شخصیات سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ

شخصیات

تحریر: سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ
مرتبہ: سمیع اللہ خالد ہمایوں

تعارف

اسلاف کے حالات اور کارناموں سے کس کو دلچسپی نہیں ہوتی بالخصوص جب کہ یہ حالات اور کارنامے اس محبوب رہنما کے انقلابی قلم سے ہوں جو اس وقت عالمِ اسلام کے دلوں کی دھڑکن بنا ہوا ہے۔ "شخصیات"، یقیناً اردو لٹریچر میں گراں قدر اضافہ ہے۔

"شخصیات" کے مرتب جناب سمیع اللہ صاحب بٹ اور جناب خالد ہمایوں صاحب لائقِ مبارکباد ہیں کہ انہوں نے ہزاروں صفحات میں بکھرے ہوئے ان حالات و واقعات کو نہایت عرق ریزی سے جمع کیا جو مولانا مودودی صاحب نے وقتاً فوقتاً سپردِ قلم کیے تھے۔

ہمیں انتہائی مسرت اور فخر ہے کہ ہمیں مولانا مودودی مدظلہ کی اس بیش بہا کتاب کی اشاعت کی سعادت نصیب ہوئی۔ اس سعادت میں بڑا حصہ ہمارے مخلص اور عزیز بھائی عبدالحفیظ احمد صاحب، البدر پبلی کیشنز کا ہے جن کی عنایت اور توجہ سے ہی ہمیں یہ موقع میسر آیا۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ قارئین کو کتاب سے خاطر خواہ مستفیض ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

مطبوعہ: ۸ نومبر، ہما کے آفسٹ پرنٹرس، دہلی
ناشر: مکتبہ ذکریٰ، رام پور، یوپی
پہلی بار: مارچ ۱۹۷۶ء

دیباچہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

تحریر: ملک غلام علی صاحب

(معاون خصوصی مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی)

جو لوگ علم و ادب اور فکر و نظر کی دنیا میں کوئی حقیقی اور ناقابلِ فراموش کارنامہ سر انجام دیتے ہیں ان کی قلمی کاوشیں بالعموم دو اجزاء میں منقسم ہو جاتی ہیں۔ ایک حصہ وہ ہے جسے صاحبِ قلم ایک مرتبہ لکھ لینے کے بعد خود ہی اس پر نظر ثانی کرتا ہے اور اسے مناسب تر ترتیب کے ساتھ کتابی شکل میں طبع کر دیتا ہے۔ دوسرا حصہ وہ ہوتا ہے جو زبان یا قلم سے نکل کر ایک بار تو چھپ جاتا ہے مگر دوبارہ مصنف کی طرف سے اسے پلٹ کر دیکھے جانے کی نوبت نہیں آتی۔ ایسی تحریریں طاقِ نسیان پر رکھ کر بھلا دی جاتی ہیں اور عام طور پر مقدم الذکر قسم کی نگارشات کے انبار میں دفن ہو کر رہ جاتی ہیں۔

ایسی تحریرات کے گوشۂ خمول میں رہ جانے کے مختلف وجوہ ہوتے ہیں۔ بسا اوقات صاحبِ تحریر انہیں مستقل یا عمومی افادیت کا حامل نہیں سمجھتا، بعض اوقات مصنف اپنی سنجیدہ رائے ظاہر کرنے کے لیے تحقیق و تدقیق اور رکھ رکھاؤ کے جس معیار کا عادی ہوتا ہے، انہیں فی البدیہہ تحریر اس کی اپنی نظر میں اس معیار سے فروتر ہوتی ہے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ بعض اہل قلم کو اپنے علمی و فکری مقاصد سے اتنا شدید انہماک ہوتا ہے کہ وہ شخصیات، وفیات، یادِ رفتگان کی قبیل کے عنوانات کے تحت شاذ و نادر ہی لب کشائی کرتے ہیں اور احیاناً کرتے بھی ہیں تو اتنے مختصر انداز میں کرتے ہیں کہ انہیں یہ احساس دامن گیر رہتا ہے کہ حق ادا نہیں ہو سکا۔ بعض اوقات مصنف کے گوناگوں مشاغل اور اس کے صبر آزما عملی مجاہدات اسے مہلت ہی نہیں دیتے کہ وہ اپنی ہر کہی یا لکھی ہوئی بات پر نظر ثانی کرے اور اسے تصحیح و تکمیل اور ترتیب و تہذیب کے بعد لائقِ اشاعت بنائے۔

لیکن اس طرح کے "متروکاتِ سخن" کے معاملے میں جو نقطۂ نظر مصنف کا ہوتا ہے یا جو داخلی و خارجی موانع اسے درپیش ہوتے ہیں، ضروری نہیں کہ علمی نوادر کے متلاشی اور شائقین بھی اس نقطہ نظر کے حامل ہوں یا اسی قسم کی رکاوٹیں ان کی راہ میں بھی حائل ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ صاحبِ تحریر جن تحریروں کو بے رنگ سمجھ کر نظر انداز کر رہا ہے، کچھ دوسرے لوگ جو مصنف کے مداح اور شیدائی ہیں انہیں ان فراموش کردہ شذرات میں بھی نقش ہائے رنگا رنگ دکھائی دیں۔ مولانا مودودی کی قلمی تخلیقات کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے کہ ان کی بہت سی نگارشات ایسی ہیں جو ایک دفعہ اُن کے قلم سے نکل چکی ہیں مگر ان کی نگاہِ بازگشت سے محروم ہیں۔ تاہم ان کے بعض قدر دانوں نے بڑی جستجو اور محنت کے بعد اس طرح کے گم شدہ اور بکھرے ہوئے رشحاتِ قلم کو جمع کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس طرح کی چند سعی پہلے بھی ہو چکی ہیں۔ اب اسی سلسلے کی مزید کوشش یہ زیرِ نظر مجموعہ ہے جسے بعض عزیز نوجوانوں (سمیع اللہ بٹ صاحب، سلیم منصور خالد صاحب، خالد ہمایوں صاحب) نے بڑی محنت سے یکجا کیا ہے۔ یہ بعض تاریخی شخصیتوں کی سیرت و سوانح کے اجمالی جائزوں اور خاکوں پر مشتمل ہے جنہیں مولانا مدظلہ نے وقتاً فوقتاً سپردِ قلم فرمایا ہے۔

مجھے امید ہے کہ اہل ذوق اس کا خیر مقدم کریں گے اور اللہ نے چاہا تو مولانا محترم کی ہر دیگر تحریر کی طرح ان کے یہ قلمی نقوش و آثار بھی تشنگانِ علم کی تسکین و آسودگی کا باعث بنیں گے۔


امام حسین (رضی اللہ عنہ)

یہ ایک تقریر ہے جو لاہور میں شیعہ سنی حضرات کی ایک مشترکہ نشست میں کی گئی تھی، اور ماہنامہ "ترجمان القرآن" لاہور کی ماہِ جولائی ۱۹۶۰ء میں شائع ہوئی تھی۔ (مرتب)

مقصدِ شہادت

ہر سال محرم میں کروڑوں مسلمان، شیعہ بھی اور سنی بھی، امام حسین (رضی اللہ عنہ) کی شہادت پر اپنے رنج و غم کا اظہار کرتے ہیں لیکن افسوس ہے کہ ان غم گساروں میں سے بہت ہی کم لوگ اس مقصد کی طرف توجہ کرتے ہیں جس کے لیے امام نے نہ صرف اپنی جانِ عزیز قربان کی بلکہ اپنے کنبے کے بچوں تک کو کٹوا دیا۔ کسی شخص کی مظلومانہ شہادت پر اس کے اہلِ خاندان کا اور اس خاندان سے محبت و عقیدت یا ہمدردی رکھنے والوں کا اظہارِ غم کرنا تو ایک فطری بات ہے۔ ایسا رنج و غم دنیا کے ہر خاندان اور اس سے تعلق رکھنے والوں کی طرف سے ظاہر ہوتا ہے۔ اس کی کوئی اخلاقی قدر و قیمت اس سے زیادہ نہیں ہے کہ اس شخص کی ذات کے ساتھ اس کے رشتہ داروں کی اور خاندان کے ہمدردوں کی محبت کا ایک فطری نتیجہ ہے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ امام حسین کی وہ کیا خصوصیت ہے جس کی وجہ سے ۱۳۲۰ برس گزر جانے پر بھی ہر سال ان کا غم تازہ ہوتا ہے؟ اگر یہ شہادت کسی مقصدِ عظیم کے لیے نہ تھی تو محض ذاتی محبت و تعلق کی بنا پر صدیوں اس کا غم مناتے رہنے کے کوئی معنی نہیں ہیں اور خود امام کی اپنی نگاہ میں محض ذاتی، شخصی محبت کی کیا قدر و قیمت ہو سکتی ہے؟ انہیں اگر اپنی ذات اس مقصد سے زیادہ عزیز ہوتی تو وہ اسے قربان ہی کیوں کرتے؟ ان کی یہ قربانی تو خود اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ اس مقصد کو جان سے بڑھ کر عزیز رکھتے تھے۔ لہٰذا اگر ہم اس مقصد کے لیے کچھ نہ کریں، بلکہ اس کے خلاف کام کرتے رہیں، تو محض ان کی ذات کے لیے گریہ و زاری کر کے اور ان کے قاتلوں پر لعن طعن کر کے قیامت کے روز نہ تو ہم امام ہی سے کسی داد کی امید رکھ سکتے ہیں اور نہ یہ توقع رکھ سکتے ہیں کہ ان کا خدا اس کی کوئی قدر کرے گا۔

اب دیکھنا چاہیے کہ وہ مقصد کیا تھا؟ کیا امام تخت و تاج کے لیے اپنے کسی ذاتی استحقاق کا دعویٰ رکھتے تھے اور اس کے لیے انہوں نے سر دھڑ کی بازی لگائی؟ کوئی شخص بھی جو امام حسین کے گھرانے کی بلند اخلاقی سیرت کو جانتا ہے، یہ بدگمانی نہیں کر سکتا کہ یہ لوگ اپنی ذات کے لیے اقتدار حاصل کرنے کی خاطر مسلمانوں میں خونریزی کر سکتے تھے۔ اگر تھوڑی دیر کے لیے ان لوگوں کا نظریہ ہی صحیح مان لیا جائے جن کی رائے میں یہ خاندان حکومت پر اپنے ذاتی استحقاق کا دعویٰ رکھتا تھا، تب بھی حضرت ابوبکر سے لے کر امیر معاویہ (رضی اللہ عنہم) تک، پچاس برس کی پوری تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ حکومت حاصل کرنے کے لیے لڑنا اور کشت و خون کرنا ہرگز ان کا مسلک نہ تھا۔ اس لیے لامحالہ یہ ماننا ہی پڑے گا کہ امام عالی مقام کی نگاہیں اس وقت مسلم معاشرے اور اسلامی ریاست کی روح اور اس کے مزاج اور اس کے نظام میں کسی بڑے تغیر کے آثار دیکھ رہی تھیں جسے روکنے کی جدوجہد کرنا ان کے نزدیک ضروری تھا، حتیٰ کہ اس راہ میں لڑنے کی نوبت بھی آجائے تو وہ نہ صرف جائز بلکہ فرض سمجھتے تھے۔

ریاست کے مزاج، مقصد اور دستور کی تبدیلی

وہ تغیر کیا تھا؟ ظاہر ہے کہ لوگوں نے اپنا دین نہیں بدل دیا تھا۔ حکمرانوں سمیت سب لوگ خدا اور رسول اور قرآن کو اسی طرح مان رہے تھے جس طرح پہلے مانتے تھے۔ مملکت کا قانون بھی نہیں بدلا تھا۔ عدالتوں میں قرآن اور سنت ہی کے مطابق تمام معاملات کے فیصلے بنو امیہ کی حکومت میں بھی ہو رہے تھے جس طرح ان کے برسرِ اقتدار آنے سے پہلے ہوا کرتے تھے۔ بلکہ قانون میں تغیر تو انیسویں صدی عیسوی سے پہلے دنیا کی مسلم حکومتوں میں سے کسی کے دور میں بھی نہیں ہوا۔ بعض لوگ یزید کے شخصی کردار کو بہت نمایاں کر کے پیش کرتے ہیں جس سے یہ عام غلط فہمی پیدا ہو گئی ہے کہ وہ تغیر جسے روکنے کے لیے امام کھڑے ہوئے تھے، بس یہ تھا کہ ایک برا آدمی برسرِاقتدار آ گیا تھا۔ لیکن یزید کی سیرت و شخصیت کا جو برے سے برا تصور پیش کرنا ممکن ہے اسے جوں کا توں مان لینے کے بعد بھی یہ بات قابلِ تسلیم نہیں ہے کہ اگر نظام صحیح بنیادوں پر قائم ہو تو محض ایک برے آدمی کا برسرِ اقتدار آجانا کوئی ایسی بڑی بات ہو سکتی ہے جس پر امام حسین (رضی اللہ عنہ) جیسا دانا و زیرک اور علمِ شریعت میں گہری نظر رکھنے والا شخص بے صبر ہو جائے۔ اس لیے یہ شخصی معاملہ بھی وہ اصل تغیر نہیں ہے جس نے امام کو بے چین کیا تھا۔

تاریخ کے غائر مطالعہ سے جو چیز واضح طور پر ہمارے سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ یزید کی ولی عہدی اور پھر اس کی تخت نشینی سے دراصل جس خرابی کی ابتدا ہو رہی تھی وہ اسلامی ریاست کے دستور اور اس کے مزاج اور اس کے مقصد کی تبدیلی تھی۔ اس تبدیلی کے پورے نتائج اگرچہ اس وقت سامنے نہ آئے تھے لیکن ایک صاحبِ نظر آدمی گاڑی کا رخ تبدیل ہوتے ہی یہ جان سکتا ہے کہ اب اس کا راستہ بدل رہا ہے اور جس راہ پر یہ مڑ رہی ہے وہ آخر کار اسے کہاں لے جائے گی۔ یہی رخ کی تبدیلی تھی جسے امام نے دیکھا اور گاڑی کو پھر سے صحیح پٹڑی پر ڈالنے کے لیے اپنی جان لڑا دینے کا فیصلہ کیا۔

اس چیز کو ٹھیک ٹھیک سمجھنے کے لیے ہمیں دیکھنا چاہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین (رضی اللہ عنہم) کی سربراہی میں ریاست کا جو نظام چالیس سال تک چلتا رہا تھا اس کے دستور کی بنیادی خصوصیات کیا تھیں اور یزید کی ولی عہدی سے مسلمانوں میں جس دوسرے نظامِ ریاست کا آغاز ہوا اس کے اندر کیا خصوصیات دولتِ بنی امیہ و بنی عباس اور بعد کی بادشاہیوں میں ظاہر ہوئیں۔ اسی تقابل سے ہم یہ جان سکتے ہیں کہ یہ گاڑی پہلے کس لائن پر چل رہی تھی اور اس نقطۂ انحراف پر پہنچ کر آگے وہ کس لائن پر چل پڑی۔ اور اسی تقابل سے ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ جس شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدہ فاطمہ اور حضرت علی (رضی اللہ عنہم) کی آغوش میں تربیت پائی تھی اور جس نے صحابہ کی بہترین سوسائٹی میں بچپن سے بڑھاپے تک کی منزلیں طے کی تھیں وہ کیوں اس نقطۂ انحراف کے سامنے آتے ہی گاڑی کو اس نئی لائن پر جانے سے روکنے کے لیے کھڑا ہو گیا اور کیوں اس نے اس بات کی بھی پرواہ نہ کی کہ اس زور دار گاڑی کا رخ موڑنے کے لیے اس کے آگے کھڑے ہو جانے کا کیا نتیجہ ہو سکتا ہے۔

انسانی بادشاہی کا آغاز

اسلامی ریاست کی اولین خصوصیت یہ تھی کہ اس میں صرف زبان ہی سے یہ نہیں کہا جاتا تھا بلکہ سچے دل سے یہ مانا بھی جاتا تھا اور عملی رویہ سے اس عقیدہ و یقین کا پورا ثبوت بھی دیا جاتا تھا کہ ملک خدا کا ہے، باشندے خدا کی رعیت ہیں اور حکومت اس رعیت کے معاملے میں خدا کے سامنے جواب دہ ہے۔ حکومت اس رعیت کی مالک نہیں ہے اور رعیت اس کی غلام نہیں ہے۔ حکمرانوں کا کام سب سے پہلے اپنی گردن میں خدا کی بندگی و غلامی کا قلادہ ڈالنا ہے، پھر یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ خدا کی رعیت پر اس کا قانون نافذ کریں۔ لیکن یزید کی ولی عہدی سے جس انسانی بادشاہی کا مسلمانوں میں آغاز ہوا، اس میں خدا کی بادشاہی کا تصور صرف زبانی اعتراف تک محدود رہ گیا۔ عملاً اس نے وہی نظریہ اختیار کر لیا جو ہمیشہ سے ہر انسانی بادشاہی کا رہا ہے، یعنی ملک بادشاہ اور شاہی خاندان کا ہے اور وہ رعیت کی جان، مال، آبرو، ہر چیز کا مالک ہے۔ خدا کا قانون ان بادشاہتوں میں نافذ ہوا بھی تو صرف عوام پر ہوا، بادشاہ اور ان کے خاندان اور امراء اور حکام زیادہ تر اس سے مستثنیٰ ہی رہے۔

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا تعطل

اسلامی ریاست کا مقصد خدا کی زمین میں ان نیکیوں کو قائم کرنا اور فروغ دینا تھا جو خدا کو محبوب ہیں اور ان برائیوں کو دبانا اور مٹانا تھا جو خدا کو ناپسند ہیں۔ مگر انسانی بادشاہی کا راستہ اختیار کرنے کے بعد حکومت کا مقصد فتحِ ممالک اور تسخیرِ خلائق اور تحصیلِ باج و خراج اور عیشِ دنیا کے سوا کچھ نہ رہا۔ خدا کا کلمہ بلند کرنے کی خدمت بادشاہوں نے بہت کم ہی کبھی انجام دی۔ ان کے ہاتھوں اور ان کے امراء اور حکام اور درباریوں کے ہاتھوں بھلائیاں کم اور برائیاں بہت زیادہ پھیلیں۔ بھلائیوں کے فروغ اور برائیوں کی روک تھام اور اشاعتِ دین اور علومِ اسلامی کی تحقیق و تدوین کے لیے جن اللہ کے بندوں نے کام کیا، انہیں حکومتوں سے مدد ملنی تو درکنار، اکثر وہ حکمرانوں کے غضب ہی میں گرفتار رہے اور اپنا کام وہ ان کی مزاحمتوں کے علی الرغم ہی کرتے رہے۔ ان کی کوششوں کے برعکس حکومتوں اور ان کے حکام و متوسلین کی زندگیوں اور پالیسیوں کے اثرات مسلم معاشرہ کو پیہم اخلاقی زوال ہی کی طرف لے جاتے رہے۔ حد یہ ہے کہ ان لوگوں نے اپنے مفاد کی خاطر اسلام کی اشاعت میں رکاوٹیں ڈالنے سے بھی دریغ نہ کیا، جس کی بدترین مثال بنو امیہ کی حکومت میں نو مسلموں پر جزیہ لگانے کی صورت میں ظاہر ہوئی۔

اسلامی ریاست کی روح تقویٰ اور خدا ترسی اور پرہیزگاری کی روح تھی جس کا سب سے بڑا مظہر خود ریاست کا سربراہ ہوتا تھا۔ حکومت کے عمال اور قاضی اور سپہ سالار، سب اس روح سے سرشار ہوتے تھے اور پھر اسی روح سے وہ پورے معاشرے کو سرشار کرتے تھے۔ لیکن بادشاہی کی راہ پر پڑتے ہی مسلمانوں کی حکومتوں اور ان کے حکمرانوں نے قیصر و کسریٰ کے سے رنگ ڈھنگ اور ٹھاٹھ باٹ اختیار کر لیے۔ عدل کی جگہ ظلم و جور کا غلبہ ہوتا چلا گیا۔ زہد و پرہیزگاری کی جگہ فسق و فجور اور راگ رنگ اور عیش و عشرت کا دور دورہ شروع ہو گیا۔ حرام و حلال کی تمیز سے حکمرانوں کی سیرت و کردار خالی ہوتی چلی گئی۔ سیاست کا رشتہ اخلاق سے ٹوٹتا چلا گیا۔ خدا سے خود ڈرنے کے بجائے حاکم لوگ بندگانِ خدا کو اپنے آپ سے ڈرانے لگے اور لوگوں کے ایمان و ضمیر بیدار کرنے کے بجائے ان کو اپنی بخششوں کے لالچ سے خریدنے لگے۔

اسلامی دستور کے بنیادی اصول

یہ تو تھا روح و مزاج اور مقصد اور نظریے کا تغیر۔ ایسا ہی تغیر اسلامی دستور کے بنیادی اصولوں میں بھی رونما ہوا۔ اس دستور کے سات اہم ترین اصول تھے جن میں سے ہر ایک کو بدل ڈالا گیا۔

  1. آزادانہ انتخاب

    دستورِ اسلامی کا سنگِ بنیاد یہ تھا کہ حکومت لوگوں کی آزادانہ رضا مندی سے قائم ہو۔ کوئی شخص اپنی کوشش سے اقتدار حاصل نہ کرے بلکہ لوگ اپنے مشورے سے بہتر آدمی کو چن کر اقتدار اس کے سپرد کر دیں۔ بیعت اقتدار کا نتیجہ نہ ہو بلکہ اس کا سبب ہو۔ بیعت حاصل ہونے میں آدمی کی اپنی کسی کوشش یا سازش کا دخل نہ ہو۔ لوگ بیعت کرنے یا نہ کرنے کے معاملے میں پوری طرح آزاد ہوں۔ جب تک کسی شخص کو بیعت حاصل نہ ہو وہ برسرِاقتدار نہ آئے اور جب لوگوں کا اعتماد اس پر سے اُٹھ جائے تو وہ اقتدار سے ہٹ جائے۔ خلفائے راشدین میں سے ہر ایک اسی قاعدے کے مطابق برسرِاقتدار آیا تھا۔ امیر معاویہ کے معاملے میں پوزیشن مشتبہ ہو گئی۔ اسی لیے صحابی ہونے کے باوجود ان کا شمار خلفائے راشدین میں نہیں کیا گیا۔ لیکن آخر کار یزید کی ولی عہدی وہ انقلابی کارروائی ثابت ہوئی جس نے اس قاعدے کو الٹ کر رکھ دیا۔ اس سے خاندانوں کی موروثی بادشاہتوں کا وہ سلسلہ شروع ہوا جس کے بعد سے آج تک پھر مسلمانوں کو انتخابی خلافت کی طرف پلٹنا نصیب نہ ہو سکا۔ اب لوگ مسلمانوں کے آزادانہ اور کھلے مشورے سے نہیں بلکہ طاقت سے برسرِاقتدار آنے لگے۔ اب بیعت سے اقتدار حاصل ہونے کے بجائے اقتدار سے بیعت حاصل کی جانے لگی۔ اب بیعت کرنے یا نہ کرنے میں لوگ آزاد نہ رہے اور بیعت کا حاصل ہونا اقتدار پر قائم رہنے کے لیے شرط نہ رہا۔ لوگوں کی اول تو یہ مجال نہ تھی کہ جس کے ہاتھ میں اقتدار تھا اس کی بیعت نہ کرتے لیکن اگر وہ بیعت نہ بھی کرتے تو جس کے ہاتھ میں اقتدار آگیا تھا، وہ ہٹنے والا نہ تھا۔ اس جبری بیعت کو کالعدم قرار دینے کا تصور جب منصور عباسی کے زمانہ میں امام مالک سے سرزد ہوا تو ان کی پیٹھ پر کوڑے برسائے گئے اور ان کے شانے اکھڑوائے گئے۔

  2. شورائی نظام

    دوسرا اہم ترین قاعدہ اس دستور کا یہ تھا کہ حکومت مشورے سے کی جائے اور مشورہ ان لوگوں سے کیا جائے جن کے علم، تقویٰ اور اصابتِ رائے پر عام لوگوں کو اعتماد ہو۔ خلفائے راشدین کے عہد میں جو لوگ شوریٰ کے رکن بنائے گئے، اگرچہ ان کو انتخابِ عام کے ذریعہ سے منتخب نہیں کرایا گیا تھا، جدید زمانے کے تصور کے لحاظ سے وہ نامزد کردہ لوگ ہی تھے، لیکن خلفاء نے یہ دیکھ کر ان کو مشیر نہیں بنایا تھا کہ یہ ہماری ہاں میں ہاں ملانے اور ہمارے مفاد کی خدمت کرنے کے لیے موزوں ترین لوگ ہیں، بلکہ انہوں نے پورے خلوص اور بے غرضی کے ساتھ قوم کے بہترین عناصر کو چنا تھا جن سے وہ حق گوئی کے سوا کسی چیز کی توقع نہ رکھتے تھے، جن سے یہ امید تھی کہ وہ ہر معاملے میں اپنے علم و ضمیر کے مطابق بالکل صحیح ایماندارانہ رائے دیں گے، جن سے کوئی شخص بھی یہ اندیشہ نہ رکھتا تھا کہ وہ حکومت کو کسی غلط راہ پر جانے دیں گے۔ اگر اس وقت ملک میں آج کل کے طریقے کے مطابق انتخابات بھی ہوتے تو عام مسلمان انہی لوگوں کو اپنے اعتماد کا مستحق قرار دیتے۔ لیکن شاہی دور کا آغاز ہوتے ہی شوریٰ کا یہ طریقہ بدل گیا۔ اب بادشاہ استبداد اور مطلق العنانی کے ساتھ حکومت کرنے لگے۔ اب شہزادے اور خوشامدی اہلِ دربار اور صوبوں کے گورنر اور فوجوں کے سپہ سالار ان کی کونسل کے ممبر تھے۔ اب وہ لوگ ان کے مشیر تھے جن کے معاملہ میں اگر قوم کی رائے لی جاتی تو اعتماد کے ایک ووٹ کے مقابلے میں لعنت کے ہزار ووٹ آتے۔ اور اس کے برعکس وہ حق شناس و حق گو اہلِ علم و تقویٰ جن پر قوم کو اعتماد تھا وہ بادشاہوں کی نگاہ میں کسی اعتماد کے مستحق نہ تھے، بلکہ الٹے معتوب یا کم از کم مشتبہ تھے۔

  3. اظہارِ رائے کی آزادی

    اس دستور کا تیسرا اصول یہ تھا کہ لوگوں کو اظہارِ رائے کی پوری آزادی ہو۔ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کو اسلام نے ہر مسلمان کا حق ہی نہیں بلکہ فرض قرار دیا تھا۔ اسلامی معاشرے اور ریاست کے صحیح راستے پر چلنے کا انحصار اس بات پر تھا کہ لوگوں کے ضمیر اور ان کی زبانیں آزاد ہوں، وہ ہر غلط کام پر بڑے سے بڑے آدمی کو ٹوک سکیں اور حق بات برملا کہہ سکیں۔ خلافتِ راشدہ میں صرف یہی نہیں کہ لوگوں کا یہ حق پوری طرح محفوظ تھا، بلکہ خلفائے راشدین (رضی اللہ عنہم) اسے ان کا فرض سمجھتے تھے اور اس فرض کے ادا کرنے میں ان کی ہمت افزائی کرتے تھے۔ ان کی مجلسِ شوریٰ کے ممبروں ہی کو نہیں، قوم کے ہر شخص کو بولنے اور ٹوکنے اور خود خلیفہ سے باز پرس کرنے کی مکمل آزادی تھی، جس کے استعمال پر لوگ ڈانٹ اور دھمکی سے نہیں بلکہ داد اور تعریف سے نوازے جاتے تھے۔ یہ آزادی ان کی طرف سے کوئی عطیہ اور بخشش نہ تھی جس کے لیے وہ قوم پر اپنا احسان جتاتے، بلکہ یہ اسلام کا عطا کردہ ایک دستوری حق تھا جس کا احترام کرنا وہ اپنا فرض سمجھتے تھے، اور اسے بھلائی کے لیے استعمال کرنا ہر مسلمان پر خدا اور رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کا عائد کردہ ایک فریضہ تھا جس کی ادائیگی کے لیے معاشرے اور ریاست کی فضا کو ہر وقت سازگار رکھنا ان کی نگاہ میں فرائضِ خلافت کا ایک اہم جزو تھا۔ لیکن بادشاہی دور کا آغاز ہوتے ہی ضمیروں پر قفل چڑھا دیے گئے اور منہ بند کر دیے گئے۔ اب قاعدہ یہ ہو گیا کہ زبان کھولو تو تعریف میں کھولو ورنہ چپ رہو۔ اور اگر تمہارا ضمیر ایسا زور آور ہے کہ حق گوئی سے تم باز نہیں رہ سکتے تو قید یا قتل کے لیے تیار ہو جاؤ۔ یہ پالیسی رفتہ رفتہ مسلمانوں کو پست ہمت، بزدل اور مصلحت پرست بناتی چلی گئی۔ خطرہ مول لے کر سچی بات کہنے والے ان کے اندر کم سے کم ہوتے چلے گئے۔ خوشامد اور چاپلوسی کی قیمت مارکیٹ میں چڑھتی اور حق پرستی و راست بازی کی قیمت گرتی چلی گئی۔ اعلیٰ قابلیت رکھنے والے ایماندار اور آزاد خیال لوگ حکومت سے بے تعلق ہو گئے اور عوام کا حال یہ ہو گیا کہ کسی شاہی خاندان کی حکومت برقرار رکھنے کے لیے ان کے دلوں میں کوئی جذبہ باقی نہ رہا۔ ایک کو ہٹانے کے لیے جب دوسرا آیا تو انہوں نے مدافعت میں انگلی تک نہ ہلائی اور گرنے والا جب گرا تو انہوں نے ایک لات اور رسید کر کے اسے زیادہ گہرے گڑھے میں پھینکا۔ حکومتیں جاتی اور آتی رہیں، مگر لوگوں نے تماشائی سے بڑھ کر اس آمد و رفت کے منظر سے کوئی دلچسپی نہ لی۔

  4. خدا اور خلق کے سامنے جواب دہی

    چوتھا اصول، جو اس تیسرے اصول کے ساتھ لازمی تعلق رکھتا تھا، یہ تھا کہ خلیفہ اور اس کی حکومت خدا اور خلق دونوں کے سامنے جواب دہ ہے۔ جہاں تک خدا کے سامنے جواب دہی کا تعلق ہے اس کے شدید احساس سے خلفائے راشدین پر دن کا چین اور رات کا آرام حرام ہو گیا تھا اور جہاں تک خلق کے سامنے جواب دہی کا تعلق ہے، وہ ہر وقت، ہر جگہ اپنے آپ کو عوام کے سامنے جواب دہ سمجھتے تھے۔ ان کی حکومت کا یہ اصول نہ تھا کہ صرف مجلسِ شوریٰ (پارلیمنٹ) میں نوٹس دے کر ہی ان سے سوال کیا جا سکتا ہے، وہ ہر روز پانچ مرتبہ نماز کی جماعت میں اپنے عوام کا سامنا کرتے تھے۔ وہ ہر ہفتے جمعہ کی جماعت میں عوام کے سامنے اپنی کہتے اور ان کی سنتے تھے۔ وہ شب و روز بازاروں میں کسی باڈی گارڈ کے بغیر، کسی "ہٹو بچو" کی آواز کے بغیر عوام کے درمیان چلتے پھرتے تھے۔ ان کے گورنمنٹ ہاؤس (یعنی ان کے کچے مکان) کا دروازہ ہر شخص کے لیے کھلا تھا اور ہر ایک ان سے مل سکتا تھا۔ ان سب مواقع پر ہر شخص ان سے سوال کر سکتا تھا اور جواب طلب کر سکتا تھا۔ یہ محدود جواب دہی نہ تھی بلکہ کھلی اور ہمہ وقتی جواب دہی تھی۔ یہ نمائندوں کے واسطے سے نہ تھی بلکہ پوری قوم کے سامنے براہِ راست تھی۔ وہ عوام کی مرضی سے برسرِاقتدار آئے تھے اور عوام کی مرضی انہیں ہٹا کر دوسرا خلیفہ ہر وقت لا سکتی تھی۔ اس لیے نہ تو انہیں عوام کا سامنا کرنے میں کوئی خطرہ محسوس ہوتا تھا اور نہ اقتدار سے محروم ہونا ان کی نگاہ میں کوئی خطرہ تھا کہ وہ اس سے بچنے کی کبھی فکر کرتے۔ لیکن بادشاہی دور کے آتے ہی جواب دہ حکومت کا تصور ختم ہو گیا۔ خدا کے سامنے جواب دہی کا خیال چاہے زبانوں پر رہ گیا ہو، مگر عمل میں اس کے آثار کم ہی نظر آتے ہیں۔ رہی خلق کے سامنے جواب دہی، تو کون مائی کا لال تھا جو ان سے جواب طلب کر سکتا۔ وہ اپنی قوم کے فاتح تھے، مفتوحوں کے سامنے کون فاتح جواب دہ ہوتا ہے؟ وہ طاقت سے برسرِاقتدار آئے تھے اور ان کا نعرہ یہ تھا کہ جس میں طاقت ہو وہ ہم سے اقتدار چھین لے۔ ایسے لوگ عوام کا سامنا کب کیا کرتے ہیں اور عوام ان کے قریب کہاں پھٹک سکتے تھے۔ وہ نماز بھی پڑھتے تھے تو نتھو خیرے کے ساتھ نہیں بلکہ اپنے محلوں کی محفوظ مسجدوں میں یا باہر اپنے نہایت قابلِ اعتماد محافظوں کے جھرمٹ میں۔ ان کی سواریاں نکلتی تھیں تو آگے اور پیچھے مسلح دستے ہوتے تھے اور راستے صاف کر دیے جاتے تھے۔ عوام کی اور ان کی مڈبھیڑ کسی جگہ ہوتی ہی نہ تھی۔

  5. بیت المال - ایک امانت

    پانچواں اصول اسلامی دستور کا یہ تھا کہ بیت المال خدا کا مال اور مسلمانوں کی امانت ہے، جس میں کوئی چیز حق کی راہ کے سوا کسی دوسری راہ سے آنی نہ چاہیے اور جس میں کوئی چیز حق کے سوا کسی دوسری راہ میں جانی نہ چاہیے۔ خلیفہ کا حق اس مال میں اتنا ہی ہے جتنا قرآن کی رو سے مالِ یتیم میں اس کے ولی کا ہوتا ہے کہ: "مَنْ كَانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ وَمَنْ كَانَ فَقِيرًا فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ" (جو اپنے ذاتی ذرائع آمدنی اپنی ضرورت بھر رکھتا ہو وہ اس مال سے تنخواہ لیتے ہوئے شرم کرے اور جو واقعی حاجت مند ہو وہ اتنی تنخواہ لے جسے ہر معقول آدمی مبنی بر انصاف مانے)۔ خلیفہ اس کی ایک ایک پائی کے آمد و خرچ پر حساب دینے کا ذمہ دار ہے اور مسلمانوں کو اس سے حساب مانگنے کا پورا حق ہے۔

    خلفائے راشدین نے اس اصول کو بھی کمال درجہ دیانت اور حق شناسی کے ساتھ برت کر دکھایا۔ ان کے خزانے میں جو کچھ بھی آتا تھا، ٹھیک ٹھیک اسلامی قانون کے مطابق آتا تھا اور اس میں سے جو کچھ خرچ ہوتا تھا بالکل جائز راستوں میں ہوتا تھا۔ ان میں سے جو غنی تھا اس نے ایک حبہ اپنی ذات کے لیے تنخواہ کے طور پر وصول کیے بغیر مفت خدمت انجام دی، بلکہ اپنی گرہ سے قوم کے لیے خرچ کرنے میں بھی دریغ نہ کیا۔ اور جو تنخواہ کے بغیر ہمہ وقتی خدمت گار نہ بن سکتے تھے، انہوں نے اپنی ضروریاتِ زندگی کے لیے اتنی کم تنخواہ لی کہ ہر معقول آدمی اسے انصاف سے کم ہی مانے گا، زیادہ کہنے کی جرات ان کا دشمن بھی نہیں کر سکتا۔ پھر اس خزانے کی آمد و خرچ کا حساب ہر وقت ہر شخص مانگ سکتا تھا اور وہ ہر وقت ہر شخص کے سامنے حساب دینے کے لیے تیار تھے۔ ان سے ایک عام آدمی بھرے مجمع میں پوچھ سکتا تھا کہ خزانے میں یمن سے جو چادریں آئی ہیں ان کا طول و عرض تو اتنا نہ تھا کہ جناب کا یہ لمبا کرتہ بن سکے، یہ زائد کپڑا آپ کہاں سے لائے ہیں؟ مگر جب خلافت بادشاہی میں تبدیل ہوئی تو خزانہ خدا اور مسلمانوں کا نہیں بلکہ بادشاہ کا مال تھا۔ ہر جائز و ناجائز راستے سے اس میں دولت آتی تھی اور ہر جائز و ناجائز راستے میں بے غل و غش صرف ہوتی تھی۔ کسی کی مجال نہ تھی کہ اس کے حساب کا سوال اٹھا سکے۔ سارا ملک ایک خوانِ یغما تھا جس پر ایک ہرکارے سے لے کر سربراہِ مملکت تک، حکومت کے سارے کل پرزے حسبِ توفیق ہاتھ مار رہے تھے اور ذہنوں سے یہ تصور ہی نکل گیا تھا کہ اقتدار کوئی پروانۂ اباحت نہیں ہے جس کی بدولت یہ لوٹ مار ان کے لیے حلال ہو اور پبلک کا مال کوئی شیرِ مادر نہیں ہے جسے وہ ہضم کرتے رہیں اور کسی کے سامنے انہیں اس کا حساب دینا نہ ہو۔

  6. قانون کی حکومت

    چھٹا اصول اس دستور کا یہ تھا کہ ملک میں قانون (یعنی خدا اور رسول کے قانون) کی حکومت ہونی چاہیے۔ کسی کو قانون سے بالاتر نہ ہونا چاہیے۔ کسی کو قانون کی حدود سے باہر جا کر کام کرنے کا حق نہ ہونا چاہیے۔ ایک عامی سے لے کر سربراہِ مملکت تک سب کے لیے ایک ہی قانون ہونا چاہیے اور سب پر اسے بے لاگ طریقے سے نافذ ہونا چاہیے۔ انصاف کے معاملے میں کسی کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک نہ ہونا چاہیے اور عدالتوں کو انصاف کرنے کے لیے ہر دباؤ سے بالکل آزاد ہونا چاہیے۔

    خلفائے راشدین نے اس اصول کی پیروی کا بھی بہترین نمونہ پیش کیا تھا۔ بادشاہوں سے بڑھ کر اقتدار رکھنے کے باوجود وہ قانونِ الٰہی کی بندشوں میں جکڑے ہوئے تھے۔ نہ ان کی دوستی اور رشتہ داری قانون کی حد سے نکل کر کسی کو کچھ نفع پہنچا سکتی تھی اور نہ ان کی ناراضی کسی کو قانون کے خلاف کوئی نقصان پہنچا سکتی تھی۔ کوئی ان کے اپنے حق پر بھی دست درازی کرتا تو وہ ایک عام آدمی کی طرح عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتے تھے اور کسی کو ان کے خلاف شکایت ہوتی تو وہ استغاثہ کر کے انہیں عدالت میں کھینچ لا سکتا تھا۔ اسی طرح انہوں نے اپنی حکومت کے گورنروں اور سپہ سالاروں کو بھی قانون کی گرفت میں کس رکھا تھا۔ کسی کی مجال نہ تھی کہ عدالت کے کام میں کسی قاضی پر اثر انداز ہونے کا خیال بھی کرتا۔ کسی کا یہ مرتبہ نہ تھا کہ قانون کی حد سے قدم باہر نکال کر مواخذہ سے بچ جاتا۔ لیکن خلافت سے بادشاہی کی طرف انتقال واقع ہوتے ہی اس قاعدے کے بھی چیتھڑے اڑ گئے۔ اب بادشاہ اور شہزادے اور امراء اور حکام اور سپہ سالار ہی نہیں، شاہی محلات کے منہ چڑھے لونڈی غلام تک قانون سے بالاتر ہو گئے۔ لوگوں کی گردنیں اور پیٹھیں اور مال اور آبروئیں، سب ان کے لیے مباح تھیں۔ انصاف کے دو معیار بن گئے۔ ایک کمزور کے لیے اور دوسرا طاقتور کے لیے۔ مقدمات میں عدالتوں پر دباؤ ڈالے جانے لگے اور بے لاگ انصاف کرنے والے قاضیوں کی شامت آنے لگی۔ حتیٰ کہ خدا ترس فقہاء نے عدالت کی کرسی پر بیٹھنے کے بجائے کوڑے کھانا اور قید ہو جانا زیادہ قابلِ ترجیح سمجھا تاکہ وہ ظلم و جور کے آلۂ کار بن کر خدا کے عذاب کے مستحق نہ بنیں۔

  7. حقوق اور مراتب کے لحاظ سے کامل مساوات

    مسلمانوں میں حقوق اور مراتب کے لحاظ سے کامل مساوات، اسلامی دستور کا ساتواں اصول تھا جسے ابتدائی اسلامی ریاست میں پوری قوت کے ساتھ قائم کیا گیا تھا۔ مسلمانوں کے درمیان نسل، وطن، زبان وغیرہ کا کوئی امتیاز نہ تھا۔ قبیلے اور خاندان اور حسب و نسب کے لحاظ سے کسی کو کسی پر فضیلت نہ تھی۔ خدا اور رسول کے ماننے والے سب لوگوں کے حقوق یکساں تھے اور سب کی حیثیت برابر تھی۔ ایک کو دوسرے پر ترجیح اگر تھی تو سیرت و اخلاق اور اہلیت و صلاحیت اور خدمات کے لحاظ سے تھی۔ لیکن خلافت کی جگہ جب بادشاہی نظام آیا تو عصبیت کے شیاطین ہر گوشے سے سر اُٹھانے لگے۔ شاہی خاندان اور ان کے حامی خانوادوں کا مرتبہ سب سے بلند و برتر ہو گیا۔ ان کے قبیلوں کو دوسرے قبیلوں پر ترجیحی حقوق حاصل ہو گئے۔ عربی اور عجمی کے تعصبات جاگ اٹھے اور خود عربوں میں قبیلے اور قبیلے کے درمیان کشمکش پیدا ہو گئی۔ ملتِ اسلامیہ کو اس چیز نے جو نقصان پہنچایا اس پر تاریخ کے اوراق گواہ ہیں۔

امام حسین کا مومنانہ کردار

یہ تھے وہ تغیرات جو اسلامی خلافت کو خاندانی بادشاہت میں تبدیل کرنے سے رونما ہوئے۔ کوئی شخص اس تاریخی حقیقت کا انکار نہیں کر سکتا کہ یزید کی ولی عہدی ان تغیرات کا نقطۂ آغاز تھی اور اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں ہے کہ اس نقطے سے چل کر تھوڑی مدت کے اندر ہی بادشاہی نظام میں وہ سب خرابیاں نمایاں ہو گئیں جو اوپر بیان کی گئی ہیں۔ جس وقت یہ انقلابی قدم اُٹھایا گیا تھا، اس وقت یہ خرابیاں اگرچہ تمام و کمال سامنے نہ آئی تھیں، مگر ہر صاحبِ بصیرت آدمی جان سکتا تھا کہ اس اقدام کے لازمی نتائج یہی کچھ ہیں اور اس سے ان اصلاحات پر پانی پھر جانے والا ہے جو اسلام نے سیاست و ریاست کے نظام میں کی ہیں۔ اسی لیے امام حسین (رضی اللہ عنہ) اس پر صبر نہ کر سکے اور انہوں نے فیصلہ کیا کہ جو بدتر سے بدتر نتائج بھی انہیں ایک مضبوط جمی جمائی حکومت کے خلاف اٹھنے میں بھگتنے پڑیں، ان کا خطرہ مول لے کر بھی انہیں اس انقلاب کو روکنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

اس کوشش کا جو انجام ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ مگر امام حسین نے اس عظیم خطرے میں کود کر اور مردانہ وار اس کے نتائج کو انگیز کر کے جو بات ثابت کی وہ یہ تھی کہ اسلامی ریاست کی بنیادی خصوصیات امتِ مسلمہ کا وہ بیش قیمت سرمایہ ہیں جسے بچانے کے لیے ایک مومن اپنا سر بھی دے دے اور اپنے بال بچوں کو بھی کٹوا بیٹھے تو اس مقصد کے مقابلے میں یہ کوئی مہنگا سودا نہیں ہے۔ اور ان خصوصیات کے مقابلے میں وہ دوسرے تغیرات جنہیں اوپر نمبروار گنایا گیا ہے، دین اور ملت کے لیے وہ آفتِ عظمیٰ ہیں جسے روکنے کے لیے ایک مومن کو اگر اپنا سب کچھ قربان کر دینا پڑے تو اس میں دریغ نہ کرنا چاہیے۔ کسی کا جی چاہے تو اسے حقارت کے ساتھ ایک سیاسی کام کہہ لے مگر حسین ابن علی (رضی اللہ عنہما) کی نگاہ میں تو یہ سراسر ایک دینی کام تھا، اسی لیے انہوں نے اس کام میں جان دینے کو شہادت سمجھ کر جان دے دی۔


عمر بن عبد العزیز (رحمۃ اللہ علیہ)

(۱)

اسلام کے سب سے پہلے مجدد عمر بن عبد العزیز ہیں۔ شاہی خاندان میں آنکھ کھولی۔ ہوش سنبھالا تو اپنے آپ کو مصر جیسے عظیم الشان صوبے کا گورنر پایا۔ بڑے ہوئے تو خود اموی سلطنت کے ماتحت گورنری پر مامور ہوئے۔ شاہانِ بنی امیہ نے جن جاگیروں سے اپنے خاندان کو مالا مال کیا تھا، ان میں ان کا اور ان کے گھرانے کا بھی بہت بڑا حصہ تھا، حتیٰ کہ خاص ان کی ذاتی جائیداد کی آمدنی پچاس ہزار اشرفی سالانہ تک پہنچتی تھی۔ رئیسوں کی طرح پوری شان سے رہتے تھے، لباس، خوراک، سواری، مکان، عادات و خصائل سب وہی تھے جو شاہی حکومت میں شہزادوں کے ہوتے ہیں۔ اس لحاظ سے ان کا ماحول اس کام سے دور کی مناسبت بھی نہ رکھتا تھا جو بعد میں انہوں نے انجام دیا۔

لیکن ان کی ماں حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) کی پوتی تھی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کو پچاس ہی برس ہوئے تھے جب وہ پیدا ہوئے۔ ان کے زمانہ میں صحابہ اور تابعین بکثرت موجود تھے۔ ابتداء میں انہوں نے حدیث اور فقہ کی پوری تعلیم پائی تھی، یہاں تک کہ محدثین کی صفِ اول میں شمار ہوتے تھے اور فقہ میں اجتہاد کا درجہ رکھتے تھے۔ پس علمی حیثیت سے تو ان کے لیے یہ جاننے اور سمجھنے میں کوئی دقت نہ تھی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کے عہد میں تمدن کی اساس کن چیزوں پر تھی اور جب خلافت پادشاہی سے بدلی تو ان بنیادوں میں کس نوعیت کا تغیر واقع ہوا۔ البتہ جو چیز عملی حیثیت سے ان کے راستے میں رکاوٹ ہو سکتی تھی وہ یہ تھی کہ اس جاہلی انقلاب کا بانی خود ان کا اپنا خاندان تھا، اس کے تمام فائدے اور بے حد و حساب فائدے ان کے بھائی بندوں اور خود ان کی ذات اور ان کے بال بچوں کو پہنچتے تھے اور ان کی خاندانی عصبیت، ذاتی طمع اور اپنی آئندہ نسل کی دنیوی خیر خواہی کا پورا تقاضا یہ تھا کہ وہ بھی تختِ شاہی پر فرعون بن کر بیٹھیں، اپنے علم اور ضمیر کو ٹھوس مادی فائدوں کے مقابلے میں قربان کر دیں اور حق، انصاف، اخلاق اور اصول کے چکر میں نہ پڑیں۔ مگر جب ۳۶ سال کی عمر میں بالکل اتفاقی طور پر تختِ شاہی ان کے حصے میں آیا اور انہوں نے محسوس کیا کہ کس قدر عظیم الشان ذمہ داری ان پر آن پڑی ہے تو دفعتاً ان کی زندگی کا رنگ بدل گیا۔ انہوں نے اس طرح کسی ادنیٰ تامل کے بغیر جاہلیت کے مقابلے میں اسلام کے راستے کو اپنے لیے منتخب کیا کہ گویا یہ ان کا پہلے سے سوچا ہوا فیصلہ تھا۔

تختِ شاہی انہیں خاندانی طریق پر ملا تھا مگر بیعت لیتے وقت مجمع عام میں انہوں نے کہہ دیا کہ "میں اپنی بیعت سے تمہیں آزاد کرتا ہوں، تم لوگ جس کو چاہو خلیفہ منتخب کر لو۔" اور جب لوگوں نے برضا و رغبت کہا کہ "ہم آپ ہی کو منتخب کرتے ہیں"، تب انہوں نے خلافت کی عنان اپنے ہاتھ میں لی۔

پھر شاہانہ کبر و فر، فرعونی انداز، قیصر و کسریٰ کے درباری طریقے، سب رخصت کیے اور پہلے ہی روز لوازمِ شاہی کو ترک کر کے وہ طرز اختیار کیا جو مسلمانوں کے درمیان ان کے خلیفہ کا ہونا چاہیے۔

اس کے بعد ان امتیازات کی طرف توجہ کی جو شاہی خاندان کے لوگوں کو حاصل تھے اور ان کو تمام حیثیتوں سے عام مسلمانوں کے برابر کر دیا۔ وہ تمام جاگیریں جو شاہی خاندان کے قبضے میں تھیں، اپنی جاگیر سمیت بیت المال کو واپس کیں۔ جن جن کی زمینوں اور جائیدادوں پر ناجائز قبضہ کیا گیا تھا، وہ سب ان کو واپس دیں۔ ان کی اپنی ذات کو اس تغیر سے جو نقصان پہنچا اس کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ پچاس ہزار کی جگہ صرف دو سو اشرفی سالانہ کی آمدنی رہ گئی۔ بیت المال کے روپے کو اپنی ذات پر اور اپنے خاندان والوں پر حرام کر دیا، حتیٰ کہ خلیفہ ہونے کی حیثیت سے تنخواہ تک نہ لی۔ اپنی زندگی کا سارا نقشہ بدل دیا۔ یا تو خلیفہ ہونے سے پہلے شاہانہ شان کے ساتھ رہتے تھے یا خلیفہ ہوتے ہی فقیر بن گئے۔

سیرت نگاروں کا بیان ہے کہ خلافت سے پہلے ہزار درہم کا جوڑا بھی عمر بن عبد العزیز کو پسند نہ آتا تھا مگر خلیفہ ہونے کے بعد چار پانچ درہم کے جوڑے کو بھی وہ اپنے لیے بہت شاہانہ سمجھتے تھے۔

گھر اور خاندان کی اس اصلاح کے بعد نظامِ حکومت کی طرف توجہ کی۔ ظالم گورنروں کو الگ کیا اور ڈھونڈ ڈھونڈ کر صالح آدمی تلاش کیے کہ گورنری کی خدمت انجام دیں۔ عاملینِ حکومت جو قانون اور ضابطے سے آزاد ہو کر رعایا کی جان، مال اور آبرو پر غیر محدود اختیارات کے مالک ہو گئے تھے، ان کو پھر ضابطے کا پابند بنایا اور قانون کی حکومت قائم کی۔ ٹیکس عائد کرنے کی پوری پالیسی بدل دی اور وہ تمام ناجائز ٹیکس جو شاہانِ بنی امیہ نے عائد کر دیے تھے، جن میں آبکاری تک کا محصول شامل تھا، یک قلم موقوف کیے۔ زکوٰۃ کی تحصیل کا انتظام از سرِ نو درست کیا اور بیت المال کی دولت کو پھر سے عام مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے وقف کر دیا۔ غیر مسلم رعایا کے ساتھ جو ناانصافیاں کی گئی تھیں، ان سب کی تلافی کی، ان کے معابد جن پر ناجائز قبضہ کیا گیا تھا انہیں واپس دلائے، ان کی زمینیں جو غصب کر لی گئی تھیں پھر واگزاشت کیں اور ان کے تمام وہ حقوق بحال کیے جو شریعت کی رو سے انہیں حاصل تھے۔

عدالت کو انتظامی حکومت کے دباؤ سے آزاد کیا اور حکم بین الناس کے ضابطے اور اسپرٹ دونوں کو شاہی نظام کے اثرات سے پاک کر کے اسلامی اصول پر قائم کر دیا۔ اس طرح حضرت عمر بن عبدالعزیز کے ہاتھوں سے اسلامی نظامِ حکومت دوبارہ زندہ ہوا۔

پھر انہوں نے سیاسی اقتدار سے کام لے کر لوگوں کی ذہنی، اخلاقی اور معاشرتی زندگیوں سے جاہلیت کے ان اثرات کو نکالنا شروع کیا جو نصف صدی کی جاہلی حکومت کے سبب سے اجتماعی زندگی میں پھیل گئے تھے۔ فاسد عقیدوں کی اشاعت کو روکا۔ عوام کی تعلیم کا وسیع پیمانے پر انتظام کیا۔ قرآن، حدیث اور فقہ کے علوم کی طرف اہلِ دماغ طبقوں کی توجہات کو دوبارہ منعطف کیا اور ایک ایسی علمی تحریک پیدا کر دی جس کے اثر سے اسلام کو ابو حنیفہ، مالک، شافعی اور احمد بن حنبل رحمہم اللہ جیسے مجتہدین میسر آئے۔ اتباعِ شریعت کی روح کو تازہ کیا۔ شراب نوشی، تصویر کشی اور عیش و تنعم کی بیماریاں جو شاہی نظام کی بدولت پیدا ہو چکی تھیں، ان کا انسداد کیا۔ اور فی الجملہ وہ مقصد پورا کیا جس کے لیے اسلام اپنی حکومت قائم کرنا چاہتا ہے، یعنی: "الَّذِينَ إِنْ مَكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ"۔

بہت ہی قلیل مدت میں اس انقلابِ حکومت کے اثرات عوام کی زندگی پر اور بین الاقوامی حالات پر مترتب ہونے شروع ہو گئے۔ ایک راوی کہتا ہے کہ ولید کے زمانہ میں لوگ جب آپس میں بیٹھتے تو عمارات اور باغوں کے متعلق گفتگو کرتے۔ سلیمان بن عبد الملک کا زمانہ آیا تو عوام کا مذاق شہوانیت کی طرف متوجہ ہوا مگر جب عمر بن عبدالعزیز حکمران ہوئے تو حالت یہ تھی کہ جہاں چار آدمی جمع ہوتے نماز، روزہ اور قرآن کا ذکر چھڑ جاتا تھا۔ غیر مسلم رعایا پر اس حکومت کا اتنا اثر ہوا کہ ہزاروں آدمی اس مختصر سی مدت میں مسلمان ہو گئے اور جزیہ کی آمدنی دفعتاً اتنی گھٹ گئی کہ سلطنت کے مالیات اس سے متاثر ہونے لگے۔ مملکتِ اسلامی کے اطراف میں جو غیر مسلم ریاستیں موجود تھیں، حضرت عمر بن عبدالعزیز نے ان کو اسلام کی طرف دعوت دی اور ان میں سے متعدد ریاستوں نے اس دین کو قبول کر لیا۔ اسلامی حکومت کی سب سے بڑی حریف سلطنت اس وقت روم کی سلطنت تھی جس کے ساتھ ایک صدی سے لڑائیوں کا سلسلہ جاری تھا اور اس وقت بھی سیاسی کشمکش چل رہی تھی۔ مگر عمر بن عبد العزیز کا جو اخلاقی اثر روم پر قائم ہوا اس کا اندازہ ان الفاظ سے کیا جا سکتا ہے جو ان کے انتقال کی خبر سن کر خود قیصرِ روم نے کہے تھے۔ اس نے کہا کہ:

"اگر کوئی راہب دنیا چھوڑ کر اپنے دروازے بند کر لے اور عبادت میں مشغول ہو جائے تو مجھے اس پر کوئی حیرت نہیں ہوتی۔ مگر مجھے حیرت ہے تو اس شخص پر، جس کے قدموں کے نیچے دنیا تھی اور پھر اس نے اسے ٹھکرا کر فقیرانہ زندگی بسر کی۔"

