روداد جماعت اسلامی
حصہ سوم
مرتبہ: شعبہ تنظیم جماعت
شعبہ نشر و اشاعت: جماعت اسلامی پاکستان، منصورہ لاہور
فہرست مضامین
- علماء اور مشائخ کی آڑ
- زید کا طعنہ
- رفقائے جماعت سے خطاب
- اجلاس دوم: رپورٹیں اور امیر جماعت کا تبصرہ
- اجلاس سوم: رپورٹیں اور امیر جماعت کا تبصرہ
- قانونی اور حقیقی اسلام کا فرق
- اجلاس چہارم: رپورٹیں اور امیر جماعت کا تبصرہ
- اجلاس پنجم: رپورٹیں اور امیر جماعت کا تبصرہ
- اجلاس مجلس شوریٰ
- اجلاس ششم: رپورٹیں اور امیر جماعت کا تبصرہ
- تجاویز
- اجلاس ہفتم: رپورٹوں پر تبصرہ، رپورٹوں کی ترتیب
- اعتراف تقصیر کا فتنہ
- مخالفتوں کا خیر مقدم
- ایک سوال کا جواب
- علماء کی بے پروائی
- سیاسی جماعتوں کی طرف سے مشکلات
- خلافت راشدہ کے متعلق ایک عام غلط فہمی
- کام کے ضروری شرائط
- جماعتی زندگی کی خصوصیات
- اجلاس ہشتم
- تحریک اسلامی کی اخلاقی بنیادیں
- زمام کار کی اہمیت
- امامت صالحہ کا قیام دین کا حقیقی مقصود ہے
- امامت کے باب میں خدا کی سنت
- انسانی عروج و زوال کا مدار اخلاق پر ہے
- بنیادی انسانی اخلاقیات
- اسلامی اخلاقیات
- سنت اللہ در باب امامت کا خلاصہ
- بنیادی اخلاقیات اور اسلامیات کی طاقت کا فرق
- اسلامی اخلاقیات کے چار مراتب
- ایمان
- اسلام
- تقویٰ
- احسان
- غلط فہمیاں
جماعت اسلامی کے پہلے کل ہند اجتماع کی روداد
اخبار "کوثر" لاہور کے ذریعہ سے اعلان کیا گیا تھا کہ دارالاسلام (پٹھان کوٹ، پنجاب) میں ۱۶، ۱۷، ۱۸ جمادی الاولیٰ ۱۳۶۴ھ مطابق ۱۹، ۲۰، ۲۱ اپریل ۱۹۴۵ء کو بروز جمعرات، جمعہ، ہفتہ کل ہندوستان کے ارکان جماعت اسلامی کا اجتماع منعقد ہو گا۔ جس میں تمام ارکان جماعت کو شریک ہونا چاہیے الا یہ کہ کسی کو کوئی عذرِ شرعی مانع ہو۔ نیز یہ کہ اگر ہمدردانِ جماعت میں سے بھی کوئی حضرات ہمارے کام کا قریبی مطالعہ کرنا چاہیں تو تشریف لا سکتے ہیں۔ چنانچہ ۱۸ اپریل ۱۹۴۵ء کی رات تک بیشتر ارکان اور ہمدرد تشریف لے آئے اور باقی ۱۹ اپریل کی صبح کی گاڑی اور بسوں سے پہنچ گئے۔ شرکائے اجتماع کی جملہ تعداد آٹھ سو سے زیادہ تھی۔ ٹھہرنے کا انتظام مقامی مسجد، دفاتر، دوسری عمارات اور کچھ کیمپوں اور سائبانوں میں تھا۔ مجمع کی کثرت کے پیش نظر لاؤڈ سپیکر اور عارضی طور پر بجلی کی روشنی کا بھی انتظام کر لیا گیا تھا۔
(۱) اس وقت ہندوستان تقسیم نہیں ہوا تھا۔
اجلاس اول
(۱۶، ۱۷ جمادی الاولیٰ ۱۳۶۴ھ مطابق ۱۹، ۲۰ اپریل ۱۹۴۵ء بروز جمعرات بعد نماز ظہر)
حسب پروگرام امیر جماعت کی طرف سے قیم جماعت نے حاضرین سے درخواست کی کہ وہ مسجد دارالاسلام میں جمع ہو جائیں تاکہ پروگرام کے مطابق اجتماع کی کارروائی شروع ہو۔ چند ہی منٹ بعد سب لوگ مجمع کے وسط میں منبر پر بیٹھے ہوئے امیر جماعت کے لبوں پر نظر جمائے ہمہ تن گوش بنے بیٹھے تھے، اور اس ایک ہزار کے مجمع میں چاروں طرف بالکل سناٹا تھا۔
امیر جماعت اٹھے اور خطبہ مسنونہ کے بعد اپنی افتتاحی تقریر سے اجتماع کا آغاز فرمایا۔
امیر جماعت کی افتتاحی تقریر:
(تمہید کے بعد) دوستو اور رفیقو! آپ کو غالباً یاد ہو گا کہ جس اجتماع میں جماعت کی تشکیل کی گئی تھی اس میں یہ اعلان بھی کیا گیا تھا کہ جماعت کا اجتماع عام ہر سال کیا جاتا رہے گا۔ لیکن محض اس وجہ سے کہ جنگی حالات نے مجبور کر دیا تھا، گزشتہ پونے چار سال سے ہم کوئی اجتماع عام نہ کر سکے۔ اگرچہ اس دوران میں حلقہ دار اجتماعات کیے جاتے رہے اور ان کی رپورٹیں بھی شائع ہوتی رہیں جن سے ایک بڑی حد تک جماعت کو زندگی کی وہ حرکت اور عمل کے لیے وہ روشنی ملتی رہی جس کے لیے اجتماع عام کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود اجتماع عام بہر حال ضروری تھا اور حلقہ وار اجتماعات اس کی جگہ نہیں لے سکتے تھے، اسی وجہ سے مجھے آخر کار یہ فیصلہ کرنا پڑا کہ جنگی مشکلات خواہ کتنی ہی ہوں اور لوگوں کو دور دراز سے آنے میں خواہ کتنی ہی زحمتیں برداشت کرنی پڑیں، اب یہ اجتماع ضرور منعقد ہونا چاہیے۔
میں آپ حضرات کا بہت شکر گزار ہوں کہ آپ میری طرف سے دعوت کی ایک ہی صلائے پر ہندوستان کے مختلف گوشوں سے موجودہ زمانے کے پر صعوبت سفر کی تکلیفیں برداشت کرتے ہوئے یہاں جمع ہو گئے۔ اس طرح میری آواز پر لبیک کہہ کر آپ نے میری طاقت میں بھی اضافہ کیا اور اپنی طاقت میں بھی۔ ایسا نہ کرتے تو میں اپنی جگہ کمزور ہو جاتا اور آپ اپنی جگہ، اور نتیجہ یہ ہوتا کہ ہماری یہ تحریک جو ایک بہت بڑے عزم کا اظہار ہے، خود بخود ٹھٹھر کر رہ جاتی۔ آپ جب کسی شخص کو کسی مقصد عظیم کے لیے خود اپنا امیر بناتے ہیں تو اس کی اطاعت کر کے دراصل اپنی ہی طاقت کو مضبوط کرتے ہیں۔ جس قدر زیادہ آپ کے اندر انانیت و خود پسندی ہوگی اور جتنی کم اطاعت کا اظہار آپ سے ہو گا اتنا ہی آپ کا اپنا بنایا ہوا امیر کمزور ہوگا اور اسی قدر اس کی کمزوری کی وجہ سے آپ کی جماعتی طاقت ضعیف ہوگی۔ اور اس کے برعکس جس قدر زیادہ آپ کے قلب و دماغ پر اپنے مقصد کا عشق حاوی ہو گا، اور اس عشق میں جتنا زیادہ آپ اپنی خودی کو فنا کریں گے اور جتنی زیادہ اپنے مقصد کی خاطر اطاعت امر کا صدور آپ سے ہوگا، اسی قدر زیادہ آپ کا مرکز قوی ہو گا اور آپ کی جماعتی طاقت زبردست ہوگی۔
میں یہ دیکھ کر اکثر اپنی جگہ خوش ہوتا ہوں کہ ہماری اس جماعت میں شخصیت پرستی اور ذہنی غلامی موجود نہیں ہے، بلکہ ہر شخص کے اندر اچھی خاصی نقادانہ نظر موجود ہے، اور سب سے بڑھ کر آپ کی تنقید کی نگاہیں خود میرے اوپر پڑتی ہیں۔ لیکن یہ خیال رکھیے کہ جتنی کڑی تنقیدی نگاہ آپ مجھ پر ڈالتے ہیں اور آپ کا فرض ہے کہ ایسا کریں، اتنی ہی کڑی تنقیدی نگاہ میں بھی آپ پر ڈالتا ہوں اور میرا بھی یہ فرض ہے کہ ایسا کروں۔ آپ سے امر کی اطاعت اور ضابطے کی پابندی اور رضا کارانہ خدمت کی ادائیگی میں جتنی کمزوری ظاہر ہوتی ہے اتنا ہی میں اپنے آپ کو بے بس پاتا ہوں اور مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میں ایسی بندوقوں سے کام لے رہا ہوں جو چڑیا نے پر بھی فائر نہیں کرتیں۔ اور ظاہر ہے کہ ایسے ہتھیاروں کو لے کر کون ایسا نادان ہو گا جو کسی بڑے اقدام کا ارادہ کر بیٹھے۔ برعکس اس کے جب میں آپ کے اندر اطاعت اور تطوع اور باضابطگی کے اوصاف پاتا ہوں اور یہ دیکھتا ہوں کہ ایک آواز پر آپ جمع کیے جا سکتے ہیں، ایک اشارے پر آپ حرکت کر سکتے ہیں، اور خود اپنے دل کی لگن سے آپ اس کام کو کرتے رہتے ہیں جو آپ کے سپرد کیا جائے تو میرا دل قوی اور میری ہمت بلند ہونے لگتی ہے اور میں ایسا محسوس کرتا ہوں کہ اب مجھے وہ طاقت حاصل ہو رہی ہے جس سے میں اس مقصد عظیم کے لیے کچھ زیادہ کام کر سکوں۔
اب میں اس افتتاحی خطاب میں وہ چند باتیں مختصر طور پر آپ سے کہہ دینا چاہتا ہوں جنہیں آغاز میں بیان کرنے کی ضرورت ہے:
- آپ کے اجتماعات میں خواہ کتنا ہی بڑا مجمع ہو مگر خیال رکھیے کہ بھیڑ اور ٹریفک اور شور و ہنگامہ کی کیفیت کبھی رونما نہ ہونی چاہیے۔ اگر چہ اس طرح کی کوئی چیز ابھی تک میں نے محسوس نہیں کی ہے، مگر پھر بھی آپ کو اس طرف توجہ دلانے کی ضرورت ہے۔ جو کام ہم نے اپنے ہاتھ میں لیا ہے یعنی اخلاقی اصولوں پر دنیا کی اصلاح کرنا اور دنیا کے نظم کو درست کرنا، اس کا تقاضا ہے کہ اخلاقی حیثیت سے ہم اپنے آپ کو دنیا کا صالح ترین گروہ ثابت کر دکھائیں۔ جس طرح ہمیں دنیا کے موجودہ بگاڑ پر تنقید کرنے کا حق ہے اسی طرح دنیا کو بھی یہ دیکھنے کا حق ہے کہ ہم انفرادی طور پر اور اجتماعی طور پر کیسے رہتے ہیں، کیا برتاؤ کرتے ہیں، کس طرح جمع ہوتے ہیں، اور کس طرح اپنے اجتماعات کا انتظام کرتے ہیں؟ اگر دنیا نے دیکھا کہ ہمارے اجتماعات میں بد نظمی ہے، ہمارے مجمعوں میں انتشار اور شور و غل ہوتا ہے، ہمارے رہنے اور بیٹھنے کی جگہیں بد سلیقگی کا منظر پیش کرتی ہیں، جہاں ہم کھانے بیٹھتے ہیں وہاں آس پاس کا سارا ماحول غلیظ اور گندہ ہو جاتا ہے، اور جہاں ہم مشورے کے لیے جمع ہوتے ہیں وہاں ٹھٹھے، مذاق، قہقہے اور جھگڑے برپا ہوتے ہیں اور بے قاعدہ حرکات کی نمائش ہوتی ہے تو دنیا ہم سے اور ہمارے ہاتھوں ہونے والی "اصلاح" سے خدا کی پناہ مانگے گی اور یہ محسوس کرے گی کہ اگر کہیں زمین کا انتظام ان لوگوں کے ہاتھ میں آگیا تو یہ ساری زمین کو گندا ہی کر کے چھوڑیں گے جیسے یہ خود ہیں۔ اس لیے میں چاہتا ہوں کہ آپ اپنے اجتماعات کے دوران میں نظم، باقاعدگی، سنجیدگی و وقار، صفائی و طہارت اور حسن اخلاق اور خوش سلیقگی کا ایسا مکمل مظاہرہ کریں جو دنیا میں نمونہ بن سکے۔ آپ کے ہاں خواہ ہزاروں آدمی جمع ہوں لیکن کوئی شور و غل برپا نہ ہونے پائے، کسی طرف غلاظت اور گندگی نہ پھیلے، کسی قسم کے نزاعات اور جھگڑے نہ برپا ہوں، کہیں بھیڑ اور ٹریفک کی کیفیت نظر نہ آئے۔ ایک منظم گروہ کی طرح اُٹھیے اور بیٹھیے اور کھائیے اور جمع ہو جائیے اور منتشر ہو جائیے۔ آپ میں سے جن لوگوں نے حدیث کا مطالعہ کیا ہے، انہوں نے دیکھا ہو گا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لحاظ سے اپنی جماعت کو کتنا سنجیدہ، باوقار، مہذب اور منضبط بنایا تھا اور اسلامی جماعت کے عرب پر چھا جانے میں اس کیفیت کا کتنا بڑا دخل تھا۔ ایک طرف مشرکین عرب کا یہ حال تھا کہ ان کا ایک چھوٹا سا دستہ بھی اگر کسی علاقے سے گزر جاتا تھا تو شورِ محشر برپا ہو جاتا، دوسری طرف صحابہ کرام کا یہ حال تھا کہ ان کے بڑے سے بڑے لشکر بھی منزلوں پر منزلیں طے کرتے چلے جاتے تھے اور کوئی ہنگامہ برپا نہ ہوتا تھا۔ ایک مرتبہ جہاد میں صحابہ کرام نے صورتِ حال سے متاثر ہو کر اللہ اکبر کے نعرے بلند کیے۔ تو حضورؐ نے فرمایا کہ جس کو تم پکار رہے ہو وہ بہرہ نہیں ہے۔ یہی باوقار رویہ تھا جس کی تربیت دینے کا نتیجہ یہ ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب فتح مکہ کے موقع پر دس ہزار کا لشکر لے کر چلے تو اہلِ مکہ کو اس وقت تک کانوں کان آپ کے آنے کی خبر نہ ہو سکی جب تک کہ آپ نے خود ہی ان کے عین سر پر پہنچ کر آگ روشن کرنے کا حکم نہ دیا۔ اسی روش کی تقلید ہمیں بھی کرنی چاہیے اور ہمارے اجتماعات میں بھی زیادہ سے زیادہ اسی شان کی جھلک نظر آنی چاہیے۔
- دوسری بات جو میں آپ کے اجتماعات کی خصوصیت دیکھنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ جہاں آپ جمع ہوں وہاں دیانت و امانت بالکل ایک محسوس و مشہود شکل میں نظر آنی چاہیے۔ میں چاہتا ہوں کہ یہاں کسی شخص کو اپنے سامان کی حفاظت کے لیے کسی اہتمام کی ضرورت پیش نہ آئے۔ جس کا مال اور سامان جہاں رکھا ہو وہاں بغیر کسی نگران اور محافظ اور قفل اور کنجی کے محفوظ پڑا رہے، کسی کی چیز جہاں گری ہو وہیں وہ اس کو آکر پالے، اور اگر کہیں کوئی دکان یا سٹال ہو تو فروخت کنندہ کے بغیر اس کا مال ٹھیک ٹھیک فروخت ہو، جو شخص کوئی چیز لے وہ ٹھیک حساب سے اس کی قیمت وہیں رکھ دے خواہ بیچنے والا وہاں موجود ہو یا نہ ہو۔
- تیسری بات آپ کی جماعت کے منصبِ امارت سے متعلق ہے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ جب جماعت بنی تھی اور آپ نے مجھے امیر منتخب کیا تھا تو میں نے آپ سے مطالبہ کے بغیر خود یہ وعدہ کیا تھا کہ ہر اجتماع میں یہ اعلان کرتا رہوں گا کہ اگر اب آپ کو کوئی مجھ سے اہل تر آدمی مل گیا ہو تو میں جگہ خالی کرنے کے لیے تیار ہوں، آپ اس کو امیر منتخب کر لیں، چونکہ اس کے بعد کوئی اجتماع عام منعقد نہ ہوا اس لیے میں اپنے اس وعدہ کو بھی پورا نہ کر سکا۔ آج یہ پہلا اجتماع ہے اور میں اپنے وعدہ کے مطابق یہ اعلان کرتا ہوں۔ میں یہ تو ضرور چاہتا ہوں کہ دوسرا شخص اس منصب کو سنبھالے اور میں اس کی اطاعت کر کے بتاؤں کہ امیر کی اطاعت کس طرح کرنی چاہیے، مگر میرے اس اعلان کے معنی یہ نہ لیے جائیں کہ میں خود پیچھے ہٹ رہا ہوں اور اس کام کو انجام دینے سے جی چرانا چاہتا ہوں۔ میرا مدعا صرف یہ ہے کہ نہ میں اس منصب کا خواہش مند ہوں، نہ کسی اہل آدمی کے آنے میں مانع ہوں اور نہ اپنی ذات کو اس تحریک کی ترقی اور اس جماعت کی بہتری کی راہ میں روڑا بنانا چاہتا ہوں۔ میں نے پہلے بھی کہا تھا اور آج بھی کہتا ہوں کہ اگر کوئی اس کام کو انجام دینے کے لیے آگے نہ بڑھے گا، تو میں بڑھوں گا اور اپنی نااہلی جاننے کے باوجود میں اس کے لیے تیار نہیں ہوں کہ نہ میں کام کروں اور نہ کوئی اور۔ لہٰذا جب تک مجھے خود کوئی اہل تر آدمی نہیں ملتا اور جب تک آپ بھی کسی موزوں تر آدمی کو نہیں پاتے اس وقت تک میں اس کام کو کرتا رہوں گا۔ اور خواہ مجھے کیسی ہی زحمتیں اور تکلیفیں اٹھانی پڑیں، بہر حال اس جھنڈے کو میں خود اپنے ہاتھ سے نہ چھوڑوں گا۔
اس کے ساتھ میں یہ اعلان بھی کر دینا چاہتا ہوں کہ پچھلے تین سال کے دوران میں اگر کسی کو مجھ سے کوئی شکایت پیدا ہوئی ہو، کسی کا حق ادا کرنے میں یا کسی کے ساتھ انصاف کرنے میں مجھ سے کوئی کوتاہی ہوئی ہو، یا کسی نے میرے کام میں کوئی غلطی پائی ہو تو بے تکلف اس کا اظہار کرے۔ خواہ شخصی طور پر میرے سامنے، خواہ پوری جماعت کے سامنے۔ میں نہ کسی شکایت کے پیش ہونے میں کوئی رکاوٹ ڈالوں گا، نہ اپنی کسی غلطی یا قصور کے اعتراف میں مجھے کوئی باک ہوگا، اور نہ اپنی اصلاح میں یا کسی جائز شکایت کی تلافی میں ذرہ برابر تامل کروں گا۔ البتہ اگر کوئی شکایت کسی غلط فہمی پر مبنی ہوگی تو اسے صاف کر دوں گا، تاکہ اس کام میں میرے اور رفقائے جماعت کے درمیان تکدر باقی نہ رہے۔
اس افتتاحی تقریر کے بعد امیر جماعت نے قیم جماعت (طفیل محمد) کو اپنی رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا، اور انہوں نے تشکیل جماعت سے لے کر اس اجتماع تک کی رودادِ جماعت پیش کی جو درج ذیل ہے۔
روداد جماعت اسلامی
از تشکیل جماعت تا ۱۶ اپریل ۱۹۴۵ء
(میاں طفیل محمد - قیم جماعت اسلامی)
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ
الحمدلله رب العلمين والصلوة والسلام على رسوله الكريم
امیر جماعت، رفقائے محترم اور معزز حاضرین! آپ کو معلوم ہے کہ ہمارا نصب العین اور واحد مقصدِ زندگی اس دنیا میں "حکومتِ الٰہیہ" کے قیام کی سعی اور آخرت میں رضائے الٰہی کا حصول ہے۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ انسان اپنی انفرادی یا اجتماعی، سیاسی یا تمدنی، معاشی یا کسی دوسری حیثیت میں بھی سوائے اپنے رب اور اللہ واحد کے اور کسی کا بندہ بن کر نہ رہے بلکہ اپنی پوری کی پوری زندگی اور اس کے سارے معاملات اطاعتِ الٰہی میں دے دے اور ساتھ ہی ساتھ دوسرے انسانوں کو بھی یہی راہِ عمل اختیار کرنے کے لیے آمادہ کرے، کیونکہ بندگی کا تقاضا یہی ہے اور دنیا میں امن و سلامتی اور آخرت میں فوز و کامیابی کی یہی ایک واحد راہ ہے۔
دوسرے لفظوں میں یوں سمجھیے کہ ہم وہی مقصد اور دعوت لے کر اٹھے ہیں جو آدم سے خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم تک تمام انبیائے کرام لے کر دنیا میں تشریف لاتے رہے ہیں۔ اس راہ کو ہم نے کسی جدت پسندی یا محض ایک نئی تحریک چلانے کے لیے اختیار نہیں کیا بلکہ اس لیے کیا ہے کہ اللہ کی الوہیت (لَا اِلٰهَ اِلَّا الله) اور محمد کی رسالت (محمد رسول اللہ) کے اقرار کے معنی ہی اس راہ کو عملاً اختیار کر کے چل پڑنے کے ہیں۔ کلمہ طیبہ کا اقرار اور اقامتِ دین کی جد و جہد سے انحراف ایک دوسرے کے عین ضد ہیں۔
اس دعوت کو عملاً لے کر اٹھنے، اسے اپنے دوسرے بھائیوں تک پہنچانے اور اس سے متاثر حضرات کو سمیٹنے اور جذب کرنے کا صحیح اور بہترین طریقہ یقیناً وہی ہو سکتا ہے جو ابتدا سے آخر تک اس دعوت کے اصلی علمبردار یعنی انبیائے کرام اللہ تعالیٰ کی رہنمائی میں اختیار کرتے رہے۔ قرآن کریم ہمیں بتاتا ہے کہ وہ طریقہ ایک ہی ہے اور وہی ایک طریقہ بلا استثناء ہر زمانے میں اختیار کیا جاتا رہا ہے۔ چنانچہ اسی طریقہ کار کو ہم نے اختیار کیا ہے اور ہمارا ایمان ہے کہ اس ایک دعوت اور طریق کار کے علاوہ دوسری تمام دعوتیں اور طریقہ ہائے کار سراسر باطل ہیں۔ ہم اپنے عمل کے لحاظ سے تو کسی بلندی و بزرگی کے مقام پر فائز ہونے کا دعویٰ نہیں رکھتے، مگر اس کے باوجود یہ حقیقت اپنی جگہ قائم ہے کہ ہم اپنی اس دعوت، اس کے مقتضیات و مطالبات اور اس کے طریق کار کے لیے انبیائے علیہم السلام ہی کی پیروی و قائم مقامی کرنے کا داعیہ رکھتے ہیں اور ہمارا مسلک یہی ہے کہ ان تمام امور میں اپنے عقل و فہم کی حد تک ہر معاملے اور ہر مرحلے پر کتاب و سنت ہی کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ ان چیزوں میں سے کسی پر پورا نہ اترنا ہماری بشری کمزوری، کم علمی اور نادانی کا نتیجہ تو ہو سکتا ہے، لیکن دیدہ دلیری، ڈھٹائی، تعصب اور خدا اور رسول کے سوا کسی غیر کی عقیدت مندی کا نتیجہ نہیں ہو سکتا۔ اسی لیے جماعت کے اندر اور باہر سب انسانوں پر ہم اپنا یہ حق سمجھتے ہیں کہ اگر وہ ہم میں یا ہم میں سے کسی میں کوئی کجی یا قابلِ اعتراض بات پائیں یا محسوس کریں تو اسے فتنے کا ذریعہ بنانے کے بجائے خاموشی کے ساتھ بلا مبالغہ اور بلا طعن و تشنیع اپنے کمزور بھائی یا بھائیوں پر اس کو واضح کر دیں اور برادرانہ نرمی اور ہمدردی سے اسے دور کرنے کی کوشش کریں۔
"اَلمُسلِمُ مِرآةُ المُسلِمِ" (۱) کا یہی مطلب ہے۔
(۱) ایک مسلم دوسرے مسلم کا آئینہ ہے۔
ہماری اس دعوت اور طریق کار کا یہ فطری تقاضا ہے کہ اس میں دکھاوے یا نمائش یا مبالغے کی کوئی جھلک بھی نہ پائی جائے۔ کیونکہ یہ چیزیں عمل صالح کو اسی طرح ضائع کر دیتی ہیں، جس طرح دودھ کو کھٹائی ضائع کر دیتی ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں ریا اور نمائش کے جذبات سے محفوظ رکھے۔ اس کے علاوہ چونکہ اس زمانہ میں نمائش اور مبالغہ اور مظاہرہ تقریباً ہر تحریک کے اٹھانے اور چلانے کا لازمی ذریعہ بن گئے ہیں اور ماحول کے اس ہمہ گیر اثر سے ہمارے رفقاء کا متاثر ہونا بعید نہیں ہے اس لیے بھی ہم اس سلسلہ میں بہت زیادہ محتاط رہتے ہیں، اور اپنے اجتماعات تک کی کارروائیوں کو بلا اشد ضرورت کے شائع نہیں کرتے اور وہ بھی صرف اپنے ارکان اور ہمدردوں ہی کے درمیان محدود رکھتے ہیں۔
لیکن یہ بھی ایک امرِ واقع ہے کہ اگر ارکان اور ہمدردانِ جماعت تحریک کی رفتار سے وقتاً فوقتاً مطلع نہ ہوتے رہیں تو ایک عام جمود، بددلی اور مایوسی طاری ہو جانے کا قوی احتمال پیدا ہو جاتا ہے۔ خصوصاً اس مرحلہ پر جب کہ جماعت اور ارکان سب کے سب ابتدائی حالت میں ہیں، نظامِ باطل اپنے پورے قہر و غلبہ کے ساتھ پوری دنیا پر مسلط ہے اور ہمارے اربابِ علم و فضل کا وہ مختصر اور منتشر گروہ بھی، جسے اس عالمگیر تاریکی کے زمانہ میں امتِ وسط اور شہدائے اللہ کے فرائض سر انجام دینے چاہیئے تھے، دعوتِ حق میں شریک ہونے کے بجائے اہلِ باطل اور فساق و فجار کی قیادت و رہنمائی میں نہ صرف اپنے جان و مال اور دل و دماغ کی قوتیں ہی ضائع کر رہا ہے بلکہ عامۃ المسلمین کی گمراہی و ضلالت اور فسق و فجور کا بار بھی اپنے سر پر لے رہا ہے۔ اگر ارکانِ جماعت اور ہمدردوں کو وقتاً فوقتاً تحریک کی رفتار سے باخبر نہ کیا جاتا رہے تو وہ ایسا محسوس کرنے لگتے ہیں کہ شاید جماعت میں کچھ ہو ہی نہیں رہا ہے اور اس سے ایک عام سرد مہری اور مردنی چھا جاتی ہے۔ اس لیے اجتماعات کے مواقع پر ارکان اور ہمدردانِ جماعت کو کام کی رفتار سے آگاہ کرنا ضروری ہے۔ اس سے صرف یہی فائدہ نہیں کہ مرکز سے دور رہنے والے رفقاء جماعت کی کارروائیوں سے مطلع ہو جاتے ہیں، بلکہ یہ فائدہ بھی ہوتا ہے کہ رفقاء اور ہمدردوں کو ہمارے کام پر تنقید کرنے کا موقع ملتا ہے اور ہمیں ان کے نیک اور مفید مشوروں سے مستفید ہونے کا۔ چنانچہ اسی مقصد کے لیے اب میں تشکیلِ جماعت سے اب تک کی جماعت کے کام کی مختصر رپورٹ پیش کرتا ہوں کیونکہ تشکیلِ جماعت کے بعد پوری جماعت کا یہ پہلا ہی اجتماعِ عام منعقد ہو رہا ہے۔
تشکیل جماعت
جماعت اسلامی کی تشکیل ۲۶ شعبان ۱۳۶۰ھ مطابق ۲۶ اگست ۱۹۴۱ء کو ہوئی۔ اس کے متعلق مفصل معلومات "روداد جماعت اسلامی" حصہ اول میں موجود ہیں۔ تشکیل جماعت کے وقت اس میں شریک ہونے والے حضرات کی کل تعداد صرف ۷۵ تھی۔ دو تین سال کے اندر ہی یہ تعداد بڑھتے بڑھتے ساڑھے سات سو تک پہنچ گئی لیکن شعبہ تنظیم کے باقاعدہ قائم نہ ہو سکنے کی وجہ سے ارکان اور مرکز کے درمیان کسی خاطر خواہ رابطہ کا انتظام نہ ہو سکا اور نہ امیر جماعت یا دوسرے ذمہ دار کارکنوں ہی کو ارکان کی جانچ پڑتال اور نگرانی کے کوئی تسلی بخش ذرائع میسر آسکے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بہت سے ایسے لوگ جماعت میں شریک ہو گئے جن کو اب ہم غالباً اپنے قریبی ہمدردوں میں بھی شریک نہ کر سکیں۔
شعبہ تنظیم قائم نہ ہو سکنے کی وجہ ایک تو کارکنوں کی قلت تھی اور دوسرے جماعت کی مالی حالت کی کمزوری۔ تقریباً انہی دو وجوہ سے یہ سلسلہ اسی طرح پونے تین سال تک چلتا رہا۔ آخر کار گزشتہ سال جب ۲۶-۲۷ مارچ ۱۹۴۴ء کو صوبہ پنجاب، سندھ، سرحد، کشمیر اور بلوچستان کے ارکان جماعت کا اجتماع یہاں دارالاسلام میں منعقد ہوا تو شعبہ تنظیم کے باقاعدہ قیام کی ضرورت کو مختلف جماعتوں اور ارکان کی طرف سے بڑے زور سے پیش کیا گیا اور امیر جماعت نے بھی فرمایا کہ وہ اس ضرورت کو ابتدا ہی سے محسوس کر رہے ہیں۔ چنانچہ یہ تجویز منظور ہو کر شعبہ تنظیم کے باقاعدہ قیام کا فیصلہ ہو گیا، اور ۱ اپریل ۱۹۴۴ء کو یہ شعبہ عملاً قائم کر دیا گیا۔
مقامی جماعتوں اور ارکان کی تعداد
شعبہ تنظیم کے قیام کے وقت سارے ملک میں مقامی جماعتوں کی تعداد ۳۶ تھی جن میں سے کچھ جماعتیں جماعتی نقطہ نظر سے صفر ہو چکی تھیں اور انہیں بعد میں ختم ہی کر دینا پڑا۔ ملک کے مختلف حصوں میں ارکان کی تعداد اندازاً سات سو پچاس تھی، مگر ان کے باقاعدہ اندراج کا کوئی انتظام نہ تھا۔ نیز ان جماعتوں اور منفرد ارکان میں کافی تعداد ایسے لوگوں کی بھی بھرتی ہو گئی تھی جنہوں نے محض جماعت کے لٹریچر کی پسندیدگی یا محض نصب العین سے نظری اتفاق ہی کو رکنیت کے لیے کافی سمجھ رکھا تھا، یا پھر جنہوں نے اس سے کچھ نہ ایک بھی سمجھا تھا تو وہ مرکز کے ساتھ ربط کا کوئی مستقل ذریعہ نہ ہونے کی وجہ سے سرد پڑتے پڑتے بالکل ابتدائی سطح پر پہنچ گئے تھے۔ شعبہ تنظیم کے قائم ہونے پر مقامی جماعتوں اور ارکان کی جانچ پڑتال شروع ہوئی۔ چنانچہ ایک سال کی مسلسل کاٹ چھانٹ کے بعد اب ارکان کی مجموعی تعداد ساڑھے چار سو سے بھی کم رہ گئی ہے، اور ابھی اس چھانٹ کا سلسلہ جاری ہے۔ بعض جماعتوں کو بھی ان کی سرد مہری اور کم سے کم جماعتی اوصاف اور معیارِ کارکردگی سے نیچے گر جانے کی وجہ سے توڑ دینا پڑا۔ الحمدللہ کہ اس کے باوجود مقامی جماعتوں کی تعداد ۳۶ سے بڑھ کر ۵۳ ہو گئی ہے۔
یہ سب ہم نے اس لیے کیا کہ ہمارے پیش نظر کوئی بھیڑ جمع کر کے دوسروں کو مرعوب کرنا یا کسی کونسل یا کارپوریشن میں اپنی نشستوں میں اضافہ کروانا نہیں ہے بلکہ کچھ ایسے مردانِ کار کا تیار کرنا ہے جو اہلِ دنیا کو مسلمانوں کی طرح جینا اور مرنا سکھا سکیں اور ان بزرگوں اور عوام کو جو یہ کہتے ہیں کہ اس زمانے میں اسلامی نظامِ زندگی ممکن العمل نہیں ہے، بتا دیں کہ نظامِ اسلامی پہلے کی طرح اب بھی ممکن العمل ہے، صرف عزم اور ایمان کی ضرورت ہے۔ یقین رکھیے کہ جس قسم کے کارکن ہم تیار کرنا چاہتے ہیں اور جس قسم کی تربیت ان کے لیے ضروری ہے اس کے لیے یہ تعداد بھی بہت زیادہ ہے اور اپنے موجودہ ذرائع اور سٹاف کے ساتھ ہم اس تعدادِ ارکان کے ساتھ بھی وہ ربط اور قریبی تعلق پیدا نہیں کر سکتے جو اس بارے میں ہونا چاہیے۔ ہمیں تو اپنے حلال خور سے لے کر امیر جماعت تک سب کے سب ایک ہی رنگ میں رنگے ہوئے اور ایک ہی جنون رکھنے والے کارکن درکار ہیں۔ اس لیے ہمیں بہت احتیاط سے ارکان کو لینا اور جماعت میں رکھنا ہے۔
یہ ضرور ہے کہ جو لوگ ہم سے ایک مرتبہ وابستہ ہو جائیں ہم آخری حد تک، اور پوری ہمدردی اور برادرانہ شفقت کے ساتھ ان کو اپنے ساتھ لگائے رکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور ان کی کمزوریوں اور خامیوں کو بھی تاحدِ امکان حکیمانہ طور پر دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن جب یہ معلوم ہو جائے کہ اب اصلاح کی توقع نہیں رہی یا وہ کم سے کم معیارِ رکنیتِ جماعت سے بھی نیچے گر گئے ہیں تو ہم انہیں اسی حسرت و تکلیف کے ساتھ الگ کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں، جس طرح کسی عضوِ جسمانی کے سڑ جانے پر باقی جسم کی حفاظت و بقا کے لیے ہر ہوش مند انسان اسے کٹوا دینے پر راضی ہو جاتا ہے۔ ان حالات میں بھی ہمارا قاعدہ یہ ہے کہ ہم ایسے اصحاب کو از خود علیحدگی اختیار کرنے کا مشورہ دیتے ہیں، اور اب تک تقریباً سارے کے سارے لوگ اسی طریقہ سے الگ ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان میں سے شاید ہی کوئی ایسا ہو جسے اپنی خامی یا کمزوری کا احساس نہ ہو اور رکنیت سے علیحدگی اختیار کرنے کے باوجود اب ہمارے قریبی حلقہ ہمدردان میں شامل نہ ہو۔
مقامی جماعتوں اور ارکان کی عام حالت
جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے ارکان کی موجودہ تعداد سوا چار سو اور ساڑھے چار سو کے درمیان ہے اور جماعتوں کی کل تعداد ترپن ہے۔ ان میں سے نصف سے زائد ارکان اور جماعتیں اس درجہ پختہ ہیں کہ کسی نہ کسی حد تک وہ خود اپنے پاؤں پر کھڑے ہو سکتے ہیں اور اگر مہینوں انہیں چھوڑ دیا جائے تو وہ خود بخود اپنی ذمہ داری پر کام کرتے رہتے ہیں لیکن پھر بھی وہ معیارِ مطلوب سے ابھی بہت دور ہیں اور توقع نہیں کہ ان میں سے کوئی بھی پاور ہاؤس تو کیا ایک سب اسٹیشن کا کام بھی دے سکے۔ ہر رکن اور جماعت کو زیادہ سے زیادہ اس طرف توجہ کرنی چاہیے کہ وہ اپنی جگہ پر خود کفیل (Self Sufficient) ہو کر کام کر سکے۔
جماعت میں شرکت کا معیار و طریقہ
تحریک کے اس مرحلہ پر ہمارے پیش نظر ایسے لوگوں کی زیادہ سے زیادہ تعداد کو اپنے ارکان اور ہمدردوں میں جذب کر لینا ہے جو صحیح معنوں میں سوسائٹی کا مکھن (Cream of Society) کہلا سکتے ہوں، مادی یا دنیاوی وجاہت کے لحاظ سے نہیں بلکہ دینی اور اخلاقی نقطہ نظر سے۔ اس وقت ہمیں خاص طور پر ایسے لوگوں کی تلاش ہے جو خدیجۃ الکبریٰ اور صدیق اکبر کی طرح اس دعوتِ حق کو سنیں اور سر تا پا اس میں شریک ہو جائیں گویا وہ اب تک اسی کی تلاش میں تھے۔
چنانچہ اب کسی کو جماعت میں شریک کرنے سے پہلے حسب ذیل امور کے متعلق خاص طور پر تسلی کر لینے کی کوشش کی جاتی ہے:
- یہ کہ انہوں نے ہماری دعوت اور اس کے طریق کار کو اور دوسری دعوتوں کو جو ہندوستان (۱) میں چل رہی ہیں اور ان کے طریق کار کو اچھی طرح سمجھ لیا ہے اور وہ ان دونوں کے فرق کو سمجھ کر ہماری طرف کھینچ رہے ہیں۔
- یہ کہ انہوں نے ہماری دعوت سے متاثر ہو کر اخلاقی اور دینی حیثیت سے کوئی نمایاں ترقی کی ہے اور ان کی عملی زندگی میں اس کا نقش صاف طور پر محسوس ہوتا ہے۔
- یہ کہ اس معاملے میں ان کا یہ رویہ (Attitude) منفعلانہ (Passive) نہ ہو بلکہ فاعلانہ (Active) ہو اور وہ اس دعوت کا کام کرنے کے لیے عملاً بے چین نظر آتے ہوں۔
ان چیزوں کا اطمینان کر لینے کے بعد بھی عموماً کئی کئی ماہ ان کو امیدوار کی حیثیت سے رکھا جاتا ہے اور ان سے کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو رکنِ جماعت سمجھتے ہوئے کچھ مدت تک کام کریں۔ اس طرح ان کا کام دیکھنے کے بعد ان کو رکن بنانے کا فیصلہ کیا جاتا ہے، تاکہ اگر ان کا تاثر محض وقتی اور ہنگامی ہو تو وہ جماعت کے اندر رہ کر اس کے نظم کو خراب نہ کریں۔
(۱) اس وقت برعظیم ہند و پاکستان کی تقسیم واقع نہیں ہوئی تھی۔
یہی طریقہ ہمارے مقامی ارکان اور جماعتوں کو بھی اختیار کرنا چاہیے۔
ارکان اور ہمدردوں سے کام لینے کا طریقہ
اس وقت ہمارا تمام تر کام رضا کارانہ ہو رہا ہے، یعنی کسی سے کوئی کام محکمانہ نہیں کروایا جاتا، بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ ایک شخص اس دعوت سے اپنے دلی لگاؤ کی بنا پر اور تجدیدِ ایمان سے اپنے اوپر عائد شدہ ذمہ داریوں کے احساس سے مجبور ہوکر کیا اور کس قدر کام کرتا ہے۔ البتہ بالواسطہ (Indirect) طریق سے مقتضیاتِ ایمان کو اجاگر کرنے اور ادائے شہادت کی ذمہ داریوں کا شعور پیدا کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے۔ اس طریقے کے بہت سے فائدے ہیں۔ اولاً یہ کہ اس سے کارکنوں کے اندر غلامانہ ذہنیت کے بجائے داعیانہ جذبات پرورش پاتے ہیں جو ہر انقلابی تحریک کے علمبرداروں کے لیے اساسی اہمیت رکھتے ہیں۔ اگر کسی ایسی تحریک کے کارکنوں میں یہ جذبات پیدا نہ ہوں تو اس کا کامیاب ہونا تو در کنار زیادہ عرصہ زندہ رہنا بھی ممکن نہیں۔ ثانیاً یہ کہ اس سے ارکان اور ہمدردوں میں اخلاقی اور دینی تغییر کی رفتار ہر وقت معلوم ہوتی رہتی ہے، اور امیر جماعت کو جماعت کی صحیح قوت اور صلاحیت کا ہر آن ٹھیک اندازہ رہتا ہے۔ ثالثاً یہ کہ اس سے مختلف ارکان کی درجہ بندی اور ان کی دعوت سے وابستگی کے اندازہ کے لیے کسی لمبی چوڑی تحقیقات کی ضرورت نہیں رہتی بلکہ اس بارے میں سارے مد و جزر مسلسل سامنے آتے رہتے ہیں۔
اپنے ہمدردوں کی ہمدردی کا اندازہ بھی ہم ان کے زبانی دعووں سے نہیں بلکہ دعوت کے لیے ان کے کام اور جان و مال اور وقت کے ایثار سے ہی کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جس شخص کو اپنے "مسلمان" ہونے کا شعور ہو جائے اور وہ جان لے کہ انبیائے علیہم السلام کا جانشین ہونے کی حیثیت سے دعوتِ حق کو لوگوں تک پہنچانے کی کتنی بڑی ذمہ داری اس کے سر پر ہے اس کے لیے آرام سے بیٹھ رہنا ممکن ہی نہیں رہتا۔ اور جو اس کے بعد بھی بیٹھا رہتا ہے، وہ خود ہی اپنا بے شعور یا ناکارہ ہونا ثابت کر دیتا ہے۔
جماعت کا حلقہ اثر
ہماری آواز پنجاب کے تقریباً ہر گوشہ میں پہنچ گئی ہے۔ حیدرآباد (دکن) اور مدراس کے بیشتر علاقوں میں اور یو پی اور بہار کے متعدد علاقوں میں پہنچ چکی ہے۔ ان کے بعد بمبئی، سندھ اور صوبہ سرحد کا نمبر آتا ہے۔ صوبہ بنگال میں اب کلکتہ اور اس کے مضافات میں کچھ لٹریچر جانے لگا ہے۔ کلکتہ میں اب تاجرانِ کتب بھی ہمارا لٹریچر منگوا رہے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ عام پبلک میں اس کی مانگ پیدا ہو رہی ہے۔ اڈیشہ، وسط ہند، آسام اور بلوچستان میں اس وقت تک ہمارا کام تقریباً صفر کے برابر ہے۔ کہیں کہیں کوئی شخص اکا دکا کوئی کتاب یا رسالہ منگوا لیتا ہے ورنہ بحیثیت مجموعی یہ سب علاقے ہماری دعوت کے لحاظ سے اب تک بالکل بنجر ہیں۔
بنگال، سندھ اور جنوبی ہند میں سب سے بڑی رکاوٹ زبان کی ہے کہ ان صوبوں میں اُردو زبان جاری نہیں اور ان کی زبانوں میں ہم اب تک لٹریچر تیار نہیں کر سکے۔
جماعت کی طرف آنے والے لوگ
جدید تعلیم یافتہ طبقہ کے سنجیدہ اور سلیم الطبع لوگ بہت تیزی سے ہماری دعوت اور جماعت کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں اور ان میں سے بہت سے لوگ جو اب تک نکلے ہیں وہ بہت پختہ اور کار آمد ثابت ہو رہے ہیں۔ عربی درس گاہوں کے لوگ بھی اگر چہ اب ہماری طرف توجہ کرنے لگے ہیں لیکن ان میں سے ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو کسی نہ کسی کی عقیدت میں پھنسی ہوئی ہے اور ہر بات کو برحق تسلیم کر لینے کے باوجود کسی حضرت صاحب میں اٹک کر رہ جاتی ہے۔ یہ چیز بھی میں نے اس ایک سال کے تنظیمی کام میں محسوس کی ہے کہ جس قدر جلدی اور آسانی سے یہ دعوت ایک جدید تعلیم یافتہ آدمی کو جو طاغوتی نظام کے چکر میں پھنس کر بالکل چور ہو گیا ہو، اپیل کرتی اور اپنے اندر جذب کر لیتی ہے اس سے کئی گنا زیادہ دشواری عربی خواں حضرات کو اسے محض سمجھانے میں پیش آتی ہے۔ بلکہ ہمارے بعض دوستوں کو تو یہاں تک تجربہ ہوا ہے کہ دیہاتی کسانوں کے سامنے اس دعوت کو پیش کیا گیا اور وہ فوراً ہی اس کے انتہائی مقتضیات اور مطالبات کو پاگئے، لیکن اچھے اچھے ذی علم اصحاب قال اقول کے پھندے ہی میں پڑے رہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے عربی خواں بھائی ایک تو براہِ راست قرآن و حدیث سے دین اخذ کرنے کے بجائے بعض مخصوص رجال سے اپنا دین لینے کے خوگر بنا دیئے گئے ہیں، دوسرے یہ کہ تمام گروہی عصبیتوں اور شخصی عقیدتوں کو عین تقاضائے دینداری بنا کر اس طرح ان کے ذہن نشین کر دیا جاتا ہے کہ اس کے بعد وہ اپنے حلقے سے باہر کسی دینداری کے قائل ہی نہیں رہتے۔ اس کے برعکس جدید تعلیم یافتہ طبقہ اپنی ساری برائیوں اور مغرب زدگی کے باوجود یہ خوبی ضرور رکھتا ہے کہ بات کہنے والے منہ کے ساتھ ساتھ بات کے الفاظ و معانی پر بھی غور کرتا ہے اور پھر جب متوجہ ہوتا ہے تو اس یقین کے ساتھ کہ پہلے اس کے پاس جو کچھ تھا وہ غیر اسلام ہی تھا، اور اب اسے اپنی پہلی زندگی کی عمارت کو سر تا پا اکھاڑ کر نئی بنیادوں پر تعمیر کرنا ہے۔
ہماری دعوت کے متعلق غیر مسلم حضرات کا تاثر
غیر مسلم اقوام میں اگر چہ ابھی ہم کوئی باقاعدہ کام کرنے کا انتظام نہیں کر سکے لیکن تھوڑا بہت لٹریچر جو اپنے زور سے ان کے اندر گھس رہا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اگر ہم صحیح طریق پر کام کرتے رہے تو انشاء اللہ وہ تعصب جو غیر مسلموں اور مسلمانوں کے درمیان ایک مدت دراز تک دنیاوی اور مادی اغراض کے لیے کشمکش برپا رہنے سے پیدا ہو گیا ہے، ہماری راہ میں زیادہ حائل نہیں ہو سکے گا۔ اس امر میں تو اب کوئی شبہ نہیں رہا ہے کہ پوری دنیا اس وقت موجودہ نظامِ زندگی سے بُری طرح بیزار ہو چکی ہے اور اپنے مصائب اور مادہ پرستی سے پیدا شدہ پیچیدگیوں کے حل کی تلاش میں بے تابی سے ہاتھ پاؤں مار رہی ہے۔ اس وقت اگر ہم کچھ صالح لوگوں کا ایسا جتھا تیار کرنے میں کامیاب ہو جائیں جو صحیح معنوں میں حق پرست اور خدا ترس بھی ہو اور دوسری طرف دنیا کے نظام کو چلانے کی صلاحیت اور قابلیت بھی موجودہ کار پردازوں سے بڑھ کر رکھتا ہو تو دنیا کو ان کی رہنمائی اور قیادت قبول کیے بغیر چارہ نہ ہو گا۔
ہمارا یہ ذاتی تجربہ ہے کہ جب بھی یہ دعوتِ عام لوگوں کے سامنے (خواہ وہ پیدائشی مسلمان ہوں یا غیر متعصب اور آزاد خیال غیر مسلم) صاف اور واضح الفاظ میں پیش کی گئی تو سب نے بے اختیار اس کے حق ہونے کا اعتراف کیا اور جیسا کہ قرآن کریم نے حق و ہدایت کو "ذکر" یعنی یاد دہانی کے نام سے موسوم کیا ہے، ان سب مواقع پر ہماری یہ دعوت سب سلیم الفطرت لوگوں کے لیے فی الواقع ان کے اپنے دل کی آواز اور ایک جانی بوجھی لیکن بھولی ہوئی حقیقت معلوم ہوئی۔ بلکہ غیر مسلم حضرات میں سے بعض ایسے بھی ملے جنہوں نے یہاں تک کہا کہ "اے کاش ہندوستان میں یہی اسلام پیش کیا گیا ہوتا اور مسلمان اس پر چلے ہوتے تو آج ہندوستان کا کوئی دوسرا ہی نقشہ ہوتا"۔ اور پھر انہوں نے ہمیں یہ بھی یقین دلایا کہ اگر آپ اپنی دعوت میں واقعی ثابت قدم رہے اور آپ نے ثابت کر دیا کہ آپ صرف حق پرست ہیں اور آپ کی اس سے کوئی ذاتی یا قومی غرض نہیں ہے تو موجودہ مسلمانوں سے بڑھ کر غیر مسلم اس میں شریک ہوں گے۔ لیکن قومی اور نسلی تعصبات کی دیواریں گرنے میں وقت ضرور لگے گا۔
میں اپنے ان رفقاء سے جو غیر مسلم حلقوں میں بھی اثر و رسوخ رکھتے ہوں درخواست کروں گا کہ وہ اپنے پڑھے لکھے غیر مسلم بھائیوں میں "پردہ"، "ضبط ولادت"، "جبر و قدر"، "تنقیحات"، "معاشی مسئلہ"، اور "سلامتی کا راستہ" وغیرہ کے ذریعہ آہستہ آہستہ کام کا آغاز کریں۔
اسی سلسلے میں ہمارے علمی صلاحیتیں رکھنے والے احباب کو اس امر کی طرف بھی توجہ کرنی چاہیے کہ ہندوستان کی موجودہ تاریخ کو جو دراصل چند ترک اور افغان بادشاہوں اور ہندو راجاؤں کی باہم ملک گیری اور حصولِ دنیا کی کشمکش تھی مگر جسے اس طرح پیش کیا گیا ہے جیسے کہ وہ ہندوؤں اور مسلمانوں کی قومی یا ہندو مذہب اور اسلام کی مذہبی جنگوں اور مناقشات کی پُر درد داستان ہے، اور گویا کہ یہ ہندو راجہ ہندو مذہب کے تسلط کے لیے اور ترک اور افغان بادشاہ دینِ حق کی سربلندی اور اسلامی نظامِ زندگی کے نفاذ کے لیے باہم برسرِ پیکار رہے ہیں، از سرِ نو مرتب کیا جائے۔ اور ان نقصانات کو واضح کیا جائے جو صحیح اسلام کی نعمت سے بہرہ ور نہ ہونے کی بدولت ہندوستان کے باشندوں کو اٹھانے پڑے۔
موجودہ سیاسی جماعتوں پر ہماری دعوت کا اثر
