خطبات یورپ سید ابو الاعلىٰ مودودی

خطبات یورپ

سید ابو الاعلىٰ مودودی


دیباچہ

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ

مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نابغہ روزگار ہستی ہیں۔ ان کی زندگی کا مشن دعوت اسلامی اور اس کی توضیح و تشریح و توسیع ہے۔ وہ جہاں بھی ہوں ان کا اوڑھنا بچھونا اسلامی دعوت کا فروغ ہے۔

خطبات یورپ مولانا مودودی کی وہ تقاریر ہیں جو انھوں نے برطانیہ اور امریکہ کے سفروں میں مختلف دینی اجتماعات میں کیں۔ ان میں مجالس سوالات و جوابات کی رو دادیں بھی شامل ہیں جو مغرب میں اسلام کے بارے میں الجھنوں کی عقدہ کشائی کرتی ہیں۔ بعض تقاریر میں مولانا محترم نے برطانیہ میں اسلام کو درپیش مزاحمتوں اور مسلمانوں کو درپیش مشکلات کے مسائل پر بحث کی اور ان کا حل پیش کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کو اپنی دعوت و توسیع کے لیے جو مسائل درپیش ہیں ان میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس کی تعلیمات کچھ اور ہیں اور اسے ماننے والوں کا عمل اس سے بالکل مختلف ہے۔ اس سے اسلام کو سمجھنے میں رکاوٹیں پیش آئی ہیں، اس کی تعلیمات کے بارے میں غلط فہمیاں پیدا ہوئی ہیں اور غیر مسلموں کو اسے قبول کرنے میں شرح صدر حاصل نہیں ہوئی۔

پھر جو اسلام کی معاشرتی تعلیمات ہیں ان میں سے بیشتر کو اپنی مغربی تہذیب سے مختلف پاکر مغرب کے باشندوں کے ذہن میں شبہات سے زیادہ سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ لیکن ان سوالات کا تشفی بخش جواب دینے والا اور ہر قسم کی ذہنی مرعوبیت سے بالا تر ذہن رکھتے ہوئے اسلام کی صحیح صحیح ترجمانی کرنے والا شخص انھیں کہیں نہیں ملتا۔ اس لیے کہ جن کے سامنے وہ اپنے سوالات و اعتراضات رکھتے ہیں، وہ خود ان کی مغربی تہذیب سے مرعوب، انھیں کے رنگ میں رنگے ہوئے ہوتے ہیں، جس کے نتیجے میں قول و فعل کے تضاد کے سبب دعوت غیر موثر ہو جاتی ہے۔ ان تقاریر کے ذریعے مولانا مودودی نے پہلی بار آزاد، غیر مرعوب اور پر اعتماد ذہن و ضمیر کے ساتھ مغرب کے اسلام کے خلاف اعتراضات و سوالات کا جواب دیا ہے۔ مولانا مودودی کا لہجہ جہاں حد درجہ شریفانہ پر اعتماد اور مقبول ہے وہاں جدید ذہن کی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے بہت سائنٹیفک بھی ہے ۔ انھوں نے اسلام اور اس کی تعلیمات کو اپنے معمول کے مطابق دو اور دو چار کی طرح کھول کر بیان کر دیا ہے۔ اس بیان میں کوئی الجھن نہیں ہے، کوئی نفسیاتی رکاوٹ نہیں ہے، کوئی معذرت خواہی اور داد خواہی نہیں ہے۔

اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے اور یہ اپنے پیروؤں کو زندگی کے ہر معاملے میں ہدایات دیتا ہے۔ وہ ہدایات جو انسان کی فطرت اور ضمیر کے مطابق ہیں اور جن پر عمل پیرا ہو کر انسان جدید و قدیم جاہلیتوں کے پیچ در پیچ الجھاؤں سے بچ سکتا ہے۔ مولانا محترم نے یورپ میں مسلمانوں کی مشکلات کے بارے میں بھی مفید مشورے دیے ہیں۔ ان کی مشکلات کا حل پیش کیا ہے اور انھیں فی الجملہ اسلام کے صحیح نمائندے اور اپنے مسلمان معاشروں کے حقیقی سفیر بن کر رہنے کی تلقین کی ہے۔

مولانا مودودی نے کلیسا، یورپ کے پیغام کا بھی بڑا خوب صورت جواب دیا ہے اور دنیائے عیسائیت کو صدیوں کے بعد کھل کر بتایا ہے کہ مسلمانوں کو ان سے کیا شکایات ہیں۔ وہ کہتے ہیں ہم تمہارے بزرگوں کی تعظیم کرتے ہیں اور تم ہمارے بزرگوں کی اہانت کرتے ہو، یہ انصاف تو نہیں ہے۔ یہ ایک ایسی دل لگتی بات ہے جس کا کوئی جواب یورپ کے پاس نہیں ہے۔

دور حاضر نے اپنی جدید ذہنی کاوشوں اور سائنسی انکشافات سے جو چیلنج اسلام کے سامنے رکھ دیا ہے مولانا محترم نے اس کو بھی تشفی بخش جواب دیا ہے اور دور حاضر کی نظریاتی کمزوریوں کا پول کھول کر رکھ دیا ہے اور بتایا ہے کہ جدید دور کے سارے مسائل کا حل صرف اسلامی نظام حیات میں پوشیدہ ہے۔ انھوں نے مغرب کو اسلام کی دعوت قبول کرنے کی دعوت دی ہے۔

غرض مولانا مودودی نے اپنے ان خطبات کے ذریعے یورپ کے تعلیم یافتہ اور ذہین طبقے پر اسلام کی طرف سے اتمام حجت قائم کرنے کی کوشش کی ہے اور لندن کی اسلامی کانفرنس میں ان کا مقام تو شاہکار ہے جس کے ذریعے انھوں نے مغربی قاری کے ذہن کے مطابق شستہ طور پر اسلام کو پیش کیا ہے۔

مولانا مودودی افہام و تفہیم کے بادشاہ ہیں۔ اپنی بات خوب صورتی سے کہنے کے فن کو خوب جانتے ہیں۔ ان کی کتب انسان کے ذہن کی تمام الجھنیں رفع کر دیتی ہیں۔ ان کی تفسیر تفہیم القرآن جدید دور کے انسان کے لیے ایک گرانقدر تحفہ ہے انھوں نے اپنے قلم سے جو اسلام کی خدمت کی ہے وہ صدیوں پر پھیلا ہوا اسلامی دعوت کا کام ہے جو انھوں نے اپنی مختصر سی انسانی عمر میں کر کے حیرت انگیز کارنامہ سر انجام دیا ہے۔

خطبات یورپ مختلف جرائد و رسائل میں بکھرے ہوئے تھے اور اخباری فائلوں میں دفن تھے۔ میں نے ان کی افادیت کے پیش نظر انھیں ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر یکجا کر دیا ہے۔ مجھے یہ توقع نہ تھی کہ ان کی اتنی ضخامت ہو جائے گی لیکن حقیقت یہ ہے کہ مولانا محترم جہاں جائیں اسلامی دعوت ان کے ساتھ جاتی ہے اور جس مجلس میں ہوں وہاں اسلام کی ترجمانی ان کی باتوں سے خود بخود ہوتی رہتی ہے۔ یہ اتنا سارا مواد جو اسلام کے فہم کے لیے جدید ذہن کی بنیادی ضرورت ہے، یوں بکھرا پڑا اور فائلوں میں دفن ہو گیا تھا کہ اس کی حقیقی ضرورت کے باوجود اس کی افادیت محدود ہو گئی تھی۔ میں نے خدمت اسلام کے پیش نظر ہر جگہ سے یہ مواد تلاش کر کے ان تقاریر، مجلسی گفتگوؤں اور سوالات و جوابات کو خطبات یورپ کے اندر جمع کر دیا ہے تاکہ اس کا افادہ وسیع تر اور اس کی افادیت کا سلسلہ قائم اور جاری ہو جائے۔

مجھے امید ہے کہ قارئین ان تقاریر سے استفادہ کرتے ہوئے میرے حق میں دعائے خیر کریں گے۔ اگر ان تقاریر کے یوں جمع ہو جانے سے دعوت اسلامی کا ایک کتابی چشمہ اور جاری ہو جائے جس سے کچھ لوگ رہنمائی پالیں تو میری محنت ٹھکانے لگ جائے گی۔ اس موضوع کا منتشر مواد اگر کسی دوست کو اور بھی کہیں سے مل جائے جو اس میں شامل نہ ہوا ہو، مجھے اس سے ضرور آگاہ کیا جائے تاکہ اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن زیادہ جامع اور مفید بنایا جا سکے ۔

اختر حجازی

برطانیہ میں اسلام اور مسلمانوں کے مسائل

اگست ۱۹۶۵ء کے آخر میں یو کے اسلامک مشن کی جو سالانہ کانفرنس لندن میں ہوئی تھی، اس کے لیے یہ تقریر ٹیپ ریکارڈ کر کے بھیجی گئی تھی۔

الْحَمْدُ للهِ وَكَفَى وَسَلَامٌ عَلَى عِبَادِهِ الَّذِينَ اصْطَفَى

میرے دور افتادہ بھائیو، السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

آپ کے مشن کی اس کانفرنس کے موقع پر میں سب سے پہلے آپ کو ہدیہ تبریک پیش کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ آپ کے ارادوں میں خلوص، آپ کی کوششوں میں برکت، اور آپ کے کاموں میں رشد و ہدایت عطا فرمائے۔ آپ اگر چہ جسمانی طور پر بہت دور ہیں ، مگر دل سے بہت قریب ہیں، اور مومن جہاں بھی ہو، مومن کے دل سے قریب ہی رہتا ہے، کیونکہ جو رشتہ اس کو دوسرے مومن سے جوڑتا ہے وہ دل ہی کا رشتہ ہے۔

میرے عزیز بھائیو! آپ جس سرزمین میں مقیم ہیں اُس کے متعلق آپ کا مشاہدہ میری بہ نسبت زیادہ قریب کا ہے، اس لیے یہ بات بظاہر کچھ بے محل سی ہوگی کہ میں یہاں سے بیٹھ کر اس کے بارے میں آپ کو کچھ بتاؤں۔ مگر جو باتیں آج مجھے آپ سے کہنی ہیں ان کے لیے یہ ضروری ہے کہ آپ سب سے پہلے ایک مسلم گروہ ہونے کی حیثیت سے اپنے لیے اس سرزمین کی پوزیشن، اور اُس کے لیے اپنی پوزیشن کو اپنے ذہن میں اچھی طرح تازہ کر لیں۔

یہ سرزمین کبھی نور اسلام سے منور نہیں رہی ہے۔ اس کا معاشرہ ابتدا سے غیر مسلم ہے۔ ایک زمانے تک یہاں پوری شدت کے ساتھ ایک مسخ شدہ مذہب آسمانی کا دور دورہ رہا ہے۔ جس میں توحید کے ساتھ شرک کی آمیزش ہے، رسالت و وحی کی کے ساتھ غلو فی الدین کی وجہ سے خدا کے رسول کو خدا کا بیٹا بنا لیا گیا ہے، عقیدہ آخرت کے ساتھ کفارہ کا عقیدہ شامل ہو گیا ہے، اور خدا کی شریعت کو لعنت سمجھ کر چھوڑ دیا گیا۔ جس کی جگہ پہلے مذہبی پیشواؤں کی خود ساختہ شریعت نے لی اور بعد میں دین سے بے نیاز قانون سازی نے لے لی۔ اس مذہب کے تسلط و اقتدار کی وہ شدت اب باقی نہیں رہی ہے، مگر اس کے تمام بنیادی افکار و عقائد اب بھی پوری فضا پر چھائے ہوئے ہیں۔

خدا کے حقیقی دین سے جو دوری اس مذہب کی بدولت یہاں پیدا ہو چکی تھی، اُس کو صلیبی لڑائیوں نے ہزار درجہ زیادہ بڑھا دیا، اور یہ دوری اسلام اور اہل اسلام کے خلاف نفرت اور تعصب میں تبدیل ہو گئی۔

اس کے بعد یہاں لادینی فلسفوں کا طوفان اٹھا جس نے ایک مادہ پرست تہذیب کو جنم دیا۔ اور چونکہ یہی وہ دور تھا جس میں ان لوگوں کو بے مثال مادی ترقی نصیب ہوئی، دنیا بھر سے لوٹی اور کمائی ہوئی دولت کی ریل پیل ان کے ہاں ہونے لگی، اور روئے زمین کے ہر گوشے میں ان کے اقتدار کے پھریرے اُڑتے چلے گئے، اس لیے ایک طرف اپنی گمراہی پر ان کا غرور بڑھتا چلا گیا، اور دوسری طرف تہذیب، تمدن، معاشرت، اخلاق، غرض ان کے پورے نظام زندگی میں وہ اوصاف جڑ پکڑتے چلے گئے جو اپنے اصول اور مظاہر، دونوں میں بڑی حد تک اسلام کی عین ضد ہیں۔

اپنے عروج کے اس دور میں بہت سے مسلمان ملک ان کی زد میں آئے اور جگہ جگہ مسلمان قو میں سالہا سال تک ان سے مغلوب رہیں۔ اس صورت حال کا ایک اثر ان پر پڑا، اور دوسرا اثر ہم پر۔ ان پر اس کا اثر یہ پڑا کہ اسلام اور مسلمان، دونوں ان کی نگاہ سے گر گئے صلیبی لڑائیوں کے زمانے کی نفرت پر حقارت کا اضافہ اور ہو گیا، اور پرانا تعصب اپنی جگہ جوں کا توں قائم رہا۔ ہم پر اُس کا اثر یہ پڑا کہ ہم ان سے صرف مغلوب ہی نہیں ہوئے، مرعوب بھی ہو گئے۔ ان کے سیاسی و معاشی اقتدار نے ہمارے تمدن اور ہماری تہذیب کی جڑیں ہلا دیں۔ ان کے قوانین نے ہمارے نظام زندگی کا نقشہ بدل ڈالا۔ ان کی تعلیم نے ہمارے افکار و نظریات اور عقائد تک میں ہل چل برپا کر دی۔ اور ان کے غالب اثرات نے ہمارے اخلاق ہی میں نہیں، ہمارے گھروں میں گھس کر ہماری معاشرت کی بنیادی خصوصیات تک میں ترمیم کر ڈالی۔ اس مغلوبیت کے دور میں جس نے جتنا زیادہ ان کا اثر قبول کیا اُسے اتنا ہی زیادہ ہمارے ہاں عروج نصیب ہوا۔ مگر خاص طور پر ہمارے جو افراد اس سرزمین میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے آئے، ان کی بہت بڑی اکثریت اندر سے باہر تک پوری طرح ان کے رنگ میں رنگ گئی اور واپس جا کر یہی انگریزیت کا مکمل بپتسمہ پائے ہوئے لوگ زندگی کے ہر شعبے میں ہمارے رہنماو سربراہ کار بنتے رہے۔

اب جس نئے دور میں ہم داخل ہوئے ہیں اس میں صرف دو حیثیتوں سے تغیر ہوا ہے۔ ایک یہ کہ ہم سیاسی حیثیت سے اس سر زمین کے باشندوں کی غلامی سے آزاد ہو گئے ہیں، دوسرے یہ کہ دوسری جنگ عظیم نے ان کے اقتدار کی کمر توڑ دی ہے۔ اور ان کو خدا کی زمین پر وہ غلبہ حاصل نہیں رہا جو اس جنگ سے پہلے تک تھا۔ لیکن عملاً اس لحاظ سے آج تک کوئی فرق نہیں ہوا ہے کہ ان کے نظریات، ان کے علوم، ان کی تہذیب، ان کے تمدن، ان کے اخلاق، اور ان کے طور طریقوں کا ہم پر جو غلبہ پہلے تھا و ہی اب بھی ہے۔ ہر معاملہ میں ہم ان کے شاگرد ہی نہیں بلکہ اندھے مقلد ہیں، اور ان کی سیاسی و معاشی فوقیت گھٹ جانے سے جو جگہ خالی ہوئی تھی، اسے انہی کے بھائی بند، امریکہ والوں نے بھر دیا ہے۔

حضرات! یہ ہے وہ ملک اور معاشرہ جس میں آپ رہتے ہیں۔ آپ کے اور اُس کے درمیان جو نسبتیں اب تک رہی ہیں ان کا یہ مختصر تجزیہ میں نے آپ کے سامنے اس لیے پیش کیا ہے کہ آپ یہاں اپنی پوزیشن کو ٹھیک ٹھیک ذہن میں رکھ کر ان مسائل کو سمجھنے کی کوشش کریں جو یہاں کا قیام اختیار کر کے آپ کے لیے پیدا ہوتے ہیں، اور اس فرض کو پہچانیں جو یہاں رہتے ہوئے ایک مسلم گروہ کی حیثیت سے آپ کے اوپر عائد ہوتا ہے۔ پہلے زیادہ تر مسلمان یہاں عارضی طور پر تعلیم یا کاروبار کے لیے آتے تھے مگر اب یہاں آپ کی ایک مستقل آبادی بس رہی ہے، اور اندازہ یہ ہے کہ باہر سے آنے والے متوطن مسلمانوں کی اچھی خاصی جماعت آئندہ برطانوی معاشرے کا ایک جز بن کر رہے گی۔ اس لیے جن مسائل کی طرف میں آپ کو توجہ دلا رہا ہوں وہ عارضی و وقتی نوعیت کے نہیں ہیں بلکہ دوامی نوعیت کے ہیں۔

اس سلسلے میں چھوٹے چھوٹے امور کو چھوڑ کر میں آپ کو صرف چند اہم ترین مسائل کی طرف توجہ دلاتا ہوں۔

سب سے پہلا اور سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ آپ کو یہاں اپنے دین، اپنی تہذیب، اپنے اخلاق، اپنے اصولِ معاشرت اور فی الجملہ اپنی انفرادیت کو محفوظ رکھنے کے لیے سخت کوشش کرنی ہوگی، کیونکہ آپ ایک ضعیف معاشرے سے نکل کر ایک طاقتور معاشرے میں آگئے ہیں، جس کے زبر دست اثرات سے خود اپنے ملک میں بھی بچ کر رہنا آپ کے لیے مشکل ہو چکا ہے۔ یہاں اگر آپ نے اس معاملہ میں ذرا سی بھی غفلت برتی تو آپ اس معاشرے میں جذب ہو کر اپنی ہستی گم کر دیں گے، اور محض نسل و رنگ کا فرق آپ کی انفرادیت کو زیادہ دیر تک نہ بچا سکے گا۔ اس لیے آپ کو اپنے تمام وسائل و ذرائع جمع کرکے ایسی تدبیریں اختیار کرنی چاہئیں جن سے اس ملک کے متوطن مسلمانوں میں وحدت پیدا ہو، ان کے درمیان باہمی روابط زیادہ سے زیادہ بڑھیں، ہر طرح کی چھوٹی چھوٹی تفریقیں ختم کر کے ایک ملت ہونے کا احساس ان میں بیدار کیا جائے، غلط راہ پر جانے والوں کو سنبھالا جائے، اخلاق اور معاشرت کے بگاڑ کو روکا جائے، اور یہاں کے مسلمانوں میں دین کا شعور اور اس کا علم پھیلانے کے لیے نہ صرف تعلیمی و تبلیغی اجتماعات اور نشر و اشاعت کا انتظام کیا جائے، بلکہ ایسے کارکنوں کا ایک منظم گروہ تیار کیا جائے جو مسلمان افراد تک پہنچ کر انھیں اسلام سے وابستہ رکھنے کی کوشش کریں اور ان کے انفرادی حالات کو سمجھ کر ان مشکلات کو رفع کرنے کی فکر کریں جو انھیں مسلمانوں کی سی زندگی بسر کرنے میں پیش آرہی ہوں ۔

دوسرا مسئلہ جو اپنی اہمیت میں اس سے کچھ کم نہیں ہے، آپ کی آئندہ نسلوں کا ہے، جو یہاں اس کفر کے ماحول میں پیدا ہو رہی ہیں اور تعلیم و تربیت پا رہی ہیں۔ آپ اُن علاقوں سے آرہے ہیں جہاں آپ کو مسلمان معاشرہ میسر تھا۔ اس کے باوجود آپ کے لیے کفر کے اس غالب ماحول میں اپنے ملی تشخص کو برقرار رکھنا اور اپنی زندگی کو غیر اسلامی اثرات سے محفوظ رکھنا دشوار ہو رہا ہے۔ پھر ان بچوں کا کیا انجام ہوگا جو اسی ماحول میں آنکھیں کھولیں گے، اسی تہذیب کو چاروں طرف محیط دیکھیں گے، اور یہیں تعلیم و تربیت پائیں گے؟ آپ نے اگر ان کے مستقبل کی فکر نہ کی، اور ان نسلوں کو سنبھالنے کے لیے اپنی متحدہ کوششوں سے کوئی مناسب انتظام نہ کیا، تو آپ خود چاہے اپنے آپ کو اس بحر شور میں غرق ہونے سے بچائے جائیں، اپنی اولاد کو نہ بچا سکیں گے۔ یہ مسئلہ برطانیہ میں رہنے والے تمام مسلمانوں کی خاص توجہ کا محتاج ہے۔ کسی تاخیر اور تساہل کے بغیر اس پر پوری سنجیدگی کے ساتھ غور کرنا چاہیے۔ اور جو بھی با اثر مسلمان اس ملک کے مختلف حصوں میں رہتے ہیں انھیں مل جل کر ایسے انتظامات کرنے چاہئیں جو وہاں کے مسلمان بچوں کو دینی تعلیم و تربیت دینے کے لیے مناسب اور ممکن ہوں۔

یہ دو امور تو اس حیثیت سے اہم ہیں کہ ان پر آپ کی بقا کا انحصار ہے لیکن مسلمان کی ہستی کا بقا صرف اس کی ذات کے لیے مطلوب نہیں ہوتا بلکہ اُس سے زیادہ بڑے ایک اور مقصد کے لیے مطلوب ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے آپ کو یہ موقع دیا ہے کہ پہلے جو لوگ اپنی گمراہی کا جھنڈا لے کر کبھی فاتحانہ شان سے آپ کے ہاں پہنچے تھے، اب خود ان کے ہاں آپ اپنی ہدایت کا جھنڈا لیے ہوئے فاتحانہ شان سے نہ سہی مبلغانہ شان ہی سے پہنچ جائیں۔ ابتدا سے یہ سرزمین نور اسلام سے محروم ہے۔ آپ کو تقدیر الہی نے اسلام کا نمائندہ بنا کر یہاں لا بٹھایا ہے۔ اور کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ یہاں اسلام کی غلط نمائندگی کر کے اپنے ساتھ اپنے دین کو بھی رسوا کریں اور خدا کے حضور اپنی غلط کاریوں کے ساتھ ان کی بھی مزید گمراہی کا وبال اپنے سر لے کر جائیں۔ آپ کو خواہ اس کا شعور ہو یا نہ ہو، اور آپ خواہ اس بات کا کوئی پاس کریں یا نہ کریں، جب تک آپ مسلمان ہیں وہ سب لوگ آپ کو اسلام کا نمائندہ ہی سمجھیں گے جن کے ساتھ آپ کو رہنے سہنے، ملنے جلنے اور کام کرنے کا موقع ملے گا۔ وہ آپ کی ایک ایک چیز سے اندازہ لگائیں گے کہ جس دین وملت کی آپ نمائندگی کر رہے ہیں وہ کیا ہے۔ آپ کی ہر کمزوری اُن کی نگاہ میں اُس دین و ملت کی کمزوری قرار پائے گی اور ہر خوبی آخر کار اُس کی خوبی ٹھہرے گی۔ اس لیے ہر مسلمان کو جو یہاں رہتا ہے، یہ خیال اپنے دماغ سے نکال دینا چاہیے کہ یہاں وہ محض اپنی پرائیویٹ حیثیت میں مقیم ہے اور اس کی بھلائی اور برائی اس کی ذاتی بھلائی اور برائی سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ نہیں، وہ فی الواقع یہاں اسلام اور ملت مسلمہ کا سفیر ہے۔ یہ سفارت کی ذمہ داری مسلمان ہونے کی حیثیت سے آپ سے آپ اُس پر عائد ہوتی ہے، اس سے وہ سبکدوش ہونا چاہے بھی تو نہیں ہو سکتا۔

اس منصب سفارت کی ذمہ داری ادا کرنے کے لیے جو کچھ آپ کو کرنا چاہیے اس کو میں بڑے اختصار کے ساتھ آپ سے عرض کرتا ہوں :-

اولین چیز یہ ہے کہ آپ کے ہر فرد میں اپنے سفیر اسلام ہونے کا شعور ہو۔ جس لمحے یہ شعور کسی شخص میں پیدا ہوگا اسی لمحے سے وہ اپنی زندگی، اپنے اخلاق، اپنے معاملات، اور اپنے برتاؤ کو اس نگاہ سے دیکھنا شروع کر دے گا کہ یہ محض میرا ذاتی کردار نہیں ہے بلکہ میرے دین اور میری امت کی نمائندگی بھی ہے، اور یہی چیز اسے یہ سوچنے پر مجبور کر دے گی کہ کیا میں اس کی ٹھیک نمائندگی کر رہا ہوں؟ کیا مجھے دیکھ کر ایک آدمی واقعی یہ محسوس کرے گا کہ اسلام کوئی قابلِ غور چیز ہے، مسلمان اپنی کوئی امتیازی شان رکھتا ہے، اور اس چیز کا پتہ لگانے کی ضرورت ہے جس نے اس میں یہ امتیازی شان پیدا کی ہے؟

یہ شعور اپنے اندر بیدار کرنے کے بعد آپ کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ایک غیر مسلم معاشرے میں بکھرے ہوئے وہ چند افراد جو یہاں اسلام کی نمائندگی کر رہے ہیں، کس طرح اپنی امتیازی شان نمایاں کر سکتے ہیں۔ جس سے اس معاشرے کے لوگوں کو اُن کا اور اپنا فرق محسوس ہو، اور وہ فرق بھی ایسا ہو جو اُن میں قدر کا احساس پیدا کر دے۔ یہ بات یاد رکھیے کہ جتنا زیادہ آپ اپنے آپ کو اس معاشرے کا ہم رنگ بنائیں گے اتنی ہی زیادہ آپ کی امتیازی حیثیت مٹے گی اور اسی قدر زیادہ آپ ناقابلِ توجہ ہو جائیں گے۔ کچھ زیادہ مدت ابھی نہیں گزری ہے، ۲۰ سال پہلے ہی کی بات ہے کہ یہی انگریز آپ کے اپنے ملک میں رہتے تھے، اور ڈھائی سو برس انھوں نے وہاں گزارے۔ اس پورے زمانے میں کس چیز نے ان کا امتیاز قائم کیے رکھا؟ انھوں نے کبھی آپ کا لباس نہیں پہنا کبھی آپ کی زبان نہیں بولی کبھی آپ کے کھانے نہیں کھائے کبھی آپ کے طرز زندگی کو اختیار نہیں کیا۔ کبھی اپنے طور طریقے آپ کی خاطر نہیں چھوڑے جن طریقوں کو بھی یہ اپنے اصول اور معیاروں کے مطابق ٹھیک سمجھتے تھے۔ انہی پر عمل کرتے رہے۔ آپ مدتوں ان کی ایک ایک چیز پر ناک بھوں چڑھاتے رہے۔ مگر ان کی اسی استقامت اور قومی کریکٹر کی مضبوطی نے آخر کار ان کو بدلنے کے بجائے آپ کو بدل ڈالا۔ اس کے برعکس اگر یہ آپ کے رنگ میں اپنے آپ کو رنگ لیتے تو ہندوستان کے سمندر میں مٹھی بھر انگریز نمک کی طرح گھل کر رہ جاتے۔ یہ ایک فطری حقیقت ہے کہ طاقتور دوسروں کو اپنے سانچے میں ڈھالتا ہے، اور کمزور خود دوسروں کے سانچے میں ڈھل جاتا ہے۔ جو لوگ اپنے آپ سے خود شرماتے ہوں اور دوسروں کے معاشرے میں جاتے ہی اپنا لباس، اپنی زبان، اپنی معاشرت، اور اپنی زندگی کے اصول اور طور طریقے چھوڑ چھاڑ کر اپنے آپ کو اُن کا ہم رنگ و ہم مشرب بنا لیتے ہوں، اُن کو دیکھتے ہی اُس معاشرے کے افراد لازماً یہ اثر لیتے ہیں کہ یہ کمزور مزاج کے لوگ ہیں، اپنے آپ کو خود کمتر اور ہمیں برتر سمجھتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا کوئی اثر وہ کیسے قبول کر سکتے ہیں؟ اور کیوں اُن کے دل میں کبھی یہ خیال پیدا ہو کہ ان بے چاروں کے پاس بھی کوئی چیز قدر کے لائق ہو سکتی ہے؟

پس اگر آپ یہاں اسلام کے سفیر ہونے کا حق ادا کرنا چاہیں تو سب سے پہلے اپنے آپ کو ایک مضبوط کریکٹر رکھنے والا گروہ بنائیں۔ اپنے لباس، اپنی زبان، اپنے طرز زندگی، اور اپنے اخلاق و معاملات میں اپنی امتیازی شان قائم کیجیے۔ جو فرائض مسلمان پر اُس کا دین عائد کرتا ہے ان کو علانیہ ادا کیجیے، اور ہر اُس مزاحمت کا مضبوطی کے ساتھ مقابلہ کیجیے جو اُن کے ادا کرنے میں پیش آئے۔ جن چیزوں کو اسلام حرام قرار دیتا ہے، سخت تکلیف اُٹھا کر بھی اُن سے پرہیز کیجیے اور ان کو حرام کہتے ہوئے نہ شرمائیں۔ آپ کی معاشرت کے لیے جو طریقے اسلام نے بنائے ہیں اُن کو پوری جرات کے ساتھ برتیں اور جب یہاں کی معاشرت سے آپ کی معاشرت کے طریقوں کا فرق ظاہر ہونے پر اعتراضات ہوں تو گھبرا کر اپنے آپ کو نہ بدلیے بلکہ دھڑلے کے ساتھ اپنے طریقوں کی برتری ثابت کیجیے۔ اپنے اخلاق اور معاملات میں وہ پاکیزگی، وہ راستبازی اور وہ دیانت پیدا کیجیے جو آپ کے گرد و پیش بسنے والے شخص کو نمایاں طور پر محسوس ہو اور بالآخر یہاں کے لوگوں میں یہ رائے پیدا ہو جائے کہ مسلمان ایک خاص ٹائپ کا آدمی ہوتا ہے جس سے فلاں اوصاف کی توقع کی جاسکتی ہے اور فلاں اوصاف کی توقع نہیں کی جا سکتی۔

یہ ڈھنگ آپ اختیار کریں گے تو آپ کے لیے اسلام کی نمائندگی کرنے کے راستے خود بخود کھلتے چلے جائیں گے، اور اس سے ڈہرا فائدہ ہوگا۔ یہ فائدہ بھی ہو گا کہ آپ کی اس روش سے یہاں کے عام لوگوں میں ہر طرف کچھ سوالات پیدا ہوں گے، جن کا جواب آپ سے مانگا جائے گا۔ اور یہ فائدہ بھی ہو گا کہ آپ ان سوالات کا جواب دینے کے لیے اپنے آپ کو تیار کرنے پر خود مجبور ہو جائیں گے۔ مثال کے طور پر نماز، روزے کی پابندی پر آپ کا ہر حال میں اور ہر جگہ اصرار ان عبادات کی اہمیت و ضرورت کے بارے میں ایک عام سوال پیدا کر دے گا۔ اور اس کو سمجھانے کے لیے آپ کو خود اسے سمجھنے اور بیان کرنے کے قابل بننا پڑے گا۔ حرام و حلال کی تمیز میں آپ کی شدت جگہ جگہ یہ سوال اٹھا دے گی کہ یہ تمیز کیسی اور کیوں ہے، اور اس کا جواب دینے کی قابلیت آپ کو اپنے از اندر پیدا کرنی پڑے گی۔ یہاں کی مادر پدر آزادی سے آپ بچیں گے، مخلوط معاشرت اور اس کی تمام گندگیوں سے آپ اجتناب کر یں گے، اور آپ کی خواتین پردے کے حدود کی پابندی کریں گی تو بڑے پیمانے پر یہ سوالات اٹھ کھڑے ہوں گے کہ مغربی معاشرت کی "ترقی پسندی" کے مقابلے میں یہ رجعت کیسی ہے۔ اُس وقت آپ کے لیے یہ بتانے کا بہترین موقع ہو گا کہ جس ترقی پسندی پر یہ لوگ ناز کر رہے ہیں اس میں کیا قباحتیں ہیں، اس کے کیا نتائج رو نما ہو رہے ہیں، اور جسے یہ رجعت سمجھ رہے ہیں وہ کن وجوہ سے انسانی معاشرے کے لیے ایک بہتر اور پاکیزہ تر راستہ ہے۔ آپ شاید یہ خیال کریں گے کہ ان سوالات کا چھڑنا اور ان پر بحثیں ہونا بس خواہ مخواہ کی قیل و قال بن کر رہ جائے، اور اس کا کوئی اثر یہاں کے معاشرے پر نہ پڑے گا۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ نتیجہ اس کے بالکل برعکس ہوگا۔ انسانی معاشرہ کبھی اور کہیں ایسے لوگوں سے خالی نہیں ہوتا جو غلط طریقوں کے عام رواج کو ان کے صحیح ہونے کی دلیل نہیں سمجھتے اور ان کے نقصانات کو خود کم و بیش محسوس کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی اس برطانوی معاشرے میں بھی کمی نہیں ہے۔ آپ اپنے بہتر نظام زندگی کے اتباع میں مضبوطی دکھائیں اور اپنے عمل اور اپنی زبان سے اس کی نمائندگی کیجیے۔ کچھ زیادہ دن نہ گزریں گے کہ اسی معاشرے میں، جسے آپ اس بگاڑ پر قائم پا رہے ہیں، ہزاروں مرد، عورتیں، جوان اور بوڑھے ایسے نکل آئیں گے جو سنجیدگی کے ساتھ آپ کی باتوں پر غور کرنا شروع کر دیں گے، اور روز بروز ان لوگوں کی تعداد بڑھتی چلی جائے گی جو غور کرنے سے آگے بڑھ کر ان کو قبول کرنے کے لیے بھی تیار ہو جائیں گے۔ یہ اللہ کی بنائی ہوئی فطرت ہے۔ آپ ہمت کر کے اس کا تجربہ کیجیے۔ انشاء اللہ دیر یا سویر یہ اپنا رنگ دکھا کر رہے گی۔

لیکن دنیا کے اس انتہائی ترقی یافتہ ملک میں اسلام کی نمائندگی کرنے کے لیے صرف یہی چیز کافی نہیں ہے۔ یہاں فلسفہ، سائنس اور معاشرتی علوم اپنے عروج پر ہیں۔ یہاں اعلیٰ درجہ کی ذہانت اور علم رکھنے والے لوگ کثیر تعداد میں موجود ہیں۔ یہاں مضبوط دلائل، وزنی تنقید، زبردست علمی شواہد اور شاندار طرز پیش کش کے بغیر کوئی چیز فروغ نہیں پاسکتی۔ اس لیے ہمارے لائق اور ذہین نوجوانوں میں سے کم از کم ایک تعداد ایسی ہونی چاہیے جو اپنے آپ کو اونچے درجے کے علمی کام کے لیے تیار کریں۔ اسلامی نظریہ حیات کو اچھی طرح سمجھیں، زندگی کے مختلف شعبوں کے بارے میں اس کی تعلیمات کا مطالعہ کریں، مغربی علوم اور نظریات سے اس کا مقابلہ کر کے دونوں کا فرق ٹھیک ٹھیک معلوم کریں، موجودہ دور کے مسائلِ حیات پر اسلامی نظریات کو منطبق کرنے کی زیادہ سے زیادہ معقول اور ممکن صورتیں دریافت کریں، اور اپنے آپ کو تحریر و تقریر کے ذریعہ سے عمدہ اظہار و بیان کے قابل بنائیں۔ اس کام کی ضرورت کا احساس ہمارے اندر موجود ہو تو برطانیہ میں اس کے لیے وسائل کی کمی نہیں ہے۔ یہاں اس کے لیے تیاری بھی خوب کی جا سکتی ہے، اور خیالات کی اشاعت کے لیے پریس اور پلیٹ فارم کے وافر ذرائع بھی مل سکتے ہیں۔ کمی جو کچھ بھی ہے ہماری اپنی توجہ، کوشش اور باہمی تعاون کی ہے جسے پورا کرنا ہمارا اپنا ہی کام ہے۔ یہ کسر کوئی دوسرا پوری نہیں کر سکتا۔

آخری بات مجھے آپ سے یہ عرض کرنی ہے کہ برطانیہ میں مسلم معاشرے کی ہیئت ایسی ہونی چاہیے جو نو مسلم انگریزوں اور باہر سے آئے ہوئے مسلمانوں کو ملا کر ایک وحدت بنادے، اور اُس وحدت میں شامل ہونے والے افراد کو ذہنی اور عملی دونوں حیثیتوں سے اسلامی طرز زندگی اختیار کرنے کی پوری سہولتیں بہم پہنچائے مغربی ممالک میں اسلام قبول کرنے والوں کو بالعموم کوئی ایسا اسلامی معاشرہ نہیں ملتا جس سے منسلک ہو کہ وہ پوری طرح اسلام کے سانچے میں ڈھل سکیں، اس لیے دین حق قبول کر لینے کے بعد بھی ان کی زندگی نیم اسلامی اور نیم غیر اسلامی بنی رہتی ہے۔ یہ صورت حال کم از کم برطانیہ میں تو ختم ہونی چاہیے، کیونکہ خدا کے فضل سے اب وہاں مسلمان ایک بڑی تعداد میں موجود ہیں، اور ایک مستقل اسلامی معاشرہ وہاں بن سکتا ہے۔

حضرات! یہ چند مشورے ہیں جو اختصار کے ساتھ میں نے آپ کی خدمت میں پیش کیے ہیں۔ میری دلی خواہش ہے کہ کسی وقت اللہ تعالیٰ مجھے خود آپ کے درمیان بیٹھ کر حالات کو قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کا موقع دے۔ سردست جو کچھ دور سے حالات کا اندازہ میں کر سکا ہوں، اس کے لحاظ سے یہ مشورے میں نے پیش کر دیے ہیں۔ خدا کرے کہ یہ آپ کے لیے مفید ثابت ہوں اور وہاں اسلام کی خدمت کرنے میں آپ کو ان سے کچھ مدد ملے ۔

و آخر دعوانا ان الحمد لله رب العلمين

پاپائے روم کا پیغام اور اس کا جواب

دسمبر ۱۹۶۴ء میں رومن کیتھولک چرچ کے پوپ کا ایک پیغام جو تمام دنیا کی دینی جماعتوں کے سر براہوں کے نام جاری کیا گیا تھا۔ مولانا محترم کو بھی وصول ہوا تھا۔ اس کا جو جواب مولانا نے دیا ہے اسے ذیل میں درج کیا جاتا ہے۔

پوپ کے پیغام کا خلاصہ

ہم دنیا کے تمام خیر اندیش انسانوں سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ دنیا بھر میں نئے سال کے پہلے دن، یکم جنوری کو یوم امن منائیں۔ ہمارا خیال ہے کہ بحالات موجودہ امن کی ضرورت اور اس کے فقدان سے پیدا شدہ خطرات کو وہ ساری قومیں، بین الاقوامی مذہبی تنظیمیں اور تہذیبی و سیاسی تحریکیں محسوس کر رہی ہیں جن کا مطمح نظر عالمی قیام امن ہے اور جو اسی کے لیے کوشاں ہیں .....

قیام امن کی راہ میں جو موانع در پیش ہیں، ان کا ازالہ ضروری ہے۔ ان موانع میں سے چند ایک یہ ہیں کہ اقوام عالم باہمی تعلقات میں خود غرضی برت رہی ہیں بعض آبادیاں اس احساس کا شکار ہیں کہ انھیں عزت و شرف اور وقار کی زندگی بسر کرنے کے حق سے محروم کر دیا گیا ہے، اور اس حق کے عدم اعتراف کی وجہ سے یہ لوگ سر بکف ہو کر تنگ آمد بجنگ آمد کی روش اختیار کر چکے ہیں۔ یہ خیال عام ہو گیا ہے کہ بین الاقوامی تنازعات عدل و انصاف اور آپس کی گفت و شنید کے معقول ذرائع سے طے نہیں کیے جا سکتے، بلکہ انھیں قاضی شمشیر کے حوالے کر دینا ضروری ہے جو خونریزی اور قتلِ انسانی کے غیر محدود آلات و وسائل استعمال کر سکتا ہے .....

امن و سلامتی اور بقائے باہمی کے لیے ناگزیر ہے کہ نئی نسلوں کو رواداری، اخوت اور عالم گیر معاونت کی تربیت دی جائے .....

امن و امان محض لفاظیوں سے قائم نہیں ہو سکتا۔ اس طرح کا زبانی جمع خرچ بہ ظاہر خوش آئند نظر آتا ہے کیونکہ یہ انسانیت کے دل کی آواز ہے۔ لیکن اکثر و بیشتر یہ چیز نہ صرف بے عملی اور عدم خلوص کو چھپانے کے لیے ایک لبادے کا کام دیتی ہے بلکہ بسا اوقات جانب داری اور ظلم و تعدی کی آلہ کار بن جاتی ہے۔ جب تک ریاستیں ایک دوسرے کے ساتھ، اور مختلف ریاستوں کے اندر خود ان کے حکام اور شہری ایک دوسرے کے ساتھ محبت اخلاص اور انصاف کو اپنا حقیقی شعار نہ بنائیں، اور جب تک افراد اور اقوام کو تہذیبی، اخلاقی اور مذہبی دائروں میں قول و عمل کی آزادی حاصل نہ ہو۔ اُس وقت تک امن کی باتیں کرنا بالکل بے معنی اور لا حاصل ہے۔ آزادی اور سلامتی کے ان لوازم کے بغیر اگر محض تغلب و تسلط کے ذریعہ سے امن و امان اور قانونی نظم و نسق کا ظاہری ڈھانچہ قائم بھی ہو جائے، تب بھی ہیجان و بغاوت اور جنگ و جدال کا ایک لامتناہی اور ناقابل تسخیر سلسلہ ہمیشہ جاری رہے گا۔

جواب

چند روز پہلے مجھے ڈاکٹر آر اے۔ بٹلر، ڈائرکٹر کوبولا ہال ، لاہور کے توسط سے آپ کا وہ نہایت قابلِ قدر پیغام پہنچا جس میں آپ نے نئے سال کا آغاز "یوم امن" کی تقریب سے کرنے کی اپیل کیتھولک چرچ کے معتقدین کے علاوہ دنیا کے بڑے بڑے ادیان کے پیروؤں اور تمام نیک خواہشات رکھنے والے لوگوں سے کی تھی۔ اس پیغام کے متعلق میں اپنے خیالات آپ تک جلدی پہنچانا چاہتا تھا، مگر رمضان اور عید الفطر کی مصروفیات اس میں مانع رہیں۔ اب پہلی فرصت میں میں آپ کو خطاب کر رہا ہوں:-

میں آپ کو اس بات پر مبارک باد دیتا ہوں کہ آپ نے ایک ایسے مقصد کی طرف دنیا کے انسانوں کو دعوت دی جو سب کا مشترک مقصد ہے، اور ساتھ ساتھ ان اہم اسباب کی نشاندہی بھی کی جو اس مقصد کے حصول میں سدراہ ہیں۔ فی الحقیقت امن ان اولین بنیادی ضروریات میں سے ہے۔ جن پر نوع انسانی کی فلاح و بہبود کا انحصار ہے۔ مگر اس کی خواہش اور اس کی ضرورت کا احساس رکھنے کے باوجود جن وجوہ سے انسان ہمیشہ اس سے محروم ہوتا رہا ہے اور آج بھی محروم ہے وہ وہی وجوہ ہیں جن میں سے اکثر کی طرف آپ نے صحیح طور پر دنیا کے لوگوں کو توجہ دلائی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جب تک عملاً انھیں رفع کرنے کے لیے کچھ نہ کیا جائے گا محض پاکیزہ خواہشات اور تمناؤں کے اظہار سے کوئی امن دنیا کو میسر نہ آسکے گا۔ اس بنا پر میرے نزدیک یہ نہایت ضروری ہے کہ ہم میں سے ہر ایک شخص، قوم، مجموعہ اقوام اور پیروان مذہب کا گروہ پورے خلوص اور دیانت کے ساتھ خود اپنا محاسبہ کر کے دیکھے کہ اس کی اپنی کوتاہیاں کیا ہیں جو اس کے ابنائے نوع کو، اور بالآخر خود اس کو امن سے محروم کرنے کی موجب ہوتی ہیں، اور جہاں تک بھی اس کے امکان میں ہو ان کو رفع کرنے کی کوشش کرے۔ اسی طرح ہم میں سے ہر ایک کو پوری صاف گوئی کے ساتھ، اصلاح کی نیت سے، نہ کہ تلخی پیدا کرنے اور بڑھانے کے لیے، دوسرے گروہوں کے نیک نیت لوگوں تک یہ بات پہنچانی چاہیے کہ ان کے طرز عمل میں کیا چیزیں ایسی ہیں جو اس کے گروہ کے لیے موجب اذیت ہوتی ہیں تاکہ وہ انھیں رفع کرنے کی کوشش کر سکیں۔

ٹھیک اسی غرض کے لیے میں آپ کو چند ایسے امور کی طرف توجہ دلا رہا ہوں جو مسلمانوں کے لیے اپنے مسیحی بھائیوں سے وجہ شکایت ہیں تاکہ کیتھولک چرچ کے پیشوائے اعظم ہونے کی حیثیت سے جو غیر معمولی اثر و رسوخ آپ کو سیحی دنیا میں حاصل ہے اس سے کام لے کر آپ ان کی اصلاح کے لیے سعی فرمائیں۔ اور میں اس بات کا خیر مقدم کروں گا کہ ہمارے مسیحی بھائیوں کے لیے ہمارے طرز عمل میں اگر کوئی چیز معقول وجہ شکایت ہو تو وہ ہمیں بتائی جائے۔ ہم انشاء اللہ اس کو رفع کرنے کی کوشش میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھیں گے۔ دنیا میں امن اور صلح و آشتی کی فضا پیدا کرنے میں ہم سب اسی طرح مدد گار بن سکتے ہیں کہ ایک دوسرے کے ساتھ انصاف کریں۔ دوسروں سے فیاضانہ سلوک کرنے کی فراخ حوصلگی اگر ہم میں موجود نہ بھی ہو تو کم از کم اتنا تو ہو کہ دوسروں کی حق تلفی کرنے یا ان کو اذیت دینے سے تو ہم باز رہیں۔

مسیحی بھائیوں کے طرز عمل میں جو امور کسی ایک ملک یا قوم کے نہیں، پوری دنیا کے مسلمانوں کے لیے وجہ شکایت ہیں، انھیں میں کسی لاگ لپیٹ کے بغیر مختصراً آپ سے بیان کیے دیتا ہوں :۔

۱۔ ایک مدت دراز سے مسیحی اہل علم اپنی تحریروں اور تقریروں میں سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم، قرآن اور اسلام پر جو حملے کر رہے ہیں اور آج بھی جن کا سلسلہ جاری ہے، وہ مسلمانوں کے لیے انتہائی موجب اذیت ہیں میں حملے کا لفظ قصداً استعمال کر رہا ہوں، تاکہ آپ کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ ہماری شکایت معقول علمی تنقید کے خلاف ہے۔ علمی تنقید اگر دلیل کے ساتھ اور تہذیب و شائستگی کے حدود میں ہو تو خواہ وہ کیسے ہی سخت اعتراضات پر مشتمل ہو، ہم اس پر برا نہیں مانتے بلکہ اس کا خیر مقدم کرتے ہیں اور دلیل کا جواب دلیل سے دینے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن ہمیں بجا طور پر شکایت ان حملوں کے خلاف ہے جو جھوٹے اور رکیک الزامات کی صورت میں اور نہایت دل آزار زبان میں کیے جاتے رہے ہیں اور اب تک کیے جارہے ہیں۔ جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے، وہ حضرت مریم علیہا السلام اور حضرت عیسی علیہ السلام کا انتہائی ادب و احترام ملحوظ رکھتے ہیں اور ان کے متعلق کوئی خلاف آداب بات زبان سے نکالنا ہمارے عقیدے میں کفر ہے۔ آپ کوئی مثال ایسی نہیں پا سکتے کہ کسی مسلمان نے کبھی سیدنا مسیح علیہ السلام اور ان کی والدہ ماجدہ کی شان میں کوئی بے ادبی کی ہو۔ اگر چہ ہم حضرت مسیح کی الوہیت کے قائل نہیں ہیں مگر ان کی نبوت پر ہمارا ویسا ہی ایمان ہے جیسا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت ہے۔ اور کوئی شخص مسلمان نہیں ہو سکتا جب تک وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اُن پر اور دوسرے انبیاء پر بھی ایمان نہ لائے۔ اسی طرح ہم صرف قرآن ہی کو نہیں بلکہ توریت اور انجیل کو بھی خدا کی کتابیں تسلیم کرتے ہیں اور کوئی مسلمان ان مقدس کتابوں کی توہین کا خیال بھی نہیں کر سکتا۔ ہماری طرف سے اگر کبھی کوئی بحث ہوئی ہے تو اس حیثیت سے ہوئی ہے کہ بائیبل جس شکل میں اب پائی جاتی ہے یہ کہاں تک مستند ہے، اور یہ بحث خود مسیحی علماء بھی کرتے رہے ہیں لیکن کسی مسلمان نے کبھی اس کا انکار نہیں کیا کہ حضرت موسیٰ و عیسیٰ اور بائیبل کے دوسرے انبیاء پر اللہ کا کلام نازل ہوا تھا اور مسلمان چاہے یہ بات نہ مانتے ہوں کہ اس وقت پائی جانے والی پوری بائیبل اللہ کا کلام ہے، مگر یہ ضرور مانتے ہیں کہ اس میں اللہ کا کلام موجود ہے۔ لہذا ہمارے مسیحی بھائیوں کو ہم سے یہ شکایت کرنے کا کبھی موقع نہیں ملا ہے کہ ہم ان کے انبیاء کی، یا اُن کی کتب مقدسہ کی توہین کرتے ہیں، بخلاف اس کے ہمیں آئے دن ان سے یہ رنج پہنچتا رہتا ہے، اور صدیوں سے اس دل آزاری کا سلسلہ چل رہا ہے کہ ان کے مصنفین اور مقررین ہمارے نبی اور ہماری کتاب مقدس اور ہمارے دین پر سخت حملے کرتے ہیں۔ دنیا کی اسلامی اور مسیحی برادریوں کے درمیان تعلقات کی خرابی کا یہ ایک اہم سبب ہے۔ اس سے شدید باہمی منافرت پیدا ہوتی ہے، اور مزید برآں اس ناروا پروپیگنڈے کا لازماً یہ نتیجہ بھی ہوتا ہے کہ مسیحی عوام کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت و تحقیر کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ آپ دنیا کے امن کی بہت بڑی خدمت انجام دیں گے اگر مسیحیت کے پیروؤں کو اس طرز عمل میں کم از کم اتنی صلاح کر لینے کی نصیحت کریں کہ یہ دل آزاری اور نفرت انگیزی کی حد تک نہ پہنچے۔

۲۔ مسیحی مشن اور مشنری ایک مدت دراز سے مسلم ممالک میں مسیحیت پھیلانے کے لیے جو طریقے استعمال کرتے رہے ہیں اور آج بھی کر رہے ہیں، وہ بھی دنیا کے مسلمانوں کے لیے ایک بڑی وجہ شکایت ہیں۔ دوسرے ملکوں اور آبادیوں میں اُن کا جو طرز عمل بھی ہو، اس سے ہمیں کوئی بحث نہیں مگر مسلمان ملکوں اور آبادیوں میں ہمارا تجربہ اور مشاہدہ یہ ہے کہ انھوں نے محض تبلیغ پر اکتفا نہیں کیا ہے، بلکہ اس سے تجاوز کر کے دوسرے متعدد ایسے طریقے اختیار کیے ہیں جو تبلیغ کے بجائے سیاسی دباؤ، معاشی طمع و تحریص اور اخلاقی و اعتقادی تخریب کی تعریف میں آتے ہیں جنھیں مشکل سے کوئی معقول آدمی اشاعت مذہب کے جائز ذرائع تسلیم کر سکتا ہے۔ افریقہ کے ایک بڑے حصہ میں انھوں نے استعماری طاقتوں کی مدد سے مسلمانوں کو تعلیم سے محروم کیا، اور درسگاہوں کے دروازے ہر اس شخص پر بند کر دیئے جو مسیحیت قبول نہ کرے، یا کم از کم اپنا اسلامی نام ترک کر کے مسیحی نام نہ اختیار کرلے۔ اس طریقے سے جو با اثر مسیحی اقلیت پیدا کی گئی، آزادی کے دور آنے کے بعد آج وہ بہت سی ایسی افریقی ریاستوں پر سیاسی، فوجی اور معاشی حیثیت سے غالب ہے جن کی بیش تر آبادی مسلمان ہے۔ یہ ایک صریح نا انصافی تھی جو مسلم اکثریت رکھنے والے افریقی ملکوں کے ساتھ کی گئی۔ سوڈان میں برطانوی استعمار کی مدد سے مشنریوں نے جنوبی حصے کو اپنے لیے محفوظ علاقہ، بنوا لیا جس میں تعلیم اور تبلیغ کا حق صرف مسیحی مشنریوں کے لیے مختص کر دیا گیا اور مسلمانوں کے لیے تبلیغ تو درکنار، دوسری اغراض تک کے لیے وہاں جانے پر پابندیاں عائد کر دی گئیں میں نہیں سمجھتا کہ اس کو کسی دلیل سے بھی اشاعتِ مذہب کا جائز و معقول طریقہ ثابت کیا جا سکتا ہے۔ خود ہمارے ملک میں مشن ہسپتالوں اور درسگاہوں کا معروف طریق کار یہ ہے کہ وہ مسلمان مریضوں اور طلبہ سے بے تحاشا فیسیں وصول کرتے ہیں، اور جو غریب آدمی عیسائیت قبول کرے اسے علاج اور تعلیم کی سہولتیں مفت یا برائے نام خرچ پر بہم پہنچاتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ تبلیغ نہیں بلکہ ضمیر و ایمان کی خرید و فروخت ہے۔ علاوہ بریں ان کی درسگاہیں ہمارے ہاں ایک ایسی نسل تیار کر رہی ہیں جو نہ مسیحیت اختیار کرتی ہے نہ مسلمان رہتی ہے، بلکہ اپنے اخلاق و تہذیب، زبان اور طرز زندگی کے اعتبار سے ایک اجنبی عنصر بن کر رہ جاتی ہے، اور مذہبی حیثیت سے اس کے اندر مسیحیت یا اسلام کے بجائے الحاد و بے دینی کے رجحانات پیدا ہو جاتے ہیں۔ کیا کوئی معقول آدمی یہ مان سکتا ہے کہ یہ مذہب کی کوئی خدمت ہے جو مسیحی مشن انجام دے رہے ہیں؟ یہی وجوہ ہیں جن کی بنا پر مسلمان ملکوں میں عموما ان مشنوں کو مذہبی تبلیغ کے بجائے اسلام اور مسلم معاشرے کے خلاف ایک سازش سمجھا جاتا ہے۔ میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ اس کے نتائج پر غور فرمائیں اور اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے مشنری اداروں کے طرز تبلیغ میں اصلاح کی کوشش کریں۔

۳۔ مسیحی دنیا کے متعلق مسلمانوں کا عام احساس یہ ہے کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایک شدید جذبہ عناد رکھتی ہے، اور آئے دن ہمیں ایسے تجربات ہوتے رہتے ہیں جو اس احساس کو تقویت پہنچاتے ہیں۔ اس کا تازہ ترین تجربہ وہ ہے جو ابھی حال میں عرب اسرائیل جنگ کے موقع پر ہوا ہے۔ اس لڑائی میں اسرائیل کی فتح پر یورپ اور امریکہ کے بیشتر ملکوں میں جس طرح خوشیاں منائی گئیں انھوں نے تمام دنیا کے مسلمانوں کے دل میں زخم ڈال دیتے ہیں۔ آپ شاید ہی کوئی مسلمان ایسا پائیں گے جس نے عربوں کی شکست اور اسرائیل کی فتح پر مسیحی دنیا کے اس علی الاعلان اظہار مسرت و شادمانی اور اسرائیل کی کھلی کھلی حمایت کو دیکھ کر یہ محسوس نہ کیا ہو کہ یہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف مسیحیوں کے گہرے جذبہ عناد کا مظاہرہ تھا۔ فلسطین میں اسرائیل کی ریاست جس طرح بنی ہے، بلکہ بنائی گئی ہے، اس کی تاریخ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ دو ہزار برس سے فلسطین عرب آبادی کا وطن تھا۔ موجودہ صدی کے آغاز میں وہاں یہودی ۸ فیصدی سے زیادہ نہ تھے۔ اس حالت میں برطانوی حکومت نے اس کو یہودیوں کا قومی وطن بنانے کا فیصلہ کیا اور مجلس اقوام نے نہ صرف اس فیصلے کی توثیق کی بلکہ برطانوی حکومت کو فلسطین کا مینڈیٹ دیتے ہوئے یہ ہدایت کی کہ وہ یہودی ایجنسی کو باقاعدہ شریک حکومت بنا کر اس تجویز کو عملی جامہ پہنائے۔ اس کے بعد دنیا بھر کے یہودیوں کو لالا کر ہر ممکن تدبیر سے فلسطین میں بسانے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا یہاں تک کہ ۳۰ سال کے اندر ان کی آبادی ۳۳ فیصدی تک پہنچ گئی۔ یہ ایک صریح ظلم تھا جس کے ذریعہ سے ایک قوم کے وطن میں زبر دستی ایک دوسری اجنبی قوم کا وطن بنایا گیا۔ پھر ایک دوسرا اس سے بھی زیادہ ظالمانہ قدم اٹھایا گیا اور امریکہ نے کھلے بندوں دباؤ ڈال کر اقوام متحدہ سے یہ فیصلہ کرایا کہ یہودیوں کے اس مصنوعی قومی وطن کو یہودی ریاست میں تبدیل کر دیا جائے۔ اس فیصلے کی رو سے ۳۳ فیصدی یہودی آبادی کو فلسطین کا ۵۵ فیصدی، اور عربوں کی ۶۷ فیصدی آبادی کو ۴۵ فیصدی رقبہ الاٹ کیا گیا تھا۔ لیکن یہودیوں نے لڑ کر طاقت کے بل پر اس ملک کا ۷۷ فیصدی رقبہ حاصل کر لیا اور مار دھاڑ اور قتل و غارت کے ذریعہ سے لاکھوں عربوں کو گھر سے بے گھر کر دیا۔ یہ ہے اسرائیل کی اصل حقیقت۔ کیا دنیا کا کوئی انصاف پسند اور ایماندار آدمی یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ ایک جائز ریاست ہے جو فطری اور منصفانہ طریق سے بنی ہے؟ اس کا تو عین وجود ہی ایک بدترین جارحیت ہے۔ اور اس پر مزید ظلم یہ ہے کہ یہودی صرف اُن حدود کے اندر محدود رہنے پر بھی راضی نہیں ہیں جو انھوں نے فلسطین میں زبر دستی حاصل کی ہیں، بلکہ وہ سالہا سال سے علانیہ کہہ رہے ہیں کہ نیل سے فرات تک کا پورا علاقہ اُن کا قومی وطن ہے۔ اس کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ یہ قوم ہر وقت جارحانہ ارادہ رکھتی ہے کہ اس پورے علاقے پر جبراً قبضہ کرے اور اس کے اصل باشندوں کو زبر دستی وہاں سے نکال کر دنیا بھر میں پھیلے ہوئے یہودیوں کو وہاں لاکہ بسائے۔ اسی ظالمانہ اسکیم کا ایک جز گزشتہ ماہ جون کا وہ اچانک حملہ تھا جس کے ذریعہ سے اسرائیل نے ۲۶ ہزار مربع میل علاقے پر قبضہ کیا۔ اس پورے ظلم کی ذمہ دار مسیحی دنیا ہے۔ اُس نے ایک قوم کے وطن میں ایک دوسری قوم کا وطن زبر دستی بنوایا۔ اُس نے اس مصنوعی قومی وطن کو ایک ریاست میں تبدیل کرایا۔ اُس نے اس جارح ریاست کو روپے اور ہتھیاروں سے مدد دے کر اتنا طاقت ور بنایا کہ وہ زبردستی اپنے توسیعی منصوبوں کو عمل میں لاسکے۔ اور اب اس ریاست کی تازہ فتوحات پر یہی مسیحی دنیا جشن شادمانی منارہی ہے۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اس کے بعد نہ صرف عربوں میں، بلکہ تمام دنیا کے مسلمانوں میں مسیحیوں کی انصاف پسندی، ان کی خیراندیشی، اور مذہبی عناد و تعصب سے ان کی بریت پر کوئی اعتماد باقی رہ گیا ہے؟ اور کیا آپ کا خیال ہے کہ دنیا میں امن قائم کرنے کے یہی طریقے ہیں؟ یہ دراصل ہمارا نہیں بلکہ آپ کا کام ہے کہ مسیحی بھائیوں کو اس روش پر شرم دلائیں اور ان کی روح کو اس گندگی سے پاک کرنے کی کوشش کریں۔

۴۔ اس سلسلے میں ایک زیادتی ایسی بھی ہے جو خود آپ کی طرف سے ہو رہی ہے، اگر چہ میں سمجھتا ہوں کہ وہ نیک نیتی کے ساتھ ہے اور آپ کو غالباً یہ احساس نہیں ہے کہ در حقیقت وہ ایک زیادتی ہے۔ میرا اشارہ آپ کی اس تجویز کی طرف ہے کہ قدیم بیت المقدس کو بین الاقوامی کنٹرول میں دے دیا جائے۔ آپ یہ تجویز شاید اس خیال سے پیش کر رہے ہیں کہ اس طرح یہ مقدس شہر لڑائی جھگڑے سے محفوظ رہے گا لیکن در حقیقت اس کا نتیجہ ایک اور ظلم کی شکل میں رونما ہوگا۔ ظاہر ہے کہ بین الاقوامی کنٹرول اسی بین الاقوامی ادارے کے ہاتھ میں ہوگا جس نے اسرائیل کی یہ مصنوعی ریاست بنائی ہے اور جو آج تک اسرائیل کی کسی جارحیت کو نہ روک سکا ہے، نہ اس کے ہو جانے کے بعد اس کا تدارک کر سکا ہے۔ اس ادارے کے کنٹرول میں جب یہ شہر آجائے گا تو وہ یہودیوں کے لیے بیت المقدس میں آباد ہونے کے دروازے اسی طرح چوپٹ کھول دے گا جس طرح مجلس اقوام کے انتداب کے تحت برطانوی حکومت نے یہودی مہاجرین کے لیے فلسطین کے دروازے کھولے تھے، اور پھر یہودیوں کو بیت المقدس کی زمینیں اور عمارتیں خریدنے کی وہی سب سہولتیں بھی فراہم کر دی جائیں گی جو برطانوی انتداب اس سے پہلے فلسطین میں ان کو فراہم کر چکا ہے۔ اس طرح تھوڑی ہی مدت کے اندر یہ شہر عملاً یہودی شہر بن جائے گا اور وہ یہودی اس پر قابض ہوں گے جن کے دلوں میں نہ مسیحی مقدسات کا کوئی احترام ہے نہ اسلامی مقدسات کا۔

میں آپ کے پیغام کے جواب میں اس طویل مراسلے اور اس صاف گوئی پر معذرت خواہ ہوں۔ مگر میں آپ کو یہ بتانا اپنا فرض سمجھتا تھا کہ قیام امن کی اصل رکاوٹیں کیا ہیں جنھیں دور کرنے کے لیے عملاً کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ میں پھر اس بات کا اعادہ کرتا ہوں کہ اگر اسلامی دنیا کی طرف سے کوئی ایسی بات ہو جسے امنِ عالم کی راہ میں رکاوٹ سمجھا جائے تو وہ مجھے بتائی جائے۔ مجھ کو جو تھوڑا بہت اثر دنیائے اسلام میں حاصل ہے اسے میں خود بھی اس رکاوٹ کے دور کرنے میں استعمال کروں گا اور دوسرے زعمائے اسلام کو بھی اس کی طرف توجہ دلاؤں گا ۔

دور حاضر کا چیلنج اور اسلام

لندن کے استقبالیہ کا خطبہ اور اُس کا جواب

مسلمانان انگلستان نے اتوار دار دسمبر وار کو مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی صاحب کے اعزاز میں ہوٹل ہملٹن لنڈن میں ایک استقبالیہ دیا تھا۔ یہ استقبالیہ انگلستان میں مقیم مسلمانوں کی ایک استقبالیہ کمیٹی کی طرف سے منعقد کیا گیا تھا اس کمیٹی میں پاکستان کے علاوہ ترکی، عراق، لیبیا، شام، ویسٹ انڈیز، قبرص، سیلون، ملائشیا، مصر، نائیجیریا، ماریشس، ٹرینی ڈاڈ اور خود انگلستان کے مسلمانوں کے نمایاں اصحاب شامل تھے ۔ یہ استقبالیہ ہوٹل ہلٹن کے دالان ضیافت (BANQUET HALL) میں منعقد ہوا۔ سوا تین سو مہمان اس میں شریک ہوئے جن میں اُردن، سوڈان اور یمن کے سفیر سعودی عرب کے کونسلر، ٹرینی ڈاڈ کے فرسٹ سکریٹری، انڈونیشیا کے فرسٹ اور سیکنڈ سکریٹری اور دوسرے سفارتی نمائندے شامل تھے۔ مستشرقین اور ماہرین تعلیم میں سے پروفیسر برنارڈلیوس ایڈیٹر انسائیکلو پیڈیا آف اسلام، ڈاکٹر ٹینکر پروفیسر سیاسیات و معاشیات لندن یونیورسٹی، کرنل وسیلے سنٹرل ایشین ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ، مسٹر ایسٹر ڈنکن مڈل ایسٹ آرکائیوز، پروفیسر حیدری اور ڈاکٹر ٹیلر صدر شعبہ تقابلِ مذاہب برمنگھم یونیورسٹی وغیرہ تشریف لائے تھے۔

برطانوی صحافت کے اہم نمائندوں میں سے گارڈین، ڈیلی مرر، ڈیلی ٹیلیگراف ، دی سن، ایوننگ نیوز، بی بی سی (لندن و برمنگھم) ویژن نیوز ٹی وی اور اہم پاکستانی اخبارات میں سے ڈان، نوائے وقت، مارننگ نیوز اور حریت وغیرہ کے نمائندے شریک تھے۔ ان کے علاوہ انگلستان میں مقیم تمام اسلامی ممالک کے نمایاں اصحاب بھی وہاں موجود تھے جس کی وجہ سے یہ ایک اہم بین الاقوامی اجتماع بن گیا تھا۔ پروگرام کے مطابق ٹھیک ساڑھے چھ بجے کارروائی شروع ہوئی ۔ چائے نوشی کے بعد لیبیا کے نوجوان مسٹر عاشور شامس نے تلاوت قرآن پاک کی۔ پھر متحدہ عرب جمہوریہ کے ڈاکٹر صلاح شاہین پروفیسر گلاسگو یونیورسٹی نے استقبالیہ کمیٹی کی طرف سے خطبہ استقبالیہ پیش کیا۔ خطبہ انگریزی زبان میں تھا۔ پھر مولانا محترم نے اس کا جواب اردو میں دیا اور پروفیسر خورشید احمد صاحب نے اس کا ترجمہ انگریزی میں کیا۔ اس پروگرام کے بعد معززین نے مولانا سے ملاقات کی۔ یہ سلسلہ ۹ بجے تک چلتا رہا۔ ذیل میں اس خطبہ اور اس کے جواب کو درج کیا جا رہا ہے۔

خُطبہ استقبالیہ

برادر محترم!

آج کی شام ہم انتہائی جذبات مسترت کے ساتھ آپ کو خوش آمدید کہہ رہے ہیں۔ ہم اللہ قادر مطلق کے شکر گزار ہیں کہ اُس نے دو بڑے نازک آپریشنوں کے بعد آپ کی صحت کو تیزی سے بحال فرما دیا۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو صحت کاملہ و قوت وافرہ عطا فرمائے تاکہ آپ اعلائے کلمتہ اللہ کی خدمت سر انجام دیتے رہیں۔

آپ کا ہمارے درمیان اس وقت موجود ہونا سب کے لیے ایک عظیم سعادت ہے چشم تصور کے سامنے نصف صدی سے زاید کے مناظر گھوم پھر رہے ہیں۔ ایک وقت تھا جب نظریاتی اضمحلال اور سیاسی اختلال کے باعث ہمارے لیل و نہار کتنے تیرہ و تار تھے؟ وہ مثالی اقدار و مطالع جن کے لیے امت مسلمہ اپنی پوری تاریخ میں سینہ سپر رہی، وہ انحطاط کا شکار ہوتے نظر آ رہے تھے۔

لیکن اس کے بعد حالات پلٹا کھاتے ہیں۔ تجدید و احیائے اسلام کی تحریک اٹھتی اور برپا ہوتی ہے اور حیات نو کے آثار چار سو پھیلتے نظر آتے ہیں۔ ذہنی افق پر تشکیک و اعتذار کی روش رخصت ہوتی ہے اور دینی حمیت اور خود اعتمادی اس کی جگہ لے لیتی ہے۔ پراگندگی فکر اور ژولیدگی دماغ کے تانے بانے ٹوٹ پھوٹ جاتے ہیں اور اسلام کی خالص اور بے آمیز تعلیمات عقلی تقاضوں اور عصر جدید کے مطالبوں کا موزوں جواب بن کر پیش کی جاتی ہیں۔ اسلام اب محض پوجا پاٹ یا مراسم عبادات کا نام نہیں ہے بلکہ یہ بنی نوع انسان کے لیے ایک انقلاب انگیز پروگرام ہے، یہ اخلاقی ارتقا اور اجتماعی تنظیم کے لیے ایک الہامی نظام فکر ہے ۔ یہ ایک ہمہ گیر ضابطہ حیات ہے جو فطرت انسانی کے عین مطابق ہے۔ یہ انسان کی شخصیت کو ایک متعین سانچے میں ڈھالتا ہے، زندگی کی گزرگاہوں میں اس کی حفاظت کرتا ہے اور ایک پاکیزہ اور پُر وقار زندگی بسر کرنے میں رہنمائی کرتا ہے۔

یہ انقلابی تحریک برائی اور باطل کو ہر محاذ پر پکارتی اور چیلنج دیتی ہے اور انسانیت کو ایک نظام نو کی تعمیر کے لیے دعوت اور پیغام دیتی ہے۔ یہ ایک عمومی دعوت ہے جو پوری نوع انسانی کو خطاب کرتی ہے۔ تاہم اس دعوت کا آغاز اور اس کا رد عمل چونکہ اسلامی دنیا میں ہوا ہے، اس لیے قدرتی طور پر عالم اسلام ہی اسلامی تحریک کا اولین میدان کارزار ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اسلامی دنیا کے بعض حصوں میں حالات کی رفتار اطمینان بخش نہ ہو، لیکن اس عالمگیر تحریک کا وجود میں آجانا، عزائم و توقعات کا سینوں میں بیدار ہو جانا اور اس راہ میں گرانقدر قربانیوں کا پیش کیا جانا، یہ سب اس بات کی علامت ہیں کہ ایک نیا دور شروع ہو چکا ہے۔

آج کی شام خاص طور پر اپنے اس ماضی قریب پر ہماری یہ نگاہ بازگشت ایک قدرتی امر ہے، جب کہ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اللہ کے فضل و کرم سے آپ کو اس تحریک احیائے دین کا ایک خصوصی علمبردار ہونے کا فخر حاصل ہے۔ آپ نے اسلامی افکار و نظریات کے ذخائر میں نمایاں اور قابلِ رشک اضافہ کیا ہے۔ آپ نے نشاط و تجدید کی طاقتوں کو اصلاح اخلاق اور سماجی تعمیر نو کی ایک مثبت تحریک کی راہ پر ڈال دیا ہے۔ آپ نے جملہ موانع، طویل قید و بند، حتی کہ سزائے موت کا سامنا عدیم النظر جرات اور عظیم ضبط و تحمل سے کیا ہے۔ آپ نے راہ حق پر گامزن ہونے والوں کے لیے ایک تابناک اور درخشاں مشعل روشن کر دی ہے۔ حق یہ ہے کہ یہ سب اللہ کی عنایت ہے اور اسی کی ذات حمد و ثنا کے لائق ہے۔

لیکن اس تاریک ماضی سے خلاصی کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ہمارے حال کی تلخیوں میں کسی طرح کی کمی واقع ہو گئی ہے یا مستقبل کی مشکلات آسان ہو گئی ہیں۔ ہمیں نہایت سنگین حالات سے سابقہ در پیش ہے۔ یہاں سے تاریخ انسانی ایک نیا موڑ مڑے گی یا پھر انسانیت کے تحفظ و بازیابی کے سارے امکانات کا خاتمہ ہو جائے گا۔

انسان آج اپنی فتوحات کے اوج کمال پر ہے۔ وہ زمان و مکان کی حدوں کو پامال کرتا نظر آتا ہے۔ قوائے فطرت کی تسخیر میں اسے بے حد و حساب کامیابی ہو رہی ہے۔ مادی تکاثر و ترقی کا ایک عالم اس کی دسترس میں ہے۔ طب و معالجہ کے فن میں اتنی ترقی ہو چکی ہے گویا کہ مرض و الم کا خاتمہ ہوا چاہتا ہے۔ اقتصادی ارتقا کا یہ حال ہے کہ اگر انسان چاہے تو غربت و فاقہ کا استیصال ہو سکتا ہے۔ خلا پیمائی کا علم و فن چاند پر کمند پھینک رہا ہے۔

بلا شبہ یہ بڑے کارنامے ہیں لیکن اس سے انسان کی انسانیت و آدمیت میں کوئی ترقی و اصلاح نہیں ہوئی۔ طاقت میں اضافے سے دانش و بینش میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ باہر کی دنیا کا فاتح اپنے نفس کو مفتوح و مغلوب نہیں کر سکا۔ لہذا یہ امر باعث تعجب نہیں ہے کہ اس کامیابی کی ساعت میں خود انسان ہی عظیم ترین خطرے کی زد میں ہے۔ یہ اپنے بنائے ہوئے آلات و اسلحہ کے رحم و کرم پر ہے، کیونکہ زندگی کا کوئی بہتر و برتر مقصد اور مشن اس کے پاس نہیں ہے۔ ذرائع و وسائل پر اسے قابو حاصل ہے مگر مقاصد و اقدار کا رشتہ اس کے ہاتھ میں نہیں ہے۔ مادی ثروت افلاس و استحصال کو ختم کرنے میں ناکام ہے۔ بلکہ اس کے برعکس قوموں کی سطح پر بھی اور افراد کے مابین بھی امیر و غریب کا فاصلہ بڑھتا جا رہا ہے۔ عائلی زندگی مائل بانتشار ہے۔ تقویٰ اور احساس ذمہ داری کی جگہ اباحت اور تعیش پرستی لے رہی ہے۔ تشدد اور جرم و فساد اپنے عروج پر ہے۔ انتہا پسندی کا دور دورہ ہے۔ علائق میں کشیدگی، چپقلش اور آویزیش میں بے حد اضافہ ہوا ہے۔ ووٹ کی پرچی کی جگہ بندوق کی گولی لینے کی کوشش کر رہی ہے۔

انسان نے جس سوسائٹی کو خود جنم دیا ہے، اس میں وہ اجنبی بن کر رہ گیا ہے۔ جس کنبے میں وہ پیدا ہوا تھا، اس سے کٹ چکا ہے۔ اپنی مادر علمی، اپنے کاروباری، غرض یہ کہ اپنے جس ماحول اور دنیا میں وہ پروان چڑھا تھا، اس سے اس کا رشتہ کلیتہً منقطع ہو چکا ہے ۔ وہ ایک ہجوم میں تنہا، بلکہ اپنے گھر میں بیگانہ بن گیا ہے۔ اگر ٹکنالوجی کے اعتبار سے پوری دنیا کی طنابیں کھنچ گئی ہیں، مگر انسان ابھی تک قومیت، وطنیت اور نسلیت کے بتوں کا پجاری ہے۔ امن و امان ناپید اور عدل و انصاف ایک سراب ہے۔ انسان اپنے بنائے ہوئے تناقضات و تضادات کا صید زبوں بن چکا ہے۔ وہ ایک طرف فتح مندی مگر دوسری طرف دہشت ایک طرف کامرانی مگر اذیت کے چنگل میں ہے۔

سوال یہ ہے، کیا اس متوقع آفت اور سیلاب بلا کو کسی طرح ٹالا جا سکتا ہے؟ کیا انسان اپنے اس تیار کردہ قفس سے رہائی پاسکتا ہے؟ کیا وہ اپنی جبلی نیک طینت کو دوبارہ حاصل کر سکتا ہے اور از سر نو ایک شریفانہ و عادلانہ معاشرے کی تعمیر کر سکتا ہے؟

ہمارے عزیز بھائی!

ہم آج کی شام جب اپنے خیالات کا مخاطب آپ کو بنا رہے ہیں، تو ہمارے ذہن میں آپ کی وہ عظیم الشان خدمات تازہ ہو رہی ہیں جو آپ نے عالم اسلام کی فکر و نظر کی بیداری کے ضمن میں انجام دی ہیں اور ہم آپ کی قیادت اور رہنمائی کے منتظر ہیں۔ ہماری دعا اور تمنا ہے کہ موجودہ مرحلے سے نکلنے کی راہ انشاء اللہ موجود ہے۔

ہم اپنے ساتھ یہ شام گزارنے پر آپ کے دوبارہ شکر گزار ہیں اور اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ آپ کو اسلام اور انسانیت کی خدمت بجالانے کی بیش از پیش طاقت و ہمت عطا فرمائے۔

جواب

حمد و ثناء کے بعد جناب صدر، ارکان مجلس استقبالیہ اور معزز حاضرین!