اسلام کے مجددِ اول کو صرف ڈھائی سال کام کرنے کا موقع ملا اور اس مختصر سی مدت میں اس نے یہ انقلابِ عظیم برپا کر کے دکھا دیا۔ مگر بنی امیہ سب کے سب اس بندۂ خدا کے دشمن ہو گئے۔ اسلام کی زندگی میں ان کی موت تھی، وہ اس تجدید کے کام کو کس طرح برداشت کر سکتے تھے۔ آخر کار انہوں نے سازش کر کے اسے زہر دے دیا اور صرف ۳۹ سال کی عمر میں یہ خادمِ دین و ملت دنیا سے رخصت ہو گیا۔ جس کام کو اس نے شروع کیا تھا، اس کی تکمیل میں اب صرف اتنی کسر باقی رہ گئی تھی کہ خاندانی حکومت کو ختم کر کے انتخابی خلافت کا سلسلہ پھر سے قائم کر دیا جاتا۔ یہ اصلاح اس کے پیشِ نظر تھی اور اس نے اپنے عندیے کا اظہار بھی کر دیا تھا، مگر اموی اقتدار کی جڑوں کو اجتماعی زندگی سے اکھاڑنا اور عام مسلمانوں کی اخلاقی و ذہنی حالت کو خلافت کا بار سنبھالنے کے لیے تیار کرنا آسان کام نہ تھا کہ ڈھائی برس کے اندر انجام پا سکتا۔

(۲)

بنی امیہ کی حکومت کے پورے ۹۲ سالہ دور میں حضرت عمر بن عبد العزیز کی خلافت کے ڈھائی سال تاریکی میں روشنی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کی زندگی کا رخ جس واقعے نے بدلا وہ یہ تھا کہ ۹۳ھ میں، جبکہ وہ مدینہ کے گورنر تھے، ولید بن عبدالملک کے حکم سے حضرت عبداللہ بن زبیر کے صاحبزادے حبیب کو کوڑے لگوائے گئے، پھر سردی کے موسم میں ان کے سر پر ٹھنڈے پانی کی مشک چھوڑ دی گئی، پھر ان کو دن بھر مسجدِ نبوی کے دروازے پر کھڑا رکھا گیا۔ آخر کار اسی وجہ سے ان کا انتقال ہو گیا۔ یہ ایک صریح ظلم تھا اور ایک قطعاً غیر شرعی سزا تھی جس کا ارتکاب گورنر کی حیثیت میں عمر بن عبدالعزیز کو کرنا پڑا۔ مگر اس کے بعد انہوں نے گورنری سے استعفاء دے دیا اور ان پر سخت رنج اور خوفِ خدا مسلط ہو گیا۔

۹۹ھ میں جب سلیمان بن عبد الملک کی خفیہ وصیت کی بنا پر وہ خلیفہ بنائے گئے تو انہوں نے پھر ایک مرتبہ دنیا کے سامنے خلافت اور بادشاہی کا فرق نمایاں کر کے رکھ دیا۔ بیعت کی پہلی تقریر جو انہوں نے کی اس کے الفاظ یہ ہیں:

"میں اس حکومت کی آزمائش میں ڈال دیا گیا ہوں بغیر اس کے کہ میں نے اسے طلب کیا ہوتا یا مجھ سے اس معاملے میں رائے لی گئی ہوتی، یا مسلمانوں سے مشورہ لیا گیا ہوتا۔ تمہاری گردنوں میں میری بیعت کا جو قلادہ ہے اسے میں اتارے دیتا ہوں۔ اب تم لوگ خود جسے چاہو اپنے معاملات کا سربراہ بنا لو۔"

مجمع نے بہ یک آواز کہا کہ "ہم آپ ہی کو پسند کرتے ہیں۔ آپ کی حکومت پر ہم سب راضی ہیں۔" تب انہوں نے خلافت قبول کی اور فرمایا:

"در حقیقت اس امت میں کوئی اختلاف اپنے رب اور اپنے نبی اور اپنے دین کی کتاب کے بارے میں نہیں ہے بلکہ دینار و درہم کے معاملے میں ہے۔ خدا کی قسم میں کسی کو نہ باطل طریقے سے دوں گا، نہ کسی کا جائز حق روکوں گا۔ لوگو! جو اللہ کی اطاعت کرے اس کی اطاعت واجب ہے اور جو اللہ کی اطاعت نہ کرے اس کے لیے کوئی اطاعت نہیں۔ جب تک میں اللہ کا مطیع رہوں، میری اطاعت کرو اور جب میں اللہ کا نافرمان ہو جاؤں تو میری اطاعت ہر گز تم پر لازم نہیں ہے۔"

اس کے بعد انہوں نے یک لخت وہ تمام شاہانہ طور طریقے ختم کر دیے جو ان کے آباؤ اجداد نے اختیار کر رکھے تھے اور وہ طرزِ زندگی اختیار کیا جو خلفائے راشدین کے طرز سے مشابہ تھا۔ پھر وہ تمام جائیدادیں واپس کیں جو خود ان کو ناجائز طریقے سے وراثت میں ملی تھیں، حتیٰ کہ اپنی بیوی کے زیورات اور جواہر وغیرہ بھی بیت المال میں داخل کر دیے اور ہم ہزار دینار سالانہ کی جائیداد میں سے صرف چار سو دینار سالانہ کی جائیداد اپنے پاس رہنے دی جو جائز طور پر ان کی ملکیت تھی۔ اس طرح سب سے پہلے خود اپنا حساب خدا اور امت سے صاف کرنے کے بعد انہوں نے اعلان کیا کہ شاہی خاندان اور اس کے امراء میں سے جس کے خلاف بھی کسی کا دعویٰ ہو وہ اپنی شکایت پیش کرے اور جس جس نے بھی ثابت کر دیا کہ کوئی چیز اس سے غصب کی گئی تھی اس کا حق اسے دلوایا۔ اس پر بنی امیہ کے گھروں میں کہرام مچ گیا اور انہوں نے عمر بن عبد العزیز کی پھوپھی فاطمہ بنت مروان کو، جس کا وہ بہت ادب لحاظ کرتے تھے، ان کے پاس بھیجا تاکہ وہ انہیں اس کام سے روکے۔ مگر انہوں نے اس کو جواب دیا کہ "جب فرماں روا کے اپنے عزیز اقارب ظلم کریں اور فرماں روا اس کا ازالہ نہ کرے تو وہ دوسروں کو کیا منہ لے کر ظلم سے روک سکتا ہے۔" اس نے کہا: "تمہارے خاندان کے لوگ تمہیں متنبہ کرتے ہیں کہ اس روش کا تمہیں سخت خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔" انہوں نے جواب دیا: "قیامت کے خوف سے بڑھ کر اگر مجھے کسی چیز کا خوف ہو تو میں دعا کرتا ہوں کہ مجھے اس چیز سے امن نصیب نہ ہو۔" آخر کار وہ مایوس ہو کر پلٹی اور اس نے اپنے کنبے کے لوگوں سے کہا: "یہ سب تمہارا اپنا کیا دھرا ہے۔ تم عمر بن خطاب کے خاندان کی لڑکی بیاہ لائے۔ آخر کار لڑکا اپنے نانا پر چلا گیا۔" واضح رہے کہ حضرت عمر بن عبد العزیز کی والدہ حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) کی پوتی تھیں۔

ان کے احساسِ ذمہ داری کا یہ حال تھا کہ اپنے پیش رو سلیمان بن عبد الملک کو دفن کر کے جب پلٹے تو بڑے غمگین دکھائی دے رہے تھے۔ لوگوں کو حیرت ہوئی کہ بادشاہی ملنے پر خوش ہونے کے بجائے الٹے رنجیدہ ہیں۔ پوچھا گیا کہ اس رنج و غم کا سبب کیا ہے؟ فرمایا: "مشرق سے مغرب تک پھیلی ہوئی اس امتِ محمدی کا ایک شخص بھی ایسا نہیں ہے جس کا حق اس کی طلب کے بغیر مجھے ادا کرنا نہ ہو۔" ان کی بیوی کا بیان ہے کہ میں ان کے کمرے میں گئی تو دیکھا کہ جا نماز پر بیٹھے رو رہے ہیں۔ میں نے پوچھا آپ کو کیا ہوا؟ انہوں نے جواب دیا: "میں نے امتِ محمدی کے معاملات اپنے سر لے لیے ہیں۔ سوچتا ہوں کہ کوئی بھوکا فقیر ہے، کوئی بے کس مریض ہے، کوئی مظلوم مقہور ہے، کوئی غریب قیدی ہے، کوئی بوڑھا ضعیف ہے، کوئی عیال دار مفلس ہے، غرض ملک کے ہر گوشے میں اس طرح کے لوگ پھیلے ہوئے ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ میرا رب قیامت کے روز مجھ سے پوچھے گا کہ میں نے ان کے لیے کیا کیا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت میرے مقابلے میں مستغیث ہوں گے۔ ڈرتا ہوں کہ کہیں مقدر میرے خلاف نہ ثابت ہو جائے۔ اس لیے اپنے آپ پر ترس کھا کر رو رہا ہوں۔"

انہوں نے ظالم گورنروں اور عاملوں کو ہٹا کر ان کی جگہ اچھے حاکم مقرر کیے۔ وہ تمام ناجائز ٹیکس موقوف کیے جو بنی امیہ کے عہد میں وصول کیے جانے لگے تھے۔ مسلمان ہو جانے والوں پر جزیہ لگانے کا طریقہ بند کر دیا اور اپنے حکام کو سخت تاکیدی احکام بھیجے کہ کسی مسلمان یا ذمی کو قانون کے خلاف کوڑے نہ لگائے جائیں اور کسی کو قتل یا ہاتھ کاٹنے کی سزا مجھ سے پوچھے بغیر نہ دی جائے۔

ان کے آخرِ عہد میں خارجیوں کے ایک گروہ نے ان کے خلاف علمِ بغاوت بلند کر دیا۔ انہوں نے اس گروہ کے سردار کو لکھا کہ "خون خرابے سے کیا حاصل ہے، آکر مجھ سے بحث کر لو، تم حق پر ہو گے تو میں مان لوں گا، میں حق پر ہوں گا تو تم مان لینا۔" خارجی سردار نے یہ بات تسلیم کر لی اور دو آدمی بحث کے لیے بھیج دیے۔ ان دونوں نے کہا: "ہم مانتے ہیں کہ آپ کا طریقہ آپ کے اہلِ خاندان سے مختلف ہے اور ان کے اعمال کو آپ مظالم سے تعبیر کرتے ہیں، مگر یہ کیا بات ہے کہ جب وہ ضلالت پر تھے تو آپ ان پر لعنت نہیں کرتے؟" حضرت عمر بن عبدالعزیز نے جواب دیا: "کیا ان کی مذمت کے لیے یہ کافی نہیں ہے کہ میں ان کے اعمال کو مظالم کہتا ہوں؟ اس کے بعد آخر لعنت کرنا ہی کیوں ضروری ہے؟ تم نے فرعون پر کتنی مرتبہ لعنت کی ہے؟" اس طرح حضرت عمر بن عبدالعزیز خارجیوں کی ایک ایک بات کا مسکت جواب دیتے چلے گئے۔ آخر ان میں سے ایک نے کہا: "کیا ایک عادل آدمی یہ گوارا کر سکتا ہے کہ اس کا جانشین ایک ظالم ہو؟" انہوں نے کہا: "نہیں۔" اس نے کہا: "کیا آپ اپنے بعد یزید بن عبد الملک کے حوالے یہ خلافت کر جائیں گے در آنحالیکہ آپ جانتے ہیں کہ وہ حق پر قائم نہ رہے گا؟" انہوں نے کہا کہ "اس کے لیے تو میرا پیش رو (سلیمان بن عبد الملک) پہلے ہی میرے بعد ولی عہدی کی بیعت لے چکا ہے، اب میں کیا کر سکتا ہوں۔" اس نے کہا: "کیا آپ کے خیال میں وہ شخص جس نے آپ کے بعد یزید بن عبد الملک کو نامزد کیا ہے، اسے ایسا کرنے کا حق تھا اور اس کا یہ فیصلہ برحق ہے؟" اس پر عمر بن عبد العزیز لاجواب ہو گئے اور مجلس برخاست ہونے کے بعد بار بار کہتے رہے کہ "یزید کے معاملے نے مجھے مار ڈالا، اس حجت کا میرے پاس کوئی جواب نہیں، خدا مجھے معاف کرے۔"

یہی وہ واقعہ ہے جس کے بعد بنی امیہ کو یہ خطرہ پیدا ہو گیا کہ اب یہ خاندانی بادشاہی بھی ختم کر کے چھوڑیں گے اور خلافت کو شوریٰ کے حوالے کر جائیں گے۔ اس کے تھوڑی مدت بعد ہی انہیں زہر دے کر ہلاک کر دیا گیا اور پھر وہی سب کچھ ہونے لگا جو پہلے سے ہوتا چلا آ رہا تھا۔

(کتاب: خلافت و ملوکیت)


امام ابو حنیفہ (رحمۃ اللہ علیہ)

مختصر حالاتِ زندگی

امام کا اسمِ گرامی نعمان بن ثابت تھا۔ عراق کے دارالحکومت کوفہ میں ان کی پیدائش، معتبر روایات کے مطابق، ۸۰ھ (۶۹۹ء) میں ہوئی۔ عبدالملک بن مروان اُس وقت اُموی خلیفہ تھا اور حجاج بن یوسف عراق کا گورنر۔ انہوں نے اپنی زندگی کے ۵۲ سال بنی امیہ کے عہد میں اور ۱۸ سال بنی عباس کے عہد میں گزارے۔ حجاج بن یوسف کی موت کے وقت وہ پندرہ سال کے تھے۔ عمر بن عبدالعزیز کے زمانے میں وہ جوان تھے۔ یزید بن مہلب، خالد بن عبداللہ القسری اور نصر بن سیار کی ولایتِ عراق کے طوفانی عہد ان کی آنکھوں کے سامنے گزرے۔ ابن ہبیرہ، آخری اُموی گورنر کے ظلم و ستم کا وہ خود نشانہ بنے۔ پھر اُن کے سامنے ہی عباسی دعوت اُٹھی۔ اس کا مرکز اُن کا اپنا شہر کوفہ تھا، اور بغداد کی تعمیر سے پہلے تک کوفہ ہی کو عملاً نوخیز دولتِ عباسیہ کے مرکز کی حیثیت حاصل رہی۔ خلیفہ المنصور کے عہد میں ۱۵۰ھ میں انہوں نے وفات پائی۔

ان کا خاندان ابتداءً کابل میں آباد تھا۔ ان کے دادا، جن کا نام بعض نے زوطی اور بعض نے زوالی لکھا ہے، جنگ میں گرفتار ہو کر کوفہ آئے اور مسلمان ہو کر قبیلہ بنی تیم اللہ کی ولاء (Patronage) میں رہ پڑے۔ ان کا پیشہ تجارت تھا۔ حضرت علیؓ سے اُن کی ملاقات تھی اور اس حد تک تعلقات تھے کہ وہ کبھی کبھی اُن کی خدمت میں ہدیے بھیجتے رہتے تھے۔ اُن کے بیٹے ثابت (امام ابو حنیفہ کے والد) بھی کوفہ میں تجارت کرتے تھے۔ امام کی اپنی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ کوفہ میں اُن کی روٹیوں کی دوکان (Bakery) تھی۔

امام کی تعلیم کے متعلق ان کا اپنا بیان یہ ہے کہ ابتداء انہوں نے قرأت، حدیث، نحو، ادب، شعر، کلام وغیرہ تمام اُن علوم کا مطالعہ کیا تھا جو اس زمانے میں متداول تھے۔ اس کے بعد اُنہوں نے علمِ کلام میں اختصاص پیدا کیا اور ایک مدت اس میں مشغول رہ کر اس مرتبے تک ترقی کر گئے کہ اس فن میں ان کی طرف نگاہیں اُٹھنے لگیں۔ ان کے مشہور شاگرد زفر بن الہذیل کی روایت ہے کہ امام نے ان سے کہا: "پہلے میں علمِ کلام سے دلچسپی رکھتا تھا، اور اس حد کو پہنچ گیا تھا کہ میری طرف اشارے کیے جاتے تھے۔" ایک اور روایت میں امام خود فرماتے ہیں: "میں ایک ایسا شخص تھا جسے علمِ کلام کی بحثوں میں مہارت حاصل تھی۔ ایک زمانہ ایسا گزرا کہ میں انہی بحثوں اور مناظروں میں مشغول رہتا تھا، اور چونکہ اختلافات کا اکھاڑہ زیادہ تر بصرے میں تھا اس لیے میں تقریباً ۲۰ مرتبہ وہاں گیا اور کبھی کبھی سال چھ مہینے بھی وہاں رہ کر خوارج کے مختلف گروہوں، اباضیہ، صوریہ وغیرہ سے اور حشویہ کے مختلف طبقوں سے مناظرے کرتا رہا۔"

اس سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ امام نے اُس وقت کے فلسفہ و منطق اور اختلافاتِ مذاہب کے متعلق بھی ضرور کافی واقفیت بہم پہنچائی ہوگی، کیونکہ اس کے بغیر علمِ کلام میں آدمی دخل نہیں دے سکتا۔ بعد میں اُنہوں نے قانون میں منطقی استدلال اور عقل کے استعمال کا جو کمال دکھایا اور بڑے بڑے پیچیدہ مسائل کو حل کرنے میں جو شہرت حاصل کی وہ اسی ابتدائی ذہنی تربیت کا نتیجہ تھی۔

کافی مدت تک اس میں مشغول رہنے کے بعد کلامی جھگڑوں اور مجادلوں سے ان کا دل بیزار ہو گیا اور انہوں نے فقہ (اسلامی قانون) کی طرف توجہ کی۔ یہاں طبعاً ان کی دلچسپی اہلِ حدیث کے مدرسہ فکر سے نہ ہو سکتی تھی۔ عراق کے اصحاب الرائے کا مرکز اُس وقت کوفہ تھا۔ اسی سے وہ وابستہ ہو گئے۔ اس مدرسہ فکر کی ابتداء حضرت علیؓ اور حضرت عبداللہ بن مسعودؓ (متوفی ۳۲ھ - ۶۵۲ء) سے ہوئی تھی۔ ان کے بعد ان کے شاگرد شریح (م ۷۸ھ - ۶۹۷ء)، علقمہ (م ۶۲ھ - ۶۸۱ء) اور مسروق (م ۶۳ھ - ۶۸۲ء) اس مدرسے کے نامور ائمہ ہوئے جن کا شہرہ اس وقت تمام دنیائے اسلام میں تھا۔ پھر ابراہیم نخعی (م ۹۵ھ - ۷۱۴ء) اور ان کے بعد حماد تک اس کی امامت پہنچی۔ انہی حماد کی شاگردی ابو حنیفہ نے اختیار کی اور ان کی وفات تک پورے ۱۸ سال اُن کی صحبت میں رہے۔ مگر انہوں نے صرف اُسی علم پر اکتفا نہ کیا جو کوفہ میں ان کے اساتذہ کے پاس تھا، بلکہ بار بار حج کے موقع پر حجاز جاکر وہ فقہ اور حدیث کے دوسرے اکابر اہلِ علم سے بھی استفادہ کرتے رہے۔

۱۲۰ھ میں جب ان کے استاذ حماد کا انتقال ہوا تو اس مدرسہ فکر کے لوگوں نے بالاتفاق امام ابو حنیفہ کو ان کا جانشین بنایا اور اس مسند پر ۳۰ سال تک درس و تدریس اور افتاء کا وہ لافانی کام انہوں نے انجام دیا جو آج مذہبِ حنفی کی بنیاد ہے۔ اِس ۳۰ سال کی مدت میں انہوں نے بقول بعض ۶۰ ہزار اور بقول بعض ۸۳ ہزار قانونی مسائل کے جوابات دیے جو اُن کی زندگی ہی میں الگ الگ عنوانات کے تحت مرتب کر دیے گئے۔ سات آٹھ سو کی تعداد میں ایسے شاگرد تیار کیے جو دنیائے اسلام کے مختلف علاقوں میں پہنچ کر درس و افتاء کے مسند نشین اور عوام کی عقیدتوں کے مرکز بن گئے۔ ان کے شاگردوں میں سے ۵۰ کے قریب ایسے آدمی نکلے جو اُن کے بعد سلطنتِ عباسیہ کے قاضی ہوئے۔ ان کا مذہب اسلامی دنیا کے بہت بڑے حصے کا قانون بن گیا۔ وہی عباسی، سلجوقی، عثمانی اور مغل سلطنتوں کا قانون تھا، اور آج چین سے لے کر ترکی تک کے کروڑوں مسلمان اسی کی پیروی کرتے ہیں۔

معاش کے لیے امام نے اپنا آبائی پیشہ تجارت اختیار کیا۔ کوفہ میں وہ خز (ایک خاص قسم کے کپڑے) کی تجارت کرتے تھے۔ رفتہ رفتہ انہوں نے اس پیشے میں بھی غیر معمولی ترقی کی۔ اُن کا اپنا ایک بڑا کارخانہ تھا جس میں خز تیار کیا جاتا تھا۔ ان کی تجارتی کوٹھی صرف کوفہ ہی میں کپڑا فروخت نہیں کرتی تھی بلکہ اس کا مال دور دراز علاقوں میں بھی جاتا تھا۔ پھر ان کی دیانت پر عام اعتماد جب بڑھا تو یہ کوٹھی عملاً ایک بینک بھی بن گئی جس میں لوگ کروڑوں روپیہ امانت رکھواتے تھے۔ اُن کی وفات کے وقت ۵ کروڑ درہم کی امانتیں اس کوٹھی میں جمع تھیں۔ مالی و تجارتی معاملات کے متعلق اس وسیع تجربے نے ان کے اندر قانون کے بہت سے شعبوں میں وہ بصیرت پیدا کر دی تھی جو صرف علمی حیثیت سے قانون جاننے والوں کو نصیب نہیں ہوتی۔ فقہِ اسلامی کی تدوین میں اس تجربے نے ان کو بڑی مدد دی۔ اس کے علاوہ دنیوی معاملات میں ان کی فراست و مہارت کا اندازہ اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ جب ۱۳۵ھ (۷۵۲ء) میں المنصور نے بغداد کی تعمیر کا آغاز کیا تو ابو حنیفہ ہی کو اس کی نگرانی پر مقرر کیا اور چار سال تک وہ اس کام کے نگرانِ اعلیٰ رہے۔

وہ اپنی شخصی زندگی میں انتہائی پرہیزگار اور دیانت دار آدمی تھے۔ ایک مرتبہ انہوں نے اپنے شریک کو مال بیچنے کے لیے باہر بھیجا۔ اس مال میں ایک حصہ عیب دار تھا۔ امام نے شریک کو ہدایت کی کہ جس کے ہاتھ فروخت کرے اسے آگاہ کر دے۔ مگر وہ اس بات کو بھول گیا اور سارا مال عیب ظاہر کیے بغیر فروخت کر آیا۔ امام نے اس پورے مال کی وصول شدہ قیمت (جو ۳۵ ہزار درہم تھی) خیرات کر دی۔ مورخین نے متعدد واقعات ایسے بھی نقل کیے ہیں کہ ناتجربہ کار لوگ اگر اپنا مال فروخت کرنے کے لیے ان کی دوکان پر آتے اور مال کی قیمت کم بتاتے تو امام خود ان سے کہتے تھے کہ "تمہارا مال زیادہ قیمتی ہے" اور ان کو صحیح قیمت ادا کرتے تھے۔ ان کے ہم عصر ان کی پرہیزگاری کی تعریف میں غیر معمولی طور پر رطب اللسان ہیں۔ مشہور امامِ حدیث عبداللہ بن المبارک کا قول ہے: "میں نے ابو حنیفہ سے زیادہ پرہیزگار آدمی نہیں دیکھا۔ اس شخص کے متعلق کیا کہا جائے گا جس کے سامنے دنیا اور اس کی دولت پیش کی گئی اور اس نے ٹھکرا دیا، کوڑوں سے اس کو پیٹا گیا اور وہ ثابت قدم رہا، اور وہ مناصب جن کے پیچھے لوگ دوڑتے پھرتے ہیں کبھی قبول نہ کیے۔" قاضی ابن عربی کہتے ہیں: "دنیا ان کے پیچھے لگی مگر وہ اس سے بھاگے، اور ہم سے وہ بھاگی مگر ہم اس کے پیچھے لگے۔" حسن بن زیاد کہتے ہیں: "خدا کی قسم، ابو حنیفہ نے کبھی کسی امیر کا عطیہ یا ہدیہ قبول نہیں کیا۔" ہارون الرشید نے ایک دفعہ امام ابو یوسف سے ابوحنیفہ کی صفت پوچھی۔ انہوں نے کہا: "بخدا وہ اللہ کی حرام کردہ چیزوں سے سخت پرہیز کرنے والے، اہلِ دنیا سے مجتنب اور اکثر خاموش رہنے والے آدمی تھے۔ ہمیشہ غور و فکر میں لگے رہتے اور فضول باتیں کبھی نہ کرتے۔ اگر کوئی مسئلہ ان سے پوچھا جاتا اور ان کے پاس اس کے متعلق کوئی علم ہوتا تو جواب دے دیتے۔ امیر المومنین، میں تو بس یہ جانتا ہوں کہ وہ اپنے نفس اور دین کو بُرائیوں سے بچاتے تھے اور لوگوں سے بے نیاز ہو کر اپنے آپ سے مشغول رہتے تھے۔ وہ کبھی کسی کا ذکر بُرائی کے ساتھ نہ کرتے تھے۔"

وہ ایک نہایت فیاض آدمی تھے۔ خصوصاً اہلِ علم پر اور طلبہ پر اپنا مال بڑی دریا دلی سے خرچ کرتے تھے۔ انہوں نے اپنے تجارتی منافع کا ایک خاص حصہ اس مقصد کے لیے الگ کر رکھا تھا جس سے سال بھر تک علماء اور طلبہ کو باقاعدہ مالی امدادیں دیتے رہتے اور آخر میں جو کچھ بچتا وہ انہی میں تقسیم کر دیتے۔ وہ ان کو مال دیتے وقت کہا کرتے: "آپ لوگ اسے اپنی ضروریات پر خرچ کریں اور اللہ کے سوا کسی کے شکر گزار نہ ہوں۔ میں نے آپ کو اپنے پاس سے کچھ نہیں دیا ہے، یہ اللہ کا فضل ہے جو آپ ہی لوگوں کے لیے اس نے مجھ کو بخشا ہے۔" ان کے شاگردوں میں ایک کثیر تعداد ایسی تھی جن کے مصارف کی کفالت وہ خود کرتے تھے، اور امام ابو یوسف کے تو گھر کا پورا خرچ ہی اُنہوں نے اپنے ذمے لے رکھا تھا، کیونکہ ان کے والدین غریب تھے اور وہ اپنے لڑکے کی تعلیم چھڑا کر اسے کسی معاشی کام میں لگانا چاہتے تھے۔

اس سیرت اور شخصیت کا تھا وہ شخص جس نے دوسری صدی ہجری کے نصفِ اول میں قریب قریب ان تمام اہم مسائل سے تعرض کیا جو خلافتِ راشدہ کے بعد پیش آنے والے حالات میں پیدا ہوئے تھے۔

اُن کی آراء

اب ہم سب سے پہلے ان مسائل کو لیں گے جن کے متعلق امام کے خیالات ان کے اپنے قلم سے ثبت کیے ہوئے موجود ہیں۔ وہ کوئی صاحبِ تصنیف آدمی نہ تھے، اس لیے اُن کے کام کے متعلق زیادہ تر دوسرے معتبر ذرائع ہی کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے۔ لیکن شیعہ، خوارج، مرجئہ اور معتزلہ کے اُٹھائے ہوئے چند مسائل ایسے ہیں جن پر انہوں نے اپنی عادت کے خلاف خود قلم اُٹھایا ہے اور اہلِ السنت والجماعت (یعنی مسلم معاشرے کے سوادِ اعظم) کا عقیدہ و مسلک نہایت مختصر مگر واضح الفاظ میں مرتب کر دیا ہے۔ فطرتاً ہمیں ان کے کام کا جائزہ لیتے ہوئے اولیت کا مرتبہ اسی چیز کو دینا چاہیے جو ان کی اپنی تحریر کی صورت میں ہمیں ملتی ہے۔

اس سے پہلے ہم بیان کر چکے ہیں کہ حضرت علیؓ کے زمانہ خلافت اور بنی امیہ کے آغازِ سلطنت میں مسلمانوں کے درمیان جو اختلافات رونما ہوئے تھے ان سے چار بڑے فرقے وجود میں آگئے تھے جنہوں نے بعض ایسے مسائل پر انتہائی آراء کا نہ صرف اظہار کیا بلکہ اُن کو مذہبی عقیدہ قرار دے دیا جو مسلم سوسائٹی کی ترکیب، اسلامی ریاست کی ہیئت، اسلامی قانون کے مآخذ، اور اُمت کے سابقہ اجتماعی فیصلوں کی مستند حیثیت پر اثر انداز ہوتے تھے۔ ان مسائل کے متعلق سوادِ اعظم کا مسلک اگرچہ متعین تھا، کیونکہ عام مسلمان اس پر چل رہے تھے، اور بڑے بڑے فقہاء وقتاً فوقتاً اپنے اقوال و افعال سے بھی اس کا اظہار کرتے تھے، لیکن امام ابو حنیفہ کے وقت تک کسی نے اس کو دو ٹوک طریقے سے ایک واضح تحریر کی صورت میں مرتب نہیں کیا تھا۔

عقیدۂ اہل سنت کی توضیح

امام ابوحنیفہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے "الفقہ الاکبر"¹ لکھ کر ان مذہبی فرقوں کے مقابلے میں عقیدۂ اہلِ السنت والجماعت کو ثبت کیا۔

¹ جس زمانے میں "علمِ کلام" کی اصطلاح رائج ہونے سے پہلے عقائد اور اصولِ دین اور قانون، سب کے لیے "فقہ" کا لفظ ہی استعمال ہوتا تھا۔ البتہ فرق اس طرح کیا جاتا تھا کہ عقائد اور اصولِ دین کو "الفقہ الاکبر" کہتے تھے۔ امام ابو حنیفہ نے یہی نام اپنے اس رسالے کے لیے استعمال کیا۔ اس کتاب کے بعض حصوں کے متعلق قریب کے زمانے میں محققین نے شک ظاہر کیا ہے کہ وہ الحاقی ہیں۔ لیکن ہم یہاں اس کے جن اجزاء سے بحث کر رہے ہیں ان کی صحت مسلم ہے۔ کیونکہ دوسرے جن ذرائع سے بھی ان مسائل کے متعلق امام ابوحنیفہ کا مسلک معلوم ہوتا ہے یہ ان سے مطابقت رکھتے ہیں۔ مثلاً ابوحنیفہ کی "الوصیۃ"، ابو مطیع البلخی کی روایت کردہ "الفقہ الابسط"، اور "عقیدہ طحاویہ" جس میں امام طحاوی (۲۳۹-۳۲۱ھ / ۸۵۳-۹۳۳ء) نے ابو حنیفہ اور ان کے دونوں شاگردوں ابو یوسف اور محمد بن حسن الشیبانی سے منقول شدہ عقائد بیان کیے ہیں۔

اس میں ہمارے موضوع سے متعلق جن سوالات سے امام نے بحث کی ہے ان میں پہلا سوال خلفاء راشدین کی پوزیشن کا ہے۔ مذہبی فرقوں نے یہ بحث اُٹھا دی تھی کہ آیا ان میں سے بعض کی خلافت صحیح تھی یا نہیں، اور ان میں کون کس پر افضل تھا، بلکہ ان میں سے کوئی مسلمان بھی رہا یا نہیں۔ ان سوالات کی حیثیت محض چند سابق شخصیتوں کے متعلق ایک تاریخی رائے کی نہیں تھی، بلکہ دراصل ان سے یہ بنیادی سوال پیدا ہوتا تھا کہ جس طرح یہ خلفاء مسلمانوں کے امام بنائے گئے آیا اس کو اسلامی ریاست کے سربراہ کی تقرری کا آئینی طریقہ مانا جائے گا یا نہیں۔ نیز اگر ان میں سے کسی کی خلافت کو بھی مشکوک سمجھ لیا جائے تو اس سے یہ سوال پیدا ہو جاتا تھا کہ اس کے زمانے کے اجماعی فیصلے قانونِ اسلام کا جز مانے جائیں گے یا نہیں، اور اس خلیفہ کے اپنے فیصلے قانونی نظائر کی حیثیت رکھیں گے یا نہیں۔ اس کے علاوہ ان کی خلافت کی صحت و عدم صحت اور ان کے ایمان و عدم ایمان، حتیٰ کہ ان میں سے بعض پر بعض کی فضیلت کا سوال بھی آپ سے آپ اس سوال پر منتہی ہوتا تھا کہ بعد کے مسلمان آیا اس ابتدائی اسلامی معاشرے پر اعتماد رکھتے ہیں اور اس کے اجتماعی فیصلوں کو تسلیم کرتے ہیں یا نہیں جو پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی براہِ راست تربیت و رہنمائی میں بنا تھا اور جس کے توسط ہی سے بعد کی نسلوں کو قرآن اور سنتِ پیغمبر اور اسلامی احکام کی ساری معلومات پہنچی ہیں۔

دوسرا سوال جماعتِ صحابہ کی پوزیشن کا ہے جس کے سوادِ اعظم کو ایک گروہ اس بنا پر ظالم و گمراہ بلکہ کافر تک کہتا تھا کہ انہوں نے پہلے تین خلفاء کو امام بنایا، اور جس کے افراد کی ایک بڑی تعداد کو خوارج اور معتزلہ کافر و فاسق ٹھیراتے تھے۔ یہ سوال بھی بعد کے زمانے میں محض ایک تاریخی سوال کی حیثیت نہ رکھتا تھا، بلکہ اس سے خود بخود یہ مسئلہ پیدا ہو جاتا تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جو احکام ان لوگوں کے واسطے سے منقول ہوئے ہیں وہ آیا اسلامی قانون کے ماخذ قرار پائیں گے یا نہیں۔

تیسرا اہم اور بنیادی سوال ایمان کی تعریف، ایمان و کفر کے اصولی فرق، اور گناہ کے اثرات و نتائج کا تھا جس پر خوارج، معتزلہ اور مرجئہ کے درمیان سخت بحثیں اُٹھی ہوئی تھیں۔ یہ سوال بھی محض دینیاتی نہ تھا بلکہ مسلم سوسائٹی کی ترکیب سے اس کا گہرا تعلق تھا، کیونکہ اس کے متعلق جو فیصلہ بھی کیا جائے اس کا اثر مسلمانوں کے اجتماعی حقوق اور ان کے قانونی تعلقات پر لامحالہ پڑتا ہے۔ نیز ایک اسلامی ریاست میں اس سے یہ مسئلہ بھی پیدا ہو جاتا ہے کہ گناہ گار حاکموں کی حکومت میں جمعہ و جماعت جیسے مذہبی کام اور عدالتوں کے قیام اور جنگ و جہاد جیسے سیاسی کام صحیح طور پر کیے جا سکیں گے یا نہیں۔

امام ابو حنیفہ نے ان مسائل کے متعلق اہلِ سنت کا جو مسلک ثبت کیا ہے وہ حسبِ ذیل ہے:

خلفائے راشدین کے بارے میں

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد افضل الناس ابو بکر صدیق ہیں، پھر عمر بن الخطاب، پھر عثمان بن عفان، پھر علی بن ابی طالب۔ یہ سب حق پر تھے اور حق کے ساتھ رہے۔"

عقیدہ طحاویہ میں اس کی مزید تشریح اس طرح کی گئی ہے:

"ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو تمام امت پر افضل قرار دیتے ہوئے سب سے پہلے خلافت ان کے لیے ثابت کرتے ہیں، پھر عمر بن الخطاب کے لیے، پھر عثمان کے لیے، پھر علی بن ابی طالب کے لیے، اور یہ خلفائے راشدین و ائمہ مہدیین ہیں۔"

اس سلسلے میں یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ امام ابوحنیفہ ذاتی طور پر حضرت علیؓ کو حضرت عثمان کی بہ نسبت زیادہ محبوب رکھتے تھے، اور ان کی شخصی رائے بھی یہ تھی کہ ان دونوں بزرگوں میں سے کسی کو کسی پر فضیلت نہیں دی جا سکتی، مگر حضرت عثمان کے انتخاب کے موقع پر اکثریت سے جو فیصلہ ہو چکا تھا اس کو تسلیم کرتے ہوئے انہوں نے اجتماعی عقیدہ یہی قرار دیا کہ فضیلت کی ترتیب بھی وہی ہے جو خلافت کی ترتیب ہے۔

صحابہ کرام کے بارے میں

"ہم صحابہ کا ذکر بھلائی کے سوا اور کسی طرح نہیں کرتے۔"

عقیدہ طحاویہ میں اس کی مزید تفصیل یہ ہے:

"ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام اصحاب کو محبوب رکھتے ہیں، ان میں سے کسی کی محبت میں حد سے نہیں گزرتے اور نہ کسی سے تبریٰ کرتے ہیں۔ ان سے بغض رکھنے والے اور بُرائی کے ساتھ ان کا ذکر کرنے والے کو ہم ناپسند کرتے ہیں، اور ان کا ذکر بھلائی کے سوا کسی اور طرح نہیں کرتے۔"

اگرچہ صحابہ کی خانہ جنگی کے بارے میں امام ابو حنیفہ نے اپنی رائے ظاہر کرنے سے دریغ نہیں کیا ہے، چنانچہ وہ صاف طور پر یہ کہتے ہیں کہ حضرت علی کی جن لوگوں سے بھی جنگ ہوئی (اور ظاہر ہے کہ اس میں جنگِ جمل و صفین کے شرکاء شامل ہیں) ان کے مقابلے میں علی زیادہ برسرِ حق تھے، لیکن وہ دوسرے فریق کو مطعون کرنے سے قطعی پرہیز کرتے ہیں۔

تعریفِ ایمان

"ایمان نام ہے اقرار اور تصدیق کا۔"

"الوصیۃ" میں اس کی تشریح امام نے اس طرح کی ہے: "ایمان زبان سے اقرار اور دل سے تصدیق کا نام ہے۔" پھر کہتے ہیں: "نہ اقرار اکیلا ایمان ہے اور نہ محض معرفت ہی کو ایمان کہا جا سکتا ہے۔" آگے چل کر اس کی مزید تشریح وہ اس طرح کرتے ہیں: "عمل ایمان سے الگ ایک چیز ہے اور ایمان عمل سے الگ۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ بسا اوقات مومن سے عمل مرتفع ہو جاتا ہے مگر ایمان اس سے مرتفع نہیں ہوتا... مثلاً یہ کہا جا سکتا ہے کہ فقیر پر زکوٰۃ واجب نہیں مگر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس پر ایمان واجب نہیں۔" اس طرح انہوں نے خوارج کے اس خیال کی تردید کر دی کہ عمل ایمان کی حقیقت میں شامل ہے اور گناہ لازماً عدمِ ایمان کا ہم معنی ہے۔

گناہ اور کفر کا فرق

"ہم کسی مسلمان کو کسی گناہ کی بنا پر، خواہ وہ کیسا ہی بڑا گناہ ہو، کافر نہیں قرار دیتے جب تک وہ اس کے حلال ہونے کا قائل نہ ہو۔ ہم اس سے ایمان کا نام سلب نہیں کرتے بلکہ اُسے حقیقتاً مومن قرار دیتے ہیں۔ ہمارے نزدیک ایسا ہو سکتا ہے کہ ایک مومن شخص فاسق ہو اور کافر نہ ہو۔"

"الوصیۃ" میں امام اس مضمون کو یوں ادا کرتے ہیں:

"امتِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے گناہ گار سب مومن ہیں، کافر نہیں۔"

عقیدہ طحاویہ میں اس کی مزید تشریح یہ ہے:

"بندہ خارج از ایمان نہیں ہوتا مگر صرف اُس چیز کے انکار سے جس کے اقرار نے اُسے داخلِ ایمان کیا تھا۔"

اس عقیدے اور اس کے اجتماعی نتائج (Social Consequences) پر پوری روشنی اُس مناظرے سے پڑتی ہے جو ایک مرتبہ خوارج اور امام ابو حنیفہ کے درمیان اسی مسئلے پر ہوا تھا۔ خارجیوں کی ایک بڑی جماعت ان کے پاس آئی اور کہا کہ مسجد کے دروازے پر دو جنازے ہیں۔ ایک ایسے شرابی کا ہے جو شراب پیتے پیتے مر گیا۔ دوسرا ایک عورت کا ہے جو زنا سے حاملہ ہوئی اور شرم کے مارے خودکشی کر کے مر گئی۔ امام نے پوچھا: "یہ دونوں کس ملت سے تھے؟ کیا یہودی تھے؟" اُنہوں نے کہا: "نہیں۔" پوچھا: "عیسائی تھے؟" کہا: "نہیں۔" پوچھا: "مجوسی تھے؟" وہ بولے: "نہیں۔" امام نے کہا: "پھر آخر وہ کس ملت سے تھے؟" اُنہوں نے جواب دیا: "اس ملت سے جو کلمۂ اسلام کی شہادت دیتی ہے۔" امام نے کہا: "بتاؤ یہ ایمان کا ثلث ہے یا ربع یا خمس؟" وہ بولے کہ "ایمان کا تہائی چوتھائی نہیں ہوتا۔" امام نے کہا: "اس کلمے کی شہادت کو آخر تم ایمان کا کتنا حصہ مانتے ہو؟" وہ بولے: "پورا ایمان۔" اس پر امام نے فوراً کہا: "جب تم خود انہیں مومن کہہ رہے ہو تو مجھ سے کیا پوچھتے ہو؟" وہ کہنے لگے: "ہم یہ پوچھتے ہیں کہ وہ دوزخی ہیں یا جنتی۔" امام نے جواب دیا: "اچھا اگر تم پوچھنا ہی چاہتے ہو تو میں اُن کے بارے میں وہی کہتا ہوں جو اللہ کے نبی ابراہیم نے ان سے بدتر گناہ گاروں کے متعلق کہا تھا کہ 'خدایا جو میری پیروی کرے وہ میرا ہے اور جو میری نافرمانی کرے تو آپ غفور رحیم ہیں' (ابراہیم، آیت ۳۶)۔ اور جو اللہ کے ایک اور نبی عیسیٰ نے ان سے بھی زیادہ بڑے گناہ گاروں کے متعلق کہا تھا کہ 'اگر آپ انہیں عذاب دیں تو آپ کے بندے ہیں، اور اگر معاف فرما دیں تو آپ زبردست اور دانا ہیں' (المائدہ، ۱۱۸)۔ اور جو اللہ کے ایک تیسرے نبی نوح نے کہا تھا کہ 'ان لوگوں کا حساب لینا تو میرے رب کا کام ہے، کاش تم سمجھو، اور میں مومنوں کو دھتکارنے والا نہیں ہوں' (الشعراء، ۱۱۳-۱۱۴)۔" اس جواب کو سن کر خارجیوں کو اپنے خیال کی غلطی کا اعتراف کرنا پڑا۔

گناہ گار مومن کا انجام

"ہم یہ نہیں کہتے کہ مومن کے لیے گناہ نقصان دہ نہیں ہے۔ اور ہم نہ یہ کہتے ہیں کہ مومن دوزخ میں نہیں جائے گا اور نہ یہی کہتے ہیں کہ وہ ہمیشہ ہمیشہ دوزخ میں رہے گا اگر وہ فاسق ہو۔"
"اور ہم مرجئہ کی طرح یہ نہیں کہتے کہ ہماری نیکیاں ضرور مقبول اور ہماری برائیاں ضرور معاف ہو جائیں گی۔"

عقیدہ طحاویہ اس پر اتنا اضافہ اور کرتا ہے:

"ہم اہلِ قبلہ میں سے کسی کے نہ جنتی ہونے کا فیصلہ کرتے ہیں نہ دوزخی ہونے کا۔ اور نہ ہم ان پر کفر یا شرک یا منافقت کا حکم لگاتے ہیں جب تک کہ ان سے ایسی کسی بات کا عملاً ظہور نہ ہو، اور ان کی نیتوں کا معاملہ ہم خدا پر چھوڑتے ہیں۔"

اس عقیدے کے نتائج

اس طرح امام نے شیعہ و خوارج اور معتزلہ و مرجئہ کی انتہائی آراء کے درمیان ایک ایسا متوازن عقیدہ پیش کیا جو مسلم معاشرے کو انتشار اور باہمی تصادم و منافرت سے بھی بچاتا ہے اور اس کے افراد کو اخلاقی بے قیدی اور گناہوں پر جسارت سے بھی روکتا ہے۔ جس فتنے کے زمانے میں امام نے عقیدۂ اہلِ سنت کی یہ وضاحت پیش کی تھی، اُس کی تاریخ کو نگاہ میں رکھا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ان کا بڑا کارنامہ تھا جس سے اُنہوں نے امت کو راہِ اعتدال پر قائم رکھنے کی سعیِ بلیغ فرمائی تھی۔ اِس عقیدے کے معنی یہ تھے کہ امت اس ابتدائی اسلامی معاشرے پر پورا اعتماد رکھتی ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم کیا تھا۔ اُس معاشرے کے لوگوں نے جو فیصلے بالاتفاق یا اکثریت کے ساتھ کیے تھے، اُمت ان کو تسلیم کرتی ہے۔ جن اصحاب کو اُنہوں نے یکے بعد دیگرے خلیفہ منتخب کیا تھا، اُن کی خلافت کو بھی اور اُن کے زمانے کے فیصلوں کو بھی آئینی حیثیت سے درست مانتی ہے۔ اور شریعت کے اُس پورے علم کو بھی وہ قبول کرتی ہے جو اس معاشرے کے افراد (یعنی صحابہ کرام) کے ذریعے سے بعد کی نسلوں کو ملا ہے۔ یہ عقیدہ اگرچہ امام ابوحنیفہ کا اپنا ایجاد کردہ نہ تھا بلکہ اُمت کا سوادِ اعظم اُس وقت یہی عقیدہ رکھتا تھا، مگر امام نے اسے تحریری شکل میں مرتب کر کے ایک بڑی خدمت انجام دی کیونکہ اس سے عام مسلمانوں کو یہ معلوم ہو گیا کہ متفرق گروہوں کے مقابلے میں ان کا امتیازی مسلک کیا ہے۔

قانونِ اسلامی کی تدوین

لیکن امام ابو حنیفہ کا سب سے بڑا کارنامہ جس نے انہیں اسلامی تاریخ میں لازوال عظمت عطا کی، یہ تھا کہ اُنہوں نے اُس عظیم خلا کو اپنے بل بوتے پر بھر دیا جو خلافتِ راشدہ کے بعد شوریٰ کا ادارہ معطل ہو جانے سے اسلام کے قانونی نظام میں واقع ہو چکا تھا۔ ہم اس کے اثرات و نتائج کی طرف پہلے اشارہ کر چکے ہیں۔ ایک صدی کے قریب اس حالت پر گزر جانے سے جو نقصان رونما ہو رہا تھا اسے ہر صاحبِ فکر آدمی محسوس کر رہا تھا۔ ایک طرف مسلم ریاست کے حدود سندھ سے اسپین تک پھیل چکے تھے۔ بیسیوں قومیں اپنے الگ الگ تمدن، رسم و رواج اور حالات کے ساتھ اُس میں شامل ہو چکی تھیں۔ اندرونِ ملک مالیات کے مسائل، تجارت اور زراعت اور صنعت و حرفت کے مسائل، شادی بیاہ کے مسائل، دستوری اور دیوانی اور فوجداری قوانین و ضوابط کے مسائل روز بروز سامنے آرہے تھے۔ بیرونِ ملک دنیا بھر کی قوموں سے اس عظیم ترین سلطنت کے تعلقات تھے اور ان میں جنگ، صلح، سفارتی روابط، تجارتی لین دین، بحری و بری مسافرت، کسٹم وغیرہ کے مسائل پیدا ہو رہے تھے۔ اور مسلمان چونکہ اپنا ایک مستقل نظریہ، اصولِ حیات اور بنیادی قانون رکھتے تھے، اِس لیے ناگزیر تھا کہ وہ اپنے ہی نظامِ قانون کے تحت ان بے شمار نت نئے مسائل کو حل کریں۔

غرض ایک طرف وقت کا یہ زبردست چیلنج تھا جس سے اسلام کو سابقہ درپیش تھا۔ اور دوسری طرف حالت یہ تھی کہ ملوکیت کے دور میں کوئی ایسا مسلم آئینی ادارہ باقی نہ رہا تھا جس میں مسلمانوں کے معتمد علیہ اہل علم اور فقیہ اور مدبرین بیٹھ کر ان مسائل کو سوچتے اور شریعت کے اصولوں کے مطابق ان کا ایک مستند حل پیش کرتے جو سلطنت کی عدالتوں اور اس کے سرکاری محکموں کے لیے قانون قرار پاتا اور پوری مملکت میں یکسانی کے ساتھ اس پر عمل کیا جاتا۔

اس نقصان کو خلفاء، گورنر، حکام اور قاضی سب محسوس کر رہے تھے، کیونکہ انفرادی اجتہاد اور معلومات کے بل پر روز مرہ پیش آنے والے اتنے مختلف مسائل کو بروقت حل کر لینا ہر مفتی، حاکم، جج اور ناظمِ محکمہ کے بس کا کام نہ تھا، اور اگر فرداً فرداً انہیں حل کیا بھی جاتا تھا تو اس سے بے شمار متضاد فیصلوں کا ایک جنگل پیدا ہو رہا تھا۔ مگر دشواری یہ تھی کہ ایسا ایک ادارہ حکومت ہی قائم کر سکتی تھی، اور حکومت ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں تھی جو خود جانتے تھے کہ مسلمانوں میں اُن کا کوئی اخلاقی وقار و اعتماد نہیں ہے۔ اُن کے لیے فقہاء کا سامنا کرنا تو درکنار ان کو برداشت کرنا بھی مشکل تھا۔ اُن کے تحت بننے والے قوانین کسی حالت میں بھی مسلمانوں کے نزدیک اسلامی نظامِ قانون کا جز نہ بن سکتے تھے۔ ابن المقفع نے اپنے "رسالۃ الصحابہ" میں اس خلا کو بھرنے کے لیے المنصور کے سامنے یہ تجویز پیش کی کہ خلیفہ اہلِ علم کی ایک کونسل بنائے جس میں ہر نقطۂ نظر کے علماء پیش آمدہ مسائل پر اپنا اپنا علم اور خیال پیش کریں، پھر خلیفہ خود ہر مسئلے پر اپنا فیصلہ دے اور وہی قانون ہو۔ لیکن منصور اپنی حقیقت سے اتنا بے خبر نہ تھا کہ یہ حماقت کرتا۔ اس کے فیصلے ابوبکرؓ اور عمرؓ کے فیصلے نہ بن سکتے تھے۔ اس کے فیصلوں کی عمر خود اس کی اپنی عمر سے زیادہ نہ ہو سکتی تھی۔ بلکہ اس کی زندگی میں بھی یہ توقع نہ تھی کہ پوری مملکت میں کوئی ایک مسلمان ہی ایسا مل جائے گا جو اس کے منظور کیے ہوئے قانون کی مخلصانہ پابندی کرے۔ وہ ایک لادینی (Secular) قانون تو ہو سکتا تھا مگر اسلامی قانون کا ایک حصہ ہرگز نہ ہو سکتا تھا۔

اس صورتِ حال میں امام ابو حنیفہ کو ایک بالکل نرالا راستہ سوجھا اور وہ یہ تھا کہ وہ حکومت سے بے نیاز رہ کر خود ایک غیر سرکاری مجلسِ وضعِ قانون (Private Legislature) قائم کریں۔ یہ تجویز ایک انتہائی بدیع الفکر آدمی ہی سوچ سکتا تھا، اور مزید برآں اس کی ہمت صرف وہی شخص کر سکتا تھا جو اپنی قابلیت پر، اپنے کردار پر اور اپنے اخلاقی وقار پر اتنا اعتماد رکھتا ہو کہ اگر وہ ایسا کوئی ادارہ قائم کر کے قوانین مدون کرے گا تو کسی سیاسی قوتِ نافذہ (Political Sanction) کے بغیر اس کے مدون کردہ قوانین اپنی خوبی، اپنی صحت، اپنی مطابقتِ احوال، اور اپنے مدون کرنے والوں کے اثر کے بل پر خود نافذ ہوں گے، قوم خود ان کو قبول کرے گی اور سلطنتیں آپ سے آپ ان کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوں گی۔ امام کوئی غیب داں نہ تھے کہ پیشگی ان نتائج کو نہ دیکھ لیتے جو فی الواقع ان کے بعد نصف صدی کے اندر ہی برآمد ہو گئے، مگر وہ اپنے آپ کو اور اپنے ساتھیوں کو جانتے تھے، مسلمانوں کے اجتماعی مزاج سے واقف تھے، اور وقت کے حالات پر گہری نظر رکھتے تھے۔ انہوں نے ایک کمال درجے کے دانا و دور اندیش انسان کی حیثیت سے بالکل صحیح اندازہ کر لیا کہ وہ اس خلا کو اپنی نجی حیثیت سے بھر سکتے ہیں اور ان کے بھرنے سے یہ خلا واقعی بھر جائے گا۔

اس مجلس کے شرکاء امام کے اپنے شاگرد تھے جن کو سالہا سال تک اُنہوں نے اپنے مدرسۂ قانون میں باقاعدہ قانونی مسائل پر سوچنے، علمی طرز پر تحقیقات کرنے اور دلائل سے نتائج مستنبط کرنے کی تربیت دی تھی۔ ان میں سے قریب قریب ہر شخص امام کے علاوہ وقت کے دوسرے بڑے بڑے اساتذہ سے بھی قرآن، حدیث، فقہ، اور دوسرے مددگار علوم، مثلاً لغت، نحو، ادب اور تاریخ و سیر کی تعلیم حاصل کر چکا تھا۔ مختلف شاگرد مختلف علوم کے اختصاصی ماہر سمجھے جاتے تھے۔ مثلاً کسی کو قیاس و رائے میں نمایاں مقام حاصل تھا، کسی کے پاس احادیث اور صحابہ کے فتاویٰ اور پچھلے خلفاء و قضاۃ کے نظائر کی وسیع معلومات تھیں، اور کوئی علمِ تفسیر، یا قانون کے کسی خاص شعبے، یا لغت اور نحو یا مغازی کے علم میں اختصاص رکھتا تھا۔ ایک دفعہ امام نے خود اپنی ایک گفتگو میں بتایا کہ یہ کس مرتبے کے لوگ تھے:

"یہ ۳۶ آدمی ہیں جن میں سے ۲۸ قاضی ہونے کے لائق ہیں، ۶ فتویٰ دینے کی اہلیت رکھتے ہیں، اور دو اس درجے کے آدمی ہیں کہ قاضی اور مفتی تیار کر سکتے ہیں۔"

اس مجلس کا طریقِ کار جو امام کے معتبر سوانح نگاروں نے لکھا ہے وہ ہم خود انہی کے الفاظ میں یہاں نقل کرتے ہیں۔ الموفق بن احمد المکی (م ۵۶۸ھ - ۱۱۷۲ء) لکھتا ہے:

"ابو حنیفہ نے اپنا مذہب ان کے (یعنی اپنے فاضل شاگردوں) کے مشورے سے مرتب کیا ہے۔ وہ اپنی حدِ وسع تک دین کی خاطر زیادہ سے زیادہ جانفشانی کرنے کا جذبہ رکھتے تھے اور خدا و رسولِ خدا اور اہلِ ایمان کے لیے جو کمال درجے کا اخلاص ان کے دل میں تھا اُس کی وجہ سے اُنہوں نے شاگردوں کو چھوڑ کر یہ کام محض اپنی انفرادی رائے سے کر ڈالنا پسند نہ کیا۔ وہ ایک ایک مسئلہ اُن کے سامنے پیش کرتے تھے، اس کے مختلف پہلو ان کے سامنے لاتے تھے، جو کچھ اُن کے پاس علم اور خیال ہوتا اُسے سنتے اور اپنی رائے بھی بیان کرتے، حتیٰ کہ بعض اوقات ایک ایک مسئلے پر بحث کرتے ہوئے مہینہ مہینہ بھر اور اس سے بھی زیادہ لگ جاتا تھا۔ آخر جب ایک رائے قرار پا جاتی تو اُسے قاضی ابو یوسف کتبِ اصول میں ثبت کرتے۔"

ابن البزاز الکردری (صاحبِ فتاویٰ بزازیہ، م ۸۲۷ھ - ۱۴۲۴ء) کا بیان ہے:

"اُن کے شاگرد ایک مسئلے پر خوب دل کھول کر بحث کرتے اور ہر فن کے نقطۂ نظر سے گفتگو کرتے۔ اس دوران میں امام خاموشی کے ساتھ ان کی تقریریں سنتے رہتے تھے۔ پھر جب امام زیرِ بحث مسئلے پر اپنی تقریر شروع کرتے تو مجلس میں ایسا سکوت ہوتا جیسے یہاں ان کے سوا کوئی اور نہیں بیٹھا ہے۔"

عبداللہ بن المبارک کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ اس مجلس میں تین دن تک مسلسل ایک مسئلے پر بحث ہوتی رہی۔ تیسرے دن شام کے وقت میں نے جب اللہ اکبر کی آوازیں سنیں تو پتہ چلا کہ اس عقدہ کا فیصلہ ہو گیا۔

امام کے ایک اور شاگرد ابو عبداللہ کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ اس مجلس میں امام ابو حنیفہ اپنی جو رائیں ظاہر کرتے تھے انہیں بعد میں وہ پڑھوا کر سن لیا کرتے تھے۔ چنانچہ ان کے اپنے الفاظ یہ ہیں:

"میں امام کے اقوال ان کو پڑھ کر سناتا تھا۔ ابو یوسف (مجلس کے فیصلے ثبت کرتے ہوئے) ساتھ ساتھ اپنے اقوال بھی درج کر دیا کرتے تھے۔ اس لیے پڑھتے وقت میں کوشش کرتا تھا کہ ان کے اقوال چھوڑتا جاؤں اور صرف امام کے اپنے اقوال انہیں سناؤں۔ ایک روز میں چوک گیا اور دوسرا قول بھی میں نے پڑھ دیا۔ امام نے پوچھا: 'یہ دوسرا قول کس کا ہے؟'"

اس کے ساتھ المکی کے بیان سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس مجلس کے جو فیصلے لکھے جاتے تھے ان کو الگ الگ عنوانات کے تحت کتابوں اور ابواب میں مرتب بھی امام ابو حنیفہ ہی کی زندگی میں کر دیا گیا تھا:

"ابو حنیفہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے علمِ شریعت کو مدون کیا۔ ان سے پہلے کسی نے یہ کام نہیں کیا تھا... ابو حنیفہ نے اس کو کتابوں اور جدا جدا عنوانات کے تحت ابواب کی شکل میں مرتب کر دیا تھا۔"

اس مجلس میں، جیسا کہ ہم پہلے المکی ہی کے حوالے سے بتا چکے ہیں، ۸۳ ہزار قانونی مسائل طے کیے گئے تھے۔ اس میں صرف وہی مسائل زیرِ بحث نہیں آتے تھے جو اُس وقت تک عملاً لوگوں کو یا ریاست کو پیش آچکے تھے، بلکہ معاملات کی امکانی صورتیں فرض کر کر کے ان پر بھی بحث کی جاتی اور ان کا حل تلاش کیا جاتا تھا، تاکہ آئندہ اگر کبھی کوئی نئی صورت پیش آجائے جو اب تک نہ پیش آئی ہو تو قانون میں پہلے سے اس کا حل موجود ہو۔ یہ مسائل قریب قریب ہر شعبۂ قانون سے متعلق تھے۔ بین الاقوامی قانون (جس کے لیے "السیر" کی اصطلاح مستعمل تھی)¹، دستوری قانون، دیوانی و فوجداری قانون، قانونِ شہادت، ضابطۂ عدالت، معاشی زندگی کے ہر شعبے کے الگ قوانین، نکاح و طلاق اور وراثت وغیرہ شخصی احوال کے قوانین، اور عبادات کے احکام، یہ سب عنوانات ہم کو ان کتابوں کی فہرستوں میں ملتے ہیں جو اس مجلس کے فراہم کردہ مواد سے امام ابو یوسف نے اور پھر امام محمد بن حسن الشیبانی نے بعد میں مرتب کیں۔

¹ موجودہ زمانے کے لوگ اس غلط فہمی میں ہیں کہ بین الاقوامی قانون ایک جدید چیز ہے اور پہلا شخص جس نے اس شعبۂ قانون کی بنا ڈالی ہالینڈ کا گروٹیس (Grotius، ۱۵۸۳-۱۶۴۵ء) ہے۔ لیکن جس شخص نے بھی امام ابو حنیفہ کے شاگرد محمد بن حسن الشیبانی (۱۳۲-۱۸۹ھ / ۷۴۹-۸۰۵ء) کی کتاب "السیر" دیکھی ہے وہ جانتا ہے کہ گروٹیس سے نو سو برس پہلے یہ علم امام ابو حنیفہ کے ہاتھوں بڑی تفصیل کے ساتھ مدون ہو چکا تھا اور اس میں بین الاقوامی قانون کے اکثر گوشوں پر اور اس کے بڑے بڑے نازک مسائل پر بحث کی گئی تھی۔ حال میں اس حقیقت کو اہلِ علم کے ایک گروہ نے تسلیم بھی کیا ہے اور جرمنی میں شیبانی سوسائٹی آف انٹرنیشنل لاء قائم کی گئی ہے۔

اس باقاعدہ تدوینِ قانون (Codification) کا اثر یہ ہوا کہ انفرادی طور پر کام کرنے والے مجتہدوں، مفتیوں اور قاضیوں کا کام ساقط الاعتبار ہوتا چلا گیا۔ قرآن و حدیث کے احکام اور سابقہ فیصلوں اور فتاویٰ کے نظائر کی چھان بین کرکے اہلِ علم کی ایک مجلس نے ابو حنیفہ جیسے نکتہ رس آدمی کی صدارت و رہنمائی میں شریعت کے جو احکام منقح صورت میں نکال کر رکھ دیے تھے، اور پھر اُصولِ شریعت کے تحت وسیع پیمانے پر اجتہاد کر کے زندگی کے ہر پہلو میں پیش آنے والی امکانی ضرورتوں کے لیے جو قابلِ عمل قوانین مرتب کر دیے تھے، ان کے بعد متفرق افراد کے مدون کیے ہوئے احکام مشکل ہی سے وقیع ہو سکتے تھے۔ اس لیے جونہی یہ کام منظرِ عام پر آیا عوام اور حکام اور قضاۃ، سب اس کی طرف رجوع کرنے پر مجبور ہو گئے، کیونکہ یہ وقت کی مانگ تھی اور لوگ مدت سے اسی چیز کے حاجت مند تھے، چنانچہ مشہور فقیہ یحییٰ بن آدم (م ۲۰۳ھ - ۸۱۸ء) کہتے ہیں کہ ابو حنیفہ کے اقوال کے آگے دوسرے فقہاء کے اقوال کا بازار سرد پڑ گیا، انہی کا علم مختلف علاقوں میں پھیل گیا، اسی پر خلفاء اور ائمہ اور حکام فیصلے کرنے لگے اور معاملات کا چلن اسی پر ہو گیا۔ خلیفہ مامون (۱۹۸-۲۱۸ھ / ۸۱۳-۸۳۳ء) کے زمانے تک پہنچتے پہنچتے یہ حالت ہو گئی کہ ایک دفعہ وزیرِ اعظم فضل بن سہل کو ابو حنیفہ کے ایک مخالف فقیہ نے مشورہ دیا کہ حنفی فقہ کا استعمال بند کرنے کے احکام جاری کر دیے جائیں۔ وزیرِ اعظم نے باخبر اور معاملہ فہم لوگوں کو بُلا کر اس معاملے میں رائے لی۔ انہوں نے بالاتفاق کہا: "یہ بات نہیں چلے گی اور سارا ملک آپ لوگوں پر ٹوٹ پڑے گا۔ جس شخص نے آپ کو یہ مشورہ دیا ہے وہ ناقص العقل ہے۔" وزیر نے کہا: "میں خود بھی اس خیال سے متفق نہیں ہوں اور امیر المومنین بھی اس پر راضی نہ ہوں گے۔"

اس طرح تاریخ کا یہ اہم واقعہ رونما ہوا کہ ایک شخصِ واحد کی قائم کی ہوئی نجی مجلسِ وضعِ قوانین کا مرتب کیا ہوا قانون محض اپنے اوصاف اور اپنے مرتب کرنے والوں کی اخلاقی ساکھ کے بل پر ملکوں اور سلطنتوں کا قانون بن کر رہا۔ اس کے ساتھ دوسرا اہم نتیجہ اس کا یہ بھی ہوا کہ اس نے مسلم مفکرینِ قانون کے لیے اسلامی قوانین کی تدوین کا ایک نیا راستہ کھول دیا۔ بعد میں جتنے دوسرے بڑے بڑے فقہی نظام بنے وہ اپنے طرزِ اجتہاد اور نتائجِ اجتہاد میں چاہے اس سے مختلف ہوں، مگر ان کے لیے نمونہ یہی تھا جسے سامنے رکھ کر اُن کی تعمیر کی گئی۔

خلافت اور اس کے متعلقہ مسائل

سیاست کے باب میں امام ابو حنیفہ اپنی ایک نہایت مفصل رائے رکھتے تھے جو ریاست و امارت کے قریب قریب ہر پہلو پر حاوی تھی، اور بعض بنیادی امور میں دوسرے ائمہ سے مختلف بھی تھی۔ یہاں ہم اس کے ایک ایک شعبے کو لے کر اس کے بارے میں امام کی آراء پیش کریں گے۔

1. حاکمیت کا مسئلہ

ریاست کا خواہ کوئی نظریہ بھی زیرِ بحث ہو، اس میں اولین سوال یہ ہوتا ہے کہ وہ نظریہ حاکمیت کس کے لیے ثابت کرتا ہے۔ اس حاکمیت کے باب میں امام ابوحنیفہ کا نظریہ وہی تھا جو اسلام کا مسلمہ بنیادی نظریہ ہے، یعنی اصل حاکم خُدا ہے، رسول اس کے نمائندے کی حیثیت سے مطاع ہیں، اور خدا و رسول کی شریعت وہ قانونِ برتر ہے جس کے مقابلے میں اطاعت و اتباع کے سوا اور کوئی طرزِ عمل اختیار نہیں کیا جا سکتا۔ چونکہ امام اصلاً ایک قانونی آدمی تھے اس لیے انہوں نے اس مضمون کو علمِ سیاست کے بجائے قانون کی زبان میں بیان کیا ہے:

"جب مجھے کوئی حکم خدا کی کتاب میں مل جاتا ہے تو میں اسی کو تھام لیتا ہوں۔ اور جب اس میں نہیں ملتا تو رسول اللہ کی سنت اور آپؐ کے اُن صحیح آثار کو لیتا ہوں جو ثقہ لوگوں کے ہاں ثقہ لوگوں کے واسطے سے معروف ہیں۔ پھر جب نہ کتاب اللہ میں حکم ملتا ہے نہ سُنتِ رسُول اللہ میں تو میں اصحابِ رسول کے قول (یعنی ان کے اجماع) کی پیروی کرتا ہوں، اور (ان کے اختلاف کی صورت میں) جس صحابی کا قول چاہتا ہوں قبول کرتا ہوں اور جس کا چاہتا ہوں چھوڑ دیتا ہوں، مگر ان سب کے اقوال سے باہر جا کر کسی کا قول نہیں لیتا۔ دوسرے لوگ تو جس طرح اجتہاد کا انہیں حق ہے مجھے بھی حق ہے۔"

ابن حزم کا بیان ہے:

"تمام اصحابِ ابوحنیفہ اس پر متفق ہیں کہ ابوحنیفہ کا مذہب یہ تھا کہ ضعیف حدیث بھی اگر مل جائے تو اس کے مقابلے میں قیاس اور رائے کو چھوڑ دیا جائے۔"

اس سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ وہ قرآن اور سنت کو آخری سند (Final Authority) قرار دیتے تھے۔ ان کا عقیدہ یہ تھا کہ قانونی حاکمیت (Legal Sovereignty) خدا اور اس کے رسول کی ہے۔ اُن کے نزدیک قیاس و رائے سے قانون سازی کا دائرہ صرف اُن حدود تک محدود تھا جس میں خدا اور رسول کا کوئی حکم موجود نہ ہو۔ صحابۂ رسول کے انفرادی اقوال کو دوسروں کے اقوال پر جو ترجیح وہ دیتے تھے اس کی وجہ بھی دراصل یہ تھی کہ صحابی کے معاملے میں یہ امکان موجود ہے کہ اس کے علم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی حکم ہو اور وہی اس کے قول کا ماخذ ہو۔ اسی لیے امام ابوحنیفہ اس بات کا التزام کرتے تھے کہ جن مسائل میں صحابہ کے درمیان اختلاف ہوا ہے اُن میں کسی صحابی کے قول ہی کو اختیار کریں اور اپنی رائے سے کوئی ایسا فیصلہ نہ کریں جو تمام صحابیوں کے اقوال سے مختلف ہو۔ کیونکہ اس میں نادانستہ سنت کی خلاف ورزی ہو جانے کا اندیشہ تھا۔ البتہ وہ قیاس سے یہ رائے قائم کرنے کی کوشش کرتے تھے کہ ان میں سے کس کا قول سنت سے قریب تر ہو سکتا ہے۔ اگرچہ امام پر ان کے زمانۂ حیات ہی میں یہ الزام لگایا گیا تھا کہ وہ قیاس کو نقل پر ترجیح دیتے ہیں مگر انہوں نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا:

"بخدا اُس شخص نے جھوٹ کہا اور ہم پر افترا کیا جس نے کہا کہ ہم قیاس کو نص پر مقدم رکھتے ہیں۔ بھلا نص کے بعد بھی قیاس کی کوئی حاجت رہتی ہے؟"

خلیفہ المنصور نے ایک مرتبہ ان کو لکھا کہ "میں نے سنا ہے آپ قیاس کو حدیث پر مقدم رکھتے ہیں۔" اُنہوں نے جواب میں لکھا:

"امیر المومنین، جو بات آپ کو پہنچی ہے وہ صحیح نہیں ہے۔ میں سب سے پہلے کتاب اللہ پر عمل کرتا ہوں، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر، پھر ابو بکر و عمر اور عثمان و علی رضی اللہ عنہم کے فیصلوں پر، پھر باقی صحابہ کے فیصلوں پر، البتہ جب ان میں اختلاف ہو تو قیاس کرتا ہوں۔"

2. خلافت کے انعقاد کا صحیح طریقہ

خلافت کے متعلق امام ابوحنیفہ کی رائے یہ تھی کہ پہلے بزور اقتدار پر قبضہ کرنا اور بعد میں دباؤ کے تحت بیعت لینا اُس کے انعقاد کی کوئی جائز صورت نہیں ہے۔ صحیح خلافت وہ ہے جو اہلِ الرائے لوگوں کے اجتماع اور مشورے سے قائم ہو۔ اس رائے کو اُنہوں نے ایک ایسے نازک موقع پر بیان کیا جبکہ اسے زبان پر لانے والے کا سر اُس کی گردن پر باقی رہنے کا احتمال نہ تھا۔ المنصور کے حاجب ربیع بن یونس کا بیان ہے کہ منصور نے امام مالک، ابن ابی ذئب اور امام ابوحنیفہ کو بلایا اور ان سے کہا: "یہ حکومت جو اللہ تعالیٰ نے اس امت میں مجھے عطا کی ہے، اس کے متعلق آپ لوگوں کا کیا خیال ہے؟ کیا میں اس کا اہل ہوں؟"

امام مالک نے کہا: "اگر آپ اس کے اہل نہ ہوتے تو اللہ اسے آپ کے سپرد نہ کرتا۔"

ابن ابی ذئب نے کہا: "دنیا کی بادشاہی اللہ جس کو چاہتا ہے عطا کرتا ہے، مگر آخرت کی بادشاہی اسی کو دیتا ہے جو اس کا طالب ہو اور جسے اللہ اس کی توفیق دے۔ اللہ کی توفیق آپ سے قریب ہوگی اگر آپ اس کی اطاعت کریں۔ ورنہ اس کی نافرمانی کی صورت میں..."

امام ابو حنیفہ اور خلیفہ منصور کا مکالمہ

میں وہ آپ سے دُور رہے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ خلافت اہلِ تقویٰ کے اجتماع سے قائم ہوتی ہے۔ اور جو شخص خود اس پر قبضہ کرلے اس کے لیے کوئی تقویٰ نہیں ہے۔ آپ اور آپ کے مدد گار توفیق سے خارج اور حق سے منحرف ہیں۔ اب اگر آپ اللہ سے سلامتی مانگیں اور پاکیزہ اعمال سے اس کا تقرب حاصل کریں تو یہ چیز آپ کو نصیب ہو گی ورنہ آپ خود ہی اپنے مطلوب ہیں۔"

امام ابوحنیفہؒ کہتے ہیں کہ جس وقت ابن ابی ذئب یہ باتیں کہہ رہے تھے، میں نے اور مالک نے اپنے کپڑے سمیٹ لیے کہ شاید ابھی ان کی گردن اڑا دی جائے گی اور ان کا خون ہمارے کپڑوں پر پڑے گا۔ اس کے بعد منصور امام ابوحنیفہ کی طرف متوجہ ہوا اور بولا آپ کیا کہتے ہیں۔ انہوں نے جواب دیا "اپنے دین کی خاطر راہِ راست تلاش کرنے والا غصے سے دور رہتا ہے۔ اگر آپ اپنے ضمیر کو ٹٹولیں تو آپ کو خود معلوم ہو جائے گا کہ آپ نے ہم لوگوں کو اللہ کی خاطر نہیں بلایا ہے بلکہ آپ چاہتے ہیں کہ ہم آپ کے ڈر سے آپ کے منشا کے مطابق بات کہیں اور وہ عوام کے علم میں آجائے۔ امرِ واقعہ یہ ہے کہ آپ اس طرح خلیفہ بنے ہیں کہ آپ کی خلافت پر اہلِ فتویٰ لوگوں میں سے دو آدمیوں کا اجتماع بھی نہیں ہوا، حالانکہ خلافت مسلمانوں کے اجتماع اور مشورے سے ہوتی ہے۔ دیکھیے، ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ چھ مہینے تک فیصلے کرنے سے رکے رہے جب تک کہ اہلِ یمین کی بیعت نہ آگئی۔"

یہ باتیں کر کے تینوں صاحب اُٹھ گئے۔ پیچھے منصور نے ربیع کو تین توڑے درہموں کے دے کر ان تینوں اصحاب کے پاس بھیجا اور اس کو ہدایت کی کہ اگر مالک لے لیں تو ان کو دے دینا، لیکن اگر ابوحنیفہ اور ابن ابی ذئب انہیں قبول کر لیں تو ان کا سر اُتار لانا۔ امام مالک نے یہ عطیہ لے لیا۔ ابن ابی ذئب کے پاس جب ربیع پہنچا تو اُنہوں نے کہا میں اس مال کو خود منصور کے لیے بھی حلال نہیں سمجھتا، اپنے لیے کیسے حلال سمجھوں۔ ابو حنیفہ نے کہا خواہ میری گردن ہی کیوں نہ مار دی جائے میں اس مال کو ہاتھ نہ لگاؤں گا۔ منصور نے یہ روداد سن کر کہا:

"اس بے نیازی نے ان دونوں کا خون بچا دیا ہے۔"
حاشیہ: الکردری، مناقب الامام الاعظم، ج ۲، ص ۱۵ - ۱۶۔ الکردری کی اس روایت میں صرف ایک بات ایسی ہے جس کو میں اب تک نہیں سمجھ سکا ہوں، اور وہ یہ ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق اہلِ یمین کی بیعت آنے تک چھ مہینے فیصلے کرنے سے رکے رہے۔

اہلیتِ خلافت کی شرائط

امام ابوحنیفہؒ کے زمانے تک اہلیتِ خلافت کی شرطیں اُس تفصیلی طریقے سے بیان نہیں کی جاتی تھیں جس طرح بعد کے محققین، ماوردی اور ابن خلدون وغیرہ نے انہیں بیان کیا ہے۔ کیونکہ ان میں سے اکثر اس وقت گویا بلا بحث مسلم تھیں۔ مثلاً آدمی کا مسلمان ہونا، مرد ہونا، آزاد ہونا، ذی علم ہونا، سلیم الحواس اور سلیم الاعضاء ہونا۔ البتہ دو چیزیں ایسی تھیں جو اس زمانے میں زیرِ بحث آچکی تھیں اور جن کے متعلق صراحت مطلوب تھی۔ ایک یہ کہ ظالم و فاسق جائز خلیفہ ہو سکتا ہے یا نہیں۔ دوسرے یہ کہ خلافت کے لیے قرشی ہونا ضروری ہے یا نہیں۔

فاسق و ظالم کی امامت

پہلی چیز کے متعلق امام کی رائے کے دو پہلو ہیں جن کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے۔ جس زمانے میں انہوں نے اس مسئلے پر اظہار خیال فرمایا ہے، وہ عراق میں خصوصاً، اور دُنیائے اسلام میں عموماً، دو انتہا پسندانہ نظریات کی سخت کشکش کا زمانہ تھا۔ ایک طرف نہایت زور شور سے کہا جارہا تھا کہ ظالم و فاسق کی امامت قطعی ناجائز ہے اور اس کے ماتحت مسلمانوں کا کوئی اجتماعی کام بھی صحیح نہیں ہو سکتا۔ دوسری طرف کہا جارہا تھا کہ ظالم و فاسق خواہ کسی طرح بھی ملک پر قابض ہو جائے، اس کا تسلط قائم ہو جانے کے بعد اس کی امامت و خلافت پوری طرح جائز ہو جاتی ہے۔ ان دونوں کے درمیان امام اعظمؒ نے ایک نہایت متوازن نظریہ پیش کیا جس کی تفصیل یہ ہے:

الفقہ الاکبر میں وہ فرماتے ہیں:

"مومنوں میں سے ہر نیک و بد کے پیچھے نماز جائز ہے۔"

اور عقیدہ طحاویہ میں امام طحاوی اس حنفی مسلک کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

"اور حج و جہاد مسلمانوں کے اولی الامر کے ماتحت قیامت تک جاری رہیں گے خواہ وہ نیک ہوں یا بد۔ ان کاموں کو کوئی چیز باطل نہیں کرتی اور نہ ان کا سلسلہ منقطع کر سکتی ہے۔"51
حاشیہ 51: ابن ابی العز الحنفی، شرح الطحاویۃ، ص ۳۲۲۔

یہ اس مسئلے کا ایک پہلو ہے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ امام کے نزدیک خلافت کے لیے عدالت شرطِ لازم ہے۔ کوئی ظالم و فاسق آدمی جائز خلیفہ یا قاضی یا حاکم یا مفتی نہیں ہو سکتا۔ اگر وہ بن بیٹھا ہو تو اس کی امامت باطل ہے اور لوگوں پر اس کی اطاعت واجب نہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کے عملاً قابض و متصرف ہو جانے کے بعد مسلمان اس کے تحت اپنی اجتماعی زندگی کے جو کام صحیح شرعی طریقے سے انجام دیں گے وہ جائز ہوں گے اور اس کے مقرر کیے ہوئے قاضی عدل کے ساتھ جو فیصلے کریں گے وہ نافذ ہو جائیں گے۔ اس مسئلے کو مذہب حنفی کے مشہور امام ابوبکر الجصاص نے احکام القرآن میں بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

"پس جائز نہیں کہ کوئی ظالم شخص نبی ہو یا نبی کا خلیفہ، یا قاضی، یا کوئی ایسا منصب دار جس کی بنا پر امور دین میں اُس کی بات قبول کرنا لوگوں پر لازم آتا ہو مثلاً مفتی یا شاہد یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث روایت کرنے والا۔ آیت (لَا يَنَالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ)52 اِس بات پر دلالت کرتی ہے کہ دین کے معاملات میں جن لوگوں کو بھی پیشوائی کا مقام حاصل ہو ان کا عادل اور صالح ہونا شرط ہے... اس آیت سے یہ ثابت ہے کہ فاسق کی امامت باطل ہے، وہ خلیفہ نہیں ہو سکتا، اور اگر کوئی شخص اپنے آپ کو خود اس منصب پر قائم کرے، درآں حالیکہ وہ فاسق ہو، تو لوگوں پر اس کا اتباع اور اس کی اطاعت لازم نہیں۔ یہی بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی ہے کہ خالق کی معصیت میں کسی مخلوق کی اطاعت نہیں ہے۔ اور یہ آیت اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ کوئی فاسق حاکم (جج اور مجسٹریٹ) نہیں ہو سکتا، اور اگر وہ حاکم ہو جائے تو اس کے احکام نافذ نہیں ہو سکتے۔ اسی طرح اس کی نہ شہادت مقبول ہے، نہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی روایت قبول کی جا سکتی ہے، اور نہ اس کا فتویٰ مانا جا سکتا ہے اگر وہ مفتی ہو۔"51
حاشیہ 52: "میرا عہد ظالموں کو نہیں پہنچتا" (البقرہ ۱۲۴)
حاشیہ 51 (دوم): ج ۱، ص ۸۰

آگے چل کر الجصاص اس امر کی تصریح کرتے ہیں کہ یہی امام ابوحنیفہؒ کا مذہب ہے اور پھر تفصیل کے ساتھ بتاتے ہیں کہ ابوحنیفہ پر یہ کتنا بڑا ظلم ہے کہ انہیں فاسق کی امامت جائز قرار دینے کا الزام دیا جاتا ہے:

"بعض لوگوں نے یہ گمان کیا ہے کہ ابو حنیفہ کے نزدیک فاسق کی امامت و خلافت جائز ہے... یہ بات اگر قصداً جھوٹ نہیں کہی گئی ہے تو ایک غلط فہمی ہے، اور اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ ابو حنیفہ کہتے ہیں، اور صرف ابو حنیفہ ہی نہیں، فقہائے عراق میں سے جن جن لوگوں کے اقوال معروف ہیں وہ سب یہی کہتے ہیں کہ قاضی اگر خود عادل ہو تو خواہ وہ کسی ظالم امام ہی کا مقرر کیا ہوا ہو، اس کے فیصلے صحیح طور پر نافذ ہو جائیں گے۔ اور نماز ان فاسق اماموں کے پیچھے بھی، ان کے فسق کے با وجود جائز ہوگی۔ یہ مسلک اپنی جگہ بالکل صحیح ہے۔ مگر اس سے یہ استدلال نہیں کیا جا سکتا کہ ابو حنیفہ فاسق کی امامت کو جائز ٹھیراتے ہیں۔"52
حاشیہ 52: احکام القرآن، ج ۱، ص ۸۰-۸۱۔ شمس الائمہ سرخسی نے المبسوط میں بھی امام ابوحنیفہ کا یہی مسلک بیان کیا ہے۔ ج ۱۰، ص ۱۳۰۔

امام ذہبی اور الموفق المکی، دونوں امام ابو حنیفہ کا یہ قول نقل کرتے ہیں:

"جو امام بے دینی سے پبلک کے خزانے کا ناجائز استعمال کرے، یا حکم میں ظلم سے کام لے اُس کی امامت باطل ہے اور اس کا حکم جائز نہیں ہے۔"53
حاشیہ 53: الذہبی، مناقب الامام ابی حنیفۃ وصاحبیہ، صفحہ ۱۷۔ المکی، مناقب الامام الاعظم ابی حنیفۃ، جلد ۲، صفحہ ۱۰۰۔

ان بیانات پر غور کرنے سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ امام ابو حنیفہ خوارج اور معتزلہ کے برعکس، بالحق (dejure) اور بالفعل (defacto)، میں فرق کرتے ہیں۔ خوارج و معتزلہ کے مسلک سے لازم آتا تھا کہ اگر امام عادل و صالح، یعنی امام بالحق موجود نہ ہو تو مسلم معاشرے اور ریاست کا پورا نظام معطل ہو جائے۔ نہ حج ہو سکے، نہ جمعہ و جماعت ہو، نہ عدالتیں قائم ہوں، نہ مسلمانوں کا کوئی مذہبی کام یا سیاسی و معاشرتی کام جائز طور پر انجام پائے۔ امام ابو حنیفہ اس غلطی کی اصلاح یوں کرتے ہیں کہ بالحق امام اگر میسر نہ ہو تو بالفعل جو بھی مسلمانوں کا امام ہو اس کے ماتحت مسلمانوں کی پوری اجتماعی زندگی کا نظام جائز طور پر چلتا رہے گا، خواہ بجائے خود اس امام کی امامت جائز نہ ہو۔

معتزلہ و خوارج کی اس انتہا پسندی کے مقابلہ میں جو دوسری انتہا مرجئہ، اور خود اہلِ سنت کے بعض ائمہ نے اختیار کی تھی، امام ابو حنیفہ نے مسلمانوں کو اُس سے اور اس کے نتائج سے بھی بچایا ہے۔ وہ لوگ بھی بالفعل اور بالحق کے درمیان خلط ملط کر گئے تھے، اور انہوں نے فاسق کی بالفعل امامت کو اس انداز سے جائز ٹھیرایا تھا کہ گویا وہی بالحق بھی ہے۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہونا تھا کہ مسلمان ظالم و جابر اور بدکردار فرمانرواؤں کی حکومت پر مطمئن ہو کر بیٹھ جائیں، اور اُسے بدلنے کی کوشش تو درکنار، اس کی فکر تک چھوڑ دیں۔ امام ابو حنیفہ نے اس غلط خیال کی اصلاح کے لیے پورے زور سے اس حقیقت کا اعلان و اظہار کیا کہ ایسے لوگوں کی امامت قطعاً باطل ہے۔

خلافت کے لیے قرشیت کی شرط

دوسرے مسئلے کے بارے میں امام ابو حنیفہؒ کی رائے یہ تھی کہ خلیفہ قریش ہی میں سے ہونا چاہیے۔ اور یہ صرف انہی کی نہیں، تمام اہلِ سنت کی متفق علیہ رائے تھی۔ اس کی وجہ یہ نہ تھی کہ اسلامی خلافت از روئے شریعت صرف ایک قبیلے کا دستوری حق تھی، بلکہ اس کی اصل وجہ اُس وقت کے حالات تھے جن میں مسلمانوں کو مجتمع رکھنے کے لیے خلیفہ کا قرشی ہونا ضروری تھا۔ ابن خلدون نے یہ بات بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کی ہے کہ اس وقت اسلامی ریاست کی اصل پشت پناہ عرب تھے، اور عربوں کا زیادہ سے زیادہ اتفاق اگر ممکن تھا تو قریش ہی کی خلافت پر۔ دوسرے کسی گروہ کا آدمی لینے کی صورت میں تنازع اور افتراق کے امکانات اتنے زیادہ تھے کہ خلافت کے نظام کو اس خطرے میں ڈالنا مناسب نہ تھا۔ اسی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت کی تھی کہ امام قریش میں سے ہوں "ورنہ اگر یہ منصب غیر قریشی کے لیے شرعاً ممنوع ہوتا تو حضرت عمرؓ اپنی وفات کے وقت یہ نہ کہتے کہ اگر حذیفہ کے آزاد کردہ غلام سالم زندہ ہوتے تو میں ان کو اپنا جانشین تجویز کرتا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی قریش میں خلافت رکھنے کی ہدایت دیتے ہوئے یہ بات واضح کر دی تھی کہ یہ منصب ان کے اندر اس وقت تک رہے گا جب تک ان میں مخصوص صفات باقی رہیں گی۔ اس سے خود بخود یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ان صفات کے فقدان کی صورت میں خلافت غیر قریش کے لیے بھی ہو سکتی ہے۔ یہی اصل فرق ہے امام ابو حنیفہ اور جمیع اہلِ السنت کے مسلک اور ان خوارج و معتزلہ کے مسلک میں جو مطلقاً غیر قریشی کے لیے خلافت کا جواز ثابت کرتے تھے بلکہ ایک قدم آگے بڑھ کر غیر قریشی کو خلافت کا زیادہ حقدار قرار دیتے تھے۔ ان کی نگاہ میں اصل اہمیت جمہوریت کی تھی خواہ اُس کا نتیجہ انتشار ہی کیوں نہ ہو۔ مگر اہلِ السنت والجماعت کو جمہوریت کے ساتھ ریاست کے استحکام کی بھی فکر تھی۔


امام ابو حنیفہؒ کے سیاسی نظریات

1. بیت المال

اپنے وقت کے خلفاء کی جن باتوں پر امام سب سے زیادہ معترض تھے ان میں سے ایک سرکاری خزانے پر اُن کے بے جا تصرفات اور لوگوں کی املاک پر اُن کی دست درازیاں تھیں۔ ان کے نزدیک حکم میں جور اور بیت المال میں غلول (خیانت) ایک امام کی امامت کو باطل کر دینے والے افعال تھے جیسا کہ ہم اوپر الذہبی کے حوالے سے نقل کر چکے ہیں۔ وہ اس کو بھی جائز نہ رکھتے تھے کہ بیرونی ممالک سے جو ہدیے اور تحفے خلیفہ کے پاس آئیں ان کو وہ اپنی ذاتی ملک بنائے۔ اُن کے نزدیک یہ چیزیں پبلک کے خزانے کا حق تھیں نہ کہ خلیفہ اور اس کے خاندان کا، کیونکہ وہ اگر مسلمانوں کا خلیفہ نہ ہوتا اور بین الاقوامی دنیا میں ان کی اجتماعی قوت و سعی کی بدولت اس کی دھاک قائم نہ ہوئی ہوتی تو کوئی اُس شخص کو گھر بیٹھے ہدیے نہ بھیجتا۔ وہ بیت المال سے خلیفہ کے بے جا مصارف اور عطیات پر بھی معترض تھے، اور یہ ان وجوہ میں سے ایک بڑی وجہ تھی جن کی بنا پر وہ خود خُلفاء کے عطیے قبول نہ کرتے تھے۔

جس زمانہ میں ان کے اور خلیفہ منصور کے درمیان سخت کشمکش چل رہی تھی، منصور نے ان سے کہا تم میرے ہدیے کیوں نہیں قبول کرتے؟ انہوں نے جواب دیا "امیر المومنین نے اپنے مال میں سے مجھے کب دیا تھا کہ میں نے اُسے رد کیا ہو۔ اگر آپ اس میں سے دیتے تو میں ضرور قبول کر لیتا۔ آپ نے تو مسلمانوں کے بیت المال سے مجھے دیا، حالانکہ ان کے مال میں میرا کوئی حق نہیں ہے۔ میں نہ ان کے دفاع کے لیے لڑنے والا ہوں کہ ایک سپاہی کا حصہ پاؤں، نہ ان کے بچوں میں سے ہوں کہ بچوں کا حصہ مجھے ملے، اور نہ فقراء میں سے ہوں کہ جو کچھ فقیر کو ملنا چاہیے وہ مجھے ملے۔“

پھر جب المنصور نے عہدہ قضا قبول نہ کرنے پر انہیں ۳۰ کوڑے مارے اور ان کا سارا بدن لہولہان ہوگیا تو خلیفہ کے چچا عبد الصمد بن علی نے اُس کو سخت ملامت کی کہ ”یہ تم نے کیا کیا، اپنے اوپر ایک لاکھ تلواریں کھچوا لیں، یہ عراق کا فقیہ ہے، بلکہ یہ تمام اہلِ مشرق کا فقیہ ہے!“ منصور نے اس پر نادم ہو کر فی تازیانہ ایک ہزار درہم کے حساب سے ۳۰ ہزار درہم امام کو بھجوائے۔ لیکن اُنہوں نے لینے سے انکار کر دیا۔ کہا گیا کہ لے کر خیرات کر دیجیے۔ جواب میں فرمایا "کیا ان کے پاس کوئی مال حلال بھی ہے؟"

اسی کے قریب زمانے میں جب پے در پے تکلیفیں سہتے سہتے ان کا آخر وقت آگیا تو انہوں نے وصیت کی کہ بغداد کے اُس حصے میں اُنہیں دفن نہ کیا جائے جسے شہر بسانے کے لیے منصور نے لوگوں کی املاک میں سے غصب کر لیا تھا۔ منصور نے اس وصیت کا حال سنا تو چیخ اُٹھا کہ "ابو حنیفہ، زندگی اور موت میں تیری پکڑ سے کون مجھے بچائے۔"

2. عدلیہ کی انتظامیہ سے آزادی

عدلیہ کے متعلق ان کی قطعی رائے یہ تھی کہ اسے انصاف کرنے کے لیے انتظامیہ کے دباؤ اور مداخلت سے نہ صرف آزاد ہونا چاہیے بلکہ قاضی کو اس قابل ہونا چاہیے کہ خود خلیفہ بھی اگر لوگوں کے حقوق پر دست درازی کرے تو وہ اس پر اپنا حکم نافذ کر سکے۔ چنانچہ اپنی زندگی کے آخری زمانے میں جب کہ امام کو یقین ہو گیا تھا کہ حکومت ان کو زندہ نہ رہنے دے گی، انہوں نے اپنے شاگردوں کو جمع کرکے ایک تقریر کی اور اس میں منجملہ دوسری اہم باتوں کے ایک بات یہ بھی فرمائی کہ:

"اگر خلیفہ کوئی ایسا جرم کرے جو انسانی حقوق سے متعلق ہو تو مرتبے میں اُس سے قریب ترین قاضی (یعنی قاضی القضاۃ) کو اس پر حکم نافذ کرنا چاہیے۔"51
حاشیہ 51: المکی، ج ۲، ص ۱۰۰۔

بنی امیہ اور بنی عباس کے زمانہ میں حکومت کے مناصب، اور خصوصاً قضا کا عہدہ قبول کرنے سے ان کے انکار کی سب سے بڑی وجہ یہی تھی کہ وہ ان دونوں حکومتوں میں قضاء کی یہ حیثیت نہ پاتے تھے۔ صرف یہی نہیں کہ خلیفہ پر قانون کا حکم نافذ کرنے کی وہاں کوئی گنجائش نہ تھی، بلکہ انہیں اندیشہ تھا کہ انہیں آلہِ ظلم بنایا جائے گا، ان سے غلط فیصلے کرائے جائیں گے اور ان کے فیصلوں میں نہ صرف خلیفہ بلکہ اس کے قصر سے تعلق رکھنے والے دوسرے لوگ بھی مداخلت کریں گے۔

سب سے پہلے بنی امیہ کے عہد میں عراق کے گورنر یزید بن عمر بن ہبیرہ نے ان کو منصب قبول کرنے پر مجبور کیا۔ یہ سنہ ۱۲۹ھ کا زمانہ تھا جب کہ عراق میں اموی سلطنت کے خلاف فتنوں کے وہ طوفان اُٹھ رہے تھے جنھوں نے دو سال کے اندر امویوں کا تختہ اُلٹ دیا۔ اس موقع پر ابن ہبیرہ چاہتا تھا کہ بڑے بڑے فقہاء کو ساتھ ملا کر ان کے اثر سے فائدہ اُٹھائے۔ چنانچہ اس نے ابن ابی لیلیٰ، داؤد بن ابی الہند، ابن شبرمہ وغیرہ کو بلا کر اہم مناصب دیئے۔ پھر ابوحنیفہ کو بلا کر کہا کہ میں آپ کے ہاتھ میں اپنی مہر دیتا ہوں، کوئی حکم نافذ نہ ہوگا جب تک کہ آپ اُس پر مہر نہ لگائیں اور کوئی مال خزانے سے نہ نکلے گا جب تک آپ اس کی توثیق نہ کریں۔ امام نے یہ ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کیا تو اس نے انہیں قید کر دیا اور کوڑے لگوانے کی دھمکی دی۔ دوسرے فقہاء نے امام کو سمجھایا کہ اپنے اوپر رحم کرو، ہم سب اس خدمت سے ناخوش ہیں مگر مجبوراً اسے قبول کیا ہے، تم بھی مان لو۔ امام نے جواب دیا ”اگر وہ مجھ سے چاہے کہ اس کے لیے واسط کی مسجد کے دروازے گنوں تب بھی میں قبول نہ کروں گا، کجا کہ وہ چاہتا ہے کہ وہ کسی آدمی کے قتل کا حکم لکھے اور میں اس پر مہر لگاؤں۔ خدا کی قسم، میں اس ذمہ داری میں شریک نہ ہوں گا۔" اس سلسلے میں ابن ہبیرہ نے ان کے سامنے اور خدمات پیش کیں اور وہ انکار کرتے رہے۔ پھر اس نے ان کو قاضی کوفہ بنانے کا فیصلہ کیا اور اس پر قسم کھائی کہ ابو حنیفہ انکار کریں گے تو میں انہیں کوڑے لگواؤں گا۔ ابو حنیفہ نے بھی جواب میں قسم کھائی اور کہا "دنیا میں اس کے کوڑے کھا لینا میرے لیے آخرت کی سزا بھگتنے سے زیادہ سہل ہے، خدا کی قسم میں ہرگز قبول نہ کروں گا، خواہ وہ مجھے قتل ہی کردے۔" آخر کار اس نے ان کے سر پر ۲۰ یا ۳۰ کوڑے لگوائے۔ بعض روایات یہ ہیں کہ دس گیارہ روز تک وہ روزانہ دس کوڑے لگواتا رہا۔ مگر ابو حنیفہ اپنے انکار پر قائم رہے۔ آخر کار اسے اطلاع دی گئی کہ یہ شخص مر جائے گا۔ اس نے کہا کیا کوئی ناصح نہیں ہے جو اس شخص کو سمجھائے کہ مجھ سے مہلت ہی مانگ لے۔ امام ابوحنیفہ کو ابن ہبیرہ کی یہ بات پہنچائی گئی تو انہوں نے کہا مجھے چھوڑ دو کہ میں اپنے دوستوں سے اس معاملہ میں مشورہ کرلوں۔ ابن ہبیرہ نے یہ پیغام ملتے ہی انہیں چھوڑ دیا اور وہ کوفہ چھوڑ کر مکہ چلے گئے جہاں سے بنی امیہ کی سلطنت ختم ہونے تک وہ پھر نہ پلٹے۔

اس کے بعد عباسی عہد میں المنصور نے ان پر عہدہِ قضا کے لیے اصرار شروع کیا۔ جیسا کہ آگے چل کر ہم بتائیں گے، منصور کے خلاف نفس زکیہ اور ان کے بھائی ابراہیم کے خروج میں امام نے کھلم کھلا ان کا ساتھ دیا تھا، جس کی وجہ سے منصور کے دل میں ان کے خلاف گرہ بیٹھی ہوئی تھی۔ الذہبی کے الفاظ میں وہ ان کے خلاف غصے میں آگ کے بغیر جلا جا رہا تھا۔ مگر ان جیسے بااثر آدمی پر ہاتھ ڈالنا اس کے لیے آسان نہ تھا۔ اسے معلوم تھا کہ ایک امام حسین کے قتل نے بنی امیہ کے خلاف مسلمانوں میں کتنی نفرت پیدا کر دی تھی اور اس کی بدولت ان کا اقتدار کس آسانی سے اکھاڑ پھینکا گیا۔ اس لیے وہ انہیں مارنے کے بجائے سونے کی زنجیروں سے باندھ کر اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا زیادہ بہتر سمجھتا تھا۔ اس نے ان کے سامنے بار بار قضا کا منصب اسی نیت سے پیش کیا، یہاں تک کہ انہیں سلطنتِ عباسیہ کا قاضی القضاۃ مقرر کرنے کی پیش کش کی۔ مگر وہ ایک مدت تک طرح طرح کے حیلوں سے اس کو ٹالتے رہے۔ آخر کار جب وہ بہت زیادہ مصر ہوا تو امام نے صاف صاف اپنے انکار کے وجوہ بتائے۔ ایک مرتبہ کی گفتگو میں انہوں نے بڑے نرم انداز میں معذرت کرتے ہوئے کہا "قضاء کے لیے میں موزوں ہو سکتا ہوں مگر وہ شخص جو اتنی جان رکھتا ہو کہ آپ پر اور آپ کے شاہزادوں اور سپہ سالاروں پر قانون نافذ کر سکے۔ مجھ میں یہ جان نہیں ہے۔ مجھے تو جب آپ بلاتے ہیں تو واپس نکل کر ہی میری جان میں جان آتی ہے۔“ ایک اور موقع پر زیادہ سخت گفتگو ہوئی جس میں اُنہوں نے خلیفہ کو مخاطب کرکے کہا "خدا کی قسم میں تو اگر رضا مندی سے بھی یہ عہدہ قبول کروں تو آپ کے بھروسے کے لائق نہیں ہوں، کجا کہ ناراضی کے ساتھ مجبوراً قبول کروں۔ اگر کسی معاملہ میں میرا فیصلہ آپ کے خلاف ہوا اور پھر آپ نے مجھے دھمکی دی کہ یا تو میں تجھے فرات میں غرق کردوں گا ورنہ اپنا فیصلہ بدل دے، تو میں غرق ہو جانا قبول کرلوں گا مگر فیصلہ نہ بدلوں گا۔ پھر آپ کے بہت سے اہلِ دربار بھی ہیں، انہیں تو کوئی ایسا قاضی چاہیے جو آپ کی خاطر ان کا بھی لحاظ کرے۔" ان باتوں سے جب منصور کو یقین ہو گیا کہ یہ شخص اس سنہری پنجرے میں بند ہونے کے لیے تیار نہیں ہے تو وہ عریاں انتقام پر اُتر آیا۔ انہیں کوڑوں سے پٹوایا، جیل میں ڈال کر کھانے پینے کی سخت تکلیفیں دیں، پھر ایک مکان میں نظر بند کر دیا جہاں بقول بعض طبعی موت سے اور بقول بعض زہر سے ان کی زندگی کا خاتمہ ہو گیا۔

3. آزادیٔ اظہارِ رائے کا حق

امام کے نزدیک مسلم معاشرے اور اسلامی ریاست میں قضاء کی آزادی کے ساتھ آزادیٔ اظہارِ رائے کی بھی بہت بڑی اہمیت تھی، جس کے لیے قرآن وسنت میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے۔ محض ”اظہارِ رائے" تو نہایت ناروا بھی ہو سکتا ہے، فتنہ انگیز بھی ہو سکتا ہے، اخلاق اور دیانت اور انسانیت کے خلاف بھی ہو سکتا ہے، جسے کوئی قانون برداشت نہیں کر سکتا۔ لیکن برائیوں سے روکنا اور بھلائی کے لیے کہنا ایک صحیح اظہارِ رائے ہے اور اسلام یہ اصطلاح اختیار کر کے اظہارِ آراء کی تمام صورتوں میں سے اسی کو مخصوص طور پر عوام کا نہ صرف حق قرار دیتا ہے بلکہ اسے ان کا فرض بھی ٹھیراتا ہے۔ امام ابوحنیفہ کو اس حق اور اس فرض کی اہمیت کا سخت احساس تھا کیونکہ ان کے زمانے کے سیاسی نظام میں مسلمانوں کا یہ حق سلب کر لیا گیا تھا اور اس کی فرضیت کے معاملے میں بھی لوگ مذبذب ہو گئے تھے۔ اُس زمانے میں ایک طرف مرجئہ اپنے عقائد کی تبلیغ سے لوگوں کو گناہ پر جرات دلا رہے تھے، دوسری طرف حشویہ اس بات کے قائل تھے کہ حکومت کے مقابلے میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر ایک فتنہ ہے، اور تیسری طرف بنی امیہ و بنی عباس کی حکومتیں طاقت سے مسلمانوں کی اس روح کو کچل رہی تھیں کہ وہ اُمراء کے فسق و فجور اور ظلم وجور کے خلاف آواز اُٹھائیں۔ اس لیے امام ابوحنیفہ نے اپنے قول اور عمل دونوں سے اس روح کو زندہ کرنے کی اور اس کے حدود واضح کرنے کی کوشش کی۔

الجصاص کا بیان ہے کہ ابراہیم الصائغ (خراسان کے ایک مشہور و با اثر فقیہ) کے سوال پر امام نے فرمایا کہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر فرض ہے، اور ان کو عکرمۃ عن ابن عباس کی سند سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد سنایا کہ افضل الشہداء ایک تو حمزہ بن عبد المطلب ہیں، دوسرے وہ شخص جو ظالم امام کے سامنے اُٹھ کر اسے نیک بات کہے اور بدی سے روکے اور اس قصور میں مارا جائے۔ یہ ابراہیم پر امام کی اس تلقین کا اتنا زبردست اثر پڑا کہ وہ جب خُراسان واپس گئے تو اُنہوں نے عباسی سلطنت کے بانی ابومسلم خراسانی (م ۱۳۷ھ - ۷۵۴ء) کو اس کے ظلم و ستم اور ناحق کی خونریزی پر برملا ٹوکا اور بار بار ٹوکا، یہاں تک کہ آخر کار اس نے انہیں قتل کر دیا۔

ابراہیم بن عبداللہ (نفس زکیہ کے بھائی) کے خروج (۱۴۵ھ - ۷۶۳ء) کے زمانے میں امام ابو حنیفہ کا اپنا طرز عمل یہ تھا کہ وہ علانیہ ان کی حمایت اور المنصور کی مخالفت کرتے تھے حالانکہ المنصور اس وقت کوفہ ہی میں موجود تھا، ابراہیم کی فوج بصرے سے کوفے کی طرف بڑھ رہی تھی اور شہر میں رات بھر کرفیو رہتا تھا۔ ان کے مشہور شاگرد زفر بن الھذیل کی روایت ہے کہ اس نازک زمانے میں ابو حنیفہؒ بڑے زور شور سے کھلم کھلا اپنے خیالات کا اظہار کرتے تھے یہاں تک کہ ایک روز میں نے ان سے کہا "آپ باز نہ آئیں گے جب تک ہم سب کی گردنوں میں رسی نہ بندھ جائے۔"

۱۴۸ھ، ۷۶۵ء میں اہلِ موصل نے بغاوت کی۔ منصور اس سے پہلے ایک بغاوت کے بعد ان سے یہ عہد لے چکا تھا کہ آئندہ اگر وہ بغاوت کریں گے تو ان کے خون اور مال اس پر حلال ہوں گے۔ اب جو انہوں نے خروج کیا تو منصور نے بڑے بڑے فقہاء کو جن میں ابو حنیفہ بھی شامل تھے، بلا کر پوچھا کہ معاہدے کی رُو سے ان کے خون اور مال مجھ پر حلال ہو گئے ہیں یا نہیں؟ دوسرے فقہاء نے معاہدے کا سہارا لیا اور کہا کہ آپ انہیں معاف کر دیں تو یہ آپ کی شان کے مطابق ہے ورنہ جو سزا بھی آپ انہیں دینا چاہیں دے سکتے ہیں۔ ابو حنیفہ خاموش تھے۔ منصور نے کہا، یا شیخ، آپ کیا کہتے ہیں؟ اُنھوں نے جواب دیا "اہلِ موصل نے آپ کے لیے وہ چیز مباح کی جو ان کی اپنی نہ تھی (یعنی ان کے خون) اور آپ نے ان سے وہ شرط منوائی جسے آپ منوانے کا حق نہ رکھتے تھے۔ بتائیے، اگر کوئی عورت اپنے آپ کو نکاح کے بغیر کسی کے لیے حلال کر دے تو کیا وہ حلال ہو جائے گی؟ اگر کوئی شخص کسی سے کہے کہ مجھے قتل کردے تو کیا اس کا قتل اس شخص کے لیے مباح ہوگا؟" منصور نے کہا "نہیں۔" امام نے کہا "تو آپ اہلِ موصل سے ہاتھ روک لیجئے۔ ان کا خون بہانا آپ کے لیے حلال نہیں ہے۔" یہ بات سن کر منصور نے ناراضی کے ساتھ فقہاء کی مجلس برخاست کردی۔ پھر ابو حنیفہ کو الگ بلا کر کہا "بات تو وہی صحیح ہے جو تم نے کہی، مگر تم ایسے فتوے نہ دیا کرو جن سے تمہارے امام پر حرف آئے اور باغیوں کی ہمت افزائی ہو۔"

اسی آزادیٔ اظہارِ رائے کا استعمال وہ عدالتوں کے مقابلے میں بھی کرتے تھے۔ کسی عدالت سے اگر کوئی غلط فیصلہ ہوتا تو قانون یا ضابطے کی جو غلطی بھی اس میں ہوتی، امام ابوحنیفہ اس کا صاف صاف اظہار کر دیتے تھے۔ ان کے نزدیک احترامِ عدالت کے معنی یہ نہ تھے کہ عدالتوں کو غلط فیصلے کرنے دیئے جائیں۔ اس قصور میں ایک دفعہ مدت تک انہیں فتویٰ دینے سے بھی روک دیا گیا تھا۔

آزادیٔ رائے کے معاملے میں وہ اس حد تک جاتے ہیں کہ جائز امامت اور اس کی عادل حکومت کے خلاف بھی اگر کوئی شخص زبان کھولے اور امامِ وقت کو گالیاں دے، یا اسے قتل تک کرنے کا خیال ظاہر کرے تو اس کو قید کرنا اور سزا دینا ان کے نزدیک جائز نہیں، تا وقتیکہ وہ مسلح بغاوت یا بدامنی برپا کرنے کا عزم نہ کرے۔ اس کے لیے وہ حضرت علیؓ کے اس واقعہ سے استدلال کرتے ہیں کہ ان کے زمانہِ خلافت میں پانچ آدمی اس الزام میں گرفتار کر کے لائے گئے کہ وہ امیر المومنین کو کوفہ میں علانیہ گالیاں دے رہے تھے اور ان میں سے ایک شخص کہہ رہا تھا کہ میں اُنہیں قتل کر دوں گا۔ حضرت علیؓ نے انہیں رہا کر دینے کا حکم دیا۔ کہا گیا کہ یہ تو آپ کو قتل کرنے کا ارادہ ظاہر کر رہا تھا۔ حضرت علیؓ نے فرمایا "تو کیا بس یہ ارادہ ظاہر کرنے پر میں اُسے قتل کر دوں؟" کہا گیا "اور یہ لوگ آپ کو گالیاں دے رہے تھے۔" فرمایا "تم چاہو تو تم بھی انہیں گالیاں دے سکتے ہو۔" اسی طرح وہ مخالفینِ حکومت کے معاملے میں حضرت علیؓ کے اُس اعلان سے بھی استدلال کرتے ہیں جو اُنہوں نے خوارج کے بارے میں کیا تھا کہ "ہم تم کو مسجدوں میں آنے سے نہیں روکیں گے। ہم تمھیں مفتوحہ اموال کے حصے سے محروم نہ کریں گے جب تک تم ہمارے خلاف کوئی مسلح کارروائی نہ کرو۔"

4. ظالم حکومت کے خلاف خروج کا مسئلہ

اس زمانہ میں ایک اہم مسئلہ یہ تھا کہ اگر مسلمانوں کا امام ظالم و فاسق ہو تو آیا اس کے خلاف خروج (Revolt) کیا جا سکتا ہے یا نہیں۔ اس مسئلے میں خود اہلِ السنت کے درمیان اختلاف ہے۔ اہلِ حدیث کا بڑا گروہ اس بات کا قائل رہا ہے کہ صرف زبان سے اس کے ظلم کے خلاف آواز اٹھائی جائے اور اس کے سامنے کلمہ حق کہا جائے، لیکن خروج نہ کیا جائے اگر چہ وہ ناحق خوں ریزی کرے، لوگوں کے حقوق پر بے جا دست درازیاں کرے اور کھلم کھلا فسق کا مرتکب ہو۔ لیکن امام ابو حنیفہ کا مسلک یہ تھا کہ ظالم کی امامت نہ صرف یہ کہ باطل ہے، بلکہ اس کے خلاف خروج بھی کیا جا سکتا ہے اور کیا جانا چاہیے، بشرطیکہ ایک کامیاب اور مفید انقلاب ممکن ہو، ظالم و فاسق کی جگہ عادل و صالح کو لایا جا سکتا ہو، اور خروج کا نتیجہ محض جانوں اور قوتوں کا ضیاع نہ ہو۔ ابو بکر الجصاص ان کے اس مسلک کی تشریح اس طرح کرتے ہیں:

"ظالموں اور ائمہ جور کے خلاف قتال کے معاملہ میں اُن کا مذہب مشہور ہے۔ اسی بنا پر اوزاعی نے کہا تھا کہ ہم نے ابو حنیفہ کی ہر بات برداشت کی یہاں تک کہ وہ تلوار کے ساتھ آگئے (یعنی ظالموں کے خلاف قتال کے قائل ہو گئے) اور یہ ہمارے لیے ناقابلِ برداشت تھا۔ ابو حنیفہ کہتے تھے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ابتداء زبان سے فرض ہے، لیکن اگر سیدھی راہ اختیار نہ کی جائے تو پھر تلوار سے واجب ہے۔"51
حاشیہ 51: احکام القرآن، ج ۲، ص ۳۹۔

دوسری جگہ وہ عبداللہ بن المبارک کے حوالہ سے خود امام ابو حنیفہ کا ایک بیان نقل کرتے ہیں۔ یہ اُس زمانے کی بات ہے جب پہلے عباسی خلیفہ کے زمانے میں ابو مسلم خراسانی نے ظلم و ستم کی حد کر رکھی تھی۔ اس زمانے میں خراسان کے فقیہ ابراہیم الصائغ امام کے پاس آئے اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے مسئلے پر ان سے گفتگو کی۔ اس گفتگو کا ذکر بعد میں خود امام نے عبداللہ بن المبارک سے اس طرح کیا:

"ہمارے درمیان جب اس امر پر اتفاق ہو گیا کہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر فرض ہے تو ابراہیم نے یکا یک کہا ہاتھ بڑھائیے تاکہ میں آپ سے بیعت کروں۔ یہ سن کر دنیا میری نگاہوں میں تاریک ہو گئی (ابن مبارک کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یہ کیوں؟ بولے، اس نے مجھے اللہ کے ایک حق کی طرف دعوت دی اور میں نے اُس کو قبول کرنے سے انکار کیا۔ آخر میں نے اس سے کہا اگر ایک اکیلا آدمی اس کے لیے اُٹھ کھڑا ہو تو مارا جائے گا اور لوگوں کا کوئی کام بھی نہ بنے گا۔ البتہ اگر اسے صالح مدد گار مل جائیں اور ایک آدمی سرداری کے لیے ایسا بہم پہنچ جائے جو اللہ کے دین کے معاملے میں بھروسے کے لائق ہو تو پھر کوئی چیز مانع نہیں ہے۔ اس کے بعد ابراہیم جب بھی میرے پاس آتے مجھ پر اس کام کے لیے ایسا تقاضا کرتے جیسے کوئی سخت قرض خواہ کرتا ہے۔ میں ان سے کہتا کہ یہ کام ایک آدمی کے بنانے سے نہیں بن سکتا۔ انبیاء بھی اس کی طاقت نہ رکھتے تھے جب تک کہ آسمان سے اس کے لیے مامور نہ کیے گئے۔ یہ فریضہ عام فرائض کی طرح نہیں ہے۔ عام فرائض کو ایک آدمی تنہا بھی انجام دے سکتا ہے۔ مگر یہ ایسا کام ہے کہ اکیلا آدمی اس کے لیے کھڑا ہو جائے تو اپنی جان دے دیگا اور مجھے اندیشہ ہے کہ وہ اپنے قتل میں اعانت کا قصور وار ہو گا۔ پھر جب وہ مارا جائے گا تو دوسروں کی ہمتیں بھی اس خطرے کو انگیز کرنے میں پست ہو جائیں گی۔"

