اقامتِ دین: ایک عمیق اور فیصلہ کن تجزیہ
مولانا مودودی اور جاوید غامدی کے افکار کا قرآن، سنت اور چودہ سو سالہ اسلامی روایت کی روشنی میں جائزہ
پہلا فریق: مولانا مودودی کا تصورِ "حکومتِ الٰہیہ" اور دین کا جامع نظریہ
مولانا مودودی کے فکر کا نقطہ آغاز دین کی وہ جامع تعریف ہے جو اسے محض ایک "مذہب" (Religion) سے ممتاز کرتی ہے۔ ان کے نزدیک دین ایک مکمل نظامِ حیات (A Complete Way of Life) ہے جو انسان کی انفرادی و اجتماعی زندگی کے ہر پہلو—سیاست، معیشت، معاشرت، قانون، عدالت—سب پر محیط ہے۔ اس جامعیت کی بنیاد توحید کا انقلابی تصور ہے: حاکمیت صرف اللہ کی ہے۔
"جس طرح ایک پوری مشین اس وقت تک ٹھیک نہیں چل سکتی جب تک اس کے تمام پرزے ٹھیک نہ ہوں اور اپنی اپنی جگہ ٹھیک کام نہ کر رہے ہوں، اسی طرح انسانی زندگی کا پورا نظام بھی اس وقت تک صحیح اور صالح نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس کے تمام شعبوں میں خدا کے قانون کی پیروی نہ کی جائے۔ اسی پیروی کا نام اسلام ہے اور اسی کے قائم کرنے کی کوشش کا نام اقامت دین ہے۔" - خلاصہ از "دینیات"
مرکزی دلائل:
- لفظ "دین" کا قرآنی مفہوم: مولانا کے مطابق، قرآن میں لفظ "دین" صرف عبادت کے معنی میں نہیں، بلکہ "نظامِ اطاعت، قانون، اور حاکمیت" کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے (جیسے سورۃ یوسف: 76 میں "دین الملک" یعنی بادشاہ کا قانون)۔
- اقامتِ دین کا حکم: سورۃ الشوریٰ کی آیت 13 ﴿أَنْ أَقِيمُوا الدِّينَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِيهِ﴾ میں "اقامت" کا لفظ محض عمل کرنے نہیں، بلکہ "کھڑا کرنے، قائم کرنے اور نافذ کرنے" کا مطالبہ کرتا ہے، جیسے "اقامتِ صلوٰۃ" کا مطلب نماز کا اجتماعی نظام قائم کرنا ہے۔
- بعثتِ انبیاء کا مقصد: تمام انبیاء بالعموم، اور نبی اکرم ﷺ بالخصوص، اسی مقصد کے لیے بھیجے گئے کہ اللہ کے دین کو تمام باطل نظاموں پر غالب کریں ﴿لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ﴾۔ یہ کوئی وقتی مقصد نہ تھا بلکہ دینِ اسلام کی فطرت کا دائمی تقاضا ہے۔
پس، مولانا مودودی کے نزدیک، اقامتِ دین کی جدوجہد دراصل ایک صالح، عادلانہ اور ہمہ گیر اسلامی ریاست کے قیام کی جدوجہد ہے، کیونکہ دین کے اجتماعی احکام (حدود، قصاص، زکوٰۃ کا نظام، معاشی عدل) ریاستی قوت کے بغیر نافذ نہیں ہو سکتے۔
دوسرا فریق: جاوید احمد غامدی کا تصورِ "سنتِ الٰہی" اور دین کا انفرادی مرکز
جاوید احمد غامدی صاحب کی فکر کا محور دین کا انفرادی پہلو ہے، یعنی فرد کا اپنے خالق کے ساتھ تعلق، تزکیہ نفس، اور آخرت کی جواب دہی۔ ان کے نزدیک، دین کا اصل ہدف فرد کی اصلاح ہے، نہ کہ ریاست کا قیام۔ اجتماعی معاملات دین کا براہِ راست موضوع نہیں ہیں، بلکہ ان کا تعلق انسان کی اجتماعی دانش اور اخلاقیات سے ہے۔
