بِسمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمِ
ہماری دعوت سب لوگوں کے لیے یہ ہے کہ وہ اسلام کو اچھی طرح جانچ کر، پرکھ کر یہ فیصلہ کریں کہ وہ اسے اپنی زندگی کے دین کی حیثیت سے قبول کرتے ہیں یا نہیں؟ اسلام پیدائش سے حاصل نہیں ہوتا، نسل اور نسب سے نہیں مل جاتا، پس یہ ضروری ہے کہ اس سوال کو آپ کے سامنے رکھا جائے کہ آیا فی الواقع آپ اسے بہ رضا و رغبت قبول کرتی ہیں یا نہیں؟ آپ اس کی عائد کردہ پابندیوں کو اٹھانے پر راضی ہیں یا نہیں؟
اگر کسی کو یہ دین پسند نہ ہو اور اسلام کے اصول و حدود کے اندر رہنا گوارا نہ ہو تو اسے پورا اختیار ہے کہ اسے چھوڑ دے۔ لیکن چھوڑنے کے معنی یہ ہیں کہ وہ صاف صاف اسے رد کر دے، اپنا نام بدلے، اپنا تعلق مسلمان سوسائٹی سے منقطع کر لے، اپنے آپ کو مسلمان کہنا چھوڑ دے اور پھر جس راہ پر جانا چاہے جائے۔ اپنے نئے مسلک کے مطابق جو نام پسند ہو، اسے اختیار کرے اور جو سوسائٹی اسے مرغوب ہو اس میں شامل ہو جائے یا اپنے ہم خیال لوگوں کو ساتھ لے کر کوئی نئی سوسائٹی بنائے۔
بہر حال یہ سلسلہ اب ختم ہونا چاہیے جو آج کل لوگوں نے اختیار کر رکھا ہے کہ اسلام پسند بھی نہیں ہیں، اس کی پیروی پر راضی بھی نہیں ہیں، خیال اور عمل میں اسے چھوڑ کر دوسرے طریقے اختیار بھی کر چکے ہیں، مگر اصرار ہے کہ ہم مسلمان ہیں۔ مسلمان کہلائے جانے پر ہی نہیں، بلکہ اسلام کے علمبردار اور اس کے مفتی بھی بنے پھرتے ہیں۔ یہ کھیل بہت دنوں کھیلا جا چکا، اب یہ منافقانہ رویہ ختم ہو جانا چاہیے کہ اسلام کی جو چیزیں اپنے مفاد اور اغراض کے مطابق نظر آئیں وہ تو قبول کر لی جائیں اور جو چیزیں خواہش نفس کے مطابق نہ ہوں انھیں رد کر دیا جائے۔
اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْکِتٰبِ وَتَکْفُرُونَ بِبَعْضٍ
(البقرہ ۲ : ۸۵)
یہ اس کا مصداق ہے جس کا طعنہ نبی اکرم ﷺ کی زبان سے یہودیوں کو دیا گیا تھا، کہ کتاب الٰہی سے اپنی پسند کی چیزوں کو تو لے لیتے ہیں اور جو پسند نہ ہوں انھیں رد کر دیتے ہیں۔
نفس پرستی اور خواہش کی بندگی کا یہ جعلی سکہ اب ایمان کے نام سے نہیں چل سکتا۔ کسی شریف آدمی کے لیے بھی یہ جعل سازی باعزت نہیں ہے کہ اپنے مطلب کے لیے تو وہ مسلمان ہوا اور اسلام کے نام پر اپنے حقوق مانگے، مگر اسلام کی پیروی کے لیے وہ مسلمان نہ ہو۔ ہم ہر شخص کے سامنے یہ سوال رکھتے ہیں اور اس کا دوٹوک جواب چاہتے ہیں کہ تمھیں اسلام اپنے طریق زندگی کی حیثیت سے پسند ہے یا نہیں؟ پسند نہیں ہے تو براہ کرم صاف انکار کرو اور اگر پسند ہے اور فی الحقیقت تم مسلمان رہنا چاہتے ہو تو سچے دل سے اسے قبول کرو۔ اسلام کے ایک جز یا چند اجزا کو نہیں، بلکہ پورے اسلام کو، سیدھی طرح اطاعت کا رویہ اختیار کرو اور اسلام کو اپنا دین مان لینے کے بعد پھر ایسی آزاد خیالی کا دعویٰ مت کرو۔
یہ بات ہمیں صرف مردوں ہی سے نہیں کہنی ہے، بلکہ عورتوں سے بھی یہی کچھ ہم کہنا چاہتے ہیں۔
عورتیں آزاد ہیں
ہم عورتوں سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ اپنی شخصیتوں کو مردوں کی شخصیتوں میں گم نہ کر دیں۔ اپنے دین کو مردوں کے حوالے نہ کریں۔ وہ مردوں کا ضمیمہ نہیں ہیں، ان کی اپنی ایک مستقل شخصیت ہے۔ عورتوں کو بھی مردوں ہی کی طرح خدا کے روبرو پیش ہونا ہے، اور اپنے اعمال و افعال کا خود حساب دینا ہے۔ قیامت کے روز ہر عورت اپنی ہی قبر سے اٹھے گی، اپنے باپ یا شوہر یا بھائی کی قبر سے نہیں اٹھے گی۔ اپنے اعمال کا حساب دیتے وقت وہ یہ کہہ کر نہ چھوٹ جائے گی کہ میرا دین میرے مردوں سے پوچھو۔ اپنے طریق زندگی کی وہ خود ذمہ دار ہے، اور اسے خدا کے سامنے اس بات کی جواب دہی کرنی ہوگی کہ وہ جس طریقے پر چلتی رہی کیا سوچ کر چلتی رہی؟
لہٰذا، ہم یہ سوال خود عورتوں کے سامنے پیش کرتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ اپنی راہ زندگی کا فیصلہ تم خود کرو، اور اس امر کا لحاظ کیے بغیر کرو کہ تمھارے مردوں کا فیصلہ کیا ہے۔ اسلام تمھیں اپنے دین کی حیثیت سے پسند ہے یا نہیں؟ اس کے اصول، اس کے حدود، اس کی عائد کی ہوئی پابندیاں، اس کی ڈالی ہوئی ذمہ داریاں، غرض ساری ہی چیزیں دیکھ کر فیصلہ کرو کہ وہ تمھیں قبول ہے یا نہیں؟ اگر ان سب چیزوں کے ساتھ اسلام قبول ہے تو سچے دل سے اس کی پیروی کرو، ادھورے نہیں بلکہ پورے اسلام کو اپنا دین بناؤ اور پھر جان بوجھ کر اس سے انحراف نہ کرو۔
اور اگر قبول نہیں ہے تو صاف صاف اور علانیہ اسے چھوڑ دو اور اس کے نام سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش نہ کرو۔
ہم نے ہمیشہ اپنے ساتھیوں اور رفیقوں سے یہی کہا ہے کہ آپ گھر کی عورتوں، ماؤں، بہنوں، بیویوں، بیٹیوں پر اسلام کی تبلیغ ضرور کریں، مگر خدا کے لیے انھیں قوامیت کے زور سے اپنے مسلک کی طرف نہ کھینچیں، انھیں سوچنے کی، رائے قائم کرنے کی پوری آزادی دیں۔ تبلیغ کا حق بس اتنا ہی ہے کہ آپ اسلام کے مطالبے کو ان کے سامنے رکھیں۔ اس کے بعد عورتوں کو اس امر کا فیصلہ خود کرنے کی آزادی ہونی چاہیے کہ انھیں یہ مطالبہ قبول ہے یا نہیں۔