سب سے پہلے میں اس بات پر معذرت چاہتا ہوں کہ بیٹھ کر آپ سے خطاب کر رہا ہوں ۔ جیسا کہ آپ کو خطبہ استقبالیہ سے معلوم ہو چکا ہے، پچھلے ماہ ستمبر اور اکتوبر میں مجھے دو بڑے آپریشنوں سے گزرنا پڑا ہے، اور ابھی میں اتنا کمزور ہوں کہ چند منٹ سے زیادہ کھڑا نہیں رہ سکتا اور مسلسل زیادہ دیر تک بول بھی نہیں سکتا ۔ مجھے افسوس ہے کہ میں پہلی مرتبہ انگلستان آیا بھی تو بیماری کی حالت میں آیا۔ انگلستان کے دوسرے مقامات پر جانا تو درکنار مجھے خود لندن بھی اچھی طرح دیکھنے کا موقع نہیں ملا۔ نہ یہاں کے بڑے بڑے ادارات میں جاسکا۔ نہ یہاں کے اہلِ علم سے مل سکا اور نہ اپنے بھائیوں کی اس خواہش کو پورا کر سکا کہ ان کے اجتماعات میں شریک ہوں۔ میں مجلس استقبالیہ کا بڑا شکر گزار ہوں کہ اُس نے یہ تقریب منعقد کی جس کی وجہ سے آج کم از کم مجھے آپ حضرات سے ملنے اور تھوڑی بہت اپنی بات کہنے کا موقع مل گیا ۔

مجلس استقبالیہ کا میں اس بنا پر بھی بہت شکر گزار ہوں کہ اس نے تحریک احیائے اسلام کے سلسلہ میں میری ناچیز خدمات کی قدر افزائی خود ان خدمات سے بہت زیادہ کی ہے۔ در حقیقت میرے لیے بڑے سے بڑا فخر بس یہی کافی ہے کہ میں اللہ کے دین کا ایک ادنیٰ خادم ہوں۔ مجھے اپنے متعلق کبھی یہ غلط فہمی نہیں ہوتی کہ میں نے کوئی بڑا کارنامہ انجام دیا ہے۔ فی الواقع یہ میرے مخلص بھائیوں کی اسلام سے محبت ہے جس کی بنا پر وہ کسی آدمی کو اسلام کی تھوڑی بہت خدمت بھی کرتے دیکھتے ہیں تو اس کی حیثیت سے زیادہ اس کی قدر افزائی کرتے ہیں۔ ان کے اس مخلصانہ جذبے کو دیکھ کر یہ توقع بندھتی ہے کہ احیائے اسلام کی تحریک کو جن ناموافق حالات میں نئی نسل کے پیشرو آگے بڑھانے کی کوشش کرتے رہے ہیں، انشاء اللہ آئندہ نسل اس سے بہت زیادہ خدمات انجام دے گی اور انشاء اللہ اس تحریک کا مستقبل روشن ہوگا۔

حضرات مجلس استقبالیہ کے اس خطبہ میں پچھلے پچاس سال اور اس سے پہلے کے جن حالات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ در حقیقت کچھ غیر متوقع حالات نہ تھے۔ مسلمانوں کو انیسویں صدی میں جو پے درپے زکیں پہنچی تھیں ان کی بدولت اچانک انھوں نے اپنے آپ کو اس حالت میں پایا کہ مشرق سے لے کر مغرب تک وہ اہل مغرب کے غلبہ اور استیلاء سے مغلوب ہو چکے تھے۔ فطری طور پر اس کا پہلا رد عمل وہی کچھ ہونا تھا جو ہوا، جس کا ذکر آپ نے اپنے اس خطبہ استقبالیہ میں کیا ہے۔ ان کو یکایک ایک ایسی تہذیب سے سابقہ پیش آیا تھا جو صرف اپنے فلسفہ اور سائنس ہی کو لے کر نہیں آئی تھی، محض اپنے اخلاقی، تمدنی اور معاشی نظام کو لے کر بھی نہیں آئی تھی، بلکہ ان سب چیزوں کی پشت پر توپ اور بندوق بھی تھی اور ان کی پشت پر سیاسی اقتدار بھی تھا جس سے مسلمان خود اپنے گھر میں غلام بن کر رہ گئے تھے۔ اس نوعیت کے غالب و قاہر فلسفہ زندگی سے جب یکایک ان کو سابقہ پیش آیا تو انھوں نے اس کے آگے ہتھیار ڈال دیے تھے۔ انھوں نے انتہائی شکست خوردگی کے ساتھ اس کی بالا تری کو تسلیم کر لیا۔ ان کے اندر یہ جرات ہی باقی نہ رہی کہ اس کو تنقید کی نظر سے دیکھتے۔ وہ صرف جسم ہی کے اعتبار سے نہیں، عقل و فکر اور روح کے اعتبار سے بھی مفتوح ہو کر رہ گئے تھے انھوں نے یہ سمجھا کہ فاتح کے نظریات و افکار تو ہر غلطی سے مبرا ہیں۔ غلطی کا اگر امکان ہے تو مفتوح کے نظریات و افکار میں ہے۔ تہذیب اگر صحیح ہے تو فاتح کی تہذیب ہے۔ بدلنے کے قابل صرف مفتوح کی تہذیب ہے جسے فاتح کی تہذیب کے معیار پر ڈھالا جانا چاہیے۔ علم اور تحقیق کے نام سے فاتح جو کچھ لا رہا ہے، وہ گویا اٹل حقائق ہیں جن میں کسی نقص کا امکان نہیں۔ ترمیم کے قابل صرف مفتوح کے عقائد ہیں جو اُس علم و تحقیق سے مطابقت نہ رکھتے ہوں۔ فاتح کا ہر اعتراض جو وہ مفتوح کے مذہب، تاریخ اور تمدن پر کرے، بجائے خود بالکل بجا ہے۔ مفتوح اگر اپنی عزت بچانا چاہتا ہے تو اسے اپنی ہر اس چیز کا انکار کر دینا چاہیے جس پر فاتح نے انگشت نمائی کی ہو۔ جنگ کے میدان میں شکست کھانے اور سیاست کے میدان میں مغلوب ہو جانے کے بعد یہ قدرتی رد عمل تھا جس کے زیر اثر انیسویں صدی کے نصف آخر اور بیسویں صدی کے دور اول میں مسلمانوں کے اہل علم اور اہل قلم نے مغربی فلسفہ کو حق مان کر اسلامی عقائد میں ترمیم کرنی شروع کی۔ مغربی تہذیب کو بجا و درست سمجھ کر اسلامی تہذیب کی شکل بگاڑنے اور اس کے اندر نئے پیوند لگانے کا سلسلہ جاری کیا، اور اسلام پر اہل مغرب کے اعتراضات کو وزنی سمجھ کر ان کے جواب میں معذرت خواہانہ انداز اختیار کر لیا۔ بجائے اس کے کہ وہ اُن اعتراضات کی حقیقت پر نگاہ ڈالتے اور تحقیق کرتے کہ وہ کہاں تک صحیح اور کہاں تک غلط ہیں، ان پر یکا یک ان اعتراضات کا رد عمل یہ ہوا کہ انھوں نے ہر اس چیز سے انکار شروع کر دیا جس کی نشاندہی معترضین کی طرف سے کی گئی تھی خواہ وہ در حقیقت ہماری شریعت میں موجود ہو اور خود معترضین اس کو اپنی نادانی سے غلط سمجھ بیٹھے ہوں۔

مثلاً معترضین کی طرف سے جب اسلام کے جہاد پر اعتراض کیا گیا تو مغلوب اور مرعوب ذہن یہ نہ سمجھ سکے کہ یہ اعتراضات کن کی طرف سے آرہے ہیں معترضین وہ لوگ تھے جنھوں نے خود ایشیا، افریقہ، امریکہ اور آسٹریلیا میں ہر طرف جارحانہ جہاد کیا تھا، پورے پورے براعظموں پر قبضہ کر کے کروڑوں انسانوں کو اپنا غلام بنا لیا تھا، اور بعض علاقوں میں قدیم باشندوں کو قریب قریب بالکل فنا کر دیا تھا۔ ان کے اپنے مذہب میں چونکہ جہاد نہ تھا، اور وہ جہاد کے بغیر دنیا میں رہ بھی نہ سکتے تھے، اس لیے جب انھوں نے جہاد کیا تو ان کے پاس جنگ کے لیے کوئی اخلاقی ضابطہ موجود نہ تھا، کوئی خدائی ہدایت نہ تھی جو ان کو جنگ کی تہذیب سے آشنا کرتی، بلکہ انھوں نے خود اپنے لیے جنگ کے طریقے اپنی خواہشات اور اغراض کے مطابق وضع کر لیے تھے ۔ اس وجہ سے جب انھوں نے جہاد کیا تو بعض براعظموں میں پوری کی پوری نسلوں کو مٹا دیا اور مفتوحوں پر ظلم وستم کی انتہا کر دی۔ ان چیزوں پر نگاہ کرنے کے بجائے ہمارے ہاں کے اہل علم اور اہل قلم نے سرے سے اس بات کا انکار ہی کر دیا کہ ہمارے ہاں جہاد نامی کوئی چیز ہے، اور معترضین کو یہ نہ بتایا کہ اسلامی تعلیم کی برکت سے مسلمانوں نے اپنی پوری تاریخ میں جنگ کے اندر کبھی وہ وحشیانہ حرکتیں نہیں کیں جو اہلِ مغرب نے کی تھیں اور آج تک کر رہے ہیں، نہ مفتوح قوموں کے ساتھ کبھی وہ برتاؤ کیا جو اہل مغرب نے کیا ۔ اس کے برعکس مسلمان معذرت خواہوں نے گویا معترضین سے یہ کہا کہ جہاد کرنا بس آپ ہی کا حق ہے۔ ہم اس کا حق نہیں رکھتے ۔

اسی طرح جب اسلام کے مسئلہ غلامی پر اعتراض ہوا تو ہمارے ہاں کے اہلِ علم اور اہلِ قلم نے فوراً اس بات کا انکار کر دیا کہ اسلام میں غلامی کا بھی کوئی قانون ہے، حالانکہ اس کے لیے کچھ ضوابط اور قواعد مقرر کیے گئے ہیں۔ ان پر یہ اعتراض سن کر کچھ ایسی گھبراہٹ اور خوف زدگی طاری ہو گئی کہ وہ اس معاملہ میں خود معترضین کے طرز عمل کا جائزہ لے کر دیکھ ہی نہ سکے۔ معترض وہ لوگ تھے جن کے اپنے دین میں غلامی کے متعلق کوئی ہدایت موجود نہ تھی جس سے ان کو یہ معلوم ہوتا کہ انسان کو غلام کسی حالت میں بنایا جا سکتا ہے اور کس حالت میں نہیں بنایا جا سکتا، اور غلام بنانے کے بعد غلاموں کے ساتھ کیا برتاؤ کرنا چاہیے ۔ ایسے کسی ہدایت نامے کے بغیر انھوں نے اتنے بڑے پیمانے پر غلامی کا کاروبار کیا جس کی کوئی نظیر انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ وہ کئی صدیوں تک افریقہ کے باشندوں پر چھاپے مارتے رہے۔ دس بارہ کروڑ انسانوں کو پکڑ کر لے گئے امریکہ اور ویسٹ انڈیز وغیرہ میں اپنی نو آبادیوں کی آبادکاری کا کام ان سے لیا اور ان کے ساتھ بدترین انسانیت سوز سلوک کیا ۔ آج مغربی دنیا میں رنگ کا مسئلہ ان کے اسی ظلم کی بدولت پیدا ہوا ہے، ورنہ بے چارے افریقہ کے کالے خود امریکہ جمیکا اور دوسرے ملکوں میں پرواز کر کے نہیں گئے تھے۔ ہمارے اہل علم اور اہل قلم اتنی جرات ہی نہ رکھتے تھے کہ وہ اسلام کے مسئلہ غلامی پر اعتراض کرنے والے اہلِ مغرب سے یہ کہہ سکتے کہ حضرات یہ نامہ اعمال لے کر آپ کا منہ کیا ہے کہ ہم پر حرف زنی کریں۔ وہ وقت تھا ہی کچھ ایسا کہ فاتحین کے اعتراضات سن کر ہمارے ہاں کے لوگوں پر بدحواسی طاری ہو جاتی تھی۔ وہ اس بات کو نہیں دیکھتے تھے کہ معترض کون لوگ ہیں اور ان کے اعتراض کی حقیقت کیا ہے۔ انھیں تو فاتح کا لگایا ہوا ہر الزام سن کر اپنی عزت بچانے کی فکر لاحق ہو جاتی تھی۔ انھوں نے کبھی یہ کہنے کی ہمت نہ کی کہ حضرات ہمارے پاس چونکہ غلامی کے بارے میں ایک اعلیٰ درجہ کا معقول اخلاقی ضابطہ موجود تھا اس لیے ہمارے ہاں کبھی غلاموں کے ساتھ وہ سلوک نہیں کیا گیا جو افریقہ کے غلاموں کے ساتھ آپ نے امریکہ اور ویسٹ انڈیز وغیرہ میں کیا ہے۔ آپ کو تو انیسویں صدی میں غلامی کو قانوناً منسوخ کرنے کی توفیق نصیب ہوئی بھی تو آج تک گورے اور کالے کی تمیز سے آپ نجات نہیں پاسکے ہیں۔ امریکہ اور جنوبی افریقہ میں کالوں کے ساتھ جو سلوک آپ کر رہے ہیں وہ غلامی کے طریقے سے ہزار درجہ بدتر ہے۔ اس کے برعکس ہمارے ہاں غلام بادشاہی کے تخت پر بارہا سرفراز ہوئے ہیں۔ ہمارے بڑے بڑے سپہ سالار غلام ہوتے ہیں۔ اور ہماری تاریخ ان غلاموں سے بھری پڑی ہے جنھیں فقیہ اور امام بننے کا شرف حاصل ہوا ہے۔

اسی طرح جب ہمارے تعدد ازواج پر اہلِ مغرب کی طرف سے اعتراض کیا گیا تو ہمارے ہاں کے اہل علم اور اہل قلم اس پر شرمندہ ہو کر طرح طرح کی معذرتیں پیش کرنے لگے اور انھوں نے آنکھیں کھول کر یہ نہ دیکھا کہ یک زوجی (MONOGAMY) کو قانون قرار دے کر اہلِ مغرب نے ایک بہت بڑی نادانی کا ارتکاب کیا ہے جس کا بدترین خمیازہ وہ آج بھگت رہے ہیں۔ اس کی بدولت ان کے ہاں غیر قانونی تعدد ازواج نے رواج پایا جو کسی ضابطہ کا پابند نہیں اور جس کے ساتھ کسی ذمہ داری کا بار نہیں۔ اسی کی بدولت ان پر کثرت طلاق کی وبا مسلط ہوئی جو روز بروز بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ اسی کی بدولت ان کے ہاں ناجائز بچوں کی بھرمار ہو رہی ہے۔ خاندانی نظام درہم برہم ہو رہا ہے۔ برباد شدہ گھروں (BROKEN HOMES) کے بچے ایک پریشان کن مسئلہ بن گئے ہیں۔ اور کم سنی کے جرائم روز افزوں ترقی پر ہیں۔ ان ساری چیزوں کو پیش کر کے معترضین کو شرم دلانے کے بجائے ہم خود اپنے قانون تعدد ازواج پر شرمانے لگے اور اس میں ترمیم کرنے پر تل گئے۔

وہ ایک دور تھا جو قدرتی اسباب سے ہمارے اوپر آیا تھا۔ اگر چہ وہ ابھی تک بالکل ختم نہیں ہوا ہے لیکن بہر حال اس کو گزرنا تھا، گزرنا ہے اور لازماً گزر کر ہی رہے گا۔ ابتدائی مراحل سے نکلنے کے بعد جب ہمارے ہاں ذرا زیادہ گہرے غور و فکر کے ساتھ فلسفہ، سائنس، تاریخ اور مذہب کا مطالعہ کیا گیا تو اس کے بعد ظاہر بات ہے کہ ابتدائی مرعوبیت کی وہ کیفیت باقی نہیں رہ سکتی تھی۔ ابتدائے اسلام میں بھی جب مسلمانوں کو یونانی اور دوسرے عجمی فلسفوں سے نیا نیا سابقہ پیش آیا تھا تو اس نے اعتزال کی شکل اختیار کی تھی لیکن جب گہرائی کے ساتھ ان چیزوں کا مطالعہ کیا گیا تو آخر کار تنقید اور تحقیق نے ان ابتدائی تاثرات کو ختم کر دیا اور مسلمانوں کے اندر ایک پختہ نظام فکر اور ایک علم کلام وجود میں آیا۔ ایسی ہی صورت اب بھی پیش آرہی ہے۔ جوں جوں مطالعہ میں وسعت اور تحقیقات میں پختگی پیدا ہوتی جارہی ہے، وہ ابتدائی اثرات ختم ہوتے جارہے ہیں۔ اگر چہ ابھی تک مسلمانوں میں اس طرح کے لوگ پیدا ہو رہے ہیں جو مغربی نظر سے اسلام کو دیکھ رہے ہیں اور اسلام میں ترمیمات کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں لیکن اب ہمارے اندر ایسے محققین خدا کے فضل سے موجود ہیں جو اس طرح کی ہر کج فہمی اور ہر اٹھنے والی ترمیمی تحریک کا استیصال کرنے اور مسلمانوں کو غلط فہمیوں سے بچانے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔

اب میں مختصر خطبہ استقبالیہ کے اس حصہ کے متعلق بھی کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں جس میں موجودہ زمانے کی مشکلات اور پریشانیوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس کے متعلق میں یہ عرض کروں گا کہ اس دور کی جتنی ترقی بھی ہے وہ ساری کی ساری دراصل علوم طبیعی (PHYSICAL SCIENCE) کی تحقیقات کی بدولت ہے۔ ان علوم کی تحقیقات نے انسان کو غیر معمولی قوتیں دے دی ہیں۔ ان کی بدولت انسان نے عجیب و غریب ایجادات کی ہیں اور ان کے استعمال سے انسانی تمدن و معاشرت اور تہذیب کو غیر معمولی مادی ترقی حاصل ہوتی ہے۔ لیکن یہ بات اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ جہاں تک علوم طبیعی کا تعلق ہے، خدا نے انسان کو خود اس کی تحقیق کے ذرائع عطا کر دیے ہیں اور اس کے اندر وہ قابلیتیں اور صلاحیتیں پیدا کر دی ہیں جن کے ذریعہ سے وہ اپنے گردو پیش کی موجودات کا مطالعہ کر سکتا ہے، تجربات اور مشاہدات سے ان کے خواص اور ان کے اندر کام کرنے والے قوانین دریافت کر سکتا ہے اور اپنی مادی ترقی کے لیے انھیں زیادہ سے زیادہ بہتر طریقے سے استعمال کرنے کی کوشش کر سکتا ہے۔ اس کے لیے کسی خدائی ہدایت کی ضرورت نہیں ہے۔ خدا نے خود انسان کو زمین پر اپنا خلیفہ بنایا ہے، اس مادی دنیا پر اس کو اقتدار عطا کر دیا ہے، اس اقتدار کو استعمال کرنے کے ذرائع و وسائل اس کے لیے فراہم کر دیے ہیں، اور خود انسان کے اندر وہ صلاحیتیں اور طاقتیں پیدا کر دی ہیں جن سے کام لے کر وہ موجودات زمین سے اپنی خدمت لے سکتا ہے۔ مگر جہاں تک تہذیب و تمدن کا تعلق ہے، جہاں تک اخلاق کا تعلق ہے اور جہاں تک انسان کی انفرادی و اجتماعی زندگی کے نظام کا تعلق ہے، اس کے بارے میں انسان کو یہ غلط فہمی لاحق ہو جانا صحیح نہیں ہے کہ یہاں بھی وہ اپنی ہی تحقیقات سے زندگی کے صحیح اصول معلوم کر سکتا ہے۔ یہ غلط فہمی در حقیقت ان تمام خرابیوں کا بنیادی سبب ہے جو انسانی تہذیب میں راہ پاگئی ہیں۔ یہاں فی الواقع انسان خدائی ہدایت (DIVINE GUIDANCE) کا محتاج ہے۔ خدا کی ہدایت سے آزاد ہو کر انسان اگر اپنے اصول خود وضع کرنے لگے اور اپنے نزدیک یہ سمجھے کہ اس پہلو میں بھی اسے خدا کی طرف سے آئی ہوئی کسی ہدایت کی ضرورت نہیں ہے تو وہ ٹھوکروں پر ٹھوکریں کھاتا چلا جاتا ہے اور محض اپنی عقل و فکر اور تجربات و مشاہدات کے بل پر کوئی صحت مند نظام زندگی تعمیر نہیں کر سکتا۔ یہ غلطی پہلے بھی انسان کو گمراہ کرتی رہی ہے اور آج بھی کر رہی ہے اور اس کا نتیجہ بجز تباہی کے اور کچھ نہیں ہے۔

اس معاملہ میں ایک اور غلطی بھی ہے جو انسان کرتا رہا ہے اور وہ یہ ہے کہ جس محدود دائرہ میں کوئی خدائی ہدایت وہ اپنے پاس پاتا ہے صرف اسی پر وہ اکتفا کرنا چاہتا ہے اور اپنے دائرے سے باہر جا کر یہ معلوم کرنے کی کوشش نہیں کرتا کہ کہیں اور بھی کوئی ہدایت خدا کی طرف سے آئی ہوئی موجود ہے یا نہیں۔ اس کے اپنے معاشرہ میں، اس کے اپنے اسلاف کے ذریعہ سے اگر کوئی خدائی ہدایت اسے ملی ہے تو وہ صرف اسی پر قناعت کر لیتا ہے، پھر جب وہ دیکھتا ہے کہ یہ ہدایت اسے پوری رہنمائی نہیں دے رہی ہے جس سے زندگی کے مختلف پہلوؤں میں وہ ایک جامع اور قابلِ عمل نظام مرتب کر سکے اور اپنی زندگی کو صیح طریقوں پر ڈھال سکے تو وہ سرے سے خدائی ہدایت ہی سے مایوس ہو جاتا ہے اور غیر ضروری سمجھتا ہے کہ اپنے دائرہ سے باہر نکل کر بھی یہ معلوم کرے کہ کہیں اور بھی کوئی خدائی ہدایت زیادہ جامع اور صحیح شکل میں موجود ہے یا نہیں۔ وہ اگر کہیں اور پائی جاتی ہو تو اس کو وہ اجنبی چیز سمجھتا ہے، اس کے اندر عیب نکالنے کی کوشش کرتا ہے، اس کی قدر گھٹانے میں اپنا زور صرف کرتا ہے، اور چاہتا یہ ہے کہ کسی نہ کسی طرح اس کے خدائی ہدایت ہونے کا انکار کرنے کے لیے اسے کوئی بہانہ مل جائے ۔ حالانکہ فی الواقع یہ اس کی خود اپنے ساتھ دشمنی ہے۔ ایک انسان کو کھلے دل کے ساتھ دیکھنا چاہیے کہ کہاں حق کی روشنی موجود ہے۔ کھلے دل کے ساتھ اس کو معلوم کرنا ہے کہ اگر میرے پاس کوئی روشنی مکمل شکل میں نہیں ہے تو کہیں اور وہ موجود ہے یا نہیں۔ اگر وہ کہیں پائی جاتی ہو یا کوئی اسے پیش کرے تو بغیر کسی تعصب اور بغیر کسی تنگ نظری کے اس کو جانچنا چاہیے، قبل از وقت کوئی رائے قائم کیے بغیر اس کی تحقیق کرنی چاہیے کھلی آنکھوں سے دیکھنا چاہیے کہ آیا اس سے کوئی ایسی رہنمائی مل سکتی ہے جس سے ہم اخلاق کے صحیح اصول معلوم کر سکیں، جس سے ہم اپنے تمدن اور اپنی تہذیب کے بنیادی مسائل کا حل معلوم کر سکیں، جس سے ہم اپنی زندگی کو زیادہ بہتر بنانے کی کوشش کر سکیں ۔

میں سمجھتا ہوں اگر موجودہ زمانے کے اہل فکر اپنی اس کمزوری سے نجات پالیں تو سارے انسان خدا کی طرف سے آئے ہوئے ہر اس نور سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں جو دنیا میں کہیں آیا ہے۔ ہم اس کے لیے بالکل تیار ہیں کہ اہل مغرب کے پاس اگر خدا کی طرف سے آئی ہوئی کوئی ہدایت موجود ہو تو اس سے استفادہ کریں جب کہ تحقیق سے ہمیں اس کے خدائی ہدایت ہونے کا اطمینان ہو جائے۔ اسی طرح سے اہلِ مغرب کو بھی چاہیے کہ ہمارے پاس خدا کی جو ہدایت موجود ہے جس کو ہم ہدایت الہی کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں، اس کو بھی وہ اچھی طرح جانچ لیں اور دیکھیں کہ آیا اس کے اندر کوئی ایسی رہنمائی ملتی ہے جس کی مدد سے وہ اپنی زندگی کے نظام کو درست کر سکیں۔

مثال کے طور پر میں عرض کروں گا کہ اس وقت امریکہ، جنوبی افریقہ، رہوڈیشیا، اور دوسرے ملکوں میں رنگ ونسل کی تفریق انتہائی شدت اختیار کر گئی ہے اور برطانیہ میں بھی یہ سر اٹھاتی نظر آ رہی ہے۔ یہ ایک بدترین داغ ہے جو انسانیت کے دامن پر لگا ہوا ہے اور مغربی دنیا اپنی معقولیت پرستی (RATIONALISM) کے سارے دعوؤں کے باوجود اس دھبے کو اپنے دامن سے دھونے میں کامیاب نہیں ہو رہی ہے۔ اب اگر انصاف کی نظر سے دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ اس مسئلہ کو جس طرح اسلام نے حل کیا ہے دنیا کا کوئی معاشرہ اسے حل نہیں کر سکا ہے۔ آخر تعصب کو چھوڑ کر یہ سمجھنے کی کوشش کیوں نہ کی جائے کہ اسلام کے اصولوں میں وہ کیا چیز ہے جس کی وجہ سے اسلامی معاشرہ کے اندر پوری اسلامی تاریخ میں کبھی رنگ کے مسئلہ نے وہ شکل اختیار نہیں کی جو مغربی معاشرہ میں پیش آرہی ہے؟

اسی طرح موجودہ تہذیب میں آپ دیکھ رہے ہیں کہ خاندانی نظام بری طرح درہم برہم ہو رہا ہے۔ شوہر اور بیوی، ماں باپ اور اولاد، بھائی اور بہن کے رشتے بے معنی ہو کر رہ گئے ہیں۔ بھرے گھر برباد ہو رہے ہیں۔ کم سنی کے جرائم بے تحاشا بڑھ رہے ہیں۔ ٹوٹے ہوئے گھروں (BROKEN HOMES) کے بچے پورے معاشرے کے لیے ایک نفسیاتی مسئلہ بنتے جارہے ہیں۔ ناجائز بچوں کی ولادت روز بروز بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ طلاق و تفریق کی کثرت نے انسانی معاشرہ کو پارہ پارہ کر دیا ہے۔ دیکھنا چاہیے اور انصاف کی نگاہ سے دیکھنا چاہیے کہ ایک اسلامی معاشرہ میں کبھی یہ مسائل اس شکل میں پیدا نہیں ہو سکے ۔ آخر کیوں نہ اُن قوانین و ضوابط کا مطالعہ کیا جائے جن کی وجہ سے اس انتہائی تنزل کے دور میں بھی مسلم معاشرہ ان لعنتوں سے پاک ہے؟ علمائے مغرب اس سے سبق لینے کے بجائے ہمارے قوانین نکاح و طلاق اور ہمارے نظام معاشرت پر الٹی نکتہ چینیاں کرتے ہیں اور اپنے شاگردوں کے ذریعہ سے ہمیں بھی وہ بیماریاں لگانے کی کوشش کر رہے ہیں جو اُن کے معاشرے کو تباہ کر رہی ہیں حالانکہ انھیں یہ معلوم کرنا چاہیے کہ ہمارے قوانین اور قواعد کے اندر کیا چیز ایسی ہے جس کی وجہ سے اسلامی معاشرہ کے اندر خاندانی نظام کی یہ درہمی و برہمی پیدا نہیں ہوئی، ناجائز بچوں کی یہ کثرت نہیں ہوئی، طلاقوں کی یہ بھر مار نہیں ہوئی، بچوں کے جرائم کا یہ زور نہیں ہوا، اولاد اپنے بوڑھے والدین کے لیے اس قدر بے درد نہیں ہوئی، اور والدین اپنی اولاد سے اس درجہ بے پرواہ نہیں ہوئے کہ بچوں سے بڑھ کر ان کو اپنے کتے زیادہ پیارے ہو جائیں۔ تعصب سے ذہن کو پاک کیا جاتا تو بعید نہ تھا کہ اپنے محدود دائرے سے باہر کی دنیا کو دیکھ کر کوئی مفید سبق حاصل کیا جا سکتا ۔

اس سلسلے میں ایک اور مثال بھی میں پیش کر سکتا ہوں ۔ آج کی دنیا پے درپے لڑائیوں کے چکر میں پھنسی ہوئی ہے۔ دو عظیم اور خوفناک لڑائیاں ہو چکی ہیں اور ایک تیسری لڑائی کا ہر وقت خطرہ ہے۔ چاروں طرف یوں محسوس ہوتا ہے کہ بارود بچھی ہوتی ہے اور دنیا کو بھڑکا دینے کے لیے بس ایک چنگاری کافی ہے۔ اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ دنیا کے موجودہ نظام میں چند بنیادی خرابیاں موجود ہیں جنھوں نے روئے زمین کو آتش فشاں بنا رکھا ہے۔ ان میں سے ایک خرابی یہ حد سے بڑھی ہوئی قوم پرستی ہے جس نے قوموں کو ایک دوسرے سے پھاڑا ہے اور ایک دوسرے کا حریف بنا دیا ہے۔ اور ایک دوسری خرابی وہ تنگ نظری اور تنگ دلی ہے جس کی وجہ سے فتح یاب ہونے کے بعد مفتوح قوم کے ساتھ کبھی فیاضی کا سلوک نہیں کیا جاتا بلکہ اس کو کچلنے، دبانے اور اس کی عزت نفس کو ختم کرنے اور مادی حیثیت سے اس کو بالکل برباد کر دینے اور اس کے ملک کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مفتوح قوم کے دل میں انتقام کی آگ بھڑک اٹھتی ہے اور ایک جنگ ختم ہوتے ہی دوسری جنگ کی تیاری شروع ہو جاتی ہے۔ اہلِ مغرب کو کھلی آنکھوں سے دیکھنا چاہیے کہ کوئی دوسرا معاشرہ ایسا ہے جس کے پاس کوئی ایسی ہدایت موجود ہو جس کی بدولت اس کے ہاں کبھی جنگ نے یہ شکل اختیار نہیں کی۔ بلاشبہ مسلمانوں کے اندر بھی اسلام کی پوری پیروی نہ کرنے کے باعث بارہا آپس کی لڑائیاں پیش آئی ہیں ۔ غیر مسلموں سے بھی بارہا ان کا مقابلہ ہوا ہے۔ دنیا کے بہت سے ملک انھوں نے بھی فتح کیے ہیں لیکن اگر کوئی شخص انصاف کی نظر سے دیکھے تو اسے نظر آسکتا ہے کہ مسلمانوں کے اندر کبھی نیشنلزم کا وہ اندھا جنون پیدا نہیں ہوا جو مغربی دنیا میں پایا جاتا ہے اور مسلمانوں نے کبھی مفتوحوں کے ساتھ وہ سلوک نہیں کیا جو اہل مغرب نے کیا ہے۔ اسپین کو کبھی مسلمانوں نے بھی فتح کیا تھا، اور پھر عیسائیوں نے بھی اسے مسلمانوں سے چھینا۔ دونوں فتوحات کے نتائج ہر شخص خود دیکھ سکتا ہے۔ فلسطین اور بیت المقدس کبھی مسلمانوں سے بھی چھینے گئے تھے اور مسلمانوں نے بھی کبھی ان کو واپس کیا تھا۔ دونوں کا فرق آخر کس کو معلوم نہیں ہے؟ اس فرق کی وجہ تلاش کیجیے۔ کیا اس کی کوئی وجہ اس کے سوا بتائی جا سکتی ہے کہ اسلام نے اپنے پیرو مسلمانوں کو اس قدر وسیع القلب، اس قدر فیاض، اور اس قدر غیر قوم پرست بنا دیا ہے جس کے باعث وہ فتح یاب ہونے کے بعد مفتوح قوم کے ساتھ کبھی وہ سلوک نہیں کرتے جو دوسرے لوگ کرتے ہیں، اور ان کے اندر قومیت کا وہ جنون کبھی پیدا نہیں ہوتا جو اپنی قوم کے سوا انسان کو ہر دوسری قوم کا دشمن بنا دیتا ہے۔ اسلام کی ان تعلیمات کو کھلے دل سے دیکھنا چاہیے جن کی بدولت مسلمانوں کو یہ نعمت حاصل ہوتی ہے۔ اگر ان کے اندر کوئی بھلائی پائی جائے، اگر ان کے اندر کوئی روشنی نظر آئے تو آخر کیوں نہ اس سے رہنمائی حاصل کی جائے؟ انسان اپنا خود دشمن ہو گا اگر کہیں اسے داروئے شفا ملتی ہو تو وہ صرف اس لیے اس کو لینے سے انکار کر دے کہ یہ اس کے ہاں کی چیز نہیں ہے۔

آخر میں ایک بات اور بھی عرض کرنا چاہتا ہوں، اگر چہ میری قوت گویائی اب ساتھ نہیں دے رہی ہے۔ اس زمانے میں خوش قسمتی سے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کو مغربی تہذیب کے ایک بہت بڑے مرکز انگلستان میں آکر رہنے کا موقع ملا ہے۔ اس سے پہلے جب برطانیہ ایک سلطنت (EMPIRE) تھا اس وقت مسلمانوں کے ساتھ اہلِ برطانیہ کے تعلقات کی نوعیت کچھ اور تھی۔ اس وقت اس کا امکان نہ تھا کہ ان کے درمیان کسی صحت مند بنیاد پر تہذیبی لین دین ہو سکے۔ لیکن اب سلطنت کا دور ختم ہو گیا ہے اور برطانیہ صرف ایک مملکت ہے۔ اب ہم اسی طرح آزاد ہیں جس طرح خود اہل برطانیہ آزاد ہیں۔ اب ہمارا اور ان کا رابطہ دو آزاد قوموں کا سا رابطہ ہے جس میں نہ ایک فریق حقیر ہے اور نہ دوسرا فریق کبیر یہ ایک ایسا موقع ہے کہ اگر اس سے دونوں فریق فائدہ اُٹھانا چاہیں تو اٹھا سکتے ہیں۔ ہم اہلِ برطانیہ کے علوم و فنون سے، ان کے سیاسی ادارات سے، ان کی آزادی صحافت سے، ان کی علمی تحقیقات سے، اور ان کی تنظیمات سے بہت کچھ استفادہ کر سکتے ہیں اور ہمیں کرنا چاہیے ، اسی طرح اہلِ برطانیہ بھی۔ اگر وہ خود بھی اس رواداری سے کچھ کام لیں جس کا سبق وہ ہمیں دیا کرتے ہیں، ہم سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ اگر وہ اپنی سرزمین میں مسلمانوں کو اسلامی اصول کے مطابق زندگی بسر کرنے کا موقع دیں تو بہت آسانی کے ساتھ انھیں یہ دیکھنے کا موقع مل سکتا ہے کہ آیا ہماری تہذیب میں کچھ اصول ایسے ہیں جن سے وہ فائدہ اٹھائیں ۔ میں جب سے یہاں آیا ہوں میں نے اکثر یہ باتیں سنی ہیں کہ اہلِ برطانیہ میں اور خصوصا یہاں کے بعض لیڈروں کے دلوں میں یہ خواہش پائی جاتی ہے کہ جو لوگ بھی اس ملک میں آئے ہیں وہ یہاں کی آبادی کے ساتھ ہم آہنگ ہو جائیں اور اپنی تہذیب اور اپنے تمدن کی خصوصیات کو چھوڑ کر انگریزی تہذیب و تمدن کی خصوصیات اختیار کرلیں میں یہ عرض کروں گا کہ انھیں اپنے اس طرز فکر پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ یہاں انگریزوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ ان کے اندر کچھ انگریزوں کا اضافہ کرنے سے آخر کیا فائدہ ہوگا؟ اور مجھے یہ بھی امید نہیں کہ اگر یہ باہر سے آنے والے لوگ سو فی صدی بھی انگریز بننے کی کوشش کریں تو یہاں واقعی انگریز کو انگریزی مانا جائے گا۔ پھر یہ بات بھی میری سمجھ میں نہیں آتی کہ اہل برطانیہ کو دوسروں سے ایسا مطالبہ کرنے کی ضرورت ہی کیا پیش آتی ہے؟ کم از کم ہمارے ہاں پاکستان میں اور دوسرے مسلمان ملکوں میں انگریزوں، امریکنوں اور یورپی حضرات سے کبھی اس نوعیت کا مطالبہ نہیں کیا گیا کہ وہ اگر ہمارے ملک میں آکر رہیں تو اپنا لباس ترک کریں، اپنے کھانے پینے کے طریقے چھوڑیں، اپنے طریق زندگی سے دست بردار ہوں اور ہمارے ساتھ ہم رنگ (INTEGRATE) ہو جائیں حتیٰ کہ ہم نے کبھی ان سے یہ بھی نہیں کہا کہ ان کی خواتین اپنی ٹانگیں ہی ڈھانک لیں۔ جب ہم نے ان کے ساتھ یہ رواداری برتی ہے تو وہ بھی ہمارے ساتھ کم از کم اتنی رواداری تو برتیں جو ہم ان کے ساتھ برت رہے ہیں۔ برطانیہ کی آبادی کثیر النسل (MULTI-RACIAL) تو بن ہی چکی ہے اگر وہ کثیر التہذیب (MULTI-CULTURAL) بھی ہو جائے تو اس میں آخر خطرے کی کیا بات ہے؟ مسلمان یہاں اپنی تہذیب کے مطابق زندگی بسر کریں گے تو انشاء اللہ برطانیہ کے معاشرے کو مالامال (ENRICH) ہی کریں گے، اور ان کی تہذیبی اقدار اور اطوار کو دیکھ کر اہلِ برطانیہ کو یہ دیکھنے کا موقع ملے گا کہ ان کے ہاں کیا چیزیں ایسی ہیں جن سے وہ آج تک ان معاشرتی الجھنوں سے بچے رہے ہیں جن سے انگریزی معاشرہ اس وقت دوچار ہے۔ خوش قسمتی سے اس مجمع میں متعدد صاحب علم انگریز اصحاب بھی موجود ہیں۔ مجھے امید ہے کہ جو کچھ میں نے خلوص دل کے ساتھ عرض کیا ہے اس پر وہ ٹھنڈے دل سے غور کریں گے اور اگر میری باتوں کو معقول پائیں گے تو انھیں کھلے دل سے قبول کریں گے۔

آخر میں میں مجلس استقبالیہ کا پھر شکریہ ادا کرتا ہوں کہ اُس نے مجھے آپ حضرات سے ملنے کا قیمتی موقع عطا فرمایا جس کی یاد انشاء اللہ میرے دل سے کبھی محو نہ ہوگی۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مجلۃ الغرباء کا سوالنامہ اور اس کا جواب

لندن سے ایک رسالہ عربی زبان میں ’مجلۃ الغرباء‘ کے نام سے نکلتا ہے جسے ان عرب طلباء نے جاری کیا ہے جو برطانیہ میں مقیم ہیں اور اپنی دوسری مصروفیات کے ساتھ اسلام کی خدمت بھی انجام دے رہے ہیں۔ اس رسالے نے مولانا مودودی سے ان کے زمانہ قیامِ لندن میں چند سوالات کیے تھے جن کا جواب انھوں نے وہیں دے دیا تھا۔ ذیل میں یہ سوالنامہ اور اس کے جوابات درج کیے جا رہے ہیں۔

سوالنامہ

  1. الغرباء اسلام پسند طلباء کا مجلہ ہے اور برطانیہ سے عربی زبان میں نکلتا ہے۔ ہمیں خوشی ہوگی کہ آپ قارئین مجلہ کو جماعت اسلامی پاکستان کے حالات سے مختصراً آگاہ فرمائیں۔

  2. پاکستانی مسلمانوں کے اندر مختلف مذہبی تصورات پائے جاتے ہیں، جماعت اسلامی نے اختلاف مذاہب کے مسئلہ کو کس طرح حل کیا ہے؟

  3. موجودہ حالات میں وہ کونسا اہم ترین میدان کار ہے جس پر اسلامی تحریک کو اپنی تمام تر کوششیں مرکوز کر دینی چاہئیں؟ کیا سیاسی میدان؟ یا تعلیمی میدان؟ یا کوئی اور میدان؟

  4. اسلامی تحریک کی ایک متحدہ عالمی قیادت قائم کرنے پر مدت سے سوچ بچار ہو رہا ہے اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟

  5. عالم اسلام اس وقت جن حالات سے گزر رہا ہے وہ آپ کے سامنے ہیں۔ ان حالات میں امور ذیل کے بارے میں آپ کا نقطۂ نظر کیا ہے؟

    • الف: مسلمان سربراہوں کی کانفرنس کا انعقاد۔
    • ب: مشترکہ اسلامی منڈی کا قیام۔
    • ج: بین الاقوامی اسلامی نیوز ایجنسی کا اجراء۔
  6. اسلامی تحریکیں اس وقت جگہ جگہ حکومتوں کے جبر و تشدد کی فضا میں سانس لے رہی ہیں، چنانچہ آپ کی نظر میں وہ کونسا مناسب ترین رویہ ہے جو اسلامی تحریکوں کو ان حکومتوں کے بارے میں اختیار کرنا چاہیے؟

  7. آپ کی رائے میں اسلامی تحریک کو مغربی ممالک میں کس اہم پہلو پر زیادہ زور دینا چاہیے؟

  8. مغرب میں کام کرنے والے داعیانِ اسلام کے لیے آپ کے مشورے کیا ہیں؟

  9. ایک دو حرفی سوال ہے کہ بیت المقدس کی واگزاری کا صحیح راستہ کیا ہے؟

  10. آپ کے قلم نے اسلامی نظریات اور اسلامی تاریخ کے متعدد گوشوں پر وافر لٹریچر فراہم کر دیا ہے۔ مگر ابھی تک سیرتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے موضوع پر آپ کی کوئی کتاب منظر عام پر نہیں آئی۔ کیا آپ اس موضوع پر لکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟

  11. عہد حاضر کے اسلامی مفکر ہونے کی حیثیت سے کیا آپ نے اپنے دور میں اسلامی نظریہ کے اندر کوئی تبدیلی یا ترقی محسوس کی ہے؟

  12. اسلامی مفکرین نے موجودہ صدی میں، بلکہ کسی حد تک گزشتہ صدی میں بھی متعدد مغربی اصطلاحیں استعمال کی ہیں۔ مثلاً ڈیموکریسی، نیشنلزم، وطنیت، پارلیمنٹ، دستور، سوشلزم، وغیرہ۔ یہ اصطلاحیں ماضی قریب کے زمانے تک برابر استعمال ہوتی رہی ہیں لیکن اب ہم دیکھ رہے ہیں کہ بعض اسلامی مفکرین ان اصطلاحوں کے استعمال سے گریز کرتے ہیں، بلکہ اسلامی نظام کی تشریح میں ان اصطلاحوں کو اختیار کرنے کی مخالفت کر رہے ہیں اور ان کا رجحان ہی نہیں بلکہ اصرار ہے کہ خالص اسلامی اصطلاحات کو استعمال کرنا چاہیے جو قرآن کریم اور سنتِ رسول سے ماخوذ ہوں۔ کیا آپ اپنے تجربات اور اسلامی احساسات کی روشنی میں بتا سکتے ہیں کہ ہماری آئندہ نسلوں میں ایسے اسلامی مفکرین پیدا ہوں گے جو ہر اس چیز کو کلیتہً رد کر دیں گے جو قرآن و سنت سے خارج ہوگی اور اسلامی شریعت، احکام قرآن اور دیگر اسلامی معاملات کے بارے میں کسی بحث و جدال کو برداشت نہیں کریں گے، بلکہ ان تمام چیزوں کو اسی طرح اصل حالت میں اختیار کریں گے جس طرح دعوتِ اسلامی کے آغاز میں ان کو اختیار کیا گیا تھا؟

  13. دنیائے اسلام میں بیشتر لوگ اس خیال کا اظہار کر رہے ہیں کہ ظہورِ مہدی (جس کی بشارت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے) سے پہلے جس قسم کے حالات کی خبر کی گئی ہے وہ اس زمانے میں رونما ہو چکے ہیں۔ آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟

  14. مسلم اور اسلامی کے درمیان کیا فرق ہے؟ کیا ان دونوں لفظوں کا استعمال درست ہے؟

جواب

۱- مجھے یہ معلوم کر کے بڑی خوشی ہوئی کہ برطانیہ میں آپ لوگ ’مجلۃ الغرباء‘ کے نام سے ایک عربی پرچہ شائع کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کی کوششوں میں برکت دے اور آپ اس پرچے کے ذریعے سے طلباء میں اسلامی روح بیدار کرنے اور بیدار رکھنے کے لیے کوئی مفید خدمت انجام دے سکیں۔

جماعت اسلامی کے متعلق تمام ضروری معلومات آپ کو جماعت کے ایک ممتاز کارکن پروفیسر غلام اعظم صاحب (جنرل سیکرٹری جماعت اسلامی مشرقی پاکستان) کی ایک تازہ کتاب سے حاصل ہو سکتی ہیں جو حال ہی میں انگریزی زبان میں شائع ہوئی ہے، اس کا ایک نسخہ اس جواب کے ساتھ آپ کو مہیا کیا جا رہا ہے۔

کتاب کا نام ہے: A GUIDE TO THE ISLAMIC MOVEMENT

۲- پاکستان میں اس وقت تین ہی فقہی مذاہب ہیں۔ ایک حنفی، دوسرے اہل الحدیث، تیسرے شیعہ امامیہ۔ ان تینوں مذاہب کے علماء نے ۱۹۵۱ء میں باہم اتفاق سے یہ بات طے کر لی تھی کہ ملکی قانون (Law of the Land) اکثریت کے مسلک پر مبنی ہوگا، اور ہر فقہی مذہب کے پیرووں کو یہ حق دیا جائے گا کہ ان کے شخصی معاملات ان کے اپنے پرسنل لاء کے مطابق طے کیے جائیں۔ رہے مختلف مذاہب کے اعتقادی اختلافات تو نہ وہ دور کیے جا سکتے ہیں، نہ ان کو دور کرنا ضروری ہے۔ صرف اتنی بات کافی ہے کہ ہر گروہ اپنے عقیدے پر قائم رہے اور سب ایک دوسرے کے ساتھ رواداری برتیں۔ اس کے لیے جماعت ملک میں عملی کوشش کر رہی ہے۔

۳- اسلامی تحریک کے لیے ساری دنیا میں کوئی ایک لگا بندھا طریق کار نہیں ہو سکتا۔ مختلف ممالک کے حالات مختلف ہیں، اور ہر جگہ کام کرنے والوں کو اپنے حالات کے مطابق ایک طریق کار اختیار کرنا ہوگا۔ البتہ جو چیز مشترک رہے گی وہ اصول اور مقصد ہے جس کا منبع قرآن و سنت ہے اور وہی تحریک اسلامی کے تمام کارکنوں کو ایک وحدت میں منسلک کرتا ہے۔ جو گروہ جس ملک اور معاشرے میں اس تحریک کے لیے کام کرنے اٹھے، اس کا یہ فرض ہے کہ اعتقاد اور عمل میں کتاب و سنت کی تعلیمات کا پورا اتباع کرے، اور اقامتِ دین کو اپنا مقصود بنا کر اپنی تمام مساعی اس پر مرکوز رکھے۔ اس کے بعد اپنی تحریک کے لیے عملی پروگرام طے کرنا ہر علاقے کے لوگوں کا اپنا کام ہے، اور ان میں اتنی حکمت ہونی چاہیے کہ وہ اپنی قوت، ذرائع اور حالات کے لحاظ سے اقامتِ دین کے لیے مناسب ترین طریق کار تجویز کریں۔

۴- جن حالات سے اس وقت ہم گزر رہے ہیں، ان میں یہ کسی طرح ممکن ہے کہ دنیا کے تمام ممالک کے لیے اسلامی تحریک کی کوئی ایک مرکزی قیادت قائم ہوسکے۔ بلکہ اس وقت کے بین الاقوامی حالات تو اتنی بھی اجازت نہیں دیتے کہ ہمارے درمیان کوئی مراسلت اور تبادلۂ خیالات ہو سکے، یا ہم وقتاً فوقتاً کوئی نئی کانفرنس کر سکیں۔ زیادہ سے زیادہ جو کچھ ہو سکتا ہے وہ صرف یہ ہے کہ ہم اپنی مطبوعات کے تبادلے کر کے ایک دوسرے کے حالات و خیالات سے واقف ہوتے رہیں، اور جہاں تک ممکن ہو، حج کے اجتماع سے فائدہ اٹھاتے رہیں۔

۵- عالم اسلام کو اس وقت نہ صرف ان تینوں امور کی ضرورت ہے، بلکہ اس کے علاوہ اور بھی بہت سے کام ہیں جو مسلم ممالک کو باہم مل کر کرنے چاہئیں۔ دو سال پہلے میں نے اس کے متعلق ۱۲ نکات پر مشتمل ایک پروگرام پیش کیا تھا۔ لیکن اس طرح کی تجویزیں اس وقت تک عمل میں نہیں آسکیں جب تک مسلمان ملکوں کی حکومتیں ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں نہ ہوں جو اسلام کے رشتے کی بنا پر باہم متفق و متحد ہونے کے لیے تیار ہوں۔ سر دست تو وہ رجعت پسند اور ترقی پسند کے جھگڑوں میں لگے ہوئے ہیں اور اپنے اپنے ملکوں میں آئے دن انقلابات برپا کرنے سے ان کو فرصت نہیں مل رہی ہے۔

۶- میرے نزدیک یہ طے کرنا ہر ملک کی اسلامی تحریک کے کارکنوں اور قائدین کا کام ہے کہ جس قسم کا ظلم و استبداد ان پر مسلط ہے اس کے مقابلہ میں وہ کس طرح کام کریں۔ ہر ملک میں اس کی صورتیں اور کیفیتیں اتنی مختلف ہیں کہ سب کے لیے کوئی ایک طریق عمل تجویز کرنا مشکل ہے۔ البتہ جو چیز میں ان سب کے لیے ضروری سمجھتا ہوں وہ یہ ہے کہ ان کو خفیہ تحریکات اور مسلح انقلاب کی کوششوں سے قطعی باز رہنا چاہیے اور ہر طرح کے خطرات و نقصانات برداشت کر کے بھی علانیہ پر امن اعلائے کلمتہ الحق کا راستہ ہی اختیار کرنا چاہیے، خواہ اس کے نتیجے میں ان کو قید و بند سے دوچار ہونا پڑے یا پھانسی کے تختے پر چڑھ جانے کی نوبت آجائے۔

۷- مغربی ممالک میں جو لوگ اسلامی تحریک کا کام کریں ان کو چاہیے کہ پہلے عملاً اپنی زندگی کو ٹھیک ٹھیک اسلامی سانچے میں ڈھالیں اور مغربی سوسائٹی کے اندر اپنی امتیازی شان نمایاں کریں۔ اہلِ مغرب کے ساتھ اخلاق اور اعمال اور طرزِ زندگی میں ہم رنگ ہو جانے کے بعد ان کی تحریک کے موثر ہونے کے امکانات آدھے سے زیادہ ختم ہو جاتے ہیں۔ اس کے بعد دوسری چیز یہ ہے کہ ان کو اہلِ مغرب کی تہذیب اور ان کے مذہب اور ان کے فلسفۂ حیات کا گہرا مطالعہ کرنا چاہیے اور پھر ایسے حکیمانہ طریقہ سے تنقید اور تبلیغ کرنی چاہیے جس سے مغربی ممالک کے سنجیدہ طبقے اسلام کی طرف متوجہ ہو سکیں۔ آپ کا کم سے کم ہدف یہ ہونا چاہیے کہ جس مغربی ملک میں بھی آپ ہوں وہاں کے کم از کم دو چار اعلیٰ صلاحیتیں رکھنے والے انسانوں کو اسلام کی طرف کھینچ لیں اور ان کو اسلامی تحریک کے لیے عملاً کام کرنے پر آمادہ کر دیں۔ اس کے بعد یہ اُن کا کام ہو گا کہ اپنے ملک میں دعوتِ اسلامی کے کام کی ذمہ داری سنبھال لیں۔

۸- سوال نمبر ۸ کا جواب اوپر آچکا ہے۔ میرے نزدیک کسی مغربی ملک میں کام کرنے والے داعی اسلام کو مشرقی ممالک میں کام کرنے والوں سے بھی بڑھ کر اسلامی احکام کا سخت متبع ہونا چاہیے۔

۹- بیت المقدس کی واپسی کا کوئی امکان میرے نزدیک اُس وقت تک نہیں ہے جب تک فلسطین کے گرد و پیش کی عرب ریاستیں اپنی اس روش کو چھوڑ نہ دیں جس کی وجہ سے انھوں نے ۱۹۶۷ء سے اب تک پے در پے یہودیوں سے شکستیں کھائی ہیں؟ ظاہر بات ہے کہ بیت المقدس کسی سیاسی تصفیے کے ذریعہ سے اب مسلمانوں کے قبضے میں واپس نہیں آسکتا۔ اس کے لیے لا محالہ لڑنا ہوگا کہ اسرائیل کو پوری شکست دی جا سکے۔ لیکن مجھے اندیشہ ہے کہ شام، عراق، مصر اور اردن میں اس وقت جو حالات پائے جاتے ہیں ان میں جنگ کا نتیجہ بیت المقدس کی واپسی کے بجائے رہے سہے کچھ مزید علاقے کھو دینے کی صورت میں رونما ہوگا۔ رہے دوسرے اسلامی ممالک، تو وہ اسرائیل کے خلاف کوئی عملی اقدام نہیں کر سکتے جب تک وہ عرب ملک اُن کا تعاون حاصل کرنے کے لیے تیار نہ ہوں جن کی سرحدیں اسرائیل سے ملتی ہیں۔

۱۰- میں ایک مدت سے یہ تمنا رکھتا ہوں کہ سیرتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی کتاب لکھوں، مگر مجھے ابھی تک اس کا موقع نہیں مل سکا ہے۔ سر دست میں نے یہ کوشش کی ہے کہ قرآن مجید کی جو تفسیر آج کل میں لکھ رہا ہوں اس میں قرآن اور سیرت کے تعلق کو واضح کرتے ہوئے اُن حالات کی تفصیل بیان کرتا جاؤں جن میں قرآن مجید کی آیات مختلف مواقع پر نازل ہوئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس تفسیر کی تکمیل کے بعد اگر مجھے اتنی مہلت اور طاقت دی کہ میں سیرتِ پاک پر کوئی مستقل کتاب لکھ سکوں تو میرے لیے یہ بہت بڑی سعادت ہوگی۔

۱۱- میں نے پچھلے ۴۰ سال میں فکرِ اسلامی کے اندر مسلسل ایک تغیر محسوس کیا ہے، اور الحمد للہ کہ وہ بہتری کی طرف ہے۔ پہلے کے مقابلے میں اب بہت زیادہ پُر فریب اور بظاہر علمی طریقے اختیار کرکے اسلام اور اس کی تعلیمات کو مسخ کرنے کی کوششیں کی ہیں، مگر ہر مرحلے پر ان کی سرکوبی کی جاتی رہی ہے اور کم از کم مسلمان آبادیوں پر وہ اپنا اثر ڈالنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔ مسلمان بالعموم اب اسلام کو اتنی صاف شکل میں جان اور پہچان رہے ہیں کہ ان کو یہ مشرقی مستشرقین دھوکا نہیں دے سکتے۔

۱۲- موجودہ زمانے کے لوگوں کو بات سمجھانے کے لیے جدید اصطلاحات کا استعمال تو ناگزیر ہے، لیکن ان کے استعمال میں بڑی احتیاط کی ضرورت ہے۔ بعض اصطلاحوں سے پرہیز اولیٰ ہے، بلکہ اجتناب واجب ہے، مثلاً اشتراکیت اور بعض کا استعمال اس شرط کے ساتھ ہی جائز ہے کہ ان کے اسلامی مفہوم اور مغربی مفہوم کا فرق پوری طرح واضح کر دیا جائے، مثلاً جمہوریت، یا دستوریت، یا پارلیمانی نظام اور بعض کو سرے سے کوئی اسلامی مفہوم دیا ہی نہیں جا سکتا مثلاً نیشنلزم۔

۱۳- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو پیشین گوئیاں ارشاد فرمائی ہیں ان میں سے کسی کے ظہور کی تاریخ بھی نہیں بتائی گئی ہے بلکہ صرف اُن حالات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جن میں کوئی واقعہ پیش آنے والا ہے۔ اس طرح کے بیانات کی بنا پر قطعیت کے ساتھ کسی وقت بھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ کب کسی پیشین گوئی کا ظہور ہو جائے گا۔ ہو سکتا ہے کہ ہم جن حالات کو دیکھ کر یہ رائے قائم کریں کہ یہ فلاں پیشین گوئی کے ظہور کا وقت ہے، ان کے بارے میں ہمارا اندازہ غلط ہو۔ ویسے تو ظہورِ قیامت کی علامات بھی اب بڑی حد تک دنیا میں پائی جاتی ہیں لیکن قطعیت کے ساتھ کوئی بھی نہیں کہہ سکتا کہ اب اس کے برپا ہونے کا وقت آ گیا ہے۔

۱۴- مسلم اور اسلامی میں ایک لحاظ سے تو کوئی فرق نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ مسلم حقیقت میں کہتے ہی اس کو ہیں جو اسلام کا متبع ہو لیکن ایک دوسرے لحاظ سے ان دونوں میں بہت بڑا فرق ہے مسلم ہر اس گروہ یا شخص کو کہا جا سکتا ہے جو دائرۂ اسلام سے خارج نہ ہو، خواہ وہ عملاً اسلام کی پیروی نہ کر رہا ہو۔ اور اس کے برعکس اسلامی صرف وہی چیز ہے جو ٹھیک ٹھیک اسلام کے مطابق ہو۔ مثلاً ایک مسلم حکومت ہر اس حکومت کو کہا جا سکتا ہے جس کے حکمران مسلمان ہوں لیکن اسلامی حکومت صرف اسی کو کہا جا سکتا ہے جو اپنے دستور اور قوانین اور انتظامی پالیسی کے اعتبار سے پوری طرح اسلام پر قائم ہو۔

مغرب کو اسلام کی دعوت

مارچ ۱۹۶۹ء کو مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے دنیا میں اسلام (Islam in the World) کے موضوع پر ایک سرکاری ٹیلی ویژن کمپنی کو حسبِ ذیل انٹرویو دیا۔

س: برصغیر میں اسلام کی آمد پر یہاں کے باشندوں کو کس چیز نے اپیل کیا؟

ج: برصغیر میں اسلام پہلی صدی ہی میں آ گیا تھا۔ پہلی صدی سے میری مراد پہلی صدی ہجری ہے۔ اس زمانے میں اسلام کو دو مذہبوں سے سابقہ پیش آیا۔ ایک بدھ مت، دوسرے ہندو مت۔ بدھ ازم ایک ایسا مذہب ہے جو انسان کو رہبانیت سکھاتا ہے، اور ہندو ازم ایک ایسا مذہب ہے جو انسان کو طبقات میں تقسیم کرتا ہے، ایسے مستقل طبقات میں جو کبھی تبدیل نہیں ہو سکتے۔ اس کے علاوہ ہندو ازم شرک و بت پرستی پر مبنی ہے۔ اسلام جب آیا تو اس نے یہاں ایک طرف توحید کا عقیدہ پیش کیا، دوسری طرف اس نے طبقاتی تقسیم کو باطل ثابت کیا اور تمام انسانیت کی وحدت پر زور دیا۔ تیسری طرف اس نے انسان کو یہ بتایا کہ اس کی ترقی کا فطری راستہ ترکِ دنیا اور رہبانیت نہیں ہے بلکہ اجتماعی زندگی میں رہتے ہوئے خدا اور اس کے بندوں اور خود اپنے نفس کے حقوق ادا کرنا ہے۔ جو اثرات اسلام نے بر صغیر کے باشندوں پر ڈالے ان کا اندازہ کرنے کے لیے یہ بات کافی ہے کہ جہاں اسلام کی آمد سے پہلے ایک مسلمان بھی موجود نہ تھا وہاں آج کروڑوں مسلمان پائے جاتے ہیں۔ کیونکہ ان کے ذہن کو اسلام کی تعلیم توحید نے، وحدتِ انسانی کی تکمیل نے، اور اجتماعی زندگی کی اصلاح کے پروگرام نے اپیل کیا۔

س: جدید دور کے لیے اسلام کا اجتماعی فلسفۂ حیات کیا ہے؟

ج: اسلام کا اجتماعی فلسفۂ حیات ہر زمانے کے لیے ہے۔ وہ جدید دور کے لیے بھی اسی طرح صحیح اور درست ہے جس طرح قدیم دور کے لیے تھا اور آئندہ آنے والے ہزاروں سال کے لیے رہے گا۔ اس کا فلسفۂ حیات اس تصور پر مبنی ہے کہ انسان کے لیے صحیح رویہ زندگی اللہ وحدہ لاشریک کی بندگی و اطاعت اور اُس قانون کی پیروی ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں کے ذریعے سے بھیجا ہے۔ چونکہ یہ ساری کائنات اللہ کی سلطنت ہے اور انسان فطری طور پر اس کا بندہ ہے، اس لیے ہر زمانے میں انسانوں کے لیے صحیح رویہ اس کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتا کہ وہ خدا کی بندگی اور اطاعت کریں اور اُس قانون کی پیروی کریں جو اس کائنات کے بنانے والے نے اپنے پیغمبروں کے ذریعے سے بھیجا ہے۔ یہی طریق زندگی ہر زمانے کے لیے ٹھیک، صحیح اور درست ہے۔ جب کبھی انسان نے اس سے انحراف کیا، اُس کو ایسے پیچیدہ مسائل سے سابقہ پیش آیا جن کو وہ اپنی عقل سے کبھی صحیح طور پر حل نہ کر سکا۔ موجودہ دور میں جو تمدن اور تہذیب کا نظام پایا جاتا ہے وہ چونکہ خدا کی اطاعت سے منحرف اور اس کے قانون سے بے نیاز ہے، اس لیے اس نے بھی بے شمار ایسے مسائل پیدا کر دیے ہیں جن کے حل کرنے پر انسان قادر نہیں ہو رہا ہے۔ مثلاً آج خاندانی زندگی کا نظام موجودہ تہذیب ہی کی وجہ سے درہم برہم ہو رہا ہے۔ مثلاً اسی تہذیب و تمدن کی بدولت رنگ اور نسل کے امتیازات اس حد تک بڑھ گئے ہیں کہ دنیا میں کبھی انسانیت پر اتنا ظلم و ستم نہیں ہوا ہے جتنا اس رنگ و نسل کے امتیاز کی بدولت آج ہو رہا ہے۔ مثلاً اس تہذیب نے نیشنلزم کا طوفان برپا کر دیا جس کی بدولت دنیا میں عظیم الشان لڑائیاں ہو چکی ہیں اور مزید ہوتی نظر آ رہی ہیں۔ یہ سب کچھ اسی وجہ سے تو ہے کہ انسان نے علومِ طبیعی کی طرح اپنی اجتماعی زندگی کے لیے بھی اپنی عقل ہی کو کافی سمجھ لیا ہے اور اپنی زندگی کا نظام اپنی عقل سے تصنیف کرنے کی کوشش کی ہے۔ اگر اس فطری نظام کو اختیار کیا جائے جو انسان کے لیے خدا نے اپنے پیغمبروں کے ذریعہ سے بھیجا ہے تو یہ مسائل کبھی پیدا نہ ہوں اور اگر کبھی پیدا ہو بھی جائیں تو ان کو آسانی سے حل کیا جا سکتا ہے۔

س: نسل اور رنگ کا مسئلہ اسلام کس طرح حل کرتا ہے؟

ج: نسل اور رنگ کے مسئلے کے پیدا ہونے کا اصل سبب یہ ہے کہ آدمی محض اپنی جہالت اور تنگ نظری کی بنا پر یہ سمجھتا ہے کہ جو شخص کسی خاص نسل یا قوم یا ملک میں پیدا ہو گیا ہے وہ کسی ایسے شخص کے مقابلے میں زیادہ فضیلت رکھتا ہے جو کسی دوسری نسل یا قوم یا کسی دوسرے ملک میں پیدا ہوا ہے۔ حالانکہ آدمی کی پیدائش ایک اتفاقی امر ہے، اس کے اپنے انتخاب کا نتیجہ نہیں ہے۔ اسلام ایسے تمام تعصبات کو جاہلیت قرار دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ تمام انسان ایک ماں اور ایک باپ سے پیدا ہوئے ہیں اور انسان اور انسان کے درمیان فرق کی بنیاد اس کی پیدائش نہیں بلکہ اس کے اخلاق ہیں۔ اگر ایک انسان اعلیٰ درجے کے اخلاق رکھتا ہے تو خواہ وہ کالا ہو یا گورا، خواہ وہ افریقہ میں پیدا ہوا ہو یا امریکہ میں یا ایشیا میں بہر حال وہ قابلِ قدر انسان ہے۔ اور اگر ایک انسان اخلاق کے اعتبار سے ایک بُرا آدمی ہے تو خواہ وہ کسی جگہ پیدا ہوا ہو، اور اس کا رنگ خواہ کچھ ہی ہو اور اس کا تعلق خواہ کسی نسل سے ہو، وہ ایک بُرا انسان ہے۔ اسی بات کو ہمارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ کالے کو گورے پر اور گورے کو کالے پر کوئی فضیلت نہیں ہے، عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت نہیں ہے۔ فضیلت اگر ہے تو وہ تقویٰ کی بنا پر ہے۔ جو شخص خدا کی صحیح صحیح بندگی کرتا ہے، اور خدا کے قانون کی صحیح صحیح پیروی کرتا ہے، خواہ وہ گورا ہو یا کالا، بہر حال وہ اس شخص سے افضل ہے جو خدا ترسی اور نیکی سے خالی ہو۔ اسلام نے اسی بنیاد پر تمام نسلی اور قومی امتیازات کو مٹایا ہے۔ وہ پوری نوعِ انسانی کو ایک قرار دیتا ہے اور انسان ہونے کی حیثیت سے سب کو برابر کے حقوق دیتا ہے۔ قرآن وہ پہلی کتاب ہے جس نے انسان کے بنیادی حقوق کو واضح طور پر بیان کیا ہے اور اسلام وہ پہلا دین ہے جس نے تمام انسانوں کو جو کسی مملکت میں شامل ہوں، ایک جیسے بنیادی حقوق عطا کیے ہیں۔ فرق اگر ہے تو یہ ہے کہ اسلامی ریاست چونکہ ایک نظریہ اور اصول (IDEOLOGY) پر قائم ہوتی ہے، اس لیے اس نظریہ کو جو لوگ مانتے ہوں اسلامی ریاست کو چلانے کا کام انہی کے سپرد کیا جاتا ہے۔ کیونکہ جو لوگ اسے مانتے اور سمجھتے ہیں وہی اس پر عمل پیرا ہو سکتے ہیں۔ لیکن انسان ہونے کی حیثیت سے اسلام تمام ان لوگوں کو یکساں تمدنی حقوق عطا کرتا ہے جو کسی اسلامی ریاست میں رہتے ہوں۔ اسی بنیاد پر اسلام نے ایک عالمگیر امت (World Community) بنائی ہے جس میں ساری دنیا کے انسان برابر کے حقوق کے ساتھ شامل ہو سکتے ہیں، حج کے موقع پر ہر شخص جا کر دیکھ سکتا ہے کہ ایشیا، افریقہ، امریکہ، یورپ اور مختلف ملکوں کے لاکھوں مسلمان ایک جگہ جمع ہوتے ہیں اور ان کے درمیان کسی قسم کا امتیاز نہیں پایا جاتا۔ ان کو دیکھنے والا ایک ہی نظر میں یہ محسوس کر لیتا ہے کہ یہ سب ایک امت ہیں اور ان کے درمیان کوئی معاشرتی امتیاز نہیں ہے۔ اگر اس اصول کو تسلیم کر لیا جائے تو دنیا میں رنگ و نسل کی تفریق کی بنا پر آج جو ظلم و ستم ہو رہا ہے اس کا یک لخت خاتمہ ہو سکتا ہے۔

س: شراب اور سور کی حرمت کے کیا وجوہ ہیں؟

ج: سب سے پہلے آپ شراب کے مسئلے پر غور کریں۔ علمی بنیاد پر یہ بات تسلیم کی جاتی ہے کہ الکوحل انسان کے جسم کے لیے بھی نقصان دہ ہے اور عقل کے لیے بھی۔ اس وقت دنیا میں الکوحلزم ایک خطرناک مسئلے کی شکل اختیار کیے ہوئے ہے۔ بکثرت انسان ایسے ہیں جو اسی الکوحلزم کی بدولت عملاً اپنی ذہنی اور جسمانی صلاحیتیں کھو چکے ہیں اور معاشرے کے لیے ایک مسئلہ بن چکے ہیں۔ اس بات کو بھی مانا جاتا ہے کہ دنیا میں بکثرت حادثات (Accidents) اس وجہ سے ہوتے ہیں کہ آدمی کے خون میں اگر ایک خاص مقدار میں الکوحل موجود ہو اور اس حالت میں وہ گاڑی چلائے تو اپنی جان کو بھی خطرے میں ڈال دیتا ہے اور دوسرے انسانوں کے لیے بھی خطرہ بن جاتا ہے لیکن اس پر کوئی اتفاق نہیں ہو سکا ہے کہ وہ خاص مقدار کو نسی ہے جس کا پایا جانا ذہنی توازن کو بگاڑ دیتا ہے۔ بہر حال مسلم ہے کہ الکوحل ایک ایسی چیز ہے جو انسان کی ذہنی صلاحیتوں کو متوازن نہیں رہنے دیتی۔ اسی وجہ سے اسلام نے الکوحل کو قطعی طور پر ممنوع قرار دیا ہے۔ آج تک کوئی شخص یہ طے نہیں کر سکا ہے کہ کتنی مقدار میں الکوحل ہر شخص کے لیے مضر ہے اور کتنی مقدار میں غیر مضر۔ یہ نسبت مختلف انسانوں کے معاملہ میں مختلف ہوتی ہے اور کوئی ایسا قاعدہ کلیہ نہیں بنایا جا سکتا کہ فلاں خاص مقدار تک الکوحل کا استعمال تمام انسانوں کے لیے یکساں غیر مضر ہوگا اور اس سے زائد مقدار سب کے لیے یکساں مضر ہوگی۔ اسی لیے اسلام نے یہ اصول قرار دیا ہے کہ جو چیز حرام ہے اس کی کم سے کم مقدار بھی حرام ہے، کیونکہ اس کی کم مقدار کو حلال قرار دینے کے بعد کوئی خط ایسا نہیں کھینچا جا سکتا جہاں جواز کی حد ختم ہو سکے اور عدم جواز کی حد شروع ہو جائے۔ لہذا قابل عمل صورت یہی ہے کہ اس کو قطعی طور پر ممنوع قرار دے دیا جائے۔ اسلام کے سوا کوئی دوسرا مذہب یا نظام تہذیب ایسا نہیں ہے جس نے انسان کو الکوحلزم سے بچانے میں وہ کامیابی حاصل کی ہو جو اسلام نے حاصل کی۔ امریکہ نے اسی صدی میں اس بات کی کوشش کی تھی کہ امریکی قوم کو شراب کے نقصانات سے بچایا جائے چنانچہ امریکی دستور میں ایک ترمیم کے ذریعہ سے شراب کو ممنوع قرار دیا گیا لیکن یہ تجربہ ناکام ہو گیا۔ اس کی وجہ یہ نہ تھی کہ شراب کا سائنٹیفک بنیاد پر مضر ہونا پہلے ثابت ہو گیا تھا اور بعد میں اس کا غیر مضر ہونا ثابت ہو گیا۔ بلکہ اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ امریکہ کی حکومت اور اس کا پورا قانونی نظام اپنا سارا زور لگا کر بھی لوگوں کو شراب چھوڑنے پر آمادہ نہ کر سکا۔ یہ دراصل امریکی تہذیب کے نظام کی کمزوری تھی، اس کے برعکس اسلام کا تہذیبی نظام اتنا طاقت ور تھا کہ ایک حکم مسلمانوں کو شراب سے روک دینے کے لیے کافی ہو گیا اور اس حکم میں آج تک اتنی طاقت ہے کہ دنیا کی کوئی قوم اب بھی شراب سے اجتناب کے معاملہ میں مسلمانوں کی برابری نہیں کر سکتی۔

جہاں تک سور کا تعلق ہے، تمام آسمانی شریعتوں میں وہ ہمیشہ سے حرام رہا ہے۔ آج بھی بائبل میں اس کی حرمت کا حکم موجود ہے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے کبھی نہیں کہا کہ میں آج سے سور کو حلال قرار دیتا ہوں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ عیسائیت نے بھی اُس حکم کو برقرار رکھا جو پہلے سے بائبل میں سور کی حرمت کے لیے موجود تھا۔ اگر سور کسی وقت بھی حلال کیا گیا ہوتا تو اس کا ثبوت موجود ہوتا کہ فلاں پیغمبر نے یا خدا کی فلاں کتاب نے اس کو حلال قرار دیا ہے لیکن میرے علم میں نہیں ہے کہ کبھی خدا کی کسی کتاب میں اس کے حلال ہونے کا حکم آیا ہو۔

اب رہا یہ سوال کہ سور کیوں حرام ہے؟ اس کے بارے میں یہ اصولی بات سمجھ لینی چاہیے کہ انسان ان چیزوں کی برائی کو تو جان سکتا ہے جو جسمانی حیثیت سے اس کے لیے نقصان دہ ہوں لیکن وہ آج تک کبھی یہ جاننے پر قادر نہیں ہوا ہے کہ کونسی غذائیں اس کے اخلاق پر برا اثر ڈالتی ہیں اور روحانی حیثیت سے اس کے لیے نقصان دہ ہیں۔ غذاؤں کے اخلاقی اثرات جاننے اور ٹھیک ٹھیک ان کو متعین کرنے کے ذرائع انسان کو حاصل نہیں ہیں۔ اسی لیے یہ کام خدا نے اپنے ذمہ لیا ہے کہ جو چیزیں انسان کے اخلاق اور اس کی روح کے لیے نقصان دہ ہیں ان کی نشاندہی وہ خود کر دے اور انھیں حرام قرار دے۔ اب اگر کوئی شخص خدا پر اعتماد کرتا ہو تو اسے وہ چیزیں چھوڑ دینی چاہئیں جن سے اس نے منع کیا ہے اور جو خدا پر اعتماد نہ رکھتا ہو وہ جو کچھ چاہے کھاتا رہے۔

ٹورانٹو کینیڈا میں ایک مجلس

۱۹۶۴ء میں مولانا محترم کو بغرض علاج امریکہ جانا پڑا تھا۔ وہاں ان کا قیام بفلو میں تھا جس سے کینیڈا کا شہر ٹورانٹو تقریباً سو میل کی مسافت پر واقع ہے۔ اس شہر کی ۲۱۷۵۰۰۰ آبادی میں مسلمانوں کی تعداد کم و بیش ۲۵ ہزار ہے۔ وہاں کے مسلمانوں کا تقاضا تھا کہ مولانا امریکہ چھوڑنے سے پہلے کم از کم ایک دفعہ ان کے ہاں ضرور تشریف لائیں۔ چنانچہ ۲ اگست ۱۹۶۴ء کی شام کو مولانا محترم نے ان کی فرمائش پوری کی اور اسلامک سنٹر کے ہال میں ایک بڑے مجمع کو خطاب بھی کیا اور لوگوں کے سوالات کے جواب بھی دیے۔ اس مجلس کی روداد درج ذیل ہے:

بھائیو اور بہنو!