"اِس (آیت) کا منشا یہ نہیں ہے کہ مسلمانوں کو آپس میں لڑا کر دین قائم کرنے کی کوشش کی جائے، بلکہ یہ ہے کہ دین جس طرح اُنھیں ملا ہے، اُسی طرح بغیر کسی تفرقے کے اُس پر قائم رہیں۔۔۔ جہاں تک ریاست کا تعلق ہے، اُس کا موضوع اصلاً دین نہیں، بلکہ انسان کے اجتماعی معاملات ہیں۔" - جاوید احمد غامدی، "میزان"، باب اصول و مبادی
مرکزی دلائل:
- سنتِ اتمامِ حجت: غامدی صاحب کا کلیدی استدلال یہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ کا ریاست قائم کرنا اور دین کو غالب کرنا ایک استثنائی خدائی قانون کے تحت تھا جسے "سنتِ اتمامِ حجت" کہتے ہیں۔ یہ سنت صرف رسولوں کے ساتھ خاص ہے، جس کے تحت رسول کے منکرین پر دنیا میں ہی عذاب آتا ہے اور ماننے والوں کو غلبہ عطا ہوتا ہے۔ چونکہ اب کوئی رسول نہیں آئے گا، لہٰذا یہ سنت ہمیشہ کے لیے ختم ہو چکی ہے۔
- قانون کی تقسیم: وہ دین کے احکام کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں: ایک وہ جن کا تعلق فرد سے ہے (نماز، روزہ) اور دوسرے وہ جن کا تعلق ریاست سے ہے (حدود، جہاد)۔ عوام صرف پہلی قسم کے مکلف ہیں۔ دوسری قسم کے احکام کے مخاطب صرف حکمران ہیں اور ان کا نفاذ بھی ان کے اطمینان پر منحصر ہے۔ عوام کا کام حکومت قائم کرنا نہیں، بلکہ صرف وعظ و نصیحت ہے۔
- ریاست کا کردار: ان کے نزدیک ریاست کا کام دین نافذ کرنا نہیں، بلکہ عدل و انصاف (Justice) قائم کرنا اور شہریوں کے حقوق کا تحفظ ہے۔ اگر مسلمان حکمران چاہیں تو وہ شریعت کے اصولوں سے رہنمائی لے سکتے ہیں، لیکن دین کے نام پر کوئی نظام مسلط نہیں کیا جا سکتا۔
غیر جانبدار اور تفصیلی تجزیہ: تاریخ، اصول اور نتائج کی روشنی میں
پوائنٹ 1: قرآن کی اصطلاحات اور عمومی احکام کی تعبیر
تفصیلی بحث: یہ اس اختلاف کا بنیادی نکتہ ہے۔ مولانا مودودی "عمومِ لفظ" کے کلاسیکی اصول پر قائم ہیں کہ قرآن کے احکام آفاقی ہیں جب تک کہ خود قرآن انہیں کسی خاص گروہ یا زمانے تک محدود نہ کر دے۔ مثلاً، ﴿أَقِيمُوا الدِّينَ﴾ کا حکم تمام انبیاء اور ان کی امتوں کو دیا گیا، جو اس کے عمومی اور دائمی ہونے پر دلالت کرتا ہے۔
اس کے برعکس، غامدی صاحب "تخصیص" کا اصول کثرت سے استعمال کرتے ہیں۔ وہ غلبہ دین کی آیات، جہاد و قتال کے احکامات، اور حتیٰ کہ "امر بالمعروف و نہی عن المنکر" کی اجتماعی تعبیر کو بھی "سنتِ رسول" کے مخصوص تناظر سے جوڑ کر ان کی عمومی حیثیت کی نفی کر دیتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس تخصیص کی بنیاد کیا ہے؟ قرآن میں کوئی ایسی آیت نہیں جو کہتی ہو کہ "غلبہ دین کا قانون رسولوں کے بعد ختم ہو جائے گا۔" یہ تخصیص ایک اجتہادی استنباط (Inference) ہے، قرآن کی صریح نص نہیں۔
مثال: سورۃ الحدید کی آیت 25 میں فرمایا: ﴿لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَأَنزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَالْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ۖ وَأَنزَلْنَا الْحَدِيدَ فِيهِ بَأْسٌ شَدِيدٌ...﴾ (ہم نے اپنے رسولوں کو واضح نشانیوں کے ساتھ بھیجا، اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں، اور ہم نے لوہا نازل کیا جس میں شدید طاقت ہے...)۔ اس آیت میں "لوگوں کا انصاف پر قائم ہونا" (لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ) ایک عمومی مقصد بیان کیا گیا ہے اور اس کے ساتھ "لوہے" (طاقت و ریاست) کا ذکر اس مقصد کے حصول کا ذریعہ بتاتا ہے۔ اسے صرف رسولوں تک محدود کرنا آیت کے عمومی پیغام کو سکیڑنے کے مترادف ہے۔
