اسلام اور سیکولرزم ایک موازنہ یوسف القرضاوی

اسلام اور سیکولرزم

ایک موازنہ

هل يسوي الدين يعلمون والذين لا يعلمون

۱۴۰۱ھ - ۱۹۸۱م

1401 AH - 1981 AC

مؤلف: یوسف القرضاوی


مجلس التحقیق اسلامی زیر اہتمام

محدث لائبریری

بسم الله الرحمن الرحيم

قُلْ أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ

عالمی ادارہ فکر اسلامی

عالمی ادارہ فکر اسلامی کا قیام دور حاضر میں علوم اسلامی کی تشکیل جدید کے لیے ایک نئے سفر کا آغاز ہے۔ پندرھویں صدی ہجری کے شروع (۱۴۰۱ھ - ۱۹۸۱ء) میں، جب امریکہ میں اس ادارے کی بنا رکھی گئی تو یہ اس عزم کا اظہار تھا کہ اس عہد میں انسانیت کو درپیش مسائل کے حل کے لیے اللہ کے آخری دین، اسلام ہی کی طرف رجوع کیا جائے گا اور اس کی تعلیمات کی روشنی میں علوم کی تشکیل نو کی جائے گی۔ تمام علوم بالخصوص اجتماعی علوم کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے کے علاوہ، امت مسلمہ کے علمی، تہذیبی اور تمدنی تشخص کی تلاش اور بحالی بھی اس ادارے کے قیام کے بنیادی مقاصد میں شامل ہے تاکہ ماضی کی طرح آج بھی اسلام عالمی تمدن کی تشکیل و ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکے اور مستقبل کے چہرے پر اس کے واضح نقوش دیکھے جاسکیں۔

ان مقاصد کے حصول کے لیے جو حکمت عملی ترتیب دی گئی ہے، اس کے تحت منتخب علمی موضوعات پر کانفرنسوں، سیمینار اور محاضرات کا انعقاد، مختلف علوم و فنون میں اسلام کے تناظر میں ہونے والی علمی تحقیق کی حوصلہ افزائی اور منتخب کتب و مقالات کی اشاعت کا اہتمام، علوم کی اسلامی تشکیل میں دلچسپی پیدا کرنے کے لیے طلبا کے لیے وظائف کا انتظام، دنیا بھر کی علمی شخصیات اور اداروں کے ساتھ علمی تعاون، اس ادارے کی عملی سرگرمیوں میں شامل ہیں۔ یہ ادارہ عربی، انگریزی اور دنیا کی دیگر زبانوں میں متعدد کتب و مقالات شائع کرچکا ہے اور دنیا کے کئی ممالک میں علمی کام کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ انگریزی اور عربی میں ادارے کے زیر اہتمام سہ ماہی جرائد بھی باقاعدگی سے شائع ہو رہے ہیں۔ عالمی ادارہ فکر اسلامی اہل علم کے دست تعاون کو تھامنے کے لیے ہر وقت آمادہ و منتظر ہے۔

حرف آغاز

ایک آزاد ملک میں، جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہو اور انہیں سیاسی اقتدار بھی حاصل ہو، وہاں اسلام کا دائرہ کار کیا ہونا چاہیے؟ وہ مسلمانوں کی انفرادی زندگی ہی سے متعلق رہے یا ریاستی امور میں بھی اس کی بالادستی کو تسلیم کیا جائے؟ یہ مسئلہ ان فکری مسائل میں سرفہرست رہا ہے جو بیسویں صدی کے دوران پوری اسلامی دنیا میں زیر بحث رہے ہیں۔ مسلمان ممالک میں جہاں ایک طرف اسلامی ریاست کے پرجوش مبلغین کی کمی نہیں وہاں ایسے اصحاب بھی موجود رہے ہیں جو یہ سمجھتے تھے کہ مذہب کا ریاستی امور سے کوئی تعلق سرے سے نہیں ہونا چاہیے اور حکومتی سطح کے معاملات مذہبی وابستگی سے بالاتر رہ کر طے کیے جانے چاہئیں۔

مصر کو اس اعتبار سے مسلم دنیا میں ایک نمایاں مقام حاصل ہے کہ یہاں ان بنیادی فکری مسائل پر جو پوری مسلم امت کو درپیش تھے بھرپور بحث ہوتی رہی ہے اور انہی مسائل میں اسلام اور ریاست کے باہمی تعلق کا مسئلہ بھی ہے۔

اس صدی کی تیسری دہائی میں اس مسئلے سے متعلق سب سے زیادہ ہلچل پیدا کرنے والی کتاب بھی مصر ہی سے شائع ہوئی۔ میرا اشارہ علی عبدالرازق کی مشہور کتاب "الاسلام و اصول الحکم“ کی طرف ہے جو ۱۹۲۵ء میں سامنے آئی اور جس نے اسلام اور ریاست کے باہمی تعلق کے مسئلے پر بھرپور بحث کے لیے گویا مہمیز کا کام کیا تھا۔ اس کتاب میں علی عبدالرزاق کا بنیادی موقف مجملاً یہ ہے کہ حکومت اور اس سے متعلقہ مسائل اسلام کے دائرہ کار کا حصہ نہیں ہیں۔

اس کتاب کی اشاعت پر مصر کے دینی حلقوں میں نہایت شدید رد عمل ہوا اور اس موقف کی تردید بڑے جوش و خروش سے کی گئی۔ اس کے بعد موجودہ صدی کے تقریباً وسط میں جب مسلمان ممالک آزادی سے ہمکنار ہونے لگے تو اس بحث میں دوبارہ شدت پیدا ہو گئی۔ سیکولرزم کی حمایت میں جناب خالد محمد خالد مرحوم کی مشہور کتاب "من ہنا نبدا" چھپی جو ایک نوجوان مصنف کا پرجوش انداز بیان لیے ہوئے تھی۔ اسی رجحان کا اظہار خالد محمد خالد نے اپنی دوسری کتاب "مواطنون لا رعایا" میں بھی کیا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ کچھ سال کے بعد خالد محمد خالد کا موقف ان مسائل پر یکسر تبدیل ہو گیا تھا اور وہ اسی رجحان کے پر زور ترجمان بن گئے تھے جس کی ابتدا میں انھوں نے شدت سے تردید کی تھی۔ اس وقت اس کا علمی محاکمہ مصر کے اُس وقت کے جواں سال عالم اور ادیب محمد الغزالی مرحوم نے کیا جنہوں نے "من ہنا نعلم" کے عنوان سے ایک کتاب لکھی جس میں انہوں نے دین کے اجتماعی و ریاستی پہلو نمایاں کیے اور اسلام کے اجتماعی و سیاسی کردار کا اثبات کیا۔ اس کتاب میں انھوں نے سیکولرزم کو اسلامی معاشرے کے مزاج کے سراسر خلاف اور مسلمانوں کے بہترین مفادات کے یکسر منافی قرار دیا اور اسلامی ممالک میں اس نظریے کی قبولیت کو مغربی استعماری طاقتوں کی اندھی نقالی سے تعبیر کیا۔

مصر کے علاوہ دوسرے اسلامی ممالک میں بھی یہ موضوع مسلسل بحث و تمحیص کا موضوع بنا رہا ہے۔ پاکستان میں بھی اس مسئلے پر خاصی بحث ہوئی۔ یہاں علمی اور فکری سطح پر جن اصحاب نے سیکولرزم کی حمایت میں کافی کچھ کہا ان میں بائیں بازو کے بعض اصحاب فکر و نظر نمایاں رہے۔ اگرچہ سیکولرزم کی سب سے زیادہ پر زور وکالت غالباً اس تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ میں کی گئی تھی جو قادیانی مسئلے پر رونما ہونے والے بعض ناخوش گوار واقعات کے اسباب کا جائزہ لینے کے لیے جسٹس محمد منیر مرحوم کی سربراہی میں قائم کیا گیا تھا۔ جن لوگوں نے سیکولرزم کے مقابلے میں اسلامی فکر کی ترجمانی کا فریضہ انجام دیا ان میں سب سے نمایاں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی مرحوم ہیں۔ اسلامی ریاست کا اثبات اور اس کو قائم کرنے کی حکمت عملی کو مولانا مودودی کی نگارشات میں ایک نہایت نمایاں مقام حاصل ہے۔

اسی طرح انڈونیشیا میں سیکولرزم کے مقابلے میں اسلام کے اجتماعی اور سیاسی کردار کو نمایاں کرنے والوں میں ڈاکٹر محمد ناصر مرحوم سرفہرست ہیں۔ اس موضوع پر ان کی تحریروں کا عربی ترجمہ اس وقت کے مشہور مصری مجلہ "المسلمون" میں بالاقساط شائع ہوا، اور بعد میں ان شائع شدہ مقالات کا مجموعہ کتابی صورت میں بھی منصہ شہود پر آ گیا۔

عرب ممالک میں ۱۹۵۲ء، ۱۹۵۳ء سے لے کر ۱۹۶۷ء، ۱۹۶۸ء تک نیشنلزم اور سوشلزم کا بہت غلغلہ رہا، لیکن ۱۹۶۷ء کے بعد اسلامی احیاء کی لہر نہایت شدت سے ابھری اور اسلامی اصولوں کی بنیاد پر پوری زندگی کی تشکیل نو کا تصور، جسے مسلم ممالک میں ریاستی جبر و استبداد کے ذریعے دبا دیا گیا تھا، دوبارہ بڑی آب و تاب کے ساتھ سامنے آیا اور عرب ممالک حسب سابق اسلامی ریاست اور اسلامی سیاسی و معاشی نظام کے نعروں سے گونجنے لگے۔ عرب دنیا کے وہ ممالک بھی جہاں سیکولرزم کو ایک مسلمہ اصول کی حیثیت حاصل ہو چکی تھی وہاں نہایت پرزور اور توانا اسلامی تحریکیں تعلیم یافتہ طبقہ اور عوام دونوں میں نمایاں مقبولیت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئیں۔

بہر کیف، بیسویں صدی میں ان دونوں متضاد رجحانات کی وقفہ وقفہ سے اہل علم ترجمانی کرتے رہے ہیں۔ چنانچہ آج سے چند سال قبل مصر میں بائیں بازو کے ایک وقیع مفکر اور صاحب قلم جناب احمد فواد زکریا نے اپنی تحریروں میں خالص سیکولر نقطہ نظر کی شدت سے وکالت کی۔ اس بار اسلامی حلقہ کی طرف سے اسلامی نقطہ نظر کی وضاحت کے لیے عرب دنیا کے نہایت نامور صاحب علم جناب ڈاکٹر یوسف القرضاوی سامنے آئے۔ اپنے علمی تبحر اور تفقہ فی الدین کے اعتبار سے انہیں دور حاضر کے مسلمان اہل علم میں ایک نہایت امتیازی مقام حاصل ہے۔ ان کی تصانیف ان کے بلند علمی مقام و مرتبہ اور ان کی ذہانت و بصیرت کا زندہ ثبوت ہیں۔ ڈاکٹر یوسف القرضاوی عرب دنیا میں عصری مسائل کے بارے میں اسلامی نقطہ نظر کے نہایت وقیع ترجمان ہیں۔ ان کی تحریروں کا بنیادی وصف اعتدال اور فکری کشادگی ہے۔ ان کی فکر جمود و تقلید سے اس قدر دور ہے کہ بعض دینی حلقے ڈاکٹر القرضاوی کو قابل اعتراض حد تک جدیدیت سے متاثر شمار کرتے ہیں۔

موجودہ کتاب میں ڈاکٹر القرضاوی نے ایک عام فہم اور پر زور اسلوب میں اسلامی ریاست کی وکالت، اس کے خدوخال کی وضاحت اور سیکولرزم کے اس تصور کی نفی کی ہے جس کے تحت اسلام کو ریاستی امور سے بے دخل قرار دیا جاتا ہے۔ کتاب کا موضوع اور اس کی علمی حیثیت اس امر کی متقاضی تھی کہ اردو قارئین اس سے محروم نہ رہیں۔ اسی جذبے کے تحت عالمی ادارہ فکر اسلامی نے اس کے ترجمے کا اہتمام کیا۔ کتاب کو اردو کے قالب میں ڈھالنے کا کام ڈاکٹر ساجد الرحمن صدیقی نے انجام دیا۔ موضوع کی نزاکت کے پیش نظر ادارہ نے محترم ڈاکٹر ظہور احمد اظہر سے درخواست کی کہ وہ اس پر نظر ثانی فرمائیں۔ انہوں نے از راہ کرم یہ درخواست قبول فرمائی۔ جس کے لیے ادارہ ان کا ممنون ہے۔ طباعت کے لیے مسودہ کی تیاری کی کٹھن منزل جناب حافظ عبدالغفار احمد صاحب کی مدد سے طے پائی جنہوں نے پورے مسودے کا اصل کتاب سے موازنہ فرما کر، نیز فنی تدوین میں اپنے تجربے اور مہارت سے کام لے کر مسودہ کو ہر اعتبار سے قابل اشاعت بنا دیا۔ اس گراں قدر مدد کے لیے ہم ان کے تہہ دل سے مشکور ہیں۔

عالمی ادارہ فکر اسلامی نے اردو زبان کے اشاعتی پروگرام کا آغاز "نفس انسانی کے قرآنی تصورات" سے کیا۔ یہ کتاب ۱۹۹۶ء میں شائع ہوئی تھی اس کے بعد سے اب تک ادارہ اردو زبان میں متعدد کتابیں شائع کر چکا ہے۔ زمانی ترتیب کے اعتبار سے پہلی کتاب کے بعد سے اب تک مندرجہ ذیل کتابیں شائع ہوئی ہیں: (الف) رہنمائے تربیت - کارکنان دعوت و تبلیغ کے لیے لائحہ عمل۔ (ب) حجیت سنت۔ (ج) اسلام کا تصور جرم و سزا۔ توقع ہے کہ اس سال اردو میں ایک دو اور کتابیں بھی شائع کی جا سکیں گی۔ ہم اللہ تعالیٰ کے لطف و کرم پر بھروسہ کرتے ہوئے یہ امید رکھتے ہیں کہ ادارہ کو عربی و انگریزی کی طرح اردو زبان میں بھی اسلامی فکر کی خدمت کی توفیق حاصل ہو گی۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہماری اس کوشش کو قبول فرمائے اور اپنے فضل خاص سے اسے مفید بنائے۔ آمین۔

ظفر الحق انصاری

اسلام آباد

اگست ۱۹۹۷ء

مقدمہ

یہ ۱۹۸۵ء کے موسم گرما کی بات ہے، میں ریڑھ کی ہڈی میں درد کا علاج کروانے کے لیے مغربی جرمنی کے شہروں میں مقیم تھا۔ وہاں کبھی کبھی میرے پاس بعض عربی اخبارات بھی آتے جن میں قاہرہ کا اخبار "الاہرام" بھی شامل تھا۔ ایک روز اس اخبار میں ڈاکٹر فواد زکریا کا ایک مقالہ میری نظر سے گزرا۔ اس مقالے میں ڈاکٹر فواد زکریا نے نفاذ شریعت کے داعیوں سے تبادلہ خیال کی ضرورت پر زور دیا تھا اور لکھا تھا کہ یہ موضوع نہایت اہم اور وسیع ہے اور باوجودیکہ امت کی موجودہ حالت اور مستقبل کی بہتری کا انحصار اس مسئلے کے تعمیری حل پر ہے، اب تک اس موضوع پر لوگوں کے درمیان تبادلہ خیال نہیں ہوا۔

میری توجہ سب سے پہلے جس چیز کی جانب مبذول ہوئی وہ یہ تھی کہ فاضل مقالہ نگار نے اس اہم اور وسیع موضوع کا عنوان "معاصر مصر کا دینی مسئلہ" رکھا۔ اور اس قول کے مطابق کہ تحریر کا عنوان اس کے مشمولات کی نشان دہی کرتا ہے، میں نے بھی اس عنوان سے محسوس کیا کہ مقالہ نگار کی نظر میں دین کا بس اتنا ہی مقام ہے جتنا کہ عنوان سے ظاہر ہے، یعنی دین جو کہ روح حیات اور حیات روح ہے اور انسانی ہستی کا جوہر ہے، اس کی اہمیت صاحب تحریر کی نظر میں بس ایک وقتی مسئلہ کی سی ہے جیسے کہ زندگی کے دوسرے مسائل ہیں، جو کچھ وقت کے لیے لوگوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کیے رکھتے ہیں، اور اس کے بعد ختم ہو جاتے ہیں مثلاً ٹیلی فون کے تاروں کا الجھاؤ، یا کسی بڑی عمارت کی بالائی منزلوں پر دن کے وقت پانی کا نہ آنا، یا بلیک مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت کا بڑھ جانا وغیرہ۔

میرے لیے یہ امر بھی قابل توجہ تھا کہ مقالہ نگار نے اس مسئلہ کو "اسلامی" مسئلہ کہنے کے بجائے "دینی مسئلہ" کہا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لادینی (سیکولر) ذہن کے لوگ ممکن حد تک اسلام کا لفظ استعمال کرنے سے گریز کرتے ہیں اور اس کے بجائے دین (مذہب) کا لفظ استعمال کرتے ہیں، تاکہ دین کے درآمد شدہ تصور کو تقویت حاصل ہو۔ اور یہ تفریق قطعیت کے ساتھ قائم ہو جائے جس کی رو سے زندگی کے بعض امور کا تعلق دین سے ہے اور بعض امور کا تعلق دین سے نہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ تصور اسلامی فکر اور اسلامی زندگی کے لیے سراسر اجنبی ہے۔

بہر حال عنوان سے صرف نظر کر کے میں نے پہلے مقالے کا مطالعہ شروع کیا، اور میں دل ہی دل میں کہہ رہا تھا کہ یہ ایک اچھا آغاز ہے۔ اہل مصر، اہل عرب اور اہل اسلام کے لیے صحیح طرز عمل یہی ہے کہ وہ ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے یا ہتھیار لے کر ایک دوسرے کے خلاف لڑنے کے بجائے فکر و دانش کی روشنی میں اپنے اہم مسائل پر تبادلہ خیال کریں۔

لیکن جب میں ڈاکٹر فواد زکریا کے مقالات اور ان پر تنقید کرنے والے اہل علم حضرات کی نسبت ان کی رائے پڑھ چکا تو میں نے محسوس کیا کہ میرا یہ گمان صحیح نہ تھا کہ ڈاکٹر صاحب واقعی اسلامی تحریک کے حامیوں سے تبادلہ خیالات کی دعوت دینے میں سنجیدہ ہیں۔ میرے اس احساس کے بنیادی وجوہ مندرجہ ذیل ہیں:

  1. اولاً یہ کہ فاضل مقالہ نگار نے بحث و استدلال کا منطقی طرز اختیار کرنے کے بجائے ایک ایسے شخص کا طریق کار اختیار کیا ہے جو تلوار لے کر اپنے مخالف پر حملہ آور ہو۔ چنانچہ انھوں نے اپنے مقالے کا بڑا حصہ اس امر کے لیے استعمال کیا کہ ایسے امور میں شک پیدا کیا جائے جو گزشتہ چودہ سو سال کے دوران امت مسلمہ کے ہاں مسلمات کی حیثیت کے حامل رہے ہیں۔ یہاں تک کہ انھوں نے اس حقیقت کے بارے میں بھی شک پیدا کرنے کی کوشش کی کہ اسلامی شریعت اللہ کے نازل کردہ اصول و قواعد کا مجموعہ ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر حکم جب اپنی تعبیر اور تطبیق کے مرحلے سے گزرتا ہے تو وہ انسانی بن جاتا ہے۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی ہدایت کے لیے جو کتاب نازل کی ہے اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ (نعوذ باللہ) اسی طرح اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر اسلامی شریعت کی جو پابندی لازم قرار دی ہے یہ بھی ایک بے مقصد عمل ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس نظریے کی روشنی میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی بعثت ایک ایسی کوشش قرار پاتی ہے جس کی بنیاد کسی حکمت و دانش اور انسانیت کی فلاح و بہبود کے کسی دائمی نظریے پر نہ ہو۔
  2. دوم یہ کہ مقالہ نگار نے داعیان اسلام کے خیالات و احساسات سے قریب ہونے کے لیے اپنے افکار و نظریات میں لچک پیدا کرنے کی ذرا کوشش نہیں کی، بلکہ ان کی تمام تر کوشش یہ رہی کہ اسلام کے داعی ان کے افکار و خیالات سے قربت اور ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے اپنے افکار بلکہ اپنے عقیدے، شریعت اور بنیادی آزادیوں سے دست بردار ہو جائیں۔ میں حیران ہوں کہ ایسی صورت میں کوئی بامقصد اور تعمیری تبادلہ خیال کیسے ممکن ہو سکتا ہے!

    اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کا ذکر کرتے ہوئے تبادلہ خیال کے دو بنیادی اصول بیان فرمائے:

    اول یہ کہ تبادلہ خیال اس طریقے سے ہونا چاہیے کہ جو اچھے سے اچھا ہو، یعنی اگر تبادلہ خیال کے دو طریقے اختیار کیے جا سکتے ہوں، ایک اچھا اور دوسرا اس سے بھی اچھا، تو ہمیں اچھے سے اچھا طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔

    دوم سب سے پہلے ان نکات کو سامنے لایا جائے جو دونوں فریقوں کے درمیان قدر مشترک کی حیثیت رکھتے ہوں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

    وَلَا تُجَادِلُوا أَهْلَ الْكِتَابِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ

    (اور اہل کتاب سے بحث نہ کرو مگر عمدہ طریقہ سے) (العنكبوت: ٤٦)

    وَقُولُوا آمَنَّا بِالَّذِي أُنزِلَ إِلَيْنَا وَأُنزِلَ إِلَيْكُمْ وَإِلَهُنَا وَإِلَهُكُمْ وَاحِدٌ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ

    (اور ان لوگوں سے کہہ دو کہ ہم ایمان لائے ہیں اس چیز پر بھی جو ہماری طرف بھیجی گئی ہے اور اس پر بھی جو تمھاری طرف بھیجی گئی تھی، ہمارا اور تمھارا خدا ایک ہی ہے اور ہم اسی کے آگے خود کو سپرد کرنے والے ہیں) (العنكبوت: ٤٦)

    یہ ہے تبادلہ خیال کا وہ طریقہ جو قرآن کریم نے بیان کیا ہے۔ لیکن جہاں تک ڈاکٹر صاحب کے طریقے کا تعلق ہے تو وہ تعمیر کے بجائے تخریب، اتفاق کے بجائے تفریق اور قربت پیدا کرنے کے بجائے دوری پیدا کرنے والا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس طریقے سے جو تبادلہ خیال ہو گا اس سے مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہو سکیں گے۔

  3. مقالہ نگار نے حقائق کو بری طرح توڑ مروڑ کر پیش کیا ہے اور ان کی تفسیر اور توجیہ و وضاحت میں بڑی زیادتی سے کام لیا ہے، خواہ یہ حقائق اس کے سامنے چمکتے سورج کی طرح نمایاں ہوں۔ چنانچہ جب وہ اسلامی شریعت اور اسلامی بیداری کے بارے میں گفتگو کرتا ہے تو یہ بات زیادہ اجاگر ہو کر سامنے آ جاتی ہے۔
  4. جن لوگوں نے مقالہ نگار کے کسی نظریے پر تنقید کی یا اس کی کسی تحریر پر تبصرہ کیا، اس کا حوالہ دیتے وقت اسے سیاق و سباق سے علیحدہ کر دیا گیا جس سے اس کا منطقی ربط اور تسلسل ختم ہو گیا۔ اس کے علاوہ فاضل مقالہ نگار نے یہاں اپنے مخالفین کی تحریروں کے صرف ایسے جملے نقل کیے ہیں جو انھیں پسند آئے اور جو پسند نہیں آئے انھیں حذف کر دیا۔ حالانکہ ان لوگوں میں علماء، یونیورسٹیوں کے اساتذہ اور سرکاری اداروں سے تعلق رکھنے والے مشیر جیسے با حیثیت لوگ شامل ہیں۔

    اسی طرح اخبار الاہرام نے بھی فریقین کے بارے میں انصاف سے کام نہیں لیا۔ اس نے ڈاکٹر فواد زکریا کو اپنے خیالات کے اظہار کا پورا پورا موقع فراہم کیا جب کہ ان کے ناقدین کو ایسی سہولت سے محروم رکھا۔ بلکہ ان کے جوابات اور ان کی تنقیدی تحریروں کو خود ڈاکٹر صاحب کے حوالے کر دیا تاکہ وہ ان میں سے جتنا چاہیں اخذ کر لیں اور جتنا چاہیں چھوڑ دیں، اس شخص کی طرح جو قرآن مجید کی آیت کا صرف یہ ٹکڑا پیش کرتا ہے : ”لا تقربوا الصلوۃ“ (نماز کے قریب نہ جاؤ)۔ حتی کہ عظیم داعی اسلام شیخ محمد الغزالی نے اس موضوع سے متعلق جو دو مقالے "الاہرام" کو ارسال کیے ان میں سے ایک بھی شائع نہیں ہوا ، اور نہ ہی اس کی طرف کوئی اشارہ کیا گیا۔ الاہرام نے اپنی اس حرکت کی پردہ پوشی اس طرح کی کہ اپنے زیر انتظام ایک داخلی سیمینار کیا اور اس میں شیخ الغزالی کو شرکت کی دعوت دی اور شیخ الغزالی نے وہاں جو آدھ گھنٹہ تقریر کی اس کا خلاصہ دو تین سطروں میں شائع کر دیا۔

    یہی وجہ ہے کہ مجھے ڈاکٹر فواد زکریا کی تبادلہ خیال سے متعلق دعوت کو ایک ایسی گھڑ دوڑ قرار دینا پڑا جس میں صرف ایک گھوڑا دوڑ رہا ہو۔

    مجھے یہ بات بعد میں معلوم ہوئی کہ ڈاکٹر صاحب نے اپنی کتاب میں جو مقالات جمع کیے ہیں، ان کا پروگرام در حقیقت لادینی حلقوں نے بنایا تھا تاکہ اسلامی شریعت اور داعیان اسلام کے خلاف رائے عامہ کو ہموار کیا جائے۔ اس سلسلے میں ان کی کچھ کتابیں بھی شائع ہو چکی ہیں جن میں انھوں نے اسلامی شریعت، شریعت کے قدیم فقہاء اور دور جدید کے داعیان اسلام پر شدید حملے کیے ہیں۔

    باوجودیکہ ان حضرات کے اپنے مخصوص رسالے بھی موجود ہیں جن میں وہ اپنے نقطہ نظر کی اپنی خواہشات کے مطابق ترجمانی کرتے رہتے ہیں، عام معروف رسالوں نے بھی اپنے صفحات ان کی نذر کر دیے تاکہ وہ ان میں بھی اپنا نقطہ نظر بیان کر سکیں، جبکہ اسلامی عناصر، جو امت مسلمہ میں عوام کی ترجمانی کرتے ہیں، ان کا اپنا کوئی باقاعدہ رسالہ موجود نہیں۔

    ایک بیدار مغز مسلمان ادیب جناب فہمی ہویدی نے الاہرام نیز اردن اور خلیج کے بعض عربی اخبارات میں شائع ہونے والے اپنے مقالات میں اس منظم سازش کی طرف اشارہ کیا ہے اور اس امر کی جانب توجہ دلائی ہے۔ کہ عالم عرب میں لادینیت کی انتہا پسند تنظیمیں بڑی سرگرمی سے اپنے نظریات کی اشاعت میں مصروف ہیں لہذا ان کی بھی اسی طرح حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے جس طرح اس سے پہلے بعض انتہا پسند مذہبی تنظیموں مثلاً "التکفیر والہجرہ" کی ہمت شکنی کی گئی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ان دونوں میں کوئی فرق ہے تو وہ صرف یہ کہ مذہبی انتہا پسند تو دراصل ناتجربہ کار جوشیلے نوجوان ہیں، انھوں نے اس غلط طرز عمل کا انتخاب محض اپنی ناسمجھی اور جوشیلے پن کی وجہ سے کیا۔ لیکن لادینیت کے حامل انتہا پسند تجربہ کار، کہنہ مشق اور پیشہ ور لوگ ہیں، جو عمداً اپنے غلط موقف پر قائم ہیں اور مسلسل اس موقف کی حمایت میں کمر بستہ رہتے ہیں۔

    جناب فہمی کہتے ہیں کہ اس بات میں ذرہ برابر مبالغہ نہیں، خود ہم نے گزشتہ دو سال میں ان کے ایک ایسے گروہ کا سراغ لگایا ہے جو اپنی ساری توانائیاں اسلامی شریعت پر اعتراض کرنے میں صرف کر رہا تھا، اور اپنے اوقات اسلامی شریعت پر نکتہ چینی، اسلامی تجربہ کا مذاق اڑانے اور اسلامی تاریخ اور اس کی علامات کا تمسخر اڑانے کے لیے وقف کیے ہوئے تھا۔ (الاہرام مورخہ ۲ ستمبر ۱۹۸۶ء)

    قاہرہ میں تنظیم اطباء کی ثقافتی کمیٹی نے ایک اجلاس اسلامی فکر سے وابستگی رکھنے والے اہل علم اور لادینی فکر کے حامل لوگوں کے مذاکرے کے لیے منعقد کیا۔ اس میں اسلامی نقطہ نظر کی نمائندگی کے لیے مجھے اور میرے استاد شیخ الغزالی کو مدعو کیا، اور لادینی حلقے سے ڈاکٹر فرج فودہ، ڈاکٹر وحید رأفت اور ڈاکٹر فواد زکریا کو بھی بلایا - لادینیت کے علمبرداروں میں سے اکثر نے معذرت کر لی اور صرف ڈاکٹر فواد زکریا آئے۔ میں نے اس اجلاس اور مذاکرے کو خوش آمدید کہا، کیونکہ اس سے وقت کے ایک اہم ترین مسئلے پر دو فریقوں کو بالمشافہ گفتگو کا موقع میسر آ رہا تھا۔

    اجلاس کے دن ”دار الحکمت“ کے ہال میں جس قدر لوگ جمع تھے اتنے کسی اجلاس یا خطاب میں کم ہی جمع ہوتے ہیں۔ دارالحکمت کا ہال اپنی وسعت کے باوجود تنگ پڑ گیا اور اس کے ساتھ والی جگہ پر بھی بہت سے لوگ زمین پر بیٹھ گئے اور بہت سے چھتوں پر چڑھ گئے، کچھ لوگوں نے کھڑے ہو کر مقررین کے خیالات کو سنا اور بعض لوگ تو جگہ نہ ہونے کی بناء پر واپس بھی چلے گئے کیونکہ کہیں بالشت بھر بھی خالی جگہ نہ تھی۔

    یہ اجلاس اسلام اور لادینیت کے بارے میں ایک عوامی استصواب کی حیثیت رکھتا تھا کہ قوم ان دونوں میں سے کس کو اختیار کرنا چاہتی ہے۔ ڈاکٹر فواد زکریا نے اپنی گفتگو کے آغاز میں کہا، اس عنوان سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام لادینیت کے بالمقابل ہے اور پہلے ہی سے یہ بات طے شدہ ہے کہ اس معرکے کا فیصلہ اسلام کے حق میں ہونا ہے۔ یہ ان کی طرف سے اس بات کا اعتراف تھا کہ جب کبھی اسلام اور غیر اسلام کے مابین موازنہ کیا جائے گا تو لازماً اسلام ہی کا پلڑا بھاری رہے گا۔

    پہلے شیخ الغزالی نے خطاب کیا۔ ان کے بعد ڈاکٹر فواد زکریا نے گفتگو کی اور پھر میرا بیان ہوا۔ اس کے بعد ڈاکٹر زکریا نے میرے بیان کا جواب دینے کی خواہش ظاہر کی جس کا میں نے انھیں پورا موقع فراہم کیا۔ انھوں نے ایک طویل تقریر کی۔ وہ واحد شخص تھے جنھیں دو مرتبہ بولنے کا موقع ملا حالانکہ اکثر حاضرین ان کے بیانات سے تنگ آ چکے تھے۔ اصولاً مجھے بھی ان کی باتوں کا جواب دینا چاہیے تھا اس لیے کہ وہ میرے ہی بیان کی تردید کر رہے تھے مگر چونکہ وقت زیادہ ہو چکا تھا اس لیے ہم نے فیصلہ لوگوں پر چھوڑ دیا اور لوگوں نے اسی وقت فیصلہ کر بھی دیا جو ظاہر ہے ڈاکٹر زکریا اور ان کے ہم خیالوں کو پسند نہ آیا۔

    اس کے بعد اخبار ”الشعب“ کے ایڈیٹر جناب عادل حسین نے، جو اسلام کے بارے میں بہت غیور ہیں، اپنی نسبت ڈاکٹر زکریا کے بیان کردہ بعض امور کی تصحیح کی اور بعض اہم نکات پر روشنی ڈالی۔ بعد ازاں حاضرین میں سے لادینیت کی حامی ایک خاتون آئیں اور انھوں نے ایسی باتیں کیں جو مذاکرے کے آداب کے قطعاً خلاف، بے جا الزام تراشی اور سطحیت پر مبنی تھیں۔ اس پر حاضرین بہت برہم ہوئے لیکن اجلاس کے منتظمین ڈاکٹر عصام عریان اور ان کے ساتھیوں نے بڑی حکمت و دانائی اور حسن انتظام کے ساتھ مجمع کو کنٹرول کر لیا۔

    اجلاس کے آخر میں جناب طارق بشری نے بڑا جامع اور بلیغ خطاب کیا۔ اس کے بعد اجلاس اختتام کو پہنچا۔

    یہ ایک تاریخی اور قابل ذکر اجلاس تھا چنانچہ اس کی رپورٹنگ تمام روزناموں اور ہفتہ وار اور ماہوار رسالوں میں ہوئی۔ ان میں وہ اخبار و رسائل بھی تھے جو عام ملکی اور قومی نقطہ نظر کے حامل تھے اور وہ بھی جو کسی سیاسی پارٹی کے یا اسلامی نقطہ نظر کے ترجمان تھے۔ ان سب اخبارات نے اپنے اپنے نقطہ نظر کے مطابق اجلاس کی تفصیلات شائع کیں۔ ان میں سے بعض نے عمدہ تلخیص کی اور بعض نے ان تفصیلات کو توڑ مروڑ کر شائع کیا جیسا کہ اخبار "الاہالی" اور "الوفد" نے کیا چنانچہ اخبار "الشعب" ان کا جواب دینے اور ان کی غلط رپورٹنگ کی اصلاح پر مجبور ہوا۔

    اس مذاکرے پر سب سے عجیب تنقید ڈاکٹر فواد زکریا نے کی، جو خود اس مذاکرے کے ایک فریق تھے۔ انھوں نے رسالہ "المصور" میں اس مذاکرے کے بارے میں ایسی باتیں لکھیں جو علمی دیانت اور انصاف کے سراسر خلاف تھیں۔ انھوں نے اس اجلاس کے حاضرین، جن میں اگر سب نہیں تو ان کی اکثریت یونیورسٹیوں کے روشن خیال طالب علم اور دوسرے دانشوروں پر مشتمل تھی، پر الزام لگایا کہ انھوں نے انصاف نہیں کیا۔ اسی طرح انھوں نے شیخ الغزالی اور مجھ پر بھی یہ الزام عائد کیا کہ ہم نے عقل کے بجائے جذبات کو مخاطب کیا، جو کہ سراسر غلط اور خلاف حقیقت ہے۔ یہ ایسی بات ہے جس کی گواہی وہ تمام لوگ دیں گے جو مذاکرے میں حاضر تھے اور ان میں ایک بڑی تعداد اہل علم اساتذہ اور ماہرین قانون اور حج صاحبان کی تھی۔

    جن حضرات نے بھی ڈاکٹر زکریا کی گفتگو پڑھی انھوں نے محسوس کیا کہ ڈاکٹر زکریا نے اپنی ناراضگی اور غصے کا سب سے زیادہ ہدف مجھے ہی بنایا۔

    میرا اصل گناہ یہ ہے کہ میں نے ان کی تقریر کے بعد گفتگو کی اور ان کے شبہات کی بنیادوں کو نشانہ بنایا۔ حاضرین نے ان کی گفتگو ناگواری اور ناراضگی کے ساتھ سنی جبکہ میری باتیں توجہ اور اشتیاق کے ساتھ سنی گئیں۔

    حقیقت یہ ہے کہ اس کا سبب نہ ان کی کمزوری تھی نہ میری قوت بلکہ اس کا سبب اس باطل کی اپنی کمزوری تھی جس کے دفاع پر وہ کمر بستہ ہو گئے تھے، اور اس حق کی قوت جس کے دفاع کا اللہ نے مجھے موقع عطا فرمایا تھا۔

    یہ ڈاکٹر موصوف کی بد نصیبی تھی کہ وہ اسلام پر ایمان رکھنے والی امت کے افراد کے سامنے ایک ایسے قضیہ کی حمایت کر رہے تھے، یعنی لادینیت کی، جس کا انجام ناکامی تھا۔

    ڈاکٹر موصوف نے اسلام کے شیدائیوں پر یہ الزام بھی لگایا کہ وہ پہلے آکر دارالحکمت کے ہال کی سیٹوں پر بیٹھ گئے۔ اور انھیں وہم ہوا، یا وہ یہ غلط فہمی پیدا کرنا چاہتے ہیں، کہ یہ سب کچھ پہلے سے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہوا۔ حالانکہ اللہ جانتا ہے کہ ایسی کوئی بات نہیں تھی۔ بس یہی تھا کہ لوگوں کو ایک ایسے مباحثہ میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی جس سے انھیں دلچسپی تھی، چنانچہ وہ (جوق در جوق) آئے۔

    اور اگر یہ اجلاس جامعہ قاہرہ کے کسی ہال میں ہوتا یا قاہرہ کے بین الاقوامی اسٹیڈیم میں ہوتا اور حاضرین کی آمد کے لیے دروازے کھول دیے جاتے تو سوچنے کی بات یہ ہے کہ کون سا فریق زیادہ اور بکثرت ہوتا؟

    بلاشبہ اسلام کے حامیوں کی تعداد زیادہ ہوتی اور حاضرین کے دل اور فکر و شعور کی تمام قوتیں اسلامی ذہن رکھنے والوں اور داعیان اسلام کی مؤید اور ناصر ہوتیں۔ اس حقیقت سے خود ڈاکٹر زکریا بھی واقف ہیں بلکہ انھوں نے واضح الفاظ میں اس کا اعتراف بھی کیا ہے۔ موصوف نے اس حقیقت کی تاویل کرنے کی بھی کوشش کی، مگر ان کی یہ سعی کامیاب نہ ہو سکی۔ انھوں نے میرے بارے میں جو یہ بات کہی کہ میں جذباتی باتوں سے حاضرین پر چھا گیا تو اس کی گواہی تمام حاضرین وثوق کے ساتھ دیں گے کہ میں نے انتہائی ممکن حد تک عقل و منطق کے ساتھ اور موضوع کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے گفتگو کی، چنانچہ میری گفتگو متوازن رہی۔ اب بھی جو چاہے اس اجلاس کے ویڈیو ٹیپ موجود ہیں وہ ان کو سن کر اور دیکھ کر فیصلہ کر سکتا ہے۔

    ڈاکٹر موصوف نے یہ بھی کہا ہے کہ میں حاضرین پر جذباتی انداز میں اثر انداز ہونے کے لیے اپنی آواز میں زیر و بم پیدا کر رہا تھا۔ میں کہتا ہوں کہ الحمد للہ! میری آواز ہمیشہ بلند ہی رہتی ہے اور میں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ اللہ میری آواز کو حق کے لیے اور حق کے ساتھ بلند رکھے۔

    ڈاکٹر صاحب اس بات پر بہت برہم ہیں کہ حاضرین نے ان کی کوئی ستائش نہ کی، اس لیے کہ ڈاکٹر موصوف کی باتیں، جیسا کہ وہ خود کہتے ہیں، صدا بصحرا ثابت ہوئیں۔ میں بھی کہتا ہوں کہ ان کی باتیں صدا بصحرا ثابت ہوں گی۔

    ہاں! ڈاکٹر صاحب موصوف کی باتیں جمہور کی عقل اور ان کے دل سے دور ہی رہیں گی، اس لیے کہ وہ جن خیالات کا اظہار کر رہے ہیں وہ تمام کے تمام درآمد شدہ تصورات اور دوسری قوموں کے افکار ہیں، چنانچہ عوام انھیں قبول نہیں کریں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے یہ افکار و تصورات (مسلمان) عوام کے دین، ان کی شریعت، ان کی اقدار، ان کی تاریخ اور ان کے حالات کے بالکل خلاف ہیں۔

    انھی وجوہ کی بناء پر میں نے یہ چاہا کہ میں تمام لادینیت پسند حضرات کے خیالات کا جواب بالعموم، اور ڈاکٹر فواد زکریا کے خیالات کا بالخصوص، ایک کتاب کی صورت میں دوں جو پڑھی جائے، نہ کہ ایک خطاب کی صورت میں جو سنا جائے اور جس کے بارے میں یہ کہا جا سکے کہ آواز کی قوت سے سامعین کو متاثر کیا گیا، یا سامعین کی حوصلہ افزائی کی وجہ سے معرکہ سر کر لیا گیا۔ اب جب کہ ہمارا جواب کتاب کی صورت میں قارئین کے ہاتھوں میں پہنچ چکا ہے، ڈاکٹر موصوف کو معلوم ہو جائے گا کہ ہماری دلیل، خواہ تقریر ہو یا تحریر، ہر موقع پر قوی اور ہماری منطق ہر مرحلے پر صائب ہوتی ہے۔ اس لیے کہ ہم اس حق کی بات کرتے ہیں جس پر آسمان و زمین استوار ہیں، اور حق ہی قابل اتباع ہے، اور حق بات ہی سنی جانی چاہیے۔ باطل خواہ کتنا ہی پھولے اسے زائل ہی ہو کر رہنا ہے:

    وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ۚ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا

    (اور اعلان کر دو کہ حق آ گیا اور باطل مٹ گیا، باطل تو مٹنے ہی والا ہے) (الاسراء: ۸۱)

    میں نے مصر کے لادینیت پسندوں میں سے جواب کے لیے ڈاکٹر فواد زکریا کو اس لیے منتخب کیا کہ انھوں نے کثیر الاشاعت اخباروں میں اپنے مقالے شائع کروائے ہیں اور دارالحکمت کے تاریخی اجلاس میں بھی لادینیت پسند لوگوں کی جانب سے وہی واحد نمائندے کے طور پر پیش ہوئے، نیز یہ کہ لادینی حلقوں میں سے زیادہ وضاحت کے ساتھ اپنے افکار کو انھیں نے بیان کیا ہے۔ شبہات وارد کرنے اور انھیں مدلل انداز میں پیش کرنے پر وہ ان سب سے زیادہ قادر ہیں۔ وہ بڑی جرات کے ساتھ اور انتہائی سخت لب و لہجہ میں مسائل کے بنیادی عوامل پر بحث کرتے ہیں اور اس امر کی ذرا پروا نہیں کرتے کہ ان کے دلائل نہایت واضح دینی مسلمات کے خلاف اور عوام کے نظریات و عقائد سے متصادم ہیں۔ اگر ہم ان کے افکار و خیالات کے تمام سہاروں کو گرا دیں اور ان کی ملمع سازی کا بھرم کھول دیں تو یہ تمام لادینی حلقوں کا اور ان کے خیالات کا رد ہو جائے گا اور ان کی سب بے سروپا باتوں کا یکسر خاتمہ ہو کر حقیقت آشکارا ہو جائے گی۔

    میں نے زیر نظر کتاب میں گفتگو چند اساسی امور پر مرکوز رکھی ہے، جو یہ ہیں:

    1. فریقین کے موقف کا تعین، کہ دونوں میں سے ہر ایک کی فکر کیا ہے اور وہ کہاں کھڑا ہے؟
    2. گفتگو کے بنیادی نکات کا تعین، بالخصوص اسلام اور لادینیت کے معنی کی تحدید۔
    3. ان معیارات کا تعین جن کی جانب اختلاف کی صورت میں رجوع کرنا چاہیے اور فریقین ان کو بطور حکم تسلیم کرنے پر راضی ہوں۔
    4. فریقین کے درمیان اصل اختلاف کی وضاحت اور وہ اس طرح کہ اولاً یہ متعین کیا جائے کہ وہ کون سے امور ہیں جن پر اتفاق ہے اور وہ کون سے امور ہیں جن میں اختلاف ہے۔
    5. لادینی حلقوں، خصوصاً ڈاکٹر فواد زکریا نے اسلام اور اسلامی شریعت کے بارے میں جو شبہات پیدا کیے ہیں، ان کا تفصیلی جائزہ اور قطعی تردید تاکہ یہ حقیقت کھل کر سامنے آ جائے کہ یہ تمام اعتراضات بالکل بے بنیاد اور علمی نقطہ نظر سے سراسر بے وزن ہیں۔ اسی طرح ان شبہات کا قطعی ازالہ جو دور جدید میں عالم اسلامی کی حقیقی آزادی اور اس سے متعلق دوسرے اہم امور کی نسبت عوام کے ذہن میں پیدا کیے جا رہے ہیں، حالانکہ اسلامی تحریک کا مقصد صرف یہ ہے کہ عالم اسلام کو استعمار کے اثر، خاص طور پر ثقافتی اور تشریعی غلبے سے آزاد کروایا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے یہاں نفاذ شریعت کی کوششوں کے بارے میں خصوصیت سے گفتگو کی ہے۔ اسی طرح ہم نے اسلامی بیداری سے متعلق کوششوں، اور ان کوششوں کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے ضروری اقدامات کی نشان دہی کے ساتھ ساتھ اس سلسلے میں استعمار اور صہیونیت کے موقف کی وضاحت تفصیل سے الگ صورت میں کی ہے اور ڈاکٹر صاحب موصوف کے خیالات کا جواب بھی دیا ہے۔ تاہم یہاں لادینیت پسند لوگوں کا جواب دیتے ہوئے بعض اہم امور ترک بھی کر دیے گئے ہیں کیونکہ یہ چیزیں ہمارے سلسلہ تالیف ”اسلامی حل کی قطعیت“ کے تیسرے حصے میں بیان کی جائیں گی۔ امید ہے کہ یہ کتاب ان شاء اللہ جلد شائع ہو جائے گی۔

    اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ زیر نظر کتاب مصنف، قارئین کرام، طابع، ناشر، اور تقسیم کنندہ کے حق میں خیر و برکت کا باعث ہو اور ہدایت کا ذریعہ بنے۔ آمین

    والله يقول الحق وهو يهدى السبيل

    (اور اللہ حق بات کہتا ہے اور وہی صحیح راستہ دکھاتا ہے)

    یوسف القرضاوی

    دوحہ - اوائل رجب ۱۴۰۷ھ

    با مقصد گفتگو

    با مقصد گفتگو کے لیے ناگزیر ہے کہ چند اساسی امور کا محتاط انداز سے تفصیل کے ساتھ جائزہ لے کر ان کی توضیح کی جائے تاکہ التباس سے بچا جا سکے اور گفتگو بے نتیجہ، بے مقصد اور محض فلسفیانہ مباحثہ بن کر نہ رہ جائے۔

    یہ اساسی امور حسب ذیل ہیں :

    1. موقف کا تعین
    2. مفہوم کا تعین
    3. معیارات کی تحدید
    4. محل نزاع کا تعین

    ہم ان امور پر علیحدہ علیحدہ گفتگو کر کے ان سے متعلق لادینیت کے علم برداروں کے شبہات کا جواب دیں گے۔

    موقف کا تعین

    موقف کے تعین کا مطلب یہ ہے کہ ہر فریق کا موقف متعین اور واضح ہو، کیونکہ یہ بات کسی طرح جائز قرار نہیں دی جا سکتی کہ جو شخص اصول پر یقین نہ رکھتا ہو وہ فروع پر بحث کرے۔ اور جو شخص اسلامی عقیدے پر ایمان نہ رکھتا ہو، اسے شریعت کا قائل کیا جائے۔ ایسا مادہ پرست شخص جو امور غیب کا منکر ہو اور مادہ اور محسوسات کے سوا اسے کسی شے پر یقین نہ ہو اور جو نعوذ باللہ اللہ کے وجود کو بھی خرافات قرار دیتا ہو اور اس کا کہنا یہ ہو کہ مذہب اقوام عالم کے لیے افیون کی حیثیت رکھتا ہے۔ جس کا وحی اور رسالت پر اور اللہ کی طرف سے نازل کردہ کتاب اور میزان پر بھی ایمان نہ ہو، اور جو یہ نہ مانتا ہو کہ اس حیات فانی کے بعد ایک دائمی اور ابدی زندگی ہے، جس میں انسان کے تمام اعمال کا بدلہ دیا جائے گا، اگر اعمال نیک ہوں گے تو اچھا بدلہ ملے گا اور اگر اعمال برے ہوں گے تو برا بدلہ ملے گا۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

    فَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ ۝ وَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ

    (پھر جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہو گی وہ اسے دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر بدی کی ہو گی وہ اس کو دیکھ لے گا) (سورة الزلزال: ٤ - ٨)

    اگر کوئی شخص ان تمام امور پر ایمان نہیں رکھتا تو اس سے زکوٰۃ کی فرضیت پر کیونکر بحث کی جا سکتی ہے، اسے کیسے قائل کیا جا سکتا ہے کہ جوا، شراب اور زنا حرام ہیں۔ اسے اس بات پر کس طرح مطمئن کیا جا سکتا ہے کہ حدود کا قائم کرنا ضروری ہے، عورتوں کو حیا و حجاب کے ساتھ رہنا چاہیے، اور زیب و زینت کی نمائش سے گریز کرنا چاہیے۔ اسے بیع غرر (وہ خرید و فروخت جس میں دھوکا ہو) اور تماثیل (مجسمے اور تصاویر بنانے) کی ممانعت جیسے احکام کیسے سمجھائے جا سکتے ہیں؟

    جس شخص کا اس حقیقت پر ایمان نہ ہو کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں، آپ کا سارا کلام وحی ہے اور قرآن اللہ کی کتاب ہے، جس میں باطل نہ آگے سے آ سکتا ہے اور نہ پیچھے سے، اس سے نفاذ شریعت کی ضرورت و اہمیت پر گفتگو لاحاصل ہے، اس لیے کہ وہ شریعت، صاحب شریعت اور ان کی لائی ہوئی کتاب ہی پر ایمان نہیں رکھتا۔ ایسے شخص سے تو سب سے پہلے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت اور قرآن کریم کے من جانب اللہ ہونے پر مباحثہ ہو سکتا ہے، جس طرح کہ یہود و نصاریٰ سے ہوتا ہے۔ ان دونوں بنیادی امور کے طے ہو جانے کے بعد شریعت اور نفاذ شریعت پر بات ہوگی، کیونکہ یہ تو تصور نہیں کیا جا سکتا کہ کوئی عمارت بغیر بنیاد کے کھڑی ہو سکتی ہے۔

    اگر کوئی شخص سرے سے اللہ تعالیٰ کی الوہیت پر ایمان نہ رکھتا ہو، اس کے نزدیک سرے سے امور غیب ہی ثابت نہ ہوں اور وہ فویرباخ کے غرور پر مبنی اس قول کا قائل ہو کہ یہ بات درست نہیں کہ اللہ نے انسان کو پیدا کیا بلکہ صحیح یہ ہے کہ انسان نے اللہ کو پیدا کیا، یعنی الوہیت کا عقیدہ ایک خیالی بات ہے جسے انسان نے خود ہی اختراع کر لیا ہے، تو صاف ظاہر ہے کہ ایسے شخص سے احکام شریعت کے نفاذ اور حدود کے اجراء کی بات کرنا نہ صرف یہ کہ اپنے وقت کا ضائع کرنا ہے، بلکہ بے مقصد کوشش اور غیر محدود تفصیلات کے بیابان میں بھٹکنا ہے، کیونکہ وہ تو سرے سے دین کی اساس ہی کا منکر ہے۔

    یہی وجہ ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل کو یمن میں قاضی اور معلم بنا کر بھیجا تو آپ نے انھیں نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ اہل کتاب کے پاس جا رہے ہیں، سب سے پہلے انھیں اس بات کی دعوت دیجیے کہ وہ یہ گواہی دیں کہ اللہ ہی واحد معبود ہے اور محمد اللہ کے رسول ہیں۔ اگر وہ یہ بات مان لیں تو انھیں تعلیم دیجیے کہ اللہ نے ان پر شب و روز میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔ اگر وہ آپ کی یہ بات تسلیم کر لیں تو انھیں بتائیے کہ اللہ نے ان کے مال پر زکوٰۃ فرض کی ہے جو ان کے دولت مندوں سے لے کر ان کے غریبوں کو لوٹائی جائے گی۔

    اس طرح گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ کو یہ تعلیم دی کہ وہ شریعت کے احکام بتانے سے پہلے لوگوں کو صحیح عقیدہ قبول کرنے کی دعوت دیں۔

    اس لیے میں اپنے بھائیوں سے جو لادینیت کے دفاع اور اس کی حمایت کے لیے کمر بستہ ہو گئے ہیں، جنھوں نے اسلام اور اسلامی شریعت کی صریح مخالفت اور دشمنی کو اپنا شعار بنا لیا ہے، یہ گزارش کروں گا کہ وہ سب سے پہلے اپنا موقف متعین کریں اور یہ واضح کریں کہ اللہ تعالیٰ، وحی اور آخرت کے بارے میں ان کا موقف کیا ہے؟ اور کیا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت پر ایمان رکھتے ہیں؟ اور جو تعلیمات آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) لے کر آئے تھے وہ ان کی تصدیق کرتے ہیں؟ کیا اس بات پر ان کا ایمان ہے کہ قرآن اللہ کی کتاب ہے؟ یا دوسرے الفاظ میں کیا وہ مسلمان ہیں کہ ہم ان سے اس طرح گفتگو کریں جس طرح ایک مسلمان اپنے دوسرے مسلمان بھائی سے کرتا ہے؟ یا آپ کے خیال میں مذہب اور ایمان کی اب ضرورت ہی باقی نہیں رہی، جیسا کہ اس سے قبل اگسٹ کانٹ کہہ چکا ہے، اور کیا آپ کے نزدیک بھی یہ زمانہ سائنس کا زمانہ ہے، مذہب کا زمانہ نہیں۔ کیا آپ بھی یہ سمجھتے ہیں کہ ہم ایٹم اور تسخیر فضا کے دور میں ہیں، اس دور میں ہمارے اوپر صحرا کی کشتی یعنی اونٹ کے زمانے کی شریعت کیسے نافذ ہو سکتی ہے؟ ہم بیسویں اور اکیسویں صدی کے لوگوں پر چودہ سو سال پہلے کے اقدار و افکار اور شریعت کا نفاذ کیونکر درست ہو سکتا ہے؟

    اے تبادلہ خیال کرنے والے بھائیو! اپنا موقف وضاحت کے ساتھ متعین کرو اور ہمیں بتاؤ کہ تم کون ہو اور کیا ہو؟ تاکہ ہم علی وجہ البصیرت گفتگو کر سکیں اور اصول و کلیات پر اتفاق کیے بغیر جزئیات پر گفتگو نہ کریں، اصل بنیاد متعین کرنے سے قبل فروعی اور ذیلی مسائل پر معرکہ آرائی سے بچ سکیں۔

    جہاں تک ہمارا تعلق ہے تو ہمارا موقف، اپنے حدود اربعہ کے ساتھ، واضح ہے۔ ہمارا تشخص نصف النہار کے سورج کی طرح روشن ہے اور ہمیں اس بات کے اعتراف میں کسی قسم کی ندامت محسوس نہیں ہوتی، نہ ہم اس کو چھپانے کے لیے اس پر پردے ڈالتے ہیں اور نہ اس کے اظہار و اعلان سے جھجک محسوس کرتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں اور ہم اللہ کو اپنا رب، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا رسول اور قرآن کریم کو اپنے لیے صحیح طرز حیات کے طور پر مان لینے پر راضی ہیں۔ جب ہم نے اس دین کو اپنے لیے پسند کر لیا اور اللہ نے یہ دین ہمارے لیے منتخب فرما لیا اور اس کے ذریعے ہم پر اپنی نعمت کی تکمیل فرمادی:

    الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا

    (آج میں نے تمھارے دین کو تمھارے لیے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمھارے لیے اسلام کو تمھارے دین کی حیثیت سے پسند کر لیا ہے) (المائده: ٣)

    تو اس کے بعد نہ تو کسی وجہ سے ہم اس سے دست بردار ہو سکتے ہیں اور نہ ہی کوئی بڑی قیمت ہمیں اس سے ہٹا سکتی ہے اور نہ ہی کسی کی خاطر ہم اس کو ترک کرنے پر آمادہ ہو سکتے ہیں۔

    اس بات سے کہ ہم مسلمان ہیں، اس بات کا تعین ہو جاتا ہے کہ ہم عقائد کی رو سے کہاں کھڑے ہیں، ہمارا تہذیبی اور نظریاتی موقف کیا ہے؟ لیکن اس سے ہمارے جغرافیائی اور تاریخی موقف میں کوئی تضاد واقع نہیں ہوتا۔

    جغرافیائی اعتبار سے ہم عرب ہیں، ہم ایک وطن میں رہتے ہیں، جس کی ایک ہی زبان اور ایک ہی تاریخ ہے۔ ہماری مشکلات اور ہماری آرزوئیں ایک ہیں۔ اسی طرح ہم مصری ہیں، ایک ہی ملک کے رہنے والے ہیں جس کی ایک تاریخ ہے اور جس کے باشندوں کے درمیان باہمی تعلقات کا ایک ایسا رشتہ ہے جس کی بنا پر حقوق اور ذمہ داریاں ہیں جو ایک وطن اور ایک دوسرے کے پڑوس میں رہنے کا تقاضا ہیں۔ اسی طرح ہمارے کچھ مخصوص مسائل بھی ہیں اور ان مسائل کو حل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں۔

    اسلام سے ہماری نسبت اور کسی خاص قوم اور وطن سے ہمارے تعلق میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ اس لیے کہ عام اور خاص کا باہمی رشتہ تضاد کا نہیں ہوتا جیسا کہ ہم آگے چل کر واضح کریں گے۔

    تاریخی اعتبار سے ہماری صورت حال یہ ہے کہ ہم پندرھویں صدی ہجری کے آغاز میں اور بیسویں صدی کے آخر میں ایک ایسے دور میں زندگی گزار رہے ہیں جس میں انسان نے ذرے کو ریزہ ریزہ کر کے رکھ دیا ہے اور چاند تک پہنچ گیا ہے۔ اور اب وہ ان سیاروں کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھ رہا ہے جو چاند سے بھی آگے ہیں۔ اس نے اپنی عقل سے ایک ایسا ذہن (کمپیوٹر) تیار کر لیا ہے جس سے عجیب عجیب باتیں ظاہر ہوتی ہیں۔

    اسی طرح ہم اس حقیقت کو بھی فراموش نہیں کرتے کہ اس زمین پر صرف ہم ہی آباد نہیں ہیں بلکہ ہم ایک ایسی دنیا میں رہ رہے ہیں جس میں متعدد ادیان اور فکری مذاہب نیز مختلف فلسفہ ہائے زندگی موجود ہیں اور جس میں مختلف قسموں کی نسلوں، رنگوں اور زبانوں سے تعلق رکھنے والے لوگ موجود ہیں۔ ہم مسلمان پوری دنیا کی آبادی کا تقریباً پانچواں حصہ ہیں۔ ایک ارب یا اس سے زائد ہیں۔ لیکن نہ تو ہم اسلحہ کے اعتبار سے طاقتور ہیں، نہ علم کے اعتبار سے دوسری قوموں سے لائق ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ہم ابھی تک غیروں کے دست نگر ہیں۔ ہم مسلمان دنیا کے اس حصے میں رہتے ہیں جسے "تیسری دنیا" یا "ترقی پذیر ممالک" کہا جاتا ہے۔ اور دراصل ترقی پذیر ممالک کی اصطلاح اس پسماندگی کی ایک خوشنما تعبیر ہے جس کے جوئے تلے ہم نڈھال ہو رہے ہیں۔

    جب تک ہم مسلمان ہیں ہمارے لیے اس کے سوا چارہ نہیں کہ ہم زندگی کے ہر مرحلے میں اسلامی احکام کے آگے سر تسلیم خم کر دیں۔ اسلام کی حقیقت ہی یہ ہے کہ ہم اپنا سر اللہ کے سامنے اس طرح جھکا دیں کہ اللہ کے حکم کے سامنے ہماری اپنی کوئی مرضی نہ رہے۔ اگر اللہ ہمیں کوئی بات بتائے تو ہم کہیں ہم ایمان لائے اور ہم نے تصدیق کی اور اگر اللہ تعالیٰ کسی بات کا حکم دے تو ہم کہیں کہ ہم نے سن لیا اور ہم ماننے والے ہیں۔ اور اگر اللہ کسی بات سے منع کرے تو ہم کہیں کہ ہم اس بات سے رک گئے اور باز آ گئے۔ اس کے بغیر ایمان کا تقاضا پورا نہیں ہوتا اور اللہ کے حکم اور اس کے امر کے سامنے مومن کے لیے فیصلہ و انتخاب کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔

    وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ

    (کسی مومن مرد اور کسی مومن عورت کو یہ حق نہیں کہ جب اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول کسی معاملہ کا فیصلہ کر دے تو پھر اسے اپنے معاملہ میں خود فیصلہ کرنے کا کوئی اختیار باقی رہے۔) (الاحزاب: ٣٦)

    یہ ایک مسلمہ بات ہے ہر اس شخص کے نزدیک جس نے اسلام کو بطور دین پسند کر لیا، اور اسلام کے مفہوم و معنی سے واقف ہو، جو اس بات کو بھی جانتا ہو کہ اللہ کے رب ہونے کا مطلب کیا ہے اور بندے کے بندہ ہونے کا تقاضا کیا ہے۔ نیز اللہ کے خالق ہونے اور بندے کے مخلوق ہونے کے بندے کی اپنی زندگی اور دوسرے لوگوں سے اس کے تعلقات پر کیا اثرات پڑتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ جو ہمیں پیدا کرنے والا، ہمارا پالنے والا، اور ہمیں اپنی بے شمار نعمتوں سے نوازنے والا ہے اس کا یہ حق ہے کہ وہ بندے کو بعض امور کا حکم دے اور بعض سے روک دے۔ اور بندے جو اللہ کی مخلوق ہیں، جن پر اس کی نعمتوں کی بارش ہوتی ہے ان کا فرض ہے کہ وہ خدا کی بات سنیں اور مانیں۔

    ہمارا اللہ تعالیٰ کے احکام کو تسلیم کرنا انھیں بے سوچے سمجھے مان لینا نہیں، نہ ہی یہ تسلیم و رضا عقل کے دائرے سے باہر ہے۔ بلکہ یہی عقل و فطرت کا تقاضا ہے۔ عقل ہی کے ذریعے ہم نے صانع کی صنعت پر (یعنی بنانے والے کی کاریگری پر) اور کائنات کے بہترین نظام سے اس کے ایجاد کرنے والے اور منتظم پر استدلال کر کے اللہ کو پہچانا ہے۔ یعنی جب ہم نے کائنات کی عمدہ ترتیب اور اس میں جاری قوانین پر غور کیا تو ہم پر یہ حقیقت واضح ہوئی کہ ضرور اس کائنات کو بنانے اور اسے چلانے والی ہستی ہر چیز کی جاننے والی اور اس کی خبر رکھنے والی ہے۔ وہ حکمت اور دانائی رکھنے والی ہے۔

    عقل ہی نے ہمارے لیے اس حقیقت کی نشان دہی کی ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب کے پیغام کو ہم تک پہنچانے میں سچے ہیں اور یہ کہ قرآن کی تالیف اور اس کی آیات کی ساخت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے نہیں بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جو رسول صادق صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی طرف سے ہم تک پہنچایا ہے۔

    أُحْكِمَتْ آيَاتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِن لَّدُنْ حَكِيمٍ خَبِيرٍ

    (اور جس کی آیتیں پختہ اور مفصل ارشاد ہوئی ہیں ایک دانا اور باخبر ہستی کی طرف سے) (ہود: ۱)

    وجود کی دو عظیم ترین حقیقتیں عقل سے ثابت ہیں یعنی اللہ وحدہ لا شریک کا وجود اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی صداقت - ان دونوں حقائق کے پا لینے کے بعد، بقول امام غزالی، ان امور کو جاننے کے لیے جن کا تعلق غیب سے ہے، عقل وحی کی جانب متوجہ ہو جاتی ہے کیونکہ غیبی امور تک رسائی سے عقل عاجز ہے اور اس کے لیے اسے الہامی ہدایت اور روشنی کی ضرورت ہے۔

    اس کا یہ مطلب نہیں کہ احکام شریعت نازل ہونے کے بعد عقل کا کوئی کردار و عمل باقی نہیں رہا، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ احکام شریعت کی مخاطب ہی عقل ہے، وہی ان احکام کو سمجھتی اور ان کی تفسیر کرتی ہے، بالخصوص جبکہ اکثر احکام شریعت ایک سے زائد مفہوم اور ایک سے زائد تشریح کے حامل ہیں۔ یہ اللہ کی بہت بڑی حکمت ہے کہ اس نے بعض ایسے احکام دیے ہیں جن کی دلالت قطعی ہے اور بعض احکام ایسے دیے ہیں جو متشابہ ہیں اور جن میں ایک سے زائد مفہوم کا احتمال پایا جاتا ہے تاکہ ان میں (مختلف افراد کی) عقلیں اجتہاد کر سکیں اور حق و صواب کو تلاش کر سکیں، کوئی ایک رائے کو ترجیح دے، کوئی دوسری کو اور کوئی تیسری کو۔ مختلف اور قسم قسم کی رائے اختیار کرنے والے اگر اجتہاد کے اہل ہیں، اور اگر ان کا مقصود انسانی استطاعت کے مطابق حقیقت تک پہنچنا ہے، تو یہ سب لوگ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اجر کے مستحق ہیں۔

    جن امور کے بارے میں شریعت کے احکام موجود نہیں، اور ایسے امور کی تعداد بہت ہے، ان میں عقل کی کارکردگی کے لیے بہت بڑا میدان موجود ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا، جو دانا و حکیم بھی ہے اور اپنے بندوں کے حق میں بے حد شفیق و رحیم بھی، منشاء ہرگز یہ نہیں کہ وہ اپنے بندوں کی پوری زندگی کو شرعی احکام کے ذریعے مختلف قسم کی پابندیوں میں جکڑ کر رکھ دے، بلکہ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے لیے آزادی کا وسیع میدان کھلا رکھا ہے اور ان کو اس بات کا موقع دیا ہے کہ وہ اس میدان میں اپنی عقل کو اپنے مادی، معنوی، انفرادی و اجتماعی اور دنیوی اور اخروی مفادات کے مطابق بر سر کار لا سکیں۔ اس سلسلے میں ان سے صرف اس بات کا مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اپنی عقل کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ اصول و قواعد کی روشنی میں بروئے کار لائیں جو غلطی سے پاک ہیں اور ان قواعد و احکام اور ان معیارات کو پیش نظر رکھیں جو ان اصولوں میں بیان کر دیے گئے ہیں۔

    غرض یہ کہ ہمارے اور ان لوگوں کے درمیان، جو مسائل کے اسلامی حل کے دشمن، سیکولرزم کے علمبردار، اور اسلامی شریعت کے نفاذ کے مخالف ہیں وہ اہم ترین مسئلہ ہے جو موقف کے تعین کا ہے اور اس سوال کے بارے میں واضح نقطہ نظر اختیار کرنے کا مسئلہ ہے کہ کیا وہ مسلمان ہیں؟ کیا وہ اسلام کے ہمنوا ہیں یا اس کے مخالف ہیں؟ اور کیا وہ نفاذ شریعت کے حق میں ہیں یا اس کے خلاف ہیں؟

    غالب گمان یہی ہے کہ وہ کہیں گے ہم مسلمان ہیں اور نسلاً بعد نسل رشتے اسلام کے بندھن میں بندھے ہوئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان لوگوں سے، جنھیں سیاست نے تجربہ کار بنا دیا ہے، توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ مصر جیسے ملک میں مسلمانوں کے درمیان رہتے ہوئے برملا یہ کہہ دیں گے کہ دین کا دور اب گزر چکا اور ہم دین پر ایمان نہیں رکھتے، کیونکہ یہ اعلان کرتے ہی وہ عوام کی حمایت سے محروم ہو جائیں گے۔

    توقع یہ ہے کہ وہ کہیں گے، ہم بھی تمھاری طرح مسلمان ہیں لیکن ہمیں تم سے اس بارے میں اختلاف ہے کہ اسلام کیا ہے؟ ہمارا اسلام جدید ہے، تمھارا اسلام روایتی اسلام ہے، ہمارا اسلام دور حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہے اور تمھارا اسلام بوسیدہ اسلام ہے۔ ہمارا اسلام ترقی و حرکت کا دین ہے جبکہ تمھارا اسلام جامد اور غیر متحرک ہے۔

    اس کے جواب میں ہم کہیں گے کہ ہمارا اسلام ہی صحیح ہے، اور تم جس چیز کو اسلام کا لبادہ پہناتے ہو وہ دراصل باہر سے درآمد کیے گئے افکار و خیالات ہیں۔ ہمارے نقطہ نظر کا آغاز اسلام سے ہوتا ہے، عقیدہ کے اعتبار سے بھی اور طرز حیات کے اعتبار سے بھی۔ جب کہ تمھارا نقطہ آغاز دوسرے مسلمات ہیں۔ ہم اسلام کو اپنے وجود کی روح اور اپنی زندگی کا جوہر سمجھتے ہیں جبکہ تم اسے صرف مذہبی مسئلہ قرار دیتے ہو۔

    اختلاف کا فیصلہ؟

    سیکولرزم کے علم بردار اور ہم ایک دوراہے پر پہنچ کر الگ الگ راستوں پر چل پڑتے ہیں، اس لیے کہ سیکولرزم کے علم بردار کہتے ہیں، وہ اسلام کی توضیح و تشریح اپنے مخصوص نقطہ نظر سے کریں گے اور اسلام کے مختلف اجزاء کو اپنی مرضی کے مطابق مقدم و مؤخر کرتے رہیں گے۔ لیکن ہم ان کا یہ دعویٰ تسلیم نہیں کرتے اور اس کے جواب میں تین باتیں کہتے ہیں:

    1. اول: اسلام کوئی ڈھکی چھپی دعوت نہیں، نہ ہی یہ کوئی بے شکل چیز ہے کہ جس کی جو چاہے، اور جس طرح چاہے تعبیر و تشریح کرتا رہے۔ بلکہ اسلام کے واضح اور مقرر اصول ہیں۔ اس کے مصادر بھی واضح اور محکم ہیں۔ اسلام ان دوسرے مذاہب کی طرح نہیں ہے کہ جن کے مذہبی پیشوا یا ان کی مقدس مجالس ان کی تشریح کریں اور جس چیز کا چاہیں اضافہ کریں اور جس چیز کو چاہیں نکال دیں۔ اسلام تو جب سے آیا ہے اسی طرح کامل ہے جس طرح اس وقت تھا جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی تھی کہ:

      الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا

      (آج میں نے تمھارے دین کو تمھارے لیے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمھارے لیے اسلام کو تمھارے دین کی حیثیت سے پسند کر لیا ہے۔) (المائده: ٣)

      اور جس وقت کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ میں تمھیں روز روشن کی طرح واضح اور منور راستہ پر چھوڑ رہا ہوں جس سے صرف وہی روگردانی کرے گا جو ہلاک ہونے والا ہو۔

      قرآن کریم میں اسلام سے متعلق جو امور مختصر طور پر بیان ہوئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ___ آپ کے قول و فعل اور تقریر نے ان کی وضاحت کر دی ہے۔ پھر خلفاء راشدین کی سنت نے، جو خاص طور پر ہدایت یافتہ تھے، اس کو مزید پختہ کر دیا، اور یہ بات واضح ہے کہ اسلام کو سمجھنے کے سلسلے میں ان کی آراء اور اسلام کے اصولوں کو عملی شکل دینے کے سلسلے میں ان کے اعمال کی اتباع اور ان کے طریقے کی پیروی ہمارے لیے واجب ہے، اس لیے کہ وہ درس گاہ نبوت سے براہ راست فیض یاب ہوئے اور اسلام کی اشاعت اور عملی زندگی میں اس کے اصول کا نفاذ ان کے ایمان کا جزء، بنیادی ذمہ داری اور حقیقی دلچسپی تھی۔ اسی طرح اسلام کو سمجھنے کی قدرت بھی ان میں سب سے زیادہ تھی، اس لیے کہ انھوں نے قرآن کو خود صاحب قرآن کی زبان سے سنا اور اس کے نزول کے مواقع اور اسباب کا خود مشاہدہ کیا۔ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں خود آپ کے دہن مبارک سے سنیں۔ اسی طرح وہ نور بصیرت اور فطرت کی سلامتی کے جوہر سے بہرہ ور تھے۔ وہ عربی زبان اور اس کے طرز ادا کے فہم کی وجدانی صلاحیت رکھتے تھے۔

    2. دوم: علماء اور محققین کا اگر کسی امر میں اختلاف ہو جائے کہ آیا وہ چیز اسلام کے مطابق ہے یا نہیں، خواہ اس کا تعلق عقائد سے ہو یا عبادات سے، اخلاق سے ہو یا معاملات سے، تو کیا ایسا کوئی معیار موجود ہے جو اس اختلاف کا فیصلہ کر سکے؟

      جی ہاں! قرآن کریم نے یہ معیار مقرر کر دیا ہے۔ اختلاف کی صورت اسی کی طرف رجوع کیا جانا چاہیے۔ یہ معیار اس فرمان الہی میں مذکور ہے:

      يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ ۖ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ

      (اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور ان لوگوں کی جو تم میں سے صاحب امر ہوں۔ پھر اگر تمھارے درمیان کسی معاملہ میں نزاع پیدا ہو جائے تو اسے اللہ اور اس کے رسول کی طرف پھیر دو اگر تم واقعی اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو۔) (النساء: ٥٩)

      اس امر پر تمام زمانوں میں مسلمانوں کا اجماع رہا ہے کہ اللہ کی جانب لوٹانے سے مراد اللہ کی کتاب کی طرف رجوع کرنا ہے۔ اور رسول کی طرف لوٹانے کا مفہوم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ کی سنت کی طرف رجوع کرنا ہے۔ چنانچہ حدیث نبوی ہے:

      "میں تمھارے درمیان دو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں، اگر تم ان پر مضبوطی سے جمے رہے تو میرے بعد گمراہ نہیں ہو گے: اللہ کی کتاب اور اس کے نبی کی سنت۔"

      چنانچہ جو بات قرآن کریم میں قطعی اور واضح طور پر بیان ہوئی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت صحیحہ سے ثابت ہے وہ قول فیصل ہے اور حاکم عدل (دو ٹوک فیصلہ کر دینے والا)۔ البتہ جس چیز کے بارے میں واضح اور قطعی حکم موجود نہ ہو، یعنی یا تو سرے سے کوئی حکم ہی نہ ہو یا حکم تو ہو مگر اس کا مفہوم واضح نہ ہو یا اس کا ثبوت قطعی نہ ہو تو اس صورت میں ان اصول و قواعد کی جانب رجوع کیا جائے گا جو صحیح استدلال کے لیے ہمارے محقق علما اور تجربہ کار ائمہ نے بنائے ہیں، بالخصوص اس صورت میں جب کہ مختلف دلیلوں کے درمیان بظاہر اختلاف پایا جائے۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے علوم قرآن، اصول تفسیر، قواعد فقہ کے علاوہ علم اصول فقہ اور علم اصول حدیث وضع کیے۔

    3. سوم: اگر ایسے دو گروہوں کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہو جن میں سے ایک گروہ ان علمائے اسلام پر مشتمل ہو جو فقہ اور اسلامی علوم کا خصوصی علم رکھتے ہوں، جو اپنی زندگیاں اسلام کو سیکھنے اور سکھانے میں گزار چکے ہوں، اور جنھوں نے علوم عربیہ، صرف و نحو، معانی و بیان کا بھی اس لیے بدقت نظر مطالعہ کیا ہو کہ یہ تمام علوم اسلام کے صحیح فہم کے سلسلے میں مددگار اور معاون ہیں۔ اور دوسرا گروہ ان لادینیت کے علمبرداروں کا ہو جن کا اسلام کے بارے میں علم سراسر سطحی ہو اور یہ سطحی علم بھی انھوں نے مستشرقین سے حاصل کیا ہو جن کے بارے میں وہ بڑے خوش گمان ہیں، یا پھر ان مستغربین سے جو مغرب کے گرویدہ ہیں اور اپنی تعلیم کے لیے اسی کے رہین منت ہیں، جنھوں نے مغربی اساتذہ کے سامنے زانوے تلمذ تہہ کیا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے غالباً اصول فقہ کی کوئی مستند کتاب نہیں پڑھی، نہ انھوں نے اصول حدیث کا علم حاصل کیا، اور نہ انھوں نے فقہ و حدیث کے علوم حاصل کیے۔ اس صورت میں کس گروہ کے بارے میں بجا طور پر یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ اس کی رائے قرین حق و صواب ہو گی؟ ان اسلامی علوم کے ماہرین کی رائے یا لادینیت پسندوں کی رائے؟ اور ایک عام مسلمان کو اطمینان کے ساتھ ان دونوں گروہوں میں سے کسی گروہ کی ہم رکابی کرنی چاہیے؟

      اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم ہر مسئلہ میں اس کے جاننے والوں اور اس کی مہارت رکھنے والوں کی طرف رجوع کریں۔ چنانچہ فرمان الٰہی ہے:

      فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ

      (اہل ذکر سے پوچھو اگر تم خود نہیں جانتے) (النحل: ٤٣)

      اسی طرح ”فَاسْأَلْ بِهِ خَبِيرًا“ (الفرقان: ٥٩) یعنی اس حقیقت کے بارے میں کسی باخبر انسان ہی سے پوچھئے کیونکہ ”وَلَا يُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِيرٍ“ (فاطر: ١٤) (حقیقت حال کی ایسی خبر تمھیں ایک صاحب بصیرت و آگاہی شخص کے سوا کوئی نہیں دے سکتا)۔ نیز اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:

      وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَىٰ أُولِي الْأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنبِطُونَهُ مِنْهُمْ

      (اگر یہ اسے رسول اور اپنی جماعت کے ذمہ دار اصحاب تک پہنچائیں تو وہ ایسے لوگوں کے علم میں آ جائے جو ان کے درمیان اس سے صحیح نتیجہ اخذ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔) (النساء: ٨٣)

      کیا لادینیت پسند حضرات یہ دعوی کر سکتے ہیں کہ ان کا مقام اسلام کے بارے میں ”اہل ذکر“ کا مقام ہے اور وہ اسلام سے پوری طرح واقف اور اس کے علوم میں مہارت رکھتے ہیں؟ کیا ان کا خیال یہ ہے کہ وہ اسلام کے اختلافی مسائل میں فتویٰ دینے کے مجاز ہیں؟ میرا خیال ہے کہ اپنی ہر طرح کی جسارت کے باوجود وہ غالباً اس دعویٰ کی جرات نہیں کریں گے۔

      اگر بالفرض دونوں فریق علم میں برابر ہوں تو پھر تقویٰ اور پرہیزگاری کی بنا پر ترجیح دینا لازمی ہو گا یعنی جو عالم اللہ سے ڈرتا ہو اور یہ سمجھتا ہو کہ اللہ اسے ہر وقت دیکھ رہا ہے اور وہ اپنے علم کی نسبت اللہ کے ہاں جواب دہ ہے کہ اس نے اپنے علم کے مطابق کتنا عمل کیا؟ اور یہ کہ وہ اپنے دین کو اپنی دنیا کے بدلے فروخت نہ کر ڈالتا ہو، چہ جائیکہ کوئی اپنے دین کو دوسرے کی دنیا کے بدلے فروخت کر ڈالے۔ ظاہر ہے کہ متقی اور پرہیزگار عالم ہی کو ترجیح دی جائے گی۔ اسی کی دلیل لائق توجہ ہو گی اور اس کی بات صائب اور درست مانی جائے گی۔ اس لیے کہ "اولا" اللہ کے دین کے بارے میں اسی پر اعتماد کیا جا سکتا ہے کہ وہ ہوائے نفس کی پیروی میں اللہ کے دین میں کمی بیشی اور دنیا کے حصول کے لیے اس میں تحریف نہیں کرے گا۔ دوم، ایسے ہی شخص کے بارے میں یہ توقع کی جا سکتی ہے ہے کہ اسے صحیح اور حق بات کہنے کی توفیق حاصل ہو گی کیونکہ تقویٰ ہدایت و گمراہی میں فرق کی صلاحیت عطا کر دیتا ہے۔ چنانچہ ارشاد الٰہی ہے:

      يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن تَتَّقُوا اللَّهَ يَجْعَل لَّكُمْ فُرْقَانًا

      (اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اگر تم خدا ترسی اختیار کرو تو اللہ تمھارے لیے فیصلہ کن کسوٹی بہم پہنچائے گا۔) (یعنی ایسے نور سے نوازے گا کہ تم حق اور باطل، ہدایت اور گمراہی کے درمیان تمیز کر سکو گے۔) (الانفال: ۲۹)

      جب لادینیت پسند ایسی ہی کچھ آراء اپنی ہوا و ہوس کی بنیاد پر گھڑ کر، یا اپنے مغربی اساتذہ سے سن کر پیش کرتے ہوں جن کی کوئی دلیل نہ ہو اور جن کے لیے اللہ نے کوئی سند نہ اتاری ہو، بلکہ جو نہ صرف موجودہ دور کے بلکہ قدیم و جدید تمام علمائے شریعت کی فکر اور ان کے اجماع کے سراسر خلاف ہوں، تو ایسی صورت میں ہمارا موقف کیا ہونا چاہیے؟ کیا اسلام کی میزان اور اسلام کی منطق میں یہ آراء قابل اعتبار تصور کی جا سکتی ہیں؟

      ہمارے نزدیک تو اس طرح کی آراء کا اظہار درست نہیں، اور تمھارا یہ مقام نہیں کہ تم اس میں دخل دے سکو!