خروج کے معاملے میں امام کا اپنا طرزِ عمل

اس سے امام کی اُصولی رائے تو اس مسئلے میں صاف معلوم ہو جاتی ہے۔ لیکن اُن کا پورا نقطہ نظر اُس وقت تک سمجھ میں نہیں آسکتا جب تک ہم یہ نہ دیکھیں کہ اُن کے زمانے میں خروج کے جو اہم واقعات پیش آئے اُن میں کیا طرزِ عمل اُنہوں نے اختیار کیا۔

زید بن علی کا خروج

پہلا واقعہ زید بن علی کا ہے جن کی طرف شیعوں کا فرقہ زیدیہ اپنے آپ کو منسوب کرتا ہے۔ یہ امام حسین کے پوتے امام محمد الباقر کے بھائی تھے۔ اپنے وقت کے بڑے جلیل القدر عالم، فقیہ اور متقی و صالح بزرگ تھے۔ اور خود امام ابو حنیفہ نے بھی ان سے علمی استفادہ کیا تھا۔ ۱۲۰ھ - ۷۳۸ء میں جب ہشام بن عبد الملک نے خالد بن عبد اللہ القسری کو عراق کی گورنری سے معزول کر کے اس کے خلاف تحقیقات کرائیں تو اِس سلسلے میں گواہی کے لیے حضرت زید کو بھی مدینے سے کوفے بلایا گیا۔ ایک مدت کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ خاندانِ علی کا ایک ممتاز فرد کوفہ آیا تھا۔ یہ شہر شیعانِ علی کا گڑھ تھا۔ اس لیے ان کے آنے سے یک لخت علوی تحریک میں جان پڑ گئی اور لوگ کثرت سے اُن کے گرد جمع ہونے لگے۔ ویسے بھی عراق کے باشندے سالہا سال سے بنی امیہ کے ظلم و ستم سہتے سہتے تنگ آچکے تھے اور اُٹھنے کے لیے سہارا چاہتے تھے۔ علوی خاندان کی ایک صالح، عالم، فقیہ شخصیت کا میسر آجانا انہیں غنیمت محسوس ہوا۔ ان لوگوں نے زید کو یقین دلایا کہ کوفہ میں ایک لاکھ آدمی آپ کا ساتھ دینے کے لیے تیار ہیں اور ۱۵ ہزار آدمیوں نے بیعت کر کے باقاعدہ اپنے نام بھی ان کے رجسٹر میں درج کرا دیئے۔ اس اثنا میں کہ خروج کی یہ تیاریاں اندر ہی اندر ہو رہی تھیں، اُموی گورنر کو ان کی اطلاع پہنچ گئی۔ زید نے یہ دیکھ کر کہ حکومت خبردار ہو گئی ہے، صفر ۱۲۲ ھ، ۷۴۰ء میں قبل از وقت خروج کر دیا۔ جب تصادم کا موقع آیا تو کوفہ کے شیعان علی ان کا ساتھ چھوڑ گئے۔ جنگ کے وقت صرف ۲۱۸ آدمی ان کے ساتھ تھے۔ دورانِ جنگ میں اچانک ایک تیر سے وہ گھائل ہوئے اور ان کی زندگی کا خاتمہ ہو گیا۔

اِس خروج میں امام ابو حنیفہؒ کی پوری ہمدردی ان کے ساتھ تھی۔ اُنہوں نے زید کو مالی مدد بھی دی اور لوگوں کو ان کا ساتھ دینے کی تلقین بھی کی۔ انہوں نے ان کے خروج کو جنگِ بدر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خروج سے تشبیہ دی، جس کے معنی یہ ہیں کہ ان کے نزدیک جس طرح اُس وقت آنحضرت کا حق پر ہونا غیر مشتبہ تھا اسی طرح اس خروج میں زید بن علی کا بھی حق پر ہونا غیر مشتبہ تھا۔ لیکن جب زید کا پیغام ان کے نام آیا کہ آپ میرا ساتھ دیں تو انہوں نے قاصد سے کہا کہ ”اگر میں یہ جانتا کہ لوگ ان کا ساتھ نہ چھوڑیں گے اور پکے دل سے ان کی حمایت میں کھڑے ہوں گے تو میں ضرور ان کے ساتھ ہوتا اور جہاد کرتا کیونکہ وہ امامِ حق ہیں، لیکن مجھے اندیشہ ہے کہ یہ لوگ اُسی طرح ان سے بے وفائی کریں گے جس طرح ان کے دادا (سیدنا حسین) سے کر چکے ہیں۔ البتہ میں روپے سے ان کی مدد ضرور کروں گا۔" یہ بات ٹھیک اُس مسلک کے مطابق تھی جو ائمہ جور کے خلاف خروج کے معاملے میں امام نے اصولاً بیان کیا تھا۔ وہ کوفہ کے شیعانِ علی کی تاریخ اور ان کے نفسیات سے واقف تھے۔ حضرت علیؓ کے زمانے سے یہ لوگ جس سیرت و کردار کا مسلسل اظہار کرتے رہے تھے اُس کی پوری تاریخ سب کے سامنے تھی۔ داؤد بن علی (ابن عباس کے پوتے) نے بھی عین وقت پر حضرت زید کو ان کوفیوں کی اسی بیوفائی پر متنبہ کر کے خروج سے منع کیا تھا۔ امام ابوحنیفہ کو یہ بھی معلوم تھا کہ یہ تحریک صرف کوفہ میں ہے۔ پوری سلطنتِ بنی امیہ اس سے خالی ہے۔ کسی دوسری جگہ اس کی کوئی تنظیم نہیں جہاں سے مدد مل سکے۔ اور خود کوفہ میں بھی کچھ مہینے کے اندر یہ کچی پکی کھچڑی تیار ہوئی ہے اس لیے انہیں تمام ظاہری آثار کو دیکھتے ہوئے یہ توقع نہ تھی کہ زید کے خروج سے کوئی کامیاب انقلاب رونما ہو سکے گا۔ علاوہ بریں غالباً امام کے نہ اٹھنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ خود اُس وقت تک اتنے بااثر نہ ہوئے تھے کہ ان کی شرکت سے اس تحریک کی کمزوری کا مداوا ہو سکے۔ ۱۲۰ ھ تک عراق کے مدرسہ اہلِ الرائے کی امامت حماد کو حاصل تھی اور ابو حنیفہ اُس وقت تک محض ان کے ایک شاگرد کی حیثیت رکھتے تھے۔ زید کے خروج کے وقت اُنہیں اس مدرسے کی امامت کے منصب پر سرفراز ہوئے صرف ڈیڑھ سال یا اس سے کچھ کم و بیش مدت ہوئی تھی۔ ابھی انہیں "فقیہ اہلِ شرق" ہونے کا مرتبہ اور اثر و رسوخ حاصل نہ ہوا تھا۔

نفسِ زکیہ کا خروج

دوسرا خروج محمد بن عبد اللہ (نفس زکیہ) اور ان کے بھائی ابراہیم بن عبد اللہ کا تھا جو امام حسن بن علی کی اولاد سے تھے۔ یہ ۱۴۵ھ - ۷۶۲ء کا واقعہ ہے جب امام ابو حنیفہ بھی اپنے پورے اثر و رسوخ کو پہنچ چکے تھے۔

ان دونوں بھائیوں کی خفیہ تحریک بنی امیہ کے زمانے سے چل رہی تھی حتیٰ کہ ایک وقت تھا جب خود المنصور نے دوسرے بہت سے لوگوں کے ساتھ، جو اُموی سلطنت کے خلاف بغاوت کرنا چاہتے تھے، نفس زکیہ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ عباسی سلطنت قائم ہو جانے کے بعد یہ لوگ روپوش ہو گئے اور اندر ہی اندر اپنی دعوت پھیلاتے رہے۔ خراسان، الجزیرہ، رے، طبرستان، یمن اور شمالی افریقہ میں ان کے داعی پھیلے ہوئے تھے۔ نفس زکیہ نے خود اپنا مرکز حجاز میں رکھا تھا۔ ان کے بھائی ابراہیم نے عراق میں بصرے کو اپنا مرکز بنایا تھا۔ کوفہ میں بھی بقول ابن اثیر ایک لاکھ تلواریں ان کی حمایت میں نکلنے کے لیے تیار تھیں۔ المنصور ان کی خفیہ تحریک سے پہلے ہی واقف تھا اور ان سے نہایت خوفزدہ تھا، کیونکہ ان کی دعوت اُسی عباسی دعوت کے متوازی چل رہی تھی جس کے نتیجے میں دولتِ عباسیہ قائم ہوئی تھی، اور اس کی تنظیم عباسی دعوت کی تنظیم سے کم نہ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کئی سال سے اس کو توڑنے کے درپے تھا اور اسے کچلنے کے لیے انتہائی سختیاں کر رہا تھا۔

جب رجب ۱۴۵ھ میں نفس زکیہ نے مدینے سے عملاً خروج کیا تو منصور سخت گھبراہٹ کی حالت میں بغداد کی تعمیر چھوڑ کر کوفہ پہنچا اور اس تحریک کے خاتمے تک اسے یقین نہ تھا کہ اس کی سلطنت باقی رہے گی یا نہیں۔ بسا اوقات بدحواس ہو کر کہتا "بخدا میری سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کروں۔" بصرہ، فارس، اہواز، واسط، مدائن، سواد، جگہ جگہ سے سقوط کی خبریں آتی تھیں اور ہر طرف سے اس کو بغاوت پھوٹ پڑنے کا خطرہ تھا۔ دو مہینے تک وہ ایک ہی لباس پہنے رہا، بستر پر نہ سویا، رات رات بھر مصلے پر گزار دیتا تھا۔ اس نے کوفہ سے فرار ہونے کے لیے ہر وقت تیز رفتار سواریاں تیار رکھ چھوڑی تھیں۔ اگر خوش قسمتی اس کا ساتھ نہ دیتی تو یہ تحریک اس کا اور خانوادہ عباسی کی سلطنت کا تختہ الٹ دیتی۔

اس خروج کے موقع پر امام ابوحنیفہ کا طرزِ عمل پہلے خروج سے بالکل مختلف تھا۔ جیسا کہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں، انہوں نے اُس زمانہ میں جبکہ منصور کوفہ ہی میں موجود تھا اور شہر میں ہر رات کرفیو لگا رہتا تھا، بڑے زور شور سے کھلم کھلا اس تحریک کی حمایت کی یہاں تک کہ ان کے شاگردوں کو خطرہ پیدا ہو گیا کہ ہم سب باندھ لیے جائیں گے۔ وہ لوگوں کو ابراہیم کا ساتھ دینے اور ان سے بیعت کرنے کی تلقین کرتے تھے۔ وہ ان کے ساتھ خروج کو نفلی حج سے ۵۰ یا ۶۰ گنا زیادہ ثواب کا کام قرار دیتے تھے۔ ایک شخص ابو اسحاق الفزاری سے انہوں نے یہاں تک کہا کہ تیرا بھائی جو ابراہیم کا ساتھ دے رہا ہے، اُس کا یہ فعل تیرے اس فعل سے کہ تو کفار کے خلاف جہاد کرتا ہے، زیادہ افضل ہے۔ امام کے یہ اقوال ابوبکر جصاص، الموفق المکی اور ابن البزاز الکردری صاحب فتاویٰ بزاز یہ جیسے لوگوں نے نقل کیے ہیں جو خود بڑے درجے کے فقیہ ہیں۔ ان اقوال کے صاف معنی یہ ہیں کہ امام کے نزدیک مسلم معاشرے کے اندرونی نظام کو بگڑی ہوئی قیادت کے تسلط سے نکالنے کی کوشش باہر کے کفار سے لڑنے کی بہ نسبت بدرجہا زیادہ فضیلت رکھتی تھی۔

سب سے زیادہ اہم اور خطرناک اقدام اُن کا یہ تھا کہ انہوں نے المنصور کے نہایت معتمد جنرل اور اس کے سپہ سالار اعظم حسن بن قحطبہ کو نفس زکیہ اور ابراہیم کے خلاف جنگ پر جانے سے روک دیا۔ اُس کا باپ قحطبہ وہ شخص تھا جس کی تلوار نے ابو مسلم کی تدبیر و سیاست کے ساتھ مل کر سلطنت عباسیہ کی بنا رکھی تھی۔ اس کے مرنے کے بعد یہ اس کی جگہ سپہ سالار اعظم بنایا گیا اور منصور کو اپنے جرنلوں میں سب سے زیادہ اسی پر اعتماد تھا۔ لیکن وہ کوفہ میں رہ کر امام ابوحنیفہؒ کا گرویدہ ہو چکا تھا۔ اس نے ایک مرتبہ امام سے کہا کہ میں آج تک جتنے گناہ کرچکا ہوں (یعنی منصور کی نوکری میں جسے کچھ ظلم و ستم میرے ہاتھوں ہوئے ہیں) وہ آپ کے علم میں ہیں۔ اب کیا میرے لیے ان گناہوں کی معافی کی بھی کوئی صورت ہے؟ امام نے کہا ”اگر اللہ کو معلوم ہو کہ تم اپنے افعال پر نادم ہو، اور اگر آئندہ کسی مسلمان کے بے گناہ قتل کے لیے تم سے کہا جائے اور تم اسے قتل کرنے کے بجائے خود قتل ہو جانا گوارا کر لو، اور اگر تم خدا سے عہد کرو کہ آئندہ اپنے پچھلے افعال کا اعادہ نہ کرو گے تو یہ تمہارے لیے توبہ ہوگی۔" حسن نے امام کی یہ بات سن کر ان کے سامنے عہد کر لیا۔ اس پر کچھ مدت ہی گزری تھی کہ نفس زکیہ اور ابراہیم کے خروج کا معاملہ پیش آگیا۔ منصور نے حسن کو ان کے خلاف جنگ پر جانے کا حکم دیا۔ اس نے آکر امام سے اس کا ذکر کیا۔ امام نے فرمایا "اب تمہاری توبہ کے امتحان کا وقت آگیا ہے۔ اپنے عہد پر قائم رہو گے تو تمہاری توبہ بھی رہے گی، ورنہ پہلے جو کچھ کر چکے ہو اس پر بھی خدا کے ہاں پکڑے جاؤ گے اور اب جو کچھ کرو گے اس کی سزا بھی پاؤ گے۔" حسن نے دوبارہ اپنی توبہ کی تجدید کی اور امام سے کہا اگر مجھے مار بھی ڈالا جائے تو میں اس جنگ پر نہ جاؤں گا۔ چنانچہ اس نے منصور کے پاس جا کر صاف کہہ دیا کہ "امیرالمومنین، میں اس مہم پر نہ جاؤں گا۔ آج تک جو کچھ میں نے آپ کی اطاعت میں کیا ہے اگر وہ اللہ کی طاعت میں تھا تو میرے لیے بس اتنا ہی کافی ہے، اور اگر وہ اللہ کی معصیت میں تھا تو اس سے آگے اب میں مزید گناہ نہیں کرنا چاہتا۔" منصور نے اس پر سخت ناراض ہو کر حسن کی گرفتاری کا حکم دے دیا۔ حسن کے بھائی حمید نے آگے بڑھ کر کہا "سال بھر سے اس کا رنگ بدلا ہوا ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کا دماغ خراب ہو گیا ہے، میں اس مہم پر جاؤں گا۔" بعد میں منصور نے اپنے معتمد لوگوں کو بُلا کر پوچھا کہ حسن ان فقہاء میں سے کس کے پاس جاتا آتا ہے۔ بتایا گیا کہ ابوحنیفہؒ کے پاس اکثر اس کا جانا آنا رہتا ہے۔

یہ طرزِ عمل بھی ٹھیک ٹھیک امام کے اس نظریے کے مطابق تھا کہ ایک کامیاب اور صالح انقلاب کے امکانات ہوں تو ظالم حکومت کے خلاف خروج جائز ہی نہیں واجب ہے۔ اس معاملہ میں امام مالک کا طرزِ عمل بھی امام ابو حنیفہ سے کچھ مختلف نہ تھا۔ نفس زکیہ کے خروج کے موقع پر جب ان سے پوچھا گیا کہ ہماری گردنوں میں تو خلیفہ منصور کی بیعت ہے، اب ہم دوسرے مدعی خلافت کا ساتھ کیسے دے سکتے ہیں، تو انہوں نے فتویٰ دیا کہ عباسیوں کی بیعت جبری تھی، اور جبری بیعت، قسم، یا طلاق، جو بھی ہو، وہ باطل ہے۔51 اسی فتوے کی وجہ سے بکثرت لوگ نفس زکیہ کے ساتھ ہو گئے اور بعد میں اس کا خمیازہ امام مالک کو یہ بھگتنا پڑا کہ مدینے کے عباسی گورنر جعفر بن سلیمان نے انہیں کوڑے لگوائے اور ان کا ہاتھ شانے سے اُکھڑ گیا۔

حاشیہ 51: عباسیوں کا قاعدہ تھا کہ وہ بیعت لیتے وقت لوگوں سے یہ عہد لیتے تھے کہ اگر وہ اس بیعت کی خلاف ورزی کریں تو ان کی بیویوں پر طلاق ہے۔ اسی لیے امام مالک نے بیعت کے ساتھ قسم اور طلاق بالجبر کا مسئلہ بھی بیان کیا۔

امام ابوحنیفہ اس مسلک میں منفرد نہیں ہیں

یہ خیال کرنا صحیح نہ ہو گا کہ خروج کے مسئلے میں اہلِ السنت کے درمیان امام ابو حنیفہ اپنی رائے میں منفرد ہیں۔ امرِ واقعہ یہ ہے کہ پہلی صدی ہجری میں اکابر اہلِ دین کی رائے وہی تھی جو امام اعظم نے اپنے قول اور عمل سے ظاہر فرمائی ہے۔ بیعتِ خلافت کے بعد حضرت ابو بکرؓ نے سب سے پہلا خطبہ جو دیا اُس میں وہ فرماتے ہیں:

اَطِيْعُوْنِيْ مَا اَطَعْتُ اللهَ وَرَسُوْلَه، فَاِذَا عَصَيْتُ اللهَ وَرَسُوْلَه فَلا طَاعَةَ لِيْ عَلَيْكُمْ.
"میری اطاعت کرو جب تک میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کروں لیکن اگر میں اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کروں تو میری کوئی اطاعت تم پر نہیں ہے۔"

حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

مَنْ بَايَعَ رَجُلًا مِّنْ غَيْرِ مَشْوَرَةٍ مِّنَ الْمُسْلِمِيْنَ فَلَا يُبَايَعُ هُوَ وَلَا الَّذِيْ بَايَعَهُ تَغِرَّةً اَنْ يُقْتَلَا۔51
"جس نے مسلمانوں کے مشورے کے بغیر کسی شخص کی بیعت کی وہ بیعت کرنے والا اور جس سے اس نے بیعت کی، اپنے آپ کو بھی اور اس کو بھی دھوکا دیتا ہے اور اپنے آپ کو قتل کے لیے پیش کرتا ہے۔“
حاشیہ 51: یہ بخاری (کتاب المحاربین، باب رجم الحبلى من الزنا) کی روایت کے الفاظ ہیں۔ ایک اور روایت میں حضرت عمرؓ کے یہ الفاظ بھی وارد ہوئے ہیں کہ جس شخص کو مشورے کے بغیر امارت دی جائے اس کے لیے اس کا قبول کرنا حلال نہیں ہے۔ فتح الباری، ج ۱۲، ص ۱۲۵ - امام احمد نے حضرت عمرؓ کا یہ قول بھی نقل کیا ہے کہ جس شخص نے مسلمانوں کے مشورے کے بغیر کسی امیر کی بیعت لی اس کی کوئی بیعت نہیں اور نہ اس شخص کی کوئی بیعت ہے جس سے اس نے بیعت کی۔ مسند احمد، ج ۱، حدیث نمبر ۳۹۱۔

یزید کی قائم شدہ امارت کے مقابلے میں جب حضرت حسین رضی اللہ عنہ اُٹھے تو بکثرت صحابہ زندہ تھے، اور فقہائے تابعین کا تو قریب قریب سارا گروہ ہی موجود تھا۔ مگر ہماری نگاہ سے کسی صحابی یا تابعی کا یہ قول نہیں گزرا کہ حضرت حسینؓ ایک فعل حرام کا ارتکاب کرنے جا رہے تھے۔ جن جن لوگوں نے بھی حضرت ممدوح کو روکا تھا یہ کہہ کر روکا تھا کہ اہلِ عراق قابلِ اعتماد نہیں ہیں، آپ کامیاب نہ ہو سکیں گے، اور اس اقدام سے اپنے آپ کو خطرے میں ڈال دیں گے۔ بالفاظِ دیگر اُن سب کی رائے اس مسئلے میں وہی تھی جو بعد میں امام ابو حنیفہؒ نے ظاہر فرمائی کہ فاسد امارت کے خلاف خروج بجائے خود ناجائز نہیں ہے، مگر اس اقدام سے پہلے یہ دیکھ لینا ضروری ہے کہ آیا بگڑے ہوئے نظام کو بدل کر صالح نظام قائم ہو جانے کا امکان ہے یا نہیں۔ امام حسینؓ اہلِ کوفہ کے پے در پے خطوط کی بنا پر یہ سمجھ رہے تھے کہ انہیں اتنے حامی مل گئے ہیں جنہیں ساتھ لے کر وہ ایک کامیاب انقلاب برپا کر سکتے ہیں۔ اسی لیے وہ مدینہ سے چل کھڑے ہوئے۔ بخلاف اس کے جو صحابہؓ اُن کو روک رہے تھے ان کا یہ خیال تھا کہ اہلِ کوفہ نے ان کے والد حضرت علیؓ اور ان کے بھائی حضرت حسنؓ کے ساتھ جو بے وفائیاں کی تھیں ان کی بنا پر وہ اعتماد کے لائق نہیں ہیں۔ اس طرح امام حسین اور ان صحابہ کے درمیان اختلاف تدبیر کے لحاظ سے تھا نہ کہ جواز و عدم جواز کے لحاظ سے۔

اسی طرح جب حجاج بن یوسف کے ظالمانہ دورِ ولایت میں عبد الرحمن بن اشعث نے بنی امیہ کے خلاف خروج کیا تو اس وقت بڑے بڑے فقہاء، سعید بن جبیر، الشعبی، ابن ابی لیلیٰ اور ابوالبختری اس کے ساتھ کھڑے ہوگئے۔ ابن کثیر کا بیان ہے کہ قراء (یعنی علماء و فقہاء) کی ایک پوری رجمنٹ اس کے ساتھ تھی۔ پھر جو علماء اس کے ساتھ کھڑے نہ ہوئے ان میں سے کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ یہ خروج ناجائز ہے۔ اس موقع پر ابن اشعث کی فوج کے سامنے ان فقہاء نے جو تقریریں کی تھیں وہ ان کے نظریے کی پوری ترجمانی کرتی ہیں۔ ابن ابی لیلیٰ نے کہا:

"اے اہلِ ایمان، جو شخص دیکھے کہ ظلم و ستم ہو رہا ہے اور بُرائیوں کی طرف دعوت دی جارہی ہے، وہ اگر دل سے اُس کو بُرا سمجھے تو بری ہوا اور اگر زبان سے اس پر اظہارِ ناپسندی کرے تو اس نے اجر پایا اور پہلے شخص سے افضل رہا، مگر ٹھیک ٹھیک راہِ حق پانے والا اور یقین کے نور سے دل کو روشن کر لینے والا وہی ہے جو اللہ کا بول بالا اور ظالموں کا بول نیچا کرنے کی خاطر ایسے لوگوں کی مخالفت تلوار سے کرے۔ پس جنگ کرو ان لوگوں کے خلاف جنہوں نے حرام کو حلال کر دیا ہے۔ اور اُمت میں بُرے راستے نکالے ہیں، جو حق سے بیگانہ ہیں اور اسے نہیں پہچانتے، جو ظلم پر عمل کرتے ہیں اور اسے برا نہیں جانتے۔"51
حاشیہ 51: الطبری، ج ۵، ص ۱۶۳۔

الشعبی نے کہا:

"ان سے لڑو اور یہ خیال نہ کرو کہ ان کے خلاف جنگ کرنا کوئی بڑا فعل ہے۔ خدا کی قسم، آج روئے زمین پر میرے علم میں ان سے بڑھ کر ظلم کرنے والا اور اپنے فیصلوں میں نا انصافی کرنے والا کوئی گروہ نہیں ہے۔ پس ان کے خلاف لڑنے میں ہرگز سستی نہ ہونے پائے۔“

سعید بن جبیر نے کہا:

"ان سے لڑو، اس بنا پر کہ وہ حکومت میں ظالم ہیں، دین میں سرکش ہیں، کمزوروں کو ذلیل کرتے ہیں، اور نمازوں کو ضائع کرتے ہیں۔"52
حاشیہ 52: طبقات ابن سعد، ج ۷، ص ۱۶۴ - البدایہ والنہایہ، ج ۹، ص ۱۳۵ -

ان فقہاء کے برعکس جن بزرگوں نے حجاج کے خلاف خروج میں ابن اشعث کا ساتھ نہیں دیا انہوں نے بھی یہ نہیں کہا کہ یہ خروج بجائے خود حرام ہے، بلکہ یہ کہا کہ ایسا کرنا مصلحت کے خلاف ہے۔ چنانچہ حضرت حسن بصری سے جب اس معاملہ میں پوچھا گیا تو انھوں نے فرمایا:

"خدا کی قسم، اللہ نے حجاج کو تم پر یونہی مسلط نہیں کر دیا ہے، بلکہ یہ تمہارے لیے ایک سزا ہے، لہٰذا اللہ کی اس سزا کا مقابلہ تلوار سے نہ کرو بلکہ صبر و سکون کے ساتھ اسے سہو اور اللہ کے حضور گڑ گڑا کر معافی چاہو۔"

یہ تھی پہلی صدی ہجری کے اہلِ دین کی عام رائے۔ امام ابوحنیفہ نے اسی دور میں آنکھیں کھولی تھیں، اس لیے ان کی رائے بھی وہی تھی جو ان لوگوں کی تھی۔ اس کے بعد دوسری صدی کے آخری دور میں وہ دوسری رائے ظاہر ہونی شروع ہوئی جو اب جمہورِ اہلِ سنت کی رائے کہی جاتی ہے۔ اس رائے کے ظہور کی وجہ یہ نہیں تھی کہ کچھ نصوصِ قطعیہ اس کے حق میں مل گئی تھیں جو پہلی صدی کے اکابر سے پوشیدہ تھیں، یا معاذ اللہ، پہلی صدی والوں نے نصوص کے خلاف مسلک اختیار کر رکھا تھا۔ بلکہ دراصل اس کے دو وجوہ تھے۔ ایک یہ کہ جباروں نے پر امن جمہوری طریقوں سے تبدیلی کا کوئی راستہ کھلا نہ چھوڑا تھا۔ دوسرے یہ کہ تلوار کے ذریعہ سے تبدیلی کی جو کوششیں ہوئی تھیں اُن کے ایسے نتائج پے در پے ظاہر ہوتے چلے گئے جن کو دیکھ کر اس راستے سے بھی خیر کی توقع باقی نہ رہی۔51
(خلافت و ملوکیت)

حاشیہ 51: اس مسئلے کی مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو میری کتاب تفہیمات حصہ سوم، ص ۳۰۰ تا ۳۲۰ اور تفہیم القرآن، تفسیر سورہ حجرات، حاشیہ ۱۷۔

امام ابو حنیفہؒ کی خدمات کا خلاصہ

عقائدِ دینیہ کی توضیح اور شرعی قوانین کی تدوین کے سلسلے میں جو خدمات امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے انجام دی ہیں وہ اسلام کی تاریخ میں ہمیشہ ایک روشن باب کی حیثیت سے ثبت رہیں گی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے اندر پاکیزہ سیرت اور اعلیٰ علمی صلاحیت کو بیک وقت جمع کر دیا تھا۔ آپ کی پیدائش ایک ایسے دور میں ہوئی جب کہ ملتِ اسلامیہ دینی اور سیاسی اعتبار سے ایک داخلی خلفشار سے دو چار تھی اور مستبدانہ ملوکیت، تشیع، خارجیت اور اعتزال کے علمبرداروں کے مابین نظری اور علمی میدان میں ایک کشاکش برپا تھی۔ امام صاحب نے ان تمام نزاعی مسائل و معاملات میں نہایت متوازن اور مدلل طریقے پر اہلِ سنت کے مسلک کی ترجمانی کی۔ اہلِ بدعت کے نظریات کا رد کیا اور اپنی جان پر کھیل کر ہمیشہ حق و صداقت کا کلمہ بلند کیا۔

فقہِ اسلامی کی ترتیب و تدوین کا جو بے مثل کارنامہ آپ نے انجام دیا وہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔ آپ خوش قسمتی سے ایک ایسے خطہِ زمین میں پروان چڑھے جو تمدنی اور معاشرتی ارتقاء کے بہت سے مراحل طے کر چکا تھا۔ علاوہ ازیں آپ کو تجارتی اور کاروباری دنیا سے بہت گہرا تعلق رہا ہے۔ اس لیے آپ نے اپنی دقیقہ رس طبیعت اور اپنے نامور اصحاب و تلامذہ کی مدد سے ہزاروں فروعی اجتہادات کا ایک ایسا عظیم ذخیرہ چھوڑا ہے جو مسلمانوں کا قیمتی ورثہ ہے اور جس سے وہ کبھی بے نیاز نہیں ہو سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی دنیائے اسلام کی اکثریت فقہِ حنفیہ پر عامل اور امام ابو حنیفہؒ کو امام اعظم کے نام سے یاد کرتی ہے۔
(مکاتیب ص ۵۹ جلد دوم)


امام ابو یوسفؒ

امام ابو حنیفہ کی زندگی میں ان کے سیاسی مسلک اور حکومت کے ساتھ ان کے ترکِ تعاون کی وجہ سے سلطنتِ عباسیہ اور حنفی مدرسہِ فکر کے تعلقات نہایت کشیدہ ہو چکے تھے، اور یہ اثر بعد میں بھی اچھی خاصی مدت تک باقی رہا۔ ایک طرف اس مدرسے کے اکابر اپنے ترکِ تعلق پر جمے رہے، چنانچہ امام ابو حنیفہ کی وفات کے بعد ان کے نامور شاگرد زفر بن الہذیل (م ۱۸۵ھ - ۷۷۵ء) کو جب منصبِ قضا قبول کرنے پر مجبور کیا گیا تو انہوں نے بھی انکار کر دیا اور جان بچانے کے لیے روپوش ہو گئے۔ دوسری طرف المنصور سے لے کر ہارون الرشید کے ابتدائی عہد تک سلطنت کا رجحان یہ رہا کہ اس مدرسہِ فکر کے اثر کی مزاحمت کی جائے، اور اسی بنا پر منصور اور اس کے جانشین یہ کوشش کرتے رہے کہ ملک کے نظامِ قانون کا جو خلا ایک مدون قانون مانگ رہا ہے اسے کسی دوسری تدوین سے بھرا جائے۔ اس غرض کے لیے المنصور اور المہدی نے بھی اپنے اپنے زمانوں میں امام مالک کو سامنے لانا چاہا، اور ہارون الرشید نے بھی ۱۷۴ھ - ۷۹۱ء میں حج کے موقع پر یہ خواہش ظاہر کی کہ ان کی کتاب الموطا کو ملک کا قانون بنایا جائے۔ لیکن آخر کار اس مدرسہِ فکر سے ایک ایسی طاقت ور شخصیت اٹھی جس نے اپنی اعلیٰ قابلیت اور اپنے زبردست اثر و رسوخ سے سلطنتِ عباسیہ کے قانونی انتشار کو ختم کیا، حنفی فقہ کو ملک کا قانون بنایا اور سلطنت کو ایک آئین پر قائم کر دیا۔ یہ شخصیت امام ابو حنیفہ کے سب سے بڑے شاگرد امام ابو یوسف کی تھی۔

حالاتِ زندگی

ان کا اصل نام یعقوب تھا۔ عرب کے قبیلہ بجیلہ سے تھے اور مدینہ کے انصار سے ننھیالی تعلق اور حلف کے تعلق کی بنا پر ان کا خاندان انصاری کہلاتا تھا۔ کوفے کے باشندے تھے۔ ۱۱۳ھ - ۷۳۱ء میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم کے بعد فقہ کو انہوں نے اختصاصی تعلیم کے لیے پسند کیا اور عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ کی شاگردی اختیار کی۔ پھر امام ابو حنیفہ کے حلقہِ درس میں آئے اور مستقل طور پر انہی سے وابستہ ہو گئے۔ والدین نہایت غریب تھے۔ وہ ان کی تعلیم جاری نہ رکھنا چاہتے تھے۔ امام ابو حنیفہ کو جب ان کے حالات کا علم ہوا تو انہوں نے نہ صرف ان کے مصارف بلکہ ان کے سارے گھر کے مصارف کی کفالت بھی اپنے ذمے لے لی۔ اُن کا اپنا قول ہے کہ مجھے کبھی امام ابو حنیفہ سے اپنی ضرورت بیان کرنے کی حاجت پیش نہیں آئی۔ وقتاً فوقتاً وہ خود ہی میرے گھر اتنا روپیہ بھیجتے رہتے تھے کہ میں بالکل بے فکر ہو گیا تھا۔ وہ ابتداء ہی سے اپنے اِس شاگرد کے متعلق بہت پر امید تھے، چنانچہ جب ابو یوسف کے والد نے انہیں مدرسے سے اُٹھا لینا چاہا تو امام نے فرمایا "ابو اسحاق یہ لڑکا انشاء اللہ بڑا آدمی بنے گا۔"

علمی کمالات

اُنھوں نے امام ابو حنیفہ کے علاوہ وقت کے دوسرے بڑے بڑے اساتذہ سے بھی استفادہ کیا اور حدیث، تفسیر، مغازی، تاریخِ عرب، لغت، ادب اور علمِ کلام میں بھی مہارت پیدا کی، خصوصاً حدیث کا وہ وسیع علم رکھتے تھے، حافظِ حدیث تھے اور یحییٰ بن معین، احمد بن حنبل اور علی بن المدینی جیسے لوگوں نے ان کو ثقہ قرار دیا ہے۔ ان کے متعلق ان کے ہم عصروں کی متفقہ رائے یہ تھی کہ ابو حنیفہ کے شاگردوں میں کوئی ان کا ہم سر نہ تھا۔ طلحہ بن محمد کہتے ہیں کہ وہ اپنے زمانے کے سب سے بڑے فقیہ تھے۔ کوئی ان سے بڑھ کر نہ تھا۔ داؤد بن رشید کا قول ہے کہ اگر ابو حنیفہ نے صرف یہی ایک شاگرد پیدا کیا ہوتا تو ان کے فخر کے لیے یہ بالکل کافی تھا۔ امام ابو حنیفہ خود اُن کی بڑی قدر کرتے تھے۔ اُن کا قول تھا کہ میرے شاگردوں میں سب سے زیادہ جس نے علم حاصل کیا ہے وہ ابو یوسف ہے۔ ایک دفعہ وہ سخت بیمار ہوئے اور زندگی کی امید نہ رہی۔ امام ابو حنیفہؒ ان کی عیادت کر کے جب باہر نکلے تو کہنے لگے "اگر یہ جوان مر گیا تو اپنے پیچھے اس زمین پر اس سے زیادہ بڑا فقیہ چھوڑ کر نہ جائے گا۔"

فقہِ حنفی کی تدوین

امام ابو حنیفہ کے بعد ۱۶ سال تک یہ بھی اپنے مدرسے کی روایات کے مطابق حکومت سے بے تعلق رہے۔ اس دوران میں اُنہوں نے اپنے استاد کے علمی و تعلیمی کام کو جاری رکھا، اور اس کے ساتھ ایک اہم خدمت یہ انجام دی کہ قانون کے اکثر و بیشتر شعبوں کے متعلق الگ الگ کتابیں مرتب کر دیں جن میں امام ابو حنیفہ کی مجلس کے فیصلے اور خود اپنے اقوال باقاعدہ منضبط کر دیئے۔ یہ کتابیں جب ملک میں پھیلیں تو نہ صرف یہ کہ عام علمی حلقوں کو انہوں نے متاثر کیا، بلکہ عدالتوں اور تمام سرکاری محکموں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی رائے بھی فقہِ حنفی کے حق میں ہموار کردی، کیونکہ اس وقت کوئی دوسرا مرتب و منظم قانونی ذخیرہ ایسا موجود نہ تھا جو اُن کی ضرورت اِس طرح پوری کرتا۔ امام مالک کی الموطا اگرچہ جلدی ہی میدان میں آگئی، مگر وہ نہ اتنی جامع تھی، نہ تدوین کے اعتبار سے اس قدر واضح کہ ایک حکومت کی ضروریات پوری کر سکتی۔ ابو یوسف کے اس علمی کام کا فائدہ یہ ہوا کہ ان کے بر سرِ اقتدار آنے سے پہلے ہی فقہِ حنفی دماغوں اور معاملات پر چھا چکی تھی، اور صرف اس امر کی کسر باقی تھی کہ سیاسی اقتدار باقاعدہ اس کو ملک کا قانون بنا دے۔

منصبِ قضاء

شاید ابو یوسف بھی اپنے اُستاد کی طرح اپنی ساری زندگی حکومت سے عدم تعاون ہی کی روش پر گزار دیتے اگر ان کی معاشی حالت کچھ بھی درست ہوتی۔ لیکن وہ ایک غریب آدمی تھے اور امام ابو حنیفہ کی وفات کے بعد ایک فیاض سرپرست سے بھی محروم ہو چکے تھے۔ آخر افلاس نے نوبت یہاں تک پہنچادی کہ اپنی بیوی کے مکان کا ایک شہتیر تک اُنہوں نے بیچ ڈالا اور ان کی ساس نے اس پر انہیں کچھ اس طرح ملامت کی کہ ان کی غیرت اُسے برداشت نہ کر سکی۔ یہی سبب تھا جس نے انہیں سرکاری ملازمت کرنے پر مجبور کر دیا۔ اس واقعہ کے بعد ۱۶۶ھ - ۷۸۲ء میں وہ بغداد گئے، خلیفہ المہدی سے ملے اور اس نے انہیں شرقی بغداد کا قاضی مقرر کر دیا۔ الہادی کے زمانے میں بھی وہ اسی پوزیشن پر رہے۔ پھر جب ہارون الرشید کا زمانہ آیا تو رفتہ رفتہ خلیفہ پر اُن کا اثر اس قدر بڑھتا چلا گیا کہ آخر کار اس نے انہیں تمام سلطنتِ عباسیہ کا قاضی القضاة (چیف جسٹس) مقرر کر دیا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ مسلم ریاست میں یہ منصب قائم ہوا۔ اس سے پہلے کوئی شخص خلافت راشدہ یا اموی اور عباسی سلطنتوں میں چیف جسٹس نہیں بنایا گیا تھا اور یہ منصب جس پر امام ابو یوسف مامور کیے گئے، موجودہ زمانے کے تصور کے مطابق محض عدالت العالیہ کے حاکم اعلیٰ کا نہ تھا بلکہ اس کے ساتھ وزیرِ قانون کے فرائض بھی اس میں شامل تھے یعنی وہ مقدمات کے فیصلے کرنے اور ماتحت عدالتوں کے قاضی مقرر کرنے کے اختیارات ہی نہ رکھتے تھے بلکہ سلطنت کے تمام داخلی و خارجی معاملات میں قانونی رہنمائی کرنا بھی انہی کا کام تھا۔51

حاشیہ 51: المکی، ج ۲، ص ۲۱۱ - ۲۳۹ - ابن خلکان، ج ۵، ص ۴۲۱۔

اس منصب پر قاضی ابو یوسف کے فائز ہو جانے سے تین اہم نتائج رونما ہوئے:

  1. ایک یہ کہ ان کو محض ایک حلقہِ درس یا گوشہِ تصنیف و تالیف میں بیٹھ کر علمی کام کرنے والوں کی بہ نسبت بہت زیادہ وسیع دائرہِ عمل بہم پہنچ گیا جہاں اس وقت کی سب سے بڑی سلطنت کے معاملات سے براہِ راست عملاً سابقہ درپیش تھا۔ اس حیثیت میں انہیں فقہِ حنفی کو واقعی حالات پر منطبق کر کے اسے زیادہ سے زیادہ ایک عملی نظامِ قانون بنانے کا موقع مل گیا۔
  2. دوسرے یہ کہ تمام ممالک میں قاضیوں کا عزل و نصب چونکہ انہی سے متعلق تھا، اس لیے حنفی مدرسہِ قانون سے تعلق رکھنے والے لوگ مملکت کے بیشتر علاقوں میں قاضی مقرر ہوئے اور ان کے ذریعہ سے فقہِ حنفی آپ سے آپ ملک کا قانون بن گئی۔
  3. تیسرے یہ کہ انہوں نے اپنے زبردست اخلاقی اور علمی اثر سے مسلم مملکت کو، جو اُموی دور سے ایک طرح کی بے آئینی اور بادشاہوں کی مطلق العنانی کے ڈھنگ پر چل رہی تھی، بڑی حد تک آئین کا پابند بنا دیا اور اسے ایک کتابِ آئین بھی مرتب کر کے دی جو خوش قسمتی سے آج بھی "کتاب الخراج" کی صورت میں ہمارے پاس موجود ہے۔

سیرت کی بلندی اور مضبوطی

لیکن قبل اس کے کہ ہم اس آئینی کتاب پر گفتگو کریں، ایک عام غلط فہمی کو رفع کر دینا ضروری ہے۔ امام ابو یوسف کے سوانح نگاروں نے ان کے متعلق کچھ ایسی حکایات بیان کی ہیں جنہیں پڑھ کر آدمی کے سامنے ان کا نقشہ کچھ ایسا آتا ہے کہ گویا وہ بادشاہوں کے خوشامدی اور ان کی خواہشاتِ نفس کے مطابق قانونی حیلے گھڑنے والے تھے اور یہی خلفاء کے ہاں اُن کے تقرب کا ذریعہ تھا۔ حالانکہ ایک معمولی عقل کا آدمی بھی یہ سمجھ سکتا ہے کہ جو شخص خوشامد کے ذریعہ سے بادشاہوں کا تقرب حاصل کرے اور اُن کی خواہشات کے مطابق شرعی مسائل میں کتربیونت کرتا رہے، وہ مقرب چاہے کتنا ہی ہو جائے، بادشاہوں پر اس کا اخلاقی اثر کبھی نہیں ہو سکتا۔ اب اگر ہم ان واقعات کو دیکھیں جو خلفاء اور ان کے وزراء اور سپہ سالاروں کے ساتھ ان کے برتاؤ کے متعلق ہمیں معتبر تاریخوں میں ملتے ہیں تو ہمارے لیے یہ باور کرنا محال ہو جاتا ہے کہ ایک خوشامدی حیلہ ساز کبھی اس رویے کی جرات کر سکتا ہے۔

  • خلیفہ الہادی کے زمانہ میں جبکہ وہ محض شرقی بغداد کے قاضی تھے انھوں نے ایک مقدمہ میں خود خلیفہ کے خلاف فیصلہ کیا۔
  • ہارون الرشید کے زمانہ میں ایک بوڑھے عیسائی نے خلیفہ کے خلاف ایک باغ کا دعوی کیا اور قاضی ابو یوسف نے خلیفہ کے رو در رو اس کی نہ صرف سماعت کی بلکہ خلیفہ سے اس کے دعوے کی تردید میں حلف لیا۔ اس پر بھی ابو یوسف مرتے دم تک افسوس کرتے رہے کہ میں نے خلیفہ کو اس کے برابر کیوں نہ کھڑا کیا۔
  • ہارون کے وزیرِ اعظم علی بن عیسیٰ کو اُنہوں نے ناقابلِ اعتبار گواہ قرار دیا اور اس کی وجہ یہ بتائی کہ میں نے اس کو "انا عبد الخلیفہ" (میں خلیفہ کا غلام ہوں) کہتے سنا ہے، اگر یہ واقعی غلام ہے تو اس کی شہادت قبول نہیں کی جاسکتی اور اگر یہ خوشامد کی بنا پر جھوٹ کہتا ہے تو ویسے ہی ناقابلِ اعتبار ہے۔ یہی اخلاقی سزا اسی طرح کی خوشامد پر اُنہوں نے ہارون کے ایک سپہ سالار کو بھی دی۔

عبد اللہ بن المبارک کا بیان ہے کہ وہ ہارون الرشید کے ہاں اس شان سے جاتے تھے کہ سرا پردہ کے اندر تک ان کی سواری جاتی تھی (جہاں وزیرِ اعظم کو بھی پیدل جانا پڑتا تھا) اور خلیفہ خود آگے بڑھ کر سلام کی ابتدا کرتا تھا۔

ہارون سے ایک دفعہ پوچھا گیا کہ آپ نے ابو یوسف کو اتنا اونچا مرتبہ کیوں دیا ہے؟ اس نے کہا میں نے اس شخص کو علم کے جس باب میں بھی جانچا کامل پایا۔ اس کے ساتھ وہ ایک راست رو اور مضبوط سیرت کا آدمی ہے۔ اس جیسا کوئی دوسرا آدمی ہو تو لاؤ۔

۱۸۲ھ - ۷۹۸ء میں جب ان کا انتقال ہوا تو ہارون الرشید خود ان کے جنازے کے ساتھ پیدل گیا، خود نمازِ جنازہ پڑھائی، اپنے خاندان کے قبرستان میں انہیں دفن کیا اور کہا یہ ایسا حادثہ ہے کہ تمام اہلِ اسلام کو اس پر ایک دوسرے کو تعزیت دینی چاہیے۔ سب سے بڑی شہادت ہمارے پاس ان کی کتاب الخراج ہے۔ اس کے دیباچے ہی کو دیکھ کر آدمی جان سکتا ہے کہ ایک خوشامدی کسی بادشاہ کو مخاطب کر کے یہ باتیں نہیں لکھ سکتا۔

کتاب الخراج

قاضی ابو یوسف کو ہارون الرشید کی ذات میں ایک ایسا خلیفہ ملا تھا جو متضاد صفات کا مجموعہ تھا۔ وہ بیک وقت ایک تند مزاج سپاہی بھی تھا، ایک عیش پسند بادشاہ بھی، اور ایک خدا ترس دیندار بھی۔ ابو الفرج الاصفہانی اس کی صفت ایک فقرے میں بیان کرتا ہے کہ "وہ وعظ و نصیحت کے موقع پر سب سے زیادہ رونے والا اور غیظ و غضب کے وقت سب سے بڑھ کر ظلم و ستم ڈھانے والا تھا۔" امام ابو یوسف نے اپنے کمالِ فراست و تدبر سے اس کے کمزور پہلوؤں کو چھیڑے بغیر اس کی فطرت کے دینی پہلو کو اپنے علمی و اخلاقی اثر سے متاثر کرنا شروع کیا، یہاں تک کہ ایک وقت ایسا آیا جب اس نے خود انہیں اس کام پر مامور کیا کہ وہ سلطنت کے لیے ایک کتابِ آئین مرتب کر دیں تاکہ آئندہ اسی کے مطابق ملک کا انتظام کیا جائے۔ یہی کتاب الخراج کا سببِ تالیف تھا جیسا کہ امام موصوف نے اس کے دیباچے میں بیان کیا ہے:

"امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے یہ چاہا ہے کہ میں ان کے لیے ایک جامع کتاب تیار کروں جس کے مطابق خراج، عشور، صدقات اور جزیوں کی تحصیل میں اور دوسرے اُن معاملات میں عمل کیا جائے جن کے انتظام و انصرام کی ذمہ داری اُن پر ہے۔.. اُنہوں نے کچھ امور کے متعلق سوالات بھی مجھ سے کیے ہیں جن کا وہ تفصیلی جواب چاہتے ہیں تاکہ آئندہ ان امور میں اس پر عمل درآمد ہو۔"

کتاب میں جگہ جگہ اُنہوں نے ہارون الرشید کے بھیجے ہوئے ان سوالات کے جو حوالے دیے ہیں ان کو دیکھنے سے گمان ہوتا ہے کہ غالباً یہ ایک سوالنامہ تھا جو حکومت کے سکرٹریٹ کی طرف سے اہم دستوری، قانونی، انتظامی اور بین الاقوامی مسائل کے بارے میں مرتب کیا گیا تھا تاکہ وزارتِ قانون سے اس کا واضح جواب حاصل کر کے مملکت کا ایک مستقل ضابطہ بنا دیا جائے۔ کتاب کے نام سے بظاہر یہ دھوکا ہوتا ہے کہ صرف خراج (Revenue) ہی اس کا موضوع ہے۔ لیکن دراصل وہ مملکت کے قریب قریب تمام معاملات سے بحث کرتی ہے۔ اب ہم اس کی دوسری تفصیلات کو چھوڑ کر صرف اس پہلو سے اس کے مضامین کا جائزہ لیں گے کہ وہ مملکت کا اصولی تصور و نظام کیا پیش کرتی ہے۔

خلافت راشدہ کی طرف رجوع

سب سے پہلی چیز جو پوری کتاب کو بغور پڑھنے سے نمایاں طور پر آدمی کے سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ امام ابو یوسف خلیفہ کو بنی امیہ و بنی عباس کی قیصری و کسروی روایات سے ہٹا کر ہر پہلو سے خلافت راشدہ کی روایات کے اتباع کی طرف لے جانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے اگرچہ کہیں یہ نہیں کہا ہے کہ وہ اپنے پیش رووں کی روایات چھوڑ دے، لیکن کسی جگہ انہوں نے بھولے سے بھی بنی امیہ تو در کنار خود ہارون الرشید کے باپ دادا کے طرز عمل اور فیصلوں کو بھی نظیر کی حیثیت سے پیش نہیں کیا ہے۔ ہر معاملہ میں وہ یا تو قرآن و سنت سے استدلال کرتے ہیں یا پھر نظائر لاتے ہیں تو ابو بکرؓ و عمرؓ اور عثمانؓ و علیؓ کے دورِ حکومت سے، اور بعد کے خلفاء میں سے اگر کسی کے اعمال کو انہوں نے نظیر بنایا ہے تو وہ المنصور یا المہدی نہیں بلکہ بنی امیہ کے خلیفہ عمر بن عبدالعزیز ہیں۔ اس کے صاف معنی یہ تھے کہ سلطنت عباسیہ کا یہ آئینِ سلطنت مرتب کرتے وقت اُنہوں نے (عمر بن عبدالعزیز کے ڈھائی سال کو مستثنیٰ کرکے) حضرت علی کی وفات سے لے کر ہارون الرشید کے زمانہ تک تقریباً ۱۲۲ سال کی حکومت کے پورے رواج و تعامل کو نظر انداز کر دیا۔ یہ کام اگر کسی حق گو فقیہ نے محض وعظ و نصیحت کے طور پر بالکل غیر سرکاری حیثیت میں کیا ہوتا تو اس کی کوئی خاص اہمیت نہ تھی، لیکن یہ دیکھتے ہوئے اس کی بہت بڑی اہمیت ہو جاتی ہے کہ اسے ایک چیف جسٹس اور وزیرِ قانون نے اپنی پوری سرکاری حیثیت میں خلیفہِ وقت کی سپرد کردہ ایک خدمت انجام دیتے ہوئے کیا ہے۔

کتاب الخراج کے بنیادی اصول

  1. حکومت کا تصور

    کتاب کے آغاز ہی میں وہ خلیفہ کے سامنے حکومت کا جو تصور پیش کرتے ہیں وہ ان کے اپنے الفاظ میں یہ ہے:

    "اے امیر المومنین، اللہ تعالیٰ نے، جو حمد و ثنا کا ایک ہی حقدار ہے، آپ پر ایک بڑے بھاری کام کا بار ڈالا ہے۔ اس کا ثواب سب سے بڑا اور اس کی سزا سب سے زیادہ سخت ہے۔ اُس نے اس امت کی سربراہی آپ کے سپرد کی ہے اور آپ شب و روز ایک خلقِ کثیر کے لیے تعمیر کرتے ہیں۔ اس نے آپ کو ان کا راعی بنایا ہے، ان کی امامت آپ کے حوالے کی ہے، ان کے ذریعہ آپ کو آزمائش میں ڈالا ہے، اور ان کے معاملات چلانے کی ذمہ داری آپ کو سونپ دی ہے۔ جو تعمیر خوفِ خدا کے سوا کسی اور چیز پر کی جائے وہ کچھ دیر نہیں ٹھیرتی کہ اللہ اسے جڑ سے اکھاڑ کر اُسی پر گرا دیتا ہے جو اس کا بنانے والا اور اس تعمیر میں اس کی مدد کرنے والا ہو... راعیوں کو اپنے رب کے سامنے اُسی طرح حساب دینا ہے جس طرح دنیا میں کوئی چرواہا گلے کے مالک کو حساب دیتا ہے... ٹیڑھی راہ پر نہ چلیے کہ آپ کا گلہ ٹیڑھا چلنے لگے۔.. تمام لوگوں کو خدا کے قانون میں یکساں رکھیے خواہ آپ سے قریب ہوں یا دور... کل خدا کے حضور آپ اس طرح حاضر نہ ہوں کہ آپ زیادتیاں کرنے والوں میں سے ہوں، کیونکہ یوم الدین کا حاکم لوگوں کے فیصلے ان کے اعمال کی بنا پر کرے گا نہ کہ مرتبوں کی بنا پر... اس سے ڈریے کہ آپ اپنے گلے کو ضائع کریں اور گلے کا مالک اس کا پورا پورا بدلہ آپ سے لے۔"

    اس کے بعد وہ پوری کتاب میں جگہ جگہ ہارون الرشید کو یہ احساس دلاتے ہیں کہ وہ ملک کا مالک نہیں بلکہ اصل مالک کا خلیفہ ہے، اگر وہ امامِ عادل بنے تو بہترین انجام دیکھے گا اور امامِ ظالم بن کر رہے تو بدترین عذاب سے دوچار ہوگا۔ ایک جگہ وہ اسے حضرت عمر کا یہ قول سناتے ہیں کہ "کوئی حق والا بھی دنیا میں اس مرتبے کو نہیں پہنچا ہے کہ خدا کی نافرمانی میں اس کی اطاعت کی جائے۔“

  2. روحِ جمہوریت

    وہ صرف خدا ہی کے سامنے نہیں بلکہ خلق کے سامنے بھی خلیفہ کے جواب دہ ہونے کا تصور پیش کرتے ہیں اور اس کے لیے مختلف مقامات پر انہوں نے احادیث اور اقوالِ صحابہ نقل کیے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ:

    • مسلمانوں کو اپنے فرمانروا اور حکام کے سامنے آزادانہ تنقید کا حق حاصل ہے اور اس آزادیِ تنقید ہی میں قوم اور حکومت کی خیر ہے۔
    • امر بالمعروف اور نہی عن المنکر مسلمانوں کا حق بھی ہے اور فرض بھی، اور اس کا دروازہ بند ہو جانے کے معنی یہ ہیں کہ قوم آخر کار عذابِ عام میں مبتلا ہو جائے۔
    • فرمانروا میں اتنا تحمل ہونا چاہیے کہ وہ حق بات سنے۔ اُس کے تند خو اور بے برداشت ہونے سے بڑھ کر ضرر رساں کوئی چیز نہیں۔
    • مسلمانوں کو حق ہے کہ رعیت کے جو حقوق فرمانروا پر از روئے شرع عائد ہوتے ہیں اور عوام کے مال کی جو امانتیں اس کے سپرد ہیں، ان پر اس سے محاسبہ کریں۔
  3. خلیفہ کے فرائض

    اُنہوں نے خاص طور پر خلیفہ کے جو فرائض بیان کیے ہیں وہ یہ ہیں:

    • حدود اللہ کو قائم کرنا۔
    • حق داروں کے حقوق ٹھیک ٹھیک تحقیق کر کے ان کو دلوانا۔
    • صالح حکمرانوں کے دستور العمل کو (جسے ماضی کی ظالم حکومتوں نے ترک کر دیا تھا) زندہ کرنا۔
    • ظلم کو روکنا اور عوام کی شکایات کو تحقیق کے بعد رفع کرنا۔
    • اللہ کے احکام کے مطابق لوگوں کو طاعت کا حکم دینا اور معصیت سے روکنا۔
    • خدا کے قانون کو اپنے اور غیر سب پر یکساں نافذ کرنا اور اس معاملے میں اس بات کی پروا نہ کرنا کہ اس کی زد کس پر پڑتی ہے۔
    • جائز طور پر لوگوں سے محاصل لینا اور جائز راستوں میں انہیں خرچ کرنا۔
  4. مسلم شہریوں کے فرائض