پوائنٹ 2: سیرتِ نبوی اور خلافتِ راشدہ کا تسلسل
تفصیلی بحث: غامدی صاحب کا ماڈل سیرتِ نبوی کو دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے: مکی دور (قابلِ تقلید) اور مدنی دور (ناقابلِ تقلید استثناء)۔ یہ تقسیم انتہائی خطرناک نتائج کی حامل ہے۔ اگر مدنی دور اور ریاست کا قیام رسول کے ساتھ خاص تھا، تو خلفائے راشدینؓ کا پورا دور کیا تھا؟
- حضرت ابوبکر صدیقؓ کا قتال: جب انہوں نے مانعینِ زکوٰۃ کے خلاف اعلانِ جنگ کیا تو حضرت عمرؓ نے ابتداً تردد کیا اور کہا کہ آپ کلمہ گو لوگوں سے کیسے جنگ کر سکتے ہیں؟ حضرت ابوبکرؓ کا تاریخی جواب تھا: "خدا کی قسم، جو نماز اور زکوٰۃ میں فرق کرے گا، میں اس سے ضرور لڑوں گا۔ اگر وہ مجھے ایک رسی دینے سے بھی انکار کریں جو وہ رسول اللہﷺ کو دیتے تھے، تو میں اس پر بھی ان سے قتال کروں گا۔" یہ جواب اس بات کا ثبوت ہے کہ حضرت ابوبکرؓ ریاستِ مدینہ کو نبیﷺ کی قائم کردہ ایک دائمی سنت اور دین کے اجتماعی نظام کا تسلسل سمجھ رہے تھے، نہ کہ کوئی وقتی معجزہ۔
- حضرت عمر فاروقؓ کی ادارہ سازی: انہوں نے جس پیمانے پر ریاست کو منظم کیا—فوج، پولیس، عدلیہ، بیت المال، زمین کا انتظام—وہ ثابت کرتا ہے کہ وہ اسلام کو ایک مکمل ریاستی نظریہ (State Ideology) کے طور پر نافذ کر رہے تھے۔
غامدی صاحب کا ماڈل اختیار کرنے سے خلافتِ راشدہ، جسے خود نبی اکرم ﷺ نے "سنت" قرار دیا (علیکم بسنتی و سنة الخلفاء الراشدین)، کی عملی حیثیت ختم ہو جاتی ہے۔ مولانا مودودی کا نظریہ اس کے برعکس، خلافتِ راشدہ کو سیرتِ نبوی کے مدنی دور کا فطری اور منطقی تسلسل قرار دیتا ہے، جو تاریخی طور پر زیادہ درست ہے۔
پوائنٹ 3: چودہ سو سالہ علمی و فکری ورثہ
تفصیلی بحث: اسلامی تاریخ میں دین اور ریاست کے تعلق پر تین بڑے نظریات رہے ہیں: (۱) دین اور ریاست ایک ہیں (کلاسیکی سنی نظریہ)، (۲) ریاست دین کے تابع ہے (اکثر صوفیاء اور علماء کا نظریہ)، (۳) دین اور ریاست جدا ہیں (معتزلہ کے بعض گروہ اور جدید سیکولر مفکرین)۔
مولانا مودودی کا نظریہ پہلی اور دوسری قسم کے نظریات کا جدید احیاء ہے۔ امام غزالیؒ ("الدین اس والسلطان حارس" - دین بنیاد ہے اور سلطنت محافظ)، ابن خلدون (خلافت کا مقصد دین کی حفاظت اور دنیا کا انتظام ہے)، شاہ ولی اللہؒ (ارتفاقات کا نظریہ جس میں ریاست اعلیٰ ترین اجتماعی ادارہ ہے) اور مجدد الف ثانیؒ (اکبر کے الحاد کے خلاف سیاسی مزاحمت)، یہ سب اسی تسلسل کی کڑیاں ہیں۔
