد یہ نتیجہ بھی اخذ کیا تھا کہ مسلمانوں کی تحریکوں کے ناکام ہونے یا ابتدا میں کامیاب ہو کر آخر کار ناکام ہو جانے کے اہم اسباب میں سے ایک سبب تنظیم کی کمی بھی ہے۔ میں نے فیصلہ کیا کہ جماعت اسلامی کا نظم نہایت سخت اور مضبوط ہونا چاہیے۔ اس میں ذرہ برابر بھی ڈھیل گوارا نہیں کرنی چاہیے، خواہ کوئی رہے یا جائے، عزیز سے عزیز آدمی بھی چلا جائے تو کوئی پروا نہ کی جائے لیکن تنظیم میں ڈھیل نہ ہونے دی جائے۔ اس لیے کہ ایک غیر منظم جماعت کبھی ایسی طاقتوں کا مقابلہ نہیں کر سکتی جو تنظیم کے ساتھ اُٹھنے والی ہوں۔ ایک قلیل التعداد جماعت اگر منظم ہو اور حکمت کے ساتھ کام کرے تو وہ پوری ایک قوم کو سنبھال سکتی ہے، لیکن لاکھوں انسانوں کی بھیڑ آپ جمع کرلیں اور اس کے اندر تنظیم نہ ہو تو وہ کوئی کام نہیں کرسکتی۔ اس بنا پر ہم نے جماعت میں شریک کرنے کے لیے ایک ایسا معیار تجویز کیا جو اسلام کی رُو سے مسلمان ہونے کی کم سے کم شرائط ہیں۔ اپنی طرف سے کوئی چیز ہم نے اضافہ نہیں کی۔ مسلمان کے اوپر اللہ تعالیٰ نے جو فرائض عائد کیے ہیں ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ ہمارا جو رکن بھی ہو وہ ان فرائض کا پابند ہو، ان فرائض کی ادایگی میں کوئی ڈھیل برداشت نہ کی جائے گی۔ اسی طرح اسلام نے جن چیزوں کو حرام کیا ہے، ہمارے ارکان میں کوئی ایسا نہیں ہونا چاہیے جو ان میں سے کسی کا ارتکاب کرنے والا ہو۔ ظاہر بات ہے کہ آپ لوگوں کو بُرائیوں سے روکنے کے لیے جائیں اور آپ خود ان میں سے کسی برائی میں مبتلا ہوں تو آپ کی تبلیغ کا آخر کیا اثر ہو گا؟[15]
تاہم ارکان جماعت کے علاوہ معاشرے میں ایسے بہت سے لوگ موجود ہیں جو ہمارے مقصد کو پسند کرتے ہیں اور ہم سے تعاون کرنا چاہتے ہیں، لیکن رکنیت کی پابندیاں اور جماعت کا ڈسپلن قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ان کے لیے ہم نے یہ طے کیا کہ انھیں متفق کی حیثیت سے اپنے ساتھ ملائیں تاکہ جتنی کچھ بھی وہ ہماری مدد کر سکتے ہوں، ہاتھ سے، پاؤں سے، زبان سے مال سے، جس چیز سے جتنا کچھ بھی وہ ہمارے ساتھ تعاون کر سکتے ہوں، کریں مگر متفق بن کر کریں اور جماعت کے نظم میں دخل نہ دیں۔ اس طرح سے ہم نے جماعت سے تعلق رکھنے والوں کی دو قسمیں بنا دیں جس پر روز اعتراض ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ صاحب اس جماعت کے اندر عجیب صورت حال ہے کہ ارکان صرف چند لوگ ہیں باقی سب متفق ہیں۔ حالانکہ یہ اعتراض صرف دُور سے کھڑے ہو کر دیکھنے والے ہی کرتے ہیں۔ خدا کے فضل سے جو لوگ ہمارے متفقین میں شامل ہوئے ہیں وہ اس بات پر مطمئن ہیں کہ جماعت کا یہی نظم ٹھیک ہے۔ دراصل کسی متفق کے لیے بھی ہمارے ہاں رکنیت کا دروازہ بند نہیں ہے۔ جس وقت بھی وہ چاہے رکنیت کی شرائط پوری کرکے اور جماعت کا ڈسپلن قبول کرکے رکنیت کی درخواست دے دے۔ ہم تو خود چاہتے ہیں اور بار بار کہتے ہیں کہ ہمارے متفقین رکن جماعت بننے کی کوشش کریں۔ مگر یہ ان کی اپنی ہی مجبوریاں ہیں جن کی وجہ سے وہ رکنیت اور نظم جماعت کی پابندیاں قبول کرنے سے اپنے آپ کو عاجز پاتے ہیں اور متفق بن کر دامے، درمے، سخنے جماعت کے ساتھ ہر وہ تعاون کر رہے ہیں جو ان کے امکان میں ہے۔ انھیں اس بات کی کوئی شکایت نہیں ہے کہ ان کو متفق بنا کر کیوں رکھا گیا ہے۔
ایک اور چیز جس کو ہم نے جماعت کی تشکیل میں پیش نظر رکھا وہ یہ تھی کہ جدید اور قدیم تعلیم یافتہ، دونوں قسم کے عناصر کو ملا کر ایک تنظیم میں شامل کیا جائے، اور یہ دونوں مل کر اسلامی نظام قائم کرنے کے لیے ایک تحریک چلائیں۔ اپنے سابقہ تجربات کی بنا پر میری یہ رائے تھی کہ خالص جدید تعلیم یافتہ لوگوں کی جماعت چاہے اپنی جگہ اسلام کے معاملے میں کتنی ہی مخلص ہو، لیکن چونکہ وہ دین کو نہیں جانتی اس لیے تنہا وہ ایک دینی نظام قائم نہیں کر سکتی۔ اسی طرح محض دینی تعلیم پائے ہوئے لوگ اگرچہ وہ دین کو خوب جانتے ہیں مگر چونکہ انھوں نے وہ تعلیم حاصل نہیں کی جس سے وہ ایک جدید دور میں ایک جدید ریاست کا نظام چلا سکیں، اس لیے صرف ان پر مشتمل کوئی خالص مذہبی جماعت بھی نہ دینی نظام قائم کر سکتی ہے نہ اسلام کی بنیاد پر جدید دور میں ایک اسلامی ریاست کا انتظام کر سکتی ہے۔
ان وجوہ سے میرے نزدیک یہ ناگزیر تھا کہ ان دونوں گروہوں کو ملایا جائے۔ جماعت کے اندر جدید تعلیم یافتہ طبقے میں سے ایسے سب لوگوں کو شامل کیا جائے جو نہ صرف مخلص مسلمان ہوں بلکہ اسلامی احکام پر عمل کرنے کے لیے بھی تیار ہوں اور جن کا ذہن اس حد تک مومن ہو کہ کسی بات کو تسلیم کرنے کے لیے وہ عقلی دلیل کو شرط نہ سمجھتے ہوں بلکہ یہ دلیل ان کے لیے کافی ہو کہ اللہ اور اس کے رسول کی تعلیم کا یہ حکم ہے، اور جب ان کو معلوم ہو جائے کہ اللہ اور رسول کا یہ حکم ہے تو پھر وہ بلا تامل سرجھکا دیں۔ اسی طرح ان دین دار علما کو بھی اس میں شامل کر لیا جائے جن کے اندر گروہی تعصب موجود نہ ہو اور جو خود اس بات کی ضرورت سمجھتے ہوں کہ اس دور میں اسلامی نظام قائم کرنے کے لیے انھیں جدید تعلیم یافتہ لوگوں کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہیے۔[16]
یہ جماعت اسلامی کی خصوصیات میں سے ایک اہم خصوصیت ہے کہ اس نے جدید اور قدیم تعلیم یافتہ لوگوں کو ملاکر ایک مزاج اور ایک طرزِ فکر رکھنے والی مشنری قیادت فراہم کی ہے ورنہ اس سے پہلے علما جب کبھی جدید تعلیم یافتہ لوگوں کے ساتھ ملے ہیں محض ایک مددگار قوت کی حیثیت سے ملے ہیں۔ قیادت میں ان کا کوئی حصہ نہیں رہا ہے۔ ان کا ایک گروہ کانگریس کی طرف گیا، اور دوسرا گروہ مسلم لیگ کی طرف۔ مگر نہ کانگریس کی پالیسیاں بنانے میں ان کا کوئی حصہ تھا، نہ مسلم لیگ کی پالیسیاں بنانے میں۔ ان کا کام صرف یہ تھا کہ جس قیادت کی بھی وہ تائید کریں۔
جماعت نے یہ کوشش بھی کی کہ ہر فرقے اور مسلک کے مسلمانوں کو ایک جگہ جمع کیا جائے۔ ظاہر بات ہے کہ اصل اسلام قرآن و سنت کو ماخذ قانون ماننے کا نام ہے اور ہر وہ شخص مسلمان ہے جو ان دونوں چیزوں کو قانون کا ماخذ مانتا ہو۔[17]
لیکن ہر مسئلے میں قرآن و سنت کے احکام و ارشادات کی لازماً صرف ایک ہی تعبیر نہیں ہو سکتی بلکہ مختلف تعبیریں ممکن ہیں اور عملاً کی بھی گئی ہیں جن کی بدولت مسلمانوں میں مختلف مکاتب فکر رکھنے والے گروہ پائے جاتے ہیں۔ اب اگر ہم اپنے اندر یہ رواداری پیدا نہیں کریں گے کہ ہم میں سے جو گروہ جس تعبیر کو صحیح سمجھتا ہو اس پر خود عمل کرے اور دوسرے گروہ پر اپنی تعبیر کو زبردستی نہ ٹھونسے بلکہ اس کا بھی یہ حق تسلیم کرے کہ جو تعبیر اس کے نزدیک صحیح ہے اس پر وہ عمل کرتا رہے، تو ہمارے لیے مل کر کام کرنا اور پورے ملک میں قرآن و سنت کا قانون نافذ کر دینا کسی طرح ممکن نہ ہو گا۔ اس لیے لامحالہ ہمیں مسالک کے اختلاف کو صرف مسالک کے اختلافات کی حد تک رکھنا ہو گا، ان کی بنا پر اپنے آپ کو الگ الگ امتیں بنا لینا اور اپنی الگ الگ تنظیمات قائم کرنا مناسب نہ ہوگا۔ جماعت اسلامی نے اسی بنا پر یہ طے کیا کہ سب مسلکوں کے لوگ اس بات پر اتفاق کریں کہ ہمیں وہ نظام قائم کرنا ہے جس کی بنیاد قرآن اور سنت کی تعلیمات پر ہو اور اس غرض کے لیے وہ ایک ہی تنظیم میں شامل ہو کر کام کریں۔ اس طرح جماعت نے ہر فرقہ و مسلک کے لوگوں کو اپنے ساتھ ملایا۔ اس کے اندر اہل حدیث بھی ہیں، بریلوی بھی ہیں، دیوبندی بھی ہیں۔ شیعہ حضرات میں سے ابھی تک کوئی رکن تو نہیں بنا ہے لیکن متفقین میں اچھی خاصی تعداد ان کی بھی موجود ہے۔ جماعت اسلامی بنی ہی اس اصول پر ہے کہ آپ اپنا جو مسلک بھی رکھتے ہوں اس پر عمل کیجیے مگر دوسرے پر زبردستی اس کو نہ ٹھونسے۔ جس عمل کو آپ صحیح نہیں سمجھتے وہ نہ کیجیے۔ لیکن اس بات کا مطالبہ بھی نہ کیجیے کہ دوسرا بھی اسے صحیح نہ سمجھے اور اسے چھوڑ دے۔ اس کے بعد ہم سب مل کر اسلامی نظام قائم کرنے کی کوشش کریں۔[18]
اس فکر، ان مقاصد، ان عزائم اور منزل کے واضح شعور کے ساتھ ۷۵ اللہ کے بندوں نے مسلمانوں کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی تعلیم کے بتائے ہوئے راستے کی طرف بلانے اور ان کو منظم کرکے اُمت کو اس کے اصل کام پر گامزن کرنے کا عہد کیا اور عشق اور جنون کے جذبات سے سرشار ہوکر دنیا کو بدلنے کے انقلابی سفر کا آغاز کیا۔ آگے کے مراحل کو طے کرنے کے لیے دو چیزیں ضروری تھیں ایک جماعت کے نصب العین، لائحہ عمل اور طریق کار کا واضح تصور اور ادراک اور دوسرا اس کے لیے تنظیم اور تربیت کے خطوط کار کا تعین اور ان پر عمل کا پروگرام۔ داعی نے ابتدا ہی میں اپنے ان ساتھیوں کو پوری طرح اعتماد میں لے کر آنے والے مراحل کے بارے میں متنبہ کیا اور کمر بستہ ہونے کی دعوت دی۔
یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے
جماعت اسلامی کی تشکیل کا استقبال مختلف طور پر ہوا ہے۔ کچھ اللہ کے بندے تو ایسے ملتے ہیں جو اس چیز سے واقف ہوتے ہی اسے اس طرح قبول کرتے ہیں کہ گویا کہ وہ پہلے ہی سے اس کے طالب تھے۔ کچھ دوسرے لوگ اس پر غور کرتے ہیں اور مختلف قسم کے شبہات پیش کر کے مزید توضیح چاہتے ہیں۔ کچھ اور لوگوں کے دل نے گواہی دے دی کہ اگر مخالفت کے لائق کوئی چیز ہے تو یہی ہے، اور ایک گروہ کثیر بس انتظار کی روش کو ترجیح دے رہا ہے۔ یہ سب مختلف قسم کے استقبال خلاف توقع نہیں ہیں۔ پہلے ہی ان کا اندازہ تھا۔ البتہ جو چیز ہمارے اندازے سے بڑھ کر نکلی وہ لبیک کہنے والوں کی تعداد اور ان کی کیفیت ہے۔ ہندوستان کے اس قبرستان میں مشکل ہی سے یہ امید کی جاسکتی تھی کہ اس طرز کے ایک نظام کو قبول کرنے اور اس پر کام کرنے کے لیے ڈیڑھ سو سے زائد آدمی ابتدا ہی سے اُٹھ کھڑے ہوں گے اور یہ بات اور بھی کم متوقع تھی کہ اس خیر پر لبیک کہنے والے زیادہ تر وہ لوگ ہوں گے جو روح و ضمیر کی ان قتل گاہوں سے سند موت لے کر نکلے تھے جن کو کالج اور یونیورسٹی کہتے ہیں۔ ان سب سے بڑھ کر یہ بات امید افزا ہے کہ جن لوگوں نے پیش قدمی کی ہے، ان میں سے اکثر کے طرز اقدام سے کافی حزم و احتیاط اور احساسِ ذمہ داری کا اظہار ہو رہا ہے۔ وہ اس تحریک اور دوسری تحریکوں کے فرق کو سمجھتے ہوئے آرہے ہیں۔ انھیں احساس ہے کہ وہ کھیل کے میدان میں نہیں آرہے ہیں بلکہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھ رہے ہیں۔ اس لیے وہ واضح احتیاط کے ساتھ اپنے نفس کا احتساب کرتے ہوئے بڑھ رہے ہیں کہ جو قدم بھی خدائی راہ میں اُٹھے، پھر پیچھے نہ پلٹے۔...