    دوسری طرف وہ اپنے حکمرانوں کے معاملے میں مسلمانوں کے جو فرائض بتاتے ہیں وہ یہ ہیں:

    • ان کی اطاعت کریں، نافرمانی نہ کریں۔
    • ان کے خلاف ہتھیار نہ اُٹھائیں۔
    • ان کو بُرا بھلا نہ کہیں۔
    • ان کی سختیوں پر صبر کریں۔
    • ان کو دھوکا نہ دیں۔
    • ان کے ساتھ سچے دل سے خیر خواہی برتیں۔
    • ان کو بُرائیوں سے روکنے کی کوشش کریں۔
    • اور صحیح کاموں میں ان کی مدد کریں۔
  5. بیت المال

    بیت المال کو وہ بادشاہ کی ملکیت کے بجائے خدا اور خلق کی امانت قرار دیتے ہیں اور خلیفہ کو متعدد مواقع پر حضرت عمرؓ کے وہ اقوال سناتے ہیں جن میں انہوں نے کہا ہے کہ حکومت کے خزانے کی حیثیت خلیفہ کے لیے ایسی ہے جیسے ولیِ یتیم کے لیے یتیم کے مال کی حیثیت ہوتی ہے۔ اگر وہ غنی ہو تو اسے قرآن کی ہدایت کے مطابق مالِ یتیم میں سے کچھ نہ لینا چاہیے اور فی سبیل اللہ اس کی جائداد کا انتظام کرنا چاہیے۔ اور اگر وہ حاجت مند ہو تو معروف طریقہ سے اتنا حق الخدمت لینا چاہیے جسے ہر شخص جائز تسلیم کرے۔

    وہ حضرت عمرؓ کے اس طرزِ عمل کو بھی خلیفہ کے سامنے نمونے کے طور پر رکھتے ہیں کہ وہ بیت المال سے خرچ کرنے میں اُس سے بھی زیادہ جز رسی برتتے تھے جتنی کوئی شخص اپنے مال سے خرچ کرنے میں برتتا ہے۔ اس سلسلے میں وہ اس واقعہ کا ذکر کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے کوفہ کے قاضی، امیر اور افسرِ مالگزاری مقرر کرتے ہوئے تینوں کے خاندان کی خوراک کے لیے روزانہ ایک بکری دینے کا حکم دیا اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ ”جس زمین سے ایک بکری افسروں کے لیے لی جائے تو وہ جلدی برباد ہو جائے گی۔"

    وہ خلیفہ سے یہ بھی کہتے ہیں کہ اپنے حکام کو سرکاری مال ذاتی استعمال میں لانے سے روک دے۔

  6. ضربِ محاصل کے اصول

    ٹیکس عائد کرنے کے بارے میں جو اُصول وہ بیان کرتے ہیں وہ یہ ہیں:

    • لوگوں کے صرف زائد از ضرورت اموال پر ٹیکس عاید کیا جائے۔
    • ان کی رضامندی سے ان پر بار ڈالا جائے۔
    • کسی پر اس کی قوتِ برداشت سے زیادہ بار نہ ڈالا جائے۔
    • مال داروں سے لیا جائے اور غریب طبقوں پر خرچ کیا جائے۔
    • محاصل کی تشخیص اور ان کی شرح کی تعیین میں اس بات کا پورا خیال رکھا جائے کہ حکومت لوگوں کا خون نہ چوس لے۔
    • تحصیل میں ظالمانہ طریقوں سے کام نہ لیا جائے۔
    • از روئے قانون مقرر کیے ہوئے محاصل کے سوا کسی قسم کے ناجائز ٹیکس نہ حکومت لے اور نہ مالکانِ زمین یا اپنے عاملوں کو لینے دے۔
    • جو ذمی مسلمان ہو جائیں ان سے جزیہ نہ لیا جائے۔

    اس سلسلے میں وہ خلفائے راشدین کے طرزِ عمل کو بطور نمونہ و نظیر پیش کرتے ہیں۔ مثلاً حضرت علیؓ کا یہ واقعہ کہ انہوں نے اپنے عامل کو عوام کے سامنے ہدایات دیتے ہوئے یہ کہا کہ ان سے پورا پورا خراج وصول کرنا اور ذرا رعایت نہ کرنا، مگر علیحدگی میں بلا کر اسے سخت ہدایت کی کہ خبردار، کسی کو مار پیٹ کر یا دھوپ میں کھڑا کر کے خراج وصول نہ کرنا اور نہ ایسی سختی کرنا کہ وہ سرکاری واجبات ادا کرنے کے لیے اپنے کپڑے یا برتن یا جانور بیچ ڈالنے پر مجبور ہو۔ اور حضرت عمرؓ کا یہ طریقہ کہ وہ اپنے افسرانِ بندوبست پر جرح کر کے یہ اطمینان کر لیتے تھے کہ کاشت کاروں پر مالگزاری تشخیص کرنے میں ان کی کمر توڑ دینے سے اجتناب کیا گیا ہے، اور جب کسی علاقے کے محاصل آتے تھے تو عوام کے نمائندوں کو بلا کر گواہیاں لی جاتی تھیں کہ کسی مسلمان یا ذمی مزارع پر ظلم ڈھا کر تحصیل نہیں کی گئی ہے۔

  7. غیر مسلم رعایا کے حقوق

    اسلامی ریاست کی غیر مسلم رعایا کے بارے میں امام ابو یوسف حضرت عمرؓ کے حوالہ سے تین اصول بار بار اس کتاب میں نقل کرتے ہیں:

    1. جو عہد بھی ان سے کیا گیا ہو اسے پورا کیا جائے۔
    2. مملکت کے دفاع کی ذمہ داری ان پر نہیں بلکہ مسلمانوں پر ہے۔
    3. اُن کی طاقت سے زیادہ ان پر جزیہ اور مالگزاری کا بوجھ نہ ڈالا جائے۔

    پھر وہ بتاتے ہیں کہ مسکین، اندھے، بوڑھے، راہب، عبادت گاہوں کے کارکن، عورتیں اور بچے جزیہ سے مستثنیٰ ہیں۔ ذمیوں کے اموال اور مواشی پر کوئی زکواۃ نہیں۔ ذمیوں سے جزیہ وصول کرنے میں مار پیٹ اور جسمانی ایذا سے کام لینا جائز نہیں۔ عدم ادائیگی کی پاداش میں زیادہ سے زیادہ صرف قید کیا جاسکتا ہے۔ مقرر جزیہ سے زائد کوئی چیز ان سے وصول کرنا حرام ہے۔ اور معذور و محتاج ذمیوں کی پرورش حکومت کے خزانہ سے کی جانی چاہیے۔

    وہ تاریخی واقعات پیش کر کے یہ بات ہارون الرشید کے ذہن نشین کرتے ہیں کہ ذمیوں کے ساتھ فیاضانہ اور شریفانہ سلوک کرنا خود سلطنت کے لیے مفید ہے۔ حضرت عمرؓ کے زمانہ میں اسی برتاؤ کی وجہ سے شام کے عیسائی خود اپنے ہم مذہب رومیوں کے مقابلے میں مسلمانوں کے وفادار و خیر خواہ ہو گئے تھے۔

  8. زمین کا بندوبست

    زمین کے بندوبست کے سلسلہ میں امام ابو یوسف زمینداری کی اس قسم کو حرام قرار دیتے ہیں جس میں حکومت کاشتکاروں سے مالگزاری وصول کرنے کے لیے ایک شخص کو ان پر زمیندار بنا کر بٹھا دیتی ہے اور اسے عملاً یہ اختیار دے دیتی ہے کہ حکومت کا لگان ادا کرنے کے بعد باقی جو کچھ جس طرح چاہے کاشتکاروں سے وصول کرتا رہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ رعیت پر سخت ظلم اور ملک کی بربادی کا موجب ہے اور حکومت کو یہ طریقہ کبھی اختیار نہ کرنا چاہیے۔

    اسی طرح وہ اس طریقے کو بھی قطعی حرام قرار دیتے ہیں کہ حکومت کسی کی زمین لے کر کسی کو جاگیر میں دے دے۔ وہ کہتے ہیں کہ ”امام اس کا مجاز نہیں ہے کہ کسی مسلمان یا ذمی کے قبضے سے کوئی چیز نکال لے جب تک کہ از روئے قانون اس پر کوئی ثابت یا معروف حق واجب نہ آتا ہو۔" من مانے طریقے پر لوگوں کی ملکیتیں چھین کر دوسروں کو عطا کرنا ان کے نزدیک ڈاکہ مار کر بخشیش کرنے کا ہم معنی ہے۔

    وہ کہتے ہیں کہ زمین کے عطیے صرف اس صورت میں جائز ہیں جبکہ غیر آباد اور غیر مملوکہ زمینیں، یا لاوارث متروکہ اراضی، آباد کاری کی اغراض کے لیے، یا حقیقی اجتماعی خدمات کے صلے میں انعام کے طور پر معقول حد کے اندر دی جائیں۔ اور اس طرح کا عطیہ بھی جس شخص کو دیا جائے وہ اگر تین سال تک اس کو آباد نہ کرے تو اس سے واپس لے لیا جانا چاہیے۔

  9. ظلم و ستم کا انسداد

    پھر وہ ہارون الرشید سے کہتے ہیں کہ ظالم اور خائن لوگوں کو حکومت کی خدمات میں استعمال کرنا اور انہیں محکموں کا افسر یا علاقوں کا حاکم مقرر کرنا آپ کے لیے حرام ہے۔ اس صورت میں جو ظلم بھی وہ کریں گے اس کا وبال آپ کے اوپر پڑے گا۔

    وہ بار بار کہتے ہیں کہ آپ صالح، متدین اور خدا ترس لوگوں کو اپنی حکومت کے کاموں میں استعمال کریں، جن لوگوں کو بھی سرکاری خدمات کے لیے چنا جائے ان کی اہلیت کے ساتھ ان کے اخلاق کی طرف سے بھی اطمینان کر لیا جائے، اور پھر ان کے پیچھے قابلِ اعتماد مخبر لگا دیئے جائیں تاکہ اگر وہ بگڑیں اور ظلم و ستم یا خیانت کرنے لگیں تو بروقت خلیفہ کو ان کے اعمال کا حال معلوم ہو جائے اور ان سے محاسبہ کیا جاسکے۔

    وہ ہارون سے یہ بھی کہتے ہیں کہ خلیفہ کو خود براہِ راست عوام کی شکایات سننی چاہئیں۔ اگر وہ مہینے میں ایک دن بھی اجلاسِ عام کرے جس میں ہر مظلوم آکر اپنی شکایت پیش کر سکے اور حکومت کے افسر جان لیں کہ خلیفہ تک براہِ راست ان کے افعال کی اطلاعات پہنچ سکتی ہیں تو ظلم و ستم کا سدِ باب ہو جائے۔

  10. عدلیہ

    عدلیہ کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ اس کا فریضہ انصاف اور بے لاگ انصاف ہے۔ جو سزا کا مستحق ہو اسے سزا نہ دینا، اور جو مستحق نہ ہو اسے سزا دینا دونوں یکساں حرام ہیں۔ شبہات میں سزا نہ دی جانی چاہیے۔ معاف کرنے میں غلطی کرنا سزا دینے میں غلطی کرنے سے بہتر ہے۔ انصاف کے معاملے میں ہر قسم کی مداخلت اور سفارش کا دروازہ بند ہونا چاہیے۔ اور کسی شخص کے مرتبے یا حیثیت کا قطعاً لحاظ نہ ہونا چاہیے۔

  11. شخصی آزادی کا تحفظ

    وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ کسی شخص کو محض تہمت کی بنا پر قید نہیں کیا جا سکتا۔ لازم ہے کہ جس شخص کے خلاف کوئی الزام ہو اس پر باقاعدہ مقدمہ چلایا جائے۔ شہادتیں لی جائیں۔ اگر جرم ثابت ہو تو قید کیا جائے ورنہ چھوڑ دیا جائے۔ وہ خلیفہ کو مشورہ دیتے ہیں کہ تمام لوگ جو قید خانوں میں محبوس ہیں ان کے معاملے کی تحقیقات ہونی چاہیے، بلا ثبوت و شہادت جو لوگ بھی قید ہوں انہیں رہا کر دینا چاہیے، اور آئندہ کے لیے تمام گورنروں کو احکام دینے چاہیں کہ کسی شخص کو محض الزامات اور تہمتوں کی بنا پر مقدمہ چلائے بغیر قید نہ کیا جائے۔

    وہ اس بات کو بھی پورے زور کے ساتھ کہتے ہیں کہ ملزموں کو محض تہمت کی بنا پر مارنا پیٹنا خلافِ قانون ہے۔ شرعاً ہر آدمی کی پیٹھ اس وقت تک محفوظ ہے جب تک عدالت سے وہ ضربِ تازیانہ کا مستحق نہ قرار پا جائے۔

  12. جیل کی اصلاحات

    انہوں نے جیل کے بارے میں جو اصلاحات تجویز کی ہیں ان میں وہ کہتے ہیں کہ جس شخص کو قید کیا جائے اس کا یہ حق ہے کہ اسے حکومت کے خزانے سے روٹی کپڑا دیا جائے۔ وہ شدت کے ساتھ اُس طریقے کی مذمت کرتے ہیں جو بنی امیہ و بنی عباس کی حکومتوں میں رائج ہو گیا تھا کہ قیدیوں کو روزانہ ہتھ کڑیوں اور بیڑیوں کے ساتھ باہر لے جایا جاتا تھا اور وہ بھیک مانگ کر روٹی کپڑا اپنے لیے لاتے تھے۔ وہ خلیفہ سے کہتے ہیں کہ یہ طریقہ بند ہو جانا چاہیے اور قیدیوں کو سرکار کی طرف سے گرمی جاڑے کا کپڑا اور پیٹ بھر کھانا ملنا چاہیے۔

    اسی طرح وہ اس بات کی بھی سخت مذمت کرتے ہیں کہ لاوارث قیدی جب مر جاتا ہے تو اسے بلا غسل و کفن اور بلا نمازِ جنازہ گاڑ دیا جاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اہلِ اسلام کے لیے یہ بڑے شرم کی بات ہے۔ ایسے قیدیوں کی تجہیز و تکفین اور نمازِ جنازہ کا انتظام سرکار کی طرف سے ہونا چاہیے۔

    اُنہوں نے یہ بھی سفارش کی ہے کہ جیل میں کسی قیدی کو، قتل کے مجرمین کے سوا، باندھ کر نہ رکھا جائے۔


اُن کے کام کی اصلی قدر و قیمت

یہ خلاصہ ہے ان آئینی تجاویز کا جو امام ابو یوسف نے اب سے ۱۲ سو برس پہلے ایک مطلق العنان فرمانروا کے سامنے اس کے وزیرِ قانون اور قاضی القضاۃ کی حیثیت سے پیش کی تھیں۔ اگر ان کو اسلامی ریاست کے بنیادی اصولوں اور خلافت راشدہ کے دستور العمل اور خود ان کے استاد امام ابو حنیفہ کی تعلیمات کے مقابلہ میں دیکھا جائے تو یہ ان سے بہت کم نظر آتی ہیں۔ ان میں انتخابی خلافت کے تصور کا شائبہ تک نہیں ہے۔ ان میں شوریٰ کے ذریعہ سے حکومت کرنے کا بھی کوئی ذکر نہیں ہے۔ یہ اس تصور سے بھی خالی ہیں کہ امامِ ظالم کو حکومت کرنے کا کوئی حق نہیں ہے اور خلق اِس کی مجاز ہے کہ اس کی حکومت کی جگہ بہتر حکومت لانے کی کوشش کرے۔ اسی طرح دوسری متعدد حیثیات سے بھی یہ تجاویز اصل اسلامی تصور کے مقابلے میں بہت ناقص ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ امام ابو یوسف کے تصورِ ریاست کی وسعت بس اتنی ہی ہے جتنی کتاب الخراج کی ان تجاویز میں پائی جاتی ہے اور وہ در حقیقت اُس سے زیادہ کچھ نہ چاہتے تھے جو اُنہوں نے اس کتاب میں بیان کر دیا ہے بلکہ دراصل یہ وہ زیادہ سے زیادہ چیز تھی جس کی ایک عملی مفکر کی حیثیت سے وہ سلطنتِ عباسیہ کے اس دور میں توقع کر سکتے تھے۔ ان کے پیشِ نظر محض ایک ایسا خیالی نقشہ پیش کرنا نہ تھا جو تصور کی حد تک مکمل ہو مگر واقعی حالات میں اس کو جامۂ عمل پہنانے کے امکانات نہ ہوں۔ اس کے بجائے وہ ایک ایسی آئینی اسکیم مرتب کرنا چاہتے تھے جو اسلامی ریاست کے کم سے کم جوہرِ مطلوب کی حامل بھی ہو اور اس کے ساتھ اسے ان حالات میں روبعمل بھی لایا جا سکتا ہو۔
(خلافت و ملوکیت)


ابن جریر طبریؒ

ابن جریر طبری کی جلالتِ قدر بحیثیت مفسر، محدث، فقیہ اور مؤرخ مسلم ہے۔ علم اور تقویٰ دونوں کے لحاظ سے اُن کا مرتبہ نہایت بلند تھا۔ ان کو قضا کا عہدہ پیش کیا گیا اور اُنہوں نے انکار کر دیا۔ دیوان المظالم کی صدارت پیش کی گئی اور اس کو بھی اُنہوں نے قبول نہ کیا۔ امام ابن خزیمہ ان کے متعلق کہتے ہیں "ما اعلم على أديم الارض اعلم من ابن جریر" (میں اس وقت روئے زمین پر اُن سے بڑے کسی عالم کو نہیں جانتا)۔ ابن کثیر کہتے ہیں "كان احد ائمة الإسلام علمًا وعملاً بكتاب الله وسنة رسوله" (وہ کتاب و سنت کے علم اور اس کے مطابق عمل کے لحاظ سے ائمہِ اسلام میں سے تھے)۔ ابن حجر کہتے ہیں "من كبار ائمة الإسلام المعتمدين" (وہ بڑے اور قابلِ اعتماد ائمہِ اسلام میں سے تھے)، خطیب بغدادی کہتے ہیں "احد ائمة العلماء يحكم بقوله ويرجع الى رايه لمعرفته وفضله وقد جمع من العلوم مالم يشاركه فيه احد من اهل عصره" (وہ ائمہِ علماء میں سے ہیں۔ ان کے قول پر فیصلہ کیا جاتا ہے اور ان کی رائے کی طرف رجوع کیا جاتا ہے کیوں کہ وہ اپنے علم و فضل کے لحاظ سے اس لائق ہیں۔ علوم میں ان کی جامعیت ایسی تھی کہ اُن کے ہم عصروں میں کوئی ان کا شریک نہ تھا)، ابن الاثیر کہتے ہیں "ابو جعفر اوثق من نقل التاريخ" (ابو جعفر تاریخ نگاروں میں سب سے زیادہ بھروسے کے لائق ہیں)۔ حدیث میں وہ خود محدث مانے جاتے ہیں۔ فقہ میں وہ خود ایک مستقل مجتہد تھے اور اُن کا مذہب اہلِ السنہ کے مذاہب ہی میں شمار ہوتا تھا۔ تاریخ میں کون ہے جس نے ان پر اعتماد نہیں کیا ہے۔ خصوصیت کے ساتھ دورِ فتنہ کی تاریخ کے معاملہ میں تو محققین انہی کی آراء پر زیادہ تر بھروسہ کرتے ہیں۔ ابن الاثیر اپنی تاریخ الکامل کے مقدمہ میں لکھتے ہیں کہ اصحابِ رسول اللہ کے مشاجرات کے معاملہ میں میں نے ابن جریر طبری پر ہی دوسرے تمام مؤرخین کی بہ نسبت زیادہ اعتماد کیا ہے کیونکہ "هو الإمام المتقين حقا، الجامع علما وصحه اعتقاد و صدقًا"۔

ابن کثیر بھی اس دور کی تاریخ میں انہی کی طرف رجوع کرتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ میں نے شیعی روایات سے بچتے ہوئے زیادہ تر ابن جریر پر اعتماد کیا ہے "فإنه من ائمة هذا الشان"۔ ابن خلدون بھی جنگِ جمل کے واقعات بیان کرنے کے بعد آخر میں لکھتے ہیں کہ میں نے واقعہ کا یہ ملخص دوسرے مؤرخین کو چھوڑ کر طبری کی تاریخ سے نکالا ہے کیونکہ وہ زیادہ قابلِ اعتماد ہے اور ان خرابیوں سے پاک ہے جو ابن قتیبہ اور دوسرے مؤرخین کی کتابوں میں پائی جاتی ہیں۔ ابن خلدون کے الفاظ یہ ہیں: "اعتمد ناه للوثوق به والسلامتهم من الاهواء الموجودة فى كتب ابن قتيبة وغيره من المؤرخين"۔

بعض فقہی مسائل اور حدیث غدیر خم کے معاملہ میں شیعہ مسلک سے اتفاق کی بنا پر بعض لوگوں نے خواہ مخواہ انہیں شیعہ قرار دے ڈالا۔ اور ایک بزرگ نے تو ان کو "امام من ائمة الامامية" تک قرار دے دیا۔ حالاں کہ ائمہِ اہلِ السنتہ میں کون ہے جس کا کوئی قول بھی کسی فقہی مسئلے یا کسی حدیث کی تصحیح کے معاملہ میں شیعوں سے نہ ملتا ہو۔ امام ابن تیمیہ کے متعلق تو سب جانتے ہیں کہ جس شخص میں شیعیت کی بو بھی ہو وہ اس کو معاف نہیں کرتے۔ مگر محمد بن جریر طبری کی تفسیر کے متعلق وہ اپنے فتاویٰ میں کہتے ہیں کہ تمام متداول تفاسیر میں اُن کی تفسیر صحیح ترین ہے "وليس فيه بدعة"۔51 دراصل سب سے پہلے حنابلہ نے اُن پر رفض کا الزام اس غصے کی بنا پر لگایا تھا کہ وہ امام احمد بن حنبل کو صرف محدث مانتے تھے، فقیہ نہیں مانتے تھے۔ اسی وجہ سے حنبلی ان کی زندگی ہی میں اُن کے دشمن ہو گئے تھے، ان کے پاس جانے سے لوگوں کو روکتے تھے اور ان کی وفات کے بعد اُنہوں نے مقابرِ مسلمین میں اُن کو دفن تک نہ ہونے دیا۔52 حتیٰ کہ وہ اپنے گھر پر دفن کیے گئے۔ اسی زیادتی پر امام ابن خزیمہ کہتے ہیں کہ "لقد ظلمته الحنابلة"۔ اس کے بعد ان کی بدنامی کا ایک سبب یہ بھی ہوا کہ انہی کے ہم عصروں میں ایک اور شخص محمد بن جریر الطبری کے نام سے معروف تھا اور وہ شیعہ تھا۔ لیکن کوئی شخص جس نے کبھی آنکھیں کھول کر خود تفسیر ابن جریر اور تاریخ طبری کو پڑھا ہے اس غلط فہمی میں نہیں پڑسکتا کہ ان کا مصنف شیعہ تھا، یا یہ دونوں کتابیں اُس شیعی محمد بن جریر الطبری کی لکھی ہوئی ہیں۔53

حاشیہ 51: فتاویٰ ابن تیمیہ، جلد دوم، صفحہ ۱۹۲، مطبعہ کردستان العلمیہ، مصر، ۱۳۲۷ھ۔
حاشیہ 52: البدایہ والنہایہ، ج ۱۱، ص ۱۴۶۔
حاشیہ 53: سنی ابن جریر اور شیعہ ابن جریر، دونوں کے حالات حافظ ابن حجر کی لِسان المیزان جلد پنجم میں صفحہ ۱۰۰ سے ۱۰۳ تک ملاحظہ فرمائیں۔ آج کل بعض لوگ بڑی بے تکلفی کے ساتھ تاریخ طبری کے مصنف کو شیعہ مؤرخ بلکہ غالی شیعہ تک قرار دے رہے ہیں۔ غالباً اُن کا خیال ہے کہ ہمارے اُردو خواں لوگ کہاں اصل کتاب کو پڑھ کر حقیقتِ حال معلوم کر سکیں گے۔

ابن سعد رح

عہدِ خلافت راشدہ سے قریب ترین زمانے کے مصنف ہیں۔ ۱۵۰ھ میں پیدا ہوئے اور ۲۳۰ھ میں انتقال کیا۔ نہایت وسیع الاطلاع ہیں۔ سیر و مغازی کے معاملہ میں ان کی ثقاہت پر تمام محدثین و مفسرین نے اعتماد کیا ہے اور آج تک کسی صاحبِ علم نے اُن پر تشیع کے شبہ تک کا اظہار نہیں کیا ہے۔ خطیب بغدادی کہتے ہیں "محمد بن سعد عندنا من اهل العدالة وحديثه يدل على صدقه فانه يتحرى فى كثير من رواياته" (محمد بن سعد ہمارے نزدیک اہلِ عدالت میں سے تھے اور اُن کی حدیث اُن کی صداقت پر دلالت کرتی ہے کیوں کہ وہ اپنی اکثر روایات میں چھان بین سے کام لیتے ہیں)۔ حافظ ابن حجر کہتے ہیں "احد الحفاظ الكبار الثقات المتحرين“ (وہ بڑے ثقہ اور محتاط حفاظِ حدیث میں سے ہیں)۔ ابن خلکان کہتے ہیں "كان صدوقاً ثقةً" (وہ سچے اور قابلِ اعتماد تھے)۔ حافظ سخاوی کہتے ہیں "ثقة مع ان استاذه (أي الواقدی) ضعيف" (وہ ثقہ ہیں اگر چہ ان کے استاد واقدی ضعیف تھے) ابن تغری بردی کہتے ہیں ”وثقہ جميع الحفاظ ما عدا يحيى بن معين" (ان کی توثیق یحییٰ بن معین کے سوا تمام حفاظ نے کی ہے)۔

ان کے استاذ واقدی کو حدیث میں تو ضعیف کہا گیا ہے، مگر سیر و مغازی کے معاملہ میں تمام اہلِ الحدیث نے ان سے روایات لی ہیں۔ اور یہی حال ابن سعد کے دوسرے اساتذہ مثلاً ہشام بن محمد بن السائب الکلبی اور ابو معشر کا ہے کہ "انهم جميعا موثقون في السيرة والمغازی" (سیرت اور غزوات کی تاریخ کے معاملہ میں سب نے ان پر اعتماد کیا ہے)۔ مزید برآں ابن سعد کے متعلق اہلِ علم یہ مانتے ہیں کہ اُنہوں نے اپنے استادوں سے ہر رطب و یابس نقل نہیں کر دیا ہے بلکہ چھان پھٹک کر روایتیں لی ہیں۔
(خلافت و ملوکیت)


ابن الاثیر رح

"ابن الأثیر" کی تاریخ الکامل اور اُسد الغابہ تاریخِ اسلام کے مستند ترین مآخذ میں شمار ہوتی ہیں اور بعد کے مصنفین میں کوئی ایسا نہیں ہے جس نے اُن پر اعتماد نہ کیا ہو۔ قاضی ابن خلکان جو اُن کے ہم عصر تھے، لکھتے ہیں "كان اماما في حفظ الحديث و معرفته وما يتعلق به ، حافظا للتواريخ المتقدمة والمتأخرة ، وخبير بانساب العرب وايامهم ووقائعهم واخبارهم ..." (وہ حدیث کے حفظ اور اس کی معرفت اور اس کے متعلقات میں امام تھے، قدیم و جدید تاریخ کے حافظ تھے، اور اہلِ عرب کے انساب اور ان کے حالات سے خوب باخبر تھے)۔ ان کے متعلق تشیع کی طرف ادنیٰ میلان کا شبہ بھی کسی نے نہیں کیا ہے۔ اور اپنی تاریخ کے مقدمہ میں وہ خود بصراحت کہتے ہیں کہ مشاجراتِ صحابہ کے بیان میں میں نے پھونک پھونک کر قدم رکھا ہے۔


حافظ ابن عبدالبر رح

علامہ حافظ ابن عبد البر کا نام کسی صاحبِ علم کے لئے تعارف کا محتاج نہیں اور نہ آپ کا مقامِ علم و اجتہاد کسی پر مخفی ہے۔ آپ کا شمار آئمہِ سلف کی صفِ اول میں ہے فقیہ اور مجتہد بھی ہیں اور حافظِ حدیث بھی۔ علامہ ابن تیمیہ اور ابن قیم جیسے اربابِ نظر ان کے خوشہ چینوں میں سے ہیں۔ وسعتِ نظر، عالمانہ تجر اور تفقہ فی الدین کے مسلم امام ہیں۔ اندلس کی خاک سے ایسا خادمِ شریعت شاید ہی کوئی اور اُٹھا ہو۔ قرطبہ میں پیدا ہوئے۔ ۲۵ ربیع الآخر ۳۶۸ھ یومِ پیدائش ہے۔ اپنے وطن کے ہی مشہور اہلِ علم سے استفادہ کیا۔ علم کے لئے اندلس سے باہر بھی نہیں گئے۔ لیکن "احفظ اہلِ مغرب" تسلیم کئے گئے ہیں۔ بعض وجوہ کی بنا پر جلا وطن بھی کئے گئے کچھ دنوں مغربی حصوں میں رہے، پھر مشرقی اندلس میں چلے آئے خلیفہ مظفر کے زمانہ میں لشبونہ کے قاضی رہے۔ ربیع الآخر ۴۶۳ھ میں وفات پائی۔ متعدد تصنیفیں چھوڑی ہیں، جن میں سے ایک مشہور تالیف "جامع بیان العلم" ہے۔
(ترجمان القرآن)

حافظ ابو عمر ابن عبد البر کو حافظ ذہبی نے تذکرۃ الحفاظ میں شیخ الاسلام کہا ہے۔ ابو الوليد الباجی کہتے ہیں "لَمْ يَكُن بالأندلس مِثْلُ أَبِي عُمَرَ فِي الْحَدِيثِ" (اندلس میں ابو عمر جیسا عالمِ حدیث کوئی نہ تھا)۔ ابن حزم کہتے ہیں "لَا أَعْلَمُ فِي الْكَلَامِ عَلى فِقْهِ الْحَدِيثِ مِثْلَهُ أَصْلًا فَكَيْفَ اَحْسَنَ مِنْہ“ (میرے علم میں فقہِ حدیث پر کلام کرنے میں کوئی ان کے برابر بھی نہ تھا کجا کہ اُن سے بہتر ہوتا)۔ ابن حجر کہتے ہیں "لَهُ تَوالِيف لا مِثْلَ لَهَا مِنْهَا كَتَابُ الاِسْتِيعَابِ فِي الصَّحَابَةِ لَيْسَ لِأَحَدٍ مِثْلَهُ" (ان کی تالیفات بے مثل ہیں اور ان میں سے ایک الاستیعاب ہے جس کے مرتبے کی کوئی کتاب سیر الصحابہ میں نہیں ہے)۔ صحابہ کی سیرت کے معاملہ میں اُن کی الاستیعاب پر آخر کون ہے جس نے اعتماد نہ کیا ہو، یا اس شبہ کا اظہار کیا ہو کہ وہ تشیع کی طرف میلان رکھتے تھے، یا یہ الزام لگایا ہو کہ وہ رطب و یابس نقل کرتے ہیں۔


ابن قتیبہ رح

ابن قتیبہ کے متعلق یہ خیال بالکل غلط ہے کہ وہ شیعہ تھا۔ وہ ابو حاتم السجستانی اور اسحاق بن راہویہ جیسے ائمہ کا شاگرد اور دینور کا قاضی تھا۔ ابن کثیر اس کے متعلق لکھتے ہیں کہ "كَانَ ثِقَةً نَبِيْلًا" (وہ ثقہ اور صاحبِ فضل و شرف آدمی تھا)۔ حافظ ابن حجر کہتے ہیں "صَدُوقٌ" (نہایت سچا آدمی)، خطیب بغدادی کہتے ہیں "كَانَ ثِقَةً دَيِّنًا فَاضِلًا" (وہ ثقہ، دین دار اور فاضل تھا)، مسلمہ بن قاسم کہتے ہیں "كَانَ صَدُوْقًا مِنْ اَهْلِ السُّنَّةِ يُقَالُ كَانَ يَذْهَبُ إِلى اقوالِ إِسْحَاقَ بْن راهويه" (نہایت سچا آدمی تھا، اہلِ سنت میں سے تھا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ اسحاق بن راہویہ کا پیرو تھا)۔ ابن حزم کہتے ہیں "ثِقَةً فِي دِيْنِهِ وَ عِلمِهِ" (اپنے دین اور علم میں بھروسے کے قابل)۔

ابن حجر اُس کے مذہب پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں: "قَالَ السَّلَفِيُّ كَانَ ابْنُ قُتَيْبَةَ مِنَ الثَّقَاتِ وَاَهْلِ السُّنَةِ وَلكِنَّ الْحَاكِمُ كَانَ بِضِدِّهِ مِنْ اَجْلِ المَذْهَبِ... وَالَّذِيْ يَظْهَرُ لِي أَنَّ مُرَادَ السَّلَفِيِّ بِالْمَذْهَبِ النَّصْبُ، فَإِنَّ فِيْ ابْنِ قُتَيْبَةَ انحرافاً عَنْ أَهْلِ الْبَيْتِ وَالْحَاكِمُ عَلى ضِدٍّ مِنْ ذَالِكَ" (السَّلفی کہتے ہیں کہ ابن قتیبہ ثقہ اور اہلِ سنت میں سے تھا مگر حاکم بر بنائے مذہب اس کے مخالف تھے... میرا خیال یہ ہے کہ مذہب سے سلفی کی مراد ناصبیت ہے، کیوں کہ ابن قتیبہ میں اہلِ بیت سے انحراف پایا جاتا تھا اور حاکم اس کے برعکس تھے)۔ اس سے معلوم ہوا کہ شیعی ہونا تو در کنار ابن قتیبہ پر تو الٹا ناصبی ہونے کا الزام تھا۔51

حاشیہ 51: البدایہ والنہایہ، ج ۱۱، صفحہ ۴۸ - ۵۲ - لسان المیزان، ج ۳، ص ۳۵۷ تا ۳۵۹۔

رہی اُس کی کتاب الامامۃ و السیاسۃ، اُس کے متعلق یقین کے ساتھ کسی نے بھی یہ نہیں کہا ہے کہ وہ ابن قتیبہ کی نہیں ہے۔ صرف شک ظاہر کیا جاتا ہے، کیوں کہ اس میں بعض روایات ایسی ہیں جو ابن قتیبہ کے علم اور اُس کی دوسری تصنیفات کے ساتھ مناسبت نہیں رکھتیں۔ میں نے خود یہ پوری کتاب پڑھی ہے، اور اُس کی چند روایتوں کو میں بھی الحاقی سمجھتا ہوں۔ مگر ان کی بنا پر پوری کتاب کو رد کر دینا میرے نزدیک زیادتی ہے۔ اس میں بہت سی کام کی باتیں ہیں اور اُن میں کوئی علامت ایسی نہیں پائی جاتی جس کی بنا پر وہ ناقابلِ قبول ہوں۔ علاوہ بریں میں نے اس سے کوئی روایت ایسی نہیں لی ہے جس کی معنیً تائید کرنے والی روایات دوسری کتابوں میں نہ ہوں، جیسا کہ میرے دیئے ہوئے حوالوں سے ظاہر ہے۔
(خلافت و ملوکیت)


المسعودی رح

المسعودی، بلاشبہ وہ معتزلی تھا، مگر یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ وہ غالی شیعہ تھا۔ اس نے مروج الذہب میں حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کے متعلق جو کچھ لکھا ہے اُسے پڑھ لیجئے شیعیت میں غلو رکھنے والا آدمی شیخین کا ذکر اس طریقہ سے نہیں کر سکتا۔ تاہم تشیع اس میں تھا۔
(خلافت و ملوکیت)


ابن کثیر رح

حافظ ابن کثیر کا مرتبہ مفسر، محدث اور مورخ کی حیثیت سے تمام امت میں مسلم ہے۔ ان کی تاریخ البدایہ والنہایہ تاریخِ اسلام کے بہترین مآخذ میں شمار ہوتی ہے اور صاحبِ کشف الظنون کے بقول اس کی بڑی خوبی یہ ہے کہ "مُمَيِّزٌ بَيْنَ الصَّحِيحِ وَالسَّقِيْمِ" (وہ صحیح اور ناقص روایات میں تمیز کرتے ہیں)۔ حافظ ذہبی ان کی تعریف میں کہتے ہیں "الْإِمَامُ الْمُفْتِي الْمُحَدِّثُ الْبَارِع نَقِيهٌ مُتَفَنِّنٌ مُحَدِّثٌ مُتْقِنٌ مُفَسِّرٌ نَقَّالٌ"۔

میں نے خاص طور پر ان کی تاریخ پر زیادہ تر اعتماد دو وجوہ سے کیا ہے۔ ایک یہ کہ وہ تشیع کی طرف میلان تو در کنار، اس کے سخت مخالف ہیں (شیعی روایات کی بڑے زور شور سے تردید کرتے ہیں، صحابہ میں سے کسی پر اپنی حدِ وسع تک آنچ نہیں آنے دیتے، اور دورِ فتنہ کی تاریخ بیان کرتے ہوئے انہوں نے حضرت معاویہ ہی نہیں یزید تک کی صفائی پیش کرنے میں کسر نہیں اُٹھا رکھی ہے)، مگر اس کے باوجود وہ اتنے متدین ہیں کہ تاریخ نگاری میں واقعات کو چھپانے کی کوشش نہیں کرتے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ وہ قاضی ابوبکر ابن العربی اور ابن تیمیہ، دونوں سے متأخر ہیں۔ قاضی ابوبکر کی العواصم من القواصم اور ابن تیمیہ کی منہاج السنہ سے ناواقف نہیں ہیں، بلکہ ابن تیمیہ کے تو وہ محض شاگرد ہی نہیں، عاشق ہیں اور ان کی خاطر مبتلائے مصائب بھی ہوئے ہیں۔51 اس لیے میں یہ شبہ تک نہیں کر سکتا کہ وہ شیعی روایات سے کچھ بھی متاثر ہو سکتے تھے، یا ان کو اخذ کرنے میں کسی قسم کا تساہل برت سکتے تھے، یا اُن بحثوں سے واقف نہ تھے جو قاضی ابو بکر اور ابن تیمیہ نے کی ہیں۔

حاشیہ 51: الدررالکامنہ لابن حجر ج ۱-ص ۳۷۴ - دائرة المعارف حیدر آباد دکن ۱۳۴۸ھ۔

امام غزالیؒ اور دورِ انحطاط

عمر ابن عبد العزیز کے بعد سیاست و حکومت کی باگیں مستقل طور پر جاہلیت کے ہاتھوں میں چلی گئیں اور بنی امیہ، بنی عباس اور پھر ترکی النسل بادشاہوں کا اقتدار قائم ہوا۔ ان حکومتوں نے جو خدمات انجام دیں، ان کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک طرف یونان، روم اور عجم کے جاہلی فلسفوں کو جوں کا توں لے کر مسلمانوں میں پھیلا دیا اور دوسری طرف علوم و فنون اور تمدن و معاشرت میں جاہلیتِ اولیٰ کی تمام گمراہیوں کو اپنی قوت اور طاقت کے زور سے شائع و ذائع کیا۔ عباسی خاندان کے تنزل نے مزید نقصان یہ پہنچایا کہ ابتدائی عباسی خلفاء کے بعد دنیوی اقتدار کی باگیں جن لوگوں کے ہاتھ میں آئیں وہ علومِ دینی سے بالکل ہی کورے تھے۔ ان میں اتنی صلاحیت بھی نہ تھی کہ قضاء اور افتاء کے عہدوں کے لیے اہلِ آدمیوں کو منتخب کر سکتے۔ اپنی جہالت اور سہولت پسندی کی وجہ سے وہ احکامِ شرعیہ کی تنفیذ کا کام ایسے لگے بندھے طریقوں پر کرنا چاہتے تھے جن میں کسی کد و کاوش کی ضرورت نہ ہو اور اس کے لیے تقلیدِ جامد ہی کا راستہ موزوں تھا۔ مزید برآں دنیا پرست علماء نے ان کو مذہبی مناظروں کی چاٹ بھی لگا دی اور پھر شاہی سرپرستی میں یہ مرض اتنا پھیلا کہ اس نے تمام مسلم ممالک میں فرقہ بندی، اختلاف اور سر پھٹول کی وبا پھیلا دی۔ امراء و سلاطین کے لیے تو مذہبی مناظرے، مرغ بازی اور بٹیر بازی کی طرح محض ایک تفریح طبع کا ذریعہ تھے۔

پانچویں صدی کے آغاز تک مسلمانوں میں مختلف فکری و عملی گمراہیاں پیدا ہو چکی تھیں۔ یہ وہ قینچیاں تھیں جنہوں نے ان کی دینی وحدت کو پارہ پارہ کر دیا۔ پانچویں صدی تک پہنچتے پہنچتے یہ حال ہو گیا کہ:

  1. یونانی فلسفے کی اشاعت سے عقائد کی بنیادیں ہل گئیں۔ محدثین و فقہاء علومِ عقلیہ سے ناواقف تھے۔ اس لیے نظامِ دین کو مقتضائے زمانہ کے مطابق معقولی انداز سے نہ سمجھا سکتے تھے اور زجر و توبیخ سے اعتقادی گمراہیوں کو دبانے کی کوشش کرتے تھے۔ علومِ عقلیہ میں جن لوگوں کے کمال کا شہرہ تھا وہ نہ صرف یہ کہ علومِ دینیہ میں کوئی بصیرت نہ رکھتے تھے بلکہ خود علومِ عقلیہ میں بھی انہیں کوئی مجتہدانہ نظر حاصل نہ تھی۔ وہ فلاسفۂ یونان کے بالکل غلام تھے۔ ان میں کوئی ایسا بالغ النظر آدمی نہ تھا جو تنقید کی نگاہ سے اس یونانی لٹریچر کا جائزہ لیتا۔ انہوں نے وحیٔ یونانی کو اٹل سمجھ کر جوں کا توں تسلیم کر لیا اور وحیٔ آسمانی کو توڑنا مروڑنا شروع کیا تاکہ وہ وحیٔ یونانی کے مطابق ڈھل جائے۔ ان حالات کا عام مسلمانوں پر یہ اثر ہوا کہ وہ دین کو ایک غیر معقول چیز سمجھنے لگے، اس کی ہر چیز انہیں مشکوک نظر آنے لگی اور ان میں یہ خیال جاگزیں ہوتا چلا گیا کہ ہمارا دین ایک چھوئی موئی کا درخت ہے جو عقلی امتحان کی ایک ذرا سی ٹھیس ہی سے مُرجھا جاتا ہے۔ امام ابوالحسن اشعری اور ان کے متبعین نے اس رَو کو بدلنے کی کوشش کی مگر یہ گروہ متکلمین کے علوم سے تو واقف تھا لیکن معقولات کے گھر کا بھیدی نہ تھا، اس لیے وہ اس عام بے اعتقادی کی رفتار کو بدلنے میں پوری طرح کامیاب نہ ہو سکا۔ بلکہ معتزلہ کی ضد میں اس نے بعض ایسی باتوں کا التزام کرلیا جو فی الواقع عقائدِ دین میں سے نہ تھیں۔
  2. جاہل فرماں رواؤں کے تغافل سے اور علومِ دین کو مادی وسائل کی تائید بہم نہ پہنچنے کے سبب سے اجتہاد کے چشمے خشک ہو گئے، تقلیدِ جامد کی بیماری پھیل گئی، مذہبی اختلافات نے ترقی کر کے ذرا ذرا سے جزئیات پر نئے نئے فرقے پیدا کر دیئے۔ اور ان فرقوں کی باہمی لڑائیوں سے مسلمانوں کی یہ حالت ہو گئی کہ گویا "عَلٰی شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ" ہیں۔
  3. مشرق سے مغرب تک مسلم ممالک میں ہر طرف اخلاقی انحطاط رونما ہو گیا جس کے اثر سے کوئی طبقہ خالی نہ رہا۔ قرآن اور نبوت کی روشنی سے مسلمانوں کی اجتماعی زندگی بڑی حد تک خالی ہو گئی ۔ علماء ، امراء ، عوام ، سب بھول گئے کہ خدا کی کتاب اور رسول کی سنت بھی کوئی چیز ہے جس کی طرف ہدایت و رہنمائی کے لیے کبھی رجوع کرنا چاہیے۔
  4. شاہی درباروں، خاندانوں اور حکمران طبقوں کی عیاشانہ زندگی اور خود غرضانہ لڑائیوں کی وجہ سے عموماً رعایا تباہ حال ہو رہی تھی۔ ناجائز ٹیکسوں کے بار نے معاشی زندگی کو نہایت خراب کر دیا تھا۔ تمدن کو حقیقی فائدہ پہنچانے والے علوم و صنائع رو بہ تنزل تھے اور ان فنون کا زور تھا جو شاہی درباروں میں قدر و منزلت رکھتے تھے مگر اخلاق و تمدن کے لیے غارت گر تھے۔ آثار سے صاف معلوم ہو رہا تھا کہ عام تباہی کا وقت قریب آ لگا ہے۔

یہ حالات تھے جب پانچویں صدی کے وسط میں امام غزالیؒ پیدا ہوئے۔ انہوں نے ابتداء اسی طرز کی تعلیم حاصل کی جو اس زمانہ میں دنیوی ترقی کا ذریعہ ہو سکتی تھی۔ انہی علوم میں کمال پیدا کیا جن کی بازار میں مانگ تھی۔ پھر اس جنس کو لے کر وہیں پہنچے جہاں کے لیے تیار ہوئے تھے اور ان بلند ترین مراتب تک ترقی کی، جن کا تصور اس زمانہ میں کوئی عالم کر سکتا تھا۔ دنیا کی سب سے بڑی یونیورسٹی، نظامیہ بغداد کے ریکٹر مقرر ہوئے۔ نظام الملک طوسی، ملک شاہ سلجوقی اور خلیفۂ بغداد کے درباروں میں اعتماد حاصل کیا۔ وقت کے سیاسیات میں یہاں تک دخیل ہوئے کہ سلجوقی فرماں روا اور عباسی خلیفہ کے درمیان جو اختلافات پیدا ہوئے تھے ان کو سلجھانے کے لیے ان کی خدمات حاصل کی جاتی تھیں۔ دنیوی عروج کے اس نقطہ پر پہنچ جانے کے بعد ان کی زندگی میں انقلاب رونما ہوا۔ اپنے زمانہ کی علمی، اخلاقی، مذہبی، سیاسی اور تمدنی زندگی کو جتنی گہری نظر سے دیکھتے گئے، اسی قدر ان کے اندر بغاوت کا جذبہ ابھرتا چلا گیا اور اسی قدر ان کے ضمیر نے زیادہ زور سے صدا لگانی شروع کی کہ تم اس گندے سمندر کی شناوری کے لیے نہیں ہو بلکہ تمہارا فرض کچھ اور ہے۔

آخر کار ان تمام اعزازات، فوائد و منافع اور مشاغل پر لات مار دی جن کے جنجال میں پھنسے ہوئے تھے۔ فقیر بن کر سیاحت کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔ گوشوں اور ویرانوں میں غور و خوض کیا۔ چپے چپے پر عام مسلمانوں کی زندگی کا گہرا مشاہدہ کیا۔ مدتوں تک مجاہدات و ریاضات سے اپنی روح کو صاف کرتے رہے۔ ۳۸ سال کی عمر میں نکلے تھے، پورے دس برس کے بعد ۴۸ سال کی عمر میں واپس ہوئے۔ اس طویل غور و فکر و مشاہدہ کے بعد جو کام کیا وہ یہ تھا کہ بادشاہوں کے تعلق اور ان کی وظیفہ خواری سے توبہ کی۔ جدال و تعصب سے پرہیز کرنے کا دائمی عہد کیا، ان تعلیمی ادارات میں کام کرنے سے انکار کر دیا جو سرکاری اثر میں ہوں اور طوس میں خود اپنا ایک آزاد ادارہ قائم کیا۔ اس ادارہ میں وہ چیدہ افراد کو اپنے خاص طرزِ تعلیم و تربیت دے کر تیار کرنا چاہتے تھے مگر غالباً ان کی یہ کوشش کوئی بڑا انقلاب انگیز کام نہ کر سکی، کیونکہ پانچ چھ سال سے زیادہ ان کو اس طرزِ خاص پر کام کرنے کی اجل ہی نے مہلت نہ دی۔

امام غزالیؒ کے تجدیدی کام کا خلاصہ

اولاً: انہوں نے فلسفۂ یونان کا نہایت گہرا مطالعہ کر کے اس پر تنقید کی اور اتنی زبردست تنقید کی کہ اس کا وہ رعب جو مسلمانوں پر چھا گیا تھا، کم ہو گیا اور لوگ جن نظریات کو حقائق سمجھے بیٹھے تھے، جن پر قرآن و حدیث کی تعلیمات کو منطبق کرنے کے سوا دین کے بچاؤ کی کوئی صورت انہیں نظر نہ آتی تھی، ان کی اصلیت سے بڑی حد تک آگاہ ہو گئے۔ امام کی اس تنقید کا اثر مسلم ممالک ہی تک محدود نہ رہا بلکہ یورپ تک پہنچا اور وہاں بھی اس نے فلسفۂ یونان کے تسلط کو مٹانے اور جدید دورِ تنقید و تحقیق کا فتح باب کرنے میں حصہ لیا۔

ثانیاً: انہوں نے ان غلطیوں کی اصلاح کی جو فلاسفہ اور متکلمین کی ضد میں اسلام کے وہ حمایتی کر رہے تھے جو علومِ عقلیہ میں گہری بصیرت نہ رکھتے تھے۔ یہ لوگ اسی قسم کی حماقتیں کر رہے تھے جو بعد میں یورپ کے پادریوں نے کیں، یعنی مذہبی عقائد کے عقلی ثبوت کو بعض صریح غیر معقول باتوں پر موقوف سمجھ کر خواہ مخواہ ان کو اصولِ موضوعہ قرار دے لینا، پھر ان اصولِ موضوعہ کو بھی عقائدِ دین میں داخل کر کے ہر اس شخص کی تکفیر کرنا جو ان کا قائل نہ ہو اور ہر اس برہان یا تجربے یا مشاہدہ کو دین کے لیے خطرہ سمجھنا جس سے ان خود ساختہ اصولِ موضوعہ کی غلطی ثابت ہوتی ہو۔ اسی چیز نے یورپ کو بالآخر دہریت کی طرف دھکیل دیا اور یہی مسلم ممالک میں بھی شدت کے ساتھ کار فرما تھی اور لوگوں میں بے اعتقادی پیدا کر رہی تھی۔ مگر امام غزالیؒ نے بروقت اس کی اصلاح کی اور مسلمانوں کو بتایا کہ تمہارے عقائدِ دینی کا اثبات ان غیر معقولات کے التزام پر منحصر نہیں ہے بلکہ اس کے لیے معقول دلائل موجود ہیں۔ لہٰذا ان چیزوں پر اصرار فضول ہے۔

ثالثاً: انہوں نے اسلام کے عقائد اور اساسیات (Fundamentals) کی ایسی معقول تعبیر پیش کی جس پر کم از کم اس زمانہ کے اور بعد کی کئی صدیوں تک کے معقولات کی بنا پر کوئی اعتراض نہ ہو سکتا تھا۔ اس کے ساتھ انہوں نے احکامِ شریعت اور عبادات و مناسک کے اسرار و مصالح بھی بیان کیے اور دین کا ایک ایسا تصور لوگوں کے سامنے رکھا جس سے وہ غلط فہمیاں دور ہو گئیں جن کی بنا پر یہ گمان ہونے لگا تھا کہ اسلام عقلی امتحان کا بوجھ نہیں سہار سکتا۔

رابعاً: انہوں نے اپنے وقت کے تمام مذہبی فرقوں اور ان کے اختلافات پر نظر ڈالی اور پوری تحقیق کے ساتھ بتایا کہ اسلام اور کفر کی امتیازی سرحدیں کیا ہیں، کن حدود کے اندر انسان کے لیے رائے و تاویل کی آزادی ہے اور کن حدود سے تجاوز کرنے کے معنی اسلام سے نکل جانے کے ہیں، اسلام کے اصلی عقائد کون سے ہیں اور وہ کیا چیزیں ہیں جن کو خواہ مخواہ عقائدِ دین میں داخل کر لیا گیا ہے۔ اس تحقیقات نے ایک دوسرے سے لڑنے جھگڑنے اور تکفیر بازی کرنے والے فرقوں کی سرنگوں میں سے بہت سی بارود نکال دی اور لوگوں کے زاویۂ نظر میں وسعت پیدا کی۔

خامساً: انہوں نے دین کے فہم کو تازہ کیا۔ بے شعور مذہبیت کو فضول ٹھہرایا۔ تقلیدِ جامد کی سخت مخالفت کی۔ لوگوں کو کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہ کے چشمۂ فیض کی طرف پھر سے توجہ دلائی، اجتہاد کی روح کو تازہ کرنے کی کوشش کی، اور اپنے عہد کے تقریباً ہر گروہ کی گمراہیوں اور کمزوریوں پر تنقید کر کے اصلاح کی طرف عام دعوت دی۔

سادساً: انہوں نے اس نظامِ تعلیم پر تنقید کی جو بالکل فرسودہ ہو چکا تھا اور تعلیم کا ایک نیا نظام تجویز کیا۔ اس وقت تک مسلمانوں میں جو نظامِ تعلیم قائم تھا اس میں دو قسم کی خرابیاں پائی جاتی تھیں۔ ایک یہ کہ علومِ دنیا اور علومِ دین الگ الگ تھے اور اس کا نتیجہ لامحالہ تفریقِ دنیا و دین کی صورت میں ظاہر ہوتا تھا جو اسلامی نقطۂ نظر سے بنیادی طور پر غلط ہے۔ دوسرے یہ کہ شرعی علوم کی حیثیت سے بعض ایسی چیزیں داخلِ درس تھیں جو شرعی اہمیت نہ رکھتی تھیں اور اس کا نتیجہ یہ تھا۔ کہ دین کے متعلق لوگوں کے تصورات غلط ہو رہے تھے اور بعض غیر جنس کی چیزوں کو اہمیت حاصل ہو جانے کی وجہ سے فرقہ بندیاں پیدا ہو رہی تھیں۔ امام غزالیؒ نے ان خرابیوں کو دور کر کے ایک سمویا ہوا نظام بنایا جس کی ان کے ہم عصروں نے سخت مخالفت کی مگر بالآخر تمام مسلم ممالک میں اس کے اصول تسلیم کر لیے گئے اور بعد میں جتنے نئے نظاماتِ تعلیم بنے وہ تمام تر انہی خطوط پر بنے جو امام نے کھینچ دیے تھے۔ اس وقت تک مدارسِ عربیہ میں جو نصاب پڑھایا جا رہا ہے اس کی ابتدائی خط کشی امام غزالی ہی کی رہینِ منت ہے۔

سابعاً: انہوں نے اخلاقِ عامہ کا پورا جائزہ لیا۔ انہیں علماء، مشائخ، امراء، سلاطین، عوام، سب کی زندگی کا مطالعہ کرنے کے خوب مواقع ملے تھے۔ خود چل پھر کر وہ مشرقی دنیا کا ایک بڑا حصہ دیکھ چکے تھے۔ اسی مطالعے کا نتیجہ ان کی کتاب "احیاء العلوم" ہے جس میں انہوں نے ہر طبقہ کی اخلاقی حالت پر تنقید کی ہے، ایک ایک برائی کی جڑ اور اس کے نفسیاتی اور تمدنی اسباب کا کھوج لگایا ہے اور اسلام کا صحیح اخلاقی معیار پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔

ثامناً: انہوں نے اپنے عہد کے نظامِ حکومت پر بھی پوری آزادی کے ساتھ تنقید کی۔ براہِ راست حکامِ وقت کو بھی اصلاح کی طرف توجہ دلاتے رہے اور عوام میں بھی یہ روح پھونکنے کی کوشش کرتے رہے کہ منفعلانہ انداز سے جبر و ظلم کے آگے سر تسلیم خم نہ کریں بلکہ آزاد نکتہ چینی کریں۔ "احیاء" میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ "ہمارے زمانہ میں سلاطین کے تمام یا اکثر اموال حرام ہیں۔"

ایک اور جگہ لکھتے ہیں کہ:

"ان سلاطین کو نہ اپنی صورت دکھانی چاہیے، نہ ان کی دیکھنی چاہیئے۔ انسان کے لیے لازم ہے کہ ان کے ظلم سے بغض رکھے۔ ان کے بقا کو پسند نہ کرے، ان کی تعریف نہ کرے، ان کے حالات سے کوئی سروکار نہ رکھے اور ان کے ہاں رسائی رکھنے والوں سے بھی دور رہے۔"