میں تہ دل سے اُس محبت کے لیے شکریہ ادا کرتا ہوں جس کے ساتھ مجھے یہاں آنے کی دعوت دی گئی ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ میں امریکہ اور کینیڈا کے سفر پر آیا بھی تو بیماری کی حالت میں آیا۔ اگر صحت کی حالت میں آتا اور میرے اندر طاقت ہوتی تو میں مختلف شہروں میں خود جاتا اور ہر جگہ اپنے مسلمان بھائیوں سے ملتا، ان کے حالات معلوم کرتا، ان کے سوالات کے جوابات دیتا اور جو کچھ مشورے اُن کو دے سکتا تھا وہ دیتا لیکن افسوس یہ ہے کہ میں زیادہ محنت کرنے کے قابل نہیں ہوں، سفر کرنے کے قابل بھی نہیں ہوں۔ بہت مشکل سے یہاں پہنچا ہوں۔ میں سب سے پہلے آپ کے سوالات کے جوابات دوں گا۔ پھر جو کچھ مجھے کہنا ہے وہ چند منٹوں میں عرض کر دوں گا۔ سوال و جواب کے طریقے کو میں نے اس لیے پسند کیا ہے کہ جو باتیں آپ کے دل میں کھٹکتی ہیں پہلے وہ مجھے معلوم ہو جائیں اور میں ان کا جواب دے کر آپ کی تشفی کرنے کی کوشش کروں۔

سود کا مسئلہ

س: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ موجودہ زمانے کے بینکوں کا سود وہی چیز ہے جسے ربا کہا جاتا ہے؟ کیا مکان کا کرایہ سود پر قرض دینے سے مختلف کوئی چیز ہے؟ ایک ملک کی معیشت، مثلاً افراط زر، تفریط زر، اور قیمتوں وغیرہ کو سود کے تصور کے بغیر کنٹرول کیا جا سکتا ہے؟

ج: سب سے پہلے آپ کو یہ جان لینا چاہیے کہ قرآن سود کا کیا تصور پیش کرتا ہے۔ اس میں بالکل واضح طور پر یہ بتا دیا گیا ہے کہ جو رقم کسی شخص نے قرض لی ہو اس سے زائد کوئی رقم اگر قرض دینے والا بطور شرط وصول کرتا ہے تو وہ ربا ہے۔ یہ ایک اصولی بات ہے جو قرآن میں بیان کر دی گئی ہے۔ اور یہ بھی واضح کر دیا گیا ہے کہ قرض دینے والے کو اپنے ”راس المال (یعنی اپنے دیے ہوئے اصل مال) سے زیادہ ایک پیسہ تک لینے کا حق نہیں ہے۔ اس معاملہ میں یہ بات خارج از بحث ہے کہ جو شخص سود پر قرض لے رہا ہے وہ آیا غریب ہے، یا قرض اس غرض کے لیے لے رہا ہے کہ اس کو کاروبار میں لگائے یا صنعت میں یا کسی اور کام میں لگائے۔ ان حیثیتوں سے قرآن قطعی بحث نہیں کرتا۔ بلکہ وہ اصل راس المال سے زیادہ وصول کرنے کو بجائے خود قطعی حرام قرار دیتا ہے۔ اس سلسلے میں مزید یہ بات سمجھ لیجیے کہ جو شخص قرض دیتا ہے وہ آخر پیشگی کیسے اندازہ لگا سکتا ہے کہ قرض لینے والا اس سے کتنا فائدہ اٹھائے گا، بلکہ کوئی فائدہ اٹھائے گا بھی یا نہیں، یا الٹا نقصان اٹھائے گا؟ اُس کو ان باتوں سے کوئی بحث نہیں ہے۔ وہ ایک مقررہ منافع اور قانونی طور پر محفوظ منافع لینے کا ہر حال میں حقدار ہے۔ قرض لینے والے نے مثلاً اگر کسی مردے کو دفن کرنے کے لیے قرض لیا تھا، تب تو سود اس کے لیے خسارہ ہی خسارہ ہے۔ لیکن اگر اس نے کاروبار میں لگانے کے لیے لیا تھا تو اُس کے لیے منافع ہی کی نہیں، نقصان سے بچنے کی بھی کوئی ضمانت نہیں ہے۔ محنت، ذہانت اور وقت سب کچھ وہ صرف کرتا ہے لیکن کاروبار کا سارا خطرہ (risk) اس کے ذمہ ہے اور قرض دینے والے کے لیے ایک مقررہ منافع کی پوری ضمانت ہے۔ اس کو انصاف کون کہہ سکتا ہے؟

اب میں اس سوال کے دوسرے حصے کو لیتا ہوں، یعنی یہ کہ مکان کا کرایہ لینے اور قرض دیے ہوئے مال پر سود لینے میں کیا فرق ہے؟ اس سوال کو آپ صرف مکان کے کرائے تک محدود کیوں رکھتے ہیں؟ اگر کوئی شخص ٹیکسی چلا رہا ہے تو اس پر بھی یہی سوال کیجیے کہ کیا وہ روپیہ جو اُس نے ٹیکسی خریدنے اور اس کے چلانے میں لگایا ہے وہ اس کا سود وصول نہیں کر رہا ہے؟ اسی طرح سے آپ ان تمام چیزوں کے بارے میں یہی سوال کر سکتے ہیں جو کرایہ پر دی جاتی ہوں، مثلاً فرنیچر وغیرہ۔ لیکن روپیہ قرض دینے، اور مکان یا کسی دوسری چیز کو کرایہ پر دینے میں صریح فرق ہے۔ جو نقد روپیہ کسی کو دیا جاتا ہے وہ تو خرچ ہو جاتا ہے۔ اس نقد روپے میں کوئی ٹوٹ پھوٹ یا فرسودگی نہیں ہوتی۔ وہ استعمال کرنے سے پرانا نہیں ہو جاتا۔ اس کو مرمت اور دیکھ بھال کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس کی وصول طلب تعداد جوں کی توں قائم رہتی ہے لیکن مکان ہو یا کوئی اور چیز اس میں ٹوٹ پھوٹ بھی ہوتی ہے، استعمال سے فرسودگی بھی لاحق ہوتی ہے، مرمت کی ضرورت بھی پیش آتی ہے اور جس حالت میں کرایہ دار کوئی چیز لیتا ہے وہ اسی حالت میں اسے مالک کو واپس نہیں کرتا بلکہ کسی نہ کسی نقصان کے ساتھ واپس کرتا ہے۔ اس لیے چیز کا مالک اس پر کرایہ لینے کا جائز حقدار ہے۔ اس نوعیت کے کرائے کو روپے کے کرائے پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے شریعت میں سود اور استعمال کی اشیاء کے کرائے میں واضح فرق کر دیا گیا ہے۔

سوال کا آخری حصہ یہ ہے کہ سود کے بغیر ایک ملک کی معیشت کو کس طرح کنٹرول کیا جا سکتا ہے؟ یہ سوال ایک غلط فہمی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ جب کسی غلط طریقے پر دنیا کا نظام چل پڑتا ہے تو پھر آدمی کی سمجھ میں نہیں آتا کہ اُس کے بغیر نظام کیسے چل سکتا ہے؟ اس طرح کے نظام میں خرابی بس یہی ہے۔ ورنہ اسلام نے صدیوں تک دنیا کے بڑے حصے پر حکومت کی ہے، صدیوں تک اس کے تحت اندرونی اور بیرونی تجارت چلتی رہی ہے، مالی معاملات چلتے رہے ہیں صنعتیں چلتی رہی ہیں، ہر قسم کا لین دین ہوتا رہا ہے مگر کبھی سود لینے یا دینے کا سوال پیدا نہیں ہوا۔ یہ سودی نظام جس طرح موجودہ نظامِ مالیات پر مسلط ہوا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلے یورپ میں یہودیوں نے سود خواری شروع کی کلیسا ابتداءً میں اس کا مخالف تھا۔ سود کو وہ بھی حرام قرار دیتا تھا لیکن یہودیوں کی وجہ سے جب سارے کاروبار میں سود گھستا چلا گیا تو کلیسا اس کے ساتھ مصالحت کرتا چلا گیا، یہاں تک کہ آخر کار سود بالکل حلال ہو گیا اور ساری معیشت اسی پر چلنے لگی۔ ہم مسلمان ہونے کی حیثیت سے اس بات کے علمبردار ہیں کہ دنیا سے سود کو کو ختم کریں اور سارے مالی نظام کو غیر سودی طریقے پر چلائیں۔ ہمارے پاس سودی نظام کے مقابلے میں منافع میں شرکت کا قاعدہ (Profit Sharing System) ہے۔ یعنی بجائے اس کے کہ سرمایہ دار قرض دے کر ایک مقررہ رقم وصول کرے، اس کو لازماً کاروبار میں روپیہ لگانا چاہیے اور جو منافع ہو اس کا متناسب حصہ لینا چاہیے۔ اگر بڑے پیمانے پر بہت سے کاموں میں روپیہ لگایا جائے گا تو سارے کاموں میں نقصان ہی نہ ہوگا، بلکہ کسی میں نقصان اور کسی میں منافع ہوگا، اور مجموعی طور پر نفع نقصان سے زیادہ ہوگا۔ لیکن اس صورت میں یہ بے انصافی نہ ہوگی کہ روپے والے کے لیے لازماً مقرر منافع کی ضمانت ہو، اور سارا خطرہ (risk) صرف کام کرنے والوں کے حصہ میں آئے۔ ہمارے نزدیک دنیا کی تباہی کے اسباب میں سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ سودی نظام پورے مالیات پر قابض ہو گیا ہے۔

اسلامی نظام کے قیام کا طریقہ

س: قرآن میں فرمایا گیا ہے کہ اطِعُوا اللهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ۔

اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اُن اولوالامر کی اطاعت کرو جو تم میں سے ہوں۔ یہ حکم ایک ایسی منظم جماعت چاہتا ہے جو کسی خاص فرقے یا قوم تک محدود نہ ہو اور اسلام کی حدوں میں رہ کر کام کرے۔ آپ کا اس معاملہ میں کیا مشورہ ہے کہ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے کیا طریقے اختیار کیے جائیں، خصوصاً کینیڈا کے تنظیمی ڈھانچے کے اندر؟

ج: یہ ایسا سوال ہے جس کا پورا جواب تو ایک کتاب ہی میں دیا جا سکتا ہے۔ تاہم میں ایک مختصر سا جواب عرض کیے دیتا ہوں۔ آدمی خواہ کینیڈا میں ہو، امریکہ میں ہو، چین میں ہو، یا کہیں بھی ہو، مسلمان ہونے کی حیثیت سے اس کا اصل کام لوگوں کو اللہ اور اس کے رسول اور اس کی کتاب اور آخرت پر ایمان لانے کی دعوت دینا ہے۔ حالات اور مقامات کی مخصوص نوعیتوں کے لحاظ سے آپ اس دعوت کے لیے مناسب صورتیں اختیار کر سکتے ہیں، لیکن سب سے مقدم کام ایمان کی دعوت ہی ہے جس کے بغیر اسلامی تعلیمات کی دوسری تفصیلات کو پیش کرنا لا حاصل ہے۔ اس غرض کے لیے ضروری ہے کہ معقول دلائل کے ساتھ لوگوں کو اچھی طرح اس بات پر مطمئن کر دیا جائے کہ وہ اس دنیا میں خود مختار پیدا نہیں ہوئے ہیں، بلکہ اس دنیا کا ایک خدا ہے جس کے وہ بندے ہیں، جس نے ان کو پیدا کیا ہے اور جس کی اطاعت ان کو کرنی چاہیے۔ پھر ان کو اس بات کا قائل کیا جائے کہ خدا کی اطاعت کرنے کا ذریعہ اس کے بھیجے ہوئے رسول کے طریقے کی پیروی کرنا ہے اور اس کتاب کی پیروی کرنا ہے جو انسانوں کی ہدایت کے لیے خدا کی طرف سے بھیجی گئی ہے۔ پھر ان کو سمجھانا ہے کہ انسان اس دنیا میں غیر ذمہ دار نہیں ہے، مر کر مٹی ہو جانے والا نہیں ہے، بلکہ اس کو دوبارہ ایک زندگی عطا ہوتی ہے جس میں وہ خدا کے سامنے اپنے تمام اعمال کی جواب دہی کرے گا اور اپنا حساب دے گا۔ یہ چیزیں آپ کو لوگوں کے ذہن نشین کرنی پڑیں گی خواہ آپ کہیں بھی ہوں۔ آپ جس معاشرے میں بھی ہوں اس کے انفرادی اور اجتماعی حالات کا جائزہ لے کر آپ کو بتانا ہو گا کہ لوگوں کی انفرادی زندگیوں اور اجتماعی نظام میں جو خرابیاں پائی جاتی ہیں ان کی بنیادی وجہ یا تو خدا کے متعلق ان کا غلط عقیدہ ہے، یا رسالت، یا کتاب، یا آخرت کے بارے میں وہ کوئی غلط عقیدہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔ یہ چار بنیادی چیزیں ہیں۔ ان کے بارے میں اگر کوئی شخص یا قوم کوئی غلط عقیدہ اختیار کرلے تو اس کی ساری زندگی غلط ہو جاتی ہے۔ یہاں آپ جس معاشرے میں رہتے ہیں اس کے اندر آپ خود دیکھ رہے ہیں اور لوگوں کو دکھا سکتے ہیں کہ ہر طرف کیسی کیسی خرابیاں موجود ہیں۔ ترقی کے ساتھ ساتھ تنزل کے کون کون سے اسباب کس کس شکل میں یہاں خرابیاں پیدا کر رہے ہیں۔ یہ خرابیاں کس طرح سوسائٹی کا ستیاناس کر رہی ہیں، جرائم بڑھا رہی ہیں، خاندانی نظام کو تباہ کر رہی ہیں، نئی نسلوں کو بگاڑ رہی ہیں، اخلاقی قدروں کا خاتمہ کر رہی ہیں اور بدکرداری کا وہ طوفان برپا کر رہی ہیں جو اس سے پہلے بہت سی تہذیبوں کو غارت کر چکا ہے۔ یہ ساری چیزیں اب اس قدر عیاں ہو چکی ہیں کہ ان کی نشاندہی کرنے میں آپ کو کوئی مشکل پیش نہیں آسکتی۔ انہیں پیش کر کے آپ اپنے گرد و پیش کے لوگوں کو سمجھا سکتے ہیں کہ ان کی اصل وجہ خدا سے اور اس کی بھیجی ہوئی ہدایت سے اور آخرت کی جواب دہی کے احساس سے غافل ہو جانا ہے۔ اس حقیقت کو جب آپ معقول دلائل و شواہد کے ساتھ پیش کریں گے تو لازماً کچھ لوگ آپ کو ایسے مل جائیں گے جو ان کی صداقت تسلیم کر لیں گے۔ مکے میں بھی اسی طرح ہوا تھا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایمان کی طرف دعوت دی تو پہلے چند آدمیوں ہی نے اس کو مانا تھا۔ ایسے آدمی جب آپ کو مل جائیں تو انھیں ایک منظم جماعت بنانے اور ان کے ذریعے سے دعوت کو مزید پھیلاتے۔ جتنے لوگ اس دعوت کو قبول کرتے جائیں گے وہ اس جماعت میں شامل ہوتے چلے جائیں گے یہاں تک کہ ایک وقت ایسا آئے گا جب اس سوسائٹی کو عملاً تبدیل کر دینا ممکن ہوگا۔ اس کے لیے صبر چاہیے مسلسل محنت چاہیے۔ عقل مندی کے ساتھ کام کرنا چاہیے اور اس بات کی فکر نہ ہونی چاہیے کہ ہم کو اس میں کامیابی ایک صدی میں ہوگی یا دو صدیوں میں ہوگی۔

حرام مال سے خیرات

س: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے جمع کیا مال حرام سے اور پھر اس کو صدقہ دے دیا تو اس کے لیے کوئی اجر نہیں بلکہ اس کا اجر اس کو جائے گا جس کا مال اس شخص نے چرا لیا اور اس کو صدقہ کر دیا۔ اس حدیث کی رو سے یہ کیسے جائز ہو سکتا ہے کہ وہ بینک سے سود لے اور پھر غریبوں میں تقسیم کر دے؟ میں سمجھتا ہوں کہ شاید آپ نے اس فعل کو کسی عارضی حل کے طور پر پیش کیا ہوگا۔ کیا آپ اس کی وضاحت فرمائیں گے؟

ج: میں بارہا اس بات کو واضح کر چکا ہوں کہ بینک کے سودی اکاؤنٹ میں اس غرض سے روپیہ رکھنا کہ جو سود اس سے وصول ہو گا اس کو غریبوں میں تقسیم کر دیا جائے گا بالکل ایسا ہی ہے جیسے ایک شخص جیب اس لیے کاٹے کہ جو روپیہ اسے ملے گا اس کو وہ کسی یتیم یا کسی بیوہ کو دے دے گا۔ جس طرح جیب کاٹ کر خیرات کرنا غلط ہے اسی طرح بینک سے سود لے کر خیرات کرنا بھی غلط ہے۔ میری جس بات کا آپ حوالہ دے رہے ہیں، وہ دراصل یہ ہے کہ اگر آپ غلطی سے بینک کے سودی حساب میں روپیہ رکھ چکے ہوں اور اس پر آپ کو سود مل گیا ہو تو اس کو خود نہ استعمال کیجیے بلکہ غریبوں کو دے دیجیے۔ یہ بات میں اس وجہ سے کہتا ہوں کہ سود کے ذریعے سے جو روپیہ آتا ہے وہ صرف اسی شخص کے لیے حرام ہے جس نے سودی حساب میں روپیہ رکھا اور اس کو وصول کیا لیکن اگر وہ شخص کسی اور آدمی کو یہ روپیہ ہبہ کر دیتا ہے یا کسی چیز کی اجرت یا قیمت میں دے دیتا ہے تو اس شخص کے لیے یہ حرام نہیں ہے کیونکہ اس کو جائز طریقے سے یہ روپیہ ملا ہے اور سود لینے والے کے پاس یہ ناجائز طریقے سے آیا تھا۔ مثال کے طور پر سود لینے والا آدمی اگر کسی ٹیکسی پر سوار ہوتا ہے اور ٹیکسی والے کو اُجرت دیتا ہے تو وہ روپیہ ٹیکسی والے کے لیے حرام نہیں ہے، البتہ اس شخص کے لیے حرام ہے جس نے سودی روپے سے ٹیکسی پر سفر کیا۔ اسی طرح اگر وہ کسی کو ہبہ کر دیتا ہے یا صدقہ کر دیتا ہے تو یہ ایک شخص سے دوسرے کی طرف مال منتقل ہونے کی جائز شرعی صورتیں ہیں، اسی لیے صدقہ یا ہبہ لینے والے کے لیے یہ روپیہ حرام نہیں ہے۔

جماعت اسلامی جمہوری طریق کار کیوں اختیار کرتی ہے؟

س: پاکستان کی جماعت اسلامی نے اقتدار کی منزل تک پہنچنے کے لیے جمہوری طریقہ اختیار کیا ہے، یعنی ایک مغربی طرز کے جمہوری نظام میں مغربی طرز کے انتخابات کے ذریعہ سے اکثریت حاصل کرنا۔ دعوتِ اسلامی کے لیے اس طریقہ کے موافق و مخالف دلائل کیا ہیں؟ کیا جماعت نے اس سے پہلے کی تحریکوں کے تجربات سے اس معاملہ میں کوئی فائدہ اٹھایا ہے اور کس طرح؟ ایسے حالات میں دعوت کے لیے کیا طریق کار مناسب ہوگا جہاں کے حکمران بالکل مطلق العنان ہیں اور بنیادی انسانی حقوق تک کا کوئی لحاظ نہیں کرتے۔

ج: یہ بھی ایک بڑی تفصیل طلب بحث ہے۔ مگر میں اختصار کے ساتھ آپ کے سوال کا جواب دوں گا۔ جماعت اسلامی جس ملک میں کام کر رہی ہے اس کے حالات سمجھے لحاظ سے اس نے اپنا طریق کار اختیار کیا ہے۔ کوئی دوسرا آدمی جو اسلامی دعوت کے لیے کسی اور ملک میں کام کر رہا ہو اس کے لیے ضروری نہیں کہ وہ ہمارے طریقے کی پیروی کرے۔ وہ اپنے ملک کے حالات کے لحاظ سے کوئی دوسرا طریق کار اختیار کر سکتا ہے۔ ہم اس کے لیے یہ لازم نہیں کر سکتے کہ وہ ہمارے ہی طریقے کی پیروی کرے۔ ہم اپنی جگہ یہ سمجتے ہیں کہ اسلامی حکومت قائم کرنے کے لیے کسی قسم کی خفیہ تحریک کا طریقہ اختیار کرنا صحیح نہیں ہے کیونکہ اس کے نتائج اچھے نہیں ہوتے۔ ہم اس کو بھی صحیح نہیں سمجھتے کہ کسی طرح کی سازشیں کر کے کوئی فوجی انقلابات لانے کی کوشش کی جائے اور اس طریقے سے اسلامی حکومت قائم کی جائے۔ کیونکہ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ جس طرح ایک سازش کے نتیجے میں اسلامی حکومت قائم ہوگی اسی طرح ایک دوسری سازش کے نتیجے میں اس کا تختہ الٹ کر کوئی اور حکومت قائم ہو جائے گی۔ ہمارے نزدیک صحیح طریقہ یہ ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ایک کھلی اور علانیہ دعوت سے اپنا ہم خیال بنائیں۔ اس میں وقت کی حکومت خواہ کتنی ہی رکاوٹیں ڈالے، ہر طرح کی تکلیفوں کو، ہر طرح کے نقصانات کو، ہر طرح کی سزاؤں کو برداشت کر لیا جائے اور اپنی دعوت کو برا بر جاری رکھا جائے، یہاں تک کہ زیادہ سے زیادہ لوگ ہمارے ہم خیال ہو جائیں۔ جب لوگ ہمارے ہم خیال ہو جائیں گے تو ہم انشاء اللہ جمہوری طریقے سے ہی اپنے ملک میں اسلامی انقلاب لے آئیں گے۔

کیا زکوٰۃ ایک ٹیکس ہے؟

س: کیا زکوٰۃ ایک طرح کا انکم ٹیکس نہیں ہے؟ کیا ہم زکوٰۃ کو فلاحِ عامہ کے کاموں مثلاً مدارس اور ہسپتالوں کے لیے استعمال نہیں کر سکتے؟

ج: زکوٰۃ کو ٹیکس قرار دینا سرے سے ہی غلط ہے۔ وہ تو اسی طرح ارکان اسلام میں سے ایک رکن ہے جس طرح نماز ایک رکن ہے۔ زکوٰۃ انہی عبادتوں کی طرح ایک عبادت ہے اور اس عبادت کو مقرر کرنے کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے اس کے مصارف بھی متعین کر دیے ہیں جن کے سوا کسی اور مصرف میں اسے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ آپ جتنے ٹیکس دیتے ہیں، خواہ وہ انکم ٹیکس ہو یا کسی اور قسم کا ٹیکس، ہر ایک کا نفع پلٹ کر آپ کی طرف آتا ہے لیکن زکوٰۃ ایک ایسی چیز ہے جس کا نفع آپ کی طرف آخرت میں پلٹ کر آئے گا، اِس دنیا میں آپ بس خدا کے بتائے ہوئے حقداروں کو زکوٰۃ دے دیجیے اور سمجھ لیجیے کہ یہ نیکی خدا کے دفتر میں درج ہو گئی۔ اگر آپ اس سے سڑکیں بنائیں گے یا ریلیں بنائیں گے یا مدرسے اور ہسپتال بنائیں گے تو ان سے امیر اور غریب سب فائدہ اٹھائیں گے، در آنحالیکہ زکوٰۃ غریبوں کے لیے ہے، امیروں کے لیے نہیں ہے۔ ان چیزوں سے آپ خود بھی فائدہ اٹھائیں گے در آنحالیکہ زکوٰۃ سے آپ کو خود فائدہ اٹھانے کا حق نہیں پہنچتا۔ اس لیے زکوٰۃ کو صرف عبادت سمجھ کر ادا کیجیے، اس کو رکنِ اسلام سمجھیے، انکم ٹیکس نہ سمجھیے۔ ٹیکس کی خاصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ خواہ کتنے ہی انصاف کے ساتھ لگایا جائے اور کتنی ہی ایمانداری سے وصول اور خرچ کیا جائے، بہر حال جن لوگوں پر اس کا بار پڑتا ہے وہ کبھی اس کو خوشدلی سے نہیں دیتے بلکہ اس سے بچنے کی بے شمار راہیں تلاش کرتے ہیں۔ اب کیا خدا کی فرض کی ہوئی ایک عبادت کو بھی ٹیکس سمجھ کر اس کے ساتھ آپ یہی سلوک کرنا چاہتے ہیں؟ یہ طرز عمل آپ زکوٰۃ کے ساتھ اختیار کریں گے تو اپنے مال کے ساتھ اپنے ایمان کو بھی کھو دیں گے۔ یہ تو وہ چیز ہے جو خوشدلی سے دینی چاہیے خدا کی خاطر دینی چاہیے، جتنی آپ پر واجب ہو، اس سے بھی کچھ بڑھ کر دینا چاہیے، تاکہ خدا کی خوشنودی اور زیادہ حاصل ہو سکے۔

انشورنس

س: کیا آپ صحت، زندگی یا حادثات کے بیمے کو ایک طرح کا بیت المال نہیں سمجھتے؟ اس میں تو ہر شخص جو اپنے آپ کو انشور کراتا ہے وہ ایک طرح کا چندہ دیتا ہے، اور حاجت مند اس کا فائدہ حاصل کرتے ہیں۔

ج: آپ نے تو انشورنس کا کاروبار کرنے والوں کو بالکل جنت ہی میں پہنچا دیا۔ یہ غلط فہمی آپ کو کہاں سے لاحق ہو گئی کہ یہ ایک بیت المال ہے جس میں مالدار ایک چندہ دیتا ہے اور حاجت مند لوگ اس کا فائدہ اٹھاتے ہیں؟ حالانکہ یہ ایک باقاعدہ کاروبار (بزنس) ہے جس کو سرمایہ دار اپنے فائدے کے لیے چلاتے ہیں نہ کہ آفت رسیدہ لوگوں کے فائدے کے لیے۔ سرمایہ داروں نے سارے معاشرے کی بچتیں (savings) کھینچ کر اپنے قبضے میں لے لینے کے لیے دو طریقے اختیار کیے ہیں۔ ایک بینک جو سود کا لالچ دے کر لوگوں کے بچے ہوئے مال (savings) اپنے قبضے میں لیتا ہے۔ اور دوسرے انشورنس کمپنی، جو لوگوں کو نقصانات کی صورت میں مدد دینے کا لالچ دے کر پریمیم کی صورت میں ان کا سرمایہ اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔ ان دو طریقوں سے تمام قوم کے بچے ہوئے مال ان سرمایہ داروں کے پاس جمع ہو جاتے ہیں اور پھر یہ اپنی شرائط پر اس ساری دولت کو معاشرے کے ان کاموں میں لگاتے ہیں جو ان کے لیے زیادہ سے زیادہ مفید ہوں۔ بینک کی طرح انشورنس کمپنی بھی کوئی فلاح عام کا ادارہ نہیں ہے۔ کمپنی والے پورا حساب لگا کر دیکھتے ہیں کہ جتنے لوگ ہم سے انشور کراتے ہیں ان سے ہم کو پریمیم کتنا وصول ہوگا اور کتنے نقصانات کی تلافی کرنے کے لیے ہم کو کتنی رقم دینی ہوگی۔ اس حساب سے وہ اندازہ کر لیتے ہیں کہ کتنا نفع ہم کو حاصل ہوگا۔ جب تک انھیں بھاری نفع کی امید نہ ہو وہ انشورنس کا کاروبار ہر گز نہ کریں۔ اب آپ خود بتائیں کہ اگر وہ آپ کے ایسے ہی خیر خواہ ہیں اور خدمت خلق ہی کے لیے کام کر رہے ہیں تو اتنے بھاری منافع کیسے کماتے ہیں؟ اتنی عظیم الشان کوٹھیاں کیسے بناتے ہیں؟ اتنے عالی شان دفتر کیسے قائم کرتے ہیں؟ اتنی بڑی بڑی تنخواہوں والے ملازم اور ایجنٹ کیسے رکھتے ہیں؟ کیا یہ سب کچھ اپنی جیب سے خیرات کے طور پر ہو رہا ہے یا آپ کی جیب سے وصول کیا جاتا ہے؟ یہ بیت المال نہیں ہے، محض ناجائز نفع اندوزی ہے۔

امریکہ اور کینیڈا میں مسلمان بچوں کی تعلیم کا مسئلہ

س: جماعت اسلامی امریکہ اور کینیڈا میں ہمارے بچوں کی تعلیم کے لیے نصابی کتابیں کس طرح فراہم کر سکتی ہے؟

ج: جماعت اسلامی اس خدمت کی خواہش مند ہے۔ آپ اس کو بتائیں کہ آپ کس قسم کے لٹریچر کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔ میں تو اب واپس جا رہا ہوں، آپ اپنی ضرورت سے مرکز جماعت اسلامی لاہور کو آگاہ کریں اور تفصیل سے بتائیں کہ آپ کو کس طرح کا لٹریچر درکار ہے۔ انشاء اللہ ہم اسے فراہم کریں گے یا اگر وہ موجود نہ ہوگا تو تیار کرائیں گے اور یا تو خود چھپوائیں گے یا آپ کو بھیج دیں گے تاکہ آپ خود چھپوا لیں۔

ترقی یافتہ قوموں کے لیے اسلام میں کشش کیا ہے؟

س: ایک غیر مسلم کے لیے اسلام میں کیا کشش ہے جب کہ اچھے کیرکٹر کے لوگ غیر مسلموں میں بھی پائے جاتے ہیں؟ اور مسلمان تو آج کی دنیا میں ایک شکست خوردہ قوم سمجھے جاتے ہیں۔

ج: ایک غیر مسلم کے سامنے اسلام بہ حیثیتِ ایک دین کے آئے تو اس کو نہیں دیکھنا چاہیے کہ پیش کرنے والے کون ہیں۔ اس کو یہ دیکھنا چاہیے کہ پیش کیا چیز کی جا رہی ہے اور آیا وہ حق ہے یا نہیں؟ اگر وہ مطمئن ہو جائے کہ جو چیز میرے سامنے پیش کی جارہی ہے وہ حق ہے تو اسے قبول کرنا چاہیے اور افسوس کرنا چاہیے اس شخص کے حال پر جو حق اس کے سامنے پیش کر رہا ہے مگر خود اس کی پیروی نہیں کر رہا۔ اسے پیش کرنے والے کو اس بات پر شرم دلانی چاہیے اور خود اس چیز کی پیروی اختیار کرنی چاہیے جسے وہ حق سمجھتا ہے۔ یہ کوئی بات نہیں ہے کہ ہم مسلمان چونکہ ایک شکست خوردہ قوم ہیں اس لیے ہماری پیش کردہ اسلامی تعلیمات کو دنیا قبول نہیں کرے گی۔ مسلمان آج اتنے شکست خوردہ تو نہیں ہیں جتنے تاتاری حملے کے وقت ہوئے تھے۔ ان وحشیوں نے اُس وقت ہمارے بڑے بڑے مراکز تہذیب و تمدن کو برباد کر دیا تھا۔ بڑی بڑی لائبریریاں تباہ کر دی تھیں۔ لاکھوں مسلمانوں کو قتل کر دیا تھا۔ اور ماوراء النہر سے لے کر مصر کے قریب تک ساری اسلامی دنیا کو تہس نہس کر ڈالا تھا لیکن وہی تاتاری جنہوں نے مسلمانوں پر اس طرح سے غلبہ حاصل کیا تھا آخر کار خود مسلمان ہو گئے۔ انھوں نے اسی شکست خوردہ قوم کے دین کو قبول کر لیا جس نے ان کے آگے ہتھیار ڈالے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ آپ کا ایک شکست خوردہ قوم ہونا اس امر میں مانع نہیں ہے کہ آپ دنیا کے سامنے اسلام پیش کریں۔ اسلام کو معقول طریقے سے پیش کیجیے اور ساتھ ساتھ یہ کوشش کیجیے کہ آپ کی زندگی بھی اس کے مطابق ہو تاکہ لوگوں کے سامنے آپ اپنی بُری مثال پیش نہ کریں۔ لیکن اگر فرض کیجیے کہ آپ اپنی زندگی نہیں بدلتے تو پھر بھی اسلام کو اُس کی اصل صورت میں اللہ کے بندوں تک پہنچانے میں کوتاہی نہ کیجیے۔ کوئی معقول آدمی یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں ایک حق بات کو اس لیے قبول نہیں کرتا کہ اس کا پیش کرنے والا خود اس پر نہیں چل رہا ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے کوئی لوگوں کے سامنے حفظانِ صحت کے اصول بیان کر رہا ہو اور یہ بتا رہا ہو کہ تمہاری صحت ان اصولوں کی پیروی کرنے سے ٹھیک رہ سکتی ہے، اور سننے والا یہ دیکھے کہ شخص خود حفظانِ صحت کے اصولوں کی خلاف ورزی کر کے اپنی صحت خراب کر رہا ہے، تو وہ یہ دلیل نہیں دے سکتا کہ چونکہ تم خود ان اصولوں کی خلاف ورزی کر کے اپنی صحت بگاڑ رہے ہو، اس لیے میں بھی حفظانِ صحت کے یہ اصول قبول نہیں کرتا۔ عقل مند آدمی تو ایسی بات کبھی نہ کہے گا۔

اسلام کی ابتدا غربت سے ہونے کا مطلب

س: اس حدیث کا کیا مطلب ہے: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم بدأ الإسلام غريبًا وسيعود غريبًا فطوبى للغرباء۔ اسلام کی ابتداء غربت سے ہوئی اور پھر ایک وقت آئے گا کہ وہ پھر غریب ہو جائے گا پس خوشخبری ہو غرباء کے لیے۔

ج: اس حدیث کو سمجھنے میں عام طور پر لوگوں کو جو مشکل پیش آتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ لفظ غریب کو اردو محاورے کے مطابق مفلس کے معنی میں لے لیتے ہیں۔ حالانکہ غریب کا لفظ عربی زبان میں اجنبی اور نامانوس چیز کے لیے استعمال ہوتا ہے اور اردو میں بھی جب ہم عجیب و غریب بولتے ہیں تو اس کے معنی قریب قریب وہی ہوتے ہیں جو عربی میں لفظ غریب کے ہیں۔ ہر وہ شخص یا کام یا چیز غریب ہے جس سے لوگ آشنا نہ ہوں، جسے نرالا سمجھ کر لوگ اس سے اُکراتے ہوں، جو ان کے ذوق اور پسند کے مطابق نہ ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ اسلام کو جب اول اول پیش کیا گیا تو عموماً لوگوں نے یہ سمجھا کہ یہ ایک نرالی بات کہی جا رہی ہے، ہم تو اس سے بالکل مانوس نہیں ہیں، ہمارے باپ دادا نے کبھی ایسی باتیں نہیں سنی تھیں پس اسلام ابتداءً میں بالکل اجنبی تھا اور لوگ اس کو ایک نرالی اور ناموافق مزاج چیز سمجھتے تھے۔ پھر ایک وقت ایسا آیا کہ اسلام ہی مقبول عام ہو گیا اور ہر وہ چیز اجنبی ہو گئی جو اسلام کے خلاف تھی۔ اس کے بعد ایک وقت پھر ایسا آئے گا جب اسلام دنیا میں غریب ہو جائے گا۔ یعنی اسی طرح سے غیر مانوس اور اجنبی ہو گا جس طرح وہ ابتدا میں تھا اور وہ وقت یہی ہے جو آپ دیکھ رہے ہیں۔ آج ایک مسلمان لوگوں کے سامنے نماز پڑھتے ہوئے شرماتا ہے۔ اپنے اسلامی لباس میں چلتے پھرتے شرم محسوس کرتا ہے۔ ایک مسلمان عورت اسلامی احکام کی اطاعت میں زندگی بسر کرتے ہوئے شرم محسوس کرتی ہے۔ گناہ کرنے والا آج جری و بیباک ہے، اور ایک صالح مسلمان کی سی زندگی بسر کرنے والا اپنی جگہ خوف زدہ بیٹھا ہوا ہے کہ معلوم نہیں میں سوسائٹی میں کیسے قبول کیا جاؤں گا۔ اُس کا جینا مشکل ہے، ہر چیز اُس کے مزاج کے خلاف ہے، ہر چیز اُن اصولوں کے خلاف ہے جن کو وہ حق مانتا ہے۔ وہ سب کچھ دنیا میں دھڑلے سے ہو رہا ہے جس کے متعلق اُس کا عقیدہ ہے کہ یہ بے حیائی ہے، فحش ہے، بے شرمی ہے، گناہ ہے، حرام ہے۔ جن چیزوں کو سمجھتا ہے کہ یہ فرض ہیں ان کو بجا لانا مشکل ہو رہا ہے اور جن چیزوں کو وہ سمجھتا ہے کہ یہ حلال ہیں ان کا استعمال اس کے لیے دشوار ہو رہا ہے۔ یہی وہ وقت ہے جس کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے کہ اسلام ایک دفعہ پھر غریب اور نامانوس ہو کر رہ جائے گا اور ایسے ہی حالات کے بارے میں حضور نے فرمایا ہے کہ خوشخبری ہے غریبوں کے لیے یعنی اُن لوگوں کے لیے جو ایسے حالات پیدا ہو جانے کے بعد بھی اسلام کے اصولوں پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہیں، اور اس کی کچھ پروا نہ کریں کہ دنیا کیا کہتی ہے۔ دنیا اُن کا مذاق اُڑائے یا ان پر ہنسے، یا اُن کی تذلیل و تحقیر کرے، وہ بہر حال اسلام کے اصولوں سے نہ ہٹیں اور اجنبی بن کر رہ جانا قبول کر لیں۔ ان کے لیے حضور نے جو خوشخبری دی ہے وہ آخرت میں کامیاب ہونے کی بشارت تو بہر صورت ہے، خواہ وہ دنیا میں کامیاب ہوں یا نہ ہوں، مگر یہ دنیا میں بھی کامیاب ہونے کی بشارت ہو سکتی ہے۔ اگر ایسے غریب لوگ مل کر ایک مضبوط اور منظم جماعت بن جائیں اور اسلام کے اصولوں کو غالب کرنے کے لیے اسی طرح جان لڑا دیں جس طرح ابتدائے اسلام میں اہلِ ایمان نے اپنی جانیں لڑائی تھیں۔ اس صورت میں ان کے لیے خوشخبری ہے کہ آخر کار اسلام کی غربت ختم ہو جائے گی اور وہ پھر دنیا میں ایک غالب قوت بن جائے گا۔ اس تشریح سے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ اسلام کی غربت کے زمانے میں غریب بن کر رہ جانے والوں کے لیے ہر حال میں بشارت ہی بشارت ہے خواہ وہ دنیا میں اکیلے غریب رہ جائیں یا اس غربت کی حالت میں منظم ہو کر غالب جاہلیت سے لڑیں اور اس پر اسلام کو غالب کرنے کے لیے اپنی تمام کوششیں صرف کر دیں یا اس کوشش میں لڑتے لڑتے شہید ہو جائیں۔

ترقی کا صحیح مفہوم

س: اگر ہم زمانے کا ساتھ نہ دیں تو ترقی کیسے کر سکتے ہیں؟ اس صورت میں تو ہم پیچھے رہ جائیں گے۔

(مرتب) مزید تشریح کے لیے ہماری کتاب ’معرکہ اسلام اور جاہلیت‘ کا مطالعہ کریں۔

ج: اس سے پہلے ایک حدیث کی تشریح میں جو کچھ میں نے کہا ہے، اُس میں اِس سوال کا جواب پوری طرح آگیا ہے۔ ایک بگڑی ہوئی سوسائٹی کے اندر شراب اور زنا اور جوا تو ایسے حلال و طیب ہو جاتے ہیں کہ علی الاعلان ان کے ارتکاب میں بھی کوئی قباحت محسوس نہیں کی جاتی بلکہ ان پر اعتراض کرنے والا الٹا ہدفِ تنقید بن جاتا ہے۔ ان سے بھی آگے بڑھ کر ایسے گھناؤنے افعال بھی جن کا نام لیتے ہوئے شرم آتی ہے، کھلے بندوں کیے جانے لگتے ہیں، یہاں تک کہ پوری بے باکی کے ساتھ ان کو جائز کر دینے کا مطالبہ صرف کیا ہی نہیں جاتا بلکہ مان بھی لیا جاتا ہے۔ ایسے حالات میں ایک مسلمان کا یہ کام نہیں ہے کہ غلط قسم کی ترقی (progress) میں اپنے آپ کو بھی شامل کرلے۔ ترقی یافتہ قوموں کا ہر فعل ترقی نہیں ہے۔ ترقی دراصل ایک اضافی اصطلاح (relative term) ہے۔ شخص یا گروہ اپنے سامنے جو ہدف (goal) رکھتا ہے اس کی طرف پیش قدمی کو وہ ترقی سمجھتا ہے۔ ضروری نہیں کہ وہی ہدف ہمارا بھی ہو جو اُس کا ہے۔ ہم اگر اس ہدف کو غلط سمجھتے ہیں تو اس کی طرف جتنی پیش قدمی بھی ہم کریں گے وہ ہمارے لیے ترقی نہیں ہوگی بلکہ الٹی رجعت ہوگی اور ہم اپنے ہدف سے دور تر ہوتے چلے جائیں گے۔ اب آپ خود دیکھ لیں کہ کیا مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارا بھی وہی ہدف ہے جس کی طرف دنیا کی یہ بگڑی ہوئی قو میں چلی جا رہی ہیں؟ اگر ہمارا یہ ہدف نہیں ہے تو اس کی طرف پیش قدمی ہمارے لیے ترقی کیسے ہو سکتی ہے۔ ہم ایک خدا اور ایک رسول اور ایک کتاب کے ماننے والے ہیں اور ہمارا ہدف نیکی اور تقویٰ کی زندگی ہے، جو آخرت میں ہم کو فلاح و سعادت سے ہمکنار کرے۔ ہمارے دین نے ہم کو مستقل قدریں (permanent values) دی ہیں جو کبھی بدل نہیں سکتیں۔ جو کچھ حرام ہے وہ ہمیشہ کے لیے حرام ہے، اسے حلال نہیں کیا جا سکتا، اور جو کچھ حلال ہے وہ ہمیشہ کے لیے حلال ہے، اسے حرام نہیں کیا جا سکتا۔ ہم ان قوموں کی طرح نہیں ہیں جن کی قدریں روز بدلتی ہیں۔ آج جو نیکی ہے کل بدی بن جاتی ہے اور آج جو حرام ہے کل وہ حلال ہو جاتا ہے۔ ایسی ناپائیدار قدروں کو ہم کیسے قبول کر سکتے ہیں۔ ہمارا یہ کام نہیں ہے کہ دنیا جس طرف جا رہی ہو ہم بھی اسی طرف جائیں۔ ہمارا کام یہ ہے کہ اگر دریا غلط راستہ کی طرف بہہ رہا ہو تو ہم اس کا رخ پلٹ دیں، یا اگر اس کا رُخ پلٹ نہ سکیں تو اس کی رو کے خلاف چلیں۔ اس کی رو کے خلاف چل کر اپنے ہاتھ پاؤں توڑ لینا اور اس کے بھنور میں آ کر ڈوب جانا اس سے بہتر ہے کہ ہم اس کے ساتھ بہتے ہوئے اپنی منزل سے دور ہوتے چلے جائیں گے۔

پردہ مغربی معاشرے میں

س: پردہ کے اصطلاحی پہلو کے بارے میں اسلام کا قاعدہ کیا ہے؟ آپ مغربی دنیا میں اس پر کیسے عمل کرا سکتے ہیں؟ مردوں اور عورتوں کے مخلوط اجتماعات کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟

ج: آپ لوگ اس معاملے میں میرے خیالات جانتے ہوں گے۔ میری کتاب پردہ، اردو، عربی اور انگریزی میں شائع ہو چکی ہے۔ تفسیرِ سورہ نور میں بھی اس کی پوری وضاحت کر چکا ہوں اور یہ بھی اردو اور عربی میں شائع شدہ موجود ہے۔ سورہ احزاب کی تفسیر اگر چہ دوسری کسی زبان میں شائع نہیں ہوئی، مگر اردو میں تو شائع ہو چکی ہے۔ اس کے بعد میں نہیں سمجھ سکا کہ یہاں یہ سوال کرنے کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی۔ یہ بات سب لوگوں کو معلوم ہونی چاہیے کہ اسلام عورتوں اور مردوں کے آزادانہ میل جول اور مخلوط سوسائٹی (MIXED SOCIETY) کا قطعی قائل نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جب عورتوں نے یہ چاہا کہ انھیں مسجد نبوی میں آکر حضور کے پیچھے نماز پڑھنے کی اجازت دی جائے تو آپؐ نے انھیں منع تو نہیں کیا مگر فرمایا کہ تمہارا اپنے گھر میں نماز پڑھنا میری مسجد میں آکر پڑھنے سے بہتر ہے، اور تمہارا اپنے گھر کے اندر کسی حجرے میں پڑھنا اپنے گھر کے دالان میں پڑھنے سے بہتر ہے۔ پھر جب عورتوں نے اس شوق کا اظہار کیا کہ وہ آپ کے پیچھے نماز با جماعت میں شریک ہوں تو آپ نے صرف صبح اور عشا کے وقت آنے کی اجازت دی، ان کے آنے جانے کے لیے الگ دروازہ مخصوص کر دیا، اور اُن کے لیے مردوں کی صفوں کے پیچھے کی صفیں مقرر فرمائیں۔ اس زمانے میں صبح کی نماز ایسے وقت ختم ہوتی تھی جب نماز سے فارغ ہو کر مسجد سے واپس جاتے وقت بھی اتنا اندھیرا ہوتا تھا کہ ایک دوسرے کو پہچانا نہیں جا سکتا تھا۔ عشا کی نماز میں شریک ہونے کی اجازت بھی اس لیے دی گئی تھی کہ اس زمانے میں بجلی کی روشنی نہیں ہوتی تھی، اس لیے پیچھے کی صفوں میں کھڑی ہونے والی عورتیں چھپی رہتی تھیں۔ پھر حکم تھا کہ نماز ختم ہونے کے بعد مرد بیٹھے رہیں اور جب عورتیں چلی جائیں اُس وقت اٹھیں۔ جس مذہب کی یہ تعلیمات ہوں، اس کے متعلق آپ یہ پوچھتے ہیں کہ وہ عورتوں اور مردوں کے مخلوط اجتماعات کی اجازت دیتا ہے؟ اب اگر آپ ایسی جگہ آ گئے ہیں جہاں اس غلط طریقے کا رواج عام ہے تو خدا کے لیے جو کچھ آپ کو کرنا ہے کریں، اس کو اسلامی تعلیم بنا کر پیش کرنے کی کوشش نہ کریں۔ شریعت کے تابع آپ نہیں رہ سکتے تو شریعت کو اپنا تابع تو نہ بنائیں کہ جو کچھ آپ کرتے جائیں، شریعت بھی اس کی اجازت دیتی چلی جائے۔ مغرب کی اس سوسائٹی کے رنگ ڈھنگ آپ کو اختیار کرنے ہیں تو کیجیے مگر اپنے آپ کو گناہ گار سمجھ کر کیجیے۔

اسی پچھلے سوال کے سلسلے میں ایک اور بات آپ سے کہنا چاہتا ہوں۔ اگر یہ سوال کوئی شخص مجھ سے پاکستان میں یا کسی دوسرے مسلمان ملک میں کرتا تو اس کی وجہ کچھ سمجھ میں بھی آسکتی تھی لیکن یورپ، امریکہ یا کینیڈا میں جو لوگ رہتے ہیں ان کا ایسے سوال کرنا بہت ہی عجیب معلوم ہوتا ہے۔ آپ آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ اخلاقی خرابیاں یہاں اُمنڈ رہی ہیں، کس طرح خاندانی نظام تباہ ہو رہا ہے، کس طرح اسقاطِ حمل (abortion) کا رواج بڑھ رہا ہے، اسے قانونی جواز عطا کیا جا رہا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ عورت کو اس کا ویسا ہی حق ہے جیسا ایک دانت نکلوانے کا اسے حق ہے۔ کس طرح نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ خواہشاتِ نفس کو پورا کرنے کی جو طبعی صورتیں تھیں، ان سے لوگوں کے دل بھر گئے ہیں اور اب وہ طرح طرح کے گھناؤنے خلافِ فطرت افعال (perversions) کی طرف مائل ہوتے جا رہے ہیں، بلکہ اس قسم کے افعال بھی بے تحاشا وبا کی طرح پھیل رہے ہیں۔ عریانی کس شدت سے بڑھ رہی ہے۔ نیم برہنہ نوجوان جوڑے کس بے شرمی کے ساتھ بر سرِ عام بوس و کنار کر رہے ہیں۔ حرامی بچوں کی تعداد کس رفتار سے بڑھ رہی ہے اور حلالی بچوں کو کس طرح روکا جا رہا ہے۔ یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ لینے کے بعد تو آپ کو سمجھنا چاہیے تھا کہ آپ کے اوپر خدا اور رسول کا یہ احسانِ عظیم تھا کہ اس نے اخلاقی تباہی کے اس گڑھے میں گرنے سے پہلے ہی اُس راستے کے اولین قدم پر آپ کو روک دیا جو اس گڑھے کی طرف لے جانے والا تھا۔ یہاں جو شخص اختلاطِ مرد و زن کے جواز کا فتویٰ پوچھتا ہے، مجھے اس پر سخت حیرت ہوتی ہے۔

فلاحی ریاست کا اسلامی تصور

س: اسلام میں محاصل (taxation) کا کیا تصور ہے؟ ایک فلاحی ریاست اسلام کا معاشی نظام اختیار کرنے کے بغیر نہیں بن سکتی مگر جماعت اسلامی نے اس کو کبھی نمایاں کر کے پیش نہیں کیا۔

ج: میں نہیں سمجھتا کہ جن صاحب نے یہ سوال کیا ہے انھوں نے میری اور جماعت اسلامی کی شائع کردہ کتابوں اور جماعت کے منشور کو کبھی دیکھا ہے۔ اگر انھوں نے یہ چیزیں دیکھی ہوتیں تو شاید یہ بات نہ کہتے کہ جماعت نے اسلام کے معاشی نظام کو پیش نہیں کیا ہے اور نہ یہ بتایا ہے کہ اسلام کس طرح ایک فلاحی ریاست (welfare state) بناتا ہے۔ ان کی غلط فہمی رفع کرنے کے لیے میں عرض کرتا ہوں کہ ہم نے وضاحت کے ساتھ یہ بیان کیا ہے کہ اسلام ہی ایک صحیح قسم کا ویلفیر سٹیٹ بنا سکتا ہے۔ ایک ویلفیر سٹیٹ تو وہ ہوتا ہے جس میں لوگوں کو کسی قسم کی اخلاقی تعلیم و تربیت نہیں دی جاتی۔ ان کو کسی قسم کی صحت مند روحانی غذا نہیں ملتی۔ ان کو صحیح معنوں میں انسان بنانے کی کوئی کوشش نہیں کی جاتی، البتہ اس امر کی کوشش کی جاتی ہے کہ ان کی تمام ضروریات کو سٹیٹ پورا کرے۔ اس کا نتیجہ یہ ہو گیا ہے کہ جب ان کی تمام ضروریات سٹیٹ پوری کر دیتا ہے تو اس کے بعد ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ اب وہ اور کیا کریں پھر وہ بے مقصد عیش کی زندگی سے اکتا کر طرح طرح کی بدمعاشیوں اور بدکرداریوں پر اتر آتے ہیں اور جب ان سے بھی دل بھر جاتا ہے تو نوبت یہاں تک پہنچتی ہے کہ وہ خودکشی کرنے لگتے ہیں۔ آپ کو معلوم ہے کہ آج جو بڑے بڑے ویلفیر سٹیٹ ہیں ان میں خودکشی کی شرح کیا ہے؟ اگر یہ ویلفیر سٹیٹ واقعی آدمی کو مطمئن کر دیتا ہے تو اس کو خود کشی کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ اس سے معلوم ہوا کہ محض دنیوی سامان عیش کی فراوانی انسان کو اطمینان نہیں بخش سکتی۔ انسان صرف روٹی سے نہیں جی سکتا۔ اس کے قلبی اطمینان کے لیے اور اس کے ذہنی سکون کے لیے مادی خوشحالی کے علاوہ بھی کوئی چیز چاہیے جو یہ ویلفیر سٹیٹ پیش نہیں کر سکتا۔ پھر یہ ویلفیر سٹیٹ آدمی کو کام چور بنا دیتا ہے۔ وہ کم سے کم کام کر کے زیادہ سے زیادہ معاوضہ لینا چاہتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ہفتہ وار تعطیل کے لیے دو دن بھی کافی نہیں ہیں، تین دن ہونے چاہئیں۔ بلکہ وہ ہفتے میں تین دن ہی کام کرنا چاہتا ہے۔ دفتروں اور کارخانوں میں جاتا ہے تو ہر بہانے کام سے بچنے کی کوشش کرتا ہے۔ اخلاق کی بنیاد کے بغیر جس ویلفیر سٹیٹ کی تعمیر کی جاتی ہے وہ بالآخر اسی طرح کی خرابیوں سے دوچار ہو کر رہتی ہے۔ اس کے برعکس اسلام پہلے انسان کا اخلاق درست کرتا ہے۔ اسے حق شناس اور فرض شناس بناتا ہے، اس میں خدا ترسی اور پرہیز گاری پیدا کرتا ہے اور پھر اس کے لیے دنیوی خوشحالی کا پورا سر و سامان بہم پہنچاتا ہے۔ ایسے ویلفیر سٹیٹ میں نہ انسان کام چور ہوتا ہے نہ بدکردار اور نہ اسے کبھی خود کشی کی ضرورت پیش آتی ہے۔ اس کی تمام جائز خواہشات اور ضروریات جب پوری کر دی جاتی ہیں تو وہ آگے بڑھ کر انسانیت کی فلاح کا کام کرتا ہے اور اپنے اوقات و وسائل زیادہ سے زیادہ نیکیوں اور بھلائیوں کے پھیلانے میں صرف کرتا ہے۔

حرام و حلال گوشت کا مسئلہ

س: حلال گوشت کا کیا تصور ہے؟ کیا جانور کو ذبح کرتے وقت اللہ اکبر کہنا ضروری ہے؟ اور سور کیوں حرام ہے؟ جھٹکے کا گوشت مکروہ ہے یا حرام؟ کن حالات میں مجبوری کے باعث جھٹکے کا گوشت کھایا جا سکتا ہے؟ اگر کوئی غیرمسلم اللہ اکبر کہہ کر اسلامی طریقہ سے ذبح کرتا ہے تو گوشت حلال ہوتا ہے یا حرام؟ بہت سے مسلمان جھٹکے کا گوشت کھاتے ہیں اور تاویل فرماتے ہیں کہ لقمہ کھانے سے پہلے "اللہ اکبر" کہنے سے یہ گوشت حلال ہو جاتا ہے۔ یہ بات صاف طور پر عیاں ہے کہ اگر وہ جھٹکے کے گوشت پر پورا قرآن شریف بھی ختم کر لیں تو وہ گوشت جھٹکے کا گوشت رہے گا۔ راقم الحروف نے پہلے اپنے ایک بھائی کے ذریعے مفتی محمد شفیع صاحب سے دریافت کرایا تھا کہ جھٹکے کا گوشت مکروہ ہے یا حرام؟ جواب وصول ہوا، حرام ہے اور صرف اس حد تک کھایا جا سکتا ہے کہ حیات باقی رہے۔

ج: میں اس مسئلے کی وضاحت اردو میں بھی کر چکا ہوں اور عربی میں بھی۔ جو اصحاب اس مسئلے کو تفصیل کے ساتھ سمجھنا چاہیں وہ اردو یا عربی میں میرے اس مضمون کو پڑھ لیں۔ اردو میں میری کتاب ’تفہیمات‘ حصہ سوم میں مضمون موجود ہے۔ اور عربی میں پہلے اس کو ’المسلمون‘ نے شائع کیا ہے اور بعد میں وہ کتابی شکل میں بھی شائع ہو چکا ہے۔ جہاں تک میں نے قرآن اور حدیث کا مطالعہ کیا ہے، میرے علم میں ایک گوشت کے حلال ہونے کے لیے تین شرطیں ہیں۔ ایک یہ کہ جانور حلال قسم کا ہو نہ کہ ایسا جانور جسے شریعت میں حرام کیا گیا ہو۔ دوسرے یہ کہ جانور کا گلا اس حد تک کاٹا جائے کہ اس کے دماغ کا پچھلا حصہ جسم سے منقطع نہ ہو جائے، کیونکہ اگر وہ کٹ جائے تو جانور کی موت فوراً واقع ہو جائے گی اور اس کے جسم کا پورا خون باہر نہ آ سکے گا بلکہ اندر ہی گوشت کے ساتھ چمٹ کر رہ جائے گا لیکن اگر آدھا گلا کاٹا جائے اور پچھلے حصہ کا تعلق جسم کے ساتھ باقی رہے تو جانور تڑپے گا اور اس کے تڑپنے سے خون پورا کا پورا باہر آ جائے گا اور اس کی موت خون بہنے سے واقع ہوگی۔ اس طرح اس کا گوشت خون سے پاک ہو جائے گا۔ تیسری شرط یہ ہے کہ ذبح کرتے وقت جانور پر اللہ کا نام لیا جائے۔ اللہ کا نام لیے بغیر ذبح کرنا جائز نہیں ہے جیسا کہ قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے: وَلَا تَأْكُلُوا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ۔ جانور پر اللہ کا نام لینے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جانور کھڑا ہے اور اس پر اللہ کا نام لے لیا جائے، بلکہ ذبح کرتے وقت اس پر اللہ کا نام لینا مقصود ہے۔ ان شرطوں سے ذبیحہ حلال ہوتا ہے۔ یہ شرطیں اگر نہ پائی جائیں تو میرے نزدیک اور علماء کی اکثریت کے نزدیک وہ حلال نہیں ہوگا۔

سور کیوں حرام کیا گیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں ہر چیز کھانے ہی کے لیے پیدا نہیں کی ہے۔ جو لوگ سور کے متعلق یہ سوال کرتے ہیں وہ آخر دوسرے بہت سے جانوروں کے متعلق بھی کیوں نہیں پوچھتے؟ انھیں پوچھنا چاہیے کہ چوہا، بلی، گدھا، کتا، چیل، کوا، گدھ، کینچوے وغیرہ کیوں نہ کھائے جائیں؟ ظاہر ہے کہ دنیا کی ہر چیز صرف کھا لینے کے لیے نہیں ہے۔ رہا یہ سوال کہ اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر سور کی حرمت کا حکم کیوں دیا؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ دنیا میں بعض چیزیں تو ایسی ہیں جن کے نقصانات کو ہم خود جان سکتے ہیں اور ان کو جاننے کے لیے ہمارا علم و تجربہ کافی ہے۔ ایسی چیزوں کے استعمال سے منع کرنے کی اللہ اور رسول کو کوئی ضرورت نہ تھی لیکن جن چیزوں کا نقصان ہم نہیں جان سکتے اُن کے متعلق حکم دینا اللہ اور رسول نے اپنے ذمہ لیا ہے۔ وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ انھیں کھانے سے پرہیز کرو۔ اب جسے اللہ اور رسول پر اعتماد ہو وہ ان سے پرہیز کرے اور جسے ان پر اعتماد نہ ہو وہ جو کچھ چاہے کھاتا رہے۔

جھٹکے کے گوشت کے متعلق چونکہ حرمت کا حکم خود قرآن مجید میں ہے اس لیے اسے محض مکروہ کہنا صحیح نہیں ہے بلکہ وہ حرام ہے۔ اسے اور دوسری حرام چیزوں کو صرف ایسی حالت میں کھایا جا سکتا ہے جب کہ آدمی کی جان پر بن رہی ہو اور صرف وہ حرام چیز ہی بھوک مٹانے کے لیے موجود ہو۔ ایسی حالت میں صرف جان بچانے کی حد تک اسے کھایا جا سکتا ہے۔

اگر کوئی مشرک اللہ اکبر کہہ کر اسلامی طریقہ پر ذبح کرے تو اس کا ذبیحہ حلال نہیں ہے۔ صرف اہل کتاب کا ذبیحہ حلال ہے جب کہ وہ خدا کا نام لے کر ذبح کریں اور اسلامی طریقہ پر ذبح کریں۔

اہلِ کتاب کا ذبیح

س: یہودی یا مسیحی اہل کتاب کا ذبح کیا ہوا گوشت حلال ہے یا حرام؟

ج: قرآن مجید میں آپ سورہ مائدہ کا پہلا رکوع پڑھیے، اس میں سب سے پہلے مسلمانوں سے یہ کہا گیا ہے کہ تمہارے لیے طیبات (پاک چیزیں) حلال کی گئی ہیں۔ اس کے بعد یہ کہا گیا ہے کہ تمہارے لیے اہل کتاب کا کھانا حلال ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ اہلِ کتاب کا طیب کھانا ہمارے لیے حلال کیا گیا ہے نہ کہ ان کا خبیث (ناپاک) کھانا۔ اور اسی سورہ میں طیبات کی یہ تشریح بھی کر دی گئی ہے کہ جانور حلال قسم کا ہو، اس کو صحیح طریقہ سے ذبح کیا گیا ہو اور اس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو۔ انہی شرائط کے ساتھ اہلِ کتاب کا کھانا ہمارے لیے حلال کیا گیا ہے۔

جہاں تک مجھے معلوم ہے ساتویں آٹھویں صدی تک عیسائی کم از کم شرقِ اوسط میں اسی طریقے سے ذبح کرتے تھے، جیسا کہ حافظ ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں بیان کیا ہے۔ اس لیے ان کا ذبیحہ حلال تھا مگر اب چونکہ انھوں نے اس طریقے کی پابندی چھوڑ دی ہے، اس لیے ان کا ذبیحہ حلال نہیں رہا۔ البتہ مذہب کے پابند یہودیوں کے متعلق مجھے معلوم ہوا ہے کہ ان کے ہاں ذبح کرنے کا طریقہ تقریباً وہی ہے جو ہمارے ہاں رائج ہے اور وہ ذبح کرتے وقت اللہ کا نام بھی لیتے ہیں۔ اب یہ آپ لوگ خود تحقیق کر لیں کہ وہ یہاں اس طریقہ پر عمل کرتے ہیں یا نہیں۔ میں نے پاکستان میں ان کے ایک عالم سے پوچھا تھا تو اُس نے مجھے بتایا تھا کہ ہمارے ہاں بھی یہی حکم ہے کہ ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لیا جائے اور ہمارے ہاں ذبح کا طریقہ بھی وہی ہے جو آپ کے ہاں ہے۔ اسی بنا پر میں ان کے ذبیحہ کو حلال سمجھتا ہوں مگر میں آپ سے یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اگر یہودیوں نے دنیا بھر کے ملکوں میں منتشر ہو جانے کے باوجود اپنے لیے کوشر (kosher) گوشت کا انتظام کیا اور اپنے اس حق کو تسلیم کرایا کہ وہ اپنے لیے جانور اپنے طریقہ پر ذبح کریں گے، تو آخر آپ ہزاروں کی تعداد میں یہاں رہتے ہوئے اپنے لیے حلال گوشت کا انتظام کیوں نہیں کرتے اور خواہ مخواہ کی تاویلوں سے جھٹکے کے گوشت کو اپنے لیے حلال کرنے کی کوشش کیوں کرتے ہیں؟

اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح کا مسئلہ

س: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اس زمانے کے یہودی اور عیسائی اہل کتاب میں شمار ہو سکتے ہیں؟ کیا ایک مسلمان اس زمانے کی ایک یہودی یا عیسائی عورت سے شادی کر سکتا ہے؟ اگر نہیں تو آپ قرآن کی اس آیت کی کیا توجیہہ کریں گے جو اہل کتاب کی عورتوں سے شادی کرنے کو جائز قرار دیتی ہے؟

ج: اس زمانے کے یہودیوں اور عیسائیوں کے مذہب میں کوئی نئی بات ایسی نہیں پائی جاتی جو نزول قرآن کے زمانے میں ان کے اندر موجود نہ رہی ہو۔ اس وجہ سے یہ اب بھی اہلِ کتاب ہی ہیں۔ رہا ان سے شادی کرنے کا تعلق تو اس کے بارے میں آپ تین باتوں کو ملحوظ رکھیں:

  1. ایک یہ کہ قرآن میں اجازت دی گئی ہے، حکم نہیں دیا گیا ہے۔

  2. دوسری یہ کہ جن عورتوں سے شادی کرنے کی اجازت دی گئی ہے، ان کے لیے ایک شرط تو یہ لگائی گئی ہے کہ وہ مخصنات (یعنی با عصمت) ہوں ۔ اور دوسری یہ کہ ان سے خفیہ یا علانیہ ناجائز تعلقات پیدا نہ کیے جائیں، اور شادی کر کے ان کی خاطر اپنے ایمان اور آخرت کو خطرے میں نہ ڈالا جائے۔

  3. تیسری بات یہ ہے کہ جو کام شرعاً جائز ہیں اُن پر عمل کرنے سے پہلے آدمی کو اپنے زمانے کے حالات اور ماحول پر نگاہ ڈال کر یہ ضرور دیکھ لینا چاہیے کہ آیا اس زمانے اور اس ماحول میں یہ کام کرنے سے کوئی قباحت تو پیدا نہیں ہوگی۔ اب آپ دیکھیے کہ امریکہ، کینیڈا اور یورپ میں جو عورتیں پائی جاتی ہیں وہ اصطلاحاً (technically) تو اہل کتاب ضرور ہیں لیکن ان میں بہت کم تعداد ایسی عورتوں کی ہے جو صحیح معنوں میں اہل کتاب ہوں یعنی خدا اور رسول اور کتابوں اور آخرت پر ایمان رکھتی ہوں۔ پھر جو ایسی ہیں بھی ان پر مخصنات ہونے کا اطلاق مشکل ہی سے ہو سکتا ہے۔ اب رہا زمانے اور حالات کا معاملہ تو ان ممالک میں رہتے ہوئے کسی یہودی یا عیسائی عورت سے شادی کرنے کے معنی یہ ہیں کہ آدمی اپنے آپ کو نہیں تو اپنی آئندہ نسل کو غیر مسلم معاشرے میں بالکل جذب ہو جانے کے خطرے میں مبتلا کر رہا ہے۔ اور اگر وہ بالفرض اُس عورت کو اپنے مسلم معاشرے میں لے بھی جائے تو اس طرح کی عورتوں میں بہ مشکل ایک فیصد عورت ایسی ملے گی جو اپنے آپ کو، اپنے گھر کو، اور اپنے بچوں کو اسلامی معاشرے کے آداب اور طرزِ زندگی میں ڈھالے۔ اس کے برعکس خود شوہر صاحب ان کی خاطر اپنے پورے گھر کو ایک مغربی گھر کا نمونہ بنا لیتے ہیں اور ان کی میم صاحبہ صرف اپنے ہی گھر کو نہیں بلکہ شوہر کے خاندان اور رشتہ داروں کو بھی اسلامی طرزِ زندگی اور اسلامی افکار سے ہٹانے کی موجب بن جاتی ہیں۔ ایسی صورت میں جذبات سے مغلوب ہو کر محض جواز کے حیلے سے عیسائی یا یہودی عورتوں سے شادی کر لینا دینی مصلحت کے بالکل خلاف ہے۔

کیا اسلامی اصول حالات اور زمانے کے مطابق ڈھالے جا سکتے ہیں؟

س: کیا آپ کا خیال یہ ہے کہ بعض اسلامی اصول حالات اور زمانے کے مطابق ڈھالے جا سکتے ہیں؟ آپ کا ان لوگوں کے معاملے میں کیا طرز عمل ہوگا جو ہیں تو مسلمان مگر اسلامی تعلیمات کا مذاق اڑاتے ہیں؟

ج: آپ نے دراصل دو سوال کیے ہیں۔

پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ حالات اور زمانے پر اسلامی اصولوں کو منطبق کرنے کا کام بچوں کا کھیل نہیں ہے، بلکہ اسلامی قانون میں گہری مجتہدانہ بصیرت رکھنے والے ہی ایسا کام کر سکتے ہیں اور اکثر صورتوں میں زمانے اور ماحول کے حالات پر ان کو منطبق کرنے کی شکل وہ نہیں ہو سکتی جو علمِ دین کے بغیر اس طرح کے انطباق کی باتیں کرنے والے چاہتے ہیں۔ اگر حالات اور زمانے میں اسلام کے اصولوں کے خلاف بگاڑ پیدا ہو گیا ہو تو اسلام میں بصیرت رکھنے والا آدمی اسلامی اصولوں میں ڈھیل پیدا کرنے کے بجائے اور زیادہ سختی برتنے کی ضرورت محسوس کرے گا۔ مثلاً ابھی اہل کتاب سے شادیاں کرنے کے متعلق جو سوال مجھ سے کیا گیا تھا اُس میں میں آپ کو بتا چکا ہوں کہ حالات و زمانے کی رعایت سے اس دور کی یہودی یا عیسائی لڑکیوں سے شادی کرنے کی اجازت میں نرمی کرنے کے بجائے الٹی سختی کرنے کی ضرورت ہے۔

آپ کے دوسرے سوال کا جواب قرآن مجید ہی میں دے دیا گیا ہے۔ سورہ نساء (آیت ۴۰) میں فرمایا گیا ہے کہ:

" جب تم سنو کہ اللہ کی آیات سے کفر کیا جا رہا ہے اور اُن کا مذاق اڑایا جا رہا ہے تو ایسے لوگوں کے پاس ہرگز نہ بیٹھو جب تک کہ وہ گفتگو کا موضوع بدل نہ دیں۔ اگر تم نے ایسا کیا تو تم بھی انہی جیسے ہوگے۔ "

کیا شادی سے پہلے لڑکی سے تخلیہ میں ملاقات ہو سکتی ہے؟

س: کیا ایک مسلمان اس لڑکی سے ملاقات کر سکتا ہے جس سے وہ شادی کرنا چاہتا ہو؟ اگر یہ جائز ہے تو کیا وہ تخلیہ میں اس سے مل سکتا ہے اور اس کے سرپرستوں کی اجازت کے بغیر بھی مل سکتا ہے؟

ج: اسلام میں کورٹ شپ کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ جس بات کی اجازت حدیث میں دی گئی ہے وہ صرف اتنی ہے کہ لڑکی کے سرپرستوں کی موجودگی میں اس کی شکل دیکھ لی جائے۔ تخلیے کی ملاقاتیں، اور وہ بھی سرپرستوں کے علم و اجازت کے بغیر اسلامی طریقہ نہیں ہے، بلکہ یہ رنگ ڈھنگ امریکہ، کینیڈا اور یورپ کے لوگوں کو ہی مبارک رہیں۔ آپ لوگ اگر یہاں اپنی معاشی ضروریات کی خاطر آئے ہیں تو اپنے اوپر کم از کم اتنا کرم کیجیے کہ اپنی اسلامی اقدار کو یہاں کے طور طریقوں کے مطابق ڈھالنے کی کوشش نہ کریں۔

کیا سودی قرض لے کر مکان خریدا جا سکتا ہے؟

س: اس ملک میں مکان بہت مہنگے ہیں اور کرائے پر اگر آدمی لے تو وہ بھی بہت زیادہ گراں ہوتا ہے۔ اس حالت میں کیا مکان بینک کے پاس رہن رکھ کر سودی قرضہ کے ذریعہ خریدا جا سکتا ہے؟

ج: حرام و حلال کے اختیارات اگر میرے ہاتھ میں ہوتے تو میں آپ کے لیے کسی چیز کو حرام نہ رہنے دیتا۔ لیکن یہ اختیارات تو اللہ نے اپنے ہاتھ میں رکھے ہیں، اور میں اس کے مقرر کیے ہوئے حلال و حرام کے احکام میں کوئی رد و بدل کرنے کا مجاز نہیں ہوں۔ رہی یہ بات کہ آپ یہاں کے حالات میں اپنے آپ کو سودی ذرائع سے مکان خریدنے پر مجبور سمجھتے ہیں تو اپنی اس مجبوری کا فیصلہ آپ اپنی ذمہ داری پر خود کریں۔ مجھے اس ذمہ داری میں شریک نہ کریں۔ آپ کو دنیا میں کم از کم مکان تو مل جائے گا لیکن آخرت میں آپ کے ساتھ میری بھی شامت آئے گی۔

سرکاری بانڈز کا حکم

س: کیا گورنمنٹ کے بانڈز پر دیا جانے والا منافع بھی سود میں شمار ہوتا ہے؟

ج: اس کے سود ہونے میں کسی شک کی گنجائش نہیں۔

ایسی کمپنی کی ملازمت جو حلال و حرام دونوں قسم کے کام کرتی ہو؟

س: کیا کسی حالت میں ایک مسلمان کسی ایسی تجارتی کمپنی میں ملازمت کر سکتا ہے جو حلال و حرام دونوں قسم کی چیزیں تیار کرتی ہو یا ان کا بیوپار کرتی ہو؟

ج: ایک غیر مسلم معاشرے اور حکومت میں رہ کر مسلمان افراد کے لیے حلال و حرام کی تمیز کرنا اور حرام سے ہر حالت میں بچنا بلا شبہ ایک سخت مشکل کام ہے لیکن جہاں تک آپ کے امکان میں ہو، آپ اپنے آپ کو حرام سے بچانے کی انتہائی کوشش کریں۔ بالفرض اگر ایسی کسی کمپنی میں نوکری کرنی ہی پڑ جائے جو حلال و حرام دونوں قسم کے کاروبار کرتی ہو تو شریعت کی رو سے آپ کے ساتھ یہاں کے حالات میں زیادہ سے زیادہ جو رعایت ہو سکتی ہے وہ یہ ہے کہ آپ اس کے کسی ایسے شعبے میں ملازمت کریں جو حلال قسم کا کاروبار کرتا ہو۔

مولود شریف اور قیام کا مسئلہ

س: آپ کی رائے میں کیا مولود شریف پڑھنا جائز ہے اور کیا اس میں تعظیماً کھڑا ہونا بھی جائز ہے؟

ج: مولود شریف جس چیز کا نام ہے دراصل اس سے مراد ذکرِ رسول صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلم اور سیرتِ رسول علیہ الصلوٰۃ والسلام کا بیان ہے۔ اس کے جائز ہی نہیں کارِ ثواب ہونے میں بھی کسی کلام کی گنجائش نہیں ہے البتہ اس میں غلط اور موضوع روایات بیان کرنا درست نہیں اور مولود کی محفلوں پر اگر اعتراض ہو سکتا ہے تو اسی پہلو سے ہو سکتا ہے۔

رہا سلام کے لیے تعظیماً کھڑا ہونا تو نہ یہ فرض و واجب ہے کہ ہر آدمی کو اس پر مجبور کیا جائے اور نہ کھڑے ہونے والے کو ملامت کی جائے۔ نہ یہ حرام ہے کہ جو ایسا کرتا ہے اس کو ملامت کی جائے۔ کوئی شخص اگر عقیدت کی بنا پر کھڑا ہو تو کوئی مضائقہ نہیں۔ لیکن اس کے لازم اور ضروری نہ ہونے کا ثبوت تو ہم روز پانچ وقتہ نماز میں دیتے ہیں۔ تشہد میں السلام عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ کھڑے ہو کر آخر کون صاحب پڑھا کرتے ہیں؟ سب اس کو بیٹھ کر ہی پڑھتے ہیں اور یہ تشہد خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سکھایا ہوا ہے۔ اس لیے جو لوگ اس کے ضروری ہونے پر زور دیتے ہیں ان کو بھی اپنے مبالغے سے باز آجانا چاہیے کیونکہ شریعت میں اس کے لزوم کا کوئی ثبوت نہیں۔

کیا ہر اسلامی اصول منطقی دلائل سے صحیح ثابت ہو سکتا ہے؟

س: کیا ہر اسلامی اصول کی خالص منطقی طریقے سے توجیہہ کی جاسکتی ہے؟ اگر نہیں تو کیا بعض اسلامی اصول اندھے ایمان کی بنا پر ماننے کے لیے ہیں؟ آپ منطقی طریقے سے آخر تقدیر کی کس طرح تشریح کریں گے؟

ج: اسلام کا کوئی اصول یا عقیدہ یا حکم غیر معقول نہیں ہے۔ ہر ایک کو عقلی اور خالص منطقی طریقے سے سمجھایا جا سکتا ہے۔ کہیں مسلمان ہونے کے لیے کہیں بھی اندھے ایمان کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ آپ نے تقدیر کا مسئلہ اپنے نزدیک یہ سمجھتے ہوئے چھیڑا کہ اس مسئلہ میں منطق بالکل نہیں چل سکتی لیکن براہ کرم میری کتاب ”جبر و قدر“ اور میری تفسیر ’تفہیم القرآن‘ کی ہر جلد کے انڈکس میں لفظ ”تقدیر“ نکال کر وہ تمام مقامات دیکھ لیجیے جہاں میں نے اس مسئلہ کی تشریح کی ہے، اس کے بعد آپ ضرور بتائیے گا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندے کی پیشگی تقدیر کا طے ہونا زیادہ معقول ہے یا طے نہ ہونا زیادہ معقول ہے؟ کیا آپ ایسے خدا پر ایمان لا سکتے ہیں جس کو اپنی خدائی میں پیش آنے والے کسی واقعہ کا ایک لمحہ پہلے تک بھی علم نہ ہو اور جب کوئی واقعہ پیش آ جائے تب اسے پتہ چلے کہ میری خدائی میں یہ کچھ ہو گیا؟ کیا واقعی ایسا خدا اس عظیم کائنات پر حکومت کر سکتا ہے؟

خطاب

میں آپ کے سوالات کے جوابات دے چکا ہوں۔ اب میں اختصار کے ساتھ خود بھی کچھ آپ سے عرض کرنا چاہتا ہوں۔ اگر چہ آپ اس سرزمین میں مختلف مقاصد کے لیے آئے ہیں۔ کوئی آپ میں سے علم حاصل کرنے یا کوئی فن سیکھنے کے لیے آیا ہے، کوئی اپنی روزی کی فکر میں آیا ہے اور کچھ ایسے لوگ ہیں جو یہیں رہ بس گئے ہیں لیکن ان سب چیزوں کے ساتھ آپ کی ایک حیثیت اور بھی ہے اور وہ ہے آپ کے مسلمان ہونے کی حیثیت۔ اس دوسری حیثیت میں آپ لا محالہ جہاں بھی رہیں گے اور جہاں بھی جائیں گے اسلام کا نمائندہ ہی سمجھا جائے گا، خواہ آپ کو اس کا احساس ہو یا نہ ہو۔ ایک غیر مسلم جب بھی آپ کو دیکھے گا، یہی سمجھے گا کہ مسلمان ایسا ہوتا ہے۔ اب اگر آپ نے اپنے آپ کو ایک بُرے انسان کی حیثیت سے پیش کیا، اپنے اخلاق، اپنے معاملات اور اپنے رہن سہن کا برا نمونہ لوگوں کو دکھایا، یا یہاں کے عام و خاص کو یہ تاثر دیا کہ جیسے وہ ہیں ویسے ہی آپ بھی ہیں، تو آپ اسلام کی غلط نمائندگی کریں گے اور اس صورت میں آپ کو دیکھ کر جو شخص بھی اسلام کے متعلق بُری رائے قائم کرے گا اس کی ذمہ داری آپ پر ہوگی۔ اس کے برعکس اگر آپ نے اپنے قول و عمل سے، اپنے اخلاق، اور معاملات سے، اپنے طرز زندگی سے اسلام کی صحیح نمائندگی کی تو بعید نہیں کہ بہت سے لوگوں کے دل اسلام کے لیے کھل جائیں گے خواہ آپ باقاعدہ تبلیغ کا کام کریں یا نہ کریں۔ لہذا میں چاہتا ہوں کہ ہر مسلمان جو یہاں رہتا ہے اپنی اس حیثیت اور اس ذمہ داری کو محسوس کرے۔ آپ کی زندگی اگر ایک سچے اور پورے عملی مسلمان کی سی زندگی ہو تو آپ کا وجود ایک جیتا جاگتا اور چلتا پھرتا مبلغ بن جائے گا۔

دوسری بات میں آپ سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آپ میں سے جو لوگ یہاں رہ رہے ہیں وہ اپنی آئندہ نسل کی فکر کریں۔ آپ یہاں ایک مسلمان ملک اور مسلمان معاشرے سے نکل کر آئے ہیں۔ آپ نے مسلمان ماں باپ کے گھر میں آنکھیں کھولی ہیں۔ آپ نے خواہ اسلام کی تعلیم حاصل نہ بھی کی ہو تو زندگی کا ایک خاصا حصہ مسلم معاشرے میں گزارا ہے جس کے اندر رہ کر ہر شخص کچھ نہ کچھ اسلام کے متعلق ضرور جان لیتا ہے۔ اس کو سرسری ہی سہی، بہرحال اتنا ضرور علم ہوتا ہے کہ اسلامی عقائد کیا ہیں، اسلامی عبادات کیا ہیں، اسلام کی نگاہ میں کیا چیز بری ہے اور کیا چیز اچھی، اور مسلمان کا طرز زندگی کیا ہے؟ لیکن آپ کی اولاد جو یہاں پرورش پا رہی ہے وہ بالکل نہیں جانتی کہ اسلام کیا ہے اور اسلامی زندگی کیا ہوتی ہے۔ اس کو اسلام کی کوئی تعلیم نہیں ملتی اور مسلم معاشرے کے طور طریقوں سے وہ واقف نہیں ہوتا۔ یہاں آنکھیں کھول کر ایک بچہ ہر وقت ایک غیر مسلم معاشرے کو چلتا پھرتا دیکھتا ہے۔ یہاں کے مدارس میں جاتا ہے تو وہی تعلیم و تربیت اسے ملتی ہے جو یہاں کے بچوں اور نوجوانوں کو دی جاتی ہے۔ اس حالت میں آپ چاہے کتنا ہی زور لگا لیں اپنی اولاد کو یہاں کے معاشرے، یہاں کے اخلاق و تہذیب اور یہاں کے غلط نظام زندگی میں جذب ہونے سے نہیں بچا سکتے۔ اس لیے یہ نہایت ضروری ہے کہ جہاں بھی مسلمان کافی تعداد میں آباد ہیں وہاں وہ اپنے بچوں کی اسلامی تعلیم و تربیت کا خود انتظام کریں۔ اگر وہ اس کی ضرورت اور اہمیت کو محسوس کر لیں گے تو یہ کچھ مشکل نہیں ہے کہ مل جل کر ایک تنظیم قائم کریں۔ ایک تعلیمی فنڈ قائم کریں جس میں ہر شخص باقاعدگی کے ساتھ اپنی استطاعت کے مطابق چندہ دے اور اس فنڈ سے مسلمان بچوں کے لیے مدارس کھولے جائیں جن میں تعلیم اسی معیار کی ہو جو اس ملک کا نظام تعلیم چاہتا ہے، مگر اس کے ساتھ دینی تعلیم و تربیت بھی دی جائے اور مسلمان بچوں کو یہاں کے نظام تعلیم کی گندگیوں (مثلاً جنسی تعلیم اور مخلوط تعلیم) سے محفوظ رکھا جائے۔ ان مدرسوں کے ساتھ ایسے ہوسٹل بھی قائم کیے جائیں جن میں ایسے مقامات کے لوگ اپنے بچے بھیج سکیں جہاں مسلمانوں کی تعداد اتنی کم ہے کہ وہ اپنے مدارس قائم نہیں کر سکتے۔ میرے نزدیک کوئی وجہ نہیں ہے کہ آپ کے مدارس کو تسلیم نہ کیا جائے ۔ اگر آپ یہ ثابت کر دیں گے کہ کینیڈا یا امریکہ میں تعلیم کا جو معیار ہے آپ کے مدارس اس معیار پر پورے اُترتے ہیں اور آپ اس معیار کو برقرار رکھتے ہوئے اپنے بچوں کو اپنے مذہب کی تعلیم دینا چاہتے ہیں تو میں نہیں سمجھتا کہ آپ کے اس حق کو تسلیم کرنے سے کوئی حکومت انکار کر دے گی۔ اگر یہاں دوسرے مذہبی یا نسلی گروہوں کو اپنے مخصوص (PAROCHIAL) مدارس قائم کرنے کی اجازت دی جاسکتی ہے تو آخر آپ کو کیوں نہیں دی جا سکتی؟ شرط بس یہ ہے کہ آپ بھی اپنا حق منوانے کے لیے اسی طرح کی کوشش کریں جس طرح دوسروں نے کی ہے اور اسے منوا کر چھوڑا ہے۔ میں صاف صاف عرض کرتا ہوں کہ اگر آپ نے اس کام میں غفلت سے کام لیا تو آپ کی پہلی نسل کو تو شاید یہ یاد بھی رہ جائے کہ ان کے باپ دادا مسلمان تھے، لیکن دوسری تیسری نسل تک پہنچتے پہنچتے وہ بالکل یہاں کی تہذیب اور معاشرے میں گم ہو جائیں گے اور ان کے اندر اسلام کی رمق تک باقی نہ رہے گی۔ خدا نہ کرے کہ اس حد تک نوبت پہنچے۔ اس لیے میں بڑی دل سوزی کے ساتھ آپ کو اس کام کی ضرورت و اہمیت کا احساس دلاتا ہوں۔ مجھے امید ہے کہ کینیڈا اور امریکہ میں رہنے والے مسلمان اس میں کسی تساہل اور تاخیر سے کام نہ لیں گے۔

واخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين

الزامات، اعتراضات اور سوالات کا جواب

جب آپ اسلام اور اس کے نظام حیات سے متعلق کوئی سوال اٹھاتے ہیں تو یہ ایک ایسا موضوع ہوتا ہے جس کا جواب دینے میں کوئی الجھن پیش نہیں آتی۔

آپ کی تہذیب کو جتنی ہمدردی مجرم سے ہے، اتنی مظلوم سے نہیں۔

آپ جسے ماڈرن کہہ رہے ہیں، ہمارے نزدیک پس ماندہ اور فرسودہ ہے۔

جنوب مشرقی ایشیا کے لیے بی بی سی کے نمائندے جناب ولیم کرالے نے سید ابوالاعلیٰ مودودی سے، اُن کے دفتر میں پچاس منٹ تک ملاقات کی اور اسلام کے معیشتی، معاشرتی اور سماجی ضابطوں پر متعدد سوالات کیے، اور سید محترم نے اس کے جواب میں دلائل کے ساتھ اسلام کا نقطہ نظر واضح کیا، اور دکھا دیا کہ اسلام کے پاس مغرب کے ہر سوال کا جواب موجود ہے۔ کیونکہ ولیم کرالے اردو بخوبی جانتے ہیں، اس لیے جوابات اردو میں دیے گئے ہیں، کہیں کہیں سید محترم نے انگریزی میں بھی اظہار خیال کیا۔

ولیم کرالے: ARE YOU SATISFIED WITH THE ISLAMIC PROVISIONS INCORPORATED IN THE CONSTITUTION OF PAKISTAN 1973?
(کیا آپ آئین ۱۹۷۳ء میں شامل اسلامی دفعات پر مطمئن ہیں؟)

مولانائے محترم: YES, WE ARE SATISFIED WITH THESE PROVISIONS. AS A MATTER OF FACT WE HAVE TRIED TO INTRODUCE THESE PROVISIONS IN THIS CONSTITUTION.
(جی ہاں، ہم ان دفعات پر مطمئن ہیں اور درحقیقت دستور میں ان دفعات کو شامل کرانے کے لیے ہم نے مسلسل جد و جہد کی ہے.)