    مفہوم کا تعین

    فریقین کے درمیان نتیجہ خیز تبادلہ خیال کا ایک اہم تقاضا یہ ہے کہ ان مفاہیم کی ماہیت اور ان سے مراد کا پورا پورا تعین ہو جو فریقین میں بحث و گفتگو کا موضوع ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ بحث میں استعمال ہونے والے الفاظ و کلمات اتنے غیر واضح ہوں کہ ہر فریق ان کے مفہوم کی ایسی من مانی تعبیر کرے جو دوسرے فریق کے نزدیک قابل قبول نہ ہو۔

    مفہوم کے اس تعین سے یہ فائدہ ہو گا کہ کوئی فریق اپنا ذہن، اور وقت کسی ایسے امر کی تردید میں ضائع نہ کرے گا جس کا دوسرا فریق سرے سے قائل ہی نہ ہو بلکہ وہ اس کی اپنی مخصوص تشریح کرتا ہو۔ اگر پہلے ہی سے فریقین کے درمیان الفاظ اور ان کے مفہوم کا تعین ہو جائے تو بحث کا خاصا مرحلہ بآسانی طے ہو سکتا ہے، اور فریقین کے درمیان الفاظ اور ان کے مفہوم میں بہت زیادہ اختلاف باقی نہ رہنے کی صورت میں بحث و مناظرہ کی شدت اور تیزی میں خاصی کمی واقع ہو سکتی ہے۔

    دوسری طرف مفہوم کا تعین ہو جانے کی صورت میں پہلے ہی مرحلے پر یہ معلوم ہو سکتا ہے کہ چونکہ فریقین کے درمیان اختلاف جوہری اور بنیادی نوعیت کا ہے اور دونوں کے مقاصد، خواہشات، طرز عمل اور قدروں میں اس قدر فرق اور دوری ہے کہ دونوں کا باہم قریب آنا محال کے درجے میں ہے تو ایسی صورت میں یہ بھی سوچا جا سکتا ہے کہ ان کے مابین تبادلہ خیال قطعی لاحاصل ہے۔

    اس گفتگو میں جن بنیادی کلمات کے مفہوم کا تعین اور تحدید ضروری ہے وہ دو ہیں: ایک اسلام اور دوسرا سیکولرزم، اس کے بعد جو دوسرے کلمات اس گفتگو میں بکثرت استعمال ہوں گے وہ "شریعت" اور "ترقی" ہیں۔

    اسلام کا مفہوم

    جس اسلام پر ہمارا ایمان ہے، جس کی جانب ہم دعوت دیتے ہیں اور جسے ہم دنیا اور آخرت میں نجات کا ذریعہ سمجھتے ہیں، وہ وہ دین ہے جو اللہ نے اپنی آخری کتاب قرآن میں نازل کیا اور جو اللہ کے آخری رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم عقائد، عبادات، اخلاق، آداب اور معاملات پر مشتمل تعلیمات لے کر مبعوث ہوئے۔ یہ ایک ایسا دین ہے جس کو لوگ اگر اچھی طرح سمجھ لیں اور اس پر ٹھیک ٹھیک عمل پیرا ہو جائیں تو فرد کا تزکیہ ہو جائے، خاندان پر سکون ہو جائے، معاشرہ اندرونی طور پر مربوط و مستحکم ہو جائے، حکومت صحیح نہج پر چلنے لگے اور جس قدر لوگ دین کے معاملے میں اپنا رخ درست کر لیں اسی قدر زندگی سنور جائے اور اس کا رخ درست ہو جائے۔ لیکن اگر لوگ اس کا کوئی غلط تصور اختیار کریں، اس پر عمل کرنے میں غلطی کریں تو جس قدر لوگ اس دین سے دور ہوں گے اسی قدر ان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں بھی خلل پیدا ہو گا۔

    اس دین کا سرچشمہ قرآن کریم ہے جس کی حفاظت کا ذمہ اللہ نے لیا ہے اور جو چودہ سو سال سے اسی طرح ہے جس طرح اللہ نے اسے نازل کیا۔ اس میں کسی ایک حرف کا تغییر و تبدل واقع نہیں ہوا۔ اس دین کا دوسرا سر چشمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح سنت ہے جو قرآن کی توضیح و تشریح کرتی ہے۔ اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خود اللہ تعالیٰ نے یہ ذمہ داری سونپی تھی کہ وہ اپنے قول، عمل اور تقریر کے ذریعہ قرآن کریم کی توضیح کریں:

    وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ

    (اور ہم نے تمھارے اوپر الذکر (قرآن) نازل کیا تاکہ تم لوگوں کے سامنے اس تعلیم کی تشریح و توضیح کرتے جاؤ جو ان کے لیے اتاری گئی ہے۔) (النحل: ٤٤)

    جہاں تک انسان کی آراء اور نظریات کا سوال ہے تو ان کا اسلام میں کوئی دخل نہیں ہے، کیونکہ انسان غلطی سے محفوظ نہیں۔ جبکہ اسلام اللہ تعالیٰ کا دین، اس کی شریعت اور اس کی ہدایت ہے جو انسان کے اقوال اور آراء سے بالاتر ہے۔

    مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی کی رائے رد و قبول سے بالا تر نہیں ہو سکتی۔ البتہ مسلمان ان آراء کے قبول کرنے کے پابند ہیں جن پر علماء و مجتہدین کا مکمل اتفاق رائے ہو اس لیے کہ یہ بات ثابت ہے کہ یہ امت کسی گمراہی پر جمع نہیں ہو سکتی۔

    اسی طرح خلفائے راشدین کی سنت ہے، یعنی وہ طریقہ جو خلفائے راشدین نے اسلام کو سمجھنے اور اس پر عملدرآمد کے لیے اختیار کیا۔ اس خصوصیت کا سبب یہ ہے کہ صحابہ کرام کا دور عہد نبوی سے بالکل ملا ہوا تھا، اور اس دور میں بڑے بڑے صحابہ موجود تھے جو کسی منکر پر خاموش رہنا گوارا نہ کرتے تھے۔ چنانچہ صحیح حدیث میں خلفاء راشدین کی سنت کو اختیار کرنے کی ان الفاظ میں تاکید کی گئی ہے:

    "تم پر لازم ہے کہ تم میری سنت کی پیروی کرو اور میرے بعد ہدایت یافتہ اور راشد خلفاء کی سنت کی پیروی اختیار کرو، اور اس کو مضبوطی سے تھامے رہو۔"

    چنانچہ تاریخ کے مختلف ادوار میں اسلام کے فہم اور اس کی تعلیمات پر عمل درآمد کے معاملے میں مسلمانوں سے جو غلطیاں سرزد ہوتی رہیں ان کا بوجھ مسلمانوں پر ہے، اسلام پر نہیں۔ مسلمانوں کی یہ غلطیاں ان پر اسلام کی طرف سے حجت ہیں جب کہ اس کے برعکس سمجھنا درست نہیں۔

    یہ ہے صحیح اسلام، اس کی جانب ہم لوگوں کو بلاتے ہیں اور اس کے مطابق ہم ان کی تربیت کرتے ہیں عقیدہ، تربیت، عبادت، اخلاق، قانون اور قانون کے عملی نفاذ میں ہم لوگوں کو اسی کی طرف رجوع کی دعوت دیتے ہیں۔

    ہم اس اسلام کی دعوت دیتے ہیں جو واضح اور پاک ہے اور جس میں کوئی ملاوٹ یا آمیزش نہیں جو ہر اونچ نیچ اور انحراف سے محفوظ اور پوری طرح کامل اور مستقیم ہے جو غلو کرنے والوں کی تحریف، باطل پرستوں کے غلط انتساب اور جاہلوں کی تاویل سے قطعاً بری، محفوظ اور پاک ہے۔

    لادینیت کے داعی حضرات علی الاعلان اس صاف ستھرے اسلام پر تو اعتراض کرنے کی ہمت نہیں رکھتے، البتہ انھوں نے اپنا ایک الگ اسلام اختراع کر لیا ہے اور اسے وہ ہم پر زبردستی تھوپنا چاہتے ہیں۔ ان کا اسلام اُس اسلام سے قطعی مختلف ہے جو اللہ کی کتاب قرآن پاک میں موجود ہے۔ جو اسلام قرآن مجید میں محفوظ ہے یہی حقیقی اسلام ہے۔ حضور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی اسلام کو لے کر مبعوث ہوئے تھے، اس کی جانب آپ نے لوگوں کو دعوت دی تھی۔ یہی وہ اسلام ہے جسے خلفائے راشدین نے عملاً نافذ کیا اور جس کی توضیح و تشریح ائمہ محدثین اور مفسرین نے کی ہے۔

    لیکن اسلام سے لادینیت پسندوں کی مراد ایسا اسلام ہے جس پر وہ ان غلطیوں کا بوجھ لاد سکیں جو تاریخ میں مسلمانوں سے سرزد ہوئی ہیں۔ وہ اسلام کی وہی تصویر پیش کرتے ہیں جو انھوں نے خود بنائی ہے یا ان کے پیش رو مستشرقین اور مسیحی مبشرین (مشنری) نے تیار کی ہے۔

    ذرا سنئے ان کے مفکر فواد زکریا کیا کہتے ہیں:

    "نفاذ شریعت کے داعی ایک زبردست غلطی کرتے ہیں اور وہ یہ کہ وہ اپنی کوششوں کا محور اس اسلام کو بناتے ہیں جو قرآن و سنت میں وارد ہوا ہے اور اس اسلام سے صرف نظر کر لیتے ہیں جو تاریخ کے اوراق میں ثبت ہے۔ یعنی یہ اسلام کی تصریحات (وضاحت) پر اکتفاء کرتے ہیں اور تاریخ میں اس نے جو عملی شکل اختیار کی اس کو فراموش کر دیتے ہیں۔"

    بخدا یہ موصوف کی اپنی عبارت ہے جو انھوں نے اپنی کتاب کے مقدمے میں صفحہ ۱۰ پر تحریر کی ہے۔ میں ان کی اس عجیب بات پر بہت حیران ہوں! کیا ان کی مراد یہ ہے کہ جب ہم لوگوں کو اسلام کی دعوت دیں تو انھیں حجاج کی سرکشی، ابونواس کی مے نوشی اور بعض بادشاہوں کی لغو باتوں اور ان کے استبداد (مطلق العنانی) کی دعوت دیں اور لوگوں سے کہیں کہ یہ ہے اسلام؟

    اسلام انسانیت کی ہدایت کے لیے اللہ کا نازل کردہ طریقہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے لازم کیا ہے کہ وہ اسلامی تعلیمات اور احکام پر عمل کریں اور اللہ کی بندگی کر کے اس کے قرب اور دونوں جہانوں کی کامیابی سے سرفراز ہوں۔ پھر ہم لوگوں پر ایسی بات کیسے لازم کر دیں جو اللہ نے لازم نہیں کی۔ ہم لوگوں کو ایسے اسلام کی دعوت کیسے دیں جسے عوام نے اپنی بدعملی اور اصل اسلام سے انحراف کے باعث رسوم و رواج کے ایک بے جان مجموعے کی شکل دے دی ہے۔ جو مذہب کی حقیقی روح سے عاری ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم گمراہی کے شیطانی طریقوں کو اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ ہدایت کے طریقے قرار دیں؟ فلسفہ کے پروفیسر صاحب! آپ نے یہ خوب الٹی تدبیر بیان کی!

    ہو سکتا ہے لادینیت کے حامی یہ کہیں کہ آپ اسلام کی جس صورت کی طرف دعوت دیتے ہیں وہ ایک مثالی (ideal) صورت ہے اور اس کا عالم وجود میں بروئے کار آنا ممکن نہیں ۔

    اس کے جواب میں ہم کہیں گے کہ :

    1. اسلام تو یہی ہے۔ اسی اسلام کو اللہ نے بطور شریعت نازل کیا ہے۔ اس میں ہمارا کوئی اختیار نہیں ہے۔
    2. طریقہ یہی ہے کہ جو شخص کسی مذہب، کسی نظام یا کسی نظریے کی جانب دعوت دیتا ہے تو وہ اس کی مثالی صورت کی جانب دعوت دیتا ہے، تاکہ لوگ اس مثالی صورت سے قریب تر ہونے کی زیادہ سے زیادہ کوشش کر سکیں۔ قانون سازی اور عوام کی رہنمائی کے تمام ذرائع و وسائل اسی کام میں لگا دیے جاتے ہیں تاکہ لوگ مثالی صورت کے قریب سے قریب تر ہو سکیں۔ کچھ لوگ اس میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور کچھ پیچھے رہ جاتے ہیں، اور اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ سفر کا آغاز کرنے والا کبھی نہ کبھی منزل پر پہنچ ہی جاتا ہے۔

    یہ امر عقل و حکمت اور مصلحت کے بالکل خلاف ہے کہ پہلے ہی سے لوگوں کے سامنے کسی نظریہ کی غیر معیاری اور کم تر صورت رکھی جائے اور اس کی ایسی عملی تطبیق کی جانب انھیں بلایا جائے جو پہلے ہی سے خام اور حوصلہ شکن ہو کہ لوگ آغاز ہی میں مایوسی اور بددلی کا شکار ہو کر رہ جائیں۔ یہ چیز کچھ اسلام کے ساتھ خاص نہیں، جمہوریت اور اشتراکیت کی دعوت دینے والے بھی اس کی مثالی صورت ہی کی دعوت دیتے ہیں نہ کہ اس کی اس شکل کی جس میں عمل درآمد کی غلطیاں اور عمل درآمد کرنے والوں کی کج رویاں شامل ہو چکی ہوں۔ ہم اس موضوع پر بعد میں گفتگو کریں گے اور ڈاکٹر فواد زکریا کی تردید خود ان کی دیگر تحریروں سے کریں گے۔

    بعض لادینیت پسند حلقے کہتے ہیں کہ :

    "یہ درست ہے کہ اسلام کی دعوت اسی مثالی اسلام کی جانب ہونی چاہیے جو قرآن و سنت میں مذکور ہے اور اس اسلام کی جانب نہیں ہونی چاہیے جو عملاً مسلمانوں کی تاریخ میں موجود رہا۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ مثالی اسلام کی کوئی متفقہ صورت موجود نہیں۔ مقلدین کے یہاں جو صورت ہے وہ مجددین (تجدید کرنے والے) اور مجتہدین کے یہاں نہیں، اور ان دونوں کے یہاں جو شکل ہے وہ مختلف معاصر اسلامی تحریکات میں نہیں بلکہ خود اسلامی تحریکات میں اخوان المسلمون سے لے کر "التکفیر والہجرہ" تک شدید اختلافات پائے جاتے ہیں۔

    یہاں سخت جامد مذہبی تقلید والے بھی موجود ہیں اور وہ بھی جو مقاصد شریعت کو نظر انداز کر کے الفاظ کے ظاہری مفہوم پر قائم ہیں، جنھیں میں "جدید ظاہریہ" کے نام سے پکارتا ہوں۔

    مذہبی حلقوں میں ایسے بھی رجحان موجود ہیں جو تشدد کے قائل اور طاقت کے استعمال کو غلبہ اسلام کا ذریعہ سمجھتے ہیں اور حکومت وقت کے خلاف اعلان جنگ کرتے ہیں، اگرچہ اس میں کتنی ہی خون ریزی ہو۔ ایسے بھی رجحان موجود ہیں جو نہ صرف حکمرانوں، بلکہ پورے معاشرے کو کافر قرار دیتے ہیں، اس لیے کہ معاشرہ ان (حکمرانوں کے کفر) سے راضی ہے اور کفر پر راضی ہونا بھی کفر ہے۔

    بعض ایسے افراد اور جماعتیں بھی ہیں جو عجیب و غریب اجتہاد کرتی ہیں۔ گویا وہ موجودہ زمانے میں زندگی نہیں گزار رہے، نہ اس زمانہ کی مشکلات ہی سے دوچار ہیں اور نہ اس زمانہ کے لوگ ان کے مخاطب ہیں۔

    اس صورت حال میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان سب شکلوں میں کون سی شکل صحیح اسلام کی عکاسی کرتی ہے؟ اور یہ کہ آج کل کے دور میں اسلام کا عورت کے بارے میں، شوریٰ کے بارے میں، آزادی کے بارے میں یا غیر مسلموں کے بارے میں کیا موقف ہے؟

    میں خود آگے بڑھ کر کہوں گا کہ یہ بات فی الجملہ صحیح ہے اور اس کا جواب دینا ضروری ہے۔ چنانچہ ہمارا جواب یہ ہے کہ ہم جس اسلام کی دعوت دیتے ہیں اس سے مراد وہ اسلام ہے جس کی نمائندگی روشن خیال، اعتدال پسند اور شریعت پر عمل کرنے والی اس رو یا لہر سے ہوتی ہے جو اسلامی بیداری اور تحریک اسلامی سے متعلق عوام کی غالب اکثریت کا مسلک ہے۔ یہ وہ رو ہے جو مسلسل اور غیر فانی ہے۔ اگرچہ اس کی راہ میں بے شمار رکاوٹیں حائل ہوتی رہیں اور قسم قسم کی آزمائشوں سے بھی اسے گزرنا پڑا، لیکن یہ کبھی اور کسی حال میں اپنے اصل موقف سے دستبردار نہیں ہوئی۔ ہم اس رو یا لہر کو اعتدال پسند اسلامی تحریک کا نام بھی دے سکتے ہیں۔

    رہیں دیگر تحریکیں اور لہریں، تو یہ لہریں دراصل چھوٹی چھوٹی کڑیاں ہیں جن کے حامیوں کی تعداد بھی کم ہوتی ہے اور عمریں بھی کم، عموماً ایسی تحریکیں زیادہ عرصے تک زندہ نہیں رہتیں کیونکہ غلو اور انتہا پسندی کی عمر زیادہ نہیں ہوتی۔

    روشن اور معتدل اسلامی لہر کے اصول و مبادی کو متعین کیا جا سکتا ہے جو اس کے خط و خال کو اجاگر کریں، اس کا رخ متعین کریں اور اہم اور بڑے مسائل کے بارے میں اس کے اساسی مفہوم کو واضح کریں۔

    وہ اسلام جسے ہم سمجھتے ہیں اور جس کی دعوت دیتے ہیں، بلکہ زیادہ صحیح الفاظ میں وہ اسلام جس کی معتدل اسلامی لہر دعوت دیتی ہے ، اس کی بنیادی خصوصیات حسب ذیل ہیں:

    اسلام کی بنیادی خصوصیات

    1. اسلام عقل کو مخاطب کرتا ہے۔ اور دین کے فہم نیز دنیا کی تعمیر میں عقل ہی پر بھروسا کرتا ہے۔ وہ لوگوں کو حصول تعلیم کی دعوت دیتا ہے اور چاہتا ہے کہ لوگ اس میں برتری اور کمال حاصل کریں۔ اسلام چاہتا ہے کہ لوگ حصول علم کے لیے نئے طریقے اختیار کریں اور زندگی کے تمام شعبوں میں علم کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے لیے صحیح راہ عمل متعین کریں۔ اسلام زندگی کے اہم مسائل پر غور و فکر کو عبادت قرار دیتا ہے۔ اس کے نزدیک ہر ایسے علم کا حاصل کرنا واجب ہے جس کی امت کو ضرورت ہو ۔ اس کی نظر میں وقت کے علوم (اور جدید ٹیکنالوجی) میں پیچھے رہ جانا، انتہائی ناپسندیدہ اور (قومی) جرم ہے۔ اسلام نظریہ اور تطبیق نیز تمدن اور جنگی میدانوں میں تفوق اور برتری کے حصول کو دینی فریضہ قرار دیتا ہے۔ اور لازمی سمجھتا ہے کہ اس فرض کی ادائیگی کے لیے ہر جائز وسیلہ اختیار کیا جائے۔ اسلام کی رائے میں عقل صریح اور نقل صحیح میں کوئی تضاد نہیں، کیونکہ عقل، جیسا کہ ہمارے علماء نے قرار دیا ہے، نقل کی بنیاد ہے کہ اللہ تعالیٰ کے وجود اور حضور کی نبوت کا ثبوت عقل ہی کے ذریعے ممکن ہوا۔ اسی طرح علمی حقائق اور اسلام کے قطعی احکام میں بھی از روئے عقل کوئی تضاد نہیں ۔ لہذا ان دونوں کے درمیان کشمکش کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں، جیسا کہ دوسرے مذاہب میں ہوا، کیونکہ ہمارے ہاں دین علم ہے اور علم دین ہے۔ اسلام اپنی اسلامی میراث سے استحکام حاصل کرتا ہے، اس پر فخر کرتا ہے اور اس سے ہدایت حاصل کرتا ہے۔ اس میں اسلام الہی معیار - جو عیب اور خطاء سے پاک اور ثابت شدہ ہے لیکن تھوڑا ہے، اور جدید بشری معیار جو زیادہ ہے، کے درمیان فرق کرتا ہے۔ وہ الٰہی معیار سے ہدایت اور نور حاصل کرتا ہے اور جدید بشری معیار سے بھی ہدایت حاصل کرتا ہے اور اس کے صالح عناصر کو اخذ کرتا ہے۔ چنانچہ اسلام مینارہ ہدایت ہے نہ کہ ایسی رکاوٹ یا پابندی جو ترقی کی راہ کو مسدود کردے۔ اسلام ساری دنیا میں علم اور فکر کے چشمے جاری کرتا ہے۔ اسلام حکمت و دانش پر مبنی ہر فکر اور خیال کو قبول کرتا ہے، خواہ اس کا ماخذ و منبع کہیں ہو اور وہ کہیں سے انسانیت کے سامنے آیا ہو۔ اسلام قدیم اور جدید تمام ملتوں اور قوموں کے تجربات سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ اور ان میں جو چیز اچھی اور خیر کی حامل ہو اسے قدیم رائے کی بنیاد پر کسی تعصب، یا جدید فکر کی پیروی کے بغیر قبول کرتا ہے۔ اسلام نہ ماضی سے اپنا رشتہ منقطع کرتا ہے، نہ حاضر سے اپنا تعلق توڑتا ہے، اور نہ مستقبل ہی سے غفلت برتتا ہے۔ جمہوریت نے حکمرانوں کے مقابلے میں عوام کی حمایت کے لیے جو اچھے ضابطے اور ضمانتیں فراہم کی ہیں، اسلام انھیں قبول کرتا ہے۔ اسی طرح اشتراکیت نے مالکوں اور صاحب رسائل و اقتدار لوگوں کے مقابلے میں کچلے ہوئے عوام کو جو حقوق اور تحفظات فراہم کیے ہیں، اسلام ان کی بھی حمایت کرتا ہے۔ جدید دور میں مختلف تحریکوں اور قوتوں کی جانب سے عوام کی حمایت میں جو آراء اور نظریات پیش کیے گئے ہیں اسلام ان سب سے استفادہ کرتا ہے، خواہ ان کا بنیادی فلسفہ اسلام کے نزدیک قابل قبول نہ ہو جیسا کہ فرائڈ، دُرخائم اور مارکس کا فلسفہ۔ اور حکمت تو مومن کی گم شدہ میراث ہے، جہاں سے ملے لے لے کیونکہ دوسرے لوگوں کے مقابلے میں وہ اس کا زیادہ حق دار ہے۔
    2. اسلام لوگوں کو اجتہاد اور تجدید و اصلاح کی دعوت دیتا ہے، اور جمود و تقلید کو ناپسند کرتا ہے۔ اسلام یہ چاہتا ہے کہ مسلمان ارتقاء کا ساتھ دیں اور ترقی کی دوڑ میں پیچھے نہ رہیں۔ اسلامی شریعت کسی نئی چیز کو ناپسند نہیں کرتی اور نہ کوئی ایسی مشکل ہی ہے جسے حل کرنا اس کے لیے ناممکن ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ خامی اور کمزوری مسلمانوں کی عقلوں میں ہے یا ان کے ارادے میں ہے، شریعت میں نہیں۔ اجتہاد ہمارے زمانے میں فرض ہو چکا ہے کیونکہ یہ ہماری ضرورت ہے۔ یہ ایک ایسا فریضہ ہے جس کا ادا کرنا ہمارے لیے از روئے دین ضروری ہے۔ اور ایسی ضرورت ہے جس کا پورا کیا جانا حالات کے تحت لازمی ہے۔ جو لوگ اجتہاد کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں ان کے لیے اس کا دروازہ کھلا ہے۔ خواہ اس کی صورت یہ ہو کہ ماضی کے بہت سے اجتہادات میں سے کسی ایک کو ترجیح دی جائے یا ان میں سے کسی ایک کا انتخاب کیا جائے، اور خواہ وہ اجتہاد از سرنو اور جدید ہو، خواہ جزئی ہو یا کلی اور خواہ انفرادی ہو یا اجتماعی۔ اجتہاد کا دروازہ بند نہیں کیا جا سکتا، اس لیے کہ خود حضور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجتہاد کو دینی احکام کے اخذ و استنباط کا ایک طریقہ قرار دیا ہے اور فرمایا ہے کہ اگر مجتہد غلطی کرے تو اس صورت میں بھی اسے اجر ملے گا۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ایسی علمی فضا تشکیل دیں جس میں اسلام کے مقرر کردہ معیار اور وقت کی ضرورت کے مطابق ایسے مجتہدین تیار ہوں جو قدیم و جدید کے جامع اور موجود دور کی عملی ضرورتوں، عصری تقاضوں اور آج کل کے لیے نئے مسائل سے اچھی طرح آگاہ ہوں۔ اور ان میں اس عظیم فقہی ذخیرے سے استفادہ کی صلاحیت بھی ہو جو ہمارے ائمہ و فقہاء نے عصر صحابہ و تابعین سے لے کر بعد تک کے ادوار میں تیار کیا ہے۔ اس تمام فقہی ذخیرے میں سے ہمیں ان امور کا انتخاب کرنا ہو گا جو شرعی دلائل کے لحاظ سے زیادہ مضبوط اور مقاصد شریعت نیز مصالح خلق کو زیادہ پورا کرنے والے ہوں۔ ہم اپنے سامنے وہ اصول رکھیں جو علمائے محققین نے بیان کیے ہیں کہ زمان و مکان اور عرف و حال کے بدلنے سے فتویٰ بدل جاتا ہے، اور یہ کہ شریعت کا مقصود معاش اور معاد یعنی دنیا و آخرت میں انسانی مصالح کی تکمیل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ شریعت کا اصل مقصد لوگوں کے دین، نفس، عقل، عرض (عزت و آبرو)، نسب اور مال کا تحفظ ہے۔
    3. اسلام نے ہر کام میں میانہ روی کو نہ صرف مستحسن قرار دیا ہے بلکہ اسے امت کی ایک بنیادی خصوصیت ٹھہرایا ہے:

      وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا

      (اور اسی طرح ہم نے تمھیں امت وسط بنایا ہے) (البقره: ١٤٣)

      یہ خصوصیت اعتقادی اور عملی، مادی اور معنوی ہر پہلو میں ایجابی توازن پیدا کرتی ہے اور فرد کی پوری زندگی میں کارفرما ہو کر روح اور مادہ، عقل اور قلب، دنیا اور آخرت نیز حقوق اور واجبات میں ہم آہنگی پیدا کرتی ہے۔ اسی طرح فرد اور معاشرے کے درمیان انصاف کی میزان قائم کرتی ہے۔ یعنی اسلام نے فرد کو اس قدر غیر متوازن حقوق اور اس قدر کھلی آزادیاں عطا نہیں کیں جن سے معاشرے کا توازن برہم ہو جائے جیسا کہ سرمایہ داری نظام میں ہے اور نہ معاشرے ہی کو فرد پر اس قدر حاوی اور مؤثر بنا دیا ہے کہ معاشرہ فرد کو کچل کر رکھ دے اور فرد کی تمام صلاحیتیں مرجھا کر اور سکڑ کر رہ جائیں، جیسا کہ انتہا پسند اشتراکیت اور اشتمالیت کی روش ہے۔ اسلام سماجی انصاف، بالخصوص کمزور طبقوں کے ساتھ انصاف کی قیمت پر سرمایہ دارانہ نظام کی انفرادی آزادیوں کے بڑھنے اور پھیلنے کا قائل نہیں۔ اور نہ اس امر کا قائل ہے کہ مارکسیت اور اس جیسے دوسرے نظریات کی طرح اجتماعی جمہوریت کے نام پر سیاسی جمہوریت کا گلا گھونٹ دیا جائے اور محض یہ پرفریب نعرہ بلند کیا جائے کہ آزادی کے دشمنوں کو کوئی آزادی نہیں دی جا سکتی۔

      بلکہ اسلام فرد کو اس کا حق دیتا ہے اور معاشرے کو اس کا، نہ کوئی کسی پر زیادتی کرے اور نہ کوئی خسارے میں رہے، جیسا کہ شریعت کے احکام اور اس کی تعلیمات سے ظاہر ہوتا ہے۔

      اسی طرح اسلام وطن کی آزادی کی حفاظت کے ساتھ ساتھ شہریوں کی آزادی کی بھی حفاظت کرتا ہے۔ مگر یہ آزادی فکر کی آزادی ہے کفر کی آزادی نہیں، ضمیر کی آزادی ہے شہوانی جذبات کی آزادی نہیں، رائے کی آزادی ہے ذاتی تشہیر کی آزادی نہیں، حقوق کی آزادی ہے بے حیائی اور بے راہ روی کی آزادی نہیں۔

      ہمارے خیال میں تمام انسان آزاد پیدا ہوئے ہیں لہذا یہ بات کسی کے لیے جائز نہیں کہ وہ دوسروں کو ذلیل کرے، اور نہ یہ بات صحیح ہے کہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر ایک دوسرے کو اپنا رب بنا لیں۔ حقیقی آزادی دراصل توحید حقیقی کا ثمرہ اور لا الہ الا اللہ کی تعلیم کا لازمی نتیجہ ہے۔

    4. واقعیت اسلام کا امتیازی وصف اور اس کی نمایاں خصوصیت ہے۔ یہ اسلام صرف خیالی فضاؤں میں حلقے نہیں بناتا اور نہ لوگوں سے یہ توقع رکھتا ہے کہ وہ فرشتے بن جائیں بلکہ وہ انسانوں کو انسان ہی سمجھتا ہے اور انسان اچھے کام بھی کرتا ہے اور خطاؤں کا مرتکب بھی ہوتا ہے۔ اسلام اس امر کا اعتراف کرتا ہے کہ انسان میں برائی، غلطی، کمزوری اور انحراف کا فطری ضعف موجود ہے۔ اسی وجہ سے اس نے اچھے کاموں کی ترغیب بھی دی اور غلط کاموں کے انجام سے ڈرایا بھی۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو لازمی قرار دیا، سزائیں بھی مقرر کیں اور توبہ کا دروازہ بھی کھول دیا۔ ضرورتوں کے مطابق احکام بھی وضع کیے اور صاحب عذر لوگوں کے عذر کو بھی ملحوظ رکھا۔ رخصتیں بھی تجویز کیں اور آسانیاں بھی پیدا کیں اور مختلف صورتوں میں خطاء، نسیان اور جبر و اکراہ کے مستثنیات بھی پیدا کیے اور انسان کے لیے اس امر کی گنجائش فراہم کی کہ جب اعلیٰ تر مثال پر عمل دشوار ہو تو وہ کم تر کی عملی صورت اختیار کر سکے۔
  • اسلام کی حقیقت پسندی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اس نے انسان کو مکرم و معزز قرار دیا ہے اور اس کی فطرت اور اس کے قابل تکریم ہونے کا اعتراف کیا ہے۔ اس نے نہ تو انسان کو اتنا پست کیا ہے کہ حیوانات کے درجے میں پہنچا دے اور نہ اتنا بلند کیا ہے کہ وہ خدا بن جائے۔ اسلام کی نظر میں انسان روح اور جسم، عقل اور جذبات کا ایسا مجموعہ ہے جس کی فطرت میں بلندیاں بھی ہیں اور پست میلانات بھی۔ انسان کی اس فطرت کے پیش نظر اسلام نے اسے جائز تفریح کے مواقع بھی فراہم کیے ہیں اور ایسی سہولتیں بھی دی ہیں کہ وہ کوئی تنگی محسوس کیے بغیر یا کسی بھی اسلامی اصول سے دستبردار ہوئے بغیر اپنی زندگی خوشی اور مسرت کے ساتھ گزار سکے۔ خواہ وہ کوئی مرد ہو یا عورت۔ علاوہ ازیں یہ سہولتیں افراد کو بھی حاصل ہیں اور معاشرے کو بھی۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے انسان کی جسمانی، نفسیاتی اور عقلی صحت کا بھی پورا اہتمام کیا ہے اور انسان کو مخاطب کر کے کہا ہے کہ تمھارے جسم کا بھی تم پر حق ہے۔ اس نے نشہ آور چیزوں، مخدرات اور تمام نقصان دہ زہریلی اشیاء سے بچنے کی تعلیم دی ہے۔ اسلام جسمانی تربیت کو مستحسن قرار دیتا ہے اور اسے بجائے مقصود بنانے کے ایک وسیلہ کے طور پر بروئے کار لانے کی تلقین کرتا ہے۔ اسلام انسان کے لیے لازم قرار دیتا ہے کہ وہ اپنی صحت کی حفاظت کرے۔ اسلام محنت کش کو آرام کا اور بیمار کو علاج کا حق دیتا ہے۔ اس نے انسان کو تعلیم دی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر بیماری کی دوا پیدا کی ہے اور اس بات کو واضح کیا ہے کہ مضبوط و توانا مومن اللہ کے نزدیک ضعیف مومن سے زیادہ محبوب ہے۔ اسلام عورت کی تکریم کرتا ہے اور اس کی نظر میں عورت ایک پوری طرح ذمہ دار انسان ہے۔ اس کے حقوق بھی ہیں اور اس پر فرائض بھی عائد ہیں۔ اسلام عورت کا بحیثیت بیٹی، بیوی، ماں اور رکن خاندان پوری طرح خیال رکھتا ہے اور اسے یہ موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ عبادت، تعلیم اور معاشی سرگرمیوں میں بھرپور حصہ لے بشرطیکہ اس کا ایسی سرگرمیوں میں حصہ لینا اس کے گھریلو فرائض کی ادائیگی میں حارج نہ ہو، بالخصوص اس وقت جبکہ اسے، اس کے خاندان یا معاشرے کو اس امر کی ضرورت ہو کہ عورتیں ملک کی معاشی سرگرمیوں میں حصہ لیں۔ البتہ اسلام عورتوں کے ملازمت کرنے کی صورت میں اس امر کا پورا خیال رکھتا ہے کہ انھیں عورت، بیوی اور ماں ہونے کی حیثیت سے تمام ضروری سہولتیں اور رعایتیں حاصل ہوں۔ وہ ان چیزوں کی پوری پوری ضمانتیں فراہم کرتا ہے، یہاں تک کہ شوہر کی زیادتی، باپ کے ناروا سلوک اور بیٹے کے برے رویہ سے بھی اسے تحفظ فراہم کرتا ہے بشرطیکہ اس کا ملازمت کرنا اس کے گھر اور اولاد سے متعلق فرائض کی ادائیگی میں مانع نہ ہو۔ اسی طرح اسلام عورتوں کو دعوت الی الخیر، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے متعلق کاموں میں بھی شریک کرتا ہے اور ان کی حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ وہ شر اور فساد کی طاقتوں کے خلاف جہاد میں مردوں کے دوش بدوش حصہ لیں۔

    وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ

    (مومن مرد اور مومن عورتیں سب ایک دوسرے کے مددگار ہیں) (التوبه: ٧٠)

    اسلام عورت کو امت کے سیاسی، اجتماعی اور ثقافتی امور میں بھی شرکت کا موقع فراہم کرتا ہے۔ اسلام کی نظر میں عورت ماسوائے سر براہ مملکت بننے کے ہر طرح کے سیاسی عمل میں شریک ہو سکتی ہے کہ وہ مرد کا بازو اور نصف معاشرہ ہے۔ عورت کے احترام اور وقار کو ملحوظ رکھتے ہوئے اسلام اس امر کی اجازت نہیں دیتا کہ اسے لہو و لعب اور جذبات انگیزی کا ذریعہ بنایا جائے بلکہ وہ عورت کے لیے لازم قرار دیتا ہے کہ وہ غیر مردوں سے ملاقات کے وقت پردہ کرے، حیا کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑے اور زیب و زینت، لباس و آرائش، چلنے پھرنے اور بول چال، ہر بات میں ادب و وقار کو ملحوظ رکھے، تاکہ مرد اس کا احترام کرنے پر مجبور ہوں اور دل میں برائی رکھنے والا کوئی شخص برا خیال تک دل میں نہ لا سکے تاکہ اس طرح عورت ہر ایذا سے محفوظ و مامون رہے۔

  • اسلام خاندان کو معاشرے کی اور نکاح کو خاندان کی اساس قرار دیتا ہے، اسی لیے وہ لوگوں کو نکاح کی ترغیب دیتا ہے اور اس کے اسباب کو آسان بناتا ہے۔ وہ لوگوں کی اخلاقی تربیت اور قانون کے ذریعہ اس کی راہ میں حائل ہونے والی اقتصادی رکاوٹیں دور کرتا ہے۔ مہر کی زیادتی، شادی کے وقت گراں قدر تحفوں کے تبادلوں، رہنے سہنے، لباس اور زیب و زینت میں اسراف اور زیادہ سے زیادہ خرچ میں ایک دوسرے سے مقابلے کے غلط رجحان کا سدباب کرتا ہے تاکہ ان سماجی رسم و رواج سے نکاح میں وہ دشواریاں پیدا نہ ہوں جو اس میں تاخیر کا باعث بنیں۔ اسلام ایک طرف اسباب حلال کو سہل اور آسان بناتا ہے اور دوسری طرف حرام کے طریقوں کو ممنوع قرار دیتا ہے اور حرام پر اکسانے والے امور کا سدباب کرتا ہے۔ چنانچہ اسلام نے بے حیائی اور صنف نازک کے جسم کی نمائش سے منع کیا ہے خواہ یہ بصورت الفاظ ہو یا تصویر، ناول، افسانہ اور ڈرامے کی صورت میں۔ بالخصوص دور جدید کے ذرائع ابلاغ جو ہر گھر میں داخل ہو چکے ہیں، ان کا پیغام ہر سننے والے کان اور دیکھنے والی آنکھ تک پہنچ رہا ہے۔ اسلام کی رو سے ان کا بے حیائی کے ہر عنصر سے پاک ہونا ناگزیر ہے۔ اسلام میاں بیوی کے تعلق کو سکون، محبت اور رحمت کی اساس پر قائم کرتا ہے اور دونوں کے درمیان باہمی حقوق کی ادائیگی اور فرائض کی تکمیل کو لازمی قرار دیتا ہے۔ وہ دونوں کو حسن معاشرت کی تعلیم دیتا ہے۔ اگر دونوں میں ہم آہنگی پیدا نہ ہو سکے اور اصلاح و تحکیم کے تمام طریقے ناکام ہو جائیں تو اسلام طلاق کی اجازت دیتا ہے۔ اگر کسی مرد کو دوسری شادی کی ضرورت ہو اور وہ عدل کرنے پر قادر ہو، تو اسلام اسے دوسری شادی کی بھی اجازت دیتا ہے۔ اسلام اولاد اور والدین کے درمیان باہمی محبت و مودت کا رشتہ استوار کرتا ہے تاکہ اولاد والدین کے ساتھ نیکی اور احسان کا سلوک کرے۔ معاشرے اور ریاست پر بھی ماں اور بچوں کی کفالت لازم ہے، بالخصوص یتیم اور بے سہارا بچوں کی کفالت۔ اسلام نے خاندان کا دائرہ وسیع کر کے اس میں تمام قرابت داروں اور رشتہ داروں کو شامل کیا ہے اور ان سے صلہ رحمی کو لازم اور قطع رحمی کو گناہ کبیرہ قرار دیا ہے۔
  • اسلام قانون اور ضابطوں سے پہلے تربیت اور رہنمائی کا فریضہ ادا کرتا ہے کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ قانون سے معاشرہ تشکیل نہیں پاتا بلکہ پیہم تربیت اور صحیح رہنمائی معاشرے کو نشوونما عطا کرتی ہے۔ دراصل صاحب فکر و ضمیر اور صاحب ایمان انسان ہی ہر ارتقاء اور عروج کی ضمانت ہے۔ اور انسان صالح ہی صالح معاشرے کی اساس ہے۔ اسی لیے اسلام کی روشنی میں ابتدائی مدارس سے لے کر جامعات کی تعلیم تک ہر مرحلے پر انسان کی تعلیم و تربیت لازم ہے اور ضروری ہے کہ علم کے ساتھ اسے ایمان کی تربیت بھی حاصل ہوتی رہے اور وہ فنی مہارت کے ساتھ اخلاقی تربیت بھی حاصل کرتا رہے۔ مسلم نسل کی مطلوبہ تربیت کے نمایاں پہلو یہ ہیں: عقیدے کو بے بنیاد اور ایسی باتوں سے پاک رکھنا جو عقل کے خلاف ہوں۔ توحید کو شرک کی آمیزش سے بچانا۔ آخرت پر پختہ یقین رکھنا، اخلاق میں پختگی اور استقامت کا حامل ہونا، صدق پر قائم رہنا، فرائض کی بجا آوری میں مہارت اور عمدگی کی خصوصیات سے آراستہ ہونا۔ عہد و پیمان اور امانت کی حفاظت کرنا، حق کا علم بردار ہونا، باطل سے برسر پیکار رہنا۔ دین کی خیر خواہی کو اپنی زندگی کا نصب العین قرار دینا اللہ کے راستے میں جان و مال سے جہاد کرنا، برائی کو ہاتھ سے یا زبان سے مٹانا یا کم از کم دل میں برا جاننا، ظلم و عدوان کا مقابلہ کرنا اور کسی حال میں ظالموں کا ساتھ نہ دینا خواہ ان کے پاس فرعون کی طاقت اور قارون کا خزانہ ہی کیوں نہ ہو۔ ان کے علاوہ ذرائع ابلاغ یعنی اخبارات، ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے اداروں کی رہنمائی کا اہتمام بھی ضروری ہے کیونکہ دور جدید میں ذرائع ابلاغ سمعی اور بصری طریقوں سے لوگوں کے افکار اور میلانات پر اثر انداز ہوتے ہیں اور رائے عامہ کو اپنے حسب منشا جس رخ پر چاہتے ہیں موڑ دیتے ہیں۔ اس لیے یہ بات ضروری ہے کہ ذرائع ابلاغ کو ان تمام امور سے پاک و صاف کیا جائے جو عقیدہ کے خلاف ہوں یا صحیح فکر کو متاثر کرنے والے ہوں یا عملی زندگی میں غلطی اور انحراف کی راہیں کھولنے والے ہوں۔ ذرائع ابلاغ کا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ عوام کو سچی خبریں، صحیح رہنمائی اور اسلامی اقدار کی آفاقی اہمیت سے متعلق آگاہی مہیا کی جائے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ذرائع ابلاغ کے پروگرام اس قدر احتیاط اور تحقیق کے ساتھ مرتب کیے جائیں کہ ان میں گمراہی اور انحراف کا کوئی شائبہ نہ ہو اور ان سے معاشرے کی صحیح مقاصد کی طرف رہنمائی ہو سکے۔
  • اسلام معاشرے کی تشکیل اخوت و محبت اور وحدت انسانیت کی بنیاد پر کرتا ہے۔ اسلام کی نظر میں تمام انسان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ یہ سب آدم کی اولاد اور اللہ کی مخلوق ہیں چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ”تمھارا رب بھی ایک ہے اور تمھارا باپ بھی ایک۔“ لہذا یہاں دین، مذہب، نسل اور طبقاتی اونچ نیچ کی بنیاد پر کشمکش کی کوئی گنجائش نہیں۔ اللہ واحد کی بندگی کا اصول انھیں متحد رکھتا ہے۔ اور انسانوں کے مابین جو فرق و اختلاف ہے وہ اللہ کی مشیت اور اس کی حکمت کے مطابق ہے، چنانچہ وہی قیامت کے دن ان کے درمیان فیصلہ کرے گا۔ اسلام اپنے معاشرے میں رہنے والے غیر مسلموں کا احترام کرتا ہے اور انھیں اللہ تعالیٰ، اللہ تعالیٰ کے رسول اور مسلمانوں کی ذمہ داری قرار دیتا ہے۔ مسلمان، غیر مسلموں کو اپنی ذمہ داری اور حفاظت میں لے کر ان کی دیکھ بھال کرتے ہیں، ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آتے ہیں اور بیرونی دشمنوں کے خلاف ان کا دفاع کرتے ہیں۔ اور یہ عمل مسلمانوں کے لیے اللہ کی عبادت کا ایک حصہ ہے۔ یعنی ”ذمہ“ کی اصطلاح دینی ہے اور اس کا اطلاق مسلمانوں پر ہوتا ہے۔ لیکن اگر اس حقیقت کے باوجود یہ اصطلاح غیر مسلموں کے لیے تکلیف کا باعث ہے تو اسے ترک کیا جا سکتا ہے۔ اسلام غیر مسلموں کو ضمانت دیتا ہے کہ ان کے عقیدے اور طریقہ عبادت کی پوری پوری حفاظت کی جائے گی اور ان کی آزادی پر کوئی پابندی عائد نہیں کی جائے گی۔ اسلام کا اصل مقصود غیر مسلموں کے جان و مال اور عزت و آبرو کا تحفظ ہے۔ اسلامی معاشرہ میں غیر مسلموں کو یہ تحفظ اسی طرح حاصل ہے جس طرح مسلمانوں کو۔ اسلام انھیں داخلی قوتوں کے ظلم اور بیرونی طاقتوں کے عدوان سے تحفظ فراہم کرتا ہے اور انھیں وہی حقوق دیتا ہے جو مسلمانوں کو حاصل ہیں۔ ان پر وہی ذمہ داریاں عائد کرتا ہے جو مسلمانوں پر عائد ہوتی ہیں۔ ماسوائے ان استثنائی امور کے جن کا تعلق دینی امتیاز سے ہے۔ غرض اسلام غیر مسلموں کو تمام معنوی، مادی اور قانونی ضمانتیں فراہم کرتا ہے۔
  • اسلام میں کوئی پاپائیت نہیں کہ دین کو پیشہ بنا کر لوگوں کے قلب و ضمیر پر حکمرانی کی جائے، اللہ سے راز و نیاز کا لوگوں کے لیے دروازہ بند کر دیا جائے اور بخشش و مغفرت کے پروانے تقسیم کیے جائیں۔ اسلام کی نظر میں اسلام کے ماننے والے سبھی ”رجال دین“ ہیں۔ کسی مسلمان کو اللہ سے تعلق کے لیے کسی دوسرے انسان کے توسط کی ضرورت نہیں کہ اللہ خود اپنے بندوں کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔ اسلام میں علمائے دین کا کردار صرف اتنا ہے جتنا ہر فن کے ماہر کا ہوتا ہے کہ جو نہ جانتا ہو وہ ان سے دریافت کر لے۔

    وَلَا يُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِيرٍ

    (حقیقت حال کی ایسی خبر تمھیں ایک خبردار کے سوا کوئی نہیں دے سکتا) (فاطر: ١٤)

    اسلام میں عالم دین ہونے کے لیے وراثت، لقب اور لباس کسی شے کی ضرورت نہیں، بلکہ ہر مسلمان علوم دین حاصل کر کے عالم دین بن سکتا ہے، اس میں نہ کوئی اجارہ داری ہے اور نہ اس پر کوئی پابندی ہے۔ اسلام کسی بھی مرحلے میں اس درآمد شدہ تقسیم کا قائل نہیں کہ یہ افراد یا زندگی کے یہ امور دینی ہیں اور یہ دنیاوی۔ یہاں انسانوں، تعلیم، قانون اور اداروں کے لیے اس طرح کی کوئی تقسیم نہیں بلکہ اسلامی معاشرے میں تمام ادارے اور ان کی پوری جدوجہد صرف اسلام کی خدمت کے لیے ہے۔

  • اسلام نے حکمرانوں کے انتخاب کا اختیار امت کو دیا ہے۔ اسلام کے نزدیک حکمرانوں کی حیثیت عاملوں اور کارندوں کی ہے۔ امت کو حق حاصل ہے کہ وہ ان کی نگرانی اور احتساب کرے، انھیں راہ راست پر قائم رکھے، انھیں نصیحت کرے اور انھیں تعاون فراہم کرے ۔ اچھائیوں اور نیک کاموں میں ان کی اطاعت کرے اور برائی کے کاموں میں ان کے احکام کی تعمیل نہ کرے۔ اگر کوئی حکمران راہ حق سے ہٹ جائے تو امت کے لیے ضروری ہے کہ اسے نصیحت کرے اور راہ راست پر واپس لائے۔ اور اگر وہ نصیحت پر کان نہ دھرے تو اسے ہٹا دیا جائے یا اس سے کنارہ کشی اختیار کر لی جائے۔ یہ حکومت ”اسلامی“ کہلائے گی، مگر اس طرح کی ”مذہبی“ حکومت نہیں ہو گی جیسی قرون وسطیٰ کے یوروپ میں ہوتی تھیں۔ اس لیے کہ اسلامی حکومت بیعت، شوریٰ اور عدل کے اصولوں پر استوار ہوتی ہے اور قانون کی بالا دستی کے امور کی پابند ہوتی ہے۔ وہ نہ خود کوئی قانون بناتی ہے اور نہ کسی قانون میں تبدیلی کر سکتی ہے۔ اس کے کار پرداز "رجال دین" نہیں ہوتے بلکہ ہر وہ مسلمان ہوتا ہے جو قوی و امین اور نگران اور باخبر ہو اور اس جماعت سے ہو جسے اللہ اگر غلبہ و اختیار عطا کرتا ہے تو وہ نماز قائم کرتی، زکوٰۃ دیتی اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتی ہے۔ اگر چہ براہ راست تصریحات موجود نہیں لیکن اسلام ان تمام عملی صورتوں کو تسلیم کرتا ہے جن تک انسانیت جابر حکمرانوں اور مستبد آمروں سے مزاحمت کے نتیجے میں پہنچی ہے اور جو حکمرانوں کے بالمقابل عام لوگوں کے حقوق کی ضمانت فراہم کرتی ہیں اور طاقتوروں سے کمزوروں کے حقوق دلواتی ہیں۔ اسی طرح اسلام ایسے دساتیر کو بھی تسلیم کرتا ہے جن میں ہیئت حاکمہ کے اختیارات کی تفصیل بیان کر کے ان کے باہمی تعلق کی تعیین کر دی گئی ہو۔ علاوہ ازیں منتخب مجالس، مقننہ، جدا اور آزاد عدلیہ، آزاد صحافت، آزادی رائے، اور کثیر جماعتی نظام کی بھی اسلام اجازت دیتا ہے بشرطیکہ ان تمام امور سے اسلام کے مقاصد کی تکمیل ہوتی ہو اور یہ روح اسلام سے معارض نہ ہوں۔
  • اسلام مال و دولت کی قدر و قیمت اور اس کی اہمیت کو تسلیم کرتا ہے۔ چنانچہ وہ دولت کی حفاظت کرتا ہے۔ مال و دولت کا ہونا انسانوں کی بقا اور زندگی کے لیے لازمی ہے۔ اس کے بغیر نہ دنیا کی تعمیر اور آبادی ممکن ہے اور نہ دین کی نصرت و حمایت۔ چنانچہ اسلام نے مال کی اہمیت تسلیم کرتے ہوئے اسے اللہ تعالیٰ کی ایسی نعمت قرار دیا ہے جس پر اس کا شکر ادا کیا جانا چاہیے اور ایسی امانت ٹھہرایا ہے جس کی پوری پوری پاسداری کی جانی چاہیے۔ اس کے ساتھ ہی اسلام نے مال کو آزمائش کا ذریعہ اور فتنہ بھی قرار دیا ہے کہ اللہ نے جو کچھ انسانوں کو عطا کیا ہے وہ اس میں ان کا امتحان لیتا ہے۔ اسی لیے اسلام نے لازم کیا ہے کہ مال و دولت جائز طریقوں سے حاصل کی جائے اور جائز طریقوں سے اس میں اضافہ کیا جائے۔ نیز اس میں جو حقوق اللہ تعالیٰ نے واجب کیے ہیں وہ ادا کیے جائیں۔ علاوہ ازیں اسراف، فضول خرچی اور مال کی حفاظت میں بے پروائی اور غفلت سے احتراز کیا جائے۔ بالخصوص عام مسلمانوں کا مال صحیح مقاصد کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے اور اس کے ضیاع کی ہر صورت سے بچنا چاہیے کیونکہ اسلام کی نظر میں اس کی حرمت ذاتی مال سے زیادہ ہے جیسا کہ یتیم کا مال کہ اس کے ناجائز استعمال پر شریعت نے نہایت سخت عذاب کی وعید سنائی ہے۔ اسلام ذاتی ملکیت کا احترام کرتا ہے۔ لیکن اس سلسلے میں کچھ شرائط اور پابندیاں ایسی لگاتا ہے جن کے ذریعے، دولت کے حصول اور اسے جمع کر کے رکھنے کا جو جذبہ انسان کی فطرت میں ہے، اسے مناسب حدود میں رکھا جا سکے۔ اسلام دولت کو شرعی احکام اور ہدایات و رہنمائی کے ذریعے اجتماعی فلاح و بہبود کے کام میں لاتا ہے۔ اسی طرح اسلام امت کی عام اقتصادی حالت کی بہتری اور اسے تعمیری بنیادوں پر استوار کرنے کے لیے پوری قوت سے کام کرتا ہے۔ اس مقصد کے لیے وہ عوام کے تمام مادی وسائل اور انسانی صلاحیتوں کو پوری طرح کام میں لاتا ہے۔ تاکہ زرعی اور صنعتی پیداوار نیز دیگر اقتصادی شعبوں میں ترقی ہو اور ملت دیگر قوموں پر بوجھ نہ بنے بلکہ اپنی غذائی اور دفاعی ضرورتیں خود پوری کرے۔ وہ اپنے نظریات، اپنی سرزمین اور اپنی عزت و آبرو کی حفاظت خود اپنے بنائے ہوئے ہتھیاروں سے کرے۔ اسلام کے نزدیک دنیا کا یہ سارا عمل دین ہی کا حصہ ہے، اس کے نزدیک تعمیر ارض بجائے خود ایک عبادت ہے۔ معاشرے کے نشو و ارتقاء کو فروغ دینا فرض ہے اور امت کو تمدنی اور عسکری طور پر تیار کرنا جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ امت کی آزادی کی سعی اور اس کے لیے اقتصادی خود کفالت کے حصول کی کوشش سب سے بڑی نیکی ہے۔ چنانچہ اسلام ایسی ہدایات، طریقے اور معنوی محرکات فراہم کرتا ہے جن سے ترقی کی رفتار میں اضافہ ہو اور لوگوں کی پنہاں اور پوشیدہ قوتیں اور صلاحیتیں امت کی ترقی میں صرف ہوں۔
  • اسلام مزدوروں، کسانوں، پیشہ ور لوگوں اور معمولی تنخواہ پانے والے افراد اور تمام کمزور طبقوں کی پوری رعایت ملحوظ رکھتا ہے کہ یہی طبقے زمانہ امن میں ترقی و پیداوار کا ذریعہ اور زمانہ جنگ میں فتح و نصرت کا وسیلہ بنتے ہیں۔ اسلام ان کی، دستور کے مطابق، اجرتوں کی ادائیگی کو تحفظ فراہم کرتا ہے اور اس اصول کو لازمی قرار دیتا ہے کہ ہر ایک سے اس کی صلاحیت کے مطابق کام لیا جائے اور ہر ایک کو اس کے عمل اور اس کی ضرورت کے مطابق دیا جائے۔ اسلام صرف مزدوروں اور کام کے اہل لوگوں ہی کو تحفظ فراہم نہیں کرتا بلکہ ان تمام لوگوں کی حالت کو بھی ملحوظ رکھتا ہے جو محنت مزدوری یا کسی اور طریقے سے اپنی روزی کما کھانے سے قاصر ہوں یا ان کے کام کی اجرت اتنی کم ہو جو ان کی روزانہ بنیادی ضرورتوں کے لیے ناکافی ہو یعنی فقراء، مساکین، یتیم اور مسافر وغیرہ۔ چنانچہ ان کے لیے اسلام نے زکوٰۃ مقرر کی ہے جو ہر سال تمام صاحب نصاب لوگوں یا ہر فصل پر کاشتکاروں سے وصول کی جاتی ہے اسی طرح اسلام نے اصحاب ثروت کے مال و دولت سے وصول ہونے والے صدقات اور اجتماعی اموال یعنی فئے، غنائم اور ریاست کے دیگر وسائل میں ضرورت مند لوگوں کے حقوق مقرر کیے ہیں۔ اسلام کے ان تمام معاشی احکام اور اقتصادی منصوبہ بندی کا مقصد یہ ہے کہ معاشرے کے نادار اور دولت مند افراد کے درمیان اقتصادی فرق کم کیا جائے۔ دولت مندوں کی چھلکتی ہوئی دولت پر پابندیاں لگائی جائیں اور ناداروں کی معاشی سطح بلند کی جائے۔ اسلام اس امر کی اجازت نہیں دیتا کہ معاشرے میں ایک فرد تو پیٹ بھر کر کھائے اور دوسرا اس کے پڑوس میں بھوکا رہے۔ اسلام کی نظر میں ایسے لوگوں کی نگہداشت ریاست کی براہ راست ذمہ داری ہے کیونکہ حکومت تمام لوگوں کے بارے میں مسئول اور جواب دہ قرار دی گئی ہے۔
  • اسلام کے نزدیک اس امر میں کوئی حرج نہیں ہے کہ مسلمان اپنے وطن سے محبت کریں اور اس کی اچھائیوں اور خوبیوں سے عزت حاصل کریں۔ وہ اپنے ہم وطنوں سے محبت کریں اور ان کی عزت سے خود بھی سرفراز ہوں، مگر شرط یہ ہے کہ وطن کی یہ محبت دین سے محبت کی راہ میں حائل نہیں ہونی چاہیے۔ اسی طرح مسلمانوں کو دین سے تعلق کی بناء پر جو عزت حاصل ہے اس میں کمی نہیں آنی چاہیے یعنی قوم اور ملک سے محبت لادینیت، مادی نظریات یا جاہلی عصبیت پر مشتمل نہیں ہونی چاہیے۔ ایمان سے سرفراز عربیت کو اسلام نے سراہا ہے کہ اہل عرب اسلام کے اولین مخاطب ہیں اور عربی قرآن و سنت، اسلامی عبادت اور اسلامی ثقافت کی زبان ہے۔ اہل عرب اسلام کے اولین علم بردار اور اس کا پیغام لوگوں تک پہنچانے والے پہلے مبلغ ہیں۔ سرزمین عرب اسلام کا قلعہ اور اس کا حرم ہے۔ یہیں وہ تین مساجد واقع ہیں جن کے بارے میں ارشاد نبوی ہے کہ ثواب کی نیت سے کسی طرف کا سفر نہ کیا جائے سوائے ان تین مساجد کے: یعنی مسجد حرام (مکہ معظمہ)، مسجد نبوی (مدینہ منورہ) اور بیت المقدس (یروشلم)۔ چنانچہ اسلام تعمیر کرتا ہے، تخریب نہیں، اتحاد پیدا کرتا ہے، تفریق نہیں۔ قوت پیدا کرتا ہے، کمزوری نہیں۔ وطن کی وحدت اور سالمیت کا داعی ہے، عربوں کی وحدت، امت اسلامیہ کی وحدت اور انسانیت کی وحدت اور مشترکہ اخلاقی بنیادوں پر ربط باہم کا داعی ہے۔
  • اسلام فکر کا مقابلہ فکر سے اور شبہ کا رد دلیل سے کرتا ہے اس لیے کہ دین میں اکراہ نہیں اور کوئی نظریہ قبول کرنے کے لیے کسی کو مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ اسلام تشدد اور دہشت گردی کو رد کرتا ہے خواہ یہ حکومت کی طرف سے ہو یا عوام کی طرف سے۔ اسلام با مقصد اور تعمیری تبادلہ خیال کا قائل ہے جس میں ہر فریق کو اپنا مافی الضمیر وضاحت کے ساتھ پیش کرنے کی اجازت ہو بشرطیکہ گفتگو موضوع سے متعلق ہو اور گفتگو کے آداب کا خیال رکھا جائے، جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہے:

    وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ

    (اور ان کے ساتھ اس طریقے سے تبادلہ خیال کیجئے جو بہترین ہو) (النحل: ١٢٥)

  • اسلام کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو جدا جدا اور مختلف النوع پیدا کیا ہے۔

    وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ أُمَّةً وَاحِدَةً

    (اگر تیرا رب چاہتا تو سب انسانوں کو ایک ہی امت کر دیتا) (ہود: ١١٨)

    یہی وجہ ہے کہ اسلام دوسری رائے کی بھی قدر کرتا ہے خواہ یہ دین کی سمجھ میں ہو یا سیاسی معاملات میں۔ نیز یہ کہ اختلاف رائے رحمت اور خیر ہے جب کہ اس کی بنیاد مختلف نقطہ نظر اور اجتہاد پر ہو۔ اسلامی اصول اور قطعی احکام کی رو سے اسلامی نظام میں کئی جماعتوں کا وجود جائز ہے بشرطیکہ ان کے درمیان بنیادی مسائل میں تعاون ہو نہ کہ تناقض، اور ان کا محور قرآن و سنت ہو۔ ان کا منشور یہ ہو کہ جس پر ہمارے درمیان اتفاق ہے اس میں ہم تعاون کریں گے اور جن امور کے بارے میں ہمارے درمیان اختلاف ہے ان میں ہم ایک دوسرے کو معذور قرار دیں گے۔

  • اسلام اس امر کو کافی نہیں سمجھتا کہ اپنے ماضی کی شاندار تہذیب پر فخر کیا جائے، بلکہ وہ ایک معاصر اسلامی تہذیب وجود میں لانے کے لیے کام کرتا ہے، اور آج کل کی تہذیب میں جو اچھا ہے، یعنی سائنس، ٹیکنالوجی اور حسن انتظام ان عناصر کو وہ اپنے اندر سمو لیتا ہے۔ لیکن ساتھ ہی اپنی اصلیت اور اپنے اصول و مقاصد کو بھی باقی رکھتا ہے۔
  • خصائص کو برقرار رکھتا ہے۔ چنانچہ یہ ایک ایسی تہذیب ہوتی ہے جس میں دنیا اور دین یکجا ہو جاتے ہیں، ربانی اقدار اور انسانی اقدار باہم مل جاتی ہیں۔ اس میں اسلام کی اصلیت بھی جلوہ گر ہوتی ہے اور عصر رواں کی روح بھی جھلکتی نظر آتی ہے۔ ایک ایسی تہذیب جس میں علم اور ایمان، قوت اور حق، مادی ایجادات اور اخلاقی بلندی، نور عقل اور نور وحی ایک دوسرے کے دوش بدوش چلتے ہیں۔

    یہ ایک ایسی تہذیب ہو گی جس میں اسلام کی تمام خصوصیات اور اس کے جملہ محاسن جلوہ گر ہوں گے۔ فرد کی تربیت، خاندان کی تشکیل، معاشرے کی ساخت، حکومت کی تاسیس اور انسانیت کو صحیح اور راست سمت میں لے جانے میں اس کے مقاصد اور مناہج بالکل واضح ہوں گے۔

    یہ تہذیب مشرقی بلاک کی مادی، الحادی تہذیب سے بھی یکسر مختلف ہو گی اور مغربی بلاک کی نفع پرست لادینی تہذیب سے بھی قطعاً مختلف ہو گی۔ یہ ایسی تہذیب ہو گی جس کا دائیں یا بائیں سے کوئی تعلق نہیں ہو گا بلکہ یہ صرف سرچشمہ اسلام سے ابھرے گی، اسی پر قائم ہو گی، وہی اس کا ہدف ہو گا، اسی سمت میں سفر کرے گی اور انہی مقاصد کو بروئے کار لائے گی جو اسلام کے بنیادی مقاصد ہیں۔

    اسلامی تہذیب، اپنے امتیازی اوصاف کے باوجود، تمام ثقافتوں کے ساتھ تعامل اور جملہ تہذیبوں سے تبادلہ خیالات، اقوام عالم سے تعاون اور انسانیت کے درمیان اخوت و محبت کی قائل ہے۔ لیکن اسلامی تہذیب دوسری تہذیبوں میں اس طرح ضم ہونے کی قائل نہیں کہ اس کی اپنی حیثیت اور انفرادیت ختم ہو کر رہ جائے۔ اسی لیے اسلام ہر طرح کے ثقافتی حملے، تہذیبی یلغار اور اجنبی تسلط کے خلاف ہے۔ وہ ان تمام پر فریب اسالیب کو رد کرتا ہے جو آج کے حملہ آوروں کے تہذیبی ہتھیار ہیں کہ وہ دراصل انسان کے لباس میں زہریلے سانپ، بچھو اور خطرناک درندے ہیں۔

    1. اسلام کا بڑا مقصد: شریعت کا نفاذ اور نظامِ حیات کا قیام

    اسلام کا بڑا مقصد قانون و شریعت بالخصوص حدود و قصاص کی سزاؤں کا ظاہری نفاذ نہیں، اگرچہ یہ سزائیں بلاشبہ اسلامی شریعت کا حصہ ہیں جنہیں معطل نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن اس کا اولین معرکہ، اس کی اہم ترین سعی اور اس کی بنیادی کوشش ایک ایسے حقیقی، نہ کہ محض شکلی، اسلامی نظامِ حیات کا قیام ہے جو لوگوں کے نفوس کی اصلاح کر دے کہ وہ صاحبِ ایمان و ایقان فرد کی سی زندگی گزاریں اور مضبوط خاندان، مربوط معاشرے اور عادل حکومت میں اسلامی عقیدے کے مطابق اس طرح زندگی بسر کریں کہ قوت و امانت اس معاشرے کے اوصاف ہوں، اسلامی شریعت جاری اور نافذ ہو، اسلامی معانی اور مفاہیم بروئے کار آئیں اور اسلامی اخلاق و آداب معاشرے پر حکمران ہوں۔ ایسا مربوط معاشرہ جس میں باہمی کفالت کا نظام ہو۔ کوئی فرد بھوکا نہ رہے اور کوئی شخص محروم نہ ہو۔ معاشرے کے تمام افراد علم کی دولت سے مالا مال ہوں۔ ہر بے کار شخص کو روزگار میسر ہو اور ہر مزدور کو مناسب اجرت ملے۔ ہر بھوکے کو مناسب غذا میسر آئے، ہر بیمار کو علاج کی سہولت حاصل ہو، ہر شہری کو مکان میسر ہو، ہر محتاج کی ضرورتیں پوری کی جائیں اور ہر عاجز کو اجتماعی اور مادی رعایت حاصل ہو، بالخصوص بچوں، بوڑھوں، بیواؤں اور معذوروں کی کفالت کا انتظام ہو۔

    ایک ایسا معاشرہ قائم کیا جائے جو بے جان اور کمزور نہ ہو بلکہ زندگی کے ہر میدان میں قوت و طاقت سے بہرہ ور ہو، فکری توانائی، جسمانی طاقت اور روحانی، اخلاقی اور اقتصادی قوت سے سرفراز ہو، وحدت و یک جہتی کی قوت کے ساتھ اسے اسلحہ اور ہتھیاروں کی قوت حاصل ہو اور ان تمام قوتوں کی اساس ایمان کی قوت ہو۔

    2. مسلمانوں کی وحدت اور اتحاد

    اسلام کی نظر میں مسلمان جہاں بھی ہوں ایک ہی امت ہیں۔ ہر مسلمان پر دوسرے مسلمان بھائی کی تائید و نصرت فرض ہے کیونکہ تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں اور ان کا چھوٹے سے چھوٹا بھی ان کے عہد و ذمہ داری کی پاسداری کرتا ہے۔ وہ سب ایک عقیدہ پر ایمان رکھنے والے، ایک قبلے کی جانب رخ کرنے والے، ایک کتاب اور ایک رسول کو ماننے والے اور ایک شریعت پر عمل کرنے والے ہیں۔

    تمام مسلمانوں کا یہ اجتماعی فرض ہے کہ وہ مسلم اجتماعیت کے راستے میں حائل ہونے والے تمام عوامل کا سدباب کریں، تمام نسلی اور علاقائی عصبیتوں کو رد کریں اور ہر طرح کے درآمد شدہ، دائیں اور بائیں طریقوں اور نظاموں، پر چلنے سے گریز کریں۔ مغرب و مشرق کی اسلام دشمن قوتوں کے آگے جھکنا چھوڑ دیں، ہوائے نفس اور ذاتی مفادات کی اس دلدل سے نکل آئیں جس کے سبب چھوٹے چھوٹے مقاصد کے حصول کی خاطر امت مسلمہ کے بڑے بڑے اجتماعی مصالح ضائع کر دیے جاتے ہیں۔

    مسلمانوں کے لیے زبانی اتحاد کے نعروں سے نکل کر مؤثر و مستحکم اسلامی اتحاد وجود میں لانا ضروری ہے۔ اور مسلمانوں کے لیے لازم ہے کہ وہ باہمی اتفاق و اتحاد کو اس جدید دنیا میں عملی اور سیاسی شکل عطا کریں۔ آج کی دنیا میں چھوٹے ممالک بڑے ملکوں کی حمایت سے زندہ ہیں اور بڑی طاقتیں کامیاب و کامران ہیں۔ اس پس منظر میں مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ ایک مضبوط اور وسیع اسلامی بلاک قائم کریں، اور اس ندائے الٰہی پر لبیک کہیں:

    وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا

    (اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ میں نہ پڑ جاؤ)

    (آل عمران: ۱۰۳)

    تمام مسلمان متحد و متفق ہو کر سرزمینِ اسلام کو غاصبوں سے آزاد کرائیں۔ اولاً ہر جماعت اپنے اپنے وطن کی آزادی کے لیے جدوجہد کرے اور تمام امت مسلمہ اس عمل میں ایک دوسرے سے تعاون کرے بالخصوص پڑوسی مسلم ممالک فوجی، اقتصادی اور افرادی صورت میں ہر طرح سے ایک دوسرے کی مدد کریں۔ یہ عمل اللہ کے راستے میں بہترین جہاد ہوگا۔

    • بالخصوص سرزمینِ فلسطین جو نبوتوں کی سرزمین ہے، معراج نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر کا مرحلہ ہے اور مسجد اقصیٰ کی سرزمین ہے، اس کی آزادی کے لیے کوشش کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے، تاکہ سرزمینِ فلسطین آزاد ہو، وہاں کے لوگوں کو ان کے حقوق ملیں اور آزاد اور مستقل فلسطینی ریاست کا وجود عمل میں آئے۔

    سیکولرزم کا مفہوم

    اسلام کا مفہوم اور اس کے اساسی خدوخال بیان کر دیے گئے، یہ اسلام کا وہ مفہوم ہے جس کی وہ اسلامی تحریکات قائل ہیں جو روشن فکری، اعتدال اور نظم و ضبط کی پابند ہیں اور جس کی وہ دعوت دے رہی ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ سیکولرزم کا کیا مفہوم ہے۔ اس کے لیے عربی زبان میں ”علمانیہ“ (۲) کا لفظ مستعمل ہے جو کہ انگریزی SECULARISM فرانسیسی SECULARITÉ یا LAÏQUE کا ترجمہ ہے مگر یہ ترجمہ غلط ہے اس لیے کہ لفظ علم یا اس کے مشتقات کا سیکولرزم سے قطعاً کوئی تعلق نہیں۔

    علم کا مترادف انگریزی اور فرانسیسی میں SCIENCE ہے، جو مسلک یا فکر سائنس کی جانب منسوب ہو اسے SCIENTISM کہا جاتا ہے، اور علم کی جانب نسبت ہو تو انگریزی میں اسے SCIENTIFIC اور فرانسیسی میں SCIENTIFIQUE کہا جاتا ہے۔

    عربی زبان کے لحاظ سے علمانیہ میں الف نون کا اضافہ بھی قواعد کے خلاف ہے اور سماعی ہے۔ مثلاً رب کی جانب نسبت کر کے "ربانی" کہا گیا۔ بعد میں متأخرین کے یہاں ”روحانی“ ”نفسانی“ اور ”نورانی“ کے الفاظ بھی مستعمل ہوئے اور اب دور جدید میں عقلانی، شخصانی اور علمانی کی مصطلحات وجود میں آگئی ہیں۔ بہرحال سیکولرزم کا صحیح ترجمہ ”لادینی“ یا ”دنیاوی“ ہے۔ دنیاوی نہ صرف ان معنوں میں کہ یہ اخروی کے بالمقابل ہے بلکہ ان مخصوص معنوں میں کہ ایسا دنیاوی رویہ جس کا دین سے کوئی تعلق نہ ہو یا اگر کوئی تعلق ہو تو یہ تعلق تضاد کا تعلق ہو۔

    عربی زبان میں سیکولرزم کا ترجمہ ”علمانیہ“ اس لیے کیا گیا ہے کہ ترجمہ کرنے والے ”دین“ اور ”علم“ کا وہی مفہوم سمجھتے ہیں جو ان الفاظ کا مسیحی دنیا میں سمجھا جاتا ہے۔ مغرب میں دین اور علم دو متضاد الفاظ ہیں یعنی ان کے یہاں جو بات دینی یا مذہبی ہو وہ علمی نہیں ہو سکتی اور علمی بات دینی نہیں ہو سکتی۔ غرض ان کے یہاں علم اور عقل دین کے بالمقابل اور اس کی ضد ہیں اور اسی طرح علمانیہ اور عقلانیہ ایسے روئیے ہیں جو دین کے برعکس ہیں۔

    مغربی موسوعات میں سیکولرزم کی جو تشریح کی گئی ہے اس سے اس کی مزید وضاحت ہو سکتی ہے۔

    انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا میں سیکولرزم کا یہ مفہوم بیان کیا گیا ہے:

    "سیکولرزم ایک ایسی اجتماعی تحریک کا نام ہے جس کا اصل ہدف لوگوں کی توجہ امور آخرت کے اہتمام سے ہٹا کر صرف دنیا کو ان کی توجہ کا مرکز بنانا تھا۔ کیونکہ قرون وسطیٰ میں لوگ دنیا سے کنارہ کشی کا شدید رجحان رکھتے تھے اور دنیا سے بے رغبت ہو کر خدا اور آخرت کی فکر میں منہمک رہتے تھے۔ اس رجحان کے بالمقابل انسانی جذبہ اور رجحان کے بروئے کار لانے کے لیے سیکولرزم وجود میں آیا اور دور نشاۃ ثانیہ میں لوگوں نے انسانی اور ثقافتی سرگرمیوں اور دنیا کے مرغوبات کے حصول میں زیادہ دلچسپی کا اظہار شروع کر دیا۔ سیکولرزم کی جانب یہ پیش قدمی تاریخ جدید کے تمام عرصے میں دین (مسیحیت) سے متضاد تحریک کی حیثیت میں آگے بڑھتی اور ارتقاء حاصل کرتی رہی۔“

    ویبسٹر کی ڈکشنری آف ماڈرن ورلڈ میں سیکولرزم کی تشریح اس طرح کی گئی ہے:

    1. دنیوی روح یا دنیوی رجحانات وغیرہ بالخصوص اصول و عمل کا ایسا نظام جس میں ایمان اور عبادت کی ہر صورت کو رد کر دیا گیا ہو۔
    2. یہ عقیدہ کہ مذہب اور کلیسائی امور کا امور مملکت اور تربیت عامہ میں کوئی دخل نہیں ہے۔

    آکسفورڈ ڈکشنری میں سیکولر کے لفظ کی اس طرح توضیح کی گئی ہے:

    1. دنیوی یا مادی یعنی جو دینی یا روحانی نہ ہو جیسے لادینی تربیت، لادینی فن یا موسیقی، لادینی اقتدار و حکومت جو کلیسا کی حکومت کے متناقض ہے۔
    2. یہ رائے کہ دین (مذہب) کو اخلاق و تربیت کی بنیاد نہیں ہونا چاہیے۔

    نیو تھرڈ ورلڈ ڈکشنری میں سیکولرزم کی یہ تعریف کی گئی ہے:

    "زندگی یا زندگی کے خاص معاملہ سے متعلق وہ رویہ جس کی بنیاد اس بات پر ہے کہ دین یا دینی اعتبارات کا حکومت میں دخل نہیں ہونا چاہیے۔ یا دینی اعتبارات کو نظام حکومت سے قصداً دور رکھنا چاہیے۔ جس سے مراد مثلاً حکومت میں خالص لادینی سیاست ہے اور دراصل یہ اخلاق کا ایک اجتماعی نظام ہے جس کی اساس اس نقطہ نظر پر ہے کہ معاصر زندگی اور اجتماعی وحدت ایسے عمل اور ایسی اخلاقی اقدار پر قائم ہو جس میں دین کا کوئی دخل نہ ہو۔“

    مشہور مستشرق آربری اپنی کتاب "مشرقِ اوسط میں مذہب" میں لکھتا ہے کہ: ”مادی علمیت، انسانیت، طبیعی مذہب اور وضعیت سب لادینیت کی صورتیں ہیں اور لادینیت یورپ اور امریکہ کا ایک نمایاں وصف ہے، اگرچہ یہ مظاہر مشرق اوسط میں بھی موجود ہیں لیکن انہیں کوئی فلسفیانہ رخ یا متعین ادبی رخ نہیں ملا۔ اس کا حقیقی نمونہ جمہوریہ ترکیہ میں مذہب و حکومت کی تفریق ہے۔ (۲)

    علمانیت: مغرب اور مشرق میں

    ”علمانیت“ (لادینیت) کے لفظ کا استعمال عربی زبان میں نیا ہے۔ یہ ہمارے دور کی ایک جدید اصطلاح ہے۔ اس میں ”ی“ مشدد نسبت کے لیے ہے اور الف اور نون زائد ہیں۔ بعض لوگ 'علم' کی طرف نسبت کر کے اسے 'عین' کے زیر کے ساتھ 'عِلمانیت' بولتے ہیں اور یہی زیادہ مشہور ہے۔ جبکہ بعض لوگ 'عَلْمانیت'، 'عین' کے زبر کے ساتھ، کہتے ہیں یعنی 'عالم' (دنیا) کی طرف نسبت کر کے۔ مجمع اللغۃ العربیہ کی تیار کردہ المعجم الوسیط میں یہی تلفظ ہے۔

    بہرحال ”علمانیت“ کے عین پر زیر ہو یا زبر، یہ لفظ مغربی زبانوں سے ترجمہ کیا گیا ہے مگر یہ ترجمہ ”لادینیت“ ہونا چاہیے تھا کیونکہ مغربی زبانوں میں سیکولرزم کے معنی ہی ایسے امر کے ہیں جو دینی (مذہبی) نہ ہو، یعنی لادینی ہو۔ مگر عرب ممالک میں اس کا ترجمہ ”علمانی“ یا ”مدنی“ اس لیے کیا گیا ہے تاکہ لوگوں کے مذہبی جذبات متاثر نہ ہوں۔

    غرض جس طرح لفظ سیکولرزم غیر زبانوں کا لفظ ہے اسی طرح علمانیہ بھی، خواہ 'عین' کے زیر سے ہو یا زبر سے، عربی زبان میں ایک دخیل لفظ ہے اور اس کے مفہوم و معنی ایسے امر کے ہیں جو دین کے بالمقابل ہو۔ اس اعتبار سے ”علمانی“ وہ ہو گا جو دینی نہ ہو اور اس کا مقابل دینی یا کہنوتی ہوگا۔ اور علمانیت (لادینیت) کا متفقہ مفہوم یہی ہو گا کہ حکومت اور سماجی زندگی کا مذہب سے لا تعلق ہونا اور مذہب کا تعلق محض فرد کے ضمیر سے ہونا اور اس کو ایسا مخصوص تعلق قرار دینا جو صرف خدا اور بندے کے درمیان ہو۔ اور اگر انسان کبھی اس کا اظہار بھی کرے تو صرف عبادات، نکاح اور موت وغیرہ جیسے مواقع کے لیے مخصوص مراسم کے ذریعے کرے۔

    صاف ظاہر ہے کہ اس مفہوم و معنی کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ اسلام میں سرے سے انسانی زندگی کے معاملات کی یہ تقسیم ہی نہیں کہ زندگی کے یہ امور دینی ہیں اور یہ غیر دینی۔ دین و دنیا کی تقسیم ہی غیر اسلامی، اور مسیحی مغرب سے درآمد شدہ ہے۔ اور جو ہمارے معاشرے میں بعض اداروں اور لوگوں کے بارے میں دینی اور غیر دینی کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں، اس تقسیم کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔

    تاریخِ اسلام میں آخری دور تک یہ تقسیم وجود میں نہیں آئی تھی کہ تعلیم کے ایک حصے کو دینی تعلیم کہا جائے اور اس کے دوسرے حصے کو غیر دینی یا غیر مذہبی تعلیم کہا جائے۔ کچھ ایسے افراد ہوں جنہیں مذہبی لوگ یا رجالِ دین کہا جائے اور دوسرے لوگ رجالِ علم، اہل سیاست اور اہل دنیا کہلائیں۔ اسلامی نظامِ حیات میں زندگی کے یہ دو حصے کبھی نہیں رہے اور دین و دنیا کی تفریق کبھی قائم نہیں ہوئی۔ اسلام اس دین سے آشنا نہیں جو سیاست سے عاری ہو اور اس سیاست کو تسلیم نہیں کرتا جو دین سے خالی ہو۔

    اسلام میں انسانی زندگی کے تمام پہلو اس طرح باہم مربوط اور دوش بدوش رہے ہیں جس طرح جسم و جان کا رشتہ باہم مربوط ہے۔ اسلام کی نظر میں نہ روح کوئی جدا اور علیحدہ شے ہے اور نہ جسم روح سے بے گانہ ہو کر کوئی حقیقت رکھتا ہے۔ اس لیے اسلام کی نظر میں دین اور علم، دین اور دنیا، دین اور حکومت ہر رشتہ مربوط، غیر منفصل اور کبھی جدا نہ ہونے والا ہے۔

    علمانیت (لادینیت) مغربی سوغات ہے۔ یہ ہماری زمین کی پیداوار نہیں۔ ہمارے عقائد اور فکری مسلمات کے ساتھ اس کا نباہ نہیں ہو سکتا۔

    سیکولرزم کا پس منظر

    مغربی دنیا میں سیکولرزم کے ظہور کے متعدد مذہبی، فکری، نفسیاتی، تاریخی اور عملی اسباب و وجوہ تھے مگر یہ تمام اسباب اور وجوہ صرف مغربی دنیا کے ساتھ مخصوص تھے، ان کا دنیائے اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ لہذا عالمِ اسلام کو اس باب میں ان کی تقلید نہیں کرنی چاہیے۔

    مغربی دنیا میں سیکولرزم کے ظہور کے اسباب حسب ذیل ہیں:

    الف - زندگی کی اللہ اور قیصر کے درمیان تقسیم

    مسیحیت کی تعلیمات میں ایسی متعدد چیزیں موجود ہیں جو لادینی فکر (سیکولرزم) کی تائید کرتی ہیں، یعنی دین اور حکومت یا روحانی اقتدار اور دنیاوی اقتدار میں فرق کی تائید کرتی ہیں۔ گویا مسیحیت خود زندگی کے ان دونوں پہلوؤں میں تفریق کی قائل ہے۔ چنانچہ ایک پہلو یعنی دنیاوی اقتدار قیصر کے لیے ہے اور دوسرا یعنی روحانی اقتدار اللہ کے لیے۔ خود انجیل میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا یہ قول نقل کیا گیا ہے: ”جو حصہ قیصر کا ہے قیصر کو دے دو اور جو اللہ کا ہے وہ اللہ کو دے دو۔“

    اس امر کی تائید مغربی مفکر کی تاریخ کے مطالعہ سے بھی ہوتی ہے کہ اہل مغرب نے کبھی اللہ کو اس طرح نہیں پہچانا جس طرح ہم مسلمان پہچانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہر شے کو محیط ہے اور دنیا کا کوئی ذرہ اس سے چھپا ہوا نہیں۔ اس کا علم اور اس کی رحمت ہر شے پر محیط ہے۔ اس نے ہر شے کو گن کر شمار کیا ہوا ہے اور ہر شے کی اس کے یہاں مقدار متعین ہے۔ اس نے انسانوں کو ڈرانے اور بشارت دینے کے لیے رسول اور پیغمبر بھیجے اور ان کے ساتھ حق پر مشتمل کتاب نازل کی تاکہ وہ اس کے ذریعے لوگوں کے درمیان فیصلہ کریں۔

    لیکن فکرِ مغرب کا الٰہ اس سے بالکل مختلف ہے۔ وہ الٰہ ارسطو کے الٰہ کی طرح ہے کہ وہ اپنی ذات کے سوا کسی شے کا علم نہیں رکھتا، وہ کائنات کی کسی شے سے واقف نہیں، وہ کسی معاملہ کی تدبیر نہیں کرتا اور نہ کسی ساکن کو حرکت دیتا ہے۔ جیسا کہ تہذیب و فلسفہ کا مورخ ول ڈیورنٹ کہتا ہے کہ: ”یہ بے چارا مسکین خدا انگریزوں کے بادشاہ کی طرح ہے جو بادشاہ تو ہے مگر حکومت نہیں کرتا۔“

    اسلام ایسے بے اختیار اور مسکین خدا سے واقف نہیں جو انسان اور کائنات سے بالکل الگ اور بے تعلق ہو۔ اور نہ اسلام میں زندگی کی وہ تقسیم ہے جس سے مغرب کی مسیحی فکر آشنا ہے، جو انسان اور اس کی زندگی کو اللہ اور قیصر کے دو جدا حصوں میں بانٹ دیتی ہے۔ اسلام میں بادشاہ یا حکمران اللہ کا مزاحم اور حریف نہیں ہوتا جو اللہ کے اقتدار میں سے کچھ حصہ چھینے بلکہ وہ اللہ کا بندہ ہوتا ہے، اس کے حکم کے تابع ہوتا ہے اور اس کے تمام بندوں کی طرح وہ بھی اس کے اوامر و نواہی کا پابند ہوتا ہے۔

    اسلام کا عقیدۂ توحید اللہ تعالیٰ کی بندگی، اس کی عبودیت، اس کی حکمرانی اور اس کی اطاعت و فرماں برداری میں کسی طرح شرک کی گنجائش باقی نہیں رہنے دیتا۔ چنانچہ مسلمان صرف اللہ ہی کو رب مانتا ہے، صرف اللہ ہی کو مولیٰ جانتا ہے اور صرف اللہ ہی کو حاکم تسلیم کرتا ہے جیسا کہ سورت الاخلاص اور سورت الانعام میں اس کی توضیح کی گئی ہے۔ اس لیے یہ بات ضروری ہے کہ مسلمان کا پورا وجود اور اس کی تمام زندگی خالصتاً اللہ کی مطیع اور اس کی تابع فرمان ہو۔

    قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ

    (کہو میری نماز، میرے تمام مراسمِ عبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا اللہ رب العالمین کے لیے ہے جس کا کوئی شریک نہیں ہے۔)

    (الانعام: ۱۶۲)

    ب - عیسائیت اور قانون

    ایک اور پہلو سے دیکھئے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ مسیحیت میں زندگی کے مختلف امور سے متعلق تفصیلی قوانین موجود نہیں جن کے ذریعے لوگوں کے معاملات اور ان کے تعلقات کو منظم کیا جا سکے۔ نہ ایسے عادلانہ اصول اور قواعد ہی وضع کیے گئے ہیں جن کی بنیاد پر ان امور سے متعلق ضروری تصرفات کو بروئے کار لایا جا سکے۔ مسیحی تعلیمات صرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مواعظ و ارشادات پر مشتمل ہیں جو محض روحانی اور اخلاقی نوعیت کے حامل ہیں۔ اس کے برعکس اسلام عقیدہ اور شریعت دونوں پر مشتمل ہے اور اس نے آغاز سے لے کر انتہا تک انسان کی پوری زندگی کے لیے ایک مکمل ضابطۂ حیات عطا کیا ہے۔

    وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً وَبُشْرَىٰ لِلْمُسْلِمِينَ

    (اور ہم نے یہ کتاب تم پر نازل کی ہے جو ہر چیز کی صاف وضاحت کرنے والی ہے اور ہدایت و رحمت اور بشارت ہے مسلمانوں کے لیے۔)

    (النحل: ۸۹)

    چنانچہ اسلامی قانون انسانی زندگی کے حلال و حرام کو بھی بیان کرتا ہے اور حیات انسانی کے خاندانی دائرے میں رہتے ہوئے حقوق و فرائض بھی متعین کرتا ہے۔ اسلامی قانون جس طرح لوگوں کے مابین واقع ہونے والے معاشرتی معاملات اور مبادلات کو منظم کرتا ہے اسی طرح ادارتی، مالی اور سیاسی، اور حکومت و رعایا کے مابین تعلقات و معاملات کی تفصیل بھی بیان کرتا ہے اور امت مسلمہ کے دیگر اقوام کے ساتھ صلح و جنگ کے تعلقات کی وضاحت بھی کرتا ہے۔ غرض اسلامی فقہ طہارت کے مسائل و آداب سے لے کر کھانے پینے کے آداب، تشکیلِ حکومت اور جہاد تک مسلم فرد اور مسلم معاشرے کی زندگی سے متعلق تمام تفصیلات بیان کرتی ہے۔

    دین مسیحی میں اس طرح کا کوئی قانون نہیں اور کوئی دینی ضابطہ ایسا نہیں جو لوگوں کی زندگی کے معاملات طے کرتا ہو کہ اس کی جانب رجوع کیا جا سکے۔ لہذا اگر عیسائی مذہب کے پیروکاروں پر کوئی وضعی قانون نافذ کر دیا جائے تو اس سے ان کا کوئی ایسا قانون معطل نہیں ہوتا جسے ان کے دین نے لازم قرار دیا ہو اور نہ سرے سے ان کے مذہب پر کوئی اثر پڑتا ہے۔ اس صورت میں کوئی مسیحی شخص اپنی عملی زندگی اور عقیدے میں کوئی تضاد محسوس نہیں کرتا، جیسا کہ ایک مسلمان محسوس کرتا ہے۔ کیونکہ مسلمان کا اللہ اور رسول پر ایمان اس امر کو لازم ٹھہراتا ہے کہ وہ اللہ اور رسول ہی کے احکام کو اپنی زندگی میں جاری کرے اور ان احکام کے سامنے سر تسلیم خم کر کے ان کی پوری پوری فرماں برداری کرے۔

    إِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِينَ إِذَا دُعُوا إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ أَن يَقُولُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ۚ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ

    (ایمان لانے والوں کا کام تو یہ ہے کہ جب وہ اللہ اور رسول کی طرف بلائے جائیں تاکہ وہ ان کے مقدمہ کا فیصلہ کرے تو وہ کہیں ہم نے سنا اور اطاعت کی ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔)

    (النور: ۵۱)

    ج - اسلام اور دینی اقتدار

    ایک یہ حقیقت بھی قابل توجہ ہے کہ لادینیت میں اگر مسیحیت حکومت سے یا حکومت مسیحیت سے جدا ہو جائے تو اس سے مسیحیت کو بطور مذہب کوئی نقصان نہیں پہنچتا اور نہ اس کے اثرات کم ہوتے ہیں، بلکہ مسیحی دین کا اقتدار بدستور قائم رہتا ہے اور افراد اور مال و دولت سے اسے قوت و توانائی حاصل ہوتی رہتی ہے۔ کیونکہ مسیحیت میں دو طرح کے اقتدار ہیں: ایک مذہبی اقتدار جو پاپائیت اور مذہبی لوگوں کے ذریعے ایک مخصوص نظام کی صورت میں موجود ہے اور دوسرا دنیوی اقتدار جو بادشاہ یا صدر اور اعیانِ حکومت اور اعوانِ سلطنت کی صورت میں موجود ہے۔

    ان کے یہاں اگر حکومت دین سے جدا بھی ہو جائے تو دین (مذہب) مسیحیت کے مضبوط، قومی اور غنی اقتدار کے زیرِ سایہ بدستور قائم رہے گا اور زندگی کے مختلف شعبوں میں مؤثر طور پر کام کرنے والا راہبوں اور مشنریوں کا ایک عظیم لشکر بھی موجود رہے گا جن کی سرگرمیوں میں حکومت کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔

    اس کے برعکس اگر اسلامی مملکت میں دین حکومت سے جدا ہو تو درحقیقت دین بغیر کسی قوت و اقتدار کے رہ جائے گا کیونکہ اسلام میں نہ پاپائیت ہے، نہ کہنوت، اور نہ مذہبی جماعت اور رجالِ دین۔ جب کمال اتاترک نے حکومت کے لادینی ہونے اور حکومت کے دین سے جدا ہونے کا اعلان کیا تو مسلم ترکیہ میں یہی صورت حال پیش آئی کہ حکومت تو دین سے بے نیاز ہو گئی مگر دین کے لیے کوئی قوت و اقتدار باقی نہ رہا۔ اس موضوع کو مراکشی مصنف پروفیسر ادریس کتانی نے اپنی تصنیف ”مسلم مغرب بالمقابل لادینیت“ میں تفصیل سے بیان کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ:

    "ترکیہ کے گزشتہ تیس سال کے تجربہ --- اب ساٹھ سال سے زائد ہو چکے ہیں۔۔۔ نے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ اسلامی مملکت میں لادینی نظام کے قیام کا مطلب اسلام کو زندہ عقیدے اور انسانیت کے لیے دائمی پیغام کے طور پر ختم کر دینا ہے کیونکہ حکومت کو دینی اقتدار اور دینی رنگ سے جدا کر دینے (جبکہ یہ معلوم ہے کہ مسیحیت کی طرح اسلامی معاشرے میں دینی اقتدار کا حامل علیحدہ نظام موجود نہیں ہے) کا مطلب دین اسلام کو قطعاً ختم کر دینا ہے۔ ترکیہ میں بالکل یہی ہوا ہے کہ جب کمال اتاترک کے حامیوں نے حکومت کو دین سے جدا کر لیا تو انہیں درحقیقت دینی اقتدار سے کوئی دلچسپی نہ رہی۔ اسی لیے انہوں نے مساجد کی دیکھ بھال اور دیگر دینی معاملات کے لیے ایک چھوٹا سا ادارہ بنا دیا تھا اور یہی ترکیہ میں اسلام کی باقی ماندہ نشانی ہے۔“

    ظاہر ہے اس ادارے کو بھی کوئی دینی اقتدار حاصل نہیں تھا کیونکہ یہ محض ایک حکومتی شعبہ تھا اور کسی بھی طرح اس کا موازنہ مسیحی دنیا کے پوپ کے روحانی اقتدار اور اثر و رسوخ سے اور اس کے کلیساؤں اور دیگر مسیحی اداروں پر قائم اقتدار و اختیار سے نہیں کیا جا سکتا۔

    اس سے معلوم ہوا کہ اگرچہ `لادینی نظامِ حکومت` کا تصور مسیحی فکر سے ہم آہنگ ہے لیکن یہ اسلام کے مزاج سے قطعاً کوئی مطابقت نہیں رکھتا۔ کیونکہ حکومت کے لادینی نظام اختیار کر لینے سے مسیحیت کے اقتدار پر کوئی زد نہیں پڑتی، صرف دنیاوی اقتدار سے متعلق اس کے کچھ اختیارات محدود ہوتے ہیں۔ لیکن اسلام کا یہ بنیادی تصور ہی ختم ہو جاتا ہے کہ وہ انسان کی پوری زندگی کے لیے مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ حکومت کے لادینیت اپنا لینے سے اسلام کا پورا نظام معطل ہو جاتا ہے اور وہ لوگوں کے دلوں میں پوشیدہ ایک وجدانی جذبہ بن کر رہ جاتا ہے۔

    اسی لیے مسلم عربی مغرب، یعنی مراکش، نے اپنی پاک سرزمین پر اس ترکیہ کے تجربہ کو دہرانے کی اجازت نہیں دی کہ مراکش اس وقت تک ایک لادینی (LAÏQUE) ملک نہیں بن سکتا جب تک مسلمان عوام اپنے عقیدہ و ایمان سے بالکل خالی اور اپنی تاریخ اور اپنے مشن سے یکسر بے نیاز نہیں ہو جاتے۔ مسلمان عوام نے ماضی میں استعمار کو کبھی اس مقصد کے حصول میں کامیاب نہیں ہونے دیا اور نہ مستقبل ہی میں وہ ان لوگوں کو کامیاب ہونے دیں گے جو استعمار کے فکری غلبے کے تحت اپنے افکار و نظریات سے دستبردار ہونے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ ان شاء اللہ۔ (۴)

    و - اسلام اور کلیسا کی تاریخ کا اختلاف

    علم، فکر اور حریت کے مقابلے اور مزاحمت کے سلسلے میں کلیسا نے جو کردار ادا کیا اس کی تاریخ بڑی ہی دہشت انگیز ہے۔ کلیسا نے علم کے مقابلے میں جہالت کا، فکر کے مقابلے میں خرافات کا اور حریت کے مقابلے میں استبداد کا ساتھ دیا اور عوام کے مقابلے میں بادشاہوں اور جاگیرداروں کا معاون و مددگار بنا رہا یہاں تک کہ عوام اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنے آپ کو اس کے براہ راست حکم سے آزاد کرا لیا۔ انہوں نے مذہبی جلادوں سے نجات کا ذریعہ اسی امر کو سمجھا کہ دین کو حکومت سے جدا کر دیا جائے۔

    مغرب کے مسیحی شخص کے ذہن میں تاریخِ کلیسا جبر و استبداد، قتل و دہشت گردی، محاکمِ تفتیش اور متحارب گروہوں میں خون ریز جنگوں سے عبارت ہے اور اقتدار کے کلیسا کی طرف منتقل ہونے کا مفہوم اسی تکلیف دہ اور افسوس ناک صورت حال کی طرف لوٹنا ہے۔ اس لیے مغربی ممالک میں رہنے والے مسیحیوں کا مذہبی اقتدار سے بیزار ہونا اور اس کے فروغ و تسلط کی مخالفت کرنا ایک قابل فہم بات ہے۔

    پروفیسر ایمری ریفرا (Emery Reves) اپنی کتاب "سلامتی کا تجزیہ" میں مسیحیت کی ناکامی کے اسباب بیان کرتے ہوئے کہتا ہے:

    "بیسویں صدی کے نصف میں جس قدر بڑے پیمانے پر قتل و تعذیب اور جبر و استبداد کا ہم نے مشاہدہ کیا ہے یہ اس امر کی قطعی دلیل ہے کہ مسیحیت انسان کے جبلی جذبات کی اصلاح اور انسان کو حیوانیت کے دائرے سے نکال کر معقول اجتماعی مخلوق بنانے میں بالکل ناکام رہی ہے۔ پوری دنیا میں پھیلی ہوئی اس قدر بربریت اور اجتماعی قتل کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ چند افراد کا عمل ہے جو اللہ پر ایمان نہیں رکھتے اور سادزم (Sadism) کے مریض یا جاپانی شنتو ازم کے شکار ہیں۔ لاکھوں بے گناہ مارے گئے اور قاتلوں کا رواں تک نہیں کانپا۔ لاکھوں انسان لٹ گئے، ان کی ہر چیز چھین لی گئی، انہیں بے گھر اور بے وطن کر دیا گیا اور غلام بنا لیا گیاَ یہ سب انجام ان لوگوں کے ہاتھوں ہوا جو نسل در نسل مسیحی چلے آ رہے ہیں اور صدیوں سے ان کا رومن کیتھولک یا مشرقی پروٹسٹنٹ کلیسا سے تعلق ہے۔ بڑے بڑے مظالم کیے گئے اور انسانیت سے عاری جبر و استبداد کا ارتکاب کیا گیا۔ نہ صرف جرمن اور جاپانی اقوام کے ہاتھوں بلکہ ہسپانوی، اطالوی، پولینڈی، رومانی، ہنگروی، فرانسیسی، سرب، کروٹ، روسی اور دیگر مغربی اقوام کے ہاتھوں بھی ہولناک مظالم کا ارتکاب ہوا مگر تمام مسیحی مذاہب نے ان انسانیت سوز واقعات سے اپنی آنکھیں بند کیے رکھیں۔ میں کسی آسمانی مذہب پر ماقبل تاریخ کے واقعات سے مشابہ وحشیانہ واقعات کے ارتکاب کا الزام عائد نہیں کرنا چاہتا لیکن یہ ضرور بتانا چاہتا ہوں کہ ان ہولناک انسانیت سوز واقعات کا ظہور اس امر کی قطعی دلیل ضرور ہے کہ مسیحیت عیسائی اقوام کی انسانی اخلاق کی تربیت میں ناکام رہی اور وہ ایسا کوئی اثر مرتب نہ کر سکی جس سے انسان جبلی خصائص پر قابو پا کر روحانی اخلاق و ہدایات پر عمل پیرا ہو جاتا۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ مسیحیت انسان کے نفس میں سرایت کر جانے اور اس میں اخلاقی تعلیمات سمو دینے سے قاصر رہی ہے۔ مسیحیت کو بس اتنی سی کامیابی حاصل ہوئی کہ وہ صرف ظاہری اخلاق کا ایک ہلکا سا خول چڑھا پائی اور تھوڑا رنگ تہذیب کا پیدا کیا جو بیسویں صدی کے اضطرابات کا سامنا کرتے ہی پارہ پارہ ہو گیا۔“

    اس کے بعد وہ مزید تجزیہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ:

    "مذہب سے قطع نظر، کسی طریقہ کار کی کامیابی معلوم کرنے کے لیے دو ہزار برس خاصا طویل عرصہ ہے۔ سمجھا یہ گیا کہ مسیحیت ان صدیوں میں انسان کے اندر چھپے ہوئے حیوان کو مانوس کرنے اور انسان کے مضرت رساں خصائص اور جبلتوں کے ضبط اور مقید کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے۔ لیکن جوں ہی کلیسا عالمی انسانی پیغام سے کنارہ کش ہو کر اور قبائلی وطنیّت قبول کر کے ایک وطنی تنظیم میں تبدیل ہوا فوراً معلوم ہو گیا کہ مغربی دنیا میں مسیحیت کے اثرات کس قدر کمزور اور سطحی تھے۔ مغرب کے انسان نے دنیا کی خاطر فوراً مسیحیت کی روحانی تعلیمات کو فراموش کر دیا اور ان آتش فشاں جبلتوں کے سامنے سرنگوں ہو گیا جن پر اگر قانون کی حد بندی اور ضبط و کنٹرول نہ ہو تو وہ انسان کی صلاحیتوں کو برباد کر کے رکھ دیتی ہیں۔ مسیحیت میں جو پاکیزگی اور تہذیب کو فروغ دینے والا عنصر ہے وہ دراصل اس کی وحدت و عالمیت ہے، یعنی مسیحیت کی یہ تعلیم کہ تمام انسان اللہ کی نظر میں برابر اور مساوی ہیں، وہ ایک اللہ کے بندے ہیں، ان پر ایک ہی قانون حکمران ہے۔ مسیحیت کی یہ تعلیمات تاریخ انسانیت میں بلاشبہ حکمت پر مشتمل ہیں۔ لیکن سوء اتفاق ہے کہ مسیحیت ایک مربوط مذہب کے بجائے ایک مطلق سربراہی اور اقتدار کی حامل تنظیم بن کر رہ گئی جس کے نتیجے میں اس کے اندر تفریق و تقسیم پیدا ہو گئی۔ اور یوں واحد عالمی قانون ایک جانب آمریت بن گیا اور دوسری جانب گوناگوں فرقوں اور مسلکوں میں تقسیم ہو گیا۔ اس مرحلے پر وطن اور قومیت پرستی کے احساسات پروان چڑھے اور مغربی دنیا میں جس قدر وطنیّتوں کو فروغ حاصل ہوتا گیا اتنا ہی یہ طلسم ذہنِ مغرب پر چھاتا چلا گیا۔ نتیجتاً مسیحی کلیسا بھی بہت سے مذہبی گروہوں میں بٹ گیا اور ہر فریق وطنی اقتدار کا مؤید و مددگار بن گیا۔ تھوڑا ہی عرصہ گزرا کہ مسیحیت وطنیّت کے مشابہ ہو گئی اور ہر مقام پر مسیحیت نے وہاں کی وطنی سیاست کو اشتراکی رجحانات اور آزاد میلانات کے مقابلے کے لیے مسیحی سیاست کے طور پر اختیار کر لیا۔“

    مسیحیت پر وارد اعتراضات کا یہ ایک نمونہ ہے جو کسی تبصرے کا محتاج نہیں ہے۔ لیکن جہاں تک اسلام کا تعلق ہے، کیا ان میں سے کوئی بات اسلام کے بارے میں کہی جا سکتی ہے؟ یقیناً اسلام کے حقائق اور خود تاریخ کا جواب نفی میں ہے۔ لیکن اسلام بہرحال اس حملے سے متاثر ضرور ہوا جیسا کہ وطنی اور قومی انکار کے سیلاب سے متاثر ہوا کیونکہ مغرب کے اہل قلم اسلام کے بارے میں اسی طرح لکھ رہے تھے جیسے دین اسلام بھی مسیحیت کی طرح ہے اور چونکہ خود مسلمان ان کے مشنری اداروں کے تعلیم یافتہ تھے اس لیے وہ بھی اسی طرح سوچنے اور سمجھنے لگے۔ (۴)

    اسلامی دنیا میں سیکولرزم کی ناکامی

    سیکولرزم یا لادینیت سراسر اسلام کے خلاف اور اس کی تاریخ اور اس کی فکر سے متصادم ہے، اور جس طرح اس نے مغرب میں نشو و ارتقاء حاصل کیا ہے، اسلامی دنیا میں اس کے وجود کا بھی کوئی جواز موجود نہیں۔ لہذا یہ تصور نہیں کیا جا سکتا کہ اسلامی دنیا میں سیکولرزم یا لادینیت کبھی کامیاب ہو سکتی ہے۔

    لادینیت کا اصل مقصد یہ ہے کہ وہ امت مسلمہ کا رُخ بدل دے اور اس کے مزاج میں تغیر پیدا کر دے۔ لیکن یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ امت مسلمہ کبھی بھی ”لادینیت“ کو قبول نہیں کرے گی بلکہ اس کا تمام وجود اس کی مزاحمت کرتا رہے گا اور اسے پوری قوت سے مسترد کرتا رہے گا۔ یہی وجہ ہے کہ لادینی طرزِ حکومت اور امت مسلمہ کے درمیان ایک کشمکش پیدا ہے جو کبھی مدھم پڑ جاتی ہے اور کبھی تیز ہو جاتی ہے لیکن مسلسل جاری رہتی ہے، کیونکہ یہ کشمکش دراصل امت کے وجود پر ہونے والی زیادتی کا ردِ عمل ہے جو دھیما تو پڑ سکتا ہے مگر سرد نہیں ہو سکتا۔ ممکن ہے کسی وقت یہ خاکستر میں پڑی ہوئی چنگاری شعلۂ جوالہ بن جائے۔

    لادینی طرزِ فکر امت کو کبھی بھی اپنی پوری توانائیوں کے ساتھ آگے نہیں بڑھنے دے گا اس لیے کہ یہ تصور اجنبی ہے، یا باہر سے داخل کیا ہوا، جو امت کے مزاج سے دور اور اس کے تصورات سے مختلف ہے۔ لہذا یہ امتِ اسلامیہ کو اندر سے متحرک نہیں کر سکتا۔

    اسلامی ممالک میں سیکولرزم کی حکمرانی کی واضح اور نمایاں ترین مثال ترکیہ کی ہے، جہاں خلافت اسلامیہ کو ختم کر کے، اور خون کا دریا عبور کر کے، پورے زور اور قوت کے ساتھ لادینیت کو مسلط کیا گیا۔ اتاترک نے جبر و تسلط کے ساتھ سیاست، اقتصاد، اجتماع، تعلیم اور ثقافت، غرض زندگی کے ہر پہلو میں مغربی طرزِ حیات جاری کر دیا اور ترک قوم سے اس کی ثقافت، اس کی اقدار اور اس کی روایات اس طرح سلب کر لیں جس طرح ذبح شدہ بکری کی کھال کھینچی جاتی ہے۔ اتاترک نے دین کو دنیا سے بالکل علیحدہ کر کے ایک لادینی دستور نافذ کر دیا اور اسی اساس پر خاندانی اور شخصی معاملات سمیت تمام پہلوؤں میں خلافِ اسلام قوانین نافذ کر دیے۔

    تو کیا اتاترک اور اس کے جانشین دستور و قانون کی تعلیم و ابلاغ، پولیس اور فوج کی مدد، مغرب کے تعاون اور ساری قوت و جبر کے استعمال کے باوجود ترک قوم کے دلوں سے اسلامی افکار، اسلامی احساسات اور اسلامی اقدار کو نکال دینے میں کامیاب ہو سکے؟

    جن لوگوں نے گزشتہ برسوں میں جدید ترکیہ کو دیکھا ہے، انہیں مسجدیں ہر عمر کے نمازیوں سے بھری نظر آئی ہیں اور انہوں نے دیکھا ہے کہ وہاں ایسے ہزاروں مدارس ہیں جہاں قرآن کی تعلیم ہوتی ہے، اور خطباء کے ادارے ہیں، اسلامی کتابیں شائع ہوتی اور پڑھی جاتی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی جرمنی اور دیگر مغربی ممالک میں رہنے والے ترکوں کو دیکھ لیجیے، آپ کو یقین ہو جائے گا کہ لادینیت کا طوفان ان کے دلوں سے اسلام کو کھرچ کر نکال دینے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔

    اس مقام پر میں فرانسیسی اخبار 'لا مونڈ ڈپلومیٹک' کی ۱۸ جنوری ۱۹۸۳ء کی اشاعت میں شائع ہونے والے ایک مضمون کا حوالہ دوں گا جو ترکیہ کی اسلامی بنیاد اور اس کی مغربیت کے درمیان موازنے سے متعلق ہے اور جسے جرمنی کے شہر آخن سے شائع ہونے والے ”الرائد“ نے نقل کیا ہے۔

    اخبار کہتا ہے:

    "ترک معاشرے کو مغربی رنگ میں رنگ دینے کی دو صدی پر حاوی سعی و کوشش اور لادینیت کی حکمرانی کے پچاس سال بعد ترکیہ میں نئے سرے سے اسلامی مملکتوں کے دورِ اول کی سیاست و دین کی یکجائی کی لہریں اٹھ رہی ہیں۔“

    کمالی انقلاب نے ”لادینیت“ کو حکومت اور جدت پسندی کی بنیاد بنایا، جس کا مطلب یہی تھا کہ اسلام عام زندگی سے نکل کر صرف دین داروں کے سینوں میں بند ہو کر رہ جائے۔ لہذا اسلام جو پہلے دین و سیاست دونوں پر مشتمل تھا اب بیک جنبشِ قلم صرف ذاتی مسئلہ بن گیا۔

    کسی اسلامی ملک میں مکمل طور پر سیاست کی اسلام سے علیحدگی اور مغربی طرز کی لادینی ریاست کے قیام کا (ترکیہ کا یہ عمل بالکل منفرد تجربہ تھا۔ اسلام کو سیاست و اقتدار سے علیحدہ کر دینے کے نتیجہ میں اسلام عوامی حلقوں، بالخصوص اناطولیہ کے کسانوں، میں محدود ہو کر رہ گیا۔ اسلام کو جڑ بنیاد سے ختم کرنے کے لیے اس کو خاص طور پر نشانہ بنایا گیا۔ چنانچہ قرآنی مدارس اور تصوف کے زاویوں (خانقاہوں) کو پسماندگی کے مراکز اور رجعت پسندی کی سازش سمجھ کر ۱۹۲۵ء کے آغاز ہی سے غیر قانونی قرار دے دیا گیا۔

    لیکن کیا اس تمام عمل سے اسلام ترکوں کے سینوں میں بجھ کر رہ گیا اور ترکیہ کی سیاسی زندگی سے بالکل نکل گیا؟ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے اور وہ یہ کہ اگرچہ حاکم طبقہ اسلام سے دور ہو گیا لیکن ملک کے انتخابی مراکز میں اسلام بدستور کارفرما رہا اور اسلامی تعلیمات کے ادارے اور اسلامی جماعتیں بدستور اناطولیہ کے عوام میں اثر و رسوخ کی مالک رہیں بلکہ انہیں نئے حامی اور اعوان و انصار میسر آ گئے۔

    ترکیہ کے عوام اسلامی تہذیب و ثقافت اور اخلاق و آداب سے جو وابستگی رکھتے ہیں اس کا تعلق صرف نقشبندی اور قادری وغیرہ سلسلوں کی سرگرمیوں سے نہیں اور نہ صرف اس حقیقت سے ہے کہ ترکیہ کا نظامِ حکومت مذہب کے خلاف ہے، بلکہ ترک معاشرہ ہر ایسے اجتماعی ڈھانچے کو رد کرتا ہے جو اسلامی ثقافت کے دائرے سے خارج ہو اور اس بات کا اندیشہ محسوس کرتا ہے کہ کہیں ترک ثقافت رفتہ رفتہ مغربی طرزِ حیات میں گم نہ ہو جائے۔ اب ان ترکوں کی تعداد کا شمار مشکل ہے جو مذہبی جماعتوں کے پیرو ہیں اور جو خفیہ اسلامی مدارس میں جاتے ہیں۔ ہر چند کہ یہ جمعیتیں اور مدارس سیاسی پارٹیوں کی طرح کام نہیں کرتے لیکن ان کے اثرات کا اندازہ اربکان کی ”ملّتِ سلامت پارٹی“ کو ملنے والے ووٹوں سے ہو سکتا ہے۔ اربکان لادینیت کے اصولوں کی خلاف ورزی اور قانون کی دفعہ ۱۶۳ کی مخالفت کے جرم میں پابند سلاسل ہیں۔ اس دفعہ کی رو سے مذہب اور اقتصادی یا سیاسی زندگی میں کوئی تعلق قائم کرنا جرم ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ ترکیہ میں پارلیمنٹ کے وجود کے ساتھ ہی ملّتِ سلامت پارٹی وجود میں آگئی اور اس نے ۱۹۷۳ء کے انتخابات میں مجموعی ووٹوں میں سے ۱۱.۶۸ فیصد ووٹ حاصل کیے اور ستمبر ۱۹۸۰ء کے فوجی انقلاب تک تھوڑی سی کمی کے ساتھ اس شرح کو برقرار رکھا۔

    علمانیت اور علمیت

    بعض لادینیت پسند لوگوں نے علمانیت (لادینیت) کے غلط ترجمے کو علمیت کے مترادف بنا دیا ہے، اور عوام کو اس وہم میں مبتلا کرنے کے لیے کہ اسلام علم اور عقل کے خلاف ہے، یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ علمانیت (لادینیت) علم اور عقل کی اساس پر قائم ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک کھلا مغالطہ ہے اور فی الواقع لادینیت کا علم سے کوئی تعلق نہیں۔ چنانچہ ہم علمیت کو قبول کرتے ہیں مگر علمانیت کو رد کرتے ہیں۔

    لفظ علمیت کی نسبت علم کی طرف ہے اور اس کا مطلب ایسا علمی رویہ ہے جو زندگی کے تمام معاملات پر حاوی ہو، خواہ وہ معاملات مادی ہوں یا اخلاقی، شہری ہوں یا فوجی، سیاسی ہوں یا اقتصادی، اور خواہ انفرادی ہوں یا اجتماعی۔

    جو لوگ یہ رویہ اختیار کرتے ہیں انہیں ”علمی“ کہا جاتا ہے جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ علم کا احترام کرتے ہیں اور علم کے تقاضوں کے مطابق اپنی زندگی کے معاملات طے کرتے ہیں۔ جب کہ ان کے علاوہ دوسرے لوگ ذاتی جذبات اور میلانات یا مفروضات و اوہام پر چلتے ہیں اور بلا تحقیق دوسروں کی تقلید کرتے ہیں۔

    علم سے ہماری مراد وہ چیز ہے جو قطعی دلائل سے ثابت ہو۔ کتنی ہی باتیں ایسی ہیں جنہیں علم کا نام دیا جاتا ہے حالانکہ علم سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔

    انسانی اور اجتماعی علوم سے متعلق بہت سے نتائج ایسے ہیں جنہیں بعض لوگ اس طرح پیش کرتے ہیں گویا انہیں یقینی علم کا درجہ حاصل ہو، حالانکہ حقیقت یہ نہیں ہوتی بلکہ وہ غیر یقینی مقدمات پر مبنی ہوتے ہیں، اور بعض ان میں ایسے ہوتے ہیں جنہیں قابل قبول کہا جا سکتا ہے اور بعض ایسے ہوتے ہیں جنہیں کسی طرح تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ اس کی سب سے بڑی دلیل ان امور کے بارے میں نقطہ نظر کا وہ اختلاف ہے جو مشرق و مغرب اور دائیں یا بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے محققین اور اہل علم لوگوں کے درمیان پایا جاتا ہے۔

    لوگ جو غیر علمی باتوں کو علمی قرار دے رہے ہیں، ان پر اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان کتنا صادق آتا ہے:

    وَمَا لَهُم بِهِ مِنْ عِلْمٍ ۖ إِن يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ ۖ وَإِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا

    (اس معاملہ کا انہیں کوئی علم نہیں وہ محض گمان کی پیروی کر رہے ہیں اور گمان تو حق کی جگہ کچھ بھی کام نہیں دے سکتا۔)

    (النجم: ۲۸)

    ہم اہل اسلام سب سے زیادہ علم کے احترام کے سزاوار ہیں اور سب سے زیادہ اس بات کے حق دار ہیں کہ ہمارے معاملات علم کے تقاضوں کے مطابق استوار ہوں۔ ہمارا سارا دین علم ہے اور علم ہمارے نزدیک دین ہے۔ ہم دین اور علم کی اس کشمکش سے بھی نہیں گزرے جس سے مغرب گزرا ہے۔ مغرب میں صدیوں تک اس کشمکش کی چکی چلتی رہی جس کے آثار محاکمِ تفتیش (یعنی تحقیقاتی عدالتوں) کے ایسے مصائب کی صورت میں ظاہر ہوئے جن سے تاریخ کی پیشانی عرقِ انفعال سے نم آلود ہو گئی۔

    ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیگر انبیاء کی طرح کوئی حسی معجزہ نہیں دیا گیا کہ لوگ خواہ مخواہ اس کے آگے جھک جائیں بلکہ انہیں قرآن کریم کی صورت میں ہمیشہ برقرار رہنے والا علمی معجزہ عطا کیا گیا۔ اور جب مشرکین عرب نے حسی معجزہ کا مطالبہ کیا، جیسا کہ پہلے انبیاء سے کیا گیا تھا، تو وحی الٰہی نے اس کا یہ جواب دیا:

    أَوَلَمْ يَكْفِهِمْ أَنَّا أَنزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ يُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ

    (اور کیا ان لوگوں کے لیے کافی نہیں کہ ہم نے تم پر کتاب نازل کی جو انہیں پڑھ کر سنائی جاتی ہے؟)

    (العنکبوت: ۵۱)

    سب سے بڑی دلیل اس سلسلہ میں یہ ہے کہ قرآن کریم کے نزول کا آغاز ہی ”اقرا“ کے لفظ سے ہوا:

    اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ

    (پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا)

    (العلق: ۱)

    اور اس کے بعد نازل ہونے والی دوسری سورت میں قلم کا ذکر ہوا:

    وَالْقَلَمِ وَمَا يَسْطُرُونَ

    (قسم ہے قلم کی اور اس چیز کی جسے لکھنے والے لکھ رہے ہیں)

    (القلم: ۱)

    قرآن اپنے مخاطبین میں علمی ذہنیت پیدا کرتا ہے اور علم کو فرض اور تفکر کو عبادت قرار دیتا ہے۔ وہ انسان، تاریخ اور کائنات کو غور و تامل کی جولان گاہ قرار دیتا ہے۔

    وَفِي الْأَرْضِ آيَاتٌ لِّلْمُوقِنِينَ ۙ وَفِي أَنفُسِكُمْ ۚ أَفَلَا تُبْصِرُونَ

    (یقین کرنے والوں کے لیے زمین میں بے شمار نشانیاں ہیں اور انسانو! تمہاری اپنی ذات میں بھی، کیا تم نہیں دیکھتے؟)

    (الذاریات: ۲۰-۲۱)

    أَوَلَمْ يَنظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا خَلَقَ اللَّهُ مِن شَيْءٍ

    (کیا ان لوگوں نے آسمان اور زمین کے انتظام پر کبھی غور نہیں کیا اور کسی چیز کو بھی جو خدا نے پیدا کی ہے، آنکھیں کھول کر نہیں دیکھا؟)

    (الاعراف: ۱۸۵)

    قُلْ سِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَانظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ

    (ان سے کہو کہ زمین میں چلو پھرو اور دیکھو کہ اس نے کس طرح خلق کی ابتدا کی ہے)

    (العنکبوت: ۲۰)

    أَوَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَيَنظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ

    (اور کیا یہ لوگ کبھی زمین میں چلے پھرے نہیں کہ انہیں ان لوگوں کا انجام نظر آتا جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں؟)

    (الروم: ۹)

    أَفَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَتَكُونَ لَهُمْ قُلُوبٌ يَعْقِلُونَ بِهَا أَوْ آذَانٌ يَسْمَعُونَ بِهَا ۖ فَإِنَّهَا لَا تَعْمَى الْأَبْصَارُ وَلَٰكِن تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ

    (کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں کہ ان کے دل سمجھنے والے یا ان کے کان سننے والے ہوتے۔ حقیقت یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں مگر وہ دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہیں)

    (الحج: ۴۶)

    عقل کا تقاضا تو یہ ہے کہ برہان اور دلیل کے بغیر کوئی دعویٰ صحیح تسلیم نہ کیا جائے بلکہ دعویٰ بلا دلیل رد کر دیا جائے:

    قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ

    (ان سے کہو، اپنی دلیل پیش کرو اگر تم اپنے دعویٰ میں سچے ہو۔)

    (البقرہ: ۱۱۱)

    چنانچہ نبوت کے دعویٰ پر بھی ثبوت طلب کیا گیا:

    فَأْتِ بِهَا إِن كُنتَ مِنَ الصَّادِقِينَ

    (اگر تو کوئی نشانی لایا ہے، تو اسے پیش کر، اگر تو سچا ہے۔)

    (الاعراف: ۱۰۶)

    جو شخص کسی عقیدے کی دعوت دے وہ بھی دلیل پیش کرے۔

    إِنْ عِندَكُم مِّن سُلْطَانٍ بِهَٰذَا ۚ أَتَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ

    (تمہارے پاس اس قول کی کیا دلیل ہے، کیا تم اللہ کے متعلق وہ باتیں کہتے ہو جو تمہارے علم میں نہیں؟)

    (یونس: ۶۸)

    کسی بات کو من جانب اللہ اور دین کی بات کہنے اور اس کے ماننے والوں سے کہا گیا:

    هَلْ عِندَكُم مِّنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوهُ لَنَا

    (کیا تمہارے پاس کوئی علم ہے جسے ہمارے سامنے پیش کر سکو۔)

    (الانعام: ۱۴۸)

    نَبِّئُونِي بِعِلْمٍ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ

    (ٹھیک ٹھیک علم کے ساتھ مجھے بتاؤ اگر تم سچے ہو۔)

    (الانعام: ۱۴۳)

    یہ ہے علمی عقلیت جو عقلیات میں یقینی برہان، حسیات میں سچے تجربے اور مرویات میں صحیح نقل کا مطالبہ کرتی ہے۔

    ائْتُونِي بِكِتَابٍ مِّن قَبْلِ هَٰذَا أَوْ أَثَارَةٍ مِّنْ عِلْمٍ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ

    (اس سے پہلے آئی ہوئی کوئی کتاب یا علم کا کوئی بقیہ تمہارے پاس ہو تو وہی لے آؤ اگر تم سچے ہو۔)

    (الاحقاف: ۴)

    عقلیت یقین کی جگہ ظن کو قبول نہیں کرتی۔

    وَمَا يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا ۚ إِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا

    (حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے اکثر لوگ قیاس اور گمان کے پیچھے چلے جا رہے ہیں حالانکہ گمان حق کی ضرورت کو کچھ بھی پورا نہیں کرتا۔)

    (یونس: ۳۶)

    عقلیت کا تقاضا یہ ہے کہ انسان ہوائے نفس کے بجائے حق کی پیروی کرے:

    وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَوَاهُ بِغَيْرِ هُدًى مِّنَ اللَّهِ

    (اور اس شخص سے بڑھ کر گمراہ کون ہو گا جو خدائی ہدایت کے بغیر بس اپنی خواہشات کی پیروی کرے۔)

    (القصص: ۵۰)

    ثُمَّ جَعَلْنَاكَ عَلَىٰ شَرِيعَةٍ مِّنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْهَا وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ

    (اس کے بعد اے نبی! ہم نے دین کے معاملہ میں تمہیں ایک صاف شاہراہ (شریعت) پر قائم کیا ہے لہذا تم اس پر چلو اور ان لوگوں کی خواہشات کا اتباع نہ کرو جو علم نہیں رکھتے۔)

    (الجاثیہ: ۱۸)

    عقلیت اس بات کو تسلیم نہیں کرتی کہ باوجودیکہ آبا و اجداد خود گمراہی میں مبتلا ہوں پھر بھی ان کی تقلید کی جائے:

    أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ شَيْئًا وَلَا يَهْتَدُونَ

    (خواہ ان کے باپ دادا کچھ نہ جانتے ہوں اور صحیح راستے کی ان کو خبر ہی نہ ہو)

    (المائدہ: ۱۰۴)

    عقلیت اس امر کو نہیں مانتی کہ حجت اور دلیل کے بغیر قوم کے سرداروں اور بڑوں کی بات مان لی جائے:

    وَقَالُوا رَبَّنَا إِنَّا أَطَعْنَا سَادَتَنَا وَكُبَرَاءَنَا فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا

    (اور کہیں گے کہ اے ہمارے رب ہم نے اپنے سرداروں اور اپنے بڑوں کی اطاعت کی اور انہوں نے ہمیں راہِ راست سے بے راہ کر دیا۔)

    (الاحزاب: ۶۷)

    قرآن کریم نے متعدد مقامات پر علم کی فضیلت کی جانب اشارہ کیا ہے اور انبیائے کرام کے قصص میں خصوصیت کے ساتھ علم کی سرفرازی کا ذکر فرمایا ہے۔ چنانچہ مقرب ملائکہ پر حضرت آدم کے تفوق کی وجہ ان کا علم بیان کیا گیا۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے واقعہ میں بیان ہوا کہ اللہ نے ان کے ذریعے مصر اور اس کے گردو پیش کو قحط سالی سے بچایا کیونکہ انہوں نے پندرہ سال کی مدت کا اقتصادی اور زرعی پروگرام بنایا تھا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے واقعہ میں بیان کیا گیا کہ ان کا مصاحب ملکہ سبا کا تخت یمن سے شام تک پلک جھپکنے کی مدت میں اپنے اس علم کی بنیاد پر لے آیا جو اسے کتاب سے حاصل تھا۔ اور یہ کام عفریت الجن نہیں کر سکا۔ اس سے معلوم ہوا کہ علم سے انسان کی صلاحیت و قوت جنوں کی صلاحیت و قوت سے بڑھ جاتی ہے۔

    بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت عرب کے بت پرستانہ ماحول میں کاہن اور قسمت کا حال بتانے والے جن اوہام اور خرافات پر اعتماد کرتے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تردید فرمائی۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مناسب دوا استعمال کرنے کی بجائے گنڈوں اور تعویذوں پر بھروسہ کرنے سے منع فرمایا اور کہا کہ اللہ نے ہر بیماری کی دوا نازل فرمائی ہے۔

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی رائے ترک فرما کر اہل تجربہ اور باخبر لوگوں کی رائے اختیار فرما لیتے تھے جیسا کہ بدر کے موقع پر اپنی رائے چھوڑ کر حباب بن منذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رائے پر عمل فرمایا۔

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے بعد مسلمانوں کی مردم شماری کرائی تاکہ آپ کو ان لوگوں کی تعداد کا علم ہو سکے جو لڑائی لڑنے کے قابل ہیںَ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے ان لوگوں کی تعداد گن کر بتاؤ جو اسلام کا کلمہ پڑھتے ہیں۔ چنانچہ شمار کیے گئے تو ان کی تعداد پندرہ سو تھی۔“ (بخاری)

    نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دنیاوی معاملات جیسے زراعت، صنعت اور طب وغیرہ کے بارے میں ان چیزوں کے جاننے والوں کے تجربے سے استفادہ فرماتے تھے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ”تم اپنے امور دنیا سے زیادہ واقف ہو۔“

    قرآن کریم اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ تعلیمات محض زبانی نہ تھیں بلکہ یہ تعلیمات دلوں میں راسخ ہوئیں، لوگ ان پر عمل پیرا ہوئے اور ان کی اساس پر مضبوط و مستحکم تہذیب استوار ہوئی جس میں ایمان و علم، عقیدہ و فکر اور شریعت و حکمت باہم مربوط تھے۔ وہاں صریح معقول کا صحیح منقول سے کوئی تعارض نہیں تھا۔ اگر ہم عقل سے گریز اختیار کر لیں تو نہ کوئی نقل ثابت ہو اور نہ وحی کیونکہ دین کے بڑے بڑے حقائق وحی کے ذریعے ثابت ہونے سے پہلے عقل سے ثابت ہوتے ہیں۔ ہم نے عقل ہی سے اللہ کے وجود اور نبوت کی صحت پر استدلال کیا ہے اور عقل ہی سے ہم نے اس امر پر استدلال کیا ہے کہ نبوت محمد صلی اللہ علیہ وسلم برحق ہے اور قرآن اللہ تعالیٰ کی جانب سے نازل ہونے والی کتاب ہے۔

    غرض عقیدہ ہمارے نزدیک برہان اور دلیل پر استوار ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اسلام کی جانب بصیرت کے ساتھ دعوت دی جائے۔ اسلام میں دیگر مذاہب کی طرح اندھا اعتقاد اور بصیرت سے عاری یقین نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں بہت سے مقامات پر توحیدِ الٰہی کے دلائل بیان کیے گئے ہیں، نبوت کے برحق ہونے، موت کے بعد دوبارہ زندہ ہونے کے امکان اور آخرت میں جزا و سزا کی حکمت وغیرہ پر استدلال کیا گیا ہے۔

    اسلامی شریعت میں انسان کی دنیاوی زندگی اور اخروی زندگی کے مصالح کو یکساں مدنظر رکھا گیا ہے۔ چنانچہ قرآن و سنت میں بیان کردہ احکامات کی توجیہات بھی اس حقیقت پر دلالت کرتی ہیں اور عبادات و معاملات سے متعلق احکام کو گہری نظر سے دیکھا جائے تو ان سے بھی اس حقیقت کی عکاسی ہوتی ہے۔

    شریعت منطق و دلیل کی اساس پر قائم ہے۔ چنانچہ شریعت میں نہ دو مساوی امور میں فرق ہے اور نہ دو مختلف امور برابر سمجھے گئے ہیں۔ اور اسی بنا پر فقہاء نے قیاس کو شریعت کے اصولوں میں سے ایک اصول قرار دیا ہے۔ اس حقیقت کی بنیاد پر ایک صاحبِ ایمان نے یہ کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ایسی بات کا حکم نہیں دیا جس کے بارے میں عقل یہ کہے کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم نہ دیا ہوتا تو بہتر ہوتا۔ اور آپ نے کسی ایسی بات سے نہیں روکا جس کے بارے میں عقل یہ کہے کہ نہ روکا ہوتا تو اچھا ہوتا۔

    بہرحال اسلام کا علمی رویہ اور عقلیت بالکل واضح اور ثابت شدہ امور ہیں۔ ہر انصاف پسند شخص، جو اسلام کی تعلیمات اور اس کے اصل مصادر سے واقف ہو، اس حقیقت کا اعتراف کرے گا، خواہ وہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہو، بلکہ اس حقیقت کا اعتراف تو اسلام کے بعض دشمن بھی کرتے ہیں۔

    چنانچہ مشہور مارکسی مصنف میکسم رودنسن اپنی کتاب میں قرآنی عقیدے کی نسبت کہتا ہے: (1)

    "قرآن ایک مقدس کتاب ہے جو عقلیت سے لبریز ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ دلائل و براہین بیان کرتا چلا جاتا ہے اور یہی محسوس ہوتا ہے کہ وحی عقلیت اور دلائل و براہین ہی کا دوسرا نام ہے۔ جب کہ دوسرے ادیان میں یہ بات بہت کم ہے۔ وحی جو اللہ تعالیٰ نے مختلف زمانوں میں مختلف رسولوں پر نازل کی اور آخر میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی، قرآن اس کو برہان کا ایک ذریعہ بناتا ہے اور مختلف مقامات پر کہتا ہے کہ اس نے مختلف رسولوں کو بینات کے ساتھ بھیجا اور جو کوئی اس وحی سے اختلاف کرتا ہے وہ اس جیسی بنا کر لائے۔ قرآن کریم قدرتِ الٰہی پر بھی عقلی دلائل بیان کرتا ہے کہ زمین اور آسمان کی تخلیق، دن اور رات کا اختلاف، حیوانات کی پیدائش، سیارگان فلک کی گردش اور حیوانات و نباتات کا تنوع انسانی ضروریات کے مطابق ہونا اربابِ دانش کے لیے نشانیاں ہیں۔ (آل عمران: ۱۸۰) (ع) عقل کا کام افکار کو ایک دوسرے سے مربوط کرنا ہے، یہی عقل برہان پر حاکم ہے۔ اس مفہوم کے مطابق قرآن میں عقل کا ذکر پچاس مرتبہ آیا ہے اور سوال استنکار کے طور پر ۱۳ مرتبہ آیا ہے جیسے ”افلا تعقلون“۔ (کیا تم عقل نہیں رکھتے) (البقرہ: ۴۴) کفارِ قریش جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو سننے سے گریزاں تھے انہیں `قوم لا یعقلون` کہا گیا کیونکہ وہ عقلی جدوجہد میں قاصر تھے اور اتنی ہمت نہیں رکھتے تھے کہ اپنی موروثی روایات کے متعلق عقل سے فیصلہ کریں۔ اس لیے وہ بالکل جمادات اور حیوانات کے درجے میں تھے بلکہ ان سے بھی زیادہ نافہم۔ اللہ ان لوگوں کو اس لیے ناپسند فرماتا ہے کہ یہ اپنی فکری بنیادوں کا جائزہ نہیں لیتے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے وجود اور اپنے ارادے پر دلالت کرنے والی جو آیات نازل کی ہیں اور خصوصیت کے ساتھ وہ آیات جو اس نے اپنے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی ہیں ان کا مقصود یہ ہے کہ لوگ انہیں سمجھیں اور انہیں اپنے غور و تفکر کی اساس بنائیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فیصلہ کن دلیل بیان کر کے اس کا اختتام اس جملے پر کرتے ہیں: "ہم آیات کو تفصیل سے بیان کرتے ہیں ان لوگوں کے لیے جو عقل رکھتے ہیں۔" (الروم: ۲۸)“

    ازاں بعد مصنف اسلام کی عقلیت کا موازنہ یہودیوں اور عیسائیوں کے عہد نامۂ قدیم اور عہد نامۂ جدید سے کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اسلام کی عقلیت چٹان کی طرح مضبوط و مستحکم ہے۔ (۴)

    قرآن کی مذکورہ بالا عقلی فضا نے، جس کا اعتراف مارکسی مفکر نے کیا ہے، ایک بار آور اور مفید علمی ماحول پیدا کر دیا جس سے یہ ممکن ہو گیا کہ تمام انسانی صلاحیتیں بروئے کار لا کر عملی ترقی کی جائے۔ اسی فضا کے نتیجے میں وہ علمی منہاج پیدا ہوا جس کا مغربی مفکرین بھی انکار نہیں کر سکتے۔

    علامہ رینی میلہ کہتا ہے کہ:

    "مسلمانوں نے تامل اور تحقیق کا نیا اصول دیا، جس کا سرچشمہ ان کا دین ہے۔ اس کے نتیجے میں مسلمانوں نے علمی ترقیاں حاصل کیں، مہارت بہم پہنچائی، علم کیمیا کی بنیادیں رکھیں اور ان میں بڑے بڑے اطباء پیدا ہوئے۔“

    ڈاکٹر فرانز رونتھال کہتا ہے:

    "اہل عرب نے جس عظیم فکری سرگرمی میں حصہ لیا وہ تجرباتی علوم کے دائرے میں بہت نمایاں ہے اور ان کے تجربات اور ملاحظات سے آشکار ہوتا ہے کہ وہ بحث و تحقیق میں بہت کاوش اور محنت سے کام لیتے تھے اور اپنے تجربات کے نتائج بڑی دقت نظر کے ساتھ مرتب کرتے تھے۔“

    عظیم مورخ اور مشہور معاشرتی فلسفی گستاف لوبون کہتے ہیں:

    "یہ اہل عرب ہی ہیں جنہوں نے دنیا کو تعلیم دی کہ حریتِ فکر استقامتِ دین کے ساتھ کس طرح یکجا ہوتی ہے۔“

    وہ علمیت جس کو ہم سراہتے ہیں اس سے مراد صرف علمی حقوق کی کوشش اور علمی تحقیق کے مراکز، جامعات اور مدارس میں تالیف، تحقیق اور تعلیم کے میدان میں سائنس کے طے شدہ امور کی پیروی کرنا نہیں، نہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے دن بدن ترقی کرتے ہوئے طریقوں کی بہتری اور پیش رفت میں حصہ لینا ہی ہے، اگرچہ یہ سب امور اپنی جگہ فرائض کا درجہ رکھتے ہیں اور اسلام کی تعلیمات کے مطابق ان میں سے کسی فریضے کی ادائیگی میں کوتاہی برائی اور گناہ ہے۔ بلکہ ان سب امور کے ساتھ علمیت سے ہماری مراد وہ علمی فکر اور وہ علمی روح ہے جو ہمارے تمام تعلقات اور ہماری زندگی کے جملہ امور پر مشتمل اور حاوی ہو بایں طور کہ ہم اشیاء، اشخاص، اعمال اور مسائل و معاملات کو خالص علمی نظر سے دیکھیں۔ ہمارے اقتصاد، سیاست، تعلیم وغیرہ کے بارے میں فیصلے، ان سے متعلق لائحہ عمل اور تکنیک خالص علمی عقلیت پر استوار ہو اور ان میں ذاتی انفعال اور جذباتی آراء کا دخل نہ ہو جیسا کہ آج کل یہ فضا ہمارے پورے ماحول پر چھائی ہوئی ہے اور ہمارے تمام تصرفات شخصی، جماعتی اور گروہی مفادات کے تابع ہو کر رہ گئے ہیں۔ اور جہاں ایسی صورت حال نہ ہو وہاں بھی ہمارا مقصود عوام کی اکثریت کو خوش کرنا ہوتا ہے، ملت کے مصالح، اور وطنی اور عالمی مفادات پیش نظر نہیں ہوتے۔

    علمی روح کے بعض مظاہر اور علامات ہیں جنہیں میں اپنی کتاب "اسلامی حل" میں تحریکِ اسلامی پر تنقید و تبصرہ کرتے ہوئے بیان کر چکا ہوں۔ مناسب ہو گا کہ انہیں یہاں بھی ذکر کر دیا جائے۔

    علمی روح کے چند نمایاں مظاہر حسب ذیل ہیں:

    1. اشخاص سے صرف نظر کر کے اشیاء، اقوال اور مواقف کو معروضی نقطہ نظر سے دیکھا جائے جیسا کہ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ لوگوں سے حق کی معرفت حاصل نہیں ہوتی، پہلے حق کی معرفت حاصل کرو اہل حق کی پہچان خود بخود حاصل ہو جائے گی۔
    2. تخصص کو ملحوظ رکھا جائے۔ جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہے:

      فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ

      (اہل ذکر سے پوچھ لو)

      (النحل: ۴۳)

      فَاسْأَلْ بِهِ خَبِيرًا

      (اس کے بارے میں کسی جاننے والے سے پوچھ لو)

      (الفرقان: ۵۹)

      وَلَا يُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِيرٍ

      (حقیقت حال کی خبر تمہیں ایک صاحب خبر کے سوا کوئی نہیں دے سکتا۔)

      (فاطر: ۱۴)

      دین ہو یا اقتصادیات یا فوجی امور یا کوئی اور علم و فن ہر ایک کے ماہر اور جاننے والے جدا ہوتے ہیں بالخصوص ہمارے زمانے میں، جبکہ تخصص کو بڑی اہمیت حاصل ہو گئی ہے، یہ ممکن نہیں رہا کہ کوئی شخص دین و سیاست، علوم و فنون اور اقتصادیات و معاشیات سب چیزوں سے واقف ہو، بلکہ جو ایسا دعویٰ کرتا ہے وہ فی الحقیقت کچھ بھی نہیں جانتا۔

    3. اپنے آپ پر تنقید اور اپنی غلطی کا اعتراف کر لینے کا حوصلہ ہونا چاہیے۔ تنقید سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور ماضی کے تجربات کا جائزہ لینا چاہیے۔
    4. اپنا مقصد حاصل کرنے کے لیے جدید ترین وسائل اختیار کیے جانے چاہئیں اور دوسروں، حتیٰ کہ دشمنوں کے تجربات سے بھی فائدہ اٹھانا چاہیے۔ اس لیے کہ حکمت مومن کی گم شدہ متاع ہے، جہاں بھی اسے پائے وہ اسے لینے کا زیادہ حق دار ہے۔
    5. دینی اور عقلی مسلمات کے ماسوا تمام امور کو تحقیق و تجربے کی کسوٹی پر پرکھ کر ان کے نتائج قبول کیے جانے چاہئیں۔
    6. احکام اور فیصلوں کے صدور میں جلدی نہیں ہونی چاہیے، بلکہ تجزیہ، تلاش و جستجو، مطالعہ و تحقیق اور نتیجہ خیز تبادلہ خیال کے بعد کوئی رائے قائم کی جانی چاہیے اور کوئی موقف اختیار کیا جانا چاہیے تاکہ معاملے کی تمام خصوصیات واضح ہو جائیں اور اس کی اچھائیاں اور برائیاں بخوبی اجاگر ہو جائیں۔
    7. دوسروں کے نقطہ ہائے نظر پر غور کیا جانا چاہیے اور مخالفین کی آراء کا احترام ہونا چاہیے بالخصوص ان امور میں جو مختلف پہلوؤں کے حامل ہوں بشرطیکہ سب کے پاس اپنے اپنے موقف کے حق میں دلائل موجود ہوں اور ان کے بارے میں شریعت کی کوئی قطعی نص بھی موجود نہ ہو، کیونکہ یہ امر طے شدہ ہے کہ اجتہادی مسائل میں ایک مجتہد کو دوسرے پر ترجیح نہیں ہوتی۔ علاوہ ازیں، اجتہادی اور فکری اختلاف، ایک دوسرے کی محبت اور خیر خواہی کی فضا میں تعمیری گفتگو اور پاکیزہ علمی تحقیق کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتا۔

    سیکولرزم اور الحاد

    الحاد یہ ہے کہ اللہ کے وجود کا انکار کر دیا جائے جیسا کہ جدید دنیا کے مادہ پرستوں یا تاریخی مادیت کے پرستار اشتراکیوں کا مذہب ہے۔ لیکن جہاں تک سیکولرزم یا لادینیت کا تعلق ہے، اس میں اللہ کا انکار لازمی اور ضروری نہیں۔ اگرچہ لادینیت کے حامی بعض لوگ اللہ کے وجود، رسالت و وحی اور آخرت کا انکار کرتے ہیں لیکن یہ انکار "لادینیت" کے نظریے کا لازمی حصہ نہیں۔

    چنانچہ مغرب کے لادینیت پسند لوگ ملحد اور اللہ کے منکر نہیں تھے بلکہ وہ صرف سائنسی امور اور زندگی کے معاملات میں کلیسا کی مداخلت کو رد کرتے تھے۔ ان کا مقصود صرف اتنا تھا کہ مذہب، جو رجالِ دین اور کلیسا کی صورت میں موجود ہے، اسے حکومت، سیاست، اقتصادیات، معاشیات، تربیت، ثقافت اور زندگی کے دیگر اجتماعی امور میں اثر انداز ہونے کی اجازت نہیں ملنی چاہیے۔

    مگر اس معاملہ میں اسلام کے درمیان اور مسیحیت کے درمیان بہت بڑا فرق ہے کیونکہ ایک مسیحی شخص خواہ وہ کوئی حکمران ہو یا عام شہری مسیحی رہتے ہوئے بھی لادینیت کو اختیار کر سکتا ہے، اس سے اس کے عقیدہ اور اس کی شریعت پر کوئی اثر مرتب نہیں ہوتا۔ لادینیت اسے ہر ہفتہ اتوار کے روز کلیسا جانے سے نہیں روکتی، اسے ہر سال کرسمس کی تقریبات میں شرکت سے بھی منع نہیں کرتی اور نہ اس بات سے منع کرتی ہے کہ وہ جب چاہے اپنے مذہبی فرائض انجام دے لے۔ کیونکہ خود مسیحیت کا اس سے زائد کوئی مطالبہ نہیں۔ مسیحیت میں کوئی ایسی شریعت موجود نہیں جس پر عمل کرنا اور جسے فیصلہ کن ماننا لازم ہو اور جس سے کنارہ کشی کفر، ظلم اور فسق ہو۔

    مسیحیت زندگی کے لیے کوئی مکمل ضابطۂ حیات عطا نہیں کرتی۔ وہ زندگی کا کوئی ایسا جامع نظام نہیں دیتی جو مکمل اوامر و نواہی پر مشتمل ہو، جو فرد، خاندان، معاشرے اور حکومت کے لیے تفصیلی رہنمائی فراہم کرتا ہو اور اپنے پیش کردہ رنگ میں رنگ جانا لازم قرار دیتا ہو۔ مسیحیت تو انجیل کے مطابق سیاسی معاملات کو خود ہی دنیاوی حاکموں کے سپرد کر دیتی ہے کہ وہ دینی رہنمائی اور اللہ کی ہدایت کے بغیر جس طرح چاہیں ان معاملات کو چلائیں۔ چنانچہ انجیل میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا یہ فرمودہ نقل کیا گیا ہے کہ: ”قیصر کو قیصر کا حصہ دے دو اور اللہ کو اللہ کا حصہ۔“

    لیکن اسلام کا مسئلہ بالکل مختلف ہے۔ اسلام نے زندگی کا ایک مکمل اور جامع ضابطہ عطا کیا ہے اور اسے رہنمائی کے لیے کسی اور نظریے کی ضرورت نہیں۔ اسلام نے اصول بھی متعین کر دیے ہیں اور منہاج بھی واضح کر دیا ہے اور بتا دیا ہے کہ اس نظامِ زندگی پر عمل کرنے والا ثواب کا مستحق اور اس سے انحراف کرنے والا سزا اور عذاب کا مستحق ہے۔

    اسلام عقیدہ اور شریعت دونوں پر مشتمل ہے۔ عقیدہ اساس ہے اور شریعت منہاج ہے۔ عقیدہ سے شریعت ابھرتی ہے اور شریعت پر معاشرتی نظام قائم ہوتا ہے۔ اسلامی شریعت ربانی شریعت ہے۔ اس کے اصول منزل من اللہ ہیں۔ اس پر عمل کرنا اور امورِ حیات میں اسے فیصلہ کن قرار دینا ایمان کے لوازم میں سے ہے اور اسلام پر عمل پیرا ہونے کی دلیل ہے۔

    اس لیے کسی مسلمان کا لادینیت کو قبول کرنا، خواہ وہ لادینیت کتنی ہی معتدل اور کتنی ہی بے ضرر کیوں نہ ہو، اسلام سے معارض ہونا اور اس کی تعلیمات کی خلاف ورزی کرنا ہے، بالخصوص ان امور میں جہاں کتاب اللہ اور سنت رسول کی صورت میں شریعت کی تصریحات موجود ہوں۔ جو مسلمان لادینیت کو تسلیم کرے یا اس کا داعی بن جائے تو اگرچہ وہ اللہ کے وجود، وحی و رسالت اور آخرت کا انکار نہ کرے، پھر بھی لادینیت اسے کفر ہی کی طرف لے جائے گی کیونکہ وہ طبعاً شریعت کے ان امور کا انکار کرے گا جو شریعت کا لازمی اور قطعی حصہ ہیں، جن پر امت کا اجماع ہے اور جو یقینی تواتر سے ثابت ہیں۔ مثلاً زنا کی حرمت، شرعی سزاؤں کا نفاذ، ربا (سود) کی ممانعت، شراب کی حرمت اور زکوٰۃ کی فرضیت وغیرہ۔ بلکہ وہ لادینیت پسند مسلمان جو عملی اور اجتماعی زندگی میں اسلام کے نفاذ اور اس کی حکمرانی کا قائل نہ ہو، اس کا سوائے نام کے اسلام میں کوئی حصہ نہیں ہے، وہ یقیناً مرتد ہے۔ اس سے توبہ کرانی چاہیے اور اس کے شبہات کا ازالہ کرنا چاہیے۔ اس کے باوجود اگر وہ توبہ نہ کرے تو اس پر ارتداد کا حکم جاری کر کے اس کا اسلام سے انتساب ختم کر دینا چاہیے۔ اس کی اسلامی قومیت ختم کر کے اس کے بیوی بچے اس سے جدا کر لیے جائیں گے اور اس کی زندگی میں اور اس کی موت کے بعد اس پر ارتداد کے احکام جاری ہوں گے۔

    معیارات کا تعین

    موقف اور مفہوم کے تعین کے بعد اب ہمارے لیے معیارات کا تعین بھی آسان ہو گیا ہے۔ معیارات کے تعین سے میری مراد وہ موازین (ناپ تول اور جانچ پرکھ کے ذریعے) ہیں جن سے فریقین اختلاف کی صورت میں رجوع کر سکیں۔ اگر فریقین کا کوئی متفقہ معیار نہ ہو تو اختلاف بدستور قائم رہے گا اور کبھی کوئی فیصلہ نہ ہو سکے گا، اس لیے کہ ہر فریق کا یہی دعویٰ ہوگا کہ وہ حق پر ہے اور اس کا موقف صحیح اور اس کی رائے درست ہے۔

    جس طرح مادی اشیاء کی پیمائش اور ناپ تول کے لیے پیمانے اور معیارات مقرر ہیں، مثلاً روپیہ، کلو، قدم یا فٹ، اور میٹر وغیرہ، اسی طرح لازمی ہے کہ معنوی امور میں بھی معیارات مقرر ہوں جن سے نزاع اور اختلاف ختم ہو سکے۔

    کسی وقت لوگوں کی رائے یہ تھی کہ ارسطو کی قیاسی و صوری منطق ایک صحیح معیار ہے اور ایک ایسا قانونی آلہ ہے جس کی رعایت ملحوظ رکھ کر ذہن فکری خطا سے محفوظ رہتا ہے۔ مگر مشکل یہ ہے کہ منطق ایسے اصول اور قضایا پر اعتماد کرتی ہے جو فریقین کے درمیان مسلمہ ہوں اگرچہ فی الواقع وہ صحیح نہ ہوں۔ اسی لیے جس دور میں "منطق" کا غلبہ تھا لوگوں میں بہت زیادہ اختلاف رہا اور منطق ان اختلافات کے رفع کرنے میں کسی کام نہ آ سکی۔

    یہ بھی کہا جاتا ہے کہ عقل، علم اور مصلحت ایسے عام انسانی معیار ہیں جن پر انسان ہر دور اور ہر زمانے میں اعتماد کرتا رہا ہے۔ مگر دشواری یہ ہے کہ تمام لوگ ان معیاروں کے دعویدار ہیں لیکن اس کے باوجود ان کے درمیان مشرق و مغرب اور آسمان و زمین کا فاصلہ ہے۔ چنانچہ لبرلزم کا ایک حامی بھی یہی کہتا ہے کہ اس کا مسلک عقل و علم کی بلندیوں کو چھوتا ہے اور اس میں مصالحِ عامہ کی رعایت موجود ہے۔ جب کہ اشتراکی نہ صرف اس کے دعویٰ کو رد کرتا ہے بلکہ خود یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس کا نظریہ ہی علم و عقل کی نمائندگی اور مصلحت کی ترجمانی کرتا ہے۔ اور ایک تیسرا شخص نہ اس کی بات مانتا ہے اور نہ اس کی بلکہ اپنا ایک نیا اصول سامنے لاتا ہے۔

    اگر ہم قدیم و جدید مفکرین اور فلاسفہ کا جائزہ لیں تو ہم دیکھیں گے کہ ان میں سے کچھ بعض امور کا اثبات کرتے ہیں جبکہ دوسرے ان ہی امور کی نفی کرتے ہیں۔ کچھ شک میں مبتلا ہیں، نہ اثبات کرتے ہیں نہ نفی۔ ان میں سے بعض اللہ کے وجود کے قائل ہیں جبکہ ان میں سے بعض اللہ کے وجود کے منکر، ملحدہ ہیں۔ کچھ مثالیت پسند ہیں، بعض مادیت پسند اور واقعیت پرست۔ ان سب کے فلسفہ اور نظریات کی اساس ان کے نزدیک عقل ہے۔ ان کے حامی ہیں جو ان نظریات کی حمایت کرتے اور ان کا دفاع کرتے ہیں، اور مخالفین بھی ہیں جو شدت سے ان کی مخالفت کرتے اور انہیں باطل ٹھہراتے ہیں۔ اس لیے لازماً عقل کے ساتھ ایک اور روشنی کی ضرورت ہے جو عقل کی رہنمائی کرے اور اسے درست رکھے۔ اور یہ روشنی وحی الٰہی ہے جیسا کہ شیخ محمد عبدہ نے اپنی کتاب ”رسالۃ التوحید“ میں بیان کیا ہے۔

    وحی عقل کے کردار کو ختم نہیں کرتی بلکہ عقل کی دستگیری کرتی ہے اور التباس و اشتباہ، ہوس و گمراہی اور انسانی ضعف و کمزوری کے مرحلوں میں عقل کی رہنمائی کرتی ہے۔ اس لیے لازمی ہے کہ ہر نزاع اور اختلاف کے موقع پر اللہ کی وحی یعنی اسلام مرجع قرار پائے جیسا کہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں۔

    اس کے باوجود ہم عقل، علم اور مصلحت کو حکم ٹھہرانے کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ لیکن عقل عقلِ سلیم ہو، اس میں ظن و تخمین کارفرما نہ ہو۔ اس کی بنیاد یقینی مقدمات پر ہو تاکہ یقینی نتائج حاصل ہو سکیں۔ اسی طرح علم بھی علمِ محقق اور ثابت ہو، محض مفروضات اور ظن و تخمین پر قائم ایسے نظریات نہ ہوں جو باہم متعارض ہوں جیسا کہ اکثر انسانی علوم کا حال ہے۔ نیز مصلحت موہوم نہ ہو بلکہ حقیقی مصلحت ہو جس میں زندگی کے انفرادی، اجتماعی، مادی، معنوی، اور دنیوی و اخروی پہلوؤں کی رعایت ملحوظ رکھی گئی ہو۔ ہم مسلمان علم، عقل اور مصلحت سے خائف نہیں بلکہ درحقیقت اہل اسلام ہی کو اس کا وافر حصہ ملا ہے اور اس سے اسلام ہی کی تائید ہوتی ہے۔

    جہاں تک ہمارے وطن میں لادینیت کا تعلق ہے تو یہ ہر معیار اور ہر اعتبار سے قابلِ رد ہے۔ یہ دین، عقل و علم، دستور کے خلاف، انسانی حقوق کے مخالف اور امت کی مصلحت سے متصادم ہے۔

    ہم معیارات کی تحدید میں خواہ کتنا ہی اختلاف کریں، بہرحال ہمارے پاس معیارات کا ایک متفقہ مجموعہ موجود ہے جس کے ذریعے سے اس امر کا فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔

    • ربانی معیار: وحی
    • انسانی معیار: عقل
    • اجتماعی معیار: مصلحت
    • سیاسی معیار: دستور
    • قومی معیار: اہلیت
    • بین الاقوامی معیار: انسانی حقوق کی دستاویز
    • جمہوری معیار: اکثریت کی مرضی کا احترام

    اسلام اور لادینیت کے درمیان اختلاف کو حل کرنے کے لیے اب ہم ان معیارات کی طرف رجوع کرتے ہیں کہ ان کا فیصلہ کیا ہے۔

    ربانی معیار: وحی

    ان تمام معیارات میں اولین حیثیت کا حامل ربانی معیار، یعنی وحی الٰہی ہے جو اللہ نے انسانوں کی ہدایت اور رہنمائی کے لیے نازل کیا تاکہ وہ اپنے افکارِ پریشاں میں اس سے رہنمائی حاصل کریں اور تفرقہ و اختلاف کی صورت میں اس کے فیصلے پر عمل کریں۔ قرآن کریم کا ارشاد ہے:

    كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً فَبَعَثَ اللَّهُ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ وَأَنزَلَ مَعَهُمُ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِيمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ

    (ابتدا میں سب لوگ ایک ہی طریقے پر تھےَ تب اللہ نے نبی بھیجے جو راست روی پر بشارت دینے والے اور کج روی کے نتائج سے ڈرانے والے تھے اور ان کے ساتھ کتاب برحق نازل کی تاکہ حق کے بارے میں لوگوں کے درمیان جو اختلافات رونما ہو گئے تھے ان کا فیصلہ کرے۔)

    (البقرہ: ۲۱۳)

    اب وحی الٰہی اسلام کی صورت میں موجود ہے اور اللہ نے اسلام پر وحی کا سلسلہ ختم کر دیا اور قرآن کریم پر آسمانی کتب کا سلسلہ منقطع ہو گیا۔ ہم جب تک مسلمان ہیں اس وقت تک اللہ کے رب ہونے، محمد کے رسول ہونے اور قرآن کے رہنما ہونے پر راضی ہیں۔ بدیہی طور پر ہمارے اوپر لازم ہے کہ ہم اپنے ہر اختلاف کا فیصلہ اسلام سے حاصل کریں۔ اسی سے ہمیں راہِ راست کی جانب رہنمائی حاصل ہو سکتی ہے۔ اسلام کے فیصلے سے مراد کتاب و سنت کا فیصلہ ہے۔

    وَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا

    (اگر تمہارے درمیان کسی معاملہ میں نزاع ہو جائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف پھیر دو اگر تم واقعی اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو۔ یہی ایک صحیح طریق کار ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہت اچھا ہے۔)

    (النساء: ۵۹)

    مسلمانوں کا اس پر اجماع ہے کہ معاملات کو اللہ کی جانب لوٹانے سے مراد اللہ کی کتاب کی طرف رجوع کرنا اور رسول کی طرف لوٹانے سے مراد سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹنا ہے۔

    اگر یہ کہا جائے کہ قرآن و سنت کے فہم میں بھی اختلاف ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ قطعیات میں کوئی اختلاف نہیں ہے بلکہ امورِ قطعی میں اجماع ہے اور اس پر محکم قرآن اور صحیح سنت سے دلائل قائم ہیں۔ جب کہ شریعت کے ظنی امور کو ہم قطعیات کی روشنی میں سمجھ سکتے ہیں۔ فقہائے اسلام نے شریعت کو سمجھنے کے اصول اور نصوص کی تعبیر و تشریح کے ضابطے اور استنباطِ احکام کے طریقے بیان کر دیے ہیں جو اصولِ فقہ، اصولِ حدیث اور اصولِ تفسیر کی صورت میں موجود ہیں۔

    اسلام سے متعلق کسی بات کے فیصلے کے لیے اسلام ہی کی جانب رجوع کرنا چاہیے مثلاً اگر کوئی یہ کہے کہ اسلام صرف ایک مذہب ہے جس کا مقصود تزکیۂ نفس اور شعائر کا قیام ہے، اور اس کا حکومت کے اصولِ حکمرانی اور سیاسی اور اقتصادی معاملات سے تعلق نہیں ہے تو لازم ہے کہ اس مسئلہ میں خود اسلام کی جانب رجوع کیا جائے اور اس کے اصل مصادر سے معلوم کیا جائے کہ کیا اسلام صرف عقیدہ و عبادت ہے یا اسلام عقیدہ و شریعت، عبادت و قیادت، دین و دولت، اور مصحف و سیف ہے؟ یعنی یہ کہ کیا اسلام زندگی کے تمام پہلوؤں پر حاوی ہے یا نہیں ہے؟ اس کا جواب خود اسلام سے، یعنی اس کے قرآن و سنت سے، خلفائے راشدین کی سنت سے اور اس کی امت کے مجتہدین کے اجماع سے پوچھا جانا چاہیے۔

    اگر کوئی شخص کہتا ہے کہ اسلام صرف دین ہے، عقیدہ اور مصحف ہے اور اس کا حکومت، نظامِ زندگی اور تلوار سے کوئی تعلق نہیں، تو ہم اس کے جواب میں کہیں گے کہ آپ کی یہ رائے آپ کی اپنی خواہشات اور اس ثقافت پر مبنی ہے جس کے آپ پروردہ ہیں۔ جہاں تک خود اسلام کا تعلق ہے تو قرآن فرماتا ہے:

    وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً وَبُشْرَىٰ لِلْمُسْلِمِينَ

    (اور ہم نے تم پر یہ قرآن اتارا کہ ہر چیز کا روشن بیان ہے اور ہدایت، رحمت اور بشارت ہے مسلمانوں کے لیے)

    (النحل: ۸۹)

    چنانچہ اسلام کے فقہائے کرام کا اس امر پر اجماع ہے کہ اسلامی شریعت مکلفین کے تمام افعال پر حاوی ہے۔ ان کے تمام خاص و عام تصرفات میں شریعت کے احکام موجود ہیں۔ کوئی انسانی تصرف ایسا نہیں ہے جس میں شریعت نے احکام کی پانچ معروف اقسام میں سے کوئی حکم نہ دیا ہو۔

    بہرحال لادینیت کو ہم مذکورہ معیارات میں سے کسی معیار پر بھی پرکھیں وہ ہمارے ملکوں میں بہرحال قابلِ رد ہے، صورت کے اعتبار سے بھی اور موضوع کے اعتبار سے بھی۔ اب ہم آئندہ صفحات میں اسے باقی معیارات پر پرکھتے ہیں۔

    سیکولرزم اور مذہب

    سیکولرزم یا لادینیت اپنے مذکورہ بالا مفہوم کے ساتھ ہمارے وطن، بالخصوص مصر، میں ہر معیار سے قابلِ رد ہے اور کسی بھی اعتبار سے قابلِ قبول نہیں۔ سب سے پہلے ہم لادینیت کا جائزہ مذہب کے معیار سے لیتے ہیں۔ اسلام جو ہمارے ملک کی غالب اکثریت کا دین ہے اس کے اعتبار سے لادینیت نا قابلِ تسلیم ہے، بلکہ دین اسے شدت سے رد کرتا ہے کیونکہ لادینیت اور اسلام کسی بھی پہلو سے یکجا نہیں ہو سکتے۔ لادینیت اسلام کو فرد کے ضمیر میں پنہاں عقیدے کے طور پر تو تسلیم کر سکتی ہے مگر ایک نظامِ حیات اور ایک مکمل شریعت کی حیثیت میں نہیں مانتی۔ لادینیت یہ تسلیم نہیں کرتی کہ خود عقیدہ کا تقاضا یہ ہے کہ مسلمان اللہ اور رسول کے احکام کی پابندی کریں اور زندگی کے ہر معاملہ میں ان کا رخ اسی سرچشمہ کی طرف ہو۔

    لادینیت اسلام کو ایک نظامِ عبادت کے طور پر تسلیم تو کرتی ہے لیکن اس طرح کہ یہ فرد کا ذاتی معاملہ ہے، نہ اس طرح کہ ریاست اس کی نگہداشت کرے اور ترکِ عبادت پر محاسبہ کرے، یعنی جو لوگ عبادت کا اہتمام کریں انہیں آگے بڑھائے اور جو غفلت برتیں انہیں پیچھے ہٹائے۔

    ہو سکتا ہے لادینیت اسلامی اخلاق و آداب کے اس حصے کو تسلیم کر لے جس سے مغرب کی تقلید عام متاثر نہ ہوتی ہو کیونکہ اصلاً تو لادینیت پرستوں کا مدعا یہ ہے کہ معاشرے پر مغربی چھاپ بدستور برقرار رہے اور ہمارے رہن سہن، لباس و مسکن، کھانے پینے اور مرد و زن کے تعلقات اسی نہج پر قائم ہوں جو مغرب کی روش ہے۔ اس میں اسلام کے حلال و حرام کی بندشیں انہیں بالکل پسند نہیں۔

    لادینیت سب سے زیادہ قوت اور صراحت کے ساتھ جس چیز کی مخالفت کرتی ہے وہ اسلامی شریعت یا اسلامی ضابطۂ حیات ہے، کیونکہ اسلامی شریعت احوالِ شخصی سے لے کر معاشرے، حکومت اور بین الاقوامی تعلقات تک تفصیلی ہدایات دیتی ہے اور اس میں سرمو انحراف کرنے سے روکتی ہے۔ یہی وہ پہلو ہے جو فقہ کے مختلف مسالک میں بیان ہوا ہے اور جس نے ہمارے لیے قانونی تشریحات کا بہت وافر حصہ اور ایسی عظیم ثروت چھوڑی ہے جس کی بنا پر ہم مغرب سے قانون درآمد کرنے سے مستغنی ہو گئے ہیں۔ یہ مغربی قوانین نہ ہماری سرزمین اور ہماری ثقافت و اقدار سے کوئی تعلق رکھتے ہیں اور نہ ان کا ہمارے نظریات و افکار سے کوئی رشتہ ہے، اس لیے یہ ہمارے لیے بالکلیہ اجنبی ہیں۔ ان کی حیثیت اس کے سوا کچھ نہیں کہ استعمار نے انہیں ہماری مرضی اور منشا کے بغیر ہم پر مسلط کر دیا ہے۔ وضعی قوانین کی اس حیثیت کے باوجود لادینیت پرست ان کو قبول کرتے اور اللہ کی شریعت کو رد کرتے ہیں۔ گویا اصل اولاد کو چھوڑ کر بے اصل بچے کو متبنیٰ بنا رہے ہیں۔

    لادینیت اسلام کے اتنے حصے کو تسلیم کرتی ہے جو اس کے مزاج اور اس کی ہوائے نفس کے مطابق ہو، اور جو اس کے مزاج سے ہم آہنگ نہ ہو اسے رد کرتی ہے۔ یہ وہ روش ہے جو بنی اسرائیل نے اختیار کر رکھی تھی۔ قرآن نے بہت سخت الفاظ میں اس پر سرزنش کی ہے:

    أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ ۚ فَمَا جَزَاءُ مَن يَفْعَلُ ذَٰلِكَ مِنكُمْ إِلَّا خِزْيٌ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يُرَدُّونَ إِلَىٰ أَشَدِّ الْعَذَابِ ۗ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ

    (تم کتاب کے ایک حصے پر ایمان لاتے ہو اور دوسرے حصے کے ساتھ کفر کرتے ہو۔ پھر تم میں سے جو لوگ ایسا کریں ان کی سزا اس کے سوا اور کیا ہے کہ دنیا کی زندگی میں ذلیل و خوار ہو کر رہیں اور آخرت میں شدید ترین عذاب کی طرف پھیر دیے جائیں۔ اللہ ان حرکات سے بے خبر نہیں ہے جو تم کر رہے ہو۔)

    (البقرہ: ۸۵)

    اس طرح لادینیت اسلام دشمنی کا رنگ اختیار کر لیتی ہے کیوں کہ اسلام جس کو اللہ تعالیٰ نے زندگی کا مکمل اور جامع ضابطہ بنا کر اتارا ہے وہ اس کی جامعیت اور کاملیت کو تسلیم نہیں کرتی۔ اور اسلام بھی لادینیت کو اپنا حریف قرار دیتا ہے، کیونکہ لادینیت اسلام کے قانونی اختیار و اقتدار کو سلب کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ اسلام کو معاشرے کی قیادت کا اختیار حاصل ہے کہ معاشرہ اس کے بتائے ہوئے اوامر و نواہی پر عمل کرے۔ اگر معاشرہ اللہ کے نازل کردہ احکام پر عمل پیرا نہ ہو تو یہ جاہلیت ہے جس پر اللہ نے اپنے رسول اور مومنوں کو متنبہ فرمایا ہے:

    وَأَنِ احْكُم بَيْنَهُم بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ وَاحْذَرْهُمْ أَن يَفْتِنُوكَ عَن بَعْضِ مَا أَنزَلَ اللَّهُ إِلَيْكَ ۖ فَإِن تَوَلَّوْا فَاعْلَمْ أَنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ أَن يُصِيبَهُم بِبَعْضِ ذُنُوبِهِمْ ۗ وَإِنَّ كَثِيرًا مِّنَ النَّاسِ لَفَاسِقُونَ ﴿٤٩﴾ أَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُونَ ۚ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ يُوقِنُونَ ﴿٥٠﴾

    (پس اے نبی تم اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق ان لوگوں کے معاملات کا فیصلہ کرو اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کرو۔ ہوشیار رہو کہ یہ تم کو فتنے میں ڈال کر اس ہدایت سے ذرہ برابر منحرف نہ کرنے پائیں۔ پھر اگر یہ اس سے منہ موڑیں تو جان لو کہ اللہ نے ان کے بعض گناہوں کی پاداش میں انہیں مبتلائے مصیبت کرنے کا ارادہ کر لیا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ ان لوگوں میں سے اکثر فاسق ہیں۔ تو کیا یہ جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں۔ حالانکہ جو لوگ اللہ پر یقین رکھتے ہیں ان کے نزدیک اللہ سے بہتر فیصلہ کرنے والا اور کون ہو سکتا ہے؟)

    (المائدہ: ۴۹-۵۰)

    بہرحال دین کے معیار کے اعتبار سے لادینیت قابلِ رد ہے کیونکہ یہ جاہلیت کو اختیار کرنا ہے اور اللہ کے نازل کردہ احکام کو چھوڑ کر انسان کے بنائے ہوئے قانون کو اپنانا ہے۔ لادینیت کی روش یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو اللہ سے زیادہ جانتا ہے اور اس کی شریعت اور اس کے حکم میں اصلاح کر سکتا ہے۔ جیسے وہ یہ کہتی ہو کہ اے اللہ! ہم انسانوں کے مصالح کو تجھ سے زیادہ جانتے ہیں اور تیری شریعت سے وہ احکام بہتر ہیں جو اہل مغرب نے اپنے دورِ استعمار میں ہم پر مسلط کیے ہیں۔ جس شخص کا اپنے رب اور اس کی شریعت کے بارے میں یہ موقف ہو اس کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟

    سیکولرزم اور دستور

    سیکولرزم دستور کے خلاف ہے اور اس کے خلاف دستور ہونے کی تین وجوہ ہیں:

    1. دستور کے آرٹیکل ۲ میں اس امر کی صراحت ہے کہ اسلام حکومت کا سرکاری مذہب ہے اور عربی سرکاری زبان ہے۔ مصری دستور میں یہ آرٹیکل ۱۹۲۳ء سے شامل ہے اور بڑا بنیادی، اہم اور امتیازی آرٹیکل ہے اور اسی پر عرب مسلم مصر کا تشخص استوار ہے۔ اس اعتبار سے لادینیت کی دعوت صریحاً دستور کی خلاف ورزی ہے۔ دستور کا یہی آرٹیکل ۲ میں کہا گیا ہے کہ قانون کا بنیادی سرچشمہ اسلامی شریعت ہے۔ دستور کا یہ حصہ پہلے حصے کی توضیح کرتا ہے اور اسے قانون سازی میں عملی حیثیت عطا کرتا ہے کہ جس کے ذریعے معاشرہ دنیاوی زندگی کو قانونی قالب میں ڈھال لیتا ہے۔
    2. دستور کا یہی آرٹیکل مملکت کے ہر شہری کو مذہبی آزادی عطا کرتا ہے۔ لیکن اگر مسلمانوں پر لادینیت مسلط کر دی جائے تو اس کا لازمی تقاضا یہ ہو گا کہ وہ اپنا دین ترک کر دیں۔ ان کے رب نے ان پر جو کچھ لازم کیا ہے اس کو چھوڑ دیں اور جن امور کا اسلامی شریعت نے انہیں پابند کیا ہے ان کو نظر انداز کر دیں۔ گویا مسلمان اللہ کے فرض کو چھوڑ دیں اور حرام کو اختیار کر لیں۔ یعنی اگر کوئی مسلمان حاکم ہو (صدر ہو یا وزیر، یا مجالسِ قانون ساز کا رکن، یا قاضی) تو وہ اللہ کے نازل کردہ احکام کی رو سے حکم نہیں دے سکتا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ لادینیت اس پر لازم کرتی ہے کہ وہ اپنے رب کو ناراض کرے اور کھلم کھلا اس کے احکام معطل کر کے کفر، ظلم اور فسق کا مرتکب ہو۔
    3. اگر کوئی مسلمان محکوم ہو تو لادینیت اسے اللہ کے احکام پر چلنے کا موقع نہیں دے گی حالانکہ یہ اس پر از روئے شریعت فرض ہے اور اس میں اس کا کوئی اختیار نہیں۔ اسی طرح وہ آزادی کے ساتھ اسلام پر عمل نہیں کر سکے گا۔ مثلاً سودی معاملات اسلام میں حرام ہیں لیکن سود اسے چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہے حتیٰ کہ اس کی تنخواہ میں بھی سود کی ملاوٹ موجود ہے۔ اس کے کام کے دوران میں نماز کے اوقات کی رعایت ملحوظ نہیں رکھی گئی۔ وہ جب کوئی منکر دیکھے تو اسے بدل نہیں سکتا اور نہ اس سے روک سکتا ہے کیونکہ وضعی قوانین اس منکر کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ اسی طرح اگر وہ دیکھے کہ فرض ضائع ہو رہے ہیں تو وہ ان کا حکم نہیں دے سکتا۔ وہ عقیدے کی اساس پر کسی سے دوستی اور دشمنی نہیں کر سکتا کیونکہ لادینیت میں عقیدہ دوستی اور تعلق کی اساس نہیں بنتا۔ اس طرح لادینیت مسلمانوں کو اپنے رب کو راضی کرنے اور اپنے دین پر عمل کرنے سے محروم کرتی ہے۔ انہیں صرف اتنی اجازت دیتی ہے کہ وہ عیسائیت کی طرح چند مراسم پورے کرلیں اور اپنے مذہبی شعائر ادا کر لیں، بلکہ ان مذہبی شعائر کی ادائیگی پر بھی لادینیت اس قدر پابندیاں لگا دیتی ہے اور اس قدر ضوابط عائد کر دیتی ہے کہ کوئی مسلم انہیں بھی صحیح طور پر پورا نہیں کر سکتا۔ یہ ساری صورت حال دستور کے الفاظ اور اس کی روح کے خلاف ہے کیونکہ دستور نے مذہبی آزادی دی ہے اور مذہبی آزادی کی اولین دلیل یہ ہے کہ جو فرض مذہب نے عائد کیا ہے وہ بلا کسی دشواری اور زحمت کے آزادانہ انجام دیا جا سکے۔

    سیکولرزم اور قوم کا منشا

    جس طرح سیکولرزم دستور سے متصادم ہے اسی طرح یہ قوم کی مرضی، منشا اور جمہوریت کے نعرے کے بھی خلاف ہے۔

    لادینیت پرست بڑے فخر سے دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ جمہوریت پسند ہیں۔ جمہوریت کا مطلب عوام کی مرضی اور اکثریت کی رائے کو بروئے کار لانا ہے۔ جمہوریت کے بارے میں بعض لوگوں نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ عوام کا ارادہ اللہ کا ارادہ ہے۔ لیکن یہاں انہیں کیا ہوا کہ تنفیذِ شریعت کے معاملے میں وہ اپنے اصول کی خلاف ورزی کر رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ عوام کا رُخ ان باتوں سے موڑ دیا جائے جن پر ان کا ایمان ہے۔ حالانکہ عوام کی رائے یہ ہے کہ اللہ کی شریعت ہی ان کے لیے راہِ نجات ہے۔

    صحیح بات یہ ہے کہ لادینیت بالعموم تمام اسلامی اور عرب اقوام، اور خاص طور پر مصری عوام، کی دشمن ہے کیونکہ یہ سب عوام اور قومیں یہی کہہ رہی ہیں کہ اللہ کی شریعت کا نفاذ عوام کا مطالبہ ہے اور جمہور کے تمام طبقات اس کے حامی ہیں۔

    ۱۹۸۴ء کے قومی اسمبلی کے انتخابات میں یہ حقیقت بخوبی واضح ہو گئی ہے۔ (۴) برسرِ اقتدار جماعت اور حزبِ مخالف سب نے اسلامی شریعت کی تنفیذ کا نعرہ لگایا۔ حزبِ اقتدار، جمہوری وطن پارٹی نے اپنے متعدد بیانات میں اس امر کا بار بار اعادہ کیا کہ وہ شریعت جاری اور نافذ کرے گی۔ وفد پارٹی جو حزبِ اختلاف کی جماعتوں میں حکومت کی بڑی مخالف جماعت ہے، اس نے کئی مرتبہ اس مسئلے کو اٹھایا اور تنفیذِ شریعت کا مطالبہ کیا۔ چنانچہ وفد کے اخبار نے اپنی ۱۷ جولائی ۱۹۸۶ء کی اشاعت میں بڑی تاکید اور صراحت سے کہا کہ اس کا مطالبہ یہ ہے کہ اسلامی شریعت نافذ کی جائے۔

    ”حزب عمل“ کی اسلام سے وابستگی اور محبت زیادہ واضح اور گہری ہے اور اسلامی شریعت کے بارے میں اس کا مضبوط موقف اسی وقت سے مشہور و معروف ہے جب اس کے اولین بانی مرحوم احمد حسین نے ”مصر الفتاة“ کے نام سے ایک نئی تنظیم قائم کی تھی جو بعد میں اس جماعت کی بنیاد بھی بنی۔

    لادینی حلقوں کے ترجمان ڈاکٹر فواد زکریا کے لیے بھی یہ ممکن نہیں ہو سکا کہ وہ نفاذِ اسلام کی اس قدر وسیع حمایت کا انکار کر سکیں بلکہ انہیں اپنی کتاب ”حقیقت یا وہم“ کے آخر میں بادل ناخواستہ یہ اعتراف کرنا پڑا کہ: ان کے مقالات پر اعتراض کرنے والوں کی دلیل یہ ہے کہ نفاذِ شریعت تمام عوام کا مطالبہ ہے۔ چنانچہ میں اس مسئلہ میں ان کی رائے کی مخالفت نہیں کرتا، تاہم میں یہ کہتا ہوں کہ ہم ایک اسلامی ملک کے باشندے ہیں اور یہاں بیسیوں سال سے دین پر اعتدال کے ساتھ عمل کر رہے ہیں۔ اپنے اوقاتِ کار میں عبادات سے متعلق فرائض بجا لاتے ہیں۔ اپنی ذات اور معاشرے کی بیداری اور ترقی کے لیے کوشش کرتے ہیں۔ چنانچہ کبھی نفاذِ شریعت کا نعرہ اس طرح بلند نہیں ہوا جیسے اب کیا جا رہا ہے۔ اگرچہ پہلے بھی یہ آواز موجود تھی لیکن بہت دھیمی تھی، جس کا عام زندگی پر کوئی اثر نہیں پڑتا تھا۔ کئی طویل نسلوں سے ہمارے عوام مذہب کی اسی صورت سے واقف تھے۔ لیکن اب جو نئی لہر ہے وہ باوجودیکہ بڑی وسیع اور بڑی مؤثر ہے، مصر کی پرسکون مذہبی زندگی میں ایک نووارد مظہر ہے اور کسی بھی نووارد مظہر کی طرح ہمیں اس کے اسباب و حالات کا بھی جائزہ لینا چاہیے۔

    اپنی کتاب کے مقدمہ میں وہ کہتے ہیں کہ: نفاذِ شریعت کی آوازیں بہت کثرت سے بلند ہو رہی ہیں اور انہیں عوام کی تائید حاصل ہے۔ نفاذِ شریعت کے حامیوں کی اکثریت اس امر کو اپنے نقطۂ نظر کی صحت کی دلیل قرار دیتی ہے کہ ان کو بہت وسیع تائید اور حمایت حاصل ہے۔

    میں ڈاکٹر فواد زکریا سے کہتا ہوں کہ نفاذِ شریعت کے داعیوں کے پاس اپنے موقف کے حق میں صرف یہ دلیل نہیں کہ انہیں عوام کی حمایت اور تائید زیادہ حاصل ہے، بلکہ ان کے پاس متعدد عقلی، نقلی اور تاریخی دلائل موجود ہیں جن سے ہر شک و شبہ کے بغیر یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ اسلام سے تعلق قائم کر لینے کے بعد اپنا نقطۂ نظر ثابت کرنے کے لیے اب انہیں کسی اور دلیل کی ضرورت نہیں۔ ہر وہ شخص جو اللہ کے رب ہونے اور اسلام کے دین ہونے پر راضی ہے اس کے لیے اس کے سوا چارہ نہیں کہ وہ اللہ کی شریعت اور اللہ کے احکام کے سامنے سر تسلیم خم کر دے ورنہ اپنے ایمان کی فکر کرے۔ داعیانِ شریعت اکثریت کی حمایت کی بات اس لیے کرتے ہیں کہ اکثریت کا اعتماد اور اکثریت کی رائے کے مطابق فیصلہ تمہاری منطق اور تمہارا فلسفہ ہے جس پر تم یقین رکھتے ہو۔ یعنی جمہوریت جس کے آپ دعویدار ہیں، اس کا ماحصل یہی ہے کہ اکثریت کے ووٹوں کو فیصلہ کن تصور کیا جائے اور اسی کے مطابق عمل کیا جائے کیونکہ عوام اقتدار کا سرچشمہ ہیں اور اکثریت سے ان کے منشا کا اظہار ہوتا ہے۔

    ڈاکٹر موصوف جمہوریت کے حامی ہیں، انہیں چاہیے تھا کہ جمہوریت کی اس کھلی اور ظاہر منطق پر ایمان لے آتے مگر اس کے بجائے انہوں نے اپنا موقف بدل لیا اور اس سے انکار کر دیا۔ چونکہ جس جمہوریت پر تکیہ تھا اسے یہاں ترک کر دیا گیا تھا اس لیے انہیں ادھر اُدھر کے دلائل کا سہارا لینا پڑا۔ کبھی وہ کہتے ہیں کہ مصر میں اسلامی قوت کا بڑھتا ہوا اظہار ایک منفرد اور شاذ حالت ہے جو مصر میں فردِ واحد کی حکمرانی کے ادوار میں ظاہر ہوا۔ اور کبھی اپنے ”الاحرام“ میں شائع ہونے والے مقالات پر تنقید کرنے والوں کے جواب میں کہتے ہیں کہ نفاذِ شریعت کی موجودہ لہر اگرچہ بڑی شدید ہے اور اسے بڑی حمایت بھی حاصل ہے لیکن یہ ایک نووارد مظہر ہے اور مصر کی معقولیت پر مبنی پرسکون دینداری کی فضا میں ایک نئی شے ہے۔ چنانچہ ہر نئے مظہر کی طرح اس کے اسباب کا بھی جائزہ لیا جانا چاہیے۔

    گویا مصر کی جو عمومی حالت دورِ استعمار میں تھی، ختم شدہ بادشاہت میں تھی اور ظالمانہ فوجی حکومت میں تھی، وہ اصلی اور حقیقی حالت تھی اور جب لوگوں کو اس ظالمانہ فضا سے نکل کر اپنے جذبات اور رائے کے اظہار کا موقع ملا تو یہ ایک منفرد اور شاذ حالت ہو گئی!