اس طرح سوچ سمجھ کر جو خواتین بطور خود اسلام کو اپنا دین بنائیں، ان کے کرنے کے کام یہ ہیں:
اسلامی سانچے میں ڈھل جائیے
آپ کا پہلا کام یہ ہے کہ اپنی زندگی کو اسلام کے سانچے میں ڈھالیں، اور اپنے اندر سے جاہلیت کی ایک ایک چیز کو چن چن کر نکالیں۔ اپنے اندر یہ تمیز پیدا کریں کہ کیا چیزیں اسلام کی ہیں اور کیا چیزیں جاہلیت کی ہیں۔ پھر اپنی زندگی کا جائزہ لیں اور بے لوث محاسبہ کر کے دیکھیں کہ اس میں جاہلیت کا تو کوئی اثر نہیں پایا جاتا۔ ایسے جو اثرات بھی ہیں ان سے اپنی زندگی کو پاک کیجیے اور اپنے خیالات کو، اپنی معاشرت کو، اپنے اخلاق کو اور اپنے پورے طرز عمل کو دین کے تابع کر دیجیے۔
گھر سے جہالت نکالیے
آپ کا دوسرا کام یہ ہے کہ گھر کی فضا کو درست کریں۔ اس فضا میں پرانی جاہلیت کی جو رسمیں چلی آرہی ہیں، ان کو بھی نکال باہر کریں اور نئے زمانے کی جاہلیت کے جو اثرات انگریزی دور میں ہمارے گھروں میں داخل ہو گئے ہیں انھیں بھی خانہ بدر کریں۔ اس وقت ہمارے گھروں میں پرانے زمانے کی جاہلیت اور نئے زمانے کی جاہلیت کا ایک عجیب مرکب رائج ہے۔ ایک طرف تو وہ ”روشن خیالی“ ہے، جو ہماری مسلمان خواتین کو فرنگیت زدہ شکل میں لا رہی ہے، اور دوسری طرف اسی روشن خیالی کے ساتھ ساتھ پرانے زمانے کے جاہلانہ تخیلات، مشرکانہ عقیدے اور غیر اسلامی رسمیں بھی ہماری معاشرت میں برقرار ہیں۔
اب جن خواتین کو اپنے ایمانی فرائض کا احساس ہو جائے، ان کا کام یہ ہے کہ پرانی جاہلیت کی رسموں اور تصورات کو بھی چن چن کر گھروں سے نکالیں اور نئے زمانے کی جاہلیت کے ان مظاہر کا بھی خاتمہ کریں، جو فرنگی تعلیم اور انگریزی تہذیب کی اندھی تقلید کی بدولت گھروں میں گھس آئے ہیں۔
گھر میں قرآن لائیے
آپ کا تیسرا کام یہ ہے کہ اپنے بچوں کو اسلامی طرز پر تربیت دیں۔ ہماری نئی نسلیں اس لحاظ سے بڑی بدقسمت ہیں کہ گھروں کے اندر کبھی قرآن کی آواز ان کے کانوں میں نہیں پڑتی، اور نہ وہ اپنی آنکھوں سے گھر کے لوگوں کو کبھی نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہیں۔
ہم اس لحاظ سے خوش قسمت تھے کہ بچپن میں ہم اپنے گھروں میں قرآن کی آواز سنتے تھے اور اپنے بڑوں کو نماز پڑھتے دیکھتے تھے۔ ہمارے گرد و پیش بہر حال کچھ نہ کچھ آثار دین باقی تھے۔ لیکن موجودہ نسل کی یہ بدقسمتی انتہا کو پہنچ گئی ہے کہ گھروں کی جس فضا میں وہ پرورش پا رہی ہے، اس میں نہ قرآن کی آواز کبھی گونجتی ہے، نہ نماز کا منظر کبھی سامنے آتا ہے۔ اگر ہمارے گھروں کا یہی حال رہا اور نسلیں اسی طرح غلط تربیت حاصل کرتی رہیں، تو جب زندگی کی باگ ڈور ان کے ہاتھوں میں آئے گی، اس وقت شاید اسلام کا نام بھی باقی نہ رہ سکے گا۔
آپ اس صورت حال کو ختم کریں اور اس فکر میں لگ جائیں کہ گھروں کی معاشرت میں، روز مرہ کے رہن سہن میں، زندگی کے مختلف معمولات میں اسلام نمودار ہو، اور وہ ہمارے بچوں کو آنکھوں کے سامنے چلتا پھرتا نظر آئے۔ بچے اسے دیکھیں، اس کا مزہ چکھیں اور اس سے اثر قبول کریں۔ ان کے کانوں میں بار بار قرآن کی آواز پڑے۔ وہ دن میں پانچ مرتبہ گھر میں نماز کا منظر دیکھیں۔ پھر وہ اپنی فطرت کے تحت اپنے بڑوں کی تقلید کریں، اور انھیں نماز پڑھتا دیکھ کر خود بخود ان کی نقل اتاریں۔ وہ توحید کا پیغام سنیں، وہ عبادت کا مدعا سمجھیں، اسلام کا نقش ان کے دلوں پر قائم ہو، ان کی عادات درست ہوں، ان کے اندر اسلامی ذوق پیدا ہو۔ نئی نسل کے لیے یہ سب کچھ ہمیں درکار ہے۔
پس وہ تمام عورتیں جو اسلام کو قبول کریں انھیں چاہیے کہ اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے اپنی گودوں اور اپنے گھروں کو مسلمان بنائیں، تاکہ ان میں ایک مسلمان نسل پروان چڑھ سکے۔
گھر کے مردوں پر اثر ڈالیے
آپ کا چوتھا کام یہ ہے کہ اپنے گھر کے مردوں پر اثر ڈالیں اور اپنے شوہروں، باپوں، بھائیوں اور بیٹوں کو اسلام کی زندگی کی طرف بلائیں۔ عورتوں کو نہ معلوم یہ غلط فہمی کہاں سے ہو گئی ہے کہ وہ مردوں کو متاثر نہیں کر سکتیں۔ حالاں کہ واقعہ یہ ہے کہ عورتیں مردوں پر بہت گہرے اثرات ڈال سکتی ہیں۔ مسلمان لڑکی اگر یہ کہنے لگے کہ اس کو محمد ﷺ اور ابو بکرؓ کی شکل پسند ہے، اور چرچل [ٹونی بلیر] اور ٹرومین [جارج بش] کی شکل پسند نہیں ہے، تو آپ دیکھیں گی کہ کسی طرح مسلمان نوجوانوں کی شکلیں بدلنی شروع ہو جائیں گی۔ مسلمان عورت اگر کہنے لگے کہ اسے کالے ”صاحب لوگوں“ کا طرز زندگی مرغوب نہیں ہے، بلکہ اسے اسلامی زندگی مرغوب ہے، جس میں نماز ہو، روزہ ہو، پرہیزگاری اور حسنِ اخلاق ہو، خدا کا خوف اور اسلامی آداب و تہذیب کا لحاظ ہو، تو آپ کی آنکھوں کے سامنے مردوں کی زندگیاں بدلنے لگیں گی۔