جماعت اسلامی کا ابتدائی پروگرام اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ ایک طرف اس میں شامل ہونے والے افراد اپنے نفس اور اپنی زندگی کا تزکیہ کریں اور دوسری طرف جماعت سے باہر جو لوگ ہوں (خواہ وہ قومی مسلمان ہوں یا غیر مسلم) ان کو بالعموم حاکمیت غیر اللہ کا انکار کرنے اور حاکمیت رب العالمین کو تسلیم کرنے کی دعوت دیں۔ اس دعوت کی راہ میں جب کوئی قوت حائل ہو، خواہ وہ کوئی قوت ہو، تو ان کو اس کے علی الرغم اپنے عقیدے کی تبلیغ کرنی ہوگی اور اس تبلیغ میں جو مصائب بھی پیش آئیں اُن کا مردانہ وار مقابلہ کرنا ہو گا۔
بعد کے مراحل کے متعلق اس وقت کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ جیسے حالات پیش آئیں گے انھی کے لحاظ سے قدم اُٹھایا جائے گا۔ لوگوں کو سمجھ لینا چاہیے کہ ایک مضبوط جمے ہوئے اور زمین پر چھائے ہوئے دین (نظامِ اطاعت غیر اللہ) کو اُکھاڑ کر دوسرے دین (نظام اطاعت الہی) کو قائم کرنا بہر حال آسان نہیں ہے۔ اس میں جان، مال اور ہر چیز کا زیاں ہے۔ لہذا وہی لوگ آگے بڑھیں جو تمام فائدوں اور آسایشوں کی قربانی اور تمام نقصانات برداشت کرنے کے لیے تیار ہوں۔[19]
قیام جماعت کے فوراً بعد جماعت اسلامی کے دستور اور داعی تحریک کی تقاریر میں نصب العین، لائحہ عمل اور حقیقی اہداف کا واضح الفاظ میں تعین کیا گیا۔ اسے داعی یوں بیان کرتا ہے۔
تشکیل جماعت کے ساتھ پہلے ہی اجتماع میں جو دستور وضع کیا گیا اس میں جماعت کا نصب العین اور اس کی تمام سعی و جہد کا مقصود یہ قرار دیا گیا کہ ”دنیا میں حکومت الہیہ کا قیام، اور آخرت میں رضاے الہی کا حصول۔ پھر حکومت الہیہ کی تشریح ان الفاظ میں کی گئی کہ اس سے مراد اللہ کی تکوینی حکومت نہیں بلکہ اس کی شرعی حکومت ہے، یعنی اُس قانون کی حکومت جو رسولوں کے واسطے سے آتا ہے، جس کا تعلق عقائد، اخلاق، معاشرت، تمدن اور سیاست وغیرہ سے ہے، اور مومن کی زندگی کا مشن یہ بیان کیا گیا کہ جس طرح خدا کا قانون تکوینی تمام کائنات میں نافذ ہے اسی طرح خدا کا قانونِ شرعی بھی عالم انسانی میں نافذ ہو”۔ نیز یہ بھی صراحت کردی کہ یہ کام فی الاصل تو نصیحت، فہمایش، ترغیب اور تبلیغ ہی سے کرنے کا ہے، لیکن جو لوگ ملک خدا کے ناجائز مالک بن بیٹھتے ہیں وہ عموماً اپنی خداوندی سے محض نصیحتوں کی بنا پر دست بردار نہیں ہو جایا کرتے، اس لیے مجبوراً مومن کو جنگ کرنی پڑتی ہے تاکہ حکومت الہیہ کے قیام میں جو چیز سدِ راہ ہو، اسے راستے سے ہٹا دے۔
یہ دستور گیارہ سال تک جماعت اسلامی کا دستور رہا۔ پھر اگست ۱۹۵۲ء میں جماعت اسلامی پاکستان نے اپنے لیے جو نیا دستور بنایا، اس کی دفعہ ۴ میں وہی نصب العین ان الفاظ میں درج کیا گیا:
عملاً اقامت ِ دین (یعنی حکومت الہیہ یا اسلامی نظام زندگی کا قیام) اور حقیقتاً رضاے الہی اور فلاح اُخروی کا حصول۔
اور اس کی تشریح میں وہی مضمون جو سابق دستور میں تھا، یوں ادا کیا گیا:
اقامت ِ دین سے مقصود دین کے کسی خاص حصے کی اقامت نہیں ہے بلکہ پورے دین کی اقامت ہے، خواہ اس کا تعلق انفرادی زندگی سے ہو یا اجتماعی زندگی سے۔ نماز، روزے اور حج و زکوۃ سے ہو یا معیشت و معاشرت اور تمدن و سیاست سے۔ اسلام کا کوئی حصہ بھی غیر ضروری نہیں ہے۔ پورے کا پورا اسلام ضروری ہے۔ ایک مومن کا کام یہ ہے کہ اس پورے اسلام کو کسی تجزیے و تقسیم کے بغیر قائم کرنے کی جدوجہد کرے۔ اس کے جس حصے کا تعلق افراد کی اپنی ذات سے ہے، ہر مومن کو اسے بطورِ خود اپنی زندگی میں قائم کرنا چاہیے اور جس حصے کا قیام اجتماعی جدوجہد کے بغیر نہیں ہو سکتا، اہل ایمان کو مل کر اس کے لیے اجتماعی نظم اور سعی کا اہتمام کرنا چاہیے۔
اگرچہ مومن کا اصل مقصد زندگی رضاے الہی کا حصول اور آخرت کی فلاح ہے، مگر اس مقصد کا اصول اس کے بغیر ممکن نہیں ہے کہ دنیا میں خدا کے دین کو قائم کرنے کی کوشش کی جائے۔ اسی لیے مومن کا عملی نصب العین اقامت دین اور حقیقی نصب العین وہ رضاے الہی ہے جو اقامت دین کی سعی کے نتیجے میں حاصل ہو گی۔
منشورِ جماعت میں نصب العین کی تشریح
دستور کے بعد ایک جماعت کی اہم ترین دستاویز اس کا منشور ہوتا ہے۔ ۱۹۵۱ء میں صوبائی انتخابات کے موقع پر جماعت اسلامی نے اپنا جو منشور شائع کیا تھا، اس کے پہلے ہی صفحہ پر وہ اپنے مقصد وجود کو اس طرح پیش کرتی ہے:
جماعت ان محدود معنوں میں کوئی سیاسی یا مذہبی یا اصلاحی جماعت نہیں ہے جن میں عام طور پر یہ الفاظ بولے جاتے ہیں، بلکہ وسیع معنوں میں ایک اصولی جماعت ہے جو پوری انسانی زندگی کے لیے ایک جامع اور عالم گیر نظریۂ حیات پر یقین رکھتی ہے اور اپنے اُس نظریے کو انسانی عقائد و افکار میں، اخلاق اور عادات میں، علوم و فنون میں، ادب اور آرٹ میں، تمدن و تہذیب میں، مذہب اور معاشرت میں، معاشی معاملات میں، سیاست اور نظم مملکت میں، اور بین الاقوامی تعلقات و روابط میں عملاً نافذ کرنا چاہتی ہے۔ اس جماعت کے نزدیک دنیا کے بگاڑ کا حقیقی سبب خدا کی اطاعت سے انحراف، آخرت کی جواب دہی سے بے نیازی، اور انبیاء علیہم السلام کی رہنمائی سے روگردانی ہے۔ یہ جماعت نوعِ انسانی کے لیے فلاح کی صرف ایک ہی صورت دیکھتی ہے، اور وہ یہ ہے کہ انسانی زندگی کا پورا نظام اپنے تمام شعبوں اور گوشوں سمیت خدائے واحد کی بندگی و اطاعت کے اصول پر قائم ہو۔ اس بندگی و اطاعت کے لیے انبیاء علیہم السلام کی اُس رہنمائی کو سند مانا جائے جو آج اپنی صحیح و کامل صورت میں صرف سیدنا محمد ﷺ کی تعلیم ہی میں موجود ہے، اور افراد کی سیرتوں سے لے کر قوموں کے اجتماعی طرزِ عمل تک ہر چیز کو اُس اخلاقی رویے پر قائم کیا جائے جس کی بنیاد آخرت کی جواب دہی کے احساس پر رکھی گئی ہو۔
اجتماعات عام میں نصب العین کی توضیحات
دستور اور منشور کے بعد تیسری اہم ترین سند وہ تصریحات ہیں جو ارکانِ جماعت کے عام اجتماعات میں کی جاتی ہیں، خواہ وہ کسی جماعتی قرارداد کی صورت میں ہوں یا خطبہ امارت کی شکل میں۔ کیونکہ ایسے مواقع پر امیر جماعت جو کچھ کہتا ہے وہ کسی شخص کی ذاتی رائے نہیں ہوتی بلکہ پوری جماعت اسے سند قبول عطا کرتی ہے۔ میں آپ کے سامنے جماعت کی رُودادوں سے نصب العین کی وہ توضیحات پیش کروں گا جو پے در پے اجتماعات عام میں کی گئی ہیں۔
اگست ۱۹۴۱ء کا اولین اجتماع جس سے اس جماعت کے وجود کا آغاز ہوا، اُس میں مقصد سعی یہ بیان کیا گیا تھا کہ ”دین کو ایک تحریک کی صورت میں جاری کیا جائے“۔ اور اس کی تشریح یہ کی گئی تھی کہ ہماری زندگی میں دین داری محض ایک انفرادی رویے کی صورت میں جامد و ساکن ہو کر نہ رہ جائے بلکہ ہم اجتماعی صورت میں نظام دینی کو عملاً نافذ و قائم کرنے اور مانع و مزاحم طاقتوں کو اس کے راستے سے ہٹانے کے لیے جدوجہد بھی کریں۔“
آگے چل کر اسی سلسلے میں کہا گیا تھا:
یہ بات ہر اُس شخص کو جو جماعت اسلامی میں آئے، اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ جو کام اس جماعت کے پیش نظر ہے وہ کوئی ہلکا اور آسان کام نہیں ہے۔ اسے دنیا کے پورے نظامِ زندگی کو بدلنا ہے۔ اسے دنیا کے اخلاق، سیاست، تمدن، معیشت، معاشرت ہر چیز کو بدل ڈالنا ہے۔ دنیا میں جو نظامِ حیات خدا سے بغاوت پر قائم ہے اُسے بدل کر خدا کی اطاعت پر قائم کرنا ہے اور اس کام میں تمام شیطانی طاقتوں سے اس کی جنگ ہے۔[21]
۱۹۴۵ء کے اجتماع دارالاسلام میں ”دعوت اسلامی اور اس کا طریق کار“ کے عنوان پر ایک مفصل تقریر کی گئی تھی۔ اُس میں جماعت اسلامی کا مقصد یہ بیان ہوا تھا:
ہمارے پیش نظر صرف ایک سیاسی نظام کا قیام نہیں ہے، بلکہ ہم چاہتے ہیں کہ پوری انسانی زندگی انفرادی اور اجتماعی میں وہ ہمہ گیر انقلاب رونما ہو جو اسلام رُونما کرنا چاہتا ہے، جس کے لیے اللہ نے اپنے انبیا کو مبعوث کیا تھا، اور جس کی دعوت دینے اور جدوجہد کرنے کے لیے ہمیشہ انبیاء علیہم السلام کی امامت و رہنمائی میں اُمت مسلمہ کے نام سے ایک گروہ بنتا رہا ہے۔
پھر اس دعوت کا خلاصہ حسب ذیل تین نکات کی شکل میں پیش کیا گیا تھا:
- یہ کہ ہم بندگانِ خدا کو بالعموم اور جو پہلے سے مسلمان ہیں اُن کو بالخصوص اللہ کی بندگی کی دعوت دیتے ہیں۔
- یہ کہ جو شخص بھی اسلام قبول کرلے، یا اس کو ماننے کا دعویٰ اور اظہار کرے، اس کو ہم دعوت دیتے ہیں کہ وہ اپنی زندگی سے منافقت اور تناقض کو خارج کرے، اور جب وہ مسلمان ہے یا بنا ہے تو مخلص مسلمان بنے اور اسلام کے رنگ میں رنگ کر یک رنگ ہو جائے۔
- یہ کہ زندگی کا نظام جو آج باطل پرستوں اور فساق و فجار کی رہنمائی میں چل رہا ہے ، اور معاملات دنیا کی زمام کار جو خدا کے باغیوں کے ہاتھ میں آگئی ہے، ہم دعوت دیتے ہیں کہ اسے بدلا جائے اور رہنمائی و امامت، نظری اور عملی دونوں حیثیتوں سے، مومنین صالحین کے ہاتھوں میں منتقل ہو۔
اس کے بعد ان تینوں نکات کی تشریح کی گئی تھی۔ اللہ کی بندگی، جس کی طرف دعوت دینا جماعت کا اولین کام بتایا گیا تھا، اُس کا مطلب ان الفاظ میں بیان کیا گیا تھا:
انسان خدا کو پورے معنی میں الہ اور رب، معبود اور حاکم، آقا اور مالک، رہ نما اور قانون ساز، محاسب اور مجازی (جزا دینے والا) تسلیم کرے اور اپنی پوری زندگی کو، خواہ وہ شخصی ہو یا اجتماعی، اخلاقی ہو یا مذہبی، تمدنی و سیاسی اور معاشی ہو یا علمی و نظری، اسی ایک خدا کی بندگی میں سپرد کردے۔ بندگی حق کے اس مفہوم کا تقاضا یہ ہے کہ ہم سچے دل سے یہ چاہیں کہ جو طریق زندگی، جو قانون حیات، جو اصول تمدن و اخلاق، جو ضابطه معاشرت و سیاست، جو نظام فکر و عمل اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیا کے واسطے سے ہمیں دیا ہے، ہماری زندگی کا پورا کاروبار اُسی کی پیروی میں چلے اور ہم ایک لمحے کے لیے بھی، اپنی زندگی کے کسی چھوٹے سے چھوٹے شعبے کے اندر بھی، اس نظامِ حق کے خلاف کسی دوسرے نظام کے تسلط کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہ ہوں۔
منافقت، جسے زندگی سے خارج کرنا جماعت اسلامی کی دعوت کا دوسرا نکتہ قرار دیا گیا تھا، اس کی تشریح یہ کی گئی تھی:
منافقانہ رویے سے ہماری مراد یہ ہے کہ آدمی جس دین کی پیروی کا دعویٰ کرے، اس کے بالکل بر خلاف نظام زندگی کو اپنے اوپر حاوی و مسلط پاکر راضی اور مطمئن رہے، اس کو بدل کر اپنے دین کو اس کی جگہ قائم کرنے کی کوئی سعی نہ کرے، بلکہ اس کے برعکس اسی فاسقانہ و باغیانہ نظام زندگی کو اپنے لیے سازگار بنانے اور اس میں اپنے لیے آرام کی جگہ پیدا کرنے کی فکر کرتا رہے، یا اگر اس کو بدلنے کی کوشش بھی کرے تو اس کی غرض یہ نہ ہو کہ اس فاسقانہ نظام زندگی کی جگہ دین حق قائم ہو، بلکہ صرف یہ کوشش کرے کہ ایک فاسقانہ نظام ہٹ کر دوسرا فاسقانہ نظام اس کی جگہ قائم ہو جائے... ہمارا ایک نظام زندگی پر ایمان رکھنا اور دوسرے نظامِ زندگی میں راضی رہنا بالکل ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ مخلصانہ ایمان کا اولین تقاضا یہ ہے کہ جس طریق زندگی پر ہم ایمان رکھتے ہیں اسی کو ہم اپنا قانونِ حیات دیکھنا چاہیں ایمان تو اس میں کسی چھوٹی سے چھوٹی رکاوٹ کو بھی برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہو سکتا، کجا کہ پورے کا پورا دین کسی دوسرے نظام زندگی کا تابع مہمل بن کر رہ گیا ہو۔ دین کے کچھ اجزا پر عمل ہوتا بھی ہو تو صرف اس وجہ سے کہ غالب نظام زندگی نے اس کو بے ضرر سمجھ کر رعایتاً باقی رکھا ہو، اور ان رعایات کے ماسوا ساری زندگی کے معاملات دین کی بنیادوں سے ہٹ کر غالب نظام زندگی کی بنیادوں پر چل رہے ہوں، اور پھر بھی ایمان اپنی جگہ نہ صرف خوش اور مطمئن ہو، بلکہ جو کچھ بھی سوچے اسی غلبہ کفر کو اصولِ موضوعہ کے طور پر تسلیم کر کے سوچے! اس قسم کا ایمان چاہے فقہی اعتبار سے معتبر ہو، لیکن دینی لحاظ سے تو اس میں اور نفاق میں کوئی فرق نہیں ہے۔
اس کے بعد تیسرے نکتے، یعنی انقلاب امامت، یا انقلاب قیادت کی توضیح کرتے ہوئے کہا گیا تھا:
ہمارا اپنے آپ کو بندگی رب کے حوالے کر دینا، اور اس حوالگی و سپردگی میں ہمارا منافق نہ ہونا بلکہ مخلص ہونا، اور پھر ہمارا اپنی زندگی کو تناقضات سے پاک کر کے مسلم حنیف بننے کی کوشش کرنا لازمی طور پر اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ہم اُس نظام زندگی میں انقلاب چاہیں جو آج کفرو دہریت، فسق و فجور اور بداخلاقی کی بنیادوں پر چل رہا ہے، اور جس کے نقشے بنانے والے مفکرین اور جس کا انتظام کرنے والے مدبرین سب کے سب خدا سے پھرے ہوئے اور اس کی شرائع کے قیود سے نکلے ہوئے لوگ ہیں۔ جب تک زمام کار ان لوگوں کے ہاتھ میں رہے گی، جب تک علوم و فنون، آرٹ اور ادب، تعلیم و تدریس، نشر و اشاعت، قانون سازی اور تنفیذ قانون، مالیات، صنعت و حرفت اور تجارت، انتظام ملکی اور تعلقات بین الاقوامی، ہر چیز کی باگ ڈور یہ سنبھالے رہیں گے، کسی شخص کے لیے دنیا میں مسلمان کی حیثیت سے زندگی بسر کرنا اور خدا کی بندگی کو اپنا ضابطہ حیات بنا کر رہنا نہ صرف عملاً محال ہے، بلکہ اپنی آئندہ نسلوں کو اعتقاداً بھی اسلام کا پیرو چھوڑ جانا غیر ممکن ہے۔ اس کے علاوہ صحیح معنوں میں جو شخص بندۂ رب ہو، اس پر من جملہ دوسرے فرائض کے ایک اہم ترین فرض یہ بھی تو عائد ہوتا ہے کہ وہ خدا کی رضا کے مطابق دنیا کے انتظام کو فساد سے پاک اور صلاح پر قائم کرے۔ اور ظاہر بات ہے کہ یہ مقصد اس وقت تک پورا نہیں ہو سکتا جب تک زمام کار صالحین کے ہاتھ میں نہ ہو۔ فساق و فجار اور خدا کے باغی اور شیطان کے مطیع دنیا کے امام و پیشوا اور منتظم بھی رہیں اور پھر دنیا میں ظلم و فساد اور بداخلاقی و گمراہی کا دور دورہ بھی نہ ہو، یہ عقل اور فطرت کے خلاف ہے اور آج تجربہ و مشاہدہ سے کالشمس فی النہار یہ ثابت ہو چکا ہے کہ ایسا ہونا غیر ممکن ہے۔
پھر جماعت اسلامی کی تنظیم کا مدعا اس طرح بیان کیا گیا تھا:
ہماری دعوت صرف اسی حد تک نہیں ہے کہ دنیا کی زمام کار فساق و فجار کے ہاتھوں سے نکلے اور مومنین صالحین کے ہاتھوں میں آئے، بلکہ ایجاباً ہماری دعوت یہ ہے کہ اہل خیر و صلاح کا ایک ایسا گروہ منظم کیا جائے جو نہ صرف اپنے ایمان میں پختہ، نہ صرف اپنے اسلام میں مخلص و یک رنگ، نہ صرف اپنے اخلاق میں صالح و پاکیزہ ہو، بلکہ اس کے ساتھ اُن تمام اوصاف اور قابلیتوں سے بھی آراستہ ہو جو دنیا ی کارگاہِ حیات کو بہترین طریقے پر چلانے کے لیے ضروری ہیں، اور صرف آراستہ ہی نہ ہو بلکہ موجودہ کار فرماؤں اور کارکنوں سے ان اوصاف اور قابلیتوں میں اپنے آپ کو فائق تر ثابت کر دے۔[22]
۱۹۴۵ء کے اسی اجتماع میں ایک دوسری تقریر بھی کی گئی تھی جو رُودادِ جماعت، حصہ سوم میں درج ہے، اور ”تحریک اسلامی کی اخلاقی بنیادیں“ کے نام سے الگ بھی شائع ہو چکی ہے۔ اس میں کہا گیا تھا کہ:
ہماری جدوجہد کا آخری مقصود انقلاب امامت ہے، یعنی دنیا میں ہم جس انتہائی منزل تک پہنچنا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ فساق و فجار کی امامت و قیادت ختم ہو کر امامت ِ صالحہ کا نظام قائم ہو اور اس سعی و جہد کو ہم رضاے الہی کے حصول کا ذریعہ سمجھتے ہیں... دراصل فساق و فجار کی قیادت ہی نوعِ انسانی کے مصائب کی جڑ ہے اور انسان کی بھلائی کا سارا انحصار صرف اس بات پر ہے کہ دنیا کے معاملات کی سربراہ کاری صالح لوگوں کے ہاتھوں میں ہو۔ اگر کوئی شخص دنیا کی اصلاح چاہتا ہو اور فساد کو صلاح سے، اضطراب کو امن سے، بداخلاقیوں کو اخلاقِ صالحہ سے اور بُرائیوں کو بھلائیوں سے بدلنے کا خواہش مند ہو تو اس کے لیے محض نیکیوں کا وعظ اور خدا پرستی کی تلقین اور حُسنِ اخلاق کی ترغیب ہی کافی نہیں ہے بلکہ اس کا فرض ہے کہ نوع انسانی میں جتنے صالح عناصر اس کو مل سکیں انھیں ملا کر وہ اجتماعی قوت بہم پہنچائے جس سے تمدن کی زمام کار فاسقوں سے چھینی جاسکے اور امامت کے نظام میں تغیر کیا جاسکے۔
انسانی معاملات کے بناؤ اور بگاڑ کا آخری فیصلہ جس مسئلے پر منحصر ہے وہ یہ سوال ہے کہ معاملات انسانی کی زمام کار کس کے ہاتھ میں ہے۔ جس طرح گاڑی ہمیشہ اسی سمت میں چلا کرتی ہے جس میں ڈرائیور اس کو لے جانا چاہتا ہو، اور دوسرے لوگ جو گاڑی میں بیٹھے ہوں خواسته و ناخواستہ اسی سمت میں جانے پر مجبور ہو جاتے ہیں جدھر گاڑی جارہی ہو ، اسی طرح انسانی تمدن کی گاڑی بھی اسی سمت پر سفر کیا کرتی ہے جس سمت وہ لوگ جانا چاہتے ہیں جن کے ہاتھ میں تمدن کی باگیں ہوتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ زمین کے سارے ذرائع جن کے قابو میں ہوں، قوت و اقتدار جن کے ہاتھ میں ہو، عام انسانوں کی زندگی جن کے دامن سے وابستہ ہو، خیالات و افکار اور نظریات کو بنانے اور ڈھالنے کے وسائل جن کے قبضے میں ہوں، انفرادی سیرتوں کی تعمیر، اجتماعی نظام کی تشکیل اور اخلاقی قدروں کا تعین، جن کے اختیار میں ہو، ان کی رہ نمائی و فرماں روائی کے تحت رہتے ہوئے انسانیت بحیثیت مجموعی اُس راہ پر چلنے سے کسی طرح باز نہیں رہ سکتی جس پر وہ اسے چلانا چاہتے ہوں۔ یہ رہ نما و فرماں روا اگر خدا پرست اور صالح لوگ ہوں تو لا محالہ زندگی کا سارا نظام خدا پرستی اور خیر و صلاح پر چلے گا، بُرے لوگ بھی اچھے بننے پر مجبور ہوں گے، بھلائیوں کو نشوونما ہو گا اور برائیاں اگر مٹیں گی نہیں تو پروان بھی نہ چڑھ سکیں گی۔ لیکن اگر رہ نمائی و قیادت اور فرماں روائی کا یہ اقتدار اُن لوگوں کے ہاتھوں میں ہو جو خدا سے برگشتہ اور فسق و فجور میں سرگشتہ ہوں تو آپ سے آپ سارا نظامِ زندگی خدا سے بغاوت اور ظلم و بداخلاقی پر چلے گا۔ خیالات و نظریات، علوم و آداب، سیاست و معیشت، تهذیب و معاشرت، اخلاق و معاملات، عدل و قانون، سب کے سب بحیثیت مجموعی بگڑ جائیں گے، بُرائیاں خوب نشوونما پائیں گی اور بھلائیوں کو زمین اپنے اندر جگہ دینے سے اور پانی ان کو غذا دینے سے انکار کر دیں گے اور خدا کی زمین ظلم و جور سے لبریز ہوکر رہے گی۔ ایسے نظام میں بُرائی کی راہ چلنا آسان اور بھلائی کی راہ چلنا کیا معنی، اس پر قائم رہنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔
نصب العین، لائحہ عمل اور طریق کار کی وضاحت کے ساتھ داعی نے اولین اہمیت اس کام کو انجام دینے کے لیے صحیح مردان کار کی تیاری اور تربیت کو دی۔ ۱۹۷۰ء کی تقریر میں اس کو اس طرح بیان کرتے ہیں۔
اب میں مختصراً آپ کو بتاؤں گا کہ جماعت اسلامی میں جو لوگ شریک ہوتے ہیں ان کی تربیت کے لیے ہم نے کیا طریقہ اختیار کیا ہے۔ اگرچہ ہم تربیت گاہیں بھی قائم کرتے ہیں اور اسلامی لٹریچر کا مطالعہ بھی ان کو کراتے ہیں تاکہ وہ دین کو اچھی طرح سمجھیں لیکن ہمارے نزدیک اصل تربیت یہ ہے کہ آدمی اللہ کے دین کی طرف دعوت دینے کے لیے اُٹھ کھڑا ہو اور خلق خدا کے سامنے دین کو پیش کرے۔ یہ کام آدمی جب کرنے کے لیے اُٹھتا ہے تو اس کی زندگی میں جس پہلو سے بھی کوئی کمزوری ہوتی ہے فوراً لوگ اس پر انگلی رکھ دیتے ہیں کہ اپنے اندر یہ کمزوری لیے ہوئے تم ہمارے پاس کیا تبلیغ کرنے آئے ہو۔ یہ وہ تربیت ہے جو ہر اس شخص کو روز ملے گی جو تبلیغ دین کرے گا۔ ہر طرف سے لوگ اس کو مانجھ مانجھ کر صاف کریں گے یہاں تک کہ وہ آخر کار ایک کھرا مسلمان بن جائے گا۔ اسی طرح تزکیہ نفس کے لیے بھی ہمارا ایک خاص طریقہ ہے۔ ہمارا تزکیہ نفس یہ ہے کہ آپ اللہ کے دین کا کام کرتے ہوئے گالیاں کھائیں مگر کسی گالی کا جواب گالی سے نہ دیں۔ آپ پر جھوٹے الزامات لگائے جائیں لیکن جواب میں آپ جھوٹا الزام کسی پر نہ لگائیں۔ آپ کے سامنے طرح طرح کے لالچ آئیں مگر کوئی لالچ آپ کو سیدھی راہ سے نہ ہٹا سکے۔ آپ کو راہِ خدا میں چلتے ہوئے طرح طرح کے نقصانات اُٹھانے پڑیں اور آپ ٹھنڈے دل سے انھیں برداشت کرلیں۔ خوفناک طاقتیں سامنے آکر آپ کو ڈرائیں مگر آپ کسی سے ڈر کر اپنا وہ راستہ نہ چھوڑیں جسے آپ حق سمجھتے ہیں۔ میرے نزدیک تزکیہ نفس کا اس سے بڑا ذریعہ اور کوئی نہیں ہے، اور یہ تزکیہ نفس حجروں میں نہیں ہو سکتا، یہ صرف میدانِ عمل میں نکل کر ہی ہو سکتا ہے۔
عام طور پر ہمارے مخالفین ہم پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ یہ ایک فسطائی جماعت ہے اور اس کے اندر کوئی جمہوریت نہیں ہے۔ حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ جماعت اسلامی میں جتنی جمہوریت ہے شاید دنیا کی کسی جماعت میں بھی ایسی جمہوریت نہیں ہے۔ لیکن لوگ اس کو اس وجہ سے نہیں سمجھ سکتے کہ انھوں نے دنیا کی عام پارٹیوں کی طرح جماعت اسلامی کے متعلق کبھی یہ نہیں سنا کہ اس میں عہدے داروں کے انتخاب کے موقع پر مختلف اُمیدوار کھڑے ہوئے ہوں، ان کے درمیان کش مکش برپا ہوئی ہو، اور کوئی اُمیدوار عہدہ نہ ملنے کی بنا پر لڑ جھگڑ کر جماعت سے باہر نکل گیا ہو، یا جماعت کے اندر رہ کر لڑتا رہا ہو۔ چونکہ لوگ یہی منظر پارٹیوں میں دیکھنے کے عادی رہے ہیں، اور یہاں یہ نظر نہیں آتا، اس لیے وہ یہ گمان کرتے ہیں کہ یہاں شاید کسی فسطائی طریقے سے عہدے تقسیم ہوتے ہوں گے۔ لیکن حقیقت واقعہ اس کے برعکس ہے۔ جماعت نے ابتدا سے اپنے نظام کو نفسانیت سے پاک رکھنے اور اپنے کارکنوں کو بے غرض اور خالص نیک نیت کارکن بناکر رکھنے کے لیے یہ طے کر دیا تھا کہ ہمارے ہاں کوئی شخص کبھی کسی عہدے کا خود اُمیدوار نہ ہوگا، کوئی عہدہ حاصل کرنے کے لیے کسی قسم کی کوشش یا کنویسنگ نہ کرے گا، بلکہ اگر کسی کے اندر اُمیدواری کی بو بھی پائی گئی یا کوئی عہدہ نہ ملنے پر کبیدہ خاطری محسوس کی گئی تو اسے نہ صرف یہ کہ کسی عہدے کا اہل نہ سمجھا جائے گا بلکہ اس کی رکن جماعت ہونے کی اہلیت بھی مشتبہ ہو جائے گی۔ جماعت میں انتخابات کا طریقہ یہ ہے کہ امیر جماعت سے لے کر نیچے تک کے مناصب تک جس عہدے کے لیے بھی انتخاب مطلوب ہو، اس کے لیے ارکانِ جماعت کو براہِ راست پرچہ ہائے رائے دہندگی بھیج دیے جاتے ہیں اور ان سے کہا جاتا ہے کہ اس عہدے کے لیے آپ کے نزدیک جو شخص موزوں ہو اس کا نام لکھ دیجیے۔ اس کے لیے کوئی کنویسنگ نہیں ہوگی۔ کوئی شخص لوگوں سے جاکر یہ نہیں کہے گا کہ آپ مجھے ووٹ دیجیے، یا فلاں شخص کو ووٹ دیجیے۔ یہ ووٹر کا اپنا کام ہے کہ خود اپنی جگہ بیٹھ کر رائے قائم کرے کہ اس منصب کے لیے کون آدمی اس کی نگاہ میں موزوں ہے۔ وہ اس کا نام لکھ کر بھیج دے گا اور اس کے بعد کثرت رائے سے یہ فیصلہ ہو جائے گا کہ یہ منصب کس کو دیا جائے گا۔ اسی طریقے سے ہمارے ہاں انتخابات ہوتے رہے ہیں۔
