صدرالدین اصلاحی کی کتاب اساس دین کی تعمیر Asase Deen Ki Taameer : Moulana Sadaruddin Islahi

 

اساس دین کی تعمیر

مقدمہ

بسم الله الرحمن الرحيم

دین اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت ہے۔ اس نعمت کی صحیح قدر شناسی ہی میں فلاح انسانی کا راز پوشیدہ ہے۔ یہ کام اگر چہ حد سے زیادہ مشکل ہے، مگر جتنا مشکل ہے اس سے کہیں زیادہ ضروری بھی ہے۔

دین کی اصل قدر شناسی نہ تو اس کے فضائل گنانے کا نام ہے، نہ اپنے ذوق سے اس کی صورت گری کرنے اور اپنے اجتہاد سے اس کی راہ و منزل متعین کرنے کا، بلکہ اس کی اصل قدر شناسی یہ ہے کہ اس کو اس کی اپنی شکل میں دیکھا جائے اور پھر اس سے حقیقی لگاؤ پیدا کیا جائے۔ فکری، علمی، عملی، جذباتی غرض ہر طرح کا لگاؤ ایسا لگاؤ کہ وہی زندگی کا تنہا رہنما ہو۔

اس لگاؤ کے پیدا کرنے کا مسئلہ بھی بڑی زبردست اہمیتوں کا مالک ہے۔ اگر چہ نظری طور پر اور قول کی حد تک، اس بارے میں دو رائیں نہیں کہ اس مسئلے کا صحیح حل کتاب اللہ، سنت رسول اور اسوۂ صحابہ ہی سے معلوم کیا جا سکتا ہے۔ لیکن جب سے ہمارے دینی افکار اور اعمال پر انحطاط شروع ہوا ہے، دیگر مسائل کی طرح اس مسئلے کے عملی حل کی بنیادیں بھی بالکل صحیح اور خالص نہیں رہ گئی ہیں۔ چنانچہ ان کے جو نتائج برآمد ہو رہے ہیں انھیں کم از کم بعض حالات میں تو ہرگز پسندیدہ نہیں کہا جا سکتا۔ چوں کہ سوچتے وقت اصل ماخذوں کو صحیح طور سے پیش نظر نہیں رکھا گیا اس لیے تعجب نہ کرنا چاہیے۔ اگر بہت سی ضروری باتیں لیے جانے سے رہ گئیں، اور کتنی ہی غیر ضروری باتیں تقاضائے دین بنا دی گئیں۔

اس کتاب میں اس عام روش سے ہٹ کر مسئلہ زیر بحث کو خالص کتاب و سنت کی روشنی میں حل کرنے کی کوشش کی گئی ہے، اس لیے لازماً اس میں بہت کچھ اعجوبگی نظر آئے گی۔ مگر فی الواقع یہ اعجوبگی نہیں، بلکہ اصل کی طرف مراجعت ہے جس کا سمجھ لینا ذرا بھی دشوار نہیں، بشرطیکہ دین کی اصل حقیقت، اصل ضرورت اور اصل غایت ذہن میں مستحضر ہو۔

چوں کہ دین کے اس اہم ترین مسئلے پر آئندہ سطروں میں جو کچھ کہا گیا ہے وہ مذاق عام سے بہت کچھ مختلف ہے، اس لیے گفتگو اصولی باتوں سے آگے نہیں بڑھ سکتی ہے اور نہ جزئیات و تفصیلات میں جانے کا موقع ملا۔ ایسا ہونا ایک قدرتی اور ضروری امر تھا۔ فکر و نظر کے جب کچھ نامانوس گوشے سامنے لائے جاتے ہیں تو وہ خواہ کتنے ہی مبنی بر حقیقت کیوں نہ ہوں مگر ذہنوں میں ان کی اہمیت بٹھانے کے لیے ساری گفتگو صرف اصولی نکتوں تک ہی محدود رکھنی پڑتی ہے۔

امید ہے کہ کتاب پڑھتے وقت یہ باتیں سامنے رہیں گی۔

یہ کتاب اب جس شکل میں پیش کی جارہی ہے وہ پچھلی اشاعت سے کافی مختلف ہے۔ اس میں بہت کچھ حذف و اضافہ ہو گیا ہے۔ بعض مقامات پر مضامین کی ترتیب بھی بدل گئی ہے۔ زبان کو بھی حتی الوسع کچھ سہل بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ امید ہے کہ ان ترمیموں سے کتاب کی افادیت میں خاصا اضافہ ہو گیا ہوگا۔

صدر الدین
۹ ذی قعدہ ۱۳۷۷ھ

 

باب اول: دین کی اہم ترین بنیادیں

بنیاد کار کی اہمیت

جس طرح کسی مکان کے لیے ضروری ہے کہ اس کی ایک بنیاد ہو جس پر اس کی دیواریں اٹھائی جائیں اور پھر ان دیواروں پر اس کی چھت تعمیر کی جائے، اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ یہ بنیاد اتنی گہری اور مضبوط ہو کہ دیواروں کا اور چھت کا بار اچھی طرح سنبھال سکے ورنہ وہ ہوا کے کسی ایک بھی تیز جھونکے یا بارش کے کسی ایک بھی تند حملے کی تاب نہ لا سکے گا اور چاہے اس کی دیواریں اور چھتیں اپنی جگہ کتنی ہی ٹھوس اور پائیدار کیوں نہ ہوں، اسے ایک کھنڈر کی شکل میں تبدیل ہو جانے سے کوئی شے بچا نہ سکے گی۔ لہذا ایک دور اندیش انجینئر کبھی اس اصول کو فراموش نہیں کر سکتا کہ جس جسامت اور وزن کی دیواریں اور چھتیں بنانی ہوں، اسی کے تناسب سے بنیاد میں گہرائی اور پائیداری کا اہتمام کیا جائے۔ اگر پھوس کا چھپر بنانا ہو تو کچی اینٹوں کی فٹ دو فٹ گہری بنیاد، بلکہ لکڑی کے معمولی کھمبے جو بالشت دو بالشت زمین میں گڑے ہوں اس کے لیے کافی ہوں گے۔ اگر کسی اوسط درجے کے مکان کی تعمیر پیش نظر ہو تو اس کے لیے کم از کم دو تین فٹ گہری اور تقریباً اتنی ہی چوڑی بنیاد کا اٹھانا ضروری ہوگا۔ لیکن اگر ایک وسیع اور عالی شان محل تعمیر کرنا ہو جس کی دیواروں اور چھتوں میں لکڑی اور بانس، کچی اینٹ اور پھوس، کھپڑے اور سلیٹ کی بجائے پختہ اینٹیں، لوہے کی سلاخیں اور گرڈر چنے جانے والے ہوں تو لامحالہ اس کی بنیاد بھی کئی فٹ گہری اور چوڑی بنانی پڑیں گی اور ان میں بھی مٹی یا کچی اینٹیں نہیں بلکہ وہی پختہ اینٹیں اور سمنٹ اور آہنی سلاخیں دینی ہوں گی۔

ایک پاگل ہی ایسا تصور کر سکتا ہے یا عملاً ایسی حرکت کر سکتا ہے کہ جا تو رہا ہو اہرام مصر کو شرما دینے والی عمارت بنانے اور اس کے لیے بنیاد کھودے انگلیوں اور انچوں سے ناپ کر۔

اب ذرا سی مسلم اصول کو لیے ہوئے محسوسات کی دنیا سے نکل کر معانی کی دنیا میں آئیے جہاں اس اصول کی عملی اہمیت اور ضرورت دنیائے محسوسات کے مقابلے میں اتنی ہی زیادہ بڑھی ہوئی ہے جتنی خود عقلی و معنی حس کے مقابلے میں، اور روح جسم کے مقابلے میں زیادہ اہم ہے کیوں کہ اگر وہاں اس اصول سے بے پروائی برتنے کا نتیجہ اینٹ اور چونے کی ایک عمارت کی تباہی اور چاندی کے چند سکوں کی بربادی کی شکل میں نکلتا ہے تو یہاں اس بے پروائی کی بدولت بسا اوقات ساری زندگی کی جاں فشانیوں اور قربانیوں پر پانی پھر جاتا ہے۔ اور یہ اتنی بڑی بھاری زیاں کاری ہے جس سے بچنے کے لیے کوئی ہوش مند انسان اپنی کسی ممکن سعی سے دریغ نہیں کر سکتا۔ وہ کسی اہم مقصد کے حاصل کرنے کے سلسلے میں سب کچھ بھول سکتا اور ہر شے سے بے پروائی برت سکتا ہے، مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک لمحے کے لیے بھی اس کا ذہن اس کی صحیح تاسیس سے غافل ہو جائے۔ وہ اپنے آپ کو اس کوشش کے لیے مجبور پائے گا کہ جس مقصد اور نصب العین کو لے کر وہ اُٹھا ہے اس کے لیے اس کی عظمت اور وسعت کے مناسب بنیاد بھی فراہم کرے۔ یعنی اس کی بنیاد میں اتنی گہرائی اور پختگی پیدا کر لینے کا اہتمام کرے جو آگے چل کر اس پر تعمیر ہونے والی عظیم الشان عمارت کا بوجھ پوری طرح سہارا لے جائے۔

اطاعت حق کا فرض گراں

دین حق کی علم برداری، یعنی اس کی اطاعت اور اقامت کا نصب العین بھی جس کے لیے امت مسلمہ برپا کی گئی ہے اس کلیہ سے مستثنیٰ نہیں ہو سکتا۔ اور قطعی ضروری ہے کہ اس کی خاطر کی جانے والی جدوجہد کی بنیاد بھی ویسی ہی تعمیر کی جائے جس کا اس نصب العین کی حیثیت تقاضا کرتی ہو۔ جہاں اس سوال کا تعلق ہے کہ یہ حیثیت کیا ہے؟ اور یہ نصب العین کس مرتبے اور اہمیت کا حامل ہے؟ تو اس سوال کا جواب آپ کو ہر سمت سے ایک ہی ملے گا اور پوری دنیا کو اس نصب العین کی بے نظیر عظمتوں اور دشواریوں پر آپ یک زبان پائیں گے۔ دوست اور دشمن، موافق اور مخالف، مومن اور منکر کوئی نہ ہوگا جو اس کے ایک امر واقعی ہونے کا اعتراف نہ کرتا ہو۔

جو کھلے ہوئے منکر اور مخالف ہیں، وہ اپنے اس اعتراف کا اظہار اس نصب العین کی خاطر تگ و دو کرنے والوں کو "سفیہ"، "فریب خوردہ"، بلکہ "مجنوں" کہہ کر کرتے ہیں اور جو "مومن" اور "موافق" ہوتے ہوئے بھی عملاً اس سے بے گانہ ہو چکے ہوتے ہیں، وہ اس کا اعلان اس نصب العین کی کامیابی کو "ناممکن" بنا کر فرماتے ہیں۔ لیکن الفاظ کے بدلنے سے حقیقت نہیں بدل جاتی۔ پہلا گروہ مخالف ہونے کے سبب کسی تکلف کی ضرورت نہیں سمجھتا اس لیے اپنی اس رائے کو بالکل عریاں لفظوں میں ظاہر کر دیتا ہے۔ لیکن دوسرا گروہ "پاسِ شریعت" میں یا اپنے ادعائے ایمان کی لاج رکھنے کی خاطر چوں کہ اپنے اندر اتنی بے باکانہ صاف گوئی کی جسارت نہیں پاتا، اس لیے خود آپ اپنی نگاہوں سے چھپنے کی کوشش کرتے ہوئے اپنے اس نظریے کو اک گونہ شائستگی اور خوش نمائی کا رنگ دے کر بیان کرتا ہے۔ رہے اس نصب العین کے وہ مومن اور موافق جو ابھی بھولے نہ ہوں کہ اس مومن ہونے کے کیا معنی ہیں اور جنھیں عملاً اس جدوجہد کا ذاتی تجربہ ہو رہا ہو، تو وہ اپنے پورے وجود سے اس حقیقت کے مجسم گواہ ہوتے ہیں۔ غرض، جہاں تک اس کام کی دشواریوں اور صبر آزمائیوں کا تعلق ہے، پوری دنیا اس بات پر متفق ہے کہ اس وادیٔ جنوں میں قدم رکھنا ہر شخص کا کام نہیں، اس میدان میں صرف وہی اترے جو اپنا سب کچھ قربان کر دینے کی ہمت رکھتا ہو۔

پھر یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے جس کی سچائی اور واقعیت پر کچھ آج ہی کی دنیا متفق ہوئی ہو، بلکہ اس کی سچائی ازلی اور ابدی سچائی ہے اور اس کی واقعیت ہمیشہ سے مسلم چلی آ رہی ہے اور ہمیشہ مسلم رہے گی۔ کوئی دور ایسا نہیں گزرا ہے جس میں کسی ایک شخص نے بھی اس کام کو آسان سمجھا یا آسان پایا ہو۔ انبیاء علیہم السلام سے بڑھ کر عزم اور حوصلے والا اور کون ہو سکتا ہے؟ اور اس مہم کے براہِ راست ذمہ دار اور اس فریضہ کے اولین مخاطب ہونے کے باعث اس کی نوعیت کا ٹھیک ٹھیک احساس اور اندازہ بھی جیسا انھیں ہو سکتا تھا کسی اور کو کیسے ہو سکتا ہے؟ لیکن خود ان مثالی انسانوں کی بھی متفقہ شہادت اس نصب العین کے متعلق یہی ہے کہ یہ انتہائی دشوار اور بھاری کام ہے۔

چناں چہ انبیائی تاریخِ دعوت کے صفحات اس شہادت سے بھرے پڑے ہیں۔ قرآن مجید کے دو ایک حوالے سنیے:

حَتَّىٰ إِذَا اسْتَيْأَسَ الرُّسُلُ وَظَنُّوا أَنَّهُمْ قَدْ كُذِبُوا...
(
یوسف: ۱۱۰)
یہاں تک کہ جب ہمارے پیغمبروں پر (ائمۂ کفر کے ایمان لانے کی طرف سے) مایوسی چھا جاتی اور یہ (ائمۂ کفر) بھی اپنی جگہ یہ خیال کر بیٹھتے کہ ان سے جھوٹ کہا گیا تھا (کہ اگر تم ایمان نہ لائے تو تم پر اللہ کا عذاب ٹوٹ پڑے گا)۔

مَسَّتْهُمُ الْبَأْسَاءُ وَالضَّرَّاءُ وَزُلْزِلُوا حَتَّىٰ يَقُولَ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ مَتَىٰ نَصْرُ اللَّهِ ۗ
(
البقرہ: ۲۱۴)
ان اہلِ ایمان کو تنگ حالیاں اور مصیبتیں گھیر لیتیں اور وہ (پیہم آزمائشوں کے ذریعے) ہلا مارے جاتے، یہاں تک کہ (وقت کا) پیغمبر اور اس کے ساتھی اہلِ ایمان پکار اٹھتے: اللہ کی مدد کب آئے گی؟

یہ الفاظ اپنے ترجمان آپ ہیں اور مختصر ہونے کے باوجود ان غیر معمولی حالات اور تلخ احساسات کا بالکل واضح نقشہ کھینچے دے رہے ہیں جن سے حضرات انبیاء کرام کو دوچار ہونا پڑا۔ اندازہ کیجیے، وہ گھڑیاں کتنی سخت رہی ہوں گی جب اللہ کے ان برگزیدہ بندوں کا معیاری عزم اور استقلال بھی مایوسیوں کے ہجوم میں گھر کر رہ جاتا تھا اور ان کے دلوں کی دھڑکنیں مَتَىٰ نَصْرُ اللَّهِ کی درد بھری التجاؤں میں تحلیل ہو جاتی تھیں۔

یہ صحیح ہے کہ یہ شہادتیں صاف اور صریح ہونے کے باوجود زبانِ حال ہی کی شہادتیں کہی جائیں گی، زبانِ قال کی نہیں۔ لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ یہاں تذکرہ عام انسانوں کا نہیں ہے جن کا مشکلات اور مصائب کے وقت بے صبر ہو کر چیخ اٹھنا کوئی عجیب اور خلافِ توقع بات نہیں ہوتی۔ بلکہ یہاں تذکرہ ان خاصانِ خاص کا ہے جو صبر و عزیمت کے پیکر ہوتے ہیں اور جن کے لبوں پر تسلیم و رضا کے قفل چڑھے ہوتے ہیں۔ اس لیے ان کی زبانوں سے کلمۂ شکایت تو درکنار، کسی ایسے کلمے کا بھی نکل آنا متوقع نہیں جس میں اقامتِ حق کی ہمت آزما دشواریوں کا محض کھلم کھلا اظہار ہی ہو۔ کیوں کہ اتنی سی بات بھی ان کی شانِ عبدیت کو گوارا نہیں ہوتی۔ جب صورتِ واقعہ یہ ہے تو اس ضمن میں ان کی زبانِ قال سے کسی واضح شہادت کے سنے جانے کا سوال ہی باقی نہیں رہ جاتا۔ یہ شہادت اگر سنی جا سکتی ہے تو صرف زبانِ حال ہی سے سنی جا سکتی ہے۔

انبیاء علیہم السلام کی شہادت سے بڑھ کر معتبر اور سچی شہادت اس دنیا میں اور کس فردِ انسانی کی ہو سکتی ہے؟ اس لیے ان کی شہادت دراصل پوری نوعِ بشر کی متفقہ شہادت کے ہم معنی ہے اور اس کے بعد اس زیرِ بحث حقیقت کے تسلیم کیے جانے میں شک و تردد کا آخری امکان بھی ناپید ہو جاتا ہے۔

لیکن بات اسی پر ختم نہیں ہو جاتی کہ اس فریضے کے غیر معمولی حد تک سخت و شدید ہونے پر وہ پوری نوعِ بشر یک زبان ہے جسے اس فریضے کا مکلف ٹھہرایا گیا ہے، بلکہ اس امر کی واقعیت سے خود اس علیم و خبیر کو بھی انکار نہیں، جس نے ذمہ داری اس نوع پر ڈالی ہے۔ نہ صرف یہ کہ اسے انکار نہیں، بلکہ اس کی حکمت کا تو یہ تقاضا ہوا ہے کہ سب سے پہلے وہ خود ہی اس حقیقت کا اعلان کر دے اور صاف طور سے بتا دے کہ:

إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَيْنَ أَن يَحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَا ۖ وَحَمَلَهَا الْإِنسَانُ ۖ...
(
الاحزاب: ۷۲)
ہم نے یہ امانت آسمانوں کے سامنے، زمین کے سامنے اور پہاڑوں کے سامنے پیش کی تھی لیکن انھوں نے اس کا بار اٹھانے سے انکار کر دیا اور اس سے سہم اٹھے، پر انسان نے اس کی ذمہ داری اٹھا لی۔ الخ

یہ "امانت" جس کا بوجھ اٹھانے کے لیے آسمان اور زمین اور پہاڑ جیسی مخلوقات بھی تیار نہ ہو سکیں اور اس کے تصور ہی سے کانپ اٹھیں، قطعی طور پر یہی اللہ کے دین کی امانت تھی، جس کی اسے خود بھی اطاعت کرنی تھی اور دوسروں سے بھی کرانی تھی۔ اگرچہ اس آیت میں اصلاً جو بات کہنے کی ہے، وہ یہ ہے کہ تمام مخلوقات میں سے انسان ہی وہ مخلوق ہے جو اپنی مخصوص فطری صلاحیتوں کی بنا پر اللہ تعالیٰ کے تشریعی احکام کا مکلف ہو سکتا تھا، مگر اس کے باوجود اس امر سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اس بات کے کہنے کے لیے الفاظ کا جو انتخاب کیا گیا اور کلام کا جو انداز اختیار کیا گیا ہے، وہ اس ذمہ داری کے عظیم ترین اور مشکل ترین ذمہ داری ہونے کا بھی کھلا ہوا اعلان کر رہا ہے، بلکہ یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ ظاہر طور پر اس آیت کا یہی پہلو زیادہ ابھرا ہوا ہے اور ان لفظوں کا یہی مدعا سب سے پہلے سامنے آتا ہے۔

جس وقت اس "امانت" کا حق ادا کرنے کی آخری یاد دہانی کرائی جا رہی تھی اور اس غرض کے لیے خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا گیا تھا، اس وقت بھی اس امانت کی نوعیت اچھی طرح سمجھا دی گئی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ:

إِنَّا سَنُلْقِي عَلَيْكَ قَوْلًا ثَقِيلًا
(
المزمل: ۵)
اے محمد! ہم تم پر ایک بھاری بات کا بوجھ ڈالنے کو ہیں۔

اس بھاری بات کی وضاحت اگلی وحی میں یہ فرمائی گئی:

قُمْ فَأَنذِرْ
(
المدثر: ۲)
اٹھو اور لوگوں کو ڈراؤ۔

یہ أَنذِرْ (ڈراؤ) کا کلمہ بظاہر ایک لفظ اور صرف ایک حکم ہے، مگر ایک قرآنی اصطلاح کی حیثیت سے اس کے مفہوم و مدعا کی حدیں بہت وسیع ہیں اور یہ وہاں تک جا پہنچتی ہیں جہاں نبوت کے فرائض ختم ہوتے ہیں۔ لہٰذا اس سے مراد فی الواقع اس پورے دین کی تبلیغ و اقامت ہے جس کے نزول کا ابھی آغاز ہوا تھا، اور جس میں حیاتِ انسانی کے ایک ایک مسئلے کے متعلق بتدریج تفصیلی ہدایات اور احکام آنے والے تھے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کا اپنے قول أَنذِرْ کو "ثقیل" بتانا یقیناً یہی معنی رکھتا ہے کہ وہ خود بھی اقامتِ حق کی علم برداری کو ایک بھاری ذمہ داری قرار دے رہا ہے۔

اللہ رب العالمین کی طرف سے اس حقیقت کا اعلان اس کے صرف قول ہی سے نہیں ہوتا ہے بلکہ "عمل" سے بھی ہوتا ہے۔ ظاہر ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس کا کلام (قرآن) صرف ان احکام اور ضوابط پر مشتمل ہوتا جن کی انسانوں سے پیروی مطلوب تھی، دوسری طرف یہ تمام احکام و ضوابط بھی ایک ہی دفعہ پیغمبر کے پاس بھیج دیے جاتے۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ان دونوں باتوں میں سے ایک بات بھی نہ ہوئی۔ اس کے برعکس صورتِ واقعہ یہ ہے کہ:

  1. قرآن میں احکام اور قوانین والی آیتوں کے علاوہ بھی بہت سی آیتیں موجود ہیں بلکہ اس کا بیشتر حصہ ایسی ہی آیتوں پر مشتمل ہے جن کے مقابلے میں احکامی آیتوں کا تناسب بہت ہی تھوڑا ہے۔ یہ آیتیں مختلف تبلیغی اور تربیتی مقاصد کی حامل ہیں جن میں سے ایک بہت ہی نمایاں مقصد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اور آپ کے اہلِ ایمان ساتھیوں کی تثبیتِ قلب اور تسلیٔ خاطر بھی ہے۔ چناں چہ متفرق آیتیں ہی نہیں بلکہ پوری پوری سورتیں اس نے اسی مقصد کے تحت نازل فرمائیں۔ جب بھی ایسا ہوتا - اور ایسا ہونا کسی بھی صبح یا شام غیر متوقع نہ تھا - کہ حالات کی ناسازگاریاں قلبِ مبارک کو توڑنے لگتیں تو اللہ کی رحمت حرکت میں آجاتی اور قرآنی لفظوں کے لباس میں نمودار ہو کر ٹوٹتے ہوئے دل کو سنبھالنے اور ڈھارس بندھانے کے لیے آ موجود ہوتی۔
  2. اسی طرح جو کچھ اللہ تعالیٰ کو اپنے پیغمبر پر نازل کرنا تھا وہ سب کا سب اس نے ایک ہی دفعہ نازل نہیں کر دیا، بلکہ تھوڑا تھوڑا کر کے نازل فرمایا۔ حتیٰ کہ تئیس برس کی لمبی مدت جب گزر گئی تب کہیں جا کر یہ سلسلہ اپنی حدِ کمال کو پہنچا۔ قرآن اتارنے کا یہ طویل طریقہ بھی اس نے جن مصلحتوں کی بنا پر اختیار فرمایا، ان میں سے سب سے بڑی اور اہم مصلحت ایک اور پہلو سے وہی تثبیتِ قلب ہی کی مصلحت تھی۔ یعنی حکمتِ الٰہی کے پیشِ نظر یہ بات تھی کہ منصبِ رسالت کی ذمہ داریوں میں ایک تدریج کے ساتھ وسعت پیدا کی جائے تاکہ قلبِ نبوی اچھی طرح ان کا بوجھ اٹھانے کے قابل ہوتا چلا جائے اور جس آن اس ہمہ گیر دینی جدوجہد کے میدان میں کوئی نیا محاذ کھولنے کا حکم آئے اس کے لیے وہ اس سے پہلے ہی ضروری قوتوں سے مسلح ہو چکا ہو۔

چناں چہ جب کفار نے یہ اعتراض کیا کہ جس طرح تورات بیک وقت نازل کر دی گئی تھی اسی طرح یہ قرآن بھی پورا کا پورا ایک ہی ساتھ کیوں نہ اتار دیا گیا؟ (لَوْلَا نُزِّلَ عَلَيْهِ الْقُرْآنُ جُمْلَةً وَاحِدَةً) تو اتارنے والے کی طرف سے جواب دیا گیا:

كَذَٰلِكَ لِنُثَبِّتَ بِهِ فُؤَادَكَ ۚ
(
الفرقان: ۳۲)
ہم اسی طرح (تھوڑا تھوڑا کر کے) اتار رہے ہیں تاکہ (اے پیغمبر) اس سے تمہارے دل میں جماؤ پیدا کرتے رہیں۔

اللہ تعالیٰ کی طرف سے قلبِ نبوی کی جس تسلی اور تثبیت کے لیے یہ دونوں عملی اہتمامات کیے گئے تھے، عقل کہتی ہے کہ اس کی ضرورت بھی یقیناً بہت ہی شدید رہی ہوگی اور قرآن صراحت کرتا ہے کہ یہ ضرورت اتنی زیادہ شدید تھی کہ اس تثبیت کے بغیر نبی کے لیے بے لاگ حق پسندی پر جما رہنا کسی طرح ممکن ہی نہ تھا:

وَلَوْلَا أَن ثَبَّتْنَاكَ لَقَدْ كِدتَّ تَرْكَنُ إِلَيْهِمْ شَيْئًا قَلِيلًا
(
بنی اسرائیل: ۷۴)
اے پیغمبر! اگر ہم تم کو ثابت قدم نہ رکھتے تو تم ان (معاندینِ حق) کی طرف کچھ نہ کچھ جھکنے کے قریب جا پہنچتے۔

یعنی اگر اللہ تعالیٰ نے اس تثبیتِ قلب کا خصوصی اہتمام نہ فرمایا ہوتا تو پھر دنیا خالص حق کے وجود سے بھی واقف نہ ہو پاتی۔ یہاں اگر حق کے نام سے کوئی چیز قائم یا موجود ہوتی بھی تو وہ ایک ایسا حق ہوتا جو باطل کا باج گزار ہوتا۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ رسالت کا مقصود ہی ختم ہو گیا ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ کفار قرآن کے تدریجی نزول پر لَوْلَا نُزِّلَ عَلَيْهِ الْقُرْآنُ جُمْلَةً وَاحِدَةً کا پرشور اعتراض کرتے ہی رہے، لیکن اللہ تعالیٰ نے كَذَٰلِكَ لِنُثَبِّتَ بِهِ فُؤَادَكَ کے دو لفظی جواب کے سوا اس کا اور کوئی نوٹس بالکل نہیں لیا، حالاں کہ یہ اعتراض اپنے گہرے نفسیاتی اثر کے لحاظ سے کوئی معمولی اعتراض نہ تھا اور اس کے ذریعے اسلام کے دشمن بڑے زور شور سے یہ عوام فریب پروپیگنڈا کر رہے تھے کہ پچھلی آسمانی کتاب (تورات) تو ایک ہی دفعہ میں نازل کر دی گئی تھی، مگر یہ قرآن عجیب قسم کی آسمانی کتاب ہے کہ مہینے پر مہینے اور سال پر سال گزرتے چلے جا رہے ہیں، پر اس کی مدتِ نزول ختم ہونے ہی کو نہیں آتی۔ یہ اس کے سوا اور کس بات کا ثبوت ہے کہ یہ قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام قطعاً نہیں، بلکہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کا اپنا کلام ہے، جسے وہ اپنے چند سازشی حواریوں کی مدد سے دن رات دماغ سوزیاں کر کے گھڑتے ہیں اور جب کچھ جملے گھڑ پاتے ہیں تو وحیٔ الٰہی کے نام سے لوگوں کو سنانے لگتے ہیں:

وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ هَٰذَا إِلَّا إِفْكٌ افْتَرَاهُ وَأَعَانَهُ عَلَيْهِ قَوْمٌ آخَرُونَ ۖ فَقَدْ جَاءُوا ظُلْمًا وَزُورًا﴿٤﴾‏ وَقَالُوا أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ اكْتَتَبَهَا فَهِيَ تُمْلَىٰ عَلَيْهِ بُكْرَةً وَأَصِيلًا﴿٥﴾‏
(
الفرقان: ۴-۵)
کافروں کا کہنا ہے کہ یہ قرآن تو بالکل من گھڑت ہے، جسے اس شخص نے گھڑ لیا ہے اور کچھ اور لوگوں نے اس معاملے میں اس کی مدد کی ہے، یہ لوگ صریح زیادتی اور جھوٹ کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ نیز وہ کہتے ہیں کہ یہ پچھلوں کی نقلیں ہیں جن کو اس نے لکھ لیا ہے اور وہ صبح و شام لکھائی جاتی رہتی ہیں۔

اگر یہ اللہ کا کلام پاک ہوتا تو تورات کی طرح اسے بھی ایک ہی دفعہ میں نازل ہو جانا چاہیے تھا۔ کہیں اللہ تعالیٰ کے طریقے بھی روز روز بدلا کرتے ہیں؟ یا پھر یہ مان لیا جائے کہ جس فعل پر کل تک وہ قادر تھا آج وہ اس کی قدرت سے باہر ہو چکا ہے، اور اب وہ پوری کتاب بیک دفعہ مرتب کر کے بھیج ہی نہیں سکتا!! غور کیجیے، یہ ظاہر فریب پروپیگنڈا عام سطح کے لوگوں پر کیا کچھ اثر نہ کرتا رہا ہو گا؟ لیکن جس ضرورت سے قرآن کی تنزیل کا یہ تدریجی طریقہ اختیار کیا گیا تھا اس کی فیصلہ کن اہمیت کے مقابلے میں اس "زُخْرُفَ الْقَوْلِ" کی اپنی تمام تر اثر انگیزیوں کے باوجود، وقعت ہی کیا تھی جو اس کے حملوں سے نبی اور اس کی دعوت کو بچانے کے لیے پورا قرآن ایک ہی وقت میں اتار دیا جاتا۔

اس تفصیل سے یہ حقیقت پوری طرح ابھر کر سامنے آ جاتی ہے کہ دینِ حق کی علم برداری کا نصب العین اپنی نوعیت کا ایک ہی نصب العین ہے اور اس کی راہ جن دشواریوں سے ہو کر گزرتی ہے ان کو کسی اور کام کی دشواریوں پر قیاس ہی نہیں کیا جا سکتا۔ ایسی انتہائی اونچائی رکھنے والے مقصد کا یہ فطری مطالبہ ہو گا کہ اس کے لیے جو جدوجہد کی جائے اس کی بنیاد بھی انتہائی گہری اور پائیدار بنائی جائے تاکہ وہ اس بھاری بھرکم آہنی عمارت کی دیواروں اور چھتوں کا پورا بوجھ اٹھا سکے، ورنہ اگر غفلت یا جلد بازی سے کام لیتے ہوئے اس بنیاد کو کمزور رہ جانے دیا گیا اور الٹے سیدھے کچھ کنکر پتھر رکھ کر آگے تعمیر شروع کر دی گئی تو یہ ایک خطرناک غلط کاری ہوگی اور اس کا انجام ایک زبردست المیے کی شکل میں نمودار ہوگا۔ ایسی تعمیر سے ایک مضبوط عمارت بن جانے کی توقع صرف وہی کر سکتا ہے جو احمقوں کی جنت میں رہتا ہے۔ ناقص تیاریوں سے دینِ حق کے پھیلاؤ اور غلبے کی جدوجہد کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی۔ سنت اللہ اب تک یہی رہی ہے اور کوئی وجہ نہیں کہ اب وہ ہمارے اور آپ کے لیے بدل جائے۔ وَلَن تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِيلًا۔

مشکلاتِ راہ کے پورے احساس کی ضرورت

جس کام کی نوعیت پر رایوں، نظریوں، تجربوں اور مشاہدوں کا ایسا مکمل اتفاق ہو، اور جس ذمہ داری کے بارے میں اللہ عالم الغیب کی طرف سے اعلان پر اعلان ہو چکا ہو کہ وہ اپنے طرز کی ایک ہی عظیم ذمہ داری ہے، اس کی یہ حیثیت ہماری نگاہوں سے اوجھل نہیں رہ سکتی۔ جس چیز کی نوعیت سے اس کے بیگانے تک واقف ہوں اس سے اس کے یگانے کیوں کر بے خبر ہو سکتے ہیں؟ خصوصاً وہ یگانے جنھیں اس کے ساتھ محض رسمی اور زبانی نہیں بلکہ شعوری اور عملی تعلق رکھنے کا دعویٰ بھی ہو۔ یہ ایک بالکل کھلی ہوئی فطری بات ہے۔ اس لیے بظاہر کوئی ضرورت نہ تھی کہ اطاعتِ حق کے فریضے کو ایک مشکل اور بھاری کام بتانے میں اتنی دراز نفسی سے کام لیا جاتا، اور روزِ روشن میں سورج کی طرف انگلی اٹھا اٹھا کر اس کے وجود کا مشاہدہ کرایا اور یقین دلایا جاتا۔ مگر کیا کیجیے کہ انسانی ذہن کا عجیب حال ہے۔ جس بات کو ہم نظری طور پر شک اور تردد سے بالاتر سمجھتے ہیں، عمل کی دنیا میں بسا اوقات اس کے اولین مقتضیات تک کو فراموش کر بیٹھتے ہیں۔ ہم دیکھنے کے باوجود بہت سی باتوں کو دیکھ نہیں پاتے اور جاننے کے باوجود جتائے جانے کے محتاج ہوتے ہیں۔ لہٰذا عین ممکن ہے کہ اس چیز کا بھی یہی حال ہو اور اس کا ویسا احساس نہ رکھا جاتا ہو جیسا کہ رکھا جانا چاہیے۔ اگر گرد و پیش کا اور ماضی و حال کا جائزہ لیجیے تو صاف نظر آئے گا کہ یہ صرف عالمِ امکان کی نہیں بلکہ عالمِ واقعہ کی بھی بات ہے۔ ایسی مثالوں کی کمی نہیں کہ اس اہم فریضے کی دشواریوں اور گراں باریوں کا صحیح احساس کیے بغیر قدم اٹھا دیے گئے، یا کچھ دور آگے چل چکنے کے بعد اس احساس کو اچھی طرح محفوظ نہ رکھا جا سکا۔ اس لیے ضرورت تھی کہ اس حقیقت کی بخوبی یاد دہانی کرا دی جائے تاکہ اگر ابھی تک یہ چیز ہمارے دور کے مشاہدے میں تھی تو اب اسے قریب سے دیکھ لیا جائے اور جب ہم اس راہ پر قدم رکھیں تو یہ جان کر رکھیں کہ آگے کن کن گھاٹیوں کو پار کرنا اور کیسی کیسی چٹانوں سے ٹکرانا ناگزیر ہے، اور پھر ایسا بھی ہو کہ آخر وقت تک یہ علم و احساس پوری طرح تازہ رہے۔ ورنہ یقین رکھنا چاہیے کہ اس راہ کو طے کرنے کے لیے جو سفر بھی ہم شروع کریں گے، اس کے لیے ضروری زادِ راہ کبھی ساتھ نہ لے سکیں گے۔ جس کا نتیجہ صرف یہ ہوگا کہ ہماری سعی و جہد کے قدم منزلِ مقصود سے کبھی آشنا نہ ہوں گے۔ آخر کوئی وجہ تو تھی جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ابتدا ہی میں اس حقیقت کا صاف صاف اظہار و اعلان کر دیا گیا تھا۔ اس کی حکمت سے یہ بالکل بعید ہے کہ اس نے یہ اعلان مجرد اعلان کی خاطر کیا ہو اور اس کے پیچھے کوئی اہم مصلحت کام نہ کر رہی ہو۔ یہ مصلحت اس کے سوا اور کچھ نہ تھی کہ اس عظیم مہم کے لیے جنھیں بلایا جا رہا تھا، وہ اچھی طرح سمجھ لیں کہ انھیں یہ بلاوا کس بلندی سے آ رہا ہے؟ اور پہلے دن سے وہ اس ثابت قدمی اور سرفروشی کے لیے تیار ہو جائیں جو اس مہم میں لازماً درکار تھی۔

اگر خیر و برکت کے اس دور میں بھی جس میں حق پرستی کے محرکات ہر طرف مصروفِ عمل تھے، یہ مصلحت ایک اہم مصلحت تھی، تو وہ آج فتنوں کے اس دور میں یقیناً اہم ترین ہو چکی ہے جس میں کہ غفلت اور حق فراموشی کے جراثیم نگلے بغیر سانس لینا بھی آسان نہیں رہ گیا ہے۔ اگر نوعِ انسانی کا سب سے عظیم فرد اور دنیا کا سب سے مقدس گروہ بھی اس ضرورت سے ماورا نہ تھا تو کسی اور شخص یا گروہ کو اس سے کس طرح بے نیاز خیال کیا جا سکتا ہے؟ وہ تو اس بات کا اور زیادہ محتاج ہوگا کہ اس مہم کی ہلا دینے والی ذمہ داریوں سے اوّل روز ہی احساس کی آخری حدوں تک باخبر ہو جائے اور پوری طرح باخبر ہو کر ہی اپنی کشتی دریا میں اتارے۔

تعمیرِ دین کے بنیادی پتھر

اوپر کی بحثوں میں تین باتیں واضح ہو چکی ہیں:

  1. دینِ حق کی اطاعت اور اقامت ایک بہت بڑا نصب العین اور ایک بہت بھاری ذمہ داری ہے۔
  2. ضروری ہے کہ اس نصب العین کا علم اٹھاتے وقت اس کی اس حیثیت کا پورا پورا احساس کر لیا جائے۔
  3. اس نصب العین کی خاطر جو جدوجہد کی جائے اس کی بنیاد شایانِ شان حد تک گہری اور مستحکم بنائی جانی چاہیے۔ یہی استحکام اس جدوجہد کی کامیابی کی سب سے اہم شرط ہے۔

اب ان وضاحتوں کے بعد قدرتاً خود بخود دو ضروری سوال پیدا ہو جاتے ہیں:

  1. اس بنیاد کی تعمیر کہاں اور کس "زمین" پر کی جاتی ہے؟
  2. یہ تعمیر کس طرح کی جاتی ہے؟ وہ کون کون سے بنیادی پتھر ہیں جو اس بنیاد کی نچلی گہرائیوں میں نصب کیے جاتے ہیں اور جن کے بغیر یہ تعمیر اپنی مطلوبہ حدِ کمال کو پہنچ ہی نہیں سکتی؟

جہاں تک پہلے سوال کا تعلق ہے، اس کا جواب بالکل کھلا ہوا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ اس بنیاد کی تعمیر خارج میں نہیں، بلکہ انسان کے داخل میں کی جاتی ہے۔ اس ارضِ خاکی سے، اس کی آغوش میں بسنے والے تمام انسانوں سے، ان انسانوں کے مسائل و معاملات سے بھی دین اللہ کا راست تعلق ہے۔ لیکن ان پر جس شے کی تعمیر ہوتی ہے وہ اس دین کی عمارت ہوتی ہے، نہ کہ اس عمارت کی بنیاد۔ اس بنیاد کا محلِ تعمیر صرف انسان کے افکار و تصورات ہیں، اس کے احساسات اور جذبات ہیں، اس کی عقل اور اس کا قلب ہے۔ اس بنیاد کے مستحکم ہونے کے معنی یہ ہیں کہ اس نصب العین کے علم برداروں میں اس کا ایسا گہرا عشق پیدا ہو جائے، اور پیدا ہو کر برابر بھڑکتا ہی رہے جو اس کے لیے اس دنیائے اسباب میں درکار بھی ہے، اور جس کا وہ حق دار بھی ہے۔ یہ حقیقت اتنی واضح اور روشن ہے کہ اس پر دلیلیں پیش کرنا گویا اس کی واضحیت پر حرف لانا ہے۔

البتہ دوسرا سوال بڑا اہم ہے، اس کا مجمل جواب تو شاید کچھ زیادہ غور طلب نہ ہو مگر سیر حاصل اور تسلی بخش جواب خاصی چھان بین اور گہرے تدبر کا طالب ہے۔ آگے جو کچھ بھی عرض کیا جائے گا وہ سب کا سب اسی جواب پر مشتمل ہوگا۔

اس جواب کے مآخذ تو بہرحال معلوم و متعین ہیں اور ان کے بارے میں دو رائیں ہو ہی نہیں سکتیں۔ یہ مآخذ اللہ کی کتاب، اس کے رسول کی سنت اور اسلام کی تاریخ ہیں، اور اس کتاب، اس سنت اور اس تاریخ کے بھی خاص کر وہ اوراق جن کا تعلق اسلام کے مکی دور سے ہے۔ کیوں کہ دینِ حق کا وہ حسین اور پرجلال ایوان جس کی تعمیر مدنی دور کے بالکل آخری لمحوں میں پایۂ تکمیل کو پہنچی، اس کی بنیاد انہی ایام میں ڈالی اور بھری گئی تھی۔ ان اوراق کا مطالعہ جہاں ہمیں یہ بتاتا ہے کہ اس بنیاد کی تعمیر مکمل کرنے میں تیرہ برس کی لمبی مدت صرف ہو گئی، وہاں وہ اس اہم حقیقت کا بھی انکشاف کرتا ہے کہ اس بنیاد کی نچلی گہرائیوں میں جو پتھر جمائے گئے تھے ان کی مجموعی تعداد صرف چار تھی:

  1. اللہ پر ایمان
  2. آخرت پر ایمان
  3. ذکرِ الٰہی (نماز)
  4. صبر

یہی چار چیزیں ہیں جن کی روح اگر داعیانِ حق کے دلوں میں اچھی طرح اتری ہوئی ہو تو یہ اس بات کی ضمانت ہوگی کہ وہ اپنے نصب العین کی راہ میں سست گامی کو کبھی روا نہ رکھیں گے اور یہ کہ دینِ حق کا قیام فی الواقع ایک مضبوط چٹان پر ہو رہا ہے۔ اس حقیقت کی تفصیلی شہادت تو مکی سورتوں کے صفحات پر منتشر صورت میں دور تک پھیلی نظر آ سکتی ہے، لیکن قرآن میں بعض مقامات ایسے بھی آپ کو ملیں گے جہاں یہ بات صرف چند لفظوں میں سمیٹ کر بیان کر دی گئی ہے۔ جن کے دیکھنے سے بیک دفعہ صاف نظر آ جاتا ہے کہ دینی نظام کے پورے ڈھانچے میں قلب و جگر کا مقام صرف انہی چیزوں کو حاصل ہے۔ مثلاً جس وقت اسلام کی دعوت انتہائی ناسازگار اور خطرناک دور سے گزر رہی تھی اور اس کے علم بردار بڑے سخت حالات سے دوچار تھے، اس وقت مسلمانوں کو ان حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے ہدایت فرمائی گئی:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ ۚ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ
(
البقرہ: ۱۵۳)
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو، صبر اور نماز سے مدد حاصل کرو، یقیناً اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔

اس ہدایت کے الفاظ پر غور کیجیے، ان میں پہلے تو مسلمانوں کو "اے اہلِ ایمان" کہہ کر خطاب کیا گیا ہے، پھر انہیں صبر اور نماز کی تلقین کی گئی ہے جس کا واضح مطلب یہ ہوا کہ پیرویٔ حق کے فرض سے عہدہ برآ ہونے کے لیے دو قسم کی چیزیں لازم ہیں:

  • ایک تو یہ کہ اعتقادی طور پر الَّذِينَ آمَنُوا (یعنی اللہ اور یومِ آخرت پر یقین رکھنے والوں) میں شرکت ہو۔
  • دوسری یہ کہ عملی طور پر صبر اور نماز کی پناہ پکڑی جائے۔

یہ حقیقت آپ کو اور زیادہ وضاحت کے ساتھ سورہ طٰہٰ کی درج ذیل آیتوں میں نظر آئے گی۔ ان میں ان ابتدائی اور بنیادی ہدایتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کو منصبِ رسالت پر مامور کرتے وقت دی گئی تھیں، فرمایا گیا ہے کہ:

فَلَمَّا أَتَاهَا نُودِيَ يَا مُوسَىٰ﴿١١﴾‏ إِنِّي أَنَا رَبُّكَ فَاخْلَعْ نَعْلَيْكَ ۖ إِنَّكَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى﴿١٢﴾‏ وَأَنَا اخْتَرْتُكَ فَاسْتَمِعْ لِمَا يُوحَىٰ﴿١٣﴾‏ إِنَّنِي أَنَا اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدْنِي وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي﴿١٤﴾‏ إِنَّ السَّاعَةَ آتِيَةٌ أَكَادُ أُخْفِيهَا لِتُجْزَىٰ كُلُّ نَفْسٍ بِمَا تَسْعَىٰ﴿١٥﴾‏ فَلَا يَصُدَّنَّكَ عَنْهَا مَن لَّا يُؤْمِنُ بِهَا وَاتَّبَعَ هَوَاهُ فَتَرْدَىٰ﴿١٦﴾‏
(
طٰہٰ: ۱۱-۱۶)
سو جب وہ آگ کے پاس پہنچے تو آواز آئی، اے موسیٰ، یقیناً میں تیرا رب ہوں پس تم اپنی جوتیاں اتار دو۔ کیوں کہ تم اس وقت پاک میدان "طویٰ" میں ہو۔ اور دیکھو! میں نے تم کو (اپنی رسالت کے لیے) پسند کر لیا ہے، لہٰذا اس وقت تم پر جو کچھ وحی کی جا رہی ہے اس کو غور سے سنو: میں اللہ ہوں، میرے سوا کوئی معبود نہیں۔ اس لیے میری بندگی کرو اور میری یاد کے لیے نماز قائم کرو، بے شک قیامت آ کر رہے گی، جس کو (ابھی مخلوق کی نگاہ سے) میں چھپائے رکھوں گا (اور یہ اس لیے) تاکہ ہر شخص کو اپنے کیے کا بدلہ مل جائے، تو دیکھو، وہ لوگ تمہیں اس (نماز) سے باز نہ رکھنے پائیں جو اس (یوم الحساب) کے آنے کا یقین نہیں رکھتے اور اپنی خواہشوں کے پیرو ہیں، کہ اس طرح تم تباہ ہو کر رہ جاؤ۔

ان الفاظ پر اساساتِ دین کی تعلیم و تلقین کا سلسلہ ختم ہو جاتا ہے اور آگے اس حکم کا تذکرہ آ جاتا ہے کہ فرعون کے پاس جا کر اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچائیں۔ صاف دیکھا جا سکتا ہے کہ ان آیتوں میں بھی انہی چار بنیادی باتوں کی تلقین کی گئی ہے جن کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے۔ سب سے پہلے تو توحید (یعنی ایمان باللہ) کی تعلیم دی گئی ہے، پھر ذکر اور نماز کا حکم دیا گیا ہے۔ اس کے بعد قیامت کے آنے اور اعمالِ انسانی کی جزا دیے جانے کا یقین دلایا گیا ہے اور آخر میں فَلَا يَصُدَّنَّكَ عَنْهَا مَن لَّا يُؤْمِنُ بِهَا کہہ کر اس امر کی تاکید کی گئی ہے کہ نماز – دوسرے لفظوں میں اللہ تعالیٰ کی بندگی – کے راستے پر تمہیں مضبوطی سے جما رہنا چاہیے اور اس سے تمہیں روکنے کے لیے کفر خواہ کتنا ہی ایڑی چوٹی کا زور لگائے، صبر و استقلال کا دامن تمہارے ہاتھوں سے ہرگز نہ چھوٹنے پائے۔

اگرچہ ان ارشاداتِ الٰہی کے اولین اور براہِ راست مخاطب حضرت موسیٰ علیہ السلام ہی ہیں لیکن ظاہر بات ہے کہ یہ ہدایتیں آں جناب ہی کے لیے مخصوص نہ تھیں بلکہ آپ کے توسط سے اور آپ کی تبعیت میں وہ لوگ بھی انہی کے مخاطب تھے جو آپ پر ایمان لائے تھے۔ معلوم ہوا کہ فرائضِ نبوت انجام دینے کے لیے بھی اور انبیاء کی سچی اتباع کے لیے بھی بنیادی طور پر جن چیزوں کی سب سے پہلے ضرورت ہے، وہ یہی چار چیزیں ہیں۔

قرآن مجید کے یہ دونوں حوالے، جو اوپر دیے گئے ہیں، ان دعوتوں سے تعلق رکھتے ہیں جو براہِ راست انبیاء علیہم السلام کی موجودگی اور رہنمائی میں چلی تھیں۔ اس لیے کسی کو شاید یہ خیال گزرے کہ ایسی دعوتوں کی حد تک تو انہی چیزوں کا بنائے تعمیر ہونا یقیناً ضروری تھا، مگر ہو سکتا ہے کہ ان دعوتوں اور تحریکوں کے سلسلے میں بھی ٹھیک انہی چیزوں کا بنائے تعمیر ہونا ضروری نہ ہو جو انبیاء کی غیر موجودگی میں اسلام کو از سرِ نو زندہ اور قائم کرنے کے لیے اٹھائی جائیں۔ لیکن یہ خیال نہ عقلاً صحیح ہے نہ نقلاً۔ "عقلاً" اس لیے کہ ایک کام کے سلسلے میں جو چیزیں بنیاد کی حیثیت رکھتی ہیں وہ صرف زمانے اور اشخاص کے بدل جانے سے خود بھی نہیں بدل جاسکتیں، بلکہ ہر حال میں، ہر زمانے میں اور ہر شخص اور ہر گروہ کے لیے ان کی اہمیت جوں کی توں برقرار رہتی ہے۔ "نقلاً" اس لیے صحیح نہیں کہ کتاب و سنت میں اس خیال کی کوئی کمزور سے کمزور بنیاد بھی نہیں ملتی۔ اس کے برخلاف ہم دیکھتے ہیں کہ قرآنِ حکیم نے ان اہلِ کتاب کو جو اللہ کا دین رکھنے کے باوجود اپنے فرضِ بندگی سے غافل ہو کر تقریباً لا دین زندگی گزار رہے تھے، جب ان کی ذمہ داریاں یاد دلائیں اور ان سے مطالبہ کیا کہ وہ انہیں از سرِ نو سنبھال لیں تو ان کے سامنے بھی اس نے تعمیرِ دین کے بنیادی لائحۂ عمل کی حیثیت سے ان کے سوا اور کوئی چیز پیش نہیں کی۔

مثال کے طور پر سورہ بقرہ کی چالیسویں آیت سے پڑھنا شروع کیجیے۔ پہلے تو تین چار آیتوں تک بنی اسرائیل سے اس عہد کو از سرِ نو پورا کرنے کا پر زور مطالبہ کیا گیا ہے جو انھوں نے اپنے رب سے باندھ رکھا تھا۔ پھر ان صبر آزما حالات اور مشکلات کے پیشِ نظر جن سے اس منزلِ ہفت خواں میں دوچار ہونا، بہرحال ناگزیر تھا، آگے فرمایا گیا ہے:

وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ ۚ وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلَّا عَلَى الْخَاشِعِينَ﴿٤٥﴾‏ الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُم مُّلَاقُو رَبِّهِمْ وَأَنَّهُمْ إِلَيْهِ رَاجِعُونَ﴿٤٦﴾‏
(
البقرہ: ۴۵-۴۶)
اور (اس ایفائے عہد کے کام میں) صبر اور نماز سے مدد لو، بلاشبہ یہ نماز ان لوگوں کے سوا جن کے دلوں میں اللہ کا خشوع ہو اور جو اس امر کا یقین رکھتے ہوں کہ انہیں ضرور اپنے رب سے ملنا اور اسی کے حضور پلٹ کر جانا ہے، اوروں کے لیے بہت شاق ہے۔

یاد رہے کہ یہ خطاب ایسے لوگوں سے ہے جو صاحبِ ایمان ہونے کے مدعی ہیں، اور گفتگو کا موقع انذار و توبیخ کا نہیں بلکہ دعوت و ترغیب کا ہے۔ اس لیے بات ایمان کے مطالبے یا اس کی تعلیم و تلقین سے نہیں شروع کی گئی اور ان سے صراحتاً یوں نہیں کہا گیا کہ تمہارے اندر خدا اور آخرت کا یقین مردہ ہو چکا ہے، پہلے اسے زندہ کرو اور پھر صبر و نماز سے مدد لو۔ بلکہ اس کے کہنے کا انداز بھی بدل دیا گیا اور اس کی ترتیب بھی بدل دی گئی۔ یعنی کلام کی ابتدا اساساتِ دین کے اعتقادی حصے (ایمان باللہ اور ایمان بالآخرت) سے، جو اصولاً مقدم ہیں، کرنے کی بجائے ان کے عملی حصے (صبر اور نماز) سے کی گئی ہے اور بظاہر انہی کو مرکزِ توجہ بنایا گیا ہے۔ اس طرح گویا ان کے ادعائے ایمان کی بابت ایک طرح کی خاموشی اختیار کر لی گئی ہے اور جیسا کہ ابھی عرض کیا گیا، موقع و محل اسی اسلوبِ کلام کا متقاضی تھا۔ لیکن جس طرح موقع محل کا تقاضا یہ تھا کہ شروع ہی میں ان سے ایمان باللہ اور ایمان بالآخرت کے مطالبے کا ذکر نہ کیا جائے، اسی طرح یہ بھی خلافِ مصلحت تھا کہ اس طرف سے مکمل سکوت اختیار کر لیا جائے اور ان کی اساسِ دین کے کھوکھلے پن کا اصلی راز، خود ان کے سامنے بھی اور دوسروں کے سامنے بھی آشکارا نہ کر دیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ کلامِ الٰہی نے نماز کے ذکر کو ذرا وسعت دے دی اور اس کے لیے بیان کا انداز ایسا اختیار کیا کہ محض اس اندازِ بیان ہی نے اس راز کو پوری خوش ادائی کے ساتھ بے نقاب کر دیا۔ اتنی خوش ادائی کے ساتھ کہ جس مطالبے کو پہلے صاف لفظوں میں ان کے روبرو رکھ دینے سے اجتناب کیا گیا تھا وہ اشاروں اشاروں میں بالکل کھل کر سامنے آگیا، اور ایسے مؤثر انداز میں آگیا کہ صراحت کی شکل میں یہ تاثیر ہرگز نہ پیدا ہو سکتی تھی۔ فرمایا گیا کہ "صبر اور نماز سے مدد حاصل کرو"۔ پھر فرمایا گیا کہ "صبر کا دشوار ہونا تو ایک کھلی بات ہے مگر یقین رکھو، نماز (بھی) ان لوگوں کے لیے کچھ کم دشوار نہیں جو اپنے اندر اللہ کا خشوع نہیں رکھتے اور جن کے دل اس کے روبرو حساب کی خاطر حاضر ہونے کے اندیشے سے خالی ہیں۔" اس طرح ایک طرف تو انہیں یہ معلوم کرایا گیا کہ جس نماز سے تمہیں یہ مطلوبہ مدد مل سکتی ہے اس کی ادائیگی اسی وقت ممکن ہے جب کہ دل میں اللہ تعالیٰ پر ایمان اور اس کا خوف اور خشوع موجود ہو اور آخرت کے محاسبے سے وہ پوری طرح اندیشہ ناک ہو۔ دوسری طرف یہ حقیقت بھی ان پر واضح کر دی گئی کہ تمہارے اندر یہ دونوں ایمانیات دم توڑ چکے ہیں اور دراصل یہی تمہاری ساری بدبختیوں کی جڑ ہے۔ جب تک تم اپنے سینوں کو از سرِ نو ان ایمانیات سے آباد نہ کر لو گے نہ تو دین کے تقاضوں پر عمل کر سکو گے اور نہ اس کی مشکلاتِ راہ پر ثابت قدمی کا مظاہرہ کر پاؤ گے اور جب یہ سب کچھ نہ ہوگا تو حق پرستی اور دین داری کا دروازہ تمہارے سامنے بدستور بند ہی رہے گا۔

اگرچہ یہ بنی اسرائیل بھی، جن کا یہ تذکرہ تھا، اسلام کے مخاطب تھے اور پیغمبرِ آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت اور دعوت پر ایمان لانے کے مکلف تھے، لیکن اس کے باوجود ان کی پوزیشن دوسرے لوگوں سے بنیادی طور پر مختلف تھی۔ دوسروں کے لیے یہ دعوت بالکل نئی دعوت تھی، لیکن ان کے لیے نئی نہیں تھی بلکہ بہت بڑی حد تک دین اللہ کی نشاۃِ ثانیہ کی دعوت تھی۔ کیوں کہ جہاں تک اصولی باتوں کا تعلق ہے اسلام اور قرآن میں کوئی ایسی بات نہ تھی جس سے وہ واقف نہ رہے ہوں اور جس پر انہیں ایمان رکھنے کا دعویٰ نہ رہا ہو۔ اگر کوئی چیز بظاہر نئی تھی جس پر انھیں ایمان لانا تھا، تو وہ صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت تھی۔ مگر اسے بھی نئی فی الواقع نہیں کہہ سکتے، کیوں کہ وہ آپ کی بعثت کا پہلے سے علم رکھتے تھے، بلکہ اس کے منتظر تھے اور بعثت کے بعد آپ کو پہچان لینے میں انھیں بھی کوئی تردد لاحق نہیں ہوا۔ ان حقائق کے پیشِ نظر اسلام کی دعوت ان کے لیے حقیقتاً کوئی جدید دعوت نہ تھی بلکہ ان کی ایک تسلیم شدہ تعلیم کے احیاء کی دعوت تھی، ایک ایسی چیز کے حقوق ادا کرنے کا مطالبہ تھی جس کو وہ اپنی کہتے تھے۔ آپ نے دیکھا کہ ان کے سامنے بھی انہی چاروں چیزوں کو بنائے تعمیر کی حیثیت سے پیش کیا گیا۔ یہ یقیناً اس امر کا اعلان ہے کہ جب بھی کوئی احیائے اسلام کی تحریک اٹھے اس کی بنیاد کی تعمیر بھی انہی چاروں چیزوں سے ہوگی۔

ان تفصیلات سے یہ حقیقت پوری طرح روشن ہو جاتی ہے کہ ہر دعوت کے لیے انہی چار چیزوں کو بنیادی اہمیت حاصل ہے، خواہ وہ کسی نبی کی موجودگی اور اس کی راست رہنمائی میں چل رہی ہو، خواہ انبیاء علیہم السلام کی غیر موجودگی میں اور اسلام کی نشاۃِ ثانیہ کے لیے اٹھائی گئی ہو۔ اس لیے یہ بالکل ضروری ہے کہ آج بھی جو لوگ دینِ حق سے وابستگی رکھنے والے اور اس کا علم اٹھانے والے ہوں وہ ان بنیادی چیزوں پر اپنی نگاہیں پورے اہتمام سے جمائے رکھیں اور اس کامل یقین کے ساتھ جمائے رکھیں کہ دین کو برپا کرنے کے لیے جس سروسامان کی ضرورت ہے اس کی تیاری کے لیے قدرت نے صرف یہی چار "کارخانے" بنائے ہیں۔ دنیا کے دوسرے تمام کارخانوں کے ڈھلے ہوئے کل پرزے "میگنو" اور "سگفرڈ" لائنیں تو بنا سکتے ہیں مگر مسجدِ قبا کا ایک گوشہ بھی تعمیر نہیں کر سکتے۔ اس لیے جسے یہ تعمیر منظور ہو اس کے لیے قطعی ضروری ہے کہ انہی چاروں کارخانوں کی طرف رجوع کرے۔

جو چیزیں اتنی اہمیت رکھتی ہیں کہ ایک مومن کی کوشش کا کامیاب ہونا موقوف ہی انہی پر ہے، ان کا اس پر یہ ایک بدیہی حق ہوگا کہ وہ ان سے تعلق رکھنے والی ایک ایک بات پوری واقفیت بہم پہنچا لے اور اچھی طرح جان لے کہ ان کی حقیقت کیا ہے؟ ان کے تقاضے اور مطالبے کیا ہیں؟ وہ دین کی پیروی اور اس کی اقامت کی جدوجہد میں تمام دوسری باتوں سے زیادہ ضروری کیوں ہیں؟ وہ انسان کو اس جدوجہد کے لیے کس حد تک تیار کرنے والی ہیں اور کس طرح؟ وہ کیا تدبیریں ہیں جن سے انہیں بتدریج ترقی دے کر معیارِ مطلوب تک پہنچایا جا سکتا ہے؟ اور آخر میں یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مثالی زندگیوں نے ان کا عملی نمونہ کیسا پیش کیا ہے؟ جب تک وہ اس مکمل واقفیت کے فرض سے عہدہ برآ نہ ہوگا ممکن نہیں کہ دین کی ذمہ داریوں سے صحیح طور پر سبکدوش ہو سکے۔

آئیے ان سوالوں کے مطابق ایک ایک چیز کا تفصیلی جائزہ لیں۔

 

باب دوم: اللہ پر ایمان

[۱] دین میں ایمان باللہ کا مقام

ایمان باللہ دین کی بنیاد کا سب سے پہلا پتھر ہے۔ اس لیے سب سے زیادہ اہم بھی ہے، اس قدر اہم کہ اس کے بغیر کسی شخص کے اندر وجودِ اسلام کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ حتیٰ کہ یہ کہنا بھی کسی طرح غلط نہ ہوگا کہ دین کا بنیادی پتھر فی الواقع تنہا یہی ایک چیز ہے اور باقی تمام چیزیں اس کے مقابلے میں فروع کی حیثیت رکھتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب کبھی موقعِ بیان یہ چاہتا ہے کہ دین و شریعت کی ساری تعلیمات کو بیان کرنے کے بجائے کم سے کم لفظوں میں ان کا صرف مغز اور جوہر مخاطب کے سامنے رکھ دیا جائے تو کلامِ الٰہی اور کلامِ رسول دونوں ہی میں صرف ایمان باللہ کا ذکر کر دیا جاتا ہے۔ مثلاً قرآن ایک جگہ کہتا ہے:

إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنتُمْ تُوعَدُونَ
(
حم السجدۃ: ۳۰)
یقیناً ان لوگوں پر جنھوں نے کہا کہ "ہمارا رب اللہ ہے" اور پھر اپنے اس قول پر پوری طرح جمے رہے، فرشتے یہ پیام لے کر اترتے ہیں کہ اب تمہیں نہ کسی شے کا ڈر ہوگا نہ کسی چیز کا غم، اور اس جنت کی خوشخبری سنو جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا رہا ہے۔

بعینہٖ یہی بات اور یہی اندازِ گفتگو پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں بھی موجود ہے اور بکثرت موجود ہے۔ مثلاً ایک بار کا واقعہ ہے، حضرت سفیان بن عبداللہ ثقفی رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی "اے اللہ کے رسول! اسلام کے متعلق مجھے کوئی ایسی بات بتا دیجیے کہ آپ کے بعد پھر مجھے کسی سے اس کے لیے کچھ پوچھنا نہ پڑے"، آپؐ نے فرمایا:

قُلْ آمَنْتُ بِاللَّهِ ثُمَّ اسْتَقِمْ۔
(
صحیح مسلم)
کہو کہ میں اللہ پر ایمان لایا، پھر اس پر جم جاؤ۔

اسی طرح حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کی مشہور روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

مَا مِنْ عَبْدٍ قَالَ لَا إِلَٰهَ إِلَّا اللَّهُ ثُمَّ مَاتَ عَلَىٰ ذَٰلِكَ إِلَّا دَخَلَ الْجَنَّةَ۔
(
صحیح بخاری، صحیح مسلم)
جس شخص نے بھی کہا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور مرتے دم تک اس کا یہی عقیدہ رہا، جنت میں داخل ہوگا۔

اور ایسا اسی وجہ سے ہے کہ "ایمان باللہ" کہنے میں اگرچہ صرف ایک ہے، مگر حقیقتاً وہ پورے دین کا قائم مقام ہے، اور اگر اس کی گہرائیوں میں ڈوب کر دیکھیے تو تہہ میں دینی حقائق اور مطالبات کی پوری دنیا آباد نظر آئے گی۔ کیوں کہ جس کسی کو اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی تمام صفات کی صحیح معرفت حاصل ہوگی وہ اس تصور سے بےگانہ نہیں رہ سکتا کہ جزا و سزا کا ایک دن آنے والا ہے، نہ وہ اس احساس سے بے بہرہ ہوگا کہ اپنے پروردگار اور معبودِ حقیقی کی یاد میری زندگی کا ایک لازمی وظیفہ ہونا چاہیے اور نہ وہ اس تلقین کا محتاج ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لیے مجھے اپنا سب کچھ قربان کر دینا چاہیے اور اس کے احکام کی اطاعت میں کسی کمزوری، کسی دل شکستگی اور مشکلات کے مقابلے میں کسی مرعوبیت کا شکار نہ ہونا چاہیے۔ یہ سب باتیں اس کے علم میں لازماً موجود ہو چکی ہوں گی۔ کیوں کہ یہ اللہ تعالیٰ کی صفات کے بنیادی اور بدیہی تقاضے ہیں۔ اس لیے اگر سورج کا ٹھیک ٹھیک مشاہدہ کر لینے کے بعد یہ ممکن نہیں رہ جاتا کہ کوئی شخص اس کی شعاع ریزیوں، جہاں تابیوں اور حرارت بخشیوں سے بے خبر رہ جائے تو یہ بات بھی ممکن نہیں ہو سکتی کہ صفاتِ الٰہی کا صحیح اور تفصیلی علم رکھتے ہوئے بھی کوئی ذی عقل ان کے ان کھلے تقاضوں سے ناواقف رہ جائے۔

ایمان باللہ کی یہی جامعیت اور اس کی یہی بنیادی اور امتیازی اہمیت ہے جس کے باعث ہر نبی پر آنے والی وحی کا آغاز اسی کی تعلیم و تلقین سے ہوتا رہا ہے۔ طور کی پہاڑی پر سب سے پہلی آواز جو آئی وہ بھی یہی تھی کہ:

إِنِّي أَنَا رَبُّكَ فَاخْلَعْ نَعْلَيْكَ ۖ إِنَّكَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى﴿١٢﴾‏ وَأَنَا اخْتَرْتُكَ فَاسْتَمِعْ لِمَا يُوحَىٰ﴿١٣﴾‏ إِنَّنِي أَنَا اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدْنِي...
(
طٰہٰ: ۱۲-۱۴)
موسیٰ! بلاشبہ میں ہوں تمہارا رب اور میں نے تمہیں (پیام رسانی کے لیے) منتخب کر لیا ہے، سو ان باتوں کو غور سے سنو جن کی تم پر وحی کی جا رہی ہے۔ بالیقین میں اللہ ہوں۔ میرے سوا کوئی بندگی کا مستحق نہیں، پس میری بندگی کرو۔

اسی طرح غارِ حرا میں سب سے پہلے جو الفاظ گونجے تھے وہ بھی یہی تھے کہ:

اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ
(
العلق: ۱)
پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے تجھے پیدا کیا ہے۔

جب انبیاء کرام علیہم السلام کو یہی حقیقت سب سے پہلے سمجھانے کی ضرورت محسوس ہوئی تو عام انسان کس شمار میں ہیں، وہ تو اس امر کے اور زیادہ محتاج تھے کہ ان کے کانوں میں سب سے پہلے یہی بات ڈالی جائے اور ان کے دلوں میں پہلے دن اسی کی روح پھونکی جائے۔ چناں چہ ایسا ہی ہوا اور بلا استثناء ہر نبی نے اپنی امت کو سب سے پہلے یہی دعوت دی کہ:

أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ ۖ
(
النحل: ۳۶)
اللہ کی بندگی کرو اور جھوٹے معبودوں سے دور رہو۔

غرض، ایمان باللہ ہی فی الواقع وہ نقطہ ہے جو پھیل کر دین کا پورا دائرہ بناتا ہے۔ جب تک یہ نقطہ نہ ہو کسی اور چیز کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا، اسی طرح جب تک اسے درست نہ کر لیجیے تعمیرِ دین کا کوئی قدم آگے اٹھ ہی نہیں سکتا۔

مقام اور اہمیت کا تقاضا

جس شے کا دین میں مقام اتنا اونچا ہو اور جو ہمیشہ سے اس بات کی حق دار رہی ہو کہ بنائے دین کی تعمیر میں سب سے زیادہ ہی نہیں، بلکہ سب سے پہلے بھی اسی پر توجہ کی جائے، وہ چاہے گی کہ آج بھی اس کو یہی مقام دیا جائے اور اسے اسی عملی توجہ کا حق دار تسلیم کیا جائے۔ لہٰذا دینِ حق کی اطاعت اور اقامت کا عزم رکھنے والوں پر سب سے پہلا فرض یہ عائد ہوتا ہے کہ وہ اپنے ایمان باللہ کا جائزہ لے کر دیکھیں اور جن جن پہلوؤں سے اس میں خامی نظر آئے ان کی تعمیر اور تکمیل کی تدبیریں اختیار کریں۔ یہاں تک کہ ان کے اندر ایمان کی روح بیدار سے بیدار تر ہو جائے۔ ان دونوں کاموں، ایمانی حالت کے جائزے اور تعمیری و تکمیلی تدابیر میں سے دوسرے کام کی اہمیت اور دشواری تو بالکل عیاں اور مسلم ہے۔ لیکن پہلے کام کو بھی آسان نہ سمجھنا چاہیے۔

اس سلسلے میں انسان کا نفس بہت آڑے آتا ہے اور اسے مغالطے پر مغالطے دینے کی مسلسل کوشش کرتا ہے۔ چاہیے کہ مردِ مومن اس طرح کے مغالطے میں ہرگز نہ آئے اور اپنے نفس کو ہرگز اس امر کی اجازت نہ دے کہ وہ اپنی پرفریب تاویلوں اور سخن طرازیوں سے اس کے اندر ایمان کی پختگی کا جھوٹا پندار پیدا کر دے، اور اس طرح وہ اپنے فرض سے غافل ہو کر رہ جائے۔

اس زمانے میں جب کہ ایمان کے مطلوبہ معیار کی طرف سے ایک عام بے پروائی اور سخت بے حسی پیدا ہو گئی ہے، ہمارے ذہنوں کا اس امر پر آمادہ ہونا سخت دشوار ہے کہ ہم مسلمان ہونے کے باوجود اس بات کے ضرورت مند ہیں کہ اپنے اندر ایمان باللہ کی روح کو زندہ اور بیدار کریں۔ کیوں کہ ہم اس خوش گمانی میں مبتلا ہیں کہ ہمارے اندر تو اسلام اور ایمان چشمِ بد دور، پہلے ہی سے بلکہ ہمیشہ سے موجود ہے۔ پھر ہم سے ایمان باللہ کا مطالبہ کیا معنی؟ مگر ظاہر ہے یہ کھلی ہوئی غلط اندیشی ہے اور یہ غلط اندیشی دراصل نتیجہ ہے اس بات کا کہ ہم ایمان باللہ کی اس حقیقت سے بالکل اندھیرے میں ہیں جس کا قرآن ہم سے مطالبہ کرتا ہے اور اس نام نہاد "ایمان باللہ" کو بھی، جس سے آج کے ہر کفر، ہر طاغوت، ہر ابو جہل، ہر قیصر اور ہر کسریٰ کی نہ صرف آشتی ہے بلکہ بعض حالات میں اس کو ان کی حفاظت اور سرپرستی کا فخر بھی حاصل ہے، اسی ایمان باللہ کا ہم جنس سمجھتے ہیں جس کو دیکھ کر کبھی چشمِ باطل میں خون اتر آتا تھا۔ یہ خوش گمانی بلکہ خود فریبی ایک وبا کی طرح ہر سمت پھیلی ہوئی ہے اور کتنے ہی دماغوں کی فکری قوتوں کو ماؤف کیے ہوئے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ایمان کا دعویٰ اور خواہشوں کی پوجا دونوں چیزیں ایک ساتھ جمع کر لینے میں کوئی زحمت محسوس نہیں کی جاتی۔ ہر بے راہ روی کے لیے "مسلمان" کا دروازہ کھلا ہوا ہے۔ کسی بھی باطل نظریے کے قبول کر لینے سے خدائے واحد کی غلامی کے عہد پر کوئی آنچ نہیں آنے پاتی۔

لہٰذا ضرورت ہے کہ اس غلط اندیشی کی ریت سے سر باہر نکال لیے جائیں جس کے لیے پہلی شرط یہ ہے کہ ہم ایمان کی ترازو، عقائد و کلام کی کتابوں کو اپنانے کے بجائے کتاب و سنت کو اپنائیں اور یہ معلوم کرنے کے لیے کہ جس ایمان باللہ کی ہمیں ضرورت ہے اس کا واقعی مطلب اور مقتضا کیا ہے، قرآن کے بیانات سے رہنمائی حاصل کریں۔ اس بات کو کبھی نہ بھولنا چاہیے کہ عقائد و کلام کی کتابوں میں جس ایمان کی بحث ہے وہ صرف وہ "سیاسی ایمان" ہے جو ایک اسلامی اسٹیٹ سے یا کسی مسلم سوسائٹی سے ایک شخص کو اہلِ ایمان سے سیاسی اور معاشرتی حقوق تو دلا سکتا ہے مگر دین کی تعمیر میں بنیاد کا پتھر ہرگز نہیں بن سکتا اور نہ اس سے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ اتباعِ دین کی راہ میں حائل ہونے والی مشکلات کے طوفان سے اس کی کشتی کبھی پار لگا سکے گی۔ یہ شرف تو اللہ تعالیٰ نے صرف اس ایمان کے لیے مخصوص کر رکھا ہے جو قرآن کی نگاہوں میں ایمان ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اسی ایمان کو ایمان سمجھا جائے اور اس کے حاصل کرنے پر اپنی توجہ جما لی جائے۔

اس بات کا اندازہ کرنا کہ ہمارا موجودہ ایمان کس قسم کا ہے، سیاسی اور ظاہری یا حقیقی اور قلبی؟ بہت آسان ہے۔ اس کے لیے صرف اتنا کرنا کافی ہوگا کہ ہم اس آئینے کو اپنے روبرو رکھ لیں جسے قرآن و سنت نے ایمان باللہ کے لوازم و مقتضیات اور اہلِ ایمان کی صفات و خصوصیات کی شکل میں پیش کیا ہے اور پھر اس کے اندر اپنے ایمان کے ایک ایک خط و خال کو بغور دیکھیں اور اپنی سیرت و کردار کے ایک ایک پہلو کا اچھی طرح جائزہ لیں۔ اگر نظر آئے کہ ہم وہ کچھ بھی کر رہے ہیں جو ایمان باللہ کی روح کے ساتھ کسی طرح میل نہیں کھاتا تو اس کو اس امر کی قطعی علامت سمجھیں کہ ایمان کی روح ہمارے اندر نہیں اتری ہے، یا کم از کم یہ کہ اس روح پر غفلت اور پژمردگی چھائی ہوئی ہے۔ اپنے اندرون کا جب تک ایسا بے لاگ احتساب نہ کر لیا جائے ممکن نہیں کہ انسان اپنے ایمان کی تطہیر اور ترقی کی طرف مائل ہو اور حسنِ نیت کے ساتھ اگر ایسا احتساب کر لیا جائے تو پھر ناممکن ہے کہ انسان اس طرف سے بالکل غافل پڑا رہ جائے اور اپنی سوئی ہوئی ایمانی روح کو بیدار کرنے کی فکر اور سعی میں ڈوب نہ جائے۔

بیداریٔ ایمان کی عملی تدبیریں

اس فکر و سعی کے صحیح عملی طریقے کیا ہیں؟ یہ ایک نہایت اہم سوال ہے جس کا جواب ایک بندۂ مومن کا دل تو بڑی آسانی سے دے سکتا ہے مگر لفظوں میں انھیں ٹھیک ٹھیک بیان کر دینا شاید ممکن ہی نہیں۔ تاہم قرآن اور سنت کے مطالعے سے اس سلسلے میں جو روشنی ملتی ہے اس کی مدد سے چند موٹی موٹی اور اصولی تدبیروں کی تعیین ضرور کی جا سکتی ہے اور یقین ہے کہ ان تدبیروں پر اگر مناسب عمل درآمد کیا جائے تو انسان اپنے مقصود و مراد کو لازماً پا لے گا۔ یہ تدبیریں حسبِ ذیل ہیں:

۱ - شعوری ایمان کا حصول

سب سے پہلی اور بنیادی بات تو یہ ہے کہ رسمی، موروثی اور تقلیدی ایمان کو شعوری ایمان سے بدلنے کی کوشش کی جائے۔ ہماری عام حالت اس وقت یہ ہے کہ ہمارے ایمان کی بنیاد کسی گہرے شعور اور یقین پر نہیں ہے۔ ہم بے شک خدا کو ایک مانتے ہیں، اسے علیم و حکیم، آمر و حاکم اور مجازی و معبود تسلیم کرتے ہیں لیکن زیادہ تر صرف اس لیے کہ جن گودوں میں ہم نے آنکھیں کھولی ہیں اور جس ماحول میں ہماری پرورش ہوئی ہے وہاں اسے ایسا ہی مانا اور تسلیم کیا جاتا رہا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ شعور اور بصیرت سے خالی اور تقلیدی ایمان اپنے اندر ہرگز یہ سکت نہیں رکھ سکتا کہ اس سے بندگیٔ رب کے عملی تقاضے پورے ہوتے رہیں، حتیٰ کہ وہ راہِ حق سے روکنے والے مادی علائق پر قینچی چلا دیا کرے۔ یہ طاقت ایمان میں اگر پائی جا سکتی ہے - درآںحالیکہ اسے ضرور پایا جانا چاہیے - تو صرف اسی وقت جب کہ اس میں شعور کی زندگی آ چکی ہو، ذاتی بصیرت کے نور سے وہ جگمگا اٹھا ہو اور اس کی حیثیت سنی ہوئی بیرونی شہادت کے مقام سے اپنے چشمِ دل کے گویا مشاہدے کی سی ہو گئی ہو۔

ایمان میں یہ شعوری کیفیت اور یہ بصیرت پیدا کیسے ہوتی ہے؟ اس کے لیے بالعموم تین طریقے اختیار کیے جاتے ہیں:

  1. ایک طریقہ تو قرآن و سنت کا متعین کیا ہوا ہے، جو مکمل اور خالص فطری طریقہ ہے اور حقیقی فلاح کا بہرحال ضامن ہے۔
  2. دوسرا طریقہ ان عام اربابِ تصوف کا ہے جنھوں نے تصوف کو ایک مستقل فن بنا دیا ہے۔ یہ طریقہ غیر متوازن بھی ہے، نامکمل بھی ہے اور حصولِ مقصد کے نقطۂ نگاہ سے نا تشفی بخش بھی۔
  3. تیسرا طریقہ فلسفے کا ایجاد کردہ ہے، جو نامکمل اور ناقص ہی نہیں، حد درجہ تباہ کن بھی ہے۔

جہاں تک فلسفے اور اہلِ فلسفہ کے دعووں کا تعلق ہے اگرچہ وہ بڑے بلند بانگ ہیں، مگر حق یہ ہے کہ اس فلسفے نے ایمان کے حصول میں نہ کبھی کوئی مدد دی ہے اور نہ آئندہ دے سکتا ہے۔ البتہ اس سے اور زیادہ دور پھینک دینے میں بہت کچھ کارگر ضرور ہو سکتا ہے اور ہوتا رہا ہے۔ درحقیقت یہ بھی ہماری دینی تاریخ کا ایک بڑا ہی الم ناک باب ہے کہ لوگوں نے عقائد و افکار تو قرآن سے لیے مگر ان کی صداقت پر دلائل مہیا کرنے کے لیے وہ یونانی تفلسف کے اس بیابان میں جا دوڑے جہاں شک و ریب اور تذبذب کی خاردار جھاڑیوں کے سوا کچھ نہ تھا۔ حالاں کہ جس قرآن نے ان حقائق کی تعلیم دی ہے وہ اپنی جو بات کہتا ہے اس کے دلائل بھی خود ہی پیش کرتا جاتا ہے۔ یہ کام کسی اور پر اٹھا نہیں رکھتا۔ اس لیے توحیدِ الٰہی پر اور اللہ کی دوسری صفات پر دلائل بھی اس نے خود ہی مہیا کر دیے ہیں اور اس کے یہ دلائل ایسے عقلی اور فطری ہیں جن سے دماغ کو سکون اور قلب کو پوری طمانیت ملتی ہے وَلِلَّهِ الْحُجَّةُ الْبَالِغَةُ۔

دوسرے طریقے کی خامی یہ ہے کہ اس میں ایمان کو جلا دینے اور دل کا تزکیہ کرنے کا ٹھیٹ قرآنی اور مسنون انداز اختیار نہیں کیا جاتا۔ ابتدائی زمینوں کو تقریباً یوں ہی چھوڑ کر آخری زینے پر قدم رکھ دیا جاتا ہے۔ شروع سے لے کر آخر تک سارا زور جذباتِ محبت کو ابھارتے رہنے اور باطنی کیفیات حاصل کرنے پر صرف کر دیا جاتا ہے، جب کہ اس سے پہلے ضرورت اس امر کی ہے کہ عقلی دلیلوں کے ذریعے ایمانیات کی جڑیں مضبوط کی جائیں، پھر شریعت کے احکام اور قوانین سیکھے جائیں اور اپنی عملی ذمہ داریوں کو سمجھا جائے، اس کے بعد ان قوانین میں کام کرنے والی حکمتوں سے شناسائی حاصل کی جائے۔ ان تینوں باتوں کا مناسب اہتمام کیے بغیر نفس کا وہ متوازن اور ہمہ جہاتی تزکیہ ہو ہی نہیں سکتا جو کہ قرآن کو مطلوب ہے۔ یہ ایک بڑا مشکل سوال ہے کہ ان حضرات سے اس طریقے کے پوری طرح اپنانے میں چوک کیسے ہو گئی؟ چھپی ہوئی حقیقتوں کا جاننے والا تو صرف اللہ ہے مگر جہاں تک آثار و قرائن کام کرتے ہیں، خیال یہی ہوتا ہے کہ اس چوک کی وجہ ان لوگوں کا یہ غلط تصور ہے کہ مذہب کا تعلق صرف دل سے ہے، عقل سے اس کا کوئی رشتہ ہی نہیں۔ حالاں کہ دین و مذہب کے باب میں دل اور عقل کی یہ تفریق ایسی ہی غلط اور غیر قرآنی ہے جیسی کہ دین اور سیاست کی تفریق۔ دراصل اسلام نے دین کا جو وسیع اور ہمہ گیر تصور پیش کیا ہے، اس کا دماغوں میں ٹھیک ٹھیک بیٹھنا اور نقش رہنا عملاً کچھ آسان نہیں۔ اگرچہ الفاظ کی حد تک اس کا اقرار کرنے اور اسے خراجِ عقیدت پیش کرتے رہنے میں تو کسی کی زبان سست نہیں پڑتی اور ہر شخص خواہ وہ صوفی ہو یا عالم یا سیاست داں، کوئی بھی ہو، اس زبانی جمع خرچ میں سب سے آگے ہی رہنے کی کوشش کرتا ہے مگر جب عمل کا وقت آتا ہے تو کہیں سیاست کو دین سے الگ اور آزاد کر لیا جاتا ہے، کہیں عقل کا رشتہ دین سے کاٹ دیا جاتا ہے، کہیں ظواہرِ شرع ہی کو اصل دین سمجھ لیا جاتا ہے۔ وہ دن اسلام کے حق میں انتہائی نامبارک تھا جس دن کہ تفریق و تقسیم کے یہ فتنے پیدا ہوئے۔ اس کی مثال بالکل ایسی تھی جیسے کہ کسی کامل اور تندرست و توانا جسم کے اعضاء ایک دوسرے سے الگ کر لیے گئے ہوں، یا کسی منظم حکومت کے مرکزی شیرازے کو ختم کر کے مختلف محکموں کو آزاد کر دیا گیا ہو۔ نہ صرف یہ کہ آزاد کر دیا گیا ہو بلکہ بعض محکمے بلا وزیروں ہی چھوڑ دیے گئے ہوں۔ فکر و عمل کا یہ بگاڑ اور انتشار اپنی ایک مستقل تاریخ رکھتا ہے جس کی تفصیلات کے لیے ایک پورا دفتر درکار ہے۔ یہاں اس بحث کے جس جزو کی طرف ہمیں اشارہ کرنا ہے، وہ صرف یہ ہے کہ ہمارے کتنے ہی اربابِ تصوف اپنے اخلاص کے باوجود اس غلط فہمی کا شکار ہو رہے کہ دین و خدا پرستی کا تمام تر تعلق صرف قلب و روح سے ہے، عقل سے اس کے ڈانڈے غالباً کہیں ملتے ہی نہیں۔ اسی... اندازِ فکر کا نتیجہ ہے کہ ان کی تعلیمی اور تربیتی کوششوں کا سارا زور قلب اور اس کے احوال ہی پر صرف ہوتا رہا ہے۔ عقل اور اس کے وظائف کو وہ کوئی اہمیت ہی نہیں دیتے اور اس کے سارے حقوق کو انہوں نے اہلِ دنیا کے حوالے کر رکھا ہے۔ گویا ان کے نزدیک ایمانیات کے بارے میں عقل کوئی رہنمائی اور مدد کر ہی نہیں سکتی کہ اس کی کوئی قیمت لگائی جا سکے۔ لیکن کیا امرِ واقعہ بھی یہی ہے؟ قرآن کا مطالعہ کرتے وقت ہمیں ایسی کوئی ایک آیت بھی نہیں ملتی جس کی بنا پر اس سوال کا جواب اثبات میں دیا جا سکے۔ اس کے برخلاف وہ عقل و تدبر ہی کو بنائے ایمان قرار دیتا ہے اور اس قسم کے جملوں سے اس کے صفحے بھرے پڑے ہیں:

... فَأَخْرَجْنَا بِهِ أَزْوَاجًا مِّن نَّبَاتٍ شَتَّىٰ﴿٥٣﴾‏ كُلُوا وَارْعَوْا أَنْعَامَكُمْ ۗ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّأُولِي النُّهَىٰ﴿٥٤﴾‏
(
طٰہٰ: ۵۳-۵۴)
پھر اس (پانی) سے ہم نے مختلف اقسام کی نباتات اگائیں (اور تم سے کہا کہ) خود کھاؤ اور اپنے مویشیوں کو بھی چراؤ، بلاشبہ اس کے اندر عقل والوں کے لیے (توحیدِ باری پر کھلی) دلیلیں ہیں۔

الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ ۚ أُولَٰئِكَ الَّذِينَ هَدَاهُمُ اللَّهُ ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمْ أُولُو الْأَلْبَابِ
(
الزمر: ۱۸)
جو اللہ تعالیٰ کی باتوں کو غور سے سنتے اور ان اچھی باتوں کی پیروی کرتے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جنھیں اللہ نے ہدایت بخشی ہے اور یہی لوگ ہیں جو صاحبِ عقل ہیں۔

هَلْ فِي ذَٰلِكَ قَسَمٌ لِّذِي حِجْرٍ
(
الفجر: ۵)
بلاشبہ ان چیزوں کے اندر صاحبِ خرد کے لیے (جزا کی) ایک بڑی شہادت ہے۔

اس طرح کی آیتیں اس بات کا صاف اور صریح ثبوت ہیں کہ ایمان کی دولت صرف انہی لوگوں کو میسر ہو سکتی ہے جو عقل والے ہوں اور اپنی عقلوں سے صحیح طریقے پر کام لینا بھی جانتے ہوں۔ جب حقیقتِ حال یہ ہو تو کتنی عجیب بات ہو گی اگر یہ سمجھا جائے کہ دین و ایمان کے سلسلے میں عقل کوئی کردار انجام دینے کے قابل ہی نہیں۔

غرض، ایمان کے باب میں عقل کا نام سب سے پہلے آتا ہے اور اس کے بغیر اس کی بات شروع ہی نہیں ہو سکتی۔ چناں چہ یہی وجہ ہے کہ دعوتِ قرآنی نے اپنا پہلا خطاب جس شے سے کیا ہے وہ یہی عقل ہے اور اسے ساتھ لیے بغیر اس کا قدم آگے نہیں بڑھتا۔ ثبوت کے لیے وہ آیت دیکھیے جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرائضِ نبوت بیان کیے گئے ہیں اور جس کے الفاظ یہ ہیں:

لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْ أَنفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ...
(
آل عمران: ۱۶۴)
یقیناً اللہ تعالیٰ نے مومنوں پر بڑا احسان فرمایا جب کہ اس نے ان کے درمیان انہی میں سے ایک ایسا رسول برپا کیا جو ان کو اس کی آیات سناتا ہے، ان کے نفسوں کو سنوارتا ہے اور انہیں کتاب (قوانینِ شرع) اور حکمت (روحِ شرع) کی تعلیم دیتا ہے۔

یہ آیت رسالت کے فرائضِ منصبی چار متعین کرتی ہے اور ان کی منطقی ترتیب بھی بتاتی ہے۔ ان میں سب سے پہلا فرض "تلاوتِ آیات" ہے۔ قرآن مجید میں یہ آیت تھوڑے سے فرق کے ساتھ چار مقامات پر آئی ہے اور ہر جگہ "تلاوتِ آیات" ہی کا سب سے پہلے تذکرہ کیا گیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں اسی کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے پہلا کارِ منصبی بتلایا گیا ہے۔

"تلاوتِ آیات" کا مدعا یہاں صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ آپ قرآن کی آیتیں پڑھ کر لوگوں کو سنا دیتے ہیں۔ بلکہ بات اس سے بہت آگے کی کہی گئی ہے اور وہ یہ کہ آپ ان دلائل سے جو قرآنِ حکیم توحید اور معاد وغیرہ اصولِ دین پر دیتا رہتا ہے، لوگوں کے اندر ایمان کی حقیقتیں اتارتے ہیں اور جن کے دلوں میں یہ حقیقتیں اتر چکی ہیں ان کے اندر انہیں اور زیادہ مستحکم کرتے ہیں اور ان کے کیف و اثر کو تیز تر کرتے رہتے ہیں۔ اس ابتدائی مرحلے کے بعد ہی آپ دوسرے مراحل کی طرف بڑھتے ہیں یا کم از کم یہ کہ دوسرے مراحل کی باتیں کرنے کے باوجود توجہ اسی پر جمائے رکھتے ہیں۔ یہاں تک کہ ایک فطری رفتار کے ساتھ چلتے ہوئے منزلِ مقصود تک پہنچتے ہیں اور ایمان کی دعوت قبول کرنے والوں کو بندگی کے اس مقام پر پہنچا دیتے ہیں جہاں انھیں پہنچنا چاہیے۔

یہ حقیقت کہ "تلاوتِ آیات" کا مدعا یہاں اسلام کے اصولی عقائد پر دلائل کا سنانا اور پیش کرنا ہے، دو باتوں سے بالکل واضح ہے۔ ایک طرف تو "آیت" کے معنی قرآن میں صرف "آیتِ قرآنی" یعنی قرآنی عبارت کے متعین ٹکڑوں ہی کے نہیں ہوتے، جیسا کہ اردو زبان میں ہوا کرتے ہیں، بلکہ اس کے معنی دلیل اور شاہد کے بھی ہوتے ہیں۔ چناں چہ اس معنی میں یہ لفظ قرآن کے اندر اس کثرت سے استعمال ہوا ہے کہ اس کی مثالیں دینے کی بھی کوئی ضرورت نہیں۔ دوسری طرف اس آیت میں يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ کے بالمقابل رسالت کے باقی جو تین فرائض بتائے گئے ہیں، ان کے پیشِ نظر "تلاوتِ آیات" کے معنی مطلقاً قرآن سنانے کے لیے ہی نہیں جا سکتے۔ کیوں کہ یہ دوسرے تین فرائض بھی تو قرآن ہی کے ذریعے یعنی اس کی آیتیں سنا کر ہی انجام دیے جانے کے ہیں۔ اس لیے "تلاوتِ آیات" کا مدعا اگر مطلقاً قرآن سنا دینا ہوتا تو پھر اس کا کوئی موقع و محل باقی ہی نہ رہ گیا ہوتا کہ باقی تینوں کاموں کو مستقل فرائض کی حیثیت سے بیان کیا جائے۔ کیوں کہ جب قرآن سنا دیا گیا تو یہ فرائض بھی آپ سے آپ انجام پا گئے۔ پھر انہیں الگ سے اور وہ بھی مستقل نوعیت کے ساتھ بیان کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ اگر "تلاوتِ آیات" کے اس معنی و مفہوم کے باوجود ان تینوں کاموں کو مستقل فرائض کی حیثیت سے بیان ہی کرنا ہوتا تو اس وقت کلام کا انداز وہ نہ ہوتا جو اس وقت آیت زیرِ بحث میں موجود ہے، بلکہ کچھ اس طرح کا ہوتا کہ "جو ان کو اس کی آیتیں سناتا ہے تاکہ ان کے نفسوں کو سنوارے اور انہیں کتاب (قوانینِ شرع) اور حکمت (روحِ شرع) سکھائے"۔ لیکن آپ دیکھتے ہیں کہ بات یوں نہیں فرمائی گئی ہے، بلکہ اس طرح فرمائی گئی ہے کہ "نبی فلاں فلاں چار کام کرتا ہے"۔ یہ اندازِ بیان اسی وقت مناسب، برمحل اور موزوں ہو سکتا ہے جب ان چاروں کاموں کے لیے ایسے مفہوم ہوں جو ایک دوسرے سے ممیز ہوں، اور ان میں سے ہر ایک کی ایک مستقل حیثیت ہو۔ اور یہ بات صرف اس شکل میں پیدا ہو سکتی ہے جب یہاں "آیات" کے معنی دلائل و شواہد کے لیے جائیں۔

اب غور کیجیے کہ عقل کو دین و ایمان کے معاملے میں ناقابلِ اعتناء قرار دے لینے سے بات کہاں جا پہنچتی ہے؟ کیا یہ اس امر کا اعتراف نہیں کہ نبوت کے فرائض اور کارِ نبوت کے ضروری نکات کو ٹھیک ٹھیک سمجھ لینے کا حق ہی ادا نہ ہو سکا؟

عقلِ عام سے اگر پوچھیے تو وہ بھی یہی کہے گی کہ جس طرح کسی عمارت کی بنیادیں بھرنے سے پہلے دیواریں اور چھتیں نہیں بنائی جاتیں، اسی طرح کسی شخص کی عقل و فہم کو دین کی اصولی تعلیمات پر دلیلوں سے مطمئن کیے بغیر اس کے قلب کو ایمانی کیفیتوں سے لبریز کرنے کی کوشش کوئی حکیمانہ فعل نہیں۔ اس طرح جو ایمان پیدا ہو گا اس کی مثال اس جسم سے مختلف نہ ہو گی جو باہر سے تو بڑا خوبصورت اور دلکش نظر آتا ہو مگر اس کا اندرون، زندگی کی توانائیوں سے بڑی حد تک خالی ہو۔ ظاہر ہے کہ ایسے ایمان پر کبھی بھی پورے اطمینان کا اظہار نہیں کیا جا سکتا اور نہ اس سے ان ثمرات کی توقع کی جا سکتی ہے جو قرآنِ حکیم کے بتائے ہوئے طریقِ تعلیم و تربیت سے حاصل ہوتے ہیں۔ چناں چہ اکثر آپ جو یہ دیکھتے ہیں کہ بہت سی بلند پایہ ہستیوں کے دینی کارناموں میں ایک محدودیت سی ہوتی ہے اور دین کے وسیع تقاضوں میں سے چند ہی پر ان کے شوق اور توجہ کی نگاہیں جم کر رہ جاتی ہیں تو اس عجیب صورتِ حال کی اصل وجہ ان کے اندازِ فکر کے سوا کچھ نہیں۔ یعنی عام دنیا داروں کی طرح ان لائقِ صد احترام دین داروں نے بھی دین اور اس کے متعلقات کے بارے میں پوری وسعتِ نظر سے کام نہیں لیا، اس کی جامعیت کو محدودیت سے بدل دیا، اور اس کے حسنِ توازن کو باقی نہیں رکھا۔ خدا کی محبت اور اس کے متعدد تقاضوں میں توحید اور اس کے کتنے ہی لوازم میں علیحدگی گوارا کر لی اور ان کا یہ ذہن بظاہر اس لیے بنا کہ قرآن نے "فؤاد" (قلب) کے ساتھ ساتھ بلکہ اس سے پہلے ہی "سمع" اور "بصر" (غور و فکر کی قوتوں) کو بھی اپنا مخاطب بنایا تھا، مگر انھوں نے سمع و بصر کو اس سعادت سے محروم قرار دے دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ نگاہ، دل ہی کی کیفیتوں میں محو ہو کر رہ گئی۔ اور باہر کی دنیا میں اس کے لیے کوئی بنائے توجہ باقی نہ رہی۔ اور اگر رہی بھی تو اس میں اتنی جاذبیت نہ تھی کہ سیرِ باطن سے انھیں ضرورت کے مطابق الگ کر لیا کرتی اور زندگی کے وسیع مسائل میں اس ذمہ داری کا انہیں پورا پورا احساس دلا دیتی جو دینِ حق کی مکمل پیروی اور اسلامی نظامِ حیات کی اقامت کے سلسلے میں ان پر عائد ہوتی ہے۔ نتیجہ اس ذہنیت اور اس ذوق کا یہ دیکھا جاتا ہے کہ جس خدا کے ذکر اور تصور میں وہ ڈوبے ہوئے ہوتے ہیں، اس کی مرضیات کے خلاف چاروں طرف بغاوت ہو رہی ہوتی ہے، مگر ان کے ذوقِ بندگی پر اس کا کوئی ناگوار ردِ عمل مرتب ہوتا شاید ہی دکھائی پڑتا ہو۔ حد یہ ہے کہ کبھی کبھی تو وقت کے جبار اور مسرفین اپنی کھلی ہوئی غیر اسلامی، بلکہ دشمنِ اسلام سرگرمیوں کے باوجود ان کی دعاؤں تک کے مستحق قرار پا جاتے ہیں۔ یہ صورتِ حال دیکھنے میں نہ آ سکتی تھی اگر دین و ایمان کے سلسلے میں عقل کا مقام بھی ٹھیک ٹھیک پہچان لیا گیا ہوتا اور قلب پر ایمان کی جذباتی کیفیات طاری ہونے کی کوششوں سے پہلے یا کم از کم ان کے ساتھ ہی قرآنی استدلالات سے عقل کو بھی مطمئن کر لیا جاتا۔ ایسا نہ کرنے کے معنی یہ ہیں کہ دین کی اساس میں ایمان باللہ کے سب سے پہلے اور بنیادی پتھر کو نصب تو کیا گیا، مگر اس طرح نہیں کہ وہ اس اساس کے تمام گوشوں کو محیط ہو جاتا، بنیاد بھری تو گئی مگر کچھ اس طرح کہ اگر اس کا ایک حصہ کنکریٹ سے پختہ کیا گیا تو دوسرے میں صرف ریت بھر دینے کو کافی سمجھ لیا گیا۔

پہلے طریقے کے فطری، کامل اور اطمینان بخش طریقہ ہونے کی ضمانت یہ ہے کہ وہ قرآنِ حکیم کا بتایا ہوا اور اسوۂ رسول کا متعین کیا ہوا ہے۔ اس طریقے کی عملی تفصیل کتاب و سنت کے اندر صراحت سے موجود ہے۔ قرآن نے ہمارے سامنے توحید اور معاد وغیرہ حقائقِ دین پیش کرتے وقت کبھی خالص حکمی انداز نہیں اختیار کیا ہے اور ہم سے یہ نہیں کہا ہے کہ چوں کہ میں ان باتوں کو پیش کرتا ہوں اس لیے انہیں مان لو۔ اس کے برخلاف اس نے غیب کی جس حقیقت کو بھی ایمان لانے کے لیے پیش کیا ہے اس پر ساتھ کے ساتھ فطرت کے حقائق و مظاہر سے دلیلیں بھی دی ہیں اور بار بار دی ہیں۔ یہ دلیلیں اتنی واضح، اتنی مضبوط اور اتنی مؤثر ہیں کہ جب تک عقلیت پسندی سے دشمنی نہ کر لی جائے ان کا انکار ممکن ہی نہیں۔

چناں چہ جب کچھ لوگ ان دلائل کو سن لینے کے بعد بھی ایمان لانے پر تیار نہ ہوئے تو اس نے بھی ان کو دل و دماغ کی حد تک انسان باقی رہنے سے انکار کر دیا اور فرمایا کہ ان کے دل ہیں جن سے وہ حقیقت بینی کا کام نہیں لیتے۔ ان کی آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھتے نہیں، ان کے کان ہیں جن سے وہ سنتے نہیں۔ وہ چوپایوں کے مانند ہیں، بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ۔

لَهُمْ قُلُوبٌ لَّا يَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَعْيُنٌ لَّا يُبْصِرُونَ بِهَا وَلَهُمْ آذَانٌ لَّا يَسْمَعُونَ بِهَا ۚ أُولَٰئِكَ كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ ۚ...
(
الاعراف: ۱۷۹)

نیز فرمایا کہ ”یہ لوگ بہرے ہیں، گونگے ہیں، اندھے ہیں، پس (ذرا بھی) نہیں سمجھتے۔

صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لَا يَرْجِعُونَ
(
البقرہ: ۱۸)

ان کے بالمقابل اس نے ان لوگوں کو أُولُو الْأَلْبَابِ، أُولُو النُّهَىٰ، ذِي حِجْرٍ یعنی عقل و خرد والے قرار دیا۔ اور انہیں الَّذِينَ يَعْقِلُونَ (سمجھ بوجھ سے کام لینے والے) ٹھیرایا جو ان دلائل پر غور و فکر کا حق ادا کر کے ہدایت کی روشنی پا لیتے ہیں اور اگر یہ روشنی پہلے سے ملی ہوئی ہے تو اسے اور تابناک بنا لیتے ہیں۔

غرض، ایمان میں شعوری کیفیت پیدا کرنے کا بے خطا اور کامیاب طریقہ وہی ہے جو قرآن نے بتایا ہے۔ اور اس پر عمل پیرا ہونے کی شکل یہ ہے کہ کلامِ الٰہی کے اس حصے پر، جو يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ کا حصہ ہے اور جس میں توحید اور دوسری صفاتِ باری پر دلائل دیے گئے ہیں۔ انسان گہری نگاہ ڈالتا رہے اور اس کے طرزِ استشہاد پر اور اس کے دلائل پر دل و دماغ کی پوری یکسوئی کے ساتھ غور و فکر کرتا رہے۔ قرآن پر اگر ہمارا یقین ہے تو ہمیں اس بات پر بھی یقین رکھنا چاہیے کہ اس غور و فکر کے نتیجے میں ذہن کے اندر وہ روشنی پیدا ہو کر رہے گی اور برابر بڑھتی چلی جائے گی جو ایمان کو شعور و بصیرت سے مالا مال کر دینے والی ہو۔ ضرورت ہے کہ علاج کی یہی فطری اور صحیح تدبیر اختیار کی جائے اور مضر یا ناقص تدبیروں پر قوتیں صرف نہ کی جائیں۔