ایک اور جگہ ان آدابِ پرستش و عبودیت پر نکتہ چینی کرتے ہیں جو درباروں میں رائج تھے، اس معاشرت کی مذمت کرتے ہیں جو بادشاہوں اور امراء نے اختیار کر رکھی تھی۔ حتیٰ کہ ان کے محلات، ان کے لباس، ان کی آرائش، ہر چیز کو ہدفِ ملامت بنایا ہے۔ اسی پر بس نہیں بلکہ انہوں نے اپنے عہد کے بادشاہ کو ایک مفصل خط لکھا، جس میں اس کو اسلامی طرزِ حکومت کی طرف دعوت دی۔ حکمرانی کی ذمہ داریاں سمجھائیں اور اسے بتایا کہ تیرے ملک میں جو ظلم ہو رہا ہے، خواہ تو خود کرے یا تیرے عمال کریں، بہر حال اس کی ذمہ داری تجھ پر ہے۔ ایک دفعہ مجبوراً دربارِ شاہی میں جانا پڑا تو دورانِ گفتگو میں بادشاہ کے منہ در منہ کہا کہ:

"تیرے گھوڑوں کی گردن سازِ زریں سے نہ ٹوٹی تو کیا ہوا، مسلمانوں کی گردن تو فاقہ کشی کی مصیبت سے ٹوٹ گئی۔"

ان کے آخری زمانہ میں جتنے وزراء مقرر ہوئے، قریب قریب سب ہی کو انہوں نے خطوط لکھے اور رعایا کی تباہ حالی کی طرف توجہ دلائی۔ ایک وزیر کو لکھتے ہیں:

"ظلم حد سے گزر چکا ہے۔ چونکہ مجھے اپنی آنکھوں سے یہ سب کچھ دیکھنا پڑتا تھا اس لیے تقریباً ایک سال سے میں نے طوس کا قیام ترک کر دیا ہے تاکہ بے رحم و بے حیا ظالموں کی حرکات دیکھنے سے خلاصی پاؤں۔"

ابنِ خلدون کے بیان سے یہاں تک معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک ایسی سلطنت کے قیام کے خواہاں تھے جو خالص اسلامی اصولوں پر ہو، خواہ دنیا کے کسی گوشے میں ہو۔ چنانچہ مغربِ اقصیٰ میں موحدین کی سلطنت انہی کے اشارہ سے ان کے ایک شاگرد نے قائم کی۔ مگر امام موصوف کے کارنامے میں یہ سیاسی رنگ محض ضمنی حیثیت رکھتا تھا۔ سیاسی انقلاب کے لیے انہوں نے کوئی باقاعدہ تحریک نہیں اُٹھائی، نہ حکومت کے نظام پر کوئی خفیف سے تخفیف اثر ڈال سکے۔ ان کے بعد جاہلیت کی حکمرانی میں مسلمان قوموں کی حالت خراب سے خراب تر ہوتی چلی گئی، یہاں تک کہ ایک صدی بعد تاتاری طوفان کے دروازے ممالکِ اسلامیہ پر ٹوٹ پڑے اور اس نے ان کے پورے تمدن کو تباہ کر کے رکھ دیا۔

کام میں نقائص

امام غزالیؒ کے تجدیدی کام میں علمی و فکری حیثیت سے چند نقائص بھی تھے اور وہ تین عنوانات پر تقسیم کیے جاسکتے ہیں۔ ایک قسم ان نقائص کی جو حدیث کے علم میں کمزور ہونے کی وجہ سے ان کے کام میں پیدا ہوئے، دوسری قسم ان نقائص کی جو ان کے ذہن پر عقلیات کے غلبہ کی وجہ سے تھے اور تیسری قسم ان نقائص کی جو تصوف کی طرف ضرورت سے زیادہ مائل ہونے کی وجہ سے تھے۔

حاشیہ: تاج الدین سبکی نے "طبقات الشافعیہ" میں ایسی تمام احادیث کو جمع کر دیا ہے، جنہیں امام غزالیؒ نے "احیاء العلوم" میں درج کیا ہے اور جن کی کوئی سند نہیں ملتی۔ (ملاحظہ ہو طبقات حصہ چہارم، ص ۱۴۵ تا ص ۱۸۲)

ان کمزوریوں سے بچ کر امام موصوف کے اصل کام یعنی اسلام کی ذہنی و اخلاقی روح کو زندہ کرنے اور بدعت و ضلالت کی آلائشوں کو نظامِ فکر و نظامِ تمدن سے چھانٹ چھانٹ کر نکالنے کے کام کو جس شخص نے آگے بڑھا یا وہ ابنِ تیمیہ تھا۔

(ماخوذ از: تجدید و احیائے دین)


امام ابن تیمیہؒ (۶۶۱ھ - ۷۲۸ھ)

امام غزالیؒ کے ڈیڑھ سو برس بعد ساتویں صدی کے نصف آخر میں امام ابن تیمیہؒ پیدا ہوئے۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ دریائے سندھ سے فرات کے کناروں تک تمام مسلمان قوموں کو تاتاری غارت گر پامال کر چکے تھے اور شام کی طرف بڑھ رہے تھے۔ مسلسل پچاس برس کی ان شکستوں نے، دائمی خوف اور بدامنی کی حالت نے اور علم و تہذیب کے تمام مرکزوں کی تباہی نے مسلمانوں کو اس مرتبۂ پستی سے بھی بہت زیادہ پیچھے گرا دیا تھا، جس پر امام غزالیؒ نے انہیں پایا تھا۔ نئے تاتاری حملہ آور اگرچہ اسلام قبول کرتے جارہے تھے، مگر جاہلیت میں یہ حکمران اپنے پیش رو تُرکی فرمانرواؤں سے بھی کئی قدم آگے تھے۔ ان کے زیرِ اثر آکر عوام اور علماء و مشائخ اور فقہاء و قضاۃ کے اخلاق اور بھی زیادہ گرنے لگے۔ تقلیدِ جامد اس حد کو پہنچ گئی کہ مختلف فقہی و کلامی مذاہب گویا مستقل دین بن گئے۔ اجتہاد معصیت بن کر رہ گیا۔ بدعات و خرافات نے شرعی حیثیت اختیار کر لی۔ کتاب و سنت کی طرف رجوع کرنا ایسا گناہ ہو گیا جو کسی طرح معاف نہیں کیا جا سکتا۔ اس دور میں جاہل و گمراہ عوام، دنیا پرست یا تنگ نظر علماء اور جاہل و ظالم حکمرانوں کی ایسی سنگت بن گئی تھی کہ اس اتحادِ ثلاثہ کے خلاف کسی کا اصلاح کے لیے اٹھنا اپنی گردن کو قصاب کی چھری کے سامنے پیش کرنے سے کم نہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ گو اس وقت صحیح الخیال، وسیع النظر، حقیقت شناس علماء ناپید نہ تھے، نہ ان پختہ اور اصل صوفیوں کی کمی تھی جو جادۂ حق پر گامزن تھے، مگر جس نے اس تاریک زمانہ میں اصلاح کا علم اٹھانے کی جرأت کی وہ ایک ہی اللہ کا بندہ تھا۔

حاشیہ ۱: اس وقت کے علماء کی حالت یہ تھی کہ ہلاکو خان نے بغداد پر تسلط جمانے کے بعد علماء سے فتویٰ طلب کیا کہ سلطانِ کافر عادل اور سلطانِ مسلم ظالم میں سے کون افضل ہے؟ تو علمائے کرام نے بلا تکلف فیصلہ صادر فرما دیا کہ سلطانِ کافر عادل افضل ہے۔ اس وقت کے امراء کا حال یہ تھا کہ دنیائے اسلام میں تاتاریوں کی چیرہ دستی سے بچ بچا کر مسلمانوں کی جو سب سے بڑی سلطنت رہ گئی تھی وہ مصر و شام کے ممالیک کی سلطنت تھی اور انہوں نے اپنی سلطنت کے قانون کو دو حصوں میں تقسیم کر رکھا تھا۔ ایک شخصی قانون جس کا دائرۂ اثر صرف نکاح و طلاق و وراثت وغیرہ امورِ مذہبی تک محدود تھا اور ان معاملات میں فیصلے شریعت کے مطابق ہوتے تھے۔ دوسرا ملکی قانون، جو تمام دیوانی و فوجداری معاملات اور پورے نظامِ سلطنت پر حاوی تھا اور یہ سراسر چنگیزی دستور پر مبنی تھا۔ مزید برآں شریعت کا شخصی قانون جو کچھ بھی ملک میں رائج تھا، صرف عوام الناس کے لیے تھا۔ رہے حکمران تو وہ مسلمان ہونے کے باوجود اکثر و بیشتر اپنے شخصی معاملات تک میں تورۂ چنگیزی کی پیروی کرتے تھے نہ کہ شریعتِ محمدی کی۔ ان کے غیر اسلامی رویے کا اندازہ کرنے کے لیے صرف اتنی بات کافی ہے کہ مقریزی کے بیان کے مطابق انہوں نے اپنی سلطنت میں قحبہ خانوں کے قیام کی کھلی چھٹی دے رکھی تھی اور زنانِ بازاری پر ایک ٹیکس لگا دیا گیا تھا جس کی آمدنی "دولتِ اسلامیہ" کے خزانۂ عامرہ میں داخل کی جاتی تھی۔ ابن تیمیہ کے ہم عصر علماء اور صوفیاء اکثر و بیشتر اس سلطنت کے وظیفہ خوار تھے۔ انہیں خدا کے دین کی یہ مظلومی تو ایک لمحہ کے لیے بھی نہ کھٹکی۔ البتہ جب ابن تیمیہ نے اُٹھ کر اصلاح کی کوشش کی تو ان لوگوں کی رگِ حمیت یکایک پھڑک اٹھی اور انہوں نے فتوے دینے شروع کر دیے کہ یہ شخص ضال اور مضل ہے، تجسیم و تشبیہ کا قائل ہے، طریقِ سلف سے منحرف ہے، تصوف کا اور اہل تصوف کا دشمن ہے، صحابہ اور ائمہ تک کے منہ آتا ہے، دین میں نئی نئی باتیں نکالتا ہے، اس کے پیچھے نماز جائز نہیں اور اس کی کتابیں جلا دینے کے لائق ہیں۔

حاشیہ ۲: اس حالت کا اندازہ کرنے کے لیے بھی صرف ایک نمونہ کافی ہے۔ دمشق میں ایک مدرسے (مدرسہ رواحیہ) کے بانی نے اپنے وقف نامے میں لکھ رکھا تھا کہ اس مدرسے میں یہودی، عیسائی اور حنبلی داخل نہیں ہو سکتے۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ فقہ و کلام کے جزئیات پر مناظرہ بازیاں کرتے ہوئے نوبت یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ ایک شافعی اور اشعری حضرت امام احمد بن حنبل کے پیرووں کو یہود و نصاریٰ کے ساتھ شامل کرنے میں بھی تامل نہ کرتا تھا۔

ابن تیمیہؒ قرآن میں گہری بصیرت رکھتے تھے، حتیٰ کہ حافظ ذہبی نے شہادت دی کہ "اما التفسير فمسلم اليه" (تفسیر تو ابن تیمیہ کا حصہ ہے)۔ حدیث کے امام تھے۔ یہاں تک کہا گیا کہ "کل حديث لا يعرفه ابن تيمية فليس بحديث" (جس حدیث کو ابن تیمیہ نہ جانتے ہوں وہ حدیث نہیں ہے)۔ تفقہ کی شان یہ تھی کہ بلاشبہ ان کو مجتہدِ مطلق کا مرتبہ حاصل تھا۔ علومِ عقلیہ، منطق، فلسفہ اور کلام میں اتنی گہری نظر تھی کہ ان کے معاصرین میں سے جن لوگوں کا سرمایۂ ناز یہی علوم تھے، وہ ان کے سامنے بچوں کی حیثیت رکھتے تھے۔ یہود اور نصاریٰ کے لٹریچر اور ان کے مذہبی فرقوں کے اختلافات پر ان کی نظر اتنی وسیع تھی کہ گولڈزیہر کے بقول کوئی شخص جو توریت کی شخصیتوں سے بحث کرنا چاہے وہ ابن تیمیہ کی تحقیقات سے بے نیاز نہیں ہو سکتا۔ اور ان سب علمی کمالات کے ساتھ اس شخص کی جرأت و ہمت کا یہ حال تھا کہ اظہارِ حق میں کبھی کسی بڑی سے بڑی طاقت سے بھی نہ ڈرا، حتیٰ کہ متعدد مرتبہ جیل بھیجا گیا اور آخر کار جیل ہی میں جان دے دی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ امام غزالیؒ کے چھوڑے ہوئے کام کو ان سے زیادہ خوبی کے ساتھ آگے بڑھانے میں کامیاب ہوا۔

ابن تیمیہؒ کے تجدیدی کام کا خلاصہ

  1. انہوں نے یونانی منطق و فلسفہ پر امام غزالیؒ سے زیادہ گہری اور زبردست تنقید کی اور اس کی کمزوریوں کو اس طرح نمایاں کر کے دکھایا کہ عقلیات کے میدان میں اس کا تسلط ہمیشہ کے لیے ڈھیلا ہو گیا۔ ان دونوں اماموں کی تنقید کے اثرات مشرق ہی تک محدود نہ رہے بلکہ مغرب تک بھی پہنچے۔ چنانچہ یورپ میں ارسطو کی منطق اور مسیحی متکلمین کے یونان زدہ فلسفیانہ نظام کے خلاف پہلی تنقیدی آواز امام ابن تیمیہؒ کے ڈھائی سو برس بعد اٹھی۔
  2. انہوں نے اسلام کے عقائد، احکام اور قوانین کی تائید میں ایسے زبردست دلائل قائم کیے جو امام غزالیؒ کے دلائل سے زیادہ معقول بھی تھے اور اسلام کی اصل روح کے حامل ہونے میں بھی ان سے بڑھے ہوئے تھے۔ امام غزالیؒ کے بیان و استدلال پر اصطلاحی معقولات کا اثر چھایا ہوا تھا۔ ابن تیمیہؒ نے اس راہ کو چھوڑ کر عقلِ عام (Common Sense) پر تفہیم و تبیین کی بناء رکھی جو زیادہ فطری، زیادہ مؤثر اور زیادہ قرآن و سنت کے قریب تھی۔ یہ نئی راہ پچھلی راہ سے بالکل الگ تھی۔ جو لوگ دین کے علمبردار تھے وہ فقط احکام نقل کر دیتے تھے، تفہیم نہ کر سکتے تھے اور جو کلام میں پھنس گئے تھے وہ تفلسف اور اصطلاحی معقولات کو ذریعۂ تفہیم بنانے کی وجہ سے کتاب و سنت کی اعلیٰ اسپرٹ کو کم و بیش کھو دیتے تھے۔ ابن تیمیہ نے عقائد و احکام کو ان کی اصل اسپرٹ کے ساتھ بے کم و کاست بیان بھی کیا اور پھر تفہیم کا وہ سیدھا سادہ فطری ڈھنگ اختیار کیا جس کے سامنے عقل کے لیے سر جھکا دینے کے سوا چارہ نہ تھا۔ اسی زبردست کارنامے کی تعریف امامِ حدیث علامہ ذہبی نے ان الفاظ میں کی ہے: "وَلَقَدْ نَصَرَ السُّنَّةَ الْمَحْضَةَ وَالطَّرِيقَةَ السَّلَفِيَّةَ وَاحْتَجَّ لَهَا بِبَرَاهِينٍ و مُقَدِّمَاتٍ وَأُمُورٍ لَمْ يُسْبَقُ إِلَيْهَا۔" یعنی ابن تیمیہ نے خالص سنت اور طریقۂ سلف کی حمایت کی اور اس کی تائید میں ایسے دلائل اور ایسے طریقوں سے کام لیا، جن کی طرف ان سے پہلے کسی کی نظر نہ گئی تھی۔
  3. انہوں نے تقلیدِ جامد کے خلاف صرف آواز ہی نہیں اٹھائی بلکہ قرونِ اولیٰ کے مجتہدین کے طریقہ پر اجتہاد کر کے دکھایا۔ براہِ راست کتاب و سنت اور آثارِ صحابہ سے استنباط کر کے اور مختلف مذاہبِ فقہ کے درمیان آزاد محاکمہ کر کے کثیر التعداد مسائل میں کلام کیا جس سے راہِ اجتہاد از سرِ نو باز ہوئی اور قوتِ اجتہاد کا طریقِ استعمال لوگوں پر واضح ہوا۔ اس کے ساتھ انہوں نے اور ان کے جلیل القدر شاگرد ابن قیم نے حکمتِ تشریع اور شارع کے طرزِ قانون سازی پر اتنا نفیس کام کیا جس کی مثال ان سے پہلے کے شرعی لٹریچر میں نہیں ملتی۔ یہ وہ مواد ہے جس سے ان کے بعد اجتہادی کام کرنے والوں کو بہترین رہنمائی حاصل ہوئی اور آئندہ ہوتی رہے گی۔
  4. انہوں نے بدعات اور مشرکانہ رسوم اور اعتقادی و اخلاقی گمراہیوں کے خلاف سخت جہاد کیا اور اس سلسلہ میں بڑی مصیبتیں اٹھائیں۔ اسلام کے چشمۂ صافی میں اس وقت تک جتنی آمیزشیں ہوئی تھیں، اس اللہ کے بندے نے ان میں سے ایک کو بھی نہ چھوڑا، ایک ایک کی خبر لی اور ان سب سے چھانٹ کر ٹھیٹھ اسلام کے طریقہ کو الگ روشن کر کے دنیا کے سامنے رکھ دیا۔ اس تنقید و تنقیح میں اس شخص نے کسی کی رو رعایت نہ کی۔ بڑے بڑے آدمی جن کے فضل و کمال اور تقدس کا سکہ مسلمانوں کی ساری دنیا پر بیٹھا ہوا تھا، جن کے نام سن کر لوگوں کی گردنیں جھک جاتی تھیں، ابن تیمیہ کی تنقید سے نہ بچ سکے۔ وہ طریقے اور اعمال جو صدیوں سے مذہبی حیثیت اختیار کیے ہوئے تھے، جن کے جواز بلکہ استحباب کی دلیلیں نکال لی گئی تھیں اور علماءِ حق بھی جن سے مداہنت کر رہے تھے، ابن تیمیہ نے ان کو ٹھیٹھ اسلام کے منافی پایا اور ان کی پر زور مخالفت کی۔ اس آزاد خیالی اور صاف گوئی کی وجہ سے ایک دنیا ان کی دشمن ہو گئی اور آج تک دشمن چلی آتی ہے۔ جو لوگ ان کے عہد میں تھے انہوں نے مقدمات قائم کرا کے کئی بار جیل بھیجوایا اور جو بعد میں آئے، انہوں نے تکفیر و تضلیل کر کے اپنا دل ٹھنڈا کیا مگر اسلامِ خالص و محض کے اتباع کا جو صور اس شخص نے پھونکا تھا، اس کی بدولت ایک مستقل حرکت دنیا میں پیدا ہو گئی جس کی آوازِ بازگشت اب تک بلند ہو رہی ہے۔

اس تجدیدی کام کے ساتھ انہوں نے تاتاری وحشت و بربریت کے مقابلے میں تلوار سے بھی جہاد کیا۔ اس وقت مصر و شام اس سیلاب سے بچے ہوئے تھے۔ امام نے وہاں کے عام مسلمانوں اور رئیسوں میں غیرت و حمیت کی آگ پھونکی اور انہیں مقابلے پر آمادہ کیا۔ ان کے ہم عصر شہادت دیتے ہیں کہ مسلمان تاتاریوں سے اتنے مرعوب ہو چکے تھے کہ ان کا نام سن کر کانپ اُٹھتے تھے، اور ان کے مقابلے میں جاتے ہوئے ڈرتے تھے، "كَاَنَّمَا يُسَاقُونَ اِلَی الْمَوْتِ"، مگر ابن تیمیہ نے ان میں جہاد کا جوش پھونک کر شجاعت کی سوئی ہوئی روح کو بیدار کر دیا۔ تاہم یہ واقعہ ہے کہ وہ کوئی ایسی سیاسی تحریک نہ اُٹھا سکے جس سے نظامِ حکومت میں انقلاب برپا ہوتا اور اقتدار کی کنجیاں جاہلیت کے قبضے سے نکل کر اسلام کے ہاتھ میں آجاتیں۔

(ماخوذ از: تجدید و احیائے دین)


شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ (۱۱۱۴ھ - ۱۱۷۶ھ)

حضرت مجدد الف ثانیؒ کی وفات کے بعد اور عالمگیر بادشاہ کی وفات سے چار سال پہلے نواحِ دہلی میں شاہ ولی اللہ صاحب پیدا ہوئے۔ ایک طرف ان کے زمانہ اور ماحول کو اور دوسری طرف ان کے کام کو جب آدمی بالمقابل رکھ کر دیکھتا ہے تو عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ اس دور میں اس نظر، ان خیالات، اس ذہنیت کا آدمی کیسے پیدا ہو گیا۔ فرخ سیر، محمد شاہ رنگیلے اور شاہ عالم کے ہندوستان کو کون نہیں جانتا۔ اس تاریک زمانہ میں نشو نما پا کر ایسا آزاد خیال مفکر و مدبر منظرِ عام پر آتا ہے جو زمانہ اور ماحول کی ساری بندشوں سے آزاد ہو کر سوچتا ہے، تقلیدی علم اور صدیوں کے جمے ہوئے تعصبات کے بند توڑ کر ہر مسئلۂ زندگی پر محققانہ و مجتہدانہ نگاہ ڈالتا ہے اور ایسا لٹریچر چھوڑ جاتا ہے جس کی زبان، اندازِ بیان، خیالات، نظریات، موادِ تحقیق اور نتائجِ مستخرجہ، کسی چیز پر بھی ماحول کا کوئی اثر دکھائی نہیں دیتا، حتیٰ کہ اس کے اوراق کی سیر کرتے ہوئے یہ گمان تک نہیں ہوتا کہ یہ چیزیں اس جگہ لکھی گئی تھیں، جس کے گرد و پیش عیاشی، نفس پرستی، قتل و غارت، جبر و ظلم اور بدامنی و طوائف الملوکی کا طوفان برپا تھا۔

شاہ صاحب تاریخِ انسانی کے اُن لیڈروں میں سے ہیں جو خیالات کے الجھے ہوئے جنگل کو صاف کر کے فکر و نظر کی ایک صاف سیدھی شاہراہ بناتے ہیں اور ذہن کی دنیا میں حالاتِ موجودہ کے خلاف ایسی بے چینی اور تعمیرِ نو کا ایسا دلآویز نقشہ پیدا کرتے چلے جاتے ہیں جس کی وجہ سے ناگزیر طور پر تخریبِ فاسد و تعمیرِ صالح کے لیے ایک تحریک اٹھتی ہے۔ شاذ و نادر ہی ایسا ہوتا ہے کہ اس قسم کے لیڈر اپنے خیالات کے مطابق خود کوئی تحریک اٹھاتے ہوں اور بگڑی ہوئی دنیا کو توڑ پھوڑ کر اپنے ہاتھوں سے نئی دنیا بنانے کے لیے میدان میں نکل آتے ہوں۔ تاریخ میں اس کی مثالیں بہت ہی کم ملتی ہیں۔ اس طرز کے لیڈروں کا اصلی کارنامہ یہی ہوتا ہے کہ وہ تنقید سے صدہا برس کی جمی ہوئی غلط فہمیوں کا غبار چھانٹ دیتے ہیں، اذہان میں نئی روشنی پیدا کرتے ہیں، زندگی کے بگڑے ہوئے مگر پختہ بنے ہوئے سانچے کو عالمِ ذہنی میں توڑتے ہیں اور اس کے بدلے میں سے اصلی پائیدار حقیقتوں کو نکال کر دنیا کے سامنے رکھ جاتے ہیں۔ یہ کام بجائے خود اتنا بڑا ہوتا ہے کہ اس کی مشغولیتوں سے آدمی کو اتنی فرصت مشکل ہی سے مل سکتی ہے کہ خود میدان میں آکر تعمیر کا عملی کام بھی کر سکے۔ اگرچہ شاہ صاحب "تفہیماتِ الٰہیہ" میں ایک جگہ اشارہ کرتے ہیں کہ اگر موقع و محل کا اقتضاء ہوتا تو میں جنگ کر کے عملاً اصلاح کرنے کی قابلیت بھی رکھتا تھا۔ مگر واقعہ یہی ہے کہ انہوں نے اس طرز کا کوئی کام نہیں کیا۔ ان کی ساری قوتوں کو تنقید و تعمیرِ افکار کے بھاری کام نے بالکل اپنے اندر جذب کر رکھا تھا اور ان کو اس کارِ عظیم سے اتنی مہلت بھی نہ تھی کہ اپنے قریب ترین ماحول کی طرف ہی توجہ کر سکتے۔ جیسا کہ آگے چل کر عرض کیا جائے گا، ان کے صاف کیے ہوئے راستے پر عملی جدوجہد کرنے کے لیے کچھ دوسرے لوگوں کی ضرورت تھی اور وہ نصف صدی کے اندر خود انہی کے حلقۂ تعلیم و تربیت سے نشو نما پا کر اُٹھے۔

تجدیدی کارنامہ: تنقید اور تعمیر

شاہ صاحب کے تجدیدی کارنامے کو ہم دو بڑے عنوانات پر تقسیم کر سکتے ہیں۔ ایک عنوان تنقید و تنقیح کا اور دوسرا عنوان تعمیر کا۔ میں ان دونوں کو الگ الگ بیان کروں گا۔

پہلا عنوان: تنقیدی کام

پہلے عنوان کے سلسلہ میں شاہ صاحب نے پوری تاریخِ اسلام پر تنقیدی نگاہ ڈالی ہے۔ جہاں تک مجھے علم ہے، شاہ صاحب پہلے شخص ہیں جس کی نظر تاریخِ اسلام اور تاریخِ مسلمین کے اصولی فرق اور باریک فرق تک پہنچی اور جس نے تاریخِ مسلمین پر تاریخِ اسلام کے نقطۂ نظر سے نقد و تبصرہ کر کے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ ان بہت سی صدیوں میں اسلام قبول کرنے والی اقوام کے درمیان فی الواقع اسلام کا کیا حال رہا ہے۔ یہ ایک ایسا نازک مضمون ہے جس کی پیچیدگیوں میں پہلے بھی لوگ الجھے رہے ہیں اور اب تک الجھے ہوئے ہیں۔ چنانچہ شاہ صاحب کے بعد کوئی ایسا صاحبِ نظر نہ اٹھا جس کے ذہن میں حقیقی تاریخِ اسلام کا، تاریخِ مسلمین سے الگ کوئی واضح تصور ہوتا۔ شاہ صاحب کے کلام میں مختلف مقامات پر اس کے متعلق اشارات موجود ہیں۔ مگر خصوصیت کے ساتھ "ازالۃ الخفاء" کی فصل ششم میں انہوں نے ایک مسلسل تاریخِ مسلمین پر تبصرہ کیا ہے اور کمال یہ کیا ہے کہ ایک ایک دور کی خصوصیات اور ایک ایک زمانہ کے فتنوں کو بیان کرتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ان پیشین گوئیوں کو بھی نقل کرتے گئے ہیں جن میں ان حالات کی طرف صریح اشارات پائے جاتے ہیں۔ اس تبصرہ میں قریب قریب ان تمام جاہلی آمیزشوں کی نشان دہی ہو گئی ہے جو مسلمانوں کے عقائد، علوم، اخلاق، تمدن اور سیاست میں ہوتی رہیں۔

پھر شاہ صاحب نے خرابیوں کے اس ہجوم میں کھوج لگا کر یہ معلوم کرنے کی کوشش کی ہے کہ ان میں بنیادی خرابیاں کون سی ہیں جن سے باقی تمام خرابیوں کا شجرۂ نسب ملتا ہو اور آخر کار دو چیزوں پر انگلی رکھ دی ہے: ایک اقتدارِ سیاسی کا خلافت سے بادشاہت کی طرف منتقل ہونا۔ دوسرے روحِ اجتہاد کا مردہ ہو جانا اور تقلیدِ جامد کا دماغوں پر مسلط ہو جانا۔

پہلی خرابی پر انہوں نے "ازالہ" میں پوری تفصیل کے ساتھ بحث کی ہے۔ خلافت اور بادشاہی کے اصولی و اصطلاحی فرق کو جس قدر واضح صورت میں انہوں نے بیان کیا ہے اور جس طرح احادیث سے اس کی تشریح کی ہے، اس کی مثال ان سے پہلے کے مصنفین کی تحریروں میں نہیں ملتی۔ اسی طرح اس انقلاب کے نتائج کو بھی جس صراحت کے ساتھ انہوں نے پیش کیا ہے وہ اگلوں کے کلام میں مفقود ہے۔ ایک جگہ لکھتے ہیں:

"ارکانِ اسلام کی اقامت میں فتورِ عظیم برپا ہو گیا۔ حضرت عثمانؓ کے بعد کسی فرماں روا نے حج قائم نہیں کیا بلکہ اپنے نائب ہی مقرر کر کے بھیجتے رہے، حالانکہ اقامتِ حج خلافت کے لوازم میں سے ہے جس طرح تخت پر بیٹھنا، تاج پہننا اور شاہانِ گزشتہ کی شہ نشین میں بیٹھنا قیصر و کسریٰ کے لیے علامتِ پادشاہی تھا، اسی طرح حج خود اپنی امارت میں قائم کرنا اسلام میں علامتِ خلافت ہے۔"

ایک اور جگہ لکھتے ہیں:

"پہلے وعظ اور فتویٰ دونوں خلیفہ کی رائے پر موقوف تھے۔ خلیفہ کے بغیر نہ وعظ کہا جا سکتا تھا اور نہ کوئی فتویٰ دینے کا مجاز تھا مگر اس انقلاب کے بعد وعظ اور فتویٰ دونوں اس نگرانی سے آزاد ہو گئے بلکہ بعد میں تو فتویٰ دینے کے لیے جماعتِ صالحین کے مشورے کی قید بھی نہ رہی۔"

پھر فرماتے ہیں:

"ان لوگوں کی حکومت مجوسیوں کی حکومت کے مانند ہی ہے بس فرق یہ ہے کہ نماز پڑھتے اور کلمۂ شہادت زبان سے ادا کرتے رہے ہیں۔ ہم اسی تغیر کے دامن میں پیدا ہوئے ہیں، معلوم نہیں آگے چل کر خدا تعالیٰ کیا دکھانا چاہتا ہے۔"

رہی دوسری خرابی تو شاہ صاحب نے "ازالہ" میں، "حجت" میں، "بدورِ بازغہ" میں، "تفہیمات" میں، "المسوّیٰ" اور "مصفّٰی" میں اور قریب قریب اپنی ہر تصنیف میں اس پر ماتم کیا ہے۔ "ازالہ" میں فرماتے ہیں:

"دولتِ اموی سلطنت کے خاتمہ تک کوئی اپنے آپ کو حنفی یا شافعی نہ کہتا تھا، بلکہ سب اپنے اپنے ائمہ اور اساتذہ کے طریقہ پر دلائلِ شرعی سے استنباط کرتے تھے۔ دولتِ عراق (عباسیہ) کے زمانہ میں ہر ایک نے اپنا ایک نام معین کیا اور یہ کیفیت ہو گئی کہ جب تک اپنے مذہب کے بڑوں کی نص نہ پاتے، کتاب و سنت کی دلیل پر فیصلہ نہ کرتے۔ اس طرح وہ اختلافات جو تاویلِ کتاب و سنت کے مقتضیات سے ناگزیر طور پر پیدا ہوتے تھے مستقل بنیادوں پر جم کر رہ گئے۔ پھر جب دولتِ عجم کا خاتمہ ہو گیا، یعنی ترکی اقتدار کا زمانہ آیا اور لوگ مختلف ممالک میں منتشر ہوئے، تو ہر ایک نے جو کچھ اپنے مذہبِ فقہی سے یاد کیا تھا اسی کو اصل بنا لیا۔ پہلے جو چیز مذہبِ مستنبط تھی، اب وہ سنتِ مستقرہ بن گئی۔ اب ان کے علم کا مدار اس پر رہ گیا کہ تخریج پر تخریج کریں اور تفریع پر تفریع۔"

"مصفّٰی" میں لکھتے ہیں:

"ہمارے زمانے کے سادہ لوح اجتہاد سے بالکل برگشتہ ہیں۔ اونٹ کی طرح ناک میں نکیل پڑی ہے اور کچھ نہیں جانتے کہ کدھر جارہے ہیں۔ ان کا کاروبار ہی دوسرا ہے۔ یہ بے چارے ان امور کی سمجھ بوجھ کے لیے مکلف ہی نہیں ہیں۔"

"حجۃ اللہ البالغہ" کے مبحث ہفتم میں اور "انصاف" میں شاہ صاحب نے اس مرض کی پوری تاریخ بیان کی ہے اور ان خرابیوں کی نشان دہی کی ہے جو اس کی بدولت پیدا ہوتی ہیں۔

شاہ صاحب کے زمانے کی حالت کا جائزہ

تاریخی تنقید کے بعد شاہ صاحب اپنے زمانہ کی حالت کا جائزہ لیتے ہیں اور ایک ایک کو نام بنام پکار کر اس کے نقائص بیان کرتے ہیں۔ "تفہیمات" میں ایک جگہ لکھتے ہیں:

"یہ وصی (یعنی خود شاہ صاحب) ایسے زمانہ میں پیدا ہوا ہے جبکہ لوگوں میں تین چیزیں خلط ملط ہو گئی ہیں:
  1. دلیل بازی: اور یہ یونانی علوم کے اختلاط کی بدولت ہے۔ لوگ کلامی مباحث میں مشغول ہو گئے ہیں۔ یہاں تک کہ عقائد میں کوئی گفتگو ایسی نہیں ہوتی جو استدلالی مناظرات سے خالی ہو۔
  2. وجدان پرستی: اور یہ صوفیوں کی مقبولیت اور ان کی حلقہ بگوشی کی وجہ سے ہے جس نے مشرق سے مغرب تک لوگوں کو گھیر رکھا ہے، یہاں تک کہ ان حضرات کے اقوال و احوال لوگوں کے دلوں پر کتاب و سنت اور ہر چیز سے زیادہ تسلط رکھتے ہیں۔ ان کے رموز و اشارات اس قدر دخل پا گئے ہیں کہ جو شخص ان رموز و اشارات کا انکار کرے یا ان سے خالی ہو وہ نہ مقبول ہوتا ہے نہ صالحین میں شمار ہوتا ہے۔ منبروں پر کوئی واعظ ایسا نہیں جس کی تقریر اشاراتِ صوفیہ سے پاک ہو اور درس کی مسندوں پر کوئی عالم ایسا نہیں جو ان کے کلام میں اعتقاد اور خوض کا اظہار نہ کرے۔ ورنہ اس کا شمار گدھوں میں ہونے لگتا ہے۔ پھر امراء و رؤساء وغیرہ کی کوئی مجلس ایسی نہیں جن کے ہاں لطفِ کلام اور بذلہ سنجی اور تفنن کے لیے تصوف کے اشعار اور نکات کھلونا بنے ہوئے نہ ہوں۔
  3. طاعت: اور یہ اس بنا پر ہے کہ لوگ ملتِ اسلامیہ میں داخل ہیں۔
پھر اس زمانہ کی ایک بیماری یہ ہے کہ ہر ایک اپنی رائے پر چلتا ہے اور بگٹٹ چلا جا رہا ہے، نہ متشابہات پر دبا کر رکتا ہے نہ کسی ایسے امر میں دخل دینے سے باز رہتا ہے جو اس کے علم سے بالاتر ہو۔ احکام کے معانی اور اسرار پر ہر ایک اپنی عقل سے کلام کر رہا ہے اور جو کچھ میں نے سمجھ لیا ہے اس پر دوسروں سے مناظرہ و مباحثہ کر رہا ہے۔ دوسری بیماری یہ ہے کہ فقہ میں حنبلی اور شافعی وغیرہ کے سخت اختلافات پائے جاتے ہیں، ہر ایک اپنے طریقہ میں تعصب برتتا ہے اور دوسروں کے طریقہ پر اعتراض کرتا ہے۔ ہر مذہب میں تخریجات کی کثرت ہے اور حق اس غبار میں چھپ گیا ہے۔"

اسی کتاب میں ایک اور جگہ لکھتے ہیں:

"میں ان پیرزادوں سے جو کسی استحقاق کے بغیر باپ دادا کی گدیوں پر بیٹھے ہیں، کہتا ہوں کہ یہ کیا دھڑے بندیاں تم نے کر رکھی ہیں؟ کیوں تم میں سے ہر ایک اپنے طریقہ پر چل رہا ہے اور کیوں اس طریقہ کو چھوڑ رکھا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اتارا تھا؟ تم میں سے ہر ایک امام بن بیٹھا ہے، اپنی طرف لوگوں کو بلا رہا ہے اور اپنے آپ کو ہادی و مہدی سمجھتا ہے، حالانکہ وہ ضال مضل ہے۔ ہم ہرگز ان لوگوں سے راضی نہیں جو دنیا کے فوائد کی خاطر لوگوں سے بیعت لیتے ہیں، یا اس لیے علم حاصل کرتے ہیں کہ اغراضِ دنیوی حاصل کریں، یا لوگوں کو اپنی طرف دعوت دیتے ہیں اور اپنی خواہشاتِ نفس کی اطاعت اس سے کراتے ہیں۔ یہ سب راہزن ہیں، دجال ہیں، کذاب ہیں، خود بھی دھوکے میں ہیں اور دوسروں کو بھی دھوکہ دے رہے ہیں...
میں ان طالبانِ علم سے کہتا ہوں جو اپنے آپ کو علماء کہتے ہیں کہ بے وقوفو! تم یونانیوں کے علوم اور صرف و نحو و معانی میں پھنس گئے اور سمجھے کہ علم اس کا نام ہے، حالانکہ علم تو کتاب اللہ کی آیتِ محکم ہے، یا پختہ سنت ہے جو رسول سے ثابت ہو... تم پچھلے فقہا کے استحسانات اور تفریعات میں ڈوب گئے، کیا تمہیں خبر نہیں کہ حکم صرف وہ ہے جو اللہ اور اس کے رسول نے فرمایا ہو؟ تم میں سے اکثر لوگوں کا حال یہ ہے کہ جب کسی کو نبی کی کوئی حدیث پہنچتی ہے تو وہ اس پر عمل نہیں کرتا اور کہتا ہے کہ میرا عمل تو فلاں کے مذہب پر ہے نہ کہ حدیث پر۔ پھر وہ حیلہ یہ پیش کرتا ہے کہ "صاحب! حدیث کا فہم اور اس کے مطابق فیصلہ تو کاملین و ماہرین کا کام ہے اور یہ حدیث ائمہ سلف سے چھپی تو نہ ہوگی، پھر کوئی وجہ تو ہوگی کہ انہوں نے اسے ترک کر دیا"، جان رکھو یہ ہرگز دین کا طریقہ نہیں ہے۔ اگر تم اپنے نبی پر ایمان لائے ہو تو اس کا اتباع کرو خواہ کسی مذہب کے موافق ہو یا مخالف...
میں ان متقشف واعظوں، عابدوں اور خانقاہ نشینوں سے کہتا ہوں کہ اے زہاد کے مدعیو! تم ہر وادی میں بھٹک نکلے اور ہر رطب و یابس کو لے بیٹھے۔ تم نے لوگوں کو موضوعات اور اباطیل کی طرف بلایا۔ تم نے خلقِ خدا پر زندگی کا دائرہ تنگ کردیا، حالانکہ تم فراخی کے لیے مامور تھے نہ کہ تنگی کے لیے۔ تم نے مغلوب الحال عشاق کی باتوں کو سرمایہ بنا لیا ہے حالانکہ یہ چیزیں پھیلانے کی نہیں لپیٹ کر رکھ دینے کی ہیں۔
...
میں امراء سے کہتا ہوں کہ تمہیں خدا کا خوف نہیں آتا؟ تم فانی لذتوں کی طلب میں مستغرق ہو گئے اور رعیت کو چھوڑ دیا کہ ایک دوسرے کو کھا جائے۔ علانیہ شرابیں پی جارہی ہیں اور تم نہیں روکتے۔ زنا کاری، شراب فروشی اور قمار بازی کے اڈے بر سرِ عام بن گئے ہیں اور تم ان کا انسداد نہیں کرتے۔ اس عظیم الشان ملک میں مدت ہائے دراز سے کوئی حدِ شرعی نہیں لگائی گئی۔ جس کو تم ضعیف پاتے ہو اسے کھا جاتے ہو اور جسے قوی پاتے ہو اسے چھوڑ دیتے ہو۔ کھانوں کی لذت، عورتوں کے نازو انداز، کپڑوں اور مکانوں کی لطافت، بس یہ چیزیں ہیں جن میں تم ڈوب گئے ہو کبھی خدا کا خیال تمہیں نہیں آتا...
میں ان فوجی آدمیوں سے کہتا ہوں کہ تم کو اللہ نے جہاد کے لیے، اعلائے کلمۂ حق کے لیے، شرک و اہل شرک کا زور توڑنے کے لیے فوجی بنایا تھا۔ اس کو چھوڑ کر تم نے گھوڑ سواری اور ہتھیار بندی کو پیشہ بنالیا۔ اب جہاد کی نیت اور مقصد سے تمہارے دل خالی ہیں، پیسہ کمانے کے لیے سپاہی گری کا پیشہ کرتے ہو، بھنگ اور شراب پیتے ہو، ڈاڑھیاں منڈاتے ہو اور مونچھیں بڑھاتے ہو، بندگانِ خدا پر ظلم ڈھاتے ہو اور تمہیں کبھی اس بات کی پروا نہیں ہوتی کہ حرام کی روٹی کما رہے ہو یا حلال کی۔ خدا کی قسم تمہیں ایک روز دنیا سے جانا ہے پھر اللہ تمہیں بتائے گا کہ کیا کر کے آئے ہو...
میں ان اہل حرفہ اور عوام سے کہتا ہوں کہ تم میں سے امانت و دیانت رخصت ہو گئی ہے۔ اپنے رب کی عبادت سے تم غافل ہو گئے ہو اور اللہ کے ساتھ شرک کرنے لگے ہو۔ تم غیر اللہ کے لیے قربانیاں کرتے ہو اور مدار صاحب اور سالار صاحب کی قبروں کا حج کرتے ہو۔ یہ تمہارے بد ترین افعال ہیں۔ تم میں سے جو کوئی شخص خوش حال ہو جاتا ہے وہ اپنے لباس اور کھانے پر اتنا خرچ کرتا ہے کہ اس کی آمدنی اس کے لیے کافی نہیں ہوتی اور اہل و عیال کی حق تلفی کرنی پڑتی ہے، یا پھر وہ شراب نوشی اور کرایہ کی عورتوں میں اپنی معاش اور معاد دونوں کو ضائع کرتا ہے...
پھر میں مسلمانوں کی تمام جماعتوں کو عام خطاب کر کے کہتا ہوں کہ اے بنی آدم! تم نے اپنے اخلاق کھو دیئے، تم پر تنگ دلی چھا گئی اور شیطان تمہارا محافظ بن گیا۔ عورتیں مردوں پر حاوی ہو گئی ہیں اور مردوں نے عورتوں کو ذلیل بنا رکھا ہے اور حلال تمہارے لیے بدمزہ بن گیا ہے...
اے بنی آدم! تم نے ایسی فاسد رسمیں اختیار کر لی ہیں جن سے دین متغیر ہو گیا ہے۔ مثلاً روزِ عاشوراء کو تم جمع ہو کر باطل حرکات کرتے ہو۔ ایک جماعت نے اس دن کو ماتم کا دن بنا رکھا ہے۔ کیا تم نہیں جانتے کہ سب دن اللہ کے ہیں اور سارے حوادث اللہ کی مشیت سے ہوتے ہیں؟ اگر حضرت حسین رضی اللہ عنہ اس روز شہید کیے گئے تو اور کونسا دن ہے جس میں کسی محبوبِ خدا کی موت واقع نہ ہوتی ہو؟ کچھ لوگوں نے اس دن کو کھیل تماشوں کا دن بنا رکھا ہے۔ پھر تم شبِ برات میں جاہل قوموں کی طرح کھیل تماشے کرتے ہو اور تم میں ایک گروہ کا یہ خیال ہے کہ اس روز مردوں کو کثرت سے کھانا بھیجنا چاہیے۔ اگر تم سچے ہو تو اپنے اس خیال اور ان حرکات کے لیے کوئی دلیل لاؤ۔ پھر تم نے ایسی رسمیں بنا رکھی ہیں جن سے تمہاری زندگی تنگ ہو رہی ہے۔ مثلاً شادیوں میں فضول خرچی، طلاق کو ممنوع بنا لینا، بیوہ عورت کو بٹھائے رکھنا۔ اس قسم کی رسموں میں تم اپنے مال اور اپنی زندگیوں کو خراب کر رہے ہو اور ہدایاتِ صالحہ کو تم نے چھوڑ دیا ہے، حالاں کہ بہتر یہ تھا کہ ان رسموں کو چھوڑ کر اس طریق پر چلتے جس میں سہولت تھی نہ کہ تنگی۔ پھر تم نے موت اور غمی کو عید بنا رکھا ہے گویا تم پر کسی نے فرض کر دیا ہے کہ جب کوئی مرے تو اس کے اقربا خوب کھانے کھلائیں۔ تم نمازوں سے غافل ہو، کوئی اپنے کاروبار میں اتنا مشغول ہوتا ہے کہ نماز کے لیے وقت نہیں پاتا اور کوئی اپنی تفریحوں اور خوش گپیوں میں اتنا منہمک ہوتا ہے کہ نماز فراموش ہو جاتی ہے۔ تم زکوٰۃ سے بھی غافل ہو، تم میں کوئی مال دار ایسا نہیں جس کے ساتھ بہت سے کھانے والے لگے ہوئے نہ ہوں، وہ ان کو کھلاتا اور پہناتا ہے مگر زکوٰۃ اور عباد کی نیت نہیں کرتا۔ تم رمضان کے روزے بھی ضائع کرتے ہو اور اس کے لیے طرح طرح کے بہانے بناتے ہو۔ تم لوگ محنت بے تدبیر ہو گئے ہو۔ تم نے اپنی بسر اوقات کا انحصار سلاطین کے وظائف و مناصب پر کر رکھا ہے اور جب تمہارا بار سنبھالنے کے لیے سلاطین کے خزانے کافی نہیں ہوتے تو وہ رعیت کو تنگ کرنے لگتے ہیں۔"

ایک اور جگہ تفہیمات میں فرماتے ہیں:

"جو لوگ حاجتیں طلب کرنے کے لیے اجمیر یا سالار مسعود کی قبر یا ایسے ہی دوسرے مقامات پر جاتے ہیں وہ اتنا بڑا گناہ کرتے ہیں کہ قتل اور زنا کا گناہ اس سے کمتر ہے۔ آخر اس میں اور خود ساختہ معبودوں کی پرستش میں فرق کیا ہے؟ جو لوگ لات اور عزیٰ سے حاجتیں طلب کرتے تھے ان کا فعل ان لوگوں کے فعل سے آخر کس طرح مختلف تھا؟ ہاں یہ ضرور ہے کہ ہم ان کے برعکس، ان لوگوں کو صاف الفاظ میں کافر کہنے سے احتراز کرتے ہیں کیونکہ خاص ان کے معاملہ میں شارع کی نص موجود نہیں ہے مگر اصولا ہر وہ شخص جو کسی مردے کو زندہ ٹھہرا کر اس سے حاجتیں طلب کرتا ہے اس کا دل گناہ میں مبتلا ہے۔"

یہ اقتباسات بہت طویل ہو گئے ہیں، مگر تفہیمات جلد دوم کے چند فقرے اور تقاضا کر رہے ہیں کہ ان کو بھی اس سلسلہ میں ناظرین تک پہنچا دیا جائے۔ فرماتے ہیں:

"نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے کہ تم بھی آخر کار اپنے سے پہلے کی امتوں کے طریقے اختیار کر لو گے اور جہاں جہاں انہوں نے قدم رکھا ہے وہاں تم بھی رکھو گے حتیٰ کہ اگر وہ کسی گوہ کے بل میں گئے ہیں تو تم بھی ان کے پیچھے جاؤ گے۔ صحابہ نے پوچھا یا رسول اللہ! پہلی امتوں سے آپ کی مراد یہود و نصاریٰ ہیں؟ فرمایا اور کون؟
اس حدیث کو بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے:
"سچ فرمایا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے۔ ہم نے اپنی آنکھوں سے وہ ضعیف الایمان مسلمان دیکھے ہیں جنہوں نے صلحاء کو ارباب من دون اللہ بنا لیا ہے اور یہود و نصاریٰ کی طرح اپنے اولیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا ہے۔ ہم نے ایسے لوگ بھی دیکھے ہیں جو کلامِ شارع میں تحریف کرتے ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف یہ قول منسوب کرتے ہیں کہ نیک لوگ اللہ کے لیے ہیں اور گناہ گار میرے لیے۔ یہ اسی قسم کی بات ہے جیسی کہ یہودی کہتے ہیں کہ لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّامًا مَعْدُودَةً (ہم دوزخ میں نہ جائیں گے اور گئے بھی تو بس چند روز کے لیے)۔ سچ پوچھو تو آج ہر گروہ میں دین کی تحریف پھیلی ہوئی ہے۔ صوفیہ کو دیکھو تو ان میں ایسے اقوال زبان زد ہیں جو کتاب و سنت سے مطابقت نہیں رکھتے۔ خصوصاً مسئلہ توحید میں۔ اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شرع کی انہیں بالکل پروا نہیں۔ فقہاء کی فقہ کو دیکھو تو اس میں اکثر وہ باتیں ملتی ہیں جن کے ماخذ کا پتہ ہی نہیں۔ مثلاً دہ در دہ کا مسئلہ¹ اور کنوؤں کی طہارت کا مسئلہ²۔ رہے اصحابِ معقول اور شعراء اور اصحابِ ثروت اور عوام تو ان کی تحریفات کا ذکر کہاں تک کیا جائے۔"

حواشی:
۱۔ یعنی یہ مسئلہ کہ جب تک کوئی حوض دس ہاتھ لمبا اور دس ہاتھ چوڑا نہ ہو اس کا پانی پاک نہیں ہوتا۔
۲۔ یعنی یہ مسئلہ کہ کنوئیں میں کسی جانور کے گرنے پر کتنے کتنے ڈول پانی کے نکالے جائیں۔

ان اقتباسات سے ایک دھندلا سا اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ شاہ صاحب نے مسلمانوں کے ماضی اور حال کا کس قدر تفصیلی جائزہ لیا ہے اور کس قدر جامعیت کے ساتھ ان پر تنقید کی ہے۔

دوسرا عنوان: تعمیری کام

اس قسم کی تنقید کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ سوسائٹی میں جتنے صالح عناصر موجود ہوتے ہیں، جن کے ضمیر میں ایمان کی زندگی اور جن کے قلب میں بھلے اور برے کی تمیز ہوتی ہے، ان کو حالات کی خرابی کا احساس سخت مضطرب کر دیتا ہے۔ ان کی اسلامی حس اتنی تیز ہوتی ہے کہ اپنے گرد و پیش کی زندگی میں جاہلیت کا ہر اثر انہیں کھٹکنے لگتا ہے۔ ان کی قوتِ امتیاز اتنی بڑھ جاتی ہے کہ وہ زندگی کے ہر پہلو میں اسلام اور جاہلیت کی آمیزشوں کا تجزیہ کرنے لگتے ہیں اور ان کی قوتِ ایمانی اس قدر بیدار ہو جاتی ہے کہ خارزارِ جاہلیت کی ہر کھٹک انہیں اصلاح کے لیے بے چین کر دیتی ہے۔ اس کے بعد مجدد کے لیے یہ ضروری ہوتا ہے کہ ان کے سامنے تعمیرِ نو کا ایک نقشہ واضح صورت میں پیش کرے تاکہ حالتِ موجودہ کو جس حالت میں بدلنا مطلوب ہے اس پر وہ اپنی نظر جما سکیں اور تمام سعی و عمل اسی سمت میں مرکوز کر دیں۔ یہ تعمیری کام بھی شاہ صاحب نے اسی خوبی اور جامعیت کے ساتھ انجام دیا جو ان کے تنقیدی کام میں آپ دیکھ چکے ہیں۔

تعمیری کام کے سلسلہ میں ان کا پہلا اہم کام یہ ہے کہ وہ فقہ میں ایک نہایت معتدل مسلک پیش کرتے ہیں جس میں کسی ایک مذہب کی جانبداری اور دوسرے مذاہب پر نکتہ چینی نہیں پائی جاتی۔ ایک محقق کی طرح انہوں نے تمام مذاہبِ فقہیہ کے اصول اور طریقِ استنباط کا مطالعہ کیا ہے اور بالکل آزادانہ رائے قائم کی ہے۔ جس مذہب کی کسی مسئلہ میں تائید کی اس بنا پر کی کہ دلیل اس کے حق میں پائی، نہ اس بنا پر کہ وہ اس مذہب کی وکالت کا عہد کر چکے ہیں اور جس سے اختلاف کیا اس بنا پر کیا کہ دلیل اس کے خلاف پائی، نہ اس بناء پر کہ انہیں اس سے عناد ہے۔ اسی وجہ سے کہیں وہ حنفی نظر آتے ہیں، کہیں شافعی، کہیں مالکی اور کہیں حنبلی۔ انہوں نے ان لوگوں سے بھی اختلاف کیا ہے جو ایک مذہب کی پیروی کا قلادہ اپنی گردن میں ڈال لیتے ہیں اور قسم کھا لیتے ہیں کہ تمام مسائل میں اسی کا اتباع کریں گے اور اسی طرح وہ ان لوگوں سے بھی سخت اختلاف کرتے ہیں جنہوں نے ائمۂ مذاہب میں سے کسی کی مخالفت کا عہد کر لیا ہے۔ ان دونوں کے بین بین وہ ایک ایسے معتدل راستہ پر چلتے ہیں جس میں ہر غیر متعصب طالبِ حق کو اطمینان حاصل ہو سکتا ہے۔ ان کا رسالہ "انصاف" اس مسلک کا آئینہ ہے۔ یہی رنگ "مصفّٰی" اور ان کی دوسری کتابوں میں پایا جاتا ہے۔ تفہیمات میں ایک جگہ فرماتے ہیں:

"میرے دل میں ایک خیال ڈالا گیا ہے اور اس کی تفصیل یہ ہے کہ ابو حنیفہ اور شافعی کے مذہب امت میں سب سے زیادہ مشہور ہیں، سب سے زیادہ پیرو بھی انہی دونوں کے پائے جاتے ہیں اور تصنیفات بھی انہی مذاہب کی زیادہ ہیں۔ فقہاء، محدثین، مفسرین، متکلمین اور صوفیہ زیادہ تر مذہبِ شافعی کے پیرو ہیں۔ اور حکومتیں اور عوام زیادہ تر مذہبِ حنفی کے متبع ہیں۔ اس وقت جو امرِ حق ملاءِ اعلیٰ کے علوم سے مطابقت رکھتا ہے وہ یہ ہے کہ ان دونوں کو ایک مذہب کی طرح کر دیا جائے۔ ان دونوں کے مسائل کو حدیثِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مجموعوں سے مقابلہ کر کے دیکھا جائے، جو کچھ ان کے موافق ہو وہ باقی رکھا جائے اور جس کی کوئی اصل نہ ملے اسے ساقط کر دیا جائے۔ پھر جو چیزیں تنقید کے بعد ثابت نکلیں اگر وہ دونوں مذہبوں میں متفق علیہ ہوئیں تو وہ اس لائق ہیں کہ انہیں دانتوں سے پکڑ لیا جائے، اور اگر ان میں دونوں کے درمیان اختلاف ہو تو مسئلے میں دونوں قول تسلیم کیے جائیں اور دونوں پر عمل کرنے کو صحیح قرار دیا جائے۔ یا تو ان کی حیثیت ایسی ہو گی جیسی قرآن میں اختلافِ قرأت کی حیثیت ہے، یا رخصت اور عزیمت کا فرق ہوگا، یا کسی مخمصہ سے نکلنے کے دو راستوں کی سی نوعیت ہو گی جیسے تعددِ کفارات¹ یا دو برابر کے مباح طریقوں کا سا حال ہو گا۔ ان چار پہلوؤں کے باہر کوئی پہلو انشاء اللہ تعالیٰ نہ پایا جائے گا۔"

حاشیہ ۱: مثلاً قصداً روزہ توڑنے والے کے لیے کفارے کی یہ صورت بھی ہے کہ ۶۰ روزے رکھے اور یہ بھی کہ ۶۰ مسکینوں کو کھانا کھلائے۔ دونوں صورتوں میں سے جو صورت بھی وہ اختیار کرے گا صحیح ہوگی۔

"انصاف" میں انہوں نے اپنی رائے اس سے زیادہ تفصیل کے ساتھ دی ہے۔ چنانچہ باب سوم میں "وَاعْلَمُ أَنَّ التَّخْرِجَ عَلَى كَلَامِ الْفُقَهَاءِ" سے لے کر آخر باب تک جو کچھ لکھا ہے وہ اس لائق ہے کہ اہلِ حدیث اور اہلِ تخریج دونوں اس کو غور کی نگاہ سے دیکھیں۔ اس بحث میں انہوں نے جس طریقہ کو ترجیح دی ہے وہ یہ ہے کہ طریقِ اہلِ حدیث اور طریقِ اہلِ تخریج دونوں کو جمع کیا جائے۔ اسی طرح "حجت" کے مبحثِ ہفتم میں فصل "وَمِمَّا يُنَاسِبُ هَذَا الْمُقَامَ التَّنْبِيهُ عَلَى مَسَائِلَ ضَلَّتْ فِي بُوَادِيهَا الْأَفْهَامُ" کے تحت جو بحث کی ہے، وہ بھی لکھنے کے لائق ہے۔