    ڈاکٹر صاحب موصوف نے معقولیت پر مبنی جس پرامن دینداری کا ذکر کیا ہے وہ دراصل استعمار کی پیدا کردہ تھی۔ اور مسلمان یا اہل مصر گزشتہ تیرہ صدیوں میں، استعمار کی آمد سے قبل، ایک دن کے لیے بھی اس طرح کی دینداری کے قائل نہیں رہے!

    مصنف تحریکِ اسلامی کے ۲۳ جولائی کے انقلاب کی تعبیر و تشریح میں ہر منطق اور ہر معقول بات سے دور نکل گئے خواہ یہ اسلامی تحریک ناصری دور کی ہو یا ساداتی دور کی۔ وہ ناصر اور اسلامی قوت کے درمیان کسی فکری اور نظریاتی اختلاف کی تردید کرتے ہوئے دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ محض سیاسی اختلاف تھا اور صرف جنگِ اقتدار کی ایک صورت تھی۔ انہوں نے اس حقیقت کو بالکل نظر انداز کر دیا کہ ہر حقیقی اسلامی تحریک کے لیے لازمی ہے کہ وہ لوگوں کو اسلامی عقیدہ، شریعت اور ثقافت و طرزِ حیات کی دعوت دے اور یوں اس کے لیے لازمی ہو جاتا ہے کہ وہ ان لادینی افکار کے علم برداروں سے مزاحم ہو جو دین کو صرف افراد کے سینوں میں بند کر دینا چاہتے ہیں۔ جو چاہتے ہیں کہ مذہب محراب و منبر سے باہر نہ نکلے اور اسے معاشرے اور معاملاتِ زندگی کی قیادت میسر نہ آئے، خصوصاً اس صورت میں جبکہ لادینی حلقے ان سرکش اور مستبد حکمرانوں پر مشتمل ہوں جو اللہ کے بندوں کو اپنا غلام بنا کر خود خدا بننا چاہتے ہوں کہ نہ ان کے کسی عمل پر باز پرس ہو اور نہ ان کے کسی فیصلے سے انحراف کیا جا سکے۔ دین بھی ان کی سیاست کا ترجمان ہو اور منبر بھی ان کے پروپیگنڈے کا ذریعہ ہو اور علماء دین ان کے کارناموں کی تعریف کریں۔

    بلاشبہ ناصر کے دورِ حکومت اور اسلامی قوت کے درمیان کشمکش موجود تھی اور یہ ایک یقینی اور لازمی کشمکش تھی کیونکہ یہ زندہ و متحرک اسلام اور طاغوتی نظامِ حکومت کے درمیان کشمکش تھی۔ اگر کوئی اسے سیاسی کشمکش کہتا ہے تو جو اس کا جی چاہے کہتا رہے۔ بہرحال حقیقت یہ ہے کہ اسلام میں دین و سیاست جدا نہیں، اور نہ اسلام کی تاریخ کبھی دین و سیاست کی تفریق کے تصور سے آشنا رہی ہے۔

    ڈاکٹر فواد زکریا نفاذِ شریعت سے متعلق اکثریت کے مطالبے کو رد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ: ”اگر کسی اصول کو وسیع پیمانے پر عوامی تائید حاصل ہو تو اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ وہ اصول عملی زندگی میں بھی کامیابی حاصل کرے گا۔ ہاں اگر جمہور کا فہم اور شعور پختہ ہو تو اس صورت میں ہم اس کی امید کر سکتے ہیں۔ ہماری رائے میں اسلامی رجحانات کی موجودہ پذیرائی دراصل جمہور کے ناپختہ شعور کی مظہر ہے۔“ اس کی دلیل ڈاکٹر صاحب کے نزدیک یہ ہے کہ عوام کے ذہن میں دین کا ایک خاص مفہوم ہے۔ یعنی ایک خاص وضع کا لباس، بعض عورتوں سے نکاح کی ممانعت، دین کی عبادات پر حد سے بڑھا ہوا اصرار، اور `تطبیقِ شریعت` (شریعت کا اطلاق) میں چند حدود کا قیام، لیکن عوام کی سیاسی اور اقتصادی الجھنوں سے بے توجہی۔ چنانچہ ڈاکٹر صاحب سمجھتے ہیں کہ اسلام کی اطاعت کا یہ جذبہ کوئی صحت مند علامت نہیں بلکہ یہ ایک شاذ حالت ہے جس سے مصر پہلے واقف نہیں رہا۔ یہ حالت اس دور میں طاری ہوئی جب مصر پر فردِ واحد کی حکومت تھی، اور اس دور کی پیداوار ہے جب پٹرول پیدا کرنے والے معاشروں کی پسماندہ فکر ہمارے ہاں در آئی تھی۔ یہ لوگ دین کو اپنی داخلی مصلحتوں کی حفاظت کے لیے استعمال کرتے ہیں اور بیرونِ ملک اس پست نظریے کا پرچار کرتے ہیں۔

    اکثریت کے فیصلے کو رد کرنے اور جمہوریت کی منطق کو تسلیم نہ کرنے کے لیے یہ ہیں ڈاکٹر صاحب کے فرمودات جو سراسر مغالطوں پر مبنی ہیں:

    سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ نفاذِ شریعت کے مطالبے کو جن جمہور کی حمایت حاصل ہے وہ امت کے پختہ فکر، با اخلاق اور ارادہ و عمل کے سچے نوجوان ہیں جو یونیورسٹیوں اور دیگر تعلیمی اداروں کے طلباء اور فارغ التحصیل لوگ ہیں۔ انہوں نے تمام دشواریوں، رکاوٹوں اور مزاحمتوں کے باوجود ٹریڈ یونین اور طلباء یونین کی سرگرمیوں میں اپنے وجود کو ثابت کر دیا اور اپنی اہمیت کو تسلیم کروا لیا ہے۔

    پھر یہ کہ تمام دنیا کے جمہوری ملکوں میں اکثریت کی رائے کا احترام کیا جاتا ہے اور اس کی نوعیت اور کیفیت پیش نظر نہیں رکھی جاتی۔ برطانیہ کی کنزرویٹو پارٹی نے لیبر پارٹی سے، یا امریکہ کی ڈیموکریٹک پارٹی نے ری پبلیکن پارٹی سے، کبھی یہ نہیں کہا کہ جو اکثریت تمہارے ساتھ ہے وہ ثقافت، شعور اور پختگی میں ہماری اقلیت کے ہم پلہ نہیں، اس لیے ہم تمہاری اکثریت کو نہیں مانتے! ڈاکٹر صاحب کو یہ شرط کہاں سے ملی کہ اگر عوام کی اکثریت کسی اصول کی حمایت کرے تو اس اکثریت میں پوری طرح پختگی ہونی چاہیے۔ یعنی صرف شعور یا شعور کی پختگی بھی نہیں بلکہ ہر طرح کی پختگی ہونی چاہیے۔ اگر ہم ڈاکٹر صاحب کی یہ بات بھی مان لیں تو یہ فیصلہ کون کرے گا کہ پختگی کی مطلوبہ سطح موجود ہے یا نہیں ہے اور یہ کہ یہاں کچھ پختگی ہے اور یہاں پوری پختگی ہے۔ ظاہر ہے کہ معیارات مختلف ہونے کی صورت میں معاملے کا فیصلہ بھی مختلف ہو گا۔

    مصنف اسلام کی تائید و حمایت کرنے والے جمہور کو کم فہمی اور بے عقلی کا طعنہ دینے اور ان پر یہ الزام عائد کرنے میں کہ ان کے ذہنوں پر اسلام کی ظاہری صورت مسلط ہے، بہت سی غلطیوں اور مغالطوں کا شکار ہوئے ہیں۔

    مصنف نے اسلامی بیداری کے مختلف پہلوؤں میں سے صرف ایک پہلو کو سامنے رکھ کر اس کی کمزوریاں اور خامیاں بڑھا چڑھا کر بیان کی ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی بیداری کی اصل اور واقعی قوت ایجابیت ہے جو اسلام کو مکمل اور جامعیت کے ساتھ اختیار کرنے کی قائل ہے۔ یہ قوت اسلامی شریعت کے صرف قانونی پہلو پر اکتفاء کی قائل نہیں، بلکہ اسلام کو مکمل نظامِ زندگی کی حیثیت میں بروئے کار لانا چاہتی ہے۔ اسلامی قوتیں اسلام کے اصل جوہر اور کلیات کو ترک کر کے محض اس کی جزوی شکل کو اختیار کرنا نہیں چاہتیں بلکہ اسے نظامِ زندگی کی اساس اور اصل کے طور پر اپنانا چاہتی ہیں۔

    اسلامی قوتیں لوگوں کے مسائل اور ان کی زندگی کی مشکلات کو مدنظر رکھے ہوئے ہیں اور اقتصادی، سیاسی، اجتماعی اور ثقافتی مسائل سے آگہی رکھتی ہیں، اور ان کے حل کی داعی ہیں۔ بلکہ کمپنیوں، بنکوں اور اسلامی اقتصادیات نیز تعلیمی، طبی اور اجتماعی اداروں کے قیام کے ذریعے وہ عملاً کشمکشِ حیات میں شریک اور مسائل کے حل کے لیے کوشاں ہیں۔ نیز یہ کہ مصنف جسے اسلام کی ظاہری صورت کہہ رہے ہیں وہ اسلام کی ظاہری صورت نہیں بلکہ اس کے اصل اور بنیادی شعائر (عبادات، فرائض اور ارکان) ہیں۔

    مصنف نے لباس کی ظاہری صورت اور محرمات کے مسئلے کو بھی اپنی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ یہ مسئلہ بھی ذیلی اور غیر اہم نہیں بلکہ اس کا تعلق اہل ایمان کی تربیت سے ہے کہ ان میں پاکی اور پاکبازی پیدا ہو اور وہ نفسانی خواہشوں اور فطری کمزوریوں سے بلند نیز فتنہ انگیزی اور برائی پر ابھارنے والے عوامل سے دور رہیں۔ اور یہ قرآنی حکم ہے:

    قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ۚ ذَٰلِكَ أَزْكَىٰ لَهُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَ ﴿٣٠﴾ وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ۖ وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَىٰ جُيُوبِهِنَّ ۖ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُولِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَىٰ عَوْرَاتِ النِّسَاءِ ۖ وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِن زِينَتِهِنَّ ۚ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ﴿٣١﴾

    (اے نبی! مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔ یہ ان کے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے۔ جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ اس سے باخبر رہتا ہے۔ اور اے نبی! مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں، اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں، اور اپنا بناؤ سنگھار نہ دکھاویں بجز اس کے جو خود ظاہر ہو جائے، اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں۔ وہ اپنا بناؤ سنگھار ظاہر نہ کریں مگر ان لوگوں کے سامنے یعنی شوہر، باپ، شوہروں کے باپ، اپنے بیٹے، شوہروں کے بیٹے، بھائی، بھائیوں کے بیٹے، بہنوں کے بیٹے، اپنے میل جول کی عورتیں، اپنے لونڈی غلام، وہ زیر دست مرد جو کسی اور قسم کی غرض نہ رکھتے ہوں، اور وہ بچے جو عورتوں کی پوشیدہ باتوں سے ابھی واقف نہ ہوئے ہوں۔ وہ اپنے پاؤں زمین پر مارتی ہوئی نہ چلا کریں کہ اپنی جو زینت انہوں نے چھپا رکھی ہو اس کا لوگوں کو علم ہو جائے۔ اے مومنو! تم سب مل کر اللہ سے توبہ کرو توقع ہے کہ فلاح پاؤ۔)

    (النور: ۳۰-۳۱)

    ایک دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا:

    يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَن يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ

    (اے نبی اپنی بیویوں، بیٹیوں اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکا لیا کریں یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں۔)

    (الاحزاب: ۵۹)

    بلاشبہ اسلامی قوتوں کے حامی بعض گروہوں میں کچھ تشدد اور انتہا پسندی کے رجحانات پائے جاتے ہیں لیکن اس کی وجہ ایک تو خود ان نوجوانوں کا غیر معمولی جوش اور جذبہ ہے اور دوسری وجہ لادینیت کے حامی حضرات کی حد سے بڑھی ہوئی ہٹ دھرمی اور انتہا پسندی ہے۔ میں نے اس مذہبی انتہا پسندی کے اسباب اپنی کتاب ”الصحوۃ الاسلامیۃ بین الجحود و التطرف“ میں تفصیل سے بیان کر دیے ہیں۔

    علاوہ ازیں خود مصنف کا اس مذہبی انتہا پسندی کے بارے میں یہ اعتراف ہے کہ جوش و جذبہ طغیان و سرکشی کا مقابلہ کرنے میں کامیاب رہا ہے اور اس نے نوجوانوں میں دین کے تحفظ اور وطن کی سلامتی کے لیے جان کی قربانی دینے کا حوصلہ پیدا کیا ہے۔

    مصنف نے یہ بات ڈاکٹر حسن حنفی کے ان مقالات کا رد کرتے ہوئے کہی ہے، جو انہوں نے اسلامی اصولیت کے مستقبل کے بارے میں لکھے ہیں۔ ڈاکٹر حسن حنفی نے اپنے ان مقالات میں اس بات پر زور دیا ہے کہ یہ اصولیت اپنی گہرائی، عوامی تائید، کامیابی کی صلاحیت اور زمانۂ ماضی و حال میں اپنے تاریخی قانونی جواز کی بنا پر اپنے آپ کو اس طرح پیش کر رہی ہے کہ یہی مصر کا مستقبل ہے اور اس کا کوئی اور متبادل نہیں۔

    ڈاکٹر فواد زکریا ڈاکٹر حسن حنفی کے نقطہ نظر کو رد کرتے ہوئے آخر میں لکھتے ہیں:

    "اس تمام بحث و مباحثہ کے بعد جو بنیادی نکتہ باقی رہ جاتا ہے اور جس میں ان مصنفین کے نقطہ نظر کی حمایت میں، جو ایسے رجحانات سے دلچسپی رکھتے ہیں، وجہ جواز تلاش کی جانی چاہیے، یہ ہے کہ جو نوجوان ان انتہا پسند جماعتوں سے تعلق رکھتے ہیں، صرف وہی ہیں جو کچھ نہ کچھ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں، قطع نظر ان محرکات کے جو ان کی اس کامیابی کا سبب بنے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے جمود کی حالت کو ختم کیا جو پوری قوم پر چھا گئی تھی، اور شاید آئندہ برسہا برس تک چھائی رہتی۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے ٹھہرے ہوئے پانی میں بڑا سا پتھر پھینک کر اس میں تلاطم بپا کر دیا جو کسی دن شدید ترین موجوں اور آندھیوں کی صورت اختیار کر سکتا ہے۔ اس کے برعکس ترقی پسند، جمہوریت کے حامی اور لادینیت کے پرستار اس اچانک ظہور پذیر ہونے والی تحریک کے مقابلے میں بالکل بے حقیقت ہو کر رہ گئے۔ اس تحریک کے مقابلے میں ان کا کوئی کردار باقی نہیں رہا۔ وہ گویا ایک ایسی بند گلی میں پہنچ گئے ہیں جہاں سے نکلنے کا انہیں کوئی راستہ نظر نہیں آ رہا۔“

    مصنف کا یہ کہنا کہ موجودہ دینی لہر پٹرول پیدا کرنے والے ممالک سے درآمد کردہ ہے تو یہ بات بالکل غلط ہے، کیونکہ مصری قوم ہمیشہ سے دین پر چلنے والی قوم ہے اور اسلام کا عقیدہ اور شریعت اس کے مزاج میں رچا بسا ہے۔ اس کو دینی جذبہ کہیں سے درآمد کرنے کی ضرورت نہیں۔ بلکہ صورت حال یہ ہے کہ مصر ہمیشہ علم اور اسلامی جدوجہد کا مرکز رہا ہے اور دوسرے ممالک اس سلسلے میں ہمیشہ اس کی پیروی کرتے رہے ہیں۔ پٹرول پیدا کرنے والے جن ممالک کی طرف مصنف نے اشارہ کیا ہے وہ تو خود یہ سمجھتے ہیں کہ ایسے تصورات جن سے اسلام کی جامعیت کا اظہار ہوتا ہے اور جو اسلام کے اقتصادی، سیاسی، اجتماعی اور فکری پہلوؤں سے تعلق رکھتے ہیں، یہ باہر سے درآمد کردہ تصورات ہیں، ان کا ہمارے معاشرے سے کوئی تعلق نہیں۔ تاہم ہزاروں نوجوان ایسے بھی ہیں جو یہ یقین رکھتے ہیں کہ صحیح اسلام یہی ہے۔ چنانچہ وہ اس کی دعوت دیتے ہیں اور اسی کی طرف لوگوں کو بلاتے ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس میں انسانیت کی نجات اور کامیابی کا راز مضمر ہے۔ ان ممالک میں تو بعض اوقات وضاحت کے ساتھ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ 'مصری اسلام' ہے اور اس اسلام سے مختلف ہے جو ہمارے یہاں نسلوں سے چلا آ رہا ہے۔ مصر کا اسلام کا تصور مصر کا اپنا ہے، یہ تصور عالمِ عرب بلکہ ہر جگہ اسلامی تصور کی بنیاد ہے۔ یہ تصور پورے عالمِ اسلام کے لیے جذبۂ محرکہ ہے اور یہ ایسی حقیقت ہے جس سے خاص و عام تمام لوگ آشنا ہیں۔

    مصنف کا نقطۂ نظر، بخدا، بڑا عجیب ہے کہ جب جمہوریت اور جمہوری طریقے پر رائے شماری کے نتائج ان کے حق میں ہوں تو وہ جمہوریت کے علم بردار اور اس کے حامی بن جاتے ہیں۔ اور اگر ووٹوں کی گنتی اسلامی نظام کے حامیوں کے حق میں ہو تو پھر جمہوریت ان کے لیے ناقابل قبول ہے!

    اے ترقی پسندو! اور اے سیکولرزم کے حامیو! کچھ تو انصاف سے کام لو!

    سیکولرزم اور قومی مفاد

    سیکولرزم جہاں دین، مذہب، دستور اور قوم کی منشا اور ارادے کے خلاف ہے وہاں وطن اور امت کی مصلحت اور مفاد کے بھی خلاف ہے۔

    عملی افادیت (Pragmatism) کے قائل ہر شے کو منفعت کے پیمانے سے ناپتے ہیں۔ اگر فرض کر لیں کہ صرف یہی پیمانہ قابلِ استعمال ہے تب بھی ملک و ملت کا مفاد اور اس کی عام اور دائمی مصلحت یہی تقاضا کرتی ہے کہ سیکولرزم کو رد کر دیا جائے اور معاشرے کی تشکیل اس کے بجائے اسلامی تعلیمات کی بنیاد پر کی جائے۔ کیونکہ وطن اور ملت کی ترقی اس مادی اور انسانی طاقت کی مرہونِ منت ہوتی ہے جو کسی ملک اور قوم میں موجود ہوتی ہے اور مادی اور اقتصادی قوتوں کا اس وقت تک کوئی فائدہ مرتب نہیں ہوتا جب تک انسانی قوت موجود نہ ہو جو شعوری طور پر مادی اور اقتصادی قوت حاصل کر کے اس سے استفادہ کرے اور اسے بامقصد کاموں میں صرف کرے۔

    قوموں کو ہمیشہ عمل پر ابھارنے والے جذبے، اعلیٰ مقاصد اور معنوی محرکات کی ضرورت ہوتی ہے جو ان کی پوشیدہ قوتوں کو ابھارتے، ان کی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے اور ان کے دلوں میں مہارت اور برتری کے حصول کا جذبہ پیدا کرتے ہیں۔ قومی زندگی کے یہ اعلیٰ مقاصد ہی کسی قوم کو جان و مال، وقت اور آرام کی قربانی دینے پر آمادہ کرتے اور ابھارتے ہیں کہ وہ اپنے ان ذاتی خصائص اور لوازم حیات کا تحفظ کرے جن کی بنیاد پر وہ دوسری قوموں سے ممیز و ممتاز ہے۔ غرض قوم کو زندہ رہنے اور آگے بڑھنے کے لیے ایک ایسے پیغام کی ضرورت ہوتی ہے جو اس کی پوشیدہ قوتوں کو ابھارے، اس کے منتشر اجزاء کو جمع کرے، اس کے مردہ احساسات کو زندہ کرے اور اسے ایک نئی زندگی اور قوت سے ہمکنار کرے۔

    اگر ہم تاریخ کا جائزہ لے کر یہ معلوم کریں کہ مصری قوم کو کون سا اصول متحرک کرتا اور اس کی مدفون قوتوں کو ابھارتا رہا ہے، جس کے لیے وہ جان و مال کی قربانی دیتی رہی ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ وہ جذبۂ محرکہ ایمان اور اسلام کا جذبہ ہے۔

    قرآن کریم نے اپنی متعدد سورتوں الاعراف، طہ اور الشعراء میں مصری قوم کے ایک گروہ کے واقعات بیان کیے ہیں کہ وہ ایک عرصہ تک فرعون کی جابرانہ حکومت کی فرمانبرداری کرتے رہے، اسے خدائے مطلق سمجھا اور اپنا ذاتی اور قومی تشخص ختم کر دیا، کیونکہ اس وقت ان کا مقصد صرف مال و دولت کا حصول اور طاغوت کے قرب کی تمنا تھی، لیکن جب اللہ نے انہیں ایمان کی قوت عطا کر دی تو وہ ایک عظیم طاقت کی شکل میں ڈھل گئے۔ انہوں نے مال و دولت اور جاہ و مرتبہ کو ٹھکرا دیا اور فرعون جیسی سرکش طاغوتی طاقت کے مقابلے پر آ گئے۔ یہ اہل ایمان مصر کے وہ ساحر تھے جو اولاً فرعون اور اس کے درباریوں کی روش پر چل کر گمراہی میں پڑے ہوئے تھے، لیکن جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنا عصا پھینکا اور وہ جادوگروں کی پھینکی ہوئی رسیوں اور لکڑیوں کے بنے ہوئے سانپوں کو نگل گیا تو ان کی آنکھیں کھل گئیں۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے انہیں ضلالت و گمراہی کی دلدل سے نکال کر حق و صداقت کی روشن صراطِ مستقیم پر لاکھڑا کیا۔

    فَوَقَعَ الْحَقُّ وَبَطَلَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿١١٨﴾ فَغُلِبُوا هُنَالِكَ وَانقَلَبُوا صَاغِرِينَ ﴿١١٩﴾ وَأُلْقِيَ السَّحَرَةُ سَاجِدِينَ ﴿١٢٠﴾ قَالُوا آمَنَّا بِرَبِّ الْعَالَمِينَ ﴿١٢١﴾ رَبِّ مُوسَىٰ وَهَارُونَ ﴿١٢٢﴾ قَالَ فِرْعَوْنُ آمَنتُم بِهِ قَبْلَ أَنْ آذَنَ لَكُمْ ۖ

    (اس طرح حق ثابت ہوا، اور جو کچھ انہوں نے بنا رکھا تھا وہ باطل ہوا۔ فرعون اور اس کے ساتھی مغلوب ہوئے اور ذلیل ہو گئے اور جادوگروں کا حال یہ ہوا کہ گویا کسی چیز نے اندر سے انہیں سجدے میں گرا دیا۔ کہنے لگے ہم نے مان لیا رب العالمین کو جسے موسیٰ اور ہارون مانتے ہیں۔ فرعون نے کہا کہ تم اس پر ایمان لے آئے قبل اس کے کہ میں تمہیں اجازت دوں۔)

    (الاعراف: ۱۱۸)

    فرعون نے موسیٰ علیہ السلام کے ان ماننے والوں کو قتل کرنے اور سولی پر چڑھانے کی دھمکیاں دیں مگر انہوں نے کوئی پروا نہ کی اور چٹان کی طرح ڈٹے رہے۔

    إِنَّا إِلَىٰ رَبِّنَا لَمُنقَلِبُونَ ﴿١٢٥﴾ وَمَا تَنقِمُ مِنَّا إِلَّا أَنْ آمَنَّا بِآيَاتِ رَبِّنَا لَمَّا جَاءَتْنَا ۚ رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَتَوَفَّنَا مُسْلِمِينَ ﴿١٢٦﴾

    (ہمیں پلٹنا اپنے ہی رب کی طرف ہے۔ تو جس بات پر ہم سے انتقام لینا چاہتا ہے وہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ ہمارے رب کی نشانیاں جب ہمارے سامنے آ گئیں تو ہم نے انہیں مان لیا۔ اے رب ہم پر صبر کا فیضان کر اور ہمیں دنیا سے تو اس حال میں اٹھا لے کہ ہم تیرے فرماں بردار ہوں۔)

    (الاعراف: ۱۲۵-۱۲۶)

    نصف النہار کے سورج کی طرح ماضی قریب میں ظاہر ہونے والی ایک واضح اور روشن مثال جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مصری قوم کے شوق و جذبے کی انگیخت میں مذہب بہت گہری تاثیر رکھتا ہے اور اسے کسی بھی معرکہ میں کود پڑنے کے قابل بنا دیتا ہے، ۱۰ رمضان کا معرکہ ہے جسے اب لوگ معرکہ ۶ اکتوبر کہنے لگے ہیں حالانکہ اسے معرکہ ۱۰۰ رمضان ہی کے نام سے یاد کرنا چاہیے۔ ۱۰ رمضان کا معرکہ ایسا معرکہ تھا جو رمضان المبارک کی خوشبوؤں سے معطر اور ایمان کی ہواؤں سے عطر بیز تھا۔ اس معرکہ میں برسرِ پیکار افواج کے جذبۂ ایمانی نے بڑا کردار ادا کیا جس کی شہادت جرنیلوں نے بھی دی اور سپاہیوں نے بھی، اور جسے جنگ کی صورت حال کا مشاہدہ کرنے والے ہر ایک شخص نے محسوس کیا، خواہ وہ مصری ہو یا عرب یا اجنبی۔ بلاشبہ اس موقع پر جنگی تربیت، حکمت عملی اور اس جنگ کی تیاری کے پہلو کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا مگر اس حقیقت کو بھی سمجھ لینا چاہیے کہ اگر لوگوں کے دل ایمان سے خالی ہوتے اور ان کا رشتہ ربِّ سماوات سے منقطع ہوتا تو تیاری اور حکمت عملی کچھ کام نہ آتی جیسا کہ جون ۱۹۶۷ء میں کام نہیں آئی تھی۔

    جب اللہ اکبر کی صدائیں فضا میں گونجیں تو دلوں کے تار بجنے لگے، سینوں میں جذبات کا ایک تلاطم برپا ہو گیا۔ قلب کی گہرائیوں میں پنہاں امنگیں کروٹیں لینے لگیں، دماغوں میں جرات و شجاعت کے معنی از سرِ نو تازہ ہو گئے۔ جذبۂ ایمانی سے سرشار اہل مصر کو قطر اور صلاح الدین ایوبی کا زمانہ یاد آ گیا اور اس سے بھی بڑھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات اور تاریخ میں محفوظ صحابہ کرام کی فتوحات کی یاد ان کے ذہنوں میں تازہ ہو گئی۔

    یہی وہ مرحلہ ہے جب انہوں نے بار لیو لائن عبور کی اور اس قوت پر فتح حاصل کی جس کے متعلق کل تک کہا جاتا تھا کہ اسے شکست نہیں دی جا سکتی، جیسا کہ اس سے پہلے تاتاریوں کی نسبت کہا جاتا تھا کہ اگر کوئی آپ سے کہے کہ تاتاری شکست کھا گئے تو ہر گز یقین نہ کیجیے۔

    بہت سے افسروں اور سپاہیوں نے قسم کھا کر بیان کیا کہ انہوں نے اپنے دوش بدوش سفید کپڑوں والی ایک مخلوق کو لڑتے دیکھا۔ یہ دعویٰ خواہ حقیقت ہو یا وہم و خیال، جیسا کہ مادہ پرست کہتے ہیں، بہرحال اس شخص کی معنوی روح کی قدر و قیمت میں کوئی شک نہیں کیا جا سکتا جو یہ یقین رکھتا ہے کہ فرشتے اس کے ساتھ لڑ رہے ہیں اور اسے اللہ کے دشمنوں پر فتح اور غلبہ دلا رہے ہیں۔

    ایرانی انقلاب کے صحیح یا غلط ہونے اور اس کے اسلام سے قریب ہونے یا نہ ہونے کی نسبت مبصروں اور تجزیہ نگاروں میں خواہ کتنا ہی اختلاف ہو، لیکن ایک بات جس سے کوئی اختلاف نہیں کر سکتا یہ ہے کہ اس انقلاب نے ایرانی قوم میں ایک ایسا جذبہ پیدا کر دیا ہے جس کی مثال ماضی قریب یا موجودہ تاریخ میں نہیں ملتی۔ اس انقلاب نے ساری قوم میں ایسا جذبہ پیدا کر دیا اور ایمانی قوت میں اس قدر حرارت پیدا کر دی کہ ساری قوم داخلی معرکوں اور خارجی جنگ میں یک جان ہو کر دشمن کے خلاف کھڑی ہو گئی۔ نہ انہوں نے اقتصادی پابندیوں کی پروا کی اور نہ خارجی گھیراؤ سے گھبرائے بلکہ اپنے ہزاروں نوجوان جنگ کی آگ میں جھونکنے کے لیے پوری قوم ہر وقت تیار رہی۔ ایرانی اپنی مرضی اور اختیار سے جنت کی طلب اور شہادت کا وہ درجہ حاصل کرنے کے لیے آگے بڑھتے رہے جو ان کی تاریخ کا روشن باب ہے۔ اہل ایران نے حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت اور ان کے سرفروشانہ جذبے کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھا اور اس سے دینی حرارت حاصل کی۔ چنانچہ نوجوان شوقِ شہادت میں آگے بڑھتے رہے اور ان کے والدین ان کی کامیابی و سرفرازی کی دعائیں کرتے رہے۔ اگر میدانِ جنگ سے کسی کی شہادت کی خبر آتی تو لوگ اس کے گھر کی طرف جوق در جوق اس طرح رُخ کرتے جیسے جنگ میں مارے جانے والے کسی مقتول کے گھر نہ جا رہے ہوں بلکہ شادی کی کسی تقریب میں جا رہے ہوں۔

    ایرانی انقلاب نے عورت کو گوشہ نشینی اور دینی و سیاسی ناخواندگی کی دلدل سے نکالا۔ اسے بناؤ سنگھار کے بے وقعت شوق اور مہر و محبت کے روایتی بے جان احساسات سے نکال کر دین اور وطن کو منزلِ مقصود پر پہنچانے والے بنیادی مسائل میں دلچسپی لینے پر ابھارا اور اس سلسلے میں ایسی کامیابی حاصل کی جسے ہر لحاظ سے بے نظیر کہا جا سکتا ہے۔

    اس سے بھی عمدہ مثال، جس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں، وہ کارنامہ ہے جو اسلام کے طفیل سرزمینِ افغانستان میں ظاہر ہوا کہ سادہ لوح افغان مجاہدین نے دنیا کی دوسری بڑی طاقت روس کو ایسا سبق سکھایا جسے روسی اور ان کی آنے والی نسلیں کبھی نہ بھلا سکیں گی۔ نہتے افغان مجاہدین کی قوتِ ایمانی کے سامنے روسی ٹینکوں اور میزائلوں کی قوت یوں تہ و بالا ہوئی کہ انہیں افغانستان میں کہیں پناہ نہ ملی، انہیں نہایت ذلت خیز شکست کھا کر وہاں سے بھاگ جانا پڑا۔ امر واقعہ یہ ہے کہ اسلام مسلمانوں کو ہمیشہ ایسی ہی سربلندی عطا کرتا ہے۔



    پیش لفظ

    میں سمجھتا ہوں کہ عمل، تعمیر اور جہاد کے لیے ملت کو تیار کرنے، اس کے جذبات کو ابھارنے، اس کی روح کو بیدار کرنے اور اس کی قوتوں کو مجتمع کرنے کی جو صلاحیت اسلامی تحریک کو حاصل ہے اس کی اثر آفرینی سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔

    لادینیت کے حامی بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہمتوں کے بیدار کرنے، جذبہ و شوق کو بڑھانے، آزادی، ترقی اور تعمیر کے میدانوں میں درپیش چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے دینی جذبے کو کام میں لانے سے ہم بھی نہیں روکتے۔

    مگر ہم اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ:

    1. اول: دین اس بات سے بہت بلند اور اشرف و اعلیٰ ہے کہ اسے کسی وقتی فائدے کے حصول کا ذریعہ بنایا جائے، اور پھر وہ مقصد پورا ہوتے ہی اس کا قلادہ گردن سے نکال پھینکا جائے۔ دین تو ہستی کا جوہر، زندگی کی روح، ہمیشگی کا راز اور بذات خود مقصود و مطلوب ہے۔ یہ ایسی سواری نہیں جسے ضرورت کے وقت استعمال کیا جائے اور بعد میں نیلام گھر بھیج دیا جائے۔
    2. دوم: قوموں کو اٹھانے، ابھارنے، ان میں زندگی کی حرارت پیدا کرنے اور انھیں بڑے بڑے کاموں کے لیے تیار کرنے میں دین اپنا کردار اس وقت ادا کرتا ہے جب قوم اسے اپنا اصل مقصد اور بنیادی ہدف بنا لیتی ہے۔ کوئی دوسرا مقصد حاصل کرنے کے لیے اسے ذریعے کے طور پر استعمال نہیں کرتی، جب دین کی حقیقی قدر و قیمت اور اہمیت کا احساس قوم کے رگ و ریشہ میں رچ بس جاتا ہے اور اس کی پوری زندگی پر غالب آ جاتا ہے۔ یہ بات کافی نہیں کہ دین سے قوم کا تعلق محض خارجی سطح پر دکھاوے کے لیے موجود ہو۔ امر واقع یہ ہے کہ دین قوموں کی زندگی پر اس وقت اثر انداز ہوتا ہے، اور اس کی زندگی کے طریقوں اور طرز عمل کو اس وقت متاثر کرتا ہے، جب قانون سازی، تعلیم، ثقافت اور قومی رہنمائی کے شعبوں میں دین ہی کو واحد کار فرما قوت کے طور پر تسلیم کر لیا جاتا ہے اور ساری زندگی پر دین کا رنگ پوری طرح غالب آ جاتا ہے۔ لوگ پورے اخلاص کے ساتھ اسی کے جھنڈے تلے جمع ہو جاتے ہیں، اور اسی کے تحت جدوجہد کو اپنا مقصد بنا کر بھلائی کے کاموں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھ جانے کی کوشش کرتے ہیں۔
    3. سوم: کوئی قوم طبعاً کسی ایسے شخص کا ساتھ نہیں دیتی جو محض دین کے نام پر اسے اپنی طرف بلا رہا ہو۔ پہلے وہ یہ دیکھتی ہے کہ اللہ کے دین سے اس کا تعلق کتنا مضبوط ہے۔ وہ دین کے لیے کتنا مخلص ہے۔ اس کے دل میں دینی شعائر کا احترام کتنا ہے۔ وہ عملاً نفاذ شریعت کا جذبہ اپنے اندر رکھتا ہے یا نہیں؟ اور یہ کہ وہ اللہ کے حکم کے مطابق دین کو پورے کا پورا اپنا لینا چاہتا ہے یا نہیں؟

    اگر قوم یہ محسوس کر لیتی ہے کہ دین کی طرف بلانے والے میں یہ خوبیاں موجود نہیں تو وہ اپنا منہ موڑ لیتی ہے۔ وہ جان لیتی ہے کہ یہاں سوائے دھوکے اور نفاق کے کچھ موجود نہیں۔ چنانچہ وہ پوری قوت کے ساتھ صاف صاف کہہ دیتی ہے کہ:

    افتؤمنون ببعض الكتاب و تكفرون ببعض

    (البقرہ: 85)

    (تو کیا تم کتاب کے ایک حصے پر ایمان لاتے ہو اور دوسرے حصے کے ساتھ کفر کرتے ہو؟)

    سیکولرزم: ایک بیرونی نظریہ

    سیکولرزم سراسر ہماری اصلیت اور ہماری حاکمیت اعلیٰ کے خلاف ہے، کیونکہ یہ تصور باہر سے درآمد کردہ ہے۔ اس کی تاریخ اور اس کے وجود کے پس منظر کا مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں۔ ہماری قدریں، ہمارے شعائر، ہمارے عقائد، ہمارے قوانین اور ہمارے حالات اس سے بالکل مختلف ہیں۔

    اہل مغرب نے سیکولرزم کا تصور اپنے مخصوص حالات کے تحت اختیار کیا۔ اس وقت ان کے سامنے کلیسا کے ساتھ تعلقات کا مسئلہ تھا جس کے لیے انھوں نے سیکولرزم اختیار کیا۔ ہمارے یہاں ایسا کوئی مسئلہ نہیں جس کے لیے سیکولرزم کو اختیار کیا جائے، بلکہ سیکولرزم بذات خود ایک مسئلہ ہے۔ اگر اسے ہمارے ہاں اختیار کر لیا گیا تو اس سے بے شمار مسائل پیدا ہو جائیں گے جنھیں حل کرنا دشوار ہو گا۔

    لادینیت اہل مغرب کے عقیدہ، شریعت اور ان کے رب کی جانب سے ان پر عائد کردہ احکام سے متصادم نہیں، جب کہ یہ ہمارے عقیدے سے متصادم ہے، کیونکہ ہمارے عقیدے کا بنیادی تقاضا اللہ اور اس کے رسول کے احکام پر عمل پیرا ہونا ہے۔ لادینیت ہماری شریعت کے مخالف ہے، کیونکہ ہمارے لیے اللہ کی نازل کردہ شریعت پوری زندگی پر مشتمل اور اس کے تمام اصول و احکام کی جامع ہے۔

    مغرب میں لادینیت نے دین، مذہب اور رجال دین کے اثر و رسوخ کو ختم نہیں کیا بلکہ دنیاوی اقتدار اور روحانی اقتدار میں تفریق کر دی ہے۔ ہر ایک کو اس کے لائحہ عمل اور میدان کار میں موثر ہونے کا موقع فراہم کر دیا ہے۔ کلیسا اپنے لوگوں اور اپنے مال و دولت کے ساتھ اپنے اقتدار اور اثر ورسوخ کو بدستور بروئے کار لا رہا ہے۔

    لیکن اس کے برعکس اسلام میں علیحدہ اور مستقل کوئی دینی اقتدار موجود نہیں۔ لادینیت کا ہمارے یہاں مطلب یہ ہو گا کہ اسلام کا وجود ختم ہو جائے اور اس کا کوئی اثر، کوئی اختیار اور کوئی اقتدار باقی نہ رہے الا یہ کہ وہ موجود و قائم سیاسی اقتدار کے تابع ہو جائے۔

    اختلافی امور کا تعین

    موقف اور مفہوم کے تعین کے بعد اور معیارات متعین کر لینے کے بعد اب گفتگو کا چوتھا مرکزی نقطہ یہ ہے کہ لادینیت کے حامیوں اور اہل اسلام میں ان امور کا تعین کر لیا جائے جن میں اختلاف ہے۔ پہلے تین امور یعنی موقف اور مفہوم اور معیار کا تعین ہو جانے کے بعد میں سمجھتا ہوں کہ اختلاف کا تعین کرنا بھی سہل ہو گیا ہے اور اسی طرح متفقہ نقاط کا بتانا بھی آسان ہو گیا ہے بشرطیکہ نیت صحیح اور سمت درست ہو۔

    • اس امر پر سب کا اتفاق ہے کہ ملک میں ترقی ہونی چاہیے ۔ ہمیں اپنی ساری مجموعی توانائیاں اسی کام میں لگا دینی چاہئیں۔ ہمیں جدید ترین ٹیکنالوجی اور سائنس کو کام میں لانا چاہیے اور ہر ایسی پرانی شے جو مفید ہو اور نئی اچھی شے سے استفادہ کرنا چاہیے۔ ہمیں چاہیے کہ علم، فکر، ادب، صنعت اور ہر امر میں جمود اور پسماندگی کو ترک کر دیں اور مادی اور معنوی اعتبار سے زندگی کی تجدید کر کے اسے ملک و قوم کی ترقی میں لگائیں۔

    • ہمارا اس امر پر بھی اتفاق ہے کہ اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان ناگزیر ہے اور امت کے لیے نفس کا تزکیہ، ضمیر کی اصلاح اور اخلاق کی درستی اسی طرح ضروری ہے جیسے انسان کے لیے غذا ضروری ہے۔

    • ہمارا اس امر پر بھی اتفاق ہے کہ ہمارے لیے قابل فخر سرمایہ ہمارا دین ہے کہ یہی اکثریت کا دین ہے، جبکہ ہم غیر مسلموں کے لیے تمام آسمانی مذاہب کی تکریم کے بھی پابند ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہمارے ہاں رہنے والے غیر مسلموں کے لیے اسلام اگرچہ دین و عقیدہ نہیں ہے مگر تہذیب و ثقافت ضرور ہے۔

    • ہمارا اس امر پر بھی اتفاق ہے کہ ایسا سیاسی نظام وجود میں آنا چاہیے جس کی اساس شوریٰ ہو یعنی ایسی شوریٰ جس کی بنیاد پر اسلامی حکومت استوار ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ہم ان تمام ضمانتوں کو بھی تسلیم کرتے ہیں جو حکام کے انتخاب اور احتساب کے لیے جمہوریت نے فراہم کی ہیں اور عوام کے حقوق کا تحفظ کیا ہے، مثلاً جمہوریت کا دیا ہوا یہ حق کہ اگر حکمران صحیح نہ ہوں تو عوام ان کو تبدیل کر سکتے ہیں۔ اور مفصل تحریری دستور صاف ستھرے انتخابات اور ایسی صحافت جس کا حکومت گلا نہ گھونٹ سکے اور جسے بلا خوف و خطر تنقید کا بھی حق حاصل ہو۔

    • ہم اس بات پر بھی متفق ہیں کہ ایسا اقتصادی نظام وجود میں آنا چاہیے جس کے ذریعے زیادہ سے زیادہ پیداوار حاصل ہو سکے۔ تقسیم دولت کا نظام صحیح ہو، اشیاء کے صرف میں رہنمائی کا عنصر شامل ہو اور باہمی لین دین عمدگی کے ساتھ ہو۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی ضروری ہے کہ معاشرے کے کمزور اور اہل ضرورت افراد کے لیے اجتماعی کفالت کا قابل اعتماد نظام قائم کیا جائے۔ جس کے ذریعے معاشرہ مضبوط و مستحکم بنیادوں پر قائم ہو سکے۔

    • ہم اس امر پر بھی متفق ہیں کہ ہم اپنے وطن میں ہر شخص کو امن فراہم کریں کہ کوئی شخص اپنی جان اور اپنے مال کا کوئی خطرہ محسوس نہ کرے اور اسے عزت کا کوئی اندیشہ نہ ہو۔ اسے مکمل دینی، فکری، سیاسی اور تمدنی آزادی حاصل ہو۔ یہ آزادی ایسی ہو کہ اس سے جاری و ساری اقتدار کو اور معاشرے کے متفقہ اصولوں کو نقصان نہ پہنچے۔

    • ہم اس بات پر بھی متفق ہیں کہ ہمارا وطن بیرونی تسلط اور ہر طرح کی اقتصادی، سیاسی، ثقافتی اور فوجی مداخلت سے آزاد ہو، خواہ اس مداخلت کا تعلق مشرقی بلاک سے ہو یا مغربی بلاک سے۔

    • اور ہم اس امر پر بھی متفق ہیں کہ "دینی حکومت" کو، اس مفہوم میں جو قرون وسطیٰ کے مغرب میں معروف تھا، رد کر دیں۔ یعنی ایسی "دینی حکومت" جو دین کے نام پر علم کی دشمن ہو، جو آزادی کے بالمقابل آمریت کی موید ہو اور جس کا دعویٰ یہ ہو کہ وہ زمین پر اللہ کے آسمانی اقتدار کی نمائندہ ہے۔ ہم ایسی حکومت کے حامی نہیں۔

    ان تمام متفقہ امور کے باوجود ہم بعض اساسی امور اور بعض جوہری مسائل میں اختلاف رکھتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ان کی توضیح و تشریح کریں اور اسلام اور سیکولرزم کے تعلق کی تحدید کریں۔

    اسلام اور سیکولرزم

    اسلام کے بارے میں سیکولرزم کا موقف، جیسا کہ ہم نے اس کے مفہوم کی وضاحت کی ہے، غیر جانبداری کا موقف نہیں، بلکہ "سیکولرزم" اسلام کے بالکل خلاف اور سراسر متصادم ہے۔ اور یہ نہیں ہو سکتا، جیسا کہ بعض لادینیت پسند عرب کہتے ہیں کہ "سیکولرزم" اسلام سے متصادم نہیں کیونکہ اسلام انسان کی تمام زندگی اور زندگی کے جملہ پہلوؤں، مادی و معنوی اور انفرادی و اجتماعی، پر مشتمل ہے۔ اسلام کی یہ جامعیت اور اس کے نظام زندگی ہونے کا یہ رخ "سیکولرزم" کے لیے قابل قبول نہیں۔ لہذا ان دونوں کے درمیان ٹکراؤ ناگزیر ہے۔

    بلاشبہ عیسائیت انسانی زندگی کے اس تصور کو قبول کر سکتی ہے کہ اسے دو حصوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ اس کا ایک حصہ دین کے لیے ہو اور دوسرا دنیا کے لیے، یعنی انجیل کی تعبیر کے مطابق ایک حصہ اللہ کے لیے ہو اور ایک حصہ قیصر کے لیے، اور اللہ کو اللہ کا حصہ دے دیا جائے اور قیصر کو قیصر کا حصہ۔

    لیکن اسلام کی نظر میں انسان کی زندگی از اول تا آخر ایک ہے۔ اس کے حصے اور اجزا نہیں کیے جا سکتے، بلکہ تمام زندگی ایک وجود ہے اور اللہ تعالٰی پوری کائنات کا رب اور خالق ہے، وہ انسان کا بھی رب اور خالق ہے۔ اس لیے اسلام میں قیصر اللہ کا شریک نہیں بلکہ اس کا بندہ اور مملوک ہے۔ اسلام میں زمین و آسمان کی ہر شے اللہ کے لیے ہے اور خود قیصر اور قیصر کی حکومت بھی اللہ ہی کی ہے۔ چنانچہ اسلام میں اس امر کی گنجائش نہیں کہ اللہ کی ہدایت سے ہٹ کر زندگی کا کوئی حصہ قیصر کی دسترس میں دے دیا جائے!

    اسلام کا تقاضا یہ ہے کہ انسان کی ساری زندگی اسلامی تعلیمات کے مطابق بسر ہو اور اللہ کے رنگ میں رنگی جائے۔

    صبغة الله ومن احسن من الله صبغة

    (البقرہ: 138)

    (اللہ کا رنگ اختیار کرو، اس کے رنگ سے اچھا اور کس کا رنگ ہو گا؟)

    اسلام کی نظر میں یہ بات لازمی ہے کہ مسلمانوں پر اللہ کا رنگ غالب رہے۔ وہ اسی رنگ میں رنگے رہیں اور یہی ربانی روح ان پر چھائی رہے جس کا مرکز اخلاق اور جس کا مضمون انسانیت ہے۔

    اسلام زندگی کے آغاز سے لے کر موت تک زندگی کے ہر مرحلے کے لیے ہدایت اور قانون فراہم کرتا ہے، بلکہ پیدائش سے پہلے اور موت کے بعد پیش آنے والے امور کے بارے میں بھی تفصیلی احکام عطا کرتا ہے۔

    اسلام اس صورت کو قبول نہیں کر سکتا کہ زندگی میں، اس کی حیثیت ایک زائد اور ذیلی امر کی ہو اور غیر اسلامی امور کو اہم اور بنیادی حیثیت حاصل ہو۔ اسلام تابع اور خادم کی حیثیت میں رہے اور غیر اسلام کو قیادت اور حکمرانی کا درجہ حاصل ہو۔

    اسلام کا مزاج یہ ہے کہ وہ سیادت و قیادت کے مرتبے پر فائز ہو، کیونکہ اسلام اللہ کا کلمہ ہے اور اللہ ہی کا کلمہ بلند اور عالی رہتا ہے۔ جب کہ لادینیت یہ چاہتی ہے کہ اسلام اس کا تابع بن جائے اور اپنا طبیعی، منطقی اور تاریخی طرز عمل اختیار نہ کرے کہ خود ہی حاکم ہو اور خود ہی جس چیز کا چاہے حکم دے اور جس چیز سے چاہے روک دے۔ لادینیت ایسے اسلام کو پسند کرتی ہے جو بچوں کی پیدائش اور کسی شخص کی موت کے موقع پر ادا کیے جانے والے مراسم تک محدود ہو، جس کے پیروکار درویشوں اور مجذوبوں کے پھیلائے ہوئے توہمات اور بے بنیاد قصے کہانیوں کے طلسم میں اسیر ہوں۔ لیکن اگر اسلام حرکت پذیر ہو، اپنے ماننے والوں کو حرکت میں لے آئے، نوجوانوں کی رہنمائی کرے، جمہور کی قیادت کرے، تعمیری قوتوں کو بروئے کار لائے، عقل کو جلا بخشے، جذبات کو فعال بنائے، لوگوں کی تربیت کرے، معاشرے کی روش کو حق کے ساتھ منضبط کرے، لوگوں کے درمیان عدل و قسط کی میزان قائم کرے، قانون، ثقافت، تربیت اور ذرائع ابلاغ کی رہنمائی کرے، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دے نیز راہ حق سے انحراف اور فساد کا سدباب کرے تو ایسا اسلام سیکولرزم (یعنی لادینیت) کے لیے ناقابل برداشت ہے۔

    لادینیت چاہتی ہے کہ اگر اسلام موجود ہو تو کسی کونے میں پڑا رہے اور عملی زندگی سے اس کا کوئی تعلق نہ ہو۔ یہ زندگی کے کسی خاموش گوشے میں پڑے رہنا بھی لادینیت اسلام پر اپنا احسان گردانتی ہے، ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ وہ اسلام کو اس حد تک بھی برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔

    لادینیت چاہتی ہے کہ اگر لوگ اسلام سے اپنا تعلق باقی ہی رکھنا چاہتے ہیں تو وہ بس اتنا ہو کہ ریڈیو اور ٹیلی وژن پر کبھی کبھار کوئی دینی گفتگو نشر ہو جائے۔ جمعہ کے روز اخبار میں دینی صفحہ شامل ہو جائے، عام نظام تعلیم میں ایک پیریڈ دینی تعلیم کا مقرر کر دیا جائے، سرکاری قوانین کے مجموعہ میں ایک حصہ اسلام کے شخصی قوانین کا رکھ لیا جائے، معاشرے کے بے شمار اداروں میں ایک مسجد بھی تعمیر کر دی جائے اور نظام حکومت میں ایک وزارت اوقاف کی بھی قائم ہو جائے!

    لادینیت کے حامی کہتے ہیں کہ اسلام کو چاہیے کہ وہ اسی پر اکتفا کرے اور لادینیت کا شکریہ بجا لائے کہ اس نے اسلام کو محراب و منبر سے اتنا سر اوپر اٹھا کر باہر جھانکنے کی اجازت دی! مگر خود اسلام کا مزاج یہ ہے کہ وہ زندگی کے صرف ایک گوشہ یا ایک پہلو پر قناعت نہیں کر سکتا! یہ نہیں ہو سکتا کہ گھر سارا لادینیت کے حوالے ہو اور اس گھر میں اسلام کی حیثیت مہمان کی ہو!

    یہی وہ مقام ہے جہاں سے اسلام اور لادینیت میں تصادم شروع ہوتا ہے اور زندگی کے ہر شعبے میں جاری رہتا ہے۔ خصوصاً عقائد، عبادات، اخلاق اور قانون سازی کے شعبوں میں، کیونکہ اسلام کے آنے کا اصل مقصد ہی یہ ہے کہ ان شعبوں کو صحیح خطوط پر استوار کیا جائے اور ان سے متعلق تمام ضروری احکام اور ہدایات تفصیل کے ساتھ لوگوں کے سامنے رکھ دی جائیں۔

    سیکولرزم اور عقیدہ

    سیکولرزم کو اس بات پر کوئی اعتراض نہیں کہ مسلمان اسلام کو بطور عقیدہ مانتے رہیں، اللہ، اس کے رسول اور یوم آخرت پر ایمان رکھیں۔ اس کی وجہ سیکولرزم کا یہ مسلمہ اصول ہے کہ ہر شخص کو مذہبی آزادی حاصل ہے۔ اور یہ آزادی ایسا حق ہے جسے دنیا کے تمام مواثیق اور جدید دساتیر میں تسلیم کیا گیا ہے۔

    مگر اسلام "دار الاسلام" میں اس پر اکتفا نہیں کر سکتا کہ اس کا عقیدہ کوئی ایسی شے ہو جس کی محض اجازت ہو اور وہ ممنوعہ اشیاء (نشہ آور چیزوں) کی طرح ممنوع نہ ہو۔

    اسلام تو یہ چاہتا ہے کہ اس کا عقیدہ زندگی کی روح اور وجود کا جوہر ہو، معاشرے کے افراد کی رہنمائی کرنے والا ہو اور افراد امت کی نفسیاتی و فکری تکوین کی اساس ہو۔ بالفاظ دیگر اسلام ہی تربیت و ثقافت کا محور، فن اور ابلاغ کا مرکز اور تمام معاشرے کی قانون سازی اور رسم و رواج کی بنیاد ہو۔

    اسلام بچہ کی پیدائش ہی سے اس کے ذہن میں توحید کا عقیدہ بٹھانا شروع کر دیتا ہے۔ یہ عقیدہ انسان کو اللہ کے سوا ہر ایک کی غلامی سے نجات دلاتا ہے۔ اسے مادہ پرستی، حیوان پرستی، نیز جنوں، انسانوں، درختوں، پتھروں، خواہشات نفس اور طاغوت کو معبود بنانے سے روکتا ہے۔ عقیدہ توحید کی بنا پر انسان صرف اللہ کی بندگی کرتا ہے، اس سے مدد مانگتا ہے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا، جیسا کہ سورہ فاتحہ میں تعلیم دی گئی ہے جسے ہر مسلمان پانچوں نمازوں میں دہراتا ہے:

    ایاک نعبد و ایاک نستعین

    (الفاتحہ: 5)

    (ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں!)

    مسلمان گھرانے میں جو بچہ پیدا ہوتا ہے اس کے کان میں اذان دی جاتی ہے اور بچہ دنیا کی آوازوں میں سب سے پہلی جو آواز سنتا ہے وہ کلمہ تکبیر اللہ اکبر اللہ اکبر کی آواز ہے۔ اس کے بعد جو آواز اس کے کان میں پڑتی ہے وہ کلمہ توحید اشهد ان لا اله الا الله ہے اور پھر کلمہ رسالت اشهد ان محمد رسول الله ہے۔ اگرچہ بچہ ان کلمات کا مفہوم نہیں سمجھتا، تاہم یہ کلمات مستقبل میں اس کی رہنمائی کرتے ہیں۔ پہلا کلمہ جو اس کے کان میں پڑا تھا وہ کلمہ توحید تھا۔ اسی طرح موت کے وقت انسان کا آخری کلمہ توحید ہوتا ہے۔ یعنی مسلمان زندگی کا استقبال بھی توحید سے کرتا ہے اور زندگی کو الوداع بھی کلمہ توحید سے کرتا ہے۔ اس استقبال اور اس الوداع کے درمیان وہ توحید کا پیغام دینے کے لیے زندہ رہتا ہے، اس پر عمل کرتا ہے اور اسی کی طرف بلاتا ہے۔

    توحید اسلام کا جوہر ہے۔ یہ محض ایک کلمہ یا محض ایک شہادت نہیں جس کا اعلان کر دیا جائے۔ یہ ایک نفسیاتی، اخلاقی، فکری اور عملی رجحان ہے جو مسلمانوں پر لازم کرتا ہے کہ اللہ کے سوا ان کا کوئی رب نہ ہو، اللہ کے سوا ان کا کوئی ولی نہ ہو، اللہ کے سوا ان کا کوئی حاکم اور قانون ساز نہ ہو۔

    اسلام کا نظریہ توحید ہی در حقیقت حریت کی اساس ہے، کیونکہ کوئی ایسا معاشرہ آزاد نہیں ہو سکتا جس میں لوگوں نے اللہ کے سوا آپس میں ایک دوسرے کو خدا بنا رکھا ہو، خواہ وہ حکمران طبقہ کے لوگ ہوں جیسے فرعون اور اس کے درباری یا رجال دین جو اللہ کے اذن کے بغیر کسی چیز کو حلال قرار دیتے ہوں اور کسی چیز کو حرام جیسا کہ قرآن نے اہل کتاب کے متعلق فرمایا:

    اتخذوا احبارهم ورهبانهم اربابا من دون الله والمسيح ابن مريم

    (التوبہ: 31)

    (انھوں نے اپنے علماء اور درویشوں کو اللہ کے سوا اپنا رب بنا لیا ہے اور اسی طرح مسیح ابن مریم کو بھی۔)

    جو لوگ خدائی کے اختیارات استعمال کرتے ہیں وہ لوگوں کے سامنے اپنی ربوبیت (خدائی) کا اعلان زبان سے الفاظ کی صورت میں کریں یا اپنی فکری اور عملی سرگرمیوں کی صورت میں نتیجہ بہرحال ایک ہی ہے یعنی انسانوں کا انسانوں کو غلام بنا لینا۔ اسی وجہ سے حضور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیصر روم اور دیگر بادشاہوں کو جو خط لکھے انھیں اس آیت پر ختم فرمایا:

    قل يا اهل الكتاب تعالوا الى كلمة سواء بيننا و بينكم الا نعبد الا الله ولا نشرك به شيئا ولا يتخذ بعضنا بعضا اربابا من دون الله

    (آل عمران: 64)

    (اے نبی فرما دیجئے کہ اے اہل کتاب! آؤ ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمھارے درمیان یکساں ہے، یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں اور ہم میں سے کوئی اللہ کے سوا کسی کو اپنا رب نہ بنائے۔)

    اس حقیقت سے اولین دور کے مسلمان اچھی طرح واقف تھے چنانچہ ربعی بن عامرؓ نے ایرانی لشکر کے سپہ سالار رستم سے کہا تھا:

    "اللہ نے ہمیں اس لیے اٹھایا ہے کہ ہم اللہ کے بندوں کو انسانوں کی غلامی سے نکال کر صرف اللہ کی بندگی میں لے آئیں۔"

    انسانیت کے درمیان حقیقی بھائی چارہ اور محبت پیدا کرنے والی چیز صرف اسلام کا تصور توحید ہے کیونکہ جو لوگ اپنے زعم میں خدا بنے بیٹھے ہیں، وہ غلاموں کو بھائی نہیں بناتے۔ یہ صرف اللہ رب العالمین کی بزرگ و برتر ہستی ہے جس کے سامنے اس کے تمام بندے ایک ہوتے ہیں اور بھائی بھائی بنتے ہیں۔

    امام احمد اور ابوداؤد کی روایت ہے کہ حضور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز کے بعد یہ دعا پڑھا کرتے تھے:

    "اے اللہ، اے ہمارے رب! اے ہر شے کے رب اور مالک! میں گواہ ہوں کہ تو ہی اللہ ہے، تو ایک ہے اور تیرا کوئی شریک نہیں۔ اے اللہ، اے ہمارے رب! اے ہر شے کے رب اور اس کے مالک! میں گواہ ہوں کہ محمد تیرا بندہ اور رسول ہے! اے اللہ، اے ہمارے رب! اے ہر شے کے رب اور اس کے مالک! میں گواہ ہوں کہ سارے بندے بھائی بھائی ہیں۔"

    حضور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانی اخوت اور بھائی چارہ کے رشتہ کو توحید اور رسالت کی شہادت کے بعد مرتبہ دیا، کیونکہ توحید اور رسالت پر ایمان لے آنے کا نتیجہ یہی نکلتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ توحید کا تصور ہی انسانیت کے درمیان حقیقی مساوات کی بنیاد ہے کیونکہ جو لوگ زمین میں خدا بن کر بیٹھ گئے ہوں ان سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ ان لوگوں کو اپنا بھائی اور اپنے برابر قرار دے سکتے ہیں جو ان کو خدا سمجھتے اور ان کے سامنے سرنگوں ہوتے ہیں۔

    عقیدہ توحید تمام لوگوں کے درمیان مساوات قائم کرتا ہے، اس لیے کہ سب لوگ آدم کی اولاد اور ایک رب کے بندے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر اس حقیقت کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا کہ:

    "اے لوگو! تمھارا رب ایک ہے، تمھارا باپ ایک ہے۔ تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے پیدا ہوئے۔ کسی عربی کو عجمی پر اور سفید کو سیاہ پر کوئی فضیلت نہیں سوائے تقویٰ کے (ان اکرمکم عند الله اتقاکم) (تم میں اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ عزت دار شخص وہ ہے جو زیادہ تقویٰ والا ہے۔)"

    (الحجرات: 13)

    یہاں تک کہ حضور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنی ذات کو بال برابر عبودیت کے مقام سے بلند نہیں کیا اور اپنے آپ کو اللہ کا بندہ اور رسول کہا۔ خود قرآن نے آپ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:

    قل انما انا بشر مثلكم يوحى الى انما الهكم اله واحد

    (الکہف: 110)

    (اے نبی! فرما دیجئے، میں تو ایک انسان ہوں، تم ہی جیسا، میری طرف وحی کی جاتی ہے کہ تمھارا خدا بس ایک ہی خدا ہے۔)

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو اس غلو پر بھی متنبہ کیا جس میں سابقہ ادیان کے لوگ گرفتار ہو گئے تھے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

    "میری مدح میں ایسا مبالغہ نہ کرو جیسا نصاریٰ نے عیسیٰ ابن مریم کے بارے میں کیا، بلکہ کہو اللہ کا بندہ اور اس کا رسول۔"

    (بخاری و مسلم)

    توحید کا عقیدہ اور اس کی بنیاد پر قائم ہونے والے دوسرے عقائد، مثلاً اللہ کا ہر نقص سے پاک اور منزہ ہونا، اس کا ہر کمال سے متصف ہونا نیز ملائکہ پر ایمان، کتابوں اور رسولوں پر ایمان اور یوم آخرت پر ایمان، یہ تمام عقائد اسلامی زندگی کو صحیح رخ دیتے اور اس کی رہنمائی کرتے ہیں۔

    اسلامی معاشرہ عقیدہ اور نظریہ سے تشکیل پاتا ہے۔ لہذا وہ آزاد معاشرہ نہیں ہوتا بلکہ اس میں اسلامی نظریہ اور اسلامی عقیدہ رچا بسا ہوتا ہے۔ چنانچہ اسلامی معاشرے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اسلام کے رنگ میں رنگا ہوا ہو۔

    صبغة الله ومن احسن من الله صبغة و نحن له عابدون

    (البقرہ: 138)

    (اللہ کا رنگ اختیار کرو، اس کے رنگ سے خوب تر رنگ کیا ہو گا اور ہم اسی کے عبادت گزار ہیں)

    کیا مسلم معاشرہ میں اسلامی عقیدے کی اتنی بھی اہمیت نہ ہو جتنی اشتراکی معاشرہ میں مارکسی عقیدے کی! اشتراکی معاشرہ مارکسی عقیدے کو اپنے ثقافتی، اجتماعی اور سیاسی فلسفہ کی بنیاد سمجھتا ہے اور اس پر ہر وقت نظر رکھتا ہے۔

    کیا اسلامی معاشرہ میں اسلام کو صرف اتنا ہی مقام حاصل ہو کہ اس کا وجود برداشت کر لیا جائے۔ یعنی اگر کوئی اس پر ایمان لے آئے تو اس میں کوئی حرج نہ ہو اور اگر کوئی اسے ترک کر دے تو اس میں بھی کوئی حرج نہ ہو؟ کیونکہ لادینیت کے حامی یہ سمجھتے ہیں کہ دین اللہ کا ہے اور وطن سب کا ہے۔

    اگر ہم ایک اور پہلو سے دیکھیں تو اس صورت میں بھی یہی چیز سامنے آتی ہے کہ لادینیت اسلام کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں، کیونکہ اگر بفرض محال وہ نظری یا کلامی طور پر اسلام کے عقیدے کو تسلیم بھی کر لے تو وہ عملاً مسلمانوں کو اس امر کی اجازت نہیں دے گی کہ وہ زندگی میں اپنا طرز عمل اپنے عقیدے کے مطابق اختیار کریں یا اپنا زندگی کا نقطہ نظر اپنے ایمان کے مطابق اپنائیں۔ یہ حقیقت مندرجہ ذیل دو امور سے اچھی طرح واضح ہو جاتی ہے:

    1. اول: جب لادینیت اس امر کو رد کر دے گی کہ مسلمان اپنے عقیدے کو ایک دوسرے سے تعلق اور محبت کی بنیاد بنائیں تو وہ دینی رابطے کو کوئی اہمیت نہیں دے گی بلکہ انھیں کہے گی کہ وہ اپنے تمام معاشرتی اور سیاسی تعلقات خون، نسل، وطن، مٹی اور اسی طرح کے دیگر مادی عناصر کی بنیاد پر استوار کریں۔ اور یہ طرز فکر سراسر اسلام کے خلاف ہے، اس لیے کہ قرآن کریم نے اخوت کی اساس ایمان اور عقیدہ کو قرار دیا ہے۔ ارشاد ہوا ہے:

      انما المؤمنون اخوة

      (الحجرات: 10)

      (تمام مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں۔)

      اور فرمایا:

      فاصبحتم بنعمته اخوانا

      (آل عمران: 103)

      (تو تم اس کی نعمت سے بھائی بھائی بن گئے۔)

      اسلام ہر بات سے پہلے اس امر کو ضروری قرار دیتا ہے کہ اہل ایمان کی دوستی، محبت اللہ، اس کے رسول اور مومنوں کی جماعت سے ہو۔ قرآن کریم کا ارشاد ہے۔

      انما وليكم الله و رسوله والذين آمنوا الذين يقيمون الصلوة ويؤتون الزكوة وهم راكعون ومن يتول الله ورسوله والذين آمنوا فان حزب الله هم الغالبون

      (المائدہ: 55-56)

      (تمھارے ولی تو حقیقت میں صرف اللہ اور اللہ کا رسول اور اہل ایمان ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں، زکوۃ دیتے ہیں اور اللہ کے آگے جھکنے والے ہیں۔ اور جو اللہ اور اس کے رسول اور اہل ایمان کو ولی بنا لے اسے معلوم ہو جانا چاہیے کہ اللہ کی جماعت ہی غالب رہنے والی ہے۔)

      انسانی زندگی میں جو تعلق اسلام سے متصادم ہو خواہ وہ کتنا ہی قریبی اور کتنا ہی مضبوط ہو، اسلام اسے رد کرتا ہے۔ حتیٰ کہ اگر باپ، بیٹے، بھائی کا رشتہ بھی اسلام کے خلاف ہو تو اسلام اس کو تسلیم نہیں کرتا۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے:

      يا ايها الذين آمنوا لا تتخذوا آباء كم و اخوانكم اولياء ان استحبوا الكفر على الايمان ومن يتولهم فاولئك هم الظالمون

      (التوبہ: 23)

      (اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اپنے باپوں اور اپنے بھائیوں کو بھی اپنا ولی نہ بناؤ اگر وہ ایمان پر کفر کو ترجیح دیں۔ تم میں سے جو ان کو ولی بنائے گا وہ ظالم ہو گا۔)

      نیز ارشاد فرمایا:

      لا تجد قوما يؤمنون بالله واليوم الآخر يوادون من حاد الله ورسوله ولو كانوا آباء هم او ابناء هم او اخوانهم او عشيرتهم اولئك كتب في قلوبهم الايمان وايدهم بروح منه

      (المجادلہ: 22)

      (تم کبھی نہ پاؤ گے کہ جو لوگ اللہ اور آخرت پر ایمان رکھنے والے ہیں وہ ان لوگوں سے محبت کرتے ہوں جنھوں نے اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کی ہے خواہ وہ ان کے باپ ہوں یا ان کے بیٹے یا ان کے بھائی یا ان کے اہل خاندان۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان ثبت کر دیا ہے اور اپنی طرف سے ایک روح عطا کر کے ان کو قوت بخشی ہے۔)

      قرآن کریم ابو الانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مثال بیان کرتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب یہ علم ہو گیا کہ ان کا باپ اللہ کا دشمن ہے تو انھوں نے اس سے برات کا اظہار کر دیا۔ یہی موقف ان کا اور اہل ایمان کا اپنی قوم کے ساتھ تھا، کیونکہ ان کی قوم اللہ کی نافرمان اور اس سے روگردان تھی۔

      قد كانت لكم اسوة حسنة فى ابراهيم والذين معه اذ قالوا لقومهم انا برآء منكم و مما تعبدون من دون الله كفرنا بكم و بدا بيننا و بينكم العداوة والبغضاء ابدا حتى تؤمنوا بالله وحده

      (الممتحنہ: 4)

      (تم لوگوں کے لیے ابراہیم اور اس کے ساتھیوں میں اچھا نمونہ ہے کہ انھوں نے اپنی قوم سے صاف کہہ دیا تھا کہ ہم تم سے اور تمھارے ان معبودوں سے جن کو تم خدا کو چھوڑ کر پوجتے ہو قطعی بیزار ہیں۔ ہم نے تم سے کفر کیا اور ہمارے تمھارے درمیان ہمیشہ کے لیے عداوت ہو گئی اور بیر پڑ گیا جب تک تم اللہ واحد پر ایمان نہ لاؤ)

      اسی طرح جب حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے نے اپنے رب سے سرکشی اختیار کی تو اللہ تعالٰی نے فرمایا:

      انه ليس من اهلك انه عمل غير صالح

      (ہود: 46)

      (یہ تیرے گھر والوں میں سے نہیں ہے، یہ تو ایک بگڑا ہوا کام ہے۔)

      قرآن کریم نے متعدد آیات میں اہل ایمان کو متنبہ کیا کہ وہ اللہ کے دشمنوں سے دوستی اختیار نہ کریں یہاں تک کہ قرآن نے اس بات کو ارتداد کے مترادف قرار دیا ہے:

      ومن يتولهم منكم فانه منهم

      (المائدہ: 51)

      (اور اگر کوئی تم میں سے ان کو اپنا ولی بناتا ہے تو اس کا شمار بھی پھر انہی میں سے ہے۔)

      اس کے بعد فرمایا:

      يا ايها الذين آمنوا من يرتد منكم عن دينه فسوف ياتى الله بقوم يحبهم ويحبونه اذلة على المؤمنين اعزة على الكافرين

      (المائدہ: 54)

      (اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اگر تم میں سے کوئی اپنے دین سے پھر جائے تو اللہ اور بہت سے ایسے لوگوں کو پیدا کر دے گا جو اللہ کو محبوب ہوں گے اور اللہ ان کو محبوب ہو گا جو مومنوں پر نرم اور کفار پر سخت ہوں گے۔)

      اسلام اس بارے میں کسی طرح کی اجازت دینے کا روادار نہیں سوائے اس کمزوری اور ضعف کی حالت کے جب مومنوں کے لیے کافروں سے بچنے کی کوئی سبیل باقی نہ رہے اور وہ ان کے ظلم و ستم سے محفوظ رہنے کے لیے ان سے دوستی کا اظہار کریں مگر یہ بھی صرف ایک استثنائی قاعدہ ہے۔

      لا يتخذ المؤمنون الكافرين أولياء من دون المؤمنين و من يفعل ذلك فليس من الله في شيئى الا ان تتقوا منهم تقاة و يحذركم الله نفسه والى الله المصير

      (آل عمران: 28)

      (مومنین اہل ایمان کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا ولی اور یار و مددگار ہر گز نہ بنائیں، جو ایسا کرے گا اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں، اور ہاں یہ معاف ہے کہ تم ان کے ظلم سے بچنے کے لیے بظاہر ایسا طرز عمل اختیار کر جاؤ مگر اللہ تمھیں اپنے آپ سے ڈراتا ہے اور تمھیں اس کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔)

      مذکورہ بالا آیت میں کافروں کی دوستی سے مراد قلبی تعلق نہیں بلکہ مومنوں کو چھوڑ کر کافروں کا مددگار بننا اور ان کی صف میں کھڑا ہونا مراد ہے کیونکہ اگر قلبی دوستی مراد ہوتی تو اس کی قطعاً اجازت نہ ہوتی اس لیے کہ ایک کمزور شخص بھی نفرت اور کراہت دل میں چھپا سکتا ہے اور کوئی بھی اس کی اس قلبی ناپسندیدگی سے واقف نہیں ہو سکتا۔

    2. دوم: لادینیت ان تمام امور کو رد کرتی ہے جو اسلامی عقیدہ اہل اسلام پر لازم کرتا ہے کہ وہ اللہ کو تسلیم کریں اور بلا تردد اور بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اللہ کے احکام پر عمل کریں۔ یہی ایمان کا مقتضا اور اسلام کا اصل تقاضا ہے۔ قرآن کریم نے اسے بڑے صریح اور واضح الفاظ میں اس طرح بیان کیا ہے، کہ اس میں قطعاً کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہا۔ جیسا کہ قرآن کریم کا ارشاد ہے:

      وما كان لمؤمن ولا مؤمنة اذا قضى الله و رسوله امراً ان يكون لهم الخيرة من امرهم و من يعص الله و رسوله فقد ضل ضلالاً مبينا

      (الاحزاب: 36)

      (کسی مومن مرد اور کسی مومن عورت کو یہ حق نہیں ہے کہ جب اللہ اور رسول کسی معاملے کا فیصلہ کردے تو پھر اسے اپنے اس معاملہ میں خود فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل رہے، اور جو کوئی اللہ اور رسول کی نافرمانی کرے تو وہ صریح گمراہی میں پڑ گیا۔)

      نیز فرمایا:

      انما كان قول المؤمنين اذا دعوا الى الله ورسوله ليحكم بينهم ان يقولوا سمعنا واطعنا واولئك هم المفلحون

      (النور: 51)

      (ایمان لانے والوں کا کام تو یہ ہے کہ جب وہ اللہ اور اللہ کے رسول کی طرف بلائے جائیں تاکہ رسول ان کے مقدمہ کا فیصلہ کرے تو وہ کہیں کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی۔ ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔)

      اور مزید فرمایا:

      فلا و ربك لا يؤمنون حتى يحكموك فيما شجر بينهم ثم لا يجدوا في انفسهم حرجا مما قضيت و يسلموا تسليما

      (النساء: 65)

      (اے محمدؐ تمھارے رب کی قسم! یہ کبھی مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں۔ پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں کبھی کوئی تنگی محسوس نہ کریں بلکہ پوری طرح تسلیم کر لیں۔)

      اسلامی عقیدہ ہر مسلمان پر لازم قرار دیتا ہے کہ وہ اپنی زندگی اسلامی احکام کے مطابق استوار کرے اور اس کا اثر اس کے طرز فکر اور طرز عمل میں پوری طرح جلوہ گر ہو۔

      اس کے برعکس لادینیت یہ چاہتی ہے کہ اسلام ضمیر کی گہرائیوں میں چھپا رہے اور کار زار زندگی میں اس کا کوئی اثر نہ ہو، اور نہ وہ زندگی کے مقاصد اور مناہج پر اثر انداز ہو۔ اگر کہیں تھوڑا بہت اس کا اظہار ہو بھی تو وہ مسجد کی چار دیواری سے باہر نہ آنے پائے، بلکہ مسجد بھی لادینیت ہی کے تسلط میں رہے۔

      اسی بناء پر وہ مسلمان جو لادینیت پر مبنی نظام میں زندگی گزارتے ہیں، اپنے عقیدے اور عملی زندگی میں سخت تضاد محسوس کرتے ہیں۔ عقیدہ انھیں مشرق کی طرف کھینچتا ہے اور عملی زندگی مغرب کی طرف۔ عقیدہ جس شے کو حرام قرار دیتا ہے لادینیت اسے جائز سمجھتی ہے اور عقیدہ جس امر کو لازم قرار دیتا ہے لادینیت اسے فضول ٹھہراتی ہے۔ اس سے واضح ہوا کہ اسلام اور لادینیت زندگی کے دو بالکل متضاد نظریے ہیں۔ یہ کبھی ایک دوسرے سے مل کر نہیں رہ سکتے۔ ان دو سوکنوں کی طرح کہ اگر ایک کو راضی کرو تو دوسری ناراض ہو جائے گی یا ترازو کے پلڑوں کی طرح کہ ایک جتنا جھکتا جائے گا دوسرا اتنا ہی اوپر اٹھتا جائے گا۔

    سیکولرزم اور عبادت

    سیکولرزم اسلام کو بحیثیت عبادت اور شعائر رد نہیں کرتا، یعنی اگر کوئی مسلمان چاہے تو اللہ سے قریب ہونے کے لیے اس کی عبادت کر سکتا ہے کیونکہ سیکولرزم مذہبی آزادی کا قائل ہے لیکن سیکولرزم عبادت کو زندگی کا مقصد اور انسان کا اہم ترین فریضہ نہیں سمجھتا۔ جبکہ قرآن فرماتا ہے کہ:

    وما خلقت الجن والانس الا ليعبدون

    (الذاریات: 56)

    (میں نے جن و انس کو اسی لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔)

    سیکولرزم میں تربیت اور ثقافت کا نظام بھی عبادت کی بنیاد پر قائم نہیں ہوتا اور نہ وہ عبادت کے نظام کو معاشرے میں اس طرح موثر اور مضبوط بناتا ہے جس سے اس کے حقیقی اثرات ظاہر ہوں۔ سیکولرزم میں انسان کی اجتماعی اور اقتصادی زندگی اس طرح منظم نہیں کی جاتی کہ مسلمان بلا تردد اور بغیر کسی دشواری کے اپنے دینی فرائض اطمینان کے ساتھ بحسن و خوبی ادا کر سکیں۔ بلکہ جگہ جگہ تعلیم اور دیگر امور کا نظام العمل عبادات کے نظام الاوقات سے ٹکراتا رہتا ہے جس سے فرض عبادات کا بھی اپنے صحیح وقت پر ادا کرنا مشکل بلکہ بعض صورتوں میں ناممکن ہو جاتا ہے۔

    مزید برآں یہ کہ لادینی نظام میں عبادات کے ادا کرنے یا انھیں ترک کر دینے سے کسی انسان کے مرتبہ اور تعظیم میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بالخصوص قیادت اور اہم مناصب کے لیے موزوں امیدواروں کے انتخاب میں اس بات کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔ بالفاظ دیگر انسان کے ذاتی کردار اور اجتماعی کردار میں فرق ہوتا ہے جس کا اسلام قائل نہیں۔

    لادینی نظام عبادات کے کھلم کھلا ترک کر دینے پر کسی سے کوئی مواخذہ اور گرفت نہیں کرتا دراں حالیکہ نماز چھوڑ دینا، زکوٰۃ نہ دینا یا رمضان کے روزہ نہ رکھنا اسلامی شریعت کی رو سے ایسے جرائم ہیں جن کی سزا پر فقہاء کا اتفاق ہے، بلکہ اگر کوئی شخص استخفاف کے طور پر ان میں سے کسی رکن کا انکار کرے یا اس کو ادا نہ کرے تو فقہاء ایسے شخص کو مسلمان نہیں سمجھتے بلکہ وہ اسے کافر قرار دیتے ہیں۔

    زکوٰۃ جو اسلام کا اجتماعی مالی رکن ہے اور دولت مندوں سے لے کر فقراء کو لوٹائی جاتی ہے، لادینیت اسے اپنے مالی، اقتصادی اور اجتماعی نظام کا حصہ تسلیم نہیں کرتی بلکہ لادینی نظام میں یہ شخصی عبادت ہے جس کا جی چاہے ادا کرے اور جس کا جی چاہے نہ ادا کرے۔ لیکن جو کرے گا اسے حکومت کے مقرر کردہ دوسرے تمام ٹیکس بھی ادا کرنے پڑیں گے۔

    سیکولرزم اور اخلاق

    عقیدہ، اسلام اور عبادات کے بارے میں سیکولرزم کا موقف بیان ہوا، اب یہ دیکھئے کہ اخلاق کی نسبت وہ کیا کہتا ہے!