مگر مشکل یہ ہے کہ یہاں ایک عجیب غلط فہمی نظر کا حجاب بنی ہوئی ہے۔ مسلمان سمجھتا ہے کہ قرآن کی وہ آیتیں تو جن میں وحدانیت اور دوسری صفاتِ الٰہی پر دلیلیں دی گئی ہیں صرف مشرکوں کو خطاب کرتی ہیں اور انہیں کو سنانے کے لیے ہیں۔ ہم کو جو پہلے ہی سے "توحید کی امانت" سینوں میں لیے بیٹھے ہیں، ان دلائل کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔(۱) افسوس کہ اس عجیب و غریب غلط گمانی نے فلاح و سعادت کے کیسے کیسے بیش قیمت خزانے ہماری نگاہوں سے اوجھل کر رکھے ہیں۔ اس فریب کا شکار ہو کر تو ہم اپنی متاعِ ایمان کی غور و پرداخت میں ایک معمولی کسان سے بھی زیادہ بودے ثابت ہوئے جو فصل بو دینے ہی کو فصل کا تیار ہو جانا نہیں سمجھتا اور جس کے نزدیک کسان کا فرض صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ بس زمین کو ایک بار ذرا نم کر کے اس میں دانہ ڈال دے بلکہ ضروری سمجھتا ہے کہ فصل تیار ہونے سے پہلے تک زمین کو بار بار سیراب کرتا رہے۔ ایمان جیسی چیز اتنی کم قیمت تو نہ تھی کہ اسے جو اور گندم کے کھیتوں سے بھی کم لائقِ توجہ ہو جانے دیا جاتا۔ مگر نادانستگی میں ہو یہی گیا اور ایسا زیادہ تر صرف اسی لیے ہوا کہ غلطی سے ان آیتوں کو کفار و مشرکین ہی کے لیے مخصوص سمجھ لیا گیا، جن میں توحید اور آخرت وغیرہ مبادیٔ دین پر دلیلیں دی گئی ہیں۔ حالاں کہ حقیقتِ واقعہ یہ نہ تھی۔ چناں چہ صاف دیکھا جا سکتا ہے کہ قرآنِ حکیم ان خام کار مسلمانوں کو بھی، جن کا دعوائے ایمان عمل کی کسوٹی پر پورا نہ اترتا تھا، اگر ایک طرف زجر و ملامت کرتا ہے تو دوسری طرف انہیں توحید و معاد وغیرہ کی دلیلیں بھی اسی طرح سناتا ہے جس طرح منکروں کو سنایا کرتا ہے۔ (ملاحظہ ہوں سورۂ آلِ عمران، سورۂ نور، سورۂ حدید اور ممتحنات وغیرہ)

(۱) یہی تصور ہے جس نے قرآن کی تعلیم کو ہمارے دینی دارالعلوموں میں وہ حیثیت بھی نہ پانے دی جو سینکڑوں برس کی مردہ منطق اور فلسفے کی تعلیم کو حاصل ہے، وہ تعلیم جو ابھی تک زمین کو کسی "قطب" کی طرح ساکن ٹھیرائے ہوئے ہے۔ چناں چہ تعلیمِ قرآن کے بارے میں کھلم کھلا یہ بات کہی جاتی ہے کہ اس پر تو محض تبرک کے طور پر نظر ڈلوا دی جاتی ہے، ورنہ ائمہ نے اس کے سارے احکام نکال کر فقہ کی کتابوں میں مدون کر دیے ہیں۔ گویا اس کے اندر احکام کے ماسوا جو کچھ ہے، اس میں ہماری کسی ضرورت کا کوئی سامان نہیں ہے۔ بلکہ وہ سب کا سب تیرہ چودہ سو برس بیشتر بسنے والے کفارِ عرب اور منافقینِ مدینہ اور اہلِ کتاب ہی کے سنانے کے لیے تھا۔ (ص)

یہ گویا اس کی طرف سے اس حقیقت کا اعلان تھا کہ ان کی عملی کوتاہیوں کا سرچشمہ ضعفِ ایمان ہے، جسے قوت سے بدلنا چاہیے اور یہ اسی وقت ہوگا جب ان کے سامنے دلائل آئیں، میں اسی ضرورت کے تحت انہیں دلائل سنا رہا ہوں، تاکہ ان کے اندر ایمانیات اچھی طرح مستحکم ہو جائیں اور ان کے دل و دماغ ضعف و تردد کی تاریکیوں سے پاک ہو کر یقین کی روشنی سے منور ہو جائیں۔ اب اگر آج کے مدعیانِ اسلام کا اخلاق و عمل بھی ویسے ہی ضعفِ ایمان اور اضمحلالِ یقین کی تشویشناک اطلاعیں دے رہا ہو جیسا کہ فی الواقع دے رہا ہے تو اس ضعف کو قوت سے اور اس اضمحلال کو تازگی سے بدلنے کے ضرورت مند وہ بھی کیوں نہ ہوں گے؟ یقیناً ہوں گے اور اسی طرح ہوں گے جس طرح کہ دورِ نبوت کے ضعیف الایمان مسلمان تھے۔ اور ان کی یہ ضرورت بھی ٹھیک طریقے سے اسی وقت پوری ہو سکتی ہے جب کہ وہ قرآن کے اس حصے پر جو يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ سے تعلق رکھتا ہے، تفکر و تدبر کا پورا حق ادا کریں۔

اچھا یہ بھی مان لیجیے کہ ہم اس قسم کے ضعفِ ایمان سے پاک ہیں، جس قسم کا ضعفِ ایمان رکھنے والوں کو قرآن نے براہِ راست دلائل سنانے کی ضرورت محسوس کی تھی۔ لیکن اس کے باوجود بات اپنی جگہ جوں کی توں قائم ہی رہتی ہے اور مومن ہوتے ہوئے ہم قرآنی دلائل اور استدلالات سے اس شکل میں بھی بے نیاز نہیں ہو سکتے۔ کیوں کہ ان استدلالات کا فیض صرف یہی نہیں ہوتا کہ ان کے طفیل کفر، ایمان سے اور کمزور ایمان، مضبوط ایمان سے بدل جاتا ہے بلکہ ان کی مدد پا کر مضبوط ایمان مضبوط تر بھی ہو جاتا ہے۔ اس لیے ہمارا ایمان لاکھ مضبوط سہی لیکن ہمارے اندر خدا شناسی اور بندگی کا اگر ذرا سا بھی ذوق موجود ہے تو ہم اسے اور زیادہ مضبوط اور زیادہ بیدار اور زیادہ شعوری اور زیادہ متحرک و فعال بناتے رہنے کی حرص سے کبھی خالی نہیں ہو سکتے۔ اور جس دن اس حرص سے کوئی شخص خالی ہوا اسے سمجھ لینا چاہیے کہ اس کا دل ایمان کی لذت شناسی سے محروم ہو چکا ہے۔ اسے دراصل دھوکہ ہو رہا ہے اگر خیال کرتا ہے کہ وہ ایک مضبوط ایمان کا مالک ہے۔ چناں چہ مشرکوں، کافروں، منافقوں اور ضعیف الایمانوں کو تو قرآن بلا بلا کر اپنے دلائل سنانے کی کوشش کرتا ہے، مگر مخلص مسلمانوں اور سچے مومنوں کا حال یہ بتاتا ہے کہ وہ خود اس طرح کے دلائل کی تلاش میں رہتے ہیں۔

...وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ...
(
آل عمران: ۱۹۱)
یہ لوگ آسمانوں کی اور زمین کی ساخت میں غور و فکر کیا کرتے ہیں۔

یہ غور و فکر وہ جس غرض سے کرتے ہیں بالکل ظاہر ہے، یعنی یہ کہ ان کے اندر صفاتِ الٰہی کا علم و یقین اور زیادہ مستحکم ہو جائے اور اس کائنات کے پسِ پردہ کام کرنے والی حکمتوں تک پہنچ کر وہ اپنے ایمان کو روشن سے روشن تر کرتے چلے جائیں۔ اس کام میں جس کی نگاہ جتنی ہی گہری اور فکر جتنی ہی رسا ثابت ہوتی ہے، اتنی ہی اس کے ایمان میں پختگی کی شان بھی زیادہ آ جاتی ہے۔ یہاں تک کہ پہنچنے والے، اگر ان کے اندر دوسری ضروری صفات اور شرائط بھی موجود ہوں تو صدیقیت کے مقامِ بلند تک جا پہنچتے ہیں۔ امام نوویؒ احادیثِ ایمان کی شرح بیان کرتے ہوئے آغازِ بحث میں لکھتے ہیں:

ان نفس التصدیق یکثر بکثرۃ النظر و تظاھر الأدلۃ، ولھذا یکون ایمان الصدیقین أقوی من ایمان غیرھم۔
(
شرح مسلم للنووی، جلد اول، ص: ۲۶)
یہ ایک واقعہ ہے کہ غور و فکر سے کام لیا جائے اور دلیلیں سامنے آتی رہیں تو اس سے تصدیقِ قلب کی کیفیت ترقی کر جاتی ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ صدیقین کا ایمان دوسروں کے ایمان سے زیادہ مضبوط ہوتا ہے... الخ

امام غزالیؒ فرماتے ہیں:

کلما استکثرت من معرفۃ عجیب صنع اللہ تعالیٰ کانت معرفتک بجلالہ و عظمتہ اتم۔
(
احیاء العلوم، جلد ۴، ص: ۳۸۱)
تم اللہ تعالیٰ کی عجیب و غریب صنعت کاریوں سے جتنی زیادہ واقفیت حاصل کرتے جاؤ گے اس کے جلال و عظمت کا یقین تمہارے اندر اتنا ہی کامل ہوتا جائے گا۔

اس غور و فکر کے ضروری ہونے کا اگر اور زیادہ اطمینان درکار ہو تو اس آیتِ کریمہ کے ابتدائی حصے پر ایک بار پھر نظر ڈال لینا چاہیے جس کا حوالہ ابھی جلد ہی اوپر گزر چکا ہے۔ اس حصے کے الفاظ یہ ہیں:

لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْ أَنفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ...
(
آل عمران: ۱۶۴)
بلاشبہ اللہ نے مومنوں پر بڑا احسان فرمایا جب اس نے ان میں ان ہی کے اندر سے ایک ایسا رسول برپا کیا جو انہیں اس کی آیتیں سناتا ہے۔

ان لفظوں میں جو کچھ فرمایا گیا ہے، اس میں سے اس موقع پر دو باتیں خاص طور سے نظر میں رکھیے۔ ایک تو یہ کہ ذکر اہلِ ایمان کا ہے اور دوسری یہ کہ ان اہلِ ایمان کو "آیاتِ الٰہی" سنانا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک منصبی فریضہ بتایا گیا ہے۔ "آیاتِ الٰہی سنانے" کا مطلب، جیسا کہ ابھی واضح کیا جا چکا، یہ ہے کہ آپ ان کے سامنے توحید اور معاد وغیرہ پر آفاق و انفس کے مضبوط دلائل پیش کرتے رہتے ہیں اور اس غرض کے لیے انہیں خاص کر وہ قرآنی آیتیں سناتے رہتے ہیں جو اس طرح کے دلائل کی خزینہ دار ہیں۔

اس سلسلے میں آپؐ نے صرف اسی بات پر اکتفا نہیں کیا کہ اہلِ ایمان کو توحید و معاد وغیرہ کے دلائل سنا دیں، بلکہ انہیں اس امر کی ہدایت بھی فرمائی کہ وہ خود بھی فکر و تدبر کرتے رہیں۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ آیت إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ... الخ نازل ہونے پر آپؐ نے فرمایا:

وَيْلٌ لِّمَنْ قَرَأَهَا وَلَمْ يَتَفَكَّرْ فِيهَا۔
(
احیاء العلوم، جلد ۴، ص: ۳۶۲)
خرابی ہے ان لوگوں کے لیے جو اس آیت کو پڑھیں مگر اس میں تفکر نہ کریں۔

آیاتِ کائنات پر فکر و تدبر کی یہ اہمیت صرف یہیں تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کی وسعتیں اس مقام تک پہنچی ہوئی ہیں جو انسانی بلندی کا آخری مقام ہے۔ یعنی عام مسلمان تو عام مسلمان، وہ حضرات بھی جن کا رشتہ براہِ راست غیب کے سرا پردوں سے بندھا ہوا تھا، اس فکر و تدبر کی فیض بخشیوں سے بے پروا نہ تھے، بلکہ کہنا چاہیے کہ ان کے سب سے زیادہ قدر داں اور حریص تھے۔ خود سردارِ انبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کا حال بھی صحیح حدیثوں سے یہی معلوم ہوتا ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما ایک رات کا واقعہ بیان فرماتے ہوئے جب کہ وہ اپنی خالہ ام المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھر ٹھہرے ہوئے تھے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم وہاں قیام پذیر تھے، کہتے ہیں کہ:

فَلَمَّا كَانَ ثُلُثُ اللَّيْلِ الْآخِرِ أَوْ بَعْضُهُ قَعَدَ فَنَظَرَ إِلَى السَّمَاءِ فَقَرَأَ: إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ... إِلَىٰ آخِرِ السُّورَةِ۔
(
صحیح مسلم و صحیح بخاری بحوالہ مشکوٰۃ، باب صلوٰۃ اللیل)
جب رات کا آخری تہائی حصہ یا کچھ کم وقت باقی رہ گیا تو آپ اٹھ بیٹھے، اور آسمان کی طرف نظریں اٹھا کر آپ نے پڑھا: إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ... ختمِ سورہ تک (یعنی بلاشبہ آسمانوں کی اور زمین کی ساخت میں اہلِ عقل کے لیے نشانیاں ہیں)۔

مسلم شریف کی ایک روایت میں مزید تفصیل ہے کہ آپؐ نے یہ فعل تین بار کیا۔ یعنی آپ تین بار سوئے اور تین بار اٹھ کر نمازیں پڑھیں اور ہر بار ایسا ہوا کہ جب اٹھے تو افق کی طرف دیکھتے ہوئے ان آیتوں کی تلاوت فرمائی۔ یہ تو حضر کا حال تھا۔ حضرت حمید بن عبدالرحمن کی ایک روایت سے واضح ہوتا ہے کہ سفر میں بھی آپ کا حال اس سے مختلف نہ تھا۔ (سنن نسائی بحوالہ مشکوٰۃ، باب صلوٰۃ اللیل)۔ رات کی پرسکون فضا میں، افق کی طرف نگاہیں اٹھا کر، آپ کا ان آیتوں کی تلاوت فرماتے رہنا جو معنی رکھتا ہے وہ کسی صاحبِ نظر سے پوشیدہ نہیں ہو سکتا۔ ظاہر ہے، یہ تلاوت دنیا کے سب سے زیادہ زندہ اور بیدار قلب کی تلاوت تھی، اس لیے ہماری تلاوتوں کی طرح تلاوت محض نہ تھی، بلکہ حَقَّ تِلَاوَتِهِ تھی، اسی طرح جو نگاہیں اس تلاوت کے وقت آسمان کے کناروں پر جمی ہوئی تھیں وہ ہمیشہ بینا رہنے والی نگاہیں تھیں۔ اور بصیرت اندوزی اور حکمت شناسی میں اپنی کوئی نظیر نہیں رکھتی تھیں۔ اس لیے آپ کے اس وظیفۂ فکر و عمل کو اس کے سوا اور کچھ نہیں قرار دیا جا سکتا کہ یہ دراصل "آیاتِ الٰہی" کے مطالعے تھے اور یہ مطالعے اس لیے تھے تاکہ آپ کے ایمان و یقین پر ہر آن اک نئی تازگی آتی رہے۔

یہ تو آپؐ کے تفکر و تدبر کا معاملہ تھا، جسے آپ نے اپنے ایمانی ذوق اور قرآنی ہدایتوں کے مطابق از خود اختیار فرمایا تھا۔ اس سے آپ کا یقین بلندی کے جو غیر معمولی مرتبے طے کرتا جاتا رہا ہو گا اس کا ہمیں اور آپ کو کیا اندازہ ہو سکتا ہے۔ لیکن آپ پر نبوت کا جو بارِ گراں ڈالا گیا تھا، اس کے لیے یقین کے غیر معمولی مراتب بھی اللہ عالم الغیب کے نزدیک کافی نہ تھے، اس لیے اس نے اسے معیارِ مطلوب تک بلند اور محکم کر دینے کا خصوصی اہتمام فرمایا۔ معلوم ہے کہ یہ خصوصی اہتمام کیا تھا؟ وہ کیا طریقہ تھا جو آپ کے یقین کو کمال کے مطلوبہ مقام تک پہنچانے کے لیے مقرر فرمایا گیا تھا؟ یہ اہتمام اور یہ طریقہ یہ تھا کہ آپ کو اسی کائنات کی کچھ نشانیوں کا "مشاہدہ" کرا دیا گیا جس کی نشانیوں پر آپ خود فکر و تدبر فرمایا کرتے تھے۔ آپ کا سفرِ معراج اسی اہتمام کی آخری شکل تھا۔ چناں چہ اللہ تعالیٰ اس سفر کا ذکر کر کے اس کی جو غایت بتاتا ہے وہ صاف لفظوں میں یہی ہے:

لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا ۚ
(
بنی اسرائیل: ۱)
تاکہ ہم اسے (نبی کو) اپنی کچھ نشانیاں دکھائیں۔

ظاہر ہے کہ "نشانیاں دکھانے" کا مقصد اس کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتا کہ آپ کا ایمان بالغیب، ایمان بالشہادۃ بن جائے اور کمالِ یقین کی تابناکیوں سے جگمگا اٹھے۔

ایمان و یقین کو مطلوبہ مقام تک پہنچانے کا یہ طریقہ کچھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے ضمن میں اختیار نہیں فرمایا گیا تھا بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی ایک عام سنت تھی۔ اور اس مقصد کے پیشِ نظر ہر پیغمبر کو، اپنے اپنے رنگ میں، اسی طرح آیاتِ کائنات کا مشاہدہ کرایا گیا تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں اللہ تعالیٰ صراحت سے فرماتا ہے کہ:

وَكَذَٰلِكَ نُرِي إِبْرَاهِيمَ مَلَكُوتَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلِيَكُونَ مِنَ الْمُوقِنِينَ
(
الانعام: ۷۵)
اور اسی طرح ہم ابراہیم کو (بھی) آسمانوں کی اور زمین کی عظیم سلطنت (کی نشانیاں) دکھاتے تھے (تاکہ وہ مشرکوں پر حجت قائم کرے) اور تاکہ وہ (خود) یقینِ کامل رکھنے والوں میں سے ہو جائے۔

آیت کے آخری لفظوں وَلِيَكُونَ مِنَ الْمُوقِنِينَ نے یہ بات بھی بالکل کھول دی کہ انبیاء علیہم السلام کو مَلَكُوتَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ کا، دوسرے لفظوں میں کائنات کی اہم نشانیوں کا جو مشاہدہ کرایا جاتا تھا، وہ مشاہدہ برائے مشاہدہ نہ ہوتا تھا، بلکہ مشاہدہ برائے ترقیٔ ایمان و یقین ہوتا تھا۔ اسی طرح اس کے ابتدائی دو کلموں "وَكَذَٰلِكَ" نے اس حقیقت کی بھی مزید توثیق کر دی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یقین اور طمانیتِ ایمانی کے مطلوبہ معیار تک پہنچانے کے لیے جو طریقہ اختیار کیا گیا تھا وہ ٹھیک وہی طریقہ تھا جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے سلسلے میں روبہ کار لایا گیا تھا۔ کیوں کہ "اور اسی طرح" کہنے کا مطلب ہی یہ ہے کہ کوئی اور بھی ہے جس پر یہ عنایت ہو چکی ہے، یا ہو رہی ہے۔ کلام کے سیاق و سباق کا اور دوسرے تمام قابلِ لحاظ قرائن کا متفقہ فیصلہ ہے کہ یہ کوئی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا اور کوئی نہیں۔

ان تفصیلات کے بعد اس حقیقت پر اب کوئی پردہ نہیں رہ جاتا کہ آیاتِ کائنات سے کسبِ فیض عام مسلمان، صحابہ کرام اور انبیاء علیہم السلام، سبھی کی ایک محبوب ضرورت رہی ہے۔ اور اپنی اپنی حدود میں کوئی بھی اس سے بے نیاز نہ تھا۔ اسی طرح ان میں تدبر و تفکر، ایمان کا ہمیشہ ایک فطری اور لازمی تقاضا رہا ہے، جس کی تحریک پر مومن کی نگاہیں اس صحیفۂ حکمت کے مطالعے میں از خود ڈوب جایا کرتی تھیں۔

ان ساری باتوں کو سامنے رکھ کر اب اپنے معاملے پر غور کیجیے۔ جو چیز انبیاء علیہم السلام تک کا وظیفۂ فکر و عمل بنتی چلی آئی ہے اور جس کی ضرورت سے صحابہ جیسے معیاری مسلمان بھی بلند نہ تھے، بلکہ ان کے بارے میں رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ایک بنیادی فریضہ قرار دیا گیا کہ وہ دلائل سے ان کے ایمان کی برابر آبیاری کرتے رہیں۔ سوچیے، اس سے آج کا مسلمان آخر کیسے بے نیاز ہو سکتا ہے؟ انبیاء علیہم السلام کے بارے میں تو بلاشبہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ انہیں منصبِ نبوت کا جو غیر معمولی بوجھ اٹھانا تھا اس کے لیے ان کو یقین کی بعید سے بعید گہرائیوں تک پہنچنے کی ضرورت تھی اور اس لیے ان کا یوں سراپا فکر و نظر بنا رہنا ایک قدرتی بات تھی۔ لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے سلسلے میں تو اس طرح کی کوئی بات نہیں کہی جا سکتی، کیوں کہ انہیں تو نبوت کے نہیں بلکہ صرف ایک مردِ مومن کے فرائض انجام دینے تھے، جس طرح کہ آج ہر اس شخص کو اپنے مقدور بھر یہ فرائض انجام دینے ہیں جو اپنے کو مسلمان کہتا ہو۔ اس لیے کھلی ہوئی بات ہے کہ ان فرائض کی انجام دہی کے لیے جس ایمان و یقین کی ضرورت کل انہیں تھی، فی الجملہ اسی قسم کے ایمان و یقین کی ضرورت آج ہمیں بھی ہوگی۔ نیز اس ایمان و یقین کی منزل تک پہنچنے کے لیے جو تدبیریں ان کے لیے مقرر فرمائی گئی تھیں، آج بھی اس مقصد میں قابلِ اطمینان کامیابی اگر حاصل کی جا سکتی ہے تو صرف انہی کے ذریعے۔ اس ضرورت اور ان تدابیر سے اگر کوئی شخص کسی معنی میں بے نیاز کہا بھی جا سکتا ہے، حالاں کہ ایمان کی فطرت اور نفسیات اسے ممکن نہیں مانتیں، تو اسی وقت جب کہ اس کا ایمان (چشمِ بدور) صحابہ کرام سے بھی آگے پرواز کر چکا ہو۔ لیکن یقین کرنا چاہیے کہ ہم میں سے کوئی بھی اس پندار میں مبتلا نہ ہوگا، نہ اپنے بارے میں، نہ کسی اور کے بارے میں۔ مگر اس کے باوجود عالمِ واقعہ کے اندر جو کچھ دیکھنے میں آ رہا ہے، وہ یہ ہے کہ قرآن نے فکر و تدبر کی جو تلقینیں کی ہیں ان سے مسلمان عموماً اپنے کان بند کیے ہوئے ہیں اور اس کے استدلالی مباحث کا غالباً وہ اپنے کو مخاطب اور ضرورت مند سمجھتے ہی نہیں۔ گویا مرض کی موجودگی کا تو اقرار ہے، مگر اس دوا کے پیالے کو ہاتھ سے اٹھانے کا کوئی خیال بھی باقی نہیں رہا۔ جو اس مرض کا ایک ہی شافی علاج ہے۔ یہ صورتِ حال یا تو کسی گہری کج فکری کی آئینہ دار ہے، یا پھر ایک خوفناک غفلت کا پتہ دیتی ہے۔ ہر شخص جانتا ہے کہ کسی نقص یا کمی کی تلافی اسی وقت ہو سکتی ہے جب کہ اس کا احساس پیدا ہو چکا ہو۔ اس لیے اپنے عملی اور ذہنی تجزیے کے نتیجے میں اس وقت جس کج فکری یا غفلت کا سراغ لگ رہا ہے اس کا پوری اہمیت سے احساس کر لینا بیداریٔ ایمان کی ایک بنیادی شرط ہے، شاید سب سے پہلی بنیادی شرط۔ یعنی اس صورتِ حال کے پیشِ نظر سب سے مقدم کام کرنے کا یہ ہے کہ ایک طرف تو جلد سے جلد اپنے سوچنے کے انداز کو بدلا جائے۔ اور اپنے ذہن کو اس جھوٹے اطمینان سے پاک کر لیا جائے کہ جب ہم مسلمان ہیں تو یہ اس بات کی سند ہے کہ ہم ایمان باللہ کے دلائل کی جستجو اور ان پر غور و فکر کی ضرورت سے اونچے اٹھ آئے ہیں۔ اور اس کے بغیر بھی ہم اپنے ایمان کو مضبوط تر بنا سکتے ہیں اور ان دلائل سے توانائی حاصل نہ کر کے بھی ہمارا ایمان اعمالِ صالحہ کی اصل قوتِ محرکہ کی حیثیت سے اپنا کام انجام دے سکتا ہے۔ دوسری طرف اثباتی طور پر یہ حقیقت اچھی طرح ذہن نشین کر لی جائے کہ قرآن کی وہ آیتیں، جن میں توحید پر (یا آخرت پر یا نبوت پر) دلیلیں دی گئی ہیں، براہِ راست ہماری فکری قوتوں کو بھی خطاب کرتی ہیں۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم اس خطاب کا ٹھیک ٹھیک خیر مقدم کریں اور اپنی احتیاج سمجھ کر کریں۔ ان میں ہمارے لیے ایمان کی پختگی اور بصیرت کی روشنی کا غیر محدود سامان ودیعت کر رکھا گیا ہے۔ ہم سخت زیاں کار ہوں گے اگر اس نعمت سے یہ کہہ کر محروم ہو رہیں کہ ان آیتوں کا تعلق کفار سے تھا۔ فلاں فلاں آیتیں منافقین کے حق میں نازل ہوئی تھیں، قرآن کا اتنا حصہ مشرکوں سے خطاب کرتا ہے اور اب اگر ہم ان آیتوں اور قرآن کے ان حصوں کو پڑھتے ہیں تو صرف برکتِ تلاوت اور ثواب کے لیے۔ یہ غلط اندیشی عام حالات میں تو مہلک ہے ہی، مگر اس وقت اس کی ہلاکت خیزیاں حد سے بڑھ جاتی ہیں جب کہ معاملہ ایمانی پختگی اور شعور کو باقی رکھنے کا نہیں، بلکہ ایمان میں پختگی اور شعور پیدا کرنے کا ہو، جیسا کہ فی الواقع اس وقت ہے۔

(۲) لوازمِ صفات کا تفصیلی علم

بیداریٔ ایمان کے سلسلے میں دوسری ضروری تدبیر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات خصوصاً اس کی صفتِ توحید کے تقاضوں سے پوری واقفیت حاصل کی جائے۔ اس واقفیت کے بغیر ایمان میں وہ جامعیت نہیں پیدا ہو سکتی جو مومنانہ زندگی کے فرائض سے عہدہ برآ ہونے کے لیے بہرحال ضروری ہے۔ اس شجرۂ طیبہ سے پھل اور سایہ اسی وقت مل سکتا ہے جب اس میں ہری بھری شاخیں اور پتیاں بھی موجود ہوں۔ یاد رکھیے، درخت صرف اپنی جڑوں ہی سے غذائی ضرورتیں پوری نہیں کر لیتا اپنی ٹہنیوں اور پتیوں کے ذریعے بھی زندگی کی قوتیں جذب کرتا ہے بلکہ زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ درخت کی جڑیں ہی اس کی شاخوں اور پتیوں کو زندہ نہیں رکھتیں، یہ شاخیں اور پیتیاں بھی جڑوں کو زندگی کی توانائیاں بخشتی رہتی ہیں۔ اس لیے صفاتِ الٰہی کا مجمل علم خواہ اپنی جگہ کتنی ہی بنیادی اہمیت کیوں نہ رکھتا ہو، مگر وہ حقیقی معنوں میں اصل ثابت، اسی وقت کہا جا سکتا ہے جب کہ اس میں لوازمِ صفات کے تفصیلی علم کی پھیلی ہوئی شاخیں بھی موجود ہوں۔

اس تفصیلی علم کے لیے انسان اپنی عقل اور اپنے اجتہاد پر ہرگز کوئی اعتماد نہیں کر سکتا اور ضروری ہے کہ اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت ہی کی طرف رجوع کرے۔ کیوں کہ اس کی عقل اس قابل قطعاً نہیں ہے کہ صفاتِ الٰہی کا مجمل ایمان حاصل ہو چکنے کے بعد ان کے تفصیلی تقاضوں کا ٹھیک ٹھیک اندازہ وہ خود ہی کر لے۔ اگر ایسا ممکن ہوتا تو انبیاء علیہم السلام کے بھیجنے اور شریعتیں نازل کرنے کی کوئی خاص ضرورت ہی نہ تھی۔ دوسری طرف ان تقاضوں سے مفصل واقفیت کی اہمیت اتنی شدید ہے کہ اسی پر منشائے الٰہی کی پیروی منحصر ہے۔ اس لیے ہر اس شخص کے لیے جو فی الواقع اللہ کی بندگی کا حق ادا کرنا چاہتا ہو، جس طرح یہ مفصل واقفیت ضروری ہے اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ اس واقفیت کا ذریعہ صد فی صد وہ صرف کتاب و سنت ہی کو بنائے۔ یہ کتاب و سنت اس واقفیت کا تنہا ذریعہ ہی نہیں بلکہ دراصل ان لوازمِ صفات ہی کی تفصیلات کا دوسرا نام ہیں۔ اس لیے ان تقاضوں کی مفصل واقفیت کی شکل یہی ہے کہ انسان کلام اللہ اور کلامِ رسول سے ضروری واقفیت رکھتا ہو۔

جیسا کہ اشارہ کیا جا چکا، ساری صفاتِ الٰہی میں صفتِ توحید ایک خاص اہمیت رکھتی ہے اور دین و خدا پرستی کے تصور کی درستی بڑی حد تک اس کے صحیح علم پر موقوف ہے، اس لیے وہ مخصوص توجہ اور اہتمام کی بھی مستحق ہے۔ لہٰذا ضرورت ہے کہ اس کے لوازم کا بہت زیادہ گہری نظر سے جائزہ لیا جائے اور پوری یکسوئی کے ساتھ ان کا تفصیلی علم بہم پہنچا لیا جائے۔ یاد رکھنا چاہیے کہ اس صفت کے لوازم کی حدیں بہت دور تک پھیلی ہوئی ہیں۔ زندگی کے چاہے جس گوشے کو لیجیے ممکن نہیں کہ توحید کا عقیدہ اس میں اپنے کچھ مطالبے نہ رکھتا ہو۔ اور یہ مطالبے بھی ایسے ہوں گے جن میں ہم اپنی پسند سے کوئی تفریق نہیں کر سکتے، نہ ان میں اپنے ذوق کو کچھ دخل دے سکتے ہیں۔ کوئی چاہے تو ان میں اولیت اور غیر اولیت کا، یا قریب اور بعید کا فرق کر لے۔ کسی چیز کو توحید کا اولین یا قریب ترین تقاضا اور دوسری کو اس کا ثانوی یا بعید تقاضا قرار دے لے مگر اس فرق کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہو سکتا کہ ان مطالبات میں سے کچھ کے بارے میں یہ گنجائش ہے کہ انہیں ہمیشہ کے لیے، یا کچھ مدت ہی کے لیے سہی، بھلا دیا جا سکے اور اگر وہ یاد رہیں بھی تو بس اس حد تک کہ ہماری فکری اور عملی روش پر ان کا کوئی اثر نہ پڑے۔ اس کے برخلاف ان میں سے ہر مطالبہ بجائے خود اپنی ایک اہمیت رکھتا ہے اور ہم پر یہ ذمہ داری عائد کرتا ہے کہ استطاعت کے مطابق اس پر ضرور عمل کریں، یا عمل کر سکنے کے لیے سازگار حالات مہیا کریں۔ اندازہ، تجربہ اور مشاہدہ، سبھی کا کہنا ہے کہ بلا تفریق سارے تقاضوں پر عمل کر سکنا ان سے واقف ہو جانے کے بعد بھی آسان نہیں۔ پھر اس شخص کے بارے میں آپ کس توقع کی گنجائش پا سکتے ہیں جس کو یہ علم و واقفیت بھی نہ ہو! کیا ایسا شخص ان تقاضوں میں تفریق کرنے، کچھ کو اختیار کر لینے اور کچھ کو چھوڑ دینے کی غلطی سے بچ سکتا ہے؟ یقیناً ہرگز نہیں۔ کیوں کہ یہ منطقی طور پر ایک ناممکن سی چیز ہے۔ آخر جب تک کسی بات کا علم ہی نہ ہو اس پر عمل کیسے کیا جا سکتا ہے۔ ایسا شخص اگر اذکار و اشغال کی کثرت سے باطن کی جلا حاصل بھی کر لے اور اللہ کی محبت کا سوز بھی محسوس کرنے لگے تو بھی اس سے مرضیاتِ الٰہی کی بلا کم و کاست پیروی ممکن نہیں۔ اس کا حال زیادہ سے زیادہ اس نادان خادم کا سا ہوگا جو اپنے آقا پر جان چھڑکنے کے لیے صدقِ دل سے تیار تو ہو، مگر نہیں جانتا کہ اسے خوش کس طرح کیا جا سکتا ہے اور اس کی رضا میرے کس طرزِ عمل میں ہے؟ اس لیے کچھ بعید نہیں اگر وہ اپنے فدویانہ جذبات کے باوجود ایسی حرکتیں بھی کرتا رہے جو اس کے آقا کے نزدیک ناپسندیدہ ہوں۔ یا ایسے کاموں کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھے جو آقا کے حضور بڑی قابلِ قدر بلکہ ضروری ہوں۔

(۳) ذکرِ دائمی

تیسری ضروری تدبیر اللہ تعالیٰ کی دائمی یاد ہے۔ علمی اور عقلی طور پر اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات اور ان صفات کے لوازم کی صحیح معرفت پیدا کرنے کی مذکورہ بالا دونوں کوششیں بیداریٔ ایمان کی محض ابتدائی تدبیریں ہیں۔ اس لیے اگر کوئی شخص انہی پر اپنی کوششوں کو ختم کر دے تو یہ بالکل ایسا ہی ہو گا گویا وہ ایک گھر بنانے چلا تھا تاکہ اس میں آرام سے رہ سکے لیکن دیواریں چن چکنے کے بعد ہاتھ روک کر بیٹھ رہا۔ لہٰذا انہی ابتدائی تدبیروں پر اکتفا نہ کر لینا چاہیے جیسا کہ عام طور سے علمی اور فنی معلومات کے سلسلے میں کیا جاتا ہے کہ جب ہم علوم و فنون کے کچھ نکتے حل کر لیتے ہیں تو ان کو اپنی بیاض، اپنے حافظے کی زینت بنا کر حفاظت سے رکھ چھوڑتے ہیں اور یہ سمجھ کر ایسا کرتے ہیں کہ ان نکات کے بارے میں ہم پر غور و فکر کی جو ذمہ داری تھی وہ ہم نے پوری کر لی ہے اور ہمارا ذہن دوسرے مسائل کے لیے فارغ اور یکسو ہو چکا ہے۔ بلاشبہ دوسرے حقائق اور نکات کی حد تک یہ بات سو فی صدی صحیح بھی ہے۔ مگر ذاتِ باری کی ہستی اور اس کی صفات کا علم اپنی نوعیت میں بالکل منفرد ہے۔ وہ اس طرح کا کوئی نکتہ نہیں ہے جس کے پا لینے کے بعد ذہن کو بے فکر، فارغ اور یکسو سمجھ لیا جائے بلکہ وہ ایک ایسا نکتہ ہے جو انسان کے ذہن کو فارغ اور یکسو کرنے کے بجائے اسے فارغ اور یکسو کر لیتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اسے پا لینے کے بعد اس سے بے نیازی نہ برتی جائے، بلکہ دنیا کی ساری نیاز مندیوں کے بندھن کاٹ کر اسی کا ہو رہا جائے، اسی کو فکر و ذکر کا مرکز بنا لیا جائے، وہ ایک مجسم حقیقت کی شکل میں ہر وقت نگاہوں کے سامنے موجود رہے۔ انسان خواہ کسی حال میں اور کسی جگہ ہو، اس کی یاد سے غافل نہ رہے، جہاں تک ہو سکے کوشش کرے کہ یہ نکتہ اس کی یادداشت کو اپنی کامل گرفت میں لے لے، وہ جدھر بھی نگاہ اٹھائے دائیں، بائیں، آگے پیچھے، یہاں تک کہ خالی فضاؤں میں بھی اسے یہ حقیقت منقوش نظر آئے۔ یعنی جس طرح ایک پیاسا پیاس کی شدت میں اپنے گرد و پیش کی ہر چیز سے غافل ہو جا سکتا ہے، مگر یہ ممکن نہیں کہ وہ پانی کے ذکر و فکر سے بھی، جو فی الواقع اس کے سامنے موجود بھی نہیں ہوتا، خالی الذہن ہو جائے۔ اسی طرح ایک مومن کے دل و دماغ کو چاہیے کہ سب کچھ بھول جائیں مگر اپنے مولا کو کبھی نہ بھولیں۔ چناں چہ سچے مومنوں کی قرآن میں تعریف ہی یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ کسی حال میں بھی خدا سے غافل نہیں ہوتے اور اسے کھڑے بیٹھے اور لیٹے ہر حال میں یاد رکھتے ہیں:

الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَىٰ جُنُوبِهِمْ...
(
آل عمران: ۱۹۱)

اس لیے علمی اور عقلی طور سے ایمان کی شعوری کیفیت اور صفاتِ الٰہی کی تفصیلی واقفیت حاصل کرنے کے ساتھ تیسرا ضروری کام یہ ہے کہ زبان سے بالعموم اور دل و دماغ سے حتی الامکان ہر وقت اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا جائے، ایسا ذکر جو فکر کے ساتھ ہو اور جس کے الفاظ اور آداب سب کے سب شارع علیہ السلام کے اقوال اور افعال سے لیے گئے ہوں۔ اس مسئلے پر تفصیلی گفتگو کتاب کے چوتھے باب "نماز" میں آئے گی۔

(۴) محبتِ الٰہی

چوتھی چیز جس کے بعد ایمان باللہ کی تلوار پوری طرح باطل شگاف بن جاتی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی محبت اور پورے ذوق و شوق کے ساتھ اس کی رضا جوئی ہے۔ جب تک اس تلوار پر محبت کی آب نہیں آ جاتی حق پرستی کے میدان میں وہ کوئی شاندار کارنامہ ہرگز نہیں دکھلا سکتی۔ اس لیے ہمارے علم اور ہمارے حافظے پر اللہ تعالیٰ کے تصور کی گرفت اگر قائم ہو جائے تو اس کے بعد یہ بھی ضروری ہے کہ ہم اپنے جذبات کو بھی اسی تصور کی گرفت میں دے دیں اور جس طرح وہ ہماری علمی اور فکری قوتوں پر چھا چکا ہے اسی طرح اسے اپنے احوالِ قلب پر بھی چھا جانے دیں۔ چناں چہ مومن کی امتیازی علامت اور کمالی صفت ہی یہ ٹھیرائی گئی ہے کہ اسے ہر شے سے زیادہ اللہ کی محبت ہوتی ہے:

...وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِّلَّهِ ۗ...
(
البقرہ: ۱۶۵)

اور یہ کہ وہ اپنی خواہشوں، اپنے رجحانوں اور اپنے فیصلوں کو رضائے الٰہی کے تابع رکھتا ہے:

فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
(
النساء: ۶۵)

نیز اللہ تعالیٰ نے صاف صاف فرما رکھا ہے کہ میرے دین کو توحید کے محض عقلی نکتے بیان کرنے والوں اور صرف علم اور نظریے کی حد تک خدا پرستی کے قائل فلسفیوں کی ضرورت نہیں ہے بلکہ مجھے ایسے بندے چاہئیں جو مجھ سے محبت رکھتے ہوں اور جو میری مرضی میں اپنی رضا کو گم کیے ہوئے ہوں۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَن يَرْتَدَّ مِنكُمْ عَن دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَافِرِينَ يُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا يَخَافُونَ لَوْمَةَ لَائِمٍ ۚ...
(
المائدہ: ۵۴)
اے ایمان والو! تم میں سے جو کوئی اپنے دین سے پھر جائے گا تو اللہ (کو اس کی کوئی پروا نہ ہوگی وہ) تمہاری جگہ کچھ اور لوگوں کو لائے گا، جن سے وہ محبت رکھے گا اور جن کو اس سے محبت ہوگی، جو اہلِ ایمان کے لیے نرم اور اہلِ کفر کے لیے سخت ہوں گے، اللہ کی راہ میں ہر طرح سرگرم ہوں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا انہیں کوئی ڈر نہ ہوگا۔

احادیث میں یہ حقیقت اور نمایاں کر دی گئی ہے، مثلاً:

لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّىٰ يَكُونَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِمَّا سِوَاهُمَا۔
(
صحیح بخاری، صحیح مسلم)
تم میں سے کوئی صحیح معنوں میں مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ اللہ اور رسول اسے ہر شے سے زیادہ محبوب نہ ہو جائیں۔

ایمان باللہ کا صحیح معنوں میں ایمان باللہ بن جانا محبتِ الٰہی کے بغیر کیوں ناممکن ہے اور مومن بننے کے لیے اللہ تعالیٰ کا محب ہونا بھی کیوں ضروری ہے؟ اس کے دو سبب ہیں:

  1. ایک تو یہ کہ اللہ تعالیٰ اس تعلق کی بنا پر جو اس کے اور انسان کے مابین ہے، بجائے خود اس بات کا مستحق ہے کہ انسان کی اصلی محبت صرف اسی کے لیے ہو۔ وہی انسان کا پیدا کرنے والا ہے اور وہی اس کا پالنہار ہے، اسی کی دی ہوئی روزی سے وہ پلتا اور جیتا ہے اور اسی کی بخشی ہوئی نعمتوں سے وہ زندگی کا لطف و سرور حاصل کرتا ہے۔ پھر اس کو چھوڑ کر اس کے جذباتِ محبت کا مرکز اور کون ہو سکتا ہے اور کیوں ہو سکتا ہے؟ اگر انسان کی اخلاقی حس بالکل ہی دم نہ توڑ چکی ہو تو یقیناً وہ اسے کبھی گوارا نہیں کر سکتا کہ کوئی غیرِ خدا اس کی حقیقی محبت میں آ کر حصہ دار بن جائے۔ ایسی کھلی ہوئی احسان فراموشی اور نمک حرامی کے تو جانور تک روادار نہیں ہوتے۔ اس امرِ واقعی کے پیشِ نظر یہ کوئی بہت گہرا راز نہیں ہے کہ اللہ جل شانہ کی محبت ایمان کی حقیقت میں داخل ہے اور اس طرح داخل ہے کہ اس کے بغیر ایمان باللہ کا وجود ہی قابلِ قبول نہیں رہ جاتا۔
  2. دوسرا سبب یہ ہے کہ بندگی کے اس بھاری عہد کا جو انسان نے اپنے رب سے باندھ رکھا ہے، بوجھ صرف وہی ایمان اٹھا سکتا ہے جس میں محبتِ الٰہی کا جوہر موجود ہو۔ اس جوہر سے خالی ایمان کے یہ بس ہی میں نہیں کہ وہ مومن کو اس کے اس عہد سے سرخرو نکلنے دے۔ یہ صحیح ہے کہ ایک کمیونسٹ مارکس کے، ایک جرمن نیشنل سوشلسٹ ہٹلر کے، اور ایک ہندوستانی وطن پرست گاندھی جی اور جواہر لال کے پیش کیے ہوئے نظامِ حیات کی خدمت اور پیروی پورے جوش کے ساتھ کر لے سکتا ہے، خواہ اس کو ان مقتداؤں کی شخصیت سے کوئی نام کی بھی محبت اور شیفتگی نہ ہو، کیوں کہ متعلقہ فلسفے اور نظام پر اس کا عقلی اطمینان ہی اس خدمت اور پیروی کے لیے بالکل کافی ہو سکتا ہے۔ لیکن زندگی کے ان دوسرے فلسفوں اور نظاموں پر اسلام کو بھی قیاس کرنا اور یہ سمجھ بیٹھنا کسی طرح صحیح نہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ سے دلی محبت اور شیفتگی رکھے بغیر بھی اس کے دین کی خدمت اور پیروی کا حق ادا کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح کی غلط فہمی کا شکار اگر کوئی ہو سکتا ہے تو صرف ایسا ہی شخص ہو سکتا ہے جو یا تو حد درجہ سطحی ذہن رکھنے والا اور انتہائی سادہ لوح ہو، یا پھر اسے اس بات کا کوئی نظری اندازہ بھی نہ ہو کہ مسلم ہونے کے کیا معنی ہیں اور خدا پرستی کی راہ میں کیسی غیر معمولی مشکلات سے پنجہ آزمائی کرنی ہوتی ہے۔ دیکھنے میں تو بظاہر یہ ایک سیدھی سی بات معلوم ہوتی...

ہے کہ جب اسلام دین فطرت ہے اور از روئے عقل و تجربہ وہی ایک ایسا عادلانہ نظام ہے جو انسانی زندگی کی ساری الجھنوں کو کمالِ حسن و خوبی کے ساتھ سلجھا کر رکھ دیتا ہے تو اس کی راہ ایک آسان اور مقبولِ عام راہ ہوگی اور اس لیے اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے اتنا تعلقِ خاطر [کافی ہوگا] جتنا کہ دوسرے غیر فطری اور ناقص نظاموں کے پیرو ان کی پیروی اور اقامت کا کام انجام دینے کے لیے کرتے ہیں۔ لیکن فی الواقع یہ ایک سخت قسم کا سفسطہ ہے، ایک خوش فہمی ہے جسے دین کی پوری تاریخ ایک خطرناک بھولا پن قرار دیتی ہے، ایک ایسا مفروضہ ہے جس کا واقعات کی دنیا سے کوئی تعلق نہیں۔ حقیقتِ حال جو کچھ ہے وہ تو یہ ہے کہ اگر مسلمان کو اللہ اور رسول سے صرف اتنا ہی لگاؤ ہو جتنا کہ دوسروں کو اپنے لیڈروں سے بالعموم ہوا کرتا ہے تو اس شکل میں وہ اسلام کی پیروی کا فرض ناگزیر حد تک بھی ادا نہیں کر سکتا۔ معیاری یا قابلِ اطمینان حد تک ادا کر سکنا تو بہت دور کی بات ہے۔

اسلام کی پیروی: ظاہری آسانی بمقابلہ حقیقی دشواری

اس کی وجہ یہ ہے کہ اگرچہ رکاوٹیں اور مشکلیں ہر مسلک کی پیروی اور ہر تحریک کی علم برداری میں پیش آتی ہیں، مگر دینِ حق کی پیروی اور اقامت کے راستے میں جو چٹانیں حائل ملتی ہیں ان کی نوعیت بالکل ہی دوسری ہوتی ہے۔ قربانیاں دوسرے نظام بھی مانگتے ہیں، مگر ان کی یہ مانگیں جان، مال اور آرام کی قربانیوں سے آگے نہیں بڑھتیں اور نفس کے محبوب جذبات ان کی زد سے بالکل ہی محفوظ رہتے ہیں۔ وہاں ان جذبات کو نہ صرف یہ کہ قربان نہیں کرنا پڑتا بلکہ الٹے وہ خود ہی قربان گاہ بنے ہوتے ہیں۔ اور دراصل یہ انہی کی رضا ہوتی ہے جس کی طلب میں ان کا پجاری انسان طرح طرح کی بازیاں کھیل جانے کے لیے تیار ہو جایا کرتا ہے۔ وہ مصائب میں گھر جایا کرتا ہے، وہ گھر سے بے گھر ہو جاتا ہے، اس کی جائداد ضبط ہو جاتی ہے، وہ آہنی زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا ہے اور بسا اوقات موت کے بھیانک سائے اس کی طرف بڑھتے دکھائی دینے لگتے ہیں۔ مگر ان سب کے باوجود کہیں ناموری کی خواہش، کہیں اقتدار کی ہوس، کہیں عوامی مقبولیت کا دل نواز تصور اور کہیں دوسرے مرغوباتِ نفس اس کے زخموں پر ہر آن مرہم رکھنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ ایسا مرہم جس کی ٹھنڈک مصائب کو مصائب نہیں رہنے دیتی اور اس کی رگوں میں ایک نئے جوشِ عمل کی لہر دوڑا دیا کرتی ہے۔

مگر جہاں تک دینِ حق کی پیروی اور اسلامی نظام کی اقامت کا تعلق ہے وہ سب سے پہلے انہی جذبات کی قربانی چاہتی ہے۔ وہ کہتی ہے کہ دوسری چیزوں کی قربانیاں بھی مانگی جائیں گی لیکن ان کا موقع بعد میں آئے گا۔ ابتداء تمہیں اپنے جذباتِ نفس ہی سے کرنی ہے۔ یہ میری راہ کا سب سے پہلا قدم ہے۔ یہاں تمہیں نہ صرف یہ کہ اپنی دولتوں کو نثار کرنا اور اپنی جانوں کو کھپانا ہے، بلکہ برائیوں کو بھلائیوں سے دور کرنا ہے۔ گالیاں سن کر سوز بھری دعائیں دینا ہے۔ دشمن دلوں کو نرمی اور خوش خوئی سے جیتنا ہے۔ معاملات میں بے لاگ حق پرستی سے کام لینا ہے، سچائی کا اگر تقاضا ہو تو اپنے عزیزوں کے خلاف، اپنے ماں باپ کے خلاف حتی کہ خود اپنی ذات کے بھی خلاف اُٹھ کھڑا ہونا ہے۔ اور یہ سب کچھ کسی دنیوی لالچ اور مادی ہوس کے بغیر کرنا ہے۔ شہرت کی تمناؤں سے، جاہ و دولت کی خواہشوں سے، تحسین و آفریں کی آرزوؤں سے، عوامی مقبولیت کی امنگوں سے، غرض ہر اس چیز سے دل و دماغ کو یکسر پاک رکھ کر کرنا ہے جو تمہارے نفس کو مرغوب ہو سکتی ہے۔

محبت الٰہی: اصل محرک

یعنی جو چیزیں دوسرے نظاموں اور مسلکوں کے ماننے کے لیے مشکلات کے وقت استقلال اور جاں سپاری کا واحد محرک بنتی ہیں، مومن کے دل پر چاہے جو کچھ بیت جائے اس کے لیے ان سے سہارا لینا بھی حرام ہے۔ سہارا لینا تو دور کی بات ہے، شرطِ ایمان یہ ہے کہ انہیں بھی قربان کر دیا جائے۔ اب غور فرمائیں اگر کسی شخص کا ایمان استدلالی علم اور نظری اعتراف سے آگے نہ بڑھا ہو اور اس کا اللہ و رسول سے کچھ اسی قسم کا تعلق ہو جیسا کہ دوسروں کو اپنے مقتداؤں سے ہوا کرتا ہے تو کیا یہ ممکن ہے کہ وہ مشکلات اور مصائب کے اس متلاطم سمندر کو پار سکے گا جس کے اندر مومن ہونے کے سبب اسے بہرحال اُتارا جائے گا؟

اگر کسی کا حسنِ ظن یہ ہو کہ ایسی کٹھن گھڑیوں میں ایک کمیونسٹ اپنی جگہ پر صرف اس لیے جما رہتا ہے کہ اس کو مارکسزم کی معقولیت اور سچائی پر اعتماد ہوتا ہے اور کسی مادی جذبے کی تسکین اس کے اس استقلال کے پیچھے کام نہیں کر رہی ہوتی، تو اسے حق ہے کہ اس سوال کے جواب میں بھی وہ یقیناً ”بے شک“ کے الفاظ کہہ دے۔ لیکن اگر عقلاً اس طرح کے کسی حسنِ ظن کی گنجائش نہیں ہے جیسا کہ واقعہ ہے، تو پھر بات بالکل صاف ہو جاتی ہے اور حقیقتِ واقعہ اس کے سوا کچھ باقی نہیں رہ جاتی کہ یہ صرف اللہ تعالیٰ کی محبت ہی ہے جو مشکلات و مصائب کے گھبرا دینے والے حملوں میں مسلمان کو اپنے مقام پر جمائے رکھتی ہے۔ کسی حقیقت کا مجرد علم و اعتراف مشکلوں سے تو شکست ضرور کھا سکتا ہے اور روزانہ کھاتا ہی رہتا ہے مگر یہ صرف محبت ہے جس نے یہ ننگ کبھی گوارا نہیں کیا۔ ایک ایسا مسلمان جو اللہ تعالیٰ کی حقیقی محبت کی کم سے کم مقدار سے بھی محروم ہو، جب مشکلات اور مصائب سے دوچار ہوگا تو ان کے مقابلے میں وہ اسی وقت ثابت قدم رہ سکے گا جب اس کا نفس کوئی نہ کوئی رشوت لے چکا ہو۔ ورنہ وہ مصلحتیں تراش کر فرار کی راہیں ڈھونڈھ لے گا۔ لیکن جب کسی کا ایمان محبت کا رنگ اختیار کر چکا ہو وہ نہ تو رشوتیں مانگے گا نہ مصلحتیں تراشے گا اور نہ مشکلوں کے آگے ہتھیار ڈالے گا۔ اگر کوئی ظاہری مفاد اس کی تسلی اور ہمت افزائی کے لیے موجود نہیں ہے تو نہ سہی۔ اس نے اپنی مومنانہ حیثیت کا اعلان اور اپنی مسلمانانہ زندگی کا آغاز کسی دنیوی غرض کے پیش نظر کیا کب تھا؟ اس کے سامنے تو محض اپنے محبوب آقا و مولا کی خوشنودی تھی جو اسے بہرحال حاصل ہو رہی ہے۔ آخر محبوبِ حقیقی کی خوشنودی سے بڑھ کر اور کیا صلہ ہو سکتا ہے جس کی تمنا کی جائے۔

قرآن اور محبت الٰہی

اگر آپ قرآن مجید کا مطالعہ کریں تو پائیں گے کہ جس وقت وہ سچے مومنوں کے اوصاف اور کردار کی باتیں کرتا ہے اس وقت اس کے سامنے صرف اس ایمان کا تصور ہوتا ہے جس پر اللہ تعالیٰ کی محبت چھا چکی ہو۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کے نزدیک یہ اوصاف اور کردار اس مسلمان سے متوقع ہی نہیں ہو سکتے، جو اس جذبہ محبت سے خالی ہو۔ سورہ المائدہ کی مذکورہ بالا آیت:
(
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَنْ يَرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَافِرِينَ يُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا يَخَافُونَ لَوْمَةَ لَائِمٍ) [المائدہ: ۵۴]
ہی پر غور کر لیں۔ یہ آیت محض یہ نہیں واضح کرتی کہ اللہ تعالیٰ کی محبت لازمہ ایمان ہے، بلکہ اس حقیقت کا بھی صاف اعلان کرتی ہے کہ دین کے مطالبوں سے منھ موڑ لینے کا خطرہ صرف اسی وقت پیش آسکتا ہے، اور پیش آیا کرتا ہے جب کہ ایمان محبتِ الٰہی کی روح سے خالی ہو۔

ان دونوں وجوہ کی بنا پر ضروری ہے کہ ہر صاحبِ ایمان اپنے استدلالی علم و اعترافِ حق کی تاریک اور سرد فضاؤں کو محبت کی تابناک اور گرم شعاعوں سے معمور کرنے کی مسلسل کوشش کرتا رہے۔ جب تک اسے اس سلسلے میں قابلِ لحاظ کامیابی حاصل نہیں ہو جاتی سخت خام خیالی ہو گی اگر وہ یہ سمجھ لے کہ میرا سینہ ایک زندہ اور بیدار ایمان سے آباد ہے۔

محبت الٰہی کیسے پیدا ہو؟

ایمان باللہ استدلالی علم کے نچلے زمروں سے اُٹھ کر محبت کے مقامِ بلند تک کس طرح پہنچتا ہے؟ اور دماغ کا سرد اور خشک اعتراف، دل کے سوز اور باطن کے گداز میں کیوں کر تبدیل ہو جاتا ہے؟ یہ ایک ایسا ضروری سوال ہے جس کا اس موقع پر بہرحال جواب ملنا چاہیے۔ اس سوال کے جواب میں ایک سے زائد باتیں کہی گئی ہیں۔ لیکن ظاہر ہے ان میں سے ہر پہلو سے صحیح بات وہی ہوگی جو قرآن و سنت اور اسوہ رسول سے واضح ہوتی ہے۔ کیونکہ دین کے سرچشمے یہی ہیں اور رہنمائی کا مقام صرف انہی کو حاصل ہے۔ دین اور دینی رہنمائی کے یہ سرچشمے جس کو محبتِ الٰہی کا ذریعہ قرار دیتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی صفات کا تفکر اور ان کے عملی فیضان کا تذکر ہے، اور ان میں سے بھی خاص طور پر اس کی صفتِ رحمت کا تفکر و تذکر۔ کیونکہ نفسیاتی طور پر محبت کا جو رشتہ رحم و شفقت سے ہے وہ کسی اور شے سے نہیں۔ آپ اگر کسی پر صدقِ دل سے احسان کریں جو دراصل رحم و شفقت ہی کے جذبے کا عملی مظاہرہ ہوتا ہے، تو ممکن نہیں کہ اس کا دل آپ کی محبت کا اسیر نہ ہو جائے۔ لیکن اگر آپ کسی سے رحم و شفقت کا برتاؤ نہیں کرتے تو خواہ آپ میں دوسری ہزار خوبیاں اور کمالات موجود ہوں، ضروری نہیں کہ وہ آپ سے محبت کرنے لگے۔

اس لیے اگرچہ اللہ تعالیٰ کی دوسری صفات کا ذکر و فکر بھی اس سلسلے میں کچھ معمولی فائدے نہیں رکھتا، مگر پھر بھی عام طور پر اس کی حیثیت میں صرف تائید و تقویت کی رہتی ہے اور اصل اور بنیادی حیثیت صرف صفتِ رحمت کے تذکر و تفکر کو حاصل ہوتی ہے۔ یہی وجہ تھی کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ اپنے اللہ سے محبت رکھو (أَحِبُّوا اللَّهَ) تو اس کی علت آپ نے یہ ارشاد فرمائی کہ وہ اپنی نعمتوں سے تمہاری پرورش کرتا ہے (لِمَا يَغْذُوكُمْ مِنْ نِعْمَتِهِ - ترمذی)۔

حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے دراصل اسی عظیم حقیقت کا اظہار کیا تھا جب یہ فرمایا تھا کہ:

الفكرة في نعم الله عز وجل من افضل العبادة.
(
احیاء العلوم، جلد ۴، ص: ۳۰۲)
اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر غور و فکر کرنا بہترین عبادت ہے۔

محبت الٰہی بڑھانے کے عملی طریقے:

صفاتِ الٰہی پر تفکر اور ان کے عملی فیضان کے تذکر کی چند اہم اور نمایاں شکلیں یہ ہیں:

  1. اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کی ہر طرف پھیلی ہوئی نشانیوں پر جب نگاہیں پڑیں تو غفلت اور بے حسی کے ساتھ نہ پڑیں، بلکہ حق شناسی اور عبرت پذیری کے ذوق کے ساتھ پڑیں، تاکہ جب لوٹیں تو ان سے حمد و شکر کا احساس ٹپک رہا ہو۔
  2. قرآن کی ان آیتوں کو تدبر اور حضورِ قلب کے ساتھ بار بار پڑھا جائے جن میں اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کے مختلف پہلوؤں کا ذکر کیا ہے اور انسان کو اپنی نعمتیں گن گن کر یاد دلائی ہیں۔
  3. اللہ تعالیٰ کی بخشی ہوئی نعمتوں کو جب استعمال کیا جائے تو سچے دل سے اس کا شکر ادا کیا جائے۔ اس شکر گزاری کا مفصل طریقہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوے میں اور آپ کے ارشادات میں موجود ہے۔ اور وہیں سے اسے لایا جانا چاہیے۔
  4. اللہ تعالیٰ کے لاشریک کمالوں کا، اس کی بے پایاں عظمتوں کا، اس کی بے نہایت خوبیوں کا جس حد تک بھی ذہن تصور کر سکے اس حد تک اس تصور کو ذہن میں بار بار مستحضر کیا جاتا رہے، بلکہ جہاں تک ہو سکے اسے زیادہ سے زیادہ مستحضر رکھا جائے۔ کیونکہ کمال، عظمت اور خوبی انسان کو فطرتاً پسند ہیں اور جس کسی میں وہ ان چیزوں کو موجود پاتا ہے اس کے لیے، قدرتاً اس کے اندر احترام اور عقیدت کے جذبات اُبھر آتے ہیں۔ لہٰذا ایک مومن کی نگاہ اللہ تعالیٰ کی ان صفات پر جتنی ہی زیادہ ہوگی اس کی عقیدت اور اس کا احترام وہ اتنا ہی زیادہ محسوس کرے گا، جو ترقی کر کے یا تو خود جذبہ محبت کی شکل اختیار کرلے گا یا کم از کم یہ کہ اس جذبے کو استحکام بخشنے کا ذریعہ بن جائے گا۔
  5. اپنے فقر کا گہرا احساس رکھا جائے اور اللہ تعالیٰ کی رزاقیت پر ہر وقت نظر جمی رہے اور ہر ضرورت کے وقت اس کے حضور اپنی التجائیں پیش کی جائیں۔
  6. اللہ تعالیٰ کو کثرت سے یاد کیا جائے، کیونکہ کسی چیز کی کثرتِ یاد جس طرح اس کے محبوب ہونے کا ثبوت ہے، اسی طرح اس کی محبت کے بڑھتے رہنے کا ذریعہ بھی ہے۔ یادِ الٰہی کی مکمل ترین شکل نماز ہے۔ نماز کو جن وجوہ سے دین کی اہم ترین بنیادوں میں رکھا گیا ہے ان میں سے ایک خاص اور بڑی وجہ یہ بھی ہے۔ لیکن اس مسئلے پر مکمل گفتگو آگے اپنے مقام پر آئے گی۔

منفی تدبیر: دنیا پرستی سے اجتناب

صفاتِ الٰہی کے تفکر و تذکر کی ان مثبت تدبیروں کے ساتھ اس ضمن میں ایک منفی تدبیر کا اختیار کرنا بھی ضروری ہے۔ اور وہ ہے دنیا پرستی کے مہلک جراثیم سے اپنے کو پاک کرتے رہنے کی تدبیر۔ جب تک انسان دنیا سے پوری طرح ہوشیار نہ رہے گا، محبتِ الٰہی کے جذبے کو ترقی دینے کی اس کی مثبت کوششوں کا اثر بہت سست رفتار رہے گا۔ کیونکہ دنیا کی محبت اور اللہ کی محبت میں فطری تضاد ہے اور یہ ایک مسلّم بات ہے کہ انسان دنیا کی طرف جتنا جھکا رہتا ہے اللہ کی محبت کے لیے اس کے دل کے دروازے اتنے ہی بند رہتے ہیں۔ اس لیے اس دنیا کو ہرگز اس امر کا موقع نہ ملنا چاہیے کہ وہ اس کے افکار و اعمال پر اپنے پھندے ڈال سکے۔ اور اگر بدقسمتی سے اس طرح کے کچھ پھندے پڑ چکے ہوں تو انہیں کاٹ پھینکنے کی اسے پوری جدوجہد کرتے رہنا چاہیے۔ اس جدوجہد کی عملی شکل کیا ہوتی ہے؟ یہ تفصیل اگلے باب یعنی ایمان بالآخرت کے مباحث میں آ رہی ہے۔

محبت الٰہی کی کسوٹی

آخر میں ایک اور بات بھی جان لینا ضروری ہے اور وہ یہ کہ محبتِ الٰہی کی کیفیت اور کمیت کا اندازہ کس طرح لگایا جاسکتا ہے؟ یعنی یہ بات کس طرح معلوم ہو سکتی ہے کہ ہماری کوششیں اس جذبہ محبت کے پیدا کرنے میں فلاں حد تک کامیاب ہوسکی ہیں؟ یہ سوال اس لیے پیدا ہوتا ہے کہ محبتِ الٰہی کوئی ایسی شے نہیں ہے جو دیکھی اور دکھائی جاسکے۔ نہ وہ دعویٰ کرنے کی چیز ہے، نہ ایسا ہے کہ کچھ خاص قسم کی حرکتیں اور ہیئتیں اس کے وجود کی دلیل ہوں بلکہ وہ ایک اندرونی جذبہ اور ایک باطنی کیفیت ہے۔ ظاہر ہے ایسی چیزوں کے بارے میں جو نہ آنکھ سے دیکھنے کی ہوں، نہ ہاتھوں سے ٹٹول کر معلوم کرنے کی، صحیح اندازہ لگا سکنے کا واحد ذریعہ صرف ان کے ثمرات اور مظاہر ہی ہوتے ہیں۔ وہ محض اپنی ضروری علامتوں ہی سے جانی پہچانی جاتی ہیں۔

اس لیے محبت کا حال اگر جانا جاسکتا ہے تو صرف انہی باتوں سے جو اس کے لازمی ثمرات کی حیثیت رکھتی ہیں۔ محبتِ الٰہی کا یہ لازمی ثمرہ اور اس کی یہ ضروری علامت کیا ہے جس سے اس کے وجود یا عدم وجود، نیز اس کی مقدارِ وجود کا صحیح پتہ بتانے والی ہوتی ہے؟ اتنی اہم چیز اور ایسی فیصلہ کن علامت کی تعیین ہماری آپ کی کاوشِ فکر پر نہیں چھوڑی جاسکتی تھی۔ بلکہ یہ خود اللہ تعالیٰ ہی کے واضح کر دینے کی بات تھی۔ چنانچہ اس نے کھول کر بتا دیا ہے کہ مجھ سے محبت کرنے کا کیا مطلب ہے؟ اور وہ کس شکل میں ظہور کرتی ہے؟ وہ فرماتا ہے کہ:

قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ (آل عمران: ۳۱)
اے نبی! کہہ دو اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا۔

اتباعِ رسول: محبت کی عملی شکل

یعنی اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے کا طریقہ کہیے، یا اس کا محب بننے کی تدبیر، یا اس کی محبت کی محسوس علامت، صرف یہ ہے کہ انسان اس کے رسول کی پیروی کرے۔ یہ پیروی رسول اسے اللہ کا محب ہی نہیں، بلکہ اس کا محبوب بھی بنا دینے والی چیز ہے۔ یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ رسولِ خدا کی پیروی کا دوسرا نام اللہ تعالیٰ کی مرضات کی پیروی اور اس کے احکام کی خوش دلانہ اطاعت ہے۔ کیونکہ اللہ کے رسول کی زندگی سراپا طاعت و انقیادِ حق کی زندگی تھی۔ (وَأَنْ أَكُونَ أَوَّلَ الْمُسْلِمِينَ) [الانعام: ۱۶۳] اور اسے اس کے سوا اور کوئی حکم نہ تھا کہ جو کچھ اس کے پاس بھیجا جا رہا ہے بلا کم و کاست اسی کی پیروی کرے اور علم بردارانِ باطل کی آرزوؤں، تدبیروں اور مخالفانہ سرگرمیوں کا ذرہ برابر بھی اثر نہ قبول کرے۔ (اتَّبِعْ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِينَ) [الانعام: ۱۰۶]۔ اس کے لیے حرام تھا کہ اللہ تعالیٰ کے ہمہ جہتی احکام و ہدایات میں سے کسی ایک کو بھی متروک ہونے دے (وَاحْذَرْهُمْ أَنْ يَفْتِنُوكَ عَنْ بَعْضِ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ إِلَيْكَ) [المائدہ: ۴۹]۔ اس لیے رسول کی پیروی کا، جس پر کہ اللہ تعالیٰ کا محب اور محبوب بننے کا دارو مدار ہے، مطلب صرف یہ ہے کہ جس طرح آپؐ نے بلا کسی تفریق و تقسیم کے اللہ تعالیٰ کے احکام و ہدایات کی پیروی کی اور پوری خوش دلی، انتہائی شیفتگی اور کامل فدا کارانہ جذبے سے کی، اسی طرح اپنی استطاعت بھر ہم بھی کریں۔ اس کے سوا نہ اللہ کی محبت کا کوئی مفہوم یا مظہر ہے، نہ اتباعِ رسول کے کوئی معنی۔

یہ حقیقت اتنی واضح تھی کہ چاہے عمل سے جو کوتاہیاں بھی سرزد ہو گئی ہوں، مگر جہاں تک فکر و نظر کا تعلق ہے اس سے اختلاف کو کبھی روا نہیں رکھا گیا۔ اور تمام علماء اور صاحبِ بصیرت مشائخ اس پر ہمیشہ سے متفق رہے ہیں۔ مشہور محدث امام نوویؒ لکھتے ہیں کہ:

من افضل محبة الله ورسوله امتثال امورهما واجتناب نهيهما والتأدب بالآداب الشرعية. (شرح مسلم، جلد ۲، ص:۳۳۱)
اللہ اور اس کے رسول کی سب سے اونچی محبت یہ ہے کہ ان کے حکموں کو بجالایا جائے، جن باتوں سے انھوں نے روکا ہے ان سے دور رہا جائے اور تمام آدابِ شرعیہ سے اپنے کو آراستہ کیا جائے۔

امام غزالیؒ کہتے ہیں کہ:

الاطاعة تبع الحب وثمرته. (احیاء العلوم، جلد ۴، ص: ۳۵۳)
اللہ کی اطاعت اس کی محبت کا تقاضا اور ثمرہ ہے۔

حد یہ ہے کہ بعض اہلِ علم کے نزدیک تو اللہ تعالیٰ کی اطاعت اس کی محبت کا ثمرہ نہیں بلکہ عین محبت ہے۔ یعنی وہ اطاعتِ الٰہی اور محبتِ الٰہی دونوں چیزوں کو ایک ہی حقیقت کی دو مختلف تعبیریں قرار دیتے ہیں جیسا کہ قاضی عیاضؒ کا بیان ہے:

قيل محبتهم له استقامتهم على الطاعة. (شرح مسلم للنووي)
ایک رائے یہ ہے کہ بندوں کی اللہ سے محبت یہ ہے کہ وہ اس کی اطاعت پر مضبوطی سے جمے رہیں۔

چنانچہ حضرت سہل تستری رحمۃ اللہ علیہ محبت کی یہ تعریف کرتے ہیں:

الحب معانقة الطاعة ومباينة المخالفة. (رسالہ قشیریہ، ص ۱۴۵)
محبت نام ہے اللہ کی اطاعت سے چمٹ جانے اور اس کی مخالفت سے کنارہ کش ہو جانے کا۔

گویا اس سلسلے میں اگر کوئی اختلاف ہے تو صرف اس بات کا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی وفا شعارانہ اور محکم اطاعت آیا اس کی اصل محبت ہی کا دوسرا نام ہے، یا وہ اس محبت کا لازمی ثمرہ ہے۔ اختلاف اس میں نہیں ہے کہ اللہ سے محبت رکھنے والا اس کی اطاعت لازماً کرتا ہے اور اطاعت کے بغیر محبت کا وجود قابلِ تصور ہی نہیں۔ امام قشیریؒ نے کتنی عمدہ بات فرمائی ہے:

ان من اجل الكرامات التي تكون للاولياء دوام التوفيق للطاعات والعصمة عن المعاصي والمخالفات. (رسالہ قشیریہ ص: ۱۶۰)
اولیاء اللہ کی سب سے بڑی کرامتوں میں سے ایک یہ ہے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی دائمی توفیق مل جائے اور وہ اس کی نافرمانیوں اور مخالفتوں سے محفوظ ہو جائے۔

خلاصہ: محبت کا معیار اتباعِ سنت

غرض، محبتِ الٰہی کی کسوٹی صرف کتاب و سنت کا پورا اتباع ہی ہے۔ اس کسوٹی پر اپنے کو کستے رہنا محض ایک بہتر کام نہیں بلکہ انتہائی ضروری کام ہے۔ کیونکہ اس کے بغیر اس بات کا کوئی اندازہ ہی نہیں ہو سکتا کہ حصولِ محبت کے باب میں ہماری کوششیں فی الواقع کس حد تک کامیاب ہو سکتی ہیں؟ صرف یہی نہیں کہ یہ اندازہ نہیں ہو سکتا، بلکہ ساتھ ہی یہ خطرہ بھی لاحق رہے گا کہ انسان محبت کے نام پر فریبِ محبت کا شکار ہو جائے۔ وہ اپنے تئیں یہ سمجھتا رہے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت اس کے باطن کو گرماتی جارہی ہے مگر حقیقتاً وہ صحیح محبت کا سوز نہ ہو۔ یہ خطرہ اس لیے لاحق رہے گا کہ محبت ایک ایسا جذبہ ہے جس کی فطرت میں جوش اور بے تابی ہے، وہ رہ رہ کر بے قابو ہو جاتا اور ہوش کے تقاضوں کو کچل کر رکھ دیتا ہے۔ اور جب ایسا ہوتا ہے تو اس وقت اس کے سامنے اصل کارفرما طاقت اس کا ذوق ہوتا ہے، نہ کہ محبوب کی پسند اور ناپسند کا خیال۔ حالانکہ غیر اللہ کی محبت میں چاہے جو بے راہ روی بھی برداشت کر لی جاتی ہو مگر اللہ کی محبت میں جو اصلاً عقلی محبت ہے نہ کہ طبعی، کوئی نامعقولیت گوارا نہیں کی جاسکتی۔ اور اس کے حق میں سب سے بڑی نامعقولیت یہ ہے کہ انسان اس میں اپنے ذوق کو دخل ہونے کا موقع دے دے اور اللہ سے محبت اپنی پسند کے مطابق کرے۔ جن طریقوں اور جن اعمال و مشاغل کو چاہے اختیار کرے اور جن سے چاہے بے تعلق ہو جائے۔ یہاں اس اتباعِ ذوق کی اور اس انتخاب کی قطعاً کوئی آزادی نہیں۔ یہ آزادی اگر جان بوجھ کر اختیار کی جائے تب تو کفر ہے اور اگر نادانستگی میں اپنالی جائے تو بھی کچھ کم محرومیوں کی موجب نہیں۔ جس شخص کو اس گھاٹے سے بچنا ہو اسے اتباعِ کتاب و سنت کی میزان ہمیشہ اپنے ہاتھ میں رکھنی چاہیے۔


باب سوم: [۲] آخرت پر یقین

تعمیرِ دین کا دوسرا بنیادی پتھر آخرت کا یقین ہے۔ یعنی ایک ایسے دن کے آنے کا یقین، جب ہر شخص کے اعمال کا خالص اخلاقی نقطۂ نگاہ سے جائزہ لیا جائے گا۔ جب اللہ تعالیٰ کا قانونِ جزا آگے بڑھے گا اور بڑھ کر ہمارے شعور و کردار کے چہرے سے ان ظاہری پردوں کو ہٹا دے گا جو اس دنیا میں کام کرنے والے قوانینِ طبعی نے ان پر ڈال رکھے ہیں، جس کے بعد ہر نفس کے لیے ضروری ہوگا کہ جو کچھ اس نے زندگی میں کیا ہے اس کے اخلاقی نتائج سے دوچار ہو۔

ایمان بالآخرت: ایمان باللہ کا لازمی تقاضا

اصل اور حقیقی
یہ بات کہ جزائے اعمال کا ایک دن آنے والا ہے، قرآن حکیم میں بڑے زور اور اہتمام سے بیان ہوئی ہے۔ اس زور اور اہتمام کو دیکھ کر بہ ظاہر تو یہ خیال ہوتا ہے کہ یہ چیز بھی ایمان باللہ کی طرح ایک مستقل حیثیت کی مالک ہے مگر فی الواقع ایسا نہیں ہے، بلکہ یہ اسی ایمان باللہ کی ایک شاخ، یعنی اس کا لازمی اور بنیادی تقاضا ہے۔ جہاں یہ ایمان باللہ نہ ہوگا وہاں آخرت کا تصور ممکن بھی نہ ہوگا اور جس جگہ ٹھیک ٹھاک یہ ایمان موجود ہوگا وہاں آخرت کا عقیدہ بھی لازماً پایا جائے گا۔ پہلی بات اس لیے کہ ایک خالق و مالک اور معبود و فرماں روا کے تصور کے بغیر جزا و سزا کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ دوسری اس لیے کہ اللہ پر ایمان رکھنے والا اس کی جن صفات کا بہرحال علم و یقین رکھتا ہے اور جن کے علم و یقین کے بغیر وہ مومن باللہ ہو ہی نہیں سکتا، ان میں سے متعدد صفتیں ایسی ہیں جو اس بات کا کھلا مطالبہ کرتی ہیں کہ انسانوں کو اس کے کیے کا پھل ضرور ملے اور اس غرض کے لیے ایک نہ ایک دن جزا و سزا کی میزان لازماً آویزاں کی جائے۔ اس لیے جو شخص اللہ تعالیٰ کی ان صفات کا صحیح علم رکھتا ہو گا وہ ایک یومِ جزا کا بھی ضرور قائل ہوگا، یا کم از کم یہ کہ اس کے مان لینے کے لیے ذہنی طور پر پوری طرح آمادہ ہوگا اور اس حقیقت کے سامنے آتے ہی اسے اپنے ہی دل کی ترجمانی قرار دے گا۔

اللہ کی صفات اور آخرت کا لزوم

ان صفات میں سے، جو ایک روزِ جزا کے آنے کا مطالبہ رکھتی ہیں، چار بہت نمایاں ہیں: ۱۔ عدل، ۲۔ حکمت، ۳۔ رحمت اور ۴۔ حاکمیت۔ اگرچہ یہ بحث کہ یہ صفتیں ایک یومِ جزا کے آنے کو کیوں کر مستلزم ہیں، ایک لمبی اور مستقل بحث ہے اور یہاں بیچ راہ میں اصل موضوعِ بحث کے ساتھ کسی ایک اور مستقل منزل کا رُخ کر لینا صحیح نہیں۔ لیکن اس کے باوجود موضوع کی اہمیت تقاضا کرتی ہے کہ اس دعوے کا ذکر کر کے اسے یوں ہی نہ چھوڑ دیا جائے۔ اس لیے آئیں، آگے بڑھنے سے پہلے اجمالاً یہ بھی دیکھ لیں کہ یہ صفتیں کس طرح ایک روزِ جزا کا آنا لازم ٹھہراتی ہیں؟

  1. عدل: عدل کے معنی ہیں کانٹے کی تول حق پہنچا دینا اور ہر ایک کے ساتھ اس سلوک سے پیش آنا جس کا وہ اپنے عمل کی بنا پر مستحق ہو۔ پس اگر اللہ تعالیٰ عادل ہے تو اس کا مجرد عادل ہونا ہی اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ وہ ہر شخص کو اس کے اعمال کا ٹھیک ٹھاک بدلہ کبھی نہ کبھی ضرور دے۔ جس نے اپنی زندگی کا مقصد پہچان کر اسے پورا کرنے کی کوشش کی ہو اور اس طرح اس کی مرضات کا اتباع کرتا رہا ہو اسے اپنی خوشنودیوں اور نعمتوں سے شاد کام کرے اور جس نے ایسا نہ کیا ہو اس کو قرار واقعی سزا دے۔ عدل و انصاف کا یہ وہ بنیادی مفہوم ہے جس سے آج تک اختلاف ممکن نہیں ہو سکا ہے۔ دنیا میں کسی بھی انصاف پسند دانش مند نے دوست اور دشمن، فرماں بردار اور نافرمان، اطاعت کشا اور باغی، دونوں کو ایک برتاؤ کا اہل نہیں سمجھا ہے۔ پھر یہ گمان کیسے کیا جا سکتا ہے کہ وہ ذات جو حکمت و دانش اور عدل و انصاف کا سرچشمہ ہے، اپنے نافرمانوں کو بھی اسی نگاہ سے دیکھے گی جس نگاہ سے اسے اپنے غلاموں اور وفاداروں کو دیکھنا چاہیے؟ یہ بداہتاً ناممکن بات ہے۔ قرآن نے جب یہ کہا کہ ”اندھا آنکھوں والے کے، تاریکی روشنی کے، سایہ دھوپ کے اور مردہ زندہ کے برابر نہیں ہو سکتا،

(وَمَا يَسْتَوِي الْأَعْمَى وَالْبَصِيرُ وَلَا الظُّلُمَاتُ وَلَا النُّورُ وَلَا الظِّلُّ وَلَا الْحَرُورُ وَمَا يَسْتَوِي الْأَحْيَاءُ وَلَا الْأَمْوَاتُ) (فاطر: ۱۹-۲۲)
تو اس کے یہ کہنے کا مطلب اسی بدیہی حقیقت کا اعلان و اظہار تھا اور جب اللہ جل مجدہ نے جلال بھرے انداز میں فرمایا کہ ”کیا ہم مسلم اور مجرم دونوں کو ایک سطح پر رکھیں گے؟ تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ تم یہ کیسے فیصلے کرتے ہو؟
(
أَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِينَ كَالْمُجْرِمِينَ مَا لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُونَ) (القلم: ۳۵، ۳۶)
تو اس کا مدعا اسی روشن حقیقت کے اندھے منکروں کو جھڑکنا اور ملامت کرنا تھا۔

غرض، نیکو کاروں کو اچھا اور بدکاروں کو بُرا بدلہ ملنا اور ان کے اعمال کے عین مطابق ملنا، عدلِ خداوندی کا صریح تقاضا ہے۔ لیکن جہاں تک اس دنیوی زندگی کا تعلق ہے، اس میں تو یہ تقاضا کام کرتا ہوا دکھائی نہیں دیتا۔ اس کے برعکس ہم دیکھتے یہ ہیں کہ یہاں کی خوش حالیاں، یہاں کی زینتیں، یہاں کی نعمتیں، یہاں کی سر بلندیاں بالعموم ان کو نہیں ملتیں جو اہلِ حق ہیں، بلکہ ان کے حصے میں آتی ہیں جو حق کے دشمن اور اللہ تعالیٰ کے باغی ہیں، اور اہلِ حق کے گرد و پیش اکثر و بیشتر بد حالیاں، گم نامیاں، فلاکتیں اور مظلومیتیں ہی چھائی رہتی ہیں۔ یہاں بدی، ظلم، کجروی اور بے ایمانی کی راہ دولت کدوں اور عشرت خانوں میں لے جاتی ہے اور نیک روی، حسنِ خلق، حق شناسی اور خدا پرستی کا راستہ مشکلات اور مصائب کے خارزاروں میں پہنچا دیا کرتا ہے۔ یہ صورتِ حال صاف کہہ رہی ہے کہ یہ دنیا دار الجزا قطعاً نہیں ہے، یہاں لوگوں کو اپنے کیے کا بدلہ نہیں ملا کرتا۔ حالانکہ اگر خدا عادل ہے تو ایسا ضرور ہونا چاہیے، اس لیے یہ بالکل ناگزیر ہے کہ اس عالم کے بعد کوئی دوسرا عالم اور اس زندگی کے بعد کوئی دوسری زندگی وجود میں آئے، جس میں عدلِ الٰہی کا یہ بنیادی تقاضا پورا ہو اور ہر شخص کو اس کے کاموں کا پھل مل جائے۔

  1. حکمت:حکیم“ کہتے ہی اسے ہیں جس کا کوئی کام حکمت اور مقصدیت سے خالی نہ ہو۔ جو جتنا بڑا حکیم ہو گا اس کے کام اتنے ہی زیادہ بامقصد اور پُر از حکمت ہوں گے۔ یہ ایک مانی ہوئی اور بدیہی بات ہے اور اس کی بداہت پر ہرگز کوئی حرف نہیں رکھا جا سکتا۔ اس مسلم اور بدیہی حقیقت کے ہوتے ہوئے یہ ممکن نہیں رہ جاتا کہ اللہ تعالیٰ کو حکیم بھی مانا جائے اور ساتھ ہی اس کے کسی فعل کو بے مقصد بھی گمان کیا جائے۔ اس دنیا کی اور اس دنیا میں بسنے والی نوعِ انسانی کی تخلیق بھی اسی حکیمِ مطلق کا فعل ہے اس لیے اس کو بھی کسی طرح بے مقصد نہیں باور کیا جا سکتا۔ سوچنے کی بات ہے کہ اگر اللہ کا کوئی چھوٹے سے چھوٹا کام بھی حکمت اور مقصدیت سے خالی نہیں ہو سکتا، تو یہ کیوں کر ممکن ہے کہ دنیا کے اس عظیم اور منظم کارخانے کو اس نے ایک روز یونہی کسی اتفاقی حادثے کے ہاتھوں بس ٹوٹ پھوٹ کر ختم ہو جانے کے لیے پیدا کیا ہو! اور کارخانہ بھی ایسا جس کے مختلف اور متضاد عناصر میں کامل توافق اور بے نظیر ہم آہنگی نظر آ رہی ہے، جس کا ایک ایک واقعہ علت و معلول کے ناقابلِ شکست شیرازے میں بندھا ہوا ہے، جس کی ہیئتِ ترکیبی میں غایت درجے کا نظم و انضباط پایا جاتا ہے۔

اسی طرح یہ بات بھی کس طرح قابلِ تسلیم ہو سکتی ہے کہ اس نے انسان جیسی مخلوق کو صرف اس لیے پیدا کیا ہو کہ دنیا میں کھائے پیے اور ایک روز مر کر فنا کی تاریکیوں میں ہمیشہ کے لیے کھو جائے؟ وہ انسان جس کو عقل و فہم کی بے نظیر صلاحیتیں اور سعی و عمل کی غیر معمولی قابلیتیں دے کر بھیجا گیا ہے، جس کی چاکری میں زمین کے ذروں سے لے کر آسمان کے آفتاب و ماہتاب تک لگے ہوئے ہیں۔ قطع نظر اس بات سے کہ ایک ذاتِ حکیم کے ہاتھوں پیدا کیے جانے کے باعث یہ عالم اور یہ انسان بے غایت و بے مقصد ہو ہی نہیں سکتے، اس عالم کا یہ نظم و انضباط اور اس انسان کی یہ ممتاز صلاحیتیں اور صفتیں خود یہ گوارا نہیں کرتیں کہ اس عالم کو بچوں کا گھروندا اور اس انسان کو مداری کی کٹھ پتلی سمجھا جائے۔ جس عالم کا ایک ایک جزو کھلے ہوئے مقاصد کا حامل ہو، وہ خود بے مقصد ہو اور جس انسان کے لیے کائنات کا اتنا بڑا حیرت انگیز کارخانہ دن رات مصروفِ کار ہو وہ خود کسی غایت و مقصد کی پابندی سے آزاد ہو، خالقِ کائنات کو حکیمِ مطلق ماننے والا اتنی غیر معقول بات کیسے مان سکتا ہے؟ اس کی عقل کی نگاہیں تو جب بھی ان حقائق پر پڑیں گی وہ فوراً پکار اٹھے گی کہ:

(رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلًا سُبْحَنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ) (آل عمران: ۱۹۱)
[
خدایا! تو نے یہ کارخانہ عبث نہیں بنایا ہے، تو اس سے برتر ہے کہ کوئی بے مقصد کام کرے، پس (یقیناً ہمارا وجود ایک با مقصد اور ذمہ دار وجود ہے، اس لیے مقصد فراموشی اور غیر ذمہ داری کی حماقت اور اس کے وبال یعنی عذابِ جہنم سے ہمیں بچا)]
اور وہ جب بھی خدا کی صفتِ حکمت کا تصور کرے گا تو اس کی زبان کلامِ الٰہی سے ہم نوا ہو کر حیرت بھرے انداز میں خود یہ سوال کرے گی کہ:
أَيَحْسَبُ الْإِنْسَانُ أَنْ يُتْرَكَ سُدًى (القيامة: ٣٦)
کیا انسان یہ گمان کرتا ہے کہ اسے یوں ہی چھوڑ دیا جائے گا؟
أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْتُكُمْ عَبَثًا وَأَنَّكُمْ إِلَيْنَا لَا تُرْجَعُونَ (المومنون: ۱۱۵)
کیا تم لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ تم بلا کسی مقصد کے پیدا کیے گئے ہو اور تمہیں ہمارے روبرو لوٹ کر آنا نہیں ہے؟

  1. رحمت: رحم و شفقت کا سب سے پہلا تقاضا یہ ہے کہ جو فرماں بردار ہوں ان کی طاعتوں، رضا جوئیوں اور قربانیوں کی پوری پوری قدر کی جائے، ان کا بہتر سے بہتر اجر دیا جائے اور انہیں اچھی طرح خوش کر دیا جائے۔ لیکن جیسا کہ ابھی عرض کیا گیا اور جیسا کہ ہر شخص کا مشاہدہ ہے، اس دنیوی زندگی میں اللہ تعالیٰ کی صفتِ رحمت کا یہ تقاضا عموماً پورا نہیں ہوا کرتا اور واقعات گواہی دیتے ہیں کہ اس کے فرماں برداروں کو مشکلات اور مصائب سے بہ کثرت سابقہ پیش آتا رہتا ہے، بلکہ کتنوں کی تو پوری کی پوری زندگی انہی تلخیوں میں گزر جاتی ہے۔ اب ایک طرف تو خدا پرستوں کی یہ آزمائشوں بھری زندگی سامنے رکھیے، دوسری طرف اس خدا کی رحمت و رافت کو دیکھیے جس کی خاطر وہ عمر بھر اپنا خون پسینہ ایک کرتے رہے۔ صاف نظر آ جائے گا کہ ایک ایسے وقت کا آنا قطعی ناگزیر ہے جب اللہ تعالیٰ کی اس رحمت و رافت کا اس کے ان فرماں بردار بندوں کے حق میں عملی ظہور ہو، جب وہ ان کی وفاداریوں اور رضا طلبیوں کا اجر دے، جب اس کی رحمانیت انہیں اپنی آغوش میں لے کر ان کے دلوں سے دنیوی زندگی کے رنج و غم کا غبار جھاڑ دے، ورنہ خدا کا رحیم ہونا تو درکار، اس کو حق ناشناسی اور ظلم سے بری ثابت کرنا بھی ممکن نہ رہ جائے گا۔ تعالیٰ اللہ عنہ۔ اس لیے اس کے رحیم ہونے کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ لازماً ایک یومِ جزا آ کر رہے۔ اس عقلی اور منطقی استدلال کے لیے اگر قرآن کی تائید و توثیق بھی مطلوب ہو تو یہ آیت پڑھیے:

كَتَبَ عَلَى نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ لَيَجْمَعَنَّكُمْ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ لَا رَيْبَ فِيهِ (الانعام: ۱۲)
اس نے اپنے اوپر رحمت لازم کر لی ہے (لہٰذا) وہ قیامت کے دن تم سب کو ضرور جمع کرے گا۔ جس کے آنے میں کوئی شک نہیں۔
ان لفظوں کا نظم و سیاق صاف بتا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفتِ رحمت، قیامت اور آخرت کو بالکل ناگزیر ٹھہراتی ہے۔

سورہ فاتحہ کی ابتدائی آیتوں سے بھی اس حقیقت کا ثبوت ملتا ہے جن میں اللہ تعالیٰ کی رحمانیت اور رحیمیت کے ذکر کے بعد ہی (مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ) فرمایا گیا ہے۔ کلام کی یہ ترتیب اس بات کا کھلا اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس وقت تک صحیح معنوں میں رحمٰن و رحیم ہو ہی نہیں سکتا جب تک کہ وہ ایک یوم الدین (بدلے کا دن) لانے والا بھی نہ ہو۔

  1. حاکمیت: رہی اللہ تعالیٰ کی صفتِ حاکمیت، تو جزا و سزا کے تصور کے بغیر اس کا وجود ہی بے معنی ہو جاتا ہے اور وہ ایک مذاق بن کر رہ جاتی ہے۔ یہ بھی عجیب حاکمیت ہوئی کہ اس کی مسلسل نافرمانیاں کرنے والے بلکہ اس کے مقابلے میں خود اپنی حاکمیت کا علمِ بغاوت بلند کرنے والے اس کے سامنے حاضر تک نہ ہوں اور ان سے نہ کسی جرم کی باز پرس ہو، نہ کوئی سزا انہیں بھگتنی پڑے! اللہ تعالیٰ کی صفتِ عزت کا، جس کی صفتِ حاکمیت دراصل ایک شاخ ہے، قرآن میں جو بار بار ذکر کیا گیا ہے اس کا ایک اہم ترین مقصد یہ بھی ہے کہ وہ ایک روزِ جزا کے آنے پر دلیل و برہان کا کام دے۔

عملی اہمیت

اس بحث کی روشنی میں ایمان بالآخرت کی حیثیت منطقی طور پر ایمان باللہ کے مقابلے میں بہرحال ثانوی ٹھہراتی ہے لیکن منطقی طور پر کسی چیز کی حیثیت کا ثانوی قرار پانا اور بات ہے اور عملی طور پر بھی اس کی اہمیت کا ثانوی ہونا اور چیز ہے۔ ضروری نہیں کہ جو شئے اپنی اصل کے لحاظ سے دوسرے درجے کی ہو اس کی عملی اہمیت بھی اسی درجے کی ہو۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ کتنی ہی چیزیں اصلاً کم حیثیت ہونے کے باوجود عملاً، بعض خاص اسباب کی بنا پر غیر معمولی اہمیت کی مالک بن جاتی ہیں۔ ایمان بالآخرت بھی انہیں چیزوں میں سے ہے۔ وہ اگرچہ ایمان باللہ کی ایک فرع یا اس کا ایک تقاضا ہے، مگر دینِ حق کی اطاعت و اقامت کے زاویہ نظر سے اور انسانی زندگی پر اپنے اثرات کے لحاظ سے، اس کے مقابلے میں کسی طرح بھی کم اہم نہیں ہے کیونکہ انسان کی جبلت میں دنیا کے نقد فائدوں کی جو حرص پائی جاتی ہے، اس کو دیکھتے ہوئے یہ کسی طرح بھی باور نہیں کیا جا سکتا کہ محاسبہ اعمال کا واقعی اندیشہ نہ ہونے کے باوجود وہ محض اللہ کے نام پر ان فائدوں کو چھوڑ سکے گا اور کسی سزا کے خوف اور کسی اجر کی توقع کے بغیر ہی حق پرستی کے کڑوے گھونٹ پیتے رہنے پر تیار ہوگا¹۔ اس کو خدا کی ذات اور اس کی یکتائی کا لاکھ یقین سہی مگر جب اسے یہ خیال ہو کہ میرے ہر عمل کا آخری اور قطعی انجام وہی ہے جو اس دنیا میں ظاہر ہوتا ہے اور موت کا پردہ گرتے ہی زندگی اور اس کی تمام دلچسپیوں کا تماشا ہمیشہ کے لیے ختم ہو جانے والا ہے، تو سخت نادان ہوگا اگر اس نے ”بعیش کوش“ کے فتوے پر عمل نہ کیا اور دنیا اس کی بدقسمتی پر ماتم کرے گی اگر اس نے جی کھول کر دادِ نفسانیت نہ دی۔

اس کے برخلاف اگر وہ دوسری زندگی کا اور جزا و سزا کا ماننے والا ہو تو اس سے بہرحال ایسی توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ اپنے نفس کو کسی نہ کسی اخلاقی ضابطے کا پابند رکھے گا۔ حتی کہ یہ توقع اس وقت بھی باقی رہ جاتی ہے جب اس کا ایمان باللہ شرک سے آلودہ ہو چکا ہو، یہ دوسری بات ہے کہ مشرکانہ عقائد خدا کے ہاں اس کے اعمال کو بے وزن بنا دیں۔ لیکن جہاں تک اس دنیا کا تعلق ہے، ایک مشرک کا ایک منکرِ آخرت کے مقابلے میں کسی اخلاقی ضابطے کا پابند رہنا زیادہ قرینِ قیاس ہے اور اس کے برعکس اس سے یہ توقع کسی نہ کسی درجے میں بہرحال رکھی جاسکتی ہے کہ وہ نفس کا بالکل ہی پجاری بن جانے سے باز رہے گا۔ اس لیے انسانی اخلاق و کردار پر اپنے اثر کے لحاظ سے ایمان بالآخرت، ایمان باللہ سے کسی طرح کم اہم نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے جس شد و مد، جس کثرت اور جس تفصیل کے ساتھ توحید پر دلائل دیے ہیں، آخرت کی یاد دہانی کرنے اور اس پر دلیلیں دینے کی طرف اس سے کم توجہ نہیں کی ہے۔ قرآن پر نگاہ ڈالیے تو صفحے کے صفحے اور مکی سورتوں میں تو قریب قریب پوری کی پوری سورتیں آخرت ہی کے مباحث سے بھری ملیں گی۔ کہیں جزائے عمل کے دلائل اور اس کی ضرورت کا بیان ہوگا، کہیں قیامت کی دہشت ناکیوں اور دوزخ کی ہولناک سزاؤں کی منظر کشی ہوگی، کہیں جنت کی پُر کیف نعمتوں کا تذکرہ ہوگا۔ جس قرآن کے اعجاز و بلاغت کی قسمیں کھائی جاتی ہیں، اس کا کسی چیز پر ایسی غیر معمولی توجہ کرنا اس بات کا بجائے خود ایک ناقابلِ تردید ثبوت ہے کہ اس کی نگاہ میں اس کی کوئی غیر معمولی اہمیت ہے اور دوسرے دینی حقائق کے مقابلے میں اسے ایک طرح کی مرکزیت حاصل ہے، کچھ ویسی ہی اہمیت اور مرکزیت جیسی کہ سورج کو اپنے گرد گھومنے والے سیاروں کے بالمقابل حاصل ہے، چنانچہ یہ ایک واقعہ ہے کہ جس طرح سورج ہی کی قوتِ کشش سے ان تمام سیاروں کی زندگی وابستہ ہے اور اسی کی روشنی سے یہ سب روشن ہیں، اسی طرح توحید کے ساتھ آخرت ہی کا عقیدہ ہے جس سے انسان کی انسانیت زندگی پاتی ہے اور جو اگر نہ ہو تو ممکن نہیں کہ وہ نیکی اور حق پسندی کے نام سے بھی واقف رہ جائے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ قرآن جس نے نماز جیسی عبادت کا صرف حکم دینے پر اکتفا کر لیا اور اس کے ادا کرنے کے طریقے، اس کی رکعتوں کی تعداد اور اس کے عام آداب اور ارکان وغیرہ کی تفصیلات بیان کرنے پر چند کلمے کہنا اور چند لمحے دینا بھی غیر ضروری سمجھا، وہ اس عقیدہ آخرت کے ذکر و بیان میں اتنی دراز نفسی سے ہرگز کام نہ لیتا جس کا مشاہدہ اس کے صفحات میں ہم کر رہے ہیں۔

آخرت پر یقین اور دعوتِ توحید و رسالت

ایک اور پہلو سے دیکھیے تو ایمان بالآخرت کی عملی اہمیت کا مقام اس سے بھی اونچا اٹھا ہوا نظر آئے گا۔ ہر شخص جانتا ہے کہ قرآن کی دعوت عقیدہء توحید پر قائم ہے۔ اس لیے جس قدر زور اس کے سمجھانے اور ثابت کرنے پر اس نے دیا ہے، دینا ہی چاہیے تھا۔ مگر اس زور اور اہتمام کے باوجود جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اس کے کتنے ہی مخاطبین نے اپنی جگہ سے جنبش تک نہ کھائی تو ایک حیرت سی ہوتی ہے۔ کیونکہ قرآن نے استدلال کا جو طریقہ اختیار فرمایا ہے، وہ شک اور تردد کی ایک ایک گرہ کھول کر رکھ دینے والا ہے۔ مگر ان بدنصیبوں کا حال یہ تھا کہ ان کے دلوں میں بات اتارنے کی جتنی ہی زیادہ کوشش کی جاتی، ان کے انکار اور تکذیب میں اتنی ہی اور شدت پیدا ہوتی رہی۔

اس عجیب و غریب صورتِ حال کی وجہ انسان اور اس کی پردہء نفسیات کو خالق سے بہتر کون جان سکتا ہے؟ اس نے اس کی جو وجہ بتائی ہے وہ یہ ہے:

وَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ جَعَلْنَا بَيْنَكَ وَبَيْنَ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ حِجَابًا مَّسْتُورًا وَجَعَلْنَا عَلَى قُلُوبِهِمْ أَكِنَّةً أَنْ يَفْقَهُوهُ وَفِي آذَانِهِمْ وَقْرًا وَإِذَا ذَكَرْتَ رَبَّكَ فِي الْقُرْآنِ وَحْدَهُ وَلَّوْا عَلَى أَدْبَارِهِمْ نُفُورًا (بنی اسرائیل: ۴۵، ۴۶)
اے پیغمبر! جب تم قرآن پڑھتے ہو (اور لوگوں کو سناتے ہو) تو ہم تمہارے اور آخرت کے منکروں کے درمیان بڑی سخت روک حائل کر دیتے ہیں اور ان کے دلوں پر پردے ڈال دیتے ہیں تاکہ وہ اس (قرآن) کو سمجھ نہ پائیں نیز ان کے کانوں میں گرانی پیدا کر دیتے ہیں اور جب تم قرآن کے اندر صرف اکیلے اپنے رب ہی کا ذکر کرتے ہو تو وہ بدک کر منھ موڑے بھاگ کھڑے ہوتے ہیں۔

یاد رہے کہ ان آیتوں سے پہلے توحید ہی کا بیان ہو رہا تھا اور اللہ تعالیٰ کے لاشریک ہونے پر دلائل دیے جارہے تھے، اس لیے اس بحث کے بعد ہی ان الفاظ کا آنا معنی یہ رکھتا ہے کہ یہاں قرآن کو ”سمجھ نہ پانے“ اور اس سے بے بہرہ رہنے کا مطلب دراصل اس کی دعوتِ توحید سے بے بہرہ رہنا ہے۔ اسی طرح خود ان ہی آیات کے آخر میں جب اس چیز کو تعین اور صراحت سے بتا دینا ہوا جو قرآن کی ساری تعلیمات میں سے ان کے لیے نفرت اور مخالفت کا اصل باعث تھی، تو نام توحید ہی کا لیا گیا۔ یہ دونوں قرائن اس بات کو ایک کھلی ہوئی حقیقت بنا دیتے ہیں کہ یہاں اگرچہ (إِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ) کے الفاظ فرما کر دعوتِ قرآنی کا ذکر پورے عموم سے کیا گیا ہے، مگر مقصود فی الواقع اس کی دعوتِ توحید ہی ہے۔

اس وضاحت کے بعد ”اس وجہ“ کا سمجھ لینا کچھ مشکل نہیں رہ جاتا جو ان آیتوں میں بیان فرمائی گئی ہے، اور صاف نظر آ جاتا ہے کہ توحید کی مدلل اور مؤثر دعوت اگر ان لوگوں کے حق میں صحرا کی آواز بن کر رہ جاتی ہے تو صرف اس لیے کہ ان کے دل آخرت کے اندیشے سے بالکل خالی تھے۔ اگر انہیں اس بات کا ذرا سا بھی کھٹکا ہوتا کہ ایک نہ ایک دن انہیں اپنے کرتوتوں کی جواب دہی کرنی ہوگی تو ان کی گردنوں میں اتنی اکڑ ہرگز نہ ہوتی۔ لیکن آخرت اور محاسبہ اعمال کی طرف سے چونکہ وہ یکسر بے فکر تھے، اس لیے اس بے فکری کا منطقی نتیجہ دعوتِ توحید کی طرف سے بے توجہی کی شکل میں ظاہر ہوتا تھا۔ کیونکہ اس بے فکری کی موجودگی میں ان کے لیے اس بات کا کوئی محرک پایا ہی نہیں جا سکتا تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حقوق سمجھنے کی کوشش کریں، اس کی رضا کے طالب ہوں اور اس کی ہدایتوں کا احترام کریں۔ ادھر اللہ تعالیٰ کا قانون یہ ہے کہ جو کوئی اس کی رضا اور اس کی ہدایت کا طلب گار نہ ہو وہ اسے اپنی ہدایت سے ہرگز نہیں نوازتا۔ اس کا یہی قانون تھا جس نے انہیں ہدایت پانے سے محروم رکھا اور جس کا ذکر اس نے یہاں اپنے شاہانہ انداز میں یوں فرمایا ہے کہ ”ہم تمہارے اور آخرت کے منکروں کے درمیان بڑی سخت روک حائل کر دیتے ہیں۔