جماعت اسلامی کے نظام کو خرابیوں سے پاک رکھنے کے لیے ہم نے جو طریقہ اختیار کیا ہے وہ یہ ہے کہ ارکان کے اجتماعات میں کھلا کھلا محاسبہ ہوتا ہے۔ صاف صاف غلطیوں کی نشان دہی ہوتی ہے۔ ارکان ہوں یا عہدے دار، سب پر بے لاگ تنقید ہوتی ہے۔ جس شخص میں کوئی کمزوری ہو یا جس سے کوئی غلطی سرزد ہوئی ہو، بے تکلف اس پر گرفت کی جاتی ہے اور اس کی اصلاح کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ارکانِ جماعت کے اجتماعات عام میں سب سے پہلے میں نے اپنے آپ کو تنقید کے لیے پیش کیا ہے۔ رفقا کو کھلی دعوت ہے کہ ”میرے اوپر جو اعتراض بھی ہو، مجھ سے جو شکایت بھی ہو، اسے بیان کریں، میں مجمع عام میں اس کی جواب دہی کروں گا“۔ بعض اوقات میرے اوپر اجتماعات میں ایسی سخت تنقید ہوئی ہے کہ نئے ارکان اسے سن کر پریشان ہو گئے ہیں کہ یہ کیا ہو رہا ہے کہ برسر عام امیر جماعت کی خبر لی جارہی ہے۔ مگر میں نے ان کو سمجھایا کہ ”بھائی یہی تو وہ ذریعہ ہے جس سے ہم جماعت کو درست رکھ سکتے ہیں، تم اس سے گھبراتے کیوں ہو؟ اگر میں اپنی جماعت کے لوگوں کو مطمئن نہ کر سکوں تو میں اس قابل نہیں ہوں کہ اس جماعت کو چلاؤں۔ ان لوگوں کو حق ہے کہ مجھ پر تنقید کریں، اور میرا فرض ہے کہ ان کو مطمئن کروں۔ اگر انھیں کوئی غلط فہمی ہوئی ہے تو اسے رفع کرکے انھیں مطمئن کروں گا اور اگر ان کا اعتراض صحیح ہے تو میں اپنی غلطی کا اعتراف کر کے اپنی اصلاح کروں گا“۔ اس طریقے سے آج تک ہم اپنی جماعت کو خرابیوں سے محفوظ رکھنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔
اب میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ جماعت میں شوریٰ کا طریقہ کیا ہے؟ اس جماعت کی پوری تاریخ میں شاید دو چار دفعہ ہی یہ نوبت آئی ہے کہ ووٹ لے کر اکثریت سے کوئی فیصلہ کیا گیا ہو، ورنہ ہم آج تک ہمیشہ یہی کوشش کرتے رہے ہیں کہ ہمارا جو فیصلہ بھی ہو اتفاق رائے سے ہو۔ ہم نے بعض اوقات کئی کئی روز تک اس لیے بحث جاری رکھی ہے کہ ہماری مجلس شوری کا ایک آدمی مطمئن نہیں ہو رہا تھا۔ بارہا ایسا ہوا کہ مجلس شوریٰ کے ارکان طول بحث سے گھبرا اٹھتے تھے اور مطالبہ کرتے تھے کہ ووٹ لے کر کثرتِ رائے سے فیصلہ کر دیا جائے، مگر میں نے ان کو سمجھایا کہ ہم جس کام کو لے کر چل رہے ہیں اس کے لیے پوری جماعت کا مطمئن ہو کر چلنا ضروری ہے، اس لیے اگر مجلس شوریٰ کے ایک آدمی کے دل میں بھی کوئی کھٹک ہے تو اسے دُور کرنے کی آخر وقت تک کوشش کیجیے اور ووٹ لے کر صرف اس وقت فیصلہ کیجیے جب اس کے سوا کوئی چارہ نہ رہے۔ اسی کا نتیجہ یہ ہے کہ ہماری مجلس شوریٰ میں جو فیصلے بھی ہوتے رہے ہیں، پوری جماعت پورے اطمینان کے ساتھ ان کو لے کر چلی ہے۔
اس نظام تربیت اور تنظیم کے ساتھ جماعت اسلامی نے اگست ۱۹۴۱ء میں منظم جدوجہد کا آغاز کیا۔ قیامِ پاکستان تک کل ہند بنیادوں پر کام ہوتا رہا اور تقسیم کے بعد جماعت نے یہ اصولی فیصلہ کیا کہ پاکستان اور ہندوستان میں جماعت اسلامی اپنے اپنے حالات کے مطابق اپنے اپنے دستور کے تحت اور اپنی اپنی قیادت کی رہنمائی میں دعوت اور تبدیلی کی جدوجہد انجام دے گی۔ ۱۹۴۱ء کے بعد کے سفر کی داستان داعی ہی کے الفاظ میں سنیے کہ اس کی روشنی میں بعد کے مراحل اور ان میں تحریک کے کردار کو سمجھنا مستقبل کے حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے ضروری ہے۔
جماعت کی ابتدا اگست ۱۹۴۱ء میں ۷۵ ارکان اور ۷۴ آنے کے سرمایے سے ہوئی تھی صرف دو آنے کی کسر تھی ورنہ ارکان اور سرمایے کے درمیان کچھ فرق نہ ہوتا)۔ اپنے قیام کے دس مہینے بعد ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ لاہور سے مرکز کو منتقل کر دیا جائے اور جون ۱۹۴۲ء میں ہم ایک گاؤں میں جا بیٹھے جو دارالاسلام کے نام سے موسوم تھا اور پٹھان کوٹ سے چار میل کے فاصلے پر واقع تھا۔ یہ فیصلہ ہم نے اس لیے کیا تھا کہ اس وقت ملک میں قیام پاکستان کے لیے ایک زبردست تحریک چل رہی تھی اور ہم یہ مناسب نہیں سمجھتے تھے کہ شہر میں بیٹھ کر اپنا کام کریں اور تحریک کے ساتھ خواہی نخواہی کوئی مزاحمت کی صورت پیدا ہو جائے۔ جماعت اسلامی کے پیش نظر یہ بات ہر گز نہ تھی کہ پاکستان کے قیام کے لیے جو تحریک چل رہی ہے اس میں وہ کسی نوع کی مزاحمت کرے۔ آج کوئی شخص ہمارے اوپر جو الزام چاہے رکھ دے لیکن جماعت کے کسی ریزولیوشن، اس کے کسی اجتماع کی کارروائی، اور اس کے کسی بیان سے یہ بات ثابت نہیں کی جاسکتی کہ جماعت نے تحریک پاکستان کی مخالفت کی تھی۔
اس وقت ہمارے پیش نظر جو کام تھا وہ یہ کہ ایک گاؤں میں بیٹھ کر خاموشی کے ساتھ اپنے ارکان اور اپنے متفقین کی تربیت اور تنظیم کریں اور اپنے آپ کو ان حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار کریں جو خدانخواستہ اگر تحریک پاکستان ناکام ہو جائے تو ہمارے نزدیک پورے ملک میں مسلمانوں کے ساتھ پیش آنے والے تھے، اور اگر یہ تحریک کامیاب ہو جائے تو ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ اور پاکستان میں اسلام کے ساتھ جن کے پیش آنے کا خطرہ تھا۔ اس لیے ہم نے اپنی تنظیم اور تربیت کا ایک خاص طریقہ اختیار کیا جو آنے والے ممکن حالات کے لیے ہمیں موزوں نظر آتا تھا۔ اسی مقصد کو پیش نظر رکھ کر اگست ۱۹۴۱ء سے اگست ۱۹۴۷ء تک چھے سال کی مدت ہم نے اس کوشش میں صرف کی کہ جماعت اسلامی کی تنظیم اس قدر مضبوط ہو جائے کہ آئندہ پیش آنے والے حالات میں خواہ کیسے ہی طوفان اُٹھیں، اس تنظیم کو ہلایا نہ جاسکے اور یہ تنظیم اپنی جگہ قائم رہے۔ ہمیں یہ اندازہ تھا کہ آگے جو حالات پیش آنے والے ہیں ان کے پیش آجانے کے بعد اس نوعیت کی تنظیم قائم کرنا ممکن نہ ہو گا۔ اس لیے ہم نے یہ چھے سال اپنی تنظیم کو مضبوط کرنے میں صرف کیے اور اس کے ساتھ کام کے لیے ایک ایسا طریقہ اختیار کیا جو بعد کے حالات میں کارآمد ہو سکتا تھا۔ اس طریق کار کی ایک خاص بات یہ تھی کہ جماعت اسلامی اپنے سالانہ اجتماعات ملک کے مختلف حصوں میں کرتی تھی اور ہر اجتماع کے بعد ایک جلسہ عام کرتی تھی جس میں ہندو، سکھ، عیسائی، ہر قوم کے لوگوں کو مدعو کیا جاتا تھا اور اس میں ہم اسلام کی خالص دعوت لوگوں کے سامنے پیش کرتے تھے اور ان کو یہ بتاتے تھے کہ اسلام کیا چیز ہے، کن اصولوں پر وہ قائم ہوا ہے اور ان اصولوں کو اختیار کرنے میں انسانیت کی فلاح کس طرح ممکن ہے۔ انتہائی شدید زمانے میں بھی، جب کہ ہندوؤں اور مسلمانوں اور سکھوں کے در میان سخت کشت و خون برپا ہو رہا تھا، ہم نے یہ سلسلہ جاری رکھا۔ اس وقت صرف جماعت اسلامی ہی ایک ایسی جماعت تھی جو ہندوستان کے مختلف حصوں میں ان تمام بر سر پیکار قوموں کو ایک جلسہ عام میں جمع کر سکتی تھی اوران کے سامنے اسلام کی خالص دعوت پیش کرتی تھی۔ ہم ایسے انداز میں یہ دعوت پیش کرتے تھے جس کو ایک ہندو بھی سنتا تھا، ایک سکھ بھی سن سکتا تھا، اور ایک سخت دشمن اسلام بھی سن سکتا تھا۔
۱۹۴۷ء میں جب کشت و خون انتہا کو پہنچ چکا تھا اور ہر طرف سخت مار دھاڑ ملک میں برپا تھی، میں نے ہندوستان کا آخری بار دورہ کیا اور مختلف مقامات پر تقریریں کیں۔ ایک تقریر میں نے اپریل ۱۹۴۷ء میں مدراس کے مقام پر کی، جس میں پوری وضاحت کے ساتھ میں نے ہندوستان کے مسلمانوں کو بتایا کہ تقسیم کے بعد کن حالات سے ان کو سابقہ پیش آنے والا ہے، کیا کچھ ان پر گزرنے والا ہے اور ان حالات میں ان کو کس طرح کام کرنا چاہیے۔ وہ تقریر شائع شدہ موجود ہے اور جماعت اسلامی کی رُوداد حصہ پنجم میں شامل ہے۔ میں نے وضاحت کے ساتھ اس میں ہندوستان کے مسلمانوں کو یہ بتایا تھا کہ اب تک ہندو قوم پرستی دو ٹانگوں پر کھڑی رہی ہے۔ اس کی ایک ٹانگ ہے انگریز کے مقابلے میں آزادی کی جدوجہد اور دوسری ٹانگ ہے مسلمانوں کی دشمنی تقسیم کے بعد اس کی ایک ٹانگ آپ سے آپ ٹوٹ جائے گی کیونکہ انگریز کے مقابلے میں آزادی کی جدوجہد کا مقصد پورا ہو جائے گا۔ اس کے بعد یہ قوم پرستی صرف ایک ٹانگ پر کھڑی رہ جائے گی اور وہ مسلمانوں کی دشمنی ہے۔ ہندو قوم پرستی پوری کوشش کرے گی کہ وہ اس ٹانگ کو برقرار رکھے۔ اس کی خاطر وہ ہر طرح کا ظلم و ستم آپ پر کرے گی اور آپ کو ایک مدت دراز تک اسے برداشت کرنا ہو گا لیکن اس کے بعد آپ یقین رکھیں کہ ہندو قومیت خود اپنے اندر جو داخلی تضادات رکھتی ہے آخر کار وہ بر سر کار آئیں گے ان تضادات کی بدولت یہ قوم پرستی خود بخود اپنے بُرے انجام کو پہنچ جائے گی۔ اس وقت تک بہر حال آپ کو صبر کرنا پڑے گا۔ اس کے ساتھ میں نے تفصیل کے ساتھ وہاں کے مسلمانوں کو یہ بھی بتایا تھا کہ اس دوران میں آپ کو کیا کام کرنا چاہیے۔ اس میں ایک اہم مشورہ میں نے ان کو یہ دیا تھا کہ آپ ہندوستان کی تمام بڑی زبانوں (ہندی، مراٹھی، گجراتی، تلنگی، تامل، ملایالم، بنگالی وغیرہ) میں زیادہ سے زیادہ جس قدر بھی ممکن ہو، اسلامی لٹریچر منتقل کریں کیونکہ اُردو زبان کو یہ لوگ زندہ نہیں رہنے دیں گے۔ اس ملک کی دوسری زبانوں میں اگر آپ لٹریچر منتقل کر دیں گے تو آپ کی آئندہ نسلیں بھی اسلام سے واقف رہ سکیں گی اور ہندوؤں میں بھی اسلام پھیلایا جاسکے گا۔
مئی ۱۹۴۷ء ہی میں پٹھانکوٹ کے قریب دارالاسلام کی بستی میں بھی ہم نے ایک جلسہ عام منعقد کیا اور اس میں شرکت کے لیے ہندو، سکھ، مسلمان سب کو دعوت دی گئی۔ مشرقی پنجاب میں اس وقت جو حالات تھے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ کوئی شخص اس وقت یہ تصور نہیں کر سکتا تھا کہ ان حالات میں یہ تینوں قومیں ایک جلسے میں جمع ہو سکیں گی۔ مگر خدا کے فضل سے ہم نے ان کو وہاں جمع کیا اور اس موقع پر میں نے وہ تقریر کی جو بناؤ اور بگاڑ کے نام سے پمفلٹ کی صورت میں شائع ہو چکی ہے، اور میری کتاب اسلامی نظام زندگی میں بھی شامل ہے۔ آج بھی ہر شخص اس کو پڑھ کر دیکھ سکتا ہے کہ میں نے اس نازک زمانے میں اس مجمع کے سامنے کس طرح حق نصیحت ادا کیا تھا۔