ہماری دعوت کا اثر صرف مسلم و غیر مسلم افراد پر ہی نہیں پڑ رہا ہے بلکہ ملک کی پوری سیاسی فضا کسی نہ کسی حد تک اس سے متاثر ہو چکی ہے۔ ملک بھر کے پڑھے لکھے طبقے میں اب تھوڑے ہی ایسے لوگ ہوں گے جو "حکومت الہیہ"، "قیام دین کی جدوجہد"، "اسلامی نظام حیات"، "اسلام ایک مکمل اور مستقل نظام زندگی ہے"، وغیرہ الفاظ اور فقروں سے مانوس نہ ہوں۔ مسلمانوں میں تو یہ دعوت اس قدر مقبول ہو چکی ہے کہ فی الواقع اب ان میں کوئی ایسی تحریک یا جماعت فروغ نہیں پاسکتی جو کم از کم زبان سے قرآنی نظام زندگی کے قیام کو اپنا مقصد نہ بتائے۔ حالانکہ اب سے پانچ چھ برس پہلے تک یہ حالت تھی کہ اس نام کو زبان پر لاکر کوئی شخص سیاسی حلقوں میں مضحکہ بنے بغیر نہ رہ سکتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ بعض جماعتوں نے تو خواہ زبانی طور پر ہی سہی، صاف صاف اس مقصد اور نصب العین کو اختیار کرنے کا اعلان کر دیا ہے، اور دوسری اس امر پر مجبور ہو گئی ہیں کہ اس طرف اپنے میلان کا اعلان کریں اور مسلمانوں کو یقین دلانے کی کوشش کریں کہ آخر کار ان کے سامنے بھی یہی مقصود ہے۔
ہماری دعوت سے متاثر ہونے والوں میں اخلاقی تبدیلیاں
ہماری دعوت کا پہلا اثر جو اس سے متاثر ہونے والے لوگوں پر پڑتا ہے وہ یہ ہے کہ ان کی بے مقصد اور اندھے بھینسے کی سی زندگی کا خاتمہ ہو جاتا ہے اور بامقصد اور سنجیدہ زندگی شروع ہو جاتی ہے۔ انہیں محسوس ہونے لگتا ہے کہ اس سے قبل انہوں نے کس طرح اپنے اصل مقصدِ زندگی کو بھلا کر حیوانوں کی طرح محض چرنے چگنے پر اپنی ساری مصروفیتوں اور وسائل کو مرتکز کر رکھا تھا۔ انہیں یہ چیز بری طرح کاٹنے لگتی ہے کہ کس طرح انہوں نے اپنی ان تمام قوتوں، قابلیتوں اور ذرائع و وسائل کو جو دراصل دینِ حق کی خدمت و سربلندی کے لیے عطا کیے گئے تھے، خدمتِ نفس اور غلبہ طاغوت کے لیے وقف کر رکھا تھا۔ اس کے بعد ان کا معیارِ تقویٰ و خدا پرستی بھی سراسر بدل جاتا ہے اور جن لوگوں کی دینداری اور مذہبیت میں اس سے پہلے اونٹ تک نگل جانے سے کوئی فرق واقع نہ ہوتا تھا، اس کے بعد ان کے لیے کسی دوسرے کی گز بھر رسی بھی بلا اجازت یا ناحق طور پر لینا ممکن نہیں رہتا۔ اس کے علاوہ دین اور مذہب کا تصور چند مخصوص مراسم کی حد سے نکل کر پوری زندگی پر چھانے لگتا ہے اور ہر بڑے سے بڑے اور چھوٹے سے چھوٹے معاملے میں مادی نفع و نقصان سے قطع نظر صرف خدا اور رسول کی پسند اور ناپسند ہی ایک معیارِ رد و قبول رہ جاتا ہے۔ چنانچہ اب آخرت کی جواب دہی کا خیال ارکان کی زندگی کے ہر شعبہ میں غالب آ رہا ہے۔ مثال کی بات ہے کہ ہمارے ایک رفیق جو ملازم ہیں، ایم۔ اے کی تیاری کر رہے تھے۔ اس تیاری کے دوران میں انہوں نے محسوس کیا کہ ان کے ذہن میں اپنی طاغوتی ملازمت میں ترقی اور بڑے گریڈوں کے خیالات آنے شروع ہو گئے ہیں جو ناجائز اور ایمان کی عین ضد ہیں۔ چنانچہ اس اللہ کے بندے نے اسی بنا پر امتحان کا خیال ہی ترک کر دیا کہ مبادا اس کے بعد شیطان اس پر غلبہ حاصل کر کے کسی فریب میں مبتلا کر دے۔ یہ ایک واقعہ میں نے مثال کے طور پر عرض کیا ہے، ورنہ خدا کے فضل سے اب ہمارے ارکان میں صحیح اسلامی تقویٰ پیدا ہو رہا ہے اور وہ اللہ کی مقرر کردہ حدود کی پاسداری کا اہتمام کرنے لگے ہیں۔
نیز جہاں جہاں بھی ہمارا اثر پہنچا ہے اللہ کے فضل سے دین اور دنیا کا فرق مٹتا چلا گیا ہے اور لوگوں کی سمجھ میں یہ بات اچھی طرح آگئی ہے کہ اپنے تمام معاملات اور انتظامِ دنیا کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بنائے ہوئے طریقہ پر چلانے ہی کا نام دین ہے۔ اور قیامِ دین کی جدوجہد میں دانستہ کوتاہی کرنے کے بعد زہد و تقدس کے سارے مظاہر سراسر لاحاصل ہیں اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک قطعاً کوئی وزن نہیں رکھتے۔
ہماری راہ کی رکاوٹیں
ہاں ہمیں اس بات سے انکار نہیں کہ جس تیزی اور خوبی سے یہ کام ہونا چاہیے تھا اور اب تک جو کچھ ہونا چاہیے تھا اس کے لحاظ سے ابھی بہت کمی ہے اور کام کی عام رفتار بھی بہت سست ہے۔ لیکن اس کی ذمہ داری اگر ایک طرف کارکنوں کی اپنی کمزوری اور ناتجربہ کاری پر ہے تو دوسری طرف بہت سے ایسے وجوہ بھی ہیں جن پر ابھی تک اللہ تعالیٰ نے ہمیں اختیار نہیں بخشا۔ اپنی کوتاہیوں کے لیے ہم اللہ تعالیٰ سے معافی چاہتے ہیں اور ان کو دور کرنے کی توفیق اور ہمت طلب کرتے ہیں اور جو ہماری دسترس سے باہر ہیں ان پر اختیار کے لیے دعا اور کوشش کرتے ہیں۔
اس بارے میں ہماری سب سے بڑی مشکل اور رکاوٹ مردانِ کار اور صحیح قسم کے کارکنوں کی کمی ہے۔ دنیا کی سب تحریکیں اور ان کے بڑے سے بڑے کام کرائے پر کروائے جا سکتے ہیں مگر اس دعوت کا مزاج ہی کچھ اللہ تعالیٰ نے ایسا رکھا ہے کہ جہاں اس میں کرائے کے آدمی داخل ہوئے وہیں یہ مرجھا گئی۔ ہمارے ارکان اور بیشتر کارکن تقریباً ہر لحاظ سے ابھی ابتدائی حالت میں ہیں اگر چہ ان میں سے اکثر ایسے ہیں جو کافی تیزی سے اصلاح قبول کر رہے ہیں۔ لیکن پھر بھی جس عزم، ہمت، قابلیت، اخلاقی پختگی اور ایمانی قوت کی اس کام کو پروان چڑھانے کے لیے ضرورت ہے ان کے پیدا ہونے میں کافی دیر لگے گی۔ انسان بہرحال انسان ہیں، بدلتے بدلتے ہی بدلیں گے، ان کو اینٹ پتھر کی طرح ہتھوڑے مار مار کر فوراً مطلوبہ شکل نہیں دی جا سکتی۔ ایک چھوٹے سے چھوٹے پودے کے پروان چڑھنے اور برگ و بار لانے کے لیے بھی اللہ تعالیٰ نے ایک مدت رکھی ہے۔ اور پھر انسان تو قوانینِ طبعی کے سامنے مجبورِ محض ہونے کے بجائے نفسانی خواہشات اور دوسری بشری کمزوریاں اپنے اندر لیے ہوئے ہے۔
مجھے یہ اعتراف کرنے میں کوئی تامل نہیں ہے کہ جو کارِ عظیم میرے سپرد کیا گیا ہے اس کے لیے جس علم و حکمت، قابلیت، تجربہ اور معاملہ فہمی کی ضرورت ہے اس کا عشرِ عشیر بھی میں اپنے اندر نہیں پاتا ہوں۔
جماعت ابھی اس امر کا انتظام کرنے میں بھی کامیاب نہیں ہو سکی کہ اپنی تجویز کے مطابق مرکز میں تربیت گاہ قائم کرکے ارکان اور کارکنوں کی تربیت کا انتظام کرے۔ اس کی بڑی وجہ یہاں پر جگہ (Accommodation) کی قلت ہے۔
اور پھر چونکہ ہماری جماعت کے اٹھانوے فی صد ارکان غریب اور متوسط طبقہ کے لوگ ہیں۔ اس لیے اگر ان میں سے کسی کا پورا وقت جماعت کے کام کے لیے لیا جائے تو اس کی کم سے کم ضروریاتِ زندگی کا خرچ برداشت کرنا ضروری ہے جس کی جماعت کے بیت المال میں ابھی گنجائش نہیں۔
(۲) ہمارے راستہ کی دوسری بڑی رکاوٹ اس عالمگیر جنگ کی پیدا کردہ مشکلات ہیں جن کی حد یہ ہے کہ تشکیلِ جماعت کے بعد پونے چار سال میں یہ پہلا اجتماع ہے جس میں سارے ملک کے ارکان اور ہمدردان شامل ہو سکے۔ آپ جانتے ہیں کہ اس وقت تک ہماری دعوت و تبلیغ کی اشاعت کا سب سے بڑا بلکہ واحد ذریعہ جماعت کا لٹریچر ہے مگر اس جنگ کی وجہ سے جو کاغذ کا قحط پڑا تو اس کا بھی ایک عرصہ تک کوئی انتظام نہ ہو سکا اور تقریباً ایک سال بیشتر لٹریچر غیر مطبوع (Out of Print) رہا۔ اب بھی جو کاغذ ملتا ہے وہ لٹریچر کی مانگ کے لحاظ سے بہت ناکافی ہے اور جنگ کی ابتدا سے اب تک کوئی ایک دن بھی ایسا نہیں آیا کہ ہمارا پورا لٹریچر بیک وقت موجود ہو سکا ہو۔ لٹریچر کی مانگ کی یہ حالت ہے کہ ہر کتاب ایک بار اگر دس ہزار کی تعداد میں طبع کرائی جائے تو شاید چند ماہ کے لیے کفایت کر سکے۔ کئی کتابیں ایسی ہیں جو ایک مرتبہ بھی شائع نہیں ہوسکیں۔ حالانکہ ملک کے ہر کونے سے ان کے مطالبے آرہے ہیں۔
(۳) ہمارے راستہ کی تیسری رکاوٹ ذرائع کی کمی ہے۔ جماعت کی مالی آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ اس کا بک ڈپو ہے اور اس وقت تک جماعت کا تقریباً سارا کام اسی کی آمدنی سے چل رہا ہے۔ اس کا حال آپ ابھی سن چکے ہیں۔ امانت اور زکوٰۃ کی آمدنیاں ابھی کچھ زیادہ نہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ حسبِ دستور ہمارے ارکان تقریباً سب کے سب غریب اور متوسط طبقہ ہی سے نکل کر آئے ہیں اور ان کے لیے اس عالمگیر گرانی کے زمانے میں خصوصاً جب کہ حتی الامکان حرام و حلال ذرائع کا بھی خیال کرنا ہو، اپنی ضروریاتِ زندگی کا کفیل ہونا ہی مشکل ہو رہا ہے چہ جائیکہ وہ بیت المال کے لیے بھی کچھ پس انداز کر سکیں۔ اگر چہ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ابھی ہمارے بیشتر ارکان میں اپنے نصب العین اور عقیدہ کے لیے وہ لگن پیدا نہیں ہوئی جو انہیں اس کے لیے ہر بازی کھیل جانے اور ہر مصیبت سہہ جانے کے لیے بے تاب کر دے اور وہ اپنے پیٹ کاٹ کاٹ کر اپنے دین کی کھیتی کو سینچنے لگیں۔
(۴) ہماری چوتھی مشکل جو دلی تکلیف دینے والی بھی ہے ہمارے طبقہ علماء میں سے بعض کا طرزِ عمل ہے۔ آپ کو یہ معلوم کر کے حیرت ہوگی کہ ہماری تحریک کی کھلی مخالفت بعض علماء کے علاوہ اور کسی طرف سے نہیں ہوئی۔ پھر یہ مخالفت بھی کسی عقلی یا نقلی دلیل یا اصولی اختلاف کی بنا پر نہیں بلکہ اس اقرار کے ساتھ ہے کہ نظریہ بالکل صحیح ہے، اسلام کا تقاضا بھی یہی ہے اور دین کا مطالبہ بھی یہی ہے، لیکن یہ آجکل قابلِ عمل نہیں ہے، تحریک کے مفید و بار آور ہونے کے لیے ظروف مساعد نہیں ہیں اور موجودہ حالات میں یہ جو تم پیش کرتے ہو یعنی دینِ اسلام، ناممکن العمل ہے۔ یہ آراء کسی دیہاتی مسجد کے ملا، کسی مغرب زدہ بابو یا کسی خان بہادر کی نہیں بلکہ ان اکابرِ امت کی ہیں جن کے زہد و تقویٰ اور دینداری کا ڈھول پوری دنیا میں پٹ رہا ہے، اور جن کی آرائے گرامی سے محض دینی امور ہی میں نہیں بلکہ دنیاوی اور سیاسی مسائل تک میں اختلاف کرنا ان کے معتقدین کے نزدیک کفر سے کم نہیں۔ عوام میں حق پرستی کی روح پیدا کرنے کے بجائے شخصیت پرستی کا مرض پیدا کر دیا گیا ہے۔ اس لیے ہماری دعوت کے متعلق سب سے پہلا سوال یہی پیدا ہوتا ہے کہ ہے تو یہ حق مگر فلاں حضرت صاحب، فلاں شاہ صاحب اور فلاں مولانا صاحب اس میں کیوں شریک نہیں؟ اور اسی طرح مختلف قسم کے شبہات و شکوک پیدا ہوتے ہیں۔ اگر چہ اس کا بہت بڑا فائدہ یہ ہے کہ جو لوگ دین کو صرف شخصیتوں سے لینے کے قائل ہیں وہ خود بخود چھٹ کر الگ ہو جاتے ہیں، اور وہی لوگ ہماری طرف آتے ہیں جو صرف اس عقیدے اور نصب العین سے محبت رکھتے ہیں۔ مگر اس امر سے پیدا شدہ فتنہ بھی کچھ کم اہم نہیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان حضرات کو ہدایت دے اور یہ اپنے منصب کو سمجھیں اور ان کو اس بات کا شعور ہو کہ وہ دینِ حق کی راہ میں دانستہ یا نادانستہ کتنی بڑی رکاوٹ بن گئے ہیں۔
(۵) ہمارے راستہ کی پانچویں رکاوٹ ہمارے بعض رفقاء میں یکسوئی کی کمی ہے۔ جس کی اصل وجہ یہ ہے کہ انہوں نے ابھی تک ہماری دعوت اور اس کے طریق کار اور دوسری دعوتوں کو جو ملک میں چل رہی ہیں اور ان کے طریق ہائے کار کے فرق کو اچھی طرح نہیں سمجھا ہے۔ اسی وجہ سے وہ باوجود جماعت میں منسلک ہو جانے کے بار بار دوسرے قافلوں کی طرف دیکھتے ہیں اور ان کے دل کڑھنے لگتے ہیں کہ دوسری تحریکوں کی عمارت کی طرح یہاں بھی رات بھر میں پوری عمارت کیوں نہیں کھڑی ہو جاتی۔ ان حضرات کو اپنی معلومات وسیع کرنی چاہئیں اور ٹھنڈے دل سے سوچنے اور کام کرنے کی عادت ڈالنی چاہیے۔
تحریک کے اس مرحلہ پر ہم صاف طور پر واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ:
اولاً ہمارے ساتھ وہی حضرات شریک ہوں، اور جو شریک ہو چکے ہیں ان میں سے صرف وہی حضرات شریک رہیں، جو ہمارے اصول اور طریق کار دونوں سے پوری طرح مطمئن ہوں۔
ثانیاً جو ان دونوں کو اچھی طرح سمجھ کر اور ان کی معرفت حاصل کر کے ان میں پوری پوری دلچسپی لینے کے لیے تیار ہوں اور
ثالثاً جن کی دلچسپیوں میں انتشار کے بجائے مرکزیت پیدا ہو چکی ہو یعنی وہ ہر طرف سے توجہ کو ہٹا کر صرف اسی دعوت پر اپنی تمام توجہات اور دلچسپیاں مرتکز کر دیں اور اپنا سب کچھ اسی کام میں لگا دینے کے لیے تیار ہو جائیں۔
کسی تفصیلی بحث میں الجھے بغیر جماعت اسلامی کے کام کی نوعیت اور مسلمانوں کی دوسری جماعتوں کے پیشِ نظر کاموں کی نوعیت کا فرق چند فقروں میں واضح کر دوں کہ دوسری ساری جماعتیں مسلمان قوم کا کوئی باقاعدہ علاج کرنے کے بجائے اسے محض ابتدائی امداد (First Aid) پہنچانے میں مشغول ہیں اور یہی کام ان کے لیے سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے، حالانکہ ان میں سے بعض کے پاس مکمل علاج کا پورا سامان اور بہترین دواخانے بھی موجود ہیں، لیکن وہ کچھ اوپری سی مرہم پٹی کر کے اپنی کارگزاری دکھا دینے کے لیے بے تاب ہیں۔ ان کے برعکس ہم مسلمانوں اور پوری دنیا کا مکمل علاج اسی طریق پر کرنا چاہتے ہیں جس طریق پر اس کے ماہرینِ فن (انبیائے کرام علیہم السلام) آج تک دنیا کی اخلاقی اور اجتماعی بیماریوں کا علاج کرتے رہے ہیں۔ کتاب و سنت کی رو سے اس علاج کے سوا دوسرے سارے علاج لغو اور لاحاصل ہیں اور ان کو وہی لوگ اختیار کر سکتے ہیں جو یا تو انبیائے کرام کی تعلیمات سے ناواقف ہیں، یا پھر نام کا وہی کر ہی کرنا چاہتے ہیں۔
ہمارے ارکان کی انفرادی مشکلات
دعوتِ اسلامی اور قیامِ دین کی جدوجہد عملاً شروع کر کے معلوم ہوا کہ جس طرح ابتداء سے آج تک دینِ حق ایک ہی رہا ہے اسی طرح جاہلیت اور کفر کے مزاج میں بھی ذرہ برابر تغیر نہیں ہوا۔ موجودہ سوسائٹی کے تہذیب و تمدن اور رواداری کے تمام فلک شگاف دعاوی کے باوجود باطل کے لیے حق اسی طرح ناقابلِ برداشت ہے جس طرح پہلے تھا۔ اگر آپ کہیں یہ پاتے ہیں کہ باطل اپنے غلبہ و تسلط کے باوجود حق کی کچھ ظاہری اشکال کو گوارا کر رہا ہے تو سمجھ لیجئے کہ یہ صرف اس لیے ہے کہ حق نے ایک جسدِ بے روح اور باطل کے ماتحت تابع مہمل بن کر رہنا قبول کر لیا ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ بیشتر مقامات پر جہاں ہمارے رفقاء نے واقعی سنجیدگی سے اس دعوت کو قبول کیا اور بندگی رب کو مسجد کی چار دیواری سے باہر اپنے معاملات اور دوسرے مسائلِ زندگی پر پھیلانا شروع کیا تو اسی سوسائٹی اور خاندان و برادری کو جسے کل تک کھانے میں نمک کی طرح مرغوب و محبوب تھے، پھوڑے میں نشتر کی طرح چبھنے لگے اور ان کو درپے ہو سب مل کر بزور اپنے سے باہر نکال پھینکنے کے لیے بے تاب ہو گئے۔ یہ صرف ابھی اتنی سی بات پر ہے کہ ہمارے رفقاء نے اب سوسائٹی کی پسند و ناپسند اور مالی منفعت کی کسوٹی کے بجائے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پسند و ناپسند کو معیارِ رد و قبول بنا لیا ہے۔
چنانچہ اسی بنا پر بعض والدین نے اپنے اکلوتے جگر گوشوں کو گھر سے باہر کر دیا اور ان کی شکل دیکھنے کی قسمیں کھا لیں۔ بعض بے دین بیٹوں نے اپنے ضعیف اور سفید ریش باپوں کو مارا، گھر سے نکال دیا کہ وہ ان کی داستانہ زندگیوں میں مخل کہتے تھے، بعض بے دین شوہروں نے اپنی بے گناہ بیویوں کو معلق کر کے چھوڑ دیا۔ بعض باطل پرست والدین کے بیٹے جب ان کی خواہش کے مطابق خدمتِ کفر پر آمادہ نہ ہوئے تو ان کو اس پر مجبور کرنے کے لیے ان کی تعلیم و تربیت پر صرف کیے ہوئے روپے کو قرض قرار دے کر تقاضے شروع کر دیے اور آخر کار شادی کے پھندے میں پھنسا کر بے گھر کر دینے کی چالیں چلیں۔ بعض رئیس زادوں کو انہی کے حقیقی بھائیوں نے ذلت و رسوائی کی آخری حد تک پہنچانے کی کوششیں کیں اور جائیداد سے الگ کر دینے کے منصوبے باندھے اور ہمارے بعض ارکان کو صرف اس بنا پر بڑے بڑے نقصانات پہنچانے کی دھمکیاں دی گئیں اور ڈرایا گیا کہ وہ ان ناخدا ترس لوگوں کے بھائیوں اور بیٹوں کی زندگیوں پر اثر انداز ہو رہے ہیں، جس کی وجہ سے وہ حرام اموال اور ناجائز آمدنیوں پر بڑھ بڑھ کر ہاتھ مارنے سے احتراز کرنے لگے ہیں۔
یہ چند ایک مثالیں ہیں جن سے آپ اندازہ فرما سکتے ہیں کہ یہ نام نہاد مسلمان قوم دینی حیثیت سے کس درجہ پر ہے اور ان کی نظروں میں دین کی کیا قدر و منزلت ہے۔ مگر صاحب! مبارک ترین ہے اللہ کا وہ بندہ جس نے اس عالمگیر ضلالت اور گمراہی کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں دنیا کو پھر دینِ حق سے روشناس کر دیا اور اس کے قیام کی دعوت دی اور اس دین کو اس نے ایسے مبین اور واضح طریقے سے دنیا کے سامنے کھول کر رکھ دیا کہ اس سے دور بھاگنے والے بھی یہ اقرار کیے بغیر نہ رہ سکے کہ دین کی نعمت اسی شخص سے پائی، اور پھر مبارک ہیں آپ اور آپ جیسے دوسرے حضرات جنہوں نے ان غیر موافق بلکہ شدید مخالف حالات میں اس دعوت کو سنا، قبول کیا اور اسے عملاً نافذ کرنے کے لیے کمر بستہ ہو گئے۔ اپنے اس فعل اور اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ اس توفیق پر آپ جس قدر ناز کریں بجا ہے۔ مگر مومن کا ناز شکریہ اور اللہ کی راہ میں سر کٹنے ہی کی شکل میں ظاہر ہوا کرتا ہے۔ یہ اچھی طرح جان لیجئے کہ دعوتِ حق کا یہی مرحلہ ہے جس میں اس کے لیے خرچ کیا ہوا ایک پیسہ، اس کے لیے بہایا ہوا خون کا ایک قطرہ اور اس کی خاطر آنکھوں میں کاٹی ہوئی ایک رات، بعد کے مراحل میں کیے ہوئے بڑے بڑے اعمال و ایثار سے زیادہ بلندیِ درجات کا موجب ہو سکتا ہے۔ آپ کو معلوم ہے کہ صدیق اکبر (رض) کی اس ایک رات کے عوض جو انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غارِ ثور میں بسر کی تھی، عمر فاروق جیسا جلیل القدر اور مقدس انسان اپنی پوری زندگی کے اعمال دے دینے کی عمر بھر حسرت سے خواہش کرتا رہا۔ ہاں! پھر سن لیجئے کہ دعوت کا یہی دور قربِ خداوندی اور اس کے ہاں درجات حاصل کرنے کا ہے ورنہ فتح مکہ کے بعد تو سبھی "يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللهِ أَفْوَاجًا" کا منظر پیش کر دیتے ہیں۔
لٹریچر کی دوسری زبانوں میں اشاعت
اس وقت تک اپنی آواز کو دوسروں تک پہنچانے کے لیے ہم نے صرف اردو زبان ہی کو ذریعہ بنایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان تمام علاقوں میں جہاں اردو بولی اور سمجھی نہیں جاتی ہماری دعوت کا کام بمنزلہ صفر کے ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہی رہی ہے کہ ابتداء سے اب تک اس تحریک اور جماعت کے سارے کام کا بار اور انحصار بحیثیت سے امیر جماعت ہی پر رہا ہے اور ظاہر ہے کہ ایک شخص سارے کام نہیں کر سکتا۔ اب دوسری زبانوں میں اس دعوت کو منتقل کرنے کا انتظام کیا جا رہا ہے، اور بہت سی زبانوں میں تو یہ کام عملاً شروع ہو گیا ہے مثلاً:
- عربی: لٹریچر کی تیاری کے لیے مولانا مسعود عالم صاحب ندوی کی قیادت و رہنمائی میں جالندھر میں دارالعروبہ کے نام سے عربی ادارہ کی بنیاد رکھ دی گئی ہے اور مولانا اپنی خرابیِ صحت اور دوسری مجبوریوں کے باوجود اپنے وطن (صوبہ بہار) سے ہجرت فرما کر مستقل طور پر دارالعروبہ میں تشریف لے آئے ہیں، اور اپنا پورا وقت، توجہ اور محنت اسی کام پر صرف کر رہے ہیں۔ اس بات کا افسوس ہے کہ دارالاسلام کی آب و ہوا انہیں موافق نہ آئی اور ان کے لیے یہاں سے دور دوسری جگہ انتظام کرنا پڑا۔ دعا کیجیے کہ اللہ تعالیٰ مولانا کے اس ایثار و سعی کو قبول فرمائے اور ان کو صحتِ کامل عطا فرمائے۔ آمین۔ دارالعروبہ سے موت کے متعلق دو سر لٹریچر کے علاوہ ایک بلند پایہ ماہوار عربی رسالہ بھی جاری کرنے کی تجویز زیر غور ہے۔
- ترکی: ترکی لٹریچر کی تیاری کا کام یہاں دارالاسلام میں ہمارے برادر عزیز اعظم ہاشمی صاحب صالح ترکستانی کر رہے ہیں۔ رسالہ دینیات اور خطبات کا ترجمہ اس وقت تک مکمل ہو چکا ہے۔
- ملیالم: ملیالم زبان جو صوبہ مدراس کی بڑی زبانوں میں سے ہے، اس میں لٹریچر کو منتقل کرنے کا کام حاجی وی. پی. محمد علی صاحب مالاباری کے سپرد کیا گیا ہے اور یہ صاحب اب تک رسالہ دینیات، خطبات اور دو تین دوسری چھوٹی بڑی کتابوں کا ترجمہ مکمل کر چکے ہیں۔ ان کی اشاعت کے لیے جنوبی ہند کی جماعتوں نے مل کر کچھ سرمایہ بھی اکٹھا کر لیا ہے، اور ان کتابوں کے طبع کرانے کی دوڑ دھوپ بھی جاری ہے، لیکن موجودہ جنگی مشکلات کی وجہ سے ابھی تک اس میں کامیابی نہیں ہوئی۔
- تامل: تامل زبان میں دعوت کے کام کے لیے جنوبی ہند کی جماعتوں نے مل کر مولوی شیخ عبداللہ صاحب (دولتانہ کیمپ) کو منتخب کیا ہے کہ وہ اس علاقے میں رہ کر جہاں کی یہ زبان ہے، مہارت حاصل کریں۔ اس دوران میں شیخ صاحب کی مناسب ضروریات کی کفالت یہ جماعتیں کریں گی۔ یہ کام شروع ہو چکا ہے۔ یہ اقدام بہت مبارک اور قابلِ تقلید ہے اور انتخاب بھی بہت موزوں ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے کامیاب فرمائے۔
- گجراتی: گجراتی زبان جو صوبہ بمبئی کی سب سے بڑی زبان ہے، اس میں ہمارے لٹریچر کو منتقل کرنے کا ذمہ ہماری بمبئی کی مقامی جماعت نے اپنے ذمہ لیا ہے۔ انہیں اس کارِ خیر کے لیے ایک بہت مخلص گجراتی ادیب جن کا اسم گرامی بھی اسمعیل صاحب اخلاص ہے مل گئے ہیں۔ یہ لوگ اب تک چند ایک خطبات گجراتی میں شائع کر چکے ہیں۔ باقی خطبات اور سیاسی کشمکش کا ترجمہ کر چکے ہیں۔ اخلاص صاحب اب جماعت میں شریک ہو گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں استقامت بخشے اور اپنے دین کی خدمت پورے اخلاص سے انجام دینے کی توفیق دے۔
- سندھی: سندھی ترجمہ کا کام الہ آباد کی جماعت کے سپرد کیا گیا ہے، جو یو. پی. کی دوسری جماعتوں کی امداد سے یہ کام کرے گی۔ یہ کام ابھی باقاعدہ شروع نہیں ہوا لیکن امید ہے کہ جلدی ہی کچھ انتظام ہو جائے گا۔ موزوں مترجم کا نہ ملنا سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ سلامتی کا راستہ کا ترجمہ کروایا جا چکا ہے، لیکن یہ ابھی شائع نہیں ہو سکا۔ سندھی زبان میں لٹریچر کو منتقل کرنے کا ابھی کوئی باقاعدہ انتظام تو نہیں ہو سکا البتہ کچھ ایسے لوگ دستیاب ہو گئے ہیں جو کچھ تربیت کے بعد اس کام کو کر سکیں گے۔ ویسے رسالہ دینیات کی نسبت معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے علم و اطلاع کے بغیر دو تین سال سے سندھی زبان میں شائع ہو رہا ہے لیکن یہ ترجمہ تسلی بخش نہیں ہے۔
- انگریزی: انگریزی زبان میں ایک رکن جماعت کچھ تھوڑا تھوڑا ترجمہ کا کام کر رہے ہیں۔ اس وقت "قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں" کا ترجمہ کیا جا رہا ہے۔ انگریزی ترجمہ کے لیے بھی موزوں مترجم کا نہ ملنا ہی بڑی رکاوٹ ہے۔
زیر طبع لٹریچر
جماعت کے لٹریچر کی حسب ذیل نئی کتابیں ان دنوں زیر طبع ہیں اور انشاء اللہ بہت جلد چھپ کر آجائیں گی:
- "قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں": یہ امیر جماعت کے ان مضامین پر مشتمل ہے جو اسلام کی اصطلاحاتِ اربعہ: اللہ، رب، عبادت، دین کے مطلب اور مفہوم کی توضیح میں رسالہ "ترجمان القرآن" میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ قرآن کی تعلیمات کو سمجھنے کے لیے یہ کتاب اساسی اہمیت رکھتی ہے۔
- "اسلامی عبادات پر ایک تحقیقی نظر": یہ بھی امیر جماعت کے ایک اہم مضمون پر مشتمل ہے جس کی نوعیت اس کے نام سے ظاہر ہے۔
- "حقیقتِ توحید": یہ مولانا امین احسن صاحب اصلاحی کی تازہ تصنیف ہے جو "حقیقتِ شرک" والے سیٹ کی دوسری کڑی ہے۔
- "دعوتِ اسلامی اور اس کے مطالبات": یہ کتاب حسب ذیل تقریروں و مضامین پر مشتمل ہے:
- (الف) "دعوت اسلامی اور اس کا طریق کار": یہ امیر جماعت کی وہ تقریر ہے جو اس رپورٹ کے بعد وہ اس اجلاس میں ارشاد فرمائیں گے۔
- (ب) مولانا امین احسن صاحب کی وہ تقریریں جو انہوں نے سیالکوٹ اور الہ آباد کے اجتماعات میں عالم اجلاس میں ارشاد فرمائی تھیں۔ ان دونوں تقریروں کو ایک کر دیا گیا ہے۔
- (ج) قیم جماعت کا وہ پیغام جو وہ اس جنوری ۱۹۴۵ء کے مطبوعہ کوثر میں شائع ہو چکا ہے۔ اس کتاب میں اسے تقریباً سو گنا کر دیا گیا ہے۔
- (د) مولانا امین احسن صاحب کی وہ تقریر جو انہوں نے الہ آباد کے اجتماع میں مستورات کو مخاطب کر کے ارشاد فرمائی۔
صوبوں میں قیموں کا تقرر
چونکہ ایک آدمی کے لیے مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے کہ پورے ملک میں تنظیم کے کام کو سنبھال سکے۔ خصوصاً جب کہ وہ خود ابتدائی حالت میں ہو، ہاتھ بٹانے کے لیے ایک بھی امدادی آدمی نہ ہو اور ارکانِ جماعت مسلسل توجہ کے محتاج ہوں۔ اس لیے دور دراز علاقوں کے لیے الگ الگ قیم مقرر کرنے کا فیصلہ ہو چکا ہے۔ صوبہ بہار کے لیے محمد حسین سید صاحب جامعی کو قیم مقرر کر دیا گیا ہے اور وہ موجودہ حالات اور وسائل و ذرائع کے لحاظ سے تسلی بخش کام کر رہے ہیں۔ یو. پی. کے لیے بھی الگ قیم جماعت مقرر کرنے کا فیصلہ ہو چکا ہے لیکن ابھی تک موزوں آدمی کا انتخاب نہیں ہو سکا، اس اجتماع میں اس فیصلہ کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی جائے گی۔ اسی طرح جنوبی ہند کے لیے بھی الگ قیم جماعت مقرر کرنے کا فیصلہ ہو چکا ہے، اور وہاں کے ارکان نے متفقہ طور پر مولانا سید صبغت اللہ صاحب بختیاری کو اس کام کے لیے منتخب کیا ہے۔ لیکن ان سب نے مل کر اس امر کی طرف بھی مرکز کی توجہ منعطف کرائی ہے کہ یہ کام باقاعدہ ان کے سپرد کرنے سے پہلے ان کو کچھ عرصہ یہاں رہنے کا موقع دیا جائے تاکہ وہ اپنے کام اور فرائض اور ذمہ داریوں کو اچھی طرح سمجھ لیں۔ بدقسمتی سے وہ اپنی موجودہ مصروفیتوں کی وجہ سے شعبان ۱۳۶۴ھ تک یہاں نہیں آسکتے اور فی الحال مکانات کی قلت کی وجہ سے ہم بھی اس حال میں نہیں ہیں کہ ان کی رہائش کا یہاں انتظام کر سکیں۔ اس لیے یہ معاملہ چند ماہ کے لیے ملتوی رہے گا۔
صوبائی قیموں کے فرائض حسب ذیل مقرر کیے گئے ہیں:
- اپنے حلقہ کے ارکان اور جماعتوں میں نظم قائم رکھیں اور تحریک کو تازہ رکھنے اور آگے بڑھانے کے لیے ان کو اکساتے رہیں۔
- اپنے حلقہ کے ارکان اور جماعتوں کے ساتھ مسلسل رابطہ قائم رکھیں، ان کی کارروائیوں سے باخبر رہیں، اور مرکز کو اپنے حلقہ کے حالات سے باخبر رکھیں۔
- ارکان میں حرکت پیدا کرنے کے لیے وقتاً فوقتاً اپنے حلقے میں دورے کرتے رہیں اور جہاں کہیں جماعت کے نظم میں خرابی پیدا ہو رہی ہو وہاں بروقت موقع پر پہنچ کر حالات کی اصلاح کریں۔
صوبائی قیموں کے حلقوں کی جماعتوں اور منفرد ارکان کے فرائض حسب ذیل ہوں گے:
- اپنے حلقہ کے قیم کے ساتھ پورا پورا تعاون کرنا اور اپنی کارروائیوں کی ماہوار رپورٹیں قیم حلقہ کو بھیجتے رہنا تاکہ وہ بروقت اپنے حلقہ کی رپورٹ مرکز میں روانہ کر سکے۔
- ان اہم امور کی اطلاع جو مرکز سے متعلق ہوں یا مرکز کے قابلِ توجہ ہوں، مرکز کو بھیجتے رہنا۔
- جہاں کہیں بد نظمی یا عدم دلچسپی کی کوئی صورت رونما ہوتی نظر آئے اس کی اطلاع فوراً قیم متعلقہ اور مرکز کو بھیجنا تاکہ اس کا بروقت تدارک ہو سکے۔
- حلقہ کی جماعتوں اور ارکان کو اپنے قیم کی مناسب ضروریات کی حد تک اس کے مصارف کا انتظام کرنا ہو گا۔ سفر کے مصارف تو بہرحال ان کو برداشت کرنے ہیں۔
قیم کے انتخاب میں جن اوصاف کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے، وہ یہ ہیں:
- وہ فعال آدمی (Active) ہو۔
- سنجیدہ، متین، سمجھدار اور معاملہ فہم ہو۔
- تنظیم کے کام کو سرانجام دینے کی اپنے اندر صلاحیت رکھتا ہو۔
مقامِ شکر ہے اور میں یہ بیان کرتے ہوئے خوشی محسوس کرتا ہوں کہ شعبہ تنظیم کے قیام اور اس کی توسیع کے بعد تنظیم کا کام کافی حد تک ضبط میں آگیا ہے۔ اس کے بعد جتنے ارکان جماعت میں لیے گئے ہیں اور جس قدر نئی جماعتوں کی تشکیل کی گئی ہے تقریباً سب پختہ ہیں، اور ان کا کام تسلی بخش ہے۔ چند مقامات کے علاوہ ہر جگہ سے ماہانہ رپورٹیں باقاعدگی سے آرہی ہیں۔ مگر اس کے باوجود میں ضروری سمجھتا ہوں کہ دستورِ جماعت کی دفعات نمبر ۴، ۵، ۶، ۷ اور ۱۰ کی طرف آپ کو توجہ دلاؤں۔ ان دفعات میں جو امور ذکر کیے گئے ہیں وہ اس قدر اہم ہیں کہ سب ارکان کو انہیں وقتاً فوقتاً دیکھتے رہنا چاہیے اور ان کی روشنی میں اپنے ایمان و عمل کا محاسبہ کرنا چاہیے تاکہ ایسا نہ ہو کہ نقضِ عہد کر کے نہ صرف صاحبِ امر سے بلکہ خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھی غدر و خیانت کے مرتکب ہوں۔
اس کے علاوہ یہ امر بھی قابلِ توجہ ہے کہ بعض مقامی جماعتوں کے ارکان مقامی امیر کو صدرِ انجمن سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں دیتے۔ ان کو سمجھ لینا چاہیے کہ جب انہوں نے اپنے میں سے ایک آدمی کو اہل تر سمجھ کر صاحبِ امر منتخب کیا ہے تو ان پر واجب ہے کہ معروف میں اس کی اطاعت کریں اور اس کی نافرمانی کو گناہ جانیں۔ اس بارے میں کہ ارکان اور صاحبِ امر کے باہم تعلقات اور حقوق و ذمہ داریاں کیا ہونی چاہئیں، امیر جماعت کی وہ تقریر جو انہوں نے تشکیلِ جماعت کے وقت یہ بارِ گراں سنبھالتے وقت ارشاد فرمائی تھی، بہت ہی اہم ہے۔ اس تقریر کا متعلقہ (Relevant) حصہ رودادِ جماعت حصہ اول میں ہے، اس کا گہرا مطالعہ فرما کر آئندہ اپنے تعلقات مذکورہ تقریر کی بیان کردہ بنیادوں پر قائم کیجیے۔
درس گاہ دارالاسلام کا قیام
اگر چہ یہ کام مولانا امین احسن صاحب اصلاحی اور غازی عبدالجبار صاحب کا تھا کہ درس گاہ دارالاسلام کے قیام میں تاخیر کے وجوہ بیان کریں کیونکہ وہی حضرات اس کام کے انچارج ہیں لیکن چونکہ اس تاخیر کی بیشتر ذمہ داری جماعت اور کچھ دوسرے امور پر ہے اس لیے اصلاحی صاحب اور غازی صاحب کے بجائے مجھے ہی اس بارے میں جواب دہی کرنی چاہیے۔
ظاہر ہے کہ درس گاہ کے قیام کے لیے باقاعدہ پختہ عمارت نہ سہی بہر حال وسیع مکانات کی ضرورت ہے اور درسگاہوں اور ان کے دارالاقامہ سے بھی پہلے اساتذہ کے کوارٹر موجود ہونے چاہئیں تاکہ وہ یہاں آکر بیٹھیں اور اپنے کام کی تیاری کریں۔ عمارات جو ہمارے پاس اس وقت موجود ہیں وہ ہمارے موجودہ مقامی کارکنوں کے لیے بھی کافی نہیں۔ مزید تعمیر کے راستہ میں جو رکاوٹیں پیش آرہی ہیں ان میں چند یہ ہیں:
- سب سے پہلی اور بڑی رکاوٹ کسی موزوں آدمی کا نہ ملنا ہے جو ہماری تعمیری اسکیم کو اپنے ہاتھ میں لے سکے۔ اس کے لیے ہمیں ایسا آدمی درکار ہے جو تعمیر کے کام کو خوب اچھی طرح سمجھتا ہو، ہم سے اور جماعت سے ہمدردی رکھتا ہو، تجربہ کار، منتظم اور دیانتدار ہو، اور اس کام کو عملاً سر انجام دینے کی قابلیت اور صلاحیت رکھتا ہو تاکہ ہم اس پر اس معاملے میں آنکھیں بند کر کے اعتماد کر سکیں اور وہ اپنی ذمہ داری پر اس کام کو سنبھال سکے۔
- اس کے علاوہ دوسری وجہ مسالہ اور دوسرے سامان کی تعمیر کی شدید گرانی اور پھر گرانی کے باوجود اس کا نایاب ہونا ہے۔ ہم نے خیال کیا تھا کہ سرِ دست مستقل پختہ عمارتوں کے بجائے کچھ پھونس کے چھپر وغیرہ ڈال کر کام شروع کر دیا جائے، مگر حکومتِ وقت نے اس پر بھی کنٹرول کر لیا۔
- درسگاہ کے قیام کے راستہ میں تیسری رکاوٹ سرمائے کی قلت ہے۔ اس بارے میں اول تو ہمارے ذرائع و وسائل ابھی محدود ہیں۔ دوسرے جیسا کہ پہلے بھی عرض کر چکا ہوں، ہمارے ارکان اور ہمدرد جن کے تعاون و اعانت سے ہم اس کام کو سر انجام دینا چاہتے ہیں، بیشتر غریب اور متوسط طبقہ کے لوگ ہیں جن کے لیے اس موجودہ گرانی کے زمانے میں اپنی ضروریاتِ زندگی بھی ٹھیک طور سے فراہم کرنا مشکل ہو رہا ہے، اور تیسرے ابھی دراصل ان میں اپنے نصب العین اور مقصدِ زندگی سے حقیقتاً وہ لگاؤ بھی پیدا نہیں ہوا ہے جو اس کے لیے انہیں ہر قربانی دینے کے لیے بے تاب کر دے۔
نیز جن طریقوں اور ذرائع سے عام طور پر دوسرے لوگ اور ادارے سرمایہ فراہم کیا کرتے ہیں، ان طریقوں اور ذرائع سے روپیہ فراہم کرنا تو درکنار، ہم تو عام پبلک اپیل اور ضرورت کے عام اشتہار کو بھی اپنے مسلک اور طریق کار کے منافی سمجھتے ہیں اور حد یہ ہے کہ اپنے ارکانِ جماعت تک پر بھی کوئی باضابطہ چندہ عائد کرنا اس کام کو کرنے کی صحیح شکل نہیں سمجھتے۔ ہم دینے والے سے اس کے روپے سے پہلے اس کا دل اس کام کے لیے لینا چاہتے ہیں تاکہ جو کچھ اس کی جیب سے نکلے وہ اس کے دلی جذبہ، دینی لگاؤ اور للہیت کا نتیجہ ہو کہ ایسا ہی سرمایہ فی الحقیقت اس خونِ صالح کا کام دے سکتا ہے جو ایک صحیح دینی درسگاہ کی رگوں میں جاری ہونا چاہیے اور اسی سے پھر یہ توقع بھی کی جا سکے گی کہ ایسے حق پرست اور خدا ترس انسان پیدا کرے جو بس ایک رب العالمین ہی کے بندے ہوں۔
اس بارے میں ہمارا طریقہ یہ ہے کہ اپنی ضروریات کو اپنے ارکان اور ہمدردوں کے سامنے رکھ دیتے ہیں۔ اس کے بعد پھر ہر شخص کی اپنی محبتِ دین، وسعتِ قلب اور فراخیِ وسائل پر موقوف ہے کہ وہ صدیق اکبر (رض) کی طرح اپنا سوئی سلائی تک کل اثاثہ راہِ حق میں لا ڈھیر کرے، یا عمر فاروق (رض) کی مانند اپنی ہر چھوٹی بڑی چیز کا نصف اپنے رب کی راہ میں نثار کر دے یا چاہے تو قارون کی طرح اپنے خزانوں پر سانپ بیٹھا رہے۔
لیکن اس سرمایہ کی قلت اور وسائل کی کمی کے باوجود مجھے پورا یقین ہے کہ اگر ہمیں کوئی موزوں آدمی مل جائے اور اپنے دوسرے کاموں کی طرح اس کام کو بھی ہم اللہ کے بھروسے پر شروع کر دیں تو انشاء اللہ سرمایہ کی وجہ سے یہ کام نہیں رکے گا۔
اسی فراہمیِ سرمایہ کے سلسلہ میں ہمیں اپنے رفقاء اور ہمدردوں کی توجہ اس بات کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ اس وقت ہماری آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ، جیسا کہ میں پہلے بھی ذکر کر چکا ہوں، ہمارا مکتبہ ہے۔ اس لیے اس کی سخت ضرورت ہے کہ جو جماعتیں یا افراد یہاں سے کتابیں منگواتے ہیں ان کو اپنے حسابات جلدی سے جلدی بے باق کرتے رہنا چاہیے۔ اور مناسب یہ ہے کہ ہر ماہ نئے آرڈر بھیجنے سے پہلے سابقہ حساب صاف کر دیا جائے، تاکہ جماعت کے دوسرے کاموں میں بھی حرج نہ ہو۔
مرکزی بیت المال کے حسابات
چونکہ تشکیلِ جماعت کے بعد پوری جماعت کا یہ پہلا اجتماع ہے اس لیے ۲۶ اگست ۱۹۴۱ء سے لے کر ۱۶ اپریل ۱۹۴۵ء تک کے حساباتِ آمد و صرف اس اجلاس میں پیش کرتا ہوں تاکہ آپ کو جماعت کی مالی قوت اور اس کے مادی وسائل کی رفتار کا ٹھیک ٹھیک اندازہ ہو جائے۔
۳ شعبان ۶۰ھ مطابق ۲۶ اگست ۱۹۴۱ء کو جس سرمائے اور وسائل سے قیامِ دین کی اس جد و جہد کی ابتدا کی گئی تھی اس کی تفصیل حسب ذیل ہے:
- نقد: ۱۶۲۲ روپے، ۱ آنے، ۶ پائی
- بشکل کتب از مکتبہ ترجمان القرآن: ۶۰۰۰/- تقریباً
- از ایجنسی و از متفرق تاجران کتب و خریداران مکتبہ ترجمان القرآن: ۱۴۰۰/-
یہ سرمایہ سید ابوالاعلیٰ صاحب مودودی موجودہ امیر جماعت نے اس کام کی ابتدا کے لیے جماعت کے بیت المال میں منتقل کر دیا۔ بعد کی تفصیلات درج ذیل ہیں:
تفصیل آمدنی جماعت اسلامی (از یکم ستمبر ۱۹۴۱ء تا ۱۶ اپریل ۱۹۴۵ء)
| ذریعہ آمدنی | یکم ستمبر ۴۱ء تا ۳۱ اگست ۴۲ء | تا ۴۳ء | تا ۴۴ء | از یکم جنوری ۴۵ء تا ۱۶ اپریل ۴۵ء | میزان |
|---|---|---|---|---|---|
| فروخت کتب | ۷۴۱۳-۱۵-۹ | ۸۶۳۲-۹-۹ | ۱۶۷۹۹-۰-۹ | ۹۷۲۷-۱۵-۳ | ۴۲۵۷۳-۸-۰ |
| امانت اہل خیر | ۵۹۴۳-۱۳-۹ | ۲۸۴۵-۳-۶ | ۸۱۵۹-۳-۹ | ۲۵۸۳-۱۱-۰ | ۱۹۵۳۱-۱۵-۹ |
| زکوٰۃ | ۶۱۶-۱۰-۳ | ۱۲۰۳-۵-۰ | ۱۲۲۴-۱۱-۰ | ۶۷۷-۱۰-۰ | ۳۷۲۲-۰-۳ |
| قرض | ۲۱۲۱-۰-۰ | ... | ... | ... | ۲۱۲۱-۰-۰ |
| وصولی قرض | ۱۵۰-۲-۶ | ۲۰۲-۰-۰ | ۲۰۰-۰-۰ | ۱۳۰-۰-۰ | ۶۸۲-۲-۶ |
| متفرق | ۹۹۴-۱۳-۳ | ۰۰-۳-۰ | ۱۱۳-۶-۰ | ۵۶-۷-۶ | ۱۱۶۴-۹-۹ |
| امانت | ... | ۱۰۰-۸-۰ | ... | ... | ۱۰۰-۸-۰ |
| میزان کل سال | ۱۹۹۳۰-۴-۰ | ۱۴۸۱۴-۲-۶ | ۳۸۸۱۲-۱-۹ | ۱۳۲۷۰-۱۱-۹ | ۷۲۱۱۹-۱۰-۳ |
| نقد سرمایہ بوقت تشکیل جماعت | ۱۶۲۱-۱۲-۰ | ||||
| کل وصولی برائے عرصہ از تشکیل جماعت تا ۱۶ اپریل ۱۹۴۵ء | ۷۳۱۹۲-۸-۳ | ||||
تفصیل مصارف جماعت اسلامی (از یکم ستمبر ۴۱ء تا ۱۶ اپریل ۴۵ء)
| مصارف | از یکم ستمبر ۴۱ء تا ۳۱ اگست ۴۲ء | تا ۴۳ء | تا ۴۴ء | از یکم جنوری ۴۵ء تا ۱۶ اپریل ۴۵ء | میزان |
|---|---|---|---|---|---|
| معاوضہ کارکنان | ۶۰۰-۰-۰ | ۵۴۰-۱۲-۳ | ۳۳۷۰-۶-۹ | ۱۰۰۰-۲-۳ | ۵۵۱۱-۵-۳ |
| طباعت | ۵۲۶۵-۱۵-۲ | ۷۳۰-۳-۹ | ۷۳۲۲-۱۵-۹ | ۶۰۳۵-۱۰-۱ | ۱۹۳۵۴-۱۲-۹ |
| سٹیشنری | ۹۸-۴-۲ | ۳۹-۱۵-۰ | ۱۷۹-۱-۹ | ۱۳۷-۱۲-۰ | ۴۵۴-۱۲-۱۱ |
| اشتہار | ۲۵-۸-۰ | ... | ۰-۱۰-۰ | ... | ۲۶-۲-۰ |
| سفر خرچ | ۲۸۶-۱۲-۰ | ۲۳-۹-۰ | ۷۸۶-۱-۰ | ۲۶-۶-۰ | ۱۱۲۲-۸-۰ |
| مہمان خانہ | ۴۸۵-۱۳-۹ | ۸۰-۱۵-۳ | ۱۳۶۲-۱۵-۹ | ۵۷۹-۳-۹ | ۲۵۰۸-۱۵-۶ |
| پریس | ۲۱۲۴-۱۱-۲ | ... | ۱۸۷-۱۰-۰ | ... | ۲۳۱۲-۵-۲ |
| قرض | ۲۵۹-۲-۱ | ... | ۲۲۰-۰-۰ | ۹۷۲-۱۰-۰ | ۱۴۵۱-۱۲-۱ |
| ادائے قرض | ۱۲۲۲-۰-۰ | ۶۹-۱۰-۰ | ۱۲-۶-۰ | ... | ۱۳۰۴-۰-۰ |
| دارالعروبہ | ۲۰-۴-۰ | ... | ... | ۲۴۶-۰-۰ | ۲۶۶-۴-۰ |
| اعانت | ۱۵۰-۳-۰ | ۲۲۴-۲-۳ | ۸۶۳-۲-۹ | ۱۳۶-۸-۶ | ۱۳۷۴-۰-۶ |
| ڈاک خرچ | ۵۸۹-۱-۹ | ۵۴۸-۱۳-۰ | ۷۶۲-۷-۹ | ۲۴۹-۲-۹ | ۲۱۴۹-۹-۳ |
| کتب ایجنسی | ۱۱۹۵-۰-۰ | ۱۳۹۴-۱۵-۰ | ۴۳۷۳-۳-۰ | ۲۵۷۲-۱۳-۰ | ۹۵۳۵-۱۵-۰ |
| متفرق | ۲۰۳-۱۳-۹ | ۷۶-۳-۲ | ۳۳۷-۲-۳ | ۵۰-۴-۳ | ۶۶۷-۷-۵ |
| تعلیمی سکیم | ... | ۰-۱۷-۰ | ۱۹-۸-۰ | ۴-۱۳-۰ | ۲۵-۲-۰ |