    اولاً تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ سیکولرزم کو اسلام کے اخلاقی پہلو پر کوئی اعتراض نہیں، کیونکہ اخلاق پر معاشرے کی اساس اور ہر ترقی کی بنیاد ہوتی ہے۔ انسان جو ترقی کا محور اور تہذیب کا معمار ہے اس کی انسانیت ہی فضائل اور اخلاق پر استوار ہوتی ہے۔ جیسا کہ شوقی کا مشہور شعر ہے:

    وانما الامم الاخلاق ما بقيت
    فان همو ذهبت اخلاقهم، ذهبوا

    (قومیں اخلاق سے زندہ رہتی ہیں۔ اخلاق ختم ہو جائے تو قو میں بھی ختم ہو جاتی ہیں۔)

    غرض بظاہر اخلاق کے بارے میں اسلام اور سیکولرزم میں کوئی اختلاف نظر نہیں آتا لیکن حقیقت یہ ہے کہ دو مقامات ایسے ہیں جہاں اخلاق کے بارے میں اسلام کے نقطہ نظر اور سیکولرزم کے موقف میں صریح اختلاف ہے۔

    1. اول: مرد و زن کے تعلقات کا دائرہ کہ اس دائرے میں اسلام کی اخلاقی تعلیمات مغربی تہذیب کی اخلاقیات سے قطعاً مختلف ہیں، اور سیکولرزم قدم بقدم مغربی تہذیب کے اخلاق کا پیروکار ہے۔

      اسلام نہ صنفی جبلت کو دباتا ہے نہ اسے بالکل آزاد چھوڑتا ہے اور نہ اسے گندگی اور برائی قرار دیتا ہے، بلکہ اسے قانونی نکاح کے دائرے میں لاکر تعمیری رخ دیتا ہے کہ زن و شو ایک دوسرے سے آرام و سکون اور مودت پائیں اور ایک ترقی یافتہ معاشرے کی اساس کے طور پر خاندان کو وجود میں لائیں۔

      اس متعین دائرے سے باہر ہر جنسی تعلق کو اسلام حرام قرار دیتا ہے اور اسے زنا اور شذوذ اور بے رہروی سمجھتا ہے جس سے اللہ تعالٰی ناراض ہوتا ہے اور معاشرے میں انحلال اور فساد پھیلتا ہے۔

      ولا تقربوا الزنى انه كان فاحشة وساء سبيلا

      (الاسراء: 32)

      (زنا کے قریب نہ پھٹکو وہ بہت برا فعل ہے اور بڑا ہی برا راستہ ہے۔)

      اسلام ان تمام وسائل اور ذرائع کو بھی حرام قرار دیتا ہے جن سے بے حیائی پھیلتی ہو۔ مومنوں کو پاکدامنی، عفت اور نظریں جھکانے کی تعلیم دیتا اور خواتین کو پردے کے اہتمام اور گفتگو، لباس، اور حرکت و عمل نیز چلنے میں وقار اختیار کرنے کی تلقین کرتا ہے۔

      فلا تخضعن في القول فيطمع الذي في قلبه مرض و قلن قولاً معروفا

      (الاحزاب: 32)

      (تو دبی زبان سے بات نہ کیا کرو کہ دل کی خرابی کا مبتلا کوئی شخص لالچ میں پڑ جائے بلکہ صاف سیدھی بات کرو۔)

      ولا يبدين زينتهن الاماظهر منها و ليضربن بخمر هن على جيوبهن ... ولا يضربن بارجلهن ليعلم ما يخفين من زينتهن

      (النور: 31)

      (وہ اپنا بناؤ سنگھار ظاہر نہ کریں بجز اس کے جو خود بخود ظاہر ہو جائے، اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں۔ وہ اپنے پاؤں زمین پر مارتی ہوئی نہ چلا کریں کہ اپنی جو زینت انھوں نے چھپا رکھی ہو اس کا لوگوں کو علم ہو جائے۔)

      اسلام نے مرد کے اجنبی عورت کے ساتھ تنہائی میں اکٹھے ہونے کو حرام قرار دیا ہے اور عورت کو محرم کے بغیر تنہا سفر کرنے سے بھی روکا ہے۔

      مغرب پسند لادینیت کے حامی اسلام کے ان احکام و ہدایات کو خوش آمدید نہیں کہتے۔ ان کی رائے میں معاشرے پر ایسی پابندیاں عائد کرنا صحیح نہیں، بلکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہر دو صنف کو آزاد چھوڑ دینا چاہیے تاکہ وہ اپنی شخصی آزادی کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنا راستہ خود مقرر کریں۔

      اس موضوع پر اسلام اور سیکولرزم میں صریح تصادم کی کیفیت موجود ہے، کیونکہ اسلام فحش گانوں، جذبات انگیز تصویروں، عریاں کہانیوں اور فتنہ انگیز لباس سے منع کرتا ہے اور ہر طرح کے بناؤ سنگھار کے اظہار، جذبات کے بھڑکانے والے طور طریقوں اور مرد و زن کی بے محابا ملاقاتوں سے روکتا ہے۔ اسلام کی اصل سعی یہ ہے کہ نکاح کی دشواریاں اور رکاوٹیں دور کی جائیں اور ازدواج کو سہل بنایا جائے تاکہ لوگ حلال چھوڑ کر حرام کی طرف نہ جائیں۔

      لادینیت کی نظر میں یہ کوئی حل طلب مسئلہ نہیں۔ اس کی نظر میں صنفین کے اختلاط میں کوئی حرج نہیں، کیونکہ ترقی یافتہ معاشرے اسے کوئی برائی نہیں سمجھتے۔ لادینیت کے حامیوں کا خیال ہے کہ مرد و عورت کے جنسی تعلق کے بارے میں اسلام کا یہ موقف بڑا سخت اور غیر لچک دار ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ داعیان اسلام "نفسیاتی الجھن کا شکار" ہیں۔ وہ اس مسئلہ کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں اور اسے ضرورت سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔

      حقیقت یہ ہے کہ اہل اسلام تو صرف اس چیز کو حلال سمجھتے ہیں جسے اللہ نے حلال قرار دیا ہو اور اس شے کو حرام سمجھتے ہیں جسے اسلام نے حرام قرار دیا ہو۔ اور ان کے نزدیک صرف وہی چیز ضروری ہے جسے اسلام نے ضروری قرار دیا ہو۔ اور ظاہر ہے کہ ایک مسلم کا یہی موقف ہونا چاہیے۔

    2. دوسرا امر: لادینیت کے حامی سمجھتے ہیں کہ اخلاق کا دین سے کوئی تعلق نہیں۔ ان کے نزدیک اخلاق کی عمارت فلسفیانہ اصولوں اور عملی بنیادوں پر استوار ہوتی ہے، دین کی تعلیمات کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ چنانچہ ان کے یہاں دینی اخلاق قابل اعتراض اور تمدنی اخلاق پسندیدہ اور قابل تعریف چیز ہے۔

    سیکولرزم اور شریعت

    سب سے اہم پہلو جس میں سیکولرزم بہت شدت سے اسلام سے متصادم ہے وہ اسلامی شریعت اور اسلام کا قانونی پہلو ہے۔

    بعض لادینیت پسند حضرات ذرا نرم رویہ اختیار کر کے اسلامی قوانین کے اس حصے کو گوارا کر لیتے ہیں جس کا تعلق نکاح و طلاق اور میراث اور عائلی امور سے ہے، جس کو مجموعی طور پر "احوال شخصیہ" کہا جاتا ہے، کیونکہ ان قوانین کا تعلق مذہبی آزادی یا انسان کی ذات سے ہے۔

    "عائلی قوانین" کی حد تک اسلامی شریعت کو برداشت کرنا بھی در حقیقت لادینی حلقوں کی جانب سے اہل اسلام پر ایک احسان ہے۔ ورنہ فی الواقع سیکولرزم اسلامی شریعت کو قطعاً برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں، حتیٰ کہ احوال شخصیہ میں بھی نہیں۔ کیونکہ اس کے نزدیک دین انسان کے ضمیر یا مسجد کے دائرے میں مسدود رہنے والا ایک امر ہے۔ چنانچہ اتاترک کی لادینیت نے اسلامی شریعت کو زندگی کے ہر پہلو سے نکال دیا تھا حتیٰ کہ احوال شخصیہ سے بھی، یہاں تک کہ طلاق اور تعدد ازدواج کے قوانین ممنوع قرار دے دیے گئے۔ میراث میں لڑکے اور لڑکی کا حصہ مساوی ہو گیا۔

    غرض شریعت کے قطعی امور اور دین اسلام کی صریح خلاف ورزی کی گئی۔ شمالی افریقہ میں بعض عرب ممالک کے لادینی حکمران نکاح و طلاق میں اتاترکی لادینیت کے مقلد ہیں اور اسی کی تقلید میں قانون میراث کو از سر نو منظم کرنا چاہتے ہیں مگر رائے عامہ کا دباؤ ان کے سامنے رکاوٹ بنا ہوا ہے۔

    لادینیت پسند حلقے یہ سمجھتے ہیں کہ قانون سازی معاشرے کا حق ہے اور اسی کو یہ اختیار ہے کہ وہ جیسے چاہے قانون بنائے ۔ اسلام کا یہ حق نہیں کہ وہ لوگوں کو اپنی پسند کے قانون بنانے سے روکے اور انھیں یہ بتائے کہ کون سی چیز حلال ہے اور کون سی حرام یعنی لادینیت قانون سازی کا مطلق حق اللہ سے چھین کر انسانی مخلوق کو دے دینا چاہتی ہے اور اس طرح اس کی کوشش یہ ہے کہ انسان اللہ کے بالمقابل آ جائے، بلکہ وہ یہ چاہتی ہے کہ انسان کا حکم اللہ کے کلمے سے بلند ہو جائے۔ وہ اللہ کا اختیار و اقتدار سلب کر کے انسان کو دے دینا چاہتی ہے۔ اس طرح انسان اپنے جیسے دوسرے انسانوں کا رب بن جاتا ہے کہ جو چاہے حکم کرے اور جس طرح چاہے لوگوں کے درمیان فیصلہ کرے۔

    لادینیت اس بات کی تو معترف ہے کہ کائنات کا خالق اللہ ہے لیکن اس امر کا اعتراف نہیں کرتی کہ کائنات میں حکم بھی اسی کا نافذ ہے۔ جبکہ اسلام کہتا ہے کہ خلق اور امر دونوں ہی اللہ کے لیے ہیں۔

    الاله الخلق والامر تبارك الله رب العالمين

    (الاعراف: 54)

    (خبردار رہو کہ اس کی خلق ہے اور اسی کا امر۔ بڑا بابرکت ہے اللہ سارے جہانوں کا مالک و پروردگار)

    لادینیت اگر فراخ دلی سے کام لیتے ہوئے اللہ کے قانون سازی کے حق کا اعتراف بھی کرتی ہے تو ساتھ ہی بغیر کسی دلیل کے انسان کو یہ حق بھی دیتی ہے کہ وہ اللہ کا قانون منسوخ کر دے، اللہ کے حرام کیے ہوئے کو حلال قرار دے لے، اللہ کے حلال کیے ہوئے کو حرام قرار دے لے، اللہ کے فرائض کو ساقط کر دے اور اس کی شریعت کو معطل کر دے۔

    دراصل لادینیت اللہ کی شان الوہیت سے پوری طرح آشنا ہی نہیں۔ وہ اس بات کو عقل سے دور سمجھتی ہے کہ تغییر زمان و مکان کے ساتھ انسان جن حالات و حوادث سے گزرتا ہے اللہ ان سب سے واقف ہے اور اس نے ان تمام تغییرات کو سامنے رکھ کر ایسے احکام و اصول دیے ہیں جو ہر دور، ہر زمانے اور ہر مقام کے رہنے والوں کے لیے موزوں ہیں اور ان سے افراد ہوں یا معاشرہ سب کے مصالح کی تکمیل ہوتی ہے اگرچہ ان احکام و اصول پر چودہ سو برس گزر گئے ہیں۔

    اسلام اس راسخ عقیدہ پر قائم ہے کہ اللہ ہی عظیم ہے، اس سے کوئی شے پوشیدہ نہیں، آسمان و زمین، ماضی و حاضر اور مستقبل کی کوئی شے اس کے حیطہ علم سے باہر نہیں۔

    وماتكون في شان وما تتلوا منه من قرآن ولا تعملون من عمل الاكنا عليكم شهودا اذ تفيضون فيه و ما يعزب عن ربك من مثقال ذرة في الارض ولا في السماء ولا اصغر من ذلك ولا اكبر الا في كتاب مبین

    (یونس: 61)

    (اے نبیؐ تم جس حال میں بھی ہوتے ہو اور قرآن میں سے جو کچھ بھی سناتے ہو، اور لوگو! تم بھی جو کچھ کرتے ہو اس سب کے دوران میں ہم تم کو دیکھتے رہتے ہیں۔ کوئی ذرہ برابر چیز آسمان اور زمین میں ایسی نہیں نہ چھوٹی نہ بڑی، جو تیرے رب کی نظر سے پوشیدہ ہو اور ایک صاف دفتر میں درج نہ ہو۔)

    اسلامی ممالک میں شریعت لادینیت پسندوں کی دشمن نمبر ایک ہے اس لیے کہ اسلامی شریعت ہی اسلام کو نظریات اور تصورات کی دنیا سے نکال کر واقعی اور عملی دنیا میں لاتی ہے اور معاشرے کو ایسا قانونی حصار مہیا کرتی ہے جس سے وہ دشمنوں کی عداوت سے محفوظ رہتا ہے، جیسا کہ تیسرے خلیفہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ:

    "اللہ تعالٰی اقتدار کے ذریعہ ان باتوں کا سدباب کر دیتا ہے جن کا سدباب قرآن سے نہیں ہوتا۔"

    لادینیت پسند لوگوں کو سب سے زیادہ تکلیف اسلامی شریعت سے ہے بالخصوص اسلامی شریعت کے ان پہلوؤں سے جو مغربی تہذیب کے فلسفہ قانون نیز فرد اور معاشرے کے بارے میں اس کے نقطہ نظر سے متصادم ہیں مثلاً سود کی حرمت، زنا اور مے نوشی کی ممانعت نیز جرائم کی سزائیں جیسے ہاتھ کاٹنا اور کوڑے لگانا وغیرہ۔

    لادینیت اس وضعی قانون کو تو تسلیم کرتی ہے جس کا نہ ہماری سرزمین سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہماری تاریخ میں اس کی کوئی بنیاد کہیں موجود ہے اور نہ اسے قبول عام حاصل ہے، لیکن اس شریعت کو رد کرتی ہے جس کو امت کی غالب اکثریت بطور عقیدہ مانتی ہے کہ یہ من جانب اللہ، اور عدل و انصاف پر مبنی ہے اور کمال و دوام کے اوصاف سے متصف ہے۔ افراد امت اگر اس کی خلاف ورزی کریں تو وہ اپنے آپ کو گنہگار محسوس کرتے ہیں اور اپنے آپ کو دنیا اور آخرت میں اللہ کے عذاب کی وعید کا مخاطب سمجھتے ہیں۔

    سیکولرزم اور نفاذ شریعت

    ایک قدیم عربی شاعر کا قول ہے:

    وليس يصح في الاذهان شيء
    اذا احتاج النهار الى دليل

    (اگر دن کا وجود ثابت کرنے کے لیے بھی دلیل لانی پڑے تو انسان کے ذہن میں کوئی صحیح شے باقی نہیں رہ سکتی)

    ظاہر ہے کہ کسی کو چمکدار اور روشن دن کے وجود کا قائل کرنا، جب کہ سورج بغیر کسی غبار اور بادل کے نکلا ہوا ہو، بہت ہی دشوار کام ہے۔ اسی بنا پر کہا جاتا ہے کہ جو شے خود ہی واضح ہو اس کا ثابت کرنا مشکل ہے۔ ہمیں ڈاکٹر فواد زکریا کے بارے میں بھی واضح اور روشن بات ثابت کرنے کی دشواری در پیش ہے کیونکہ ڈاکٹر موصوف اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ اسلام میں کوئی منزل من اللہ شریعت بھی ہے۔

    نفاذ شریعت کی ضرورت

    ڈاکٹر فواد زکریا نے اپنے دو بنیادی سوالوں میں سے پہلا سوال یہ اٹھایا ہے کہ اسلامی شریعت کے نفاذ کی دعوت کیوں دی جا رہی ہے، اس کی ضرورت کیا ہے؟

    اور خود ہی ڈاکٹر صاحب نے اس سوال کا وہ جواب دیا ہے جو شریعت کے حامی اور اسلام کے داعی ایسی مضبوط منطق کے ساتھ دیتے ہیں جس سے کوئی مومن راہ فرار نہیں پا سکتا اور نہ کوئی متکبر اسے رد کر سکتا ہے جیسا کہ خود موصوف نے تسلیم کیا ہے، چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ:

    "اس سوال کا تیار جواب جو اس دعوت کا ہر پرجوش حامی دیتا ہے، وہ یہ ہے کہ شریعت کا نفاذ اس لیے ضروری ہے کہ شریعت اللہ کی نازل کردہ ہے جبکہ وضعی قوانین انسانوں کے بنائے ہوئے ہیں۔ جن لاکھوں انسانوں کے دلوں میں اس دعوت کی صدا گونج رہی ہے ان کی سادہ سی منطق یہ ہے کہ اس امر کا کوئی جواز نہیں کہ ہم اللہ کے نازل کردہ قانون اور انسان کے بنائے ہوئے قانون میں موازنہ کریں۔ انسان بہت کمزور اور ضعیف ہے۔ اس ازلی کائنات میں انسان کی عمر ایک لمحہ گزران کی حیثیت رکھتی ہے اور اس کا وجود اس وسیع و عریض کائنات میں ایک ذرہ کی طرح ہے کہ کائنات کی وسعتیں لاکھوں نوری سال تک پھیلی ہوئی ہیں۔ اگر ہم خالق کائنات کی وحی کردہ شریعت رکھتے ہوں تو ہم اسے کمزور و ضعیف انسان کے وضع کردہ قانون کے کس طرح مساوی قرار دے سکتے ہیں اور کیا ہم ایک لمحہ کے لیے ان دونوں میں سے شریعت کے انتخاب میں تردد کر سکتے ہیں؟"

    بلاشبہ یہ واضح اور کھلی منطق ہے اور ایک عام انسان کی نظر میں اس دلیل پر اعتراض بھی مشکل ہے بلکہ اس دلیل کی قوت تاثیر تو بدیہی امور کی وضاحت و تاثیر سے بھی زیادہ ہے۔ اس منطق کی تاثیری قوت میں ہماری پسماندگی اور انحطاط کی حالت سے مزید اضافہ ہو جاتا ہے کہ جس قدر اقتصادی، اجتماعی اور سیاسی مسائل و مشکلات کا بوجھ بڑھتا جاتا ہے اسی قدر اس دلیل کا وزن بڑھتا جاتا ہے، اور کہا جاتا ہے کہ انسان کے بنائے ہوئے قانون کی حکمرانی اور اللہ کے راستے سے دور ہو جانے کے باعث ہم ان مصائب میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ اگر ہم اپنے آپ کو ذلت کے گڑھے میں گرنے سے بچانا چاہتے ہیں تو ہمیں اللہ کے راستے پر چلنا چاہیے اور نتائج کا خود مشاہدہ کرنا چاہیے۔

    ڈاکٹر موصوف نے خود ہی اس امر کا اقرار کیا ہے کہ اسلام کی منطق زیادہ صریح اور واضح ہے اور اس میں قائل کرنے اور تاثیر کی زیادہ قوت موجود ہے بالخصوص ان پر مصائب حالات میں جن کی شدت روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ مگر اس کے باوجود وہ اس دلیل کی قوت و تاثیر اور اس کی بدیہی وضاحت سے صاف بچ کر نکل گئے اور ماہر فلسفہ ہونے کے باوجود اس سطح پر پہنچ گئے جسے غزالی نے "تہافت" یعنی پستی کی طرف گرنا اور بے وزن ہونا کہا ہے۔ اس میں ڈاکٹر موصوف کی کمزوری کو دخل نہیں کیونکہ ڈاکٹر صاحب تو قلم کے دھنی اور اپنے فن کے ماہر ہیں، بلکہ اس تہافت کی وجہ درآمد شدہ لادینیت کے تصور کی کمزوری ہے۔ کیونکہ کہا جاتا ہے کہ حق مضبوط و واضح ہوتا ہے اور باطل کمزور و مشتبہ۔ کسی شاعر کا شعر ہے:

    اذا جاء موسى و القى العصا
    فقد بطل السحر و الساحر

    (جب موسیٰ آئے اور اپنا عصا زمین پر ڈالا تو جادو اور جادو گر باطل قرار پائے۔)

    اب ہم غور و تامل اور منصفانہ نقطہ نظر سے ڈاکٹر صاحب موصوف کی اس عبارت کا جائزہ لیتے ہیں جو انھوں نے مذکورہ فطری اور واضح منطق پر گرفت کے سلسلے میں پیش کی ہے، تاکہ ہمیں ان دلائل کا معیار معلوم ہو سکے جو ڈاکٹر صاحب یہ ثابت کرنے کے لیے بیان کرتے ہیں کہ اسلامی شریعت من جانب اللہ نہیں:-

    "یقیناً اگر ہمارے سامنے مسئلہ یہ ہو کہ اللہ کے حکم کو مانا جائے یا انسانی حکم کو اختیار کیا جائے تو معاملہ قطعی طور پر طے شدہ ہے ۔ مگر بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا فی الواقع ہمارے سامنے یہی مسئلہ ہے کہ اللہ کی شریعت اختیار کی جائے یا بندوں کا بنایا ہوا قانون اپنایا جائے؟ میری رائے میں مسئلہ در حقیقت یہ نہیں اور میری اس رائے کی دو وجوہ ہیں:

    1. پہلی: یہ کہ اس بات کو سب مانتے ہیں کہ اسلامی شریعت کے اکثر احکام ایسے اصولوں پر مشتمل ہیں جو شدید عمومیت کے حامل ہیں۔ ان اصولوں کو ہر زمانے کے حالات کے مطابق صحیح صورت میں نافذ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ان سے متعلق قواعد پوری وضاحت اور تفصیل کے ساتھ مرتب کیے جائیں جس کے لیے بڑی محنت درکار ہے ۔ علاوہ ازیں یہ بھی حقیقت ہے کہ جس قدر زندگی کی پیچیدگیاں بڑھتی جاتی ہیں اسی نسبت سے ان تفصیلی قواعد کی اہمیت بھی بڑھتی جاتی ہے ۔

      صاف ظاہر ہے کہ ہمارا دور تاریخ انسانی میں سب سے زیادہ پیچیدگیوں کا حامل دور ہے جس کی وجہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی حیران کن ترقی ہے، اس ترقی نے انسانی زندگی اور اس کے احوال پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ چنانچہ اب انسانی زندگی کو ایسے تغیرات کا سامنا ہے جن کا اس سے پہلے کبھی نہیں تھا ۔ اس لحظہ بہ لحظہ بدلتے ہوئے دور میں جو معاشرہ زندہ رہنا چاہتا ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس دور کے حالات سے ہم آہنگی پیدا کرے اور دین کے عمومی اصولوں کو واقعی اور عملی شکل میں نافذ کرنے کے لیے اپنی تمام کوششیں بروئے کار لائے۔

      ہم اس کی یہاں دو مثالیں پیش کرتے ہیں: پہلی یہ کہ اسلام کا اصول "احسان" جسے سب مانتے ہیں اور قرآن مجید کی بہت سی آیات میں جس پر زور دیا گیا ہے، اس کا مقصد مال دار لوگوں کو یہ احساس دلانا ہے کہ ان کے مال میں ناداروں کا بھی حق ہے۔

      مطلب یہ ہے کہ معاشرے میں غریبوں محتاجوں کو اتنی معیشت کی ضمانت حاصل ہونی چاہیے جس سے وہ اپنی گزر اوقات بآسانی کر سکیں ۔ علاوہ ازیں اسلام کے اس بنیادی اصول کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ معاشرے میں عدل اجتماعی کا عمل کسی نہ کسی صورت میں ضرور بروئے کار آنا چاہیے ۔ لیکن جدید معاشروں کی پیچیدگیوں اور ہزاروں لاکھوں کی آبادی پر مشتمل شہروں میں غریبوں اور امیروں کے درمیان براہِ راست تعارف اور رابطہ موجود نہ ہونے کے باعث اب ہمارے لیے اس کے سوا چارہ نہیں کہ ہم اصول احسان کی عمومی روح کو اپنائیں اور اس کے مطابق اپنا طرز عمل متعین کریں ۔ یعنی غریبوں اور امیروں کے درمیان معاشی تفاوت کی جو وسیع خلیج حائل ہے اسے پاٹنے کی کوشش کریں ۔ اور وسائل کی تخصیص و تعیین اس صورت میں کی جائے کہ غیر معمولی پیچیدگیوں کے حامل موجودہ معاشروں میں عدل اجتماعی کا نظام جس صورت میں قائم کیا جا سکتا ہو، اسی صورت میں قائم کیا جائے۔

      اسی طرح اصول احسان کے عملی نفاذ کی ایک صورت تو یہ ہے کہ مال دار لوگ غریبوں کو براہِ راست صدقہ دیں (اگرچہ جدید معاشروں میں اس صورت کو چنداں قابل عمل خیال نہیں کیا جاتا) اور دوسری یہ کہ مال داروں کو ایسے وسائل کی ملکیت حاصل کرنے سے روک دیا جائے جن کے ذریعے وہ غریبوں اور کمزوروں کا استحصال کرتے ہیں۔ ان دونوں صورتوں اور اسی طرح مسئلے کے جو دیگر حل ہو سکتے ہیں، ان کے درمیان بے شمار اختلافات پائے جاتے ہیں جن کی نہ کوئی ابتدا ہے نہ انتہا۔ یہ تمام اختلافات خالصتاً بشری سوچ کا نتیجہ ہیں لیکن انھیں عام دینی اصول احسان کے تحت بیان کیا جا سکتا ہے۔

      دوسری مثال شوریٰ کے مفہوم کی ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ شوریٰ کی نوعیت میں اور اس بات میں کہ شوریٰ حاکم کے لیے لازمی امر ہے یا اختیاری خاصا اختلاف ہے۔ لیکن اس سے بھی اہم تر بات یہ ہے کہ خود شوریٰ کا اصول مختلف تعبیرات کا حامل ہے اور اس میں اس صورت سے لے کر کہ حاکم بطور مشورہ اپنے قریبی وزراء اور امراء کے کان میں چپکے سے کوئی بات کہے، ایسے صاف ستھرے انتخابات کے انعقاد تک جن کے ذریعے قوم کے ایسے حقیقی نمائندے منتخب ہوں جو حاکم کے تمام تصرفات پر نظر رکھیں اور اس کے لیے ایسے قواعد و ضوابط مرتب کریں جن سے وہ تجاوز نہ کر سکے، تمام امور شامل ہیں۔ ان تمام صورتوں میں شوریٰ کا انہی اصول تو ایک ہی ہے لیکن اس کی تعبیرات مختلف ہیں اور ان تمام تعبیرات کا وجود انسانی کاوشوں کا رہین منت ہے۔

    2. دوسری بنیاد: جس کی وجہ سے میں یہ کہتا ہوں کہ ہمارے سامنے حکم الٰہی اور انسانی قانون کے درمیان انتخاب کا مسئلہ نہیں یہ ہے کہ آیت قرآنی کی تشریح قرآن نہیں کرتا اور نہ ہی قرآن اپنی تطبیق خود کرتا ہے بلکہ انسان اس کی تعبیر و تشریح اور تطبیق کرتا ہے۔ انسانی تعبیر و تطبیق کے اس عمل میں انسانی مصالح اور ان کے گردو پیش کے اثرات اور خواہشات بھی داخل ہو جاتی ہیں۔ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کے زمانہ میں قانون من جانب اللہ تھا اور اس کی تشریح و تطبیق بھی من جانب اللہ تھی کیونکہ جو ذات تعبیر و تطبیق کی مکلف تھی وہ من جانب اللہ مبعوث تھی۔ یہی وہ دور ہے جس میں الٰہی حکم اور بشری حکم کے درمیان موازنہ کیا جا سکتا ہے۔ اس کے بعد کے ادوار میں انسان کی تعبیر و تطبیق میں انسانی کمزوریاں اور نفسانی خواہشات داخل ہو گئیں اور جو بھی شرعی نص واقعی وجود میں سامنے آئی وہ انہی کے توسط سے سامنے آئی اور یہی وجہ ہے جو مختلف نظاموں کے درمیان شدید ترین اختلاف کا سبب ہے جبکہ ہر ایک کا دعویٰ ہے کہ وہی شریعت کی صحیح معنوں میں تطبیق کر رہا ہے۔

      ہم اس سے کیا نتیجہ اخذ کریں ؟ نتیجہ ہر ذی شعور کے سامنے واضح ہے کہ نفاذ شریعت کے دعوے کے اصل مقصود کا حصول ناممکن ہے۔ کیونکہ نفاذ شریعت کے داعی اصلاح کی حقیقی تمنا کے تحت ہر قانون سے بلند تر قانون یعنی اللہ کے قانون کو اختیار کر کے انسانی کمزوریوں اور کوتاہیوں سے بچنا چاہتے ہیں، مگر دشواری یہ ہے کہ اللہ کے قانون کو اختیار کر کے بھی انسانی کمزوریاں اور کوتاہیاں اور انسانوں کا فساد و انحلال ہمارے ساتھ ساتھ رہتا ہے اور اگر ہم اسے دروازے سے باہر نکالتے ہیں تو وہ کھڑکی سے اندر آ جاتا ہے۔

      حکمرانی کا عمل بہرحال ایک انسانی عمل ہے اور جب اسے انسان انجام دیں گے تو اس میں ان کے جذبات اور میلانات ضرور شامل ہوں گے خواہ وہ کسی حکم الٰہی کے مطابق ہی عمل کر رہے ہوں۔ اگر کسی کو اس بات میں شک ہے تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تمام تاریخی ادوار میں اسلامی دنیا میں شریعت کی تطبیق کا جائزہ لے لے، اسے معلوم ہو جائے گا کہ کسی دور میں بھی لوگ اپنی طبیعت سے آزاد نہیں ہو سکے اور نہ اپنے ذاتی افعال سے نفاذ شریعت کو جدا رکھ سکے۔"

    علمی جواب

    اب ہم ڈاکٹر موصوف کے ان دلائل کا جائزہ لیتے ہیں جن پر اعتماد کر کے انھوں نے شدت کے ساتھ اس بات سے انکار کیا ہے کہ اسلام ایک ایسی شریعت ہے جو من جانب اللہ ہے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اسلامی شریعت انسانی قانون کی طرح انسانی عمل ہے۔

    حقیقت یہ ہے کہ میں نہیں سمجھتا تھا کہ کوئی شخص باطل میں اس قدر بھٹک سکتا ہے اور اس طرح کرم خوردہ عصا کا سہارا لے سکتا ہے جیسا کہ ڈاکٹر موصوف نے لیا ہے۔

    مجھے نہیں معلوم کہ انھوں نے کس طرح کے فریب کا شکار ہو کر تمام امت مسلمہ پر کم عقلی اور جہالت کا الزام عائد کر دیا ہے۔ حالاں کہ امت مسلمہ کے تمام فرقے اور تمام مسالک کے لوگ گزشتہ چودہ سو سال سے یہی سمجھ رہے ہیں کہ اسلام اللہ کی نازل کردہ شریعت ہے۔ عمل کرنے والے اس کے مطابق عمل کرتے رہے اور انحراف کرنے والے اس سے انحراف بھی کرتے رہے۔ یہاں تک کہ اہل فلسفہ بھی، جن کے بارے میں پروفیسر صاحب ضرور واقفیت رکھتے ہوں گے، انسانی حکمت اور اللہ کی شریعت کے درمیان تعلق اور ربط بیان کرتے رہے۔

    معلوم نہیں پھر ان قرآنی آیات کا کیا مطلب ہے جن میں اللہ کے نازل کردہ احکام کے مطابق حکمرانی اور فیصلہ کا حکم دیا گیا ہے اور فرمایا گیا ہے کہ جو اللہ کے نازل کردہ احکام کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہ کافر، ظالم اور فاسق ہیں۔

    اس صورت میں درج ذیل آیت کا مفہوم کیا ہو گا؟

    وان احكم بينهم بما انزل الله ولا تتبع اهواء هم و احذرهم ان يفتنوك عن بعض ما انزل الله اليك

    (المائدہ: 49)

    (پس اے نبیؐ، تم اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق ان لوگوں کے معاملات کا فیصلہ کرو اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کرو، ہوشیار رہو کہ یہ لوگ تمھیں فتنہ میں ڈال کر اس ہدایت سے ذرہ برابر منحرف نہ کرنے پائیں جو خدا نے تمھاری طرف نازل کی ہے۔)

    اگر اللہ تعالٰی نے کوئی متعین احکام نازل نہیں فرمائے بلکہ ایسے اصول نازل کیے ہیں جو بے حد عام ہیں اور ہم ان سے متعین شریعت اور واضح ہدایت اخذ نہیں کر سکتے تو اللہ تعالٰی نے قرآن کریم کو کتاب مبین کیوں کہا ہے اور اسے نور، بیان، برہان اور فرقان کیوں قرار دیا ہے؟ اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے یہ کیوں فرمایا:

    وانزلنا اليك الذكر لتبين للناس مانزل اليهم ولعلهم يتفكرون

    (النحل: 44)

    (اور ہم نے یہ ذکر تم پر نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کے سامنے اس تعلیم کی تشریح و توضیح کرتے جاؤ جو ان کے لیے اتاری گئی ہے اور تاکہ لوگ غور و فکر کریں۔)

    قرآن کریم نور، بیان اور برہان کس طرح ہو سکتا ہے اگر اس میں ایسے بے حد عمومیت کے حامل غیر واضح اصول بیان کیے گئے ہوں جن سے کوئی حکم اور شریعت اخذ نہ کی جا سکے۔

    اگر ڈاکٹر صاحب اس بارے میں جدید مصنفین مثلاً رشید رضا، احمد ابراہیم، خلاف، شلتوت، ابوزہرہ، خفیف، خضر حسین، ابن عاشور وغیرہ ہی کا مطالعہ کر لیتے تو انھیں معلوم ہو جاتا کہ شریعت کے دو اہم پہلو ہیں:

    • ان میں سے پہلا ان مقاصد کلیہ، قواعد شرعیہ اور قطعی احکام کا ہے جن پر امت کا اجماع ہے اور جو نسلاً بعد نسل منتقل ہوتے رہے ہیں اور جو امت مسلمہ کی فکری، شعوری اور عملی وحدت کا ایک حصہ بن گئے ہیں۔ شریعت کا یہ پہلو ان محکم امور اور قطعی احکام پر مشتمل ہے جن میں اجتہاد کی گنجائش نہیں۔ جیسا کہ ہر قانون میں کچھ اصول اور کچھ دفعات ایسی ہوتی ہیں جو کالعدم نہیں قرار دی جا سکتیں۔

    • دوسرا پہلو شریعت کے وہ احکام ہیں جو ظنی ہیں، اور شریعت کا اکثر حصہ انہی احکام پر مشتمل ہے۔ یہ وہ احکام ہیں جو ایسی نص سے ثابت ہوں جو قطعی الثبوت اور قطعی الدلالت نہ ہو۔ یعنی وہ احکام جو اپنے ثبوت کے لحاظ سے ظنی ہوں یا باعتبار دلالت ظنی ہوں یا دونوں اعتبار سے ظنی ہوں۔

    ایک اور پہلو بھی اہمیت کا حامل ہے اور یہ وہ پہلو ہے جس میں کوئی نص نہ ہو، جسے ہم نے اس حدیث سے استفادہ کرتے ہوئے عفو کا عنوان دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ:

    "اللہ نے جو امر اپنی کتاب میں حلال قرار دیا ہے وہ حلال ہے اور جو حرام قرار دیا ہے وہ حرام ہے اور جس امر کے بارے میں سکوت اختیار کیا ہے وہ عفو ہے۔ تو اللہ سے عافیت طلب کرو کہ اللہ کوئی شے بھولنے والا نہیں ہے۔"

    پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی:

    وما كان ربك نسيا

    (مریم: 64)

    (اور نہیں ہے آپ کا رب بھولنے والا)

    ظنی احکام کی دونوں قسموں یعنی جن میں ظنی نص موجود ہو اور وہ جن میں نص نہ ہو، کے لیے لازمی ہے کہ انھیں اسلامی شریعت کے مقاصد کلیہ، قواعد اور قطعی احکام کی روشنی میں سمجھا جائے۔ اس طرح کہ ہر جزئی کلی کے تحت ہو اور ہر ظنی کا مفہوم نص قطعی سے متعین کیا جائے اور متشابہ کا مفہوم محکم سے اخذ کیا جائے۔

    لو كان من عند غير الله لوجدوا فيه اختلافا كثيرا

    (النساء: 82)

    (اور اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت کچھ اختلاف پایا جاتا)

    اسلام اور مسلمانوں کی عظیم ترین خصوصیت علم ہے۔ مسلمانوں ہی نے نصوص شریعت سے استدلال اور عدم نص کی صورت میں استنباط کے عقلی، دینی اور لغوی قواعد مقرر کیے۔ ان ہی قواعد اور اصول استنباط کا نام اصول فقہ ہے جن میں مسلمان منفرد ہیں اور کبھی کسی قوم کی تہذیب نے اس طرح کا کوئی فن پیش نہیں کیا۔

    ڈاکٹر موصوف نے شریعت کی وسعت اور ہمہ گیری کو انسانی جدوجہد کا ثمرہ اور اسے قدیم رومی قانون اور جدید فرانسیسی قانون کے مماثل سمجھ کر بہت بڑی غلطی کی ہے۔ حالانکہ وسعت اور ہمہ گیری اسلامی شریعت کی ایک امتیازی اور بنیادی خصوصیت ہے۔ میں نے اس موضوع پر ایک مستقل مقالہ تحریر کیا ہے جس میں اسلامی شریعت کی وسعت اور ہمہ گیری کے عوامل اور اس کے بدلتے ہوئے حالات میں انسانی رہنمائی کے قابل ہونے کے اسباب بیان کیے ہیں۔

    اگر موصوف یہ فرماتے کہ ان کے دور میں اجتہاد کی ضرورت پچھلے تمام ادوار سے زیادہ ہے اس لیے کہ انسانی زندگی میں بہت سے تغیرات آچکے ہیں اور ان کی جملہ تفصیل نصوص شریعت میں موجود نہیں، لہذا اس تمام دائرے میں فرد اور معاشرے کی مصالح کے پیش نظر اجتہاد ضروری ہے تو ہم موصوف سے پورا پورا اتفاق کرتے۔ میں نے اس موضوع کو مجلہ "الدوحہ" 1984ء میں شائع ہونے والے اپنے مقالے اور اپنی کتاب "الاجتہاد فی الشریعۃ الاسلامیۃ" میں تفصیل سے بیان کیا ہے۔

    اصول احسان

    ڈاکٹر صاحب موصوف نے اپنی پہلی دلیل یعنی اصول شریعت کی شدید عمومیت کی تقویت کے لیے دو مثالیں بیان کی ہیں، ایک احسان اور دوسری شوریٰ کی۔ چنانچہ وہ احسان کے بارے میں کہتے ہیں کہ:

    "اسلام کا اصول احسان جسے سب مانتے ہیں، اور قرآن مجید کی بہت سی آیات میں جس پر زور دیا گیا ہے، اس کا مقصد مال داروں کو یہ احساس دلانا ہے کہ ان کے مال میں ناداروں کا بھی حق ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ معاشرے میں غریبوں محتاجوں کو اتنی معیشت کی ضمانت حاصل ہونی چاہیے جس سے وہ اپنی گزر اوقات بآسانی کر سکیں ۔ علاوہ ازیں اسلام کے اس بنیادی اصول کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ معاشرے میں عدل اجتماعی کا عمل کسی نہ کسی صورت میں ضرور بروئے کار آنا چاہیے ۔ لیکن جدید معاشروں کی پیچیدگیوں اور ہزاروں لاکھوں کی آبادی پر مشتمل شہروں میں غریبوں اور امیروں کے درمیان براہِ راست تعارف اور رابطہ موجود نہ ہونے کے باعث اب ہمارے لیے اس کے سوا چارہ نہیں کہ ہم اصول احسان کی عمومی روح کو اپنائیں اور اس کے مطابق اپنا طرز عمل متعین کریں ۔ یعنی غریبوں اور امیروں کے درمیان معاشی تفاوت کی جو وسیع خلیج حائل ہے اسے پاٹنے کی کوشش کریں ۔ اور وسائل کی تخصیص و تعیین اس صورت میں کی جائے کہ غیر معمولی پیچیدگیوں کے حامل موجودہ معاشروں میں عدل اجتماعی کا نظام جس صورت میں قائم کیا جا سکتا ہو، اسی صورت میں قائم کیا جائے۔

    اسی طرح اصول احسان کے عملی نفاذ کی ایک صورت تو یہ ہے کہ مال دار لوگ غریبوں کو براہِ راست صدقہ دیں (اگرچہ جدید معاشروں میں اس صورت کو چنداں قابل عمل خیال نہیں کیا جاتا) اور دوسری یہ کہ مال داروں کو ایسے وسائل کی ملکیت حاصل کرنے سے روک دیا جائے جن کے ذریعے وہ غریبوں اور کمزوروں کا استحصال کرتے ہیں۔ ان دونوں صورتوں اور اسی طرح مسئلے کے جو دیگر حل ہو سکتے ہیں، ان کے درمیان بے شمار اختلافات پائے جاتے ہیں جن کی نہ کوئی ابتدا ہے نہ انتہا۔ یہ تمام اختلافات خالصتاً بشری سوچ کا نتیجہ ہیں لیکن انھیں عام دینی اصول احسان کے تحت بیان کیا جا سکتا ہے۔"

    میں کہتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب نے یہ مثال صحیح بیان نہیں کی، اس لیے کہ "احسان" یعنی فقیروں کی امداد کے لیے دیا جانے والا اختیاری اور انفرادی صدقہ اسلام میں اجتماعی عدالت، عمومی کفالت، یا مسئلہ فقر کے علاج کی اساس نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس سلسلہ میں اسلام کا ایک مستقل فلسفہ ہے اور اس فلسفہ کے اپنے اصول، وسائل اور مقاصد ہیں ۔ لیکن جیسا کہ میں نے "اسلام اور لادینیت" کے موضوع پر منعقد ہونے والے مذاکرے میں کہا، ڈاکٹر صاحب اور ان کے ہم خیال لادینیت پسندوں کی اصل مشکل یہ ہے کہ وہ اسلام کا علم نہیں رکھتے اور قدیم و جدید مصنفین کی تصانیف نہیں پڑھتے۔ میں ڈاکٹر موصوف سے یہ نہیں کہوں گا کہ وہ میری کتاب فقہ الزکوۃ کا مطالعہ کریں ۔ اس کتاب کی دو جلدیں ہیں جن کا پڑھنا یقیناً ڈاکٹر صاحب کے لیے دشوار ہو گا اور ہو سکتا ہے کہ اس نوع کی کتاب وہ سمجھ بھی نہ سکیں، اس لیے میں ذرا آسان کتابیں تجویز کرتا ہوں، مثلاً:

    • سید قطب کی "العدالۃ الاجتماعیۃ فی الاسلام"
    • مصطفی سباعی کی "اشتراکیۃ الاسلام"
    • ابوزہرہ کی "المجتمع الانسانی فی ظل الاسلام"
    • اور اپنی کتاب "مشکلۃ الفقر و کیف عالجھا الاسلام"

    ان کتابوں کے مطالعہ سے ڈاکٹر صاحب کو معلوم ہو جائے گا کہ اس اہم اجتماعی مسئلے کا حل اسلام نے "احسان" کی صورت میں پیش نہیں کیا، جیسا کہ دوسرے مذاہب اور فلسفوں نے کیا ہے، یا ڈاکٹر صاحب کو وہم ہوا ہے۔

    اس مسئلے پر پروفیسر ڈاکٹر ابراہیم لبان مرحوم نے اپنے ایک گراں قدر مقالہ میں بحث کی ہے جو انھوں نے الازہر کے مجمع البحوث الاسلامیہ میں پیش کیا تھا۔ اس میں انھوں نے بتایا ہے کہ اسلام نے غریبوں کے حقوق کی نگہداشت کے لیے احسان کے تصور کو کیوں ترک کر دیا اور اس پر کیوں اعتماد نہیں کیا۔

    اس بات کا سمجھ لینا ضروری ہے کہ زکوٰۃ مال داروں اور غریبوں کے درمیان قائم ہونے والا براہ راست تعلق نہیں، جیسا کہ ڈاکٹر صاحب موصوف سمجھ رہے ہیں، بلکہ زکوٰۃ فی الحقیقت ایک اجتماعی تنظیم ہے جو ریاست کے زیر انتظام ہوتی ہے کہ ریاست اس مالی حق کو مالداروں سے لے کر غریبوں کو لوٹاتی ہے۔ حکومت اس عمل کو ایک ادارے کے وسیلہ سے منظم کرتی ہے جسے قرآن نے "العاملین علیھا" کا عنوان دیا ہے اور ان کی اجرتوں کا خود نظام زکوٰۃ میں سے ادا کیا جانا طے کیا ہے تاکہ زکوٰۃ کا فریضہ معطل نہ ہو۔

    اس مقام سے اسلام کا نظام زکوٰۃ دیگر مذاہب کے صدقات کے تصور سے بالکل جدا اور ممتاز ہو جاتا ہے ۔ اسلام کے نظام زکوٰۃ میں اور دیگر مذاہب کے تصور صدقات میں دس امتیازی فرق ہیں جنھیں میں یہاں اپنی کتاب فقہ الزکوۃ سے نقل کر رہا ہوں :-

    1. اسلام میں زکوٰۃ صرف ایک اچھا عمل اور ایک عمدہ اخلاقی صفت ہی نہیں بلکہ یہ اسلام کا ایک اساسی رکن بھی ہے اور شعائر اسلام اور چار بڑی عبادات میں سے ایک ہے۔ اس کا ادا نہ کرنے والا فاسق اور اس کا انکار کرنے والا کافر ہے۔ اس لحاظ سے زکوٰۃ کوئی اپنی مرضی سے کیا جانے والا حسن سلوک یا نفلی صدقہ کے درجہ کی شے نہیں بلکہ ایک ایسا لازمی فریضہ ہے جو مسلمانوں پر اعلیٰ ترین شرعی اور اخلاقی پابندیوں کے ساتھ لازم کیا گیا ہے۔
    2. اسلام کی نظر میں زکوٰۃ دراصل مال داروں کے مال میں غریبوں کا ایسا حق ہے جسے مال کے حقیقی مالک یعنی اللہ تعالٰی نے اپنے بندوں پر لازم کیا ہے۔ زکوٰۃ میں ایسا کوئی مفہوم موجود نہیں کہ کوئی مالدار شخص کسی غریب پر کوئی احسان کر رہا ہو، اس لیے کہ اگر خود مال کا حقیقی مالک اپنے خزانچی کو یہ حکم دے کہ اس کے مال میں سے اتنا حصہ اس کے عیال پر خرچ کر دے تو اس میں احسان کا کوئی پہلو نہیں ہے۔
    3. زکوٰۃ ایک متعین حق ہے اور شریعت اسلامیہ نے اس کا نصاب، مقداریں، حدود و شرائط، وقت ادائیگی اور طریقہ ادائیگی بتلا دیا ہے، تاکہ مسلمان بخوبی واقف ہو جائیں کہ ان پر کیا لازم ہے، کتنا لازم ہے اور کب لازم ہے۔
    4. زکوٰۃ کو اسلام نے لوگوں کے ضمیر پر نہیں چھوڑا بلکہ اسلامی ریاست کو اس امر کا ذمہ دار بنایا ہے کہ وہ انصاف کے ساتھ زکوٰۃ وصول کرے اور حق کے ساتھ اسے تقسیم کرے۔ گویا زکوٰۃ ایک ٹیکس ہے جسے ہر قیمت پر وصول کیا جائے گا۔ اور یہ کوئی احسان نہیں ہے کہ احسان کرنے والا چاہے تو دے اور نہ چاہے تو نہ دے۔ اسی لیے قرآن کریم میں زکوٰۃ کی یہ تعبیر اختیار کی گئی ہے: "خذمن اموالہم" (ان کے مال میں سے لے لیجئے) اور سنت نبوی میں یہ تعبیر اختیار کی گئی کہ : "تؤخذ من اغنيائهم" (ان کے مال داروں سے لی جاتی ہے)۔
    5. اسلامی ریاست زکوٰۃ ادا نہ کرنے والوں کو مناسب تعزیری سزائیں دے سکتی ہے۔ یہاں تک کہ ان کا نصف مال بھی بہ طور سزا لے سکتی ہے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے کہ: "ہم زکوٰۃ بھی لیں گے اور اس کا نصف مال بھی لیں گے۔"
    6. اگر کوئی جماعت طاقت کے بل بوتے پر ادائے زکوٰۃ سے انکار کر دے تو مسلمان سربراہ کا فرض ہے کہ وہ ان سے جنگ کرے اور انھیں بزور طاقت مجبور کر دے کہ وہ اپنے مال پر لازم حق اللہ یعنی غریبوں کا حق ادا کریں۔ اس کی وضاحت احادیث میں موجود ہے اور حضرت ابوبکرؓ اور آپ کے تمام صحابہؓ نے اس کی تطبیق بھی کی ہے۔
    7. اسلام میں اس عظیم فرض کی ادائیگی اور اس اساسی رکن کے قیام کا مطالبہ فرد سے کیا گیا ہے، یہاں تک کہ اگر ریاست زکوٰۃ کی وصولی میں کوتاہی کرے اور معاشرہ زکوٰۃ کا نظام قائم کرنے میں ناکام رہے تو ہر فرد کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے طور پر زکوٰۃ ادا کرے اس لیے کہ زکوٰۃ عبادت ہے جو ہر مسلمان پر فرض ہے اور اس سے مسلمان کے جان و مال کا تزکیہ ہوتا ہے۔ چنانچہ اگر سلطان اس کا مطالبہ نہ بھی کرے تو قرآن اور ایمان تو اس کا مطالبہ کرتا ہے۔ اسی لیے ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ ضرورت کے مطابق زکوٰۃ کے احکام جانے، تاکہ وہ مطلوبہ شرعی طریقے پر اپنے ایمان کے تقاضوں کے مطابق اور قرآن کے مطالبہ کے موافق اس فرض کو ادا کر سکے۔
    8. اسلام میں زکوٰۃ سے حاصل شدہ آمدنی کو حکام کی خواہشوں کی نذر نہیں کر دیا گیا اور نہ یہودیوں کے کاہنوں کی طرح مذہبی لوگوں کے حوالے کر دیا گیا ہے اور نہ اس امر کی گنجائش باقی رہنے دی گئی ہے کہ غیر مستحق لالچی لوگ اسے جس طرح چاہیں خرچ کریں۔ بلکہ اسلام نے نہایت وضاحت اور تفصیل کے ساتھ وہ مصارف بھی بیان کر دیے ہیں جن میں زکوٰۃ کی آمدنی خرچ کی جائے گی ۔ چنانچہ قرآن کریم نے "انما الصدقات للفقراء والمساكين" (التوبہ: 60) میں زکوٰۃ کے مصارف بیان کیے ہیں اور سنت نبوی نے ان مصارف کی تشریح اور تفصیل بیان کی ہے۔ کیونکہ انسانی تجربات سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ مال کا جمع کرنا اتنا مشکل نہیں ہے جتنا اس کو موزوں مصارف میں خرچ کرنا اہم ہے۔ اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرمایا کہ آپ کے لیے اور آپ کی اولاد کے لیے زکوٰۃ کا مال حلال نہیں اور یہ کہ زکوٰۃ ایک علاقے کے دولت مندوں سے لے کر انہی کے فقیروں کو لوٹائی جائے گی۔ بالفاظ دیگر ایک علاقے کے لوگوں کی زکوٰۃ انہی پر صرف کر دی جائے گی۔
    9. اسلام میں زکوٰۃ غربت، فاقہ کشی، تنگی اور مصائب کا وقتی علاج نہیں بلکہ اس کا اصل مقصود غربت کو بالکل مٹا دینا، غریبوں کو ہمیشہ کے لیے غنی بنا دینا، ان کی زندگیوں سے بھوک کے اثرات کا قطعی استیصال کر دینا اور ان کو یہ قدرت فراہم کر دینا ہے کہ وہ زندگی کے بوجھ کو سنبھال سکیں۔ اسی لیے زکوٰۃ کا ایک منظم اور سال بہ سال گردش کرنے والا سلسلہ قائم کیا گیا ہے جس کے ذرائع آمدنی دائمی ہیں تاکہ غریب زندگی کی سہولت حاصل کر سکے اور محض یہ نہ ہو کہ اسے بھوک میں چند لقمے اور تنگدستی میں چند درہم عنایت کر دیے جائیں اور بس، جیسا کہ ہم نے اپنی کتاب فقہ الزکوۃ میں مصارف زکوٰۃ کے عنوان کے تحت بیان کیا ہے۔
    10. قرآن و سنت میں زکوٰۃ کے جو مصارف بیان کیے گئے ہیں وہ متعدد روحانی، اخلاقی، اجتماعی اور سیاسی مقاصد کے حامل ہیں اور دیگر مذاہب کے نظام صدقات سے اس کے فوائد بہت زیادہ اور مقاصد بے حد وسیع ہیں۔ چنانچہ زکوٰۃ کا ایک مصرف مولفتہ القلوب ہیں، غلاموں کو آزاد کرنا بھی زکوٰۃ کا مصرف ہے، قرض داروں کو قرض کے بوجھ سے چھٹکارا دلانا بھی زکوٰۃ کا ایک مصرف ہے اور راہ خدا میں (جہاد کرنے والوں پر خرچ کرنا بھی زکوٰۃ کا ایک مصرف ہے۔

    غرض اسلام کا نظام زکوٰۃ ایسی اہم اور امتیازی خصوصیات کا حامل ہے جن سے سابق مذاہب بالکل خالی ہیں، کیونکہ ان مذاہب میں صرف نیکی اور حسن سلوک کی تلقین اور وعظ و نصیحت ہے اور محض بخل کی برائی بیان کی گئی ہے۔ نیز اسلام کا نظام زکوٰۃ ٹیکس کے اس نظام سے بھی ممتاز ہے جو بادشاہ اور سلاطین وصول کرتے ہیں۔ جو دراصل غریبوں سے وصول کیے جاتے اور امیروں کو بخش دیے جاتے ہیں تاکہ حکمرانوں اور دولت مندوں کی شان و شوکت بڑھے، ان کے عیش و عشرت میں اضافہ ہو اور ان کا اقتدار زوال سے محفوظ رہے۔

    مزید یہ کہ اسلام میں زکوٰۃ ہی ارباب ثروت کے مال پر عائد ہونے والا واحد حق نہیں، بلکہ اور بھی حقوق ہیں جو فقراء کی ضرورتوں اور اغنیاء کی دولت میں کمی یا اضافے کے ساتھ کم و بیش ہوتے رہتے ہیں، البتہ زکوٰۃ ایسا حق ہے جو ہر سال گردش کرتا ہے، علاوہ ازیں حکومت کے تمام وسائل میں بھی اس امر کی گنجائش ہوتی ہے کہ ان سے فقراء کی کفایت تامہ وجود میں لائی جائے یہاں تک کہ وہ مستغنی ہو جائیں اور انھیں اور ان کے خاندان کو عزت کی انسانی زندگی میسر آ سکے۔

    اصول شوریٰ

    ڈاکٹر موصوف نے اسلامی اصولوں میں بہت زیادہ عمومیت ہونے کی ایک مثال شوریٰ سے دی ہے۔ بلاشبہ اسلام نے شوریٰ کی مفصل شکل بیان نہیں کی لیکن اس کا ذکر مکی قرآن میں ہے جو فرد اور معاشرے کے لیے اس کی بنیادیں فراہم کرتا ہے۔ چنانچہ مکی قرآن نے شوریٰ کو اسلامی زندگی کے عناصر میں سے ایک عنصر بنا دیا ہے اور قیام صلوٰۃ اور اللہ کے راستے میں خرچ کرنے سے متعلق حکم کے ساتھ بیان کر کے اسے اسلامی معاشرے کی لازمی خصوصیت قرار دیا ہے۔

    والذين استجابوا لربهم واقاموا الصلوة و امرهم شورى بينهم ومما رزقنهم ينفقون

    (الشوریٰ: 38)

    (جو اپنے رب کا حکم مانتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، اپنے معاملات آپس کے مشورے سے چلاتے ہیں، ہم نے جو کچھ بھی رزق انھیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔)

    اور مدنی قرآن میں اللہ تعالٰی نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرمایا:

    وشاورهم في الامر

    (آل عمران: 159)

    (اور ان سے معاملہ میں مشورہ کیجئے۔)

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوتی تھی اس کے باوجود آپ کو مشورہ کا حکم دیا گیا، اس کا مطلب یہ ہے کہ امت کے افراد پر مشورہ اور بھی زیادہ لازم ہے۔ چنانچہ امام ابن عطیہ اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ:

    "شوریٰ شریعت کے قواعد میں سے ایک قاعدہ اور لازمی احکام میں سے ایک حکم ہے۔ جو حکمران اہل علم اور اہل دین سے مشورہ نہ کرے اس کا معزول کرنا واجب ہے۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔"

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کثرت سے صحابہ کرام سے مشورہ فرماتے اور جن امور میں وحی نازل نہ ہوتی ان میں اپنی رائے ترک فرما کر صحابہ کرام کی رائے کو اختیار کر لیا کرتے، جیسا کہ غزوہ احد اور غزوہ خندق کے بہت سے واقعات اس امر پر شہادت دیتے ہیں۔

    بلاشبہ بعض فقہاء نے کہا ہے کہ شوریٰ حاکم کو راہ سمجھانے کے لیے ہے اور اس پر لازم نہیں ہے کہ اسے جو مشورہ دیا جائے وہ اس پر عمل بھی کرے، بلکہ سب کی آراء سن کر خود اپنی رائے قائم کرے اور اپنی جواب دہی کی ذمہ داری کے ساتھ اس پر عمل کرے۔ مگر اس کے باوجود اسلامی معتدل رویہ جس کی ہم ترجمانی کر رہے ہیں یہی ہے کہ حاکم لازماً مشورہ بھی کرے گا اور اکثریتی رائے کا پابند بھی ہو گا جب کہ اجماع نہ ہو۔

    حضرت عمرؓ نے چھ اصحاب شوریٰ کو مقرر کر کے اکثریتی اصول کو اختیار فرما لیا تھا، یہاں تک کہ اگر تین ایک رائے اختیار کر لیں اور باقی تین دوسری جانب ہو جائیں تو حضرت عبداللہ بن عمرؓ جس رائے کے حامی ہوں اسے ترجیح حاصل ہو جائے۔ اور اگر فریقین اس پر رضامند نہ ہوں تو ان تین کی رائے کو ترجیح دی جائے جن میں حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ موجود ہوں۔

    میں نے اپنی کتاب "الحل الاسلامی فریضۃ و ضرورۃ" میں اس رائے کی تردید کی ہے کہ شوریٰ اولوالامر پر لازم نہیں ہے۔ بلکہ متعدد دلائل اور اعتبارات ایسے ہیں جو اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ اولوالامر پر مشورہ کی پابندی لازم ہے۔ ان میں سے زیادہ واضح دلائل یہ ہیں:-

    1. مسلمانوں کے ارکان شوریٰ کو فقہائے امت نے اہل الحل والعقد کا نام دیا ہے۔ خود اس نام سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حاکم پر مشورہ قبول کرنا لازم ہے، ورنہ اگر اہل الحل و العقد کا مشورہ حکمران پر لازم نہ ہو تو وہ کون سی گتھی کو سلجھا رہے ہیں اور کون سی گرہ کو باندھ رہے ہیں۔ قرآن کی آیت میں وارد اولوالامر (النساء: 59) کی تشریح ان اہل الحل والعقد سے کی گئی ہے جو حاکم یا امیر کا انتخاب کریں اور اس پر نظر رکھیں اور اس کو معزول کر سکیں۔
    2. غزوہ احد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پر جوش اکثریت کی رائے اختیار فرمائی کہ مدینہ سے باہر نکل کر مشرکین سے قتال کیا جائے۔ حضرت عمرؓ نے چھ ارکان شوریٰ میں خلافت کا معاملہ دائر کر کے اکثریتی رائے کو لازم کر دیا اور تین تین کے دو فریق بن جانے کی صورت میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ کو مرجح قرار دے دیا اور صحابہ کرامؓ نے حضرت عمرؓ کے فیصلے کو تسلیم کیا۔ یہ سب امور شوریٰ کے لازم ہونے اور اکثریت کی رائے کے قابل اعتبار ہونے کے دلائل ہیں۔
    3. ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں ابن مردویہ از حضرت علیؓ مرفوعاً نقل کیا ہے کہ قرآن کریم کی اس آیت:

      وشاورهم في الامر فاذا عزمت فتوكل على الله

      (آل عمران: 159)

      (اور ان سے معاملہ میں مشورہ کیجئے پھر جب آپ عزم کر لیں تو اللہ پر بھروسہ کریں۔)

      میں عزم سے مراد اہل رائے سے مشورہ لینا اور اس پر عمل کرنا ہے۔

    4. مشورہ اس طرح کرنا کہ شوریٰ کا قبول کرنا لازم نہ ہو، خواہ یہ مشورہ جمہور امت سے ہو یا اہل الحل والعقد سے، شوریٰ کو ڈرامہ بنا دے گا کہ حکمران مشورہ کر کے بھی اپنی من مانی رائے پر عمل کرے گا اور عوام (کی رائے) کا مذاق اڑائے گا۔
    5. اسلامی تاریخ اس امر کی گواہ ہے کہ استبداد اور مطلق العنانی نے مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کی قوت اور خیر کے مراکز کو ہلا کر رکھ دیا اور سرکش حکمرانوں کو یہ موقع فراہم کر دیا کہ وہ بلا خوف و خطر جس طرح چاہیں امت کی قسمت سے کھیلیں۔
    6. انسان طبعاً ظلوم و جہول ہے۔ ایک شخص کی رائے پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا کہ وہ ہوائے نفس اور جہالت کے تحت ظلم اور گمراہی کا مرتکب نہیں ہو گا۔ اس لیے ایک کے بالمقابل دو کی رائے زیادہ قرین صواب اور زیادہ عدل و علم کے قریب ہو سکتی ہے، اگرچہ خطا کا احتمال تمام لوگوں کی رائے میں بھی موجود ہے۔
    7. اکثریت جو رائے دیتی ہے وہ اس کی ذمہ داری کو قبول کرتی ہے اور نتائج خواہ کچھ ہوں، انھیں تسلیم کرتی ہے ۔ اس سے امت صحیح یا غلط اقدام میں حکومت کی شریک ہو جاتی ہے اور اس سے قوت، عزت اور احساس ذات کے جذبات بیدار ہوتے ہیں، اور حکمرانوں کی تربیت ہوتی ہے کہ وہ کسی رائے کو رد نہ کر سکیں۔
    8. آج کے دور میں اس بات پر اتفاق کیا جانا چاہیے کہ اکثریتی رائے کی پابندی کی جائے گی خواہ اس میں اختلاف ہو بشرطیکہ کوئی ایک جماعت بھی اس پر راضی ہو اور وہ اکثریت کی رائے کو قبول کرنے کا وعدہ کرے۔ اس صورت میں اختلاف رفع ہو جائے گا اور سب پر لازم ہو گا کہ وہ اس رائے کو نافذ کریں کیونکہ یہ بھی ایک طرح کا عہد ہے جس کے ایفاء کا اللہ نے حکم دیا ہے اور حدیث میں ہے کہ مسلمان اپنی شرائط کے پابند ہیں۔

    شوریٰ کے ضمن میں تفصیلی ہدایات کا نہ ہونا مبنی بر حکمت ہے اور اس حکمت کی توضیح دور جدید کے حکمائے اسلام نے کی ہے۔ چنانچہ علامہ رشید رضا سورہ آل عمران کی آیت "وشاورهم في الامر" کی تفسیر میں کہتے ہیں کہ:

    "اسلام میں جن حکمتوں کے تحت اور جن اسباب کی بناء پر شوریٰ کا تفصیلی نظام وضع نہیں کیا گیا ان میں سے چند یہ ہیں:

    • الف۔ شوریٰ ایک ایسا امر ہے جو امت کے حالات، وقت اور ماحول کے مطابق بدلتا رہتا ہے۔ اس قلیل مدت میں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے بعد گزاری، جس میں لوگ فوج در فوج اللہ کے دین میں داخل ہو رہے تھے، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس امر کو جانتے تھے کہ اسلام کے غلبہ اور قوت میں مزید اضافہ ہو گا،
    • ب۔ مزید ممالک فتح ہوں گے، نئی اقوام اسلام کے زیر فرمان آئیں گی، اور خود آپؐ نے اسلام کے اس پھیلاؤ کی بشارت بھی دی تھی۔ یہ صورت حال شوریٰ کا ایسا تفصیلی نظام دینے میں مانع تھی جو فتح مکہ اور اس کے بعد دیگر ممالک کی وسیع فتوحات اور سابق تہذیب و تمدن کی حامل اقوام کے اسلامی حکومت کے زیر فرمان آ جانے کے ادوار میں بھی کامیابی سے نافذ ہو سکے۔ کیونکہ یہ ممکن نہیں تھا کہ جو قواعد اور تفصیلات فتح مکہ کے دور کے لیے موزوں ہوتیں وہ بعد میں آنے والے ادوار کے لیے بھی موزوں ہوتیں، اور جو تفصیلات اہل عرب کے سادہ مزاج کے لیے موزوں ہوتیں وہ دنیا کی دیگر اقوام کے مزاج اور بعد کے پیچیدہ حالات کے بھی مطابق ہوتیں۔ اس لیے مناسب یہی تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شوریٰ کی تفصیلات امت پر چھوڑ دیتے کہ وہ ہر دور میں اپنے مناسب حال طریقہ پر اصول شوریٰ پر عمل کرے۔

    اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے زمانے کی ضرورتوں کے مطابق قواعد و ضوابط متعین فرما دیتے تو مسلمان ان کو دین کا ایک حصہ بنا لیتے اور وہ ہر دور اور ہر زمانے میں اس پر عمل کرتے، حالانکہ وہ دین نہ ہوتا۔ اسی لیے صحابہ کرامؓ نے حضرت ابوبکرؓ کے انتخاب کے موقع پر کہا تھا کہ انھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے دین کے لیے منتخب کیا تو ہم انھیں اپنی دنیا کے لیے کیوں منتخب نہ کریں؟ اگر کہا جائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شوریٰ کا مفصل نظام بتانے کے ساتھ امت کو اس میں بوقت ضرورت رد و بدل کی اجازت دے دیتے تو اس کا جواب یہ ہے کہ لوگوں نے امور دنیا کے بارے میں بھی آپ کے ارشادات کو دین بنا لیا باوجودیکہ آپؐ نے ارشاد فرمایا تھا کہ تم اپنے دنیا کے معاملات میں زیادہ باخبر ہو (مسلم) اور آپؐ نے فرمایا تھا کہ: "تمھارا دین کا معاملہ مجھ پر ہے اور جو تمھارا دنیا کا معاملہ ہو تو وہ تم پر ہے کہ تم اس سے زیادہ باخبر ہو۔" (احمد) جو شخص اہل اسلام کے مزاج سے آشنا ہے اس پر یہ بات بخوبی واضح ہو گی کہ مسلمان کسی ایسے معاملہ میں رد و بدل پر راضی نہیں ہو سکتے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر کیا ہو، اگرچہ آپؐ نے اس کی اجازت ہی کیوں نہ دی ہو۔ امت مسلمہ کا اس پر رد عمل یہی ہو گا کہ آپؐ کی رائے ہر حال میں مقدم ہے اور آپ کی اجازت آپ کی تواضع پر مبنی ہے۔"

    شریعت کی تشریح

    دوسرا سبب جس پر ڈاکٹر زکریا نے اعتماد کیا یہ ہے کہ: "ہمارے سامنے حکم الٰہی اور انسانی حکم میں انتخاب کا مسئلہ نہیں کیونکہ نص الٰہی نہ خود اپنی تشریح کرتی ہے اور نہ آپ اپنی تطبیق کرتی ہے، بلکہ یہ انسان ہے جو اس کی تفسیر و تشریح کرتا ہے، اس کی تطبیق کرتا ہے اور انسانی تعبیر و تطبیق کے اس عمل میں انسانی خواہشات، ان کی مصالح اور جانب داریاں داخل ہو جاتی ہیں۔"

    ڈاکٹر صاحب موصوف کی یہ منطق بڑی عجیب اور کھلے مغالطے پر مبنی ہے کیونکہ نصوص کی تعبیر و تشریح کوئی بے ہنگم عمل نہیں بلکہ اس کے منضبط اصول ہیں اور زبان، عرف، عقل اور نقل پر مشتمل ان کے مسلمہ قواعد ہیں، چنانچہ کسی نص کی تعبیر و تشریح کا یہ مفہوم نہیں ہوتا کہ اصل نص پر عمل نہ ہو۔

    نص الٰہی معجزہ ہے یعنی اس کا سمجھنا اور یاد رکھنا انتہائی آسان ہے، جیسا کہ قرآن کریم کا ارشاد ہے:

    تلك آيات الكتاب المبين انا انزلناه قرآنا عربيا لعلكم تعقلون

    (یوسف: 1-2)

    (یہ آیات ہیں کتاب مبین کی، ہم نے اسے نازل کیا ہے قرآن بنا کر عربی زبان میں تاکہ اس کو اچھی طرح سمجھ سکو۔)

    فانما يسرناه بلسانك لعلهم يتذكرون

    (الدخان: 58)

    (اے نبیؐ ہم نے اس کتاب کو تمھاری زبان میں سہل بنا دیا ہے تاکہ یہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔)

    ولقد يسرنا القرآن للذكر فهل من مذكر

    (القمر: 17)

    (ہم نے اس قرآن کو نصیحت کے لیے آسان بنا دیا ہے، پھر کیا ہے کوئی نصیحت قبول کرنے والا!)

    ڈاکٹر صاحب موصوف جو فلسفہ کے پروفیسر ہیں، کہتے ہیں کہ نص الٰہی محض تعبیر و تطبیق سے انسانی بن جاتی ہے۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ بنی نوع انسان کی ہدایت کے لیے اللہ کا کتاب نازل کرنا ہی بے فائدہ ہے اور انسانوں پر اللہ کے احکام کے اتباع اور اس کے بتائے ہوئے نظام زندگی کی پیروی لازم نہیں کیونکہ ان میں سے کوئی بھی شے انسانی تعبیر و تطبیق کے بعد الٰہی اور ربانی نہیں رہتی۔ ظاہر ہے انسان ہی الٰہی احکام کی تعبیر کریں گے اور وہی ان کی تطبیق بھی کریں گے اور ان کی تعبیر و تطبیق سے ان کا من جانب اللہ ہونا باقی نہیں رہے گا۔

    اے اہل دانش غور کیجئے! اللہ نے کتابیں کیوں نازل کیں، رسول کیوں بھیجے اور کیوں اللہ تعالٰی نے اپنی کتاب کے بارے میں فرمایا:

    ان هذا القرآن يهدى للتي هي اقوم

    (الاسراء: 19)

    (بے شک یہ قرآن وہ راہ دکھاتا ہے جو سب سے سیدھی ہے۔)

    اور کیوں اللہ تعالٰی نے یہ فرمایا کہ:

    و ان احكم بينهم بما انزل الله ولا تتبع اهواء هم واحذرهم ان يفتنوك عن بعض ما انزل الله اليك

    (المائدہ: 49)

    (پس اے نبیؐ تم اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق ان لوگوں کے معاملات کا فیصلہ کرو اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کرو۔ ہوشیار رہو کہ یہ لوگ تم کو فتنہ میں ڈال کر اس ہدایت سے ذرہ برابر منحرف نہ کرنے پائیں۔)

    غور فرمائیے اللہ تعالٰی نے قرآن کریم میں یہ ارشاد فرمایا ہے:

    ولكم نصف ماترك ازواجكم ان لم يكن لهن ولد فان كان لهن ولد فلكم الربع مما تركن من بعد وصية يوصين بها اودين ولهن الربع مما تركتم ان لم يكن لكم ولد

    (النساء: 12)

    (اور تمھاری بیویوں نے جو کچھ چھوڑا ہو اس کا آدھا حصہ تمھیں ملے گا اگر وہ بے اولاد ہیں ۔ ورنہ اولاد ہونے کی صورت میں ترکہ کا ایک چوتھائی حصہ تمھارا ہے، جبکہ وصیت جو انھوں نے کی ہو پوری کر دی جائے اور قرض جو انھوں نے چھوڑا ہو ادا کر دیا جائے اور وہ تمھارے ترکہ میں سے چوتھائی کی حق دار ہوں گی اگر تم بے اولاد ہو۔)

    اگر ہم اس حکم الٰہی کی تعبیر و تشریح کریں، جیسا کہ کتب تفسیر میں مذکور ہے، اور اس کی تطبیق ہم خاندانی قوانین یا احوال شخصیہ پر کریں تو ان احکام کی نسبت اللہ کی جانب نہیں رہے گی اور نہ یہ اللہ کی نازل کردہ شریعت اور اس کی نازل کردہ کتاب کے احکام رہیں گے!

    ہم قرآن کریم کی آیت کی ایک اور مثال لیتے ہیں جس کی تفسیر کے کئی پہلو ہیں، اور وہ آیت یہ ہے:

    والسارق والسارقة فاقطعوا ايديهما جزاء بما كسبا نكالاً من الله والله عزيز حکیم

    (المائدہ: 38)

    (اور چور خواہ مرد ہو یا عورت دونوں کے ہاتھ کاٹ دو۔ یہ ان کی کمائی کا بدلہ ہے اور اللہ کی طرف سے عبرت ناک سزا اور اللہ غلبہ والا اور حکیم ہے۔)

    اس قرآنی آیت کے مفہوم اور اس کے معانی کی وضاحت سنت نبوی سے ہوتی ہے۔ سنت نبوی نے بتایا کہ سارق کون ہے اور کس سارق کا قطع ید کیا جائے گا۔ سرقہ کی شرط یہ ہے کہ چوری محفوظ جگہ سے کی جائے، چوری مجبوری کے تحت نہ ہو، اور چوری کسی قیمتی مال کی کی گئی ہو، یعنی اگر کوئی شخص کھیت سے چوری کرے تو قطع ید نہیں کیا جائے گا، اگر کوئی اپنے کھانے کے لیے کوئی شے چرا لے تو اس کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا اور اگر کوئی متعین نصاب سے کم کی چوری کرے تو قطع ید نہیں ہو گا۔ یہ بھی بیان ہوا کہ قطع ید کلائی کے پاس سے ہو گا، حدود شبہات سے ساقط ہو جاتی ہیں اور یہ کہ امام مجرم کی توبہ کی صورت میں حد ساقط کر سکتا ہے۔

    بلاشبہ یہ تفصیلات ایسی ہیں جن میں سے بعض زمان و مکان اور حالات کے اعتبار سے تبدیل ہو سکتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان تفصیلات کے ضمن میں مختلف فقہی اقوال موجود ہیں جو در حقیقت توسع اور رحم کے حامل ہیں۔ مگر ان تفصیلات کے باوجود قطع ید کا اصول اپنی جگہ برقرار ہے کہ جب اس جرم کے ارکان و شرائط پورے ہوں اور اس جرم کے وقوع میں کوئی شبہ باقی نہ رہے تو قطع ید کی سزا جاری ہو جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ:

    "قسم بخدا اگر فاطمہ بنت محمدؐ بھی چوری کرے تو اس کا بھی ہاتھ کاٹ دوں!"

    ڈاکٹر صاحب نے اس موضوع کو بڑی طوالت کے ساتھ بیان کیا ہے کہ شاید تکرار و طوالت اس باطل کو حق کے مشابہ بنا دے۔

    اللہ تعالٰی نے شریعت نازل کی اور احکام بیان فرمائے اور ان احکام پر مشتمل کتاب نازل کی جسے اس کے رسولؐ نے بیان کیا، خلفاء نے منطبق کیا، فقہاء کرام نے ان کی تفصیلات بیان کیں اور استعمار کے اسلامی ممالک میں در آنے تک مسلمانوں نے قریباً تیرہ سو سال تک ان پر عمل کیا۔ بلاشبہ بعض تفصیلات میں مسلمان متفق بھی رہے اور بعض کے بارے میں ان کے درمیان اختلاف بھی ہوا، مگر اس حقیقت کے بارے میں کبھی کوئی اختلاف نہیں ہوا کہ اللہ نے ایک شریعت نازل کی جو ان کی زندگیوں میں جاری ہونی چاہیے، اس کے احکام کی اتباع کرنی چاہیے، اس کے منہاج کی پیروی کرنی چاہیے۔ اور یہ کہ اگر وہ اللہ کے حکم کی اتباع نہیں کریں گے تو حکم جاہلیت میں گرفتار ہوں گے۔

    افحكم الجاهلية يبغون ومن احسن من الله حكما لقوم يوقنون

    (المائدہ: 50)

    (کیا یہ لوگ جاہلیت کے فیصلوں کو چاہتے ہیں حالانکہ جو لوگ اللہ پر یقین رکھتے ہیں ان کے نزدیک اللہ سے بہتر فیصلہ کرنے والا اور کون ہو سکتا ہے!)