مئی ۱۹۴۷ء ہی میں دارالاسلام کے مقام پر جماعت اسلامی کے ارکان و متفقین کا بھی ایک اجتماع ہوا تھا جس میں میں نے وضاحت کے ساتھ یہ بتایا تھا کہ تقسیم کے بعد پاکستان میں ہم کو کیا کام کس طرح کرنا ہوگا؟ میری یہ تقریر بھی ”جماعت اسلامی کی دعوت“ کے نام سے شائع ہو چکی ہے اور اسے پڑھ کر یہ دیکھا جاسکتا ہے کہ تقسیم سے پہلے ہی جماعت اسلامی کے سامنے پاکستان میں اپنے کام کے لیے کس قدر صاف اور واضح نقشہ کار موجود تھا۔[23]
قیام پاکستان کے بعد جماعت اسلامی کا مرکز لاہور منتقل ہو گیا۔ اس وقت جماعت کے کل ارکان کی تعداد ۶۲۵ تھی۔ ان میں سے ۲۴۰ ہندوستان رہ گئے اور وہاں جماعت اسلامی ہند کو ایک آزاد تنظیم کی حیثیت سے قائم کیا۔ پاکستان میں پہلے سے موجود اور ہجرت کرکے آنے والے ارکان کی تعداد ۳۸۵ تھی جس سے نئے سفر کا آغاز ہوا۔ جماعت نے مہاجرین کی مدد اور فسادات کے ستم زدہ انسانوں کی مدد کا منظم آغاز کیا، اور اس کے ساتھ جماعت کے تنظیمی ڈھانچے کو از سر نو مرتب کیا گیا اور اس طرح جماعت اسلامی تنظیمی، دعوتی، علمی، تربیتی، خدمتِ خلق اور نظامِ زندگی کی تبدیلی کے لیے ایک واضح لائحہ عمل کے مطابق سرگرمِ عمل ہو گئی۔ جماعت کا یہ لائحہ عمل چار نکاتی پروگرام کی شکل میں وہ sheetanchor (مثلاً ریڑھ کی ہڈی) ہے جس پر جماعت اسلامی پاکستان کا پورا کام منحصر ہے۔ داعی نے قیامِ پاکستان کے بعد بہت صاف لفظوں میں تحریک کے اصل مشن اور اس کے لائحہ عمل کو ان الفاظ میں بیان کیا:
حقیقت یہ ہے کہ ہم اب ایک ایسے مرحلے پر پہنچ چکے ہیں جہاں مسلسل تجربے نے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ اسلام اور جاہلیت کا یہ ملا جلا مرکب، جو اب تک ہمارا نظام حیات بنا رہا ہے، زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا۔ یہ اگر چلتا رہا تو دنیا میں بھی ہماری کامل تباہی کا موجب ہوگا اور آخرت میں بھی۔ اس لیے کہ اس کی وجہ سے ہم اس حالت میں مبتلا ہیں کہ:
ایماں مجھے روکے ہے تو کھینچے ہے مجھے کفر
نہ ہم امریکا اور روس اور انگلستان کی طرح پوری یک سوئی کے ساتھ اپنی دنیا ہی بنا سکتے ہیں ، کیونکہ ایمان و اسلام سے ہمارا جو تعلق قائم ہے وہ ہمیں اس راستے پر بے محابا نہیں چلنے دیتا، اور نہ ہم ایک سچی مسلمان قوم کی طرح اپنی آخرت ہی بناسکتے ہیں، کیونکہ یہ کام ہمیں وہ جاہلیت نہیں کرنے دیتی جس کے بے شمار فتنے ہم نے اپنے اندر پال رکھے ہیں۔ اس دو دلی کی وجہ سے ہم کسی چیز کا حق بھی پوری طرح ادا نہیں کر سکتے۔ نہ دنیا پرستی کا، نہ خدا پرستی کا۔ اس کی وجہ سے ہمارا ہر کام، خواہ دینی ہو یا دنیوی، دو متضاد افکار اور رجحانات کی رزم گاہ بنا رہتا ہے، جن میں سے ہر ایک دوسرے کا توڑ کرتا ہے اور کسی فکر ورجحان کے مطالبے بھی کما حقہ پورے نہیں ہونے پاتے۔ یہ حالت بہت جلد ختم کر دینے کے لائق ہے۔ اگر ہم اپنے دشمن نہیں ہیں تو ہمیں بہر حال یک سو ہو جانا چاہیے۔
اس یک سوئی کی صرف دو ہی صورتیں ممکن ہیں اور ہم کو دیکھنا ہے کہ ہم میں سے کون کس صورت کو پسند کرتا ہے۔ اُس کی ایک صورت یہ ہے کہ ہمارے سابق حکمرانوں نے اور اُن کی غالب تہذیب نے جس راستے پر اِس ملک کو ڈالا تھا، اُسی کو اختیار کر لیا جائے اور پھر خدا اور آخرت اور دین اور دینی تہذیب و اخلاق کا خیال چھوڑ کر ایک خالص مادہ پرستانہ تہذیب کو نشوونما دیا جائے تاکہ یہ ملک بھی ایک دوسرا روس یا امریکا بن سکے۔ مگر علاوہ اس کے کہ یہ راہ غلط ہے، خلافِ حق ہے اور تباہ کن ہے، میں کہوں گا کہ پاکستان میں اس کا کامیاب ہونا ممکن بھی نہیں ہے۔ اس لیے کہ یہاں کے نفسیات اور روایات میں اسلام کی محبت اور عقیدت اتنی گہری جڑیں رکھتی ہے کہ انھیں اکھاڑ پھینکنا کسی انسانی طاقت کے بس کا کام نہیں ہے۔ تاہم جو لوگ اس راستے پر جانا چاہتے ہیں وہ میری اس گفتگو کے مخاطب نہیں ہیں۔ ان کے سامنے ہم اپنا پروگرام نہیں بلکہ جنگ کا الٹی میٹم پیش کرنا چاہتے ہیں۔
یک سوئی کی دوسری صورت یہ ہے کہ ہم اپنی انفرادی اور قومی زندگی کے لیے اُس راہ کا انتخاب کرلیں جو قرآن اور سنت محمد نے ہم کو دکھائی ہے۔ یہی ہم چاہتے ہیں ، اور یہی ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی مسلم آبادی کے کم از کم ۹۹۹ فی ہزار باشندے چاہتے ہیں، اور یہی ہر اس شخص کو چاہنا چاہیے جو خدا اور رسول کو مانتا ہو اور موت کے بعد کی زندگی کا قائل ہو۔ مگر جو لوگ بھی اس راہ کے پسند کرنے والے ہوں انھیں یہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ جن حالات سے ہم گزرتے ہوئے آرہے ہیں، اور جن میں اس وقت ہم گھرے ہوئے ہیں، ان میں تنہا اسلام اور خالص اسلام کو پاکستان کا رہنما فلسفہ حیات اور غالب نظام زندگی بنانا کوئی آسان کام نہیں ہے۔
اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم اسلام اور غیر اسلامی قدامت کی اُس آمیزش کو، جسے صدیوں کی روایات نے پختہ کر رکھا ہے، تحلیل کریں اور قدامت کے اجزا کو الگ کر کے خالص اسلام کے اُس جوہر کو لے لیں جو قرآن اور سنت کے معیار پر جو ہر اسلام ثابت ہو۔ ظاہر ہے کہ یہ کام ہمارے ان گروہوں کی مزاحمت، اور سخت مزاحمت کے بغیر نہیں ہو سکتا جو قدامت کے کسی نہ کسی جز کے ساتھ گہری وابستگی رکھتے ہیں۔
اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ہم مغرب کی حقیقی تمدنی و علمی ترقیات کو اس کے فلسفہ حیات اور اندازِ فکر اور اخلاق و معاشرت کی گمراہیوں سے الگ کریں اور پہلی چیز کو لے کر دوسری چیز کو بالکلیہ اپنے ہاں سے خارج کردیں۔ ظاہر ہے کہ اسے ہمارے وہ گروہ برداشت نہیں کر سکتے جنھوں نے خالص مغربیت کو، یا اسلام کے کسی نہ کسی مغربی ایڈیشن کو اپنا دین بنا رکھا ہے۔
اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ایسے لوگ فراہم ہوں اور منظم طریقے سے کام کریں جو اسلامی ذہنیت کے ساتھ تعمیری صلاحیتیں بھی رکھتے ہوں اور پھر مضبوط سیرت اور صالح اخلاق اور مستحکم ارادے کے مالک بھی ہوں۔ ظاہر ہے کہ یہ جنس ہمارے ہاں ویسے ہی کمیاب ہے، پھر اس دل گردے کے لوگ آخر کہاں آسانی سے ملا کرتے ہیں جو سیاسی اور معاشی چوٹ بھی سہیں، فتووں کی مار بھی برداشت کریں، اور جھوٹے الزامات کی چوطرفہ بارش کا مقابلہ بھی پورے صبر و سکون کے ساتھ کرتے چلے جائیں۔
ان سب شرطوں کے بعد یہ بھی ضروری ہے کہ اسلام کو نظام غالب بنانے کی تحریک اُسی طرح ایک ہمہ گیر سیلاب کے مانند اُٹھے جس طرح مغربی تہذیب یہاں سیلاب کے مانند آئی اور زندگی کے ہر شعبے پر چھاگئی۔ اس ہمہ گیری اور سیلابیت کے بغیر نہ یہ ممکن ہے کہ مغربی تہذیب کو غلبہ و اقتدار سے بے دخل کیا جاسکے، اور نہ یہی ممکن ہے کہ نظام تعلیم، نظام قانون، نظام معیشت اور نظام سیاست کو بدل کر ایک دوسرا تمدن خالص اسلامی بنیادوں پر تعمیر کیا جاسکے۔
یہی کچھ ہم چاہتے ہیں۔ ہمارے پیش نظر برصغیر ہندو پاکستان کے مسلمانوں کی پرانی قدیم تہذیب کا احیا نہیں بلکہ اسلام کا احیا ہے۔ ہم علوم جدیدہ اور ان کی پیدا کی ہوئی ترقیات کے مخالف نہیں بلکہ اُس نظام تہذیب و تمدن کے باغی ہیں جو مغربی فلسفہ زندگی اور فلسفہ اخلاق کا پیدا کردہ ہے۔ ہم دو دو اور چار آنے والے ممبر بھرتی کر کے کوئی سیاسی کھیل کھیلنا نہیں چاہتے بلکہ اپنی قوم میں سے چھانٹ چھانٹ کر ایسے لوگوں کو منظم کرنا چاہتے ہیں جو قرآن و سنت کے حقیقی اسلام کو یہاں کا غالب نظام زندگی بنانے کے لیے قدامت اور جدت دونوں سے لڑنے پر تیار ہوں۔ ہم زندگی کے کسی ایک جز یا بعض اجزا میں کچھ اسلامی رنگ پیدا کر دینے کے قائل نہیں ہیں بلکہ اس بات کے درپے ہیں کہ پورا اسلام پوری زندگی پر حکمران ہو انفرادی سیرتوں اور گھر کی معاشرت پر حکمران ہو، تعلیم کے اداروں پر حکمران، قانون کی عدالتوں پر حکمران، سیاست کے ایوانوں پر حکمران، نظم و نسق کے محکموں پر حکمران اور معاشی دولت کی پیداوار اور تقسیم پر حکمران اسلام کے اس ہمہ گیر تسلط ہی سے یہ ممکن ہو سکتا ہے کہ پاکستان یک شو ہو کر اُن روحانی، اخلاقی اور مادی فوائد سے پوری طرح متمتع ہو، جو رب العالمین کی دی ہوئی ہدایات پر چلنے کا لازمی اور فطری نتیجہ ہیں، اور پھر اسی سے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ یہ ملک تمام مسلم ممالک کے لیے دعوت الی الخیر کا اور تمام دنیا کے لیے ہدایت کا مرکز بن جائے۔[24]
ہمارے اس مقصد کو سمجھ لینے کے بعد کسی کو ہمارے لائحہ عمل کے سمجھنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آسکتی۔ اُس کے چار بڑے بڑے اجزا ہیں جنھیں میں الگ الگ بیان کروں گا:
- اس کا پہلا جز تطہیر افکار و تعمیر افکار ہے۔ یہ تطہیر و تعمیر اس مقصد کو سامنے رکھ کر ہونی چاہیے کہ ایک طرف غیر اسلامی قدامت کے جنگل کو صاف کر کے اصلی اور حقیقی اسلام کی شاہراہ مستقیم کو نمایاں کیا جائے، دوسری طرف مغربی علوم و فنون اور نظام تہذیب و تمدن پر تنقید کرکے بتایا جائے کہ اس میں کیا کچھ غلط اور قابلِ ترک ہے اور کیا کچھ صحیح اور قابلِ اخذ ، اور تیسری طرف وضاحت کے ساتھ یہ دکھایا جائے کہ اسلام کے اصولوں کو زمانہ حال کے مسائل و معاملات پر منطبق کر کے ایک صالح تمدن کی تعمیر کس طرح ہو سکتی ہے اور اس میں ایک ایک شعبہ زندگی کا نقشہ کیا ہو گا۔ اس طریقے سے ہم خیالات کو بدلنے اور اُن کی تبدیلی سے زندگیوں کا رُخ پھیر نے اور ذہنوں کو تعمیر نو کے لیے فکری غذا بہم پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
- اس کا دوسرا جز صالح افراد کی تلاش، تنظیم اور تربیت ہے۔ اس غرض کے لیے ضروری ہے کہ اِن آبادیوں میں سے اُن مردوں اور عورتوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالا جائے جو پرانی اور نئی خرابیوں سے پاک ہوں یا اب پاک ہونے کے لیے تیار ہوں، جن کے اندر اصلاح کا جذبہ موجود ہو، جو حق کو حق مان کر اس کے لیے وقت، مال اور محنت کی کچھ قربانی کرنے پر بھی آمادہ ہوں، خواہ وہ نئے تعلیم یافتہ ہوں یا پرانے، خواہ وہ عوام میں سے ہوں یا خواص میں سے، خواہ وہ غریب ہوں یا امیر یا متوسط۔ ایسے لوگ جہاں کہیں بھی ہوں اُنھیں گوشہ عافیت سے نکال کر میدانِ سعی و عمل میں لانا چاہیے تاکہ ہمارے معاشرے میں جو ایک صالح عنصر بچا کھچا موجود ہے، مگر منتشر ہونے کی وجہ سے، یا جزوی اصلاح کی پراگندہ کوششیں کرنے کی وجہ سے کوئی مفید نتیجہ پیدا نہیں کر رہا ہے، وہ ایک مرکز پر جمع ہو اور ایک حکیمانہ پروگرام کے مطابق اصلاح و تعمیر کے لیے منظم کوشش کر سکے۔...