| فرنیچر | ... | ۳۳-۱-۰ | ۱۰۸-۲-۹ | ۱۵-۴-۰ | ۱۵۶-۷-۹ |
| کتب خانہ | ... | ... | ۰-۵-۰ | ۲۲۳۴-۱۰-۰ | ۲۲۳۵-۰-۰ |
| ترکی ترجمہ | ... | ... | ... | ۱۲۰۰-۵-۰ | ۱۲۰۰-۵-۰ |
| تعمیرات | ... | ... | ... | ۲۲۲۲-۶-۰ | ۲۲۲۲-۶-۰ |
| میزان | ۱۸۳۴۶-۱۲-۳ | ۵۹۲۹-۳-۰ | ۲۲۷۹۰-۶-۹ | ۱۲۷۳۵-۱۲-۳ | ۶۰۳۱۲-۱۲-۳ |
| میزان کل آمدنی از یکم ستمبر ۴۱ء تا ۱۶ اپریل ۴۵ء | ۷۳۱۹۲-۸-۳ | ||||
| میزان کل صرف | ۶۰۳۱۲-۱۲-۳ | ||||
| بقایا جو نقد موجود ہے | ۱۲۸۷۹-۱۲-۰ | ||||
اس کے علاوہ مکتبہ جماعت میں اس وقت تقریباً پچیس ہزار روپے کی کتابیں موجود ہیں۔ یہ اعداد و شمار ہیں جن سے ٹھیک ٹھیک اندازہ ہو سکتا ہے کہ اس ملک کے لوگ ہم سے کس قدر اور کس رفتار سے متاثر ہو رہے ہیں کیونکہ اس عام مادہ پرستی کے زمانے میں ہمارے روکھے پھیکے اور دنیا کے چلتے ہوئے مذاق کے بالکل برعکس لٹریچر کی خریداری کے لیے اور ہمارے بے مزہ کام کی اعانت کے لیے وہی لوگ آتے ہیں جو فی الواقع اس سے دلچسپی اور لگاؤ رکھتے ہیں۔
دعوتِ اسلامی اور اس کا طریق کار
قیم جماعت کی رپورٹ کے بعد امیر جماعت مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے "دعوتِ اسلامی اور اس کا طریق کار" کے عنوان سے ایک نہایت ہی اہم تقریر فرمائی جو درج ذیل ہے۔
حمد و ثنا کے بعد فرمایا:
سب سے پہلے میں اس امر پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے ہمیں ایک نہایت خشک دعوت اور نہایت بے مزہ طریق کار کو بالآخر لوگوں کے لیے دلچسپ و خوش ذائقہ بنانے میں توقع سے زیادہ کامیابی عطا کی۔ ہم جس دعوت کو لے کر اٹھے تھے اس سے زیادہ کاسد جنس آج دنیا کی دعوتوں کے بازار میں اور کوئی نہ تھی اور اس کے لیے جو طریق کار ہم نے اختیار کیا اس کے اندر ان چیزوں میں کوئی چیز بھی نہ تھی جو آج کل دنیا کی دعوتوں کے پھیلانے میں اور خلق کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں استعمال کی جاتی ہیں۔ نہ جلسے، نہ جلوس، نہ نعرے، نہ جھنڈے، نہ مظاہرے، نہ نمائش، نہ تقریریں، نہ وعظ۔ لیکن اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں اور یہ دیکھ کر ہمارا دل ادائے شکر و سپاس کے جذبے سے لبریز ہو جاتا ہے کہ بندگانِ خدا روز بروز زیادہ کثرت کے ساتھ ہماری اس دعوت کی طرف کھنچ رہے ہیں، اور ہمارے بے لطف اجتماعات میں شرکت کے لیے دور دور سے بغیر کسی طلب کے آتے ہیں۔
ہمارے اس اجتماع کا اعلان صرف ایک مرتبہ اخبار "کوثر" میں شائع ہوا اور اس کے بعد کوئی پروپیگنڈا اور کسی قسم کی اشتہار بازی عام اصطلاح میں "جلسہ" کو کامیاب بنانے کے لیے نہیں کی گئی۔ پھر بھی ایک ہزار اشخاص ہندوستان کے مختلف گوشوں سے یہاں جمع ہو گئے۔ یہ کشش بہرحال حق ہی کی کشش ہے، کیونکہ ہمارے پاس حق کے سوا کوئی اور چیز کھنچنے والی سرے سے ہے ہی نہیں۔
اجتماعات کا مقصد
ہمارے ان اجتماعات کا مقصد کوئی مظاہرہ کرنا اور ہنگامہ برپا کر کے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنا نہیں ہے۔ ہماری غرض ان سے صرف یہ ہے کہ ہمارے ارکان ایک دوسرے سے متعارف اور مربوط ہوں، ان کے درمیان اجنبیت اور ناآشنائی باقی نہ رہے، وہ ایک دوسرے سے قریب ہوں اور باہمی مشورے سے تعاون کی صورتیں نکالیں اور اپنے کام کو آگے بڑھانے اور مشکلاتِ راہ اور پیش آمدہ مسائل کو حل کرنے کی تدبیریں سوچیں۔ اس کے علاوہ ہمارے پیشِ نظر ان اجتماعات سے یہ فائدہ بھی ہے کہ ہمیں اپنے کام کا جائزہ لینے اور اس کی کمزوریوں کو سمجھنے اور انہیں دور کرنے کا وقتاً فوقتاً موقع ملتا رہتا ہے۔ نیز جو لوگ ہم سے ہمدردی رکھتے ہیں یا ہمارے خیالات سے متاثر ہیں یا ہمارے کام کے متعلق کچھ شکوک و شبہات رکھتے ہیں ان کو بھی یہ موقع مل جاتا ہے کہ بالمشافہ ہماری دعوت اور ہمارے کام کو سمجھیں اور ان کا دل گواہی دے کہ ہم واقعی حق پر ہیں تو ہمارے ساتھ شریک ہو جائیں۔ بہت سی غلط فہمیاں ایسی ہوتی ہیں کہ وہ صرف دوری کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں اور بڑھتی رہتی ہیں۔ محض قرب اور مشاہدہ و معائنہ اور شخصی تعلق (Personal Contact) ہی ایسی غلط فہمیوں کو رفع کر دینے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ ہم خدا کا شکر ادا کرتے ہیں اور ان حضرات کے بھی شکر گزار ہیں جو اپنا وقت اور اپنا مال صرف کر کے ہمارے ان اجتماعات میں محض ہماری بات کو سمجھنے کے لیے تشریف لاتے ہیں۔ ہم ان کی اس جستجوئے حق کو نہایت قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں کہ جہاں ان کی دلچسپی کا کوئی سامان نہیں ہے وہاں وہ محض اس وجہ سے آتے ہیں کہ اللہ کے کچھ بندے جو اللہ کا نام لے کر ایک کام کر رہے ہیں ان کے متعلق تحقیق کریں کہ واقعی ان کا کام کس حد تک اللہ کا ہے اور اللہ کے لیے ہے۔ یہ مخلصانہ حق جوئی اگر ذہن و دماغ کی صفائی کے ساتھ بھی ہو تو اللہ ان کی سعی و جستجو کو ضائع نہ ہونے دے گا اور ضرور انہیں حق کے نشاناتِ راہ دکھا دے گا۔
چونکہ ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو یہ جاننا چاہتے ہیں کہ ہماری دعوت اور ہمارا مقصد کیا ہے اور کس طریقے سے ہم اس کو حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے سب سے پہلے میں انہی دو امور پر کچھ عرض کروں گا۔
ہماری دعوت کیا ہے؟
ہماری دعوت کے متعلق عام طور پر جو بات کہی جاتی ہے، وہ یہ ہے کہ ہم حکومتِ الٰہیہ کے قیام کی دعوت دیتے ہیں۔ حکومتِ الٰہیہ کا لفظ کچھ تو خود غلط فہمی پیدا کرتا ہے اور کچھ اسے غلط فہمی پیدا کرنے کا ذریعہ بنایا جاتا ہے۔ لوگ یہ سمجھتے ہیں اور انہیں ایسا سمجھایا بھی جاتا ہے کہ حکومتِ الٰہیہ سے مراد محض ایک سیاسی نظام ہے اور ہماری غرض اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ موجودہ نظام کی جگہ وہ مخصوص سیاسی نظام قائم ہو۔ پھر چونکہ اس سیاسی نظام کے چلانے والے لامحالہ یہی مسلمان ہوں گے جو اس کے قیام کی تحریک میں حصہ لے رہے ہوں، اس لیے خود بخود اس تصویر میں سے یہ معنی نکل آتے ہیں یا ہوشیاری کے ساتھ نکال لیے جاتے ہیں کہ ہم محض حکومت چاہتے ہیں۔ اس کے بعد ایک دیندارانہ وعظ شروع ہوتا ہے اور ہم سے کہا جاتا ہے کہ تمہارے پیشِ نظر محض دنیا ہے، حالانکہ مسلمان کے پیشِ نظر دین اور آخرت ہونی چاہیے۔ اور یہ کہ حکومت طلب کرنے کی چیز نہیں ہے بلکہ ایک انعام ہے جو دیندارانہ زندگی کے صلہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے مل جاتا ہے۔ یہ باتیں کہیں تو نافہمی کے ساتھ کی جاتی ہیں اور کہیں نہایت ہوشمندی کے ساتھ اس غرض کے لیے کہ اگر ہمیں نہیں تو کم سے کم خلقِ خدا کے بڑے حصہ کو بدگمانیوں اور غلط فہمیوں میں مبتلا کیا جائے۔ حالانکہ اگر کوئی شخص ہمارے لٹریچر کو کھلے دل کے ساتھ پڑھے تو اس پر بآسانی یہ بات کھل سکتی ہے کہ ہمارے پیشِ نظر صرف ایک سیاسی نظام کا قیام نہیں ہے بلکہ ہم چاہتے ہیں کہ پوری انسانی زندگی— انفرادی و اجتماعی— میں وہ ہمہ گیر انقلاب رونما ہو، جو اسلام رونما کرنا چاہتا ہے، جس کے لیے اللہ نے اپنے انبیائے علیہم السّلام کو مبعوث کیا تھا اور جس کی دعوت دینے اور جدوجہد کرنے کے لیے ہمیشہ انبیائے علیہم السلام کی امامت و رہنمائی میں اُمتِ مسلمہ کے نام سے ایک گروہ بنتا رہا ہے۔
دعوت اسلامی کے تین نکات
اگر ہم اپنی اس دعوت کو مختصر طور پر صاف اور سیدھے الفاظ میں بیان کرنا چاہیں تو یہ تین نکات (Points) پر مشتمل ہوگی:
- یہ کہ ہم بندگانِ خدا کو بالعموم اور جو پہلے سے مسلمان ہیں ان کو بالخصوص اللہ کی بندگی کی دعوت دیتے ہیں۔
- یہ کہ جو شخص بھی اسلام قبول کرنے یا اس کو ماننے کا دعویٰ یا اظہار کرے اس کو ہم دعوت دیتے ہیں کہ وہ اپنی زندگی سے منافقت اور تناقض کو خارج کرے اور جب وہ مسلمان ہے یا بنا ہے تو مخلص مسلمان بنے اور اسلام کے رنگ میں رنگ کر یک رنگ ہو جائے۔
- یہ کہ زندگی کا نظام جو آج باطل پرستوں اور فساق و فجار کی رہنمائی اور قیادت و فرمانروائی میں چل رہا ہے اور معاملاتِ دنیا کے انتظام کی زمامِ کار جو خدا کے باغیوں کے ہاتھ میں آگئی ہے، ہم یہ دعوت دیتے ہیں کہ اسے بدلا جائے اور رہنمائی و امامت نظری اور عملی دونوں حیثیتوں سے مومنین صالحین کے ہاتھ میں منتقل ہو۔
یہ تینوں نکات اگرچہ اپنی جگہ بالکل صاف ہیں لیکن ایک مدت دراز سے ان پر غفلتوں اور غلط فہمیوں کے پردے پڑے رہے ہیں۔ اس لیے بدقسمتی سے آج غیر مسلموں کے سامنے ہی نہیں بلکہ مسلمانوں کے سامنے بھی ان کی تشریح کرنے کی ضرورت پیش آ گئی ہے۔
بندگی رب کا حقیقی مفہوم
اللہ کی بندگی کی طرف دعوت دینے کا مطلب صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ خدا کو خدا اور اپنے آپ کو خدا کا بندہ تو مان لیا جائے، مگر اس کے بعد اخلاقی و عملی اور اجتماعی زندگی ویسی کی ویسی ہی رہے جیسی خدا کو نہ ماننے اور اس کی بندگی کا اعتراف نہ کرنے کی صورت میں ہوتی ہے۔ اسی طرح خدا کی بندگی کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ خدا کو فوق الفطری طریقہ پر تو خالق اور رازق اور معبود تسلیم کرلیا جائے مگر عملی زندگی کی فرمانروائی و حکمرانی سے اس کو بے دخل کر دیا جائے۔ اسی طرح خدا کی بندگی کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ زندگی کو مذہبی اور دنیوی دو الگ الگ حصوں میں تقسیم کیا جائے اور صرف مذہبی زندگی میں جس کا تعلق عقائد اور عبادات اور حرام و حلال کی چند محدود قیود سے سمجھا جاتا ہے، اللہ کی بندگی کی جائے۔ باقی رہے دنیوی معاملات جو تمدن، معاشرت، سیاست، معیشت، علوم و فنون اور ادب وغیرہ سے تعلق رکھتے ہیں تو ان میں انسان خدا کی بندگی سے بالکل آزاد رہے اور جس نظام کو چاہے خود وضع کرے یا دوسروں کے وضع کیے ہوئے کو اختیار کرلے۔ بندگی رب کے ان سب مفہومات کو ہم سراسر غلط سمجھتے ہیں، ان کو مٹانا چاہتے ہیں اور ہماری لڑائی جتنی شدت کے ساتھ نظامِ کفر کے ساتھ ہے اتنی ہی بلکہ اس سے زیادہ شدت کے ساتھ بندگی کے ان مفہومات کے خلاف ہے۔ کیونکہ ان کی بدولت دین کا تصور ہی سرے سے مسخ ہو گیا ہے۔ ہمارے نزدیک قرآن اور اس سے پہلے کی تمام آسمانی کتابیں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ سے پہلے کے تمام پیغمبر جو دنیا کے مختلف گوشوں میں آئے ان کی بالاتفاق دعوت جس بندگی رب کی طرف تھی وہ یہ تھی کہ انسان خدا کو پورے معنی میں الٰہ اور رب، معبود اور حاکم، آقا اور مالک، رہنما اور قانون ساز، محاسب اور مجازی (جزا دینے والا) تسلیم کرے اور اپنی پوری زندگی کو خواہ وہ شخصی (Individual) ہو یا اجتماعی، اخلاقی ہو یا مذہبی، تمدنی و سیاسی اور معاشی ہو یا علمی و نظری، اسی ایک خدا کی بندگی میں سپرد کر دے۔ یہی مطالبہ ہے جو قرآن میں اس طرح کیا گیا ہے کہ "اُدْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً" تم پورے کے پورے اسلام میں داخل ہو جاؤ، یعنی اپنی زندگی کے کسی پہلو اور کسی شعبہ کو بندگی رب سے محفوظ نہ کر کے نہ رکھو۔ اپنے تمام وجود کے ساتھ، اپنی پوری ہستی کے ساتھ خدا کی غلامی و اطاعت میں آجاؤ۔ زندگی کے کسی معاملے میں بھی تمہارا یہ طرز عمل نہ ہو کہ اپنے آپ کو خدا کی بندگی سے آزاد سمجھو، اور اس کی رہنمائی و ہدایت سے مستغنی ہو کر اور اس کے مقابلہ میں خود مختار بن کر یا کسی خود مختار بنے ہوئے بندے کے پیرو یا مطیع
ہو کر وہ راہ چلنے لگو جس کی ہدایت خود خدا نے نہ دی ہو۔ بندگی کا یہی وہ مفہوم ہے جس کی ہم تبلیغ کرتے ہیں اور جسے قبول کرنے کی سب لوگوں کو، مسلمانوں اور غیر مسلموں سب کو، دعوت دیتے ہیں۔
منافقت کی حقیقت
دوسری چیز جس کی ہم دعوت دیتے ہیں وہ یہ ہے کہ اسلام کی پیروی کا دعویٰ کرنے والے یا اسلام قبول کرنے والے سب لوگ منافقانہ رویہ کو بھی چھوڑ دیں اور اپنی زندگی کو تناقضات سے بھی پاک کریں۔ منافقانہ رویہ سے ہماری مراد یہ ہے کہ آدمی جس دین کی پیروی کا دعویٰ کرے اس کے بالکل بر خلاف نظام زندگی کو اپنے اوپر حاوی و مسلط پا کر راضی اور مطمئن رہے، اس کو بدل کر اپنے دین کو اس کی جگہ قائم کرنے کی کوئی سعی نہ کرے، بلکہ اس کے برعکس اسی فاسقانہ و باغیانہ نظام زندگی کو اپنے لئے ساز گار بنانے اور اس میں اپنے لئے آرام کی جگہ پیدا کرنے کی فکر کرتا رہے یا اگر اس کو بدلنے کی کوشش بھی کرے تو اس کی غرض یہ نہ ہو کہ اس فاسقانہ نظام زندگی کی جگہ دین حق قائم ہو، بلکہ صرف یہ کوشش کرے کہ ایک فاسقانہ نظام ہٹ کر دوسرا فاسقانہ نظام اس کی جگہ قائم ہو جائے۔
ہمارے نزدیک یہ طرز عمل سراسر منافقانہ ہے، اس لئے کہ ہمارا ایک نظام زندگی پر ایمان رکھنا اور دوسرے نظام زندگی میں راضی رہنا بالکل ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ مخلصانہ ایمان کا اولین تقاضا یہ ہے کہ جس طریق زندگی پر ایمان رکھتے ہیں اس کو ہم اپنا قانون حیات دیکھنا چاہیں اور ہماری روح اپنی آخری گہرائیوں تک ہر اس رکاوٹ کے پیش آجانے پر بے چین و مضطرب ہو جائے جو اس طریق زندگی کے مطابق جینے میں سد راہ بن رہی ہو۔ ایمان تو ایسی کسی چھوٹی رکاوٹ کو بھی برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہو سکتا، کجا یہ کہ اس کا پورا کا پورا دین کسی دوسرے نظام زندگی کا تابع مہمل بن کے رہ گیا ہو۔ اس دین کے کچھ اجزاء پر عمل درآمد ہوتا بھی ہو تو صرف اس وجہ سے کہ غالب نظام زندگی نے ان کو بے ضرر سمجھ کر باقی رکھا ہو اور ان رعایات (Concessions) کے ماسوا ساری زندگی کے معاملات دین کی بنیادوں سے ہٹ کر غالب نظام زندگی کی بنیادوں پر چل رہے ہوں، اور پھر بھی ایمان اپنی جگہ نہ صرف خوش اور مطمئن ہو بلکہ جو کچھ بھی سوچے اسی غلبہ کفر کو اصولی موضوعہ کے طور پر تسلیم کر کے سوچے، اس قسم کا ایمان چاہے فقہی اعتبار سے معتبر ہو لیکن دینی لحاظ سے تو اس میں اور نفاق میں کوئی فرق نہیں ہے اور قرآن کی متعدد آیات اس بات پر شاہد ہیں کہ یہ حقیقت میں نفاق ہی ہے۔
ہم چاہتے ہیں کہ جو لوگ بھی اپنے آپ کو بندگی رب کے اس مفہوم کے مطابق جس کی ابھی میں نے تشریح کی ہے، خدائے واحد کی بندگی میں دینے کا اقرار کریں، ان کی زندگی اس نفاق سے پاک ہو۔ بندگی حق کے اس مفہوم کا تقاضا یہ ہے کہ ہم سچے دل سے یہ چاہیں کہ جو طریق زندگی، جو قانون حیات، جو اصول تمدن و اخلاق و معاشرت و سیاست، جو نظام فکر و عمل اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء علیہم السلام کے واسطے سے ہمیں دیا ہے، ہماری زندگی کا پورا کاروبار اسی کی پیروی میں چلے اور ہم ایک لمحہ کے لئے بھی اپنی زندگی کے کسی چھوٹے سے چھوٹے شعبہ کے اندر بھی اس نظام حق کے خلاف کسی دوسرے نظام کے تسلط کو برداشت کرنے کے لئے تیار نہ ہوں۔ اب آپ خود سمجھ لیں کہ نظام باطل کے تسلط کو برداشت کرنا بھی جب کہ تقاضائے ایمان کے خلاف ہو تو اس پر راضی و مطمئن رہنا اور اس کے قیام و بقا کی سعی میں حصہ لینا یا ایک نظام باطل کی جگہ دوسرے نظام باطل کو قائم کرنے کی کوشش کرنا ایمان کے ساتھ کیسے میل کھا سکتا ہے۔
تناقض کی حقیقت
اس نفاق کے بعد دوسری چیز جس کو ہم ہر پرانے اور نئے مسلمان کی زندگی سے خارج کرنا چاہتے ہیں اور جس کے خارج کرنے کی ہر مدعی ایمان کو دعوت دیتے ہیں، وہ تناقض ہے۔ اور تناقض سے ہماری مراد یہ ہے کہ آدمی جس چیز کا زبان سے دعویٰ کرے عمل سے اس کی خلاف ورزی کرے۔ نیز یہ بھی تناقض ہے کہ آدمی کا اپنا عمل ایک معاملہ میں کچھ ہو اور دوسرے معاملہ میں کچھ اور۔ اگر کوئی شخص یہ دعوی کرتا ہے کہ اس نے اپنی پوری زندگی کو خدا کی بندگی میں دے دیا ہے تو اسے جان بوجھ کر کوئی حرکت بھی ایسی نہ کرنی چاہیے جو بندگی رب کی ضد ہو، اور اگر بشری کمزوری کی بنا پر ایسی کوئی حرکت اس سے سرزد ہو جائے تو اسے اپنی غلطی کا اعتراف کر کے پھر بندگی رب کی طرف پلٹنا چاہیے۔
ایمان کے مقتضیات میں سے یہ بھی ایک اہم مقتضا ہے کہ پوری زندگی صبغۃ اللہ میں رنگی ہوئی ہو۔ بہرنگی زندگی تو در کنار، دو رنگی زندگی بھی دعوائے ایمان کے ساتھ میل نہیں کھاتی۔ ہمارے نزدیک یہ بات بہروپئے پن سے کچھ کم نہیں ہے کہ ہم ایک طرف تو خدا اور آخرت اور وحی اور نبوت اور شریعت کو ماننے کا دعویٰ کریں اور دوسری طرف دنیا کی طلب میں لپکتے ہوئے ان درس گاہوں کی طرف خود دوڑیں، انسان کو ان کا شوق دلائیں اور خود اپنے اہتمام میں ایسی درس گاہیں چلائیں جن میں انسان کو خدا سے دور کرنے والی، آخرت کو بھلا دینے والی، مادہ پرستی میں غرق کر دینے والی تعلیم دی جاتی ہو۔ ایک طرف ہم خدا کی شریعت پر ایمان رکھنے کا دعویٰ کریں اور دوسری طرف ان عدالتوں کے وکیل اور جج بنیں اور انہی عدالتوں کے فیصلوں پر حق اور غیر حق کے فیصلے کا دار و مدار رکھیں جو شریعت الٰہی کو ایوانِ عدالت سے بے دخل کر کے شریعت غیر الہی کی بنیاد پر قائم کی گئی ہوں۔
ایک طرف ہم مسجد میں جا جا کر نمازیں پڑھیں اور دوسری طرف مسجد سے باہر نکلتے ہی اپنے گھر کی زندگی میں، اپنے لین دین میں، اپنی معاش کی فراہمی میں، اپنی شادی بیاہ میں، اپنی میراثوں کی تقسیم میں، اپنی سیاسی تحریکوں میں اور اپنے سارے دنیوی معاملات میں خدا اور اس کی شریعت کو بھول کر کہیں اپنے نفس کے قانون کی، کہیں اپنی برادری کے رواج کی، کہیں اپنی سوسائٹی کے طور طریقوں کی اور کہیں خدا سے پھرے ہوئے حکمرانوں کے قوانین کی پیروی میں کام کرنے لگیں۔ ایک طرف ہم اپنے خدا کو بار بار یقین دلائیں کہ ہم تیرے ہی بندے ہیں اور تیری ہی عبادت کرتے ہیں، اور دوسری طرف ہر اس بت کی پوجا کریں جس کے ساتھ ہمارے مفاد، ہماری دلچسپیاں اور ہماری محبتیں اور آسائشیں کچھ نہ کچھ وابستگی رکھتی ہوں۔
یہ اور ایسے بے شمار تناقضات جو آج مسلمانوں کی زندگی میں پائے جاتے ہیں، جن کے موجود ہونے سے کوئی ایسا شخص جو بینائی رکھتا ہو، انکار نہیں کر سکتا، ہمارے نزدیک وہ اصلی گھن ہیں جو امت مسلمہ کی سیرت و اخلاق کو اور اس کے دین و ایمان کو اندر ہی اندر کھائے جاتے ہیں اور آج زندگی کے ہر پہلو میں مسلمانوں سے جن کمزوریوں کا اظہار ہو رہا ہے ان کی اصل جڑ بھی یہی تناقضات ہیں۔ ایک مدت تک مسلمانوں کو یہ اطمینان دلایا جاتا رہا ہے کہ تم شہادت توحید و رسالت زبان سے ادا کرنے اور روزہ و نماز وغیرہ چند مذہبی اعمال کر لینے کے بعد خواہ کتنے ہی غیر دینی اور غیر ایمانی طرز عمل اختیار کر جاؤ، بہر حال نہ تمہارے اسلام پر کوئی آنچ آسکتی ہے اور نہ تمہاری نجات کو کوئی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے حتی کہ اس ڈھیل (Allowance) کی حدود اس حد تک بڑھیں کہ نماز روزہ بھی مسلمان ہونے کے لئے شرط نہ رہا اور مسلمانوں میں عام طور پر یہ تخیل پیدا کر دیا گیا کہ اگر ایک طرف ایمان و اسلام کا اقرار ہو اور دوسری طرف ساری زندگی اس کی ضد ہو تب بھی کچھ نہیں بگڑتا۔
لَن تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّامًا مَّعْدُودَةً
(ترجمہ: ہم دوزخ میں نہیں رہیں گے لیکن چند دن۔ - البقرہ)
اسی چیز کا نتیجہ آج ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ اسلام کے نام کے ساتھ ہر فسق، ہر کفر، ہر معصیت و نافرمانی اور ہر ظلم و سرکشی کا جوڑ آسانی سے لگ جاتا ہے اور مسلمان مشکل ہی سے یہ محسوس کرتے ہیں کہ جن راہوں میں وہ اپنے اوقات، اپنی محنتیں، اپنے مال، اپنی قوتیں اور قابلیتیں اور اپنی جانیں کھپا رہے ہیں اور جن مقاصد کے پیچھے ان کی انفرادی اور اجتماعی کوششیں صرف ہو رہی ہیں، وہ اکثر ان کے اس ایمان کی ضد ہیں جس کا وہ دعویٰ رکھتے ہیں۔ یہ صورت حال جب تک جاری رہے گی اسلام کے دائرہ میں نو مسلموں کا داخلہ بھی کوئی مفید نتیجہ پیدا نہ کر سکے گا، کیونکہ جو منتشر افراد اس کانِ نمک میں آتے جائیں گے وہ اسی طرح نمک بنتے چلے جائیں گے۔ پس ہماری دعوت کا ایک لازمی عنصر یہ ہے کہ ہم ہر مدعی ایمان کی زندگی کو ان تناقضات سے پاک دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہمارا مطالبہ ہر مومن سے یہ ہے کہ وہ حنیف ہو، یکسو، یک رنگ مومن و مسلم ہو، ہر اس چیز سے کٹ جائے اور ہر اس چیز سے کٹ نہ سکتا ہو تو پیہم کٹنے کی جدوجہد کرتا رہے جو ایمان کی ضد اور مسلمانہ طریق زندگی کے منافی ہو، اور خوب اچھی طرح مقتضیاتِ ایمان میں سے ایک ایک تقاضے کو سمجھے اور اسے پورا کرنے کی پیہم سعی کرتا رہے۔
امامت میں تغیر کی ضرورت
اب ہماری دعوت کے تیسرے نکتے کو لیجئے۔ ابھی جن دو نکات کی تشریح میں آپ کے سامنے کر چکا ہوں، یہ تیسرا نکتہ ان سے بالکل ایک منطقی نتیجے کے طور پر نکلتا ہے۔ ہمارا اپنے آپ کو بندگی رب کے حوالے کر دینا اور اس حوالگی و سپردگی میں ہمارا منافق نہ ہونا بلکہ مخلص ہونا اور پھر ہمارا اپنی زندگی کو تناقضات سے پاک کر کے مسلم حقیقت بننے کی کوشش کرنا لازمی طور پر اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ہم اس نظام زندگی میں انقلاب چاہیں جو آج کفر، دہریت، شرک، فسق و فجور، اور بد اخلاقی کی بنیادوں پر چل رہا ہے اور جس کے نقشے بنانے والے مفکرین اور جس کا عملی انتظام کرنے والے مدبرین سب کے سب خدا سے پھرے ہوئے اور اس کی شرائع کے قیود سے نکلے ہوئے لوگ ہیں۔
جب تک زمامِ کار ان لوگوں کے ہاتھ میں رہے گی اور جب تک علوم و فنون، آرٹ اور ادب، تعلیم و تدریس، نشر و اشاعت، قانون سازی اور تنفیذِ قانون، مالیات، صنعت و حرفت و تجارت، انتظامِ ملکی اور تعلقات بین الاقوامی، ہر چیز کی باگ ڈور یہ لوگ سنبھالے ہوئے رہیں گے، کسی شخص کے لئے دنیا میں مسلمان کی حیثیت سے زندگی بسر کرنا اور خدا کی بندگی کو اپنا ضابطہ حیات بنا کر رہنا نہ صرف عملاً محال ہے بلکہ اپنی آئندہ نسلوں کو اعتقاداً بھی اسلام کا پیرو چھوڑ جانا غیر ممکن ہے۔ اس کے علاوہ صحیح معنوں میں جو شخص بندہ رب ہو اس پر منجملہ دوسرے فرائض کے ایک اہم ترین فرض یہ بھی عائد ہوتا ہے کہ وہ خدا کی رضا کے مطابق دنیا کے انتظام کو فساد سے پاک کرے اور صلاح پر قائم کرے۔ اور یہ ظاہر بات ہے کہ یہ مقصد اس وقت تک پورا نہیں ہو سکتا جب تک کہ زمامِ کار صالحین کے ہاتھ میں نہ ہو۔ فساق و فجار اور خدا کے باغی اور شیطان کے مطیع دنیا کے امام و پیشوا اور منظم رہیں اور پھر دنیا میں ظلم، فساد، بد اخلاقی اور گمراہی کا دور دورہ نہ ہو، یہ عقل اور فطرت کے خلاف ہے اور آج تجربہ و مشاہدہ سے کالشمس فی النہار ثابت ہو چکا ہے کہ ایسا ہونا ناممکن ہے۔ پس ہمارا مسلم ہونا خود اس بات کا متقاضی ہے کہ ہم دنیا کے آئمہ ضلالت کی پیشوائی ختم کر دینے اور غلبہ کفر و شرک کو مٹا کر دین حق کو اس کی جگہ قائم کرنے کی سعی کریں۔
امامت میں انقلاب کیسے آتا ہے؟
مگر یہ تغیر محض چاہنے سے نہیں ہو سکتا۔ اللہ تعالیٰ کی مشیت بہر حال دنیا کا انتظام چاہتی ہے اور دنیا کے انتظام کے لئے کچھ صلاحیتیں اور قوتیں اور صفات درکار ہیں۔ جن کے بغیر کوئی گروہ اس انتظام کو ہاتھ میں لینے اور چلانے کے قابل نہیں ہو سکتا۔ اگر مومنین، صالحین کا ایک منظم جتھا ایسا موجود نہ ہو جو انتظام دنیا کو چلانے کی اہلیت رکھتا ہو تو پھر مشیت الہی غیر مومن اور غیر صالح لوگوں کو اپنی دنیا کا انتظام سونپ دیتی ہے۔ لیکن اگر کوئی گروہ ایسا موجود ہو جائے جو ایمان بھی رکھتا ہو، صالح بھی ہو اور ان صفات اور صلاحیتوں اور قوتوں میں بھی کفار سے بڑھ جائے جو دنیا کا انتظام چلانے کے لیے ضروری ہیں تو مشیت الہی نہ ظالم ہے اور نہ فساد پسند کہ پھر بھی اپنی دنیا کا انتظام فساق و فجار اور کفار ہی کے ہاتھ میں رہنے دے۔ پس ہماری دعوت صرف اسی حد تک نہیں ہے کہ دنیا کی زمام کار فساق و فجار کے ہاتھ سے نکل کر مومنین صالحین کے ہاتھ میں آئے، بلکہ ایجاباً (Positively) ہماری دعوت یہ ہے کہ اہل صلاح کا ایک ایسا گروہ منظم کیا جائے جو نہ صرف اپنے ایمان میں پختہ، نہ صرف اپنے اسلام میں مخلص و یک رنگ اور نہ صرف اپنے اخلاق میں صالح و پاکیزہ ہو بلکہ اس کے ساتھ ان تمام اوصاف اور قابلیتوں سے آراستہ ہو جو دنیا کی کارگاہِ حیات کو بہترین طریقے پر چلانے کے لئے ضروری ہیں، اور صرف آراستہ ہی نہ ہو بلکہ موجودہ کار فرماؤں اور کارکنوں سے ان اوصاف اور قابلیتوں میں اپنے آپ کو فائق ثابت کر دے۔
مخالفت اور اس کے اسباب
یہ ہے ہماری دعوت کا خلاصہ۔ اب آپ تعجب کریں گے اگر میں آپ کو بتاؤں کہ اس دعوت کی مزاحمت اور مخالفت سب سے پہلے جس گروہ کی طرف سے ہوتی ہے وہ مسلمانوں کا گروہ ہے۔ اس وقت تک غیر مسلموں کی طرف سے ہمارے خلاف نہ کوئی آواز اٹھی ہے اور نہ عملاً کوئی مزاحمت و مخالفت ہوتی ہے۔ یہ ہم نہیں کہہ سکتے کہ آئندہ بھی یہی صورت حال رہے گی، نہ یہ اندازہ کر سکتے ہیں کہ کب تک یہ صورت حال رہے گی، مگر بہر حال یہ واقعہ اپنی جگہ نہایت دردناک اور افسوسناک ہے کہ اس دعوت کو سن کر ناک بھوں چڑھانے والے، اسے اپنے لئے خطرہ سمجھنے والے اور اس کی مزاحمت میں سب سے آگے بڑھ کر سعی کرنے والے غیر مسلم نہیں بلکہ مسلمان ہیں۔ شاید ایسی ہی کچھ صورت حال ہو گی جس میں اہل کتاب سے فرمایا گیا تھا:
وَلَا تَكُونُوا أَوَّلَ كَافِرٍ بِهِ
(ترجمہ: سب سے پہلے انکار کرنے والے نہ بنو۔ - البقرہ)
ہمیں ہندؤوں، سکھوں اور انگریزوں تک سے تبادلۂ خیال کا موقع ملا ہے۔ مگر بہت کم ایسا اتفاق ہوا کہ ان لوگوں میں سے کسی نے ہمارے لٹریچر کو پڑھ کر یا ہمارے مدعا کو تفصیل کے ساتھ ہماری زبان سے سن کر یہ کہا ہو کہ یہ حق نہیں ہے۔ یا یہ کہ اگر تم اس چیز کو قائم کرنے کی کوشش کرو گے تو ہم ایڑی سے چوٹی تک کا زور تمہاری مزاحمت میں لگا دیں گے۔ متعدد غیر مسلم ہم کو ایسے بھی ملے ہیں جنہوں نے بے اختیار ہو کر کہا کہ کاش یہی اسلام ہندوستان میں پیش کیا گیا ہوتا اور اسی کو قائم کرنے کے لئے باہر سے آنے والے اور اندر سے قبول کرنے والے مسلمانوں نے کوشش کی ہوتی تو آج ہندوستان کا یہ نقشہ نہ ہوتا اور اس ملک کی تاریخ کچھ اور ہی ہوتی۔ بعض غیر مسلموں نے ہم سے یہاں تک کہا کہ اگر فی الواقع ایسی ایک سوسائٹی موجود ہو جو پوری دیانت کے ساتھ انہی اصولوں پر چلے اور جس کا مرنا اور جینا سب اسی ایک مقصد کے لئے ہو تو ہمیں اس کے اندر شامل ہونے میں کوئی تامل نہ ہو گا۔
لیکن اس کے برعکس ہماری مخالفت میں سرگرم اور ہمارے متعلق بدگمانیاں پھیلانے اور ہم پر ہر طرح کے الزام لگانے والے اگر کسی گروہ میں سب سے پہلے اٹھے تو وہ مسلمانوں کا گروہ ہے اور ان میں بھی سب سے زیادہ یہ شرف مذہبی طبقے کے حضرات کو حاصل ہوتا ہے۔ پھر لطف یہ ہے کہ آج تک کسی کو یہ کہنے کی جرأت نہیں ہوئی کہ جس چیز کی دعوت تم لوگ دیتے ہو وہ باطل ہے۔ شاید اس دعوت پر سامنے سے حملہ (Frontal Attack) ممکن ہی نہیں ہے، اس لئے مجبوراً کبھی عقب سے اور کبھی دائیں پہلو سے اور کبھی بائیں جانب سے چھاپے مارنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ بات تو حق ہے مگر اس کی طرف دعوت دینے والا ایسا اور ایسا ہے۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ اس کے حق ہونے میں تو کلام نہیں مگر اس زمانے میں یہ چلنے والی چیز نہیں ہے۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ حق تو یہی ہے مگر اس کا علم بلند کرنے کے لئے صحابہ کرام جیسے لوگ درکار ہیں اور وہ بھلا اب کہاں آسکتے ہیں۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ اس کی صداقت ہونے میں کوئی شبہ نہیں مگر مسلمان اپنی موجودہ سیاسی و معاشی پوزیشن میں اس دعوت کو اپنی واحد دعوت کیسے بنا سکتے ہیں، ایسا کریں تو ان کی دنیا تباہ ہو جائے اور تمام سیاسی اور معاشی زندگی پر غیر مسلم قابض ہو کر ان کے لئے سانس لینے تک کی جگہ نہ چھوڑیں۔
پھر جب اس مسلمان قوم میں سے کوئی اللہ کا بندہ ایسا نکل آتا ہے جو ہماری اس دعوت کو قبول کر کے اپنی زندگی کو واقعی نفاق و تناقض سے پاک کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اپنی پوری زندگی کو بندگیِ رب میں دے ڈالنے کا تہیہ کر لیتا ہے تو سب سے پہلے اس کی مخالفت کرنے کے لئے اس کے اپنے بھائی بند، اس کے ماں باپ، اعزا اور اقرباء، برادری کے لوگ اور دوست آشنا کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اچھے اچھے متقی اور دیندار آدمی بھی جن کی پیشانیوں پر نمازیں پڑھتے پڑھتے گٹے پڑ چکے ہیں اور جن کی زبانیں مذہبیت کی باتوں سے ہر وقت تر رہتی ہیں، اس بات کو گوارا کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے کہ ان کا بیٹا یا بھائی یا کوئی عزیز جس کا دنیوی مفاد انہیں کسی درجہ میں بھی محبوب ہو، اپنے آپ کو اس خطرہ میں ڈالے۔
یہ بات کہ اس دعوت کی مخالفت سب سے پہلے مسلمانوں نے کی اور ان کے بھی اہل دنیا نے نہیں بلکہ اہل دین نے کی، ایک بہت بڑی بیماری کا پتہ دیتی ہے جو مدتوں سے پرورش پا رہی تھی مگر ظاہر فریبی کے پردوں کے پیچھے چھپی ہوئی تھی۔ آج اگر ہم محض علمی رنگ میں اس دعوت کو پیش کرتے اور یہ نہ کہتے کہ آؤ اس چیز کو عمل میں لانے اور بالفعل قائم کرنے کی کوشش کریں تو آپ دیکھتے کہ مخالفت کے بجائے ان مزے دار علمی باتوں پر ہر طرف سے تحسین و آفرین ہی کی صدائیں بلند ہوتیں۔ بھلا کوئی مسلمان ایسا بھی ہو سکتا ہے جو یہ کہہ سکے کہ بندگی خدا کے سوا کسی اور کی ہونی چاہیے، یا یہ کہ مسلمان کو نفاق کی حالت میں اور منافیِ ایمان اعمال میں مبتلا رہنا چاہیئے، یا یہ کہ زمامِ کار مسلمانوں کے ہاتھ میں نہیں بلکہ کفار ہی کے ہاتھ میں رہنی چاہیئے، یا یہ کہ شریعت الہی کو نہیں کفر ہی کے قوانین کو دنیا میں جاری رہنا چاہیئے۔
میں پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اب تک جن چیزوں کی ہم نے دعوت دی ہے ان میں سے کوئی ایک چیز بھی ایسی نہیں ہے جسے ہم دعوتِ عمل کے بغیر صرف علمی حیثیت سے پیش کرتے تو مسلمانوں میں سے کوئی گروہ بلکہ کوئی فرد اس کے خلاف زبان کھولنے پر آمادہ ہوتا۔ لیکن جس چیز نے لوگوں کو مخالفت پر آمادہ کیا وہ یہ صورت ہے کہ ہم ان باتوں کو فقط علمی رنگ میں ہی نہیں پیش کرتے بلکہ ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ آؤ جس چیز کو از روئے حق جانتے ہو اسے عملاً پہلے اپنی زندگی میں اور پھر اپنے گرد و پیش دنیا کی زندگی میں قائم و جاری کرنے کی کوشش کرو۔ یہ بعینہ وہی صورت حال ہے جو اس سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور کے وقت پیش آ چکی ہے۔
جو لوگ عرب جاہلیت کے لٹریچر پر نگاہ رکھتے ہیں، ان سے یہ بات مخفی نہیں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس توحید کی دعوت دی تھی اور جن اصول اخلاق کو آپ پیش فرماتے تھے وہ عرب میں بالکل کوئی نئی چیز نہ تھے۔ اسی قسم کے موحدانہ خیالات زمانہ جاہلیت کے متعدد شعراء اور خطیب پیش کر چکے تھے اور اسی طرح اسلامی اخلاقیات میں سے بھی بیشتر وہ تھے جن کو اہلِ عرب کے حکماء اور خطباء اور شعراء بیان کرتے رہے تھے۔ مگر فرق جو کچھ تھا وہ یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک طرف تو باطل کی آمیزشوں سے الگ کر کے خالص حق کو ایک مکمل و مرتب نظام زندگی کی شکل میں لوگوں کے سامنے پیش کیا، اور دوسری طرف آپ نے یہ بھی چاہا کہ جس توحید کو ہم حق کہتے ہیں اس کے مخالف عناصر کو ہم اپنی زندگی سے خارج کر دیں اور سارے نظام زندگی کو اسی توحید کی بنیاد پر تعمیر کریں، نیز یہ کہ جن اصول و اخلاق کو ہم معیار تسلیم کرتے ہیں ہماری پوری زندگی کا نظام بھی انہی اصولوں پر عملاً قائم ہو۔
یہی سبب تھا کہ جن باتوں کے کہنے پر زمانہ جاہلیت کے کسی خطیب، کسی شاعر اور کسی حکیم کی مخالفت نہیں کی گئی بلکہ الٹا انہیں سراہا گیا، ان ہی باتوں کو جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش کیا تو ہر طرف سے مخالفتوں کا طوفان اٹھ کھڑا ہوا، کیونکہ لوگ اس بات کے لئے تیار نہیں تھے کہ شرک پر جو نظام زندگی قائم تھا اسے بالکل ادھیڑ کر از سر نو توحید کی بنیادوں پر قائم کیا جائے اور اس طرح ان تمام تعصبات اور آبائی رسموں کا، امتیازات اور حقوق اور مناصب کا اور اعزازات و کرامات اور معاشی مفادات کا یک لخت خاتمہ ہو جائے جو صدہا برس سے عہد جاہلیت میں زندگی کی بنیاد بنے ہوئے تھے اور جن سے بعض طبقوں اور خاندانوں کی اغراض وابستہ تھیں۔ اسی طرح لوگ اس بات کے لئے بھی تیار نہیں تھے کہ اخلاقِ فاسدہ کے رواج سے جو آسائشیں اور لذتیں اور منفعتیں اور آزادیاں ان کو حاصل ہیں ان سے دست بردار ہو جائیں اور اخلاقِ صالحہ کی بندشوں میں اپنے آپ کو خود کسوا لیں۔
یہ معاملہ صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے ساتھ پیش نہیں آیا بلکہ حضور سے پہلے جتنے نبی گزرے ہیں ان کی مخالفت بھی زیادہ تر اسی بات پر ہوئی ہے۔ اگر انبیاء صرف علمی اور ادبی حیثیت سے توحید اور آخرت اور اخلاقِ فاضلہ کا ذکر کرتے تو ان کے زمانے کی سوسائٹیاں اسی طرح ان کو برداشت کرتیں بلکہ سر آنکھوں پر بٹھاتیں جس طرح انہوں نے مختلف قسم کے شاعروں اور فلسفیوں اور ادیبوں کو سر آنکھوں پر بٹھایا۔ لیکن ہر نبی کا مطالبہ ان باتوں کے ساتھ یہ بھی تھا کہ:
اتَّقُوا اللَّهَ وَأَطِيعُونِ (الشعراء)
(ترجمہ: اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو)
اور
لَا تُطِيعُوا أَمْرَ الْمُسْرِفِينَ (الشعراء)
(ترجمہ: حد سے گزرنے والوں کی اطاعت نہ کرو)
اور
اتَّبِعُوا مَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ (الاعراف)
(ترجمہ: جو ہدایت تمہاری طرف تمہارے رب کی طرف سے نازل ہوئی ہے اس کی پیروی کرو اور اپنے ربّ کے سوا دوسرے سر پرستوں کی پیروی نہ کرو)
اور پھر انبیاء نے اس پر ہی اکتفا نہ کیا بلکہ ایک مستقل تحریک اسی مقصد کو پورا کرنے کے لئے جاری کی اور اپنے پیرووں کے جتھے منظم کر کے عملاً نظام تہذیب و تمدن و اخلاق کو اپنے نصب العین کے مطابق بدل ڈالنے کی جد و جہد شروع کر دی۔ بس یہی وہ نقطہ تھا جہاں سے ان لوگوں کی مخالفت کا آغاز ہوا جن کے مفاد نظام جاہلیت سے کلی یا جزئی طور پر وابستہ تھے۔
اور آج ہم مشاہدہ کر رہے ہیں کہ ٹھیک یہی نقطہ ہے جہاں سے ہماری مخالفت کی ابتدا ہوئی ہے۔ مسلمانوں نے ایک طویل مدت سے اپنی پوری زندگی کی عمارت ان بہت سی مصالحتوں (Compromises) پر قائم کر رکھی ہے جو نظام جاہلیت کے اور ان کے درمیان طے ہو چکے ہیں۔ یہ مصالحتیں صرف دنیا دارانہ ہی نہیں ہیں بلکہ انہوں نے اچھی خاصی مذہبی نوعیت بھی اختیار کر لی ہے۔ بڑے بڑے مقدس لوگ جن کے تقدس کی قسمیں کھائی جا سکتی ہیں، ان مصالحتوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ نظام باطل کی وابستگی کے ساتھ تقویٰ اور عبادت کے چند مظاہر اس قدر کافی قرار دیے جا چکے ہیں کہ بکثرت لوگ انہی محدود پرہیز گاریوں اور عبادت گزاریوں پر اپنی نجات کی طرف سے مطمئن بیٹھے ہوئے ہیں۔ بہت سے ارباب فضل اور مقاماتِ عالیہ ایسے موجود ہیں جن کے لئے بزرگی اور روحانیت، اور جن کے اونچے مراتب، نظام جاہلیت اور فسق و فجور اور بداعتقادیوں اور ضلالتوں کی خدمت کر لینا اور عہد صحابہ کے نقشے بڑی طلاقتِ لسانی کے ساتھ اپنے وعظوں اور اپنی تحریروں میں کھینچ دینا اسلام کا حق ادا کرنے کے لئے بالکل کافی ہو چکا ہے اور اس کے بعد ان حضرات کے لئے بالکل حلال ہے کہ خود اپنے آپ کو اور اپنی اولاد کو، اپنے متعلقین اور اپنے پیرووں کو اسی نظام باطل کی خدمت میں لگا دیں جس کے لائے ہوئے سیلابِ ضلالت و گمراہی اور طوفانِ فسق و فجور کی یہ دن رات مذمت کرتے رہتے ہیں۔
ان حالات میں جب ہم دین حق اور اس کے مطالبات اور مقتضیات کو محض علمی حیثیت ہی سے پیش کرنے پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ یہ دعوت بھی دیتے ہیں کہ غلط نظام کے ساتھ وہ تمام مصالحتیں ختم کر دو جو تم نے کر رکھی ہیں اور کامل یکسوئی و یک رنگی کے ساتھ حق کی پیروی اختیار کرو اور پھر اس باطل کی جگہ اس حق کو قائم کرنے کے لئے جان و مال اور وقت و محنت کی قربانی دو جس پر تم ایمان لائے ہو، تو ظاہر ہے کہ یہ قصور ایسا نہیں ہے جسے معاف کیا جا سکے۔ اگر سیدھی طرح یہ تسلیم کر لیا جائے کہ واقعی دین کے مطالبات اور مقتضیات یہی ہیں اور حقیقت میں حقیقت اسی کو کہتے ہیں اور اصل بات یہی ہے کہ نظام باطل کے ساتھ مومن کا تعلق مصالحت کا نہیں بلکہ نزاع و کشمکش کا ہونا چاہیئے، تو پھر دو صورتوں میں سے ایک صورت کا اختیار کرنا ناگزیر ہو جاتا ہے۔ یا تو اپنے مفاد کی قربانی گوارا کر کے اس جد و جہد میں حصہ لیا جائے اور ظاہر ہے کہ یہ بہت جان گسل بات ہے، یا پھر اعتراف کر لیا جائے کہ حق تو یہی ہے مگر ہم اپنی کمزوری کی وجہ سے اس کا ساتھ نہیں دے سکتے۔ لیکن یہ اعتراف بھی مشکل ہے کیونکہ ایسا کرنے سے صرف یہی نہیں کہ نجات کی وہ گارنٹی خطرہ میں پڑ جاتی ہے جس کے اطمینان پر اب تک زندگی بسر کی جا رہی تھی، بلکہ اس طرح وہ مقامِ تقدس بھی خطرہ میں پڑ جاتا ہے جو مذہبی و روحانی حیثیت سے ان حضرات کو حاصل رہا ہے اور یہ چیز بھی بہر حال ٹھنڈے پیٹوں گوارا نہیں کی جا سکتی۔ اس لئے ایک بڑے گروہ نے مجبوراً یہ تیسری راہ اختیار کی ہے کہ صاف صاف ہماری اس دعوت کو باطل تو نہ کہا جائے کیونکہ باطل کہنے کے لئے کوئی گنجائش نہیں ہے، لیکن صاف صاف اس کے حق ہونے کا بھی اعتراف نہ کیا جائے، اور اگر کہیں اس کی حقانیت کا اقرار کرنا پڑ ہی جائے تو پھر اصول کو چھوڑ کر کسی شخص یا اشخاص کو بد گمانیوں اور الزامات کا ہدف بنایا جائے تاکہ خود اپنے ہی مانے ہوئے حق کا ساتھ نہ دینے کے لئے وجہ جواز پیدا ہو جائے۔ کاش یہ حضرات کبھی اس بات پر غور فرماتے کہ جو حجتیں آج بندوں کا منہ بند کرنے کے لئے وہ پیش کرتے ہیں، کیا قیامت کے روز وہ خدا کا منہ بھی بند کر دیں گی۔