    اس امر پر تاریخی اجماع ہے اور آج بھی امت مسلمہ کی بہت بڑی اکثریت اس بات کی موید ہے کہ اللہ کی شریعت کی طرف رجوع کیا جانا چاہیے اور جس طرح اللہ نے حکم دیا اس کے مطابق عمل ہونا چاہیے۔ علاوہ ازیں یہ کہ مسلمان اس طاغوت اور استعمار سے آزادی حاصل کریں، جسے استعمار نے اپنے غلبہ اور اقتدار کے زمانے میں اسلامی ممالک پر مسلط کر دیا۔

    لیکن ڈاکٹر صاحب کل کے اجماع اور آج کے اجماع سے بھاگ کر کہاں جا رہے ہیں اور کہاں جا سکتے ہیں؟

    كلا لا وزر الى ربك يومئذن المستقر

    (القیامۃ: 11-12)

    (ہرگز نہیں، وہاں کوئی جائے پناہ نہ ہو گی، اس روز تیرے رب ہی کے سامنے جا کر ٹھہرنا ہو گا۔)

    ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ میں "حکومت الٰہی" کی تعبیر میں تضاد محسوس کرتا ہوں کیونکہ فی الواقع انسان ہی حکومت کرتے ہیں، وہی شریعت الٰہی کو انسانی تجربہ میں تبدیل کر دیتے ہیں، جیسا کہ اکثر حالات میں حکمران دستوری دفعات کی تنفیذ میں کرتے ہیں اور دستور کی تشریح اپنی اغراض و مصالح کے مطابق کرتے ہیں۔

    ہم ڈاکٹر صاحب سے کہتے ہیں کہ اگر آپ الفاظ کے صحیح معنی متعین کر لیتے تو آپ کو کہیں تضاد محسوس نہ ہوتا کیونکہ حکم الٰہی کے معنی الٰہی اقتدار نہیں بلکہ اس سے مراد شریعت الٰہی کے اصول ہیں جو ظنی بھی ہوتے ہیں اور قطعی بھی، اور اتفاقی بھی ہوتے ہیں اور اختلافی بھی، جبکہ اقتدار انسان کو حاصل ہوتا ہے جو فیصلہ کرتا ہے اور اس کو نافذ کرتا ہے۔

    اس سے قبل خوارج بھی کہہ چکے ہیں کہ انسان کا حکم نہیں ہونا چاہیے۔ چنانچہ جب حضرت علیؓ نے اپنے اور حضرت معاویہؓ کے درمیان حکیم کا فیصلہ قبول کر لیا تو خوارج نے اس پر اعتراض کرتے ہوئے اپنا مشہور جملہ کہا: "لا حکم الا اللہ" (اللہ کے سوا کسی کا حکم نہیں ہے) اور حضرت علیؓ نے اس پر فرمایا کہ کلمہ برحق ہے مگر اس سے باطل مراد ہے، اس موقع پر حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے خوارج کو سمجھاتے ہوئے کہا تھا کہ انسانی حکم سے مفر ممکن نہیں، بلکہ قرآن کریم نے بعض معمولی امور میں بھی انسان کے فیصلے کو صحیح قرار دیا ہے۔ چنانچہ ازدواجی رشتوں کی تحکیم کے بارے میں ارشاد فرمایا:

    فابعثوا حكما من اهله و حكما من اهلها

    (النساء: 35)

    (ایک حکم مرد کے رشتہ داروں میں سے اور ایک حکم عورت کے رشتہ داروں میں سے مقرر کرو۔)

    اسی طرح حرم میں قتل صید کی جزاء کے بارے میں بھی تحکیم کا اصول بیان فرمایا:

    یحکم به ذوا عدل منكم

    (المائدہ: 95)

    (فیصلہ کریں تم میں سے دو عادل)

    اس اعتبار سے حکم الٰہی کی جانب رجوع کے یہ معنی نہیں ہیں کہ اللہ تعالٰی، بذات خود انسانوں کے درمیان آکر فیصلے کرے گا یا فرشتے بھیجے گا کہ وہ لوگوں کے درمیان فیصلے کریں۔ بلکہ حکم الٰہی کا مفہوم اللہ تعالٰی کی شریعت کی جانب رجوع کرنا ہے کہ جو امور اللہ نے حلال قرار دیے ہیں حلال سمجھے جائیں اور جو اللہ نے حرام قرار دیے ہیں ان کو حرام سمجھا جائے۔ جو امور شریعت میں واجب یا مستحب ہیں ان کو اسی درجے میں رکھا جائے اور جن امور سے اللہ تعالٰی نے باز رہنے کا حکم دیا ہے ان سے تجاوز نہ کیا جائے۔

    ومن يتعد حدود الله فاولئك هم الظالمون

    (البقرہ: 229)

    (اور جو لوگ حدود الٰہی سے تجاوز کریں وہی ظالم ہیں۔)

    بیجا اصرار اور بے مقصد تکرار

    یہ امر بھی واضح کر دینا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ معتدل اسلامی تحریک "حکومت الہیہ" کے بجائے "اسلامی حکومت" کی اصطلاح استعمال کرتی ہے۔ لہٰذا ڈاکٹر صاحب کی طرح کسی کے لیے اس امر کی گنجائش نہیں کہ وہ اس کی غلط تعبیر و تشریح کرے۔

    ڈاکٹر صاحب اپنی عادت کے مطابق بار بار ایک ہی بات کو دہراتے اور اپنے غلط دعووں کو تکرار و اصرار سے بیان کرتے رہتے ہیں تاکہ کسی نہ کسی طرح شریعت میں شک پیدا کرنے میں کامیاب ہو جائیں اور مسلمانوں کو اس وہم میں مبتلا کر دیں کہ اصول شریعت من جانب اللہ ہونے کے بجائے انسانی عمل دخل کے حامل ہیں اور انھیں اللہ تعالٰی کی جانب منسوب کرنا درست نہیں۔ مگر ان کی یہ تمام تاویلات عقل و نقل اور تاریخ و واقعات کے خلاف ہیں۔ ان کا مطلب غالباً یہ ہے کہ ہم سمجھ لیں کہ اللہ تعالٰی نے نہ کوئی رسول مبعوث کیا ہے اور نہ کوئی کتاب نازل کی ہے۔

    ڈاکٹر فواد زکریا اپنی کتاب کے مقدمہ میں "اسلامی تحریک" کی نسبت فرماتے ہیں:

    "نفاذ شریعت کے داعی بہت جذباتی اور عام لوگوں کو متاثر کرنے والی عبارتیں دہراتے رہتے ہیں اور کوئی ان عبارتوں کا تنقیدی جائزہ نہیں لیتا۔ پس ان کھوکھلی عبارتوں کو ایک دوسرے سے نقل کرتے چلے جاتے ہیں کہ یہ عبارتیں لوگوں میں حقائق کی طرح عام ہو جائیں حالانکہ اگر انھیں عقلی تجزیہ کی روشنی میں دیکھا جائے تو ان میں بڑا ابہام اور خلط مبحث پایا جاتا ہے۔ میں یہاں صرف دو عبارتوں پر اکتفا کر رہا ہوں۔ ایک انسانی حکم کے بالمقابل حکومت الٰہی کی تعبیر اور دوسرے یہ کہنا کہ اسلامی شریعت ہر زمان و مکان کے لیے صالح اور موزوں ہے۔"

    پہلی تعبیر کہ حکم الٰہی انسانی حکم کے بالمقابل ہے، ہمیں اس تعبیر سے اختلاف ہے۔ ہم اسلامی حکومت کے داعی ہیں جو انسانوں کی جدوجہد سے بروئے کار آئے گی اور اللہ کی شریعت اس کا محل استناد ہو گی، یعنی حکم انسانوں کا ہو گا اور شریعت اللہ تعالٰی کی ہو گی۔

    یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر ڈاکٹر صاحب "حکم الٰہی" ہی کی اصطلاح کیوں استعمال کرتے ہیں؟ کیا وہ اسلامی حکومت کو کلیسا کی حکومت سے تشبیہ دینا چاہتے ہیں جو "حق الہی" کے دعویٰ پر قائم در حقیقت پادریوں کی حکومت ہوتی تھی، جنھوں نے لوگوں کے ضمیر پر بھی پہرے بٹھا رکھے تھے اور سمجھتے تھے کہ جو فیصلہ زمین پر ہوا وہ آسمان پر ہوا۔ دراصل "حکم الٰہی" کی اصطلاح اختیار کرنے کا مقصد، جیسا کہ خود ڈاکٹر صاحب نے ایک اور موقع پر کہا "خیالی نزاع" پیدا کرنا ہے تاکہ اس پر تنقید آسانی سے ہو سکے۔

    پروفیسر فہمی ہویدی نے اخبار "الاہرام" 14 اکتوبر 1986ء کی اشاعت میں "حکم الٰہی کا افترا" کے عنوان کے تحت بہت عمدہ بات کہی ہے:

    "اسلامی حکومت" کا تصور انتہا پسند لادینی حلقوں کے شدید افترا، تدلیس اور تزویر کا ہدف بنا ہوا ہے۔ ان لوگوں کی سعی یہ ہے کہ کسی طرح ذہنوں میں یہ بات بٹھائی جائے کہ دراصل یہ حکم الٰہی کی دعوت ہے اور حکم الٰہی کی وہ صورت ہے جو قرون وسطیٰ کی تاریخ میں تمام برائیوں اور مصائب کے ساتھ ایک تاریک دور کے طور پر محفوظ ہے۔ چنانچہ اپنی مختلف تحریروں اور بیانات کے ذریعے وہ ہمارے ذہنوں میں ایسے خیالات انڈیلتے رہتے ہیں جن سے اسلامی نظام اور اس کے نفاذ سے متعلق نفرت اور ناگواری کے احساسات پیدا ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اسلامی نظام اور یورپ کے نظام کلیسا کے "حق الہی" میں التباس پیدا کرتے رہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ دینی نظام میں تقدیس اور احترام کے زیر پردہ نظام حکومت پاپائیت بن جاتا ہے اور اس طرح اقتدار کے حامل لوگ اسرار شریعت کے ترجمان بن جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انھیں یہ اختیار اللہ کی جانب سے عطا ہوا ہے۔ اس سلسلے میں لادینیت کے حامی ہمیں ماضی کی اس تاریخ سے ڈراتے ہیں جس کا ہماری سرزمین سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ لوگ ہمیں ان عفریتوں سے ڈراتے ہیں جو ہمارے گھروں میں کبھی داخل نہیں ہوئے، ان کی طرف سے ہمیں ایسے اوہام میں مبتلا کرنے کی سعی کی جا رہی ہے جن کا ہمارے ماضی، ہمارے افکار اور ہمارے دین سے کوئی تعلق نہیں۔"

    اگر بالفرض ہم اسلامی حکومت کے بارے میں ڈاکٹر صاحب کی "حکومت الہیہ" کی تعبیر تسلیم کر لیں تو اس صورت میں دیکھنا یہ ہو گا کہ وہ اس کی تردید میں کیا کہتے ہیں۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ اگرچہ اسلامی حکومت میں حکمرانی کی نسبت اللہ کی طرف ہو، اور ملکی قوانین جن کی طرف رجوع کیا جائے الٰہی ہوں، مگر حکمرانی کا عمل انسانی بن جاتا ہے اور انسانی رہتا ہے کیونکہ فرامین الٰہی بغیر انسانی مداخلت کے بروئے کار نہیں آ سکتے اور انسان ان کی تشریح و تعبیر اپنی مرضی کے مطابق کرتا ہے۔

    گویا ڈاکٹر صاحب یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ فرامین الٰہی کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ ان کی تعبیر و تطبیق کا عمل انسانی سوچ پر موقوف ہے جو اپنی خواہشات کے مطابق ان میں تبدیلی کر لیتے ہیں۔

    اس موقع پر ڈاکٹر صاحب اپنے دعوے کی دلیل میں ملکی دستور کی مثال پیش کرتے ہیں۔ چنانچہ ان کا کہنا ہے کہ دستور اور اس میں بیان کردہ اصول اگرچہ محترم ہوتے ہیں لیکن حکمران ان کی بھی پروا نہیں کرتے اور رعایا پر مستبدانہ حکومت کرتے اور ظلم و جبر سے کام لیتے ہیں۔ اسی طرح آسمانی شریعتیں بھی حکومت کو ظلم و استبداد سے نہیں روک سکتیں اور نہ انھوں نے روکا ہے بلکہ ہوتا یہ ہے کہ حکمران شریعت کے احکام کی ایسی تشریح کر لیتے ہیں جو ان کے مقاصد سے ہم آہنگ ہوتی ہے۔

    حیرانی کی بات ہے کہ ڈاکٹر صاحب جو دلیل دیتے ہیں وہ انہی کے خلاف جاتی ہے۔ اگر حکام دستور پر عمل نہیں کرتے اور اس کی من مانی تاویلیں کرتے ہیں تو اس کا یہ مطلب کبھی نہیں لیا گیا کہ دستور ہی کو ختم کر دیا جائے بلکہ اس کے برعکس ہوا یہ ہے کہ لوگ دستور کی بقاء اور اس پر عمل درآمد کے لیے مسلسل اور پیہم جدوجہد کرتے رہے ہیں۔ اگر دستور برقرار ہو تو اس کے تحفظ کی سعی کرتے ہیں اور اگر دستور معطل کر دیا گیا ہو تو دوبارہ اس کے احیاء کی جدوجہد کرتے ہیں ۔ اس کی غلط تاویل اور نامناسب توضیح و تشریح کی مخالفت کرتے اور اس کے ناروا انطباق کی روک تھام کرتے ہیں۔

    شریعت کی ہمہ گیر موزونیت

    اسلامی شریعت سے متعلق دو جملے ایسے ہیں جو ڈاکٹر فواد زکریا کو قطعاً پسند نہیں ۔ وہ اگر انھیں کسی کتاب میں پڑھ لیں یا لیکچر میں سن لیں تو اس سے ان کی طبیعت بگڑ جاتی ہے ۔ ان کا خیال ہے کہ اگرچہ عام مسلمانوں کے لیے یہ جملے بڑی جذباتی اپیل اور دینی اہمیت کے حامل ہیں لیکن اگر انھیں عقلی تنقید کی کسوٹی پر رکھ کے پرکھا جائے تو ان کی عملی قدر و قیمت صفر کے درجے تک گر جاتی ہے ۔ لیکن الحمد للہ! ہم نے ان میں سے پہلے جملے --- اسلامی شریعت اللہ تعالٰی کی نازل کردہ ہے --- سے متعلق ڈاکٹر صاحب کے دلائل کا جائزہ عقلی تنقید کی روشنی میں لیا ہے اور ان کا تارو پود بکھیر کر رکھ دیا ہے ۔

    دوسرا جملہ جو ڈاکٹر صاحب کی طبیعت پر گراں گزرتا ہے، یہ ہے کہ: "اسلامی شریعت ہر دور اور ہر مقام کے لیے موزوں ہے۔" چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ مجھے اس بارے میں شک ہے کہ ایسی کوئی صریح دینی نص موجود ہو جو براہ راست اس مفہوم کی حامل ہو۔ میری رائے میں اس عبارت کا جائزہ لینے سے اس میں دو بنیادی تضاد سامنے آتے ہیں:

    1. اول: انسان ایک تغیر پذیر ہستی ہے، لہذا ضروری ہے کہ اس کی زندگی کو منظم کرنے والے احکام بھی تغیر پذیر ہوں۔ فی الحقیقت انسان کا تغیر پذیر ہونا ایک ایسی اساسی حقیقت ہے جس سے کوئی صاحب فہم و شعور شخص انکار نہیں کر سکتا۔ اس تغیر کا مقتضا یہ ہے کہ انسان ان قواعد کے تابع ہو جو اس کے تغیر کے ساتھ بدلتے رہتے ہوں۔ ایک سادہ سی عقل رکھنے والا شخص بھی اس بات کو تسلیم نہیں کر سکتا کہ انسان کے لیے ایسے احکام ہوں جو وقت اور مکان کے بدل جانے کے باوجود اپنی اصل حالت پر قائم ہوں جب کہ انسان کی خود یہ حالت ہو کہ حجری دور سے لے کر راکٹوں کے زمانے تک اس کی زندگی بنیادی تغیرات کا شکار رہی ہو اور جزائر خط استواء کے ابتدائی معاشروں سے لے کر شدید نوعیت کی پیچیدگی کے حامل صنعتی معاشروں تک مکان کے تغییرات بھی اس پر اثر انداز ہوتے رہے ہوں۔

    2. دوم: دوسرا تضاد جو پہلے تضاد کے ساتھ مربوط ہے، اسلامی شریعت کے حامیوں کا یہ کہنا ہے کہ "اسلامی شریعت ہر دور اور ہر مقام کے لیے موزوں ہے" اس کا تو مطلب یہ ہے کہ لوگوں کی ذہنی اور فکری سرگرمیوں پر پابندی عائد کر دی جائے اور انھیں عقلی جمود اور تعطل کی کھائی میں دھکیل دیا جائے، کیونکہ اس سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالٰی نے کسی وقت اپنے بندوں کے لیے کچھ قواعد و ضوابط لازم کر دیے تھے، اب بندوں کا فرض ہے کہ وہ انہی کے مطابق عمل کریں۔ اس سلسلے میں بندوں کو جو اختیار ہے وہ صرف اتنا ہے کہ وہ اس نص کی کوئی تفسیر کر لیں یا تاویل کر لیں، لیکن جہاں تک عمومی ہدایات کا تعلق ہے تو وہ قطعی طور پر محدود اور متعین ہیں اور لوگ ان پر عمل کرنے کے پابند ہیں۔

      اس مقام پر تضاد یہ ہے کہ اس فکر کے حامل لوگ بھی یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالٰی نے انسان کو مکرم و معزز اور اپنا خلیفہ بنا کر اس دنیا میں بھیجا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایک پہلے سے مقرر طریقے پر چلنا اور انسانی زندگی میں تغییر و تنوع کے باوجود متعین قواعد کا پابند رہنا اس تکریم اور استخلاف کے تصور سے ہم آہنگ ہے؟ کیا ایک باپ کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ اپنی اولاد کی عقلی اور نفسیاتی نشوونما کا خواہاں بھی ہو اور وہ ان کو ایسے قواعد و ضوابط کا بھی پابند کر دے جن سے وہ ساری زندگی نہ نکل سکیں؟"

    حقیقت یہ ہے کہ میں نے قطعی حقائق میں شک پیدا کرنے والا اس قدر جری شخص کبھی نہیں دیکھا۔ ان صاحب کا مدعا یہ ہے کہ وہ ایسے تمام حقائق کو جو قطعی اور ہر قسم کے شک و شبہ سے بالاتر ہوں قبول و رد کے متحمل امور بنا دیں اور قطعی کو ظنی اور محکم کو متشابہ میں بدل دیں۔ اس طرح ڈاکٹر صاحب اس امر میں شک پیدا کرنا چاہتے ہیں کہ ایسی کوئی براہ راست دینی نص موجود ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ اسلامی شریعت ہر دور اور ہر مقام کے لیے موزوں ہے۔ بڑے تعجب کی بات ہے! کیا اس واضح اور اہم امر کے لیے بھی کسی جزئی نص کی ضرورت ہے! یہ تو ایسی لازمی اور قطعی حقیقت ہے جو دین کے تمام مجموعہ سے ثابت ہے، ورنہ پھر ختم نبوت کا کیا مفہوم ہو گا، اس کا کیا مطلب ہو گا کہ قرآن کریم کے نزول کے ساتھ آسمانی کتابوں کے نزول کا سلسلہ ختم ہو گیا اور اس کے کیا معنی ہوں گے کہ اسلام آ جانے کے بعد تمام شریعتیں منسوخ ہو گئیں اور اسلام ہی آخری شریعت اور دائمی ہدایت قرار پا گیا؟

    قرآن کریم میں اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے:

    كتب عليكم الصيام

    (البقرہ: 183)

    (تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں۔)

    كتب عليكم القصاص

    (البقرہ: 178)

    (تم پر قصاص لازم کیا گیا ہے۔)

    و ذروا ما بقى من الربا

    (البقرہ: 278)

    (جو ربا باقی رہ گیا اسے چھوڑ دو۔)

    يوصيكم الله في اولادكم للذكر مثل حظ الانثيين

    (النساء: 11)

    (اللہ تمھیں تمھاری اولاد کے بارے میں نصیحت کرتا ہے کہ مرد کا حصہ عورت کے حصہ کا دگنا ہے۔)

    کیا اللہ تعالٰی نے یہ احکام صرف ایک یا دو نسل کے لیے نازل فرمائے اور اس کے بعد انسانوں کو اجازت مل گئی کہ وہ ان احکام کو اپنی مرضی سے منسوخ کر دیں اور کہہ دیں کہ بس اب ان احکام کی مدت پوری ہو گئی۔ سوال یہ ہے کہ کون سی نسل پر یہ احکام موقوف قرار پائیں گے اور ایک نسل اور دوسری نسل میں فرق و امتیاز کی وجہ کیا ہو گی؟

    اللہ تعالٰی کے احکام میں اصل ثبات اور بقاء ہے۔ الا یہ کہ اللہ خود ہی اپنی پہلی شریعت کو منسوخ کر کے دوسری شریعت نازل فرما دے۔ اللہ کے سوا کسی انسان کا یہ اختیار نہیں کہ وہ اللہ کے نازل کردہ (احکام کو منسوخ کرے)۔

    اور حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اللہ کی طرف سے کوئی نئی شریعت نازل نہیں ہوگی۔ اس سے واضح ہوا کہ اسلامی شریعت دائمی اور ہر زمان و مکان کے لیے موزوں ہے۔

    بلاشبہ اسلامی شریعت ابدی اور تمام بنی نوع انسان کے لیے عام ہے۔ یہ ایک قطعی اور مسلمہ بات ہے جس کے لیے کسی دلیل کی ضرورت نہیں۔ مگر ڈاکٹر موصوف نہایت ہوشیاری سے ہمیں اس امر پر مجبور کرتے ہیں کہ ہم واضح امور کی توضیح کریں اور مسلمہ امور کو ثابت کرنے کے لیے بھی دلائل سامنے لائیں۔

    چنانچہ اب ہم پھر ان شبہات کے رد کی جانب لوٹتے ہیں جو انھوں نے اپنے دعوؤں کے استدلال کے طور پر اٹھائے ہیں۔

    غلط استدلال

    ڈاکٹر زکریا نے اس حقیقت کے رد کرنے کے لیے کہ اسلامی شریعت ہر زمان و مکان کے لیے موزوں ہے، دو امور پر اعتماد کیا ہے جنھیں ہم یہاں ان کے اپنے الفاظ میں بیان کرتے ہیں:

    "پہلے امر کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان کا جوہر تغیر ہے لہٰذا اس کے لیے ایسی شریعت موزوں نہیں ہو سکتی جس کا جوہر ثبات ہو۔"

    میں اس مقام پر کہتا ہوں کہ یہ دونوں ہی باتیں غلط ہیں، نہ انسان کا جوہر تغیر ہے اور نہ شریعت کا جوہر ثبات ہے۔

    دو اہم حقائق

    ڈاکٹر صاحب کے ان دونوں دعووں کی غلطی واضح کرنے سے پہلے میں قارئین کی توجہ درج ذیل حقائق کی جانب مبذول کرانا چاہتا ہوں:

    1. پہلی حقیقت

    ایمان کا تقاضا ہی یہ ہے کہ تمام مسلمان اللہ کو رب، اسلام کو دین، محمد کو رسول اور قرآن کو امام مانیں۔ یہ حقائق تسلیم کر لینے کے بعد مسلمانوں کے لیے یہ گنجائش ہی باقی نہیں رہتی کہ وہ ان احکام کے دائمی ہونے اور ان کے ہر زمان و مکان کے لیے موزوں ہونے میں ذرا سا بھی تامل کریں جو اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کی ہدایت کے لیے نازل فرمائے ہیں۔ کیونکہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ انسان اللہ سے زیادہ علم رکھتا ہے اور بندہ اپنے خالق و مالک کے سامنے یہ جسارت کرے کہ "میں اپنی ذات کے بارے میں، کائنات کے بارے میں اور گرد و پیش کی زندگی کے بارے میں صانعِ کائنات، واہبِ حیات اور خالقِ انسان سے زیادہ علم رکھتا ہوں"، ظاہر بات ہے بالکل غلط ہے۔

    کسی مسلمان کے لیے ہرگز یہ ممکن نہیں کہ وہ اس تصور کو موضوعِ بحث بنائے کہ اسلامی شریعت ہر زمان و مکان کے لیے موزوں ہے کیونکہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم اسلام کے بارے میں یہ غور کریں کہ آیا وہ من جانب اللہ ہے یا نہیں؟ لیکن جب کسی شخص نے "لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ" کہہ کر اس پر یقین کر لیا اور ایمان لے آیا تو اب اس امر کا سوال باقی نہیں رہا کہ اسلام من جانب اللہ ہے یا نہیں۔

    البتہ مسلمان بعض جزئی احکام کے بارے میں یہ غور کر سکتے ہیں کہ آیا یہ احکام من جانب اللہ ہیں یا نہیں، اور آیا یہ اللہ کی کتاب میں مذکور ہیں یا سنت نبوی سے ثابت ہیں، اور کیا ان کا انتساب اللہ تعالیٰ کی جانب درست ہے۔ اسی طرح جب کسی جزئی حکم سے متعلق قرآن و سنت کی کوئی نص معلوم ہو جائے تو اس کے بارے میں یہ معلوم کرنے کی جستجو کی جا سکتی ہے کہ کیا یہ نص قطعی ہے یا ظنی ہے اور آیا اس میں احتمال و اختلاف کی گنجائش موجود ہے یا نہیں؟

    2. دوسری حقیقت

    میں نے بیس سال قبل اپنی کتاب "فتاویٰ معاصرہ" میں اس امر پر متنبہ کیا تھا کہ اسلام کے دشمن ان مسلمہ اور قطعی امور میں بھی شک پیدا کرنا چاہتے ہیں جن کے بارے میں ہمیں پورے یقین اور قطعیت کے ساتھ معلوم ہے کہ یہ اسلام کے اساسی اور یقینی امور ہیں۔ یہ ایک فکری سازش ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ قطعیات اور ظنیات کا فرق مٹا کر ہر امر میں شبہ پیدا کر دیا جائے۔ چنانچہ جو لوگ تحریم خمر کے بارے میں شبہ پیدا کرنا چاہتے ہیں میں نے ان کے متعلق کہا تھا:

    سب سے عظیم فقہ قطعی امور کو ظنی بنا دینا اور جن امور پر اتفاق ہے ان کو بھی محل اختلاف بنا دینا ہے۔ تحریم خمر کے حکم سے اس بات کی بڑی وضاحت سے تائید ہوتی ہے کہ تمام امت ہر دور میں اس بات پر متفق رہی ہے کہ شراب کے حرام ہونے کا حکم یقیناً ایک اسلامی حکم ہے جس کے لیے کسی بحث یا دلیل کی ضرورت نہیں۔ جیسا کہ نماز اور زکوٰۃ کے فرض ہونے یا زنا اور سود کے حرام ہونے سے متعلق کسی دلیل کی ضرورت نہیں۔

    یہ بڑی خطرناک صورت حال ہے کہ ہم غفلت میں ان لوگوں کی باتیں مانتے چلے جائیں جو ضروریاتِ دین اور اصولوں تک کو بحث و نزاع کا موضوع بنا کر دین کی بنیادوں ہی کو منہدم کر دینا چاہتے ہیں۔ فقہاء کا اس امر پر اتفاق ہے کہ دین کی جو بات ضرورتاً و بداہتاً معلوم ہو اور کوئی ایسا شخص اس کا انکار کرے جو اسلام میں نیا داخل نہ ہوا ہو یا اس نے کسی جنگل یا دارالاسلام سے دور علاقے میں زندگی نہ گزاری ہو تو وہ کافر ہو کر دین سے خارج ہو جائے گا، چنانچہ اسلامی مملکت کا سربراہ اس سے توبہ اور اس گمراہی کو ترک کرنے کا مطالبہ کرے گا، ورنہ اس پر مرتدین کے احکام جاری کرے گا۔

    اس لیے مناسب تو یہی تھا کہ میں ڈاکٹر موصوف کے ان دعووں کا جواب نہ دیتا جو انھوں نے اسلام کے مسلمہ امور میں شک پیدا کرنے کے لیے کیے ہیں لیکن میں اپنے اس موقف سے دستبردار ہو کر، بطورِ کارِ ثواب، ان کے ان شبہات کا بھی جواب دیتا ہوں اور علماء بحث و مناظرہ کے بقول ان کو ڈھیل دے کر اور ان کی غلط باتوں کو بھی تسلیم کر کے جواب دیتا ہوں۔ جیسا کہ قرآن میں بھی اس اسلوب کے ساتھ جواب دیا گیا ہے:

    قُلْ إِن كَانَ لِلرَّحْمَـنِ وَلَدٌ فَأَنَا أَوَّلُ الْعَابِدِينَ (الزخرف: ۸۱) (آپ کہیے کہ اگر رحمٰن کے اولاد ہے تو میں سب سے پہلے اس کی عبادت کرنے والا ہوں۔)

    اور اسی طرح یہ فرمانِ الٰہی ہے:

    وَإِنَّا أَوْ إِيَّاكُمْ لَعَلَىٰ هُدًى أَوْ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ (سبا: ۲۴) (اور ہم یا تم ہدایت پر ہیں یا کھلی گمراہی میں ہیں۔)

    انسانی زندگی میں ثبات و تغیر

    اس ضروری بیان کے بعد میں بطورِ کارِ ثواب سیکولرزم کے وکیل ڈاکٹر صاحب کے اس قول کا جواب دیتا ہوں کہ انسان تغییر پذیر ہے اور شریعت ثابت ہے۔ جیسا کہ میں اس سے پہلے کہہ چکا ہوں ڈاکٹر صاحب کی یہ بات دونوں پہلوؤں سے غلط ہے۔

    یہ کہنا کہ انسان کا جوہر تغییر ہے، صحیح نہیں، اور کسی فلسفے کے پروفیسر کا یہ بات کہنا بہت عجیب ہے۔ اگر کوئی ایسی بات کہتا ہے تو درحقیقت وہ انسان کو اس طرح دیکھتا ہے جس طرح کہ اسے عوام دیکھتے ہیں، جن کی نظر سطحی باتوں پر رہتی ہے اور وہ گہرائی تک نہیں جاتے۔ عوام کی سوچ اعراض تک رہتی ہے، جوہر تک نہیں پہنچتی۔

    یہ لوگ آج کے انسان کو دیکھتے ہیں جس نے فاصلے مٹا دیے، آواز کو فیتوں میں بند کر دیا، ایٹم پھاڑ دیا، چاند پر کمند ڈال دی، دل کی اور آنکھ کی پیوند کاری کر دی، حیاتیات کی دنیا میں ایک انقلاب برپا کر دیا اور الیکٹرونی عقل (کمپیوٹر) ایجاد کر لیا۔ اس انسان کا موازنہ لوگ اس انسان سے کرتے ہیں جو اپنی دو ٹانگوں پر چلتا تھا یا کسی سواری کے جانور پر سوار ہو کر سفر کرتا تھا یا کشتی میں بیٹھ کر پانی کے دوش پر ہوا کی مدد سے تیرتا تھا اور جڑی بوٹیوں سے اپنا علاج کرتا تھا۔

    یہ لوگ کل کے انسان اور آج کے انسان کو دیکھ کر کہتے ہیں کہ انسان میں کس قدر عظیم تغیر واقع ہو گیا؟ لیکن انسان کی دنیا میں اس تغیر کے واقع ہونے کے باوجود کیا انسان کی ماہیت تبدیل ہو گئی؟ کیا اس کی حقیقت متغیر ہو گئی؟ کیا دورِ جدید کے ایٹم ایجاد کرنے والے انسان کا جوہر حجری دور کے انسان سے مختلف ہے؟ کیا بیسویں صدی کے آخر کا انسان ما قبل تاریخ کے انسان سے مختلف ہے؟

    سوال کا تعلق انسان کے جوہر سے ہے، اس کے لباس، غذا، سکونت، سواری اور اس کے زیرِ استعمال مختلف اشیاء سے نہیں اور اس امر سے بھی نہیں کہ انسان نے اپنے گردوپیش میں پھیلی ہوئی کائنات کی نسبت کس قدر علم حاصل کر لیا ہے اور کائنات کی قوتوں سے استفادے کی استطاعت کس حد تک حاصل کر لی ہے۔

    بلاشبہ انسان کی خور و نوش کی اشیاء، اس کے لباس اور بود و باش، اس کے ذرائعِ سفر اور آلات و ہتھیاروں میں عظیم تغیر واقع ہوا ہے۔ بلاشبہ انسان کی طبیعت کی معرفت اور اس کی تسخیر کے وسائل میں عظیم انقلاب آ گیا ہے۔ مگر اس کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ انسان کے جوہر اور اس کی ماہیت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ انسان از آدم تا ایں دم انسان ہی ہے۔ نہ اس کی فطرت میں کوئی تبدیلی آئی اور نہ اس کی اصلی جبلتوں میں کوئی تغیر واقع ہوا اور نہ اس کی وہ بنیادی ضروریات ختم ہوئیں جن کی تکمیل جنت میں بھی ہو رہی تھی اور جنت سے اترنے کے بعد بھی انسان جن کی تکمیل کے لیے دن رات تگ و دو میں لگا ہوا ہے۔ اسی بات کی جانب قصۂ آدم میں قرآن کریم نے ان الفاظ میں اشارہ فرمایا ہے:

    وَأَنَّكَ لَا تَجُوعُ فِيهَا وَلَا تَعْرَىٰ ۝ وَأَنَّكَ لَا تَظْمَأُ فِيهَا وَلَا تَضْحَىٰ (طہٰ: ۱۱۸-۱۱۹) (اور تمھارے لیے یہ نعمت ہے کہ اس جنت میں نہ تم بھوکے لگے ہوتے ہو، نہ پیاس اور دھوپ تمھیں ستاتی ہے۔)

    انسان خواہ بیسویں صدی کا ہو یا اکیسویں صدی کا، کسی بھی لحظہ اللہ کے احکام اور اس کی ہدایت سے بے نیاز نہیں ہو سکتا۔ اللہ کی ہدایت ہی سے انسان کی سیرت و کردار میں ارتقاء ہو سکتا ہے، اس کے خصائص محفوظ رہ سکتے ہیں اور وہ ہوائے نفس سے اپنے آپ کو بچا سکتا ہے۔

    انسان کو عقیدہ اور ایمان کی ضرورت ہمیشہ رہے گی اس لیے کہ عقیدہ ہی سے اس پر اپنے وجود کا راز منکشف ہوتا ہے۔ اسی طرح انسان ہمیشہ اللہ کی بندگی اور عبادت کا محتاج رہے گا کیوں کہ عبادت ہی سے وہ اپنی روح کی غذا حاصل کرتا ہے اور اس کا تعلق اپنے خالق سے استوار ہوتا ہے۔ انسان کو ہمیشہ ہی اخلاق و فضائل کی احتیاج رہے گی کہ یہی نفس کے تزکیہ اور طرزِ عمل کی اصلاح کا ذریعہ ہے۔ انسان کو ہمیشہ عملی شریعتوں کی احتیاج رہے گی کہ انہی کے ذریعہ انسان اپنے اور دوسروں کے درمیان عدل و انصاف قائم کر سکتا ہے۔

    انسان خواہ چاند پر چلا جائے یا مریخ میں پہنچ جائے اسے لازماً ایسے ربانی قواعد کی ضرورت ہے جن سے اس کا طرزِ عمل منضبط ہو اور اس کے باہمی تعلقات استوار ہوں۔ احکامِ الٰہی اسے اچھائیوں کا حکم دیں اور برائیوں سے روکیں، عمدہ و طیب اشیاء حلال قرار پائیں اور خبیث اشیاء حرام ٹھہریں، اس پر لازم کریں کہ وہ ایسے امور انجام دے جو نفع بخش ہوں، اور ان امور سے باز رہے جو مضرّت رساں ہوں۔ وہ امور اسے عدل و احسان کا پابند کریں، رشتہ داروں سے حسنِ سلوک پر آمادہ کریں اور برائیوں اور منکرات سے اسے باز رکھیں۔

    انسان کی لازمی ضرورت ہے کہ ربا، شراب اور جوا حرام ہو؛ زنا، بدکاری، چوری، باطل طریقوں سے لوگوں کا مال کھانا اور ظلم و زیادتی ممنوع ہو۔

    انسان کی ضرورت ہے کہ وہ نماز قائم کر کے اپنے خالق و مالک سے تعلقات کو مضبوط بنائے، ادائے زکوٰۃ کے ذریعہ بنی نوع انسان سے حسنِ سلوک کرے اور تعمیرِ ارض کے ذریعے کائنات سے اپنا رشتہ استوار کرے۔

    انسان کو ہمیشہ ہی اس امر کی ضرورت رہے گی کہ جب وہ اللہ کی حدود سے تجاوز کرے، جب وہ انسانوں کے حقوق پامال کرے اور ان کی جان و مال اور عزت و آبرو کو گزند پہنچائے تو اسے ان امور پر سرزنش اور تنبیہ کی جائے۔ انسان کا چاند پر پہنچ جانا اور فضا کو مسخر کر لینا یہ جواز فراہم نہیں کرتا کہ اسے مذکورہ امور پر سزا نہ دی جائے، بلکہ انسان کی یہ ترقی تو اس بات کی مؤید ہے کہ انسان کی ان نافرمانیوں پر اسے ضرور سزا ملنی چاہیے۔ اور یہ بھی ضروری ہے کہ جو نعمتیں، آسانیاں اور سہولتیں اسے بحکمِ الٰہی میسر آئی ہیں وہ ان کا شکر ادا کرے اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے حسنِ سلوک کرے۔

    اس حقیقت کے ثابت ہو جانے کے بعد مصنف کے اس قول کی گنجائش باقی نہیں رہی کہ:

    "عقل، جس نے یہ بتایا ہے کہ انسان کا جوہر تغیر ہے، شیطان کی ساختہ نہیں ہے۔ جو لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ شریعت ہر زمان و مکان کے لیے موزوں ہے، ان پر لازم ہے کہ وہ یہ اعتراف کریں کہ اللہ نے انسان کو جو عقل عطا کی ہے، جو علم دیا ہے، اور علم سے استفادہ کا جو حکم دیا ہے، وہ خود اس حقیقت کی نشاندہی کرتا ہے کہ انسان کی اساسی حقیقت تغیر ہے جس سے کوئی انسانی مظہر خارج نہیں۔"

    مصنف نے یہ عبارت اپنی کتاب کے ٹائٹل پر نقل کی ہے اور انھیں اس پر ایسا فخر ہے جیسے انھوں نے کوئی نئی حقیقت دریافت کر لی ہو۔

    ڈاکٹر صاحب جس بات سے استدلال کرتے ہیں اور جسے وہ زبردست دلیل خیال کرتے ہیں (بشرطیکہ ہم تھوڑی سی رعایت دے کر ان کی باتوں کو دلیل سمجھ لیں)، وہ درحقیقت انہی کے خلاف جاتی ہے اور تار عنکبوت سے بھی زیادہ کمزور ہے۔

    وَإِنَّ أَوْهَنَ الْبُيُوتِ لَبَيْتُ الْعَنكَبُوتِ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ (العنكبوت: ۴۱) (گھروں میں سب سے کمزور گھر مکڑی کا گھر ہے اگر انھیں علم ہے۔)

    جو شئے حقیقت کے مطابق اور مصنف کا جواب ہے وہ یہ ہے کہ جو عقل انسان کی اس طرف رہنمائی کرتی ہے کہ انسان کا جوہر ثبات ہے وہ بھی شیطان کی ساختہ نہیں ہے۔ کیونکہ جو شئے انسان میں تبدیل ہوتی ہے وہ جوہر نہیں، عرض ہے، حقیقت نہیں، صورت ہے۔ اس بنیاد پر دائمی نصوص میں شریعت انسان کے لیے شرعی احکام اور ان امور کی تفصیلات بیان کرتی ہے جو انسان کی زندگی میں تبدیل نہیں ہوتے۔ اور ان امور میں خاموشی اختیار کرتی ہے یا اختصار سے کام لیتی ہے جو تغیر پذیر ہیں۔ لہٰذا جو لوگ اس بات میں شک پیدا کرنا چاہتے ہیں کہ شریعت ہر زمان و مکان کے لیے موزوں ہے، ان پر لازم ہے کہ وہ یہ اعتراف کر لیں کہ عقل جو اللہ نے انسان کے اندر پیدا فرمائی ہے، وہ علم جس کے حصول کا انسان کو حکم دیا ہے اور اس علم سے استفادہ کا جو حکم انسان کو دیا ہے وہ خود اس حقیقت کی نشاندہی کرتا ہے کہ انسان کا جوہر اور اس کی حقیقت ثبات ہے۔ اور ثبات اس تغیر کے پہلو بہ پہلو موجود ہے جو اس کے ظاہری احوال میں پایا جاتا ہے۔

    اسلامی شریعت کا ثبات اور وسعت پذیری

    مصنف کا یہ کہنا بھی درست نہیں کہ شریعت کا جوہر ثبات ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام شریعتوں کے آخر اور رسالتوں کے اختتام پر اسلام کو ایسی شریعت بنایا ہے جس میں ثبات و دوام اور ترقی و وسعت پذیری کے عناصر بیک وقت موجود ہیں۔ یہ دینِ اسلام کا اعجاز ہے جو اس کے عموم و خلود اور اس کے ہر زمان و مکان کے لیے موزوں ہونے کی ایک اہم دلیل ہے۔

    اسلامی شریعت یعنی اللہ کے اس آخری اور ابدی پیغام میں جو امور ثبات اور جو پہلو وسعت پذیری اور لچک کے موجود ہیں ہم ان کو اس طرح بیان کر سکتے ہیں:

    • مقاصد و نتائج میں ثبات ہے اور وسائل و اسالیب میں لچک ہے۔
    • اصول و کلیات میں ثبات ہے اور فروع و جزئیات میں لچک اور وسعت ہے۔
    • دینی اور اخلاقی اقدار میں ثبات اور دنیوی اور عملی معاملات میں لچک اور وسعت پذیری ہے۔

    سوال کیا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ طریقہ کیوں اختیار فرمایا اور یہ کیوں نہیں کیا کہ یا تو اسلامی شریعت مطلقاً ثبات کی حامل ہوتی یا اس میں صرف وسعت پذیری اور لچک کا وصف ہوتا؟

    اس کا جواب یہ ہے کہ اسلام اپنی اس وسعت کی وجہ سے انسانی زندگی کی طبیعت کے ساتھ بھی ہم آہنگ ہے اور تمام عظیم کائنات کے ساتھ بھی ہم آہنگ ہے۔ اور اس طرح دینِ اسلام انسانی فطرت اور کائنات کی فطرت کے ساتھ ساتھ چلتا ہے۔

    انسانی زندگی کی طبیعت میں بعض عناصر ثابت اور غیر متغیر ہیں اور بعض وقت کے ساتھ ساتھ بدل جانے والے۔

    اگر ہم اپنے گردوپیش میں موجود کائنات پر نظر ڈالیں تو ہم دیکھیں گے کہ بہت سی چیزیں ثابت ہیں جن پر ہزارہا ہزار سال گزر گئے مگر وہ اسی طرح ہیں مثلاً زمین اور آسمان، پہاڑ اور سمندر، دن اور رات، شمس و قمر اور اللہ کے حکم کے تابع فضاؤں میں تیرتے ہوئے سیارگان۔

    اسی طرح کائنات میں بعض جزئی عناصر تغییر پذیر ہیں مثلاً سمندر میں نئے جزیرے ابھرتے ہیں، چھوٹے سمندر خشک ہو جاتے ہیں، نہریں نکالی جاتی ہیں، پانی خشکی پر آ جاتا ہے اور خشکی پانی کو نیچے دھکیل دیتی ہے۔ مردہ زمین لہلہا اٹھتی ہے، بنجر چٹیل میدان سرسبز ہو جاتے ہیں۔ نئی بستیاں آباد ہو جاتی ہیں، آباد بستیاں ویران ہو جاتی ہیں، پودے پھلتے پھولتے ہیں اور مرجھا جاتے ہیں اور خس و خاشاک بن کر اڑ جاتے ہیں۔

    انسان اور کائنات میں ثبات اور تغیر لحظہ بہ لحظہ ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔ کلیات اور جوہر میں ثبات ہے، جزئیات اور مظاہر میں تغیر ہے۔

    اگر تغیر اور لحظہ بہ لحظہ تبدیلی کائنات اور زندگی کا قانون ہے تو ثبات بھی ایک قانون ہے جو بلاشبہ ساری کائنات میں جاری و ساری ہے۔

    بعض قدیم فلاسفہ تغیر اور عدمِ ثبات کے اصول کے قائل تھے۔ وہ تغیر کو کائنات میں جاری بنیادی اصول تصور کرتے تھے، لیکن بعض دیگر فلاسفہ ثبات اور عدمِ تغیر کو کائنات کی عام اصل کلی اور اساس سمجھتے تھے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ثبات اور تغیر کے دونوں اصول کائنات اور زندگی میں یکساں کار فرما ہیں۔

    اس لیے تعجب کی کوئی بات نہیں اگر اسلامی شریعت ثبات اور تغیر یا لچک کے ہر دو اصولوں پر مشتمل اور انسانی فطرت نیز کائنات کی فطرت سے ہم آہنگ ہے۔

    یہی وہ خوبی ہے جس کی بنا پر اسلامی معاشرہ اپنے بنیادی اصولوں، اقدار اور مقاصد کے لحاظ سے ثابت و برقرار، اور اپنی ظاہری شکل و صورت، طریقوں اور ذرائع کے لحاظ سے ہر لمحہ بدلتے رہنے کے باوجود ہمیشہ زندہ اور ارتقاء پذیر رہتا ہے۔

    ثبات کی بنا پر معاشرہ تحلیل ہونے، ختم ہو جانے اور دوسرے معاشروں میں گھل مل جانے نیز ٹوٹ کر اور بکھر کر متعدد متضاد معاشروں میں تقسیم ہو جانے سے محفوظ رہتا ہے، خواہ داخلی طور پر اس میں تضادات پیدا ہو چکے ہوں اور ظاہری صورت میں وہ واحد اور مستحکم نظر آتا ہو۔

    ثبات اور عدمِ تغیر کی بنا پر قانون سازی کے عمل میں یکسانیت رہتی ہے جس سے افرادِ معاشرہ کا ایک دوسرے پر اعتماد قائم ہوتا ہے اور آپس کے تعلقات و معاملات مضبوط بنیادوں پر استوار رہتے ہیں، روز روز کے سیاسی اور اجتماعی انقلابات سے متاثر نہیں ہوتے۔ تغیر اور لچک کی خصوصیت کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ معاشرہ اپنے وجود اور اپنے تعلقات کو بدلتے ہوئے حالات کے مطابق ڈھالتا رہتا ہے، زمانے کے تغیر اور زندگی کے بدلتے ہوئے اطوار سے اپنے خصائص اور ذاتی عناصرِ حیات کو ضائع کیے بغیر ہم آہنگی پیدا کر لیتا ہے۔

    اسلامی شریعت میں موجود اس ثبات و تغیر اور لچک کے بہت سے مظاہر اور متعدد دلائل ہیں جو ہم اسلامی شریعت کے مصادر اور اس کی تاریخ میں ملاحظہ کر سکتے ہیں۔ مثلاً کتاب اللہ اور سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم قطعی مصادر اور تشریع کی ثابت اور غیر متغیر نصوص پر مشتمل ہیں۔ چنانچہ قرآن کریم اصل اور دستور کی حیثیت رکھتا ہے، سنت اس کی نظری شرح اور عملی بیان ہے۔ دونوں مصادر الٰہی اور معصوم ہیں، کوئی مسلم ان سے صرفِ نظر نہیں کر سکتا۔

    قُلْ أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ (النور: ۵۴) (کہیے اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی۔)
    إِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِينَ إِذَا دُعُوا إِلَى اللَّـهِ وَرَسُولِهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ أَن يَقُولُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا (النور: ۵۱) (مومنوں کا کام یہ ہے کہ جب انھیں اللہ اور رسول کی طرف بلایا جائے کہ وہ ان کے درمیان فیصلہ کریں تو وہ یہ کہیں کہ ہم نے سنا اور ہم اطاعت کرتے ہیں۔)

    اجتہادی مصادر "لچک" اور تغیر کے مظہر ہیں اور ان سے استفادہ کرنے اور ان کو ماخذ بنانے یا دلیل کے طور پر استعمال کرنے میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔ بعض فقہاء بہت کثرت اور توسع کے ساتھ ان سے استفادہ کرتے ہیں اور بعض محدود اور کم صورتوں میں ان کو دلیل بناتے ہیں مثلاً اجماع، قیاس، استحسان، مصالحِ مرسلہ، اقوالِ صحابہ اور اسلام سے پہلے کی شریعت جیسے مآخذ اور استنباط کے طریقے وغیرہ۔

    اس ساری بحث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ احکامِ شریعت دو نمایاں قسموں پر مشتمل ہیں:

    1. ایک قسم ثبات اور دوام کی حامل ہے۔
    2. دوسری قسم تغییر اور لچک کی خصوصیت رکھتی ہے۔

    پانچوں اساسی عقائد میں ثبات موجود ہے یعنی اللہ پر ایمان، فرشتوں پر ایمان، کتابوں پر ایمان، رسولوں پر ایمان اور یومِ آخرت پر ایمان قرآن کریم نے کئی مقامات پر ان ایمانیاتِ خمسہ کا ذکر فرمایا ہے، مثلاً یہ ارشادِ الٰہی:

    لَّيْسَ الْبِرَّ أَن تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَـٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ (البقرہ: ۱۷۷) (نیکی یہ نہیں کہ تم نے اپنے چہرے مشرق کی طرف کر لیے یا مغرب کی طرف بلکہ نیکی یہ ہے کہ آدمی اللہ کو اور یومِ آخر کو اور ملائکہ کو اور اللہ کی نازل کی ہوئی کتاب کو اور اس کے پیغمبروں کو دل سے مانے۔)

    ایک اور مقام پر فرمایا:

    وَمَن يَكْفُرْ بِاللَّـهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا بَعِيدًا (النساء: ۱۳۶) (جس نے اللہ اور اس کے ملائکہ اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں اور روزِ آخرت سے کفر کیا وہ گمراہی میں بھٹک کر بہت دور نکل گیا۔)

    پانچوں عملی ارکان بھی ثبات کے حامل ہیں یعنی شہادتین، قیامِ نماز، ادائے زکوٰۃ، صومِ رمضان اور حجِ بیت اللہ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان ارکان کے بارے میں صحیح احادیث میں مروی ہے کہ اسلام کی بنیاد انہی ارکان پر ہے۔

    یقینی محرمات، مثلاً جادو کرنا، کسی انسان کو قتل کرنا، زنا کرنا، سود کھانا، یتیم کا مال کھانا، پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانا، میدانِ جنگ سے بھاگ جانا، کسی کا مال یا حق غصب کرنا، چوری کرنا، غیبت کرنا، چغل خوری کرنا وغیرہ جو قرآن و سنت سے قطعیت کے ساتھ ثابت ہیں، یہ تمام امور بھی ثبات کے حامل ہیں۔ بنیادی اچھائیوں میں صدق، امانت، عفت، صبر، ایفائے عہد اور حیاء جیسے مکارمِ اخلاق جن کو قرآن و سنت نے ایمان کی شاخیں قرار دیا ہے، یہ بھی ثبات کے حامل ہیں۔

    نکاح و طلاق، میراث و حدود، قصاص اور دیگر اسلامی قوانین جو نصوصِ قطعیہ سے ثابت ہیں، ثبات اور عدمِ تغیر کے حامل ہیں۔ ان میں رد و بدل ممکن نہیں کیونکہ یہ احکام قرآن و سنت کے بیان کردہ ہیں۔ کوئی معاشرہ، کوئی خلیفہ یا سربراہ مملکت یا انسانوں کی کوئی جمعیت ان قوانین کو معطل نہیں کر سکتی کیونکہ یہ کلیاتِ دین اور اس کے قواعد و اساسیات ہیں۔ جیسا کہ امام شاطبی نے کہا ہے کہ یہ ابدی کلیات ہیں جن پر دنیا قائم ہے اور جو مخلوق کی مصلحتوں پر مشتمل ہیں۔ شریعت انہی کلی مصالح کے موافق ہے اور یہ حکمِ الٰہی تا قیامت باقی رہے گا۔

    اس کے بالمقابل دوسری قسم جو وسعت پذیری اور لچک کی حامل ہے، اس کا تعلق احکام کی جزئیات اور عملی تفصیلات، بالخصوص ان مسائل سے ہے جو "سیاستِ شرعیہ" کہلاتے ہیں۔

    علامہ ابن قیم اپنی کتاب "اغاثۃ اللہفان" میں فرماتے ہیں کہ:

    احکام کی دو قسمیں ہیں: پہلی قسم: احکام کی وہ ہے جس میں زمان و مکان کے بدل جانے اور ائمہ کے اجتہاد سے کوئی تبدیلی نہیں آ سکتی۔ مثلاً فرائض و محرمات اور جرائم کی مقررہ سزائیں وغیرہ۔ اس قسم میں کوئی تغیر و تبدل نہیں ہو سکتا۔ دوسری قسم کے احکام وہ ہیں جو زمان و مکان اور حالات کی تبدیلی کے ساتھ باقتضائے مصلحت بدل سکتے ہیں، مثلاً تعزیرات کی مقدار اور ان کی نوعیت میں فرق ہو سکتا ہے کیونکہ شارع نے اس قسم میں حسبِ مصلحت تنوع پیدا فرمایا ہے۔

    اس کے بعد ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کے عمل سے متعدد مثالیں پیش کر کے فرمایا ہے کہ:

    "یہ وسیع باب ہے جس میں بہت سے لوگوں کو اشتباہ پیدا ہوا ہے۔ یعنی احکامِ ثابتہ اور لازمہ جن میں ایسی تعزیرات سے کوئی تبدیلی نہیں آ سکتی جو اپنے وجود و عدم میں مصالح کی تابع ہیں"۔

    یہ موضوع بڑا وسیع ہے لیکن یہاں مزید تفصیل کی گنجائش نہیں۔ جو لوگ مزید مطالعہ کرنا چاہیں وہ ہمارے ان مباحث کی طرف رجوع کریں جو ہم نے اس موضوع سے متعلق اپنی تصانیف میں تفصیل کے ساتھ پیش کیے ہیں۔

    شریعت اور انسان پر پابندی

    سیکولرزم کے وکیل ڈاکٹر زکریا اسلامی شریعت کے دوام اور عموم کو تسلیم نہیں کرتے اور عامہ المسلمین کی اس تعبیر پر اعتراض کرتے ہیں کہ اسلامی شریعت ہر زمان و مکان کے لیے موزوں ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ اس میں دو اساسی تضادات ہیں۔ پہلا تضاد ان کے خیال میں یہ ہے کہ انسان کا جوہر تغیر ہے اور شریعت کا جوہر ثبات ہے۔ ہم ان دونوں دعووں کو قطعی علمی منطق کے ساتھ رد کر چکے ہیں۔

    جہاں تک دوسرے تضاد کا تعلق ہے تو اس کے بارے میں ڈاکٹر موصوف فرماتے ہیں کہ یہ پہلے تضاد کے ساتھ مستحکم طریقے پر مربوط ہے اور وہ یہ کہ شریعت کا ہر زمان و مکان کے لیے موزوں ہونا دراصل انسان پر پابندی لگانا اور ابدی جمود کا حکم عائد کرنا ہے، کیونکہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اللہ نے کسی وقت لوگوں کے لیے کچھ قواعد و ضوابط لازم کر دیے تھے اور اب ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ ہمیشہ انہی کے مطابق چلیں۔ زیادہ سے زیادہ انھیں جو اختیار ہے وہ یہ ہے کہ اس نص کی تفسیر کر لیں یا تاویل کر لیں لیکن جہاں تک عمومی ہدایت کا تعلق ہے تو وہ محدود و متعین ہے اور لوگ اس پر عمل کرنے کے پابند ہیں۔

    مصنف کے نزدیک یہ بات انسان کی تکریم اور استخلاف فی الارض کے تصور سے متصادم ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کیا پہلے سے متعین طریقے پر چلنا اور انسانی زندگی میں تغیر و تنوع کے باوجود مقررہ قواعد کا پابند رہنا اس تکریم و استخلاف کے مطابق ہے؟

    ڈاکٹر صاحب کا یہ دعویٰ بھی پہلے دعوے پر مبنی ہے یعنی یہ کہ انسان کا جوہر تغیر ہے، جب یہ دعویٰ غلط ہو گیا تو اس باطل پر قائم ہونے والا دعویٰ بھی باطل ہو گیا۔ مگر اس کے باوجود ہم کئی صورتوں سے مصنف کے اس دعوے کی تردید کرتے ہیں:

    1. اہلِ قانون کی تعبیر: یہ دعویٰ بظاہر بھی قابلِ رد ہے کیونکہ یہ تمام امتِ اسلامیہ، سنی، شیعہ، خوارج اور تمام فرقوں اور مذاہب کی متفقہ رائے کے خلاف ہے۔ مسلمانوں کے درمیان کبھی اس معاملے میں اختلاف نہیں ہوا کہ اسلامی شریعت بلحاظ مکان عام ہے، اور باعتبار زمان دائمی ہے۔ کبھی کسی کے دل میں یہ خیال تک نہیں آیا کہ شریعت کسی خاص قوم یا کسی خاص نسل کے لیے ہے یا کسی خاص دور اور زمانے کے لیے مخصوص ہے۔ یہ ایک بالکل قطعی اور یقینی امر ہے اور ضروریاتِ دین میں سے ایک ایسی ثابت شدہ حقیقت ہے جس کے لیے دلیل کی ضرورت نہیں اور نہ اس کا انکار کرنے والے کے جواب کی ضرورت ہے۔
    2. انسانی ذہنی اور فکری سرگرمیوں کی آزادی: انسان اگر شریعت کا اتباع کرے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کی ذہنی اور فکری سرگرمیوں پر کوئی پابندی عائد کر دی گئی ہے کیونکہ یہ بات کہنا تو اس وقت قابل توجہ ہو سکتا تھا جب شریعت نے ہر جزئی معاملے کی تفصیلات بیان کی ہوتیں اور معمولی روز مرہ کے معاملات سے متعلق بھی تفصیلی احکام دیے ہوتے۔ حالانکہ حقیقت اس کے برعکس یہ ہے کہ شریعت نے انسان کی عقلی سرگرمیوں کے لیے وسیع میدان کھلا چھوڑ دیا ہے۔ مثلاً:
      1. خالص دنیوی معاملات میں شریعت نے انسان کو مکمل آزادی عطا کی ہے اور اسے پورا پورا اختیار دیا ہے کہ وہ اپنی عقل سے کام لے کر ہر روز پیش آنے والے امور اور جدید مسائل کا صحیح حل دریافت کرتا رہے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
        تم اپنے دنیا کے معاملات سے زیادہ باخبر ہو۔ (مسلم)
      2. اسلامی شریعت نے انسان کی انفرادی زندگی اور معاشرتی امور سے متعلق ایک بہت بڑا دائرہ خالی رہنے دیا ہے اور اس کے بارے میں لازمی احکام بیان نہیں کیے۔ اسے آپ عفو کا دائرہ کہہ سکتے ہیں۔ جیسا کہ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ہے کہ:
        "جو اللہ نے حلال کر دیا ہے وہ حلال ہے اور جسے اس نے حرام کر دیا ہے وہ حرام ہے اور جس سے سکوت اختیار فرمایا وہ عفو ہے۔ سو تم اللہ کی عافیت طلب کرو کیونکہ اللہ کوئی شئے بھولنے والا نہیں"۔ ازاں بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی: "وَمَا کَانَ رَبُّکَ نَسِیًّا" (مریم: ۶۴)

        اسی طرح یہ حدیث ہے کہ:

        اللہ نے کچھ فرائض مقرر فرما دیے ہیں انھیں ضائع نہ کرو، کچھ حدود متعین کر دی ہیں ان سے تجاوز نہ کرو اور تمھارے لیے رحمت کے طور پر، نہ کہ نسیان کی وجہ سے، کچھ امور سے سکوت اختیار فرمایا ہے ان سے بحث نہ کرو۔ (اس حدیث کو امام دار قطنی نے روایت کیا ہے اور امام نووی رحمۃ اللہ علیہ کی الاربعین میں بھی مذکور ہے۔)
      3. اسلامی شریعت کی نصوص بالعموم اصولی احکام اور مبادی پر مشتمل ہیں اور ان میں تفصیلات سے تعرض نہیں کیا گیا ماسوا ان متعین مسائل کے جن کی خصوصیت ثبات اور عدمِ تغیر ہے۔ اور موزوں یہی تھا کہ وہ ثابت و غیر متغیر رہیں۔ مثلاً خاندانی معاملات و مسائل جن کی قرآن نے تفصیل بیان کی ہے تاکہ خاندان کا نظام اختلافات و خواہشات کی نذر ہو کر پارہ پارہ نہ ہو جائے۔ اسی اصول کو فقہاء نے اس طرح بیان کیا ہے کہ شریعت زندگی کے ان پہلوؤں سے متعلق تفصیلات بیان کرتی ہے جن میں تغیر و تبدل نہیں ہوتا اور تغییر پذیر معاملات میں اجمال سے کام لیتی ہے یا سکوت اختیار کرتی ہے۔

      شریعت نے جن امور کی تفصیل بیان کی ہے وہ تفصیل اکثر ایسی نصوص پر مشتمل ہوتی ہے جن کی ایک سے زائد تعبیرات کی جا سکتی ہیں اور ان میں ایک سے زائد رائے کا احتمال ہوتا ہے۔ یعنی ان نصوص کی دلالت قطعی نہیں ہوتی بلکہ اکثر نصوص ایسی ہیں کہ ان کی دلالت بھی ظنی ہوتی ہے اور ثبوت بھی ظنی ہوتا ہے جس کی بنا پر مسلم مجتہد کے لیے اختیار و انتخاب یا ابداع و انشاء کی گنجائش باقی رہتی ہے۔ چنانچہ فقہاء کہتے ہیں کہ زمان و مکان کے تغیر اور عرف و حالات کی تبدیلی سے فتویٰ تبدیل ہو جاتا ہے اور احکام ضرورت کے مطابق ہوتے ہیں۔ نیز یہ کہ جہاں تنگی ہو وہاں توسع پیدا کیا جاتا ہے اور مشقت کے مقام پر سہولت اور آسانی کی راہ نکالی جاتی ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے لیے آسانی اور سہولت چاہتا ہے، سختی اور شدت نہیں چاہتا۔ اللہ نے دین میں کوئی تنگی نہیں رکھی۔

      ان تمام توضیحات سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی شریعت نے لوگوں کی گردنوں میں طوق اور ان کے پاؤں میں بیڑیاں نہیں ڈالیں بلکہ دراصل شریعت کے اصول رہنمائی اور ہدایت کے لیے ہیں اور راستے کی علامات اور اس پر چلنے کے قواعد کی حیثیت رکھتے ہیں تاکہ لوگ آپس میں نہ ٹکرائیں اور جان و مال کے ضیاع سے محفوظ رہیں۔

    3. مسلمانوں کا صدیوں کا عمل: مسلمان صدیوں سے اس شریعت پر عمل کر رہے ہیں۔ چنانچہ اس پر عمل پیرا ہو کر انھوں نے عدل و احسان پر مبنی بے مثال نظامِ حکومت قائم کیا، علم و ایمان کی اساس پر مبنی پُر فخر تہذیب استوار کی اور ساری دنیا میں اسلام کی اشاعت کی۔ مسلمان اسلام کا پیغام لے کر فارس، روم اور مصر کی قدیم ترین تہذیبوں کے مراکز میں پہنچے۔ کبھی شریعت ان کے راستے میں رکاوٹ اور ان کی ترقی و سربلندی میں مزاحم نہیں ہوئی۔ شریعت مسلمانوں کے لیے عقل کی رہنمائی کرنے والا نور اور قلوب کو جلا بخشنے والی روح ثابت ہوئی۔ آپس کے اختلاف کے وقت وہ اسی کی جانب رجوع کرتے، اسی سے رہنمائی حاصل کرتے اور وہی انھیں محض خواہشِ نفس پر چلنے سے باز رکھ کر تباہ و برباد ہونے سے بچاتی۔

    امتِ مسلمہ کی تاریخ کا مطالعہ کرنے والے کو یہ حقیقت واضح طور پر نظر آتی ہے کہ جس دور میں امت نے شریعت کو صحیح طور پر سمجھا اور اچھی طرح اس کی تطبیق کی اسے قوت و طاقت حاصل ہوئی، اس میں اتحاد و اتفاق پیدا ہوا، ذلت کی جگہ عزت حاصل ہوئی، رزق کی فراوانی ملی اور خوف سے امن حاصل ہوا۔ اور جس دور میں امت نے اسلامی شریعت کے فہم میں غلطی اور اس کی تطبیق میں کوتاہی سے کام لیا تو ضعف و ذلت اور رسوائی سے دوچار ہوئی، اس پر مشرق و مغرب کے دشمن ہر جانب سے ٹوٹ پڑے۔ ہماری تمام تاریخ اس حقیقت پر گواہ ہے۔

    مجھے اس سے انکار نہیں کہ اسلام کی طویل تاریخ میں ایسے مراحل بھی آئے جب شریعت کے فہم میں غلطیاں اور اس کی تطبیق میں کوتاہیاں کی گئیں، مگر اس میں شریعت کا کوئی قصور نہیں، شریعت انسانوں کی خطاؤں اور غلطیوں سے مبرا ہے۔

    علامہ ابن قیم حالات کی تبدیلی سے فتویٰ بدل جانے کے بارے میں لکھتے ہیں:

    شریعت سراسر عدل و حکمت اور رحمت و مصلحت پر مبنی ہے۔ ایسا کوئی مسئلہ جو عدل و حکمت اور رحمت و مصلحت سے خالی ہو وہ شریعت کا حکم نہیں، خواہ اسے تاویلیں کر کے شریعت میں داخل کر لیا گیا ہو۔“

    اس امر میں تعجب کا کوئی پہلو نہیں کہ انسانوں کا خالق ان کی زندگی سے متعلق قوانین اور احکام وضع فرمائے اور ان کے لیے ایسا منہاج مقرر فرما دے جس سے وہ راضی ہو اور اس کے ماسوا سے ناخوش ہو۔ وہ انسانیت کے لیے ایسے نشاناتِ راہ مقرر کر دے جن سے بنی نوع انسان رہنمائی حاصل کرے اور زندگی کے سفر میں اس کے مقرر کردہ نشان ہائے منزل کو مدِ نظر رکھے۔

    جی ہاں، اس میں تعجب کا کوئی پہلو نہیں، اللہ کی یہی شان ہے۔ اس نے اپنے بندوں کے لیے کائناتی قوانین اور نوامیسِ قدرت مقرر کر دیے ہیں جو جبراً انسانوں پر جاری ہیں، مثلاً موت و حیات، صحت و مرض، نیند اور بیداری، بھوک اور سیری، پیاس اور سیرابی، اور جوانی اور بڑھاپا اور اسی طرح تمام کائناتی قوانین جن سے کوئی انسان چھٹکارا حاصل نہیں کر سکتا! اسی طرح تمام کائنات نوامیسِ قدرت کی پابند اور احکامِ الٰہی کے تابع ہے۔ ارض و سماء، شمس و قمر، سمندر اور دریا، پہاڑ اور وادیاں، حیوانات، نباتات، جمادات اور افلاک سب کے سب ایسے محکم، غیر متغیر اور ثابت قوانین کے تابع ہیں جن میں کوئی تغیر نہیں ہوتا۔

    فَلَن تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّـهِ تَبْدِيلًا وَلَن تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّـهِ تَحْوِيلًا (فاطر: ۴۳) (تم اللہ کے طریقے میں کوئی تبدیلی نہ پاؤ گے۔ تم کبھی نہ دیکھو گے کہ اللہ کی سنت کو اس کے مقرر راستے سے کوئی طاقت پھیر سکتی ہے۔)

    کیا ان مستحکم اور غیر متغیر قوانین کا یہ مطلب ہے کہ ان کے ذریعے انسان کی تمام ذہنی اور فکری سرگرمیوں پر پابندی لگ گئی اور اس پر ابدی جمود کا حکم نافذ ہو گیا، کیونکہ ظاہر ہے انسان کائناتی قوانین اور نوامیسِ قدرت سے باہر نہیں جا سکتا۔

    کوئی مومن یہ بات نہیں کہہ سکتا، بلکہ ظاہر ہے ہم مصنف سے بھی یہ توقع نہیں کر سکتے کہ وہ ایسی بات کہنے کی جسارت کریں گے۔ یہ سب قوانین اللہ تعالیٰ نے انسان کی مصلحت کے لیے مقرر فرمائے ہیں۔ اور ان کے مقرر کرنے میں اللہ کی اپنی کوئی مصلحت یا ضرورت کار فرما نہیں ہے۔ وہ تمام جہانوں سے بے نیاز ہے۔ یہ قواعد بڑے محکم، مضبوط اور عجیب نظم کے حامل ہیں۔

    صُنْعَ اللَّـهِ الَّذِي أَتْقَنَ كُلَّ شَيْءٍ (النمل: ۸۸) (اللہ کی قدرت کا کرشمہ جس نے ہر چیز کو حکمت کے ساتھ استوار کیا ہے۔)
    وَكُلُّ شَيْءٍ عِندَهُ بِمِقْدَارٍ (الرعد: ۸) (ہر چیز کے لیے اس کے ہاں ایک مقدار مقرر ہے۔)

    لہٰذا یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے کائناتی قوانین کو تو مان لیں لیکن اس کے تشریعی قوانین کا انکار کر دیں، مخلوقات (خلق) میں جاری اس کے قواعد کو تو تسلیم کر لیں لیکن امر سے متعلق اس کے احکام کو رد کر دیں؟ در آنحالیکہ وہ ہر دو پہلوؤں سے متعلق تمام امور کا جاننے والا، ہر بات کی خبر رکھنے والا اور حکیم و دانا ہے۔ وہ حی و قیوم ہے، اسے نہ نیند آتی ہے اور نہ وہ اونگھتا ہے۔

    ڈاکٹر صاحب کی رائے کے برعکس ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کی کلی حکمت اور اپنے بندوں پر اس کا احسان اور رحمت ہے کہ اس نے اپنے بندوں کو رہنمائی اور ہدایت کی نعمت سے محروم نہیں رکھا بلکہ ان کی مصلحت کے مطابق ضروری قواعد و اصول مقرر کیے تاکہ ان ہدایات کی روشنی میں وہ بحیثیت فرد اور جماعت ترقی کر سکیں۔ کیونکہ یہ عین ممکن ہے کہ نادانی اور جہالت کی بنا پر انسان حقیقت سے غافل ہو جائیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ حقیقت کو جانتے بوجھتے محض خواہشوں کی پیروی اور حکمرانوں کے دباؤ کی وجہ سے وہ فسق و فجور میں پڑ جائیں۔ جیسا کہ وہ لوگ کرتے ہیں جو نشہ آور اشیاء کو جائز سمجھتے ہیں اور انھیں استعمال کرنے سے دریغ نہیں کرتے۔ یہ لوگ زنا، جوا، ربا اور قمار کو حلال سمجھتے ہیں، ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں، غریبوں کا حق مارتے ہیں اور ناداروں کو پاؤں تلے کچل دیتے ہیں لیکن ان کے قوانین انھیں ایسے برے کاموں سے نہیں روکتے۔

    اللہ ڈاکٹر صاحب کو ہدایت دے! انھوں نے اللہ کی حقیقی عظمت کو نہیں پہچانا! انھوں نے انسان کو اللہ کی شان پر فوقیت دے دی ہے اور یہ سمجھ لیا ہے کہ انسان اللہ کی ہدایت اور ربانی منہاج سے بے نیاز ہو سکتا ہے۔ کس قدر بد نصیب ہوگا وہ انسان جو اس وہم میں پڑ جائے کہ وہ اپنے پیدا کرنے والے اور اپنے روزی رساں مالک کے بغیر بھی اپنی زندگی سکون سے بسر کر سکتا ہے!

    مصنف نے باپ اور بیٹے کی جو مثال بیان کی ہے وہ اس وقت تو درست ہو سکتی ہے جب کوئی باپ بیٹے کے مستقبل کی تمام تفصیلات متعین کر کے اسے پابند کر دے کہ وہ اس سے باہر نہ نکلے۔ لیکن اگر باپ اپنے بیٹے کو عام ہدایات دے اور لوگوں کے ساتھ معاملہ کرنے کی نسبت اسے حکیمانہ نصیحتیں کرے، اپنے سالہا سال کے تجربات کی روشنی میں کچھ اصول اور قواعد اسے سمجھا دے اور پھر ان ہدایات کی روشنی میں اسے عمل کے لیے آزاد چھوڑ دے تو یہ باپ کا ایسا اچھا طریقہ ہوگا جس کی نیکوکار فرزند کو تعریف و ستائش کرنی چاہیے۔

    نفاذِ شریعت

    ڈاکٹر فواد زکریا نے اسلامی شریعت کے نفاذ سے متعلق دو بنیادی سوال اٹھائے ہیں۔ ان میں سے پہلا اور اہم سوال یہ ہے کہ ہم نفاذِ شریعت کی دعوت کیوں دیتے ہیں؟ چنانچہ اس امر کی نسبت کہ اسلامی شریعت من جانب اللہ ہے انھوں نے بہت سے شکوک و شبہات پیدا کیے اور کہا کہ جب شریعت کی تطبیق کا عمل انسانی کاوشوں کے ذریعے رو بہ عمل آتا ہے تو اس میں بشری احساسات اور کمزوریاں شامل ہو جاتی ہیں خواہ اس کی بنیاد قرآن پاک کی محکم آیات اور صحیح احادیث پر ہو۔ ازاں بعد انھوں نے اس بات میں شک پیدا کرنے کی کوشش کی ہے کہ اسلامی شریعت ہر دور اور ہر مقام کے لیے موزوں ہے۔ لیکن الحمدللہ ان کے پیدا کردہ تمام شبہات کا اس طرح ازالہ ہو گیا جیسے دھوپ میں برف پگھل جاتی ہے۔

    اس سلسلے کا دوسرا سوال یہ ہے کہ اسلامی شریعت کا نفاذ کیوں کر عمل میں آ سکتا ہے۔ چنانچہ اس سوال کے ضمن میں ڈاکٹر صاحب نے کہا ہے کہ شریعت کے داعی تمام شریعت کی تطبیق نہیں چاہتے بلکہ شریعت کی تطبیق سے ان کی مراد محض یہ ہے کہ چور کے ہاتھ کاٹ دیے جائیں، زانی کو سنگسار کر دیا جائے اور تہمت لگانے والوں کو شرعی سزا کے طور پر کوڑے مارے جائیں۔

    پھر اپنے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ:

    "آج کل تطبیق شریعت کے بارے میں شدید بحث و مباحثہ جاری ہے۔ لیکن کیا محض حدود جاری کر کے، یعنی چوری پر ہاتھ کاٹنے کی سزا، مے نوش کو کوڑوں کی سزا اور زانی کو رجم کی سزا دے کر یہ سمجھ لیا جائے کہ شریعت نافذ ہو گئی؟ خود تحریک اسلامی کے سمجھدار لوگ اس امر کے قائل ہیں کہ تطبیقِ شریعت کا دائرہ حدود کے نفاذ سے کہیں زیادہ وسیع ہے، کیونکہ سزائیں شریعت کا صرف سلبی پہلو ہیں یعنی وہ سزائیں جو گنہگار مجرم کو دی جائیں۔ لیکن جو لوگ ان جرائم سے پاک ہیں اور اکثریت میں ہیں تو کیا شریعت نے ان کی زندگی کو منظم و مربوط کرنے کے لیے کوئی ہدایات جاری نہیں کیں؟ شریعت کے صرف سلبی پہلو نافذ کرنے کے بجائے اس کے ایجابی احکام کو بھی جاری کرنا چاہیے۔ کیونکہ صرف اسی صورت میں نفاذِ شریعت کا دائرہ محض حدود اور سزاؤں سے زیادہ وسیع ہو سکے گا۔ ایک اور پہلو سے دیکھیے، سوال یہ ہے کہ کیا ہماری اجتماعی مشکلات کا دائرہ صرف ان جرائم تک محدود ہے؟ مان لیا کہ آپ نے چور، مے نوش اور زانی پر حد کی سزا جاری کر کے ان جرائم کا استیصال کر دیا تو کیا اس سے معاشرے کی اصلاح ہو گئی اور اس کے تمام مسائل حل ہو گئے؟ ہمارا اقتصادی مسئلہ صرف چوری کی روک تھام سے حل نہیں ہوگا بلکہ ضروری ہے کہ ہم پیداوار میں اضافہ کریں، دولت کی منصفانہ تقسیم عمل میں آئے اور لوگوں میں اشیاء کے صحیح استعمال کی عادت پیدا کی جائے۔ یہی بات حد خمر اور حد زنا کے حوالے سے دیگر اجتماعی اور اخلاقی مسائل کے بارے میں کہی جا سکتی ہے۔ اس مقام پر ہمیں ان معاشروں کا بھی جائزہ لینا چاہیے جہاں بہت جو جوش و جذبے سے حدود کے قوانین نافذ کیے گئے، مثلاً سودان اور پاکستان۔ لیکن ان ہر دو مقامات پر قوانینِ حدود کی تطبیق سے وہ اجتماعی اقتصادی اور اخلاقی مسائل حل نہیں ہوئے جن کے حل کی توقع کی جاتی تھی۔ معاشرے میں ایسے بہت سے لوگ موجود ہیں جو اس حقیقت کا ادراک رکھتے ہیں، چنانچہ ان کا مطالبہ ہے کہ نفاذِ شریعت کی جدوجہد صرف قیامِ حدود تک محدود نہیں رہنی چاہیے۔ ان لوگوں کا ساتھ اسلامی شریعت کے بعض ایسے داعی بھی دے رہے ہیں جو چاہتے ہیں کہ نفاذِ شریعت کا عمل فوری طور پر رو بہ کار آنا چاہیے۔ ان کا مقصد یہ ہے کہ ان لوگوں کے اعتراض سے بچا جائے جو سمجھتے ہیں کہ شریعت کا دائرہ نفاذِ حدود سے کہیں زیادہ وسیع اور ایجابی ہے۔ اس کے باوجود مجھے شک ہے کہ یہ ان کا حقیقی موقف ہے بلکہ میرا خیال ہے کہ ان کی جدوجہد کا دائرہ صرف نفاذِ حدود تک محدود ہے۔ اس لیے کہ شریعت کے مجموعی نفاذ کے لیے بہت وقت اور تدریج کی ضرورت ہے اور ایک لمحے میں اس کی تنفیذ کا مطالبہ کرنا بے معنی ہے۔ شب و روز میں جو کام ہو سکتا ہے وہ حدود کے نفاذ کا فرمان ہے۔ جو ایک دن میں جاری ہو سکتا ہے۔ غالب گمان یہ ہے کہ نفاذِ شریعت کے داعی سمجھتے ہیں کہ شریعت کی مکمل تطبیق کے لیے اولین اور فیصلہ کن اقدام حدود کے قوانین کا نفاذ ہے اور اس کے بعد ہر شئے سہل اور آسان ہو جائے گی۔"

    میں اس مقام پر مصنف کا تفصیلی جواب دینا نہیں چاہتا کیونکہ انھوں نے خود ہی اعتراف کر لیا ہے کہ ایسے لوگ موجود ہیں جو شریعت کی حکیمانہ اور تدریجی تنفیذ کے قائل ہیں۔ نیز مصنف نے یہ بھی تسلیم کر لیا ہے کہ فوری نفاذِ شریعت کا مطالبہ کرنے والوں میں بھی بہت سے ایسے لوگ موجود ہیں جو یہ مانتے ہیں کہ صرف حدود کا نفاذ پوری شریعت کا نفاذ نہیں۔ (اپریل ۱۹۸۷ء میں اسلامی اتحاد نے اپنے آخری انتخابی پروگرام میں یہی اعلان کیا۔)

    البتہ میں مختصراً چند امور کا جواب دینا چاہتا ہوں:

    1. جو لوگ نفاذِ شریعت کا مطالبہ کر رہے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ نفاذِ شریعت سے متعلق جدوجہد کو صرف نفاذِ حدود تک محدود نہیں رہنا چاہیے، مصنف ان کے بارے میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
      "مجھے شک ہے کہ فی الواقع ان کا حقیقی موقف یہی ہے، بلکہ میرا خیال ہے کہ ان کی حقیقی جدوجہد صرف حدود کی تنفیذ تک محدود ہے۔"

      میں کہتا ہوں کہ کیا مصنف نے ان لوگوں کا سینہ کھول کر دیکھا ہے، کیا انھوں نے لوگوں کے ضمیر کا حساب کر لیا ہے! انصاف کا تقاضا یہ تھا کہ ڈاکٹر صاحب یہ دیکھتے کہ لوگ کس چیز کا مطالبہ اور کس چیز کا اعلان کر رہے ہیں! مگر افسوس، لوگوں میں انصاف کہاں!

    2. مصنف یہ ثابت کرنے کے لیے کہ داعیانِ شریعت کے نزدیک اہم ترین بات حدود کا نفاذ ہے، کہتے ہیں کہ داعیانِ شریعت کے بڑے بڑے رہنماؤں نے نمیری کے سودان میں قوانینِ حدود کے اجراء کی تائید کی۔ نمیری کے زوال اور اس کے اس تجربے کی ناکامی کے بعد مصنف اس بات کو بار بار دہراتے اور اصرار کے ساتھ اس کا تکرار کرتے رہے۔ مگر انصاف کا تقاضا یہ تھا کہ وہ یہ بھی اعتراف کرتے کہ داعیانِ شریعت میں سے ایک کثیر تعداد نے نمیری کی تائید میں احتیاط کا دامن تھامے رکھا، چنانچہ خود کاتبِ سطور نے خرطوم میں وضاحت سے کہا تھا، جسے قطر کے مجلے "الامہ" نے انہی دنوں نقل کیا کہ:
      "اسلام صرف قوانین کا نام نہیں اور قوانین صرف حدود کے قوانین نہیں اور صرف قوانین سے معاشرے کی تشکیل نہیں ہوتی۔"

      بہرحال اگر کچھ لوگوں نے نمیری کی پرجوش حمایت کی تو اس کی وجہ ان کا یہ خیال تھا کہ نفاذِ شریعت کا کام آگے بڑھے گا اور اس سلسلے کے مزید مراحل طے ہوں گے۔ اسی لیے ان کا مطالبہ تھا کہ تنفیذِ شریعت کے کام میں مستند علماء سے تعاون حاصل کیا جائے تاکہ نفاذِ شریعت کا عمل درست طریقے پر سرانجام پا سکے۔

      سودان کے اخوان المسلمون نے نمیری کی جو تائید کی وہ بھی غیر مشروط اور مطلق نہ تھی بلکہ وہ اس توقع پر نمیری کی اصلاح اور رہنمائی کا فریضہ انجام دیتے رہے کہ نمیری صحیح سمت میں درست قدم اٹھائیں گے۔ لیکن جلد ہی اس کے اور اخوان کے درمیان اختلافات بڑھے اور اس نے اخوان پر طرح طرح کے الزامات عائد کرنے شروع کر دیے تا آنکہ ان کی قیادت کو جیلوں میں ڈال دیا۔

      سودان کی اخوان المسلمون اس قدر لچک رکھتی ہے، اس قدر وسعتِ نظر کی حامل ہے اور دورِ جدید کے قانونی، اقتصادی اور سیاسی مسائل کے حل میں اس قدر اجتہاد سے کام لیتی ہے کہ دیگر اسلامی جماعتیں اسے موردِ الزام ٹھہراتی ہیں۔ اس بنا پر اخوان کے بارے میں تو یہ کہنا بالکل صحیح نہیں کہ یہ لوگ زندگی کے معاملات اور معاشرے کے مادی، معنوی، اقتصادی، اور سیاسی مسائل کو نظر انداز کیے ہوئے ہیں۔

    ہم نفاذِ شریعت کے عمل میں تدریج کے مخالف نہیں بلکہ اس کے قائل ہیں اور اس کی دعوت دیتے ہیں، کیونکہ تدریج کائنات میں جاری اللہ کا قانون اور شریعت کا قاعدہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں پر متعدد فرائض عائد کیے اور بہت سے افعال کو حرام قرار دیا، ان سب میں تدریج کا اسلوب اختیار فرمایا جیسا کہ روزہ کی فرضیت اور شراب کو حرام ٹھہرانے میں یہی طریقہ نظر آتا ہے۔

    اس مقام پر یہ ذکر کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ جب حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ خلیفہ مقرر ہوئے تو ان سے پہلے حکمران خلفائے راشدین کے منہاج سے ہٹ چکے تھے۔ انھوں نے ظلم کا ارتکاب بھی کیا تھا، حقوق اللہ ضائع کیے تھے اور اللہ کی حدود سے تجاوز کیا تھا۔ اس وقت ان کے پاس ان کے صاحبزادے عبدالملک، جو بہت متقی مومن تھے، آئے اور بڑے جوش اور جذبے سے کہنے لگے: "ابا جان! آپ معاملات کی تنفیذ میں بڑی تاخیر سے کام لے رہے ہیں، اگر میں اور آپ اللہ کے راستے میں کام آ جائیں تو ہمیں پروا نہیں ہونی چاہیے۔" اس پر حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا کہ:

    "اے میرے بیٹے! اللہ نے دو آیات میں خمر کی برائی بیان کی اور تیسری آیت میں اسے حرام قرار دیا۔ مجھے اندیشہ ہے کہ میں لوگوں کو مکمل حق پر چلنے کا حکم دوں اور وہ اسے یکسر مسترد کر دیں۔"
    (یعنی حضرت عمر رحمۃ اللہ علیہ کی رائے یہ تھی کہ لوگوں کو رفتہ رفتہ تدریج کے ساتھ حق قبول کرنے کی جانب مائل کیا جانا چاہیے۔)

    اسی طرح کے ایک اور موقع پر حضرت عمر بن عبدالعزیز نے فرمایا:

    "اے میرے فرزند! تمھاری قوم بنو امیہ نے یہ نظام رفتہ رفتہ اور محکم کر کے قائم کیا ہے، جو کچھ ان لوگوں کے پاس ہے اگر میں اس کے چھیننے میں ان سے جھگڑا کروں گا تو یہ پھٹ پڑیں گے اور اس طرح بڑا خون خرابہ ہوگا۔ اللہ کی قسم ساری دنیا میری نظر میں ایک انسان کا ناحق خون بہہ جانے سے حقیر ہے۔ کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ تمھارا باپ ہر روز ایسا ہو کہ وہ کسی بدعت کو مٹائے اور کسی سنت کا احیاء کرے!"