دوسرے مقامات پر یہ بات اور بھی زیادہ صراحت سے بیان فرمائی گئی ہے۔ سورہ نحل میں ہے:

إِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ فَالَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ قُلُوبُهُمْ مُّنْكِرَةٌ وَهُمْ مُسْتَكْبِرُونَ (النحل: ۲۲)
تمہارا معبود ایک ہی ہے۔ لیکن جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ان کے دل اس کے ماننے سے انکاری ہیں، اور وہ اپنی بڑائی کے نشے میں ہیں۔

اسی طرح سورۃ المؤمنون میں فرمایا گیا ہے:

وَإِنَّكَ لَتَدْعُوهُمْ إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ وَإِنَّ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ عَنِ الصِّرَاطِ لَنَاكِبُونَ (المؤمنون: ۷۳، ۷۴)
اس میں کوئی شک نہیں کہ تم انہیں (توحید کی) سیدھی راہ کی طرف بلاتے ہو۔ پر جنہیں آخرت کا یقین نہیں، وہ اس راہ سے پوری طرح کترائے ہوئے ہیں۔

انکارِ توحید ہی کا سا حال ان کے انکارِ رسالت کا بھی تھا۔ یعنی ان مردہ دلوں نے نبوتِ محمدی کو اگر آخر تک مان کر نہیں دیا اور اس سلسلے میں بڑی سے بڑی دلیل اور واضح سے واضح نشانی بھی ان سے حق کا اعتراف نہ کرا سکی، تو یہ بھی صرف اس لیے کہ وہ آخرت کا کوئی ڈر نہیں رکھتے تھے۔ چنانچہ سورہ فرقان میں نبوت پر ان کے سارے اعتراضات اور شکوک کا ازالہ فرمانے کے بعد آخر میں کہا جاتا ہے کہ:

بَلْ كَذَّبُوا بِالسَّاعَةِ (الفرقان: ۱۱)
دراصل (ان کے انکارِ مسلسل کی وجہ یہ ہے کہ) انہوں نے قیامت کو ہی جھٹلا رکھا ہے۔

غرض، توحید ہو یا رسالت، قرآن ہو یا کوئی اور اصلِ دین۔ اس پر آپ دلیلوں کے چاہے کتنے ہی انبار کیوں نہ لگا دیں، قرآن کہتا ہے کہ رائی کے برابر بھی ان کا کوئی عملی اثر نہیں پڑ سکتا اگر مخاطب کا دل و دماغ اندیشہ آخرت سے خالی ہو۔ عقل بھی کہتی ہے کہ ایسا ہی ہونا چاہیے اور تجربہ گواہ ہے کہ ایسا ہی ہوا کرتا ہے۔ اگر کوئی شخص یہ نہ سمجھتا ہو کہ ایک دن مجھے اپنے اعمال کا حساب دینا ہے تو اس صورت میں آپ اس سے ہرگز یہ توقع نہیں کر سکتے کہ وہ توحید کے دلائل اور سچی خدا پرستی کے تقاضے سننے کے لیے اپنے کانوں کو آمادہ، اپنے ذہن کو مستعد اور اپنے قلب کو متوجہ پائے گا۔ اس کے اندر ایسی فکری سنجیدگی کا پیدا ہونا محال ہے۔ وہ تو ابھی یہ یقین نہیں مانتا کہ ایک دن برائیوں اور نفس پرستوں کے بُرے نتائج سامنے آنے والے ہیں۔ مگر آپ ہیں کہ اس کے سامنے ایک مکمل ضابطۂ اخلاق پیش کر رہے ہیں! نیکی اور تقویٰ کی تلقین کر رہے ہیں! توحید اور رسالت، دین اور شریعت، ایمان اور اطاعت کے اصول و حقائق بیان کر رہے ہیں! ایسے اصول و حقائق جو اس کے سامنے بُرائی اور بھلائی، غلط اور صحیح، حق اور باطل کی تفریق کرنے والے ہیں، اس کی خواہشوں پر پابندی لگانے والے ہیں۔ اس کی زندگی کا مزہ کرکرا کر دینے والے ہیں۔ ایسی حالت میں آپ کی نصیحتوں اور تلقینوں کا بھلا اس پر کیا اثر ہو سکتا ہے؟ آخر وہ محض آپ کے کہنے سے اپنی ذاتی مصلحتوں، خواہشوں اور رجحانوں پر کوئی پابندی کیوں عائد کرنے لگا؟ جبکہ اسے اس پابندی کا کوئی حاصل اس کے سوا نظر ہی نہ آتا ہو کہ زندگی کی جن آزادیوں سے وہ اس وقت لطف اٹھا رہا ہے ان سے بس محروم ہو جائے۔

آخرت فراموشی اور امتوں کا زوال

ایمان بالآخرت کی اس زبردست عملی اہمیت کی تصدیق پچھلے زمانے کی ان بگڑی ہوئی ”مسلمان“ قوموں کے حالات سے بھی ہوتی ہے جو دین رکھنے کے باوجود بے دین بن گئیں، جن کے پاس ایمان و اسلام کے صرف دعوے رہ گئے تھے اور ان کے اعمال نامے، نیکی اور خدا پرستی کے نقوش سے قریب قریب بالکل خالی ہو چکے تھے۔ ان قوموں کی بد عملی اور دین فراموشی دراصل ان کی آخرت فراموشی ہی کا نتیجہ تھی۔ اور ان کے دینی زوال کی ابتدا ان کے ایمان بالآخرت ہی کے زوال سے ہوئی تھی۔ فکرِ آخرت سے ان کا ذہن جوں جوں غافل ہوتا گیا، نماز سے ان کا رشتہ کٹتا گیا اور پھر نماز سے جتنا جتنا وہ دور ہوتے گئے پوری شریعت سے ان کا تعلق ختم ہوتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ وہ مرضاتِ الٰہی سے یکسر بے نیاز ہو کر رہ گئیں اور انھوں نے نفس کو اپنا معبود اور نفس کی خواہشوں کو اپنے لیے دین و شریعت بنا لیا۔ بنی اسرائیل کی داستانِ فسق قرآن نے جن الفاظ میں بیان کی ہے، انہیں غور سے پڑھیے تو معلوم ہوگا کہ یہ کوئی نظریہ اور قیاس نہیں ہے جس کے خلاف بھی رائے قائم کی جا سکتی ہو، بلکہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے اختلاف کی بابت سوچا بھی نہیں جا سکتا، کیونکہ اس پر اللہ تعالیٰ کی گواہی موجود ہے۔

اس داستانِ فسق کی تفصیل اگرچہ بہت لمبی ہے مگر کہیں کہیں قرآن نے اسے چند لفظوں میں سمیٹ کر بھی بیان کیا ہے۔ انہی میں سے ایک مقام کے الفاظ یہ ہیں:

أَضَاعُوا الصَّلَاةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوَاتِ (مریم: ۵۹)
انہوں نے نماز ضائع کر دی تھی اور اپنی خواہشوں کے پیرو بن کر رہ گئے تھے۔

جس کسی کو قرآن کے اندازِ کلام سے ادنیٰ سی بھی واقفیت ہوگی، اسے یہ فقرہ سنتے ہی صاف محسوس ہو جائے گا کہ یہ بنی اسرائیل کے فسق و فجور کا صرف ایک سادہ سا تذکرہ ہی نہیں ہے، بلکہ ساتھ ہی اس فسق آلودگی کی وجہ کا بیان بھی ہے۔ (وَاتَّبَعُوا الشَّهَوَاتِ) میں تو ان کی فاسقانہ روش کا تذکرہ ہے اور (أَضَاعُوا الصَّلَاةَ) میں ان کے اس روش پر چل پڑنے کی وجہ کا بیان ہے۔ یعنی کہا یہ گیا ہے کہ چونکہ انھوں نے نماز کو ضائع کر دیا تھا اس لیے شہوات (نفس کی خواہشوں) نے انہیں اپنا غلام بنا لیا۔ رہی یہ بات کہ انھوں نے نماز ضائع کس وجہ سے کر دی تھی؟ تو اس کا سراغ قرآن کے اس ارشاد میں موجود ہے:

وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلَّا عَلَى الْخَاشِعِينَ الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُمْ مُّلَاقُوا رَبِّهِمْ (البقرة: ۴۵، ۴۶)
بلا شبہ یہ نماز ان لوگوں کے سوا جو اپنے اندر خشوع رکھتے ہیں اور جنہیں اس بات کا خیال دامن گیر رہتا ہے کہ ہمیں اپنے رب کی جناب میں حاضر ہونا ہے، اوروں کے لیے بڑی شاق ہے۔

معلوم ہوا کہ نماز کو ضائع ہونے سے بچانے والی اور اس کی اقامت کے احساس کو بیدار رکھنے والی چیز صرف خوفِ آخرت ہے۔ اگر اس خوف سے دل بے بہرہ ہو جائے تو ممکن ہے نماز کی صورت باقی رہ جائے، مگر اس کی حقیقت ہرگز باقی نہیں رہ سکتی اور انسان اسے لازماً ضائع کر کے رہے گا۔ بنی اسرائیل پر بھی اسی نفسیاتی اصول کا عمل طاری ہوا تھا۔ انھوں نے نماز اگر ضائع کر دی تھی تو اسی وجہ سے کہ ان کا ایمان بالآخرت موت کی نیند سو چکا تھا۔ چنانچہ قرآن نے بارہا انہیں اس مقام پر رکھ کر خطاب کیا ہے جو ایک آخرت کے ماننے والے کا نہیں بلکہ اس کے منکر کا مقام ہوتا ہے۔ اور ان کے ایمان بالآخرت کے دعوے پر کھلی تعریضیں کی ہیں۔

خلاصہ: عملی اہمیت کا مقام

ایمان بالآخرت کی عملی اہمیت کے ان دونوں پہلوؤں میں سے جس پہلو کو چاہے سامنے رکھ کر دیکھیے، ایک کٹر منکرِ اسلام اور ایک دین فراموش مسلمان، دونوں نفسیاتی اعتبار سے اس سلسلے میں ایک ہی جیسے مقام پر کھڑے نظر آئیں گے۔ جس طرح توحید و رسالت کی ساری دل نشین دلیلیں اور دعوتِ قرآنی کی روشن صداقتیں اسلام کے منکر کے لیے اس وقت تک بالکل بے معنی ثابت ہوتی ہیں جب تک کہ اس کے دل میں محاسبہ اعمال کا تصور جڑیں نہ پکڑ لے، ٹھیک اسی طرح دین سے بیگانہ ہو رہنے والے نام نہاد مسلمان پر بھی دعوت و تذکیر کی ہزار کوششوں کے باوجود دین دارانہ زندگی کا دروازہ اس وقت تک بند ہی رہے گا جب تک کہ خوفِ جزا کی کنجی اس کے ہاتھ نہیں آ جاتی۔ اس لیے کہنا چاہیے کہ کسی بے عمل مسلم فرد یا گروہ کو دین داری کی دعوت و تذکیر دراصل ایمان بالآخرت کی دعوت ہے۔ اسے کچھ اور سمجھانے سے پہلے آخرت کی یاد دلائیے۔ اس کے اندر اعمال کی باز پرس کا احساس پیدا کیجیے، اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضر ہونے کے ڈر سے اسے ہلا دیجیے۔ اگر آپ نے یہ کر لیا تو یقین کر لیجیے گویا سب کچھ کر لیا۔ کیونکہ اس کے بعد وہ دین کے ایک ایک تقاضے کو خود ڈھونڈتا پھرے گا اور جہاں اللہ اور رسول کا کوئی حکم اس کے سامنے آیا وہاں اس کی گردن آپ سے آپ جھک پڑے گی۔ ورنہ جب تک اس کی فکرِ آخرت کو آپ بیدار نہیں کر دیتے، کوئی دلیل، کوئی تلقین، کوئی موعظت، کوئی ترغیب اور کوئی ترہیب اسے دین کی طرف واپس نہیں لا سکتی۔ وہ فی الواقع ایمانی سکتہ کا مریض ہے۔ اس میں زندگی کے آثار اور لوازم پھر سے اس وقت تک نہیں پائے جاسکتے جب تک کہ اس کے دل کی رگوں میں خون کی گردش از سرِ نو جاری نہ ہو جائے۔ اس سے پہلے اس کے ہاتھ پاؤں کو حرکت میں لانے کی ہر کوشش ایک فضول اور غیر معقول کوشش ہوگی۔ یاد رکھنا چاہیے کہ ایمانیات اور اعمال کے نظام میں گردشِ خون کی حیثیت جس شے کو حاصل ہے اس کا نام ایمان بالآخرت ہے۔

ایمان بالآخرت کی یہی وہ زبردست عملی اہمیتیں ہیں جن کی وجہ سے اسے ایمان باللہ کا ایک تقاضا یا اس کی ایک فرع ہونے کے باوجود  میں ایک مستقل سنگِ بنیاد کی حیثیت دی گئی ہے، جبکہ باقی دوسری تمام ایمانیات میں سے کسی اور کو اس کا مستحق نہ سمجھا گیا۔ کسی عقیدے کی غیر معمولی اہمیت کا اس سے بڑا اور کیا ثبوت ہو سکتا ہے کہ اسی کی زندگی پر دین کی اصل الاصل، ایمان باللہ تک کی زندگی موقوف ہو اور اس لیے قرآن حکیم عموماً اس امر کا اہتمام کرتا ہو کہ جہاں کہیں توحید کی گفتگو آئے وہاں آخرت کی بات بھی ضرور کہی جائے۔

 

آخرت فراموشی کا سبب

جس ایمان بالآخرت کی اہمیت اتنی غیر معمولی ہو کہ اس سے محرومی اور بے پروائی ہی دراصل ہر کفر کا اور ہر فسق کا سرچشمہ ہو، ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ خود اس سے محرومی اور بے پروائی کا سرچشمہ کیا ہے؟ آخر انسان اتنی اہم چیز کو کیوں بھلا دیتا ہے؟ آگے بڑھنے سے پہلے اس سوال کا جواب معلوم کر لینا جس قدر ضروری ہے، اس کا اندازہ ان نتائج کی ہلاکت سامانیوں سے لگانا چاہیے جو اس سرچشمہ کی پیدا کی ہوئی آخرت فراموشی کے لازمی نتائج ہیں۔ اس کائنات کی کون سی بنیادی حقیقت اور انسانیت کا کون سا اعلیٰ جوہر ہے جسے اس چشمے سے پھوٹا ہوا آخرت فراموشی کا تیز دھارا بہا نہیں لے جاتا؟ انسان اپنے مالک کے حقوق نہیں ادا کرتا تو اس لیے کہ اسے جزا و سزا کا اندیشہ نہیں، وہ نماز کو ضائع کر کے پوری شریعت کو ایک دفترِ بے معنی ٹھہراتا ہے تو اس لیے کہ فکرِ آخرت سے آزاد ہو چکا ہوتا ہے، نبی کی نبوت بھی اگر وہ پوری جسارت سے ٹھکرا دیتا ہے تو اس لیے کہ اس کا دل اپنے اعمال کی باز پرس کی طرف سے بے پروا ہوتا ہے، توحید کے مضبوط سے مضبوط دلائل بھی اس پر اگر کسی طرح کارگر نہیں ہوتے تو اس لیے کہ اسے اپنے رب کے سامنے حاضر ہونے کا کوئی کھٹکا نہیں ہوتا، حد یہ ہے کہ خود آخرت کی دلیلوں کی طرف سے بھی اگر وہ اپنے کان بہرے کر لیتا ہے تو یہ بھی اس لیے کہ آخرت کو ٹھکرا چکا یا بھول چکا ہوتا ہے۔ غرض، فکرِ آخرت کی قیمتی متاع کا کھو جانا کوئی ایک بدبختی نہیں بلکہ ہزار بدبختیوں کے ہم معنی ہے۔ اس امرِ واقعی کو سمجھ لینے کے بعد ہر شخص کا فیصلہ یقینی یہی ہوگا کہ اسے اس خوفناک رہزن سے پوری طرح باخبر رہنا چاہیے جو انسان سے اتنی قیمتی متاع چھین لیتا ہے، تاکہ وہ اپنے ایمان کو اس سے بچائے رکھنے کی فکر میں رہے۔ اس لیے آئیے دیکھیں، وہ کیا چیز ہے جو انسان کو آخرت کا انکار کر دینے یا اس کے بھلا دینے پر آمادہ کر دیتی ہے۔ اس بات کا جان لینا صرف اس لیے ضروری نہیں ہے کہ اس کے بغیر ہم اپنے ایمان کی ٹھیک ٹھاک محاسبت نہیں کر سکتے بلکہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس کے بغیر ہم ان تدبیروں کو صحیح طور پر اختیار بھی نہیں کر سکتے جو کتاب و سنت نے ایمان بالآخرت کی تعمیر و استحکام کے لیے متعین فرمائی ہیں۔

آخرت فراموشی کا اصل سبب: حبِّ دنیا

ظاہر ہے کہ آخرت فراموشی کا سبب یہ تو کسی طرح نہیں قرار دیا جا سکتا کہ انسان آخرت کے وجود ہی سے آشنا نہیں ہوتا۔ کیونکہ یہ بات بداہت کے خلاف ہے۔ کون شخص ہے جو جزائے عمل کے عقیدے کے نام سے بھی واقف نہ ہو؟ آخرت کو ”بھلا دینے“ اور اس کا ”انکار کر دینے“ کے الفاظ خود اس بات کے گواہ ہیں کہ متعلقہ شخص اس سے واقف ہو چکا یا واقف کرایا جا چکا ہے۔

اسی طرح آخرت سے بے تعلقی کا سبب اس بات کو بھی نہیں ٹھہرایا جا سکتا کہ اس کے وجود پر مستحکم اور تسلی بخش دلیلوں کی کمی ہے۔ کیونکہ کم از کم جہاں تک قرآن کے راست مخاطبین کا تعلق ہے، یہ قطعاً خلافِ واقعہ بات ہے۔ اس نے تو ان کے سامنے یہ حقیقت دو دو چار کی طرح مدلل کر کے رکھ دی تھی۔ اور اس کے (تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ) [النحل: ۸۹] ہونے کا تقاضا تھا اسے اس سلسلے میں بھی اس نے ذرہ برابر نظر انداز نہیں کیا تھا اور اس پر دلائل وہ اس وقت تک دیتا رہا جب تک کہ آخرت کا آنا عقلِ عام کی نگاہوں میں دوپہر کے سورج کی طرح روشن نہیں ہو گیا۔ لیکن نہ ماننے والوں پر ان دلائل کا پھر بھی کوئی اثر نہ ہوا اور وہ انکار کی مدہوشی میں بدستور ڈوبے رہے۔ بات ان کے کان کے پردوں سے آگے نہ بڑھی اور ساری دلیلیں اور نصیحتیں ہوا میں بکھر کر اور فضا میں تحلیل ہو کر رہ گئیں۔

پھر آخرت فراموشی کا سبب کیا ہے؟ قرآن کہتا ہے کہ اس کا سبب دنیا کی محبت اور مفادِ دنیا کی پرستش ہے:

1.      إِنَّ هَؤُلَاءِ يُحِبُّونَ الْعَاجِلَةَ وَيَذَرُونَ وَرَاءَهُمْ يَوْمًا ثَقِيلًا (الدهر: ۲۷)
حقیقتاً یہ ہے کہ یہ لوگ حاضر پر ریجھے ہوئے ہیں اور (اس کے بالمقابل) ایک بھاری دن (قیامت) کو پسِ پشت ڈالے ہوئے ہیں۔

2.      بَلْ تُؤْثِرُونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا (الأعلى: ۱۶)
”(
بلکہ اصلی بات یہ ہے کہ) تم لوگ دنیوی زندگی کو (آخرت کے مقابلے میں) ترجیح دیتے ہو۔

3.      زُيِّنَ لِلَّذِينَ كَفَرُوا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا (البقرة: ۲۱۲)
دنیوی زندگی منکرینِ حق کی نگاہوں میں رچ بس گئی ہے۔

4.      بَلْ تُحِبُّونَ الْعَاجِلَةَ وَتَذَرُونَ الْآخِرَةَ (القيامة: ۲۰، ۲۱)
بلکہ تم لوگ عاجلہ (دنیا) کو سینے سے لگائے اور آخرت کو چھوڑے بیٹھے ہو۔

بس یہ ہے ساری خرابیوں کی جڑ۔ یہی دنیا پرستی وہ ناگن ہے جو قلبِ انسانی کو ڈس کر اس کی رگوں میں فکرِ آخرت سے نیازی کا زہر اتار دیتی ہے اور پھر اس کے فکری مزاج کو بگاڑ کر رکھ دیتی ہے۔ جب تک اس زہر سے اسے پاک نہیں کر دیا جاتا اس کے لیے آخرت پسندی اور خدا پرستی کی راہ اختیار کرنا محال ہے۔ اگر وہ نام کا مسلمان ہو تو اس زہر کی موجودگی میں پُر اثر سے پُر اثر نصیحت بھی اس کو احکامِ شریعت کی پابندی پر آمادہ نہیں کر سکتیں، خواہ وہ زبان سے اسلام کے ساتھ کتنا ہی زبردست اظہارِ عقیدت کیوں نہ کرتا ہو۔ وہ اسلام کے صریح مطالبوں کو سنے گا اور پھر اس طرح سنی ان سنی کر دے گا گویا وہ سرے سے ان کا مخاطب ہی نہیں ہے۔ اگر آپ زیادہ اصرار سے کام لیں گے تو گوناگوں قسم کی معذرتیں پیش کرنے لگے گا، یا تاویلوں کی نقاب منھ پر ڈال لے گا، اور اگر زیادہ جری نکلا تو انہیں اسلام کے واقعی مطالبے تسلیم کرنے اور اس کی صحیح تعبیر ماننے ہی سے انکار کر دے گا۔

اسی طرح اگر وہ ایسا غیر مسلم ہے جو اپنے زبانی دعوے کے مطابق جزا و سزا کا بھی قائل ہے تو اس زہر کے ہوتے ہوئے وہ ہر بات مان لے گا حتی کہ اپنے آبائی مذہب کے ساتھ ساتھ اسلام کو بھی ایک سچا مذہب تسلیم کرلے گا، مگر یہ ہرگز نہ مانے گا کہ اسلام ہی ایک سچا دین ہے اس لیے اسے قرآن کی دعوت پر ایمان لا کر مسلم حنیف بن جانا چاہیے۔ کیونکہ یہ صرف حسابِ آخرت کا سچا اندیشہ ہی ہے جو کسی غیر مسلم کو اس بات پر تیار کر سکتا ہے کہ وہ دعوتِ حق کی بے لاگ تحقیق پر سنجیدگی سے متوجہ ہو اور جب تحقیق اسے اس نتیجے پر پہنچا دے کہ کلی صداقت صرف اسلام ہی کے پاس ہے تو بلا تامل اس کا اقرار کرلے اور اس اقرار و اعتراف میں اپنی اس گہری جذباتی وابستگی کو ہرگز آڑے نہ آنے دے، جو قدرتی طور پر وہ اپنے آبائی دین سے رکھتا ہے۔ لیکن جس قسم کے غیر مسلم کا اس وقت ہم ذکر کر رہے ہیں، اس کا حال یہ ہے کہ اس کا نام نہاد عقیدہء جزا و سزا آخرت کے اس واقعی اندیشے سے بے بہرہ پڑا ہے اور دل میں دنیا اور اس کی محبت گھر کیے ہوئے ہے۔ ایسی حالت میں اس سے اس بات کی توقع کرنا کسی طرح صحیح نہ ہوگا کہ وہ حق کی خاطر اتنی بڑی قربانی دے دے گا اور اپنی گہری جمی ہوئی ملی وابستگیوں کو اپنی راہ میں مزاحم نہ پائے گا۔

اور اگر وہ ایسا منکرِ اسلام ہے جو آخرت کا بھی منکر ہے، تو جب تک حبِّ دنیا کے زہر سے اس کا دل و دماغ مسموم ہے، اس پر جزا و سزا کے دلائل ہرگز کارگر نہیں ہو سکتے اور جب صورتِ حال یہ ہو تو پھر آگے اس کے بارے میں یہ سوال ہی کہاں باقی رہ جاتا ہے کہ وہ اسلام کو کسی شکل میں بھی مان لے سکتا ہے۔

یہ بات کہ دنیا کے پیچھے بھاگنے والا آخرت کا جویا نہیں بن سکتا کسی دلیل کی محتاج نہیں۔ انسانی فطرت کا یہ ایک کھلا ہوا راز ہے کہ وہ جس چیز سے محبت کرتا ہے اس کی مخالف چیزوں کا نام بھی سننا گوارا نہیں کرتا۔ دنیا پرستی اور آخرت پسندی ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ ان میں سے ایک کا وجود دوسرے کے وجود کا فطری دشمن ہے۔ اس لیے یہ ایک ناقابلِ اختلاف حقیقت ہے کہ جس سینے میں دنیا کی محبت بسیرا لے رہی ہو، فکرِ آخرت کا طائرِ قدس اسے اپنا آشیانہ نہیں بنا سکتا۔


مصالحت کے فریب

یہاں پہنچ کر قدرتی طور پر ذہن میں ایک اور سوال اُبھرتا دکھائی دیتا ہے اور پچھلے سوال کی طرح اس کی بھی اہمیت اور عملی ضرورت مطالبہ کرتی ہے کہ ایمان بالآخرت کی تعمیری تدابیر پر غور کرنے سے پہلے اس کا جواب نگاہوں کے سامنے آجائے۔ وہ سوال یہ ہے کہ دنیا کی محبت انسان کو آخرت فراموش بنا دینے میں کامیاب کیسے ہو جاتی ہے؟ آیا انسانی عقل و فطرت کے لیے آخرت کا تصور ہی اتنا دھندلا ہے کہ دنیا کی محبت اس کی نظروں سے اسے بالکل ہی اوجھل کر کے رکھ دیتی ہے؟ یا حبِ دنیا ہی میں اتنی زبردست طاقت ہے کہ اس تصور کے گہرے اور واضح ہونے کے باوجود وہ اسے اس طرح کھرچ کر پھینک دیتی ہے گویا انسان اس سے کبھی آشنا ہی نہ تھا؟

قرآن کے مطالعے سے اس سوال کا جو جواب سمجھ میں آتا ہے، وہ یہ ہے کہ ان دونوں باتوں میں سے ایک بات بھی صحیح نہیں۔ نہ انسان کی عقل و فطرت کے لیے آخرت کا تصور ہی اتنا دھندلا ہے۔ نہ دنیا کی محبت ہی میں اتنی بے پناہ قوت ہے۔ انسان اگر وجودِ باری کا منکر نہ ہو تو خواہ اس کے عقائد اور اعمال کچھ ہی کیوں نہ ہوں، آخرت اور جزا و سزا کے تصور سے وہ یکسر خالی الذہن نہیں ہو سکتا، ایک بے عمل مسلمان کی بات تو پھر بھی بہت دور کی ہے، اسی طرح ایسے مشرک کو بھی جانے دیجیے جو اپنی زبان سے کسی عقیدہء جزا کا قائل ہو، ایسے مشرکوں کو لے لیجیے جو آخرت کے کھلے ہوئے منکر ہوں۔ اگر ان کے شعور کا گہری نظر سے جائزہ لیجیے تو معلوم ہوگا کہ اس انکار میں بھی یہ لوگ مخلص نہیں ہیں اور ان کے لیے یہ کسی طرح ممکن نہیں ہو سکا ہے کہ آخرت کے تصور کو وہ اپنے ذہنوں سے فی الواقع نکال باہر کر دیں، حتی کہ ان کا شعور کیا معنی، تحت الشعور بھی اس سے بالکل پاک ہو گیا ہو۔

وجہ اس کی وہی انسانی عقل و فطرت اور وجدان کے تقاضے ہیں جن سے کوئی فردِ بشر محروم نہیں پیدا کیا گیا ہے اور جو ہزار پردوں کے نیچے چھپا دیے جانے کے باوجود کبھی آخری حد تک معدوم کیے ہی نہیں جا سکتے۔ اس لیے انسان حبِّ دنیا کا چاہے کیسا ہی مکمل ”معمول“ کیوں نہ بن گیا ہو، اس کے دل میں یہ احساس رہ رہ کر کانٹے کی طرح پھر بھی کھٹک ہی جایا کرتا ہے کہ ایک باشعور عقل اور بااختیار مخلوق ہوتے ہوئے اس کی زندگی بے مقصد اور غیر ذمہ دار نہیں ہوسکتی، اس کے وجدان کی یہ آواز اس کے کان کے پردوں سے کبھی نہ کبھی ٹکرا ہی جاتی ہے کہ اس کائنات کے خالق اور مالک کی صفاتِ کمال سے جو چیز زیادہ مناسبت رکھتی ہے وہ یہی ہے کہ ایک روزِ جزا برپا ہو، یہ نہیں ہے کہ انسانی زندگی یوں ہی ختم ہو کر رہ جائے اور اپنے بُرے بھلے کے کسی انجام سے وہ کبھی دوچار نہ ہو۔

مشرکینِ عرب کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ نبی صلی اللہ علیہم وسلم نے جب انہیں قیامت سے ڈرایا اور آخرت پر ایمان لانے کی دعوت دی تو انھوں نے اسے ماننے سے انکار کر دیا۔ اسے ایک انہونی بات کہا، دیوانے کی بڑ قرار دیا اور جی بھر کر اس کا مذاق اڑایا، جس کے تفصیلی تذکرے سے قرآن کے صفحات بھرے پڑے ہیں۔ مگر اس کے باوجود ان کا آخرت کے بارے میں فی الواقع جو ذہن تھا وہ کچھ اور ہی تھا۔ اس ذہن کی تصویر کشی کلامِ الٰہی نے جن لفظوں میں کی ہے انہیں ذرا غور سے سنیے:

عَمَّ يَتَسَاءَلُونَ عَنِ النَّبَإِ الْعَظِيمِ الَّذِي هُمْ فِيهِ مُخْتَلِفُونَ (النبا: ١-٣)
یہ لوگ کس چیز کے بارے میں باہم سوال کرتے رہتے ہیں؟ اس بڑی خبر (یعنی قیامت) کے بارے میں جس میں ان کی رائیں الگ الگ ہیں۔

دوسری جگہ کے الفاظ صورتِ واقعہ کو اور نمایاں کرتے ہیں:

بَلِ ادَّارَكَ عِلْمُهُمْ فِي الْآخِرَةِ بَلْ هُمْ فِي شَكٍّ مِّنْهَا ... الخ (النمل: ٦٦)
بلکہ حقیقت یہ ہے کہ آخرت کے بارے میں ان کا علم گنجلک ہے، بلکہ وہ شک میں پڑے ہوئے ہیں۔ الخ

اب دونوں باتوں کو ملا کر اصل حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کیجیے۔ ایک طرف تو ان کے بارے میں قرآن کی شہادت یہ ہے آخرت کے متعلق ان کا علم گنجلک ہے، وہ شک اور تردد میں مبتلا ہیں، وہ کوئی قطعی فیصلہ اس کے متعلق رکھتے ہی نہیں، انہیں نہ اس کے آنے پر جزم ہے نہ اس کے آنے کا یقین۔ دوسری طرف قرآن ہی ان کے غوغائے انکار کا یہ عالم بتاتا ہے کہ گویا ان کے نزدیک قیامت کا آنا اور حساب کتاب کا لایا جانا بداہتاً ناممکن ہے۔ ان دونوں باتوں میں یقیناً ایک کھلا ہوا تضاد ہے۔ لیکن اس تضاد پر کوئی حیرت نہ کرنی چاہیے۔ غیر سنجیدہ، مفاد پرست، بے اصول اور محرومِ ہدایت دنیا میں اس سے بھی زیادہ عجیب و غریب تضاد پسندی کے واقعات نمودار ہوئے ہیں اور ہوتے رہتے ہیں۔

اصل بات یہ ہے کہ قیامت کے بارے میں ان کے ذہن کے اندر دو مختلف قسم کی نفسیات کشمکش کر رہی تھیں۔ ان کے احساسِ فطرت اور ان کی خواہش میں ایک مسلسل جنگ برپا تھی۔ ایک طرف تو دوسرے انسانوں کی طرح وہ بھی ”فطرۃ اللہ“ پر پیدا کیے ہوئے انسان تھے اور وجدان اور عقل و فہم کی صلاحیتیں رکھتے تھے۔ ان صلاحیتوں کا گلا اگرچہ ان کی نفس پرستی کے ہاتھوں بری طرح گھٹ رہا تھا، تاہم پنجرے کا قیدی پرندہ جس طرح کبھی کبھی پوری بے تابی سے پھڑک کر زور لگاتا ہے اور اس کوشش میں دو ایک تاریں بھی اگر ٹوٹ جاتی ہیں تو کم از کم اپنا منھ ہی باہر نکال کر کھلی فضا کا ایک نظارہ کر لیتا ہے، اسی طرح ان کی یہ صلاحیتیں بھی کبھی کبھی اپنے اوپر کی گرفت کو ذرا ڈھیلی پا کر انہیں مخاطب کر ہی لیتیں اور کائنات کے گوشے گوشے میں پھیلی ہوئی قیامت و آخرت کی نشانیوں کی طرف ان کی عنانِ توجہ موڑ دیتیں۔ اس لیے ان کے لیے ممکن نہ تھا کہ وہ قیامت کے خیال سے بالکل یکسو ہو جائیں اور اپنے تحت الشعور سے بھی اسے نکال باہر کر دیں۔ دوسری طرف جانوروں کے سے غیر ذمہ دارانہ طرزِ زندگی کا عشق ان پر زور دیتا نہیں، بلکہ انہیں حکم دیتا کہ اس دیکھی ہوئی حقیقت کو ان دیکھی بنا لیتے۔

اس ذہنی کشمکش کے عالم میں جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوتِ آخرت اپنے سارے فطری مطالبوں کے ساتھ ان کے سامنے آئی تو اس کا مان لینا ان کے لیے بجائے خود ایک قیامت ثابت ہوا۔ کیونکہ دنیا کی جو حسین مورتی ان کے دلوں کے بت خانے کی زینت بنی ہوئی تھی، آخرت پر ایمان لانے کا پہلا مطالبہ یہ تھا کہ اس کا ”کفر“ کیا جائے اور اسے اپنے ہاتھوں سے توڑ کر پھینک دیا جائے۔ اس لیے اس دعوت کے سامنے آتے ہی ان کا عشقِ دنیا اور بھڑک اُٹھا اور اس نے ان کے ذہنوں پر اپنا دباؤ اور سخت کر دیا۔ ساتھ ہی حق کا ایک اور زبردست دشمن ”استکبارِ نفس“ اس کی کمک پر آ گیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ عام حالات میں جو عقیدہء آخرت ان کے لیے اگر قابلِ اقرار نہ تھا تو پوری طرح قابلِ انکار بھی نہ تھا۔ اب انھوں نے اس کا صاف صاف انکار کر دیا۔ پھر جب قرآن نے ان کے اس انکار پر تیز و تند لہجے میں ملامتیں کیں اور سخت ترین انجام کی دھمکیاں دیں تو اس انکار میں اور شدت آتی گئی۔ حتی کہ وہ مجنونانہ مخالفت اور بازاری طنز و تمسخر میں تبدیل ہو گیا۔

اس بحرانی کیفیت میں جس میں کہ وہ مبتلا ہو چکے تھے، آخرت کے متعلق ان کے احساس کا مثبت پہلو قدرتاً بہت زیادہ دب گیا اور اس کا منفی پہلو پوری طرح اُبھر کر اوپر آ گیا۔ جس کے بعد وہ قیامت کا انکار ایسے قطعی انداز میں کرنے لگے گویا اس معاملے میں وہ انتہائی بصیرت اور اطمینان رکھتے ہیں۔ حالانکہ ذہن کی گہرائیوں میں اقرار و انکار کی کشمکش اب بھی بدستور اسی طرح جاری تھی جیسا کہ پہلے تھی اور اس کی تعبیر ہے جو (بَلِ ادَّارَكَ عِلْمُهُمْ فِي الْآخِرَةِ) کے لفظوں میں کی گئی ہے۔

آخرت فراموشی کا نفسیاتی mécanisme

غرض، یہ ایک ثابت حقیقت ہے کہ آخرت اور جزائے اعمال کا تصور ایسا نہیں ہے جس کو دنیا کی محبت انسان کے دل و دماغ سے یکسر فنا کر دے سکے۔ حتی کہ (ذَلِكَ رَجْعٌ بَعِيدٌ) [ق: ۳] کہنے والے منکرینِ آخرت بھی اس کی خلش سے نجات نہ پاسکے۔ چہ جائے کہ وہ لوگ جو اس عقیدے کا انکار بھی نہیں کرتے اور چاہتے ہیں کہ ان کا شمار اس کے ماننے والوں ہی میں ہو۔ اس لیے فکرِ آخرت سے عملی طور پر پوری طرح بے تعلق ہو جانے کے باوجود یہ ممکن نہیں کہ انسان ذہنی طور پر بھی اس سے اسی طرح بے تعلق ہو جائے۔

اب جب کہ یہ بات بھی نہیں رہی کہ دنیا پرستی انسان کے اندر سے آخرت کے تصور کو بالکل اکھاڑ پھینکنے پر قادر ہو جاتی ہو، زیرِ بحث سوال کچھ آسان ہونے کے بجائے اور زیادہ مشکل ہی ہو جاتا ہے۔ کیونکہ اس وضاحت کے بعد صورتِ واقعہ یہ قرار پا جاتی ہے کہ انسان آخرت کے تصور سے ذہناً آشنا بھی ہوتا ہے اور عملاً ناآشنا بھی۔ کسی نہ کسی معنی میں آخرت شناس بھی اور ساتھ ہی آخرت فراموش بھی۔ اس کی طرف سے اک گونہ اندیشہ ناک بھی اور پھر بے فکر و مطمئن بھی۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک عجیب قسم کا معمہ ہے۔ ایک ایسی صورتِ حال ہے جس کی کوئی معقول توجیہ عقلِ عام کے بس سے باہر ہے۔ وہ تو صرف یہی کہے گی کہ اگر آگ اور پانی ایک جگہ اکٹھا نہیں ہو سکتے تو آخرت شناسی اور آخرت فراموشی بھی ایک دل میں جمع نہیں ہو سکتیں۔ لیکن عقلِ عام کا فتویٰ چاہے جو کچھ بھی ہو، واقعات کی دنیا میں یہ ناممکن ہر طرف ”ممکن“ بن کر موجود ہے اور ہمیشہ سے موجود چلا آ رہا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ کچھ ”فلسفے“، کچھ نظریے اور کچھ افکار ایسے بہرحال موجود ہیں جن کا سہارا لے کر دنیا پرستی کا جذبہ انسان کو آخرت فراموش بنا دینے میں کامیاب ہو جایا کرتا ہے۔ کیونکہ انسان کا کوئی اکا دکا عمل تو شاید یوں ہی بلا کسی بنیادی سبب کے وجود میں آ جاتا ہو۔ مگر وہ کوئی مستقل رویہ اس وقت تک نہیں اختیار کر سکتا جب تک کہ کسی ایسے طرزِ فکر اور نظریے نے اندر سے اسے اپنی گرفت میں نہ لے لیا ہو جو اس رویے کا سبب اور موجب بن سکے۔ یہ ”فلسفے“، یہ نظریے اور کچھ افکار کیا ہیں جو دنیا پرستی کی خدمت انجام دیتے ہیں؟ اس باب میں ہماری رہنمائی صرف وہ تبصرے کریں گے جو قرآن مجید نے اپنے زمانہ نزول کے آخرت فراموشوں پر کیے ہیں۔ ان میں دونوں قسم کے لوگ شامل تھے۔ آخرت کے کھلے منکر بھی، اور اس کے ماننے کے مدعی بھی۔ اس لیے یہ تبصرے حقیقت پر مبنی ہونے کے ساتھ ساتھ جامع اور مفصل بھی ہیں اور ان میں ہر گروہ کے اندازِ فکر اور نظریے کی پوری پوری عکاسی بھی موجود ہے۔ دین و ایمان کی مصلحتیں تقاضا کرتی ہیں کہ فکر کے ان زاویوں اور ان نظریوں سے پوری واقفیت حاصل کر لی جائے۔ تاکہ جسے اپنی دولتِ ایمان عزیز ہو وہ ان کی طرف سے چوکنا رہے اور شیطان کو ان چور دروازوں سے ہو کر کام کر جانے کا موقع نہ مل سکے۔ لہٰذا آئیے، قرآن کے ان تبصروں کی روشنی میں دیکھیں کہ یہ نظریے کیا ہیں؟

۱. منکرینِ آخرت کے نظریاتِ مصالحت:

پہلے گروہ — آخرت کے کھلے منکروں — کے اندازِ فکر اور نظریے کی ترجمانی قرآن نے اس طرح کی ہے:

نَحْنُ أَكْثَرُ أَمْوَالًا وَأَوْلَادًا وَمَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِينَ (سبا: ۳۵)
ہم مال اور اولاد زیادہ رکھتے ہیں، ہمیں عذاب نہ ہوگا۔
وَمَا أَظُنُّ السَّاعَةَ قَائِمَةً وَلَئِنْ رُّدِدْتُ إِلَى رَبِّي لَأَجِدَنَّ خَيْرًا مِّنْهَا مُنْقَلَبًا (الكهف: ۳۶)
میرا یہ خیال نہیں ہے کہ قیامت آنے والی ہے، لیکن اگر (ایسا ہوا اور) میں اپنے رب کے حضور لوٹایا گیا تو وہاں یقیناً اس دنیا سے بھی بہتر مقام پر سرفراز ہوں گا۔

گویا جب دنیا پرستی کے ذوق کا یہ سب سے بنیادی تقاضا، کہ عمل کی باز پرس نہ ہو، اپنا پورا زور دکھانے کے باوجود عقل و فطرت کے تقاضوں سے اندر ہی اندر شکست کھانے لگتا ہے تو نفس ایک شاطرانہ چال چلتا ہے اور ایک خوبصورت دامِ فریب لیے ہوئے انسان کی فکری قوتوں کے سامنے جا کر مؤدب کھڑا ہو جاتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس دام کے حوالے کر دیں۔ اس کا آلہ کار بن جائیں اور اس کی دنیا پرستانہ خواہشوں کے حق میں اگر دلائل مہیا نہ کر سکیں تو کم سے کم ان پر استدلال کی چھاپ ضرور لگا دیں تاکہ محاسبہ اعمال کی اس فطری خلش کو بہلا دیا جا سکے جو انسانی شعور کی گہرائیوں میں موجود ہے۔ ادھر انسان کے قوائے فکر و نظر کا حال یہ ہے کہ اگر ایمان کا نور ان کی رہنمائی نہ کرے تو وہ بہت جلد غلط راہوں پر جا بھٹکتے ہیں اور نامعقول سے نامعقول نظریات کا شکار ہو رہتے ہیں۔ ظاہر ہے منکرِ آخرت کو یہ نورِ نگاہ کہاں میسر؟ اس لیے قدرتی طور پر اس کے یہ قوائے فکر و نظر نفس کی اس کوشش کے آگے ہتھیار ڈال دیتے ہیں اور اس کے حسبِ منشاء ایک ایسا فلسفہ تیار کر دیتے ہیں جس کے سہارے اسے آخرت کے تمام اندیشوں سے نجات مل جاتی ہے اور ”عقل و استدلال“ کی سند کے ساتھ مل جاتی ہے۔ وہ اسے سمجھا دیتے ہیں کہ اگر قیامت آئی بھی تو تمہیں کیا غم؟ اس وقت بھی تو تمہارے لیے عیش ہی عیش ہوگا۔ کیونکہ تم پر اللہ کی نظرِ کرم ہے۔ اس بات کا ثبوت کہ تم پر اس کی نظرِ کرم ہے، یہ ہے کہ تم آج بھی اس دنیا میں خوش حال ہو۔ ورنہ اگر تم سے اللہ تعالیٰ رحمت کی نگاہیں پھیر لی ہوتیں تو اس طرح تم پر وہ اپنی نعمتوں کی بارش کیوں کرتا؟ کہیں اپنے معتوب یا دشمن کے ساتھ بھی ایسی مہربانی اور شفقت کا سلوک کیا جاتا ہے؟

غور فرمائیے کہ اس فلسفے سے بات کس طرح بن جاتی ہے اور دل کو کیا تسلی مل جاتی ہے! نفس کی خواہش اور دنیا کی محبت نے عقل سے کہا، بس ذرا دیر کے لیے ایک حقیقت سے آنکھیں میچ لے اور اس مسئلے پر غور کرتے ہوئے درمیان میں چند لمحوں کے لیے معقولیت پسندی پر اصرار چھوڑ دے اور وہ اس طرح کہ کائنات کے اندر کام کرنے والی ایک ایک حکمت کا کھوج لگا اور اسے نگاہ میں رکھے، مگر بنی آدم کی دنیوی زندگی میں جو حکمتِ ابتلاء کام کر رہی ہے، اسے بھول جا۔ پھر میرا کام بن جاتا ہے۔ اب کوئی ہزار للکارے اور لاکھ سمجھائے کہ اس دنیا کے اندر کام کرنے والے قوانین دوسرے ہیں اور اُس عالم میں دوسرے ہوں گے، یہاں رزق کا معاملہ اتباعِ حق اور پیروی باطل کی بحث سے جدا ہے اس لیے دنیوی خوش حالی کو اللہ کے تقرب کی نشانی اور دلیل نہ سمجھنا چاہیے، مگر مجھے اس کی کوئی پروا نہ ہوگی، کیونکہ میرے پاس اس کے خلاف ”عقلی استدلال“ کی یہ ڈھال ہے۔

شفاعت کا غلط تصور:

ظاہر ہے کہ یہ غور و فکر کا کوئی معقول انداز بالکل نہیں ہے، بلکہ فی الواقع ایک کھلا فریب ہے، جو فطرتِ انسانی کی اندرونی خلش کو دبانے کے لیے دنیوی خواہشوں اور امنگوں کا پرستار اور مادی مفاد کا دلدادہ نفس اختیار کرتا ہے اور اس طرح گویا وہ دونوں متضاد میلانو ں میں ”مصالحت“ کرانا چاہتا ہے اور مصالحت بھی ایسی جسے مصالحت کا صرف فریب کہہ سکتے ہیں۔ کیونکہ اس میں مصالحت کے عام اور معروف دستور کے خلاف صرف ایک ہی فریق کو اپنی جگہ چھوڑنی پڑتی ہے اور فریقِ ثانی اپنی جگہ سے ایک انچ بھی نہیں کھسکتا۔ قیامت اور محاسبہ اعمال کے احساس کو جب یہ کہہ کر تھپکیاں دی جائیں کہ تیرا وجود بالکل برحق ہے مگر اسی کے ساتھ یہ بات بھی غلط نہیں کہ دنیوی خوش حالی دراصل اخروی خوش حالی کی سند ہے، تو اس اقرارِ قیامت کی سرحدیں انکار کی سرحدوں سے کہاں حقیقتاً بھی کچھ مختلف ہوں گی؟ اور ایسی شکل میں اسے کیا فی الواقع دنیا و آخرت کی مصالحت کہا جائے گا، یا جزا سزا کے نیم جان احساس کو پوری طرح بے دست و پا کر دینے کی ایک خوش نما چال؟

لیکن واقعہ یہ ہے کہ اس دامِ فریب کے تار کچھ اتنے مضبوط نہیں ہیں کہ احساسِ فطرت کی اضطرابی کروٹیں انہیں توڑ نہ سکیں۔ اس لیے منکرینِ قیامت کی نفسیات زدہ قوتِ فکر نے ایک اور جال بن کر فراہم کیا۔ اس نے کہا ”مان لیا کہ قیامت آئے گی، مگر اسی کے ساتھ یہ ”حقیقت“ بھی تو موجود ہے کہ انسان کی مغفرت اس کے اعمال کے پیش نظر نہ ہوگی، بلکہ ان بزرگ اور مقدس ہستیوں کے ذریعہ ہوگی جو خدائی کے کاروبار میں پورا پورا دخل رکھتی ہیں اور جن کی کوئی بات اللہ کی بارگاہ میں ٹالی نہیں جاسکتی۔ اس لیے تمہارا کام صرف یہ ہے کہ ان ہستیوں میں سے کسی ایک کا دامن پکڑ لو، اس کی حمد کرو، اس کی عقیدتوں کے گیت گاؤ، اس کے تھان یا اس کے مزار پر سجدے کر لیا کرو اور نذریں چڑھاتے رہو۔ پھر اس کے بعد بالکل مطمئن رہو اور آزادی کے ساتھ زندگی میں جو چاہو کرو۔ اب دنیا اور دین، دونوں کی سعادت مندیاں تمہارے لیے بالکل یقینی ہیں۔“ چنانچہ مشرکینِ عرب جن کے انکارِ قیامت کی شدت کا حال دنیا پر روشن ہے اس انکار کے ساتھ یہ بھی عقیدہ رکھتے تھے کہ:

هَؤُلَاءِ شُفَعَاؤُنَا عِنْدَ اللَّهِ (یونس: ۱۸)
یہ (معبود دراصل) اللہ کے حضور ہمارے سفارشی ہیں۔

اللہ کے حضور سفارشی ہیں“ کے الفاظ بتاتے ہیں کہ آخرت کا تصور دل کے گوشوں میں کہیں نہ کہیں بہرحال موجود ہے اور خود ساختہ معبودوں کی پرستش اختیار کرنے کی سب سے اہم غرض یہی ہے کہ اس طرح ناگوارِ خاطر تصور کے مطالبوں سے آسانی کے ساتھ گلا چھوٹ جاتا ہے۔ اعمال اور اخلاق چاہے کچھ ہوں، یہ معبود تو اپنے زور اور رسوخ سے لازماً بخشوا ہی دیں گے!

اعتراف کرنا چاہیے کہ نفس کا یہ داؤ پہلے داؤ سے زیادہ کارگر ہے اور اس دامِ فریب کے تار اتنے بودے نہیں ہیں کہ عقل و فطرت کا کوئی معمولی احساس انہیں آسانی سے توڑ سکے۔ فرشتوں، نبیوں، ولیوں اور بزرگ انسانوں کے ساتھ لوگوں کو عقیدت ہوتی ہے، اس کی جڑیں دلوں میں بڑی گہری اتری ہوتی ہیں اور جہاں تک مشرکوں کا تعلق ہے اپنے معبودوں کے ساتھ ان کی عقیدت تو پاتال تک پہنچی ہوئی ہوتی ہے۔ ایسی حالت میں اگر آپ ان کے سامنے توحیدِ خالص کا عقیدہ پیش کریں اور یہ بتائیں کہ جن کو تم پوجتے ہو اور جن کی شفاعتوں پر تکیہ کیے بیٹھے ہو، وہ خود بھی تمہاری ہی طرح اللہ رب العالمین کے عبد اور غلام ہیں۔ اور اس کے سامنے دم مارنے کا یارا نہیں رکھتے۔ ان کی شفاعت کسی ایسے شخص کو ہرگز نہ بچا سکے گی جو اللہ تعالیٰ کے قانونِ جزا اور فیصلے کے مطابق سزا کا مستحق ہوگا۔ بلکہ وہ ایسے کسی شخص کی شفاعت کریں گے ہی نہیں اور نہ کر ہی سکیں گے، تو آپ کی یہ ساری باتیں ان کے نزدیک گستاخی اور بداعتقادی کی باتیں ہوں گی۔ ان کے خیال میں آپ ایسا کہہ کر مقربینِ خدا کی توہین کے مرتکب ہوں گے اور یہ ان کی ”دین داری“ کا شدید ترین تقاضا ہو گا کہ آپ کی باتوں کو ٹھکرا دیں، ان پر نفرین پھینکیں اور ان کی بھنک سے بھی اپنے کانوں کو آلودہ نہ ہونے دیں۔

اگر کبھی آپ کو ایسی ذہنیتوں سے سابقہ پڑا ہوگا تو آپ جانتے ہوں گے کہ نفسیاتی طور پر یہ معاملہ کتنا نازک بن جاتا ہے اور ایسی باتوں سے مشرکوں یا ”مشرک موحدوں“ کے جذبات کس طرح بھڑک اُٹھتے ہیں۔ اُن کے بھڑکنے کا انداز کچھ ایسا اثر انگیز ہوتا ہے کہ گویا یہ سچی دین داری اور پختہ عقیدگی ہے جو انہیں جلالِ حق سے بے تاب کر رہی ہے۔ اور ”بد عقیدگی“ کے خلاف اشتعال دلا رہی ہے۔ مگر صورتِ واقعہ عموماً کچھ اور ہی ہوتی ہے۔ اور ”حمایتِ حق“ کی اس سطح کے اندر، گہرائیوں میں، جو حقیقت موجود ہوتی ہے اس کا انہیں غالباً بسا اوقات خود بھی احساس نہیں ہوتا۔ کیونکہ وہ غلط فہمیوں، خوش گمانیوں، اندھی عقیدتوں اور جہل کی تراشی ہوئی تاویلوں کے بوجھ تلے دب جاتی اور شعور سے نکل کر لاشعور میں جا چھپی ہوتی ہے۔ اصل مقصد تو یہ ہوتا ہے کہ بندگی کی ہمہ گیر ذمہ داریوں سے بچا جائے اور مفادِ دنیا کی پوجا میں کہیں سے رکاوٹ نہ پڑنے پائے لیکن نام لیا جاتا ہے بزرگوں اور مقدس ہستیوں کی عظمت و احترام کا۔ چونکہ ایسے لوگ بے قیدی زندگی بسر کرنے کے حریص ہوتے ہیں، لیکن قیامت اور جزائے عمل کا فطری احساس اس آزادی کی راہ میں روک بننے کی کوشش کرتا ہے، اس لیے اس کو افیون کا انجکشن دے کر ماؤف کر دیا گیا، اسے باور کرا دیا گیا کہ فکر اور پریشانی کی کوئی بات نہیں، ان بزرگ ہستیوں کی موجودگی میں باز پرس اور سزا کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہو گا۔

جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا، یہ فریبِ مصالحت پہلے فریب سے زیادہ مؤثر اور کامیاب ہے۔ دراصل اس ”فلسفے“ اور نظریے میں انسانی جذبات پر چھا جانے کی جو بے پناہ طاقت ہے اس کے ہوتے ہوئے اسے ایسا ہی ہونا بھی چاہیے تھا۔ ایسے زبردست فریبِ نظر سے اگر انسان کے عقلی اور فطری احساسات مسحور ہو جائیں تو یہ کوئی حیرت کی بات نہیں۔ چنانچہ تاریخ بتاتی ہے کہ راہِ راست چھوڑ کر دنیا کا پجاری بن جانے والوں کی اکثریت بالعموم اسی جال کا شکار ہوتی رہی ہے اور شاید آج بھی ہے۔

مصالحت کے یہ ہیں وہ پُر فریب نظریے جن کی رو سے دنیا کی محبت منکرِ آخرت کو فی الواقع منکرِ آخرت اور آخرت فراموش بنا دینے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔

۲. مدعیانِ ایمان (بظاہر ماننے والے) کے نظریاتِ مصالحت:

قیامت کے کھلے منکروں کے بعد اب ان لوگوں کو لیجیے جو اس کے منکر نہیں ہوتے بلکہ ان کا دعویٰ اس پر ایمان رکھنے ہی کا ہوتا ہے، لیکن اس کے باوجود ان کے افکار، اعمال اور اخلاق کی باگ ڈور دنیا پرستی کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ معلوم کرنا چاہیے کہ آخر ان لوگوں نے اپنی مشکل کا ”حل“ کیا نکالا ہے؟ اور ان دونوں متضاد حقیقتوں کو کس کرتب سے گلے ملوایا ہے؟ دین داری اور دنیا پرستی میں مصالحت انھوں نے کس طرح کرائی ہے؟ اور ان کی محبوب دنیا انہیں آخرت فراموش کس طرح بنا دیا کرتی ہے؟

اس سلسلے میں یہ بات تو ایک مسلمہ حقیقت کی حیثیت رکھتی ہے کہ اس گروہ کی مصالحت کا انداز بھی اپنی بنیادی اسپرٹ میں کچھ اسی طرح کا ہوگا، جیسا کہ پہلے گروہ کا تھا اور جو ابھی ہمارے سامنے آچکا ہے۔ فرق جو کچھ ہوگا صرف الفاظ کا یا مقدمات کی ترتیب کا ہوگا۔ اسی طرح اس نظریہ مصالحت کے اختیار کرنے سے اس کا مقصد بھی صرف یہی ہوگا کہ عملاً ایمانِ آخرت کو معطل کر دیا جائے اور اس کا کوئی دباؤ اپنے طرزِ فکر اور طریقِ عمل پر ہرگز نہ پڑنے دیا جائے، یہاں تک کہ نفس کی بے لگام خواہشوں کو کھلی چھٹی مل جائے۔ تحقیق کیے بغیر پہلے ہی سے اس بات کو ایک مسلمہ حقیقت کا مقام دے لینا نہ تو کوئی غیر معمولی رویہ ہے اور نہ اس گروہ کے حق میں کوئی ناانصافی ہے۔ کیونکہ انسانی نفسیات کا اگر مطالعہ کیجیے تو نہ تو اس کے سوا اور کوئی وجہ اس سعیِ مصالحت کی نظر آ سکتی ہے اور نہ اس طرزِ مصالحت سے بنیادی طور پر مختلف کوئی دوسرا طرز سمجھ میں آسکتا ہے۔ کھلی بات ہے کہ اگر انسان کے اندر دنیا داری اور خواہش پرستی کا ہوکا نہ اٹھے تو اس سعیِ مصالحت کی اسے ضرورت ہی نہ ہوگی۔ اسی طرح یہ بھی ایک جانی بوجھی حقیقت ہے کہ اگر کسی کے اندر یہ ہوکا اُٹھ گیا ہے تو پھر جب تک اس دنیا داری اور خواہش پرستی کی راہ ایک ایک کانٹے سے پاک نہ ہو جائے اس کا نفس کبھی چین نہیں بیٹھ سکتا اور اس کی فکر و نظر کو برابر مہمیز کرتا رہے گا تاکہ وہ ”صفائی“ کی اس مہم کو جلد سے جلد منزلِ مراد تک پہنچا دیں۔ اور کون نہیں جانتا کہ خواہش پرستی کی راہ صاف اسی وقت ہو پاتی ہے جب کہ آخرت کی فکر پر دنیا کی فکر پوری طرح چھا چکی ہو۔

بنی اسرائیل کی مثال:

اس اجمال کے بعد تفصیل کی طرف اور قیاس کے بعد عالمِ واقعہ کی طرف آئیے۔ اور دیکھیے کہ متعین طور پر وہ کون سے من گھڑت نظریے ہیں جن کے بل پر یہ گروہ ایمان بالآخرت کو (اور اسی کے ساتھ عقیدہء توحید کو بھی) زندہ درگور کر دیتا ہے؟ اس باب میں اگر ہم بنی اسرائیل کی دینی تاریخ کو سامنے رکھ لیں تو غالباً بات کو بہت جلد پالیں گے کیونکہ یہ وہ قوم ہے جس نے اس ”مہم“ کو بڑی ”کامیابی“ کے ساتھ سر کیا، اور اس معاملے میں اس کی جراتِ بے باک ذرا مشکل ہی سے اپنی کوئی نظیر رکھتی ہوگی۔ اس نے قیامت کو زبانی طور سے ماننے اور عملی طور پر نہ ماننے کا کام بڑی خوبی سے انجام دیا ہے، چنانچہ اگر اس کا ایک طرف یہ ”ایمان“ تھا کہ یومِ جزا آنے والا ہے تو اسی کے ساتھ دوسری طرف وہ اس بات پر بھی مطمئن تھی کہ ہمارے لیے ترک و اختیار کی ہر راہ کھلی ہوئی ہے اور قیامت کا یہ وجود ہم سے ہماری خواہشوں پر کسی بندش کا مطالبہ نہیں کرتا۔ ان کا یہ خیال جن مقدمات پر مبنی تھا وہ یہ تھے:

  • (ا) ہم اللہ کے لاڈلے اور چہیتے ہیں (نَحْنُ أَبْنَاءُ اللَّهِ وَأَحِبَّاؤُهُ) [المائدہ: ۱۸]
  • (ب) مجرد یہ بات کہ ہم یہودی ہیں، اس امر کی ضمانت ہے کہ ہم بہرحال برسرِ ہدایت ہیں، خواہ ہمارے اعمال کچھ ہی کیوں نہ ہوں۔ (قَالُوا كُونُوا هُودًا أَوْ نَصَارَى تَهْتَدُوا) [البقرہ: ۱۳۵]
  • (ج) اسی طرح آخرت میں بھی جنت صرف ہمارے لیے محفوظ ہے۔ (لَنْ يَدْخُلَ الْجَنَّةَ إِلَّا مَنْ كَانَ هُودًا أَوْ نَصَارَى) [البقرة: ۱۱۱]

یہ وہ تصورات تھے جن کی بنا پر ان کا یہ خیال تھا کہ اللہ تعالیٰ انہیں ضرور بخش دے گا۔ (سَيُغْفَرُ لَنَا) [الاعراف: ۱۶۹] یا اگر ان کی سرزنش ہوئی بھی تو وہ گنتی کے چند دنوں سے زیادہ نہ ہو گی۔ (لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّامًا مَّعْدُودَةً) [البقرة: ۸۰]

اب غور کیجیے کہ یہ تصورات اور یہ نقاطِ نظر ان کے ہاتھ کہاں سے لگے ہوں گے؟ اللہ کی کتاب (تورات) نے تو انہیں یہ تصورات دیے نہیں تھے، حاشا و کلا، خدا کا کلام ان خرافات سے بالکل بری ہے۔ چنانچہ قرآن صاف لفظوں میں فرماتا ہے کہ یہ سب ان کے نفس کی خواہشیں (امانی) ہیں جنہیں ان سست دلوں نے دھاندلی سے عقائد اور دینی تصورات کا لباس پہنا دیا ہے ورنہ ان یاوہ گوئیوں سے تورات کا کوئی دور کا بھی تعلق نہیں۔ معلوم ہوا کہ یہ تصورات اور نقاطِ نظر ان کے اپنے گھڑے ہوئے تھے۔ سوال یہ ہے کہ انھوں نے ایسا کیوں کیا؟ وہ کون سا محرک تھا جس نے انہیں یہ نظریات گھڑنے پر مجبور کیا؟ یہ راز بڑی آسانی سے کھل جائے گا اگر ان کی ذہنیت اور ان کی سیرت و کردار کی اس تصویر پر ایک سرسری نظر بھی ڈال لی جائے جو قرآن نے کھینچی ہے اور جس کا پورا عکس اس کے اس دو لفظی تبصرے میں موجود ہے:

وَلَتَجِدَنَّهُمْ أَحْرَصَ النَّاسِ عَلَى حَيَاةٍ وَمِنَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا (البقرة: ٩٦)
تم ان (یہودیوں) کو حیاتِ دنیا کا سب سے بڑا حریص پاؤ گے، یہاں تک کہ اس معاملے میں وہ مشرکوں سے بھی آگے نظر آئیں گے۔

اس مختصر تبصرے کی اگر تفصیل دیکھنی ہو تو قرآن کے اندر یہ پوری تفصیل بھی موجود ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ مختصر سا جملہ اس باب میں خود ہی پوری طرح کفایت کر رہا ہے اور ہر طرح کی شرح و تفصیل سے یکسر بے نیاز ہے۔

ان لوگوں کی اس ذہنیت کو دیکھتے ہوئے اس کے سوا اور کیا خیال کیا جا سکتا ہے کہ ان کے یہ تصورات اور نظریات کسی اتفاقی حادثے کا نتیجہ نہ تھے۔ صورتِ حال یہ نہ تھی کہ انہیں ایمان کے تقاضے اور بندگی کی ذمہ داریاں بتائی نہیں گئی تھیں، یا یہ کہ حقیقت کا سراغ ان سے گم ہو گیا تھا اور انہیں یہ تقاضے اور یہ ذمہ داریاں یاد ہی نہ رہ گئی تھیں، پھر کچھ نامعلوم اسباب ایسے پیدا ہو گئے جنہوں نے آکر یکا یک ان کے ذہنوں کو اپنی محبوبیت اور مغفوریت کے جھوٹے پندار میں مبتلا کر دیا اور انجام کار وہ شریعت کی پابندیوں سے بے پروا ہو گئے۔ بلکہ صورتِ حال اس کے قطعاً خلاف اور واقعات کی منطقی ترتیب اس کے بالکل برعکس تھی۔ ہوا یہ کہ پہلے انہیں دنیوی زندگی نے اپنا گرویدہ بنایا، اس کے بعد انھوں نے اپنی مغفرت کا یہ عجیب و غریب ”فارمولا“ ایجاد کیا۔ اور اس ایجاد کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ ”بدقسمتی“ سے ایک یومِ جزا کے آنے کا اعتراف ان کے گلے پڑا ہوا تھا۔ یہ اعتراف مطالبہ کرتا تھا کہ وہ اپنی مادی خواہشوں پر سخت پابندیاں عائد کریں اور حرصِ دنیا کو چھوڑ دیں۔ حالانکہ دنیا ان کے اعصاب پر بُری طرح سوار ہو چکی تھی۔ اس لیے ان کے سامنے یہ سوال آکھڑا ہوا کہ یا تو وہ آخرت کے اس اعتراف سے اپنا پیچھا چھڑا لیں، یا پھر اپنی محبوب دنیا کو طلاق دے دیں۔ آخر اللہ نے عقل کے ناخن دیے تھے جن سے انھوں نے اس مشکل گرہ کو کھول ہی لیا۔ انھوں نے کہا، دونوں زندگی کے مفاد اپنی اپنی جگہ درست اور قابلِ لحاظ ہیں اور ان میں — ہماری ذات کی حد تک — کوئی تضاد نہیں۔ اس لیے ان میں سے کسی کو ٹھکرا دینے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ قیامت آئے گی، حساب کتاب کا ہونا بالکل برحق ہے۔ مگر ہم انبیاء زادے ہیں، اسرائیل (یعقوبؑ) کی اولاد اور ابراہیمؑ کے جگر گوشے ہیں۔ دوسری طرف خدا قومِ اسرائیل کا اپنا خدا ہے اور قومِ اسرائیل اس کی اپنی قوم ہے۔ اللہ تعالیٰ کا اس خانوادۂ اسرائیل کے ساتھ یہ خصوصی لگاؤ ہی تو تھا جس کی بنا پر وہ دین و دنیا دونوں کی اعلیٰ ترین نعمتوں کی اسی کے اندر غیر معمولی ارزانی فرماتا رہا ہے۔ ”انبیاء“ اس نے اس میں سے اٹھائے، ”ملوک“ اس نے اس کے اندر بنائے، تمام اقوامِ عالم پر ”فضیلت“ اس نے اسے بخشی۔ یہ ساری حقیقتیں اس بات کی گواہ ہیں کہ کل قیامت میں بھی ہمارے ساتھ اللہ کا سلوک خصوصی ہی ہوگا اور عام انسانوں کی طرح ہم سے حساب کتاب ہرگز نہ لیا جائے گا۔ اس لیے اس زندگی میں ہم پر عمل کی، اپنے کو کسا بندھا رکھنے کی، اپنی خواہشوں اور امنگوں پر قدغنیں لگائے رکھنے کی کوئی خاص ضرورت نہیں۔

یہی ہے مصالحت کا وہ پُر فریب انداز جس سے کام لے کر دنیا کی محبت آخرت کے ماننے والوں کو بھی آخرت فراموش بنا دینے میں کامیاب ہو جایا کرتی ہے۔

بنی اسرائیل اور شرک خفی

ان لوگوں کے اس اندازِ فکر کا اگر تجزیہ کر کے دیکھیں تو بات کچھ بہت زیادہ مختلف نہ نکلے گی اور جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا، اس کا مرکزی نقطہ بھی وہی نظر آئے گا جو کہ پہلے گروہ کے دائرہ فکر کا تھا۔ یعنی بزرگ ہستیوں کی قطعی شفاعت کا من گھڑت عقیدہ۔ فرق اگر کچھ ہے تو صرف یہ کہ پہلا گروہ اس قسم کی ہستیوں کو صرف خدائی میں شریک یا خدا کا مقرب ہی نہیں کہتا تھا، بلکہ صفائی اور جرات سے کام لیتے ہوئے اس عقیدے کے منطقی نتیجے کو بھی اختیار کر چکا تھا اور انہیں اپنا ”معبود“ قرار دے کر ان کے مجسموں کی علانیہ پوجا بھی کیا کرتا تھا۔ مگر ان حضرات کو چونکہ توریت کے لفظوں کا کچھ نہ کچھ پاس بھی رکھنا تھا، اس لیے زبان کی حد تک تو وہ ایسا نہ کہہ سکے اور عبادت کے معروف معنوں میں ان کی پرستش کرنے سے بھی مجتنب رہے۔ لیکن ان ساری ظاہری احتیاطوں کے باوجود عقیدہ و عمل کی وہ کون سی گمراہی تھی جو مشرکوں اور قیامت کے منکروں میں پائی جاتی ہو اور اس سے ان کا دامن بالکل پاک رہا ہو؟ قرآن نے ان کے اندر جن برائیوں اور ضلالتوں کی نشان دہی کی ہے، ان کی طویل فہرست پر نظر ڈالیے۔ اس نامہء فہرست میں یہ جرم بھی مذکور ملے گا کہ ان کے دل شرک کی ناپاکی سے لت پت ہیں اور انھوں نے مشرکوں کا سا عقیدہء شفاعت اختیار کر رکھا ہے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے جس کے پیش نظر وہ انہیں بار بار اس طرح کی فہمائش کرتا ہے کہ:

وَاتَّقُوا يَوْمًا لَّا تَجْزِي نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ شَيْئًا وَلَا يُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَةٌ وَلَا يُؤْخَذُ مِنْهَا عَدْلٌ وَلَا هُمْ يُنْصَرُونَ (البقرة: ۴۸)
”(
اے بنی اسرائیل!) اس دن سے ڈرو جس دن کوئی نفس کسی دوسرے نفس کی طرف سے ذرہ برابر بھی ذمہ دار نہ بنے گی، نہ اس کی طرف سے کوئی سفارش سنی جائے گی، نہ فدیہ قبول ہوگا اور نہ کہیں سے انہیں مدد پہنچے گی۔

اس آیت کے پس منظر میں صاف دکھائی دے رہا ہے کہ ان کے ذہنوں میں ایک غلط قسم کا عقیدہء شفاعت جڑیں پکڑے ہوئے تھا۔ اور یہ شفاعت کا کم و بیش ویسا ہی عقیدہ تھا جس کے بھروسے مشرک قومیں اطمینان سے دنیا کی پوجا میں غرق رہتی ہیں اور جس کے ساتھ آخرت کا تصور بالکل بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے، بلکہ نفسِ آخرت ہی کی کوئی عقلی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی۔

زبانی اقرار بمقابلہ عملی انکار

اس ذہنی تجزیے کی روشنی میں اس گروہ کی پوزیشن بڑی عجیب و غریب بن جاتی ہے۔ وہ قولاً تو آخرت کا ماننے والا ہے، مگر عملاً ہی نہیں بلکہ ایک طرح ذہناً بھی اس کا منکر ہے، پھر اسے کیا سمجھا جائے؟ آخرت کا ماننے والا یا اس کا منکر؟ پہلے گروہ کو تو بلا تکلف منکرِ آخرت کہا جاتا ہے، کیونکہ قیامت کے بارے میں خواہ وہ کوئی واضح نظریہ نہ رکھتا رہا ہو، مگر جہاں تک ظاہر کا تعلق ہے، وہ اس کا صاف صاف اور قطعی انکار کر رہا تھا اور اس کو اپنے بارے میں یہی لقب پسند بھی تھا اور اس نے دنیا کے سامنے اپنے کو اسی حیثیت سے پیش بھی کیا تھا۔ لیکن اس دوسرے گروہ کا معاملہ اس سے بہت کچھ مختلف ہے۔ اس کے اعمال و افکار چاہے جو کچھ بھی رہے ہوں، مگر زبان کی حد تک اسے اپنے متعلق عقیدہء آخرت کا قائل کہے جانے پر شدت سے اصرار تھا۔ بلا شبہ دنیا کا قاضی، جو دلوں کا حال نہیں جانتا، ایسوں کو ہرگز منکرِ آخرت نہیں قرار دے سکتا۔ لیکن کیا یومِ جزا کا ”قاضی“ بھی ان کے ان زبانی دعووں کے پیش نظر ہی ان کی حیثیت اور ان کا نام و لقب متعین کرے گا؟ اور وہ بھی ان کے بارے میں کل وہی فیصلہ دے گا جو آج دنیا کا قاضی دے رہا ہے؟

قرآن کہتا ہے کہ نہیں، ایسا نہیں ہوگا۔ یہ ”قاضی“ ایسوں کے بارے میں کل جو فیصلہ کرنے والا ہے وہ اپنے الفاظ و معنی کے ساتھ تو کل ہی سامنے آئے گا لیکن آج اس دنیا میں بھی اس کا یہ متوقع فیصلہ کچھ زیادہ چھپا ہوا نہیں ہے۔ اس کے کلام، قرآن مجید، میں جو تنقید ان اسرائیلیوں کے اعمال و افکار پر کی گئی ہیں، ان کے اندر صاف طور سے اس امر کی نشان دہی موجود ہے کہ آخرت پر ایمان رکھنے کا انہیں جو دعویٰ تھا اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کا کوئی خاص وزن نہیں ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی زندگی کے پورے رویے میں ان کے اس دعویٰ کی سچائی کی کوئی قابلِ لحاظ شہادت نہ ملتی تھی اور ان کے زبانی اقرار کا پلڑا عملی انکار کے پلڑے سے بہت زیادہ اوپر اٹھا ہوا تھا۔

قرآن کے پہلے ہی صفحے پر نظر ڈالیے۔ سورۂ بقرہ کی، جس کا روئے سخن یہود کی طرف ہے، ابتدائی آیتیں آپ کے سامنے ہوں گی۔ ان آیتوں میں اس حقیقت کا انکشاف کیا گیا ہے کہ جس آخری کتاب اور نبوت کا تورات اور انجیل میں وعدہ کیا گیا تھا، وعدہ نہیں بلکہ جس کی بشارت دی گئی تھی اور جس کے لیے یہ اہلِ کتاب سراپا اشتیاق اور ہمہ تن انتظار تھے، لا ریب وہ یہی کتاب اور یہی نبی ہے۔ لیکن یہ لوگ اس شدید اشتیاق اور انتظار کے باوجود آج جو اسے ٹھکرا رہے ہیں تو اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ایمان کی دولت ایمان کے قدر دانوں اور مستحقوں ہی کو ملتی ہے اور اس کے مستحق صرف وہ لوگ قرار پاتے ہیں جو متقی ہوں اور متقی صرف وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے اندر فلاں فلاں بنیادی علامات اور صفات موجود ہوں۔ لیکن ان کا ظاہر ان علامات سے اور باطن ان صفات سے عاری ہے۔ یہ اس امر کا ثبوت ہے کہ ان میں تقویٰ کی روح باقی نہیں رہ گئی ہے۔ اور جب تقویٰ کی روح ان کے اندر سے رخصت ہو چکی ہے تو وہ ہرگز اس امر کے مستحق نہیں رہ گئے ہیں کہ انہیں ایمان کی نعمت عطا کی جائے۔ اس ضمن میں اہلِ تقویٰ کی جو بنیادی علامات اور صفات گنائی گئی ہیں، ان میں سب سے آخری صفت، جسے بند کا مقطع کہنا چاہیے، ایمان بالآخرت کی صفت ہے اور اس کے ذکر و بیان کے لیے جو سب سے مختلف اور ممتاز اسلوب اختیار کیا گیا ہے وہ یہ ہے:

وَبِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ (البقرة: ۴)
اور وہ آخرت پر (بھی) پورا یقین رکھتے ہیں۔

یہ زبان و ادب کا ایک جانا پہچانا اور مانا ہوا اصول ہے کہ کسی بھی کلام کا اسلوب مخاطب کے لحاظ سے متعین کیا جاتا ہے۔ اس لیے یہ ایک قطعی بات ہے کہ قرآن کا یہ جملہ بھی اس سورہ کے مخاطب یہودیوں ہی کو نظر میں رکھ کر فرمایا گیا ہے اور اس کی ساخت متعین کرنے میں اور اس کے الفاظ کا انتخاب کرنے میں جو الفاظ لائے گئے ہیں اور ان کی جو ترتیب رکھی گئی ہے، ان سب کے پس منظر میں یہودی ایمان و عمل کی حقیقی تصویر موجود ہے۔ اس لیے اگر آپ اس پس منظر کو دیکھ لیں تو یہ تصویر آپ سے مخفی نہ رہ جائے گی۔ آپ اچھی طرح جان لیں گے کہ قرآن کے نزدیک یہودی کیسے ”مومن“ تھے؟ اور ان کے ایمان بالآخرت کا کیا حال تھا؟

اس جملے کی ترتیبِ الفاظ میں سب سے اہم اور قابلِ لحاظ چیز تو یہ ہے کہ اس میں ”فعل کے متعلق“ (بِالْآخِرَةِ) کو فعل اور فاعل یا مبتدا سب سے مقدم لایا گیا ہے اور دوسری قابلِ لحاظ چیز یہ ہے کہ فاعل کی ضمیر کو ظاہر کر کے اور اسے فعل سے پہلے لا کر جملہ کو جملہ اسمیہ بنا دیا گیا ہے۔ جہاں تک الفاظ کے انتخاب کا تعلق ہے، اس میں سب سے زیادہ اہمیت يُوقِنُونَ کے لفظ کی ہے۔ ان تینوں باتوں میں سے ہر ایک جس واحد حقیقت کی طرف انگلی اُٹھا کر اشارہ کر رہی ہے، وہ صرف یہ ہے کہ جن لوگوں کو سامنے رکھ کر گفتگو ہو رہی ہے ایمان بالآخرت سے ان کی دوری تقریباً محرومی کی حد تک بڑھی ہوئی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو بِالْآخِرَةِ کے لفظ کو جملے میں سب سے پہلے نہ لایا گیا ہوتا۔ اور اس طرح زور دے کر ایمان بالآخرت کی خصوصی اہمیت کو ہرگز نمایاں نہ کیا گیا ہوتا، اسی طرح جملے کو جملہ فعلیہ رکھنے کے بجائے جملہ اسمیہ بنا کر مفہوم کو مؤکد نہ کر دیا گیا ہوتا، نیز يُوقِنُونَ کا لفظ نہ لایا گیا ہوتا، بلکہ يُؤْمِنُونَ کا وہی عام لفظ استعمال کیا گیا ہوتا جو اس طرح کے مواقع پر استعمال میں آتا رہتا ہے اور خود اس جملے کے قبل کے جملوں میں بھی دو جگہ (يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ) اور (يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ) استعمال کیا گیا ہے۔

ایک اور قرآنی بیان لیجیے۔ اسی سورہ میں چند صفحے آگے چل کر، جہاں ان لوگوں کو براہِ راست خطاب کر کے قرآن پر ایمان لانے کا مطالبہ کیا گیا ہے، انہیں یہ وصیت فرمائی گئی ہے کہ ”ایمان اور خدا پرستی کی راہ طے کرنے کے لیے صبر اور نماز کا زادِ سفر ساتھ لے لو، (وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ) [البقرہ: ۴۵]، مگر اس وصیت کا ذکر و بیان اتنے ہی پر ختم نہیں کر دیا گیا ہے، بلکہ اس کے بعد یہ کہنا بھی ضروری سمجھا گیا کہ ”یقیناً اس نماز کی اقامت ان لوگوں کے سوا دوسروں پر بہت شاق ہوتی ہے جو دل میں اللہ تعالیٰ کا خشوع رکھتے ہیں اور جنہیں اس امر کا یقین ہے کہ ایک دن اپنے رب کے حضور ضرور حاضر ہونا پڑے گا(وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلَّا عَلَى الْخَاشِعِينَ الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُمْ مُّلَاقُوا رَبِّهِمْ) [البقرہ: ۴۵-۴۶]۔ اس اضافے کی ضرورت اور اس کا حقیقی لطف آپ پر اسی وقت واضح ہوگا جب قرآن ہی کی واضح کی ہوئی یہ حقیقتِ واقعہ بھی آپ کے سامنے ہو کہ ”ان یہودیوں نے نماز ضائع کر دی تھی اور اپنی لگام نفس کی خواہشوں کے قبضے میں دے رکھی تھی۔(أَضَاعُوا الصَّلَاةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوَاتِ) [مریم: ۵۹]۔ دونوں آیتوں کو ایک ساتھ رکھ کر دیکھیے تو صاف نظر آئے گا کہ قرآن ان کے ایمان بالآخرت کے دعوے کو صحیح نہیں مانتا۔ وہ یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ یہ یہودی اپنے اندر اعمال کی باز پرس کا کوئی واقعی اندیشہ رکھتے ہیں، ایسا کیوں ہے؟ وہ ان کے ادعائے ایمان کو مہمل کیوں قرار دیتا ہے؟ صرف اس لیے کہ ان کی زندگی کا سارا رویہ آخرت کے منکروں کا سا ہے اور ان کے زبانی دعوے کی صداقت پر ان کا عمل کوئی ایک بھی معتبر شہادت فراہم کر کے نہیں دیتا۔ وہ اگر آخرت کا کوئی اندیشہ رکھتے ہوتے تو نماز ان پر ہرگز شاق نہ ہوتی، وہ اسے یوں ضائع نہ کر چکے ہوتے۔ نماز کی اقامت اگر ایمان بالآخرت کا لازمی ثبوت ہے تو اس کا ضائع کر دینے والا آخرت کا ماننے والا کیسے کہا جا سکتا ہے؟ اور اگر وہ اس کا دعویٰ کرتا ہو تو اس دعوے کو کیا وزن دیا جا سکتا ہے؟

تورات میں تحریف اور آخرت کا تصور

خدا کے ان ”لاڈلوں“ اور جنت کے ”اجارہ داروں“ کی آخرت سے اس عملی بے تعلقی ہی کا تو یہ کرشمہ ہے کہ آج ان کی ”سنسر کی ہوئی“ جو تورات ہمارے سامنے موجود ہے اس میں آخرت کی کوئی واضح تعلیم سرے سے نظر ہی نہیں آتی اور ان کے دستِ تحریف نے نہ جانے کب اس کتابِ الٰہی کے صفحات سے بھی اس اہم ترین اصولِ دین کے نقوش چھیل کر رکھ دیے۔ یہ قابلِ نفرت حرکت انھوں نے یقیناً صرف اس لیے کی کہ یہ نقوش ان کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح چبھتے تھے اور ان کے ذوقِ نفسانیت پر ان کا وجود حد درجہ بار تھا۔ اُنہیں گوارا نہ تھا کہ کوئی چیز اُن کے سکون میں ہلکا سا بھی خلل ڈالنے کا سبب بن سکے۔ اور یہ نقوش جب تک موجود رہتے اس بات کا بہرحال ڈر تھا کہ وقتاً فوقتاً وہ یہ ”جسارت“ کر بیٹھیں گے۔ اس لیے انھوں نے ضروری سمجھا کہ آخرت کی فکر کو اپنے شعور کی گہرائیوں سے نکال باہر کرنے کے ساتھ ساتھ کاغذ کے صفحوں پر سے بھی اسے نابود کر دیں۔ چنانچہ تورات میں جہاں بھی دیکھا احکامِ شریعت کی خلاف ورزی اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی اس پاداش کا تو جگہ جگہ ذکر ہے کہ ”دہشت اور تپِ دق اور بخار کو تم پر مقرر کر دوں گا، جو تمہاری آنکھوں کو چوپٹ کریں گے اور تمہاری جان کو گھلا ڈالیں گے، اور تمہارا بیج بونا فضول ہوگا، کیونکہ تمہارے دشمن اس کی فصل کھائیں گے۔ تم اپنے دشمنوں کے آگے شکست کھاؤ گے... میں تم کو غیر قوموں میں پراگندہ کر دوں گا... تمہارا ملک سونا ہو جائے گا اور تمہارے شہر ویرانہ بن جائیں گے۔“ (احبار، باب ۲۶) وغیرہ۔ لیکن کسی اس طرح کی پاداش کا ذکر ڈھونڈھے سے بھی نہیں ملتا کہ اگر تم نے احکامِ شریعت کی خلاف ورزی کی اور میری نافرمانی پر اتر آئے تو قیامت کے دن میں تمہیں سخت سزا دوں گا اور جہنم کے ناقابلِ تصور عذاب میں ڈال دوں گا۔

ان سب حقائق کو سامنے رکھ کر آپ خود اندازہ کر لیں کہ اس ایمان بالآخرت کی اللہ کے نزدیک کیا وقعت ہوگی جس کا کوئی اثر انسان کی سیرت و کردار پر نہ پڑتا ہو؟ اور ایسے ایمان والے کی واقعی پوزیشن کیا ہے؟ اسے حقیقتاً کیا قرار دیا جائے گا؟ مومن یا کچھ اور؟

 

تعمیر و ترقی کی تدبیریں

ایمان بالآخرت سے تعلق رکھنے والے ان سارے پہلوؤں کو سامنے آ جانے کے بعد آئیے اب یہ معلوم کریں کہ اس کے تعمیری پہلو کیا کیا ہیں؟ وہ کیا تدبیریں ہیں جن کے ذریعے اسے نظری حیثیت سے صحت مند اور عملی حیثیت سے فعال اور مؤثر بنایا جا سکتا ہے؟ کتاب و سنت سے جو اصولی اور اہم تدبیریں سمجھ میں آتی ہیں وہ حسبِ ذیل ہیں:

  1. ایمان بالآخرت کا عملی احتساب
  2. ایمان بالآخرت کی فکری تطہیر
  3. یقین کی کیفیت حاصل کرنے کی پیہم کوشش
  4. فکرِ آخرت کا استحضار
  5. دنیوی لذتوں سے بے رغبتی

ان تدابیر کی بقدرِ ضرورت تفصیلیں یہ ہیں۔

۱. عملی احتساب

ایمان بالآخرت کے عملی احتساب کا مطلب یہ ہے کہ اس کا بے لاگ جائزہ لیا جائے، اس کی واقعی حالت کو جانچا اور پرکھا جائے، اسے تول کر دیکھا جائے کہ اس میں کتنی قوت ہے؟ تعمیر و ترقی کا یہ سب سے پہلا قدم ہے۔ بلا شبہ یہ بہت دور کی ابتدا ہے، مگر جس بڑے مقصد کو حاصل کرنا ہے اس کا تقاضا ہی یہ ہے کہ کوششوں کی ابتدا اتنی ہی دور سے کی جائے۔ اس کے بغیر تعمیری کوششوں میں وہ لگن پیدا ہی نہیں ہو سکتی جس کی ضرورت ہے۔ کیونکہ فطرتاً انسان اپنے سے بہت حسنِ ظن رکھتا ہے، اپنی برائیوں اور خامیاں اسے کم ہی نظر آتی ہیں۔ اس لیے عام حالات میں ایک اچھے مسلمان کو بھی اپنے ایمان کی خامیوں کا بہت ہی مدھم احساس ہوتا ہے۔ حتی کہ جس وقت وہ اپنے کو بڑا گنہ گار اور ضعف الایمانی کہہ رہا ہوتا ہے، اکثر اس وقت بھی اپنے آپ سے بہت کچھ چھپا ہی ہوتا ہے اور اس کی گنہ گاری اور ضعفِ ایمانی کے داغ دھبے فی الواقع اس کی نظروں کے سامنے پوری طرح نمایاں نہیں ہوتے۔ توقع نہیں کی جاسکتی کہ ایسے اونگھتے ہوئے احساس کے ساتھ انسان اپنی ایمانی کیفیت کو ترقی دینے میں ضروری توجہ اور لگن سے کام لے سکے گا۔ اس لیے اس احساس پر سے غنودگی دور کر لینا چاہیے اور اپنی ایمانی حالت کا ممکن حد تک اہتمام کے ساتھ بے لاگ اندازہ کر کے ہی آگے قدم بڑھانا چاہیے۔

یہ اندازہ جس چیز سے ہو سکتا ہے وہ انسان کا اپنا عمل ہے۔ یہی وہ بیرومیٹر ہے جو بتا سکتا ہے کہ اقرارِ آخرت کی تہہ میں آخرت پسندی کی واقعی مقدار کس قدر ہے؟ چنانچہ جن یہودیوں کی داستانِ آخرت فراموشی کا اوپر ابھی تفصیلی تذکرہ گزرا ہے، انہیں اس جرم کا مرتکب ٹھہرانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے علمِ غیب کا حوالہ نہیں دیا ہے بلکہ ان کی زندگی کے عام رویے ہی کو بطورِ گواہ پیش کیا ہے۔ اسی طرح منافقوں کے معاملے کو لیجیے، اللہ جل شانہ نے ان کے منافق ہونے کا اعلان فرماتے ہوئے جس چیز کو ثبوت اور بنائے فیصلہ قرار دیا تھا وہ ان کے اپنے اعمال ہی تھے، نہ کہ کوئی اور چیز۔ قرآن مجید کے یہ ارشادات سنیے:

أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تُتْرَكُوا وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جَاهَدُوا مِنْكُمْ ... الخ (التوبة: ١٦)
کیا تم نے گمان کر رکھا ہے کہ یوں ہی چھوڑ دیے جاؤ گے؟ حالانکہ ابھی تک تو اللہ نے جانا ہی نہیں کہ تم میں سے کون راہِ حق میں جہاد کرنے والے ہیں۔
...
فَلَيَعْلَمَنَّ اللَّهُ الَّذِينَ صَدَقُوا وَلَيَعْلَمَنَّ الْكَاذِبِينَ (العنکبوت: ۳)
”...
پس اللہ ضرور ان لوگوں کو جان کر رہے گا جو (اپنے دعوائے ایمان میں) سچے ہیں اور انہیں بھی جان کر رہے گا جو (اس دعوے میں) جھوٹے ہیں۔

کیا یہ گمان ایک لمحے کے لیے بھی کیا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو فی الواقع ان کے ایمان کا حال معلوم نہ تھا؟ وہ نہیں جانتا تھا کہ کون سچا مومن ہے اور کون جھوٹا، ریاکار اور منافق؟ پھر اس ارشادِ الٰہی کا مطلب کیا ہوا کہ ”اللہ نے جانا ہی نہیں“ یا یہ کہ ”اللہ ضرور جان کر رہے گا“۔ یقیناً اس کا مطلب اس کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتا کہ نفاق کا جو کھوٹ ان کے سینوں میں چھپا ہوا تھا، اللہ تعالیٰ اسے آزمائشوں کی بھٹی میں تپا کر جھاگ کی طرح اوپر اٹھا لانا چاہتا تھا۔ تاکہ نافرمانی عمل کی سند سے یہ بات کھل کر دنیا کے سامنے بھی آ جائے کہ ایمان کے فلاں فلاں مدعی جھوٹے ہیں، وہ دعوتِ ایمانی کے محاذ پر ہوتے ہوئے بھی اس کے دشمن ہیں، اس لیے ان کے ادعائے ایمان کی کوئی قیمت نہیں۔ کیونکہ ان کا عمل ان کے دعوے کے خلاف گواہی دے رہا ہے۔ اور جب تک یہ گواہی اس دعوے کے حق میں نہ ہو جائے اس کا کوئی وزن تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ نہ تو اللہ کے حضور، نہ اس کے پیغمبرؐ کے حضور، نہ عام مسلمانوں کے حضور۔ چنانچہ جب منافقوں کے ایک گروہ نے اپنی بے عملی پر افسوس ظاہر کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا:

وَقُلِ اعْمَلُوا فَسَيَرَى اللَّهُ عَمَلَكُمْ وَرَسُولُهُ وَالْمُؤْمِنُونَ (التوبة: ۱۰۵)
اے نبی! ان سے کہہ دو کہ آئندہ اپنے عمل کا مظاہرہ کرنا، اللہ اور اس کا رسول اور سارے اہلِ ایمان تمہارے عمل کو دیکھیں گے (اور پھر اسی کے مطابق تمہاری حیثیت تسلیم کریں گے)۔

اسی طرح جب ایک جہاد کے موقع پر کچھ منافقوں نے جھوٹے بہانے کر کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عدم شرکت کی اجازت لے لی تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تنبیہ آئی:

لِمَ أَذِنْتَ لَهُمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَتَعْلَمَ الْكَذِبِينَ (التوبہ: ۴۳)
اے پیغمبر! تم نے انہیں کیوں اجازت دے دی؟ (تمہیں رکنا چاہیے تھا) یہاں تک کہ تم پر ان لوگوں کا حال روشن ہو جاتا جو (ایمان کے دعوے میں) سچے ہیں، اور تم جھوٹے مدعیوں کو جان لیتے۔

عملی احتساب کے دو پیمانے: قربانی اور نماز

غرض، جس طرح درخت کو پہچاننے کے لیے اس کے پھل کو دیکھتے ہیں، اسی طرح اپنے ایمان کا واقعی حال جاننے کے لیے اپنے اعمال کو دیکھنا چاہیے۔ ان اعمال کا بے لاگ اور ہمہ گیر احتساب ہی وہ واحد طریقہ ہے جس سے ایک شخص اپنے ایمان بالآخرت کی واقعی حالت کا اندازہ لگا سکتا ہے۔ یوں تو ہر صالح عمل اور اچھا اخلاق ایمانی کیفیت کے لیے کسوٹی ہے اور ضرورت ہے کہ ان میں سے ہر کسوٹی پر اپنے عملی رویے کو کس کر دیکھا جاتا رہے۔ لیکن آپ اس سلسلے میں ایک مختصر اور آسان راستہ بھی اپنا سکتے ہیں۔ یعنی صرف دو چیزیں اس غرض کے لیے منتخب کر لیں تو بھی پوری امید ہے کہ یہ مقصد حاصل ہو رہے گا اور صرف یہی دو آئینے آپ کی ایمانی کیفیت کے ایک ایک خط و خال کا پورا پورا مشاہدہ کرا دیں گے اور ان کے بعد کسی خاص کوشش کی ضرورت باقی نہ رہ جائے گی۔ ان میں سے ایک چیز تو آخرت کے لیے دنیوی مفاد کی قربانی ہے اور دوسری نماز کی اقامت ہے۔ ان دونوں چیزوں کو یہ امتیازی حیثیت ان کی جامعیت اور بنیادی اہمیت کی وجہ سے حاصل ہے۔

دنیوی مفاد کی قربانی کی یہ حیثیت پچھلی بحثوں میں پوری طرح نمایاں ہو چکی ہے۔ آخرت فراموشی اگر دنیا پرستی کا نتیجہ ہے تو صاف بات ہے کہ دنیوی مفاد کی قربانی آخرت پسندی کا ثبوت ہوگی۔ چنانچہ جب کبھی کچھ مسلمانوں نے دین کے صحیح تقاضوں کو پورا کرنے میں کمی دکھائی تو قرآن مجید نے اس ناکامی کی حقیقی علت یہ بتائی کہ یہ لوگ دنیا کی محبت کا شکار ہو گئے، حالانکہ ان کی نگاہ آخرت کے مفاد پر ہونی چاہیے تھی۔ یہ دنیا کو آخرت پر قربان نہ کر سکتے ہی کا نتیجہ ہے کہ یہ لوگ اس طرح منشائے دین کو ٹھکرا بیٹھے۔ مثلاً ایک مرتبہ جہاد کا اعلان ہوا تو کچھ لوگ باہر نکلنے سے کسمسائے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَا لَكُمْ إِذَا قِيلَ لَكُمُ انفِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ أَرَضِيتُمْ بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا مِنَ الْآخِرَةِ (التوبة: ۳۸)
اے ایمان لانے والو! یہ تمہیں کیا ہو گیا کہ جب تم سے اللہ کی راہ میں چل نکلنے کو کہا گیا تو تمہارے پاؤں بوجھل ہو کر زمین سے لگے رہ گئے! کیا تم نے آخرت کے مقابلے میں دنیوی زندگی کو پسند کر لیا ہے؟

یہ جانی مفاد کی بات تھی، مالی مفاد کی بابت بھی اللہ تعالیٰ کا ایک ارشاد سنیے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا ضَرَبْتُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَتَبَيَّنُوا وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ أَلْقَى إِلَيْكُمُ السَّلَامَ لَسْتَ مُؤْمِنًا تَبْتَغُونَ عَرَضَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فَعِنْدَ اللَّهِ مَغَانِمُ كَثِيرَةٌ (النساء: ٩٤)
اے ایمان والو! جب تم اللہ کی راہ میں (جہاد کے لیے) نکلے ہوئے ہو تو تحقیق سے معلوم کر لیا کرو (کہ کون فی الواقع مومن نہیں ہے) اور اس شخص کو، جو (سامنا ہوتے وقت) تمہیں سلام کرے، یہ نہ کہہ بیٹھو کہ ”تو مومن نہیں ہے۔“ (تم ایسا کرتے ہو تو دراصل اس لیے کرتے ہو کہ) تمہارے سامنے دنیوی زندگی کا مفاد ہوتا ہے۔ سو، یاد رکھو کہ اللہ کے پاس بہت زیادہ غنیمتیں موجود ہیں۔

یہی ہدایت تو یہ ہے کہ جو شخص اپنے کو مومن ظاہر کرے، اس پر مسلمان کا اُٹھا ہوا ہاتھ بھی جہاں ہو وہیں کا وہیں رُک جائے، مگر کچھ لوگ اس کا پورا لحاظ نہیں کرتے اور بعض اوقات ایسے لوگوں کو یہ کہہ کر قتل کر ڈالتے ہیں کہ یہ اپنے اظہارِ اسلام میں جھوٹے ہیں، صرف جان بچانے کے لیے اپنے کو مومن ظاہر کر رہے ہیں۔ ان مسلمانوں کا یہ فعل محض جلد بازی اور بے پروائی کا نتیجہ نہیں ہے، بلکہ اس کی تہہ میں دراصل دنیوی مفاد کی محبت اپنا کھیل کھیل رہی ہے۔ یہی محبت ہے جو انہیں اندر سے اکساتی ہے کہ اس شخص کو اگر تم نے مومن تسلیم کر کے چھوڑ دیا تو پھر اس کا مال و اسباب بھی تم پر حرام ہو جائے گا اور تم اسے بطورِ مالِ غنیمت حاصل کرنے سے محروم ہو جاؤ گے اور اگر اس کے اظہارِ اسلام کو جھوٹا قرار دے کر اسے قتل کر دو گے تو یہ سب کچھ تمہاری ملکیت میں آجائے گا۔ اندر یہی جذبہ ہوتا ہے جس کے تحت وہ اپنی تلواریں اس کے خون سے رنگین کر لیتے ہیں۔ اگر ان کی نگاہ آخرت اور اس کے انعامات پر ہوتی تو دنیا کے اس حقیر فائدے پر ہرگز نہ ریجھ پڑتے۔

نماز کو جس وجہ سے یہ ممتاز حیثیت حاصل ہے وہ یہ ہے کہ نماز اگرچہ شریعت کا ایک جزو ہے، مگر اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ پوری شریعت کا مغز اور خلاصہ ہے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ قرآن اس کا تذکرہ کبھی کبھی اس کے قائم مقام کی طرح بھی کرتا دکھائی دیتا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ جو چیز پوری شریعت کا مغز و خلاصہ ہو اور اس کی قائم مقام بن سکنے والی ہو، اس کی کسوٹی پر ایمان بالآخرت کو پرکھ لینا دراصل پوری شریعت ہی پر پرکھ لینے کے ہم معنی ہوگا۔ یہ محض قیاس و استنباط ہی کی بات نہیں ہے، بلکہ اس پر قرآن مجید کی کھلی ہوئی شہادت موجود ہے۔ آخر جب وہ یہ کہتا ہے کہ اللہ کا خشوع اور قیامت کا اندیشہ نہ رکھنے والوں پر نماز بہت شاق ہوتی ہے، تو اس کے اس ارشاد سے کیا اس بات کا بھی صاف اعلان نہیں ہو جاتا کہ نماز، ایمان بالآخرت کا ایک قطعی معیار ہے؟ اور کسوٹیوں پر ایمان بالآخرت کا سکہ چاہے اپنے کھوٹ کو چھپا لے جاتا ہو، مگر اس کسوٹی پر اس کا چھپنا ممکن نہیں؟

غرض، عقلاً اور نقلاً، ہر طرح یہ ایک مضبوط حقیقت ہے کہ یہ دونوں چیزیں ایمان بالآخرت کا صحیح اندازہ بتا سکنے کے لیے بالکل کافی ہیں۔ جو بھی ان سے اپنے عقیدہء آخرت کا حال پوچھنا چاہے گا وہ اسے اتنا ضرور بتا دیں گی جتنے کی اسے ضرورت ہے۔ ”پوچھنے“ کا طریقہ بھی کچھ ٹیڑھا نہیں، بلکہ بہت سادہ اور آسان ہے۔ صبح سے شام تک آپ لازماً متعدد مسائل اور معاملات سے دوچار ہوتے ہوں گے اور ان میں دونوں زندگیوں کے مفادات بالعموم باہم ٹکراتے ہی نظر آتے ہوں گے۔ دنیا اپنی طرف کھینچتی ہوگی اور آخرت اپنی طرف۔ غور کر کے دیکھتے رہیے کہ اس کشاکش میں آپ کے فیصلے کیا ہوا کرتے ہیں؟ کتنے معاملات میں آپ اپنے کو دنیا کے حوالے کر جاتے ہیں اور کتنے میں اس کے مفادات کو آخرت پر قربان کر پاتے ہیں؟ پھر جن معاملات میں آپ دنیوی مفادات کو آخرت پر قربان کر پاتے ہیں وہ کس نوعیت کے ہوتے ہیں؟ بڑی اور اہم نوعیت کے یا خدا نخواستہ چھوٹی اور معمولی نوعیت کے؟ کہیں ایسا تو نہیں ہوتا کہ صرف مچھروں ہی کو چھان پاتے ہوں اور جب اونٹوں کا معاملہ ہوتا ہو تو انہیں نگل جانے کے لیے ”مجبور“ ہو جاتے ہوں؟

اسی طرح اگر آپ اپنی نمازوں سے اپنے عقیدہء آخرت کی کیفیت معلوم کرنا چاہتے ہوں تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ ان کے ظاہر اور باطن دونوں کا جائزہ لیجیے، دیکھیے کہ آپ انہیں کس طرح ادا کیا کرتے ہیں؟ ان میں وقت اور جماعت کی پابندی کتنی ہوتی ہے؟ سکون اور وقار کس مقدار میں میسر ہوا کرتی ہے؟ دل کی حاضری کا کیا عالم ہوتا ہے؟ باطن میں اللہ تعالیٰ کے لیے...

