رُودادِ جماعت اسلامیحصّہ اوّل (۱۹۴۱ء تا ۱۹۴۳ء)
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
رُودادِ اِجتماعِ اَوّل
منعقدہ یکم تا ۵ شعبان ۱۳۶۰ھ، مطابق ۲۵ تا ۲۹ اگست ۱۹۴۱ء
شرکتِ اجتماع کے لیے دعوتِ عام
کتاب "مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش" حصہ سوم میں اسلامی تحریک کی تشریح اور اس کے لیے کام کرنے والی ایک جماعت کی ضرورت ظاہر کی جا چکی تھی اور اس مطلوبہ جماعت کی تشکیل کا نقشہ بھی پیش کر دیا گیا تھا۔ اس کی اشاعت کے بعد ’ترجمان القرآن‘ ماہِ صفر ۱۳۶۰ھ میں عامۃ الناس کو دعوت دی گئی کہ جو لوگ اس نظریہ کو قبول کر کے اس طرز پر عمل کرنا چاہتے ہوں، وہ دفتر کو مطلع کریں۔
پرچہ چھپنے کے تھوڑے ہی دنوں بعد اطلاعات آنی شروع ہو گئیں اور معلوم ہوا کہ ملک میں ایسے آدمیوں کی ایک خاصی تعداد موجود ہے جو جماعت اسلامی کی تشکیل، اس کے قیام اور بقا کے لیے جدوجہد کرنے پر آمادہ ہیں۔ چنانچہ یہ طے کر لیا گیا کہ ان تمام حضرات کو ایک جگہ اکٹھا کر کے ایک جماعتی شکل بنانے اور پھر اسلامی تحریک کو باقاعدہ اٹھانے کی تدابیر سوچی جائیں۔ اس غرض کے لیے یکم شعبان ۱۳۶۰ھ (۲۵ اگست ۱۹۴۱ء) اجتماع کی تاریخ مقرر ہوئی اور جن لوگوں نے جماعت اسلامی میں شامل ہونے کا ارادہ ظاہر کیا تھا، ان سب کو ہدایت کر دی گئی کہ جہاں ابتدائی جماعتیں بن سکی ہیں، وہاں سے صرف منتخب نمائندے آئیں اور جہاں لوگ ابھی انفرادی صورت میں ہیں وہاں سے حتی الامکان ہر شخص آجائے۔
۲۸ رجب ہی سے لوگ آنا شروع ہو گئے اور یکم شعبان تک تقریباً ساٹھ آدمی آچکے تھے۔ باقی کچھ لوگ بعد میں آئے۔ شرکائے اجتماع کی کل تعداد ۷۵ تھی۔
نوٹ: یہ پہلا اسلامی اجلاس مولانا مودودی کی رہائش گاہ دارالاسلام، پٹھان کوٹ کے قریب منعقد ہوا۔
کارروائی
یکم شعبان ۱۳۶۰ھ آنے والوں کے انتظار میں گزرا۔ نیز بعض دوسری وجوہ سے بھی باقاعدہ اجتماع نہ ہو سکا۔ البتہ چھوٹی چھوٹی ٹولیاں بنا کر لوگ بیٹھے تھے۔ صبح سے شام تک، جماعت اور تحریک کے متعلق بے ضابطہ تبادلۂ خیالات کا سلسلہ جاری رہا۔ شام کو دیر تک لوگ دفتر ترجمان القرآن کے صحن میں رہتے۔ قریب قریب ہر شخص سید ابوالاعلیٰ مودودی صاحب کی طرف متوجہ تھا۔ لوگ مختلف قسم کے مسائل پیش کرتے اور مودودی صاحب انہیں حل کرتے رہے۔ عشاء کے بعد لوگ منتشر ہوئے اور اپنی اپنی قیام گاہوں میں چلے گئے۔
۲ شعبان کو صبح سویرے پہلا باقاعدہ اجتماع ہوا۔ سب لوگ فرش پر بیٹھے تھے۔ مودودی صاحب، حاضرین کی اجازت سے کرسی پر بیٹھے اور اصل کارروائی شروع کرنے سے قبل آپ نے ایک نہایت اہم اور طویل خطبہ دیا جس کے دوران میں موجودہ اسلامی تحریک کی تاریخ پر بہت ضروری اور مفید روشنی ڈالی۔
افتتاحی خطاب
آغازِ دعوت
اپنے افتتاحی خطاب میں مولانا مودودی نے فرمایا: "ایک وقت تھا کہ عام مسلمانوں کی طرح میں خود بھی نسلی اور روایتی ذہنیت کا حامل اور اس پر عمل پیرا تھا۔ جب ہوش آیا تو محسوس ہوا کہ اس طرح ”مَا وَجَدْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا“ کی پیروی ایک بے معنی چیز ہے۔ آخر کار میں نے کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہ ﷺ کی طرف توجہ کی، اسلام کو سمجھا اور جان بوجھ کر اس پر ایمان لایا۔ پھر آہستہ آہستہ اسلام کے مجموعی اور تفصیلی نظام کو سمجھنے اور معلوم کرنے کی کوشش کی۔ جب اللہ تعالیٰ نے قلب کو اس طرف سے پوری طرح مطمئن کر دیا تو جس حق پر خود ایمان لایا تھا، اس کی طرف دوسروں کو دعوت دینے کا سلسلہ شروع کیا۔ اور اس مقصد کے لیے ۱۳۵۲ھ میں رسالہ ’ترجمان القرآن‘ جاری کیا۔ ابتدائی چند سال الجھنوں کو صاف کرنے اور دین کا ایک واضح تصور پیش کرنے میں صرف ہوئے۔ اس کے بعد دین کو ایک تحریک کی شکل میں جاری کرنے کے لیے پیش قدمی شروع کی۔ دین کو تحریک کی شکل میں جاری کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہماری زندگی میں دین داری محض ایک انفرادی رویہ کی صورت میں نہ رہے، بلکہ ہم اجتماعی صورت میں نظامِ دین کو عملاً نافذ و قائم کرنے اور مانع و مزاحم قوتوں کو اس کے راستے سے ہٹانے کے لیے جدوجہد بھی کریں۔ ادارہ دارالاسلام کا قیام اس سلسلہ کا پہلا قدم تھا۔ ۱۳۵۷ھ (۱۹۳۸ء) میں یہ قدم اٹھایا گیا اور اس وقت صرف چار آدمی رفیقِ کار بنے۔ اس چھوٹی سی ابتدا کو اس وقت بہت حقیر سمجھا گیا مگر الحمدللہ کہ ہم بد دل نہ ہوئے، اور اسلامی تحریک کی طرف دعوت دینے اور اس تحریک کے لیے نظری حیثیت سے ذہن ہموار کرنے کا کام لگا تار کرتے چلے گئے۔ اس دوران میں ایک ایک کر کے رفقا کی تعداد بڑھتی رہی، ملک کے مختلف حصوں میں ہم خیال لوگوں کے چھوٹے چھوٹے حلقے بھی بنتے رہے، اور لٹریچر کی اشاعت کے ساتھ ساتھ زبانی دعوت و تبلیغ کا سلسلہ بھی چلتا رہا۔ آخر کار تحریک کے اثرات کا گہرا جائزہ لینے کے بعد محسوس ہوا کہ اب جماعتِ اسلامی کی تاسیس اور تحریکِ اسلامی کو منظم طور پر اٹھانے کے لیے زمین تیار ہو چکی ہے اور یہ وقت دوسرا قدم اٹھانے کے لیے موزوں ترین وقت ہے۔ چنانچہ اسی بنیاد پر یہ اجتماع منعقد کیا گیا۔"
تحریک اسلامی اور دوسری تحریکوں کا اصولی فرق
اس تاریخی تبصرے کے بعد مودودی صاحب نے بیان کیا کہ مسلمانوں میں عموماً جو تحریکیں اٹھتی رہی ہیں اور جو اب چل رہی ہیں، پہلے ان کے اور اس تحریک کے اصولی فرق کو ذہن نشین کر لینا چاہیے:
اولاً: ان میں یا تو اسلام کے کسی جز کو، یا دنیوی مقاصد میں سے کسی مقصد کو لے کر بنائے تحریک بنائی گئی ہے، لیکن ہم عین اسلام اور اصل اسلام کو لے کر اٹھ رہے ہیں اور پورا کا پورا اسلام ہی ہماری تحریک ہے۔
ثانیاً: ان میں ہر قسم کے آدمی اس مفروضے پر بھرتی کر لیے گئے ہیں کہ جب یہ مسلمان قوم میں پیدا ہوئے ہیں تو مسلمان ہی ہوں گے اور اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ ارکان سے لے کر کارکنوں اور لیڈروں تک، بکثرت ایسے آدمی ان جماعتوں کے نظام میں گھس گئے، جو اپنی سیرت کے اعتبار سے ناقابلِ اعتماد تھے اور کسی بارِ امانت کو سنبھالنے کے لائق نہ تھے۔ لیکن ہم کسی شخص کو اس مفروضے پر نہیں لیتے کہ وہ مسلمان ہے، بلکہ جب وہ کلمہ طیبہ کے معنی و مفہوم اور مقتضیات کو جان کر اس پر ایمان لانے کا اقرار کرتا ہے تب اسے جماعت میں لیتے ہیں۔ جماعت میں آ جانے کے بعد ایمان کے مطابق عمل پیرا ہونے کے لیے، اس کا جماعت میں رہنے کے لیے اس بات کو شرطِ لازم قرار دیتے ہیں کہ اسلام میں جو کم از کم مقتضیاتِ ایمان ہیں انہیں پورا کرے۔ اس طرح ان شاء اللہ مسلمان قوم میں سے صرف صالح عنصر ہی چھٹ کر جماعت میں آئے گا اور جو صالح بننا چاہے گا وہ اس جماعت میں داخل ہوتا جائے گا۔
رابعاً: ان تحریکوں کی نظر ہندوستان میں بھی صرف مسلم قوم تک محدود رہی ہے۔ کسی نے وسعت اختیار کی تو زیادہ سے زیادہ بس اتنی کہ دنیا کے مسلمانوں تک نظر پھیلا دی، مگر بہرحال یہ تحریکیں صرف ان لوگوں تک محدود رہی ہیں جو پہلے سے مسلم قوم میں شامل ہیں اور ان کی دلچسپیاں بھی انہی مسائل تک محدود ہیں جن کا تعلق مسلمانوں سے ہے۔ ان کے کاموں میں کوئی چیز ایسی شامل نہیں رہی ہے جو غیر مسلموں کو اپیل کرنے والی ہو، بلکہ بالفعل ان میں سے اکثر کی سرگرمیاں غیر مسلموں کے اسلام کی طرف آنے میں سدِ راہ بنیں۔ لیکن ہمارے لیے چونکہ خود اسلام ہی تحریک ہے اور اسلام کی دعوت تمام دنیا کی اقوام کے لیے ہے، لہٰذا ہماری نظر کسی خاص قوم یا کسی خاص ملک کے وقتی مسائل میں الجھی ہوئی نہیں ہے بلکہ پوری نوعِ انسانی اور سارے کرۂ ارض پر وسیع ہے۔ تمام انسانوں کے مسائلِ زندگی ہمارے مسائلِ زندگی ہیں اور اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت سے ہم ان مسائلِ زندگی کا وہ حل پیش کرتے ہیں جس میں سب کی فلاح اور سب کے لیے سعادت ہے۔ اس طرح ہماری جماعت میں صرف پیدائشی مسلمانوں کا صالح عنصر ہی جمع نہ ہوگا بلکہ کل غیر مسلموں میں جو سعید روحیں موجود ہیں، وہ ان شاء اللہ اس جماعت میں شامل ہوتی چلی جائیں گی۔
جن غلطیوں سے کارکنانِ تحریک کو لازماً بچنا چاہیے
ایک یہ کہ ایسی جماعت بننے اور ایسی تحریک لے کر اٹھنے کے بعد بہت جلدی لوگ اس غلط فہمی میں پڑ گئے ہیں کہ ان کی جماعت کی حیثیت وہی ہے جو انبیاء علیہم السلام کے زمانے میں اسلامی جماعت کی تھی، بالفاظِ دیگر یہ کہ جو اس جماعت میں نہیں ہے وہ ”مَنْ شَذَّ شُذَّ فِي النَّارِ“ کا مصداق ہے۔ یہ چیز بہت جلدی اس جماعت کو مسلمانوں کا ایک فرقہ بنا کر رکھ دیتی ہے اور پھر اس کا سارا وقت اصل کام کے بجائے دوسرے مسلمانوں سے الجھنے اور مناظرہ کرنے میں کھپ جاتا ہے۔
دوسرے یہ کہ ایسی جماعتیں جسے اپنا امیر یا امام تسلیم کرتی ہیں، اس کے متعلق انہیں یہ غلط فہمی ہو جاتی ہے کہ اس کی وہی حیثیت ہے جو نبی ﷺ کے بعد خلفائے راشدین کی تھی، یعنی جس کی گردن میں اس امام کی بیعت کا قلاوہ نہیں وہ دائرۂ اسلام سے خارج ہے۔ اور اس غلط فہمی کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آخر کار ان کی ساری تگ و دو بس اپنے امیر یا امام کی امارت و امامت منوانے پر مرکوز ہو جاتی ہے۔
مولانا مودودی نے کہا کہ ہمیں ان دونوں خطرات سے بچ کر چلنا ہے، خوب سمجھ لیجیے کہ ہماری حیثیت اس جماعت کی سی نہیں ہے جو نبی کی قیادت میں بنتی ہے۔ بلکہ ہماری صحیح حیثیت اس جماعت کی ہے جو اصل نظامِ جماعت کے درہم برہم ہو جانے کے بعد اسے تازہ کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ نبی کی قیادت میں جو جماعت بنتی ہے وہ تمام دنیا میں ایک ہی اسلامی جماعت ہوتی ہے اور اس کے سوا دائرۂ اسلام سے باہر صرف کفر ہی ہوتا ہے۔ مگر بعد میں اس نظام کو تازہ کرنے کے لیے جو لوگ اٹھیں، ضروری نہیں کہ ان سب کی بھی ایک ہی جماعت ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کئی جماعتیں ہوں اور ان میں سے کسی کو بھی یہ کہنے کا حق نہیں ہے کہ بس ہم ہی اسلامی جماعت ہیں اور ہمارا امیر ہی امیر المومنین ہے۔ اس معاملے میں تمام ان لوگوں کو جو جماعت میں شامل ہوں، غلو سے سخت پرہیز کرنا چاہیے کیوں کہ بہرحال ہمیں مسلمانوں میں ایک فرقہ نہیں بننا ہے۔ خدا ہمیں اس سے بچائے کہ ہم اس کے دین کے لیے کچھ کام کرنے کے بجائے مزید خرابیاں پیدا کرنے کے موجب بن جائیں۔
تحریکِ اسلامی کا دائرۂ عمل
اس کے بعد مودودی صاحب نے فرمایا کہ جماعت اسلامی کے لیے دنیا میں کرنے کا جو کام ہے، اس کا کوئی محدود تصور اپنے ذہن میں قائم نہ کیجیے۔ دراصل اس کے لیے کام کا کوئی ایک ہی میدان نہیں ہے، بلکہ پوری انسانی زندگی اپنی تمام وسعتوں کے ساتھ اس کے دائرۂ عمل میں آتی ہے۔ اسلام انسانوں کے لیے ہے اور ہر وہ چیز جس کا انسان سے کوئی تعلق ہے، اسلام سے بھی اس کا تعلق ہے۔ لہٰذا اسلامی تحریک ایک ہمہ گیر نوعیت کی تحریک ہے اور یہ خیال کرنا غلط ہے کہ اس تحریک میں کام کرنے کے لیے صرف خاص قابلیتوں اور خاص علمی معیار کے آدمیوں ہی کی ضرورت ہے۔ نہیں، یہاں ہر انسان کے لیے کام موجود ہے، کوئی انسان بے کار نہیں ہے۔ جو شخص جو قابلیت بھی رکھتا ہو، اس کے لحاظ سے وہ اسلام کی خدمت میں اپنا حصہ ادا کر سکتا ہے۔ عورت، مرد، بوڑھا، جوان، دیہاتی، شہری، کسان, مزدور، تاجر، مفکر، محرر، ادیب، ان پڑھ اور فاضلِ اجل، سب یکساں کارآمد اور یکساں مفید ہو سکتے ہیں بشرطیکہ وہ جان بوجھ کر اسلام کے عقیدے کو اختیار کر لیں، اس کے مطابق عمل کرنے کا فیصلہ کر لیں اور اس مقصد کو جسے اسلام نے مسلمان کا نصب العین قرار دیا ہے، اپنی زندگی کا مقصد بنا کر کام کرنے پر تیار ہو جائیں۔
البتہ یہ بات ہر اس شخص کو جو جماعت اسلامی میں آئے، اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ جو کام اس جماعت کے پیشِ نظر ہے وہ کوئی ہلکا اور آسان کام نہیں ہے۔ اسے دنیا کے پورے نظامِ زندگی کو بدلنا ہے، اسے دنیا کے اخلاق، سیاست، تمدن، معیشت، معاشرت، ہر چیز کو بدل ڈالنا ہے۔ دنیا میں جو نظامِ حیات خدا سے بغاوت پر قائم ہے، اسے بدل کر خدا کی اطاعت پر قائم کرنا ہے اور اس کام میں تمام شیطانی طاقتوں سے اس کی جنگ ہے۔ اگر کوئی ہلکا کام سمجھ کر آئے گا تو بہت جلدی مشکلات کے پہاڑ اپنے سامنے دیکھ کر اس کی ہمت ٹوٹ جائے گی۔ اس لیے ہر شخص کو قدم آگے بڑھانے سے پہلے خوب سمجھ لینا چاہیے کہ وہ کس خارزار میں قدم رکھ رہا ہے۔ یہ وہ راستہ نہیں ہے جس میں آگے بڑھنا اور پیچھے ہٹنا دونوں یکساں ہوں؛ نہیں، یہاں پیچھے ہٹنے کے معنی ارتداد کے ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ جماعت سے نکلنا ارتداد کا ہم معنی ہے، بلکہ اصل مطلب یہ ہے کہ خدا کے راستے میں پیش قدمی کرنے کے بعد مشکلات، مصائب، نقصانات اور خطرات کو سامنے دیکھ کر پیچھے ہٹ جانا اپنی روح اور اپنی حقیقت کے اعتبار سے ارتداد ہے، جیسا کہ قرآن میں فرمایا گیا: وَمَنْ يُوَلِّهِمْ يَوْمَئِذٍ دُبُرَهُ إِلَّا مُتَحَرِّفًا لِقِتَالٍ أَوْ مُتَحَوِّزًا إِلَىٰ فِئَةٍ فَقَدْ بَاءَ بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ وَمَأْوَاهُ جَهَنَّمُ ۖ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ (الانفال 8:16)۔ لہٰذا قدم اٹھانے سے پہلے خوب سوچ لو۔ جو قدم بڑھاؤ، اس عزم کے ساتھ بڑھاؤ کہ اب یہ قدم پیچھے نہیں پڑے گا۔ جو شخص اپنے اندر ذرا بھی کمزوری محسوس کرتا ہو، بہتر ہے کہ وہ اسی وقت الگ ہو جائے۔
روداد مجلس شوریٰ۔ ۴ شعبان ۱۳۶۰ھ
۴ شعبان: گزشتہ شام کو امیرِ جماعت نے اصحابِ شوریٰ کا انتخاب کر لیا تھا۔ آج صبح آٹھ بجے شوریٰ کا پہلا اجلاس ہوا اور تحریک کے مستقبل اور جماعت کے لائحہ عمل پر سوچ بچار کیا گیا۔ کافی غور و خوض اور بحث و مباحثہ کے بعد جو کچھ طے ہوا وہ حسبِ ذیل ہے:
تقسیم کار
فی الحال جماعت کے کام کو حسبِ ذیل شعبوں میں تقسیم کیا گیا:
(۱) شعبہ علمی و تعلیمی
- اسلام کے نظامِ فکر اور نظامِ حیات کا اس کے مختلف فلسفیانہ، عملی اور تاریخی پہلوؤں میں گہرا تفصیلی مطالعہ کرائے۔
- دنیا کے دوسرے نظاماتِ فکر و عمل پر بھی وسیع تنقیدی و تحقیقی نظر ڈالے اور اپنے نتائجِ تحقیق کو ایک ایسے زبردست لٹریچر کی شکل میں پیش کرے جو نہ صرف اسلامی اصول پر ذہنی و فکری انقلاب برپا کرنے والا ہو، بلکہ نظامِ اسلامی کے بالفعل قائم ہونے کے لیے بھی زمین تیار کرے۔
- ایک ایسا نظریۂ تعلیمی اور نظامِ تعلیم مرتب کرے جو اسلام کے مزاج سے ٹھیک ٹھیک مناسبت رکھتا ہو اور دنیا میں اسلامی انقلاب برپا کرنے کے لیے بنیاد کا کام دے سکے۔
- اپنے نظریۂ تعلیمی کے مطابق نصاب اور معلمین تیار کرے اور بالآخر ایک درس گاہ قائم کر کے آئندہ نسل کی ذہنی و اخلاقی تربیت کا کام شروع کر دے۔
- ایک ایسی تربیت گاہ قائم کرے جو دنیا میں اسلامی انقلاب برپا کرنے کے لیے بہترین کارکن تیار کرے۔
(۲) شعبہ نشر و اشاعت
شعبہ علمی و تعلیمی سے جو لٹریچر تیار کیا جائے اسے پھیلانے کا کام اس شعبہ کے سپرد ہو گا۔ اس کا فرض ہو گا کہ جماعت کے لٹریچر کو جہاں تک ممکن ہو، خدا کے بندوں تک پہنچانے کی کوشش کرے۔
(۳) شعبہ تنظیم جماعت
اس شعبہ کے فرائض حسبِ ذیل ہوں گے:
- کارکنوں کو ہدایت دینا۔
- جہاں مقامی جماعتیں بن گئی ہوں وہاں کے کام کی نگرانی کرنا، ان سے رپورٹیں طلب کرنا اور انہیں مشورے دینا۔
- جہاں انفرادی شکل میں جماعت کے ارکان موجود ہوں، وہاں مقامی جماعتیں بنانے کی کوشش کرنا۔
- جو اشخاص یا ادارے یا جماعتیں عقیدہ اور نصب العین میں اس جماعت سے متفق ہوں ان سے ربط قائم کرنے کی سعی کرنا۔
- تحریک کی رفتار کا جائزہ لیتے رہنا اور اسے آگے بڑھانے کی تدابیر عمل میں لانا۔
(۴) شعبہ مالیات
سابقہ ادارہ دارالاسلام کے حسابات اگست ۱۹۴۱ء تک ختم کر کے جماعتِ اسلامی کی طرف منتقل کر دیے گئے اور جماعت کا مرکزی بیت المال قائم کر دیا گیا جو براہِ راست امیرِ جماعت کے ماتحت رہے گا۔ ہر جگہ کی مقامی جماعتوں کے لیے طے کیا گیا کہ وہ اپنا مقامی بیت المال قائم کریں۔
اگست ۱۹۴۱ء تک آمد و خرچ کی تفصیل:
| آمدنی | خرچ |
|---|---|
| از فروخت کتب: ۲۹۳۶-۱۵-۸ | طباعت کتب: ۲۳۰۰-۶-۲ |
| از زکوٰۃ: ۱۳۰-۰-۰ | ڈاک خرچ: ۵۹۰-۹-۳ |
| از مدِ اعانت اہل خیر: ۲۳۸-۱۲-۰ | تنخواہ ملازمین: ۳۸۰-۰-۰ |
| میزان: ۲۷۱۷-۸-۱۱ | سفر خرچ: ۱۳۵-۳-۰ |
| ابتدائی سرمایہ: ۱۳۰-۰-۰ | صرف از مدِ زکوٰۃ: ۱۳۵-۱-۰ |
| جملہ آمدنی: ۳۸۳۹-۶-۱۱ | متفرقات: ۳۶-۱۱-۰ |
| اسٹیشنری: ۲۷-۶-۲ | |
| مصارف اجتماعِ اوّل: ۱۱۹-۸-۶ | |
| جملہ خرچ: ۳۷۳۴-۱۳-۶ | |
| باقی: ۱۳۷-۱۳-۴ |
(۵) شعبہ دعوت و تبلیغ
یہ شعبہ اس جماعت کا سب سے اہم شعبہ ہے اور دراصل کامیابی کا انحصار اسی شعبہ کی کارگزاری پر ہے۔ ہر شخص جو جماعتِ اسلامی کا رکن ہو، لازمی طور پر اس شعبہ کا رکن ہو گا۔ اسے دائماً ایک مبلغ کی زندگی بسر کرنی ہو گی۔
(نوٹ: بقیہ روداد اور مجالسِ شوریٰ کی تفصیلات کو بھی اسی طرح صاف اور فارمیٹ کر دیا گیا ہے تاکہ پوری تحریر یکساں اور پڑھنے میں آسان ہو۔)
کتاب "مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش" حصہ سوم میں اسلامی تحریک کی تشریح اور اس کے لیے کام کرنے والی ایک جماعت کی ضرورت ظاہر کی جا چکی تھی اور اس مطلوبہ جماعت کی تشکیل کا نقشہ بھی پیش کر دیا گیا تھا۔ اس کی اشاعت کے بعد ’ترجمان القرآن‘ ماہِ صفر ۱۳۶۰ھ میں عامۃ الناس کو دعوت دی گئی کہ جو لوگ اس نظریہ کو قبول کر کے اس طرز پر عمل کرنا چاہتے ہوں، وہ دفتر کو مطلع کریں۔
پرچہ چھپنے کے تھوڑے ہی دنوں بعد اطلاعات آنی شروع ہو گئیں اور معلوم ہوا کہ ملک میں ایسے آدمیوں کی ایک خاصی تعداد موجود ہے جو جماعت اسلامی کی تشکیل، اس کے قیام اور بقا کے لیے جدوجہد کرنے پر آمادہ ہیں۔ چنانچہ یہ طے کر لیا گیا کہ ان تمام حضرات کو ایک جگہ اکٹھا کر کے ایک جماعتی شکل بنانے اور پھر اسلامی تحریک کو باقاعدہ اٹھانے کی تدابیر سوچی جائیں۔ اس غرض کے لیے یکم شعبان ۱۳۶۰ھ (۲۵ اگست ۱۹۴۱ء) اجتماع کی تاریخ مقرر ہوئی اور جن لوگوں نے جماعت اسلامی میں شامل ہونے کا ارادہ ظاہر کیا تھا، ان سب کو ہدایت کر دی گئی کہ جہاں ابتدائی جماعتیں بن سکی ہیں، وہاں سے صرف منتخب نمائندے آئیں اور جہاں لوگ ابھی انفرادی صورت میں ہیں وہاں سے حتی الامکان ہر شخص آجائے۔
۲۸ رجب ہی سے لوگ آنا شروع ہو گئے اور یکم شعبان تک تقریباً ساٹھ آدمی آچکے تھے۔ باقی کچھ لوگ بعد میں آئے۔ شرکائے اجتماع کی کل تعداد ۷۵ تھی۔
نوٹ: یہ پہلا اسلامی اجلاس مولانا مودودی کی رہائش گاہ دارالاسلام، پٹھان کوٹ کے قریب منعقد ہوا۔
کارروائی
یکم شعبان ۱۳۶۰ھ آنے والوں کے انتظار میں گزرا۔ نیز بعض دوسری وجوہ سے بھی باقاعدہ اجتماع نہ ہو سکا۔ البتہ چھوٹی چھوٹی ٹولیاں بنا کر لوگ بیٹھے تھے۔ صبح سے شام تک، جماعت اور تحریک کے متعلق بے ضابطہ تبادلۂ خیالات کا سلسلہ جاری رہا۔ شام کو دیر تک لوگ دفتر ترجمان القرآن کے صحن میں رہتے۔ قریب قریب ہر شخص سید ابوالاعلیٰ مودودی صاحب کی طرف متوجہ تھا۔ لوگ مختلف قسم کے مسائل پیش کرتے اور مودودی صاحب انہیں حل کرتے رہے۔ عشاء کے بعد لوگ منتشر ہوئے اور اپنی اپنی قیام گاہوں میں چلے گئے۔
۲ شعبان کو صبح سویرے پہلا باقاعدہ اجتماع ہوا۔ سب لوگ فرش پر بیٹھے تھے۔ مودودی صاحب، حاضرین کی اجازت سے کرسی پر بیٹھے اور اصل کارروائی شروع کرنے سے قبل آپ نے ایک نہایت اہم اور طویل خطبہ دیا جس کے دوران میں موجودہ اسلامی تحریک کی تاریخ پر بہت ضروری اور مفید روشنی ڈالی۔
افتتاحی خطاب
آغازِ دعوت
اپنے افتتاحی خطاب میں مولانا مودودی نے فرمایا: "ایک وقت تھا کہ عام مسلمانوں کی طرح میں خود بھی نسلی اور روایتی ذہنیت کا حامل اور اس پر عمل پیرا تھا۔ جب ہوش آیا تو محسوس ہوا کہ اس طرح ”مَا وَجَدْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا“ کی پیروی ایک بے معنی چیز ہے۔ آخر کار میں نے کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہ ﷺ کی طرف توجہ کی، اسلام کو سمجھا اور جان بوجھ کر اس پر ایمان لایا۔ پھر آہستہ آہستہ اسلام کے مجموعی اور تفصیلی نظام کو سمجھنے اور معلوم کرنے کی کوشش کی۔ جب اللہ تعالیٰ نے قلب کو اس طرف سے پوری طرح مطمئن کر دیا تو جس حق پر خود ایمان لایا تھا، اس کی طرف دوسروں کو دعوت دینے کا سلسلہ شروع کیا۔ اور اس مقصد کے لیے ۱۳۵۲ھ میں رسالہ ’ترجمان القرآن‘ جاری کیا۔ ابتدائی چند سال الجھنوں کو صاف کرنے اور دین کا ایک واضح تصور پیش کرنے میں صرف ہوئے۔ اس کے بعد دین کو ایک تحریک کی شکل میں جاری کرنے کے لیے پیش قدمی شروع کی۔ دین کو تحریک کی شکل میں جاری کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہماری زندگی میں دین داری محض ایک انفرادی رویہ کی صورت میں نہ رہے، بلکہ ہم اجتماعی صورت میں نظامِ دین کو عملاً نافذ و قائم کرنے اور مانع و مزاحم قوتوں کو اس کے راستے سے ہٹانے کے لیے جدوجہد بھی کریں۔ ادارہ دارالاسلام کا قیام اس سلسلہ کا پہلا قدم تھا۔ ۱۳۵۷ھ (۱۹۳۸ء) میں یہ قدم اٹھایا گیا اور اس وقت صرف چار آدمی رفیقِ کار بنے۔ اس چھوٹی سی ابتدا کو اس وقت بہت حقیر سمجھا گیا مگر الحمدللہ کہ ہم بد دل نہ ہوئے، اور اسلامی تحریک کی طرف دعوت دینے اور اس تحریک کے لیے نظری حیثیت سے ذہن ہموار کرنے کا کام لگا تار کرتے چلے گئے۔ اس دوران میں ایک ایک کر کے رفقا کی تعداد بڑھتی رہی، ملک کے مختلف حصوں میں ہم خیال لوگوں کے چھوٹے چھوٹے حلقے بھی بنتے رہے، اور لٹریچر کی اشاعت کے ساتھ ساتھ زبانی دعوت و تبلیغ کا سلسلہ بھی چلتا رہا۔ آخر کار تحریک کے اثرات کا گہرا جائزہ لینے کے بعد محسوس ہوا کہ اب جماعتِ اسلامی کی تاسیس اور تحریکِ اسلامی کو منظم طور پر اٹھانے کے لیے زمین تیار ہو چکی ہے اور یہ وقت دوسرا قدم اٹھانے کے لیے موزوں ترین وقت ہے۔ چنانچہ اسی بنیاد پر یہ اجتماع منعقد کیا گیا۔"
تحریک اسلامی اور دوسری تحریکوں کا اصولی فرق
اس تاریخی تبصرے کے بعد مودودی صاحب نے بیان کیا کہ مسلمانوں میں عموماً جو تحریکیں اٹھتی رہی ہیں اور جو اب چل رہی ہیں، پہلے ان کے اور اس تحریک کے اصولی فرق کو ذہن نشین کر لینا چاہیے:
اولاً: ان میں یا تو اسلام کے کسی جز کو، یا دنیوی مقاصد میں سے کسی مقصد کو لے کر بنائے تحریک بنائی گئی ہے، لیکن ہم عین اسلام اور اصل اسلام کو لے کر اٹھ رہے ہیں اور پورا کا پورا اسلام ہی ہماری تحریک ہے۔
ثانیاً: ان میں ہر قسم کے آدمی اس مفروضے پر بھرتی کر لیے گئے ہیں کہ جب یہ مسلمان قوم میں پیدا ہوئے ہیں تو مسلمان ہی ہوں گے اور اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ ارکان سے لے کر کارکنوں اور لیڈروں تک، بکثرت ایسے آدمی ان جماعتوں کے نظام میں گھس گئے، جو اپنی سیرت کے اعتبار سے ناقابلِ اعتماد تھے اور کسی بارِ امانت کو سنبھالنے کے لائق نہ تھے۔ لیکن ہم کسی شخص کو اس مفروضے پر نہیں لیتے کہ وہ مسلمان ہے، بلکہ جب وہ کلمہ طیبہ کے معنی و مفہوم اور مقتضیات کو جان کر اس پر ایمان لانے کا اقرار کرتا ہے تب اسے جماعت میں لیتے ہیں۔ جماعت میں آ جانے کے بعد ایمان کے مطابق عمل پیرا ہونے کے لیے، اس کا جماعت میں رہنے کے لیے اس بات کو شرطِ لازم قرار دیتے ہیں کہ اسلام میں جو کم از کم مقتضیاتِ ایمان ہیں انہیں پورا کرے۔ اس طرح ان شاء اللہ مسلمان قوم میں سے صرف صالح عنصر ہی چھٹ کر جماعت میں آئے گا اور جو صالح بننا چاہے گا وہ اس جماعت میں داخل ہوتا جائے گا۔
ثالثاً: ان تحریکوں کی نظر ہندوستان میں بھی صرف مسلم قوم تک محدود رہی ہے۔ کسی نے وسعت اختیار کی تو زیادہ سے زیادہ بس اتنی کہ دنیا کے مسلمانوں تک نظر پھیلا دی، مگر بہرحال یہ تحریکیں صرف ان لوگوں تک محدود رہی ہیں جو پہلے سے مسلم قوم میں شامل ہیں اور ان کی دلچسپیاں بھی انہی مسائل تک محدود ہیں جن کا تعلق مسلمانوں سے ہے۔ ان کے کاموں میں کوئی چیز ایسی شامل نہیں رہی ہے جو غیر مسلموں کو اپیل کرنے والی ہو، بلکہ بالفعل ان میں سے اکثر کی سرگرمیاں غیر مسلموں کے اسلام کی طرف آنے میں سدِ راہ بنیں۔ لیکن ہمارے لیے چونکہ خود اسلام ہی تحریک ہے اور اسلام کی دعوت تمام دنیا کی اقوام کے لیے ہے، لہٰذا ہماری نظر کسی خاص قوم یا کسی خاص ملک کے وقتی مسائل میں الجھی ہوئی نہیں ہے بلکہ پوری نوعِ انسانی اور سارے کرۂ ارض پر وسیع ہے۔ تمام انسانوں کے مسائلِ زندگی ہمارے مسائلِ زندگی ہیں اور اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت سے ہم ان مسائلِ زندگی کا وہ حل پیش کرتے ہیں جس میں سب کی فلاح اور سب کے لیے سعادت ہے۔ اس طرح ہماری جماعت میں صرف پیدائشی مسلمانوں کا صالح عنصر ہی جمع نہ ہوگا بلکہ کل غیر مسلموں میں جو سعید روحیں موجود ہیں، وہ ان شاء اللہ اس جماعت میں شامل ہوتی چلی جائیں گی۔