ولیم کرالے: LIKE ISLAMIC COUNCIL ETC.
(مثلاً اسلامی کونسل وغیرہ؟)

مولانائے محترم: YES EVERY THING ABOUT ISLAM HAS BEEN INCLUDED IN THE CONSTITUTION IS DUE TO OUR PERSISTENCE.
(اسلام سے متعلق ہر وہ چیز جو دستور میں شامل ہے، دراصل ہماری کوششوں کے نتیجے میں شامل کی گئی ہے) جہاں تک ان دفعات کے شامل آئین ہونے کا تعلق ہے اس پر تو ہم مطمئن ہیں لیکن اس بات پر مطمئن نہیں ہیں کہ ان پر عمل درآمد کس طریقے سے ہو رہا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ ان دفعات کو سرد خانے میں ڈال دیا گیا ہے اور نہ صرف یہ کہ ان پر عمل نہیں کیا جا رہا ہے بلکہ جتنے کام بھی کیے جا رہے ہیں وہ ان کے برعکس کیے جا رہے ہیں۔

ولیم کرالے: پاکستان کا موجودہ قانونی ڈھانچا اینگلو سیکسن قانون کی بنیاد پر قائم ہے، کیا آپ اسلام کے شرعی قوانین کو نافذ کرنے کے لیے پاکستان کے موجودہ قانونی نظام میں بنیادی تغیرات لائیں گے؟

مولانائے محترم: ہم صرف اتنا ہی نہیں چاہتے کہ محض قانونی نظام (LEGAL SYSTEM) تبدیل کیا جائے ۔ بلکہ ہمارے پیش نظر پورے معاشرے کو اسلامی بنیادوں پر استوار کرنا اور پورے نظام حکومت کو تبدیل کرنا ہے ۔ اس مقصد کے لیے صرف LEGAL SYSTEM کو تبدیل کرنا کافی نہیں ہو سکتا۔ قانونی نظام کے ساتھ ایک بڑا تعلق ملک کے تعلیمی نظام کو ہے ۔ اگر نظام تعلیم افراد قوم کو مسلمان بنانے والا نہ ہو تو محض قانونی نظام کے نفاذ سے اسلامی معاشرے کی تشکیل کا مقصد پورا نہیں ہو سکتا ۔ ایسا ہی معاملہ ملک کے معاشی نظام کا ہے ۔ اگر اسے صحیح اسلامی خطوط پر استوار نہ کیا جائے تو اس صورت میں بھی محض قانونی نظام کی اصلاح مفید اور مؤثر ثابت نہیں ہو سکتی ۔ اس بنا پر ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہماری پوری معاشرتی زندگی (SOCIAL LIFE) اسلام کے مطابق ہو ۔ ہماری حکومت کی تمام پالیسیاں اسلام کے مطابق ہوں اور حکومت کے سارے معاملات صحیح اسلامی خطوط پر انجام پائیں۔ اس مقصد کے لیے یہ نہایت ضروری ہے کہ سروسز کی ٹریننگ کے تمام اداروں کا تعلیمی اور تربیتی ڈھانچہ تبدیل کیا جائے، سول سروس کے تمام شعبوں اور فوج کی تربیت کے اداروں میں بھی اسلام کی اخلاقی تعلیم دینے کا انتظام کیا جائے اور زیر تربیت افسروں کے دلوں میں اسلام کا صحیح شعور (CREED) بٹھایا جائے ۔ ان کو سچا مسلمان بنانے کی کوشش کی جائے لیکن یہ کام نہیں کیا جا رہا ہے ۔ اس کے برعکس صورت حال یہ ہے کہ انگریزی حکومت کے زمانے میں سروسز کو جس طرز پر ٹریننگ دی جاتی تھی۔ اسی طرز پر اب بھی دی جا رہی ہے ۔ اسلامی تربیت کی کوئی فکر اب تک نہیں کی گئی۔ اس لیے ہمارے نقطہ نظر سے محض LEGAL SYSTEM میں تبدیلی کافی نہیں ہے۔ WE WANT TO SEE OVERALL CHANGE

اسلام اور جدید ریاست

ولیم کرالے: آپ نے ہر شعبہ زندگی سے متعلق اداروں میں اسلامی تعلیم و تربیت کو لازمی قرار دیا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ ایک جدید ریاست کی معیشت کو خالص اسلامی اصولوں کے مطابق کیوں کر چلایا جا سکتا ہے؟

مولانائے محترم: ہم نے تیس سال یہ بات ثابت کرنے میں صرف کیے ہیں کہ ایک جدید ریاست کو مکمل طور پر اسلام کے عطا کردہ اصولوں پر چلایا جا سکتا ہے، اور صرف چلایا ہی نہیں جا سکتا بلکہ یہ ثابت کیا جا سکتا ہے کہ اسلامی بنیادوں پر قائم ہونے والی جدید ریاست دوسری تمام جدید ریاستوں سے زیادہ کامیاب اور بہتر ہے ۔ چنانچہ ہماری کوشش صرف یہی نہیں ہے کہ ہم پاکستان میں اسلام کو نافذ کر کے یہ بتائیں کہ اسلام کی بنیادوں پر ایک جدید ریاست چل سکتی ہے بلکہ ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ اس جدید ریاست کو دیکھ کر دنیا کی دوسری جدید ریاستیں اس بات کی قائل ہو جائیں کہ یہ ریاست ہم سے کہیں بہتر اور فائق ہے ۔ THE PRINCIPLES OF AN ISLAMIC STATE ARE SUPERIOR TO ALL OTHER POLITICAL SYSTEMS
(اسلامی ریاست کے اصول باقی تمام سیاسی نظاموں پر فوقیت رکھتے ہیں)

ولیم کرالے: اتفاق سے ترکی کے صدر ان دنوں پاکستان کا دورہ کر رہے ہیں اور پاکستان اور ترکی کے درمیان گہرے دوستانہ تہذیبی اور سیاسی روابط بھی ہیں۔ چنانچہ میں ترکی کے حوالے سے ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں ۔ ترکی ایک مسلمان ملک ہے لیکن بیسویں صدی کے تیسرے عشرے سے اس نے سیاسی اور معاشی ترقی کا ایک نیا راستہ اختیار کیا۔ ایک زمانے میں ہندوستان اور ترکی کے درمیان خلافت کے مسئلے پر خاصی جذباتی فضا پائی جاتی تھی لیکن بالآخر ترکی نے خود ہی خلافت کا ارادہ ختم کر دیا، اس کے بعد ملک میں سیکولر نظام قائم کیا گیا ، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ ملکی سیاست اور معیشت کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کر دیا گیا ۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان ترکی کے تجربے سے فائدہ نہیں اٹھاتا اور اس کی تقلید کیوں نہیں کرتا ۔ اس کے برعکس آپ ماضی کے قدیم اسلامی نظام کی طرف کیوں واپس جانا چاہتے ہیں؟

مولانائے محترم: آپ نے سوال بہت بڑا کیا ہے ۔ اس لیے میں قدرے تفصیل کے ساتھ اس کا جواب دوں گا ۔ اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ اس وقت دنیا میں مسلمانوں کی جتنی حکومتیں پائی جاتی ہیں، ان میں سے کوئی بھی پورے طور پر اسلامی نظام پر نہیں چل رہی ہے۔ پھر ان میں بھی دو طرح کی حکومتیں ہیں۔ ایک حکومتیں تو وہ ہیں جو کھلم کھلا خود کو سیکولر کہتی ہیں، اور دوسری وہ ہیں جو اسلام کو ریاست کا مذہب تو قرار دیتی ہیں لیکن نہ تو وہ اسلام کے اصولوں پر قائم کی گئی ہیں اور نہ انھیں اسلام کے اصولوں کے مطابق چلایا جا رہا ہے ۔ جہاں تک ترکی کا تعلق ہے تو اصل صورت واقعہ یہ ہے کہ وہاں جو خلافت چلی آ رہی تھی وہ انحطاط کا شکار (DEGENERATED) ہو کر اپنی حقیقی خصوصیات سے عاری ہو چکی تھی، پھر اس کو ختم کر کے ترکی میں جو سیکولر ریاست قائم کی گئی وہ بھی خلاف اسلام تھی یعنی نہ تو وہ خلافت پوری طرح اسلامی تھی اور نہ بعد میں قائم ہونے والی سیکولر ریاست کا اسلام سے کوئی تعلق تھا ۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ ترکی میں کوئی لیڈر یا اجتماعی قوت ایسی موجود نہ تھی جو وہاں پر اسلامی اصولوں کے مطابق حکومت قائم کرتی ۔ آپ کے بقول ترکی میں جو نیا دور شروع کیا گیا ، اس کی بنیاد اسلام پر ہر گز نہ تھی اور اس سے پہلے جو نظام وہاں قائم تھا وہ بھی اسلامی نہ تھا اور دراصل پرانا ٹرکش نظام تھا ۔ خلافت کا ادارہ بس برائے نام موجود تھا محض ایک بادشاہ کے لیے خلیفہ کا خطاب اختیار کر لیا گیا تھا ۔ حالانکہ خلافت، بادشاہت سے بالکل ایک مختلف چیز ہے ۔

ولیم کرالے: YOU ARE SAYING THAT KHILAFAT HAD BECOME A SECULAR OR A NON-RELIGIOUS INSTITUTION?
(آپ کا مطلب یہ ہے کہ ترکی میں خلافت کا نظام لادینی یا غیر مذہبی نظام میں تبدیل ہو چکا تھا؟)

مولانائے محترم: RATHER A PSEUDO-RELIGIOUS INSTITUTION. WE WERE NOT SATISFIED ALSO WITH THE SO-CALLED REFORMS OR MUSTAFA KAMAL ATATURK.
(خلافت ایک نیم مذہبی نظام بن چکی تھی ۔ چنانچہ ہم اس سے مطمئن نہ تھے لیکن ہم ان نام نہاد اصلاحات سے بھی مطمئن نہ تھے جو مصطفی کمال اتاترک نے خلافت کو ختم کر کے ترکی میں رائج کیں۔) لیکن اب ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ خود ترکی میں بھی بکثرت ہمارے ہم خیال لوگ پیدا ہو رہے ہیں جو یہ چاہتے ہیں کہ وہاں بھی اسلامی نظام قائم کیا جائے اس طرح دنیا کے تمام مسلمان ممالک میں بھی ایسا ایک عنصر (ELEMENT) موجود ہے جو اسلام کے حقیقی اصولوں پر عمل درآمد کرنا چاہتا ہے ۔

آپ نے یہ جو کہا ہے کہ ہم ایک پرانے طریقے کی طرف واپس کیوں جانا چاہتے ہیں، تو دراصل یہ GO BACK کا لفظ غلط ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ انسان کے لیے خدا کی طرف سے جو ہدایت آئی ہے وہ سب سے قدیم بھی ہے اور سب سے جدید بھی ۔ خدائی ہدایت کسی وقت اور مقام کی پابند نہیں ہے ۔ یہ ایک ازلی اور ابدی چیز ہے۔ اس وجہ سے اس معاملہ میں GO BACK کا لفظ استعمال کرنا بے معنی ہے ۔ TRUTH IS ALWAYS TRUTH. IT CANNOT BE OLD OR NEW. AT ANY TIME AND AT EVERY PLACE IT IS TRUTH.
(صداقت ہر حال میں صداقت ہے۔ اس کے قدیم یا جدید ہونے کا سوال پیدا نہیں ہوتا ۔ صداقت ہر عہد میں اور ہر مقام پر صداقت ہے.)

اسلام کا قانون تعزیرات

ولیم کرالے: لیکن اسلامی قانون کے بعض پہلوؤں مثلاً قانون تعزیرات کے بارے میں جدید ذہن کے اندر بعض اعتراضات اور شبہات پائے جاتے ہیں۔ موجودہ دور کی جدید مسلم ریاستیں بھی ان قوانین کو ترک کر چکی ہیں۔ شاید آپ اتفاق کریں کہ یہ تعزیری قوانین دراصل قرون وسطیٰ کی سوسائٹی کے لیے وضع کیے گئے تھے اور یہ قوانین اب بیسویں صدی کے معاشرے کے لیے زیادہ موزوں نہیں ہو سکتے ۔ اب جرم اور سزا کے بارے میں تصورات بھی تبدیل ہو چکے ہیں۔ اس لیے یہ معاملہ مذہبی نقطہ نظر سے زیادہ معاشرتی ہے ۔ کیا آپ اس بدلے ہوئے زمانے میں اس دور کے تبدیل شدہ رویوں کے برعکس ان قوانین کو ان کی اسی پرانی شکل میں نافذ کرنا چاہیں گے؟

مولانائے محترم: آپ جس بیسویں صدی کا ذکر کر رہے ہیں ، آپ کا کیا خیال ہے کہ اس بیسویں صدی میں امریکہ اور یورپ کے اندر اور خود مسلمان ممالک کے اندر جن میں اسلامی قوانین پر عمل کرنا چھوڑ دیا گیا ہے، کیا ارتکاب جرائم کی رفتار (CRIME RATE) بڑھ رہی ہے یا کم ہو رہی ہے ؟ کیا خیال ہے آپ کا؟

ولیم کرالے: IN MANY COUNTRIES IT IS INCREASING.
(بہت سے ممالک میں یہ رفتار بڑھ رہی ہے ۔)

مولانائے محترم: ہمارے ہاں صرف پنجاب کے بارے میں جو پولیس رپورٹ حال میں شائع ہوئی ہے اُس میں یہ بتایا گیا ہے کہ صرف ایک مہینے میں دو سو قتل ہوئے ہیں، اور یہ رفتار جرم پہلے سے کہیں زیادہ ہے ۔ امریکہ اور دوسرے ترقی یافتہ ممالک میں رفتار جرائم کے بارے میں آپ جانتے ہیں کہ اس وقت کیا ہے اور وہ کتنی تیزی سے بڑھ رہی ہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ کسی معاشرے میں جرائم کا موجود رہنا کچھ اچھا ہے ؟

ولیم کرالے: اچھا نہیں ہے ! (یہ جواب اردو میں دیا گیا)

مولانائے محترم: اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ آپ کے موجودہ تعزیری قوانین (CRIMINAL LAWS) جرائم کے خاتمے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ ان میں اضافے کے موجب بن رہے ہیں۔ اس کے برعکس ایک مسلمان ملک میں جہاں اسلام کا قانون صرف ایک حد تک ہی نافذ کیا گیا ہے یعنی چوری پر اسلامی تعزیرات نافذ کی گئی ہیں وہاں اس نے چوری کا خاتمہ کر دیا ہے ۔ وہاں کیفیت یہ ہے کہ اگر آپ سامان سڑک پر چھوڑ کر چلے جائیں اور تین دن کے بعد واپس آئیں تو وہ آپ کو وہیں پڑا ملے گا ۔ کوئی اس کو ہاتھ نہیں لگائے گا ۔ اگر آپ اپنا گھر کھلا چھوڑ کر چلے جائیں اور کئی ہفتے بعد واپس آئیں تو آپ کو سارے گھر کا سامان جوں کا توں ملے گا ۔ کوئی شخص گھر میں داخل تک نہیں ہو گا ۔ یہ صرف اس چیز کا نتیجہ ہے کہ سعودی عرب میں ان سزاؤں کے نفاذ پر شروع میں جو چند ہاتھ کاٹے گئے ان کی وجہ سے چوری کا وہاں خاتمہ ہو گیا ۔ تو کیا چند مجرموں کے ہاتھ کاٹ کر چوری کو ختم کر دینا بہتر ہے، یا یہ بہتر ہے کہ مجرموں کو جیل بھیج بھیج کر ان کو عادی مجرم بنایا جائے ۔ وہ جیل سے نکلیں تو پھر چوری کریں اور پھر جیل جائیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ کے موجودہ تعزیری قوانین جرائم کی پرورش کر رہے ہیں لیکن ہم اسلامی قوانین کے نفاذ کے ساتھ جرائم کو ختم کر سکتے ہیں ۔ اب کیا یہ بہتر ہے کہ ہم جرائم کو ختم کر دیں، یا یہ بہتر ہے کہ جرائم ہوتے رہیں اور ان کے مؤثر انسداد کی کوئی تدبیر نہ کی جائے ۔

ولیم کرالے: جدید معاشرے کے حالات و اطوار بہت بدل چکے ہیں ۔ جرم اور سزا کا تصور بدل چکا ہے ۔ ماضی کی اسلامی ریاست میں اور موجودہ دور کی جدید ریاست میں بڑا فرق رونما ہو چکا ہے ۔ سعودی عرب کے معاشرتی حالات اور شکاگو اور نیو یارک جیسے بڑے بڑے شہروں کی معاشرتی کیفیت اور ساخت بالکل مختلف ہے، اس لیے ایک محدود شہری نظام کے لیے اگر اسلامی سزائیں مفید بھی تھیں تو موجودہ بڑے بڑے شہروں کے لیے یہ کسی طرح کارآمد ہو سکتی ہیں جب کہ ان میں جرائم کا رونما ہونا ایک حد تک فطری بات ہے اور ان میں سزاؤں کا عملی نفاذ کوئی آسان کام بھی نہیں ۔

مولانائے محترم: آپ کا خیال یہ ہے کہ شکاگو اور نیو یارک جیسے بڑے بڑے شہروں کی معاشرتی زندگی (SOCIAL LIFE) ہی ایسی ہے کہ ان کے اندر جرائم کا ہونا ایک فطری چیز ہے ۔ اس لیے اس حالت کے خاتمے کے لیے ہاتھ کاٹنے جیسی سزاؤں کا نفاذ ایک غیر ترقی پسندانہ بات ہے اور آپ کے خیال میں یہ عملاً ممکن بھی نہیں لیکن میرا خیال یہ ہے کہ ایسا ہو سکتا ہے اور اگر صرف چوری پر ہاتھ کاٹنے کا قانون جاری کر دیا جائے تو نیو یارک اور شکاگو جیسے شہروں بلکہ پورے امریکہ میں چوری کا ارتکاب کم ہو سکتا ہے ۔ اس کا مکمل خاتمہ تو صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب کہ پورا سیاسی اور معاشرتی نظام اسلامی خطوط پر قائم کیا جائے لیکن اسلامی سزاؤں کے نتیجے میں بھی اس میں کمی واقع ہو سکتی ہے ۔ ہمیں اس بات کا پورا یقین ہے کہ اسلام کی تجویز کردہ سزائیں معاشرے سے جرائم کا مکمل انسداد کر سکتی ہیں اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان کے اندر اسلام کا مکمل ضابطہ حیات جاری ہو اور اسلامی تعزیرات نافذ ہوں، پھر ہم دنیا کو بتائیں گے کہ ہمارے ہاں جرائم کس طرح ختم ہو گئے ہیں ۔ اگر ہمیں اس بات کا موقع ملا کہ ہم پاکستان میں صحیح اسلامی نظام قائم کر سکیں تو ہم عملاً دنیا پر یہ بات ثابت کر دیں گے کہ اسلام کی بنیادوں پر ایک جدید ریاست چل سکتی ہے اور زیادہ بہتر طریقے سے چل سکتی ہے، اور اسلام کی بنیاد پر ایک ایسا معاشرہ وجود میں آتا ہے جو جرائم سے پاک اور امن و امان کا گہوارہ ہوتا ہے ۔

ولیم کرالے: لیکن میرا خیال یہ ہے کہ روایتی اسلامی قانون کا یہ پہلو ایسا ہے کہ بیسویں صدی کا انسان اس کو قبول کرنے میں دقت محسوس کرتا ہے ۔ یہ اس وجہ سے نہیں کہ ان سزاؤں کا تعلق اسلامی قانون سے ہے اور اس کو قبول کرنے میں مذہبی تعصب مانع ہوتا ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ جدید ذہن کے لیے کسی جرم پر ایک شخص کا ہاتھ کاٹ کر اسے ایک عضو سے محروم کر دینا ایک وحشیانہ فعل معلوم ہوتا ہے اور شاید یہ اس جرم سے بھی سنگین نوعیت کی چیز ہے ۔ اسی بنا پر بعض لوگوں کا خیال یہ ہے کہ ریاست کی طرف سے کسی شخص کی جان لینے کا اقدام بہرحال ایک غیر معمولی نوعیت رکھتا ہے ۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ قرونِ وسطیٰ کے ایک نظام کو خواہ وہ اپنی جگہ پر مفید ہی تھا، جدید دور میں رائج کرنا کچھ عجیب سی بات معلوم ہوتا ہے ۔

مولانائے محترم: میرا خیال ہے کہ آپ کی موجودہ تہذیب کو جسے آپ جدید تہذیب کہتے ہیں جتنی ہمدردی مجرم کے ساتھ ہے اُتنی ہمدردی ان لوگوں کے ساتھ نہیں جن پر جرم کا ارتکاب کیا جاتا ہے ۔ مثلاً ایک شخص کا بچہ کوئی اغوا کر کے لے جاتا ہے اور پھر اس کو اطلاع دیتا ہے کہ اتنے ملین ڈالر مجھے دے دو تو بچہ تمہیں مل جائے گا ورنہ اسے قتل کر دیا جائے گا اور بعض اوقات وہ ایسا کر بھی گزرتا ہے تو آپ کا کیا خیال ہے کہ اس طرح کے آدمی کو پکڑ کر اگر کوئی سخت سزادی جائے مثلا اس کا ہاتھ کاٹ ڈالا جائے یا اس کی گردن اڑا دی جائے تو کیا یہ ایک وحشیانہ فعل ہوگا ؟ یعنی آپ کے نزدیک والدین کو ان کے بچوں سے محروم کر دینا کوئی وحشیانہ حرکت نہیں ۔ البتہ اس حرکت کے مرتکب کو اس کے جرم کی سزا دینا وحشیانہ اور ظالمانہ فعل ہے جس کی کم از کم ریاست کو ذمہ داری نہیں لینی چاہیے ۔ آپ کی ساری ہمدردی اس شخص کے ساتھ ہے جس نے ایک مجرمانہ اور غیر انسانی فعل کے ذریعے سے اپنے آپ کو مستوجب سزا ٹھہرایا ہے اور اس شخص کے بارے میں آپ بے حس ہیں جسے ظلم اور سنگدلی کا نشانہ بنایا گیا ہے ۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ جو شخص معاشرے کے اندر جرم کا ارتکاب کر کے معاشرے کے امن و سکون کو غارت کرتا ہے وہ اس کا مستحق ہے کہ اس کو اتنی سخت سزادی جائے کہ دوسروں کو اس سے عبرت ہو، اور وہ اس قسم کے جرم کے ارتکاب کی جرات نہ کر سکیں یعنی ہمارے نزدیک سزا صرف سزا ہی نہیں ہے بلکہ وہ ارتکاب جرم کو روکنے کا ذریعہ بھی ہے ۔ وہ جرم کی حوصلہ شکنی بھی کرتی ہے۔ چنانچہ ہماری ہمدردی مجرم کے ساتھ نہیں ہے بلکہ اس شخص کے ساتھ ہے جس پر ارتکاب جرم کیا جاتا ہے، اور اس معاشرے کے ساتھ ہے جس کے اندر ارتکاب جرم سے ناہمواری اور عدم تحفظ کی کیفیت پیدا کی جاتی ہے۔ AND YOU THINK IT IS MORE SOCIAL MORE CULTURED TO BE A CRIMINAL, IT IS HUMAN TO KILL A MAN AND IT IS IN HUMAN TO KILL A MURDERER.

ابھی پچھلے دنوں امریکہ میں مس سرسٹ کا جو واقعہ پیش آیا ہے، وہ آپ کے علم میں ہو گا ۔ جو لوگ اُس کو اغوا کر کے لے گئے اور انھوں نے اُس کو اس حد تک جرائم آشنا کر دیا کہ اُس نے بینک پر ڈاکہ ڈالا اور دوسرے جرائم کا ارتکاب کرتی پھری ۔ آپ کے نزدیک وہ لوگ تو بہت مہذب اور CULTURED ہیں لیکن اگر ان لوگوں کو کوئی سخت سزادی جائے تو فعل غیر مہذبانہ ہو گا ۔

ولیم کرالے: اس کے باوجود میں سمجھتا ہوں کہ اسلام جیسے قدیم مذہب اور اس کی مخصوص فلاسفی کے اس پہلو کو سمجھنا اور اس بات کا قائل ہونا بہت مشکل سی بات ہے کہ معاشرے کو اتنا غیر مہذب، ان گھڑ اور غیر ترقی یافتہ تسلیم کر لیا جائے کہ اس میں اس قسم کی انتہائی سزاؤں کو رائج کیا جائے جو آپ بیان فرما رہے ہیں ۔

مولانائے محترم: بات دراصل یہ ہے کہ آپ کے معاشرے میں جس قسم کے جرائم ہو رہے ہیں، آپ نے ان کے ساتھ صلح کرلی ہے اور آپ ان کے ساتھ ہی جینا چاہتے ہیں ۔ گویا آپ چاہتے یہ ہیں کہ آپ کی سوسائٹی میں لوگوں کو قتل بھی کیا جاتا رہے ، اغوا کی وارداتیں بھی ہوتی رہیں ، ڈاکے بھی پڑتے رہیں، لوگوں کا گھروں کے اندر اطمینان سے سانس لینا بھی مشکل ہو جائے لیکن ان میں سے کسی چیز کو ختم کرنے کے لیے کوئی سخت اقدام نہ کیا جائے، کیونکہ یہ آپ کے خیال میں تہذیب کے خلاف ہے اور اس سے موجودہ دور کے مہذب انسان کی توہین ہوتی ہے ۔ نیو یارک میں اس وقت حالت یہ ہے کہ اگر رات کے وقت اگر کسی کا کوئی دوست گھنٹی بجائے تو وہ کبھی اس خوف سے دروازہ نہیں کھولے گا کہ آنے والا ضرور کوئی ڈاکو ہو گا ۔ اس قسم کے خوف و دہشت کے درمیان آپ لوگ زندگی بسر کر رہے ہیں ۔ لیکن اس صورتِ حال سے آپ نے سمجھوتہ (COMPROMISE) کر لیا ہے اور اس کو بدلنے کے لیے آپ تیار نہیں ۔ آپ کا خیال یہ ہے کہ اس کو تو رہنا ہی ہے اور اس چیز کے ہوتے ہوئے آپ ماڈرن اور مہذب بھی ہیں لیکن اگر اس جرم و خوف کی زندگی کو بدلنے کے لیے کوئی سخت قدم اٹھایا جائے تو وہ آپ کے نزدیک قرون وسطیٰ کی طرف پلٹنا ہے ۔ لیکن ہم یہ چاہتے ہیں کہ اگر ہمیں موقع ملے تو ہم اسلامی قوانین کو رائج کر کے دنیا کو دکھا دیں کہ اس طرح ایک پر امن معاشرہ (PEACEFUL SOCIETY) وجود میں آتا ہے ۔ وہ معاشرہ مہذب اور MODERN بھی ہو گا اور امن و سلامتی کا گہوارہ بھی ! اس کے قیام کے بعد آپ کے یہ سارے نام نہاد جدید تصورات و نظریات محض ایک داستان پارینہ بن جائیں گے ۔ چنانچہ اگر ہم اسلامی نظام زندگی کے قائل اور اسے دنیا میں قائم کرنے کے آرزو مند ہیں تو اس وجہ سے نہیں کہ وہ ہمارا قدیم مذہبی یا قومی نظام ہے اور اس بنا پر اس کے ساتھ ہمیں محبت ہے بلکہ اس کو ہم اس وجہ سے مانتے ہیں کہ وہ سراسر ایک معقول اور عادلانہ نظام ہے اور یہ ایک بالکل مطابق انصاف اور معقول بات ہے کہ سوسائٹی کو جرائم سے پاک کیا جائے ۔ ہمارے نزدیک وہ معاشرہ نہایت برا ہے جس کے اندر جرائم پرورش پاتے ہوں اور لوگوں کی ہمدردی کا اصل مرکز مجرم ہوں نہ کہ وہ جن پر جرم کا ارتکاب کیا گیا ہو ۔

اسلام اور جمہوریت

ولیم کرالے: جن ممالک میں مسلمان اقلیت میں ہیں اور وہاں اسلامی قوانین نافذ نہیں بلکہ سیکولر نظام پایا جاتا ہے ۔ ان ممالک میں مسلمانوں کا طرز عمل کیا ہوگا جب کہ وہ کسی غیر اسلامی قانون پر یقین نہیں رکھتے کیا وہ اس قسم کی گورنمنٹ کے خلاف کوئی اقدام کریں گے؟

مولانائے محترم: نہیں، اگر ہم کسی غیر مسلم ریاست (NON MUSLIM STATE) میں ہوں گے تو ہم اس ریاست میں یہ کوشش کریں گے کہ پر امن جمہوری ذرائع سے لوگوں کے خیالات کو تبدیل کریں اور دلائل کے ساتھ ان کو اسلامی نظام زندگی کی معقولیت اور برتری کا قائل کریں، اس طریقے سے جب ہم اکثریت کے خیالات و اذہان کو تبدیل کر لیں گے اور لوگوں کو اسلامی نظام زندگی کا قائل کر لیں گے تو اس اکثریت کی بنا پر وہاں کا نظام تبدیل کریں گے اور ظاہر ہے کہ یہ چیز جمہوری نقطہ نظر سے بالکل درست ہو گی ۔ ہم اس ریاست کے اندر غیر جمہوری ذرائع سے کوئی انقلاب نہیں لائیں گے ۔

ولیم کرالے: کیا آپ کے خیال میں جمہوریت کی اسلامی سوشل فلاسفی کے اندر گنجائش پائی جاتی ہے؟

مولانائے محترم: YES: BUT NOT IN THE WESTERN MEANING. IN WESTERN POLITICAL PHILOSOPHY SOVEREIGNTY RESTS WITH PEOPLE BUT IN ISLAM IT RESTS WITH GOD.
(جی ہاں، لیکن اہل مغرب کے نظریہ کے مطابق نہیں مغربی فلسفہ سیاست میں تو اقتدار اعلیٰ کے مالک ہوتے ہیں لیکن اسلام میں اقتدار اعلیٰ اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے۔ لیکن اس بنیادی فرق کے باوجود ہمارا نظام حکومت ایسا ہوگا کہ اس میں ریاست کے سربراہ کا انتخاب لوگوں کی کثرت رائے کے ذریعے سے ہو گا ۔ لوگوں کے نمائندے ان کی رائے سے منتخب ہوں گے اور پارلیمنٹ ان منتخب نمائندوں پر مشتمل ہو گی اور کوئی حکومت عوام الناس کا اعتماد کھو دینے کے بعد قائم نہیں رہ سکے گی ۔ اس حد تک جمہوریت ہمارے ہاں موجود ہے گویا اللہ تعالیٰ کے اقتدار اعلیٰ کو تسلیم کرتے ہوئے حکومت کی مشینری جمہوری طریقے پر اللہ تعالیٰ کے احکام و قوانین کو نافذ کرے گی ۔ عوام الناس خود مقتدر اعلیٰ نہیں ہوں گے ۔)

ولیم کرالے: کیا اس وقت ان معنوں میں کوئی صحیح اسلامی جمہوری ریاست پائی جاتی ہے؟ یا ماضی قریب میں ایسی کوئی ریاست موجود تھی؟

مولانائے محترم: اگر فرض کیجیے کہ کسی مسلمان ملک میں اس قسم کا اسلامی جمہوری نظام موجود نہیں ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اسلام کا دیا ہوا جمہوری تصور ریاست اور قانون حکمرانی ناقص ہے بلکہ یہ صورت حال ان لوگوں کی غلطی کا نتیجہ ہے جو مسلمان بھی کہلاتے ہیں لیکن اسلام کے جمہوری نظام کو رائج نہیں کرتے چنانچہ ہماری کوشش یہ ہے کہ مسلمان جہاں کہیں بھی وہ ہیں، محض نام کے مسلمان (PROFESSING MUSLIM) نہ رہیں بلکہ PRACTICING MUSLIMS ہوں۔

ولیم کرالے: آپ جس قسم کی اسلامی ریاست کا تصور پیش فرما رہے ہیں اس کے نمایاں خد و خال اور بنیادی خصوصیات کیا ہوں گی اور آپ موجودہ دور میں حکومت کا نظام کن خطوط پر استوار کریں گے؟

مولانائے محترم: اگر آپ جماعت اسلامی کے منشور (MANIFESTO) کا مطالعہ کریں تو آپ کو پوری طرح معلوم ہو جائے گا کہ ہم اسلامی اصول حکمرانی پر مبنی ایک جمہوری حکومت کس طرح قائم کریں گے اور اس کے نمایاں خدوخال کیا ہوں گے ۔ جماعت اسلامی کا منشور انگریزی زبان میں چھپا ہوا موجود ہے ۔ وہ آپ کو مہیا کیا جا سکتا ہے، آپ اس کا مطالعہ کر کے اس سوال کا مفصل جواب پا لیں گے ۔

اسلامی معاشرے میں عورت کا مقام

ولیم کرالے: ایک اور اہم مسئلہ ہے جس کے بارے میں میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں اور وہ مسئلہ ہے سوسائٹی میں عورت کے مقام اور حیثیت کا؟ اس معاملہ میں اسلامی اقدار، مغرب کی صنعتی طور پر ترقی یافتہ سوسائٹی کی اقدار سے قطعی مختلف اور متضاد ہیں۔ آپ کی رائے کیا ہے اس معاملہ میں، کہ کیا جدید دنیا کے بدلے ہوئے حالات اور جدید تہذیبی قدروں کی روشنی میں معاشرے کے اندر عورت کے بارے میں اسلام کے نقطہ نظر میں کوئی ترقی پسندانہ تبدیلی ممکن ہے؟

مولانائے محترم: دیکھیے آپ کے خیال میں آپ کی جو جدید تہذیب اور ماڈرن کلچر ہے، آپ سمجھتے ہیں کہ تہذیب اور ثقافت کا یہی ایک معیار (STANDARD) ہے۔ اسی معیار پر آپ دوسری ہر تہذیب و ثقافت کو پرکھتے ہیں لیکن ہم اس کو نہیں مانتے ۔ آپ اپنی جس تہذیب اور کلچر کو ماڈرن کہہ کر اس کی بڑی تعریف کرتے ہیں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ایک پس ماندہ (BACKWARD) اور فرسودہ چیز ہے اور یہ تباہ کر رہی ہے آپ کی پوری سوسائٹی کو اور آپ کے پورے نظام تمدن کو ۔ ہم نہیں چاہتے کہ اس ماڈرن کلچر کو اپنی سوسائٹی میں لائیں اور اسے بھی تباہ کر لیں۔ آپ کی جدید تہذیب یہی ہے نا کہ آپ نے اپنے ہاں خاندانی نظام کا خاتمہ کر دیا ۔ آپ نے عورت کا جو مقام و مرتبہ سوسائٹی کے اندر متعین کیا اس کا نتیجہ یہی نکلا ہے نا کہ آپ نے عورتوں کے اخلاق بھی برباد کیے اور مردوں کے بھی ۔ آپ نے لوگوں کو اخلاقی پستی کی انتہا تک گرا دیا ۔ کیا آپ چاہتے ہیں کہ ہم بھی وہاں تک گر جائیں، ہم اس کے لیے تیار نہیں ہیں ۔ ہم اپنی سوسائٹی کو ان تمام برائیوں سے پاک رکھنا چاہتے ہیں جو آپ کی ماڈرن سوسائٹی میں پائی جاتی ہیں ۔ ہمارے نزدیک ترقی (PROGRESS) اور چیز ہے اور نام نہاد ماڈرن سوسائٹی کی بری عادات و اطوار اور چیز ۔ ہم PROGRESS اور DEVELOPMENT کے قائل ہیں اور وہ ہم ضرور کریں گے، لیکن اس شکل میں نہیں جس میں آپ کر رہے ہیں۔ ہم اس کو غلط سمجھتے ہیں اس کے بجائے ہم اپنے اصولوں پر تعمیر و ترقی کریں گے اور وہی صحیح معنوں میں تعمیر و ترقی ہوگی ۔

ولیم کرالے: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ عورت کا مقام ہر حال میں اس کے گھر کے اندر ہے اور اس کی معاشرتی زندگی کے جملہ معاملات اس کے شوہر سے ہی وابستہ ہونے چاہئیں اور وہ دوسرے مردوں سے رابطہ نہیں رکھ سکتی ۔ اس صورت میں کیا آپ یہ بھی پسند نہ کریں گے کہ عورتیں ڈاکٹر یا معلمات نہ ہوں؟

مولانائے محترم: جی ہاں، اسلامی اصولِ معاشرت کی رو سے عورت کا مقام اس کا گھر ہے، اور اس میں مرد کی حیثیت نگران اور قوام کی ہے ۔ البتہ جہاں تک عورتوں کے تعلیم پانے اور ڈاکٹر یا معلمہ وغیرہ بننے کا سوال ہے تو ہم نہ صرف یہ کہ اس کو درست سمجھتے ہیں بلکہ ضروری سمجھتے ہیں ۔ ہم اپنی خواتین کو اعلیٰ تعلیم دلواتے ہیں لیکن اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے باوجود ایک مسلمان عورت یہ سمجھتی ہے کہ اس کا اصل دائرہ کار اس کا گھر ہے ۔ ہماری خواتین ڈاکٹر بھی بنیں گی لیکن وہ عورتوں کا علاج کریں گی مردوں کا نہیں ۔ ہم عورتوں کا ڈاکٹر بننا اس لیے ضروری سمجھتے ہیں کہ وہ عورتوں کا علاج کریں اور عورتوں کو مردوں سے علاج نہ کرانا پڑے ۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ عورتیں اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے معلمات اور لیڈی لیکچررز اور پروفیسر ز بنیں تاکہ وہ ہماری بچیوں کو اعلیٰ تعلیم دے سکیں، ہم یہ نہیں چاہتے کہ ہماری عورتوں کو مرد پڑھائیں ۔ چنانچہ ہمارے ملک میں ایسے بے شمار کالج موجود ہیں جن میں صرف خواتین پڑھاتی ہیں اور تمام علوم و فنون کی تعلیم دیتی ہیں۔ وہ سائنس بھی پڑھاتی ہیں اور دوسرے جدید علوم بھی ۔ اسی طرح دوسرے شعبوں میں بھی جہاں ضروری ہو ہم اپنی خواتین کو اعلیٰ تعلیم و تربیت سے آراستہ کرتے ہیں لیکن ان سب چیزوں کے ساتھ ساتھ ہم اس اصول کو ہرگز تبدیل نہیں کریں گے کہ مسلمان عورت کا اصل مقام اس کا گھر ہے مسلمان عورت سے ہم جو بھی کام لیں گے وہ اس کے گھر کے اندر اور عورتوں کی سوسائٹی کے اندر لیں گے، اس کو مردوں کے اندر نہیں لے آئیں گے ۔

ولیم کرالے: جیسا کہ آپ نے فرمایا یہ درست ہے کہ مغربی سوسائٹی میں خاندانی نظام انتشار کا شکار ہے لیکن اسلامی قانون کا یہ پہلو بھی غور طلب ہے کہ اس میں طلاق کے ذریعے شادی کے بندھن کو ختم کر دینا بہت آسان ہے، خاص طور پر موجودہ فیملی لاز سے پہلے تو ایسا ہی تھا۔ کیا یہ چیز عورتوں کے لیے عدم تحفظ کی موجب نہیں ہے ؟

مولانائے محترم: IN SPITE OF THIS EASINESS, THE DIVORCE RATE IN OUR COUNTRY IS VERY LOW, RATHER NEGLIGIBLE BUT IT IS VERY HIGH IN WESTERN COUNTRIES, WHERE THE FAMILY SYSTEM IS ENTIRELY SHATTERED. I HAVE SEEN MYSELF WHAT IS THE CONDITION OF WESTERN SOCIETY AND WESTERN CULTURE.
(طلاق میں اس آسانی کے باوجود آپ دیکھتے ہیں کہ ہمارے ہاں طلاقوں کی شرح بہت کم ہے، بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے جب کہ مغربی ممالک میں یہ بہت زیادہ ہے، وہاں خاندانی نظام مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے ۔ میں نے مغربی معاشرے کی اس صورت حال کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا ہے) ہمارے ہاں تو کبھی اتفاق سے یہ سننے میں آتا ہے کہ کسی شخص نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی اور اس پر ہم حیران ہوتے ہیں کہ ایسا کیوں ہوا ۔ اس طرح طلاق ہمارے ہاں آسان ہونے کے باوجود عملاً ایک RARE چیز ہے لیکن آپ کے ہاں جو حالات ہیں ۔ وہ آپ خود جانتے ہیں کہ وہاں طلاقوں کی کس قدر بھر مار ہو رہی ہے ۔

ولیم کرالے: مغربی سوسائٹی میں طلاقوں کی یہ کثرت عورتوں کے لیے کچھ زیادہ بڑا مسئلہ نہیں ہے کیونکہ وہ معاشی طور پر آزاد ہیں اور مرد کی محتاج نہیں ہیں، جب کہ اسلامی معاشرہ میں عورت کی یہ پوزیشن نہیں ہے؟

مولانائے محترم: آپ کو معلوم نہیں ہے کہ مسلمان عورت اپنے باپ سے ورثہ پاتی ہے، اپنے شوہر سے اور اپنے بیٹے سے بھی اس کو حصہ پہنچتا ہے اور اس طرح جس شکل میں بھی اس کو کوئی ورثہ ملتا ہے، وہ اس کی خود مالک ہوتی ہے اور اس کا شوہر، باپ، بیٹا یا کوئی اور شخص اُس کو اس سے محروم نہیں کر سکتا۔ اسی طرح ایک مسلمان عورت کاروبار کر سکتی اور ان اداروں میں ملازمت کر سکتی ہے جن کا دائرہ کار خواتین تک محدود ہے۔ اس طرح اس کو معقول طریقے سے جو معاشی آزادی حاصل ہو سکتی ہے ہم اس کو تسلیم کرتے ہیں لیکن ہم اس کی ایسی معاشی آزادی کو درست نہیں سمجھتے جس کے نتیجے میں وہ بالکل آزاد ہو جائے اور جس کے نتیجے میں معاشرے کے اندر طلاقوں کی اس طرح بھر مار ہو جائے جیسی کہ مغربی معاشرہ میں پائی جاتی ہے جس سوسائٹی میں DIVORCE RATE اس قدر بڑھ جائے وہاں ان بچوں کا کیا حشر ہو گا جن کی ماؤں سے طلاق لے لی ہو ۔ طلاق لے کر پہلے وہ ایک شخص سے شادی کریں، پھر کسی اور شخص سے اور پھر کسی اور شخص سے، اور ادھر بچوں کا حال یہ ہو کہ کوئی ان کا والی وارث نہ ہو ۔ آپ کے ہاں نئی نسل جرائم کی کیوں عادی ہوتی جا رہی ہے اور TEENAGERS کے جرائم کیوں ایک بڑا مسئلہ بنے ہوئے ہیں۔ اس کی وجہ اس کے سوا کیا ہے کہ آپ کے ہاں طلاقیں بڑی کثرت سے ہو رہی ہیں اور ان کے نتیجے میں خاندانی نظام درہم برہم بلکہ تباہ ہو کر رہ گیا ہے ۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ آپ کے ہاں نو عمر مجرم (TEENAGER-CRIMINALS) زیادہ تر عائلی طور پر برباد گھروں (BROKEN-HOMES) سے نکل کر آ رہے ہیں ۔ لیکن آپ تسلیم کریں گے کہ ایسے BROKEN-HOMES خدا کے فضل سے ہمارے ہاں تقریباً ناپید ہیں اور ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا ہو گا کہ کسی خاندان میں طلاق کے نتیجے میں بچے بگڑ کر مجرم بن جائیں، تو اس لحاظ سے ہم اپنے آپ کو مغربی معاشرے سے کہیں زیادہ بہتر اور قابلِ رشک پوزیشن میں پاتے ہیں اور یہ چیز اسلام کے ان معاشرتی اصولوں کی بدولت ہے جو ہمارے معاشرے میں اب تک برقرار ہیں اور ان کی پابندی کی جاتی ہے ۔

ولیم کرالے: کیا آپ پاکستان میں رہتے ہوئے ہندوستانی مسلمانوں کے ساتھ ثقافتی روابط رکھنا چاہتے ہیں اور کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ ہندوستان کے علمی اور دینی مراکز کے ساتھ روابط استوار رہے؟

مولانائے محترم: جی ہاں، ہم تو یہ چاہتے ہیں لیکن ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تعلقات کشیدہ ہونے کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں ہے ۔ اس سے پیشتر جب ہندوستان اور پاکستان کے درمیان آمد و رفت ممکن تھی اور ڈاک آتی جاتی تھی تو اس زمانے میں ہندوستان کے تمام کلچرل سینٹرز اور دینی و علمی مراکز کے ساتھ ہمارے تعلقات برابر قائم رہے ۔ ہمارے رسائل و جرائد اور کتب وہاں جاتی تھیں اور وہاں سے کتب اور رسائل و جرائد ہمارے ملک میں آتے تھے ۔ اس طرح ہندوستان کے مسلمانوں کے ساتھ ہمارے ثقافتی روابط برابر رہے ہیں ۔

چند باتیں مولانا کے حالات و مصروفیات کے بارے میں

ولیم کرالے: اب چند باتیں آپ کی ذاتی زندگی کے بارے میں معلوم کرنا چاہتا ہوں ۔ آپ نے برصغیر پاک و ہند کی سیاست میں ایک بڑا طویل اور مؤثر رول ادا کیا ہے آپ کی سیاسی زندگی کا آغاز کب ہوا ؟

مولانائے محترم: میں نے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز 1910ء میں کیا جب کہ میری عمر سولہ سال کی تھی ۔

ولیم کرالے: غالباً آپ نے اس دور میں تحریک خلافت میں حصہ لیا ہو گا اور کیا اس زمانے میں آپ لاہور میں تھے؟

مولانائے محترم: جی ہاں میں نے تحریک خلافت میں حصہ لیا میں اُس زمانے میں دہلی میں تھا ۔

ولیم کرالے: کیا آپ دیو بند سے بھی وابستہ رہے ہیں؟

مولانائے محترم: نہیں میں اصل میں دہلی کا رہنے والا ہوں اور میں نے تعلیم حیدر آباد دکن میں پائی ۔ اس کے بعد جب تحریک خلافت کا آغاز ہوا تو میں دہلی میں تھا ۔ میں اس تحریک میں کام کرتا رہا لیکن بعد میں مجھے محسوس ہوا کہ اس تحریک کے زمانے میں تحریک خلافت کے ارکان اور انڈین نیشنل کانگریس کے درمیان جو رابطہ اور تعاون رہا وہ چلنے والی چیز نہیں ہے ۔ چنانچہ یہی ہوا کہ ۱۹۲۴ء میں کانگریس اور تحریک خلافت کا تعلق ختم ہو گیا ۔

ولیم کرالے: آج کل جب کہ آپ پر جماعت اسلامی کی قیادت کی ذمہ داری نہیں ہے آپ کے مشاغل کیا ہیں ؟ کیا آپ ایک بزرگ سیاستدان کی حیثیت سے جماعت کی سرگرمیوں میں شریک ہیں یا محض تصنیف و تالیف کا کام کر رہے ہیں ؟

مولانائے محترم: میں اپنی کمزور صحت کی وجہ سے جماعت کی سرگرمیوں اور عملی سیاست میں زیادہ حصہ نہیں لے رہا ہوں بس صرف لکھنے پڑھنے کے کام میں مصروف ہوں ۔

ولیم کرالے: آج کل آپ کیا تصنیف کر رہے ہیں؟

مولانائے محترم: آج کل میں "لائف آف دی ہولی پرافٹ" پر کام کر رہا ہوں ۔ اسے میں ایک نئے طریقے سے لکھنا چاہتا ہوں جو اس سے پہلے کسی نے اختیار نہیں کیا ہے ۔ آج کل میرا سارا وقت اسی کام میں صرف ہو رہا ہے ۔

ولیم کرالے: تب تو یہ ایک طویل کام ہے ؟

مولانائے محترم: جی ہاں !

ولیم کرالے: آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے کہ آیا اس قسم کے تصنیفی کام میں تاریخی تحقیق کے جدید اصول اختیار کیے جا سکتے ہیں؟

مولانائے محترم: آپ تاریخی تحقیق و مطالعہ کے جس ماڈرن سسٹم کا حوالہ دے رہے ہیں، میرا خیال یہ ہے کہ اس کے مقابلے میں ہمارے ہاں جو طریق تحقیق ہے اس کا ماڈرن ریسرچ اسکالرز کو کبھی خیال بھی نہیں آیا ہو گا ۔ ہمارے یہاں جس طریقے سے روایات کو تحقیق و جستجو اور چھان پھٹک کے بعد قبول کیا جاتا ہے اس کا اہتمام کسی دور میں بڑے سے بڑے علمائے تاریخ نے کبھی نہیں کیا ۔ ہمارے ہاں روایات کی صحت کو عقلی معیار پر جانچنے کے ساتھ ساتھ ان کی اسناد کی تحقیق کی جاتی ہے اور جب یہ ثابت ہو جاتی ہے کہ اُن کی سند پوری طرح متصل ہے اور اس میں سے کوئی کڑی غائب یا کمزور نہیں ہے تب ان روایات کو قبول کیا جاتا ہے ۔ احادیث اور کتب سیرت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب تمام روایات کو اس طریق تحقیق پر جانچنے کے بعد ان کو قبول یا رد کیا جاتا ہے ۔ آپ کے موجودہ ریسرچ اسکالرز اس طرز تحقیق سے بالکل ناآشنا ہیں۔

ولیم کرالے: میں آپ کا بہت شکر گزار ہوں کہ آپ نے اپنے قیمتی وقت میں سے یہ گرانقدر لمحات مجھے عطا فرمائے ۔ یہ میرے لیے ایک بڑا اعزاز ہے ۔ اب میں آپ سے اجازت چاہتا ہوں ۔ بہت بہت شکریہ ۔

مولانائے محترم: آپ سے ملاقات میرے لیے بھی باعث مسرت ہے ۔

ولیم کرالے: خدا حافظ (یہ الفاظ اردو میں ادا کیے گئے)

مولانائے محترم: خدا حافظ !

اسلام کس چیز کا علمبردار ہے؟

اپریل ۱۹۶۷ء کے آغاز میں اسلامک کونسل آف یورپ کی طرف سے لندن میں ایک بین الاقوامی اسلامی کانفرنس منعقد ہوئی تھی، مولانا محترم کو بھی اس میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی ۔ مگر وہ بیماری کے باعث نہ جا سکے ۔ البتہ انھوں نے مقالہ لکھ کر وہاں بھیج دیا ، جو 8 اپریل کو کانفرنس میں پڑھ کر سنایا گیا ۔

  1. ابتداء ہی میں یہ وضاحت کر دینا ضروری ہے کہ ہمارے عقیدے کے مطابق اسلام کسی ایسے دین کا نام نہیں ہے جسے پہلی مرتبہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش کیا ہو اور اس بنا پر آپ کو بانی اسلام کہنا صحیح ہو ۔ قرآن اس امر کی پوری صراحت کرتا ہے کہ خدا کی طرف سے نوع انسانی کے لیے ہمیشہ ایک ہی دین بھیجا گیا ہے، اور وہ ہے اسلام یعنی خدا کے آگے سرِ طاعت جھکا دینا ۔ دنیا کے مختلف حصوں اور مختلف قوموں میں جو انبیاء بھی خدا کے بھیجے ہوئے آئے تھے، وہ اپنے کسی الگ دین کے بانی نہیں تھے کہ ان میں سے کسی کے لائے ہوئے دین کو نوحیت، اور کسی کے دین کو ابراہیمیت یا موسویت، یا عیسائیت کہا جا سکے ، بلکہ ہر آنے والا نبی اُسی کے دین کو پیش کرتا رہا جو اُس سے پہلے کے انبیاء پیش کرتے چلے آ رہے تھے ۔

  2. انبیاء میں سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت دراصل یہ ہے کہ :

    • وہ خدا کے آخری نبی ہیں ۔
    • ان کے ذریعہ سے خدا نے اُسی اصل دین کو پھر تازہ کر دیا جو تمام انبیاء کا لایا ہوا تھا ۔
    • اُس میں جو آمیزشیں مختلف زبانوں کے لوگوں نے کر کے الگ الگ مذاہب (RELIGIONS) بنا لیے تھے ان سب کو خدا نے چھانٹ کر الگ کر دیا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے اصلی اور خالص اسلام کی تعلیم نوع انسانی کو دی ۔
    • اُن کے بعد چونکہ خدا کو کوئی نبی بھیجنا نہیں تھا، اس لیے اُن کو جو کتاب اس نے دی اسے اُس کی اصل زبان میں لفظ بلفظ محفوظ کر دیا ، تاکہ ہر زمانے میں اُس سے ہدایت حاصل کر سکے ۔ قرآن مجید کے متعلق یہ امر ہر شک و شبہ سے بالا تر ہے کہ یہ بلا کسی تغیر و تبدل کے ٹھیک وہی قرآن حمید ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش کیا تھا ۔ اس کے نزول کے وقت ہی سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کو لکھواتے رہے تھے اور یہ سلسلہ آپ کی وفات تک جاری رہا ۔ اس مکمل قرآن مجید کو آپ کے پہلے خلیفہ نے ایک کتاب کی شکل میں نقل کرا کے محفوظ کر لیا اور پھر تیسرے خلیفہ نے اس کی نقلیں اسلامی دنیا کے تمام مراکز میں بھیج دیں۔ اُس وقت سے لے کر آج تک ہر ملک اور ہر صدی کے مکتوبہ اور مطبوعہ قرآن جمع کر کے دیکھ لیا جائے، ان میں کوئی فرق نہیں پایا جائے گا ۔ اس کے علاوہ نماز میں قرآن مجید پڑھنے کا حکم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے پہلے ہی دن سے دے دیا گیا تھا ۔ اس لیے سینکڑوں صحابہ کرام نے پورا قرآن مجید اور تمام صحابہ کرام نے اس کا کوئی نہ کوئی حصہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہی میں یاد کر لیا تھا ۔ اُس وقت سے آج تک قرآن مجید کو لفظ بلفظ یاد کرنے اور ہر سال رمضان کی نماز تراویح میں پورا قرآن مجید زبانی سنانے کا سلسلہ پوری اسلامی دنیا میں رائج چلا آ رہا ہے اور ہر زمانے میں لاکھوں حافظ موجود رہے ہیں ۔ دنیا کی کوئی مذہبی کتاب بھی اس طرح نہ تحریری شکل میں مکتوب اور نہ حافظوں میں محفوظ ہوئی ہے کہ اس کی صحت میں شک کا ادنیٰ امکان تک نہ ہو ۔
  3. خود اُن کی سیرت اور سنت کو صحابہ اور بعد کے محدثین نے ایسے بے مثل طریقے سے محفوظ کر لیا جس سے زیادہ محفوظ طریقہ سے کبھی کسی نبی یا کسی اور تاریخی شخصیت کے حالات زندگی اور اس کے اقوال و اعمال محفوظ نہیں کیے گئے ۔ مختصراً وہ طریقہ یہ تھا کہ جو شخص بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرکے کوئی بات بیان کرتا، لازماً یہ بتانا پڑتا تھا کہ اُس تک کن راویوں کے ذریعہ سے وہ بات پہنچی ہے اور راویوں کا یہ سلسلہ کسی ایسے شخص تک پہنچتا ہے یا نہیں جس نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ بات سنی ہو یا آپ کو وہ کام کرتے دیکھا ہو۔ پھر جن جن راویوں کے ذریعہ سے روایات بعد کے لوگوں تک پہنچیں، ان کے حالات کی جانچ پڑتال کی گئی تاکہ معلوم کیا جا سکے کہ ان کی بیان کی ہوئی روایات قابلِ اعتماد ہیں یا نہیں ۔ اس طرح احادیث کے مجموعے تیار کیے گئے جن کے مرتب کرنے والوں نے ہر حدیث کے راویوں کا پورا سلسلہ درج کر دیا، اور اس کے ساتھ راویوں کے حالات پر بھی کتابیں لکھ دی گئیں جن کی مدد سے آج بھی ہم تحقیق کر سکتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کیسی تھی اور انھوں نے اپنے قول و عمل سے لوگوں کو کیا تعلیم دی تھی ۔ اس طرح قرآن مجید اور اُس کے لانے والے نبی کی مستند سیرت و سنت، دونوں باہم مل کر ہمیشہ کے لیے یہ معلوم کرنے کا قابلِ اعتماد ذریعہ بن گئے ہیں کہ خدا کا دین دراصل کیا ہے، کیا رہنمائی وہ ہمیں دیتا ہے اور ہم سے کیا چاہتا ہے ؟

  4. اگر چہ ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کے تمام انبیاء پر ایمان رکھتے ہیں ان پر بھی جن کا ذکر قرآن میں آیا ہے اور ان پر بھی جن کا ذکر قرآن مجید میں نہیں آیا، اور یہ ایمان ہمارے عقیدے کا ایسا لازمی حصہ ہے جس کے بغیر ہم مسلمان نہیں ہو سکتے لیکن ہدایت حاصل کرنے کے لیے ہم صرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ یہ کسی تعصب کی بنا پر نہیں ہے ۔ دراصل اس کی وجہ یہ ہے کہ :

    • وہ آخری نبی ہیں، اس لیے ان کی لائی ہوئی تعلیم خدا کی طرف سے جدید ترین ہدایت ہے (LATEST DISPENSATION)۔
    • ان کے ذریعے سے جو کلام اللہ (WORD OF GOD) ہم کو پہنچا ہے وہ خالص اللہ کا کلام ہے جس کے ساتھ کسی انسانی کلام کی آمیزش نہیں ہوتی ہے۔ وہ اپنی اصل زبان میں محفوظ ہے، اس کی زبان ایک زندہ زبان ہے جسے آج بھی کروڑوں انسان بولتے، لکھتے اور سمجھتے ہیں، اور اس زبان کی گرامر، لغت، محاورے، تلفظ اور املا میں نزول قرآن کے زمانے سے اب تک کوئی تغیر نہیں آیا ہے، اور
    • جیسا کہ ابھی میں بیان کر چکا ہوں ان کی سیرت، اخلاق ، کردار، اقوال اور اعمال کے متعلق پورا تاریخی ریکارڈ زیادہ سے زیادہ ممکن صحت، اور زیادہ سے زیادہ ممکن تفصیلات کے ساتھ محفوظ ہے۔ یہ بات چونکہ دوسرے انبیاء پر صادق نہیں آتی اس لیے ہم ان پر صرف ایمان رکھ سکتے ہیں، عملاً ان کی پیروی نہیں کر سکتے۔
  5. ہمارے عقیدے کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت تمام دنیا کے لیے اور ہر زمانے کے لیے ہے۔ اس لیے کہ :

    • قرآن مجید اس کی صراحت کرتا ہے ۔
    • یہ اُن کے آخری نبی ہونے کا منطقی تقاضا ہے کیونکہ دنیا میں ایک نبی کے آخری نبی ہونے سے خود بخود یہ لازم آتا ہے کہ تمام انسانوں کے لیے اور اپنے بعد آنے والے ہر زمانے کے لیے ہادی و رہبر ہو۔
    • اُن کے ذریعے سے وہ ہدایت مکمل طور پر دے دی گئی ہے جو راہ راست پر چلنے کے لیے انسان کو درکار ہے، اور یہ بھی ان کے آخری نبی ہونے کا منطقی نتیجہ ہے کیونکہ ہدایت کے بغیر جو نبی بھیجا گیا ہو وہ آخری نبی نہیں ہو سکتا، بلکہ اس کے بعد پھر ایک نبی کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے ۔
    • اور یہ ایک امر واقعہ ہے کہ ان کے بعد پچھلے چودہ سو سال میں کوئی ایسی شخصیت نہیں آئی ہے جو خدا کی طرف سے نبی ہونے کا دعویٰ کرنے کے ساتھ اپنی سیرت و کردار اور اپنے کام اور کلام میں انبیاء سے کوئی ادنیٰ درجے کی بھی مشابہت رکھتی ہو، جس نے حامل وحی ہونے کا دعویٰ کر کے کوئی ایسی کتاب پیش کی ہو جو خدائی کلام سے برائے نام بھی کوئی مناسبت رکھتی ہو اور جسے شریعت دینے والا (LAW GIVER) نبی کہا جا سکتا ہو۔
  6. گفتگو کے اس مرحلے پر یہ جان لینا بھی ضروری ہے کہ خدا کی طرف سے انسان کو کسی خاص علم کی ضرورت ہے جو صرف انبیاء ہی کے ذریعے سے دیا گیا ہے؟ دنیا میں ایک قسم کی چیزیں وہ ہیں جنھیں ہم اپنے حواس کے ذریعہ سے محسوس کر سکتے ہیں یا اپنے فنی آلات (SCIENTIFIC INSTRUMENTS) سے کام لے کر ان کا ادراک کر سکتے ہیں اور ان ذرائع سے حاصل ہونے والی معلومات کو مشاہدات و تجربات اور فکر و استدلال کی مدد سے مرتب کر کے نئے نئے نتائج تک پہنچ سکتے ہیں ۔ اس نوعیت کی اشیاء کا علم خدا کی طرف سے آنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ یہ ہماری اپنی تلاش و جستجو ، غور و فکر اور تحقیق و اکتشاف کا دائرہ ہے۔ اگرچہ اس معاملہ میں بھی ہمارے خالق نے ہمارا ساتھ بالکل چھوڑ نہیں دیا ہے ۔ تاریخ کے دوران میں وہ غیر محسوس طریقے سے ایک تدریج کے ساتھ اپنی پیدا کی ہوئی دنیا سے ہمارا تعارف کراتا رہا ہے ۔ علم و واقفیت کے دروازے ہم پر کھولتا رہا ہے اور وقتاً فوقتاً الہامی طور پر کسی نہ کسی انسان کو ایسی کوئی بات سمجھاتا رہا ہے جس سے وہ کوئی نئی ایجاد کوئی نیا قانون فطرت دریافت کرنے پر قادر ہو سکا ہے لیکن فی الجملہ یہ انسانی علم ہی کا دائرہ ہے جس کے لیے خدا کی طرف سے کسی کتاب کے آنے کی حاجت نہیں ہے ۔ اس دائرے میں جو معلومات مطلوب ہیں، انھیں حاصل کرنے کے ذرائع انسان کو دے دیئے گئے ہیں۔

    دوسری قسم کی چیزیں وہ ہیں جو ہمارے حواس اور ہمارے فنی آلات کی پہنچ سے بالا تر ہیں جنھیں نہ ہم تول سکتے ہیں، نہ ناپ سکتے ہیں، نہ اپنے ذرائع علم میں سے کوئی ذریعہ استعمال کر کے ان کے متعلق وہ واقفیت بہم پہنچا سکتے ہیں جسے علم (KNOWLEDGE) کہا جا سکتا ہو فلسفی اور سائنس داں ان کے بارے میں اگر کوئی رائے قائم کرتے ہیں تو وہ محض قیاس (GUESS) اور ظن و تخمین (SPECULATION) ہے جسے علم نہیں کہا جا سکتا ۔ یہ آخری حقیقتیں (ULTIMATE REALITIES) ہیں جن کے متعلق استدلالی نظریات کو خود وہ لوگ بھی یقینی قرار نہیں دے سکتے جنھوں نے ان نظریات کو پیش کیا ہے اور اگر وہ اپنے علم کے حدود کو جانتے ہوں تو نہ اُن پر خود ایمان لا سکتے ہیں نہ کسی کو ایمان لانے کی دعوت دے سکتے ہیں۔

    یہی وہ دائرہ ہے جس میں انسان حقیقت کو جاننے کے لیے خالق کائنات کے دیے ہوئے علم کا محتاج ہے اور خالق نے یہ علم کبھی اس طرح نہیں دیا ہے کہ کوئی کتاب چھاپ کر ایک آدمی کے ہاتھ میں دے دی ہو، اور اس سے کہا ہو کہ اسے پڑھ کر خود معلوم کر لے کہ کائنات کی اور خود تیری حقیقت کیا ہے، اور اس حقیقت کے لحاظ سے دنیا کی زندگی میں تیرا طرز عمل کیا ہونا چاہیے۔ اس علم کو انسانوں تک پہنچانے کے لیے اُس نے ہمیشہ انبیاء کو ذریعہ بنایا ہے، وحی کے ذریعہ سے اُن کو حقائق سے آگاہ کیا ہے اور انھیں اس کام پر مامور کیا ہے کہ یہ علم لوگوں تک پہنچا دیں ۔

  7. نبی کا کام صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ وہ بس حقیقت کا علم لوگوں تک پہنچا دے ۔ بلکہ اس کا کام یہ بتانا بھی ہے کہ اس علم کے مطابق خدا اور انسان اور انسان کے درمیان کیا تعلق فی الحقیقت (FACTUALLY) ہے اور کیا تعلق عملاً (ACTUALLY) ہونا چاہیے۔ یہ علم کن عقائد کا، کن عبادات کا، کن اخلاقیات کا، اور کن اصولِ تہذیب و تمدن کا تقاضا کرتا ہے اور اس علم کی رو سے معاشرت، معیشت، مالیات (FINANCE) ، سیاست، عدالت، صلح و جنگ، بین الاقوامی تعلقات، غرض زندگی کے ہر شعبے کی تشکیل کن اصولوں پر ہونی چاہیے۔ نبی صرف ایک نظام عبادات و رسوم (RITUAL AND WORSHIP) لے کر نہیں آتا جسے دنیا کی اصطلاح میں مذہب (RELIGION) کہا جاتا ہے، بلکہ وہ ایک پورا نظام زندگی لے کر آتا ہے جس کا نام اسلام کی اصطلاح میں دین (WAY OF LIFE) ہے۔

  8. پھر یہ کبھی نہیں ہے کہ نبی کا مشن صرف دین کا علم پہنچانے تک ہی محدود ہو، بلکہ اس کا مشن یہ بھی ہے کہ جو لوگ اس کے پیش کردہ دین کو قبول کر کے مسلم بن جائیں، انھیں وہ دین سمجھائے، اس کے عقائد، اخلاقیات، عبادات، قانونی احکام اور مجموعی نظام حیات سے اُن کو آگاہ کرے، ان کے سامنے خود ایک نمونے کا مسلمان بن کر دکھائے تاکہ وہ اپنی زندگی میں اس کی پیروی کر سکیں، انھیں انفرادی اور اجتماعی تربیت دے کر ایک صحیح اسلامی تہذیب و تمدن کے لیے عملاً تیار کرے، اور ان کو منظم کر کے ایک ایسی جماعت بنا دے جو دنیا میں خدا کے دین کو بالفعل قائم کرنے کی جد و جہد کرے، یہاں تک کہ خدا کا کلمہ بلند ہو جائے اور دوسرے کلمے پست ہو کر رہ جائیں ۔ ضروری نہیں ہے کہ سب نبی اپنے اس مشن کو کامیابی کے آخری مراحل تک پہنچانے میں کامیاب ہی ہو گئے ہوں ۔ بہت سے انبیاء ایسے ہیں جو اپنے کسی قصور کی بنا پر نہیں بلکہ متعصب لوگوں کی مزاحمت اور حالات کی نامساعدت کے باعث اس میں ناکام ہو گئے لیکن بہرحال تمام انبیاء کا مشن تھا یہی ۔ البتہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت تاریخ میں نمایاں ہے کہ انھوں نے خدا کی بادشاہی زمین میں اسی طرح قائم کر کے دکھا دی جیسی وہ آسمان میں ہے ۔

  9. قرآن مجید اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے آغاز ہی سے اپنا خطاب یا تو تمام انسانوں کے لیے عام رکھا ہے، یا پھر انسانوں میں سے جو بھی اسلام کی دعوت کو قبول کر لیں ان کو مومن ہونے کی حیثیت سے مخاطب کیا ہے ۔ قرآن مجید کو اول سے لے کر آخر تک دیکھ لیجیے، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تقریروں اور گفتگوؤں کے پورے ریکارڈ کی بھی چھان بین کر لیجیے ۔ آپ کہیں یہ نہ دیکھیں گے کہ اس کتاب نے اور اس کے لانے والے رسول نے کسی خاص ملک یا قوم یا رنگ یا نسل یا طبقے کے لوگوں کو کسی خاص زبان کے بولنے والوں کو پکارا ہو ۔ ہر جگہ یا تو يا بَنِي آدَم (اے اولاد آدم) یا يَا أَيُّهَا النَّاسُ (اے انسانو) کہہ کر پوری نوع انسانی کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی گئی ہے یا پھر اسلام قبول کرنے والوں کو احکام اور ہدایات دینے کے لیے يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا (اے لوگو جو ایمان لائے ہو) کہہ کر مخاطب کیا گیا ہے۔ اس سے خود بخود یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اسلام کی دعوت عالمگیر (UNIVERSAL) ہے اور جو انسان بھی اس دعوت کو قبول کر لیں وہ بالکل برابر کے حقوق کے ساتھ یکساں حیثیت میں مومن (BELIEVER) ہیں۔ قرآن کہتا ہے اہلِ ایمان تو ایک دوسرے کے بھائی ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جو لوگ بھی اسلام کے عقائد قبول کر لیں اور مسلمانوں کا سا طرز عمل اختیار کر لیں ان کے حقوق وہی ہیں جو ہمارے حقوق ہیں اور ان کے واجبات بھی وہی ہیں جو ہمارے واجبات ہیں ۔ اس سے بھی زیادہ صراحت کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، سنو تمہارا رب بھی ایک ہے اور تمہارا باپ (آدم) بھی ایک ۔ کسی عربی کو کسی عجمی پر فضیلت نہیں اور کسی عجمی کو عربی پر فضیلت نہیں۔ نہ کوئی کالا کسی گورے پر فضیلت رکھتا ہے اور نہ کوئی گورا کسی کالے پر فضیلت ہے۔ فضیلت ہے تو خدا ترسی کی بناء پر ہے ۔ تم میں سب سے زیادہ اللہ کے نزدیک عزت والا وہ ہے جو سب سے بڑھ کر پرہیز گار ہے ۔

  10. اسلام کی بنیاد جن عقائد پر ہے ان میں سب سے مقدم اور سب سے اہم خدائے واحد پر ایمان ہے ۔ صرف اس بات پر نہیں کہ خدا موجود ہے، اور صرف اس بات پر بھی نہیں کہ وہ ایک ہے ، بلکہ اس بات پر کہ وہی تنہا اس کائنات کا خالق، مالک (MASTER) حاکم (RULER) اور مدبر (ADMINISTRATOR) ہے ۔ اسی کے قائم رکھنے سے یہ کائنات قائم ہے، اسی کے چلانے سے یہ چل رہی ہے اور اس کی ہر چیز کو اپنے قیام و بقاء کے لیے جس رزق (SUBSISTENCE) یا قوت (ENERGY) کی ضرورت ہے اس کا فراہم کرنے والا وہی ہے ۔ حاکمیت کی تمام صفات (ATTRIBUTES OF SOVEREIGNTY) صرف اسی میں پائی جاتی ہیں اور کوئی ان میں ذرہ برابر بھی اس کے ساتھ شریک نہیں ہے، خدائی و الوہیت (DIVINITY) کی جملہ صفات کا بھی صرف وہی حامل ہے اور ان میں سے کوئی صفت اُس کی ذات کے سوا کسی کو حاصل نہیں ۔ پوری کائنات کو اور اس کی ایک ایک چیز کو وہ بیک نظر دیکھ رہا ہے ۔ کائنات اور اس کی ہر شے کو وہ براہ راست جانتا ہے ۔ نہ صرف اس کے حال کو، بلکہ اس کے ماضی اور مستقبل کو بھی ۔ یہ نگاہ ہمہ گیر اور یہ جامع علم غیب اس کے سوا کسی کو حاصل نہیں ۔ وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا ۔ اس کے سوا سب فانی ہیں اور اپنی ذات سے خود زندہ باقی صرف وہی ہے ۔ وہ نہ کسی کی اولاد ہے اور نہ کوئی اس کی اولاد ۔ اس کی ذات کے سوا دنیا میں جو بھی ہے وہ اس کی مخلوق ہے اور دنیا میں کسی کی بھی یہ حیثیت نہیں ہے کہ اس کو کسی معنی میں بھی رب کائنات (LORD OF THE UNIVERSE) کا ہم جنس یا اس کا بیٹا یا بیٹی کہا جا سکے ۔ وہی انسان کا حقیقی معبود ہے، کسی کو عبادت میں اس کے ساتھ شریک کرنا سب سے بڑا گناہ اور سب سے بڑی بے وفائی (INFIDALITY) ہے۔ وہی انسان کی دعائیں سننے والا ہے اور انھیں قبول کرنے یا نہ کرنے کے اختیارات وہی رکھتا ہے ۔ اُس سے دعا نہ مانگنا محض غرور ہے، اس کے سوا کسی اور سے دعا مانگنا جہالت ہے، اور اس کے ساتھ دوسروں سے بھی دعا مانگنا خدائی میں غیر خدا کو خدا کے ساتھ شریک ٹھہرانا ہے ۔

  11. اسلام کی رو سے خدا کی حاکمیت صرف فوق الفطری ہی نہیں بلکہ سیاسی اور قانونی بھی ہے اور اس حاکمیت میں بھی کوئی اس کا شریک نہیں ۔ اس کی زمین پر اور اس کے پیدا کیے ہوئے بندوں پر اس کے سوا کسی کو حکم چلانے کا اختیار نہیں ہے، خواہ وہ کوئی بادشاہ ہو، یا شاہی خاندان ہو، یا حکمران طبقہ ہو یا کوئی ایسی جمہوریت ہو جو حاکمیت عوام (SOVEREIGNTY OF THE PEOPLE) کی قائل ہو۔ اس کے مقابلے میں جو خود مختار بنتا ہے وہ بھی باغی ہے اور جو اس کو چھوڑ کر کسی دوسرے کی اطاعت کرتا ہے وہ بھی باغی اور ایسا ہی باغی وہ شخص یا ادارہ ہے جو سیاسی و قانونی حاکمیت کو اپنے لیے مخصوص کر کے خدا کے حدود اختیار (JURISDICTION) کو شخصی قانون (PERSONAL LAW) یا مذہبی احکام و ہدایات تک محدود کرتا ہے ۔ فی الحقیقت اپنی زمین پر پیدا کیے ہوئے انسانوں کے لیے شریعت دینے والا (LAW GIVER) اس کے سوانہ کوئی ہے، نہ ہو سکتا ہے اور نہ کسی کو یہ حق پہنچتا ہے کہ اس کے اقتدار اعلیٰ (SUPREME AUTHORITY) کو چیلنج کرے ۔

  12. اسلام کے اس تصور خدا کی رو سے چند باتیں فطری طور پر لازم آتی ہیں :

    • خدا ہی اکیلا انسان کا حقیقی معبود (یا بالفاظ دیگر مستحق عبادت) ہے جس کے سوا کسی اور کی یہ حیثیت ہی نہیں ہے کہ انسان اس کی عبادت کرے ۔
    • وہی اکیلا کائنات کی تمام قوتوں کا حاکم ہے، اور انسان کی دعاؤں کا پورا کرنا یا نہ کرنا بالکل اس کے اختیار میں ہے، اس لیے انسان کو صرف اسی سے دعا مانگنی چاہیے اور کسی کے متعلق یہ گمان تک نہ کرنا چاہیے کہ اس سے بھی دعا مانگی جا سکتی ہے ۔
    • وہی اکیلا انسان کی قسمت (DESTINY) کا مالک ہے اور کسی دوسرے میں یہ قدرت نہیں ہے کہ وہ انسان کی قسمت بنا سکے یا بگاڑ سکے ۔ اس لیے انسان کی امید اور اس کے خوف، دونوں کا مرجع بھی لازماً وہی ہے ۔ اس کے سوا نہ کسی سے امیدیں وابستہ کرنی چاہئیں نہ کسی سے ڈرنا چاہیے ۔
    • وہی اکیلا انسان اور اس کے گرد و پیش کی دنیا کا خالق و مالک ہے، اس لیے انسان کی حقیقت اور تمام دنیا کے حقائق کا براہ راست اور کامل علم صرف اسی کو ہے اور ہو سکتا ہے ۔ پس وہی زندگی کی پرپیچ (COMPLICATED) راہوں میں انسان کو صحیح ہدایت اور صحیح قانون حیات دے سکتا ہے ۔
    • پھر چونکہ انسان کا خالق و مالک وہ ہے اور وہی اس زمین کا مالک ہے جس میں انسان رہتا ہے اس لیے انسانوں پر کسی دوسرے کی حاکمیت یا خود اپنی حاکمیت سراسر کفر (BLASPHEMY) ہے اور اسی طرح انسان کا خود اپنا قانون ساز (LAWGIVER) یا کسی اور شخص یا اشخاص یا اداروں کے اختیار قانون سازی کو ماننا بھی یہی نوعیت کا ہے ۔ اپنی زمین پر اپنی مخلوق کا حاکم اور قانون ساز حتماً صرف وہی ہو سکتا ہے اور اقتدار اعلیٰ کا حقیقی مالک ہونے کی حیثیت سے اس کا قانون درحقیقت بالا تر (SUPREME LAW) ہے اور انسان کے لیے قانون سازی (LEGISLATION) کا اختیار صرف اسی حد تک ہے جس حد تک وہ اس بالا تر قانون کے تحت اور اس سے ماخوذ ہو، یا اس کی دی ہوئی اجازتوں پر مبنی ہو۔
  13. اس مرحلے پر ہمارے سامنے اسلام کا دوسرا اہم ترین بنیادی عقیدہ آتا ہے اور وہ ہے عقیدہ رسالت ۔ رسول وہ شخص ہے جس کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ اپنا قانون انسان کو دیتا ہے، اور یہ قانون ہم کو رسول سے دو صورتوں میں ملتا ہے ۔ ایک کلام اللہ جو لفظ بلفظ رسول پر نازل کیا گیا ہے یعنی قرآن مجید ۔ دوسرے وہ اقوال اور اعمال اور احکام امر و نہی جو رسول نے اپنے پیروکاروں کو خدا کی ہدایت کے تحت دیے یعنی سنت ۔ اس عقیدے کی اہمیت یہ ہے کہ اگر یہ نہ ہو تو خدا پر ایمان محض ایک نظری، فکر و خیال بن کر رہ جاتا ہے ۔ مثلاً جو چیز خدا پرستی کے عقیدے کو ایک تہذیب، ایک تمدن اور ایک نظام حیات کی شکل میں ڈھالتی ہے وہ رسول کی فکری (IDEOLOGICAL) اور عملی رہنمائی ہے ۔ اسی کے ذریعہ سے ہمیں قانون ملتا ہے اور وہی اس قانون کے منشاء کے مطابق زندگی کا نظام قائم کرتا ہے ۔ اسی لیے توحید کے بعد رسالت پر ایمان لائے بغیر کوئی شخص عملاً مسلم نہیں ہو سکتا ۔

  14. اسلام میں رسول کی حیثیت اس طرح واضح طور پر بیان کی گئی ہے کہ ہم ٹھیک ٹھیک یہ بھی جان سکتے ہیں کہ رسول کیا ہے ؟ اور یہ بھی کہ وہ کیا نہیں ہے۔ رسول لوگوں کو اپنا نہیں بلکہ اللہ کا بندہ بنانے کے لیے آتا ہے اور وہ خود بھی اپنے آپ کو اللہ کا بندہ ہی کہتا ہے ۔ نماز میں ہر روز کم از کم ایک مرتبہ جو کلمہ شہادت پڑھنے کی تعلیم محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو دی ہے اس میں یہ فقرہ لازماً پڑھا جاتا ہے کہ اَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُه (یعنی میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں) قرآن مجید اس معاملہ میں کسی ادنیٰ اشتباہ کی گنجائش بھی نہیں چھوڑتا کہ رسول ایک انسان ہے اور خدائی (DIVINITY) میں اس کا ذرہ برابر بھی کوئی حصہ نہیں ہے ۔ وہ نہ فوق البشر ہے، نہ بشری کمزوریوں سے بالا تر ہے، نہ خدا کے خزانوں کا مالک ہے نہ عالم غیب ہے کہ اس کو خدا کی طرح سب کچھ معلوم ہو ۔ وہ دوسروں کے لیے نافع و ضار ہونا تو درکنار خود اپنے لیے بھی کسی نفع و ضرر کا اختیار نہیں رکھتا ۔ اس کا کام پیغام پہنچا دینا ہے، اس کے اختیار میں کسی کو راہ راست پر لے آنا نہیں ہے، نہ انکار کرنے والوں کا محاسبہ کرنا اور ان پر عذاب نازل کر دینا اس کے اختیار میں ہے ، وہ خود اگر اللہ کی نافرمانی کرے (معاذ اللہ) یا اپنی طرف سے کوئی چیز گھڑ کر خدا کی طرف منسوب کر دے، یا خدا کی وحی میں بطور خود ذرہ برابر بھی رد و بدل کرنے کی جسارت کر ڈالے تو وہ خدا کے عذاب سے بچ نہیں سکتا ۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم رسولوں میں سے ایک ہیں ۔ رسالت سے بالا تر کسی حیثیت کے مالک نہیں ہیں ۔ وہ اپنے اختیار سے کسی چیز کو حلال اور کسی کو حرام کرنے، یا بالفاظ دیگر خدا کے اذن کے بغیر خود قانون ساز بن جانے کے مجاز نہیں ہیں ۔ ان کا کام اُس وحی کا اتباع کرنا ہے جو اُن پر خدا کی طرف سے نازل ہو ۔

    اس طرح اسلام نے ان تمام مبالغوں سے نوع انسانی کو بچا لیا جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے آنے والے انبیاء کے پیروکاروں نے اپنے پیشواؤں کے حق میں کیے تھے حتیٰ کہ ان کو خدا، یا اُس کا ہم جنس، یا اُس کی اولاد، یا اس کا اوتار (INCARNATION) بنا ڈالا تھا ۔ اس طرح کے تمام مبالغوں کی نفی کر کے اسلام نے رسول کی جو اصلی حیثیت بیان کی ہے، وہ یہ ہے :

    رسول پر ایمان لائے بغیر کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا ۔ جو شخص رسول کی اطاعت کرتا ہے وہ دراصل اللہ کی اطاعت کرتا ہے کیونکہ اللہ نے جو رسول بھی بھیجا ہے اسی لیے بھیجا ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے ۔ ہدایت وہی پاسکتا ہے جو رسول کی اطاعت کرے ۔ رسول جو حکم دے اسے قبول کرنا چاہیے اور جس سے منع کرے اُس سے رک جانا چاہیے ۔ اس امر کی وضاحت خود محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح فرمائی ہے کہ میں ایک بشر ہی ہوں ۔ جو حکم میں تمہارے دین کے معاملہ میں دوں اس کی پیروی کرو اور جو بات اپنی رائے سے کہوں تو میں بھی ایک بشر ہوں ۔ اپنی دنیا کے معاملات کو تم زیادہ جانتے ہو ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت دراصل قرآن مجید کی منشاء کی تشریح ہے اور یہ تشریح قرآن مجید کے مصنف یعنی اللہ تعالیٰ نے خود اُن کو سکھائی تھی اس لیے ان کی تشریح اپنے پیچھے خدائی سند (AUTHORITY) رکھتی ہے جس سے ہٹ کر کوئی شخص قرآن مجید کی کوئی تشریح بطور خود کرنے کا مجاز نہیں ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے رسول کی زندگی کو نمونے کی زندگی قرار دیا ہے ۔ کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ رسول کے فیصلے کو تسلیم نہ کرے ۔ مسلمانوں کا یہ کام نہیں ہے کہ جس معاملے کا فیصلہ خدا اور رسول نے کر دیا ہو اس میں وہ خود کوئی فیصلہ کرنے کے مجاز ہوں ۔ بلکہ مسلمانوں کا یہ کام بھی نہیں ہے کہ کسی پیش آمدہ معاملے میں کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے یہ نہ دیکھیں کہ اللہ اور اس کے رسول کا حکم اس معاملے میں کیا ہے ۔

    مذکورہ بالا بیان سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول کے ذریعہ سے انسان کو صرف ایک بالا تر قانون (SUPREME LAW) ہی نہیں دیا ہے بلکہ مستقل اقدار (PERMANENT VALUES) بھی دی ہیں ۔ قرآن مجید اور سنت میں جس چیز کو خیر قرار دیا گیا ہے وہ ہمیشہ کے لیے خیر ہے، جس چیز کو شر کہا گیا ہے وہ ہمیشہ کے لیے شر ہے جو چیز فرض کی گئی ہے وہ ہمیشہ کے لیے فرض ہے، جس چیز کو حلال ٹھہرایا گیا ہے وہ ہمیشہ کے لیے حلال ہے اور جس چیز کو حرام کہا گیا ہے وہ ہمیشہ کے لیے حرام ہے ۔ اس قانون میں کسی قسم کی ترمیم، یا حذف و اضافہ یا تنسیخ (ABROGATION) کا اختیار کسی کو حاصل نہیں ہے ۔ الا یہ کہ کوئی شخص یا گروہ یا قوم اسلام ہی کو چھوڑ دینے کا ارادہ رکھتی ہو ۔ جب تک مسلمان مسلمان ہیں ان کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ کل کا شر آج خیر ہو جائے اور پرسوں پھر شر ہو جائے ۔ کوئی قیاس، کوئی اجتہاد، کوئی اجماع اس قسم کی تبدیلی کا مجاز نہیں ہے ۔

  15. اسلام کا تیسرا بنیادی عقیدہ آخرت ہے اور اس کی اہمیت یہ ہے کہ اس کا انکار کرنے والا کافر ہو جاتا ہے اور خدا، رسول، قرآن کسی چیز کا ماننا بھی اسے کفر سے نہیں بچا سکتا ۔ یہ عقیدہ اپنی تفصیلی صورت میں چھ لازمی تصورات پر مشتمل ہے :