 

اخلاص اور خشوع کی کیا کیفیت رہا کرتی ہے؟ دو لفظوں میں یہ کہ آپ نمازیں پڑھتے ہیں یا قائم کرتے ہیں؟ اور اگر قائم کرتے ہیں تو کس حد تک؟

عملی احتساب اور خود آگاہی

یہ ہیں مختصراً وہ طریقے جن سے اگر ہم اہتمام کے ساتھ کام لے سکیں تو صرف یہی دونوں چیزیں ہمیں ٹھیک ٹھیک بتا دیں گی کہ آخرت سے ہمارا فی الواقع کیا اور کتنا تعلق ہے؟ ویسے آپ اس جائزے کو جتنا ہی زیادہ پھیلائیں گے آپ کی واقعی ایمانی کیفیت آپ کے سامنے اتنی ہی زیادہ بے حجاب ہوتی جائے گی اور مومن کی شان یہی ہے کہ خود آگاہی کے کسی ذریعے کو ہاتھ سے جانے نہ دے اور اپنی ایمانی اور عملی حالت کی طرف سے کبھی مطمئن نہ ہو رہا ہو۔ اس لیے بہتر بہر حال یہی ہوگا کہ وہ ہر ممکن طریقے سے اپنا حالِ دروں معلوم کرنے کے لیے برابر کوشاں رہے اور جہاں تک ہو سکے ایک ایک عمل کے آئینے میں اپنی ایمانی تصویر کے خط و خال دیکھتا رہے۔

یاد رکھنا چاہیے کہ اس عملی احتساب میں دو باتیں بہت ضروری ہیں: ایک تو جرات اور دوسری دیدہ وری۔ ان کے بغیر مقصد تک رسائی محال ہے۔ کیوں کہ یہ ایک سخت نا خوش آئند فریضہ ہے، جس کی تلخ کامیوں کو انسان کا نفس ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرنے کے لیے کبھی تیار نہیں ہوتا۔ اور اس کی منشاء کے علی الرغم اگر کوئی یہ اقدام کر ہی بیٹھتا ہے تو وہ اسے ناکام بنا دینے میں اپنا پورا پورا زور صرف کر ڈالتا ہے اور ایسی چالیں چلتا ہے کہ وہ اپنے کو کسی طرح ”دیکھنے“ نہ پائے۔ یعنی جب وہ دیکھتا ہے کہ اس کے ایمانی احساس نے اسے اپنے اعمال کے احتساب کی طرف متوجہ کر ہی ڈالا ہے تو وہ آگے بڑھ کر ان پر خوش نمائی کی نقاب ڈال دیتا ہے تاکہ اس کی نگاہیں فریب کھا جائیں اور وہ اپنے کو ”بہت خوب“ کا سرٹیفکیٹ دے کر مطمئن ہو جائے۔ یہ کوئی خیالی اندیشہ نہیں ہے بلکہ ایک حقیقی خطرہ ہے اور انسانی نفسیات کے مسلمات میں سے ہے، جس کی تصدیق ہر شخص اپنے ذاتی تجربے سے جب چاہے کر سکتا ہے۔ آخر ہم میں ایسے خوش بخت کتنے ہوں گے جو اپنی عدالت میں خود اپنے کو بھی لا کھڑا کرتے ہوں اور پھر فیصلہ بھی بے لاگ انصاف کے ساتھ دے پاتے ہوں؟ عموماً دیکھا تو یہی جاتا ہے کہ دوسروں کا بخیہ ادھیڑنے میں ہم جتنے تیز دست ہوتے ہیں، اپنے بارے میں اتنے ہی بھولے اور نرم گیر بن جاتے ہیں۔

اس لیے نہایت ضروری ہے کہ اپنے اعمال کا احتساب کرتے وقت ہم اپنی نگاہوں کو ان کی ظاہری سطح ہی پر نہ روک دیں، بلکہ آگے لے جائیں اور گہرائی میں اتار دیں اور خوب غور سے دیکھ لیں کہ دوسری زندگی کے نام پر ہم جو نیکیاں کرتے ہیں کیا فی الواقع بھی وہ اسی کے لیے ہوتی ہیں؟ بہت ممکن ہے کہ ظاہر کا حسن حقیقت میں ایک فریب نکلے اور سطح پر اپنی آخرت پسندی کے بارے میں ہمیں جو اطمینان محسوس ہوا تھا، نیچے پہنچنے کے بعد وہ بے اطمینانی سے بدل جائے۔ بہ اول نگاہ ہم نے دیکھا تو یہ ہو کہ ہماری قامت پر تشرع اور دین داری کی خوب صورت قبا پڑی ہوئی ہے، مگر غور کرنے سے اندر ریا اور نمائش کے نفرت انگیز داغ نظر آئیں۔ ہماری سرگرمیاں دین حق کی اشاعت و اقامت کے لیے وقف تو ہوں مگر جانچ پرکھ کے وقت ان کے پیچھے رضائے الہی اور فلاح آخرت کے حصول کا خالص جذبہ نہ ملے۔ اسلامی نظام حیات کا نفاذ اور دستور بندگی کا غلبہ مطلوب تو ہو مگر تحقیق کے بعد اصلاً مطلوب یہ ثابت نہ ہو کہ یہی وہ ایک شاہ راہ ہے جو دوسری زندگی کی ابدی نعمتوں تک ہمیں پہنچانے والی ہے۔ غرض نیکی اور تقویٰ کے جو کام کیے گئے ہوں وہ دیکھنے میں تو اس تصور کے تحت کیے گئے ہوں کہ کل خدا کے سامنے کھڑا ہونا ہے، مگر اندرونی احتساب انکشاف کرے کہ یہ تو دراصل اپنا نفس یا اپنا ملک یا اپنی قوم تھی جس کے سامنے کھڑے ہونے کے خیال نے یہ نذرِ عقیدت فراہم کرائی ہے۔

لہذا ایمانی مصلحت اور دینی مفاد کا یہ ایک ناقابلِ انکار مطالبہ ہے کہ اعمال کی صرف ظاہری پڑتال کو کافی نہ سمجھ لیا جائے، بلکہ ان کے باطن کو بھی اچھی طرح ٹٹولا جائے اور معلوم کیا جائے کہ ان کا حقیقی محرک کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور آخرت کی بہبودی یا کچھ اور؟ نمازوں کی درازی، روزوں کی کثرت، زکوٰۃ و صدقات کی فراوانی خدا نخواستہ کہیں اہلِ دنیا کی داد و تحسین کی خاطر تو نہیں ہے؟ دین حق کی اشاعت و اقامت کی جدوجہد میں کہیں کوئی آرزوئے ناموری، کوئی خواہشِ اقتدار، کوئی جذبۂ مفاخرت تو چھپا ہوا نہیں ہے؟ اسلامی نظام کا غلبہ و نفاذ کہیں اصلاً اس لیے تو مطلوب نہیں ہے کہ اس سے دنیا کی اُلجھی ہوئی سیاسی اور معاشی گتھیاں سلجھ جائیں گی، یا وقت کے غالب نظاموں کی صف میں اس کے آجانے سے ہمارا قومی سرِ افتخار اونچا ہو جائے گا؟ غرض، اس طرح کی جتنی ذہنی بیماریاں ایمان کو لاحق ہو سکتی ہیں، ان میں سے ایک ایک کے سلسلے میں جانچ کر لینا ضروری ہے۔ ورنہ ایمان کا احتساب ناتمام، بلکہ ناکام ہی رہ جائے گا۔ اب آپ خود اندازہ کر سکتے ہیں
(
۱۰۳ / 2)
(
۱۰۴ / 3)
کہ یہ کام کتنا مشکل ہے؟ اور اس کے لیے خود احتسابی کی کیسی بڑی جرات اور دور نگاہی لازماً درکار ہے؟ بالخصوص اپنے جذبات کا ٹھیک ٹھیک تجزیہ کر لینا اور اپنے محرکاتِ اعمال کی گہرائیوں تک پہنچ پانا کس شدید فکر اور مجاہدے کا طالب ہے؟ لیکن جسے اپنا ایمان عزیز ہو اسے یہ مجاہدہ کرنا ہی پڑے گا۔

(۲) فکری تطہیر

یہ عملی احتساب ایمان بالآخرت میں جن خامیوں کی نشان دہی کرے، انھیں گن گن کر نگاہوں میں رکھ لیجیے، پھر ان سے اسے پاک کرنے کی کوشش کیجیے۔ اس کوشش کی کامیابی اس بات پر موقوف ہے کہ ان اسباب کو دور کر دیا جائے جن کی یہ خامیاں برگ و بار ہیں۔ اس لیے قدرتی طور پر اس کوشش کا پہلا قدم یہ ہے کہ ان میں سے ایک ایک سبب کا تعین کیا جائے اور پھر اسے دور کرنے کا صحیح طریقہ معلوم کیا جائے۔

اس سلسلے میں منطقی ترتیب یہ ہوگی کہ ان میں سے پہلے ان اسباب کو لیا جائے جن کا تعلق فکر و نظر کی خرابیوں سے ہو۔ یہ اسباب دو ہو سکتے ہیں:

1.      قانونِ جزا اور شفاعت کے تصور کی اصلاح:

o       ایک تو وہی مشہور سبب جس کا گزشتہ اوراق میں تفصیلی تذکرہ آچکا ہے۔ یعنی یہ کہ الٰہی قانونِ جزا کے بارے میں انسان کا ذہن ہی صاف نہ ہو اور اس کی فکر و نظر کسی ”مصالحتی فارمولے“ سے بیعت کر چکی ہو۔

2.      صفتِ رحمت کے غالی تصور کی اصلاح:

o       دوسرا یہ کہ اللہ تعالیٰ کی صفتِ رحمت کا ایسا غالی تصور ذہن پر مسلط کر لیا گیا ہو جس کے بعد محاسبۂ اعمال کا خوف بھیگی ہوئی بارود بن جاتا ہو۔

یہ دونوں سبب جتنے پرانے اور مشہور ہیں اتنے ہی خطرناک بھی ہیں۔ اس لیے اُن کی سراغ رسی میں کسی سہل انگاری کو ذرا بھی راہ نہ دینا چاہیے۔ جس طرح حکومت کی پولیس دشمن کے جاسوسوں کی جامہ تلاشی لیتی ہے اور ان کے ایک ایک تار کو ادھیڑ کر دیکھتی ہے کہ کہیں کسی گوشے میں حکومت کے خلاف کوئی راز تو موجود نہیں ہے، بعینہٖ اسی طرح پوری دیدہ ریزی کے ساتھ اپنے قلب و دماغ کے انتہائی گہرے گوشوں تک پہنچنا چاہیے اور پہنچ کر دیکھنا چاہیے کہ اس مملکتِ ایمان
(
۱۰۴ / 3)
(
۱۰۵ / 4)
میں کہیں نفس اور شیطان کے جاسوس چھپے ہوئے اپنی کارستانیاں تو نہیں کر رہے ہیں؟ اللہ تعالیٰ کی رحمانیت اور رحیمیت کے کسی من مانے تصور نے گناہوں کی طرف سے کچھ بے پروا تو نہیں بنا دیا ہے؟ سَيُغْفَرُ لَنَا اور لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ جیسے کسی نظریے نے بخشائش کی جھوٹی امیدیں تو نہیں دلا رکھی ہیں؟ نفس نے دنیا اور آخرت کے درمیان کچھ اس طرح کی مصالحت تو نہیں کر رکھی ہے جس طرح کی مصالحتیں اس نے پچھلی قوموں کے لیے بارہا کرائی ہیں؟

قانونِ جزا اور شفاعت کے تصور کی اصلاح

جہاں تک پہلے سبب کا تعلق ہے، وہ ذہنوں میں بالعموم عقیدۂ شفاعت کی راہ سے گھسا کرتا ہے۔ بلاشبہ شفاعت کا عقیدہ ایک برحق عقیدہ ہے اور اس پر کتاب و سنت کی صریح دلیلیں موجود ہیں۔ لیکن ایسے واقعات کی بھی کمی نہیں ہے کہ لوگوں نے ایک حق بات سے باطل خیالات جوڑ لیے ہوں اور تریاق کو زہر بنا کر رکھ دیا ہو۔ چنانچہ پوری تاریخِ ادیان دیکھ جائیے، اس کا ایک باب بھی ایسا نہ ملے گا، خواہ وہ ماضی کا ہو یا حال کا، جس میں عقیدہ شفاعت کے ساتھ بھی یہی سلوک نہ کیا گیا ہو اور اس کی تعبیر سَيُغْفَرُ لَنَا سے نہ کی گئی ہو۔ اس لیے اس سبب کے ازالے کی بنیادی تدبیر یہی ہو سکتی ہے کہ ذہن کو اس عقیدے کے صحیح قرآنی تصور سے آشنا کیا جائے۔ ورنہ جب بھی اس عقیدے میں بے اعتدالی ہوگی، ایمان بالآخرت کو کسی نہ کسی مصالحتی فارمولے کی دیمک ضرور آ لگے گی۔ انسان کا نفس اپنے مطالبات منوانے کے لیے زور لگائے گا، آخرت کی باز پرس کا خوف ان کو منظور کرنے سے روکے گا لیکن اللہ تعالیٰ کے مقرب بندوں کی شفاعت کا من مانا تصور اس خوف کی باگیں کھینچ لے گا۔ اس صورتِ حال سے محفوظ رہنا اسی وقت ممکن ہے جب کہ عقیدہ شفاعت انسان کی اپنی فکری اَپَج اور خواہش (امانی) کے زیر اثر نہ ہو، بلکہ خالص اور بے آمیز ہو، ٹھیک ٹھیک وہی ہو جو قرآن اور صاحبِ قرآن سے ثابت ہے۔

یہ بات قابلِ اطمینان حد تک حاصل نہیں ہو سکتی جب تک کہ ذہن میں تین باتیں اچھی طرح صاف اور واضح نہ ہوں:

1.      شفاعت کے حدود و ضوابط

2.      جزا و سزا کا الٰہی قانون

3.      قانونِ جزا اور شفاعت کا باہمی تعلق

ان تینوں امور کی مختصر وضاحت، کتاب و سنت کی روشنی میں یہ ہے:

(۱) شفاعت کے حدود و ضوابط

·        (الف) اذنِ الٰہی: شفاعت صرف وہی کر سکے گا جس کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے اس کا اذن مل چکا ہو:

مَنْ ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَهٗٓ اِلَّا بِاِذْنِهٖ (البقرہ: ۲۵۵)
اور کون ہے جو اس کے حضور اس کے اذن کے بغیر شفاعت کر سکے۔

·        (ب) مخصوص افراد کے لیے اجازت: کوئی بھی شفاعت کرنے والا صرف اسی شخص کے بارے میں شفاعت کر سکے گا جس کے لیے اسے اللہ تعالیٰ نے اجازت مرحمت فرما دی ہو:

وَلَا تَنْفَعُ الشَّفَاعَةُ عِنْدَهٗٓ اِلَّا لِمَنْ اَذِنَ لَهٗ (سبا: ۲۳)
اور اللہ کی جناب میں شفاعت کسی کے کام نہ آئے گی، سوا اس شخص کے جس کے لیے (شفاعت کرنے کا) اس نے اذن دے دیا ہو۔

o       مسلم شریف کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی والدہ کے حق میں دعائے مغفرت کی اجازت چاہی، مگر اللہ تعالیٰ نے یہ اجازت نہ دی۔ یہ واقعہ اگرچہ دنیا ہی میں پیش آیا تھا، مگر اس کی نوعیت صاف بتا رہی ہے کہ اس کا اصل تعلق آخرت اور اخروی زندگی ہی سے تھا۔ اس لیے یہ اس بات کا ایک واقعاتی ثبوت ہے کہ کوئی بڑے سے بڑا محبوب و مقرب بندہ بھی اپنی خواہش پر کسی کی مغفرت کی درخواست بھی نہ کر سکے گا، بخشوا دینے کی بات تو الگ رہی۔ یاد رکھیے کہ جس درخواست کو رد کر دیا گیا تھا وہ دعائے مغفرت کرنے کی اجازت کی درخواست تھی، اس دعا کو قبول کر لینے کی درخواست نہ تھی۔

·        (ج) درست بات کہنا: شفاعت کرنے والا شفاعت کرتے وقت صرف وہی باتیں کہے گا جو درست اور صحیح ہوں:

لَا يَتَكَلَّمُوْنَ اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَهُ الرَّحْمٰنُ وَ قَالَ صَوَابًا (النبا: ۳۸)
”(
اس دن) صرف وہی زبان کھول سکے گا جسے رحمن نے اجازت دے دی ہو اور جو بات بھی) ٹھیک کہے۔

یہ ہیں وہ حدیں جن سے کوئی بھی شفاعت آزاد نہ ہوگی، بلکہ ہر شفاعت لازماً انہی کے اندر رہے گی۔ پھر یہ نکتہ بھی سامنے رہے کہ ان حدود کے اندر بھی جو شفاعت ہوگی وہ لازماً
(
۱۰۶ / 5)
(
۱۰۷ / 6)
قبول ہی کر لی جائے گی، اس طرح کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی صریح وعدہ نہیں فرمایا گیا ہے۔ (اگرچہ توقع یہی ہے اور یہ توقع خود قرآن ہی کے اندازِ بیان سے قائم ہوتی ہے۔)

(۲) جزا اور سزا کا الٰہی قانون

یہ بات کہ اللہ تعالیٰ کا قانونِ جزا کیا ہے اور لوگوں کی مغفرت یا عدم مغفرت کن بنیادوں پر ہوگی؟ قرآن اور حدیث میں روزِ روشن کی طرح واضح کر دی گئی ہے، اور اس کی اہمیت کا حق تھا کہ ایسا ہی کیا جاتا۔ کیوں کہ وہ دین کے بنیادی اصولوں میں سے ایک ہے اور اصولوں کے بیان کرنے میں کسی طرح کا اجمال یا ابہام باقی نہیں رہنے دیا جاتا۔ قرآن نے اس اصولِ دین کے سلسلے میں جو وضاحتیں کی ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے:

·        (الف) تخلیق کا مقصد آزمائش: نوعِ انسانی جس غرض سے پیدا کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اس کے ایک ایک فرد کو آزما کر دیکھا جائے کہ وہ دنیا میں کیا کرتا ہے اور ان میں سے کون نیکوکار ثابت ہوتا ہے؟

خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيٰوةَ لِيَبْلُوَكُمْ اَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا (الملك: ۲)

·        (ب) یومِ حساب کا وقوع: ایک دن ایسا ضرور آئے گا جس میں اس غرض و غایت کی تکمیل ہوگی۔ اس دن تمام انسانوں کو دوبارہ زندہ کر کے اکٹھا کیا جائے گا۔

لَيَجْمَعَنَّكُمْ اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ لَا رَيْبَ فِيْهِ (الانعام: ۱۲)
اس وقت ہر شخص کی پوری دنیوی زندگی کا ریکارڈ سامنے لایا جائے گا، اور بتا دیا جائے گا کہ کون اس آزمائش میں پورا اترا، اس کے اعمال اچھے رہے اور اس نے اپنی غایتِ تخلیق کو پورا کر دکھایا۔
...
ثُمَّ لَتُنَبَّؤُنَّ بِمَا عَمِلْتُمْ (التغابن: ۷)

·        (ج) ہر عمل کا حساب: انسان کا کوئی چھوٹے سے چھوٹا عمل حتیٰ کہ اس کے دل کے اندر چھپی ہوئی کوئی ایک بات بھی ایسی نہ ہوگی جو اس جانچ پڑتال میں عدل کی ترازو پر نہ رکھی جائے۔

وَاِنْ تُبْدُوْا مَا فِيْٓ اَنْفُسِكُمْ اَوْ تُخْفُوْهُ يُحَاسِبْكُمْ بِهِ اللّٰهُ (البقرہ: ۲۸۴)

·        (د) مکمل اور منصفانہ بدلہ: اس جانچ پڑتال کے بعد ہر شخص کو عمل کا ٹھیک ٹھیک بدلہ دیا جائے گا۔

لِتُجْزٰى كُلُّ نَفْسٍۢ بِمَا تَسْعٰى (طٰہٰ: ۱۵)
جس کے اعمال باوزن نکلیں گے وہ راحت بھری زندگی پائے گا اور جس کے اعمال بے وزن نکلیں گے وہ دُکھ بھری زندگی پائے گا۔
فَاَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِيْنُهٗۙ فَهُوَ فِيْ عِيْشَةٍ رَّاضِيَةٍ وَاَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِيْنُهٗۙ فَاُمُّهٗ هَاوِيَةٌ (القارعة: ۶-۹)
(
۱۰۷ / 6)
(
۱۰۸ / 7)
اس باب میں عدل و انصاف کا کوئی تقاضا بھی ایسا نہ ہوگا جو پورا نہ کیا جائے۔ نیکی کا کوئی ذرہ اور بدی کا کوئی شمہ نظر انداز نہ ہونے پائے گا۔
فَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَّرَهٗ وَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَّرَهٗ (الزلزال: ۷-۸)

·        (ہ) سزا سے فرار ناممکن: جو شخص جس سزا کا مستوجب ٹھہرایا جائے گا اس سے اس کا بچنا ممکن نہ ہوگا۔ وہ تدبیریں اور کوششیں، جو دنیا میں ہمیں اپنی غلط کاریوں کے بُرے نتائج سے بچا دیا کرتی ہیں، ان میں سے کوئی بھی اس دن کام نہ دے سکے گی۔

o       نہ تو ایسا ہوگا کہ ایک شخص کے گناہوں کا بوجھ کسی دوسرے پر ڈال دیا جائے: وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى (بنی اسرائیل: ۱۵)

o       نہ یہ ہوگا کہ کوئی عزیز یا دوست اس سزا کو کچھ بٹالے: لَا تَجْزِيْ نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ شَيْـًٔا (البقرہ: ۴۸)

o       نہ زرِ فدیہ دے کر گردن چھڑائی جا سکے گی اور نہ محبت یا قرابت کا کوئی رشتہ ناطہ کام آ سکے گا: ... مِنْ قَبْلِ اَنْ يَّاْتِيَ يَوْمٌ لَّا بَيْعٌ فِيْهِ وَلَا خُلَّةٌ وَّلَا شَفَاعَةٌ (البقرہ: ۲۵۴)

(۳) قانونِ جزا اور عقیدہ شفاعت کا باہمی تعلق

قانونِ جزا اور عقیدہ شفاعت کے باہمی تعلق کو جو چیز متعین کرتی ہے وہ یہ اصولی نکتہ ہے کہ جزا کے اعمال کا قانون اور عقیدہ دین کے بنیادی اصولوں میں سے ایک ہے، جب کہ شفاعت دین کے فروعی مسائل و تعلیمات میں سے ہے۔ دونوں چیزوں کی حیثیتوں کا یہ فرق صاف بتا رہا ہے کہ ان دونوں میں تعلق بالاتر اور ماتحت ہی کا نہیں، بلکہ متبوع اور تابع کا، یا اصل اور فروع کا ہے۔ دوسرے لفظوں میں عقیدہ شفاعت کی کوئی مستقل اور آزاد حیثیت نہیں ہے بلکہ وہ بہر حال قانونِ جزا کے تحت ہے۔

ان تینوں امور کے واضح ہو جانے کے بعد شفاعت کا قرآنی مفہوم اور اس کے عمل و اثر کا دائرہ سب کچھ روشنی میں آجاتا ہے۔ شفاعت کے جو حدود و ضوابط ابھی آپ نے پڑھے ہیں ان کے اندر گھری ہوئی شفاعت کے بارے میں اس کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے کہ وہ دراصل عفو و مغفرت کی دعا ہو گی جو سب کچھ جاننے والے اور ساری طاقتوں کے مالک شہنشاہِ کائنات کے حضور اس کے بعض غلام کچھ دوسرے غلاموں کے حق میں کریں گے اور اس وقت کریں گے جب
(
۱۰۸ / 7)
(
۱۰۹ / 8)
خود اسی کی کھلی ہوئی اجازت نے انھیں زبان کھولنے کا یارا دے دیا ہو۔ اس دعا و التجا میں وہ ان کی کوئی وکالت نہیں کریں گے، ان کے نیکو کار ہونے کی کوئی گواہی نہیں دیں گے، ان کے مستحقِ نجات ہونے کی کوئی دستاویز نہیں پیش کریں گے۔ کیوں کہ جس کے سامنے وہ عرض گزار ہوں گے اس کی نگاہوں سے کوئی بات بھی چھپی ہوئی نہ ہوگی۔ اس کے برعکس ان شفاعت کرنے والوں کا حال یہ ہے کہ ان کے پاس حقیقتِ واقعی کا کوئی علم نہ ہوگا، انھیں قطعیت سے کچھ معلوم نہ ہوگا کہ جس کی شفاعت وہ کر رہے ہیں، اس کے ایمان و عمل کا دنیا میں فی الواقع کیا حال رہا ہے؟ جب اس کی، جس کے حضور یہ شفاعت کی جا رہی ہو، اور ان کی، جو یہ شفاعت کر رہے ہوں، دونوں کی حقیقت آگاہی میں یہ صفر اور سنکھ مہا سنکھ کا فرق ہو تو ظاہر ہے کہ ان کی طرف سے کسی وکالت یا گواہی کا سوال ہی نہیں پیدا ہو سکتا۔ پھر وہ قادرِ مطلق ہے، حاکمِ لاشریک ہے اور یہ اس کے مقابلے میں مجبورِ محض ہیں۔ اس لیے اس کے فیصلوں پر ان کی کسی اثر اندازی کا بھی کوئی امکان نہیں۔ اگر یہ سب مانی ہوئی حقیقتیں ہیں، جیسا کہ واقعہ ہے، تو اس بات کو بھی ایک حقیقت ہی کہا جائے گا کہ جو شفاعت ان حدود و ضوابط کے اندر ہوگی، وہ دعا و التجا اور عرض و معروض سے ذرہ برابر بھی مختلف کوئی چیز نہ ہوگی۔

اسی طرح قانونِ جزا کی جو منصوص وضاحت آپ کے سامنے آئی ہے، نیز اس قانون کا اور عقیدہ شفاعت کا جو باہمی تعلق اوپر واضح کیا گیا ہے، یہ دونوں چیزیں اس بات کا قطعی فیصلہ کر دیتی ہیں کہ شفاعت کا کوئی ایسا مفہوم ہرگز نہیں لیا جا سکتا جو قانونِ جزا کو اور اس کے تقاضوں کو کسی پہلو سے بھی متاثر کر دے، اسے معطل یا متغیر بنا کر رکھ دینا تو دور کی بات ہے۔ کیوں کہ یہ دین کے اصول و مبادی میں سے ہے اور وہ اس کے فروع میں سے ہے اور آج تک اس بارے میں دو رائیں نہیں ہو سکی ہیں کہ کسی فروعی قسم کے عقیدے کا کوئی ایسا مفہوم ہرگز نہیں لیا جا سکتا جو دین کے کسی بنیادی اصول اور عقیدے سے جا ٹکرائے اور اس کی غرض و غایت کی جڑیں ہلا کر رکھ دے۔ فرع بہر حال فرع ہی ہوتی ہے اور اس کی حیثیت یہی ہے کہ وہ اصل کی تابع رہے۔ اصل کبھی فرع کی تابع نہیں ہوتی۔ اس کی حدیں یہ نہیں متعین کرتیں، بلکہ وہی ہے جو اس کی حدیں متعین اور محدود کرتی ہے۔

ان وضاحتوں میں سے اگر کسی جزو کی تردید نہیں کی جا سکتی، جیسا کہ یقین ہے، تو ماننا
(
۱۰۹ / 8)
(
۱۱۰ / 9)
پڑے گا کہ دراصل شفاعت بھی قانونِ جزا ہی کی ایک دفعہ ہے اور اس کی مجموعی اسپرٹ ہی کے تحت وضع کی گئی ہے۔ اس دفعہ کے تحت وہ لوگ بخشے جائیں گے جو اللہ تعالیٰ کے مقرر کیے ہوئے ضابطۂ مغفرت کے تحت بخشائش کے مستحق قرار پانے والوں کی آخری صف میں ہوں گے۔ ان کا حال کچھ رعایتی پاس ہونے والوں کا سا ہوگا۔ ان کے اس رعایتی پاس ہونے کا فیصلہ کسی شفاعت کے بعد اور اس کی وجہ سے نہیں ہوگا، بلکہ حاکم علی الاطلاق یہ فیصلہ پہلے ہی کر چکا ہوگا اور استحقاقِ مغفرت کے سلسلے میں اپنے ہی طے کیے ہوئے اصولوں کی بنا پر کر چکا ہوگا۔ البتہ اس فیصلے کا اعلان و نفاذ وہ اپنے مقرب بندوں کی شفاعت پر موقوف رکھے گا۔ پھر جب وہ ان سے فرمائے گا کہ فلاں فلاں اشخاص کے بارے میں عفو و مغفرت کی گزارشیں کر سکتے ہو اور وہ اس اذنِ سلطانی کے مطابق اپنی التجائیں اس کی بارگاہ میں پیش کریں گے، تب وہ انہیں منظور فرماتے ہوئے اپنے فیصلے کا اظہار کر دے گا اور اپنے رحم و کرم کے ان منتظر بندوں کو، جن کے حق میں شفاعت کی اس نے خود اجازت دی ہوگی، مغفرت کا پروانہ صادر فرما دے گا۔ شفاعت کی یہ نوعیت اور اس کی یہ پوری صورت حال سامنے رکھتے ہوئے تو یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ اس شفاعت کا اصل مقصد کچھ لوگوں کو مغفرت کا پروانہ مل جانا نہیں ہے، بلکہ حشر کے بھرے میدان میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے ان مقرب بندوں کا اعزاز و اکرام ہے جنھوں نے یہ شفاعت کی ہوگی، یا یوں کہیے کہ جن کو یہ شفاعت کرنے کا اس نے اذن دیا ہوگا۔

یہ ہے اسلام میں شفاعت کا صحیح تصور۔ جیسا کہ بتایا جا چکا، یہی وہ چیز ہے جس کو اپنا کر ایمان بالآخرت کی خامیوں کے زیرِ بحث سبب کا ازالہ کیا جا سکتا ہے۔ اس لیے اگر عقیدۂ آخرت میں مصالحتی فارمولوں کا کوئی روگ لگا ہوا ہو تو اس کا اصل علاج یہی ہے کہ شفاعت کے اس صحیح تصور اور واقعی مفہوم کو ذہن میں اچھی طرح بٹھا لیا جائے اور پھر اس بات کا پورا لحاظ رکھا جائے کہ نفس اور شیطان اپنی کسی چال سے اس میں رخنے نہ ڈال سکیں۔ اس فکری محاذ پر اگر انسان کامیاب رہا اور بے جا خوش گمانی یا فریبِ نفس کے حملوں کو پسپا کرتا رہا، تو ایمانی خرابی کا یہ سبب اس کے اندر جگہ نہ پا سکے گا اور اگر پہلے سے جگہ پا چکا ہے تو اسے یہ جگہ چھوڑ دینی پڑے گی۔

عقیدۂ شفاعت کی حفاظت کی تدابیر

لیکن کسی خطرناک دشمن سے بچاؤ کے لیے صرف یہی کافی نہیں ہے کہ بس راجدھانی کو
(
۱۱۰ / 9)
(
۱۱۱ / 10)
مسلح اور مضبوط بنا دیا جائے، بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ سرحدوں کو حفاظتی قلعہ بندیوں سے گھیر دیا جائے، جن پر سے ہوشیار دیدبان ہر لمحہ یہ دیکھتے رہیں کہ کسی طرف سے غنیم کی نقل و حرکت تو نہیں ہو رہی ہے۔ عقیدۂ شفاعت کو بھی اگر بے اعتدالی اور ناراستی سے پوری طرح محفوظ رکھنا ہو تو ضروری ہے کہ اس بنیادی تدبیر کے علاوہ جو اور تدبیریں حفاظتی نوعیت کی ہوں، ان سے بھی غفلت نہ برتی جائے۔ یہ تدبیریں تین ہیں:

1.      صفتِ عدل کا صحیح تصور: ایک تو یہ کہ اللہ تعالیٰ کی صفتِ عدل کے صحیح تصور کو ذہن میں بار بار تازہ کیا جاتا رہے۔ کیوں کہ شفاعت کا عقیدہ خرابی قبول کرنے کے لیے تیار ہی اس وقت ہوتا ہے جب اس صفت کا صحیح مفہوم اور اس کے لازمی تقاضے دھندلکے میں جا پڑے ہوتے ہیں۔ اس صفت کے یہ بالکل ابتدائی تقاضے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فردِ انسانی سے براہِ راست معاملہ ہو، وہ سب کی سنتا ہو، اس کے یہاں مغفرت کا قانون ایک ہو، اور سب کے لیے ہو اور وہ آخرت میں ہر ایک کے ساتھ وہی برتاؤ کرے جس کا وہ اپنے ایمان و عمل کی بنا پر مستحق ہو۔ لیکن یہ تقاضے جب کسی شخص کی نظروں میں دھندلے پڑ جاتے ہیں تو اس کی فکر و نظر کی باتوں پر دو چیزیں قبضہ کر لیتی ہیں: ایک تو اس کی خواہشِ نفس اور دوسری بزرگ ہستیوں کی غالی عقیدت۔ یہ دونوں چیزیں اسے کھینچ کر ایک ایسے مقام پر پہنچا دیتی ہیں جہاں اسے دکھائی دینے لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بھی ایک بڑا بادشاہ ہے اور دنیا کے چھوٹے بادشاہوں کی طرح وہ بھی اپنے بہت سے درباری رکھتا ہے جن کی خوشامدوں کو پسند کرتا ہے اور صرف انہی کی باتوں کو سنتا ہے۔ رعیت کے بارے میں عمل کے استحقاقات کی بنیاد پر فیصلے نہیں کیا کرتا، بلکہ انہی درباریوں کی من مانی سفارشوں پر منظوری کے دستخط کر دیا کرتا ہے۔ اس لیے جو شخص بھی اپنی فلاح چاہتا ہو اس کے لیے حصولِ مراد کی شکل صرف یہی ہے کہ خدا کے ان منظورِ نظر درباریوں کو خوش رکھے، تاکہ وہ جو مانگ رہا ہو اسے وہ اس کی بارگاہ سے دلا دیں۔ ورنہ کوئی اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور رضا جوئی میں بہ طور خود چاہے کتنی ہی جاں فشانیاں کیوں نہ دکھاتا رہے، اگر اسے ان کی سفارش میسر نہیں تو اس کی کوئی پوچھ نہیں۔ اس اندازِ فکر میں خواہ کتنی ہی دل فریبیاں کیوں نہ ہوں، مگر اس کی تہہ میں یہ بھیانک گمانِ بد تو بہر حال موجود ہے کہ اس کائنات کا مالک، معاذ اللہ، عادل نہیں ہے، کیوں کہ اس اندازِ فکر کی رو سے وہ نہ تو اپنے بندوں
(
۱۱۱ / 10)
(
۱۱۲ / 11)
کے ساتھ ان کے اپنے اعمال کے مطابق سلوک کرتا نظر آتا ہے اور نہ ان کی پکار کو بلا روک ٹوک اپنی بارگاہ میں براہِ راست پہنچنے دیتا ہے۔ اب غور کر کے دیکھیے کہ کیا کوئی ایسا شخص بھی اس اندازِ فکر کا شکار بن سکتا ہے جو صرف کہتا ہی نہ ہو کہ اللہ تعالیٰ عادل ہے، بلکہ یہ جانتا بھی ہو کہ عادل ہونے کے فی الواقع کیا معنی ہیں؟ ظاہر ہے کہ نہیں، ایسا کبھی نہیں ہو سکتا۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ شفاعت کے عقیدے کو نفس و شیطان کی رخنہ اندازیوں سے محفوظ رکھنے کے معاملے میں اس صفت کے صحیح فہم و تصور کی بیداری کتنی اہمیت رکھتی ہے۔

2.      قانونِ جزا کا استحضار: دوسری حفاظتی تدبیر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اپنے قانونِ جزا کی جو وضاحت فرمائی ہے، ذہن پر اسے اچھی طرح نقش کر لیا جائے۔ اور پھر قرآن کے ایسے حصوں کی بار بار تلاوت کی جاتی رہے جن میں یہ وضاحت کی گئی ہے تاکہ اس نقش پر غفلت کا غبار نہ پڑنے پائے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ نفس اور جہالت کے صحراؤں سے ایسے بگولے برابر اٹھتے رہتے ہیں جو اس نقش پر غفلت کے تہہ بہ تہہ غبار ڈال دینا چاہتے ہیں۔ اگر یہ بات نہ ہوتی تو قرآنِ حکیم ہر چند قدم کے بعد جزا سزا کا اعلان پر اعلان کرتا نظر نہ آتا۔ دراصل یہی خطرہ تھا جس کے پیشِ نظر اس نے ضروری سمجھا کہ انسان جیسی کمزور مخلوق کو یہ قانون بار بار یاد دلاتا رہے۔ شفاعت کے عقیدے اور جزا کے قانون میں جو گہرا تعلق اوپر ابھی واضح کیا جا چکا ہے، اسے اگر سامنے رکھیے تو یہ خود بخود معلوم ہو جائے گا کہ اس عقیدے کو صحت مند رکھنے میں اس قانون کا استحضار کتنا اہم پارٹ ادا کر سکتا ہے۔

3.      قانون کی یکسانی اور ہمہ گیری پر یقین: تیسری تدبیر یہ ہے کہ پوری نوعِ انسانی کے لیے اس قانون کی یکسانی اور ہمہ گیری پر پکا یقین رکھا جائے اور اس خوش گمانی کو قریب نہ آنے دیا جائے کہ اس کے نفاذ میں کوئی استثناء ہو سکتا ہے، نہ اس وہم کو روا رکھا جائے کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں مختلف لوگوں کے ایمان اور اعمال کو تولنے کے لیے باٹ الگ الگ ہیں۔ ایک امت کے لیے وہ کسی اور باٹ سے کام لے گا اور دوسری کے لیے کسی دوسرے باٹ سے۔ فلاں قوم محض فلاں قوم ہونے کی وجہ سے اس کی اپنی قوم ہے اور دوسری قومیں اس کے لیے غیر ہیں۔ اس نے اونچی نسبت رکھنے والوں کے لیے کچھ اور حقوق مقرر کر رکھے ہیں اور دوسروں کے لیے کچھ اور۔ اس طرح کے خیالات جب بھی دنیا
(
۱۱۲ / 11)
(
۱۱۳ / 12)
میں پھیلے ہیں، ان لوگوں کے گھڑنے سے پھیلے ہیں جو بندگی کی ذمہ داریوں سے بچنا چاہتے تھے۔ ورنہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والی تعلیمات کا ان خرافات سے کبھی دور کا بھی واسطہ نہیں رہا ہے۔ وہ خالق سب انسانوں کا ہے، رب سارے جہانوں کا ہے، معبود تمام خلق کا ہے۔ اس لیے نوعِ انسانی کے مختلف گروہوں کے لیے اس کے یہاں قانونِ جزا بھی ایک ہی ہے۔ اسے صرف ایمان و عمل پسند ہے، چاہے وہ کسی عجمی، کسی حبشی اور کسی غلام ہی کا کیوں نہ ہو۔ اس کا غضب ہر اس فردِ بشر پر بھڑک کر رہے گا جو یہ نذر اس کے دربار میں حاضر نہ کر سکے گا، چاہے وہ نبیوں کے سردار کا محترم چچا اور اللہ کے خلیل کا محبوب باپ اور کسی جلیل القدر پیغمبر کا عزیز بیٹا ہی کیوں نہ ہو۔ اس حقیقت پر اگرچہ کوئی پردہ نہیں ہے مگر بصیرت کی نگاہوں میں جب قومی مفاخرت اور دنیا پرستی کا پانی اتر آتا ہے تو انسان سورج سے زیادہ روشن حقیقتوں کو بھی دیکھ نہیں پاتا۔ بنی اسرائیل کی تاریخی مثال ہمارے سامنے ہی ہے۔ اس لیے اس امکان سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یہ خطرہ ہر شخص اور ہر گروہ کو پیش آ سکتا ہے اور ہم مسلمان بھی اس کی پہنچ سے اونچے نہیں ہو سکتے۔

اگر ہم اس کی پہنچ سے اونچے ہوتے تو جس وقت اللہ تعالیٰ اس مسئلے کے ذیل میں بنی اسرائیل کے اندھے پن پر زجر و ملامت کر رہا تھا، اس وقت بات ان کی اس زجر و ملامت ہی پر ختم کر دیتا اور مسلمانوں کو کوئی تنبیہ کیا معنی، تذکیر بھی اس سلسلے میں نہ کرتا۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ صورتِ واقعہ یہ نہیں ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے من گھڑت نظریہ مغفرت و محبوبیت کی تردید کرتے ہوئے جو بات فرمائی ہے اس کے الفاظ یہ ہیں:

لَيْسَ بِاَمَانِيِّكُمْ وَ لَآ اَمَانِيِّ اَهْلِ الْكِتٰبِ مَنْ يَّعْمَلْ سُوْءًا يُّجْزَ بِهٖ ... وَ مَنْ يَّعْمَلْ مِنَ الصّٰلِحٰتِ مِنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰۗىِٕكَ يَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ الخ (النساء: ۱۲۳، ۱۲۴)
”(
مسلمانو!) فلاح و بخشش نہ تمہاری خواہشوں پر موقوف ہے، نہ اہلِ کتاب کی خواہشوں پر، یہاں تو جو شخص بھی برائی کرے گا اس کا بدلہ پائے گا... اور جو کوئی بھی اچھے عمل کرے گا، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، لیکن ہو وہ صاحبِ ایمان، وہ جنت میں داخل ہوگا۔
(
۱۱۳ / 12)
(
۱۱۴ / 13)
دوسری جگہ فرمایا:
اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَالَّذِيْنَ هَادُوْا وَالنَّصٰرٰى وَالصّٰبِــِٕيْنَ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَهُمْ اَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ (البقرہ: ۶۲)
بلاشبہ چاہے مسلمانوں کا گروہ ہو چاہے یہودیوں کا، نصاریٰ ہوں خواہ صابئین، ان میں سے جو شخص بھی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان لائے گا اور صالح اعمال کرے گا تو اس کے لیے اس کے رب کے پاس اجر (و بخشش) ہے۔

کون کہہ سکتا ہے کہ ان آیتوں میں صرف اہلِ کتاب ہی پیشِ نظر ہیں؟ اور محض انہی کو یہ حقیقت ذہن نشین کرائی گئی ہے کہ انسان کی نجات کا انحصار اس کی اپنی خواہشوں کے گھڑے ہوئے نظریات پر نہیں ہے، بلکہ توحید و آخرت کے سچے یقین پر اور اس نیک عملی پر ہے جو اس یقین کی تہوں سے خود بخود ابھرتی ہے؟ یقیناً اس تخصیص کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ اس کے برخلاف آپ دونوں آیتوں میں دیکھ رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا ضابطۂ عدل اور دستورِ مغفرت بیان کرتے وقت خود مسلمانوں کا نام بھی لیا ہے اور سب سے پہلے لیا ہے۔ گویا یہاں تذکرہ اور تردید تو اگرچہ اہلِ کتاب کے نظریے کی کی جا رہی تھی، مگر اس موقع پر بھی اہمیت اہلِ کتاب سے زیادہ اہلِ اسلام کے مسئلے کو دی گئی۔ اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے پہلے دن ہی مسلمانوں کو اس چور دروازے کی طرف سے ہوشیار کر دیا جس سے ہو کر پچھلی امتوں پر گمراہی، ناخدا ترسی، خواہش پرستی، شریعتِ الٰہی سے بے توجہی، احکامِ دین سے سرتابی اور عقیدۂ آخرت سے بے نیازی کے فتنے ٹوٹ پڑے تھے۔ حالاں کہ وہ زمانہ ایمان کی انتہائی پاکیزگی کا زمانہ تھا اور اس وقت عام مسلمانوں کے دل و دماغ میں اس خام خیالی کا کوئی ہلکے سے ہلکا پرتو بھی موجود نہ تھا۔ لیکن پھر بھی اللہ تعالیٰ نے نہ صرف یہ کہ بنی اسرائیل کے اس نظریے کو مسلمانوں کے سامنے مستقلاً رکھ کر اس کی تردید کرنا مناسب سمجھا، بلکہ خود ان کا شانہ پکڑ کر انہیں براہِ راست بھی یہ حقیقت سمجھا دی کہ جس طرح مدارِ نجات یہودیت یا نصرانیت یا صابیت نہیں ہے، اسی طرح ”مسلمانیت“ بھی نہیں ہے۔ اس لیے ہوشیار رہنا اور دیکھنا، ان یہودیوں اور عیسائیوں کی طرح کبھی تم بھی اس غلط فہمی کا شکار نہ بن جانا کہ ہماری ملت کا دائرہ، نجات کا دائرہ ہے۔ اس میں داخل ہو جانا ہی حسنِ عاقبت کی گارنٹی
(
۱۱۴ / 13)
(
۱۱۵ / 14)
ہے۔ ورنہ جس طرح اس احمقانہ خوش گمانی نے آج یہود و نصاریٰ کو ڈبو رکھا ہے، اسی طرح کل تمہیں بھی لے ڈوبے گی۔ یہ براہِ راست تنبیہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ خطرہ اگر آج نہیں تو آئندہ کبھی نہ کبھی مسلمانوں کو بھی ضرور لاحق ہونے والا تھا۔ آج کے دور سے بڑھ کر کج فکریوں اور اعتقادی فتنوں کا اور کون سا دور ہو گا؟ اس لیے اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ یہ خطرہ آج ہمارے قریب آ چکا ہو اور اس کے تھپیڑے شفاعت کے صحیح عقیدے میں دراڑیں ڈال دینے کی کوششیں کر رہے ہوں۔

عقیدۂ شفاعت کو صحت مند باقی رکھنے کے لیے تو یوں بھی اس امر کی ضرورت ہے کہ قانونِ جزا کی یکسانی اور ہمہ گیری پر ہم اپنے یقین کو تازگی عطا کرتے رہیں اور اس بات کا وہم بھی اپنے ذہنوں میں نہ آنے دیں کہ کل مغفرت و عدم مغفرت کا فیصلہ کرتے وقت اللہ تعالیٰ ہم سے کوئی ترجیحی سلوک کرے گا، لیکن ان امکانات کی موجودگی میں تو یہ ضرورت شدید سے شدید تر ہو جاتی ہے۔ اس غرض کے لیے ہمیں جہاں اوپر بیان کی ہوئی حقیقتوں پر نظر رکھنا ہوگی وہیں ایک اور چیز سے بھی بڑی مدد مل سکتی ہے۔ وہ یہ کہ ہم ان تنقیدوں اور فہمائشوں کو بار بار اپنے سامنے لاتے رہیں جو قرآن مجید نے اس ضمن میں اہلِ کتاب پر کی ہیں۔ یہ تنقیدیں اور فہمائشیں ہمیں اس خام خیالی سے محفوظ رکھنے میں بڑی کارآمد ثابت ہو سکتی ہیں، بشرطیکہ ان کا مطالعہ اس طرح نہ کیا جائے کہ وہ کسی غیر شخص کی فردِ قرار دادِ جرم ہیں، جن سے ہمیں اگر کوئی دلچسپی ہو سکتی ہے تو وہ صرف ویسی ہی جیسی کہ ایک مورخ کو دنیا کے پچھلے واقعات سے ہوا کرتی ہے، اس کے بخلاف انہیں اس تصور کے ساتھ پڑھا جائے کہ ان کا مطالعہ خود ہماری اپنی ضرورت کی چیز ہے، یہ داستان آواروں کی سہی، مگر ہمارے لیے وہ ایک بڑے خطرے اور زبردست دینی فتنے سے بچاؤ کا سامان بھی ہے۔ آخر قرآن حکیم نے ان تنقیدوں اور فہمائشوں کو اگر اپنے سینے میں قیامت تک کے لیے محفوظ کر رکھا ہے تو اس کی اصل غایت اس کے سوا اور ہو بھی کیا سکتی ہے کہ امتِ مسلمہ امتِ اسرائیل کے اس رویے اور انجام کو ہمیشہ یاد رکھے اور اس کے چھوڑے ہوئے نقوشِ ضلالت کو دیکھ دیکھ کر ان سے اللہ کی پناہ مانگتی رہے اور اگر کبھی وہ اپنے فرائضِ بندگی کو ہلکا بنا لینے کے لیے نجات کے اس خود ساختہ نظریے کی طرف مائل ہونے لگے تو یہ فہمائشیں اس کے قدم روک دیں۔
(
۱۱۵ / 14)
(
۱۱۶ / 15)

ان تینوں حفاظتی تدبیریں اگر پوری توجہ سے اپنا لی گئیں تو پھر یقین ہے کہ عقیدہ شفاعت ہر نقص اور بگاڑ سے اچھی طرح مامون ہو جائے گا۔ اور یہی وہ وقت ہوگا جب اس بات کا پورا اطمینان کیا جا سکتا ہے کہ ایمان بالآخرت میں عملی کمزوریوں کے ایک اہم فکری سبب فریبِ مصالحت کی جڑیں کٹ چکی ہیں۔

صفتِ رحمت کے غالی تصور کی اصلاح

رہا دوسرا سبب، تو وہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب انسان مختلف صفاتِ الٰہی کے درمیان کام کرنے والی نازک ہم آہنگی سے ناواقف ہوتا ہے۔ صفاتِ الٰہی کا حال یہ ہے کہ وہ متعدد تو ہیں ہی لیکن ساتھ ہی ان میں کچھ ایسی بھی ہیں جو اپنے منطقی امکانات کے لحاظ سے باہم مختلف حتیٰ کہ ایک دوسرے کے مقابل کی بھی ہیں۔ مگر جہاں تک ان کے اثر و عمل کا تعلق ہے، ان میں غایت درجے کا تعامل اور توافق کار فرما ہے۔ ان میں سے کوئی صفت ایسی نہیں ہے کہ اس کے اثر و نفاذ کی پہنائیاں حد بندیوں سے آزاد ہوں، اور اس طرح ... وہ اپنی مقابل صفت کو عملاً معطل کر کے رکھ دینے والی ہو۔ یہ عقلاً بھی ایک ناممکن بات ہے اور شرعاً بھی۔ اس کے برعکس ان میں سے ہر صفت کے اثر و عمل کی متعین حدیں ہیں، جن سے وہ کبھی آگے نہیں بڑھتا۔ ورنہ اگر ایسی کسی ایک صفت کے تقاضوں کو بھی اس کے خالص منطقی امکانات تک وسیع کر دیا جائے تو ذاتِ باری تعالیٰ عیوب سے پاک ہرگز نہ رہ جائے گی۔ مثال کے طور پر ایک صفت، صفتِ قدرت کو لے لیجیے۔ اللہ تعالیٰ قادرِ مطلق ہے، کسی شخص کا ہدایت پانا یا نہ پانا بالکلیہ اسی کے اختیار میں ہے، اور اس کے فیصلے پر منحصر ہے۔ اب اس صفت کو اگر اس کے خالص منطقی امکانات تک اثر انداز مان لیا جائے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ پھر انسان کا اپنا ارادہ و عمل کوئی چیز نہیں، نہ اس کے کسی استحقاق، یا عدمِ استحقاق کا کوئی سوال ہے، بلکہ اللہ جسے چاہتا ہے اور جب چاہتا ہے، بلا کسی استحقاق اور بغیر کسی وجہ کے ہدایت عطا کر دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے گمراہ کا گمراہ چھوڑ دیتا ہے۔ ہر آنکھوں والا دیکھ سکتا ہے کہ اگر قادرِ مطلق ہونے کے یہ معنی لے لیے جائیں تو اس سے بعض دوسری صفاتصفتِ حکمت، صفتِ رحمت، اور صفتِ عدلکے صریح تقاضوں کی نفی لازم آ جاتی ہے۔ اسی ایک مثال پر دوسری صفتوں کو بھی قیاس کر لیجیے۔

صفاتِ الٰہی کے درمیان کام کرنے والی اس نازک ہم آہنگی کے صحیح شعور سے جب انسانی ذہن دور ہٹ جاتا ہے تو قدرتی بات ہے کہ اس
(
۱۱۶ / 15)
(
۱۱۷ / 16)
کے دینی افکار میں توازن باقی نہ رہ جائے اور وہ بعض صفات کے تقاضوں کو دبا کر رکھ دے۔ صفتِ رحمت کا وہ غالیانہ تصور جو پرستشِ اعمال کے اندیشے کو نیم جان اور بے جان بنا دیا کرتا ہے، اسی کج فکری کا ایک مشہور شاہکار ہے، جس کی تباہ کاریوں سے نہ پچھلی امتیں بچ سکیں، نہ امتِ مسلمہ امان میں رہ سکی۔ پچھلی امتوں میں نصاریٰ اور امتِ مسلمہ کے اندر مرجئہ فرقہ اس کی سب سے نمایاں مثال ہیں۔ نصاریٰ نے اللہ تعالیٰ کی رحمت کا تقاضا یہاں تک قرار دے دیا کہ اسے اپنے بندوں کو بد اعمالیوں کی سزا سے بچا لینے کے لیے اپنے بیٹے کو دنیا میں بھیج کر سولی دلا دینی پڑی۔ مرجئہ نے اللہ تعالیٰ کے رحیم ہونے کے معنی یہ بتائے کہ وہ ہر اس شخص کو بخش دینے کے لیے بیتاب ہے جو صرف زبان سے کلمۂ شہادت پڑھ دے، بے عملی کا وہ قطعاً کوئی نوٹس نہ لے گا۔

اس فتنے کا مارا ہوا انسان دراصل یوں سوچتا ہے کہ اللہ رحمن اور رحیم ہے، یعنی وہ رحمت ہی رحمت ہے اور یہ اس کی شانِ رحمت سے بعید ہے کہ اپنے بندوں کو وہ ان کی صرف عملی کوتاہیوں کی بنا پر جہنم کے شعلوں میں جھونک دے۔ یہی اندازِ فکر ہے جس میں شاعرانہ تخیل نے جب رنگینی پیدا کر دی تو اس نے ”خدا محبت ہے اور محبت خدا ہے“ کا دل فریب جامہ پہن لیا۔ اس میں شک نہیں کہ اس نظریے میں بڑی دلکشی ہے اور یہ ظاہر بڑا معصوم بھی معلوم ہوتا ہے، لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ یہ سراسر جہل اور گمراہی ہے۔ یہ جذبات پر سحر تو ضرور کر دیتا ہے مگر عقل اور شرع دونوں اس کی سخت تردید کرتے ہیں۔ کیوں کہ اس سے اللہ تعالیٰ کی کتنی ہی صفات، صفاتِ حسنیٰ باقی نہیں رہ جاتیں۔ پھر یہ اس بنیادی غایت کو بھی چیلنج دے دیتا ہے جس کے لیے نوعِ انسانی کی تخلیق ہوئی تھی۔ اگر اللہ تعالیٰ کے رحمن و رحیم ہونے کے معنی یہ بھی تھے کہ زندگی چاہے حسین کی ہو چاہے یزید کی، ہر ایک کے لیے مغفرت کی آغوش پہلے روز سے کھلی ہوئی ہے تو پھر خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيٰوةَ لِيَبْلُوَكُمْ اَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا کہنے کے معنی کیا ہوں گے؟ ایک معمولی عقل کا آدمی بھی جانتا ہے کہ ایسے بلند نظر انسان صرف انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں جو رحمت کا یہ نظریہ رکھنے کے باوجود نفس اور دنیا کے بندے بن جانے سے بچ سکیں، ورنہ عام انسانی افراد کے لیے یہ نظریہ اباحت کے دروازے کھول دے گا اور ممکن نہیں کہ ان کے ذہنوں میں دین کی پیروی کا جذبہ اور حسنِ عمل کی اہمیت باقی رہ جائے۔
(
۱۱۷ / 16)
(
۱۱۸ / 17)

اس توضیح کے بعد اس سبب کے ازالے کا مسئلہ بھی آپ سے آپ حل ہو جاتا ہے۔ کیوں کہ اس وضاحت ہی میں اس بیماری کے علاج کا نسخہ بھی موجود ہے۔ بات صاف ہے، اگر بیماری یہ ہے کہ صفتِ رحمت کے مفہوم میں غلو اور افراط کو دخل دے دیا گیا ہے، تو اس کا علاج یہی ہوگا کہ اس غلو اور افراط کو اعتدال سے بدل دیجیے۔ اس کی ترکیب یہ ہے کہ جب آپ صفتِ رحمت کا تصور کریں تو یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ رحمن و رحیم بے شک ہے اور اس کی رحمت ہی بندے کا سب سے بڑا سہارا ہے، مگر اسی کے ساتھ وہ حکیم اور عادل بھی ہے۔ محاسب اور مجازی بھی ہے، ذو انتقام اور شدید العقاب بھی ہے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ کی دوسری کوئی بھی صفت ”برائے بیت“ نہیں ہے، اسی طرح یہ صفتیں بھی نہیں ہیں اور ان کا بھی حق ہے کہ ان کے بنیادی تقاضے بہر حال پورے ہوں، جس طرح کہ صفتِ رحمت کا حق ہے کہ اس کے تقاضے پورے ہوں۔ اس لیے انسانوں سے اللہ تعالیٰ کا معاملہ اس طرح نہ ہوگا جس طرح اس وقت ہوتا جب کہ وہ رحمت ہی رحمت اور محبت ہی محبت ہوتا، (بلکہ) اس طرح ہوگا جس طرح کہ اس کی یہ دوسری صفاتِ حسنیٰ بھی چاہیں گی۔

ایمان بالآخرت میں عملی خامیوں کے ان دونوں اسباب سے اگر انسانی ذہن پاک ہو جائے تو پھر جہاں تک اس کے فکری پہلو کا تعلق ہے، وہ یقیناً صالح اور صحت مند ہو جائے گا۔ اب اس کے بعد جو کمزوریاں اس سے سرزد ہوں گی ان کا سبب فکر و نظر کی خرابی نہ ہوگی، بلکہ کچھ اور ہی ہوگا۔ یہ کچھ اور کیا ہے؟ اگر غور کیجیے تو صاف دکھائی دے گا کہ یہ کچھ اور صرف ایک چیز ہے، جسے ارادے کی کمزوری اور دل کی غفلت کہا جاتا ہے۔ جس خوش نصیب نے مذکورہ بالا فکری تطہیر کے بعد اس غفلت کے پردے کو بھی چاک کر ڈالا، اسی کا ایمان بالآخرت صحیح معنوں میں ایمان بالآخرت کہلانے کا سزاوار ہے۔ ایمان بالآخرت کی تعمیر و ترقی کی باقی تینوں تدبیریں اسی پردۂ غفلت کو چاک کر ڈالنے کی تدبیریں ہیں۔

(۳) کیفیتِ یقین حاصل کرنے کی مسلسل کوشش

پردۂ غفلت کو چاک کر ڈالنے کی پہلی اور ایمان بالآخرت کی تعمیر و ترقی کی تیسری تدبیر یہ ہے کہ اس بارے میں تقلیدی روش پر قناعت نہ ہونے پائے اور عقیدۂ آخرت کو محض باپ دادا
(
۱۱۸ / 17)
کی ایک مقدس وراثت کی حیثیت سے گلے لگائے رکھنے پر مطمئن ہو رہنے کی غلطی نہ کی جائے۔ کیوں کہ جیسا کہ ایمان باللہ کی بحث میں کہا جا چکا ہے، کسی عقیدے یا نظریے کو صرف اس بنا پر مانے رکھنا کہ ہمارے بزرگ اسے مانتے آئے ہیں، اس عقیدے کے پیرووں کی صف میں شامل ہونے کا حق تو ہمیں ضرور دلا سکتا ہے، مگر اس قابل ہرگز نہیں بنا سکتا کہ ہم اس حاصل کیے ہوئے حق کا حق ادا کر سکیں۔ کوئی تقلیدی ایمان کبھی میدانِ جدوجہد کے غازی اور جاں باز سپاہی نہیں پیدا کر سکتا۔ وہ اگر کچھ کر سکتا ہے تو زیادہ سے زیادہ یہ کہ اس معرکے کے لیے خیمہ بردار قلی مہیا کر دے۔ سینے میں جوشِ عمل کی آگ تو صرف وہ ایمان بھڑکا سکتا ہے جو انسان کے دل و دماغ پر براہِ راست اپنی صداقت کی آتشیں شعاعیں ڈال رہا ہو اور میدانِ سعی و جہد کا جاں فروش مجاہد صرف وہ عقیدہ مہیا کر سکتا ہے جو انسان کے اپنے شعور میں گہری جڑیں رکھتا ہو۔

کسی شخص کے بس میں یہ نہیں ہے کہ جس چیز کو اس نے خود نہ دیکھا ہو اور جس کے وجود اور صفات کا علم اسے محض دوسروں سے سن کر حاصل ہوا ہو، وہ اُس کے بارے میں اپنے اس بالواسطہ علم کو اس بلاواسطہ علم و یقین کے برابر کر لے جو اسے خود اپنی آنکھوں کے مشاہدے کے بعد حاصل ہو سکتا ہے۔ سنانے والے کا بیان خواہ کتنا ہی دل نشیں اور مؤثر ہو اور سننے والا چاہے کیسے ہی گوشِ ہوش سے سن رہا ہو، لیکن آدمی دوسرے کی روایت سے بہر حال کبھی اتنا پائیدار اثر نہیں لے سکتا، جتنا اپنی آنکھوں دیکھ لینے کی صورت میں لیا کرتا ہے۔ بڑے سے بڑے قادر الکلام شاعر کے بھی درد بھرے مرثیے سن کر آدمی کے دل میں غم کا وہ طوفان نہیں اٹھتا جو اپنے کسی عزیز کی میت دیکھتے ہی امڈ پڑتا ہے۔ اس لیے جب تک کسی شخص کا ایمان محض اس بنیاد پر قائم رہے گا کہ اس کے باپ دادا آخرت کو مانتے تھے، اس میں نہ تو اس ایمان کی صحیح کیفیات پائی جا سکیں گی اور نہ وہ اس کے عملی تقاضے پورے کر سکے گا۔ یہ بات اگر حاصل ہو سکتی ہے تو صرف اسی وقت جب کہ یہ ایمان تقلیدی جمود کی پستی سے اوپر اٹھ کر شعوری کیفیت اور یقین و بصیرت کی بلندیوں پر پہنچ چکا ہو۔

تقلیدی ایمان بمقابلہ شعوری ایمان

حقیقتِ مدعا کو پوری طرح ماننے کے لیے اگر تقلیدی ایمان اور شعوری ایمان و یقین میں واضح فرق دیکھنا ہو تو اس کے لیے آج کے مسلمانوں کی ایمانی کیفیت کے عملی مظاہرے سے ان عملی مظاہروں کا مقابلہ کر لینا بالکل کافی ہوگا جو اسلام کی ابتدائی تاریخ پیش کر چکی ہے۔ اُن
(
۱۱۹ / 18)
(
۱۲۰ / 19)
دنوں مسلمان کے یقینِ آخرت کا حال یہ تھا کہ وہ ہوا کے تیز و تند جھکڑوں کو آتے دیکھ کر سمجھتا تھا کہ بس زلزلۂ قیامت آگیا، اور یہ خیال ایک مجسم خوف بن کر اس کو اس طرح گھبرا دیتا تھا کہ وہ پناہ ڈھونڈھنے کے لیے مسجدِ نبوی کی طرف دوڑ پڑتا۔ لیکن ہمارے یقینِ آخرت کا حال یہ ہے کہ ہمارے سکونِ خاطر میں آج کا بڑے سے بڑا قہرِ خداوندی بھی کوئی ہلکا سا تلاطم نہیں پیدا کر سکتا۔ اُس دور کا مسلمان اسی زندگی کی حدوں میں رہتے ہوئے جنت کی خوشبو سونگھ لیتا تھا۔ لڑائی کے میدان میں، جہاں موت کی گرم بازاری ہوتی تھی، وہ اطمینان سے کھڑا کھجوریں کھا رہا ہوتا اور ایک خاص انداز سے پوچھتا: ”اے اللہ کے رسول! اگر میں اس وقت لڑ کر مارا جاؤں تو اس کے بعد کہاں ہوں گا؟“ ارشاد ہوتا: ”جنت میں۔“ یہ سنتے ہی وہ ہاتھ سے باقی کھجوریں پھینک دیتا اور اللہ کا نام لے کر دشمن کی صفوں میں اس طرح گھس پڑتا جیسے کوئی اپنی جان سے عزیز تر چیز کو آنکھوں دیکھ کر اس کی طرف لپک رہا ہو اور جب زخموں سے چور ہو جانے کے بعد نزع کا وقت قریب آ جاتا تو لبوں پر یہ صدا ہوتی: فُزْتُ بِرَبِّ الْكَعْبَةِ (ربِ کعبہ کی قسم مراد پالی)۔ اور آج حال یہ ہے کہ اپنے ہی ماضی کے یہ واقعات پڑھتے وقت ہم یہ سوچنے لگتے ہیں کہ کہیں ہم عالمِ خواب میں تو نہیں ہیں۔

یہی قرآن ہے جس کی ایک آیت (اِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَاِنَّهُمْ عِبَادُكَ وَاِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَاِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ) جب احوالِ قیامت کی یاد دلاتی ہے تو وہ آنکھیں جن کی طرف جہنم کی چشمِ وہم بھی اُٹھنے کا حوصلہ نہیں کر سکتی، ابل پڑتی ہیں اور رات کا بڑا حصہ اسی ایک آیت کی تکرار اور ایک ہی رکعت کے قیام میں ختم ہو جاتا ہے۔ (ترمذی صفحہ ۶۹) فکرِ آخرت کی شدت ہے کہ نہ آنکھوں سے آنسوؤں کی دھار رکنے دیتی ہے نہ زبان کو آگے بڑھنے کی اجازت دیتی ہے۔ اور آج وہی قرآن ہے جس کی رعد و برق کی سی دھمکیاں ہماری آنکھوں سے آنسو کا ایک قطرہ بھی نہیں نکلوا سکتیں، اور نہ تلاوت کے وقت ہماری زبانوں کی روانی میں کوئی رکاؤ پیدا کر سکتی ہیں۔ یہ ہے شعوری اور تقلیدی ایمان میں فرق، زندہ یقین اور مردہ یقین کا اختلاف۔

یقین کا سرچشمہ: غور و فکر

اس شعوری ایمان اور اس یقین و بصیرت کا سرچشمہ کیا ہے؟ اسے کہاں سے حاصل کیا جائے اور کس طرح؟ یہ ایک فطری سوال ہے جو اس موقع پر ذہن سے خود بخود ابھرتا ہے اور ہماری دینی ضرورت اس کا جواب بھی مانگتی ہے۔ یاد ہوگا کہ اسی قسم کا سوال ایمان باللہ کے سلسلے
(
۱۲۰ / 19)
(
۱۲۱ / 20)
میں بھی پیدا ہوا تھا۔ اس لیے جو جواب اس کا اس موقع پر دیا جا چکا ہے، قدرتاً اسی طرح کا جواب اس سوال کا یہاں بھی ہوگا۔ کیوں کہ جن دو چیزوں کے بارے میں یہ سوالات اٹھے ہیں وہ دونوں کی دونوں ایمانیات ہی سے متعلق ہیں، اس لیے جس طرح ان کے بارے میں اٹھنے والے ان سوالوں کی نوعیت بالکل ایک سی ہے، اسی طرح خود ان دونوں چیزوں کی نوعیت میں بھی کوئی اختلاف نہیں۔ اس لیے کوئی وجہ نہیں کہ جواب بھی ایک ہی قسم کے نہ ہوں۔ چنانچہ اگر قرآن کی طرف رجوع کیجیے تو وہ بتائے گا کہ ایمان بالآخرت میں شعوری کیفیت اور یقین کی گہرائی پیدا کرنے کی بنیادی تدبیر یہ ہے کہ اس کے دیے ہوئے دلائل پر اور کائنات کی نشانیوں پر مسلسل غور و فکر کیا جاتا رہے، ٹھیک اسی طرح جس طرح ایمان باللہ کی مضبوطی اور بیداری کا ذریعہ بھی وہ اسی غور و تفکر کو بتا چکا ہے۔

پچھلے باب میں یہ بات تو بالکل صاف ہو چکی ہے کہ قرآن کے استدلالی مباحث کا تعلق صرف منکرین ہی سے نہیں ہے بلکہ مومنین سے بھی ہے۔ وہ دین کی بنیادی تعلیمات — توحید، آخرت اور رسالت — پر جو دلیلیں پیش کرتا ہے اس سے اس کا مقصد محض اتنا ہی نہیں ہے کہ وہ ان حقائق کے نہ ماننے والوں پر ان کی حقانیت ثابت کر دے، بلکہ وہ ان پر ایمان لا چکنے والوں کو بھی ان دلائل کا حاجت مند ٹھیراتا ہے۔ چنانچہ ایمان باللہ کی حد تک تو پچھلے صفحات میں اس امر کی مدلل تفصیل بھی آ چکی ہے۔ رہا ایمان بالآخرت کا معاملہ، تو اس بارے میں بھی قرآن کے واضح ارشادات موجود ہیں۔ وہ صراحت کرتا ہے کہ آثارِ کائنات پر غور و فکر کی نظر ڈالتے رہنا اہلِ ایمان کا ایک امتیازی وصف ہے۔ اس غور و فکر سے ان کے ایمانِ آخرت میں اور زیادہ جلا پیدا ہوتی رہتی ہے، جس کی وجہ سے قیامت کے آنے والے زلزلے کے خوف ناک مناظر کو ان کے یقین کی نگاہیں پہلے کے مقابلے میں اور زیادہ قریب سے دیکھنے لگتی ہیں۔ مثلاً:

اِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَاٰيٰتٍ لِّاُولِي الْاَلْبَابِ الَّذِيْنَ يَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ قِيٰمًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰى جُنُوْبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُوْنَ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۚ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هٰذَا بَاطِلًا ۚ سُبْحٰنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ (آل عمران: ۱۹۰-۱۹۱)
بلاشبہ آسمانوں اور زمین کی ساخت میں، اور رات اور دن کے یکے بعد دیگرے آنے جانے میں (یومِ جزا کے وقوع پر) ان لوگوں کے لیے کھلی ہوئی نشانیاں موجود ہیں جو سوجھ بوجھ والے ہیں، جو کھڑے بیٹھے اور لیٹے ہر حال میں اللہ کو یاد کرنے اور آسمانوں اور زمین کی ساخت میں غور کرتے رہتے ہیں۔ (اس غور و فکر کے نتیجے میں ان کی زبان پکار اٹھتی ہے کہ) خدایا! اس (کارخانے) کو تو نے عبث نہیں بنایا ہے (ایسے ہر فعل سے) تو بلند اور برتر ہے پس ہمیں جہنم کی سزا سے بچائیو۔
(
۱۲۱ / 20)
(
۱۲۲ / 21)

یہ ارشادِ خداوندی اس حقیقت کا ایک واضح اعلان ہے کہ مومن کے ایمان بالآخرت کا صرف نقل و روایت پر حصر نہیں ہوتا، اور کارگاہِ فطرت کے اس کھلے ہوئے صحیفے پر جو دلائل نقش ہیں ان سے وہ اپنے کو بے نیاز اور بے تعلق نہیں پاتا۔ اس کے برخلاف اس کا حال یہ ہے کہ وہ ان میں برابر غور و فکر کرتا رہتا ہے اور نظامِ کائنات کے پردوں میں چھپی ہوئی عظیم حقیقتوں — توحید اور آخرت — کا اپنے دیدۂ بصیرت سے مشاہدے پر مشاہدہ کرتا رہتا ہے اور اس مشاہدۂ غیب میں اس کی نگاہ کی بینائی اور جلوہ یابی برابر بڑھتی رہتی ہے جس کی وجہ سے اس کے اندر قیامت اور پرسشِ اعمال کا عقیدہ ایک فطری انداز میں آپ سے آپ زندہ تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ یعنی اس غور و فکر سے اس عقیدے کو اس کی خالص فطری غذا ملتی جاتی ہے اور وہ ایک تدریج، ترتیب اور توازن کے ساتھ پروان چڑھتا جاتا اور انسان کے شعور پر چھاتا چلا جاتا ہے۔

اگرچہ اس ارشادِ قرآنی کا ظاہری انداز ایک خبر اور ایک بیانِ واقعہ کا سا ہے مگر اس کے اندر جو روح ہے وہ خبر کی نہیں بلکہ ترغیب و تلقین کی ہے۔ یعنی کہنا فی الحقیقت یہ نہیں ہے کہ مومن ایسا کرتا ہے، بلکہ یہ ہے کہ اسے ایسا کرنا چاہیے۔

اسی طرح سورۂ مرسلات کی ابتدائی آیتوں کو پڑھیے، جن میں ہواؤں کے مختلف حالات اور صفات کا ذکر ہے اور ان کے گوناگوں اثرات کو یومِ جزا کی آمد پر بطورِ قسم (شہادت اور دلیل) پیش کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ:

... فَالْمُلْقِيٰتِ ذِكْرًا عُذْرًا اَوْ نُذْرًا اِنَّمَا تُوْعَدُوْنَ لَوَاقِعٌ (المرسلات: ۵-۷)
(
۱۲۲ / 21)
(
۱۲۳ / 22)
پھر جو (اپنی مختلف النوع کارفرمائیوں کے ذریعے) لوگوں کو یاد دہانی کرتی رہتی ہیں، تاکہ (غافلوں کے حق میں اللہ کی طرف سے) رفعِ معذرت (اور اتمامِ حجت) ہو اور (خدا ترسوں کے لیے) ہوشیاری (کا پیغام) ہو۔ ہواؤں کے یہ مختلف حالات اور اثرات شاہد ہیں کہ) جس چیز کی تمہیں دھمکی دی جا رہی ہے وہ آکر رہے گی۔

سورۂ ہود کے اندر نافرمانیِ رب کی پاداش میں ہلاک ہو جانے والی کچھ بستیوں اور قوموں کی سرگزشتیں سنانے کے بعد ارشاد ہوتا ہے کہ:

اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَةً لِّمَنْ خَافَ عَذَابَ الْاٰخِرَةِ (ھود: ۱۰۳)
یقیناً (ہلاکت کی) ان سرگزشتوں میں اس شخص کے لیے (قانونِ جزا کی) ایک بڑی زبردست) نشانی ہے جو آخرت کے عذاب کا خوف رکھتا ہو۔

ایسی آیتیں آپ کو ایک دو نہیں بے شمار ملیں گی جو بتاتی ہیں کہ قرآنی دلائل جس طرح منکرینِ اسلام سے خطاب کرتے ہیں، اسی طرح ان کا رُخ پیروانِ اسلام کی طرف بھی ہوتا ہے۔ بلکہ جہاں تک ان سے عملاً فائدہ حاصل کر لینے کا تعلق ہے اس کے پیشِ نظر تو وہ گویا اُن سے زیادہ انہی کے لیے مہیا فرمائے گئے ہیں۔ ایسی حالت میں قرآنِ حکیم کی کتنی بڑی ناقدرشناسی ہوگی، اگر ہم اپنے مومن ہونے کے زعم میں ان دلائل اور استدلالات سے بے نیاز ہو رہیں! یہ صحیح ہے کہ ایسا کر کے بھی ہم مومن اور مسلم ہی باقی رہیں گے لیکن یہ بات بھی کچھ کم صحیح نہیں کہ اس صورت میں ہم بڑی سخت غفلت کے مرتکب ٹھیریں گے، اور اس غفلت کی مدہوشی میں ہمارا ایمان وہ ایمان نہیں بن سکتا جسے قرآن ایمان کہتا ہے اور جو دین و شریعت کا بارِ امانت اٹھا لینے کی واقعی طاقت رکھتا ہے۔ اس لیے مومن کی فکر کا یہ ایک فطری وظیفہ ہونا چاہیے کہ وہ ان آیاتِ قرآنیہ پر برابر تدبر کرتا رہے جن میں آخرت پر دلائل دیے گئے ہیں، تاکہ اس کا عقیدۂ آخرت اگر تقلیدی جمود کی حالت میں پڑا ہو تو اس میں شعور کی بیداری پیدا ہو جائے اور اگر خوش قسمتی سے اس میں شعوری کیفیت پہلے سے موجود ہو تو یہ کیفیت اور ترقی کرتی جائے اور اس کے یقین کی نگاہیں تیز سے تیز تر ہوتی رہیں۔

بلاشبہ قیامت کا وجود مستقبل کے پردۂ غیب میں چھپا ہوا ہے اور اس کی آمد سے پہلے
(
۱۲۳ / 22)
(
۱۲۴ / 23)
کوئی شخص اسے آنکھوں دیکھی حقیقت کی حیثیت سے ہرگز نہیں پا سکتا۔ مگر قرآن کے اشارات میں ہمیں اس یقین کی وجہ ملتی ہے کہ اس ”غیب“ کی جھلکیاں محسوس اس وقت بھی کر لی جا سکتی ہیں۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح کہ پو پھٹنے کے بعد اگرچہ سورج چڑھ نہیں چکا ہوتا ہے لیکن اس حالت میں بھی بینائی رکھنے والی نگاہیں اس کے وجود کا گویا اک گونہ مشاہدہ کر ہی لیتی ہیں۔ اس کے ان اشاروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ یومِ آخرت کے چہرے پر جو نقاب ہے وہ اتنی موٹی نہیں ہے کہ فکر و تدبر کی گڑی ہوئی نگاہیں کچھ پا ہی نہ سکیں۔ یہ نقاب اگر ان کی راہ میں حائل ہوتی ہے تو بس تقریباً اسی حد تک جس حد تک کہ ایک حاملہ کا گوشت پوست اس کے حمل کے وجود کو عام نگاہوں سے چھپا سکتا ہے:

يَسْــَٔلُوْنَكَ عَنِ السَّاعَةِ اَيَّانَ مُرْسٰىهَا ۗ قُلْ اِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّيْ ۚ لَا يُجَلِّيْهَا لِوَقْتِهَآ اِلَّا هُوَ ۗ ثَقُلَتْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۗ لَا تَاْتِيْكُمْ اِلَّا بَغْتَةً (الاعراف: ۱۸۷)
یہ لوگ تم سے پوچھتے ہیں کہ قیامت کا جہاز کب آ کر لنگر انداز ہوگا؟ کہہ دو اس کا علم تو میرے رب ہی کو ہے۔ اپنے وقت پر اس کو وہی ظاہر کرے گا۔ (لیکن اتنا تو ہر صاحبِ نظر آج بھی دیکھ سکتا ہے کہ) آسمانوں اور زمین کے اندر وہ ایک بھاری بوجھ کی طرح ہو رہی ہے۔ وہ تم پر بالکل اچانک آئے گی۔

یعنی جس طرح ایک پورے دنوں کی حاملہ اپنی ہیئتِ کذائی کی زبان سے اپنے حمل کا خود خاموش اعلان کرتی ہوتی ہے اور اپنے پیٹ کے اندر چھپے ہوئے بچے کو منظرِ عام پر لے آنے کے لیے بس ایک حکم کی منتظر ہوتی ہے، ٹھیک یہی حال اس کائنات کے اندر قیامت کا بھی ہے کہ وہ اس کے شکم میں ایک پورے حمل کی طرح موجود ہے، جس کے بوجھ سے یہ ”شکم“ پوری طرح گراں بار ہے اور اسے نکال کر سامنے رکھ دینے کے لیے بس ایک حکم کی راہ تک رہا ہے۔ ”شکمِ کائنات“ میں اس حمل کی گراں باری اتنی نمایاں ہے کہ جس کی چشمِ خرد میں کچھ بھی بینائی ہوگی وہ اسے محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔
(
۱۲۴ / 23)
(
۱۲۵ / 24)

(۴) فکرِ آخرت کا استحضار

کیفیتِ یقین حاصل کرنے کی اس تدبیر کے ساتھ دوسری ضروری جدوجہد یہ ہونی چاہیے کہ آخرت کا یہ علم و یقین حافظے پر پوری طرح چھا جائے۔ یعنی مومن کو یہ بات حتی الوسع کبھی نہ بھولنے پائے کہ ایک دن خدائے قہار کے سامنے کھڑے ہو کر اپنے اعمال کا حساب دینا ہے۔ وہ جہاں کہیں بھی ہو اور جس حال میں بھی ہو، اس بڑے دن کی ہولناکیوں سے غافل اور بے فکر نہ رہے۔ آخرت کا یہ کبھی فراموش نہ ہونے والا اندیشہ ہی دراصل نیک روی کی ضمانت ہے۔ اور اسی بنا پر اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کا جو وزن ہے، وہ وہم و خیال سے بھی آگے ہے۔

وہ اہم اور مؤثر تدبیریں جن سے یہ گراں قدر مقصد حاصل ہو سکتا ہے، تین ہیں:

1.      اللہ کی صفات پر غور و فکر: پہلی چیز تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ان صفات کو انسان حتی الوسع برابر یاد رکھے، اور ان پر تفکر کرتا رہے جو ایک یومِ جزا کی آمد کو لازم ٹھیراتی ہیں اور جو فی الواقع وجودِ آخرت کا اصل سرچشمہ اور اس کی حقیقی علت ہیں۔ ان صفات کو جتنا ہی زیادہ ذہن میں مستحضر رکھا جائے گا ان کے تقاضے اتنے ہی زیادہ نگاہوں کے سامنے رہیں گے۔ ان تقاضوں میں یومِ آخرت کی آمد کا تقاضا سب سے بڑی اور نمایاں حیثیت کا مالک ہے۔ اس لیے ان صفات پر غور و تدبر کرتے رہنا اور انہیں برابر یاد رکھنا آخرت کی یاد تازہ رکھنے کے ہم معنی ہے۔
ان صفات پر یہ غور و فکر، ان کا استحضار جس طرح بہ طور خود کرنا چاہیے، اسی طرح قرآن کے واسطے سے بھی کرنا چاہیے۔ بلکہ نفسیاتی پہلو سے اگر دیکھا جائے تو یہی طریقہ زیادہ مؤثر اور مفید نظر آئے گا۔ قرآن کے واسطے سے غور و فکر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی ان آیتوں کا کثرت سے غائر مطالعہ کیا جائے جن میں ان صفات سے آخرت پر استدلال کیا گیا ہے اور اسے ان کا بدیہی تقاضا قرار دیا گیا ہے۔

2.      قرآن کی تلاوت (حضورِ قلب کے ساتھ): دوسرا کام یہ ہے کہ قرآن کے ان حصوں کی حضورِ قلب کے ساتھ بار بار تلاوت کی جائے جن میں قیامت کی ہولناک کیفیتوں اور عذابِ جہنم کی ہوش ربا اذیتوں کے مناظر کھینچے گئے ہیں۔ یہ تلاوت دل کی صیقل گری کرنے میں اپنی نظیر آپ ہے۔ اگر انسان کے اندر آخرت کا
(
۱۲۵ / 24)
(
۱۲۶ / 25)
کچھ بھی یقین موجود ہے تو ممکن نہیں کہ وہ آیتوں کو پڑھے اور اس کے رونگٹے کھڑے نہ ہو جائیں اور پھر اس خوف کی لہریں اس کے حافظے تک پہنچ کر اس پر آخرت کی فکر کو مسلط نہ کر دیں۔ یہ جو آپ دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید میں قیامت اور دوزخ کے احوال اتنی تفصیل سے اور اس قدر بار بار بیان کیے گئے ہیں تو اس کی ایک اہم غرض یہ بھی ہے کہ اہلِ ایمان جب ان کو پڑھیں — اور ظاہر ہے کہ انہیں قرآن برابر پڑھتے رہنا ہی چاہیے — تو وہ محاسبۂ اعمال کا خیال کر کے کانپ کانپ جائیں۔ ان کی آنکھوں سے گرم دھاریں پھوٹ پڑیں اور پھوٹ کر آخرت سے غفلت کے اس غبار کو دھو ڈالیں جو ان کے دلوں پر ادھر ادھر سے اڑ کر پڑتا رہتا ہے۔ اس لیے مومن کی سعادت مندی اسی میں ہے کہ وہ اس فرض کو پورا کرے اور قرآن کے ان حصوں کی تلاوت سے اپنے ایمان بالآخرت کو مسلسل غذا بہم پہنچاتا رہے، پوری کوشش کرے کہ اس پر بھی اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا کسی نہ کسی حد تک ضرور صادق آئے کہ اس کتاب کے پڑھنے سے ان لوگوں کے بدن کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں جن کو اپنے رب کا ڈر ہوتا ہے۔

تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُوْدُ الَّذِيْنَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ (الزمر: ۲۳)

اگرچہ تلاوتِ قرآن جب بھی کی جائے وہ اپنے فوائد و برکات سے انسان کو بہر حال نوازتی ہے۔ لیکن جیسا کہ پہلے بتایا جا چکا ہے، اس کا اعلیٰ و افضل موقع نماز کی حالت ہے، جب کہ انسان اپنی عبدیت کی کامل ہیئت میں ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے اسے انتہائی قربت حاصل ہوئی ہوتی ہے۔ اس حالت اور ہیئت میں تلاوتِ قرآن کا اثر فطری طور پر بہت کچھ بڑھ جاتا ہے۔ اس لیے بڑی خوش نصیبی ہو گی اگر اس شانِ عبدیت کے ساتھ زیادہ سے زیادہ تلاوت کرنے کی توفیق مل جائے۔

اس ضمن میں بھی اس بات کو پھر سے یاد کر لیجیے کہ تلاوتِ قرآن سے یہ فائدہ اسی وقت حاصل ہو سکتا ہے جب یہ حضورِ قلب کے ساتھ کی جائے۔ ورنہ اگر دل حاضر نہ ہو اور جو کچھ پڑھا جائے اس کے مطالب سے فکر و فہم کو کوئی واسطہ ہی نہ ہو، تو محض زبان کی گردشوں سے آخرت کی یاد میں کوئی جان نہیں آ سکتی۔ جان کا آنا تو ایک طرف، شاید اس یادِ آخرت کی یاد بھی نہ آ سکے۔

3.      موت کی یاد: تیسرا کام اپنی موت کی یاد ہے۔ کیوں کہ موت دراصل قیامت کا مقدمہ اور حیاتِ اخروی کا دیباچہ ہے۔ اس لیے اسے یاد رکھنا دراصل آخرت کو یاد رکھنا ہے۔ یہی وجہ ہے
(
۱۲۶ / 25)
(
۱۲۷ / 26)
کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے موت کو کثرت سے یاد رکھنے کی بڑی تاکید فرمائی ہے۔ مثال کے طور پر چند ارشادات ملاحظہ ہوں:

o       حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا:

أَكْثِرُوا ذِكْرَ هَادِمِ اللَّذَّاتِ: الْمَوْتِ (ترمذی، نسائی)
اس چیز کو بہ کثرت یاد کرتے رہو جو دنیوی لذتوں (کی مرغوبیت) کو ڈھا دینے والی ہے، یعنی موت کو۔

o       حضرت ابن مسعودؓ کہتے ہیں کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:

اسْتَحْيُوا مِنَ اللَّهِ حَقَّ الْحَيَاءِ ... مَنِ اسْتَحْيَا مِنَ اللَّهِ حَقَّ الْحَيَاءِ ... وَلْيَذْكُرِ الْمَوْتَ وَالْبِلَى (ترمذی، احمد)
اللہ تعالیٰ سے حیا کرو جیسا کہ اس سے حیا کرنے کا حق ہے۔ جو شخص اللہ تعالیٰ سے حیا کرنے کا حق ادا کرنا چاہے اس کو لازم ہے کہ ... اپنے مرنے اور مر کر سڑ گل جانے کو یاد کرتا رہے۔

4.      اپنی موت کو یاد کرنے کا عام اور فطری طریقہ تو یہی ہے کہ انسان بالا رادہ اپنے ذہن پر زور ڈال کر اسے اپنی موت کے پیش آنے والے یقینی حادثے کی طرف متوجہ کرتا رہے، خصوصاً رات کی سنسان گھڑیوں میں اور تنہائی کی پرسکون یکسوئیوں میں اس مراقبۂ موت کا زیادہ سے زیادہ اہتمام کرے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس تصورِ موت کا ایک اور بھی طریقہ ہے، جس کی نوعیت اس طریقے کی طرح تنہا ایک ذہنی عمل کی نہیں ہے، بلکہ اس میں ذہن کی تحریک اور مدد کے لیے حس اور مشاہدہ کا فعل بھی موجود ہوتا ہے۔ اس لیے قدرتاً وہ بہت زیادہ زود اثر اور کارگر بھی ثابت ہوتا ہے، بشرطیکہ اثر لینے کی فکر اور خواہش مفقود نہ ہو۔ اس طریقے سے مراد وہ طریقہ ہے جس کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ:

5.      زُورُوا الْقُبُورَ فَإِنَّهَا تُذَكِّرُ الْمَوْتَ. (مسلم)
قبروں کو جا کر دیکھا کرو، کیوں کہ وہ موت کی یاد دلاتی ہیں۔

6.      ایک دوسری حدیث میں ہے کہ آپؐ نے فرمایا:

7.      ... فَزُورُوهَا فَإِنَّهَا تُزَهِّدُ فِي الدُّنْيَا وَتُذَكِّرُ الْآخِرَةَ. (ابن ماجہ)
(
۱۲۷ / 26)
(
۱۲۸ / 27)
”...
مگر تم اب قبروں کے پاس جایا کرو، کیوں کہ قبروں کے پاس جانا دنیا سے بے رغبتی پیدا کرتا ہے اور آخرت کو یاد دلاتا ہے۔

8.      باور کرنا چاہیے کہ موت بہت بڑی ناصح ہے۔ اور اس کا ذکر و فکر آخرت کا طالب بنا دینے میں کبھی ناکام نہیں ہو سکتا۔ اُس شہرِ خموشاں کا منظر جہاں ہمارے ہی جیسے انسانوں کی بستی ہوتی ہے، مگر جواب عمل کے میدان سے نکال کر اپنے رب کے حضور بیچارگی کے عالم میں کھڑے کیے جا چکے ہیں، اگر کسی دل کو خوفِ آخرت سے لرزا نہیں دیتا تو یقیناً وہ دل نہیں پتھر ہے۔ قبروں کی زیارت میں اگر یہ اتنا بڑا فائدہ نہ ہوتا تو غالباً شارع علیہ السلام نے ان کے قریب جانے کی اجازت بھی نہ دی ہوتی، ترغیب و تلقین تو دور کی بات ہے۔ کیوں کہ اس فائدے کو اگر الگ کر لیا جائے تو پھر اس کے بعد قبروں کی زیارت میں کوئی خاص افادیت باقی ہی نہیں رہ جاتی، جس کی خاطر وہ عظیم دینی خطرہ مول لیا جا سکے جس کی قبروں سے وابستگی تاریخِ ادیان کے مسلمات میں سے ہے، اور جس کے حملے سے خام کار لوگ کبھی بھی بالکل مامون نہیں مانے جا سکتے۔

9.      چنانچہ جہاں ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ ارشادات ملتے ہیں جن میں قبروں کے پاس جانے کی تلقین فرمائی گئی ہے وہیں یہ صراحت بھی ملتی ہے کہ ابتدا میں حضورؐ نے قبروں کے پاس جانے سے بالکل منع فرما رکھا تھا۔ ابن ماجہ کی جس حدیث کا ایک ٹکڑا ابھی اوپر درج کیا جا چکا ہے، اس کے شروع کے باقی الفاظ یہ ہیں:

10.   عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: نَهَيْتُكُمْ عَنْ زِيَارَةِ الْقُبُورِ فَزُورُوهَا الخ
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے تمہیں قبروں کے پاس جانے سے روک دیا تھا، مگر اب تم جایا کرو۔“ الخ

11.   صحیح مسلم میں بھی حضرت بریدہؓ کی ایک روایت انہی لفظوں کے ساتھ آئی ہے۔ ظاہر بات ہے کہ اگر پہلے قبروں کی زیارت ممنوع تھی تو یہ ممانعت بلاوجہ نہ تھی بلکہ اس کی کوئی نہ کوئی وجہ تھی جو ذرا سے تامل کے بعد بالکل واضح ہو جاتی ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ ابتدا میں لوگوں کے لیے توحید کا جامع اور تفصیلی تصور ہضم کرنے میں قدرتاً کچھ نہ کچھ وقت درکار تھا۔ کیوں کہ زمانہ
(
۱۲۸ / 27)
(
۱۲۹ / 28)
جاہلیت کے مشرکانہ آداب و رسوم سے، جن کے وہ برسوں عادی رہ چکے تھے، ان کے دل و دماغ کو پہلے ہی دن پوری طرح مانجھ کر صاف نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اس لیے اندیشہ تھا کہ کہیں یہ نئے نئے مسلمان قبروں پر جا کر ناواقفیت کی حالت میں کچھ ایسی حرکتیں نہ کر بیٹھیں جو توحید کے منافی ہوں۔ یہ اندیشہ کوئی بے بنیاد اور معمولی اندیشہ نہ تھا۔ بلکہ بڑا اہم اور واقعی اندیشہ تھا جس پر تاریخی تجربات کی بھی مہرِ تصدیق لگی ہوئی تھی۔ چنانچہ بنی اسرائیل کے کارنامے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ہی تھے۔ یہ لوگ مصر میں مشرک قبطیوں کے درمیان مدتوں رہ چکنے کے باعث ان کے مشرکانہ عقائد و اعمال سے بُری طرح متاثر ہو گئے تھے۔ اس لیے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زبان سے توحید کی تعلیم پا چکنے کے باوجود ایک موقعے پر جب ان کے اس چھپے ہوئے مشرکانہ جذبے کو ایک محرک نے چھیڑ دیا تو وہ ابھر کر اوپر آ گیا اور یہ دیکھتے ہی کہ ایک قوم اپنی عبادت گاہوں میں بہت سی مورتیاں سجائے ان کی پوجا کر رہی ہے، وہ خود حضرت ممدوح سے کھلے لفظوں میں اس خواہش کا اظہار کر بیٹھے کہ اِجْعَل لَّنَآ اِلٰهًا كَمَا لَهُمْ اٰلِهَةٌ (جس طرح ان کے بہت سے معبود ہیں ہمارے لیے بھی ایک معبود بنا دیجیے)۔ ایسے تجربات کی روشنی میں حکمتِ دین کا تقاضا قطعاً یہی تھا کہ ہادیِ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت تک قبروں پر جانے سے عام مسلمانوں کو بالکلیہ روک دیں جب تک کہ ان کے اندر توحید کی پوری روح اپنے سارے تقاضوں کے ساتھ اتر نہ جائے۔ چنانچہ آپؐ نے ایسا ہی کیا۔ پھر جب ان کی ذہنی تربیت کی طرف سے آپؐ کو اطمینان ہو گیا تو آپؐ نے اپنی یہ ممانعت واپس لے لی اور زیارتِ قبور کی اصل غایت واضح کر کے انہیں اس کی اجازت دے دی بلکہ اس کی تاکید بھی کر دی۔

12.   قبروں کے پاس جانے میں توحید جیسی اہم بنائے دین کو ضرر پہنچ جانے کا جو اندیشہ موجود ہے، اس کے باوجود شارع کی طرف سے اس کی اجازت اور ترغیب دیے جانے سے اس امر کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس میں آخرت کی یاد ابھار دینے کی کتنی غیر معمولی طاقت چھپی ہوئی ہے۔

13.   اس سلسلے میں یہ بات نہ بھولنا چاہیے کہ زیارت کے لیے صرف بزرگوں اور ولیوں ہی کی قبروں کو منتخب و مخصوص کر لینا صحیح نہیں ہے کیوں کہ جب اس زیارت کی غرض خود شارع علیہ السلام کے صریح ارشاد کے مطابق عبرت و تذکر ہے تو اس غرض کا حصول ایسی ہی قبروں کے ساتھ
(
۱۲۹ / 28)
(
۱۳۰ / 29)
مخصوص نہیں ہو سکتا۔ بلکہ ہر قبر عبرت کا مرقع، موت کی یاد دلانے والی اور آخرت کا خوف اُبھارنے والی بن سکتی ہے۔ اور سچ پوچھیے تو اکثر حالات میں عام قبریں بزرگوں کی قبروں سے زیادہ اس غرض کے لیے مفید اور مؤثر ثابت ہو سکتی ہیں۔

۵ - دنیوی لذتوں سے بے رغبتی

ایمان بالآخرت کی تعمیر و ترقی کی پانچویں تدبیر یہ ہے کہ انسان دنیوی لذتوں سے بے نیاز ہو جائے۔ اب تک جن تدبیروں کا ذکر کیا گیا ہے، وہ سب ایجابی نوعیت کی ہیں۔ لیکن کوئی بڑا مقصد کامیابی کے ساتھ اس وقت تک حاصل نہیں کیا جا سکتا جب تک کہ اس کے لیے ایجابی تدبیروں کے ساتھ ساتھ سلبی تدبیریں بھی نہ اختیار کی جائیں۔ وہ کسان اپنے کھیتوں کو کبھی نہیں بھر سکتا جو کاشت کے لیے تو بہتر زمین، عمدہ بیج، اچھی کھاد اور آبپاشی کا مناسب انتظام، سب کچھ مہیا کرتا ہو، مگر فصل کی دیکھ بھال کا کوئی خیال نہ رکھتا ہو۔ یقیناً ایسے کسان کی مشقتوں کا پھل فصل کے کیڑوں، آوارہ مویشیوں، جنگلی جانوروں اور چوروں اچکوں کی نذر ہوتا رہے گا، فصل اُٹھانے کے وقت اس کے کھلیان میں شاید ہی کچھ پہنچ سکے گا۔ ٹھیک یہی حال ایمان کی کھیتی کا بھی ہے۔ اگر آپ اس کے لیے صرف ایجابی تدبیروں ہی پر اکتفا کرتے رہیں، اور ان چیزوں سے اس کی حفاظت کا کوئی خاص اہتمام نہ کریں جو اس کے لیے آفتِ جان ہوا کرتی ہیں، تو اپنے مقصود کو خاطر خواہ شکل میں ہرگز نہ پا سکیں گے۔ دنیوی رغبتوں اور لذتوں سے بے نیاز ہو جانا اسی ضرورت کو پورا کرتا ہے۔ یہ وہ ضروری سلبی تدبیر ہے جس کے بغیر مذکورہ ایجابی تدبیریں کوئی خاص نتیجہ برآمد نہیں کر سکتیں ۔

اس تدبیر کا منشا یہ ہے کہ انسان دنیوی مرغوبات سے بے نیازی کا خوگر بنتا جائے۔ کام و دہن کی لذتوں اور مال و زر کی آرزوؤں، جاہ و شہرت کی طلب اور اختیار و اقتدار کی ہوس، غرض ہر اُس شے سے بلند ہو جانے کی پیہم کوشش کرتا رہے جس کے لیے ایک خدا ناشناس انسان کا نفس ہمیشہ بے قرار رہا کرتا ہے۔ یہی دنیا وہ چیز ہے جو انسان کو آخرت فراموش بناتی ہے۔ اس لیے جسے اپنی آخرت عزیز ہو، اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس دنیا کی گہرائیوں سے اپنے آپ کو بچاتا رہے۔ اس سلسلے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ زبردست تنبیہ
(
۱۳۰ / 29)
(
۱۳۱ / 30)
کبھی بھلانے کی نہیں ہے کہ:

مَا ذِئْبَانِ جَائِعَانِ أُرْسِلَا فِي غَنَمٍ بِأَفْسَدَ لَهَا مِنْ حِرْصِ الْمَرْءِ عَلَى الْمَالِ وَالشَّرَفِ لِدِينِهِ. (ترمذی)
وہ دو بھوکے بھیڑیے، جو بکریوں کے کسی ریوڑ میں چھوڑ دیے گئے ہوں، ان کے لیے اتنے تباہ کن نہیں ہوتے جتنی تباہ کن آدمی کے دین کے لیے اس کی حرصِ مال اور حبِ جاہ ہوا کرتی ہے۔

یہی مراد تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کی جسے آپؐ نے حضرت ابن عمرؓ کا شانہ پکڑ کر پورے اہتمام سے ذہن نشین کرایا تھا:

كُنْ فِي الدُّنْيَا كَأَنَّكَ غَرِيبٌ أَوْ عَابِرُ سَبِيلٍ. (بخاری)
دنیا میں ایک اجنبی یا مسافر کی طرح رہو۔

مسافر راستے میں ستانے کے لیے ذرا دیر ٹھہرتا ضرور ہے، مگر وہاں وہ گھر نہیں بنا لیتا۔ دل کش سے دل کش منظر میں بھی کھو نہیں جاتا۔ اور اگر کبھی کبھار اس پر ایسی کیفیت طاری ہو بھی جاتی ہے تو چند ہی لمحے میں وطن کی یاد پھر اسے اپنی طرف کھینچ لیتی ہے اور وہ اپنی منزل کی سمت لپک پڑتا ہے۔ یہی حال دنیا میں ایک سچے مومن کا بھی ہوتا ہے۔ وہ یہاں کا مسافر ہے، متوطن نہیں ہے۔ اس لیے وہ یہاں کی زینتوں اور لذتوں پر ریجھتا نہیں۔ صرف اپنی ضرورت کے بہ قدر چند چیزوں کا طالب ہوتا ہے، کہ یہ اس کا حق ہے۔ زیادہ کی کبھی حرص نہیں کرتا، کہ یہ اس کے مقام سے گری ہوئی بات ہے اور اسے وہ اپنے دین و ایمان کے لیے ایک فتنہ بھی سمجھتا ہے۔ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لیے جب بھی دعائے رزق فرمائی تو اس طرح کی فرمائی:

اللَّهُمَّ اجْعَلْ رِزْقَ آلِ مُحَمَّدٍ قُوتًا. (بخاری ومسلم)
خدایا! آلِ محمد کی روزی بقدرِ ضرورت رکھ۔

اور جب کبھی آپؐ کی موٹی جھوٹی معاشرت کے بارے میں کچھ عرض کیا گیا تو آپؐ نے دنیا سے اپنے تعلق کو یہ کہہ کر واضح فرمایا کہ:

مَا لِي وَلِلدُّنْيَا؟ مَا أَنَا فِي الدُّنْيَا إِلَّا كَرَاكِبٍ اسْتَظَلَّ تَحْتَ شَجَرَةٍ، ثُمَّ رَاحَ وَتَرَكَهَا. (ترمذی)
(
۱۳۱ / 30)
(
۱۳۲ / 31)
مجھے دنیا سے کیا واسطہ؟ میں تو دنیا میں اس سوار کی طرح ہوں جو کسی درخت کے سائے میں (کچھ دیر ستانے کے لیے) بیٹھ رہتا ہے، پھر اسے چھوڑ کر چل دیتا ہے۔

اسی طرح مبارک باد کا حقیقی سزاوار آپؐ نے اس شخص کو قرار دیا ہے جسے اسلام کی دولت مل گئی ہو اور اسے واقعی ضرورت کی حد تک روزی حاصل ہو اور وہ اس پر قانع بھی ہو۔

طُوبَى لِمَنْ هُدِيَ لِلْإِسْلَامِ وَكَانَ عَيْشُهُ كَفَافًا وَقَنِعَ. (ترمذی)

آں حضورؐ کا یہ اسوہ اور آپؐ کا یہ ارشاد ہمیں بتاتا ہے کہ ایک بندۂ مومن کو اس دنیا میں کس طرح رہنا چاہیے؟ یہ صحیح ہے کہ حریت کا وہ مقامِ بلند، جس پر آپؐ فائز تھے، ہم آپ کو میسر نہیں آ سکتا، مگر جس مقام تک بھی ہم پہنچ سکتے ہیں اور جس تک پہنچنے کے ہم عنداللہ ذمہ دار ہیں، اس تک پہنچ پانے کے لیے بھی یہ ضروری ہے کہ نگاہ اسی چوٹی پر جمی رہے۔

دنیا سے بے رغبتی کے حصول کی تدابیر:

دنیوی رغبتوں سے آزاد رہنے کی کوشش جن اہم تدبیروں کو اختیار کرنے کے بعد ہی کامیابی سے ہم کنار ہو سکتی ہے، وہ یہ ہیں:

1.      قوتِ ارادی: سب سے پہلی چیز تو اپنے ارادے کی قوت ہے۔ کسی کام میں بھی کامیابی کا اصل انحصار اسی قوتِ ارادی پر ہوتا ہے اور جو کام جتنا ہی بڑا ہوتا ہے اس کے لیے اتنے ہی زیادہ مضبوط ارادے کی ضرورت ہوا کرتی ہے۔ اس بات میں دو رائیں نہیں ہو سکتیں کہ اس دنیا کے جال سے آزاد رہنا بڑا مشکل کام ہے، جس کے گوشے گوشے دل فریبیوں سے بھرے ہوئے ہیں اور جس کی ایک ایک ادا اپنے اندر بلا کی کشش رکھتی ہے۔ اس لیے اس جال سے محفوظ رہنے کی کوشش بھی بڑے مضبوط عزم کی طالب ہے۔

2.      دنیا کی بے وقعتی کا یقین: دوسری چیز دنیا کی بے بضاعتی کا یقین ہے۔ آخرت کے مقابلے میں دنیا کی جو قیمت ہے، اس کی وضاحت کے لیے قرآن حکیم کا یہ ایک ہی فقرہ کافی ہے:

فَمَا مَتَاعُ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا فِي الْاٰخِرَةِ اِلَّا قَلِيْلٌ (التوبہ: ۳۸)
آخرت کے مقابلے میں دنیوی زندگی کی پونجی بالکل ہیچ ہے۔

قرآن حکیم نے متاعِ دنیا کی بے وقعتی کا یہ تذکرہ ایک دو نہیں بلکہ بے شمار موقعوں پر کیا ہے تاکہ مسلمانوں کے ذہن میں یہ حقیقت اچھی طرح بیٹھ جائے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے
(
۱۳۲ / 31)
(
۱۳۳ / 32)
مثالوں کے ذریعے اور بھی زیادہ واضح کر دیا ہے۔ مثلاً:

الدُّنْيَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ وَجَنَّةُ الْكَافِرِ. (مسلم)
دنیا مومن کے لیے قید خانہ ہے اور کافر کے لیے جنت۔
لَوْ كَانَتِ الدُّنْيَا تَعْدِلُ عِنْدَ اللَّهِ جَنَاحَ بَعُوضَةٍ مَّا سَقَى كَافِرًا مِّنْهَا شَرْبَةَ مَاءٍ. (ترمذی)
اگر اللہ کے نزدیک دنیا کی قدر و قیمت اتنی بھی ہوتی جتنی کہ ایک مچھر کے پر کی ہوتی ہے، تو وہ اس کا ایک گھونٹ پانی بھی کسی کافر کو نہ پینے دیتا۔

اسی بنا پر دنیا کے بارے میں آپؐ کا اپنا وہ رویہ تھا جس کا مختصر تذکرہ ابھی گزر چکا ہے اور اسی بنا پر صحابہ کرامؓ کو بھی آپؐ نے یہ تنبیہ فرمائی تھی:

إِنَّ الدُّنْيَا حُلْوَةٌ خَضِرَةٌ، وَإِنَّ اللَّهَ مُسْتَخْلِفُكُمْ فِيهَا فَيَنْظُرُ كَيْفَ تَعْمَلُونَ، فَاتَّقُوا الدُّنْيَا وَاتَّقُوا النِّسَاءَ. (مسلم)
بلاشبہ دنیا میں شیرینی اور شادابی ہے، اور بے شک اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس میں نیابت بخشی ہے تاکہ دیکھے تم کیسے عمل کرتے ہو۔ تو بچتے رہو دنیا (کے فتنوں) سے اور عورتوں (کے فتنوں) سے۔

3.      موت اور مابعد الموت کا تصور: تیسری چیز اس اٹل حقیقت کا ناقابلِ فراموش تصور ہے کہ ہر متنفس کی طرح میں بھی جلد ہی موت کا مزا چکھنے والا ہوں، جس کے بعد مجھے اس دنیا کی ہر شے کو چھوڑ کر دوسرے عالم میں چلا جانا ہے۔ ترمذی اور نسائی کی یہ روایت ابھی گزر چکی ہے کہ موت کی یاد ھَادِمُ اللَّذَّاتِ (دنیوی لذتوں کی مرغوبیت ختم کر دینے والی) ہے اور عقلِ عام بھی اسے ایک بدیہی حقیقت قرار دیتی ہے۔ اس لیے دنیوی لذتوں کی غلامی سے آزادی حاصل کرنے میں اپنی موت کا تصور جو غیر معمولی مدد دے سکتا ہے وہ کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ حضرت شاہ ولی اللہؒ خدا شناس اور آخرت پسند بننے کی تدبیریں بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:

چوتھی تدبیر ایام اللہ میں تفکر ہے، یعنی اس بات کا یاد رکھنا کہ اللہ تعالیٰ بعض قوموں کو اٹھاتا اور بعض کو گراتا رہا ہے ... پانچویں تدبیر یہ ہے کہ انسان اپنی موت پر اور موت
(
۱۳۳ / 32)
(
۱۳۴ / 33)
کے بعد پیش آنے والے حالات پر غور و فکر کرے۔ اس تدبیر کا ماخذ اذْكُرُوا هَادِمَ اللَّذَّاتِ کا ارشادِ نبوی ہے۔ اس غور و فکر کا طریقہ یہ ہے کہ آدمی سوچے، مجھے اس دنیا کو چھوڑنا ہے، جس کے بعد میں ہوں گا، میرے وہ اچھے اور بُرے اعمال ہوں گے جنھیں میں نے (دنیا میں) کیا ہوگا اور ان اعمال کی جزا ہو گی۔ یہ دونوں تدبیریں نفس کو دنیا کی آلائشوں سے پاک رکھنے میں اپنی کوئی نظیر نہیں رکھتیں۔“ (حجۃ اللہ البالغہ جلد دوم، صفحہ ۸۲)

4.      قناعت اور شکر: چوتھی چیز یہ ہے کہ آدمی اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کی قدر پہچانے اور ان پر قناعت کرے۔ جو کچھ اسے میسر ہو، اسے کبھی حقیر نہ سمجھے۔ مال کی تونگری کو نہیں، دل کی تونگری کو عزیز رکھے، پیٹ کی سیری کا نہیں، روح کی سیری کا بھوکا رہے۔ اس کلمۂ حکمت کو گرہ میں باندھ لے کہ:

لَيْسَ الْغِنَى عَنْ كَثْرَةِ الْعَرَضِ، إِنَّمَا الْغِنَى غِنَى النَّفْسِ. (مسلم بہ حوالہ ریاض الصالحین)
تونگری مال و اسباب کی فراوانی سے حاصل نہیں ہوتی۔ تونگری تو دل کی ہوتی ہے۔

یہ مومنانہ ذہن جن باتوں سے پیدا ہوتا ہے ان میں اہم ترین بات وہ ہے جو حکمت و دانش کے سب سے بڑے معلم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لفظوں میں ارشاد فرمائی ہے:

انْظُرُوا إِلَى مَنْ هُوَ أَسْفَلَ مِنْكُمْ، وَلَا تَنْظُرُوا إِلَى مَنْ هُوَ فَوْقَكُمْ، فَهُوَ أَجْدَرُ أَنْ لَا تَزْدَرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ. (مسلم بہ حوالہ ریاض الصالحین)
ان لوگوں کو دیکھو جو تم سے نیچے ہوں، انہیں نہ دیکھو جو تم سے اونچے ہوں۔ اس مقصد کے لیے کہ تم اللہ کی بخشی ہوئی نعمتوں کی تحقیر نہ کر جاؤ، یہی سب سے زیادہ مناسب طریقہ (اور کامیاب تدبیر) ہے۔
إِذَا نَظَرَ أَحَدُكُمْ إِلَى مَنْ فُضِّلَ عَلَيْهِ فِي الْمَالِ وَالْخَلْقِ، فَلْيَنْظُرْ إِلَى مَنْ هُوَ أَسْفَلَ مِنْهُ. (بخاری بہ حوالہ ریاض الصالحین)
جب تم میں سے کسی کی نگاہ ایسے شخص پر پڑے جو مالی اور جسمانی حیثیت سے اس سے بلند ہو تو اسے چاہیے کہ اپنی نگاہ ان لوگوں کی طرف پھیر دے جو ان چیزوں میں اس سے پست ہوں۔

ان بنیادی اور اہم تر امور کے علاوہ بہت سی مثبت اور منفی تدبیریں اور بھی ہو سکتی ہیں جنھیں ایک صادق الارادہ انسان خود اپنی فہم اور اپنے تجربے سے معلوم کر لے۔
(
۱۳۴ / 33)
(
۱۳۵ / 34)

 

[۳] باب چہارم: نماز

تعمیرِ دین کا تیسرا بنیادی پتھر نماز ہے۔ اعمال کی پوری فہرست میں یہی ایک عمل ہے جسے یہ امتیاز حاصل ہے اور جس کے بارے میں یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ عملی پہلو سے نماز کی اقامت اور اس کی ٹھیک ٹھیک ادائی پورے دین کی تعمیر کی ضمانت ہے۔ آئیے، اس حقیقت کا مشاہدہ دلائل کی روشنی میں کریں، تاکہ اتنی بڑی بات ذہن میں محض حسنِ عقیدت کے بل پر نہ ٹکی رہے اور اسے شرحِ صدر کے ساتھ مان لیا جائے۔ یہ صرف ایک علمی ضرورت نہیں، بلکہ دینی ضرورت ہے۔ کیوں کہ اس کے بغیر تعمیرِ دین کی کوششوں کا حق ہی ادا نہیں کیا جا سکتا۔ جب تک دل و دماغ کسی چیز کی قدر و قیمت کے معترف ہی نہ ہوں وہ اس کے لیے اپنی قوتیں کیا خرچ کریں گے؟

تعمیرِ دین کے معاملے میں نماز کو یہ پوزیشن جس بنا پر حاصل ہے اس کو اچھی طرح سمجھنے کے لیے سب سے پہلے اس کی حقیقت کو جاننا ہوگا اور پھر اس کی اہمیت کو۔

نماز کی حقیقت

نماز اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی غلامانہ اور فدویانہ حیثیت کا مکمل اظہار و اقرار ہے۔ جس اصطلاحِ قرآنی کا ترجمہ فارسی اور اردو زبانوں میں نماز کیا گیا ہے وہ صَلٰوة کا لفظ ہے۔ صلوٰۃ کے لغوی معنی کسی کی طرف رُخ کرنے، بڑھنے اور قریب ہو جانے کے ہیں۔ اس لیے اصطلاحِ شرع میں اس کا مطلب ہوگا اس اللہ کی طرف پوری طرح متوجہ ہو کر اور بڑھ کر اس کے قریب ہو جانا جو تنہا معبود اور اکیلا مقصود اور لاشریک محبوب ہے۔
(
۱۳۵ / 34)
(
۱۳۶ / 35)

نماز کی یہ اصل حقیقت ہے جو خود لفظ ”صلوٰۃ“ کے لغوی مفہوم ہی سے ظاہر ہو جاتی ہے اور اگر آپ فعلِ صلوٰۃ کی پوری کیفیت اپنے سامنے رکھ لیں تو اس بات کا بھی پورا پورا اندازہ ہو جائے گا کہ یہ نام اپنے مسمّٰی کا کیسا صحیح شارح اور ترجمان ہے۔ جائزہ لے کر دیکھیے کہ نماز میں آپ کیا کرتے ہیں اور کیا پڑھتے ہیں؟

نماز کے افعال:
کرتے آپ یہ ہیں کہ پہلے اس کعبے کی سمت رُخ کر لیتے ہیں جو اس دنیا میں اللہ کی بندگی کا سب سے پہلا اور سب سے آخری مرکز اور اس کی رضا جوئی کا سب سے بڑا نشان ہے، جس کے در و دیوار ابراہیمی توحید کے خاموش معلم اور اسماعیلی فداکاری کی مجسم دعوت ہیں۔ پھر کانوں تک ہاتھ لے جاتے ہیں (تکبیرِ تحریمہ)، جو اس امر کا اعلان ہوتا ہے کہ بندہ دنیا و مافیہا سے کٹ کر، دست بردار ہو کر اپنے آقا و مولا کے دربار میں حاضر ہو رہا ہے۔ پھر دونوں ہاتھ سینے پر باندھ کر، نظریں جھکا کر اپنے ظاہر پر بھی اور باطن پر بھی عجز و نیاز کی خاموشیاں طاری کر کے، مؤدب کھڑے ہو جاتے ہیں (قیام)۔ کچھ دیر بعد سیدھی پیٹھ خم ہو جاتی ہے اور سر جھک جاتا ہے (رکوع)۔ پھر ہاتھ اور گھٹنے، ناک اور پیشانی سب زمیں بوس ہو جاتی ہیں (سجود)۔ ادب اور نگوں ساری کی یہ برابر ترقی کرتی ہوئی کیفیتیں بتاتی ہیں کہ بندہ اپنی ہر ممکن ادا سے کسی صاحبِ جلال کی غیر محدود اور ہوش ربا عظمتوں کا اعتراف اور کسی صاحبِ جمال کی بے نہایت خوبیوں کا اقرار کرنا چاہتا ہے۔ اس لیے آتے ہی دست بستہ خاموش اور مؤدب کھڑا ہو گیا۔ مگر دل نے کہا کہ یہ عظمتیں، یہ خوبیاں کچھ اور چاہتی ہیں، تو اس نے پیٹھ جھکا دی اور سرِ نیاز خم کر دیا۔ اندر سے پھر آواز آئی کہ ابھی حق ادا نہیں ہوا، غلام نے اپنی پیشانی خاکِ عجز پر ڈال دی اور اس طرح اس کے لیے اپنے آپ کو جتنا گرانا اور ڈال دینا ممکن تھا گر گیا اور گر کر بچھ گیا اور پھر بھی اپنی زبانِ حال سے یہی کہتا رہا کہ ابھی حق ادا نہیں ہوا، اس لیے اے کاش! اظہارِ تعظیم و محبت کے لیے ان تین شکلوں کے سوا اور بھی کوئی شکل میرے علم اور میرے بس میں ہوتی تاکہ میں اسے بھی اختیار کرتا۔

نماز کی تلاوت و اذکار:
پڑھتے آپ یہ ہیں کہ ”اللہ سب سے بڑا ہے (اللہ اکبر)“، میں نے ہر طرف سے کٹ کر اپنا رُخ اس ذاتِ عالی کی جانب کر لیا جو آسمانوں کا اور زمین کا خالق ہے اور میں شرک سے یکسر بے تعلق ہوں (اِنِّيْ وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِيْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ حَنِيْفًا وَّمَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ)“، شکر کا مستحق وہ اللہ ہے جو ساری کائنات کا پروردگار ہے، الخ (اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ الخ)“۔ یہ اور اسی طرح کی اور بہت سی چیزیں ہیں جو نماز میں پڑھی جاتی ہیں۔
(
۱۳۶ / 35)
(
۱۳۷ / 36)

جس عبادت کی ہیئتِ ادا یہ ہو اور جس میں یہ سب کچھ پڑھا جاتا ہو، یقیناً وہ اسی کی حقدار تھی کہ اسے صلوٰۃ کا — معبودِ برحق کی طرف بڑھنے اور بڑھ کر قریب ہو جانے کا — نام دیا جائے۔ اگر انسان کا دل مر نہ گیا ہو اور نماز کے ان افعال اور کلمات کے تقاضوں کا اسے ہلکا سا بھی شعور ہو تو ممکن نہیں کہ یہ نماز اسے خدا سے قریب تر نہ کرتی چلی جائے۔

نماز کی یہ حقیقت صرف انہی چیزوں سے واضح اور متعین نہیں ہوتی، صرف قیاس و استنباط ہی نماز کی یہ اصل نہیں ٹھیراتے، بلکہ کتاب و سنت صراحت کرتی ہیں کہ صورتِ واقعہ یہی ہے۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ:

إِنَّ أَحَدَكُمْ إِذَا صَلَّى يُنَاجِي رَبَّهُ. (بخاری، باب المصلی یناجی ربہ)
جب تم میں سے کوئی نماز پڑھ رہا ہوتا ہے اس وقت وہ اپنے رب سے سرگوشیاں کرتا ہوتا ہے۔

قرآن میں ارشاد ہے:

وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْ. (العلق: ۱۹)
اللہ کو سجدہ کر اور قریب ہو جا۔

جب نماز میں بندہ اپنے رب سے ہم کلام ہوتا ہے تو ظاہر ہے کہ یہ ہم کلامی قربت ہی کی شکل میں ہوگی، جیسا کہ قرآن نے صاف صاف کہہ بھی دیا ہے کہ سجدۂ نماز میں بندہ اللہ سے قریب ہو جاتا ہے۔

نماز کی اہمیت

جس چیز کی حقیقت اتنی اونچی ہو، اس کی اہمیت معمولی نہیں ہو سکتی، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ غیر معمولی سے بھی کہیں زیادہ ہوگی۔ چنانچہ قرآن اور حدیث سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ایسا کہنا کسی طرح بھی واقعہ کے خلاف نہیں۔ قرآن کے اندر صرف یہی نہیں کہ نماز کے حکم کو بار بار دہرایا گیا ہے، بلکہ اس کے ذکر و بیان کے مواقع بھی مختلف نوعیتوں کے ہیں اور اس کے لیے
(
۱۳۷ / 36)
(
۱۳۸ / 37)
کلام کے اسلوب بھی رنگا رنگ اختیار کیے گئے ہیں۔ اسالیب کی یہ رنگا رنگی محض لفظی اور ظاہری آرائشِ کلام کے لیے نہیں ہے، نہ مواقعِ بیان کی نوعیتوں کا یہ اختلاف کوئی اتفاقی چیز ہے، بلکہ یہ سب کچھ بڑا معنی خیز ہے اور اہمیتِ نماز کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرنے کے لیے ہے۔ آئیے اس طرح کی چند منتخب آیتوں کا ایک موزوں ترتیب کے ساتھ ذرا گہری نظر سے مطالعہ کر لیں، تاکہ بات پوری طرح واضح ہو جائے اور فکر و تدبر کی نگاہیں دیکھ لیں کہ نماز کا مقام، دین کے پورے نظام میں کیا ہے؟ اور ان آیتوں میں سے ہر ایک اپنے مخصوص اندازِ بیان اور اپنے مخصوص موقعِ کلام کے ذریعے اہمیتِ نماز کا کون سا خاص رخ نمایاں کر رہی ہے:

۱۔ نماز دین کی عملی بنیاد ہے:

ذَكَرَ اسْمَ رَبِّهٖ فَصَلّٰى. (الاعلیٰ: ۱۵)
اس نے اپنے رب کو یاد کیا اور نماز پڑھی۔
اَقِمِ الصَّلٰوةَ لِذِكْرِيْ. (طٰہٰ: ۱۴)
میری یاد کے لیے نماز قائم کرو۔

یہ دونوں آیتیں بتاتی ہیں کہ اگر اللہ کو یاد کرنا ہو تو نماز پڑھنا چاہیے کہ یہی اس کی یاد کا سب سے زیادہ موزوں، جامع اور مکمل طریقہ ہے۔(۱) اللہ کی یاد کے متعلق سب جانتے ہیں کہ وہی دین کا اصل جوہر ہے۔ اب ان دونوں ثابت شدہ حقیقتوں کو ایک ساتھ ملا کر دیکھیے:

·        اللہ کی یاد دین کا اصل جوہر ہے۔

·        نماز نام ہے اللہ کی یاد کا۔

نتیجے میں ایک تیسری حقیقت سامنے آئے گی اور وہ یہ کہ عملی نقطۂ نگاہ سے نماز ہی دین کا مغز اور اس کی اصل بنیاد ہے۔

(۱) یہ صحیح ہے کہ کتاب و سنت میں ذکر کے اور طریقے بھی مذکور ہیں، مگر ان کی حیثیت مکمل، معیاری اور مستقل طریقِ ذکر کی نہیں ہے۔ ذکرِ الٰہی کی مکمل، معیاری اور مستقل شکل تو صرف نماز ہے۔ باقی دوسری تمام شکلیں ضمنی نوعیت کی ہیں اور اس لیے ہیں تاکہ حصولِ مقصد کے سلسلے میں اس نماز کی مدد کریں۔ دوسرے لفظوں میں یوں سمجھیے کہ روحِ انسانی کی اصل غذا تو نماز ہے اور ذکر کے باقی سب طریقوں کی حیثیت امدادی خوراکوں کی سی ہے۔
(
۱۳۸ / 37)
(
۱۳۹ / 38)

۲۔ ایمان کا پہلا لازمی مظہر اور اس کی صداقت کا ثبوت:

اِنَّمَا يُؤْمِنُ بِاٰيٰتِنَا الَّذِيْنَ اِذَا ذُكِّرُوْا بِهَا خَرُّوْا سُجَّدًا وَّسَبَّحُوْا بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُوْنَ تَتَجَافٰى جُنُوْبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَّطَمَعًا. (السجدہ: ۱۵، ۱۶)
ہماری آیتوں پر صرف وہی لوگ ایمان رکھتے ہیں جو اس وقت، جب کہ انہیں ان آیتوں کے ذریعے یاد دہانی کرائی جاتی ہے، سجدے میں گر پڑتے ہیں اور اپنے رب کی حمد کرتے ہوئے اس کی تسبیح کرتے ہیں اور بڑے نہیں بنتے۔ (رات میں) ان کے پہلو بستروں سے الگ رہتے ہیں اور وہ اپنے رب کو خوف اور توقع کے عالم میں پکار رہے ہوتے ہیں۔

یہ آیت واضح کرتی ہے کہ ایمان کا پہلا لازمی مظہر نماز ہے۔ اس بات کو اگر آپ یوں کہہ دیں کہ نماز ہی سے ایمان کا ثبوت ملتا ہے تو گو الفاظ بدل جائیں گے مگر حقیقت وہی رہے گی۔ اس طرح کی آیتوں سے قرآن کے اوراق بھرے پڑے ہیں۔ پہلے ہی ورق پر آپ کو یہ الفاظ ملیں گے:

الۗمّۗ ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَيْبَ فِيْهِ ۚ هُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوةَ. (البقرہ: ۱-۳)
الف لام میم۔ یہ وہی کتاب (موعود) ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں۔ یہ ان لوگوں کے لیے ہدایت (بن کر آئی) ہے جو متقی ہیں، جو بن دیکھے ایمان لاتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں۔“ الخ

ایک دوسرے مقام پر فرمایا گیا ہے:

فَلَا صَدَّقَ وَلَا صَلّٰى. (القیامۃ: ۳۱)
پس نہ تو اس نے (کتابِ الٰہی کو) مانا، نہ نماز پڑھی۔

یہ اور اسی طرح کی بہت سی آیتیں ہیں جن میں ایمان کے بعد اس کے لازمی تقاضے
(
۱۳۹ / 38)
(
۱۴۰ / 39)
کے طور پر نماز کا ذکر آتا ہے اور اس طرح آتا ہے کہ یا تو وہ ایمان کے باقی تمام تقاضوں کے ذکر سے پہلے ہوتا ہے، یا پھر اس کے سوا وہاں اور کسی تقاضے کا ذکر ہی نہیں ہوتا۔ مثلاً اسی آخری آیت کو دیکھیے، جس میں ”تصدیق“ یعنی ایمان کے تذکرے کے بعد صرف نماز کا ذکر ہوا ہے اور باقی دوسرے تمام اعمالِ صالحہ اور احکامِ شرع میں سے کسی چیز کا نام نہیں لیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ بات بلا کسی وجہ کے نہیں ہو سکتی اور یہ وجہ اس کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے کہ ایمان کے تمام لوازم میں نماز کو ایک خاص امتیاز حاصل ہے، یعنی یہ کہ وہ ایمان کا سب سے پہلا لازمہ اور اس کے وجود کا ضروری مظہر ہے۔

قرآن نے اس حقیقت پر صرف اثباتی پہلو ہی سے روشنی نہیں ڈالی ہے، بلکہ منفی پہلو سے بھی اس کی اچھی طرح پردہ کشائی کر دی ہے۔ سورۂ مدثر کی یہ آیتیں دیکھیے:

مَا سَلَكَكُمْ فِيْ سَقَرَ قَالُوْا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّيْنَ. (المدثر: ۴۲، ۴۳)
”(
فرشتے اہلِ دوزخ سے پوچھیں گے) تمہیں دوزخ میں کیا چیز لے آئی؟ جواب دیں گے، ہم نماز پڑھنے والوں میں نہ تھے۔“ الخ

یہ معلوم ہے کہ کفار کا وہ بنیادی جرم جو انہیں دوزخ کا ایندھن بنوائے گا، ان کا کفر ہوگا، لیکن فرشتوں کے سوال کا وہ جو جواب دیں گے، اس کی حکایت اللہ تعالیٰ یوں نہیں فرماتا کہ ”ہم کافر تھے، ایمان نہیں لائے تھے، اس لیے مبتلائے عذاب ہوئے ہیں،“ بلکہ اس طرح فرماتا ہے کہ ”ہم نماز پڑھنے والوں میں نہ تھے۔“ اور پھر اس کے بعد کچھ اور چیزوں کا ذکر کرتا ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ایمان اور نماز کی اقامت، ان دونوں چیزوں میں اتنی زبردست پیوستگی ہے کہ ذکر و بیان میں اگر موقع و محل کا اقتضاء ہو تو بلا تردد ایک کی جگہ دوسری کو لایا جا سکتا ہے، جیسے یہ دونوں ہم معنی الفاظ ہوں۔ پچھلی بحثوں میں سورۂ بقرہ کی جس آیت (۴۶) کا کئی بار حوالہ دیا جا چکا ہے، اس میں بھی اس حقیقت کی پوری پوری عکاسی موجود ہے۔ جب وہ کہتی ہے کہ وہ شخص اقامتِ نماز کا بارِ گراں نہیں اٹھا سکتا جسے قیامت پر یقین نہ ہو، تو گویا وہ یہ کہتی ہے کہ نماز ایمان بالآخرت کی کسوٹی اور اس کے وجود کا لازمی ثبوت ہے۔ چنانچہ حدیث میں یہ بات اور زیادہ کھول کر کہہ دی گئی ہے۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ:
(
۱۴۰ / 39)
(
۱۴۱ / 40)

مَنْ حَافَظَ عَلَيْهَا كَانَتْ لَهُ نُورًا وَبُرْهَانًا وَنَجَاةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ. (مشکوٰۃ)
جس نے نماز کی پابندی کی، قیامت کے دن وہ اس کے لیے روشنی اور (مومن ہونے کی) دلیل اور وجہِ نجات ہوگی۔

ایمان اور نماز کا یہی لازوال تعلق ہے جس کی وجہ سے وحیِ الٰہی، ایمان کے بعد ہی سب سے پہلے نماز کا حکم دیتی رہی ہے، جس کی مثالیں کتاب کے آغاز میں گزر چکی ہیں۔

۳۔ شریعت کی محافظت کا انحصار نماز پر:

قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ هُمْ فِيْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَ ... وَالَّذِيْنَ هُمْ عَلٰى صَلَوٰتِهِمْ يُحَافِظُوْنَ. (المؤمنون: ۱، ۲، ۹)
فلاح پائی ان ایمان لانے والوں نے جن کی نمازوں میں خشوع ہوتا ہے ... اور جو اپنی نمازوں کی پوری نگہداشت کرتے ہیں۔

بظاہر یہ آیتیں صرف یہ بتاتی ہیں کہ ایک سچے مومن کی امتیازی صفات کون کون سی ہیں، مگر واقعہ کے اعتبار سے یہ ایک بہت بڑے رازِ شریعت کی حامل بھی ہیں۔ اگر بات صرف اتنی ہوتی کہ ایک سچے مومن کے کچھ نمایاں خط و خال بتا دیے جائیں تو آخری جملے (وَالَّذِيْنَ هُمْ عَلٰى صَلَوٰتِهِمْ يُحَافِظُوْنَ) کی کوئی ضرورت نہ تھی، یا کم از کم یہ کہ ترتیبِ کلام میں اسے اس جگہ ہرگز نہ آنا چاہیے تھا، حالانکہ اللہ کا اعجازی کلام ہر عیب سے پاک ہے۔ اب اگر یہ جملہ موجود ہے اور اس مقام پر موجود ہے تو لازماً اس کی کوئی خاص وجہ اور غایت ہونی چاہیے۔ غور کیجیے کہ یہ وجہ اور غایت کیا ہے؟ ایسا کیوں ہے کہ جب نماز کا ذکر ابتدا میں آ چکا تھا تو دوسری صفات کے تذکروں کے بعد آخر میں اسے پھر لایا گیا، اور دوسری چیزوں (لغو باتوں اور کاموں سے کنارہ کشی، زکوٰۃ کی ادائی، عفت، ادائے امانت اور ایفائے عہد) کا ایک ہی بار ذکر کافی سمجھا گیا؟ اس سوال کے جواب میں صرف ایک ہی بات کہی جا سکتی ہے اور وہ یہ کہ اس اندازِ بیان سے نماز کی کسی خاص اہمیت کا اظہار مقصود ہے۔ لیکن یہ ایک مبہم جواب ہوگا، اور اسے ایک واضح اور تسلی بخش جواب بننے کے لیے ضروری ہے کہ اس خاص اہمیت کی بھی تعیین ہو جائے۔ اس تعیین کے لیے ہمیں ان
(
۱۴۱ / 40)
(
۱۴۲ / 41)
آیتوں کے نظم کو ذرا غور سے دیکھنا پڑے گا۔ یہ نظمِ آیات اس طرح کا ہے کہ پہلے نماز کا ذکر ہے، اس کے بعد چند دیگر بنیادی اعمالِ خیر کا بیان ہے، آخر میں پھر نماز کا تذکرہ آیا ہے اور اسی پر اس فقرے (پیراگراف) کو ختم کرتے ہوئے بات مکمل کر دی گئی ہے۔ یہ ترتیبِ بیان جس حقیقت کی طرف رہنمائی کرتی ہے وہ یہ ہے کہ نماز کی حیثیت گویا ایک دائرے اور حلقے کی سی ہے، جس کے اندر دوسرے تمام احکامِ شریعت محفوظ ہیں، نماز ہی شریعت کا عملی نقطۂ آغاز بھی ہے اور نقطۂ اختتام بھی۔ پوری شریعت کی بقا اسی کی بقا پر منحصر ہے اور یہی اکیلی ایک شے پورے نظامِ دین کی نگراں ہے۔

قرآن نے اس حقیقت کی طرف ایک اور بھی انداز میں اشارے کیے ہیں اور بار بار کیے ہیں۔ مدنی سورتوں کو دیکھیے۔ آپ پائیں گے کہ جہاں کہیں بھی احکام و شرائع کا بیان ہے، ذکر اور نماز کی ہدایت اس کے پہلو بہ پہلو ضرور موجود ہے۔ کلامِ الٰہی منزلی، معاشرتی، تمدنی اور سیاسی ضابطے بیان کر رہا ہوتا ہے، کہ یکایک کہیں اجمال کے ساتھ اور کہیں تفصیل کے ساتھ، ذکر و نماز اور حمد و تسبیح کی تلقین فرمانے لگتا ہے۔ ایسا وہ صرف یہ بتانے کے لیے کرتا ہے کہ اس کے نزدیک انسان کے لیے ان ضابطوں کی پابندی اسی وقت ممکن ہے جب اللہ کے ذکر سے اس کا باطن نغمہ ریز ہو اور فرماں برداری کی وہ صلاحیت جو ان احکام و شرائع پر عمل کرنے کے سلسلے میں درکار ہے، اسے اسی وقت حاصل ہو سکتی ہے جب کہ اس کے دل میں یادِ الٰہی کا سرچشمہ جاری ہو۔ اگر اس کا سازِ باطن خاموش ہو گیا اور اس کے تاروں سے لاہوتی نغموں کا ترنم بند ہو گیا تو معصیت کا رنگ اسے سیاہ بنا دے گا۔ پھر اس کے اندر سے نیکوکاری کا فیضان نہ ہو سکے گا اور اس کی زمامِ عمل خدا پرستی اور اتباعِ شریعت کے ہاتھوں سے نکل کر نفس اور شیطان کے ہاتھوں میں پہنچ جائے گی۔ اس بات کی اگر قرآن کے منہ سے واضح گواہی کا ملنا ضروری سمجھا جائے تو اس کے یہ الفاظ موجود ہیں:

اَضَاعُوا الصَّلٰوةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوٰتِ. (مریم: ۵۹)
انھوں نے نماز ضائع کر دی اور اپنی خواہشوں کے پیرو بن گئے۔

معلوم ہوا کہ خواہشوں کی پیروی نماز ضائع کر دینے کا لازمی اور راست نتیجہ ہے اور اس کی وجہ بالکل عیاں ہے۔ انسان کی مادی جبلت اسے ہر وقت خواہشِ نفس کی پیروی پر ابھارتی
(
۱۴۲ / 41)
(
۱۴۳ / 42)
رہتی ہے۔ دوسری طرف اتباعِ شریعت کا دارو مدار اس بات پر ہے کہ نفس کو لگام لگائی جائے۔ اس لیے قدرتاً انسان کے اندر ہر دم ان دونوں تقاضوں کی باہمی کشاکش ہوتی رہتی ہے۔ اس کشاکش میں نفس کے مطالبات کو ٹھکرا دینے کا بل بوتا صرف وہی شخص اپنے اندر پا سکتا ہے جسے اللہ اور آخرت پر کامل یقین ہو۔ یہی یقین وہ چیز ہے جو اس کے اندر خشوع کی کیفیت پیدا کرتی ہے اور یہی خشوع ہے جو قیام و رکوع و سجود کے قالب میں ڈھل کر صورتِ نماز اختیار کرتا ہے۔ وَاِنَّهَا لَكَبِيْرَةٌ اِلَّا عَلَى الْخٰشِعِيْنَ اور قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ هُمْ فِيْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَ کے جو قرآنی ارشادات اوپر گزر چکے ہیں، ان سے یہ بات کھل کر سامنے آ چکی ہے کہ خشوع اور نماز میں وہی ربط ہے جو روح اور جسم میں ہوتا ہے۔ قرآن نے نماز کی جو یہ صفت اور تاثیر بیان کی ہے کہ وہ انسان کو بے حیائی اور برائی کے کاموں سے روکتی ہے (اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَاۤءِ وَالْمُنْكَرِ - العنکبوت: ۴۵)، وہ اسی بنا پر ہے اور اس سے وہ تعلق آخری حد تک واضح ہو جاتا ہے جو نماز سے متقیانہ زندگی کو اور ترکِ نماز سے فاسقانہ، نفس پرستانہ زندگی کو ہے۔

قرآن حکیم کے اس اسلوبِ بیان سے بھی نماز کی اس عظیم حیثیت کا اظہار ہوتا ہے، جس کا پچھلی بحث میں تذکرہ آ چکا ہے۔ یعنی یہ کہ جس وقت وہ مخاطب کے ذہن کو احکامِ شریعت کے پورے مجموعے کی طرف منتقل کرانا چاہتا ہے اس وقت ایمان کے ذکر کے بعد نماز کا ذکر یا تو سب سے پہلے کرتا ہے، یا صرف اسی کا ذکر کرتا ہے اور اس کے سوا کسی اور حکمِ شرع کا ذکر مطلقاً نہیں کرتا۔ یہ اندازِ بیان اس بات کا کھلا ہوا قرینہ ہے کہ اس کی نگاہ میں نماز جڑ ہے اور دوسرے سارے احکام اسی جڑ سے نکلنے والی شاخیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ جب سچے مومنوں کے اوصاف کا اجمالی تعارف کرانا چاہتا ہے تو بالعموم یوں کہتا ہے کہ ”وہ لوگ جو ایمان لائے اور جنہوں نے صالح اعمال کیے (الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ)“، لیکن اس عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ کے اجمال کو جب کبھی وہ تفصیل کی روشنی میں لانا چاہتا ہے تو سب سے پہلے نماز کا نام لیتا ہے، مثلاً:

اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ الخ (البقرہ: ۲۷۷)
یقیناً وہ لوگ جو ایمان لائے اور جنہوں نے صالح اعمال کیے، یعنی نماز قائم کی۔“ الخ

ذکرِ نماز کا یہ تقدم اس بات کی دلیل ہے کہ نماز ہی بنیادی خیر و صلاح ہے۔ دوسرے
(
۱۴۳ / 42)
(
۱۴۴ / 43)
تمام اچھے اعمال اس کے بعد ہی وجود میں آتے ہیں اور پھر اسی کے دم سے ان کی زندگی قائم رہتی ہے۔ یہ جڑ اگر سوکھ گئی تو شاخوں اور پتیوں کا نام و نشان بھی باقی نہیں رہ سکتا۔ نماز کی یہ حیثیت اس وقت اور زیادہ نکھر کر سامنے آ جاتی ہے جب ذکرِ ایمان کے بعد صرف اسی کا ذکر ہوتا ہے۔

قرآنی اسالیب کی ان تینوں شہادتوں کے بعد ایک چوتھی شہادت بھی سنیے، جو امید ہے استدلال کی آخری ضرورت بھی پوری کر دے گی:

وَالَّذِيْنَ يُمَسِّكُوْنَ بِالْكِتٰبِ وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ ۗاِنَّا لَا نُضِيْعُ اَجْرَ الْمُصْلِحِيْنَ. (الاعراف: ۱۷۰)
اور جن لوگوں نے کتابِ الٰہی کو مضبوطی سے تھامے رکھا اور نماز قائم کی، تو یقیناً ہم (ایسے) نیک کردار لوگوں کا اجر ضائع نہ کریں گے۔

غور سے دیکھیے، یہاں ”کتابِ الٰہی کو مضبوطی سے تھامے رکھنے“ کا یعنی پورے مجموعۂ شریعت کی ٹھیک ٹھیک پیروی کا مدعا صرف اقامتِ صلوٰۃ کے تذکرے سے ادا کر دیا گیا ہے اور اس کے ساتھ کسی اور حکمِ شریعت کا سرے سے ذکر ہی نہیں کیا گیا ہے، نہ پہلے نہ بعد میں۔ گویا نماز ایک فعلِ عبادت اور ایک حکمِ شریعت نہیں بلکہ سارے احکام و عبادات کی نمائندہ اور قائم مقام ہے اور اس کا نام لے لینے کے بعد بالکل ضروری نہیں رہ گیا ہے کہ ایک ایک حکمِ شرع کا تذکرہ کیا جائے۔

غرض، کہنے کو تو یہ نماز ایک عمل ہے، شریعت کا ایک جز ہے، مگر حقیقت کے اعتبار سے اس کے اندر پوری شریعت سمٹی ہوئی ہے اور اس کا حق تھا کہ اس کے بارے میں کہا جاتا:

الصَّلَاةُ عِمَادُ الدِّينِ، مَنْ أَقَامَهَا فَقَدْ أَقَامَ الدِّينَ، وَمَنْ هَدَمَهَا فَقَدْ هَدَمَ الدِّينَ.“ (مشکوٰۃ - مفہوماً)
نماز دین کا مرکزی ستون ہے، جس نے اسے قائم رکھا اس نے اپنے دین کو قائم رکھا اور جس نے اسے ڈھا دیا اس نے پورے دین کو ڈھا دیا۔

۴۔ نماز سے اللہ تعالیٰ کی معیت نصیب ہوتی ہے:

قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهِ اسْتَعِيْنُوْا بِاللّٰهِ وَاصْبِرُوْا. (الاعراف: ۱۲۸)
موسیٰ نے اپنی قوم والوں سے کہا: مدد لو اللہ سے، اور صبر کرو۔
وَاسْتَعِيْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوةِ. (البقرہ: ۴۵)
(
۱۴۴ / 43)
(
۱۴۵ / 44)
اور (اے بنی اسرائیل!) صبر اور نماز سے مدد لو۔

اگرچہ یہ دونوں آیتیں دو مختلف جگہوں کی ہیں مگر جہاں تک مدعائے گفتگو کا تعلق ہے، کوئی شک نہیں کہ وہ دو نہیں ہے۔ بلکہ دونوں آیتوں میں بات بھی ایک ہی کہی گئی ہے اور وہ غرض و غایت بھی ایک ہی ہے جس کے لیے یہ بات کہی گئی ہے۔ لیکن اس کے باوجود ان آیتوں کے الفاظ ایک جیسے نہیں، بلکہ مختلف ہیں۔ پہلی آیت میں جس موقع پر ”اللہ“ کا لفظ ہے دوسری آیت میں اس موقع پر ”صلوٰۃ“ کا لفظ ہے۔ جو لوگ اس راز سے ناواقف نہیں ہیں کہ قرآن اپنے الفاظ اور اسالیب میں محض ہلکا سا رد و بدل کر کے حکمتِ دین کے بڑے بڑے نکتے بیان کر جاتا ہے، وہ صاف محسوس کر لیں گے کہ لفظوں کے اس فرق و اختلاف کے اندر کوئی نہ کوئی حکمت ضرور کار فرما ہے۔ غور کیجیے، یہ حکمت کیا ہو گی؟ پہلے اس غور و فکر کا سرا ٹھیک ٹھیک پکڑ لیجیے پھر مقصود تک رسائی کچھ مشکل نہ رہ جائے گی۔ یہ سرا یہ ہے کہ ان آیتوں میں ”صلوٰۃ“ کا لفظ ”اللہ“ کے لفظ کا اور ”اللہ“ کا لفظ ”صلوٰۃ“ کے لفظ کا قائم مقام بن گیا ہے اور دونوں لفظوں کے اس باہمی رد و بدل کے باوجود بات نہیں بدلی ہے۔

یہ ایک مانی ہوئی حقیقت ہے کہ کوئی سے دو لفظ ایک دوسرے کے قائم مقام اسی وقت بن سکتے ہیں جب وہ یا تو بالکل ہی ہم معنی ہوں، یا تقریباً ہم معنی ہوں، یا پھر ان میں کوئی بڑا گہرا ربط ہو۔ جہاں تک زیرِ بحث لفظوں کا سوال ہے، وہ باہم نہ تو ہم معنی ہیں، نہ قریب المعنیٰ۔ اس لیے ان کے آپس میں ایک دوسرے کے قائم مقام بن سکنے کی وجہ صرف ایک ہی رہ جاتی ہے اور وہ یہ کہ ان دونوں لفظوں میں غایت درجے کا گہرا ربط پایا جاتا ہے۔ یہ ربط کیا ہے؟ اس کی وضاحت سورۂ علق کی اس آیت سے ہو جاتی ہے:

وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْ. ”(اپنے رب کو) سجدہ کر اور اس کے قریب ہو جا۔

اور اس آیت سے زیادہ اس حدیث سے کہ:

أَقْرَبُ مَا يَكُونُ الْعَبْدُ مِنْ رَبِّهِ وَهُوَ سَاجِدٌ. (مسلم)
بندہ اپنے رب سے سب سے زیادہ قریب اس وقت ہوتا ہے جب کہ وہ سجدے میں ہوتا ہے۔

معلوم ہوا کہ نماز اور قربِ الٰہی ایک ہی شے کے دو نام ہیں۔ کسی ہستی کے قرب
(
۱۴۵ / 44)
(
۱۴۶ / 45)
اور اس کی معیت میں بہت تھوڑا فرق ہے۔ اور یہ فرق اس وقت نہ ہونے کے برابر ہو جاتا ہے اور کبھی تو بالکل ہی ختم ہو جاتا ہے، جب کہ قرب اپنے نقطۂ عروج پر پہنچا ہوا ہو۔ یہی سبب ہے کہ نماز کے متعلق حدیث میں یہ الفاظ بھی آتے ہیں:

فَإِنَّ الْعَبْدَ يُنَاجِي رَبَّهُ. (بخاری)
نماز کے اندر بندہ اپنے رب سے سرگوشی کرتا ہے۔

نیز یہ کہ (حدیث قدسی):

مَا يَزَالُ عَبْدِي يَتَقَرَّبُ إِلَيَّ بِالنَّوَافِلِ حَتَّى أُحِبَّهُ، فَإِذَا أَحْبَبْتُهُ كُنْتُ سَمْعَهُ الَّذِي يَسْمَعُ بِهِ، وَبَصَرَهُ الَّذِي يُبْصِرُ بِهِ، وَيَدَهُ الَّتِي يَبْطِشُ بِهَا. (بخاری بہ حوالہ مشکوٰۃ)
بندہ نوافل کے ذریعے برابر میرے قریب ہوتا جاتا ہے، یہاں تک کہ میں اسے اپنا محبوب قرار دے لیتا ہوں۔ اور جب ایسا ہو جاتا ہے تو میں ہی اس کے کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھیں بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کے ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے۔

یہ الفاظ کسی شرح اور تفصیل سے بالکل بے نیاز ہیں اور ان سے یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ نماز جس قربِ الٰہی کا نام ہے اس سے مراد کوئی معمولی درجے کا قرب نہیں ہے، بلکہ وہ قرب ہے جو معیت کی بلندیاں رکھتا ہے۔(۱)

(۱) یہ صحیح ہے کہ دوسری حدیث میں نماز کا لفظ نہیں ہے، بلکہ نوافل کا لفظ ہے۔ اور نوافل جس طرح نماز کے ہوتے ہیں اسی طرح دوسری عبادات کے بھی ہوتے ہیں۔ مگر اس حقیقت کے تسلیم شدہ ہونے کے باوجود اس امر میں بھی دو رائیں نہیں ہو سکتیں کہ نوافل کا اطلاق سب سے پہلے نوافلِ نماز ہی پر ہوتا ہے۔ دوسری عبادات کے نوافل پر اس کا اطلاق ہوتا ضرور ہے، مگر اس کے بالمقابل بہر حال کمتر درجہ میں ہوتا ہے۔
(
۱۴۶ / 45)
(
۱۴۷ / 46)

۵۔ دینی عزیمت اور استقامت علی الحق کا سرچشمہ:

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِيْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوةِ. (البقرہ: ۱۵۳)
اے ایمان لانے والو! (راہِ حق کی مشکلات کے مقابلے میں) صبر اور نماز سے مدد لو۔

یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ ان مصائب و آلام کا مقابلہ، جن سے خدا پرستوں کا دوچار ہونا سنتِ الٰہی کے مطابق بہر حال ضروری ہے، صرف صبر اور نماز سے کیا جا سکتا ہے۔ صبر جیسا کہ اس کے متعلق اگلے باب میں تفصیل سے بتایا جائے گا، کوئی مستقل بالذات شے نہیں ہے، بلکہ دراصل بڑی حد تک نماز ہی کا ایک عطیہ اور فیضان ہے۔ اس لیے استقامت علی الحق کا دارو مدار آخر کار صرف نماز پر آن ٹھہرتا ہے اور کسی شخص کے لیے یہ ممکن نہیں رہ جاتا کہ وہ نماز سے قوت حاصل کیے بغیر ایمانی محاذ پر جما رہ سکے، اپنے اندر کے طاغوت کو زیر کر سکے اور باہر کی شیطانی طاقتوں کا مقابلہ کر کے ان کے منہ پھیر سکے۔ اور تو اور، خود دنیا کا سب سے بڑا مومنِ حنیف بھی اس ضرورت سے بے نیاز نہ تھا۔ اسے بھی رسالت کے منصب پر سرفراز کرتے وقت جو ہدایت دی گئی تھی وہ یہی تھی کہ:

يٰٓاَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ قُمِ الَّيْلَ اِلَّا قَلِيْلًا نِّصْفَهٗٓ اَوِ انْقُصْ مِنْهُ قَلِيْلًا اَوْ زِدْ عَلَيْهِ وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِيْلًا اِنَّا سَنُلْقِيْ عَلَيْكَ قَوْلًا ثَقِيْلًا. (المزمل: ۱-۵)
اے کپڑوں میں لپٹنے والے! کچھ وقت چھوڑ کر باقی رات نماز میں کھڑے رہا کرو۔ آدھی رات یا اس میں کچھ کم کر دو، یا کچھ زیادہ اور قرآن ٹھہر ٹھہر کر پڑھو (کیوں کہ) ہم تم پر ایک بھاری بات (کا بوجھ) ڈالنے والے ہیں۔

قرآن میں ایک دو نہیں، بیسیوں مقام پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آپؐ کے ساتھیوں کو اس طرح کی تلقینیں کی گئی ہیں کہ مشکلات اگر تمہارا راستہ روکیں تو حمد و تسبیح اور ذکرِ نماز سے مدد لینا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ہدایت پر کس طرح عمل کیا، اس کا اندازہ حضرت حذیفہؓ کی اس روایت سے لگایا جا سکتا ہے کہ ”جب آپؐ کو کوئی بات غمگین اور متفکر کرتی تو آپؐ نماز پڑھنے کھڑے ہو جاتے۔

كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا حَزَبَهُ أَمْرٌ صَلَّى. (مشکوٰۃ)

معلوم ہوا کہ نماز ایک ایسی داروئے شفا ہے جو غموں اور پریشانیوں کو نابود کر کے دل کو سکون کی ٹھنڈک عطا کر دیا کرتی ہے۔
(
۱۴۷ / 46)
(
۱۴۸ / 47)

یہ تریاقیت نماز میں کہاں سے اور کیوں کر آتی ہے؟ اگر اوپر کی بحثیں ذہن میں محفوظ ہوں تو اس سوال کا جواب بھی آپ کو خود بخود مل جائے گا۔ جب نماز اللہ تعالیٰ کے قرب اور اس کی معیت کا نام ہے تو صاحبِ نماز کو کوئی بڑی سے بڑی مشکل اور پریشانی کس طرح زیر کر سکتی ہے؟ کیا کبھی آپ نے برف خانے میں جانے کے بعد گرمی کی شدت محسوس کی ہے؟ اگر نہیں، تو نماز یعنی خنکیوں کے سرچشمے میں بھی سوزشِ آلام کہاں باقی رہ سکتی ہے! اللہ کی معیت کے تو معنی ہی یہ ہیں کہ دل سکون و طمانیت کی دولت سے مالا مال ہو اور خوف و حزن کا دور دور تک نام و نشان نہ ہو۔ غارِ ثور کے اندر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے طبعی اضطراب کو دیکھ کر آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ فرمایا تھا کہ لَا تَحْزَنْ (غمگین نہ ہو) تو اس کے ساتھ ہی اس کی جو وجہ آپؐ نے بتائی تھی وہ یہ تھی کہ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا (التوبہ: ۴۰) (اللہ ہمارے ساتھ ہے)۔ اسی طرح خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ تلقین فرماتے وقت کہ مخالفتوں کے طوفان میں اپنی جگہ سے بال برابر نہ ہٹیں اور مضبوطی سے اپنے مقام پر جمے رہیں، (وَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ) آپؐ کو جو تسلی دی گئی تھی وہ یہ تھی کہ فَاِنَّكَ بِاَعْيُنِنَا (الطور: ۴۸) (یقین رکھو تم ہماری نگاہوں کے سامنے ہو)۔ اللہ رب العلمین کی نگاہوں میں ہونا اور اس کے قریب ہونا ایک ہی حقیقت کی دو مختلف تعبیریں ہیں۔

ان حوالوں سے یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہو گئی کہ مشکلات کے وقت انسان کو دل جمعی اور استقامت جس چیز سے ملتی ہے وہ اللہ تعالیٰ کا قرب اور اس کی معیت ہے۔ اور یہ بات کہ یہ قرب حاصل کس شے سے ہوتا ہے، ہم ابھی جان چکے ہیں، یعنی یہ کہ ذکر و نماز سے اور صرف ذکر و نماز سے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ خود اس آخری حوالے میں بھی فَاِنَّكَ بِاَعْيُنِنَا کی بشارت کے بعد حکم جس چیز کا دیا گیا ہے وہ اسی تسبیح و نماز کا ہے: وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ حِيْنَ تَقُوْمُ وَمِنَ الَّيْلِ فَسَبِّحْهُ وَاِدْبَارَ النُّجُوْمِ (اور اپنے رب کی حمد کرتے ہوئے اس کی تسبیح کیا کرو، اس وقت جب کہ تم اٹھتے ہو اور رات کے اوقات میں بھی اس کی تسبیح کرتے رہو اور ستاروں کے پیٹھ پھیر لینے کے بعد بھی۔)

۶۔ شہادتِ حق کی ادائیگی نماز پر موقوف:

... لِيَكُوْنَ الرَّسُوْلُ شَهِيْدًا عَلَيْكُمْ وَتَكُوْنُوْا شُهَدَاۤءَ عَلَى النَّاسِ فَاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتُوا الزَّكٰوةَ. (الحج: ۷۸)
(
۱۴۸ / 47)
(
۱۴۹ / 48)
”...
تاکہ پیغمبر تم پر (حق کا) گواہ ہو اور تم دوسرے تمام لوگوں کے لیے اس حق کے گواہ بنو۔ سو نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ ادا کرتے رہو۔

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ دینِ حق کی وہ شہادت جس کے لیے امتِ مسلمہ برپا کی گئی ہے اور جو اس کا واحد مقصدِ وجود ہے، اسی وقت انجام پا سکتی ہے جب کہ نماز اور زکوٰۃ کی ٹھیک ٹھیک ادائی ہوتی رہے۔ اس لیے اگر یہ امت اپنے اس فرض سے عہدہ برآ ہونا چاہتی ہے تو اسے نماز اور زکوٰۃ سے کسی حال میں بھی غافل نہ ہونا چاہیے۔ یہی وہ شاہراہِ عمل ہے جو شہادتِ حق کی منزل تک پہنچتی ہے۔ قدم اس راہ سے اگر ذرا ہٹے تو دنیا کے ہر مقصود تک رسائی ہو سکتی ہے، مگر جس مقصود کا نام شہادتِ حق ہے، اس تک رسائی کسی طرح بھی نہیں ہو سکتی۔

آیتِ زیرِ بحث میں نماز کے ساتھ اگرچہ زکوٰۃ کا بھی ذکر ہے، مگر اس سے اس حقیقت پر کوئی اثر نہیں پڑتا کہ شہادتِ حق کا اصل مدار نماز ہی پر ہے۔ کیوں کہ ہم ابھی سمجھ چکے ہیں کہ پورے مجموعۂ شریعت میں نماز کی حیثیت جڑ کی سی ہے اور دوسری چیزیں گویا اسی کی شاخیں ہیں۔ ان کی زندگی اگر قائم رہ سکتی ہے تو اسی وقت جب کہ نماز کا ’پاور ہاؤس‘ انھیں توانائی بہم پہنچاتا رہے۔ زکوٰۃ بھی اپنی تمام تر اہمیتوں کے باوجود اپنی بقا کے لیے اسی نماز ہی کی محتاج ہے۔ بلکہ یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ اس کی اصل تک بھی نماز ہی کی مہیا کی ہوئی اور اسی کا ایک فیضان ہے۔ کیوں کہ زکوٰۃ کی بنیاد عدل اور احسان پر ہے اور عدل و احسان کی اصل معلم یہی نماز ہے۔ اس لیے زکوٰۃ کا وجود بالکلیہ نماز سے وابستہ ہے۔

۷۔ شہادتِ حق میں کامیابی کی ضمانت:

وَلَقَدْ اَخَذَ اللّٰهُ مِيْثَاقَ بَنِيْٓ اِسْرَاۤءِيْلَ ۚ وَبَعَثْنَا مِنْهُمُ اثْنَيْ عَشَرَ نَقِيْبًا ۗ وَقَالَ اللّٰهُ اِنِّيْ مَعَكُمْ ۗ لَىِٕنْ اَقَمْتُمُ الصَّلٰوةَ ... لَاُكَفِّرَنَّ عَنْكُمْ سَيِّاٰتِكُمْ وَلَاُدْخِلَنَّكُمْ جَنّٰتٍ. (المائدہ: ۱۲)
اور اللہ نے بنی اسرائیل سے (اپنی بندگی کا) عہد لیا تھا۔ ہم نے ان میں سے ان کے اندر بارہ نقیب مقرر کیے تھے اور اللہ نے اعلان فرما دیا تھا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں۔ تم اگر نماز قائم رکھو گے ... تو میں تمہاری برائیوں کو جھاڑوں گا اور تمہیں باغوں میں داخل کروں گا۔“ الخ
(
۱۴۹ / 48)
(
۱۵۰ / 49)

اس سے پہلے کی آیت نے اگر ہمیں اس حقیقت سے روشناس کرایا تھا کہ خدا پرستی، دین کی علم برداری اور حق کی شہادت کا اصل دار و مدار نماز کی اقامت پر ہے، تو یہ آیت ہمیں ایک قدم اور آگے لے جاتی ہے اور اسی طرح کی ایک اور عظیم حقیقتِ دین سے باخبر کرتی ہے۔ یہ بتاتی ہے کہ شہادتِ حق کی جاں کاہ مہم میں اللہ تعالیٰ کی غیبی مدد جن شرطوں سے مشروط اور جن باتوں پر موقوف ہے، ان میں سرِ فہرست نماز ہے۔ اس لیے نماز کی اقامت صرف اسی لیے ضروری نہیں کہ شہادتِ حق کی بھاری ذمہ داری اٹھانے کی قوت اسی سے ملتی ہے، بلکہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس مہم میں کامیابی بھی وہی دلاتی ہے۔

۸۔ نماز کے بغیر ایمان بے روح ہے:

فَوَيْلٌ لِّلْمُصَلِّيْنَ الَّذِيْنَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُوْنَ. (الماعون: ۴، ۵)
پس ہلاکت ہے ان (نام نہاد) نمازیوں کے لیے جو اپنی نمازوں سے غافل ہوں۔

اگر نماز سے غفلت برتنے والے نمازی کے لیے ویل اور ہلاکت ہے تو بے نماز ”مومن“ کے لیے کیا کچھ نہ ہوگا! حالانکہ ایمان، ہلاکتوں سے امن دینے والی چیز ہے اور ”ویل“ ان کے لیے نہیں ہے جو ایمان کی امان رکھتے ہوں۔ لیکن قرآن کہتا ہے کہ نماز سے غفلت کی پاداش ”ویل“ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس کے نزدیک جس ایمان کے پاس نماز کی سند موجود نہ ہو وہ صرف نام کا ایمان ہے اور اس کی حیثیت جسدِ بے روح سے زیادہ نہیں۔ اس سلسلے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ ارشادات بھی سننے کے ہیں۔ کیوں کہ ان سے صورتِ واقعہ اور زیادہ بے نقاب ہوتی ہے۔ آپؐ فرماتے ہیں:

·        (الف) مَنْ تَرَكَ صَلَاةَ الْعَصْرِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ. (بخاری)
جس نے عصر کی نماز چھوڑ دی اس کے اعمال اکارت گئے۔

·        (ب) إِنَّ بَيْنَ الرَّجُلِ وَبَيْنَ الشِّرْكِ وَالْكُفْرِ تَرْكَ الصَّلَاةِ. (مسلم)
بلاشبہ انسان کے اور شرک و کفر کے درمیان حد ترکِ نماز ہے۔

·        (ج) الْعَهْدُ الَّذِي بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمُ الصَّلَاةُ، فَمَنْ تَرَكَهَا فَقَدْ كَفَرَ. (ترمذی)
(
۱۵۰ / 49)
(
۱۵۱ / 50)
ہمارے اور لوگوں کے درمیان معاہدہ نماز کا ہے جس کسی نے اسے چھوڑ دیا اس نے (معاہدہ ساقط کر دیا اور) کفر کیا۔

کتنے لرزہ آفریں ہیں یہ الفاظ! بڑی سے بڑی تاویل بھی ان کی قہاریت کو ختم نہیں کر سکتی۔ وہ جو کچھ کر سکتی ہے وہ اس کے سوا اور کیا ہو گا کہ ان ارشادات کو اسلوبِ تغلیظ پر محمول کر دے۔ کہہ دے کہ نماز کی اہمیت جتانے کے لیے بات انتہائی سخت لب و لہجہ میں فرمائی گئی ہے اور اس طرح قانون و سیاست کی حد تک آدمی کو کچھ بچا لے جائے(۱) مگر آگے کے لیے یقیناً وہ بھی کوئی اطمینان نہیں دلا سکتی۔

تمام کے تمام احکامِ شریعت میں سے صرف یہ ایک نماز ہی ہے جسے چھوڑ دینے کو حضرت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کفر قرار دیتے تھے:

(۱) [فٹ نوٹ کا متن]: علمائے اسلام نے نماز کے تارک کی جو پوزیشن مقرر کی ہے اور ان کے خیال میں جو سزائیں اسے خود اس دنیا میں بھی دی جائیں گی، ان کی مختصر تفصیل یہ ہے:
(
الف) ایسا تارکِ صلوٰۃ جو نماز کو فرض نہ سمجھتا ہو، بلا کسی اختلاف کے کافر ہے۔ الا آں کہ وہ ابھی جلد ہی اسلام لایا ہو، یا اسے اتنی مدت تک مسلمانوں کے ساتھ مل جل کر رہنے کا موقع ہی نہ مل سکا ہو جو نماز کی فرضیت سے اس کے واقف ہو جانے کے لیے کافی ہوتی۔
(
ب) ایسے شخص کے بارے میں جو نماز کو فرض مانتا ہو، لیکن اس کے باوجود محض اپنی سستی اور غفلت کی بنا پر اس کا تارک ہو، علمائے امت کی تین مختلف رائیں ہیں:
(
۱) وہ کافر نہیں بلکہ فاسق قرار دیا جائے گا۔ اگر وہ توبہ کر کے اپنے اس رویے کو بدل لے تو خیر، ورنہ اس پر قتل کی حد جاری کر دی جائے گی۔ یہ رائے جمہور سلف و خلف کی ہے۔ ائمہ فقہ میں سے امام مالکؒ اور امام شافعیؒ اس کے قائل ہیں۔
(
۲) سلف میں سے ایک گروہ کی رائے یہ ہے کہ وہ کافر قرار دیا جائے گا۔ یہ رائے حضرت علیؓ سے منقول ہے۔ امام احمد بن حنبلؒ سے بھی ایک روایت یہی ہے۔ یہی قول عبداللہ ابن مبارکؒ اور اسحاق بن راہویہؒ کا ہے۔ اور بعض شوافع کی رائے بھی اسی طرح کی ہے۔
(
۳) امام ابو حنیفہؒ، کچھ کوفی علماء اور شوافع میں سے امام مزنیؒ اس طرف گئے ہیں کہ اس کی تکفیر نہیں کی جائے گی، نہ اسے قتل کیا جائے گا، بلکہ سزا کے طور پر اس وقت تک کے لیے اس کو قید میں ڈال دیا جائے گا جب تک کہ وہ نماز نہ پڑھنے لگے۔
(
نیل الاوطار جلد ۱، صفحہ ۳۶۹)
(
۱۵۱ / 50)

صحابہ کرام کا متفقہ فیصلہ

كَانَ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَرَوْنَ شَيْئًا
مِّنَ الْأَعْمَالِ تَرْكُهُ كُفْرٌ غَيْرَ الصَّلوةِ.
(
ترمذی)
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی نماز کے سوا اور کسی عمل کے ترک کو کفر نہیں سمجھتے تھے۔

نماز بطور مسلم ہونے کی سند

اور جس کے ادا کرنے کو پوری امت مسلمان ہونے کی سند خیال کرتی ہے۔ علامہ ابن رشد اپنی کتاب ”کتاب المقدمات“ میں لکھتے ہیں:
قال اسحاق بن راهويه وقد اجمعوا في الصلوة على شئ
لم يجمعوا عليه فى سائر الشرائع وهو ان من عرف
بالكفر ثم رأى يصلى الصلوة في وقتها حتى صلى
صلوات كثيرة فى اوقاتها ولم يعلم انه اقربا التوحيد
بلسانه فانه يحكم له بالايمان بخلاف الصوم والزكوة
والحج.
(
کتاب المقدمات ص: ۶۴ ، ۶۵ )
اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ نماز کے بارے میں ایک ایسی بات پر اجماع ہے جس پر شرائع اسلام میں سے کسی بھی دوسری چیز کے بارے میں ایسا اجماع نہیں ہے اور وہ یہ کہ اگر کوئی شخص ایک غیر مسلم کی حیثیت سے جانا پہچانا جاتا ہو، پھر اسے وقت کی پابندی سے نماز پڑھتے دیکھ لیا جائے اور اسی طرح وہ کئی وقتوں کی نمازیں پڑھتا نظر آئے، تو اگر چہ اس طرح کی کوئی اطلاع نہ ہو کہ اس نے زبان سے توحید کا اقرار کر کے اسلام قبول کر لیا ہے، لیکن اس کے باوجود اب مسلمان ہی سمجھا جائے گا، بہ خلاف روزے، زکوٰۃ اور حج کے (کہ ان میں سے کسی کی بھی یہ پوزیشن دین میں نہیں ہے )۔

نماز باجماعت ترک کرنے پر وعید

اور پھر یہ ایک نماز ہی ہے جسے چھوڑ دینے والوں کے بارے میں نہیں بلکہ جسے با جماعت نہ ادا کرنے والوں کے متعلق اللہ کے رسول نے فرمایا تھا:
وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ أَمُرَ بِحَطَبٍ لِيُحْطَبَ
ثُمَّ أمُرَ بِالصَّلوةِ فَيُؤَذَنَ ثُمَّ امْرَ رَجُلًا فَيَومَ النَّاسَ ثُمَّ أُخَالِفَ
إِلَى رِجَالٍ فَأُحَرِّقَ عَلَيْهِمْ بُيُوتَهُمْ (بخاری باب وجوب صلوة الجماعة )

قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے، جی چاہتا ہے کہ لکڑیاں جمع کراؤں پھر نماز کا حکم دوں اور اذان دی جائے۔ پھر کسی کو نماز پڑھانے کے لیے کہہ کر خود (ان ) لوگوں کی طرف چلا جاؤں ( جو نماز جماعت میں شریک ہونے حاضر نہیں ہوئے ) اور ان کے سمیت ان کے گھروں کو آگ لگا کر جلا دوں۔

اس بات کی صراحت کہ آپ نے اپنے اس ارادے پر عمل کیوں نہیں کیا، ایک دوسری روایت کرتی ہے:
لَوْلَا مَا فِي الْبُيُوتِ مِنَ النِّسَاءِ وَالذُّرِّيَّةِ أَقَمْتُ صَلوةَ الْعِشَاءِ
وَأَمَرْتُ فِتْيَانِي فَيُحَرِّقُونَ مَا فِي الْبُيُوتِ بِالنَّارِ (مشکوة )
اگر گھروں میں عورتیں اور بچے نہ ہوتے تو میں عشاء کی نماز پڑھاتا اور اپنے کچھ نوجوانوں کو حکم دیتا کہ وہ جا کر ان گھروں میں آگ لگا کر سب کچھ بھسم کر دیں (جن کے مرد نماز پڑھنے مسجد میں نہیں آئے )۔

نہ بھولیں کہ یہ اس رسول کے الفاظ ہیں جو سنجیدہ گوئی اور نرم گفتاری کا مجسمہ تھا اور جسے دربار خداوندی سے رحمۃ للعالمین کا خطاب خاص عطا فرمایا گیا ہے۔ ان لفظوں سے معاملے کی سنگینی کا اندازہ لگائیے اور سوچیے کہ جہاں نماز کا وجود نہ ہو وہاں ایمان کا وجود کس حد تک متوقع ہے؟ خصوصاً اس شکل میں جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہاں تک فرما گئے ہوں کہ :

نماز چھوڑنے کے سنگین نتائج

مَنْ لَّمْ يُحَافِظُ عَلَيْهَا لَمْ تَكُن لَّهُ نُورًا وَّلَا بُرْهَانًا وَّلَا نَجَاةً
وَكَانَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَعَ قَارُونَ وَفِرْعَوْنَ وَهَامَانَ وَأُبي بن
خَلَفٍ.
(
احمد ، دارمی، بیہقی به حواله مشکوة )
جس نے نماز کی نگہ داشت نہیں کی وہ اس کے لیے کل نہ ( میدان حشر میں ) روشنی ہوگی نہ (اس کے مومن ہونے کی دلیل بنے گی اور نہ اس کے لیے وجہ نجات ہوگی۔ قیامت میں اس کا حشر قارون ، فرعون، ہامان اور ابی بن خلف کے ساتھ ہوگا۔

خلاصہ: نماز کی بنیادی حیثیت

یہ ہیں اہمیت نماز کے چند نمایاں پہلو، جو کتاب وسنت کی روشنی میں ہر صاحب نظر کو بہ آسانی دکھائی دے سکتے ہیں۔ اگر آپ پورے قرآن اور سارے ذخیرہ احادیث کا اس نقطہ نظر
سے مطالعہ کر جائیں کہ ان میں نماز کی ضرورت، اہمیت، افادیت اور تاثیر کے صراحتاً یا اشارۃً کیا کیا پہلو بیان کیے گئے ہیں تو ان کا شمار کہیں سے کہیں پہنچ جائے گا اور اس طرح نماز کی عظمتوں کا بھی اندازہ کرتے ہوئے آپ کا ذہن تھک تھک جائے گا۔ مگر یہاں اتنے ہی پہلوؤں کے تذکرے پر بس کیا جاتا ہے کیوں کہ اصولی اور بنیادی حیثیت انہی کو حاصل ہے اور باقی دوسرے پہلو ، قریباً سب کے سب ان ہی کی شاخیں ہیں۔ اس لیے اہمیت نماز کے عمومی تعارف کے لیے یہی چند پہلو کافی ہیں۔

اب نماز کی وہ حقیقت جو پہلے بیان کی جاچکی ہے اور اس کی یہ اہمیت ، جو ابھی بیان ہوئی ، ان دونوں چیزوں کو سامنے رکھیے اور پھر اس سوال پر غور فرمائیے کہ  میں نماز کو بنیادی حیثیت کیوں حاصل ہے؟ بہ شرطے کہ اب بھی یہ سوال سوال ہو اور اس پر غور کرنے کی ضرورت ہو۔ ورنہ جو شے دین کا اصل مغز ہو، جو ایمان کے تقاضوں کا سرعنوان ہو، جو شریعت کے پورے مجموعے کا مایہ حیات ہو، جو سارے احکام دین کی محافظ ہو، جو قلب انسانی کو نور اور سکینت سے بھر دینے والی ہو، جو محبوب حقیقی سے قرب اور ہم کلامی کا اعزاز بخشنے والی ہو، جو حق پرستی کی صبر آزما ابتلاؤں میں دلوں کو مضبوط اور قدموں کو استوار رکھنے والی ہو، جس پر شہادت حق کی ادائیگی کا انحصار ہو، جس پر ملی خوش بختیوں اور سر بلندیوں کا دارو مدار ہو، جس کے وجود و قیام پر پورے دین کا وجود و قیام موقوف ہو اور جس کے ڈھ جانے سے دین کا پورا ایوان زمین بوس ہو جاتا ہو۔ ایسی اہم ترین شے کے بارے میں اس طرح کے کسی سوال کی گنجائش ہی کہاں باقی رہ جاتی ہے۔ یہ صحیح ہے کہ دین حق کی اطاعت و اقامت بنیادی طور سے ایمان باللہ اور ایمان بالآخرت ہی پر منحصر ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات کی انسان کو جتنی ہی زیادہ گہری معرفت ہوگی اور آخرت کی جواب دہی کا اسے جتنا ہی زیادہ پختہ یقین ہوگا اتنا ہی زیادہ وہ احکام الہی کے اتباع میں سرگرم اور شہادت حق و اقامت دین کے ادائے فرض میں کوشاں ہوگا، مگر اسی کے ساتھ اس بات میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ جو چیز آخری طور پر اس ایمان کو ایمان بناتی اور اس سے اعمال خیر کے دھارے رواں کر دیتی ہے، وہ یہی ذکر و نماز ہے۔ عقل کی جستجوئیں، فطرت کی شہادتیں، کائنات کی دلیلیں، آفاق کی گواہیاں اور نفس کی صدائیں جس ایمان کو پیدا کرتی ہیں اس
کی حیثیت بس ایک بہت اچھے بیج کی سی ہوتی ہے۔ آپ جتنا ہی زیادہ تدبر و تفکر سے کام لیں گے اور زمین و آسمان کی بکھری ہوئی نشانیوں پر جس قدر گہری نگاہیں ڈالیں گے اتنا ہی زیادہ یہ بیج تندرست اور صالح ہوگا۔ لیکن کسی بیج کا تندرست اور صالح ہونا اس بات کے لیے ہرگز کافی نہیں ہے کہ وہ آج ایک شاداب اور ہونہار پودا ہے اور کل ایک تناور اور پھل دار درخت کو بھی جنم دے دے گا۔ یہ بات تو اسی وقت ممکن ہوتی ہے جب اس بیج کے لیے اچھی اور موزوں آب پاشی کا بھی انتظام ہو۔ تخم ایمان کے سیراب کیے جانے کے لیے حق تعالیٰ نے جس ”ماء مبارک“ کو نازل فرمایا ہے اس کا نام ”نماز“ ہے۔ یہ نماز ایمان کو اسی طرح پروان چڑھاتی اور اسے ثمر بار بناتی ہے جس طرح پانی پودوں اور درختوں کو۔ یہی وجہ ہے کہ ایمان باللہ اور ایمان بالآخرت دونوں کو مضبوط و بیدار بنانے کی تدبیروں میں ذکر و نماز کو ایک ممتاز حیثیت حاصل ہے۔ چنانچہ آپ ابھی پڑھ آئے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت کا بار اٹھانے کے لیے طاقت اور توانائی حاصل کرنے کا جو ذریعہ بتایا گیا تھا وہ رات کی نماز تھی۔ لیکن اس سلسلے میں جو الفاظ ارشاد فرمائے گئے تھے وہ صرف اتنے ہی نہیں تھے کہ ”اے کپڑوں میں لپٹنے والے! کچھ حصے کے سوا پوری رات نماز میں کھڑے رہا کرو، آدھی رات یا پھر اس میں کچھ کم کر دو یا کچھ زیادہ“ بلکہ ساتھ ہی یہ ہدایت بھی دی گئی تھی کہ :
وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلا (المزمل:۴)
اور (اس نماز میں) قرآن ٹھہر ٹھہر کر پڑھو۔

یہ مزید ہدایت جس غرض کے لیے تھی وہ یہ تھی کہ آپ قرآن پڑھتے وقت اس کی آیتوں پر گہرا تدبر کرتے جائیں ان آیتوں پر ، جن میں جگہ جگہ اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات کے اور روزِ جزا کے اطمینان بخش دلائل موجود ہیں، جو رحمت الہی کے سپاس انگیز تذکروں سے معمور ہیں، جو حمد و تقدیس کے جذبات اور بندگی کے احساسات کے لیے بیداری کا پیام ہوں۔ تاکہ یہ تدبر آپ کے دل میں ایمانی کیفیت کو تازہ تر کرتا چلا جائے۔ نماز کا یہ وہ پہلو ہے جس کی بنا پر وہ ایمانیات کے لیے آب حیات کا درجہ رکھتی ہے۔ اس سے انکار نہیں کہ قرآن نماز سے باہر بھی پڑھا جاتا ہے اور یقیناً اسے اس طرح بھی پڑھا جانا چاہیے۔ لیکن آپ اس فرق کو نظر انداز بھی نہیں کر سکتے جو دونوں حالتوں میں بہ ہر حال پایا جاتا ہے۔ نماز کی حالت میں انسان کی ظاہری ہیئت بھی بندگی کی معیاری ہیئت ہوتی ہے اور اس کا باطن بھی اپنے رب سے سرگرم ”مناجات
ہوتا ہے۔ مگر نماز سے باہر ان دونوں میں سے کوئی بات بھی نہیں۔ ہوتی ۔ اس لیے اس تلاوت کا جو دوسرے اوقات میں کی جاتی ہے، اس تلاوت سے جو نماز میں ہوتی ہے، کوئی مقابلہ نہیں کیا جا سکتا ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم صراحت سے فرماتے ہیں:
قِرَأَةُ الْقُرْآنِ فِي الصَّلوةِ أَفْضَلُ مِنْ قِرَاةِ الْقَرَانِ فِي غَيْرِ الصَّلوةِ.
(
مشکوة)
نماز کے اندر قرآن کا پڑھنا افضل ہے اس تلاوت سے جو نماز کے باہر کی جاتی ہے۔

غرض، یہ ایک مسلم حقیقت ہے کہ نماز کے اندر تلاوت قرآن کی اثر انگیزی اپنی مثال آپ ہے۔ بالخصوص نماز تہجد اور نماز فجر کی تلاوت کی اثر انگیزی ، کیوں کہ یہ وقت ہی کچھ ایسا ہوتا ہے جب ذہن میں سکون ، دل میں یکسوئی اور روح میں انجذاب کی ایک خاص کیفیت ہوتی ہے، اس لیے اس وقت نماز میں خشوع ، توجہ اور انابت کے دو آتشہ ہو جانے اور تفکر و تدبر کی رسائیوں کے بلند سے بلند تر ہو جانے کا امکان سب سے زیادہ ہوتا ہے۔

نماز کا معیارِ مطلوب: اقامتِ صلوٰۃ کا حقیقی مفہوم

نماز کی ان پر عظمت اہمیتوں نے اس کا یہ استحقاق پوری طرح ثابت کر دیا کہ وہ  میں ایک لازمی بنیادی عنصر کی حیثیت رکھتی ہے۔ لیکن اس جگہ پہنچ کر یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ جو نماز ان پر عظمت اہمیتوں کی مالک ہے، وہ ہے کون سی نماز؟ یہ جان اور سمجھ لینا اس لیے اور بھی ضروری ہے کہ نماز کی جو حقیقت، اہمیت اور عظمت ابھی سامنے آئی ہے، وہ اگر چہ نظری طور پر نا قابلِ انکار ہے، مگر عملی اور واقعاتی دنیا کا جائزہ اس نظری جائزے کی ہم نوائی کرنے پر کھل کر تیار نہیں ہوتا ۔ جو بے نمازی ہیں، ان کا تو خیر کوئی سوال ہی نہیں جو نمازیں پڑھنے والے ہیں ان کی زندگیاں بھی اس بات کی شہادت دیتی نظر نہیں آتیں کہ نماز کی ادائیگی سارے احکام دین کی ادائیگی کی ضمانت ہے۔ اور یہ کہ جس نے اسے قائم کیا اس نے پورے دین کو قائم کیا۔ چنانچہ ان کے عام مشاغل دیکھیے تو نظر آتا ہے کہ وہ نمازیں بھی پڑھتے ہیں اور ساتھ ہی ان کی دینی زندگی کے کتنے ہی حصے مسمار بھی پڑے ہیں اور یہ نمازیں ان حصوں کی تعمیر کا ان سے کوئی
مطالبہ نہیں کرتیں۔ اسی طرح ان کے اندازِ فکر کا جائزہ لیں تو محسوس ہوتا ہے کہ غالباً وہ ”نماز شناس“ ہی نہیں ہیں کیوں کہ اگر چہ وہ نمازوں کے پابند ہوتے ہیں مگر باطن کا سکون اور نفس کی پاکیزگی حاصل کرنے کے لیے وہ ان نمازوں (اور اذکار مسنونہ ) ہی کو کافی نہیں سمجھتے ، بلکہ ذکر کر کے کچھ اور بھی ” مؤثر“ طریقوں اور روحانی اشغال کے محتاج دکھائی دیتے ہیں۔ یہ ساری صورت حال تقاضا کرتی ہے کہ اس نماز کا ٹھیک ٹھیک تعارف کرا دیا جائے جو بلا شک و شبہ پوری شریعت کی محافظ ، دین کا مرکزی ستون اور اس کی تعمیر کا ایک ضروری بنیادی پتھر بھی ہے اور ذکر کامل ہونے کی وجہ سے اطمینانِ قلب اور پاکیزگی نفس کا موزوں ترین اور کافی وشافی ذریعہ بھی ۔

اس سلسلے میں سب سے پہلے نظروں کو اس بنیادی نکتے پر جما لینا چاہیے کہ قرآن نے نماز کی ”محافظت“ کرنے اور اسے قائم کرنے کا حکم دیا ہے، صرف پڑھنے کو نہیں کہا ہے۔ نماز قائم کرنا اور چیز ہے اور نماز پڑھنا اور شے۔ کپڑے کو کسی عمدہ صابن سے دھونا اور بات ہے اور اس کو جیسے تیسے پانی میں محض ڈبو کر نچوڑ لینا دوسری بات ہے۔ نماز کی ”اقامت“ کا قرآن وسنت کی رو سے ایک خاص مفہوم ہے۔ کچھ ظاہری اور باطنی شرطیں ہیں جن کا پورا ہونا نماز کے ”قائم“ ہو سکنے کے لیے بہ ہر حال ضروری ہے۔ جب تک یہ تمام شرطیں پوری نہ ہو جائیں اور ان میں سے ایک ایک کی پابندی نہ کر لی جائے، یہ ہرگز نہیں کہا جا سکتا کہ نماز کا ”قیام“ عمل میں آ گیا ہے ہاں، اسے نماز کا پڑھ لیا جانا ضرور کہہ سکتے ہیں۔ ان شرطوں میں سے اہم اور بڑی شرطیں یہ ہیں :

اقامتِ صلوٰۃ کی شرائط

(۱) وقت کی پابندی

اللہ تعالیٰ کا واضح ارشاد ہے:
إِنَّ الصَّلوةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَبًا مَّوْقُوتًا (النساء : ١٠٣)
بلا شبہ نماز مومنوں پر وقت کی پابندی کے ساتھ فرض ہے۔
اس ارشاد سے پہلے نماز کا حکم ان لفظوں میں دیا جا چکا ہے ”فَأَقِيمُوا الصَّلوةَ“ (نماز قائم کرو ۔) کلام کا یہ نظم اور سیاق صاف بتا رہا ہے کہ وقت کی پابندی اقامت نماز کے لیے شرط لازم ہے اور اس سے بے پروائی نماز کو ضائع کر دینے کی طرف ایک قدم ہے۔

(۲) جماعت کی پابندی


اگر آپ سورہ نساء کے اس پورے فقرے کو غور سے پڑھیں جس کا یہ مذکورہ بالا جملہ ایک ٹکڑا ہے، تو معلوم ہوگا کہ وقت کی پابندی کی طرح جماعت کی پابندی بھی اقامت نماز کے لیے ضروری ہے۔ اس پورے فقرے میں دراصل میدانِ جنگ کی نماز کا طریقہ بتایا گیا ہے اور بات کو نماز میں قصر کرنے کی ہدایت سے شروع کر کے آگے چل کر فرمایا گیا ہے کہ ”اے نبی ! اگر تم بہ نفس خود مجاہدین میں موجود ہو اور انہیں نماز پڑھاؤ تو چاہیے کہ ان میں کا ایک گروہ تمہارے پیچھے اپنے اسلحے لیے ہوئے نماز پڑھنے کھڑا ہو جائے اور دوسرا گروہ دشمن کے مقابل رہے۔ جب پہلا گروہ ایک رکعت پوری کرلے تو دوسرے کی جگہ دشمن کے سامنے آکھڑا ہو اور دوسرا گروہ آ کر تمہارے پیچھے نماز میں کھڑا ہو جائے۔“ (وَ إِذَا كُنْتَ فِيهِمْ فَأَقَمْتَ لَهُمُ الصَّلوةَ فَلْتَقُمْ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ معك ... الآية ) اس ارشاد الہی سے نماز کی مطلق اہمیت کے ساتھ ساتھ یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ اس کے لیے جماعت کا اہتمام کس قدر ضروری ہے؟ میدانِ جنگ میں بھی اگر یہ حکم ہے کہ مسلمان دو گروہوں میں بٹ کر باری باری اپنی آدھی آدھی نماز امام کے پیچھے ہی ادا کریں اور نماز میں جماعت کی پابندی سے بالکل آزاد نہ ہو جائیں تو پھر جماعت کی اہمیت کے لیے اس سے بڑا اور کیا ثبوت چاہیے؟ پھر اس ارشاد کے بعد ہی ہماری نظر ان الفاظ پر پڑتی ہے:
فَإِذَا اطْمَانَنْتُمْ فَأَقِيمُوا الصَّلوةَ (النساء: ١٠٣)
پھر جب تمہاری یہ حالت خوف ختم ہو جائے تو نماز قائم کرو۔

ان لفظوں کو دیکھنا گویا اس حقیقت کو دیکھ لینا ہے کہ جماعت کی پابندی صرف ایک بڑی ضرورت نہیں ہے بلکہ ایسی بڑی ضرورت ہے کہ وہ اقامت نماز کی شرائط میں داخل ہے۔ کیوں کہ ”پھر جب تمہاری یہ حالت خوف ختم ہو جائے تو نماز قائم کرو“ کہنے کے معنی ہی یہ ہیں کہ حالت خوف میں نماز کی ادائیگی کا جو طریقہ بتایا گیا ہے وہ عام حالات کے لحاظ سے اقامتِ صلوٰۃ کا معیاری طریقہ نہیں ہے اور جس وجہ سے نہیں ہے وہ صرف یہ ہے کہ اس میں بعض چیزوں کا اہتمام نہیں ہو پاتا۔ اس سے خود بہ خود یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ یہ ”بعض چیزیں“ اقامت نماز کے لوازم میں
شامل ہیں۔ جماعت کا ٹھیک ٹھیک اہتمام بھی انہی چیزوں میں سے ایک ہے، بلکہ ان میں کی یہی سب سے نمایاں چیز ہے۔ اس لیے وہ اس بات کی سب سے زیادہ حق دار ہے کہ اقامت نماز کی شرطوں میں اس کا شمار ہو۔ لہذا اس قرآنی فقرے کا منشا یہ نکلا کہ جماعت کی مکمل پابندی بھی اقامت نماز کے لوازم میں سے ہے۔ جب تک اس کا بھی اہتمام نہ ہو نماز کی اقامت نہیں ہو سکتی۔ اس استنباط کی تائید مطلوب ہو تو وہ حدیثیں پڑھ لینی جن میں نماز کے لیے جماعت کی پابندی کا صریح حکم دیا گیا ہے اور اس کی پابندی نہ کرنے والوں کے حق میں سخت ترین وعیدیں وارد ہیں۔ نماز با جماعت کی تاکید کرتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
مَامِنُ ثَلَثَةٍ فِي قَرْيَةٍ وَلَا بَدْرٍ لَا تُقَامُ فِيْهِمُ الصَّلُوةُ إِلَّا قَدِ
اسْتَحْوَذَ عَلَيْهِمُ الشَّيْطانُ فَعَلَيْكُمُ بِالْجَمَاعَةِ فَإِنَّمَا يَا كُلُ
الذِّئْبُ مِنَ الغَنَمِ الْقَاصِيَةَ. ( ابوداؤد به حوالہ ریاض الصالحين )
جس بستی یا گاؤں میں تین آدمی بھی ہوں اور ان میں نماز قائم نہ کی جاتی ہو ان پر شیطان غالب آ جاتا ہے۔ اس لیے تم نماز کے لیے جماعت کی پابندی اپنے اوپر لازم رکھنا، کیوں کہ بھیڑیا انہی بھیڑوں کو کھاتا ہے جو اپنے ریوڑ سے دور رہ گئی ہوں۔

ایک نابینا صحابی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے گزارش کی کہ مجھے مسجد تک پہنچانے والا کوئی نہیں ہے، اس لیے مجھے گھر ہی پر نماز پڑھ لینے کی اجازت دے دی جائے۔ آپؐ نے پہلے تو اجازت دے دی ، مگر پھر بلا کر پوچھا کہ ”کیا تم اذان کی پکار سنتے ہو؟“ انھوں نے کہا ”ہاں“۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا: ”فَاجِبْ“ (تو پھر اس کا جواب دو) یعنی مسجد آیا کرو۔ (مسلم ) نماز با جماعت نہ ادا کرنے والوں کو انہیں گھروں سمیت جلا دینے تک کی جو دھمکی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی اس کا تذکرہ ابھی اوپر گزر چکا ہے۔ یہ اور اسی طرح کی مختلف حدیثیں اس بات کی قطعی دلیل ہیں کہ نماز کے لیے جماعت کی پابندی ضروری ہے اور اس کے بغیر اس کی اقامت نہیں ہو سکتی۔

جماعت کی پابندی تو خیر بہت بڑی چیز ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات سے تو یہاں تک ثابت ہوتا ہے کہ نماز کے لیے جماعت کی ٹھیک ٹھیک صف بندی بھی اس کی اقامت کا جزو ہے۔ فرماتے ہیں کہ :

إِنَّ تَسْوِيَةَ الصُّفُوفِ مِنْ إِقَامَةِ الصَّلوةِ۔ (بخاری)
صفوں کا درست اور سیدھا رکھنا اقامت نماز میں سے ہے۔

(۳) ارکانِ نماز کی تعدیل اور اعضائے بدن کا سکون اور جھکاؤ

نماز کی محافظت کا حکم دیتے ہوئے قرآن کہتا ہے :
حفِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَ الصَّلوةِ الْوُسْطَى وَ قُوْمُوا لِلَّهِ قُنِتِينَ (البقره: ۲۳۸)
نگہ داشت کرو اپنی نمازوں کی اور بیچ کی نماز کی اور کھڑے ہو اللہ کے حضور ادب و نیاز کے ساتھ۔
اس سے معلوم ہوا کہ نماز کی نگہ داشت اسی وقت ہو سکتی ہے جب اسے ادا کرتے وقت جسم پر ادب اور عجز و نیاز کی کیفیت چھائی ہوئی ہو۔ اب اگر نماز کو ٹھہر ٹھہر کر نہ پڑھا جائے ، رکوع اور سجدہ پورے سکون سے نہ کیے جائیں ، نگاہوں میں فرط ادب کا جھکاؤ اور جسم پر وفور نیاز کا سکوت طاری نہ ہو تو وہ کسی طرح ایسی نماز نہ ہوگی جس کے متعلق یہ کہا جاسکے کہ اس کی محافظت اور اقامت کی گئی ہے۔

اس بات کی واضح تائید اور تفصیلی شہادت کے لیے احادیث سے رجوع کیجیے ، جہاں آپ کو صاف سنائی دے گا کہ :
لَا تُجْزِئُ صَلوةٌ لَّا يُقِيمُ الرَّجُلُ فِيهَا يَعْنِي صُلْبَهُ فِي
الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ.
(
ترمذی، ابواب الصلوة )
وہ نماز ناقص ہے جس میں نماز پڑھنے والے نے رکوع اور سجدے میں اپنی پیٹھ سیدھی نہ رکھی ہو۔

ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے پوچھا کہ ” شرابی ، زانی اور چور کو تم لوگ کیسا سمجھتے ہو؟“ اور یہ اس وقت کی بات ہے جب ان جرائم کی سزا بھی نازل نہیں ہوئی تھی۔ لوگوں نے جواب دیا ” اللہ اور رسول بہتر جانتے ہیں۔“ آپ نے فرمایا:
هُنَّ فَوَاحِشُ وَفِيهِنَّ عُقُوبَةٌ وَاسْوَءُ السَّرُقَةِ الَّذِي يَسْرِقُ
صَلوتَهُ قَالُوا وَكَيْفَ يَسْرِقُ صَلُوتَهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ لَا
يُتِمُّ رُكُوعَهَا وَلَا سُجُودَهَا .
(
مشکوۃ ، ص: ۸۳)
یہ سب کھلے ہوئے بڑے گناہ ہیں اور سزا کے موجب ہیں۔ اور چوریوں میں بدترین چوری نماز کی چوری ہے۔ پوچھا گیا کہ یا رسولِ خدا! کوئی نماز کی چوری کیسے کرتا ہے؟ ارشاد ہوا کہ رکوع اور سجدے ادھورے ادھورے کر کے۔

آخرت میں اس طرح کی نمازوں کا حشر یہ بتایا گیا ہے :
لَا يَنظُرُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَى صَلوةِ عَبْدٍ لَا يُقِيمُ فِيهَا صُلْبَهُ بَيْنَ
رُكُوعِهَا وَسُجُودِهَا .
(
مشکوۃ ، ص ۸۴)
اللہ تعالیٰ اس شخص کی نماز کی طرف نظر بھی نہ اٹھائے گا جو رکوع اور سجدے کے درمیان اپنی پیٹھ کو سیدھی نہیں کرتا۔

... مَنْ اَحْسَنَ وُضُوءَ هُنَّ وَ صَلَّاهُنَّ بِوَقْتِهِنَّ وَأَتَمَّ رُكُوعَهُنَّ
وَخُشُوعَهُنَّ كَانَ لَهُ عَلَى اللَّهِ عَهْدٌ أَنْ يَغْفِرَ لَهُ وَمَنْ لَمْ
يَفْعَلُ فَلَيْسَ لَهُ عَلَى اللَّهِ عَهْدٌ إِنْ شَاءَ غَفَرَ لَهُ وَإِنْ شَاءَ
عَذَّبَهُ.
(
مشکوۃ، ص۵۸)
جس نے نمازوں کے لیے اچھی طرح وضو کیا اور انہیں وقت پر پڑھا اور ان کے رکوع اور سجدے پورے پورے ادا کیے، اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اسے بخش دے گا۔ لیکن جو ایسا نہ کرے گا اس کے لیے اللہ کا کوئی وعدہ نہیں ہے، چاہے گا تو بخشے گا اور چاہے گا تو عذاب میں ڈال دے گا۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لائے۔۔ ذرا دیر بعد خلاد بن رافع نامی صحابی بھی داخل ہوئے اور آکر آپ کے سامنے نماز پڑھی لیکن اس طرح کے ارکانِ نماز اچھی طرح ٹھہر ٹھہر کر اور اطمینان کے ساتھ ادا نہ ہوئے ، پڑھ چکنے کے بعد خدمت میں حاضر ہوئے اور سلام عرض کیا۔ آپ نے وعلیکم السلام کہتے ہوئے فرمایا:
ارْجِعُ فَصَلِّ فَإِنَّكَ لَمْ تُصَلِّ - (بخاری، مسلم، کتاب الصلوة )

جاؤ اور پھر نماز پڑھو، کیوں کہ تم نے ابھی نماز نہیں پڑھی۔

یہ سن کر وہ واپس گئے اور انھوں نے پھر سے نماز پڑھی لیکن جب نماز سے فارغ ہو کر آپ کے پاس آئے تو آپ نے وہی بات پھر ارشاد فرمائی ۔ اس طرح تین بار ہوا۔ جب تین بار پڑھ چکنے کے بعد بھی انھوں نے زبانِ مبارک سے ”اِرْجِعُ فَصَلِّ فَإِنَّكَ لَمْ تُصَلِّ“ ہی سنا تو عرض پرداز ہوئے ” وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا أُحْسِنُ غَيْرَهُ فَعَلِّمُنِي“ (قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو دین حق دے کر بھیجا ہے۔ میں اس سے اچھی نماز نہیں پڑھ سکتا ، اس لیے بتادیجیے کس طرح پڑھوں؟) اس گزارش پر آپ نے انہیں تفصیل سے بتایا کہ نماز اس طرح پڑھو اور رکوع ، سجود، قومہ، جلسہ وغیرہ ہر کام ٹھہر ٹھہر کر اور پورے اطمینان کے ساتھ انجام دو۔

حضرت حذیفہؓ نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ رکوع اور سجدے پوری طرح نہیں کر رہا ہے۔ جب وہ نماز پڑھ چکا تو انھوں نے اس سے فرمایا :
مَا صَلَّيْتَ وَلَوْمِتَّ مِتَّ عَلَى غَيْرِ الْفِطْرَةِ الَّتِي فَطَرَ اللَّهُ
مُحَمَّدًا صَلَى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
(
بخاری)
تم نے نماز نہیں پڑھی۔ اور اگر تم اسی حالت میں مر گئے تو تمہاری موت اس ملت پر نہ ہوگی جسے اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا فرمایا ہے۔

ان تمام نصوص سے بہ خوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ نماز کو ٹھہر ٹھہر کر اور پورے اطمینان کے ساتھ ادا کرنا اور اعضاء و جوارح پر ادب و تذلل کی کیفیت کا طاری رہنا بھی نماز کی اقامت اور محافظت کے مفہوم میں لازماً شامل ہے۔

(۴) خشوع

ہر چیز کی ایک صورت ہوتی ہے اور ایک حقیقت ۔ نماز کی بھی ایک صورت ہے اور ایک حقیقت ہے جس کے بغیر وہ ایک بے جان لاشہ رہ جاتی ہے اور اس کی کوئی قیمت باقی نہیں رہتی۔ اس ”حقیقت“ کا نام قرآن اور حدیث کی زبان میں ”خشوع“ ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے حضور جھک پڑنا اور بچھ جانا ۔ سورہ مومنون کی ابتدائی آیتوں میں سے، جن میں ایک بامراد اور مثالی
مومن کی بڑی بڑی عملی صفات بیان کی گئی ہیں، ایک آیت یہ بھی ہے :
الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَشِعُونَ (المؤمنون : ۲)
جو اپنی نمازوں میں خشوع رکھتے ہیں ۔

یہ آیت یہ تو بتاتی ہی ہے کہ ایک بامراد اور مثالی مومن کی پہلی بنیادی صفت اس کا نمازی ہونا ہے لیکن اس سے زیادہ وہ یہ بتاتی ہے کہ اس کی نمازیں با روح ہوتی ہیں، ان میں مغز اور جوہر ہوتا ہے، ان کی صورت کے اندر حقیقت بھی ہوتی ہے اور اس روح کا ، اس مغز اور جوہر کا، اس حقیقت کا نام خشوع ہے، جس نماز میں یہ خشوع نہ ہوگا وہ ایک با مراد مومن کی نماز نہیں ہو سکتی ۔

جو چیز نماز کی روح ہو، اس کا اصل جوہر اور مغز ہو ، بدیہی بات ہے کہ وہ اس کی اقامت کے لیے صرف ایک ضروری شرط نہ ہو گی بلکہ سب سے زیادہ ضروری شرط ہوگی اور اس کے بغیر نماز کے قائم ہو سکنے کا تصور ہی ممکن نہیں۔ یہ عقل کے مسلمات میں سے ہے اور اسی مسلمہ حقیقت کا اظہار تھا جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ :
كَمْ مِّنْ قَائِمٍ لَيْسَ لَهُ مِنْ قِيَامِهِ إِلَّا السَّهْرُ ۔ (مشکوۃ)
کتنے ہی رات کے نمازی ہیں جن کے پلے رت جگے کے سوا کچھ نہیں پڑتا ۔

الصَّلوةُ مَثْنَى مَثْنَى تَشَهُدٌ فِي كُلِّ رَكْعَتَيْنِ وَتَخَشُعُ
وَتَضَرُّعُ وَ تَمَسْكُنٌ وَّمَنْ لَّمْ يَفْعَلُ ذَلِكَ فَهُوَ كَذَا وَكَذَا.
(
ترمذی)
نماز دو دو رکعت پڑھی جاتی ہے۔ ہر دو رکعت کے بعد تشہد ہوتا ہے، پورے وجود پر اللہ تعالیٰ کا خشوع اور تضرع اور مسکنت کی کیفیت چھائی ہوئی ہوتی ہے۔ جو شخص یہ سب کچھ نہیں کرتا وہ ایسا اور ایسا ہے۔

(۵) تدبرِ قرآن

نماز جن افعال کا مجموعہ ہے ان میں سب سے اہم چیز قرآن کی تلاوت ہے۔ بلکہ یہ کہنا بھی واقعیت سے کچھ بہت دور نہ ہوگا کہ وہی اصل نماز ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے
ارشادات ملاحظہ فرمائیے :
إِنَّمَا الصَّلوةُ لَقِرَأَةُ الْقُرْآنِ وَذِكْرُ اللَّهِ فَإِذَا كُنتَ فِيهَا
فَلْيَكُنْ ذَلِكَ شَانَكَ.
(
ابوداؤد )
نماز تو صرف قرآن کی تلاوت اور اللہ کے ذکر کا نام ہے۔ اس لیے جب تم نماز پڑھ رہے ہو تو تمہیں انہی چیزوں میں مصروف رہنا چاہیے۔

اِنَّمَا هِيَ التَّسْبِيحُ وَالتَّكْبِيرُ وَقِرَأَةُ الْقُرْآنِ (مسلم)
نماز عبارت ہے صرف تسبیح و تکبیر اور تلاوت قرآن سے ۔

اب ایک طرف تو یہ دیکھیے کہ ان حدیثوں کی رو سے تلاوت قرآن ہی گویا اصل نماز ہے، دوسری طرف آپ ابھی معلوم کر چکے ہیں کہ نماز کی روح خشوع وانابت ہے۔ اس لیے ان دونوں باتوں سے قدرتی طور پر ایک تیسری حقیقت یہ نمودار ہوتی ہے کہ خشوع کا تلاوت قرآن سے گہرا ربط ہے اور یہ قرائت قرآن ہی وہ سب سے اہم اور بنیادی ذریعہ ہے جس سے دل میں خشوع کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ قرآن کی تلاوت کا یہ اثر بہ جائے خود ایک مسلمہ حقیقت ہے ، خواہ وہ نماز کے اندر ہو یا باہر، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جب پوچھا گیا کہ ”اے اللہ کے رسول ! انسانی قلوب سے سختی اور غفلت کے زنگ کس طرح دور ہوتے ہیں؟“ (يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا جِلَاءُ هَا) تو آپ نے ارشاد فرمایا:
كَثُرَةُ ذِكْرِ الْمَوْتِ وَتِلَاوَةُ الْقُرْآنِ۔ (مشکوۃ ص:۱۸۹)
موت کو بہ کثرت یاد کرتے رہنے اور قرآن کی تلاوت سے ۔

مگر اس سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہر تلاوت کا یہ اثر نہیں مرتب ہوا کرتا۔ ورنہ ”ہر قاری“ فی الواقع ”قرآن“ ہوتا اور بلا استثناء ہر نماز خشوع میں ڈوبی ہوئی ہوتی ۔ حالاں کہ ہم دیکھتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے۔ اس لیے حقیقت واقعہ یہ قرار پائی کہ صرف کوئی ایک خاص قسم کی تلاوت ہے جو اس اثر کی مالک ہے جو باطن کو جلا بخشتی ہے، جو دلوں کو جلالِ خداوندی کے حضور ہلا اور جھکا دیتی ہے۔ سوچیے کہ یہ ”خاص قسم کی تلاوت“ کون سی ہو سکتی ہے؟ کیا اس کے سوا کوئی اور کہ قرآن کو تدبر کے ساتھ پڑھا جائے۔ اس کے استدلالات اور فرامین کو سمجھنے کی پوری کوشش کے
ساتھ پڑھا جائے؟ سطح کے اوپر ہی اوپر تیر کر نکل جانے کے بہ جائے حتی الوسع گہرائیوں میں ڈوب کر چلا جائے؟ یقیناً اس سوال کا جواب نفی میں ہی ہو سکتا ہے۔ کیوں کہ اس طرح کی تلاوت کے سوا تلاوت کی صرف دو شکلیں اور ہو سکتی ہیں: ایک تو یہ کہ قرآن پڑھتے وقت دل کی آنکھیں اور کان بند ہوں۔ دوسری یہ کہ دل کی آنکھیں اور کان تو کھلے ہوں گے مگر اس طرح کہ فہم و تدبر آیات کی نگاہیں مندی ہوئی ہوں۔ جہاں تک پہلی شکل کا تعلق ہے اسے تلاوت کہنا تلاوت کی توہین ہے۔ اس لیے اس کے مطلوبہ تلاوت ہونے کا تو کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ رہ گئی دوسری شکل ، تو وہ بھی تلاوت کا مشروع ، مسنون اور مطلوب طریقہ نہیں ہے۔ کیوں کہ شریعت اسلامی نے اللہ کی یاد کے لیے جس نماز کی تعیین اور تلقین کی ہے وہ ”لب بند و گوش بند و چشم بند“ والے طریق عبادت سے بالکل مختلف چیز ہے۔ اس کی نوعیت خالص تصوراتی ریاض سے کوئی لگاؤ نہیں رکھتی۔ اس میں انسان خدا کے تصور میں ڈوب تو ضرور جاتا ہے مگر اس طرح نہیں کہ وہ اپنے احساسات اور اپنی ذہنی اور فکری قوتوں کو معطل کیے ہوئے ہو۔ اس کے بہ خلاف اس کی آنکھیں کھلی رہتی ہیں۔ اور حکم ہے کہ کھلی ہی رکھی جائیں۔ اس کے ہاتھ اور پاؤں ، سر اور پیٹھ اور دوسرے تمام اعضاء تھوڑی تھوڑی دیر بعد سکون اور ادب کے ساتھ حرکت کرتے رہتے ہیں اور ممکن نہیں کہ اس کے بغیر بھی اس کی نماز ادا ہو سکے۔ اس کی زبان حمد و تسبیح اور تلاوت قرآن سے کبھی خاموش نہیں رہتی اور ضروری قرار دیا گیا ہے کہ وہ ہرگز خاموش نہ رہے۔ ایسی نماز کے متعلق اس طرح کا کوئی گمان ہرگز بھی نہیں کیا جا سکتا کہ اس کے اندر انسان کی قوت فکر و تدبر کا غیر متحرک رہنا کوئی قابل گوارا بات ہو سکے گی۔ اگر یہ قوت اپنا کام نہ کر رہی ہو تو پھر اس حمد و تسبیح اور اس تلاوت قرآن کا کوئی حاصل آخر کیا ہو سکتا ہے جس میں انسان کی زبان برابر مصروف رہتی ہے؟ کیا یہ خالی خولی لسانی گردش ایک فضول حرکت نہ ہوگی ؟ اور کیا اس طرح کی ہزار تسبیحیں اور تلاوتیں مل کر بھی قلب انسانی میں کوئی گداز ، کوئی انابت اور کوئی خشوع پیدا کر سکتی ہیں؟ ممکن نہیں کہ ان سوالوں کا جواب اثبات میں دیا جا سکے۔ اور جب ان سوالوں کا جواب اثبات میں نہیں دیا جا سکتا تو اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ نماز میں پڑھی جانے والی ہر شے کو، خصوصاً قرآن کو فکر و تدبر کے ساتھ پڑھا جانا حد بداہت ضروری ہے۔ کیوں کہ یہی فکر و تدبر، دولت خشوع کے خزانے کی شاہ کلید ہے
اور اس دولت خشوع کا حال یہ ہے کہ اگر وہ نہ ہو نماز یکسر بے معنی ہو کر رہ جاتی ہے۔ قرآن کو فکر و تدبر کے ساتھ پڑھنے کی یہی اہمیت تو تھی جس کی خاطر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو رَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلًا کا حکم دیا گیا تھا اور جس کے پیش نظر آپ ایک ایک آیت کو الگ الگ اور ایک ایک حرف کو نمایاں کر کے پڑھتے تھے:
كَانَتْ قَرأته ترتيلا لا هذا ولا عجلة بل قراة مفسرة حرفا حرفا وكان يقطع قرآته اية اية. (زاد المعاد ، جلد ۱ص : ۱۹۰)
آپ قرآن ٹھہر ٹھہر کر پڑھتے تھے، رواں رواں اور جلد جلد نہیں پڑھتے تھے۔ بلکہ ایک ایک حرف کو واضح کر کے اور ایک ایک آیت کو الگ کر کے پڑھتے تھے۔