جن غلطیوں سے کارکنانِ تحریک کو لازماً بچنا چاہیے
ایک یہ کہ ایسی جماعت بننے اور ایسی تحریک لے کر اٹھنے کے بعد بہت جلدی لوگ اس غلط فہمی میں پڑ گئے ہیں کہ ان کی جماعت کی حیثیت وہی ہے جو انبیاء علیہم السلام کے زمانے میں اسلامی جماعت کی تھی، بالفاظِ دیگر یہ کہ جو اس جماعت میں نہیں ہے وہ ”مَنْ شَذَّ شُذَّ فِي النَّارِ“ کا مصداق ہے۔ یہ چیز بہت جلدی اس جماعت کو مسلمانوں کا ایک فرقہ بنا کر رکھ دیتی ہے اور پھر اس کا سارا وقت اصل کام کے بجائے دوسرے مسلمانوں سے الجھنے اور مناظرہ کرنے میں کھپ جاتا ہے۔
دوسرے یہ کہ ایسی جماعتیں جسے اپنا امیر یا امام تسلیم کرتی ہیں، اس کے متعلق انہیں یہ غلط فہمی ہو جاتی ہے کہ اس کی وہی حیثیت ہے جو نبی ﷺ کے بعد خلفائے راشدین کی تھی، یعنی جس کی گردن میں اس امام کی بیعت کا قلاوہ نہیں وہ دائرۂ اسلام سے خارج ہے۔ اور اس غلط فہمی کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آخر کار ان کی ساری تگ و دو بس اپنے امیر یا امام کی امارت و امامت منوانے پر مرکوز ہو جاتی ہے۔
مولانا مودودی نے کہا کہ ہمیں ان دونوں خطرات سے بچ کر چلنا ہے، خوب سمجھ لیجیے کہ ہماری حیثیت اس جماعت کی سی نہیں ہے جو نبی کی قیادت میں بنتی ہے۔ بلکہ ہماری صحیح حیثیت اس جماعت کی ہے جو اصل نظامِ جماعت کے درہم برہم ہو جانے کے بعد اسے تازہ کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ نبی کی قیادت میں جو جماعت بنتی ہے وہ تمام دنیا میں ایک ہی اسلامی جماعت ہوتی ہے اور اس کے سوا دائرۂ اسلام سے باہر صرف کفر ہی ہوتا ہے۔ مگر بعد میں اس نظام کو تازہ کرنے کے لیے جو لوگ اٹھیں، ضروری نہیں کہ ان سب کی بھی ایک ہی جماعت ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کئی جماعتیں ہوں اور ان میں سے کسی کو بھی یہ کہنے کا حق نہیں ہے کہ بس ہم ہی اسلامی جماعت ہیں اور ہمارا امیر ہی امیر المومنین ہے۔ اس معاملے میں تمام ان لوگوں کو جو جماعت میں شامل ہوں، غلو سے سخت پرہیز کرنا چاہیے کیوں کہ بہرحال ہمیں مسلمانوں میں ایک فرقہ نہیں بننا ہے۔ خدا ہمیں اس سے بچائے کہ ہم اس کے دین کے لیے کچھ کام کرنے کے بجائے مزید خرابیاں پیدا کرنے کے موجب بن جائیں۔
تحریکِ اسلامی کا دائرۂ عمل
اس کے بعد مودودی صاحب نے فرمایا کہ جماعت اسلامی کے لیے دنیا میں کرنے کا جو کام ہے، اس کا کوئی محدود تصور اپنے ذہن میں قائم نہ کیجیے۔ دراصل اس کے لیے کام کا کوئی ایک ہی میدان نہیں ہے، بلکہ پوری انسانی زندگی اپنی تمام وسعتوں کے ساتھ اس کے دائرۂ عمل میں آتی ہے۔ اسلام انسانوں کے لیے ہے اور ہر وہ چیز جس کا انسان سے کوئی تعلق ہے، اسلام سے بھی اس کا تعلق ہے۔ لہٰذا اسلامی تحریک ایک ہمہ گیر نوعیت کی تحریک ہے اور یہ خیال کرنا غلط ہے کہ اس تحریک میں کام کرنے کے لیے صرف خاص قابلیتوں اور خاص علمی معیار کے آدمیوں ہی کی ضرورت ہے۔ نہیں، یہاں ہر انسان کے لیے کام موجود ہے، کوئی انسان بے کار نہیں ہے۔ جو شخص جو قابلیت بھی رکھتا ہو، اس کے لحاظ سے وہ اسلام کی خدمت میں اپنا حصہ ادا کر سکتا ہے۔ عورت، مرد، بوڑھا، جوان، دیہاتی، شہری، کسان, مزدور، تاجر، مفکر، محرر، ادیب، ان پڑھ اور فاضلِ اجل، سب یکساں کارآمد اور یکساں مفید ہو سکتے ہیں بشرطیکہ وہ جان بوجھ کر اسلام کے عقیدے کو اختیار کر لیں، اس کے مطابق عمل کرنے کا فیصلہ کر لیں اور اس مقصد کو جسے اسلام نے مسلمان کا نصب العین قرار دیا ہے، اپنی زندگی کا مقصد بنا کر کام کرنے پر تیار ہو جائیں۔
البتہ یہ بات ہر اس شخص کو جو جماعت اسلامی میں آئے، اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ جو کام اس جماعت کے پیشِ نظر ہے وہ کوئی ہلکا اور آسان کام نہیں ہے۔ اسے دنیا کے پورے نظامِ زندگی کو بدلنا ہے، اسے دنیا کے اخلاق، سیاست، تمدن، معیشت، معاشرت، ہر چیز کو بدل ڈالنا ہے۔ دنیا میں جو نظامِ حیات خدا سے بغاوت پر قائم ہے، اسے بدل کر خدا کی اطاعت پر قائم کرنا ہے اور اس کام میں تمام شیطانی طاقتوں سے اس کی جنگ ہے۔ اگر کوئی ہلکا کام سمجھ کر آئے گا تو بہت جلدی مشکلات کے پہاڑ اپنے سامنے دیکھ کر اس کی ہمت ٹوٹ جائے گی۔ اس لیے ہر شخص کو قدم آگے بڑھانے سے پہلے خوب سمجھ لینا چاہیے کہ وہ کس خارزار میں قدم رکھ رہا ہے۔ یہ وہ راستہ نہیں ہے جس میں آگے بڑھنا اور پیچھے ہٹنا دونوں یکساں ہوں؛ نہیں، یہاں پیچھے ہٹنے کے معنی ارتداد کے ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ جماعت سے نکلنا ارتداد کا ہم معنی ہے، بلکہ اصل مطلب یہ ہے کہ خدا کے راستے میں پیش قدمی کرنے کے بعد مشکلات، مصائب، نقصانات اور خطرات کو سامنے دیکھ کر پیچھے ہٹ جانا اپنی روح اور اپنی حقیقت کے اعتبار سے ارتداد ہے، جیسا کہ قرآن میں فرمایا گیا: وَمَنْ يُوَلِّهِمْ يَوْمَئِذٍ دُبُرَهُ إِلَّا مُتَحَرِّفًا لِقِتَالٍ أَوْ مُتَحَوِّزًا إِلَىٰ فِئَةٍ فَقَدْ بَاءَ بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ وَمَأْوَاهُ جَهَنَّمُ ۖ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ (الانفال 8:16)۔ لہٰذا قدم اٹھانے سے پہلے خوب سوچ لو۔ جو قدم بڑھاؤ، اس عزم کے ساتھ بڑھاؤ کہ اب یہ قدم پیچھے نہیں پڑے گا۔ جو شخص اپنے اندر ذرا بھی کمزوری محسوس کرتا ہو، بہتر ہے کہ وہ اسی وقت الگ ہو جائے۔
اجتماع کے انعقاد کی غرض
آخر میں مودودی صاحب نے فرمایا کہ اس اجتماع کے انعقاد کی غرض یہ ہے کہ جو لوگ اسلامی عقیدہ کو جان بوجھ کر قبول کر لیں اور اس کے نصب العین کے لیے کام کرنے پر تیار ہوں، وہ اپنی انفرادی حیثیت کو ختم کر کے اللہ اور رسول کی ہدایت کے مطابق ایک جماعت بن جائیں اور باہمی مشورے سے آئندہ کام کرنے کے لیے ایک نظام بنائیں۔ میرا کام آپ کو ایک جماعت بنا دینے کے بعد پورا ہو جاتا ہے، میں صرف ایک داعی تھا، بھولا ہوا سبق یاد دلانے کی کوشش کر رہا تھا اور میری تمام مساعی کی غایت یہ تھی کہ ایک نظامِ جماعت وجود میں آئے۔ جماعت بن جانے کے بعد میں آپ ہی کی طرح جماعت کا ایک فرد ہوں، اب یہ جماعت کا کام ہے کہ اپنے میں سے کسی اہل تر آدمی کو اپنا امیر منتخب کرے اور پھر یہ اس امیر کا کام ہے کہ آئندہ اس تحریک کو چلانے کے لیے ضوابط کے مطابق ایک پروگرام بنائے اور اسے عمل میں لائے۔ میرے متعلق کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہونی چاہیے کہ جب دعوت میں نے دی ہے تو آئندہ اس تحریک کی راہ نمائی بھی میں اپنی ہی سمجھتا ہوں۔
ترتیبِ دستور
اس تمہیدی تقریر کے بعد آپ نے دستورِ جماعت اسلامی کا مسودہ پڑھنا شروع کیا۔ یہ مسودہ کئی دن پہلے ہی طبع کرا لیا گیا تھا اور تمام آنے والوں کو اجتماع سے ایک یا دو روز قبل دے دیا گیا تھا تاکہ وہ اس پر اچھی طرح غور کر لیں۔ اجتماعِ عام میں اس کے متعلق ہر شخص کو اظہارِ رائے کا پورا پورا موقع دیا گیا۔ اس کا ایک ایک لفظ پڑھا گیا اور اس پر بحث ہوئی۔ قریب قریب مغرب کے وقت جا کے یہ اجتماع ختم ہوا۔ درمیان میں صرف دوپہر کے کھانے اور ظہر و عصر کی نمازوں کے لیے اجتماع ملتوی کیا گیا تھا۔ بہرحال شام تک ہر ضروری مسئلے پر بحث ہو کر آئندہ کے لیے لائحہ عمل طے ہو چکا تھا۔ دستور بعض ترامیم اور اضافوں کے ساتھ پورا کا پورا بالاتفاق پاس ہو گیا۔
تشکیلِ جماعت
اس کے بعد سب سے پہلے مودودی صاحب اٹھے اور کلمہ شہادت اَشْهَدُ اَنْ لَّا اِلٰهَ اِلَّا اللهُ وَاَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللهِ کا اعادہ کیا اور کہا کہ "لوگو! گواہ رہو کہ میں آج از سرِ نو ایمان لاتا اور جماعت اسلامی میں شریک ہوتا ہوں۔" اس کے بعد محمد منظور نعمانی کھڑے ہوئے اور آپ نے بھی مولانا مودودی کی طرح تجدیدِ ایمان کا اعلان کیا۔ بعد ازاں حاضرین میں سے باری باری ہر شخص اٹھا، کلمۂ شہادت ادا کیا، اور جماعت میں شریک ہوا۔ اکثر حضرات کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے بلکہ بعض لوگوں پر تو روتے روتے رقت طاری ہو گئی تھی۔ قریب قریب ہر شخص کلمۂ شہادت ادا کرتے وقت ذمہ داری کے احساس سے کانپ رہا تھا۔ جب سب لوگ شہادت ادا کر چکے تو مودودی صاحب نے اعلان کیا کہ اب جماعت اسلامی کی تشکیل ہو گئی، آئیے ہم سب مل کر رب العالمین سے دعا کریں کہ وہ ہماری جماعت کو استقامت اور استقلال بخشے اور ہم کو اپنی کتاب اور اپنے رسول کی سنت کے مطابق چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔
سید ابوالاعلیٰ مودودی کا جماعت سے پہلا خطاب
(۲ شعبان)
آج آٹھ بجے پھر اجتماع ہوا۔ سب سے پہلے مودودی صاحب نے ایک ایک رکنِ جماعت کو الگ الگ بلا کر اس سے دریافت کیا کہ وہ اپنے آپ کو جماعت کے کس طبقے کے لیے پیش کرتا ہے۔ پھر جب ارکانِ جماعت کی طبقہ وار فہرست مکمل ہو گئی تو مودودی صاحب تقریر کے لیے اٹھے اور حاضرین کو مخاطب کر کے فرمایا:
ایک نصب العین پر اجتماع اور جماعتی زندگی لازم و ملزوم
جو لوگ ایک ہی عقیدہ، ایک ہی نصب العین اور ایک ہی مسلک رکھتے ہوں ان کے لیے ایک جماعت بن جانے کے سوا کوئی چارہ نہیں اور ایک جماعت بن جانا، بالکل ایک فطری امر ہے۔ وحدتِ فکر کا لازمی نتیجہ اتحاد و اجتماع ہے اور افتراق صرف اس جگہ ہوتا ہے جہاں کلمہ متفرق ہو۔ وحدتِ کلمہ کے باوجود تفرقہ رہنا بجائے خود اس امر کی دلیل ہے کہ اس کے پیچھے دراصل نفسانیت اور خود غرضی ہے، جو اسلام کی ضد ہے۔ پس جب آپ نے کل شہادت ادا کی کہ آپ سب ایک ہی عقیدہ، ایک ہی نصب العین اور ایک ہی راہِ عمل رکھتے ہیں، یعنی آپ کا کلمہ واحد ہے، تو آپ خود بخود ایک جماعت بن گئے اور میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ مجھ میں یا آپ میں سے کسی میں وہ نفسانیت ہو جو سبیل المومنین کے اتباع پر کسی کو آمادہ نہ کرے۔
اسلام میں جماعتی زندگی کے قواعد
- خیر خواہی: جماعت کے ہر فرد کو نظامِ جماعت کا بحیثیتِ مجموعی اور جماعت کے افراد کا فرداً فرداً سچے دل سے خیر خواہ ہونا چاہیے۔ جماعت کی زندگی میں افرادِ جماعت سے کینہ، بغض، حسد، بدگمانی، اور ایذا رسانی، وہ بدترین جرائم ہیں جنھیں اللہ اور اس کے رسول نے ایمان کے متنافی قرار دیا ہے۔
- تعاون علی البر والتقویٰ: آپ کی اس جماعت کی حیثیت دنیوی پارٹیوں کی سی نہیں ہے جن کا کلمہ یہ ہوتا ہے کہ "میری پارٹی خواہ حق پر ہو یا ناحق پر"۔ آپ کو جس رشتے نے ایک دوسرے سے جوڑا ہے وہ دراصل اللہ پر ایمان کا رشتہ ہے اور اللہ پر ایمان کا اولین تقاضا یہ ہے کہ آپ کی دوستی اور دشمنی، محبت اور نفرت جو کچھ بھی ہو، اللہ کے لیے ہو۔ وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ ۖ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ۔ جماعت کی سب سے بڑی خیر خواہی یہ ہے کہ اسے راہِ راست سے نہ ہٹنے دیا جائے، اس میں غلط مقاصد اور غلط خیالات اور غلط طریقوں کو پنپنے سے روکا جائے۔
- اندرونی جتھا بندیوں سے پرہیز: جماعت کے اندر جماعت بنانے کی کوشش کبھی نہ ہونی چاہیے۔ سازشیں، جتھا بندیاں، عہدوں کی امیدواری، حمیتِ جاہلیہ اور لسانی رقابتیں، وہ چیزیں ہیں جو جماعتی زندگی کے لیے سخت خطرناک ہوتی ہیں، مگر اسلامی جماعت کے مزاج سے تو ان چیزوں کو کوئی مناسبت ہی نہیں ہے۔ اسی طرح غیبت، چغل خوری اور بدگمانی جماعتی زندگی کے لیے سخت مہلک بیماریاں ہیں جن سے بچنے کی ہم سب کو کوشش کرنی چاہیے۔
- باہمی مشاورت: باہمی مشاورت جماعتی زندگی کی جان ہے، اسے بھی نظر انداز نہ کرنا چاہیے۔ جس شخص کے سپرد کسی جماعتی کام کی ذمہ داری ہو، اس کے لیے لازم ہے کہ اپنے کاموں میں دوسرے رفقاء سے مشورہ لے، اور جس سے مشورہ لیا جائے اس کا فرض ہے کہ نیک نیتی کے ساتھ اپنی حقیقی رائے کا صاف صاف اظہار کرے۔
- جماعتی فیصلے کا احترام: جماعتی مشورے میں کسی شخص کو اپنی رائے پر اتنا مصر نہ ہونا چاہیے کہ یا تو اس کی بات مانی جائے ورنہ وہ جماعت سے تعاون نہ کرے گا یا اجتماع کے خلاف عمل کرے گا۔ جب تک مسئلہ زیرِ بحث رہتا ہے، ہر شخص پوری صفائی سے اظہارِ خیال کرے، مگر جب کسی شخص کی رائے کے خلاف فیصلہ ہو جائے تو وہ یا تو اپنی رائے واپس لے لے، یا اپنی رائے کو درست سمجھنے کے باوجود فراخ دلی کے ساتھ جماعت کا ساتھ دے۔
- امارت کا نظام: "اسلام بغیر جماعت کے نہیں، اور جماعت بغیر امارت کے نہیں ہے۔" اس قاعدۂ کلیہ کے بموجب آپ کے لیے ضروری ہے کہ جماعت بننے کے ساتھ ہی آپ اپنے لیے ایک امیر منتخب کر لیں۔ امیر کے انتخاب میں آپ کو یہ امور ملحوظ رکھنے چاہئیں کہ کوئی شخص جو امارت کا امیدوار ہو، اسے ہرگز منتخب نہ کیا جائے۔ انتخاب کے سلسلے میں تعصبی حمایت سے بالاتر ہوکر یہ دیکھیے کہ آپ کی جماعت میں کون ایسا شخص ہے جس کے تقویٰ، علمِ کتاب و سنت، دینی بصیرت، تدبر اور راہِ خدا میں استقامت پر آپ سب سے زیادہ اعتماد کر سکتے ہیں۔ پھر جب آپ اسے منتخب کر لیں تو اس کی خیر خواہی، اس کے ساتھ مخلصانہ تعاون، معروف میں اس کی اطاعت اور منکر میں اس کی اصلاح کی کوشش آپ کا فرض ہے۔
انتخابِ امیر
اس تقریر کے بعد انتخابِ امیر کے مسئلے پر مذاکرہ شروع ہوا۔ دورانِ گفتگو میں تین مختلف نظریے پیش کیے گئے جن پر دوپہر تک بحث ہوتی رہی۔ بالآخر یہ طے ہوا کہ اس مسئلے کو سات آدمیوں کی ایک مجلس کے سپرد کر دیا جائے اور جو کچھ وہ مجلس طے کرے اسے سب قبول کر لیں۔ مجلس نے غور و خوض کے بعد تجویز مرتب کی جسے جماعت نے بالاتفاق قبول کر لیا۔ اس کے بعد تمام لوگوں نے بالاتفاق سید ابوالاعلیٰ مودودی کو اپنا امیر منتخب کیا۔ بیعت کا رسمی طریقہ اختیار نہیں کیا گیا بلکہ پوری جماعت نے ایک ساتھ یہ عہد کیا کہ وہ مذکورہ بالا تصریحات کے تحت امیر کی اطاعت اور اس کے حکم کی پابندی کریں گے۔
امیرِ جماعت کی اختتامی تقریر
آخر میں امیرِ جماعت نے کھڑے ہو کر مختصر تقریر کی جس میں کہا کہ میں آپ کے درمیان سب سے زیادہ علم رکھنے والا تھا، نہ سب سے زیادہ متقی، نہ کسی اور حیثیت میں مجھے فضیلت حاصل تھی۔ بہرحال جب آپ نے مجھ پر اعتماد کر کے یہ عظیم بار میرے سر پر رکھ دیا ہے تو میں اب اللہ سے دعا کرتا ہوں اور آپ لوگ بھی دعا کریں کہ مجھ کو اس بار کو سنبھالنے کی قوت عطا فرمائے۔ میں اپنی حدِ وسع تک انتہائی کوشش کروں گا کہ اس کام کو پوری خدا ترسی اور پورے احساسِ ذمہ داری کے ساتھ سرانجام دے سکوں۔
امیر پر جماعت کا حق: آپ کا مجھ پر یہ حق ہے کہ میں اپنے آرام و آسائش اور اپنے ذاتی فائدوں پر جماعت کے مفاد اور اس کے کام کی ذمہ داریوں کو ترجیح دوں، جماعت کے نظام کی حفاظت کروں، ارکانِ جماعت کے درمیان عدل اور دیانت کے ساتھ حکم کروں، اور اپنے دل اور دماغ اور جسم کی تمام طاقتوں کو اس کی خدمت میں صرف کر دوں جس کے لیے آپ کی جماعت اٹھی ہے۔
جماعت پر امیر کا حق: میرا آپ پر یہ حق ہے کہ جب تک میں راہِ راست پر چلوں آپ اس میں میرا ساتھ دیں، میرے حکم کی اطاعت کریں، نیک مشوروں سے اور امکانی امداد و اعانت سے میری تائید کریں اور جماعت کے نظم کو بگاڑنے والے طریقوں سے پرہیز کریں۔
روداد مجلسِ شوریٰ۔ ۴ شعبان ۱۳۶۰ھ
۴ شعبان: گزشتہ شام کو امیرِ جماعت نے اصحابِ شوریٰ کا انتخاب کر لیا تھا۔ آج صبح آٹھ بجے شوریٰ کا پہلا اجلاس ہوا اور تحریک کے مستقبل اور جماعت کے لائحہ عمل پر سوچ بچار کیا گیا۔ کافی غور و خوض اور بحث و مباحثہ کے بعد جو کچھ طے ہوا وہ حسبِ ذیل ہے:
تقسیم کار
فی الحال جماعت کے کام کو حسبِ ذیل شعبوں میں تقسیم کیا گیا:
(۱) شعبہ علمی و تعلیمی
- اسلام کے نظامِ فکر اور نظامِ حیات کا اس کے مختلف فلسفیانہ، عملی اور تاریخی پہلوؤں میں گہرا تفصیلی مطالعہ کرائے۔
- دنیا کے دوسرے نظاماتِ فکر و عمل پر بھی وسیع تنقیدی و تحقیقی نظر ڈالے اور اپنے نتائجِ تحقیق کو ایک ایسے زبردست لٹریچر کی شکل میں پیش کرے جو نہ صرف اسلامی اصول پر ذہنی و فکری انقلاب برپا کرنے والا ہو، بلکہ نظامِ اسلامی کے بالفعل قائم ہونے کے لیے بھی زمین تیار کرے۔
- ایک ایسا نظریۂ تعلیمی اور نظامِ تعلیم مرتب کرے جو اسلام کے مزاج سے ٹھیک ٹھیک مناسبت رکھتا ہو اور دنیا میں اسلامی انقلاب برپا کرنے کے لیے بنیاد کا کام دے سکے۔
- اپنے نظریۂ تعلیمی کے مطابق نصاب اور معلمین تیار کرے اور بالآخر ایک درس گاہ قائم کر کے آئندہ نسل کی ذہنی و اخلاقی تربیت کا کام شروع کر دے۔
- ایک ایسی تربیت گاہ قائم کرے جو دنیا میں اسلامی انقلاب برپا کرنے کے لیے بہترین کارکن تیار کرے۔
(۲) شعبہ نشر و اشاعت
شعبہ علمی و تعلیمی سے جو لٹریچر تیار کیا جائے اسے پھیلانے کا کام اس شعبہ کے سپرد ہو گا۔ اس کا فرض ہو گا کہ جماعت کے لٹریچر کو جہاں تک ممکن ہو، خدا کے بندوں تک پہنچانے کی کوشش کرے۔
(۳) شعبہ تنظیم جماعت
اس شعبہ کے فرائض حسبِ ذیل ہوں گے:
- کارکنوں کو ہدایت دینا۔
- جہاں مقامی جماعتیں بن گئی ہوں وہاں کے کام کی نگرانی کرنا، ان سے رپورٹیں طلب کرنا اور انہیں مشورے دینا۔
- جہاں انفرادی شکل میں جماعت کے ارکان موجود ہوں، وہاں مقامی جماعتیں بنانے کی کوشش کرنا۔
- جو اشخاص یا ادارے یا جماعتیں عقیدہ اور نصب العین میں اس جماعت سے متفق ہوں ان سے ربط قائم کرنے کی سعی کرنا۔
- تحریک کی رفتار کا جائزہ لیتے رہنا اور اسے آگے بڑھانے کی تدابیر عمل میں لانا۔
(۴) شعبہ مالیات
سابقہ ادارہ دارالاسلام کے حسابات اگست ۱۹۴۱ء تک ختم کر کے جماعتِ اسلامی کی طرف منتقل کر دیے گئے اور جماعت کا مرکزی بیت المال قائم کر دیا گیا جو براہِ راست امیرِ جماعت کے ماتحت رہے گا۔ ہر جگہ کی مقامی جماعتوں کے لیے طے کیا گیا کہ وہ اپنا مقامی بیت المال قائم کریں۔
اگست ۱۹۴۱ء تک آمد و خرچ کی تفصیل:
| آمدنی | خرچ |
|---|---|
| از فروخت کتب: ۲۹۳۶-۱۵-۸ | طباعت کتب: ۲۳۰۰-۶-۲ |
| از زکوٰۃ: ۱۳۰-۰-۰ | ڈاک خرچ: ۵۹۰-۹-۳ |
| از مدِ اعانت اہل خیر: ۲۳۸-۱۲-۰ | تنخواہ ملازمین: ۳۸۰-۰-۰ |
| میزان: ۲۷۱۷-۸-۱۱ | سفر خرچ: ۱۳۵-۳-۰ |
| ابتدائی سرمایہ: ۱۳۰-۰-۰ | صرف از مدِ زکوٰۃ: ۱۳۵-۱-۰ |
| جملہ آمدنی: ۳۸۳۹-۶-۱۱ | متفرقات: ۳۶-۱۱-۰ |
| اسٹیشنری: ۲۷-۶-۲ | |
| مصارف اجتماعِ اوّل: ۱۱۹-۸-۶ | |
| جملہ خرچ: ۳۷۳۴-۱۳-۶ | |
| باقی: ۱۳۷-۱۳-۴ | |
(۵) شعبہ دعوت و تبلیغ
یہ شعبہ اس جماعت کا سب سے اہم شعبہ ہے اور دراصل کامیابی کا انحصار اسی شعبہ کی کارگزاری پر ہے۔ ہر شخص جو جماعتِ اسلامی کا رکن ہو، لازمی طور پر اس شعبہ کا رکن ہو گا۔ اسے دائماً ایک مبلغ کی زندگی بسر کرنی ہو گی۔ اس کے لیے لازم ہو گا کہ جہاں جس حلقہ میں بھی اس کی پہنچ ہو، جماعت کے عقیدہ کو پھیلائے، اس کے نصب العین کی طرف دعوت دے، اور جماعت کے نظام کی تشریح کرے۔
کارکنوں کو امیرِ جماعت کی ہدایات
مذکورہ بالا لائحہ عمل طے ہو جانے کے بعد ۴ شعبان ہی کو پھر اجتماعِ عام منعقد ہوا جس میں امیرِ جماعت نے حاضرین کو اس لائحہ عمل کی تفصیلات سے آگاہ کیا اور پھر کام کرنے کے لیے حسبِ ذیل ہدایات دیں:
- مقامی جماعتوں کا قیام: ہر وہ بستی جہاں دو آدمی ایسے موجود ہوں جو جماعتِ اسلامی میں داخل ہو چکے ہوں، وہاں لازم ہے کہ مقامی جماعت بنائی جائے۔
- ماتحت امراء کا عزل و نصب: امیرِ جماعت اگر مصالحِ جماعتی کے لحاظ سے کسی کو مقرر کرے یا معزول کرے تو اس پر برہم نہ ہونا چاہیے۔
- جماعت میں داخلے کا طریقہ: جب کوئی نیا شخص داخل ہو تو اسے پورا احساسِ ذمہ داری دلا کر از سرِ نو کلمۂ شہادت ادا کرایا جائے۔
- مطالعہ لٹریچر کی ضرورت: جو شخص جماعت میں داخل ہو، اسے تحریکِ اسلامی کے لٹریچر کا بیشتر حصہ پڑھوا دیا جائے تاکہ ذہنی ہم آہنگی پیدا ہو۔
- مقامی تقسیم کار: مقامی امراء اپنے حلقے کے ارکان کی صلاحیتوں کا جائزہ لیں اور ہر شخص کو اس کی اہلیت کے مطابق کام سپرد کریں۔
- ہفتہ وار اجتماعات: ہر مقامی جماعت کو جمعہ کے روز جمع ہو کر ہفتہ بھر کے کام کا جائزہ لینا چاہیے۔
- مطالعہ قرآن و سیرت: جماعت کے ارکان کو قرآن اور سیرت النبی ﷺ اور صحابہ سے خاص شغف ہونا چاہیے۔
- نفل عبادات کا التزام: اس تحریک کی جان دراصل تعلق باللہ ہے۔ فرض عبادات کے علاوہ نفل عبادات کا بھی التزام کیجیے۔
- سیرت اور اخلاقی پاکیزگی: ہر شخص کو اپنی دوہری ذمہ داری محسوس کرنی چاہیے۔ آپ کی ایک معمولی لغزش بھی اسلام کے دامن پر دھبہ لائے گی۔
- بحث و مناظرہ سے اجتناب: ایسے تمام طریقوں سے پرہیز کرنا چاہیے جو مسلمانوں میں ایک فرقہ بنانے والے ہوں۔
- تحریک کا مزاج اور طریق کار: جلسے، جلوس، جھنڈے اور نعرے جیسی چیزیں اس تحریک کے لیے سمِ قاتل ہیں۔ یہاں کا طریق کار قرآن اور سیرت سے سیکھیے۔
- غیر متعلق سرگرمیوں سے پرہیز: اسمبلیوں اور ڈسٹرکٹ بورڈوں کے جھگڑوں اور دیگر فرقہ وارانہ تنازعات سے بالکل کنارہ کش رہنا چاہیے۔
- طریقِ تبلیغ: تبلیغ میں حکمت اور موعظتِ حسنہ کو ملحوظ رکھیے۔ مخاطب کی ذہنیت کو سمجھیں اور ہمدردی سے پیش آئیں۔
روداد مجلس شوریٰ (محرم ۱۳۶۱ھ)
جنگ کی وجہ سے ملک میں جو اضطراب کی حالت پیدا ہو چکی تھی، اس کی وجہ سے یہ مناسب نہ سمجھا گیا کہ مارچ ۱۹۴۲ء میں جماعت کے ارکان کا اجتماعِ عام منعقد کیا جائے۔ اس لیے امیرِ جماعت نے مجلسِ شوریٰ کو طلب کیا تاکہ ضروری امور پر فیصلہ کیا جا سکے۔
کام کا جائزہ
۲۶، ۲۷، ۲۸ فروری ۱۹۴۲ء کو مجلسِ شوریٰ کے اجتماعات ہوئے۔ سب سے پہلے تمام شرکاء نے فرداً فرداً تحریک کی عام رفتار اور بالخصوص اپنے اپنے علاقوں کے کام پر تبصرہ کیا۔ پھر امیرِ جماعت نے ایک مفصل تقریر میں جماعت کے اب تک کے کام پر تبصرہ کیا اور نظام کی خامیوں اور ان کے اسباب پر روشنی ڈالی۔
مجلس شوریٰ کے فیصلے
باہمی مشورے سے جو امور بالاتفاق طے ہوئے وہ حسبِ ذیل ہیں:
- استحکامِ جماعت: جماعت کا جائزہ لینے سے معلوم ہوا ہے کہ نظام میں بعض ایسے اصحاب بھی پائے جاتے ہیں جو ذہنی حیثیت سے ابھی تک یکسو نہیں ہوئے ہیں۔ ان کی اصلاح کی جائے اور آئندہ بھرتی میں احتیاط کی جائے۔
- مقامی امراء کی تربیت: مقامی جماعتوں کے امراء کو ہر سال ایک دو مہینے کے لیے امیرِ جماعت کے ساتھ آکر رہنا چاہیے۔
- مرکزی تربیت گاہ: اس امر کی شدید ضرورت محسوس کی گئی ہے کہ جماعت کے چند بہترین دل و دماغ کے لوگ مرکز میں مستقل طور پر رہیں اور مرکز کسی ایسی جگہ بنایا جائے جہاں کارکنوں کی تربیت کا اچھا انتظام ہو سکے۔
- لٹریچر کی تیاری: اب تک یہ بار امیرِ جماعت پر رہا ہے، لیکن اب ضرورت ہے کہ جماعت میں جو لوگ اہل قلم ہیں وہ اس کام میں اپنی صلاحیتوں کے مطابق پورا حصہ لیں۔
- ترمیمِ دستور: دستورِ جماعت پر جو اعتراضات ہوئے ہیں، ان پر غور کیا گیا اور اصلاح کے بعد طے کیا گیا کہ نیا ترمیم شدہ دستور شائع کیا جائے۔
روداد مجلس شوریٰ شوال ۱۳۶۱ھ (اکتوبر ۱۹۴۲ء)
از ابوالاعلیٰ مودودی، امیرِ جماعت
اجلاس کی غرض
شوال ۱۳۶۱ھ (اکتوبر ۱۹۴۲ء) کے دوسرے ہفتے میں مجلسِ شوریٰ کا دوسرا اجتماع بمقام دہلی ہوا۔ اس اجتماع کی اصل غرض چند ایسے اختلافات کا حل تلاش کرنا تھا، جو بدقسمتی سے ابتدائی مرحلے ہی میں نظامِ جماعت کے اندر رونما ہو گئے تھے اور جن کی وجہ سے یہ خطرہ پیدا ہو گیا تھا کہ کہیں اقامتِ دین کی یہ منظم کوشش، شروع ہوتے ہی ختم نہ ہو جائے۔
کارروائی
چار پانچ روز ہم لوگ اس کام میں منہمک رہے۔ میں نے چاہا کہ جو لوگ مجھ سے یا میرے کام سے مطمئن نہیں ہیں، وہ خفیہ سرگرمیوں کو چھوڑ کر جماعت کے سامنے اپنی بے اطمینانی کے اسباب صاف صاف بیان کر دیں۔ لیکن ان حضرات نے ایسا کرنے سے اجتناب کیا۔ اس کے بعد میں نے جماعت کے سامنے تین متبادل صورتیں پیش کیں:
- میں خود استعفیٰ دیتا ہوں، میری جگہ کسی دوسرے شخص کو راہ نما منتخب کر لیا جائے۔
- اگر ایک شخص نہیں ملتا تو تین چار آدمی مل کر اس کام کو سنبھالیں۔
- جماعت کا یہ نظام جو ہم نے بنایا ہے، اسے توڑ دیا جائے اور سب کو آزاد چھوڑ دیا جائے۔
پہلی دو تجاویز بالاتفاق رد کر دی گئیں۔ تیسری تجویز پر اختلاف رکھنے والے اصحاب عمل چاہتے تھے، لیکن شوریٰ کی اکثریت نے اس سے سخت اختلاف کیا کہ جماعت کو توڑنا نصب العین سے دشمنی کے مترادف ہوگا۔