پھر ضرورت ہے کہ اس طرح کا ایک گروہ بنانے ہی پر اکتفا نہ کیا جائے بلکہ ساتھ ساتھ ان لوگوں کی ذہنی و اخلاقی تربیت بھی کی جائے تاکہ اُن کی فکر زیادہ سے زیادہ سلجھی ہوئی ہو، اور ان کی سیرت زیادہ سے زیادہ پاکیزہ، مضبوط اور قابلِ اعتماد ہو۔ ہمیں یہ حقیقت کبھی نہ بھولنی چاہیے کہ اسلامی نظام محض کاغذی نقشوں اور زبانی دعووں کے بل پر قائم نہیں ہو سکتا۔ اس کے قیام اور نفاذ کا سارا انحصار اس پر ہے کہ آیا اس کی پشت پر تعمیری صلاحیتیں اور صالح انفرادی سیرتیں موجود ہیں یا نہیں۔ کاغذی نقشوں کی خامی تو اللہ کی توفیق سے علم اور تجربہ ہر وقت رفع کر سکتا ہے لیکن صلاحیت اور صالحیت کا فقدان سرے سے کوئی عمارت اُٹھا ہی نہیں سکتا، اور اُٹھا بھی لے تو سہار نہیں سکتا۔
- اس کا تیسرا جز ہے اجتماعی اصلاح کی سعی۔ اس میں سوسائٹی کے ہر طبقے کی اُس کے حالات کے لحاظ سے اصلاح شامل ہے، اور اس کا دائرہ اتنا ہی وسیع ہو سکتا ہے جتنے کام کرنے والوں کے ذرائع وسیع ہیں۔ اس غرض کے لیے کارکنوں کو ان کی صلاحیتوں کے لحاظ سے مختلف حلقوں میں تقسیم کرنا چاہیے اور ہر ایک کے سپر د وہ کام کرنا چاہیے جس کے لیے وہ اہل تر ہو۔ ان میں سے کوئی شہری عوام میں کام کرے اور کوئی دیہاتی عوام میں۔ کوئی کسانوں کی طرف متوجہ ہو اور کوئی مزدوروں کی طرف۔ کوئی متوسط طبقے کو خطاب کرے اور کوئی اونچے طبقے کو۔ کوئی ملازمین کی اصلاح کے لیے کوشاں ہو اور کوئی تجارت پیشہ اور صنعت پیشہ لوگوں کی اصلاح کے لیے۔ کسی کی توجہ پرانی درس گاہوں کی طرف ہو اور کسی کی نئے کالجوں کی طرف۔ کوئی جمود کے قلعوں کو توڑنے میں لگ جائے اور کوئی الحاد و فسق کے سیلاب کو روکنے میں۔ کوئی شعر وادب کے میدان میں کام کر رہا ہے اور کوئی علم و تحقیق کے میدان میں۔ اگرچہ ان سب کے حلقہ ہائے کار الگ ہوں، مگر سب کے سامنے ایک ہی مقصد اور ایک ہی اسکیم ہو جس کی طرف وہ قوم کے سارے طبقوں کو گھیر کر لانے کی کوشش کریں۔ ان کا متعین نصب العین یہ ہونا چاہیے کہ اُس ذہنی، اخلاقی اور عملی انارکی کو ختم کیا جائے جو پرانے جمودی اور نئے انفعالی رجحانات کی وجہ سے ساری قوم میں پھیلی ہوئی ہے، اور عوام سے لے کر خواص تک، سب میں صحیح اسلامی فکر، اسلامی سیرت اور سچے مسلمانوں کی سی عملی زندگی پیدا کی جائے۔
یہ کام صرف وعظ و تلقین اور نشر و اشاعت اور شخصی ربط و مکالمے ہی سے نہیں ہونا چاہیے، بلکہ مختلف سمتوں میں باقاعدہ تعمیری پروگرام بنا کر پیش قدمی کرنی چاہیے۔ مثلاً یہ عاملین اصلاح جہاں کہیں اپنی تبلیغ سے چند آدمیوں کو ہم خیال بنانے میں کامیاب ہو جائیں، وہاں وہ انھیں ملاکر ایک مقامی تنظیم قائم کر دیں اور پھر ان کی مدد سے ایک پروگرام کو عمل میں لانے کی کوشش شروع کر دیں جس کے چند اجزا یہ ہیں:
- بستی کی مسجدوں کی اصلاح حال۔
- عام باشندوں کو اسلام کی بنیادی تعلیمات سے روشناس کرانا۔
- تعلیم بالغاں کا انتظام کم از کم ایک دارالمطالعہ کا قیام۔
- لوگوں کو ظلم و ستم سے بچانے کے لیے اجتماعی جدوجہد۔
- باشندوں کے تعاون سے صفائی اور حفظان صحت کی کوشش۔
- بستی کے یتیموں، بیواؤں، معذوروں اور غریب طالب علموں کی فہرستیں مرتب کرنا اور جن جن طریقوں سے ممکن ہو ان کی مدد کا انتظام کرنا۔
- اور اگر ذرائع فراہم ہو جائیں تو کوئی پرائمری اسکول، یا ہائی اسکول یا مذہبی تعلیم کا ایسا مدرسہ قائم کرنا جس میں تعلیم کے ساتھ اخلاقی تربیت کا بھی انتظام ہو۔
اسی طرح مثلاً جو لوگ مزدوروں میں کام کریں وہ ان کو اشتراکیت کے زہر سے بچانے کے لیے صرف تبلیغ ہی پر اکتفا نہ کریں، بلکہ عملاً ان کے مسائل کو حل کرنے کی سعی بھی کریں۔ انھیں ایسی مزدور تنظیمات قائم کرنی چاہیں جن کا مقصد انصاف کا قیام ہو نہ کہ ذرائع پیداوار کو قومی ملکیت بنانا۔ ان کا مسلک جائز اور معقول حقوق کے حصول کی جدوجہد ہو نہ کہ طبقاتی کش مکش۔ ان کا طریق کار اخلاقی اور آئینی ہو نہ کہ توڑ پھوڑ اور تخریب۔ اُن کے پیش نظر صرف اپنے حقوق ہی نہ ہوں بلکہ اپنے فرائض بھی ہوں۔ جو مزدور یا کار کن بھی ان میں شامل ہوں ان پر یہ شرط عائد ہونی چاہیے کہ وہ ایمان داری کے ساتھ اپنے حصے کا فرض ضرور ادا کریں گے۔ پھر ان کا دائرہ عمل صرف اپنے طبقے کے مفاد تک ہی محدود نہ ہونا چاہیے بلکہ یہ تنظیمات جس طبقے سے بھی تعلق رکھتی ہوں اس کی دینی، اخلاقی اور معاشرتی حالت کو بھی درست کرنے کی کوشش کرتی رہیں۔
اس عمومی اصلاح کے پورے لائحہ عمل کا بنیادی اصول یہ ہے کہ جو شخص جس حلقے اور طبقے میں بھی کام کرے مسلسل اور منظم طریقے سے کرے اور اپنی سعی کو ایک نتیجے تک پہنچائے بغیر نہ چھوڑے۔ ہمارا طریقہ یہ نہ ہونا چاہیے کہ ہوا کے پرندوں اور آندھی کے جھکڑوں کی طرح بیج پھینکتے چلے جائیں۔ اس کے برعکس ہمیں کسان کی طرح کام کرنا چاہیے جو ایک متعین رقبے کو لیتا ہے، پھر زمین کی تیاری سے لے کر فصل کی کٹائی تک مسلسل کام کر کے اپنی محنتوں کو ایک نتیجہ تک پہنچا کر دم لیتا ہے۔ پہلے طریقے سے جنگل پیدا ہوتے ہیں اور دوسرے طریقے سے باقاعدہ کھیتیاں تیار ہوا کرتی ہیں۔
- اس لائحہ عمل کا چوتھا جز نظام حکومت کی اصلاح ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ زندگی کے موجودہ بگاڑ کو دور کرنے کی کوئی تدبیر بھی کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک کہ اصلاح کی دوسری کوششوں کے ساتھ ساتھ نظام حکومت کو درست کرنے کی کوشش بھی نہ کی جائے۔ اس لیے کہ تعلیم اور قانون اور نظم و نسق اور تقسیم رزق کی طاقتوں کے بل پر جو بگاڑ اپنے اثرات پھیلا رہا ہو، اس کے مقابلے میں بناؤ اور سنوار کی وہ تدبیریں جو صرف وعظ اور تلقین اور تبلیغ کے ذرائع پر منحصر ہوں، کبھی کارگر نہیں ہو سکتیں۔ لہٰذا اگر ہم فی الواقع اپنے ملک کے نظام زندگی کو فسق و ضلالت کی راہ سے ہٹاکر دینِ حق کی صراطِ مستقیم پر چلانا چاہتے ہیں تو ہمارے لیے ناگزیر ہے کہ بگاڑ کو مسند اقتدار سے ہٹانے اور بناؤ کو اس کی جگہ متمکن کرنے کی براہِ راست کوشش کریں۔ ظاہر ہے کہ اگر اہل خیر و صلاح کے ہاتھ میں اقتدار ہو تو وہ تعلیم اور قانون اور نظم و نسق کی پالیسی کو تبدیل کر کے چند سال کے اندر وہ کچھ کر ڈالیں گے جو غیر سیاسی تدبیروں سے ایک صدی میں بھی نہیں ہو سکتا۔ یہ تبدیلی کس طرح ہو سکتی ہے؟ ایک جمہوری نظام میں اس کا راستہ صرف ایک ہے، اور وہ ہے انتخابات کا راستہ۔ رائے عام کی تربیت کی جائے، عوام کے معیار انتخاب کو بدلا جائے، انتخاب کے طریقوں کی اصلاح کی جائے، اور پھر ایسے صالح لوگوں کو اقتدار کے مقام پر پہنچایا جائے جو ملک کے نظام کو خالص اسلام کی بنیادوں پر تعمیر کرنے کا ارادہ بھی رکھتے ہوں اور قابلیت بھی۔[25]
یہ ہے وہ انقلابی نصب العین اور وہ مربوط پروگرام اور لائحہ عمل جس پر تحریک اسلامی اس دور میں اسلامی انقلاب لانے کے لیے سرگرمِ عمل ہے۔ یہ دعوت انسانیت کے لیے ایک نعمت اور اُمت مسلمہ کے لیے ایک سعادت ہے ۔ لیکن یہ ایک آزمائش بھی ہے جس کا بانی تحریک نے قیامِ جماعت کے معاً بعد صاف الفاظ میں اظھار کر دیا تھا اور ان الفاظ کو پڑھ کر آج بھی بدن میں کپکپی دوڑ جاتی ہے لیکن دعوتِ حق کے باب میں اس پہلو کا ادراک بھی ضروری ہے۔ دیکھیے داعی نے اس پہلو سے کس طرح ہمیں اور امت مسلمہ کو متوجہ کیا ہے۔
دعوت حق ایک عظیم آزمایش ہے
خوب سمجھ لیجیے کہ کسی فاسد و مفسد گروہ کو اللہ تعالیٰ اس وقت تک اپنی زمین کے انتظام اور اپنی خلق کی امامت و پیشوائی کے منصب پر قابض نہیں ہونے دیتا جب تک دنیا ایک صالح و مصلح گروہ (منتشر افراد نہیں بلکہ منظم گروہ) سے بالکل ہی خالی نہ ہو جائے، اور اسی طرح اللہ تعالیٰ کی سنت کے مطابق قیادت و رہنمائی کے منصب اور زمین کے انتظام میں کوئی اصولی تغیر بھی اس وقت تک واقع نہیں ہو سکتا جب تک ایک اُمت وسط ایک خیر امۃ وجود میں نہ آجائے جو شُہَدَاء عَلَی النَّاس ہونے کے لائق ہو، جس کا جینا اور مرنا خالص اللہ اور اس کے دین کے لیے ہو، اور جو اپنی اخلاقی صفات کے اعتبار سے تمام دنیا کی اُمتوں پر فوقیت رکھتی ہو۔
اس موقع پر میں ایک بات نہایت صفائی کے ساتھ کہہ دینا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اس قسم کی ایک دعوت کا جیسی کہ ہماری یہ دعوت ہے، کسی مسلمان قوم کے اندر اُٹھنا، اُس کو ایک بڑی سخت آزمائش میں ڈال دیتا ہے۔ جب تک حق کے بعض منتشر اجزا باطل کی آمیزش کے ساتھ سامنے آتے رہیں، ایک مسلمان قوم کے لیے ان کو قبول نہ کرنے اور ان کا ساتھ نہ دینے کا ایک معقول سبب موجود رہتا ہے اور اس کا عذر مقبول ہوتا رہتا ہے۔ مگر جب پورا حق بالکل بے نقاب ہو کر اپنی خالص صورت میں سامنے رکھ دیا جائے اور اس کی طرف اسلام کا دعویٰ رکھنے والی قوم کو دعوت دی جائے تو اس کے لیے ناگزیر ہو جاتا ہے کہ یا تو اس کا ساتھ دے اور اس خدمت کو انجام دینے کے لیے اٹھ کھڑی ہو جو اُمت مسلمہ کی پیدائش کی ایک ہی غرض ہے، یا نہیں تو اسے رد کر کے وہی پوزیشن اختیار کرلے جو اس سے پہلے یہودی قوم اختیار کر چکی ہے۔ ایسی صورت میں ان دوراہوں کے سوا کسی تیسری راہ کی گنجائش اس قوم کے لیے باقی نہیں رہتی۔ یہ عین ممکن ہے کہ اس دوٹوک فیصلے میں اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے مسلمانوں کو ڈھیل دے اور اس نوعیت کی یکے بعد دیگرے کئی دعوتوں کے اُٹھنے تک دیکھتا رہے کہ وہ ان کے ساتھ کیا روش اختیار کرتے ہیں۔ لیکن بہر حال اس دعوت کی طرف سے منہ موڑنے کا انجام آخر کار وہی ہے جو میں نے آپ سے عرض کر دیا ہے۔ غیر مسلم اقوام کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ لیکن مسلمان اگر حق سے منہ موڑیں اور اپنے مقصد ِ وجود کی طرف صریح دعوت کو سن کر اُلٹے پاؤں پھر جائیں تو یہ وہ جرم ہے جس پر خدا نے کسی نبی کی اُمت کو معاف نہیں کیا ہے۔