اور اس لیے فکری طور پر قرآن کے مطالب کو اس طرح اپنی گرفت میں لیتے جاتے تھے کہ :
إِذَا مَرَّ بِايَةٍ فِيهَا تَسْبِيحٌ سَبَّحَ وَإِذَا مَرَّ بِسُؤَالٍ سَأَلَ وَإِذَا مَرَّ بِتَعَوُّدٍ تَعَوَّذَ.
(
مسلم به حواله ریاض الصالحین )
جب کسی آیت تسبیح سے گزرتے تو اللہ کی تسبیح کرتے ، جب کسی آیت سوال پر آتے تو اللہ تعالیٰ سے مانگتے اور جب کوئی آیت تعوذ پڑھتے تو اللہ کی پناہ مانگتے ۔

پھر یہی خاص وجہ تھی جس کی بنا پر آپ نے عام قرائت قرآن پر نماز کے اندر کی قرائت کو فضیلت عطا فرمائی (قرَأَةُ الْقُرْآنِ فِي الصَّلوةِ أَفْضَلُ مِنْ قِرْأَةِ الْقُرْآنِ فِي غَيْرِ الصَّلوةِ۔ مشکوۃ) اور اس فضیلت کا عام ذہنوں کو اس طرح تصور دلایا کہ :
ثَلْتُ آيَاتٍ يَقْرَءَ بِهِنَّ أَحَدٌ كُمْ فِي صَلَوتِهِ خَيْرٌ لَّهُ مِنْ ثَلث
خَلِفَاتٍ عِظَامٍ سِمَانٍ
(
مسلم)
وہ تین آیتیں جو ایک شخص اپنی نماز میں پڑھتا ہے اس کے لیے تین موٹی اور بھاری گابھن اونٹنیوں سے بہتر ہیں۔

اور اسی بنا پر سب سے افضل نماز اسے قرار دیا ہے جو لمبے قیام والی دوسرے لفظوں میں لمبی قرائت والی ہو :

اَفْضَلُ الصَّلوةِ طُولُ الْقُنُوتِ (مسلم)
سب سے بہتر نماز وہ ہے جس میں لمبا قیام کیا جائے۔
۱۶۷

یہ ساری تفصیلات اس حقیقت کو بالکل بے حجاب کر دیتی ہیں کہ نماز کی اقامت اس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک کہ قرآن کی قرائت میں زبان کے ساتھ دل و دماغ بھی شریک نہ ہوں۔

خلاصہ: معیاری نماز کی بنیادیں

یہ ہیں وہ اہم شرطیں جن کا پورا کیا جانا نماز کو معیاری بنانے کے لیے ہر حال میں ضروری ہے۔ یہ چیزیں اگر نماز میں موجود نہ ہوں اور وہ ان سے، یا ان میں سے ایک دو سے بھی خالی ہو تو یہ نماز کا قائم کرنا اور اس کی محافظت کرنا نہ ہوگا۔ ایسی نماز نہ تو تعمیر دین کی واقعی بنیاد بن سکے گی ، نہ اس سے ان ثمرات کی کبھی توقع کی جاسکتی ہے جو قائم کی جانے والی نماز کے ثمرات ہیں۔ یہ نماز تو نفس اور شیطان کے ایک حملے کی بھی تاب نہیں لا سکتی ، وہ بھلا اعمال خیر کا سر چشمہ اور احکام شریعت کی محافظ کیا بنے گی ؟ بنی اسرائیل کی تاریخ عبرت ہمارے سامنے ہے۔ خواہش پرستی میں وہ اسی لیے چھوٹ گئے تھے کہ انھوں نے نماز کو قائم رکھنے کے بہ جائے اسے ضائع کر دیا تھا۔ اور یہ کوئی چھپا ہوا راز نہیں کہ خواہش پرستی اور دین کی تاراجی میں فاصلہ نہ ہونے کے برابر ہے۔

عملی سوال: ہماری نمازیں کیسی ہیں؟

نماز کے متعلق جن باتوں سے نظری واقفیت ضروری تھی وہ ایک ایک کر کے سامنے آ چکیں۔ ہم جان چکے کہ نماز کی حقیقت کیا ہے؟ اس کے لازمی ثمرات اور نتائج کیا ہیں؟ اس کا معیار مطلوب کیا ہے؟ پھر انہی بحثوں میں ہم یہ بھی دیکھ چکے ہیں کہ کوئی شخص نماز کی مدد کے بغیر اپنا فرض بندگی پورا نہیں کر سکتا حتی کہ دنیا کے سب سے اونچے انسان اور سب سے بڑے پیغمبر بھی اس سے مستثنیٰ نہ رہے اور وہ بھی اپنی پیغمبرانہ ذمہ داریاں اٹھاتے رہنے کے لیے اس بات کے ضرورت مند تھے کہ حمد و تسبیح اور ذکر ونماز سے بیش از بیش توانائی حاصل کرتے رہیں۔ اب اس نظری واقفیت کے بعد ہمارے سامنے لازماً عمل کا سوال آتا ہے، یہ واقفیت ہم سے مطالبہ کرتی ہے کہ فکر و نظر کی بیرونی سرحدوں سے ہٹ کر خود اپنے قریب آجاؤ اور دیکھو کہ تم کس جگہ کھڑے
ہو۔ تمہاری اپنی نمازوں کا کیا حال ہے؟ آیا وہ صرف پڑھ دی جاتی ہیں یا قائم بھی کی جاتی ہیں؟ اگر قائم کی جاتی ہیں تو ان میں اقامت کی شان کس قدر ہوتی ہے؟ اور اگر قائم نہیں کی جاتیں تو کن کن پہلوؤں سے؟ ان کے ظاہر میں کیا کیا کوتاہیاں ہیں اور باطن میں کون کون سی خامیاں؟ پھر اس جائزے کے بعد ان کی اصلاح کی فکر کرو۔ یہ جائزہ اور یہ فکر اصلاح مسلسل جاری رہے۔ اس مطالبے کو پورا کر سکنا اگر چہ کوئی آسان بات نہیں ، مگر اس کا پورا کرنا ضروری بہ ہر حال ہے۔ کیوں کہ تم نے اپنے کندھوں پر جو ”بار امانت“ اٹھایا ہے اسے لے کر دو قدم بھی نہیں چل سکتے ۔ اگر نماز کے تار تمہارے دلوں میں خزانہ غیب سے قوتیں کھینچ کر داخل نہ کرتے رہیں۔ تمہیں یہ تسلیم کرنا ہی پڑے گا کہ جو کام طاعت حق اور اقامت دین کا کام نبی اور اصحاب نبی کی بھی رات کی میٹھی نیند قربان کیے بغیر نہ ہو سکا ، اسے تم صرف قانونی انداز کی نمازیں پڑھ کر قیامت تک انجام نہیں دے سکتے ۔

ظاہر ہے کہ یہ مطالبہ ایسا نہیں ہے جس سے کوئی صاحب ایمان ادنی سا بھی اختلاف کر سکے۔ اس مطالبے کو پورا کرنے کی عملی ترتیب قدرتاً جائزے ہی سے شروع ہوگی ۔ یہ جائزہ براہ راست بھی ہونا چاہیے اور بالواسطہ بھی ، براہ راست جائزے کی شکل یہ ہے کہ دیکھا جائے نمازوں میں وقت اور جماعت کی پابندی کس قدر ہوا کرتی ہے؟ رکوع و سجود میں قرار وسکون کتنا ہوتا ہے؟ قرائت قرآن میں تفکر و تدبر کی کیفیت کیسی ہوتی ہے؟ ذہن ماسوا اللہ کی طرف سے کتنا یکسو ہوتا ہے؟ دل میں انابت اور خشوع کس قدر کار فرما ہوتا ہے؟ بالواسطہ جائزے کا طریقہ یہ ہے کہ دیکھا جائے سیرت و کردار پر ان نمازوں کا کیا اثر ظاہر ہو رہا ہے؟ وہ فحشاء اور منکر سے ہمیں واقعتاً کتنا متنفر بنا رہی ہیں؟ وہ دوسرے احکام شریعت کی پابندی کا ہمارے اندر کیسا داعیہ پیدا کر رہی ہیں؟ وہ دین اللہ کی اطاعت اور اقامت کے فرض سے عہدہ برآ ہونے کے لیے ہمیں کتنی طاقت بہم پہنچا رہی ہیں؟ جو نمازیں ہم ادا کرتے ہیں ، اس دوطرفہ جائزے سے، یقین ہے کہ ان کی اصل صورت پوری طرح بے حجاب ہو کر سامنے آجائے گی۔ جس کے بعد ہم بہ آسانی فیصلہ کر سکتے ہیں کہ ان میں اقامت کی شان کس قدر ہے اور کس قدر نہیں ہے؟ وہ کس حد تک فی الواقع عبادت ہیں اور کسی حد تک محض عادت ہیں؟ اس کشف حال کے بعد ہم پر جو فرض عائد ہوتا
ہے وہ بھی واضح ہے اور جس طرح اس فرض کو ادا ہونا چاہیے وہ بھی کچھ غیر واضح نہیں۔ اس لیے اب نہ یہ کہنے کی ضرورت ہے کہ نماز کی اقامت میں جو نقائص ہوں انہیں پیہم کوششوں سے دور کرنا چاہیے اور نہ یہ بتانے کی حاجت کہ یہ کوششیں کامیاب اسی وقت ہوں گی جب کہ اقامت نماز کی ضروری شرطوں کو پورا کیا جائے۔ یہ شرطیں پچھلے صفحوں میں تفصیل سے بتائی جا چکی ہیں۔ آگے ضرورت صرف اپنے عزم کی اور عملی جدو جہد کی ہے۔ وَلَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَى۔

نماز تہجد کی مخصوص اہمیت

اس سلسلے میں فرض نمازوں کے بعد نماز تہجد کی بھی ایک مخصوص اہمیت ہے۔ گو یہ نماز امت پر فرض نہیں ہے۔ مگر اس کی یہ نوعیت صرف قانون کی حد تک ہے، خصوصًا ان لوگوں کے حق میں جو عوام میں سے نہیں ہیں اور جو شہادت حق اور اقامت دین کا علم تھامنے والوں میں ہر اول دستے کی حیثیت رکھتے ہوں ، جن کی راہ عمل رخصت کی نہیں بلکہ عزیمت کی ہو۔ یہ نماز امت پر اگر فرض نہیں کی گئی تو اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ وہ ایک غیر معمولی مشقت کی موجب تھی ۔ اس لیے شریعت نے اسے قانونی طور پر نفل ہی کے درجے پر رکھا، کیوں کہ اس کا اصول یہی چاہتا تھا۔ مگر اس کے باوجود کلام الہی میں اس نماز کی جیسی کچھ ترغیب دی گئی ہے وہ کسی صاحب نظر سے مخفی نہیں۔ مثالی مومنوں کی جب وہ صفات گناتا ہے تو بات پوری نہیں ہوتی جب تک کہ وہ اس طرح کے الفاظ نہیں کہہ لیتا:
تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ (السجدہ : ١٦)
ان کے پہلو راتوں کو بستروں سے دور ہوتے ہیں۔
كَانُوا قَلِيلًا مِّنَ الَّيْلِ مَا يَهْجَعُونَ (الذاريات : ۱۷)
وہ راتوں میں بہت کم سوتے تھے۔
وَالَّذِينَ يَبِيتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَ قِيَامًا (الفرقان : ۶۴)
جو اپنی راتیں اپنے رب کے حضور سجدہ و قیام میں گزارتے ہیں۔

لہذا یہ تو صحیح ہے کہ یہ نماز فرض نہیں، مگر یہ بھی غلط نہیں کہ یہ الفاظ جو مثالی اہلِ ایمان کی
شان میں بار بار لائے گئے ہیں ، ان کے بھی کچھ ”معنی“ ہیں۔ ان کا حق ہے کہ اس ”معنی“ پر غور کیا جائے اور پھر اس ”معنی“ کا جو تقاضا ہے اسے پورا کرنے کی کوشش کی جائے۔ یہ ”معنی“ سمجھتے وقت یہ بات ہرگز فراموش نہ ہونے پائے کہ تبلیغ دین کی مہم سر کرنے کے لیے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جس طرح عام نمازوں کی اقامت کا حکم دیا گیا تھا اسی طرح قُمِ اللَّيْلَ إِلَّا قَلِيلًا کی ہدایت بھی فرمائی گئی تھی۔ اور پھر اس ضمن میں ”قیام لیل“ (یعنی نماز تہجد ) کی مخصوص اہمیت و تاثیر پر یہ کہہ کر مہر تصدیق ثبت کی گئی تھی کہ اِنَّا سَنُلْقِي عَلَيْكَ قَوْلًا ثَقِيلًا (”ہم تم پر ایک بھاری بات کا بوجھ ڈالنے والے ہیں“) اور اس بوجھ کو اٹھانے کے لیے جس طاقت کی ضرورت ہے اس کے حصول کے لیے رات کی نماز سب سے عمدہ اور مؤثر چیز ہے۔ کیوں کہ رات کا اُٹھنا ہر پہلو سے خوب تر ہے، اس پہلو سے بھی کہ اس میں ( دل اور زبان کے درمیان ) زیادہ سے زیادہ ہم آہنگی ہوتی ہے اور اس پہلو سے بھی کہ اس میں منہ سے بات خوب درست نکلتی ہے۔ (إِنَّ نَا شِئَةٌ اللَّيْلِ هِيَ اَشَدُّ وَطْاً وَأَقْوَمُ قِيلًا ) یہ بات آپ پورے قرآن میں کسی اور نماز کے بارے میں نہ پائیں گے۔ کیا یہ اس حقیقت کا اعلان نہیں کہ ”قول ثقیل“ کے اٹھانے کی قوت برداشت پیدا کرنے میں نماز تہجد کی ایک ممتاز حیثیت ہے؟

نماز کے ساتھ عام اذکار کی اہمیت

عام نمازوں کے بعد نماز تہجد ہی کی طرح کچھ خاص دعائیں اور چند خاص اذکار بھی ہیں جن کے پڑھتے رہنے کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے زبردست ترغیب دی ہے کیوں کہ نفس کا تزکیہ کرنے اور ایمان کو مضبوط اور فعال بنانے میں یہ اذکار بھی بڑے مؤثر ہوتے ہیں۔ جہاں تک قانون کا سوال ہے، اس کی زبان نے تو تہجد ہی کی طرح انہیں بھی فرض اور واجب قرار نہیں دیا ہے لیکن ایمانی افادے کی زبان سے ان کو ایسا ہی کچھ بتایا گیا ہے۔ قرآن نے جس طرح بندگانِ حق کی صفت یہ بتائی ہے کہ وہ میٹھی نیند کے مزے چھوڑ کر رات کی کتنی ہی گھڑیاں رکوع وسجود میں گزار دیتے ہیں، اسی طرح ان کا ایک عام وصف یہ بھی بتاتا ہے کہ وہ بالعموم اللہ کا ذکر کرتے اور اس سے التجائیں کرتے رہتے ہیں۔ یعنی بہ زبانِ حال اور بہ زبان قلب تو اللہ کی یاد ان کا دوامی
وظیفہ زندگی ہے ہی ، بہ زبانِ قال بھی اللہ تعالیٰ کی حمد و تسبیح ان کے شب وروز کے کتنے ہی حصوں کا محبوب ترین مشغلہ ہے ( يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيِّمًا وَقُعُودًا وَ عَلَى جُنُوبِهِمْ ) ۔ وہ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں سے لو لگائے اور محاسبہ اعمال کے خوف سے لرزتے ہوئے اس سے دعائیں اور التجائیں کرتے رہتے ہیں ( يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَ طَمَعًا ) ۔ رات کی سوئی ہوئی گھڑیوں میں اگر وہ محو نماز ہوتے ہیں تو صبح کی نمود ان کو توبہ و استغفار میں مشغول پاتی ہے ( وَبِالْاَ سْحَارِ هُمْ يَسْتَغْفِرُونَ ) ان ارشاداتِ الہی سے معلوم ہوا کہ یہ حمد و تسبیح ، یہ دعا والتجا اور یہ توبہ و استغفار بھی سچے مومنوں کی ایک ضروری صفت اور ایک نمایاں علامت ہیں۔ قرآن نے جس بات کا ان لفظوں میں اجمالی ذکر کیا ہے، اسی کی تفصیلات ہیں جو آپ کو احادیث کے اندر ملتی ہیں اور جن سے نبی و اصحاب نبی کی مثالی زندگیاں مزین نظر آتی ہیں۔ ان مسنون اذکار کو حدیث کی کتابوں سے یاد کر کے حسب توفیق ان کا ورد کرتے رہنا، ایمان کی تازگی برقرار رکھنے کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ نبی صلی اللہ وسلم سے زیادہ روشن قلب کسے ملا ہوگا، مگر اس کا بھی حال خود آپ ہی کی زبانی سنیے :
إِنَّهُ لَيْغَانُ عَلَى قَلْبِي وَإِنِّي لَاسْتَغْفِرُ اللَّهَ فِي الْيَوْمِ مِئَةَ مَرَّةٍ (مسلم)
میرے دل پر (کبھی کبھی ) کچھ حجاب(۱) سا آ جاتا ہے اور دن بھر میں سو بار اللہ سے استغفار کرتا ہوں۔
پھر ہمارے آپ کے دلوں کا کیا حال رہتا ہو گا ! کاش ہم اس سے بے خبر نہ ہوتے ۔

یہ اذکار اپنی روح کے اعتبار سے نماز سے کچھ الگ اور بے تعلق چیزیں نہیں ہیں۔ بلکہ نماز سے ان کا گہرا تعلق ہے، اتنا گہرا تعلق کہ اگر ظاہری ڈھانچے کو بیچ سے ہٹا دیا جائے اور نظر صرف اصل روح پر رکھی جائے تو دونوں کو دو کہنا ممکن نہ رہ جائے گا۔ نماز کی حقیقت کیا ہے؟ صرف اللہ کی یاد اور اس کی صفات اور لوازم صفات کا تذکرہ ہی تو جیسا کہ پچھلی بحثوں میں دلائل کے ساتھ بتایا جا چکا ہے۔ پھر نماز اور عام اذکار میں اس کے سوا اور کیا فرق رہا کہ ایک کے ساتھ کچھ خاص جسمانی حرکتیں اور ہیئتیں بھی وابستہ ہیں اور دوسرے کے ساتھ نہیں ، نماز اپنا ایک
(
۱) یاد رکھنا چاہیے کہ آپ نے یہاں اپنے دل کی جس کیفیت کو ”حجاب“ سے تعبیر فرمایا ہے وہ مقام نبوت کے لحاظ سے حجاب تھی ، نہ کہ عام انسانی مقام کے لحاظ سے۔
موزوں ”لباس“ بھی رکھتی ہے لیکن عام اذکار کا کوئی لباس نہیں ہوتا۔ غرض ، دونوں میں فرق اگر ہے تو صرف یہ ہے کہ نماز ذکر الہی کی مکمل ترین ، موزوں ترین اور مؤثر ترین شکل ہے اور دوسرے اذکار میں یہ تکمیلی شان نہیں ہے۔ اس صورت حال کے پیش نظر حقیقت واقعہ جو کچھ متعین ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ نماز اصل ذکر ہے اور دوسرے اذکار کی حیثیت فرع اور شے کی ہے، اور یہ اذکار دراصل نماز ہی کے معاون اور اسی کے مقصد کے خادم ہیں۔ اگر نماز امراض قلب کا اصلی اور بنیادی نسخہ شفا ہے تو ان اذکار کو اسی کی امدادی خوراکیں سمجھنا چاہیے۔ نماز کا مقصود یہ ہے کہ انسان اپنے احساسِ بندگی پر غفلت کے پردے نہ پڑنے دے اور ہر وقت اللہ تعالیٰ کو یاد رکھے۔ اسی ہمہ وقتی یاد کی خاطر طلوع فجر سے لے کر ابتدائے شب تک اس کی حرکت و عمل کی ساری گھڑیوں کو نمازوں سے گھیر دیا گیا ہے اور اسے حکم دیا گیا ہے کہ تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد کاروبار دنیا سے الگ ہو کر اللہ کے گھر میں آتا اور اس کے ذکر میں مشغول ہوتا رہے، تا کہ بار بار اس کے فرض بندگی کی یاد دہانی ہوتی رہے۔ اب جو اس حکم کے ساتھ یہ تلقین بھی فرمائی گئی کہ ہر فرض نماز کے بعد اتنی نفلیں اور ادا کیا کرو، اتنی تسبیحیں ، اتنی تحمیدیں اور اتنی تکبیریں بھی پڑھا کرو۔ مسجد میں داخل ہو تو اپنے لیے رحمت کی اور اس سے نکلو تو رزق حسن کی دعائیں مانگو، جو کام بھی شروع کرو اللہ کا پاک نام لے کر شروع کرو، ہر بھلائی پر کلمہ شکر اور ہر مصیبت پر کلمہ صبر کہو، پانی پینے کے بعد، کھانے سے فارغ ہو کر ، چھینک آنے پر ، سوتے وقت ، بیدار ہو کر حتی کہ بیت الخلا جاتے ہوئے اور وہاں سے نکلنے پر اس طرح اللہ کا نام لیا کرو۔ غرض، زندگی کے مختلف مواقع پر جو مختلف دعائیں اور تسبیحیں پڑھنے کی ہدایت فرمائی گئی ہے تو ان کا مقصد صرف یہی ہے کہ نماز کی پیدا کی ہوئی یاد خدا درمیانی اوقات میں بھی تازہ ہوتی رہے، ایسا نہ ہو کہ دنیوی مصروفیتوں میں وہ ماند پڑ کر رہ جائے۔ لیکن اس غیر معمولی اہتمام کے بعد بھی اگر غفلت اپنا کام کر جاتی ہے تو اس کے خصوصی علاج کے لیے پچھلے پہر کی بے تاب التجاؤں اور ندامت کے گرم آنسوؤں کا اکسیری نسخہ موجود ہے۔ یہ نسخہ کبھی خطا نہیں کرتا، کیوں کہ ایک تو یہ وقت ہی ایسا پُر سکون اور اثر انگیز ہوتا ہے کہ دل میں بیداری کی حس آپ سے آپ اُبھر آتی ہے (اِنَّ صَلوةَ اخِرِ اللَّيْلِ مَشْهُودةٌ۔ مسلم)۔ دوسرے اس وقت رحمت الہی بھی بندوں کی طرف خاص طور سے متوجہ رہتی ہے اور اپنی مغفرت کے تحفے بخشنے


کے لیے خود گنہ گاروں کو پکار رہی ہوتی ہے (۱)
یہ ہے نماز کے ساتھ ذکر و تسبیح اور دعا و استغفار کا ربط ، اور یہ ہے وہ مشترک مقصد جس کے لیے نماز بھی پڑھی جاتی ہے اور ذکر بھی کیا جاتا ہے ، حمد و تسبیح بھی کی جاتی ہے اور توبہ واستغفار بھی ہوتا ہے۔ یہ چیزیں مل کر مومن کو بلا شبہ ”دائم الذکر“ بنا دیتی ہیں۔ عقل باور نہیں کرتی کہ ذکر الہی کے دوام کا اس سے زیادہ فطری اور موثر طریقہ کوئی اور بھی ہو سکتا ہے اور اس فطری اور کلی نسخے کے صحیح استعمال کے بعد بھی روح انسانی غفلت زدہ باقی رہ سکتی ہے۔ پھر اسی طرح یہ بات بھی نا قابل تصور ہے کہ اس کلی نسخے کے کلی استعمال کے بغیر بھی اساسِ دین کی صحیح ، متوازن، اطمینان بخش اور ٹھوس تعمیر ہو سکتی ہے۔

ذکر کے لیے فکر کی شرط

لیکن یاد رہے کہ کسی شے کو اگر اس کے ضروری آداب اور بنیادی شرائط سے محروم کر دیا جائے تو چاہے اس کا نام نہ بدل سکے، مگر اس کے مطلوبہ فوائد اور اثرات کی توقع ہرگز باقی نہیں رہ سکتی۔ ایک جان دار کے جسم کا رشتہ جب تک روح سے باقی ہے، آپ اس سے ہر وہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں جو اس قسم کے جان داروں سے متوقع ہوتا ہے۔ مگر کیا اس رشتے کے ٹوٹ جانے کے بعد بھی اس کی کوئی امید کی جاسکتی ہے؟ ظاہر ہے کہ کبھی نہیں۔ ٹھیک یہی حال اذکار اور تسبیحات کا بھی ہے۔ احادیث میں ان کے فضائل پڑھ کر انسان ایک مرعوب کن حیرت میں پڑ جاتا ہے۔ ایک ایک کلمہ تسبیح کی بابت مخبر صادق علیہ الصلوۃ والسلام نے خبر دی ہے کہ اس کے ادا کرنے پر فضائے آسمانی انوار و برکات سے معمور ہوگئی (۲) لیکن کیا زبان سے ادا کیا ہوا اور دانہ تسبیح پر
(
۱) مشہور حدیث ہے کہ جب دو تہائی رات گزر چکتی ہے تو اللہ تعالیٰ نچلے آسمان پر نزول فرماتا ہے اور پکارتا ہے کہ ہے کوئی جو مجھے پکارے تو میں اس کی پکار کا جواب دوں ۔ ( بخاری و مسلم )
(
۲) بخاری شریف میں حضرت رفاعہ بن رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک صحابی نے رکوع سے اٹھتے ہوئے بہ آواز بلند ”رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ حَمْدًا كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيهِ“ پڑھا ۔ نماز ختم ہونے کے بعد آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اسے لینے کے لیے تیس سے زیادہ ملائک نے باہم مسابقت کی۔“ (رأيتُ بضعة وثلثين ملكا يبتدرونها ايهم يكتبها اول)
پڑھا ہوا ہر کلمہ اس تاثیر کا حامل ہو سکتا ہے، سوال بری عقیدت کا نہیں، بلکہ واقعہ کا ہے اور واقعہ کی بات یہ ہے کہ یہ پاک کلمات ہر حال میں ان روحانی برکات کا سرچشمہ نہیں ہوتے ۔ بلکہ ان کا یہ اثر اسی وقت ہو سکتا ہے جب کہ وہ دل کی گہرائیوں سے نکلے ہوں۔ اس لیے اگر ان اذکار کا اصل فائدہ حاصل کرنا ہو تو ضروری ہے کہ جس وقت زبان ”سبحان اللہ“ کہے، اس وقت چشم تصور کے سامنے اللہ تعالیٰ کی وہ شانِ پاکی و کبریائی مجسم ہو جو اس کلمہ کے اندر پوشیدہ ہے۔ اس وقت ذہن میں اس کلمے کا ایک سادہ سا مطلب ہی پھر کر نہ رہ جائے ، بلکہ چاہیے کہ اس کی پوری معنویت اس پر نقش ہو جائے اور اس کے دور رس تقاضوں کی صدا سے وہ اچھی طرح گونج اٹھے۔ اس طور پر ادا ہونے والے ایک ایک کلمہ تسبیح سے اگر فضائے عالم معمور تجلی ہو جائے تو یہ کوئی حیرت کی بات نہیں اور اس طرح کے ایک ایک کلمہ حمد کو لینے کے لیے اگر فرشتے باہم مسابقت کریں تو انہیں ایسا کرنا ہی چاہیے۔ لیکن اگر ذکر اور حمد و تسبیح کا یہ طریقہ نہ اختیار کیا جائے اور فکر و تدبر اور اثر پذیری سے بے نیاز ہو کر بس سبحہ گردانی ہی کو سب کچھ سمجھ لیا جائے تو اس سے آپ اس فائدے کی توقع ہر گز نہ کریں۔ اگر کریں گے تو دراصل اپنے آپ کو فریب دیں گے۔ ذکر بلا فکر کی مثال تو اس کارتوس کی سی ہے جسے ہاتھ سے پھینک مارا جائے۔ سب جانتے ہیں کہ کارتوس اپنا کام اسی وقت کرتا ہے جب اسے بندوق کی نال میں رکھ کر چلایا جائے۔ اگر کوئی نادان اس کو ڈھیلے کی طرح ہاتھ سے پھینک کر مارتا ہے اور مطلوبہ نتیجہ حاصل نہیں کرتا تو یہ اس کا اپنا قصور ہے، کارتوس کا نہیں۔ اور اسے اپنے طرز استعمال کی اصلاح کرنی چاہیے ، نہ کہ کارتوس کی صلاحیت کار پر بدگمانی۔ اسی طرح ذکر الہی کے مطلوبہ فائدے بھی اسی وقت حاصل کیے جا سکتے ہیں جب کہ اس کے لیے طریقہ بھی صحیح اختیار کیا گیا ہو اور جس ذکر کے الفاظ زبان سے نکل رہے ہوں دل و دماغ میں اس کے معنی بھی اترتے جارہے ہوں۔ یہ معنی دل و دماغ میں جس حد تک گہرائی میں اتر پائے گا اسی حد تک ان میں ایمانی کیفیت تازہ ہوگی اور اس گہرائی میں اتر پانے کا تمام تر انحصار ذہن کی یکسوئی ، دل کی توجہ اور فکر و تدبر پر ہے۔

جن لوگوں کی نظر قرآن پر ہوگی ، ان سے یہ حقیقت پوشیدہ نہیں ہو سکتی کہ اصل ذکر زبان کا نہیں، بلکہ دل کا ذکر ہے۔ حقیقی ذاکر وہ ہے جو ہر وقت اللہ کو اپنے سامنے یا کم از کم یہ کہ
اپنے کو اللہ کے سامنے موجود اور حاضر محسوس کرتا رہے۔ عبادت کے وقت ہی نہیں، بلکہ دنیا کے دھندوں میں مشغولیت کے دوران بھی دل اسی کی یاد میں اٹکا ہوا ہو اور اس کی چشمِ رضا کے اشاروں سے کبھی غافل نہ رہے۔ سورۂ جمعہ کی مشہور آیت ہے:
فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلوةُ فَانْتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ وَابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ اللَّهِ
وَاذْكُرُوا اللَّهَ كَثِيرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
(
الجمعه : ۱۰)
جب نماز پوری کر لی جائے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کے فضل ( یعنی رزق ) میں سے (اپنا حصہ ) تلاش کرو اور اللہ کو کثرت سے یاد کرتے رہو ، تا کہ کامیاب ہو۔

یہ آیت حقیقی ذکر الہی کی بہت بڑی شارح ہے۔ اس نے جس طرح تلاش رزق کے ساتھ ذکر الہی کو جوڑا ہے، اس سے صاف نظر آ جاتا ہے کہ اصلی ذکر نام ہے معاشی جدوجہد جیسے دنیوی کاروبار انجام دیتے ہوئے بھی خدا سے، اس کے احکام سے، اس کی حدود سے اور اس کے محاسبے سے بے فکر نہ ہونے کا۔ دوسرے لفظوں میں اللہ تعالیٰ کا اصلی ذکر یہ ہے کہ آدمی کے دل میں اس کی یاد پیوست ہو جائے ، بلکہ اس کی فطرت کی آواز بن جائے اور خواہ اس کی زبان خاموش ہی نہیں بلکہ کسی اور کے ذکر میں مشغول ہو مگر جہاں تک اس کے دل کا تعلق ہے وہ بہ دستور یاد حق سے گونج رہا ہو۔ انسان کا اپنے ماں باپ اور بیوی بچوں کے ساتھ جو گہرا تعلق خاطر ہوتا ہے، زبان سے اس کا ذکر وہ شاذ و نادر ہی کرتا ہے ، مگر اس کا دل اس کے ”ذکر“ سے کبھی خالی نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس کی یاد کو اسی طرح ، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر اپنی فطری یادداشت کا جزو بنا لیا جائے ، ایسا جزو جو سب سے بڑا اور سب پر غالب ہو۔

یاد حق کی یہی وہ کیفیت ہے جس کا پیدا ہو جانا ایک مومن کی سب سے بڑی اور سب سے محبوب ضرورت ہے، اور یہ اس وقت تک پیدا نہیں ہو سکتی جب تک کہ نماز ہو خواہ عام اذکار ہوں۔ ان میں تفکر و تدبر سے کام نہ لیا جائے۔

امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کے لفظوں میں تفکر ہی تمام بھلائیوں کی جڑ اور ان کی کنجی ہے۔ (فَالْفِكْرُ هُوَ الْمَبْدَءُ وَالْمِفْتَاحُ لِلْخَيْرَاتِ كُلِّهَا - احیاء العلوم ، جلد ۴) اگر یہ بات نہ ہوتی تو حضرت ابن عباسؓ یہ نہ فرماتے:
رَكْعَتَانِ مُقْتَصِدَتَانِ فِي تَفَكَّرٍ خَيْرٌ مِنْ قِيَامٍ لَيْلَةٍ بِلَا قَلْبٍ۔

(
احیاء العلوم، جلد ۴)
فکر و تدبر کے ساتھ پڑھی ہوئی دو متوسط درجے کی رکعتیں بہتر ہیں اس رات بھر کی نماز سے جس میں یہ تفکر نہ ہو۔

فرائض اور نوافل/اذکار میں توازن کی ضرورت

یہ بات بار بار بتائی جا چکی ہے کہ ذکر الہی کے باب میں بنیادی چیز نماز ہے اور نمازوں میں بھی فرض نماز ۔ وہی ذکر کا اصلی طریقہ اور تزکیے کا حقیقی ذریعہ ہے۔ دوسرے اذکار کی حیثیت بالکل ضمنی ہے اور عملِ نماز کی محض مددگار تدابیر کی سی ۔ اب ایک اور بات کو ذہن نشین کر لینا چاہیے جو اسی امر واقعی کا ایک قدرتی تقاضا ہے۔ اور وہ یہ کہ نماز میں اور عام اذکار میں ذکر الہی کے اصلی اور بنیادی طریقے میں اور اس کے ضمنی وسائل میں فرق مراتب کا عملاً بھی پورا پورا لحاظ رہنا چاہیے، ایسا نہ ہو کہ عام اذکار سے عملی شغف اس طرح کا ہو جائے کہ ان کے بالمقابل نماز کا ضروری حق بھی ادا ہونے سے رہ جائے ، یا اس سے وہ ذوقی لگاؤ نہ رہے جو عام اذکار سے ہو۔ اذکار اور تسبیحات کے لیے تو گھنٹے وقف ہوں مگر نماز کے لیے صرف منٹ کام دے جائیں ۔ یاد رکھنا چاہیے کہ اصل ، اصل ہے اور فرع ، فرع۔ ضمنی اور مددگار تدبیریں نہ تو اصل تدبیر کی کسی طرح قائم مقام ہو سکتی ہیں نہ اس کی کسی بڑی کمی کا بدل بن سکتی ہیں۔ اس لیے یاد الہی اور تزکیہ باطن کے سلسلے میں اصل اعتماد نماز ہی پر ہونا چاہیے۔ عام اذکار اور تسبیحات پر توجہ کا صحیح موقع اس پر زیادہ سے زیادہ وقت اور توجہ دینے کے بعد ہی آتا ہے۔ اذکار کا معاملہ تو پھر بھی دور کا ہے، خود نفل نمازوں کا حتی کہ تہجد جیسی نفل نماز کا بھی دین میں یہ حق تسلیم نہیں کیا گیا ہے کہ اس کی وجہ سے فرض نمازوں کی شانِ اقامت متاثر ہو جائے۔ ایک صحابی ( حضرت سلمان بن ابی حثمہ ) فجر کی نماز میں ایک دن حاضر نہ پائے گئے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کی والدہ سے بہ وقت ملاقات اس کی وجہ دریافت کی تو انھوں نے بتایا: ” رات میں وہ نماز پڑھتے رہے، صبح ہوتے وقت ان پر نیند کا غلبہ ہو گیا۔“ یہ سن کر آپ نے فرمایا :
لَانُ أَشْهَدَ صَلوةَ الصُّبْحِ فِي جَمَاعَةِ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ اَنْ اَقُوْمَ
لَيْلَةً.
(
مشکوۃ)
نماز فجر کو جماعت سے ادا کرنا مجھے رات بھر نمازیں پڑھتے رہنے سے زیادہ محبوب ہے۔

ایک حدیث قدسی میں ہے:
مَا تَقَرَّبَ إِلَى عَبْدِى بِشَيْءٍ أَحَبَّ إِلَيَّ مِمَّا افْتَرَضْتُ عَلَيْهِ.
(
بخاری)
۱۷۷
میرا بندہ جن چیزوں سے میرا قرب حاصل کرتا ہے ان میں سے کوئی دوسری چیز مجھ کو اتنی پسند نہیں جتنی کہ وہ چیزیں جو میں نے اس پر فرض کر رکھی ہیں۔

معلوم ہوا کہ فرض نمازوں کے مقابلے میں کوئی اور نماز یا ذکر کا کوئی اور طریقہ اللہ کے نزدیک زیادہ پسندیدہ نہیں ہے ، نہ اس کے تقرب کا زیادہ مؤثر ذریعہ ہے۔ اس لیے کوئی وجہ نہیں کہ سب سے زیادہ توجہ انہی پر نہ ہو اور انہی کو منزل مقصود تک پہنچنے کا اصل ذریعہ نہ بنایا جائے۔

مسنون عبادات و اذکار پر انحصار کی ناگزیریت

صحیح دینی تعمیر کے سلسلے میں جس طرح یہ ضروری ہے کہ نماز اور دیگر اذکار میں فرق مراتب ملحوظ رہے، اسی طرح ، بلکہ اس سے کہیں بڑھ کر ، یہ بھی ضروری ہے کہ اس مقصد کے حصول کے لیے انحصار بھی تمام کا تمام اسی نماز اور اس کے بعد انہی اذکار مسنونہ پر رکھا جائے اور ان کے علاوہ کسی ایسے طریق ذکر اور طریق عبادت کو اختیار نہ کیا جائے جو مسنون نہ ہو، جس کی شارع علیہ السلام نے تلقین نہ فرمائی ہو، جس کا آپ کی تعلیمات میں سراغ نہ ملتا ہو۔ کیوں کہ اللہ کا ذکر ایک تعبدی چیز ہے اور دین کا یہ ایک مانا ہوا اصول ہے کہ تعبدی امور میں اسی حد پر رُک جانا ضروری ہوتا ہے جو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے متعین ہو چکی ہے۔

یہاں قیاس و اجتہاد کو دم مارنے کی مجال نہیں۔ شارع علیہ السلام نے جو کچھ کہا اور کیا ہے اور جس طرح کیا اور کرنے کو کہا ہے ، بس وہی ہمارے لیے سب کچھ ہے، ہم اس سے کسی شکل میں بھی آگے نہیں جاسکتے ۔ ہم نماز کی ایک رکعت میں دو کے بہ جائے تین سجدے نہیں کر سکتے ، دو
رکعت کی فرض یا سنت نمازوں کو چار رکعت والی نہیں کر لے سکتے ۔ زکوٰۃ کے نصاب کو دو سو درم سے گھٹا کر سو درم مقرر نہیں کر سکتے ۔ روزے کی پابندیوں میں یا حج کے مناسک میں کچھ اور اضافہ نہیں کر لے سکتے ۔ حالاں کہ اس طرح کی تبدیلیوں سے عبادت کا وقت اور عملی تعلق بڑھ جاتا ہے، گھٹتا نہیں ہے۔ اس لیے بہ ظاہر ان تبدیلیوں کو ستائش کا موجب ہونا چاہیے اور ان کی ترغیب دی جانا چاہیے۔ مگر ہم سب جانتے ہیں کہ ایسی کسی تبدیلی کی جسارت کے بعد انسان کا دائرہ اسلام میں ٹکنا بھی دشوار ہو جاتا ہے، چہ جائے کہ اس کی تعریف و تحسین کی جائے۔ اور یہ اسی لیے کہ امور عبادت میں رائے اور اجتہاد کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ :
مَنْ أَحْدَتْ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ مِنْهُ فَهُوَ رَدُّ (بخاری، مسلم)
جس کسی نے ہمارے اس معاملے میں (یعنی دین میں) اپنی طرف سے کوئی ایسی بات داخل کی جو اس کی اپنی نہ ہو، اس کی یہ بات رد کر دی جائے گی۔

اور یہ کہ:
كُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ.
(
مسلم)
دین میں پیدا کی ہوئی ہر نئی بات گم راہی ہے۔

عقل بھی کہتی ہے کہ یقیناً ایسا ہی ہونا چاہیے تھا، کیوں کہ عبادتی امور کا تعلق دین کے نہایت گہرے نکتوں اور بڑی مخفی مصلحتوں سے ہوا کرتا ہے، جن کا ٹھیک ٹھیک علم اللہ کے سوا اور اس کے بعد اس کے رسول کے سوا اور کسی کو ہو ہی نہیں سکتا۔ اس نے اپنی عبادت کے لیے جو چیزیں مقرر کی ہیں اور ان چیزوں کی جو مقدار اور جو نوعیت متعین فرمادی ہے، ان سب کے بارے میں وہی بہتر جانتا ہے کہ اس نے ایسا کیوں کیا ہے؟ اور مقدار کی تحدید اور نوعیت کی تعیین اس کے بہ جائے دوسری کیوں نہیں کی۔ ہم اٹکل پچو سے کوئی قطعی وجہ اگر قرار دے لیں گے اور اس پر قیاس کر کے کوئی ترمیمی یا اضافہ تجویز کر لیں گے تو اپنے کو سخت خطرے میں ڈال دیں گے۔ اس بات کو ایک مثال سے سمجھیے ۔ ایک ماہر طبیب ایک مریض کے لیے نسخہ تجویز کرتا ہے، اس نسخہ میں وہ چند دوائیں لکھتا ہے، ہر دوا کی ایک خاص مقدار درج کر دیتا ہے اور ایک خاص ترکیب سے انہیں استعمال کرنے کی ہدایت دے دیتا ہے۔ یہ بات کہ پوری قرابادین میں سے اس نے صرف انہی
دو چار دواؤں کو کیوں منتخب کیا ؟ اور جن کو منتخب کیا ان کی مقدار اتنی ہی اتنی کیوں رکھی؟ اس کی حکمت صرف وہی جان سکتا ہے، مریض نہیں جان سکتا۔ اس لیے اسے نسخے میں کسی رد و بدل کا حق بھی نہیں پہنچتا۔ اس کا بھلا اسی میں ہے کہ نسخے کو جوں کا توں استعمال کرتا رہے۔ اور ٹھیک اسی ترکیب سے استعمال کرتا رہے جس کی اسے ہدایت ملی ہے۔ اب اگر وہ مریض ہوتے ہوئے طبیب کی پوزیشن سنبھال لیتا ہے اور اپنے قیاس و اجتہاد سے نسخے کے اجزاء میں رد و بدل کر دیتا ہے، کسی دوا کو نسخے کا خاص جزو سن کر یا سمجھ کر اس کی مقدار کو بڑھا لیتا ہے، یا یہ خیال کرتے ہوئے کہ آخر اس نسخے کی ہر دوا مرض کے لیے مفید ہی ہے تو کیوں نہ فلاں مزے دار دوا کو دوگنی تین گنی کردوں، اسے فی الواقع دوگنی تین گنی کر لیتا ہے، تو اس ”اجتہاد“ کا جو نتیجہ نکلے گا وہ بالکل ظاہر ہے۔ ممکن ہے اس نسخے میں اس طرح کی کسی مداخلت کے باوجود وہ اس مرض سے شفایاب بھی ہو جائے ، مگر اس کی گارنٹی کون دے سکتا ہے کہ اس نے غلط نسخہ استعمال کر کے اپنے جسم میں کسی نئے مرض کے جراثیم پیدا نہیں کر لیے ہیں؟ یا اپنے اخلاط بدن میں عدم توازن پیدا نہیں کر لیا ہے، جس کے نتائج ممکن ہے برسوں کے بعد کہیں جا کر ظاہر ہوں؟ عبادات کی حیثیت یقیناً ایک نسخہ شفا کی ہے، جو ہمارے قلبی، ذہنی، فکری اور عملی ، تمام امراض کے لیے طبیب کل اور شافی مطلق کا تجویز کیا ہوا ہے۔ ہمارا کام صرف یہ ہے کہ اس نسخے کو بغیر کسی ادنی تغیر کے استعمال کرتے رہیں۔ ہم یہ قطعیت کے ساتھ ہرگز نہیں جان سکتے کہ اس ”نسخے“ کے اجزاء میں، ان اجزاء کی مقداروں میں استعمال کے طریقوں میں کیا کیا مصلحتیں اس نے پیش نظر رکھی ہیں۔ اس لیے اذکار و تسبیحات ہوں یا کوئی اور عبادت ہو، ان میں ہم اپنے قیاس سے کام لے کر کوئی رد و بدل نہیں کر سکتے ۔ خواہ وہ رد و بدل کمی کی شکل میں ہو، یا اضافے کی شکل میں۔ اگر کریں گے تو یقین رکھیے کہ پھر ان سے ٹھیک ٹھیک بالکل وہی مقصد ، اپنی جامع و مانع صورت میں ، ہرگز حاصل نہ ہو سکے گا جو اللہ اور رسول چاہتے ہیں کہ حاصل ہو۔ یہ دوسری بات ہے کہ ہمیں اس کا احساس ہی نہ ہونے پائے۔

غیر مسنون اذکار و اشغال کا مسئلہ

بہ ظاہر یہ ایک مسلم سی بات تھی ، ضرورت نہ تھی کہ اس کو بحث و گفتگو کا کوئی ضمنی موضوع
بھی بنایا جاتا ، یا اس کی یاد دہانی کی جاتی۔ مگر واقعات کی دنیا میں جو کچھ بالفعل موجود ہے اس نے اس بات کو مسلم نہیں رہنے دیا ہے اور ایک بہت دور کے امکانی اندیشے کو بہت بڑا عملی مسئلہ بنا دیا ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ نماز اور مسنون اذکار ہی پر اکتفا کرنے کے بہ جائے کتنے ہی غیر مسنون اذکار اور اشغال بھی اپنائے جاچکے ہیں اور کچھ اس طرح اپنائے جاچکے ہیں کہ عابدیت کے تصور کے ساتھ ان کا تصور گویا چمٹ سا گیا ہے۔ جس شخص کے عبادتی اعمال میں ان کا کوئی حصہ نہ ہو وہ محض ایک عام قسم کا دین دار تو مانا جا سکتا ہے، مگر خواص کے زمرے میں ہرگز نہیں شمار ہو سکتا۔ گویا دین داری اور عبادت گزاری کا اونچا مرتبہ ان کے بغیر حاصل ہی نہیں ہو سکتا۔ یہ صحیح ہے کہ محتاط زبانوں نے ان چیزوں کو شریعت کا جزو اور تزکیہ کی لازمی شرط نہیں کہا۔ مگر یہ مان لینا بہت ہی مشکل ہے کہ زبانِ حال سے بھی ان کو ایسا نہیں کہا جاتا ہے اور دینی ذوق پر ان کی عقیدت کی گرفت اتنی مضبوط نہیں ہے جتنی کہ مسنون اذکار و اعمال کی ہونی چاہیے۔ یہ صورت واقعہ مجبور کرتی ہے کہ اس مسئلے کے بارے میں ذرا تفصیل سے کلام کیا جائے تا کہ معلوم ہو سکے کہ جب بات بہ جائے خود ایسی مسلم اور اتنی واضح تھی تو اس کے باوجود کیا سمجھ کر ان غیر مسنون اذکار و اشغال کو اختیار کر لینا صحیح اور محمود ، بلکہ صحیح اور محمود سے بھی بڑھ کر مان لیا گیا؟ اور یہ سمجھنا کیوں غلط تھا؟ اور قبول عام کے باوجود ان سے مجتنب ہی رہنا کیوں ضروری ہے؟

غیر مسنون اذکار و اشغال کے جواز کا جائزہ

ان اذکار و اشغال کو اختیار کرنے کے جواز کے حق میں عموماً تین باتیں کہی جاتی ہیں :
(
۱) ذکر حق کے یہ طریقے وہ ہیں جو آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سینہ بہ سینہ منتقل ہوتے چلے آ رہے ہیں۔ ان کی آپ نے عام تعلیم نہیں دی تھی ، بلکہ بعض خاص اصحاب ہی تک انہیں محدود رکھا تھا۔ اس لیے یہ غیر مسنون نہیں ہیں۔
(
۲) کتاب یا سنت میں وہ موجود تو نہیں ہیں، مگر قلب کے اندر روحانیت پیدا کرنے میں وہ بڑے موثر ثابت ہوئے ہیں، اس لیے ان سے استفادہ کیا جاتا ہے اور کیا جانا چاہیے، البتہ اتنی احتیاط کے ساتھ کہ انہیں کوئی شرعی اہمیت نہ دی جائے اور محض عارضی تدبیر کی حیثیت سے اختیار کیا جائے۔
(
۳) یہ طریقے اگر چہ کتاب و سنت میں مذکور نہیں، لیکن مستنبط انہی کے اشارات سے
ہیں، جس طرح کہ فقہی احکام کتاب و سنت ہی سے مستنبط کیے گئے ہیں۔ اس لیے انہیں غیر اسلامی یا غیر مسنون نہیں کہا جا سکتا۔

آئیے ان ”دلیلوں“ کو تول کر دیکھیں کہ ان میں کتنا وزن ہے؟

پہلا دعویٰ: خفیہ تعلیم؟

پہلی دلیل، دلیل نہیں، بلکہ ایک دعوی ہے جو خود محتاج دلیل ہے۔ یہ ایک ایسی بات ہے جس کو منہ سے نکالنے کے لیے بڑی بھاری ”جرات“ درکار ہے، جس کو سن کر حیرت سے بچنا مشکل ہے اور جس کی معقولیت پر نہ عقل گواہی دے سکتی ہے نہ نقل ۔ جس پیغمبر کا اصل فریضہ ہی یہ تھا کہ وہ لوگوں کا تزکیہ کرے، کیسے ممکن ہے کہ اس نے اس اذکار و اعمال میں سے، جو اس مقصد کے حصول کا ذریعہ تھے، کچھ کو عام لوگوں سے چھپا رکھا ہو اور دو چار کو چھوڑ کر باقی تمام اصحابؓ کو ان کے فیض سے محروم رکھنا گوارا کر لیا ہو۔ یقیناً یہ بات اس غرض وغایت سے کسی طرح میل نہیں۔ کھا سکتی جس کے لیے آپ بھیجے گئے تھے، اسی طرح یہ بات اس منصب رسالت کے بھی شایان شان نہیں ہو سکتی جس پر آپ فائز تھے۔ جب آپ نے غیروں سے بھی دین و شریعت کا کوئی جزو چھپا رکھنے کی کبھی کسی ”احتیاط“ کی نہیں سوچی تو پھر اپنوں سے کسی احتیاط کو کب صحیح سمجھ سکتے تھے؟ قرآن مجید دیکھیے تو اللہ رب العزت اپنے رسول کو یہ تاکید اور تنبیہ فرماتا نظر آتا ہے:
يَأَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ وَ إِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَغْتَ رِسَالَتَهُ
(
المائدة : ۶۷)
اے رسول! جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے اسے (بلا کم و کاست لوگوں تک) پہنچا دو اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو سمجھ لو کہ تم نے اس کی پیغمبری کا فرض ادا نہیں کیا۔

کون ہے جو یہ گمان کرنے کی جسارت کر سکتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حکم الہی پر عمل درآمد کا پورا پورا حق ادا نہیں کیا؟ پھر اس خیال کی کیا گنجائش باقی رہ جاتی ہے کہ آپ نے ایک ایسی اہم شے کے بعض حصے صرف اپنے اہل بیت ہی تک محدود رکھے جس کا آپ کی غایت بعثت یعنی تزکیہ سے براہ راست تعلق تھا ؟ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اسی آیت سے استدلال کرتے ہوئے فرماتی ہیں کہ :
مَنْ حَدَّثَكَ أَنَّ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَتَمَ شَيْئًا
مِمَّا أُنْزِلَ عَلَيْهِ فَقَدْ كَذَبَ.
(
بخاری، جلد دوم )
جو کوئی تم سے یہ بیان کرے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جو کچھ اترا تھا اس میں سے کچھ حصہ آپ نے چھپا رکھا ، تو یقین رکھو کہ وہ جھوٹ بولتا ہے۔

یہ اصولی حقیقت اس گمان کو گمان باطل قرار دینے کے لیے بالکل کافی ہے۔ لیکن مزید اطمینان کے لیے خود ان حضرات کی زبان سے بھی اس گمان کی تردید سن لیجیے۔ جن کے متعلق یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ انہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ذکر حق کے بعض طریقے مخصوص طور پر بتائے تھے۔ ان حضرات میں سب سے زیادہ نمایاں اور مشہور حضرت علی کرم اللہ وجہہ ہیں، بلکہ یوں کہیں کہ اس ”عنایت خاص“ کا اصلی حصے دار آپ ہی کو ٹھہرایا گیا ہے۔ آپ سے پوچھا گیا کہ ”کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو خاص طور پر کوئی ایسی چیز سکھائی تھی جسے اور لوگوں کو نہ بتایا ہو؟“ آپ نے جواب دیا:
لَا وَالَّذِي خَلَقَ الْحَبَّةَ وَبَرَءَ النَّسْمَةَ إِلَّا فَهُمَا يُؤْتِيهِ اللَّهُ
عَبْدًا فِي كِتَابِهِ
(
اعلام الموقعین ، جلد اول)
نہیں ، اس ذات کی قسم جس نے بیج کو پھاڑا اور جان کو پیدا کیا ہے، ایسا نہیں ہے، البتہ اس فہم کی بات دوسری ہے جو اللہ اپنے کسی بندے کو اپنی کتاب کے سلسلے میں دے دیتا ہے۔

دوسری دلیل: روحانی تاثیر؟

دوسری دلیل کا ”صغریٰ“ تو صحیح ہے مگر ”کبریٰ“ اور ”نتیجہ“ دونوں غلط ہیں۔ یعنی اس بات کو تو تسلیم کرنے سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ان اذکار و اشغال میں روحانی تاثیر ہے اور بڑی دل نواز تاثیر ہے، کیوں کہ ان حضرات کو جھٹلانا ممکن نہیں جنہوں نے ان کا تجربہ کیا ہے اور تجربے کے بعد ان کے متعلق تاثیر سے بھرے ہونے کی گواہیاں دی ہیں۔ مگر یہ بات کسی طرح صحیح نہیں تسلیم کی جا سکتی کہ جو چیز بھی اپنے تجربے میں روحانیت بخش محسوس ہو وہ بہر حال اختیار بھی کی جاسکتی ہے؟ کیا کتنی ہی چیزیں ہمارے علم اور تجربے میں ایسی نہیں آئی ہیں جن کے کچھ فوائد بہت جلد سامنے آجاتے ہیں، لیکن بعد میں چل کر ان کی مضرتیں ان فوائد سے بھی بڑھ جاتی ہیں؟ اسی طرح کیا ایسا
نہیں ہے کہ بہت سی باتیں افراد کی انفرادی مصلحتوں کے حق میں تو مفید ثابت ہوتی ہیں لیکن دین وملت کی مجموعی مصلحتوں کو ان سے نقصان ہی پہنچتا ہے۔ اس لیے تجربے میں کسی طریق ذکر یا شغل کا فی نفسہ پُر تاثیر اور روحانیت بخش ثابت ہونا اس امر کی کافی وجہ نہیں کہ اسے قبول ہی کر لیا جائے اور قبول بھی اس طرح کہ عملاً دین کے خاکے میں اس کا رنگ بہت زیادہ گہرا اور ابھرا ہوا ہو۔

اس بات کو ایک مثال سے سمجھیے اور مثال بھی ایسی جو اس مسئلے سے راست تعلق رکھتی ہے۔ نصاریٰ نے روحانی مقاصد ہی کی خاطر رہبانیت اختیار کر لی تھی، کیوں کہ ان کے خیال میں وہ ”وصول الی اللہ“ (اللہ تک پہنچنے) کا مؤثر ترین نسخہ تھی اور ان کے تجربے میں وہ ایسی ہی ثابت بھی ہوئی تھی جس کی ایک گونہ تصدیق سے قرآن مجید نے بھی انکار نہیں کیا ہے۔ چنانچہ وہ سچے راہبوں کے متعلق فرماتا ہے کہ:
وَ لَتَجِدَنَّ أَقْرَبَهُمْ مَّوَدَّةً لِلَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ قَالُوا إِنَّا نَصْرَى
ذلِكَ بِأَنَّ مِنْهُمْ قِسْيْسِيْنَ وَرُهْبَانًا وَإِنَّهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُونَ وَ إِذَا
سَمِعُوا مَا أُنْزِلَ إِلَى الرَّسُولِ تَرَى أَعْيُنَهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا
عَرَفُوا مِنَ الْحَقِّ الخ
(
المائده : ۸۲، ۸۳)
مومنوں سے محبت کرنے میں سب سے آگے تم ان لوگوں کو پاؤ گے جو کہتے ہیں کہ ہم نصاری ہیں۔ یہ اس لیے کہ ان میں بہت سے قسیس (عالم) اور راہب (تارک الدنیا درویش) ہیں۔ اور ان میں کبر (خود پرستی) نہیں ہے۔ چنانچہ جب یہ لوگ اس کلام کو سنتے ہیں جو اللہ کے رسول پر نازل ہوا ہے تو تم دیکھتے ہو کہ حق کو پہچان لینے سے ان کی آنکھیں اشک ریز ہو جاتی ہیں۔

خط کشیدہ لفظوں کو غور سے دیکھیے۔ ان نصاریٰ کے اندر، دعوت اسلام اور حاملینِ قرآن سے جو محبت، ان کے قلب میں جو گداز، باطن میں جو خشوع اور روح میں قبول حق کی جو آمادگی موجود پائی گئی وہ کس چیز کا فیضان تھی؟ اس چیز کا کہ ”ان میں قسیس اور راہب ہیں“۔ بالفاظ دیگر وہ فیضان تھی قسیسیت اور رہبانیت کا۔ لیکن اس کے باوجود اسی رہبانیت کے بارے میں یہی قرآن یہ بھی فرماتا ہے کہ :
وَ رَهْبَانِيَّةَ ابْتَدَعُوهَا مَا كَتَبْنُهَا عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغَاءَ رِضْوَانِ اللَّهِ فَمَا
رَعَوْهَا حَقَّ رِعَايَتِهَا
(
الحدید : ۲۷)
اور رہبانیت کو انھوں نے از خود گھڑ لیا ہے۔ ہم نے ان پر اسے فرض نہیں کیا تھا۔ ہم نے ان پر جو کچھ فرض کیا تھا وہ صرف یہ تھا کہ اللہ کی رضا چاہیں۔ لیکن انجام کار انھوں نے اس رہبانیت کا حق ادا نہ کیا۔

یہ آیت اس بات کا صریح اعلان کر رہی ہے کہ رہبانیت کوئی مشروع چیز نہ تھی ، بلکہ ایک ”مبتدع“ چیز تھی، اللہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی ہدایات سے اس کا کوئی تعلق نہیں تھا ، اس کے رسول نے ہرگز اس کی تعلیم نہیں دی تھی، یہ تو ان نصاریٰ کی اپنی ”ابتداع“ اور اپنی طرف سے نکالی ہوئی چیز ہے۔ اور انہیں ایسا ہر گز نہ کرنا چاہیے تھا۔

قرآن حکیم کا یہ تبصرہ اسی رہبانیت کے متعلق ہے جس کی باطنی تاثیر کے بارے میں ابھی ابھی اس کا اعتراف بھی آپ کے سامنے آچکا ہے۔ بہ ظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان دونوں باتوں میں تضاد ہے، مگر ہمیں معلوم ہے کہ قرآن تضاد بیانی سے پاک ہے۔ اس لیے حقیقتاً ان میں کوئی تضاد نہیں اور یہ دونوں باتیں دو بالکل الگ امور سے متعلق ہیں۔ پہلی آیت میں جس چیز کا اعتراف ہے وہ یہ ہے کہ رہبانیت قلب انسانی میں نرمی ، خشوع ، خدا ترسی اور حق پسندی پیدا کرتی ہے اور دوسری آیت میں جس بات کا اظہار ہے وہ یہ ہے کہ نصاریٰ نے اسے اختیار کر کے غلطی کی ، کیوں کہ اللہ تعالیٰ کی نازل کی ہوئی شریعت سے اس کا کوئی تعلق نہیں تھا، اس نے اور اس کے رسول نے یہ راہ انہیں ہرگز نہیں بتائی تھی ، یہ تو ان کی اپنی گھڑی ہوئی چیز ہے، ان کے اپنے ذوق اور اجتہاد کی تخلیق ہے اور یہ ایک ایسی بات ہے جو نہ ہونی چاہیے تھی۔ مانا کہ رہبانیت کے اندر انھوں نے بڑی برکات کا مشاہدہ کیا ، مگر جب انہیں اس کی ہدایت نہیں کی گئی تھی تو کسی بڑی حکمت اور اہم تر مصلحت ہی کی بنا پر نہیں کی گئی تھی۔ اس لیے انہیں اسے اختیار نہیں کرنا چاہیے تھا۔

اور وہ بڑی حکمت اور اہم مصلحت ، جس کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے رہبانیت کو اس کی اثر آفرینیوں اور روحانیت بخشیوں کے باوجود اپنے بھیجے ہوئے دین میں شامل نہیں کیا، یہ تھی کہ وہ عام انسانی فطرت سے ہم آہنگ نہیں ہے، یہ فطرت جس معتدل راہ پر چل سکتی ہے اور چلنے کے
لیے بنائی گئی ہے، رہبانیت اس سے دشوار تر ہے ، نوع انسانی کے عمومی مزاج کے لیے وہ ایک بوجھ ہے۔ اس لیے یہ بات اللہ تعالیٰ کی حکمت اور عدل کے خلاف تھی کہ وہ انسان کو آراستہ تو خاص قسم کی فطری قوتوں سے کرتا اور اسے کام وہ سونپ دیتا جو ان قوتوں کے لیے بار ہوتا ، یا یہ کہ ان کے حسب حال نہ ہوتا ۔ یہ دراصل نصاریٰ کا غلو اور ان کی تشدد پسندی(۱) تھی کہ انھوں نے اس بھاری بوجھ کو خود اپنے اوپر لاد لیا ۔ چنانچہ ان کے اس اقدام کا جو انجام نکلا اس سے یہ حقیقت آخر کار تسلیم ہی کرنا پڑی کہ ان کا یہ اقدام نہایت غلط تھا۔ کیوں کہ یہ چیز مجموعی طور پر ان کے دین وملت کے حق میں مفید ثابت نہیں ہوئی اور اس غلو و تشدد کے بھاری تقاضوں کو اگر دو چار نفوس زکیہ نے اپنی غیر معمولی کوششوں سے پورا کر بھی دیا تو ہزاروں نے ان کی مٹی پلید کر کے رکھ دی ... (فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَايَتِهَا ) اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ بہ حیثیت مجموعی ملت کا دینی مزاج ابتر ، غیر متوازن اور غیر فطری ہو کر رہ گیا ، اس کے سامنے سے وہ اصل مقصد ہی اوجھل ہو گیا جس کے لیے وہ اور ساری نوع انسانی پیدا کی گئی ہے۔ اگر بعض خوش آئند نتائج کے ساتھ ساتھ یہ نا مطلوب نتائج بھی اس مقدس رہبانیت کے بطن میں پوشیدہ نہ ہوتے تو عالم الغیب کی نگاہوں سے وہ مخفی نہ تھی ، وہ خود ہی اپنی کتاب (انجیل) میں ”آیات محکمات“ کے ذریعہ اس کی تلقین فرما دیتا اور اپنی شفاء للمومنین شریعت میں اس نسخے کو بھی ضرور درج کر دیتا ، اسے لوگوں کی تجرباتی کاوشوں کے لیے نہ اٹھا رکھتا۔ دراں حالیکہ اس نے جو کتاب بھی بھیجی وہ ”مفصل“ تھی، اور جس مقصد کے لیے وہ بھیجی گئی تھی اس کے ایک ایک گوشے کو واضح کر دینے والی تھی۔ پھر حیرت ہے اگر اس کی بھیجی ہوئی کسی کتاب و شریعت میں وہی بات ذکر ہونے سے رہ جائے جس پر کمالِ بندگی کا انحصار ہو ، جیسا کہ رہبانیت کے بارے میں ان لوگوں کا خیال تھا اور اسی خیال کے تحت انھوں نے اسے اپنایا تھا۔

مسئلہ رہبانیت کے یہ دو گونہ رُخ ہمارے سامنے ہیں اور یہ حقیقت سمجھا دینے کے
(
۱) چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رہبانیت کو صاف لفظوں میں تشدد پسندی قرار دیا ہے (فَإِنَّ قَوْمًا شَدَّدُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ فَشَدَّدَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ فَتِلْكَ بَقَايَاهُمْ فِي الصَّوَامِعِ وَالدِّيَارِ وَرَهْبَانِيَّةَ بِابْتَدَعُوهَا مَا كَتَبْنَا هَا عَلَيْهِمُ ابوداود به حواله مشکوۃ )
لیے بالکل کافی ہیں کہ اپنے تجربے میں کسی چیز کا روحانیت بخش ثابت ہو جانا اس بات کا ہمیں حق نہیں دے دیتا کہ بلا دغدغہ اسے اختیار بھی کرلیں، بلکہ اس کے لیے اللہ اور اس کے رسول کی تشخیص و تلقین ضروری ہے۔ اس لیے ایسے اذکار و اشغال، جن کے ذکر سے رسولؐ کی تعلیمات خاموش ہیں ، خواہ تجربے میں کیسے ہی مفید و موثر کیوں نہ ثابت ہوں، بہ ہر حال احتراز کے قابل ہیں۔ کیوں کہ اس خاموشی کا مطلب اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ یہ چیزیں اس مقصد کے حصول میں ہر پہلو سے مفید و موافق نہ تھیں جس کے لیے انسان پیدا کیا گیا ہے۔ بس یہی وجہ ہے کہ انہیں نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ ورنہ یہ ممکن نہ تھا کہ اللہ تعالیٰ انہیں اپنی تعلیمات میں جگہ نہ دیتا، کیوں کہ وہ عالم الغیب ہے، کوئی بات اس کے علم سے پوشیدہ نہیں۔

رہی یہ تاویل کہ ان اذکار و اشغال کو کوئی شرعی اہمیت نہیں دی جاتی اور انہیں محض ایک تدبیر کے طور پر اختیار کیا جاتا ہے، تو یہ فکری اعتبار سے ایک غلط تاویل ہے اور عملی اعتبار سے تقریباً ایک مفروضہ ہے۔

فکری طور پر یہ کیوں ایک غلط تاویل ہے، اسے سمجھنے کے لیے پہلے ایک اصولی بات سمجھ لینی چاہیے۔

ہم جو کچھ کرتے ہیں اس کی دو قسمیں ہوتی ہیں۔ بعض کام ایسے ہوتے ہیں جن کی شکل بالکل دنیوی نوعیت کی ہوتی ہے اور وہ اپنے اصل مزاج کے لحاظ سے بھی ایسے ہی ہوتے ہیں۔ اخلاق یا مذہبیت کا رنگ کہیں نہ ان کے اندر ہوتا ہے نہ باہر ۔ مثلاً کھانا پینا ، کھیل کود کرنا، بیوپار کرنا، صنعتیں چلانا، مکان بنانا، کنویں اور تالاب تعمیر کرنا وغیرہ۔ چنانچہ تابیر نخل (کھجوروں کے گابھوں کو باہم ملا دینے) کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف فرمایا تھا کہ یہ تمہارے دنیوی کام ہیں ، تمہی لوگ ان کو بہتر جانتے ہو ۔ (اَنْتُمْ أَعْلَمُ بِأُمُورِ دُنْيَا كُمْ) ان کے بالمقابل دوسرے کام وہ ہوتے ہیں جو اپنی ظاہری ہیئت کے لحاظ سے بھی دینی رنگت کے ہوتے ہیں اور اپنے اصل مزاج کے اعتبار سے بھی۔ جنہیں دیکھ کر ہر شخص آپ سے آپ سمجھ لیتا ہے کہ یہ مذہبی کام ہیں۔ مثلاً نماز، روزہ، حج وغیرہ۔ یہ دوسری قسم کے کام کہنے میں ہمیشہ دینی ہی کہے جائیں گے، خواہ ان کے اندر کوئی دینی روح ہو یا نہ ہو اور چاہے اللہ کے حضور ان کا کوئی وزن ہو یا
نہ ہو۔ البتہ جو کام پہلی قسم کے ہوتے ہیں وہ اصلاً دنیوی ہوتے ہوئے بھی دین و شریعت کے دائرے میں آ جاتے ہیں۔ اور یہ اس وقت ہوتا ہے جب ان میں کوئی اعتقادی یا اخلاقی نقطہ نظر کام کرنے لگا ہے۔ مثلاً کھانا اگر کوئی شخص ایسا کھاتا ہے جو غیر اللہ کی نذر کا ہو، تو اب یہ کھانے کا کام مذہب کے دائرہ بحث میں آجائے گا اور مذہب اسے حرام اور عذاب کا موجب قرار دے دے گا۔ اسی طرح اگر کوئی شخص کھانا یہ نیت کر کے کھاتا ہے کہ اس سے جو جسمانی قوت حاصل ہوگی ، اسے راہِ خدا میں خرچ کروں گا تو کھانے کا یہ کام ایک دینی کام اور عبادت کا فعل بن جائے گا۔ لیکن ظاہر ہے کہ جس وقت کوئی دنیوی کام اس طرح کے کسی دینی یا اخلاقی نقطہ نظر کے در آنے سے دینی بن جاتا ہے، اس وقت بھی وہ اصلاً اور بالذات دینی کام نہیں بن جاتا ہے، بلکہ پھر بھی بالعرض ہی دینی کام رہتا ہے۔

اس اصول کی روشنی میں، اب غور کیجیے کہ اذکار و اشغال اور اوراد و وظائف کس قسم کے کام ہیں؟ کیا وہ اصلاً اور بالذات دنیوی امور ہیں کہ دین کے دائرے سے باہر سمجھے جائیں۔ اور اگر اندر آئیں بھی تو عارضی طور پر کسی مذہبی یا اخلاقی نقطہ نظر کا سہارا لے کر ہی آسکیں۔؟ کیا کسی شخص کو ذکر کرتے اور وظیفہ پڑھتے دیکھ کر کوئی یہ گمان کر سکتا ہے کہ یہ شخص ایک دنیوی کام کر رہا ہے؟ ظاہر ہے کہ صورت واقعہ یہ قطعاً نہیں ہے بلکہ یہ امور سراپا امور دین ہیں۔ وہ اپنے مزاج اور اپنی ہیئت ، دونوں اعتبار سے دینی نوعیت رکھتے ہیں بلکہ یوں کہیے کہ عبادتی نوعیت رکھتے ہیں۔ بھلا اللہ کے ذکر و فکر کو دین و شریعت سے باہر کون قرار دے سکتا ہے؟ لوگوں نے تصور دین پر انتہائی ظلم کیا ہے۔ اس کی بڑی بے دردی سے کاٹ چھانٹ کی ہے۔ زندگی کے تمدنی، عائلی، اجتماعی حتی کہ اخلاقی مسائل تک کو ایک ایک کر کے اس کے حدود سے باہر کر دیا ہے۔ مگر یہ جرات آج تک کسی کو نہیں ہو سکی ہے کہ وہ عبادت کو نماز روزے کو اور اللہ کی یاد کے طریقوں کو بھی دین کے تصور سے خارج کر دے۔ اس کے بعد پھر دین میں آخر رہ ہی کیا جائے گا ، سوائے اس کے کہ وہ ایک لفظ ہو بے معنی ، ایک اسم ہو بلا مسمی ؟ اس لیے اذکار و اشغال کو امور عبادت سے خارج سمجھنا ممکن ہی نہیں۔ وہ بالذات امور عبادت ہیں، وہ صورتاً بھی دینی کام ہیں اور حقیقتاً بھی اور دین و عبادت کے سوا اور کچھ نہیں ہیں۔ پھر ایسے امور کو شرعی اور دینی حیثیت نہ دینے کی گنجائش ہی
کہاں رہ جاتی ہے؟ وہ کب اس بات کے محتاج ہیں کہ آپ ان کو شرعی نوعیت اور اہمیت دیں تو انہیں حاصل ہو؟ ان کو یہ مقام تو آپ سے آپ حاصل ہے۔

عملی اعتبار سے اسے محض ایک تدبیر سمجھنا تقریباً ایک مفروضہ اس لیے ہے کہ جس چیز کو تزکیۂ نفس اور وصول الی اللہ کے معاملے میں اتنا موثر یقین کیا جاتا ہے کہ نماز اور مسنون اذکار کے ہوتے ہوئے بھی اس سے بے نیازی نہیں ہو پاتی ، اس کی مرغوبیت کوئی معمولی درجے کی ہو ہی نہیں سکتی اور جو چیز غیر معمولی حد تک مرغوب خاطر ہو اسے عارضی اور غیر اہم تدبیر بس کہنے ہی کو کہا جا سکتا ہے۔

تیسری دلیل: کتاب و سنت سے استنباط؟

رہی تیسری دلیل تو اس کی بنیاد ”قیاس مع الفارق“ پر رکھی گئی ہے، دوسرے لفظوں میں یہ کہ فی الواقع اس کی کوئی بنیاد ہی نہیں ہے۔ کہا یہ گیا ہے کہ ”اگر چہ یہ اذکار و اشغال کتاب وسنت میں موجود نہیں ہیں، مگر وہ بزرگوں کے روحانی اجتہادات ہیں اور کتاب وسنت ہی کے اشارات سے مستنبط ہیں ، ٹھیک اسی طرح جس طرح کہ معاملات اور ظاہری مسائل کے سلسلے میں اجتہاد سے کام لیا گیا ہے اور کتاب وسنت سے بے شمار فقہی احکام کا استنباط کیا گیا ہے۔“ لیکن یہ بات اسی وقت صحیح مانی جا سکتی ہے جب کہ عقل اس ”روحانی اجتہاد“ کی ضرورت کا انکار نہ کرتی ہو اور نقل (یعنی کتاب وسنت) سے اس کا حکم یا کم از کم اس کی اجازت ہی ثابت ہو۔ جیسا کہ فقہی اجتہاد کا معاملہ ہے کہ عقل سے اس کی ضرورت اور نقل سے اس کی اجازت، بلکہ حکم، بالکل واضح طور پر ثابت ہے۔

عقلاً فقہی اجتہاد کی ضرورت اس لیے ہے کہ زمانے کی رفتار کے ساتھ ساتھ زندگی کے مسائل اور معاملات بھی نت نئے پیدا ہوتے رہتے ہیں ، اس لیے ان میں اسلام کا نقطہ نظر معلوم کرنے کے لیے اجتہاد کے بغیر چارہ نہیں۔ علامہ ابن رشد کے لفظوں میں ” عقل قیاس واجتہاد کی ضرورت پر شاہد ہے۔ کیوں کہ لوگوں کو پیش آنے والے معاملات لامحدود ہیں اور خدا اور رسول کے ارشادات، نیز آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال و اقرارات بہ ہر حال محدود ہی ہیں اور یہ ایک کھلی ہوئی حقیقت ہے کہ لامحدود اور محدود میں برابری نہیں ہو سکتی۔“ ( مقدمہ بدایۃ المجتہد )

اب نقل کو لیجیے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات، صحابہ کے اجماع ،خلفائے راشدین کے اسوے، غرض جہاں سے چاہے اس اجتہاد کی ضرورت اور ہدایت کا ثبوت لے
لیجیے ، حتی کہ قرآن کے متعدد اشارات تک میں اس کی تائید ملے گی۔ مثال کے طور پر صرف چند حوالے ملاحظہ ہوں:
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب قاضی شریح کا تقرر کیا تو انہیں ہدایت فرمائی کہ :
ما استبان لك من كتاب الله فلا تسئل عنه فان لم يستبن
في كتاب الله فمن السنة فان لم تجده في السنة فاجتهد
رأیک۔
(
اعلام الموقعین ، جلد اول)
جس قضیے کا صاف حل تمہیں اللہ کی کتاب سے مل جائے اس کے متعلق پھر کسی اور طرف نہ رجوع کرنا اور اگر کتاب الہی میں نہ ملے تو سنت سے رجوع کرنا اور سنت میں بھی نہ ملے تو اپنی رائے سے اجتہاد کرنا ۔

اسی طرح حضرت عمرؓ کے ان ہدایت ناموں میں جو وہ وقتاً فوقتاً حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ کے نام بھیجا کرتے تھے، یہ الفاظ ملتے ہیں :
...
ثم الفهم الفهم فيما ادلى الیک مما ورد علیک
مما ليس فى القرآن ولا السنة ثم مقائيس الا مور عند
ذلك واعرف الامثال ثم اعمد فيما ترى اجها الى الله
و اشبهها بالحق.
(
ايضاً )
پھر ان معاملات میں، جو تمہارے سامنے آئیں اور فیصلے کے لیے پیش کیے جائیں مگر ان کا واضح جواب نہ تو قرآن میں ملے نہ سنت میں، خوب خوب غور کر لو، پھر اس وقت ان مسائل کے لیے قیاس کرو اور (نصوص میں) ان کی جو مثالیں ہوں انہیں پہچانو اور اب ان کے اس حل کو قبول کر لو جو تمہاری صواب دید میں اللہ کے نزدیک پسندیدہ تر اور حق سے قریب تر نظر آئے۔

بہ قول علامہ ابن قیم حضرت عمرؓ نے ہزاروں صحابہ کی موجودگی میں یہ طرز عمل اختیار کیا، مگر کسی نے بھی اس کی مخالفت نہیں کی ، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ تمام صحابہ کرام کا اجماعی اور متفق علیہ مسئلہ ہے۔ (ایضاً)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کا گورنر بنا کر بھیجتے ہیں ، بھیجتے وقت ان سے پوچھتے ہیں کہ ” معاملات کا فیصلہ کیسے کرو گے؟“ وہ جواب دیتے ہیں کہ ”کتاب اللہ کے مطابق“ ۔ آپ پھر فرماتے ہیں کہ ”اگر کتاب اللہ میں کسی مسئلے کا جواب نہ ملے تو کیا کرو گے؟“ وہ کہتے ہیں کہ ”اس وقت سنتِ رسول کے مطابق فیصلہ کروں گا ۔“ آپ پھر دریافت کرتے ہیں کہ ”اور اگر سنت رسول بھی کوئی جواب نہ دے تب؟“ وہ عرض کرتے ہیں کہ :
اجْتَهِدُ رَائِي وَلَا الُو.
اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا اور اس میں کسی قسم کی کوتاہی نہ کروں گا ۔

یہ جواب سن کر زبانِ رسالت صرف اس کی تصویب ہی نہیں کرتی بلکہ اس پر یہ کلمات شکر جاری ہو جاتے ہیں:
الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَفَّقَ رَسُولَ رَسُولِ اللَّهِ بِمَا يَرْضَى بِهِ
رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (ترمذی، ابوداؤد، دارمی به حواله مشکوۃ )
شکر ہے اللہ کا جس نے اپنے رسول کے فرستادے کو اس بات کی توفیق بخشی جو اس کے رسول کو پسند ہے۔

یہ ہے ظاہری مسائل میں اجتہاد و قیاس کی ضرورت اور اجازت پر عقل ونقل کا اتفاق ۔ لیکن کیا تزکیۂ نفس اور اصلاح باطن کا مسئلہ بھی ایسا ہی ہے؟ کیا عقل اس کے لیے بھی اجتہاد کی کسی واقعی ضرورت کا اظہار کرتی ہے؟ اور کیا کتاب وسنت کے اندر اس کے بارے میں بھی کوئی حکم نہ سہی، کوئی اجازت ہی موجود ہے؟ ان دونوں باتوں کا جواب قطعی طور پر نفی میں ہے۔

چنانچہ عقلی پہلو سے دیکھیے تو بدیہی محسوس ہوگا کہ رفتار زمانہ کے ساتھ ساتھ باطن کے مسائل بھی نئے نئے نہیں پیدا ہوا کرتے ، کیوں کہ ایسے نئے مسائل پیدا اسی وقت ہو سکتے تھے جب کہ زمانہ کے تغیر کے ساتھ قلوب انسانی کے بنیادی حقائق میں بھی کوئی تغیر ہو جایا کرتا۔ اور یہ ایک ایسی بات ہے جس کا شاید کوئی بھی دعویٰ نہ کر سکے۔ یہ حقائق جیسے کل تھے ویسے ہی آج بھی ہیں اور ہزار برس بعد بھی ویسے ہی رہیں گے۔ انسان کی باطنی بیماریوں میں ماضی، حال اور مستقبل کا فرق کوئی جوہری فرق نہیں کیا کرتا، جو بیماریاں زمانہ رسالت میں دلوں کو بیمار کرتی
تھیں وہی آج بھی انہیں لاحق ہوا کرتی ہیں۔ پس اگر اصلاح باطن اور تزکیۂ نفس کا مدعا اس کے سوا اور کچھ نہیں ہے کہ نفس انسانی کو کفر ، شرک، نفاق ، دنیا پرستی ، مادیت ، غفلت ، آخرت فراموشی، بخل ، حرص، شہوت ، غضب اور اتباع خواہش وغیرہ روگوں سے پاک کر کے اللہ کا سچا پرستار اور مخلص طاعت گزار بنا دیا جائے تو یقین کرنا چاہیے کہ عہد رسالت میں بھی یہ روگ اسی طرح دلوں کو لاگو ہوا کرتے تھے، جس طرح کہ آج ۔ پھر اس یقین کے بعد دوسرا یقین یہ کرنا چاہیے کہ ان روگوں کے علاج کے لیے کسی نئے نسخے کی ہرگز کوئی ضرورت نہیں ، اللہ اور اس کے رسول نے جو نسخہ تجویز فرما دیا ہے وہ کل بھی کافی تھا، آج بھی کافی ہے اور ہمیشہ کے لیے کافی رہے گا۔ جب بیماریاں نئی نہیں تو علاج کے نسخے نئے کیوں مطلوب ہونے لگے؟ اور جب نئے علاج اور نئے نسخے کی ضرورت نہیں تو کسی اجتہاد کی ضرورت کیا رہی ؟ ضرورت تو در کنار اس کی گنجائش ہی کہاں سے نکل سکتی ہے؟

نقل کے پہلو سے دیکھیے تو کتاب وسنت اس اجتہاد روحانی کی اجازت سے یکسر خاموش نظر آئیں گی۔ نہ صرف یہ کہ اجازت سے خاموش نظر آئیں گی، بلکہ بالواسطہ اس سے روکتی ہوئی بھی دکھائی دیں گی۔ چنانچہ رہبانیت اختیار کرنے پر قرآن نے نصاریٰ کے حق میں جس ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے اس کی زد سے خود اس کے اپنے پیرووں کے روحانی اجتہاد و استنباط کا رویہ بھی باہر نہیں قرار دیا جا سکتا۔ اس بنا پر نہیں کہ دونوں بالکل ایک ہی سی چیزیں ہیں ، بلکہ دین کے اس اصول کی بنا پر کہ عبادتی امور میں اجتہاد و استنباط سے کام لے کر کوئی اضافہ نہیں کیا جا سکتا۔ آخر یہ رہبانیت بھی کیا چیز تھی ؟ کیا وہ ایک ایسا خانہ ساز نظریہ تھی جس کے خانہ ساز ہونے کا خود اس کے عقیدت مندوں کو بھی اعتراف تھا ؟ اور کیا انھوں نے یہ سمجھتے ہوئے اسے اختیار کر رکھا تھا کہ انجیل سے اس کا کوئی لگاؤ نہیں ؟ ظاہر ہے کہ ایسا خیال کرنا صحیح نہ ہوگا۔ کیوں کہ نفسیاتی طور پر یہ بات کچھ ممکن نظر نہیں آتی کہ ان عیسائی بزرگوں نے ، جن کی ”قسیسیت“ اور ”رہبانیت“ کو نرم دلی ، خشوع، خدا ترسی اور حق پسندی کا سبب ہونے کی قرآنی سند حاصل ہے، رہبانیت کو اس طرح کے علم و اعتراف کے باوجود اپنا لیا ہوگا۔ یقیناً انھوں نے اس رہبانیت کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات کا اصل مغز ہی سمجھ کر اپنایا ہوگا اور انجیل ہی کی آیتیں اس کا
انہیں سر چشمہ نظر آئی ہوں گی اور انہی سے انھوں نے اس نظریے کا استنباط کیا ہوگا۔

اس بات کا اندازہ لگانے کے لیے کہ کیا انجیل کے اندر اس طرح کی آیتیں تھیں جن کو رہبانیت کا سر چشمہ سمجھا اور بنایا جا سکتا تھا۔ اس کی ان چند عبارتوں پر نظر ڈال لینا کافی ہوگا:
شریر کا مقابلہ نہ کرنا۔ جو کوئی تیرے داہنے گال پر طمانچہ مارے دوسرا بھی اس کی طرف پھیر دے۔ اور اگر کوئی نالش کر کے تیرا کرتہ لینا چاہے تو چوغہ بھی اسے لے لینے دے۔ اور جو کوئی تجھے ایک کوس بیگار میں لے جائے تو اس کے ساتھ دو کوس چلا جا۔“ (متی۔ باب ۵)
اپنے واسطے زمین پر مال جمع نہ کرو.. تم خدا اور دولت دونوں کی خدمت نہیں کر سکتے ۔ اس لیے میں تم سے کہتا ہوں کہ اپنی جان کی فکر نہ کرنا کہ ہم کیا کھائیں گے اور کیا پیئیں گے اور نہ اپنے بدن کی کہ کیا پہنیں گے۔ ہوا کے پرندوں کو دیکھو۔ الخ“ (متی، باب ۶)
یسوع نے اس سے کہا اگر تو کامل ہونا چاہتا ہے تو جا اپنا مال و اسباب بیچ کر غریبوں کو دے دے، تجھے آسمان پر خزانہ ملے گا اور آکر میرے پیچھے ہولے ... میں تجھ سے سچ کہتا ہوں کہ دولت مند کا آسمان کی بادشاہی میں داخل ہونا مشکل ہے۔ اور پھر تم سے کہتا ہوں کہ اونٹ کا سوئی کے ناکے میں سے نکل جانا اس سے آسان ہے کہ دولت مند خدا کی بادشاہی میں داخل ہو۔“ (متی، باب ۱۹)
ایک اور شاگرد نے اس سے کہا اے خداوند ! مجھے اجازت دے کہ پہلے جا کر اپنے باپ کو دفن کروں ۔ یسوع نے اس سے کہا تو میرے پیچھے چل اور مردوں کو اپنے مردے دفن کرنے دے۔“ (متی، باب ۸)
پس اگر تیری داہنی آنکھ تجھے ٹھوکر کھلائے تو اسے نکال کر اپنے پاس سے پھینک دے۔“ (متی، باب ۵)
اے بیت صیدا ! تجھ پر افسوس ! کیوں کہ جو معجزے تم میں ظاہر ہوئے اگر صور اور صیدا میں ہوتے تو وہ ٹاٹ اوڑھ کر خاک میں بیٹھ کر کب کے توبہ کر لیتے۔“ (متی، باب ۱۱)

ان عبارتوں پر نظر ڈالیے، بالخصوص خط کشیدہ الفاظ پر اور پھر فیصلہ کیجیے کہ انجیل کے اس
طرح کے فقرے رہبانیت سے کوئی لگاؤ رکھتے ہیں یا نہیں؟ اور اگر انسان کا ذہن دین کے گوشوں تک پہنچ کر متوازن طریقے پر سوچنے کا عادی نہیں ہے تو وہ ان فقروں میں رہبانیت کی طرف اشارہ محسوس کر سکتا ہے یا نہیں؟ کیا یہ کوئی قیاس کی بات ہے کہ انجیل میں ایسے ایسے جملے موجود ہوں اور ان کے موجود ہوتے ہوئے بھی نصرانی بزرگوں نے رہبانیت کو ان کی ”سند“ پر نہ اختیار کیا ہو، بلکہ آزادانہ اور من مانے طور پر اختیار کر لیا ہو۔ یقیناً شریعت اور کتاب الہی سے اتنی بے پروائی ان خدا ترسوں سے ہرگز متوقع نہیں۔ اس لیے ماننا پڑے گا کہ رہبانیت کا نظریہ، انجیل سے بے تعلق ہو کر بالکل آزادانہ طریقے پر ہرگز نہیں قائم کیا گیا تھا، بلکہ اس کے اسی طرح کے الفاظ سے اس کا استنباط کیا گیا تھا۔

اب اگر قرآن نصاریٰ کے اس اجتہاد و استنباط کو ”ابتداع“ ٹھہراتا ہے اور اسے ان کی ایک ناپسندیدہ حرکت قرار دیتا ہے، تو کوئی وجہ نہیں کہ اس کا یہی فتویٰ ان اذکار و اشغال پر بھی راست نہ آئے جو خود اس کے پیرووں نے اس کے اور اس کے لانے والے کے کلام کے ”اشارات“ سے اجتہاد کر کے نکالے ہوں۔ خصوصاً ایسی شکل میں جب کہ اس امر سے بھی انکار نہ کیا جا سکے کہ قرآن کی ان آیات(۱) اور پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی اُن احادیث ۔ سے، جن سے مروجہ غیر مسنون اذکار و اشغال کو مستنبط بنایا جاتا ہے، ان کا تعلق ویسا بھی نہیں ہے جیسا کہ رہبانیت کا تعلق انجیل کی مذکورہ بالا آیتوں اور انہی کی سی دوسری آیتوں سے نظر آتا ہے۔ جو چیز کل غلط تھی وہ آج بھی غلط ہی ہوگی ۔ اگر عیسائی علماء اور مشائخ کا روحانی اجتہاد کرنا غلط تھا تو اسلام کے علماء اور مشائخ کا بھی اس طرح کا اجتہاد و استنباط کرنا صحیح نہیں ہو سکتا۔

بزرگوں کے احترام میں غلو سے اجتناب

اس سلسلے میں بزرگانِ دین کی توہین یا تضلیل کا کوئی سوال ذرا نہیں پیدا ہوتا، بلکہ ان کے اخلاص، زہد، خشوع،
(
۱) ایسی آیات و احادیث جن سے غیر مسنون اذکار و اعمال کا استنباط کیا گیا ہے، بے شمار ہیں۔ اس لیے انہیں خوف طوالت سے یہاں نقل نہیں کیا جا رہا ہے۔ ویسے وہ اس قدر مشہور ہیں کہ کسی بھی واقف کار کی نگاہ سے پوشیدہ نہیں۔ تاہم جو لوگ اس بات سے باخبر نہ ہوں کہ وہ کون سی آیات واحادیث ہیں جن سے ان اذکار و اشغال کا استنباط کیا گیا ہے اور کس طرح کیا گیا ہے، انہیں مولانا اشرف علی صاحب مرحوم و مغفور کی کتاب ”التكشف عن مہمات التصوف“ کا مطالعہ کر لینا بہ قدر ضرورت کافی ہوگا۔
انابت، خدا ترسی اور حق پسندی کا پورا پورا اعتراف و احترام کرتے ہوئے یہ بات کہی جاسکتی ہے، ٹھیک اسی طرح جس طرح قرآن نے سچے راہبوں کے زہد و تورع کا اعتراف کرتے ہوئے بھی رہبانیت کی حد تک ان پر تنقید کی۔

شاہ ولی اللہ کا نقطہ نظر

غیر مسنون اذکار و اشغال کے حق میں عام طور سے جو دلیلیں دی جاتی ہیں، ان کے ”پائے چوبیں“ آپ نے دیکھ لیے ۔ اس لیے ان چیزوں سے اجتناب نہ برتنے کی کوئی وجہ نہیں ہو سکتی ۔ اصل یہ ہے کہ ذکر و عبادت کی وہی تصویر صحیح اور خالص ہوتی ہے جو مسنون ہدایات سے بنتی ہے۔ اس میں جب بھی ذوقی اجتہادات کو داخل کیا جائے گا وہ اپنے مطلوبہ تناسب سے محروم ہو جائے گی ، خواہ اس کے بعض گوشوں میں کتنا ہی غیر معمولی حسن و جمال کیوں نہ پیدا ہو جائے۔ اہلِ رہبانیت اور اکثر اہل تصوف ، دونوں میں یہ چیز کچھ مشترک سی دکھائی دیتی ہے کہ انھوں نے کتاب الہی اور سنت رسول کے محکمات اور واضح ہدایات ہی پر اپنے ذکر وفکر کو منحصر نہیں رکھا، بلکہ اس میں بہت سی ایسی چیزوں کو بھی شامل کر لیا جن کا اصل سرچشمہ کتاب وسنت سے باہر تھا۔ اگر چہ شعور پر شریعت کے فطری احترام کی مضبوط گرفت نے اس کا انہیں بہت کم احساس ہونے دیا اور وہ یہی کہتے رہے کہ ہمارے پاس جو کچھ ہے وہ سب کا سب کتاب وسنت ہی سے ماخوذ ہے۔ مگر ایک بیرونی ناقد ان کے اس دعوے سے کبھی اتفاق نہیں کر سکتا۔ بیرونی ناقد تو ایک طرف رہے، خود اندر کے راز شناسوں میں سے بھی بعض گہری بصیرت دین اور مضبوط قوت فکر و امتیاز کے مالک بزرگوں سے یہ حقیقت چھپی نہ رہی۔ چنانچہ حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ علیہ تو ”فیوض الحرمین“ میں صاف صاف لکھتے ہیں کہ :
إِنَّ هَهُنَا طَرِيقَتَيْنِ طريقة انتقلت الى الخلق بانقتاله صلى
الله عليه وسلم وهى بالوسائط وهى ترجع الى تهذيب
الجوارح بالطاعات والقوى النفسانية بالذكر والتزكية
وحب الله والنبي صلى الله عليه وسلم والى تهذيب
الناس نشرا للعلم وامرًا بالمعروف ونهيا عن المنكر
وسعيا فيما ينفع الناس عامة وما يناسب هذه
المذكورات وطريقة بين الله وعبده من حيث اوجده
فوجدو افاضه ففاض وليس فى هذه واسطة اصلا. ومن
سلك في هذه فانما شانه ان يتنبه بحقيقة انا ويتنبه في
ضمن هذا التنبه بالحق وينشعب من ذلك الفناء والبقاء
والجذب والتوحيد و غيرها. وكلامنافي الطريقة الثانية
انها ليست عند النبي صلى الله عليه وسلم بمنوهة ولا
مرغوبة لانه عليه الصلوة والسلام عنوان فيضان الطريقة
الولى واجعله الله وكرا لعنا يتها بافاضتها ومظنة
لظهورها. (ص:۵۰)
بلا شبہ اللہ تک پہنچنے کے دو طریقے ہیں۔ ایک طریقہ تو وہ ہے جو نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کے ذریعہ خلق تک پہنچا ہے، یہ طریقہ واسطوں کا طریقہ ہے۔ یعنی یہ کہ احکام شرعیہ کی پیروی کر کے اپنے ظاہر کی اصلاح کی جائے اور ذکر الہی، تزکیہ، محبت خدا اور محبت رسول کے ذریعہ اپنی باطنی قوتوں کو سنوارا جائے ۔ دوسری طرف علم دین کی اشاعت کرکے، معروف کا حکم دے کر ، منکر سے روک کر ایسی تدبیروں کو پورے اہتمام سے اپنا کر لوگوں کے لیے عام طور سے نافع ہوں اور اسی قسم کی اور چیزوں کے ذریعہ معاشرے کو سدھارا جائے ۔ دوسرا طریقہ اللہ اور اس کے بندے کے درمیان کا ہے۔ اس جہت سے ہے کہ اسی کے ہست کرنے سے وہ ہست ہوا ہے اور اسی کی خلاقیت کے فیضان سے وہ عالم ظہور میں آیا ہے۔ اس طریقے میں قطعاً کوئی درمیانی واسطہ نہیں ہے۔ جو شخص یہ طریقہ اختیار کرے اسے چاہیے کہ اپنے ”انا“ کی حقیقت سے واقفیت بہم پہنچائے اور اسی واقفیت کے ضمن میں ”حق“ سے آگہی حاصل کرے، اور اس سے فنا، بقا، جذب اور توحید وغیرہ کی کیفیات اُبھریں۔ اس دوسرے طریقے کے بارے میں ہمارا یہ کہنا کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک عمدہ اور پسندیدہ نہیں ہے، اس وجہ سے ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم پہلے طریقے کے نزول کا عنوان
تھے اور اللہ تعالیٰ نے جب یہ طریقہ اہلِ جہان کو مرحمت فرمانا چاہا تو اس کے لیے آپ کو ذریعہ بنایا اور آپ کو اس کے وجود کا قالب قرار دیا۔

اگر چہ آگے چل کر مصنف ممدوح نے حسنِ تاویل کے ذریعے اللہ تک پہنچنے کے اس دوسرے طریقے کی طرف سے کافی مدافعت کی ہے ، مگر ایک بات تو اپنی جگہ بہ ہر حال باقی رہ جاتی ہے اور وہ یہ کہ طریقہ ماثور، یعنی طریقہ رسول، بہ ہر حال افضل اور اعلیٰ ہے اور عمومی مصلحت کے لحاظ سے وہی مناسب طریقہ ہے، اس میں پوری امان ہے، اسی میں اسوہ رسول کی حقیقی اور کامل پیروی ہے۔ اس لیے حق یہ ہے کہ اسی کو مدار تزکیہ ٹھہرایا جائے۔ اب اگر کسی کا دل اپنے اندر یہ جرات پاتا ہو کہ وہ اس طریقۂ بندگی پر اکتفا نہ کرے جس کو ہمارے ہادی اعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اپنے قول سے اور اپنے عمل سے سکھایا ہے، جس کو دے کر آپ بھیجے گئے تھے، جس کے آپ ”عنوان فیضان“ تھے، تو وہ اپنے فعل کا مختار ہے۔ مگر ہر شخص تو اپنے اندر یہ ہمت نہیں پا سکتا کہ اللہ تک پہنچنے کے لیے کسی ایسے طریقے کو اختیار کرے جس میں ”اصلاً“ کوئی ”واسطہ“ نہ ہو۔ یعنی ذات نبوی کی پیشوائی اس میں موجود نہ ہو۔ اس جرات پر اسے یہ بات بھی آمادہ نہیں کر سکتی کہ امت کے کچھ بڑے اور مقدس بزرگوں کا وہ اختیار کردہ رہا ہے۔ یقیناً یہ پاک باز ہستیاں ہماری انتہائی عقیدت اور احترام کی مستحق ہیں ، ہم ان کی خاکِ پا کے بھی برابر نہیں ہو سکتے ۔ مگر اس کے باوجود ہمارے لیے بڑی مجبوری ہے۔ کیوں کہ دوسری طرف سے ایک ایسی چیز کا پاس و احترام ہمارا دامن پکڑ لیتا ہے، جو ان تمام بزرگوں سے بھی بڑھ کر بزرگ ہے۔ ہمیں ان لوگوں کی داستان یاد ہے جنھوں نے اپنے فقہا اور اپنے مشائخ کو جوش عقیدت میں آ کر عملاً وہ مقام دے دیا تھا جو صرف اللہ اور اس کے رسول کے لیے مخصوص تھا اور اس لیے قرآن نے ان کو اس بات کا مجرم قرار دیا تھا کہ :
اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللهِ (التوبہ: ۳۱)
انھوں نے اللہ کے سوا اپنے عالموں اور اپنے درویشوں کو اپنا رب بنا لیا ہے۔

اور ان کے اس مجرمانہ رویے کی شرح زبان رسالت نے یہ فرمائی تھی کہ انھوں نے کسی چیز کو حلال یا حرام مان لینے کے لیے بس اس بات کو کافی سمجھ لیا ہے کہ فلاں عالم ، فلاں درویش نے
اسے حلال یا حرام فرما دیا ہے۔ یاد رکھیے ، قرآن نے اہلِ کتاب پر صرف یہی الزام نہیں لگایا تھا کہ انھوں نے اپنے احبار (علماء وفقہا) کو ”ارباب“ بنا لیا ہے، بلکہ رہبان (مشائخ) کے بارے میں بھی ان پر اس کا یہی الزام تھا۔ پھر یہ گمان بھی نہ کیجیے کہ ان پر یہ الزام صرف ان احبار اور رہبان کی اندھی تقلید کے پیش نظر لگایا گیا تھا جو بُرے اور دین فروش تھے۔ کیوں کہ قرآن میں اس طرح کی کوئی تخصیص نہیں کی گئی ہے اور اچھے بُرے سارے ہی عالموں اور راہبوں کے سلسلے میں یہ بات فرمائی گئی ہے ۔ چنانچہ اس کے بعد وَ الْمَسِيحَ بْنَ مَرْيَمَ کے الفاظ بھی آئے ہیں ، جس کے معنی یہ ہیں کہ انھوں نے مسیح علیہ السلام کو بھی اللہ کے سوا اپنا رب بنا لیا تھا۔ یہ اس بات کا کھلا ہوا ثبوت ہے کہ یہاں صرف بُرے اور دنیا دارو دین فروش علماء و مشائخ ہی کا ذکر نہیں ہے، بلکہ اتقیاء و صالحین بھی اس ذکر میں شامل ہیں۔ اور سچ تو یہ ہے کہ عموماً اس قسم کی حد سے بڑھی ہوئی عقیدت بُرے اور دین فروش عالموں اور صوفیوں سے پیدا بھی نہیں ہوا کرتی ۔ یہ ظلم تو زیادہ تر صالح علماء و مشائخ ہی کے اوپر کیا گیا ہے کہ دنیا سے اٹھتے ہی ان کو ”رب“ بنا لیا گیا۔ غرض یہ ایک حقیقت ہے کہ جن لوگوں کو اپنا رب بنا لینے کا انھوں نے جرم کیا تھا ان میں صالح رہبان بھی تھے۔ ان رہبان کو ”رب“ بنا لینے کی شکل کیا تھی؟ اس امر کی وضاحت مذکورہ بالا ارشاد نبوی کی روشنی میں یہی ہو سکتی ہے کہ رہبانیت کے تصور اور اس کے متعلقات کو انھوں نے اصل دین ٹھہرا لیا تھا اور صرف اس بنا پر ٹھہرا لیا تھا کہ وہ ان کے محترم بزرگوں کے اختیار کردہ تھے۔ اس مثال کے پیش نظر ہمیں اندیشہ ہے کہ اگر ہم بھی اپنے اسلاف کرام اور بزرگانِ دین کے احترام میں حد سے آگے بڑھ گئے اور ان کے اقوال وافعال کو محض ان کے اقوال وافعال ہونے کے سبب ہم نے ترک و اختیار کی بحث سے بالاتر قرار دے لیا تو قرآن کے اس الزام سے ہم بھی محفوظ نہ رہ سکیں گے۔

غیر مسنون اذکار کی اقسام

غیر مسنون اذکار و اشغال کے سلسلے میں ایک اور بات بھی یاد رکھنے کی ہے۔ اور وہ یہ کہ یہ اذکار و اشغال سب ایک ہی جیسے نہیں ہیں۔ بلکہ ان میں سے بعض تو ایسے ہیں جو اگرچہ غیر مسنون ہیں مگر ان کا مزاج دین کے مزاج سے ہم آہنگ ہے۔ اور بعض ایسے ہیں جو اپنے مزاج کے اعتبار سے بھی اسلام سے دور ہیں۔ انصاف کی رو سے دونوں کا حکم ایک نہیں ہو سکتا۔ بلکہ پہلی قسم کے اذکار و اشغال کو ایک حد تک گوارا بھی کیا جا سکتا ہے۔ بہ شرطیکہ آدمی ان کو عملاً بھی
وہ اہمیت نہ دے جو اللہ اور اس کے رسول کے ارشادات کی ہوتی ہے اور نہ ان کی اس طرح تبلیغ و تلقین کرتا پھرے جیسی کہ مسنون اعمال و اذکار کی ہوتی ہے یا ہونی چاہیے۔ لیکن دوسری قسم کے اذکار و اعمال کو تو ایک لمحے کے لیے بھی برداشت نہیں کیا جا سکتا ۔ وجہ بالکل ظاہر ہے۔

یہ مسئلہ گوناگوں حیثیتوں سے بڑا اہم بھی ہے اور بڑا نازک بھی، لیکن اس وقت وہ ہماری اصل بحث کا موضوع نہیں اور موقع محل کی ضرورت اس سے زیادہ تفصیل کی مقتضی نہیں۔ اس لیے انہی اجمالی اشارات پر بس کیا جاتا ہے۔

(مبحث نماز کے بعض اہم پہلو ابھی اور رہ جاتے ہیں، لیکن ان کا تعلق چوں کہ ”صبر“ سے بھی ہے، اس لیے ان پر گفتگو صبر ہی کی بحث میں کی جائے گی۔)

 

باب پنجم
[
۴] صبر: دین کی چوتھی بنیاد
دین کی اساسی تعمیر میں کام آنے والا چوتھا اور آخری بنیادی پتھر صبر ہے۔ جس طرح تمام اعمال میں سے صرف نماز کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ اس کے بغیر بنائے دین کی تعمیر ہو ہی نہیں سکتی ۔ اسی طرح تمام اخلاقیات میں سے یہ خصوصی حیثیت محض صبر کو حاصل ہے۔

صبر کا مفہوم

صبر کا ایک عرفی مفہوم ہے ، ایک عربی زبان کا لغوی مفہوم ہے اور ایک شرعی اصطلاحی مفہوم ۔

  • عرفی مفہوم: یہ ہے کہ انسان مصائب و آلام پر بے قراری کا اظہار نہ کرے، آہ وفغاں نہ کرے، واویلا نہ مچائے ، بلکہ جذبات کو قابو میں رکھے۔
  • لغوی مفہوم: یہ ہے کہ ناگوار خاطر حالت میں اپنے آپ کو اپنی جگہ پر روکے رکھا جائے (۱) گویا مشکل حالات میں ثبات و استقلال کا دوسرا نام صبر ہے۔
  • شرعی اصطلاحی مفہوم: یہ ہے کہ ہر حال میں انسان دین کے تقاضوں پر جما رہے اور بندگی کی شان پر آنچ نہ آنے دے۔ ایک طرف تو وہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی پیروی میں سہل انگاری کو راہ نہ پانے دے، دوسری طرف دنیا کی زینتیں اور رغبتیں اسے اپنا گرویدہ نہ بنانے پائیں اور پھر تیسری طرف ذاتی ملاقاتیں اور شخصی رجحانات، خاندانی روایات اور آبائی رسوم، قومی تعصبات اور وطنی مفادات، وقت کے فتوے اور زمانے کے فیصلے، حالات کی ناسازگاریاں اور حق پرستی کی آزمائشیں ، سب اپنا زور دکھا کر تھک ہار جائیں مومن دین کی شاہ راہ پر بدستور جما رہے اور رضائے الہی کی منزل کی طرف برابر بڑھتا رہے (۱)

یہ صبر کا جامع ترین شرعی اصطلاحی مفہوم ہے اور ضروری نہیں کہ دین کی زبان سے جب
(
۱) امام راغب لکھتے ہیں : الصبر الامساک فی الضيق - (صبر سخت حالات میں اپنی جگہ پر ڈٹے رہنے کا نام ہے )
مولانا حمید الدین فراہی کی تحقیق کے مطابق: الصبر عند العرب ليس من المتذلل في شئ كما يصبر المضطهد العاجز بل هوا صل القوة والعزم وكثر في كلام العرب استعماله لهذا المعنى (اہل عرب کے یہاں صبر کا جو مفہوم ہے اس کا بے چارگی اور پستی سے کوئی دور کا بھی واسطہ نہیں ، جیسا کہ ایک درماندہ انسان کے ”صبر“ کا حال ہوا کرتا ہے۔ بلکہ ان کے یہاں صبر نام ہے قوت اور ارادے کی مضبوطی کا ۔ کلام عرب کے اندر اس مفہوم میں اس لفظ کا استعمال کثرت سے ہوا ہے۔ )


(
۱) امام راغب فرماتے ہیں:
الصبر حبس النفس على ما يقتضيه العقل والشرع او عما يقتضيان حبسها عنه. (المفردات)
عقل اور شرع کے مطالبات پر اپنے آپ کو جما رکھنے کا، یا جن چیزوں سے رُک رہنے کا وہ تقاضا کریں ان سے اپنے کو روک رکھنے کا نام ”صبر“ ہے۔
علامہ ابوبکر جصاص کہتے ہیں:
ينصرف الامر بالصبر على اداء الفرائض التي فرضها الله واجتناب معاصيه. (احکام القرآن، جلدا)
صبر کا جو حکم دیا گیا ہے اس کا مدعا یہ ہے کہ انسان تمام دینی فرائض کو بجالائے اور گناہوں سے بچتا رہے۔
علامہ آلوسی " وَتَوَاصَوْا بِالصَّبر “ کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
وتواصوا بالصبر عن المعاصى التي تشتاق اليها النفس بحكم الجبلة البشرية و على الطاعات التي يشق عليها اداءها وعلى ما يبتلى الله به عباده من المصائب. (روح المعانی)
اور جنہوں نے ایک دوسرے کو تلقین کی ان گناہوں سے دور رہنے کی ، جن کا جبلی طور پر نفس بڑا شائق ہوتا ہے اور ان احکام الہی کو بجالانے کی ، جن کا بجالانا نفس پر بہت شاق گزرتا ہے اور ان مصائب کے وقت ثابت قدم رہنے کی ، جن کے ذریعے اللہ اپنے بندوں کو آزماتا ہے۔
لسان العرب میں بھی اس ارشاد قرآنی کے معنی اس طرح کے بتائے گئے ہیں۔ (معناه وتواصو ابالصبر على طاعة الله والصبر عن الدخول في معاصيه)
اس لفظ کو بولا جائے تو ہمیشہ اسی جامع اور وسیع مفہوم میں بولا جائے ۔ بلکہ محدود مفہوم کے لیے بھی بولا جاتا ہے۔ چنانچہ قرآن میں اسے تعیین کی قید کے ساتھ صرف اتنے ہی مفہوم میں بہ کثرت استعمال کیا گیا ہے جو صبر لغوی کا مفہوم ہے، یعنی دین کی خاطر پیش آنے والی مشکلوں اور مصیبتوں میں ثابت قدم رہنا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دین کی بولی میں بھی صبر کا اولین اطلاق اسی ثبات و استقلال پر ہوتا ہے، اور باقی چیزوں پر اس کا اطلاق اس کے بعد ہوتا ہے۔ بہ ہر حال صبر عرفی سے صبر لغوی ، اور صبر لغوی سے صبر شرعی وسیع تر مفہوم کا حامل ہے۔

صبر کی اہمیت

صبر کا یہ مفہوم اس بات کا ایک مجمل تصور دلانے کے لیے بہ جائے خود بالکل کافی ہے کہ دین میں اور دینی اساس کی تعمیر میں اس کی کیا اہمیت ہو گی ۔ اس مجمل تصور کو اگر آپ تفصیل اور وضاحت کا رنگ دینا چاہتے ہوں اور کتاب وسنت کی کھلی شہادتوں کے ساتھ دینا چاہتے ہوں تو قرآن مجید اٹھا لیجیے اور کسی بھی نبی کی تاریخ دعوت پڑھنا شروع کر دیجیے۔ آپ دیکھیں گے کہ اس کو اور اس کے ساتھیوں کو اللہ تعالیٰ کی جناب سے جن اہم اور بنیادی چیزوں کی سب سے پہلے تلقین فرمائی گئی ہے۔ ان میں صبر بھی ضرور موجود تو ہے ہی، جیسا کہ شروع میں ثابت کیا جا چکا ہے، اس کے علاوہ اس پر زور بھی غیر معمولی دیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر دعوت قرآنی اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے معاملے کو لے لیجیے۔

آپ کو دعوت کے کام پر مامور کرتے وقت ہی یہ ہدایت دی گئی :
...
وَ لِرَبِّكَ فَاصْبِرُ (المدثر :۷)
اور اپنے رب کی رضا کے لیے ثابت قدم رہو ۔
وَاصْبِرُ عَلَى مَا يَقُولُونَ وَاهْجُرُهُمْ هَجْرًا جَمِيلًا (المزمل : ۱۰)
یہ (کفار) جو کچھ (تمہاری مخالفت میں) کہتے ہیں اس پر صبر کرو اور خوش اسلوبی سے انہیں نظر انداز کر دو ۔

یہ سورتیں (المدثر اور المزمل) بالکل ابتدائی سورتیں ہیں، اس لیے نبی کے لیے صبر کی...