ہمارا طریق کار
اب میں آپ کے سامنے مختصر طور پر اس طریق کار کو پیش کروں گا جو ہم نے اپنی اس دعوت کے لئے اختیار کیا ہے۔ ہماری دعوت کی طرح ہمارا یہ طریق کار بھی دراصل قرآن اور انبیاء علیہم السلام کے طریقے سے ماخوذ ہے۔ جو لوگ ہماری دعوت کو قبول کرتے ہیں ان سے ہمارا اولین مطالبہ یہی ہوتا ہے کہ اپنے آپ کو عملاً اور بالکلیہ بندگیِ رب میں دے دو اور اپنے عمل سے اپنے اخلاص اور اپنی یکسوئی کا ثبوت دو اور ان تمام چیزوں سے اپنی زندگی کو پاک کرنے کی کوشش کرو جو تمہارے ایمان کی ضد ہیں۔
یہیں سے ان کے اخلاق و سیرت کی تعمیر اور ان کی آزمائش کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ جن لوگوں نے بڑی بڑی اُمنگوں (Ambitions) کے ساتھ اعلیٰ تعلیم حاصل کی تھی، انہیں اپنے اونچے اونچے خوابوں کی عمارتیں اپنے ہاتھ سے ڈھا دینی پڑتی ہیں اور اس زندگی میں قدم رکھنا پڑتا ہے جس میں جاہ و منصب اور معاشی خوش حالیوں کے امکانات انہیں اپنی زندگی میں تو در کنار، اپنی دوسری تیسری پشت میں بھی دور دور نظر نہیں آتے۔ جن لوگوں کی معاشی خوشحالی کسی مرہونہ زمین یا کسی مغصوبہ جائیداد یا کسی ایسی میراث پر قائم تھی جس میں حقداروں کے حقوق مارے گئے تھے، انہیں بسا اوقات دامن جھاڑ کر اس خوشحالی سے کنارہ کش ہو جانا پڑتا ہے، صرف اس لئے کہ جس خدا کو انہوں نے اپنا آقا تسلیم کیا ہے اس کے منشاء کے خلاف کسی کا مال کھانا ان کے ایمان کے منافی ہے۔ جن لوگوں کے وسائلِ زندگی غیر شرعی تھے یا نظامِ باطل سے وابستہ تھے، ان کو ترقیوں کے خواب دیکھنا تو در کنار موجودہ وسائل سے حاصل کی ہوئی روٹی کا بھی ایک ایک ٹکڑا حلق میں اتارنا ناگوار ہونے لگتا ہے، اور وہ ان وسائل کو پاک تر وسائل سے، خواہ وہ حقیر ترین ہی کیوں نہ ہوں، بدلنے کے لئے ہاتھ پاؤں مارنے لگتے ہیں۔
پھر جیسا کہ ابھی میں آپ کے سامنے بیان کر چکا ہوں، اس مسلک کو عملی اختیار کرتے ہی آدمی کا قریب ترین ماحول اس کا دشمن بن جاتا ہے۔ اس کے اپنے والدین، اس کے بھائی بند، اس کی بیوی اور بچے اور اس کے جگری دوست سب سے پہلے اس کے ایمان سے قوت آزمائی کرتے ہیں۔ اور بسا اوقات اس مسلک کا پہلا اثر ظاہر ہوتے ہی آدمی کا اپنا گہوارہ جس میں وہ نازوں سے پالا گیا تھا، اس کے لئے زنبور خانہ بن کر رہ جاتا ہے۔ یہ ہے وہ ابتدائی تربیت گاہ جو صالح و مخلص اور قابلِ اعتماد سیرت کے کارکن فراہم کرنے کے لئے قدرتِ الہی نے ہمارے لئے خود بخود پیدا کر دی ہے۔ ان ابتدائی آزمائشوں میں جو لوگ ناکام ہو جاتے ہیں وہ آپ سے آپ چھٹ کر الگ ہو جاتے ہیں اور ہمیں ان کو چھانٹ پھینکنے کی زحمت گوارا نہیں کرنی پڑتی۔ اور جو لوگ ان میں پورے اترتے ہیں وہ ثابت کر دیتے ہیں کہ ان کے اندر کم از کم اتنا اخلاص، اتنی یکسوئی، اتنا صبر اور عزم، اتنی محبتِ حق اور اتنی مضبوطیِ سیرت ضرور موجود ہے جو خدا کی راہ میں قدم رکھنے اور پہلے مرحلۂ امتحان سے کامیاب گزر جانے کے لئے ضروری ہے۔ اس مرحلے کے کامیاب لوگوں کو ہم نسبتاً زیادہ بھروسے اور اطمینان کے ساتھ لے کر دوسرے مرحلے کی طرف پیش قدمی کر سکتے ہیں جو آگے آنے والا ہے اور جس میں اس سے زیادہ آزمائشیں پیش آنے والی ہیں۔ وہ آزمائشیں پھر ایک دوسری بھٹی تیار کریں گی جو اسی طرح کھوٹے سکوں کو چھانٹ کر پھینک دے گی اور زرِ خالص کو اپنی گود میں رکھ لے گی۔
جہاں تک ہمارا علم ساتھ دیتا ہے، ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ انسانی معادن سے کار آمد عناصر کو چھانٹنے اور ان کو زیادہ کار آمد بنانے کے لئے یہی طریقہ پہلے بھی اختیار کیا جاتا رہا ہے اور جو تقویٰ ان بھٹیوں میں تیار ہوتا ہے، چاہے وہ فقہی ناپ تول میں پورا نہ اترے، اور خانقاہی معیاروں پر کبھی ناقص نکلے، مگر صرف اسی طرز سے تیار کئے ہوئے تقویٰ میں یہ طاقت ہو سکتی ہے کہ انتظامِ دنیا کی بھاری ذمہ داریوں کا بوجھ سنبھال سکے اور ان بارِ امانتوں کا بار اٹھا سکے جن کے ایک قلیل سے قلیل جزو کا وزن بھی خانقاہی تقویٰ کی برداشت سے باہر ہے۔
اس کے ساتھ دوسری چیز جو ہم اپنے ارکان پر لازم کرتے ہیں یہ ہے کہ جس حق کی روشنی انہوں نے پائی ہے اس سے وہ اپنے قریبی ماحول کو اور ان سب لوگوں کو جن سے ان کا قرابت یا دوستی یا ہمسائیگی یا لین دین کا تعلق ہے، روشناس کرانے کی کوشش کریں اور انہیں اس کی طرف آنے کی دعوت دیں۔ یہاں پھر آزمائشوں کا ایک سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ سب سے پہلے تو اس تبلیغ کی وجہ سے مبلغ کی اپنی زندگی درست ہوتی ہے، کیونکہ یہ کام شروع کرتے ہی بے شمار خردبین اور دیدہ بان (Search Light) اس کی ذات کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں اور مبلغ کی زندگی میں اگر کوئی چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی اس کے ایمان اور اس کی دعوت کے منافی موجود ہو تو یہ مفت کے محتسب اسے نمایاں کر کے مبلغ کے سامنے رکھ دیتے ہیں اور تازیانے لگا لگا کر اسے مجبور کرتے ہیں کہ اپنی زندگی کو اس سے پاک کرے۔ اگر مبلغ فی الواقع اس دعوت پر سچے دل سے ایمان لایا ہو تو وہ ان تنقیدوں پر جھنجھلانے اور تاویلوں سے اپنے عمل کی غلطی کو چھپانے کی کوشش نہ کرے گا بلکہ ان لوگوں کی خدمات سے فائدہ اٹھائے گا جو مخالفت کی نیت ہی سے سہی، مگر بہر حال اس کی اصلاح میں بغیر کسی معاوضے کے سعی و محنت صرف کرتے رہتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جس برتن کو بیسیوں ہاتھ مانجھنے میں لگ جائیں اور مانجھتے ہی چلے جائیں، وہ چاہے کتنا ہی کثیف ہو، آخر کار مجلا و مصفا ہو کر رہے گا۔
پھر اس تبلیغ سے ہمارے کارکنوں میں بہت سے ان اوصاف کو بالیدگی حاصل ہوتی ہے جنہیں آگے چل کر دوسرے میدانوں میں کسی اور شکل سے ہم کو استعمال کرنا ہے۔ جب مبلغ کو طرح طرح کے دل شکن حالات سے گزرنا پڑتا ہے، کہیں اس کی ہنسی اڑائی جاتی ہے، کہیں اس پر طعنے اور آوازے کسے جاتے ہیں، کہیں گالیوں اور دوسری جہالتوں سے اس کی تواضع کی جاتی ہے، کہیں اس پر الزامات کی بوچھاڑ کی جاتی ہے، کہیں اس کو فتنوں میں الجھانے کی نت نئی تدبیریں کی جاتی ہیں، کہیں اُسے گھر سے نکال دیا جاتا ہے، میراث سے محروم کیا جاتا ہے، دوستیاں اور رشتہ داریاں اس سے منقطع کر لی جاتی ہیں اور اس کے لئے اپنے ماحول میں سانس لینا تک دشوار کر دیا جاتا ہے، تو ان حالات میں جو کارکن نہ ہمت ہارے، نہ حق سے پھرے، نہ باطل پرستوں کے آگے سپر ڈالے، نہ مشتعل ہو کہ اپنے دماغ کا توازن کھوئے، بلکہ اس کے برعکس حکمت اور تدبیر اور ثابت قدمی اور راست بازی اور پرہیز گاری اور ایک سچے حق پرست کی سی ہمدردی و خیر خواہی کے ساتھ اپنے مسلک پر قائم اور اپنے ماحول کی اصلاح میں پیہم کوشاں رہے، اس کے اندر ان اوصافِ عالیہ کا پیدا ہونا اور نشوونما پانا یقینی ہے جو آگے چل کر ہماری اس جد و جہد کے دوسرے مرحلوں میں اس سے بہت زیادہ بڑے پیمانے پر درکار ہوں گے۔
اس تبلیغ کے سلسلہ میں ہم نے وہی طریق کار اپنے کارکنوں کو سکھانے کی کوشش کی ہے جو قرآن مجید میں تعلیم فرمایا گیا ہے، یعنی یہ کہ حکمت اور موعظۂ حسنہ کے ساتھ خدا کے راستے کی طرف دعوت دیں، تدریج اور نظری ترتیب کو ملحوظ رکھتے ہوئے لوگوں کے سامنے دین کے اولین بنیادی اصولوں کو اور پھر رفتہ رفتہ ان کے مقتضیات اور لوازم کو پیش کریں، کسی کو اس کی قوتِ ہضم سے بڑھ کر خوراک دینے کی کوشش نہ کریں، فروع کو اصول پر اور جزئیات کو کلیات پر مقدم نہ کریں، بنیادی خرابیوں کو رفع کئے بغیر ظاہری برائیوں اور بیرونی شاخوں کو چھانٹتے اور کاٹنے میں اپنا وقت ضائع نہ کریں، غفلت اور اعتقادی و عملی گمراہیوں میں پھنسے ہوئے لوگوں کے ساتھ نفرت و کراہیت کا برتاؤ کرنے کے بجائے ایک طبیب کی سی ہمدردی و خیر خواہی کے ساتھ ان کے علاج کی فکر کریں، گالیوں اور پتھروں کے جواب میں دعائے خیر کرنا سیکھیں، ظلم اور ایذارسانی پر صبر کریں، جاہلوں سے بحثوں اور مناظروں اور نفسانی مجادلوں میں نہ الجھیں، لغو اور بیہودہ باتوں سے عالی ظرف اور شریف لوگوں کی طرح درگزر کریں، جو لوگ حق سے مستغنی بنے ہوئے ہوں ان کے پیچھے پڑنے کے بجائے ان لوگوں کی طرف توجہ کریں جن کے اندر کچھ طلبِ حق پائی جاتی ہو خواہ وہ دنیوی اعتبار سے کتنے ہی ناقابلِ توجہ سمجھے جاتے ہوں، اور اپنی تمام سعی و جہد میں ریا اور نمود و نمائش سے بچیں، اپنے کارناموں کو گنانے اور فخر کے ساتھ ان کا مظاہرہ کرنے اور لوگوں کی توجہات اپنی طرف کھینچنے کی ذرہ برابر کوشش نہ کریں، بلکہ جو کچھ کریں اس نیت اور اس یقین و اطمینان کے ساتھ کریں کہ ان کا سارا عمل خدا کے لئے ہے اور خدا بہر حال ان کی خدمات سے بھی واقف ہے، اور ان خدمات کی قدر بھی اسی کے ہاں ہوتی ہے خواہ خلق اس سے واقف ہو یا نہ ہو اور خلق کی طرف سے سزا ملے یا جزا۔
یہ طریق کار غیر معمولی صبر اور حلم اور لگاتار محنت چاہتا ہے۔ اس میں ایک مدتِ دراز تک مسلسل کام کرنے کے بعد بھی شاندار نتائج کی وہ ہری بھری فصل لہلہاتی نظر نہیں آتی جو سطحی اور نمائشی کام شروع کرتے ہی دوسرے دن سے تماشائیوں اور مداریوں کا دل لبھانا شروع کر دیتی ہے۔ اس میں ایک طرف خود کارکن کے اندر وہ گہری بصیرت، وہ سنجیدگی، وہ پختہ کاری اور وہ معاملہ فہمی پیدا ہوتی ہے جو اس تحریک کے زیادہ صبر آزما اور زیادہ محنت و حکمت چاہنے والے مراحل میں درکار ہونے والی ہے، اور دوسری طرف اس سے تحریک اگر چہ آہستہ رفتار سے چلتی ہے مگر اس کا ایک ایک قدم مستحکم ہوتا چلا جاتا ہے۔ صرف ایسے ہی طریقِ تبلیغ سے سوسائٹی کا مکھن نکال کر تحریک میں جذب کیا جا سکتا ہے۔ اوچھے اور سطحی لوگوں کی بھیڑ جمع کرنے کے بجائے اس طریقِ تبلیغ سے سوسائٹی کے صالح ترین عناصر تحریک کی طرف کھنچتے ہیں اور سنجیدہ (Serious) کارکن تحریک کو میسر آتے ہیں جن میں سے ایک ایک آدمی کی شرکت ہزار بوالفضولوں کے انبوہ سے زیادہ قیمتی ہوتی ہے۔
ہمارے طریق کار کا ایک بڑا اہم جز یہ ہے کہ ہم نے اپنے آپ کو نظامِ باطل کی قانونی اور عدالتی حفاظت سے خود بخود محروم کر لیا ہے اور علی الاعلان دنیا کو بتا دیا ہے۱ کہ ہم اپنے انسانی حقوق، اپنے مال و جان اور عزت و آبرو کسی چیز کی عصمت بھی قائم رکھنے کے لئے اس نظام کی مدد حاصل کرنا نہیں چاہتے جس کو ہم باطل سمجھتے ہیں۔ لیکن اس چیز کو ہم نے تمام ارکان پر لازم نہیں کیا ہے، بلکہ ان کے سامنے ایک بلند معیار رکھ دینے کے بعد ان کو اختیار دے دیا ہے کہ چاہیں تو اس معیار کی انتہائی بلندیوں تک پہنچ جائیں ورنہ حالات کی مجبوریوں سے شکست کھا کھا کر جس قدر پستی میں گرنا چاہیں گرتے چلے جائیں۔ البتہ پستی کی ایک حد ہم نے مقرر کر دی ہے کہ اس سے گر جانے والے کو ہم اپنی جماعت میں نہ رکھیں گے، یعنی ایسا شخص جو جھوٹا مقدمہ بنائے، یا جھوٹی شہادت دے، یا ایسی مقدمہ بازی میں الجھے جس کے لئے کسی مجبوری کا عذر نہ پیش کیا جا سکے، بلکہ وہ سراسر منفعت طلبی یا نفسانیت کی تسکین یا دوستی اور رشتہ داری کی عصبیت ہی پر مبنی ہو، ہماری جماعت میں جگہ نہیں پاسکتا۔
بظاہر لوگ ہمارے اس طریق کار کی حکمتوں کو جو ہم نے قانون و عدالت کے معاملے میں اختیار کیا ہے، پوری طرح نہیں سمجھتے، اس لئے وہ طرح طرح کے سوالات ہمارے سامنے پیش کرتے ہیں۔ مگر فی الحقیقت اس کے بے شمار فائدے ہیں۔ اس کا اولین فائدہ یہ ہے کہ ہم اپنا ایک با اصول جماعت ہونا اپنے عمل سے اور ایسے عمل سے ثابت کر دیتے ہیں جو محض تفریحی نوعیت ہی نہیں رکھتا بلکہ صریح طور پر نہایت تلخ اور انتہائی کڑی آزمائشیں اپنے دامن میں لئے ہوئے ہے۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ خدا کے سوا کسی کو انسانی زندگی کے لئے قانون بنانے کا حق نہیں ہے، اور جب ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ حاکمیت (Sovereignty) صرف خدا کا حق ہے اور خدا کی اطاعت اور اس کے قانون کی پابندی کے بغیر کوئی زمین میں حکم چلانے کا مجاز نہیں ہے، اور جب ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ جو قانونِ الٰہی کی سند کے بغیر معاملاتِ انسانی کا فیصلہ کرے وہ کافر اور فاسق اور ظالم ہے، تو ہمارے اس عقیدے اور ہمارے اس دعوے سے خود بخود یہ بات لازم آجاتی ہے کہ ہم اپنے حقوق کی بنیاد کسی غیر الٰہی قانون پر نہ رکھیں اور حق اور غیر حق کا فیصلہ کسی ایسے حاکم کی حکومت پر نہ چھوڑیں جس کو ہم باطل سمجھتے ہیں۔ اپنے عقیدے کے اس تقاضے کو اگر ہم سخت سے سخت نقصانات اور انتہائی خطرات کے مقابلے میں بھی پورا کر کے دکھا دیں تو یہ ہماری راستی اور ہماری مضبوطیِ سیرت اور ہمارے عقیدے اور عمل کی مطابقت کا ایسا بیّن ثبوت ہو گا جس سے بڑھ کر کسی دوسرے ثبوت کی حاجت نہیں رہتی۔ اور اگر کسی نفع کی امید یا کسی نقصان کا خطرہ یا کسی ظلم و ستم کی چوٹ ہم کو مجبور کر دے کہ ہم اپنے عقیدے کے خلاف کام کر گزریں تو یہ ہماری کمزوری کا اور ہماری سیرت کے بودے پن کا بھی ایک نمایاں ترین ثبوت ہو گا جس کے بعد کسی دوسرے ثبوت کی ضرورت نہ رہے گی۔
اس کا دوسرا فائدہ یہ ہے کہ اپنے ارکان کی پختگی اور ان کے قابلِ اعتماد یا ناقابلِ اعتماد ہونے کا اندازہ کرنے کے لئے ہمارے پاس یہ ایک ایسی کسوٹی ہو گی جس سے ہم بآسانی یہ معلوم کرتے رہیں گے کہ ہم میں سے کون لوگ کتنے پختہ ہیں اور کس سے کسی قسم کی آزمائشوں میں ثابت قدم رہنے کی توقع کی جا سکتی ہے۔
اس کا تیسرا اور عظیم الشان فائدہ یہ ہے کہ ہمارے ارکان یہ مسلک اختیار کرنے کے بعد آپ سے آپ اس بات پر مجبور ہو جائیں گے کہ سوسائٹی کے ساتھ اپنے تعلقات کو قانون کی بنیادوں پر قائم کرنے کے بجائے اخلاق کی بنیادوں پر قائم کریں۔ ان کو اپنا اخلاقی معیار اتنا بلند کرنا پڑے گا، اپنے آپ کو اپنے ماحول میں اس قدر راست باز، اتنا متدین، اتنا امین، اتنا خدا ترس اور اس قدر خیر مجسم بنانا پڑے گا کہ لوگ خود بخود ان کے حقوق، ان کی عزت اور ان کی جان و مال کا احترام کرنے پر مجبور ہو جائیں گے کیونکہ اس اخلاقی تحفظ کے سوا ان کے لئے دنیا میں اور کوئی تحفظ نہ ہو گا اور قانونی تحفظ سے محروم ہونے اور پھر اخلاقی تحفظ بھی حاصل نہ کرنے کی صورت میں ان کی حیثیت دنیا میں بالکل ایسی ہو کر رہ جائے گی جیسے جنگل میں ایک بکری بھیڑیوں کے درمیان رہتی ہو۔
اس کا چوتھا فائدہ یہ ہے اور یہ بھی کچھ کم اہم نہیں ہے کہ ہم اس طرح اپنے آپ کو اور اپنے مفاد اور حقوق کو خطرے میں ڈال کر موجودہ سوسائٹی کی اخلاقی حالت کو بالکل برہنہ کر کے دنیا کے سامنے رکھ دیں گے۔ جب یہ لوگ جاننے کے بعد کہ ہم پولیس اور عدالت سے اپنی حفاظت کے لئے کوئی مدد لینے والے نہیں ہیں، ہمارے حقوق پر علی الاعلان ڈاکے ماریں گے تو یہ اس بات کا نمایاں ترین ثبوت ہو گا کہ ہمارے ملک کی اور ہماری سوسائٹی کی اخلاقی حالت کس قدر کھوکھلی ہے، کتنے آدمی ہیں جو صرف اس وجہ سے شریف بنے ہوئے ہیں کہ قانون نے ان کو شریف بنا رہنے پر مجبور کر رکھا ہے، کتنے آدمی ہیں جو ہر قسم کی خیانت اور بے ایمانی کرنے پر آمادہ ہو سکتے ہیں، بشرطیکہ ان کو اطمینان ہو جائے کہ دنیا میں کوئی ان پر گرفت کرنے والا نہیں ہے، کتنے آدمی ہیں جنہوں نے مذہب اور اخلاق اور انسانیت کے جھوٹے لبادے اوڑھ رکھے ہیں حالانکہ اگر موقع میسر آجائے اور کوئی رکاوٹ موجود نہ ہو تو ان سے بدترین بد اخلاقی اور لامذہبیت اور حیوانیت کا صدور نہایت آسانی کے ساتھ ہو سکتا ہے۔ یہ اخلاقی ناسور جو چھپا ہوا ہے اور اندر ہی اندر ہماری قومی سیرت کو چاٹ رہا ہے، ہم اس کو علی رؤوس الاشہاد بے پردہ کر کے رکھ دیں گے تاکہ ہمارے ملک کا اجتماعی ضمیر چونک پڑے اور اسے ٹھیک ٹھیک اندازہ ہو کہ جس مرض سے وہ اب تک غفلت برت رہا ہے وہ کتنی دور پہنچ چکا ہے۔
۱۔ واضح رہے کہ یہ پالیسی غیر منقسم ہندوستان میں تھی جب کہ ایک لادینی حکومت قائم تھی۔
اعتراضات و شبہات
صاحبو! اپنی دعوت اور اپنے طریق کار کی یہ مختصر تشریح میں نے آپ کے سامنے پیش کر دی ہے۔ آپ اس کو جانچیں اور پرکھیں اور اس پر کڑی سے کڑی تنقید کریں اور دیکھیں کہ ہم کس چیز کی طرف بلا رہے ہیں، اور بلانے کے لئے ہم نے جو ڈھنگ اختیار کیا ہے وہ کہاں تک صحیح ہے، کس حد تک خدا اور رسول کی تعلیمات کے مطابق ہے، کس حد تک موجودہ انفرادی و اجتماعی امراض کا صحیح علاج ہے اور کس حد تک اس سے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ ہم اپنے آخری مقصود یعنی کلمۃ اللہ کے بلند اور کلمات باطلہ کے پست ہو جانے کو حاصل کر سکتے ہیں۔ اب میں ان شبہات و اعتراضات پر کچھ عرض کروں گا جو اسی اجتماع کے دوران میں بعض رفقاء اور ہمدردوں کے ذریعے سے مجھ تک پہنچائے گئے ہیں۔
علماء اور مشائخ کی آڑ
ایک اعتراض جو پہلے بھی بار بار پیش ہو چکا ہے اور آج بھی وہ میرے پاس تحریری شکل میں آیا ہے، یہ ہے کہ ایسے بڑے بڑے علماء اور پیشوایانِ دین (جن کے کچھ نام بھی گنائے گئے ہیں) کیا دین سے اس قدر ناواقف تھے کہ نہ صرف یہ کہ خود انہوں نے دین کے ان تقاضوں کو جو تم بیان کرتے ہو نہیں سمجھا اور پورا کرنے کی طرف توجہ نہیں کی، بلکہ تمہارے بیان کرنے کے بعد بھی انہوں نے اسے تسلیم نہیں کیا اور نہ تمہارے ساتھ تعاون کرنا قبول کیا؟ کیا یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ سب دین سے ناواقف ہیں؟ یا اس بات کا کہ تم نے خود دین کے نام سے ایک ایسی چیز پیش کی ہے جو مقتضیاتِ دین میں سے نہیں ہے؟
اس سوال کا بہت مختصر جواب میرے پاس یہ ہے کہ میں نے دین کو رجال یا ماضی کے اشخاص سے سمجھنے کے بجائے ہمیشہ قرآن اور سنت ہی سے سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ اس لئے میں کبھی یہ معلوم کرنے کے لئے کہ خدا کا دین مجھ سے اور ہر مومن سے کیا چاہتا ہے، یہ دیکھنے کی کوشش نہیں کرتا کہ فلاں اور فلاں بزرگ کیا کہتے ہیں اور کیا کرتے ہیں، بلکہ صرف یہ دیکھنے کی کوشش کرتا ہوں کہ قرآن مجید کیا کہتا ہے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا کیا؟ اسی ذریعۂ معلومات کی طرف میں آپ لوگوں کو بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ آپ یہ دیکھئے کہ جس چیز کی طرف میں آپ کو دعوت دے رہا ہوں اور جو طریق کار اس کے لئے پیش کر رہا ہوں، آیا قرآن کی دعوت وہی ہے اور انبیاء علیہم السلام کا طریق کار وہی رہا ہے یا نہیں۔ اگر قرآن و سنت سے یہ بات ثابت ہو جائے اور آپ کے نزدیک قرآن و سنت ہی اصل ذریعۂ ہدایت ہوں تو میری بات مانئے اور میرے ساتھ آجائیے، اور اگر اس دعوت اور اس طریق کار میں کوئی چیز قرآن و سنت سے ہٹی ہوئی ہو تو بے تکلف اسے ظاہر کر دیجیئے، جس وقت مجھ پر اور میرے رفقاء پر یہ منکشف ہوئے گا کہ ہم کہیں بال برابر بھی قرآن اور سنت سے ہٹے ہیں تو آپ انشاء اللہ دیکھ لیں گے کہ ہم حق کی طرف رجوع کرنے میں ایک لمحے کے لئے بھی تامل کرنے والے نہیں ہیں۔ لیکن اگر آپ حق و باطل کا فیصلہ خدا کی کتاب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی بجائے اشخاص پر رکھنا چاہتے ہیں تو آپ کو پورا اختیار ہے کہ آپ اپنے آپ کو اور اپنے مستقبل کو اشخاص ہی کے حوالے کر دیجیئے اور خدا کے ہاں بھی یہی جواب دیجیئے گا کہ ہم نے اپنا دین تیری کتاب اور تیرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے بجائے فلاں اور فلاں لوگوں کے حوالے کر دیا تھا۔ یہ جواب اگر آپ کو خدا کے ہاں بچا سکتا ہے تو اسی پر اطمینان سے کام کرتے رہیئے۔
زہد کا طعنہ
ایک اور اعتراض جس کے متعلق مجھے لکھا گیا ہے کہ ایک مخلص ہمدرد نے اسے پیش کیا ہے، یہ ہے کہ یہ تمہاری جماعت محض چند زاہد اور تارکین دنیا کی ایک جماعت ہے جو دنیا کے معاملات سے بے تعلق ہو کر ایک طرف بیٹھ گئی ہے اور جسے سیاسیاتِ حاضرہ سے کوئی بحث نہیں ہے، درآں حالیکہ مسلمانوں کو حالات نے مجبور کر دیا ہے کہ بغیر ایک لمحہ ضائع کیے ان سیاسی مسائل کو حل کریں جن کے حل پر پوری قوم کے مستقبل کا انحصار ہے، اور صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ غیر مسلم بھی مجبور ہیں کہ سب سے پہلے اپنے ملک کے سیاسی مستقبل کی فکر کریں کیونکہ اسی پر ان کی فلاح کا مدار ہے، لہٰذا اس ملک میں جو لوگ بھی زندگی کے عملی مسائل سے دلچسپی و تعلق رکھتے ہیں وہ تو تمہاری طرف توجہ نہیں کر سکتے البتہ کچھ گوشہ نشین و زاویہ پسند لوگ جو مذہبی ذہنیت رکھتے ہوں تمہیں ضرور مل جائیں گے۔
یہ اعتراض دراصل اس سطح بینی کا نتیجہ ہے جس سے ہمارے آج کل کے سیاست کار حضرات معاملات کو دیکھنے اور سمجھنے میں کام لے رہے ہیں۔ یہ لوگ محض سیاسی اشکال اور صورتوں کے رد و بدل کو دیکھتے ہیں اور ان ہی میں اپنے مسائل کا حل تلاش کرتے ہیں لیکن سیاست کی عمارت جن بنیادوں پر قائم ہوتی ہے ان تک ان کی نگاہ نہیں پہنچتی۔ آپ کے موجودہ سیاسی مسائل جن کی فکر میں آپ لوگ آج کل الجھے ہوئے ہیں کس چیز کے پیدا کردہ ہیں؟ صرف اس چیز کے کہ جن اخلاقی اور اعتقادی و فکری اور تہذیبی و تمدنی بنیادوں پر اس ملک کی سوسائٹی قائم تھی وہ اتنی کمزور ثابت ہوئیں کہ ایک دوسری قوم اگرچہ وہ نہایت ہی گمراہ اور نہایت ہی غلط کار تھی، مگر بہرحال اپنے اخلاقی اوصاف، اپنی تہذیبی و تمدنی طاقت اور اپنی عملی قابلیتوں کے لحاظ سے وہ آپ سے اتنی زیادہ برتر ثابت ہوئی کہ ہزاروں میل دور سے آکر اس نے آپ کو اپنا محکوم بنا لیا۔ پھر آپ اپنی مدت ہائے دراز کی غفلتوں اور کمزوریوں کی وجہ سے اس حد تک گرے کہ خود اس محکومی کے اندر بھی آپ کی ہمسایہ قومیں آپ کے مقابلے میں زیادہ طاقتور ہو گئیں اور آپ کے لئے یہ سوال پیدا ہو گیا کہ اپنے آپ کو پہلے کس سے بچائیں، گھر والے سے یا باہر والے سے؟
یہ ہے آپ کے تمام موجودہ سیاسی مسائل کا خلاصہ، اور ان مسائل کو آپ بھی اور آپ کی ہمسایہ دوسری ہندوستانی قومیں بھی صرف اس طرح حل کرنا چاہتی ہیں کہ ملک کا سیاسی نظام جس شکل پر قائم ہے اس میں کچھ اوپری رد و بدل ہو جائے۔ میں اس سیاست کو اور اس سیاسی طریق کار کو بالکل مہمل سمجھتا ہوں اور اس میں اپنا وقت ضائع کرنے کا کچھ حاصل نہیں پاتا۔ پھر صرف ہندوستان ہی میں نہیں بلکہ ساری دنیا میں جو سیاسی مسائل اس وقت درپیش ہیں ان کا خلاصہ بھی میرے نزدیک صرف یہ ہے کہ انسان کو جو حیثیت دنیا میں فی الواقع حاصل نہیں تھی اسے خواہ مخواہ اپنی حیثیت بنا لینے پر اس نے اصرار کیا اور اپنے اخلاق، اپنی تہذیب، اپنے تمدن، اپنی معیشت اور اپنی سیاست کی بنیاد خدا سے خود مختاری پر رکھ دی جس کا انجام آج ایک عظیم الشان فساد اور ایک زبردست طوفانِ فسق و فجور کی شکل میں رونما ہو رہا ہے۔ اس انجام کو انتظامِ دنیا کی محض ظاہری شکلوں کے رد و بدل سے دور کرنے کے لئے جو کوششیں آج کی جا رہی ہیں انہی کا نام آج سیاست ہے اور میرے نزدیک، بلکہ فی الحقیقت اسلام کے نزدیک یہ سیاست سراسر لغو اور بے حاصل ہے۔ میں نے اسلام سے جن حقیقتوں کو سمجھا ہے ان کی بنا پر میرے نزدیک ہندوستان کے مسلمانوں کی اور ہندوستان کے سارے باشندوں کی اور تمام دنیائے مسلمین اور دنیائے غیر مسلمین کی سیاست کا حل صرف یہ ہے کہ ہم سب خدا کی بندگی اختیار کریں، اس کے قانون کو اپنا قانونِ حیات تسلیم کریں اور انتظامِ دنیا کی زمامِ اختیار فساق و فجار کے بجائے عباد اللہ الصالحین کے ہاتھ میں ہو۔ یہ سیاست اگر آپ کو اپیل نہیں کرتی تو آپ کچھ دوسری سیاست بازیوں سے اپنے مسائل کو حل کرنا چاہتے ہیں تو آپ کا راستہ الگ ہے اور میرا راستہ الگ۔ جائیے اور جن جن طریقوں سے اپنے مسائل کو حل کرنا چاہتے ہیں حل کر کے دیکھ لیجئے۔ مگر میں اور میرے رفقاء علی وجہ البصیرت جس چیز میں اپنی قوم کی، اپنے ملک کی اور ساری دنیا کی فلاح دیکھتے ہیں، اسی پر ہم اپنی ساری کوششیں صرف کرتے رہیں گے۔ اگر دنیا کے لوگ ہماری باتوں کی طرف توجہ کریں گے تو ان کے اپنے لئے بھلا ہے اور نہ کریں گے تو اپنا کچھ بگاڑیں گے۔ ہمارا کچھ نقصان نہ کر سکیں گے۔
رہی یہ غلط فہمی کہ ہم زاہدوں اور گوشہ نشینوں کا ایک گروہ بنا رہے ہیں، تو اگر یہ عمداً واقعہ کی غلط تعبیر نہیں ہے اور واقعی غلط فہمی ہی ہے تو اسے ہم صاف صاف رفع کر دینا چاہتے ہیں۔ ہم دراصل ایسا گروہ تیار کرنا چاہتے ہیں جو ایک طرف زہد و تقویٰ میں اصطلاحی زاہدوں اور متقیوں سے بڑھ کر ہو اور دوسری طرف دنیا کے انتظام کو چلانے کی قابلیت و صلاحیت بھی عام دنیا داروں سے زیادہ اور بہتر رکھتا ہو۔ ہمارے نزدیک دنیا کی تمام خرابیوں کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ نیک لوگ نیکی کے صحیح مفہوم سے ناآشنا ہونے کی بنا پر گوشہ گیر ہوکر بیٹھ جاتے ہیں اور پرہیزگاری اس کو سمجھتے ہیں کہ دنیا کے معاملات ہی سے پرہیز کریں، اور دوسری طرف ساری دنیا کے کاروبار بدوں کے ہاتھ میں آجاتے ہیں جن کی زبان پر نیکی کا نام اگر آتا بھی ہے تو صرف خلقِ خدا کو دھوکا دینے کے لئے۔ اس خرابی کا علاج صرف یہی ہو سکتا ہے کہ صالحین کی ایک جماعت منظم کی جائے جو خدا ترس بھی ہو، راست باز اور دیانت دار بھی ہو، خدا کے پسندیدہ اخلاق اور اوصاف سے آراستہ بھی ہو اور اس کے ساتھ دنیا کے معاملات کو دنیا داروں سے زیادہ اچھی طرح سمجھے اور خود دنیا داری ہی میں اپنی مہارت و قابلیت سے ان کو شکست دے سکے۔ ہمارے نزدیک اس سے بڑا اور کوئی سیاسی کام نہیں ہو سکتا اور نہ اس سے زیادہ کامیاب سیاسی تحریک اور کوئی ہو سکتی ہے کہ ایسے ایک صالح گروہ کو منظم کر لیا جائے۔ بد اخلاق اور بے اصول لوگوں کے لئے دنیا کی چراگاہ میں اس وقت تک چرنے چگنے کی مہلت ہے جب تک ایسا گروہ نہیں تیار ہو جاتا اور جب ایسا گروہ تیار ہو جائے گا تو آپ یقین رکھیئے کہ نہ صرف آپ کے اس ملک کی بلکہ بتدریج ساری دنیا کی سیاست اور معیشت اور مالیات اور علوم و آداب اور عدل و انصاف کی باگیں اسی گروہ کے ہاتھ میں آجائیں گی اور فساق و فجار کا چراغ ان کے آگے نہ جل سکے گا۔ یہ میں نہیں کہہ سکتا کہ یہ انقلاب کس طرح رونما ہو گا لیکن جتنا مجھے کل سورج کے طلوع ہونے کا یقین ہے اتنا ہی مجھے اس بات کا بھی یقین ہے کہ یہ انقلاب بہرحال رونما ہو کر رہے گا بشرطیکہ امین صالحین کے ایسے گروہ کو منظم کرنے میں کامیابی حاصل ہو جائے۔
رفقاء جماعت سے خطاب
اب میں آپ لوگوں سے اجازت چاہوں گا کہ تھوڑی دیر کے لئے عام خطاب کو چھوڑ کر خاص طور پر کچھ باتیں اپنے رفقاء سے عرض کروں:
رفقاء محترم! سب سے پہلے آپ سے خطاب کرتے ہوئے میں اسی بات کو دہرانا ضروری سمجھتا ہوں جسے ہر اجتماع کے موقع پر دہراتا رہا ہوں کہ اپنی اس عظیم الشان ذمہ داری کو محسوس کیجئے جس کو آپ نے شعوری طور پر اپنے خدا سے عہد و میثاق مضبوط کر کے اپنے اوپر خود عائد کر لیا ہے۔ آپ کے اس عہد کا تقاضا صرف یہی نہیں ہے کہ آپ قانونِ الٰہی کے زیادہ سے زیادہ پابند ہوں اور آپ کے عقیدے اور قول و عمل میں کامل مطابقت ہو اور آپ کی زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نہ رہ جائے جس میں آپ کے افکار و اعمال اس اسلام سے مختلف ہوں جس پر آپ ایمان لاتے ہیں، بلکہ اس کے ساتھ آپ کے اسی عہد کا تقاضا اور نہایت شدید تقاضا یہ بھی ہے کہ جس اسلام پر آپ ایمان لائے ہیں اور جسے آپ اپنے بادشاہ کا دین سمجھتے ہیں اور جسے آپ تمام نوعِ انسانی کے لئے حق جانتے ہیں اور واحد ذریعۂ فلاح بھی سمجھتے ہیں، اس کو تمام دوسرے دینوں اور مسلکوں اور نظاموں کے مقابلے میں سر بلند کرنے کے لئے، اور نوعِ انسانی کو ادیانِ باطلہ کی فساد انگیز تباہ کاریوں سے بچا کر دینِ حق کی سعادتوں سے بہرہ ور کرنے کے لئے آپ میں کم از کم اتنی بے چینی پائی جائے جتنی آج ادیانِ باطلہ کے پیرو اپنے اپنے جھوٹے اور ناروا دینوں کی حمایت و برتری کے لئے دکھا رہے ہیں۔
آپ کی آنکھوں کے سامنے ان لوگوں کی مثالیں موجود ہیں جو سخت سے سخت خطرات، شدید سے شدید نقصانات، جان و مال کے زیاں، ملکوں کی تباہی اور اپنی اولاد اور اپنے عزیزوں اور جگر گوشوں کی قربانی صرف اس لئے گوارا کر رہے ہیں کہ جس طریقِ زندگی کو وہ صحیح سمجھتے ہیں اور جس نظام میں اپنے لئے فلاح کا امکان انہیں نظر آتا ہے اسے نہ صرف اپنے ملک پر بلکہ ساری دنیا پر غالب کر کے چھوڑیں۔ ان کے صبر اور ان کی قربانیوں اور محنتوں اور ان کے تحملِ مصائب اور اپنے مقصد کے ساتھ ان کے عشق کا موازنہ آپ اپنے عمل سے کر کے دیکھئے اور محسوس کیجیئے کہ آپ اس معاملے میں ان کے ساتھ کیا نسبت رکھتے ہیں۔ اگر فی الواقع آپ کبھی ان کے مقابلے میں کامیاب ہو سکتے ہیں تو صرف اسی وقت جب کہ ان حیثیات میں آپ ان سے بڑھ جائیں ورنہ آپ کے مالی ایثار، آپ کے وقت اور محنت کے ایثار، اور اپنے مقصد کے ساتھ آپ کی محبت اور اس کے لئے آپ کی قربانی کا جو حال اس وقت ہے اس کو دیکھتے ہوئے تو آپ یہ حق بھی نہیں رکھتے کہ اپنے دل میں اس تمنا کو پرورش کریں کہ آپ کے ہاتھوں یہ جھنڈا کبھی بلند ہو۔
دوسری چیز جس کی طرف مجھے آپ کو توجہ دلانے کی بار بار ضرورت محسوس ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ آپ لوگ دین کے اصولی اور بنیادی امور کی اہمیت کو سمجھیں اور فروع کے ساتھ جو اہتمام اب تک کرتے رہتے ہیں اور جس اہتمام کی بیماری آپ کے سارے مذہبی ماحول کو لگی ہوئی ہے، اس سے بچنے کی کوشش کریں۔ میں دیکھتا ہوں کہ میری اور جماعت کے چند دوسرے صاحب علم و نظر رفقاء کی کوششوں کے باوجود ہماری جماعت میں ابھی تک ان جزئیات کے ساتھ اچھا خاصہ انہماک بلکہ غلو پایا جاتا ہے جن پر ایک مدت سے فرقہ بندیاں اور گروہی کشمکشیں ہوتی رہی ہیں، اور یہ کیفیت بسا اوقات اتنی بڑھ جاتی ہے کہ ہماری تفہیم سے اس طریقے کو چھوڑنے کے بجائے ہمارے بعض رفقار الٹا ہمیں ہی کو ان بحثوں میں الجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ خوب اچھی طرح سمجھ لیجئے کہ جن جزئیات پر آپ لوگ بحثیں کرتے ہیں وہ خواہ کتنی ہی اہمیت رکھتی ہوں مگر بہرحال یہ وہ چیزیں نہیں ہیں جن کو قائم کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں کو مبعوث کیا ہو اور اپنی کتابوں کو نازل کیا ہو۔ انبیاء کی بعثت اور کتبِ الٰہی کی تنزیل کا مقصد ان جزئیات کو قائم کرنا نہیں ہے۔ ان کا اصل مقصد یہ رہا ہے کہ خلقِ خدا اپنے مالکِ حقیقی کے سوا کسی کے تابع فرمان نہ رہے، قانون صرف خدا کا قانون ہو، تقویٰ صرف خدا سے ہو، امر صرف خدا کا مانا جائے، حق اور باطل کا فرق اور زندگی میں راہِ راست کی ہدایت صرف وہی مسلم ہو جسے خدا نے واضح کیا ہے، اور دنیا میں ان خرابیوں کا استیصال کیا جائے جو اللہ کو ناپسند ہیں اور ان خیرات و حسنات کو قائم کیا جائے جو اللہ کو محبوب ہیں۔ یہ ہے دین اور اسی کی اقامت ہمارا مقصد ہے اور مسلمان ہونے کی حیثیت سے اسی کام پر ہم مامور ہیں۔
اس کام کی اہمیت اگر آپ پوری طرح محسوس کر لیں اور اگر آپ کو اس بات کا بھی احساس ہو کہ اس کام کے معطل ہو جانے اور باطل نظاموں کے دنیا پر غالب ہو جانے سے دنیا کی موجودہ حالت کس قدر شدت سے غضبِ الٰہی کی مستحق ہو چکی ہے، اور اگر آپ یہ بھی جان لیں کہ اس حالت میں ہمارے لئے غضبِ الٰہی سے بچنے اور رضائے الٰہی سے سرفراز ہونے کی کوئی صورت اس کے سوا نہیں ہے کہ ہم اپنی تمام قوت، خواہ وہ مال کی ہو یا جان کی، دماغ کی ہو یا زبان کی، صرف اقامتِ دین کی سعی میں صرف کر دیں، تو آپ سے کبھی ان فضول بحثوں اور ان لایعنی افکار کا صدور نہ ہو سکے جن میں اب تک آپ میں سے بہت سے لوگ مشغول ہیں۔ میرے نزدیک یہ تمام مشاغل صرف اس ایک چیز کا نتیجہ ہیں کہ لوگوں نے ابھی تک اس بات کو پوری طرح سمجھا نہیں ہے کہ دین حقیقت میں کس چیز کا نام ہے اور اس کے واقعی مطالبات اپنے پیرووں سے کیا ہیں۔
ایک اور خامی جو ہمارے بعض رفقاء میں پائی جاتی ہے، اور جو اکثر ہمارے لئے سببِ پریشانی بنتی رہتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ حضرات اصول اور نظریے کی حد تک تو اس جماعت کے مسلک کو سمجھ گئے ہیں لیکن طریقِ کار کو اچھی طرح نہیں سمجھے، اس لئے بار بار ان کی توجہات دوسری مختلف جماعتوں کے طریقوں کی طرف پھر جاتی ہیں اور وہ کسی نہ کسی طرح کھینچ تان کر کے بطورِ خود ہمارے نصب العین اور دوسروں کے طریقِ کار کی ایک معجونِ مرکب بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور جب انہیں اس سے روکا جاتا ہے تو وہ یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ ہم خواہ مخواہ ایک اچھے چلتے ہوئے زود اثر طریقِ کار کو محض اس تعصب کی بنا پر اختیار نہیں کرنا چاہتے کہ وہ ہمارا نہیں بلکہ دوسروں کا ایجاد کردہ طریقہ ہے۔ بعض حضرات نے تو ستم ہی کر دیا کہ جب ہماری طرف سے ان کو ٹوکا گیا تو انہوں نے ہمیں یہ اطمینان دلانے کی کوشش کی کہ نام آپ ہی کا لیا جائے گا، دوسروں کا نہ لیا جائے گا، گویا ان کے نزدیک ہماری ساری تگ و دو صرف اپنا رجسٹرڈ ٹریڈ مارک چلانے کے لئے ہے۔ اور لطف یہ ہے کہ یہ سمجھتے ہوئے بھی وہ ہمارے ساتھ اس جماعت میں شریک ہیں۔
ہماری جماعت کی بعض مقامی شاخیں اس وبا سے خاص طور پر بہت زیادہ متاثر ہوئی ہیں۔ لیکن جہاں تاثر اتنا زیادہ نہیں ہے، وہاں بھی مختلف طریقوں سے اس بات کا اظہار ہوتا رہتا ہے کہ کوئی تیز رفتار طریقِ کار اختیار کر کے جلدی سے کچھ چلتا پھرتا کام دنیا کے سامنے پیش کر دیا جائے۔ یہ سب عمل بلا فکر کی اس پرانی بیماری کے نتائج ہیں جو مسلمانوں میں بہت دنوں سے پرورش پا رہی ہے اور فکر بلا عمل سے کچھ کم خطرناک نہیں ہے۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اگر ان مذہبی اور سیاسی تحریکوں میں سے کسی میں بھی فی الواقع کوئی جان ہوتی جو اس وقت مسلمانوں میں چل رہی ہیں تو شاید ہم اس جماعت کی تاسیس میں ابھی کچھ تامل سے کام لیتے اور اپنی پوری قوت ان نسخوں کو آزما لینے میں صرف کر دیتے۔ مگر جو تھوڑی بہت نظر و بصیرت اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا کی ہے، اس کی بنا پر ہم خوب اچھی طرح یہ سمجھ چکے ہیں کہ وقت کی چلتی ہوئی تحریکوں اور ان کی قیادتوں میں سے ایک بھی مسلمانوں کے مرض کا صحیح علاج نہیں ہے، اور نہ اسلام کے اصل منشاء کو پورا کرنے والی ہے۔ محض جزوی طور پر مسلمانوں کے امراض کی ناکافی اور ناتمام تشخیص کی گئی ہے، اور اسلام کے اصل تقاضوں کا بھی صحیح طور پر ادراک نہیں کیا گیا ہے، پھر یہ کبھی اچھی طرح نہیں سمجھا گیا کہ کفر و فسق کا یہ غلبہ اور دین کی یہ بے بسی اور مغلوبی جو آج موجود ہے، فی الحقیقت کن اسباب کا نتیجہ ہے اور اب اس حالت کو بدلنے کے لئے کس ترتیب و تدریج سے کن کن میدانوں میں کیا کیا کام کرنا ہے۔