    یہ ایک واقعی اور حکیمانہ نقطہ نظر ہے جس پر ہمارا ایمان ہے۔ لیکن یہ وضاحت ضروری ہے کہ نفاذِ شریعت میں تدریج کا مطلب حکمِ شریعت کو معطل کر دینا یا اسے غیر معین مدت تک معلق کر دینا نہیں ہے بلکہ اس کا مفہوم ایسا مربوط مرحلہ وار پروگرام وضع کرنا ہے جس سے معاشرہ لادینیت سے ہٹ کر اسلام کی جانب منتقل ہو جائے اور جس میں ترجیح اور اولیت تربیت، ذرائع ابلاغ اور ثقافت سے متعلق شعبہ ہائے زندگی کو حاصل ہو۔ یہ سب شعبے باہم ارتباط کے ساتھ اسلام کے مطلوبہ انسان کی تعمیر کریں، اور ایسا ماحول پیدا کرنے میں مدد دیں جس سے مکمل شریعت کی تنفیذ کا عمل کامیاب ہو سکے۔ اس عمل کے آغاز سے پہلے ضروری ہے کہ صحیح اور سچے داعیانِ اسلام کے راستے کی مزاحمتیں دور کی جائیں اور انھیں ایسے مواقع فراہم کیے جائیں کہ وہ دعوت و تبلیغ، شخصیت کی تعمیر اور عوام کی ذہنی اور فکری تربیت کا فریضہ بحسن و خوبی بجا لا سکیں۔

    مطلوبہ تدریج یہ ہے کہ مقصود کی جانب پیش قدمی ہر وقت ہمارا مطمحِ نظر بنی رہے اور اس کے لیے پوری سعی اور جدوجہد کی جاتی رہے، بالکل اسی طرح جیسے حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ہر دن ایسا ہو کہ کوئی بدعت مٹائی جائے اور کوئی سنت زندہ کی جائے۔

    جو لوگ اسلام کو قانون کے پہلو میں محدود اور قانون کو حدود کے دائرے میں محصور سمجھتے ہیں ان کے بارے میں بھی ہم ڈاکٹر صاحب کی رائے سے متفق نہیں اس لیے کہ حدود اللہ کو ہلکا سمجھنا اور سہل تصور کرنا کسی مسلمان کے لیے زیبا نہیں۔ حدود اللہ کا قیام اسلامی نظام کا لازمی حصہ ہے، اسے شرعی احکام سے جدا نہیں کیا جا سکتا بلکہ دیگر احکامِ اسلام کے ساتھ ان کا نفاذ بھی لازمی ہے۔ البتہ یہ بات مدنظر رکھنی چاہیے کہ حدود، بالخصوص سرقہ اور حرابہ کے احکام قرآن کے وہ احکام ہیں جو سب سے آخر میں نازل ہوئے۔

    شریعت اور انسانی تجربات

    نفاذِ شریعت کے تاریخی تجربات

    لادینیت پسند کہتے ہیں کہ اسلامی نظام کے حامی اور نفاذِ شریعت کے داعی ہمیں جس مثالی اسلام کی دعوت دیتے ہیں اس کے اصول و نظریات کا ذکر صرف کتابوں میں ملتا ہے، عملی زندگی میں اگر یہ اصول کبھی نافذ ہوئے تو وہ تاریخ کا ایک انتہائی مختصر دور ہے یعنی دورِ نبوت اور خلفائے راشدین کا عہد۔ چنانچہ ڈاکٹر فواد زکریا کا دعویٰ ہے کہ نفاذِ شریعت کا تاریخی تجربہ ناکامیوں کا ایک طویل سلسلہ ہے، کیونکہ تاریخ میں استبداد ہی اصل قاعدہ حکمرانی اور حاکم اور محکوم کے درمیان ظلم ہی تعلق کی اساس رہا۔ عدل، احسان، شوریٰ اور شریعت کے دیگر اصول ایسے حکمرانوں کے افعال کا جواز ثابت کرنے کے لیے زبانی طور پر دہرائے جاتے رہے جن کا ان بلند اصولوں سے قطعاً کوئی تعلق نہ تھا۔

    داعیانِ شریعت کے درمیان نفاذِ شریعت سے متعلق تفصیلات میں خواہ کتنا ہی اختلاف ہو وہ سب ہمیشہ خلفائے راشدین بالخصوص حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے دور کو بطورِ مثال پیش کرتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خود انھیں مسلمانوں کی چودہ سو سال پر مشتمل طویل تاریخ میں تطبیقِ شریعت کی کوئی اور ایسی مثال نہیں ملتی جسے وہ دلیل کے طور پر ہمارے سامنے لا سکیں۔ حالانکہ اس پورے زمانے میں حکمرانی شریعت ہی کے نام پر ہوتی رہی۔

    غرض حامیانِ نفاذِ شریعت کی جدوجہد کا محور وہ واقعات ہیں جو خلفائے راشدین اور خصوصاً حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے عہد میں وقوع پذیر ہوئے مگر کیا ان داعیانِ شریعت کو معلوم نہیں ہے کہ حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کی شخصیت بڑی منفرد اور انوکھی خصوصیات کی حامل ہے، ایسی شخصیتیں تاریخ میں ایک ہی مرتبہ ظاہر ہوتی ہیں، روز روز پیدا نہیں ہوتیں۔ اگر صدیوں کے تجربات اور دورِ حاضر کے واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے مماثل حکمران کا آنا ممکن نہیں ہے تو یہ اپنے متبعین کو ایسے امر کی کیوں امید دلا رہے ہیں جس کا وقوع پذیر ہونا ممکن نہیں! اگر حق، عدل اور خیر کا گراف تاریخ میں ہمیشہ گرتا ہی رہا ہے اور اس وقت بالکل ہی نیچے پہنچ گیا ہے تو پھر یہ کس بنیاد پر توقع کر رہے ہیں کہ آئندہ نفاذِ شریعت کا تجربہ ضرور کامیاب رہے گا۔

    نفاذِ شریعت سے متعلق تاریخی تجربات کے بارے میں دو امور قابلِ لحاظ ہیں، اس مقام پر میں انہی دو امور کی جانب توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں:

    1. ڈاکٹر فواد زکریا کی مذکورہ باتیں ان کے ذہن کی نئی سوچ نہیں، بلکہ یہ باتیں پچاس کے عشرے کے اوائل میں مشہور مصنف پروفیسر خالد محمد خالد کہہ چکے ہیں۔ اور اس کے بعد انھوں نے اپنی تصنیف "من ہنا بدا" میں بڑی جرات اور ہمت کے ساتھ، جو کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے، لادینی اور قومی حکومت کے تصورات سے رجوع کر لیا ہے۔ اپنی اس کتاب میں انھوں نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ وہ کون سی وجوہ ہیں جن کی بنا پر وہ ان تصورات کے قائل ہوئے تھے۔ اور اب انھوں نے "الدین والدولة" کے نام سے کتاب لکھی ہے اور اس امر کا اعتراف کیا ہے کہ اسلام دین اور ریاست دونوں پر مشتمل ہے۔
    2. دوسرا قابلِ لحاظ امر یہ ہے کہ ڈاکٹر فواد زکریا کی یہ بات بہت سے مغالطوں اور غلطیوں پر مشتمل ہے جن میں سے ہم یہاں تین امور کا ذکر کریں گے:
      1. پہلا مغالطہ: ڈاکٹر صاحب کا پہلا مغالطہ یہ ہے کہ انھوں نے خلفائے راشدین کے تمام عہد کو صرف حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد میں منحصر کر دیا ہے اور اس حقیقت کو نظر انداز کر دیا ہے کہ ہر چند کہ حضرت ابوبکر کا دور بہت مختصر تھا لیکن اس میں بہت عظیم کارنامے وقوع پذیر ہوئے۔ ڈاکٹر محمد حسین ہیکل اپنی کتاب "الصدیق ابوبکر" میں لکھتے ہیں کہ کیا یہ تاریخ کے معجزات نہیں جو دو سال اور تین ماہ میں وقوع پذیر ہوئے کہ باغی قوتیں مطیع ہو گئیں، تمام امت متحد اور طاقتور ہو گئی اور اس قدر با ہیبت قوت بن گئی کہ ساری دنیا پر حکمران وقت کی دونوں بادشاہتوں کو فتح کر لیا اور خود تمام دنیا کی تہذیب و ثقافت کی علمبردار بن گئی؟ اس طرح کا واقعہ کبھی تاریخ میں پیش نہیں آیا اور حضرت ابوبکر نے ساٹھ سال کی عمر میں اس عظیم حربی اور ثقافتی وزن کو اٹھا لیا۔

        اسی طرح حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے عہدِ خلافت کے ابتدائی سالوں کو نظر انداز کر دیا گیا حالانکہ اس دور میں عظیم فتوحات حاصل ہوئیں، داخلی امن و استحکام پیدا ہوا اور خوشحالی کا دور دورہ رہا، جیسا کہ تاریخ اس پر گواہ ہے۔

        اسی طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ کا دور بھی نظر انداز کر دیا گیا حالانکہ انھوں نے اپنے اور مخالفین کے درمیان کشمکش کے باوجود سیاسی اور مالی معاملات سے متعلق اور مخالفین کے ساتھ صحیح طرزِ عمل اختیار کرنے کے بارے میں بڑے اصول دیے اور انھیں مستحکم کیا۔

      2. دوسرا مغالطہ: ڈاکٹر صاحب کے بیان میں دوسرا مغالطہ جو پیدا کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا دور تاریخ کا ایسا دور ہے کہ اس جیسا دور دوبارہ کبھی نہیں آیا۔ یہ ایسا قول ہے جس کی تاریخی واقعات تصدیق نہیں کرتے۔ حقیقت یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے نمونے تاریخِ اسلام میں مختلف صورتوں اور مختلف ادوار میں ظاہر ہوتے رہے ہیں۔ مثلاً:
    • حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ جنھوں نے عدل و انصاف قائم کیا، متروک سنتوں کا احیاء کیا، لوگوں کے حقوق لوٹائے، اللہ کے دین کو غالب کیا اور خلافتِ راشدہ کا منہاج دوبارہ استوار کیا، جس کی بنا پر انھیں پانچواں خلیفہ راشد قرار دیا گیا۔ قلیل مدت حکمرانی کے باوجود حضرت عمر بن عبدالعزیز کے عہد میں تمام دارالاسلام میں امن و امان کی فضا قائم رہی اور اسلامی حکومت کو استحکام حاصل ہوا۔ چنانچہ بیہقی نے اپنی کتاب "الدلائل" میں حضرت عمر بن اسید بن عبدالرحمن بن زید بن الخطاب سے روایت کیا ہے کہ انھوں نے بیان کیا: "حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ تیس ماہ حکمران رہے، قسم بخدا ان کا انتقال ہوا تو یہ حالت تھی کہ لوگ ہمارے پاس کثیر مال لے کر آتے اور کہتے کہ اسے آپ فقراء میں تقسیم کر دیں۔ تقسیم کنندہ وہ سارا مال لے کر جاتا اور اسی طرح واپس آ جاتا کہ اسے لینے والا کوئی نہیں۔ اس لیے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے سب کو اس طرح غنی کر دیا تھا کہ انھیں مزید روپے پیسے کی ضرورت نہ تھی۔"
    • یزید بن ولید جس نے اپنے چچازاد بھائی ولید بن یزید کی حکومت اس کے لہو و لعب اور انحراف کی بنا پر ختم کر دی تھی، چاہتا تھا کہ اسلام کے عدل اور سنتوں کو زندہ کرے۔ اس نے دیگر مصارف کے لیے مال فراہم کرنے کی غرض سے فوجیوں کی تنخواہیں کم کر دی تھیں، اس لیے اسے "الناقص" کا لقب دیا گیا۔ وہ اور حضرت عمر بن عبدالعزیز خاندانِ بنو مروان کے عادل ترین حکمران تھے مگر مسلمانوں کی بدقسمتی کہ صرف چھ ماہ بعد اس کی اجل آ پہنچی۔
    • اسی طرح شہید نورالدین محمود جسے مورخین اس کی سیرت، عدل گستری، صلیبیوں سے جہاد اور معاشرے کو ظلم و فساد سے پاک کرنے کی بنا پر خلفائے راشدین سے تشبیہ دیتے ہیں۔
    • اور صلاح الدین ایوبی جس کی اعلیٰ سیرت و کردار کے دشمن بھی گواہ ہیں اور مسلمانوں کی طرح ان مغربی صلیبیوں نے بھی اس کی عظمتِ کردار کی گواہی دی ہے جو اس سے برسرِ پیکار تھے۔
  • تیسرا مغالطہ: یہ ظلم اور تاریخی حقائق سے ناانصافی ہے کہ تمام خلفائے بنو امیہ، خلفائے بنو عباس، آلِ عثمان، مصر و شام کے سلاطینِ ممالیک اور مغرب کے سلاطینِ مرابطین و موحدین، اور ہندوستان کے شاہانِ مغلیہ سب کو ہم ظالم و فاجر، اسلامی عدل اور اسلامی نظام سے منحرف قرار دے دیں، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس بات کا انصاف سے کوئی تعلق نہیں، بلکہ ان میں سے بہت سے بادشاہ عدل و فضل اور حسنِ سیرت سے متصف تھے، بالخصوص اگر ان کا موازنہ اس وقت کی دنیا کے دوسرے حکمرانوں سے کیا جائے تو ان کی خوبیاں زیادہ نمایاں ہو کر سامنے آتی ہیں۔
  • دراصل ہم اپنی تاریخ کا مواد بعض ناقابلِ اعتبار مصادر اور غیر ثابت شدہ روایات سے اخذ کرتے ہیں۔ یہ روایات ایک لمحہ کے لیے بھی تنقید و جرح کا سامنا نہیں کر سکتیں، مثلاً ادب و قصص کی مشہور کتاب "الاغانی" جسے ہمارے ایک بھائی نے دریائے زہر ناک کا نام دیا ہے، ہماری تاریخ کا ایک مصدر ہے۔ یہ بالکل ایسی بات ہے کہ جیسے کوئی شخص مصری فلمیں دیکھ کر ان کی بنیاد پر مصر کی تاریخ لکھ ڈالے در آنحالیکہ یہ فلمیں محدود فنی دائرے میں مصر کی معاشرت کی بہت محدود سی اور جزئی سی جھلک دکھاتی ہیں۔ ہارون رشید کو لیجیے، تاریخ بیان کرنے والوں اور قصہ گو حضرات نے اس کی جو تصویر بنائی ہے وہ ایک ایسے شخص کی تصویر ہے جو آزاد منش ہو، فسق و فجور میں گھرا ہوا ہو اور جسے علم و عمل، عبادت و جہاد، اور عدل و فضل سے کوئی علاقہ نہ ہو۔ جبکہ حقیقت ثابتہ یہ ہے کہ ہارون رشید کے عہد میں اسلامی تہذیب نے مختلف پہلوؤں سے بہت ترقی کی ہے۔ ہارون رشید کا اصل کردار یہ تھا کہ وہ ایک سال حج کرتا تھا اور ایک سال جہاد کرتا تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ آزاد منشی کے تمام قصے جھوٹے اور من گھڑت ہیں۔ ابن خلدون نے اپنے مقدمہ میں ہارون کی شخصیت کا مضبوط علمی دفاع کیا ہے، اور ان تمام تراشیدہ باتوں کا رد کیا ہے، اگرچہ ظاہر ہے اس کی زندگی خطاؤں سے پاک نہ تھی۔

    حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ تمام دنیا کے حکمرانوں میں عظیم ترین اور عادل ترین حکمران تھے۔ دراصل ان کے مقام کی عظمت کا احساس حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مقام کی بلندی کی بنا پر کم ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ دوسری وجہ یہ ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ خلافتِ راشدہ کے شوریٰ کے نظام سے ہٹ گئے اور وراثت پر قائم شاہی نظام اختیار کر لیا۔ نیز اس لیے کہ جنگِ صفین میں انھوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا مقابلہ کیا۔ جبکہ ہم سب مسلمانوں کے دلی جذبات حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف ہیں۔ بہت سے صحابہ اور تابعین کا حال یہ تھا کہ وہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ پر سخت تنقید کرتے تھے لیکن حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ ان کے ساتھ لطف اور نرمی سے پیش آتے تھے۔ چنانچہ حافظ ذہبی نے "سیر الاعلام" میں لکھا ہے کہ ابن عون سے مروی ہے کہ ایک صاحب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے کہتے کہ اے معاویہ اللہ کی قسم آپ کو ہمارے ساتھ درست ہونا پڑے گا ورنہ میں آپ کو درست کر دوں گا۔ وہ دریافت کرتے، کس سے؟ تو وہ صاحب جواب میں کہتے کہ صیقل تلوار ہے۔ اس پر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ فرماتے تو پھر میں درست ہو جاؤں گا۔

    ابو مسلم خولانی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو اس طرح مخاطب ہوئے: السلام علیک ایھا الاجیر! لوگوں نے بطورِ صحیح کہا کہ السلام علیکم ایھا الامیر، مگر وہ اجیر کہنے پر مصر رہے۔ اس پر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ان کو کہنے دو، یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ کیا کہہ رہے ہیں۔ اس پر ابو مسلم نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ آپ مسلمانوں کے اجیر ہیں، مسلمانوں نے اجرت پر آپ کو اپنی مصالح کی حفاظت کے لیے مقرر کیا ہے۔

    حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ پر بالخصوص اور بنو امیہ پر علی العموم تاریخی واقعات بیان کرنے والوں نے بڑا ظلم کیا ہے کہ انھوں نے اپنی طرف سے واقعات گھڑ کر نقل کیے یا بلا تحقیق روایت کر دیے۔ بنو امیہ کی تاریخ ان کے زوال کے بعد ان کے دشمن بنو عباس کے دور میں لکھی گئی۔ اور ہم نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ فاتحین پچھلے دور کی تاریخ کس طرح لکھتے ہیں۔

    اگر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ ایسے ہی برے ہوتے، جیسا کہ بعض روایات میں ان کا ذکر آتا ہے، تو حضرت حسن رضی اللہ عنہ جیسا شخص اتحاد بین المسلمین اور انسانی جانوں کے تحفظ کی خاطر ان کے حق میں دستبردار نہ ہوتا۔ مسلمانوں نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی دستبرداری والے سال کو "عام الجماعہ" قرار دیا۔ بلکہ حدیث میں بھی حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے اس موقف کی تائید و تحسین کی گئی ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ:

    "میرا یہ بیٹا سردار ہے اور اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے مسلمانوں کی دو بڑی جماعتوں کے درمیان صلح کرا دے گا۔" (البخاری)

    ہماری تاریخ بیان کرنے والے اور اس کے تاریک پہلو تلاش کر کر کے سامنے لانے والے اکثر لوگ ایسے خیالات و افکار اپنے مستشرق اساتذہ سے اخذ کرتے ہیں۔ مستشرقین ہماری تاریخ اور ہماری علمی اور تہذیبی میراث کو اپنے مغربی نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں۔ انھیں ہر مشرقی بات بری لگتی ہے۔ ان کے اس رویے کے پس منظر میں ان کا صلیبی تعصب کار فرما ہے۔ اس صلیبی تعصب اور استعماری مقاصد کے تحت وہ ہر اسلامی بات کو برا سمجھتے ہیں۔ ان کی علمی سرگرمیاں بھی دنیاوی مفاد اور اغراض کے تابع ہوتی ہیں۔ شاذ و نادر ہی کوئی مستشرق ہوگا جس کا یہ رویہ نہ ہو۔

    علامہ ابوالحسن علی ندوی نے چند سال قبل ہندوستان میں اسلام اور مستشرقین کے عنوان پر منعقد ہونے والی کانفرنس میں کہا تھا کہ مستشرقین گندگی پر بیٹھنے والی وہ مکھیاں ہیں جنھیں صرف گندگی ہی نظر آتی ہے۔

    غرض مستشرقین اسلامی تاریخ کے ایسے پہلو ڈھونڈ کر سامنے لاتے ہیں جو اگرچہ روایتاً کتنے ہی کمزور اور درایتاً کتنے ہی بے اصل ہوں لیکن جن سے مسلمانوں کی کمزوری اور انحراف ظاہر ہوتا ہو۔ پھر وہ مختلف طریقوں سے اس کی تائید فراہم کرتے اور اس کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے اور رائی کا پربت اور چیونٹی کا ہاتھی بنا دیتے ہیں۔

    مستشرقین ایسی شاہکار شخصیتوں کو بھی اپنی غیر منصفانہ تنقید سے محفوظ نہیں رہنے دیتے جن کی عظمت و فضیلت پر ہر دور میں پوری امتِ مسلمہ کا اتفاق رہا ہے۔ چنانچہ بعض ایسے لکھنے والے بھی ہیں جو حضرت عمر بن عبدالعزیز پر تنقید کرتے ہیں حالانکہ امتِ مسلمہ ہمیشہ انھیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا مماثل سمجھتی رہی ہے۔ یہ لوگ اموی دور کے سرکش حکمران حجاج بن یوسف کا دفاع کرتے ہیں اور حضرت عمر بن عبدالعزیز پر بد انتظامی اور سیاسی اور اقتصادی معاملات سے عدم واقفیت کا الزام لگاتے ہیں۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کی بے تدبیری سے نظامِ حکومت میں خرابی پیدا ہو گئی تھی۔ افسوس ہے کہ بعض اخبارات ایسے لوگوں کے مضامین بھی اپنے ہاں بڑے شوق سے چھاپتے ہیں۔

    اگر اموی دور میں اسلامی معاشرہ ایسا ہی برا ہوتا، جیسا کہ بعض لوگ بیان کرتے ہیں، تو اس دور میں اسلام کی روشنی مغرب میں اندلس تک، مشرق میں چین تک اور ایشیا، افریقہ اور یورپ کے دور دراز علاقوں تک پھیلنا ممکن نہ ہوتی۔

    یہ بات بھی طے شدہ اور معلوم ہے کہ اس وقت کسی حاکم کا انحراف نہ تو پورے معاشرے کو متاثر کرتا تھا اور نہ اس کے طرزِ عمل کی لوگوں کے ذہن و فکر اور عمل و سلوک پر کوئی قوی تاثیر مرتب ہوتی تھی کیونکہ اس وقت حکومتوں کے پاس ایسے ذرائع اور ایسے ادارے نہیں تھے جیسے آج ہمارے دور میں موجود ہیں اور آج کل کی حکومتیں ثقافت و اطلاعات اور تربیت سے متعلق اداروں کے ذریعے لوگوں کے فکر و شعور کو بدل ڈالتی اور ان کے طرزِ عمل پر اثر انداز ہوتی ہیں۔

    دعوتِ اسلامی کے بڑے رہنما شیخ محمد الغزالی سے دریافت کیا گیا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان داخلی اختلافات سے لے کر آج تک امتِ اسلامیہ کو جو صدمات اٹھانے پڑے ہیں ان کی آپ کیا توضیح کرتے ہیں؟ تو ان کا جواب یہ تھا کہ:

    "دوست اور دشمن تمام اہل دانش اس امر پر متفق ہیں کہ اسلام عقیدہ و شریعت، عبادات و معاملات، اخلاق و نظام، ادارتی نظام اور اجتماعی تقالید کے تمام امور کا جامع ہے اور فرزندانِ اسلام اس امر کے پابند ہیں کہ زندگی کے تمام معاملات کو اسی نہج پر استوار کریں۔ ہم اپنی تعلیم کے دوران میں جب اسلام کا مطالعہ کر رہے تھے تو ہم اس بات کو اچھی طرح سمجھتے تھے کہ اسلام اور اسلامی فکر نیز اسلام اور اسلامی حکومت میں کیا فرق ہے۔ اسلام وحی معصوم ہے جو ہر قسم کے شک و شبہ سے پاک ہے۔ لیکن اسلامی فکر اسلام کو سمجھنے کا بشری عمل ہے۔ اسی طرح اسلامی حکومت انسانی اختیار (Authority) کو عملاً رو بہ کار لانے کا عمل ہے جو انسان اسلام کی تنفیذ میں رو بہ کار لاتا ہے۔ اور یہ دونوں کام ایسے ہیں جو خطا سے پاک یعنی معصوم نہیں۔ کسی مفکر کی غلطی زیادہ دیر قائم نہیں رہتی بلکہ کسی اور سوچنے والے کی فکر سے اس کی اصلاح ہو جاتی ہے اسی طرح جب کوئی حاکم غلطی کرتا ہے تو اس کی غلطی بھی تا دیر برقرار نہیں رہتی اور کوئی اور درست تنقید کرنے والا اسے ٹھیک کر دیتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل ہے کہ امتِ اسلامیہ گمراہی پر مجتمع نہیں ہوتی۔ امت میں کارفرما نظامِ دعوت و تعلیم اور امر و نہی ہمیشہ بڑا مضبوط اور حساس رہا ہے۔ مزید یہ کہ یہ امت آخری وحی کی حامل ہے، اس کی سستی اور کمزوری کی قدرت بھی اصلاح کرتی رہتی ہے۔ تاکہ یہ پھر صراطِ مستقیم پر گامزن ہو جائے۔ اسی لیے اس امت میں پے در پے مجددینِ امت پیدا ہوتے ہیں جو وحی کے حقائق، اس کے فہم کے طریقوں اور اس کے اسالیب کی از سرِ نو وضاحت کرتے ہیں۔ جیسا کہ فرمانِ الٰہی ہے:" وَمِمَّنْ خَلَقْنَا أُمَّةٌ يَهْدُونَ بِالْحَقِّ وَبِهِ يَعْدِلُونَ (الاعراف: ۱۸۱) (ہماری مخلوق میں ایک گروہ ایسا بھی ہے جو ٹھیک ٹھیک حق کے مطابق ہدایت اور اس کے مطابق انصاف کرتا ہے)

    اس بیان سے معلوم ہوا کہ ہماری تاریخ میں ثقافتی اور سیاسی غلطیوں کا وجود کوئی عجیب بات نہیں، عجیب بات ان غلطیوں پر پردہ ڈالنا اور ان کے علاج سے صرفِ نظر کرنا ہے۔

    جمہورِ مسلمین اس حقیقت سے آشنا ہیں کہ ہمارے اسلاف رومی اور مجوسی استعمار سے جنگ و قتال میں مشغول رہے، جو تاریخِ عالم کی سب سے زیادہ قابلِ قدر اور واجب الاحترام جدوجہد تھی مگر اس کے بعد خود مسلمانوں کے درمیان داخلی طور پر جو جنگ و جدل ہوا، مسلمان اس کا بھی نہایت افسوس اور رنج کے ساتھ پورا شعور رکھتے ہیں کیونکہ اس صورت حال نے مسلمانوں کے حال اور مستقبل کو بڑی دور تک اور گہرائی تک متاثر کیا۔

    اکثر فقہاء، مورخین اور داعیانِ اسلام سمجھتے ہیں کہ خلیفہ چہارم حضرت علی رضی اللہ عنہ حق پر تھے اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اپنے اقتدار اور اپنی عصبیت کے لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مد مقابل آئے۔ لیکن اللہ کی حکمت کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کامیاب ہوئے اور خلافتِ راشدہ بنو امیہ کی سخت گیر بادشاہت میں تبدیل ہو گئی۔ باوجودیکہ یہ تبدیلی حق کی ہزیمت تھی اور اس سے اسلامی تعلیمات کی مثالی صورتوں کو نقصان پہنچا لیکن اس کے نتائج کو بہت بڑھا چڑھا کر بیان کرنا بھی درج ذیل وجوہ کی بنا پر غلط ہے:

    1. جن بادشاہوں اور خلفاء نے غیر صحیح طریقے پر مسلمانوں کے امورِ مملکت کو سنبھالا انھوں نے بھی اسلام ہی سے تعلق اور وابستگی کا اعلان کیا۔ انھوں نے عملاً بتایا کہ حکمرانوں کے بدل جانے سے قوانین میں اور اسلامی مقاصد میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے خارجی محاذ پر جہاد کا کام خود سنبھالا۔ اور داخلی محاذ پر فقہاء و علماء کو اجازت دی کہ وہ قرآن و حدیث کی تعلیم و اشاعت سے متعلق اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں بشرطیکہ اہل اقتدار کے اختیار و وقار کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔
    2. دینی علم اپنے مقرر طریقے پر آگے بڑھتا رہا جس سے عام مسلمانوں کے ذہنی افق اور فکری صلاحیتوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ انھیں عملی زندگی کی تربیت حاصل ہوئی۔ علاوہ ازیں دینی حقائق اور اصول عوام کے دل و دماغ میں اپنی جگہ بناتے رہے۔ گویا اسلام سرکاری تائید و حمایت سے محروم ہونے کے باوجود عوام میں مسلسل پھیلتا رہا اور اس کے اثر و رسوخ میں ہر روز اضافہ ہوتا گیا۔
    3. باوجودیکہ حکومت عربوں کی تھی اور سرکاری حلقوں میں عربیت کا تعصب بھی موجود تھا مگر عام مسلمان اسلامی تعلیمات ہی پر عمل کرتے تھے اور اکثر حالات میں ان کی رہنمائی کا فریضہ عجمی فقہاء اور علماء ادا کرتے تھے۔

    مسلمانوں کی گزشتہ اور موجودہ تاریخ میں جن لوگوں نے راہِ حق سے انحراف کرتے ہوئے طغیان و سرکشی کا طریقہ اختیار کیا ان کے بارے میں اپنی معروف رائے کے باوجود شیخ محمد الغزالی نے مندرجہ بالا سطور میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے وہ حقیقت سے قریب اور انصاف پر مبنی ہیں۔

    سید قطب شہید رحمۃ اللہ علیہ خلافتِ راشدہ کے بعد کی اسلامی تاریخ کے بارے میں بڑی شدید رائے رکھتے ہیں، چنانچہ انھوں نے اپنی کتاب "العدالة الاجتماعية في الاسلام" میں بنو امیہ پر سخت تنقید کی ہے۔ لیکن وہ بھی کہتے ہیں کہ:

    "اسلام بارہ سو سال تک نہایت مضبوط بنیادوں پر استوار اور مستحکم طریقے پر قائم و سر بلند رہا، مسلمان اپنی پوری زندگی میں اسلامی شریعت کے پابند رہے۔ جب وہ کسی معاملے میں دینی حکم جاننا چاہتے تو فتویٰ کے لیے علمائے دین ہی کی طرف رجوع کرتے۔ اسی طرح قانونی عدالتوں میں فیصلے بھی شریعت ہی کے مطابق ہوتے۔"

    ہم سمجھتے ہیں کہ سید قطب شہید نے یہ حقیقت ریکارڈ پر لاکر اسلام کے ساتھ بھی انصاف کیا، تاریخ کے ساتھ بھی انصاف کیا اور اپنے ساتھ بھی انصاف کیا۔

    سید قطب شہید اپنی ایک دوسری تصنیف "مقومات التصور الاسلامی" کے مقدمے میں لکھتے ہیں:

    "دنیا میں اسلام کا جھنڈا تقریباً بارہ سو سال تک سر بلند رہا، اور تمام مسلمان ممالک میں اسلامی نظام اس طرح قائم و جاری رہا کہ عام لوگ اپنے مسائل میں اسلامی شریعت کی طرف رجوع کرتے تھے۔ اور امت کے قاضی زندگی کے تمام معاملات کا تصفیہ اسلامی شریعت کے مطابق کرتے تھے۔ یہاں تک کہ لوگ معاشی معاملات کے بارے میں بھی شریعت کے علاوہ کسی اور طرف رجوع نہیں کرتے تھے۔"

    سید قطب شہید کی مذکورہ بالا کتاب ان کی آخری تصنیف ہے جو ان کی وفات کے بیس سال بعد (۱۹۸۶ء میں) شائع ہوئی۔

    میں یہاں مراکش کے پروفیسر ڈاکٹر محمد عابد الجابری کا قول نقل کرتا ہوں جو کسی اسلامی تحریک سے دلچسپی نہیں رکھتے بلکہ لوگ انھیں بائیں بازو کے رجحانات رکھنے والا خیال کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ:

    "میں قانون دان نہیں ہوں، لیکن میری اسلامی ورثہ سے دلچسپی مجھے اس وقت قلق اور اضطراب میں مبتلا کرتی ہے جب میں یہ سنتا ہوں کہ اسلام یا اسلامی شریعت صرف خلفائے راشدین ہی کے عہد میں منطبق رہی اور گزشتہ چودہ طویل صدیوں میں نافذ نہیں رہی۔ اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا مستقبل میں اسلام کا نفاذ ممکن ہے؟ یہ رائے بڑی منفی فکر کی حامل ہے اور اگر ہم اس کو درست مان لیں تو ان ہزاروں فقہاء کا کیا مقام ہوگا جن سے تاریخ واقف رہی ہے اور ان کتبِ فقہ، اجتہادات اور فتاویٰ کا کیا ہوگا جن سے اسلامی کتب خانے لبریز رہے ہیں۔ بلاشبہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ چوتھی صدی ہجری میں باب اجتہاد بند ہو گیا، لیکن اجتہاد کا دروازہ بند ہو جانے کے باوجود مسالکِ اربعہ کے اندر اجتہاد کا عمل جاری رہا۔ اسی طرح فقہ جعفری (شیعہ فقہ) میں بھی اجتہاد جاری رہا۔ باب اجتہاد کے بند ہونے کے بعد بھی ابن حزم جیسے عظیم اصولی فقیہ پیدا ہوتے رہے جنھوں نے تقلید کو حرام قرار دیا اور اجتہاد کو ہر شخص، یہاں تک کہ عام لوگوں پر بھی لازمی قرار دیا۔ اسی طرح عظیم ماہرِ اصولِ فقہ ابو اسحاق شاطبی پیدا ہوئے جنھوں نے اصولِ فقہ کے قواعد کے اعادے اور تجدید کا کام کیا۔ انھوں نے اجتہاد کو الفاظ اور انواعِ دلالت اور قیاس و تعلیل یعنی جزء کے جزء پر قیاس کے عمل کو از سرِ نو مقاصدِ شریعت پر استوار کیا۔ احکامِ شریعت کے استقراء کے بعد ان کو کلیات میں ڈھالا اور ان کلیات کو نو بہ نو جزئیات پر منطبق کیا گیا۔ یہ محض اجتہاد نہیں تھا بلکہ از سرِ نو اجتہاد کی اساسیات کا اس طرح استوار کرنا تھا جس سے فقہ اسلامی نو بہ نو بدلتے ہوئے احوال سے ہم آہنگ اور ہر دور میں تطبیق کے قابل ہو سکی۔ بہرحال میں مسلمان ہوں اور میرے لیے یہ بات بڑی گرانی کی ہے کہ اسلام اور اسلامی شریعت خلفائے راشدین کے عہد سے اب تک دوبارہ نافذ نہیں ہوئی۔ کیونکہ اس صورت میں میں اپنے اجداد اور اسلاف کے اسلام کی حقیقت کے بارے میں جاننا چاہوں گا کہ کیا وہ مسلمان نہ تھے؟ کیا انھوں نے اپنی عبادات اور نکاح و دیگر معاملات میں شریعت پر عمل نہیں کیا؟ میری رائے یہ ہے کہ ہمارے اوپر لازم ہے کہ ہم اپنی میراث کا جائزہ لیں اور شریعت اور فقہ کا تاریخی نقطہ نظر سے جائزہ لیں ورنہ ہمیں نیستی اور عدم سے دوچار ہونا پڑے گا۔ ہم کہتے ہیں کہ اسلام دین و حکومت دونوں پر مشتمل ہے۔ جی ہاں، بلاشبہ بات اسی طرح ہے۔ لیکن اگر ہم یہ کہیں کہ شریعت اسلامیہ خلفائے راشدین کے بعد نافذ نہیں رہی تو اس کا مفہوم یہ ہوگا کہ دین پچھلی چودہ صدیوں میں کبھی نافذ نہیں رہا اور نہ ہی اس دوران میں اسلامی حکومت رہی، جو تاریخی لحاظ سے صحیح نہیں اور منطقی اعتبار سے بھی قابل قبول نہیں۔ یہ ایسی بات ہے جو ہمیں شدید قسم کی نیستی اور عدم کی طرف لے جاتی ہے اور ہمیں بغیر وجود اور بغیر تاریخ کے چھوڑ دیتی ہے۔ نتیجہ نہ ہمارا کوئی حال باقی بچتا ہے اور نہ کوئی مستقبل، تو کیا یہ صورت ہمارے لیے قابل قبول ہے؟"

    نہایت اہم تنبیہات

    علاوہ ازیں یہاں بعض نہایت اہم تنبیہات پر غور کرنا ضروری ہے:

    1. ہمارے اس دور میں اسلامی حکومت کو لوگوں کی زندگی کے معاملات میں رہنمائی اور ان پر اثر انداز ہونے کے بے شمار مواقع میسر ہیں۔ حکومت کو لوگوں کے فکر و عمل اور اخلاق میں تبدیلی پیدا کرنے کے اس قدر وسیع مواقع حاصل ہیں کہ سابق اسلامی دور کے حکمرانوں کو ان کا عشر عشیر بھی حاصل نہ تھا۔ اب حکومتیں تعلیم و تربیت کی سہولتوں اور ثقافت و ذرائع ابلاغ کے اداروں سے کام لے کر لوگوں کے ذوق، ان کے میلانات اور ان کے فکری اور نفسیاتی رویوں کو مطلوبہ صورت میں استوار کر سکتی ہیں۔ لہٰذا مسلمان حکومت کا فرض ہے کہ وہ ان تمام ذرائع کو بروئے کار لاکر اسلام کی خدمت انجام دے، جس کے لیے اس کا قیام عمل میں آیا ہے۔
    2. ہمارے اس دور تک پہنچتے پہنچتے انسانیت کو اپنی عملی زندگی کے بارے میں مختلف ادوار، مختلف حالات اور مختلف ماحول میں جو تجربات ہوئے اور ان تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انسانیت نے سرکش حکمرانوں اور ان کی خواہشات کے خلاف عوام کے حقوق کی حفاظت کے لیے جو بنیادی ضمانتیں فراہم کیں یا جو مختلف ادارے قائم کیے جیسے مثلاً مجالس نیابت (پارلیمنٹ)، پارلیمنٹ کا یہ حق کہ وہ حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لے سکتی ہے، اس کا محاسبہ کر سکتی ہے، اور اگر ضرورت کا تقاضا ہو تو اسے توڑ بھی سکتی ہے۔ یا مثلاً تحریری دستور کا نفاذ جس کے ذریعے حاکموں اور محکوموں کے تعلقات اور ان کے حقوق و فرائض کا تعین کیا جاتا ہے، یا عوام کی بنیادی آزادیوں اور حکمرانوں کی سرکشی اور طغیان کے خلاف عوام کے مفادات کا تحفظ کیا جاتا ہے، یا جیسے صحافت کی آزادی، مختلف و متعدد جماعتوں کا قیام، یونین سازی کی اجازت اور ہڑتال کرنے کا حق وغیرہ۔ یہ تمام ضمانتیں اور تحفظات ایسے ہیں جو انسانیت کو فرعون صفت جابر حکمرانوں اور ظالم سرمایہ داروں کے خلاف بڑی کشمکش اور طویل جدوجہد کے بعد حاصل ہوئے ہیں، لہٰذا ہم مسلمانوں کا فرض ہے کہ ہم ان تحفظات کو مضبوطی سے تھام لیں، اور ان کی حفاظت کو اپنا دینی فرض سمجھیں اور اس میں کوئی کوتاہی نہ کریں کیونکہ عدل، شوریٰ، نصیحت، ادائے امانت اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ جس کو اسلام نے لازم قرار دیا ہے وہ ان تحفظات کے بغیر ادا نہیں ہو سکتا اور یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ واجب کا وجود جس امر پر موقوف ہو، وہ بھی واجب اور فرض ہوتا ہے۔
    3. ہم ایسے مثالی فرد کی حکومت کے خواہاں نہیں جو یقین میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کی طرح، عدل میں عمر رضی اللہ عنہ کی طرح، فضل میں علی رضی اللہ عنہ کی طرح اور زہد میں عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کی طرح ہو۔ بلکہ ہم ایسے اداروں کی تشکیل چاہتے ہیں جو اسلام کی بنیاد پر استوار ہوں، اس کے عقیدے، فکر اور اخلاق و نظام کو مانتے ہوں اور اسلامی قانون اور اس کی تعلیمات کو عملاً نافذ اور جاری کرنے کا حوصلہ رکھتے ہوں۔

    اس نظام میں حاکم یا سربراہ مملکت ایسا خود مختار نہیں ہوتا کہ وہ جو چاہے کرے اور کوئی اس سے باز پرس کرنے والا نہ ہو، بلکہ وہ ایسا حاکم ہوتا ہے جو قرآن و سنت کی اساس پر استوار دستور کا پابند ہوتا ہے۔ وہ مجلسِ شوریٰ کے سامنے بالخصوص اور عوام کے سامنے بالعموم جوابدہ ہوتا ہے کیونکہ اسلام نے یہ امر لازم قرار دیا ہے کہ مسلمان حکمرانوں کو نصیحت کی جائے۔ اسی طرح اسلام نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو امت کا ایک اہم فرض قرار دیا ہے۔

    اس لیے یہ ضروری نہیں کہ ہم کسی عبقری شخصیت کو اپنا مطمحِ نظر بنائیں جسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بہترین صلاحیتیں تفویض کی گئی ہوں اور جو دنیا کو عدل سے بھر دے یا لوگوں کے لیے تجدیدِ دین کا کام سرانجام دے جو اپنے فکر و عمل میں دین سے منحرف ہو گئے ہیں۔

    میں نے ابو داؤد کی اس حدیث پر ایک تفصیلی مقالہ لکھا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر صدی کے اختتام پر کوئی ایسا شخص مبعوث فرماتا ہے جو تجدیدِ دین کرے۔ یہ حدیث بلاشبہ صحیح ہے لیکن اکثر شارحین نے اس میں وارد لفظ "من" (جو) سے فرد اور شخصیت کو مراد لے کر یہ کوشش کی ہے کہ ہر صدی کے اختتام پر ایک ایسی مجدد شخصیت کا پتہ لگائیں جو اپنے علم و فضل میں منفرد شخصیت کی حامل ہو تاکہ اسے اس صدی کا مجدد قرار دے دیا جائے۔ لیکن لفظ "من" جس طرح واحد کے لیے استعمال ہوتا ہے اسی طرح جمع کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے اور اس حدیث میں موزوں یہی ہے کہ لفظ "من" کو جمع کے مفہوم میں لیا جائے۔ یعنی یہ ضروری نہیں ہے کہ مجدد ایک شخص ہو بلکہ ایک جماعت بھی تجدید کا فریضہ انجام دے سکتی ہے جس کے افراد فکر و عمل، دعوت و تربیت اور جہاد کے لیے درکار خصوصی صلاحیتوں سے آراستہ ہوں جو دین کی حفاظت و تجدید کا فریضہ انجام دیں۔

    اگر حدیث کی تعبیر یہ ہو تو اس صورت میں ایک مسلمان کا استفسار یہ ہوگا کہ تجدیدِ دین کی تحریک میں مجھے کیا فرض انجام دینا ہے بجائے اس کے کہ وہ یہ پوچھے کہ مجدد کب ظاہر ہوگا؟

    دورِ حاضر میں نفاذِ اسلام کے تجربات

    سیکولرزم کے حامی جو شبہات پیدا کرتے ہیں اور جنھیں ہر اس موقع پر ہوا دیتے ہیں جب عوام کی طرف سے اسلامی نظام کا مطالبہ سامنے آتا ہے، یا وہ اسلام کی جانب رجوع کرنے کا تقاضا کرتے ہیں۔ ان شبہات میں سے ایک یہ ہے کہ سیکولرزم کے حامی بعض ایسے ممالک کے تجربات کو سامنے رکھتے ہوئے جنھوں نے نفاذِ اسلام کا اعلان کیا لیکن اس عمل کے صحیح فہم یا اس کی عملی تطبیق میں ان سے غلطیاں سرزد ہوئیں، کہتے ہیں کہ کون سا اسلام مراد ہے، سودان کا اسلام، ایران کا اسلام، پاکستان کا اسلام یا سعودی عرب کا اسلام؟ بعض اوقات یہ لوگ اسلام کو ان ممالک کے سربراہوں سے منسوب کر دینے میں بھی کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔ چنانچہ کہتے ہیں کہ نمیری کا اسلام، خمینی کا اسلام، یا ضیاء الحق کا اسلام، اور کبھی کہتے ہیں کہ علمائے دین کا اسلام، افواج کا اسلام، یا بادشاہوں کا اسلام؟

    سیکولرزم کے حامیوں کے اس شبہ کی اساس درج ذیل دو امور ہیں:

    1. اول: مختلف علاقوں اور ممالک میں فہمِ اسلام کا جو فرق ہے وہ ان کی نظر میں ایک اسلام سے متعلق متعدد نقطہ ہائے نظر کا اختلاف نہیں، بلکہ اس طرح ان کی رائے میں ایک اسلام کے بجائے متعدد اسلام بن گئے ہیں چنانچہ وہ کہتے ہیں، سنی اسلام، شیعہ اسلام، وہابی اسلام، متجدد اسلام اور تقلیدی اسلام وغیرہ۔
    2. دوم: ان ممالک کے اندر نفاذِ اسلام کے تجربات میں جو انحرافات ظاہر ہوئے یا جو غلطیاں وقوع پذیر ہوئیں، انھیں لادینیت کے حامیوں نے اسلام کی غلطی اور اس کا انحراف قرار دے دیا۔ گویا اسلام کی عملی تطبیق میں کوئی غلطی ہو جانا خود اسلام کی غلطی ہے اور اسلام کے فہم میں غلطی یا انحراف کا جواب دہ بھی اسلام خود ہے۔

    جمہوریت اور اشتراکیت کا اختلاف

    اول: اس سلسلے میں پہلی بات تو یہ سمجھنے کی ہے کہ سیکولرزم کے حامی اسلام کے بارے میں تو یہ بات کہتے ہیں اور اس پر تو اعتراض کرتے ہیں مگر اشتراکیت اور جمہوریت کے بارے میں وہ یہ بات نہیں کہتے۔ جمہوریت اور اشتراکیت میں نقطہ ہائے نظر اور فلسفیانہ سوچ کا جو اختلاف پایا جاتا ہے اسے وہ جمہوریت اور اشتراکیت کی دعوت میں مانع نہیں سمجھتے۔ تعلیم یافتہ حضرات جانتے ہیں کہ اشتراکیت کے متعدد نقطہ ہائے نظر اور متنوع و مختلف صورتیں ہیں جو باہم ایک دوسرے سے معارض اور متصادم ہیں۔ اشتراکیت کی بعض صورتیں مثالی ہیں اور بعض سائنٹیفک، کچھ اصلاحی ہیں اور کچھ انقلابی۔ یہاں تک کہ ایک نقطہ نظر، جیسے مارکسیت بھی، جس کے ڈاکٹر فواد زکریا قائل ہیں، عملی اعتبار سے واحد تجربہ، اور نظری لحاظ سے واحد نقطہ نظر نہیں۔ یعنی مارکسیت کی بھی عملی اور نظری لحاظ سے بہت سی مختلف صورتیں ہیں۔

    اس مقام پر اگر میں اپنی کتاب "الخصائص العامه للاسلام" کے عنوان "الوضوح" کا ایک اقتباس نقل کروں تو ناموزوں نہ ہوگا۔ میں نے وہاں اسلام کی نسبت شکوک و شبہات پیدا کرنے والوں کے بارے میں کہا ہے کہ:

    "عجیب بات ہے کہ جو لوگ اسلامی تاریخ میں وقوع پذیر ہونے والے اختلافات کو بڑھا چڑھا کر اور ہر اکیلی اور چھوٹی بڑی جماعت کو امتِ مسلمہ میں شمار کر کے اسلام کی اس خصوصیت کو کم کرنا چاہتے ہیں وہ اس ژولیدگی اور اختلاف کو نظر انداز کر دیتے ہیں جو جدید معاصر تحریکات اور ان کے افکار و نظریات میں پایا جاتا ہے اور جن کے آج بت تراش لیے گئے ہیں اور مولفین و مصنفین ان بتوں کے مجاور بنے بیٹھے ہیں۔"

    دورِ جدید کے نگاہوں کو خیرہ کرنے والے افکار و نظریات کی پیچیدگی، ابہام اور عدم وضاحت کا یہ حال ہے کہ ان کی کوئی ایسی صحیح، جامع اور مانع تعریف تک موجود نہیں جس سے ان کے مدلول کا علم ہو سکے اور ان کے اساسی مطالب کو سمجھا جا سکے۔ چونکہ ان کی ایسی کوئی تعریف موجود نہیں اس لیے ان کے بارے میں ہر امر میں اختلاف ہے۔ یہاں تک کہ معنی میں بھی اختلاف ہے۔ مثلاً جمہوریت (ڈیموکریسی) ہی کا لفظ لے لیں، بیسویں صدی کی کوئی نظریاتی جمعیت اور کوئی سیاسی تنظیم خواہ وہ لبرلزم ہو یا اشتراکیت یا اشتمالیت، حتیٰ کہ فاشزم اور نازیت بھی، ایسی نہیں ہے جس کا دعویٰ نہ ہو کہ وہی صحیح حقیقی جمہوریت ہے اور اس کے علاوہ تمام جمہوریتیں جھوٹی ہیں۔ اب لوگ حیران ہیں کہ ان میں سے کون سی حقیقی جمہوریت ہے اور کون سی محض دعویدار۔ کسی اخلاقی یا روحانی اصول کو معیار بنانا بھی اس عدم وضاحت اور ژولیدگی سے نکلنے میں کوئی مدد نہیں دیتا اس لیے کہ یہ سب جمہوریتیں حریت، مساوات اور انسانی احترام کی علم بردار ہیں۔ اس عدم وضاحت اور ژولیدگی سے نکلنے کا راستہ کوئی اجتماعی معیار بھی نہیں، اس لیے کہ ان میں سے ہر گروہ اپنا ایک معیار پیش کرتا ہے اور اس سے اپنے منہاج اور اسلوب کو واضح کرتا ہے۔ اگر ایک طرف مغربی جمہوریت کے حامل مفکرین سیاسی معیار پر اعتماد کرتے ہیں اور اپنی جمہوریت کو سیاسی آزادی کے نعرے سے ممتاز کرتے ہیں تو دوسری طرف مارکسی اقتصادی معیار پر اعتماد کرتے ہیں اور اپنی جمہوریت کو اجتماعی اور اقتصادی آزادی سے ممیز کرتے ہیں۔ چینی ان دونوں معیاروں کو چیلنج کرتے ہیں اور اپنی جمہوریت کو "جدید جمہوریت" کا نام دیتے ہیں۔ ایشیا اور افریقہ کے انقلابی اس جدید جمہوریت کو چیلنج کرتے ہیں اور اپنی جمہوریت کو "اشتراکی جمہوریت" کہتے ہیں بلکہ بعض اضداد کو جمع کر کے "جمہوری آمریت" کی اصطلاح بھی وضع کر لیتے ہیں۔

    دوسری مثال اشتراکیت کی لیجیے، جس پر ہماری قوم کے بہت سے لوگ فریفتہ ہیں اور اس کے پُرزور حامی بنے ہوئے ہیں۔ یہ اشتراکیت کیا ہے؟ اس کا کیا مفہوم ہے؟ اس کے اصول و مقاصد اور مصادر کیا ہیں؟ اگر آپ ان سوالوں کا جواب معلوم کرنا چاہیں تو عدمِ وضاحت اور ژولیدگی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔

    پروفیسر ٹاونی کہتا ہے کہ اشتراکی تصور اسی طرح ہے جس طرح سیاسی قوتوں کی دیگر مختلف تعبیرات، اور اشتراکیت ایسا لفظ ہے جس کا مفہوم ہر نسل اور ہر دور میں بدلتا رہتا ہے۔

    پروفیسر کول اس کی تائید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہر ملک اور ہر نسل میں اشتراکیت کا مفہوم جدا ہے اور اس میں تضاد بھی پایا جاتا ہے۔ یہی نہیں کہ اشتراکیت میں زمانے کے اختلاف سے فرق پیدا ہوتا ہو بلکہ ایک ہی دور میں اس کی مختلف صورتوں میں تضاد پایا جاتا ہے۔

    فرنچ مولفین جارج پُر جان اور بیار رامبیر کی کتاب "یہ اشتراکیت ہے" پڑھیے، اس میں میکسم لوروا کی کتاب فرانسیسی اشتراکیت سے یہ عبارت نقل کی گئی ہے کہ "اس میں شبہ نہیں کہ اشتراکیت متعدد ہیں، بابون کی اشتراکیت، برودون کی اشتراکیت سے مختلف ہے۔ اور سن سیمون اور برودون کی اشتراکیت پلانکی کی اشتراکیت سے مختلف ہے اور یہ تمام اشتراکیتیں لویس پلان، کابیہ، فوربیہ اور پکور کے افکار سے بالکل جدا ہیں۔ جس فرقے اور گروہ کی اشتراکیت دیکھیے اس میں سخت اختلافات و نزاع ملیں گے جو تلخی والم سے لبریز ہوں گے۔"

    یہ تمام اشتراکیتیں کارل مارکس کی اشتراکیت سے مختلف ہیں۔ وہ انھیں اور ان جیسی دیگر اشتراکیتوں کو خیالی کہتا ہے اور صرف اپنے نقطہ نظر کو سائنٹیفک سوشلزم سے تعبیر کرتا ہے۔

    مارکس اور اس کے جانشین اینجلز اور اولین مارکسی سوشلزم پر مبنی حکومت کے بانی لینن کے عہد سے قریب ترین ہونے کے باوجود روس اور چین کے دونوں اشتراکی تجربات میں عظیم فرق پیدا ہو گیا باوجودیکہ دونوں اپنے آپ کو مارکس سے منسوب کرتے ہیں۔

    اس موقع پر سب سے موزوں حوالہ بائیں بازو کے فرانسیسی یہودی مصنف اور مشہور مارکسی روجے گیارودی کا ہے، وہ کہتا ہے کہ:

    "حقیقت یہ ہے کہ مارکسزم کی بھی دسیوں بیسوں شکلیں ہیں۔ مارکس نے بہت سی باتیں کی ہیں اور کسی بھی تصور کے جواز کے لیے ہم اس کی تحریروں میں سے کوئی نہ کوئی بات بآسانی نکال سکتے ہیں۔ اس کی تحریریں کتاب مقدس تورات اور انجیل کی طرح ہیں جن میں سے شیطان بھی ایسی عبارتیں نکال سکتا ہے جن سے اس کی گمراہی کی تائید ہو۔"

    دوم: دوسری بات یہ ہے کہ ہم اسلام کی دعوت کسی ملک یا کسی شخصیت کے ساتھ منسوب کر کے نہیں دیتے بلکہ ہماری اسلام کی دعوت مطلق اسلام کی دعوت ہے، یعنی وہ اسلام جو قرآن و سنت کا اسلام ہے، وہ اسلام جو صحابہ کرام اور تابعین کا اسلام ہے، جس کے اصول و مصادر واضح اور متعین ہیں۔ ہم نے اسلام کے مفہوم کے بیان میں اس کے اساسی خطوط بیان کر دیے ہیں۔ جہاں تک تنفیذ میں غلطی اور انحراف کا تعلق ہے تو اس کے ذمہ دار وہ لوگ ہوں گے جو اس عمل میں شریک ہوں گے، اسلام اس غلطی اور انحراف سے مبرا ہوگا۔ غرض ان تجربات میں ہر تجربہ کی خطا سے ہم بری ہیں اور جو ان تجربات میں اجتہادی غلطیاں واقع ہوئی ہیں تو اجتہادی غلطی سے درگزر کرنے کے لیے اسلام نے بڑا توسع اختیار کیا ہے۔ درحقیقت اسلام اس قدر عظیم ہے کہ اسے کسی کی غلطی اور انحراف سے کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔

    سیکولرزم اور مارکسزم کا تضاد

    سیکولرزم اور مارکسزم کے قائل دو مختلف منطق سے گفتگو کرتے ہیں۔ یعنی جب وہ مسلمانوں سے بات کرتے ہیں تو ان کی منطق اور ہوتی ہے، اور جب اپنے بارے میں اظہارِ خیال کرتے ہیں تو دوسری منطق سے کام لیتے ہیں۔ مثلاً وہ مسلمانوں کے ساتھ گفتگو میں تاریخ کی غلطیاں اور مسلمانوں کے جملہ انحرافات اور موجودہ دور میں نفاذِ اسلام کی کوششوں سے متعلق مسلمانوں کی تمام غلطیاں اور جملہ انحرافات اسلام کے سر تھوپ دیتے ہیں اور اس طرح ان کے نزدیک اسلام قدیم و جدید تمام انحرافات کا مجموعہ بن جاتا ہے۔ اسلام کے سلسلے میں وہ کبھی یہ نہیں کہتے کہ اسلام علیحدہ ہے اور اس کی تطبیق کی غلطیاں جدا ہیں۔ جبکہ یہی لوگ جب دوسرے نظریات کی بات آتی ہے تو اصولوں کی عمدگی اور موزونیت کو پیش نظر رکھتے ہیں اور ان کی تطبیق کی غلطیوں سے صرفِ نظر کر لیتے ہیں۔ مثلاً جب وہ مارکسی سوشلزم کا پرچار کرتے ہیں تو اسے ان تمام غلطیوں اور انحرافات سے مبرا کر لیتے ہیں جو اس کی تطبیق میں واقع ہوئیں، انسانی حقوق پر دست درازی، آزادی کی پامالی، حرمتوں کے ضیاع، انسانی شرافت اور جمہوریت کے قتل نیز ایک طبقہ کا صفایا کر کے اس کی جگہ دوسرے طبقے کو لا بٹھانے جیسے تمام جرائم کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔

    اسی طرح جمہوریت کے علم بردار جمہوریت کے نام پر کیے گئے جرائم اور انحرافات کا ذمہ دار جمہوریت کو قرار نہیں دیتے۔ مصر کے صدر کے بقول جمہوریت کے دانت نوکیلے اور پنجے تیز ہیں اور یہ اپنے شکار کو آمریت سے زیادہ ظالمانہ طریقے پر دیو چباتی ہے۔ جمہوریت کے نام پر منعقد ہونے والے انتخابات اور ریفرنڈم میں کتنی ہی بار دھاندلی سے ان کے نتائج ۹۹.۹۹۹٪ صحیح ظاہر کیے جاتے ہیں۔

    خود ان مغربی ممالک کے لوگ، جہاں جمہوریت نے جنم لیا ہے، اس بات کے شاکی ہیں کہ بعض ظاہری اور خفیہ قوتیں، جمہوریت کو مخصوص گروہوں کے مفادات کی تکمیل کا ذریعہ بنا لیتی ہیں۔

    ڈاکٹر فواد زکریا انہی لوگوں میں سے ہیں جو اسلام اور سیکولرزم کے بارے میں گفتگو کے وقت تضاد بیانی سے کام لیتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب فلسفہ اور منطق کے پروفیسر ہیں۔ وہ اسلام اور اسلامی شریعت و تاریخ کے بارے میں گفتگو کرتے وقت فلسفہ اور منطق دونوں میں خیانت کے مرتکب ہوتے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ موصوف دو مختلف پیمانوں سے کیوں ناپتے ہیں اور کیوں ان لوگوں کی روش اختیار کرتے ہیں جنھیں قرآن کریم نے "المطففین" (دوسرے کے لیے کم اور اپنے لیے زیادہ ناپ تول کرنے والا) کہا ہے۔ وہ عرب دنیا میں بالعموم اور مصر میں بالخصوص جمہوریت اور سوشلزم کی ناکامی کے بہت سے اسباب اور وجوہات تلاش کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ لبرل ڈیموکریسی مصر میں اس لیے ناکام رہی کہ وہ تیس سال (۱۹۲۳ء سے ۱۹۵۲ء) سے زائد عرصہ جاری نہیں رہی۔ مگر پاکستان کے چند سال کے اسلامی تجربے اور سودان کے ایک یا دو سال کے تجربہ کا وہ حساب کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مصر میں سوشلزم بہت کم عرصہ نافذ رہا۔ چنانچہ یہ مختصر سی مدت تطبیق کے لیے کافی اور موزوں نہیں تھی۔ علاوہ ازیں یہ کہ مصر میں اشتراکیت کی تطبیق کا عمل اشتراکیوں کے بغیر وقوع پذیر ہوا اور اس تجربہ پر مامور حضرات اکثر و بیشتر ایسے فیصلے کرتے رہے جن سے یہ ظاہر ہو سکے کہ اپنے حکمرانوں سے ان کا تعلق کتنا مضبوط ہے اور وہ ان کے کتنے وفادار ہیں۔ یعنی وہ اصولوں سے وفادار نہ تھے اور ان کے دلوں میں اصولوں کی خاطر قربانی دینے کا جذبہ موجود نہ تھا۔

    تعجب ہے کہ موصوف یہ استدلال پاکستان کے ضیاء الحق کے تجربے اور سودان میں نمیری کے تجربے سے متعلق کیوں پیش نہیں کرتے۔ وہاں وہ یہ نہیں کہتے کہ یہ تجربہ پورے عزم و ثبات اور خلوص سے رو بہ عمل نہیں لایا گیا۔

    حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں بھی اسلامی جماعتیں نفاذِ اسلام کے تجربہ کی قائد نہیں تھیں۔ سودان میں اخوان المسلمون کو اسلام کے نفاذ کی قیادت حاصل نہیں تھی۔ نمیری نے سودان میں ذاتی بنیادوں پر ایسے لوگوں کا انتخاب کیا تھا جو اس کے وفادار رہ سکیں۔ بلاشبہ اخوان نے اس تجربہ کو مرحبا کہا اور اس کی تائید کی کیونکہ ان کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ کار نہ تھا۔ ورنہ ان پر یہ تہمت لگتی کہ انھیں اسلام سے دلچسپی نہیں بلکہ ان کا مقصود حکومت ہے اور یہ الزام ان پر ہمیشہ لگتا رہتا ہے۔ دلوں کے بھید اللہ جانتا ہے، چنانچہ اخوان المسلمون نے اس شخص کو کام کرنے کا موقع فراہم کیا کیونکہ اس نے صدقِ دل سے اعلان کیا کہ وہ اسلام نافذ کرے گا۔ اسی وجہ سے تمام علماء مسلمین اور داعیانِ اسلام نے اس کی حمایت کی۔ لیکن جوں ہی اس نے اسلام سے روگردانی کی اخوان المسلمون نے اس کی حمایت ترک کر دی۔ نمیری نے اخوان کی مخالفت کچلنے کی پوری کوشش کی اور ان کی تمام قیادت کو جیل میں ڈال دیا۔

    لادینیت کے حامیوں کا سخت تضاد یہ ہے کہ وہ مسلمان حاکموں کے انحراف کو تو اسلام کا انحراف قرار دیتے ہیں لیکن عادل حکمرانوں کے عدل کو اسلام کی طرف منسوب نہیں کرتے۔ حالانکہ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ ظالموں کے ظلم سے اسلام کو مبرا قرار دیں اور اچھے لوگوں کی نیکی کو اسلام کی جانب منسوب کریں کیونکہ اچھائیاں اور اعمالِ صالحہ اسلام کی تربیت کے ثمرات اور اس کی تعلیم کے اثرات ہیں۔ جیسا کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز سے کہا گیا کہ اے امیرالمومنین! اللہ آپ کو جزا دے، اسلام کی آپ نے بہت خدمت کی۔ اس پر حضرت عمر بن عبدالعزیز نے فرمایا، "نہیں، بلکہ اللہ نے مجھے اسلام کی خدمت کی توفیق عطا فرما کر میرے اوپر احسان فرمایا کہ اسلام کے بغیر میری کوئی حقیقت نہیں تھی۔"

    تیونس کے مصنف پروفیسر منیر شفیق لادینیت پرستوں کے دعوے اور ان کے اس طریقِ کار کو رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں جس کے ذریعے وہ اسلام کی حمایت میں جانے والی دلیل اور اس کے مخالف جانے والی دلیل دونوں کو اسلام کے خلاف استعمال کرتے ہیں:

    "لادینیت کے حامی جب اسلام کی ان نمایاں اور بے مثال شخصیات کا ذکر کرتے ہیں جنھوں نے امت کی بہترین قیادت اور عدالت و استقامت کی عظیم مثالیں پیش کیں تو وہ ان کے فضائل کو اسلام کی جانب منسوب نہیں کرتے جس کی گود میں انھوں نے پرورش پائی، جس کے مدرسے میں انھوں نے تعلیم حاصل کی اور جس کے سرچشمے سے وہ سیراب ہوئے۔ اور جس کی ہدایت کے سبب انھیں یہ تمام فوائد و کمالات حاصل ہوئے۔ چنانچہ یہ لوگ جب بطورِ مثال حضرت ابوبکر، حضرت عمر یا حضرت علی رضی اللہ عنہم کا ذکر کرتے ہیں تو ان کی ذاتی خوبیوں کا انتساب ان کی ذات اور ان کی عبقری شخصیت کی طرف کرتے ہیں اور اسلام کے پیدا کردہ فضائل جیسے تقویٰ، عدل، استقامت اور حسنِ اجتہاد کا ذکر بھی نہیں کرتے۔ وہ تاریخِ اسلام میں عدل و انصاف، اخوتِ انسانیت کی خیر خواہی اور ایثار و قربانی کی بے شمار روشن اور لازوال مثالوں کا ذکر کرتے ہوئے یہ نہیں کہتے کہ یہ اسلام ہے۔ لیکن جہاں انھیں ظلم، انحراف، کمزوری اور فسق نظر آتا ہے وہاں وہ فوراً پکار اٹھتے ہیں کہ یہ اسلام ہے۔"

    گویا ان لوگوں کی وجہ سے تو اسلام کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا جاتا ہے جو اس سے منحرف ہو گئے لیکن جنھوں نے اس پر استقامت اختیار کی اور ہر طرح کے حالات میں بے مثال کردار کا مظاہرہ کیا تو ان کے ان بے مثال کارناموں کی وجہ سے اسلام کی کوئی تعریف و توصیف نہیں کی جاتی، بلکہ اسے ان افراد کی ذاتی صلاحیت اور عبقریت کا نتیجہ قرار دیا جاتا ہے۔ اس سے پوری طرح واضح ہو جاتا ہے کہ کس طرح اسلام کے خلاف جو دلیل دی جاتی ہے اس کو اور اس کے متناقض دلیل دونوں کو اسلام کی مخالفت کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔

    شبہات کا ازالہ

    سیکولرزم اور فرقہ واریت

    دار الحکمت قاہرہ میں اسلام اور لادینیت کے درمیان مباحثہ کے لیے منعقد ہونے والی تاریخی مجلس میں لادینیت کے نمائندے ڈاکٹر فواد زکریا نے مصر اور مصر جیسے ممالک کے لیے لادینیت کے موزوں ہونے کی ایک دلیل یہ بیان کی کہ جن ممالک میں ایک سے زائد ادیان کے ماننے والے موجود ہوں وہاں کی صورتِ حال کا حل لادینیت ہے کیونکہ اس سے ملک فرقہ واریت اور اس کے لائے ہوئے مصائب سے محفوظ رہتا ہے۔ مثلاً ہندوستان اور لبنان کے دساتیر لادینیت پر اس لیے استوار کیے گئے کہ ایک مذہبی فرقہ دوسرے مذہبی گروہ پر زیادتی نہ کر سکے۔ چنانچہ ہندوستان میں سکھ، مسلمان، ہندو اور بودھ رہتے ہیں جو یہاں کے قدیم ادیان ہیں اور اس کے ساتھ ہی یہاں نصاریٰ بھی موجود ہیں جو مشنریوں اور استعمار کے نتیجے میں وجود میں آئے۔ اسی طرح لبنان میں سنی مسلمان، شیعہ، دروزی اور مختلف فرقوں کے عیسائی جن میں نمایاں مارونی ہیں، رہتے ہیں۔

    میں نے مذکورہ مجلس ہی میں، ڈاکٹر صاحب کے جواب میں کہا تھا کہ یہ دلیل آپ کے حق میں نہیں بلکہ آپ کے خلاف جاتی ہے، کیونکہ ہندوستان اور لبنان میں لادینیت کے اعلان سے فرقہ واریت کا کوئی علاج نہیں ہو سکا بلکہ ان دونوں ممالک میں جس قدر انسانیت سوز فرقہ وارانہ تعصب کے مظاہرے ہوئے ہیں وہ تاریخ نے اس صدی میں پہلے کبھی نہیں دیکھے۔

    ہندوستان کی ہندو اکثریت مسلم اقلیت کو اکثر و بیشتر ایسے مذبح خانوں میں دھکیلتی رہتی ہے جس کے ہول اور خوف سے بچے بوڑھے ہو جائیں۔ قریب ہی کے دور کی مثال، آسام میں مسلمانوں کا قتلِ عام ہے۔ خود ہندوؤں اور سکھوں کے درمیان آپس میں قتلِ عام ہوتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ وزیر اعظم اندرا گاندھی اسی طرح کے مسلح تصادم کی نذر ہو گئیں۔

    تعجب کی بات ہے کہ جو ہندو چوہوں اور حشرات کے مارنے سے احتراز کرتے ہیں اور ان کے یہاں بڑے بڑے ہوٹلوں میں مچھر یا مکھی مار محلول استعمال نہیں کیے جاتے کہ مچھر اور مکھی بھی ذی روح ہیں لیکن یہی ہندو ہیں جو ہزاروں مسلمانوں کا اس طرح خون بہاتے ہیں جیسے وہ ذی روح نہ ہوں۔

    لبنان میں مجنونانہ فرقہ وارانہ جنگ دس سال سے زائد عرصے سے جاری ہے، خون بہہ رہا ہے، گھر اجڑ رہے ہیں اور تباہی پھیل رہی ہے۔ صبرا اور شکیلا میں جو کچھ ہوا ہے وہ سب کے سامنے ہے کہ ان کی بھوک سے تنگی اس حالت کو پہنچ چکی ہے کہ سوال پیدا ہوا کہ آیا مردار کھانا ان کے لیے جائز ہو گیا ہے؟ یہ ایک خونی فرقہ وارانہ جنگ ہے جس کے شعلے دم بدم بھڑکتے جا رہے ہیں۔ اس کی تیزی اور تندی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور ایسی ہلاکت خیزی مچی ہوئی ہے جس کے ذکر سے بھی تاریخِ انسانیت کانپ اٹھتی ہے۔

    کہیے ڈاکٹر صاحب! آپ کی لادینیت نے لبنان کی فرقہ واریت کا کیا حل تلاش کیا؟ افسوس، آپ کی ہر دلیل آپ ہی کے خلاف جاتی ہے!

    ڈاکٹر زکریا نے مذکورہ مجلس میں فلسطینی لیڈر یاسر عرفات کے اس اعلان سے بھی استدلال کیا کہ فلسطینی ریاست سیکولر ریاست ہوگی جیسا کہ بعض دیگر فلسطینی گروپ بھی یہی بات کہتے ہیں۔ وقت کی کمی اور اس دلیل کے بودے پن کی بنا پر میں نے اس وقت اس کا جواب نہیں دیا تھا۔ فلسطینی ریاست تا حال قائم ہی نہیں ہوئی ہے نہ وہاں اسلامی ریاست وجود میں آئی ہے اور نہ سیکولر، جو اس کے موقف پر غور کیا جا سکے۔ نیز یہ کہ یاسر عرفات کا اعلان کوئی شرعی یا قانونی دلیل نہیں جس کی بنیاد پر کسی اختلافی مسئلہ کا حل تلاش کیا جائے۔ یاسر عرفات کے اس اعلان پر اس قدر اعتراض ہوا کہ خود انھیں اس کے اثرات دور کرنے کی کوشش کرنی پڑی اور اس کے بعد انھوں نے سیکولرزم کا نام لینا چھوڑ دیا۔

    ایک وقت تھا کہ یاسر عرفات سمجھتے تھے کہ "لادینیت" کا موقف اختیار کرنے یا مجوزہ فلسطینی ریاست کے بارے میں یہ اعلان کرنے سے کہ وہ لادینی ریاست ہوگی، یہودی بھی مطمئن ہو جائیں گے، مغرب و مشرق میں رہنے والے ان کے حمایتی بھی مطمئن ہو جائیں گے، فلسطین کے وہ گروپ بھی مطمئن ہو جائیں گے جو اسلام کے خلاف اپنے دل میں تعصب کے جذبات رکھتے ہیں۔ اسی طرح شام و لبنان کے گرد و پیش کے فرقے بھی راضی ہو جائیں گے اور عرب کے لادینیت پسندوں کی شکایت بھی دور ہو جائے گی۔ گویا فلسطین کی لادینی ریاست میں مسلمان، عیسائی اور یہودی سب اکٹھے رہ سکیں گے۔

    لیکن کیا عرفات کے لادینیت کا موقف اختیار کرنے سے تل زعتر کا معرکہ واقع ہونے سے رک گیا اور اس کے نتیجے میں جو جانوں کا اتلاف ہونا تھا اور مصائب کے پہاڑ ٹوٹنے تھے وہ ٹل گئے؟ کیا ایلول کا سیاہ قتلِ عام نہیں ہوا؟ کیا لبنان پر فوج کشی نہیں ہوئی؟ کیا بیروت کا محاصرہ نہیں ہوا اور وہاں سے فلسطینیوں کو نہیں نکالا گیا؟ کیا صبرا اور شکیلا میں خون بہنا بند ہو گیا اور لبنان کی خیمہ بستیاں اجڑنے سے رک گئیں؟ کیا فلسطینیوں کے اختلافات رفع ہو گئے حتیٰ کہ کیا خود "الفتح" جس کے سربراہ یاسر عرفات ہیں، اس کے اندرونی اختلافات ختم ہو گئے؟ کیا اس لادینی موقف اختیار کرنے کے طفیل یہ ممکن ہو گیا کہ لادینیت پسند عرب حکمران مردانگی اور ہمت کے ساتھ فلسطینیوں کے شانہ بشانہ ان طاقتوں کے مقابل صف آراء ہو گئے جنھوں نے فلسطینیوں کا انسانیت سوز اور بے رحمانہ قتلِ عام کیا؟

    قسم بخدا اس لادینی موقف نے یاسر عرفات کو ذرہ بھر فائدہ نہیں پہنچایا اور نہ وہ یہودیوں اور امریکیوں کے لیے قابل قبول بن سکے۔

    بجائے اس کے کہ ڈاکٹر صاحب فلسطینیوں کے لادینی موقف کو دلیل بناتے، جس سے کوئی اثر ہی مرتب نہیں ہوا کتنا اچھا ہوتا اگر وہ اسرائیل کے مذہبی موقف کو دلیل بناتے، کیونکہ اسرائیل کے دینی موقف ہی نے یہودیوں کو صدیوں کے جمود سے نکال کر ان کی مختلف ٹکڑیوں کو ایک امت بنا دیا اور ہزاروں برس کی ذلت و مسکنت کے مارے ہوؤں میں زندگی کی روح پھونک دی تھی۔ انھوں نے اپنی اس مردہ زبان کو بھی زندہ کر لیا جو دنیا کی کسی چھوٹی سے چھوٹی ریاست کی بھی زبان نہ تھی۔ انھوں نے اپنے لیے ایسی حکومت بھی قائم کر لی کہ دنیا بھر کے یہودی اس کے مذہبی انتساب پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ انھوں نے اپنی اس مملکت کا نام اپنے ایک پیغمبر کے نام پر رکھا اور تورات اور تلمود کی تعلیمات کی روشنی میں اس کے استحکام اور ترقی کے لیے کوششیں کر رہے ہیں۔

    اسرائیل کی مملکت ہماری سرزمین غصب کر کے ہمارے کھنڈرات پر اور ہمارے باشندوں کو باہر نکال کر ہماری لاشوں پر قائم کی گئی ہے۔ ہم سارے موجود تھے، ہم سنتے بھی رہے اور دیکھتے بھی رہے، ہیں عرب ریاستیں اور چالیس سے زائد اسلامی ممالک! لیکن ہمارا لادینی موقف ان کے دینی موقف سے شکست کھا گیا۔ ان کے دینی موقف کے بالمقابل ہمارا لادینی موقف ریت کی دیوار ثابت ہوا۔

    ہماری ان کے ساتھ جنگیں بھی ہوئیں جن میں ان کے پاس یہودیت تھی اور ہم اسلام سے خالی تھے، ان کے پاس تورات تھی اور ہمارے پاس قرآن نہ تھا، ان کے پاس حضرت موسیٰ کی تعلیمات تھیں اور ہم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم سے عاری تھے۔ نتیجہ یہ کہ ہمارے حصے میں شکست و ہزیمت اور ذلت آئی جو ایک ایک گھونٹ ہم حلق سے اتارتے رہے۔ بلاشبہ اللہ اپنے بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے!

    اسرائیل میں منعقد ہونے والی ایک کانفرنس میں مصر کی جانب سے اس کے ایک سابق سینئر وزیر ڈاکٹر مصطفی خلیل، مصر کے وزیر خارجہ بطرس غالی اور اسرائیل کے سیاست اور عرب امور کے ماہرین موجود تھے۔ یہ کانفرنس ۱۹ دسمبر ۱۹۸۰ء کو ہوئی۔ اس میں ڈاکٹر خلیل نے اسرائیل کے مندوبین سے مخاطب ہو کر کہا: "میں چاہتا ہوں کہ آپ کو یہ اطمینان دلا دوں کہ ہم مصر میں دین اور قومیت میں فرق کرتے ہیں اور ہم اس بات کو کبھی قبول نہیں کریں گے کہ ہماری سیاسی قیادت اور دینی عقائد یکجا ہوں۔"

    جوں ہی ڈاکٹر خلیل نے یہ بات پوری کی اسرائیل کے مندوب پروفیسر ڈیوڈ کھڑے ہو گئے اور انھوں نے کہا:

    "باشندگانِ مصر! آپ آزاد ہیں کہ دین اور سیاست میں فرق روا رکھیں لیکن ہم اسرائیل میں اس بات کو رد کرتے ہیں کہ یہودیت محض دین ہے بلکہ ہم با تاکید کہتے ہیں کہ یہودیت دین بھی ہے، قوم بھی ہے اور وطن بھی ہے۔"

    پروفیسر تفی یافوت نے کہا:

    "میں ڈاکٹر مصطفی خلیل سے کہنا چاہتا ہوں کہ وہ دین اور قومیت کی علیحدگی پر اصرار کر کے ایک بڑی غلطی میں مبتلا ہیں۔ اگر ڈاکٹر خلیل سمجھتے ہیں کہ ہم ایسے اصحابِ دین ہیں جن کی قومیت نہیں ہے تو میں اس کی تردید کرتا ہوں، بلکہ ہم یہودیت کو دین، ملت اور وطن سمجھتے ہیں۔ میں ڈاکٹر خلیل کو یاد دلانا چاہوں گا کہ مشرقِ وسطیٰ آسمانی مذاہب مسیحیت، یہودیت اور اسلام کا مرکز رہا ہے، یہ قومیتوں کا وطن کبھی نہیں تھا۔ قومیت کا صور یورپ نے پھونکا۔ جب اہل یورپ مذہبی جنگوں کی شدت سے پریشان ہو گئے تو انھوں نے ان کی شدت کو کم کرنے کے لیے قومیت کا مقصد ایجاد کیا۔ انھوں نے قومیت کے نعرے کے ذریعے مشرقِ وسطیٰ کے باشندوں سے انتقام لینے کی تدبیر کی اور قومیت کا تصور یہاں کی اقوام کو دے کر نسلِ نو کو قومیتوں کی جنگوں میں الجھا دیا۔"

    کاش ڈاکٹر مصطفی خلیل، ڈاکٹر فواد زکریا اور ان جیسے لوگ اہل اسرائیل کی اس نصیحت سے سبق لیتے!

    اس مقام پر یہ ذکر بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ جن دنوں یہ کتاب طباعت کے لیے جا رہی تھی اس وقت میں نے مشہور سیاسی مصنف محمد حسین ہیکل کا ایک مقالہ قاہرہ کے اخبار "اليوم" (ہفتہ) ۲۵ جنوری ۱۹۸۷ء کی اشاعت میں پڑھا۔ ہیکل نے یہ مقالہ مشہور ماہر طبیعیات آئن سٹائن کے بارے میں لکھا تھا جنھوں نے نظریہ اضافیت دے کر ایٹم کا دروازہ کھولا۔ ہیکل جب آئن سٹائن سے ملاقات کے لیے گئے تو ان کے ذہن میں جو سوالات تھے ان کا تعلق سائنس، بیسویں صدی میں سائنس اور ترقیات، ایٹم بم، آج کے حالات اور مستقبل کے امکانات سے تھا۔

    یہ ملاقات انقلاب ۲۳ جولائی کے اولین مرحلے میں اس وقت ہوئی جب ابھی جمال عبدالناصر کا نام نمایاں نہیں ہوا تھا۔ ہیکل کہتے ہیں کہ بجائے اس کے کہ میں اس ماہر طبیعیات سے کوئی سوال کرتا میرے تعجب کی کوئی انتہا نہ رہی جب اس نے خود مجھ سے سوال کر دیا۔ آپ کو معلوم ہے کہ اس نے مجھ سے کیا پوچھا؟ اس نے مجھ سے مصر کی نئی انقلابی قیادت کے بارے میں دریافت کیا اور پوچھا کہ اس قیادت کے میرے اہل کے بارے میں کیا ارادے ہیں؟ مجھے بڑی حیرت ہوئی۔ اس نے اس حیرت کو محسوس کرتے ہوئے وضاحت کی کہ میرے اہل وہ یہود ہیں جو اسرائیل میں رہتے ہیں۔ ہیکل کہتے ہیں کہ اس وقت مجھے معلوم ہوا کہ آئن سٹائن یہودی ہے۔ میں یہ سمجھ رہا تھا کہ وہ سائنس دان ہے اور یہ بات میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھی کہ وہ دینی یا نسلی جذبات بھی رکھتا ہوگا لیکن اس سائنس دان کا پہلا سوال ہی اپنے خاندان اور یہودی برادری (اسرائیل) کے بارے میں تھا۔

    مصریت، عربیت اور اسلامیت

    لادینیت کے حامی، اسلامی حل کے مخالف، اور اسلامی شریعت کے نفاذ میں رکاوٹ ڈالنے والوں نے مصر میں اسلامی دعوت کے مقابلے میں بلاجواز مصری وطن پرستی کے مسئلے کو ابھارا ہے۔ انھوں نے اس سلسلے میں علمی اور عقلی اسلوب چھوڑ کر خطابی اور جذباتی اسلوب اختیار کیا ہے اور مصر کی محبت کے اس طرح ترانے گائے اور نغمے الاپے ہیں جیسے کسی زمانے میں عشاق شعراء اپنے معشوق کے حسن و جمال کو بیان کیا کرتے تھے، مثلاً قیس لیلیٰ، جمیل بثینہ اور کثیر عذہ۔ پروفیسر فرج فودہ نے اپنی کتاب "قبل السقوط" میں یہی اسلوب اختیار کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اے مصر، خدا خوب جانتا ہے کہ میں تجھ سے بے حد و حساب محبت کرتا ہوں اور اپنے خون کے آخری قطرے تک تجھ سے عشق کرتا ہوں۔ اپنے وجود کے ہر ذرے سے تیری محراب میں سجدہ ریز ہوں اور تیرے متحد اور مضبوط وجود کی قیمت کے طور پر اپنی زندگی نذر کرنے کے لیے تیار ہوں۔

    انھوں نے "مصریۂ مصریۂ" کے عنوان کے تحت بھی اسی طرح کا مقالہ لکھا ہے۔

    ہم ڈاکٹر فواد اور ان جیسے لوگوں سے کہتے ہیں کہ تم جتنا چاہو مصر سے محبت کرو اور جس قدر چاہو اس سے عشق کرو کہ انسان کی اپنے وطن سے محبت بالکل فطری ہے۔ مسلمانوں میں بھی قدیم زمانے سے یہ بات مشہور ہے کہ حب الوطنی ایمان کا حصہ ہے۔ اگرچہ یہ حدیث نہیں ہے، مگر اس کے مفہوم پر کسی نے اعتراض بھی نہیں کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ حب الوطنی پر کوئی شخص معترض نہیں ہو سکتا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت کے لیے روانہ ہو رہے تھے تو آپ نے اپنے وطن مکہ کو مخاطب کر کے کہا تھا کہ: "تو اللہ کے نزدیک بھی محبوب شہر ہے اور میرے نزدیک بھی محبوب شہر ہے۔ اگر تیری قوم مجھے نہ نکالتی تو میں یہاں سے نہ جاتا۔" مدینہ منورہ میں جب بعض اصحاب نے مکہ کا ذکر کیا تو آپ آبدیدہ ہو گئے اور فرمایا کہ رہنے دو، دلوں کو بے قرار نہ کرو۔

    بہرحال وطنیت کے فطری جذبے اور اسلام سے محبت میں کوئی تضاد نہیں کیونکہ دونوں کی حیثیت خاص و عام یا جزء و کل کی ہے جن میں تعارض نہیں ہوتا۔ اگر کوئی مصری اپنے وطن کی کوئی خدمت انجام دیتا ہے تو اس کا یہ عمل خیر وطن عام اور وطن کبیر یعنی وطن عربی کے منافی نہیں ہے، کیونکہ مصر اس وطنِ عربی کا ایک حصہ ہے اور مصری قوم عرب قوم کا ایک حصہ ہے، جیسا کہ خود مصری دستور نے اس کی تصریح کی ہے۔ اسی طرح مصر کی خیر خواہی، عرب کی خیر خواہی اور اسلام کی خیر خواہی میں کوئی تضاد نہیں ہے۔

    جس طرح مصر وطن عربی کا ایک حصہ ہے اسی طرح وہ وطن اسلامی کا بھی حصہ ہے اور مصری قوم امتِ اسلامیہ کا بھی حصہ ہے، بلکہ مصر ایسا حصہ ہے جس کی مشرق و مغرب کی تمام امتِ اسلامیہ میں ایک تاریخی اور واقعاتی اہمیت ہے۔ پھر مصریت اور اسلامیت میں کیسا تضاد اور کیسی عداوت!

    مصر کے دفاع اور مصر کے دشمنوں سے جہاد میں اسلام کے علم بردار ہی پیش پیش رہے ہیں۔ نہرِ سویز کے معرکوں میں ان کی بہادری اور ان کے شہداء کے نام اس کی واضح شہادت ہے۔

    ان کے لیے مصر محض ایک وطن ہی نہیں بلکہ وہ اسے اسلام، اسلام کی لغت و ثقافت اور اسلامی عقیدہ و دعوت کا قلعہ تصور کرتے ہیں۔

    شہید حسن البنا مصری وطنیت کے بارے میں کہتے ہیں:

    "ہم زمین کے اس باعزت خطہ کی نسبت سے مصری ہیں کہ ہم یہاں پیدا ہوئے اور پلے بڑھے۔ اور مصر ایک اسلامی ملک ہے جس نے اسلام کو خوش آمدید کہا اور تاریخ کے ادوار میں اسلام کے دفاع میں بڑی قربانیاں دیں۔ مصر کی بہبود اسلام ہی سے ہے۔ مصر اسلام ہی کی دوا اور اسلام ہی کے علاج سے صحت مند ہوتا ہے اور حالات نے اسلامی فکر کی کفالت اور نگہداشت مصر کے سپرد کر دی ہے تو پھر ہم مصر اور مصر کی بھلائی کے لیے کیوں نہ کام کریں؟ اور ہم اپنی پوری استطاعت سے مصر کا دفاع کیوں نہ کریں؟"

    لیکن اگر ان "مصریت" کا نعرہ لگانے والوں، سلامت موسیٰ وغیرہ کی مراد عرب مسلمانوں سے الگ ہونا اور عرب اور اسلامی کی نسبت سے انکار کرنا ہے اور چھوٹے چھوٹے خطوں میں محدود علاقائیت کے جذبات کو ابھارنا ہے، یعنی مصر میں فرعونیت، شام میں فینیقیت، عراق میں آشوریت اور شمالی افریقہ میں بربریت وغیرہ تو ہم سب سے پہلے ان شیطانی جذبات کی مزاحمت کرتے ہیں جو ہماری امت کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے درپے ہیں تاکہ امتِ مسلمہ کو شکار کرنا آسان ہو جائے۔ لیکن زمانہ اس قسم کے نعروں سے بہت آگے جا چکا ہے اور اب اس طرح کی بات کہنے والوں کے لیے کوئی گنجائش نہیں رہی، جیسا کہ ایک مصری لیڈر نے، جب اس سے فلسطین اور اس کے بارے میں سازشوں سے متعلق سوال کیا گیا تو اس نے کہا تھا کہ میں مصر کا وزیر اعظم ہوں، فلسطین کا وزیر اعظم نہیں۔ اس بنا پر ہم "مصریت، مصریت" کا نعرہ لگانے والوں اور اسی حد پر ٹھہر جانے والوں سے کہتے ہیں کہ اپنا افق وسیع کرو، ناک سے آگے (ذرا دور تک) دیکھو، اپنے آپ کو پہچانو اور اپنی شخصیت کو اس کی وسعتوں کے ساتھ فراموش نہ کرو، کہ تم مصری ہو، عرب ہو، مسلمان ہو اور اس میں کوئی شک نہیں، پس بہتر یہ ہے کہ تم مصریت، عربیت، اسلامیت کا نعرہ بلند کرو۔

    بعض لادینیت پرست کہیں گے کہ اختلاف اس میں ہے کہ ترجیح کسے حاصل ہے، مصریت کو، یا عربیت کو یا اسلامیت کو؟

    ہمارے نزدیک بیک وقت تینوں دائروں کے لیے کام کرنا ممکن ہے اس لیے کہ یہ تینوں باہم پیوست ہیں۔ چنانچہ وہ مصری جو خلوص اور پختگی کے ساتھ اپنے وطن کی بہتری کے لیے کام کرتا ہے وہ اس کے ساتھ ہی اپنی عربیت اور اپنی اسلامیت کی بہتری کے لیے بھی کام کر رہا ہے۔

    اور اگر وہ سچا عرب اور باشعور مسلمان ہے تو اسے بہت جلد معلوم ہو جائے گا کہ مصر کی حقیقی بہتری بالآخر عربیت اور اسلام کی بہتری ہے۔

    نیز یہ کہ مسلمان کو اس کا دین اس بات سے منع نہیں کرتا کہ وہ خدمت کی ابتداء اپنے وطن سے کرے، جس کی سرزمین پر وہ رہتا ہے اور جس کے وسائل سے وہ مستفید ہوتا ہے۔ لہٰذا اپنے شہر اور اپنے گاؤں، جہاں وہ پلا بڑھا ہے اور جہاں وہ رہتا ہے، کی خدمت سے ابتداء کرنے میں کوئی چیز مانع نہیں اور صحیح حدیث میں آیا ہے کہ:

    "اپنی جان سے ابتداء کر پھر اپنے اہل و عیال کی پرورش کر۔"

    اسلام کی تعلیمات کی رو سے اقرباء بھلائی کے زیادہ حق دار ہیں اور پڑوسیوں کے حقوق کی دیگر مسلمانوں کے حقوق سے زیادہ تاکید کی گئی ہے۔ اور پڑوسیوں میں سے بھی رعایت کا زیادہ حق دار وہ ہے جو قریب ترین ہو۔ اسی طرح زکوٰۃ کا حکم یہ ہے کہ زکوٰۃ اسی علاقے پر صرف کی جائے جہاں سے وصول کی گئی ہے اور اس وقت تک کسی علاقے کی زکوٰۃ کو دوسرے علاقے میں نہ لے جایا جائے جب تک وہاں کے لوگ مستغنی نہ ہو جائیں یا دوسرے علاقے کے لوگوں کی احتیاج زیادہ نہ ہو یا وہاں قحط کی کیفیت نہ ہو وغیرہ۔

    یہی وجہ ہے کہ ایک مسلمان اپنے وطن کی خدمت اور اس کی فلاح کے کام میں دینی اعتبار سے کوئی حرج نہیں سمجھتا۔

    حقیقی اختلاف وہاں پیدا ہوتا ہے جہاں مصریت، عربیت اور اسلام میں تعارض فرض کر لیا جائے۔ چنانچہ جو لادینی حلقے صرف مصریت کے قائل ہیں، ان کا یہی نقطہ نظر ہے۔ ۵۰ء کی دہائیوں میں بعض مصری صحافیوں نے اسی نقطہ نظر کا اظہار کیا اور ابو خلدون ساطع الحصری، جنھیں عرب قومیت کا ترجمان کہا جاتا ہے، انھوں نے اپنے متعدد مقالوں میں اس نقطہ نظر کا جواب دیا جو بعد میں "العروبہ اولا" کے عنوان سے کتابی صورت میں شائع ہوئے۔ حصری نے قومی نقطہ نظر سے گفتگو کی ہے اور مسائل پر زیادہ وسعتِ نظر کے ساتھ روشنی ڈالی ہے۔ جن حضرات نے حصری کا مطالعہ کیا ہے وہ جانتے ہیں کہ ان کے یہاں زیادہ مضبوط استدلال اور زیادہ واضح دلائل ملتے ہیں۔

    عربی قومیت کے داعیوں کی یہی منطق زیادہ وسیع اسلامی دائرے کے بالمقابل ان کے نقطہ نظر کی غلطی واضح کر دیتی ہے اس لیے کہ اسلامی افق قومی اور اقلیمی افق سے کہیں زیادہ وسیع ہے اور اس امر کا متقاضی ہے کہ ایک مسلمان پوری قوت سے کہے کہ نہیں، اسلام سب سے پہلے ہے۔

    سیاسی منافقت کی فضا سے دور جو حقیقت ہم آشکار کرنا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ مومن کا دین اس کے لیے سب سے زیادہ قیمتی شئے ہے۔ اور اگر یہ فرض بھی کر لیا جائے کہ دین، وطنیت اور قومیت میں تعارض اور تضاد ہے تو تقاضائے ایمان یہی ہے کہ دین کے سوا ہر شئے کو ترک کر دیا جائے کہ دین کا بدل کوئی نہیں، جبکہ وطن کا بدل ہو سکتا ہے۔ اللہ کی زمین بڑی وسیع ہے اور طلبِ رزق کے لیے ہجرت کی شریعت نے اجازت دی ہے۔ اسی طرح امن کی طلب اور آزادی کی تلاش میں بھی ہجرت کرنا روا ہے۔ جو لوگ دین اور عقیدے کی بنا پر اپنے وطن میں ظلم و ستم برداشت کر رہے ہوں ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

    يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ أَرْضِي وَاسِعَةٌ فَإِيَّايَ فَاعْبُدُونِ (العنكبوت: ۵۶) (اے میرے مومن بندو! میری زمین وسیع ہے پس میری ہی بندگی کرو۔)

    مسلمان کے لیے اگر اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایک طرف ہوں اور دنیا کا مال و دولت، آل و اولاد اور وطن و قوم دوسری طرف تو مسلمان اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے راستے میں جہاد کو ترجیح دیتا ہے۔ یہ ایک قطعی اور فیصلہ کن امر ہے جیسا کہ قرآن میں وضاحت آتی ہے:

    قُلْ إِن كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ وَإِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَاكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُم مِّنَ اللَّـهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّىٰ يَأْتِيَ اللَّـهُ بِأَمْرِهِ ۗ وَاللَّـهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ (التوبہ: ۲۴) (اے نبی کہہ دو کہ اگر تمھارے باپ اور تمھارے بیٹے اور تمھارے بھائی اور تمھاری بیویاں اور تمھارے عزیز و اقارب اور تمھارے وہ مال جو تم نے کمائے ہیں اور تمھارے وہ کاروبار جن کے ماند پڑ جانے کا تم کو خوف ہے اور تمھارے وہ گھر جو تم کو پسند ہیں تم کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کی راہ میں جہاد سے عزیز تر ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ تمھارے سامنے لے آئے اور اللہ فاسق لوگوں کی رہنمائی نہیں کرتا۔)

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام نے اپنے وطن کی قربانی دی اور اپنا گھر بار، مال و دولت اور رشتہ داروں کو چھوڑ کر اللہ کے راستے میں ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لے گئے۔

    لِلْفُقَرَاءِ الْمُهَاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِن دِيَارِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّـهِ وَرِضْوَانًا وَيَنصُرُونَ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ ۚ أُولَـٰئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ (الحشر: ۸) (ان غریب مہاجرین کے لیے جو اپنے گھروں اور جائیدادوں سے نکال باہر کیے گئے ہیں۔ یہ لوگ اللہ کا فضل اور اس کی خوشنودی چاہتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حمایت پر کمر بستہ رہتے ہیں۔ یہی راستباز لوگ ہیں۔)

    مسلمان قرآن حکیم کو اپنے تصورات و احکام اور نقطہ نظر کا سرچشمہ جانتا اور اس پر ایمان رکھتا ہے۔ ایک سچا مسیحی جو سیاسی میلانات کے تابع نہ ہو اور اپنے دین کے بارے میں مخلص اور انجیل پر ایمان صادق رکھتا ہو وہ بھی یہی عقیدہ رکھتا ہے۔ چنانچہ انجیل میں ہے کہ:

    حضرت مسیح علیہ السلام مجمع میں خطاب کر رہے تھے۔ ان کی ماں اور بھائی باہر کھڑے تھے جو ان سے بات کرنا چاہتے تھے۔ کسی نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ آپ کی ماں اور آپ کا بھائی باہر کھڑے ہیں اور آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں تو آپ نے جواب دیا کہ میری ماں اور میرے بھائی کون ہیں کیونکہ جو آسمانوں میں موجود میرے باپ کے راستے پر چلتا ہے وہ میری ماں، میری بہن اور میرا بھائی ہے۔ (متی ۵۰-۴۶: ۱۲)

    ڈاکٹر فرج فودہ اور ان جیسی سوچ رکھنے والوں کی مشکل یہی ہے کہ وہ اسلام کو محض ایک مذہبی جذبہ سمجھتے ہیں جس کا تعلق انسان کے وجدان سے ہوتا ہے۔ وہ اسلام کو ایسا سرچشمہ نہیں سمجھتے جو مسلمانوں کے فکر و شعور اور سلوک و عمل کی رہنمائی کرتا ہے، جو انسانوں کو زندگی کا ایک منفرد منہاج عطا کرتا ہے، انسانی زندگی کے ہر مرحلے کے لیے ہدایات دیتا ہے اور ایک انسان کے دوسرے انسانوں نیز اپنے خاندان اور معاشرہ کے ساتھ روابط کو منظم کرتا ہے، مختلف معاشروں کے باہمی صلح و جنگ کے تعلقات کی تنظیم کرتا ہے۔ اس بارے میں اسلام نے ایسے اصول و قواعد عطا کیے ہیں جن پر سب کا اتفاق ہے اگرچہ ان کی جزئی تفریعات میں اختلاف بھی ہے۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ:

    "تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک اس کی خواہشات میری لائی ہوئی ہدایات کے تابع نہ ہو جائیں۔"

    جملہ فقہائے امت کا اس امر پر اجماع ہے کہ شریعت ایک مکلف فرد کے جملہ امور کی حاکم ہے اور مکلف شخص کا چھوٹا یا بڑا کوئی فعل ایسا نہیں جو شریعت کے پانچ احکام یعنی فرض، مستحب، حرام، مکروہ اور مباح سے باہر ہو۔

    اس لیے مسلمانوں کے زمرے میں شمار ہونے والے بعض مصنفین جب مسلمانوں پر لازم کرتے ہیں کہ انھیں فلاں کام کرنے چاہییں اور فلاں کام نہیں کرنے چاہییں تو تعجب ہوتا ہے۔ دراصل یہ لوگ جانتے ہی نہیں کہ مسلمان پر اللہ کے منہاج کی اتباع لازم ہے۔ اس کی دوستی، تعلق اور ارتباط اللہ ہی سے ہے۔ وہ اس کے احکام پر چلتا اور اسی سے ہدایت و رہنمائی حاصل کرتا ہے اور اپنی پسند اور ناپسند اللہ کی رضا کے تابع بنا لیتا ہے۔

    ڈاکٹر فواد زکریا نے اسلامی معاشروں میں سیکولرزم کے جواز پر بعض ایسے شبہات سے استدلال کیا ہے جن کی عملی اور منطقی اعتبار سے کوئی قدر و قیمت نہیں ۔ مثلاً وہ کہتے ہیں کہ مصطفیٰ نحاس بڑے دین دار تھے اور ان کی دین داری میں کوئی شبہ نہیں مگر اس کے باوجود وہ سیکولرزم کے قائل تھے۔ میں ڈاکٹر صاحب کے اس استدلال میں یہ اضافہ کرتا ہوں کہ ہمارے ایک صدر کو لوگ مومن صدر کہتے تھے، ان کی پیشانی پر سجدے کا نشان تھا، وہ بسا اوقات منبر پر بھی بیٹھ جاتے تھے اور نماز کی امامت بھی کر لیا کرتے تھے مگر ان کا یہ قول بھی مشہور تھا کہ ”دین میں سیاست نہیں اور سیاست میں دین نہیں۔“

    مجھے ڈاکٹر صاحب کے اس قدر کمزور استدلال پر بڑا تعجب ہے اس لیے کہ اس استدلال کا علم و منطق سے کوئی تعلق نہیں ۔ ہر مسلمان جسے تھوڑا بہت بھی اسلام کا علم ہے، وہ جانتا ہے کہ افراد کسی فعل کے جواز کی دلیل نہیں بنتے بلکہ ہر شخص کے افعال اور اقوال کو شریعت کی میزان پر پرکھا جاتا ہے ۔ جو اس کے مطابق ہو وہ مقبول اور درست ہے اور جو اس کے برخلاف ہو وہ غلط اور مردود ہے ۔ ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ نے بعض ائمہ کرام کے اقوال سے استدلال کو رد کرتے ہوئے کس قدر عمدہ بات کہی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کے سوا کسی کا قول حجت نہیں بلکہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما نے تو سنت نبوی کے بالمقابل حضرات ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما کے قول کو دلیل بنانے والوں سے کہا کہ کہیں تم پر آسمان سے پتھر نہ برس پڑیں، میں کہتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور تم کہتے ہو کہ ابوبکر نے کہا۔

    اگر امام مالک رحمۃ اللہ علیہ، امام ابو حنیفہ، امام شافعی اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ، بلکہ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کا قول بھی دلیل شرعی کے مطابق نہ ہو تو وہ بھی حجت نہیں، تو کسی کُو و مَہ کا قول کس طرح دلیل بن سکتا ہے ۔ غرض شریعت کے بارے میں کسی کے قول و عمل کو دلیل بنانا غلط طرزِ استدلال ہے۔

    مزید برآں یہ کہ اگر کسی شخص کے بارے میں کہا جائے کہ فلاں شخص بہت دیندار ہے مگر وہ لادینیت کا قائل ہے تو اس کا واضح مطلب یہی ہو گا کہ وہ اللہ کی شریعت کو مسلمانوں کی زندگی کے لیے لازم نہیں سمجھتا ۔ چنانچہ اس کا یہ قول ہی تناقض و تضاد کا حامل ہے لہٰذا ایسے شخص کو دیندار کس طرح تصور کیا جا سکتا ہے جو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو رد کرتا ہو بلکہ صریحاً قرآن کی خلاف ورزی کا مرتکب ہو ۔ کیونکہ قرآن کریم کا ارشاد ہے:

    وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ ۗ وَمَن يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُّبِينًا

    (سورۃ الاحزاب: 36)

    کسی مومن مرد اور کسی مومن عورت کو یہ حق نہیں ہے کہ جب اللہ اور رسول کسی معاملہ میں فیصلہ کر دیں تو پھر اسے خود اپنے معاملہ میں فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل ہو اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے تو وہ صریح گمراہی میں پڑ گیا۔

    نیز ارشاد ہے:

    إِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِينَ إِذَا دُعُوا إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ أَن يَقُولُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ۚ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ

    (سورۃ النور: 51)

    ایمان لانے والوں کا کام تو یہ ہے کہ جب وہ اللہ اور رسول کی طرف بلائے جائیں تاکہ رسول ان کے مقدمہ کا فیصلہ کرے تو وہ کہیں کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی۔

    اگر مسلمانوں کا کوئی لیڈر ایسا ہو جو نماز روزہ کا پابند ہو، حج و عمرہ کرتا ہو اور اس کے ساتھ ہی سیکولرزم کا بھی دم بھرتا ہو، یعنی حکومت و ریاست کے امور میں لادینیت کا قائل ہو تو در حقیقت یہ صورت حال کسی لیڈر کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ بہت سے مسلمان اس تضاد فکری کا شکار ہیں اور ان کی تمام زندگی اسی تضاد پر قائم ہے ۔ یہ مسلمان شخصی فرائض بھی انجام دیتے ہیں اور شعائر اسلام بھی ادا کرتے ہیں مگر اپنے گھر میں اور اپنے ماحول میں اسلامی زندگی نہیں گزارتے، بلکہ ان کی بیویاں اور ان کی لڑکیاں بے پردہ رہتی ہیں ۔ رقص و سرود کی مجلسوں میں شریک ہوتی ہیں اور کبھی کبھی وہ خود بھی ایسی محفلوں میں شریک ہوتا ہے یا شراب کی میز پر جا بیٹھتا ہے اگرچہ شراب نہ پیئے ۔ اور اگر کوئی اس سے پوچھے کہ نماز، روزہ اور اس طرزِ حیات میں باہم کیا ربط ہے تو وہ جواب دیتا ہے کہ یہ زندگی کا ایک پہلو ہے اور وہ دوسرا ۔

    یہی بات سیکولرزم کے قبول کرنے اور اسلام، دین اور شریعت کے منافی امور اختیار کرنے کی نسبت بھی کی جاتی ہے ۔ یہ تضاد ایسا ہے جس پر معذرت کی جانی چاہیے، نہ کہ اسے بطور دلیل پیش کیا جائے ۔ مسلمانوں کا یہ طرزِ حیات دراصل اس جاہلی دور کا نتیجہ ہے جو مسلمانوں نے استعماری طاقتوں کے تحت گزارا ۔ حقیقت یہ ہے کہ مغرب کے مسلح استعمار سے زیادہ ان کے فکری اور ثقافتی استعمار نے مسلمانوں کو نقصان پہنچایا ۔

    ہماری نئی نسل کے بہت سے افراد نے ان تعلیمی اداروں میں پڑھا ہے جو استعمار نے قائم کیے اور جہاں کا نظام تعلیم و تدریس بھی انہی کا وضع کردہ ہے ۔ انہوں نے یہاں کے نظام تعلیم کو اپنے تصورات کے مطابق استوار کیا جس کا اولین مقصد یہ تھا کہ مسلمان نہ صرف یہ کہ اپنے روحانی ورثہ سے نابلد رہیں بلکہ ان کے ذہن میں اسلام اور اسلامی تعلیمات کے بارے میں ایسے غلط افکار بٹھا دیے جائیں جو ان کو حقیقی اسلام سے دور کر دیں ۔

    چنانچہ یہی وجہ ہے کہ یہ حضرات نہ صرف یہ کہ اسلام، اس کی جامعیت اور اس کے کمال سے ناآشنا ہیں بلکہ اس کو عیسائیت کی طرح ایک مذہب سمجھتے ہیں، یعنی عقیدہ بلا شریعت، سلامتی بلا جہاد اور دین بلا حکومت و ریاست یعنی دین کا بالکل وہ مفہوم جو مغربی عیسائی سمجھتے ہیں۔

    مصطفیٰ نحاس جیسے لیڈر کے حق میں ہم یہی معذرت پیش کر سکتے ہیں کہ ان کے متعلق یہ سمجھنا کہ وہ آخر وقت تک لادینیت پر قائم رہے صحیح نہیں کیونکہ انہوں نے بعض دینی تقریبات میں اپنے اس موقف کا بھی اظہار کیا کہ وہ اسلام کو عقیدہ اور نظام حیات مانتے ہیں ۔ اللہ کرے کہ ان کا خاتمہ اسی ایمان و یقین پر ہوا ہو !