    • دنیا میں انسان غیر ذمہ دار (IRRESPONSIBLE) بنا کر نہیں چھوڑ دیا گیا ہے، بلکہ وہ اپنے خالق کے سامنے جواب دہ ہے ۔ دنیا کی موجودہ زندگی دراصل انسان کے امتحان اور آزمائش کے لیے ہے ۔ اس کے خاتمے کے بعد اسے اپنے کارنامہ حیات کا حساب خدا کو دینا ہو گا ۔
    • اس محاسبے کے لیے اللہ نے ایک وقت مقرر کر رکھا ہے ۔ نوع انسانی کو دنیا میں کام کرنے کے لیے جتنی مہلت دینے کا اللہ تعالیٰ فیصلہ کر چکا ہے اس کے اختتام پر قیامت برپا ہو گی جس میں دنیا کا موجودہ نظام درہم برہم کر دیا جائے گا اور ایک دوسرا نظام عالم نئے طرز پر برپا کیا جائے گا ۔ اس نئی دنیا میں وہ تمام انسان دوبارہ زندہ کر کے اٹھائے جائیں گے جو ابتدائے آفرینش سے قیامت تک پیدا ہوئے تھے ۔
    • اُس وقت ان سب کو یک لخت خدا وند عالم کی عدالت میں پیش کیا جائے گا ۔ اور ہر شخص کو اپنی ذاتی حیثیت میں ان اعمال کی جواب دہی کرنی ہو گی جو اس نے خود اپنی ذمہ داری پر دنیا میں کیسے ہوں گے ۔
    • وہاں اللہ تعالیٰ صرف اپنے ذاتی علم پر فیصلہ نہیں کر دے گا بلکہ عدل کی تمام شرائط پوری کی جائیں گی ۔ ہر شخص کے کارنامہ حیات کا پورا ریکارڈ بے کم و کاست عدالت کے سامنے رکھ دیا جائے گا اور بے شمار اقسام کی شہادتیں اس امر کے ثبوت میں پیش کر دی جائیں گی کہ اُس نے خفیہ اور علانیہ کیا کچھ کیا ہے اور کس نیت سے کیا ہے ۔
    • اللہ کی عدالت میں کوئی رشوت، کوئی بے جا سفارش اور کوئی خلاف حق وکالت نہ چل سکے گی کسی کا بوجھ دوسرے پر نہ ڈالا جائے گا ۔ کوئی قریب سے قریب عزیز یا دوست یا لیڈر یا مذہبی پیشوا یا خود ساختہ معبود کسی کی مدد کے لیے آگے نہ بڑھے گا ۔ انسان وہاں تن تنہا بالکل بے یار و مددگار کھڑا ہوا اپنا حساب دے رہا ہو گا اور فیصلہ صرف اللہ کے اختیار میں ہو گا ۔
    • فیصلے کا سارا دارو مدار اس بات پر ہوگا کہ انسان نے دنیا میں انبیاء کے بتائے ہوئے حق کو مان کر اور آخرت میں اپنی جواب دہی کو محسوس کر کے ٹھیک ٹھیک اللہ کی بندگی کی یا نہیں ۔ پہلی صورت میں اس کے لیے جنت ہے اور دوسری صورت میں دوزخ ہے۔
  16. یہ عقیدہ تین اقسام کے انسانوں کی زندگی کے طریقوں کو ایک دوسرے سے بالکل ہی مختلف کر دیتا ہے۔ ایک قسم کے انسان وہ ہیں جو آخرت کے قائل نہیں ہیں اور بس اسی دنیا کی زندگی کو زندگی سمجھتے ہیں۔ وہ لامحالہ خیر و شر کا معیار اعمال کے ان نتائج ہی کو سمجھیں گے جو اس دنیا میں ظاہر ہوتے ہیں۔ یہاں جس عمل کا نتیجہ اچھا یا مفید ہو وہ ان کے نزدیک خیر ہوگا اور جس کا نتیجہ برا یا نقصان دہ ہو گا وہی ان کے نزدیک شر ہوگا، بلکہ بارہا نتائج عمل کے لحاظ سے ایک ہی چیز ایک وقت میں خیر اور دوسرے وقت میں شر ہوگی ۔ دوسری قسم کے آدمی وہ ہیں جو آخرت کو تو مانتے ہیں مگر ان کو یہ بھروسہ ہے کہ کسی کی سفارش اللہ کی عدالت میں انھیں بچا لے گی ، یا کوئی ان کے گناہوں کا کفارہ پہلے ہی دے چکا ہے ، یا وہ اللہ کے چہیتے ہیں اس لیے انھیں بڑے سے بڑے گناہوں کی سزا بھی برائے نام دی جائے گی ۔ یہ چیز عقیدہ آخرت کے تمام اخلاقی فوائد کو ضائع کر کے دوسری قسم کے لوگوں کو بھی پہلی قسم کے اشخاص کی صف میں لے جاتی ہے ۔ تیسری قسم کے لوگ وہ ہیں جو عقیدہ آخرت کو ٹھیک اس شکل میں مانتے ہیں جس شکل میں اسلام انھیں پیش کرتا ہے، اور کسی کفارے یا بے جا سفارش یا اللہ سے کسی خاص تعلق کی غلط فہمی میں مبتلا نہیں ہیں ۔ ان کے لیے یہ عقیدہ ایک بہت بڑی اخلاقی طاقت رکھتا ہے جس شخص کے ضمیر میں آخرت کا یقین اپنی صحیح صورت میں جگہ لے لے اس کا حال ایسا ہو گا جیسے اس کے ساتھ ہر وقت ایک نگران لگا ہوا ہو جو ہر ارادے پر اسے ٹوکتا، ہر اقدام پر اسے روکتا اور ہر عمل پر اسے سرزنش کرتا ہے ۔ باہر کوئی گرفت کرنے والی پولیس، کوئی شہادت دینے والا گواہ کوئی سزا دینے والی عدالت اور کوئی ملامت کرنے والی رائے عامہ موجود ہو یا نہ ہو، اس کے اندر ایک سخت گیر محتسب ہر وقت بیٹھا رہے گا جس کی پکڑ کے خوف سے وہ کبھی خلوت میں یا جنگل میں، یا اندھیرے میں یا کسی سنسان جگہ میں بھی خدا کے مقرر کردہ امر سے فرار، اور اس کے مقرر کردہ حرام کے ارتکاب کا حوصلہ نہ کر سکے گا اور بالفرض اگر کر بھی گزرے تو بعد میں شرمندہ ہو گا اور توبہ کرے گا ۔ اس سے بڑھ کر اخلاقی اصلاح اور انسان کے اندر ایک محکم کردار پیدا کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں ۔ خدا کا بالا تر قانون جو مستقل اقدار انسان کو دیتا ہے ان پر مضبوطی کے ساتھ انسان کے کاربند ہونے اور ان سے کسی حالت میں اس کے نہ ہٹنے کا انحصار اسی عقیدے پر ہے ۔ اسی لیے اسلام میں اس کو اتنی اہمیت دی گئی ہے کہ اگر یہ نہ ہو تو خدا اور رسالت پر ایمان بھی بے کار ہے ۔

  17. اسلام جیسا کہ پیراگراف نمبر 6 میں بیان کر چکا ہوں، ایک پوری تہذیب، ایک جامع تمدن اور ایک ہمہ گیر (COMPREHENSIVE) نظام حیات ہے، اور انسانی زندگی کے تمام گوشوں میں اخلاقی رہنمائی دیتا ہے، اس لیے اس کے اخلاقیات دراصل تارک الدنیا راہبوں اور یوگیوں اور سنیاسیوں کے لیے نہیں ہیں بلکہ ان لوگوں کے لیے ہیں جو زندگی کے مختلف شعبوں کو چلاتے یا ان کے اندر کام کرتے ہیں۔ اخلاق کی جو بلندیاں دنیا، خانقاہوں، راہب خانوں اور صومعوں (CONVENTS, CLOISTERS, MONASTRIES) میں تلاش کرتی تھی، اسلام ان کو زندگی کے بیچ منجھدار میں لے آنا چاہتا ہے۔ اس کا نشانہ ہے کہ حکومتوں کے فرمانروا، صوبوں کے گورنر، عدالتوں کے جج، فوج اور پولیس کے افسر، پارلیمنٹوں کے ممبر، مالیات اور صنعت و حرفت کے کارفرما، کالجوں اور یونیورسٹیز کے اساتذہ و طلباء، بچوں کے باپ، باپوں اور بیٹوں، عورتوں کے شوہر اور شوہروں کی زوجہ، ہمسایوں کے ہمسائے، غرض سب ان اخلاقیات سے آراستہ ہوں ۔ وہ چاہتا ہے کہ ہر گھر میں بھی اسی اخلاق کی فرمانروائی ہو اور محلے اور بازار میں بھی اسی کا چلن ہو ۔ وہ چاہتا ہے کہ کاروبار کے سارے ادارے اور حکومت کے سارے محکمے اسی کی پیروی کریں سیاست سچائی اور انصاف پر مبنی ہو ۔ قومیں حق شناسی اور ادائے حقوق پر ایک دوسرے سے معاملہ کریں ۔ جنگ بھی ہو تو شرافت اور تہذیب کے ساتھ ہو نہ کہ بھیڑیوں کی سی درندگی کے ساتھ ۔ انسان جب خدا ترسی اختیار کرلے، خدا کے قانون کو بالا تر مان لے، خدا کے سامنے اپنی جواب دہی کو یاد رکھ کر مستقل اقدار کا پابند ہو جائے، تو پھر اس کی یہ صفت صرف عبادت گاہ تک محدود نہیں رہنی چاہیے بلکہ جس حیثیت میں بھی وہ دنیا کے اندر کام کر رہا ہے خدا کے سچے اور وفادار بندے کی طرح ہی کام کرے ۔

    یہ ہے مختصراً وہ چند اصول جس کا اسلام علمبردار ہے اور یہ محض کسی فلسفی کی خیالی جنت (UTOPIA) نہیں ہے بلکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے عملاً برپا کر کے دکھا دیا اور آج چودہ سو برس گزر جانے پر بھی اس کے اثرات مسلم معاشرے میں کم و بیش پائے جاتے ہیں۔

توضیحات

مقالہ "اسلام کس چیز کا علمبردار ہے؟" کے بعض مندرجات پر اعتراضات کیے گئے ۔

  1. پیغمبر فوق البشر نہیں ہوتا : اس فقرے سے کوئی معنی اخذ کرنے سے پہلے معترضین کو دیکھنا چاہیے کہ میں نے کس سلسلہ کلام میں یہ بات کہی ہے ۔ اوپر سے عبارت یوں چلی آرہی ہے کہ رسول ایک انسان ہے اور خدائی میں اس کا ذرہ برابر بھی کوئی حصہ نہیں ہے ۔ اس کے معا بعد یہ کہنا کہ "وہ فوق البشر نہیں ہے" صاف طور پر معنی رکھتا ہے کہ وہ بشریت سے ماوراء اور خدائی صفات سے متصف نہیں ہے جیسا کہ دوسرے مذاہب والوں نے اپنے پیشواؤں کو بنا رکھا ہے ۔

  2. اسی سلسلہ کلام میں فوراً بعد دوسری بات یہ کہی گئی ہے کہ رسول بشری کمزوریوں سے بالا تر نہیں ہے ۔ اس میں بشری کمزوریوں سے مراد بھوک پیاس، نیند، مرض، رنج و غم وغیرہ امور ہیں جو بشر ہی کو لاحق ہوتے ہیں اور اس مضمون میں یہ بات اس غرض کے لیے کہی گئی ہے کہ عیسائیوں نے جس ہستی کو خدا یا خدا کا بیٹا قرار دے ڈالا، اس کو بھی یہ بشری کمزوریاں لاحق ہوتی تھیں مگر یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی وہ بشر کو خدائی میں شریک قرار دے بیٹھے ۔ یہ استدلال ٹھیک ٹھیک قرآن سے ماخوذ ہے :

    مَا الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ، وَأُمُّهُ صِدِّيقَةٌ ، كَانَا يَاكُلَانِ الطَّعَامَ (المائدة: 75)

    (مریم کا بیٹا مسیح رسول کے سوا کچھ نہ تھا ۔ اس سے پہلے بھی رسول گزر چکے تھے اور اس کی ماں راست باز تھی ، دونوں کھانا کھایا کرتے تھے ۔)

    اس آیت میں ایک عورت کے پیٹ سے پیدا ہونے اور ماں بیٹے ، دونوں کے کھانا کھانے کو اس بات کی صریح دلیل ٹھہرایا گیا ہے کہ حضرت مسیح بشر تھے نہ کہ فوق البشر اور الوہیت میں ان کا قطعا کوئی حصہ نہ تھا ، جیسا کہ مسیحوں نے سمجھ رکھا ہے ۔

  3. تیسرا اعتراض بھی سلسلہ کلام کو نظر انداز کر کے صرف ایک لفظ کے استعمال پر کیا گیا ہے ۔ سلسلہ کلام یہ ہے کہ نبی کا کام ایمان لانے والوں کو انفرادی اور اجتماعی تربیت دے کر ایک صحیح اسلامی تہذیب و تمدن کے لیے عملاً تیار کرنا اور ان کو منظم کر کے ایک ایسی جماعت بنا دینا ہے جو دنیا میں خدا کے دین کو بالفعل قائم کرنے کی جد و جہد کرے یہاں تک کہ خدا کا کلمہ بلند ہو جائے اور دوسرے کلمے پست ہو کر رہ جائیں ۔ اس کے بعد یہ عبارت لکھی گئی ہے کہ "ضروری نہیں ہے کہ سب نبی اپنے اس مشن کو کامیابی کے آخری مراحل تک پہنچانے میں کامیاب ہی ہو گئے ہوں ۔ بہت سے انبیاء ایسے ہیں جو اپنے کسی قصور کی بنا پر نہیں بلکہ متعصب لوگوں کی مزاحمت اور حالات کی نامساعدت کے باعث اس میں ناکام ہو گئے ۔" اس عبارت میں لفظ ناکام کے استعمال کو گستاخی کہنا آخر ادب و احترام کی کونسی قسم ہے ؟ یہ مبالغہ آمیزیاں اگر اسی شان سے بڑھتی رہیں تو بعید نہیں کہ کل ہر شخص گستاخ ہو جو کہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُحد میں زخمی ہو گئے تھے یا آپ کسی وقت بیمار ہو گئے تھے ۔ کسی واقعہ کے واقعہ ہونے سے اگر انکار نہیں ہے تو اس کو انہی الفاظ میں بیان کیا جائے گا جو زبان میں معروف ہیں ۔ جو حضرات اسے گستاخی سمجھتے ہیں وہ اپنی رائے کے مختار ہیں ، مگر دوسروں پر وہ اس رائے کو کیوں مسلط کرتے ہیں ؟

سوال: ایک عالم دین کو اصرار ہے کہ لندن کی اسلامی کانفرنس والے مقالے میں آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بشری کمزوریوں سے بالا تر نہ ہونے کے الفاظ جو استعمال کیے ہیں وہ در حقیقت عیب اور نقص کے معنی میں ہیں۔ کیا آپ اس کی وضاحت کریں گے کہ ان الفاظ سے خود آپ کی مراد کیا تھی ؟

جواب: اگر چہ میں ماہ جون کے ترجمان القرآن میں اپنی مراد وضاحت کے ساتھ بیان کر چکا ہوں مگر اس کے بعد بھی اس الزام پر اصرار کیا جا رہا ہے ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ قائل جب اپنے قول کی صاف صاف وضاحت کر دے، تب بھی الزام لگانے والا یہی کہتا رہے گا کہ تیرے قول کا اصل منشاء وہ نہیں ہے جو تو بیان کرتا ہے ، بلکہ وہ ہے جو ہم بیان کرتے ہیں ۔ یہ عجیب رویہ ہے جو متقی اور خدا ترس لوگوں نے کبھی اختیار نہیں کیا ۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر میری طرف سے کوئی وضاحت نہ بھی ہوتی اور صرف اس مضمون کی متعلقہ عبارات ہی کو صاف ذہن کے ساتھ پڑھا جاتا تو اس غلط فہمی کی کوئی گنجائش نہ ہوتی کہ اس سلسلہ کلام میں بشری کمزوریوں سے مراد عیوب اور نقائص ہو سکتے ہیں ۔ اس میں تو ساری بحث یہ ہے کہ دوسری قوموں نے اپنے انبیاء کے حق میں جو مبالغے کیے ہیں اور ان کو خدا یا خدا کی اولاد، یا خدا کا اوتار تک بنا ڈالا ہے، قرآن مجید نے ان سب سے مسلمانوں کو بچا لیا اور خدائی و رسالت کے درمیان ایک ایسا خط امتیاز کھینچ دیا جس سے ہر انسان یہ جان سکتا ہے کہ رسول کیا ہے اور کیا نہیں ہے، آخر اس بحث کے دوران میں یہ کہنے کا کیا موقع ہو سکتا ہے کہ رسول عیوب اور نقائص سے بالا تر نہیں ہوتا ۔ علاوہ بریں اگر کوئی شخص الفاظ کے معانی کی سمجھ رکھتا ہو تو وہ بشری کمزوریوں کا مطلب عیوب اور نقائص ہرگز نہیں لے سکتا ۔ انسان کے لیے "عیب" کا لفظ ایسے موقع پر بولا جاتا ہے جب وہ مثلاً بد زبان ہو، جھوٹا ہو، چغلخور ہو، فریبی اور خائن اور بدکردار ہو ۔ "نقص" کا لفظ اس وقت استعمال ہوتا ہے جب وہ یا تو کسی جسمانی نقص میں مبتلا ہو مثلاً بد شکل یا ناقص الاعضاء ہونا، یا وہ کسی ذہنی یا اخلاقی نقص میں مبتلا ہو، مثلاً کند ذہن، کم فہم یا خواہشات نفس سے مغلوب ہونا ۔ ان دونوں کے برعکس بشری کمزوریاں یہ ہیں کہ انسان اپنی سلامتی کے لیے غذا اور پانی کا محتاج ہے ۔ آرام اور نیند کا محتاج ہے، نکاح کا محتاج ہے، بیماری میں علاج کا محتاج ہے، دھوپ اور بارش سے بچنے کے لیے سائے کا محتاج ہے، سردی سے بچنے کے لیے گرم لباس کا محتاج ہے۔ اسی معنی میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :

وَخُلِقَ الْإِنْسَانُ ضَعِيفًا (النساء: 28)

(اور انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے۔)

فہرست حواشی

قُلْ مَا كُنْتُ بِدْعًا مِنَ الرُّسُلِ (الاحقاف: 9)

(اے نبی!) ان سے کہو، میں کوئی نرالا رسول تو نہیں ہوں۔

إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الإِسْلَامُ وَمَا اخْتَلَفَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ إِلَّا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ وَمَنْ يَكْفُرْ بِآيَاتِ اللَّهِ فَإِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ (آل عمران: 19)

"اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے ۔ اس دین سے ہٹ کر جو مختلف طریقے اُن لوگوں نے اختیار کیے جنہیں کتاب دی گئی تھی۔ اُن کے اس طرز عمل کی کوئی وجہ اس کے سوا نہ تھی کہ انھوں نے علم آجانے کے بعد آپس میں ایک دوسرے پر زیادتی کرنے کے لیے ایسا کیا اور جو کوئی اللہ کے احکام و ہدایات کی اطاعت سے انکار کر دے ۔ اللہ کو اس سے حساب لیتے کچھ دیر نہیں لگتی ۔"

مَا كَانَ إِبْرَاهِيمُ يَهُودِيًّا وَلَا نَصْرَانِيًّا وَلَكِنْ كَانَ حَنِيفًا مُسْلِمًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ (آل عمران: 67)

"ابراہیم نہ یہودی تھا نہ عیسائی ، بلکہ وہ تو ایک مسلم یکسو تھا اور وہ ہرگز مشرکوں میں سے نہ تھا ۔"

أَفَغَيْرَ دِينِ اللَّهِ يَبْغُونَ وَلَهُ أَسْلَمَ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ طَوْعًا وَكَرْهًا وَإِلَيْهِ يُرْجَعُونَ، قُلْ آمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنْزِلَ عَلَيْنَا وَمَا أُنْزِلَ عَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطِ وَمَا أُوتِيَ مُوسَىٰ وَعِيسَىٰ وَالنَّبِيُّونَ مِن رَّبِّهِمْ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّنْهُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ، وَمَن يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَن يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ (آل عمران: ۸۳-۸۵)

”اب کیا یہ لوگ اللہ کی اطاعت کا طریقہ (دین اللہ) چھوڑ کر کوئی اور طریقہ چاہتے ہیں؟ حالانکہ آسمان و زمین کی ساری چیزیں چاروناچار اللہ ہی کی تابع فرمان مسلم ہیں اور اس کی طرف سب کو پلٹنا ہے۔ (اے نبیؐ) کہو کہ ہم اللہ کو مانتے ہیں، اُس تعلیم کو مانتے ہیں جو ہم پر نازل کی گئی ہے، ان تعلیمات کو بھی مانتے ہیں جو ابراہیم، اسماعیل، اسحاق، یعقوب اور اولاد یعقوب پر نازل ہوئی تھیں۔ اور ان ہدایات پر بھی ایمان رکھتے ہیں جو موسیٰ اور عیسیٰ اور دوسرے پیغمبروں کو اُن کے رب کی طرف سے دی گئیں ہم ان کے درمیان فرق نہیں کرتے اور ہم اللہ کے تابع فرمان مسلم ہیں۔ اس فرماں برداری (اسلام) کے سوا جو شخص کوئی اور طریقہ اختیار کرنا چاہے اُس کا وہ طریقہ ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اور آخرت میں وہ ناکام و نامراد رہے گا۔“

وَأُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْمُسْلِمِينَ (یونس: ۴۲)

حضرت نوح نے کہا اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ (خواہ کوئی مانے یا نہ مانے میں خود مسلم بن کر رہوں۔

وَقَالَ مُوسَىٰ يَا قَوْمِ إِن كُنتُمْ آمَنْتُمْ بِاللَّهِ فَعَلَيْهِ تَوَكَّلُوا إِن كُنتُم مُّسْلِمِينَ (یونس: ۸۴)

موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ لوگو! اگر تم واقعی اللہ پر ایمان رکھتے ہو تو اس پر بھروسہ کرو اگر مسلمان ہو۔"

رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِن ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَ وَأَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَتُبْ عَلَيْنَا ۖ إِنَّكَ أَنتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ (البقرة: ۱۲۸)

اور حضرت ابراہیم و اسماعیل نے دعا کی کہ ”اے رب، ہم دونوں کو اپنا مسلم (مطیع فرمان) بنا اور ہماری نسل سے ایک ایسی قوم اٹھا جو تیری مسلم ہو، ہمیں اپنی عبادت کے طریقے بتا اور ہماری کوتاہیوں سے درگزر فرما، تو بڑا معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔

إِذْ قَالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ ۖ قَالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ، وَوَصَّىٰ بِهَا إِبْرَاهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ يَا بَنِيَّ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَىٰ لَكُمُ الدِّينَ فَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ، أَمْ كُنتُمْ شُهَدَاءَ إِذْ حَضَرَ يَعْقُوبَ الْمَوْتُ إِذْ قَالَ لِبَنِيهِ مَا تَعْبُدُونَ مِن بَعْدِي ۖ قَالُوا نَعْبُدُ إِلَٰهَكَ وَإِلَٰهَ آبَائِكَ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ إِلَٰهًا وَاحِدًا وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ (البقرة: ۱۳۱-۱۳۳)

ابراہیم سے جب اس کے رب نے کہا مسلم ہو جا تو اُس نے فوراً کہا: میں مالک کائنات کا مسلم ہو گیا۔ اسی طریقے پر چلنے کی ہدایت اس نے اپنی اولاد کو کی تھی اور اسی کی وصیت یعقوب اپنی اولاد کو کر گیا۔ اُس نے کہا تھا کہ میرے بچو! اللہ نے تمہارے لیے یہی دین پسند کیا ہے لہٰذا مرتے دم تک مسلم ہی رہنا، پھر کیا تم اس وقت موجود تھے جب یعقوب اس دنیا سے رخصت ہو رہا تھا؟ اُس نے مرتے وقت اپنے بیٹوں سے پوچھا، بچو! میرے بعد تم کس کی بندگی کرو گے؟ ان سب نے جواب دیا: ہم اسی ایک خدا کی بندگی کریں گے جسے آپ نے اور آپ کے بزرگوں ابراہیم، اسماعیل، اور اسحاق نے خدا مانا ہے۔ اور ہم اسی کے مسلم ہیں ۔

رَبِّ قَدْ آتَيْتَنِي مِنَ الْمُلْكِ وَعَلَّمْتَنِي مِن تَأْوِيلِ الْأَحَادِيثِ ۚ فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ أَنتَ وَلِيِّي فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۖ تَوَفَّنِي مُسْلِمًا وَأَلْحِقْنِي بِالصَّالِحِينَ (یوسف: ۱۰۱)

حضرت یوسف نے دعا کی اے میرے رب، تو نے مجھے حکومت عطا کی اور مجھ کو باتوں کی تہ تک پہنچنا سکھایا۔ زمین و آسمان کے بنانے والے، تو ہی دنیا اور آخرت میں میرا سر پرست ہے۔ میرا خاتمہ اسلام پر کر اور انجام کار مجھے صالحین کے ساتھ ملائے۔

إِنَّا أَنزَلْنَا التَّوْرَاةَ فِيهَا هُدًى وَنُورٌ ۚ يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّونَ الَّذِينَ أَسْلَمُوا لِلَّذِينَ هَادُوا وَالرَّبَّانِيُّونَ وَالْأَحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُوا مِن كِتَابِ اللَّهِ وَكَانُوا عَلَيْهِ شُهَدَاءَ ۚ فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَاخْشَوْنِ وَلَا تَشْتَرُوا بِآيَاتِي ثَمَنًا قَلِيلًا ۚ وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ (المائدة: ۴۴)

ہم نے توراۃ نازل کی جس میں ہدایت اور روشنی تھی۔ سارے نبی، جو مسلم تھے، اسی کے مطابق ان یہودی بن جانے والوں کے معاملات کا فیصلہ کرتے تھے۔ اور اسی طرح ربانی اور احبار بھی اسی پر فیصلہ کا مدار رکھتے تھے کیونکہ انھیں کتاب اللہ کی حفاظت کا ذمہ دار بنایا گیا تھا اور وہ اس پر گواہ تھے۔ پس (اے گروہ یہود!) تم لوگوں سے نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو اور میری آیات کو ذرا ذرا سے معاوضے لے کر بیچنا چھوڑ دو۔ جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی کافر ہیں ۔

وَإِذْ أَوْحَيْتُ إِلَى الْحَوَارِيِّينَ أَنْ آمِنُوا بِي وَبِرَسُولِي قَالُوا آمَنَّا وَاشْهَدْ بِأَنَّنَا مُسْلِمُونَ (المائدة: ۱۱۱)

اور جب میں نے (عیسیٰ ابن مریم کے) حواریوں کو اشارہ کیا کہ مجھ پر اور میرے رسول پر ایمان لاؤ تو انھوں نے کہا کہ ہم ایمان لائے اور گواہ رہ کہ ہم مسلم ہیں۔

قِيلَ لَهَا ادْخُلِي الصَّرْحَ فَلَمَّا رَأَتْهُ حَسِبَتْهُ لُجَّةً وَكَشَفَتْ عَن سَاقَيْهَا ۚ قَالَ إِنَّهُ صَرْحٌ مُّمَرَّدٌ مِّن قَوَارِيرَ ۗ قَالَتْ رَبِّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي وَأَسْلَمْتُ مَعَ سُلَيْمَانَ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (النمل: ۴۴)

اُس (ملکہ سبا) سے کہا گیا کہ محل میں داخل ہو۔ اس نے جو دیکھا تو سمجھی کہ پانی کا حوض ہے اور اُترنے کے لیے اپنے پائنچے اُٹھا لیے۔ سلیمان نے کہا یہ شیشے کا چکنا فرش ہے۔ اس پر وہ پکار اٹھی: اے میرے رب (آج تک) میں اپنے نفس پر بڑا ظلم کرتی رہی اور اب میں سلیمان کے ساتھ اللہ رب العالمین کی مسلم بن گئی۔

حاشیہ ۲

مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا (الاحزاب: ۴۰)

(لوگو!) محمدؐ تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، مگر وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں ۔ اور اللہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے ۔

شَرَعَ لَكُم مِّنَ الدِّينِ مَا وَصَّىٰ بِهِ نُوحًا وَالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَىٰ وَعِيسَىٰ أَنْ أَقِيمُوا الدِّينَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِيهِ ۚ كَبُرَ عَلَى الْمُشْرِكِينَ مَا تَدْعُوهُمْ إِلَيْهِ ۚ اللَّهُ يَجْتَبِي إِلَيْهِ مَن يَشَاءُ وَيَهْدِي إِلَيْهِ مَن يُنِيبُ (الشورى: ۱۳)

اللہ نے تمہارے لیے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا ہے جس کا حکم اس نے نوح کو دیا تھا اور جسے (اے محمد) اب تمہاری طرف ہم نے وحی کے ذریعہ سے بھیجا ہے اور جس کی ہدایت ہم ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ کو دے چکے ہیں، اس تاکید کے ساتھ کہ قائم کرو اس دین کو اور اس میں متفرق نہ ہو جاؤ۔ یہی بات ان مشرکین کو سخت ناگوار ہوتی ہے جس کی طرف (اے محمد) تم انھیں دعوت دے رہے ہو۔ اللہ جسے چاہتا ہے اپنا کر لیتا ہے اور وہ اپنی طرف آنے کا راستہ اسی کو دکھاتا ہے جو اُس کی طرف رجوع کرے۔

قُلْ آمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنْزِلَ عَلَيْنَا وَمَا أُنْزِلَ عَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطِ وَمَا أُوتِيَ مُوسَىٰ وَعِيسَىٰ وَالنَّبِيُّونَ مِن رَّبِّهِمْ ۚ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّنْهُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ (آل عمران: ۸۴)

”اے نبی! کہو کہ ہم اللہ کو مانتے ہیں، اس تعلیم کو مانتے ہیں جو ہم پر نازل کی گئی ہے، ان تعلیمات کو بھی مانتے ہیں جو ابراہیم، اسماعیل، اسحاق، یعقوب اور اولاد یعقوب پر نازل ہوئی تھیں۔ اور ان ہدایات پر بھی ایمان رکھتے ہیں جو موسیٰ اور عیسیٰ اور دوسرے پیغمبروں کو ان کے رب کی طرف سے دی گئی تھیں ۔ ہم ان کے درمیان فرق نہیں کرتے اور ہم اللہ کے تابع فرمان مسلم ہیں۔

لَمْ يَكُنِ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَالْمُشْرِكِينَ مُنْفَكِّينَ حَتَّىٰ تَأْتِيَهُمُ الْبَيِّنَةُ ۙ رَسُولٌ مِّنَ اللَّهِ يَتْلُو صُحُفًا مُّطَهَّرَةً ۙ فِيهَا كُتُبٌ قَيِّمَةٌ (البينة: ۱-۳)

اہلِ کتاب اور مشرکین میں سے جو لوگ کافر تھے (وہ اپنے کفر سے) باز آنے والے نہ تھے جب تک کہ ان کے پاس دلیل روشن نہ آجائے (یعنی اللہ کی طرف سے ایک رسول جو آمیزشوں سے پاک صحیفے پڑھ کر سنائے جن میں بالکل راست اور درست تحریریں لکھی ہوئی ہوں)۔

إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ (الحجر: ۹)

اس قرآن کو ہم نے نازل کیا ہے اور ہم خود اس کے نگہبان ہیں۔

بَلْ هُوَ قُرْآنٌ مَّجِيدٌ ۙ فِي لَوْحٍ مَّحْفُوظٍ (البروج: ۲۱-۲۲)

ان کے جھٹلانے سے اس قرآن کا کچھ نہیں بگڑتا بلکہ یہ قرآن بلند پایہ ہے۔ اس لوح میں نقش ہے جو محفوظ ہے۔"

حاشیہ ۳

وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّن قَبْلِكَ مِنْهُم مَّن قَصَصْنَا عَلَيْكَ وَمِنْهُم مَّن لَّمْ نَقْصُصْ عَلَيْكَ (المؤمن: ۷۸)

” (اے نبی!) تم سے پہلے ہم بہت سے رسول بھیج چکے ہیں جن میں سے بعض کے حالات ہم نے تم کو بتائے ہیں اور بعض کے نہیں بتائے ۔

حاشیہ ۴

آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ مِنْ رَبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ كُلٌّ آمَنَ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّن رُّسُلِهِ ۚ وَقَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ۖ غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ (البقرة: ۲۸۵)

رسول اس ہدایت پر ایمان لایا ہے جو اس کے رب کی طرف سے اُس پر نازل ہوئی ہے اور جو لوگ اس رسول کے ماننے والے ہیں۔ انھوں نے بھی اس ہدایت کو دل سے تسلیم کر لیا ہے۔ یہ سب اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں کو مانتے ہیں اور ان کا قول یہ ہے کہ ہم اللہ کے رسولوں کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کرتے۔ ہم نے حکم سنا اور اطاعت قبول کی۔ مالک ہم تجھ سے خطا بخشی کے طالب ہیں اور ہمیں تیری ہی طرف پلٹنا ہے۔

إِنَّ الَّذِينَ يَكْفُرُونَ بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ وَيُرِيدُونَ أَن يُفَرِّقُوا بَيْنَ اللَّهِ وَرُسُلِهِ وَيَقُولُونَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَكْفُرُ بِبَعْضٍ وَيُرِيدُونَ أَن يَتَّخِذُوا بَيْنَ ذَٰلِكَ سَبِيلًا ۙ أُولَٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ حَقًّا ۚ وَأَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ عَذَابًا مُّهِينًا، وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ وَلَمْ يُفَرِّقُوا بَيْنَ أَحَدٍ مِّنْهُمْ أُولَٰئِكَ سَوْفَ يُؤْتِيهِمْ أُجُورَهُمْ ۚ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا (النساء: ۱۵۰-۱۵۲)

جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں سے کفر کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسولوں کے درمیان تفریق کریں۔ اور کہتے ہیں کہ ہم کسی کو مانیں گے اور کسی کو نہ مانیں گے اور کفر و ایمان کے بیچ میں ایک راہ نکالنے کا ارادہ رکھتے ہیں، وہ سب سچے کافر ہیں اور ایسے کافروں کے لیے ہم نے وہ سزا مہیا کر رکھی ہے جو انھیں ذلیل و خوار کر دینے والی ہوگی۔ بخلاف اس کے جو لوگ اللہ اور اس کے تمام رسولوں کو مانیں اور ان کے درمیان تفریق نہ کریں ان کو ہم ضرور ان کے اجر عطا کریں گے اور اللہ بڑا در گزر فرمانے والا ہے۔

حاشیہ ۵

قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ يُحْيِي وَيُمِيتُ ۖ فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ الَّذِي يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَكَلِمَاتِهِ وَاتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ (الأعراف: ۱۵۸)

”اے محمدؐ کہو کہ اے انسانو! میں تم سب کی طرف اُس خدا کا پیغمبر ہوں جو زمین اور آسمانوں کی بادشاہی کا مالک ہے۔ اس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے، وہی زندگی بخشتا ہے اور وہی موت دیتا ہے، پس ایمان لاؤ اللہ پر اور اُس کے بھیجے ہوئے نبی امی پر جو اللہ اور اس کے ارشادات کو مانتا ہے۔ اور پیروی اختیار کرو اس کی، امید ہے کہ تم راہ راست پالوگے۔

وَأُوحِيَ إِلَيَّ هَٰذَا الْقُرْآنُ لِأُنذِرَكُم بِهِ وَمَن بَلَغَ (الأنعام: ۱۹)

اور (اے نبی کہہ دو کہ) یہ قرآن میری طرف بذریعہ وحی بھیجا گیا ہے تاکہ تمہیں اور جس جس کو یہ پہنچے، سب کو متنبہ کردوں ۔

وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا كَافَّةً لِّلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ (سبا: ۲۸)

اور (اے نبی) ہم نے تم کو تمام انسانوں کے لیے بشیر و نذیر بناکر بھیجا ہے مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ۔

إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرٌ لِّلْعَالَمِينَ (التكوير: ۲۷)

یہ (قرآن) تو سارے جہان والوں کے لیے ایک نصیحت ہے ۔"

حاشیہ ۶

الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا (المائدة: ۳)

آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے (لہٰذا حرام و حلال کی جو قیود تم پر عائد کر دی گئی ہیں ان کی پابندی کرو)

حاشیہ ۷

إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ (الحجرات: ۱۰)

مومن تو ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔

حاشیہ ۸

بخارى، كتاب الصلوة ، باب فضل استقبال القبله - نسائی، کتاب تحريم الدم ، حدیث نمبر ۳

حاشیہ ۹

مسند احمد جلد ۵، ص ۴۱۱- اسی معنی کی روایات بخاری ومسلم میں بھی موجود ہیں ابن القیم نے " زاد المعاد، جلد ۴ صفحہ ۳۱ (طبع مصر ۱۹۵۶) میں کفارہ فی النکاح کے مسئلے پر بحث کرتے ہوئے اسی معنی کی حدیث نقل کی ہے۔

حاشیہ ۱۰

وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ (الأنعام: ۷۳)

وہی ہے جس نے آسمان وزمین کو برحق پیدا کیا ہے ۔

قُلْ مَن رَّبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ قُلِ اللَّهُ ۚ قُلْ أَفَاتَّخَذْتُم مِّن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ لَا يَمْلِكُونَ لِأَنفُسِهِمْ نَفْعًا وَلَا ضَرًّا ۚ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الْأَعْمَىٰ وَالْبَصِيرُ أَمْ هَلْ تَسْتَوِي الظُّلُمَاتُ وَالنُّورُ ۗ أَمْ جَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكَاءَ خَلَقُوا كَخَلْقِهِ فَتَشَابَهَ الْخَلْقُ عَلَيْهِمْ ۚ قُلِ اللَّهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ وَهُوَ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ (الرعد: ۱۶)

” (اے نبی) ان سے پوچھو، آسمان و زمین کا رب کون ہے ؟ کہو، اللہ۔ ان سے کہو کہ جب حقیقت یہ ہے تو کیا تم نے اسے چھوڑ کر ایسے معبودوں کو اپنا کارساز ٹھیرا لیا ہے جو خود اپنے لیے بھی کسی نفع اور نقصان کا اختیار نہیں رکھتے؟ کہو، کیا اندھا اور آنکھوں والا برابر ہوا کرتا ہے ؟ کیا روشنی اور تاریکیاں یکساں ہوتی ہیں ؟ اگر ایسا نہیں تو کیا ان کے ٹھیرائے ہوئے شریکوں نے بھی اللہ کی طرح کچھ پیدا کیا ہے کہ اس کی وجہ سے ان پر تخلیق کا معاملہ مشتبہ ہو گیا ؟ کہو، ہر چیز کا خالق صرف اللہ ہے اور وہ یکتا ہے سب پر غالب!

تَنزِيلًا مِّمَّنْ خَلَقَ الْأَرْضَ وَالسَّمَاوَاتِ الْعُلَى، الرَّحْمَٰنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَىٰ، لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا وَمَا تَحْتَ الثَّرَىٰ، وَإِن تَجْهَرْ بِالْقَوْلِ فَإِنَّهُ يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفَىٰ، اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ لَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ (طه: ۴-۸)

یہ قرآن نازل کیا گیا ہے اس ذات کی طرف سے جس نے پیدا کیا ہے زمین کو اور بلند آسمانوں کو۔ وہ رحمن کائنات کے تخت سلطنت پر جلوہ فرما ہے۔ مالک ہے ان سب چیزوں کا جو آسمانوں اور زمین میں اور زمین و آسمان کے درمیان ہیں اور جو ثری کے نیچے ہیں۔ تم چاہے اپنی بات پکار کر کہو، وہ تو چپکے سے کہی ہوئی بات بلکہ اس سے بھی مخفی تر بات بھی جانتا ہے۔ وہ اللہ ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اس کے لیے بہترین نام ہیں۔

إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ يُغْشِي اللَّيْلَ النَّهَارَ يَطْلُبُهُ حَثِيثًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُومَ مُسَخَّرَاتٍ بِأَمْرِهِ ۗ أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ ۗ تَبَارَكَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ (الأعراف: ۵۴)

درحقیقت تمہارا رب تو وہ اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا، پھر اپنے تخت سلطنت پر جلوہ فرما ہوا۔ جو رات کو دن پر ڈھانک دیتا ہے اور پھر دن رات کے پیچھے دوڑا چلا آتا ہے جس نے سورج اور چاند اور تارے پیدا کیے سب اس کے فرمان کے تابع ہیں۔ خبردار رہو کہ اسی کی خلق ہے اور اسی کا امر ہے ۔ بڑا بابرکت ہے اللہ سارے جہانوں کا مالک و پروردگار۔

يُدَبِّرُ الْأَمْرَ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ ثُمَّ يَعْرُجُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ أَلْفَ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ (السجدة: ۵)

وہ آسمان سے زمین تک دنیا کے معاملات کی تدبیر کرتا ہے اور اس تدبیر کی روداد او پر اس کے حضور جاتی ہے ایک ایسے دن میں جس کی مقدار تمہارے شمار سے ایک ہزار سال ہے۔

أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۗ وَمَا لَكُم مِّن دُونِ اللَّهِ مِن وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ (البقرة: ۱۰۷)

کیا تمہیں خبر نہیں ہے کہ زمین اور آسمانوں کی فرماں روائی اللہ ہی کے لیے ہے اور اس کے سوا کوئی تمہاری خبر گیری کرنے اور تمہاری مدد کرنے والا نہیں ہے۔

الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًا وَلَمْ يَكُن لَّهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ فَقَدَّرَهُ تَقْدِيرًا (الفرقان: ۲)

”وہ جو زمین اور آسمانوں کی بادشاہی کا مالک ہے جس نے کسی کو بیٹا نہیں بنایا ہے، جس کے ساتھ بادشاہی میں کوئی شریک نہیں ہے جس نے ہر چیز کو پیدا کیا۔ پھر اس کی ایک تقدیر مقرر کی۔

حاشیہ ۱۱

يَا أَيُّهَا النَّاسُ اذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ ۚ هَلْ مِنْ خَالِقٍ غَيْرُ اللَّهِ يَرْزُقُكُم مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ ۚ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ فَأَنَّىٰ تُؤْفَكُونَ (فاطر: ۳)

لوگو! تم پر اللہ کے جو احسانات ہیں انھیں یاد رکھو۔ کیا اللہ کے سوا کوئی اور خالق بھی ہے جو تمہیں آسمان اور زمین میں سے رزق دیتا ہو ؟ کوئی معبود اس کے سوا نہیں آخر تم کہاں سے دھوکہ کھا رہے ہو ؟“

إِنَّ اللَّهَ يُمْسِكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ أَن تَزُولَا ۚ وَلَئِن زَالَتَا إِنْ أَمْسَكَهُمَا مِنْ أَحَدٍ مِّن بَعْدِهِ ۚ إِنَّهُ كَانَ حَلِيمًا غَفُورًا (فاطر: ۴۱)

حقیقت یہ ہے کہ اللہ ہی ہے جو آسمانوں اور زمین کو ٹل جانے سے روکے ہوئے ہے۔ اور اگر وہ ٹل جائیں تو اللہ کے بعد کوئی دوسرا انھیں تھامنے والا نہیں ہے۔ بے شک اللہ بڑا حلیم اور درگزر فرمانے والا ہے۔"

إِنَّ اللَّهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِينُ (الذاريات: ۵۸)

در حقیقت اللہ ہی رزاق ہے، بڑی قوت والا

أَفَغَيْرَ دِينِ اللَّهِ يَبْغُونَ وَلَهُ أَسْلَمَ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ طَوْعًا وَكَرْهًا وَإِلَيْهِ يُرْجَعُونَ، قُلْ آمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنْزِلَ عَلَيْنَا وَمَا أُنْزِلَ عَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطِ وَمَا أُوتِيَ مُوسَىٰ وَعِيسَىٰ وَالنَّبِيُّونَ مِن رَّبِّهِمْ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّنْهُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ، وَمَن يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَن يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ (آل عمران: ۸۳-۸۵)

”اب کیا یہ لوگ اللہ کی اطاعت کا طریقہ (دین اللہ) چھوڑ کر کوئی اور طریقہ چاہتے ہیں؟ حالانکہ آسمان و زمین کی ساری چیزیں چاروناچار اللہ ہی کی تابع فرمان مسلم ہیں اور اس کی طرف سب کو پلٹنا ہے۔ (اے نبیؐ) کہو کہ ہم اللہ کو مانتے ہیں، اُس تعلیم کو مانتے ہیں جو ہم پر نازل کی گئی ہے، ان تعلیمات کو بھی مانتے ہیں جو ابراہیم، اسماعیل، اسحاق، یعقوب اور اولاد یعقوب پر نازل ہوئی تھیں۔ اور ان ہدایات پر بھی ایمان رکھتے ہیں جو موسیٰ اور عیسیٰ اور دوسرے پیغمبروں کو اُن کے رب کی طرف سے دی گئیں ہم ان کے درمیان فرق نہیں کرتے اور ہم اللہ کے تابع فرمان مسلم ہیں۔ اس فرماں برداری (اسلام) کے سوا جو شخص کوئی اور طریقہ اختیار کرنا چاہے اُس کا وہ طریقہ ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اور آخرت میں وہ ناکام و نامراد رہے گا۔“

وَأُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْمُسْلِمِينَ (یونس: ۴۲)

حضرت نوح نے کہا اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ (خواہ کوئی مانے یا نہ مانے) میں خود مسلم بن کر رہوں ۔

وَقَالَ مُوسَىٰ يَا قَوْمِ إِن كُنتُمْ آمَنتُم بِاللَّهِ فَعَلَيْهِ تَوَكَّلُوا إِن كُنتُم مُّسْلِمِينَ (یونس: ۸۴)

موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ لوگو! اگر تم واقعی اللہ پر ایمان رکھتے ہو تو اس پر بھروسہ کرو اگر مسلمان ہو۔"

رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِن ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَ وَأَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَتُبْ عَلَيْنَا ۖ إِنَّكَ أَنتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ (البقرة: ۱۲۸)

اور حضرت ابراہیم و اسماعیل نے دعا کی کہ ”اے رب، ہم دونوں کو اپنا مسلم (مطیع فرمان) بنا اور ہماری نسل سے ایک ایسی قوم اٹھا جو تیری مسلم ہو، ہمیں اپنی عبادت کے طریقے بتا اور ہماری کوتاہیوں سے درگزر فرما، تو بڑا معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔

إِذْ قَالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ ۖ قَالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ، وَوَصَّىٰ بِهَا إِبْرَاهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ يَا بَنِيَّ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَىٰ لَكُمُ الدِّينَ فَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ، أَمْ كُنتُمْ شُهَدَاءَ إِذْ حَضَرَ يَعْقُوبَ الْمَوْتُ إِذْ قَالَ لِبَنِيهِ مَا تَعْبُدُونَ مِن بَعْدِي ۖ قَالُوا نَعْبُدُ إِلَٰهَكَ وَإِلَٰهَ آبَائِكَ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ إِلَٰهًا وَاحِدًا وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ (البقرة: ۱۳۱-۱۳۳)

ابراہیم سے جب اس کے رب نے کہا مسلم ہو جا تو اُس نے فوراً کہا: میں مالک کائنات کا مسلم ہو گیا۔ اسی طریقے پر چلنے کی ہدایت اس نے اپنی اولاد کو کی تھی اور اسی کی وصیت یعقوب اپنی اولاد کو کر گیا۔ اُس نے کہا تھا کہ میرے بچو! اللہ نے تمہارے لیے یہی دین پسند کیا ہے لہٰذا مرتے دم تک مسلم ہی رہنا، پھر کیا تم اس وقت موجود تھے جب یعقوب اس دنیا سے رخصت ہو رہا تھا؟ اُس نے مرتے وقت اپنے بیٹوں سے پوچھا، بچو! میرے بعد تم کس کی بندگی کرو گے؟ ان سب نے جواب دیا: ہم اسی ایک خدا کی بندگی کریں گے جسے آپ نے اور آپ کے بزرگوں ابراہیم، اسماعیل، اور اسحاق نے خدا مانا ہے۔ اور ہم اسی کے مسلم ہیں ۔

رَبِّ قَدْ آتَيْتَنِي مِنَ الْمُلْكِ وَعَلَّمْتَنِي مِن تَأْوِيلِ الْأَحَادِيثِ ۚ فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ أَنتَ وَلِيِّي فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۖ تَوَفَّنِي مُسْلِمًا وَأَلْحِقْنِي بِالصَّالِحِينَ (یوسف: ۱۰۱)

حضرت یوسف نے دعا کی اے میرے رب، تو نے مجھے حکومت عطا کی اور مجھ کو باتوں کی تہ تک پہنچنا سکھایا۔ زمین و آسمان کے بنانے والے، تو ہی دنیا اور آخرت میں میرا سر پرست ہے۔ میرا خاتمہ اسلام پر کر اور انجام کار مجھے صالحین کے ساتھ ملائے۔

إِنَّا أَنزَلْنَا التَّوْرَاةَ فِيهَا هُدًى وَنُورٌ ۚ يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّونَ الَّذِينَ أَسْلَمُوا لِلَّذِينَ هَادُوا وَالرَّبَّانِيُّونَ وَالْأَحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُوا مِن كِتَابِ اللَّهِ وَكَانُوا عَلَيْهِ شُهَدَاءَ ۚ فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَاخْشَوْنِ وَلَا تَشْتَرُوا بِآيَاتِي ثَمَنًا قَلِيلًا ۚ وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ (المائدة: ۴۴)

ہم نے توراۃ نازل کی جس میں ہدایت اور روشنی تھی۔ سارے نبی، جو مسلم تھے، اسی کے مطابق ان یہودی بن جانے والوں کے معاملات کا فیصلہ کرتے تھے۔ اور اسی طرح ربانی اور احبار بھی اسی پر فیصلہ کا مدار رکھتے تھے کیونکہ انھیں کتاب اللہ کی حفاظت کا ذمہ دار بنایا گیا تھا اور وہ اس پر گواہ تھے۔ پس (اے گروہ یہود!) تم لوگوں سے نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو اور میری آیات کو ذرا ذرا سے معاوضے لے کر بیچنا چھوڑ دو۔ جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی کافر ہیں ۔

وَإِذْ أَوْحَيْتُ إِلَى الْحَوَارِيِّينَ أَنْ آمِنُوا بِي وَبِرَسُولِي قَالُوا آمَنَّا وَاشْهَدْ بِأَنَّنَا مُسْلِمُونَ (المائدة: ۱۱۱)

اور جب میں نے (عیسیٰ ابن مریم کے) حواریوں کو اشارہ کیا کہ مجھ پر اور میرے رسول پر ایمان لاؤ تو انھوں نے کہا کہ ہم ایمان لائے اور گواہ رہ کہ ہم مسلم ہیں۔

قِيلَ لَهَا ادْخُلِي الصَّرْحَ فَلَمَّا رَأَتْهُ حَسِبَتْهُ لُجَّةً وَكَشَفَتْ عَن سَاقَيْهَا ۚ قَالَ إِنَّهُ صَرْحٌ مُّمَرَّدٌ مِّن قَوَارِيرَ ۗ قَالَتْ رَبِّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي وَأَسْلَمْتُ مَعَ سُلَيْمَانَ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (النمل: ۴۴)

اُس (ملکہ سبا) سے کہا گیا کہ محل میں داخل ہو۔ اس نے جو دیکھا تو سمجھی کہ پانی کا حوض ہے اور اُترنے کے لیے اپنے پائنچے اُٹھا لیے۔ سلیمان نے کہا یہ شیشے کا چکنا فرش ہے۔ اس پر وہ پکار اٹھی: اے میرے رب (آج تک) میں اپنے نفس پر بڑا ظلم کرتی رہی اور اب میں سلیمان کے ساتھ اللہ رب العالمین کی مسلم بن گئی۔

حاشیہ ۲

مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا (الاحزاب: ۴۰)

(لوگو!) محمدؐ تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، مگر وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں ۔ اور اللہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے ۔

شَرَعَ لَكُم مِّنَ الدِّينِ مَا وَصَّىٰ بِهِ نُوحًا وَالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَىٰ وَعِيسَىٰ أَنْ أَقِيمُوا الدِّينَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِيهِ ۚ كَبُرَ عَلَى الْمُشْرِكِينَ مَا تَدْعُوهُمْ إِلَيْهِ ۚ اللَّهُ يَجْتَبِي إِلَيْهِ مَن يَشَاءُ وَيَهْدِي إِلَيْهِ مَن يُنِيبُ (الشورى: ۱۳)

اللہ نے تمہارے لیے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا ہے جس کا حکم اس نے نوح کو دیا تھا اور جسے (اے محمد) اب تمہاری طرف ہم نے وحی کے ذریعہ سے بھیجا ہے اور جس کی ہدایت ہم ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ کو دے چکے ہیں، اس تاکید کے ساتھ کہ قائم کرو اس دین کو اور اس میں متفرق نہ ہو جاؤ۔ یہی بات ان مشرکین کو سخت ناگوار ہوتی ہے جس کی طرف (اے محمد) تم انھیں دعوت دے رہے ہو۔ اللہ جسے چاہتا ہے اپنا کر لیتا ہے اور وہ اپنی طرف آنے کا راستہ اسی کو دکھاتا ہے جو اُس کی طرف رجوع کرے۔

قُلْ آمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنْزِلَ عَلَيْنَا وَمَا أُنْزِلَ عَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطِ وَمَا أُوتِيَ مُوسَىٰ وَعِيسَىٰ وَالنَّبِيُّونَ مِن رَّبِّهِمْ ۚ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّنْهُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ (آل عمران: ۸۴)

”اے نبی! کہو کہ ہم اللہ کو مانتے ہیں، اس تعلیم کو مانتے ہیں جو ہم پر نازل کی گئی ہے، ان تعلیمات کو بھی مانتے ہیں جو ابراہیم، اسماعیل، اسحاق، یعقوب اور اولاد یعقوب پر نازل ہوئی تھیں۔ اور ان ہدایات پر بھی ایمان رکھتے ہیں جو موسیٰ اور عیسیٰ اور دوسرے پیغمبروں کو ان کے رب کی طرف سے دی گئی تھیں ۔ ہم ان کے درمیان فرق نہیں کرتے اور ہم اللہ کے تابع فرمان مسلم ہیں۔

لَمْ يَكُنِ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَالْمُشْرِكِينَ مُنْفَكِّينَ حَتَّىٰ تَأْتِيَهُمُ الْبَيِّنَةُ ۙ رَسُولٌ مِّنَ اللَّهِ يَتْلُو صُحُفًا مُّطَهَّرَةً ۙ فِيهَا كُتُبٌ قَيِّمَةٌ (البينة: ۱-۳)

اہلِ کتاب اور مشرکین میں سے جو لوگ کافر تھے (وہ اپنے کفر سے) باز آنے والے نہ تھے جب تک کہ ان کے پاس دلیل روشن نہ آجائے (یعنی اللہ کی طرف سے ایک رسول جو آمیزشوں سے پاک صحیفے پڑھ کر سنائے جن میں بالکل راست اور درست تحریریں لکھی ہوئی ہوں)۔

إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ (الحجر: ۹)

اس قرآن کو ہم نے نازل کیا ہے اور ہم خود اس کے نگہبان ہیں۔

بَلْ هُوَ قُرْآنٌ مَّجِيدٌ ۙ فِي لَوْحٍ مَّحْفُوظٍ (البروج: ۲۱-۲۲)

ان کے جھٹلانے سے اس قرآن کا کچھ نہیں بگڑتا بلکہ یہ قرآن بلند پایہ ہے۔ اس لوح میں نقش ہے جو محفوظ ہے۔"

حاشیہ ۳

وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّن قَبْلِكَ مِنْهُم مَّن قَصَصْنَا عَلَيْكَ وَمِنْهُم مَّن لَّمْ نَقْصُصْ عَلَيْكَ (المؤمن: ۷۸)

” (اے نبی!) تم سے پہلے ہم بہت سے رسول بھیج چکے ہیں جن میں سے بعض کے حالات ہم نے تم کو بتائے ہیں اور بعض کے نہیں بتائے ۔

حاشیہ ۴

آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ مِنْ رَبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ كُلٌّ آمَنَ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّن رُّسُلِهِ ۚ وَقَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ۖ غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ (البقرة: ۲۸۵)

رسول اس ہدایت پر ایمان لایا ہے جو اس کے رب کی طرف سے اُس پر نازل ہوئی ہے اور جو لوگ اس رسول کے ماننے والے ہیں۔ انھوں نے بھی اس ہدایت کو دل سے تسلیم کر لیا ہے۔ یہ سب اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں کو مانتے ہیں اور ان کا قول یہ ہے کہ ہم اللہ کے رسولوں کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کرتے۔ ہم نے حکم سنا اور اطاعت قبول کی۔ مالک ہم تجھ سے خطا بخشی کے طالب ہیں اور ہمیں تیری ہی طرف پلٹنا ہے۔

إِنَّ الَّذِينَ يَكْفُرُونَ بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ وَيُرِيدُونَ أَن يُفَرِّقُوا بَيْنَ اللَّهِ وَرُسُلِهِ وَيَقُولُونَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَكْفُرُ بِبَعْضٍ وَيُرِيدُونَ أَن يَتَّخِذُوا بَيْنَ ذَٰلِكَ سَبِيلًا ۙ أُولَٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ حَقًّا ۚ وَأَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ عَذَابًا مُّهِينًا، وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ وَلَمْ يُفَرِّقُوا بَيْنَ أَحَدٍ مِّنْهُمْ أُولَٰئِكَ سَوْفَ يُؤْتِيهِمْ أُجُورَهُمْ ۚ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا (النساء: ۱۵۰-۱۵۲)

جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں سے کفر کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسولوں کے درمیان تفریق کریں۔ اور کہتے ہیں کہ ہم کسی کو مانیں گے اور کسی کو نہ مانیں گے اور کفر و ایمان کے بیچ میں ایک راہ نکالنے کا ارادہ رکھتے ہیں، وہ سب سچے کافر ہیں اور ایسے کافروں کے لیے ہم نے وہ سزا مہیا کر رکھی ہے جو انھیں ذلیل و خوار کر دینے والی ہوگی۔ بخلاف اس کے جو لوگ اللہ اور اس کے تمام رسولوں کو مانیں اور ان کے درمیان تفریق نہ کریں ان کو ہم ضرور ان کے اجر عطا کریں گے اور اللہ بڑا در گزر فرمانے والا ہے۔

حاشیہ ۵

قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ يُحْيِي وَيُمِيتُ ۖ فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ الَّذِي يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَكَلِمَاتِهِ وَاتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ (الأعراف: ۱۵۸)

”اے محمدؐ کہو کہ اے انسانو! میں تم سب کی طرف اُس خدا کا پیغمبر ہوں جو زمین اور آسمانوں کی بادشاہی کا مالک ہے۔ اس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے، وہی زندگی بخشتا ہے اور وہی موت دیتا ہے، پس ایمان لاؤ اللہ پر اور اُس کے بھیجے ہوئے نبی امی پر جو اللہ اور اس کے ارشادات کو مانتا ہے۔ اور پیروی اختیار کرو اس کی، امید ہے کہ تم راہ راست پالوگے۔

وَأُوحِيَ إِلَيَّ هَٰذَا الْقُرْآنُ لِأُنذِرَكُم بِهِ وَمَن بَلَغَ (الأنعام: ۱۹)

اور (اے نبی کہہ دو کہ) یہ قرآن میری طرف بذریعہ وحی بھیجا گیا ہے تاکہ تمہیں اور جس جس کو یہ پہنچے، سب کو متنبہ کردوں ۔

وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا كَافَّةً لِّلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ (سبا: ۲۸)

اور (اے نبی) ہم نے تم کو تمام انسانوں کے لیے بشیر و نذیر بناکر بھیجا ہے مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ۔

إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرٌ لِّلْعَالَمِينَ (التكوير: ۲۷)

یہ (قرآن) تو سارے جہان والوں کے لیے ایک نصیحت ہے ۔"

حاشیہ ۶

الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا (المائدة: ۳)

آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے (لہٰذا حرام و حلال کی جو قیود تم پر عائد کر دی گئی ہیں ان کی پابندی کرو)

حاشیہ ۷

إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ (الحجرات: ۱۰)

مومن تو ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔

حاشیہ ۸

بخارى، كتاب الصلوة ، باب فضل استقبال القبله - نسائی، کتاب تحريم الدم ، حدیث نمبر ۳

حاشیہ ۹

مسند احمد جلد ۵، ص ۴۱۱- اسی معنی کی روایات بخاری ومسلم میں بھی موجود ہیں ابن القیم نے " زاد المعاد، جلد ۴ صفحہ ۳۱ (طبع مصر ۱۹۵۶) میں کفارہ فی النکاح کے مسئلے پر بحث کرتے ہوئے اسی معنی کی حدیث نقل کی ہے۔

حاشیہ ۱۰

وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ (الأنعام: ۷۳)

وہی ہے جس نے آسمان وزمین کو برحق پیدا کیا ہے ۔

قُلْ مَن رَّبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ قُلِ اللَّهُ ۚ قُلْ أَفَاتَّخَذْتُم مِّن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ لَا يَمْلِكُونَ لِأَنفُسِهِمْ نَفْعًا وَلَا ضَرًّا ۚ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الْأَعْمَىٰ وَالْبَصِيرُ أَمْ هَلْ تَسْتَوِي الظُّلُمَاتُ وَالنُّورُ ۗ أَمْ جَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكَاءَ خَلَقُوا كَخَلْقِهِ فَتَشَابَهَ الْخَلْقُ عَلَيْهِمْ ۚ قُلِ اللَّهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ وَهُوَ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ (الرعد: ۱۶)

” (اے نبی) ان سے پوچھو، آسمان و زمین کا رب کون ہے ؟ کہو، اللہ۔ ان سے کہو کہ جب حقیقت یہ ہے تو کیا تم نے اسے چھوڑ کر ایسے معبودوں کو اپنا کارساز ٹھیرا لیا ہے جو خود اپنے لیے بھی کسی نفع اور نقصان کا اختیار نہیں رکھتے؟ کہو، کیا اندھا اور آنکھوں والا برابر ہوا کرتا ہے ؟ کیا روشنی اور تاریکیاں یکساں ہوتی ہیں ؟ اگر ایسا نہیں تو کیا ان کے ٹھیرائے ہوئے شریکوں نے بھی اللہ کی طرح کچھ پیدا کیا ہے کہ اس کی وجہ سے ان پر تخلیق کا معاملہ مشتبہ ہو گیا ؟ کہو، ہر چیز کا خالق صرف اللہ ہے اور وہ یکتا ہے سب پر غالب!

تَنزِيلًا مِّمَّنْ خَلَقَ الْأَرْضَ وَالسَّمَاوَاتِ الْعُلَى، الرَّحْمَٰنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَىٰ، لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا وَمَا تَحْتَ الثَّرَىٰ، وَإِن تَجْهَرْ بِالْقَوْلِ فَإِنَّهُ يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفَىٰ، اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ لَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ (طه: ۴-۸)

یہ قرآن نازل کیا گیا ہے اس ذات کی طرف سے جس نے پیدا کیا ہے زمین کو اور بلند آسمانوں کو۔ وہ رحمن کائنات کے تخت سلطنت پر جلوہ فرما ہے۔ مالک ہے ان سب چیزوں کا جو آسمانوں اور زمین میں اور زمین و آسمان کے درمیان ہیں اور جو ثری کے نیچے ہیں۔ تم چاہے اپنی بات پکار کر کہو، وہ تو چپکے سے کہی ہوئی بات بلکہ اس سے بھی مخفی تر بات بھی جانتا ہے۔ وہ اللہ ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اس کے لیے بہترین نام ہیں۔

إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ يُغْشِي اللَّيْلَ النَّهَارَ يَطْلُبُهُ حَثِيثًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُومَ مُسَخَّرَاتٍ بِأَمْرِهِ ۗ أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ ۗ تَبَارَكَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ (الأعراف: ۵۴)

درحقیقت تمہارا رب تو وہ اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا، پھر اپنے تخت سلطنت پر جلوہ فرما ہوا۔ جو رات کو دن پر ڈھانک دیتا ہے اور پھر دن رات کے پیچھے دوڑا چلا آتا ہے جس نے سورج اور چاند اور تارے پیدا کیے سب اس کے فرمان کے تابع ہیں۔ خبردار رہو کہ اسی کی خلق ہے اور اسی کا امر ہے ۔ بڑا بابرکت ہے اللہ سارے جہانوں کا مالک و پروردگار۔

يُدَبِّرُ الْأَمْرَ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ ثُمَّ يَعْرُجُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ أَلْفَ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ (السجدة: ۵)

وہ آسمان سے زمین تک دنیا کے معاملات کی تدبیر کرتا ہے اور اس تدبیر کی روداد او پر اس کے حضور جاتی ہے ایک ایسے دن میں جس کی مقدار تمہارے شمار سے ایک ہزار سال ہے۔

أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۗ وَمَا لَكُم مِّن دُونِ اللَّهِ مِن وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ (البقرة: ۱۰۷)

کیا تمہیں خبر نہیں ہے کہ زمین اور آسمانوں کی فرماں روائی اللہ ہی کے لیے ہے اور اس کے سوا کوئی تمہاری خبر گیری کرنے اور تمہاری مدد کرنے والا نہیں ہے۔

الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًا وَلَمْ يَكُن لَّهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ فَقَدَّرَهُ تَقْدِيرًا (الفرقان: ۲)

”وہ جو زمین اور آسمانوں کی بادشاہی کا مالک ہے جس نے کسی کو بیٹا نہیں بنایا ہے، جس کے ساتھ بادشاہی میں کوئی شریک نہیں ہے جس نے ہر چیز کو پیدا کیا۔ پھر اس کی ایک تقدیر مقرر کی۔

حاشیہ ۱۱

يَا أَيُّهَا النَّاسُ اذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ ۚ هَلْ مِنْ خَالِقٍ غَيْرُ اللَّهِ يَرْزُقُكُم مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ ۚ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ فَأَنَّىٰ تُؤْفَكُونَ (فاطر: ۳)

لوگو! تم پر اللہ کے جو احسانات ہیں انھیں یاد رکھو۔ کیا اللہ کے سوا کوئی اور خالق بھی ہے جو تمہیں آسمان اور زمین میں سے رزق دیتا ہو ؟ کوئی معبود اس کے سوا نہیں آخر تم کہاں سے دھوکہ کھا رہے ہو ؟“

إِنَّ اللَّهَ يُمْسِكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ أَن تَزُولَا ۚ وَلَئِن زَالَتَا إِنْ أَمْسَكَهُمَا مِنْ أَحَدٍ مِّن بَعْدِهِ ۚ إِنَّهُ كَانَ حَلِيمًا غَفُورًا (فاطر: ۴۱)

حقیقت یہ ہے کہ اللہ ہی ہے جو آسمانوں اور زمین کو ٹل جانے سے روکے ہوئے ہے۔ اور اگر وہ ٹل جائیں تو اللہ کے بعد کوئی دوسرا انھیں تھامنے والا نہیں ہے۔ بے شک اللہ بڑا حلیم اور درگزر فرمانے والا ہے۔"

إِنَّ اللَّهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِينُ (الذاريات: ۵۸)

در حقیقت اللہ ہی رزاق ہے، بڑی قوت والا اور زبردست۔

قُلْ أَغَيْرَ اللَّهِ أَبْغِي رَبًّا وَهُوَ رَبُّ كُلِّ شَيْءٍ (الأنعام: ۱۶۴)

کہو، کیا میں اللہ کے سوا کوئی اور رب تلاش کروں۔ حالانکہ وہی ہر چیز کا رب ہے؟

حاشیہ ۱۲

وَهُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهِ وَهُوَ الْحَكِيمُ الْخَبِيرُ (الأنعام: ۱۸)

”وہ اپنے بندوں پر کامل اختیارات رکھتا ہے اور وہ دانا اور باخبر ہے ۔

قُلْ إِنِّي عَلَىٰ بَيِّنَةٍ مِّن رَّبِّي وَكَذَّبْتُم بِهِ ۚ مَا عِندِي مَا تَسْتَعْجِلُونَ بِهِ ۚ إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ ۖ يَقُصُّ الْحَقَّ وَهُوَ خَيْرُ الْفَاصِلِينَ (الأنعام: ۵۷)

"کہو، میں اپنے رب کی طرف سے ایک دلیل روشن پر قائم ہوں اور تم نے اس کو جھٹلا دیا ہے، اب میرے اختیار میں وہ چیز (یعنی عذاب دینا) نہیں ہے جس کے لیے تم جلد مچارہے ہو، فیصلہ کا سارا اختیار اللہ کو ہے، وہی امر حق بیان کرتا ہے اور وہی بہترین فیصلہ کرنے والا ہے"۔

لَهُ غَيْبُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ أَبْصِرْ بِهِ وَأَسْمِعْ ۚ مَا لَهُم مِّن دُونِهِ مِن وَلِيٍّ وَلَا يُشْرِكُ فِي حُكْمِهِ أَحَدًا، وَاتْلُ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِن كِتَابِ رَبِّكَ لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِهِ وَلَن تَجِدَ مِن دُونِهِ مُلْتَحَدًا (الكهف: ۲۶-۲۷)

آسمانوں اور زمین کے سب پوشیدہ احوال اسی کو معلوم ہیں، کیا خوب ہے وہ دیکھنے والا اور سننے والا ۔ زمین و آسمان کی مخلوقات کا کوئی خبر گیر اُس کے سوا نہیں، اور وہ اپنی حکومت میں کسی کو شریک نہیں کرتا۔ اے نبی! تمہارے رب کی کتاب میں سے جو کچھ تم پر وحی کیا گیا، اسے (جوں کا توں) سنا دو۔ کوئی اس کے فرمودات کو بدل دینے کا مجاز نہیں ہے (اور اگر تم کسی کی خاطر اس میں رد و بدل کرو گے تو اس سے بچ کر بھاگنے کے لیے کوئی جائے پناہ نہ پاؤ گے)۔

لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ وَإِلَى اللَّهِ تُرْجَعُ الْأُمُورُ (الحديد: ۵)

و ہی زمین اور آسمانوں کی بادشاہی کا مالک ہے۔ اور تمام معاملات فیصلے کے لیے اسی کی طرف رجوع کیے جاتے ہیں ۔

هُوَ اللَّهُ الَّذِي لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ السَّلَامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ الْعَزِيزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ ۚ سُبْحَانَ اللَّهِ عَمَّا يُشْرِكُونَ (الحشر: ۲۳)

وہ اللہ ہی ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ بادشاہ ہے نہایت مقدس، سراسر سلامتی امن دینے والا، نگہبان، سب پر غالب اپنا حکم بزور نافذ کرنے والا، اور بڑا ہی ہو کر رہنے والا۔ پاک ہے اللہ اس شرک سے جو لوگ کر رہے ہیں ۔"

تَبَارَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (الملك: ۱)

نہایت بزرگ و برتر ہے وہ جس کے ہاتھ میں کائنات کی سلطنت ہے، اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔

فَسُبْحَانَ الَّذِي بِيَدِهِ مَلَكُوتُ كُلِّ شَيْءٍ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ (يس: ۸۳)

پاک ہے وہ جس کے ہاتھ میں ہر چیز کا مکمل اختیار ہے، اور اسی کی طرف تم پلٹائے جانے والے ہو ؟

قُلْ فَمَن يَمْلِكُ لَكُم مِّنَ اللَّهِ شَيْئًا إِنْ أَرَادَ بِكُمْ ضَرًّا أَوْ أَرَادَ بِكُمْ نَفْعًا (الفتح: ۱۱)

ان سے کہنا اچھا یہی بات ہے تو کون تمہارے معاملہ میں اللہ کے فیصلے کو روک دینے کا کچھ بھی اختیار رکھتا ہے اگر وہ تمہیں کوئی نقصان پہنچانا چاہے یا نفع بخشنا چاہے؟“

وَإِن يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ ۖ وَإِن يُرِدْكَ بِخَيْرٍ فَلَا رَادَّ لِفَضْلِهِ ۚ يُصِيبُ بِهِ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ ۚ وَهُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ (یونس: ۱۰۷)

اگر اللہ تجھے کسی مصیبت میں ڈالے تو خود اس کے سوا کوئی نہیں جو اس مصیبت کو ٹال دے، اور اگر وہ تیرے حق میں بھلائی کا ارادہ کرے تو اس کے فضل کو پھیرنے والا بھی کوئی نہیں ہے۔ وہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اپنے فضل سے نوازتا ہے اور وہ درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے ۔

قُلْ إِنِّي لَن يُجِيرَنِي مِنَ اللَّهِ أَحَدٌ وَلَن أَجِدَ مِن دُونِهِ مُلْتَحَدًا (الجن: ۲۲)

کہو، مجھے اللہ کی گرفت سے کوئی نہیں بچا سکتا اور نہ میں اس کے دامن کے سوا کوئی جائے پناہ پا سکتا ہوں"۔

قُلْ مَن بِيَدِهِ مَلَكُوتُ كُلِّ شَيْءٍ وَهُوَ يُجِيرُ وَلَا يُجَارُ عَلَيْهِ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ (المؤمنون: ۸۸)

”ان سے کہو بتاؤ اگر تم جانتے ہو کہ ہر چیز پر اختیار کس کا ہے؟ اور کون ہے وہ جو پناہ دیتا ہے۔ اور اس کے مقابلے میں کوئی پناہ نہیں دے سکتا ؟

فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيدُ (البروج: ۱۶)

”وہ جو کچھ چاہے کر ڈالنے والا ہے ۔

إِنَّ اللَّهَ يَحْكُمُ مَا يُرِيدُ (المائدة: ۱)

”بے شک اللہ جو چاہتا ہے حکم دیتا ہے ۔

وَاللَّهُ يَحْكُمُ لَا مُعَقِّبَ لِحُكْمِهِ ۖ وَهُوَ سَرِيعُ الْحِسَابِ (الرعد: ۲)

اللہ حکومت کر رہا ہے. کوئی اس کے فیصلوں پر نظر ثانی کرنے والا نہیں ہے اور اسے حساب لیتے کچھ دیر نہیں لگتی ۔

لَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْأَلُونَ (الأنبياء: ۲۳)

وہ اپنے کاموں کے لیے کسی کے آگے جوابدہ نہیں ہے اور سب جوابدہ ہیں ۔

أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ (التين: ۸)

کیا اللہ سب حاکموں سے بڑا حاکم نہیں ہے ؟“

قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَن تَشَاءُ وَتَنزِعُ الْمُلْكَ مِمَّن تَشَاءُ وَتُعِزُّ مَن تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَن تَشَاءُ ۖ بِيَدِكَ الْخَيْرُ ۖ إِنَّكَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (آل عمران: ۲۶)

کہو، خدایا ! ملک کے مالک، تو جسے چاہے حکومت دے اور جس سے چاہے چھین لے۔ جسے چاہے عزت بخشے اور جس کو چاہے ذلیل کر دے۔ بھلائی تیرے اختیار میں ہے۔ بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔

أَفَغَيْرَ دِينِ اللَّهِ يَبْغُونَ وَلَهُ أَسْلَمَ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ طَوْعًا وَكَرْهًا وَإِلَيْهِ يُرْجَعُونَ (آل عمران: ۸۳)

اب کیا یہ لوگ اللہ کی اطاعت کا طریقہ (دین اللہ) چھوڑ کر کوئی اور طریقہ چاہتے ہیں؟ حالانکہ زمین و آسمان کی ساری چیزیں چاروناچار اللہ ہی کی تابع فرمان مسلم ہیں اور اسی کی طرف سب کو پلٹنا ہے۔

يَقُولُونَ هَل لَّنَا مِنَ الْأَمْرِ مِن شَيْءٍ ۗ قُلْ إِنَّ الْأَمْرَ كُلَّهُ لِلَّهِ (آل عمران: ۱۵۴)

" یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس کام کے چلانے میں ہمارا بھی کوئی حصہ ہے ؟ ان سے کہو (کسی کا کوئی حصہ نہیں) اس کام کے سارے اختیارات اللہ کے ہاتھ میں ہیں ۔"

إِنَّ الْأَرْضَ لِلَّهِ يُورِثُهَا مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ ۖ وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ (الأعراف: ۱۲۸)

(موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا) ”زمین اللہ کی ہے۔ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اس کا وارث بنا دیتا ہے اور آخری کامیابی انہی لوگوں کی ہے جو اُس سے ڈرتے ہوئے کام کریں ۔

حاشیہ ۱۳

وَاتَّخَذُوا مِن دُونِ اللَّهِ آلِهَةً لِّيَكُونُوا لَهُمْ عِزًّا ۙ كَلَّا سَيَكْفُرُونَ بِعِبَادَتِهِمْ وَيَكُونُونَ عَلَيْهِمْ ضِدًّا (مریم: ۸۱-۸۲)

ان لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے کچھ خدا بنا رکھے ہیں تاکہ وہ ان کے پشتیبان ہوں کوئی پشتیبان نہ ہوگا۔ وہ سب ان کی عبادت سے انکار کریں گے اور اُلٹے اِن کے مخالف بن جائیں گے۔

وَاتَّخَذُوا مِن دُونِهِ آلِهَةً لَّعَلَّهُمْ يُنصَرُونَ، لَا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَهُمْ وَهُمْ لَهُمْ جُندٌ مُّحْضَرُونَ (يس: ۷۴-۷۵)

" یہ سب کچھ ہوتے ہوئے انھوں نے اللہ کے سوا دوسرے خدا بنا لیے ہیں اور یہ امید رکھتے ہیں کہ ان کی مدد کی جائے گی۔ وہ ان کی کوئی مدد نہیں کر سکتے ، بلکہ یہ لوگ اُلٹے ان کے لیے حاضر باش لشکر بنے ہوئے ہیں۔

وَمَا ظَلَمْنَاهُمْ وَلَٰكِن ظَلَمُوا أَنفُسَهُمْ ۖ فَمَا أَغْنَتْ عَنْهُمْ آلِهَتُهُمُ الَّتِي يَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ مِن شَيْءٍ لَّمَّا جَاءَ أَمْرُ رَبِّكَ ۖ وَمَا زَادُوهُمْ غَيْرَ تَتْبِيبٍ (هود: ۱۰۱)

" ہم نے ان پر ظلم نہیں کیا، انھوں نے آپ ہی اپنے اوپر ستم ڈھایا۔ اور جب اللہ کا حکم آگیا تو اُن کے وہ معبود جنہیں وہ اللہ کو چھوڑ کر پکارا کرتے تھے اُن کے کچھ کام نہ آسکے اور انھوں نے ہلاکت و بربادی کے سوا انھیں کچھ فائدہ نہ دیا۔

أَفَمَن يَخْلُقُ كَمَن لَّا يَخْلُقُ ۗ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ (النحل: ۱۷)

پھر کیا وہ جو پیدا کرتا ہے اور وہ جو کچھ بھی نہیں پیدا کرتے، دونوں یکساں ہیں ؟ کیا تم ہوش میں نہیں آتے؟"

وَالَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ لَا يَخْلُقُونَ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَ (النحل: ۲۰)

اور وہ دوسری ہستیاں جنھیں اللہ کو چھوڑ کر لوگ پکارتے ہیں، وہ کسی چیز کی بھی خالق نہیں ہیں بلکہ خود مخلوق ہیں ۔

إِلَٰهُكُمْ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ ۚ فَالَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ قُلُوبُهُم مُّنكِرَةٌ وَهُم مُّسْتَكْبِرُونَ (النحل: ۲۲)

تمہارا خدا بس ایک ہی خدا ہے۔ مگر جو لوگ آخرت کو نہیں مانتے اُن کے دلوں میں انکار بس کر رہ گیا ہے اور وہ گھمنڈ میں پڑ کر رہ گئے ہیں۔

وَقَالَ اللَّهُ لَا تَتَّخِذُوا إِلَٰهَيْنِ اثْنَيْنِ ۖ إِنَّمَا هُوَ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ ۖ فَإِيَّايَ فَارْهَبُونِ (النحل: ۵۱)

اللہ کا فرمان ہے کہ دو خدا نہ بنا لو، خدا تو بس ایک ہی ہے، لہذا تم مجھ ہی سے ڈرو"۔

وَلَقَدْ أَهْلَكْنَا مَا حَوْلَكُم مِّنَ الْقُرَىٰ وَصَرَّفْنَا الْآيَاتِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ ۚ فَلَوْلَا نَصَرَهُمُ الَّذِينَ اتَّخَذُوا مِن دُونِ اللَّهِ قُرْبَانًا آلِهَةً ۖ بَلْ ضَلُّوا عَنْهُمْ ۖ وَذَٰلِكَ إِفْكُهُمْ وَمَا كَانُوا يَفْتَرُونَ (الاحقاف: ۲۷-۲۸)

تمہارے گردو پیش کے علاقوں میں بہت سی بستیوں کو ہم ہلاک کر چکے ہیں۔ ہم نے اپنی آیات بھیج کر بار بار طرح طرح سے ان کو سمجھایا، شاید کہ وہ باز آجائیں۔ پھر کیوں نہ ان بستیوں والوں کی مدد کی جنہیں اللہ کو چھوڑ کر انھوں نے تقرب الی اللہ کا ذریعہ سمجھتے ہوئے معبود بنا رکھا تھا ؟ بلکہ وہ تو ان سے کھوئے گئے اور یہ تھا اُن کے جھوٹ اور اُن بناوٹی عقائد کا انجام جو انھوں نے گھڑ رکھے تھے ۔

وَمَا لِيَ لَا أَعْبُدُ الَّذِي فَطَرَنِي وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ، أَأَتَّخِذُ مِن دُونِهِ آلِهَةً إِن يُرِدْنِ الرَّحْمَٰنُ بِضُرٍّ لَّا تُغْنِ عَنِّي شَفَاعَتُهُمْ شَيْئًا وَلَا يُنقِذُونِ (يس: ۲۲-۲۳)

اور (اس مومن نے) کہا، آخر کیوں نہ میں اُس ہستی کی بندگی کروں جس نے مجھے پیدا کیا ہے اور جس کی طرف تم سب کو پلٹ کر جانا ہے ؟ کیا میں اسے چھوڑ کر دوسرے معبود بنا لوں ؟ حالانکہ اگر خدائے رحمن مجھے کوئی نقصان پہنچانا چاہے تو نہ ان کی شفاعت میرے کسی کام آسکتی ہے اور نہ وہ مجھے چھڑا ہی سکتے ہیں ۔

وَيَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَضُرُّهُمْ وَلَا يَنفَعُهُمْ وَيَقُولُونَ هَٰؤُلَاءِ شُفَعَاؤُنَا عِندَ اللَّهِ ۚ قُلْ أَتُنَبِّئُونَ اللَّهَ بِمَا لَا يَعْلَمُ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ ۚ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَىٰ عَمَّا يُشْرِكُونَ (يونس: ۱۸)

یہ لوگ اللہ کے سوا ان کی پرستش کر رہے ہیں جو نہ اُن کو نقصان پہنچا سکتے ہیں اور نہ نفع، اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے ہاں ہمارے شفارشی ہیں۔ اے محمد ! ان سے کہو کیا تم اللہ کو اس بات کی خبر دیتے ہو جسے وہ آسمانوں میں جانتا ہے اور نہ زمین میں ؟ پاک ہے وہ اور بالا و برتر ہے اس شرک سے جو یہ لوگ کر رہے ہیں ۔