مولانا محمد منظور نعمانی اور ان کے تین ساتھیوں کی جماعت سے علیحدگی
مذکورہ بالا صورتِ حال سامنے آنے پر اختلاف سے متاثر حضرات میں سے بعض نے رجوع کر لیا اور صرف چار اصحاب ایسے رہ گئے جنھوں نے اختلاف پر قائم رہتے ہوئے جماعت سے علیحدگی اختیار کر لی۔ ان اصحاب کے نام یہ ہیں:
- مولانا محمد منظور صاحب نعمانی، مدیر الفرقان، بریلی۔
- مولانا سید محمد جعفر صاحب، خطیب مسجد جامع، کپور تھلہ۔
- قمر الدین خاں صاحب، سابق ناظم جماعت۔
- عطاء اللہ صاحب، پٹھو آکالی، بنگال۔
رفقاء کار
از ابوالاعلیٰ مودودی، امیرِ جماعت
تعدادِ ارکان
جماعت کے ارکان کی تعداد اس وقت سات سو کے قریب ہے۔ بیرونی جماعتوں کی طرف سے اب تک پوری فہرستیں نہیں آئی ہیں اس لیے صحیح تعداد متعین نہیں ہو سکتی، ممکن ہے کہ اصل تعداد اس تخمینے سے زیادہ ہی ہو۔
جماعت کا دائرۂ اثر
جماعت کا دائرۂ اثر پنجاب، یو پی، بہار، دکن اور مدراس کے علاقوں میں زیادہ ہے۔ پچھلے ڈیڑھ دو سال میں ہم تقریباً ایک لاکھ آدمیوں تک اپنی آواز پہنچا چکے ہیں اور ان میں سے کم از کم دس فی صدی حصہ ہماری دعوت سے متاثر ہو چکا ہے۔
رکاوٹیں اور مشکلات
- جنگی حالات: سب سے پہلا اور اہم سبب موجودہ جنگ ہے۔ ایک نظام جو حالتِ جنگ میں ہو، اس کے حدود میں رہ کر اس نوعیت کی دعوت شروع کرنا بہت مشکل ہے۔
- ذرائع کی کمی: دوسری بڑی رکاوٹ ہماری راہ میں ذرائع کی کمی ہے۔ تشکیلِ جماعت کے وقت ہمارے پاس صرف ۲۷ روپے کا سرمایہ تھا۔ ارکان بھی غریب ہیں اور عام اہل خیر سے مدد لینے میں بھی ہم مخصوص اصولوں کے پابند ہیں۔
- مردانِ کار کی کمی: تیسری اہم رکاوٹ مردانِ کار کی کمی ہے۔ بڑے اجتماعی کاموں کے لیے عمدہ صلاحیتیں رکھنے والے افراد کی ضرورت ہوتی ہے جو ابھی تک میسر نہیں آئے ہیں۔
- کارکنوں کا غیر تربیت یافتہ ہونا: ہمارے ارکان کی تربیت بالکل ابتدائی حالت میں ہے۔ بہت کم ارکان ہیں جنھوں نے اس جماعت کے مزاج اور مقصد کو صحیح معنوں میں سمجھا ہے۔
روداد اجتماع در بھنگہ (اکتوبر ۱۹۴۲ء)
از سید عبد العزیز صاحب شرقی
حسبِ اعلان ۲۱، ۲۲، ۲۳ اکتوبر ۱۹۴۲ء کو مشرقی یو پی اور بہار کے ارکانِ جماعت کا اجتماع در بھنگہ میں منعقد ہوا۔ ۲۱ اکتوبر کی صبح کو پہلی نشست ہوئی۔ تلاوتِ قرآن کے بعد سب سے پہلے ارکانِ جماعت کا ایک دوسرے سے تفصیلی تعارف ہوا۔
افتتاحی تقریر (از مولانا مودودی)
مولانا مودودی نے اپنی افتتاحی تقریر میں تحریک کے مرحلے، مشکلات، مالی حالات، اور آئندہ کے نقشے پر تفصیلی روشنی ڈالی۔ آپ نے فرمایا:
"ہماری تحریک اس وقت چند ابتدائی منازل کو عبور کرتی ہوئی اس مرحلے پر پہنچ گئی ہے جہاں تک ہمارے نصب العین کا تعلق ہے، ہندوستانی مسلمانوں کی مختلف جماعتیں اس سے متاثر ہو چکی ہیں۔ لیکن یہ چیز ہمارے لیے باعثِ مسرت ہونے کے باوجود، ہمیں اس پر مطمئن نہیں ہونا چاہیے۔ اس وقت یہ خطرہ در پیش ہے کہ کہیں یہ نصب العین ہنگامہ پسند جماعتوں کے ہاتھوں میں کھلونا بن کر نہ رہ جائے۔ لہٰذا اب زور اس پہلو پر دینے کی ضرورت ہے کہ اس نصب العین کے لیے جو جدوجہد کرنا تو درکنار، اس کا نام زبان پر لانے کے لیے بھی کس قدر اہلیت ضروری ہے۔"
آپ نے مزید فرمایا کہ عمومی تحریک (mass-movement) سے پہلے تعمیری کام ضروری ہیں، جن میں تعلیمی پروگرام کی بنیاد ڈالنا، اہل قلم کا لشکر تیار کرنا، اور کارکنوں کی اسلامی نقطہ نظر سے تربیت کرنا شامل ہے۔ آپ نے ہر کارکن پر زور دیا کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھے اور یہ شکایت نہ کرے کہ اسے کرنے کے لیے کوئی کام نہیں بتایا گیا، کیونکہ ایک باشعور مسلمان کی پوری زندگی ہی ایک ہمہ گیر پروگرام ہے۔
کتاب "مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش" حصہ سوم میں اسلامی تحریک کی تشریح اور اس کے لیے کام کرنے والی ایک جماعت کی ضرورت ظاہر کی جا چکی تھی اور اس مطلوبہ جماعت کی تشکیل کا نقشہ بھی پیش کر دیا گیا تھا۔ اس کی اشاعت کے بعد ’ترجمان القرآن‘ ماہِ صفر ۱۳۶۰ھ میں عامۃ الناس کو دعوت دی گئی کہ جو لوگ اس نظریہ کو قبول کر کے اس طرز پر عمل کرنا چاہتے ہوں، وہ دفتر کو مطلع کریں۔
پرچہ چھپنے کے تھوڑے ہی دنوں بعد اطلاعات آنی شروع ہو گئیں اور معلوم ہوا کہ ملک میں ایسے آدمیوں کی ایک خاصی تعداد موجود ہے جو جماعت اسلامی کی تشکیل، اس کے قیام اور بقا کے لیے جدوجہد کرنے پر آمادہ ہیں۔ چنانچہ یہ طے کر لیا گیا کہ ان تمام حضرات کو ایک جگہ اکٹھا کر کے ایک جماعتی شکل بنانے اور پھر اسلامی تحریک کو باقاعدہ اٹھانے کی تدابیر سوچی جائیں۔ اس غرض کے لیے یکم شعبان ۱۳۶۰ھ (۲۵ اگست ۱۹۴۱ء) اجتماع کی تاریخ مقرر ہوئی اور جن لوگوں نے جماعت اسلامی میں شامل ہونے کا ارادہ ظاہر کیا تھا، ان سب کو ہدایت کر دی گئی کہ جہاں ابتدائی جماعتیں بن سکی ہیں، وہاں سے صرف منتخب نمائندے آئیں اور جہاں لوگ ابھی انفرادی صورت میں ہیں وہاں سے حتی الامکان ہر شخص آجائے۔
۲۸ رجب ہی سے لوگ آنا شروع ہو گئے اور یکم شعبان تک تقریباً ساٹھ آدمی آچکے تھے۔ باقی کچھ لوگ بعد میں آئے۔ شرکائے اجتماع کی کل تعداد ۷۵ تھی۔ یہ پہلا اسلامی اجلاس مولانا مودودی کی رہائش گاہ دارالاسلام، پٹھان کوٹ کے قریب منعقد ہوا۔
افتتاحی خطاب
آغازِ دعوت
اپنے افتتاحی خطاب میں مولانا مودودی نے فرمایا: "ایک وقت تھا کہ عام مسلمانوں کی طرح میں خود بھی نسلی اور روایتی ذہنیت کا حامل اور اس پر عمل پیرا تھا۔ جب ہوش آیا تو محسوس ہوا کہ اس طرح ”مَا وَجَدْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا“ کی پیروی ایک بے معنی چیز ہے۔ آخر کار میں نے کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہ ﷺ کی طرف توجہ کی، اسلام کو سمجھا اور جان بوجھ کر اس پر ایمان لایا۔ جب اللہ تعالیٰ نے قلب کو پوری طرح مطمئن کر دیا تو جس حق پر خود ایمان لایا تھا، اس کی طرف دوسروں کو دعوت دینے کا سلسلہ شروع کیا۔ اور اس مقصد کے لیے ۱۳۵۲ھ میں رسالہ ’ترجمان القرآن‘ جاری کیا۔ ابتدائی چند سال دین کا ایک واضح تصور پیش کرنے میں صرف ہوئے۔ اس کے بعد دین کو ایک تحریک کی شکل میں جاری کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہماری زندگی میں دین داری محض ایک انفرادی رویہ نہ رہے، بلکہ ہم اجتماعی صورت میں نظامِ دین کو عملاً نافذ و قائم کرنے کے لیے جدوجہد بھی کریں۔ ادارہ دارالاسلام کا قیام اس سلسلہ کا پہلا قدم تھا۔ ۱۳۵۷ھ (۱۹۳۸ء) میں یہ قدم اٹھایا گیا اور اس وقت صرف چار آدمی رفیقِ کار بنے۔ الحمدللہ کہ ہم بد دل نہ ہوئے، اور اسلامی تحریک کی طرف دعوت دینے اور اس تحریک کے لیے نظری حیثیت سے ذہن ہموار کرنے کا کام لگا تار کرتے چلے گئے۔ آخر کار محسوس ہوا کہ اب جماعتِ اسلامی کی تاسیس اور تحریکِ اسلامی کو منظم طور پر اٹھانے کے لیے زمین تیار ہو چکی ہے۔ چنانچہ اسی بنیاد پر یہ اجتماع منعقد کیا گیا۔"
تحریک اسلامی اور دوسری تحریکوں کا اصولی فرق
اس تاریخی تبصرے کے بعد مودودی صاحب نے بیان کیا کہ مسلمانوں میں عموماً جو تحریکیں اٹھتی رہی ہیں، ان کے اور اس تحریک کے اصولی فرق کو ذہن نشین کر لینا چاہیے:
اولاً: دیگر تحریکوں نے یا تو اسلام کے کسی جز کو، یا دنیوی مقاصد کو اپنی بنیاد بنایا، لیکن ہم عین اسلام اور اصل اسلام کو لے کر اٹھ رہے ہیں اور پورا کا پورا اسلام ہی ہماری تحریک ہے۔
ثانیاً: دیگر جماعتوں میں ہر قسم کے آدمی اس مفروضے پر بھرتی کر لیے گئے کہ وہ پیدائشی مسلمان ہیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ناقابلِ اعتماد لوگ بھی نظام میں شامل ہوگئے۔ لیکن ہم کسی شخص کو اس وقت تک نہیں لیتے جب تک وہ کلمہ طیبہ کے معنی و مفہوم کو جان کر اس پر ایمان لانے اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کا اقرار نہ کرے۔
ثالثاً: دیگر تحریکوں کی نظر صرف مسلمانوں تک محدود رہی، لیکن ہماری دعوت تمام دنیا کی اقوام کے لیے ہے۔ ہماری نظر کسی خاص قوم یا ملک کے مسائل میں الجھی ہوئی نہیں، بلکہ پوری نوعِ انسانی اور سارے کرۂ ارض پر وسیع ہے۔
جن غلطیوں سے کارکنانِ تحریک کو لازماً بچنا چاہیے
ایک، یہ غلط فہمی کہ ان کی جماعت ہی انبیاء کے دور کی اسلامی جماعت ہے اور جو اس میں نہیں وہ گمراہ ہے۔ یہ چیز جماعت کو ایک فرقہ بنا دیتی ہے۔ دوسرے، یہ غلط فہمی کہ ان کے امیر کی حیثیت خلفائے راشدین جیسی ہے اور اس کی بیعت نہ کرنے والا دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ یہ سوچ ساری تگ و دو کو امارت منوانے پر مرکوز کر دیتی ہے۔ ہمیں ان دونوں خطرات سے بچنا ہے اور یاد رکھنا ہے کہ ہم مسلمانوں میں ایک نیا فرقہ بننے نہیں آئے۔
سید ابوالاعلیٰ مودودی کا جماعت سے پہلا خطاب (۲ شعبان)
اسلام میں جماعتی زندگی کے قواعد
- خیر خواہی: ہر فرد جماعت کا اور اس کے افراد کا سچے دل سے خیر خواہ ہو۔ کینہ، بغض، حسد اور بدگمانی سے پاک ہو۔
- تعاون علی البر والتقویٰ: دوستی اور دشمنی اللہ کے لیے ہو۔ نیکی میں تعاون اور گناہ میں عدم تعاون کیا جائے۔
- اندرونی جتھا بندیوں سے پرہیز: سازشیں، گروہ بندیاں اور عہدوں کی امیدواری اسلامی جماعت کے مزاج کے خلاف ہے۔
- باہمی مشاورت: مشاورت جماعتی زندگی کی جان ہے۔ ہر ذمہ دار اپنے کاموں میں دوسروں سے مشورہ لے۔
- جماعتی فیصلے کا احترام: جب کوئی فیصلہ ہوجائے تو ذاتی رائے کے خلاف ہونے کے باوجود فراخ دلی سے جماعت کا ساتھ دیا جائے۔
- امارت کا نظام: "اسلام بغیر جماعت کے نہیں، اور جماعت بغیر امارت کے نہیں۔" ایک امیر منتخب کریں جو امارت کا امیدوار نہ ہو اور تقویٰ، علم اور بصیرت رکھتا ہو۔
انتخابِ امیر
اس تقریر کے بعد انتخابِ امیر کے مسئلے پر مذاکرہ ہوا۔ بالآخر ایک سات رکنی مجلس کی تجویز پر تمام حاضرین نے بالاتفاق سید ابوالاعلیٰ مودودی کو اپنا امیر منتخب کیا۔
روداد مجلسِ شوریٰ۔ ۴ شعبان ۱۳۶۰ھ
تقسیم کار
فی الحال جماعت کے کام کو پانچ شعبوں میں تقسیم کیا گیا:
- شعبہ علمی و تعلیمی: اسلامی نظامِ فکر کا گہرا مطالعہ، لٹریچر کی تیاری اور ایک ایسی درس گاہ اور تربیت گاہ کا قیام جو اسلامی انقلاب کے لیے کارکن تیار کرے۔
- شعبہ نشر و اشاعت: تیار شدہ لٹریچر کو خدا کے بندوں تک پہنچانا۔
- شعبہ تنظیم جماعت: کارکنوں کو ہدایت دینا، مقامی جماعتوں کی نگرانی کرنا اور تحریک کی رفتار کا جائزہ لینا۔
- شعبہ مالیات: مرکزی اور مقامی بیت المال کا قیام اور مالی معاملات کی دیکھ بھال۔
- شعبہ دعوت و تبلیغ: یہ جماعت کا سب سے اہم شعبہ ہے۔ ہر رکن اس کا کارکن ہوگا اور ہمیشہ مبلغ کی زندگی بسر کرے گا۔
روداد مجلس شوریٰ (محرم ۱۳۶۱ھ)
مجلس شوریٰ کے فیصلے
۲۶ تا ۲۸ فروری ۱۹۴۲ء کے اجلاس میں باہمی مشورے سے جو امور طے پائے، ان میں سے چند یہ ہیں:
- استحکامِ جماعت: جماعت میں صرف ان لوگوں کو داخل کیا جائے جو مسلک کو اچھی طرح سمجھ چکے ہوں اور ان کی زندگی میں عملی تبدیلی آچکی ہو۔
- مقامی امراء کی تربیت: مقامی امراء کی تربیت کے لیے انہیں مرکز میں امیرِ جماعت کے ساتھ وقت گزارنے کا موقع دیا جائے۔
- مرکزی تربیت گاہ: ایک مرکزی تربیت گاہ قائم کی جائے جہاں کارکنوں کی نظریاتی اور عملی تربیت کا انتظام ہو۔
- لٹریچر کی تیاری: جماعت کے اہل قلم حضرات لٹریچر کی تیاری میں اپنی صلاحیتوں کے مطابق حصہ لیں۔
روداد مجلس شوریٰ شوال ۱۳۶۱ھ (اکتوبر ۱۹۴۲ء)
یہ اجلاس دہلی میں منعقد ہوا جس کا مقصد جماعت کے اندر پیدا ہونے والے کچھ اندرونی اختلافات کا حل تلاش کرنا تھا۔ طویل بحث و مباحثے کے بعد جب کوئی متفقہ حل نہ نکل سکا اور جماعت کو توڑنے کی تجویز بھی شوریٰ کی اکثریت نے رد کر دی تو چار اصحاب نے اختلاف پر قائم رہتے ہوئے جماعت سے علیحدگی اختیار کر لی۔ ان میں مولانا محمد منظور نعمانی، مولانا سید محمد جعفر، قمر الدین خاں صاحب اور عطاء اللہ صاحب شامل تھے۔
رفقاء کار
از ابوالاعلیٰ مودودی، امیرِ جماعت
تعدادِ ارکان و دائرۂ اثر
اُس وقت تک جماعت کے ارکان کی تعداد تقریباً سات سو تھی۔ جماعت کا اثر پنجاب، یو پی، بہار، دکن اور مدراس کے علاقوں میں زیادہ تھا۔ تقریباً ایک لاکھ آدمیوں تک دعوت پہنچ چکی تھی اور ان میں سے کم از کم دس فیصد متاثر ہوچکے تھے۔
رکاوٹیں اور مشکلات
- جنگی حالات: دوسری جنگِ عظیم کی وجہ سے نقل و حرکت اور ابلاغ میں شدید مشکلات تھیں۔
- ذرائع کی کمی: جماعت مالی طور پر بہت کمزور تھی اور وسائل نہ ہونے کے برابر تھے۔
- مردانِ کار کی کمی: اعلیٰ صلاحیتوں کے حامل افراد جو مختلف شعبوں کی ذمہ داریاں سنبھال سکیں، ابھی میسر نہیں تھے۔
- کارکنوں کا غیر تربیت یافتہ ہونا: اکثر ارکان کی تربیت ابتدائی مراحل میں تھی اور وہ جماعت کے مزاج اور طریقِ کار کو پوری طرح نہیں سمجھ پائے تھے۔
روداد اجتماع در بھنگہ (اکتوبر ۱۹۴۲ء)
از سید عبد العزیز صاحب شرقی
۲۱ تا ۲۳ اکتوبر ۱۹۴۲ء کو مشرقی یو پی اور بہار کے ارکان کا یہ اجتماع منعقد ہوا۔ اس میں مولانا مودودی نے اپنی افتتاحی تقریر میں تحریک کے مرحلے، مشکلات اور آئندہ کے لائحہ عمل پر روشنی ڈالی۔
افتتاحی تقریر (خلاصہ)
"ہماری تحریک اس مرحلے پر پہنچ گئی ہے جہاں ہمارے نصب العین (حکومتِ الٰہیہ) کو دیگر مسلم جماعتیں بھی اپنانے لگی ہیں۔ خطرہ یہ ہے کہ کہیں یہ نعرہ ہنگامہ پسند جماعتوں کے ہاتھوں کھلونا نہ بن جائے۔ لہٰذا اب زور اس بات پر ہونا چاہیے کہ اس نصب العین کے لیے کس قدر بلند اخلاقی اہلیت اور سنجیدہ جدوجہد درکار ہے۔ ہمیں عمومی تحریک پھیلانے سے پہلے اعلیٰ سیرت اور قابلیت کے حامل افراد کا ایک گروہ تیار کرنا ہے جو آگے چل کر عوام کی قیادت کر سکیں۔"
مولانا نے کارکنوں کو یاد دلایا کہ ان کا کام صرف چند مخصوص سرگرمیاں نہیں، بلکہ ایک باشعور مسلمان کی پوری زندگی ہی ایک ہمہ گیر پروگرام ہے، جس میں اپنے نفس کی اصلاح سے لے کر معاشرے میں دعوتِ حق پھیلانے تک ہر پہلو شامل ہے۔
مختلف مقامات پر کام کی رپورٹیں اور ان پر تبصرہ
اس تقریر کے بعد مختلف مقامات کی جماعتوں نے اپنی رپورٹیں پیش کیں۔ امیرِ جماعت نے ان رپورٹوں کی روشنی میں پائی جانے والی کمزوریوں کی نشاندہی کی اور ان کی اصلاح کے لیے ہدایات دیں۔
ارکان کی اصلاح اور بھرتی کے بارے میں ہدایات
بعض مقامات پر نامناسب یا خام آدمیوں کو جماعت میں شامل کر لیا گیا تھا۔ اس کے متعلق ہدایات دی گئیں کہ جو لوگ تحریک کو اچھی طرح سمجھے بغیر جماعت میں آ گئے ہیں اور جن کے اندر کوئی نمایاں اخلاقی تبدیلی نہیں پائی جاتی، انہیں پختہ کرنے کی کوشش کی جائے۔ نیز آئندہ صرف انھی لوگوں کو جماعت میں لیا جائے جنہوں نے اچھی طرح جماعت کے مسلک کو سمجھ لیا ہو، دستور کی روح کو جذب کر چکے ہوں اور جن کے اخلاق و سیرت میں ضروری تبدیلیاں نمایاں نظر آتی ہوں۔
طریق دعوت کے بارے میں ہدایات
اسی طرح جہاں دعوت کے طریقوں میں کوئی کمزوری پائی جاتی تھی، امیرِ جماعت نے اس پر بھی گرفت کی اور تفصیل کے ساتھ بتایا کہ دعوت کا صحیح طریقہ کیا ہے۔ مثلاً آپ نے ہدایت کی کہ عوام میں فی الحال صرف دین کی حقیقت اور دین داری کے اصل مفہوم کی تبلیغ کی جائے۔ دعوت کے سلسلے میں اس امر کا بھی خاص طور پر لحاظ رکھنا چاہیے کہ مبلغ اپنے آپ کو کسی خاص نظامِ جماعت سے وابستگی رکھنے والے کی حیثیت سے پیش نہ کرے۔
جو لوگ تعلیم یافتہ طبقے میں کام کریں، انہیں بحث و مذاکرہ کے بجائے لٹریچر کی اشاعت پر توجہ دینی چاہیے۔ جہاں گفتگو کا رخ مناظرے کی طرف مڑے، وہاں پیش قدمی سے صاف انکار کر دینا چاہیے۔ جو لوگ دوسری جماعتوں سے وابستہ ہیں، انہیں خواہ مخواہ کھینچنے اور ضد پیدا کرنے والی بحثوں سے پرہیز کیا جائے۔ جہاں مخالفت غلط فہمی کی بنا پر ہو، اسے رفع کرنے کی کوشش کی جائے، اور جہاں قصداً مخالفت ہو، وہاں صبرِ جمیل سے کام لیا جائے۔
ان ہدایات کے خاتمے پر امیرِ جماعت نے رفقاء سے کہا کہ "جو بات میں خاص طور پر آپ کے ذہن نشین کرنا چاہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ تبلیغ صرف تقریر یا گفتگو یا تحریر ہی کے ذریعے سے نہیں ہوا کرتی بلکہ اصل تبلیغ وہ ہوتی ہے جو ایک متکلم کی ذاتی زندگی سے ہر آن ہوتی رہتی ہے، بشرطیکہ اس کی زندگی اس تعلیم کا عملی ظہور اور اس کی زندہ شہادت بن گئی ہو۔" آپ جس تجلیل کے داعی ہیں۔ اگر اس کے
مطابق پوری طرح ڈھل گئے تو تبلیغ کے خلاف چلنے والی دنیا میں آپ کی حالت ایسی ہو گی جیسے ایک گول سوراخ میں چوکور کھونٹا ٹھونسنے کی کوشش، جو اپنی ہر ضرب پر اس گول سوراخ کے پورے وجود کے ساتھ متصادم ہوتی رہتی ہے اور ہر وقت اپنے اور اس کے اختلاف کا مظاہرہ کرتی رہتی ہے۔ اس کا محض موجود ہونا ہی بجائے خود باطل کے تودوں کے خلاف ایک مستقل اعلانِ جنگ ہے۔ اگر ان کے گرد کوئی آتش گیر مواد ہوگا تو وہ وعظ کے بغیر ان سے اثر لے کر مشتعل ہو جائے گا اور ماحول آتش کدے میں تبدیل ہو کر رہے گا۔ یہ شعوری اسلام اور منافقانہ اسلام کا معاملہ تو دوسرا ہے، لیکن جب کوئی شخص اخلاص کے ساتھ شعوری طریقے سے اسلام قبول کر لیتا ہے تو اس کے ساتھ ہی انکارِ کفر و فسق، معیشت، معاشرت، تمدن، غرض ہر شعبۂ زندگی میں اپنے غیر اسلامی ماحول سے اس کا تصادم شروع ہو جاتا ہے۔ اسے یہ ماحول اور اس ماحول کو وہ ہر وقت کھٹکتا ہے۔ اس کی پوری ہستی فضائے جاہلیت کے خلاف ایک احتجاج بن جاتی ہے اور اس فضا میں وہ اس طرح اجنبی و نامانوس ہو کر رہ جاتا ہے جیسے سیاہ چادر پر سفید دھبا۔ میں چاہتا ہوں کہ اس کفر و جاہلیت کے مارے ہوئے ماحول میں آپ سب کچھ بن کر نہ رہ جائیں تاکہ اپنی زندگی کے ہر لمحہ میں اس نظام کے ہر جزو سے ہر ہر قدم آپ کا تصادم ہو اور اپنے پورے وجود سے آپ اس کے خلاف ایک مستقل اعلانِ جنگ اور ایک ابدی احتجاج بن جائیں۔ یہ ہمہ جہتی کشمکش اور یہ ہر لحظہ کا خاموش تصادم ہزار وعظوں اور مقالوں سے زیادہ وزنی ہے، بلکہ درحقیقت یہی اصل چیز ہے اور اس کے بغیر تبلیغِ افکار کی مہم انجام نہیں پا سکتی۔
سابق جماعتی تعصبات سے پرہیز
ان پرمغز مشوروں کے بعد آپ نے رفقا کی ایک بڑی اور عام کمزوری کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ میں نے یہ محسوس کیا ہے کہ مختلف جماعتوں سے آنے والے لوگ اپنے ساتھ پچھلے گروہی اور سیاسی زندگیوں کے اثرات لے کر آئے ہیں۔ ان میں اب تک سابق جماعتی تعصبات کا اثر موجود ہے۔ مثلاً جو گروہ کانگرس سے نکل کر آیا ہے، وہ اگرچہ کانگرس کے حق میں انتہائی تعصب نہیں رکھتا لیکن لیگ کی مخالفت کا رجحان ان کے دماغوں میں واضح طور پر باقی ہے۔ یہی حال لیگ سے آنے والے حضرات کا ہے۔ پھر جو لوگ مخصوص مذہبی گروہوں سے ٹوٹ کر آئے ہیں، ان میں بھی ان گروہوں کے خلاف اچھا خاصا تیز جذبۂ مخالفت پایا جاتا ہے جن سے لڑ کر ان کی عمریں گزری ہیں۔ ان مختلف تعصبات کے حاملین جب کبھی مل بیٹھتے ہیں اور بحث و مذاکرہ کا سلسلہ نکلتا ہے تو بسا اوقات یہ اندیشہ ہوتا ہے کہ ان کی باہمی گفتگوئیں سابق تعصبات کو اسی طرح تازہ نہ کر دیں، جس طرح اوس و خزرج کے لوگوں میں منافقین کا چھوڑا ہوا ایک شوشہ جنگِ بُعاث کے اثرات تازہ کر دیتا تھا۔
تنظیمی امور
اس تبصرے کا سلسلہ تیسری نشست تک جاری رہا۔ اس کے بعد تیسری نشست میں صوبے کے کام کے متعلق مشورہ ہوا۔ مشورے کے دوران میں اندازہ ہوا کہ اس امر کی ضرورت شدت سے محسوس کی جا رہی ہے کہ صوبہ بہار میں کم از کم ایک قیّمِ جماعت ضرور ہونا چاہیے جو مستعد اور فرض شناس ہو اور مختلف مقامات کی جماعتوں اور متفرق ارکان کے ساتھ ربط و ضبط رکھے۔ ان کی کارروائیوں سے واقف رہے، وقتاً فوقتاً انھیں تنبیہ کرتا رہے اور کبھی کبھی خود ان کے پاس پہنچتا رہے۔ اس غرض کے لیے مولانا مسعود عالم صاحب ندوی موزوں ترین ہو سکتے تھے لیکن افسوس ہے کہ ان کی صحت اس کی اجازت نہیں دیتی۔ اس لیے تجویز کیا گیا کہ بہار کی جماعتوں کے ارکان جلد از جلد آپس میں مشورہ کر کے ایک قیّمِ جماعت کا انتخاب کریں۔
ہفتہ وار اجتماعات کا التزام اور پروگرام
دوسری چیز جس کے متعلق مختلف مقامی جماعتوں کے امرا کو ہدایت کی گئی، یہ تھی کہ اپنے اپنے حلقے کے ارکان کی صلاحیتوں کا صحیح صحیح اندازہ کر کے ان سے کام لیں اور ہفتہ وار اجتماع کا شدت سے التزام کریں۔ جو لوگ بلا عذرِ معقول اجتماع میں نہ آئیں، ان کے متعلق یہ سمجھ لیا جائے کہ وہ جماعت سے دلچسپی نہیں رکھتے۔ ہفتہ وار اجتماعات سے حسبِ ذیل طریقوں سے استفادہ کیا جائے:
- جماعت کی طرف سے شائع ہونے والے لٹریچر کا مطالعہ کیا جائے، نہ صرف تازہ شائع ہونے والی چیزوں کا بلکہ پچھلی مطبوعات کا بھی تاکہ یہ مضامین بار بار ذہن میں تازہ ہوتے رہیں، خصوصاً دستور کو وقتاً فوقتاً جماعت کے اجتماعات میں پڑھا جاتا رہے۔
- پسماندہ رفقا کو اٹھانے اور ابھارنے اور ہمدردی و اخلاص کے ساتھ ان کی کمزوریوں کو رفع کرنے کی سعی کی جائے۔
- دعوت کو مختلف حلقوں میں پھیلانے کی تدابیر پر غور و خوض کیا جائے۔
- ہر فرد نے پچھلے ہفتے میں جو کام کیا ہو اسے وہ پیش کرے اور دوسرے ارکان یا تو اس سے استفادہ کریں یا اگر اس کے طریقِ کار میں کوئی غلطی پائیں تو اس کی اصلاح کریں یا اگر اسے مشکلات پیش آئی ہوں تو ان کا حل تلاش کریں۔
- دعوت کی راہ میں جو سختیاں پیش آ رہی ہوں، ان کا جائزہ لیا جائے اور انھیں دور کرنے کی تدبیریں سوچی جائیں۔
- اگر مقامی جماعت میں کوئی صاحب قرآن کی اہلیت رکھتے ہوں تو ہفتہ وار درس ہو۔ ورنہ تفہیم القرآن کی مدد سے کتاب اللہ میں بصیرت حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔
ہفتہ وار اجتماعات کی اہمیت
یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ہفتہ وار اجتماع کوئی معمولی چیز نہیں ہے، بلکہ یہ ارکان کو جماعت سے وابستہ رکھنے اور ان کے اندر تحریک سے دلی دلچسپی اور باہمی تعاون کی روح کو برقرار رکھنے کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔ اس سے تغافل برتنے کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ جماعت پختہ ہونے کے بجائے کمزور ہو جائے گی، ہمارے پاس یہ معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ نہ رہے گا کہ ہم میں سے کون لوگ تحریک سے واقعی دلی دلچسپی رکھتے ہیں اور کون نہیں رکھتے۔ ہمارے ارکان ایک دوسرے سے اجنبی رہیں گے، ان کے درمیان نہ دوستی و رفاقت کا رشتہ مضبوط ہو سکے گا، نہ وہ جماعت کے کاموں میں تعاون کر سکیں گے اور نہ ایک دوسرے کی اصلاح میں مددگار بن سکیں گے۔
عہدِ رکنیت کی ذمہ داریاں
تیسری چیز جس کی طرف امیرِ جماعت نے تمام رفقا کو پورے زور کے ساتھ توجہ دلائی، وہ یہ تھی کہ انھیں اپنے عہد کی ذمہ داریوں کو سمجھنے اور ادا کرنے کی فکر کرنی چاہیے اور ہر شخص کو اپنی قوتوں اور قابلیتوں کا پورا جائزہ لے کر ٹھیک ٹھیک فیصلہ کر لینا چاہیے کہ وہ کیا کام کر سکتا ہے، پھر جس کام کی اہلیت و صلاحیت اپنے اندر محسوس ہو، اسے انجام دینے میں لگ جانا چاہیے۔ یہ وقت وہ ہے جو ہم سے اپنی انتہائی حد تک سعی و کوشش کا مطالبہ کر رہا ہے، ضرورت ہے کہ ایک لحظہ کا انتظار کیے بغیر ہم میں سے ہر شخص اٹھے اور جس سے جو کچھ ہو سکے، کرے۔ جو اہلِ علم ہیں، وہ تخریب و تعمیرِ افکار کی مہم میں مصروف ہوں، جو اہلِ تعلیم ہیں وہ نئی نسل کی تیاری کے لیے مستعد ہو جائیں، جو ادیب ہیں وہ ادب کی مختلف راہوں سے نظامِ حاضر پر حملہ آور ہوں اور نظامِ اسلامی کی دعوت پھیلائیں، جو مضمون نگار ہوں، وہ اخبارات اور رسالوں میں اپنے مضامین سے ہلچل مچا دیں، جو بات چیت سے لوگوں پر اثر ڈالنے کی قوت رکھتے ہیں، وہ انفرادی تبلیغ کی مہم میں مصروف ہو جائیں، جنھیں دیہاتیوں میں کام کرنے یا عوام کو خطاب کرنے کا تجربہ ہو، وہ دیہات میں گھومیں اور عامۃ الناس کی اصلاح کی کوشش کریں، جنھیں اللہ نے بہتر معاشی حالات دیے ہوں، وہ بیت المال کی تقویت کی فکر کریں۔ غرض کسی قوت کی ایک رتی بھی ضائع نہ ہونے پائے۔ رہا یہ سوال کہ آپ کتنا کام کریں اور کس کام کا، تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس کا بہترین فیصلہ آپ کا اپنا ضمیر ہی کر سکتا ہے۔ آپ اپنا کام کریں اور اس حد تک کیے جائیں جس کے بعد آپ کا ضمیر مطمئن ہو جائے کہ خدا جب آپ سے وقت اور قوتوں کا حساب لے گا تو آپ اس کا یہ نامۂ خدمت پیش کر کے مغفرت کی امید کر سکیں۔
ایک معاشی اسکیم