یہ مسلکِ معتدل اختیار کرنے سے فائدہ یہ ہے کہ تعصب اور تنگ نظری اور تقلیدِ جامد اور لاطائل بحثوں میں تضیعِ اوقات کا خاتمہ ہو جاتا ہے اور وسعتِ نظر کے ساتھ تحقیق و اجتہاد کا راستہ کھلتا ہے۔ چنانچہ اس کے ساتھ ہی شاہ صاحب اجتہاد کی ضرورت پر زور دیتے ہیں اور قریب قریب ان کی تمام کتابوں میں ایسی عبارتیں موجود ہیں جن میں کسی نہ کسی طرح تحقیق و اجتہاد پر اکسایا گیا ہے۔ مثال کے طور پر "مصفّٰی" کے مقدمہ سے چند فقرے انہی کے الفاظ میں نقل کرتا ہوں:

"اجتہاد در ہر عصر فرض بالکفایہ است و مراد از اجتہاد اینجا معرفت احکامِ شرعیہ از ادلۂ تفصیلیہ و تفریع در ترتیبِ مجتہدانہ، اگرچہ بادشاہ حامیِ مذہبی باشد و آنکہ گفتیم اجتہاد در ہر عصر فرض است بحجت آنست کہ مسائلِ کثیرۃ الوقوع غیر محصور اند و معرفتِ احکامِ الٰہی در آنها واجب، و آنچه مسطور و مدون شدہ است غیر کافی و در آنها اختلاف بسیار کہ بدان رجوع با دلہ حلِ اختلاف آن نتوان کرد و طرق آن تا مجتہدین غالباً منقطع پس بغیر عرض بہ قواعدِ اجتہاد راست نیاید۔"

یہی نہیں کہ شاہ صاحب نے اجتہاد پر محض زور ہی دیا ہو، بلکہ انہوں نے پوری تفصیل کے ساتھ اجتہاد کے اصول و قواعد اور اس کی شرائط کو بیان بھی کیا ہے۔ "ازالہ"، "حجت"، "عقد الجید"، "انصاف"، "بدورِ بازغہ"، "مصفّٰی" وغیرہ میں اس مسئلہ پر کہیں اشارات اور کہیں مفصل تقریریں موجود ہیں۔ نیز اپنی کتابوں میں جہاں بھی انہوں نے کسی مسئلہ پر گفتگو کی ہے ایک محقق اور مجتہد کی حیثیت سے کی ہے گویا کہ ان کی کتابوں کے مطالعہ سے آدمی کو نہ صرف اجتہاد کے اصول معلوم ہو سکتے ہیں، بلکہ ساتھ ساتھ اس کی تربیت بھی ملتی جاتی ہے۔

اسلامی نظام کی مرتب صورت

مذکورہ بالا دو کام تو ایسے ہیں جو شاہ صاحب سے پہلے بھی لوگوں نے کیے ہیں، مگر جو کام ان سے پہلے کسی نے نہ کیا تھا وہ یہ ہے کہ انہوں نے اسلام کے پورے فکری، اخلاقی، شرعی اور تمدنی نظام کو ایک مرتب صورت میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ وہ کارنامہ ہے جس میں وہ اپنے تمام پیش رووں سے بازی لے گئے ہیں۔ اگرچہ ابتدائی تین چار صدیوں میں بکثرت ائمہ گزرے ہیں جن کے کام کو دیکھنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے ذہن میں اسلام کے نظامِ حیات کا مکمل تصور رکھتے تھے اور اسی طرح بعد کی صدیوں میں بھی ایسے محققین ملتے ہیں جن کے متعلق یہ گمان نہیں کیا جا سکتا کہ وہ اس تصور سے خالی تھے لیکن ان میں سے کسی نے بھی جامعیت اور منطقی ترتیب کے ساتھ اسلامی نظام کو بحیثیت ایک نظام کے مرتب کرنے کی طرف توجہ نہیں کی۔ یہ شرف شاہ ولی اللہ ہی کے لیے مقدر ہو چکا تھا کہ اس راہ میں پیش قدمی کریں۔ ان کی کتابوں میں سے "حجۃ اللہ البالغہ" اور "البدور البازغہ" دونوں کا موضوع یہی ہے۔ پہلی کتاب زیادہ مفصل ہے اور دوسری زیادہ فلسفیانہ۔

ان کتابوں میں انہوں نے ما بعد الطبیعی مسائل سے ابتدا کی ہے اور تاریخ میں پہلی مرتبہ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک شخص فلسفۂ اسلام کو مدون کرنے کی بنا ڈال رہا ہے۔ اس سے پہلے مسلمان فلسفہ میں جو کچھ لکھتے اور کہتے رہے اس کو محض نادانی سے لوگوں نے "فلسفۂ اسلام" کے نام سے موسوم کر رکھا ہے، حالانکہ وہ فلسفۂ اسلام نہیں، فلسفۂ مسلمین ہے جس کا شجرۂ نسب یونان و روم اور ایران و ہندوستان سے ملتا ہے۔ فی الواقع جو چیز اس نام سے موسوم کرنے کے لائق ہے اس کی داغ بیل سب سے پہلے اسی دہلوی شیخ نے ڈالی ہے۔ اگرچہ اصطلاحات وہی قدیم فلسفہ و کلام یا فلسفیانہ تصوف کی زبان سے لی ہیں اور غیر شعوری طور پر بہت سے تخیلات بھی وہیں سے لے لیے ہیں، جیسا کہ اول اول ہر نئی راہ نکالنے کے لیے طبعاً ناگزیر ہے، مگر پھر بھی تحقیق کا ایک نیا دروازہ کھولنے کی یہ ایک بڑی زبردست کوشش ہے۔ خصوصاً ایسے شدید انحطاط کے دور میں اتنی طاقت ور عقلیت کے آدمی کا ظاہر ہونا بالکل حیرت انگیز ہے۔

اس فلسفہ میں شاہ صاحب کائنات اور کائنات میں انسان کا ایک ایسا تصور قائم کرنے کی سعی کرتے ہیں جو اسلام کے نظامِ اخلاق و تمدن کے ساتھ ہم آہنگ و متحد الاجزاء ہو سکتا ہو یا دوسرے الفاظ میں جس کو اگر شجرۂ اسلام کی جڑ قرار دیا جائے تو جڑ میں اور اس درخت میں جو اس سے پھوٹا، عقلاً کوئی فطری مباینت محسوس نہ کی جا سکتی ہو۔¹

حاشیہ ۱: جو فلسفہ مسلمانوں میں رائج تھا وہ اسلام کے عملی، اخلاقی، اعتقادی نظام سے کوئی ربط نہ رکھتا تھا، اس وجہ سے اس کا رواج جتنا جتنا بڑھا اسی قدر مسلمانوں کی زندگی بگڑتی چلی گئی۔ عقیدہ بھی کمزور ہوا، اخلاق بھی ڈھیلے ہوئے اور قوائے عمل بھی سرد ہو گئے۔ ذہن میں متصادم خیالات کی کش مکش کا یہ طبعی نتیجہ ہے اور یہی اثر اب موجودہ مغربی فلسفہ کے رواج سے بھی رونما ہو رہا ہے کیونکہ وہ بھی کسی طرح نظامِ اسلامی کی فکری اساس نہیں بن سکتا۔

میں حیران رہ جاتا ہوں جب بعض لوگوں کی یہ رائے سنتا ہوں کہ شاہ صاحب نے ویدانتی فلسفے اور اسلامی فلسفے کا جوڑ لگا کر نئی ہندی قومیت کے لیے فکری اساس فراہم کرنے کی کوشش کی تھی۔ مجھے ان کی کتابوں میں اس کوشش کا کہیں سراغ نہ ملا۔ اور اگر مل جاتا تو باللہ العظیم کہ میں شاہ صاحب کو مجددین کی فہرست سے خارج کر کے متجددین کی صف میں لے جا کر بٹھاتا۔

نظامِ اخلاق پر وہ ایک اجتماعی فلسفے (Social Philosophy) کی عمارت اٹھاتے ہیں جس کے لیے انہوں نے "ارتفاقات" کا عنوان تجویز کیا ہے اور اس سلسلہ میں تدبیرِ منزل، آدابِ معاشرت، سیاستِ مدن، عدالت، ضربِ محاصل (Taxation)، انتظامِ ملکی اور تنظیمِ عسکری وغیرہ کی تفصیلات بیان کی ہیں اور ساتھ ہی ان اسباب پر بھی روشنی ڈالی ہے جن سے تمدن میں فساد پیدا ہوتا ہے۔

پھر وہ نظامِ شریعت، عبادات، احکام اور قوانین کو پیش کرتے ہیں اور ہر ایک چیز کی حکمتیں سمجھاتے چلے جاتے ہیں۔ اس خاص مضمون پر جو کام انہوں نے کیا ہے وہ اسی نوعیت کا ہے جو ان سے پہلے امام غزالیؒ نے کیا تھا اور قدرتی بات ہے کہ وہ اس راہ میں امام موصوف سے آگے بڑھ گئے ہیں۔

آخر میں انہوں نے تاریخِ ملل و شرائع پر بھی نظر ڈالی ہے اور کم از کم میرے علم کی حد تک وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے اسلام و جاہلیت کی تاریخی کش مکش کا ایک دھندلا سا تصور پیش کیا ہے۔

نتائج

نظامِ اسلامی کے اس قدر معقول اور اتنے مرتب خاکے کا پیش ہو جانا بجائے خود اس امر کی پوری ضمانت ہے کہ وہ تمام صحیح الفطرت اور سلیم الطبع لوگوں کا نصب العین بن جائے اور جو لوگ ان میں سے زیادہ قوتِ عمل رکھتے ہوں وہ اس نصب العین کے لیے جان و تن کی بازی لگا دیں، خواہ اس نصب العین کو سامنے رکھنے والا خود عملاً ایسی کسی تحریک کی رہنمائی کرے یا نہ کرے۔ مگر جو چیز اس سے بھی زیادہ متحرک ثابت ہوئی وہ یہ تھی کہ شاہ صاحب نے جاہلی حکومت اور اسلامی حکومت کے فرق کو بالکل نمایاں کر کے لوگوں کے سامنے رکھ دیا اور نہ صرف اسلامی حکومت کی خصوصیات صاف صاف بیان کیں بلکہ اس مبحث کو تکرار ایسے طریقوں سے پیش کیا جن کی وجہ سے اصحابِ ایمان کے لیے جاہلی حکومت کو اسلامی حکومت سے بدلنے کی جد و جہد کیے بغیر چین سے بیٹھنا محال ہو گیا۔ یہ مضمون "حجت" میں بھی کافی تفصیل کے ساتھ آیا ہے، مگر "ازالہ" تو گویا ہے ہی اسی موضوع پر۔ اس کتاب میں وہ احادیث سے ثابت کرتے ہیں کہ خلافتِ اسلامی اور پادشاہی دو بالکل مختلف الاصل چیزیں ہیں۔ پھر ایک طرف پادشاہی کو اور ان تمام فتنوں کو رکھتے ہیں جو پادشاہی کے ساتھ مسلمان کی حیاتِ اجتماعی میں از روئے تاریخ پیدا ہوئے اور دوسری طرف اسلامی خلافت کی خصوصیات اور شرائط کو اور ان رحمتوں کو پیش کر دیتے ہیں جو خلافتِ اسلامی میں فی الواقع مسلمانوں پر نازل ہو چکی ہیں۔ اس کے بعد کس طرح ممکن تھا کہ لوگ چین سے بیٹھ جاتے۔

(ماخوذ از: تجدید و احیائے دین)


مجدد الف ثانی، شیخ احمد سرہندیؒ (۹۷۱ھ - ۱۰۳۴ھ)

دورِ اکبری کے فتنے اور مجدد صاحب کا ظہور

ساتویں صدی میں فتنۂ تاتار نے ہندوکش سے اُس پار کی دنیا کو تو بالکل تاخت و تاراج کر دیا، مگر ہندوستان اس کی دست برد سے بچ گیا تھا۔ اس ڈھیل نے یہاں کے مترفین کو اس غلط فہمی میں ڈال دیا جو ہمیشہ فریفتگانِ زینتِ دنیا کو لاحق ہوتی ہے۔ یہاں وہ تمام خرابیاں پرورش پاتی رہیں جو خراسان و عراق میں تھیں۔ وہی پادشاہوں کی خداوندی، وہی امراء و اہلِ دولت کی عیش پسندی، وہی باطل طریقوں سے مال لینا اور باطل راستوں میں خرچ کرنا، وہی جبر و ظلم کی حکومت، وہی خدا سے غفلت اور دین کی صراطِ مستقیم سے بُعد۔ رفتہ رفتہ نوبت اکبر بادشاہ کے دورِ حکومت تک پہنچی جس میں گمراہیاں اپنی حد کو پہنچ گئیں۔

اکبر کے دربار میں یہ رائے عام تھی کہ ملتِ اسلام جاہل بدوؤں میں پیدا ہوئی تھی، کسی مہذب و شائستہ قوم کے لیے وہ موزوں نہیں۔ نبوت، وحی، حشر و نشر، دوزخ و جنت ہر چیز کا مذاق اڑایا جانے لگا۔ قرآن کا کلامِ الٰہی ہونا مشتبہ، وحی کا نزول عقلاً مستبعد، مرنے کے بعد ثواب و عذاب غیر یقینی۔ البتہ تناسخ ہر آئینہ ممکن و اقرب الی الصواب۔ معراج کو علانیہ محال قرار دیا جاتا۔ ذاتِ نبوی پر اعتراضات کیے جاتے خصوصاً آپ کی ازواج کے تعدد اور آپ کے غزوات و سرایا پر کھلم کھلا حرف گیریاں کی جاتیں۔ یہاں تک کہ لفظ احمد و محمد سے بھی بیزاری ہو گئی اور جن کے ناموں میں یہ لفظ شامل تھا ان کے نام بدلے جانے لگے۔ دنیا پرست علماء نے اپنی کتابوں کے خطبوں میں نعت لکھنی چھوڑ دی۔ بعض ظالم اس حد تک بڑھے کہ دجال کی نشانیاں ہادیٔ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم پر چسپاں کرنے لگے، العیاذ باللہ! دیوان خانۂ شاہی میں کسی کی مجال نہ تھی کہ نماز ادا کر سکے۔ ابوالفضل نے نماز، روزہ، حج اور دوسرے شعائرِ دینی پر سخت اعتراضات کیے اور ان کا مذاق اڑایا۔ شعراء نے ان شعائر کی ہجو لکھی جو عوام کی زبانوں تک بھی پہنچی۔

بہائی نظریہ کی بناء بھی دراصل اکبری عہد میں پڑی تھی۔ اس وقت یہ نظریہ قائم کیا گیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت پر ایک ہزار سال گزر چکے ہیں اور اس دین کی مدت ایک ہزار سال ہی تھی، اس لیے اب وہ منسوخ ہو گیا اور اس کی جگہ نئے دین کی ضرورت ہے۔ اس نظریہ کو سکوں کے ذریعہ سے پھیلایا گیا کیونکہ اس زمانہ میں نشر و اشاعت کا سب سے زیادہ قوی ذریعہ یہی تھا۔ اس کے بعد ایک نئے دین اور نئی شریعت کی طرح ڈالی گئی جس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے مذہب کو ملا کر ایک مخلوط مذہب بنایا جائے تاکہ شاہی حکومت مستحکم ہو۔ دربار کے خوشامدی ہندوؤں نے اپنے بزرگوں کی طرف سے پیشین گوئیاں سنانی شروع کر دیں کہ فلاں زمانہ میں ایک گئو رکشک مہاتما بادشاہ پیدا ہو گا اور اسی طرح ہندہ نما علماء نے بھی اکبر کو مہدی اور صاحبِ زماں اور امامِ مجتہد وغیرہ ثابت کرنے کی کوشش کی۔ ایک "تاج العارفین" صاحب یہاں تک بڑھے کہ اکبر کو انسانِ کامل اور خلیفۃ الزمان ہونے کی حیثیت سے خدا کا عکس ہی ٹھہرا دیا۔

عوام کو سمجھانے کے لیے کہا گیا کہ حق اور صدق (عالمگیر سچائیاں) تمام مذاہب میں موجود ہیں، کوئی ایک ہی دین حق کا اجارہ دار نہیں ہے، لہٰذا سب مذہبوں میں جو جو باتیں حق ہیں انہیں لے کر ایک جامع طریقہ بنانا چاہیے اور اس کی طرف لوگوں کو دعوتِ عام دینی چاہیے تاکہ قوموں کے سب اختلافات مٹ جائیں۔ اسی طریقِ جامع کا نام "دینِ الٰہی" ہے۔ اس نئے دین کا کلمہ "لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ أَكْبَرُ خَلِيفَةُ اللهِ" تجویز کیا گیا۔ جو لوگ اس دین میں داخل ہوتے ان کو "دینِ اسلامِ مجازی و تقلیدی کہ از پدران دیدہ و شنیدہ ام" سے توبہ کر کے "دینِ الٰہی اکبر شاہی" میں داخل ہونا پڑتا تھا اور داخل ہونے کے بعد ان کو لفظ "چیلہ" سے تعبیر کیا جاتا تھا۔ سلام کا طریقہ بدل کر یوں کر دیا گیا کہ سلام کرنے والا "اللہ اکبر" اور جواب دینے والا "جل جلالہ" کہتا۔ یاد رہے کہ بادشاہ کا نام جلال الدین اور لقب اکبر تھا۔ چیلوں کو بادشاہ کی تصویر دی جاتی اور وہ اسے پگڑی میں لگاتے۔ بادشاہ پرستی اس دین کے ارکان میں سے ایک رکن تھی۔ ہر روز صبح کو بادشاہ کا درشن کیا جاتا اور بادشاہ کے سامنے جب حاضری کا شرف عطا ہوتا تو اس کے سامنے سجدہ بجا لایا جاتا۔ علماءِ کرام اور صوفیائے باصفا دونوں اپنے اس قبلۂ حاجات اور کعبۂ مرادات کو بے تکلف سجدہ فرماتے تھے اور صریح شرک کو "سجدۂ تحیہ" اور "زمیں بوسی" جیسے الفاظ کے پردے میں چھپاتے تھے۔ یہ وہی ملعون حیلہ بازی تھی جس کی پیشین گوئی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھی کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا جب لوگ حرام چیز کا نام بدل کر اس کو حلال کر لیا کریں گے۔

اس نئے دین کی بناء تو یہ کہہ کر رکھی گئی تھی کہ اس میں بلا کسی تعصب کے ہر مذہب کی اچھی باتیں لی جائیں گی، مگر دراصل اس میں اسلام کے سوا ہر مذہب کی پذیرائی تھی اور نفرت و عداوت کے لیے صرف اسلام اور اس کے احکام و قوانین ہی کو مختص کر لیا گیا تھا۔ پارسیوں سے آتش پرستی لی گئی، اکبری محل میں دائمی آگ کا الاؤ روشن کیا گیا اور چراغ روشن کرنے کے وقت قیامِ تعظیمی کیا جانے لگا۔ عیسائیوں سے "ناقوس نوازی" اور "تماشائے صورتِ ثالثِ ثلثہ" اور اسی قسم کی چند چیزیں لی گئیں۔ سب سے زیادہ نظرِ عنایت ہندومت پر تھی، کیونکہ یہ ملک کی اکثریت کا مذہب تھا اور پادشاہی کی جڑیں مضبوط کرنے کے لیے اس کی استعانت ضروری تھی۔ چنانچہ گائے کا گوشت حرام کیا گیا۔ ہندو تہوار، دیوالی، دسہرہ، راکھی، پونم، شیوراتری وغیرہ پوری ہندوانہ رسوم کے ساتھ منائے جانے لگے۔ شاہی محل میں ہون کی رسم ادا کی جانے لگی۔ دن میں چار وقت آفتاب کی عبادت کی جاتی اور آفتاب کے ایک ہزار ناموں کا جاپ کیا جاتا۔ آفتاب کا نام جب زبان پر آتا، "جلت قدرتہ" کے الفاظ کہے جاتے، پیشانی پر قشقہ لگایا جاتا، دوش و کمر پر جنیو ڈالا جاتا اور گائے کی تعظیم کی جاتی۔ معاد کے متعلق عقیدۂ تناسخ تسلیم کر لیا گیا اور برہمنوں سے ان کے دوسرے بہت سے اعتقادات سیکھے گئے۔ یہ سارا معاملہ تو تھا دوسرے مذاہب کے ساتھ، رہا اسلام تو اس کے معاملہ میں بادشاہ اور درباریوں کی ایک ایک حرکت سے ظاہر ہوتا تھا کہ ان کو اس سے ضد اور چڑ ہو گئی ہے۔ اسلامی تعلیمات کے خلاف دوسرے مذاہب والوں کی طرف سے جو بات دربار کا رنگ دیکھ کر فلسفیانہ و صوفیانہ انداز میں پیش کر دی جاتی اسے وحیٔ آسمانی سمجھ لیا جاتا اور اس کے مقابلے میں اسلامی تعلیم رد کر دی جاتی۔ علمائے اسلام اگر اسلام کی طرف سے کوئی بات کہتے یا کسی گمراہی کی مخالفت کرتے تو انہیں "فقیہ" کے نام سے موسوم کیا جاتا جس کے معنی ان کی اصطلاحِ خاص میں احمق اور ناقابلِ التفات آدمی کے ہو گئے تھے۔ چالیس آدمیوں کی ایک کمیٹی مذاہب کی تحقیق کے لیے مقرر کی گئی تھی جس میں تمام مذاہب کا مطالعہ بڑی رواداری بلکہ عقیدت مندی کے ساتھ کیا جاتا تھا، مگر اسلام کا نام آتے ہی اس کا مذاق اڑایا جانے لگتا تھا، اور اگر اسلام کا کوئی حامی جواب دینا چاہتا تو اس کی زبان بند کردی جاتی تھی۔

یہ برتاؤ اسی حد تک نہ رہا بلکہ عملاً اسلام کے احکام کی دل کھول کر تنسیخ کی گئی۔ سُود، جوئے اور شراب کو حلال کیا گیا۔ شاہی مجلس میں نوروز کے موقع پر شراب کا استعمال ضروری تھا، حتیٰ کہ قاضی و مفتی تک پی جاتے تھے۔ داڑھی منڈوانے کا فیشن عام کیا گیا اور اس کے جواز پر دلائل قائم کیے گئے۔ چچازاد اور ماموں زاد بہن سے نکاح ممنوع قرار دیا گیا۔ لڑکے کے لیے سولہ سال اور لڑکی کے لیے چودہ سال عمرِ نکاح مقرر کی گئی۔ ایک بیوی سے زیادہ بیویاں رکھنے کی ممانعت کی گئی۔ ریشم اور سونے کے استعمال کو حلال کیا گیا۔ شیر اور بھیڑیے کو حلال کیا گیا۔ سور کو اسلام کی ضد میں نہ صرف پاک بلکہ ایک مقدس جانور قرار دیا گیا حتیٰ کہ صبح آنکھ کھولتے ہی اسے دیکھنا مبارک خیال کیا جاتا تھا۔ مردوں کو دفن کرنے کے بجائے جلانا یا پانی میں بہانا اس لیے بہتر ٹھہرایا گیا اور اگر کوئی دفن ہی کرنا چاہے تو سفارش کی گئی کہ پاؤں قبلہ کی طرف رکھے جائیں۔ اکبر، خود اسلام کی ضد میں قبلہ ہی کی طرف پاؤں کر کے سونے کا التزام کرتا تھا۔ حکومت کی تعلیمی پالیسی بھی سراسر اسلام کی مخالف تھی۔ عربی زبان کی تعلیم اور فقہ و حدیث کے درس کو ناپسندیدہ سمجھا جاتا، اور جو لوگ ان علوم کو حاصل کرتے وہ حقیر خیال کیے جاتے۔ علومِ دینی کے بجائے حکمت و فلسفہ، ریاضی و تاریخ اور اس نوع کے علوم کو سرکاری سرپرستی حاصل تھی۔ زبان میں ہندیت پیدا کرنے کی طرف خاص میلان تھا اور عربی حروف کو زبان سے خارج کرنے کی بھی تجویزیں تھیں۔ ان حالات کی وجہ سے دینی مدرسے ویران ہونے لگے اور اکثر اہلِ علم ملک چھوڑ چھوڑ کر نکلنے لگے۔

یہ تو تھا حکومت کا حال، اور عوام کا حال یہ تھا کہ جو لوگ باہر سے آئے تھے وہ ایران و خراسان کی اخلاقی و اعتقادی بیماریاں ساتھ لائے تھے اور جو لوگ ہندوستان ہی میں مسلمان ہوئے تھے ان کی اسلامی تعلیم و تربیت کا کوئی خاص انتظام نہ تھا اس لیے وہ پرانی جاہلیت کی بہت سی باتیں اپنے خیالات اور اپنی عملی زندگی میں لیے ہوئے تھے۔ ان دونوں قسم کے مسلمانوں نے مل جل کر ایک عجیب مرکب تیار کیا تھا جس کا نام اسلامی تمدن تھا۔ اس میں شرک بھی تھا، نسلی اور طبقاتی امتیازات بھی تھے، اوہام و خرافات بھی تھے اور نو ایجاد رسموں کی ایک نئی شریعت بھی تھی۔ دنیا پرست علماء و مشائخ نے نہ صرف اس مخلوطہ سے موافقت کر لی تھی بلکہ وہ اس نئے "مت" کے پروہت بن گئے تھے۔ لوگوں کی طرف سے ان کو نذرانے پہنچتے اور ان کی طرف سے لوگوں کو فرقہ بندی کا تحفہ ملتا۔

پیرانِ طریقت کے ہاتھوں سے ایک اور بیماری پھیل رہی تھی۔ اشراقیت، رواقیت (Stoicism)، مانویت اور ویدانتا کی آمیزش سے ایک عجیب قسم کا فلسفیانہ تصوف پیدا ہو گیا تھا، جسے اسلام کے نظامِ اعتقادی و اخلاقی میں ٹھونس دیا گیا تھا۔ طریقت و حقیقت، شرعِ اسلامی سے الگ اور اس سے بے نیاز قرار دی گئی تھیں۔ باطن کا کوچہ ظاہر سے جدا بنا لیا گیا تھا اور اس کوچے کا قانون یہ تھا کہ حدودِ حلال و حرام رخصت، احکامِ دین عملاً منسوخ اور ہوائے نفس کے ہاتھ میں کھلے اختیارات، جس فرض کو چاہے ساقط کرلے اور جس چیز کو چاہے فرض بلکہ فرض الفرض بنا دے، جس حلال کو چاہے حرام کر دے اور جس حرام کو چاہے حلال کر دے۔ ان عام پیروں سے بہتر جس کی حالت تھی ان پر کم و بیش فلسفیانہ تصوف کے اثرات پڑے ہوئے تھے اور وحدت الوجود کے ایک غلط تصور نے خصوصیت کے ساتھ تمام قوائے عمل کو بیکار کر دیا تھا۔

یہ حالات تھے جب اکبری سلطنت کے ابتدائی ایام میں شیخ احمد سرہندی پیدا ہوئے۔ ان کی تعلیم و تربیت ایسے لوگوں میں ہوئی تھی جو اس دور کے صالح ترین لوگ تھے، گو اپنے گرد و پیش کے فساد کا مقابلہ نہ کر سکتے تھے مگر کم از کم اپنے ایمان اور عمل کو بچاتے ہوئے تھے اور جہاں تک ہو سکتا تھا، دوسروں کی اصلاح بھی کر رہے تھے۔ خصوصیت کے ساتھ شیخ کو سب سے زیادہ فیض حضرت خواجہ باقی باللہ صاحب سے پہنچا تھا جو اپنے وقت کے ایک بڑے صالح بزرگ تھے۔ مگر خود شیخ کی ذاتی صلاحیتوں کا حال یہ تھا کہ جب حضرت موصوف کے ساتھ راہ و رسم کی ابتدا ہوئی تھی اسی وقت انہوں نے شیخ کے متعلق اپنے یہ خیالات ایک دوست کو لکھ کر بھیجے تھے:

"حال میں سرہند سے ایک شخص شیخ احمد نامی آیا ہے۔ نہایت ذی علم ہے۔ بڑی عملی طاقت رکھتا ہے۔ چند روز فقیر کے ساتھ ہی اس کی نشست و برخاست ہوئی ہے۔ اس دوران میں اس کے حالات کا جو مشاہدہ ہوا، اس کی بنا پر توقع ہے کہ آگے چل کر یہ ایک چراغ ہو گا جو دنیا کو روشن کرے گا۔"

یہ پیشین گوئی پوری ہوئی۔ ہندوستان کے گوشوں میں بہت سے حق پرست علماء اور سچے صوفیاء بھی اس وقت موجود تھے، مگر ان سب کے درمیان وہ ایک اکیلا شخص تھا جو وقت کے ان فتنوں کی اصلاح اور شریعتِ محمدی کی حمایت کے لیے اٹھا اور جس نے شاہی قوت کے مقابلہ میں یکہ و تنہا احیائے دین کی جدوجہد کی۔ اس بے سر و سامان فقیر نے علی الاعلان اٹھ کر ان گمراہیوں کی مخالفت کی جنہیں حکومت کی حمایت حاصل تھی۔ حکومت نے اس کو ہر طرح دبانے کی کوشش کی، حتیٰ کہ جیل بھی بھیجا، مگر بالآخر وہ فتنہ کا منہ پھیرنے میں کامیاب ہو گیا۔ جہانگیر جس نے سجدۂ تحیہ نہ کرنے پر شیخ کو گوالیار کے قید خانے میں بھیج دیا تھا، آخر کار شیخ کا معتقد ہو گیا اور اپنے بیٹے خرم کو جو بعد میں شاہ جہاں کے لقب سے تخت نشین ہوا، ان کے حلقۂ بیعت میں داخل کیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسلام کے متعلق حکومت کی معاندانہ روش احترام سے بدل گئی۔ "دینِ الٰہی اکبر شاہی" ان تمام بدعتوں کے ساتھ ختم ہوا جو درباری شریعت سازوں نے گھڑی تھیں۔ اسلامی احکام کی جو ترمیم و تنسیخ کی گئی تھی وہ خود منسوخ ہو گئی۔ حکومت اگرچہ شاہی حکومت ہی رہی مگر کم از کم اتنا ہوا کہ علومِ دینی اور احکامِ شرعی کی طرف اس کا رویہ کافرانہ ہونے کے بجائے عقیدت مندانہ ہو گیا۔ شیخ کی وفات کے تین چار سال بعد عالمگیر پیدا ہوا اور غالباً وہ شیخ ہی کے پھیلائے ہوئے اصلاحی اثرات تھے، جن کی بدولت تیموری خاندان کے اس شہزادے کو وہ علمی اور اخلاقی تربیت مل سکی کہ اکبر جیسے ہادمِ شریعت کا پرپوتا خادمِ شریعت ہوا۔

شیخ کا کارنامہ اتنا ہی نہیں ہے کہ انہوں نے ہندوستان میں حکومت کو بالکل ہی کفر کی گود میں چلے جانے سے روکا اور اس فتنۂ عظیم کے سیلاب کا منہ پھیرا جو اب سے یہاں تین چار سو برس پہلے ہی اسلام کا نام و نشان مٹا دیتا۔ اس کے علاوہ انہوں نے دو عظیم الشان کام اور بھی انجام دیے۔ ایک یہ کہ تصوف کے چشمۂ صافی کو ان آلائشوں سے جو فلسفیانہ اور راہبانہ گمراہیوں سے اس میں سرایت کر گئی تھیں پاک کر کے اسلام کا اصلی اور صحیح تصوف پیش کیا۔ دوسرے یہ کہ ان تمام رسومِ جاہلیت کی شدید مخالفت کی جو اس وقت عوام میں پھیلی ہوئی تھیں اور سلسلۂ بیعت و ارشاد کے ذریعہ سے اتباعِ شریعت کی ایک ایسی تحریک پھیلائی جس کے ہزارہا تربیت یافتہ کارکنوں نے نہ صرف ہندوستان کے مختلف گوشوں میں بلکہ وسط ایشیا تک پہنچ کر عوام کے اخلاق و عقائد کی اصلاح کی کوشش کی۔ یہی کام ہے جس کی وجہ سے شیخ سرہندی کا شمار مجددینِ ملت میں ہوتا ہے۔

(ماخوذ از: تجدید و احیائے دین)

وحدت الوجود کے خلاف جہاد

مسلمانوں میں وحدت الوجود کا خیال ابنِ عربی اور شہاب الدین مقتول (صاحب حکمت الاشراق) کی بدولت مقبولِ عام ہوا اور رفتہ رفتہ تصوف، اخلاق، فلسفہ اور شعر، سب پر حاوی ہو گیا، یہاں تک کہ دین و شریعت کے علم و عمل کو بھی اس نے بہت کچھ ماؤف کیا۔ آخر کار اس وبائے عام کے خلاف جہاد کرنے کے لیے دو مردِ خدا اٹھے جن کی کوششوں سے بڑی حد تک اس کا زور ٹوٹا۔ ایک ابنِ تیمیہ اور دوسرے شیخ احمد سرہندی۔ لیکن ابنِ تیمیہ کا حملہ کچھ حیثیتوں سے فی الواقع اتنا کارگر ثابت نہ ہوا جتنا شیخ مجدد کا جہاد، کیونکہ ابنِ تیمیہ کا حملہ خالص علومِ شریعت اور استدلال کے ہتھیاروں سے تھا جن سے بچنے کے لیے اربابِ تصوف کے پاس یہ حیلہ موجود تھا کہ تم اس کوچے کے آدمی ہی نہیں ہو۔ بخلاف اس کے شیخ مجدد خود اس کوچے ہی کے آدمی تھے، اور معمولی آدمی نہیں بلکہ شہسوار تھے۔ انہوں نے خود تصوف ہی کے ہتھیاروں سے اس عقیدہ کی خبر لی اور ایسی خبر لی کہ تسمہ تک لگا نہ چھوڑا۔ اربابِ تصوف کہتے تھے کہ ہم کشف و شہود کی باطنی حس سے حقیقت کا مشاہدہ کرنے گئے اور ہم نے یہ پایا کہ خالق و مخلوق، عبد و معبود، دو جداگانہ وجود نہیں بلکہ ایک ہی وجود ہیں، یعنی "خود کوزہ و خود کوزہ گر و خود گِلِ کوزہ"۔

شیخ مجدد نے جواب میں پورے زور کے ساتھ کہا کہ میں خود یہی باطنی حس لے کر مشاہدہ کرنے گیا تھا، اور جہاں تک تم پہنچے اس سے آگے پہنچ کر میں نے یہ پایا کہ حقیقت براہِ راست ہمارے علم و ادراک کے احاطہ میں نہیں آسکتی، ہمارے لیے اس کے سوا چارہ نہیں کہ نبی کے اعتماد پر اس پر ایمان بالغیب لے آئیں، اس کو معلوم کرنے کی کوشش سرے سے غلط ہے، دراصل وہ معلوم کرنے کی چیز ہی نہیں ہے، صرف ایمان لانے کی چیز ہے۔ تم جن مقامات سے گزرے وہ سلوک کی ادنیٰ منازل ہیں۔ وہاں ایسا ہی محسوس ہوتا ہے کہ وجود ایک ہے اور اس ایک کے سوا کچھ موجود نہیں، مگر یہ صرف وحدت الشہود ہے (یعنی ایسا نظر آتا ہے)، وحدت الوجود نہیں ہے (یعنی فی الواقع ایسا نہیں ہے)۔ ان بیچ کی منزلوں میں جو واردات سالک پر گزرتے ہیں، ان پر اعتماد کرنا غلطی ہے، اس لیے کہ اس راہ کا بے خطا اور بے امکانِ خطا علم اگر کسی کو ملا ہے تو وہ صرف صاحبِ وحی کو ملا ہے۔ پس صاحبِ وحی کا علم اصلی معیار ہے اور سالک کے لیے لازم ہے کہ منازلِ سلوک میں سے ہر منزل پر جو کچھ اسے محسوس ہو اس کو اس معیار پر جانچ کر دیکھے، اس کے مطابق ہو تو سمجھے صحیح ہے اور اس سے مختلف ہو تو نظر کا دھوکا سمجھ کر رد کر دے۔ ورنہ اگر علمِ وحی کے اتباع سے آزاد ہو کر خود اپنے مشاہدہ پر اعتماد کرے گا تو غلطی کرے گا اور اگر اپنے مشاہدات کی روشنی میں وحی کی تاویل کرے گا تو اس سے بھی عظیم تر غلطی کرے گا۔

شیخ مجدد نے اس خیال کا صرف اظہار ہی نہیں کیا بلکہ وحدت الوجود کے خلاف پیہم تبلیغ کر کے اس کے اثرات کو مٹانے کی زبردست کوشش کی اور ان کا یہ کارنامہ ان بڑے کارناموں میں سے ایک ہے جن کی بدولت انہیں مجدد الف ثانی کا لقب دیا گیا۔

(ماخوذ از: ترجمان القرآن، دسمبر ۱۹۴۰ - جنوری ۱۹۴۱ء)


سید احمد شہیدؒ اور شاہ اسمعیل شہیدؒ

شاہ ولی اللہ صاحب کی وفات پر پوری نصف صدی بھی نہ گزری تھی کہ ہندوستان میں ایک تحریک اُٹھ کھڑی ہوئی جس کا نصب العین وہی تھا جو شاہ صاحب نگاہوں کے سامنے روشن کر کے رکھ گئے تھے۔ سید صاحبؒ کے خطوط اور ملفوظات اور شاہ اسمعیل شہیدؒ کی "منصبِ امامت"، "عبقات"، "تقویۃ الایمان" اور دوسری تحریریں دیکھیے، دونوں جگہ وہی شاہ ولی اللہ صاحب کی زبان بولتی نظر آتی ہے۔ شاہ صاحب نے عملاً جو کچھ کیا وہ یہ تھا کہ حدیث اور قرآن کی تعلیم اور اپنی شخصیت کی تاثیر سے صحیح الخیال اور صالح لوگوں کی ایک کثیر تعداد پیدا کر دی۔ پھر ان کے چاروں صاحب زادوں نے، خصوصاً شاہ عبد العزیز صاحب نے، اس حلقہ کو بہت زیادہ وسیع کیا، یہاں تک کہ ہزارہا ایسے آدمی ہندوستان کے گوشے گوشے میں پھیل گئے جن کے اندر شاہ صاحب کے خیالات نفوذ کیے ہوئے تھے، جن کے دماغوں میں اسلام کی صحیح تصویر اتر چکی تھی اور جو اپنے علم و فضل اور اپنی عمدہ سیرت کی وجہ سے عام لوگوں میں شاہ صاحب اور ان کے حلقے کا اثر قائم ہونے کا ذریعہ بن گئے تھے۔ اس چیز نے اس تحریک کے لیے گویا زمین تیار کردی، جو بالآخر شاہ صاحب ہی کے حلقے سے، بلکہ یوں کہیے کہ ان کے گھر سے اٹھنے والی تھی۔

سید صاحبؒ اور شاہ اسمعیل صاحبؒ دونوں روحاً و معنیً ایک وجود رکھتے ہیں اور اس وجودِ متحد کو میں مستقل بالذات مجدد نہیں سمجھتا بلکہ شاہ ولی اللہ صاحب کی تجدید کا تتمہ سمجھتا ہوں۔ ان حضرات کے کارنامے کا خلاصہ یہ ہے:

  1. انہوں نے عامہ خلائق کے دین، اخلاق اور معاملات کی اصلاح کا بیڑا اٹھایا اور جہاں جہاں ان کے اثرات پہنچ سکے، وہاں زندگیوں میں ایسا زبردست انقلاب رونما ہوا کہ صحابۂ کرام کے دور کی یاد تازہ ہو گئی۔
  2. انہوں نے اتنے وسیع پیمانے پر، جو انیسویں صدی کے ابتدائی دور میں ہندوستان جیسے برسرِ تنزل ملک میں بمشکل ہی ممکن ہو سکتا تھا، جہاد کی تیاری کی اور اس تیاری میں اپنی تنظیمی قابلیت کا کمال ظاہر کر دیا۔ پھر نہایت تدبر کے ساتھ آغازِ کار کے لیے شمال مغربی ہندوستان کو منتخب کیا جو ظاہر ہے کہ جغرافی و سیاسی حیثیت سے اس کام کے لیے موزوں ترین خطہ ہو سکتا تھا۔ پھر اس جہاد میں ٹھیک وہی اصولِ اخلاق اور قوانینِ جنگ استعمال کیے جن سے ایک دنیا پرست جنگ آزما کے مقابلے میں ایک مجاہد فی سبیل اللہ ممتاز ہوتا ہے اور اس طرح انہوں نے دنیا کے سامنے پھر ایک مرتبہ صحیح معنوں میں روحِ اسلامی کا مظاہرہ کر دیا۔ ان کی جنگ ملک و مال یا قومی عصبیت، یا کسی دنیوی غرض کے لیے نہ تھی بلکہ خالص فی سبیل اللہ تھی۔ ان کے سامنے کوئی مقصد اس کے سوا نہ تھا کہ خلق اللہ کو جاہلیت کی حکومت سے نکالیں اور وہ نظامِ حکومت قائم کریں جو خالق اور مالک الملک کے منشاء کے مطابق ہے۔ اس غرض کے لیے جب وہ لڑے تو حسبِ قاعدہ اسلام یا جزیہ کی طرف پہلے دعوت دی اور پھر اتمامِ حجت کر کے تلوار اٹھائی اور جب تلوار اٹھائی تو جنگ کے اس مہذب قانون کی پوری پابندی کی جو اسلام نے سکھایا ہے، کوئی ظالمانہ اور وحشیانہ فعل ان سے سرزد نہیں ہوا۔ جس بستی میں داخل ہوئے مصلح کی حیثیت سے داخل ہوئے نہ کہ مفسد کی حیثیت سے۔ ان کی فوج کے ساتھ نہ شراب تھی نہ بینڈ باجہ تھا، نہ بیواؤں کی پلٹن ہوتی تھی، نہ ان کی چھاؤنی بدکاریوں کا اڈہ بنتی تھی اور نہ ایسی کوئی مثال ملتی ہے کہ ان کی فوج کسی علاقے سے گزری ہو اور اس علاقہ کے لوگ اپنے مال اور اپنی عورتوں کی عصمتیں لٹنے پر ماتم کناں ہوں۔ ان کے سپاہی دن کو گھوڑے کی پیٹھ پر اور رات کو جانماز پر ہوتے تھے۔ خدا سے ڈرنے والے، آخرت کے حساب کو یاد رکھنے والے اور ہر حال میں راستی پر قائم رہنے والے تھے، خواہ اس پر قائم رہنے میں ان کو فائدہ پہنچے یا نقصان۔ انہوں نے کہیں شکست کھائی تو بزدل ثابت نہ ہوئے اور کہیں فتح پائی تو جبار اور متکبر نہ پائے گئے۔ اس شان کے ساتھ خالص اسلامی جہاد ہندوستان کی سرزمین میں نہ ان سے پہلے ہوا تھا اور نہ ان کے بعد ہوا۔
  3. ان کو ایک چھوٹے سے علاقہ میں حکومت کرنے کا جو تھوڑا سا موقع ملا، انہوں نے ٹھیک اس طرز کی حکومت کی جس کو خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کہا گیا ہے۔ وہی فقیرانہ امارت، وہی مساوات، وہی شوریٰ، وہی عدل، وہی انصاف، وہی حدودِ شرعیہ، وہی مال کو حق کے ساتھ لینا اور حق کے مطابق صرف کرنا، وہی مظلوم کی حمایت اگرچہ ضعیف ہو، اور ظالم کی مخالفت اگرچہ قوی ہو۔ وہی خدا سے ڈر کر حکومت کرنا اور اخلاقِ صالح کی بنیاد پر سیاست چلانا۔ غرض ہر پہلو میں انہوں نے اس حکمرانی کا نمونہ ایک مرتبہ پھر تازہ کردیا جو صدیق و فاروق نے کی تھی۔

یہ لوگ بعض طبعی اسباب کی وجہ سے ناکام ہوئے مگر جو حرکت وہ پیدا کر گئے تھے اس کے اثرات ایک صدی سے زیادہ مدت گزر جانے کے باوجود اب تک ہندوستان میں موجود ہیں۔

حاشیہ: ناکام بلحاظِ ظاہر نہ کہ بلحاظِ حقیقت۔ حقیقی کامیابی تو مسلمان کے نزدیک بس یہ ہے کہ وہ اللہ کی رضا کے لیے اقامتِ دین کی سعی کرے، جیسا کہ سعی کرنے کا حق ہے۔ اس لحاظ سے یہ حضرات یقیناً کامیاب رہے۔ البتہ ان کی ناکامی دنیوی نتائج کے اعتبار سے ہے کہ وہ عملاً جاہلیت کا اقتدار ختم کر کے اسلام کا غلبہ قائم نہ کرسکے۔ اس کے اسباب کا ہمیں جائزہ لینا ہے تاکہ اقامتِ دین کی سعی میں ان اسبابِ ناکامی سے احتراز کیا جا سکے۔

(ماخوذ از: تجدید و احیائے دین)

جہادِ سید احمد شہیدؒ کی تاریخی اہمیت

اگرچہ ہندوستان میں مسلمانوں کی ترکتازیوں کا سلسلہ پہلی صدی ہجری کے آخر ہی سے شروع ہو گیا تھا اور تیرھویں صدی تک جاری رہا، لیکن چند غیر معروف مستثنیات کی گنجائش رکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ صحیح معنوں میں اسلامی جہاد اس سرزمین پر صرف ایک ہی مرتبہ ہوا تھا اور یہ وہی جہاد تھا جس کے امیر حضرت سید احمد بریلویؒ اور سپہ سالار حضرت شاہ اسمعیل شہید رحمہما اللہ تھے۔ پہلے کی لڑائیاں نہ تو خالصتاً لِلّٰہ تھیں، نہ ان کی تہہ میں خالص اسلامی سیرت تھی، نہ ان میں اسلامی قوانینِ جنگ کی پوری پابندی کی گئی اور نہ ان کے نتیجے میں خلافتِ الٰہیہ کبھی یہاں قائم ہوئی، اس لیے وہ بس لڑائیاں تھیں، جہاد فی سبیل اللہ نہ تھیں۔

لیکن پوری بارہ سو سال کی تاریخ میں یہ دو اللہ کے بندے ایسے نظر آتے ہیں جنہوں نے تمام نفسانی، قومی اور ملکی اغراض سے اور تمام جاہلی تعصبات و خواہشات سے پاک ہو کر صرف اس لیے جنگ کی کہ خدا کی زمین پر خدا کا قانون جاری ہو۔ فاسقین و فجار کی جگہ صالحین کی فوج مرتب کی۔ جنگ و صلح دونوں حالتوں میں شریعت کے قوانین سے ذرہ برابر تجاوز نہ کیا اور جہاں ان کو حکمرانی کا موقع ملا وہاں بالکل خلفائے راشدین کے طرز کی حکومت کی۔ دنیوی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو ہندوستان میں مسلمانوں کی تاریخ کا یہ چھوٹا سا واقعہ پچھلی عظیم الشان فتوحات اور سلطنتوں کے مقابلہ میں اتنا حقیر نظر آتا ہے گویا پہاڑ کے سامنے ایک رائی کا دانہ ہے لیکن اسلامی نقطۂ نظر سے اگر دیکھا جائے تو اس ملک میں اسلامی تاریخ کا یہ واقعہ سب سے زیادہ درخشاں ہے اور میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ خدا کی میزان میں ہندی مسلم قوم کے دوازدہ صد سالہ کارنامے میں سے جتنا حصہ پلڑے میں رکھے جانے کے قابل ہو گا اس کا سب سے زیادہ وزنی جز یہی ہو گا۔

اس عظیم الشان واقعہ کا جو اثر برصغیر کے مسلمانوں پر ہونا چاہیے تھا افسوس ہے کہ وہ نہیں ہو سکا۔ ایک حد تک اس بے حسی کی وجہ یہ بھی ہے کہ اعدائے دین کے خوف نے انہیں اس کا چرچا کرنے سے باز رکھا، مگر اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کا معیار بدل چکا ہے۔ وہ دین، صداقت اور سیرت کے لحاظ سے نہیں بلکہ فتوحات کی وسعت اور سلطنت کے رقبے اور حکمرانوں کی شان و شوکت کے لحاظ سے قیمت مشخص کرتے ہیں۔ اس لیے پچھلے سلاطین کی تاریخ تو ان کے لیے ہر اعتناء کی مستحق ہے مگر "مولویوں" نے ہندوستان کے ایک گوشے میں خدا کے لیے لڑ کر جو سر کٹا دیا وہ ان کے نزدیک اتنا حقیر کام ہے کہ اس کی طرف کسی توجہ کی ضرورت نہیں، نہ کوئی ریسرچ اسکالر اس کی چھان بین کرتا ہے، نہ اس کی تفصیلات کے ریکارڈ جمع کیے جاتے ہیں، نہ کوئی اس کے آثار کی تلاش میں نکلتا ہے، نہ ان بزرگوں کی تحریروں کو مرتب کر کے شائع کرنے کی کوئی سعی کی جاتی ہے، حتیٰ کہ عام تاریخوں میں اس واقعہ کی طرف اشارہ کرنے کی نوبت بھی نہیں آتی...

حقیقت میں تو حضرت سید احمد صاحب اور شاہ شہید کی تحریک کا جو حق یہاں کے مسلمانوں پر ہے اسے ابھی واجب الادا سمجھنا چاہیے۔

(ماخوذ از دیباچہ "شاہ اسمعیل شہید" - مرتبہ عبداللہ بٹ)


محمد بن علی السنوسیؒ (۱۷۸۷ء - ۱۸۵۹ء)

۱۸۳۳ء میں الجزائر کے ایک مشہور عالم سید محمد بن علی السنوسی نے طریقۂ سنوسیہ کی ابتدا کی، جس کا مقصد مسلمانوں کی اصلاح، فرنگی استعمار کی مدافعت اور اسلام کی اشاعت تھا۔ بائیس سال کے عرصے میں انہوں نے ایک ایسی زبردست جماعت تیار کر لی جس کا نظام سلطنتوں کے نظام سے زیادہ مکمل تھا۔ جس کا ہر شخص جماعتی مقاصد کی لگن میں ڈوبا ہوا تھا اور جس کے ہر رکن کو خالص اسلامی تربیت دے کر پکا مسلمان بنا دیا گیا تھا۔ اس میں قرآن مجید کے لفظ لفظ پر عمل کرنا پہلی شرط تھا۔ اولیاء کی پرستش، مزارات کی زیارت، کافی، تمباکو کا استعمال، یہودیوں اور عیسائیوں سے تعلقات ممنوع تھے اور ان کا ہر شخص ایک سچے مجاہد کی سی زندگی بسر کرتا۔ مصر سے لے کر مراکش تک اور ساحلِ طرابلس سے لے کر صحرائے افریقہ کے آخری کونوں تک اس کی خانقاہیں اور زاویے قائم تھے۔ اور افریقہ کے علاوہ عرب، عراق اور جزائر ملایا تک ان کا اثر پھیلا اور سنوسی تحریک کی تبلیغی کوششوں نے افریقہ کے ان تمام قبائل کو صحیح معنوں میں مسلمان بنا دیا جو صرف برائے نام مسلمان رہ گئے تھے! خصوصاً گالا، حبشی اور بورکو کے علاقوں تک اسلام کی ایک نئی روح پھونک دی، ان کے ہاں صرف وعظ و تلقین نہیں بلکہ انہوں نے مسلمان بنانے کے بعد نو مسلموں کو عملی تربیت دینے کا بھی شاندار بندوبست کیے رکھا!