مسلمان بیوی اگر صاف صاف کہہ دے کہ اسے حرام کی کمائی سے سجائے ہوئے ڈرائنگ روم پسند نہیں ہیں، رشوت کے روپے سے عیش و عشرت کی زندگی بسر کرنا گوارا نہیں ہے، بلکہ وہ حلال کی محدود کمائی میں روکھی سوکھی روٹی کھا کر جھونپڑے میں رہنا زیادہ عزیز رکھتی ہے، تو حرام خوری کے بہت سے اسباب ختم ہو جائیں گے اور کتنی ہی رائج الوقت خرابیوں کا ازالہ ہو جائے گا۔
اسی طرح اگر وہ تمام بہنیں، جنھوں نے اسلام کو اپنے لیے دین تسلیم کر لیا ہے، اصلاح احوال کی مہم شروع کر دیں تو وہ اپنے اعزہ و اقربا، اپنے خاندان کے لوگوں اور اپنے میل ملاپ رکھنے والے گھرانوں کو بھی بہت سی خرابیوں سے بچا سکتی ہیں اور انھیں نئی اور پرانی جاہلیتوں سے پاک کر سکتی ہیں۔ آپ کا فرض ہے کہ آپ شیریں طریقے سے اپنے عزیزوں اور ملنے جلنے والوں کے سامنے جاہلیت کے طریقوں پر تنقید کریں، انھیں اسلام کے احکام سمجھائیں، ان کو اسلام کے حدود سے آگاہ کریں اور خود بھی اسلامی حدود کی پابندی کر کے اپنا صحیح نمونہ ان کے سامنے پیش کریں۔ یوں اگر کام کیا جائے تو ہماری سوسائٹی کا پورا ڈھانچا درست ہو سکتا ہے۔
غلط راستے پر چلنے سے انکار کیجیے
اب اگر آپ نے اسلام فی الواقع اپنے لیے پسند کر لیا ہے تو آپ کے سامنے یہ سوال دوٹوک فیصلے کے لیے آن کھڑا ہو گا، کہ آیا آپ جاہلیت کی پیروی اور اسلام سے بغاوت میں اپنے غلط کار مردوں کی رفاقت کرنے کے لیے آمادہ ہیں یا نہیں؟ اگر آپ نے واقعی اسلام کو پسند کر لیا ہے، تو پھر آپ کو اس سوال کا جواب لازماً نفی میں دینا ہو گا۔ آپ کے لیے یہ ہرگز مناسب نہ ہو گا کہ دوسروں کی دنیا بنانے کے لیے آپ خود اپنی عاقبت خراب کر لیں۔
ان شر الناس منزلة یوم القیامۃ عبد اذهب اخرته لدنیا غیره
قیامت کے روز بدترین حال اس شخص کا ہو گا جس نے دوسرے کی دنیا بنانے کی خاطر اپنی عاقبت خراب کر لی۔
لہٰذا، آپ اپنے مردوں کی دنیا بنانے کی خاطر اپنی عاقبت خراب کرنے پر ہرگز آمادہ نہ ہوں۔ مسلمان خاتون ہونے کی حیثیت سے آپ شوہر، باپ، بھائی اور بیٹے، ہر ایک پر یہ واضح کر دیں کہ ہم اسلام کے اتباع میں آپ کی رفاقت کر سکتی ہیں، لیکن اگر آپ کو اسلام کے حدود کی پابندی گوارا نہیں ہے تو آپ جانیں اور آپ کا کام، ہم آپ کا ساتھ نہیں دے سکتیں۔ آپ کی دنیا کے لیے اپنی آخرت بگاڑنے پر ہم تیار نہیں ہیں۔
اسلام کے راستے پر ساتھ دیجیے
دوسری طرف جن خواتین کے شوہر، باپ، بھائی اور بیٹے خدا اور رسول کی پیروی کرنے والے ہوں، ان کا کام یہ ہے کہ وہ ان کے ساتھ پورا تعاون کریں اور تکلیفوں میں ان کا ساتھ دیں۔
ظاہر بات ہے کہ جو شخص اسلام کی حدود کے اندر رہنے کا فیصلہ کرے گا، وہ دولت کے کمانے میں ہر طرح کے مال پر ہاتھ نہیں مار سکتا۔ وہ حرام خوری نہیں کر سکتا، وہ حلال طریقوں سے محدود کمائی کر کے عیاشی کے سامان فراہم نہیں کر سکتا۔ پس مسلمان خاتون کو حلال کی تھوڑی کمائی پر قناعت کرنی چاہیے۔ اسلام پر چلنے والے باپوں، شوہروں، بھائیوں، اور بیٹوں پر دباؤ نہیں ڈالنا چاہیے کہ وہ ان کے لیے عیش و عشرت اور لطف و لذت کے سامان فراہم کریں۔ اسی طرح دینِ حق کی اطاعت اور اس کو قائم کرنے کی کوشش میں مردوں کو بہت سی تکلیفوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے، اور مسلمان خواتین کا فرض ہے کہ ان تکالیف میں اپنے حق پرست مردوں کی سچی رفیق ثابت ہوں۔
نازک وقت کا تقاضا؟
ہمارے سامنے ایک بہت بڑے کام کا پروگرام ہے۔ ہمیں پاکستان میں اسلام کی حکومت قائم کرنا ہے، اور یہ کام بہت بڑی جدوجہد کا مطالبہ کرتا ہے۔ یہاں کے باشندوں کو یہ طے کرنا ہے کہ وہ اپنے لیے کس طریق زندگی کو، کس اصول اخلاق کو اور کس نظام حکومت کو پسند کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں آپ دیکھیں گی کہ اس ملک میں ایک کشمکش برپا ہے۔
ایک طرف وہ نام نہاد مدعیانِ اسلام ہیں، جن کو صرف اسلام کا نام باپ دادا سے ورثے میں ملا ہے، لیکن اس کو طریق زندگی کی حیثیت سے انھوں نے نہ قبول کیا ہے اور نہ قبول کرنے پر تیار ہیں۔ اسلام کے نام پر جو حقوق حاصل ہو سکتے ہیں انھیں تو وہ حاصل کرنا چاہتے ہیں، لیکن جن پابندیوں کا اسلام مطالبہ کرتا ہے، ان سے وہ خود بھی آزاد رہنا چاہتے ہیں اور ملک کو بھی آزاد رکھنا چاہتے ہیں۔ یہ لوگ مسلمانوں کے اوپر کافرانہ حکومت قائم رکھنے اور کافرانہ قوانین جاری رکھنے کے ارادے رکھتے ہیں۔
دوسری طرف ان کے مقابلے میں وہ سب لوگ ہیں، جو اسلام کو اپنے طریق زندگی کی حیثیت سے پسند کرتے ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ اس ملک میں اسلام کی حکومت ہو اور اسلام کا قانون جاری ہو۔