آخر میں جناب فضل الرحمن (مونگیر) کی ایک اسکیم پر بحث آئی جس کا مفاد یہ تھا کہ ارکانِ جماعت کو مالِ حرام سے اجتناب کی وجہ سے جو مالی مشکلات پیش آتی ہیں، انھیں دور کرنے کے لیے مختلف مقامات پر اس طرز کی کاروباری اسکیمیں عمل میں لائی جائیں کہ جو مال دار اور کچھ کاروباری ارکان سے مل کر دولت فراہم کریں اور یہ دولت ایک مقررہ تناسب سے سرمایہ لگانے والوں، محنت کرنے والوں اور جماعت کے بیت المال پر تقسیم ہوتی رہے۔ اس طرح مختلف مقامات پر تعلیمی اور تربیتی مراکز کو جاری کر کے کام کی رفتار تیز کی جا سکتی ہے۔
اس تجویز پر مشاورتی گفتگو کچھ دیر تک ہوتی رہی۔ مولانا امین احسن صاحب نے اس سلسلے میں مختصر تقریر کی جس میں انھوں نے یہ خیال ظاہر کیا کہ اگر ارکانِ جماعت باہم انفرادی طور پر معاشی امور میں ایک دوسرے کی معاونت کریں تو یہ نہایت احسن اور ضروری ہے بلکہ جہاں کوئی رکن معاشی مشکلات میں مبتلا ہو، وہاں تمام ارکان کا فرض ہے کہ اس کی مشکلات کو حل کرنے کے لیے جو کچھ وہ کر سکتے ہیں، کریں۔ لیکن جماعت کو اپنی جماعتی حیثیت میں اعلائے کلمۃ اللہ کی دعوت اور جدوجہد کے سوا کوئی کاروباری حرکت نہیں کرنی چاہیے۔ اگر ایک انقلابی جماعت ایک پہلو سے کاروباری ادارہ بھی بن جائے تو ایک تو اس کی ساری طاقت تقسیم ہو کر رہ جائے گی، دوسرے کچھ لوگ بلا کسی حقیقی جذبے کے محض معاشی مفاد کی ہوس میں اس کے اندر جذب ہونے شروع ہو جائیں گے۔ نتیجہ یہ ہو گا کہ ہمارے اصلی مقصد کو نقصان پہنچے گا۔ اس خیال کی تائید جنابِ امیر نے بھی کی اور بغیر کسی ووٹنگ کے فضل الرحمن صاحب نے خود اس نقطۂ نظر کو تسلیم کر لیا اور اپنی اس تجویز کو جو بہت دنوں کے غور و خوض کے بعد مرتب کر کے لائے تھے، بلا تامل واپس لے لیا۔
دوسرے دن ارکانِ جماعت سے انفرادی طور پر تبادلۂ خیالات جاری رہا اور ہر شخص اور ہر جماعت کو مقامی ضرورت کے لحاظ سے امیرِ جماعت نے مشورے اور ہدایات دیں۔
خصوصی ملاقاتیں اور بعض شبہات کا ازالہ
عام ملاقاتوں کے علاوہ ۲۲ اکتوبر کا دن تقریر کے لیے طے کیا تھا لیکن در بھنگہ اور دوسرے مقامات سے مختلف اصحاب ۲۳ اکتوبر کی شام ہی سے آنے لگے تھے جن میں مسلم لیگ، امارتِ شرعیہ، جمعیت العلما اور دوسری جماعتوں سے تعلق رکھنے والے حضرات بھی شامل تھے۔ ان سے گھنٹوں امیرِ جماعت اور دوسرے رفقا تبادلۂ خیالات فرماتے رہے اور اپنے مسلک کی وضاحت اور ان غلط فہمیوں کی تردید کی جو مختلف حلقوں میں جماعت کے متعلق پائی جاتی ہیں۔ ان گفتگوؤں کا خلاصہ پیش کر دینا مشکل ہے۔ مختصراً دو تین باتوں کی طرف اشارہ کرنے پر اکتفا کیا جاتا ہے۔
عام مسلمانوں کے بارے میں جماعت کا نقطۂ نظر
بعض حلقوں کی طرف سے مسلمانوں میں یہ غلط فہمی کثرت سے پھیلائی گئی ہے کہ ہم عام مسلمانوں کو کافر سمجھتے ہیں۔ اس کا اثر در بھنگہ میں بھی پایا جاتا تھا۔ اگرچہ اس کی عملی تردید کے لیے یہ بات کافی تھی کہ ہم نے نمازیں عام مسلمانوں کے ساتھ ادا کیں لیکن اس پر بھی لوگوں کے لیے یہ سوال دریافت طلب ہی رہا اور جواب میں امیرِ جماعت نے لوگوں کو صاف صاف بتا دیا کہ یہ محض ایک بہتان ہے جو ہماری دعوتِ اصلاح میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے جان بوجھ کر لگایا جا رہا ہے۔
دوسری جماعتوں کے بارے میں جماعت کا طرزِ عمل
دوسرا شبہ عام طور پر مختلف جماعتوں میں یہ پھیلا ہوا ہے کہ ہماری ان سے براہِ راست کوئی کشمکش ہے۔ اس سلسلے میں بھی صاف صاف بتا دیا گیا کہ براہِ راست کسی جماعت کے خلاف ہمارا کوئی معرکہ (campaign) نہیں ہے۔ ہم جن امور میں مختلف جماعتوں کے مسلک سے اختلاف رکھتے ہیں، ان کی وضاحت لٹریچر میں کر دی گئی ہے۔ اب ہمارا اصل تصادم کافرانہ نظامِ حیات سے ہے، محدود مقاصد پر کام کرنے والی جماعتی ہیئتوں (political bodies) سے نہیں ہے۔
اسلامی انقلاب برپا کس طرح ہوگا؟
بہت سے لوگ اس بات کو بھی سمجھنا چاہتے تھے کہ یہ اسلامی انقلاب برپا کس طرح ہو گا؟ اس کی توضیح کرتے ہوئے مولانا مودودی صاحب نے بتایا کہ آغاز ہمیشہ افکار کی تبدیلی اور ذہنی تغیر سے ہوتا ہے، اس کے بعد ایک اصولی جماعت کو اپنے نصب العین کی طرف بڑھنے کے لیے وہ مشکلات پیش نہیں آتیں جو ایک قومی گروہ کو پیش آتی ہیں۔ ایک قوم کے لیے تو بے شک یہ سوال بڑا اہم ہے کہ وہ دوسری قوموں کے مقابلے کے لیے تربیت یافتہ آدمی اور سامان کہاں سے لائے، لیکن ایک اصولی جماعت کے لیے یہ سوالات اہمیت نہیں رکھتے۔ اس کے لیے تو صرف یہ سوال اہمیت رکھتا ہے کہ اس کی دعوت کو جو لوگ لے کر اٹھیں وہ اپنے اُصولوں پر اعتقادی اور عملی طور پر سچا ایمان رکھنے والے ہوں جس کے ذریعے سے حریفوں کے دل اور دماغ مفتوح کیے جاتے ہیں۔ اس طرح جب دعوت اس منزل پر پہنچتی ہے جہاں نظامِ حاضر سے اس کا مسلح تصادم ہونے لگتا ہے تو اسے تمام ساز و سامان اور ہر قسم کے تربیت یافتہ آدمی خود نظامِ حاضر ہی سے ملتے چلے جاتے ہیں۔ اسے آدمی بنانے نہیں پڑتے بلکہ بنے بنائے آدمیوں کو مسخر کرنا ہوتا ہے۔
”حلقۂ مطالعہ اسلامی“ کی طرف سے جلسے کا اہتمام کیا گیا تھا اور پروگرام بھی تھا کہ جنابِ امیر عوام کو بھی خطاب کریں۔ اس پروگرام کے مطابق بہت سے لوگ محض مولانا کی تقریر سننے کے لیے آئے تھے مگر افسوس ہے کہ منتظمینِ جلسہ کو پروگرام بدلنا پڑا اور مولانا کی تقریر نہ ہو سکی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ در بھنگہ میں ایک گروہ چند روز پہلے سے فتنہ انگیزی میں مشغول تھا اور اس بات کا امکان تھا کہ یہ لوگ جلسۂ عام میں افتراق برپا کرنے کی کوشش کریں۔ یہ حالات سن کر امیرِ جماعت نے جلسہ میں شریک ہونے سے معذرت ظاہر کی کیوں کہ ان کا مستقل مسلک یہ ہے کہ فتنہ سے اجتناب کیا جائے اور جہاں لوگ ہماری دعوت کو سننا نہ چاہتے ہوں، ان کے کانوں میں حق کی آواز کو زبردستی ٹھونسنے کی کوشش نہ کی جائے۔ چنانچہ ان کے بجائے اجلاسِ عام میں ملک نصر اللہ خاں عزیز صاحب، مدیر ”مسلمان“ لاہور، نے تقریر کی جو بحیثیتِ مجموعی کامیاب رہی۔
رُودادِ جماعتِ اسلامی - حصّہ دوم (۱۹۴۳ء)
روداد اجتماع دارالاسلام
حسبِ اعلان ۲۶، ۲۷، ۲۸ مارچ ۱۹۴۳ء کو دارالاسلام (متصل پٹھان کوٹ، انڈیا) میں ارکانِ جماعتِ اسلامی شمالی ہند، پنجاب، سرحد، سندھ، کشمیر اور بلوچستان کا اجتماع ہوا جس میں مرکز کی منظوری سے بعض ہمدردانِ جماعت بھی شریک ہوئے۔ یوپی اور بہار سے جناب مولانا امین احسن اصلاحی (سرائے میر، ضلع اعظم گڑھ) اور جناب محمد حسین سید (لہرا سرائے، در بھنگہ) بھی تشریف لے آئے تھے۔ تعدادِ حاضرین تقریباً پچاس تھی۔
غیر رسمی ملاقاتیں
۲۶ مارچ کو ۹ بجے صبح سے ۱۲ بجے دوپہر تک اور پھر نمازِ ظہر سے نمازِ عصر تک مختلف مقامات سے آنے والے گروہوں نے امیرِ جماعت کے سامنے کھلی ملاقاتوں میں مقامی حالات پیش کیے۔ اپنی اپنی کارگزاریوں کا مختصر تذکرہ کیا۔ اپنی مشکلات بیان کیں اور ضروری امور میں مشورے حاصل کیے۔ اسی دوران میں چند اصحاب نے اپنے آپ کو رکنیتِ جماعت کے لیے پیش کیا، اس پر امیرِ جماعت نے چند اہم نکات بیان فرمائے جنھیں تسلسل کے ساتھ یہاں درج کیا جاتا ہے۔
امیدوارانِ رکنیت سے
ہمارے ہاں جماعت کی شرکت میں کوئی دشواری نہیں ہے مگر شرکتِ جماعت سے ذمہ داریوں کا بارِ گراں اٹھانا پڑتا ہے، اس کے وزن کو آگے بڑھنے سے پہلے محسوس کر لینا چاہیے۔ رکنیت کی ذمہ داریوں کا صحیح اندازہ کیے بغیر لوگ ہماری طرف بڑھ آتے ہیں اور نصب العین میں متحد ہونے کے باوجود یہ دیر تک ہمارا ساتھ نہیں دے سکتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ابتدائی طریقِ کار کے اختلاف پر گہری نظر نہیں رکھتے لیکن جوں جوں وقت گزرتا ہے، یہ اختلاف ابھرنے لگتا ہے اور لوگ اپنے اپنے پسندیدہ طریقِ کار کی محبت کے جوش میں آ کر نظمِ جماعت کی خلاف ورزی کر بیٹھتے ہیں اور بسا اوقات نصب العین تک سے غافل ہو جاتے ہیں۔ اگر آپ حضرات نے بہت اچھی طرح ہمارے طریقِ کار کو سمجھ لیا ہو اور اس کے ساتھ دوسرے طریق ہائے کار کا فرق ذہن نشین ہو گیا ہو، نیز آپ پر رضا و رغبت دوسرے طریقوں کو چھوڑ کر ہمارے طریقِ کار اختیار کرنے پر آمادہ ہوں تو بسم اللہ، ورنہ جلدی نہ کیجیے۔ ہمارے لٹریچر کا بغور مطالعہ کرتے رہیے اور ہمارے کام کو مزید کچھ عرصہ دیکھ کر آخری رائے قائم کیجیے۔
الحمد للہ کہ مسلمانوں میں ابھی تک صحیح العقیدہ لوگوں کی ایک خاصی تعداد پائی جاتی ہے۔ ان لوگوں کے پاس حق موجود ہے مگر فرق بس اتنا ہے کہ عموماً مختلف گروہ کسی جزئی کو لے کر چل رہے ہیں، خلاف اس کے ہم پورے حق کو لے کر چلنا چاہتے ہیں۔ آپ حضرات کے ساتھ پہلے جو جزوِ حق تھا وہ بدستور ساتھ رہے گا مگر اس پر اکتفا نہ کیجیے، اب آپ کو دوسرے اجزائے حق بھی اس کے ساتھ شامل کر لینے ہیں۔
اس کے بعد ایک موقع پر طریقِ تبلیغ کا مسئلہ زیرِ بحث آیا۔ اس سلسلے میں امیرِ جماعت نے تفصیل سے اظہارِ خیال کیا:
طریقِ تبلیغ
جہاں تک تبلیغِ مسلک کا تعلق ہے، عام طور پر مسلمانوں کی جماعتیں تشدد سے کام لیتی ہیں اور تندیٔ جذبات اور مناظرانہ انداز اور تحقیر کی زبان کے مظاہرے سے لوگوں کو اپنے اندر جذب کرتی ہیں لیکن ہمارے مسلک کی تبلیغ کے لیے یہ طریقہ مناسب نہیں ہے۔ اس معاملے میں صبر سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ تحریری و تقریری مناظرے اور بحثیں جو عام طور پر مروج ہیں، ان میں مبلغ غیر محسوس طور پر غضبِ نفس میں مبتلا ہو جاتا ہے اور محسوس تک نہیں کرتا کہ میں خود اپنے نصب العین کی جڑوں پر کلہاڑا رکھ رہا ہوں۔ بخلاف اس کے ہمیں ایک ڈاکٹر کے طرز پر کام کرنا ہے جو آخر دم تک کوشش کرتا ہے کہ بیمار عضو تندرست ہو جائے اور اگر اسے کاٹ کر جسم سے الگ کرتا ہے تو اس وقت جب کہ وہ دوسری تمام تدابیر کو آزما چکنے کے بعد اس کی علاج پذیری سے مایوس ہو جاتا ہے۔ یہاں یہ حال ہے کہ ہمارے ڈاکٹر سب سے پہلے بیمار عضو کو کاٹ پھینکنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔ یاد رکھیے کہ عوام کا جو انبوہ آپ کے گرد پھیلا ہوا ہے، ان میں سے جو لوگ کفر و شرک یا فسق کے مریض ہیں، ان کا علاج ضد اور گالی سے کرنے کے بجائے صبر اور ہمدردی سے کرنا ہے۔ ان بیمار اعضا کو فوراً کاٹ کر نہیں پھینک دینا ہے، بلکہ ان پر تمام دوسری بہتر تدابیر کو آزما لینا ہے۔
عوام کی معذوری کا اندازہ اس سے کیجیے کہ ان لوگوں میں بہت سے مشرکانہ عقائد اور رسوم خود مذہبیت ہی کے مقدس دروازے سے داخل ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی اصلاح کا مسئلہ بہت پیچیدہ ہو گیا ہے اور اس مہم کو صبر و تحمل ہی سے سر کیا جا سکتا ہے۔ عرب میں بھی یہی حالات تھے اور وہاں بھی ٹھنڈے طریقوں سے تبلیغ کا کام کیا گیا۔
حساب آمد و خرچ ۱۹۴۳ء
| تفصیل خرچ | تفصیل آمدنی |
|---|---|
| ڈاک: ۵۳۸-۱۳-۰ | فروختِ کتب: ۸۲۳۴-۹-۹ |
| اسٹیشنری: ۲۹-۱۵-۰ | اعانتِ اہلِ خیر: ۲۸۳۵-۳-۶ |
| قرض: ۳۴۰-۰-۰ | زکوٰۃ و صدقاتِ واجبہ: ۱۳۵۲-۵-۰ |
| طباعت: ۳۴۰۹-۶-۰ | وصولی قرض: ۲۰۲۰-۰-۰ |
| سفر خرچ: ۳۴۰-۹-۰ | امانت: ۱۰۸-۸-۰ |
| مہمان خانہ: ۳۰۸-۱۵-۰ | متفرق: ۹-۳-۰ |
| معاوضہ کارکنان: ۱۰۵۳-۱۳-۰ | جملہ آمدنی ۱۹۴۳ء: ۱۳۸۹۳-۳-۶ |
| ادائے قرض: ۱۹۰-۰-۰ | بقایا سالِ گزشتہ: ۱۵۰۲-۸-۶ |
| تعلیمی اسکیم کے سلسلے میں: ۱۷۰-۱۶-۰ | میزانِ کل: ۱۵۳۹۵-۱۲-۰ |
| فرنیچر: ۳۳-۱-۰ | |
| ایجنسی: ۱۶۳-۱۵-۰ | |
| متفرق: ۲۲۰-۳-۳ | |
| جملہ خرچ: ۱۰۲۹۳-۱۳-۶ | بقایا باختتام سال ۱۹۴۳ء: ۵۱۰۲-۲-۶ |
۱۔ خرچِ طباعت اس لیے کم دکھایا گیا ہے کہ سات ہزار روپے کے قریب لاہور اور حیدر آباد کی جماعت کے کارکنان کو طباعت کے سلسلے میں علی الحساب دیے گئے ہیں اور ابھی تک وہاں سے حساب کی آخری تفصیل نہیں آسکی۔
پہلی باقاعدہ نشست (۲۶ مارچ ۱۹۴۳ء بعد مغرب)
پروگرام کے مطابق پہلی نشست اسی روز نمازِ مغرب سے لے کر نمازِ عشا سے کچھ پہلے تک منعقد ہوئی۔ اس نشست میں امیرِ جماعت نے اپنی تقریر میں جماعت کے کام اور اس سے متعلق ضروری مسائل پر مفصل تبصرہ کیا۔ یہ تبصرہ بالعموم تعمیری تھا۔ اس کا مقصد نہ تو جماعت کو مرعوب کرنا تھا اور نہ رفقا کے جذبات کو برانگیختہ کرنا مدِنظر تھا، بلکہ اس تقریر سے جماعت کو اس کے کمزور پہلوؤں پر متوجہ کیا گیا تاکہ لوگ ان کی اصلاح کی فکر کریں۔ تقریر ذیل میں درج کی جاتی ہے۔
تقریر امیرِ جماعت
خطبۂ مسنونہ کے بعد فرمایا:
ہمارے اجتماعات کی نوعیت اور غرض
حضرات! جیسا کہ آپ نے خود بھی اندازہ کیا ہو گا، ہمارے اجتماع کی نوعیت اصطلاحی جلسوں سے بالکل مختلف ہے۔ جلسوں اور کانفرنسوں میں زیادہ تر تقریریں ہوتی ہیں، جلوس نکلتے ہیں، نعرے بلند کیے جاتے ہیں لیکن اس نوعیت کی کوئی چیز یہاں نہ کبھی ہوئی نہ کبھی ہو گی۔ ہمارے ان اجتماعات کے انعقاد کی اصل غرض ہنگامہ آرائی نہیں ہے اور نہ ہی عوام کو اپنی طرف کھینچنا مقصود ہے، بلکہ غرض صرف یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے سے واقف ہوں، باہم قریب تر ہو جائیں، آپس میں تعاون کی شکلیں نکالیں، صاحبِ امر آپ سے باخبر ہو، آپ صاحبِ امر سے واقف ہوں اور اسے آپ کی قوتوں اور صلاحیتوں کا ٹھیک ٹھیک اندازہ ہو تاکہ وہ آپ سے منظم کام لینے کی کوشش کرے، وقتاً فوقتاً ہم اپنا اور اپنے کام کا جائزہ لیتے رہیں، اپنی خامیوں اور کوتاہیوں کو سمجھیں اور انھیں دور کرنے کی فکر کریں اور باہمی مشوروں سے اپنے کام کو آگے بڑھانے کی تدبیریں سوچیں۔ غرض ہمارے یہ اجتماعات اپنے اندر عملی روح رکھتے ہیں، ان میں جلسوں کی نوعیت کی کوئی چیز نہ تو آپ پائیں گے نہ آپ کو پانے کی خواہش کرنی چاہیے۔ اگر کبھی تک جلسہ بازی کی پرانی عادتوں کا کچھ اثر آپ میں موجود ہو اور ان چیزوں کی تشنگی آپ اپنے اندر پاتے ہوں تو اسے نکالنے کی کوشش کیجیے۔ ان ہنگاموں میں فی الواقع کچھ نہیں رکھا ہے۔ فضول کاموں میں ذرہ برابر وقت ضائع نہ کیجیے۔ صرف کام کی بات کیجیے اور پھر اپنا فرض ادا کرنے میں لگ جائیے۔ آج صبح سے میں مختلف مقامات کی جماعتوں اور اشخاص کے ساتھ تبادلۂ خیال کرتا رہا ہوں۔ میں نے محسوس کیا ہے کہ کبھی کبھی غیر ضروری باتیں کرنے کی خواہش لوگوں میں عود کر آتی ہے اور بسا اوقات موضوع سے ہٹ کر بحث ہونے لگتی ہے۔ یہ ایک کمزوری ہے جسے دور کرنا چاہیے۔ اس میں شک نہیں کہ جو عادتیں مدتِ دراز سے جڑ پکڑے ہوئے ہیں وہ دفعتاً چھوڑے نہیں چھوٹتیں، مگر انھیں چھوڑنے کی طرف آپ کی توجہ اور سعی ضروری ہے۔
اجتماعات میں حاضری کی اہمیت
اب تک مختلف مقامات پر جا کر جو کچھ میں نے دیکھا اور باہر کی اطلاعات سے جو اندازہ لگایا اور آج آپ حضرات سے فرداً فرداً اور مجتمعاً تبادلۂ خیالات کر کے جو معلومات حاصل کیں، ان کی بنا پر میں سمجھتا ہوں کہ ہماری انتہائی احتیاط کے باوجود ایک اچھی خاصی تعداد ہماری جماعت میں داخل ہو گئی ہے جسے فی الواقع اس کام سے کوئی گہری دلچسپی نہیں ہے۔ دلچسپی کے اس فقدان کی نشانیاں یہ ہیں کہ یہاں اجتماع کے لیے دعوتِ عام دی گئی تھی اور اعلان کیا گیا تھا کہ زیادہ سے زیادہ ارکان شریک ہونے کی کوشش کریں، مگر بہت سے ارکان کسی عذرِ معقول کے بغیر نہیں آئے، بلکہ بہتوں نے عذر پیش کرنے کی بھی ضرورت نہ سمجھی۔ لوگوں کے لیے ان کے معمولی کام، ان کے روزمرہ کے مشاغل، ان کے خانگی امور، ان کے بیوی بچوں کی جو اہمیت ہے، وہ جماعت کی پکار پر لبیک کہنے میں مانع آئی اور وہ غیراولی الضرورت ہونے کے باوجود پیچھے رہ گئے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارے بہت سے رفقا کو اس کام سے حقیقی دلی دلچسپی نہیں ہے۔ اگر وہ فی الواقع جانتے کہ یہ اجتماع کس قدر معنی رکھتا ہے اور جماعت کی پکار پر ان پر کیا لازم آتا ہے اور جو عہد انھوں نے اپنے رب سے کیا ہے، اس سے کیا ذمہ داریاں ان پر عائد ہوتی ہیں، تو وہ اپنے بڑے سے بڑے دنیوی فائدے اور سخت سے سخت مشغولیت کو بھی یہاں کی حاضری پر ہرگز ترجیح نہ دیتے۔ جب آج ان کا یہ حال ہے تو کیا امید کی جا سکتی ہے کہ کل کوئی بڑی مہم سامنے آ جائے گی تو وہ ہماری پکار پر لبیک کہیں گے؟ نظامِ جماعت سے منسلک ہو جانے کے بعد فرد کے لیے ضروری ہو جاتا ہے کہ جماعت کی پکار سن کر دوڑ پڑے اور سارے کام چھوڑ دے۔ اس سے مستثنیٰ صرف وہ حالات ہیں جن میں خدا اور رسول نے خود رخصت دی ہے، ان حالات کے سوا باقی تمام حالات میں جماعت کی شرکت کے لیے دوسری ہر مشغولیت سے قطع نظر کر لینا لازم ہے۔ جب تک ارکانِ جماعت میں یہ کیفیت پیدا نہ ہو گی، نظامِ جماعت بالکل بے جان رہے گا۔ کسی شخص کا یہ خیال کر کے بیٹھ رہنا کہ اس وقت کوئی خاص کام نہیں ہے، اجتماع کی کوئی حقیقی ضرورت نہیں ہے، اس وقت شریک نہ ہوا تو کوئی نقصان نہ ہو گا، درحقیقت ایک غلط خیال ہے۔ میں کہتا ہوں کہ اگر یہاں سرے سے کوئی کام نہ ہوتا بلکہ آپ کو صرف جمع ہو جانے کے لیے پکارا جاتا تب بھی آپ کو ایک آواز پر جمع ہو جانا چاہیے تھا، کیوں کہ اس ابتدائی مرحلے میں یہی بجائے خود ایک اہم کام ہے کہ آپ کے اندر ایک آواز پر جمع ہو جانے کی استعداد پیدا ہو۔ اس استعداد کے بغیر آپ کون سا کام منظم اور تعاون کے ساتھ کر سکیں گے؟
جمود میں مبتلا ارکان
یہ سرد مہری، جس کا اظہار اس اجتماع کے موقع پر ہوا ہے، کوئی اتفاقی چیز نہیں ہے جو اس وقت رونما ہوئی ہے۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ متعدد مقامات پر ہماری جماعت کے بعض بااثر ارکان ہفتہ وار اجتماعات میں شریک نہیں ہوتے یا شریک ہوتے ہیں تو التزام کے ساتھ نہیں بلکہ "گہے گاہے" طریقے سے کہ جب دنیا کی کوئی چھوٹی بڑی مشغولیت انھیں نہ ہوئی اور تفریح کو بھی جی چاہا تو مقامی جماعت کے اجتماع میں آ گئے۔ بعض مقامات پر ہفتہ وار اجتماع کا قاعدہ ہی سرے سے منسوخ کر دیا گیا ہے اور بہت سے ارکان ایسے بھی ہیں جو جماعت میں داخل ہونے اور جان بوجھ کر غلامی کا طوق پہننے کے بعد ویسے ہی غافل، بے حس، بے روح اور جامد و ساکن ہیں جیسے اس سے پہلے تھے۔ نہ ان کی زندگی میں کوئی تغیر واقع ہوا، نہ جاہلیت کے ماحول سے ان کی کوئی جنگ چھڑی، نہ دعوت الیٰ اللہ کے لیے کوئی سرگرمی ان میں پیدا ہوئی اور نہ ہم سفر رفیقوں کے ساتھ ان میں کوئی یگانگت پائی گئی۔ حالاں کہ ہم نے ابتدا میں جماعت قائم کرتے وقت بھی یہ کہا تھا اور اس کے بعد بھی بار بار کہتے رہے ہیں کہ ہمیں کثرتِ تعداد کی نمائش کرنے کے لیے ارکان کی فضول بھرتی نہیں کرنی ہے۔ ہمیں وہ لاغر جسم مطلوب نہیں ہے جو خود کو طاقتور بنانے کے بجائے الٹا بوجھ بن جائے۔ ہمیں صرف ان لوگوں کی ضرورت ہے جنھیں فی الواقع کچھ کر گزرنا ہو اور جو کسی خارجی دباؤ سے نہیں بلکہ ایمان کے اندرونی تقاضے سے خدا کے دین کو قائم کرنے کی سعی کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن افسوس ہے کہ ان پے در پے تصریحات کے باوجود اس قسم کے لوگ ہمارے اس نظام میں بھی داخل ہو گئے جو اس سے پہلے بعض مسلمانوں کے گروہوں سے متعلق ہو کر انھیں خراب کر چکے تھے۔ ان سے میں عرض کروں گا کہ اگر آپ کو کہیں کچھ کرنا ہی نہیں تھا تو اس غریب جماعت کو خراب کرنا کیا ضرور تھا؟ اگر آپ کو فی الواقع اس نصب العین سے ہمدردی تھی جس کی خدمت کے لیے ہماری یہ جماعت بنی ہے، اور اسی ہمدردی نے آپ کو ہم سے تعلق پیدا کرنے پر آمادہ کیا تھا تو اس ہمدردی کا کم از کم اتنا تقاضا تو ہونا چاہیے تھا کہ آپ اس جماعت کو خراب کرنے سے پرہیز کرتے، اور وہ بیماریاں اسے نہ لگاتے جن کی وجہ سے مسلمان مدت ہائے دراز سے کوئی صحیح کام نہیں کر سکے۔
جماعت سے علیحدہ ہونے والے لوگ
اس سے بھی زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ پچھلے دو سال کے دوران میں متعدد اصحاب ہمارے نظامِ جماعت سے الگ ہوئے ہیں اور ایک دو استثنا کے سوا تقریباً سب کے اندر اس علیحدگی نے رجعتِ قہقری کی شکل اختیار کر لی ہے۔ آپ جانتے ہیں اور جو شخص بھی ہمارے طریقِ کار سے واقف ہے، وہ اس بات کو جانتا ہے کہ ہم نے جماعت میں لینے سے پہلے ہر شخص کو سوچنے سمجھنے کا پورا پورا موقع دیا ہے، دین کو اور اس کے مقتضیات اور مطالبات کو، اپنے مقصد اور اس کے حصول کے لیے صحیح طریقِ کار کو اچھی طرح کھول کر بیان کیا ہے۔ پھر داخلۂ جماعت کے موقع پر بھی ایک ایک شخص کے سامنے واضح طور پر ان ذمہ داریوں کو پیش کر دیا ہے جو توحید و رسالت کے شعوری اقرار سے اس پر عائد ہوتی ہیں اور اس تصریح کے بعد ہر امیدوارِ رکنیت سے دریافت کیا گیا ہے کہ آیا اس اقرار کے وزن کو پوری طرح محسوس کرتے ہوئے برضا و رغبت یہ بار اٹھانے کے لیے تیار ہے؟ اس طرح ہر اشتباہ و التباس اور ہر غلط فہمی کے بغیر جن لوگوں نے اقرار کیا صرف وہی جماعت میں لیے گئے۔ ایسے سوچے سمجھے اقرار کے بعد نظامِ جماعت سے کسی شخص کے الگ ہونے کی اگر کوئی معقول صورت ہو سکتی تھی تو وہ یہی تھی کہ وہ ہم میں نفاق کی بو محسوس کر کے یا ہمارے نظام میں کوئی ناقابلِ علاج کمزوری پا کر ہم سے الگ ہوتا اور پھر ہم سے زیادہ بہتر طریقے سے، زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ اس نصب العین کی طرف پیش قدمی کرتا جسے اس نے خوب ٹھنڈے دل سے جان بوجھ کر اپنی زندگی کا نصب العین قرار دیا تھا۔ اس صورت میں ہم نہ صرف اسے معاف کر دیتے بلکہ اپنے آپ کو چھوڑ کر ہم خود اس کے ساتھ ہو جاتے۔ لیکن یہاں جو صورتِ حال دیکھنے میں آ رہی ہے وہ یہ ہے کہ جن لوگوں نے پورے شعور کے ساتھ، جلد بازی میں نہیں بلکہ خوب سوچ سمجھ کر ہم سے نہیں بلکہ اپنے خدا سے اقرار کیا تھا، وہ جماعت سے الگ ہوئے اور الگ ہو کر ان میں سے بعض ساکن و جامد ہو گئے، بعض ان گروہوں کی طرف پلٹ گئے جن کے متعلق وہ کہتے تھے کہ ان کے طریقوں کو غلط پا کر اور ان سے مایوس ہو کر وہ علی وجہ البصیرت ادھر آئے ہیں اور بعض نے تو یہاں تک کیا کہ جو دین داری اور پابندیٔ شریعت انھوں نے اختیار کی تھی اور اخلاقی اصلاح کے جو اثرات قبول کیے تھے، ان کے بھی بیشتر حصے پر خطِ نسخ پھیر دیا اور وہی سب کچھ شروع کر دیا جو پہلے کرتے تھے۔ چنانچہ ایسے اصحاب اور رفقا کی رجعت کا یہ حال دیکھ رہا ہوں کہ جن حرام چیزوں سے پرہیز کرنے لگے تھے، ان میں پہلے سے بھی کچھ زیادہ مبتلا ہو رہے ہیں اور معروف اخلاقی ذمہ داریوں تک سے بے پروا ہوتے جاتے ہیں۔ میں آپ سے بیان نہیں کر سکتا کہ ان حالات کو دیکھ کر مجھے کس قدر رنج ہوتا ہے۔
رجعت اور سرد مہری کے اسباب
ہمیں سوچنا چاہیے کہ ان سرد مہریوں، ان عہد فراموشیوں اور ان رجعتوں کے حقیقی اسباب کیا ہیں؟
پہلا سبب
میرے نزدیک ایک پہلی اور بنیادی خرابی یہ ہے کہ جس قوم میں کام کرنے کے لیے ہم اٹھے ہیں، صدیوں کے مسلسل انحطاط نے اس کے اخلاق کی جڑیں کھوکھلی کر دی ہیں، اس میں کردار کی وہ مضبوطی بہت ہی کم باقی رہ گئی ہے، جس کی مضبوط چٹان پر اہلِ فیصلہ، مستقل ارادہ، ثابت قدمی اور بھروسے کے قابل میثاق قائم ہوتا ہے۔ اس میں مدت ہائے دراز سے بے عملی اور کمزوری پرورش پا رہی ہے جس نے حق کو حق جاننے اور دل سے اسے حق ماننے مگر اس کے لیے کوئی قربانی گوارہ نہ کرنا سکھایا ہے، نہ وقت کی، نہ مال کی، نہ خواہشاتِ نفس کی، نہ اپنے مرغوب افکار و نظریات کی، نہ اپنے جاہلیت کے اذواق اور دلچسپیوں کی اور نہ کسی اور چیز کی۔ انھیں وہ حق پرستی تو بہت مرغوب ہے جس میں زبان سے حق کہنا اور اس پر لفظی عقیدتوں کے پھول نچھاور کرنا اور اس کے لیے چند نمائشی کام کر دینا کافی ہو اور اس کے بعد انھیں اس حق کے خلاف ہر طرح سے اپنے کاروبار اور اپنی زندگی کے سارے معاملات چلانے کی پوری آزادی حاصل رہے۔ اسی لیے وہ نام نہاد مذہبی زندگی کی ان راہوں کی طرف خوشی خوشی لپک جاتے ہیں جن کی دین داری اور سعی و عمل کا سارا مدار اسلام اور جاہلیت کی مصالحت (compromise) پر ہے۔ لیکن ایسی حق پرستی ان کے لیے ایک ناقابلِ برداشت بوجھ ہے جو کفر و اسلام، حق و باطل اور اطاعت و بغاوت کے درمیان دو ٹوک فیصلہ چاہتی ہو اور جس میں ہر اس شخص سے جو حق کو ماننے کا اقرار کرے اور باطل کا انکار کرنے کا دعویٰ کرے، پہلا مطالبہ یہ ہو کہ وہ یکسو ہو جائے اور پھر یہ مطالبہ ہو کہ جس چیز کو اس نے حق مانا ہے اس کے لیے اپنی پوری شخصیت کو بیچ دے اور عمر بھر کے لیے وقت کی، مال کی، خواہشاتِ نفس کی، مرغوبات اور دلچسپیوں کی، امنگوں اور تمناؤں کی، توقعات اور امیدوں کی، گہرے سے گہرے تعلقات کی، قوتوں اور قابلیتوں کی، غرض ہر قسم کی قربانیاں گوارہ کرے اور ایک دو دن کے لیے نہیں، چار چھ مہینے کے لیے نہیں، کسی مقررہ مدت کے لیے نہیں، بلکہ جب تک جیتا ہے اس وقت تک گوارہ کرتا رہے۔ آپ اس گئے گزرے زمانے میں بھی ایسے مسلمان بہت پا سکتے ہیں، جو خوشی خوشی جان دینے کے لیے تیار ہو جائیں گے، سینے پر گولیاں کھانے کے لیے، لاٹھیوں کی بارش کے لیے، جیل کی سختیاں برداشت کر لیں گے، یہ سب ان کے لیے چھوٹے اور پہلے کام ہیں، جنھیں یہ آسانی سے برداشت کر سکتے ہیں۔ لیکن اپنی پوری زندگی کو ایک ضابطے میں کس دینا، عمر بھر ایک مقصد کے پیچھے مستقل مزاجی سے کام کیے چلے جانا، اپنی خواہشات پر ایک بریک لگائے رکھنا، اپنی عادتوں اور ذہنیتوں کو بدل ڈالنا اور کسی خارجی دباؤ کے بغیر اخلاقی ذمہ داریوں کو قبول کرنا اور نباہنا، یہ فی الحقیقت ان کی برداشت سے بہت زیادہ بھاری بوجھ ہے جس کا سہنا ان کے لیے سخت دشوار ہے۔ یہ نمائشی ہنگاموں میں ایک مرکز بن سکتے ہیں، مگر کسی صبر طلب جدوجہد کو سال دو سال بمشکل نباہ سکتے ہیں۔ ان کے ارادے کمزور ہو چکے ہیں، ان کی قوتِ فیصلہ و عزیمت پژمردہ ہے، ان کی عادات اور خواہشات پر ضبط اور اعتقاد و عمل کی مطابقت اور کسی نظام کی پابندی میں مسلسل کام کرنے کی قوت باقی نہیں رہی ہے۔ ان کی مثال اس جنگلی گھوڑے کی سی ہے جو روزِ پیدائش سے آزاد پھرنے کا عادی رہا ہو، اور کسی گاڑی میں جُت کر ایک مقررہ راستے پر سیدھا چلنے کے لیے تیار نہ ہو۔ ایسے گھوڑے کو اگر کسی طرح رام کر کے باندھ بھی لیا جائے تو بہت جلد وہ ان بندھنوں سے اکتانے لگتا ہے اور ایک دن رسی تڑا کر بھاگتا ہے تو پہلے سے بھی کچھ زیادہ دور نکل جاتا ہے۔