ان سب چیزوں کو سوچے اور سمجھے بغیر جو سطحی اور جلدی تحریکیں جاری کی گئیں اور ان کو چلانے کے لئے جو زود اثر اور فی الفور نتیجہ منظر عام پر لے آنے والے طریقے اختیار کیے گئے، وہ سب ہمارے نزدیک چاہے غلط نہ ہوں، چاہے ان کی مذمت ہم نہ کریں، چاہے ان کی اور ان کے پیچھے کام کرنے والے اخلاص کی ہم دل سے قدر کریں، مگر ہم ان کو لاحاصل سمجھتے ہیں اور ہمیں پوری طرح یقین ہے کہ اس قسم کی تحریکیں اگر صدیوں تک بھی پوری کامیابی اور ہنگامہ خیزی کے ساتھ چلتی رہیں تب بھی نظامِ زندگی میں کوئی حقیقی انقلاب رونما نہیں ہو سکتا۔ حقیقی انقلاب اگر کسی تحریک سے رونما ہو سکتا ہے تو وہ صرف ہماری یہ تحریک ہے اور اس کے لئے فطرتاً یہی ایک طریق کار ہے جو ہم نے خوب سوچ سمجھ کر اور اس دین کے مزاج اور اس کی تاریخ کا گہرا جائزہ لے کر اختیار کیا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ ہمارا طریقِ کار نہایت صبر آزما ہے، سست رفتار ہے، جلدی سے کوئی محسوس نتیجہ اس سے رونما نہیں ہو सकता، اور اس میں برسوں تک لگاتار ایسی محنت کرنی پڑتی ہے جس کے اثرات اور جس کی عملی نمود کو بسا اوقات خود محنت کرنے والا بھی محسوس نہیں کر سکتا۔ لیکن اس راہ میں کامیابی کا راستہ یہی ہے اور اس کے سوا کوئی دوسرا طریقِ کار اس مقصد کے لئے ممکن نہیں ہے۔ جن لوگوں کو ہمارے مسلک اور طریقِ کار یا ان دونوں میں سے کسی ایک پر بھی اطمینان حاصل نہ ہو ان کے لئے یہ راستہ تو کھلا ہوا ہے کہ جماعت سے باہر جا کر اپنی صوابدید سے جس طرح چاہیں کام کریں، لیکن یہ اختیار انہیں کسی طرح نہیں دیا جا سکتا کہ بطورِ خود وہ ان دونوں میں یا ان میں سے کسی ایک چیز میں جو ترمیم چاہیں کر لیں۔ ہمارے ساتھ جس کو چلنا ہے اسے پورے اطمینان کے ساتھ ہمارے مسلک اور طریقِ کار کو ٹھیک سمجھ کر چلنا چاہیئے اور جو شخص کچھ بھی میلان دوسری تحریکوں اور جماعتوں کی طرف رکھتا ہو اسے پہلے ان راستوں کو آزما کر دیکھ لینا چاہئے، پھر اگر اس کا ذہن اسی فیصلے پر پہنچے جس پر ہم پہنچے ہوئے ہیں تو وہ اطمینانِ قلب کے ساتھ ہمارے ساتھ آجائے۔
سطحیت اور مظاہرہ پسندی اور جلد بازی کی جو کمزوری مسلمانوں میں بالعموم پیدا ہو گئی ہے اس کا ایک ثبوت مجھے اس سال میں یہ ملا ہے کہ عوام میں تعلیم بالغان کے ذریعے سے کام کرنے کا جو طریقہ چند ماہ پیشتر میں نے پیش کیا تھا اس نے تو بہت کم لوگوں کو اپیل کیا، مگر گروہ بنا بنا کر بستیوں میں گشت لگانے اور فوری نتیجہ دکھانے والے طریق کار کے لئے، خواہ اس کا اثر کتنا ہی ناپائیدار ہو، مختلف مقامات سے ہمارے رفقار کے تقاضے برابر چلے آرہے ہیں اور کسی فہمائش پر بھی ان کا سلسلہ ٹوٹنے میں نہیں آتا۔ حالانکہ ایک طرف یہ طریق کار ہے کہ ایک سال یا اس سے زیادہ مدت تک ناخواندہ عوام میں سے چند آدمیوں کو ہم تعلیم و تربیت دے کر خوب پختہ کر لیا جائے اور ان کے عقائد، اخلاق، اعمال، مقصد زندگی، معیارِ قدر و قیمت، ہر چیز کو پوری طرح بدل ڈالا جائے، اور پھر ان کو اپنی جماعت کا مستقبل کا رکن بنا کر مزدوروں، کسانوں اور دوسرے عوامی طبقوں میں کام کرنے کے لئے استعمال کیا جائے، اور دوسری طرف یہ طریق کار ہے کہ ایک قلیل مدت میں ہزارہا آدمیوں کو بیک وقت چند ابتدائی امورِ دین کی حد تک مخاطب کیا جائے اور فوری طور پر ان میں ایک حرکت پیدا کر کے چھوڑ دیا جائے چاہے دوسرے چکر کے وقت پہلی حرکت کا کوئی اثر ڈھونڈے بھی نہ مل سکے۔ ان دونوں طریقوں میں سے جب میں دیکھتا ہوں کہ لوگ پختہ نتائج پیدا کرنے والے دیر طلب، محنت طلب اور صبر آزما طریقے کو سنتے ہیں اور اس کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتے اور دوسرے طریقے کی طرف بار بار دوڑ چلنے کی کوشش کرتے ہیں تو میرے سامنے مسلمانوں کی وہ کمزوریاں بالکل بے نقاب ہو جاتی ہیں جن کی وجہ سے اب تک وہ خام کاریوں ہی میں اپنی قوتیں اور محنتیں اور اپنے مال اور اوقات ضائع کرتے رہے ہیں۔ میں اس سلسلے میں زیادہ سے زیادہ اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ جب تک اس جماعت کی باگیں میرے ہاتھ میں ہیں میں اپنے رفقاء کو صحیح اور حقیقی نتیجہ خیز کاموں ہی پر لگانے کی کوشش کروں گا اور بے حاصل کوششوں میں جانتے بوجھتے ان کو مشغول نہ ہونے دوں گا۔
اپنی تقریر کو ختم کرنے سے پہلے ایک آخری بات کی طرف میں آپ لوگوں کو توجہ دلانا ضروری سمجھتا ہوں۔ ہمارے حلقۂ رفقاء میں ایک اچھا خاصا گروہ ایسا پایا جاتا ہے جس نے تبلیغ و اصلاح کے کام میں تشدد اور سخت گیری کا رنگ اختیار کر لیا ہے۔ جو سوالات ان کی طرف سے اکثر میرے پاس آتے رہتے ہیں ان سے میں ایسا محسوس کرتا ہوں کہ ان کے اندر بگڑے ہوئے لوگوں کو سنوارنے کی بے تابی اتنی زیادہ نہیں ہے جتنی انہیں اپنے سے کاٹ پھینکنے کی بے تابی ہے۔ دینی حرارت نے ان میں ہمدردی اور خیر خواہی کا جذبہ اتنا نہیں ابھارا جتنا نفرت اور غصے کا جذبہ ابھار دیا ہے۔ اسی وجہ سے وہ اکثر یہ تو پوچھتے ہیں کہ جو لوگ ایسے اور ایسے ہیں ان سے ہم تعلقات کیوں نہ منقطع کرلیں اور ان کے ساتھ نمازیں کیوں پڑھیں اور ان کو کافر و مشرک کیوں نہ کہیں لیکن یہ پوچھنے کا ان کو بہت کم خیال آتا ہے کہ ہم اپنے ان بھٹکے ہوئے بھائیوں کو سیدھی راہ پر کیسے لائیں، ان کی غفلت و بے خبری کو کس طرح دور کریں، ان کی کجروی کو راست روی سے کیسے بدلیں، اور ان کو نورِ ہدایت سے مستفید ہونے پر کیونکر آمادہ کریں۔
مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جن لوگوں نے اللہ کے فضل سے اور اپنی خوش قسمتی سے حق کو پالیا ہے ان کے اندر اس وجدانِ حق نے شکر کی بجائے کبر کا جذبہ پیدا کر دیا ہے اور اسی کا اظہار ان شکلوں میں ہو رہا ہے۔ خدا نہ کرے کہ میرا یہ گمان صحیح ہو لیکن میں اسے صاف صاف اس لئے بیان کر رہا ہوں کہ ہمارے رفیقوں میں سے ہر شخص پوری خدا ترسی کے ساتھ اپنے نفس کا جائزہ لے کر تحقیق کرنے کی کوشش کرے کہ کہیں شیطان نے یہ مرض تو ان کو نہیں لگا دیا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اس بگڑی ہوئی سوسائٹی کے درمیان علمِ صحیح اور عملِ صالح رکھنے والوں کی مثال ایسی ہے جیسے ایک وبائے عام میں مبتلا ہو جانے والی بستی کے درمیان چند تندرست لوگ موجود ہوں جو کچھ طب کا علم بھی رکھتے ہوں اور کچھ دواؤں کا ذخیرہ بھی ان کے پاس ہو۔ مجھے بتائیے کہ اس وبازدہ بستی میں ایسے چند لوگوں کا حقیقی فرض کیا ہے؟ کیا یہ مریضوں سے اور ان کو لگی ہوئی آلائشوں سے نفرت کریں یا انہیں اپنے سے دور بھگائیں اور انہیں چھوڑ کر نکل جانے کی کوشش کریں؟ یا یہ کہ اپنے آپ کو خطرے میں ڈال کر ان کا علاج اور ان کی تیمار داری کرنے کی فکر کریں اور اس سعی میں اگر کچھ نجاستیں ان کے جسم و لباس کو لگ بھی جائیں تو انہیں برداشت کر لیں۔ شاید میں پورے وثوق کے ساتھ یہ دعویٰ کر سکتا ہوں کہ اگر یہ لوگ پہلی صورت اختیار کریں تو خدا کے ہاں الٹے مجرم قرار پائیں گے اور ان کی اپنی تندرستی اور ان کا علمِ طب سے واقف ہونا اور ان کے پاس دواؤں کا ذخیرہ موجود ہونا نافع ہونے کے بجائے الٹا ان کے جرم کو اور زیادہ سخت بنا دے گا۔ اسی پر آپ قیاس کر لیں کہ جن لوگوں کو دینی تندرستی حاصل ہے اور بحرِ دین کا علم اور اصلاح کے ذرائع بھی رکھتے ہیں ان کے لئے کون سا طریقہ رضائے الٰہی کے مطابق ہے۔
وَآخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ۔
(اس تقریر کے بعد اجتماع کا اجلاسِ اوّل ختم ہوا اور نماز عصر سے نماز مغرب تک کا وقفہ دیا گیا۔)
اجلاس دوم
(تاریخ ۱۹-اپریل ۱۹۴۵ء بعد نماز مغرب)
رپورٹیں اور ان پر تبصرہ
اس اجلاس میں صوبہ بہار کی رپورٹ سید محمد حسین صاحب قیم جماعت صوبہ بہار نے اور صوبہ سرحد کی رپورٹ تاج الملوک صاحب نے پیش کی۔ اس کے بعد امیر جماعت نے ان رپورٹوں پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا:
- جن مقامات سے ارکانِ جماعت اجتماع میں شریک ہونے کے لئے نہیں آئے اور انہوں نے کوئی عذر بھی پیش نہیں کیا ان کے متعلق یہ سمجھنا چاہیے کہ وہ بلا عذر نہیں آئے۔ ایسے ارکان سے مقامی جماعتوں کے امراء کو باز پرس کرنی چاہئیے۔ اگر پہلے ان کا رویہ جماعت میں درست رہا ہے تو انہیں صرف تنبیہ کر دینی چاہئیے تاکہ آئندہ ان سے یہ کمزوری سرزد نہ ہو اور اگر پہلے سے ان کا طرزِ عمل جماعت کے کاموں میں عدم دلچسپی کا رہا ہو تو ان سے صاف کہہ دینا چاہیئے کہ وہ جماعت کی رکنیت سے الگ ہو جائیں۔ عذر کے لئے جو ہم نے "عذرِ شرعی" کی قید لگائی ہے اس کے لحاظ سے کاروبار کا حرج یا مالی نقصان کوئی معنی نہیں رکھتا۔ اگر ہمارے رفقاء اس وقت اتنی قربانی بھی نہیں کر سکتے تو آئندہ ان سے کیا توقع کی جا سکتی ہے۔ ہمارے رفقاء میں آخر متعدد ایسے لوگ بھی تو ہیں جو ملازم تھے اور انہیں چھٹی نہ مل سکی مگر وہ پھر بھی اجتماع میں شریک ہونے کے لئے آگئے اور اب وہ اس کے نتائج بھگتنے کے لئے تیار ہیں۔ ایسے ہی لوگ ہمارے نقطۂ نظر سے قابلِ اعتماد ہیں۔ جو ارکانِ جماعت محض کاروباری نقصان کے خطرے سے نہیں آئے ہیں ان سے صاف کہہ دینا چاہیئے کہ اب آپ اپنے کاروبار ہی کی خدمت کرتے رہیں، اس عظیم الشان نصب العین کی خدمت کا نام لینا آپ کے لئے کچھ موزوں نہیں ہے۔ البتہ جو ارکانِ جماعت مالی کمزوری کی وجہ سے نہیں آسکے ہیں ان کا عذر معقول ہے۔ مگر دوسرے ارکان ان کے مصارف برداشت کرنے کے قابل تھے اور انہیں اپنے بھائیوں کی مجبوری کا علم بھی تھا اور پھر بھی انہوں نے اپنے بھائیوں کو ساتھ لانے کی کوشش نہیں کی، ان پر ایسے ارکانِ جماعت کی عدم شرکت کا ازروئے ضابطہ چاہے کوئی بار نہ ہو لیکن اخلاقی طور پر وہ اس کے ذمہ دار ہیں۔ ایسے حضرات کو اپنی اس تنگ دلی کو رفع کرنے کی فکر کرنی چاہیے ورنہ جن سے آج یہ تھوڑا تھوڑا مالی ایثار بھی برداشت نہیں ہو سکتا ان سے کل کسی بڑے ایثار کی کیا توقع کی جا سکتی ہے۔
- جن حلقوں کے لئے قیمِ جماعت بنا دئے گئے ہیں ان کی جماعتیں اپنی رپورٹیں براہِ راست مرکز کو بھیجنے کے بجائے اپنے حلقے کے قیم کو بھیجیں اور قیمِ جماعت پورے حلقے کی رپورٹ مرکز میں روانہ کریں۔
- جہاں جہاں جماعتیں قائم ہیں وہاں کے ارکان اپنی زکوٰۃ مقامی بیت المال میں داخل کریں اور باقاعدہ حساب دیں کہ ان کا مال کس قدر تھا اور اس پر انہوں نے کتنی زکوٰۃ ادا کی۔ جماعتی بیت المال کی موجودگی میں لوگوں کو اپنی زکوٰۃ انفرادی طور پر نکال کر خرچ نہیں کرنی چاہیئے۔ جو لوگ صاحبِ نصاب ہوں اور باقاعدہ زکوٰۃ ادا نہ کریں ان کی شرعی حیثیت وہی ہے جو نماز نہ پڑھنے والوں کی ہے، اور ایسے لوگ ہماری جماعت میں نہیں رہ سکتے۔
- جن حضرات نے بعض علماء سے اپنی گفتگوؤں کا ذکر کیا ہے ان کو میں اپنی اس ہدایت کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں جو میں نے تشکیلِ جماعت کے آغاز میں دی تھی اور روئدادِ اجتماع اول میں اسے پھر دیکھا جا سکتا ہے۔ میں نے اس میں کہا تھا کہ ہر آدمی کو اسی حلقے میں جانا چاہیئے جس حلقے کے لوگوں سے خطاب کرنے کی اس میں اہلیت ہو۔ خصوصیت کے ساتھ غیر عالم لوگوں کو علماء کے پاس جا کر اپنی دعوت پیش کرنے میں تو بہت زیادہ احتیاط کرنی چاہئیے۔ کیونکہ ان حضرات کے مسائل بہت پیچیدہ اور نازک ہیں، اور فتنہ ہر وقت ان کے پاس حاضر رہتا ہے۔ ان کے نفسیات کچھ وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جو دین میں گہری بصیرت رکھنے کے ساتھ ان کے دینیات سے بھی واقف ہیں۔ ان کو راہِ حق کی طرف دعوت دینا نئے تعلیم یافتہ لوگوں کے بس کی بات نہیں ہے۔ وہ ان کے پاس جائیں گے تو کچھ کام بنانے کے بجائے الٹا کوئی خطرہ مول لے آئیں گے۔
- آج کی رپورٹ میں یہ بیان کیا گیا ہے اور اس سے پہلے بھی یہ اعتراض میں اکثر سنتا رہا ہوں کہ بعض حلقوں میں جب ہماری دعوت پہنچتی ہے تو اس کا جواب یہ کہہ کر دیا جاتا ہے کہ تمہاری تحریک میں کوئی نہ کوئی چیز مشتبہ ضرور ہے ورنہ کیسے ممکن تھا کہ تم یہ دعوت دیتے اور فلاں طاقت اسے ٹھنڈے دل سے برداشت کر لیتی۔ دراصل اس قسم کی باتیں وہ لوگ کرتے ہیں جن کے اندر خود حق و باطل کی کوئی تمیز نہیں ہے اور انہوں نے صرف کسی دشمن طاقت کو حق کے پہچاننے کا کام سپرد کر دیا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جس چیز پر دشمن بھڑکے وہ حق ہے اور جس چیز کو وہ برداشت کرلے وہ باطل ہے۔ اس معیارِ حق و باطل پر جو لوگ تکیہ کئے بیٹھے ہیں ہمیں یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ ان میں ایک اچھا خاصا گروہ علماء دین کا بھی ہے۔ ہم ان سے عرض کرتے ہیں کہ اگر فی الواقع آپ کے پاس دین کا علم موجود ہے تو سب سے پہلے قرآن و حدیث کے معیار سے پرکھ کر یہ دیکھئے کہ جس چیز کی دعوت ہم دے رہے ہیں وہ بجائے خود حق ہے یا نہیں، اس کے بعد پھر اس امر پر غور کیجئے کہ اگر یہ حق ہے تو آخر بات کیا ہے کہ شیطان اور اولیاء شیطان اسے برداشت کرنے لگے ہیں؟ کیا حق کی فطرت بدل گئی ہے یا شیطان اب وہ نہیں رہا ہے جو پہلے تھا؟ اس پہلو پر جب آپ غور کریں گے تو آپ پر خود یہ بات منکشف ہو جائے گی کہ اتنا بڑا انقلاب یعنی توحیدِ خالص کی دعوت کا شیطان کے لئے قابلِ برداشت ہو جانا خود آپ حضرات کی اپنی غلطیوں کا نتیجہ ہے۔ آپ ہی نے تمام ان الفاظ اور اصطلاحات کی جان نکال دی ہے جن کے ذریعے سے دین کی دعوت قرآن و سنت میں پیش کی گئی تھی۔ اللہ اور رب، دین اور عبادت، شرک اور توحید، طاغوت اور فتنہ و فساد، معروف اور منکر، خیر اور صلاح، غرض ایسے تمام الفاظ جو اسلام کی روح کو پیش کرنے کے لئے شریعت میں اختیار کئے گئے تھے، آج آپ ہی حضرات کے تصرفات کی بدولت اتنے بے معنی ہو گئے ہیں کہ طاغوت کی چھاؤنیوں تک میں "اَشْهَدُ أَنْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللہ" کا پانچ وقت اعلان ہوتا ہے اور وہاں اس سے ذرہ برابر بھی کوئی کھلبلی برپا نہیں ہوتی بلکہ خود طاغوت اپنے جاں نثاروں کے لئے امام اور مؤذن اور خطیب پورے اطمینان کے ساتھ مہیا کرتا ہے، اور اس کے سرفروش خادموں میں اگر پورے کا پورا قرآن بھی مفت تقسیم کر دیا جائے تو وہ اس سے کوئی خطرہ محسوس نہیں کرتا۔ اس طرح دین کو شیطان کے لئے بالکل بے ضرر و بے خطر بنا چکنے کے بعد اب آپ لوگ دوسری خدمت یہ انجام دینا چاہتے ہیں کہ اگر دین کی وہی دعوت قرآن و سنت کی انہی اصل اصطلاحوں میں پیش کی جائے اور شیطان اور اولیاء شیطان اس پر نہ بھڑکیں تو آپ اسے اس بات کا ثبوت قرار دیتے ہیں کہ یہ دین کی دعوت ہی نہیں ہے یا یہ حق نہیں ہے۔ ہم اس وقت اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ اسلام کی ان تمام اصطلاحات میں پھر وہی معنی پیدا کریں جو فی الاصل ان کے اندر نہاں تھے اور کلمۂ اسلام کے ماننے اور بولنے والے اسے اس کے پورے معنی کے ساتھ نہ صرف مانیں اور بولیں بلکہ اپنی پوری زندگی میں اسی شعور کا اظہار بھی کریں۔ ہماری اس کوشش کے پوری طرح بار آور ہونے میں ظاہر ہے کہ ابھی بہت دیر لگے گی اور جب تک یہ بار آور نہ ہو شیطان اور اس کے اولیاء مطمئن رہیں گے اور دوسرے محاذوں پر اپنی قوت صرف کرتے رہیں گے۔ خصوصاً جب کہ انہیں یہ بھی اطمینان ہے کہ احیائے دین کی اس کوشش کو مٹانے کے لئے آپ حضرات کافی ہو سکتے ہیں تو پھر وہ خونِ شہیداں اپنی گردن پر کیوں لیں؟ البتہ اگر اپنی اس سعی میں ہم کامیاب ہو گئے اور آپ کے فتنوں سے بخیریت بچ نکلے تو بعید نہیں کہ صورت حال اس سے بھی زیادہ سخت ہو جتنا سخت آپ اسے دیکھنا چاہتے ہیں۔ مگر اندیشہ ہے، اور خدا کرے کہ ہمارا یہ اندیشہ غلط ہو کہ آپ اس وقت بھی ہمارا ساتھ نہ دینے کے لئے اسی قسم کا کوئی بہانہ تلاش کر لیں گے، جیسا کہ آج آپ نے تلاش کر لیا ہے۔
- صوبہ سرحد کے ارکان نے اپنے راستے کی جن رکاوٹوں کا ذکر کیا ہے وہ بلاشبہ بہت وزنی رکاوٹیں ہیں اور ہر ایسے علاقے میں جہاں تعصب اور ضد اور شعلہ مزاجی کا زور ہو ایسی رکاوٹوں کا موجود ہونا فطری ہے لیکن میں اپنے رفقاء کو یہ اچھی طرح سمجھا دینا چاہتا ہوں کہ حکیمانہ تبلیغ، جب کہ وہ صبر اور علم اور لگاتار محنتوں کے ساتھ ہو، وہ زبردست ہتھیار ہے جس سے مخالفتوں کے بڑے بڑے پہاڑ کٹ جاتے ہیں اور راستہ ہموار ہو جاتا ہے۔ جن لوگوں کو روسی ترکستان کے حالات کا علم ہے وہ جانتے ہیں کہ اب سے پچیس سال پہلے وہاں اسلام کے خلاف ذرا سی بھاپ بھی منہ سے نہیں نکالی جا سکتی تھی لیکن اشتراکیوں نے جس حکمت اور صبر کے ساتھ وہاں اپنے الحاد اور مادہ پرستانہ پروگرام کی تبلیغ کی، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ چند سال ہی کے اندر اسلام کے اس پرانے قلعہ کی جڑیں ہل گئیں اور خود انہی مسلمانوں نے جو بظاہر اسلام میں بڑے پختہ تھے اشتراکی تبلیغ سے متاثر ہو کر اپنے ہاتھوں سے اسلام کی بنیادیں ڈھا دیں۔ اگر حکمت اور صبر کے ساتھ باطل یہ سب کچھ کر سکتا ہے درآں حالیکہ وہ انسانی فطرت سے بعید تر ہے تو میں نہیں سمجھتا کہ حق کم از کم اتنا ہی کچھ کیوں نہیں کر سکتا جب کہ وہ فطرتِ انسانی سے قریب تر ہے۔ پس حالات اس وقت خواہ کتنے ہی مخالف ہوں ان سے ہمت نہ ہاریئے، کتاب و سنت سے اور دنیا کے تجربات سے تبلیغ کی حکمت سیکھئے اور وہ اوصاف اپنے اندر پیدا کیجئے جن سے بنجر زمینوں کو بارآوری کے لئے تیار کیا جا سکتا ہے۔ اس کے بعد آپ دیکھیں گے کہ خدا کے فضل سے ساری رکاوٹیں دور ہو کر رہیں گی۔
نوٹ: صوبہ سرحد میں اس وقت تک باقاعدہ جماعت نہیں تھی، صرف منتشر ارکان تھے۔ مگر اس اجلاس کے بعد امیر جماعت کی ہدایت کے مطابق جماعت کی تشکیل کر دی گئی۔ اور جناب سردار علی خان صاحب (موضع میرے، ڈاک خانہ تخت بھائی، ضلع پشاور) اس صوبے کے لئے قیم مقرر کئے گئے۔
اجلاس سوم
(۲۰ جمادی الاول ۱۳۶۴ھ مطابق ۲۰ اپریل ۱۹۴۵ء بروز جمعہ ۹ بجے صبح)
رپورٹیں اور ان پر تبصرہ
یہ اجلاس ٹھیک وقت پر مسجد میں ہوا۔ سب سے پہلے چودھری غلام محمد صاحب نے صوبہ سندھ کے حالات اجمالاً بیان کئے اور ان اسباب کو بھی مختصر پیش کیا جن کی وجہ سے اب تک سندھ ہماری تحریک سے غیر متاثر رہا ہے۔ اس کے بعد جے بشیر احمد صاحب نے بمبئی کی رپورٹ پڑھ کر سنائی۔ پھر ریاست حیدر آباد کے مختلف مقامات کی رپورٹیں پیش ہوئیں۔ اس کے بعد صوبہ مدراس اور مالابار اور میسور کی رپورٹیں پڑھی گئیں۔ آخر میں امیر جماعت نے ان رپورٹوں پر حسب ذیل تبصرہ کیا۔
- رات سے اب تک جو رپورٹیں پیش ہوئی ہیں ان کو سننے سے یہ اندازہ ہوا کہ ہمارے رفقاء جماعت اپنی رپورٹیں مرتب کرنے میں غیر ضروری تفصیلات شامل کر دیتے ہیں اور ضروری تفصیلات بسا اوقات چھوڑ جاتے ہیں۔ اس طریقے کی اصلاح ہونی چاہیئے۔ رپورٹوں میں ایسی چیزیں نہیں آنی چاہیں جو محض مقامی حیثیت رکھتی ہوں اور جن کے بیان کرنے یا نہ کرنے کا اصل معاملات کو سمجھنے میں کوئی دخل نہ ہو۔ اسی طرح رپورٹوں میں اشخاص اور جماعتوں کے نام بھی کم سے کم آنے چاہئیں، نہ شکایت کے پہلو سے اور نہ تعریف کے پہلو سے۔ مرکز کو جو رپورٹیں بھیجی جاتی ہیں ان میں تو ایسی چیزیں آنے کا مضائقہ نہیں ہے لیکن اجتماع میں پیش کرنے کے لئے جو رودادیں مرتب کی جائیں ان کو ایسی چیزوں سے خالی رہنا چاہئیے۔ دراصل جس غرض کے لئے ہم اجتماع میں رودادیں پیش کرتے ہیں وہ صرف یہ ہے کہ ہمارے ارکان کو یہ معلوم رہے کہ مختلف علاقوں میں یہ تحریک کس رفتار سے چل رہی ہے، کہاں کہاں کس قسم کی رکاوٹیں پیش آرہی ہیں، مختلف مقامات کے ارکان کن کن طریقوں سے کام کر رہے ہیں، کن کن حلقوں میں ہمارے خیالات پھیل رہے ہیں اور کہاں حالات امید افزا یا مایوس کن ہیں۔
- جہاں ہماری مقامی جماعتوں یا انفرادی طور پر ہمارے کسی مقامی رکن نے دارالمطالعہ قائم کیا ہو وہاں انہیں لوگوں کو صرف کتابیں دینے پر ہی اکتفا نہ کرنا چاہئیے بلکہ اس امر پر بھی نگاہ رکھنی چاہئیے کہ کون لوگ کیا پڑھتے ہیں اور کس حد تک دلچسپی لیتے ہیں۔ پھر ان لوگوں سے شخصی طور پر ملنے اور تبادلہ خیال کرنے کی بھی کوشش کرنی چاہیئے تاکہ انہیں بتدریج اپنے نقطۂ نظر سے قریب لایا جائے۔ اگر ان کے کچھ شکوک ہوں تو وہ رفع کئے جائیں اور یہ اندازہ ہوتا رہے کہ کس قسم کے لوگ کس کس حد تک ہمارے خیالات سے متاثر ہیں اور ان کی ہمدردی اور ہم خیالی سے کہاں تک فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ دارالمطالعہ قائم کرنا تو بالکل ایسا ہے جیسے تخم ریزی کرنا، لیکن آپ ہوا کی طرح صرف بیج پھیلانے ہی پر اکتفا نہ کریں بلکہ کسان کی سی حیثیت اختیار کریں جو زمین میں بیج ڈالنے کے بعد اس کو سینچتا اور اس کی نگہداشت کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ کھیتی پک کر تیار ہو جائے۔
- مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بعض مقامی جماعتوں میں امارت کے انتخاب میں کچھ انجمنوں کی صدارت کا سا رنگ اختیار کر لیا گیا ہے۔ یہ منصب دراصل مقامی لیڈرشپ کا منصب ہے۔ جو شخص جماعت میں اہل ترین نظر آئے اسی کو منتخب کرنا چاہئیے مگر کسی کے سر زبردستی اس منصب کو چپکانا نہ چاہیئے۔ اسی طرح جس شخص کو اپنے اندر اس منصب کے سنبھالنے کی اہلیت نظر آئے یا یہ محسوس ہو کہ کوئی اتنی اہلیت بھی نہیں رکھتا جتنی اس کے اندر ہے تو اسے خواہ مخواہ انکسار کر کے ذمہ داری سنبھالنے سے انکار بھی نہیں کرنا چاہیئے یہ کام بہرحال کرنے کا ہے اور ہم میں سے ہر ایک میں یہ جذبہ ہونا چاہیئے کہ اگر کوئی اس کی ذمہ داری سنبھالنے کے لئے نہیں اٹھتا تو اسے اٹھنا ہے۔
- سندھ کے حالات پر غور کرنے سے میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ جب تک سندھی زبان میں کافی لٹریچر تیار نہ ہو جائے، ہمیں اردو زبان کے ذریعہ سے اس پنجابی عنصر کو جو سندھ میں آباد ہے یا ان تھوڑے سے اردو خواں سندھی لوگوں کو جو وہاں مل سکیں، متاثر کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، پھر ان کے ذریعے سے خالص سندھی بولنے والے لوگوں میں خیالات پھیلائے جا سکتے ہیں۔ سندھی پبلک کی جہالت اور ان کی قبائلی عصبیت نیز ان کے اندر پیر پرستی کا زور ہونا بلاشبہ بڑی رکاوٹیں ہیں لیکن ان چیزوں سے گھبرانا نہیں چاہیئے۔ کام کرنے کا ڈھنگ آ جانے اور حکمتِ تبلیغ سیکھ لینے کے بعد اگر آپ صبر و تحمل اور لگاتار محنت کے ساتھ کام کریں گے تو آپ خود دیکھ لیں گے کہ یہ رکاوٹیں دور ہوتی چلی جائیں گی اور وہی پبلک جو آج آپ کی بات سننے کے لئے تیار نہیں ہے خود ان رکاوٹوں کو راستے سے ہٹانے میں آپ کی مددگار بن جائے گی۔
- لوگوں سے اپنے کاموں میں مالی اعانتیں ہم کس حالت میں قبول کر سکتے ہیں، اس باب میں جماعت کی پالیسی کو میں پھر بیان کر دینا چاہتا ہوں کیونکہ بعض رپورٹوں سے اندازہ ہوا کہ ہمارے ارکانِ جماعت ابھی اس پالیسی کو اچھی طرح نہیں سمجھے ہیں۔ ہم مالی اعانت صرف ان لوگوں سے قبول کر سکتے ہیں جو اول تو ہمارے مقصد سے اچھی طرح واقف ہوں اور اس کے ساتھ پوری ہمدردی رکھتے ہوں۔ دوسرے ان کو ہمارے طریقِ کار سے پورا اتفاق ہو اور ہم پر بحیثیتِ اشخاص اور بحیثیتِ جماعت اعتماد ہو۔ تیسرے یہ کہ وہ روپیہ یا کسی شکل میں مال دینے کے بعد کسی قسم کی کوئی شرط ہم پر عائد نہ کریں، نہ اپنے روپے کے ذریعے سے ہمارے کام میں کسی قسم کی مداخلت کی کوشش کریں اور نہ ہماری اسکیم سے باہر کا کوئی کام ہمارے لئے تجویز کریں کہ وہ ان کے روپے سے کیا جائے، البتہ ہمارے اپنے زیرِ تجویز کاموں میں سے کسی کے متعلق وہ اس خواہش کا اظہار کر سکتے ہیں کہ ان کا روپیہ فلاں کام میں صرف ہو۔ چھٹے یہ کہ ان کے اندر اس قسم کی کوئی خواہش نہ پائی جائے کہ ان کے نام کی شہرت ہو یا ہمارا کوئی کام ان کے نام سے منسوب ہو، یا شخصی طور پر ہم میں سے کوئی ان کا شکر گزار ہو، یا جماعتی طور پر ہم ان کے احسان مند ہوں۔ جس کو بھی ہمارے اس کام میں روپیہ دینا ہو وہ خالص خدا کے لئے دے، خدا ہی سے اجر کا امیدوار ہو اور اعلاء کلمۃ اللہ کے سوا اور کسی چیز کو اپنے مالی ایثار کا صلہ نہ سمجھے۔ یہ ہماری مستقل پالیسی ہے اور اس میں کسی بڑے سے بڑے انسان کی خاطر یا کسی بڑی سے بڑی رقم کی خاطر بھی کوئی ترمیم نہیں کر سکتے۔
- جو تعلیمی، تبلیغی، اصلاحی یا کسی اور قسم کے ادارے ملک میں قائم ہیں یا آئندہ قائم ہوں ان کے متعلق بھی میں جماعت کی پالیسی کی تشریح کر دینا ضروری سمجھتا ہوں، کیوں کہ اس معاملے میں بھی مجھے بعض ارکانِ جماعت کا طرزِ عمل قابلِ اصلاح نظر آیا ہے۔ اس قسم کے ادارے اگر بالکلیہ ہماری جماعت کے حوالے کر دیئے جائیں اور ہماری پالیسی کے مطابق چل سکیں، حتیٰ کہ اگر ہم ان کو غیر ضروری سمجھ کر یا غیر مفید پا کر توڑنا چاہیں تو توڑ بھی سکیں، تب تو ہماری جماعت کا کوئی رکن ان کے چلانے کی ذمہ داری اپنے ہاتھ میں لے سکتا ہے۔ لیکن اگر یہ صورت نہ ہو تو کسی رکنِ جماعت کو ان کے چلانے کی ذمہ داری قبول نہ کرنی چاہیئے۔ وہ اگر معاشی حیثیت سے مجبور ہو تو اس قسم کے کسی ادارے میں ملازم کی حیثیت سے کام کر سکتا ہے لیکن ان کا ذمہ دار رکن نہیں بن سکتا کیونکہ اس صورت میں وہ ادارہ خواہ مخواہ ہماری طرف منسوب ہو گا۔ اس کے کاموں کی جواب دہی جماعت پر عائد ہو گی اور ان اداروں کے چلانے میں جو نامناسب طریقے بالعموم اختیار کرتے ہیں انہیں بادلِ نخواستہ ہمارے رکن کو بھی اختیار کرنا پڑے گا، اور اس سے جماعت کی اخلاقی پوزیشن متاثر ہو گی۔
(اس کے بعد اجلاس برخاست ہوا اور لوگ جمعہ اور کھانے کی تیاری میں مصروف ہو گئے۔)
خطبہ جمعہ
قانونی اور حقیقی اسلام کا فرق
ٹھیک ڈیڑھ بجے جمعہ کی دوسری اذان ہوئی اور امیر جماعت نے بعد حمد و ثنا حسب ذیل خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا:
برادرانِ دین! اللہ تعالیٰ اپنی کتابِ پاک میں فرماتا ہے:
قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ لَا شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ
(ترجمہ: اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کہو میری نماز اور میرے تمام مراسمِ عبودیت اور میرا جینا اور میرا مرنا سب کچھ اللہ کے لئے ہے، جو ساری کائنات کا مالک ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں اور اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور سب سے پہلے میں اس کی اطاعت میں سرِ تسلیم خم کرتا ہوں۔)
اس آیت کی تشریح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے ہوتی ہے:
مَنْ أَحَبَّ لِلهِ وَأَبْغَضَ لِلَّهِ وَأَعْطَى لِلَّهِ وَمَنَعَ لِلَّهِ فَقَدِ اسْتَكْمَلَ الْإِيمَانَ
(ترجمہ: جس نے کسی سے دوستی و محبت کی تو خدا کے لئے کی اور دشمنی کی تو خدا کے لئے کی اور کسی کو دیا تو خدا کے لئے دیا اور کسی سے روکا تو خدا کے لئے روکا، اس نے اپنے ایمان کو کامل کر لیا، یعنی وہ پورا مومن ہو گیا۔)
پہلے جو آیت میں نے آپ کے سامنے پیش کی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اپنی بندگی کو اور اپنے جینے اور مرنے کو صرف اللہ کے لیے خالص کر لے اور اللہ کے سوا کسی کو اس میں شریک نہ کرے۔ یعنی نہ تو اس کی بندگی اللہ کے علاوہ کسی اور کے لیے ہو اور نہ اس کا جینا اور مرنا۔ اس کی جو تشریح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے میں نے آپ کو سنائی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آدمی کی محبت اور دشمنی اور اپنی دنیوی زندگی کے معاملات میں اس کا لین دین خالصتاً خدا کے لیے ہونا عین تقاضائے ایمان ہے۔ اس کے بغیر ایمان ہی کی تکمیل نہیں ہوتی کجا کہ مراتبِ عالیہ کا دروازہ کھل سکے۔ جتنی کمی اس معاملے میں ہوگی اتنا ہی نقص آدمی کے ایمان میں ہو گا اور جب اس حیثیت سے آدمی مکمل طور پر خدا کا ہو جائے تب کہیں اس کا ایمان مکمل ہوتا ہے۔
بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس قسم کی چیزیں صرف مراتبِ عالیہ کا دروازہ کھولتی ہیں، ورنہ ایمان و اسلام کے لیے انسان کے اندر یہ کیفیت پیدا ہونا شرط نہیں ہے۔ یعنی باالفاظ دیگر اس کیفیت کے بغیر بھی انسان مومن و مسلم ہو سکتا ہے۔ مگر یہ ایک غلط فہمی ہے اور اس غلط فہمی کے پیدا ہونے کی وجہ یہ ہے کہ عام طور پر لوگ فقہی اور قانونی اسلام اور اس حقیقی اسلام میں جو خدا کے ہاں معتبر ہے، فرق نہیں کرتے۔ فقہی اور قانونی اسلام میں آدمی کے قلب کا حال نہیں دیکھا جاتا اور نہیں دیکھا جا سکتا، بلکہ صرف اس کے اقرارِ زبانی کو اور اس امر کو دیکھا جاتا ہے کہ وہ اپنے اندر ان لازمی علامات کو نمایاں کرتا ہے یا نہیں جو اقرارِ زبانی کی توثیق کے لیے ضروری ہیں۔ اگر کسی شخص نے زبان سے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن اور آخرت اور دوسرے ایمانیات کو ماننے کا اقرار کر لیا اور اس کے بعد وہ ضروری شرائط بھی پوری کر دیں جن سے اس کے ماننے کا ثبوت ملتا ہے تو وہ دائرہ اسلام میں لے لیا جائے گا۔ اور سارے معاملات اس کے ساتھ مسلمان سمجھ کر کیے جائیں گے۔
لیکن یہ چیز صرف دنیا کے لیے ہے اور دنیوی حیثیت سے وہ قانونی اور تمدنی بنیاد فراہم کرتی ہے جس پر مسلم سوسائٹی کی تعمیر کی گئی ہے۔ اس کا حاصل اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ ایسے اقرار کے ساتھ جتنے لوگ مسلم سوسائٹی میں داخل ہوں ان کو ایک دوسرے پر شرعی اور قانونی اور اخلاقی اور معاشرتی حقوق حاصل ہو جائیں۔ ان کے درمیان شادی بیاہ کے تعلقات قائم ہوں، میراث تقسیم ہو اور دوسرے تمدنی روابط وجود میں آئیں۔ لیکن آخرت میں انسان کی نجات اور اس کا مسلم و مومن قرار دیا جانا اور اللہ کے مقبول بندوں میں شمار ہونا اس قانونی اقرار پر مبنی نہیں ہے، بلکہ وہاں اصل چیز آدمی کا قلبی اقرار، اس کے دل کا جھکاؤ اور اس کا برضا و رغبت اپنے آپ کو بالکلیہ خدا کے حوالے کر دینا ہے۔ دنیا میں جو زبانی اقرار کیا جاتا ہے وہ تو صرف قاضیٔ شرع کے لیے اور عام انسانوں اور مسلمانوں کے لیے ہے کیونکہ وہ صرف ظاہر ہی کو دیکھ سکتے ہیں، مگر اللہ آدمی کے دل کو اور اس کے باطن کو دیکھتا ہے اور اس کے ایمان کو ناپتا ہے۔ اس کے ہاں آدمی کو جس حیثیت سے جانچا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ آیا اس کا جینا اور مرنا اور اس کی وفاداریاں اور اس کی اطاعت و بندگی اور اس کا پورا کارنامۂ زندگی اللہ کے لیے ہے یا کسی اور کے لیے۔ اگر اللہ کے لیے ہے تو وہ مسلم اور مومن ہے اور اگر کسی اور کے لیے ہے تو نہ مسلم ہے نہ مومن۔ اس حیثیت سے جو جتنا خام ہے اتنا ہی اس کا ایمان اور اسلام خام ہے خواہ دنیا میں اس کا شمار کیسے ہی بڑے مسلمانوں میں ہوتا ہو اور اس کو کتنے ہی بڑے مراتب دیے جاتے ہوں۔ اللہ کے ہاں قدر صرف اس چیز کی ہے کہ جو کچھ اس نے آپ کو دیا ہے، وہ سب کچھ آپ نے اس کی راہ میں لگا دیا یا نہیں۔ اگر آپ نے ایسا کر دیا تو آپ کو وہی حق دیا جائے گا جو وفاداروں کو اور حقِ بندگی ادا کرنے والوں کو دیا جاتا ہے، اور اگر آپ نے کسی چیز کو خدا کی بندگی سے مستثنیٰ کر کے رکھا تو آپ کا یہ اقرار کہ آپ مسلم ہوئے یعنی یہ کہ آپ نے اپنے آپ کو بالکل خدا کے حوالے کر دیا محض ایک جھوٹا اقرار ہے جس سے دنیا کے لوگ دھوکا کھا سکتے ہیں، جس سے فریب کھا کر مسلم سوسائٹی آپ کو اپنے اندر جگہ دے سکتی ہے، جس سے دنیا میں آپ کو مسلمانوں کے سے تمام حقوق مل سکتے ہیں لیکن اس سے فریب کھا کر خدا اپنے ہاں آپ کو وفاداروں میں جگہ نہیں دے سکتا۔
قانونی اور حقیقی اسلام کا فرق اور اس کے نتائج
یہ قانونی اور حقیقی اسلام کا فرق جو میں نے آپ کے سامنے بیان کیا ہے، اگر آپ اس پر غور کریں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ اس کے نتائج صرف آخرت ہی میں مختلف نہیں ہوں گے بلکہ دنیا میں بھی ایک بڑی حد تک مختلف ہیں۔ دنیا میں جو مسلمان پائے گئے ہیں یا آج پائے جاتے ہیں ان سب کو دو قسموں پر تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
ایک قسم کے مسلمان وہ جو خدا اور رسول کا اقرار کر کے اسلام کو بحیثیت اپنے مذہب کے مان لیں مگر اپنے اس مذہب کو اپنی کل زندگی کا محض ایک جز اور ایک شعبہ ہی بنا کر رکھیں، اس مخصوص جز اور شعبے میں تو اسلام کے ساتھ عقیدت ہو، عبادت گزاریاں ہوں، تسبیح و مصلے ہو، خدا کا ذکر ہو، کھانے پینے اور بعض معاشرتی معاملات میں پرہیزگاریاں ہوں، اور وہ سب کچھ ہو جسے مذہبی طرزِ عمل کہا جاتا ہے مگر اس شعبے کے سوا ان کی زندگی کے دوسرے تمام پہلو ان کے مسلم ہونے کی حیثیت سے مستثنیٰ ہوں۔ وہ محبت کریں تو اپنے نفس یا اپنے مفاد یا اپنے ملک و قوم یا کسی اور کی خاطر کریں۔ وہ دشمنی کریں اور کسی سے جنگ کریں تو وہ بھی ایسے ہی کسی دنیوی یا نفسانی تعلق کی بنا پر کریں۔ ان کے کاروبار، ان کے لین دین، ان کے معاملات اور تعلقات، ان کا اپنے بال بچوں، اپنے خاندان، اپنی سوسائٹی اور اپنے اہلِ ملک کے ساتھ برتاؤ، یہ سب کچھ بڑی حد تک ان سے آزاد اور دنیوی نیتوں پر مبنی ہو۔ ایک زمیندار کی حیثیت سے، ایک تاجر کی حیثیت سے، ایک حکمران کی حیثیت سے، ایک سپاہی کی حیثیت سے، ایک پیشہ ور کی حیثیت سے ان کی اپنی ایک مستقل حیثیت ہو جس کا ان کے مسلمان ہونے کی حیثیت سے خواہ جزئی طور پر متاثر یا منسوب ہوں لیکن فی الواقع ان کو اسلام سے کوئی علاقہ نہ ہو۔
دوسری قسم کے مسلمان وہ ہیں جو اپنی پوری شخصیت کو اور اپنے سارے وجود کو اسلام کے اندر پوری طرح دے دیں، ان کی ساری حیثیتیں ان کے مسلمان ہونے کی حیثیت میں گم ہو جائیں، وہ باپ ہوں تو مسلمان کی حیثیت سے، بیٹے ہوں تو مسلمان ہونے کی حیثیت سے، شوہر یا بیوی ہوں تو مسلمان کی حیثیت سے، تاجر، زمیندار، مزدور، ملازم یا پیشہ ور ہوں تو مسلمان کی حیثیت سے۔ ان کے خدمات، ان کی خواہشات، ان کے نظریات، ان کے خیالات اور ان کی رائیں، ان کی نفرت اور رغبت، ان کی پسند اور ناپسند سب کچھ اسلام کے تابع ہو۔ ان کے دل و دماغ پر، ان کی آنکھوں اور کانوں پر، ان کے پیٹ اور ان کی شرمگاہوں پر اور ان کے ہاتھ پاؤں اور ان کے جسم و جان پر اسلام کا مکمل قبضہ ہو۔ نہ ان کی محبت اسلام سے آزاد ہو، نہ دشمنی۔ جس سے ملیں تو اسلام کے لیے ملیں اور جس سے لڑیں تو اسلام کے لیے لڑیں۔ کسی کو دیں تو اس لیے دیں کہ اسلام کا تقاضا یہ ہے کہ اسے دیا جائے اور کسی سے روکیں تو اس لیے روکیں کہ اسلام یہی کہتا ہے کہ اس سے روکا جائے۔ اور ان کا یہ طرزِ عمل صرف انفرادی حد تک ہی نہ ہو بلکہ ان کی اجتماعی زندگی بھی سراسر اسلام کی بنیاد ہی پر قائم ہو بحیثیت ایک جماعت کے ان کی ہستی صرف اسلام کے لیے قائم ہو اور ان کا سارا اجتماعی برتاؤ اسلام کے اصولوں پر مبنی ہو۔
کون سے مسلمان خدا کو مطلوب ہیں؟
یہ دو قسم کے مسلمان حقیقت میں بالکل ایک دوسرے سے مختلف ہیں گو قانونی حیثیت سے دونوں پر لفظ مسلمان کا اطلاق یکساں ہو۔ پہلی قسم کے مسلمانوں کا کوئی کارنامہ تاریخِ اسلام میں قابلِ ذکر یا قابلِ فخر نہیں ہے۔ انہوں نے حقیقت میں کوئی ایسا کام نہیں کیا ہے جس نے تاریخِ عالم پر کوئی اسلامی نقش چھوڑا ہو۔ اسلام کو اگر تنزل نصیب ہوا ہے تو ایسے ہی لوگوں کی بدولت ہوا ہے۔ ایسے ہی مسلمانوں کی کثرت مسلم سوسائٹی میں ہو جانے کا نتیجہ اس شکل میں رونما ہوا کہ دنیا کے نظامِ زندگی کی باگیں کفر کے قبضے میں چلی گئیں اور مسلمان اس کے ماتحت رہ کر صرف ایک محدود مذہبی زندگی کی آزادی پر قانع ہو گئے۔ خدا کو ایسے مسلمان ہرگز مطلوب نہ تھے۔ اس نے اپنے انبیاء کو دنیا میں اس لیے نہیں بھیجا تھا، نہ اپنی کتابیں اس لیے نازل کی تھیں کہ صرف اس طرز کے مسلمان دنیا میں بنا ڈالے جائیں۔ دنیا میں ایسے مسلمانوں کے نہ ہونے سے کسی حقیقی قدر و قیمت رکھنے والی چیز کی کمی نہ تھی جسے پورا کرنے کے لیے سلسلہ وحی و نبوت کو جاری کرنے کی ضرورت پیش آئی۔ درحقیقت جو مسلمان خدا کو مطلوب ہیں، جنہیں تیار کرنے کے لیے انبیاء کی بعثت اور کتابوں کی تنزیل ہوئی، اور جنہوں نے اسلامی نقطۂ نظر سے کبھی کوئی قابلِ قدر کام کیا ہے یا آج کر سکتے ہیں وہ صرف دوسری ہی قسم کے مسلمان ہیں۔
یہ چیز کچھ اسلام ہی کے لیے خاص نہیں ہے بلکہ دنیا میں کسی مسلک کا جھنڈا بھی ایسے پیرووں کے ہاتھوں کبھی بلند نہیں ہوا ہے جنہوں نے اپنے مسلک کے اقرار اور اس کے اصولوں کی پابندی کو اپنی کل زندگی کے ساتھ صرف ضمیمہ بنا کر رکھا ہو اور جن کا جینا اور مرنا اپنے مسلک کے سوا کسی اور چیز کے لیے ہو۔ آج بھی آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ایک مسلک کے حقیقی اور سچے پیرو صرف وہی لوگ ہوتے ہیں جو دل و جان سے اس کے وفادار ہیں، جنہوں نے اپنی پوری شخصیت کو اس میں گم کر دیا ہے اور جو اپنی کسی چیز کو حتیٰ کہ اپنی جان اور اپنی اولاد تک کو اس کے مقابلے میں عزیز نہیں رکھتے۔ دنیا کا ہر مسلک ایسے ہی پیرو مانگتا ہے۔ اور اگر کسی مسلک کو دنیا میں غلبہ نصیب ہو سکتا ہے تو وہ صرف ایسے ہی پیرووں کی بدولت ہو سکتا ہے۔ البتہ اسلام میں اور دوسرے مسلکوں میں فرق یہ ہے کہ دوسرے مسلک اگر انسانوں سے اس طرز کی فنائیت اور فدائیت اور وفاداری مانگتے ہیں تو یہ فی الواقع انسان پر ان کا حق نہیں ہے۔ بلکہ یہ ان کا انسان سے ایک بے جا مطالبہ ہے۔ اس کے برعکس اسلام اگر انسان سے اس کا مطالبہ کرتا ہے تو یہ اس کا عین حق ہے۔ وہ جن چیزوں کی خاطر انسان سے کہتے ہیں کہ تو اپنے آپ کو اور اپنی زندگی کو اور اپنی پوری شخصیت کو ان پر نثار کر دے ان میں سے کوئی بھی ایسی نہیں ہے جس کا فی الواقع انسان پر یہ حق ہو کہ اس کی خاطر انسان اپنی کسی شے کو قربان کرے۔ لیکن اسلام جس خدا کے لیے انسان سے یہ قربانی مانگتا ہے وہ حقیقت میں اس کا حق رکھتا ہے کہ اس پر سب کچھ قربان کر دیا جائے۔ آسمان اور زمین میں جو کچھ ہے اللہ کا ہے۔ انسان خود اللہ کا ہے۔ جو کچھ انسان کے پاس ہے اور جو کچھ انسان کے اندر ہے سب اللہ کا ہے۔ اور جن چیزوں سے انسان دنیا میں کام لیتا ہے وہ بھی سب اللہ کی ہیں۔ اس لیے عین تقاضائے عدل اور عین مقتضائے عقل ہے کہ جو کچھ اللہ کا ہے وہ اللہ ہی کے لیے ہو۔ دوسروں کے لیے یا خود اپنے مفاد اور اپنے نفس کے مرغوبات کے لیے انسان جو قربانی بھی کرتا ہے وہ دراصل ایک خیانت ہے الا یہ کہ وہ خدا کی اجازت سے ہو۔ اور خدا کے لیے جو قربانی کرتا ہے فی الحقیقت وہ ادائے حق ہے۔ لیکن اس پہلو سے قطع نظر کرتے ہوئے مسلمانوں کے لیے ان لوگوں کے طرزِ عمل میں ایک بڑا سبق ہے جو اپنے باطل مسلکوں کی خاطر اور اپنے نفس کے جھوٹے معبودوں کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کر رہے ہیں اور اس استقامت کا ثبوت دے رہے ہیں جس کی نظیر مشکل ہی سے تاریخِ انسانی میں ملتی ہے۔ کس قدر عجیب بات ہو گی اگر باطل کے لیے انسانوں سے ایسی کچھ فدائیت اور فنائیت ظہور میں آئے اور حق کے لیے اس کا ہزارواں حصہ بھی نہ ہو سکے۔