اس کے برعکس، غامدی صاحب کا نظریہ کہ "ریاست کا موضوع دین نہیں" اور "اقامتِ دین کے لیے جدوجہد بدعت ہے"، اسلامی تاریخ میں ایک بالکل نیا اور اجنبی نظریہ ہے۔ یہ چودہ سو سالہ علمی ورثے سے مکمل انحراف ہے۔ کسی بھی مستند فقیہ، مفسر یا مجدد نے یہ نہیں کہا کہ شریعت کے اجتماعی قوانین کا نفاذ اب امت کی ذمہ داری نہیں رہا۔ فقہ کی تمام کتابیں "کتاب السیر"، "کتاب الامارۃ" اور "کتاب الحدود" سے بھری پڑی ہیں جو ایک فعال اسلامی ریاست کو فرض کرتی ہیں۔
پوائنٹ 4: عملی نتائج اور قابلِ عمل ہونا (Practical Implications)
تفصیلی بحث: کسی بھی نظریے کو اس کے عملی نتائج سے بھی پرکھا جاتا ہے۔
- غامدی صاحب کے نظریے کا نتیجہ: ان کا ماڈل مسلمانوں کو اجتماعی طور پر غیر سیاسی (Apolitical) اور لاتعلق (Passive) بنا دیتا ہے۔ یہ عملاً سیکولرزم کے لیے راستہ ہموار کرتا ہے، جہاں دین فرد کا نجی معاملہ بن جاتا ہے اور اجتماعی زندگی لادین اصولوں پر چلتی ہے۔ اگر مسلمان اپنے دین کے اجتماعی نفاذ کے لیے کوشش ہی نہیں کریں گے تو کیا وہ ہمیشہ لادین یا غیر اسلامی نظاموں کے تحت زندگی گزارنے پر مجبور ہوں گے؟ یہ نظریہ امت کو ایک دفاعی اور معذرت خواہانہ پوزیشن پر لاکھڑا کرتا ہے۔
- مولانا مودودی کے نظریے کا نتیجہ: ان کا ماڈل مسلمانوں کو ایک فعال، باشعور اور ذمہ دار امت بناتا ہے جو اپنے معاشرے کی اصلاح اور ایک عادلانہ نظام کے قیام کے لیے جدوجہد کرتی ہے۔ اس نظریے میں قوت بھی ہے اور خطرہ بھی۔ قوت یہ ہے کہ یہ امت کو جمود سے نکالتا ہے۔ خطرہ یہ ہے کہ اگر اس کی درست تفہیم نہ کی جائے تو یہ شدت پسندی اور خوارج جیسی فکر کو جنم دے سکتا ہے (جیسا کہ بعض گروہوں نے کیا)۔ مولانا مودودی خود ہمیشہ پُرامن، جمہوری اور دستوری جدوجہد کے قائل رہے، لیکن ان کے نظریے کی غلط تشریح کا امکان موجود رہتا ہے۔
حتمی اور فیصلہ کن خلاصہ
اس تفصیلی تجزیے کے بعد یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کا تصورِ اقامتِ دین، اپنی تمام تر تنقیدات کے باوجود، قرآن کی عمومی تعلیمات، سیرتِ نبوی کے جامع نمونے، خلافتِ راشدہ کے عملی تسلسل اور امت کے چودہ سو سالہ علمی ورثے سے گہری مطابقت رکھتا ہے۔ یہ اسلام کو ایک مکمل، فعال اور غالب نظامِ حیات کے طور پر پیش کرتا ہے، جو اس کی اصل روح ہے۔
اس کے مقابلے میں جاوید احمد غامدی کا نظریہ، اگرچہ فرد کی اخلاقی اصلاح اور دلیل کی اہمیت جیسے قابلِ قدر پہلوؤں پر مشتمل ہے، لیکن اپنی بنیاد میں وہ ایک ایسا "نیا اسلام" پیش کرتا ہے جو تاریخ سے کٹا ہوا اور قرآن کی آیات کی ایسی تخصیص پر مبنی ہے جس کی کوئی ٹھوس دلیل موجود نہیں۔ ان کا ماڈل اسلام کے اجتماعی اور ریاستی کردار کی مکمل نفی کر کے اسے ایک پرائیویٹ معاملہ بنا دیتا ہے، جو نہ صرف غیر حقیقی ہے بلکہ امت کو اس کی اجتماعی ذمہ داریوں سے دستبردار ہونے کی دعوت دیتا ہے۔
لہٰذا، فیصلہ یہ ہے کہ "اقامتِ دین" ایک جامع اور اجتماعی فریضہ ہے جس کا منطقی تقاضا ایک صالح ریاست کا قیام ہے۔ اس معاملے میں مولانا مودودی کا مؤقف ہی راجح، مدلل اور اسلامی روایت کے مطابق ہے۔