ان دونوں طاقتوں کے درمیان برپا کشمکش کے دوران جس طرح مردوں کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ اسلام نما کفر کا ساتھ دیں گے یا حقیقی اسلام کی حمایت کریں گے، اسی طرح مسلمان خواتین کو بھی یہ طے کرنا ہو گا کہ وہ اپنا وزن کسی پلڑے میں ڈالیں گی۔ نہیں کہا جا سکتا کہ اس کشمکش میں کیا کیا صورتیں پیش آئیں؟ بہر حال بہنوں اور ماؤں سے میں درخواست کروں گا کہ اپنے مستقبل کے طرز عمل کا سوچ سمجھ کر فیصلہ کریں۔ اگر وہ اسلام کو دل سے چاہتی ہیں تو انھیں اس کشمکش میں اپنا پورا وزن حقیقی اسلام کے پلڑے میں ڈالنا ہوگا۔
حکومت اور عوامی رائے کی اہمیت
یہ دور چونکہ جمہوریت کا دور ہے، اس لیے حکومت کے مسلک کا انحصار عوام کی رائے پر ہے۔ حکومت کے اختیارات عوام کے دیے ہوئے اختیارات ہیں۔ پس حکومت اس وقت تک مسلمان نہیں ہو سکتی جب تک ہمارے عوام واقعی مسلم نہ ہوں۔ عام لوگ اگر اسلام کا کلمہ نہ پڑھیں اور خدا کو اپنا حاکم و مالک نہ مانیں اور اسلام کو خود اپنے طریق زندگی کی حیثیت سے قبول نہ کریں تو یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ حکومت کلمہ پڑھ دے اور خدا کو حاکم مان کر اس کے دین کی پابند ہو جائے۔
ہم چاہتے ہیں کہ عوام جو مسلمان ہونے پر فخر کرتے ہیں، اب جان بوجھ کر کلمہ پڑھیں اور نظام اسلامی کا اپنی زندگی کے لیے بہ رضا و رغبت انتخاب کریں۔ جب وہ یوں کلمہ پڑھ کر اسلام کو اختیار کر لیں گے، تو ان کی رائے سے جو حکومت بنے گی وہ حکومت کلمہ گو حکومت ہو گی اور خدا کے آگے جھکنے والی اور اس کے قانون کو جاری کرنے والی بھی ہو گی۔
خواتین کے حقوق اور اسلام
اسلامی حکومت کے متعلق عام طور پر یہ غلط فہمیاں پھیلائی جارہی ہیں کہ اگر کہیں اسلامی حکومت قائم ہو گئی تو ایک بڑا تاریک دور ملک پر مسلط ہو جائے گا اور قوم کی ساری ترقی رک جائے گی، خصوصیت سے یہ چیز بھی کہی جاتی ہے کہ اسلامی نظام میں عورتوں کی پوزیشن گر جائے گی۔ حالاں کہ واقعہ یہ ہے کہ اگر یہاں اسلامی حکومت قائم ہو گئی، تو وہ عورتوں کے لیے بھی ویسی ہی بابرکت ثابت ہو گی، جیسی مردوں کے لیے ہے۔ میں مختصر طور پر بتانا چاہتا ہوں کہ اسلامی حکومت میں خواتین کی کیا پوزیشن ہو گی:
-
عورت کی رائے اور مستقل شخصیت
اسلام، موجودہ زمانے کی جمہوریت سے سیکڑوں برس پہلے عورتوں کے حق رائے دہی کو تسلیم کر چکا ہے۔ یہ اُس دور کی بات ہے، جب عورت کی مستقل شخصیت ہی سے انکار کیا جاتا تھا، اور کہا جاتا تھا کہ عورت اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ شیطان کی ایک ایجنٹ ہے۔ ایسے تاریک دور میں اسلام نے سب سے پہلے عورت کی شخصیت کا اثبات کیا اور اُسے اجتماعی معاملات میں رائے دینے کا حق بخشا۔ اسلامی حکومت میں ہر بالغ عورت کو ووٹ کا حق اسی طرح حاصل ہے جس طرح ہر بالغ مرد کو یہ حق حاصل ہے۔
-
عورت کی وراثت اور ملکیت
اسلام عورتوں کو وراثت اور مال و جائداد کی ملکیت کے پورے پورے حقوق دیتا ہے۔ ان کو اختیار ہے کہ وہ اپنی ملکیت کو صنعت و حرفت میں لگائیں اور اس سے جو نفع ہو، اس کی بلا شرکت غیرے مالک ہوں۔ بلکہ اگر ان کے پاس وقت بچتا ہو تو ان کو اس کا بھی حق ہے کہ بطور خود کوئی کاروبار، کوئی محنت کریں اور اس کی آمدنی کی ملکیت پوری طرح انھیں حاصل ہو۔ ان کے شوہروں اور باپوں کو ان کے املاک پر کسی قسم کے اختیارات حاصل نہیں ہیں۔
-
عورت کے حقوق کی حفاظت
اسلامی حکومت میں یہ ناقص ازدواجی قانون جو انگریزی دور سے یہاں رائج ہے اور جس نے بہت سی مسلمان عورتوں کے لیے دنیا کی زندگی کو دوزخ کی زندگی بنا رکھا ہے، بدل دیا جائے گا اور اسلام کا حقیقی قانون ازدواج جاری کیا جائے گا، جو عورتوں کے حقوق و مفاد کی پوری پوری حفاظت کرتا ہے۔ میری کتاب ”حقوق الزوجین“ میں آپ پر واضح ہو گا کہ مردوں اور عورتوں، دونوں کے جملہ حقوق و مفاد کی حفاظت اسلام کے قانون کے سوا اور کسی قانون میں نہیں ہے۔ اسلام کی حکومت میں ایسا ازدواجی قانون نافذ ہو گا، جو آپ کی ساری شکایات ختم کر دے گا۔
-
عورتوں کی اعلیٰ اور معیاری تعلیم
اسلامی حکومت میں عورتوں کو تعلیم سے محروم نہیں رکھا جائے گا، جیسا کہ غلط فہمیاں پھیلانے والے لوگوں نے مشہور کر رکھا ہے، بلکہ ان کے لیے اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم کا انتظام کیا جائے گا۔ اس میں اسلامی حدود کی پابندی کی جائے گی۔ مگر بہر صورت ہر شعبے میں اُونچے معیار کی زنانہ تعلیم کے انتظامات ضرور کیے جائیں گے۔
-
عورت اور فوجی تربیت
ہم مسلمان عورتوں کو ضروری فوجی تعلیم دینے کا بھی انتظام کریں گے، اور یہ بھی ان شاء اللہ اسلامی حدود کو باقی رکھتے ہوئے ہو گا۔ میں بارہا اپنے رفقا سے کہہ چکا ہوں کہ اب قومیت کی لڑائیاں حد سے بڑھ چکی ہیں اور انسان درندگی کی بدتر سے بدتر شکلیں اختیار کر رہا ہے۔ ہمارا سابقہ ایسی ظالم طاقتوں سے ہے، جنھیں انسانیت کی کسی حد کو بھی پھاند جانے میں تامل نہیں ہے۔ کل اگر خدانخواستہ کوئی جنگ پیش آ جائے تو نہ معلوم کیا کیا درندگی اور وحشت ان سے صادر ہو۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ ہم اپنی عورتوں کو مدافعت کے لیے تیار کریں اور ہر مسلمان عورت اپنی جان و مال اور آبرو کی حفاظت کرنے پر قادر ہو۔ انھیں اسلحہ کا استعمال سیکھنا چاہیے، وہ سواری کر سکتی ہوں، سائیکل اور موٹر چلا سکیں، فسٹ ایڈ [ابتدائی طبی امداد] جانتی ہوں، پھر صرف اپنی ذاتی حفاظت ہی کی تیاری نہ کریں، بلکہ ضرورت ہو تو جنگ میں مردوں کا ہاتھ بٹا سکیں۔