اپنا محاسبہ کریں
ایمان و اسلام کا یہ معیار جو اس آیت اور اس حدیث میں بیان ہوا ہے، میں چاہتا ہوں کہ ہم سب اپنے آپ کو اس پر پرکھ کر دیکھیں اور اس کی روشنی میں اپنا محاسبہ کریں۔ اگر آپ کہتے ہیں کہ آپ نے اسلام قبول کیا اور ایمان لے آئے تو دیکھیے کہ آیا فی الواقع آپ کا جینا اور مرنا خدا کے لیے ہے؟ کیا آپ اسی لیے جی رہے ہیں اور آپ کے دل اور دماغ کی ساری قابلیتیں، آپ کے جسم اور جان کی ساری قوتیں، آپ کے اوقات اور آپ کی محنتیں کیا اسی کوشش میں صرف ہو رہی ہیں کہ خدا کی مرضی آپ کے ہاتھوں پوری ہو اور آپ کے ذریعے سے وہ کام انجام پائے جو خدا اپنی مسلم امت سے لینا چاہتا ہے؟ پھر کیا آپ نے اپنی اطاعت اور بندگی کو خدا ہی کے لیے مخصوص کر دیا ہے؟ کیا نفس کی بندگی، خاندان کی، برادری کی، دوستوں کی، سوسائٹی کی اور حکومت کی بندگی آپ کی زندگی سے بالکل خارج ہو چکی ہے؟ کیا آپ نے اپنی پسند اور ناپسند کو سراسر رضائے الٰہی کے تابع کر دیا ہے؟ پھر دیکھیے کہ واقعی آپ جس سے محبت کرتے ہیں خدا کے لیے کرتے ہیں؟ جس سے نفرت کرتے ہیں خدا کے لیے کرتے ہیں؟ اور اس نفرت اور محبت میں آپ کے اپنے نفس کے میلان کا کوئی حصہ شامل نہیں رہا ہے؟ پھر کیا آپ کا دینا اور روکنا بھی خدا کی خاطر ہو چکا ہے؟ اپنے پیٹ اور اپنے نفس سمیت دنیا میں آپ جس کو جو کچھ دے رہے ہیں اسی لیے دے رہے ہیں کہ خدا نے اس کا حق مقرر کیا ہے اور اس کو دینے سے صرف خدا کی رضا آپ کو مطلوب ہے؟ اور اسی طرح جس سے آپ جو کچھ روک رہے ہیں وہ بھی اس لیے روک رہے ہیں کہ خدا نے اسے روکنے کا حکم دیا ہے اور اس کے روکنے میں آپ کو خدا کی خوشنودی حاصل ہونے کی تمنا ہے؟ اگر آپ یہ کیفیت اپنے اندر پاتے ہیں تو اللہ کا شکر کیجیے کہ اس نے آپ پر نعمتِ ایمان کا اتمام کر دیا۔ اور اگر اس حیثیت سے آپ اپنے اندر کمی محسوس کرتے ہیں تو ساری فکریں چھوڑ کر بس اسی کمی کو پورا کرنے کی فکر کیجیے اور اپنی تمام کوششوں اور محنتوں کو اسی پر مرکوز کر دیجیے، کیونکہ اسی کسر کے پورے ہونے پر دنیا میں آپ کی فلاح اور آخرت میں آپ کی نجات کا مدار ہے۔ آپ دنیا میں خواہ کچھ بھی حاصل کر لیں اُس کے حصول سے اس نقصان کی تلافی نہیں ہو سکتی جو اس کسر کی بدولت آپ کو پہنچے گا۔ لیکن اگر یہ کسر آپ نے پوری کر لی تو خواہ آپ کو دنیا میں کچھ حاصل نہ ہو پھر بھی آپ خسارے میں نہ رہیں گے۔
اجلاس چہارم
(۷ جمادی الاول ۱۳۶۴ھ - بروز جمعہ ۔ بعد نماز جمعہ)
رپورٹیں اور ان پر تبصرہ
نماز جمعہ کے بعد پھر اجلاس منعقد ہوا۔ چونکہ امیرِ جماعت کی طبیعت خراب ہو گئی تھی اس لیے اجلاس کی کارروائی کا آغاز مولانا امین احسن صاحب اصلاحی کی قیادت میں ہوا اور جنوبی ہند کی بقیہ رپورٹیں پیش کی گئیں۔ ان رپورٹوں پر تبصرہ کرتے ہوئے مولانا امین احسن صاحب نے فرمایا:
"جو مشکلات جنوبی ہند کی جماعتوں نے بیان کی ہیں وہ کوئی بڑی اہمیت نہیں رکھتیں، نہ ان سے پریشان ہونے کی کوئی وجہ ہے، بلکہ فی الحقیقت ایسی رکاوٹوں کا تو خندہ پیشانی سے استقبال کرنا چاہیے۔ جو لوگ ہمارے لٹریچر سے دوسروں کو روکتے ہیں وہ تو ایک طرح سے اس کے پھیلنے میں مددگار بن رہے ہیں کیونکہ انسانی فطرت کا طبعی خاصہ یہ ہے کہ جس چیز سے اس کو روکا جاتا ہے اس کی طرف وہ اور زیادہ راغب ہوتی ہے۔"
اس کے بعد ایک صاحب نے اپنے ایک اشتراکی دوست کا خط پڑھ کر سنایا جس میں انہوں نے جماعت کے لٹریچر سے متاثر ہونے کے بعد اپنے خیالات کی تبدیلی کا حال تفصیل سے بیان کیا تھا۔ اسی دوران میں امیرِ جماعت تشریف لے آئے اور بقیہ کارروائی ان کی قیادت میں جاری رہی۔
اس کے بعد دہلی اور یوپی کی رپورٹیں پیش ہوئیں۔ ان رپورٹوں کے سلسلے میں بعض ممتاز علماء کرام کے وہ فتوے بھی پڑھ کر سنائے گئے جو انہوں نے ”رسالہ دینیات“ کے متعلق تحریر فرمائے ہیں اور جنہیں ایک گروہ اس غرض کے لیے استعمال کر رہا ہے کہ یہ رسالہ بعض مدارس کی تعلیمِ دینیات کے نصاب سے خارج کیا جائے۔
ان رپورٹوں پر تبصرہ کرتے ہوئے امیرِ جماعت نے فرمایا:
- جیسا کہ آپ حضرات نے اپنی رپورٹوں کے دوران میں بیان کیا ہے اور میں بھی دیکھ رہا ہوں، بعض گروہ خواہ مخواہ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ ہماری ان سے کوئی مخالفت ہے اور اس بنا پر جگہ جگہ انہوں نے ہمارے راستے میں رکاوٹیں ڈالنے اور ہمارے خلاف بدگمانیاں پھیلانے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے، حالانکہ ہماری نہ ان سے کوئی لڑائی ہے اور نہ ہم نے کبھی ان کو اپنا حریف سمجھا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ ہم نے مسلمانوں کی مختلف جماعتوں کے طریقِ کار اور ان کی سیاسی پالیسی پر اپنے لٹریچر میں تنقید کی ہے لیکن اس تنقید کی غرض لڑائی نہ تھی بلکہ صرف یہ تھی کہ یہ جماعتیں ہمارے نقطۂ نظر سے واقف ہوں اور اگر ان کا دل گواہی دے کہ ہمارا نقطہ نظر صحیح ہے تو اس کو ملحوظ رکھ کر اپنے طرزِ عمل کی اصلاح کریں۔ اس قسم کی تنقید بہرحال اصلاح کے لیے ناگزیر ہوتی ہے اور اس کے بغیر دنیا میں کہیں بھی حالات کی اصلاح نہیں ہوا کرتی۔ ایسی تنقید کو ہمیشہ ترقی پسند اور معقولیت پسند جماعتیں برداشت کرتی ہیں بلکہ اس سے فائدہ اٹھانے کی بھی کوشش کرتی ہیں۔ مگر افسوس ہے کہ ہندوستان میں تنقید کو ہمیشہ دشمنی ہی پر محمول کیا جاتا ہے۔ آپ خواہ کسی کی کتنی ہی مخلصانہ اور ہمدردانہ تنقید کریں اور آپ کی نیت خالص اصلاح طلبی ہی کی کیوں نہ ہو مگر کسی پر تنقید کرنے کے بعد مشکل ہی سے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ اس کے جواب میں آپ کو کاٹ کھانے پر آمادہ نہ ہو جائے گا۔ یہ سب ہندوستان کے اخلاقی اور عقلی تنزل کا نتیجہ ہے اور اگر اس کے اسباب کو ہم اچھی طرح سمجھ لیں تو اس قسم کے مظاہر کو دیکھ کر کبھی برافروختہ نہ ہوں بلکہ ان لوگوں کے ساتھ ہمدردانہ یا کم از کم صابرانہ رویہ اختیار کریں۔ میں دیکھتا ہوں کہ کہیں کہیں آپ حضرات کی رپورٹوں میں ان مخالفتوں پر غصے اور ناراضی کا رنگ پایا جاتا ہے۔ اس چیز کو اپنے اندر سے نکال دیجیے۔ جہاں جہاں آپ کو ان مخالفتوں سے سابقہ پیش آئے وہاں نہایت معقولیت اور ٹھنڈے طریقے سے مخالفین کو سمجھا دیجیے کہ ہماری اصل لڑائی تم سے نہیں بلکہ نظامِ باطل سے ہے۔ ہم اسے غلط سمجھتے ہیں اور اسی پر چوٹ لگانا چاہتے ہیں۔ اگر تم نے اپنے آپ کو اس نظام سے وابستہ کر رکھا ہے تو جس حد تک تمہاری اس سے وابستگی ہے اسی حد تک ضمناً تم پر بھی چوٹ لگے گی لیکن ہمارے اصل ہدف تم نہ ہو گے بلکہ نظامِ باطل ہی ہو گا۔ لیکن اگر تمہارا اس نظام سے کوئی رشتہ نہیں ہے تو ہماری کسی سرگرمی سے تمہیں پریشان ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔ جو تیر دوسری طرف چھوڑا جا رہا ہو اسے تم خواہ مخواہ اپنے سینے کی طرف کیوں کھینچنا چاہتے ہو؟ اس فہمائش کے بعد جو لوگ اپنی مخالفانہ باتوں سے باز نہ آئیں انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیجیے۔ ان کی باتوں کا نہ جواب دیجیے نہ ان پر مشتعل ہو جائیے۔ خوب سمجھ لیجیے کہ ان کی مخالفانہ حرکات، ان کی اشتہار بازیاں، ان کے غلط الزامات اور ان کی تمام مخالفانہ تدبیریں خود انہیں کے لیے مضر ثابت ہوں گی بشرطیکہ آپ کا رویہ غایت درجہ شریفانہ اور کریمانہ اور حکیمانہ ہو اور آپ بالکل راست باز انسانوں کی طرح سیدھے سیدھے اپنا کام کرتے چلے جائیں۔ جب ایک طرف آپ کی روش یہ ہوگی اور دوسری طرف ان کا مخالفانہ رویہ اخلاق اور راستی سے دور ہوتا چلا جائے گا تو آپ دیکھیں گے کہ پبلک کا ضمیر ان کی حرکات سے خود بخود بیزار ہونے لگے گا اور لوگ ان سے کٹ کر آپ کی طرف مائل ہو جائیں گے۔ لیکن اگر آپ نے مشتعل ہو کر ان کے جواب میں دو بدو شروع کر دی تو جیسے وہ ہیں ویسے ہی آپ ہو کر رہیں گے اور اس لڑائی میں ان کی طرح آپ بھی کھوئے جائیں گے۔ دراصل وہ شیطان ہے جو داعیانِ حق کو ان کے راستے سے ہٹانے کے لیے اشتعال دلاتا اور نفسانی لڑائی لڑنے پر آمادہ کرتا ہے۔ اس باب میں آپ حضرات میرے ان حواشی کو بغور پڑھیں جو میں نے تفہیم القرآن میں سورہ اعراف کے آخری رکوع پر لکھے ہیں۔ انشاء اللہ وہ بہت مفید ثابت ہوں گے۔
- اس سے پہلے اکثر خطوط سے اور یہاں جو رپورٹیں پیش ہوئی ہیں ان سے بھی اندازہ ہوا کہ ہمارے رفقاء اور ہم خیال اصحاب کے حلقے میں اشتراکیت کے بڑھتے ہوئے طوفان سے ایک اضطراب پیدا ہو گیا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ اشتراکی تحریک اب روس کی کامیابی کی بدولت بہت زور پکڑ گئی ہے اور حکومت نے اپنی مصلحتوں کی خاطر اسے قوت حاصل کرنے کا جو موقع دیا ہے وہ بھی اس کے لیے کافی مفید ثابت ہوا ہے۔ لیکن ان چیزوں سے مضطرب ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، اور اضطراب کے ساتھ اگر کوئی قدم اٹھایا گیا تو وہ فائدہ مند ہونے کے بجائے الٹا مضر ثابت ہو گا۔ یہ صحیح ہے کہ اشتراکیت عوام کے سفلی جذبات اور ان کی خواہشاتِ نفس سے اپیل کرنے کی بنا پر آگ کی طرح پھیلنے کی خاصیت رکھتی ہے، یہ بھی صحیح ہے کہ ایک مدتِ دراز سے اس کا مسلسل پروپیگنڈا ہوتا رہا ہے، اس کے پاس ایک بہت طاقتور لٹریچر ہے اور کثیر التعداد کارکن موجود ہیں، دنیا کے مختلف ممالک میں اس کی بہت کامیاب اشاعت ہو چکی ہے اور ایک عظیم الشان سلطنت اس کی علمبردار ہے جسے تازہ فتوحات نے غیر معمولی اثر اور رسوخ بخش دیا ہے، ان وجوہ سے یہ بہت زیادہ بعید از قیاس نہیں ہے کہ ایک مرتبہ یہ تحریک ایک سیلاب کی طرح ہمارے ملک اور دوسرے بہت سے ملکوں پر چھا جائے گی لیکن ان پہلوؤں کے ساتھ بعض دوسرے پہلو بھی ہیں جنہیں ہم نظر انداز نہیں کر سکتے۔ ہندوستان میں اور اس طرز کے غلام ذہنیت رکھنے والے ملکوں میں اس تحریک کی ترقی کا انحصار تمام تر روس کی طاقت پر ہے جس وقت روس جرمنی سے پٹ رہا تھا آپ نے دیکھا ہو گا کہ اس وقت ہندوستان میں اشتراکیت بھی دم توڑ رہی تھی۔ جب روس از سرِ نو سنبھل کر اٹھا اور جرمنی کے مقابلے میں کامیابی حاصل کرتا چلا گیا تو یہاں بھی اشتراکیت کے جسم میں روح دوڑنے لگی۔ اس لیے یہ نتیجہ نکالنا صحیح ہے کہ اشتراکیت کا گرنا اور اٹھنا روس کے دامن کے ساتھ بندھا ہوا ہے۔ لیکن روس کا حال یہ ہے کہ اب وہ ایک بین الاقوامی اشتراکی تحریک کی پوزیشن سے ہٹتے ہٹتے ٹھیک اس مقام پر آرہا ہے جہاں نازی جرمنی کھڑا تھا، یعنی اس کی اشتراکیت اب قوم پرستانہ اشتراکیت (National Socialism) ہے اور وہ بہت تیزی کے ساتھ قیصریت (Imperialism) کے میدان میں امریکہ اور انگلستان کا حریف بن رہا ہے۔ یہ چیز ممکن ہے کہ روس کی قیصریت کو اتنی جلدی نہ لے بیٹھے لیکن ایک بین الاقوامی تحریک کی حیثیت سے اشتراکیت کو یقیناً لے بیٹھے گی۔ ایک بین الاقوامی تحریک کی کامیابی سراسر اس امر پر منحصر ہوتی ہے کہ اس کے علمبردار شخصی اور قومی اور طبقاتی اغراض سے بالاتر ہو کر تمام انسانوں کو مساویانہ حیثیت سے قومی امتیازات اور تعصبات کے بغیر اپنا شریک و سہیم بنائیں اور کامیابی کے دور میں جو کچھ خاندان کو حاصل ہوں، ان سب میں اپنے تمام ہم خیالوں کو برابر کا حصہ دار ٹھہرائیں حتیٰ کہ ان کے اندر اتنی فراخ حوصلگی موجود ہو کہ جس سے کل ان کی لڑائی تھی وہ بھی اگر ان کا ہم مسلک ہو جائے تو وہ اس کے ساتھ اپنے انتقام اور دشمنی اور تعصبات کے سارے جذبات کو ختم کر کے بھائیوں کا سا سلوک کریں۔ ظاہر ہے کہ اس کے لیے بہت اعلیٰ درجے کے اخلاق درکار ہیں۔ مگر مادہ پرست، اور وہ مادہ پرست جس کا سب سے بڑا اپیل معاشی اپیل ہو، اتنے بلند اخلاق کہاں سے لا سکتا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ روس جتنا جتنا دنیوی کامیابیوں کی منزلیں طے کرتا چلا گیا اتنا ہی زیادہ قوم پرست ہوتا چلا گیا اور آج کا روسی اشتراکی اپنے اندر اتنی بلند ہمتی نہیں پاتا کہ جو منافع اس کو اپنی فوجی کامیابیوں سے حاصل ہوئے ہیں ان میں وہ اپنی قوم کے ساتھ دوسروں کو برابر کا شریک کرے۔ اب وہ جو کچھ چاہتا ہے اپنی قوم کے لیے چاہتا ہے البتہ اشتراکیت کے لیے بین الاقوامی اپیل کو وہ صرف اپنے ایک قومی ہتھیار کی حیثیت سے استعمال کر رہا ہے تاکہ مختلف قوموں میں اس کے ذریعے سے فتنہ کا لم پیدا کرے اور پھر اس فتنہ کالم کو آلۂ کار بنا کر اپنے امپیریلزم کی جڑیں پھیلائے۔ گو آنکھوں والے اسے ابھی سے دیکھ رہے ہیں لیکن عنقریب وہ وقت آنے والا ہے جب روس کی سیاست اس معاملے میں بالکل ننگی ہو جائے گی اور اس وقت غلام قوموں کے وہ لوگ جو آج اسے اپنا مقتدر و پیشوا بنائے ہوئے ہیں اور اس کو مظلوموں کا حمایتی اور غلاموں کی آزادی کا علمبردار سمجھ رہے ہیں اس سے مایوس ہو جائیں گے۔
- اس بیان سے میری یہ غرض نہیں ہے کہ آپ کو اشتراکی خطرے سے بالکل مطمئن ہو کر بیٹھ جانے کا مشورہ دوں بلکہ میں صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اشتراکی خطرے سے جتنا اضطراب آپ میں سے بعض لوگ محسوس کرتے ہیں اتنے زیادہ اضطراب کا کوئی موقع نہیں ہے۔ اس خطرے کو جو لوگ تیزی کے ساتھ قریب آتا دیکھتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ جلدی سے کوئی جوابی پروپیگنڈا شروع کر دیا جائے یا اشتراکیت کے خلاف مضامین اور کتابوں کی اشاعت کا سلسلہ چھیڑ دیا جائے یا ہمارے کارکن جلدی سے کسانوں اور مزدوروں میں جا کر کوئی ایسا کام شروع کریں جو انہیں اشتراکیوں کی گود سے فوراً چھین لے، لیکن اس طرح کی جلد بازانہ تدبیریں کارگر نہیں ہو سکتیں۔ میں نے پچھلے سال تعلیمِ بالغان کی جو سکیم پیش کی تھی وہ اسی لیے تھی کہ ہمارے وہ ارکانِ جماعت جو عوام میں کام کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں مضبوط اور گہری بنیادوں پر ایک ایسی عوامی تحریک کی عمارت اٹھائیں جو نہ صرف یہ کہ محنت پیشہ طبقوں کی اخلاقی اور ذہنی اصلاح کرے بلکہ اس کے ساتھ ہی ان کو تمام معاشی، سیاسی اور مذہبی فتنے پھیلانے والی تحریکوں سے بھی محفوظ کر دے، نیز جس سے بتدریج ہمارے پاس طبقۂ عوام کے ایسے قابلِ اعتماد کارکنوں کی ایک معتدبہ تعداد فراہم ہوتی چلی جائے جو وسیع پیمانے پر ہماری عوامی تحریک کو ملک میں پھیلا سکے۔ جیسا کہ میں اس سے پہلے اجتماعِ دارالاسلام اور اجتماعِ دہلی کی تقریروں میں کہہ چکا ہوں اس کام کا طریقہ یہ ہے کہ ہمارا ہر تعلیم یافتہ کارکن اپنے آس پاس کی آبادی میں سے طبقۂ عوام کے آٹھ دس آدمیوں کو تعلیم کا شوق دلائے اور اسے پڑھانے کے لیے بلا معاوضہ خود اپنی خدمات پیش کرے۔ اس تعلیم کے مصارف کا کوئی بار ان پر نہ ڈالا جائے، وقت مقرر کرنے میں بھی اپنی سہولت کی بہ نسبت ان کی سہولت کا زیادہ خیال رکھا جائے، جگہ بھی ان سے نہ مانگی جائے بلکہ خود فراہم کی جائے، پہلے کچھ مدت صرف کر کے ان کو نوشت و خواند کے قابل بنا دیا جائے، پھر خود اپنی جماعت کے لٹریچر میں سے آسان آسمان چیزیں سبقاً سبقاً پڑھائی جائیں اور اس دوران میں نہ صرف اپنے خیالات سے ان کے ذہن کو متاثر کیا جائے بلکہ ان کے ساتھ مساوات، ہمدردی، اخوت اور عالی ظرفی کا ایسا برتاؤ کیا جائے جس سے ان کے دل مسخر ہو جائیں۔ اُن کے دکھ درد میں شریک ہونے کی کوشش کیجیے۔ ان کی ہر مصیبت اور تکلیف میں ممکن ہو تو عملاً کام آئیے ورنہ کم از کم ہمدردی کا اظہار کیجیے، اپنے طرزِ عمل سے ان پر ثابت کیجیے کہ آپ کسی قسم کے امتیازات کے قائل نہیں ہیں، پڑھے لکھے اور اونچے طبقوں میں جو جھوٹا فخر پایا جاتا ہے اس کا کوئی شائبہ آپ کے اندر نہ پایا جائے۔ اس کے ساتھ نہایت مخلصانہ طریقے سے ان کی اخلاقی کمزوریوں کو دور کرنے کی کوشش کیجیے، ان کے اندر جو انسان سو رہا ہے، جسے معاشی خستہ حالی نے، جہالت نے، سوسائٹی کی اخلاقی اور ذہنی پستی نے سلا دیا ہے اسے جگائیے اور ان کے اندر اس انسانی عظمت کا شعور پیدا کیجیے جس کی بنیاد اسلام اور ایمان پر قائم ہوتی ہے۔ پھر یہ بات بھی ان کے ذہن نشین کیجیے کہ ان کی تمام معاشی مشکلات اور ان کے ان تمام دکھوں کا جو موجودہ تمدن نے پیدا کر دیے ہیں صرف ایک ہی علاج ہے اور وہ یہ ہے کہ زندگی کا نظام خالص اسلامی بنیادوں پر قائم ہو۔ اس طرح جن آٹھ دس آدمیوں کو آپ تیار کریں گے وہ گویا عوام میں کام کرنے کے لیے آپ کے تربیت یافتہ کارکن بن جائیں گے اور پھر آپ ان کو انہی کے طبقے میں اپنے اخلاقی و ذہنی اثرات پھیلانے کا ذریعہ بنا سکیں گے۔ یہ طریقِ کار اپنے نتائج جلدی نہیں دکھا سکتا۔ جس طرح ایک اشتراکی کارکن تھوڑی مدت کے اندر معاشی اپیل کر کے ایک مزدور سبھا یا کسان سبھا کھڑی کر لیتا ہے یا ٹریڈ یونین (Trade Union) بنا ڈالتا ہے اس طرح جلدی سے آپ کوئی بھیڑ اپنے گرد جمع نہ کر سکیں گے لیکن جو طریقِ کار میں آپ کو بتا رہا ہوں اس پر اگر آپ عمل کریں تو آپ دیکھ لیں گے کہ چند سال کے اندر ایک ایسی مضبوط عوامی تحریک اٹھ کھڑی ہوگی جس کا مقابلہ کرنا کسی دوسری تحریک کے لیے مشکل ہو گا۔ پیٹ کی اپیل پر جمع ہونے والی بھیڑ کبھی وہ استقامت نہیں دکھا سکتی جو اعلیٰ درجے کی اخلاقی بنیادوں پر اٹھنے والے چند مٹھی بھر لوگ دکھا سکتے ہیں اور نہ عامۃ الناس میں معبودِ شکم کے پجاریوں کو وہ اخلاقی اثر کبھی حاصل ہو سکتا ہے جو سچے خدا پرستوں کو حاصل ہو سکتا ہے۔
- بعض مقامات کی رپورٹوں سے یہ معلوم کر کے بہت افسوس ہوا کہ جب ہمارے کارکنوں نے کہیں مزدور طبقے کے اندر اشتراکی کارکنوں کے پھیلائے ہوئے زہر کو نکالنے کی کوشش کی تو اس طبقے کے مسلمانوں نے اسے جواب دیا کہ علماء تو ان اشتراکی کارکنوں کے ساتھ موافقت کر رہے ہیں اور انہوں نے ہمیں یقین دلایا ہے کہ اشتراکیت سے ہمارے مذہب پر کوئی آنچ نہیں آتی، پھر آپ لوگ ہمیں کیوں ڈراتے ہیں کہ اشتراکیت ہم کو الحاد کی طرف لے جائے گی یا یہ کہ اشتراکیت اسلام کے خلاف ہے۔ در حقیقت ہمارے بعض علماء کرام ہندوستان میں یہ اسی قسم کی غلطی کر رہے ہیں جیسی اس سے پہلے روسی ترکستان کے علماء کر چکے ہیں اور اس کا افسوس ناک انجام دیکھ چکے ہیں۔ روسی ترکستان کا اشتراکی انقلاب کوئی بہت پرانی چیز نہیں ہے۔ اسی بیس پچیس سال کی مدت میں ہوا ہے اور وہاں اس کا یہ نتیجہ دنیا دیکھ چکی ہے کہ جو سرزمین ہزار بارہ سو سال سے اسلام کا مضبوط قلعہ بنی ہوئی تھی، جہاں سے بڑے بڑے ائمہ حدیث، ائمہ فقہ اور مشہور سلاسلِ صوفیہ (چشتیہ، نقشبندیہ اور سہروردیہ) کے پیشوا پیدا ہوئے، وہاں آج اسلام برائے نام بھی باقی نہیں ہے۔ مسجدیں اور خانقاہیں کلبوں اور رقص گاہوں اور تعلیمِ دہریت کے مرکزوں میں تبدیل ہو چکی ہیں اور سابق مسلمانوں کی نسل سے پکے ملحد اشتراکی پیدا ہوئے ہیں جن کے نزدیک محمد رسول اللہ محض سرمایہ داروں کے ایک ایجنٹ تھے اور انہوں نے اپنے وقت کے معاشی نظام کو مذہبی و اخلاقی بنیاد فراہم کرنے کے لیے وحی و رسالت کا ڈھونگ رچایا تھا۔ یہ عظیم الشان کامیابی اشتراکیت کو اس سرزمین میں حاصل ہوئی جہاں آج سے پچیس سال پہلے تک پرانے طرز کی مذہبیت ہندوستان سے بہت زیادہ گہرا رنگ رکھتی تھی اور اسلام سے لوگوں کی عقیدت اتنی بڑھی ہوئی تھی کہ کوئی شخص یہ تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ پچیس سال کے اندر اس سرزمین میں کوئی اسلام کا نام لینے والا بھی نہ پایا جائے گا۔ مگر آپ کو معلوم ہے کہ اشتراکی مبلغین کو یہ کامیابی حاصل کیسے ہوئی؟ اس کا ذریعہ صرف ایک تھا اور وہ یہ کہ اشتراکیت کے مبلغ معصوم صورتیں لیے ہوئے، دکھی انسانیت کے حامی بن کر علمائے کرام کے پاس پہنچے اور سب سے پہلے ان کا اعتماد حاصل کیا۔ ترکستان میں نئے زمانے کے تعلیم یافتہ مگر صحیح العقیدہ مسلمان جو تھوڑے بہت موجود تھے انہوں نے علمائے کرام کو آگاہ کرنے کی کوشش کی کہ یہ اشتراکیت کی تحریک فی الواقع اسلام کی نفی ہے لیکن علماء اول تو بسم اللہ کے گنبد میں بیٹھے ہوئے تھے اور انہیں جدید زمانے کی تحریکات کا براہِ راست کوئی علم نہ تھا پھر مزید برآں وہ ان روشن خیال مسلمانوں سے اس بنا پر بھی سخت ناراض تھے کہ یہ لوگ شرح معانی اور مطول جیسی کتابوں کو نصاب سے خارج کر کے نیا تعلیمی نصاب بنانا چاہتے تھے اس لیے انہوں نے شرح جامی کو منسوخ کرنے والے مسلمانوں کی بات ماننے کے بجائے اپنی ساری اخلاقی امداد ان ملاحدہ کے لیے وقف کر دی جو قرآن کو منسوخ کرنے اٹھے تھے۔ پھر جب علماء کے واسطے سے اشتراکیوں کو ترکستانی عوام میں اعتماد و اعتبار حاصل ہو گیا تو دیکھتے دیکھتے انہوں نے عام باشندوں کو مٹھی میں لے کر ملک کے سیاسی نظام پر کامل تسلط حاصل کر لیا اور اس کے بعد سب سے پہلے جس گروہ کی خبر لی وہ یہی علماء و مشائخ تھے، جن کے اعتماد سے فائدہ اٹھا کر انہوں نے اقتدار حاصل کیا تھا۔ اشتراکی انقلاب کی تکمیل کے بعد ترکستان کے طول و عرض میں جس طرح علماء اور صوفیہ کا قتلِ عام کیا گیا اور مذہبی طبقوں کو جیسے جیسے شدید مظالم کے ساتھ ختم کیا گیا اس کی داستان اتنی درد ناک ہے کہ چنگیزی مظالم کی تاریخ بھی اس کے سامنے گرد ہو جاتی ہے۔ یہ سب کچھ اسی بیس پچیس سال کے دوران میں ہوا ہے۔ اور اس سرزمین میں ہوا ہے جو سرحدِ ہندوستان سے پانچ سات سو میل سے زیادہ دور نہیں ہے۔ لیکن ہمارے مذہبی پیشواؤں کو اس کی کچھ بھی خبر نہیں اور وہ آج ہندوستان میں پھر وہی سمرقند و بخارا کی تاریخ دہرانے کے لیے تیار ہیں۔ ان کے بڑے بڑے اجتماعات میں اشتراکی لیڈروں اور اشتراکیت زدہ لوگوں کو استعمالاً خطبے پڑھنے کا موقع دیا جاتا ہے، ان کے ذمہ دار آدمی اشتراکی کارکنوں کے ساتھ عوام میں کام کرنے جاتے ہیں، اور اچھے اچھے مشہور علماء کی زبان سے یہ فقرے سننے میں آتے ہیں کہ اسلام اور اشتراکیت میں اس کے سوا کچھ فرق نہیں ہے کہ ایک میں خدا کا تصور ہے اور دوسرے میں نہیں ہے، ورنہ اشتراکی نظام بالکل اسلامی نظام کا ایک نیا ایڈیشن ہے۔ خدا نہ کرے کہ اس نادانی کا ہندوستان میں بھی وہی نتیجہ رونما ہو جو ترکستان میں ہو چکا ہے، لیکن خدا کے ہاں تو یہ لوگ اپنی ذمہ داری سے ہرگز بری نہ ہو سکیں گے خواہ ہندوستان ان کی غلطی کے نتائج سے بچ جائے۔
- جن حضرات علماء نے میرے رسالہ دینیات پر فتوے تحریر فرمائے ہیں میں شخصی طور پر بھی ان کا نیازمند ہوں اور ان کے علم و فضل کا بھی احترام میرے دل میں ہے۔ ان تک میری یہ گزارش پہنچا دی جائے کہ فتوے تحریر فرمانے اور انہیں اہلِ فتنہ کے ہاتھ میں دینے کے بجائے وہ براہِ کرم میری کتابوں پر علمی تنقید فرمائیں۔ مجھے اپنی کسی غلطی کو غلطی ماننے میں اور اس کی اصلاح کرنے میں نہ پہلے کبھی تامل تھا اور نہ اب ہے۔ البتہ پہلے بھی یہ عرض کرتا رہا ہوں اور اب بھی اس کا اعادہ کرتا ہوں کہ جس چیز کو غلطی کہا جاتا ہے اسے تعین کے ساتھ مجھے بتایا جائے تاکہ میں اس کی اصلاح کر سکوں۔ مبہم اعتراضات سے یہ معلوم کرنا مشکل ہوتا ہے کہ فی الواقع وہ چیز کیا ہے جس پر اعتراض ہے۔
اس کے بعد یہ اجلاس ختم ہوا اور نماز مغرب کے بعد پانچواں اجلاس شروع ہوا۔ عصر سے مغرب تک وقفہ دیا گیا۔
اجلاس پنجم
(۲۰ جمادی الاول ۱۳۶۴ھ مطابق ۲۰ اپریل ۱۹۴۵ء بروز جمعہ بعد مغرب)
رپورٹیں اور ان پر تبصرہ
سب سے پہلے اعلان کیا گیا کہ بعد نمازِ عشاء مجلسِ شوریٰ کا اجلاس ہو گا اور ارکانِ شوریٰ کے نام سنا دیے گئے۔ اس کے بعد علی گڑھ، شاہجہاں پور، بنارس، سنہ گاہی لکھنو، میرٹھ اور بارہ بنکی کی رپورٹیں پیش ہوئیں۔ شاہجہاں پور کے مقامی امیر نے اپنی رپورٹ کے دوران میں یہ بھی اعلان کیا کہ ان کے ایک رفیق، اپنی جان، مال، اور ہر چیز جماعت کے سپرد کرتے ہیں اور امیرِ جماعت کو حق ہے کہ جس طرح چاہیں انہیں استعمال فرمائیں۔
ان رپورٹوں پر تبصرہ کرتے ہوئے امیرِ جماعت نے فرمایا:
- شاہجہانپور کے رفیق کی پیشکش بلاشبہ بہت مبارک ہے اور میں ہرگز یہ نہیں چاہتا کہ کسی کی حوصلہ شکنی کروں یا کسی ایسے نیک اقدام سے کسی کو منع کروں بلکہ دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی اس پیشکش کو قبول فرمائے اور انہیں اس پر ثابت قدم رکھے۔ لیکن میں چاہتا یہ ہوں کہ وہ اجتماع کے بعد گھر پہنچ کر اپنے تمام حالات کا جائزہ لے کر دو تین مہینے کے اندر پھر ٹھنڈے دل سے فیصلہ کریں اور اگر ان کا ارادہ قائم رہے تو مجھ کو لکھیں۔ پھر میں بتاؤں گا کہ انہیں کیا کرنا چاہیے۔ یہ میں اس لیے کہتا ہوں کہ بعض مرتبہ خاص مواقع پر انسان وقتی تاثر سے مغلوب ہو کر اپنی ہمت اور قوتِ برداشت کا صحیح اندازہ کیے بغیر ایک فیصلہ کر لیتا ہے اور بعد میں جب اصل حالات سے اس کو سابقہ پیش آتا ہے تو اس کے لیے اپنے فیصلے پر قائم رہنا محال ہو جاتا ہے۔
- ایک صاحب نے اپنی رپورٹ میں بعض لوگوں کا یہ اعتراض نقل کیا ہے کہ پہلے انسان کو خود معیاری مسلمان بننا چاہیے پھر دوسروں کی اصلاح کی طرف توجہ کرنی چاہیے۔ یہ ایک بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ اس خیال کے لیے نہ شرع میں کوئی بنیاد ہے اور نہ عقل میں۔ قرآن اور حدیث سے بھی ہمیں یہی معلوم ہوتا ہے کہ خود نیک بننا اور دوسروں کو نیکی کی طرف بلانا ساتھ ساتھ ہونا چاہیے اور عقل بھی یہی چاہتی ہے کہ جس وقت آدمی پر حق منکشف ہو اسی وقت سے وہ خود بھی حق پرست بننے کی کوشش کرے اور دوسروں کو بھی حق کی طرف دعوت دے۔ ظاہر بات ہے کہ جب آپ کے ساتھ بہت سے لوگ ایک ہی مکان میں رہتے ہوں اور آپ کو معلوم ہو جائے کہ اس مکان کو آگ لگ گئی ہے تو آپ کا فرض یہی نہیں ہے کہ خود اس سے نکلنے کی کوشش کریں بلکہ آپ کا یہ بھی فرض ہے کہ اپنے دوسرے بھائیوں کو بھی اس آگ سے آگاہ کرنے اور ان کو اس مکان سے باہر نکالنے کی پوری پوری کوشش کریں۔ جو لوگ پہلے خود معیاری مسلمان بننے کی شرط لگاتے ہیں ان سے دریافت کیجیے کہ کیا ان کے پیشِ نظر کوئی خاص حد ایسی ہے جس پر پہنچ کر آدمی اپنے متعلق یہ رائے قائم کر سکتا ہو کہ اب وہ معیاری مسلمان بن گیا ہے؟ شاید یہ کہنا مبالغہ نہ ہو گا کہ جس وقت آپ کے اندر اپنے متعلق یہ غلط فہمی پیدا ہوئی کہ آپ کامل ہو گئے ہیں، اسی وقت سے آپ کے ناقص ہونے کی ابتدا ہو جائے گی اور دوسروں کی تکمیل کی کوشش کے لیے وہی وقت سب سے زیادہ غیر موزوں ہوگا۔
- رپورٹوں کے سلسلے میں ایک اور بات مجھے خاص طور پر کھٹکی ہے۔ وہ یہ کہ جا بجا غیر ضروری کسرِ نفسی اور بے جا انکسار سے کام لیا گیا ہے۔ جس طرح یہ بات صحیح نہیں کہ اپنی کارروائیوں اور سرگرمیوں کو بڑھا چڑھا کر اور مبالغے سے بیان کیا جائے اسی طرح یہ بات بھی ٹھیک نہیں ہے کہ انہیں خواہ مخواہ سکیڑ کر اور حقیر شکل میں پیش کرنے کی کوشش کی جائے۔ جو کچھ ہوا ہے اور جو ہو رہا ہے اسے بلا کم و کاست ٹھیک ٹھیک بیان کر دینا چاہیے۔ اپنوں اور دوسروں کا جائزہ لینے میں قطعاً کسی کمی بیشی سے کام نہ لیا جائے۔ آپ کی رپورٹیں تو گویا ایک ایسا آئینہ ہونی چاہئیں جن میں آپ کی کارروائیوں، آپ کے ارکان اور ہمدردوں اور علاقہ کے دوسرے لوگوں اور حالات کا بے لاگ عکس موجود ہو۔
اس کے بعد اجلاس ختم ہوا اور عشاء کی آذان ہوئی۔
تحریک اسلامی پاکستان، مردان
اجلاسِ مجلسِ شوریٰ
(تاریخ ۲۰ اپریل ۱۹۴۵ء بروز جمعہ بعد نمازِ عشاء)
عشاء کی نماز اور کھانے کے بعد امیرِ جماعت کے دفتر میں مجلسِ شوریٰ کا اجلاس منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں حسبِ ذیل اصحاب شریک ہوئے:
- امیرِ جماعت (سید ابو الاعلیٰ صاحب مودودی)
- مولانا امین احسن صاحب اصلاحی
- مولانا مسعود عالم صاحب ندوی
- مولانا محمد اسماعیل صاحب مدراسی
- غازی محمد عبدالجبار صاحب دہلی
- مولوی حکیم محمد عبداللہ صاحب روڑی
- ملک نصر اللہ خاں صاحب عزیز (مدیر کوثر لاہور)
- مولانا نذیر الحق صاحب میرٹھی
- میاں طفیل محمد صاحب (قیّمِ جماعت)
- سید محمد حسین صاحب جامعی (قیّمِ جماعت صوبہ بہار)
- قاضی حمید اللہ صاحب سیالکوٹ
- چودھری محمد اکبر صاحب سیالکوٹ
- مولوی محمد یونس صاحب حیدر آباد (دکن)
- سید عبدالعزیز صاحب شرقی
- حکیم محمد خالد صاحب الہ آباد
- جے. محمد بشیر صاحب بمبئی
اس اجلاس میں مرکز کی تعمیر اور تعلیمی اسکیم کے مسائل پر غور کیا گیا اور تمام حالات کا جائزہ لینے کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ ابتدائی تعلیم کا کام شروع کرنے کے لیے حالات اس وقت سازگار نہیں ہیں لہٰذا سردست اپنی تمام توجہ عارضی، ثانوی اور اعلیٰ تعلیم کا کام شروع کر دینے پر مرکوز کر دینی چاہیے اور اس کے ساتھ ساتھ ابتدائی تعلیمی اسکیم کو شروع کرنے کے لیے بھی سعی جاری رہنی چاہیے۔
اجلاس ششم
(تاریخ ۲۱ جمادی الاول ۱۳۶۴ھ مطابق ۲۱ اپریل ۱۹۴۵ء بروز ہفتہ صبح ۹ بجے)
رپورٹیں اور ان پر تبصرہ
یہ اجلاس حسبِ پروگرام مسجد میں شروع ہوا۔ اس اجلاس میں سیالکوٹ، سرحد، گوجرانوالہ، لالہ موسیٰ، گجرات، لاہور و ضلع لاہور، امرتسر، فیروز پور، شہر و چھاؤنی، راہوں، پھلور، جامعہ، ہوشیار پور، لدھیانہ، کپورتھلہ، کیتھل (کرنال)، حصار، ضلع شاہ پور اور ضلع لائل پور کی رپورٹیں پیش ہوئیں۔ اگرچہ بعض اور علاقوں کی رپورٹیں ابھی باقی تھیں لیکن وقت کی کمی کے باعث فیصلہ کیا گیا کہ باقی رپورٹوں کو اجتماعِ عام میں نہ پیش کیا جائے بلکہ وہ اجتماع کے بعد امیرِ جماعت کے سامنے پیش کر دی جائیں۔
ان رپورٹوں پر تبصرہ کرتے ہوئے امیرِ جماعت نے فرمایا:
بسا اوقات جسے انسان شر سمجھتا ہے اللہ کی طرف سے اس میں خیر کا پہلو نکل آتا ہے۔ میں افسوس کر رہا تھا کہ وقت کی کمی اور اپنی خرابیِ صحت کی وجہ سے مجھے اجتماع سے پہلے رپورٹوں کے دیکھ لینے کا موقع نہیں ملا۔ اگر یہ موقع مجھ کو مل جاتا تو بہت سی عبارتوں پر میں نشان لگا دیتا اور نشان زدہ عبارتوں کے متعلق ہدایت کر دیتا کہ اجتماع میں انہیں نہ پڑھا جائے لیکن اب میں محسوس کرتا ہوں کہ اس کا موقع نہ ملنا کچھ اچھا ہی ہوا۔ پچھلے دو روز میں جو رپورٹیں یہاں پیش ہوئی ہیں ان میں آپ کے سامنے جماعت کی حالت اور ارکان کی حالت جیسی کچھ کہ فی الواقع وہ تھی ویسی ہی سامنے آ گئی ہے۔ تمام اچھے اور بُرے پہلو بے نقاب ہو گئے۔ ہمارے کارکنوں کا مزاج، اندازِ فکر اور اخلاقی حال جیسا کچھ تھا وہ سب کے سامنے کھل گیا۔ اب جو تبصرہ میں کروں گا اور میرے بعد مولانا امین احسن صاحب جو تقریر کریں گے اس سے مجھے امید ہے کہ ارکانِ جماعت اپنے کمزور پہلوؤں کی طرف توجہ فرمائیں گے اور انہیں دور کرنے کی کوشش کریں گے۔
- آج میرے پاس بہت سی شکایتیں آئی ہیں کہ مختلف مقامات کی رپورٹوں میں علماء اور دوسرے گروہوں اور جماعتوں پر تنقید میں سختی کی گئی ہے۔ یہ شکایتیں ایک حد تک بالکل بجا ہیں۔ اختلافات اور مخالفتوں کی وجہ سے طبائع میں جھنجھلاہٹ کا پیدا ہو جانا اگرچہ کسی حد تک فطری بات ہے، لیکن فی الواقع یہ ایک کمزوری ہے اور جن لوگوں کو کسی بلند اخلاقی مقصد کے لیے کام کرنا ہو انہیں اپنے اندر سے اس کمزوری کو دور کرنا چاہیے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ جو لوگ دانستگی میں یا نادانستگی میں اس دعوت الی الخیر کی راہ روک رہے ہیں ان کے اس طرزِ عمل کو آپ سراہئے یا اُسے بُرا نہ جانیے۔ ان کی غلطیوں کو غلطی کہنے سے نہ میں خود رکتا ہوں، نہ آپ کو روکتا ہوں۔ واقعات کے بیان کو بھی میں روکنا نہیں چاہتا اگر فی الواقع حالات کو سمجھنے کے لیے ان کا بیان ضروری ہو۔ جہاں کسی جماعت کے غلط طرزِ عمل پر تنقید کرنے کی واقعی ضرورت پائی جائے وہاں زبان بند کر لینے کا مشورہ بھی میں کسی کو نہیں دیتا۔ لیکن جس چیز کو میں روکنا چاہتا ہوں وہ صرف یہ ہے کہ اس قسم کی مخالفتوں سے آپ کے مزاج میں برافروختگی اور آپ کی زبان میں سختی پیدا ہو اور اس کے جواب میں دوسری طرف سے بات اور بڑھے۔ یہی چیزیں فتنہ کی موجب ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ ہمارے ارکان کو اس بات کا بھی لحاظ رکھنا چاہیے کہ ہماری جماعت میں جو لوگ شریک ہیں وہ مختلف گروہوں سے نکل کر آتے ہیں اور اب تک ان کی عقیدتیں اور دلچسپیاں کچھ نہ کچھ اپنے سابق گروہوں اور ان کی شخصیتوں کے ساتھ وابستہ ہیں۔ اس حالت میں اگر ایک طبقے کے لوگ دوسرے طبقے والوں پر کوئی چوٹ کریں گے تو صرف یہی نہیں کہ اس طبقے پر کوئی اچھا اثر پڑے گا بلکہ اس سے یہ بھی اندیشہ ہے کہ اس طبقہ سے آئے ہوئے جو لوگ ہماری جماعت میں موجود ہیں ان کے دلوں میں بھی ناراضگی پیدا ہو گی۔ آپ کے سامنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد کی مثالیں موجود ہیں کہ انصار میں اسلام قبول کرنے کے بعد بھی کچھ مدت تک اوس اور خزرج کی پرانی عداوتوں کے آثار موجود تھے اور یہودی فتنہ پرداز بسا اوقات ان عداوتوں کی یاد تازہ کر کے فتنہ برپا کر دیا کرتے تھے۔ ان مثالوں سے سبق لے کر آپ لوگوں کو اپنی تنقیدوں اور شکایتوں میں بہت زیادہ احتیاط سے کام لینا چاہیے کہ گروہی عصبیتیں خود آپ کی اپنی جماعت میں بھڑک کر کوئی فتنہ برپا نہ کر دیں۔
- میں نے ابھی جس چیز کی طرف اشارہ کیا ہے اس کا ایک افسوس ناک ثبوت ابھی ابھی مجھ کو ایک عجیب شکایت کی صورت میں ملا ہے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ کل میں نے اشتراکیوں کے ساتھ بعض علماء کی موافقت پر اپنے دلی رنج کا اظہار کرتے ہوئے ان برے نتائج کا ذکر کیا تھا جو روسی ترکستان میں اشتراکی مبلغین کے ساتھ علماء کی موافقت سے نہ صرف علماء کے حق میں بلکہ خود اسلام کے حق میں رونما ہوئے۔ آج میری اس تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے مجھ سے شکایت کی گئی ہے کہ ایک طرف تو تم علماء پر سخت تنقید کرنے سے لوگوں کو روکتے ہو اور دوسری طرف خود ایسی تنقید کرتے ہو۔ اسی قسم کی باتیں ہیں جن کی بنا پر میں سمجھتا ہوں کہ آپ میں سے بعض لوگ حق کی عقیدت سے کچھ بڑھ کر رجال کی عقیدت میں مبتلا ہیں۔ میں آپ کو ثابت شدہ واقعات سنا رہا ہوں کہ اشتراکی کارکنوں کے ساتھ روسی ترکستان کے علماء نے ابتدائً جو تعاون کیا تھا اس کا خمیازہ کس بری طرح سے انہوں نے بھگتا اور اس کے نتیجے میں کس طرح اسلام اس سرزمین سے بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکا گیا جو بارہ سو برس تک قبۃ الاسلام بنی رہی تھی۔ اس کے ساتھ میں آپ کے سامنے یہ بھی واقعات ہی پیش کر رہا ہوں کہ بعض اچھے خاصے ذمہ دار علماء ہندوستان میں کسی طرح اسی غلطی کا اعادہ کر رہے ہیں۔ آپ میری ان دونوں باتوں میں سے کسی کی بھی تردید نہیں کرتے اور نہیں کر سکتے لیکن پھر آپ کو شکایت ان حضرات سے نہیں ہے جو اسلام کے لیے اپنی نادانی سے یہ خطرہ پیدا کر رہے ہیں بلکہ آپ کو الٹی شکایت اس شخص سے ہے جو اس نادانی پر ان کو خبردار کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اسلام کی جڑوں پر تیشہ چل جانے سے آپ کو اتنی تکلیف نہیں ہوتی جتنی اپنی عقیدت کے بتوں کو ٹھیس لگنے سے ہوتی ہے۔ اِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ۔ اگر یہ آپ کی حالت ہے تو کس نے آپ کو مشورہ دیا کہ آپ ہماری اس جماعت میں تشریف لائیں؟ یہ جماعت تو بنی ہی اس اصول پر ہے کہ سب عقیدتوں کو ختم کر کے صرف ایک خدا اور اس کے رسول اور اس کے دین کی عقیدت باقی رکھی جائے اور اس کے بعد اگر کوئی عقیدت ہو تو وہ اس اصلی عقیدت کے تابع ہونی چاہیے، نہ کہ اس کے مد مقابل۔ اگر آپ کی عقیدتیں ہماری اس اصلی عقیدت کے مد مقابل بن سکتی ہیں تو آپ کا مقام ہماری جماعت کے اندر نہیں بلکہ اس کے باہر ہے۔