اب چونکہ یہ دعوت ہندوستان[26] میں اُٹھ چکی ہے اس لیے کم از کم یہاں کے مسلمانوں کے لیے تو آزمایش کا وہ خوفناک لمحہ آ ہی گیا ہے۔ رہے دوسرے ممالک کے مسلمان تو ہم ان تک اپنی دعوت پہنچانے کی تیاری کر رہے ہیں۔ اگر ہمیں اس کوشش میں کامیابی ہو گئی تو جہاں جہاں یہ دعوت پہنچے گی وہاں کے مسلمان بھی اسی آزمایش میں پڑ جائیں گے۔ میں یہ دعویٰ کرنے کے لیے تو کوئی بنیاد نہیں رکھتا کہ یہ آخری موقع ہے جو مسلمانوں کو مل رہا ہے۔ اس کا علم صرف اللہ کو ہے۔ ممکن ہے کہ ابھی کچھ اور مواقع مسلمانوں کے لیے مقدر ہوں لیکن قرآن کی بنیاد پر میں اتنا ضرور کہہ سکتا ہوں کہ مسلمانوں کے لیے یہ وقت ہے ایک نازک وقت۔ یہاں کے مسلمانوں کے سامنے اس وقت دو قسم کی دعوتیں ہیں۔ ایک طرف ہماری یہ دعوت ہے جو مسلمانوں کو ٹھیک اُس کام کے لیے بلا رہی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے مسلم جماعت کی تاسیس و تشکیل کی واحد غرض قرار دیا ہے اور دوسری طرف وہ دعوتیں ہیں جن کے پیش نظر مسلمانوں کے دنیوی مفاد کی خدمت کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ ان دو متقابل پکاروں میں سے دوسری پکار کی طرف مسلمانوں کا فوج در فوج لپکنا اور پہلی پکار کو اُمت کی عظیم اکثریت کا بہرے کانوں سے سننا، اکابر اُمت اور علما و مشائخ کا اس سے بے اعتنائی برتنا یا اس کی کھلی یا چھپی مخالفت پر اُتر آنا، اور ایک گروہ قلیل کا اس کی طرف بڑھنا بھی تو رُکتے اور جھجکتے اور پس و پیش کرتے ہوئے بڑھنا، میرے نزدیک ایک نہایت بُری علامت ہے اور ایک عظیم خطرہ ہے جس میں یہ مسلمان قوم اپنے آپ کو ڈال رہی ہے۔ خوب جان لیجیے کہ اگر اس وقت اس قوم میں سے کچھ آدمی بھی ایسے نہ نکلے جو اُمت وسط اور شہدا لِلہ بننے کے قابل ہوں اور وہ خدمت انجام دے سکیں جس کے لیے اللہ تعالیٰ اپنی زمین پر ایک صالح و مصلح گروہ کو کمر بستہ دیکھنا چاہتا ہے تو پھر:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَنْ يَرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَةً أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَافِرِينَ يُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا يَخَافُونَ لَوْمَةَ لَائِمٍ ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ[27]
بعید نہیں کہ اللہ کسی دوسری ایسی قوم کو لے آئے جو اللہ کو محبوب ہو اور اللہ اسے محبوب ہو، جو اہل ایمان پر نرم اور کفار پر سخت ہو، جو اللہ کی راہ میں جدوجہد کرے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈرے۔ یہ اللہ کا فضل ہے جسے اللہ عطا کرتا ہے، جس کو چاہتا ہے۔ اللہ بڑی وسعت رکھنے والا اور علیم ہے۔
آپ حضرات یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلیں کہ آپ دراصل اُمت وسط بننے کے اُمیدوار ہیں۔ آپ کا مقصود یہ ہے کہ اس مقام بلند کو حاصل کریں۔ اتنے بڑے منصب کی اُمیدواری کے لیے اُٹھ کھڑے ہونا اور پھر نہ اُس کی عظمت کو محسوس کرنا، نہ اس کے لیے اپنے آپ کو تیار کرنا، ایک عظیم الشان بے خبری ہے اور اس سے بڑھ کر بے خبری یہ ہے کہ ایک طرف تو آپ اُن کم سے کم صفات سے بھی ابھی تک متصف نہ ہوئے ہوں جو اس کارِ عظیم کے لیے ضروری ہیں اور دوسری طرف آپ تقاضا کریں کہ فوراً ہی کوئی بڑا قدم اُٹھا دیا جائے۔ کیا آپ اتنا نہیں سمجھتے اور اس سے ڈرتے نہیں کہ اگر آپ نے کوئی ایسا قدم اُٹھایا جس کے لیے ضروری استعداد آپ نے اپنے اندر پیدا نہیں کی ہے تو آپ منہ کی کھا کر پسپا ہوں گے اور اس راہ میں پیچھے ہٹنا فِرَارٌ مِنَ الزَّحَفِ ہے جو خدا کی شریعت میں بہت بڑا گناہ ہے۔[28]
جماعت اسلامی پاکستان امت وسط کے ایک ایسے گروہ کی حیثیت سے شہادتِ حق اور اقامت دین کی ذمه داری اپنے مقدور بھر ادا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ تحریک کی ۲۹ ساله جدو جہد پر نگاہ ڈالتے ہوئے داعی تحریک نے جہاں مشکلات اور آزمایش کے پہلوؤں سے اس دعوت پر لبیک کہنے والوں کو بار بار متنبہ کیا، وہیں جو کچھ اللہ کے فضل اور مخلص کارکنوں کی شب و روز کی محنت سے حاصل ہوا ہے اس کا بھی ذکر کیا اور اس پر اپنے رب کا شکر ادا کیا۔ ۱۹۷۰ء کے خطاب میں ارشاد ہوا:
اب میں مختصر طور پر آپ کو یہ بتاؤں گا کہ جماعت اسلامی نے پچھلے ۲۹ سالوں میں کام کیا کیا ہے ؟
جماعت کا اہم ترین کام یہ ہے کہ
اس نے ایک وسیع لٹریچر فراہم کیا ہے جو ہر پہلو میں اسلام کی صداقت اور اس کے قابلِ عمل ہونے کے بارے میں مسلمانوں کے جدید تعلیم یافتہ طبقے کو پوری طرح مطمئن کر سکتا ہے اور ایک ایک شک کو جو مغربی تعلیم و تہذیب نے ان کے دل میں پیدا کیا ہے اچھی طرح رفع کر سکتا ہے۔ جماعت اسلامی وہ تحریک نہیں ہے جو تقریروں کے بل پر اُٹھی ہو۔ تقریریں تو ہوا میں اُڑ جاتی ہیں۔ جماعت اسلامی ایک مضبوط لٹریچر کی بنیاد پر اُٹھی ہے جو اس سرزمین میں ان شاء اللہ صدیوں تک قائم رہے گا۔ پچھلے ۲۹ سال کی مدت میں یہ لاکھوں گھروں تک پہنچ چکا ہے۔ لاکھوں انسان اسے پڑھ چکے ہیں، پڑھ رہے ہیں اور پڑھتے رہیں گے۔ جہاں بھی اس لٹریچر نے جڑ پکڑ لی ہے بفضل خدا اب کوئی اس پر قادر نہیں ہے کہ ایک ایک گھر سے اور ایک ایک شخص کے دماغ سے اس کو اکھیڑ کر نکال سکے۔ تعلیم یافتہ طبقے کی ایک بہت بڑی تعداد اس بات پر پوری طرح مطمئن ہو گئی ہے اور ہوتی جارہی ہے کہ ایک جدید ترین ریاست کو اسلام کے اصولوں پر بڑی خوبی سے چلایا جاسکتا ہے، بلکہ اس شان سے چلایا جاسکتا ہے کہ دنیا کی دوسری قومیں اور ریاستیں اس سے سبق حاصل کریں۔ اب کوئی یہ کہنے کی اگر جرأت کرے کہ اسلام ایک فرسودہ نظام ہے جو اس دور میں نہیں چل سکتا، تو ہزارہا زبانیں اس کو منہ توڑ جواب دینے کے لیے موجود ہیں۔ یہ جماعت اسلامی کا ایک بڑا کام ہے جو اللہ کے فضل سے اس نے انجام دیا ہے اور دے رہی ہے۔
دوسرا کام جماعت کا یہ ہے کہ
اس نے مخلص اور بھروسے کے قابل سیرت و کردار رکھنے والے کارکنوں کی ایک ایسی منظم ٹیم تیار کی ہے جس نے ان تھک محنت سے لاکھوں آدمیوں کو اپنا ہم خیال بنایا ہے، قوم میں اپنی دیانت و امانت کا اعتماد قائم کیا ہے، ہر آفت کے موقع پر جو ملک کے اندر یا ملک سے باہر مسلمانوں پر آئی ہے، آگے بڑھ کر ہر وہ خدمت انجام دی ہے جو اس کے امکان میں تھی، اور ملک کے ہر حصے میں ایسی مقامی قیادت فراہم کردی ہے جسے اپنے علاقے کے لوگوں کا اعتماد حاصل ہے۔ ملک کے عوام میں جماعت اور اس کے کارکنوں کی کتنی ساکھ ہے، اس کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب آزمایش کا کوئی موقع پیش آتا ہے۔ مثال کے طور پر جماعت اسلامی کے کارکن بقرعید میں خدمت خلق کے لیے کھالیں جمع کرتے ہیں۔ ہر سال جب بقرعید آتی ہے تو اشتہارات سے دیواریں لپ جاتی ہیں جن میں کہا جاتا ہے کہ اس جماعت کو کھالیں دینا حرام ہے۔ ہر طرح کے الزامات جماعت کے خلاف لگائے جاتے ہیں۔ ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے کہ لوگ اس کو کھالیں نہ دیں لیکن جتنی کھالیں سب مل کر جمع کرتے ہیں، ان سے بہت زیادہ تنہا جماعت اسلامی کو دی جاتی ہیں۔ جماعت کے مخالفین تک نے بارہا اپنی قربانی کی کھالیں جماعت اسلامی کے حوالے کی ہیں۔ ایوب صاحب کے انتہائی خطرناک دور میں، جب کہ جماعت کے قریب تک پھٹکنا خطرے سے خالی نہ تھا، بڑے بڑے ذمہ دار سرکاری افسر خاموشی کے ساتھ قربانی کی کھالیں جماعت کو بھیج دیتے تھے۔ یہ سب کچھ اس وجہ سے ہے کہ قوم میں عام طور پر یہ اعتماد پیدا ہو چکا ہے کہ اس جماعت کے کارکنوں کو جو کچھ دیا جائے گا وہ صحیح مصرف ہی میں صرف ہو گا۔ یہ وہ لوگ نہیں ہیں جو کسی اور نام سے ہیں اور خرچ کسی اور کام میں کرتے ہیں۔ ۱۹۶۵ء کی جنگ کے موقع پر بھی یہ ثابت ہو گیا کہ جماعت کو عوام کا کتنا اعتماد حاصل ہے۔ اس وقت تمام سرکاری اور غیر سرکاری تنظیموں نے مل کر جنگ کے مصیبت زدہ لوگوں کے لیے جتنا کچھ جمع کیا، اس سے کئی گنا زیادہ جماعت اسلامی نے جمع کیا۔ بارہا ایسا ہوا کہ جنگ کے مصیبت زدہ لوگوں میں تقسیم کرنے کے لیے اللہ کے نیک بندے بڑا بڑا قیمتی سامان لے کر آئے اور انھوں نے کہا کہ اگر آپ خود تقسیم کریں تو یہ حاضر ہے لیکن اگر کسی سرکاری ادارے کو دینا ہے تو ہم واپس لیے جاتے ہیں۔ اس طرح کے امتحان وقتاً فوقتاً پیش آتے رہتے ہیں جن سے ہمیں معلوم ہو جاتا ہے کہ ملک میں جماعت کے کارکنوں کی کتنی ساکھ ہے۔ گالیوں کا پروپیگنڈا اپنی جگہ چل رہا ہے۔ جھوٹے الزامات کا نہ تھمنے والا سلسلہ بھی برابر جاری ہے مگر جب کبھی عوام سے سابقہ پیش آتا ہے تو پتا چلتا ہے کہ ان کو جو اعتماد جماعت پر ہے وہ کسی اور پر نہیں ہے۔
تیسرا بڑا کام جو جماعت نے کیا ہے وہ یہ ہے کہ