ہم یہ سب کچھ کرنا چاہتے ہیں، لیکن اسلامی حدود کے اندر اندر کرنا چاہتے ہیں، ان حدود کو توڑ کر نہیں کرنا چاہتے۔ قدیم زمانے میں بھی مسلمان عورتوں نے اسلحے کے استعمال اور مدافعت کے فنون کی تربیت حاصل کی تھی لیکن انھوں نے پورے فنون سپہ گری اپنے باپوں، بھائیوں اور شوہروں سے سیکھے تھے، اور پھر عورتوں نے عورتوں کو تربیت دی تھی۔ اب بھی یہ صورت بآسانی اختیار کی جا سکتی ہے کہ فوجی لوگوں کو اپنی محرم خواتین کی تربیت پر مامور کیا جائے اور پھر جب عورتیں کافی تعداد میں تیار ہو جائیں تو ان کو دوسری عورتوں کے لیے معلم بنا دیا جائے۔
یہ چند امور میں نے مثال کے طور پر بیان کیے ہیں۔ جن سے آپ اندازہ کر سکتی ہیں کہ اسلامی حکومت میں عورت کو محض گڑیا بنا کر نہیں رکھا جائے گا، جیسا کہ بعض نادانوں کا گمان ہے بلکہ اسے زیادہ سے زیادہ ترقی کا موقع دیا جائے گا۔
مغربی تہذیب اور اسلامی تہذیب کا فرق
بہر حال یہ ضرور سمجھ لیجیے کہ ہم عورت کو عورت ہی رکھ کر عزت کا مقام دینا چاہتے ہیں، اسے مرد بنانا نہیں چاہتے۔ ہماری تہذیب اور مغربی تہذیب میں فرق یہی ہے کہ مغربی تہذیب عورت کو اس وقت تک کوئی عزت اور کسی قسم کے حقوق نہیں دیتی جب تک وہ ایک مصنوعی مرد بن کر مردوں کی ذمہ داریاں اٹھانے کے لیے تیار نہ ہو جائے۔ مگر ہماری تہذیب عورت کو ساری عزتیں اور تمام حقوق عورت ہی رکھ کر دیتی ہے، اور تمدن کی انہی ذمہ داریوں کا بار اس پر ڈالتی ہے جو فطرت نے اس کے سپرد کی ہیں۔ اس معاملے میں ہم اپنی تہذیب کو موجودہ مغربی تہذیب سے بدرجہا زیادہ افضل اور اشرف سمجھتے ہیں، اور نہایت مضبوط دلائل کی بنا پر یہ یقین رکھتے ہیں کہ ہماری تہذیب کے اصول صحیح اور معقول ہیں۔ اس لیے کوئی وجہ نہیں کہ صحیح اور پاکیزہ چیز کو چھوڑ کر ہم غلط اور گندی چیز کو قبول کریں۔
موجودہ زمانے کی مخلوط سوسائٹی سے ہمارا اختلاف کسی تعصب یا اندھی مخالفت کا نتیجہ نہیں۔ ہم پوری بصیرت کے ساتھ اپنی اور آپ کی اور پوری انسانیت کی اور تہذیب و تمدن کی فلاح و بہبود اسی میں دیکھتے ہیں کہ اس تباہ کن طرز معاشرت سے اجتناب کیا جائے۔ ہمیں صرف عقلی دلائل ہی سے اس کے غلط ہونے کا یقین نہیں ہے بلکہ تجربے سے اس کے نتائج جو ظاہر ہو چکے ہیں، اور دنیا کی دوسری قوموں کے اخلاق و تمدن پر اس کے جو اثرات مرتب ہو چکے ہیں، ان کو بھی ہم جانتے ہیں۔
اس لیے ہم نہیں چاہتے کہ ہماری قوم اس تباہی کے گڑھے میں گرے، جس کی طرف ہمارے مغرب زدہ اونچے طبقے اسے دھکیلنا چاہتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے اخلاق کھو چکے ہیں اور اب ساری قوم کے اخلاق برباد کرنے کے درپے ہیں۔ اس کے برعکس ہماری کوشش یہ ہے کہ ہماری قوم اور ہمارا ملک جو کچھ بھی ترقی کرے، اسلامی اخلاق کے دائرے میں رہ کر کرے۔ مگر اپنی اس کوشش میں ہم اسی وقت کامیاب ہو سکتے ہیں، جب ہمارے بھائیوں کے ساتھ ہماری بہنوں کی مجموعی طاقت بھی ہماری تائید پر ہو۔
پورا اسلام یا .....؟
اب یہ فیصلہ کرنا آپ کا کام ہے کہ آپ فرنگیت [مغربی زندگی] چاہتی ہیں یا اسلام؟ ان دونوں میں سے ایک ہی کا آپ کو انتخاب کرنا ہو گا۔ دونوں کو خلط ملط کرنے کا آپ کو حق نہیں ہے۔ اسلام چاہتی ہوں تو پورے اسلام کو لینا ہو گا، اور اپنی پوری زندگی پر اسے حکمران بنانا ہو گا۔ کیونکہ وہ تو صاف کہتا ہے:
ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً
(البقرہ ۲ : ۲۰۸)
تم پورے کے پورے اسلام کے اندر آ جاؤ اور اپنی زندگی کا کوئی ذرا سا حصہ بھی اللہ کی اطاعت سے مستثنیٰ نہ رکھو۔ آدھا اسلام اور آدھا کفر نہ دنیا ہی میں کسی کام کی چیز ہے اور نہ آخرت ہی میں اس کے مفید ہونے کا کوئی امکان ہے اور اس مرکب پر اسلام کا لیبل ایک جھوٹ بھی ہے۔
عورتوں کی مساوات: مغرب اور اسلام
جماعت اسلامی کے متعلق یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ”یہ عورتوں کو برابر کا مقام دینے کے بجائے اسے محض مرد کی تابع مہمل بنا کر رکھنا چاہتی ہے۔“ اس کا جواب یہ ہے کہ جماعت اسلامی عورتوں کو ٹھیک وہی حیثیت دینا چاہتی ہے جو اسلام دینا چاہتا ہے۔ اگر اللہ اور اس کے رسول کے متعلق کسی شخص کا یہ خیال ہو کہ انھوں نے عورتوں کے ساتھ (نعوذ بالله) بے انصافی کی ہے اور انصاف تو اہلِ مغرب نے کیا ہے، ایسے شخص کو پہلے اپنے ایمان پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔
آپ کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اہلِ مغرب نے عورت کو برابری کا جو مقام دیا ہے، اسے عورت رکھ کر نہیں دیا بلکہ اس کو نیم مرد بنا کر دیا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ عورت وہ تمام کام بھی کرے جو مرد کرتا ہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ مرد وہ سارے کام نہیں کر سکتا جو عورت کرتی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ دراصل وہ یہ چاہتے ہیں کہ عورت اپنے وہ فرائض بھی انجام دے جو فطرت نے اس پر ڈالے ہیں، جن کو مرد انجام دے ہی نہیں سکتا، اور اس کے ساتھ وہ اُن فرائض کے سنبھالنے میں بھی مرد کے ساتھ آکر برابر کا حصہ لے جو فطرت نے مرد کے اوپر ڈالے ہیں۔ گویا وہ عورت پر تو ڈیڑھ گنا بار ڈالنا چاہتے ہیں اور مرد پر آدھا بار۔ اس کا نام انھوں نے رکھا ہے عورتوں [اور مردوں] کی مساوات۔
عورتوں نے دھوکا کھا کر جب مردوں کے ساتھ برابری کا دعویٰ کیا تو اس کے بعد اب مغرب میں "ladies first" (پہلے خواتین) کا قصہ بھی ختم ہو چکا ہے۔ میں نے خود انگلستان میں سفر کے دوران دیکھا ہے کہ عورتیں کھڑی ہوتی ہیں اور مرد پروا تک نہیں کرتے۔
حالاں کہ ہمارے ہاں ابھی تک مردوں میں یہ بات ہے کہ اگر [ٹرین یا بس میں] کوئی عورت کھڑی ہو تو مرد اٹھ جائے گا اور اس سے کہے گا کہ آپ تشریف رکھیے۔ لیکن وہاں اب وہ کہتے ہیں کہ تم برابر کی ہو۔ تمھیں پہلے بیٹھنے کا موقع مل گیا تو تم بیٹھ جاؤ، ہمیں موقع مل گیا تو ہم بیٹھ گئے۔ اب عورتیں دھکے کھاتی پھرتی ہیں اور کوئی ان کو پوچھتا تک نہیں، الا یہ کہ پوچھنے کی کوئی خاص وجہ ہو۔
اس وقت [۱۹۷۰ء تک بھی] مغربی ممالک میں مرد اور عورت ایک ہی قسم کے جو کام کرتے ہیں ان کا معاوضہ دونوں کو برابر نہیں دیا جا رہا ہے اور اس پر عورتیں شور مچا رہی ہیں۔ پھر جن میدانوں میں عورتوں اور مردوں کو برابر لا کر کھڑا کر دیا گیا ہے، ان میں چوں کہ اللہ تعالیٰ نے فطرتاً عورت کو مرد کے برابر نہیں کیا ہے اس وجہ سے عورت لاکھ کوشش کرے پھر بھی وہ [مشقت اور سخت کوشی کے کاموں میں] مرد کی برابری نہیں کر سکتی۔ اس وقت بھی آپ دیکھیے، مغربی ممالک میں، کہیں بھی ذمہ داری کے اونچے مناصب عورتوں کو نہیں دیے جا رہے بلکہ وہ مردوں ہی کو دیے جاتے ہیں۔ ابھی چند روز پہلے فرانس میں اس سوال پر عام رائے معلوم کی گئی کہ عورتوں کو وزارتیں دی جائیں یا نہیں، اور کثرت رائے نے یہ فیصلہ دیا کہ: ”یہ مناصب ان کو نہیں دینے چاہییں۔“ اصل بات یہ ہے فطرت نے عورت کا جو مقام رکھا ہے، جب آپ اس کو وہاں سے ہٹا کر لائیں گے اور اس مقام پر لاکھڑا کریں گے، جو فطری طور پر اس کا مقام نہیں ہے تو ظاہر بات ہے کہ عورت پیچھے رہ جائے گی اور مرد آگے نکل جائے گا، ایسی ”مساوات“ کبھی قائم ہوئی ہے نہ ہو سکتی ہے۔
اسلام نے جو کچھ کیا ہے وہ یہ ہے کہ عورت کے سپرد وہی فرائض کیے ہیں جو فطرت نے اس کے سپرد کیے ہیں۔ اس پر وہی ذمہ داریاں ڈالی ہیں جو فطرت نے اس پر ڈالی ہیں۔ اس کے بعد اس کو مردوں کے ساتھ بالکل مساویانہ حیثیت دی ہے۔ ان کے حقوق میں کوئی فرق نہیں رکھا ہے۔ ان کے لیے عزت کا وہی مقام رکھا ہے جو مرد کے لیے ہے۔ میں کہتا ہوں کہ مسلمان عورتوں کو اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ وہ اُس معاشرے میں پیدا ہوئی ہیں جس سے بڑھ کر عورتوں کی عزت دنیا کے کسی معاشرے میں نہیں ہے۔
جائیے جا کر امریکا میں دیکھیے عورت کا حال کیا ہے؟ انگلستان میں جا کر دیکھیے عورت کا حال کیا ہو رہا ہے؟ کیسی مصیبت کی زندگی وہ بسر کر رہی ہے؟ باپ کے اوپر اس کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے، بیٹے پر اس کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے، بھائی پر اس کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ خاندان اور رشتہ داروں پر اس کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ ادھر وہ جوان ہوئی، اُدھر اس کا باپ اس کو رخصت کر دیتا ہے کہ ”جاؤ اور خود کما کر کھاؤ۔“ اب اس کے بعد اسے اس سے کچھ بحث نہیں ہے کہ وہ کس طرح سے کما کر کھائے اور کس طرح زندگی بسر کرے۔ مغرب کی عورت اس وقت اس قدر بے کسی اور بے بسی کی زندگی بسر کر رہی ہے کہ اس پر ترس کھانے والا بھی کوئی نہیں ہے۔ وہاں کے رہنے والوں سے پوچھیے کہ وہاں اس کا کیا حال ہو رہا ہے۔
یہاں باپ اپنی بیٹی کی ذمہ داری سے اُس وقت بھی سبکدوش نہیں ہوتا جب تک وہ اس کی شادی نہیں کر دیتا ہے۔ شادی کر دینے کے بعد بھی وہ اس کی اور اس کی اولاد تک کی فکر رکھتا ہے۔ بھائی اپنی بہنوں کے پشت پناہ ہوتے ہیں۔ بیٹے ماؤں کے خدمت گزار ہوتے ہیں۔ (کچھ مثالوں کو چھوڑ کر عموماً) شوہر اپنی بیویوں کو گھر کی ملکہ بنا کر رکھتے ہیں۔