وَهُوَ الَّذِي فِي السَّمَاءِ إِلَٰهٌ وَفِي الْأَرْضِ إِلَٰهٌ ۚ وَهُوَ الْحَكِيمُ الْعَلِيمُ (الزخرف: ۸۴)

”وہی ایک آسمان میں بھی خدا ہے اور زمین میں بھی خدا، اور وہی حکیم و علیم ہے۔

يَا أَيُّهَا النَّاسُ اذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ ۚ هَلْ مِنْ خَالِقٍ غَيْرُ اللَّهِ يَرْزُقُكُم مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ ۚ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ فَأَنَّىٰ تُؤْفَكُونَ (فاطر: ۳)

لوگو! اللہ کے تم پر جو احسانات میں انھیں یاد رکھو۔ کیا اللہ کے سوا اور بھی کوئی خالق ہے جو تمہیں آسمان و زمین سے رزق دیتا ہو ؟ کوئی معبود اس کے سوا نہیں، آخر تم کہاں سے دھوکا کھا رہے ہو ؟"

قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِنْ أَخَذَ اللَّهُ سَمْعَكُمْ وَأَبْصَارَكُمْ وَخَتَمَ عَلَىٰ قُلُوبِكُم مَّنْ إِلَٰهٌ غَيْرُ اللَّهِ يَأْتِيكُم بِهِ ۗ انظُرْ كَيْفَ نُصَرِّفُ الْآيَاتِ ثُمَّ هُمْ يَصْدِفُونَ (الأنعام: ۴۶)

اے محمد ! ان سے کہو، کبھی تم نے سوچا کہ اگر اللہ تمہاری بینائی اور سماعت تم سے چھین لے اور تمہارے دلوں پر مہر کر دے تو اللہ کے سوا اور کون ہے جو تمہیں یہ قوتیں واپس دلا سکتا ہو؟ دیکھو کس طرح ہم بار بار اپنی نشانیاں ان کے سامنے پیش کرتے ہیں اور پھر یہ کس طرح ان سے نظر چرا جاتے ہیں ۔

وَهُوَ اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ لَهُ الْحَمْدُ فِي الْأُولَىٰ وَالْآخِرَةِ ۖ وَلَهُ الْحُكْمُ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ (القصص: ۷۰)

" وہی ایک اللہ ہے جس کے سوا عبادت کا کوئی مستحق نہیں۔ اسی کے لیے حمد ہے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ، فرمانروائی اسی کی ہے اور اسی کی طرف تم پلٹائے جانے والے ہو۔

قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِن جَعَلَ اللَّهُ عَلَيْكُمُ النَّهَارَ سَرْمَدًا إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ مَنْ إِلَٰهٌ غَيْرُ اللَّهِ يَأْتِيكُم بِلَيْلٍ تَسْكُنُونَ فِيهِ ۖ أَفَلَا تُبْصِرُونَ (القصص: ۷۲)

ان سے پوچھو کبھی تم نے سوچا کہ اگر اللہ قیامت تک کے لیے تم پر مسلسل دن طاری کر دے تو اللہ کے سوا وہ کونسا معبود ہے جو تمہیں رات لادے تاکہ تم اس میں سکون حاصل کر سکو ؟ کیا تم کو سوجھتا نہیں ؟"۔

قُلِ ادْعُوا الَّذِينَ زَعَمْتُم مِّن دُونِ اللَّهِ لَا يَمْلِكُونَ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ وَمَا لَهُمْ فِيهِمَا مِن شِرْكٍ وَمَا لَهُ مِنْهُم مِّن ظَهِيرٍ ۖ وَلَا تَنفَعُ الشَّفَاعَةُ عِندَهُ إِلَّا لِمَنْ أَذِنَ لَهُ ۚ حَتَّىٰ إِذَا فُزِّعَ عَن قُلُوبِهِمْ قَالُوا مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ ۖ قَالُوا الْحَقَّ ۖ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ (سبا: ۲۲-۲۳)

اے نبی ! ان مشرکین سے کہو کہ پکار دیکھو اپنے اُن معبودوں کو جنھیں تم اللہ کے سوا اپنا معبود سمجھے بیٹھے ہو۔ وہ نہ آسمانوں میں کسی ذرہ برابر چیز کے مالک ہیں نہ زمین میں۔ وہ آسمان و زمین کی ملکیت میں شریک بھی نہیں ہیں۔ ان میں سے کوئی اللہ کا مددگار بھی نہیں ہے اور اللہ کے حضور کوئی شفاعت بھی کسی کے لیے نافع نہیں ہو سکتی بجز اس شخص کے جس کے لیے اللہ نے شفارش کی اجازت دی ہو۔ حتی کہ جب لوگوں کے دلوں سے گھبراہٹ دور ہو گی تو وہ (سفارش کرنے والوں سے) پوچھیں گے کہ تمہارے رب نے کیا جواب دیا ؟ وہ کہیں گے کہ ٹھیک جواب ملا ہے اور وہ بزرگ و برتر ہے۔

خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ ۖ يُكَوِّرُ اللَّيْلَ عَلَى النَّهَارِ وَيُكَوِّرُ النَّهَارَ عَلَى اللَّيْلِ ۖ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ۖ كُلٌّ يَجْرِي لِأَجَلٍ مُّسَمًّى ۗ أَلَا هُوَ الْعَزِيزُ الْغَفَّارُ، خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَأَنزَلَ لَكُم مِّنَ الْأَنْعَامِ ثَمَانِيَةَ أَزْوَاجٍ ۚ يَخْلُقُكُمْ فِي بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ خَلْقًا مِّن بَعْدِ خَلْقٍ فِي ظُلُمَاتٍ ثَلَاثٍ ۚ ذَٰلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ لَهُ الْمُلْكُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ فَأَنَّىٰ تُصْرَفُونَ (الزمر: ۵-۶)

اُس نے آسمانوں اور زمین کو برحق پیدا کیا ہے۔ وہی دن پر رات اور رات پر دن کو لپیٹتا ہے۔ اسی نے سورج اور چاند کو اس طرح مسخر کر رکھا ہے کہ ہر ایک ایک وقت مقرر تک چلے جا رہا ہے۔ جان رکھو، وہ زبردست ہے اور درگزر کرنے والا ہے۔ اسی نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا ہے ، پھر وہی ہے جس نے اُس جان سے اُس کا جوڑا بنایا۔ اور اسی نے تمہارے مویشیوں میں سے آٹھ نر و مادہ پیدا کیے۔ وہ تمہاری ماؤں کے پیٹوں میں تین تین تاریک پردوں کے اندر تمہیں ایک کے بعد ایک شکل دیتا چلا جاتا ہے۔ یہی اللہ جس کے یہ کام ہیں، تمہارا رب ہے، بادشاہی اسی کی ہے، کوئی معبود اس کے سوا نہیں، پھر تم کدھر سے پھرائے جا رہے ہو ؟

أَمَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَأَنزَلَ لَكُم مِّنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَنبَتْنَا بِهِ حَدَائِقَ ذَاتَ بَهْجَةٍ ۖ مَّا كَانَ لَكُمْ أَن تُنبِتُوا شَجَرَهَا ۗ أَإِلَٰهٌ مَّعَ اللَّهِ ۚ بَلْ هُمْ قَوْمٌ يَعْدِلُونَ (النمل: ۶۰)

بھلا وہ کون ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور تمہارے لیے آسمان سے پانی برسایا۔ پھر اس کے ذریعہ سے وہ خوشنما باغ اُگائے جن کے درختوں کا اگانا تمہارے بس میں نہ تھا ؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور خدا بھی ان کاموں میں شریک ہے ؟ (نہیں) بلکہ یہی لوگ راہ راست سے ہٹ کر چلے جا رہے ہیں ۔

أَمَّن يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ وَمَن يَرْزُقُكُم مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ ۗ أَإِلَٰهٌ مَّعَ اللَّهِ ۚ قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ (النمل: ۶۴)

اور وہ کون ہے جو خلق کی ابتدا کرتا ہے اور پھر اس کا اعادہ کرتا ہے ؟ اور کون تم کو آسمانوں اور زمین سے رزق دیتا ہے ؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور خدا بھی (ان کاموں میں) حصہ داری ہے ؟ کہو کہ لاؤ اپنی دلیل اگر تم سچے ہو۔

وَاتَّخَذُوا مِن دُونِهِ آلِهَةً لَّا يَخْلُقُونَ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَ وَلَا يَمْلِكُونَ لِأَنفُسِهِمْ ضَرًّا وَلَا نَفْعًا وَلَا يَمْلِكُونَ مَوْتًا وَلَا حَيَاةً وَلَا نُشُورًا (الفرقان: ۳)

لوگوں نے اسے چھوڑ کر ایسے معبود بنا لیے جو کسی چیز کو پیدا نہیں کرتے بلکہ خود پیدا کیے جاتے ہیں۔ جو خود اپنے لیے بھی کسی نفع یا نقصان کا اختیار نہیں رکھتے، جو نہ مار سکتے ہیں نہ چلا سکتے ہیں، نہ مرے ہوئے کو پھر اُٹھا سکتے ہیں ۔

خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ ۚ تَعَالَىٰ عَمَّا يُشْرِكُونَ، خَلَقَ الْإِنسَانَ مِن نُّطْفَةٍ فَإِذَا هُوَ خَصِيمٌ مُّبِينٌ، وَالْأَنْعَامَ خَلَقَهَا ۗ لَكُمْ فِيهَا دِفْءٌ وَمَنَافِعُ وَمِنْهَا تَأْكُلُونَ (النحل: ۳-۵)

اُس نے آسمان و زمین کو برحق پیدا کیا ہے، وہ بہت بالا و برتر ہے اُس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں۔ اُس نے انسان کو ایک ذرا سی بوند سے پیدا کیا پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ ایک جھگڑالو مخلوق بن گیا۔ اس نے جانور پیدا کیے جس میں تمہارے لیے خوراک بھی ہے اور پوشاک بھی، اور طرح طرح کے دوسرے فائدے بھی ۔

حاشیہ ۱۴

وَأَسِرُّوا قَوْلَكُمْ أَوِ اجْهَرُوا بِهِ ۖ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ، أَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ (الملك: ۱۳-۱۴)

تم خواہ چپکے سے بات کرو خواہ زور سے (اُس کے لیے یکساں ہے) وہ تو دلوں کا حال تک جانتا ہے۔ کیا وہی نہ جانے گا جس نے پیدا کیا ہے ؟ حالانکہ وہ لطیف ہے اور باخبر ہے۔

أَوَلَمْ يَرَوْا إِلَى الطَّيْرِ فَوْقَهُمْ صَافَّاتٍ وَيَقْبِضْنَ ۚ مَا يُمْسِكُهُنَّ إِلَّا الرَّحْمَٰنُ ۚ إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ بَصِيرٌ (الملك: ۱۹)

کیا یہ لوگ اپنے اوپر اڑتے ہوئے پرندوں کو پر پھیلاتے اور سکڑتے نہیں دیکھتے؟ رحمن کے سوا کوئی نہیں جو انھیں تھامے ہوئے ہو، وہی ہر چیز کا نگہبان ہے ۔

لَهُ غَيْبُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ أَبْصِرْ بِهِ وَأَسْمِعْ ۚ مَا لَهُم مِّن دُونِهِ مِن وَلِيٍّ وَلَا يُشْرِكُ فِي حُكْمِهِ أَحَدًا (الكهف: ۲۶)

آسمانوں اور زمین کے سب پوشیدہ احوال اسی کو معلوم ہیں۔ کیا خوب ہے وہ دیکھنے والا اور سننے والا۔ زمین و آسمان کی مخلوقات کا اس کے سوا اور کوئی خبر گیر نہیں، اور وہ اپنی حکومت میں کسی کو شریک نہیں کرتا ۔

وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهِ نَفْسُهُ ۖ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ (ق: ۱۶)

ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے اور اُس کے دل میں اُبھرنے والے وسوسوں تک کو ہم جانتے ہیں۔ اور ہم اس کی رگ گردن سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں ۔

هُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ ۚ يَعْلَمُ مَا يَلِجُ فِي الْأَرْضِ وَمَا يَخْرُجُ مِنْهَا وَمَا يَنزِلُ مِنَ السَّمَاءِ وَمَا يَعْرُجُ فِيهَا ۖ وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ ۚ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ (الحديد: ۴)

وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا اور پھر عرش پر جلوہ فرما ہوا۔ اس کے علم میں ہے جو کچھ زمین میں جاتا ہے اور جو کچھ اس سے نکلتا ہے اور جو کچھ آسمان سے اُترتا ہے اور جو کچھ اس میں چڑھتا ہے۔ اور وہ تمہارے ساتھ ہے جہاں بھی تم ہو اور جو کام بھی تم کرتے ہو اسے وہ دیکھ رہا ہے"۔

قُل لَّا يَعْلَمُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّهُ ۚ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ (النمل: ۶۵)

ان سے کہو اللہ کے سوا اور کوئی بھی آسمانوں اور زمین میں غیب کا علم نہیں رکھتا۔ اور وہ نہیں جانتے کہ کب وہ اٹھائے جائیں گے ۔

يَعْلَمُ مَا يَلِجُ فِي الْأَرْضِ وَمَا يَخْرُجُ مِنْهَا وَمَا يَنزِلُ مِنَ السَّمَاءِ وَمَا يَعْرُجُ فِيهَا ۚ وَهُوَ الرَّحِيمُ الْغَفُورُ، وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَا تَأْتِينَا السَّاعَةُ ۖ قُلْ بَلَىٰ وَرَبِّي لَتَأْتِيَنَّكُمْ عَالِمِ الْغَيْبِ ۖ لَا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ وَلَا أَصْغَرُ مِن ذَٰلِكَ وَلَا أَكْبَرُ إِلَّا فِي كِتَابٍ مُّبِينٍ (سبا: ۲-۳)

وہ (اللہ) جانتا ہے جو کچھ زمین میں جاتا ہے اور جو کچھ اس سے باہر نکلتا ہے اور جو کچھ آسمان سے اُترتا ہے اور جو کچھ اس میں چڑھتا ہے۔ اور وہ رحیم و غفور ہے منکرین کہتے ہیں کیا بات ہے قیامت ہم پر نہیں آرہی ہے ؟ کہو، قسم ہے میرے عالم الغیب پروردگار کی، وہ تم پر آکر رہے گی اس سے ذرہ برابر چیز نہ آسمان میں چھپی ہوئی ہے نہ زمین میں ۔ نہ ذرے سے بڑی اور نہ چھوٹی سب کچھ ایک نمایاں رجسٹر میں درج ہے۔

وَعِندَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَا إِلَّا هُوَ ۚ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ۚ وَمَا تَسْقُطُ مِن وَرَقَةٍ إِلَّا يَعْلَمُهَا وَلَا حَبَّةٍ فِي ظُلُمَاتِ الْأَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَلَا يَابِسٍ إِلَّا فِي كِتَابٍ مُّبِينٍ (الأنعام: ۵۹)

اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جنھیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا بحرو بر میں جو کچھ ہے وہ اس سے واقف ہے۔ درخت سے گرنے والا کوئی پتہ ایسا نہیں ہے جسے وہ نہ جانتا ہو۔ زمین کے تاریک پردوں میں بھی کوئی ذرہ ایسا نہیں جس سے وہ باخبر نہ ہو خشک و ترسب کچھ ایک کھلی کتاب میں درج ہے ۔

حاشیہ ۱۵

هُوَ الْأَوَّلُ وَالْآخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ۖ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ (الحديد: ۳)

وہی اول بھی ہے اور آخر یہی ظاہر بھی ہے اور باطن بھی، اور وہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔

وَلَا تَدْعُ مَعَ اللَّهِ إِلَٰهًا آخَرَ ۘ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۚ كُلُّ شَيْءٍ هَالِكٌ إِلَّا وَجْهَهُ ۚ لَهُ الْحُكْمُ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ (القصص: ۸۸)

اور اللہ کے ساتھ کسی اور خدا کو نہ پکارو۔ اس کے سوا کوئی خدا نہیں ۔ ہر چیز ہلاک ہونے والی ہے سوائے اُس کی ذات کے۔ فرمانروائی اسی کی ہے اور اسی کی طرف، تم سب پلٹائے جانے والے ہو۔

وَيَبْقَىٰ وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ (الرحمن: ۲۷)

اور صرف تیرے رب کی جلیل و کریم ذات ہی باقی رہنے والی ہے۔

اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ ۚ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ ۚ لَّهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۗ مَن ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِندَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ ۚ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ ۖ وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهِ إِلَّا بِمَا شَاءَ ۚ وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ ۖ وَلَا يَئُودُهُ حِفْظُهُمَا ۚ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ (البقرة: ۲۵۵)

اللہ وہ زندہ جاوید ہستی جو تمام کائنات کو سنبھالے ہوئے ہے، اُس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے۔ وہ نہ سوتا ہے اور نہ اسے اونگھ آتی ہے۔ زمین اور آسمانوں میں جو کچھ ہے اسی کا ہے۔ کون ہے جو اس کی جناب میں اس کی اجازت کے بغیر سفارش کر سکے ؟ جو کچھ بندوں کے سامنے ہے اسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ ان سے اوجھل ہے اس سے بھی وہ واقف ہے ۔ اور اس کی معلومات میں سے کوئی چیز ان کی گرفت ادراک میں نہیں آسکتی الا یہ کہ کسی چیز کا علم وہ خود ان کو دینا چاہے۔ اس کی حکومت آسمانوں اور زمین پر چھائی ہوئی ہے اور ان کی نگہبانی اس کے لیے کوئی تھکا دینے والا کام نہیں۔ بس وہی ایک بزرگ و برتر ذات ہے ۔

هُوَ الْحَيُّ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ فَادْعُوهُ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ ۗ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (غافر: ۶۵)

و ہی زندہ ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ۔ اسی کو تم پکارو اپنے دین کو اس کے لیے خالص کرکے۔ ساری تعریف اللہ رب العالمین ہی کے لیے ہے ۔

حاشیہ ۱۶

لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ، وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌ (الإخلاص: ۳-۴)

نہ اس کی کوئی اولاد ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد اور کوئی اس کا ہمسر نہیں ہے۔

وَقَالُوا اتَّخَذَ اللَّهُ وَلَدًا ۗ سُبْحَانَهُ ۖ بَل لَّهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ كُلٌّ لَّهُ قَانِتُونَ، بَدِيعُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ وَإِذَا قَضَىٰ أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُن فَيَكُونُ (البقرة: ۱۱۶-۱۱۷)

اور ان کا قول ہے کہ اللہ نے کسی کو بیٹا بنایا ہے ۔ پاک ہے اللہ ان باتوں سے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ زمین اور آسمانوں کی تمام موجودات اس کی ملک ہیں اس کے سب اس کے مطیع فرمان ہیں، وہ آسمانوں اور زمین کا موجد ہے، اور جس بات کا وہ فیصلہ کرتا ہے اس کے لیے بس حکم دیتا ہے کہ ہو جا اور وہ ہو جاتی ہے۔

بَدِيعُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ أَنَّىٰ يَكُونُ لَهُ وَلَدٌ وَلَمْ تَكُن لَّهُ صَاحِبَةٌ ۖ وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ ۖ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ (الأنعام: ۱۰۱)

وہ (اللہ) تو آسمانوں اور زمین کا موجد ہے۔ اس کا کوئی بیٹا کیسے ہو سکتا ہے جب کہ کوئی اس کی شریک حیات ہی نہیں ہے۔ اس نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے۔ اور وہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔

مَا اتَّخَذَ اللَّهُ مِن وَلَدٍ وَمَا كَانَ مَعَهُ مِنْ إِلَٰهٍ ۚ إِذًا لَّذَهَبَ كُلُّ إِلَٰهٍ بِمَا خَلَقَ وَلَعَلَا بَعْضُهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ ۚ سُبْحَانَ اللَّهِ عَمَّا يَصِفُونَ (المؤمنون: ۹۱)

اللہ نے کسی کو اپنی اولاد نہیں بنایا ہے اور کوئی دوسرا خدا اس کے ساتھ نہیں ہے اگر ایسا ہوتا تو ہر خدا اپنی خلق کو لے کر الگ ہو جاتا، اور پھر وہ ایک دوسرے پر چڑھ دوڑتے پاک ہے اللہ ان باتوں سے جو یہ لوگ بناتے ہیں۔

لِّيُنذِرَ الَّذِينَ قَالُوا اتَّخَذَ اللَّهُ وَلَدًا، مَّا لَهُم بِهِ مِنْ عِلْمٍ وَلَا لِآبَائِهِمْ ۚ كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ ۚ إِن يَقُولُونَ إِلَّا كَذِبًا (الكهف: ۴-۵)

اور یہ (نبی) اُن لوگوں کو ڈرائے جو کہتے ہیں کہ اللہ نے کسی کو بیٹا بنایا ہے۔ اس بات کا نہ انھیں علم ہے اور نہ ان کے باپ دادا کو تھا۔ بڑی بات ہے جو ان کے منہ سے نکلتی ہے۔ وہ محض جھوٹ بکتے ہیں۔

مَا كَانَ لِلَّهِ أَن يَتَّخِذَ مِن وَلَدٍ سُبْحَانَهُ ۚ إِذَا قَضَىٰ أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُن فَيَكُونُ (مريم: ۳۵)

اللہ کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ کسی کو اپنا بیٹا بنائے ۔ وہ پاک ذات ہے۔ وہ جب بھی کسی بات کا فیصلہ کرتا ہے، تو کہتا ہے کہ ”ہو جا“ اور بس وہ ہو جاتی ہے۔

وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمَٰنُ وَلَدًا، لَّقَدْ جِئْتُمْ شَيْئًا إِدًّا، تَكَادُ السَّمَاوَاتُ يَتَفَطَّرْنَ مِنْهُ وَتَنشَقُّ الْأَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ هَدًّا، أَن دَعَوْا لِلرَّحْمَٰنِ وَلَدًا، وَمَا يَنبَغِي لِلرَّحْمَٰنِ أَن يَتَّخِذَ وَلَدًا، إِن كُلُّ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمَٰنِ عَبْدًا (مريم: ۸۸-۹۳)

” وہ کہتے ہیں کہ رحمن نے کسی کو بیٹا بنایا ہے۔ سخت بیہودہ بات ہے جو تم لوگ گھڑ لائے ہو۔ قریب ہے کہ آسمان پھٹ پڑے، زمین شق ہو جائے اور پہاڑ گر جائیں، اس بات پر کہ لوگوں نے رحمن کے لیے اولاد ہونے کا دعویٰ کیا۔ رحمن کی یہ شان نہیں ہے کہ وہ کسی کو بیٹا بنائے۔ زمین اور آسمانوں کے اندر جو بھی ہیں وہ رحمان کے حضور بندوں کی حیثیت سے پیش ہونے والے ہیں۔

حاشیہ ۱۷

وَلَا تَدْعُ مَعَ اللَّهِ إِلَٰهًا آخَرَ ۘ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۚ كُلُّ شَيْءٍ هَالِكٌ إِلَّا وَجْهَهُ ۚ لَهُ الْحُكْمُ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ (القصص: ۸۸)

اور نہ پکارو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ ہر چیز ہلاک ہو جانے والی ہے سوائے اس کی ذات کے۔ فرمانروائی اسی کی ہے اور اسی کی طرف تم سب پلٹائے جانے والے ہو۔

أَلَا لِلَّهِ الدِّينُ الْخَالِصُ ۚ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّهِ زُلْفَىٰ ۚ إِنَّ اللَّهَ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ فِي مَا هُمْ فِيهِ يَخْتَلِفُونَ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ كَاذِبٌ كَفَّارٌ (الزمر: ۳)

خبردار، دین خالص اللہ کا حق ہے۔ رہے وہ لوگ جنھوں نے اس کے سوا دوسرے سرپرست بنا رکھے ہیں (اور اپنے اس فعل کی توجیہ یہ کرتے ہیں کہ ہم تو ان کی عبادت صرف اس لیے کرتے ہیں کہ وہ اللہ تک ہماری رسائی کرا دیں)، اللہ یقینا ان کے درمیان ان تمام باتوں کا فیصلہ کر دے گا جن میں وہ اختلاف کر رہے ہیں۔ اللہ کسی ایسے شخص کو ہدایت نہیں دیتا جو جھوٹا اور منکر حق ہو۔

قُلْ أَفَغَيْرَ اللَّهِ تَأْمُرُونِّي أَعْبُدُ أَيُّهَا الْجَاهِلُونَ (الزمر: ۶۴)

(اے نبی ان سے کہو) پھر کیا اسے جاہلو، تم اللہ کے سوا کسی اور کی بندگی کرنے کے لیے مجھ سے کہتے ہو ؟“

خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ ۚ ذَٰلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ لَهُ الْمُلْكُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ فَأَنَّىٰ تُصْرَفُونَ (الزمر: ۵-۶)

" اس نے آسمانوں اور زمین کو برحق پیدا کیا ہے۔ وہی اللہ تمہارا رب ہے، بادشاہی اسی کی ہے، کوئی خدا اس کے سوا نہیں ہے ، پھر تم کدھر سے پھرائے جا رہے ہو ؟"

وَإِذْ قَالَ لُقْمَانُ لِابْنِهِ وَهُوَ يَعِظُهُ يَا بُنَيَّ لَا تُشْرِكْ بِاللَّهِ ۖ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ (لقمان: ۱۳)

" یاد کرو جب لقمان اپنے بیٹے کو نصیحت کر رہا تھا تو اس نے کہا بیٹا خدا کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا، حق یہ ہے کہ شرک بہت بڑا ظلم ہے ۔"

قُلِ ادْعُوا الَّذِينَ زَعَمْتُم مِّن دُونِ اللَّهِ لَا يَمْلِكُونَ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ وَمَا لَهُمْ فِيهِمَا مِن شِرْكٍ وَمَا لَهُ مِنْهُم مِّن ظَهِيرٍ (سبا: ۲۲)

اے نبی! ان مشرکین سے کہو کہ پکار دیکھو اپنے ان معبودوں کو جنھیں تم اللہ کے سوا اپنا معبود سمجھے بیٹھے ہو۔ وہ نہ آسمانوں میں کسی ذرہ برابر چیز کے مالک ہیں نہ زمین میں ۔ وہ آسمان و زمین کی ملکیت میں شریک بھی نہیں ہیں۔ ان میں سے کوئی اللہ کا مددگار بھی نہیں ہے ۔

قُلْ إِنَّمَا أَنَا مُنذِرٌ ۖ وَمَا مِنْ إِلَٰهٍ إِلَّا اللَّهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ (ص: ۶۵)

"اے نبیؐ) ان سے کہو میں تو بس خبر دار کر دینے والا ہوں۔ کوئی حقیقی معبود نہیں مگر اللہ جو یکتا ہے ۔ سب پر غالب ہے ۔"

وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ (غافر: ۶۰)

تمہارا رب کہتا ہے مجھے پکارو میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا۔ جو لوگ گھمنڈ میں آکر میری عبادت سے منہ موڑتے ہیں ضرور وہ ذلیل و خوار ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے۔

حاشیہ ۱۸

أَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَٰهَهُ هَوَاهُ ۖ أَفَأَنتَ تَكُونُ عَلَيْهِ وَكِيلًا (الفرقان: ۴۳)

کبھی تم نے اس شخص کے حال پر غور کیا جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا خدا بنا لیا ہو ؟ کیا تم ایسے شخص کو راہ راست پر لانے کا ذمہ لے سکتے ہو ؟“

اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا إِلَٰهًا وَاحِدًا ۖ لَّا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۚ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ (التوبة: ۳۱)

ان لوگوں (یہود و نصاریٰ) نے اپنے علماء اور درویشوں کو اللہ کے سوا اپنا رب بنا لیا ہے اور اسی طرح مسیح ابن مریم کو بھی ۔ حالانکہ ان کو ایک معبود کے سوا کسی کی بندگی کرنے کا حکم نہیں دیا گیا تھا، وہ جس کے سوا کوئی مستحق عبادت نہیں، پاک ہے وہ ان مشرکانہ باتوں سے جو یہ لوگ کرتے ہیں ؟

وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِيهِ مِن شَيْءٍ فَحُكْمُهُ إِلَى اللَّهِ ۚ ذَٰلِكُمُ اللَّهُ رَبِّي عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ أُنِيبُ (الشورى: ۱۰)

تمہارے درمیان جس معاملہ میں بھی اختلاف ہو، اس کا فیصلہ کرنا اللہ کا کام ہے۔ وہی اللہ میرا رب ہے، اسی پر میں نے بھروسہ کیا ہے، اور اسی کی طرف میں رجوع کرتا ہوں ۔"

أَمْ لَهُمْ شُرَكَاءُ شَرَعُوا لَهُم مِّنَ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَن بِهِ اللَّهُ ۚ وَلَوْلَا كَلِمَةُ الْفَصْلِ لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ ۗ وَإِنَّ الظَّالِمِينَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (الشورى: ۲۱)

کیا یہ لوگ کچھ ایسے شریک خدا رکھتے ہیں جنھوں نے ان کے لیے دین کی نوعیت رکھنے والا ایک ایسا طریقہ مقرر کر دیا ہے جس کا اللہ نے اذن نہیں دیا ؟ اگر فیصلے کی بات پہلے طے نہ ہو گئی ہوتی تو ان کا قضیہ چکا دیا گیا ہوتا۔ یقینا ان ظالموں کے لیے درد ناک عذاب ہے۔

فَتَعَالَى اللَّهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ ۖ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيمِ (المؤمنون: ۱۱۶)

پس بالا و برتر ہے اللہ، پادشاہ حقیقی کوئی خدا اس کے سوا نہیں، مالک ہے عرش بزرگ کا۔

قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ، مَلِكِ النَّاسِ، إِلَٰهِ النَّاسِ (الناس: ۱-۳)

کہو میں پناہ مانگتا ہوں انسانوں کے رب، انسانوں کے بادشاہ ، انسانوں کے حقیقی معبود کی۔

مَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِهِ إِلَّا أَسْمَاءً سَمَّيْتُمُوهَا أَنتُمْ وَآبَاؤُكُم مَّا أَنزَلَ اللَّهُ بِهَا مِن سُلْطَانٍ ۚ إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ ۚ أَمَرَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ ۚ ذَٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ (يوسف: ۴۰)

" اُس کو چھوڑ کر تم جن کی بندگی کر رہے ہو وہ اس کے سوا کچھ نہیں ہیں کہ بس چند نام ہیں جو تم نے اور تمہارے آباؤ اجداد نے رکھ لیے ہیں ۔ اللہ نے ان کے لیے کوئی سند نازل نہیں کی ہے۔ فرماں روائی کا اقتدار اللہ کے سوا کسی کے لیے نہیں ہے۔ اس کا حکم ہے کہ خود اس کے سوا تم کسی کی بندگی نہ کرو۔ یہی ٹھیٹھ سیدھا طریق زندگی ہے، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔

اتَّبِعُوا مَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ ۗ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُونَ (الأعراف: ۳)

لوگو، جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے اس کی پیروی کرو اور اپنے رب کو چھوڑ کر دوسرے سر پرستوں کی پیروی نہ کرو۔ مگر تم نصیحت کم ہی مانتے ہو ۔

وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا جَزَاءً بِمَا كَسَبَا نَكَالًا مِّنَ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ... أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ يُعَذِّبُ مَن يَشَاءُ وَيَغْفِرُ لِمَن يَشَاءُ ۗ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (المائدة: ۳۸-۴۰)

اور چور خواہ عورت ہو یا مرد دونوں کے ہاتھ کاٹ دو، یہ ان کی کمائی کا بدلہ ہے اور اللہ کی طرف سے عبرتناک سزا۔ اللہ کی قدرت سب پر غالب ہے اور وہ دانا اور بینا ہے ...... کیا تم جانتے ہو کہ اللہ زمین اور آسمانوں کی سلطنت کا مالک ہے ؟ جسے چاہے سزا دے اور جسے چاہے معاف کر دے۔ وہ ہر چیز کا اختیار رکھتا ہے۔

وَكَتَبْنَا عَلَيْهِمْ فِيهَا أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَيْنَ بِالْعَيْنِ وَالْأَنفَ بِالْأَنفِ وَالْأُذُنَ بِالْأُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ ۚ وَالْجُرُوحَ قِصَاصٌ ۚ فَمَن تَصَدَّقَ بِهِ فَهُوَ كَفَّارَةٌ لَّهُ ۚ وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ (المائدة: ۴۵)

تورات میں ہم نے یہودیوں پر یہ حکم لکھ دیا تھا کہ جان کے بدلے جان، آنکھ کے بدلے آنکھ، ناک کے بدلے ناک، کان کے بدلے کان، دانت کے بدلے دانت اور تمام زخموں کے لیے برابر کا بدلہ ۔ پھر جو قصاص کا صدقہ کر دے تو اس کے لیے کفارہ ہے۔ اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق نہ کریں وہی ظالم ہیں۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلَىٰ ۖ الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْأُنثَىٰ بِالْأُنثَىٰ ۚ فَمَنْ عُفِيَ لَهُ مِنْ أَخِيهِ شَيْءٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ وَأَدَاءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسَانٍ ۗ ذَٰلِكَ تَخْفِيفٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَرَحْمَةٌ ۗ وَمَنِ اعْتَدَىٰ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَلَهُ عَذَابٌ أَلِيمٌ (البقرة: ۱۷۸)

اے ایمان والو ! تمہارے لیے قتل کے مقدموں میں قصاص کا حکم لکھ دیا گیا ہے۔ آزاد آدمی نے قتل کیا ہو تو اسی آزاد سے بدلہ لیا جائے، غلام قاتل ہو تو وہ غلام ہی قتل کیا جائے۔ اور عورت اس جرم کی مرتکب ہو تو اس عورت سے ہی قصاص لیا جائے۔ ہاں اگر کسی قاتل کے ساتھ اُس کا بھائی کچھ نرمی کرنے کے لیے تیار ہو تو معروف طریقے کے مطابق خون بہا کا تصفیہ ہونا چاہیے اور قاتل کو لازم ہے کہ راستی کے ساتھ خون بہا ادا کر دے۔ یہ تمہارے رب کی طرف سے تخفیف اور رحمت ہے۔ اس پر بھی جو زیادتی کرے اس کے لیے درد ناک سزا ہے"۔

كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِن تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ ۖ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ، فَمَن بَدَّلَهُ بَعْدَ مَا سَمِعَهُ فَإِنَّمَا إِثْمُهُ عَلَى الَّذِينَ يُبَدِّلُونَهُ ۚ وَإِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ، فَمَنْ خَافَ مِن مُّوصٍ جَنَفًا أَوْ إِثْمًا فَأَصْلَحَ بَيْنَهُمْ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ (البقرة: ۱۸۰-۱۸۲)

تم پر فرض کیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کا موت کا وقت آئے اور وہ اپنے پیچھے مال چھوڑے تو ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں کے حق میں معروف طریقے سے وصیت کرے، یہ متقی لوگوں پر حق ہے۔ پھر جن لوگوں نے وصیت سنی اور بعد میں اسے بدل ڈالا۔ تو اس کا گناہ اُن بدلنے والوں پر ہوگا۔ اللہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔ البتہ جس کو یہ اندیشہ ہو کہ وصیت کرنے والے نے نادانستہ یا قصدا حق تلفی کی ہے، اور پھر معاملے سے تعلق رکھنے والوں کے درمیان وہ اصلاح کرے، تو اس پر کچھ گناہ نہیں ہے، اللہ بخشنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔

الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ ۖ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ ۗ وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَن تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئًا إِلَّا أَن يَخَافَا أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ ۖ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ ۗ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلَا تَعْتَدُوهَا ۚ وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ (البقرة: ۲۲۹)

طلاق دو بار ہے۔ پھر یا تو سیدھی طرح عورت کو روک لیا جائے یا بھلے طریقے سے اس کو رخصت کر دیا جائے اور رخصت کرتے ہوئے ایسا کرنا تمہارے لیے جائز نہیں ہے کہ جو کچھ تم انھیں دے چکے ہو، اس میں سے کچھ واپس لے لو۔ البتہ یہ صورت مستثنیٰ ہے کہ زوجین کو اللہ کے حدود پر قائم نہ رہ سکنے کا اندیشہ ہو۔ اگر ایسی صورت میں تمہیں یہ خوف ہو کہ وہ دونوں حدود الٰہی پر قائم نہ رہیں گے تو ان دونوں کے درمیان یہ معاملہ ہو جانے میں مضائقہ نہیں کہ عورت اپنے شوہر کو کچھ معاوضہ دے کر علیحدگی حاصل کرلے۔ یہ اللہ کے مقرر کردہ حدود ہیں، ان سے تجاوز نہ کرو اور جو لوگ حدود الٰہی سے تجاوز کریں وہی ظالم ہیں۔

وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا تَعْضُلُوهُنَّ أَن يَنكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ إِذَا تَرَاضَوْا بَيْنَهُم بِالْمَعْرُوفِ ۗ ذَٰلِكَ يُوعَظُ بِهِ مَن كَانَ مِنكُمْ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۗ ذَٰلِكُمْ أَزْكَىٰ لَكُمْ وَأَطْهَرُ ۚ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ (البقرة: ۲۳۲)

" جب تم اپنی عورتوں کو طلاق دے چکو اور وہ اپنی عدت پوری کر لیں تو پھر اس میں مانع نہ ہو کہ وہ اپنے زیر تھی شوہروں سے نکاح کر لیں، جب کہ وہ معروف طریقے سے باہم مناکحت پر راضی ہوں۔ تمہیں نصیحت کی جاتی ہے کہ ایسی حرکت ہرگز نہ کرنا۔ اگر تم اللہ اور یوم آخر پر ایمان لانے والے ہو۔ تمہارے لیے شائستہ اور پاکیزہ طریقہ یہی ہے کہ اس سے باز رہو۔ اللہ جانتا ہے، تم نہیں جانتے۔

آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا ۚ فَرِيضَةً مِّنَ اللَّهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا (النساء: ۱۱)

" تم نہیں جانتے کہ تمہارے ماں باپ اور تمہاری اولاد میں سے کون بہ لحاظ نفع تم سے قریب تر ہے۔ میراث میں یہ حصے اللہ نے مقرر کر دیتے ہیں اور اللہ یقینا سب حقیقتوں سے واقف اور مصلحتوں کا جاننے والا ہے؟

أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ آمَنُوا بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِن قَبْلِكَ يُرِيدُونَ أَن يَتَحَاكَمُوا إِلَى الطَّاغُوتِ وَقَدْ أُمِرُوا أَن يَكْفُرُوا بِهِ وَيُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَن يُضِلَّهُمْ ضَلَالًا بَعِيدًا (النساء: ۶۰)

اے نبی! تم نے دیکھا نہیں ان لوگوں کو جو دعویٰ تو کرتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں اُس کتاب پر جو تمہاری طرف نازل کی گئی ہے اور ان کتابوں پر جو تم سے پہلے نازل کی گئی تھیں، مگر چاہتے یہ ہیں کہ اپنے معاملات کا فیصلہ کرانے کے لیے طاغوت کی طرف رجوع کریں۔ حالانکہ انھیں طاغوت سے کفر کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ شیطان انھیں بھٹکا کر راہ راست سے بہت دور جانا چاہتا ہے ۔"

ثُمَّ جَعَلْنَاكَ عَلَىٰ شَرِيعَةٍ مِّنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْهَا وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ (الجاثية: ۱۸)

"اے نبی، پچھلے انبیاء کے بعد پھر ہم نے تم کو دین کے معاملہ میں ایک صاف شاہراہ (شریعت) پر قائم کیا ہے۔ لہذا تم اسی پر چلو اور ان لوگوں کی خواہشات کا اتباع نہ کرو جو علم نہیں رکھتے ۔

وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ (المائدة: ۴۴)

اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی کا فر ہیں۔

وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ (المائدة: ۴۵)

اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی ظالم ہیں"۔

وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ (المائدة: ۴۷)

اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی فاسق ہیں۔

أَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُونَ ۚ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ يُوقِنُونَ (المائدة: ۵۰)

اگر یہ لوگ خدا کے قانون سے منہ موڑتے ہیں تو کیا پھر یہ جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں حالانکہ جو لوگ اللہ پر یقین رکھتے ہیں اُن کے نزدیک اللہ سے بہتر فیصلہ کرنے والا اور کون ہے۔

وَلَا تَقُولُوا لِمَا تَصِفُ أَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ هَٰذَا حَلَالٌ وَهَٰذَا حَرَامٌ لِّتَفْتَرُوا عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ لَا يُفْلِحُونَ (النحل: ۱۱۶)

”اور یہ جو تمہاری زبانیں جھوٹے حکم لگایا کرتی ہیں کہ یہ چیز حلال ہے اور وہ حرام، تو اس طرح کے حکم لگا کر اللہ پر جھوٹ نہ باندھا کرو۔ جو لوگ اللہ پر جھوٹے افترا لگاتے ہیں وہ ہرگز فلاح نہیں پایا کرتے ۔

الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ ۖ وَلَا تَأْخُذْكُم بِهِمَا رَأْفَةٌ فِي دِينِ اللَّهِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ (النور: ۲)

زانیہ عورت اور زانی مرد، دونوں میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو اور اُن پر ترس کھانے کا جذبہ اللہ کے دین (یعنی قانون شریعت) کے معاملے میں تم کو دامن گیر نہ ہو اگر تم اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتے ہو ؟

قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَىٰ كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّهِ ۚ فَإِن تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ (آل عمران: ۶۴)

کہو، اسے اہل کتاب، آؤ ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے۔ یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھیرائیں اور ہم میں سے کوئی اللہ کے سوا کسی کو اپنا رب نہ بنائے اِس دعوت کو قبول کرنے سے اگر وہ منہ موڑیں تو صاف کہہ دو کہ گواہ رہو، ہم تو مسلم (صرف خدا کی بندگی و اطاعت کرنے والے) ہیں۔

حاشیہ ۱۹

إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَإِذَا كَانُوا مَعَهُ عَلَىٰ أَمْرٍ جَامِعٍ لَّمْ يَذْهَبُوا حَتَّىٰ يَسْتَأْذِنُوهُ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَأْذِنُونَكَ أُولَٰئِكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ (النور: ۶۲)

مومن تو اصل میں وہی ہیں جو اللہ اور اس کے رسول کو دل و جان سے مانتے ہیں اور جب کسی اجتماعی کام کے موقع پر رسول کے ساتھ ہوں تو اُس سے اجازت لیے بغیر نہیں جاتے۔ جو لوگ تم سے اجازت مانگتے ہیں وہی اللہ اور اس کے رسول کے ماننے والے ہیں۔

إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوا وَجَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ۚ أُولَٰئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ (الحجرات: ۱۵)

حقیقت میں مومن تو وہ ہیں جو اللہ اور اس کے سول پر ایمان لائے۔ پھر انھوں نے کوئی شک نہ کیا اور اپنی جانوں اور مالوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا۔ وہی سچے لوگ ہیں ؟

حاشیہ ۲۰

مَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُؤْتِيَهُ اللَّهُ الْكِتَابَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ ثُمَّ يَقُولَ لِلنَّاسِ كُونُوا عِبَادًا لِّي مِن دُونِ اللَّهِ وَلَٰكِن كُونُوا رَبَّانِيِّينَ بِمَا كُنتُمْ تُعَلِّمُونَ الْكِتَابَ وَبِمَا كُنتُمْ تَدْرُسُونَ (آل عمران: ۷۹)

کسی انسان کا یہ کام نہیں ہے کہ اللہ تو اس کو کتاب اور حکم اور نبوت عطا فرمائے اور وہ لوگوں سے کہے کہ اللہ کے بجائے تم میرے بندے بن جاؤ. وہ تو یہی کہے گا کہ ربانی بنو جیسا کہ اس کتاب کی تعلیم کا تقاضا ہے جسے تم پڑھتے اور پڑھاتے ہو۔

حاشیہ ۲۱

بخارى، كتاب الصلوة ، باب فضل استقبال القبله - نسائی، کتاب تحريم الدم ، حدیث نمبر ۳

مسند احمد جلد ۵، ص ۴۱۱- اسی معنی کی روایات بخاری ومسلم میں بھی موجود ہیں ابن القیم نے " زاد المعاد، جلد ۴ صفحہ ۳۱ (طبع مصر ۱۹۵۶) میں کفارہ فی النکاح کے مسئلے پر بحث کرتے ہوئے اسی معنی کی حدیث نقل کی ہے۔

حاشیہ ۲۲

قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوحَىٰ إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَٰهُكُمْ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ ۖ فَمَن كَانَ يَرْجُو لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا (الكهف: ۱۱۰)

"اے نبی) کہو، میں تو ایک انسان ہوں تم ہی جیسا ، میری طرف وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا خدا بس ایک ہی خدا ہے ، پس جو کوئی اپنے رب کی ملاقات کا امیدوار ہو اسے چاہیے کہ نیک عمل کرے اور بندگی میں اپنے رب کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ کرے ۔

قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوحَىٰ إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَٰهُكُمْ وَاحِدٌ فَاسْتَقِيمُوا إِلَيْهِ وَاسْتَغْفِرُوهُ ۗ وَوَيْلٌ لِّلْمُشْرِكِينَ (فصلت: ۶)

اے نبی ! ان سے کہو میں تو ایک بشر ہوں تم جیسا۔ مجھے وحی کے ذریعے سے بتایا جاتا ہے کہ تمہارا خدا تو بس ایک ہی خدا ہے، لہذا تم سیدھے اسی کا رخ کرو اور اپنے گناہوں کی معافی چاہو ۔ تباہی ہے مشرکین کے لیے ۔"

وَقَالُوا لَن نُّؤْمِنَ لَكَ حَتَّىٰ تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الْأَرْضِ يَنبُوعًا، أَوْ تَكُونَ لَكَ جَنَّةٌ مِّن نَّخِيلٍ وَعِنَبٍ فَتُفَجِّرَ الْأَنْهَارَ خِلَالَهَا تَفْجِيرًا، أَوْ تُسْقِطَ السَّمَاءَ كَمَا زَعَمْتَ عَلَيْنَا كِسَفًا أَوْ تَأْتِيَ بِاللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ قَبِيلًا، أَوْ يَكُونَ لَكَ بَيْتٌ مِّن زُخْرُفٍ أَوْ تَرْقَىٰ فِي السَّمَاءِ ۖ وَلَن نُّؤْمِنَ لِرُقِيِّكَ حَتَّىٰ تُنَزِّلَ عَلَيْنَا كِتَابًا نَّقْرَؤُهُ ۗ قُلْ سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنتُ إِلَّا بَشَرًا رَّسُولًا (الإسراء: ۹۰-۹۳)

اور انھوں نے کہا: ہم تیری بات نہ مانیں گے جب تک تو زمین کو پھاڑ کر ہمارے لیے ایک چشمہ جاری نہ کر دے، یا تیرے لیے ایک کھجوروں اور انگوروں کا باغ پیدا ہو اور تو اس میں نہریں جاری کر دے، یا تو آسمان کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے ہمارے اوپر گرا دے جیسا کہ تیرا دعویٰ ہے ، یا خدا اور فرشتوں کو رو در رو ہمارے سامنے لے آئے، یا تیرے لیے سونے کا ایک گھر بن جائے، یا تو آسمان پر چڑھ جائے اور تیرے چڑھنے کا بھی ہم یقین نہ کریں گے جب تک تو ہمارے لیے ایک ایسی تحریر نہ اتار لائے جسے ہم پڑھیں اے نبی! ان سے کہو پاک ہے میرا پروردگار! کیا میں ایک پیغام لانے والے انسان کے سوا اور بھی کچھ ہوں ؟"۔

حاشیہ ۲۳

قُل لَّا أَقُولُ لَكُمْ عِندِي خَزَائِنُ اللَّهِ وَلَا أَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَا أَقُولُ لَكُمْ إِنِّي مَلَكٌ ۖ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ ۚ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الْأَعْمَىٰ وَالْبَصِيرُ ۚ أَفَلَا تَتَفَكَّرُونَ (الأنعام: ۵۰)

اسے نبی ، ان سے کہو میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں۔ نہ میں غیب کا علم رکھتا ہوں۔ اور نہ یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں ۔ میں تو صرف اس وحی کی پیروی کرتا ہوں جو مجھ پر نازل کی جاتی ہے ۔ پھر ان سے پوچھو کیا اندھا اور آنکھوں والا دونوں برابر ہوتے ہیں کیا تم غور نہیں کرتے ؟“

قُل لَّا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ ۖ وَلَوْ كُنتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ ۚ إِنْ أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ (الأعراف: ۱۸۸)

اے نبی ! ان سے کہو" میں اپنی ذات کے لیے کسی نفع اور نقصان کا اختیار نہیں رکھتا، اللہ ہی جو کچھ چاہتا ہے وہ ہوتا ہے۔ اور اگر مجھے غیب کا علم ہوتا تو میں بہت سے فائدے اپنے لیے حاصل کر لیتا اور مجھے کبھی کوئی نقصان نہ پہنچتا۔ میں تو محض ایک خبر دار کرنے والا اور خوشخبری دینے والا ہوں ان لوگوں کے لیے جو مجھ پر ایمان لائیں ۔

حاشیہ ۲۴

وَإِن يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ ۖ وَإِن يَمْسَسْكَ بِخَيْرٍ فَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (الأنعام: ۱۷)

اے نبی ! اگر اللہ تمہیں نقصان پہنچائے تو اس کے سوا کوئی نہیں جو تمہیں اس نقصان سے بچا سکے۔ اور اگر وہ تمہیں کسی بھلائی سے بہرہ مند کرنا چاہے تو وہ ہر چیز پر قادر ہے ۔

قُل لَّا أَمْلِكُ لِنَفْسِي ضَرًّا وَلَا نَفْعًا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ (يونس: ۴۹)

کہو میرے اختیار میں خود اپنا نفع و نقصان بھی نہیں ہے سب اللہ کی مشیت پر موقوف ہے ۔

حاشیہ ۲۵

قُل لَّوْ أَنَّ عِندِي مَا تَسْتَعْجِلُونَ بِهِ لَقُضِيَ الْأَمْرُ بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ ۗ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِالظَّالِمِينَ (الأنعام: ۵۸)

اے نبی !) کہو، اگر کہیں وہ چیز میرے اختیار میں ہوتی (یعنی عذاب نازل کر دینا)، جس کی تم جلدی مچا رہے ہو تو میرے اور تمہارے درمیان کبھی کا فیصلہ ہو چکا ہوتا مگر اللہ زیادہ تر جانتا ہے کہ ظالموں کے ساتھ کیا معاملہ کیا جانا چاہیے۔

وَإِن مَّا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِي نَعِدُهُمْ أَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ فَإِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلَاغُ وَعَلَيْنَا الْحِسَابُ (الرعد: ۴۰)

اور اے نبی جس برے انجام کی دھمکی ہم ان لوگوں کو دے رہے ہیں اس کا کوئی حصہ خواہ ہم تمہاری آنکھوں کے سامنے دکھا دیں یا اس کے ظہور میں آنے سے پہلے تم کو اٹھا لیں۔ بہر حال تمہارا کام صرف پیغام پہنچا دینا ہے اور حساب لینا ہمارا کام ہے"۔

إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ ۚ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ (القصص: ۵۶)

اے نبی ا تم جسے چاہو اسے ہدایت نہیں دے سکتے ، مگر اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور وہ ان لوگوں کو خوب جانتا ہے جو ہدایت قبول کرنے والے ہیں۔

إِنَّا أَنزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ لِلنَّاسِ بِالْحَقِّ ۖ فَمَنِ اهْتَدَىٰ فَلِنَفْسِهِ ۖ وَمَن ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا ۖ وَمَا أَنتَ عَلَيْهِم بِوَكِيلٍ (الزمر: ۴۱)

"اے نبی ! ہم نے تمام انسانوں کے لیے یہ کتاب بر حق تم پر نازل کی ہے۔ اب جو سیدھا راستہ اختیار کرے گا اپنے لیے کرے گا اور جو بھٹکے گا، اُس کے بھٹکنے کا وبال اسی پر ہوگا۔ تم ان پر حوالہ دار نہیں ہو"۔

لَّسْتَ عَلَيْهِم بِمُصَيْطِرٍ (الغاشية: ۲۲)

" (اے نبیؐ) تم ان پر کو توال مقرر نہیں کیے گئے ہو ؟

حاشیہ ۲۶

وَلَن تَرْضَىٰ عَنكَ الْيَهُودُ وَلَا النَّصَارَىٰ حَتَّىٰ تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ ۗ قُلْ إِنَّ هُدَى اللَّهِ هُوَ الْهُدَىٰ ۗ وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُم بَعْدَ الَّذِي جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ ۙ مَا لَكَ مِنَ اللَّهِ مِن وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ (البقرة: ۱۲۰)

یہودی اور عیسائی تم سے ہر گز راضی نہ ہوں گے جب تک تم ان کے طریقے پر نہ چلنے لگو۔ صاف کہہ دو کہ سیدھا راستہ بس وہی ہے جو اللہ نے بتایا ہے۔ اگر اس علم کے بعد جو تمہارے پاس آچکا ہے، تم نے ان کی خواہشات کی پیروی کی، تو اللہ کی پکڑ سے بچانے والا کوئی دوست اور مدد گار تمہارے لیے نہیں ہے۔

وَلَئِنْ أَتَيْتَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ بِكُلِّ آيَةٍ مَّا تَبِعُوا قِبْلَتَكَ ۚ وَمَا أَنتَ بِتَابِعٍ قِبْلَتَهُمْ ۚ وَمَا بَعْضُهُم بِتَابِعٍ قِبْلَةَ بَعْضٍ ۚ وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُم مِّن بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ ۙ إِنَّكَ إِذًا لَّمِنَ الظَّالِمِينَ (البقرة: ۱۴۵)

تم ان اہل کتاب کے پاس کوئی نشانی لے آؤ ممکن نہیں کہ یہ تمہارے قبلے کی پیروی کرنے لگیں اور نہ تمہارے لیے مناسب ہے کہ ان کے قبلے کی پیروی کرو، اور ان میں سے کوئی گروہ بھی دوسرے کے قبلے کی پیروی کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اور اگر تم نے اس علم کے بعد جو تمہارے پاس آچکا ہے۔ ان کی خواہشات کی پیروی کی تو یقینا تمہارا شمار ظالموں میں ہو گا۔

وَإِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا بَيِّنَاتٍ ۙ قَالَ الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا ائْتِ بِقُرْآنٍ غَيْرِ هَٰذَا أَوْ بَدِّلْهُ ۚ قُلْ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أُبَدِّلَهُ مِن تِلْقَاءِ نَفْسِي ۖ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ ۖ إِنِّي أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ (يونس: ۱۵)

جب انھیں ہماری صاف صاف باتیں سنائی جاتی ہیں تو وہ لوگ جو ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے، کہتے ہیں کہ اس کے بجائے کوئی اور قرآن لاؤ، یا اس میں کچھ ترمیم کرو۔ اے نبی ! ان سے کہو میرا یہ کام نہیں ہے کہ میں اپنی طرف سے اس میں کچھ تغیر و تبدل کر لوں۔ میں تو بس اس وحی کا پیرو ہوں جو میرے پاس بھیجی جاتی ہے، اگر میں اپنے رب کی نا فرمانی کروں تو مجھے ایک بڑے ہولناک دن کے عذاب کا ڈر ہے۔

وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيلِ، لَأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ، ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ ۖ فَمَا مِنكُم مِّنْ أَحَدٍ عَنْهُ حَاجِزِينَ (الحاقة: ۴۴-۴۷)

اور اگر اس نبی نے خود گھڑ کر کوئی بات ہماری طرف منسوب کی ہوتی تو ہم اس کا دایاں ہاتھ پکڑ لیتے اور اس کی رگِ گردن کاٹ ڈالتے ، اور پھر تم میں سے کوئی اس کام سے روکنے والا نہ ہوتا ۔

حاشیہ ۲۷

وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ ۚ أَفَإِن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انقَلَبْتُمْ عَلَىٰ أَعْقَابِكُمْ ۚ وَمَن يَنقَلِبْ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ فَلَن يَضُرَّ اللَّهَ شَيْئًا ۗ وَسَيَجْزِي اللَّهُ الشَّاكِرِينَ (آل عمران: ۱۴۴)

محمد اس کے سوا کچھ نہیں کہ بس ایک رسول ہیں۔ ان سے پہلے بھی رسول گزر چکے ہیں پھر کیا اگر وہ مرجائیں یا قتل کر دیے جائیں تو تم لوگ اُلٹے پاؤں پھر جاؤ گے ؟ یاد رکھو جو اُلٹا پھرے گا وہ اللہ کا کچھ نقصان نہ کرے گا، البتہ جو لوگ اللہ کے شکر گزار بندے بن کر رہیں گے انھیں وہ اس کی جزا دے گا۔

إِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ (يس: ۳)

اے نبی یقینا تم مرسلین میں سے ہو۔

قُلْ مَا كُنتُ بِدْعًا مِّنَ الرُّسُلِ وَمَا أَدْرِي مَا يُفْعَلُ بِي وَلَا بِكُمْ ۖ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ وَمَا أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُّبِينٌ (الأحقاف: ۹)

” (اے نبیؐ) ان سے کہو کہ میں کوئی نرالا رسول نہیں ہوں ، میں نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا ہوگا اور نہ یہ جانتا ہوں کہ تمہارے ساتھ کیا ہوگا۔ میں تو صرف اس وحی کی پیروی کرتا ہوں جو میری طرف نازل ہوتی ہے اور میں ایک صاف صاف خبردار کرنے والے کے سوا اور کچھ نہیں ہوں ۔

هَٰذَا نَذِيرٌ مِّنَ النُّذُرِ الْأُولَىٰ (النجم: ۵۶)

یہ ایک خبردار کرنے والا ہے پچھلے خبردار کرنے والوں میں سے ۔"

حاشیہ ۲۸

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ (التحريم: ۱)

"اے نبی! تم کیوں اُس چیز کو حرام کرتے ہو جو اللہ نے تمہارے لیے حلال کی ہے ؟"

حاشیہ ۲۹

إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ (الأنعام: ۵۰، یونس: ۱۵، الأحقاف: ۹)

میں تو بس اُس وحی کا پیرو ہوں جو مجھ پر بھیجی جاتی ہے ۔

حاشیہ ۳۰

إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوا (الحجرات: ۱۵)

حقیقت میں مومن وہ لوگ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے، پھر انھوں نے کوئی شک نہ کیا ۔

حاشیہ ۳۱

وَجِئْتُكُم بِآيَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَطِيعُونِ (آل عمران: ۵۰)

(حضرت عیسیٰ نے کہا) اور میں تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس نشانی لے کر آیا ہوں پس اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔

وَلَمَّا جَاءَ عِيسَىٰ بِالْبَيِّنَاتِ قَالَ قَدْ جِئْتُكُم بِالْحِكْمَةِ وَلِأُبَيِّنَ لَكُم بَعْضَ الَّذِي تَخْتَلِفُونَ فِيهِ ۖ فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَطِيعُونِ (الزخرف: ۶۳)

” اور جب عیسیٰ صریح نشانیاں لیے ہوئے آیا تھا تو اُس نے کہا تھا : میں تم لوگوں کے پاس حکمت لایا ہوں اور اس لیے آیا ہوں کہ تم پر بعض ایسی باتیں کھول دوں جن میں تم اختلاف کر رہے ہو۔ پس اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔

وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلَّا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللَّهِ (النساء: ۶۴)

ہم نے جو رسول بھی بھیجا ہے اس لیے بھیجا ہے کہ اذن خداوندی کی بنا پر اس کی اطاعت کی جائے۔

مَن يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ ۖ وَمَن تَوَلَّىٰ فَمَا أَرْسَلْنَاكَ عَلَيْهِمْ حَفِيظًا (النساء: ۸۰)

جس نے رسول کی اطاعت کی، اُس نے اللہ کی اطاعت کی۔ اور جس نے منہ موڑا، تو بہر حال ہم نے تمہیں ان لوگوں پر پاسبان بنا کر نہیں بھیجا ہے ۔

فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَطِيعُونِ (الشعراء: ۱۰۸، ۱۱۰، ۱۳۱، ۱۴۴، ۱۵۰، ۱۶۳، ۱۷۹)

(ہر نبی نے آکر کہا) " اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔

أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاتَّقُوهُ وَأَطِيعُونِ (نوح: ۳)

حضرت نوح نے کہا اللہ کی عبادت کرو اور اسی سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔

حاشیہ ۳۲

قُلْ أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ ۖ فَإِن تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا عَلَيْهِ مَا حُمِّلَ وَعَلَيْكُم مَّا حُمِّلْتُمْ ۖ وَإِن تُطِيعُوهُ تَهْتَدُوا ۚ وَمَا عَلَى الرَّسُولِ إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ (النور: ۵۴)

(اے نبی ان سے کہو) اللہ کے مطیع بنو اور رسول کے تابع فرمان بن کر رہو لیکن اگر تم منہ پھیرتے ہو تو خوب سمجھ لو کہ رسول پر جس فرض کا بار رکھا گیا ہے اس کا ذمہ دار وہ ہے اور تم پر جس فرض کا بار رکھا گیا ہے اُس کے ذمہ دار تم۔ اس کی اطاعت کرو تو ہدایت پاؤ گے۔ ورنہ رسول کی ذمہ داری اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے کہ حکم صاف صاف پہنچا دے۔

حاشیہ ۳۳

وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ (الحشر: ۷)

جو کچھ رسول تمہیں دے وہ لے لو اور جس چیز سے وہ تم کو روک دے اس سے رک جاؤ۔ اللہ سے ڈرو، اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔

حاشیہ ۳۴

مسلم کتاب ۴۳، حدیث ۱۳۹ تا ۱۴۱ مسند احمد، جلد اول، ص ۱۶۲، جلد ثالث ص ۱۵۲

حاشیہ ۳۵

وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ (النحل: ۴۴)

اور ہم نے یہ ذکر قرآن تم پر نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کے سامنے اس تعلیم کی تشریح و توضیح کرتے جاؤ جو ان کے لیے اتاری گئی ہے تاکہ لوگ (خود بھی) غور و فکر کریں۔

إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ ۖ فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ، ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ (القيامة: ۱۷-۱۹)

(اے نبی ! اس وحی کو یاد کرا دینا اور پڑھوا دینا ہما را ذمہ ہے۔ لہذا جب ہم اسے پڑھ رہے ہوں اُس وقت تم اس کی قرآت کو غور سے سنا کرو، پھر اس کا مطلب سمجھا دینا بھی ہمارا ہی ذمہ ہے ۔

حاشیہ ۳۶

لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا (الاحزاب: ۲۱)

" در حقیقت تم لوگوں کے لیے رسول کی ذات میں ایک بہترین نمونہ ہے ، ہر اُس شخص کے لیے جو اللہ اور یوم آخر کا امیدوار ہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے۔“

حاشیہ ۳۷

فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا (النساء: ۶۵)

پس نہیں، (اے نبیؐ) تمہارے رب کی قسم یہ بھی مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں، پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں بھی تنگی محسوس نہ کریں بلکہ سر بہ تسلیم کرلیں ۔"

حاشیہ ۳۸

وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ ۗ وَمَن يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُّبِينًا (الاحزاب: ۳۶)

کسی مومن مرد اور کسی مومن عورت کو یہ حق نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی معاملے کا فیصلہ کر دے تو پھر اسے اپنے اس معاملے میں خود فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل ہو۔ اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے تو وہ صریح گمراہی میں پڑ گیا۔

حاشیہ ۳۹

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (الحجرات: ۱)

اے لوگو! جو ایمان لائے ہو اللہ اور اُس کے رسول کے آگے پیش قدمی نہ کرو۔ اللہ سے ڈرو۔ بے شک اللہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔

حاشیہ ۴۰

وَلَوْ تَرَىٰ إِذْ وُقِفُوا عَلَىٰ رَبِّهِمْ ۚ قَالَ أَلَيْسَ هَٰذَا بِالْحَقِّ ۚ قَالُوا بَلَىٰ وَرَبِّنَا ۚ قَالَ فَذُوقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنتُمْ تَكْفُرُونَ (الأنعام: ۳۰)

کاش ! وہ منظر تم دیکھ سکو جب یہ اپنے رب کے سامنے کھڑے کیے جائیں گے۔ اس وقت ان کا رب ان سے پوچھے گا کیا یہ حقیقت نہیں ہے ؟ ہاں اسے ہمارے رب یہ حقیقت ہی ہے ۔ وہ فرمائے گا ۔ اچھا ! تو اب اُس کفر کا مزا چکھو جو تم کرتے رہے تھے۔

وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ كَأَن لَّمْ يَلْبَثُوا إِلَّا سَاعَةً مِّنَ النَّهَارِ يَتَعَارَفُونَ بَيْنَهُمْ ۚ قَدْ خَسِرَ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِلِقَاءِ اللَّهِ وَمَا كَانُوا مُهْتَدِينَ (یونس: ۴۵)

اور جس روز اللہ ان کو جمع کرے گا تو (یہی دنیا کی زندگی انھیں ایسی محسوس ہوگی) گویا یہ محض ایک گھڑی بھر آپس میں جان پہچان کرنے کو ٹھہرے تھے اس وقت تحقیق ہو گا کہ فی الواقع وہ لوگ سخت گھاٹے میں رہے جنھوں نے اللہ کی ملاقات کو جھٹلایا۔ اور وہ ہر گز راہ راست پر نہ تھے ۔"

وَإِن تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُهُمْ ۚ أَإِذَا كُنَّا تُرَابًا أَإِنَّا لَفِي خَلْقٍ جَدِيدٍ ۗ أُولَٰئِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا بِرَبِّهِمْ ۖ وَأُولَٰئِكَ الْأَغْلَالُ فِي أَعْنَاقِهِمْ ۖ وَأُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ (الرعد: ۵)

اب اگر تمہیں تعجب کرنا ہے تو تعجب کے قابل لوگوں کا یہ قول ہے کہ جب ہم مٹی ہو جائیں گے تو کیا ہم نئے سرے سے پیدا کیے جائیں گے یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے اپنے رب سے کفر کیا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی گردنوں میں طوق پڑے ہوئے ہیں۔ یہ دوزخی ہیں اور ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔"

وَقَالَ الْمَلَأُ مِن قَوْمِهِ الَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِلِقَاءِ الْآخِرَةِ وَأَتْرَفْنَاهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا مَا هَٰذَا إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يَأْكُلُ مِمَّا تَأْكُلُونَ مِنْهُ وَيَشْرَبُ مِمَّا تَشْرَبُونَ (المؤمنون: ۳۳)

نوح کی قوم کے جن سرداروں نے ماننے سے انکار کیا اور آخرت کی پیشی کو جھٹلایا، حالانکہ ہم نے دنیا کی زندگی میں آسودہ کر رکھا تھا۔ وہ کہنے لگے " یہ شخص کچھ نہیں مگر ایک بشر تم جیسا، جو کچھ تم کھاتے ہو وہی وہ کھاتا ہے اور جو کچھ تم پیتے ہو وہی وہ پیتا ہے۔

بَلْ كَذَّبُوا بِالسَّاعَةِ ۖ وَأَعْتَدْنَا لِمَن كَذَّبَ بِالسَّاعَةِ سَعِيرًا (الفرقان: ۱۱)

" اصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ اس گھڑی کو جھٹلا چکے ہیں۔ اور جو اس گھڑی کو جھٹلائے ہم نے اس کے لیے بھڑکتی ہوئی آگ تیار کر رکھی ہے ۔"

وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا هَلْ نَدُلُّكُمْ عَلَىٰ رَجُلٍ يُنَبِّئُكُمْ إِذَا مُزِّقْتُمْ كُلَّ مُمَزَّقٍ إِنَّكُمْ لَفِي خَلْقٍ جَدِيدٍ ۚ أَفْتَرَىٰ عَلَى اللَّهِ كَذِبًا أَم بِهِ جِنَّةٌ ۗ بَلِ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ فِي الْعَذَابِ وَالضَّلَالِ الْبَعِيدِ (سبا: ۷-۸)

کفر کرنے والے لوگوں سے کہتے ہیں " ہم بتائیں تمہیں ایسا شخص جو خبر دیتا ہے کہ جب تمہارے جسم کا ذرہ ذرہ منتشر ہو گا اُس وقت نئے سرے سے پیدا کر دیے جاؤ گے ؟ نہ معلوم یہ شخص اللہ کے نام سے جھوٹ گھڑتا ہے یا اسے جنون لاحق ہے نہیں، بلکہ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں لاتے وہی عذاب میں مبتلا اور گمراہی میں بہت دور نکلے ہوئے ہوں گے ۔

يَا دَاوُودُ إِنَّا جَعَلْنَاكَ خَلِيفَةً فِي الْأَرْضِ فَاحْكُم بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعِ الْهَوَىٰ فَيُضِلَّكَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَضِلُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ بِمَا نَسُوا يَوْمَ الْحِسَابِ، وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاءَ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا بَاطِلًا ۚ ذَٰلِكَ ظَنُّ الَّذِينَ كَفَرُوا ۚ فَوَيْلٌ لِّلَّذِينَ كَفَرُوا مِنَ النَّارِ، أَمْ نَجْعَلُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ كَالْمُفْسِدِينَ فِي الْأَرْضِ أَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقِينَ كَالْفُجَّارِ (ص: ۲۶-۲۸)

(ہم نے اس سے کہا) اسے داؤد ! ہم نے تمہیں زمین پر خلیفہ بنایا ہے، لہذا تم لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ حکومت کرو اور خواہش نفس کی پیروی نہ کرو کہ وہ تمہیں اللہ کی راہ سے بھٹکا دے گی۔ جو لوگ اللہ کی راہ سے بھٹکتے ہیں یقینا ان کے لیے سخت سزا ہے کہ وہ یوم الحساب کو بھول گئے۔ ہم نے اس آسمان اور زمین کو، اور اس دنیا کو جو ان کے درمیان ہے فضول نہیں کر دیا ہے۔ یہ تو ان لوگوں کا گمان ہے جنھوں نے کفر کیا ہے، اور کافروں کے لیے بربادی ہے جہنم کی آگ سے۔ کیا ہم ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے ہیں اور ان کو جو زمین میں فساد کرنے والے ہیں یکساں کر دیں ؟ کیا متقیوں کو ہم فاجروں جیسا کر دیں ؟“

بَلْ عَجِبُوا أَن جَاءَهُم مُّنذِرٌ مِّنْهُمْ فَقَالَ الْكَافِرُونَ هَٰذَا شَيْءٌ عَجِيبٌ، أَإِذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا ذَٰلِكَ رَجْعٌ بَعِيدٌ (ق: ۲-۳)

بلکہ ان لوگوں کو تعجب ہوا اس بات پر کہ ایک خبردار کرنے والا خود انہی میں سے اُن کے پاس آگیا۔ پھر کافر کہنے لگے یہ تو عجیب بات ہے، کیا جب ہم مر جائیں گے اور خاک ہو جائیں گے تو دوبارہ اٹھائے جائیں گے ؟ یہ تو بعید از عقل واپسی ہے ؟

زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَن لَّن تُبْعَثُوا (التغابن: ۷)

کفر کرنے والوں نے بڑے دعوے سے کہا ہے کہ وہ ہر گز دوبارہ نہ اٹھا ئے جائیں گے۔

حاشیہ ۴۱

إِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَى الْأَرْضِ زِينَةً لَّهَا لِنَبْلُوَهُمْ أَيُّهُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا (الكهف: ۷)

واقعہ یہ ہے کہ جو کچھ بھی سر و سامان زمین پر ہے اس کو ہم نے زمین کی زینت بنایا ہے تاکہ لوگوں کو آزمائیں کہ ان میں کون بہتر عمل کرنے والا ہے۔

أَفَغَيْرَ دِينِ اللَّهِ يَبْغُونَ وَلَهُ أَسْلَمَ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ طَوْعًا وَكَرْهًا وَإِلَيْهِ يُرْجَعُونَ، قُلْ آمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنْزِلَ عَلَيْنَا وَمَا أُنْزِلَ عَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطِ وَمَا أُوتِيَ مُوسَىٰ وَعِيسَىٰ وَالنَّبِيُّونَ مِن رَّبِّهِمْ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّنْهُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ، وَمَن يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَن يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ (آل عمران: ۸۳-۸۵)

”اب کیا یہ لوگ اللہ کی اطاعت کا طریقہ (دین اللہ) چھوڑ کر کوئی اور طریقہ چاہتے ہیں؟ حالانکہ آسمان و زمین کی ساری چیزیں چاروناچار اللہ ہی کی تابع فرمان مسلم ہیں اور اس کی طرف سب کو پلٹنا ہے۔ (اے نبیؐ) کہو کہ ہم اللہ کو مانتے ہیں، اُس تعلیم کو مانتے ہیں جو ہم پر نازل کی گئی ہے، ان تعلیمات کو بھی مانتے ہیں جو ابراہیم، اسماعیل، اسحاق، یعقوب اور اولاد یعقوب پر نازل ہوئی تھیں۔ اور ان ہدایات پر بھی ایمان رکھتے ہیں جو موسیٰ اور عیسیٰ اور دوسرے پیغمبروں کو اُن کے رب کی طرف سے دی گئیں ہم ان کے درمیان فرق نہیں کرتے اور ہم اللہ کے تابع فرمان مسلم ہیں۔ اس فرماں برداری (اسلام) کے سوا جو شخص کوئی اور طریقہ اختیار کرنا چاہے اُس کا وہ طریقہ ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اور آخرت میں وہ ناکام و نامراد رہے گا۔“

وَأُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْمُسْلِمِينَ (یونس: ۴۲)

حضرت نوح نے کہا اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ (خواہ کوئی مانے یا نہ مانے) میں خود مسلم بن کر رہوں ۔

وَقَالَ مُوسَىٰ يَا قَوْمِ إِن كُنتُمْ آمَنتُم بِاللَّهِ فَعَلَيْهِ تَوَكَّلُوا إِن كُنتُم مُّسْلِمِينَ (یونس: ۸۴)

موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ لوگو! اگر تم واقعی اللہ پر ایمان رکھتے ہو تو اس پر بھروسہ کرو اگر مسلمان ہو۔"

رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِن ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَ وَأَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَتُبْ عَلَيْنَا ۖ إِنَّكَ أَنتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ (البقرة: ۱۲۸)

اور حضرت ابراہیم و اسماعیل نے دعا کی کہ ”اے رب، ہم دونوں کو اپنا مسلم (مطیع فرمان) بنا اور ہماری نسل سے ایک ایسی قوم اٹھا جو تیری مسلم ہو، ہمیں اپنی عبادت کے طریقے بتا اور ہماری کوتاہیوں سے درگزر فرما، تو بڑا معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔

إِذْ قَالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ ۖ قَالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ، وَوَصَّىٰ بِهَا إِبْرَاهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ يَا بَنِيَّ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَىٰ لَكُمُ الدِّينَ فَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ، أَمْ كُنتُمْ شُهَدَاءَ إِذْ حَضَرَ يَعْقُوبَ الْمَوْتُ إِذْ قَالَ لِبَنِيهِ مَا تَعْبُدُونَ مِن بَعْدِي ۖ قَالُوا نَعْبُدُ إِلَٰهَكَ وَإِلَٰهَ آبَائِكَ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ إِلَٰهًا وَاحِدًا وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ (البقرة: ۱۳۱-۱۳۳)

ابراہیم سے جب اس کے رب نے کہا مسلم ہو جا تو اُس نے فوراً کہا: میں مالک کائنات کا مسلم ہو گیا۔ اسی طریقے پر چلنے کی ہدایت اس نے اپنی اولاد کو کی تھی اور اسی کی وصیت یعقوب اپنی اولاد کو کر گیا۔ اُس نے کہا تھا کہ میرے بچو! اللہ نے تمہارے لیے یہی دین پسند کیا ہے لہٰذا مرتے دم تک مسلم ہی رہنا، پھر کیا تم اس وقت موجود تھے جب یعقوب اس دنیا سے رخصت ہو رہا تھا؟ اُس نے مرتے وقت اپنے بیٹوں سے پوچھا، بچو! میرے بعد تم کس کی بندگی کرو گے؟ ان سب نے جواب دیا: ہم اسی ایک خدا کی بندگی کریں گے جسے آپ نے اور آپ کے بزرگوں ابراہیم، اسماعیل، اور اسحاق نے خدا مانا ہے۔ اور ہم اسی کے مسلم ہیں ۔

رَبِّ قَدْ آتَيْتَنِي مِنَ الْمُلْكِ وَعَلَّمْتَنِي مِن تَأْوِيلِ الْأَحَادِيثِ ۚ فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ أَنتَ وَلِيِّي فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۖ تَوَفَّنِي مُسْلِمًا وَأَلْحِقْنِي بِالصَّالِحِينَ (یوسف: ۱۰۱)

حضرت یوسف نے دعا کی اے میرے رب، تو نے مجھے حکومت عطا کی اور مجھ کو باتوں کی تہ تک پہنچنا سکھایا۔ زمین و آسمان کے بنانے والے، تو ہی دنیا اور آخرت میں میرا سر پرست ہے۔ میرا خاتمہ اسلام پر کر اور انجام کار مجھے صالحین کے ساتھ ملائے۔

إِنَّا أَنزَلْنَا التَّوْرَاةَ فِيهَا هُدًى وَنُورٌ ۚ يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّونَ الَّذِينَ أَسْلَمُوا لِلَّذِينَ هَادُوا وَالرَّبَّانِيُّونَ وَالْأَحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُوا مِن كِتَابِ اللَّهِ وَكَانُوا عَلَيْهِ شُهَدَاءَ ۚ فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَاخْشَوْنِ وَلَا تَشْتَرُوا بِآيَاتِي ثَمَنًا قَلِيلًا ۚ وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ (المائدة: ۴۴)

ہم نے توراۃ نازل کی جس میں ہدایت اور روشنی تھی۔ سارے نبی، جو مسلم تھے، اسی کے مطابق ان یہودی بن جانے والوں کے معاملات کا فیصلہ کرتے تھے۔ اور اسی طرح ربانی اور احبار بھی اسی پر فیصلہ کا مدار رکھتے تھے کیونکہ انھیں کتاب اللہ کی حفاظت کا ذمہ دار بنایا گیا تھا اور وہ اس پر گواہ تھے۔ پس (اے گروہ یہود!) تم لوگوں سے نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو اور میری آیات کو ذرا ذرا سے معاوضے لے کر بیچنا چھوڑ دو۔ جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی کافر ہیں ۔

وَإِذْ أَوْحَيْتُ إِلَى الْحَوَارِيِّينَ أَنْ آمِنُوا بِي وَبِرَسُولِي قَالُوا آمَنَّا وَاشْهَدْ بِأَنَّنَا مُسْلِمُونَ (المائدة: ۱۱۱)

اور جب میں نے (عیسیٰ ابن مریم کے) حواریوں کو اشارہ کیا کہ مجھ پر اور میرے رسول پر ایمان لاؤ تو انھوں نے کہا کہ ہم ایمان لائے اور گواہ رہ کہ ہم مسلم ہیں۔

قِيلَ لَهَا ادْخُلِي الصَّرْحَ فَلَمَّا رَأَتْهُ حَسِبَتْهُ لُجَّةً وَكَشَفَتْ عَن سَاقَيْهَا ۚ قَالَ إِنَّهُ صَرْحٌ مُّمَرَّدٌ مِّن قَوَارِيرَ ۗ قَالَتْ رَبِّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي وَأَسْلَمْتُ مَعَ سُلَيْمَانَ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (النمل: ۴۴)

اُس (ملکہ سبا) سے کہا گیا کہ محل میں داخل ہو۔ اس نے جو دیکھا تو سمجھی کہ پانی کا حوض ہے اور اُترنے کے لیے اپنے پائنچے اُٹھا لیے۔ سلیمان نے کہا یہ شیشے کا چکنا فرش ہے۔ اس پر وہ پکار اٹھی: اے میرے رب (آج تک) میں اپنے نفس پر بڑا ظلم کرتی رہی اور اب میں سلیمان کے ساتھ اللہ رب العالمین کی مسلم بن گئی۔

حاشیہ ۲

مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا (الاحزاب: ۴۰)

(لوگو!) محمدؐ تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، مگر وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں ۔ اور اللہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے ۔

شَرَعَ لَكُم مِّنَ الدِّينِ مَا وَصَّىٰ بِهِ نُوحًا وَالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَىٰ وَعِيسَىٰ أَنْ أَقِيمُوا الدِّينَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِيهِ ۚ كَبُرَ عَلَى الْمُشْرِكِينَ مَا تَدْعُوهُمْ إِلَيْهِ ۚ اللَّهُ يَجْتَبِي إِلَيْهِ مَن يَشَاءُ وَيَهْدِي إِلَيْهِ مَن يُنِيبُ (الشورى: ۱۳)

اللہ نے تمہارے لیے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا ہے جس کا حکم اس نے نوح کو دیا تھا اور جسے (اے محمد) اب تمہاری طرف ہم نے وحی کے ذریعہ سے بھیجا ہے اور جس کی ہدایت ہم ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ کو دے چکے ہیں، اس تاکید کے ساتھ کہ قائم کرو اس دین کو اور اس میں متفرق نہ ہو جاؤ۔ یہی بات ان مشرکین کو سخت ناگوار ہوتی ہے جس کی طرف (اے محمد) تم انھیں دعوت دے رہے ہو۔ اللہ جسے چاہتا ہے اپنا کر لیتا ہے اور وہ اپنی طرف آنے کا راستہ اسی کو دکھاتا ہے جو اُس کی طرف رجوع کرے۔

قُلْ آمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنْزِلَ عَلَيْنَا وَمَا أُنْزِلَ عَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطِ وَمَا أُوتِيَ مُوسَىٰ وَعِيسَىٰ وَالنَّبِيُّونَ مِن رَّبِّهِمْ ۚ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّنْهُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ (آل عمران: ۸۴)

”اے نبی! کہو کہ ہم اللہ کو مانتے ہیں، اس تعلیم کو مانتے ہیں جو ہم پر نازل کی گئی ہے، ان تعلیمات کو بھی مانتے ہیں جو ابراہیم، اسماعیل، اسحاق، یعقوب اور اولاد یعقوب پر نازل ہوئی تھیں۔ اور ان ہدایات پر بھی ایمان رکھتے ہیں جو موسیٰ اور عیسیٰ اور دوسرے پیغمبروں کو ان کے رب کی طرف سے دی گئی تھیں ۔ ہم ان کے درمیان فرق نہیں کرتے اور ہم اللہ کے تابع فرمان مسلم ہیں۔

لَمْ يَكُنِ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَالْمُشْرِكِينَ مُنْفَكِّينَ حَتَّىٰ تَأْتِيَهُمُ الْبَيِّنَةُ ۙ رَسُولٌ مِّنَ اللَّهِ يَتْلُو صُحُفًا مُّطَهَّرَةً ۙ فِيهَا كُتُبٌ قَيِّمَةٌ (البينة: ۱-۳)

اہلِ کتاب اور مشرکین میں سے جو لوگ کافر تھے (وہ اپنے کفر سے) باز آنے والے نہ تھے جب تک کہ ان کے پاس دلیل روشن نہ آجائے (یعنی اللہ کی طرف سے ایک رسول جو آمیزشوں سے پاک صحیفے پڑھ کر سنائے جن میں بالکل راست اور درست تحریریں لکھی ہوئی ہوں)۔

إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ (الحجر: ۹)

اس قرآن کو ہم نے نازل کیا ہے اور ہم خود اس کے نگہبان ہیں۔

بَلْ هُوَ قُرْآنٌ مَّجِيدٌ ۙ فِي لَوْحٍ مَّحْفُوظٍ (البروج: ۲۱-۲۲)

ان کے جھٹلانے سے اس قرآن کا کچھ نہیں بگڑتا بلکہ یہ قرآن بلند پایہ ہے۔ اس لوح میں نقش ہے جو محفوظ ہے۔"

حاشیہ ۳

وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّن قَبْلِكَ مِنْهُم مَّن قَصَصْنَا عَلَيْكَ وَمِنْهُم مَّن لَّمْ نَقْصُصْ عَلَيْكَ (المؤمن: ۷۸)

” (اے نبی!) تم سے پہلے ہم بہت سے رسول بھیج چکے ہیں جن میں سے بعض کے حالات ہم نے تم کو بتائے ہیں اور بعض کے نہیں بتائے ۔

حاشیہ ۴

آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ مِنْ رَبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ كُلٌّ آمَنَ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّن رُّسُلِهِ ۚ وَقَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ۖ غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ (البقرة: ۲۸۵)

رسول اس ہدایت پر ایمان لایا ہے جو اس کے رب کی طرف سے اُس پر نازل ہوئی ہے اور جو لوگ اس رسول کے ماننے والے ہیں۔ انھوں نے بھی اس ہدایت کو دل سے تسلیم کر لیا ہے۔ یہ سب اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں کو مانتے ہیں اور ان کا قول یہ ہے کہ ہم اللہ کے رسولوں کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کرتے۔ ہم نے حکم سنا اور اطاعت قبول کی۔ مالک ہم تجھ سے خطا بخشی کے طالب ہیں اور ہمیں تیری ہی طرف پلٹنا ہے۔

إِنَّ الَّذِينَ يَكْفُرُونَ بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ وَيُرِيدُونَ أَن يُفَرِّقُوا بَيْنَ اللَّهِ وَرُسُلِهِ وَيَقُولُونَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَكْفُرُ بِبَعْضٍ وَيُرِيدُونَ أَن يَتَّخِذُوا بَيْنَ ذَٰلِكَ سَبِيلًا ۙ أُولَٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ حَقًّا ۚ وَأَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ عَذَابًا مُّهِينًا، وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ وَلَمْ يُفَرِّقُوا بَيْنَ أَحَدٍ مِّنْهُمْ أُولَٰئِكَ سَوْفَ يُؤْتِيهِمْ أُجُورَهُمْ ۚ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا (النساء: ۱۵۰-۱۵۲)

جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں سے کفر کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسولوں کے درمیان تفریق کریں۔ اور کہتے ہیں کہ ہم کسی کو مانیں گے اور کسی کو نہ مانیں گے اور کفر و ایمان کے بیچ میں ایک راہ نکالنے کا ارادہ رکھتے ہیں، وہ سب سچے کافر ہیں اور ایسے کافروں کے لیے ہم نے وہ سزا مہیا کر رکھی ہے جو انھیں ذلیل و خوار کر دینے والی ہوگی۔ بخلاف اس کے جو لوگ اللہ اور اس کے تمام رسولوں کو مانیں اور ان کے درمیان تفریق نہ کریں ان کو ہم ضرور ان کے اجر عطا کریں گے اور اللہ بڑا در گزر فرمانے والا ہے۔

حاشیہ ۵

قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ يُحْيِي وَيُمِيتُ ۖ فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ الَّذِي يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَكَلِمَاتِهِ وَاتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ (الأعراف: ۱۵۸)

”اے محمدؐ کہو کہ اے انسانو! میں تم سب کی طرف اُس خدا کا پیغمبر ہوں جو زمین اور آسمانوں کی بادشاہی کا مالک ہے۔ اس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے، وہی زندگی بخشتا ہے اور وہی موت دیتا ہے، پس ایمان لاؤ اللہ پر اور اُس کے بھیجے ہوئے نبی امی پر جو اللہ اور اس کے ارشادات کو مانتا ہے۔ اور پیروی اختیار کرو اس کی، امید ہے کہ تم راہ راست پالوگے۔

وَأُوحِيَ إِلَيَّ هَٰذَا الْقُرْآنُ لِأُنذِرَكُم بِهِ وَمَن بَلَغَ (الأنعام: ۱۹)

اور (اے نبی کہہ دو کہ) یہ قرآن میری طرف بذریعہ وحی بھیجا گیا ہے تاکہ تمہیں اور جس جس کو یہ پہنچے، سب کو متنبہ کردوں ۔

وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا كَافَّةً لِّلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ (سبا: ۲۸)

اور (اے نبی) ہم نے تم کو تمام انسانوں کے لیے بشیر و نذیر بناکر بھیجا ہے مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ۔

إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرٌ لِّلْعَالَمِينَ (التكوير: ۲۷)

یہ (قرآن) تو سارے جہان والوں کے لیے ایک نصیحت ہے ۔"

حاشیہ ۶

الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا (المائدة: ۳)

آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے (لہٰذا حرام و حلال کی جو قیود تم پر عائد کر دی گئی ہیں ان کی پابندی کرو)

حاشیہ ۷

إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ (الحجرات: ۱۰)

مومن تو ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔

حاشیہ ۸

بخارى، كتاب الصلوة ، باب فضل استقبال القبله - نسائی، کتاب تحريم الدم ، حدیث نمبر ۳

حاشیہ ۹

مسند احمد جلد ۵، ص ۴۱۱- اسی معنی کی روایات بخاری ومسلم میں بھی موجود ہیں ابن القیم نے " زاد المعاد، جلد ۴ صفحہ ۳۱ (طبع مصر ۱۹۵۶) میں کفارہ فی النکاح کے مسئلے پر بحث کرتے ہوئے اسی معنی کی حدیث نقل کی ہے۔

حاشیہ ۱۰

وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ (الأنعام: ۷۳)

وہی ہے جس نے آسمان وزمین کو برحق پیدا کیا ہے ۔

قُلْ مَن رَّبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ قُلِ اللَّهُ ۚ قُلْ أَفَاتَّخَذْتُم مِّن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ لَا يَمْلِكُونَ لِأَنفُسِهِمْ نَفْعًا وَلَا ضَرًّا ۚ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الْأَعْمَىٰ وَالْبَصِيرُ أَمْ هَلْ تَسْتَوِي الظُّلُمَاتُ وَالنُّورُ ۗ أَمْ جَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكَاءَ خَلَقُوا كَخَلْقِهِ فَتَشَابَهَ الْخَلْقُ عَلَيْهِمْ ۚ قُلِ اللَّهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ وَهُوَ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ (الرعد: ۱۶)

” (اے نبی) ان سے پوچھو، آسمان و زمین کا رب کون ہے ؟ کہو، اللہ۔ ان سے کہو کہ جب حقیقت یہ ہے تو کیا تم نے اسے چھوڑ کر ایسے معبودوں کو اپنا کارساز ٹھیرا لیا ہے جو خود اپنے لیے بھی کسی نفع اور نقصان کا اختیار نہیں رکھتے؟ کہو، کیا اندھا اور آنکھوں والا برابر ہوا کرتا ہے ؟ کیا روشنی اور تاریکیاں یکساں ہوتی ہیں ؟ اگر ایسا نہیں تو کیا ان کے ٹھیرائے ہوئے شریکوں نے بھی اللہ کی طرح کچھ پیدا کیا ہے کہ اس کی وجہ سے ان پر تخلیق کا معاملہ مشتبہ ہو گیا ؟ کہو، ہر چیز کا خالق صرف اللہ ہے اور وہ یکتا ہے سب پر غالب!