جو تحریکیں اس ملک میں لادینی اور ملحدانہ نظام لانا چاہتی ہیں، یا جو تحریکیں ملک کے ٹکڑے ٹکڑے کرنا چاہتی ہیں، جماعت اسلامی نے ہر میدان میں ان کا مقابلہ کیا ہے۔ یہ تحریکیں ملک کے مراکز اعصاب پر قبضہ کرتی ہیں اور پھر ملک کے نظامِ زندگی کو درہم برہم کر کے اپنا مطلوبہ انقلاب لانے کی کوشش کرتی ہیں۔ وہ طلبہ پر قبضہ کرتی ہیں، مزدوروں پر قبضہ کرتی ہیں، کسانوں پر قبضہ کرتی ہیں، استادوں اور پروفیسروں کو استعمال کرتی ہیں۔ اس طرح وہ ان راستوں سے آتی ہیں جن پر اگر ان کا قبضہ ہو جائے تو وہ ملک میں انقلاب برپا کر ڈالیں اور قوم دیکھتی کی دیکھتی رہ جائے۔ جماعت اسلامی ان سب میدانوں میں ان کا مقابلہ کر رہی ہے۔ کوئی دوسری جماعت ایسی نہیں ہے جو قومی زندگی کے ان مراکز اعصاب پر ان کے تسلط کا راستہ روک رہی ہو۔ آپ یقین رکھیے، سوشلزم کا انقلاب یا کوئی اور دوسرا انقلاب جو ملک کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے لیے ہو، وہ کبھی عوام کی تائید سے نہیں آئے گا کہ صرف جلسہ ہائے عام اور تقریروں سے آپ اس کو روک سکیں وہ آئے گا ان مراکز اعصاب پر قبضہ کرکے۔ وہ مزدوروں پر قبضہ کر کے ملک کے نظامِ معیشت کو، نظام مواصلات کو، ریلوے، ٹیلی فون اور تار کو معطل کرے گا۔ وہ طلبہ کو بھڑکا کر میدان میں لائے گا اور ان سے ہنگامے برپا کرائے گا۔ وہ اساتذہ کے ذریعے طلبہ کے دماغ خراب کرائے گا اور ان کے اندر بے حیائی اور بے دینی پیدا کرنے کی کوشش کرے گا۔ ان میدانوں میں اس کا مقابلہ کرنے والی اگر جماعت کے علاوہ کوئی اور جماعت ہے تو اس کا نام بتایا جائے۔ جماعت اسلامی عوامی اجتماعات کے ذریعے سے بھی ان کا مقابلہ کر رہی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ان مراکز اعصاب کو بھی ان لوگوں کے قبضے سے نکالنے کی کوشش کر رہی ہے، حتیٰ کہ ایک سال کے اندر اندر اس نے ان کے حواس باختہ کر دیے ہیں۔
یہ مختصر بیان ہے جماعت اسلامی کی تاریخ کا، اور اس کام کا جو اب تک اس نے کیا ہے۔ اس بیان سے میرا مقصد یہ ہے کہ جماعت اسلامی کے ارکان اور کارکن اور متفقین بھی جماعت کے کام اور نظام کو اچھی طرح سمجھ لیں اور دوسرے جو لوگ بھی جماعت سے دلچسپی رکھتے ہوں ان کو بھی یہ معلوم ہو جائے کہ یہ جماعت دراصل ہے کیا چیز میرا ان سے یہ مطالبہ نہیں ہے کہ یہ سب کچھ سن کر وہ جماعت کی قدر کرنے لگیں۔ اصل قدر تو وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے ہاں ہو۔ میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ جو شخص بھی جماعت کے ساتھ مل کر کام کرے، وہ پورے اطمینان کے ساتھ اس کام کو حق اور صحیح سمجھ کر کرے اور جو اصحاب اس کے ساتھ کام کرنا پسند نہ کریں وہ کم از کم کسی غلط فہمی میں نہ رہیں۔ اگر کوئی ہماری مخالفت نہ کرے تو وہ بھی ہم پر بہت بڑی مہربانی کرے گا۔[29]
الحمدللہ جماعت اسلامی پاکستان اپنے قیام کے وقت سے آج تک اپنے نصب العین اور مقصد کے حصول کے لیے اپنے بتائے ہوئے لائحہ عمل اور پروگرام کے مطابق اپنے دستور، شوریٰ اور ارکان کے فیصلوں کی روشنی میں سرگرم عمل ہے۔ داعی تحریک نے اپنی زندگی میں ہر ہر مرحلے کے تقاضوں کو پورا کرنے اور مشکلات کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کی ہمہ جہتی کوشش کی شکل میں بڑی روشن مثال قائم کی اور ان کے رخصت ہو جانے کے بعد جماعت کی قیادت نے انہی خطوط پر اس انقلابی جدوجہد کو جاری رکھا ہے اور الحمدللہ بے شمار نشیب و فراز اور ملک کی ٹوٹ پھوٹ کے علی الرغم اس کی پیش رفت اپنے نصب العین کی طرف جاری ہے۔ اس حقیقت سے ملک کا ہر باشعور انسان واقف ہے۔ آج کوئی اعلانیہ تسلیم کرے یا نہ کرے ، لیکن اُس کا دل گواہی دیتا ہی کہ تمام سیاسی چالیں ناکام ہو چکی ہیں، تمام سیاسی مہرے پٹ چکے ہیں اور پٹ رہے ہیں۔ اب پاکستان کا مستقبل صرف اور صرف اسی تحریک اسلامی سے وابستہ ہے، جس کا آغاز کرنے والے کروڑوں کی آبادی میں سے ۷۵ افراد تھے۔ تحریک اسلامی کی مثال اس کھیتی کی طرح ہے جس نے اپنی باریک سی سوئی نکالی، پھر اس نے اسے قوی کیا، پھر وہ کھیتی اور موٹی اور سرسبز و شاداب ہوئی اور اپنے تنے پر مضبوطی سے کھڑی ہو گئی تاکہ کسانوں کو بھی بھلی لگے، ان کے لیے خوش منظر ہو اور کافروں کو جلائے کہ اس کی شادابی ان کی اُمنگوں کے لیے پیغامِ موت ہے!
حوالہ جات
- ترجمان القرآن، جلد ۱۱، عدد ۶ ، ص ۳-۱۵
- ترجمان القرآن، جلد ۱۱، عدد ۶ ، ص ۷۳-۷۴
- ترجمان القرآن، جلد ۱۱، عدد ۶ ، ص ۷۳-۷۴
- ترجمان القرآن، جلد ۱۲، عدد ۱، ص ۲-۳
- ترجمان القرآن، جلد ۱۳، عدد ۱
- ترجمان القرآن، جلد ۱۳، عدد ۵، ص ۳-۴
- ترجمان القرآن، جلد ۱۶، عدد ۳،۴، ص ۱۵-۱۶
- ترجمان القرآن، جلد ۱۷، عدد ۶
- ترجمان القرآن، جلد ۱۸، عدد ۲، ص ۱۲-۱۳
- ترجمان القرآن، جلد ۱۸، عدد ۳، ص ۲-۳
- روداد جماعت اسلامی، اول، ص ۲۷-۲۹
- میرے دل میں یہ تحریک مولانا محمد علی جوہر مرحوم کی ایک تقریر سے پیدا ہوئی تھی جس میں انھوں نے بڑی دردمندی کے ساتھ اس ضرورت کا اظہار کیا تھا کہ کاش کوئی شخص اسلام کے مسئلہ جہاد کی پوری وضاحت کرے تاکہ اس وقت اس معاملے میں اسلام کے خلاف جو غلط فہمیاں پھیلائی جارہی ہیں، ان کا سد باب ہو سکے۔
- بعض لوگوں نے میرے اس بیان کو چیلیچ کیا ہے، حالانکہ اس زمانے میں اسلامی ذہن رکھنے والے جو نوجوان علی گڑھ میں زیر تعلیم تھے، وہ اب بھی یہ شہادت دینے کے لیے زندہ موجود ہیں کہ مسلم یونیورسٹی کو ان لوگوں نے کس طرح اپنی تبلیغ کا اڈا بنا لیا تھا۔ ۱۹۳۶ء میں خود مسلم یونیورسٹی کورٹ نے اس صورت حال پر تشویش محسوس کی تھی کہ نئی نسل میں بے دینی پھیل رہی ہے اور اس کی اصلاح کے لیے تجاویز طلب کی تھیں۔ اس پر میں نے اگست اور ستمبر ۱۹۳۶ء میں دو مضامین لکھے تھے جو اب میری کتاب تنقیحات میں شامل ہیں۔ ان میں سے ایک مضمون میں میں نے مسلم یونیورسٹی کے ایک طالب علم کا خط بھی نقل کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت وہاں کیا فتنے پھیل رہے تھے۔
- یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ستمبر ۱۹۳۷ء میں ایک مرتبہ پھر میں نے شمالی ہند کا سفر کیا۔ اور اس موقع پر لاہور میں علامہ اقبال مرحوم سے میری ملاقات ہوئی۔ انھوں نے مجھے مشورہ دیا کہ میں حیدرآباد چھوڑ کر پنجاب منتقل ہو جاؤں۔ ان کی رائے یہ تھی کہ آگے چل کر جنوبی ہند میں میرے لیے کام کے مواقع کم سے کم تر ہوتے چلے جائیں گے اور جو کام اب مجھے کرنا ہے اس کے لیے پنجاب زیادہ موزوں ہے۔ ان کی یہ بات میرے دل میں اُتر گئی اور میں نے اس پر عمل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ چنانچہ مارچ ۱۹۳۸ء میں ہمیشہ کے لیے حیدرآباد کو خیر باد کہہ کر میں پنجاب منتقل ہو گیا۔ یہاں ابتدا میرا ارادہ ایک ایسا ادارہ قائم کرنے کا تھا جس میں جدید اور قدیم تعلیم یافتہ باصلاحیت نوجوانوں کو یک جا رکھ کر اخلاقی اور علمی حیثیت سے ایک نئی قیادت فراہم کرنے کے لیے تیار کیا جائے لیکن بعد کے حالات نے مجھے اس اسکیم کو بدلنے پر مجبور کر دیا۔
- جماعت نے اپنی تنظیم کو چلانے کے لیے باقاعدہ ایک دستور بھی بنایا ہے جو شائع شدہ موجود ہے۔ اس میں ہم نے جماعت کے ڈسپلن کو برقرار رکھنے کے لیے جو طریق کار طے کیا ہے اس کی ہم سختی کے ساتھ پابندی کراتے ہیں اور کسی عہدے دار، یا رکن یا جماعت کی کسی شاخ کو دستور کے خلاف کام کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ دستور کو توڑ کر جو شخص بھی کام کرے اسے یا تو اپنی اصلاح کرنی ہوتی ہے، یا پھر جماعت چھوڑنی پڑتی ہے۔
- یہ جماعت اسلامی کی خصوصیات میں سے ایک اہم خصوصیت ہے کہ اس نے جدید اور قدیم تعلیم یافتہ لوگوں کو ملاکر ایک مزاج اور ایک طرزِ فکر رکھنے والی مشنری قیادت فراہم کی ہے ورنہ اس سے پہلے علما جب کبھی جدید تعلیم یافتہ لوگوں کے ساتھ ملے ہیں محض ایک مددگار قوت کی حیثیت سے ملے ہیں۔ قیادت میں ان کا کوئی حصہ نہیں رہا ہے۔ ان کا ایک گروہ کانگریس کی طرف گیا، اور دوسرا گروہ مسلم لیگ کی طرف۔ مگر نہ کانگریس کی پالیسیاں بنانے میں ان کا کوئی حصہ تھا، نہ مسلم لیگ کی پالیسیاں بنانے میں۔ ان کا کام صرف یہ تھا کہ جس قیادت کی بھی وہ تائید کریں۔
- اس سے صرف وہی لوگ مستثنی ہو سکتے ہیں جو قرآن و سنت کو ماخذ قانون ماننے کے باوجود کوئی ایسا مذہب ایجاد کریں جو خود قرآن و سنت ہی کی صریح تعلیمات کے خلاف پڑتا ہو، مثلاً قادیانی حضرات۔
- جماعت اسلامی کے ۲۹ سال، ص ۵-۲۶
- ترجمان القرآن، جلد ۸ عدد ۳ و ترجمان القرآن، جلد ۱۸، عدد ۴ تا ۶
- پہلا دستور جماعت، دفعہ ۲ مع تشریح
- رودادِ جماعت اسلامی، حصہ سوم
- رودادِ جماعت اسلامی، حصہ سوم، یہ تقریر دعوتِ اسلامی اور اس کے مطالبات میں بھی شامل کی گئی ہے۔
- جماعت اسلامی کے ۲۹ سال، ص۲۶-۳۵
- تقریر اجتماع عام کراچی، ۱۹۵۱ء، مسلمانوں کا ماضی، حال اور مستقبل
- تقریر اجتماع عام کراچی، ۱۹۵۱ء، مسلمانوں کا ماضی، حال اور مستقبل
- واضح رہے کہ یہ تقریر ۱۹۴۲ء میں ہوئی اور اس میں ہندوستان سے مراد اس وقت کا متحدہ ہندوستان تھا۱۹۴۷ء میں ملک دو حصوں میں تقسیم ہو گیا اور اس طرح ہندوستان اور پاکستان میں اسلامی تحریک الگ الگ آزاد تنظیموں کی حیثیت سے کام کر رہی ہے۔ بنگلہ دیش، سری لنکا اور مقبوضہ کشمیر میں بھی اپنے آزاد نظام کے تحت سرگرم عمل ہے۔ نیز دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی اسلامی تحریکات جدوجہد کر رہی ہیں۔
- المائدہ ۵:۵۴
- روداد جماعت، حصہ دوم
- جماعت اسلامی کے ۲۹ سال، صفحہ ۴۴-۴۸