یہ تلقین بھی اولین ہدایات میں سے ہیں۔ پھر جوں جوں دعوت و تبلیغ کا دائرہ وسیع ہوتا گیا اور نتیجہ مشکلوں اور مخالفتوں کے طوفان پر طوفان اٹھتے گئے صبر و استقلال کی یہ تلقین بھی بار بار دہرائی جاتی رہی ۔ یہ صورت واقعہ ۔ قُمْ فَانْذِرُ کے ساتھ ہی وَلِرَبِّكَ فَاصْبِر کی یہ ہدایت اور ناسازگاریوں کی ہر نئی یورش پر صبر و ثبات کی ایک تازہ تلقین اس بات کا ثبوت ہے کہ دعوت حق کا کام غیر معمولی عزیمت اور ثابت قدمی کا طالب تھا اور اس کے بغیر وہ ہرگز نہیں انجام پاسکتا تھا۔ یہی حال اس مہم میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کا بھی تھا جن حالات سے آپ دو چار تھے اپنی حیثیت کے مطابق انہی سے وہ بھی گزر رہے تھے۔ یہ مٹھی بھر جماعت اپنے آپ کو اس حال میں پارہی تھی گویا سرزمین عرب کا ذرہ ذرہ اسے نگل جانا چاہتا ہے اور سارے مادی اسباب اکٹھے ہو کر اسے بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکنے کا تہیہ کر چکے ہیں۔ پھر جماعت کی صرف تعداد ہی مختصر نہ تھی بلکہ ظاہری سروسامان بھی نا پید تھے۔ ان حالات سے نبٹنے کے لیے ان سے جو کچھ فرمایا جاتا رہا وہ یہ تھا:
يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوةِ ۖ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّبِرِينَ (البقره: ۱۵۳)
اے ایمان والو ! صبر اور نماز سے مددلو۔ یقیناً اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔

يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (آل عمران : ۲۰۰)
اے ایمان والو! صبر و ثبات اختیار کرو اور اس میں ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش کرو اور مقابلے میں مستعد رہو۔ اور اللہ سے ڈرو، تا کہ کامیاب ہو سکو۔

صبر و ثبات کی یہ ہدایت برابر کی جاتی رہی اور اس انداز میں دی جاتی رہی کہ بالیقین یہی صبر وہ ہتھیار ہے جس سے مشکلات کے ہجوم کو زیروز بر کیا جا سکتا ہے۔ اور جس کی مدد سے حق و باطل کا یہ معرکہ سر کیا جا سکتا ہے۔ یہی قلت تعداد کا بھی بدل ہے اور قلت سرو سامان کا بھی۔ اور اس کے ہوتے باطل کا کوئی وار کامیاب نہیں ہو سکتا۔
إِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا لَا يَضُرُّكُمْ كَيْدُهُمْ شَيْئًا (آل عمران : ۱۲۰)
اگر تم صبر اور تقوی اختیار کرو گے تو ان کی چالیں تمہارا کچھ نہ بگاڑ سکیں گی۔

صبر کرنے والوں کے لیے اللہ کی مدد


اور یہ اس لیے کہ :
إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَيْكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَ لَا تَحْزَنُوا ... نَحْنُ أَوْلِيَؤُكُمْ فِي الْحَيُوةِ الدُّنْيَا وَ فِي الآخِرَةِ ( حم السجدہ : ۳۱،۳۰)
بلا شبہ جن لوگوں نے کہا کہ رب ہمارا اللہ ہے اور پھر اس پر جمے رہے، ان پر فرشتے اترتے ہیں یہ خوش خبری دیتے ہوئے کہ نہ ڈرو نہ غم کھاؤ ، ہم ہیں تمہارے مددگار دنیوی زندگی میں اور آخرت میں

بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ :
إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصُّبِرِينَ (البقره: ۱۵۳)
یقینا اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔

پھر بھلا کون ہے جو انہیں ہرا دینے کا حوصلہ کر سکے جن کی ولایت ( پشت پناہی ) کے لیے ملائکہ کے لشکر موجود ہوں اور جن کی آستینوں میں سے خود اللہ کا ہاتھ نبرد آزمائی کر رہا ہو!
چناں چہ واقعات گواہ ہیں کہ اسلام کی دعوت خشکی اور تری پر اگر پھیل کر چھا گئی تو اسی لیے کہ صحابہ کرام کی یہ جماعت، صابروں کی جماعت ثابت ہوئی اور اس نے اسلام کی ابتدائی تاریخ کو صبر واستقامت کی تاریخ بنا کر پیش کیا۔

صبر اور کامیابی: تاریخی مثالیں

اسی طرح موسوی دعوت کو لے لیجیے ۔ جب یہ دعوت شروع ہوئی اور کچھ لوگ ایمان لائے اور فرعونی اقتدار ان پر عرصہ حیات تنگ کرنے لگا تو بعینہ یہی ہدایت ان لوگوں کو بھی دی گئی تھی :
قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ اسْتَعِينُوا بِاللَّهِ وَاصْبِرُوا (الاعراف: ۱۲۸)
موسی نے اپنے لوگوں سے کہا اللہ سے مدد مانگو اور صبر اختیار کرو۔

اور پھر جب فرعونی مظالم کے آہنی پنجے سے انہیں نجات ملتی ہے تو وہ بھی اسی ”صبر“ ہی کے طفیل :
تَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ الْحُسْنَى عَلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ بِمَا صَبَرُوا (الاعراف: ۱۳۷)

بنی اسرائیل پر تیرے رب کا دعوہ خیر پورا ہو کر رہا بہ وجہ ان کے صبر سے کام لینے کے۔

تاریخ ہدایت کے ان سے بھی قدیم صفحات اگر آپ الٹ کر دیکھیں گے تو ایک ایک صفحہ اسی روشن حقیقت کا گواہ ثابت ہوگا۔ کوئی دعوت بھی اگر کامیاب ہوتی نظر آئے گی تو اسی وقت جب کہ اس کے علم برداروں نے مشکلات راہ کے سامنے جھک جانے سے انکار کر دیا۔

صبر بحیثیت صدقِ ایمانی کی کسوٹی

صبر کی اہمیت کا یہ ایک پہلو تھا۔ دوسرا پہلو اس کی اہمیت کا یہ ہے کہ وہ صدق ایمانی کی کسوٹی ہے۔ کسی شخص کی خدا پرستی اللہ کے حضور اسی قدر سند قبول حاصل کرتی ہے جس قدر کہ وہ دین کی راہ میں پامردی دکھاتی ہے :
لَيْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنْ امَنَ بِاللهِ ... وَالصَّبِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ أُولَئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ (البقرہ:۱۷۷)
نیکی یہ نہیں ہے کہ تم نے ( نماز کے لیے ) پورب یا پچھم کی طرف اپنے رخ کر لیے (اور نہ ایسے لوگ فی الواقع نیک ہیں) بلکہ نیکی دراصل ان کی ہے جو اللہ پر ایمان رکھیں ... اور (خصوصاً یہ کہ ) وہ تنگ حالی میں، مصیبت میں اور لڑائی کے وقت صبر و استقامت سے کام لیں۔ یہی لوگ ہیں جو اپنے دعوے ایمان میں سچے ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جو واقعی متقی ہیں ۔

معلوم ہوا کہ حقیقی معنوں میں اگر کوئی صاحب ایمان اور صاحب تقویٰ ہے تو وہی ہے جس کے قدم سخت سے سخت مواقع پر بھی اپنی جگہ سے نہ ہٹیں، جس کے پیٹ پر خواہ دوہرے پتھر بندھے ہوں مگر وہ باطل کی چٹانوں پر ہتھوڑے چلاتا ہی جائے اور پیٹھ اگر چہ انگاروں سے بھن رہی ہو مگر لبوں سے صدا پھر بھی احد ، احد ہی کی آتی رہے۔

صبر کی حقیقت اور اہمیت: قرآنی و نبوی تعلیمات


اسی طرح ایک اور جگہ فرمایا گیا ہے:
...
وَ بَشِّرِ الصَّبِرِينَ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا للهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ أُولَئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَاتٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَ أُولَئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ (البقرہ: ۱۵۵-۱۵۷)
”...
اور اے نبی ! صبر کرنے والوں کو ( خوشنودی رب کی ) بشارت سنادو، جنہیں اگر کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو کہتے ہیں: ہم اللہ کے ہیں اور ہمیں اسی کے حضور پلٹ کر جانا ہے۔“ ان لوگوں پر ان کے رب کی طرف سے عنایتیں ہوں گی اور وہ اس کی رحمت سے شاد کام ہوں گے۔ یہی لوگ ہدایت یاب ہیں۔

یہ آیت بیک وقت صبر کی حقیقت بھی بیان کر رہی ہے اور اس کی اہمیت بھی ۔ حقیقت یہ بیان کر رہی ہے کہ مومن اپنی ہر چیز کو اللہ کی ملک سمجھتا ہے اور اپنے کو اس کا صرف امانت دار خیال کرتا ہے، اس لیے جب وہ اس کی کوئی چیز لے لیتا ہے تو اس پر ہائے وائے کرنے کا اس کے نزدیک کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ۔ اہمیت یہ بیان کر رہی ہے کہ اللہ کی ہدایت سے بہرہ وری جس چیز کا نام ہے وہ اسی کو میسر ہوتی ہے جس کے اندر صبر و استقامت کی روح اتری ہوئی ہو۔

صبر و استقامت کی اسی عظیم اہمیت کا اظہار تھا جب ایک شخص کے پوچھنے پر کہ مَا الْإِيْمَانُ ؟ (ایمان کیا ہے ؟ ) آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا:
الصَّبْرُ وَالسَّمَاحَةُ (بیہقی)
ایمان نام ہے صبر اور فراخ دلی کا ۔

اسی طرح ایک اور شخص نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! مجھے اسلام کے بارے میں ایک ایسی جامع بات بتادیجیے جو میرے لیے ہر طرح کافی ہو اور اس کے بعد مجھے اسلام کے متعلق کسی اور سے کچھ پوچھنا نہ پڑے۔ ارشاد ہوا کہ:
قُلْ آمَنْتُ بِاللَّهِ ثُمَّ اسْتَقِمْ۔ (مسلم)
"
کہہ میں اللہ پر ایمان لایا ، پھر اس پر جم جا۔

حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اسی حقیقت کی تعبیر اپنے ان لفظوں میں کی ہے :
الصبر من الايمان بمنزلة الراس من الجسد اذا قطع الراس انتن ما فى الجسد ولا ايمان لمن لا صبر له. (بیہقی)
ایمان کے لیے صبر کی وہی حیثیت ہے جو حیثیت کہ جسم کے لیے سر کی ہوتی ہے۔ اگر سرکاٹ لیا جائے تو باقی سارا جسم ( سڑ گل کر اور ) متعفن ہو کر رہ جاتا ہے۔ جس کے

اندر صبر نہیں اس کے اندر ایمان نہیں ۔

صبر کا مقام: دنیا و آخرت کی کامیابی کی کلید

اہمیت صبر کے ان دونوں پہلوؤں کو اگر سامنے رکھا جائے تو اس بات کا اچھی طرح اندازہ ہو جائے گا کہ دین میں اس کا کیا مقام ہے؟ وہ کس طرح ایمان اور ایمانی زندگی کے آغاز کو بھی محیط ہے اور انجام کو بھی ؟ جس صبر کا ایمان و اسلام سے یہ رشتہ ہو، حق ہے اگر اس کے بارے میں کہا جائے کہ آخرت کی حقیقی اور ابدی زندگی میں بھی خوش بخت وہی ٹھہریں گے جو اپنے ساتھ صبر کا توشہ لے کر حاضر ہوئے ہوں ، جیسا کہ فی الواقع صراحت سے کہا بھی گیا ہے :
أوليكَ يُجْزَوْنَ الْغُرْفَةَ بِمَا صَبَرُوا (الفرقان : ۷۵)
انھیں ان کے صبر کی جزا میں جنت کے بالا خانے دیے جائیں گے ۔

اور اسی صراحت سے اس دن بھی کہا جائے گا جس دن اس زندگی کا افتتاح ہوگا ۔ اس دن جو لوگ مغفرت و رحمت کے سزاوار قرار پائیں گے اللہ تعالیٰ انھیں جنت کا پروانہ عطا کرتے ہوئے فرمائے گا:
إِنِّي جَزَيْتُهُمُ الْيَوْمَ بِمَا صَبَرُوا (المؤمنون:111)
آج کے دن میں نے انہیں یہ جزا اس صبر و ثبات کی دی ہے جس کا ( دنیوی زندگی میں ) انہوں نے مظاہرہ کیا تھا۔

صبر واستقامت کی یہی ساری سعادت بخشیاں تو ہیں جن کے باعث نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ایک مومن کے لیے دنیا کی سب سے بڑی اور سب سے اچھی دولت قرار دیا ہے :
مَا أُعْطِيَ أَحَدٌ عَطَاءً خَيْرًا وَأَوْسَعَ مِنَ الصَّبْرِ (بخاری)
کسی شخص کو کوئی دولت صبر سے بہتر اور بڑی نہیں دی گئی۔

صبر کی امتیازی شان: اخلاص کا پیمانہ

تعمیر دین کے پہلے تین ضروری عناصر جس اہمیت کے مالک ہیں، یہ چوتھا عنصر صبر بعض اعتبارات سے اس میں ان کی ہم سری یقینا نہیں کر سکتا۔ لیکن اس کے باوجود یہ عصر اپنے اندر ایک ایسی شانِ امتیاز بھی رکھتا ہے جو کسی اور میں نہیں پائی جاتی۔ ایمان باللہ، ایمان بالآخرت اور نماز ، وہ چیزیں ہیں جن کے اندر جھوٹ ، فریب اور دکھاوے سے بھی کام لیا جا سکتا ہے، ایک شخص حقیقتا کافر و مشرک ہوتے ہوئے بھی اللہ پر اور آخرت پر ایمان رکھنے کا دعویٰ کر سکتا ہے اور اپنے کو مؤمن منوانے کے لیے نمازوں کی بھی خانہ پُری کر سکتا ہے۔ لیکن صبر کے بازار میں جعلی سکہ کبھی نہیں چلایا جا سکتا۔ اور اگر کسی نے اسے چلانے کی زبر دستی کوشش کی بھی تو اس میں ہرگز کامیاب نہیں ہو سکتا۔ یہاں آ کر مکر و فریب کی نقاب اتر ہی کر رہتی ہے۔ چناں چہ منافقوں کی پوری تاریخ اسی متن کی شرح ہے۔ پھر بات صرف اتنی ہی نہیں ہے کہ صبر کا جعلی سکہ نہیں چلایا جاسکتا، بلکہ باقی تینوں ”سکوں“ کا اصلی اور کھرا ہونا بھی اسی سے معلوم و متعین ہوتا ہے۔ اگر صبر و استقامت کے مواقع پیش نہ آئیں تو سچے اور جھوٹے ، مضبوط اور کمزور ایمان کی پہچان آسان نہیں رہ سکتی ۔ لہذا یہ امتیاز صرف صبر کو حاصل ہے کہ وہ سرا پا صدق ہی صدق ہوتا ہے اور اس کے علاوہ وہ دوسری اساسات دین کے بھی صدق و اخلاص کو ناپ لینے کے لیے پیمانے کا کام دیتا ہے۔

صبر کا معیارِ مطلوب اور اس کے اسباب

اب قبل اس کے کہ اس آخری دینی اساس صبر کے مستحکم کرنے کی تدبیریں معلوم کی جائیں، یہ دیکھ لینا ضروری ہے کہ دین کی راہ میں کس طرح کے صبر و استقلال کی ضرورت ہے؟ اور کیوں ہے؟

ہر شخص جانتا ہے کہ کوئی بڑا کام ہمت اور جیالا پن دکھائے بغیر محض زبانی دعووں سے پورا نہیں ہو جایا کرتا۔ اسی طرح یہ بھی ایک جانی بوجھی حقیقت ہے کہ جو کام جتنا ہی زیادہ بڑا ہوتا ہے اس کے لیے پامردی سخت کوشی اور فداکاری بھی اتنی ہی زیادہ مطلوب ہوتی ہے۔ دین کی پیروی اور اس کی اقامت کا نصب العین جس حیثیت اور عظمت کا حامل ہے کتاب کے ابتدائی صفحات میں اس کا پورا تعارف کرایا جا چکا ہے۔ کوئی وجہ نہیں کہ اس دنیا کے سب سے بڑے نصب العین کے لیے صبر و ثبات بھی سب سے بڑھ کر در کار نہ ہو۔ خوش فہمی کی بات دوسری ہے۔ وہ تو یہی کہے گی کہ جب یہ اللہ ہی کا کام ہے اور اسی کی رضا کے لیے کیا جاتا ہے تو وہ اس سلسلے میں

ضرور رعایت برتے گا ، اس کے راستے کو اپنے اذن خاص سے نسبتاً آسان گزار بنادے گا اور عام اصول کے تحت جو مشکلات سامنے نظر آتی آئیں گی ان میں سے بھی کتنوں ہی کے رخ پھیر دے گا، تاکہ اس کی خوش نودیوں کی طلب میں نکلنے والا قافلہ بغیر کسی خاص زحمت کے رواں دواں منزل مقصود تک پہنچ جائے۔ اسی طرح وہ یہ بھی کہہ سکتی ہے کہ جب اس نصب العین کے ساتھ انسان کی بہبود ہی بہبود وابستہ ہے تو نوع انسان اس کی طرف خود بہ خود کھنچنے لگے گی اور اس کے ساتھ اس کا عام سلوک نصرت و مدافعت ہی کا ہوگا نہ کہ اختلاف و مخالفت کا۔ لیکن خوش فہمی کے یہ نظریے نرے مفروضے ہی مفروضے ہیں اور واقعات کی دنیا سے کوئی تعلق نہیں رکھتے جہاں حقیقت حال بالکل الٹی دکھائی دیتی ہے۔ یعنی کسی مقصد میں اور اس کے لیے مطلوبہ استقامت میں مطابقت کا جو ایک عام ضابطہ ہے وہ اس نصب العین کی حد تک بہ جائے نرم ہونے کے کچھ اور سخت ہی ہو گیا ہے۔ اس کے لیے عام دستور کے مطابق جس قدر صبر و ثبات کی ضرورت ہونی چاہیے تھی واقعی ضرورت اس سے کہیں زیادہ کی ہوتی ہے۔ پوری دینی تاریخ کے جس باب سے چاہے اس حقیقت کی تصدیق کر لیجیے۔ اسباب اس غیر معمولی صورت حال کے دو ہیں :

·        پہلا سبب: دین کی آسمانی بنیاد اور نفس سے جنگ
پہلا سبب تو یہ ہے کہ دین حق کی اطاعت اور اقامت کے نصب العین کی بنیاد زمین پر نہیں بلکہ آسمان پر ، آسمان پر بھی نہیں بلکہ عرش پر رکھی گئی ہے۔ وہ رضائے الہی کی تلاش کا دوسرا نام ہے۔ ضروری ہے کہ اس کو صرف اللہ کی رضا اور آخرت کی فلاح ہی کے لیے اختیار کیا جائے۔ اس لیے وہ غایت درجے کا اخلاص اور بے نفسی چاہتا ہے۔ وہ کسی مادی محرک کا روادار نہیں ہوتا ، وہ نفسانی رغبت کی کوئی آمیزش گوارا نہیں کرتا ، وہ کسی دنیوی مفاد کی رشوت نہیں لینے دیتا۔ وہ مطالبہ کرتا ہے کہ اپنا سب کچھ نثار کر دو اور اجرت میں دنیا کی کوئی چیز بھی نہ مانگو۔ بلکہ احسان مانو کہ اس خود سپردگی کا تمہیں موقع دیا گیا ہے ۔
منت منه که خدمت سلطاں ہمی کنی
منت شناس از و که به خدمت گزاشتت
نتیجہ اس نفس دشمنی کا قدرتا یہ ہوتا ہے کہ باہر کے فتنوں کو ابھی خبر بھی نہیں ہو پاتی کہ اس سے پہلے ہی اندر کا فتنہ انسان کا اپنا نفس بھڑک اٹھتا ہے اور اس کے خلاف ایک کبھی نہ ختم ہونے

والا محاذ قائم کر لیتا ہے۔ اس کے مادی مفادات، اس کی دنیوی امنگیں ، اس کی محبوب خواہشیں اسے پیچھے دھکیلنے کی سرتوڑ کوششوں میں لگ جاتی ہیں اور برابر لگی رہتی ہیں۔ رہی باہر کی دنیا، تو جس شخص پر خود اس کا اپنا گھر یوں تنگ ہو رہا ہو اس کے لیے بھلا غیر کا سینہ کب کشادہ ہو سکتا ہے! اس باہر کی دنیا میں بھی تو آخر اسی حُبُّ الشَّهَوَاتِ ہی کے دل دادگان بستے ہیں۔ ان کے لیے بھی تو یہ دعوت الی اللہ ، دعوت عناد ہی ثابت ہوگی ۔ اس لیے ان سے کم از کم ابتدائی مراحل میں ، اس کے سوا اور توقع ہی کیا کی جاسکتی ہے کہ وہ بھی اس کے خلاف صف آرا ہو جائیں اور مرد مومن بیک وقت اندرونی اور بیرونی دو محاذوں کے بیچ میں کھڑا نظر آئے ۔
سوچیے کہ کیا یہ صورت حال کسی اور تحریک یا نصب العین کے سلسلے میں پیش آسکتی ہے؟ یقینا نہیں ۔ جب ہر دوسری تحریک اور ہر دوسرے نصب العین کی بنیادیں لازماً اسی ”زمین“ پر ہوں گی تو اس زمین سے لگاؤ رکھنے والی قوتوں کا کوئی نہ کوئی حصہ اس کی پشت پر بھی ضرور ہو گا۔ جب حقیقت یہ ہے تو چاہے دوسرے جس مقصد کو بھی لے کر اٹھیے، آپ کے خلاف اس طرح کا متحدہ محاذ کبھی قائم نہ ہوگا۔ اگر ایک طرف سے مخالفت کی ہمت شکن آواز آئے گی تو تین طرف سے حوصلہ افزائی کے نعرے بھی سننے میں آئیں گے اور چاہے مشکلات اور مصائب کی بارش ہی کیوں نہ ہونے لگے، مگر کہیں اقتدار کی توقع کہیں ناموری کی ہوس ، کہیں خاندان کی حمایت ، کہیں قوم کی عقیدت ، کہیں کسی خاص طبقے کی تحسین و آفرین، کہیں حب الوطنی کی سند ، غرض کوئی نہ کوئی چیز دل کو گرمانے اور ولولوں کو بڑھانے کے لیے یقیناً موجود ہو گی مگر دین کی پیروی اور اس کی اقامت کا مقصد اپنائیے ، پھر دیکھیے ہر چیز غیر، بلکہ دشمن بن جاتی ہے۔ وطن کی زمین آپ کا بوجھ اٹھانے سے انکار کرنے لگتی ہے، قوم غداری کے القاب سے نوازتی ہے، ملت طعنوں اور افترا پردازیوں سے استقبال کرتی ہے، خاندان کی قوت برداشت جواب دے دیتی ہے، دوستوں اور عزیزوں تک کا لہو آپ کے لیے سفید پڑ جاتا ہے ، حتی کہ کچھ بعید نہیں اگر آپ کے کانوں تک پہنچنے کے لیے ... وَاهْجُرْنِي مَلِيًّا اور اقْتُلُوهُ أَوْحَرِّ قُوہ کی خشم ناک صداؤں کے سوا اور کوئی صدا بھی باقی نہ رہ جائے۔

·        دوسرا سبب: اللہ کا قانونِ آزمائش (سنتِ ابتلاء)
دوسرا سبب یہ ہے کہ دوسرے نصب العینوں کی راہ میں مشکلات اور موانع عام

ضابطوں کے تحت ہی پیدا ہوتے ہیں اور اسی قدر پیدا ہوتے ہیں جس قدر کہ اس دنیا میں کام کرنے والے قوانین جدوجہد کا تقاضا ہوتا ہے۔ لیکن قرآن کہتا ہے کہ اس نصب العین کا معاملہ اس باب میں بھی خاصا مختلف ہے۔ اس کے راستے میں رکاوٹیں اور مصیبتیں صرف اسی لیے پیش نہیں آتیں کہ سعی و جہد کی اس دنیا میں عام ضابطے کی رو سے انھیں پیش آنا ہی چاہیے، بلکہ خاص اس نصب العین کی حد تک اس عام ضابطے کے ساتھ ساتھ ایک ضابطہ اور بھی ہے اور وہ بھی ناگزیر ٹھیراتا ہے کہ دین حق کے پیرو مشکلات اور مصائب سے دوچار ہوں۔ اس خاص ضابطے کا نام اللہ تعالیٰ کی سنت ابتلاء یعنی اس کا قانون آزمائش ہے۔ اس ضابطے کی وجہ سے صرف یہی نہیں ہوتا کہ پیروانِ حق کی راہ میں رکاوٹیں بس اپنی عام فطری رفتار کے مطابق آجایا کریں بلکہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ضرور آتی ہیں اور آتی رہتی ہیں ۔ یعنی اللہ تعالیٰ اہلِ ایمان کو ایسے حالات سے بالقصد گزارتا رہتا ہے جو انسانی طبائع کو ناگوار ہوں ، وہ ایسے مواقع پیدا کر کے رہتا ہے جن میں جان و مال کا زیاں ہو اور ایسی باتوں کے کانوں میں پہنچتے رہنے کا اہتمام کرتا رہتا ہے جو جذبات کو مجروح کرنے والی ہوں ۔ اس کا صاف اعلان ہے کہ :
وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَ نَقْصٍ مِنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ (البقره: ۱۵۵)
ہم تمہیں کچھ (خطرات جنگ کے خوف سے، کچھ فاقوں سے اور مال، جان اور پیداوار کے نقصانوں سے ضرور آزمائیں گے۔

چناں چہ جب زمانہ نبوت میں جھوٹے لوگ اس قانون آزمائش کی تاب نہ لاکر اس صورت حال سے گھبرا گھبرا کر چھٹنے لگے تو اس نے فرمایا تھا:
أَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ يُتْرَكُوا أَنْ يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ (العنکبوت : ۲)
کیا ان لوگوں نے یہ گمان کر رکھا تھا کہ وہ بس اتنا کہہ دینے پر کہ ہم ایمان لائے“ یونہی چھوڑ دیے جائیں گے اور انہیں آزمایا نہ جائے گا۔

اور ساتھ ہی یہ بھی واضح کر دیا تھا کہ یہ کوئی نئی بات نہیں کی جارہی ہے، بلکہ ہماری

ہمیشہ سے یہی سنت چلی آرہی ہے۔ ابتلاء و آزمائش کا یہ خنجر بہت قدیم ہے اور وہ ابتداء ہی سے دوستوں کے لیے ہمارا مخصوص تحفہ رہا ہے :
وَ لَقَدْ فَتَنَّا الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ (العنکبوت : ۳)
اور ہم نے اُن سب ہی ( مدعیانِ ایمان کو آزمایا تھا جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں۔

قانونِ آزمائش کی ہمہ گیری اور ہمارا رویہ

ایمانی آزمائشیں جس طرح ہر جہتی ہوتی ہیں اسی طرح ان کے نازل کیے جانے کا الہی قانون بھی ہمہ گیر ہے اور ماضی، حال مستقبل ، تمام زمانوں کو اپنے گھیرے میں لیے ہوئے ہے۔ جہاں تک ماضی کا تعلق ہے یہ بات ایک مسلم تاریخی حقیقت ہے، کسی نبی کی دعوت ایسی نہیں پائی جاسکتی جس کے ساتھ اس قانون کا نفاذ نہ ہوا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ زمانوں کی حد تک تو اس قانون کے مسلسل نفاذ کا ہر شخص کو اعتراف ہے۔ مگر یہ بات کہ اللہ تعالیٰ کی یہ سنت آج بھی بدل نہیں گئی ہے اور نہ آئندہ کبھی بدلے گی ، عام ذہنوں میں اس کا کوئی مؤثر اور زندہ شعور بہت کم موجود ہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ کسی عقلی دلیل یا کسی قرآنی بیان سے یہ حقیقت کچھ مشتبہ سی ہوگئی ہے، بلکہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے لیے آسانی اس میں دیکھی کہ اس کی طرف سے تجاہل برتیں۔ دراصل انسان اپنے آپ کو مراعاتیں دینے میں بڑا فراخ دل واقع ہوا ہے۔ وہ کسی ایسی کرید میں پڑنے سے جان بوجھ کر کتراتا رہتا ہے جس کے نتیجے میں اسے اندیشہ ہو کہ اس پر کچھ ذمہ داریاں آپڑیں گی ، یا وہ کچھ دشواریوں میں پھنس جائے گا۔ اس کی یہی فراری ذہنیت ہے جس نے اس مسئلے میں بھی اسے بہرا گونگا بنا رکھا ہے۔ چناں چہ لوگ جب قرآن میں اس طرح کی آیتیں پڑھتے ہیں کہ:
الرَّسُولِ مِنْ بَعْدِ مَا أَصَابَهُمُ الْقَرْحُ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا مِنْهُمْ وَ اتَّقَوْا أَجْرٌ عَظِيمٌ اَلَّذِينَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ إِيْمَانًا وَ قَالُوا حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ (آل عمران: ۱۷۲، ۱۷۳)

جن لوگوں نے اللہ اور اس کے رسول کی پکار پر لبیک کہی ( اور جنگ کے لیے تیار ہو گئے ) حالاں کہ (ابھی ابھی ) لڑائی کا زخم کھا چکے تھے، تو ان میں جو محسن اور متقی ہیں ان کے لیے بڑا اجر ہے۔ جن کا حال یہ ہے کہ جب لوگوں نے ان کو خبر دی کہ دشمن نے تم پر حملے کے لیے (بڑی بھاری جمعیت) اکٹھا کی ہے، اس لیے ان سے ڈرو، تو یہ سن کر ان کا ایمان اور بڑھ گیا اور وہ بول اٹھے اللہ ہمارے لیے کافی ہے اور وہ اچھا کارساز ہے۔

تو رسول خدا کے ان پاک نفس ساتھیوں کو ان کی ایمانی بلندی پر جی کھول کر ہدیہ عقیدت پیش کرتے ہیں اور پیش کر کے آگے بڑھ جاتے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس طرح کی آیتوں میں خود ان سے کوئی مطالبہ نہیں حتی کہ ان کے لیے کوئی درس ہدایت بھی ان میں نہیں ۔ بلکہ کچھ بعید نہیں اگر وہ دل ہی دل میں اللہ کا شکر ادا کرتے جاتے ہوں کہ ہم اس بھاری آزمائش سے محفوظ رکھے گئے ہیں۔ غور کیجیے کہ یہ کتنی بڑی شدید غلط نہی ، بلکہ کیسی تباہ کن خوش گمانی ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ قانونِ ابتلاء کا اصل تعلق نہ نبوت سے ہے، نہ صحابیت سے، نہ نبوت یا صحابیت کے زمانوں سے، بلکہ محض ایمان سے ہے۔ اس کا جس پر بھی نفاذ ہوا ہے اس کے مومن ہونے کی بنا پر ہوا ہے، نہ کہ کسی اور بنا پر ۔

آزمائش کا سبب: نفسِ ایمان

چناں چہ قرآن نے جب زمانہ نبوت کے مسلمانوں کو اس قانون کی طرف متوجہ کیا ہے تو یہ نہیں کہا ہے کہ تمہاری صحابیت کا امتحان لیا جانا ضروری ہے، بلکہ یہ کہا ہے کہ اللہ کے دین پر ایمان لانے اور رکھنے کا تمہیں جو دعویٰ ہے اس کا پرکھا جانا ضروری ہے۔ مثلاً :
أَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ يُتْرَكُوا أَنْ يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ (العنکبوت : ۲)
کیا ان لوگوں نے گمان کر رکھا ہے کہ وہ اتنا کہہ کر چھوٹ جائیں گے کہ ہم ایمان لائے اور انھیں پرکھا نہ جائے گا ؟
أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَ لَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جَهَدُوا مِنْكُمْ وَ يَعْلَمَ الصُّبِرِينَ (آل عمران : ۱۴۲)

"
کیا تم نے سمجھ رکھا تھا کہ محض ایمان کا دعویٰ کر کے ) جنت میں داخل ہو جاؤ گے؟ حالاں کہ ابھی تو اللہ نے جانا ہی نہیں کہ تم میں کون ہیں جنھوں نے (حق کے لیے ) اپنی پوری جدو جہد کر ڈالی اور کون ہیں جو ( راہ حق پر ہر حال میں ) جمنے والے ہیں؟
وَلَيَعْلَمَنَّ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَلَيَعْلَمَنَّ الْمُنْفِقِينَ (العنكبوت : 11)
اور اللہ (آزمائشوں کے ذریعے ) یہ جان کر رہے گا کہ کون (فی الواقع ) ایمان لایا ہے اور کون منافق ہے؟

ہر صاحب نظر دیکھ سکتا ہے کہ اس طرح کی آیتوں میں جس شے کو اللہ تعالیٰ نے امتحان کا سبب اور اس کی بنیاد قرار دیا ہے وہ ایمان کا قول اور اس کا دعوی ہے، نبی کی مصاحبت نہیں ہے۔ وہ صاف فرماتا ہے کہ جنت کا ملنا ایمان پر موقوف ہے، اور خود ایمان کا ”ایمان“ ہونا ابتلاؤں میں دکھائی جانے والی عزیمت اور ثابت قدمی پر منحصر ہے۔ یہ نہیں فرماتا کہ جنت ملنے کا دارو مدار نبی کی رفاقت اور صحابیت پر ہے۔ اس کا یہ ارشاد کہ ”وہ جان کر رہے گا کہ کون فی الواقع ایمان لایا ہے اور کون منافق ہے“، دراصل اس بات کا واضح اعلان ہے کہ آزمائش نفس ایمان کی ہوتی ہے اور اس آزمائش میں ایمان کے سچے اور قابلِ اعتبار قرار پانے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے عملی تقاضے پورے ہوں اور اس کے لیے وہ جدو جہد اور وہ پامردی دکھائی جائے جو اس کا حق ہے۔ ورنہ جہاں تک جاننے کا تعلق ہے کیا چیز ہے جو اللہ کے علم میں نہیں ہے۔

جب یہ بات صاف ہوگئی کہ آزمائش کا سبب اور بنیاد نفس ایمان اور اس کا دعویٰ ہے تو اس وہم یا خوش گمانی کا کوئی موقع باقی نہیں رہ جاتا کہ اللہ تعالیٰ کا قانون آزمائش صرف اصحاب نبی سے تعلق رکھتا ہے، دوسرے اہلِ ایمان پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا اور وہ اس کے دائرہ نفاذ سے باہر ہیں۔ اس کے برخلاف حقیقت یہ ہے کہ جہاں ایمان پایا جائے گا وہیں اس قانون کا نفاذ بھی موجود ہوگا اور جس طرح دور نبوت کے مسلمانوں کے لیے اس کا نفاذ ضروری تھا ٹھیک اسی طرح دوسرے زمانوں کے مسلمانوں کے لیے بھی یہ قانون ہمیشہ حرکت میں رہا ہے اور ہمیشہ حرکت میں رہے گا اور ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر دور کے مدعیانِ اسلام کے ایمانی جوہر کو جانچے ۔ البتہ وہ عادل و حکیم اس فرق کو نظر انداز نہیں کر سکتا جو ان دونوں قسم کے زمانوں میں پایا جاتا ہے۔ انبیاء

علیہم السلام کے ساتھی اہل ایمان کے لیے نصرت و تائید کا اور تقویت قلب کا جو سامان عالم ظاہر میں بھی موجود ہوتا ہے وہ دوسرے مسلمانوں کو کہاں نصیب؟ اس لیے جیسی سخت آزمائشیں ان حضرات پر نازل کی جاتی رہی ہیں ویسی سخت آزمائشوں میں دوسروں کو یقینا نہ ڈالا جائے گا۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ کا دستور ہے کہ وہ کسی شخص یا گروہ پر اس کی قوت واقعی سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔

قانونِ آزمائش اور ہم: آج کے دور میں اطلاق

اس گفتگو سے یہ حقیقت پوری طرح نظروں کے سامنے آجاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ قانون ابتلاء ہمیشہ کی طرح آج بھی نافذ ہے اور معطل ہرگز نہیں ہوا ہے۔ اس لیے آج بھی جو شخص دین و ایمان کا نام لے اسے چاہیے کہ مخالفتوں اور مصیبتوں کے لیے اپنے دل کو مضبوط رکھے۔ اپنے خطرناک موقف کے بارے میں کسی خوش گمانی کا شکار نہ ہو، یقین رکھے کہ میں ایک بڑی آزمائش گاہ میں اترا ہوا ہوں اور اللہ تعالیٰ کے قانونِ ابتلاء سے دوچار ہوں اور دو چار ہوں گا۔ یہ صحیح ہے بلکہ ضروری ہے کہ اسے آزمائشوں کو دعوت نہیں دینی چاہیے، کیوں کہ یہ ایک نازیبا جسارت ہے اور شرعاً ممنوع ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے کہ لَا تَتَمَنَّوْا لِقَاءَ الْعَدُوِّ (دشمن سے مڈ بھیڑ ہو جانے کی خواہش نہ کرو)۔ لیکن جو آزمائشیں خود بہ خود راہ روک کر سامنے آکھڑی ہوں گی ان کا حق تو اسے ادا کرنا ہی پڑے گا۔ ان سے اگر وہ کترا کر نکل جانا چاہے گا تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ وہ اس شرط کے تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہے جسے پورا کرائے بغیر یوم الدین کا مالک جنت کا دروازہ کھولنے پر تیار نہیں ۔ یہی تو امتحان کا وہ پرچہ ہے جو ہمارے آپ کے ایمان و اسلام کی جانچ کے لیے ہمارے ہاتھوں میں دیا گیا ہے۔ اس پرچے کو اگر کوئی تھامتا ہی نہیں اور اپنے ہاتھوں کو سمیٹے رکھتا ہے تو بلا شبہ اس طرح وہ اپنی کامیابی کا کوئی سامان نہیں فراہم کرتا، اور زبردستی کرتا ہے اگر اپنے کو ایک حق شناس مومن سمجھتا ہے۔

آج کی آزمائشوں کی پہچان

پوچھا جاسکتا ہے کہ زمانہ نبوت میں یہ آزمائشیں تو وحی کی معرفت یا نبی کے ذریعے متعین شکل میں لوگوں کے سامنے آجایا کرتی تھیں، مگر آج تو وحی کی زبان بھی خاموش ہے اور نبوت کا ذریعہ بھی نا موجود ہے، پھر ہمیں کون بتائے گا کہ ہمارے لیے آزمائش گاہ کون سی ہے؟

کدھر ہے؟ اس کی حدود کیا ہیں؟ اور کن باتوں سے ہمیں آزمایا جا رہا ہے؟ لیکن یہ سوال بھی دراصل وہی فراریت اور سہل پسندی کر سکتی ہے جس کا تذکرہ ابھی اوپر گزر چکا ہے۔ ورنہ اسی ایک چیز پر کیا موقوف ہے۔ دین کے بیش تر احکام و مطالبات کا حال بھی تو یہی ہے۔ زمانہ رسالت میں کسی شخص کو جب بھی کوئی حکم شرعی معلوم کرنا ہوتا تو اس کے لیے وہ بارگاہ نبوی میں جا حاضر ہوتا۔ مگر آج ہمیں اور آپ کو تو یہ سعادت نصیب نہیں ۔ پھر کیا اس طرح کے سارے احکام و مطالبات کے بارے میں ہم اپنے آپ کو غیر مکلف قرار دے لیں؟ اگر دین کے باقی تمام احکام میں یہ انداز فکر بداہتہ غلط اور احمقانہ ہے تو یہاں اسے صحیح اور دانش مندانہ کیسے کہہ سکتے ہیں؟ اسی طرح اگر دوسرے معاملات میں دین کا فی الجملہ نقطۂ نگاہ معلوم کر لینا دشوار نہیں ، تو اسی ایک معاملے میں کوئی ناقابل حل دشواری کیوں پیش آنے لگی؟ ہمارے سامنے دین کی حقیقت موجود ہے، اس کے اصول موجود ہیں، اس کے بنیادی احکام اور ہدایات موجود ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور آپ کا عملی نمونہ موجود ہے، دینی دعوتوں کا مزاج ، ان کے فطری مراحل اور ان کی پوری تاریخ سب کچھ موجود ہے۔ اس لیے جس دم ہم نے اللہ کی اس زمین پر اپنی صحیح حیثیت اخلاص کے ساتھ اختیار کر لی اور اپنے مقصد حیات کو نگاہوں کے سامنے رکھ لیا، اسی دم ہمیں معلوم ہونا شروع ہو جائے گا کہ کدھر جانا ہے اور کس طرح کے مرحلوں سے گزرنا ہے؟ ہم قدم اٹھاتے جائیں گے اور قرآنی ہدایات ہماری سمت سفر متعین کرتی جائیں گی اور انبیاء علیہم السلام کا اسوہ روشنی کا منارہ بن کر اس کے ایک ایک نشیب و فراز کو اجاگر کرتا چلا جائے گا۔ ہم جب مومن کی حیثیت سے سامنے آئیں گے اور بندگی کا عزم لے کر اٹھیں گے تو اللہ تعالیٰ کی سنت ابتلاء بھی ساتھ کے ساتھ اپنا کام شروع کر دے گی ۔ پھر جوں جوں آگے بڑھتے جائیں گے، رکاوٹیں خود آ کر ہمارا استقبال کریں گی ۔ وہ اپنا تعارف آپ کرائیں گی ۔ ہمیں ان کے پہچاننے کے لیے کسی کاوش کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ ان کا نام تو ان کی پیشانیوں پر لکھا ہوگا، جنہیں نظر ڈالتے ہی ہم پڑھ لیں گے، بہ شرطے کہ ہم خود ایسا چاہیں اور دانستہ آنکھیں بند نہ کر لیں ۔

دو ایک مثالیں لیجیے تا کہ بات واضح سے واضح تر ہو جائے :

آزمائش کی مثالیں

·        (۱) توحید پر استقامت
قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ حق کا مرکزی نقطہ، توحید ربوبیت اور توحید الوہیت ہے اور زندگی کا سفر کامیابی کی منزلوں پر تمہیں اسی وقت پہنچا سکتا ہے جب تم اس کا آغاز اسی مرکز سے کرو، اللہ کے سواکسی کو اپنی حقیقی عقیدتوں، محبتوں اور طاعتوں کا محور نہ بناؤ، کسی کی پرستش نہ کرو، کسی کو اپنا اصل مالک اور فرماں روا نہ مانو ، کسی کو اپنی زندگی کا شارع و قانون ساز نہ تسلیم کرو، صرف اتنا ہی نہیں کہ تسلیم نہ کرو بلکہ اسی بنیاد پر اپنی زندگی کی پوری عمارت تعمیر کرو اور پھر ساری دنیا کو اسی کی دعوت دو، ہر ایک کو اسی کی تلقین کرو اور اسی کام کے لیے اپنا جینا اور مرنا سب کچھ وقف کر دو ۔ لیکن اس حکم قرآنی کو لے کر اگر آپ عمل اور واقعہ کی دنیا کی طرف رُخ کریں تو دیکھیں گے کہ یہاں کا تو پورا نقشہ ہی الٹا ہے اور انسانی زندگی کے نظام میں اس اصل اصیل کا دُور دور تک کہیں کوئی سراغ ہی نہیں ملتا۔ یہ دیکھ کر آپ کا عقیدہ توحید آپ کو اس فساد عظیم کے خلاف آواز اٹھانے پر لازما مجبور کر دے گا ۔ آپ انسانی زندگی کی اس بنیادی ٹیڑھ کو درست کرنے کے لیے تگ و دو کرنے لگیں گے ۔ اپنے مقدور بھر آپ خود بھی ایسی تمام ارادی حرکتوں سے بچیں گے جو توحید کے ان بنیادی تصورات سے ٹکراتی ہوں اور ضروری سمجھیں گے کہ دوسروں کو بھی ان سے روکیں ۔ آپ کی اس حیثیت کا جیسے ہی دنیا کو علم ہوگا ، آزمائش کا قانون حرکت میں آ جائے گا اور قوم وملت کے مصالح آپ کے خلاف ”مقدس جہاد“ شروع کر دیں گے اور کیا بتائیں کہ اس مقدس جہاد کا علم کیسے کیسے تقدیس مآب ہاتھوں میں بھی ہوگا۔ عوام کو یہ کہہ کر اکسا دیا جائے گا کہ یہ تمہارے دین کو خراب کر دینا چاہتا ہے، یہ بزرگوں کی راہ سے ہٹا ہوا ہے، یہ تمہارے اسلاف کی توہین کا مجرم ہے، نیز سیاسی خطرات کو دعوت دے کر تمہیں زندہ درگور کر دینا چاہتا ہے۔ ”قیصر“ کو یہ کہہ کر بھڑکایا جائے گا کہ ”حضور کو خراج“ ادا کرنے سے روکتا ہے، یہ رعایا میں تفرقے کے رجحانات پیدا کر رہا ہے، یہ مذہب کی آڑ میں اقتدار حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اس پر بھی اگر آپ راہ راست پر نہ آئے تو آپ کے اعمال نامے میں ایسی ایسی باتیں درج کرادی جائیں گی جن کی آپ کے فرشتوں کو بھی خبر نہ ہوگی اور پھر ”عدل و انصاف“ کی بارگاہ آپ کو ان کی ایسی ایسی سزائیں دینے پر مجبور ہو جائے گی ، جن کا آپ پہلے سے تصور بھی نہیں کر سکتے ۔
(
حاشیہ: اگر چہ ہمارے کچھ ارباب علم کو اس حقیقت سے انکار ہے کہ حاکمیت اللہ کا تصور ایمان کے اولین اور بنیادی تقاضوں میں سے ہے۔ ان کے خیال میں یہ تصور یا عقیدہ توحید کے ثانوی تقاضوں میں سے ہے، نہ کہ اولین اور بنیادی تقاضوں میں سے۔ لیکن وہ اپنی اس رائے پر کوئی باوزن دلیل نہیں دیتے۔ ہمارے خیال میں حاکمیت اللہ کے بارے میں ان کا یہ نظریہ اس غیر شعوری دباؤ کا نتیجہ ہے جو حالات کی ناسازگاریوں اور ملی مسائل کی حد سے زیادہ بڑھائی ہوئی اہمیتیں عام مسلمان ذہنوں پر ڈال رہی ہیں۔ ہمارے اس خیال کی تائید ان حضرات کے عام رویے سے بھی ہوتی ہے۔ کیوں کہ ملت کی اکثریت عملاً اس عقیدہ قرآنی کے خلاف کھلے کھلے بندوں سرگرم کار ہے، اور وہ ہیں کہ اس کی عملی مخالفت تو درکنار صاف صاف زبانی اظہار حق کی بھی کوئی ضرورت نہیں سمجھتے۔ مان لیجیے کہ اس تصور کی حیثیت عقیدہ توحید کے ثانوی تقاضے ہی کی ہے۔ مگر کیا توحید کے ایک ثانوی تقاضے کو اتنی بھی عملی اہمیت نہ دی جانی چاہیے تھی جتنی اہمیت کہ دین کے ان مسائل کو ملی ہوئی ہے جن کے ثانوی کیا ثالثی اور رابعی ہونے میں بھی کوئی کلام اور اختلاف رائے نہیں؟ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ وہ اس طرح کے جزوی مسائل کے سلسلے میں تو برابر جد و جہد کرتے رہتے ہیں۔ مگر اس مسئلہ حاکمیت کو سرے سے قابلِ اعتنا ہی نہیں سمجھتے۔)

·        (۲) کاروبار میں دیانت
یہ تو اولیات ایمان کی ایک مثال تھی۔ اب بیچ کی ساری منزلوں کو چھوڑ کر ایک آخری مثال لے لیجیے، جس کا تعلق اجتماعی بنیادی مسائل کے بہ جائے آپ کی انفرادی زندگی سے اور ایمانیات و عبادات جیسے اصول اور ارکانِ اسلام کے بہ جائے اخلاق و معاملات سے ہے۔ آپ ایک دکان کھولتے ہیں ۔ کتاب وسنت کی طرف سے آپ کو کچھ ہدایتیں دی جاتی ہیں۔ ان کا مطالبہ ہوتا ہے کہ کاروبار میں ان کی پیروی کی جائے ، مثلاً یہ کہ لین دین میں جھوٹ نہ بولو، دھوکا نہ دو، رشوت کے پاس نہ جاؤ ، سود لینے اور دینے سے دور رہو۔ بھاؤ بڑھانے کے لیے ضروریات زندگی کو بازار سے غائب کر کے ان کا ذخیرہ نہ کرو، وغیر ذالک ۔ لیکن چند ہی روز کا عملی تجربہ آپ سے کہتا ہے کہ جھوٹ اور فریب کے بغیر کاروبار چل ہی نہیں سکتا ، رشوت نہ دو گے تو کوٹا نہ ملے گا ، حساب کتاب کے رجسٹروں میں جعل سازی نہ کرو گے تو سارا منافع سیل ٹیکس کی بھینٹ چڑھ جائے گا ، سود سے بچو گے تو مال اٹھانے کے لیے بینک قرض نہ دے گا ۔ اب آپ کے لیے دو ہی راستے رہ جاتے ہیں : یا تو وقت کی اس معاشی مجبوری پر کتاب وسنت کی ہدایتوں کو بے تکلف قربان کر دیں مگر یہ راستہ ایمان کا راستہ نہ ہو گا یا پھر ٹوٹے پھوٹے کاروبار پر اکتفا کر لیں اور ان معاشی ترقیوں کا دروازہ از خود اپنے اوپر بند کر لیں جن کو حاصل کرنے کے لیے ان شرعی

حدود کو پھاندتے رہنا ضروری ہے اور یہی ایمان کا راستہ ہو گا۔ دکان پر بیٹھ کر اگر آپ اس قناعت پسندی اور دینی عزیمت سے کام لے سکے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ آپ نے اپنے مقام کو بھی پہچانا اور ان معاشی رکاوٹوں کو بھی پہچانا۔ یعنی آپ نے ان رکاوٹوں کو رکاوٹ نہیں سمجھا بلکہ انھیں اپنے عہد بندگی اور دعوائے ایمانی کی ناگزیر آزمائش سمجھا۔

آزمائشوں کا عمومی سامنا اور مطلوبہ رویہ

انہی دو مثالوں پر باقی اور سارے مسائل کو بھی قیاس کر لیجیے۔ زندگی کا شاید ہی کوئی شعبہ ہو جس میں اللہ کے دین پر آپ اخلاص کے ساتھ چلنا چاہیں اور مشکلات و مصائب آپ کی راہ روک کر کھڑے نہ ہو جائیں اور اپنوں اور غیروں ، سب کی طرف سے دل آزار طعنوں، پروپیگنڈوں ، بہتان تراشیوں، مخالفتوں اور ایذا رسانیوں کا سیلاب امنڈ نہ آئے ۔ ان حالات میں آپ کے ایمان کا تقاضا صرف یہ ہوگا کہ انھیں خلاف توقع نہ سمجھیں، ان سے بھاگنے کی کوشش نہ کریں، ان کے آگے جھک نہ پڑیں اور هَذَا مَا وَعَدَ نَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ کہہ کر پورے وقار کے ساتھ انہیں انگیز کر جائیں اور یقین رکھیں کہ یہ میرے ایمان کی آزمائش ہو رہی ہے، وہ آزمائش جو ہر مدعی ایمان کے لیے سنت الہی میں ازل سے مقرر ہے اور جس پر اساس دین کے ایک ضروری بنیادی پتھر صبر کا وجود اور اعتبار وجود منحصر ہے۔

لیکن جیسا کہ ہر شخص خود سمجھ سکتا ہے، فکر و نظر کی یہ راستی اپنا کام اسی وقت کر سکتی ہے جب انسان کے اندر مضبوط قوت ارادی اور عزیمت موجود ہو۔ ورنہ اگر وہ سچے ذوق ایمانی اور مضبوط احساسِ ذمہ داری سے خالی ہو اور اس میں مشکلوں سے بھاگنے کی جبلّی کمزوری چھپی ہوئی ہو تو ایسے مواقع پر وہ اپنے کو بڑی آسانی سے باور کرالے گا کہ ان باتوں کا میرے ایمان سے کوئی ایسا بڑا تعلق نہیں ہے۔ آخر مجھے زمانے کے خلاف چلنے کا مکلف کب بنایا گیا ہے! پھر یہ دنیا کے معاملات ہیں، ان میں ایک حد تک تو خیر پسندی کا مظاہرہ کیا جاسکتا ہے، لیکن شریعت کے بالکل نظری قسم کے مطالبوں پر جم جانا خواہ مخواہ کی انتہا پسندی ہے۔ جب میں دین کی بنیادی باتوں نماز ، روزہ ، حج اور زکوۃ پر عمل کر لیتا ہوں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ میں نے اپنی واقعی ذمہ داریاں پوری کر لیں اور اب اس سے زیادہ کا ، کم از کم بہ حالات موجودہ ، مجھ سے کوئی ضروری مطالبہ نہیں رہ جاتا۔

راہِ فرار کی نفسیات


جب دلوں کے بھید کھول دیا کرنے والی وحی کے زمانے میں بھی سہل پسند طبیعتوں نے راہ فرار ڈھونڈھ نکالنے میں اپنے کو کوتاہ نہیں پایا اور نبی کے سامنے بھی حیلوں ، تاویلوں اور معذرتوں کی اوٹ میں وہ پناہ گیر ہوتی ہی رہیں حتی کہ دوسروں کے لیے بھی لَا تَفْتِنِی“ اور ” لَوْ نَعْلَمُ قِتَالًا لَا تَبَعْنَا کُمْ“ کے عذرات مدد اور رہنمائی کے لیے چھوڑ گئیں، تو آج ایسی ذہنیتوں کو اس گریز پائی سے کون روک سکتا ہے؟ اور کون ہے جو ان کی اس طرح کی کج اندیشیوں اور خوش گمانیوں کو دور کر کے انھیں قانون آزمائش کے اب بھی نافذ رہنے کا قائل کر سکے؟ جب کہ نیتوں کا حال ظاہر کر دینے والی اب کوئی چیز موجود نہیں رہی اور فیصلے کا سارا انحصار خود اپنی رائے پر رہ گیا ہے۔ اپنے ہی خلاف فیصلہ دینا کچھ ہنسی کھیل تو نہیں۔

آزمائش کی حکمتیں اور ضرورتیں

اللہ تعالیٰ اس بات سے بہت بلند ہے کہ اس کا کوئی کام بلا حکمت اور بلا مصلحت ہو۔ اس لیے یہ گمان کرنا بھی کفر ہے کہ وہ اہلِ ایمان کو محض آزمانے کے لیے آزماتا ہے، اور اتنی کڑی مشکلوں اور مصیبتوں سے کسی ایسی مصلحت کے بغیر گزرتا ہے جس کا کوئی فائدہ انھیں اور ان کی دعوت کو نہ پہنچتا ہو۔ اس لیے یہ یقین رکھنا چاہیے کہ یہ آزمائشیں بڑے زبردست دینی فوائد کی حامل ہوں گی ۔ قرآن حکیم کا اگر مطالعہ کیجیے تو وہ اس ”ہوں گی“ کے ایمان بالغیب کو ”ہیں“ کے ایمان بالشہادت میں تبدیل کر دیتا ہے اور ان آزمائشوں کے پیچھے حسب ذیل دینی مصلحتوں اور دعوتی ضرورتوں کو کارفرما بتاتا ہے :

·        (۱) سچے اور جھوٹے میں امتیاز
پہلی مصلحت اور افادیت تو یہ ہوتی ہے کہ یہ آزمائشیں اہلِ ایمان کی جماعت میں سے ان عناصر کو چھانٹ کر الگ کر دیتی ہیں جو فی الواقع اس کے اجزا ہوتے ہی نہیں۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ ایمان کے کچھ دعوے اگر سچے ہوتے ہیں تو کچھ جھوٹے بھی ہوتے ہیں ، دو زبانوں میں یکساں بلند آہنگی کے ساتھ امَنتُ باللہ کے اعلانات سننے میں آتے ہیں لیکن ایک دل کی گہرائیوں سے نکلا ہوتا ہے اور دوسرا نوک زبان سے۔ اس لیے کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ جماعت مومنین کے رجسٹر میں درج شدہ ناموں میں سے کتنے نام واقعی اہلِ ایمان کے ہیں اور کتنے بناوٹی اور سازشی افراد کے ہیں۔ یہ صرف جان ، مال اور جذبات کی قربانیاں ہیں جو مصنوعی

اسلام کی نقاب اتار پھینکتی ہیں اور صاف بتادیتی ہیں کہ کون واقعی مسلمان ہے اور کون نمائشی یا سازشی؟ کسے اہلِ ایمان کی جماعت کا فرد اور اللہ کی پارٹی کا رکن سمجھنا چاہیے اور کسے نہیں؟

ابتلاؤں کے ذریعے سچوں اور جھوٹوں کا امتیاز ان کے عملی رویوں سے بھی ہوتا ہے اور ان کے اندازِ فکر سے بھی۔ عملی رویہ ان آزمائشوں کے وقت سچے اہلِ ایمان کا تو یہ ہوتا ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کی پکار پر کبھی نہیں کاٹ جاتے ، بلکہ دین کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں اور جان و مال کی بازیاں کھیل کر انھیں پورا کیا کرتے ہیں۔ لیکن جو جھوٹے ہوتے ہیں وہ دین وایمان کی راہ میں جان اور مال اور خون اور آنسو تو کیا نثار کریں گے، پسینے کی ایک بوند بھی بہانا ان پر گراں گزر جاتا ہے۔ جب کوئی آزمائش آتی ہے تو دین کے بڑے سے بڑے تقاضے کو بھی دیوار پر دے مارتے ہیں۔

اندازِ فکر ایسے اوقات میں مخلص اہلِ ایمان کا یہ ہوتا ہے کہ وہ ان آزمائشوں کو اپنی منزل مقصود کے لازمی مراحل سمجھتے اور ان کو اپنی توقع کے عین مطابق قرار دیتے ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہی تو امتحان کا وہ پرچہ ہے جو ہمارے ایمانی دعوے کو جانچنے کے لیے ہمارے ہاتھوں میں دیا گیا ہے اور اسی کے حل پر ہماری کامیابی یا ناکامیابی کا فیصلہ موقوف ہے۔ چناں چہ غزوہ خندق کے ہوش ربا حالات میں جب ہر چہار طرف سے دشمنوں کے جتھے کے جتھے چلے آ رہے تھے، ان کی زبانوں پر یہ کلمات جاری تھے :
هُذَا مَا وَعَدَنَا اللهُ وَرَسُولُهُ وَصَدَقَ اللهُ وَرَسُولُهُ (الاحزاب : ۲۲)
یہ وہ چیز ہے جس کا اللہ نے اور اس کے رسول نے ہم سے وعدہ کیا تھا سچا ہے اللہ اور اس کا رسول
اور پھر مصائب کی یہی کالی گھٹا ان کی کشت ایمانی کے لیے آب رحمت بن گئی ، وَمَا زَادَهُمْ إِلَّا إِيْمَانًا وَ تَسْلِيمًا۔

مگر جھوٹوں کا اندازِ فکر بالکل دوسرا ہوتا ہے۔ ان پر ان آزمائشوں کو دیکھتے ہی ایک ناگہانی دہشت طاری ہو جاتی ہے۔ وہ گھور گھور کر ان طوفانوں کو دیکھتے ہیں اور اچنبھے سے کہتے ہیں کہ ”ہیں ! مومن اور اس کے لیے یہ آفتیں! کیا یہی وہ وعدہ حسنی ہے جس کا بار بار اعلان

ہوتا رہا ہے؟ عزت و اقبال اور فتح و شاد کامی اسی کا نام ہے؟ کیسا عجیب دھوکا تھا جو ہمیں دیا گیا ! مَّا وَعَدَنَا اللهُ وَرَسُولُهُ إِلَّا غرُورًا (الاحزاب : ۱۲)۔ پھر جب قربانیوں کا مطالبہ عملاً بالکل سامنے آجاتا ہے تو معذرتوں اور حیلوں بہانوں کی پناہ لینے دوڑ پڑتے ہیں اور کتاب الحیل کی ورق گردانی شروع کر دیتے ہیں۔ جہاں انھیں ملتا ہے کہ ایسے مواقع پر خاموش ہور ہو، کیوں کہ قرآن حکیم کا ارشاد ہے : لا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ (البقرہ: ۱۹۵) جس کا مطلب ہی یہ ہے کہ اس طرح کی مصیبتوں سے بچ کر نکل جاؤ! دین تو آسان ہے ! مَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُمْ مِنْ حَرَجٍ ( المائده :۶) اور اس سے بڑی تنگی اور مشکل کیا ہوگی کہ انسان کی جان و مال کے لالے پڑ جائیں! اور وہ ساری دنیا کا نشانہ عداوت بن کر رہ جائے! اس پر اگر ان کی غلط اندیشی یا خود فریبی کا پردہ چاک کردیجیے اور دین کے لیے قربانی کے قرآنی مطالبوں کی وضاحت کیجیے تو کہتے ہیں، یہ صحیح ہے کہ دین کے لیے ہمیں جان و مال سے جدو جہد کرنے کے لیے کہا گیا ہے، مگر یہ بھی تو دین ہی کی بخشی ہوئی امان ہے کہ کسی شخص پر اس کی وسعت سے زیادہ ذمہ داری نہیں ( لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا - البقرہ:۲۸۷) اور جب ایسا ہے تو اس کا فیصلہ ہم میں سے ہر شخص اپنی بابت خود ہی کر سکتا ہے کہ وہ کتنی وسعت اور طاقت رکھتا ہے، نہ کہ کوئی دوسرا، لہذا ہمیں تو فی الحال معذور ہی سمجھو، کیوں کہ ہم موجودہ مشکلات سے عہدہ برآ ہونے کی اپنے اندر کوئی سکت نہیں پاتے اور اس عدم استطاعت کے باوجود اگر تم ہمیں اس سخت مجاہدے کے لیے مجبور کرتے ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ بلا وجہ ہمیں ضغطے میں مبتلا کرنا چاہتے ہو اور ہم پر وہ بوجھ لادنے پر مصر ہو جو فی الواقع ہم پر ڈالا نہیں گیا ہے۔ غزوہ تبوک میں اسی ذہنیت کا مظاہرہ کیا گیا جب باہم یہ مشورے دیے گئے کہ لا تَنْفِرُ وا فِي الحرِ (اتنی شدید گرمی میں نہ نکلو ) اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس طرح کے ایک صاحب آگئے اور ان سے میدانِ جہاد کی طرف چلنے کے لیے کہا گیا تو انھوں نے جواب دیا لَا تَفْتِنی (مجھے اس فتنے میں نہ ڈالیے، یہ میری قوت برداشت اور وسعت نفس سے باہر ہے، میں اس مصیبت کو جھیل نہیں سکتا)۔

جب یہ اندازِ فکر اور پختہ ہو جاتا ہے تو مشکلات و مصائب کے مقابلے سے نہیں بلکہ نفس مشکلات ہی سے انکار کر دیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ہر طرف تو امن ہی امن ہے، ہم پورے

اطمینان کے ساتھ اپنے دین کی پیروی کر رہے ہیں۔ آخر تم ہمیں کن مفروضہ محاذوں کے لیے للکار رہے ہو؟ کیا ہم ہوا سے لڑیں؟ تم خواہ مخواہ ہر طرف خطرات ہی خطرات دیکھتے رہتے ہو اور ہر آن تمہارے کانوں میں دینی جدو جہد کے بلاوے ہی آتے رہتے ہیں۔ ماننا پڑے گا کہ حلق مشکلات کا اس سے زیادہ زوداثر اور اکسیر صفت نسخہ کم ہی مل سکے گا۔

یہی طرز فکر تھا جب غزوہ احد کے موقع پر جہاد کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نفیر عام کے باوجود کہا گیا تھا کہ :
لَوْ نَعْلَمُ قِتَالًا لَّا اتَّبَعْتُكُمْ (آل عمران: ۱۶۷)
اگر ہم محسوس کرتے کہ کوئی لڑائی ( واقعی ) ہونے والی ہے تو تمہارے ساتھ ضرور ہولیتے۔
حالاں کہ لشکر قریش مدینے کے دروازوں پر کھڑا دعوت پیکار دے رہا تھا۔

·        صفوں کی تطہیر کی دعوتی ضرورت
رہا یہ سوال کہ اہلِ ایمان کی جماعت میں سے اس طرح کے جھوٹے عناصر کے چھٹ جانے کی دینی اور دعوتی ضرورت کیا ہے؟ تو اس کا جواب ان لوگوں پر ہر گز مخفی نہیں ہو سکتا جن کو کسی بڑے کام کے لیے اجتماعی جدوجہد کی مہم چلانے کا تجربہ ہو، یا کم از کم یہ کہ ان کی نظر ہی ایسی تحریکوں کی تاریخ پر ہو۔ یہ ایک معروف حقیقت ہے کہ کوئی ہوش مند جماعت جس کے سامنے کوئی بڑا مقصد اور نصب العین ہو، نہ اپنی طاقت کے صحیح اندازے سے غافل رہ سکتی ہے نہ اپنی اندرونی صحت کی فکر سے۔ ورنہ وہ ایک مہلک غلط فہمی کا شکار رہے گی۔ وہ اپنے میگزین کو تو کار آمد ہتھیاروں سے بھرا ہوا سمجھتی رہے گی ، مگر جب اس کے استعمال کا وقت آئے گا تو یہ دیکھ کر بھو چکی رہ جائے گی کہ ان میں ایسے نام نہاد اسلحے بھی موجود ہیں جن میں بارود کی جگہ ٹھنڈی راکھ اور سیسے کے بہ جائے لکڑی کی گولیاں بھری ہوئی ہیں حتی کہ کتنے ہی اپنوں کی سنگینوں کے رُخ خود اسی کی صفوں کی طرف پھرے ہوئے ہیں۔ اور اس کا نتیجہ جو کچھ ہوگا وہ صرف یہی ہوگا کہ جماعت اپنے مقصد میں ناکام ہو کر رہ جائے۔ ممکن ہے کوئی انجام سے بے پروا جماعت سے اس طرح کی غفلت کو روا رکھ لے، مگر اہلِ ایمان کی جماعت سے، جو دراصل دنیا کی سب سے زیادہ ہوش مند اور صاحب فراست جماعت ہوتی ہے، اس قسم کی غفلت کا کوئی امکان تسلیم ہی نہیں کیا جا سکتا۔ پھر

اس کے سامنے جو عظیم کام ہوتا ہے خود اس کا بھی یہی مطالبہ ہوتا ہے کہ اپنی صفوں کو متحد اور مضبوط رکھے، ان میں حتی الوسع کوئی عنصر ایسا نہ آنے دے جو انھیں سبوتاژ تو کر سکتا ہو مگر ان کے لیے کسی استحکام کا ذریعہ بالکل نہ بن سکتا ہو۔ اس لیے یہ جماعت اس بات کی سب سے زیادہ ضرورت مند ہوتی ہے کہ اسے جھوٹے اور سازشی عناصر سے پاک رکھا جائے ، جس کا واحد ذریعہ یہی آزمائشیں ہیں۔ چناں چہ جب اُحد کے موقع پر مسلمان انتہائی پریشانی اور مصیبت کے نرغے میں آ گئے تھے اور اکثر لوگ بد دلی اور ایک طرح کی حیرت میں مبتلا تھے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا:
وَلِيَعْلَمَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَ يَتَّخِذَ مِنْكُمْ شُهَدَاءَ الخ (آل عمران : ۱۴۰)
ایسا اس لیے ہوا تا کہ اللہ تمہیں آزمائے ) اور اس لیے تا کہ وہ ایمان والوں کو جان لے اور تم میں سے ( اپنے دین کے واقعی ) گواہ مہیا کر لے۔

یعنی ان ابتلاؤں کی چھاج سے گروہ مومنین کو پھٹکا جا رہا ہے اور اس لیے پھٹکا جا رہا ہے تا کہ بے جان اور دشمن ایمان دونوں طرح کے اجزاء کو پھٹک کر الگ کر دیا جائے اور وہ جوہر خالص چھن کر صاف ستھرا نکل آئے جو دعوت حق کا اصل سرمایۂ حیات ہوتا ہے۔ کیوں کہ اس چھان پھٹک کے بعد ہی دین کے حقیقی ”شہداء“ اور علم بردار قطعیت سے معلوم و متعین ہو سکتے ہیں اور اس قطعی تعین کے بعد ہی جماعت کے لیے باطل کا زور توڑ ڈالنے کی راہ صاف ہوا کرتی ہے۔ چناں چہ وَيَتَّخِذَ مِنْكُمْ شُهَدَاءَ کے بعد ہی یہ الفاظ آتے ہیں :
وَلِيُمَحِّصَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَيَمْحَقِّ الْكَفِرِينَ (آل عمران : ۱۴۱)
اور اس لیے تا کہ اللہ مومنوں کو پاک صاف کرے اور منکرین کو مٹا دے۔

معلوم ہوا کہ حق اپنے دشمنوں پر غالب اسی وقت ہو سکتا ہے جب کہ اس کے سچے اور مخلص علم برداروں کی جماعت ہر طرح کی آمیزشوں اور آلائشوں سے پاک ہو چکی ہو۔ غور کیجیے، یہ کتنی بڑی ضرورت ہے دین اور دعوت دین کی !

·        (۲) مخلصین کی فکری تطہیر
دوسری بڑی مصلحت اور افادیت یہ ہوتی ہے کہ جماعت میں جو عنصر نا قابلِ اعتماد نہیں بلکہ قابل اعتماد اور مخلص ہوتا ہے، ان ابتلاؤں سے اس کی بھی بڑی اہم فکری تطہیر انجام پاتی

ہے۔ یہ ایک واضح بات ہے کہ اخلاص، فکر صحیح کو ہر حال میں مستلزم نہیں۔ اس لیے ایک شخص اگر پورے خلوص دل کے ساتھ اسلام کا حلقہ بہ گوش بنتا ہے تو یہ اس امر کی ضمانت نہیں کہ اس کے سوچنے کا انداز بھی سوفی صدی اسلامی ہو گیا ہے ۔ اس کے برخلاف اس کے ذہنی سانچے کے پوری طرح اسلامی بن جانے کے لیے برسوں کی تعلیم و تربیت درکار ہوتی ہے۔ بہت سی فکری خامیاں ایسی ہوتی ہیں جو صرف آزمائشوں ہی کے وقت ذہن کے گوشوں سے باہر آتی ہے، اس لیے ان کی اصلاح اور ازالے کے لیے موقع بھی اسی وقت ہاتھ آتا ہے۔

·        احد کے واقعات سے فکری اصلاح
مثال کے طور پر دعوت قرآنی ہی کے دو واقعات لے لیجیے، جو غزوہ احد کے موقع پر پیش آئے تھے۔ اس غزوے میں کچھ مسلمانوں کی غلطی نے پوری جماعت کے لیے بڑی پریشان کن اور ہولناک حالت پیدا کر دی تھی۔ جیتی ہوئی لڑائی کا پانسہ پلٹ گیا تھا، اور مسلمانوں کا لشکر دشمنان حق کی یلغار سے تتر بتر ہو گیا تھا۔ ان کے ستر افراد شہید ہو گئے ، حتی کہ خود حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا سر مبارک زخموں سے لہو لہان ہو گیا اور چند جاں نثار صحابہ نے جان کی بازیاں کھیل کر بڑی مشکل سے آپ کو تیروں اور نیزوں کی بارش سے بچایا۔ یہ صورت حال کتنے ہی مسلمانوں کے لیے بالکل ہی غیر متوقع تھی اور وہ حیران ہو کر کہنے لگے : ” انی هذا؟“ (آخر ایسا ہو کیسے گیا ؟ ) وحی الہی نے جواب دیا : هُوَ مِنْ عِنْدِ اَنْفُسِكُمْ (آل عمران : ۱۶۵) ”یہ سب کچھ تمہارے اپنے ہی عمل کا نتیجہ ہے“۔ یہ ان حضرات کے تحیر اور ان کے اس سوال کے پیچھے جو ذہن کام کر رہا تھا، وہ صاف طور سے یہ تھا کہ چوں کہ وہ اللہ والے ہیں اس لیے اللہ کی غیبی مدد ہر موقع پر ان کے شریک حال رہے گی اور اہلِ باطل کے مقابلے میں انھیں کبھی زک نہیں پہنچ سکتی، بالخصوص اس وقت جب کہ اللہ کا نبی بھی بہ نفس نفیس ان کے اندر رحمت الہی کا نشان اور نصرت خداوندی کی ضمانت بن کر موجود ہو۔ اللہ تعالیٰ کے جس جواب نے اس غلط فکری کی اصلاح کی اس کا مدعا یہ تھا کہ تمہارے ایک گروہ نے نبی کی جنگی ہدایات پر عمل نہیں کیا اور وہ دّرے سے ہٹ آیا، نتیجہ یہ ہوا کہ دشمن کو تم پر اچانک چھا جانے کا موقع مل گیا۔ تم نے اگر یہ سمجھا تھا تو بالکل غلط سمجھا تھا کہ خواہ تمہارے اعمال و اخلاق کیسے ہی ہوں اور حالات کو اپنے حق میں بنائے رکھنے کے لیے جس حسن تدبیر کی ضرورت ہے اس میں تمہارا حال جو کچھ بھی ہو، مگر چوں کہ تم حق کے

حمایتی ہو اس لیے فریق مخالف کے مقابلے میں کامیابی اور غلبہ ہر شکل میں تمہارا ہی حق ہے۔ یاد رکھو، یہ دنیا اسباب و علل کی دنیا ہے، یہاں فکر وعمل اور تدبیر کار کی ہر خامی کا نقصان تمہیں بھی لازما اٹھاناہی پڑے گا۔ لہذا اس خوش فہمی میں نہ رہو کہ تم اسباب سے یکسر بلند ہو گئے ہو اور اب خدا کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ تمہارا کام اپنے فرشتوں سے انجام دلاتا رہے۔

دوسری فکری خامی جس کا یہ بعض لوگوں کی طرف سے اس غزوے میں مظاہرہ ہوا، وہ داعی حق کی شخصیت کے ساتھ اصل حق کو بہ ہر صورت وابستہ رکھنے اور سمجھنے کی غلطی تھی۔ جیسا کہ عام طور سے دیکھا جاتا ہے، لوگ بڑے جوش اور ولولے کے ساتھ تحریکوں اور دعوتوں کی حلقہ بہ گوشی اختیار کرتے ہیں، لیکن حقیقت میں ان کا قلبی لگاؤ اصل مقصد تحریک سے زیادہ تحریک کے رہنما کی پرکشش شخصیت سے ہوتا ہے۔ چناں چہ درمیان سے اس شخصیت کے ہٹ جانے یا ختم ہو جانے کے بعد تحریک کے ساتھ بھی ان کی وابستگی دم توڑنے لگتی ہے۔ خاص کر دینی تحریکوں میں اس المناک رویے کا مظاہرہ بہت زیادہ ہوا کرتا ہے۔ چناں چہ کچھ اسی قسم کے طرز فکر کا اثر تھا جس کے تحت اس غزوے میں بعض صحابہؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کی افواہ سُن کر انتہائی بددلی کے عالم میں اپنے ہاتھوں سے تلواریں پھینک دیں اور کہا کہ جب اللہ کے رسول ہی موجود نہیں رہے تو ہم کیا لڑیں؟ جس کا نوٹس لیتے ہوئے اللہ نے فرمایا:
وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ ... أَفَأَبِنُ مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى اعْقَابِكُمْ (آل عمران : ۱۴۴)
"
محمد صرف ایک رسول ہیں .. تو کیا اگر وہ وفات پا جائیں یا شہید کر دیے جائیں تو تم اُلٹے پاؤں پھر جاؤ گے؟

اس تنبیہ کا کھلا ہوا منشا یہ تھا کہ حق کی پیروی حق کی اشاعت ، حق کی مدافعت اور حق کی اقامت صرف اس لیے کرنی چاہیے کہ وہ بہ ذات خود اس کا حق دار ہے، نہ اس لیے کہ فلاں شخصیت اس کی بالفعل علم برداری کر رہی ہے۔ کسی بڑی سے بڑی شخصیت ، حتی کہ خیر کائنات اور فخر موجودات علیہ الصلوٰۃ کی شخصیت سے بھی دین اللہ کی خدمت و نصرت کا دامن اس طرح بندھا ہوا نہیں ہے کہ جب تک آپ بہ نفس نفیس اس کی علم برداری کے لیے تمہارے اندر تشریف فرما

ہوں تب تک تو تم اس کے لیے سب کچھ نثار کرتے رہو ، لیکن جب آپ درمیان میں باقی نہ رہ جائیں تو تم اسے اللہ کے حوالے کر کے خود ہاتھ پاؤں توڑ کر بیٹھ جاؤ۔

·        (۳) اخلاقی ارتقاء اور دلوں کی صفائی
تیسری بڑی مصلحت یہ ہوتی ہے کہ جماعت کے مخلص افراد کا ان آزمائشوں کے ذریعہ اخلاقی ارتقاء ہوتا ہے۔ ان کے دلوں میں جو میل کچیل ہوتا ہے، ابتلاؤں کی بھٹی اسے جلا کر رکھ دیتی ہے، ان کے دلوں میں جو کمزوریاں ہوتی ہیں مشکلات و مصائب کی لگا تار ٹکریں کھا کھا کر وہ طاقت سے بدلنے لگتی ہیں۔ چناں چہ اوپر کی آیت میں جہاں ان ابتلاؤں کے اور دوسرے اغراض و مقاصد بتائے گئے ہیں وہاں ان کا ایک مقصد اہلِ ایمان کو پاک صاف کر لینا بھی بتایا گیا ہے ( وَلِيُمَحِّصَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا )۔ پھر ذرا آگے چل کر اسی بات کو جب دوبارہ فرمانا ہوا تو مزید صراحت کر دی گئی:
وَلِيَبْتَلِيَ اللهُ مَا فِي صُدُورِكُمْ وَلِيُمَحِّصَ مَا فِي قُلُوبِكُمْ (آل عمران :۱۵۴)
اور تاکہ اللہ آزما دیکھے جو کچھ تمہارے سینوں میں ہے اور پاک صاف کر دے جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے۔

دلوں میں صفائی کس طرح آتی ہے؟ اخلاق میں بلندی اور عزم و استقلال میں قوت کس طرح پیدا ہوتی ہے؟ یہ ایسے سوالات ہیں جن کا تفصیلی جواب غور و فکر سے ہر وہ شخص خود معلوم کر لے سکتا ہے جسے اس دنیا سے کچھ شناسائی ہو۔ قرآن مجید نے اس سلسلے میں ایک ایسی جامع بات فرمادی ہے جس میں سبھی کچھ آجاتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ یہ آزمائشیں مومن کو اتنا اونچا اٹھا دیتی ہیں کہ نہ دنیا کی کسی بڑی سے بڑی کامیابی سے اس پر کوئی نشہ چھا سکتا ہے نہ کسی ناکامی سے اس کا دل ٹوٹنے پاتا ہے۔ وہ وقار کا ایک پہاڑ بن جاتا ہے اور خوشی کی بات ہو یا غم کی ، کوئی چیز اسے اپنے بہاؤ میں بہا نہیں لے جاسکتی۔ غزوہ احد میں جو گہرا زخم مسلمانوں کو پہنچا تھا اس کی مصلحتیں بیان کرتے ہوئے وہ کہتا ہے :
فَأَثَابَكُمْ غَمًّا بِغَمٍّ لِكَيْلَا تَحْزَنُوا عَلَى مَا فَاتَكُمْ وَلَا مَا أَصَابَكُمْ (آل عمران : ۱۵۳)

سو اس نے اس کے بدلے میں تم کو غم پر غم پہنچائے، تا کہ تم نہ کسی چیز کے ہاتھ سے جاتے رہنے پر غم کھایا کرونہ کسی مصیبت کے آنے پر

یعنی فتح کی منزل قریب آجانے کے باوجود اگر ادھر سے تمہارے رُخ موڑ دیے گئے اور تمہیں اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کے زخمی ہو جانے ، اپنے بہت سے ساتھیوں کے شہید ہو جانے اور اپنی جیتی ہوئی لڑائی کا پانسہ پلٹ جانے سے جو غم بالائے غم پہنچا، اس کا ایک اہم فائدہ یہ ہے کہ اب تم پر یہ حقیقت روشن تر ہو گئی ہوگی کہ فتح اور شکست ، خوشی اور غم ، با مرادی اور ناکامی، ہر چیز اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔ یہ بہ جائے خود کسی اعتبار کے قابل نہیں ، وہ جب چاہے ایک کو دوسری سے بدل دیتا ہے۔ اس لیے ہماری نگاہ ہر حال میں اس کی ذات پر رہنی چاہیے، نہ کہ پیش آنے والے حالات پر۔

·        آزمائش بطور تربیت اور محبتِ الٰہی کی علامت
غور کیجیے یہ کتنی اونچی نعمت ہے جو ایک صاحب ایمان کو یہ آزمائشیں عطا کرتی ہیں۔ اس کے معنی تو یہ ہوئے کہ اگر چہ مشکلات اور مصائب مومن کے صبر و استقلال کو آزمانے کے لیے نازل کیے جاتے ہیں، لیکن انجام کار یہی مصائب اس کے اندر صبر و استقلال اور قناعت و بلندی کی صفت کو پروان چڑھانے کا موجب بن جاتے ہیں۔ صبر کا جو تخم قلب مومن کے اندر موجود ہوتا ہے یہ آزمائشیں اس کو تیزی سے نشو و نما دیتی ہیں۔ اگر مصائب و مشکلات کی بدلیاں نہ اٹھیں تو قوت صبر کو پوری شادابی اور بارآوری ہرگز میسر نہ ہو۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہیے کہ مومن کو اخلاقی ارتقاء کے بہت سے ضروری اسباب اور مواقع ملیں ہی نہ اور اس کے اندر ایمان کی وہ پختگی پیدا ہی نہ ہو جو اس کے لیے اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہو سکنے کے سلسلے میں ضروری ہے۔ اس لیے حق تو یہ ہے کہ جس شخص پر جتنی اہم ذمہ داریاں ہوں اسے اتنا ہی زیادہ آزمائشوں کی بھٹی میں تپایا جائے۔ حضور کے ارشادات بتاتے ہیں کہ حقیقت واقعہ بھی یوں ہی ہے۔ آپ سے پوچھا گیا کہ سب سے زیادہ آزمائشیں کن لوگوں پر ڈالی جاتی ہیں؟ فرمایا : ”انبیاء پر “ (ترمذی)

یہ ہیں آزمائشوں کی بڑی اور نمایاں مصلحتیں اور ضرورتیں۔ یہی غیر معمولی فوائد اور مصالح تھے جن کے پیش نظر رسول برحق صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ:
مَنْ يُرِدِ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُصَبْ مِنْهُ (بخاری)

اللہ جس کا بھلا چاہتا ہے اسے مصائب میں مبتلا کرتا ہے۔
اور یہ کہ:
إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ إِذَا أَحَبَّ قَوْمًا ابْتَلَاهُمُ (ترمذی)
اللہ بزرگ و برتر جب کسی گروہ سے محبت کرتا ہے تو اسے آزمائشوں کے دور سے گزارتا ہے۔

ان مصلحتوں، ضرورتوں اور فائدوں کی اہمیت سے کون انکار کر سکتا ہے؟ جن آزمائشوں کے پیچھے یہ عظیم مقاصد چھپے ہوں ، وہ طبعا چاہے کتنی ہی ناگوار ہوں ، مگر عقلاً وہ بلا شبہ خیر ہی خیر ہیں۔ اگر یہ نہ ہوں، تو نہ دعوت حق کے پیرو افراد صحیح معنوں میں اس کے پیرو اور نمائندے بن سکیں گے، نہ اس کی علم بردار جماعت صحیح معنوں میں اس کی علم بردار جماعت بن سکے گی اور اس لیے وہ کبھی کامیاب بھی نہ ہو سکے گی ۔ کیوں کہ اس میں اتنی طاقت ہی نہیں آ سکتی کہ باطل اس کے لیے جگہ چھوڑ دینے پر مجبور ہو جائے ۔ اس کا محاذ جوں کا توں قائم رہے گا اور اس پر حملہ کرتے ہی حق کی توپیں رنجک چاٹ کر رہ جائیں گی ۔ یہ ایمانی آزمائشیں ہی ہیں جو مسلم افراد کو الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا اور مسلم گروہ کو حِزْبُ اللهِ بناتی ہیں اور اسے اَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ کے مقام پر فائز کرتی ہیں۔

آزمائشوں کی ہمہ جہتی نوعیت: تفصیلی جائزہ کی ضرورت

اگر چہ یہ کوئی چھپا ہوا راز نہیں کہ ایمان کی راہ پر قدم رکھنے والوں کو کڑی آزمائشوں سے گزرنا لازمی ہے اور اوپر کی چند سطروں سے اس کی یاد دہانی بھی ہو جاتی ہے۔ لیکن ایک عملی انسان کو، جو اس حقیقت کا علم صرف بہ رائے علم نہ چاہتا ہو بلکہ بہ رائے عمل چاہتا ہو، ذرا تفصیلی واقفیت درکار ہے۔ وہ کوئی دور کا تماشائی نہیں ہوتا ، بلکہ خود اس راہ کا راہ رو ہوتا ہے، اس لیے وہ اس کے ایک ایک نشیب و فراز کو اپنی آنکھوں دیکھ لینا چاہے گا۔ وہ یہ جان لینا ضروری سمجھے گا کہ یہ آزمائشیں کس کس طرح کی ہوتی ہیں؟ تاکہ ان کے لیے وہ پہلے سے اپنے کو تیار کرتا رہے اور اچانک ان کا سامنا ہو جانے پر گھبراہٹ ، حیرانی اور پست ہمتی کا شکار نہ ہونے پائے۔ اس لیے

ان مشکلات و مصائب کا قدرے تفصیلی جائزہ لے کر معلوم کر لینا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ قانونِ آزمائش کن کن شکلوں میں ظاہر ہوتا ہے اور کن کن طریقوں اور جہتوں سے حق پرستوں کو آزمایا جاتا ہے؟ اور سچ تو یہ ہے کہ یہ تفصیل جانے بغیر ان مصائب کی سختیوں کا خالص نظری اندازہ بھی ٹھیک ٹھیک نہیں ہو سکتا ، چہ جائے کہ وہ اندازہ جو عمل کی خاطر ہو۔

آزمائشوں کی اقسام

قرآن وسنت کے مطالعے اور تاریخ دین کی شہادتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آزمائشیں ہر جہتی ہوتی ہیں۔ انسان کو ہر طرف سے ٹھونک بجا کر دیکھا جاتا ہے۔ اس کے دل و دماغ کا ایک ایک گوشہ چھانا جاتا ہے۔ اس کے جذبات کا کوئی تار ایسا نہیں ہوتا جس پر مضراب ابتلا کی ضرب نہ پڑتی ہو۔ ان آزمائشوں کو ہم حسب ذیل سات موٹی موٹی قسموں میں تقسیم کرتے ہیں:
(
۱) طنز و استہزاء
(
۲) عوام فریب پرو پیگنڈے
(
۳) دل آزاریاں
(
۴) جان و مال کا نقصان
(
۵) سیاسی شرانگیزیاں
(
۶) مادی رشتوں کی قربانی
(
۷) محبوب رجحانات سے دست برداری۔

تفصیلی تعارف ہر ایک کا یہ ہے :

·        (۱) طنز و استہزاء
حق کا داعی جوں ہی اپنی دعوت شروع کرتا ہے اور کفر و جاہلیت کے دل دادوں یا دنیا پرستوں اور خدا فروشوں کے سامنے سلامتی کے پیام بر کی حیثیت سے اپنا تعارف کراتا ہے۔ لبوں پر تبسم آجاتا ہے، نگاہیں اشارے کرنے لگتی ہیں، زبانیں مذاق اڑانے میں مصروف ہو جاتی ہیں۔ کوئی داعی، بلکہ کوئی پیغمبر حتی کہ سارے داعیوں کے امام اور تمام پیغمبروں کے خاتم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس ہمز لمز سے نہ بچ سکے۔ جب بھی کسی دشمن حق سے سامنا ہوتا ، طنز اور تمسخر کا ایک زہریلا تیر چل جاتا۔ خاص کر مکی زندگی میں اس کی وہ گرم بازاری رہی کہ الامان والحفیظ۔ انداز اس طنز و تمسخر کا ایسا ہوتا جس سے صاف ٹپکتا کہ ان ”داناؤں“ کے نزدیک یہ دعوت ، یہ دین ، دین کی یہ تعلیمات سب کی سب گویا (معاذ اللہ ) اتنی لچر ہیں کہ ان کو سنجیدگی سے سن لینا بھی عقل کی توہین ہے۔ نبی کی ذات کا استہزاء اس کے دعوائے رسالت کا استہزاء، دعوت توحید کا استہزاء،

قیامت اور آخرت کی تعلیم کا استہزاء، نبیؐ کے ساتھیوں کا استہزاء، غرض ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس دعوت کی ایک ایک چیز ان کے اگر کسی جواب کی مستحق ہے تو وہ صرف استہزاء ہے۔ قرآن مجید میں ان کے اس طرز عمل کا تذکرہ کثرت سے موجود ہے۔ چند ایک آیتوں سے اس کا پورا پورا اندازہ ہو جائے گا:
وَ إِذَا رَاكَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ يَتَّخِذُونَكَ إِلَّا هُزُوًا أَهْذَا الَّذِي يَذْكُرُ الهَتَكُمُ (الانبیاء : ۳۶)
جب بھی یہ منکر تمہیں دیکھتے ہیں تو تمہیں ٹھٹھوں پر رکھ لیتے ہیں۔ ( کہتے ہیں) کیا یہی ہے وہ جو تمہارے معبودوں پر نام دھرتا ہے؟
إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا كَانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ وَ إِذَا مَرُّوا بِهِمْ يَتَغَامَرُونَ (المطففين : ۳۰،۲۹)
مجرم ، اہل ایمان کا ٹھٹھا کیا کرتے تھے اور جب ان کے پاس سے ہو کر گزرتے تھے تو آپس میں آنکھوں سے اشارے کرتے ۔
...
وَ اتَّخَذُوا ايْتِي وَ مَا انْذِرُوا هُزُوًان ( الكهف : ۵۶)
”...
اور انہوں نے میری آیتوں کو اور جس عذاب سے انہیں خبردار کیا جا رہا ہے اس کو مذاق بنالیا ہے۔
...
فَسَيُنْغِضُونَ إِلَيْكَ رُءُوسَهُمْ وَ يَقُولُونَ مَتَى هُوَ (بنی اسرائیل: ۵۱)
وہ تمہاری طرف اپنے سروں کو مٹکائیں گے اور کہیں گے کب ہوگا یہ ( جی اٹھنا ؟)“

یہ ہے طنز و استہزاء کا وہ تحفہ جس سے نبی اور اصحاب نبی کا استقبال کیا گیا۔ اس کے جواب میں انھیں کیا کرنا چاہیے تھا اور انھوں نے کیا کیا ؟ یہ معلوم کرنے کے لیے قرآن کا یہ بیان پڑھیے :
إِذَا خَاطَبَهُمُ الْجُهِلُونَ قَالُوا سَلَمًا (الفرقان : ۶۳)
جب جاہل لوگ انہیں چھیڑتے ہیں تو وہ کہتے ہیں سلام ( اور آگے بڑھ جاتے ہیں)۔
یعنی صبر کرتے ہیں، جس کا وقت پر خود ان طنز بازوں اور استہزاء کرنے والوں کو جتا کر، پورا پورا اجر دے دیا جائے گا :

فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا ... إِنِّي جَزَيْتُهُمُ الْيَوْمَ بِمَا صَبَرُوا (المؤمنون: ۱۱۰ ۱۱۱)
تم ان (مومنوں) کا مذاق اڑاتے رہے ... بے شک میں نے آج ان کے صبر کا بدلہ انہیں دے دیا ۔

·        (۲) عوام فریب پروپیگنڈے
جب طنز و استہزاء کے ہتھیار یکسر ناکام ہوتے دکھائی دیتے ہیں اور وہ جو جگر آزمانے ہی کے لیے میدان میں آئے ہوتے ہیں ، اُن تکوں کا کوئی اثر ہی نہیں لیتے تو مخالفت بھی کچھ اور کرنے کی سوچنے لگتی ہے۔ اس سوچ کا پہلا نتیجہ عوام الناس کو بدکا دینے والی پُر فریب باتوں کی شکل میں نمودار ہوتا ہے۔ نور حق کی اُبھرتی ہوئی کرنوں کے سامنے نفسیاتی پروپیگنڈے کے گہرے دھوئیں چھوڑے جانے لگتے ہیں تاکہ وہ لوگوں کی نظروں تک پہنچ ہی نہ سکیں ۔ داعی حق دنیا کی سب سے بڑی سچائی کا واضح پیغام دیتا ہے اور اس بات کے قوی امکانات ہوتے ہیں کہ اس کی فطری، مدلل اور دل نشیں دعوت دلوں کو اپیل کر جائے۔ لیکن وہ ابھی اپنی بات پوری بھی نہیں کر پاتا کہ وقت کے سیاسی اور مذہبی اجارہ دار دوڑ پڑتے ہیں اور اس اندیشے کے مد نظر کہ کہیں ہمارے گلے کی کچھ بھیڑیں ”بہک“ نہ جائیں، عوام فریب فقروں کا ایک طوفان اٹھا دیتے ہیں، جس کی تیز لہروں میں داعی کی معصوم دعوتی تمنائیں تنکوں کی طرح بہنے لگتی ہیں۔ یہ کسی ایک دعوت یا داعی کی کہانی نہیں ہے بلکہ قرآن کا فرمانا ہے کہ ہر دعوت اسی صورت حال سے دوچار ہوتی رہی ہے:
وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُولٍ وَ لَا نَبِيَّ إِلَّا إِذَا تَمَتَّى الْقَى الشَّيْطَنُ فِي أَمْنِيَّتِهِ (الحج: ۵۲)
اے پیغمبر ! ہم نے تم سے پہلے جس رسول یا نبی کو بھی بھیجا، ( اس کا حال یہی ہوا کہ ) اس نے اپنی دعوت پہنچانے کی تمنا کی نہیں کہ شیطان نے اس میں دخل اندازی کردی۔

انبیاء کے دعوتی کاموں میں یہ شیطانی دخل اندازیاں کیوں کر ہوتی رہیں؟ اس کی شرح بھی قرآن ہی سے سنیے :

قرآنی تمہید: دشمنانِ حق کا حربہ

وَ كَذلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِي عَدُوًّا شَيْطِيْنَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ يُؤْحِى بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُورًا
(
الانعام : ۱۱۲)

ترجمہ: ”اور اے نبی ! ( جس طرح آج تمہارے ساتھ ہو رہا ہے ) اسی طرح ہم نے ہر نبی کے لیے دشمن بنا کھڑا کیا تھا: شریر انسانوں اور شریر جنوں کو، جو ایک دوسرے کو خوش نما باتیں سکھاتے ( خلق خدا کو ) دھوکا دینے کے لیے۔

'زُخْرُفَ الْقَوْلِ' – خوش نما مگر بے اصل باتیں

'زُخْرُفَ الْقَوْلِ'، جس کا ترجمہ یہاں ”خوش نما باتیں“ کیا گیا ہے، ان باتوں کو کہتے ہیں جو ہوں تو بے اصل، مگر ایسے انداز میں کہی گئی ہوں کہ عام لوگوں کو مسحور کر لیں، جن کے اندر کوئی دینی اور اخلاقی اور عقلی جوہر تو نہ ہو مگر حسنِ استدلال کی ملمع کاری کر دی گئی ہو، جن کی بنیاد سرتا سر باطل پر، شر انگیزی پر، حق دشمنی پر رکھی گئی ہو، مگر لباس انھیں حق پسندی اور معقولیت کا پہنا دیا گیا ہو۔ عوام الناس یوں بھی کہاں کے نکتہ رس اور صاحب نظر ہوتے ہیں، لیکن جب ان کا سارا دین صرف چند رسموں اور خوش عقیدگیوں، بلکہ خوش فہمیوں میں سمٹ آیا ہو تو ان کے مذہبی جذبات کچے شیشے سے بھی زیادہ نازک ہو چکے ہوتے ہیں۔ ایسی حالت میں ان کے ان جذبات کو چھیڑ دینا جتنا خطرناک ہو سکتا ہے اس کا اندازہ کرنا کچھ مشکل نہیں۔ حق کے ہوشیار مخالفوں کو ہمیشہ یہ نکتہ اچھی طرح معلوم رہا ہے اور انھوں نے اس طرح کے مؤثر اور ساتھ ہی آسان چٹکلوں کو خوب خوب استعمال کیا ہے اور بسا اوقات خدا کے ان سادہ لوح بندوں کو جو دعوت حق سے قریب ہو رہے تھے، بس ایک 'زُخْرُفَ الْقَوْلِ' کے ذریعے اتنا دور کر دیا کہ پھر ہمیشہ کے لیے ان کے دلوں کے دروازے اس دعوت کے لیے بند ہو کر رہ گئے۔

دعوتِ حق کے خلاف خوش نما دلائل کی مثالیں

مثالوں کے ذریعے یہ بات زیادہ وضاحت سے سامنے آسکے گی۔ اس لیے ان چند ایک ظاہر فریب اور خوش نما باتوں پر نظر ڈال لینی چاہیے جو دعوتِ قرآنی کی راہ مارنے کے لیے مکے کے مشرکوں، مدینے کے یہودیوں اور منافقوں کی جانب سے کہی، سکھلائی اور پھیلائی گئی تھیں۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نبوت کا اعلان کیا۔ جواب دیا گیا، کتنی عجیب بات ہے! ایک ہمارے ہی جیسا انسان اللہ رب العالمین کا فرستادہ بن گیا! بھلا دنیا جہاں کا شہنشاہ اب ایسا گیا گزرا ہو گیا ہے، کیا اس کے پاس فرشتے نہ تھے جو وہ ایک بشر کو اپنا پیام بر بنانے پر مجبور ہو گیا؟

ابَعَثَ اللَّهُ بَشَرًا رَّسُولًا (بنی اسرائیل : ۹۴)

اور اگر تھوڑی دیر کے لیے مان بھی لیا جائے کہ ایک بشر ہی کو یہ منصب مرحمت ہونا تھا، تو کیا اس کے لیے بس ”حضرت“ ہی کی ذات گرامی انتخاب کے لیے رہ گئی تھی؟ ہم میں سے کوئی اس کا اہل نہیں تھا؟

أُنْزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِنْ بَيْنِنَا (ص : ۸)

اگر اس اعزاز کے لیے طائف یا مکے کے اشراف میں سے کسی کو منتخب کیا گیا ہوتا تو ایک بات تھی... وہ شاید اس کے لیے کچھ موزوں بھی ہوتا۔

لَوْ لَا نُزِّلَ هَذَا الْقُرْآنُ عَلَى رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْيَتَيْنِ عَظِيمٍ (الزخرف:۳۱)

لیکن اتنے بڑے اعزاز کے لیے ایسے شخص کا انتخاب تو عجائبات میں سے ہے جس کے پاس نہ دولت ہے نہ سرداری، جو اپنا سودا سلف منگوانے کے لیے ایک غلام تک نہیں رکھتا۔

مَالِ هَذَا الرَّسُولِ يَأْكُلُ الطَّعَامَ وَ يَمْشِي فِي الْأَسْوَاق (الفرقان:۷)

اور پھر یہ تو دیکھو، اس شخص کے پیروؤں کا کیا حال ہے؟ دعوے تو یہ ہیں کہ وہی اللہ تعالیٰ کے شکر گزار، حق شناس اور فرماں بردار بندے ہیں اور اس لیے وہی اس کے محبوب ہیں، مگر صورت دیکھیے تو کس مپرسی اور فلاکت برس رہی ہے۔ چند لقموں اور چیتھڑوں تک کے لیے ترستے رہتے ہیں۔ کیا محبوبِ خدا ہونے کی پہچان یہی کچھ ہوتی ہے؟

اهَؤُلَاءِ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنْ بَيْنِنَا (الانعام: ۵۳)

یا پھر اللہ کو اپنے چہیتوں کی خبر ہی نہیں۔

الَيْسَ اللهُ بِأَعْلَمَ بِالشَّكِرِينَ (الانعام : ۵۳)

آپ نے توحید کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا، اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور جن کو تم فوق البشر قوتوں اور معبودانہ عظمتوں کا حامل سمجھتے ہو وہ سب بھی اللہ تعالیٰ کے ویسے ہی مجبور محض بندے ہیں جیسے تم۔ شور اٹھا، کیا اتنی بڑی اور مقدس ہستیاں بھی بے چارگی کی اسی سطح پر ہیں جس پر ہم ہیں؟ یعنی ذرہ اور آفتاب برابر ہیں؟ اور کوڑی اور موتی ہم قیمت؟ یہ بارگاہِ خداوندی کے ان مقربین خاص کی شان میں کیسی شدید گستاخی ہے۔ اس شخص کی یاوہ گوئی تو دیکھو، ہمارے دوسرے تمام معبودوں کو الوہیت کے منصب و مقام سے معزول کر کے اسے صرف ایک ہی ذات میں مرکوز کیے دے رہا ہے! یا للعجب!