تَنزِيلًا مِّمَّنْ خَلَقَ الْأَرْضَ وَالسَّمَاوَاتِ الْعُلَى، الرَّحْمَٰنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَىٰ، لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا وَمَا تَحْتَ الثَّرَىٰ، وَإِن تَجْهَرْ بِالْقَوْلِ فَإِنَّهُ يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفَىٰ، اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ لَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ (طه: ۴-۸)

یہ قرآن نازل کیا گیا ہے اس ذات کی طرف سے جس نے پیدا کیا ہے زمین کو اور بلند آسمانوں کو۔ وہ رحمن کائنات کے تخت سلطنت پر جلوہ فرما ہے۔ مالک ہے ان سب چیزوں کا جو آسمانوں اور زمین میں اور زمین و آسمان کے درمیان ہیں اور جو ثری کے نیچے ہیں۔ تم چاہے اپنی بات پکار کر کہو، وہ تو چپکے سے کہی ہوئی بات بلکہ اس سے بھی مخفی تر بات بھی جانتا ہے۔ وہ اللہ ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اس کے لیے بہترین نام ہیں۔

إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ يُغْشِي اللَّيْلَ النَّهَارَ يَطْلُبُهُ حَثِيثًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُومَ مُسَخَّرَاتٍ بِأَمْرِهِ ۗ أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ ۗ تَبَارَكَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ (الأعراف: ۵۴)

درحقیقت تمہارا رب تو وہ اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا، پھر اپنے تخت سلطنت پر جلوہ فرما ہوا۔ جو رات کو دن پر ڈھانک دیتا ہے اور پھر دن رات کے پیچھے دوڑا چلا آتا ہے جس نے سورج اور چاند اور تارے پیدا کیے سب اس کے فرمان کے تابع ہیں۔ خبردار رہو کہ اسی کی خلق ہے اور اسی کا امر ہے ۔ بڑا بابرکت ہے اللہ سارے جہانوں کا مالک و پروردگار۔

يُدَبِّرُ الْأَمْرَ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ ثُمَّ يَعْرُجُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ أَلْفَ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ (السجدة: ۵)

وہ آسمان سے زمین تک دنیا کے معاملات کی تدبیر کرتا ہے اور اس تدبیر کی روداد او پر اس کے حضور جاتی ہے ایک ایسے دن میں جس کی مقدار تمہارے شمار سے ایک ہزار سال ہے۔

أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۗ وَمَا لَكُم مِّن دُونِ اللَّهِ مِن وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ (البقرة: ۱۰۷)

کیا تمہیں خبر نہیں ہے کہ زمین اور آسمانوں کی فرماں روائی اللہ ہی کے لیے ہے اور اس کے سوا کوئی تمہاری خبر گیری کرنے اور تمہاری مدد کرنے والا نہیں ہے۔

الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًا وَلَمْ يَكُن لَّهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ فَقَدَّرَهُ تَقْدِيرًا (الفرقان: ۲)

”وہ جو زمین اور آسمانوں کی بادشاہی کا مالک ہے جس نے کسی کو بیٹا نہیں بنایا ہے، جس کے ساتھ بادشاہی میں کوئی شریک نہیں ہے جس نے ہر چیز کو پیدا کیا۔ پھر اس کی ایک تقدیر مقرر کی۔

حاشیہ ۱۱

يَا أَيُّهَا النَّاسُ اذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ ۚ هَلْ مِنْ خَالِقٍ غَيْرُ اللَّهِ يَرْزُقُكُم مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ ۚ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ فَأَنَّىٰ تُؤْفَكُونَ (فاطر: ۳)

لوگو! تم پر اللہ کے جو احسانات ہیں انھیں یاد رکھو۔ کیا اللہ کے سوا کوئی اور خالق بھی ہے جو تمہیں آسمان اور زمین میں سے رزق دیتا ہو ؟ کوئی معبود اس کے سوا نہیں آخر تم کہاں سے دھوکہ کھا رہے ہو ؟“

إِنَّ اللَّهَ يُمْسِكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ أَن تَزُولَا ۚ وَلَئِن زَالَتَا إِنْ أَمْسَكَهُمَا مِنْ أَحَدٍ مِّن بَعْدِهِ ۚ إِنَّهُ كَانَ حَلِيمًا غَفُورًا (فاطر: ۴۱)

حقیقت یہ ہے کہ اللہ ہی ہے جو آسمانوں اور زمین کو ٹل جانے سے روکے ہوئے ہے۔ اور اگر وہ ٹل جائیں تو اللہ کے بعد کوئی دوسرا انھیں تھامنے والا نہیں ہے۔ بے شک اللہ بڑا حلیم اور درگزر فرمانے والا ہے۔"

إِنَّ اللَّهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِينُ (الذاريات: ۵۸)

در حقیقت اللہ ہی رزاق ہے، بڑی قوت والا اور زبردست۔

قُلْ أَغَيْرَ اللَّهِ أَبْغِي رَبًّا وَهُوَ رَبُّ كُلِّ شَيْءٍ (الأنعام: ۱۶۴)

کہو، کیا میں اللہ کے سوا کوئی اور رب تلاش کروں۔ حالانکہ وہی ہر چیز کا رب ہے؟

حاشیہ ۱۲

وَهُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهِ وَهُوَ الْحَكِيمُ الْخَبِيرُ (الأنعام: ۱۸)

”وہ اپنے بندوں پر کامل اختیارات رکھتا ہے اور وہ دانا اور باخبر ہے ۔

قُلْ إِنِّي عَلَىٰ بَيِّنَةٍ مِّن رَّبِّي وَكَذَّبْتُم بِهِ ۚ مَا عِندِي مَا تَسْتَعْجِلُونَ بِهِ ۚ إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ ۖ يَقُصُّ الْحَقَّ وَهُوَ خَيْرُ الْفَاصِلِينَ (الأنعام: ۵۷)

"کہو، میں اپنے رب کی طرف سے ایک دلیل روشن پر قائم ہوں اور تم نے اس کو جھٹلا دیا ہے، اب میرے اختیار میں وہ چیز (یعنی عذاب دینا) نہیں ہے جس کے لیے تم جلد مچارہے ہو، فیصلہ کا سارا اختیار اللہ کو ہے، وہی امر حق بیان کرتا ہے اور وہی بہترین فیصلہ کرنے والا ہے"۔

لَهُ غَيْبُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ أَبْصِرْ بِهِ وَأَسْمِعْ ۚ مَا لَهُم مِّن دُونِهِ مِن وَلِيٍّ وَلَا يُشْرِكُ فِي حُكْمِهِ أَحَدًا، وَاتْلُ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِن كِتَابِ رَبِّكَ لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِهِ وَلَن تَجِدَ مِن دُونِهِ مُلْتَحَدًا (الكهف: ۲۶-۲۷)

آسمانوں اور زمین کے سب پوشیدہ احوال اسی کو معلوم ہیں، کیا خوب ہے وہ دیکھنے والا اور سننے والا ۔ زمین و آسمان کی مخلوقات کا کوئی خبر گیر اُس کے سوا نہیں، اور وہ اپنی حکومت میں کسی کو شریک نہیں کرتا۔ اے نبی! تمہارے رب کی کتاب میں سے جو کچھ تم پر وحی کیا گیا، اسے (جوں کا توں) سنا دو۔ کوئی اس کے فرمودات کو بدل دینے کا مجاز نہیں ہے (اور اگر تم کسی کی خاطر اس میں رد و بدل کرو گے تو اس سے بچ کر بھاگنے کے لیے کوئی جائے پناہ نہ پاؤ گے)۔

لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ وَإِلَى اللَّهِ تُرْجَعُ الْأُمُورُ (الحديد: ۵)

و ہی زمین اور آسمانوں کی بادشاہی کا مالک ہے۔ اور تمام معاملات فیصلے کے لیے اسی کی طرف رجوع کیے جاتے ہیں ۔

هُوَ اللَّهُ الَّذِي لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ السَّلَامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ الْعَزِيزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ ۚ سُبْحَانَ اللَّهِ عَمَّا يُشْرِكُونَ (الحشر: ۲۳)

وہ اللہ ہی ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ بادشاہ ہے نہایت مقدس، سراسر سلامتی امن دینے والا، نگہبان، سب پر غالب اپنا حکم بزور نافذ کرنے والا، اور بڑا ہی ہو کر رہنے والا۔ پاک ہے اللہ اس شرک سے جو لوگ کر رہے ہیں ۔"

تَبَارَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (الملك: ۱)

نہایت بزرگ و برتر ہے وہ جس کے ہاتھ میں کائنات کی سلطنت ہے، اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔

فَسُبْحَانَ الَّذِي بِيَدِهِ مَلَكُوتُ كُلِّ شَيْءٍ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ (يس: ۸۳)

پاک ہے وہ جس کے ہاتھ میں ہر چیز کا مکمل اختیار ہے، اور اسی کی طرف تم پلٹائے جانے والے ہو ؟

قُلْ فَمَن يَمْلِكُ لَكُم مِّنَ اللَّهِ شَيْئًا إِنْ أَرَادَ بِكُمْ ضَرًّا أَوْ أَرَادَ بِكُمْ نَفْعًا (الفتح: ۱۱)

ان سے کہنا اچھا یہی بات ہے تو کون تمہارے معاملہ میں اللہ کے فیصلے کو روک دینے کا کچھ بھی اختیار رکھتا ہے اگر وہ تمہیں کوئی نقصان پہنچانا چاہے یا نفع بخشنا چاہے؟“

وَإِن يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ ۖ وَإِن يُرِدْكَ بِخَيْرٍ فَلَا رَادَّ لِفَضْلِهِ ۚ يُصِيبُ بِهِ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ ۚ وَهُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ (یونس: ۱۰۷)

اگر اللہ تجھے کسی مصیبت میں ڈالے تو خود اس کے سوا کوئی نہیں جو اس مصیبت کو ٹال دے، اور اگر وہ تیرے حق میں بھلائی کا ارادہ کرے تو اس کے فضل کو پھیرنے والا بھی کوئی نہیں ہے۔ وہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اپنے فضل سے نوازتا ہے اور وہ درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے ۔

قُلْ إِنِّي لَن يُجِيرَنِي مِنَ اللَّهِ أَحَدٌ وَلَن أَجِدَ مِن دُونِهِ مُلْتَحَدًا (الجن: ۲۲)

کہو، مجھے اللہ کی گرفت سے کوئی نہیں بچا سکتا اور نہ میں اس کے دامن کے سوا کوئی جائے پناہ پا سکتا ہوں"۔

قُلْ مَن بِيَدِهِ مَلَكُوتُ كُلِّ شَيْءٍ وَهُوَ يُجِيرُ وَلَا يُجَارُ عَلَيْهِ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ (المؤمنون: ۸۸)

”ان سے کہو بتاؤ اگر تم جانتے ہو کہ ہر چیز پر اختیار کس کا ہے؟ اور کون ہے وہ جو پناہ دیتا ہے۔ اور اس کے مقابلے میں کوئی پناہ نہیں دے سکتا ؟

فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيدُ (البروج: ۱۶)

”وہ جو کچھ چاہے کر ڈالنے والا ہے ۔

إِنَّ اللَّهَ يَحْكُمُ مَا يُرِيدُ (المائدة: ۱)

”بے شک اللہ جو چاہتا ہے حکم دیتا ہے ۔

وَاللَّهُ يَحْكُمُ لَا مُعَقِّبَ لِحُكْمِهِ ۖ وَهُوَ سَرِيعُ الْحِسَابِ (الرعد: ۲)

اللہ حکومت کر رہا ہے. کوئی اس کے فیصلوں پر نظر ثانی کرنے والا نہیں ہے اور اسے حساب لیتے کچھ دیر نہیں لگتی ۔

لَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْأَلُونَ (الأنبياء: ۲۳)

وہ اپنے کاموں کے لیے کسی کے آگے جوابدہ نہیں ہے اور سب جوابدہ ہیں ۔

أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ (التين: ۸)

کیا اللہ سب حاکموں سے بڑا حاکم نہیں ہے ؟“

قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَن تَشَاءُ وَتَنزِعُ الْمُلْكَ مِمَّن تَشَاءُ وَتُعِزُّ مَن تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَن تَشَاءُ ۖ بِيَدِكَ الْخَيْرُ ۖ إِنَّكَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (آل عمران: ۲۶)

کہو، خدایا ! ملک کے مالک، تو جسے چاہے حکومت دے اور جس سے چاہے چھین لے۔ جسے چاہے عزت بخشے اور جس کو چاہے ذلیل کر دے۔ بھلائی تیرے اختیار میں ہے۔ بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔

أَفَغَيْرَ دِينِ اللَّهِ يَبْغُونَ وَلَهُ أَسْلَمَ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ طَوْعًا وَكَرْهًا وَإِلَيْهِ يُرْجَعُونَ (آل عمران: ۸۳)

اب کیا یہ لوگ اللہ کی اطاعت کا طریقہ (دین اللہ) چھوڑ کر کوئی اور طریقہ چاہتے ہیں؟ حالانکہ زمین و آسمان کی ساری چیزیں چاروناچار اللہ ہی کی تابع فرمان مسلم ہیں اور اسی کی طرف سب کو پلٹنا ہے۔

يَقُولُونَ هَل لَّنَا مِنَ الْأَمْرِ مِن شَيْءٍ ۗ قُلْ إِنَّ الْأَمْرَ كُلَّهُ لِلَّهِ (آل عمران: ۱۵۴)

" یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس کام کے چلانے میں ہمارا بھی کوئی حصہ ہے ؟ ان سے کہو (کسی کا کوئی حصہ نہیں) اس کام کے سارے اختیارات اللہ کے ہاتھ میں ہیں ۔"

إِنَّ الْأَرْضَ لِلَّهِ يُورِثُهَا مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ ۖ وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ (الأعراف: ۱۲۸)

(موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا) ”زمین اللہ کی ہے۔ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اس کا وارث بنا دیتا ہے اور آخری کامیابی انہی لوگوں کی ہے جو اُس سے ڈرتے ہوئے کام کریں ۔

حاشیہ ۱۳

وَاتَّخَذُوا مِن دُونِ اللَّهِ آلِهَةً لِّيَكُونُوا لَهُمْ عِزًّا ۙ كَلَّا سَيَكْفُرُونَ بِعِبَادَتِهِمْ وَيَكُونُونَ عَلَيْهِمْ ضِدًّا (مریم: ۸۱-۸۲)

ان لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے کچھ خدا بنا رکھے ہیں تاکہ وہ ان کے پشتیبان ہوں کوئی پشتیبان نہ ہوگا۔ وہ سب ان کی عبادت سے انکار کریں گے اور اُلٹے اِن کے مخالف بن جائیں گے۔

وَاتَّخَذُوا مِن دُونِهِ آلِهَةً لَّعَلَّهُمْ يُنصَرُونَ، لَا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَهُمْ وَهُمْ لَهُمْ جُندٌ مُّحْضَرُونَ (يس: ۷۴-۷۵)

" یہ سب کچھ ہوتے ہوئے انھوں نے اللہ کے سوا دوسرے خدا بنا لیے ہیں اور یہ امید رکھتے ہیں کہ ان کی مدد کی جائے گی۔ وہ ان کی کوئی مدد نہیں کر سکتے ، بلکہ یہ لوگ اُلٹے ان کے لیے حاضر باش لشکر بنے ہوئے ہیں۔

وَمَا ظَلَمْنَاهُمْ وَلَٰكِن ظَلَمُوا أَنفُسَهُمْ ۖ فَمَا أَغْنَتْ عَنْهُمْ آلِهَتُهُمُ الَّتِي يَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ مِن شَيْءٍ لَّمَّا جَاءَ أَمْرُ رَبِّكَ ۖ وَمَا زَادُوهُمْ غَيْرَ تَتْبِيبٍ (هود: ۱۰۱)

" ہم نے ان پر ظلم نہیں کیا، انھوں نے آپ ہی اپنے اوپر ستم ڈھایا۔ اور جب اللہ کا حکم آگیا تو اُن کے وہ معبود جنہیں وہ اللہ کو چھوڑ کر پکارا کرتے تھے اُن کے کچھ کام نہ آسکے اور انھوں نے ہلاکت و بربادی کے سوا انھیں کچھ فائدہ نہ دیا۔

أَفَمَن يَخْلُقُ كَمَن لَّا يَخْلُقُ ۗ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ (النحل: ۱۷)

پھر کیا وہ جو پیدا کرتا ہے اور وہ جو کچھ بھی نہیں پیدا کرتے، دونوں یکساں ہیں ؟ کیا تم ہوش میں نہیں آتے؟"

وَالَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ لَا يَخْلُقُونَ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَ (النحل: ۲۰)

اور وہ دوسری ہستیاں جنھیں اللہ کو چھوڑ کر لوگ پکارتے ہیں، وہ کسی چیز کی بھی خالق نہیں ہیں بلکہ خود مخلوق ہیں ۔

إِلَٰهُكُمْ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ ۚ فَالَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ قُلُوبُهُم مُّنكِرَةٌ وَهُم مُّسْتَكْبِرُونَ (النحل: ۲۲)

تمہارا خدا بس ایک ہی خدا ہے۔ مگر جو لوگ آخرت کو نہیں مانتے اُن کے دلوں میں انکار بس کر رہ گیا ہے اور وہ گھمنڈ میں پڑ کر رہ گئے ہیں۔

وَقَالَ اللَّهُ لَا تَتَّخِذُوا إِلَٰهَيْنِ اثْنَيْنِ ۖ إِنَّمَا هُوَ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ ۖ فَإِيَّايَ فَارْهَبُونِ (النحل: ۵۱)

اللہ کا فرمان ہے کہ دو خدا نہ بنا لو، خدا تو بس ایک ہی ہے، لہذا تم مجھ ہی سے ڈرو"۔

وَلَقَدْ أَهْلَكْنَا مَا حَوْلَكُم مِّنَ الْقُرَىٰ وَصَرَّفْنَا الْآيَاتِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ ۚ فَلَوْلَا نَصَرَهُمُ الَّذِينَ اتَّخَذُوا مِن دُونِ اللَّهِ قُرْبَانًا آلِهَةً ۖ بَلْ ضَلُّوا عَنْهُمْ ۖ وَذَٰلِكَ إِفْكُهُمْ وَمَا كَانُوا يَفْتَرُونَ (الاحقاف: ۲۷-۲۸)

تمہارے گردو پیش کے علاقوں میں بہت سی بستیوں کو ہم ہلاک کر چکے ہیں۔ ہم نے اپنی آیات بھیج کر بار بار طرح طرح سے ان کو سمجھایا، شاید کہ وہ باز آجائیں۔ پھر کیوں نہ ان بستیوں والوں کی مدد کی جنہیں اللہ کو چھوڑ کر انھوں نے تقرب الی اللہ کا ذریعہ سمجھتے ہوئے معبود بنا رکھا تھا ؟ بلکہ وہ تو ان سے کھوئے گئے اور یہ تھا اُن کے جھوٹ اور اُن بناوٹی عقائد کا انجام جو انھوں نے گھڑ رکھے تھے ۔

وَمَا لِيَ لَا أَعْبُدُ الَّذِي فَطَرَنِي وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ، أَأَتَّخِذُ مِن دُونِهِ آلِهَةً إِن يُرِدْنِ الرَّحْمَٰنُ بِضُرٍّ لَّا تُغْنِ عَنِّي شَفَاعَتُهُمْ شَيْئًا وَلَا يُنقِذُونِ (يس: ۲۲-۲۳)

اور (اس مومن نے) کہا، آخر کیوں نہ میں اُس ہستی کی بندگی کروں جس نے مجھے پیدا کیا ہے اور جس کی طرف تم سب کو پلٹ کر جانا ہے ؟ کیا میں اسے چھوڑ کر دوسرے معبود بنا لوں ؟ حالانکہ اگر خدائے رحمن مجھے کوئی نقصان پہنچانا چاہے تو نہ ان کی شفاعت میرے کسی کام آسکتی ہے اور نہ وہ مجھے چھڑا ہی سکتے ہیں ۔

وَيَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَضُرُّهُمْ وَلَا يَنفَعُهُمْ وَيَقُولُونَ هَٰؤُلَاءِ شُفَعَاؤُنَا عِندَ اللَّهِ ۚ قُلْ أَتُنَبِّئُونَ اللَّهَ بِمَا لَا يَعْلَمُ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ ۚ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَىٰ عَمَّا يُشْرِكُونَ (يونس: ۱۸)

یہ لوگ اللہ کے سوا ان کی پرستش کر رہے ہیں جو نہ اُن کو نقصان پہنچا سکتے ہیں اور نہ نفع، اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے ہاں ہمارے شفارشی ہیں۔ اے محمد ! ان سے کہو کیا تم اللہ کو اس بات کی خبر دیتے ہو جسے وہ آسمانوں میں جانتا ہے اور نہ زمین میں ؟ پاک ہے وہ اور بالا و برتر ہے اس شرک سے جو یہ لوگ کر رہے ہیں ۔

وَهُوَ الَّذِي فِي السَّمَاءِ إِلَٰهٌ وَفِي الْأَرْضِ إِلَٰهٌ ۚ وَهُوَ الْحَكِيمُ الْعَلِيمُ (الزخرف: ۸۴)

”وہی ایک آسمان میں بھی خدا ہے اور زمین میں بھی خدا، اور وہی حکیم و علیم ہے۔

يَا أَيُّهَا النَّاسُ اذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ ۚ هَلْ مِنْ خَالِقٍ غَيْرُ اللَّهِ يَرْزُقُكُم مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ ۚ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ فَأَنَّىٰ تُؤْفَكُونَ (فاطر: ۳)

لوگو! اللہ کے تم پر جو احسانات میں انھیں یاد رکھو۔ کیا اللہ کے سوا اور بھی کوئی خالق ہے جو تمہیں آسمان و زمین سے رزق دیتا ہو ؟ کوئی معبود اس کے سوا نہیں، آخر تم کہاں سے دھوکا کھا رہے ہو ؟"

قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِنْ أَخَذَ اللَّهُ سَمْعَكُمْ وَأَبْصَارَكُمْ وَخَتَمَ عَلَىٰ قُلُوبِكُم مَّنْ إِلَٰهٌ غَيْرُ اللَّهِ يَأْتِيكُم بِهِ ۗ انظُرْ كَيْفَ نُصَرِّفُ الْآيَاتِ ثُمَّ هُمْ يَصْدِفُونَ (الأنعام: ۴۶)

اے محمد ! ان سے کہو، کبھی تم نے سوچا کہ اگر اللہ تمہاری بینائی اور سماعت تم سے چھین لے اور تمہارے دلوں پر مہر کر دے تو اللہ کے سوا اور کون ہے جو تمہیں یہ قوتیں واپس دلا سکتا ہو؟ دیکھو کس طرح ہم بار بار اپنی نشانیاں ان کے سامنے پیش کرتے ہیں اور پھر یہ کس طرح ان سے نظر چرا جاتے ہیں ۔

وَهُوَ اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ لَهُ الْحَمْدُ فِي الْأُولَىٰ وَالْآخِرَةِ ۖ وَلَهُ الْحُكْمُ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ (القصص: ۷۰)

" وہی ایک اللہ ہے جس کے سوا عبادت کا کوئی مستحق نہیں۔ اسی کے لیے حمد ہے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ، فرمانروائی اسی کی ہے اور اسی کی طرف تم پلٹائے جانے والے ہو۔

قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِن جَعَلَ اللَّهُ عَلَيْكُمُ النَّهَارَ سَرْمَدًا إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ مَنْ إِلَٰهٌ غَيْرُ اللَّهِ يَأْتِيكُم بِلَيْلٍ تَسْكُنُونَ فِيهِ ۖ أَفَلَا تُبْصِرُونَ (القصص: ۷۲)

ان سے پوچھو کبھی تم نے سوچا کہ اگر اللہ قیامت تک کے لیے تم پر مسلسل دن طاری کر دے تو اللہ کے سوا وہ کونسا معبود ہے جو تمہیں رات لادے تاکہ تم اس میں سکون حاصل کر سکو ؟ کیا تم کو سوجھتا نہیں ؟"۔

قُلِ ادْعُوا الَّذِينَ زَعَمْتُم مِّن دُونِ اللَّهِ لَا يَمْلِكُونَ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ وَمَا لَهُمْ فِيهِمَا مِن شِرْكٍ وَمَا لَهُ مِنْهُم مِّن ظَهِيرٍ ۖ وَلَا تَنفَعُ الشَّفَاعَةُ عِندَهُ إِلَّا لِمَنْ أَذِنَ لَهُ ۚ حَتَّىٰ إِذَا فُزِّعَ عَن قُلُوبِهِمْ قَالُوا مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ ۖ قَالُوا الْحَقَّ ۖ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ (سبا: ۲۲-۲۳)

اے نبی ! ان مشرکین سے کہو کہ پکار دیکھو اپنے اُن معبودوں کو جنھیں تم اللہ کے سوا اپنا معبود سمجھے بیٹھے ہو۔ وہ نہ آسمانوں میں کسی ذرہ برابر چیز کے مالک ہیں نہ زمین میں۔ وہ آسمان و زمین کی ملکیت میں شریک بھی نہیں ہیں۔ ان میں سے کوئی اللہ کا مددگار بھی نہیں ہے اور اللہ کے حضور کوئی شفاعت بھی کسی کے لیے نافع نہیں ہو سکتی بجز اس شخص کے جس کے لیے اللہ نے شفارش کی اجازت دی ہو۔ حتی کہ جب لوگوں کے دلوں سے گھبراہٹ دور ہو گی تو وہ (سفارش کرنے والوں سے) پوچھیں گے کہ تمہارے رب نے کیا جواب دیا ؟ وہ کہیں گے کہ ٹھیک جواب ملا ہے اور وہ بزرگ و برتر ہے۔

خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ ۖ يُكَوِّرُ اللَّيْلَ عَلَى النَّهَارِ وَيُكَوِّرُ النَّهَارَ عَلَى اللَّيْلِ ۖ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ۖ كُلٌّ يَجْرِي لِأَجَلٍ مُّسَمًّى ۗ أَلَا هُوَ الْعَزِيزُ الْغَفَّارُ، خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَأَنزَلَ لَكُم مِّنَ الْأَنْعَامِ ثَمَانِيَةَ أَزْوَاجٍ ۚ يَخْلُقُكُمْ فِي بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ خَلْقًا مِّن بَعْدِ خَلْقٍ فِي ظُلُمَاتٍ ثَلَاثٍ ۚ ذَٰلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ لَهُ الْمُلْكُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ فَأَنَّىٰ تُصْرَفُونَ (الزمر: ۵-۶)

اُس نے آسمانوں اور زمین کو برحق پیدا کیا ہے۔ وہی دن پر رات اور رات پر دن کو لپیٹتا ہے۔ اسی نے سورج اور چاند کو اس طرح مسخر کر رکھا ہے کہ ہر ایک ایک وقت مقرر تک چلے جا رہا ہے۔ جان رکھو، وہ زبردست ہے اور درگزر کرنے والا ہے۔ اسی نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا ہے ، پھر وہی ہے جس نے اُس جان سے اُس کا جوڑا بنایا۔ اور اسی نے تمہارے مویشیوں میں سے آٹھ نر و مادہ پیدا کیے۔ وہ تمہاری ماؤں کے پیٹوں میں تین تین تاریک پردوں کے اندر تمہیں ایک کے بعد ایک شکل دیتا چلا جاتا ہے۔ یہی اللہ جس کے یہ کام ہیں، تمہارا رب ہے، بادشاہی اسی کی ہے، کوئی معبود اس کے سوا نہیں، پھر تم کدھر سے پھرائے جا رہے ہو ؟

أَمَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَأَنزَلَ لَكُم مِّنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَنبَتْنَا بِهِ حَدَائِقَ ذَاتَ بَهْجَةٍ ۖ مَّا كَانَ لَكُمْ أَن تُنبِتُوا شَجَرَهَا ۗ أَإِلَٰهٌ مَّعَ اللَّهِ ۚ بَلْ هُمْ قَوْمٌ يَعْدِلُونَ (النمل: ۶۰)

بھلا وہ کون ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور تمہارے لیے آسمان سے پانی برسایا۔ پھر اس کے ذریعہ سے وہ خوشنما باغ اُگائے جن کے درختوں کا اگانا تمہارے بس میں نہ تھا ؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور خدا بھی ان کاموں میں شریک ہے ؟ (نہیں) بلکہ یہی لوگ راہ راست سے ہٹ کر چلے جا رہے ہیں ۔

أَمَّن يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ وَمَن يَرْزُقُكُم مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ ۗ أَإِلَٰهٌ مَّعَ اللَّهِ ۚ قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ (النمل: ۶۴)

اور وہ کون ہے جو خلق کی ابتدا کرتا ہے اور پھر اس کا اعادہ کرتا ہے ؟ اور کون تم کو آسمانوں اور زمین سے رزق دیتا ہے ؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور خدا بھی (ان کاموں میں) حصہ داری ہے ؟ کہو کہ لاؤ اپنی دلیل اگر تم سچے ہو۔

وَاتَّخَذُوا مِن دُونِهِ آلِهَةً لَّا يَخْلُقُونَ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَ وَلَا يَمْلِكُونَ لِأَنفُسِهِمْ ضَرًّا وَلَا نَفْعًا وَلَا يَمْلِكُونَ مَوْتًا وَلَا حَيَاةً وَلَا نُشُورًا (الفرقان: ۳)

لوگوں نے اسے چھوڑ کر ایسے معبود بنا لیے جو کسی چیز کو پیدا نہیں کرتے بلکہ خود پیدا کیے جاتے ہیں۔ جو خود اپنے لیے بھی کسی نفع یا نقصان کا اختیار نہیں رکھتے، جو نہ مار سکتے ہیں نہ چلا سکتے ہیں، نہ مرے ہوئے کو پھر اُٹھا سکتے ہیں ۔

خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ ۚ تَعَالَىٰ عَمَّا يُشْرِكُونَ، خَلَقَ الْإِنسَانَ مِن نُّطْفَةٍ فَإِذَا هُوَ خَصِيمٌ مُّبِينٌ، وَالْأَنْعَامَ خَلَقَهَا ۗ لَكُمْ فِيهَا دِفْءٌ وَمَنَافِعُ وَمِنْهَا تَأْكُلُونَ (النحل: ۳-۵)

اُس نے آسمان و زمین کو برحق پیدا کیا ہے، وہ بہت بالا و برتر ہے اُس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں۔ اُس نے انسان کو ایک ذرا سی بوند سے پیدا کیا پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ ایک جھگڑالو مخلوق بن گیا۔ اس نے جانور پیدا کیے جس میں تمہارے لیے خوراک بھی ہے اور پوشاک بھی، اور طرح طرح کے دوسرے فائدے بھی ۔

حاشیہ ۱۴

وَأَسِرُّوا قَوْلَكُمْ أَوِ اجْهَرُوا بِهِ ۖ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ، أَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ (الملك: ۱۳-۱۴)

تم خواہ چپکے سے بات کرو خواہ زور سے (اُس کے لیے یکساں ہے) وہ تو دلوں کا حال تک جانتا ہے۔ کیا وہی نہ جانے گا جس نے پیدا کیا ہے ؟ حالانکہ وہ لطیف ہے اور باخبر ہے۔

أَوَلَمْ يَرَوْا إِلَى الطَّيْرِ فَوْقَهُمْ صَافَّاتٍ وَيَقْبِضْنَ ۚ مَا يُمْسِكُهُنَّ إِلَّا الرَّحْمَٰنُ ۚ إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ بَصِيرٌ (الملك: ۱۹)

کیا یہ لوگ اپنے اوپر اڑتے ہوئے پرندوں کو پر پھیلاتے اور سکڑتے نہیں دیکھتے؟ رحمن کے سوا کوئی نہیں جو انھیں تھامے ہوئے ہو، وہی ہر چیز کا نگہبان ہے ۔

لَهُ غَيْبُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ أَبْصِرْ بِهِ وَأَسْمِعْ ۚ مَا لَهُم مِّن دُونِهِ مِن وَلِيٍّ وَلَا يُشْرِكُ فِي حُكْمِهِ أَحَدًا (الكهف: ۲۶)

آسمانوں اور زمین کے سب پوشیدہ احوال اسی کو معلوم ہیں۔ کیا خوب ہے وہ دیکھنے والا اور سننے والا۔ زمین و آسمان کی مخلوقات کا اس کے سوا اور کوئی خبر گیر نہیں، اور وہ اپنی حکومت میں کسی کو شریک نہیں کرتا ۔

وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهِ نَفْسُهُ ۖ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ (ق: ۱۶)

ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے اور اُس کے دل میں اُبھرنے والے وسوسوں تک کو ہم جانتے ہیں۔ اور ہم اس کی رگ گردن سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں ۔

هُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ ۚ يَعْلَمُ مَا يَلِجُ فِي الْأَرْضِ وَمَا يَخْرُجُ مِنْهَا وَمَا يَنزِلُ مِنَ السَّمَاءِ وَمَا يَعْرُجُ فِيهَا ۖ وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ ۚ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ (الحديد: ۴)

وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا اور پھر عرش پر جلوہ فرما ہوا۔ اس کے علم میں ہے جو کچھ زمین میں جاتا ہے اور جو کچھ اس سے نکلتا ہے اور جو کچھ آسمان سے اُترتا ہے اور جو کچھ اس میں چڑھتا ہے۔ اور وہ تمہارے ساتھ ہے جہاں بھی تم ہو اور جو کام بھی تم کرتے ہو اسے وہ دیکھ رہا ہے"۔

قُل لَّا يَعْلَمُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّهُ ۚ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ (النمل: ۶۵)

ان سے کہو اللہ کے سوا اور کوئی بھی آسمانوں اور زمین میں غیب کا علم نہیں رکھتا۔ اور وہ نہیں جانتے کہ کب وہ اٹھائے جائیں گے ۔

يَعْلَمُ مَا يَلِجُ فِي الْأَرْضِ وَمَا يَخْرُجُ مِنْهَا وَمَا يَنزِلُ مِنَ السَّمَاءِ وَمَا يَعْرُجُ فِيهَا ۚ وَهُوَ الرَّحِيمُ الْغَفُورُ، وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَا تَأْتِينَا السَّاعَةُ ۖ قُلْ بَلَىٰ وَرَبِّي لَتَأْتِيَنَّكُمْ عَالِمِ الْغَيْبِ ۖ لَا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ وَلَا أَصْغَرُ مِن ذَٰلِكَ وَلَا أَكْبَرُ إِلَّا فِي كِتَابٍ مُّبِينٍ (سبا: ۲-۳)

وہ (اللہ) جانتا ہے جو کچھ زمین میں جاتا ہے اور جو کچھ اس سے باہر نکلتا ہے اور جو کچھ آسمان سے اُترتا ہے اور جو کچھ اس میں چڑھتا ہے۔ اور وہ رحیم و غفور ہے منکرین کہتے ہیں کیا بات ہے قیامت ہم پر نہیں آرہی ہے ؟ کہو، قسم ہے میرے عالم الغیب پروردگار کی، وہ تم پر آکر رہے گی اس سے ذرہ برابر چیز نہ آسمان میں چھپی ہوئی ہے نہ زمین میں ۔ نہ ذرے سے بڑی اور نہ چھوٹی سب کچھ ایک نمایاں رجسٹر میں درج ہے۔

وَعِندَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَا إِلَّا هُوَ ۚ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ۚ وَمَا تَسْقُطُ مِن وَرَقَةٍ إِلَّا يَعْلَمُهَا وَلَا حَبَّةٍ فِي ظُلُمَاتِ الْأَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَلَا يَابِسٍ إِلَّا فِي كِتَابٍ مُّبِينٍ (الأنعام: ۵۹)

اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جنھیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا بحرو بر میں جو کچھ ہے وہ اس سے واقف ہے۔ درخت سے گرنے والا کوئی پتہ ایسا نہیں ہے جسے وہ نہ جانتا ہو۔ زمین کے تاریک پردوں میں بھی کوئی ذرہ ایسا نہیں جس سے وہ باخبر نہ ہو خشک و ترسب کچھ ایک کھلی کتاب میں درج ہے ۔

حاشیہ ۱۵

هُوَ الْأَوَّلُ وَالْآخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ۖ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ (الحديد: ۳)

وہی اول بھی ہے اور آخر یہی ظاہر بھی ہے اور باطن بھی، اور وہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔

وَلَا تَدْعُ مَعَ اللَّهِ إِلَٰهًا آخَرَ ۘ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۚ كُلُّ شَيْءٍ هَالِكٌ إِلَّا وَجْهَهُ ۚ لَهُ الْحُكْمُ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ (القصص: ۸۸)

اور اللہ کے ساتھ کسی اور خدا کو نہ پکارو۔ اس کے سوا کوئی خدا نہیں ۔ ہر چیز ہلاک ہونے والی ہے سوائے اُس کی ذات کے۔ فرمانروائی اسی کی ہے اور اسی کی طرف، تم سب پلٹائے جانے والے ہو۔

وَيَبْقَىٰ وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ (الرحمن: ۲۷)

اور صرف تیرے رب کی جلیل و کریم ذات ہی باقی رہنے والی ہے۔

اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ ۚ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ ۚ لَّهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۗ مَن ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِندَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ ۚ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ ۖ وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهِ إِلَّا بِمَا شَاءَ ۚ وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ ۖ وَلَا يَئُودُهُ حِفْظُهُمَا ۚ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ (البقرة: ۲۵۵)

اللہ وہ زندہ جاوید ہستی جو تمام کائنات کو سنبھالے ہوئے ہے، اُس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے۔ وہ نہ سوتا ہے اور نہ اسے اونگھ آتی ہے۔ زمین اور آسمانوں میں جو کچھ ہے اسی کا ہے۔ کون ہے جو اس کی جناب میں اس کی اجازت کے بغیر سفارش کر سکے ؟ جو کچھ بندوں کے سامنے ہے اسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ ان سے اوجھل ہے اس سے بھی وہ واقف ہے ۔ اور اس کی معلومات میں سے کوئی چیز ان کی گرفت ادراک میں نہیں آسکتی الا یہ کہ کسی چیز کا علم وہ خود ان کو دینا چاہے۔ اس کی حکومت آسمانوں اور زمین پر چھائی ہوئی ہے اور ان کی نگہبانی اس کے لیے کوئی تھکا دینے والا کام نہیں۔ بس وہی ایک بزرگ و برتر ذات ہے ۔

هُوَ الْحَيُّ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ فَادْعُوهُ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ ۗ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (غافر: ۶۵)

و ہی زندہ ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ۔ اسی کو تم پکارو اپنے دین کو اس کے لیے خالص کرکے۔ ساری تعریف اللہ رب العالمین ہی کے لیے ہے ۔

حاشیہ ۱۶

لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ، وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌ (الإخلاص: ۳-۴)

نہ اس کی کوئی اولاد ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد اور کوئی اس کا ہمسر نہیں ہے۔

وَقَالُوا اتَّخَذَ اللَّهُ وَلَدًا ۗ سُبْحَانَهُ ۖ بَل لَّهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ كُلٌّ لَّهُ قَانِتُونَ، بَدِيعُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ وَإِذَا قَضَىٰ أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُن فَيَكُونُ (البقرة: ۱۱۶-۱۱۷)

اور ان کا قول ہے کہ اللہ نے کسی کو بیٹا بنایا ہے ۔ پاک ہے اللہ ان باتوں سے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ زمین اور آسمانوں کی تمام موجودات اس کی ملک ہیں اس کے سب اس کے مطیع فرمان ہیں، وہ آسمانوں اور زمین کا موجد ہے، اور جس بات کا وہ فیصلہ کرتا ہے اس کے لیے بس حکم دیتا ہے کہ ہو جا اور وہ ہو جاتی ہے۔

بَدِيعُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ أَنَّىٰ يَكُونُ لَهُ وَلَدٌ وَلَمْ تَكُن لَّهُ صَاحِبَةٌ ۖ وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ ۖ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ (الأنعام: ۱۰۱)

وہ (اللہ) تو آسمانوں اور زمین کا موجد ہے۔ اس کا کوئی بیٹا کیسے ہو سکتا ہے جب کہ کوئی اس کی شریک حیات ہی نہیں ہے۔ اس نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے۔ اور وہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔

مَا اتَّخَذَ اللَّهُ مِن وَلَدٍ وَمَا كَانَ مَعَهُ مِنْ إِلَٰهٍ ۚ إِذًا لَّذَهَبَ كُلُّ إِلَٰهٍ بِمَا خَلَقَ وَلَعَلَا بَعْضُهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ ۚ سُبْحَانَ اللَّهِ عَمَّا يَصِفُونَ (المؤمنون: ۹۱)

اللہ نے کسی کو اپنی اولاد نہیں بنایا ہے اور کوئی دوسرا خدا اس کے ساتھ نہیں ہے اگر ایسا ہوتا تو ہر خدا اپنی خلق کو لے کر الگ ہو جاتا، اور پھر وہ ایک دوسرے پر چڑھ دوڑتے پاک ہے اللہ ان باتوں سے جو یہ لوگ بناتے ہیں۔

لِّيُنذِرَ الَّذِينَ قَالُوا اتَّخَذَ اللَّهُ وَلَدًا، مَّا لَهُم بِهِ مِنْ عِلْمٍ وَلَا لِآبَائِهِمْ ۚ كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ ۚ إِن يَقُولُونَ إِلَّا كَذِبًا (الكهف: ۴-۵)

اور یہ (نبی) اُن لوگوں کو ڈرائے جو کہتے ہیں کہ اللہ نے کسی کو بیٹا بنایا ہے۔ اس بات کا نہ انھیں علم ہے اور نہ ان کے باپ دادا کو تھا۔ بڑی بات ہے جو ان کے منہ سے نکلتی ہے۔ وہ محض جھوٹ بکتے ہیں۔

مَا كَانَ لِلَّهِ أَن يَتَّخِذَ مِن وَلَدٍ سُبْحَانَهُ ۚ إِذَا قَضَىٰ أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُن فَيَكُونُ (مريم: ۳۵)

اللہ کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ کسی کو اپنا بیٹا بنائے ۔ وہ پاک ذات ہے۔ وہ جب بھی کسی بات کا فیصلہ کرتا ہے، تو کہتا ہے کہ ”ہو جا“ اور بس وہ ہو جاتی ہے۔

وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمَٰنُ وَلَدًا، لَّقَدْ جِئْتُمْ شَيْئًا إِدًّا، تَكَادُ السَّمَاوَاتُ يَتَفَطَّرْنَ مِنْهُ وَتَنشَقُّ الْأَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ هَدًّا، أَن دَعَوْا لِلرَّحْمَٰنِ وَلَدًا، وَمَا يَنبَغِي لِلرَّحْمَٰنِ أَن يَتَّخِذَ وَلَدًا، إِن كُلُّ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمَٰنِ عَبْدًا (مريم: ۸۸-۹۳)

” وہ کہتے ہیں کہ رحمن نے کسی کو بیٹا بنایا ہے۔ سخت بیہودہ بات ہے جو تم لوگ گھڑ لائے ہو۔ قریب ہے کہ آسمان پھٹ پڑے، زمین شق ہو جائے اور پہاڑ گر جائیں، اس بات پر کہ لوگوں نے رحمن کے لیے اولاد ہونے کا دعویٰ کیا۔ رحمن کی یہ شان نہیں ہے کہ وہ کسی کو بیٹا بنائے۔ زمین اور آسمانوں کے اندر جو بھی ہیں وہ رحمان کے حضور بندوں کی حیثیت سے پیش ہونے والے ہیں۔

حاشیہ ۱۷

وَلَا تَدْعُ مَعَ اللَّهِ إِلَٰهًا آخَرَ ۘ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۚ كُلُّ شَيْءٍ هَالِكٌ إِلَّا وَجْهَهُ ۚ لَهُ الْحُكْمُ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ (القصص: ۸۸)

اور نہ پکارو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ ہر چیز ہلاک ہو جانے والی ہے سوائے اس کی ذات کے۔ فرمانروائی اسی کی ہے اور اسی کی طرف تم سب پلٹائے جانے والے ہو۔

أَلَا لِلَّهِ الدِّينُ الْخَالِصُ ۚ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّهِ زُلْفَىٰ ۚ إِنَّ اللَّهَ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ فِي مَا هُمْ فِيهِ يَخْتَلِفُونَ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ كَاذِبٌ كَفَّارٌ (الزمر: ۳)

خبردار، دین خالص اللہ کا حق ہے۔ رہے وہ لوگ جنھوں نے اس کے سوا دوسرے سرپرست بنا رکھے ہیں (اور اپنے اس فعل کی توجیہ یہ کرتے ہیں کہ ہم تو ان کی عبادت صرف اس لیے کرتے ہیں کہ وہ اللہ تک ہماری رسائی کرا دیں)، اللہ یقینا ان کے درمیان ان تمام باتوں کا فیصلہ کر دے گا جن میں وہ اختلاف کر رہے ہیں۔ اللہ کسی ایسے شخص کو ہدایت نہیں دیتا جو جھوٹا اور منکر حق ہو۔

قُلْ أَفَغَيْرَ اللَّهِ تَأْمُرُونِّي أَعْبُدُ أَيُّهَا الْجَاهِلُونَ (الزمر: ۶۴)

(اے نبی ان سے کہو) پھر کیا اسے جاہلو، تم اللہ کے سوا کسی اور کی بندگی کرنے کے لیے مجھ سے کہتے ہو ؟“

خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ ۚ ذَٰلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ لَهُ الْمُلْكُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ فَأَنَّىٰ تُصْرَفُونَ (الزمر: ۵-۶)

" اس نے آسمانوں اور زمین کو برحق پیدا کیا ہے۔ وہی اللہ تمہارا رب ہے، بادشاہی اسی کی ہے، کوئی خدا اس کے سوا نہیں ہے ، پھر تم کدھر سے پھرائے جا رہے ہو ؟"

وَإِذْ قَالَ لُقْمَانُ لِابْنِهِ وَهُوَ يَعِظُهُ يَا بُنَيَّ لَا تُشْرِكْ بِاللَّهِ ۖ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ (لقمان: ۱۳)

" یاد کرو جب لقمان اپنے بیٹے کو نصیحت کر رہا تھا تو اس نے کہا بیٹا خدا کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا، حق یہ ہے کہ شرک بہت بڑا ظلم ہے ۔"

قُلِ ادْعُوا الَّذِينَ زَعَمْتُم مِّن دُونِ اللَّهِ لَا يَمْلِكُونَ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ وَمَا لَهُمْ فِيهِمَا مِن شِرْكٍ وَمَا لَهُ مِنْهُم مِّن ظَهِيرٍ (سبا: ۲۲)

اے نبی! ان مشرکین سے کہو کہ پکار دیکھو اپنے ان معبودوں کو جنھیں تم اللہ کے سوا اپنا معبود سمجھے بیٹھے ہو۔ وہ نہ آسمانوں میں کسی ذرہ برابر چیز کے مالک ہیں نہ زمین میں ۔ وہ آسمان و زمین کی ملکیت میں شریک بھی نہیں ہیں۔ ان میں سے کوئی اللہ کا مددگار بھی نہیں ہے ۔

قُلْ إِنَّمَا أَنَا مُنذِرٌ ۖ وَمَا مِنْ إِلَٰهٍ إِلَّا اللَّهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ (ص: ۶۵)

"اے نبیؐ) ان سے کہو میں تو بس خبر دار کر دینے والا ہوں۔ کوئی حقیقی معبود نہیں مگر اللہ جو یکتا ہے ۔ سب پر غالب ہے ۔"

وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ (غافر: ۶۰)

تمہارا رب کہتا ہے مجھے پکارو میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا۔ جو لوگ گھمنڈ میں آکر میری عبادت سے منہ موڑتے ہیں ضرور وہ ذلیل و خوار ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے۔

حاشیہ ۱۸

أَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَٰهَهُ هَوَاهُ ۖ أَفَأَنتَ تَكُونُ عَلَيْهِ وَكِيلًا (الفرقان: ۴۳)

کبھی تم نے اس شخص کے حال پر غور کیا جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا خدا بنا لیا ہو ؟ کیا تم ایسے شخص کو راہ راست پر لانے کا ذمہ لے سکتے ہو ؟“

اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا إِلَٰهًا وَاحِدًا ۖ لَّا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۚ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ (التوبة: ۳۱)

ان لوگوں (یہود و نصاریٰ) نے اپنے علماء اور درویشوں کو اللہ کے سوا اپنا رب بنا لیا ہے اور اسی طرح مسیح ابن مریم کو بھی ۔ حالانکہ ان کو ایک معبود کے سوا کسی کی بندگی کرنے کا حکم نہیں دیا گیا تھا، وہ جس کے سوا کوئی مستحق عبادت نہیں، پاک ہے وہ ان مشرکانہ باتوں سے جو یہ لوگ کرتے ہیں ؟

وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِيهِ مِن شَيْءٍ فَحُكْمُهُ إِلَى اللَّهِ ۚ ذَٰلِكُمُ اللَّهُ رَبِّي عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ أُنِيبُ (الشورى: ۱۰)

تمہارے درمیان جس معاملہ میں بھی اختلاف ہو، اس کا فیصلہ کرنا اللہ کا کام ہے۔ وہی اللہ میرا رب ہے، اسی پر میں نے بھروسہ کیا ہے، اور اسی کی طرف میں رجوع کرتا ہوں ۔"

أَمْ لَهُمْ شُرَكَاءُ شَرَعُوا لَهُم مِّنَ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَن بِهِ اللَّهُ ۚ وَلَوْلَا كَلِمَةُ الْفَصْلِ لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ ۗ وَإِنَّ الظَّالِمِينَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (الشورى: ۲۱)

کیا یہ لوگ کچھ ایسے شریک خدا رکھتے ہیں جنھوں نے ان کے لیے دین کی نوعیت رکھنے والا ایک ایسا طریقہ مقرر کر دیا ہے جس کا اللہ نے اذن نہیں دیا ؟ اگر فیصلے کی بات پہلے طے نہ ہو گئی ہوتی تو ان کا قضیہ چکا دیا گیا ہوتا۔ یقینا ان ظالموں کے لیے درد ناک عذاب ہے۔

فَتَعَالَى اللَّهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ ۖ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيمِ (المؤمنون: ۱۱۶)

پس بالا و برتر ہے اللہ، پادشاہ حقیقی کوئی خدا اس کے سوا نہیں، مالک ہے عرش بزرگ کا۔

قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ، مَلِكِ النَّاسِ، إِلَٰهِ النَّاسِ (الناس: ۱-۳)

کہو میں پناہ مانگتا ہوں انسانوں کے رب، انسانوں کے بادشاہ ، انسانوں کے حقیقی معبود کی۔

مَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِهِ إِلَّا أَسْمَاءً سَمَّيْتُمُوهَا أَنتُمْ وَآبَاؤُكُم مَّا أَنزَلَ اللَّهُ بِهَا مِن سُلْطَانٍ ۚ إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ ۚ أَمَرَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ ۚ ذَٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ (يوسف: ۴۰)

" اُس کو چھوڑ کر تم جن کی بندگی کر رہے ہو وہ اس کے سوا کچھ نہیں ہیں کہ بس چند نام ہیں جو تم نے اور تمہارے آباؤ اجداد نے رکھ لیے ہیں ۔ اللہ نے ان کے لیے کوئی سند نازل نہیں کی ہے۔ فرماں روائی کا اقتدار اللہ کے سوا کسی کے لیے نہیں ہے۔ اس کا حکم ہے کہ خود اس کے سوا تم کسی کی بندگی نہ کرو۔ یہی ٹھیٹھ سیدھا طریق زندگی ہے، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔

اتَّبِعُوا مَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ ۗ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُونَ (الأعراف: ۳)

لوگو، جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے اس کی پیروی کرو اور اپنے رب کو چھوڑ کر دوسرے سر پرستوں کی پیروی نہ کرو۔ مگر تم نصیحت کم ہی مانتے ہو ۔

وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا جَزَاءً بِمَا كَسَبَا نَكَالًا مِّنَ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ... أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ يُعَذِّبُ مَن يَشَاءُ وَيَغْفِرُ لِمَن يَشَاءُ ۗ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (المائدة: ۳۸-۴۰)

اور چور خواہ عورت ہو یا مرد دونوں کے ہاتھ کاٹ دو، یہ ان کی کمائی کا بدلہ ہے اور اللہ کی طرف سے عبرتناک سزا۔ اللہ کی قدرت سب پر غالب ہے اور وہ دانا اور بینا ہے ...... کیا تم جانتے ہو کہ اللہ زمین اور آسمانوں کی سلطنت کا مالک ہے ؟ جسے چاہے سزا دے اور جسے چاہے معاف کر دے۔ وہ ہر چیز کا اختیار رکھتا ہے۔

وَكَتَبْنَا عَلَيْهِمْ فِيهَا أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَيْنَ بِالْعَيْنِ وَالْأَنفَ بِالْأَنفِ وَالْأُذُنَ بِالْأُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ ۚ وَالْجُرُوحَ قِصَاصٌ ۚ فَمَن تَصَدَّقَ بِهِ فَهُوَ كَفَّارَةٌ لَّهُ ۚ وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ (المائدة: ۴۵)

تورات میں ہم نے یہودیوں پر یہ حکم لکھ دیا تھا کہ جان کے بدلے جان، آنکھ کے بدلے آنکھ، ناک کے بدلے ناک، کان کے بدلے کان، دانت کے بدلے دانت اور تمام زخموں کے لیے برابر کا بدلہ ۔ پھر جو قصاص کا صدقہ کر دے تو اس کے لیے کفارہ ہے۔ اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق نہ کریں وہی ظالم ہیں۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلَىٰ ۖ الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْأُنثَىٰ بِالْأُنثَىٰ ۚ فَمَنْ عُفِيَ لَهُ مِنْ أَخِيهِ شَيْءٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ وَأَدَاءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسَانٍ ۗ ذَٰلِكَ تَخْفِيفٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَرَحْمَةٌ ۗ وَمَنِ اعْتَدَىٰ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَلَهُ عَذَابٌ أَلِيمٌ (البقرة: ۱۷۸)

اے ایمان والو ! تمہارے لیے قتل کے مقدموں میں قصاص کا حکم لکھ دیا گیا ہے۔ آزاد آدمی نے قتل کیا ہو تو اسی آزاد سے بدلہ لیا جائے، غلام قاتل ہو تو وہ غلام ہی قتل کیا جائے۔ اور عورت اس جرم کی مرتکب ہو تو اس عورت سے ہی قصاص لیا جائے۔ ہاں اگر کسی قاتل کے ساتھ اُس کا بھائی کچھ نرمی کرنے کے لیے تیار ہو تو معروف طریقے کے مطابق خون بہا کا تصفیہ ہونا چاہیے اور قاتل کو لازم ہے کہ راستی کے ساتھ خون بہا ادا کر دے۔ یہ تمہارے رب کی طرف سے تخفیف اور رحمت ہے۔ اس پر بھی جو زیادتی کرے اس کے لیے درد ناک سزا ہے"۔

كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِن تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ ۖ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ، فَمَن بَدَّلَهُ بَعْدَ مَا سَمِعَهُ فَإِنَّمَا إِثْمُهُ عَلَى الَّذِينَ يُبَدِّلُونَهُ ۚ وَإِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ، فَمَنْ خَافَ مِن مُّوصٍ جَنَفًا أَوْ إِثْمًا فَأَصْلَحَ بَيْنَهُمْ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ (البقرة: ۱۸۰-۱۸۲)

تم پر فرض کیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کا موت کا وقت آئے اور وہ اپنے پیچھے مال چھوڑے تو ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں کے حق میں معروف طریقے سے وصیت کرے، یہ متقی لوگوں پر حق ہے۔ پھر جن لوگوں نے وصیت سنی اور بعد میں اسے بدل ڈالا۔ تو اس کا گناہ اُن بدلنے والوں پر ہوگا۔ اللہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔ البتہ جس کو یہ اندیشہ ہو کہ وصیت کرنے والے نے نادانستہ یا قصدا حق تلفی کی ہے، اور پھر معاملے سے تعلق رکھنے والوں کے درمیان وہ اصلاح کرے، تو اس پر کچھ گناہ نہیں ہے، اللہ بخشنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔

الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ ۖ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ ۗ وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَن تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئًا إِلَّا أَن يَخَافَا أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ ۖ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ ۗ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلَا تَعْتَدُوهَا ۚ وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ (البقرة: ۲۲۹)

طلاق دو بار ہے۔ پھر یا تو سیدھی طرح عورت کو روک لیا جائے یا بھلے طریقے سے اس کو رخصت کر دیا جائے اور رخصت کرتے ہوئے ایسا کرنا تمہارے لیے جائز نہیں ہے کہ جو کچھ تم انھیں دے چکے ہو، اس میں سے کچھ واپس لے لو۔ البتہ یہ صورت مستثنیٰ ہے کہ زوجین کو اللہ کے حدود پر قائم نہ رہ سکنے کا اندیشہ ہو۔ اگر ایسی صورت میں تمہیں یہ خوف ہو کہ وہ دونوں حدود الٰہی پر قائم نہ رہیں گے تو ان دونوں کے درمیان یہ معاملہ ہو جانے میں مضائقہ نہیں کہ عورت اپنے شوہر کو کچھ معاوضہ دے کر علیحدگی حاصل کرلے۔ یہ اللہ کے مقرر کردہ حدود ہیں، ان سے تجاوز نہ کرو اور جو لوگ حدود الٰہی سے تجاوز کریں وہی ظالم ہیں۔

وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا تَعْضُلُوهُنَّ أَن يَنكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ إِذَا تَرَاضَوْا بَيْنَهُم بِالْمَعْرُوفِ ۗ ذَٰلِكَ يُوعَظُ بِهِ مَن كَانَ مِنكُمْ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۗ ذَٰلِكُمْ أَزْكَىٰ لَكُمْ وَأَطْهَرُ ۚ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ (البقرة: ۲۳۲)

" جب تم اپنی عورتوں کو طلاق دے چکو اور وہ اپنی عدت پوری کر لیں تو پھر اس میں مانع نہ ہو کہ وہ اپنے زیر تھی شوہروں سے نکاح کر لیں، جب کہ وہ معروف طریقے سے باہم مناکحت پر راضی ہوں۔ تمہیں نصیحت کی جاتی ہے کہ ایسی حرکت ہرگز نہ کرنا۔ اگر تم اللہ اور یوم آخر پر ایمان لانے والے ہو۔ تمہارے لیے شائستہ اور پاکیزہ طریقہ یہی ہے کہ اس سے باز رہو۔ اللہ جانتا ہے، تم نہیں جانتے۔

آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا ۚ فَرِيضَةً مِّنَ اللَّهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا (النساء: ۱۱)

" تم نہیں جانتے کہ تمہارے ماں باپ اور تمہاری اولاد میں سے کون بہ لحاظ نفع تم سے قریب تر ہے۔ میراث میں یہ حصے اللہ نے مقرر کر دیتے ہیں اور اللہ یقینا سب حقیقتوں سے واقف اور مصلحتوں کا جاننے والا ہے؟

أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ آمَنُوا بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِن قَبْلِكَ يُرِيدُونَ أَن يَتَحَاكَمُوا إِلَى الطَّاغُوتِ وَقَدْ أُمِرُوا أَن يَكْفُرُوا بِهِ وَيُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَن يُضِلَّهُمْ ضَلَالًا بَعِيدًا (النساء: ۶۰)

اے نبی! تم نے دیکھا نہیں ان لوگوں کو جو دعویٰ تو کرتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں اُس کتاب پر جو تمہاری طرف نازل کی گئی ہے اور ان کتابوں پر جو تم سے پہلے نازل کی گئی تھیں، مگر چاہتے یہ ہیں کہ اپنے معاملات کا فیصلہ کرانے کے لیے طاغوت کی طرف رجوع کریں۔ حالانکہ انھیں طاغوت سے کفر کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ شیطان انھیں بھٹکا کر راہ راست سے بہت دور جانا چاہتا ہے ۔"

ثُمَّ جَعَلْنَاكَ عَلَىٰ شَرِيعَةٍ مِّنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْهَا وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ (الجاثية: ۱۸)

"اے نبی، پچھلے انبیاء کے بعد پھر ہم نے تم کو دین کے معاملہ میں ایک صاف شاہراہ (شریعت) پر قائم کیا ہے۔ لہذا تم اسی پر چلو اور ان لوگوں کی خواہشات کا اتباع نہ کرو جو علم نہیں رکھتے ۔

وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ (المائدة: ۴۴)

اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی کا فر ہیں۔

وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ (المائدة: ۴۵)

اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی ظالم ہیں"۔

وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ (المائدة: ۴۷)

اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی فاسق ہیں۔

أَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُونَ ۚ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ يُوقِنُونَ (المائدة: ۵۰)

اگر یہ لوگ خدا کے قانون سے منہ موڑتے ہیں تو کیا پھر یہ جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں حالانکہ جو لوگ اللہ پر یقین رکھتے ہیں اُن کے نزدیک اللہ سے بہتر فیصلہ کرنے والا اور کون ہے۔

وَلَا تَقُولُوا لِمَا تَصِفُ أَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ هَٰذَا حَلَالٌ وَهَٰذَا حَرَامٌ لِّتَفْتَرُوا عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ لَا يُفْلِحُونَ (النحل: ۱۱۶)

”اور یہ جو تمہاری زبانیں جھوٹے حکم لگایا کرتی ہیں کہ یہ چیز حلال ہے اور وہ حرام، تو اس طرح کے حکم لگا کر اللہ پر جھوٹ نہ باندھا کرو۔ جو لوگ اللہ پر جھوٹے افترا لگاتے ہیں وہ ہرگز فلاح نہیں پایا کرتے ۔

الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ ۖ وَلَا تَأْخُذْكُم بِهِمَا رَأْفَةٌ فِي دِينِ اللَّهِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ (النور: ۲)

زانیہ عورت اور زانی مرد، دونوں میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو اور اُن پر ترس کھانے کا جذبہ اللہ کے دین (یعنی قانون شریعت) کے معاملے میں تم کو دامن گیر نہ ہو اگر تم اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتے ہو ؟

قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَىٰ كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّهِ ۚ فَإِن تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ (آل عمران: ۶۴)

کہو، اسے اہل کتاب، آؤ ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے۔ یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھیرائیں اور ہم میں سے کوئی اللہ کے سوا کسی کو اپنا رب نہ بنائے اِس دعوت کو قبول کرنے سے اگر وہ منہ موڑیں تو صاف کہہ دو کہ گواہ رہو، ہم تو مسلم (صرف خدا کی بندگی و اطاعت کرنے والے) ہیں۔

حاشیہ ۱۹

إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَإِذَا كَانُوا مَعَهُ عَلَىٰ أَمْرٍ جَامِعٍ لَّمْ يَذْهَبُوا حَتَّىٰ يَسْتَأْذِنُوهُ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَأْذِنُونَكَ أُولَٰئِكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ (النور: ۶۲)

مومن تو اصل میں وہی ہیں جو اللہ اور اس کے رسول کو دل و جان سے مانتے ہیں اور جب کسی اجتماعی کام کے موقع پر رسول کے ساتھ ہوں تو اُس سے اجازت لیے بغیر نہیں جاتے۔ جو لوگ تم سے اجازت مانگتے ہیں وہی اللہ اور اس کے رسول کے ماننے والے ہیں۔

إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوا وَجَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ۚ أُولَٰئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ (الحجرات: ۱۵)

حقیقت میں مومن تو وہ ہیں جو اللہ اور اس کے سول پر ایمان لائے۔ پھر انھوں نے کوئی شک نہ کیا اور اپنی جانوں اور مالوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا۔ وہی سچے لوگ ہیں ؟

حاشیہ ۲۰

مَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُؤْتِيَهُ اللَّهُ الْكِتَابَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ ثُمَّ يَقُولَ لِلنَّاسِ كُونُوا عِبَادًا لِّي مِن دُونِ اللَّهِ وَلَٰكِن كُونُوا رَبَّانِيِّينَ بِمَا كُنتُمْ تُعَلِّمُونَ الْكِتَابَ وَبِمَا كُنتُمْ تَدْرُسُونَ (آل عمران: ۷۹)

کسی انسان کا یہ کام نہیں ہے کہ اللہ تو اس کو کتاب اور حکم اور نبوت عطا فرمائے اور وہ لوگوں سے کہے کہ اللہ کے بجائے تم میرے بندے بن جاؤ. وہ تو یہی کہے گا کہ ربانی بنو جیسا کہ اس کتاب کی تعلیم کا تقاضا ہے جسے تم پڑھتے اور پڑھاتے ہو۔

حاشیہ ۲۱

بخارى، كتاب الصلوة ، باب فضل استقبال القبله - نسائی، کتاب تحريم الدم ، حدیث نمبر ۳

مسند احمد جلد ۵، ص ۴۱۱- اسی معنی کی روایات بخاری ومسلم میں بھی موجود ہیں ابن القیم نے " زاد المعاد، جلد ۴ صفحہ ۳۱ (طبع مصر ۱۹۵۶) میں کفارہ فی النکاح کے مسئلے پر بحث کرتے ہوئے اسی معنی کی حدیث نقل کی ہے۔

حاشیہ ۲۲

قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوحَىٰ إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَٰهُكُمْ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ ۖ فَمَن كَانَ يَرْجُو لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا (الكهف: ۱۱۰)

"اے نبی) کہو، میں تو ایک انسان ہوں تم ہی جیسا ، میری طرف وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا خدا بس ایک ہی خدا ہے ، پس جو کوئی اپنے رب کی ملاقات کا امیدوار ہو اسے چاہیے کہ نیک عمل کرے اور بندگی میں اپنے رب کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ کرے ۔

قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوحَىٰ إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَٰهُكُمْ وَاحِدٌ فَاسْتَقِيمُوا إِلَيْهِ وَاسْتَغْفِرُوهُ ۗ وَوَيْلٌ لِّلْمُشْرِكِينَ (فصلت: ۶)

اے نبی ! ان سے کہو میں تو ایک بشر ہوں تم جیسا۔ مجھے وحی کے ذریعے سے بتایا جاتا ہے کہ تمہارا خدا تو بس ایک ہی خدا ہے، لہذا تم سیدھے اسی کا رخ کرو اور اپنے گناہوں کی معافی چاہو ۔ تباہی ہے مشرکین کے لیے ۔"

وَقَالُوا لَن نُّؤْمِنَ لَكَ حَتَّىٰ تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الْأَرْضِ يَنبُوعًا، أَوْ تَكُونَ لَكَ جَنَّةٌ مِّن نَّخِيلٍ وَعِنَبٍ فَتُفَجِّرَ الْأَنْهَارَ خِلَالَهَا تَفْجِيرًا، أَوْ تُسْقِطَ السَّمَاءَ كَمَا زَعَمْتَ عَلَيْنَا كِسَفًا أَوْ تَأْتِيَ بِاللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ قَبِيلًا، أَوْ يَكُونَ لَكَ بَيْتٌ مِّن زُخْرُفٍ أَوْ تَرْقَىٰ فِي السَّمَاءِ ۖ وَلَن نُّؤْمِنَ لِرُقِيِّكَ حَتَّىٰ تُنَزِّلَ عَلَيْنَا كِتَابًا نَّقْرَؤُهُ ۗ قُلْ سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنتُ إِلَّا بَشَرًا رَّسُولًا (الإسراء: ۹۰-۹۳)

اور انھوں نے کہا: ہم تیری بات نہ مانیں گے جب تک تو زمین کو پھاڑ کر ہمارے لیے ایک چشمہ جاری نہ کر دے، یا تیرے لیے ایک کھجوروں اور انگوروں کا باغ پیدا ہو اور تو اس میں نہریں جاری کر دے، یا تو آسمان کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے ہمارے اوپر گرا دے جیسا کہ تیرا دعویٰ ہے ، یا خدا اور فرشتوں کو رو در رو ہمارے سامنے لے آئے، یا تیرے لیے سونے کا ایک گھر بن جائے، یا تو آسمان پر چڑھ جائے اور تیرے چڑھنے کا بھی ہم یقین نہ کریں گے جب تک تو ہمارے لیے ایک ایسی تحریر نہ اتار لائے جسے ہم پڑھیں اے نبی! ان سے کہو پاک ہے میرا پروردگار! کیا میں ایک پیغام لانے والے انسان کے سوا اور بھی کچھ ہوں ؟"۔

حاشیہ ۲۳

قُل لَّا أَقُولُ لَكُمْ عِندِي خَزَائِنُ اللَّهِ وَلَا أَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَا أَقُولُ لَكُمْ إِنِّي مَلَكٌ ۖ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ ۚ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الْأَعْمَىٰ وَالْبَصِيرُ ۚ أَفَلَا تَتَفَكَّرُونَ (الأنعام: ۵۰)

اسے نبی ، ان سے کہو میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں۔ نہ میں غیب کا علم رکھتا ہوں۔ اور نہ یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں ۔ میں تو صرف اس وحی کی پیروی کرتا ہوں جو مجھ پر نازل کی جاتی ہے ۔ پھر ان سے پوچھو کیا اندھا اور آنکھوں والا دونوں برابر ہوتے ہیں کیا تم غور نہیں کرتے ؟“

قُل لَّا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ ۖ وَلَوْ كُنتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ ۚ إِنْ أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ (الأعراف: ۱۸۸)

اے نبی ! ان سے کہو" میں اپنی ذات کے لیے کسی نفع اور نقصان کا اختیار نہیں رکھتا، اللہ ہی جو کچھ چاہتا ہے وہ ہوتا ہے۔ اور اگر مجھے غیب کا علم ہوتا تو میں بہت سے فائدے اپنے لیے حاصل کر لیتا اور مجھے کبھی کوئی نقصان نہ پہنچتا۔ میں تو محض ایک خبر دار کرنے والا اور خوشخبری دینے والا ہوں ان لوگوں کے لیے جو مجھ پر ایمان لائیں ۔

حاشیہ ۲۴

وَإِن يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ ۖ وَإِن يَمْسَسْكَ بِخَيْرٍ فَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (الأنعام: ۱۷)

اے نبی ! اگر اللہ تمہیں نقصان پہنچائے تو اس کے سوا کوئی نہیں جو تمہیں اس نقصان سے بچا سکے۔ اور اگر وہ تمہیں کسی بھلائی سے بہرہ مند کرنا چاہے تو وہ ہر چیز پر قادر ہے ۔

قُل لَّا أَمْلِكُ لِنَفْسِي ضَرًّا وَلَا نَفْعًا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ (يونس: ۴۹)

کہو میرے اختیار میں خود اپنا نفع و نقصان بھی نہیں ہے سب اللہ کی مشیت پر موقوف ہے ۔

حاشیہ ۲۵

قُل لَّوْ أَنَّ عِندِي مَا تَسْتَعْجِلُونَ بِهِ لَقُضِيَ الْأَمْرُ بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ ۗ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِالظَّالِمِينَ (الأنعام: ۵۸)

اے نبی !) کہو، اگر کہیں وہ چیز میرے اختیار میں ہوتی (یعنی عذاب نازل کر دینا)، جس کی تم جلدی مچا رہے ہو تو میرے اور تمہارے درمیان کبھی کا فیصلہ ہو چکا ہوتا مگر اللہ زیادہ تر جانتا ہے کہ ظالموں کے ساتھ کیا معاملہ کیا جانا چاہیے۔

وَإِن مَّا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِي نَعِدُهُمْ أَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ فَإِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلَاغُ وَعَلَيْنَا الْحِسَابُ (الرعد: ۴۰)

اور اے نبی جس برے انجام کی دھمکی ہم ان لوگوں کو دے رہے ہیں اس کا کوئی حصہ خواہ ہم تمہاری آنکھوں کے سامنے دکھا دیں یا اس کے ظہور میں آنے سے پہلے تم کو اٹھا لیں۔ بہر حال تمہارا کام صرف پیغام پہنچا دینا ہے اور حساب لینا ہمارا کام ہے"۔

إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ ۚ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ (القصص: ۵۶)

اے نبی ا تم جسے چاہو اسے ہدایت نہیں دے سکتے ، مگر اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور وہ ان لوگوں کو خوب جانتا ہے جو ہدایت قبول کرنے والے ہیں۔

إِنَّا أَنزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ لِلنَّاسِ بِالْحَقِّ ۖ فَمَنِ اهْتَدَىٰ فَلِنَفْسِهِ ۖ وَمَن ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا ۖ وَمَا أَنتَ عَلَيْهِم بِوَكِيلٍ (الزمر: ۴۱)

"اے نبی ! ہم نے تمام انسانوں کے لیے یہ کتاب بر حق تم پر نازل کی ہے۔ اب جو سیدھا راستہ اختیار کرے گا اپنے لیے کرے گا اور جو بھٹکے گا، اُس کے بھٹکنے کا وبال اسی پر ہوگا۔ تم ان پر حوالہ دار نہیں ہو"۔

لَّسْتَ عَلَيْهِم بِمُصَيْطِرٍ (الغاشية: ۲۲)