    علامہ ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ نے مشاہیر صوفیاء کی بعض خلاف اسلام باتوں پر گرفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ زیادہ سے زیادہ ان لوگوں کے حق میں جو عذر پیش کیا جا سکتا ہے وہ یہ ہے کہ انہوں نے لاعلمی میں یا از خود رفتگی کی کیفیت میں اس طرح کی باتیں کہہ دی ہوں گی۔

    اسلامی بیداری: حقائق اور اوہام

    ڈاکٹر فواد زکریا نے اسلامی بیداری اور مصر کی دینی جماعتوں کے بارے میں بھی متعدد مقامات پر گفتگو کی ہے اور ان کے ظہور کے اسباب ، ان کے سیاسی اور ثقافتی میدانوں نیز تعلیمی اداروں اور جامعات میں ان کے گہرے اثرات کے وجوہ بیان کرنے کی بڑی کوشش کی ہے ۔ مگر اپنی تمام تر چابکدستی، حقائق سے فرار کی غیر معمولی صلاحیت اور مختلف پیچیدہ مسائل کو زیر بحث لانے کی قدرت کے باوجود ان کی گفتگو تناقض اور تضاد سے بھری ہوئی ہے ، خواہ اس کا تعلق دین سے ہو، علم سے ہو یا فکر اور تاریخ کے سادہ اور واضح مسلمات سے ہو ۔

    ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ محققین کے مابین اس امر پر اجماع ہے کہ ۱۹۶۷ء کی شکست، اور اس شکست کا عوام کے احساسات پر جو اثر ہوا ، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ستر کی دہائیوں میں دینی جماعتوں میں بیداری پیدا ہوئی اور انہوں نے قومی زندگی میں اپنا مؤثر کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا ۔ ڈاکٹر صاحب کا خیال ہے کہ خاص طور پر اس عرصے میں دینی سرگرمیوں کو اس شکست کا رد عمل سمجھا جاتا ہے ۔ در حقیقت یہ ان مایوس لوگوں کا رد عمل ہے جنھیں اپنے سامنے سارے دروازے بند نظر آئے اس لیے انہوں نے یہ امید قائم کر لی کہ شاید آسمان سے کوئی مدد آ جائے یا قدیم تاریخ سے انھیں کوئی سہارا مل جائے ۔ ان کی سمجھ میں یہی بات آئی کہ موجودہ تاریکی اور پستی کا حل ایسی اسلامی بیداری ہے جو دور اول کی اسلامی عظمت کو از سر نو واپس لے آئے ۔

    ڈاکٹر صاحب کے دلائل کا رد

    ڈاکٹر فواد زکریا کے بقول اس امر پر محققین کا اجماع ہے ، مگر وہ خود اس کا شدت سے انکار کرتے ہیں اور اس کے دو انتہائی کمزور اور بودے اسباب بیان کرتے ہیں:

    1. مظاہروں کا رد عمل

      ان کا خیال ہے کہ ۱۹۶۷ء کی شکست کے بعد متعدد مظاہرے ہوئے اور مظاہرین نے ان لوگوں کے محاسبہ کا مطالبہ کیا جو ۱۹۶۷ء کی شکست کے ذمہ دار تھے ۔ مظاہرین نے یہ عزم بھی ظاہر کیا کہ وہ اس وقت تک چین سے نہ بیٹھیں گے جب تک قوم کی تباہی کے ذمہ دار لوگوں کو کیفر کردار تک نہ پہنچائیں گے ۔ ان تمام حالات میں عوام کا اہم مطالبہ یہ تھا کہ جمہوریت بحال کی جائے اور معاشی حالات میں اصلاح کا عمل بروئے کار لایا جائے ۔ ظاہر ہے کہ ان عوامی تحریکوں میں مذہبی جماعتوں کا کوئی حصہ نہ تھا بلکہ یہ دراصل کچھ اور قوتیں تھیں جن پر لادینیت کا رنگ زیادہ نمایاں تھا جس کا اثر ہمیں عوام میں بھی نظر آتا ہے اور جامعات میں تعلیم پانے والے طلبہ میں بھی ۔ غرض شکست پر فوری رد عمل جو ظاہر ہوا وہ دینی جماعتوں کا نہیں تھا ۔

      ڈاکٹر صاحب کی یہ بات بڑی عجیب ہے ، اس لیے کہ شکست کا رد عمل اگلے ہی روز ظاہر نہیں ہو جاتا بلکہ یہ لہر کائناتی اصولوں کے تحت رفتہ رفتہ بڑھتی اور پھیلتی اور پختہ ہوتی ہے ۔ یہ لہر انسان کے فکر و شعور اور ضمیر پر اثر انداز ہو کر اس کی قلب ماہیت کر دیتی ہے ۔ مصنف نے جن مظاہروں کا ذکر کیا ہے وہ اس طرز عمل کا حصہ تھے جو دراصل شکست کا باعث بنا بلکہ ممکن ہے یہ مظاہرے خود حکومت اور اس کے کارکنوں نے کروائے ہوں ۔ شکست کے فوراً بعد دینی جماعتوں کے رد عمل کا اظہار اس لیے متوقع نہیں تھا کہ ان کے قدیم ارکان جیلوں میں بند تھے اور جدید ارکان ابھی ناپختہ کار اور عملی اقدام کی پوزیشن میں نہ تھے ۔

    2. لائحہ عمل کی کمی

      ازاں بعد ڈاکٹر صاحب دوسرے سبب کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ :

      ایک اور پہلو سے دیکھیں تو دینی لہر کا ظہور شکست کا رد عمل اس لیے بھی نہیں تھا کہ اگر ایسا ہوتا تو ان جماعتوں کے پاس شکست کے عوامل سے نمٹنے کا کوئی لائحہ عمل ہوتا حالانکہ ایسی کوئی بات ظاہر نہیں ہوئی ۔

      ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے نزدیک رد عمل کی وہی صورت قابل تصور ہے جو ان کے ترقی پسندوں پر چسپاں ہو سکے ۔ مگر عوام و خواص سب لوگوں کے نزدیک رد عمل کی جو صورت ہے وہ یہ احساس اور شعور ہے کہ انھیں اللہ کی مدد اور نصرت کی ضرورت ہے اور انھیں اللہ کے راستے پر قائم اور اس کے دین پر چلنا چاہیے ۔ یہ ایک فطری امر ہے کہ مصائب اور شدائد میں گھرا ہوا انسان اللہ کی جانب متوجہ ہو کر عاجزی اور انکسار کے ساتھ اپنے رب کو پکارنے لگتا ہے ۔ مصری قوم کے دینی جذبات بہت گہرے اور شدید ہیں ، ان کے لیے دین اور ایمان سے زیادہ کوئی اور محرک نہیں جو انھیں حرکت اور عمل پر ابھار سکے ۔

      تمام مصری قوم کا شعور یہ تھا کہ وطن کو ایسے انسان کی ضرورت ہے جسے فاسد حالات اور بیرونی افکار نے خراب اور ضائع نہ کر دیا ہو ۔ ملک کے استحکام اور ترقی کی اس کے سوا کوئی سبیل نہیں کہ انسان صالح تیار ہو جس کے ہاتھوں اللہ نصرت ، فتح اور ترقی و کامرانی عطا فرمائے ۔ انسان کی تربیت عقیدہ، عبادت اور اخلاق ہی کے ذریعے ہو سکتی ہے اور اسلامی جمعیتیں اسی بنیاد پر قائم ہیں ۔ یہ صحیح ہے کہ بعض اوقات اسلامی جماعتوں کے ناتجربہ کار کارکنوں میں غلو اور انتہا پسندی پیدا ہو جاتی رہی لیکن اس کی وجہ یہ تھی کہ باصلاحیت رہنماؤں کی کمی تھی اور جو موجود تھے وہ یا تو جیلوں میں بند تھے یا ہجرت پر مجبور کر دیے گئے تھے ۔ یہ صورتحال بھی مختصر عرصے کے لیے رہی یہاں تک کہ معاملہ درست ہو گیا ۔ میزان معتدل ہو گئی اور انتہا پسندی پر اعتدال غالب آ گیا ۔

      ڈاکٹر صاحب! ہمارے مسائل صرف ترقیاتی پروگراموں کی کمی یا ان میں نقائص پر منحصر نہیں ، اگرچہ ان کی تیاری ضروری ہے اور اسلام کا کام کرنے والوں کا یہ فرض ہے کہ وہ ایسے پروگرام تیار کریں، جیسا کہ انہوں نے بعض پروگرام تیار بھی کیے ہیں ، لیکن ہمارا اصل مسئلہ انسان کا نہ ہونا ہے ۔ ایسا انسان جو ترقی کا مقصود اور اس کا وسیلہ و ذریعہ ہو ۔ وہ انسان جو عقلی شعور ، ضمیر کی بیداری ، عزم کی پختگی اور عمل کی پاکیزگی میں ممتاز ہو ۔ یہی وہ محسوس کمی ہے جس کی تلافی کے لیے اسلامی جماعتیں کام کر رہی ہیں ۔

    حکومتی رویہ اور مذہبی جماعتیں

    مصنف نے اسلامی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کو بہت زیادہ ہدف ملامت بنایا ہے اور اپنے ترکش کے سارے تیر ان پر خالی کر دیے ہیں کہ یہ نوجوان عقل و فہم سے عاری، نقد و ابتکار سے تہی دامن ، جامد فکر اور امراء و رؤسا کی اندھی تقلید کرنے والے ہیں ۔

    مگر حقیقت یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب کا یہ خیال صحیح نہیں ۔ وہ یہاں کئی غلطیوں کے مرتکب ہوئے ہیں ۔ انہوں نے جس طرح عمومیت سے اس بات کو بیان کیا ہے وہ غلط ہے اس لیے کہ تمام نوجوان ایسے نہیں ۔ ڈاکٹر صاحب نے اس بات میں بہت مبالغہ سے کام لیا ہے اور دینی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کی غیرت و حمیت، طہارت و استقامت، اللہ کے راستے میں ان کی قربانی اور نصرت اسلام جیسے روشن پہلوؤں کو نظر انداز کر دیا ہے ۔

    ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مصنف کو کبھی ان نوجوانوں کو قریب سے دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا ۔ انہوں نے ہمیشہ انھیں اپنی فکر کا دشمن سمجھا ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ انھیں ہر خوبی سے عاری اور ہر برائی کا پیکر نظر آئے ۔ لیکن یہ بات قرینِ انصاف نہیں ۔ میں ان نوجوانوں کے ساتھ ان کے کیمپوں، ان کے حلقوں، ان کی جامعات اور ہوسٹوں میں رہا ہوں اور خود یہ نوجوان بھی مجھ سے اکثر ملاقات کرتے رہتے ہیں ۔ میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ مصر کے بہترین نوجوان ہیں ۔ یہ لوگ ایمان و اخلاق ، پاکیزگی اعمال اور اللہ کی رضا کے لیے خرچ کرنے اور قربانی دینے میں بے شمار لوگوں سے بڑھے ہوئے ہیں ۔ یہ ضرور ہے کہ ان میں سے بعض نوجوانوں میں تشدد اور انتہا پسندی پائی جاتی ہے مگر جب انھیں کوئی ذی علم اور صاحب رشد و ہدایت رہنما سمجھاتا ہے تو پھر یہ اطمینان و رضا کے ساتھ صراط مستقیم پر گامزن ہو جاتے ہیں اور ان کی طبیعتوں کا میل اس طرح دور ہو جاتا ہے جیسے آگ میں لوہے کا زنگ زائل ہو جاتا ہے ۔

    اس کے بعد پھر مصنف ستر کی دہائی میں دینی تحریکات کی طرف آتے ہیں اور ان کے انتشار کے موضوع پر گفتگو کرتے ہیں ۔ چنانچہ وہ ”تقویت اور حوصلہ افزائی“ کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں کہ اس میں شبہ نہیں کہ حکومت نے اس موقع پر دینی جماعتوں کی سرگرمیوں سے چشم پوشی اختیار کی ۔ یہاں تک کہا جاتا ہے کہ ان میں سے بعض مذہبی جماعتوں کی تربیت خود حکومت نے انجام دی ۔ یہ موقف دوسری بڑی غلطی تھی جس سے جولائی کا انقلاب دوچار ہوا اور ساٹھ کے عشرے کے تشدد نے ستر کے عشرے کے نرم رویہ کو جنم دیا ۔ بالفاظ دیگر حکومت کی سیاست یہ تھی کہ دینی تحریکات سے اس حد تک مدد لی جائے کہ اس سے حکومت کو فائدہ پہنچے اور داخلی اور خارجی طور پر اسے اپنے مقاصد کے حصول میں مدد ملے ۔

    ڈاکٹر صاحب کو اس بات سے بہت تکلیف پہنچی ہے کہ حکومت نے دینی جماعتوں سے چشم پوشی اختیار کی ۔ دراصل مصنف اور ان کی طرز کے حامل لوگوں کے لیے یہ بات واقعی تکلیف دہ ہے کہ سادات کے دور میں اسلامی جماعتوں کو سانس لینے کا موقع ملا اور وہ اس قابل ہوئیں کہ اپنی بات زبان پر لا سکیں ۔ چشم پوشی کی یہ روش دیگر جماعتوں کے ساتھ بھی اختیار کی جا رہی تھی جو ایک طویل عرصہ تک میدان میں تنہا موجود رہیں ۔ انہوں نے ذرائع ابلاغ پر قبضہ جما کر انھیں اپنے مقاصد اور اصولوں کے تابع بنا لیا تھا، جبکہ اسلامی قوت قید و بند سے گزر رہی تھی اور اس کے کارکنوں کی پیٹھوں پر کوڑے برس رہے تھے ، کتے ان کا گوشت نوچ رہے تھے اور وہ ہر طرح کا الم سہہ رہے تھے ۔

    ڈاکٹر صاحب چاہتے ہیں کہ اقتدار کا کوڑا صرف دینی قوت کی کمر پر برستا رہے ۔ اس بات کو وہ کھلم کھلا بھی کہتے ہیں اور اشاروں کنایوں میں بھی یہی بات کرتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ آزادی اور جمہوریت کے علمبردار ہیں لیکن وہ یہ آزادی اسلامی قوت کو عطا کرنے کے لیے تیار نہیں ۔ جہاں تک حکومت کی تائید و توثیق کا تعلق ہے تو وہ صرف ایک محدود گروہ کے لیے مخصوص تھی یعنی "جماعت تکفیر و ہجرہ “ ۔ ظاہر ہے کہ یہ تائید کسی نیک مقصد کے لیے نہیں تھی بلکہ اس لیے تھی کہ اس گروہ کے ذریعے اسلامی جماعتوں پر ضرب لگوائی جا سکے ۔ اگر ”تائید و توثیق“ فی الواقع مقصود ہوتی تو اس سے مصر اور عالم عرب کی سب سے بڑی اسلامی تحریک الاخوان المسلمون کو نوازنا چاہیے تھا جو آج تک اپنا قانونی وجود بھی نہیں منوا سکی ۔ اس کے اثاثے ، حقوق ، ملکیتیں، عمارات اور ادارے جو دسیوں ملین مالیت کے ہیں، اسے لوٹائے جاتے! اخوان المسلمون کے لیے ”الدعوۃ“ کے سوا کوئی ذریعہ اظہار و بیان تک کا موجود نہ تھا ۔ یہ رسالہ بھی صرف اس وجہ سے بچا رہا کہ اس کا اجازت نامہ مرحوم صالح عشماوی کے نام سے تھا جو اس کی اشاعت کی حفاظت کرتے تھے اور اس کے اجازت نامے کو منسوخ ہونے سے بچاتے رہتے تھے ۔

    مصنف جو کچھ اسلامی تحریک اور اسلامی بیداری کی لہر کے بارے میں لکھتے ہیں مجھے اس پر بڑا تعجب ہوتا ہے کہ وہ واقعی سمجھ نہیں سکتے ، حالانکہ وہ فلسفہ کے پروفیسر اور شعبہ فلسفہ کے صدر ہیں ، یا ہو سکتا ہے وہ سمجھنا ہی نہ چاہتے ہوں جیسے کوئی شخص ناگوار اور تکلیف دہ بات دیکھ کر منہ موڑ لے اور اعراض کرے، یا وہ سمجھتے اور جانتے ہیں مگر تکبر انھیں اعتراف نہیں کرنے دیتا جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہے:

    وَجَحَدُوا بِهَا وَاسْتَيْقَنَتْهَا أَنفُسُهُمْ ظُلْمًا وَعُلُوًّا ۚ

    (سورۃ النمل: 14)

    (انہوں نے سراسر ظلم اور غرور کی راہ سے ان نشانیوں کا انکار کیا حالانکہ دل ان کے قائل ہو چکے تھے ۔)

    حقیقت یہ ہے کہ مصنف، جو فلسفہ کے پروفیسر ہیں، اسلامی بیداری کے اسباب اور جامعات وغیرہ میں اسلامی جماعتوں کے قیام کے اسباب بیان کرنے میں متعدد غلط فہمیوں کا شکار ہوئے ہیں :

    1. سب سے پہلی غلطی تو یہ ہے کہ انہوں نے اسلامی بیداری کا ایک ہی سبب بیان کیا ہے، جیسے کمیونسٹ تاریخ کی ایک ہی تعبیر کرتے ہیں اور ہر جگہ اس کو چسپاں کر دیتے ہیں جبکہ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ اسلامی بیداری کے متعدد اسباب ہیں ۔ اولاً دینی اسباب، پھر عقلی، اجتماعی، اقتصادی اور سیاسی اسباب ۔ ڈاکٹر صاحب نے تمام اسباب کو نظر انداز کر کے ایک سبب کو اصل وجہ بتا دیا حالانکہ منطق اور واقعی صورت حال اس کو رد کرتی ہے ۔
    2. دوسری غلطی یہ ہے کہ ڈاکٹر موصوف اسلامی لہر کو ایک وقتی طور پر طاری ہونے والی شاذ حالت سمجھتے ہیں حالانکہ فرزندان اسلام میں اصل بیداری دینی ہے یعنی اسلام سے انتساب کو قابل فخر جاننا، اس کی خاطر جان نثار کرنا اور اس کے فرائض و آداب پر عمل کرنا ۔ ضابطہ یہ ہے کہ جو شے اصل کے مطابق ہو اس پر بحث و تمحیص نہیں کی جاتی مگر مؤلف اور ان جیسے لادینیت کے قائل حضرات پس ماندگی، جمود اور استعمار و جبر کو اصل سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مصر میں یہ گہرا دینی رنگ کیوں پیدا ہو گیا ۔
    3. ڈاکٹر صاحب کی تیسری غلط فہمی یہ ہے کہ وہ اسلامی لہر کو نوجوانوں کی اسلامی جماعتوں میں منحصر سمجھ رہے ہیں ۔ اس میں شبہ نہیں کہ نوجوان تحریک اسلامی کا اہم عنصر اور اسلام کے سچے ترجمان ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ اسلام فرزندان مصر کی ایک بہت بڑی اکثریت پر حاوی ہے اور تمام دائروں اور تمام طبقات میں اسلامی احساس و شعور موجود اور کار فرما ہے ۔ عبدالرحمن عیاد ، نائب رئیس محكمة النقض قاہرہ نے الاہرام میں فواد زکریا کا جواب دیتے ہوئے اس حقیقت کی نشاندہی کی ہے کیونکہ یہ ایسی حقیقت ہے جسے مصریوں کے درمیان رہنے والا اور ان کی فکر و شعور سے واقف ہر شخص جانتا ہے ۔
    4. ان کی ایک اور غلطی یہ ہے کہ وہ اسلامی بیداری کی موجودہ لہر کو آج یا گزشتہ کل کی پیداوار سمجھ رہے ہیں ۔ بیدار مغز اہل علم اس حقیقت سے بخوبی آشنا ہیں کہ آج کی بیداری کی لہر ماضی کی عظیم کوششوں ، عظیم اسلامی تحریکات کی پیہم مساعی اور مخلص مسلمانوں کی مسلسل جد و جہد کا ثمر ہے ۔ یہ علمائے اسلام جنہوں نے اللہ سے کیے ہوئے اپنے وعدہ کو سچ کر دکھایا پھر کسی نے اپنی جان کی قربانی پیش کی اور کوئی منتظر ہے ۔ مگر انہوں نے کسی مرحلے پر سرمو بھی راہ حق سے انحراف نہیں کیا ۔ اس میں شبہ نہیں کہ ان لوگوں نے جو قربانیاں دیں، جو عذاب سہے ، جو سختیاں جھیلیں اور جو مصائب برداشت کیے اور جو اسلامی فکر کا حامل وسیع لٹریچر چھوڑا ، یہ تمام وہ نشانات راہ ہیں اور وہ چراغ ہیں جنہوں نے تاریکی اور حیرانی کی وادی میں بھٹکنے والے نوجوانوں کو شعور و احساس کی روشنی اور دولت سے مالا مال کیا اور ان کی راہیں روشن کر دیں ۔
    5. ان کی پانچویں غلطی یہ ہے کہ انہوں نے مصری قوم کے مزاج ہی کو نہیں سمجھا ۔ حقیقت یہ ہے کہ مصری قوم ایک دین دار قوم ہے اور اس کا مزاج دینی ہے ۔ دین سے زیادہ کوئی شے اسے متحرک کرنے والی نہیں ۔ اس قوم نے اس سے قبل دین کے نام پر اہرام تعمیر کیے ۔ اسلامی دور میں صلیبیوں اور تاتاریوں پر دین کے نام پر فتح حاصل کی اور دور جدید میں دین کے نام پر یہودیوں اور انگریزوں کا مقابلہ کیا ۔ جنگ رمضان میں نہر سویز عبور کرنے اور بارلیو لائن عبور کرنے کا کارنامہ دین ہی کے نام پر ظہور پذیر ہوا ۔ اگر کوئی اس بات سے تجاہل برتتا ہے تو وہ حقائق ، واقعات اور تاریخ سے تجاہل برتتا ہے ۔
    6. ان کی چھٹی غلطی یہ ہے کہ انہوں نے سمجھ لیا ہے کہ سادات جیسا کوئی حکمران اسلامی بیداری پیدا کر سکتا ہے ۔ حالانکہ حقیقی بیداری کی لہر کسی حکمران کے فیصلے سے پیدا نہیں ہوتی ، خواہ وہ کتنا ہی روشن دماغ اور طاقتور ہو ۔ حکمران صرف دینی مظاہر کا اظہار کر سکتا ہے کہ میلاد وغیرہ کی محفلیں برپا ہو جائیں ۔ جھوٹے دعوے کر لیے جائیں اور سرکاری علماء مبالغہ آمیز تقریریں کر لیں ۔ لیکن کوئی حکمران حقیقی دینی بیداری نہیں پیدا کر سکتا اور ایسا اسلامی جذبہ نہیں پیدا کر سکتا جو لوگوں کے دلوں سے ابھرے اور ان کے اعمال و اطوار میں جلوہ گر ہو کر سراپا دعوت اسلام بن جائے ۔ سادات اور اس سے پہلے کے زبردست حکمران تو ایک ایسی جمہوری سیاسی جماعت تک وجود میں نہ لا سکے جو قوم کے دلوں میں گھر کر سکے ۔ ہیئتہ التحریر (لبریشن فرنٹ) سے لے کر قومی اتحاد، اشتراکی اتحاد، حزب مصر، حزب جمہوری وطنی تک ہر دور میں حکمران اس طرح کی کوششوں میں شدید طور پر ناکام ہوئے ہیں ۔ جو حکمران ہر طرح کے اقتدار و قوت، سونے کی کشش ، تلوار کے خوف اور ذرائع ابلاغ کی قوت کے باوجود ایک عوامی سیاسی جماعت قائم کرنے میں ناکام ہو گئے ہوں وہ ایسی اسلامی بیداری کس طرح پیدا کر سکتے ہیں جس کی لہریں عوام کے اندر موجزن ہو جائیں اور مستقبل کی امید ، یعنی تعلیم یافتہ نوجوان، اسے اپنا لیں ۔
    7. ان کی ساتویں غلطی یہ سمجھنا ہے کہ اسلامی تحریک کا دائرہ صرف مصر تک محدود ہے، لہذا اس کی نسبت مصر کے کسی حکمران یا کسی دور یا زمانے کے ساتھ کی جا سکتی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی بیداری کی لہر مصر تک محدود نہیں اور اس کا زمانہ کسی دور تک مخصوص نہیں بلکہ اسلامی بیداری کی لہر مشرق و مغرب تمام عالم عرب بلکہ ایشیا اور افریقہ سمیت تمام عالم اسلام میں موجود ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ لہر تو اب پھیلتی اور بڑھتی ہوئی عالم اسلام سے بھی باہر نکل گئی ہے ۔ حد یہ ہے کہ خلیج اور عرب دنیا کے طلبہ تعلیم کے لیے یورپ اور امریکہ جاتے ہیں تو وہ اسلام کے پابند نہیں ہوتے لیکن جب وہاں سے واپس آتے ہیں تو اپنے فکر و عمل اور دعوت جہاد وغیرہ ہر اعتبار سے اسلام کے پابند ہوتے ہیں ۔

    اگر ہم یہ فرض کر لیں — مستحیل امور کا فرض کرنا عقلاً درست ہے — کہ مصر میں مذہبی بیداری کی لہر سادات کی پیدا کردہ ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تمام دنیا میں یہ بیداری کی لہر کس نے پیدا کی ہے؟ اسلامی زندگی کا احیاء عرب اور اسلامی دنیا میں بالکل ایک منطقی اور طبیعی امر ہے اور اسلامی بیداری کی لہر دراصل امت اسلامیہ کی امیدوں اور مقصد کا اظہار ہے کیونکہ صرف اسلام ہی ہے جو امت کی بقاء کا ضامن اور اس کی فتح و نصرت کا واحد ذریعہ ہے ۔ یہی امت مسلمہ کے لیے نافع حق ہے اور اس کے علاوہ ہر شے جھاگ ہے جو زائل ہو جانے والا ہے ۔

    فَأَمَّا الزَّبَدُ فَيَذْهَبُ جُفَاءً ۖ وَأَمَّا مَا يَنفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْأَرْضِ ۚ

    (سورۃ الرعد: 17)

    جو جھاگ ہے وہ اڑ جایا کرتا ہے اور جو چیز انسانوں کے لیے نافع ہے وہ زمین میں ٹھہر جاتی ہے ۔

    اسلامی بیداری، استعمار اور صہیونیت

    سیکولرزم کے وکیل ڈاکٹر فواد زکریا کی جسارتوں میں سے ایک جسارت ان کا یہ قول ہے کہ:

    میرے اعتقاد میں ہمارے دور کا ایک بڑا افسانہ، جسے اسلامی تحریک کے پیروکار عوام میں پھیلا رہے ہیں، یہ ہے کہ مغربی استعمار بالعموم اور صہیونیت بالخصوص اسلامی بیداری سے خائف اور اس کے خلاف برسر پیکار ہے ۔ اس لیے کہ مصر میں جب سادات اسلامی بیداری کی حوصلہ افزائی کر رہا تھا اسی وقت اس نے صراحت بھی کی کہ اس کا نقطہ نظر امریکی ہو گا ۔ اسی طرح سعودیہ میں رائج متشدد اسلام اور امریکی مصلحتوں کے درمیان ایک واضح عہد و پیمان نظر آتا ہے ۔ حالانکہ سعودیہ کا اسلام عرب ممالک میں برسرکار مختلف اسلامی تحریکات کی معنوی اور مادی امداد کرتا ہے ۔ یہی صورت حال سوڈان میں سامنے آئی کہ اخوان المسلمون نمیری کے حلیف بن گئے حالانکہ اس نے جو اسلام نافذ کیا وہ صرف نام کا اسلام تھا ۔ اور اسرائیل میں کیا ہوا؟ فلسطین کو ہڑپ کرنے والی قوتیں اسلامی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے طلبہ کی حمایت کر رہی ہیں ۔

    مجھے نہیں معلوم کہ ڈاکٹر صاحب کو ایسی بات کہنے کی جرات کیسے ہوئی جب کہ ہزاروں شہادتیں ان کی بات کو جھٹلا رہی ہیں اور وہ خود اپنے دل کی گہرائیوں میں اس بات کو محسوس کرتے ہیں کہ اسلامی تحریک مغرب اور مشرق دونوں طرف سے پس رہی ہے ۔ وہ جن تکلیف دہ مشکلات سے دوچار ہے ان کا اشارہ اسلام کی دشمن بیرونی طاقتوں ہی کی طرف سے ہوتا ہے ۔ مصنف نے جو کچھ کہا وہ دین کی منطق کے سراسر خلاف ہے ۔ دین کی نصوص خود بتا رہی ہیں کہ ان غیر مسلم قوتوں کا اسلامی تحریک کے بارے میں کیا موقف ہے ۔ قرآن کہتا ہے :

    وَلَن تَرْضَىٰ عَنكَ الْيَهُودُ وَلَا النَّصَارَىٰ حَتَّىٰ تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ ۗ

    (سورۃ البقرہ: 120)

    اور آپ سے ہرگز راضی نہ ہوں گے یہود اور نصاریٰ جب تک آپ ان کی ملت کی پیروی نہ کریں ۔

    يُرِيدُونَ أَن يُطْفِئُوا نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَيَأْبَى اللَّهُ إِلَّا أَن يُتِمَّ نُورَهُ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ

    (سورۃ التوبہ: 32)

    وہ اللہ کے نور کو اپنی پھونکوں سے بجھا دینا چاہتے ہیں ، اور اللہ اپنے نور کو ضرور پورا کرے گا اگرچہ کافر اسے ناپسند کریں ۔

    وَلَا يَزَالُونَ يُقَاتِلُونَكُمْ حَتَّىٰ يَرُدُّوكُمْ عَن دِينِكُمْ إِنِ اسْتَطَاعُوا ۚ

    (سورۃ البقرہ: 217)

    وہ تم سے لڑتے رہیں گے یہاں تک کہ تمھیں تمھارے دین سے پھیر دیں ، اگر یہ ان کے بس میں ہو ۔

    مصنف نے جو کچھ کہا وہ تاریخ کی منطق کے بھی خلاف ہے ۔ کیونکہ یہود کے قبائل بنو قینقاع ، بنو نضیر اور بنو قریظہ کے ساتھ معرکوں ، نیز نصاریٰ کے ساتھ موتہ ، تبوک اور یرموک کے معرکوں سے معرکہ حطین ، معرکہ بیت المقدس ، معرکہ منصورہ اور معرکہ دمیاط تک مسلمانوں اور یہود و نصاریٰ کے درمیان کشمکش چلی آ رہی ہے ۔ اور یہ کشمکش آج بھی جاری ہے اگرچہ اسلحہ بدل گیا ہے اور نام میں تبدیلی آ گئی ہے ۔ حقیقت واقع الامری یہی ہے ، اور اس کے بے شمار شواہد اور دلائل موجود ہیں، کہ استعماری طاقتیں اور صہیونیت کسی شے سے خوفزدہ نہیں سوائے اسلامی بیداری کے ۔ یہی وہ جن ہے، جسے انہوں نے طاقت یا حیلہ گری سے بوتل میں بند کیا ہوا ہے اور جس کے آزاد ہو جانے سے وہ ڈرتے ہیں ۔ اس مقام پر مناسب ہو گا کہ میں بعض عربی اخبارات کے کچھ حوالے نقل کروں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہودی اور صلیبیوں کی استعماری طاقتیں اسلامی تحریکوں سے کتنی خوف زدہ ہیں ۔ ان اقتباسات سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ لوگ تمام ممکن ذرائع سے کام لے کر ہر اسلامی تحریک کو کچلنے کے لیے پوری طرح سرگرم ہیں ۔ انھیں خوف ہے کہ کہیں یہ تحریکیں انقلابی شکل اختیار نہ کر لیں اور کسی ملک میں باقاعدہ ریاست کی صورت میں نہ ڈھل جائیں ۔ اس سلسلے میں یہ بھی مد نظر رہے کہ جو کچھ عربی اخبارات میں شائع ہوتا ہے وہ اس کے مقابلے میں بہت ہی کم ہے جو عالمی اخبارات اپنے قارئین کے سامنے لاتے ہیں ۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ عالمی اخبارات میں شائع ہونے والا یہ مواد بھی پس پردہ سیاسی سرگرمیوں اور خفیہ ایجنسیوں کے فیصلوں سے بہت کم ہوتا ہے ۔

    دستاویزات و حقائق

    اس مقام پر میں نے اسلامی بیداری کی نسبت یہودیت اور استعمار کا موقف بیان کرتے ہوئے مسلمان مفکرین کے نتائج فکر اور داعیان اسلام کی پیش بینی پر اعتماد نہیں کیا، بلکہ ان معلومات پر بھروسہ کیا ہے جو خود مغربی اور یہودی ذرائع سے سامنے آئی ہیں، نہ میں نے ان پر کوئی تبصرہ کیا، اس لیے کہ حقائق خود بولتے ہیں :

    1. اخبار یدعوت احرنوت نے اپنی ۱۸ مارچ ۱۹۷۸ء کی اشاعت میں شامل ایک مقالے میں جنوبی لبنان پر ۱۵ مارچ ۱۹۷۸ء کو یہودی حملے کا تجزیہ کرتے ہوئے یہودی ٹیلی وژن پر سخت تنقید کی کہ اس نے بے وفا سعد حداد مارونی کے ساتھ انٹرویو نشر کیا اور جنوبی لبنان کے ایک بڑے حصے پر یہودی قبضے کے بعد عیسائی مارونی آبادیوں کے اظہار مسرت اور خوشی کو اپنے پروگرام میں نشر کیا ۔ اس اخبار نے کہا کہ یہ بڑا احمقانہ عمل تھا کیونکہ ہو سکتا تھا کہ اس کے نتیجے میں لبنان کے مسلمانوں ، عرب ممالک اور خود مقبوضہ فلسطین میں کوئی رد عمل پیدا ہو جاتا اور از سر نو اسلامی روح بیدار ہو جاتی جس کے دبانے میں اسرائیل اور اس کے دوست مسلسل کوشاں ہیں اور گزشتہ تیس برس سے اس کے مٹانے میں لگے ہیں ۔ اس کے بعد اخبار نے تجزیہ کرتے ہوئے کہا ہے :

      ہمارے ذرائع ابلاغ کو یہ اہم حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہیے ، جو دراصل اسرائیل کی عرب کے ساتھ جنگ کی پالیسی کا ایک اہم حصہ ہے ، کہ ہم اپنی کوششوں اور اپنے دوستوں کی مساعی سے عربوں کے ساتھ جنگ سے اسلام کو باہر رکھنے میں گزشتہ تیس برس سے کامیاب چلے آ رہے ہیں ۔ یہ بات بے حد ضروری ہے کہ اسلام اس جنگ سے ہمیشہ دور رہے اور ہم پر لازمی ہے کہ ہم اپنے اس پروگرام پر پوری طرح عمل کرتے رہیں کہ اسلامی روح کسی طرح کسی شکل میں اور کسی حالت میں بیدار نہ ہونے پائے ، اگرچہ ہمیں گرد و پیش کے علاقوں میں ابھرنے والی کسی چنگاری کو بجھانے کے لیے طاقت کا استعمال کرنا پڑے ۔

      اخبار نے بعد ازاں اپنا تجزیہ ان الفاظ پر ختم کیا :

      لیکن ہمارے اسرائیلی ٹیلی وژن نے اتنی بڑی غلطی کا ارتکاب کیا ہے جو ہو سکتا ہے کہ ہمارے سارے پروگرام ختم کر دے ، کیونکہ ممکن ہے اس سے کسی محدود سطح پر روح اسلامی بیدار ہو جائے اور اسرائیل دشمن اسلامی جماعتیں اسے ہمارے خلاف جذبات کے ابھارنے کا ذریعہ بنا لیں ۔ اگر یہ اسلامی جماعتیں کامیاب ہو گئیں اور ہم اپنے دوستوں کو قائل کر کے ان پر مناسب وقت پر ضرب لگانے میں ناکام ہو گئے تو اسرائیل کو خیالی نہیں بلکہ حقیقی دشمن کا سامنا کرنا پڑے گا ، جس کو ہم چاہتے ہیں کہ وہ اصل معرکہ سے باہر رہے ۔ اسرائیل سخت دشواری میں پڑ جائے گا اگر اسے ان متعصبوں سے پالا پڑ جائے جو یہ سمجھتے ہیں کہ اگر وہ کسی یہودی کو قتل کر دیں یا کوئی یہودی انھیں مار دے تو وہ جنت میں چلے جائیں گے ۔

    2. اخبار سنڈے ٹیلی گراف ، برطانیہ نے ۱۷ دسمبر ۱۹۷۸ء کی اشاعت میں صفحہ ۱۷ پر پیر گَرین دور ستورن کے قلم سے ایک مقالہ شائع کیا ہے ۔ اس میں کہا ہے کہ :

      اہل مغرب بڑی غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ مشرق وسطیٰ میں ان کے مفادات کے خلاف اصل خطرہ اشتراکیت ہے ۔ ایسا نہیں ہے ، بلکہ اس علاقے میں اہل مغرب اور ان کے دوستوں کے مفادات کو اصل خطرہ انتہا پسند مسلمانوں سے ہے ، جن کی سرگرمیاں حیران کن حد تک بڑھتی جا رہی ہیں باوجودیکہ اس علاقے کی مغرب دوست انتظامیہ ان پر ہر طرح کے مصائب کے پہاڑ توڑ رہی ہے ۔

      مقالہ نگار کہتا ہے کہ شرق اوسط کے علاقے میں جاری واقعات اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ انتہا پسند اسلامی قوت بلا استثناء تمام ممالک میں قائم ہو چکی ہے ۔ تحریر نگار کہتا ہے کہ :

      اہل مغرب جس غلطی کا ارتکاب کر رہے ہیں وہ یہ ہے کہ وہ پوری سنجیدگی سے یہ بات نہیں سوچ رہے کہ اگر اس علاقے کی انتظامیہ یہاں کے انتہا پسند مسلمانوں کو کچلنے میں ناکام ہو جائے تو یہاں براہ راست فوجی مداخلت کی ضرورت ہو گی ۔ اخبار بتاکید کہتا ہے کہ جنگ ویتنام کے نتیجے میں اہل مغرب کے دلوں میں پیدا ہونے والی ضمیر کی خلش اور احساس ندامت کو مسلمان انتہا پسندوں کے خلاف طاقت کے استعمال میں رکاوٹ نہیں بننا چاہیے اس لیے کہ مسلمان انتہا پسندوں کا خطرہ ہر خطرہ سے زیادہ بڑھا ہوا ہے ۔

      پیر گَرین دور ستورن اپنا مقالہ یہ کہتے ہوئے اختتام کو پہنچاتا ہے کہ :

      مشرق وسطیٰ کی اسلامی بیداری پر محض نظر رکھنا ہمارے لیے اس وقت تک مفید نہیں ہے جب تک ہم اس دینی قوت کا فوجی طاقت سے مقابلہ نہ کریں ۔ اگر ہم نے انتہا پسند مسلمانوں کے ساتھ غفلت کا رویہ جاری رکھا تو مسیحی دنیا ایک مہیب خطرے سے دوچار ہو جائے گی ۔

    3. کویت کے اخبار القبس نے اپنی ۲۶ جنوری ۱۹۷۹ء کی اشاعت میں بین الاقوامی خبر رساں ایجنسیوں کے حوالے سے یہ خبر شائع کی ہے کہ موشے دایان نے اسرائیل سے ہمدردی رکھنے والے امریکی یہودیوں کے ایک وفد سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ اور مغربی ممالک کو ایران کے موجودہ حالات سے سبق سیکھنا چاہیے کہ وہاں جس طرح اسلامی انقلاب رونما ہوا ہے اس کی کبھی توقع نہیں کی جا سکتی تھی ۔ دایان نے کہا کہ :

      مغربی ملکوں اور بالخصوص امریکہ کو اسرائیل پر بہت توجہ دینی چاہیے کہ اسرائیل مغربی تہذیب کو اس اسلامی انقلاب کے اثرات سے محفوظ رکھنے کی واحد لائن ہے جو ایران سے شروع ہوا اور حیران کن سرعت اور تیزی کے ساتھ عرب دنیا کے کسی اور خطے یا ترکی یا افغانستان میں اچانک رونما ہو سکتا ہے ۔ دایان نے بہت غضب ناک لہجے میں یہ بھی کہا کہ ان کی اولین دشمن اخوان المسلمون ہے اور وہ اسرائیل کے مستقبل پر اس وقت تک مطمئن نہیں ہو سکتے جب تک ان کا خاتمہ نہ ہو جائے ۔

      اس کے بعد موشے دایان نے مقبوضہ فلسطین کے عرب مسلمانوں کو یہ کہہ کر دھمکایا کہ :

      انھیں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اسرائیل انھیں متعصبانہ اسلامی افکار کی لہروں میں نہیں بہنے دے گا ۔ جوں ہی اسرائیل کو یہ احساس ہو گا کہ فلسطین کے باقی ماندہ عرب متعصبانہ اسلامی افکار کو اختیار کرنے کی جانب مائل ہو رہے ہیں وہ انھیں نکال باہر کرنے میں دریغ نہیں کرے گا تاکہ وہ بھی ہجرت کر کے اپنے بھائیوں کے ساتھ کیمپوں میں مقیم ہو جائیں ۔

    4. ایران اور ترکیہ کے واقعات کی نسبت مغربی جرمنی کے شہر کولون سے نکلنے والا اخبار کولنر انزیگر لکھتا ہے کہ :

      ترکیہ اور ایران میں ظاہر ہونے والے حالیہ واقعات اور مصر اور دیگر عرب ممالک میں اسلامی سرگرمی کا اعادہ اس بات کی دلیل ہے کہ مشرق وسطیٰ میں اصل کردار بڑی طاقتیں اور ان سے وابستہ حکومتیں نہیں انجام دے رہی ہیں بلکہ صرف اسلام دے رہا ہے ۔

      اخبار کہتا ہے کہ مغرب کو یہ احساس کرنا چاہیے کہ مستقبل قریب میں مشرق وسطیٰ میں ایسی اساسی تبدیلیاں آئیں گی جو تمام تر اسلامی تحریکات کے مفاد میں جائیں گی ۔ اگر مغرب مشرق وسطیٰ میں اپنے مفادات کا تحفظ چاہتا ہے تو وہ ان اسلامی تحریکات کے مقاصد کو سمجھنے میں لچک پیدا کرے جو ایسے طاقتور وجود کی متلاشی ہیں جو اسلام سے ہم آہنگ ہو سکے ۔

    5. صہیونی اخبار جروزالم پوسٹ نے اپنی ۲۵ ستمبر ۱۹۷۸ء کی اشاعت میں اقوام متحدہ میں اسرائیل کے سابق یہودی سفیر حایم ہرتزوگ کا مقالہ "ایسا نہ ہو کہ دوستوں کو ضائع کر کے دشمنوں کو تقویت پہنچا دیں“ شائع کیا ہے ۔ اس میں ہے کہ :

      اس طرح اچانک اور حیران کن طریقے پر اسلامی احیاء کی تحریک کے ظہور نے اس حقیقت سے پردہ اٹھایا ہے کہ تمام سفارات اور امریکی خبر رساں ایجنسیاں اس سے قبل گہری نیند سو رہی تھیں ۔

      ہرتزوگ کہتا ہے کہ مغرب کے لیڈروں اور واشنگٹن میں امن کے ذمہ داروں کو اسلامی قوتوں کی سرگرمیوں کا علم تھا اور اسلامی طبیعت و مزاج کے بارے میں کثیر معلومات حاصل تھیں اور متعصب اسلامی تحریکات کو کچلنے کی بہت زیادہ کوششیں کی گئیں لیکن اسلامی علاقوں میں جو نئے واقعات رونما ہوئے ہیں اور مصر ، افغانستان ، شام ، ترکیہ اور ایران وغیرہ میں جس طرح اسلامی جوش و جذبہ دوبارہ ابھرا ہے اس سے معلوم ہوا کہ اسلامی تحریکات کو کچلنے کی جو تدابیر اختیار کی گئیں وہ سب مختصر سی کامیابیوں کے علاوہ بڑی حد تک ناکام ثابت ہوئیں ۔ اس کے بعد ہرتزوگ نے کہا ہے کہ :

      ہمارے سامنے ایک عجیب اور قابل توجہ منظر ایسا ہے جو پورے مغربی معاشرے کے لیے خطرناک ہے یعنی ان اسلامی تحریکات کا ظہور جو اپنے آپ کو ہر مغربی چیز کا دشمن قرار دیتی ہیں اور یہودیوں سے بطور خاص تعصب رکھنے کے ساتھ عام طور پر تمام مغربی افکار کی مخالف ہیں اور اسے ایک مقدس مذہبی فریضہ سمجھتی ہیں ۔

    6. مقبوضہ فلسطین میں یہودی مقبوضات کے ایک ذمہ دار یہودی نے یہودی اخبار ہا آرتس کی ۲ فروری ۱۹۷۹ء کی اشاعت میں اپنے ایک اخباری انٹرویو میں کہا کہ ایسی بہت سی علامات موجود ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ ”اسرائیلی عرب“ میں اسلامی لہر بڑھتی چلی جا رہی ہے ۔ ان کی تعداد نصف ملین ہے اور مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی کے درمیان عربوں کی تعداد 1.2 ملین کے قریب ہے ۔ جو امر ہمارے اضطراب کا باعث ہے وہ یہ ہے کہ اسرائیل میں رہنے والے عربوں کے موقف کی بنیاد رفتہ رفتہ قومیت سے ہٹ کر مذہبی بنتی جا رہی ہے اور عرب نوجوان اپنی روایتی لیڈر شپ سے ہٹ کر دینی لیڈر شپ کی طرف جھکتے جا رہے ہیں جو انھیں علمائے دین کی صورت میں میسر ہے ۔ ان نوجوانوں میں کثیر تعداد ایسے جوانوں کی ہے جن کا متعصب اسلامی تحریکات سے ربط و ضبط بعید از قیاس نہیں ۔ مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے ایک حصہ کا حقیقی خطرہ انتہا پسند دینداروں کی جانب سے مکمل اسلامی انقلاب کے پھوٹ پڑنے کا خطرہ ہے ۔
    7. عرب دنیا کے معاملات و مسائل پر تحقیقات کے لیے مخصوص ایک یہودی ادارے نے اجلاس منعقد کیا جس کا موضوع تھا "مقبوضہ فلسطین میں اسلامی احیاء کے فروغ کا احتمال“ ۔ یہی موضوع اصل اور بنیادی موضوع اس خصوصی اجلاس کا بھی تھا جو جنوری، ۱۹۷۹ء کے آخر میں جامعہ تل ابیب کے شیلواح انسٹی ٹیوٹ نے منعقد کیا اور جس میں عرب امور کے متخصصین متعدد یہودیوں نے شرکت کی ۔ اس اجتماع میں شرکت کرنے والے یہودی علماء کا اس امر پر اتفاق تھا کہ اسلامی بیداری کی وہ لہر جس نے اچانک، جس کا پہلے سے احساس تک نہ ہوا، ایران کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ، وہ کسی اور مقام پر بھی ابھر سکتی ہے ۔ وہ مقبوضہ فلسطین کے گرد و پیش کے علاقوں میں ابھر سکتی ہے اور کوئی ایسی صورت حال پیدا ہو سکتی ہے جس کے سامنے یہودیوں کے لیے کوئی جائے فرار باقی نہ رہے ۔ ذیل میں دنیائے عرب کے امور کے ان یہودی ماہرین کے اقوال درج کیے جاتے ہیں جو اس مجلس میں شریک تھے :
      • یہودی قابضین کے وزیر اعظم مناخم بیگن کے مشیر برائے عرب امور پروفیسر شارون کہتے ہیں کہ دنیا میں کوئی قوت اسلام کے بالمقابل موجود نہیں اس اعتبار سے کہ اسلام عام مسلمانوں میں بڑی کشش رکھتا ہے اور وطنی و قومی اسلامی تحریک کی یہی اصل بنیاد ہے ۔
      • پروفیسر یوشوا بورات نے کہا کہ یہودیوں کے وجود کے خلاف مساجد ہمیشہ عرب عوام کے لیے دعوت کا مرکز بنتی رہتی ہیں ۔
      • پروفیسر باریش نے کہا کہ اسلام ایک سیاسی اور اجتماعی قوت ہے جو جمہور کو متحد کرنے کی قدرت رکھتی ہے ، بالخصوص مغربی کنارے پر مسلمان علمائے دین یہود کے خلاف مسلمانوں کو اتحاد کی دعوت دیتے ہیں ۔
      • پروفیسر موشیہ شارون نے کہا کہ مسلمان علمائے دین مثلاً سابق مفتی فلسطین الشیخ الحسینی اور مصر کے شیخ البنا وغیرہ کی گزشتہ نصف صدی کی مساعی اسلامی دنیا کے لوگوں کی توجہ اسلام اور اماکن مقدسہ کے تحفظ کے نام پر فلسطینی عربوں کی جانب مبذول کرنے میں بڑی موثر ثابت ہوئی ہیں ۔

      مجلس چند نکات پر اتفاق کے ساتھ ختم ہوئی جن میں سب سے اہم فلسطینی عربوں کو یہودی معاشرے میں ضم کرنے سے متعلق یہودیوں کی تمام کوششوں کے باوجود مقبوضہ فلسطین میں حقیقی اسلامی بیداری کے وجود کا اعتراف تھا ۔

    8. اردنی اخبار الرای نے اپنی ۲۱ جنوری ۱۹۷۹ء کی اشاعت میں فرنچ نیوز ایجنسی کے ذریعہ سے یہ خبر دی ہے کہ اخبار واشنگٹن پوسٹ نے لکھا ہے کہ سابق امریکی صدر جمی کارٹر نے امریکی انٹیلیجنس سے تمام دنیا کی اسلامی تحریکات کی سرگرمیوں کے بارے میں رپورٹ مرتب کرنے کے لیے کہا ۔ نیز واشنگٹن پوسٹ نے اس وقت کے وہائٹ ہاؤس کے قومی امن و سلامتی کے مشیر برژینسکی سے یہ قول بھی منسوب کیا کہ :

      امریکی انتظامیہ دنیائے اسلام میں اسلامی تحریکات کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں پر مضطرب ہے اور اس نے تشدد پسند اسلامی تحریکات کے بارے میں نئے سرے سے رپورٹ مرتب کرنے کے لیے کہا ہے تاکہ امریکی انتظامیہ اور اسلامی ممالک میں اس کے دوست ان کا قریب سے جائزہ لے سکیں ۔ امریکیوں کو خوف ہے کہ اسلامی دنیا میں اچانک کہیں کوئی اسلامی انقلاب نہ پھوٹ پڑے اس لیے کہ امریکہ اس بات کا شدت سے خواہاں ہے کہ بین الاقوامی سیاست میں اسلام کو کوئی کردار ادا کرنے کا موقع نہ دیا جائے ۔

    9. کویت کے اخبار القبس نے اپنی ۲۴ جنوری ۱۹۷۹ء کی اشاعت میں خبر دی ہے کہ امریکہ کی قومی امن کمیٹی نے برطانوی انٹیلی جینس ایجنسی سے کہا ہے کہ وہ اسلامی تحریک سے متعلق اپنی معلومات امریکی انتظامیہ کو بہم پہنچائے تاکہ وہ بروقت کسی خطرے کا سدباب کرنے کے لیے مناسب لائحہ عمل وضع کرنے میں ان معلومات سے مدد لے سکے ۔
    10. ۱۹ شباط (فروری) ۱۹۷۹ء کو فرنچ نیوز ایجنسی نے اپنی بیت المقدس کی خبروں میں بتایا کہ یہودی پولیس نے بارہ مسلمان علماء کو گرفتار کر لیا ہے جو زیادہ تر بیت المقدس کے نوجوان ہیں ۔ اور اب اسرائیلی مقبوضات کی انتظامیہ نے مسلمانوں کی مسجد میں اپنے لوگ بھیجنے شروع کر دیے ہیں تاکہ وہ یہ معلوم کریں کہ کون سے نوجوان بطور خاص مساجد میں کثرت سے آتے ہیں ۔
    11. کویت کے اخبار القبس نے اپنی ۳۰ جون ۱۹۸۶ء کی اشاعت میں اخبار فورتشن سے ایک مقالہ نقل کیا ہے جس کا عنوان ہے: " اسلامی بیداری امریکی اضطراب کا سبب اور آزادی وطن کے لیے مقدس اسلامی جہاد کے بارے میں اسرائیل کے خدشات “ اس اخبار میں ہے کہ :

      بیداری اسلام کی نئی لہر نے اسرائیل کو مضطرب کر رکھا ہے ۔ اسرائیل بخوبی جانتا ہے کہ اگر مصر کے ساتھ امن مذاکرات ناکام ہو گئے تو یہ بات اس جہاد مقدس کا سبب بن جائے گی جو روز افزوں اسلامی بیداری کی تحریک برپا کرے گی ۔

      اخبار مزید لکھتا ہے کہ اسرائیل کی عبرانی یونیورسٹیوں میں مسلمان عرب طلبہ میں اپنے دین کی جانب رجوع کی خواہش بڑھتی جا رہی ہے اور اب وہ یہودی انتظامیہ پر یہودی جامعات میں اسلامی شریعت اور اسلامی ثقافت کے شعبے کھولنے پر زور دے رہے ہیں ۔ ان میں سے کئی طلبہ نے داڑھیاں رکھ لیں اور اسلامی عبادات انجام دینے لگے ہیں ، جبکہ مسلمان لڑکیاں اسلامی شرعی لباس پہننے لگی ہیں ۔ مغربی کنارے سے متعلق ایک رائے شماری کے ذریعے معلوم ہوا کہ مغربی کنارے کے باشندے، بالخصوص تعلیم یافتہ افراد اس تمام نظام و افکار سے مایوس ہو کر اسلام کی جانب رجوع کا مطالبہ کرنے لگے ہیں ، جس میں وہ کئی طویل سالوں سے الجھے ہوئے ہیں ۔ اسرائیلی سمجھتے ہیں کہ وہ ایک بحر متلاطم میں گھرے ہوئے ہیں اور اس اسلامی سمندر میں اسرائیل کے غرق ہو جانے کا اندیشہ ہے ۔

    12. کویت کے اخبار القبس نے اپنی ۸ جولائی ۱۹۷۹ء کی اشاعت میں فورتشن سے ایک اور مقالہ نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ :

      مصر میں دینی اثرات روز بروز بڑھتے جا رہے ہیں اور مصری نوجوان اسلامی انقلابی بیداری کے گرویدہ ہوتے جا رہے ہیں ۔ جامعہ قاہرہ میں باپردہ طالبات بڑھتی جا رہی ہیں ۔ شاید ایک دن ایسا آئے کہ مصر میں کوئی طالبہ ایسی نہ رہے جو اسلامی شرعی لباس کی پابند نہ ہو ۔

      یہی اخبار لکھتا ہے کہ :

      یہ ایک بہت بڑا خطرہ ہے کہ کہیں اسلامی تحریک مصر کی سیاسی زندگی میں قدم نہ جما لے ۔ اس نے سادات کو خوف میں مبتلا کیا ہے ، جیسا کہ سادات نے اس کا اظہار اپنے جامعہ اسکندریہ کے مشہور خطاب میں کیا کہ وہ اس امر کی اجازت نہیں دے سکتے کہ سیاست میں دین کا عمل دخل ہو ۔

      یہی بات ہے جس سے اسرائیل خوفزدہ ہے کیونکہ اسرائیل اخوان المسلمون کو اپنا شدید ترین دشمن اور اپنے وجود کے لیے خطرہ سمجھتا ہے ، وہ اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتے اور اس کے خلاف اعلان جہاد کرتے ہیں ۔

    13. ہآرتس نے اپنے ضمیمہ میں ایک مقالہ شائع کیا ہے جس کا عنوان ہے ”اسرائیل کی مقبوضہ عرب تکون میں اسلام کی اشاعت“ اس عربی تکون پر اسرائیل نے ۱۹۴۸ء میں قبضہ کیا تھا ۔ اس آبادی میں بڑھتی ہوئی اسلامی بیداری کا ذکر کرتے ہوئے مقالہ نگار کہتا ہے :

      ہر ہفتہ جمعہ کا دن مغربی باقہ میں، جو اسرائیل میں عربی تکون کی سب سے بڑی بستی ہے ، اکثر آبادی کے لیے عید کا دن بنتا جا رہا ہے ۔ گزشتہ تیس برس میں چند ماہ پہلے تک اس عربی مثلث کے باشندے جمعہ کے روز اس کثرت و اہتمام سے نماز جمعہ کے لیے نہیں آتے تھے بلکہ جمعہ کا دن بھی دوسرے دنوں کی طرح ہوتا تھا ۔ مگر اب جمعہ کی اہمیت میں بہت اضافہ ہو گیا ہے اور جوں ہی مؤذن اذان دیتا ہے تمام آبادی نماز کے لیے مسجد کی طرف دوڑ پڑتی ہے ۔ اگر جمعہ کے دن کوئی سیاح مغربی باقہ کی بستی میں آئے تو اسے نظر آئے گا کہ سڑکوں ، بازاروں ، مکانوں اور ہوٹلوں کی ساری رونق سمٹ کر بستی کی تین مسجدوں میں اکٹھی ہو رہی ہے ۔ صرف مغربی باقہ میں آنے والے ہی کو یہ احساس نہیں ہو گا بلکہ قلنسوہ ، کفر قاسم ، ام الفحم ، طیبہ ، کفر قرع ، طبرہ اور دیگر عرب بستوں میں جانے والے کو بھی یہی احساس ہو گا ۔

      اسرائیل کے جن علاقوں میں عرب باشندے آباد ہیں وہ اسلامی بیداری کی لہر میں اضافہ صرف بستیوں تک محدود نہیں رہنے دیتے بلکہ بڑے شہروں میں بھی اس کا مظاہرہ ہو رہا ہے بالخصوص عکا میں ۔ مختصراً یہ کہ اسرائیل کے عرب علاقوں میں زندگی اسلام کی جانب رجوع کے مرحلے میں داخل ہو رہی ہے ۔ تمام لوگ بالخصوص نوجوان جو اپنے اوقات بڑے شہروں کے ہوٹلوں ، قہوہ خانوں اور سیاسی اجتماعات میں گزارا کرتے تھے اب مساجد کا رخ کرتے ہیں ۔ عرب اقلیت میں اس طرح کی صورتحال کا مظاہرہ پہلے کبھی نہیں ہوا تھا ۔

      اسی یہودی اخبار ہآرتس کی ۱۳ جولائی ۱۹۷۹ء کی اشاعت میں ، جو تمام تر مقبوضہ فلسطین کے مثلث عربی کے نوجوانوں میں اسلامی بیداری سے مخصوص ہے ، ایک اور مقالہ ہے جس کا عنوان ہے : "اسلام کی جانب از سر نو رجوع سوالات و استفسارات “ اس مقالہ میں کہا گیا ہے کہ :

      گزشتہ تیس برس میں اسرائیل کی عرب اقلیت بیشتر حالات میں اسرائیلی اشتراکی جماعت کے زیر سایہ محتاط سیاسی دلچسپی لیتی رہی ہے ، مگر اب یہ عرب اقلیت ایک نیا اور مختلف رخ اختیار کر چکی ہے جس کی بنیادیں اور اصول دینی ہیں ۔ عرب اقلیت کی صفوں میں اسلامی بیداری میں اضافہ سرکاری اداروں کی توجہ کا مرکز بن رہا ہے اور حکومت اسے خوف اور اندیشہ کی نظر سے دیکھ رہی ہے ۔

      اسرائیلی عرب میں اسلامی بیداری کی لہر ہر یہودی کے لیے اضطراب کا باعث بن چکی ہے اور ہر یہودی خوف و پریشانی کے عالم میں یہ سوالات پوچھتا ہے کہ :

      • ان نوجوانوں کے کیا مقاصد ہیں جو از سر نو اسلام کی طرف رجوع کر رہے ہیں؟
      • اس مظہر کے پس پشت کار فرما کون لوگ ہیں؟
      • کیا ان کی یہ تحریک وقتی ہے جو کچھ عرصے بعد خود بخود ختم ہو جائے گی یا یہ کسی انقلابی اسلامی تحریک میں تبدیل ہو جائے گی جیسا کہ شرق اوسط کے بعض خطوں میں ہوا ہے؟

      اخبار اس مقالہ میں ان سوالات کے جوابات سے پہلے اس حقیقی خطرے کی نشاندہی کرتا ہے جو "اسرائیلی عرب“ میں اسلام کی جانب مراجعت کی صورت میں ظاہر ہو رہا ہے، چنانچہ اخبار لکھتا ہے کہ :

      ہزاروں نوجوان از سر نو اسلام کی طرف لوٹ رہے ہیں جو بیشتر ابتدائی اور ثانوی اسکولوں نیز اساتذہ کی تربیت کے اداروں میں زیر تعلیم طلبہ ہیں یعنی تعلیم یافتہ اور مستقبل کی نسل ہیں ۔

      اس کے بعد یہ اخبار اسلامی بیداری کے بارے میں سوالات کا جواب دیتا ہے اور کہتا ہے کہ بیشتر سرگرم اہل دین کا تعلق زیادہ تر اس متعصب دینی تحریک سے ہے جو مصر میں ۱۹۲۹ء میں قائم ہوئی اور تمام عرب میں پھیل گئی ۔ اسلامی سرگرمی صرف دین سے وابستہ مرد حضرات تک محدود نہیں بلکہ مسلمان واعظہ عورتیں بھی اسرائیلی عرب میں اسلامی بیداری کے لیے بڑا اہم کردار ادا کر رہی ہیں ۔ چنانچہ مغربی باقہ کی بستی میں ایک نوجوان واعظہ نابلس سے آ کر ہر منگل کے روز خواتین کے اجتماع میں درس دیتی ہے ۔ اس کے درسوں کا بڑا اثر ہوا ہے اور اب بہت سی خواتین اسلام کی جانب مراجعت کر رہی ہیں ، چنانچہ مساجد میں خواتین کے لیے مخصوص جگہیں نماز پڑھنے والی عورتوں سے بھری رہتی ہیں ۔

    14. کویت کے اخبار القبس نے اپنی ۱۶ جنوری ۱۹۸۱ء کی اشاعت میں خبر دی ہے کہ رونالڈ ریگن کے دور کے امریکی وزیر خارجہ الیگزینڈر ہیگ نے کہا کہ :

      مجھے یقین کامل ہے کہ امریکی تعاون اور امداد صدر انور سادات کے سیاسی نظام کو مصر میں اسلامی تحریک کے بڑھتے ہوئے نفوذ کے اندرونی خطرے کے ساتھ بیرونی خطرات سے بھی نمٹنے کے لیے قوت و طاقت فراہم کرے گی اور سادات انتظامیہ طویل عرصہ تک اس کا مقابلہ کر سکے گی ۔

    15. اخبار الشرق الاوسط نے ۲۸ فروری ۱۹۸۱ء کی لندن اور جدہ کی عربی اشاعت میں رائٹر کے حوالے سے ایک تجزیہ نشر کیا ہے ۔ یہ تجزیہ مقبوضہ فلسطین (۱۹۴۸ء) کی ایک اسلامی تنظیم کے بارے میں انکشاف سے متعلق ہے ، اس تجزیہ میں کہا گیا ہے کہ :

      مقبوضہ فلسطین کے باشندوں میں اسلامی بیداری کی لہر نے اسرائیلی مقبوضات کی انتظامیہ کو مضطرب کر دیا ہے ۔ انتظامیہ بڑے تردد کے ساتھ مساجد میں بڑھتی ہوئی تعداد اور نوجوانوں کے علی الاعلان دعوت اسلام اور اس کی ضرورت کے احساس کو دیکھ رہی ہے ۔

      اسرائیلی انتظامیہ اس اضطراب و پریشانی کا اظہار کرتی ہے کہ کہیں مقبوضہ فلسطین کے نوجوانوں کی یہ دینی بیداری اخوان المسلمون کے طرز کی نیم خفیہ تنظیمات کی شکل اختیار نہ کر لے ۔

    16. اردنی اخبار الرای نے اپنی ۲۰ جنوری ۱۹۸۱ء کی اشاعت میں برطانوی اخبار اکانومسٹ کا ایک تجزیہ نقل کیا ہے ، جس میں وہ کہتا ہے کہ :

      مصر میں دریائے نیل سے آنے والے سیلاب بند ہو جانے کے بعد لوگوں نے سمجھ لیا کہ وہاں سیلابوں کا سلسلہ منقطع ہو گیا ، مگر یہ صحیح نہیں ، کیونکہ مصر میں اب ایک نئی طرح کا شدید طوفان آیا ہوا ہے ۔ یہ طوفان اسلام کا طوفان ہے جو اخوان المسلمون کی زیر قیادت عوام کو متاثر کر رہا ہے ۔ سادات اور نمیری کے بس کی بات نہیں کہ وہ مصر اور سوڈان میں اسلام کی ابھرتی ہوئی لہر کو روک دے ۔

      اکانومسٹ نے اپنا تجزیہ اس نصیحت پر ختم کیا ہے کہ اسلامی تحریک کو ختم کرنے کے لیے عام وسائل مفید نہیں بلکہ زیادہ شدید اور سخت طریقے استعمال کر کے اسلامی تحریک کو مٹانے کی ضرورت ہے ۔ اکانومسٹ ”اخوان“ کے مقابلے میں سادات اور نمیری کے اختیار کردہ طریقوں کا مذاق اڑاتے ہوئے لکھتا ہے کہ سادات اور نمیری اخوان المسلمون کی سرگرمیوں کے سدباب کے لیے آج کل جو طریقے اختیار کر رہے ہیں وہ ایسے ہیں جیسے اسوان جیسے بند میں سے ہزاروں سوراخوں سے پانی ابل رہا ہو اور کوئی بچہ کسی چھوٹے سے سوراخ پر انگلی رکھ کر اسے روکنے کی کوشش کرے ۔

    17. اردن کے اخبار الرای نے اپنی ۱۲ اپریل ۱۹۸۱ء کی اشاعت میں اس رپورٹ کا لفظی ترجمہ شائع کیا ہے جو اخبار یدعوت احرنوت نے اپنے ہفتہ وار ضمیمہ کے آخر میں شائع کی ہے ۔ ہم اس رپورٹ کے بعض جملے یہاں درج کر رہے ہیں :

      مقبوضہ فلسطین کی خفیہ تحریکیں قومیت یا وطنیت سے متاثر ہونے کے بجائے اپنا لائحہ عمل روح اسلام سے اخذ کرتی ہیں ۔

      فلسطینی نوجوان تمام عربی تحریکات سے مایوس ہو کر اب بآواز بلند یہ نعرہ لگا رہے ہیں کہ اسلام کے سوا کسی نظریہ سے عزت و قوت حاصل نہیں ہو سکتی ۔

      مسجدوں میں پہلے بوڑھے اور عمر رسیدہ لوگ نظر آتے تھے لیکن اب وہ نوجوانوں سے بھری رہتی ہیں ۔ فلسطین میں مسلم نوجوان لڑکیاں بھی اسلامی تحریک کی سرگرمیوں میں شریک ہیں ۔

      مساجد کے خطبات اب سیاسی تقاریر بن چکی ہیں جن میں لوگوں کو واضح طور پر اسرائیل کے خلاف برانگیختہ کیا جاتا ہے ۔

      اسلامی تحریک وسیع ہوتی جا رہی ہے اور اب مقبوضہ فلسطین کی عرب بستیوں کے بیس فیصد سے زائد نوجوان اس سے وابستہ ہیں ۔

      اسلامی تحریک کے داعی اپنے مؤیدین سے کہتے ہیں کہ فلسطین میں روح اسلام بیدار کرنے کے لیے ارض فلسطین کے قابضین پر ضرب لگانا اور اللہ کے راستے میں ان کی مزاحمت کرنا ناگزیر ہے ۔

    18. اردن کے اخبار الرای نے اپنی ۱۳ اپریل ۱۹۸۱ء کی اشاعت میں اخبار یدعوت احرنوت سے یہ خبر نقل کی ہے کہ بیگن کے عربی معاملات کے مشیر نے کہا ہے کہ :

      اگر اس تحریک کا مناسب وقت پر پتہ نہ چل جاتا تو اسرائیلی امن اور اس کے مستقبل کو بڑا خطرہ لاحق ہو جاتا ۔ اب جب کہ ہم نے اس تحریک کے ارکان کو گرفتار کر لیا ہے ہم مثبت عرب عناصر کو مضبوط و طاقتور بنائیں گے جو اسرائیل کو تسلیم کرتے ہیں ۔

    19. اردنی اخبار الرای نے ۱۴ اگست ۱۹۸۱ء کی اشاعت میں امریکی رسالے نیوزویک سے ایک انٹرویو نقل کیا ہے جو نیوزویک کی نامہ نگار مارلین دیستر نے اسرائیلی انٹیلیجنس کے سابق ڈائریکٹر اور جامعہ تل ابیب کے انسٹی ٹیوٹ برائے معارف استراتیجی کے موجودہ صدر آہرون یاریف سے لیا ۔ آہرون یاریف سے پوچھے گئے سوالات میں سے ایک یہ تھا کہ : ”کیا کسی بھی مرحلے پر عرب ممالک کے لیے اسرائیل کو ختم کرنا ممکن ہے؟“ اس پر آہرون یاریف نے یہ جواب دیا:

      اہل عرب کی جو موجودہ صورتحال ہے اس کے پیش نظر میں سمجھتا ہوں کہ وہ اسرائیل کو ختم نہیں کر سکتے خواہ ان کے پاس جدید اور ترقی یافتہ اسلحہ کیوں نہ ہو ۔ لیکن مستقبل میں اسرائیل کے لیے اس صورت میں خطرہ پیدا ہو سکتا ہے جب متعصب مسلمان عرب کے حالات کو تبدیل کر کے اپنے مقاصد کے مطابق بنا لیں ۔ لیکن ہمیں اپنے بہت سے دوستوں سے امید ہے کہ وہ متعصب مسلمانوں کے خطرے سے بروقت نمٹنے میں کامیاب ہو جائیں گے ۔

    20. کویت کے اخبار السیاسہ نے اپنی ۳ اگست ۱۹۸۱ء کی اشاعت میں بلجیکا سے موصول ہونے والے اخباری روزنامچہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ اٹلانٹک کی انٹیلیجنس نے شرق اوسط کے بارے میں ایک رپورٹ تیار کی ہے جس میں اس سہ رکنی کمیٹی کے نتائج کی توثیق کی گئی ہے جو سابق امریکی صدر نکسن، کسنجر اور امریکہ کے اقتصادی اور سیاسی ماہر راک فیلر پر مشتمل تھی ۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ عالم اسلام میں ۸۰ کی دہائیوں میں حقیقی دینی بیداری پیدا ہو گی ، جو دو طرفہ مقاصد کے لیے کام کرے گی ۔ اسرائیل کو ختم کرنے کے لیے جہاد اور امریکی اثر و رسوخ اور مشرق وسطیٰ میں امریکی مفادات کا خاتمہ ضروری ہے کہ ایسے موزوں اور حتمی اقدامات کیے جائیں جن سے اسلامی بیداری کے یہ مظاہرے پھلنے پھولنے سے پہلے ہی ختم ہو جائیں ۔
    21. کویتی اخبار القبس نے اپنی ۱۲ اکتوبر ۱۹۸۱ء کی اشاعت نمبر ۳۳۸۲ میں ایک ریڈیو انٹرویو نشر کیا ہے جو اسرائیلی ریڈیو نے سادات کے قتل سے دو ہفتے قبل مناخم بیگن سے لیا ۔ اس انٹرویو میں دیے گئے مناخم بیگن کے جوابات کے اہم حصے یہاں نقل کیے جا رہے ہیں :

      ریڈیو کے نمائندے کا سوال: کیا آپ کو وہ مشکلات پریشان نہیں کرتیں جو صدر سادات کو کیمپ ڈیوڈ معاہدہ کے سبب حزب مخالف کی طرف سے درپیش ہیں؟

      بیگن: مجھے ان تمام خطرات کا احساس ہے جو ہمارے دوست صدر انور سادات کو در پیش ہیں ۔ مجھے انکار نہیں ہے کہ میں نے کئی مرتبہ متعصب انتہا پسندوں کے بارے میں متنبہ کیا جو اسرائیل دشمن خیالات رکھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ قرون وسطیٰ بلکہ پتھر کے زمانے کے قوانین و اقدار نافذ ہو جائیں ۔ جب میں امریکہ میں تھا تو صدر سادات نے اپنے دشمن اخوان المسلمون کی گرفتاری کے لیے ان پر حملہ کیا ۔ میں نے اس حملے کے خلاف وہاں بہت سے اعتراضات سنے کہ یہ عمل جمہوری روایات کے خلاف ہے ۔ میں نے انور سادات کے اس اقدام کا پرجوش انداز میں دفاع کیا اور معترضین کو مطمئن کر دیا کہ اگر مسلمانوں کا معاملہ ہو تو وہ جمہوری روایات کو بھول جائیں ، اور میں نے معترضین سے کہا اگر سادات ان مخالف مسلمانوں کو مناسب وقت پر ختم نہ کرتے تو وہ کسی وقت انھیں ختم کر دیتے ۔

    22. اردنی اخبار الدستور نے اپنی ۹ ستمبر ۱۹۸۱ء کی اشاعت میں امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ سے ایک سیاسی تجزیہ نقل کیا ہے جس کی ہر سطر میں مصر کی اسلامی تحریک کے خلاف کھلی دھمکی ہے ۔ اس تجزیہ کے چند فقرے حسب ذیل ہیں :

      رمضان کے آخر میں انتہا پسند مسلمانوں کا ایک لاکھ (۳۴) کا مجمع قصر عابدین، کے سامنے کھلے میدان میں نماز عید کے لیے جمع ہو گیا ۔ قصر عابدین وہ محل ہے جہاں صدر سادات رہتے ہیں ۔ ادائے نماز سے زیادہ یہ مجمع سادات اور اس کی سیاست کے خلاف کھلا مظاہرہ تھا ۔ بالخصوص اس موقع پر جبکہ سادات برطانیہ اور امریکہ کے سفر پر جانے والے تھے ۔ اس سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ دینی مخالفت کے بالمقابل مصر کی مرکزی قوت کمزور پڑ چکی ہے ۔

      انتہا پسند اسلامی جماعتیں مصر کے لادینی معاشرے کو ایسی دینی حکومت میں بدلنا چاہتی ہیں جو قرآنی تعلیمات پر استوار ہو ۔ اگر یہ حکومت قائم ہو جائے تو سادات کا اقتدار بھی باقی نہ رہے ۔

      باوجودیکہ سادات نے جامعات اور مصری اداروں میں خفیہ پولیس اور انٹیلیجنس کے لوگ بھرے ہوئے ہیں اور انتہا پسندوں کو سیاسی معاملات میں دخل اندازی سے روکنے کے لیے بہت سخت احکام جاری کیے ہوئے ہیں مگر اس کے باوجود سادات اسلامی جماعتوں کی ترقی اور جامعات اور مصری اداروں میں ان کے پھیلاؤ کو روکنے میں سخت ناکام ہوئے ۔ اگر سادات اس خطرے پر غلبہ چاہتے ہیں تو انھیں چاہیے کہ وہ ان احکام کے بجائے کوئی اور بڑا عملی قدم اٹھائیں ۔

    یہ اخبارات کی خبریں، تجزیے اور وضاحتیں ہم نے حرف بہ حرف بغیر کسی اضافے کے نقل کی ہیں ۔ یہ عبرت و نصیحت سے لبریز ہیں اور صاحب دل اور ارباب شعور کے لیے کافی ہیں ۔ کیا یہ مستند اقوال ہمارے فلسفہ کے پروفیسر صاحب کو بھی مطمئن کر دیں گے جو صریح حقائق بھی چھپا لیتے ہیں اور تکبر کے ساتھ کہتے ہیں کہ یہ ہماری زندگی کی مسترد کر دینے کے قابل کہانیاں ہیں؟ لیکن اگر ڈاکٹر صاحب دن کو رات کہیں تو کیا دن کی روشنی اپنی سچائی خود تسلیم نہیں کرائے گی؟

    خاتمہ

    اب حق پوری طرح واضح ہو گیا ہے ، اندھیرے چھٹ گئے ہیں اور صبح کا اجالا بکھر چکا ہے ۔ اب ہر انصاف پسند شخص کے سامنے یہ حقیقت واضح ہو چکی ہے کہ مصر، عرب ممالک اور دنیائے اسلام میں سیکولرزم یعنی لادینیت کی کوئی گنجائش نہیں ۔ کسی بھی منطق اور کسی بھی دلیل سے اسے درست قرار نہیں دیا جا سکتا ، خواہ دین کا معیار ہو یا مصلحت کا معیار ہو یا جمہوریت کا معیار ہو کسی بھی معیار پر سیکولرزم کو صحیح نہیں قرار دیا جا سکتا ۔ لادینیت پسند جو شبہات پیدا کرتے ہیں وہ بلاوجہ اور بلا جواز ہیں ۔

    اس بحث کا نتیجہ یہ سامنے آیا کہ جو معانی و مفاہیم قدرے المباس کے حامل تھے واضح اور ممیز ہو کر سامنے آگئے اور لادینیت پسندوں کی مساعی ناکام ہو گئیں ۔ چنانچہ اب ہم وضاحت اور صراحت کے ساتھ یہ کہہ سکتے اور ہاں یا نہیں میں جواب دے سکتے ہیں کہ کون سی بات حق ہے اور کون سی باطل ہے:

    ہاں (حق) نہ (باطل)
    اسلامی حکومت علمانیت (سیکولرزم)
    شریعت اجتہاد کی روشنی میں شریعت کے نام پر جمود
    جدیدیت اصلیت کے جلو میں مغربیت پیروکاری میں
    فکری تبادلہ فکر کے خلاف جنگ
    دین پر فخر اندھا تعصب
    تعمیری مکالمہ تخریبی تشکیک

    آخر میں ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ امت مسلمہ کے لیے راہ حق روشن فرما دے اور فکر و شعور کی وہ دولت عطا فرمائے جس سے لوگ شبہات اور حق میں فرق کر سکیں اور ہمارا قول و عمل خالصتاً اللہ کے لیے ہو جائے!

    رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِن لَّدُنكَ رَحْمَةً ۚ إِنَّكَ أَنتَ الْوَهَّابُ

    (سورۃ آل عمران: 8)

    پروردگار! جب تو ہمیں سیدھے راستے پر لگا چکا ہے تو پھر کہیں ہمارے دلوں کو کجی میں مبتلا نہ کر دیجیو اور ہمیں اپنے خزانہ فیض سے رحمت عطا کر کہ تو ہی فیاض حقیقی ہے ۔