- میں نے آپ کی کارروائیوں کی رپورٹوں میں تعلیمِ بالغان کا ذکر بہت کم سنا۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ میں اس کی اہمیت آپ پر کس طرح واضح کروں۔ اول تو میرے پاس کوئی زور نہیں ہے اور اگر زور ہو بھی تو یہ کام ایسا نہیں ہے کہ بزور کسی سے لیا جا سکے۔ یہ تو ایک رضاکارانہ خدمت ہے اور صرف اسی طرح یہ ہو سکتی ہے کہ آپ خود اس کی پوری اہمیت کو محسوس کریں اور اپنے دلی جذبے کے ساتھ اسے کرنے کی کوشش کریں۔ اس کی مصلحتوں اور فائدوں کا ذکر میں اس سے پہلے کر چکا ہوں۔ اس کی ضرورت بھی میں نے آپ کے سامنے واضح کر دی ہے۔ اب آپ میں سے جو لوگ تعلیم یافتہ ہیں وہ اس طرح سوچنا شروع کریں کہ انہوں نے اپنا کتنا وقت اور اپنی دماغی قابلیتوں اور جسمانی قوتوں کا کتنا حصہ اپنے نفس کی پرورش میں لگا رکھا ہے اور کتنا خدا کے کام کے لیے دیا ہے۔ اس کا حساب لگا کر اگر آپ دیکھیں گے تو جلدی ہی آپ پر منکشف ہو جائے گا کہ آپ نے سب سے کم حصہ خدا کو دے رکھا ہے حالانکہ عقیدہ آپ کا یہ ہے کہ سب کچھ اسی کا ہے۔ اس کے بعد اگر واقعی آپ کا دل اس بات پر آمادہ ہو کہ خدا کا حق بھی کچھ ادا کرنا چاہیے تو اس کا حق ادا کرنے کی کم سے کم صورت یہ ہے کہ اس کے جو بندے غفلت اور جہالت اور اخلاقی پستی میں پڑے ہوئے ہیں ان کو سدھارنے کے لیے آپ اپنے وقت کا ایک حصہ مستقل طور پر وقف کر دیں۔
- بعض لوگوں نے اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ ہمارے مسلک کو سمجھنا عوام کے لیے مشکل ہے۔ یہ خیال صحیح نہیں ہے۔ آپ کو معلوم ہے کہ اس دین کو ابتداء میں عرب کے صحرانشین بدووں نے اور ان پڑھ لوگوں نے سمجھا تھا جو کسی کتاب کا علم نہ رکھتے تھے۔ انہوں نے اس کو صرف سمجھا ہی نہیں بلکہ وہ اس کی گہرائیوں تک میں اتر گئے اور ان سے جن لوگوں نے اس کی تعلیم حاصل کی وہ دنیا کے معلم بن کر رہے۔ پھر یہ شبہ آپ کو کیسے ہوتا ہے کہ آج ہندوستان کے کسان اور مزدور اور عام باشندے اسے نہ سمجھ سکیں گے؟ میرا تجربہ تو یہ ہے کہ جن لوگوں نے کتابی علوم پڑھے ہیں ان کے دماغوں میں تو ضرور ایسے پیچ پڑ جاتے ہیں، جن کی وجہ سے اس دین کی سیدھی سادی باتیں بھی ان کے اندر اترنی مشکل ہوتی ہیں اور اسی وجہ سے ان کو سمجھانے کے لیے ہمیں لمبی چوڑی علمی بحثیں کرنی پڑتی ہیں، لیکن عامۃ الناس جن کے دماغ ایک بڑی حد تک اپنی فطری حالت پر ہیں اس دین کو بڑی آسانی سے سمجھ لیتے ہیں، بشرطیکہ سمجھانے والا عام فہم اندازِ بیان اختیار کرے اور اس کی اپنی زندگی اس بات کی شہادت دے کہ وہ جن چیزوں کو پیش کر رہا ہے فی الواقع وہ خود بھی ان پر ایمان رکھتا ہے۔ عوام کو آپ کی بات سمجھنے میں اگر کوئی الجھن پیش آسکتی ہے تو وہ صرف دو وجوہ سے پیش آسکتی ہے۔ ایک یہ کہ آپ ان کے سامنے اس طرح کی باتیں کریں جیسی کسی عربی مدرسے کے طالب علم یا کسی کالج کے لڑکوں کے سامنے کی جاتی ہیں، دوسرے یہ کہ آپ خود کچھ اور ہوں اور باتیں کچھ اور کریں۔ ان دو خامیوں سے اگر آپ کی تبلیغ پاک ہو جائے تو آپ دیکھ لیں گے کہ عوام اس دین کو کس طرح آسانی سے سمجھتے ہیں۔
- بعض لوگوں نے شکایت کی ہے کہ جب ہم عام لوگوں میں اصلاح و تبلیغ کی کوشش کرتے ہیں تو کوئی فتنہ پرداز شخص اٹھ کر کہہ دیتا ہے کہ یہ لوگ ”وہابی“ ہیں اور اس کے بعد کوئی ہماری بات سننے پر آمادہ نہیں ہوتا۔ یہ شکایت جن حضرات نے پیش کی ہے وہ غالباً اس چیز کو اپنی راہ میں بڑی رکاوٹ سمجھ رہے ہیں حالانکہ اگر اس لفظ "وہابی" کی تاریخ اور پروپیگنڈے کے اس ہتھکنڈے کو سمجھ لیا جائے جس سے یہ لفظ پیدا ہوا ہے تو بڑی آسانی سے اس کا توڑ معلوم کیا جا سکتا ہے۔ دراصل انیسویں صدی میں کچھ سیاسی اسباب سے مصر اور ترکی کی مسلمان اور ہندوستان کی غیر مسلم حکومت نے ان اصلاحی تحریکوں کو جو ہندوستان اور عرب میں اٹھی تھیں دبانے کے لیے یہ ”وہابی“ کا لفظ ایجاد کیا تھا۔ پروپیگنڈا کے کارگر نسخوں میں سے ایک یہ ہے کہ جس گروہ کو آپ بدنام کرنا چاہیں اسے پہلے ایک نام دیجیے اور تمام برائیاں جو اس کی طرف منسوب کرنا چاہتے ہوں ان سب کے معنی اس خاص نام میں پیدا کر دیجیے۔ پھر اس نام کا اتنا اشتہار کیجیے کہ جہاں وہ نام لیا گیا فوراً سننے والوں کے سامنے ان ساری برائیوں کی تصویر آجائے جو آپ نے اس نام کے ساتھ وابستہ کر دی ہیں۔ اس طرح لمبی چوڑی تقریروں اور تحریروں کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی بلکہ ان سب کی جگہ صرف ایک لفظ زبان سے نکال دینے سے کام چل جاتا ہے۔ موجودہ زمانے میں مختلف جماعتوں نے اپنے پروپیگنڈے کے لیے اس طریقے کو استعمال کیا ہے۔ مثلاً ٹوڈی، رجعت پسند، بورژوا اور اسی طرح کے دوسرے الفاظ اسی غرض کے لیے وضع کیے گئے ہیں اور ان سے خوب کام لیا گیا ہے۔ ایسا ہی ایک ہتھیار لفظ وہابی بھی ہے جسے ابتدا میں بعض خود غرض حکومتوں نے سیاسی مقاصد کے لیے ایجاد کیا اور پھر مسلمانوں کے ان تمام گروہوں نے اس سے فائدہ اٹھانا شروع کر دیا جو عوام میں کسی قسم کی دینی بیداری پیدا ہونے کو اپنی دنیوی اغراض کے لیے نقصان دہ سمجھتے ہیں۔ اب اس کا علاج یہ نہیں ہے کہ آپ اپنے وہابی ہونے کی تردید کرتے پھریں اور نہ یہی درست ہے کہ جہاں آپ کے خلاف یہ ہتھیار استعمال کیا جائے وہاں سے آپ شکست کھا کر پسپائی اختیار کر لیں، بلکہ اس کا علاج صرف یہ ہے کہ آپ سیدھے سیدھے ایک مسلمان کی سی زندگی بسر کرتے رہیں اور خلقِ خدا کو توحیدِ خالص اور قرآن و سنت کے اتباع کی دعوت دیتے رہیں اور جو لوگ آپ کو وہابی کہتے ہیں ان کو چھوڑ دیں کہ وہ اس نام کی تسبیح پڑھتے رہیں۔ اس کا نتیجہ بالآخر یہ ہو گا کہ رفتہ رفتہ آپ کے طرزِ عمل اور ان لوگوں کے اشتہارِ وہابیت سے مل جل کر لفظ وہابی میں ایک اور معنی پیدا ہو جائیں گے اور وہ یہ کہ وہابی اسے کہتے ہیں جو سیدھی سادی مسلمان کی سی زندگی بسر کرتا ہو، کسی سے جھگڑا اور بحث و مناظرہ نہ کرتا ہو، پاکیزہ اخلاق اور نیک معاملات رکھتا ہو، اور عقیدہ توحید اور اتباعِ قرآن و سنت کی دعوت دیتا ہو۔ اس کے بعد جو شخص فی الواقع انہی چیزوں کا طالب ہو گا جو آپ کے پاس اسے ملتی ہیں اس کو تو وہابیت کا نام آپ کی طرف آنے سے روکے گا نہیں بلکہ الٹا آپ کی طرف کھینچے گا اور وہ زمین میں ”وہابیوں“ ہی کو ڈھونڈتا پھرے گا۔ رہے وہ لوگ جو بجائے خود اسلام ہی کو اس کی حقیقی صورت میں پسند نہیں کرتے تو وہ ضرور آپ سے دور بھاگیں گے، لیکن آپ کو افسوس نہ کرنا چاہیے اگر ایسے حق سے پھرے ہوئے لوگ آپ سے دور بھاگیں۔
تجاویز
اس کے بعد تجاویز پیش ہوئیں جو مختلف جماعتوں اور ارکان کی طرف سے آئی تھیں۔ امیرِ جماعت نے خود ہر تجویز کو پڑھ کر سنایا، اس کے بعد مختصر الفاظ میں اس کے متعلق اپنی رائے کا اظہار کیا اور مجوزین کو موقع دیا کہ اگر وہ ان کے جواب سے مطمئن نہ ہوں تو اپنی تجویز کے متعلق خود اپنا نقطہ نظر پیش کریں لیکن اس موقع سے فائدہ اٹھانے کی کسی نے ضرورت محسوس نہیں کی۔ ذیل میں تجاویز کا خلاصہ نمبر وار درج کیا جاتا ہے اور ہر تجویز کے بعد جو رائے کا اظہار امیرِ جماعت نے کیا وہ بھی ساتھ ساتھ درج ہے۔
درسگاہ کا قیام
تجویز: مجوزہ تعلیمی درسگاہ کا جلدی سے جلدی اجرا کیا جائے۔ اگر جنگی حالات کی وجہ سے مستقل عمارات نہ بن سکتی ہوں تو عارضی عمارات ہی بنا کر کام شروع کر دیا جائے۔
امیرِ جماعت: رات مجلسِ شوریٰ میں اس پر غور کیا گیا ہے۔ چونکہ عارضی، ثانوی اور اعلیٰ تعلیم کے لیے زیادہ عمارات کی ضرورت نہیں ہے اور موجودہ عمارات ہی تھوڑے تغیر اور اضافے سے اس کے لیے کافی ہو سکتی ہیں اس لیے فیصلہ کیا گیا ہے کہ اس کام کو جلدی سے جلدی شروع کر دیا جائے۔ رہی ابتدائی تعلیم تو اس کی تیاری باقی رہے گی، لیکن شاید اس کے شروع کرنے میں ابھی دیر لگے۔ عارضی عمارات بنانے میں بھی جو دقتیں ہیں وہ بآسانی دور نہیں کی جا سکتیں۔
تربیت گاہ کا قیام
تجویز: تعلیم یافتہ ارکانِ جماعت کے لیے ایک تربیت گاہ کا انتظام کیا جائے۔
امیرِ جماعت: جس ثانوی اور اعلیٰ تعلیم کا انتظام اب ہم شروع کرنے والے ہیں اس کے پروگرام میں تربیت گاہ بھی شامل ہے۔
مدرسین و مبلغین کی تربیت
تجویز: ائمہ مساجد اور دیہاتی پرائمری مدارس کے لیے مدرسین اور دیہات میں کام کرنے والے مبلغین کا انتظام کیا جائے۔
امیرِ جماعت: جہاں تک نفسِ ضرورت کا تعلق ہے، جس کا اظہار آپ کی اس تجویز سے ہو رہا ہے، اس کو ہماری ثانوی اور اعلیٰ تعلیم پورا کر دے گی لیکن میں ایسا محسوس کرتا ہوں کہ اس تجویز کے پیچھے کچھ اس شور و شعب کے اثرات بھی کام کر رہے ہیں جو ”ائمہ مساجد کی ٹریننگ“، ”مبلغین کی تیاری“، اور ”مدرسینِ دینیات کی تربیت“ اور اسی قسم کے دوسرے عنوانات پر پچھلے چند سال سے برپا ہے۔ ہمارے ملک میں ایک اچھا خاصا گروہ ایسے لوگوں کا بھی پایا جاتا ہے جو اصلاحِ احوال کی ضرورت کا احساس تو رکھتے ہیں مگر اتنی بصیرت نہیں رکھتے کہ احوال کی اصل خرابی کو سمجھ سکیں اور انہیں درست کرنے کی صحیح تدابیر معلوم کر سکیں۔ یہ لوگ سطحی طور پر چند خرابیوں کو دیکھ کر سمجھتے ہیں کہ بس یہی اصل بیماریاں ہیں اور ان کے علاج کے لیے چند سستے نسخے تجویز کر کے ان کا اشتہار دینا شروع کر دیتے ہیں۔ پھر جب کچھ مدت تک یہ اشتہارات فضا میں گونجتے رہتے ہیں تو دماغوں پر ان کا کچھ ایسا تسلط ہو جاتا ہے کہ جہاں کسی نے اصلاحِ احوال کا تصور کیا اور بے ساختہ ان کی زبان پر ”ائمہ مساجد کی ٹریننگ اور مبلغین کی تیاری“ اور ایسے ہی کچھ دوسرے فقرے جاری ہونے لگتے ہیں۔ مجھے اندیشہ ہے کہ شاید آپ حضرات بھی وقت کے ان چلتے ہوئے اشتہارات سے متاثر ہو گئے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو ذہن کو ”اشتہار پروف“ بنانے کی کوشش کیجیے۔ سوچیے تو سہی کہ آخر ائمہ مساجد کس لیے تیار کیے جائیں؟ کیا آپ کا گمان ہے کہ مسجدوں پر نالائق پیش نمازوں کا قبضہ صرف اس وجہ سے ہے کہ لائق امام نہیں ملتے ورنہ اگر اچھے اماموں کی فراہمی کا انتظام ہو جائے تو سارے ملک کی مسجدیں ہاتھوں ہاتھ ان کو لیں گی اور دیکھتے دیکھتے ہر مسجد مسلم سوسائٹی کا دھڑکتا ہوا دل بن جائے گی؟ اگر بات صرف اتنی ہی ہوتی تو پھر رونا کاہے کا تھا۔ لیکن اصل حقیقت یہ ہے کہ نالائق امام مسجدوں میں خود نہیں آتے ہیں بلکہ مسلمان ان کو لاتے ہیں۔ مسلمانوں کو دراصل وہ لوگ مطلوب ہی نہیں ہیں جو بستیوں میں ان کے واقعی امام بن کر رہیں اور مسجدوں کو اسلامی زندگی کا مرکز بنا کر رکھیں۔ ان کا بگڑا ہوا مذاق، ان کی دینی بے حسی، ان کی اخلاقی پستی، ان کا دنیا میں استغراق اور خدا کے ساتھ ان کا منافقانہ رویہ صرف ایسے امام پسند کرتا ہے جو بستیوں کے پیشہ ور ”کمینوں“ کی طرح ایک قسم کے ”کمین“ بن کر ان کی مسجدوں میں رہیں اور ان کی دی ہوئی روٹیاں کھا کر پیش نمازی کا کام اس طرح انجام دیا کریں جس طرح وہ ان سے لینا چاہتے ہیں۔ پس خرابی یہ نہیں ہے کہ جسم یعنی مسلم سوسائٹی زندہ ہے مگر کسی حادثہ سے اس کے دل (یعنی مسجد) پر جمود و سکون طاری ہو گیا ہے، بلکہ حقیقی خرابی یہ ہے کہ جسم خود ٹھنڈا ہو گیا ہے اور اس نے بالآخر دل کو ٹھنڈا کر کے چھوڑا ہے۔ اب اگر آپ کے پیشِ نظر یہ ہے کہ جیسے تنخواہ دار امام و خطیب یہ بگڑی ہوئی سوسائٹی مانگتی ہے ویسے ہی آپ تیار کرنا شروع کر دیں اور جہاں جہاں سے ان کی مانگ آئے وہاں نان و نفقہ کا معاملہ طے کر کے ان کو بھیج دیا کریں تو اس ”پیشۂ امامت“ کا سکھانا اور اس کے لیے کچھ اہلِ حرفہ کو تیار کرنا ہمارے بس کا کام نہیں ہے۔
اور اگر آپ وہ حقیقی امام بنانا چاہتے ہیں جو ایک زندہ مسلم سوسائٹی کو درکار ہوتے ہیں تو جب وہ زندہ سوسائٹی موجود نہ ہو، اس کے لیے امام تیار کرنا ایسا ہے جیسے دولہا کو تیار کر لیا جائے درآں حالیکہ دلہن ابھی بطنِ مادر میں بھی نہ آئی ہو۔ ہم اپنی درس گاہ میں جن لوگوں کو تیار کریں گے ان کا اصل کام ایک زندہ مسلم سوسائٹی کو پیدا کرنا ہوگا، پھر جیسے جیسے ان کی دعوت سے ایسی سوسائٹی وجود میں آتی جائے گی، یہی داعی فطری طور پر اس کے لیڈر (امام) بنتے جائیں گے اور جن مسجدوں کو وہ اپنا قلبِ متحرک بنائے گی ان کے امام اور پوری بستی کے دینی، اخلاقی، اجتماعی اور سیاسی پیشوا یہی لوگ قرار پائیں گے۔
ایسی ہی کچھ غلط فہمی مدرسین کی تیاری کے معاملے میں بھی آپ کو ہوئی ہے۔ واقعہ یہ نہیں ہے کہ لوگ حقیقی اسلامی تعلیم کے خواہشمند ہیں اور کمی صرف مدرسین کی ہے، بلکہ اصل مصیبت یہ ہے کہ لوگوں کے اندر حقیقی اسلامی تعلیم کی طلب ہی نہیں ہے۔ وہ جس چیز کی طلب رکھتے ہیں اگر اسی کو اجرت پر فراہم کرنے کے لیے آپ تعلیمی مزدور تیار کرنا چاہتے ہیں تو یہ خدمت انجام دینا ہمارا کام نہیں ہے۔ اور اگر آپ کے پیشِ نظر وہ معلم تیار کرنا ہے جو اسلامی نقطۂ نظر کے مطابق آئندہ نسلوں کو ڈھال سکتے ہوں تو اس جنس کی فراہمی کا انتظام کرنے سے پہلے منڈی میں اصلی مانگ پیدا کیجیے۔ اسی طرح مبلغین کی تیاری کا مفہوم بھی غالباً آپ کے ذہن میں واضح نہیں ہے۔ کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ کچھ لوگوں کو تبلیغ کا فن اس لیے سکھایا جائے کہ ملک کی مختلف انجمنوں کو جس قسم کے پیشہ ور تنخواہ دار مبلغ درکار ہیں وہ یہاں سے فراہم کیے جائیں؟ اگر یہ آپ کا مقصد نہیں ہے تو مبلغین کی تیاری کے لیے ایک مستقل تجویز کی کیا ضرورت ہے؟ ہماری درسگاہ میں جو تعلیم لوگوں کو دی جائے گی اور جو دینی روح ان کے اندر پھونکی جائے گی وہ اس غرض کے لیے بالکل کافی ہوگی کہ یہ لوگ جہاں بھی رہیں اور جو کام بھی کریں اپنے اخلاق سے، اپنے معاملات سے، اپنی گفتار سے، اپنی رفتار سے، ہر چیز سے دینِ حق کی تبلیغ کرتے رہیں۔
ارکان کے بچوں کی شادیاں
تجویز: ارکان اپنی اور اپنے بچوں کی شادیاں صرف دیندار لڑکی یا لڑکے سے کریں۔
امیرِ جماعت: یہ ایسی چیز نہیں ہے جسے تجویز کی حیثیت سے پیش کیا جائے۔ یہ تو حقیقی دینی شعور پیدا ہو جانے کا لازمہ اور اس کا فطری نتیجہ ہے۔ جس آدمی میں بھی یہ شعور پیدا ہو جائے گا وہ لازماً دین سے پھرے ہوئے اور اخلاقی حیثیت سے گرے ہوئے لوگوں کو شادی بیاہ کے تعلق کے لیے درکنار دوستی و ہم نشینی کے لیے بھی پسند نہ کرے گا۔ اور اگر کوئی شخص ایسا ہے جو دینی شعور رکھنے کا دعویٰ کرتا ہے مگر شادی بیاہ کے لیے دین و اخلاق کو دیکھنے کے بجائے مال و دولت اور دنیوی وجاہت کا لحاظ کرتا ہے تو اس کا دعویٰ یا تو فریب ہے یا پھر ایک غلط فہمی ہے جو اسے اپنی نسبت ہو گئی ہے۔ ایسے لوگ اگر خدا نخواستہ ہماری جماعت میں پائے جائیں تو انہیں ضرور مطلع کر دینا چاہیے کہ آپ کے لیے یہاں کوئی جگہ نہیں ہے کیونکہ آپ کی یہ حرکت اس بات کا پتہ دیتی ہے کہ آپ کے اندر شعور کی کمی ہے، اور آپ کا معیارِ قدر و قیمت ابھی تک دنیا پرستانہ ہی ہے۔ پس جو چیز بجائے خود دینی حس کی مقیاس ہے اسے یہاں ایک تجویز کی شکل میں پیش کرنا اور پھر ایک جماعتی فیصلے کی صورت میں نافذ کرنا میرے نزدیک بالکل ایسا ہے جیسے کل ہم اپنے اجتماع میں یہ تجویز پاس کریں کہ سب ارکانِ جماعت نماز پڑھیں۔ جس طرح ہم ارکانِ جماعت کے دینی شعور سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ خود اپنے احساسِ فرض کی بنا پر نماز پڑھیں گے نہ کہ کسی جماعتی تجویز کی بنا پر، اسی طرح ہم ان سے یہ بھی توقع رکھتے ہیں کہ ان کے نزدیک رشتہ داریوں اور دوستیوں اور تمام تعلقات میں دینداری و طہارتِ اخلاق کا لحاظ دوسرے سب ملحوظات پر مقدم ہو گا۔
جسمانی مشقت کی تربیت
تجویز: ہر رکن کو جسمانی مشقتیں برداشت کرنے کا خوگر بنانے کے لیے ضروری ہدایات دی جائیں۔
امیرِ جماعت: اگر اس کا منشا یہ ہے کہ جماعت میں پریڈ اور ورزش کا انتظام کیا جائے اور فنونِ سپہ گری سکھانے کے لیے اکھاڑے قائم کیے جائیں تو یہ ہمارے طریقِ کار کے بالکل خلاف ہے۔ اور اگر اس سے مقصود یہ ہے کہ لوگوں کو مصنوعی طور پر کچھ جفاکشی کے طریقے اختیار کرنے کا حکم دیا جائے تو یہ ایک فضول بات ہے۔ اس اصولی حقیقت کو اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ زندگی میں بے شمار چیزیں ایسی ہیں جن کی ضرورت پیش آتی ہے لیکن اگر ان میں سے ہر ایک کو لے کر مقصود بالذات بنایا جائے اور ایک ایک کے لیے لوگوں کو اکسا کر جدا جدا انتظامات کیے جائیں تو اس طرح نہ صرف یہ کوششیں منتشر ہو جائیں گی، بلکہ فی الواقع ان بے شمار چھوٹے چھوٹے مقاصد سے بھی کسی مقصد کے ساتھ لوگوں کی دلچسپی اور وابستگی زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکے گی۔ برعکس اس کے اگر لوگوں کی نظریں کسی ایک بلند نصب العین پر جما دی جائیں اور اس کا عشق لوگوں کے دلوں میں بھڑکا دیا جائے تو پھر لوگ ہر اس چیز کے لیے کام کرنے لگیں گے جس کی اس نصب العین کے لیے ان کو ضرورت محسوس ہوگی اور مختلف کاموں کے لیے ان کو الگ الگ اکسانے کی کوئی ضرورت نہ رہے گی۔ جو نصب العین اس وقت ہم نے بندگانِ خدا کے سامنے پیش کیا ہے اور جس کی کشش سے آپ لوگ کھینچ کر آئے ہیں، میں ساری کوشش اسی کا عشق اپنے دلوں میں اور دوسرے لوگوں کے دلوں میں بھڑکانے پر صرف کر دیجیے۔ پھر اگر اس کے لیے جسمانی قوت بہم پہنچانے کی ضرورت محسوس ہوگی تو اس کا انتظام اپنے وقت پر خود بخود ہو گا۔ اگر وہ جفا کشی کا طالب ہو گا تو نازوں کے پالے ہوئے لوگ آپ سے آپ اس کے عشق میں مشقتیں سہنے لگیں گے۔ اور اگر کسی صنعت کے اجراء یا کسی فن کی تحصیل کا مطالبہ کرے گا تو لوگ دلی شوق کے ساتھ اس کی طرف دوڑیں گے۔ ان میں سے کسی کام کے لیے بھی کسی مستقل تحریک کی حاجت پیش نہ آئے گی بلکہ تحریک کا ارتقاء فطری طور پر ہر مرحلے میں اپنی ضروریات آپ پر خود ہی واضح بھی کر دے گا اور خود ہی آپ کو مجبور کر کے انہیں پورا بھی کرے گا لیکن اگر ہم کسی چیز کا وقت آنے سے پہلے، تحریک کے اندر اس کی مانگ پیدا ہونے اور اس کی ضرورت کا احساس ابھرنے سے پہلے مصنوعی طور پر اس کے لیے تحریک کریں گے تو نتیجہ اس کے سوا کچھ نہ ہو گا کہ حکماً ایک کام شروع کیا جائے گا، چند دنوں تک اسے بے دلی اور بد دلی کے ساتھ کیا جاتا رہے گا اور پھر رفتہ رفتہ وہ ختم ہو جائے گا۔
تجاویز و سوالات اور امیر جماعت کے جوابات
طلباء کے داخلے کی شرط
دائمی خطرے میں مبتلا نہیں رکھنا چاہتے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ابتدا ہی سے صرف وہ لوگ اپنے بچوں کو ہمارے ہاں بھیجیں جنہیں معلوم ہو کہ ہم کس غرض کے لئے ان لڑکوں کو تیار کرنا چاہتے ہیں اور وہ خود بھی اسی غرض کے لئے ان کو تیار کرانا چاہتے ہوں۔ ایسے لوگوں کے بچے خواہ وہ کتنے ہی کم تعداد میں کیوں نہ ہوں، پوری طرح ہمارے مطلب کے ہوں گے اور ہمارے مقصد کے لئے زیادہ مفید ثابت ہوں گے۔ ممکن ہے کہ اس طرح ہمیں طلباء کی کوئی بہت بڑی تعداد نہ مل سکے، لیکن ہمیں اس کی پروا نہیں ہے۔
اگر پانچ ایکٹر زمین آپ کو ایسی ملے جو پورے اطمینان کے ساتھ آپ کی ہو تو اس میں کاشت کرنا اس سے زیادہ بہتر ہے کہ ہزاروں ایکڑ زمین آپ کو ملے مگر ہر وقت اندیشہ ہو کہ اس کا بہت بڑا حصہ آپ کی تیار کی ہوئی ہری بھری فصل سمیت آپ سے چھین لیا جائے گا۔ لیکن یہ گمان نہ کرنا چاہیئے کہ ہندوستان میں اس غرض کے لئے اپنے بچوں کو دینے والے بہت کم ہوں گے۔ اتنے کم کہ کوئی درسگاہ ان سے نہ چلائی جاسکے گی۔ میرا اندازہ ہے کہ اس گئی گذری حالت میں بھی اس ملک میں ایسے لوگ کافی تعداد میں موجود ہیں جو اپنے بچوں کو خدا کے لئے وقف کرنے پر تیار ہوں گے اور اس کی پرواہ نہ کریں گے کہ ان کے بچوں کی دنیا بنے گی یا نہیں۔
ہماری اس شرط سے ایسے طلباء مستثنیٰ ہوں گے جو دین کے معاملہ میں اپنے والدین سے بغاوت کر کے آئیں اور اپنی عاقبت کو والدین کی مرضی کے مطابق چل کر خراب کر لینے پر تیار نہ ہوں۔ صرف یہی ایک معاملہ ایسا ہے جس میں والدین سے بغاوت کرنا جائز ہی نہیں بعض اوقات فرض ہو جاتا ہے، اور ایسے طلباء پر ہم یہ لازم نہ کریں گے کہ وہ اپنے والدین کی رضامندی حاصل کر کے آئیں۔
ترجمان القرآن اور کوثر کی لازمی خریداری کی تجویز
امیر جماعت کا جواب:
شاید یہ بات آپ کے پیش نظر نہیں ہے کہ آپ ہندوستان میں رہتے ہیں جہاں کی اخلاقی حالت یہ ہے کہ انتہائی بے غرضانہ کام کرنے کے بعد بھی کوئی شخص غرض مندی کے الزامات اور بدگمانیوں سے محفوظ نہیں رکھا جاتا۔ اس وقت تک جس احتیاط کے ساتھ ہم کام کرتے رہے ہیں اس کے باوجود ہم کو کتب فروش اور تاجر کے الفاظ سے اکثر نوازا جاتا رہتا ہے محض اس لئے کہ کتابیں تو بہر حال ہمارے بک ڈپو میں بکتی ہی ہیں۔ اب کیا ان الزامات کو واقعی ہم پر چسپاں ہی کر دینا چاہتے ہیں؟ برائے کرم اس قسم کی تجویزیں نہ زبان پر لائیے نہ دلوں میں سوچئے۔ ترجمان القرآن اور کوثر دونوں کے معاملے میں جماعت کے لوگوں کو بالکل آزادی رہنی چاہئیے کہ چاہیں ان کو خریدیں یا نہ خریدیں۔
خریداری کو لازماً کر دینے کی کوئی وجہ نہیں۔ البتہ جماعت کے کاموں سے اور جماعتی افکار سے باخبر رہنے کے لئے ان کا مطالعہ ضروری ہے، مگر اس کے لئے کسی خریدار سے لے کر پڑھ لینا بھی کافی ہو سکتا ہے۔
ہر رکن اپنی زکوٰۃ بیت المال ہی میں داخل کیا کرے
امیر جماعت کا جواب:
اس کے متعلق میں رپورٹوں پر تبصرے کے سلسلے میں ہدایات دے چکا ہوں اور مجھے امید ہے کہ اب اس سلسلے میں احکام کی پوری پابندی کی جائے گی۔
ہر رکن اپنی آمد و خرچ کا حساب مقامی امیر کے سامنے پیش کرے
امیر جماعت کا جواب:
یہ مطالبہ ہم از روئے شرع اپنے ارکان سے نہیں کر سکتے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نہیں کیا۔
ہر رکن یومیہ چار آنے بیت المال کے لئے بچائے
امیر جماعت کا جواب:
چونکہ از روئے شریعت ہمیں ایسی پابندیاں عائد کرنے کا حق نہیں ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں زکوٰۃ اور صدقاتِ واجبہ کے سوا کسی قسم کے انفاق کو لازم نہیں کیا گیا ہے، اس لئے ہم بھی ایسی کوئی پابندی اپنی جماعت میں عائد نہیں کر سکتے۔ در حقیقت انفاق فی سبیل اللہ کا اصل فائدہ ہی ضائع ہو جاتا ہے اگر اسے لازم کر دیا جائے۔ جس حد تک اجتماعی ضروریات کے لئے ناگزیر تھا، اللہ تعالیٰ نے ہر صاحب استطاعت آدمی پر خود ہی انفاق لازم کر دیا۔ اس کے بعد یہ بات شخص کے تعلق باللہ اور اس کی طلب خیرات و حسنات اور دین حق کے ساتھ اس کے قلبی لگاؤ پر چھوڑ دی گئی ہے کہ جتنا وہ قوی ہو، اتنا ہی زیادہ آدمی اپنے دلی جذبے سے انفاق کرے اور جتنا وہ کمزور ہو اسی قدر اس سے انفاق کا بھی کم ظہور ہو۔
یہ بات شریعت کے اصول میں سے ہے کہ بہت کم نیکیوں کا مطالبہ از روئے قانون آدمی سے کیا گیا ہے اور بہت زیادہ نیکیاں قانونی مطالبے کی حدود سے باہر رکھی گئی ہیں تاکہ انسان رضاکارانہ طریق پر انہیں اختیار کرے۔ دنیا میں انسان کی اخلاقی اور روحانی ترقی اور آخرت میں اللہ کے ہاں اس کی مقبولیت کا تو سارا انحصار ہی رضاکارانہ نیکی پر ہے۔ اس نکتے کو اگر آپ لوگ ذہن نشین رکھیں تو ایسی تجویزیں سوچنے کے بجائے اپنی توجہ خود اپنے اندر بھی اور اپنے رفقاء کے اندر بھی اس جذبے کو ابھارنے اور نشو و نما دینے پر صرف کریں گے جس کی تحریک سے انسان خدا کے لئے اور اس کے دین کے لئے اپنے وقت، مال اور قوتوں کی قربانی کیا کرتا ہے۔
اہل ہنر اور صاحب استطاعت ارکان کی ذمہ داریاں
تجویز: جماعت میں جو لوگ اہل ہنر ہیں وہ اپنے دوسرے رفقاء کو ہنر سکھائیں اور جو صاحب استطاعت ارکان ہیں وہ غریب ارکان کو اپنے ہاں ملازم رکھیں۔
امیر جماعت کا جواب:
اس قسم کی چیزوں کو مستقل تجاویز بنانے سے ہمیں خطرہ یہ ہے کہ ہم اپنے اصل نصب العین اور اس کی جد و جہد سے ہٹ کر چھوٹی چھوٹی چیزوں میں لگ جائیں گے اور یہ چیزیں ہمارا اصل پروگرام بنتی چلی جائیں گی۔ اس لیے بجائے اس کے کہ ایسی تجویزوں کو اجتماعات میں لایا جائے، اس امر کی کوشش ہونی چاہیئے کہ ارکان جماعت میں خود یہ اسپرٹ پیدا ہو جائے کہ جو شخص جس جس طرح اپنے بھائیوں کے کام آسکتا ہو اس میں ذرہ برابر دریغ نہ کرے۔
لٹریچر کی اشاعت کے لیے اشتہارات اور سٹال
تجویز: لٹریچر کی اشاعت کے لئے اخبارات و رسائل میں اشتہارات دیئے جائیں اور ملک میں جو مختلف سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے اجتماعات ہوتے ہیں ان میں اپنی کتابوں کے سٹال لگائے جائیں۔
امیر جماعت کا جواب:
اشتہارات کے متعلق ہمارا تجربہ یہ ہے کہ جس اخبار یا رسالے نے اپنے مخصوص طرزِ خیال کا ایک حلقہ پیدا کر لیا ہے، اس کے حلقہ اشاعت میں انہی چیزوں کی مانگ پیدا ہو سکتی ہے جو اس کے طرزِ خیال سے کچھ نہ کچھ مناسبت رکھتی ہوں۔ اگر ہم اپنی مطبوعات کا اشتہار ایسے اخبارات اور رسائل میں دیں جو پبلک کے ذہن سے کسی اور ہی طرح کا اپیل کر رہے ہوں تو ان کے حلقوں میں سے اتنی مانگ آنے کی امید نہیں ہے جس سے اشتہار کا خرچ بھی نکل سکے۔ اس لئے ہم کو صبر کے ساتھ اپنی ہی کوشش سے اپنے حلقہ اشاعت کو وسیع کرنے پر اکتفا کرنا چاہیے۔ ہمارا لٹریچر اللہ کے فضل سے خود اپنی جگہ پیدا کر رہا ہے اور اپنی ذاتی کشش سے روز بروز زیادہ آدمیوں کو اپنی طرف کھینچ رہا ہے۔ اس کے ساتھ اگر ہمارے ارکان اور ہمارے خیالات سے دلچسپی اور ہمدردی رکھنے والے لوگ بھی مسلسل سعی کرتے رہیں تو انشاء اللہ ہمیں اشتہار کی ضرورت کبھی محسوس نہ ہو گی۔
کانفرنسوں میں اسٹال لگانے کے لئے زیادہ مناسب یہ ہے کہ جس علاقے میں کوئی کانفرنس منعقد ہو رہی ہو اسی حلقے یا اس کے قریب کے حلقے کی کوئی مقامی جماعت وہاں اسٹال لگا لیا کرے۔ مرکزی مکتبے کے وقار سے یہ بات فروتر ہے کہ یہاں سے ہمارے آدمی ہر جلسے میں کتابیں لے کر پہنچ جایا کریں۔
ترجمان القرآن کے مضامین اور اعتراضات و جوابات کی اشاعت
امیر جماعت کا جواب:
تجویز کے حصہ اول کے متعلق یہ گزارش ہے کہ اگر جنگی حالات کی وجہ سے اشاعت کی راہ میں مشکلات نہ پیدا ہو جاتیں تو یہ کام بہت پہلے ہو چکا ہوتا۔ ہم منتظر ہیں کہ کاغذ پر سے پابندیاں کچھ کم ہو جائیں تو جلدی سے جلد ہی وہ تمام چیزیں شائع کر دی جائیں جو اس وقت تک رکی ہوئی ہیں۔
دوسرے حصے کے متعلق میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ بہت دنوں سے مجھے خود اس کی ضرورت کا احساس ہے، مگر کارکنوں کی کمی کی وجہ سے مطلوبہ مجموعہ مرتب نہیں کیا جاسکا۔ اگر کوئی صاحب ہمت کر کے پچھلے چار پانچ سال کے رسالوں میں سے اعتراضات و جوابات کو چھانٹ لیں اور انہیں یکجا نقل کر کے میرے پاس بھیج دیں تو اس کو ترتیب دینا میرے لئے آسان ہو جائے گا اور میں کوشش کروں گا کہ اب تک جو اعتراضات مجھ تک زبانی پہنچے ہیں اور ان کے جو جوابات میں نے دیئے ہیں انہیں بھی قلم بند کردوں۔ توقع ہے کہ یہ چیز ہماری تحریک کے لئے بہت مفید ثابت ہوگی۔
تفہیم القرآن کی الگ سورتوں کی اشاعت
امیر جماعت کا جواب:
اس وقت تک رسالے میں تفہیم القرآن کے جو حصے شائع کئے جاتے رہے ہیں وہ صرف اہل علم سے مشورے کے لئے ہیں۔ جب تک میں نظر ثانی کر کے یہ اطمینان نہ کرلوں کہ وہ کتابی شکل میں شائع کرنے کے قابل ہے، اس وقت تک اس کا کوئی حصہ اشاعتِ عام کے لئے نہ پیش کیا جائے گا۔ سرِ دست اگر اس سے کوئی فائدہ اٹھانا چاہے تو ترجمان القرآن میں شائع شدہ صفحات پر قناعت کرے۔
علومِ اسلامیہ کی تدوین جدید اور ممالک اسلامیہ کے لیے لٹریچر کی تیاری
امیر جماعت کا جواب:
تجویز کا حصہ اول ہماری اس اسکیم میں شامل ہے جو ایک اکیڈمی کے قیام کے متعلق ہمارے پیش نظر ہے۔ حصہ دوئم کو کسی حد تک ہمارا دار المصنفین انشاء اللہ عمل میں لائے گا۔ لیکن یہ بہت مشکل ہے کہ ہم باہر کے مختلف ملکوں کی سیاسی، تمدنی، اخلاقی اور ذہنی حالت کو پیش نظر رکھ کر ہر ایک کے لئے الگ الگ لٹریچر تیار کریں۔ دنیا میں جتنی بھی عالمگیر تحریکیں اٹھتی ہیں، ہر ایک کی ابتداء کسی ایک علاقے سے ہوتی ہے اور آغاز میں اسی علاقے کے حالات کو سامنے رکھ کر ان اصولوں کی تنقید و تشریح اور عملی انطباق کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے جن پر وہ تحریک مبنی ہوتی ہے۔ پھر جب دوسرے ملکوں تک اس تحریک کے اثرات پہنچتے ہیں اور مقامی لوگ ان سے متاثر ہوتے ہیں تو وہ خود ہی اپنے اپنے علاقوں کے حالات کی مناسبت سے لٹریچر تیار کرنے لگتے ہیں۔ خود قرآن مجید میں بھی یہی طریقہ اختیار کیا گیا ہے۔ اس لئے بجائے اس کے کہ ہم بیرونی ممالک کے لئے ان کے حالات کے لحاظ سے الگ الگ لٹریچر تیار کریں، یہ زیادہ مناسب اور زیادہ قابلِ عمل ہے کہ ہمارے مرکز سے اسی ملک کے حالات کو، جنہیں ہم زیادہ بہتر جانتے ہیں، ملحوظ رکھتے ہوئے لٹریچر تیار ہو اور اسی کو دوسری زبانوں میں منتقل کر دیا جائے۔
ارکان کو فروعی بحثوں سے بچنے کی ہدایت
امیر جماعت کا جواب:
یہ کام قیامِ جماعت کی ابتداء سے کیا جا رہا ہے۔ خود دستور میں اس کے متعلق ہدایات موجود ہیں اور میں ہمیشہ اپنی تقریروں اور تحریروں میں اس پر زور دیتا رہتا ہوں۔ لیکن باقاعدہ احکام دے کر اس چیز کو روکنے سے فائدے کی نسبت نقصان کا زیادہ اندیشہ ہے۔ جوں جوں لوگوں کی ذہنیت بدلتی جائے گی اور ان کا پرانا اندازِ فکر نئے اندازِ فکر کو چھوڑتا جائے گا، یہ مرض آپ سے آپ بتدریج کم ہوتا چلا جائے گا۔
دستور کی دفعات پر سختی سے عمل
امیر جماعت کا جواب:
اس پر ابتدائے قیامِ جماعت سے عمل ہو رہا ہے۔ بیچ کے دور میں اگر اس معاملے میں کچھ ڈھیل رہی بھی ہے تو وہ صرف شعبہ تنظیم کے نہ ہونے کی وجہ سے رہی ہے، کیونکہ ہمارے پاس ارکان کی اخلاقی اور عملی حالت جانچنے کا کوئی ذریعہ نہ تھا۔ لیکن اب تنظیمی کام باقاعدہ شروع ہو جانے کے بعد سے ہم دستور کو پوری قوت سے نافذ کر رہے ہیں اور جو چیزیں دستور میں لازم ہیں ان کے معاملے میں کسی کے ساتھ رعایت نہیں کرتے۔ مقامی جماعتوں کے امراء کو بھی اس معاملے میں ہمارے ساتھ پورا تعاون کرنا چاہیئے تاکہ جماعت کے نظام میں کوئی کمزوری نہ رہنے پائے۔
طلباء اور عوام سے خطاب
تجویز: ہر مقامی جماعت اپنے شہر کے طلبہ اور عوام کو ہر ماہ ایک بار ضرور مخاطب کرے۔
امیر جماعت کا جواب:
یہ تجویز اگرچہ مفید ضرور ہے، لیکن سرِ دست ہم اس کو اس لئے منظور نہیں کر سکتے کہ متعدد مقامات پر ہماری جماعتوں میں ایسے کارکن موجود نہیں ہیں جن پر عام خطاب کی ذمہ داری ڈالی جا سکے۔ جہاں ایسے ارکان موجود ہوں وہاں کے مقامی امیروں کو اس طرف توجہ کرنی چاہیئے۔ لیکن عمل شروع کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ جن لوگوں کو وہ عام خطاب کے لئے موزوں پاتے ہوں، ان کی اہلیت کا خود بھی پوری طرح امتحان کر لیں اور ہمیں بھی ان کے متعلق ضروری معلومات بہم پہنچا کر یہ اطمینان دلا دیں کہ خطابِ عام کی ذمہ داری ان پر ڈالنے سے جماعت کی غلط نمائندگی تو نہ ہو گی۔
ان تجاویز کا سلسلہ ساتویں اجلاس تک چلتا رہا۔ اس کے بعد امیر جماعت نے مولانا امین احسن صاحب کو جماعت سے خطاب کرنے کے لئے کہا۔
اجلاس ہفتم
(تاریخ: ۶ جمادی الاولیٰ ۱۳۶۳ھ مطابق ۲۹ اپریل ۱۹۴۴ء، بعد نمازِ ظہر)
رپورٹوں پر تبصرہ - از مولانا امین احسن اصلاحی
حاضرین!
آپ کے اس اجتماع میں میرا فرض ایک ناخوشگوار فرض ہے۔ مجھے آپ کی پیش کی ہوئی رپورٹوں پر تبصرہ کرنا، ان کی خامیوں پر متنبہ کرنا اور آئندہ کے لئے آپ کو آپ کی غلطیوں سے ہوشیار کرنا ہے۔ مجھے ان رپورٹوں کے اچھے اور مفید پہلوؤں کو نظر انداز کرنا ہے اور صرف عیوب پر نظر ڈالنی ہے۔ یہ عیب چینی ممکن ہے آپ میں سے بہتوں کو ناگوار گزرے لیکن مجھے بہر حال یہی فرض ادا کرنا ہے۔
اگرچہ مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ امیر جماعت نے مناسب مواقع پر آپ کے کاموں پر تبصرہ بھی کر دیا ہے اور آپ کو ضروری ہدایات بھی دے دی ہیں جس سے میرا کام ایک حد تک ہلکا ہو گیا ہے، تاہم بعض باتوں کی طرف مجھے بھی آپ کو متوجہ کرنا ہے۔
رپورٹوں کی ترتیب
میں سب سے پہلے آپ کو رپورٹوں کی ترتیب کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں۔ رپورٹوں میں غیر متعلق باتیں بالکل نہیں ہونی چاہئیں۔ ان کو مرتب کرتے وقت اس امر کو پیش نظر رکھنا چاہیئے کہ ان سے مقصود صرف یہ معلوم کرنا ہوتا ہے کہ آپ کس مقام پر ہیں، وہاں کے حالات کیا ہیں، جماعت کے مقاصد کے پھیلنے کے امکانات وہاں کس حد تک ہیں، اب تک آپ نے کیا کیا ہے، آئندہ کیا کر سکنے کی توقع ہے، آپ کے رفقاء کا کیا حال ہے، ہمدردوں کی ہمدردی کی نوعیت کیا ہے اور مزاحمتیں اور رکاوٹیں وغیرہ کس درجہ اور کس قسم کی ہیں؟ یہ اور اس طرح کے ضروری سوالات ہیں جن پر آپ کی ساری توجہ مرکوز ہونی چاہیئے۔ اسی طرح کی باتیں مرکز بھی آپ سے معلوم کرنا چاہتا ہے اور یہی باتیں ہیں جن کو جماعت کے اراکین بھی جاننے کے خواہشمند ہوتے ہیں۔ ان کے علاوہ غیر متعلق باتیں جو آپ اپنی رپورٹوں میں لکھتے ہیں ان سے وقت بھی ضائع ہوتا ہے اور بہت سے مفید مصالح کا نقصان بھی ہوتا ہے۔ بالخصوص ذاتی حالات اور افراد و اشخاص کی مدحت و منقبت کا تو کوئی شائبہ بھی ان رپورٹوں میں نہیں ہونا چاہیئے۔
اعترافِ تقصیر کا فتنہ
ایک خاص چیز جو میں نے آپ کی رپورٹوں میں اس مرتبہ محسوس کی ہے وہ یہ ہے کہ آپ پر اعترافِ تقصیر بہت غالب ہوتا جاتا ہے۔ ایک آدمی اگر سچائی کے ساتھ اپنی کوتاہیوں کا اعتراف کر رہا ہے تو یہ ایک مستحسن عادت ہے لیکن اس کا ایک پہلو خطرناک بھی ہے جس سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ اس سے ایک اندیشہ تو یہ ہے کہ مبادا یہ چیز آپ کی عادت بن جائے اور اس کے نیچے ادائے فرض کا شعور دب کے رہ جائے۔ اور دوسرا اندیشہ یہ ہے کہ اس سے بسا اوقات آدمی میں منکسرانہ کبر پیدا ہو جاتا ہے جس کا پیدا ہونا ایک سخت و شدید فتنہ ہے اور ہماری دلی آرزو ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے ہر مسلمان کو محفوظ رکھے۔
مخالفتوں کا خیر مقدم
یہ نہایت خوشی کی بات ہے کہ ہمارے ارکان میں مخالفتوں سے جو مرعوبیت تھی وہ بہت کم ہو رہی ہے۔ اب لوگوں میں مزاحمتوں کا مقابلہ کر کے آگے بڑھنے کی ہمت پیدا ہو رہی ہے۔ یہ جماعتی زندگی کی برکت ہے اور اس برکت کا ظاہر ہونا اس بات کی شہادت ہے کہ ہماری جماعتی زندگی کا ارتقاء صحیح رخ پر ہو رہا ہے۔ لیکن یہ معلوم ہونا چاہیے کہ ہم جس راہ پر چلنے کے لئے اٹھے ہیں اس راہ میں صرف یہ کافی نہیں ہے کہ مخالفتوں سے مرعوبیت کم ہو جائے۔ یہ تو اس راہ کا پہلا مطالبہ ہے، اس کے بغیر تو آپ اس راستے میں ایک قدم بھی نہیں اٹھا سکتے۔ اس راہ کا اصل مطالبہ اس سے بہت زیادہ ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم میں مخالفتوں کے خیر مقدم کا جذبہ پیدا ہو جائے۔
ایک سوال کا جواب
جماعت کے ارکان میں ایک عام سوال یہ بھی پایا جاتا ہے کہ جب جماعت اسلامی کی دعوت تمام تر اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت سے ماخوذ ہے، بلکہ سراسر کتاب و سنت کی پیروی ہی کی دعوت ہے اور مخالفین بھی باوجود انتہائی سعی کے اب تک اس کی کوئی بات کتاب و سنت کے خلاف نہیں ثابت کر سکے ہیں، تو آخر اس کی کیا وجہ ہے کہ مسلمان اس کو قبول کرنے میں اتنی دیر لگا رہے ہیں؟
... (یہاں مولانا امین احسن اصلاحی کا تفصیلی جواب اور تجزیہ جاری ہے، جس میں عوام، علماء اور سیاسی جماعتوں کے رویوں پر بات کی گئی ہے) ...
خلافتِ راشدہ کے متعلق ایک عام غلط فہمی
حضرات! آپ میں سے بعضوں نے یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ جماعت اسلامی کے پیش نظر جو نصب العین ہے وہ بہترین ہاتھوں میں بھی ۳۰ سال سے زیادہ قائم نہ رہ سکا تو آج وہ لوگ کہاں سے آئیں گے جو اس نظام کو قائم کر سکیں گے؟ ... ہمیں نہایت افسوس ہے کہ یہ باتیں آج وہ لوگ بھی کہتے ہیں جو علمائے دین میں شامل ہیں۔ انہیں شاید اس بات کی خبر نہیں ہے کہ ایسا کہنا در حقیقت اسلام کے خلاف ووٹ دینا ہے۔
... (اس کے بعد خلافتِ راشدہ کے دورانیے اور اسلامی نظام کے قیام و بقا پر تفصیلی بحث کی گئی ہے) ...
کام کے ضروری شرائط
لیکن ہر کام کا ایک مخصوص طریقہ ہوتا ہے، اور ضروری ہے کہ اس کو اسی طریقہ پر انجام دیا جائے۔ ایک کام کو اگر آپ غلط طریقہ پر کر رہے ہیں تو خواہ یہ غلطی آپ کتنی ہی نیک نیتی سے کریں، اس غلطی کا نتیجہ اس عمل کی ناکامی کی شکل میں آپ کے سامنے آئے گا۔
جماعتی زندگی کی خصوصیات
جماعتی زندگی کی سب سے بڑی امتیازی خصوصیت ڈسپلن اور جماعتی نظم کی پابندی ہے۔ جماعت وجود ہی میں اس نظم کی پابندی کے ارادہ سے آتی ہے، اس وجہ سے اس سے ادنیٰ بے پروائی جماعت کی موت کے مرادف ہے۔
... (اس حصے میں تقویٰ کے مروجہ تصورات، خانقاہی نظام اور جماعت کے نظم و ضبط پر مزید ہدایات دی گئی ہیں) ...