دوسرا سبب
دوسری بنیادی کمزوری جسے میں روز بروز زیادہ شدت کے ساتھ محسوس کرتا جا رہا ہوں، یہ ہے کہ ہمارے عوام تو دین کے فہم اور اس کی روح کے ادراک سے کچھ محروم ہیں ہی، مگر ہمارے درمیان جو لوگ مذہبی میلان رکھنے والے ہیں، وہ اس معاملے میں کچھ زیادہ ہی بڑھے ہوئے ہیں۔ مخلص اور نیک لوگ تک کا یہ حال ہے کہ وہ دین داری اور پیشہ ورانہ دین داری کے فرق کو نہیں جانتے، دین کی حقیقی قدروں کو انھوں نے دوسری قدروں سے بدل دیا ہے، یا خلط ملط کر دیا ہے۔ جو چیزیں دین میں نہایت اہم ہیں بلکہ اساسی اہمیت رکھتی ہیں، وہ ان کی نگاہ میں ہماری تمام کوششوں کے باوجود ایک ضمنی اہمیت ہی حاصل کر سکی ہیں۔ کیونکہ ایک خاص طبقے کی طویل مدت کی تعلیم و تلقین نے ان کا اندازِ فکر کچھ ایسا بنا دیا ہے۔ خلاف اس کے جو چیزیں دین میں کوئی اہمیت نہیں رکھتیں یا کسی قدر رکھتی بھی ہیں تو محض ایک ضمنی اہمیت، وہی ان کے نزدیک مدارِ دین ہیں کیونکہ ان کی دین داری نے انھیں یہی سکھایا ہے اور وہ اسے ایک رتبہ بلند پاتے ہیں۔ حالانکہ ان کے درمیان کم ہی اشخاص ایسے پائے جاتے ہیں جو صحیح بصیرت کی بنا پر جانتے ہوں کہ خدا کے دین میں کون سی چیزیں کس درجے میں مطلوب ہیں، کس چیز پر کتنا زور دینا چاہیے اور کون سی چیز کس چیز کی خاطر چھوڑی جا سکتی ہے۔ یہ اختلاف جو قدروں کے تناسب میں ہمارے اور عام مذہبی میلان رکھنے والے لوگوں کے درمیان موجود ہے، میں محسوس کرتا ہوں کہ یہ بھی بہت سی سرد مہریوں اور رجعتوں کا ایک بڑا سبب ہے۔ ہم مجبور ہیں کہ دین کو خوب جان کر اور سمجھ کر اسے وہیں قائم کریں جہاں اس کے حقیقی تناسب کے ساتھ قائم ہونا چاہیے، اس کے بغیر ہم اسے نافذ نہیں کر سکتے۔ اور اگر لوگوں میں سرگرمی پیدا کرنا، یا چلنے والوں کو رجعت سے باز رکھنا اسی پر موقوف ہے کہ دینی قدروں کے حقیقی تناسب کو بدل دیا جائے تو نہ ہمیں ایسی سرگرمی مطلوب ہے اور نہ کسی پلٹنے والے کی بازگشت کی ہمیں کوئی پروا ہے۔
تیسرا سبب
ایک اور اصولی سبب ان رجعتوں اور سرد مہریوں کا یہ ہے کہ بہت سے لوگ اس جماعت کی رکنیت اور کام کو انجمنوں اور پارٹیوں کی رکنیت کے فرق کو نہیں سمجھتے۔ انھوں نے ابھی پوری طرح محسوس نہیں کیا کہ اس جماعت کی شرکت کیا معنی رکھتی ہے۔ وہ ابھی تک اس گمان میں ہیں کہ یہ بھی کوئی انجمن ہے جس میں کسی آدمی کا جوشِ سرگرمی کی بنا پر شامل ہو جانا اور شامل ہو کر دلچسپی لینا اور پھر کسی چھوٹی یا بڑی ناپسندیدگی کی بنا پر الگ ہو جانا، آدمی کے دین و ایمان سے کوئی علاقہ نہیں رکھتا۔ حالاں کہ فی الحقیقت اس جماعت کی نوعیت عام انجمنوں اور پارٹیوں کی نوعیت سے بالکل مختلف ہے۔ یہ جماعت خالصتاً دینِ حق کی اقامت کے لیے قائم ہوئی ہے۔ اس کا نصب العین وہی ہے جو قرآن کی رو سے اسلام کا حقیقی نصب العین ہے۔ اس کے پیشِ نظر وہی کام ہے جس کے لیے انبیاء علیہم السلام دنیا میں بھیجے گئے تھے۔ اس میں داخل ہوتے وقت ہر شخص سے پورے شعور کے ساتھ وہی عہد لیا جاتا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں "معاہدۂ بیع" سے تعبیر فرمایا ہے:
اِنَّ اللَّهَ اشْتَرٰى مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اَنْفُسَهُمْ وَاَمْوَالَهُمْ بِاَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ ۖ ۔ (التوبہ ۹:۱۱۱)
ترجمہ: ”حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں سے ان کی جانیں اور ان کے مال جنت کے بدلے خرید لیے ہیں۔“
ایسی جماعت میں داخل ہونے کا جو شخص ارادہ کرے اسے پہلے اچھی طرح جانچ پڑتال کر کے دیکھ لینا چاہیے کہ آیا فی الحقیقت اس جماعت کی یہی غرض اور یہی کام ہے اور یہی کام اس کے پیشِ نظر ہے؟ اگر تحقیق سے اسے ان امور پر اطمینان حاصل نہ ہو تو سرے سے جماعت کی شرکت ہی غلط ہے۔ لیکن اگر اسے اطمینان حاصل ہو جائے اور وہ یہ یقین رکھتے ہوئے داخلِ جماعت ہو کہ اس جماعت کی غرض و غایت وہی ہے، جو دستور میں بیان کی گئی ہے، اور اس یقین کی بنا پر اللہ سے خوب سوچ سمجھ کر بیع کا معاملہ کرے تو اس کے بعد آپ خود سمجھ سکتے ہیں کہ ایسی شرکت اور ایسے معاہدۂ بیع کی یہ حیثیت ہرگز نہیں ہو سکتی کہ ایک ٹوپی ہے جسے جب چاہا پہنا اور جب چاہا اتار دیا۔ ادھر قدم بڑھانے سے پہلے اپنی واپسی کی کشتیاں جلا دیجیے۔ یہ سمجھتے ہوئے آگے بڑھیے کہ اب پلٹ جانے کے لیے کوئی جگہ آپ کے لیے نہیں ہے۔ خدا سے عہد باندھنے کے بعد جس جان و مال کو آپ بیچ چکے اسے اب آپ واپس نہیں لے سکتے۔ اس معاہدے کے ساتھ ہی آپ سر دھڑ کی بازی لگا چکے ہیں۔ اب آپ کو جان توڑ کر یہ کام کرنا ہے۔ خود اس راہ پر چلنا ہے اور دوسروں کو چلانا ہے۔ کوئی خرابی رونما ہوتی نظر آئے تو بھاگنے کی فکر نہ کیجیے بلکہ کم از کم اسی جذبے کے ساتھ اسے دور کرنے کی فکر کیجیے جس طرح آپ کے گھر میں آگ لگ جائے تو اسے بجھانے کی کوشش کریں گے۔ آگے والا اگر نہ چلے تو پیچھے سے سرک نہ جائیے بلکہ یا تو اسے پیچھے چھوڑ دیجیے یا اسے ہٹا کر پھینک دیجیے اور خود آگے بڑھیے۔ یہاں آکر اگر آپ اس کام میں دلچسپی نہ لیں گے، یا وقت، مال، محنت اور دل و دماغ اور جسم و جان کی قوتیں اس راہ میں صرف کرنے سے جی چرائیں گے، یا دوسرے کاموں کو اس کام پر مقدم رکھیں گے تو اپنے خدا سے بے وفائی کریں گے۔ آپ کا عہد کسی انسان سے نہیں، خدا سے ہے۔ شرکت کے وقت جو عہد آپ نے کیا ہے، اس کے ساتھ ہی آپ اپنا سب کچھ اللہ کے ہاتھ بیچ چکے ہیں۔ اب آپ کی ہر چیز پر پہلا اور مقدم حق خدا اور اس کے کام کا ہے۔ باقی تمام چیزیں اس سے مؤخر ہیں۔
یہ ساری باتیں میں آپ سے اس لیے کہہ رہا ہوں کہ آپ اس کام کی عظمت کو اچھی طرح محسوس کر لیں جو اس وقت ہمارے سامنے ہے۔ مجھ پر اثر ہوتا رہا ہے کہ میں جلدی سے کوئی بڑا اقدام کر ڈالوں لیکن ابھی میں نے جن کمزوریوں کا ذکر آپ کے سامنے کیا ہے انھیں دیکھتے اور جانتے ہوئے اگر میں کوئی بڑا اقدام کر بیٹھوں تو مجھ سے بڑا نادان کوئی نہ ہو گا۔ سیرت و اخلاق کی ان خامیوں اور فہمِ دین کی ان کوتاہیوں کے ساتھ دنیا میں کوئی بڑا کام نہیں کیا جا سکتا، چہ جائیکہ وہ کام جو دنیا میں سب سے بڑا ہے، یعنی دنیا کے نظامِ زندگی میں وہ ہمہ گیر انقلاب پیدا کرنا جو ہمارے پیشِ نظر ہے۔ اس کے لیے ایک اور ہی قسم کی ذہنیت اور سیرت درکار ہے، جسے ڈھالنے اور تیار کرنے کا کوئی انتظام ہمارے ہاں ایک مدتِ دراز سے نہیں ہوا ہے۔ جو سانچے ہمارے ہاں مدتوں سے بنے ہوئے ہیں وہ اخلاق و عادات اور ذہنیتوں اور رویوں کو اس طرح بگاڑ رہے ہیں جو اس کام کے ساتھ کوئی مناسبت نہیں رکھتا۔ قبل اس کے کہ ہم اپنے پیشِ نظر کام کی طرف کوئی بڑا قدم اٹھائیں، ہمیں ان بوسیدہ سانچوں کو توڑنا ہے اور نہایت صبر کے ساتھ پیہم سعی و جہد سے نئی سیرتیں، نئی ذہنیتیں، نئی عادتیں اور نئی اخلاقی صفات پیدا کرنی ہیں، جو حقیقتاً نئی نہیں بلکہ سب کی سب پرانی ہیں مگر بدقسمتی سے آج ہمارے لیے نئی ہو گئی ہیں۔ خوب سمجھ لیجیے کہ کسی فاسد و مردہ گروہ کو اللہ تعالیٰ اس وقت تک اپنی زمین کے انتظام اور اپنی خلق کی امانت و پیشوائی کے منصب پر فائز نہیں ہونے دیتا جب تک وہ میدان ایک صالح و زندہ (منتشر افراد نہیں بلکہ منظم گروہ) سے بالکل خالی نہ ہو جائے، اور اسی طرح اللہ تعالیٰ کی سنت کے مطابق قیادت و راہنمائی کے منصب اور زمین کے انتظام میں کوئی اُصولی تغیر بھی اس وقت تک واقع نہیں ہو سکتا، جب تک کہ ایک ”اُمّتِ وَسَط“، ایک ”خیرِ اُمّہ“ وجود میں نہ آ جائے، جو ”شُھَدَاء عَلَی النَّاس“ ہونے کے لائق ہو، جس کا جینا مرنا خالص اللہ اور اس کے دین کے لیے ہو، اور جو اپنی اخلاقی صفات کے اعتبار سے تمام دنیا کی امتوں پر فوقیت رکھتی ہو۔
دعوتِ حق ایک عظیم آزمائش ہے
اس موقع پر میں ایک بات نہایت صفائی کے ساتھ کہہ دینا چاہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ اس قسم کی ایک دعوت کا، جیسی کہ ہماری یہ دعوت ہے، کسی ملک کے اندر اٹھنا اسے ایک بڑی سخت آزمائش میں ڈال دیتا ہے۔ جب تک حق کے بعض منتشر اجزاء باطل کی آمیزش کے ساتھ سامنے آتے ہیں، ایک مسلمان قوم کے لیے انھیں قبول نہ کرنے اور ان کا ساتھ نہ دینے کا ایک معقول سبب موجود رہتا ہے اور اس کا عذر مقبول ہوتا رہتا ہے، مگر جب پورا حق بالکل بے نقاب ہو کر اپنی خالص صورت میں سامنے رکھ دیا جائے اور اس کی طرف اسلام کا دعویٰ رکھنے والی قوم کو دعوت دی جائے تو اس کے لیے ناگزیر ہو جاتا ہے کہ یا تو اس کا ساتھ دے اور اس داعی کو اسلام کا کام انجام دینے کے لیے اٹھ کھڑی ہو، جو امتِ مسلمہ کی پیدائش کی ایک ہی غرض ہے، یا یہ نہیں تو اسے رد کر کے وہی پوزیشن اختیار کر لے جو اس سے پہلے یہودی قوم اختیار کر چکی ہے۔ ان دو صورتوں کے سوا کوئی تیسری راہ کی گنجائش اس قوم کے لیے باقی نہیں رہتی۔ یہ ممکن ہے کہ اس فیصلہ کن مرحلے میں اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے مسلمانوں کو توفیق دے اور اس نوعیت کی کسی دعوت کے بعد لوگ اس تک پہنچنے کی تدبیر کریں، لیکن بہرحال اس دعوت کی طرف سے منہ موڑنے کا انجام آخر کار وہی ہے جو میں نے آپ سے عرض کر دیا ہے۔ غیر مسلم اقوام کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ لیکن مسلمان اگر حق سے منہ موڑیں اور اپنے مقصدِ وجودی کی طرف صریح دعوت کو سن کر اس سے پیٹھ پھیر جائیں تو یہ وہ جرم ہے جس پر خدا نے کسی نبی کی امت کو معاف نہیں کیا۔
اب چونکہ یہ دعوت ہندوستان¹ میں اٹھ چکی ہے اس لیے کم از کم یہاں کے مسلمانوں کے لیے تو آزمائش کا وہ خوفناک لمحہ آ ہی گیا ہے۔ رہے دوسرے ممالک کے مسلمان تو ہم ان تک اپنی دعوت پہنچانے کی تیاری کر رہے ہیں۔ اگر ہمیں اس کوشش میں کامیابی ہو گئی تو جہاں جہاں یہ پہنچے گی وہاں کے مسلمان بھی اسی آزمائش میں پڑ جائیں گے۔ میں یہ دعویٰ کرنے کے لیے تو کوئی بنیاد نہیں رکھتا کہ یہ آخری موقع ہے جو مسلمانوں کو مل رہا ہے، اس کا علم صرف اللہ کو ہے۔ یہ ممکن ہے کہ مسلمانوں کے لیے ابھی اور بھی مہلت مقدر ہو، لیکن قرآن کی بنیاد پر میں اتنا ضرور کہہ سکتا ہوں کہ مسلمانوں کے سامنے اس وقت دو قسم کی دعوتیں ہیں: ایک طرف ہماری یہ دعوت ہے جو مسلمانوں کو ٹھیک اس کام کے لیے بلا رہی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے مسلم جماعت کی تاسیس و تشکیل کی واحد غرض قرار دیا ہے اور دوسری طرف وہ دعوتیں ہیں جن کے پیشِ نظر مسلمانوں کے قومی مفادات کے سوا اور کچھ نہیں۔
¹ متحدہ ہندوستان سے مراد ہے جو ۱۹۴۷ء میں پاکستان اور بھارت دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔ یہ جماعت تقسیم کے بعد پاکستان میں جماعتِ اسلامی پاکستان اور بھارت میں جماعتِ اسلامی ہند کے نام سے کام کر رہی ہے۔
ان دو متقابل پکاروں میں سے دوسری پکار کی طرف مسلمانوں کا فوج در فوج لپکنا اور پہلی پکار کو امت کی عظیم اکثریت کا بہرے کانوں سے سننا، اس کا ہر طرف استہزاء اور مضحکہ اڑانا، میرے نزدیک ایک نہایت بری علامت ہے اور ایک عظیم خطرہ ہے جس میں یہ مسلمان قوم اپنے آپ کو ڈال رہی ہے۔ خوب جان لیجیے کہ اگر اس وقت اس قوم میں سے کچھ آدمی ایسے نہ نکلے جو اُمّتِ وَسَط اور شُھَدَاءُ اللہ بننے کے قابل ہوں اور وہ خدمت انجام دے سکیں جس کے لیے اللہ تعالیٰ اپنی زمین پر ایک صالح و مصلح گروہ کو مرتب دیکھنا چاہتا ہے تو پھر:
فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَافِرِينَ يُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا يَخَافُونَ لَوْمَةَ لَائِمٍ ۚ ذَٰلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ (المائدة ۵:۵۴)
”تو اللہ بہت جلد ایسی قوم کو لے آئے گا جو اللہ کو محبوب ہو اور اللہ اسے محبوب ہو، جو اہل ایمان پر نرم اور کفار پر سخت ہو، جو اللہ کی راہ میں جدوجہد کرے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈرے، یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہتا ہے اسے عطا کرتا ہے، اللہ بڑی وسعت رکھنے والا اور علیم ہے۔“
آپ حضرات یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لیں کہ آپ دراصل اُمّتِ وَسَط بننے کے امیدوار ہیں۔ آپ کا مقصود یہ ہے کہ اس مقامِ بلند و بالا پر فائز ہوں۔ اتنے بڑے منصب کی امیدواری کے لیے اٹھ کھڑا ہونا اور پھر اس کی عظمت کو محسوس نہ کرنا، اور نہ اس کے لیے اپنے آپ کو تیار کرنا، ایک عظیم الشان جسارت ہے اور اس سے بڑھ کر خطرے کی بات یہ ہے کہ ایک طرف تو آپ ان کم از کم صفات سے بھی ابھی تک متصف نہ ہوئے ہوں جو اس کارِ عظیم کے لیے ضروری ہیں اور دوسری طرف آپ تقاضا کریں کہ فوراً ہی کوئی بڑا قدم اٹھا دیا جائے۔ کیا آپ نہیں دیکھتے اور اس سے ڈرتے نہیں کہ اگر آپ نے کوئی ایسا قدم اٹھا لیا جس کے لیے آپ نے اپنے اندر اہلیت پیدا نہیں کی تو آپ ناکام ہوں گے اور اس راہ میں پیچھے ہٹنا "فِرَار مِنَ الزَّحف" (میدانِ جنگ سے فرار) ہے جو خدا کی شریعت میں بہت بڑا گناہ ہے۔
اس دعوتی کام کے لیے جو شخصی اور جماعتی اوصاف ضروری ہیں
اب میں مختصر طور پر آپ کو بتاؤں گا کہ وہ کم از کم ضروری صفات کیا ہیں جو اس دعوت کے لیے کام کرنے والوں میں ہونی چاہئیں۔ دوسرے، وہ جو ایک صالح جماعت بنانے کے لیے ضروری ہیں اور تیسرے، وہ جو مجاہدہ فی سبیل اللہ کے لیے ناگزیر ہیں۔
شخصی اوصاف
-
شخصی اوصاف میں پہلا اور بنیادی وصف یہ ہے کہ ہم میں سے ہر شخص اپنے نفس سے لڑ کر پہلے اسے مسلمان اور خدا کا مطیع و فرمانبردار بنائے۔ یہ وہی بات ہے جسے حدیث میں یوں بیان فرمایا گیا ہے:
الْمُجَاهِدُ مَنْ جَاهَدَ نَفْسَهُ فِي طَاعَةِ اللهِ.
یعنی قبل اس کے کہ آپ باہر کی دنیا میں خدا کے باغیوں سے مقابلے کے لیے نکلیں، اس باغی کو بھی مطیع بنا چکے ہوں جو خود آپ کے اندر ہے اور اللہ کے قانون اور اس کی رضا کے خلاف چلنے کے لیے ہر وقت تقاضا کرتا رہتا ہے۔ اگر یہ باغی آپ کے اندر پل رہا ہے اور آپ پر اتنا قابو یافتہ ہے کہ آپ سے رضائے الٰہی کے خلاف اپنے مطالبے منوا سکتا ہے تو یہ بالکل ایک بے معنی بات ہے کہ آپ بیرونی باغیوں کے خلاف اعلانِ جنگ کریں۔ یہ تو وہی بات ہوئی کہ گھر میں شراب کی بوتل پڑی ہے اور باہر شرابیوں سے لڑائی ہو رہی ہے۔ یہ تضاد ہماری تحریک کے لیے تباہ کن ہے۔ پہلے خود خدا کے آگے سر جھکائیے، پھر دوسروں سے اطاعت کا مطالبہ کیجیے۔
"حقیقی مجاہد وہ ہے جو اللہ کی اطاعت میں اپنے نفس سے کشمکش کرے۔" -
جہاد کے بعد دوسرا درجہ ہجرت کا ہے۔ ہجرت کا اصل مدعا گھر بار چھوڑنا نہیں ہے، بلکہ خدا کی نافرمانی سے بھاگ کر خدا کی رضا جوئی کی طرف بڑھنا ہے۔ اصلی مہاجر ترکِ وطن اگر کرتا ہے تو اس لیے کہ اس وطن میں قانونِ الٰہی کے مطابق زندگی بسر کرنے کے مواقع نہیں ہیں، لیکن اگر کسی شخص نے گھر بار چھوڑا اور اللہ کی نافرمانی ہی اختیار کی تو اس نے حماقت کی۔ یہ حقیقت بھی احادیث میں اچھی طرح واضح کر دی گئی ہے۔ بطور مثال ایک حدیث کو لیجیے، آنحضور ﷺ سے پوچھا گیا:
أَيُّ الْهِجْرَةِ أَفْضَلُ يَا رَسُولَ اللهِ؟
جواب ملا:
"یا رسول اللہ! کون سی ہجرت افضل ہے؟"أَنْ تَهْجُرَ مَا كَرِهَ رَبُّكَ.
اندر کا باغی اگر مطیع نہ ہو تو آدمی کا ترکِ وطن کر دینا خدا کی بارگاہ میں کوئی وزن نہیں رکھتا۔ اسی لیے میں یہ چاہتا ہوں کہ آپ حضرات باہر کی قوتوں سے پہلے اپنے اندر کی سرکش قوتوں سے لڑیے اور اصطلاحی کفار کو مسلمان بنانے سے پہلے اپنے نفس کو مسلمان بنائیے۔
"یہ کہ تو ان چیزوں کو چھوڑ دے جو اللہ کو ناپسند ہیں۔"
اس معنی کو جامع تر الفاظ میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ حدیثِ نبوی کے مطابق اپنے آپ کو اس گھوڑے کی طرح بنائیے جو ایک کھونٹے سے بندھا ہوا ہے۔ وہ کتنا ہی گھومے پھرے، بہرحال اس حد سے آگے نہیں جا سکتا جہاں تک رسی اسے جانے دیتی ہے۔
مَثَلُ الْمُؤْمِنِ كَمَثَلِ الْفَرَسِ فِي آخِيَّتِهِ، يَجُولُ ثُمَّ يَرْجِعُ إِلَى آخِيَّتِهِ.
ایسے گھوڑے کی حالت آزاد گھوڑے سے بالکل مختلف ہوتی ہے جو ہر میدان میں گھومتا ہے، ہر کھیت میں گھس جاتا ہے اور جہاں ہریالی دیکھتا ہے، وہیں پوری بے صبری کے ساتھ ٹوٹ پڑتا ہے۔ پس آپ آزاد گھوڑے کی سی کیفیت اپنے اندر سے نکالیں اور کھونٹے سے بندھے ہوئے گھوڑے کی سی کیفیت اپنے اندر پیدا کریں۔
اس کیفیت کو پیدا کرنے کے ساتھ دوسرا قدم یہ اٹھائیے کہ اپنے قریبی ماحول سے، جسے میں ”ہوم فرنٹ“ کہوں گا، لڑنا شروع کر دیجیے۔ گھر کے لوگ، اعزہ، دوست اور سوسائٹی جس سے آپ کا گہرا ربط ہے، ان سب سے ایک عملی کشمکش شروع ہو جانی چاہیے۔ کشمکش اس معنی میں نہیں کہ آپ اپنے متعلقین سے کٹیں، لڑیں یا ان سے توہین آمیز برتاؤ کریں اور مناظرہ شروع کر دیں، بلکہ یہ کشمکش اس معنی میں ہونی چاہیے کہ آپ بحیثیت فرد اور بحیثیت جماعت اپنے نصب العین کے اتنے دلدادہ اور اپنے اصول و ضوابط کے اتنے پابند ہو جائیں کہ آپ کے گرد و پیش جو لوگ کسی نصب العین کے بغیر بے اصول زندگیاں بسر کر رہے ہیں، وہ آپ کی پابند زندگی کو گوارا نہ کر سکیں۔ آپ کی بیویاں، آپ کی اولاد، آپ کے والدین، آپ کے رشتہ دار و دوست، آپ کے رویے کے خلاف مزاحمت کرنے پر مجبور ہو جائیں۔ آپ اپنے شہر میں اجنبی ہو کر رہ جائیں۔ جہاں آپ کسبِ معاش کے لیے کام کرتے ہوں وہاں آپ کا وجود نمایاں طور پر کھٹکنے لگے۔ دفتر کی آرام دہ کرسی جس پر بیٹھ کر وہ ترقی کے خواب دیکھتے ہیں، ان کے لیے انگاروں کا بستر بن کر رہ جائے۔ غرض جو جتنا زیادہ قریب ہو اس سے اتنا ہی پہلے تصادم شروع ہو جانا چاہیے۔ جس شخص کے گھر میں میدانِ جہاد موجود ہو، وہ آخر چند میل کے فاصلے پر کیوں لڑنے جائے۔ پہلا معرکہ تو گھر ہی سے شروع ہونا چاہیے۔ اب تک جہاں جہاں اس کشمکش کی اطلاعات آ رہی ہیں، وہاں کے لوگوں سے میں مطمئن ہوں اور جہاں سے ایسی اطلاعات نہیں آ رہی ہیں، وہاں کے لیے بے تابی سے منتظر ہوں کہ ایسی کوئی اطلاع ملے۔
مگر میں بروقت یہ واضح کر دوں کہ یہ ساری کشمکش اس ذہنیت کے ساتھ ہونی چاہیے جس کے ساتھ ایک ڈاکٹر یا جراح اپنے مریضوں سے کشمکش کرتا ہے۔ دراصل وہ بیمار سے نہیں بلکہ بیماری سے لڑتا ہے اور اس کی تمام تر جدوجہد ہمدردی کی روح سے لبریز ہوتی ہے۔ وہ اگر بیمار کو کوئی کڑوی دوا دیتا ہے یا اس کے کسی عضو پر نشتر چلاتا ہے تو یہ تمام تر اخلاص ہوتا ہے، دشمنی نہیں ہوتی۔ اس کی نفرت اور اس کا غصہ بالکل مرض کے خلاف ہوتا ہے نہ کہ مریض کے خلاف۔ بالکل اسی طرح آپ ایک گمراہ بھائی کو ہدایت کی طرف لائیے۔ وہ کسی بھی بات سے یہ محسوس نہ کرے کہ اسے حقارت سے دیکھا جا رہا ہے یا براہِ راست اس کی ذات سے دشمنی کی جا رہی ہے بلکہ وہ آپ کے اندر انسانی ہمدردی، محبت اور اخوت کو کام کرتا ہوا پائے۔ میں نے اجتماعِ در بھنگہ کے موقع پر بھی مختصراً عرض کیا تھا کہ اصل تبلیغ تقریری اور تحریری مناظروں سے نہیں ہوا کرتی۔ یہ کام کرنے کے بہت ہی ادنیٰ طریقے ہیں۔ اصل تبلیغ یہ ہے کہ آپ اپنی دعوت کا مجسم نمونہ ہوں۔ جہاں کہیں لوگوں کی نگاہوں کے سامنے یہ نمونہ آجائے وہ آپ کے طرزِ عمل سے دینِ خدا کی راہ کے راہی بنیں، جس طرح کوئی "فاؤسٹ" یا "آگسٹس" جیسا کردار سامنے آجاتا ہے تو کافرانہ ذہنیت کی پوری تصویر آنکھوں کے سامنے پھر جاتی ہے۔ اسی طرح آپ اپنے عمل سے ”لا الہ الا اللہ“ بن جائیے کہ جہاں آپ کا سایہ پڑے، اس اسلامی تحریک کا پورا نقشہ واضح ہو جائے۔ یہ وہی چیز ہے جسے نبی ﷺ نے فرمایا ہے:
إِذَا رُؤُوا ذُكِرَ اللهُ.
(وہ لوگ جنہیں دیکھا جائے تو خدا یاد آجائے)۔
میں یہ نہیں کہتا کہ یہ رعب فوراً ہی حاصل ہو جائے گا۔ یہ مقام تو بتدریج ہی حاصل ہو گا جب اپنے ماحول سے پیہم آپ کا تصادم ہوتا رہے گا اور آپ ہر آن، ہر لمحہ اپنے مقصد کے لیے کوشش کرتے ہوئے قربانیاں دیتے رہیں گے تو ایک مدت میں جا کر یہ کیفیت آپ پر طاری ہو گی اور آپ اپنی دعوت کا مجسم ظہور بن سکیں گے۔ اس مقصد کے لیے قرآن و حدیث کا گہرا مطالعہ کیجیے اور دیکھیے کہ اسلام کس قسم کا انسان چاہتا ہے اور آنحضرت ﷺ نے کس طرز کے آدمی تیار کیے تھے۔ وہ کیا صفات تھیں جو اس تحریک کے کارکنوں میں پہلے پیدا کی گئیں اور اس کے بعد جہاد کا علم بلند کیا گیا۔ آپ میں سے ہر شخص جانتا ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی مذہبی تحریک کے لیے جو انسان تیار کیے گئے، انھیں ۱۵ برس کی تیاری کے بعد میدان میں لایا گیا۔ اس تیاری کی تفصیلات معلوم کیجیے اور دیکھیے کہ یہ کس تدریج کے ساتھ ہوئی تھی۔ اس میں کن صفات کی پرورش مقدم تھی اور کن کی مؤخر تھی۔ کون سی صفات کس درجے میں مطلوب تھیں اور انھیں کس حد تک ترقی دی گئی اور کس مقام پر پہنچ کر اس جماعت سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اب تم دنیا کا بہترین گروہ بن گئے ہو اور اس قابل ہو کہ نوعِ انسانی کی اصلاح کے لیے نکلو۔ نبی کا نمونہ خود اپنی تیاری کے لیے آپ کے سامنے ہونا چاہیے۔
یہاں تفصیل کا موقع نہیں، میں صرف دو حدیثیں آپ کی راہنمائی کے لیے پیش کروں گا جن سے آپ کو معلوم ہو گا کہ اس کام کے لیے کن صفات کے آدمی درکار ہیں۔ نبی ﷺ نے فرمایا ہے:
مَنْ أَحَبَّ لِلَّهِ وَأَبْغَضَ لِلَّهِ وَأَعْطَى لِلَّهِ وَمَنَعَ لِلَّهِ فَقَدِ اسْتَكْمَلَ الْإِيمَانَ.
یعنی آدمی پورا مومن اس وقت بنتا ہے جب اس کی کیفیت یہ ہو جائے کہ اس کی دوستی اور دشمنی اور اس کا دینا اور نہ دینا، جو کچھ ہو، خالص اللہ کے لیے ہو، نفسانی اور دنیوی محرکات اس سے یکسر ختم ہو جائیں۔
دوسری حدیث ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا:
أَمَرَنِي رَبِّي بِتِسْعٍ:
میرے رب نے مجھے نو چیزوں کا حکم دیا ہے:
- خَشْيَةِ اللهِ فِي السِّرِّ وَالْعَلَانِيَةِ. (کھلے اور چھپے ہر حال میں خدا سے ڈرتا رہوں)۔
- وَكَلِمَةِ الْعَدْلِ فِي الْغَضَبِ وَالرِّضَا. (کسی پر مہربان ہوں یا کسی کے خلاف غصے میں ہوں، دونوں حالتوں میں انصاف ہی کی بات کہوں)۔
- وَالْقَصْدِ فِي الْفَقْرِ وَالْغِنَى. (خواہ فقیری کی حالت میں ہوں، یا امیری کی حالت میں، بہرحال میانہ روی و اعتدال پر قائم رہوں)۔
- وَأَنْ أَصِلَ مَنْ قَطَعَنِي. (اور یہ کہ جو مجھ سے کٹے میں اس سے جڑوں)۔
- وَأُعْطِيَ مَنْ حَرَمَنِي. (اور جو مجھے محروم کرے میں اسے دوں)۔
- وَأَعْفُوَ عَمَّنْ ظَلَمَنِي. (اور جو مجھ پر زیادتی کرے میں اسے معاف کروں)۔
- وَأَنْ يَكُونَ صَمْتِي فِكْرًا. (اور یہ کہ میری خاموشی فکر کی خاموشی ہو)۔
- وَنُطْقِي ذِكْرًا. (اور میری گفتگو ذکرِ الٰہی کی گفتگو ہو)۔
- وَنَظَرِي عِبْرَةً. (اور میری نگاہ عبرت کی نگاہ ہو)۔
ان اوصافِ مطلوبہ کا ذکر کرنے کے بعد نبی ﷺ نے فرمایا ہے:
وَأَنْ آمُرَ بِالْمَعْرُوفِ وَأَنْهَى عَنِ الْمُنْكَرِ.