یہاں آپ کو آنکھوں پر بٹھایا جاتا ہے اور آپ کی عزت کی جاتی ہے۔ وہاں بغیر اس کے کہ نیم برہنہ ہو کر مردوں کے سامنے ناچے اس کے لیے عزت کا کوئی مقام نہیں ہے۔ اب اگر ہمارے ملک کی عورتیں اُن حقوق پر قناعت نہیں کرنا چاہتیں جو اسلام ان کو دیتا ہے اور وہی نتائج دیکھنا چاہتی ہیں جو مغربی ممالک میں عورت دیکھ رہی ہے تو انھیں اس کا اختیار ہے۔ مگر یہ سمجھ لیجیے کہ اُس کے بعد پھر پلٹنے کا موقع نہیں ملے گا۔ پھر آپ توبہ بھی کریں گی تو معافی کی امید نہیں ہے۔ ایک معاشرہ جب بگاڑ کے راستے پر چل پڑتا ہے تو اس کی انتہا کو پہنچے بغیر نہیں رہتا اور انتہا کو پہنچنے کے بعد پلٹنا محال ہو جاتا ہے۔
ایک سے زیادہ شادیاں
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ: ”جماعت اگر بر سر اقتدار آ گئی تو یہاں لوگ چار چار شادیاں کریں گے۔“ حیرت ہوتی ہے کہ جو لوگ اسی ملک اور اسی معاشرے میں رہتے ہیں، وہ مغربی پروپیگنڈے سے متاثر ہو کر خود اپنے ہی ملک اور اپنے ہی معاشرے سے اس قدر ناواقف ہیں۔ ذرا آنکھیں کھول کر دیکھیے، آپ کے ملک میں کتنے ایسے لوگ ہیں جنہوں نے چار چار شادیاں کر رکھی ہیں؟ بلکہ دو بیویاں رکھنے والے بھی آخر کتنے ہیں؟ یہ خواہ مخواہ زبردستی کا پروپیگنڈا ہے جو ہمارے ہاں کثرت ازدواج کے بارے میں کیا گیا ہے اور لطیفہ یہ ہے کہ اس میں پیش پیش زیادہ تر وہ خواتین ہیں جو خود اپنے شوہروں کی دوسری بیویاں ہیں۔ پہلی بیویوں کو انھوں نے گاؤں میں بٹھوا رکھا ہے، خود صاحب کے ساتھ پھرتی ہیں، اور کثرتِ ازدواج کے خلاف شور اس لیے مچاتی ہیں کہ صاحب کہیں تیسری نہ کر بیٹھیں، کیوں کہ بے پردہ معاشرے میں ”انتخاب“ کے مواقع بہت بڑھ گئے ہیں۔
جن مغربی قوموں کی تہذیب سے متاثر ہو کر کثرت ازدواج کی مخالفت کی جاتی ہے، ان کے ہاں یک زوجگی (monogamy) کو بطور قانون تو ضرور لازم کر دیا گیا ہے، مگر ان میں ایک فیصد آدمی بھی فی الواقع یک زوج (monogamous) نہیں ہیں۔ جب میں لندن میں بغرض علاج مقیم تھا تو ہسپتال کی ایک نرس نے ایک روز میرے سامنے اسلام کے اِس مسئلہ کثرت ازدواج (polygamy) کا قصہ چھیڑ دیا۔ میں نے اس سے کہا کہ تم قسم کھا کر بتاؤ کہ تمھارے ملک میں واقعی یک زوجگی پائی جاتی ہے؟ میں قانونی یک زوجگی کا ذکر نہیں کر رہا ہوں، وہ تو تمھارے ہاں موجود ہے۔ لیکن یہ بتاؤ کہ کیا عملاً واقعی تمھارے ہاں یک زوجگی پائی جاتی ہے؟“ اس نے کہا: نہیں۔ میں نے کہا: ”پھر بتاؤ کہ تم دوصورتوں میں سے کون سی صورت کو بہتر سمجھتی ہو؟ ایک شکل یہ ہے کہ قانون کی رو سے یک زوجگی ہو مگر غیر قانونی کثرتِ ازدواج خوب زور شور سے چل رہی ہو اور اس غیر قانونی کثرتِ ازدواج میں جتنی عورتوں کے ساتھ بھی ایک مرد کے تعلقات ہوں ان میں سے کسی کا بھی اس پر کوئی حق نہ ہو اور نہ ان کی وجہ سے کوئی ذمہ داریاں اس پر عائد ہوتی ہوں۔ دوسری شکل یہ ہے کہ از روئے قانون آدمی پر یہ پابندی لگا دی جائے کہ اگر وہ ایک سے زیادہ عورتوں سے تعلق رکھنا چاہتا ہو تو اسے ان کے ساتھ باقاعدہ نکاح کرنا ہو گا، ان کی پوری ذمہ داری اٹھانی ہو گی، ان کے درمیان انصاف کرنا ہو گا، اور وہ بیک وقت زیادہ سے زیادہ صرف چار عورتوں سے نکاح کر سکے گا۔ تم خود بتاؤ کہ ان دونوں میں سے کون سی صورت تمھارے نزدیک بہتر ہے؟“ اگر چہ وہ ایک انگریز عورت تھی، مگر اس نے اقرار کیا کہ ”ان دونوں صورتوں میں سے دوسری صورت ہی بہتر ہے۔“
لہٰذا میں اپنی مسلمان بہنوں سے کہتا ہوں کہ جس دین کو آپ نے پایا ہے اس سے زیادہ معقول، منصفانہ اور انسان کی فلاح کا ضامن کوئی دوسرا دین یا نظام زندگی نہیں ہے۔ اس کے اندر اگر مغربی اثرات کے تحت کسی کو کیڑے نظر آتے ہیں تو بہتر یہ ہے کہ وہ کوئی دوسرا دین تلاش کر لے۔ ہمارے دین نے تو واقعی چار شادیاں تک کرنے کی اجازت دی ہے مگر اس کے ساتھ شرط لگا دی ہے کہ سب بیویوں کے ساتھ انصاف کرو۔ اگر یہ نہیں کر سکتے تو پھر ایک ہی عورت پر اکتفا کرو۔
زبردستی پردہ
یہ بات کہی جاتی ہے: ”اس طرح کے اندیشے پائے جاتے ہیں کہ اگر جماعت اسلامی بر سر اقتدار آ گئی تو عورتوں کو پکڑ پکڑ کر زبردستی برقعے پہنائے جائیں گے اور مردوں کو ڈاڑھی رکھنے پر مجبور کیا جائے گا۔ خاص طور پر اونچے طبقوں میں یہ پروپیگنڈا پایا جاتا ہے۔“
اس کے جواب میں سب سے پہلے تو میں ان خواتین کو اطمینان دلاتا ہوں کہ ان شاء اللہ اگر ہمارے ہاتھ میں اختیارات آئے تو کوئی پولیس آپ کو زبردستی برقعے نہیں پہنائے گی۔ اس کے بعد میں اُن سے پوچھتا ہوں کہ پچھلے پچاس سال کے دوران میں برقعہ آپ کے معاشرے سے آخر کس طرح رخصت ہوا ہے؟ کیا کبھی سڑکوں پر کوئی پولیس کھڑی کی گئی تھی جس نے زبردستی آپ کے برقعے اتروائے ہوں؟ اگر ایسا نہیں ہوا بلکہ صرف تعلیم اور مغربی تہذیب کے اثرات اور ماحول کے دباؤ نے آپ سے برقعے اتروائے ہیں۔
تو ان شاء اللہ جب اسلامی تعلیم پھیلے گی، اسلامی تہذیب کو مغربی تہذیب کی جگہ فروغ نصیب ہو گا اور ماحول بدلے گا تو خود ان لباسوں میں پھرتے ہوئے شرم محسوس ہونے لگے گی، جن میں خواتین آج پھر رہی ہیں۔ ابتدائی اسلامی معاشرے میں بھی عورتوں کو مار مار کر پردہ نہیں کرایا گیا تھا بلکہ اللہ اور اس کے رسول کی تعلیمات نے جب عورتوں کے دلوں میں ایمان پیدا کر دیا تو عورتوں کو صرف یہ بتا دینا کافی ہو گیا کہ اللہ اور رسول کو بے حجابی پسند نہیں ہے۔ اس کے بعد انھوں نے خود اپنی خوشی سے پردہ اختیار کر لیا۔