" (اے نبیؐ) تم ان پر کو توال مقرر نہیں کیے گئے ہو ؟

حاشیہ ۲۶

وَلَن تَرْضَىٰ عَنكَ الْيَهُودُ وَلَا النَّصَارَىٰ حَتَّىٰ تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ ۗ قُلْ إِنَّ هُدَى اللَّهِ هُوَ الْهُدَىٰ ۗ وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُم بَعْدَ الَّذِي جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ ۙ مَا لَكَ مِنَ اللَّهِ مِن وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ (البقرة: ۱۲۰)

یہودی اور عیسائی تم سے ہر گز راضی نہ ہوں گے جب تک تم ان کے طریقے پر نہ چلنے لگو۔ صاف کہہ دو کہ سیدھا راستہ بس وہی ہے جو اللہ نے بتایا ہے۔ اگر اس علم کے بعد جو تمہارے پاس آچکا ہے، تم نے ان کی خواہشات کی پیروی کی، تو اللہ کی پکڑ سے بچانے والا کوئی دوست اور مدد گار تمہارے لیے نہیں ہے۔

وَلَئِنْ أَتَيْتَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ بِكُلِّ آيَةٍ مَّا تَبِعُوا قِبْلَتَكَ ۚ وَمَا أَنتَ بِتَابِعٍ قِبْلَتَهُمْ ۚ وَمَا بَعْضُهُم بِتَابِعٍ قِبْلَةَ بَعْضٍ ۚ وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُم مِّن بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ ۙ إِنَّكَ إِذًا لَّمِنَ الظَّالِمِينَ (البقرة: ۱۴۵)

تم ان اہل کتاب کے پاس کوئی نشانی لے آؤ ممکن نہیں کہ یہ تمہارے قبلے کی پیروی کرنے لگیں اور نہ تمہارے لیے مناسب ہے کہ ان کے قبلے کی پیروی کرو، اور ان میں سے کوئی گروہ بھی دوسرے کے قبلے کی پیروی کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اور اگر تم نے اس علم کے بعد جو تمہارے پاس آچکا ہے۔ ان کی خواہشات کی پیروی کی تو یقینا تمہارا شمار ظالموں میں ہو گا۔

وَإِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا بَيِّنَاتٍ ۙ قَالَ الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا ائْتِ بِقُرْآنٍ غَيْرِ هَٰذَا أَوْ بَدِّلْهُ ۚ قُلْ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أُبَدِّلَهُ مِن تِلْقَاءِ نَفْسِي ۖ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ ۖ إِنِّي أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ (يونس: ۱۵)

جب انھیں ہماری صاف صاف باتیں سنائی جاتی ہیں تو وہ لوگ جو ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے، کہتے ہیں کہ اس کے بجائے کوئی اور قرآن لاؤ، یا اس میں کچھ ترمیم کرو۔ اے نبی ! ان سے کہو میرا یہ کام نہیں ہے کہ میں اپنی طرف سے اس میں کچھ تغیر و تبدل کر لوں۔ میں تو بس اس وحی کا پیرو ہوں جو میرے پاس بھیجی جاتی ہے، اگر میں اپنے رب کی نا فرمانی کروں تو مجھے ایک بڑے ہولناک دن کے عذاب کا ڈر ہے۔

وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيلِ، لَأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ، ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ ۖ فَمَا مِنكُم مِّنْ أَحَدٍ عَنْهُ حَاجِزِينَ (الحاقة: ۴۴-۴۷)

اور اگر اس نبی نے خود گھڑ کر کوئی بات ہماری طرف منسوب کی ہوتی تو ہم اس کا دایاں ہاتھ پکڑ لیتے اور اس کی رگِ گردن کاٹ ڈالتے ، اور پھر تم میں سے کوئی اس کام سے روکنے والا نہ ہوتا ۔

حاشیہ ۲۷

وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ ۚ أَفَإِن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انقَلَبْتُمْ عَلَىٰ أَعْقَابِكُمْ ۚ وَمَن يَنقَلِبْ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ فَلَن يَضُرَّ اللَّهَ شَيْئًا ۗ وَسَيَجْزِي اللَّهُ الشَّاكِرِينَ (آل عمران: ۱۴۴)

محمد اس کے سوا کچھ نہیں کہ بس ایک رسول ہیں۔ ان سے پہلے بھی رسول گزر چکے ہیں پھر کیا اگر وہ مرجائیں یا قتل کر دیے جائیں تو تم لوگ اُلٹے پاؤں پھر جاؤ گے ؟ یاد رکھو جو اُلٹا پھرے گا وہ اللہ کا کچھ نقصان نہ کرے گا، البتہ جو لوگ اللہ کے شکر گزار بندے بن کر رہیں گے انھیں وہ اس کی جزا دے گا۔

إِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ (يس: ۳)

اے نبی یقینا تم مرسلین میں سے ہو۔

قُلْ مَا كُنتُ بِدْعًا مِّنَ الرُّسُلِ وَمَا أَدْرِي مَا يُفْعَلُ بِي وَلَا بِكُمْ ۖ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ وَمَا أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُّبِينٌ (الأحقاف: ۹)

” (اے نبیؐ) ان سے کہو کہ میں کوئی نرالا رسول نہیں ہوں ، میں نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا ہوگا اور نہ یہ جانتا ہوں کہ تمہارے ساتھ کیا ہوگا۔ میں تو صرف اس وحی کی پیروی کرتا ہوں جو میری طرف نازل ہوتی ہے اور میں ایک صاف صاف خبردار کرنے والے کے سوا اور کچھ نہیں ہوں ۔

هَٰذَا نَذِيرٌ مِّنَ النُّذُرِ الْأُولَىٰ (النجم: ۵۶)

یہ ایک خبردار کرنے والا ہے پچھلے خبردار کرنے والوں میں سے ۔"

حاشیہ ۲۸

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ (التحريم: ۱)

"اے نبی! تم کیوں اُس چیز کو حرام کرتے ہو جو اللہ نے تمہارے لیے حلال کی ہے ؟"

حاشیہ ۲۹

إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ (الأنعام: ۵۰، یونس: ۱۵، الأحقاف: ۹)

میں تو بس اُس وحی کا پیرو ہوں جو مجھ پر بھیجی جاتی ہے ۔

حاشیہ ۳۰

إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوا (الحجرات: ۱۵)

حقیقت میں مومن وہ لوگ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے، پھر انھوں نے کوئی شک نہ کیا ۔

حاشیہ ۳۱

وَجِئْتُكُم بِآيَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَطِيعُونِ (آل عمران: ۵۰)

(حضرت عیسیٰ نے کہا) اور میں تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس نشانی لے کر آیا ہوں پس اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔

وَلَمَّا جَاءَ عِيسَىٰ بِالْبَيِّنَاتِ قَالَ قَدْ جِئْتُكُم بِالْحِكْمَةِ وَلِأُبَيِّنَ لَكُم بَعْضَ الَّذِي تَخْتَلِفُونَ فِيهِ ۖ فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَطِيعُونِ (الزخرف: ۶۳)

” اور جب عیسیٰ صریح نشانیاں لیے ہوئے آیا تھا تو اُس نے کہا تھا : میں تم لوگوں کے پاس حکمت لایا ہوں اور اس لیے آیا ہوں کہ تم پر بعض ایسی باتیں کھول دوں جن میں تم اختلاف کر رہے ہو۔ پس اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔

وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلَّا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللَّهِ (النساء: ۶۴)

ہم نے جو رسول بھی بھیجا ہے اس لیے بھیجا ہے کہ اذن خداوندی کی بنا پر اس کی اطاعت کی جائے۔

مَن يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ ۖ وَمَن تَوَلَّىٰ فَمَا أَرْسَلْنَاكَ عَلَيْهِمْ حَفِيظًا (النساء: ۸۰)

جس نے رسول کی اطاعت کی، اُس نے اللہ کی اطاعت کی۔ اور جس نے منہ موڑا، تو بہر حال ہم نے تمہیں ان لوگوں پر پاسبان بنا کر نہیں بھیجا ہے ۔

فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَطِيعُونِ (الشعراء: ۱۰۸، ۱۱۰، ۱۳۱، ۱۴۴، ۱۵۰، ۱۶۳، ۱۷۹)

(ہر نبی نے آکر کہا) " اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔

أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاتَّقُوهُ وَأَطِيعُونِ (نوح: ۳)

حضرت نوح نے کہا اللہ کی عبادت کرو اور اسی سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔

حاشیہ ۳۲

قُلْ أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ ۖ فَإِن تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا عَلَيْهِ مَا حُمِّلَ وَعَلَيْكُم مَّا حُمِّلْتُمْ ۖ وَإِن تُطِيعُوهُ تَهْتَدُوا ۚ وَمَا عَلَى الرَّسُولِ إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ (النور: ۵۴)

(اے نبی ان سے کہو) اللہ کے مطیع بنو اور رسول کے تابع فرمان بن کر رہو لیکن اگر تم منہ پھیرتے ہو تو خوب سمجھ لو کہ رسول پر جس فرض کا بار رکھا گیا ہے اس کا ذمہ دار وہ ہے اور تم پر جس فرض کا بار رکھا گیا ہے اُس کے ذمہ دار تم۔ اس کی اطاعت کرو تو ہدایت پاؤ گے۔ ورنہ رسول کی ذمہ داری اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے کہ حکم صاف صاف پہنچا دے۔

حاشیہ ۳۳

وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ (الحشر: ۷)

جو کچھ رسول تمہیں دے وہ لے لو اور جس چیز سے وہ تم کو روک دے اس سے رک جاؤ۔ اللہ سے ڈرو، اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔

حاشیہ ۳۴

مسلم کتاب ۴۳، حدیث ۱۳۹ تا ۱۴۱ مسند احمد، جلد اول، ص ۱۶۲، جلد ثالث ص ۱۵۲

حاشیہ ۳۵

وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ (النحل: ۴۴)

اور ہم نے یہ ذکر قرآن تم پر نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کے سامنے اس تعلیم کی تشریح و توضیح کرتے جاؤ جو ان کے لیے اتاری گئی ہے تاکہ لوگ (خود بھی) غور و فکر کریں۔

إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ ۖ فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ، ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ (القيامة: ۱۷-۱۹)

(اے نبی ! اس وحی کو یاد کرا دینا اور پڑھوا دینا ہما را ذمہ ہے۔ لہذا جب ہم اسے پڑھ رہے ہوں اُس وقت تم اس کی قرآت کو غور سے سنا کرو، پھر اس کا مطلب سمجھا دینا بھی ہمارا ہی ذمہ ہے ۔

حاشیہ ۳۶

لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا (الاحزاب: ۲۱)

" در حقیقت تم لوگوں کے لیے رسول کی ذات میں ایک بہترین نمونہ ہے ، ہر اُس شخص کے لیے جو اللہ اور یوم آخر کا امیدوار ہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے۔“

حاشیہ ۳۷

فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا (النساء: ۶۵)

پس نہیں، (اے نبیؐ) تمہارے رب کی قسم یہ بھی مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں، پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں بھی تنگی محسوس نہ کریں بلکہ سر بہ تسلیم کرلیں ۔"

حاشیہ ۳۸

وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ ۗ وَمَن يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُّبِينًا (الاحزاب: ۳۶)

کسی مومن مرد اور کسی مومن عورت کو یہ حق نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی معاملے کا فیصلہ کر دے تو پھر اسے اپنے اس معاملے میں خود فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل ہو۔ اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے تو وہ صریح گمراہی میں پڑ گیا۔

حاشیہ ۳۹

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (الحجرات: ۱)

اے لوگو! جو ایمان لائے ہو اللہ اور اُس کے رسول کے آگے پیش قدمی نہ کرو۔ اللہ سے ڈرو۔ بے شک اللہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔

حاشیہ ۴۰

وَلَوْ تَرَىٰ إِذْ وُقِفُوا عَلَىٰ رَبِّهِمْ ۚ قَالَ أَلَيْسَ هَٰذَا بِالْحَقِّ ۚ قَالُوا بَلَىٰ وَرَبِّنَا ۚ قَالَ فَذُوقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنتُمْ تَكْفُرُونَ (الأنعام: ۳۰)

کاش ! وہ منظر تم دیکھ سکو جب یہ اپنے رب کے سامنے کھڑے کیے جائیں گے۔ اس وقت ان کا رب ان سے پوچھے گا کیا یہ حقیقت نہیں ہے ؟ ہاں اسے ہمارے رب یہ حقیقت ہی ہے ۔ وہ فرمائے گا ۔ اچھا ! تو اب اُس کفر کا مزا چکھو جو تم کرتے رہے تھے۔

وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ كَأَن لَّمْ يَلْبَثُوا إِلَّا سَاعَةً مِّنَ النَّهَارِ يَتَعَارَفُونَ بَيْنَهُمْ ۚ قَدْ خَسِرَ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِلِقَاءِ اللَّهِ وَمَا كَانُوا مُهْتَدِينَ (یونس: ۴۵)

اور جس روز اللہ ان کو جمع کرے گا تو (یہی دنیا کی زندگی انھیں ایسی محسوس ہوگی) گویا یہ محض ایک گھڑی بھر آپس میں جان پہچان کرنے کو ٹھہرے تھے اس وقت تحقیق ہو گا کہ فی الواقع وہ لوگ سخت گھاٹے میں رہے جنھوں نے اللہ کی ملاقات کو جھٹلایا۔ اور وہ ہر گز راہ راست پر نہ تھے ۔"

وَإِن تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُهُمْ ۚ أَإِذَا كُنَّا تُرَابًا أَإِنَّا لَفِي خَلْقٍ جَدِيدٍ ۗ أُولَٰئِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا بِرَبِّهِمْ ۖ وَأُولَٰئِكَ الْأَغْلَالُ فِي أَعْنَاقِهِمْ ۖ وَأُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ (الرعد: ۵)

اب اگر تمہیں تعجب کرنا ہے تو تعجب کے قابل لوگوں کا یہ قول ہے کہ جب ہم مٹی ہو جائیں گے تو کیا ہم نئے سرے سے پیدا کیے جائیں گے یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے اپنے رب سے کفر کیا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی گردنوں میں طوق پڑے ہوئے ہیں۔ یہ دوزخی ہیں اور ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔"

وَقَالَ الْمَلَأُ مِن قَوْمِهِ الَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِلِقَاءِ الْآخِرَةِ وَأَتْرَفْنَاهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا مَا هَٰذَا إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يَأْكُلُ مِمَّا تَأْكُلُونَ مِنْهُ وَيَشْرَبُ مِمَّا تَشْرَبُونَ (المؤمنون: ۳۳)

نوح کی قوم کے جن سرداروں نے ماننے سے انکار کیا اور آخرت کی پیشی کو جھٹلایا، حالانکہ ہم نے دنیا کی زندگی میں آسودہ کر رکھا تھا۔ وہ کہنے لگے " یہ شخص کچھ نہیں مگر ایک بشر تم جیسا، جو کچھ تم کھاتے ہو وہی وہ کھاتا ہے اور جو کچھ تم پیتے ہو وہی وہ پیتا ہے۔

بَلْ كَذَّبُوا بِالسَّاعَةِ ۖ وَأَعْتَدْنَا لِمَن كَذَّبَ بِالسَّاعَةِ سَعِيرًا (الفرقان: ۱۱)

" اصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ اس گھڑی کو جھٹلا چکے ہیں۔ اور جو اس گھڑی کو جھٹلائے ہم نے اس کے لیے بھڑکتی ہوئی آگ تیار کر رکھی ہے ۔"

وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا هَلْ نَدُلُّكُمْ عَلَىٰ رَجُلٍ يُنَبِّئُكُمْ إِذَا مُزِّقْتُمْ كُلَّ مُمَزَّقٍ إِنَّكُمْ لَفِي خَلْقٍ جَدِيدٍ ۚ أَفْتَرَىٰ عَلَى اللَّهِ كَذِبًا أَم بِهِ جِنَّةٌ ۗ بَلِ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ فِي الْعَذَابِ وَالضَّلَالِ الْبَعِيدِ (سبا: ۷-۸)

کفر کرنے والے لوگوں سے کہتے ہیں " ہم بتائیں تمہیں ایسا شخص جو خبر دیتا ہے کہ جب تمہارے جسم کا ذرہ ذرہ منتشر ہو گا اُس وقت نئے سرے سے پیدا کر دیے جاؤ گے ؟ نہ معلوم یہ شخص اللہ کے نام سے جھوٹ گھڑتا ہے یا اسے جنون لاحق ہے نہیں، بلکہ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں لاتے وہی عذاب میں مبتلا اور گمراہی میں بہت دور نکلے ہوئے ہوں گے ۔

يَا دَاوُودُ إِنَّا جَعَلْنَاكَ خَلِيفَةً فِي الْأَرْضِ فَاحْكُم بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعِ الْهَوَىٰ فَيُضِلَّكَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَضِلُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ بِمَا نَسُوا يَوْمَ الْحِسَابِ، وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاءَ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا بَاطِلًا ۚ ذَٰلِكَ ظَنُّ الَّذِينَ كَفَرُوا ۚ فَوَيْلٌ لِّلَّذِينَ كَفَرُوا مِنَ النَّارِ، أَمْ نَجْعَلُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ كَالْمُفْسِدِينَ فِي الْأَرْضِ أَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقِينَ كَالْفُجَّارِ (ص: ۲۶-۲۸)

(ہم نے اس سے کہا) اسے داؤد ! ہم نے تمہیں زمین پر خلیفہ بنایا ہے، لہذا تم لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ حکومت کرو اور خواہش نفس کی پیروی نہ کرو کہ وہ تمہیں اللہ کی راہ سے بھٹکا دے گی۔ جو لوگ اللہ کی راہ سے بھٹکتے ہیں یقینا ان کے لیے سخت سزا ہے کہ وہ یوم الحساب کو بھول گئے۔ ہم نے اس آسمان اور زمین کو، اور اس دنیا کو جو ان کے درمیان ہے فضول نہیں کر دیا ہے۔ یہ تو ان لوگوں کا گمان ہے جنھوں نے کفر کیا ہے، اور کافروں کے لیے بربادی ہے جہنم کی آگ سے۔ کیا ہم ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے ہیں اور ان کو جو زمین میں فساد کرنے والے ہیں یکساں کر دیں ؟ کیا متقیوں کو ہم فاجروں جیسا کر دیں ؟“

بَلْ عَجِبُوا أَن جَاءَهُم مُّنذِرٌ مِّنْهُمْ فَقَالَ الْكَافِرُونَ هَٰذَا شَيْءٌ عَجِيبٌ، أَإِذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا ذَٰلِكَ رَجْعٌ بَعِيدٌ (ق: ۲-۳)

بلکہ ان لوگوں کو تعجب ہوا اس بات پر کہ ایک خبردار کرنے والا خود انہی میں سے اُن کے پاس آگیا۔ پھر کافر کہنے لگے یہ تو عجیب بات ہے، کیا جب ہم مر جائیں گے اور خاک ہو جائیں گے تو دوبارہ اٹھائے جائیں گے ؟ یہ تو بعید از عقل واپسی ہے ؟

زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَن لَّن تُبْعَثُوا (التغابن: ۷)

کفر کرنے والوں نے بڑے دعوے سے کہا ہے کہ وہ ہر گز دوبارہ نہ اٹھا ئے جائیں گے۔

حاشیہ ۴۱

إِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَى الْأَرْضِ زِينَةً لَّهَا لِنَبْلُوَهُمْ أَيُّهُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا (الكهف: ۷)

واقعہ یہ ہے کہ جو کچھ بھی سر و سامان زمین پر ہے اس کو ہم نے زمین کی زینت بنایا ہے تاکہ لوگوں کو آزمائیں کہ ان میں کون بہتر عمل کرنے والا ہے۔

الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُ (الملك: ۲)

جس نے موت اور زندگی کو ایجاد کیا تاکہ تم لوگوں کو آزما کر دیکھے تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے۔ وہ زبر دست بھی ہے اور درگزر کرنے والا بھی ۔"

أَيَحْسَبُ الْإِنسَانُ أَن يُتْرَكَ سُدًى (القيامة: ۳۶)

کیا انسان نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ یونہی مہمل چھوڑ دیا جائے گا ؟“

إِنَّا خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن نُّطْفَةٍ أَمْشَاجٍ نَّبْتَلِيهِ فَجَعَلْنَاهُ سَمِيعًا بَصِيرًا (الدھر: ۲)

"ہم نے انسان کو ایک مخلوط نطفے سے پیدا کیا تاکہ اس کا امتحان لیں اور اس غرض کے لیے ہم نے اسے سننے اور دیکھنے والا بنایا ۔"

وَإِذَا الْمَوْءُودَةُ سُئِلَتْ، بِأَيِّ ذَنبٍ قُتِلَتْ (التكوير: ۸-۹)

” اور جب زندہ گاڑی جانے والی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ وہ کسی قصور میں ماری گئی ۔

وَيْلٌ لِّلْمُطَفِّفِينَ، الَّذِينَ إِذَا اكْتَالُوا عَلَى النَّاسِ يَسْتَوْفُونَ، وَإِذَا كَالُوهُمْ أَو وَزَنُوهُمْ يُخْسِرُونَ، أَلَا يَظُنُّ أُولَٰئِكَ أَنَّهُم مَّبْعُوثُونَ، لِيَوْمٍ عَظِيمٍ، يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ (المطففين: ۱-۶)

تباہی ہے ڈنڈی مارنے والوں کے لیے جن کا حال یہ ہے کہ جب لوگوں سے لیتے ہیں تو پورا پورا لیتے ہیں، اور جب ان کو ناپ کر یا تول کر دیتے ہیں تو انھیں گھٹا کر دیتے ہیں کیا یہ لوگ نہیں سمجھتے کہ یہ ایک بڑے دن اٹھائے جانے والے ہیں ؟ اس دن جب کہ سب لوگ رب العالمین کے سامنے کھڑے ہوں گے ۔

ثُمَّ لَتُسْأَلُنَّ يَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِيمِ (التكاثر: ۸)

"پھر تم سے اُس دن نعمتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا ۔

حاشیہ ۴۲

وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَصَعِقَ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَمَن فِي الْأَرْضِ إِلَّا مَن شَاءَ اللَّهُ ۖ ثُمَّ نُفِخَ فِيهِ أُخْرَىٰ فَإِذَا هُمْ قِيَامٌ يَنظُرُونَ (الزمر: ۶۸)

اور اُس روز صور پھونکا جائے گا اور وہ سب مرکز گر جائیں گے جو آسمان اور زمین میں ہیں ، سوائے ان کے جنہیں اللہ زندہ رکھنا چاہے پھر ایک دوسرا صور پھونکا جائے گا اور یکا یک سب کے سب اٹھ کر دیکھنے لگیں گے ۔

إِنَّ يَوْمَ الْفَصْلِ مِيقَاتُهُمْ أَجْمَعِينَ (الدخان: ۴۰)

ان سب کے اٹھائے جانے کے لیے طے شدہ وقت فیصلے کا دن ہے۔

قُلْ إِنَّ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ ۙ لَمَجْمُوعُونَ إِلَىٰ مِيقَاتِ يَوْمٍ مَّعْلُومٍ (الواقعة: ۴۹-۵۰)

"کہو کہ یقیناً اگلے اور پچھلے سب ایک معلوم دن کے مقررہ وقت پر جمع کیے جائیں گے۔"

اے نبی ! ان سے کہو یقیناً اگلے اور پچھلے سب ایک دن ضرور جمع کیے جانے والے ہیں۔ جس کا وقت مقرر کیا جا چکا ہے ۔

حاشیہ ۴۳

وَلَوْ تَرَىٰ إِذِ الظَّالِمُونَ فِي غَمَرَاتِ الْمَوْتِ وَالْمَلَائِكَةُ بَاسِطُو أَيْدِيهِمْ أَخْرِجُوا أَنفُسَكُمُ الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُونِ بِمَا كُنتُمْ تَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ غَيْرَ الْحَقِّ وَكُنتُمْ عَنْ آيَاتِهِ تَسْتَكْبِرُونَ ﴿٩٣﴾ (الانعام : ۹۳)

کاش تم ظالموں کو اس حالت میں دیکھ سکو جب کہ وہ سکراتِ موت میں ڈبکیاں کھا رہے ہوتے ہیں اور فرشتے ہاتھ بڑھا بڑھا کر کہہ رہے ہوتے ہیں کہ لاؤ ، نکالو اپنی جان، آج تمہیں ان باتوں کی پاداش میں ذلت کا عذاب دیا جائے گا جو تم اللہ پر بہتان باندھ کر ناحق بکا کرتے تھے اور اس کی آیات کے مقابلہ میں سرکشی دکھاتے تھے ۔

وَنَرِثُهُ مَا يَقُولُ وَيَأْتِينَا فَرْدًا ﴿٨٠﴾ (مريم : ۸۰)

جس سازوسامان اور لاؤ لشکر کا یہ ذکر کر رہا ہے، وہ سب ہمارے پاس رہ جائے گا اور یہ اکیلا ہمارے سامنے حاضر ہوگا۔

وَكُلُّهُمْ آتِيهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَرْدًا ﴿٩٥﴾ (مريم : ۹۵)

سب قیامت کے روز فرداً فرداً اس کے سامنے حاضر ہوں گے ۔

حاشیہ ۴۴

وَوُضِعَ الْكِتَابُ فَتَرَى الْمُجْرِمِينَ مُشْفِقِينَ مِمَّا فِيهِ وَيَقُولُونَ يَا وَيْلَتَنَا مَالِ هَذَا الْكِتَابِ لَا يُغَادِرُ صَغِيرَةً وَلَا كَبِيرَةً إِلَّا أَحْصَاهَا ۚ وَوَجَدُوا مَا عَمِلُوا حَاضِرًا ۗ وَلَا يَظْلِمُ رَبُّكَ أَحَدًا ﴿٤٩﴾ (الكَهْفِ : ۴۹)

اور اس وقت تم دیکھو گے کہ مجرم لوگ اپنی کتاب زندگی کے اندراجات سے ڈر رہے ہوں گے اور کہہ رہے ہوں گے کہ ہائے ہماری کم بختی، یہ کیسی کتاب ہے کہ ہماری کوئی چھوٹی بڑی حرکت ایسی نہیں رہی جو اس میں درج نہ ہو گئی ہو۔ جو جو کچھ انہوں نے کیا تھا وہ سب اپنے سامنے حاضر پائیں گے اور تیرا رب کسی پر ذرا ظلم نہ کرے گا۔

يَوْمَ تَشْهَدُ عَلَيْهِمْ أَلْسِنَتُهُمْ وَأَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُم بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿٢٤﴾ (النور : ۲۴)

یہ لوگ (نہ بھول جائیں) وہ دن جب کہ ان کی اپنی زبانیں اور ان کے اپنے ہاتھ پاؤں ان کے کرتوتوں کی گواہی دیں گے۔

إِنَّا نَحْنُ نُحْيِ الْمَوْتَىٰ وَنَكْتُبُ مَا قَدَّمُوا وَآثَارَهُمْ ۚ وَكُلَّ شَيْءٍ أَحْصَيْنَاهُ فِي إِمَامٍ مُّبِينٍ ﴿١٢﴾ (يٰس : ۱۲)

ہم یقیناً ایک روز مردوں کو زندہ کرنے والے ہیں۔ جو کچھ افعال انہوں نے کیے ہیں وہ سب ہم لکھتے جا رہے ہیں، اور جو کچھ آثار انہوں نے پیچھے چھوڑے ہیں وہ بھی ہم ثبت کر رہے ہیں۔ ہر چیز کو ہم نے ایک کھلی کتاب میں درج کر رکھا ہے ۔

الْيَوْمَ نَخْتِمُ عَلَىٰ أَفْوَاهِهِمْ وَتُكَلِّمُنَا أَيْدِيهِمْ وَتَشْهَدُ أَرْجُلُهُم بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ ﴿٦٥﴾ (يٰس : ۶۵)

آج ہم ان کے منہ بند کیے دیتے ہیں ۔ ان کے ہاتھ ہم سے بولیں گے اور ان کے پاؤں گواہی دیں گے کہ یہ دنیا میں کیا کمائی کرتے رہے ہیں ۔

وَأَشْرَقَتِ الْأَرْضُ بِنُورِ رَبِّهَا وَوُضِعَ الْكِتَابُ وَجِيءَ بِالنَّبِيِّينَ وَالشُّهَدَاءِ وَقُضِيَ بَيْنَهُم بِالْحَقِّ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ ﴿٦٩﴾ (الزمر : ۶۹)

زمین اپنے رب کے نور سے جگمگا اُٹھے گی۔ کتاب اعمال لا کر رکھ دی جائے گی۔ انبیاء اور تمام گواہ حاضر کر دیے جائیں گے۔ لوگوں کے درمیان ٹھیک ٹھیک حق کے ساتھ فیصلہ کر دیا جائے گا اور ان پر کوئی ظلم نہ ہو گا ۔

حَتَّىٰ إِذَا مَا جَاءُوهَا شَهِدَ عَلَيْهِمْ سَمْعُهُمْ وَأَبْصَارُهُمْ وَجُلُودُهُم بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿٢٠﴾ وَقَالُوا لِجُلُودِهِمْ لِمَ شَهِدتُّمْ عَلَيْنَا ۖ قَالُوا أَنطَقَنَا اللَّهُ الَّذِي أَنطَقَ كُلَّ شَيْءٍ وَهُوَ خَلَقَكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ ﴿٢١﴾ (فصلت : ۲۰ تا ۲۱)

پھر جب سب وہاں پہنچ جائیں گے تو ان کے کان اور ان کی آنکھیں اور ان کے جسم کی کھالیں ان پر گواہی دیں گی کہ وہ دنیا میں کیا کچھ کرتے رہے تھے۔ وہ اپنے جسم کی کھالوں سے کہیں گے ”تم نے ہمارے خلاف کیوں گواہی دی ؟“ وہ جواب دیں گی ”ہمیں اسی خدا نے گویائی دی ہے جس نے ہر چیز کو گویا کر دیا ہے ۔ اسی نے تم کو پہلی مرتبہ پیدا کیا تھا اور اب اسی کی طرف واپس لائے جا رہے ہو؟“

أَمْ يَحْسَبُونَ أَنَّا لَا نَسْمَعُ سِرَّهُمْ وَنَجْوَاهُم ۚ بَلَىٰ وَرُسُلُنَا لَدَيْهِمْ يَكْتُبُونَ ﴿٨٠﴾ (الزخرف : ۸۰)

کیا انہوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہم ان کی راز کی باتیں اور ان کی سرگوشیاں نہیں سنتے ؟ ہم سب کچھ سن رہے ہیں اور ہمارے فرشتے ان کے قریب ہی لکھ رہے ہیں ۔

وَتَرَىٰ كُلَّ أُمَّةٍ جَاثِيَةً ۚ كُلُّ أُمَّةٍ تُدْعَىٰ إِلَىٰ كِتَابِهَا الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ مَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ ﴿٢٨﴾ هَذَا كِتَابُنَا يَنطِقُ عَلَيْكُم بِالْحَقِّ ۚ إِنَّا كُنَّا نَسْتَنسِخُ مَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ ﴿٢٩﴾ (الجاثية : ۲۸ تا ۲۹)

اُس وقت تم ہر گروہ کو گھٹنوں کے بل گرا ہوا دیکھو گے ۔ ہر گروہ کو پکارا جائے گا کہ آئے اور اپنا نامہ اعمال دیکھے۔ ان سے کہا جائے گا ”آج تم لوگوں کو اُن اعمال کا بدلہ دیا جائے گا جو تم کرتے رہے تھے۔ یہ ہمارا تیار کرایا ہوا اعمالنامہ ہے جو تمہارے اوپر ٹھیک ٹھیک شہادت دے رہا ہے۔ جو کچھ بھی تم کرتے تھے اسے ہم لکھواتے جا رہے تھے ۔

إِذْ يَتَلَقَّى الْمُتَلَقِّيَانِ عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِيدٌ ﴿١٧﴾ مَّا يَلْفِظُ مِن قَوْلٍ إِلَّا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ ﴿١٨﴾ (ق : ۱۷ تا ۱۸)

(اور ہمارے براہ راست علم کے علاوہ) ”دو کاتب اُس کے دائیں اور بائیں بیٹھے ہر چیز ثبت کر رہے ہیں۔ کوئی لفظ اس کی زبان سے نہیں نکلتا کہ محفوظ کرنے کے لیے ایک حاضر باش نگراں موجود نہ ہو۔“

وَكُلُّ شَيْءٍ فَعَلُوهُ فِي الزُّبُرِ ﴿٥٢﴾ وَكُلُّ صَغِيرٍ وَكَبِيرٍ مُّسْتَطَرٌ ﴿٥٣﴾ (القمر: ۵۲ تا ۵۳)

جو کچھ انہوں نے کیا وہ سب دفتروں میں درج ہے اور ہر چھوٹی بڑی بات لکھی ہوئی موجود ہے۔

وَإِنَّ عَلَيْكُمْ لَحَافِظِينَ ﴿١٠﴾ كِرَامًا كَاتِبِينَ ﴿١١﴾ يَعْلَمُونَ مَا تَفْعَلُونَ ﴿١٢﴾ (الانفطار : ۱۰ تا ۱۲)

حالانکہ تم پر نگراں مقرر ہیں ، ایسے معزز کاتب جو تمہارے ہر فعل کو جانتے ہیں ۔

يَوْمَ تُبْلَى السَّرَائِرُ ﴿٩﴾ فَمَا لَهُ مِن قُوَّةٍ وَلَا نَاصِرٍ ﴿١٠﴾ (الطارق : ۹ تا ۱۰)

جس روز پوشیدہ اسرار کی جانچ پڑتال ہو گی اُس وقت انسان کے پاس نہ خود اپنا کوئی زور ہوگا اور نہ کوئی مدد کرنے والا ہو گا ۔

وَأَخْرَجَتِ الْأَرْضُ أَثْقَالَهَا ﴿٢﴾ وَقَالَ الْإِنسَانُ مَا لَهَا ﴿٣﴾ يَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ أَخْبَارَهَا ﴿٤﴾ بِأَنَّ رَبَّكَ أَوْحَىٰ لَهَا ﴿٥﴾ يَوْمَئِذٍ يَصْدُرُ النَّاسُ أَشْتَاتًا لِّيُرَوْا أَعْمَالَهُمْ ﴿٦﴾ (الزلزال : ۲ تا ۶)

اور زمین اپنے اندر کے سارے بوجھ نکال کر باہر ڈال دے گی ، اور انسان کہے گا کہ اس کو کیا ہو رہا ہے ؟ اُس روز وہ اپنے (اوپر گزرے ہوئے) حالات بیان کرے گی کیونکہ تیرے رب نے اسے ایسا کرنے کا حکم دیا ہوگا۔ اُس روز لوگ متفرق حالت میں پلٹیں گے تاکہ ان کے اعمال ان کو دکھائے جائیں؟

حاشیہ ۴۵

إِذْ تَبَرَّأَ الَّذِينَ اتُّبِعُوا مِنَ الَّذِينَ اتَّبَعُوا وَرَأَوُا الْعَذَابَ وَتَقَطَّعَتْ بِهِمُ الْأَسْبَابُ ﴿١٦٦﴾ وَقَالَ الَّذِينَ اتَّبَعُوا لَوْ أَنَّ لَنَا كَرَّةً فَنَتَبَرَّأَ مِنْهُمْ كَمَا تَبَرَّءُوا مِنَّا ۗ كَذَٰلِكَ يُرِيهِمُ اللَّهُ أَعْمَالَهُمْ حَسَرَاتٍ عَلَيْهِمْ وَمَا هُم بِخَارِجِينَ مِنَ النَّارِ ﴿١٦٧﴾ (البقرة: ۱۶۶ تا ۱۶۷)

اور جب وہ سزا دے گا اُس وقت کیفیت یہ ہوگی کہ وہی پیشوا اور رہنما جن کی دنیا میں پیروی کی گئی ہوگی اپنے پیروؤں سے لاتعلقی ظاہر کریں گے، مگر سزا پا کر رہیں گے اور ان کے سارے اسباب و وسائل کا سلسلہ کٹ جائے گا۔ اور وہ لوگ جو دنیا میں ان کے پیچھے رہ گئے تھے کہیں گے کہ کاش! ہم کو پھر ایک موقع دیا جاتا تو جس طرح آج یہ ہم سے بیزاری ظاہر کر رہے ہیں، ہم ان سے بیزار ہو کر دکھا دیتے یوں اللہ ان لوگوں کے وہ اعمال، جو یہ دنیا میں کر رہے ہیں، ان کے سامنے اس طرح لائے گا کہ یہ حسرتوں اور پشیمانیوں کے ساتھ ہاتھ ملتے رہ جائیں گے مگر آگ سے نکلنے کی کوئی راہ نہ پائیں گے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنفِقُوا مِمَّا رَزَقْنَاكُم مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِيَ يَوْمٌ لَّا بَيْعٌ فِيهِ وَلَا خُلَّةٌ وَلَا شَفَاعَةٌ ۗ وَالْكَافِرُونَ هُمُ الظَّالِمُونَ ﴿٢٥٤﴾ (البقرة: ۲۵۴)

اے ایمان والو، جو کچھ مال و متاع ہم نے تم کو بخشا ہے اس میں سے خرچ کرو. قبل اس کے کہ وہ دن آئے جس میں نہ خرید و فروخت ہوگی، نہ دوستی کام آئے گی اور نہ سفارش چلے گی۔ اور ظالم اصل میں وہی ہیں جو کفر کی روش اختیار کرتے ہیں؟

وَيَوْمَ نَحْشُرُهُمْ جَمِيعًا ثُمَّ نَقُولُ لِلَّذِينَ أَشْرَكُوا مَكَانَكُمْ أَنتُمْ وَشُرَكَاؤُكُمْ فَزَيَّلْنَا بَيْنَهُمْ ۖ وَقَالَ شُرَكَاؤُهُم مَّا كُنتُمْ إِيَّانَا تَعْبُدُونَ ﴿٢٨﴾ (يونس : ۲۸)

اور جس روز ہم ان سب کو ایک ساتھ (اپنی عدالت میں) اکٹھا کریں گے پھران لوگوں سے جنہوں نے شرک کیا ہے ، کہیں گے کہ ٹھہر جاؤ، تم بھی اور تمہارے بنائے ہوئے شریک بھی ، پھر ہم ان کے درمیان سے اجنبیت کا پردہ ہٹا دیں گے اور ان کے شریک کہیں گے کہ تم ہماری عبادت تو نہیں کرتے تھے ۔

وَبَرَزُوا لِلَّهِ جَمِيعًا فَقَالَ الضُّعَفَاءُ لِلَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا إِنَّا كُنَّا لَكُمْ تَبَعًا فَهَلْ أَنتُم مُّغْنُونَ عَنَّا مِن عَذَابِ اللَّهِ مِن شَيْءٍ ۖ قَالُوا لَوْ هَدَانَا اللَّهُ لَهَدَيْنَاكُمْ ۖ سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا مَا لَنَا مِن مَّحِيصٍ ﴿٢١﴾ (ابراهيم : ۲۱)

اور یہ لوگ جب اکٹھے اللہ کے سامنے بے نقاب ہوں گے تو اس وقت ان میں سے جو دنیا میں کمزور تھے وہ اُن لوگوں سے جو بڑے بنے ہوئے تھے، کہیں گئے دنیا میں تو ہم تمہارے تابع تھے، اب اللہ کے عذاب سے ہم کو بچانے کے لیے بھی کچھ کر سکتے ہو ؟“ وہ جواب میں گئے ”اگر اللہ نے ہمیں ہدایت کی کوئی راہ دکھائی ہوتی تو ہم تمہیں بھی ضرور دکھا دیتے۔ اب تو یکساں ہے، خواہ ہم جزع فزع کریں یا صبر، بہر حال ہمارے بچنے کی کوئی امید نہیں ۔

قُل لِّعِبَادِيَ الَّذِينَ آمَنُوا يُقِيمُوا الصَّلَاةَ وَيُنفِقُوا مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ سِرًّا وَعَلَانِيَةً مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِيَ يَوْمٌ لَّا بَيْعٌ فِيهِ وَلَا خِلَالٌ ﴿٣١﴾ (ابراهیم : ۳۱)

اے نبی ! میرے جو بندے ایمان لائے ہیں اُن سے کہہ دو کہ نماز قائم کریں اور جو کچھ ہم نے اُن کو دیا ہے اس میں سے کھلے اور چھپے (راہِ خیر میں) خرچ کریں قبل اس کے کہ وہ دن آئے جس میں نہ خرید و فروخت ہوگی اور نہ دوست نوازی۔

وَإِذَا رَأَى الَّذِينَ أَشْرَكُوا شُرَكَاءَهُمْ قَالُوا رَبَّنَا هَٰؤُلَاءِ شُرَكَاؤُنَا الَّذِينَ كُنَّا نَدْعُو مِن دُونِكَ ۖ فَأَلْقَوْا إِلَيْهِمُ الْقَوْلَ إِنَّكُمْ لَكَاذِبُونَ ﴿٨٦﴾ (النحل : ۸۶)

اور جب وہ لوگ جنہوں نے دنیا میں شرک کیا تھا اپنے ٹھہرائے ہوئے شریکوں کو دیکھیں گے تو کہیں گے اے پروردگار یہی ہیں ہمارے وہ شریک جنہیں ہم تجھے چھوڑ کر پکارا کرتے تھے اس پر ان کے وہ معبود کہیں گے ”تم جھوٹے ہو۔"

كَلَّا سَيَكْفُرُونَ بِعِبَادَتِهِمْ وَيَكُونُونَ عَلَيْهِمْ ضِدًّا ﴿٨٢﴾ (مريم : ۸۲)

ہرگز نہیں (کوئی ان کا پشتیبان نہ ہو گا ) سب ان کی عبادت کا انکار کریں گے اور اُلٹے ان کے مخالف بن جائیں گے ۔

وَيَوْمَ يُنَادِيهِمْ فَيَقُولُ أَيْنَ شُرَكَائِيَ الَّذِينَ كُنتُمْ تَزْعُمُونَ ﴿٦٢﴾ قَالَ الَّذِينَ حَقَّ عَلَيْهِمُ الْقَوْلُ رَبَّنَا هَٰؤُلَاءِ الَّذِينَ أَغْوَيْنَا أَغْوَيْنَاهُمْ كَمَا غَوَيْنَا ۖ تَبَرَّأْنَا إِلَيْكَ ۖ مَا كَانُوا إِيَّانَا يَعْبُدُونَ ﴿٦٣﴾ وَقِيلَ ادْعُوا شُرَكَاءَكُمْ فَدَعَوْهُمْ فَلَمْ يَسْتَجِيبُوا لَهُمْ وَرَأَوُا الْعَذَابَ ۚ لَوْ أَنَّهُمْ كَانُوا يَهْتَدُونَ ﴿٦٤﴾ وَيَوْمَ يُنَادِيهِمْ فَيَقُولُ مَاذَا أَجَبْتُمُ الْمُرْسَلِينَ ﴿٦٥﴾ فَعَمِيَتْ عَلَيْهِمُ الْأَنبَاءُ يَوْمَئِذٍ فَهُمْ لَا يَتَسَاءَلُونَ ﴿٦٦﴾ فَأَمَّا مَن تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَعَسَىٰ أَن يَكُونَ مِنَ الْمُفْلِحِينَ ﴿٦٧﴾ (القصص: ۶۲ تا ۶۷)

اور (فراموش نہ کریں لوگ) اُس دن کو جب کہ وہ ان کو پکارے گا اور پوچھے گا ”کہاں ہیں میرے وہ شریک جن کا تم گمان رکھتے تھے ؟“ یہ قول جن پر چسپاں ہو گا وہ کہیں گے ”اے ہمارے رب ، بے شک یہی لوگ ہیں جن کو ہم نے گمراہ کیا تھا۔ انہیں ہم نے اسی طرح گمراہ کیا جیسے ہم خود گمراہ ہوئے۔ ہم آپ کے سامنے برأت کا اظہار کرتے ہیں۔ یہ ہماری تو بندگی نہیں کرتے تھے۔“ پھر ان سے کہا جائے گا کہ پکارو اب اپنے ٹھہرائے ہوئے شریکوں کو یہ انہیں پکاریں گے مگر وہ ان کو کوئی جواب نہ دیں گے۔ اور یہ لوگ عذاب دیکھ لیں گے۔ کاش یہ ہدایت اختیار کرنے والے ہوتے ۔ اور (فراموش نہ کریں یہ لوگ) وہ دن جب کہ وہ ان کو پکارے گا اور پوچھے گا کہ وہ جو رسول بھیجے گئے تھے انہیں تم نے کیا جواب دیا تھا ؟“ اُس وقت اُن کو کوئی جواب نہ سوجھے گا اور نہ آپس ہی میں ایک دوسرے سے پوچھہ سکیں گے۔ البتہ جس شخص نے آج توبہ کرلی اور ایمان لے آیا اور نیک عمل کیے وہی یہ توقع کر سکتا ہے کہ وہاں فلاح پانے والوں میں سے ہوگا۔

وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ ۚ وَإِن تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلَىٰ حِمْلِهَا لَا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَىٰ ۗ (فاطر: ۱۸)

اور کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا۔ اور اگر کوئی لدا ہوا نفس اپنا بوجھ اٹھانے کے لیے کسی کو بلائے گا تو اس کے بار کا ایک ادنی حصہ بھی بٹانے کے لیے کوئی نہ آئے گا چاہے وہ قریب ترین رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو۔"

وَأَنذِرْهُمْ يَوْمَ الْآزِفَةِ إِذِ الْقُلُوبُ لَدَى الْحَنَاجِرِ كَاظِمِينَ ۚ مَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ حَمِيمٍ وَلَا شَفِيعٍ يُطَاعُ ﴿١٨﴾ (غافر : ۱۸)

اے نبی ! ڈرا دو ان لوگوں کو اُس دن سے جو قریب آلگا ہے، جب کلیجے منہ کو آ رہے ہوں گے اور لوگ چپ چاپ غم کے گھونٹ پی رہے ہوں گے، ظالموں کا نہ کوئی مشفق دوست ہوگا اور نہ کوئی شفیع جس کی بات مانی جائے۔

وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّن يَدْعُو مِن دُونِ اللَّهِ مَن لَّا يَسْتَجِيبُ لَهُ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَهُمْ عَن دُعَائِهِمْ غَافِلُونَ ﴿٥﴾ وَإِذَا حُشِرَ النَّاسُ كَانُوا لَهُمْ أَعْدَاءً وَكَانُوا بِعِبَادَتِهِمْ كَافِرِينَ ﴿٦﴾ (الاحقاف : ۵ تا ۶)

آخر اس شخص سے زیادہ بہکا ہوا انسان اور کون ہوگا جو اللہ کو چھوڑ کر ان کو پکارے جو قیامت تک اسے جواب نہیں دے سکتے ۔ بلکہ وہ اس سے بھی بے خبر ہیں کہ پکارنے والے ان کو پکار رہے ہیں اور جب تمام انسان جمع کیے جائیں گے اُس وقت وہ اپنے پکارنے والوں کے دشمن اور اُن کی عبادت کے منکر ہوں گے ۔

وَلَا يَسْأَلُ حَمِيمٌ حَمِيمًا ﴿١٠﴾ يُبَصَّرُونَهُمْ ۚ يَوَدُّ الْمُجْرِمُ لَوْ يَفْتَدِي مِنْ عَذَابِ يَوْمِئِذٍ بِبَنِيهِ ﴿١١﴾ وَصَاحِبَتِهِ وَأَخِيهِ ﴿١٢﴾ وَفَصِيلَتِهِ الَّتِي تُؤْوِيهِ ﴿١٣﴾ وَمَن فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا ثُمَّ يُنجِيهِ ﴿١٤﴾ (المعارج : ۱۰ تا ۱۴)

اور کوئی جگری دوست اپنے جگری دوست کو نہ پوچھے گا حالانکہ وہ ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہوں گے۔ مجرم چاہے گا کہ اُس دن کے عذاب سے بچنے کے لیے اپنی اولاد کو اپنی بیوی کو اپنے بھائی کو، اپنے قریب ترین خاندان کو جو اسے پناہ دینے والا تھا اور روئے زمین کے سب لوگوں کو فدیہ میں دے دے، اور یہ تدبیر اسے نجات دلا دے ۔

يَوْمَ يَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ أَخِيهِ ﴿٣٤﴾ وَأُمِّهِ وَأَبِيهِ ﴿٣٥﴾ وَصَاحِبَتِهِ وَبَنِيهِ ﴿٣٦﴾ لِكُلِّ امْرِئٍ مِّنْهُمْ يَوْمَئِذٍ شَأْنٌ يُغْنِيهِ ﴿٣٧﴾ (عبس : ۳۴ تا ۳۷)

اُس روز آدمی اپنے بھائی اور اپنی ماں اور اپنے باپ اور اپنی بیوی اور اپنی اولاد سے بھاگے گا۔ ان میں سے ہر شخص پر اُس دن ایسا وقت آپڑے گا کہ اسے اپنے سوا کسی کا ہوش نہ ہوگا ۔

يَوْمَ لَا تَمْلِكُ نَفْسٌ لِّنَفْسٍ شَيْئًا ۖ وَالْأَمْرُ يَوْمَئِذٍ لِّلَّهِ ﴿١٩﴾ (الانفطار : ۱۹)

وہ دن جب کسی شخص کے لیے کچھ کرنا کسی کے بس میں نہ ہوگا۔ فیصلہ اس دن بالکل اللہ کے اختیار میں ہوگا ۔

حاشیہ ۴۶

أُولَٰئِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ وَلِقَائِهِ فَحَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فَلَا نُقِيمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَزْنًا ﴿١٠٥﴾ ذَٰلِكَ جَزَاؤُهُمْ جَهَنَّمُ بِمَا كَفَرُوا وَاتَّخَذُوا آيَاتِي وَرُسُلِي هُزُوًا ﴿١٠٦﴾ (الكهف : ۱۰۵ تا ۱۰۶)

یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کی آیات اور اُس کے حضور پیشی کو ماننے سے انکار کر دیا۔ اس لیے اِن کے سارے اعمال ضائع ہو گئے اور ہم قیامت کے روز ان کو کوئی وزن نہ دیں گے۔ اُن کی سزا جہنم ہے اُس کفر کے بدلے جو انہوں نے کیا اور اس مذاق کے بدلے میں جو وہ میری آیات اور میرے رسولوں سے کرتے تھے ۔

وَيَوْمَ يُنَادِيهِمْ فَيَقُولُ مَاذَا أَجَبْتُمُ الْمُرْسَلِينَ ﴿٦٥﴾ (القصص : ۶۵)

اور (فراموش نہ کریں یہ لوگ) وہ دن جب کہ وہ ان کو پکارے گا اور پوچھے گا ”جو رسول تمہاری طرف بھیجے گئے تھے ان کو تم نے کیا جواب دیا تھا ؟"

وَسِيقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَىٰ جَهَنَّمَ زُمَرًا ۖ حَتَّىٰ إِذَا جَاءُوهَا فُتِحَتْ أَبْوَابُهَا وَقَالَ لَهُمْ خَزَنَتُهَا أَلَمْ يَأْتِكُمْ رُسُلٌ مِّنكُمْ يَتْلُونَ عَلَيْكُمْ آيَاتِ رَبِّكُمْ وَيُنذِرُونَكُمْ لِقَاءَ يَوْمِكُمْ هَٰذَا ۚ قَالُوا بَلَىٰ وَلَٰكِن حَقَّتْ كَلِمَةُ الْعَذَابِ عَلَى الْكَافِرِينَ ﴿٧١﴾ (الزمر: ۷۱)

اور وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا تھا جہنم کی طرف گروہ در گروہ ہانکے جائیں گے۔ یہاں تک کہ جب وہاں پہنچیں گے تو اُس کے دروازے کھول دیے جائیں گے اور اُس کے کارندے ان سے کہیں گے کیا تمہارے پاس تمہارے اپنے لوگوں میں سے کوئی رسول نہیں آئے تھے جنہوں نے تم کو اپنے رب کی آیات سنائی ہوں اور تمہیں اس بات سے ڈرایا ہو کہ ایک وقت تمہیں یہ دن بھی دیکھنا ہو گا ؟ وہ جواب دیں گے " ہاں، آئے تھے مگر عذاب کا فیصلہ کافروں پر چپک گیا ۔

كُلَّمَا أُلْقِيَ فِيهَا فَوْجٌ سَأَلَهُمْ خَزَنَتُهَا أَلَمْ يَأْتِكُمْ نَذِيرٌ ﴿٨﴾ قَالُوا بَلَىٰ قَدْ جَاءَنَا نَذِيرٌ فَكَذَّبْنَا وَقُلْنَا مَا نَزَّلَ اللَّهُ مِن شَيْءٍ إِنْ أَنتُمْ إِلَّا فِي ضَلَالٍ كَبِيرٍ ﴿٩﴾ وَقَالُوا لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ أَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِي أَصْحَابِ السَّعِيرِ ﴿١٠﴾ فَاعْتَرَفُوا بِذَنبِهِمْ فَسُحْقًا لِّأَصْحَابِ السَّعِيرِ ﴿١١﴾ (الملك : ۸ تا ۱۱)

جب کبھی جہنم میں کوئی گروہ ڈالا جائے گا اُس کے کارندے ان سے پوچھیں گے ”کیا تمہارے پاس کوئی خبردار کرنے والا نہیں آیا تھا ؟“ وہ جواب دیں گے ”ہاں خبر دار کرنے والا ہمارے پاس آیا تھا مگر ہم نے اسے جھٹلا دیا اور کہا اللہ نے کچھ بھی نازل نہیں کیا ہے تم بڑی گمراہی میں پڑے ہوئے ہو۔“ اور وہ کہیں گے ”کاش! ہم سنتے یا سمجھتے تو آج اس بھڑکتی ہوئی آگ کے اندر جھونکے جانے والوں میں شامل نہ ہوتے ۔“ اس طرح اپنے قصور کا اعتراف وہ خود ہی کرلیں گے۔ لعنت ہے ان دوزخیوں پر ۔

فَأَمَّا مَن طَغَىٰ ﴿٣٧﴾ وَآثَرَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا ﴿٣٨﴾ فَإِنَّ الْجَحِيمَ هِيَ الْمَأْوَىٰ ﴿٣٩﴾ وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَىٰ ﴿٤٠﴾ فَإِنَّ الْجَنَّةَ هِيَ الْمَأْوَىٰ ﴿٤١﴾ (النازعات : ۳۷ تا ۴۱)

تو جس نے سرکشی کی تھی اور دنیا کی زندگی کو ترجیح دی تھی، دوزخ ہی اُس کا ٹھکانا ہوگی اور جس نے اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے کا خوف کیا تھا اور نفس کو بری خواہشات سے باز رکھا تھا، جنت اس کا ٹھکانا ہوگی۔

حاشیہ ۴۷

وَقَالُوا لَن تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّامًا مَّعْدُودَةً ۚ قُلْ أَتَّخَذْتُمْ عِندَ اللَّهِ عَهْدًا فَلَن يُخْلِفَ اللَّهُ عَهْدَهُ أَمْ تَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ ﴿٨٠﴾ بَلَىٰ مَن كَسَبَ سَيِّئَةً وَأَحَاطَتْ بِهِ خَطِيئَتُهُ فَأُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ﴿٨١﴾ (البقرة: ۸۰ تا ۸۱)

اور وہ (یہودی) کہتے ہیں کہ دوزخ کی آگ ہمیں ہر گز نہ چھوئے گی ، الا یہ کہ چند روز کی سزا مل جائے تو مل جائے ۔ ان سے پوچھو، کیا تم نے اللہ سے عہد لے لیا ہے جس کی خلاف ورزی وہ نہیں کر سکتا ؟ یا بات یہ ہے کہ تم اللہ کے ذمے ڈال کر ایسی باتیں کہہ دیتے ہو جن کے متعلق تمہیں علم نہیں ہے کہ اس نے ان کا ذمہ لیا ہے ؟ آخر تمہیں دوزخ کی آگ کیوں نہ چھوئے گی؟ جو بھی بدی کمائے گا اور اپنی خطا کاری کے چکر میں پڑا رہے گا، ایسے سب لوگ دوزخی ہیں اور دوزخ ہی میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔

وَاتَّقُوا يَوْمًا لَّا تَجْزِي نَفْسٌ عَن نَّفْسٍ شَيْئًا وَلَا يُقْبَلُ مِنْهَا عَدْلٌ وَلَا تَنفَعُهَا شَفَاعَةٌ وَلَا هُمْ يُنصَرُونَ ﴿١٢٣﴾ (البقرة : ۱۲۳)

اور (اے بنی اسرائیل) ڈرو اس دن سے، جب کوئی کسی کے کام نہ آئے گا ، نہ کسی سے فدیہ قبول کیا جائے گا ، نہ کوئی سفارش ہی آدمی کو فائدہ دے گی اور نہ مجرموں کو کہیں سے کوئی مدد پہنچ سکے گی ۔

وَقَالَتِ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَىٰ نَحْنُ أَبْنَاءُ اللَّهِ وَأَحِبَّاؤُهُ ۚ قُلْ فَلِمَ يُعَذِّبُكُم بِذُنُوبِكُم ۖ بَلْ أَنتُم بَشَرٌ مِّمَّنْ خَلَقَ ۚ يَغْفِرُ لِمَن يَشَاءُ وَيُعَذِّبُ مَن يَشَاءُ ۗ وَلِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا ۖ وَإِلَيْهِ الْمَصِيرُ ﴿١٨﴾ (المائدة : ۱۸)

یہودا اور نصاریٰ کہتے ہیں کہ ہم اللہ کے بیٹے اور اُس کے چہیتے ہیں۔ ان سے پوچھو، پھر وہ تمہارے گناہوں پر تمہیں سزا کیوں دیتا ہے ؟ در حقیقت تم بھی ویسے انسان ہو جیسے خدا نے اور پیدا کیے ہیں۔ وہ جسے چاہتا ہے معاف کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے سزا دیتا ہے۔ زمین اور آسمان اور ان کی ساری موجودات اس کی ملک ہیں اور اسی کی طرف سب کو جانا ہے۔

يَسْتَخْفُونَ مِنَ النَّاسِ وَلَا يَسْتَخْفُونَ مِنَ اللَّهِ وَهُوَ مَعَهُمْ إِذْ يُبَيِّتُونَ مَا لَا يَرْضَىٰ مِنَ الْقَوْلِ ۚ وَكَانَ اللَّهُ بِمَا يَعْمَلُونَ مُحِيطًا ﴿١٠٨﴾ هَا أَنتُمْ هَٰؤُلَاءِ جَادَلْتُمْ عَنْهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فَمَن يُجَادِلُ اللَّهَ عَنْهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَم مَّن يَكُونُ عَلَيْهِمْ وَكِيلًا ﴿١٠٩﴾ (النساء : ۱۰۸ تا ۱۰۹)

یہ لوگ انسانوں سے اپنی حرکات چھپا سکتے ہیں مگر خدا سے نہیں چھپا سکتے۔ وہ تو اس وقت بھی ان کے پاس ہوتا ہے جب وہ راتوں کو چھپ کر اُس کی مرضی کے خلاف مشورے کرتے ہیں۔ ان کے سارے اعمال پر اللہ محیط ہے ۔ ہاں تم لوگوں نے ان مجرموں کی طرف سے دنیا کی زندگی میں تو جھگڑا کر لیا۔ مگر قیامت کے روز ان کے لیے کون جھگڑا کرے گا یا کون ان کا وکیل ہوگا ؟

وَأَنذِرْ بِهِ الَّذِينَ يَخَافُونَ أَن يُحْشَرُوا إِلَىٰ رَبِّهِمْ ۙ لَيْسَ لَهُم مِّن دُونِهِ وَلِيٌّ وَلَا شَفِيعٌ لَّعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ ﴿٥١﴾ (الانعام : ۵۱)

اور اے نبی ! تم اس علم (وحی) کے ذریعہ سے اُن لوگوں کو نصیحت کرو جو اس بات کا خوف رکھتے ہیں کہ اپنے رب کے سامنے کبھی اس حال میں پیش کیے جائیں گے کہ اُس کے سوا وہاں کوئی ایسا ذی اقتدار نہ ہو گا جو ان کا حامی و مدد گار ہو، یا ان کی سفارش کی ہے ۔ شاید کہ اس نصیحت سے متنبہ ہوکر وہ خدا ترسی کی روش اختیار کرلیں ۔

مَن ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِندَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ ۚ (البقرة : ۲۵۵)

کون ہے جو اس کے حضور اس کی اجازت کے بغیر کسی کی سفارش کر سکے ؟

مَا مِن شَفِيعٍ إِلَّا مِن بَعْدِ إِذْنِهِ ۚ (يونس : ۳)

کوئی شفاعت (سفارش) کرنے والا نہیں ہے الا یہ کہ اس کی اجازت کے بعد شفاعت کرے

يَوْمَئِذٍ لَّا تَنفَعُ الشَّفَاعَةُ إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمَٰنُ وَرَضِيَ لَهُ قَوْلًا ﴿١٠٩﴾ (طه : ۱۰۹)

اس روز شفاعت کارگر نہ ہوگی، الا یہ کہ رحمان کسی کو اس کی اجازت دے دے اور اس کی بات کو سننا پسند کرے۔

وَكَم مِّن مَّلَكٍ فِي السَّمَاوَاتِ لَا تُغْنِي شَفَاعَتُهُمْ شَيْئًا إِلَّا مِن بَعْدِ أَن يَأْذَنَ اللَّهُ لِمَن يَشَاءُ وَيَرْضَىٰ ﴿٢٦﴾ (النجم : ۲۶)

آسمانوں میں کتنے ہی فرشتے موجود ہیں ، ان کی شفاعت کچھ بھی کام نہیں آسکتی جب تک کہ اللہ کسی ایسے شخص کے حق میں اس کی اجازت نہ دے جس کے لیے وہ کوئی عرضداشت سننا چاہے اور اس کو پسند کرے ۔

داعی حق کی خصوصیات

مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی

یہ انٹرویو عالمی تحریکات اسلامی کے فکری قائد اور بانی جماعت اسلامی مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی سے مسلم اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن امریکہ و کینیڈا کے نمائندہ جناب انیس احمد نے ۸ اپریل ۱۹۹۹ء کو لیا۔ یہ انٹرویو دراصل ایم ۔ ایس ۔ اے کے سالانہ اجتماع کے لیے پیغام کے طور پر فلم بند ریکارڈ کیا گیا جو کہ ایک ہی سوال اور اس کے جواب پر مشتمل ہے ۔

نمائندہ ایم۔ ایس۔ اے :

مولانا! سب سے پہلے میں شمالی امریکہ اور کینیڈا کے مسلمانوں اور مسلم اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کی جانب سے آپ کا تہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے ہماری دعوت کو قبول فرمایا اور ناسازیِ طبع کے باوجود ہمارے سالانہ اجتماع کے لیے خصوصی انٹرویو دینا پسند فرمایا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی نہایت مہربانی اور اس کا فضل ہے کہ شمالی امریکہ میں تحریک اسلامی کی فکر آپ کی اور اخوان المسلمون کے رہنماؤں کی تحریروں کی بدولت تیزی سے پھیل رہی ہے اور اسلامی انقلاب کا تصور ذہنوں میں جڑ پکڑ رہا ہے ۔ آج امریکہ میں بے شمار انسان آپ کی ایک جھلک دیکھنے اور آپ کی طرف سے رہنمائی کے چند کلمات سننے کے منتظر ہیں۔ انہی کی خواہش پر ہم آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں۔

سوال :

محترم مولانا ! قرآن کریم، رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو داعی الی اللہ قرار دیتا ہے۔ آپ قرآن اور سیرت پاک کی روشنی میں ایک داعی حق کی کون سی اہم خصوصیات بیان فرمائیں گے ؟

جواب :-

امریکہ اور کینیڈا میں جو اللہ کے بندے تحریک اسلامی کے لیے کام کر رہے ہیں اُن سب کو میری طرف سے سلام پہنچا دیجیے۔ میں زیادہ دیر تک بات نہیں کر سکتا ، اس لیے مختصر طور پر آپ کے سوال کا جواب دیتا ہوں۔

قرآن کریم میں ایک آیت ہے جس میں ایک داعی کی اہم خصوصیات کو اس طرح بیان فرمایا گیا ہے :-

وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّن دَعَا إِلَى اللَّهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ

یعنی اس شخص سے اچھی بات اور کس کی ہوگی جس نے اللہ کی طرف بلایا اور نیک عمل کیا اور کہا کہ میں مسلمان ہوں۔

اس ارشاد کی پوری اہمیت سمجھنے کے لیے یہ چیز نگاہ میں رکھنی ضروری ہے کہ یہ بات مکہ معظمہ کے حالات میں کہی گئی ۔ یہ وہ دور تھا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے پیروؤں پر شدید مظالم ڈھائے جا رہے تھے۔ ایسے عالم میں یہ کہنا اور اس بات کا اعلان کرنا کوئی آسان کام نہ تھا کہ میں مسلمان ہوں۔ ایسی بات کہنا گویا اپنے اوپر درندوں کو حملہ آور ہونے کی دعوت دینا تھا۔ ان حالات میں پہلی بات یہ فرمائی گئی کہ بہترین قول اُس شخص کا ہے جو اللہ کی طرف بلائے۔ دوسرے الفاظ میں ایک داعی حق کی خصوصیات یہ ہے کہ اس کی دعوت اللہ کی طرف ہو، کوئی دنیاوی غرض اس کے سامنے نہ ہو، نہ وطنی، نہ قومی، نہ خاندانی اور نہ مادی۔ کوئی دوسرا مقصد اس کے پیش نظر نہ ہونا چاہیے۔ کوئی شخص خالص اللہ کی طرف دعوت دے رہا ہو تو قرآن مجید کی تعلیم کے مطابق ایسے داعی کی اولین خصوصیات یہ معلوم ہوئی کہ اسے اللہ کی توحید کی طرف دعوت دینی چاہیے۔ اس بات کی دعوت دینی چاہیے کہ خدا کے سوا کسی کی بندگی کسی کی عبادت اور کسی کی پرستش نہ کی جائے۔ خدا کے سوا کسی کا خوف نہ ہو، خدا کے سوا کسی سے کوئی طمع نہ ہو، صرف خدا ہی کے احکام اور اس کے فرامین کی اطاعت اس کے پیش نظر ہو۔ اسی کے قانون کی پیروی مطلوب ہو۔ آدمی دنیا میں جو کام بھی کرے یہ سمجھتے ہوئے کرے کہ میں کسی کا بندہ ہوں اور کس کے سامنے جا کر مجھے جوابدہی کرنی ہے۔ انسان کی تمام کوششوں اور ساری جدوجہد کا مرکز و محور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق اپنی اور اجتماعی زندگی کی تعمیر اور اس کے ذریعے رضائے الٰہی کا حصول ہونا چاہیے۔

دوسری بات یہ فرمائی گئی ہے کہ داعی حق عمل صالح کی خوبی سے آراستہ ہو۔ یعنی نیک عمل کرے۔ اس فرمان پر ذرا بھی غور کیا جائے تو پورا مفہوم واضح ہو جائے گا۔ یہ کہ دعوت دینے والے کا اگر اپنا عمل درست نہ ہو تو پھر اُس کی دعوت کا کچھ اثر نہیں ہوتا۔ ایک انسان جس چیز کی طرف دعوت دے اُسے اُس کا عملی مجسمہ ہونا چاہیے۔ اس کی اپنی زندگی میں خدا کی نافرمانی کا کوئی شائبہ تک نہ پایا جائے، اس کے اخلاق ایسے ہونے چاہئیں کہ کوئی شخص اس کے دامن پر ایک دھبہ تک نہ دکھا سکے۔ اس کے گرد و پیش کا ماحول، اس کا معاشرہ، اس کے دوست اس کے عزیز و اقارب سب یہ جانتے ہیں کہ ہمارے در میان یہ ایک نہایت بلند اور پاکیزہ کردار آدمی ہے۔

یہ تعلیم ہمیں قرآن پاک کے ساتھ سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی قدم قدم پر ملتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اپنی حیاتِ طیبہ شہادت دیتی ہے کہ جب وہ خدا کی طرف سے دعوتِ حق دینے کے لیے کھڑے ہوئے تو وہ معاشرہ جس میں آپ چالیس سال سے موجود تھے آپ کے عظیم الشان کردار کا شاہد تھا۔ اس معاشرے میں کوئی ایک فرد بھی ایسا نہ تھا جو آپ کی بلندی اخلاق کا قائل نہ ہو اور آپ کے ظاہر و باطن کی زندگی کا معترف نہ ہو۔ جو آپ کے جس قدر قریب تھا وہ اتنا ہی آپ کا زیادہ معتقد تھا۔ جن افراد سے آپؐ کی زندگی کا کوئی پہلو چھپ نہیں سکتا تھا انہوں نے سب سے پہلے آپ کی نبوت کا اقرار کیا۔

حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا

حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پندرہ سال سے آپ کی زوجیت میں تھیں اور وہ کوئی کمسن عورت نہیں تھیں بلکہ عمر میں اُن سے بڑی تھیں جس وقت آپ نے نبوت کا دعوی کیا اس وقت اُن کی عمر پچپن سال تھی۔ ایک ایسی پختہ سن رسیدہ اور دانش مند خاتون سے جس نے پندرہ سال سے اپنے شوہر کی زندگی کو قریب سے دیکھا ہو، شوہر کا کوئی عیب اس سے چھپ نہیں سکتا۔ دنیاوی اغراض کے لیے ایک بیوی اپنے شوہر کے ناجائز کاموں میں بھی شریک ہو سکتی ہے لیکن اس پر ایمان کسی صورت نہیں لاسکتی ۔ عقیدہ بھی وہ یہ ماننے کے لیے کبھی تیار نہیں ہوسکتی کہ یہ شخص خدا کا رسول ہو سکتا ہے یا اسے ہونا چاہیے۔ لیکن حضرت خدیجہؓ آپ کی اس حد تک معتقد تھیں کہ جب آپ نے نبوت کی بشارت کا ماجرا بیان فرمایا تو انہوں نے ایک لمحے کا تامل کیے بغیر اسے تسلیم کر لیا۔

حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ

قریب سے دیکھنے والے دوسرے شخص زید بن حارثہ تھے جو غلام کی حیثیت سے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے گھرانے میں آئے تھے۔ جب آئے تھے تو پندرہ برس عمر تھی اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا آغاز ہوا تو حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عمر تیس سال تھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پورے پندرہ سال انہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں رہ کر ہر طرح سے اور ہر پہلو سے آپؐ کی زندگی کو دیکھنے اور مشاہدہ کرنے کا موقع ملا۔ اور ان کی شہادت ایک خاص صورت واقعہ میں سامنے آتی ہے۔ واقعہ یہ تھا کہ وہ بچپن میں والدین سے بچھڑ گئے تھے اور خدا کی قدرت نے انہیں حضور تک پہنچا دیا۔ جب ان کے والدین اور ان کے چچا کو معلوم ہوا کہ ہمارا بیٹا فلاں جگہ غلامی کی زندگی بسر کر رہا ہے تو وہ مکہ معظمہ آئے۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت سے پہلے کا واقعہ ہے۔ انہوں نے آکر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ :-

آپ کا بڑا احسان ہوگا، اگر آپ ہمارے اس بیٹے کو آزاد فرما دیں۔

آپ نے فرمایا کہ :

میں لڑکے (زید) کو بلا لیتا ہوں ، وہ آپ کے ساتھ جانا چاہے تو میں آپ کے ساتھ روانہ کر دوں گا ، اور اگر وہ میرے ساتھ رہنا چاہے تو میں ایسا آدمی نہیں ہوں کہ جو میرے ساتھ رہنا چاہے تو اسے زبردستی اپنے سے علیحدہ کردوں۔

آپ کی اِس بات کے جواب میں، انہوں نے کہا کہ آپ نے بہت انصاف کی بات کہی ہے، آپؐ زید کو طلب فرمایے۔ جب حضرت زیدؓ ان کے سامنے آئے تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : ”ان لوگوں کو پہچانتے ہو ؟“

حضرت زید نے کہا : جی ہاں ! یہ میرے والد اور چچا ہیں"

آپ نے فرمایا کہ :

یہ تمہیں گھر واپس لے جانے کے لیے آئے ہیں ، تم جانا چا ہو تو بڑی خوشی سے ان کے ساتھ جا سکتے ہو ۔

ان کے والد اور چچا نے بھی یہی کہا کہ ہم تمہیں لے جانا چاہتے ہیں ۔

حضرت زیدؓ بن حارثہ نے کہا کہ :

میں نے ان میں (حضور کی طرف اشارہ) ایسی خوبیاں دیکھی ہیں کہ جن کے انہیں چھوڑ کر میں اپنے باپ اور چچا اور رشتہ داروں کے پاس جانا نہیں چاہتا ۔

یہ تھی آپ کے اخلاق کے بارے میں آپ کے خادم کی گواہی ۔ ایک خادم احسان مند تو ہو سکتا ہے لیکن اتنا متاثر اور گرویدہ نہیں ہو سکتا کہ اپنے مخدوم پر ایمان لے آئے ۔ ایمان لانے کے لیے ضروری ہے کہ اس میں کردار کی ایسی بلندی اور اخلاق کی ایسی پاکیزگی دیکھی ہو کہ جس کے بعد اسے یہ ماننے میں ذرا تامل نہ ہو کہ میرا مخدوم نبی ہے یہ بات بھی پیش نظر رکھیے کہ حضرت زیدؓ بن حارثہ کسی معمولی قابلیت کے آدمی نہیں تھے۔ مدینہ طیبہ میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت قائم ہوئی تو انہیں بکثرت فوجی مہمات میں لشکر مجاہدین کا سالار بنایا گیا ۔ یہ گواہی ایسی قابلیت کے انسان کی گواہی تھی۔

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ

پھر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے جنہیں نبوت سے پہلے چالیس سال تک ایک گہرے دوست کی حیثیت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھنے کا موقع ملا۔ ان کی نشست و برخاست آپ کے ساتھ تھی اور مکہ معظمہ میں سب سے زیادہ جن دو آدمیوں سے دوستی تھی ان میں سے ایک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تھے اور دوسرے حضرت ابو بکر صدیق ۔ ایک دوست اپنے دوست کو پسند کر سکتا ہے ، اس سے اپنے دل کی بات کہہ سکتا ہے لیکن کبھی اتنا معتقد تو نہیں ہو سکتا کہ اس کو نبی مان لے۔ حضرت صدیقؓ کا بِلا تامل آپ کو نبی مان لینا ظاہر کرتا ہے کہ چالیس سال کی ایک طویل مدت کے دوران میں انہوں نے آپ کو اخلاق کی پاکیزگی اور کردار کی بلندی کا مجسم نمونہ پایا جب ہی تو انہوں نے تسلیم کیا۔ اور اس بات کا اعلان کیا کہ اتنے بلند کردار کا آدمی یقینا نبی ہو سکتا ہے اور اس کو نبی ہونا چاہیے۔

حضرت علی کرم اللہ وجہہ

حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا نام میں نے پہلے اس لیے نہیں لیا کہ اس وقت وہ دس سال کے تھے ، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر ہی میں پرورش پائی تھی لیکن دس سال کا بچہ بھی جس کے گھر میں ہو جس کے پاس رہتا ہو اس کے ہر پہلو سے واقف ہوتا ہے خصوصاً اتنا ذہین انسان جیسا کہ حضرت علی اپنی خصوصیات کی بنا پر آگے چل کر ثابت ہوئے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ بچپن میں بھی یقینا اتنی ذہانت رکھتے تھے کہ جس کی بنا پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ ایک ذہین بچے کا اس بات کو مان لینا اس کے بغیر ممکن نہیں ہو سکتا تھا کہ وہ آپ کی شفقت آپ کے انتہائی پاکیزہ اور بلند اخلاق و کردار سے واقف تھا۔

اس لیے عمل صالح کے سلسلہ میں ان اعلی مثالوں سے معلوم ہوا کہ انسان جس چیز کو پیش کر رہا ہو اس کی زندگی ٹھیک ٹھیک اس دعوت کے مطابق بسر ہو رہی ہو ، وہ اتنے پاکیزہ اخلاق اور بلند کردار کا مالک ہو کہ جب وہ اللہ کے راستے کی طرف بلانے کے لیے اٹھے تو اس کی بات میں وزن ہو اور اس کے قول میں اثر ، اس کا عمل شہادت دے اور لوگ تسلیم کریں کہ یہ واقعی اپنے قول میں سچا ہے قطع نظر اس سے کہ لوگ اس کو مانیں یا نہ مانیں۔ لیکن یہ تو ان کو ماننا پڑے گا کہ یہ آدمی اپنے قول میں سچا ہے، جو کچھ کہہ رہا ہے وہ اس بنا پر کہہ رہا ہے کہ وہ اس نظریے ، اس اصول اور اس دعوت کا قائل ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بدترین دشمن ابو جہل نے ایک مرتبہ خود کہا کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ہم تم کو جھوٹا نہیں کہتے بلکہ اس پیغام کو جو تم لائے ہو جھوٹا کہتے ہیں۔ یعنی آپ کا بدترین دشمن بھی آپ کی صداقت کا قائل تھا، پس ایک داعی کی دوسری بڑی خصوصیت اس کے قول و عمل کی یہ صداقت ہے، یہ بلندی کردار ہے اور یہ پاکیزگی اخلاق ہے ۔

تیسری خصوصیت یہ بیان فرمائی گئی ، و قَالَ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ یعنی وہ کہتا ہے کہ میں مسلمانوں میں سے ہوں ۔ اسے سمجھنے کے لیے مکہ معظمہ کا وہ ماحول پیش نظر رہنا چاہیے جسے میں شروع میں بیان کر چکا ہوں ۔ یہ وہ دور تھا کہ جب کسی فرد کا اٹھ کر یہ اعلان کرنا کہ میں مسلمان ہوں کوئی معمولی بات نہیں تھی بلکہ درندوں کو اپنے اوپر حملہ آور ہونے کی دعوت دینا تھا ۔ تو داعی حق کی خصوصیت سامنے آتی ہے کہ وہ نہ صرف اللہ کی طرف دعوت دینے والا ہو ، نہ صرف پاکیزہ عمل رکھنے والا ہو، بلکہ ۔ وہ بدترین دشمنوں اور انتہائی ناسازگار حالات میں بھی اپنے مسلمان ہونے سے انکار نہ کرے ، اپنے مسلمان ہونے کو چھپائے نہیں ، اپنے مسلمان ہونے کا اقرار اور اعلان کرنے میں وہ نہ شرمائے ، نہ جھکے اور نہ ڈرے ۔ بلکہ کھلم کھلا یہ کہے کہ ہاں میں مسلمان ہوں جو کچھ جس کا جی چاہے کر لے۔ دوسرے الفاظ میں داعی حق کی تیسری بڑی اور اہم خصوصیت یہ ہونی چاہیے کہ وہ نہایت جری آدمی ہو ، نہایت بہادر آدمی ہو کسی بزدل آدمی کا کام نہیں ہے کہ وہ خدا کے راستے کی طرف دعوت دے جو ذراسی چوٹ لگنے پر بلبلے کی طرح بیٹھ جانے والا ہو۔ ایسا انسان کبھی خدا کے راستے کی طرف نہیں بلا سکتا۔ خدا کے راستے کی طرف دعوت جو شخص دے سکتا ہے وہ ، وہ ہے جو سخت سے سخت دشمنی کے ماحول میں مخالفت کے ماحول میں خطرات کے ماحول میں اسلام کا علم لے کر اٹھ کھڑا ہوا اور اس بات کی پرواہ نہ کرے کہ اس کے نتائج کیا ہوں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی ذات اس شجاعت کا مکمل اور عملی نمونہ ہے۔ مکہ معظمہ میں کھلم کھلا آپ نے دعوتِ اسلام پیش کی شہادت حق کا فریضہ انجام دیا اور ان لوگوں کے درمیان یہ کام جاری رکھا جو آپ کے خون کے پیاسے ہو گئے تھے اور جنہوں نے آپ کو اور آپ کے صحابہ کو ظلم و تشدد کا نشانہ بنانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی ۔ آپ مسلسل تیرہ سال تک اس ماحول کی تمامتر تاریکیوں، سختیوں اور مصیبتوں کے درمیان اپنی دعوت پیش کرتے چلے گئے پھر مدینہ طیبہ پہنچنے کے بعد جو حالات پیش آئے، جن خطر ناک اور بڑی بڑی لڑائیوں سے سابقہ پیش آیا ان میں بھی آپ کا قدم کبھی پیچھے نہیں ہٹا ۔ غزوہ حنین کے موقع پر جب کہ مسلمانوں کو تقریباً شکست ہو چکی تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ صرف اپنے مقام پر موجود رہے بلکہ میدانِ جنگ میں برابر آگے دشمن کی صفوں کی طرف بڑھتے چلے گئے اور اس بات کو چھپایا بھی نہیں کہ میں کون ہوں آپ فرما رہے تھے :

أنَا النَّبِيُّ لَا كَذِبُ أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبُ

میں نبی ہوں ، جھوٹا نہیں ہوں ۔ میں ابن عبد المطلب ہوں ۔

یہ اعلان آپ اس جنگ میں ایسے حالات کے دوران میں کر رہے تھے جب آپ دشمنوں کے نرغے میں تھے اور ساتھ صرف دو تین ساتھی رہ گئے تھے۔ اس وقت بھی یہ کہا کہ ہاں ! میں نبی ہوں اس سے ظاہر ہوا کہ ایک داعی حق کو اتنا شجاع اور اتنا بہادر ہونا چاہیے جو اللہ کی راہ کی دعوت دینے کے لیے کھڑا ہو۔ اگر داعی میں ہمت ، شجاعت ، استقامت اور بہادری کا جوہر نہ ہو تو وہ اس راہ میں کھڑا ہو نہیں سکتا، اور اگر کھڑا ہو بھی جائے تو اپنی بزدلی کی وجہ سے الٹا اس مشن کو نقصان پہنچانے کا سبب بن جاتا ہے ۔

یہ وہ چند باتیں تھیں جو میں نے آپ کے سامنے بیان کی ہیں۔ اگر اس پر غور کیا جائے تو یہ بجائے خود دعوت الی اللہ کا مکمل پروگرم ہے جس کے مطابق ہر جگہ ، ہر ماحول میں کام کیا جا سکتا ہے ۔

وَآخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