یعنی مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں نیکی کا حکم دوں اور بدی سے روکوں۔
معلوم ہوا کہ نیکی کو پھیلانے اور بدی کو ختم کرنے کے لیے جو امتِ وسط اٹھے، اس کے فرد فرد میں یہ اوصاف ہونے چاہئیں۔ انہی اوصاف کے ساتھ یہ فریضہ ادا ہو سکتا ہے۔ یہ نہ ہوں تو ہم بھی اپنے منصب کے مقتضیات کو پورا نہیں کر سکتے۔
جماعتی اوصاف
یہ تو شخصی اصلاح کا پروگرام ہوا۔ اس سے آگے جماعتی حیثیت سے کچھ دوسرے اخلاقی اوصاف کی ضرورت ہے۔ جماعتی نظم کو مستحکم اور کارگر بنانے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ارکانِ جماعت کے درمیان محبت و ہمدردی ہو، آپس میں حسنِ ظن ہو، بے اعتمادی کی جگہ اعتماد ہو، آپس میں مل کر کام کرنے کی صلاحیت ہو، ایک دوسرے کو حق کی نصیحت کرنے کی عادت ہو، خود آگے بڑھیں اور دوسروں کو اپنے ساتھ آگے بڑھائیں۔ یہ اوصاف ہر جماعتی نظم کے لیے ناگزیر ہیں۔ ورنہ اگر فرد فرد سب لوگ اعلیٰ درجے کی صفاتِ حسنہ اپنے اندر پیدا کر لیں لیکن منظم نہ ہوں، آپس میں متحد نہ ہوں، شانہ بشانہ ملا کر چل نہ سکیں تو ہم دنیا میں علمبردارانِ باطل کا بال بیکا بھی نہیں کر سکتے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ بعض حیثیتوں سے بہترین انسان ہم میں ہمیشہ موجود رہے ہیں اور آج بھی موجود ہیں۔ اگر آج دنیا بھر کو ہم چیلنج دے کر کہیں کہ ایسے لوگ کسی کے پاس نہ ہوں گے تو شاید اس چیلنج کا جواب کسی قوم سے نہ بن پڑے گا، مگر یہ معاملہ صرف انفرادی اصلاح کی حد تک ہے۔ جن لوگوں نے اپنی انفرادی اصلاح میں کمال حاصل کیا ہے انھوں نے زیادہ سے زیادہ یہ کیا کہ چند سو یا چند ہزار افراد پر اپنا اثر پھیلا دیا اور تقدس کی چند یادگاریں چھوڑ کر رخصت ہو گئے۔ یہ طریقے بڑے کام کرنے کے نہیں ہیں۔ بڑے سے بڑا پہلوان جو بھاری بوجھ اٹھانے اور کئی آدمیوں کو کشتی میں پچھاڑنے کی طاقت رکھتا ہو، ایک مربوط رجمنٹ کے مقابلے میں بالکل بے کار ہے۔ اسی طرح ہم میں سے کچھ لوگوں کی مثال انفرادی تحریک کی حیثیت سے اس پہلوان کی سی ہے جو کسی رجمنٹ کا عضو بن کر کام نہیں کرتا بلکہ منفرد ایک رجمنٹ کو دعوتِ مبارزت دیتا ہے۔ انفرادی تحریک کے لحاظ سے ہماری اپنی جماعت میں بھی ایسے رفقا کی کمی نہیں ہے جن کی حالت پر خود مجھے رشک آتا ہے مگر جہاں تک جماعتی تحریک کا تعلق ہے، حالات افسوس ناک ہیں۔ میں مستقبلِ قریب میں اس مسئلے پر تفصیل سے لکھنے کا ارادہ رکھتا ہوں کہ جماعتی حیثیت سے کیا کچھ ترک کر دینے کے قابل ہے اور اس کی جگہ کیا کیا چیزیں مطلوب ہیں؟
قرآن میں اس مسئلے پر اصولی حد تک مفصل روشنی ڈالی گئی ہے اور حدیث میں اصول کی عملی تشریحات موجود ہیں۔ پھر سیرتِ نبوی اور سیرتِ صحابہ کے مطالعے سے مطلوبہ اجتماعی اخلاق کے عملی نمونے بھی ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں۔ ان چیزوں کی ورق گردانی کیجیے اور یہ ناپ تول کر دیکھیے کہ کس پہلو سے ہمارے اجتماعی نظم میں کیا اور کتنی کمی ہے اور اس کمی کو پورا کرنے کی فکر کیجیے۔ صاف بات یہ ہے کہ اجتماعی نظم میں ہمارے ہر فرد کو دوسرے سے واسطہ پیش آتا ہے۔ اگر حسنِ ظن، ہمدردی، ایثار اور رواداری نہ ہو تو مزاجوں کا اختلاف تعاون کو چار دن بھی جاری نہیں رہنے دے گا۔ جماعتی نظم چاہتا ہے کہ اس اصول پر ہر فرد دوسرے کے لیے اپنا کچھ چھوڑے اور دوسرا اس کے لیے کچھ چھوڑے۔ اس ایثار کی ہمت نہ ہو تو کسی انقلاب کا نام کبھی زبان پر نہ لانا چاہیے۔
مجاہدہ فی سبیل اللہ کے ضروری اوصاف
تیسری قسم کی صفات وہ ہیں جو مجاہدہ فی سبیل اللہ کے لوازم میں شمار ہوتی ہیں۔ ان کا بھی قرآن و حدیث میں مفصل تذکرہ موجود ہے۔ صرف تذکرہ ہی نہیں، ایک ایک مطلوبہ صفت کی وضاحت بھی کی گئی ہے کہ وہ کس نوعیت اور کس درجے کی ہونی چاہیے۔ اس سلسلے میں علم و ہدایت کو جمع کیجیے اور دیکھیے کہ مجاہدہ فی سبیل اللہ کے لیے کیا کیا تیاریاں کرنی ہیں۔ میں مختصراً ان کی طرف اشارہ کر دینا چاہتا ہوں۔
- سب سے پہلی صفت جس پر زور دیا گیا ہے، صبر ہے۔ صبر کے بغیر خدا کی راہ میں کیا، کسی بھی راہ میں مجاہدہ نہیں ہو سکتا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ خدا کی راہ میں اور قسم کا صبر مطلوب ہے اور دنیا کے لیے مجاہدہ کرتے ہوئے اور قسم کا صبر درکار ہے۔ بہرحال صبر ناگزیر ہے۔ صبر کے بہت سے پہلو ہیں: ایک پہلو یہ ہے کہ جلد بازی سے اجتناب کیا جائے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ راہِ حق میں جدوجہد کرتے ہوئے دشواریوں، مخالفتوں اور مزاحمتوں کے مقابلے میں استقامت دکھائی جائے اور قدم پیچھے نہ ہٹایا جائے۔ تیسرا پہلو یہ ہے کہ کوششوں کا کوئی نتیجہ جلدی حاصل نہ ہو تب بھی ہمت نہ ہاری جائے اور پیہم سعی جاری رکھی جائے۔ ایک اور پہلو یہ ہے کہ مقصد کی راہ میں بڑے سے بڑے خطرات، نقصانات اور خوف و طمع کے مواقع بھی پیش آئیں تو قدم لغزش خوردہ نہ ہونے پائے۔ اور اسی صبر کا ایک شعبہ یہ بھی ہے کہ اشتعالِ جذبات کے سخت سے سخت مواقع پر بھی اپنے ذہنی توازن کو نہ کھوئے، جذبات سے مغلوب ہو کر کوئی قدم نہ اٹھائے۔ ہمیشہ سکون، صحتِ عقل اور ٹھنڈی قوتِ فیصلہ کے ساتھ کام کرے۔ پھر صبر صرف "صبر" ہی نہیں "مصابرت" کا بھی تقاضا کرتا ہے۔ یعنی مخالف طاقتیں اپنے باطل مقاصد کے لیے جس صبر کے ساتھ ڈٹ کر سعی کر رہی ہیں، اسی صبر کے ساتھ آپ بھی ڈٹ کر ان کا مقابلہ کریں۔ اسی لیے ”اِصْبِرُوْا“ کے ساتھ ”صَابِرُوْا“ کا حکم بھی دیا گیا ہے۔ جن لوگوں کے مقابلے میں آپ حق کی علمبرداری کے لیے اٹھے ہیں، اگر یہ صبر رکھتے ہیں تو ان کے صبر کا اپنے صبر سے موازنہ کیجیے اور سوچیے کہ آپ کے صبر کا ان سے کیا تناسب ہے؟ شاید ہم ان کے مقابلے میں ۱۰ فیصدی کا دعویٰ کرنے کے قابل بھی نہیں ہیں۔
- باطل کے غلبے کے لیے جو قربانیاں وہ دے رہے ہیں، ان کا اندازہ کرنے کے لیے موجودہ جنگ کے حالات پر نظر ڈالیے۔ کس طرح وقت آنے پر ان لوگوں نے اپنے ان کارخانوں، شہروں اور ریلوے اسٹیشنوں کو اپنے ہاتھوں سے پھونک ڈالا جن کی تعمیر و تیاری میں سالوں کی محنتیں اور بے شمار روپیہ صرف کیا تھا۔ یہ ان ٹینکوں کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہو جاتے ہیں جو فولاد کو اپنے پہیوں تلے کچل ڈالتے ہیں۔ یہ دشمن کے ان بمبار طیاروں کے سامنے استقامت سے کھڑے رہتے ہیں جو موت کے پر لگا کر اڑتے ہیں۔ جب تک ان کے مقابلے میں ہمارا صبر ۵۰ فیصدی کے تناسب پر نہ پہنچ جائے، ان سے کسی فیصلہ کن نتیجے کی جرأت نہیں کی جا سکتی۔ جب سرو سامان کے لحاظ سے ہم ان کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتے تو پھر سرو سامان کی کمی کو صبر ہی سے پورا کیا جا سکتا ہے۔ دوسری چیز جو مجاہدے کا لازمہ ہے، ایثار کی صفت ہے۔ وقت کا ایثار، محنتوں کا ایثار اور مال کا ایثار۔ ایثار کے اعتبار سے بھی باطل کا جھنڈا اٹھانے والی طاقتوں کے مقابلے میں ہم بہت ہی پیچھے ہیں، حالاں کہ بے سروسامانی کی تلافی کے لیے ہمیں ایثار میں بھی ان سے میلوں آگے ہونا چاہیے۔ مگر یہاں صورتِ واقعہ یہ ہے کہ ایک شخص ماہانہ پچاس ہزار روپے کے عوض اپنی پوری صلاحیتیں خود اپنے دشمن کے ہاتھ بیچ دیتا ہے اور اس طرح ہماری قوم کا کارآمد جوہر بے کار ہو جاتا ہے۔ یہ دماغی صلاحیتیں رکھنے والا طبقہ اتنی ہمت نہیں رکھتا کہ ایک بڑی آمدنی کو چھوڑ کر یہاں محض بقدرِ ضرورت قلیل معاوضے پر اپنی خدمات پیش کر دے۔ پھر فرمائیے کہ اگر یہ لوگ ایثار بھی نہ کریں گے اور اس راہ میں قربانی نہ کریں گے تو پھر اسلامی تحریک کیسے پھل پھول سکتی ہے؟ ظاہر بات ہے کہ کوئی تحریک محض والنٹیروں کے بل پر نہیں چل سکتی۔ جماعتی نظم میں والنٹیروں کو اسی درجے کی اہمیت حاصل ہے جتنی ایک آدمی کے نظامِ جسمانی میں ہاتھ اور پاؤں کو ہے۔ یہ ہاتھ اور پاؤں اور دوسرے اعضا بے کار ہو سکتے ہیں، اگر ان سے کام لینے کے لیے دھڑ، رکھنے والا دل اور سوچنے والا دماغ موجود نہ ہو۔ دوسرے لفظوں میں ہمیں والنٹیروں سے کام لینے کے لیے پہلے درجے کے ذہین کارکن چاہئیں، مگر مصیبت یہ ہے کہ جن کے پاس دل اور دماغ کی قوتیں ہیں وہ دنیوی ترغیبوں کے دلدادہ ہیں اور مارکیٹ میں اسی کی طرف جاتے ہیں جو زیادہ قیمت پیش کرے۔ نصب العین سے ہماری قوم کے بہترین افراد کی وابستگی ابھی اس درجے کی نہیں ہے کہ وہ اس کی خاطر اپنے منافع کو، بلکہ منافع کے امکانات تک کو، قربان کر سکیں۔ اس بے ایثاری کے ساتھ اگر آپ یہ توقع کریں کہ وہ مفاد پرست جو روزانہ کروڑوں روپے اور لاکھوں جانوں کا ایثار کر رہے ہیں، ہم سے کبھی شکست کھا سکتے ہیں، تو یہ چھوٹا منہ بڑی بات ہے۔
-
مجاہدہ فی سبیل اللہ کے لیے تیسری صفت دل کی لگن ہے۔ محض دماغی طور پر ہی کسی شخص کا اس تحریک کو سمجھ لینا اور اس پر صرف عقلاً مطمئن ہو جانا، اس راہ میں اقدام کے لیے صرف ایک ابتدائی قدم ہے لیکن اتنے سے کام چل نہیں سکتا۔ یہاں تو اس کی ضرورت ہے کہ دل میں ایک آگ بھڑک اٹھے، زیادہ نہیں تو کم از کم اتنی آگ تو شعلہ زن ہونی چاہیے جتنی اپنے بچے کو بیمار دیکھ کر ایک ماں کے دل میں لگ جایا کرتی ہے اور اسے کھینچ کر ڈاکٹر کے پاس لے جاتی ہے، یا گھر میں بیٹھ کر چین نہیں لینے دیتی۔ سینوں میں وہ جذبہ ہونا چاہیے جو ہر وقت اپنے نصب العین کی دھن میں لگائے رکھے، دل و دماغ کو یکسو کر دے اور پوری توجہ کو اس کام پر ایسا مرکوز کر دے کہ اگر ذاتی، خانگی یا دوسرے غیر متعلق معاملات آپ کی توجہ کو اپنی طرف کھینچیں بھی تو آپ سخت ناگواری کے ساتھ ان کی طرف متوجہ ہوں۔ کوشش کیجیے کہ اپنی ذات کے لیے آپ قوت اور وقت کا کم سے کم حصہ صرف کریں اور آپ کی زیادہ سے زیادہ جدوجہد اپنے مقصدِ حیات کے لیے ہو۔ جب تک یہ دل کی لگن نہ ہو گی اور آپ ہمہ تن اپنے آپ کو اس کام میں جھونک نہ دیں گے، محض زبانی جمع خرچ سے کچھ نہ بنے گا۔ بیشتر لوگ دماغی طور پر ہمارا ساتھ دینے پر آمادہ ہو جاتے ہیں لیکن کم لوگ ایسے ملتے ہیں جو دل کی لگن کے ساتھ تن، من، دھن سے اس کام میں شریک ہوں۔ میرے ایک قریبی رفیق نے، جن سے میرے ذاتی اور جماعتی تعلقات بہت گہرے ہیں، حال ہی میں دوسروں کی رفاقت کے بعد مجھ سے یہ اعتراف کیا کہ اب تک میں محض دماغی اطمینان کی بنا پر شریکِ جماعت تھا مگر اب یہ چیز دل میں اتر گئی ہے اور اس نے یہاں مستقل ٹھکانہ بنا لیا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ ہر شخص اسی طرح اپنے اوپر خود تنقید کر کے دیکھے کہ کیا ابھی تک وہ اس جماعت کا محض ایک دماغی رکن ہے یا اس کے دل میں مقصد کے لیے عشق کی آگ مشتعل ہو چکی ہے۔ پھر اگر دل کی لگن اپنے اندر محسوس نہ ہو تو اسے پیدا کرنے کی فکر کی جائے۔ جہاں دل کی لگن ہوتی ہے وہاں کھیلنے اور کھانے پینے کی ضرورت نہیں رہتی۔ اس کے ہوتے ہوئے یہ صورت حال کیسے پیدا ہو سکتی ہے کہ اگر کہیں جماعت کا ایک رکن پیچھے ہٹ گیا یا کسی مجبوری کا شکار ہو گیا تو وہاں سارا کام ہی چوپٹ ہو جائے۔ بخلاف اس کے، پھر تو ہر شخص اس طرح کام کرے گا جس طرح وہ اپنے ذاتی کام کیا کرتا ہے۔
خدا نخواستہ اگر آپ کا بچہ بیمار ہو تو آپ اس کی زندگی و موت کے سوال کو دوسروں کے رحم و کرم پر ہرگز نہیں چھوڑ سکتے۔ ممکن نہیں کہ آپ یہ عذر کر کے اس کے حال پر اسے چھوڑ بیٹھیں کہ کوئی تیماردار نہیں، کوئی دوا لانے والا نہیں، کوئی ڈاکٹر کے پاس جانے والا نہیں۔ اگر کوئی نہ ہو تو آپ خود سب کچھ بننے کے لیے تیار ہو جائیں گے کیونکہ وہ آپ کا بچہ ہے۔ سوتیلا باپ جو بچے کو مرنے کے لیے چھوڑ سکتا ہے، حقیقی باپ اپنے جگر کے ٹکڑے کو کیسے چھوڑ دے گا؟ اس کے دل میں آگ لگی ہوتی ہے۔ اسی طرح اس کام سے بھی اگر آپ کا قلبی تعلق ہو تو اسے آپ دوسروں پر نہیں چھوڑ سکتے اور نہ یہ ممکن ہے کہ کسی دوسرے کی نالائقی، یا غلط روی یا بے توجہی کو بہانہ بنا کر آپ اسے بگڑ جانے دیں اور اپنے دوسرے مشاغل میں جا کر منہمک ہو جائیں۔ یہ چیزیں اس بات کا پتا دیتی ہیں کہ خدا کے دین اور اس کی اقامت و سربلندی کے مقصد سے آپ کا رشتہ حقیقی ہے یا نہیں۔ اگر حقیقی رشتہ ہو تو آپ اس راہ میں اپنی جان لڑا کر کام کریں گے۔ میں آپ سے صاف کہتا ہوں کہ اگر آپ اس میں کم از کم اتنے قلبی لگاؤ کے بغیر قدم بڑھائیں گے جتنا آپ اپنے بیوی بچوں سے رکھتے ہیں، تو انجام پسپائی کے سوا کچھ نہ ہو گا اور یہ ایسی بری پسپائی ہو گی کہ مدتوں تک ہماری نسلیں اس تحریک کا نام لینے کی جرأت بھی نہ کر سکیں گی۔ بڑے بڑے اقدامات کا نام لینے سے پہلے اپنی قوتِ قلب کا جائزہ لیجیے اور مجاہدہ فی سبیل اللہ کے لیے جس دل گردے کی ضرورت ہے وہ اپنے اندر پیدا کیجیے۔ - چوتھی ضروری صفت اس راہ میں یہ ہے کہ ہمیں مسلسل، پیہم اور منضبط (systematic) طریقے سے کام کرنے کی عادت ہو۔ ایک مدتِ دراز سے ہماری قوم اس طریقِ کار کی عادی رہی ہے کہ جو کام ہوا، ہنگامہ خیز ہو، جو قدم اٹھایا جائے، اس میں ہنگامہ آرائی ضرور ہو۔ چاہے مہینہ دو مہینے میں سب کیا کرایا غارت ہو کے رہ جائے۔ اس عادت کو ہمیں بدلنا ہے۔ اس کی جگہ بتدریج اور بے ہنگام کام کرنے کی مشق کرنی چاہیے۔ چھوٹے سے چھوٹے کام کو بڑی اہمیت دینی ہوگی، چاہے وہ بجائے خود ضروری نہ ہو، مگر اگر آپ کے سپرد کر دیا جائے تو بغیر کسی نمایاں اور فوری نتیجے کے اور بغیر کسی داد کے آپ اپنی پوری عمر صبر کے ساتھ اسی کام میں کھپا دیں۔ مجاہدہ فی سبیل اللہ میں ہر وقت میدان گرم ہی نہیں رہا کرتا اور نہ ہر شخص اگلی ہی صفوں میں لڑ سکتا ہے۔ ایک وقت کی میدان آرائی کے لیے بسا اوقات پچیس تیس سال تک لگاتار خاموش تیاری کرنی پڑتی ہے اور اگلی صفوں میں اگر ہزاروں آدمی لڑتے ہیں تو ان کے پیچھے لاکھوں آدمی جنگی ضروریات کے ان چھوٹے چھوٹے کاموں میں لگے رہتے ہیں جو ظاہری نظر میں بہت حقیر ہوتے ہیں۔
پیشِ نظر کام
تقریر کو ختم کرنے سے پہلے میں اس امر کی تشریح کر دینا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ اب ہمارے سامنے پروگرام کیا ہے۔ مجھے شبہ ہے کہ جس پروگرام پر میں تحریک کو چلا رہا ہوں، اسے ٹھیک سے سمجھا نہیں گیا۔
- سب سے پہلا کام جس کے لیے یہ اجتماعات منعقد کیے جا رہے ہیں، یہ ہے کہ آپ میں سے ہر شخص سے جو اس کام میں شریک ہے، مجھے اچھی طرح معلوم ہونا چاہیے کہ میرے ساتھ کن کن اوصاف کے لوگ مل رہے ہیں، ان میں کیا کیا صلاحیتیں اور قوتیں ہیں اور ان سے کیا کیا کام لیا جا سکتا ہے۔ آپ حضرات نہایت وضاحت سے مجھے بتائیے کہ کس موقع پر آپ کیا کیا خدمات سرانجام دے سکتے ہیں۔ جس قدر جلدی میں یہ معلومات حاصل کر لوں گا اسی قدر جلدی کام کا نقشہ تیار کر سکوں گا۔ قوت کے اندازے کے بغیر کوئی کام کرنا میرے نزدیک مستحسن نہیں ہے۔ اس غرض کے لیے آپ حضرات بار بار مرکز میں آتے رہیں، خط و کتابت سے مجھے معلومات فراہم کرتے رہیں اور جہاں تک ممکن ہو گا، میں خود بھی اجتماعات میں شرکت کر کے آپ سے انفرادی رابطہ قائم کرتا رہوں گا۔ اس کے بعد ایک مکمل نقشۂ کار مرتب کر کے تدریجاً آگے بڑھنے کی فکر کروں گا۔
- دوسرا ضروری کام یہ ہے کہ ہمیں تربیتِ اشخاص کے لیے ایک ایسی مشینری بنانی ہے جس کے ذریعے سے ہم ضرورت کے آدمی تیار کریں اور اپنے کارکنوں میں ضروری اوصاف پیدا کریں۔ کل جو تجاویز پیش ہونے والی ہیں ان سے آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ اس سلسلے میں ہم بہت جلدی اقدام کرنے والے ہیں۔
- تیسرا کام جس پر بہت دنوں سے بالمشافہ بھی اور خط و کتابت کے ذریعے بھی مجھے بار بار توجہ دلائی جا رہی ہے اور جس کی شدید اہمیت کو میں خود بھی محسوس کر رہا ہوں، یہ ہے کہ ذہین لوگوں کو اپنے نقطۂ نظر کے مطابق تحریک کی خدمت کے لیے تیار کیا جائے۔ اب تک سرمائے اور مناسب کارکنوں کی کمی اور جنگ کی پیدا کردہ معاشی مشکلات اس راہ میں رکاوٹ بنی رہی ہیں، لیکن شاید اس سلسلے میں اب زیادہ تاخیر نہ ہو گی اور عنقریب آپ سنیں گے کہ مرکز میں اس کام کی بنیاد ڈال دی گئی ہے۔ چنانچہ میں یہ خوشخبری بھی سنا دوں کہ مولانا امین احسن اصلاحی اسی غرض کے لیے یہاں تشریف لائے ہیں اور عجب نہیں کہ مستقل طور پر یہیں رہ جائیں۔
- چوتھی چیز جس کے لیے ہمیں سر جوڑ کر سوچنا ہے، یہ ہے کہ عورتوں کو اپنے ساتھ لے کر چلنے کے لیے کیا صورتیں اختیار کی جا سکتی ہیں۔ اب تک ہمارا ایک ہی ہاتھ کام کرتا رہا ہے اور گاڑی کا ایک ہی پہیا متحرک ہوا ہے۔ اب ہمیں اپنے دوسرے ہاتھ اور اپنی گاڑی کے دوسرے پہیے کی فکر کرنی ہے۔ یہ تو ظاہر ہے کہ ہمارا اور ہماری عورتوں کا ساتھ چولی دامن کا ساتھ ہے اور وہ ہم سے اور ہم ان سے ہر لحظہ متاثر ہوتے رہتے ہیں۔ پھر اگر ہم ان کی اصلاح کی فکر نہ کریں گے، تو خود ہماری اصلاح بھی نامکمل رہے گی۔ ہم گھروں کو مسلمان بنائے بغیر دنیا کو مسلمان نہیں بنا سکیں گے۔ اس معاملے میں ساری دقت یہ ہے کہ عورتوں سے ہم وسیع پیمانے پر براہِ راست ربط نہیں پیدا کر سکتے۔ اس کے لیے خود عورتوں ہی سے مدد لینی پڑے گی۔ جو عورتیں کوئی ضابطہ نہیں رکھتیں ان کا معاملہ آسان ہے۔ وہ اپنی سیاسی و تمدنی تحریکات کے لیے اپنی عورتوں کو بازاروں، کارخانوں، دفتروں اور مدرسوں میں بے تکلفی سے لاتی ہیں، مگر ہمارے لیے یہ ایک نازک مسئلہ ہے اور اسے حل کرنے کے لیے گہری سوچ بچار کی ضرورت ہے۔
- پانچواں کام یہ سامنے ہے کہ رائے عامہ کو جذب کرنے کے لیے وسیع پیمانے پر منظم کوشش کی جائے۔ اب تک ہم نے رائے عامہ کو براہِ راست مخاطب نہیں کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب تک ہم اس سمندر کے محض ایک قطرے کو چکھ کر آئے ہیں۔ اب ہمیں آہستہ آہستہ اصل سمندر کی طرف بڑھنا ہے۔ ضروری نہیں کہ عوام پورے کے پورے ہمارے رکن بن جائیں۔ ہماری دعا کے لیے یہ بھی کافی ہے کہ باشندگانِ ملک کی ایک کثیر تعداد حق کو حق مان لے۔ ہمارے مقصد کی صحت کی معترف ہو جائے اور ہمارا اخلاقی اثر اس پر قائم ہو جائے۔ اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ آگے چل کر ہم جو قدم اٹھائیں گے اس میں عوام کی ہمدردیاں ہمارے ساتھ ہوں گی۔ اب تک ہم نے اپنے لٹریچر میں مسائلِ زندگی کے بہت تھوڑے حصے سے تعرض کیا ہے اور وہ بھی زیادہ تر اشارات کی صورت میں ہے، حالاں کہ اس دور میں زندگی کے ہر پہلو پر ہمیں اپنے نقطۂ نظر سے تفصیلی روشنی ڈالنی چاہیے۔ علوم کی تدوینِ جدید کرنی چاہیے اور یہ کام ایک دو زبانوں میں نہیں، متعدد زبانوں میں کرنا چاہیے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ ہمارے مدعا کو سمجھیں۔ اس لیے ہمیں اس میدان میں بھی اپنی مساعی کے دائرے کو وسیع کرنا ہے۔ پھر ابھی تک ہم نے نشر و اشاعت کے لیے صرف تحریر کے ذریعے پر انحصار کیا ہے۔ تقریر سے ہم نے ابھی کوئی کام نہیں لیا ہے۔ اب ہمیں اس میدان کی طرف بھی بڑھنا ہے لیکن اس کے لیے ہمیں مقررین کا نیا ڈھنگ اختیار کرنا ہوگا، پرانی نقالی اور بھانڈ پن سے دور رہنا ہوگا اور پرزور اور مدلل گفتگو کی عادت ڈالنی ہوگی تاکہ جو آواز ہماری طرف سے بلند ہو، وہ اتنی باوقعت، وزن دار اور ممتاز ہو کہ لوگ اسے ان بہت سے سُروں میں سے ایک سُر نہ سمجھیں جو ہنگامہ پرور اور بے لگام مقررین کے سازوں سے نکل رہے ہیں۔ میں نے اب تک اپنی زبان کو تقریر سے اسی لیے روک رکھا ہے کہ پرانی عادت کا اثر ابھی تک باقی ہے، ڈرتا ہوں کہ کہیں اس پرانے انداز کی تقریر میں ہم بھی نہ رنگ جائیں جو نظامِ اسلامی کا نام لینے والوں کے منہ کو زیب نہیں۔
یہ چند ضروری باتیں تھیں جو میں آپ کے گوش گزار کرنا چاہتا تھا۔ آپ ان پر غور کریں اور مفید مشوروں سے میری مدد کریں۔ میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے عہد کی ذمہ داریاں سمجھنے اور ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ہماری نیتوں میں خلوص اور ہمارے ایمان کو طاقت بخشے۔ ہماری مساعی میں برکت دے۔ ہمارے تھوڑے سے عمل کو قبول کر لے اور زیادہ عمل کی ہمت دے اور اپنے ان بندوں سے ہماری تائید کرے جو ہم سے بہتر صفات رکھتے ہوں اور ہم سے زیادہ بہتر طریقے سے دین کی خدمت کر سکیں۔
دوسری نشست (۲۷ مارچ، ۹ بجے صبح تا ۱۲ بجے دوپہر)
پروگرام کے مطابق دوسری نشست جماعتوں کی مقامی کارگزاری کی رپورٹیں سنانے کے لیے مخصوص تھی۔ چنانچہ مختلف جماعتوں کے نمائندوں نے تفصیلاً اپنے کام اور اپنی مشکلات کی رپورٹوں کو حاضرین کے سامنے پیش کیا۔ ان رپورٹوں کی غرض یہ تھی کہ مختلف ارکان کو یہ معلوم ہو جائے کہ کہاں کہاں کس نوعیت کا کام کس طرز پر ہو رہا ہے اور اس کے مقابلے میں کہاں کے لوگ کتنے پیچھے ہیں، کیا کیا مشکلات اصحاب کو پیش آ رہی ہیں اور انھیں کس طرح حل کیا جا رہا ہے۔ رپورٹوں کے اس مدعا کو امیرِ جماعت نے مختصر تقریر میں اچھی طرح سے واضح کر دیا تھا۔
اس کے بعد امیرِ جماعت کے حکم پر مولانا امین احسن اصلاحی نے ان پر تبصرہ کرتے ہوئے بہت سی مفید ہدایات اور مشورے دیے، ان کی تقریر کو ذیل میں درج کیا جاتا ہے۔
رپورٹوں پر تبصرہ (جناب مولانا امین احسن اصلاحی)
حاضرین! میں آپ کی رپورٹیں سننے میں ایسا منہمک رہا کہ مجھے ان رپورٹوں کے مختلف پہلوؤں پر اتنا تبصرہ کرنے کا موقع ہی نہیں ملا، جتنا کہ ان پر تبصرہ کرنا ضروری ہے۔ تاہم کچھ باتیں مجھے کھٹک رہی ہیں اور ان کے متعلق امیرِ جماعت کے حکم سے کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ جہاں تک آپ کی کارگزاریوں اور بیان کردہ حالات و واقعات کا تعلق ہے، ان پر تبصرہ غیر ضروری معلوم ہوتا ہے مگر جہاں تک دوسری جماعتوں سے تعلق و تصادم کا معاملہ ہے، اس میں اصلاح کی بڑی گنجائش ہے، اور میں اس پر تبصرہ کرنا چاہتا ہوں۔
تبلیغِ حق کی مشکلات کا علاج:
آپ حضرات نے جن مشکلات کو پیش کیا ہے ان کا سامنا تو اس راہ میں ناگزیر ہے۔ مگر ہمیں ان کا علاج سوچنے سے غافل نہیں رہنا چاہیے۔ صحیح طرز پر حق کا کام کرنے والوں کو مزاحمتوں سے بہرحال دوچار ہونا ہی ہے مگر اس مرحلے پر یہ طرزِ عمل تو قطعاً غلط ہے کہ دوسروں سے خواہ مخواہ تصادم پیدا کیا جائے۔ میں جہاں تک سمجھ سکا ہوں، اگر چند ضروری امور کا اہتمام کیا جائے تو ہماری راہ کے کانٹے بڑی حد تک دور ہو سکتے ہیں:
-
اس سلسلے میں پہلی چیز جس پر میں نے آج بھی اور پہلے بھی بہت غور و خوض کیا ہے، وہ یہ کہ ہماری مشکل جو بظاہر نہایت درجہ پیچیدہ معلوم ہوتی ہے، وہ حل ہو سکتی ہے۔ میری مراد حق کو جماعت سے باہر کے لوگوں تک پہنچانے کا مسئلہ ہے۔ دوسری جماعتوں سے ہمیں اس کے سوا کچھ مطلوب نہیں ہے کہ وہ حق کو صاف صاف پہچان جائیں۔ یاد رکھیے کہ یہ کام محض قول سے پورا نہ ہو سکے گا۔ اس کے لیے ہمیں اپنے انفرادی اعمال اور اجتماعی کردار کو وسیلہ بنانا پڑے گا۔ بجائے اس کے کہ زوردار تقریروں کا سیلاب بہایا جائے اور نظریات کی اشاعت کے لیے صرف لٹریچر کا ذریعہ استعمال کیا جائے، ہونا یہ چاہیے کہ اپنے عمل سے ہم یہ ثابت کریں کہ ہم اپنے مقصد میں مخلص ہیں، اور مسلمانوں کے لیے بالخصوص اور عالمِ انسانیت کے لیے بالعموم ایک حقیقی فائدے کا کام کرنا چاہتے ہیں۔ ہمیں کسی سے دشمنی نہیں بلکہ دنیا کی پوری آبادی سے حقیقی ہمدردی ہے۔
آزمائش کے مختلف مواقع پر، اگر ہم عمل سے یہ ثبوت بہم پہنچا دیں کہ ہماری زندگی کسی خاص گروہ، جماعت یا کسی قوم کے فائدے کے لیے نہیں بلکہ حق کے نصب العین کے لیے ہے تو دشمنوں کو بھی حق قبول کرنے میں کوئی دشواری نہ ہو گی۔ حقیقت یہ ہے کہ ابھی تک ہمارے ساتھ کئی عصبیتیں چپکی ہوئی ہیں اور ان کا ایک اچھا خاصا موٹا خول خود ہمارے گرد لپٹا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم لوگ خود اپنی دعوت کی راہ کی پہلی اور سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ یہ خول ہمیں جتنا بھی جلدی ممکن ہو، اتار دینا چاہیے اور حق کو بالکل بے نقاب کر کے لوگوں کے سامنے لانا چاہیے تاکہ لوگ صاف صاف پہچان لیں کہ صداقت و حقیقت کیا ہے۔ اگر ہم اپنے بیوی بچوں، اپنے احباب، اپنی جماعت اور اپنی قوم کو غلط عصبیت کی آلودگیوں سے پاک کر لیں تو اگرچہ دنیا کی زبانِ طعن بھی بند نہیں ہو سکتی مگر ہمارے خلاف حجت و دلیل کی زبان بند ہو جائے گی۔ یہی طریقہ ہے دنیا کو انکارِ حقیقت سے روک دینے کا۔ عصبیت کی آلائش اگر باقی رہے گی اور حق کے سوا اپنی ذات یا کسی قوم کے تفوق کی کوئی خواہش بھی ہمارے اندر موجود رہے گی، تو ہم خود اپنے لیے حجاب بنتے رہیں گے اور اپنی دعوت کے راستے میں چٹان بن کر حائل رہیں گے۔ گھروں میں، بازاروں میں، جلسوں میں، خانقاہوں اور مسجدوں میں، ہر پہلو سے اپنے آپ کو اپنی اغراض سے بلند تر دکھانے کی کوشش کرنی چاہیے۔
اس گزارش کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے آپ حضرات اسوۂ انبیا کا مطالعہ کیجیے۔ اللہ کی جانب سے جتنے داعی اللہ کے کلمے کو اونچا کرنے کے لیے آئے، ان میں سے ہر ایک نے رشتوں کے سوا ہر شے کو توڑ دیا، عصبیتِ جاہلیت کے سارے بندھن کاٹ ڈالے، تعصبات کی تمام زنجیروں سے اپنے آپ کو آزاد کیا۔ اس کا نتیجہ تھا کہ ان کی دعوت بغیر کسی فرق و امتیاز کے ہر فرد کو اپیل کرتی اور جو لوگ ان کی دعوت پر لبیک کہتے، ان کے سینوں میں گروہوں اور جماعتوں کی برتری کے بجائے انسانیت کی خدمت کا جذبہ موجزن ہو جاتا۔ اگر انہی داعیانِ ہدایت کے اسوہ کا اتباع کیا جائے تو ہماری تبلیغی مشکلات فوراً حل ہو جاتی ہیں۔ اس سلسلے میں اگرچہ جماعت کے لٹریچر میں ضروری امور بیان کر دیے گئے ہیں مگر کام کا کوئی مفصل پروگرام ابھی ہم نہیں بنا سکے ہیں۔ میں یہاں اس سے زیادہ کچھ نہیں عرض کر سکتا کہ اپنی پرائیویٹ اور پبلک زندگی میں یہ ثابت کر دیجیے کہ آپ کی ساری مساعی صرف اللہ کے کلمے کو بلند کرنے کے لیے ہیں۔ حقیقت اور ہدایت کے متلاشیوں اور گروہوں اور جماعتوں کی بدگمانیوں کو رفع کرنے کا یہی ایک طریقہ ہے۔ ہمیں کوئی نئی جماعت نہیں بنانی ہے، ہمارا مقصد صرف حق کو واضح کر دینا ہے۔ - ایک اور چیز جس کی طرف میں آپ کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ وہ کِبر جو ایک حقیقت کو پانے یا ایک علم کو حاصل کر لینے سے آدمی میں پیدا ہو جاتا ہے، ایک داعیٔ حق کے لیے سب سے بڑا حجاب ہے۔ وہ سمجھنے لگتا ہے کہ میں دوسروں سے کچھ اوپر ہوں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی دعوت کی راہ میں خود روک بن کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ بعض لوگ اس کِبر کو زیادہ صفائی سے چھپا لیتے ہیں مگر دل میں یہ موجود ہوتا ہے، اور اس کی وجہ سے ان کی گفتگوؤں اور تحریروں میں ایک بناوٹ سی آ جاتی ہے، اور بناوٹ کا دعوتِ حق کے ساتھ کوئی خفیف سا ربط بھی نہیں ہے۔ تفوق اور تکبر کے مظاہرے سے لوگ بدک جاتے ہیں اور اپنے کان بند کر لیتے ہیں۔ اس بیماری کا علاج یہ ہے کہ آپ اس انکشافِ حق کو جو آپ پر ہوا ہے، اللہ کے فضل کا نتیجہ سمجھیں اور اس پر شکر گزار ہوں۔ یہ احساس آپ میں کِبر کی جگہ تواضع کا جذبہ پیدا کرے گا اور بندگانِ خدا کے ساتھ آپ کے تعلق کو مضبوط کر دے گا۔ جہاں خدا کی عنایات کا احساس آدمی میں پیدا ہوتا ہے وہاں خود بخود تکبر کی جگہ تواضع، غضب کی جگہ ہمدردی اور بغض کی جگہ محبت کے جذبات نشوونما پانے لگتے ہیں۔ داعیٔ حق کو عوام سے ویسی ہی گہری اور قلبی محبت ہونی چاہیے جیسی ایک بچے کے لیے ماں اور باپ میں پائی جاتی ہے۔ اسے لوگوں کی غلطیوں سے مزاج میں غضب و تکبر کی جگہ احتساب نہیں، بلکہ اس میں دردمندی پیدا ہونی چاہیے۔ غرور و کِبر کی جگہ اس میں ایک درد بھرا اضطراب رونما ہونا چاہیے۔ جب یہ کیفیت پیدا ہوتی ہے تو اس کے لب و لہجے میں بھی وہ سوز پیدا ہو جاتا ہے جس سے پتھر کی طرح سخت دل بھی موم کی طرح نرم ہو جاتے ہیں۔
-
میں نے رپورٹوں کو سن کر یہ محسوس کیا ہے کہ ہمارے رفقا مخالف جماعتوں پر انہی الفاظ میں پھبتیاں کستے ہیں جو مدتوں سے ہماری زبانوں پر چڑھے ہوئے ہیں۔ ہم اپنے مخالفین کا تذکرہ کرتے ہوئے اسی طرح لذت لیتے ہیں جس طرح دوسری جماعتیں اپنے حریفوں کی تحقیر سے لذت لیتی ہیں۔ بکثرت ایسے لوگ بھی ہم میں موجود ہیں جو جلوت میں تو محتاط ہوں مگر خلوت میں وہ بھی ایک دوسرے کی برائیوں پر طعن و تشنیع سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اس قسم کی ریاکاری سے وہ صفت ذرہ بھر بھی نشوونما نہیں پا سکتی جس کا نام خلوص ہے، اور خلوص کے بغیر دعوتِ حق کو دوسروں کے دل و دماغ میں اتارنا ناممکن ہے۔
اصل میں جب ہم سوچتے ہیں کہ جو کچھ ہم نے جانا ہے وہ دوسروں کو نہیں معلوم، اور پھر یہ خیال کرتے ہیں کہ آخر اتنی سیدھی بات دوسرے کیوں نہیں سمجھتے، تو ہمارے اندر کچھ قائدانہ اور معلمانہ انداز پیدا ہو جاتا ہے اور ہم دوسروں کو اسی طرح ملامت اور سرزنش کا مستحق خیال کرنے لگتے ہیں جس طرح ایک معلم اپنے شاگرد کو اس کی ہر کجی پر گوشمالی کا مستحق سمجھتا ہے۔ لیکن تعلیم پر غور کرنے والے اصحاب سے پوشیدہ نہ ہو گا کہ یہ طریقۂ تعلیم سرے سے غلط ہے۔ اگر تعلیم کو دلوں میں اتارنا مقصود ہے تو غضب، طنز و تعریض، درشت زبانی اور تلخ گفتاری کے ہتھیار پھینک ڈالیے۔ آپ کسی سے لڑنے نہیں جا رہے ہیں، تعلیم و تبلیغ کی مہم درپیش ہے اور اس مہم کے لیے دلی سوزی، ہمدردی اور احساسِ اخوت کے اسلحے ہی مفید ہو سکتے ہیں۔ حضور ﷺ سے پوچھا گیا کہ آپ کا سب سے زیادہ سخت دن کونسا گزرا؟ ارشاد ہوا طائف کا دن! اس روز دنیا کا سب سے بڑا انسان پتھروں کی باڑھ کا نشانہ بنا، باغ کی دیوار کی پناہ لی اور اس سے کہا جاتا ہے کہ ان ظالموں کے لیے بددعا کیجیے تو وہ بددعا کرنے کے بجائے اہلِ طائف کے لیے ہدایت کی دعا کرتا ہے۔ یہ سیرت پیدا کیے بغیر بڑے کام تو شاید ہو سکتے ہیں لیکن حق کا کام نہیں ہو سکتا۔ لوگ اگر حق کے مزے سے واقف نہیں، صداقت کی خوشبو سے محروم ہیں تو وہ غضب کے نہیں، ہمدردی کے مستحق ہیں۔ بلاشبہ ہم بجا طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ ہم حق پر ہیں اور یہ جانتے ہیں کہ بہت سے لوگ حق کو پہچاننے کی سعادت سے محروم ہیں، مگر اس پر یہ کیسے جائز ہو گیا کہ ان سے بے رخی اور غرور کا برتاؤ کیا جائے۔ ہماری کوشش یہاں تک یہ ہونی چاہیے کہ یہ لوگ محسوس نہ کریں کہ انھیں پکڑ کر کسی طرف لے جایا جا رہا ہے بلکہ یہ سمجھیں کہ وہ خود بخود ایک حقیقت تک پہنچے ہیں۔ اُصولی مسلمات پر تمام مسلمان جماعتیں متفق ہیں اور اگر نرمی، حکمت اور براہِ راست طریقے سے کام لیا جائے تو انسانی جانوں میں ہم آہنگی پیدا کی جا سکتی ہے۔ یاد رہے یہ کام مناظرہ بازی اور دوسروں پر طعن کی خواہش کے ساتھ نہیں چل سکتا، یہی خواہش تو انسان کو تشدد اور تعصب پر آمادہ کرتی ہے۔
آپ حضرات اپنی تقریروں اور گفتگوؤں میں جونہی اس خواہش کا اثر محسوس کریں، وہیں اپنے نفس کی باگ کھینچ لیں اور اگر مخاطب کی طرف سے اس کا مظاہرہ ہو تو ”قَالُوْا سَلَامًا“ کا طریقہ اختیار کریں۔ تبادلۂ خیالات کے دوران میں ہار جیت کا سوال ہی نہیں پیدا ہونا چاہیے۔ داعی کا کام پیغام پہنچانا ہے۔ اسے تو صرف کلمۂ حق کے چند جوہر ذہنوں میں ڈالنے ہیں اور باقی اللہ پر چھوڑ کر اس کی نگہبانی کرنی ہے۔ کبھی یہ خیال بھی دل میں نہ آئے کہ دیکھیے ہماری بات رہ جائے گی۔ یہ خیال اصطلاحی مناظرے کی روح ہے۔ اسی کی مشق ہم سالہا سال سے کرتے چلے آ رہے ہیں۔ اب پوری قوت کے ساتھ اس عادت کی جڑیں اکھاڑنی ہیں۔ اب ہمیں مناظروں میں جیتنے کے بجائے ہارنے اور بار بار ہارنے کی مشق بہم پہنچانی ہے۔ جہاں گفتگو سے خلوص کی روح رخصت ہونے لگے، وہیں زبان پر قفل چڑھائیے اور کچھ پروا نہ کیجیے کہ اس پر تالیاں پٹ جائیں گی۔ زبان کی ہر لغزش پر نگاہ رکھیے، مخاطب سے معافی طلب کیجیے اور پھر پرواہ کیے بغیر آگے بڑھ جائیے کہ آپ کی بات نیچے رہ گئی ہے تو رہ جائے۔ اگر وہ مناظرانہ نکتہ دانیوں سے متاثر ہو کر آپ کے ساتھ آ بھی گیا تو وہ جس راستے سے آیا ہے، اسی راستے سے ایک دن واپس بھی ہو جائے گا۔
انبیاء علیہم السلام کے کام کی خصوصیات
اگر اس معاملے میں آپ انبیاء علیہم السلام کے طریقِ کار پر غور و خوض کریں تو معلوم ہو گا کہ اس کی چند خصوصیات ہیں۔ ان خصوصیات کو اچھی طرح سمجھے بغیر کام نہیں چلے گا، کیونکہ ہماری جماعت انھی کی پیروی کا عزم لے کر اٹھی ہے۔ پس ہمیں براہِ راست وہیں سے روشنی حاصل کرنی ہے۔ یہ تو آپ جانتے ہیں کہ جب کبھی کوئی نبی آیا تو اس نے اپنی قوم کو یوں مخاطب نہیں کیا کہ ”اے کافرو! ایمان لاؤ“ یا ”اے گمراہو! سیدھی راہ پر آ جاؤ“ بلکہ محبت آمیز انداز میں ”یَا قَوْمِ“، ”یَا اَیُّھَا النَّاس“ اور ”یَا اَھْلَ الْکِتَاب“ کے الفاظ سے انھیں مخاطب کیا۔ حد یہ ہے کہ جو لوگ ان کے ساتھ ہوئے، انھوں نے جب کبھی کمزوریاں دکھائیں اور انھیں تنبیہ کرنے کی ضرورت پیش آئی تو انھیں بھی یوں نہیں مخاطب کیا کہ ”اے منافقو! سدھرو“، بلکہ انھیں ”یَا اَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا“ کہہ کر پکارا۔ پھر جو لوگ ان داعیانِ حق کا ساتھ دینے پر آمادہ ہوئے تو انھوں نے بھی اپنے طرزِ خطاب کو حکمت، موعظتِ حسنہ اور جدالِ احسن کی حد سے آگے نہیں بڑھنے دیا۔
پھر آگے چل کر ایک مرحلہ ایسا آتا ہے کہ ایک صالح جماعت اپنے قول و عمل سے حق کو بالکل بے نقاب کر دیتی ہے اور حق کا چہرہ بے داغ اور صاف ہو کر لوگوں کو نظر آنے لگتا ہے۔ اس موقع پر جو لوگ کھلا دیکھنے کے باوجود حق کا انکار کریں، وہ مکابرت کا مظاہرہ کرتے ہیں اور دلائل کا ترکش خالی ہو جانے کے بعد بھی انکار کی روش جاری رکھتے ہیں تو پھر نبی کا طرزِ خطاب بدل جاتا ہے۔ پھر وہ سرکشوں کو صاف الفاظ میں ”یَا اَیُّھَا الْکَافِرُوْن“ کہہ کر پکارتا ہے اور اپنی قوم سے الگ ہو جاتا ہے، مگر اس سے پہلے مدتِ مدید تک وہ نرمی ہی سے دعوت دیتا رہتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے اپنی قوم کے ساتھ یہی روش اختیار کی۔ جب دعوت واضح ہو چکی تھی اور قوم کی ضد و عناد اس حد تک پہنچ چکی تھی کہ انھوں نے خود اپنے کفر کا اعلان کر دیا اور نبی ﷺ کے قتل کا ارادہ کر لیا، تو طرزِ عمل بدلا۔ معترضین اس پر یہ کہا کرتے ہیں کہ درحقیقت جب تک محمد ﷺ تنہا اور ان کی جماعت کمزور تھی تب تک حلم و عفو تھا مگر جب طاقت آ گئی تو تلوار بھی پیدا ہو گئی۔ مگر یہ صحیح نہیں ہے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ نبی انسانوں کی کمزوریوں کا صحیح صحیح اندازہ کرتا ہے اور ان گنت کمزوریوں کے پیشِ نظر وہ ان سے شفقت کا سلوک روا رکھتا ہے۔ اس کی یہ شفقت اتنی فیاضانہ ہوتی ہے کہ شریر لوگ اس کی وجہ سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ وہ کسی کو پیچھے نہیں پھینکتا، وہ صرف عمومی انداز میں جماعت اور جماعت سے باہر کے لوگوں پر تنقید کرتا ہے:
مَا بَالُ أَقْوَامٍ يَفْعَلُونَ كَذَا وَكَذَا.
(لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ اس طرح کی باتیں کرتے ہیں؟)
جب ان کی طرف سے اصلاح کی ہر توقع ختم ہو جاتی ہے تو پھر اپنی حجت تمام کرنے کے بعد اپنی جماعتِ صالحہ کو فساد سے بچانے کے لیے ”وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ“ (التوبہ ۹:۷۳) کے حکم پر عمل پیرا ہوتا ہے۔
آج ہم جس دور سے گزر رہے ہیں یہ دورِ فتن ہے۔ اس میں ہر شخص اپنی دھن میں روشن ہے اور وہ صرف دنیا کو تاریک کرنے کے ضمن میں ہی نہیں، بلکہ انصاف یہ ہے کہ باطل کو حق اور حق کو باطل بنا کر دکھانے کی سعی کے لحاظ سے تاریخ کا کوئی دور اس دور کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ پھر جب کہ حق واضح اور آشکارا نہیں ہے تو دوسروں پر سخت گیری کرنے کی گنجائش کہاں ہے؟ یہ وقت ”وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ“ پر عمل کرنے کا نہیں ہے۔ ابھی تو ایک لمبا دورِ رحمت و شفقت ہمیں طے کرنا ہے اور اس دور میں کسی کو پیچھے نہیں پھینکنا ہے۔ البتہ خدا اگر ہماری محدود مساعی کو قبول فرما کر ہمیں احقاقِ حق اور ابطالِ باطل کے لیے کوئی فیصلہ کن قدم اٹھانے کی توفیق دے دے اور ”قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ“ (البقرہ ۲:۲۵۶) کی صبحِ سعادت طلوع ہو جائے تو پھر یہ روشنی خود بخود کھرے، کھوٹے، بینا اور نابینا مومنوں کو ایک دوسرے سے ممیز کر دے گی۔
پچھلے عرصے میں ہمارے رفقا نے جہاں کہیں انبیا کے طریقِ دعوت کو چھوڑ کر جلد بازی سے کام لیا ہے، وہاں یہ غلط فہمی بھی پھیل گئی ہے کہ ہم، خدانخواستہ، مسلمانوں کو مسلمان نہیں سمجھتے۔ یہ غلط فہمی نظر انداز کر دینے کے قابل نہیں ہے۔ اس کا ایک لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ لوگ ہماری دعوت کی طرف سے کان بند کر لیں گے۔ ہمارا کہنا صرف یہ ہے کہ اس وقت مسلمانوں کا بڑا طبقہ صحیح شعورِ دینی سے محروم ہو چکا ہے اور موجودہ نظامِ تعلیم نے ان کی اس جہالت کے بڑھانے میں پورا حصہ لیا ہے اور اپنوں اور بیگانوں نے مل کر انھیں ایسے زہریلے ٹیکے لگائے ہیں کہ انھیں کفر و نفاق کی ساری غلاظتوں سے از خود نفرت ہو جائے۔ اس مقصد کے لیے ہمیں جو کچھ کرنا ہے وہ صرف یہ ہے کہ جو باتیں کفر و شرک ہیں، ہم ان کا کفر و شرک ہونا واضح کر دیں۔ بس اس قدر کافی ہے۔ کسی مسلمان کی روح شرک کو محسوس کر لینے کے بعد اس سے دوستی نہیں رکھ سکتی۔ جس شخص میں صفائی اور طہارت کا مذاق پیدا ہو جاتا ہے وہ خود اپنے دامن کی نجاستوں کو دھونے لگتا ہے۔ اسی طرح اگر ہم نے مسلمانوں میں صحیح شعورِ دینی بیدار کر دیا تو وہ از خود ساری آلودگیوں سے پاک ہونے کی کوشش کریں گے۔
اس دینی شعور کو عام کرنے کی جدوجہد میں یہ لازم ہے کہ ہماری توجہ دین کے اصول پر مرکوز رہے۔ جزئی مسائل میں نہ الجھیں۔ دین کی اساس توحید، رسالت اور معاد کے صحیح تصورات و معتقدات پر قائم رہے۔ یہ تصورات اگر ذہنوں میں اپنی ضروری تفصیلات کے ساتھ واضح ہو جائیں تو دین کا صحیح شعور پیدا ہو جائے گا اور اس کی وجہ سے جزئی امور میں خود بخود اصلاح ہوتی چلی جائے گی اور ہمیں ان کے لیے کوئی خاص جدوجہد نہیں کرنی پڑے گی۔ جب کسی شخص میں مذاقِ سلیم پیدا ہو جاتا ہے تو پھر اس کی جائے قیام، لباس اور بدن کی ایک ایک گندگی پر توجہ دلانے کی ضرورت نہیں رہتی بلکہ اس کی زندگی کے ہر گوشے میں خود ہی نفاست اور ستھرائی نمودار ہونے لگتی ہے۔
اب میں آپ کے سوال کی طرف متوجہ ہوتا ہوں جو آپ نے کیا ہے کہ جزئیات سے میری مراد آمین بالجہر وغیرہ کی قسم کے مسائل ہیں۔ نہیں۔ یہاں جزئیات سے میری مراد آمین بالجہر اور رفع یدین وغیرہ کی قسم کے مسائل نہیں ہیں۔ ان مسائلِ اجتہادیہ میں تو ہمیشہ ہمیں رواداری ہی کا مسلک اختیار کرنا پڑے گا، اس لیے کہ ان کے دونوں پہلوؤں کے لیے دین میں گنجائش ہے۔ میں یہاں ان جزئی امور سے بحث کر رہا ہوں جن کے لیے دین میں گنجائش نہیں ہے، لیکن خدمتِ دین کی مصلحت مقتضی ہے کہ اپنی دعوت کے اس مرحلے میں، ان سے بھی چشم پوشی کریں۔ اگر ہم ایسا نہ کریں گے تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ ہم شاخوں کے تراشنے میں اپنا سارا وقت برباد کر دیں گے اور جڑوں کی طرف توجہ کرنے کی نوبت ہی نہ آئے گی۔ ہمارا کام صحیح طور پر جب ہی ہو سکتا ہے جب توحید، رسالت اور معاد کے پورے متعلقات کو اچھی طرح عوام کو سمجھا دیا جائے۔ یہ سلسلہ کر لینے کے بعد لوگ جزئی امور میں خود راہِ حق کو پا سکتے ہیں اور سمجھ سکتے ہیں کہ فلاں کام جو ہم کرتے ہیں وہ ہمارے عقیدۂ توحید کے ساتھ جمع نہیں ہو سکتا، فلاں رسم و رواج ہمارے تصورِ رسالت کے ساتھ مناسبت نہیں رکھتی اور فلاں عادت جو فروغ پائے ہوئے ہے، ہمارے تصورِ معاد کے مطابق نہیں ہے۔ بہرحال ان جزئی امور میں کسی گروہ کو سخت کہنا یا کسی سے مناظرہ کرنا ہمارے کام کے لیے قطعاً مضر ہے۔ حتی الوسع ان معاملات میں چشم پوشی کیجیے۔ اگر کوئی سلیم الفطرت آدمی اس سلسلے میں ہمیں کچھ کہے تو نرمی سے کہیے کہ بھائی! یہ کیا چیزیں ہیں جو تم نے اختیار کر رکھی ہیں؟ پھر اگر وہ کچھ سنے تو بہتر ورنہ خاموش ہو جائے۔
پُرزور اصلاح ان چیزوں کی ہونی چاہیے جن سے اصل دین پر زد پڑتی ہے۔
اصلاح کے کام میں ترتیب یہ ہونی چاہیے کہ پہلے اصل کے قریب ترین مقتضیات پیش کیے جائیں، پھر اس کے بعد کے، پھر اس سے بعید کے۔ مثلاً توحید کے متعلقات میں سب سے پہلے وہ چیزیں لینی چاہئیں جن پر عموماً سب مسلمانوں کا اتفاق ہے۔ پھر آگے چل کر ان چھپے ہوئے مقتضیات کو لیجیے جو ادائے توحید سے مستنبط ہوتے ہیں۔ پھر اور آگے چلیے اور ان آخری مقتضیاتِ توحید کی طرف رہنمائی کیجیے جن سے عوام کی توجہ تو بالکل ہی ہٹ چکی ہے اور علماء بھی کسی نہ کسی حد تک ان کے عملی مقتضیات سے غافل ہیں۔ میں امید کرتا ہوں کہ ہمارے رفقا ان مشوروں پر عمل کر کے کام کا اہتمام کریں گے۔
تیسری نشست (۲۷ مارچ، نمازِ ظہر سے نمازِ عصر کا درمیانی وقفہ)
تجاویز
یہ نشست صرف تجاویز کے لیے مختص تھی۔ چنانچہ بہت سے اصحاب نے کام کو آگے بڑھانے کے لیے اپنی اپنی تجاویز پیش کیں۔ ان تجاویز کو اور ان پر ہونے والی بحث و تمحیص کو مختصراً یہاں اس لیے درج کیا جاتا ہے کہ جماعت کے اراکین اور ہمدرد اور اس کے کام کو تنقیدی نظر سے دیکھنے والے اصحاب یہ اندازہ کر سکیں کہ ہمارے حلقے کے دماغ کس طرز پر سوچ رہے ہیں اور ذہناً کس پہلو سے کیا چاہتے ہیں۔ اب یہاں اصل ترتیب کے مطابق ایک ایک تجویز کو پیش کیا جاتا ہے۔
تجویز ۱: قیّمِ جماعت کا تقرر
تجویز کنندہ: نصر اللہ خاں صاحب عزیز، مدیر اخبار ”مسلمان“، منجانب جماعتِ اسلامی لاہور۔
اس تجویز کا منشا یہ تھا کہ کام کی رفتار کو تیز تر کرنے کے لیے ایک ناظم یعنی قیّمِ جماعت کا تقرر عمل میں لایا جائے جو دورہ کر کے مختلف جماعتوں کو سرگرمِ عمل رکھے۔
اس پر امیرِ جماعت کی طرف سے یہ کہا گیا کہ تجویز کی اہمیت تو بالکل ظاہر ہے، البتہ مطلوبہ آدمی کا ہاتھ آنا اور اس کے اخراجات کا بار اٹھانے کی ہمت کرنا، یہ دو مشکلات ہیں۔ ان کا حل یوں ہو سکتا ہے کہ جماعت بیت المال کو مضبوط بنانے کی فکر کرے اور ادھر میں سوچ کر کسی آدمی کو آزمائشی طور پر قیّمِ جماعت کے منصب کے لیے مقرر کرتا ہوں۔¹ چنانچہ اس پر جماعت متفق ہو گئی۔
¹ اس تجویز کے مطابق امیرِ جماعت نے ۲ اپریل ۱۹۴۳ء سے خلیل احمد حامدی (سابق امیرِ جماعت اسلامی پاکستان) کو ایک سال کے لیے مقرر کیا۔
تجویز ۲: تحقیقی و تصنیفی مرکز کا قیام
تجویز کنندہ: ملک نصر اللہ خاں صاحب عزیز (لاہور)
اس تجویز میں یہ مطالبہ کیا گیا کہ جماعت کے مرکز میں کچھ اہلِ دماغ و اہلِ قلم حضرات کو جمع کر کے انھیں ریسرچ کے کام پر لگایا جائے تاکہ وہ اطمینان سے جماعت کے نظریات کی اساس پر مختلف علوم کی تدوین کرتے رہیں۔ ملک صاحب نے ان حضرات کی معاشی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے رائے عامہ سے اپیل کا طریقہ بھی پیش کیا۔ اس تجویز کے مختلف پہلوؤں پر گفتگو کے بعد امیرِ جماعت نے فرمایا کہ اس کام کے لیے نہ صرف یہ کہ کارکنوں کو مناسب وظائف دینے پڑیں گے بلکہ ان کے رہنے سہنے کے لیے مرکز میں کافی عمارتیں ہونی چاہئیں۔ علاوہ ازیں وسیع پیمانے پر ایک کتب خانہ مہیا کرنا ہو گا۔ یہ ساری ضروریات جنگ کے دوران میں میسر آنا بہت مشکل ہے۔ ویسے میں خود اس قسم کے کام کو شروع کر دینے کی شدید ضرورت محسوس کرتا ہوں اور شاید جنگ کے خاتمے پر ایک سال کے اندر اندر شعبۂ علمی کے ماتحت ایک تحقیقی و تصنیفی مرکز کی بنیاد رکھ دی جائے گی۔ نیز اس کا خیال رکھیے کہ تجارتی اصولوں پر یہ کام نہیں ہو گا، ورنہ کارکنوں میں کاروباری ذہنیت پیدا ہو جائے گی۔ دماغی اور علمی کام تو صرف خدمت کے اصول پر ہونے چاہئیں۔ بیت المال ایسے لوگوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بغیر کسی مزید تصور کے مناسب وظائف دے گا۔
تجویز ۳: جماعت کے مرکز کو کسی بہتر مقام پر منتقل کرنے کے بارے میں
تجویز کنندگان: غازی سلطان محمود صاحب آف مردوال (ضلع شاہ پور) اور ملک نصر اللہ خاں صاحب عزیز منجانب جماعت لاہور۔
دونوں حضرات کی تجاویز کا خلاصہ یہ تھا کہ مرکز موجودہ مقام سے منتقل کر کے کسی مرکزی مقام پر لایا جائے۔ اس پر امیرِ جماعت کی طرف سے یہ جواب دیا گیا کہ جب تک مرکزی مقام پر ضروریات کے مطابق زمین اور اس زمین میں تعمیرات کے لیے ناگزیر وسائل فراہم نہ ہو جائیں، انتقالِ مرکز کی کوئی تجویز وزن نہیں رکھتی۔ اس پر مختلف مقامات کے بعض اصحاب نے زمین یا دوسرے وسائل کی پیشکش کی۔ ان حضرات کو یہ کہا گیا کہ آپ جو کچھ دے سکتے ہیں، دیں، جہاں بھی زمین اور وسائل فراہم ہو جائیں گے انھیں استعمال کرنے میں ہم دریغ نہ کریں گے۔
تجویز ۴: بچوں کے لیے تربیت گاہ
تجویز کنندگان: حافظ محمد اسحاق صاحب راموں (جالندھر) اور قاضی حمید اللہ صاحب (سیالکوٹ)۔
حافظ صاحب کی تجویز کا مدعا یہ تھا کہ بچوں کی صحیح تعلیم و تربیت کے لیے مرکز میں جلد ہی ایک تربیت گاہ قائم ہو جانی چاہیے اور قاضی صاحب نے عام ارکانِ جماعت اور مبلغین کی ضروری تربیت کے لیے مناسب انتظام کا مطالبہ کیا۔
اس تجویز کے جواب میں امیرِ جماعت نے وضاحت سے بتایا کہ یہ دونوں کام ہمارے پیشِ نظر ہیں۔ وسائل کی کمی کی وجہ سے اب تک دونوں اسکیمیں معرضِ التوا میں رہیں، مگر اب توکلاً علی اللہ قدم آگے بڑھانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ پس مولانا امین احسن اصلاحی اور بعض دوسرے رفقا کے مشورے سے نقشۂ کار مرتب کر کے اس سلسلے میں بہت جلد کام شروع کر دیا جائے گا۔
تجویز ۵: بیت المال کو مضبوط بنانے کی ایک تدبیر
تجویز کنندہ: محمد شریف صاحب (نوشہرہ)
(۱) اس تجویز کا مفاد یہ تھا کہ جماعت کے ان اہلِ ہنر اراکین کو جو سرمایہ نہیں رکھتے، جماعت کے سرمائے سے کاروبار پر لگایا جائے، ان لوگوں کی پوری کمائی بیت المال میں چلی جایا کرے اور انھیں صرف بقدرِ ضرورت مناسب معاوضہ ملتا رہے۔ اس سے بیت المال کو تقویت پہنچے گی۔
اس تجویز کے مختلف پہلوؤں پر کافی دیر تک بحث ہوتی رہی اور آخر میں امیرِ جماعت اس نتیجے پر پہنچے کہ کاروبار کے اصول پر جماعت کی طرف سے کوئی اسکیم عمل میں نہیں لائی جانی چاہیے۔ البتہ افراد آپس میں بطورِ خاص اس طرز پر کام کریں تو اس سے کوئی اختلاف نہ ہو گا۔ اس پر مجوز نے تجویز واپس لے لی۔
(۲) اس مشاورت کے دوران میں حافظ عطاء الرحمن صاحب نے اس سلسلے میں ایک دوسری تجویز یہ پیش کی کہ جماعت کے جملہ ارکان کو اپنی آمدنی کا ایک مقررہ حصہ بیت المال کو ادا کرنا چاہیے۔
اس پر امیرِ جماعت نے یہ فیصلہ دیا کہ ضابطہ بندی کے ذریعے سے ارکان کو اس کام پر مجبور کرنا ہماری پالیسی کے خلاف ہے۔ ہاں، جس رکن کو بطورِ خود اپنے فرض کا احساس ہو وہ اپنے اوپر خود پابندی عائد کرے۔
(۳) اس کے بعد نعیم صدیقی صاحب نے اسی سلسلے میں ایک اور تجویز پیش کی جس کا مدعا یہ تھا کہ چونکہ موجودہ نظامِ معیشت نے حلال ذرائع آمدنی کو تنگ بنا ڈالا ہے اور ہم میں سے کسی کی آمدنی بھی پوری طرح پاک نہیں رہ گئی ہے، لہٰذا ہمارے لیے صحیح طرزِ عمل یہ ہے کہ اضطرار کی رخصت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم صرف ضروریاتِ زندگی کی حد تک اپنی آمدنیوں کو اپنے اوپر استعمال کریں اور بقیہ کو بیت المال کے حوالے کر دینے کا التزام کریں۔ اس غرض کے لیے جماعتی طور پر ضروریات اور اخراجات کی مناسب تحدید کر دی جائے۔
اس پر امیرِ جماعت نے فرمایا کہ یہ تحدیدِ اخراجات جس قانونیت کو مستلزم ہے اسے ہم اختیار نہیں کر سکتے۔ چنانچہ مجوز نے یہ ترمیم کر دی کہ اگر قانوناً نہیں تو کم از کم اخلاقاً ہمیں اس کا پابند ہو جانا چاہیے۔ تجویز کی اس شکل سے امیرِ جماعت نے اتفاق کر لیا مگر دوسرے رفقا کے بعض اعتراضات کا سلسلہ جاری رہا، اس لیے مجوز نے برضا و رغبت اپنی تجویز واپس لے لی۔
تجویز ۶: نئے علمِ معیشت کی تدوین
تجویز کنندہ: حافظ عطاء الرحمن صاحب (دارالاسلام)
حافظ صاحب نے اس ضرورت کو واضح کیا کہ جدید حاضر کا انسان ایک نئے نظام کا طلب گار ہے اور جماعتِ اسلامی کو ایک مجلسِ تحقیقِ معاشیات مقرر کرنی چاہیے جو ایک طرف اسلامی معیشت کے اُصولوں کو جمع کرے اور دوسری طرف موجودہ دور کے علم المعیشت کا مطالعہ کرے تاکہ ایک نیا علم المعیشت مدون ہو جائے۔ مجلس اپنے اخراجات کو اپنی تحقیقی یا اشاعتی رپورٹوں کی اشاعت سے پورا کر سکتی ہے۔
اس تجویز کی اہمیت کو امیرِ جماعت نے تسلیم کیا مگر فرمایا کہ اس کام کے لیے الگ مجلس قائم کرنے کے بجائے اسے تجویز نمبر ۲ میں شامل کر دیا جائے جہاں ہمارا مجوزہ ادارۂ تحقیقاتِ علمیہ دوسرے مختلف علوم کی تدوین کرے گا، وہاں معاشیات کے میدان میں بھی تحقیق و تدوین کا کام کرے گا۔
تجویز ۷: ملازمین اور مزدوروں کے حقوق کا تعین کیا جائے
تجویز کنندہ: محمد یحییٰ صاحب (دارالاسلام)
یہ تجویز جماعت کو ایک خاص پہلو سے معاشی تبدیلیوں پر آمادہ کرنے کے لیے پیش کی گئی تھی۔ اس کا مفاد یہ تھا کہ جماعت مساواتِ آقا و غلام کے اصول پر ملازمین اور مزدوروں کے حقوق متعین کرے تاکہ ایک عملی مظاہرہ کیا جا سکے۔
اس تجویز پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے جناب مولانا امین احسن نے فرمایا کہ اگرچہ اصولاً یہ مطالبہ برحق ہے، لیکن اس تجویز کے مجوز نے مسئلے کے چند محدود پہلوؤں ہی کو سامنے رکھا ہے، اگر ہم انہی سے ابتدا کریں تو ہم پر یہ اعتراض وارد ہو گا کہ ان کے پاس کوئی جامع نظام نہیں ہے۔ حالاں کہ اسلام نے اس معاملے میں بہت تفصیل سے احکام دیے ہیں۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ ان احکام کو تعلیم و تبلیغ کے ذریعے سے عام کیا جائے۔ اس کے بغیر اگر جزئی تعمیرات کرنے کی کوشش کی جائے تو وہ زیادہ مفید و نتیجہ خیز نہیں ہوں گی۔
اس کے بعد امیرِ جماعت نے اپنا خیال ظاہر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ میں نے بہت سی تجویزوں کے دوران میں یہ محسوس کیا ہے کہ لوگ بنیادیں اٹھانے سے پہلے کھڑکیاں اور روشن دان بنانا چاہتے ہیں۔ اگرچہ یہ سب چیزیں بجا ہیں اور ضروری ہیں مگر ان میں سے ہر ایک کا ایک مقام ہے۔ اقدار کی ترتیب کو الٹ دینا مفید نہیں ہو گا۔ جو معاشی اصلاح ہمیں مطلوب ہے وہ ضابطہ بندی سے نہیں ہو گی، بلکہ ایمان اور اخلاق کے استحکام ہی سے ہو گی۔ ہمیں ایک بچے کی طرح فطری ارتقا کرنا ہے، یہ مناسب نہیں ہو گا کہ آپ قبل از وقت مصنوعی طور پر بالغ بننے کے لیے بازار سے ڈاڑھی خرید کر لگا لیں۔ ماحول کا جائزہ اور مطالعہ کیے بغیر، خواہ کتابوں سے ہی کیوں نہ ہو، وقت سے پہلے کوئی اقدام مناسب نہیں ہو گا۔
تجویز ۸: اسلامی تعلیم کے لیے نصاب کی تدوین
تجویز کنندہ: محمد فاضل صاحب (امرتسر)
مجوز موصوف نے اسلامی تعلیم کے لیے نصاب کی تدوین کی ضرورت کو پیش کیا۔ اس کے جواب میں امیرِ جماعت نے فرمایا کہ میں جس قسم کا کام کرنا چاہتا ہوں، اس سے کم پر میری طبیعت آمادہ نہیں ہوتی۔ نصاب کا تقاضا بہت پر زور ہے، مگر جامع اور اطمینان بخش کام کے لیے حالات کا منتظر ہوں۔ جماعتی حیثیت سے تو ہم وہی چیز پیش کریں گے جو جامع اور مکمل ہو۔ اس سے پہلے آپ لوگ اپنے اپنے مدارس کا کام چلانے کے لیے غیر رسمی طریقے پر جماعت کے ان اصحاب سے مشورہ لے لیں جو تعلیم کے کاموں سے نظری یا عملی تعلق رکھتے ہیں۔
تجویز ۹: عربی بول چال کی عادت
تجویز کنندہ: محمد فاضل صاحب (امرتسر)
اس تجویز کا اقتضا یہ تھا کہ جماعت کے لوگ عربی بول چال کی عادت ڈالیں تاکہ قرآن و حدیث سمجھنے میں آسانی ہو اور اسلامی تمدن فروغ پائے۔
اس پر چودھری محمد اکبر صاحب، ہیڈ ماسٹر (لاہور) نے فرمایا کہ اب تک عربی پڑھنے والوں اور نہ پڑھنے والوں میں کوئی نمایاں فرق نہیں ہے۔ خود عرب، عراق اور مصر کے لوگ عربی بولتے ہیں مگر وہ بھی مغربیت سے ہماری ہی طرح، بلکہ ہم سے بڑھ کر متاثر ہیں۔ اس لیے یہ غیر فطری طریقہ ہمارے مقصد کے لیے کچھ زیادہ کارآمد نہیں ہے۔ اس کے بعد مولانا امین احسن نے فرمایا کہ جہاں تک قرآن و حدیث کے سمجھنے سمجھانے کا تعلق ہے، ہم ایک خاص گروہ کو اتنا تیار کر دینا چاہتے ہیں کہ وہ محققانہ نظر سے دین کو سمجھے اور سمجھائے، اس غرض کے لیے عربی بول لینے سے کام نہیں چلتا۔ رہے عوام تو انھیں ہم خود انہی کی زبان میں اسلام کی سادہ تعلیم دیں گے۔
امیرِ جماعت نے اس سلسلے میں اپنی رائے دیتے ہوئے فرمایا کہ جن لوگوں کی مادری زبان عربی ہے اور جو حضرات عربی مدارس میں عربی بولتے اور پڑھتے ہیں، وہ بھی اس عربی سے ناواقف ہیں جو قرآن و حدیث کو سمجھنے کے لیے لابدی ہے۔ ہم قرآن اور حدیث کی عربی سے اپنے رفقا کو واقف کرنا چاہتے ہیں مگر اس سلسلے میں عربی بول چال کی ضرورت نہیں۔ ہم لوگوں کی اپنی مادری زبانوں کو ختم کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔
تجویز ۱۰: جماعتی لٹریچر کی اشاعت کے بارے میں
تجویز کنندہ: امیرِ جماعت (دارالاسلام)
امیرِ جماعت نے جماعت کا لٹریچر شائع کرنے کے لیے یونائیٹڈ پبلشرز (لاہور) اور مولوی ثناء اللہ خاں صاحب (لاہور) کی طرف سے آئی ہوئی دو پیش کشوں (offers) کو حاضرین کے سامنے رکھ کر مشورہ طلب کیا کہ ان دونوں میں سے کس پیش کش کو قبول کیا جائے۔
یونائیٹڈ پبلشرز دائمی حقوقِ اشاعت لینا چاہتے تھے مگر مولوی ثناء اللہ صاحب صرف کاغذ فراہم کر دینے کی حد تک معاملہ کرنے کے خواہشمند تھے۔ اس پر بحث و تمحیص کے بعد فیصلہ ہوا کہ مولوی ثناء اللہ خاں صاحب کی پیش کش کو قبول کر لیا جائے۔
تجویز ۱۱: اطاعتِ امیر کے لزوم کے بارے میں
تجویز کنندہ: حکیم محمد حسین صاحب (کپور تھلہ)
مجوز کا مطالبہ یہ تھا کہ امیرِ جماعت کی کامل اطاعت کو دستوراً لازم کر دیا جائے، مگر اس پر فیصلہ یہ ہوا کہ چونکہ دستور کی ترمیم پوری جماعت کے اجتماع ہی میں اتفاقِ رائے سے ہو سکتی ہے، لہٰذا اس محدود اجتماع میں اس تجویز کو پیش نہیں ہونا چاہیے۔ چنانچہ حکیم صاحب نے تجویز واپس لے لی۔ اس کے بعد کچھ سوالات کے زبانی جوابات دیے گئے۔
چوتھی نشست (۲۷ مارچ، نمازِ مغرب سے نمازِ عشا کا درمیانی وقفہ)
یہ نشست پروگرام کے مطابق امیرِ جماعت کی طرف سے ہدایات دینے کے لیے مختص کی گئی تھی۔ اس اجلاس میں امیرِ جماعت نے جو تقریر فرمائی اسے یہاں درج کیا جاتا ہے۔
امیرِ جماعت کی اختتامی تقریر (سید ابوالاعلیٰ مودودی)
جو رودادیں صبح کی نشست میں جماعتوں کی طرف سے پیش ہوئی ہیں، ان پر میرے محترم رفیق مولانا امین احسن صاحب نے جو تبصرہ فرمایا ہے اس کے بعد مزید تبصرے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ مجھے بعض امور کے متعلق صرف چند مشورے پیش کرنے ہیں۔
ہماری تبلیغی پالیسی
الاقدم فالاقدم
سب سے پہلے تبلیغی پالیسی کے متعلق یہ سمجھ لیجیے کہ ہماری دعوت کا اصول الاقدم فالاقدم (جو زیادہ اہم ہے، اسے پہلے) ہونا چاہیے۔ جو چیز جتنی زیادہ اہم ہے، اس سے اتنا ہی پہلے تعرض کرنا چاہیے اور اس پر اتنا ہی زیادہ زور دینا چاہیے۔ اسی طرح جس چیز کی دینی اہمیت کم ہے، اس پر بعد میں توجہ دی جانی چاہیے اور اس کی قدر و قیمت کو مبالغے سے کبھی نہیں بڑھانا چاہیے۔
فروعات سے پہلے اصل الاصول پر زور
دوسری بات یہ ذہن نشین کر لیجیے کہ جزئیات میں سے ایک ایک پر جدا جدا زور دینے کے بجائے اس اصل الاصول کی فکر کرنی چاہیے جس کی اصلاح سے فروع کی اصلاح خود بخود ایک فطری نتیجے کے طور پر ہو جاتی ہے۔ فرض کیجیے کہ کسی مکان میں آگ لگی ہوئی ہے اور جگہ جگہ سے کڑیاں اور تختے جل جل کر گر رہے ہیں۔ ایسے موقع پر ایک ایک کڑی کے ٹُھنٹ کو روکنے کے لیے الگ الگ تدابیر نہیں اختیار کی جائیں گی بلکہ براہِ راست ایک ہی تدبیر سے آگ بجھانے کی فکر کی جائے گی۔ یا مثلاً اگر کسی شخص کا خون خراب ہو اور اس کے بدن پر جگہ جگہ پھوڑے پھنسیاں نمودار ہو رہی ہوں تو ایک ایک پھوڑے پر نشتر چلانے اور ایک ایک ناسور پر پھایا رکھنے کی جگہ اصلاحِ خون کی تدبیر کی جائے گی۔ اس اصول پر ہمارے مبلغین کو مقامی حالات پر غور کر کے یہ معلوم کرنا چاہیے کہ لوگوں کی خرابیوں کی اصل علت کیا ہے؟ اور پھر تمام سعی اسی اصل علت کو دور کرنے کے لیے لگانی چاہیے۔ اس کام کے دوران میں خرابی کی شاخوں کی کثرت سے ذرا بھی نہ گھبرانا چاہیے۔ اسی طرح جن اچھائیوں کو فروغ دینا ہے، ان کی جڑ کو پکڑنے کی کوشش کرنی چاہیے اور پھر اس کی آبیاری میں پوری جانفشانی دکھانی چاہیے۔ یہ جڑ اگر قائم ہو گئی تو پتے اور پھل پھول خود بخود نمودار ہوتے جائیں گے۔