أَجَعَلَ الْأَلِهَةَ الهًا وَاحِدًا إِنَّ هَذَا لَشَيْءٌ عُجَابٌ (ص:۵)

آپ نے شرک کے باطل ہونے پر اس طرح دلائل کے انبار لگا دیے کہ مشرکوں کی زبانِ استدلال لاکھ کوششوں کے باوجود کھلنے کی جرات نہ کرسکی۔ مگر ان کی زبانِ جدال کو کون روک سکتا تھا؟ انھوں نے کہنا شروع کیا، ہم تو اسی راستے پر چل رہے ہیں جس پر اپنے اسلاف کو چلتے پایا ہے۔

اِنَّا وَجَدْنَا آبَاءَنَا عَلَى أُمَّةٍ وَإِنَّا عَلَى آثَارِهِمْ مُهْتَدُونَ (الزخرف: ۲۲)

مطلب یہ تھا کہ آج تو تم یہ فرماتے ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، مگر ہمارے اسلاف جن میں فلاں فلاں جیسے مدبر، فلاں فلاں جیسے حکیم، فلاں فلاں جیسے معلمینِ اخلاق اور فلاں فلاں جیسے ماہرینِ الہیات شامل ہیں، مانتے اور فرماتے رہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مقربینِ خاص کو ایک حد تک الوہیت کی بعض صفتوں سے نواز رکھا ہے اور اب اللہ کے دربار میں وہی ہماری رسائی، پرسش اور حاجت برآری کا وسیلہ ہیں۔ اس لیے ہمیں انہی کی پرستش کرنا اور انہی کو خوش رکھنا چاہیے۔ اب اگر تمہاری بات صحیح مان لی جائے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ ہمارے سارے اسلاف احمق اور گم راہ تھے! بالغ نظری اور حقیقت شناسی تو بس آں جناب پر ختم ہے! سوچنے کی بات ہے کہ تمہاری اس اچھوتی منطق سے ہمارے کن کن بزرگوں کے ناموں پر سیاہی پھر رہی ہے!

آپ نے دین کی باتیں سکھا چکنے کے بعد شریعت کے تفصیلی احکام دینے شروع کیے اور پوری انسانی زندگی کے لیے ضابطۂ ہدایت کی تکمیل فرمانے لگے۔ کہا جانے لگا، لو! دین کی ایک نئی قسم ایجاد ہوئی ہے! اب وہ معبدوں اور قربان گاہوں سے نکل کر بازار اور کھیت تک، حتی کہ بیت الخلا تک جا پہنچا ہے۔

قَدْ عَلَّمَكُمْ نَبِيُّكُمْ كُلَّ شَيْءٍ حَتَّى الْخَرَاءَة (ترمذی)

آیت نازل ہوئی کہ مردار حرام ہے ( حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ - المائدة : ٣) صرف اس حلال جانور کا گوشت کھاؤ جسے تم نے اللہ کا نام لے کر ذبح کیا ہو۔ (وَلَا تَأْكُلُوا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ الانعام: ۱۲۱) فرمایا گیا، کیا خوب! اللہ کا مارا ہوا تو حرام، مگر اپنا مارا ہوا حلال و طیب!

تحویل قبلہ کا حکم آیا، یہودیوں اور یہودی منافقوں نے آسمان سر پر اٹھا لیا۔ کہنے لگے، یہ ہیں تمہارے نبی جن کا خدا بھی جگہیں بدلتا رہتا ہے! کل تک تو بیت المقدس کی طرف رُخ کرنا ہی دین و ایمان تھا، مگر آج اس کی طرف منھ کر کے نماز پڑھنا کفر ہو گیا۔ یہ من مانی نہیں تو اور کیا ہے؟ ایک ہی بات ماضی میں فرض، اور حال و مستقبل میں حرام مطلق! رائے اور فیصلے کی یہ دورنگی بھی خوب ہے! جب تک ہمیں پھسلا لینے کی توقع رہی، ہمارا قبلہ اپنائے رہے، جب یہ توقع جاتی رہی تو ہمارے قبلے کو بھی دھتا بتا دی اور اپنی قوم (قریش) کے کعبے کی طرف پھر گئے۔

دیگر انبیاء کے دور کی مثالیں

بعض مثالیں دوسری دعوتوں کی بھی لیجیے۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب فرعون کو اور اس کی قوم کے سرداروں کو اللہ کی بندگی کی طرف بلایا اور اپنی نبوت کا ان کے سامنے اعلان کیا تو اس نے لوگوں سے کہا، ان صاحب کی صورت ملاحظہ کرو اور پھر ان کے اس دعوے کو دیکھو کہ وہ میرے ہادی اور مطاع بن کر تشریف لائے ہیں، جس کے پاس مصر جیسی عظیم الشان سلطنت موجود ہے اور جس کے قدموں کے نیچے نعمتیں اگلنے والی نہریں بہہ رہی ہیں...

( لِقَوْمِهِ أَلَيْسَ لِي مُلْكُ مِصْرَ وَهُذِهِ الْأَنْهُرُ تَجْرِي مِنْ تَحْتِي أَفَلَا تُبْصِرُونَ الزخرف : ۵۱)

اور میرے بالمقابل ان بزرگوار کا جو حال ہے وہ بھی کسی پر ڈھکا چھپکا نہیں ہے۔ معاشرے میں اس شخص کا کوئی مقام نہیں، ذاتی صلاحیتوں کی یہ کیفیت ہے کہ ٹھیک طرح دو جملے بھی بول نہیں سکتا۔

(اَمْ أَنَا خَيْرٌ مِنْ هُذَا الَّذِي هُوَ مَهِينٌ وَلَا يَكَادُ يُبِينُ الزخرف: ۵۲)

اور پھر اس شخص کی نمک حرامی کا حال تو دیکھو جو ہماری روٹیوں پر پلا بڑھا اور جوان ہوا۔ اب وہی آکر ہمیں اپنی اطاعت کا حکم دے رہا ہے

(اَلَمْ نُرَبِّكَ فِينَا وَلِيدًا الخ - الشعراء : ١٨)

اور ڈھٹائی اور اخلاقی بے حسی کا یہ عالم ہے کہ ذرا یہ بھی نہ سوچا کہ میری پچھلی زندگی کیسے عظیم کارنامے سے تابناک ہے! جس کے ہاتھ ایک بے گناہ کے خون سے سرخ ہو رہے ہوں، اسی پر تو ربِ کائنات کی نظرِ انتخاب پڑنی چاہیے تھی!

( وَ فَعَلْتَ فَعْلَتَكَ الَّتِي فَعَلْتَ الشعراء : ١٩)

پھر جب یہ دعوت جڑ پکڑنے لگی اور بنی اسرائیل مجموعی حیثیت سے اس کے گرد اکٹھے ہونے لگے تو فرعون اور اس کے درباریوں نے کہنا شروع کیا کہ ان فتنہ پردازوں کی اصل غرض تو اپنا اور اپنی قوم کا اقتدار حاصل کرنا ہے لیکن اس پر پردہ ڈالنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں نام اللہ کا اور کسی نام نہاد دینِ حق کا۔

عیسیٰ علیہ السلام جب اللہ کے رسول کی حیثیت میں لوگوں کے سامنے آئے تو ان کی دعوت کو بھی ناقابلِ اعتنا ٹھیرا دینے کے لیے وہی چلتی ہوئی بات کہی جاتی رہی کہ اس شخص کی معاشرے میں پوزیشن ہی کیا ہے؟ اس کی یہ حالت خود اس کے دعوائے نبوت کی سب سے بڑی تردید ہے:

وہ حیران ہو کر کہنے لگے اس میں یہ حکمت اور معجزے کہاں سے آئے؟ کیا یہ بڑھئی کا بیٹا نہیں؟ اور اس کی ماں کا نام مریم اور اس کے بھائی یعقوب اور یوسف اور شمعون اور یہوداہ نہیں؟ اور کیا اس کی سب بہنیں ہمارے یہاں نہیں؟ پھر یہ سب اس کے اندر کہاں سے آیا؟“ (متی باب ۱۳)

آپ نے لوگوں کے دلوں سے رسوم پرستی کا زنگ کھرچنے اور ان میں حقیقی دین داری کی روح پیدا کرنے کی کوشش کی تو فریسیوں اور فقیہوں نے اسے بزرگوں کی توہین، دوسرے لفظوں میں دین کی توہین ٹھیرایا:

تیرے شاگرد بزرگوں کی روایت کو کیوں ٹال دیتے ہیں کہ کھانا کھاتے وقت ہاتھ نہیں دھوتے۔“ (متی باب ۱۵)

ان حضرات نے دین داری کا جو خود ساختہ اور نمائشی پیمانہ بنا رکھا تھا، حضرت مسیح نے جب اسے توڑ ڈالا تو انھوں نے کہنا شروع کیا:

کیا سبب ہے کہ ہم اور فریسی تو اکثر روزہ رکھتے ہیں اور تیرے شاگرد روزہ نہیں رکھتے۔“ (متی باب ۹)
تیرے شاگرد وہ کام کرتے ہیں جو سبت کے دن کرنا روا نہیں۔“ (متی باب ۱۲)

عوام فریب پروپیگنڈے کا اثر

عوام فریب پروپیگنڈوں کی یہ چند مثالیں ہیں۔ انسانی نفسیات کی روشنی میں ان کی سحر کاریوں کا جائزہ لیجیے اور دیکھیے کہ انھوں نے دعوتِ حق کے معاملے میں سادہ لوح عوام کی قوتِ فیصلہ پر کیسا زبردست شب خون مارا ہوگا؟ ان عوام کی قوتِ فیصلہ پر، جن کی فکری قوتیں عموماً زنگ خوردہ ہوتی ہیں، جو دین داری کے سہل ٹوٹکوں کے عادی ہوتے ہیں، باپ دادا کی عظمت اور تقدس پر شک کرنا جن کی نگاہ میں سب سے بڑا گناہ ہوتا ہے، جو قدامت کے پجاری اور کسی بھی اصلاح و انقلاب کے دشمن ہوتے ہیں۔ اور پھر اس کا بھی اندازہ کیجیے کہ نبی اور اس کے ساتھیوں کے دلوں پر کیا بیت جاتی ہو گی جب وہ دیکھتے ہوں گے کہ ان کی گھنٹوں، دنوں اور مہینوں کی دعوتی کوششوں کا حاصل بس ایک چلتے ہوئے فقرے کی نذر ہو کر رہ گیا؟ کیا ان کے دل ٹوٹ ٹوٹ نہ جاتے ہوں گے؟ مگر اللہ تعالیٰ کی ہدایت یہاں بھی یہی تھی کہ صبر کرو اور اپنا کام کیے جاؤ۔ اگر دعوتِ حق سے تمہیں دلی لگاؤ ہے اور چاہتے ہو کہ دوسرے بھی اسے قبول کر لیں تو اس لگاؤ کا تقاضا یہ نہیں ہے کہ ان غوغا آرائیوں سے بددل ہو کر بیٹھ جاؤ۔ تمہارا فرض تو اس پیغام کو دوسروں تک بس پہنچا دینا ہے، ان کے دلوں میں اتار دینا نہیں ہے۔ وہ تمہارے ظاہری حالات کو اپنے پروپیگنڈے کے لیے عموماً جو استعمال کرتے رہتے ہیں تو اس پر بھی تمہیں ملول نہ ہونا چاہیے۔ یہاں دراصل تم دونوں ہی گروہوں کی آزمائش ہو رہی ہے۔ تمہارے یہ حالات ان منکرینِ حق کے لیے آزمائش کا ایک ذریعہ ہیں اور ان کے یہ ڈنک تمہارے لیے آزمائش کا ذریعہ ہیں۔ (وَجَعَلْنَا بَعْضَكُمْ لِبَعْضٍ فِتْنَةً) اس لیے تمہیں صبر و استقلال سے کام لینے میں کمزور نہ پڑنا چاہیے... (اَتَصْبِرُونَ الفرقان : ۲۰)

ایمانی آزمائشوں کی صورتیں

اپنے مولائے کارساز کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے جب حق کے داعی اس پروپیگنڈائی وار کو بھی خالی دے دیتے ہیں اور اس صورت حال کو پورے صبر و سکون سے برداشت کرتے ہوئے اپنی دعوت و تذکیر میں برابر لگے رہتے ہیں تو پروپیگنڈوں کا دھواں بھی آہستہ آہستہ چھٹنے ہی لگتا ہے اور اصل حقیقت روشنی میں آنے لگتی ہے۔ اس وقت وہ لوگ اس کی طرف یکے بعد دیگرے تیزی سے کھنچنے لگتے ہیں جن کے دلوں میں کوئی ٹیڑھ نہیں ہوتی اور جن کا معاشرے کے موجودہ نظام سے کوئی مفاد وابستہ نہیں ہوتا۔ اپنے پروپیگنڈوں کے جھاگ کو یوں بیٹھتے دیکھ کر دینِ حق کے دشمنوں کا جوشِ مخالفت اور بھڑک اٹھتا ہے اور اب مذبوحی حرکتیں شروع ہو جاتی ہیں۔ بہتانوں، افترا پردازیوں حتی کہ سیاسی اور مذہبی گالیوں کا بازار گرم ہو جاتا ہے اور دل آزاری کا کوئی ممکن طریقہ آزمائے جانے سے چھٹتا نہیں۔ ایمان کے لازمی آزمائشی مرحلوں میں سے یہی وہ مرحلہ ہے جس سے اس آیت نے اسلام کے اولین علم برداروں کو مطلع اور خبردار کیا تھا:

(۳) دل آزاریاں

وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَبَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَ مِنَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا أَذًى كَثِيرًا (آل عمران : ۱۸۶)

ترجمہ: ”تمہیں ان لوگوں سے بھی جنھیں تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی اور ان سے بھی، جو مشرک ہیں، بہت سی تکلیف دہ باتیں سننی پڑیں گی۔

آیت کریمہ کے الفاظ سے دل آزاریوں کی اس شدید مہم کا پورا پورا تصور کر لیجیے جو نبی اور اصحابِ نبی کے خلاف چلائی گئی تھی۔ ان لفظوں میں صرف یہی نہیں بتایا گیا ہے کہ تم مسلمانوں کو ایمان لانے کے جرم میں بُرا بھلا کہا جائے گا، بلکہ ساتھ ہی ایک اور تلخ حقیقت سے باخبر کیا گیا ہے۔ فرمایا گیا ہے کہ وہ کفار و مشرکین ہی تمہیں کچوکے نہیں لگائیں گے جو توحید، آخرت، رسالت، غرض تمہاری دعوت کی ایک ایک بنیاد سے یکسر ناواقف رہے ہیں، بلکہ اس کارِ خیر میں وہ لوگ بھی ان کے برابر کے شریک رہیں گے جو تم سے خوب واقف ہیں، جو تمہاری دعوت کو یکسر حق سمجھتے ہیں، جن کی نگاہوں میں قرآن کی صداقت ایسی ہی روشن ہے جیسے دوپہر کا سورج، جو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو اللہ کا نبی، موعود و مطلوب نبی اسی طرح جانتے پہچانتے ہیں جس طرح کوئی سینکڑوں کے مجمع میں اپنے بیٹے کو پہچان لیا کرتا ہے...

( يَعْرِفُونَهُ كَمَا يَعْرِفُونَ ابْنَاءهُمُ البقرہ : ۱۴۶)

جو توحید و آخرت سے واقف، وحی و رسالت سے واقف، ایمان و اسلام سے واقف، دین و خدا پرستی سے واقف، قرآن و نبی آخر الزماں سے واقف، تم سے اور تمہاری دعوت، سب سے واقف ہیں۔ مگر یاد رکھو ان سب واقفیتوں کے باوجود وہ تمہارے حق میں سب سے بڑے ناواقف ثابت ہوں گے۔ وہ مشرکوں، کافروں اور دہریوں تک کو برداشت کر لیں گے مگر تمہیں برداشت نہ کریں گے۔ وہ ان کے کفر و شرک اور الحاد کو تمہارے ایمان و اسلام پر ترجیح دیں گے۔ وہ کہیں گے کہ تم ”نام نہاد اہلِ ایمان“ سے تو یہ اہلِ کفر ہی زیادہ اچھے اور ہدایت شناس ہیں

( يَقُولُونَ لِلَّذِينَ كَفَرُوا هَؤُلَاءِ أَهْدًى مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا سَبِيلًا النساء:۵۱)

کفار و مشرکین تو زیادہ سے زیادہ یہ کریں گے کہ تمہیں احمق اور دیوانہ ٹھیرائیں گے، تمہارے نبی کو شاعر اور مجنوں، ساحر اور کاہن کہیں گے، اپنی آنکھوں سے طنز اور حقارت بھرے اشارے کریں گے اور کچھ بھبتیاں کسیں گے، مگر یہ اہلِ کتاب، یہ تورات اور انجیل کے علماء و مشائخ لمبے لمبے چغے زیب تن کیے اور بڑی بڑی تسبیحیں لڑکائے آئیں گے اور اللہ کے نام پر اور اس کے احکام کی سند کے ساتھ تمہاری گم راہی کا فتویٰ صادر فرمائیں گے، تمہیں جاہل ٹھیرائیں گے، تمہارے پیغمبر تک کو خود غرض، مفاد پرست، کان کا کچا ('اُذن') اور ایک معمولی گڈریا ('راعینا') کہیں گے۔ ارشاد ہوگا کہ خدا کی شان! اب اسماعیلی امیوں، دوسرے لفظوں میں اجڈ گنواروں اور اچھوتوں کا یہ گروہ بھی دینی پیشوائی کا خواب دیکھ رہا ہے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ اگرچہ دل آزاری سے انسان متاثر ہوتا ہے، مگر وہ دل آزاری جو ”اپنوں“ اور واقف کاروں کی طرف سے ہوتی ہے، دلوں کو خون کر دیتی ہے اور ان کے ہاتھوں سے پھینک مارا ہوا ایک پھول بھی سینے میں جو گھاؤ ڈال دیتا ہے وہ غیروں اور ناواقفوں کا پتھر بھی نہیں ڈال سکتا، اس لیے ان واقف کار اہلِ کتاب کی دل آزاریاں اہلِ اسلام کو جیسی کچھ اذیت دیتی رہی ہوں گی اس کا آسانی سے اندازہ بھی نہیں کیا جاسکتا۔

ان تمام دل خراشیوں کے جواب میں، جو خواہ کسی غیر اور ناواقف کی طرف سے پہنچائی جا رہی ہوں یا کسی ”اپنے“ اور واقف کی طرف سے، اہلِ ایمان کو جو رویہ اختیار کرنے کا حکم ہوا وہ حسبِ توقع یہی تھا کہ مخالفوں کے اس وار کو بھی خالی دے دو اور صبر و سکون سے اپنا فرضِ منصبی پورا کرتے رہو۔ یہ نہ دیکھو کہ کون کیا کر رہا ہے۔ یہی عزیمتِ ایمانی کا تقاضا ہے۔

(وَ إِنْ تَصْبِرُوا وَ تَتَّقُوا فَإِنَّ ذَلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ آل عمران : ۱۸۶ )

(۴) جان و مال کا نقصان

ان ذلیل حرکتوں سے بھی دعوتِ حق کے آگے جب کوئی بند نہیں بندھ پاتا تو اس کے بعد مخالفت کا زور اور بڑھ چلتا ہے اور جوشِ عناد، جنون کی حدیں چھونے لگتا ہے۔ نوکِ زبان کی بجائے نوکِ شمشیر سے گفتگو شروع ہو جاتی ہے اور ایمانی آزمائشوں کا آخری دور آ جاتا ہے۔ یوں کہیے کہ سنتِ الہی اپنا سب سے بڑا مطالبہ سامنے رکھ دیتی اور کہتی ہے کہ آؤ، اب وقت آ گیا ہے کہ دین سے تعلق کی استواری کا ایک اور ثبوت مہیا کرو، آخری اور انتہائی ثبوت۔ یعنی اپنے مالی اور جانی مفادوں سے یک قلم دست بردار ہو جاؤ۔ چوں کہ تم نے اللہ کی بندگی کا دعویٰ کیا ہے اور اس کی رضا کے لیے سب کچھ قربان کر دینے کا قول دیا ہے، اس لیے وہ دیکھنا چاہتا ہے کہ آیا واقعی تم اپنے دعوے کے سچے اور قول کے پکے ہو؟ اس غرض کے لیے اب وہ ایسے حالات پیدا کر رہا ہے جن میں تمہاری کھیتیاں تباہ ہو جائیں گی، تمہاری تجارتیں ٹھپ پڑ جائیں گی، تمہاری جائدادوں کو نقصان پہنچے گا۔ اپنے دین کی حفاظت و نصرت کے لیے وہ تم سے اپنی گاڑھی کمائی خرچ کر دینے کو کہے گا اور تمہیں کسی داد و تحسین یا نام و نمود کی خواہش کے بغیر اپنی پونجیاں نثار کر دینی پڑیں گی۔ اور پھر آخر میں تم سے وہ تمہاری گردنیں بھی طلب کرے گا، جنھیں راہِ حق میں پیش کر کے تمہیں اپنے ایمان کی آخری شہادت بھی دینی ہوگی۔ چناں چہ ان حالات اور مطالبات کے عملاً پیش آنے سے پہلے ہی اہلِ ایمان کو صاف و صریح لفظوں میں باخبر کر دیا گیا تھا:

لَتُبْلَونَ فِي أَمْوَالِكُمْ وَ انْفُسِكُمْ (آل عمران : ۱۸۶)

ترجمہ: ”تم کو ضرور بالضرور مال اور جان کی آزمائشوں میں ڈالا جائے گا۔

یوں نہیں فرمایا گیا کہ اگر تم پر جانی اور مالی مصیبتیں آپڑیں تو صبر کرنا، بلکہ اس طرح کہا گیا ہے کہ یہ مصیبتیں تم پر لازماً پڑیں گی۔ پڑیں گی بھی نہیں بلکہ لازماً ڈالی جائیں گی۔ اور ڈالنے والا کوئی دوسرا نہ ہوگا بلکہ خود اللہ تعالیٰ ہی ہوگا جیسا کہ سورہ بقرہ کی آیت (وَلَنَبْلُوَنَّكُمُ الخ) صراحت کرتی ہے۔

اس آزمائش کا جس طرح عملی ظہور ہوا اس کی وضاحت کسی بیان کی محتاج نہیں۔ اسی سخت آزمائش سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے حواریوں کو خبردار کیا تھا، جب یہ فرمایا تھا کہ:

دیکھو میں تم کو بھیجتا ہوں گویا بھیڑوں کو بھیڑیوں کے بیچ میں... وہ تم کو عدالتوں کے حوالے کریں گے اور اپنے عبادت خانوں میں تم کو کوڑے ماریں گے اور تم میرے سبب حاکموں اور بادشاہوں کے سامنے حاضر کیے جاؤ گے... بھائی بھائی کو قتل کے لیے حوالے کرے گا اور بیٹے کو باپ اور بیٹے اپنے ماں باپ کے برخلاف کھڑے ہو کر مروا ڈالیں گے اور میرے نام کے باعث سب لوگ تم سے عداوت رکھیں گے۔ مگر جو آخر تک برداشت کرے گا وہی نجات پائے گا۔“ (متی باب ۱۰)

اور اسی لیے انھوں نے پوری صراحت اور پورے زور کے ساتھ اعلان کر دیا تھا کہ:

جو کوئی اپنی صلیب نہ اٹھائے اور میرے پیچھے نہ چلے وہ میرے لائق نہیں۔“ (ایضاً)

(۵) سیاسی شر انگیزیاں

جب اہلِ باطل، حق اور اہلِ حق کی دشمنی ہی کو اپنا دین و ایمان بنا لیتے ہیں تو وہ ان کے خلاف صرف اپنی ہی قوتیں جھونک نہیں دیتے بلکہ پوری کوشش کرتے ہیں کہ وقت کے سیاسی اقتدار کو بھی بھڑکا دیں اور انہیں دبوچ لینے پر اسے آمادہ کر دیں۔ اس غرض کے لیے وہ ہر طرح سے ان کے کان بھرتے ہیں اور کسی ایسی شرانگیزی سے باز نہیں آتے جو شیطان انہیں سمجھا سکتا ہو۔ اس کی دو مشہور تاریخی مثالیں سنیے:

(۱) ہجرت مدینہ سے دو سال پہلے کی بات ہے۔ صحابہ کا ایک گروہ کفارِ مکہ کے مظالم سے تنگ آ کر حبشہ ہجرت کر جاتا ہے اور وہاں کے عیسائی بادشاہ، نجاشی کی حکومت میں امن و سکون کے سانس لیتا ہے۔ مکے کے سردار اپنے دو ڈپلومیٹوں (عمرو بن العاص اور عبداللہ بن ربیعہ) کا ایک وفد بھیجتے ہیں، جو شاہی دربار میں حاضر ہو کر درخواست کرتا ہے کہ ”ہمارے بھاگے ہوئے کچھ احمق لونڈے، دوسرے لفظوں میں ہمارے قومی مجرم، آپ کے ملک میں آ کر پناہ گزیں ہو گئے ہیں، انہیں ہمارے حوالے کر دیا جائے۔“ لیکن نیک دل اور منصف مزاج بادشاہ تحقیقِ حال کے بعد یہ مطالبہ منظور کرنے سے انکار کر دیتا ہے۔ وفد اس وقت تو خاموش ہو کر دربار سے نکل آتا ہے، مگر دوسرے دن دربار میں پھر حاضر ہوتا ہے اور نجاشی سے کہتا ہے ”عزت مآب! یہ لوگ حضرت عیسیٰ کے بارے میں ایک بڑی بھاری بات (قَوْلًا عَظِيمًا) کہتے ہیں، اس لیے انہیں بلا کر دریافت فرمائیں کہ آں جناب کے بارے میں ان لوگوں کا کیا عقیدہ ہے؟“ بادشاہ مسلمانوں کو بلا بھیجتا ہے اور ان کے سامنے یہ سوال رکھ دیتا ہے اور وہ قدرتاً ایک سخت نازک صورتِ حال سے دوچار ہو جاتے ہیں۔ وفد سانس روکے اپنے اس کاری داؤ کا حاصل دیکھنے کے لیے سراپا شوق و انتظار بن جاتا ہے۔ اسے امید ہے کہ عیسیٰ کو خدا کا بیٹا کہنے کے بجائے ان مسلمانوں نے انہیں ”عبداللہ و رسولہ“ (اللہ کا بندہ اور اس کا رسول) کہا نہیں کہ حامیِ دینِ مسیح نجاشی اپنے مقتدا کی اس کھلی توہین پر آگ بگولہ ہو جائے گا اور ان کی اس گستاخی کی کم سے کم یہ سزا تو ضرور ہی دے دے گا کہ انہیں ہمارے حوالے کر دے۔ ان کا ایسی توقع رکھنا کچھ بے جا بھی نہ تھا، کیوں کہ یہ نفسیاتی تدبیر تھی ہی کچھ ایسی ہی کارگر۔ یہ دوسری بات ہے کہ اللہ کی مشیت نے اسے کامیاب نہ ہونے دیا اور جب ان مہاجروں کے ترجمان حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ نے اس سوال کے جواب میں یہ کہا کہ ”ہم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کا بندہ، اس کا رسول، اس کا روح اور اس کا کلمہ مانتے ہیں“ تو نجاشی نے زمین سے ایک چھوٹی سی لکڑی اٹھائی اور کہا: ”خدا کی قسم، عیسیٰ اس سے اس تنکے کے بقدر بھی زیادہ نہ تھے۔“ (سیرت ابن ہشام، جلد اول، ص: ۳۶۰)

(۲) حضرت مسیح علیہ السلام کی دعوت کے خلاف بھی دشمنانِ حق نے ایک ایسی ہی خطرناک شرانگیزی کی تھی۔ انھوں نے ملک کے حکمراں (قیصر) کو یہ اشتعال دلانے کی ایک زبردست مہم چلائی کہ وہ اس کے باغی ہیں، اس کی حکم رانی کو تسلیم نہیں کرتے۔ اس مہم کا ابتدائی حصہ یہ تھا:

انھوں نے اپنے شاگردوں کو ہیرودیوں کے ساتھ اس کے پاس بھیجا اور انہوں نے کہا: اے استاد! ہم جانتے ہیں کہ تو سچا ہے اور سچائی سے خدا کی راہ کی تعلیم دیتا ہے اور کسی کی پروا نہیں کرتا، کیوں کہ تو کسی کا طرف دار نہیں۔ پس ہمیں بتا، تو کیا سمجھتا ہے؟ قیصر کو جزیہ دینا روا ہے یا نہیں؟“ (متی باب ۲۲)

اگرچہ اس فتنہ انگیز سوال کا نہایت حکیمانہ جواب دے کر اس وقت حضرت مسیح نے انہیں خاموش کر دیا۔ مگر وہ نچلے بیٹھنے والے کب تھے۔ وہ اپنی اس اسکیم کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے برابر کوششیں کرتے رہے اور سرکار دربار تک یہ ”خبر“ برابر پہنچاتے رہے کہ مسیح اپنے کو یہودیوں کا بادشاہ کہتا ہے۔ آخر کار ان کی یہی کوششیں حضرت کو پیلاطس حاکم کی عدالت میں مجرموں کے کٹہرے تک لے گئیں! اور وہاں سے ان کے حق میں پھانسی کا حکم نامہ لے کر رہیں جس پر اگر عمل درآمد نہیں ہوا تو قدرت کی ایک غیر معمولی مداخلت ہی کی وجہ سے نہیں ہوا، ورنہ ظاہری اسباب تو اس خونِ ناحق کے ایک ایک کر کے پورے ہو چکے تھے۔

(۶) رشتوں کی قربانی

یہ سب آزمائشیں تو وہ تھیں جن کا تعلق خارج سے ہے۔ یعنی جو مخالفینِ اسلام کی طرف سے پیش آتی ہیں۔ ان کے علاوہ اہلِ ایمان کو ایسی آزمائشوں سے بھی دوچار ہونا پڑتا ہے جن کا تعلق خارج سے نہیں بلکہ داخل سے ہوتا ہے اور جو مخالفینِ اسلام کی طرف سے نہیں بلکہ احکامِ اسلام کی طرف سے پیش آتی ہیں۔ ان میں سے ایک آزمائش مادی تعلقات اور خونی رشتوں کی قربانی ہے۔

دین کا مزاج ہی نہیں، بلکہ اس کا صریح ارشاد ہے کہ اس کا دشمن اس کے ”دوستوں“ کا بھی دشمن ہوتا ہے اور اس کے دوستوں کا فرض ہے کہ وہ بھی اسے اپنا دشمن ہی سمجھیں اور اسے اپنے دل میں ہرگز جگہ نہ دیں، خواہ ایک نہیں دس مادی رشتے اب تک انہیں اس سے باندھے رہے ہوں:

يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا آبَاءَكُمْ وَ إِخْوَانَكُمْ أَوْلِيَاءَ إِنِ اسْتَحَبُّوا الْكُفْرَ عَلَى الْإِيْمَانِ وَ مَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّلِمُونَ (التوبه : ۲۳)

ترجمہ: ”اے ایمان والو! اگر تمہارے باپ بھائی ایمان پر کفر کو ترجیح دیں تو انہیں اپنا رفیق نہ بناؤ۔ تم میں سے جو لوگ انہیں اپنا رفیق بنائیں گے وہ ظالم ہوں گے۔

یہ چیز دین میں اتنی بڑی اہمیت رکھتی ہے کہ قرآن مجید نے صرف اس کا حکم ہی نہیں دیا ہے، بلکہ وہ اس کے خلاف صورتِ حال کو کبھی واقع ہونے والی صورتِ حال ہی نہیں سمجھتا، وہ لب و لہجہ کی پوری مضبوطی کے ساتھ کہتا ہے کہ:

لَا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آبَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْ (المجادله : ۲۲)

ترجمہ: ”تم نہ پاؤ گے ایسے کسی گروہ کو جو اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو کہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے دشمنی رکھنے والوں کو دوست رکھتا ہو، خواہ وہ اس کے باپ یا بیٹے یا بھائی، یا اہلِ خاندان ہی کیوں نہ ہوں۔

دشمنانِ دین سے جس قدر دلی بے تعلقی ہونی چاہیے اس کا اندازہ حضرت حاطب بن ابی بلتعہ کے واقعے سے لگائیے۔ جب قریشِ مکہ نے صلح حدیبیہ کو توڑ ڈالا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ پر قبضہ کرنے کے لیے فوجی تیاری شروع کر دی اور اس امر کی ہدایات جاری کر دیں کہ اس تیاری اور فوجی نقل و حرکت کی خبریں بالکل خفیہ رکھی جائیں تاکہ قریش کو چوکنے ہو کر تیاریاں کر لینے کا موقع نہ مل سکے اور بغیر کسی خون خرابے کے مکہ فتح ہو جائے۔ حضرت حاطب بن ابی بلتعہ اگرچہ خود مدینے میں تھے مگر ان کے اہل و عیال مکہ ہی میں تھے۔ انہیں قدرتی طور پر اس بات سے تشویش ہوئی کہ جنگ چھڑ جانے کے بعد مکے کے کفار ان کے ساتھ بُرا سلوک کریں گے۔ اس لیے انہیں اس سلوک سے محفوظ رکھنے کی توقع میں انھوں نے ایک خط بھیج کر قریش کو اس حملے کی اطلاع دے دینی چاہی، تاکہ وہ ان کے احسان مند ہو جائیں اور بدلے میں ان کے اہل و عیال کے ساتھ عمدہ طریقے سے پیش آئیں۔ اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعہ اس خط کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر کر دی۔ اس لیے خط تو راستے ہی میں پکڑ لیا گیا لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ تنبیہ نازل ہوئی:

يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّى وَ عَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ تُلْقُونَ إِلَيْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ وَقَدْ كَفَرُوا بِمَا جَاءَكُمْ مِنَ الْحَقِّ ... تُسِرُّونَ إِلَيْهِمُ بِالْمَوَدَّةِ ... وَ مَنْ يَفْعَلُهُ مِنْكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِيلِ (الممتحنه: ١)

ترجمہ: ”اے ایمان والو! میرے اور اپنے دشمنوں کو اپنا رفیق نہ بناؤ۔ تم انہیں اپنی محبت کا پیغام بھیجتے ہو، حالاں کہ وہ اس حق کا انکار کر چکے ہیں جو تمہارے پاس آیا ہے۔ تم ان کو چھپا کر دوستی کا پیغام بھیجتے ہو... اور (یاد رکھو) تم میں سے جو کوئی ایسا کرے گا تو یقیناً وہ راہِ راست چھوڑ بیٹھے گا۔

بدر کے میدان میں یہ آزمائش اپنے شباب پر پہنچ گئی تھی، جب کہ باپ کے مقابلے میں بیٹا، چچا کے مقابلے میں بھتیجا اور ماموں کے مقابلے میں بھانجا صف آرا تھا، اور مسلمانوں نے اپنے عمل سے ثابت کر دیا کہ وہ اس آزمائش میں بھی پورے اترنے والے ہیں۔ پھر جب لڑائی ختم ہو گئی اور ستر کفار قیدی بنا کر لائے گئے تو ان کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے مشورہ لیا کہ ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے یہاں تک ہوئی کہ انہیں قتل کر دیا جائے اور قتل بھی ان کے اپنے اپنے مسلمان رشتہ دار کریں۔ یہ تھا صحیح ایمانی مزاج کا مظاہرہ۔

اسی ایمانی مزاج سے اپنے حواریوں کو روشناس کرایا تھا، جب حضرت مسیح نے فرمایا تھا کہ:

یہ نہ سمجھو کہ میں زمین پر صلح کرانے آیا ہوں۔ صلح کرانے نہیں بلکہ تلوار چلوانے آیا ہوں۔ کیوں کہ میں اس لیے آیا ہوں کہ آدمی کو اس کے باپ سے اور بیٹی کو اس کی ماں سے اور بہو کو اس کی ساس سے جدا کر دوں اور آدمی کے دشمن اس کے گھر ہی کے لوگ ہوں گے۔ جو کوئی باپ یا ماں کو مجھ سے زیادہ عزیز رکھتا ہے وہ میرے لائق نہیں... الخ“ (متی، باب ۱۰)

(۷) محبوب رجحانات سے دست برداری

اسی طرح داخلی آزمائش جو اعدائے دین کی نہیں، بلکہ احکامِ دین کی طرف سے پیش آتی ہے، ایک اور بھی ہے۔ یہ انسان کے اپنے بعض محبوب رجحانات سے دست بردار ہو جانے کی آزمائش ہے۔

اس اجمال کی شرح یہ ہے کہ ہر انسان کے کچھ مخصوص میلانات ہوتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر تو قومی روایات اور ملی رسوم کی پیداوار ہوتے ہیں اور کچھ اس کی ذاتی افتادِ طبع کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ ان تصورات اور میلانات سے انسان کو بڑی گہری وابستگی ہوتی ہے، ایسی گہری وابستگی جیسی کہ گوشت اور ناخن میں پائی جاتی ہے۔ حق کو قبول کر کے اس کی قربان گاہ پر جہاں اور سب کچھ نثار کرنا ہوتا ہے، وہاں ان محبوب تصورات اور میلانات میں سے بھی کتنوں ہی کی بھینٹ دینی پڑتی ہے۔ مثال کے طور پر قبلہ کا معاملہ لے لیجیے۔ ابتدائے اسلام میں کچھ مدت تک مسلمانوں کا بھی قبلہ بیت المقدس ہی رہا۔ پھر ہجرت کے دوسرے سال خانہ کعبہ کو قبلہ بنانے کا حکم آگیا۔ اور عام مسلمانوں نے خوشی خوشی اپنے رُخ کعبے کی طرف کر لیے۔ مگر ساتھ ہی کچھ ایسے لوگ بھی نکلے جن کے لیے یہ حادثہ برداشت سے باہر ثابت ہوا۔ یہ وہ لوگ تھے جو یہودی قوم سے تعلق رکھتے تھے اور پوری یکسوئی اور اخلاص سے مسلمان نہیں ہوئے تھے اور جن کو دائرۂ اسلام میں داخل کرانے والے دوسرے محرکات میں سے ایک چیز یہ قبلے کی وحدت بھی تھی۔ وہ یہ سوچ کر مطمئن تھے کہ ہمارا قبلہ نہیں چھوٹ رہا ہے، بلکہ یہ جدید امت بھی اسی مرکز پر جمع ہو رہی ہے۔ اس لیے مسلمان بن جانے کے باوجود ہم یہودیت سے بھی کچھ ایسے دور نہیں ہو رہے ہیں۔ اس ذہنی کیفیت کی موجودگی میں قبلے کی تبدیلی کے حکم سے ان نام نہاد مومنوں کے ”ایمان“ کے نازک آبگینے کو ٹکڑے ٹکڑے ہو جانا ہی چاہیے تھا اور ایسا ہی ہوا۔ ان کا دل اس پر بالکل آمادہ نہ ہو سکا کہ اس بیت المقدس کی طرف آج سے رُخ کرنا چھوڑ دیں جو صدیوں سے ان کا مرکزِ اجتماع رہا ہے، جس سے ان کی پوری قومی تاریخ وابستہ ہے، جس کی عقیدت ان کے دل و دماغ کے ریشے ریشے میں پیوست ہے، جو ان کی قدیم ملت کی انتہائی محبوب یادگار ہے اور جو ان سارے وجوہ کی بنا پر ان کے لیے اپنے اندر بہت کچھ سرمایۂ تسلی رکھتا ہے۔ انجام کار یہ عظیم حادثہ انہیں اسلام سے علانیہ دور پھینک دینے کا سبب بن گیا۔ یہ صورتِ حال قدرتی طور پر عام مسلمانوں کے لیے بڑے رنج اور افسوس کی موجب ہوئی، جن کی جمعیت ابھی چند سو سے بھی آگے نہ بڑھ سکی تھی اور جنھیں اپنے سفر کے ساتھی بڑی ہی جستجوؤں اور کاہشوں کے بعد مل رہے تھے اور وہ بھی ایک ایک دو دو کر کے۔ ایسی حالت میں ایک فرد کا بھی قافلے سے الگ ہو جانا انہیں کیسے گوارا ہو سکتا تھا۔ چناں چہ پاسِ ادب اگرچہ ان کی زبانوں پر تالے چڑھائے ہوئے تھا، مگر اندر ان کا دل رہ رہ کر بارگاہِ الہی میں کچھ عرض پرداز ہو ہی جایا کرتا تھا۔ وہ کہنا چاہتا تھا کہ کاش کعبہ پہلے ہی دن سے قبلہ قرار پاچکا ہوتا تو آج یہ صورتِ حال پیش نہ آتی، اور یہ لوگ اس صدمے کی تاب نہ لاکر ہم سے یوں نہ کٹ جاتے۔ اس عرضِ خاموش کے جواب میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَ مَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِي كُنْتَ عَلَيْهَا إِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ يَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّنْ يَنْقَلِبُ عَلَى عَقِبَيْهِ وَ إِنْ كَانَتْ لَكَبِيرَةً إِلَّا عَلَى الَّذِينَ هَدَى اللهُ وَ مَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيْمَانَكُمْ إِنَّ اللَّهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوفٌ رَّحِيمٌ (البقره: ۱۴۳)

ترجمہ: ”جس قبلہ پر تم (اب تک) تھے، ہم نے اس کو (آج تک کے لیے) اسی لیے قبلہ بنایا تھا تاکہ (وقت پر) معلوم ہو جائے کہ کون رسول کی (سچی) پیروی کرتا ہے اور کون اپنے دعوے میں خام کار ہے اور (آزمائش میں پڑ کر) الٹے پاؤں پھر جاتا ہے۔ یقیناً ان لوگوں کے سوا جنھیں اللہ تعالیٰ نے ہدایت عطا فرما رکھی ہے، اوروں کے لیے یہ (تحویلِ قبلہ کی آزمائش) بڑی ہی شاق تھی۔ مگر (یقین رکھو) اللہ ایسا نہیں ہے کہ وہ تمہارے ایمان کو ضائع کرے۔ وہ تو انسانوں کے حق میں بڑا ہی شفیق اور مہربان ہے۔

اس جواب میں وہ مصلحت بالکل واضح کر دی گئی ہے جس کے پیش نظر خانہ کعبہ شروع ہی سے قبلہ قرار نہیں دیا گیا تھا اور یہ مصلحت صرف ابتلاء کی مصلحت تھی۔ اللہ تعالیٰ اگر چاہتا تو کعبہ کو اوّل روز ہی قبلہ بنانے کا حکم دے دیتا۔ مگر اس نے ایک خاص مدت تک اس کو ملتوی رکھا، تاکہ وقت پر اس سے ایک اہم دینی مصلحت پوری ہو، وہ ایمان کے دعووں کے لیے ایک کسوٹی بن جائے اور اس کے ذریعہ یہ کھل کر سامنے آجائے کہ کون اپنے اندر ایمان کا سچا جوہر رکھتا ہے اور کون اس سے بے بہرہ ہے؟ کون قرآن اور صاحبِ قرآن کی بلا قید و شرط پیروی کرتا ہے اور کس کے اندر انکار و سرتابی کے جراثیم چھپے ہوئے ہیں؟ کون ہے جو رضائے الہی کے لیے اپنی ایک ایک خواہش اور پسند کو قربان کر سکتا ہے اور کون ہے جو اس طرح اپنے آپ کو حوالے کر دینے کے لیے تیار نہیں؟ اور کسی حکمِ شرعی پر عمل کرنے کے لیے ضروری سمجھتا ہے کہ پہلے اس کے اپنے مخصوص رجحانات اور جذبات کی طرف سے اس کی اجازت بھی اسے مل گئی ہو؟

اللہ تعالیٰ کی نگاہوں میں صداقتِ ایمانی کی جانچ پرکھ جیسی کچھ دینی اہمیت رکھتی ہے اس کا اندازہ صرف اسی ایک بات سے کر لیا جا سکتا ہے کہ اس کی خاطر اس نے اصل قبلہ کے تقرر کو بھی ایک عرصہ تک ملتوی رکھا۔

ایمانی ابتلاء کی حکمت

یہ ہیں ایمانی ابتلاء کی صورتیں اور تدبیریں، جن کو اللہ تعالیٰ کی سنت اختیار کرتی رہی ہے۔ ان کی ہمہ جہتی نوعیت پر غور کیجیے، تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ آزمائشیں نہیں ہیں بلکہ روحانی ایکسرے کی کوئی کامیاب مشین ہے، جو ہر مدعیِ ایمان کی باطنی کیفیت کا بالکل ٹھیک ٹھیک عکس لے لیتی ہے تاکہ اندر کا کوئی داغ نگاہوں سے چھپا نہ رہ جائے۔ جو سرے سے بناوٹی مسلمان ہوں وہ بالکل بے نقاب ہو کر از خود بتا دیں کہ ہم ایمانی محاذ کے سپاہی نہیں اور جو فی الواقع مسلمان تو ہوں مگر خام مسلمان ہوں ان کو بھی صاف صاف پتہ چل جائے کہ کن کن پہلوؤں سے انہیں اپنی اصلاح کرنی چاہیے۔ یا پھر یوں سمجھیے کہ ان ابتلاؤں کی حیثیت ایک ایسی تیز بھٹی کی ہے جس میں ہر ایمانی دعویٰ پڑ کر پوری طرح تپ اٹھتا ہے۔ اگر وہ جھوٹا ہوتا ہے تو جل کر راکھ بن جاتا ہے، یا سیاہ پڑ جاتا ہے اور دنیا کو صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ اس ”سکہ زریں“ کی صرف شکل اور بیرونی سطح ہی سونے کی طرح چمک رہی تھی، ورنہ حقیقت میں اندر کھوٹ ہی کھوٹ تھا۔ اور اگر وہ خالص ہوتا ہے تو اس بھٹی میں تپ کر اور زیادہ کھرا اور سرخ نکل آتا ہے اور بتا دیتا ہے کہ اندر بھی زرِ خالص ہی تھا جیسا کہ اوپر سے معلوم ہو رہا تھا۔ اور اگر اس میں کچھ تھوڑا بہت کھوٹ شامل ہوتا ہے تو ابتلاؤں کی اس کڑی آنچ میں یہ کھوٹ جل کر یا تو بالکل ختم ہو جاتا ہے اور ایمان کا سکہ معیاری بن جاتا ہے، یا اس میں کم از کم اتنا کھرا پن ضرور آجاتا ہے جس کے بعد اسے فی الجملہ سونے کا سکہ کہہ سکیں، ایسا سکہ جو اللہ کے حضور کوئی قیمت پاسکتا ہو اور جس سے دنیا و آخرت کی سعادتیں خریدی جا سکتی ہوں۔

 

صبر کے سرچشمے

اب، جب کہ دین میں صبر کی اہمیت اور اس کی ضرورت کے یہ سارے پہلو ہمارے سامنے آچکے، یہ جان لینا باقی رہ جاتا ہے کہ صبر کی قوت، یہ بیش قیمت دولت، دین ملتی کہاں سے ہے؟ اور اسے حاصل کرنے کی کیا تدبیریں ہیں؟ اس لیے آئیے اس ضروری مسئلے پر بھی غور کر لیں۔

صبر کی قوت کہاں سے ملتی ہے؟“ اور ”اسے حاصل کرنے کی تدبیریں کیا ہیں؟“ کے لفظوں پر ٹھٹکیے نہیں۔ کیوں کہ اس جگہ جس قوتِ صبر کی گفتگو ہو رہی ہے اس سے اصل مراد جوہرِ استقلال کی صرف وہ مقدار نہیں ہے، جو کم یا زیادہ، ہر شخص کو پیدائشی طور سے عطا ہوئی ہوتی ہے، بلکہ اس سے مراد اس مقدارِ صبر کے علاوہ ثابت قدمی اور مستقل مزاجی کی وہ مخصوص قوت بھی ہے جو اس پیدائشی قوتِ استقلال کے علاوہ ہوتی ہے، جو اپنے آپ ملی نہیں ہوتی بلکہ انسان کو اسے اپنے کسب سے حاصل کرنا ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن ایمانی تقاضوں کے سلسلے میں جس صبر کو مطلوب ٹھیراتا ہے، وہ وہ صبرِ عظیم ہے جس کی دینی جدوجہد میں ضرورت پڑتی ہے اور مشکلات و مصائب میں جس کی آزمائش ہوتی ہے۔ اس صبر میں یقیناً صبر و استقلال کی دونوں ہی قسم کی قوتیں شامل ہیں، وہ بھی جو خلقی طور پر ہر مسلمان کے اندر آپ سے آپ موجود ہوتی ہے اور وہ بھی جو اسلام سے رشتہ جوڑنے کے بعد اسے لازماً حاصل ہونی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ آزمائشوں کے ذریعہ یہ تو دیکھنا ہی چاہتا ہے کہ میں نے بندے کے اندر صبر کی جتنی قوت بالفعل رکھ دی ہے اس سے وہ دین و ایمان کے لیے کہاں تک کام لیتا ہے، اس کے علاوہ وہ یہ بھی دیکھنا چاہتا ہے کہ اس نے اپنے ایمان کے خزانۂ قوت سے صبر و استقلال کی کتنی قوت اپنے اندر پیدا کی ہے اور اسے کس طرح وہ دین کے لیے استعمال کرتا ہے؟ اور زیادہ صحیح بات تو یہ ہے کہ آزمائشوں کے ذریعہ جس ثابت قدمی کو وہ جانچنا چاہتا ہے وہ فی الاصل صبر و استقلال کی یہی کسبی قوت ہے کیوں کہ جو چیز وہبی نوعیت کی ہو اور پیدائشی طور پر ہر شخص کے اندر خود بخود موجود ہو، آزمائش کی اصل چیز وہ نہیں ہوتی اور صرف اسے جانچ کر کسی شخص کے بارے میں یہ اندازہ نہیں لگایا جاسکتا کہ فلاں نصب العین کے ساتھ اسے کتنا لگاؤ ہے جس کے ساتھ کہ وہ لگاؤ رکھنے کا دعویٰ کرتا ہے، بلکہ آزمائش کی اصل چیز وہ ہوتی ہے جس سے بہرہ ور ہونے میں انسان کی اپنی سعی و جہد کا دخل ہو اور صرف اسی کے ذریعہ یہ کھل سکتا ہے کہ کسی صاحبِ ایمان کا اپنے نصب العین سے کتنا تعلق ہے؟ ورنہ جہاں تک صبر کی محض پیدائشی صلاحیت کا تعلق ہے اس کا تو ہر شخص اپنے کاموں میں مظاہرہ کیا ہی کرتا ہے۔ ایک مسلمان نے بھی اپنے دین و ایمان کے لیے اتنی پامردی دکھا دی تو یہ کون سی بات ہوئی؟ اور صرف اتنی سی بات کو یہ اہمیت کیسے دی جاسکتی ہے کہ اسے اس کے ایمان کی سچائی کا قطعی ثبوت قرار دے دیا جائے؟ ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ صبر کی یہ کسبی مقدار بھی وہبی صبر کی مقدار کے تناسب ہی سے ہوتی ہے اور ایک شخص اپنے اندر اس قوت کے پیدا کرنے میں صرف اسی قدر کامیاب ہو سکتا ہے جس قدر کہ اس کی وہبی اور پیدائشی قوتِ صبر اس کی ہم رکابی کر سکے۔

اس وضاحت کے بعد اب اصل مسئلے پر آئیے اور دیکھیے کہ صبر و ثبات کی یہ قوت کہاں سے حاصل کی جاسکتی ہے اور اس کے اصل سرچشمے کیا ہیں؟ اللہ اور اس کے رسول کے ارشادات پر جب ہم اس غرض سے نظر ڈالتے ہیں تو صبر کے تین سرچشمے دکھائی پڑتے ہیں:

(۱) اپنی حیثیت کی صحیح پہچان
(
۲) اجرِ آخرت کا یقین
(
۳) نماز

ان میں سے پہلے دو کا تعلق انسان کی فکر و نظر سے ہے اور تیسرے کا تعلق عمل سے ہے۔

(۱) اپنی حیثیت کی صحیح پہچان

اپنی حیثیت کی صحیح پہچان کا مطلب یہ ہے کہ ایک بندۂ مومن پر اس کا مقام اچھی طرح واضح ہو، وہ جانے کہ خدا کی اس زمین پر وہ کس حیثیت سے موجود ہے؟ اسے یاد رہے کہ اللہ اور اس کے رسول کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر اس نے اپنی کیا پوزیشن قبول کر رکھی ہے؟ اس مقام اور اس حیثیت کی تعیین کے لیے قرآن کی یہ آیتیں بالکل کافی ہوں گی:

إِنَّ اللَّهَ اشْتَرَى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ (التوبہ: ۱۱۱)
ترجمہ: ”بے شک اللہ نے مومنوں سے خرید لیا ہے ان کی جانوں کو اور ان کے مالوں کو جنت کے عوض۔

وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْرِى نَفْسَهُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ (البقرہ: ۲۰۷)
ترجمہ: ”اور لوگوں میں کچھ ایسے ہیں جو اللہ کی خوشنودی کے عوض اپنے کو بیچ ڈالتے ہیں۔

إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ (البقرہ: ۱۵۶)
ترجمہ: ”جب ان (اہلِ ایمان) کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو کہتے ہیں کہ بے شک ہم اللہ کے ہیں اور بلا شبہ ہم اسی کی طرف پلٹ کر جانے والے ہیں۔

معلوم ہوا کہ مومن کی حیثیت یہ قرار پا چکی ہے، نہیں، بلکہ اس نے ایمان لاکر از خود اپنی اس حیثیت کا پختہ اقرار کر رکھا ہے کہ اس کے پاس جو کچھ تھا اس نے وہ سب اللہ کے ہاتھوں بیچ دیا ہے۔ اس کی جان، اس کا مال، اس کی قوتیں، اس کے اوقات، اس کی آرزوئیں، اس کی مسرتیں، غرض، اس کی ایک ایک چیز اللہ کی ہو چکی ہے اور اس وقت اگر اس کے پاس یہ چیزیں موجود ہیں تو اس کی ملک کی حیثیت سے نہیں، بلکہ امانت کی حیثیت سے موجود ہیں۔ خریدنے والے نے اس کے پاس انہیں صرف اس لیے چھوڑ رکھا ہے کہ وہ انہیں چندے حفاظت سے رکھے، ان میں نہ خود اپنی طرف سے کوئی تصرف کرے نہ کسی اور کو کرنے دے اور صرف یہ دیکھتا رہے کہ ان کا خریدنے والا، انہیں اس کے پاس ودیعت رکھ چھوڑنے والا اور ان کا اصل مالک، ان میں سے جو چیز جب بھی طلب کرے پوری دیانت داری سے وہ اسے اس کی خدمت میں حاضر کر دے اور دل میں کھنچنے کے بجائے اس میں ایک اطمینان سا محسوس کرے کہ ایک امانت کا حق ادا ہو گیا اور اس کا ذمہ سر سے اتر گیا، نہ یہ کہ اس طلبی پر دل تنگ ہو، ٹال مٹول کرے اور حقِ امانت ادا بھی کر دے تو اس پر اندر ہی اندر کڑھے، بے چین ہو، ایسا محسوس کرے جیسے اس کی اپنی کوئی چیز چھین لی گئی۔

جو شخص اپنی اس حیثیت کا جتنا ہی زیادہ شناسا ہوگا وہ راہِ حق کی آزمائشوں میں اتنا ہی زیادہ مضبوط اور ثابت قدم رہے گا۔ اس لیے صبر و استقلال کی کیفیت کو تیز تر کرنے کے لیے پہلی ضرورت یہ ہے کہ مومن اپنی ”معرفت“ سے بے گانہ نہ رہے، اپنی حیثیت کو کبھی نہ بھولے اور جو ”معاملہ“ وہ اپنے اللہ کے ساتھ کر چکا ہے ذہن پر اس کی ایک ایک دفعہ نقش رکھے۔

(۲) اجرِ آخرت کا یقین

دوسری چیز جو اس قوت کو پروان چڑھاتی ہے وہ اجرِ آخرت کا یقین ہے۔ اس بات کا یقین کہ یہاں جو کچھ بھی ایمان کی راہ میں لگ رہا ہے ایک دن اس سے کہیں بڑھ کر ملے گا اور بڑھ کر ملنے کا عالم یہ ہے کہ اس دنیا کی ساری نعمتیں کل ملنے والی نعمتوں میں سے ایک نعمت کا بھی پاسنگ نہیں ہو سکتیں۔ پھر وہ نعمتیں، وہ آسائشیں، وہ طمانیتیں اور وہ مسرتیں جو وہاں ملنے والی ہیں وہ کبھی ختم ہونے کی ہیں نہ کبھی چھن جانے کی، مقدار میں اتنی ہوں گی کہ انسان کی آرزوئیں بھی ان کا احاطہ نہیں کر سکتیں، کیفیت میں ایسی ہوں گی کہ اس ناسوتی عالم میں ان جیسی کسی چیز کو آج تک نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہے، نہ کسی کان نے سنا ہے اور نہ کسی ذہن میں اس کا تصور تک آیا ہے۔ اس لیے اس زندگی کے مقابلے میں اس دنیا کی کوئی حیثیت ہی نہیں کہ اس کے مفادات پر اسے ترجیح دی جائے اور اس کی اغراض کو اگر اس کے لیے قربان کرنا پڑے تو اس قربانی کو کوئی گراں سودا سمجھا جائے۔ جس آخرت کے اجر کا یہ حال ہو اس کے لیے اگر زندگی کی ایک ایک چیز دے دینی پڑے تو بھی اس سے زیادہ ارزاں سودے کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔

دراصل یہ کچھ دے دینا ہے ہی نہیں، بلکہ یہ تو پا لینا ہے۔ قرآن مجید ہمیں تاکید فرماتا ہے کہ:

وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاء (البقرہ: ۱۵۴)
ترجمہ: ”جو لوگ خدا کی راہ میں قتل کر دیے جائیں ان کے متعلق یہ نہ کہو کہ وہ مردہ ہیں، نہیں، وہ تو زندہ ہیں۔

یعنی زندگی فی الواقع وہ ہے جو اس دنیوی زندگی کو راہِ خدا میں قربان کر کے حاصل کی جاتی ہے۔ اس لیے اگر زندگی سے محبت ہے تو اس کے واسطے مرنے کے لیے تیار رہو۔

اس باب میں ایک معیاری مسلمان کا جو ذہن ہونا چاہیے اس کی صحیح صحیح عکاسی دیکھنی ہو تو رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے ان ارشادات پر نظر ڈالیے:

(۱) عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا تَعُدُّونَ الرَّقُوبَ فِيكُمْ قَالَ قُلْنَا الَّذِي لَا يُولَدُ لَهُ قَالَ لَيْسَ ذَالِكَ بِالرَّقُوبِ وَلَكِنَّهُ الرَّجُلُ الَّذِي لَمْ يُقَدِّمُ مِّنْ وَّلَدٍ شَيْئًا . (مسلم، جلد ۲)

ترجمہ: عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے پوچھا ”تم لوگ اپنے میں سے کسے رقوب (لا ولد) کہتے ہو؟“ ہم نے عرض کیا ”اسے، جسے کوئی اولاد نہ ہوئی ہو۔“ آپ نے فرمایا ”رقوب ایسا شخص نہیں ہوتا، بلکہ وہ ہوتا ہے جس نے اپنی کوئی اولاد آگے نہ بھیجی ہو۔“ (یعنی اس کی کوئی اولاد مری نہ ہو کہ اس پر اسے صبر کرنے کا آخرت میں اجر ملتا۔)

(۲) عَنْ عَائِشَةٌ أَنَّهُمُ ذَبَحُوا شَاةً فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا بَقِيَ مِنْهَا؟ قَالَتْ مَا بَقِيَ مِنْهَا إِلَّا كَتِفُهَا، قَالَ بَقِيَ كُلُّهَا غَيْرَ كَتِفِهَا . (ترمذی به حواله ریاض الصالحین)

ترجمہ: حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ ہمارے یہاں ایک بکری ذبح ہوئی۔ (تھوڑی دیر بعد) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا ”اس کا کتنا حصہ باقی رہ گیا ہے؟“ میں نے عرض کی ”بجز شانے کے (سب صدقہ کر دیا گیا) کچھ باقی نہیں رہ گیا ہے۔“ ارشاد ہوا: ”بجز شانے کے سب باقی ہے۔

غور کیجیے، ان کلماتِ حکمت پر اور ان کے معنوی تقاضوں کی وسعت پر۔ کیا ان کے اندر سے یہ صدا سننے میں نہیں آ رہی ہے کہ اگر آسودہ ہونا چاہتے ہو تو آج کے فقر و فاقے کی پروا نہ کرو، اگر فی الواقع خوش آرامی کے طالب ہو تو راہِ حق کی مصیبتوں اور کلفتوں کو گلے لگاؤ، سچی عزت کی اگر تمنا ہے تو اعدائے دین کی تحقیروں اور اہانتوں کا استقبال کرو، اگر چاہتے ہو کہ کانوں میں میٹھے الفاظ ہی پڑیں تو باطل پرستوں کے طعنوں، بہتانوں اور کچوکوں کا بُرا نہ مناؤ۔ کیوں کہ یہی فقر و فاقہ ہوگا جو کل تمہارے لیے آسودگی بنے گا۔ یہی کلفتیں ہوں گی جو تمہارے لیے مسرت کا ذخیرہ بن کر سامنے آئیں گی۔ یہی اہانتیں ہوں گی جو تمہارے سروں پر عظمت کا تاج بن کر جگمگائیں گی۔ یہی دل آزاریاں ہوں گی جو تمہارے کانوں میں رس گھولیں گی۔

یہی حقیقت تھی جسے حضرت مسیح علیہ السلام نے بھی ان لفظوں میں اپنے حواریوں کو ذہن نشین کرایا تھا:

مبارک ہیں وہ جو راست بازی کے سبب ستائے گئے، کیوں کہ آسمان کی بادشاہی انہی کی ہے۔ جب میرے سبب سے لوگ تم کو لعن طعن کریں گے اور ستائیں گے اور ہر طرح کی باتیں تمہاری نسبت ناحق کہیں گے تو تم مبارک ہوگے۔ خوشی کرنا اور نہایت شادماں ہونا، کیوں کہ آسمان پر تمہارا اجر بڑا ہے۔“ (متی، باب ۵)

جو ذہن دنیا کے مقابلے میں آخرت کو ایسا سمجھتا ہو اور جس دل میں آخرت کے اجر و ثواب کا یہ یقین ہو، وہ دنیا کی چند روزہ زندگی اور اس کے حقیر مفادوں کو اتنی اہمیت ہرگز نہیں دے سکتا کہ ان کے لیے دین کے تقاضوں کو ٹھکرا دے۔ کیوں کہ انسانی نفسیات کا یہ ایک کھلا ہوا راز ہے کہ وہ اعلیٰ کے لیے ادنیٰ کو قربان کرتا رہتا ہے۔ اس لیے جس شخص کے اندر آخرت کا یقین جتنا ہی زیادہ مستحکم ہوگا اور اس کے اجر پر اس کی نگاہیں جتنی ہی زیادہ گہری جمی ہوں گی، آزمائشوں کے مقابلے میں وہ اتنا ہی زیادہ ثابت قدم رہے گا اور دنیا کے مریدوں کو زبانِ حال سے اسی طرح ملامت کرتا رہے گا جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مخلص حواریوں نے خام کاروں کو قارونی شانِ امارت پر اظہارِ حسرت کرتے سن کر انہیں ملامت کی تھی:

وَيْلَكُمْ ثَوَابُ اللهِ خَيْرٌ لِمَنْ آمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا (القصص: ۸۰)
ترجمہ: ”وائے تمہاری خرابی! اللہ کا اجر (کہیں) بہتر ہے (اس دنیا سے) ان کے واسطے جو ایمان لائے اور جنھوں نے اچھے کام کیے۔

اور ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کا یہ ضابطہ اور فیصلہ بھی انہیں سناتا رہے گا کہ:

وَلَا يُلَقَّهَا إِلَّا الصُّبِرُونَ (القصص: ۸۰)
ترجمہ: ”اور اس رویے کی توفیق صرف انہی لوگوں کو ملتی ہے جو صبر کرنے والے ہیں۔

(۳) نماز

قوتِ صبر کا تیسرا اہم سرچشمہ نماز ہے۔ چناں چہ آپ دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید میں جہاں کہیں ابتلائی مصائب اور مشکلات کا ذکر اور ان کے مقابلے میں صبر و ثبات کا مطالبہ ہوتا ہے، وہاں یادِ الہی کی، نماز کی، حمد و تسبیح کی اور دعا و التجا کی تلقین بھی عموماً ضرور ہی موجود ہوتی ہے۔ بہ طور مثال چند آیتیں ملاحظہ ہوں:

فَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ وَ لَا تُطِعْ مِنْهُمْ أَثِمًا أَوْ كَفُورًا وَاذْكُرِ اسْمَ رَبِّكَ بُكْرَةً وَأَصِيلًا وَ مِنَ الَّيْلِ فَاسْجُدْ لَهُ وَ سَبِّحْهُ لَيْلًا طويلًا (الدهر : ۲۴-۲۶)
ترجمہ: ”پس اے پیغمبر! اپنے رب کے حکم کے لیے جم جاؤ اور ان (اعداء دین) میں سے کسی بھی حق فراموش اور ناشکرے کی بات نہ مانو۔ اپنے رب کا نام صبح و شام لیا کرو اور شب کے اوقات میں بھی اس کو سجدہ کرو اور اس کی طویل گھڑیاں تسبیح میں گزار دو۔

فَاصْبِرُ عَلَى مَا يَقُولُونَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِهَا ۚ وَ مِنْ آنَاءِ الَّيْلِ فَسَبِّحْ وَأَطْرَافَ النَّهَارِ (طه: ۱۳۰)
ترجمہ: ”یہ لوگ جو کچھ (دل دکھانے والی باتیں) کہتے رہتے ہیں ان پر صبر کرو اور اپنے رب کی حمد کرتے ہوئے اس کی تسبیح میں مصروف رہو سورج نکلنے سے پہلے بھی اور سورج ڈوبنے کے قبل بھی اور رات کے کچھ اوقات میں بھی تسبیح کرو اور دن کے کناروں پر بھی۔

ان کے علاوہ اس طرح کی آیتیں قرآن کریم میں آپ کو اور بھی بہت سی ملیں گی جن میں یہ اندازِ بیان اختیار کیا گیا ہے۔ سورہ مزمل کی ابتدائی آیتوں میں بھی، جن کا اوپر کی کسی بحث میں حوالہ گزر چکا ہے، اسی طرح ”قیامِ لیل“ اور ”صبرِ جمیل“ کی تلقین ساتھ ساتھ فرمائی گئی ہیں۔

صبر اور ذکر و نماز کا یوں ساتھ ساتھ بیان کیا جانا ظاہر ہے کسی باہمی ربط اور مناسبت کے بغیر ہرگز نہیں ہو سکتا۔ غور کیجیے کہ یہ ربط اور مناسبت کیا ہے؟ اس بارے میں غور و فکر کا نتیجہ یقیناً ایک ہی نکلے گا اور وہ یہ کہ ان دونوں چیزوں میں جو ربط ہے وہ وہی ہے جو سورج اور اس سے خارج ہونے والی انرجی میں ہوتا ہے۔ ذکر و نماز اگر سورج ہے تو قوتِ صبر اس سورج سے حاصل کی ہوئی انرجی ہے۔ یعنی مصائب و آلام کے مقابلے میں صبر و ثبات کی تلقین کے ساتھ ساتھ ذکر و نماز کی ہدایت دینے کا مطلب یہ ہے کہ تلقینِ صبر کے ساتھ ہی ساتھ حصولِ صبر کا عملی ذریعہ بھی بتا دیا جائے اور وہ ہے اللہ کا ذکر۔ کہنے کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ کو یاد کرو، تمہارا دل توانائیوں سے بھر جائے گا۔ پھر نہ مصیبتوں کے زلزلے تمہیں ہلا سکیں گے، نہ دنیوی مرغوبات کی فراوانی تمہیں ڈگمگا سکے گی۔

رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عمل، کہ جب آپ پریشان خاطر ہوتے تو نماز میں مشغول ہو جاتے، گویا ایک پیاسا برفاب کی طرف لپک رہا ہو، اسی حقیقت کا ظہور تھا۔ اگر مزید شہادت درکار ہو تو قرآن حکیم کا یہ ارشاد سنیے:

إِنَّ الْإِنْسَانَ خُلِقَ هَلُوعًا إِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ جَزُوعًا وَإِذَا مَسَّهُ الْخَيْرُ مَنُوعًا إِلَّا الْمُصَلِّينَ (المعارج : ۱۹ -۲۲)
ترجمہ: ”بلا شبہ انسان تھڑدلا پیدا کیا گیا ہے، جب اسے بدحالی لاحق ہوتی ہے تو بلبلا اٹھتا ہے اور جب اچھے دن ہوتے ہیں تو بڑا کنجوس ثابت ہوتا ہے، سوائے نمازیوں کے الخ۔

معلوم ہوا کہ تھڑدلا پن انسان کی جبلی کمزوری ہے۔ ذرا مصیبت پڑی اور بلبلا اٹھا اور اگر کچھ اچھے دن آگئے تو آپے سے باہر ہو چلا اور اس کمزوری سے محفوظ صرف وہی لوگ ہوتے ہیں جو نمازی ہوں۔ دوسرے لفظوں میں بات یہ ہوئی کہ تھڑدلے پن یا بے صبری کا علاج صرف نماز ہے۔ اگر اس بات کو یوں کہہ دیا جائے کہ نماز سے صبر و استقلال کی قوت میسر ہوتی ہے تو گو الفاظ بدل جائیں گے مگر حقیقت نہ بدلے گی۔

ایک اور ارشادِ الہی سنیے:

وَاصْبِرْ وَ مَا صَبْرُكَ إِلَّا بِاللهِ (النحل : ۱۲۷)
ترجمہ: ”صبر کرو اور (یہ بھی یاد رکھو کہ) تمہیں صبر اللہ ہی کی مدد سے حاصل ہو گا۔

اس جملے کے حقیقی مفہوم کا سراغ آپ کو اس بحث کی روشنی میں آسانی سے مل سکے گا جو نماز کی اہمیت کے زیرِ عنوان گزر چکی ہے، جس میں آیت ”اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوةِ“ کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ ”استعانت بالصلاۃ“ اور ”استعانت باللہ“ دونوں ایک چیز ہیں، ایک ہی بات ہے جسے کہنے کے لیے دو تعبیریں اختیار کی گئی ہیں۔ ایک آیت میں جس جگہ ”صلاۃ“ کا لفظ ہے دوسری میں اسی جگہ ”اللہ“ کا لفظ ہے۔ اور یہ اس لیے تاکہ یہ واضح ہو جائے کہ نماز ہی سے اللہ کا قرب حاصل ہوتا ہے، قرب ہی نہیں بلکہ اس کی معیت نصیب ہوتی ہے۔ اس لیے جسے اللہ سے مدد لینی ہو وہ نماز میں مشغول ہو۔ اس نکتے کو اگر سامنے رکھیے تو صاف نظر آ جائے گا کہ صبر کی دولت کا اللہ تعالیٰ ہی کی مدد سے حاصل ہونا دراصل یہ معنی رکھتا ہے کہ وہ نماز سے حاصل ہوتی ہے، نماز ہی صبر کا منبع ہے، وہی دلوں کے سکون کا سرچشمہ ہے اور وہی اللہ تعالیٰ کی ثبات بخشیوں کا اصل ذریعہ ہے۔

ایک تیسری آیت جو اس غرض کے لیے ان دونوں سے بھی زیادہ واضح اور صریح ہے، ملاحظہ ہو:

أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ (الرعد : ۲۸)
ترجمہ: ”یاد رکھو! اللہ کی یاد ہی سے دلوں کو طمانیت ملتی ہے۔

اور یہ ایک مسلم حقیقت ہے کہ انسان طمانیت کا سب سے زیادہ محتاج اس وقت ہوتا ہے جب وہ پریشانیوں، مخالفتوں اور مشکلوں کے ہجوم میں گھرا ہوا ہو۔

نماز و ذکر الہی کے متعلق دو بڑی غلط فہمیاں

اگرچہ اوپر کی بحثوں سے یہ حقیقت پوری طرح اجاگر ہو چکی ہے کہ جس نماز اور یادِ خدا کی اسلام تلقین کرتا ہے وہ انسان کو گوشوں کی طرف لے نہیں جاتی، بلکہ وہاں سے کھینچ کر باہر لاتی ہے اور دینی جدوجہد کے میدان میں لاکھڑا کرتی ہے۔ مگر اس افسوس ناک واقعیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ذکر اور نماز کا تعارف صرف اسی رنگ میں نہیں ہوا ہے، بلکہ دوسرے رنگوں میں بھی ہوتا رہا ہے اور بے شمار ذہنوں پر اس کا پورا پورا اثر موجود ہے۔ اس لیے ضرورت ہے کہ اس موقع پر اس غلط تعارف کا بھی جائزہ لے لیا جائے تاکہ واضح ہو جائے کہ نماز جس ذہن اور مزاج کو پیدا کرتی ہے وہ وہ نہیں ہے جو بعض حلقوں میں سمجھ لیا گیا ہے اور اس طرح ان غلط فہمیوں کا ازالہ ہو جائے جو اس بارے میں عام طور پر پھیلی ہوئی ہیں۔

یہ غلط فہمیاں دو ہیں۔ ان میں سے ایک تو بنیادی نوعیت کی ہے اور دوسری اسی کا شاخسانہ ہے۔ لیکن دینی جدوجہد کے خلاف زیادہ مؤثر روک چوں کہ یہی بنتی ہے، اس لیے عملاً اس کو بھی خاصی اہمیت حاصل ہے۔ آئیے، ان کا الگ الگ جائزہ لیں:

(۱) پہلی اور بنیادی غلط فہمی

پہلی اور بنیادی غلط فہمی تو یہ ہے کہ اللہ کا ذکر انسان کو زندگی کے ہنگاموں اور افکار و اعمال کی کشاکشوں سے اونچا اٹھا دیتا ہے۔ اس نظریے کے حامل حضرات کا کہنا ہے کہ قرآن مجید نے ایمان کی جو معیاری کیفیت بتائی ہے وہ یہ ہے کہ دل میں اطمینان پیدا ہو جائے اور انسان کو ”نفسِ مطمئنہ“ حاصل ہو جائے، چناں چہ وہ کہتا ہے کہ ایسے ہی لوگ ہوں گے جن کے لیے جنت کے دروازے کھولے جائیں گے:

يَايَتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً (الفجر : ۲۸،۲۷)
ترجمہ: ”اے نفسِ مطمئنہ! پلٹ جا اپنے رب کی طرف خوش خوش اور اللہ کی خوشنودی کے ساتھ۔

اور یہ ”نفسِ مطمئنہ“ جس چیز سے حاصل ہوتا ہے وہ اللہ کا ذکر ہی ہے (اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَطْمَىِٕنُّ الْقُلُوْبُ)۔ نفسِ مطمئنہ اس قلب کو کہتے ہیں جو دنیا سے یکسو ہو کر اللہ کے ذکر و فکر میں ڈوب گیا ہو، جو اس کے عشق میں کھو گیا ہو، جو اس کے مشاہدۂ جمال کی سرور انگیزیوں میں خود اپنے آپ سے بے خبر ہو گیا ہو، اور اس لیے اسے یہ دیکھنے کی فرصت ہی نہیں ملتی، یا کم از کم یہ کہ وہ یہ دیکھنے کے لیے کبھی آمادہ ہی نہیں ہوتا کہ اس کے دائیں بائیں کیا ہو رہا ہے؟ دنیا کدھر جا رہی ہے، لوگ کن مسائل میں الجھے ہوئے ہیں؟ انسانیت کا حال کیا ہے؟ اور مستقبل کیا ہوگا اور کیا ہونا چاہیے؟

یہ خلاصہ ہے اس نظریے کا۔ لیکن یہ بات خواہ کتنی ہی عمدہ اور کتنی ہی مرعوب کن کیوں نہ معلوم ہوتی ہو، یہ قرآن اور اسلام کے نام پر ہرگز نہیں کہی جاسکتیں۔ بلاشبہ قرآن نے ایمان کی معیاری کیفیت، طمانیتِ قلب اور اطمینانِ نفس ہی بتلائی ہے، مگر ”قلب کا اطمینان“ جس چیز کا نام ہے اس کی تعیین کا حق بھی اسی کو حاصل ہے، کسی اور کے اجتہاد یا ذوق کو نہیں۔ اور اس نے اس کی جو تعیین کی ہے وہ، وہ بالکل نہیں ہے جو اوپر کے لفظوں سے ظاہر ہوتی ہے۔ اس کے برخلاف اس کے بیانوں سے اطمینانِ قلب کا جو مفہوم متعین ہوتا ہے وہ حسبِ ذیل دو کمالات – ایک علمی اور ایک عملی کمال – پر مشتمل ہے:

(الف) اللہ تعالیٰ کے وجود، اس کی صفات اور ان صفات کے لوازم کا ایسا گہرا یقین کہ شک اور تردد کی کوئی کھٹک باقی نہ رہ جائے۔
(
ب) دل میں عزم اور ارادے کی ایسی پختگی جو فرائضِ بندگی کی راہ میں کسی مخالفت سے ہراساں نہ ہونے دے، کسی دشواری کو رکاوٹ نہ بننے دے، اور انسان سخت سے سخت حالات میں بھی دینی تقاضوں اور دعوتی مطالبوں کو پورا کرتا رہے۔

قرآن مجید میں کہیں تو اطمینان کا لفظ صرف پہلی چیز کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ مثلاً:

بَلَى وَلَكِنْ لِيَطْمَينَ قَلْبِي (البقرہ: ۲۶۰)
ترجمہ: ”ایمان کیوں نہیں رکھتا؟ لیکن یہ درخواست میں نے صرف اس لیے کی ہے تاکہ میرا دل مطمئن ہو جائے۔

اور کہیں صرف دوسری شے کے لیے۔ مثلاً:

وَ مَا جَعَلَهُ اللهُ إِلَّا بُشْرَى وَ لِتَطْمَئِنَّ بِهِ قُلُوبُكُمْ ۚ (الانفال: ۱۰)
ترجمہ: ”اور (ملائکہ کا) یہ (نزول) تو صرف اس لیے ہوا تاکہ خوش خبری ہو اور تاکہ اس سے تمہارے دل مطمئن ہو جائیں۔

اور کہیں ان دونوں چیزوں کے مجموعے کے لیے، مثلاً یہی مذکورہ بالا آیت:

يَايَتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةٌ (الفجر : ۲۸،۲۷)

قرآن میں اس لفظ کو ان استعمالات کے سوا اور کسی معنی میں استعمال ہوتا نہیں پایا جا سکتا۔

ان قرآنی استعمالات کی روشنی میں اطمینانِ قلب کی جو حقیقت سامنے آتی ہے اس کے جامع اور مانع تصور کو سامنے رکھیے، خصوصاً اس کے دوسرے جزو کو، اور پھر فیصلہ کیجیے کہ یہ کارزارِ حیات میں انسان سے جو رول ادا کرنا چاہتی ہے کیا وہ اس کے سوا کچھ اور بھی ہو سکتا ہے کہ وہ اس کارزار میں کود پڑے اور انسانیت کے بھٹکتے ہوئے قافلے کو بندگی کی شاہراہِ نجات پر لا ڈالنے کے لیے تن من دھن سے لگ جائے؟ یقیناً نہیں۔ جب صورتِ واقعہ یہ ہے تو بڑے اچنبھے کی بات ہوگی اگر کہا جائے کہ اطمینانِ قلب کی کیفیت کا دعوتی سرگرمیوں اور ابتلائی مصائب سے کوئی سروکار ہی نہیں۔ پھر یہ اچنبھا اور بڑھ جائے گا اگر آپ یہ بھی دیکھ لیں کہ اس صفت کا پہلا جزو بھی نہ صرف یہ کہ اس جدوجہد والے رویے سے کوئی اجنبیت نہیں رکھتا بلکہ وہ بھی اسی کا مطالبہ کرتا ہے کیوں کہ جس شخص کا اللہ تعالیٰ پر اور اس کی صفاتِ حسنہ پر گہرا یقین ہوگا ممکن نہیں کہ اس کا دل اس کی عظمت اور محبت کے جذبات سے لبریز نہ ہو، اور جو دل اللہ کی محبت اور عظمت سے لبریز ہو وہ لازماً یہی چاہے گا کہ اس کی مرضی زمین پر بھی اسی طرح پوری ہو جس طرح کہ آسمان پر پوری ہوتی ہے۔ اور پھر زمین پر یہ مرضی پوری کرانے کے لیے وہ اپنی کوئی کوشش اٹھا نہ رکھے گا اور نہ کسی مشکل سے منھ موڑے گا۔ ورنہ وہ ایمان و یقین ہی کیا جو اپنے تقاضوں کے لیے مضطرب نہ کر دے! وہ محبتِ الہی کیسی جو محبوب کے احکام کو پامال ہوتا دیکھے اور پھر بھی جینے میں کوئی مزا باقی رہنے دے! اس کمالِ عشق کو کیا کہیے جو اپنی امتحان گاہوں سے بھاگ کھڑا ہو! عقل، ذوقِ ایمان، وجدانِ بندگی، اللہ کی کتاب، رسولِ خدا کی سنت – کوئی چیز بھی اس ناممکن بات کو ممکن نہیں مان سکتی۔ اس لیے حق تو یہ ہے کہ اطمینانِ قلب کا یہ پہلا یعنی علمی اور اعتقادی پہلو بھی اعتبار کا مقام اسی وقت حاصل کر سکتا ہے جب کہ وہ خود اس دعوتی جدوجہد کے لیے انسان کو بے چین کر رہا ہو اور اس راہ میں پیش آنے والی آزمائشوں سے مات نہ کھانے کے عزم سے اسے معمور بنا رہا ہو۔ جس حد تک اس بے چینی میں کمی اور اس عزم میں ناپختگی ہو گی اسی حد تک اس اطمینان کا یہ علمی اور ایقانی پہلو بھی خام سمجھا جائے گا۔ گویا جس پہلو سے بھی دیکھیے اطمینانِ باطن کی اصل کسوٹی بھی دین اللہ کی اقامت کا یہی اضطراب اور یہی عزمِ استقامت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآنِ حکیم میں ایمان کے مدعیوں سے یہ مطالبہ تو بار بار ہوتا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور ابتلاؤں پر صبر سے کام لو، مگر اس کا تذکرہ مطالبے کی زبان میں ہمیں کہیں بھی دکھائی نہیں دیتا کہ اللہ سے محبت کرو۔ بلکہ اس بات کا ذکر جب بھی آتا ہے تو مومن کی محض ایک لازمی صفت کے طور پر آتا ہے۔ وہ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلهِ... (اہلِ ایمان سب سے زیادہ اللہ کی محبت رکھتے ہیں) تو ضرور فرماتا ہے مگر یہ کہیں نہیں کہتا کہ اَحِبُّوا اللهَ (اللہ کی محبت کرو)، جب کہ اَطِیعُوا اللَّهَ اور اِصْبِرُوا کی صدائیں اس کے ایک ایک گوشے سے بلند ہوتی سنائی دیتی ہیں۔ اس فرق کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ محبت کوئی محسوس چیز نہیں کہ ادھر اس کا دعویٰ کیا گیا اُدھر کسی آلے سے اسے جانچ لیا جائے۔ اس لیے ضروری ہوا کہ اس کی سچائی کا سارا دارو مدار ان اعمال اور سرگرمیوں پر رکھا جائے جو اس کے لازمی تقاضے کی حیثیت رکھتی ہیں اور مطالبہ بھی انہی کا کیا جائے، جس کسی کے عمل سے یہ مطالبہ پورا ہو گیا اس کا محبوبِ الہی ہونا مان لیا جائے گا اور جو اس مطالبے کو پورا نہ کر سکا اس کا دعوائے محبت اس کے منھ پر دے مارا جائے گا کیوں کہ یہ عملی تقاضے اس وقت تک پورے ہو ہی نہیں سکتے جب تک کہ انسان کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت فی الواقع موجود نہ ہو۔ اس لیے انہی کو محبتِ الہی کی کسوٹی قرار دیے جانے کی شکل میں کوئی محبت کا جھوٹا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ لیکن اگر مطالبہ براہِ راست محبت کا کیا جاتا تو اس کا جھوٹا جواب بھی دیا جا سکتا تھا اور جواب دینے والا اس سلسلے میں خود بھی فریب میں مبتلا رہ سکتا تھا۔ مگر اطاعت کے مطالبے کا جواب اس قسم کے اندیشوں سے قطعاً بالاتر ہے۔ اس میں فریب نہ دوسروں کو دیا جا سکتا ہے، نہ خود کھایا جا سکتا ہے۔ اور نہ صرف یہ کہ اس کا جواب ہمیشہ سچا ہی دیا جا سکے گا، بلکہ وہی خود محبت کے وجود کا بھی سچا ثبوت ہوگا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اور آپؐ کے بعد آپ کے سچے پیروؤں کی زندگی کو دیکھیے۔ ایمان اور یقین، محبتِ الہی اور اطمینانِ قلب کی جو دولت آپ کو ارزانی ہوئی تھی، کسی بڑے سے بڑے عارف کو نہ وہ کبھی نصیب ہوئی اور نہ ہوگی۔ مگر جس مبارک سینے میں یہ ”نفسِ مطمئنہ“ موجود تھا اسی کے اندر دعوتی اضطراب کی وہ بھٹی بھی سلگ رہی تھی جس کی جاں سوزیوں نے زندگی کا سارا سکون چھین لیا تھا۔ جیسے ہی اس سب سے بڑے محبِ خدا پر محبوبِ حقیقی کی مرضیات کا انکشاف ہوا، ... غارِ حرا کی پُرسکون فضا سے باہر نکل آیا اور مجبور ہو گیا کہ کوہِ صفا (بوقیس) کی چوٹیوں پر، عکاظ (ہنی) کے بازاروں میں، کعبے کے صحن میں، مکے کی گلیوں میں، طائف کے تاکستانوں میں، شعبِ ابی طالب کی تنگنائیوں میں، غارِ ثور میں – اور پھر بدر میں، حنین میں، احد میں، تبوک میں، دل کا اطمینان ڈھونڈھے۔ حتی کہ وہ خود بھی، جس کے حکم پر اور جس کی رضا کے لیے یہ سب ہو رہا تھا، محبت بھرے انداز میں رہ رہ کر ٹوکتا رہا:

فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ عَلَى اثَارِهِمْ إِن لَّمْ يُؤْمِنُوا بِهَذَا الْحَدِيثِ اسفًا (الکہف : ٦)
ترجمہ: ”اگر یہ لوگ اس بات پر ایمان نہ لائے تو شاید تم مارے غم کے اپنے آپ کو ہلاک کر لو گے۔

مگر اس کے باوجود حیاتِ طیبہ کا ایک ایک ورق بتاتا ہے کہ اس اضطراب میں عملاً کوئی کمی نہیں ہوئی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس کام کی حد تک قلبِ مبارک خود اپنے قابو میں نہیں۔ ایک بھڑکتی ہوئی آگ ہے جو کسی حال میں بھی چین نہیں لینے دیتی۔ دنیا کی ہر برائی اور ہر گم راہی اصلاحِ حال کے لیے بلاوا دیتی ہے اور آپ اس بلاوے کو رد کر دینے سے اپنے کو بالکل معذور پا رہے ہیں۔

کیا اس کے سوا بھی اطمینانِ قلب کی کوئی شرح و تعبیر اور نفسِ مطمئنہ کی کوئی تعریف ہمارے لیے قابلِ قبول ہو سکتی ہے؟ درآں حالیکہ ہم سے کہا گیا ہے:

لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أَسْوَةٌ حَسَنَةٌ (الاحزاب : ۲۱)
ترجمہ: ”یقیناً تمہارے لیے اللہ کے رسول میں عمدہ نمونۂ عمل ہے۔

اور یہ کہتے وقت بھی رسول کی پوری زندگی میں سے چھانٹ کر خصوصیت کے ساتھ وہی لمحہ ہمارے سامنے رکھا گیا ہے جب آپ محاذِ جنگ پر تیروں کی بارش میں کھڑے نظر آتے ہیں، ہاتھوں میں پھاوڑا ہے، پیٹ پر پتھر بندھے ہیں اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ خندق کھودنے میں مصروف ہیں۔ اس میں تو کوئی کلام نہیں کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی ہی ہمارے لیے اسوۂ حسنہ تھی، پھر آخر کوئی وجہ تو ہے کہ اسے اس حیثیت سے ہمارے سامنے پیش کرتے وقت اللہ تعالیٰ نے اس کی ہزاروں قابلِ ستائش باتوں میں سے اسی وصف کا خاص طور سے انتخاب فرمایا؟ یہ وجہ اس کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے کہ یہی وصف سچے ایمان اور اخلاص کا سب سے زیادہ کامل معیار ہے۔

(۲) دوسری غلط فہمی

دوسری غلط فہمی جو اسی پہلی کا قدرتی نتیجہ ہے، یہ نظریہ ہے کہ:
نماز پڑھو، اطاعتِ حق اور اقامتِ دین کی ذمہ داریوں سے سبک دوش ہو جاؤ گے اور پھر کوئی نعمت و سعادت نہیں جو اس دنیا میں مل سکتی ہو اور تمہیں نہ ملے!“

یہ بات اگر سمجھی جائے تو اتنی سچی ہے کہ اس سے زیادہ سچی بات اس آسمان کے نیچے شاید ہی کہی گئی ہو۔ لیکن اگر اس کا مطلب وہ سمجھ لیا جائے جو اس فقرے کے لفظی مفہوم سے ظاہر ہوتا ہے، تو اس سے زیادہ غلط بات بھی شاید ہی اور کوئی ہوگی۔ حقیقتِ واقعہ جو ہے وہ یہ ہے کہ نماز پڑھنا فی نفسہ مکمل طاعتِ حق کا قائم مقام اور اقامتِ دین کا ہم معنی نہیں ہے، بلکہ نماز پڑھنے سے صرف وہ قوتِ ایمان نشوونما پاتی ہے جس کے بل پر اطاعتِ حق اور اقامتِ دین کا فرضِ گراں ادا کیا جاسکتا ہے۔ اب اگر ہم نماز کی اس افادیت ہی سے بالکل غافل ہوں، یا اس کی بخشی ہوئی قوتوں سے کام ہی نہ لیں اور کفر و جاہلیت کی ان یلغاروں سے کترا کر نکل جائیں جن کا مقابلہ کرنے کے لیے یہ قوتیں ہم نے اکٹھی کی تھیں، تو قیامت تک دینِ حق کی مظلومی اسی حال میں باقی رہے گی اور باطل یوں ہی اس کے دائیں بائیں، آگے پیچھے، حتی کہ اس کے منبر و محراب تک پر مسلط رہے گا۔ بلا شبہ نماز بہت بڑی چیز ہے، دین کا عملی ستون ہے، طاعتوں کا سرچشمہ ہے، بھلائیوں کا خزانہ ہے، سراپا قوتِ انقلاب ہے اور اتباعِ دین و اقامتِ دین کا بھی ناکام نہ ہونے والا ذریعہ ہے۔ لیکن اس کی ان برکتوں کے ظہور میں آنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے سامنے کوئی ہدف بھی ہو، ورنہ وہ اپنی شانِ تسخیر کا کوئی کارنامہ انجام کہاں دے گی؟ یہ ہدف تو اس کو اسی وقت میسر آ سکتا ہے جب آپ سکون کے گوشوں سے نکل کر حق و باطل کی کشمکش میں اپنے آپ کو ڈال دیں اور زندگی کے مسائل سے لاتعلقی کا تعلق ختم کر کے اُن کا رُخ ہدایاتِ قرآنی کے مطابق موڑ دینے کی جدوجہد میں لگ جائیں۔ پھر دیکھیں کہ فی الواقع نماز میں کیا قوتیں چھپی ہوئی ہیں اور کس طرح ان کے نتائج ایک فطری رفتار کے ساتھ ظہور میں آتے جا رہے ہیں۔ اس وقت ہوگا یہ کہ ہم باطل قوتوں اور جاہلی افکار و اعمال سے پنجہ آزمائی کریں گے، وہ خشمناک ہو ہو کر ہم پر حملہ کریں گے، طبعاً ہم گھبرا اٹھیں گے، مگر فوراً ہی اللہ کا نام دل میں سکینت کی ٹھنڈک پیدا کر دے گا، ہم ان حملوں کا مقابلہ کریں گے اور سنتِ الہی کے مطابق ابتلائی مصائب سے گزرتے ہوئے آہستہ آہستہ آگے بڑھتے جائیں گے۔ یہاں تک کہ اللہ کی نصرت ہمیں منزلِ مقصود تک پہنچا دے گی۔ اس طرح ذکر و نماز کی پیدا کی ہوئی قوتیں، بجائے اس کے کہ غیر محسوس شکل میں معطل پڑی رہیں، اپنے وجود کا صحیح مصرف پاتی جائیں گی۔ وہاں وہ ٹھیک اس مقصد کے لیے خرچ ہوں گی جس کے لیے مہیا کی گئی تھیں۔ ”خرچ“ اس معنی میں نہیں کہ اس کام میں لگ کر ختم ہوتی جائیں گی، بلکہ اس معنی میں کہ اس عظیم مہم میں حق کے سپاہیوں کے لیے دفاع اور اقدام کے اسلحے بن جائیں گی۔ ورنہ یہاں ان کے ختم ہونے کا کیا سوال؟ ان کا استعمال تو اُلٹا انہیں اور دو آتشہ بنا دیتا ہے۔ ان کا حال تو ایک عمدہ تلوار کا سا ہے، جس کی کاٹ اسی قدر بڑھتی جاتی ہے جتنی کہ وہ خرچ کی جاتی ہے۔ اور اتنی ہی ناقابلِ اعتماد ہو رہتی ہے جتنی کہ وہ بچا بچا کر رکھی جاتی ہے۔

اس موقع پر اس احساسِ افسوس کو چھپایا نہیں جا سکتا کہ آج عمومی صورتِ حال کچھ اسی قسم کی ہوگئی ہے۔ نماز اور ذکر و تسبیح کے باب میں لوگوں کے تصورات کچھ اسی طرح کے ہیں کہ مسلمان بس نماز پڑھے اور نماز ہی پڑھتا رہے۔ یہ فرشتوں کا کام ہے کہ وہ دینی نظام کا محل تعمیر کر کے لائیں اور زمین پر اسے فٹ کر دیں۔ نماز سرِ باطل کو اُڑا دینے اور رگِ منکر کو کاٹ کر رکھ دینے کی جو بے نظیر قوتیں اپنے اندر رکھتی ہے، اللہ کا دین مطالبہ کرتا ہے، چیختا اور چلاتا ہے کہ ان قوتوں کو استعمال کرو اور شر و فساد کی جڑیں کاٹ کر رکھ دو۔ مگر وہ گھٹ گھٹ کر رہ جاتا ہے جب دیکھتا ہے کہ اس کے علم بردار سخت گراں گوش ہیں اور کچھ عجیب قسم کی سرشاریوں میں غرق ہیں۔ وہ بس ہتھیار بنائے جا رہے ہیں اور اسے مانجھے جارہے ہیں۔ متعلقہ مہم کے لیے اسے اٹھانے کا نام بھی نہیں لیتے۔ لینا تو درکنار، انہیں اس کا کبھی خیال بھی نہیں آتا اور نہیں جانتے کہ اس طرح وہ کتنا بھاری نقصان اُٹھا رہے ہیں۔ حالاں کہ ایک طرف تو وہ اپنے بنیادی فرضِ منصبی کی ادائیگی میں کوتاہ ثابت ہو رہے ہیں۔ دوسری طرف خود اس ہتھیار کے فطری اوصاف کو بھی نقصان پہنچا رہے ہیں اور نادانستہ اس کی دھاروں کو زنگ خوردہ بنا رہے ہیں۔ کیوں کہ جو نماز گم راہیوں اور بُرائیوں سے ٹکرا جانے پر نہیں اُبھارتی، نفسیات کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ انہیں بہ تدریج برداشت کرنے لگتی ہے۔ اگر خدا نہ خواستہ کوئی نماز اس حد تک ”روادار“ ہو جائے تو اسے قانون کی زبان میں جو چاہے کہہ لیجیے، مگر از روئے واقعہ اسے نماز کہنا بہت مشکل ہے۔ نماز اس لیے تو مشروع نہیں ہوئی تھی کہ حق و باطل کو باہم گلے ملوا دے، بلکہ اس لیے مشروع ہوئی تھی کہ ان میں تلوار چلوا دے۔

اساسِ دین کی صحیح اور مطلوبہ تعمیر اگر پیشِ نظر ہو تو ضروری ہے کہ ان دونوں غلط فہمیوں سے ذہن کو پاک کر لیا جائے۔