اسی طرح سے ڈاڑھی کا مسئلہ ہے۔ پچھلے ساٹھ ستر سال میں مسلم معاشرے میں جس طرح ڈاڑھی رخصت ہوئی ہے، کیا کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ یہ کسی زبردستی یا قانونی جبر کا نتیجہ تھا؟ یہ سب کچھ تو تعلیم اور تہذیب کے اُن غالب اثرات کی بدولت ہوا جو انگریزی اقتدار کے تحت ہمارے معاشرے پر مسلط ہوئے تھے۔ اسلامی تعلیم اور تہذیب کے اثرات جب غالب ہوں گے تو یہ حالت بھی آپ سے آپ بدل جائے گی۔ جماعت اسلامی نے آج تک اپنے ارکان سے بھی زبردستی ڈاڑھی نہیں رکھوائی ہے۔ جماعت اسلامی میں متعدد ایسے لوگ شامل ہوئے جو پہلے ڈاڑھی نہیں رکھتے تھے۔ جب ان کے دلوں میں یہ تصور پیدا ہو گیا کہ ہم مسلمان ہیں اور مسلمان کا کام اللہ اور اس کے رسول کے احکام کی پابندی کرنا ہے تو ڈاڑھی انھوں نے خود اپنی مرضی سے رکھی، ہم نے زبردستی نہیں رکھوائی۔
جماعت اسلامی اگر آئے گی تو ان شاء اللہ اس ملک کی تعلیم کا نظام بدلے گی، اس ملک کی اخلاقی تربیت کا انتظام کرے گی، اس ملک کے لوگوں کا مذاق اور پسند اور ناپسند کے معیار بدلنے کی کوشش کرے گی۔
گھر غیر پیداواری یونٹ؟
یہ بھی کہنا ہے کہ: ”پردے کی پابندی میں رہ کر عورت جو ہماری آبادی کا نصف حصہ ہے ملک کی ترقی میں معاون بننے کے بجائے الٹی رکاوٹ بنتی ہے۔“ اس کے جواب میں، میں پوچھتا ہوں کہ ملک کی ترقی میں آخر نئی نسلوں کو پرورش کرنا اور ان کو اچھی تربیت دینا بھی شامل ہے یا نہیں؟ وہ ملک کیسے ترقی کر سکتا ہے جس میں بچوں کو اوّل روز سے ماں اور باپ کی محبت نصیب نہ ہو اور پیدا ہوتے ہی وہ کرائے کی پالنے والیوں کے حوالے کر دیے جائیں؟ باپ بھی نوکری پر گیا ہوا ہے اور ماں بھی نوکری پر گئی ہوئی ہے اور بچوں کو وہ ادارے سنبھال رہے ہیں، جن کے کارپرداز بہر حال ماں باپ کی جگہ نہیں لے سکتے۔ ان بچوں کو ابتدا ہی سے محبت کا کوئی تجربہ نہیں ہوتا۔
اور جن بچوں کو بچپن میں ماں باپ کی محبت نصیب نہیں ہوتی وہ حقیقت میں انسان بن کر نہیں اٹھتے۔ آج دنیا میں جو ظلم و ستم اور درندگی ہو رہی ہے اور کم سنی کے جرائم نے معاشرے کے لیے ایک پریشان کن مسئلہ پیدا کر دیا ہے، اس کا سبب یہی ہے کہ اب دنیا کی باگیں ان نسلوں کے ہاتھ میں آ رہی ہیں، جنھوں نے ماں باپ کی محبت نہیں دیکھی ہے۔ یہ بچے جب بڑے ہوتے ہیں تو پھر ماں باپ کو بھی ان سے کوئی محبت نہیں ملتی۔ اور جہاں خون کے رشتوں تک میں محبت نہ ہو وہاں انسانی محبت کا کیا سوال؟ ایسے انسان تو پھر خود غرضی کے پتلے اور آدمیت کے احساسات سے خالی ہی ہوں گے۔
انگلستان کے زمانہ قیام [۱۹۶۸ء] میں مجھے سیکڑوں ایسے پاکستانیوں سے ملنے کا موقع ملا ہے جو برسوں سے وہاں رہتے ہیں۔ وہاں میں نے اُن سے انگریزی معاشرے کے اندرونی حالات معلوم کرنے کی کوشش کی کیوں کہ وہ اس معاشرے کی رگ رگ سے واقف ہو چکے ہیں۔ انھوں نے مجھے بکثرت ایسے واقعات سنائے کہ: ایک بوڑھی ماں ایک کمرے میں رہتی ہے اور بڑھاپے کی پینشن پر گزار بسر کر رہی ہے۔ بیٹے اور بیٹیاں سب خوش حال ہیں، لیکن اس بڑھیا کا پرسانِ حال کوئی نہیں ہے۔ بڑھیا مر گئی ہے مگر کسی کو پتا نہیں ہے۔ دو تین روز تک جب اس کے دروازے سے دودھ کی بوتل نہیں اٹھائی گئی تو دودھ والے نے پولیس کو رپورٹ کی کہ فلاں مکان کے دروازے سے دودھ کی بوتلیں نہیں اٹھی ہیں۔ تب جا کر پولیس نے دروازہ توڑا اور معلوم ہوا کہ تین روز سے اس بڑھیا کی لاش سڑ رہی ہے۔ یہ ان عورتوں کا حال ہے جن کے بیٹے اور بیٹیاں اچھے اچھے منصبوں پر فائز ہیں۔
جو لوگ برسوں سے وہاں رہتے ہیں، وہ وہاں کے حالات سناتے ہیں۔ ان سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ خاندانی تعلق کا وہاں خاتمہ ہو چکا ہے۔ باپ کا بیٹے سے، بیٹی کا ماں سے اور بھائی کا بھائی سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ سب کچھ اسی چیز کا نتیجہ ہے کہ ملک کی ترقی کا مفہوم صرف معاشی پیداوار کی ترقی سمجھ لیا گیا ہے۔ اس کے لیے عورتوں اور مردوں، سب کو لا کر معاشی میدان میں کھڑا کر دیا گیا اور خاندانی نظام کے برباد ہونے کی کوئی پروا نہیں کی گئی۔ حالاں کہ ترقی صرف معاشی پیداوار بڑھانے کا نام نہیں ہے۔ اگر عورتیں گھروں میں نئی نسل کو تربیت دیں، انسانیت سکھائیں، ان کے اندر اعلیٰ اخلاق اور خدا ترسی پیدا کرنے کی کوشش کریں تو یہ بھی ترقی ہی کا ایک اہم ذریعہ ہے۔
ملک کی ترقی کا صرف یہی ایک ذریعہ نہیں ہے کہ مرد بھی کارخانوں میں جا کر کام کریں اور عورتیں بھی کارخانوں میں کام کریں۔ ترقی کا یہ بھی ایک بڑا ذریعہ ہے کہ گھروں میں بچوں کو انسانیت کی تربیت دے کر تیار کیا جائے تاکہ وہ دنیا میں انسانیت کے رہنما بننے کے قابل بنیں، چرندے اور درندے بن کر نہ اٹھیں۔