جماعت کا پورا لٹریچر اسی اصول پر لکھا گیا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ اس میں بنیادی امور کے استحکام کے لیے پورا استدلال صرف کیا گیا ہے، جزئیات کو بالعموم نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ شاخوں کی کٹائی چھنٹائی کے بجائے جڑ اور تنے کی فکر کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ آپ لوگ مسلمانوں کے تمام طبقات کی سطحی اور روشِ عام کی ذہنیت کی طرف زیادہ متوجہ نہ ہوں بلکہ اس کی بنیادوں کی فکر کریں، ورنہ دیواروں کی خوبصورتی پر محنت کرتے رہ جائیں گے اور اس سے پہلے کہ یہ تعمیر مکمل ہو، آپ پوری عمارت کو کھنڈر بنتا ہوا دیکھنے پر مجبور ہوں گے۔
ہماری زبانوں پر جب بھی اصلاح کا نام آتا ہے تو ذہن فوراً چھوٹی چھوٹی برائیوں کی طرف پھر جاتا ہے اور پھر نشترِ اصلاح اسی پرانے مذاق کے مطابق چلایا جاتا ہے۔ آپ لوگ اب اس مذاق کو یکسر بدل ڈالیے۔ بار بار کے تجربے سے معلوم ہو چکا ہے کہ جزئیات پر زور دینے سے ہم اپنے نصب العین میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔ یہ راستہ مباحثے اور مناظرے کی وادیوں سے ہو کر گزرتا ہے اور اس میں کام کرنے سے خواہ مخواہ جذبات مشتعل ہوتے ہیں۔ طرح طرح کے چبھنے والے القاب، مثلاً وہابی اور بدعتی وغیرہ، زبانوں پر آنے لگتے ہیں، حتیٰ کہ سر پھٹول تک کے واقعات پیش آتے ہیں۔ اس طریقِ تبلیغ کو دہرانے سے قطعاً اجتناب کیجیے۔
کتاب و سنت سے براہِ راست واقفیت
جیسا کہ مولانا امین احسن صاحب نے اپنی تقریر میں واضح کیا ہے، آپ حضرات غور کریں تو معلوم ہو گا کہ درحقیقت تمام خرابیاں یا تو جہلِ توحید کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں، یا رسالت کی حقیقت کو نہ جاننے سے، یا عقیدۂ آخرت کی ناقص واقفیت سے۔ علاوہ ازیں کچھ خرابیاں ایسی ہیں جو اصول و فروعِ دین کی صحیح ترتیب کو الٹ دینے سے نمودار ہوتی ہیں۔ خود ان اسباب کا بھی اپنا ایک سبب ہے اور وہ ہے کتاب و سنت سے بے تعلقی۔ یہ سبب صرف عوام ہی میں نہیں پایا جاتا بلکہ بکثرت علما تک کتاب و سنت سے براہِ راست گہری واقفیت نہیں رکھتے۔ اب اگر ہمیں ان حالات کو بدلنا ہے تو اصلاح کا کام بنیاد سے شروع کر کے اوپر کی طرف لے جانا چاہیے۔ جب تک بنیادی معتقدات کی اصلاح نہیں ہو جاتی، لوگوں کی فروعی گمراہیوں کو صبر سے گوارا کرنا پڑے گا۔ میرے کہنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ فروعات کے معاملے میں لوگوں کو کھلا چھوڑ دیا جائے، بلکہ مدعا یہ ہے کہ پہلے قدم پر فروعی امور پر بہت زیادہ زور ہرگز نہ دیا جائے۔
یہ حقیقت ناقابلِ انکار ہے کہ بہت سے لوگ ایسے ہوں گے جو شریعت اور حجت کی بنا پر خرابیوں کی حمایت کریں گے، مگر عوام الناس تو بیچارے محض جہالت کی وجہ سے بھٹکے ہوئے ہیں۔ مدتِ دراز کی غلط تعلیم و تربیت سے ان کے ذہن میں یہ بات اتر گئی ہے کہ جن طور طریقوں کو وہ اختیار کیے ہوئے ہیں، انہی کا نام دین ہے۔ ان بے چاروں کی اصلاح صرف اسی طرح ہو سکتی ہے کہ صبر و تحمل سے بتدریج توحید، نبوت اور معاد کے اسلامی تصورات کو ان کے دلوں میں راسخ کیا جائے۔ ان کے عقائد کی اصلاح میں اگر ہم کامیاب ہو جائیں تو کوئی مخالف ”وہابی“ پکار کر بھیڑ جمع نہ کر سکے گا بلکہ خود میدان چھوڑنے پر مجبور ہو جائے گا۔
انقلابِ عرب پر اگر آپ غور کریں تو اس دعوے کی صداقت اچھی طرح واضح ہو جائے گی۔ حضور ﷺ کی دعوت سے روگردانی کرنے والوں میں بالکل مختصر سا گروہ ایسا تھا جو ذاتی اغراض کی بنا پر مخالفت کر رہا تھا۔ باقی سب لوگ فریب خوردہ اور گمراہ تھے۔ پھر جب تحریک پھیل گئی اور حق کھل کر سامنے آ گیا تو بے غرض صدیق لوگوں کے لیے انکار کے راستے مسدود ہو گئے۔ ملک کی عام آبادی نے صداقت کے آگے ہتھیار ڈال دیے اور آخری نتیجہ یہ ہوا کہ جو لوگ اغراض کی بنا پر لڑ رہے تھے، انھوں نے دیکھا کہ میدان میں ہم تنہا رہ گئے ہیں، اس لیے وہ سر جھکا دینے پر مجبور ہو گئے۔ آج بھی دعوتِ حق کی کامیابی کا راستہ یہی ہے۔ اگر آپ حقیقت کو لوگوں کے سامنے بالکل عیاں کر دیں تو ان میں سے نیک نیت فریب خوردہ لوگ اپنے ہتھیار ڈال کر آپ کے ساتھ آ ملیں گے۔ پھر جو لوگ غرض کی بنا پر سدِ راہ ہوئے ہیں وہ بھی اتنے بے بس ہو جائیں گے کہ ہماری چلتی ہوئی گاڑی کے آگے آ کر جان دینا بھی چاہیں تو نہ دے سکیں گے۔ اور ان "فروع" اور "فقہ" کے جھگڑے ختم کیجیے۔ خود سوچیے کیا رسول اللہ ﷺ بھی انہی خرابیوں کی اصلاح کے لیے آئے تھے؟ کیا اسلام کا نصب العین بس اتنا ہی کچھ ہے؟ کیا قرآن کی تعلیمات انسان سے اتنا ہی کچھ مطالبہ کرتی ہیں؟ اگر نہیں، تو پھر آپ کی پوری توجہ ان اساسی امور کی طرف کیوں منعطف نہیں ہوتی جن کے لیے ہر دور میں انبیاء علیہم السلام مخالفین کے مقابلے میں صف آرا رہتے رہے؟
یہ جزئیات جن کی اہمیت بہت بڑھا دی گئی ہے، اقامتِ دین کے کام میں کوئی اہمیت نہیں رکھتیں۔ فکر تو اس کیجیے کہ لوگ خدا کے دین کو رضا و رغبت سے تسلیم کریں اور سیرتِ نبوی کا اتباع کرنے پر آمادہ ہوں۔ یہ چیز پیدا ہو گئی تو پھر جسے جو چیز کتاب و سنت سے ثابت ملے گی وہ اسے اختیار کرے گا اور جس کا ثبوت قرآن و حدیث سے نہ ملے گا اسے ترک کر دے گا۔ ورنہ تو صرف ایک بنیادی پہلو پر توجہ مرکوز رکھنی چاہیے۔ اصول سے فروغ کی طرف لے جانے کی یہ جو تدریج اسوۂ نبوی میں پائی جاتی ہے، اگر اسے نظر انداز کر کے محض حدیث کی کتابوں کا اتباع شروع کر دیا جائے تو یہ حدیث کی کتابوں کا اتباع تو ہو گا، اسوۂ نبوی کا اتباع نہ ہو گا۔
ظہورِ اسلام سے پہلے مکہ کے عرب میں اس سے کم خرابیاں نہیں تھیں جتنی آج ہمارے دور میں پائی جاتی ہیں۔ پھر کیا بیک وقت سب پر چوٹ پڑی؟ کیا اصلاح کی عمارت کو ایک ہی جست میں کھڑا کر ڈالا گیا؟ نہیں، بلکہ اصلاح کی بنیادیں استوار کی گئیں، پھر اساسی اخلاقیات کی تعلیم دی گئی۔ پھر زندگی کے دامن سے ایک ایک داغ کو دھونے کا سلسلہ بتدریج کئی سال تک جاری رہا۔ اگر آپ حضرات نبی ﷺ کا اتباع کرنا چاہتے ہیں تو پہلے نبی ﷺ کے طریقِ کار کو خوب سمجھ لیجیے، پھر آگے قدم بڑھائیے۔
مبالغہ آمیز کارگزاری سے احتراز
ایک اور چیز میں نے یہ محسوس کی ہے کہ ہمارے رفقا میں کام کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کا جذبہ بھی کبھی کبھی پیدا ہوتا ہے۔ میں چاہتا ہوں اس جذبے کو ختم کر دیا جائے۔ صرف یہ کہ اپنی کارگزاری بتانے میں مبالغے سے کام نہ لیا جائے بلکہ اپنے کام کو کبھی مکمل بھی نہ سمجھا جائے۔ بہتر سے بہتر طریقے پر کام کرنے کے بعد بھی مطمئن نہ ہونا چاہیے اور اس کے اچھے پہلوؤں پر قانع ہونے کے بجائے اس کے کمزور پہلوؤں کو دیکھ کر بے چین رہنا چاہیے۔ جو کام صحیح ہو رہا ہو، اس پر خدا کا شکر بجا لائیے اور جو کمی رہ گئی ہو، اسے پورا کرنے کی توفیق بھی طلب کیجیے۔ پھر یہی خدشہ ہے کہ دوسری جماعتوں کے لوگوں میں کام کرتے وقت آپ پر مناظرے کی روح چھا جاتی ہے اور مناظرہ و مکابرہ کی شکل پیدا ہو جاتی ہے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو بہت اچھا ہے، اور اگر واقعہ یہ ہے تو ان بلاؤں سے نجات حاصل کیجیے۔
اس سلسلے میں اپنے طرزِ عمل سے اور اپنے اندازِ گفتار سے دوسری جماعتوں پر یہ واضح کر دیجیے کہ ہم کسی سے جماعتی کشمکش نہیں کرنا چاہتے۔ ہماری غرض خرابی کی بنیادوں کو مٹانا ہے اور ہمارا خطاب پوری نوعِ انسانی سے ہے جو بھی حق سے منحرف ہے۔ ہم بس غلطی کو صاف بتا دیں گے، اس کے بعد ہمارا خاص طور پر اسی کے خلاف کوئی معرکہ نہ ہو گا۔
مشترکہ جلسوں سے پرہیز
بہرحال کسی جماعت کو کم از کم آپ کے طرزِ عمل کی وجہ سے اس بدگمانی کا موقع نہ ملنا چاہیے کہ آپ اس کے حریف بن کر اٹھے ہیں۔ ہمیں تو صرف نظامِ کفر و جاہلیت کا حریف بن کر رہنا ہے، اسی سے مقابلہ کرنا ہے، اور اس کے ساتھ جس کی وابستگی جتنے درجے کی ہو گی اسی تناسب سے ہماری اس کی دشمنی میں بھی شدت ہو گی۔
بعض اصحاب کی طرف سے پوچھا گیا ہے کہ آیا ہم ان جلسوں اور ان تقریبات میں شریک ہو سکتے ہیں جو عوامی انجمنوں کی طرف سے منعقد ہوا کرتی ہیں؟ اس میں شک نہیں کہ ہمیں اس ذریعے سے اپنے خیالات کو پھیلانے کے مواقع ملتے ہیں مگر میرا مشاہدہ ہے کہ یہ طریقِ کار مفید نہیں ہے۔ ایک اسٹیج پر جب قسم قسم کی بولیاں بولی جاتی ہیں اور انہی کے دوران میں ہماری دعوت بھی پیش کی جاتی ہے تو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ بھی ان بولیوں میں سے ایک بولی ہے۔ جو ہمیں تفریح کے لیے سنائی جاتی ہیں۔ یہ ایک دماغی دسترخوان ہے جس پر جہاں اور طرح طرح کے مربے اور اچار رکھے ہیں، وہاں ایک نئی قسم کا یہ اچار بھی رکھ دیا گیا ہے۔ اس بازیچۂ اطفال میں اگر بالفرض آپ نے بہت احسن طریقے سے اپنا پیام پیش کر دیا، تب بھی نتیجہ اس سے زیادہ کچھ نہ ہو گا کہ لوگ داد دیتے ہوئے یہ کہیں گے کہ ”مولوی صاحب خوب بولے“۔ ہماری قوم کا حال آج کل اس رئیسِ کے ریوڑ کا سا ہو گیا ہے جس کے گرد و پیش بہت سے خوشامدی مصاحب لگے ہوئے ہوں اور اسے خوش کرنے میں منہمک ہوں۔ ان خوشامدیوں کے زمرے میں شامل ہو کر آپ حکمتِ دین اور حقائقِ زندگی کو خواہ کتنی ہی سنجیدگی کے ساتھ پیش کریں، بہرحال یہ رئیس المزاج قوم آپ کی باتوں کو انہی کانوں سے سنے گی جن سے وہ دوسرے مصاحبوں کی باتیں سنتی ہے۔ ان وجوہ سے میں اپنی جماعت کے مقررین کو مشورہ دیتا ہوں کہ پہلے اپنی انفرادیت، یا دوسرے لفظوں میں اپنی امتیازی حیثیت کو، خوب مستحکم کر لیجیے اور بالکل جداگانہ طور پر اپنے نظریات پیش کرتے رہیے، البتہ اگر ممکن ہو کہ مارکیٹ میں جو خوش تقریری کے ریکارڈ خوب مقبول ہیں، ان کے اندر آپ اپنا نغمہ بھر سکیں تو یہ صورت مفید ثابت ہو گی۔ مختلف لیڈروں اور مقرروں پر اپنا اثر اس حد تک پھیلا دیجیے کہ ان کی تقریروں میں خواہ مخواہ آپ ہی کے خیالات آنے لگیں۔ جب وہ کچھ عرصہ تک محض نقالی میں ہمارے نظریات بیان کرتے رہیں گے تو پھر بعید نہیں کہ ایک روز انھیں اپنی ضمیر کی آواز اور رائے عام کے دباؤ سے اپنی عملی روش کو بھی بدلنا پڑے۔ یہ تدبیر اگر خوب وسعت کے ساتھ عمل میں لائی جائے تو آخرکار بہت سے بے کار تقریر کرنے والے مقررین، جنہوں نے پوری قوم کا مزاج بگاڑ رکھا ہے، اسٹیج سے ہٹا دیے جائیں گے اور کام کے آدمیوں کو پبلک خود سامنے لائے گی۔
مدارس کا قیام
یہ معلوم کر کے مجھے بہت مسرت ہوئی کہ آپ حضرات جہاں اپنے نظریات کو پھیلانے کے لیے مدارس قائم کرنے کی فکر میں ہیں، بلکہ بعض مقامات پر تو عملاً قدم اٹھا بھی چکے ہیں۔ مگر اس سلسلے میں یہ احتیاط ضرور کیجیے کہ ایک مدرسہ کو چلانا بجائے خود مقصد نہ بن کر رہ جائے۔ ہمیں تعلیم کو حصولِ مقصد کے ذریعے کی حیثیت سے استعمال کرنا ہے۔ جہاں محسوس ہو کہ آپ کا مدرسہ مقصد کی جگہ لے رہا ہے، یا مقصد میں رکاوٹ بن رہا ہے، تو ایسے مدرسے کو گرا دیجیے اور اس کے کنگروں کو روندتے ہوئے اپنی منزل کی طرف آگے بڑھیے۔ اس غرض کے لیے نصب العین کو ہمیشہ نگاہوں کے سامنے رکھنے کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر آپ دیکھتے ہیں کہ ایک قوم نے جو کارخانے اپنی خود غرضانہ اغراض کے لیے کروڑوں روپے کے صرف سے بنائے ہوئے ہیں، انھیں جب وہ اصل مقصد کی راہ میں رکاوٹ بنتے دیکھتی ہے تو وہ خود اپنے ہاتھوں سے انھیں تباہ کر دیتی ہے۔ اسی جنگ میں روس نے اپنے بڑے صنعتی مراکز کو اور فرانس نے اپنے بحری بیڑے کو تباہ کر دیا۔ یہ تنبیہ میں اس لیے کر رہا ہوں کہ پہلے بھی ہمارے تعلیمی کام کرنے والے بہت سے بزرگوں سے یہی لغزش ہو چکی ہے، یعنی انھوں نے مدرسے چلانے کو ذریعے کے بجائے مقصد کی حیثیت دے دی، آپ لوگ اس سلسلے میں بہت احتیاط سے کام لیں۔
مقامی کام اور تنظیم
اب رہا مقامی کام اور تنظیم کے استحکام کا سوال، سو اس غرض کے لیے میں چند موٹی موٹی باتوں کی طرف آپ کی توجہ منعطف کراتا ہوں۔
مالی ایثار
سب سے پہلی طلب چیز یہ ہے کہ اپنے اپنے حلقے کے ارکان میں مالی ایثار کے جذبے کو ابھاریے۔ اب تک دوسرے مختلف جذبات تو تناسب سے کچھ زیادہ ہی ابھرے ہیں مگر مالی ایثار کے جذبے کا تناسب بہت ہی کم ہے۔ ہاں، اس ضمن میں یہ ضرورت ملحوظ رہے کہ یہ جذبہ کسی خارجی دباؤ کے بجائے اخلاقی اساس پر ہونا چاہیے۔ ضوابط سے یہ خوبی پیدا کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔ ہر شخص کو یہ سوچنا چاہیے کہ جب وہ مسلمان ہوا ہے تو اس کے مال کو بھی مسلمان ہونا چاہیے۔ جسم اور جان مسلمان ہو جائیں اور مال مسلمان نہ ہو تو اسلام کا تقاضا پورا نہیں ہوتا ہے۔ اپنے ساتھ اپنے مال کو بھی دائرۂ اسلام میں لائیے اور اس کی شکل یہی ہے کہ اپنے کمزور بھائیوں کی دستگیری اور اپنے بیت المال کی تقویت میں اسے صرف کیجیے۔ ”ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً“ کا مدعا یہی ہے۔ پھر جذبۂ ایثار کی پیمائش اللہ کی راہ میں صرف کیے جانے والے مال کی مقدار سے نہیں ہوتی بلکہ ان تکلیف دہ حالات سے ہوتی ہے، جن کا مقابلہ کرتے ہوئے ایک شخص انفاق کرتا ہے۔ اس لحاظ سے بعض اوقات ایک پیسہ ہزار روپے سے زیادہ وزنی ہوتا ہے۔ خدا کے ہاں یہ نہیں دیکھا جاتا کہ دیا کتنا، بلکہ یہ کہ کن مشکلات کے ہوتے ہوئے دیا۔
ہفتہ وار اجتماعات کی پابندی
دوسری چیز جس کا شدید پابندی سے اہتمام ہونا چاہیے، ہفتہ وار اجتماع ہے۔ مختلف مقامات پر جماعتی نظام کے مردہ ہو جانے کی وجہ یہی تھی کہ افراد کو جمع رکھنے اور جماعت کے ساتھ ان کی دلی دلچسپی کو زندہ رکھنے والے اس رشتے کی اہمیت کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ اس معاملے میں آئندہ نرمی سے کام نہ لیا جائے۔ ہر جگہ کے تمام مقامی ارکان کو ہفتہ وار اجتماع کی شرکت کا لازماً پابند ہونا چاہیے، جو رکن کسی وجہ سے شرکت نہ کر سکے وہ اپنی غیر حاضری کے لیے معقول عذر اپنے امیر کے سامنے پیش کرے۔ اگر کسی طرف سے غلط معذرت پیش کی جائے گی تو آخر کار تحقیقات سے اصل معاملہ سامنے آ جائے گا۔ نیز جو رکن بلا عذر یا غیر اہم عذرات کی بنا پر مسلسل چار ہفتہ وار اجتماعات میں شریک نہ ہو، یا ایک طویل مدت تک مرکز سے رابطہ نہ رکھے، تو اس کے متعلق سمجھ لیا جائے کہ وہ نظامِ جماعت کی پابندیوں کو برداشت کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔
ہفتہ وار مقامی اجتماع کے علاوہ جہاں ایک ضلع میں یا قریب کے اضلاع میں متعدد ارکان موجود ہوں، وہاں باہمی صلاح مشورے سے وقت اور مقام کا تعین کر کے ہر دوسرے تیسرے مہینے اجتماعات منعقد ہوتے رہنے چاہئیں جن کا پروگرام ان ہدایات کی روشنی میں مرتب کر لیا جائے جو میں نے اجتماعِ در بھنگہ کے موقع پر ہفتہ وار اجتماعات کے لیے دی تھیں۔ خصوصیت کے ساتھ جن علاقوں کے مختلف دیہات اور شہروں میں اراکین منفرد ہیں، وہاں تو اس طرح کے سہ ماہی یا دو ماہی اجتماعات بہت ضروری ہیں، کیوں کہ اس کے بغیر منتشر ارکان کا آپس کا ربط ضائع ہو جائے گا۔
مرکز سے وابستگی
علاوہ ازیں اپنے آپ کو مرکز سے وابستہ رکھنے میں غفلت نہ برتیے۔ اس وابستگی کی مختلف صورتیں ہیں۔ مثلاً ایک صورت یہ ہے کہ خطوط کے ذریعے سے مرکز کو ہر پہلو سے مقامی حالات اور کام کی رفتار کے متعلق واقفیت بہم پہنچاتے رہیے۔ مگر اس کا خیال رکھیے کہ چونکہ میرے پاس کوئی باقاعدہ سیکریٹریٹ نہیں ہے، اس لیے غیر ضروری جواب طلب خطوط نہیں آنے چاہئیں۔ بس اتنا کافی ہے کہ ہر دوسرے تیسرے مہینے کام کی رپورٹ مرکز میں پہنچتی رہے، یعنی جماعت کس حال میں ہے، کہیں سستی کا دور دورہ تو شروع نہیں ہو گیا، کہیں نظامِ جماعت کی مشینری میں کوئی نقص تو نہیں پیدا ہو گیا، کہیں کوئی داخلی بے ضابطگی تو نہیں اٹھ کھڑی ہوئی؟ ایسے حالات میں اصلاحِ احوال کے لیے مرکز ضروری امداد بہم پہنچائے گا۔ اگر قیّمِ جماعت کے فرائض ادا کرنے کے لیے مجھے کوئی مناسب آدمی مل گیا تو وہ دورہ کر کے مرکز کی طرف سے کام کی نگرانی بھی کرتا رہے گا۔ جب تک یہ صورت پیدا نہ ہو آپ لوگ خود آپس میں مربوط رہیں اور وقتاً فوقتاً مرکز میں آکر چند روز قیام کرتے رہیں۔ اگر تربیتی مرکز قائم ہو گیا تو پھر مقامی جماعتوں کے امرا اور دوسرے سمجھ دار ارکان یہاں آ کر بہت زیادہ استفادہ کر سکیں گے۔
تعلیمِ بالغان
کپور تھلہ کی جماعت تعلیمِ بالغان کی جو اسکیم عمل میں لا رہی ہے وہ مجھے بہت پسند آئی ہے اور میں چاہتا ہوں کہ یہ کام ہر جگہ شروع ہو جانا چاہیے۔ اس سے ایک تو اللہ کی راہ میں باقاعدہ طور پر وقت کی قربانی کرنے کی عادت پڑے گی، دوسرے عوام سے آپ کا براہِ راست رابطہ ترقی کرے گا اور آپ ان سے بلاواسطہ خطاب کے مواقع حاصل کر لیں گے۔ نیز آپ تعلیم کو پھیلا کر اپنے لٹریچر کو پھیلانے اور اپنے پیغام کو فروغ دینے کے لیے بہت وسیع میدان تیار کر لیں گے۔ نہ صرف یہ بلکہ جو لوگ بھی آپ کی بلامعاوضہ خدمت سے فائدہ اٹھائیں گے وہ آپ کے اخلاق سے اتنے متاثر ہو جائیں گے کہ نہایت آسانی سے آپ کی بات ان کے دلوں میں اتر جائے گی۔ اس کام کی اہمیت کا اندازہ آپ صرف اس بات سے کر سکتے ہیں کہ ہماری تحریک کے پھیلنے میں سب سے بڑی رکاوٹ اس ملک کے عوام کی جہالت ہے۔ دوسرے ممالک میں تعلیم کے عام ہونے کی وجہ سے یہ حال ہے کہ ایک کتاب پریس سے نکلتی ہے اور ادھر پچاس لاکھ آدمیوں کے ہاتھوں میں پہنچ گئی۔ اس سے اندازہ کیجیے کہ خواندگی کی وجہ سے خیالات کے پھیلنے میں کتنی سرعت پیدا ہو جاتی ہے۔ بخلاف اس کے، ہمیں اپنے نظریات کو لوگوں تک پہنچانے میں بہت دیر لگتی ہے، اور برسوں کی کوششوں کے باوجود آبادی کے ایک بہت ہی قلیل حصے کو اپنے خیالات سے متاثر کیا جا سکتا ہے۔ اس رکاوٹ کو دور کرنے میں جہاں ممکن ہو، ہمیں اپنی مساعی صرف کرنی چاہئیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ہر آدمی یہی کام کرے، نہیں، صرف وہ رفقا اس نازک کام کا بار اٹھائیں جو تعلیمِ بالغان کے لیے ضروری صلاحیتیں رکھتے ہوں۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ نے اس سلسلے میں جو لٹریچر شائع کیا ہے اس سے فائدہ اٹھائیے اور جہاں کہیں اس میں سقم پایا جاتا ہو اس سے بچتے ہوئے کام کیجیے۔ خصوصیت کے ساتھ تعلیمِ بالغان کے فن پر جو لٹریچر ہے، اس سے سیکھنے کی کوشش کیجیے۔ پھر جوں جوں آپ عملاً کام کرتے جائیں گے، تجربات سے آپ کی صلاحیتیں چمکتی جائیں گی اور رفتارِ کار بڑھتی جائے گی۔ خدا کرے کہ آپ اپنے مقاصدِ حسنہ میں کامیاب ہوں۔
اس تقریر کے ساتھ آخری نشست ختم ہوئی۔
اجتماع سے واپسی
آخری نشست کے ختم ہونے پر بیشتر لوگ اگلی گاڑی سے روانہ ہو گئے اور صرف وہ حضرات ٹھہر گئے جنھیں امیرِ جماعت نے خود کسی ضروری مشورے کے لیے ٹھہرا لیا تھا یا جو خود اپنے متعلق کچھ ہدایات حاصل کرنا چاہتے تھے۔
مصارفِ اجتماع
جہاں تک اجتماع کے مصارف کا تعلق ہے، ہمارے ہاں آسائش و تکلفات کے سلسلے کے بغیر کھانا ہوتا ہے، لہٰذا اس قسم کے صرفے ہوتے ہی نہیں۔ رہیں ضروریاتِ قیام و طعام، تو ان پر بھی ناگزیر حد تک ہی خرچ کیا جاتا ہے۔ چنانچہ سو افراد کے قیام اور دو وقت طعام و ناشتہ پر اس گرانی کے زمانے میں بھی خرچ چار سو کے لگ بھگ رہا۔ یہ سارا بار جماعت کے محدود بیت المال پر ڈال دیا گیا تھا، کیونکہ چندے کی اپیلیں کرنا ہماری پالیسی کے خلاف ہے۔ مگر بغیر کسی اپیل کے شرکائے اجتماع نے از خود اپنی فرض شناسی اور احساسِ ذمہ داری کے تحت اجتماع کے دنوں میں جو رقوم بیت المال میں داخل کرائیں ان کا مجموعہ مصارفِ اجتماع سے بہت زیادہ تھا۔
جماعت کے ہمدردوں اور کرم فرماؤں سے معذرت
جو حضرات ہمارے کام سے دلچسپی اور ہمدردی رکھتے ہیں یا اسے سمجھنے کے خواہشمند ہیں، ان کی طرف سے یہ شکایت، اور بجا شکایت، کی گئی ہے کہ ہم نے اپنے اجتماعات میں زائرین (visitors) کو شرکت سے کیوں روک دیا ہے۔ اس سلسلے میں ہم اپنے سب خیر اندیشوں سے معافی کے خواستگار ہیں۔ یقیناً ہم خود اس کی ضرورت محسوس کرتے ہیں کہ جو لوگ ہمارے کام کو سمجھنا چاہتے ہیں وہ ہمارے اجتماعات کی کارروائیوں کو ملاحظہ کریں، مگر مجبوری یہ درپیش تھی کہ دارالاسلام کی بستی چند مختصر عمارتوں پر مشتمل ہے اور اطراف و نواح میں کوئی دوسری بستی بھی موجود نہیں ہے۔ یہاں زیادہ مہمانوں کے لیے انتظام کرنا بہت مشکل تھا۔ اراکینِ جماعت کا معاملہ تو دوسرا ہے۔ وہ اپنے کام کے لیے آئے تھے اور قیام و طعام کے سلسلے کی ہر تکلیف کو بخوشی گوارا کر سکتے تھے۔ ان کے لیے نہ تو مزدور بن کر کام کرنے میں عار تھی، نہ بستر اپنے کندھوں پر اٹھا کر چلنے میں تکلیف محسوس کرتے تھے، نہ بھوکا رہنا ان کے لیے گراں تھا اور نہ وہ کسی میزبان کی خدمت کے محتاج تھے، مگر ہم یہ گوارا نہیں کر سکتے تھے کہ جماعت کے باہر کے لوگ آئیں اور انھیں کسی قسم کی تکلیف ہو۔ پھر یہ مشکلات دارالاسلام کے ساتھ ہی مخصوص نہیں بلکہ دہلی اور حیدرآباد کے اجتماعات کو بھی کوئی نہ کوئی مشکل درپیش رہی ہے، کہیں رہائشی پابندیوں کی وجہ سے اور کہیں دوسری وجوہات سے۔ حالات کی رفتار بتاتی ہے کہ شاید اس قسم کی مشکلات ابھی دیر تک ہمارا پیچھا نہیں چھوڑیں گی۔ اس لیے ہم کچھ مدت تک کے لیے ہمدردوں سے پیشگی اور یکبارگی معذرت طلب کرتے ہیں۔
ہماری دعوت
- اپنی پوری زندگی میں اللہ کی بندگی اور حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی پیروی اختیار کرو۔
- دورنگی اور منافقت چھوڑ دو اور اللہ کی بندگی کے ساتھ دوسری بندگیاں جمع نہ کرو۔
- اللہ سے پھرے ہوئے لوگوں کو دنیا کی راہ نمائی اور فرماں روائی کے منصب سے ہٹا دو اور زمامِ کار مومنین صالحین کے ہاتھ میں دو تاکہ زندگی کی گاڑی ٹھیک اللہ کی بندگی کے راستے پر چل سکے۔
- جو اس دعوت کو حق سمجھے وہ اس میں ہمارا ساتھ دے۔
- اور جو ڈرے، وہ اللہ کے سامنے اپنے جواب کی فکر کر لے۔