میں تو چاہتا ہوں کہ اب ان باتوں کو آپ گوش ہوش سے سن لیں۔ زمانہ بڑی تیزی سے بدل رہا ہے، ہمارے سامنے نہایت سخت کام آنے والے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ ہمارے سامنے کوئی سخت امتحان آ جائے اور ہماری فوج مغالطوں میں الجھی ہوئی ہو۔ آپ کے ہاتھ میں کتاب و سنت کے سوا کوئی پیمانہ نہیں ہونا چاہیئے۔ اس پیمانہ سے اپنی جماعت کے افراد کو ناپتے رہیئے۔ اپنے امیر کو بھی اور مامور کو بھی۔ اس احتساب میں جماعت کی زندگی ہے اور اس میں کسی قسم کی مداہنت اور مسامحت سے کام نہ لیجئے۔
اجلاس ہشتم
(۶ جمادی الاولیٰ، بروز ہفتہ، بعد مغرب)
نماز مغرب کے بعد آخری اجلاس منعقد ہوا۔ چونکہ اب اجتماع کے سلسلہ کا سارا پروگرام اختتام کو پہنچ چکا تھا، اس لئے جماعت کو رخصت کرنے سے پہلے اس اجلاس میں امیر جماعت نے رفقاء و حاضرین سے آخری خطاب کیا جو درج ذیل ہے:
امیر جماعت کی اختتامی تقریر: تحریک اسلامی کی اخلاقی بنیادیں
(حمد و صلوٰۃ کے بعد فرمایا):
رفقاء و حاضرین! جیسا کہ آپ کو معلوم ہے ہماری جدوجہد کا آخری مقصود انقلابِ امامت ہے۔ یعنی دنیا میں ہم جس انتہائی منزل تک پہنچنا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ فساق و فجار کی امامت و قیادت ختم ہو کر امامتِ صالحہ کا نظام قائم ہو اور اسی سعی اور جدوجہد کو ہم دنیا و آخرت میں رضائے الہی کے حصول کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ یہ چیز جسے ہم نے اپنا مقصد قرار دیا ہے، افسوس ہے کہ آج اس کی اہمیت سے مسلم اور غیر مسلم سبھی غافل ہیں۔ مسلمان اس کو محض ایک سیاسی مقصد سمجھتے ہیں اور ان کو کچھ احساس نہیں ہے کہ دین میں اس کی کیا اہمیت ہے۔ غیر مسلم کچھ تعصب کی بنا پر اور کچھ ناواقفیت کی وجہ سے اس حقیقت سے غافل
کو جانتے ہی نہیں کہ دراصل فساق و فجار کی قیادت ہی نوعِ انسانی کے مصائب کی جڑ ہے اور انسان کی بھلائی کا سارا انحصار صرف اس پر ہے کہ دنیا کے معاملات کی سربراہ کاری صالح لوگوں کے ہاتھوں میں ہو۔ آج دنیا میں جو فسادِ عظیم برپا ہے، جو ظلم اور طغیان ہو رہا ہے، انسانی اخلاق میں جو عالمگیر بگاڑ رونما ہے، انسانی تمدن و تہذیب اور معیشت و سیاست کی رگ رگ میں جو زہر سرایت کر گئے ہیں، زمین کے تمام وسائل اور انسانی علوم کی دریافت کردہ ساری قوتیں جس طرح انسان کی فلاح و بہبود کے بجائے اس کی تباہی کے لیے استعمال ہو رہی ہیں، ان سب کی ذمہ داری اگر کسی چیز پر ہے تو وہ صرف یہی ہے کہ دنیا میں چاہے نیک لوگوں اور شریف انسانوں کی کمی نہ ہو مگر دنیا کے معاملات ان کے ہاتھ میں نہیں ہیں بلکہ خدا سے پھرے ہوئے اور مادہ پرستی میں ڈوبے ہوئے لوگوں کے ہاتھوں میں ہیں۔
اب اگر کوئی شخص دنیا کی اصلاح چاہتا ہو اور فساد کو صلاح سے، اضطراب کو امن سے، بد اخلاقیوں کو اخلاقِ صالحہ سے اور برائیوں کو بھلائیوں سے بدلنے کا خواہشمند ہو تو اس کے لیے محض نیکیوں کا وعظ اور خدا پرستی کی تلقین اور حسنِ اخلاق کی ترغیب ہی کافی نہیں ہے بلکہ اس کا فرض ہے کہ نوعِ انسانی میں جتنے صالح عناصر اس کو مل سکیں انہیں ملا کر وہ اجتماعی قوت بہم پہنچائے جس سے تمدن کی زمامِ کار فاسقوں سے چھینی جا سکے اور امامت کے نظام میں تغیر کیا جاسکے۔
زمامِ کار کی اہمیت
انسانی زندگی کے مسائل میں جس کو تھوڑی سی بصیرت بھی حاصل ہو وہ اس حقیقت سے بے خبر نہیں ہو سکتا کہ انسانی معاملات کے بناؤ اور بگاڑ کا آخری فیصلہ جس مسئلے پر منحصر ہے وہ یہ سوال ہے کہ معاملاتِ انسانی کی زمامِ کار کس کے ہاتھ میں ہے؟ جس طرح گاڑی ہمیشہ اسی سمت چلا کرتی ہے جس سمت پر ڈرائیور اس کو لے جانا چاہتا ہے اور دوسرے لوگ جو گاڑی میں بیٹھے ہوں خواستہ و ناخواستہ اسی سمت پر سفر کرنے کے لیے مجبور ہوتے ہیں، اسی طرح انسانی تمدن کی گاڑی بھی اسی سمت پر سفر کیا کرتی ہے جس سمت پر وہ لوگ جانا چاہتے ہیں جن کے ہاتھ میں تمدن کی باگیں ہوتی ہیں۔
ظاہر ہے کہ زمین کے سارے ذرائع جن کے قابو میں ہوں، قوت و اقتدار کی باگیں جن کے ہاتھ میں ہوں، عام انسانوں کی زندگی جن کے دامن سے وابستہ ہو، خیالات و افکار اور نظریات کو بنانے اور ڈھالنے کے وسائل جن کے قبضے میں ہوں، انفرادی سیرتوں کی تعمیر، اجتماعی نظام کی تشکیل اور اخلاقی قدروں کی تعیین جن کے اختیار میں ہو، ان کی رہنمائی و فرمانروائی کے تحت رہتے ہوئے انسانیت بحیثیتِ مجموعی اس راہ پر چلنے سے کسی طرح باز نہیں رہ سکتی جس پر وہ اسے چلانا چاہتے ہوں۔ یہ رہنما و فرمانروا اگر خدا پرست اور صالح لوگ ہوں تو لامحالہ زندگی کا سارا انتظام خدا پرستی اور خیر و صلاح پر چلے گا، برے لوگ بھی اچھے بننے پر مجبور ہوں گے، بھلائیوں کو نشوونما نصیب ہوگا اور برائیاں اگر مٹیں گی نہیں تو کم از کم پروان بھی نہ چڑھ سکیں گی۔ لیکن اگر رہنمائی و قیادت اور فرمانروائی کا یہ اقتدار ان لوگوں کے ہاتھ میں ہو جو خدا سے برگشتہ اور فسق و فجور میں سرگشتہ ہوں تو آپ سے آپ سارا نظامِ زندگی خدا سے بغاوت اور ظلم و بد اخلاقی پر چلے گا۔ خیالات و نظریات، علوم و آداب، سیاست و معیشت، تہذیب و معاشرت، اخلاق و معاملات، عدل و قانون سب کے سب بحیثیتِ مجموعی بگڑ جائیں گے۔ برائیاں خوب نشوونما پائیں گی اور بھلائیوں کو زمین اپنے اندر جگہ دینے سے اور ہوا اور پانی ان کو غذا دینے سے انکار کر دیں گے، اور خدا کی زمین ظلم و جور سے لبریز ہو کر رہے گی۔
ایسے نظام میں برائی کی راہ پر چلنا آسان اور بھلائی کی راہ پر چلنا کیا معنی، قائم رہنا بھی مشکل ہوتا ہے۔ جس طرح آپ نے کسی بڑے مجمع میں دیکھا ہو گا کہ سارا مجمع جس طرف بھاگ رہا ہو، اس طرف چلنے کے لیے تو آدمی کو کچھ قوت لگانے کی بھی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ وہ مجمع کی قوت سے خود بخود اسی طرف بڑھتا چلا جاتا ہے۔ لیکن اگر اس کے مخالف سمت میں کوئی چلنا چاہے تو وہ بہت زور مار کر بھی بمشکل ایک آدھ قدم چل سکتا ہے اور جتنے قدم وہ چلتا ہے مجمع کا ایک ہی ریلا اس سے کئی گنا زیادہ قدم اسے پیچھے دھکیل دیتا ہے۔ اسی طرح اجتماعی نظام بھی جب غیر صالح لوگوں کی قیادت میں کفر و فسق کی راہوں پر چل پڑتا ہے تو افراد اور گروہوں کے لیے غلط راہ پر چلنا تو اتنا آسان ہو جاتا ہے کہ انہیں بطور خود اس پر چلنے کے لیے کچھ زور لگانے کی بھی ضرورت نہیں پڑتی، لیکن اگر وہ اس کے خلاف چلنا چاہیں تو اپنے جسم و جاں کا سارا زور لگانے پر بھی ایک آدھ قدم ہی راہِ راست پر بڑھ سکتے ہیں اور اجتماعی رو ان کی مزاحمت کے باوجود انہیں دھکیل کر میلوں پیچھے ہٹا لے جاتی ہے۔
یہ بات جو میں عرض کر رہا ہوں، یہ اب کوئی ایسی نظری حقیقت نہیں رہی ہے جسے ثابت کرنے کے لیے دلائل کی ضرورت ہو بلکہ واقعات نے اسے ایک بدیہی حقیقت بنا دیا ہے جس سے کوئی صاحبِ دیدہ بینا انکار نہیں کر سکتا۔ آپ خود ہی دیکھ لیں کہ پچھلے سو برس کے اندر آپ کے اپنے ملک میں کس طرح خیالات و نظریات بدلے ہیں، مذاق اور مزاج بدلے ہیں، سوچنے کے انداز اور دیکھنے کے زاویے بدلے ہیں، تہذیب و اخلاق کے معیار اور قدر و قیمت کے پیمانے بدلے ہیں، زندگی کے طریقے اور معاملات کے ڈھنگ بدلے ہیں اور کونسی چیز رہ گئی ہے جو بدل نہ گئی ہو۔ یہ سارا تغیر جو دیکھتے دیکھتے آپ کی اسی سرزمین میں ہوا، اس کی اصلی وجہ آخر کیا ہے؟ کیا آپ اس کی وجہ اس کے سوا کچھ اور بتلا سکتے ہیں کہ جن لوگوں کے ہاتھ میں زمامِ کار تھی، اور رہنمائی و فرمانروائی کی باگوں پر جن کا قبضہ تھا، انہوں نے پورے ملک کے اخلاق، اذہان، نفسیات، معاملات اور نظامِ تمدن کو اس سانچے میں ڈھال کر رکھ دیا جو ان کی اپنی پسند کے مطابق تھا؟ پھر جن طاقتوں نے اس تغیر کی مزاحمت کی، ذرا ناپ کر دیکھیے کہ انہیں کامیابی کتنی ہوئی اور ناکامی کتنی۔ کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ کل جو مزاحمت کی تحریک کے پیشوا تھے آج ان کی اولاد وقت کی رو میں بہی چلی جا رہی ہے اور ان کے گھروں تک میں بھی وہی سب کچھ پہنچ گیا ہے جو گھروں سے باہر پھیل چکا تھا؟ کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ مقدس ترین مذہبی پیشواؤں تک کی نسل سے وہ لوگ اٹھ رہے ہیں جنہیں خدا کے وجود اور وحی و رسالت کے امکان میں بھی شک ہے؟ اسی مشاہدے اور تجربے کے بعد بھی کیا کسی کو اس حقیقت کے تسلیم کرنے میں تامل ہو سکتا ہے کہ انسانی زندگی کے مسائل میں اصل فیصلہ کن مسئلہ زمامِ کار کا مسئلہ ہے؟ اور یہ اہمیت اس مسئلے نے کچھ آج ہی اختیار نہیں کی ہے بلکہ ہمیشہ سے اس کی یہی اہمیت رہی ہے۔ "النَّاسُ عَلَی دِینِ مُلُوکِھِم" (لوگ اپنے بادشاہوں کے دین پر ہوتے ہیں) بہت پرانا مقولہ ہے اور اسی بنا پر حدیث میں قوموں کے بناؤ اور بگاڑ کا ذمہ دار ان کے علماء اور امراء کو قرار دیا گیا ہے کیونکہ لیڈرشپ اور زمامِ کار انہی کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔
امامت صالحہ کا قیام، دین کا حقیقی مقصود ہے
اس تشریح کے بعد یہ بات آسانی سے سمجھ میں آسکتی ہے کہ دین میں اس مسئلہ کی کیا اہمیت ہے۔ ظاہر بات ہے کہ اللہ کا دین اول تو یہ چاہتا ہے کہ لوگ بالکلیہ بندۂ خدا بن کر رہیں اور ان کی گردن میں اللہ کے سوا کسی اور کی بندگی کا حلقہ نہ ہو۔ پھر وہ یہ چاہتا ہے کہ اللہ ہی کا قانون لوگوں کی زندگی کا قانون بن کر رہے۔ پھر اس کا مطالبہ یہ ہے کہ زمین سے فساد مٹے اور ان منکرات کا استیصال کیا جائے جو اہلِ زمین پر اللہ کے غضب کے موجب ہوتے ہیں اور ان خیرات و حسنات کو فروغ دیا جائے جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہیں۔ ان تمام مقاصد میں کوئی مقصد بھی اس طرح پورا نہیں ہو سکتا کہ نوعِ انسانی کی رہنمائی و قیادت اور معاملاتِ انسان کی سربراہ کاری ائمۂ کفر و ضلال کے ہاتھوں میں ہو اور دینِ حق کے پیرو محض ان کے ماتحت رہ کر ان کی دی ہوئی رعایتوں اور گنجائشوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یادِ خدا کرتے رہیں۔ یہ مقاصد تو لازمی طور پر اس بات کا مطالبہ کرتے ہیں کہ تمام اہلِ خیر و صلاح جو اللہ کی رضا کے طالب ہوں، اجتماعی قوت پیدا کریں اور سر دھڑ کی بازی لگا کر ایک ایسا نظامِ حق قائم کرنے کی سعی کریں جس میں امامت و رہنمائی اور قیادت و فرمانروائی کا منصب مومنینِ صالحین کے ہاتھوں میں ہو۔ اس چیز کے بغیر وہ مدعا حاصل ہی نہیں ہو سکتا جو دین کا اصل مدعا ہے۔
اسی لیے دین میں امامتِ صالحہ کے قیام اور نظامِ حق کی اقامت کو مقصدی اہمیت حاصل ہے اور اس چیز سے غفلت برتنے کے بعد کوئی عمل ایسا نہیں ہو سکتا جس سے انسان اللہ تعالیٰ کی رضا کو پہنچ سکے۔ غور کیجیے کہ آخر قرآن و حدیث میں التزامِ جماعت اور سمع و طاعت پر اتنا زور کیوں دیا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص جماعت سے خروج اختیار کرے تو وہ واجب القتل ہے خواہ وہ کلمۂ توحید کا قائل اور نماز روزے کا پابند ہی کیوں نہ ہو؟ کیا اس کی وجہ یہ اور صرف یہی نہیں ہے کہ امامتِ صالحہ اور نظامِ حق کا قیام و بقا دین کا حقیقی مقصود ہے، اور اس مقصد کا حصول اجتماعی طاقت پر موقوف ہے، لہٰذا جو شخص اجتماعی طاقت کو نقصان پہنچاتا ہے وہ اتنے بڑے جرم کا ارتکاب کرتا ہے جس کی تلافی نہ نماز سے ہو سکتی ہے اور نہ اقرارِ توحید سے؟ پھر دیکھیے کہ آخر اس دین میں جہاد کو اتنی اہمیت کیوں دی گئی ہے کہ اس سے جی چرانے اور منہ موڑنے والوں پر قرآن مجید نفاق کا حکم لگاتا ہے؟ جہاد، نظامِ حق کی سعی کا ہی تو دوسرا نام ہے اور قرآن اسی جہاد کو وہ کسوٹی قرار دیتا ہے جس پر آدمی کا ایمان پرکھا جاتا ہے۔ بالفاظِ دیگر، جس کے دل میں ایمان ہو گا وہ نہ تو نظامِ باطل کے تسلط پر راضی ہو سکتا ہے اور نہ نظامِ حق کے قیام کی جدوجہد میں جان و مال سے دریغ کر سکتا ہے۔ اس معاملے میں جو شخص کمزوری دکھائے اس کا ایمان ہی مشتبہ ہے، پھر بھلا کوئی دوسرا عمل اسے کیا نفع پہنچا سکتا ہے؟
اس وقت اتنا موقع نہیں ہے کہ میں آپ کے سامنے اس مسئلہ کی پوری تفصیل بیان کروں۔ مگر جو کچھ میں نے عرض کیا ہے وہ اس حقیقت کو ذہن نشین کرنے کے لیے بالکل کافی ہے کہ اسلام کے نقطۂ نظر سے امامتِ صالحہ کا قیام مرکزی اور مقصدی اہمیت رکھتا ہے، اور جو شخص اس دین پر ایمان لایا ہو اس کا کام صرف اتنے پر ہی ختم نہیں ہو جاتا کہ اپنی ساری زندگی کو حتی الامکان اسلام کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کرے، بلکہ عین اس کے ایمان ہی کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اپنی تمام سعی و جہد کو اس ایک مقصد پر مرکوز کر دے کہ زمامِ کار کفار و فساق کے ہاتھ سے نکل کر صالحین کے ہاتھ میں آئے اور وہ نظامِ حق قائم ہو جو اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق دنیا کے انتظام کو درست کرے اور درست رکھے۔ پھر چونکہ یہ مقصدِ اعلیٰ اجتماعی کوشش کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا اس لیے ایک ایسی جماعتِ صالحہ کا وجود ضروری ہے جو خود اصولِ حق کی پابند ہو اور نظامِ حق کو قائم کرنے، باقی رکھنے اور ٹھیک ٹھیک چلانے کے سوا دنیا میں کوئی دوسری غرض پیشِ نظر نہ رکھے۔
روئے زمین پر اگر صرف ایک ہی آدمی مومن ہو تب بھی اس کے لیے یہ درست نہیں ہے کہ اپنے آپ کو اکیلا پا کر اور وسائل مفقود دیکھ کر نظامِ باطل کے تسلط پر راضی ہو جائے، یا متونِ فقہ میں سے شرعی حیلے تلاش کر کے غلبۂ کفر و فسق کے ماتحت کچھ آدھی پونی مذہبی زندگی کا سودا چکانا شروع کر دے، بلکہ اس کے لیے سیدھا اور صاف راستہ صرف یہی ایک ہے کہ بندگانِ خدا کو اس طریقِ زندگی کی طرف بلائے جو خدا کو پسند ہے۔ پھر اگر کوئی اس کی بات سن کر نہ دے تو اس کا ساری عمر صراطِ مستقیم پر کھڑے ہو کر لوگوں کو پکارتے رہنا اور پکارتے پکارتے مر جانا اس سے لاکھ درجہ بہتر ہے کہ وہ اپنی زبان سے وہ صدائیں بلند کرنے لگے جو ضلالت میں بھٹکی ہوئی دنیا کو مرغوب ہوں اور ان راہوں پر چل پڑے جن پر کفار کی امامت میں دنیا چل رہی ہو۔ اور اگر کچھ اللہ کے بندے اس کی بات سننے پر آمادہ ہو جائیں تو اس کے لیے لازم ہے کہ ان کے ساتھ مل کر ایک جتھا بنائے اور یہ جتھا اپنی تمام اجتماعی قوت اس مقصدِ عظیم کے لیے جدوجہد کرنے میں صرف کر دے جس کا میں ذکر کر رہا ہوں۔
حضرات! مجھے خدا نے دین کا جو تھوڑا بہت علم دیا ہے اور قرآن و حدیث کے مطالعہ سے جو کچھ بصیرت مجھے حاصل ہوئی ہے اس سے میں دین کا تقاضا یہی کچھ سمجھا ہوں۔ یہی میرے نزدیک کتابِ الٰہی کا مطالبہ ہے، یہی انبیاء کی سنت ہے، اور میں اپنی اس رائے سے نہیں ہٹ سکتا جب تک کوئی خدا کی کتاب اور رسول کی سنت ہی سے مجھ پر یہ ثابت نہ کر دے کہ دین کا یہ تقاضا نہیں ہے۔
امامت کے باب میں خدا کی سنت
اپنی سعی کے اس مقصد و منتہا کو سمجھ لینے کے بعد اب ہمیں اس سنت اللہ کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے جس کے تحت ہم اپنے اس مقصود کو پا سکتے ہیں۔ یہ کائنات جس میں ہم رہتے ہیں، اس کو اللہ تعالیٰ نے ایک قانون پر بنایا ہے اور اس کی ہر چیز ایک لگے بندھے ضابطے پر چل رہی ہے۔ یہاں کوئی سعی محض پاکیزہ خواہشات اور اچھی نیتوں کی بنا پر کامیاب نہیں ہو سکتی اور نہ محض نفوسِ قدسیہ کی برکتیں ہی اس کو بار آور کر سکتی ہیں۔ بلکہ اس کے لیے ان شرائط کا پورا ہونا ضروری ہے جو ایسی مساعی کی بار آوری کے لیے قانونِ الٰہی میں مقرر ہیں۔ آپ اگر زراعت کریں تو خواہ آپ کتنے ہی بزرگ صفت انسان ہوں اور تسبیح و تہلیل میں کتنا ہی مبالغہ کرتے ہوں، بہرحال آپ کا پھینکا ہوا کوئی بیج بھی برگ و بار نہیں لا سکتا جب تک آپ اپنی سعی کی شاہکاری میں اس قانون کی پوری پوری پابندی ملحوظ نہ رکھیں جو اللہ تعالیٰ نے کھیتوں کی بارآوری کے لیے مقرر کر دیا ہے۔ اسی طرح نظامِ امامت کا وہ انقلاب بھی جو آپ کے پیشِ نظر ہے، کبھی محض دعاؤں اور پاک تمناؤں سے رونما نہ ہو سکے گا بلکہ اس کے لیے بھی ناگزیر ہے کہ آپ اس قانون کو سمجھیں اور اس کی ساری شرطیں پوری کریں جس کے تحت دنیا میں امامت قائم ہوتی ہے، کسی کو ملتی ہے اور کسی سے چھنتی ہے۔ اگرچہ اس سے پہلے بھی میں اس مضمون کو اپنی تحریروں اور تقریروں میں اشارۃً بیان کرتا رہا ہوں، لیکن آج میں اسے مزید تفصیل و تشریح کے ساتھ پیش کرنا چاہتا ہوں کیونکہ یہ وہ مضمون ہے جسے پوری طرح سمجھے بغیر ہمارے سامنے اپنی راہِ عمل واضح نہیں ہو سکتی۔
انسان کی ہستی کا اگر تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کے اندر دو مختلف حیثیتیں پائی جاتی ہیں جو ایک دوسرے سے مختلف بھی ہیں اور باہم ملی جلی بھی۔
اس کی ایک حیثیت تو یہ ہے کہ وہ اپنا ایک طبعی و حیوانی وجود رکھتا ہے جس پر وہی قوانین جاری ہوتے ہیں جو تمام طبیعات و حیوانات پر فرمانروائی کر رہے ہیں۔ اس وجود کی کارکردگی منحصر ہے ان آلات و وسائل پر، ان مادی ذرائع پر، اور ان طبعی حالات پر جن پر دوسری تمام طبعی اور حیوانی موجودات کی کارکردگی کا انحصار ہے۔ یہ وجود جو کچھ کر سکتا ہے قوانینِ طبعی کے تحت آلات و وسائل کے ذریعے سے اور طبعی حالات کے اندر ہی رہتے ہوئے کر سکتا ہے، اور اس کے کام پر عالمِ اسباب کی تمام قوتیں مخالف یا موافق اثر ڈالتی ہیں۔
دوسری حیثیت جو انسان کے اندر نمایاں نظر آتی ہے وہ اس کے انسان ہونے کی، یا بالفاظِ دیگر ایک اخلاقی وجود ہونے کی حیثیت ہے۔ یہ اخلاقی وجود طبیعات کا تابع نہیں ہے بلکہ ان پر ایک طرح سے حکومت کرتا ہے۔ یہ خود انسان کے طبعی و حیوانی وجود کو بھی آلہ کے طور پر استعمال کرتا ہے اور خارجی دنیا کے اسباب کو بھی اپنا تابع بنانے اور ان سے کام لینے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کی کار کن قوتیں وہ اخلاقی اوصاف ہیں جو اللہ تعالیٰ نے انسان میں ودیعت فرمائے ہیں، اور اس پر فرمانروائی بھی طبعی قوانین کی نہیں بلکہ اخلاقی قوانین کی ہے۔
انسانی عروج و زوال کا مدار اخلاق پر ہے
یہ دونوں حیثیتیں انسان کے اندر ملی جلی کام کر رہی ہیں اور مجموعی طور پر اس کی کامیابی و ناکامی اور اس کے عروج و زوال کا مدار مادی اور اخلاقی دونوں قسم کی قوتوں پر ہے۔ وہ بے نیاز تو نہ مادی قوت ہی سے ہو سکتا ہے اور نہ اخلاقی قوت ہی سے۔ اسے عروج ہوتا ہے
اخلاقی طاقت: قوموں کے عروج و زوال کا فیصلہ کن عنصر
کسی قوم کو عروج ہوتا ہے تو دو طاقتوں کے بل پر ہوتا ہے: مادی طاقت اور اخلاقی طاقت۔ اور وہ گرتی بھی اسی وقت ہے جب یہ دونوں طاقتیں اس کے ہاتھ سے جاتی رہتی ہیں، یا ان میں وہ دوسروں کی بہ نسبت کمزور ہو جاتی ہے۔ لیکن اگر غائر نظر سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ انسانی زندگی میں اصل فیصلہ کن اہمیت اخلاقی طاقت کی ہے نہ کہ مادی کی۔
اس میں شک نہیں کہ مادی وسائل کا حصول، طبعی ذرائع کا استعمال اور اسبابِ خارجی کی موافقت بھی کامیابی کے لئے شرطِ لازم ہے اور جب تک انسان اس عالمِ طبعی (Physical World) میں رہتا ہے، یہ شرط کسی طرح ساقط نہیں ہو سکتی۔ مگر وہ اصل چیز جو انسان کو گراتی اور اٹھاتی ہے، جسے اس کی قسمت کے بنانے اور بگاڑنے میں سب سے بڑھ کر دخل حاصل ہے، وہ اخلاقی طاقت ہی ہے۔ ظاہر ہے کہ ہم جس چیز کی وجہ سے انسان کو انسان کہتے ہیں وہ اس کی جسمانیت یا حیوانیت نہیں بلکہ اس کی اخلاقیت ہے۔ آدمی دوسری موجودات سے جس خصوصیت کی بنا پر ممیّز ہوتا ہے وہ یہ نہیں ہے کہ وہ جگہ گھیرتا ہے یا سانس لیتا ہے یا نسل کشی کرتا ہے، بلکہ اس کی امتیازی خصوصیت جو اسے ایک مستقل نوع ہی نہیں، خلیفۃ اللہ فی الارض بناتی ہے، وہ اس کا اخلاقی اختیار اور اخلاقی ذمہ داری کا حامل ہونا ہے۔ پس جب اصل جوہرِ انسانیت اخلاق ہے تو لامحالہ یہ ماننا پڑے گا کہ اخلاقیات ہی کو انسانی زندگی کے بناؤ اور بگاڑ میں فیصلہ کن مقام حاصل ہے اور اخلاقی قوانین ہی انسان کے عروج و زوال پر فرمانروا ہیں۔
اس حقیقت کو سمجھ لینے کے بعد جب ہم اخلاقیات کا تجزیہ کرتے ہیں تو وہ اصولی طور پر ہمیں دو بڑے شعبوں میں منقسم نظر آتے ہیں:
- بنیادی انسانی اخلاقیات
- اسلامی اخلاقیات
بنیادی انسانی اخلاقیات
بنیادی انسانی اخلاقیات سے مراد وہ اوصاف ہیں جن پر انسان کے اخلاقی وجود کی اساس قائم ہے اور ان میں وہ تمام صفات شامل ہیں جو دنیا میں انسان کی کامیابی کے لئے بہرحال شرطِ لازم ہیں، خواہ وہ صحیح مقصد کے لئے کام کر رہا ہو یا غلط مقصد کے لئے۔ ان اخلاقیات میں اس سوال کا کوئی دخل نہیں ہے کہ آدمی خدا اور وحی اور رسول اور آخرت کو مانتا ہے یا نہیں، طہارتِ نفس اور نیتِ خیر اور عملِ صالح سے آراستہ ہے یا نہیں، اچھے مقصد کے لئے کام کر رہا ہے یا برے مقصد کے لئے۔ قطع نظر اس سے کہ کسی میں ایمان ہو یا نہ ہو، اور اس کی زندگی پاک ہو یا ناپاک، اور اس کی سعی کا مقصد اچھا ہو یا برا، جو شخص اور جو گروہ بھی اپنے اندر وہ اوصاف پیدا رکھتا ہوگا جو دنیا میں کامیابی کے لئے ناگزیر ہیں، وہ یقیناً کامیاب ہو گا اور ان لوگوں سے بازی لے جائے گا جو ان اوصاف کے لحاظ سے اس کے مقابلے میں ناقص ہوں گے۔
مومن ہو یا کافر، نیک ہو یا بد، مصلح ہو یا مفسد، غرض کوئی بھی ہو، وہ اگر کارگر انسان ہو سکتا ہے تو صرف اسی صورت میں جب کہ اس کے اندر ارادے کی طاقت اور فیصلے کی قوت ہو، عزم اور حوصلہ ہو، صبر و ثبات اور استقلال ہو، تحمل اور برداشت ہو، ہمت اور شجاعت ہو, مستعدی اور جفاکشی ہو، اپنے مقصد کا عشق اور اس کے لئے ہر چیز قربان کر دینے کا جذبہ ہو، حزم و احتیاط اور معاملہ فہمی و تدبیر ہو اور باضابطگی کے ساتھ کام کرنے کا سلیقہ ہو، فرض شناسی اور احساسِ ذمہ داری ہو، حالات کو سمجھنے اور ان کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنے اور مناسب تدبیر کرنے کی قابلیت ہو، اپنے جذبات، خواہشات اور ہیجانات پر قابو ہو، اور دوسرے انسانوں کو موہنے، ان کے دل میں جگہ پیدا کرنے اور ان سے کام لینے کی صلاحیت ہو۔
پھر ناگزیر ہے کہ اس کے اندر وہ شریفانہ خصائل بھی کچھ نہ کچھ موجود ہوں جو فی الحقیقت جوہرِ آدمیت ہیں اور جن کی بدولت آدمی کا وقار و اعتبار دنیا میں قائم ہوتا ہے، مثلاً خود داری، فیاضی، رحم، ہمدردی، انصاف، وسعتِ قلب و نظر، سچائی، امانت، راستبازی، پاسِ عہد، معقولیت، اعتدال، شائستگی، طہارت و نظافت اور ذہن و نفس کا انضباط۔
یہ اوصاف اگر کسی قوم یا گروہ کے بیشتر افراد میں موجود ہوں تو گویا یوں سمجھئے کہ اس کے پاس وہ سرمایۂ انسانیت موجود ہے جس سے ایک طاقتور اجتماعیت وجود میں آسکتی ہے۔ لیکن یہ سرمایہ مجتمع ہو کر بالفعل ایک مضبوط و مستحکم اور کارگر اجتماعی طاقت نہیں بن سکتا جب تک کہ کچھ دوسرے اخلاقی اوصاف بھی اس کی مدد پر نہ آئیں، مثلاً تمام یا بیشتر افراد کسی اجتماعی نصب العین پر متفق ہوں، اور اس نصب العین کو اپنی انفرادی اغراض بلکہ اپنی جان و مال اور اولاد سے بھی عزیز تر رکھیں، ان کے اندر آپس کی محبت اور ہمدردی ہو، انہیں مل کر کام کرنا آتا ہو، وہ اپنی خودی و نفسانیت کو کم از کم اس حد تک قربان کر سکیں جو منظم سعی کے لئے ناگزیر ہے، وہ صحیح و غلط رہنما میں تمیز کر سکتے ہوں اور موزوں آدمیوں ہی کو اپنا رہنما بنائیں، ان کے رہنماؤں میں اخلاص اور حسنِ تدبیر اور رہنمائی کی دوسری ضروری صفات موجود ہوں، اور خود قوم یا جماعت بھی اپنے رہنماؤں کی اطاعت کرنا جانتی ہو، ان پر اعتماد رکھتی ہو اور اپنے تمام ذہنی، جسمانی اور مادی ذرائع ان کے تصرف میں دے دینے پر تیار ہو۔ نیز پوری قوم کے اندر ایسی زندہ اور حساس رائے عام پائی جاتی ہو جو کسی ایسی چیز کو اپنے اندر پنپنے نہ دے جو اجتماعی فلاح کے لئے نقصان دہ ہو۔
یہ ہیں وہ اخلاقیات جن کو میں "بنیادی انسانی اخلاقیات" کے لفظ سے تعبیر کرتا ہوں، کیونکہ فی الواقع یہی اخلاقی اوصاف انسان کی اخلاقی طاقت کا اصل منبع ہیں اور انسان کسی مقصد کے لئے بھی دنیا میں کامیاب سعی نہیں کر سکتا جب تک کہ ان اوصاف کا زور اس کے اندر موجود نہ ہو۔ ان اخلاقیات کی مثال ایسی ہے جیسے فولاد کہ وہ اپنی ذات میں مضبوطی و استحکام رکھتا ہے، اور اگر کوئی کارگر ہتھیار بن سکتا ہے تو اسی سے بن سکتا ہے، قطع نظر اس سے کہ وہ غلط مقصد کے لئے استعمال ہو یا صحیح مقصد کے لئے۔
یہی وہ بات ہے جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں بیان فرمایا ہے:
خِيَارُكُمْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ خِيَارُكُمْ فِي الْإِسْلَامِ
"تم میں جو لوگ جاہلیت میں اچھے تھے وہی اسلام میں بھی اچھے ہیں۔"
یعنی زمانۂ جاہلیت میں جو لوگ اپنے اندر جوہرِ قابل رکھتے تھے وہی زمانۂ اسلام میں مردانِ کار ثابت ہوئے۔ فرق صرف یہ ہے کہ ان کی قابلیتیں پہلے غلط راہوں میں صرف ہو رہی تھیں اور اسلام نے آکر انہیں صحیح راہ پر لگا دیا۔ مگر بہرحال ناکارہ انسان نہ جاہلیت کے کسی کام کے تھے نہ اسلام کے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو عرب میں جو زبردست کامیابی حاصل ہوئی اور جس کے اثرات تھوڑی ہی مدت گزرنے کے بعد دریائے سندھ سے لے کر اٹلانٹک کے ساحل تک دنیا کے ایک بڑے حصے نے محسوس کر لئے، اس کی وجہ یہی تو تھی کہ آپ کو عرب میں بہترین انسانی مواد مل گیا تھا جس کے اندر کیریکٹر کی زبردست طاقت موجود تھی۔ اگر خدانخواستہ آپ کو بودے، کم ہمت، ضعیف الارادہ اور ناقابلِ اعتماد لوگوں کی بھیڑ مل جاتی تو کیا پھر بھی وہ نتائج نکل سکتے تھے؟
اسلامی اخلاقیات
اب اخلاقیات کے دوسرے شعبے کو لیجئے جسے میں "اسلامی اخلاقیات" کے لفظ سے تعبیر کر رہا ہوں۔ یہ بنیادی انسانی اخلاقیات سے الگ کوئی چیز نہیں ہے بلکہ اسی کی تصحیح اور تکمیل ہے۔
اسلام کا پہلا کام یہ ہے کہ وہ بنیادی انسانی اخلاقیات کو ایک صحیح مرکز و محور مہیا کر دیتا ہے، جس سے وابستہ ہو کر وہ سراپا خیر بن جاتے ہیں۔ اپنی ابتدائی صورت میں یہ اخلاقیات مجرد ایک قوت ہیں جو خیر بھی ہو سکتی ہے اور شر بھی۔ جس طرح تلوار کا حال ہے کہ وہ محض ایک کاٹ ہے جو ڈاکو کے ہاتھ میں جا کر آلۂ ظلم بھی بن سکتی ہے اور مجاہد فی سبیل اللہ کے ہاتھ میں جا کر وسیلۂ خیر بھی۔ اسی طرح ان اخلاقیات کی طاقت بھی کسی شخص یا گروہ میں ہونا بجائے خود خیر نہیں ہے بلکہ اس کا خیر ہونا موقوف ہے اس امر پر کہ یہ قوت صحیح راہ میں صرف ہو۔ اس کو صحیح راہ پر لگانے کی خدمت اسلام انجام دیتا ہے۔ اسلام کی دعوتِ توحید کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ دنیا کی زندگی میں انسان کی تمام کوششوں اور محنتوں اور دوڑ دھوپ کا مقصدِ وحید اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ہو۔
دوسرا کام جو اخلاق کے باب میں اسلام کرتا ہے وہ یہ ہے کہ وہ بنیادی انسانی اخلاقیات کو مستحکم بھی کرتا ہے اور پھر ان کے اطلاق کو انتہائی حدود تک وسیع بھی کر دیتا ہے۔ مثال کے طور پر صبر کو لیجئے۔ بڑے سے بڑے صابر آدمی میں بھی جو صبر دنیوی اغراض کے لئے ہو اور جسے شرک یا مادہ پرستی کی فکری جڑوں سے غذا مل رہی ہو، اس کے برداشت اور اس کے ثبات و قرار کی بس ایک حد ہوتی ہے جس کے بعد وہ گھبرا اٹھتا ہے۔ لیکن جس صبر کو توحید کی جڑ سے غذا ملے اور جو دنیا کے لئے نہیں بلکہ اللہ رب العالمین کے لئے ہو، وہ تحمل و برداشت اور پامردی کا ایک اتھاہ خزانہ ہوتا ہے جسے دنیا کی تمام ممکن مشکلات مل کر بھی لوٹ نہیں سکتیں۔
اسلام کا تیسرا اہم کام یہ ہے کہ وہ بنیادی اخلاقیات کی ابتدائی منزل پر اخلاقِ فاضلہ کی ایک نہایت شاندار بالائی منزل تعمیر کرتا ہے جس کی بدولت انسان اپنے شرف کی انتہائی بلندیوں پر پہنچ جاتا ہے۔ وہ اس کے نفس کو خود غرضی سے، بخل سے، ظلم سے، بے حیائی اور بدعت اور بے قیدی سے پاک کر دیتا ہے، اس میں تقویٰ و پرہیزگاری اور حق پرستی پیدا کرتا ہے۔ وہ اسے محض نیک ہی بنانے پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ حدیثِ رسول کے الفاظ میں وہ اسے "مِفْتَاحُ الْخَيْرِ مِغْلَاقُ الشَّرِّ" یعنی بھلائی کا دروازہ کھولنے والا اور برائی کا دروازہ بند کرنے والا بناتا ہے۔
سنت اللہ در بابِ امامت کا خلاصہ
اب میں چند الفاظ میں اس سنت اللہ کو بیان کئے دیتا ہوں جو امامت کے باب میں ابتدائے آفرینش سے جاری ہے اور جب تک نوعِ انسانی اپنی موجودہ فطرت پر زندہ ہے اس وقت تک برابر جاری رہے گی، اور وہ یہ ہے:
- اگر دنیا میں کوئی منظم انسانی گروہ ایسا موجود نہ ہو جو اسلامی اخلاقیات اور بنیادی انسانی اخلاقیات دونوں سے آراستہ ہو اور پھر مادی اسباب و وسائل بھی استعمال کرے، تو دنیا کی امامت و قیادت لازماً کسی ایسے گروہ کے قبضے میں دے دی جاتی ہے جو بنیادی انسانی اخلاقیات اور مادی اسباب و وسائل کے اعتبار سے دوسروں کی بہ نسبت زیادہ بڑھا ہوا ہو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ بہرحال اپنی دنیا کا انتظام چاہتا ہے اور یہ انتظام اسی گروہ کے سپرد کیا جاتا ہے جو موجودہ گروہوں میں اہلِ تر ہو۔
- لیکن اگر کوئی منظم گروہ ایسا موجود ہو جو اسلامی اخلاقیات اور بنیادی انسانی اخلاقیات دونوں میں باقی ماندہ انسانی دنیا پر فضیلت رکھتا ہو، اور وہ مادی اسباب و وسائل کے استعمال میں بھی کوتاہی نہ کرے، تو یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ اس کے مقابلے میں کوئی دوسرا گروہ دنیا کی امامت و قیادت پر قابض رہ سکے۔ ایسا ہونا فطرت کے خلاف ہے، اللہ کی اس سنت کے خلاف ہے جو انسانوں کے معاملے میں اس نے مقرر کر رکھی ہے، ان وعدوں کے خلاف ہے جو اللہ نے اپنی کتاب میں مومنین صالحین سے کئے ہیں۔
مگر یہ خیال رہے کہ اس نتیجے کا ظہور صرف اسی وقت ہو سکتا ہے جب کہ ایک جماعتِ صالحہ ان اوصاف کی حامل موجود ہو۔ کسی ایک صالح فرد یا متفرق طور پر بہت سے صالح افراد کے موجود ہونے سے استخلاف فی الارض کا نظام تبدیل نہیں ہو سکتا، خواہ وہ افراد اپنی جگہ کیسے ہی زبردست اولیاء اللہ بلکہ پیغمبر ہی کیوں نہ ہوں۔
بنیادی اور اسلامی اخلاقیات کی طاقت کا فرق
مادی طاقت اور اخلاقی طاقت کے تناسب کے باب میں قرآن اور تاریخ کے مطالعے سے جو سنت اللہ میں سمجھا ہوں وہ یہ ہے کہ جہاں اخلاقی طاقت کا سارا انحصار صرف بنیادی انسانی اخلاقیات پر ہو، وہاں مادی وسائل بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ لیکن جہاں اخلاقی طاقت میں اسلامی اور بنیادی دونوں قسم کے اخلاقیات کا پورا زور شامل ہو، وہاں مادی وسائل کی انتہائی کمی کے باوجود اخلاق کو آخر کار ان تمام طاقتوں پر غلبہ حاصل ہو کر رہتا ہے جو مجرد بنیادی اخلاقیات اور مادی سرو سامان کے بل بوتے پر اکٹھی ہوں۔
اس نسبت کو یوں سمجھئے کہ بنیادی اخلاقیات کے ساتھ اگر سو درجے مادی طاقت کی ضرورت ہوتی ہے تو اسلامی اور بنیادی اخلاقیات کی مجموعی قوت کے ساتھ صرف ۲۵ درجے مادی طاقت کافی ہو جاتی ہے۔ باقی ۷۵ فی صدی قوت کی کسر کو محض اسلامی اخلاق کا زور پورا کر دیتا ہے۔ بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد کا تجربہ تو یہ بتاتا ہے کہ اسلامی اخلاق اگر اس پیمانے کا ہو جو حضور اور آپ کے صحابہ کا تھا تو صرف دس فی صد مادی طاقت سے بھی کام چل جاتا ہے۔ یہی حقیقت ہے جس کی طرف آیتِ کریمہ میں اشارہ کیا گیا ہے:
إِن يَكُن مِّنكُمْ عِشْرُونَ صَابِرُونَ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ (الانفال: ۶۵)
"اگر تم میں سے بیس صابر آدمی ہوں تو وہ دو سو پر غالب آئیں گے۔"
اسلامی اخلاقیات کے چار مراتب
جس چیز کو ہم اسلامی اخلاقیات سے تعبیر کرتے ہیں وہ قرآن اور حدیث کی رو سے دراصل چار مراتب پر مشتمل ہے: ایمان، اسلام، تقویٰ اور احسان۔ یہ چاروں مراتب یکے بعد دیگرے اس منطقی ترتیب پر واقع ہیں کہ ہر بعد کا مرتبہ پہلے مرتبے سے پیدا اور لازماً اسی پر قائم ہوتا ہے۔ اس پوری عمارت میں ایمان کو بنیاد کی حیثیت حاصل ہے۔ اس بنیاد پر اسلام کی منزل تعمیر ہوتی ہے، پھر اس کے اوپر تقویٰ اور سب سے اوپر احسان کی منزلیں اٹھتی ہیں۔
۱- ایمان (Faith)
شخص جانتا ہے کہ توحید و رسالت کے اقرار کا نام ایمان ہے۔ اگر کوئی شخص اس کا اقرار کرلے تو اس سے وہ قانونی شرط پوری ہو جاتی ہے جو دائرۂ اسلام میں داخل ہونے کے لئے رکھی گئی ہے۔ مگر کیا یہی سادہ اقرار اس غرض کے لئے بھی کافی ہو سکتا ہے کہ اسلامی زندگی کی ساری سہ منزلہ عمارت صرف اس بنیاد پر قائم ہو سکے؟ لوگ ایسا ہی سمجھتے ہیں، اور اسی لئے جہاں یہ اقرار موجود ہوتا ہے وہاں عملی اسلام اور تقویٰ اور احسان کی تعمیر شروع کردی جاتی ہے جو اکثر ہوائی قلعے سے زیادہ پائیدار ثابت نہیں ہوتی۔
ایک مکمل انسانی زندگی کی عمارت اگر اٹھ سکتی ہے تو صرف اسی اقرارِ توحید پر اٹھ سکتی ہے جو انسان کی پوری انفرادی و اجتماعی زندگی پر وسیع ہو، جس کے مطابق انسان اپنے آپ کو اور اپنی ہر چیز کو خدا کی ملک سمجھے، اس کو اپنا اور تمام دنیا کا ایک ہی جائز مالک، معبود، مطاع اور صاحبِ امر و نہی تسلیم کرے۔ اسی کو ہدایت کا سرچشمہ مانے، اور پورے شعور کے ساتھ اس حقیقت پر مطمئن ہو جائے کہ خدا کی اطاعت سے انحراف، یا اس کی ہدایت سے بے نیازی، سراسر ضلالت ہے۔
۲- اسلام (Submission)
ایمان کی یہ بنیادیں جب مکمل اور گہری ہو جاتی ہیں، تب ان پر اسلام کی منزل تعمیر ہوتی ہے۔ اسلام دراصل ایمان کے عملی ظہور کا دوسرا نام ہے۔ ایمان اور اسلام کا باہمی تعلق ویسا ہی ہے جیسا بیج اور درخت کا تعلق ہوتا ہے۔ بیج میں جو کچھ اور جیسا کچھ موجود ہوتا ہے وہی درخت کی شکل میں ظاہر ہو جاتا ہے۔ جہاں ایمان موجود ہوگا، لامحالہ اس کا ظہور آدمی کی عملی زندگی میں، اخلاق میں، برتاؤ میں، تعلقات کے کٹنے اور جڑنے میں، دوڑ دھوپ کے رخ میں، غرض مظاہرِ زندگی کے ہر ہر جز میں ہو کر رہے گا۔ ان میں سے جس پہلو میں بھی اسلام کے بجائے غیر اسلام ظاہر ہو رہا ہے، یقین کر لیجئے کہ اس پہلو میں ایمان موجود نہیں ہے یا ہے تو بالکل بودا اور بے جان ہے۔
(اس موقع پر ایک صاحب نے اٹھ کر پوچھا کہ ایمان اور عمل کو آپ ایک ہی چیز سمجھتے ہیں یا ان دونوں میں کچھ فرق ہے۔ اس کے جواب میں کہا گیا):
آپ تھوڑی دیر کے لئے اپنے ذہن سے ان بحثوں کو نکال دیں جو فقہاء اور متکلمین نے اس مسئلہ میں کی ہیں اور قرآن سے اس معاملہ کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ قرآن سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اعتقادی ایمان اور عملی اسلام لازم و ملزوم ہیں۔ اللہ تعالیٰ جگہ جگہ ایمان اور عمل صالح کا ساتھ ساتھ ذکر کرتا ہے اور تمام اچھے وعدے جو اس نے اپنے بندوں سے کئے ہیں انہی لوگوں سے متعلق ہیں جو اعتقاداً مومن اور عملاً مسلم ہوں۔ قانونی نقطۂ نظر کو چھوڑ کر حقیقتِ نفس الامری کے لحاظ سے اگر آپ دیکھیں گے تو یقیناً یہی پائیں گے کہ جہاں عملاً خدا کے آگے سراندازی اور سپردگی میں کمی ہے، جہاں نفس کی پسند خدا کی پسند سے مختلف ہے، وہاں ضرور ایمان میں نقص ہے اور ظاہر ہے کہ ناقص ایمان پر تقویٰ اور احسان کی تعمیر نہیں ہو سکتی۔
۳- تقویٰ (Piety / God-consciousness)
تقویٰ حقیقت میں کسی وضع و ہیئت اور کسی خاص طرزِ معاشرت کا نام نہیں، بلکہ دراصل وہ نفس کی اس کیفیت کا نام ہے جو خدا ترسی اور احساسِ ذمہ داری سے پیدا ہوتی ہے اور زندگی کے ہر پہلو میں ظہور کرتی ہے۔ حقیقی تقویٰ یہ ہے کہ انسان کے دل میں خدا کا خوف ہو، عبدیت کا شعور ہو، خدا کے سامنے اپنی ذمہ داری و جواب دہی کا احساس ہو، اور اس بات کا زندہ ادراک موجود ہو کہ دنیا ایک امتحان گاہ ہے۔ یہ احساس و شعور جس شخص کے اندر پیدا ہو جائے، اس کا ضمیر بیدار ہو جاتا ہے۔ اس کی دینی حس تیز ہو جاتی ہے۔ اس کو ہر وہ چیز کھٹکنے لگتی ہے جو خدا کی رضا کے خلاف ہو۔ وہ صریح ممنوعات تو درکنار، مشتبہ امور میں بھی مبتلا ہوتے ہوئے خود بخود جھجکنے لگتا ہے۔
۴- احسان (Excellence)
احسان اسلام کی بلند ترین منزل ہے۔ احسان دراصل اللہ اور اس کے رسول اور اس کے دین کے ساتھ اس قلبی لگاؤ، اس گہری محبت، اس سچی وفاداری اور فدویت و جاں نثاری کا نام ہے جو مسلمان کو فنا فی الاسلام کر دے۔ تقویٰ کا اساسی تصور خدا کا خوف ہے جو انسان کو اس کی ناراضی سے بچنے پر آمادہ کرے، اور احسان کا اساسی تصور خدا کی محبت ہے جو آدمی کو اس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ابھارے۔ اگرچہ متقین بھی قابلِ قدر اور قابلِ اعتماد لوگ ہیں مگر اسلام کی اصلی طاقت محسنین کا گروہ ہے اور وہ اصلی کام جو اس دنیا میں اسلام کرنا چاہتا ہے اسی گروہ سے بن آسکتا ہے۔
غلط فہمیاں اور خاتمۂ کلام
عام مسلمانوں کے ذہن پر مدتوں کے غلط تصورات کی وجہ سے جزئیات و ظواہر کی اہمیت کچھ اس طرح چھا گئی ہے کہ دین کے اصول و کلیات اور دینداری و اخلاقِ اسلامی کے حقیقی جوہر کی طرف خواہ کتنی ہی توجہ دلائی جائے، مگر لوگوں کے دماغ پھر کر انہی چھوٹے چھوٹے مسائل اور ذرا ذرا سی ظاہری چیزوں میں اٹک کر رہ جاتے ہیں جنہیں اصل دین بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔
سب سے پہلے ٹھنڈے دل سے اس بات پر غور کیجئے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول دنیا میں کس غرض کے لئے بھیجے ہیں؟ دنیا میں آخر کس چیز کی کمی تھی جسے رفع کرنے کے لئے انبیاء کو مبعوث کرنے کی ضرورت پیش آئی؟ وہ اصل خرابیاں کیا تھیں؟ خدا کی اطاعت و بندگی سے انحراف، خود ساختہ اصول و قوانین کی پیروی، اور خدا کے سامنے ذمہ داری و جواب دہی کا عدم احساس، وہ اصل خرابیاں تھیں جو دنیا میں رونما ہو گئی تھیں۔ انبیاء علیہم السلام اس غرض کے لئے بھیجے گئے کہ انسانوں میں خدا کی بندگی و وفاداری اور اس کے سامنے جواب دہی کا احساس پیدا کیا جائے، اخلاقِ فاضلہ کو نشوونما دی جائے اور انسانی زندگی کا نظام ان اصولوں پر قائم کیا جائے جن سے خیر و صلاح ابھرے اور شر و فساد دبے۔
اس مقصد کی تکمیل کے لیے محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کس ترتیب و تدریج کے ساتھ کام کیا؟ سب سے پہلے آپ نے ایمان کی دعوت دی اور اس کو وسیع ترین بنیادوں پر پختہ و مستحکم فرمایا۔ پھر اس ایمان کے مطابق اپنی تعلیم و تربیت کے ذریعے اہل ایمان میں عملی اطاعت (اسلام)، اخلاقی طہارت (تقویٰ) اور خدا کی گہری محبت و وفاداری (احسان) کے اوصاف پیدا کئے۔ پھر ان مخلص مومنوں کی منظم سعی و جہد سے قدیم جاہلیت کے فاسد نظام کو مٹانا اور اس کی جگہ قانونِ خداوندی کے اخلاقی و تمدنی اصولوں پر ایک نظامِ صالح قائم کرنا شروع کر دیا۔ جب یہ لوگ واقعی مسلم، متقی اور محسن بن گئے تب آپ نے ان کو بتانا شروع کیا کہ وضع قطع، لباس، اور دوسری ظاهری برتاؤ میں وہ مہذب آداب و اطوار کون سے ہیں جو متقیوں کو زیب دیتے ہیں۔ گویا پہلے خام کو کندن بنایا، پھر اس پر اشرفی کا ٹھپہ لگایا۔ پہلے سپاہی تیار کئے، پھر انہیں وردی پہنائی۔ یہی اس کام کی صحیح ترتیب ہے جو قرآن و حدیث کے غائر مطالعہ سے صاف نظر آتی ہے۔
میری اس گزارش کو یہ معنی نہ پہنائیں کہ میں ظاہری محاسن کی نفی کرنا چاہتا ہوں، یا ان احکام کی تعمیل کو غیر ضروری قرار دے رہا ہوں۔ درحقیقت میں تو اس کا قائل ہوں کہ بندۂ مومن کو ہر اس حکم کی تعمیل کرنی چاہیے جو خدا اور رسول نے دیا ہو، اور یہ بھی مانتا ہوں کہ دین انسان کے باطن اور ظاہر دونوں کو درست کرنا چاہتا ہے۔ لیکن جو چیز میں آپ کے ذہن نشین کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ مقدم چیز باطن ہے نہ کہ ظاہر۔ پہلے باطن میں حقیقت کا جوہر پیدا کرنے کی فکر کیجئے، پھر ظاہر کو حقیقت کے مطابق ڈھالئے۔
دوستو اور رفیقو! میں نے بیماری اور کمزوری کے باوجود آج یہ طویل تقریر آپ کے سامنے صرف اس لئے کی ہے کہ میں امرِ حق کو پوری وضاحت کے ساتھ آپ تک پہنچا کر خدا کے حضور بری الذمہ ہونا چاہتا ہوں۔ زندگی کا کوئی اعتبار نہیں۔ کوئی نہیں جانتا کہ کب اس کی مہلتِ عمر آن پوری ہو۔ اس لئے میں ضروری سمجھتا ہوں کہ حق پہنچانے کی جو ذمہ داری مجھ پر عائد ہوتی ہے، اس سے سبکدوش ہو جاؤں۔ اگر میں نے ٹھیک ٹھیک حق آپ تک پہنچا دیا ہے تو اس کی گواہی دیجیے۔
(آوازیں: ہم گواہ ہیں، آپ بھی گواہ رہیں اور خدا بھی گواہ ہو۔)
میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ مجھے اور آپ سب کو اپنے دین کا صحیح فہم بخشے اور اس فہم کے مطابق دین کے سارے تقاضے اور مطالبے پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
تحریک اسلامی پاکستان
مردان