(الجمعیتہ دہلی، ۲۲ جولائی ۱۹۲۵ء)


رادن رحمت

پندرھویں صدی میں جزیرۂ جاوا کا سب سے بڑا اسلامی مبلغ رادن رحمت پیدا ہوا جس نے اسلام کو غربت کے بوریے سے اُٹھا کر بادشاہی اور بالادستی کے تخت پر پہنچا دیا۔ اس نے شاہانہ ناز و نعم میں پرورش پائی تھی اور اگر چاہتا تو خود بھی کسی تخت کا مالک بن جاتا۔ مگر اس کے دل میں اپنی نفسانیت کی خدمت کے بجائے اپنے مذہب کی خدمت کا جوش بھرا ہوا تھا۔ اس لیے اپنی زندگی کا مقصدِ وحید صرف تبلیغ و اشاعتِ اسلام کو قرار دیا اور "وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ" (الشعراء: ۲۱۴) - "اور اپنے قریب ترین رشتہ داروں کو ڈراؤ" - کے ارشادِ ربانی کے مطابق سب سے پہلے اپنے خاندان سے تبلیغ کا کام شروع کیا۔ اس نے اپنے نانا کو جو چمپا کا راجہ تھا، اسلام کی دعوت دی۔ پھر پالم بانگ پہنچا اور اپنے رشتے کے بھائی آریہ دامر کو جو راجہ کی طرف سے وہاں کا گورنر تھا مسلمان کر لیا۔ اس کے بعد مولانا جمادی الکبریٰ کی معیت میں ماجا پاہت (Majapahit) پہنچا اور راجہ کو جو اس کا خالو تھا، اسلام کی دعوت دی۔ راجہ نے خود تو اسلام قبول نہیں کیا مگر اسے امپل کا گورنر مقرر کر کے پوری آزادی کے ساتھ اشاعتِ اسلام کی آزادی دے دی۔ چنانچہ اس نے اپنے زمانۂ گورنری میں امپل کے تقریباً تین ہزار خاندانوں کو مسلمان کیا اور اسلامی مبلغین کی ایک بڑی جماعت کو اطراف و جوانب کے جزیروں اور ریاستوں میں پھیلا دیا۔ پالمبانگ میں ہندو مذہب کا اثر سب سے زیادہ قوی تھا۔ پندرھویں صدی کے وسط میں رادن رحمت نے یہاں بھی اسلام کی اشاعت کی اور اس کے بعد بھی اسلام کا اثر پھیلتا رہا۔

(الجمعیتہ دہلی، ۲۹ جولائی ۱۹۲۵ء)


ٹیپو سلطان مرحوم

دراصل تاریخ انسانیت کا حافظہ ہے جو نہ صرف قوموں اور جماعتوں کے بلکہ کل نوعِ انسانی کے پچھلے تجربات کا دفتر محفوظ رکھ کر انسان کے سامنے پیش کرتا ہے، تاکہ ان تجربات کی روشنی میں انسان اپنے حال کا جائزہ لے اور اپنے مستقبل کو آزمودہ بھلائیوں سے درست اور آزمودہ برائیوں سے محفوظ رکھنے کی کوشش کرے۔ اس دفتر میں مختلف نمائندہ شخصیتوں، اداروں، قوموں اور جماعتوں کے کارنامے ایک مربوط اور مسلسل طرزِ عمل کی حیثیت سے ہمارے سامنے آتے ہیں جنہیں دیکھ کر ہم ان کی نفسیات، ان کی افتادِ مزاج اور ان کی طینت کو سمجھ سکتے ہیں تاکہ آئندہ ان کے ساتھ ہم ایک اجنبی کی طرح نہیں بلکہ واقف کار کی طرح معاملہ کر سکیں۔

یہ دفتر اجتماعی زندگی کے لیے مدارج کے اعتبار سے بہت زیادہ مگر نوعیت کے لحاظ سے وہی اہمیت رکھتا ہے جو فردِ واحد کی زندگی میں اس کے حافظہ کو حاصل ہے۔ اگر ایک فردِ واحد کا حافظہ اس سے سلب کر لیا جائے تو وہ پے درپے غلطیاں کرے گا، یہاں تک کہ اپنی غلطیوں کا خود شکار ہو کر رہ جائے گا۔

حاشیہ: یہ وہ دیباچہ ہے جو مولانا مودودی صاحب نے عبداللہ بٹ صاحب کی تالیف "ٹیپو سلطان" پر تحریر فرمایا تھا۔ (۸ جولائی ۱۹۴۶ء) (مرتب)

ہمارے سامنے نہ ہو تو ہم اس کے متعلق صحیح رائے نہ قائم کر سکیں گے اور نہ اس کے متعلق اپنے طرزِ عمل کا صحیح فیصلہ کر سکیں گے۔ بالکل یہی صورت جماعتی زندگی کی بھی ہے۔ اگر ہم نوعِ انسانی کے اور خود اپنے اور ان قوموں اور اداروں کے جن سے ہمیں سابقہ پیش آتا ہے، پچھلے ریکارڈ سے واقف نہ ہوں تو ہماری اجتماعی زندگی غلط کاریوں اور غلط اندیشیوں کا مجموعہ بن کر رہ جائے گی۔ اس لئے یہ ضروری ہے کہ ہم اس دفترِ پارینہ کے اوراق کا کبھی کبھی نہیں بلکہ بار بار جائزہ لیتے رہیں۔

مطالعہ تاریخ کے طریقے

لیکن تاریخ کے اس دفتر کا جائزہ لینے کے لیے تین نقطہ نظر ممکن ہیں:

  1. محض معروضی مطالعہ کا: یعنی واقعات اور حالات جیسے کچھ بھی گزرے ہیں، اُن کو جوں کا توں دیکھا جائے۔
  2. قوم پرستانہ مطالعہ کا: یعنی ہم واقعات کو اس نسل یا اس قوم یا اس ملک کی حمایت کے جذبہ سے دیکھیں جس سے ہماری تعلیق ہے، اسی لحاظ سے نتائج اخذ کریں اور اسی لحاظ سے اشخاص اور اقوام کے متعلق رائے قائم کریں۔
  3. مقصدی اور اصولی: یعنی ہم نسلی اور قومی تعصبات سے بالاتر ہو کر مجرد انسانی فلاح و سعادت کو مقصود ٹھہرا کر اور نیک و بد کا ایک بے لاگ معیار سامنے رکھ کر نسلِ انسانی اور اس کے مختلف اجزاء کے کارناموں کو جانچیں اور بے لاگ ہی رائے قائم کریں۔

ان میں پہلا نقطہ نظر خاص مورخانہ ہے اور اس حیثیت سے مفید ہے کہ اس طرح کے مطالعہ سے صحیح واقعات ہمارے سامنے آتے ہیں مگر بجائے خود مفید نہیں۔ دوسرے نقطہ نظر میں بڑی جاذبیت ہے۔ بلا مبالغہ تاریخ کے ۹۸ فیصدی طالب علموں کو اس نقطہ نظر کی جاذبیت اپنی طرف کھینچ لیتی ہے کیونکہ ہر طالب علم بہر حال کسی نہ کسی نسل، قوم یا ملک سے تعلق رکھتا ہے اور اس کی خود غرضی وسعت اختیار کر کے بآسانی شخصی خود غرضی سے قومی خود غرضی میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ اس لیے وہ اپنے اور اپنی قوم ہی کے نقطہ نظر سے تاریخ کا مطالعہ کرنے پر مائل ہوتا ہے۔ اس میں اسے فخر و ناز کے لیے چند بت مل جاتے ہیں جن کی پرستش کا نشہ اسے اور اس کی قوم کو اُبھرنے میں مدد دیتا ہے۔ اور اسی میں اس کو نفرت اور عداوت کے لیے چند ہدف بھی مل جاتے ہیں، جن پر اپنے جذباتِ غضب کو مرکوز کر کے وہ قومی وحدت، مقابلہ و مسابقت اور کامیابی و برتری کے مقاصد حاصل کرتا ہے۔

لیکن دنیا میں اکثر جھوٹ اسی مطالعہ کی بدولت پھیلے ہیں۔ اکثر ظلم، اکثر بے انصافیاں، اکثر خون ریزیاں اور قومی و نسلی عداوتیں اسی کی بدولت برپا ہوتی ہیں۔ اکثر بروں کو اچھا، اکثر شیطانوں کو مرکزِ پرستش اسی مطالعہ نے بنایا ہے۔ اکثر اچھوں کو برا اور اکثر نیکوکاروں کو لعن طعن کا ہدف اسی مطالعہ کی بدولت ٹھہرایا گیا ہے۔ انسانیت کو مجروح کرنے اور زمین کو فساد سے بھرنے میں تاریخ کے اس طرزِ مطالعہ کا کچھ کم حصہ نہیں ہے۔ یہ مرض دنیا میں ترقی کر کے کچھ اس حد تک پہنچ گیا ہے کہ اب قومی اغراض کے لیے تاریخیں گھڑی جاتی ہیں۔ جن قوموں کا ماضی کچھ نہ تھا، وہ ایک پورا ماضی اپنی خواہشات کے مطابق تصنیف کر کے رکھ دیتی ہیں اور جن سے حال میں مقابلہ درپیش ہے، ان کے ماضی کی تصویر کولتار سے منقش کر کے تیار کر لی جاتی ہے تاکہ نئی نسلوں میں ان کے خلاف بغض پیدا کیا جاسکے۔

رہا تیسری قسم کا مطالعہ تو وہ یقیناً سب سے بہتر ہے مگر اس کے صحیح و نتیجہ خیز ہونے کا انحصار دو باتوں پر ہے۔ ایک یہ کہ بجائے خود انسانی فلاح و سعادت کا نظریہ درست اور نیک و بد کا معیار صحیح ہو۔ دوسرے یہ کہ واقعات جن پر استدلال کی عمارت اُٹھائی جاتی ہے، معروضی مطالعہ کے ذریعہ سے اخذ کیے گئے ہوں نہ کہ اپنے نظریہ کو سامنے رکھ کر ان کو ایک خاص سانچے میں ڈھال لیا گیا ہو۔


ٹیپو سلطان

اسلامی نقطۂ نظر

اسلام چونکہ کسی خاص قومیت کا نام نہیں ہے بلکہ وہ ایک مسلک ہے جو مطلقاً انسان اور اس کی سعادت سے تعلق رکھتا ہے اور ان تعصبات سے اس کو کسی قسم کی دلچسپی نہیں ہے جو انسانوں کی نسلی، قومی اور جغرافیائی تقسیمات سے پیدا ہوتے ہیں۔ لہٰذا تاریخ میں اس نے یہی آخری رویہ اختیار کیا ہے۔ اگر ایک مسلمان صحیح اسلامی ذہنیت کے ساتھ تاریخ کا مطالعہ کرے تو اس کا فرض یہ ہے کہ جہاں تک ممکن ہو وہ واقعات کو جیسے کہ وہ فی الواقع گزرے ہیں بلا کسی تعصب کے جوں کا توں سامنے رکھے اور پھر اسلام نے جو معیارِ حق و باطل اس کو دیا ہے، اس کے مطابق اشخاص، اقوام اور اداروں کے رویوں کو جانچ کر بے لاگ نتائج اخذ کرے۔ غلطی جہاں بھی ہو، کوتاہی جہاں بھی پائی جائے اسے بے تکلف وہیں اُنگلی رکھ دینی چاہیے اور کھوج لگانا چاہیے کہ اس کی پیدائش کے اسباب کیا ہیں اور اس نے انسانی فلاح و سعادت پر کیا اثر ڈالا ہے، کتنا اور کس طرح اثر ڈالا ہے؟ اسی طرح خوبی جہاں اور جس میں بھی نظر آئے بے تکلف اس کا اعتراف کرنا چاہیئے اور اس کے مفید نتائج یا غیر نتیجہ خیز رہ جانے کے اسباب کا سراغ لگانا چاہیے۔ ٹھیک ٹھیک یہی رویہ ہے جو قرآن میں سوانح اشخاص اور تاریخِ اقوام سے بحث و استدلال کرتے وقت اختیار کیا گیا ہے۔

تاریخ کے باب میں یہ اسلام کا مسلک ہے اور مسلمان کا بھی یہی مسلک ہونا چاہیے۔ لیکن بد قسمتی سے تاریخی اور تہذیبی اسباب نے مسلمانوں کو ایک خیالی عصبیت کے بجائے ایک نسلی و تہذیبی قومیت میں تبدیل کر دیا ہے اور دنیا کی دوسری قوموں کا طرزِ عمل دیکھ دیکھ کر ان کے اندر بھی قوم پرستی کا جذبہ ابھر رہا ہے۔ اس لیے مسلمان اب عموماً تاریخ میں وہی قوم پرستانہ نقطہ نظر اختیار کرتے جارہے ہیں جس کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے۔ وہ اپنی پچھلی تاریخ کا جائزہ اب اس غرض کے لیے لینے لگے ہیں کہ فخر کرنے کے لیے انہیں کچھ ہیرو درکار ہیں، پرستش کرنے کے لیے کچھ بتوں کی ضرورت ہے، مقابلہ و مسابقت اور جدوجہد کے میدان میں پیش قدمی کرنے کے لیے کچھ قومی تفاخر کا نشہ اور کچھ قومی عداوت کا غصہ مطلوب ہے۔ اسی جنس کے جذبات میں سے ایک جذبہ یہ بھی ہے کہ پچھلے زمانوں کے مسلمان اشخاص یا گروہوں کو بے عیب، مجسمۂ فضائل، مجموعۂ کمالات اور مثالی شخصیتوں کا مالک ثابت کیا جائے خواہ اس کا نتیجہ یہی کیوں نہ ہو کہ اس طرح ان کی حقیقی کوتاہیوں کا پشتہ اسلام کے سر پر رکھ کر ہم نادانستگی میں اسلام کی پوزیشن دنیا کے سامنے غلط طور پر پیش کرنے کا سبب بن جائیں۔ یہ طرزِ عمل اپنی اصل و بنیاد کے اعتبار سے بالکل غیر اسلامی ہے۔ اسلام اس جذبہ ہی کی قدر کرنے سے انکار کرتا ہے جس کی تحریک پر یہ ساری کاوشیں کی جاتی ہیں۔ مگر قوم پرستی جب مسلم قوم پرستی کی شکل میں ظہور کرتی ہے، جب غیر مسلموں کے بجائے مسلمانوں کی حمایت اور مسلمانوں کو سراہنے اور ان کا بول بالا کرنے کا معاملہ درپیش ہوتا ہے، تو عیب، صواب بن جاتا ہے اور گناہ نیکی بن کر رہ جاتا ہے۔ اس معاملہ میں حق کو باطل سے ممتاز کرنا اور اسلام کی بے لاگ راستی پر قائم رہنا بڑی بڑی بلند پایہ روحوں کے لیے بھی مشکل ثابت ہوا ہے اور ہو رہا ہے۔ وطنی قوم پرستی کی برائی تو تھوڑے استدلال سے ہر ایک کی سمجھ میں آ سکتی ہے، مگر مسلم قوم پرستی، جو اپنی اصل و روح کے اعتبار سے بعینہ اسی نوعیت کی چیز ہے، بمشکل ہی سے کسی کو غلط محسوس ہوتی ہے۔

نظامِ حکومت اور اس کی بنیادی خامی

سلطان ٹیپو کے متعلق ہمیں اس حقیقت کو نہ بھولنا چاہئیے کہ وہ جس ادارے یعنی پادشاہی کے ادارے سے تعلق رکھتا تھا وہ فی الاصل اسلام کے خلاف تھا۔ اس کی حکومت کا دستور اسلامی نہ تھا۔ بادشاہی نظام جس پر ہندوستان میں ان تمام حکومتوں کی بنا ابتدا سے قائم ہوتی رہی ہے جنہیں غلطی سے اسلامی حکومتیں کہا جاتا ہے، دراصل وہ سب سے بڑا گناہ تھا جس کی وجہ سے اسلام کی حقیقی نعمتوں سے ہندوستان کبھی بھی بہرہ ور نہ ہو سکا۔ اس گناہ میں، جہاں تک کہ اساسِ حکومت کا تعلق ہے، ہمارے بہتر سے بہتر حکمران بھی اتنے ہی شریک تھے جتنے بد سے بدتر حکمران۔ سلطان ناصرالدین، غیاث الدین بلبن، محمد تغلق، عالمگیر، ٹیپو سلطان اور اسی قسم کے دوسرے افراد نے اپنی ذاتی خوبیوں کے سبب سے جو کچھ اچھے کام کیے، ان کی حیثیت بہر حال انفرادی ہے۔ وہ دستور اور نظام جس سے ان کا تعلق تھا بجائے خود غلط تھا۔ اس لیے ان معدودے چند افراد کی خوبیوں سے اس غلط نظام کے برے نتائج نہ رک سکے۔ اس بادشاہی کے اثر سے جو غلط سیاسی، اخلاقی، تمدنی اور معاشی نظامِ زندگی یہاں بن گیا تھا، یہ چند اچھے حکمران اس میں کوئی بنیادی اصلاح نہ کر سکتے تھے اور نہ کر سکے۔ اہلِ ہند نے اس سیاست کو اپنی پرانی راج نیتی سے، اس معاشرت کو اپنی پرانی معاشرت سے اور اس معیشت کو اپنی پرانی معیشت سے کچھ زیادہ بلند اخلاق نہ پایا کہ وہ اس کے گرویدہ ہوتے۔ یہاں بھی انسانوں کے درمیان وہی اونچ نیچ تھی، انسان اسی طرح انسان کا خدا بنتا تھا، ویسے ہی معاشرتی امتیازات تھے، ویسا ہی معاشی ظلم تھا جس کے یہ لوگ پہلے سے خوگر تھے۔ اگر فرق تھا تو محض مدارج کا تھا، اصل جوہر کا نہ تھا۔ اس وجہ سے یہاں نہ اتنا مکمل سماجی انقلاب رونما ہو سکا جو شام، عراق اور مصر میں اسلامی فتح سے ہوا تھا اور نہ اسلام اور مسلمان کی وہ عزت کبھی دلوں میں قائم ہو سکی جو اصلی اسلامی حکومت کی بدولت مشرقِ قریب کے ممالک میں قائم ہوئی تھی۔

سلطان کی شخصیت اور اسلامی اثرات

پس ٹیپو سلطان یا کسی دوسرے مسلمان بادشاہ کی تعریف کرتے ہوئے ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ یہ لوگ معیاری مسلمان حکمران کے نمونے نہیں ہیں۔ اگر ہم اس کو بھول جائیں گے، تو جس ادارے سے ان کا تعلق تھا اور جس کی ناگزیر برائیوں سے وہ بری الذمہ نہ تھے وہ خواہ مخواہ اسلام کے سر منڈھا جائے گا اور یہ چاہے ان اشخاص کے ساتھ محبت کا اقتضاء ہو مگر اسلام کے ساتھ انصاف نہ ہوگا۔ البتہ یہ صحیح ہے کہ اس غلط نظام اور اس غیر اسلامی دستور کے اندر رہ کر کام کرنے کے باوجود جو اخلاقی خوبیاں ٹیپو سلطان اور بہت سے دوسرے مسلمان بادشاہوں سے ظاہر ہوئیں، وہ اسلام ہی کے اثرات تھے۔ اسلام بالواسطہ طریقہ سے غیر اسلامی نظام کے اندر نفوذ کرکے جو کچھ اصلاح کرسکتا تھا اس نے کی۔ یہ ایک واقعہ ہے کہ بادشاہی جیسے باطل اور ناپاک نظام میں جس بلند معیار کے بادشاہ مسلمان پیش کر سکتے ہیں شاید کوئی دوسری قوم پیش نہیں کرسکتی۔ عالمگیر، محمد تغلق اور ناصرالدین تو بہت اونچے درجہ کے لوگ ہیں۔ اوسط درجہ کے اور بگڑے ہوئے بادشاہوں کی تاریک زندگیوں میں بھی بارہا اسلام کے زبردست اثر کی بدولت خدا ترسی، صداقت پسندی، حق آگاہی، تواضع و انکسار اور قانون کے احترام کی چمک نمودار ہو گئی ہے۔

شخصی کردار

شخصی حیثیت سے سلطان ٹیپو ایک بہترین شخص تھا۔ غیر ذمہ دارانہ پادشاہی کے اختیارات رکھنے کے باوجود وہ خدا سے ڈرتا تھا۔ اسلامی قانون کا احترام ملحوظ رکھتا تھا۔ قانون کی خلاف ورزی سے اس نے پرہیز کیا۔ اپنے وعدوں کی پابندی کی، رعایا کے ساتھ عدل و انصاف سے پیش آیا۔ رعایا کی دولت کو اپنی عیاشی پر اس نے نہیں لٹایا۔ خلقِ خدا کے ساتھ رحم کا برتاؤ کیا۔ غیر مسلم جو اس کی حفاظت میں تھے ان سے انتہائی رواداری اور فیاضی کا سلوک کیا۔ ایک مسلمان حکمران کے اصلی فرائض بڑی حد تک بجا لانے کی کوشش کی، غیر مہذب لوگوں کو جانوروں سے آدمی بنایا، تعلیم پھیلائی، بداخلاقیوں کو دور کرنے کی کوشش کی۔ غلط رواجوں (مثلاً خلافِ شریعت کثرتِ ازواج، بے ستری، دیوداسی وغیرہ) کو مٹانے میں اپنا پورا زور صرف کیا۔ لڑائیوں میں اپنے دشمنوں تک سے وہ برتاؤ کیا جس کی ہدایت اسلام نے دی ہے۔ تاہم جیسا کہ میں کہہ چکا ہوں، اس کی خوبیاں بیان کرتے وقت ہمیں ناظرین کو اس بات پر متنبہ کر دینا چاہیئے کہ یہ پورے اور اصلی اسلامی حکمران کا نمونہ نہیں ہے۔ یہ اصل پیمانہ سے بہت کم ہے۔ پوری شان کے مسلمان حکمران کو دیکھنا ہو تو ابوبکر صدیقؓ اور عمر فاروقؓ کو دیکھو۔

سیاسی حکمتِ عملی

سیاسی تدبر اور حسنِ تدبیر کے لحاظ سے بھی ٹیپو سلطان کوئی معمولی درجے کا انسان نہ تھا۔ ہندوستان میں وہ پہلا شخص تھا جس نے بحری بیڑے کی اہمیت کو محسوس کیا اور اس غلطی کی تلافی کرنے کی کوشش کی جو اس سے پہلے کے مسلمان حکمران کرتے رہے تھے۔ ہندوستان میں وہ ایک ہی شخص تھا جس نے انگریزی امپیریلزم کے بڑھتے ہوئے اثرات کے خطرات پوری طرح محسوس کیے اور ان کو روکنے کے لیے بہترین سیاسی اور حربی تدبیریں جو اس وقت ممکن تھیں استعمال کیں۔ تمام مشرقی ممالک میں وہ پہلا شخص تھا جس نے جدید فنِ جنگ اور جدید آلاتِ جنگ کی اہمیت کو محسوس کیا اور اپنی فوجی طاقت بڑھانے کی تدبیریں کیں۔ اس کے سیاسی تدبر کا یہ بھی ایک ثبوت ہے کہ اس نے ایک طرف صنعت و تجارت کے ذریعہ سے اپنی سلطنت کی معاشی طاقت مضبوط کرنے کی کوشش کی اور دوسری طرف گرد و نواح کے مسلمانوں کو دعوت دی کہ وہ سمٹ کر اس کی سلطنت میں جمع ہو جائیں۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ایک مضبوط معیشت اور ایک متحد آبادی کی سیاسی اہمیت کو خوب سمجھتا تھا۔ پھر جس طرح اس نے مغربی قوموں کی باہمی کشمکش سے فائدہ اُٹھانے اور مسلمان ریاستوں کو متحد کر کے بیرونی حملہ آوروں کا مقابلہ کرنے کی کوششیں کیں وہ اس کی سیاسی دور بینی پر دلالت کرتی ہیں۔

ناکامی کا سبب

مگر ان تمام قابلیتوں کے باوجود وہ آخر ناکام رہا۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ یہ سب خوبیاں اور قابلیتیں محض ایک شخص کی ذاتی تھیں، اجتماعی نہ تھیں۔ ہندوستان کے عام باشندے اور خود مسلمان قوم کے جمہور اخلاقی حیثیت سے پوری طرح بگڑ چکے تھے۔ ان کے اندر کوئی جماعت نہ تھی، کسی مشترک وفاداری کے رشتہ میں وہ بندھے ہوئے نہ تھے۔ در حقیقت فرد فرد الگ تھا اور ہر فرد اپنی ذات کے سوا کسی کا وفادار نہ تھا۔ اجتماعی وفاداری بہرحال کسی مشترک محبوب کی وفاداری سے بنتی ہے، خواہ وہ محبوب خداوندِ تعالیٰ کی ذات ہو، یا قوم یا ملک، یا کوئی اور چیز۔ لیکن یہاں سرے سے کوئی مشترک محبوب تھا ہی نہیں۔ ہر شخص کا محبوب خود اس کا اپنا وجود تھا۔ دوسری طرف انگریز قوم تھی جس میں اخلاقی حیثیت سے کتنے ہی عیوب تھے مگر بہر حال قومیت کے محبوب کی وفاداری میں سب ثابت قدم تھے۔ جو انگریز جس پوزیشن میں اور جہاں کام کر رہا تھا، خلوصِ نیت کے ساتھ اپنی قوم کی برتری کے لیے کوشاں تھا اور اس غرض کے لیے جھوٹ، فریب، بے ایمانی، سازش، ایمانوں کی خرید و فروخت اور سرفروشی و جانبازی سب ہی ذرائع استعمال کر رہا تھا۔ پس دراصل مقابلہ ٹیپو اور انگریزوں کا مقابلہ تھا۔ ایک فرد اور ایک پوری قوم کا مقابلہ تھا اور ظاہر ہے کہ ایسے نامساوی مقابلہ میں شخص واحد کا شکست کھانا امرِ طبعی تھا۔ اگر ٹیپو سلطان بادشاہ کے بجائے ایک مسلم لیڈر ہوتا اور اسلام کو بحیثیت ایک نظامِ فکر و عمل کے عوام میں پھیلا کر ان کے اندر سب سے بڑے محبوب یعنی خداوندِ عالم کی وفاداری مستحکم کردیتا تو یقیناً ہندوستان کی تاریخ آج کچھ اور ہوتی اور آج بھی اگر کوئی اللہ کا بندہ یہ کام کرے تو تاریخ اپنا راستہ بدلنے پر اب بھی مجبور ہو سکتی ہے۔


مصطفیٰ کامل پاشا روم

سر زمینِ فراعنہ کا بے مثل فرزند

مصطفیٰ کامل سے ہندوستان بہت کم واقف ہے۔ اور اہلِ ہند کے کان عموماً اس سے نا آشنا ہیں۔ مگر ارضِ فراعنہ کے ذرے آج بھی یہ نام سن کر کبیر و تہلیل کرنے لگتے ہیں۔ آج چودہ برس کی پر انقلاب مدت گزر جانے کے بعد بھی جب آلِ فراعنہ کے سامنے یہ نام لیا جاتا ہے تو وہ وجد میں آجاتے ہیں۔ ان کی آنکھوں میں وہ زمانہ پھر جاتا ہے، جب اس نام کے ایک دبلے پتلے ضعیف الجثہ نوجوان نے اول اول انہیں ہوش کی دوا پلائی تھی، جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر بیدار کیا تھا اور طلبِ استقلال کی کچھ ایسی تند و تیز شراب پلا دی تھی، جس کا نشہ سخت سے سخت ترشیوں کے باوجود آج تک برابر بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ وہ شخص در حقیقت مصر کا اولین داعیٔ حریت تھا، جو صرف اہلِ مصر کے لیے طلبِ حقوق کی جنگ کرنے کے لیے پیدا کیا گیا تھا۔ اور حق یہ ہے کہ اس نے اپنے وطنی فرض کو ایسی بے نظیر قابلیتوں کے ساتھ انجام دیا، جن کی بدولت یقیناً وہ صفحۂ تاریخ پر ایسے اکابر بنی نوع انسان کی فہرست میں جگہ پانے کا مستحق ہے جنہوں نے بہترین اجتماعی مطمح نظر کی طرف قوموں کی رہنمائی کی ہے۔

(واضح رہے کہ یہ مضمون تقسیمِ ہند سے قبل لکھا گیا تھا۔ - مرتب)

ابتدائی زندگی

مصر کا یہ حقیقی رہنما آج سے پچاس سال پہلے اگست ۱۸۷۴ء میں اس وقت پیدا ہوا جب مصر پر اسماعیل پاشا کی حکمرانی تھی۔ انگلستان اور فرانس متحدہ طریقہ سے وادیِ نیل پر سرمایہ داری کے جال بچھا رہے تھے۔ اولوالعزم مگر عاقبت نا اندیش خدیو اپنے فرنگی صلاح کاروں کی ترغیبات کا شکار ہو کر مصر کو ظاہری تزئین مگر باطنی تخریب سے آراستہ کر رہا تھا۔ مصر پر یورپین سرمایہ پوری طرح مسلط ہو چکا تھا اور اربابِ بصیرت دیکھ رہے تھے کہ انگلستان یا فرانس دونوں میں سے جو کوئی بھی بہترین فرصت کا بہترین مصرف لینے والا ہو گا وہ ضرور وادیِ نیل یا دراصل مشرقی استعمار کی کنجی پر قبضہ کر کے رہے گا۔ اس کا باپ علی آفندی محمد تھا، جو مصری حکومت میں چیف انجینئر کے عہدے پر فائز تھا۔ لڑکا جتنا سعید، نیک بخت اور ذکی و ذہین تھا خوش قسمتی سے باپ بھی اتنا ہی خوش فکر، صاحب الرائے اور پاکیزہ خیال تھا۔ اس نے رنگ پرستوں کے عام دستور کے مطابق اپنے ہونہار بچے کو چھوٹتے ہی ان مدارس میں داخل نہیں کیا جو اس زمانہ میں اہلِ مصر کے لیے بہت سی خوش نمائیاں رکھتے تھے۔ بلکہ شرفاء کے قدیم اصول کے مطابق اسے بسم اللہ پڑھاتے ہی ایک عالم کی تربیت میں دے دیا جس نے بچے کی لوحِ سادہ پر اللہ اور اس کے رسول کا پہلا نقش بٹھایا اور صحیح اسلامی تعلیمات سے اس کی اخلاقی تربیت مکمل کی۔ تقریباً چھ سال تک اس خانگی تعلیم کا سلسلہ جاری رہا جس میں مصطفیٰ کامل نے قرآن مجید کے علاوہ مسائلِ فقہ، ادب اور ابتدائی تعلیم کے دیگر لوازم کی تحصیل کی۔ اس تعلیم کے بعد انہیں مدرسہ والدہ عباس میں داخل کر دیا گیا، جہاں انہوں نے اپنی فطری ذکاوت و فراست سے پہلے ہی سال ایک خاص امتیاز حاصل کیا اور پہلے درجہ کے امتحان میں پوری کامیابی حاصل کی۔ دوسرے سال جب وہ دوسرے درجے میں داخل ہوئے تو کچھ عرصہ کے بعد دفعتاً ان کے والد علی آفندی کا انتقال ہو گیا اور یہ بارہ برس کا بچہ دنیا کے سرد و گرم کا مزہ چکھنے کے لیے اکیلا رہ گیا۔ اس حال میں کہ ایک بے کس بیوہ اس کی خبر گیر تھی اور ایک نوجوان بھائی جو خود چودہ پندرہ برس کا تھا اس کا شریکِ بیچارگی تھا۔ ماں نے فیصلہ کر لیا کہ جس طرح بھی ہو خود تکلیفیں برداشت کر کے بیٹے کی تعلیم کو برابر جاری رکھے گی۔ چنانچہ اس نے مصارف میں کمی کی اور مصطفیٰ کامل کو مدرسہ سے نہ اٹھایا۔ ۱۸۸۷ء میں اس ہونہار طالب علم نے ثانوی تعلیم ختم کی اور امتحانِ عمومی میں اعزازی کامیابی حاصل کر کے اعلیٰ تعلیم کے لیے کالج میں داخل ہوا جہاں اس نے چار سال کا کورس ختم کرنے کے بعد بی اے کی سند حاصل کی۔ پھر وہ مدرستہ الحقوق میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد فرانس گیا اور تولون (TOULON) یونیورسٹی سے بیرسٹری کی ڈگری لے کر واپس آیا۔

ایک عجیب واقعہ

یہاں ضروری سمجھتا ہوں کہ زمانہ طالب علمی کے ایک عجیب واقعہ کا ذکر کروں جس سے معلوم ہوگا کہ یہ شخص کس قدر جری اور بے باک فطرت لے کر آیا تھا۔ مصطفیٰ کامل کی عمر ۱۶ برس کی تھی۔ مدرسہ خدیوی میں پڑھتے تھے۔ وزیرِ تعلیم کو کسی معاملہ میں درخواست دی تھی مگر اس کا کوئی جواب نہ ملا تھا۔ نوجوان طالب علم کو اس خاموشی سے سخت غصہ آیا اور وہ سیدھا وزیرِ تعلیم کے پاس پہنچا۔ متعدد اعیان و اکابر ان کے پاس بیٹھے تھے، مگر اس نے فرض کر لیا کہ کوئی نہیں ہے۔ وہ بلا تامل وزیر سے مخاطب ہو کر جھگڑنے لگا اور آخر میں کڑک کر یوں گویا ہوا: "میں آپ سے وہی حق مانگ رہا ہوں جسے اگر آپ بھی طالب علم ہوتے تو ضرور مانگتے۔ کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ کل میں آپ سے زیادہ وطن کی خدمت نہ کر سکوں گا؟" اگرچہ مصطفیٰ کامل کی ابتدائی زندگی ایسی غیر معمولی جوانمردیوں سے لبریز ہے مگر یہ واقعہ خصوصیت کے ساتھ ایسا حیرت انگیز ہے جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ مصطفیٰ کامل پاشا نے جو زبردست شخصیت پیدا کی وہ کچھ اتفاقاتِ زمانہ کا نتیجہ نہ تھی بلکہ وہ پیدا ہی اس لیے ہوا تھا کہ بڑا آدمی بنے۔ دنیا میں جتنے بڑے لوگ گزرے ہیں عموماً ان کی ابتدائی زندگی ایسے غیر معمولی واقعات سے پُر رہی ہے جنہوں نے ان کی عظمت و بزرگی کا پہلے سے اعلان کر دیا ہے۔

تصنیف و تالیف کا فطری ذوق

مصطفیٰ کامل نے زمانہ طالب علمی ہی میں اپنی اعلیٰ دماغی صلاحیتوں سے کام لینا شروع کر دیا تھا۔ کالج کے زمانے میں وہ "مجلۃ المدرسہ" کے ایڈیٹر تھے، جسے وہ ایسی قابلیت کے ساتھ مرتب کرتے تھے کہ اساتذہ بھی ان کے معترف تھے۔ اس کے علاوہ اس زمانے میں انہوں نے دو کتابیں بھی تصنیف کیں۔ ایک کا نام "فتح اندلس" ہے اور دوسری کا "اَعْجَبَ مَا کَانَ فِی الرِّقِ عِنْدَ الرُّوْمَان"۔ فتح اندلس میں انہوں نے اندلس کی اسلامی تاریخ لکھی ہے اور خصوصیت کے ساتھ اسلامی اندلس کی تباہی کا نقشہ اس انداز میں کھینچا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس انیس سالہ نوجوان کے دل میں کیسا اسلامی درد بھرا ہوا ہے۔ دوسری کتاب ایک رسالہ ہے جو رومن حکومت میں غلامی کے دستور پر ایک تاریخی بحث ہے۔ اگرچہ دونوں کتابیں اتنی بلند پایہ نہیں ہیں جتنی بعد میں مصطفیٰ کامل کے قلم سے نکلیں مگر ایک طالب علم کے لیے یہ بھی ایک فوق العادہ کام ہے۔

راہِ عمل کا انتخاب

۱۸۹۵ء میں جب مصطفیٰ کامل نے تعلیم ختم کی تو ہر فارغ التحصیل نوجوان کی طرح ان کے سامنے بھی یہ مسئلہ پیش ہوا کہ دنیا میں کسی قسم کی زندگی شروع کریں۔ ان کے سامنے متعدد راستے تھے۔ وہ چاہتے تو حکومتِ مصر میں کوئی اعلیٰ عہدہ حاصل کر سکتے تھے اور اس صورت میں یہ توقع کچھ بے جا نہ تھی کہ ایک وقت میں وزارتِ مصر کی کرسی ان کے لیے چشم براہ ہوگی۔ ان کے لیے یہ بھی بہت آسان تھا کہ قاہرہ کے ہائی کورٹ میں وکالت شروع کر دیں۔ اور قدرت نے جو زبردست قوتِ گویائی اور حیرت انگیز مادۂ استدلال انہیں عطا کیا تھا، اس کی بنا پر وہ بجا طور پر امید کر سکتے تھے کہ تھوڑی ہی مدت میں وہ ارضِ مصر کے کامیاب ترین بیرسٹر ہوں گے اور دولت و شہرت ان کے قدموں پر لوٹے گی۔ وہ چاہتے تو شاید یہ بھی ممکن تھا کہ دولتِ عثمانیہ میں ان کو کوئی بڑا عہدہ مل جاتا کیونکہ ترکی کو اس وقت اعلیٰ تعلیم یافتہ آدمیوں کی سخت ضرورت تھی اور سلطان عبدالحمید اتحادِ اسلامی کی اسکیم کو کامیاب بنانے کے لیے مصریوں کو خاص طور پر تقریب دینا چاہتے تھے۔ مگر ان خوش نما امیدوں اور تابناک توقعات میں سے ایک بھی انہیں اپنی طرف کھینچنے میں کامیاب نہ ہوئی اور وہ تعلیم ختم کرتے ہی سیاست کے خارزار میں اس طرح داخل ہو گئے کہ جیسے انہوں نے پہلے ہی سے اپنے لیے راہ تجویز کر لی تھی اور وہ صرف اتمامِ تعلیم ہی کے منتظر تھے۔ اس زمانے میں مصر پر انگریزی احتلال قائم ہوئے ۱۳ برس گزر چکے تھے۔ انگریزی حکومت صرف امن قائم کرنے اور خدیوی اقتدار کو مستحکم بنانے کے لیے مصر پہنچی تھی، مگر اس نے امن کے بجائے اپنا تسلط قائم کیا اور خدیوی اقتدار کی جگہ اپنا چنگل مضبوط کرنے کی کوشش کرتی رہی۔ معلوم ہوتا ہے کہ مصطفیٰ کامل نے ہوش سنبھالتے ہی انگریزی تسلط کے خلاف اپنے اندر ایک شدید جذبۂ تنفر محسوس کیا تھا اور طالب علمی کے ایام میں برابر اس کو پرورش کر رہے تھے۔ یہاں تک کہ اس قید سے آزاد ہوتے ہی انہوں نے اپنے برسوں کے پکائے ہوئے خیال کے مطابق اپنی زندگی کو صرف اس لیے وقف کر دیا کہ انگریزی تسلط کے خلاف جنگ کریں اور خواہ کوئی مدد کرے یا نہ کرے وہ تنہا برطانوی احتلال کی عمر ختم کرنے کے لیے جدوجہد شروع کر دیں۔

تخلیۂ مصر کی تحریک

یہ جیسا زبردست ارادہ تھا اس کو پورا کرنے کے لیے ویسا ہی حیرت انگیز طریقہ بھی اختیار کیا گیا۔ میں جس وقت مصطفیٰ کامل کی سیاسی زندگی کے اس اولین کارنامہ پر غور کرتا ہوں جس سے اس نے اپنی جدوجہد کا آغاز کیا تو یقین کیجئے کہ گھنٹوں اس "بائیس برس کے لڑکے" کی حیرت انگیز سیاست دانی پر تعجب کرتا ہوں اور پھر بھی طبیعت سیر نہیں ہوتی۔ اس نے آزادیٔ مصر کے مسئلہ پر غور کرنے کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ خود مصر میں کوئی ایسی تحریک شروع کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ مصر کے باہر کسی طاقتور ملک میں اس تحریک کی تائید حاصل کر لی جائے تاکہ برطانوی قوائے احتلال کو پہلی صدا بلند ہوتے ہی گلا دبانے کا موقع نہ مل سکے۔ اس مقصد کے لیے اس نے دنیا کے سیاسی نقشہ پر ایک نظر ڈالی۔ ترکی، روس، اٹلی، فرانس، جرمنی، آسٹریا اور امریکہ یہ سات قوتیں ایسی تھیں جن کو مصر سے تھوڑا یا بہت تعلق تھا اور جن کی آواز برطانوی وزارتِ خارجہ پر کوئی اثر ڈال سکتی تھی۔ اس نے ان میں سے ایک ایک کے حالات کو غور سے دیکھا اور ہر ایک کے وزن کو جانچنا شروع کیا تاکہ کسی ایک کو ترجیح دے سکے۔

ترکی کو مصر کے ساتھ سب سے زیادہ گہری دلچسپی ہو سکتی تھی، کیونکہ مصر اسی کے جسم کا ایک ٹکڑا تھا جو نہایت بد دیانتی کے ساتھ اس سے علیحدہ کر لیا گیا تھا۔ مگر مصطفیٰ کامل کو معلوم تھا کہ اس نے کس طرح مصر کے معاملے میں برطانیہ سے مسلسل دھوکے کھائے ہیں اور انگریزوں کی سیاسی ہوش مندی کے مقابلے میں اس کے مدبرین کیسی کیسی شرمناک ہزیمتیں اٹھا چکے ہیں۔ علاوہ ازیں وہ یہ بھی جانتا تھا کہ ترکی کوئی ایسی زبردست قوت نہیں ہے جس سے ڈاؤننگ اسٹریٹ کے کارندے کوئی اثر لینے پر مجبور ہوں۔

روس بے شک ایک ہولناک قوت تھا۔ برطانیہ اس سے خائف بھی تھا اور وہ برطانیہ کے خلاف ہر تحریک میں حصہ لینے پر بھی تیار تھا۔ مگر مصطفیٰ کامل نے اپنی دقتِ نظر سے اس حقیقت کو محسوس کر لیا کہ مصر کے معاملہ میں روس سے مدد طلب کرنے کے معنی یہ ہیں کہ برطانیہ کے سامنے نہ صرف اس کے سیاسی مطامع کا سوال پیش کیا جائے بلکہ اسے اپنے سیاسی رعب کے زیادہ اہم اور نازک مسئلہ سے بھی دوچار کر دیا جائے۔ تخلیۂ مصر کے معاملہ میں روسی وزارتِ خارجہ کے دباؤ سے متاثر ہونا تو الگ رہا، برطانیہ کو تو اور اپنے قیامِ مصر پر زیادہ اصرار کرنا پڑے گا کیونکہ ایسی حالت میں مصر خالی کر کے نہ صرف برطانیہ اپنے مشرقی استعمار کی ساری اسکیموں کو دفن کر دے گا بلکہ روس سے ایک زبردست سیاسی شکست بھی کھائے گا جو تخلیۂ مصر سے بہت زیادہ نقصان دینے والی چیز ہے۔

آسٹریا اور جرمنی سے برطانیہ کے تعلقات اچھے تھے۔ اس وقت تک کسی قسم کی سیاسی رقابت پیدا نہ ہوئی تھی۔ برطانوی اربابِ سیاست ان سے اثر لے سکتے تھے مگر اس زمانے میں جرمنی کے مدبرین مصر کے برطانوی احتلال کی مخالفت کرنا اپنے مفاد کے خلاف سمجھتے تھے اور اس لیے ترکی سے دوستانہ تعلقات اور مسلمانوں کی طرف دوستانہ میلان ظاہر کرنے کے باوجود انگریزی احتلال کی مدد کرنا ان کے نزدیک عین مصلحت تھا۔ پس جرمنی اور اس کے اتحادی سے کوئی توقع نہیں کی جا سکتی تھی۔

اٹلی کے متعلق یہ سب کو معلوم تھا کہ برطانیہ نے مصوع کا علاقہ اسے رشوت کے طور پر دلوا دیا تھا اور دراویشِ سوڈان کے حملوں سے بچنے کے لیے مصری افواج سے اس کی مدد کی تھی۔ ایسی حالت میں اس سے کیا توقع کی جا سکتی تھی کہ مصر کی حمایت میں اپنے استعماری پیشوا سے مخالفت پیدا کرے گا۔ رہا امریکہ، سو اس کے مصر سے مصالح کچھ ایسے زیادہ وابستہ نہ تھے اور سوداگر قومیں ایسی جذبہ پرست نہیں ہیں کہ محض حریت کے چھلکتے ہوئے نام پر ایک ایسے مسئلے میں دخل دیں، جس میں ان کی کوئی غرض اور مصلحت پوشیدہ نہ ہو۔ پس مصطفیٰ کامل کو معلوم ہو گیا کہ صرف ایک فرانس ہے جسے مصر کی حمایت پر ابھارا جا سکتا ہے۔ ایک صدی سے اس کے مصالح مصر کے ساتھ وابستہ ہیں۔ فرنچ سرمایہ، فرنچ تہذیب، فرنچ تعلیم اور فرنچ مصنوعات ہر چیز کے لیے مصر ایک مدت سے بہترین مارکیٹ رہا ہے۔ برطانوی احتلال سے قبل وادیِ نیل فرانس کے بے شمار فوائد و منافع کا سرچشمہ تھی اور آج فرانسیسی قوم اس کھوئے ہوئے میدان کے لیے سخت متاسف ہے۔ ۱۸۸۲ء میں برطانوی مدبرین نے تنہا کارروائی کر کے فرانس کے ساتھ جو بے وفائی کی تھی، اس کی یاد آج تک فرینچ مدبرین کے دلوں میں تازہ ہے اور جمہوریہ فرانس اس کا بدلہ لینے کے لیے ہر فرصت کی منتظر ہے۔ یہ سوچ کر اس نے فیصلہ کر لیا کہ اپنی تحریک کو فرانس سے شروع کرے۔

پہلا سیاسی کارنامہ

اس تحریک کی ابتدا اس نے جس صورت سے کی وہ بھی کچھ کم دلچسپ نہیں ہے۔ اس نے ایک کارٹون تیار کیا جس کی صورت یہ تھی کہ ایک عالی شان ایوان میں ایک تخت بچھا ہوا ہے، جس کے آگے ایک حسین و جمیل ملکہ زرکار ملبوس میں کھڑی ہے۔ یہ جمہوریہ فرانس ہے۔ اس کے بائیں جانب چار خوبصورت نوجوان عورتیں شاہانہ لباس میں اپنے اپنے پرچم لیے کھڑی ہیں اور یہ اٹلی، بلجیم، یونان اور امریکہ ہیں جنہیں فرانس کی کوششوں نے آزاد کرایا ہے۔ ان کے برابر ایک جوان عورت جس کے بال پریشان، آدھا جسم برہنہ، حسن و جمال لٹا ہوا اور حالت تباہ ہے، اس کے دونوں ہاتھ ایک زنجیر سے بندھے ہوئے ہیں، جس کا دوسرا سرا ایک شیر کے چنگل میں ہے اور اس کے پاس ایک خونی جلاد ہاتھ میں تلوار لیے تیز تیز نظروں سے اس بے بس عورت کی طرف دیکھ رہا ہے۔ یہ عورت مصر ہے اور یہ جلاد انگلستان ہے جس نے مصر کو زنجیر سے باندھ کر شیرِ برطانیہ کے چنگل میں دے دیا ہے۔ اس کے برابر ایک پیرِ فرتوت ایک پیالہ کے سہارے غمگین بیٹھا ہوا ہے۔ اس کے پیالہ سے ایک چشمہ جاری ہے اور اس کا ہاتھ اس جلاد کے پاؤں تلے دبا ہوا ہے۔ اس سے مراد دریائے نیل ہے جس کی زر پاشیوں کو برطانیہ اپنے مصالح کا غلام بنانا چاہتی ہے۔ ملکہ کے دوسری جانب مصطفیٰ کامل ہاتھ میں ایک عرضداشت لیے کھڑا ہے، جس کے پیچھے مصر کے علماء، والیان، اکابر اور عوام کھڑے ہیں اور مصری علم ان کے ہاتھ میں ہے۔ مصطفیٰ کامل اس عرضداشت کو ملکہ کے سامنے پیش کر رہا ہے اور وہ ہاتھ بڑھا کر اسے لے رہی ہے۔

کارٹون کے نیچے یہ عربی اشعار ہیں:

يَا فَرَنْسَا مَنْ رَفَعَتِ البَلايَا
عَنْ شُعُوبٍ لَهُنَّ هَذَا ذِكْرُكِ

(اے فرانس! جس نے ان قوموں کی مصیبتوں کو دور کیا جو تیرے نام سے جھومنے لگتی ہیں)۔

اُنْظُرِي مِصْرَ بِسُوءٍ وَاحْفَظِي النِّيلَ مِنْ مَعَاوِي الهَلَاكِ

(مصیبت زدہ مصر کی طرف دیکھ اور نیل کو بربادی کے خطرات سے بچا)۔

وَانْشُرِي فِي الوَرَى الحَقَائِقَ حَقًّا
تَحْتَمِي الخَيْرَ أُمَّةٌ تَهْوَاكِ

(دنیا میں حق کی اشاعت کر یہاں تک کہ اس قوم کا بھلا ہو جو تجھ سے محبت کرتی ہے)۔

اس کارٹون کے ساتھ صدرِ جمہوریہ فرانس کے نام ایک معروضہ تھا جس میں لکھا تھا:

جناب صدر! میں اس تڑپ سے مجبور ہو کر جو میرے دل میں موجود ہے، یہ کارٹون فرانس کے چیمبر آف ڈپٹیز کے سامنے پیش کرنے کا شرف حاصل کرنا چاہتا ہوں جس کے محترم صدر جناب ہیں۔ مصر ایک فریادی بن کر فرانس کے سامنے اپنا دکھڑا رونے آیا ہے تاکہ وہ اس کی مدد کرے اور اس کے کھوئے ہوئے استقلال کو واپس دلانے کی کوشش کرے۔ اس کارٹون میں اس قوم کا نقشہ دکھایا گیا ہے جو صاحبِ حمیت تھی اور ترقی کرنا چاہتی تھی، مگر جسے تیرہ سال گزرے کہ ایک شریف مقصد کے تمام ذرائع سے محروم کر دیا گیا ہے۔
اے محترم صدر! مصری قوم نے وہ زبردست مصیبتیں نہایت صبر و سکون کے ساتھ برداشت کی ہیں جن سے یورپ کو اس کی طرف عام توجہ ہو گئی ہے۔ مگر اب وہ ان تکالیف کو زیادہ عرصہ تک نہیں جھیلنا چاہتی اور اپنی فریاد سنانے کے لیے فرانس کے پاس آئی ہے۔ مصر اس عظیم الشان قوم کے سامنے اپنی فریاد لایا ہے، جس نے اس سے پہلے متعدد قوموں کو غلامی سے نجات دلائی ہے۔ پھر کیا وہ اس کے نالہ و شیون کو سننے کے لیے تیار ہے؟ کیا وہ اس کی صدا پر کان دھرے گی؟ کیا اس بات کو پسند کرے گی کہ اس جلیل القدر خدمت کو انجام دے کر دنیائے اسلام میں اپنی خاص وقعت پیدا کرے؟ اگر مصر فرانس کی کوششوں سے آزاد ہو گیا تو یقینا فرانس کی آزاد کرائی ہوئی قوموں میں ایک اور قوم کا اضافہ اہلِ فرانس کے لیے کچھ کم فخر و ناز کا باعث نہ ہو گا۔
پائندہ باد فرانس، نجات دہندۂ اقوام!

مصطفیٰ کامل نے یہ کارٹون اس معروضہ کے ساتھ یکم جون ۱۸۹۵ء کو صدرِ جمہوریہ فرانس کے سامنے پیش کر دیا اور اس سے پہلے اسے تمام فرینچ اخبارات اور فرینچ چیمبر کے تمام ممبروں کے پاس بھیج دیا تاکہ بیک وقت فرانس کی پبلک اور اس کے اعیان و اکابر میں وہ پھیل جائے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ۲ جون کی صبح طلوع ہوتے ہی فرانس کے اس سرے سے اُس سرے تک مصطفیٰ کامل کا کارٹون اور صدرِ جمہوریہ کے نام ان کا بلیغ معروضہ ہر پڑھے لکھے فرانسیسی کے ہاتھ میں پہنچ گیا اور عین اس وقت جبکہ ایک طرف چیمبر میں وہ پیش کیا جا رہا تھا، دوسری طرف فرانس کے تمام ممتاز اخبارات اس پر تہلیل و آفرین اور مسئلۂ مصر پر اظہارِ رائے کر رہے تھے اور اس طرح فرینچ سیاست کو جو زخم سو برس پہلے اسکندریہ اور تل الکبیر میں لگایا گیا تھا وہ اس نشتر کے ایک ہی اشارے سے دفعتاً ہرا ہو گیا۔

کارنامۂ اولین کے اہم نتائج

مصطفیٰ کامل کی آواز صرف فرانس ہی تک محدود نہ رہی۔ وادیِ نیل میں حزب الوطنی کی دبی ہوئی چنگاریاں اس پھونک سے پھر چمک اٹھیں۔ قصرِ یلدز میں جہاں ولایتِ مصر کی آخری مجلسِ عزا ۱۸۸۵ء میں منعقد ہو چکی تھی اب پھر کچھ اضطراب کی جنبش پیدا ہونے لگی اور خود انگلستان جس کے اربابِ سیاست عرابی پاشا کو سیلون بھیج کر مطمئن ہو چکے تھے اور ۱۸۸۰ء میں ترکی کو مداخلت کی امیدوں سے قطعی طور پر مایوس کر کے بجائے خود سمجھ بیٹھے تھے کہ اب مصر کا جبری احتلال (Occupation) ہر قسم کے اندرونی و بیرونی خطرات سے محفوظ ہو چکا ہے، مصطفیٰ کامل کی اس تحریک سے سراسیمہ ہو گیا اور باوجود کوشش کے اپنی پریشانی کو نہ چھپا سکا۔

تبلیغی سرگرمیاں

کارٹون شائع ہوتے ہی مصطفیٰ کامل کی شخصیت سطح پر آگئی۔ فرینچ پبلک اس نوجوان کی ذات سے خاص دلچسپی لینے لگی، جس نے اس انوکھے طریقہ سے مسئلۂ مصر کو ان کے سامنے پیش کیا تھا۔ متعدد مقامات سے تقریر کے لیے دعوت نامے آنے لگے اور اخبارات ان کی تقریر و تحریر کے ایک ایک لفظ کو پوری قدر و منزلت کے ساتھ شائع کرنے لگے۔ ۲ جون کے بعد مصطفیٰ کامل کی پہلی تقریر تولون کے ایک جلسے میں ہوئی، جہاں سے وہ تھوڑے ہی عرصہ پہلے ایک طالب علم کی حیثیت سے نکلے تھے۔ یہاں انہوں نے فرانسیسی پبلک اور اعیان و اکابر کے سامنے ایک نہایت فصیح و بلیغ اور مدلل تقریر میں آزادیِ نیل کی اہمیت، اس کی ضرورت، اس کے سیاسی نتائج، اس میں تعویق کرنے کے نقصانات اور اس مسئلے میں فرانس کے خاص مفاد و مصالح سے بحث کی اور اس تاریخی جرم کو یاد دلایا جو ۱۳ سال پہلے اسکندریہ میں کیا گیا تھا۔ کچھ عرصہ تک فرانس میں ان تقریروں کا سلسلہ جاری رہا اور جب مصطفیٰ کامل کو اطمینان ہو گیا کہ ان کی آواز فرانس کے گوشے گوشے میں پہنچ گئی ہے تو وہ اپنی اسکیم کے مطابق مصر واپس آئے تاکہ اس اصل مدعی کو بھی بیدار کریں جسے اس کا سب کچھ لوٹ لینے کے بعد زبردستی سلا دیا گیا تھا۔ انہوں نے ارضِ نیل پر قدم رکھتے ہی خواص کو اپنی تحریروں سے اور عام باشندوں کو اپنی تقریروں سے جھنجھوڑنا شروع کر دیا۔ یہاں تک کہ دیکھتے ہی دیکھتے مصریوں میں وطنیت کا وہ جوش تازہ ہو گیا جو عرابی پاشا کے زمانے میں پیدا ہوا تھا۔

سلطانی الطاف و عنایات

مصطفیٰ کامل کی اس تحریک نے ایک ہی سال میں جو وقعت حاصل کر لی اس کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ سلطان عبدالحمید خاں مرحوم کو ان کی قدر و قیمت معلوم ہو گئی اور انہوں نے یہ محسوس کر کے کہ یہ شخص نہ صرف تخلیۂ مصر کے مقصدِ شریف کا بہترین خادم ہے بلکہ خلافتِ اسلامیہ کے استحکام اور اتحادِ اسلامی کے نشر و اعلان کے لیے نہایت مؤثر اور طاقتور مبلغ بھی ہے، انہیں اکرامات و نوازشاتِ خصوصی کا مورد قرار دیا اور اگست ۱۸۹۶ء میں درجہ اول کا تمغۂ مجیدی، پاشا کے معزز ترین خطاب کے ساتھ عطا فرمایا، جو ایک ۲۲ سالہ نوجوان کے لیے جس کے پاس ذاتی خدمات کے سوا نسبی اعزازات کا کوئی وسیلہ نہ ہو، شاید عثمانی تاریخ میں اپنا نظیر نہیں رکھتا۔ یہ ایک ایسا اعزاز تھا جس نے عام نظروں میں مصطفیٰ کامل کا وزن بہت زیادہ کر دیا اور اس سے نوجوان پاشا کو اپنے عزائم کی تکمیل میں بہت مدد حاصل ہوئی۔

ایک جماعت قائم کرنے کی کوشش

مصطفیٰ کامل نے محسوس کیا کہ مصری قوم کو بیدار کرنا، یورپ میں مسئلۂ مصر کو پیش کر کے وہاں کی رائے عامہ کو برطانوی استعلا کی مخالفت پر ابھارنا اور برطانوی مدبرین کے ساتھ سیاسی جنگ کر کے انہیں تخلیہ پر مجبور کرنا، ایسے عظیم الشان کام ہیں جنہیں ایک ہی وقت میں ایک شخص نہیں کر سکتا۔ اور ویسے بھی یہ بات ضروری ہے کہ ایک ایسی زبردست تحریک کو ایک ایسی جماعت اپنے ہاتھ میں لے، جسے مقبولیتِ عام حاصل ہو اور ملک کے بہترین اور سرگرم ترین دماغ اس میں متحدہ قوت کے ساتھ شریک ہوں۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے اپنی تبلیغ کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے "حزب الوطنی" (نیشنلسٹ پارٹی) کے نام سے ایک جماعت کے قیام کی کوشش شروع کی جس کا مقصدِ وحید اپنی منضبط کوششوں سے مصر کے لیے نجات حاصل کرنا تھا۔ اس کام کے لیے قدرت نے انہیں ایک ایسا قابل اور پرجوش مددگار عطا کیا جو اگرچہ سیاسی تدبر میں ان سے بہت کم تھا، لیکن شاید وطنیت کے جوش میں ان سے بہت زیادہ تھا۔ یہ شخص محمد بے فرید، فرید پاشا وزیرِ قرضۂ عامہ کا بیٹا تھا۔ جس زمانے میں مصطفیٰ کامل نے مصر میں اپنی تحریک شروع کی تھی، اس وقت یہ مصر کی عدالتِ مرافعہ کا رکن تھا جس کی کرسی مصر کی معزز ترین کرسیوں میں سے تھی۔ مصطفیٰ کامل کی صدا کانوں میں پہنچتے ہی اس کی دبی ہوئی وطنیت دفعتاً پھر ابھر آئی اور آخر اس کی فطرت ایک غلام حکومت کے اعزاز کو زیادہ عرصہ تک نہ برداشت کر سکی۔ انہوں نے نومبر ۱۸۹۶ء میں ملازمت سے استعفا دے دیا اور مصری عدالتوں میں وکالت شروع کر دی۔ یہ ارضِ فراعنہ میں مصطفیٰ کامل کا پہلا اور سب سے زیادہ راسخ الایمان چیلا تھا، جس نے تخلیۂ مصر کی تحریک اور حزب الوطنی کے قیام میں مصطفیٰ کامل کو بڑی مدد دی۔

اعداء کی مزاحمت

برطانوی احتلال کے کارندے مصطفیٰ کامل کی ان سرگرمیوں سے طبعاً عداوت رکھتے تھے۔ انہوں نے ہر ممکن طریقے سے ان کی مزاحمت کی اور ان کی کوششوں کو مضمحل کرنے میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا۔ اس سلسلے میں جو کوششیں کی گئیں، میرے نزدیک ان کا اظہار غیر ضروری ہے، کیونکہ یہ امرِ طبیعی تھا جو انگریزوں سے کچھ نیا سرزد نہیں ہوا تھا۔ مگر جو بات ایک مہذب یا کم از کم مدعیٔ تہذیب حکومت کے لیے نازیبا اور سخت غیر آئینی ہے، وہ یہ ہے کہ دشمن کو نقصان پہنچانے کے لیے اس کے اعزا اور متعلقین سے انتقام لیا جائے۔ انگریزوں نے مصطفیٰ کامل کی مخالفت میں یہ حرکت بھی کی جو یقیناً قابلِ ملامت ہے۔ مصطفیٰ کامل کے بھائی علی فہمی کامل انگریزی سوڈانی فوج میں ایک اعلیٰ عہدہ پر ممتاز تھے۔ ان سے مصطفیٰ کامل کی تحریک کو کوئی تعلق نہ تھا اور نہ وہ کسی طرح اپنے بھائی کو ان کے کام میں مدد دے رہے تھے۔ مگر لارڈ کچنر نے (جو اس وقت سردار تھے)، اپنے تقاضائے فطرت سے مجبور ہو کر یا حکومتِ احتلال کے اشارہ پر بلاوجہ ان کا درجہ گھٹا دیا۔ انہوں نے احتجاج کیا مگر لاحاصل، آخر غریب نے مارچ ۱۸۹۶ء میں استعفیٰ دے دیا مگر پھر بھی چھٹکارا نہ ملا۔ ان پر یہ الزام عائد کیا گیا کہ عین اس وقت جبکہ خلیفۂ مہدی کے خلاف اعلانِ جنگ کیا جانے والا تھا، تم نے استعفا دے دیا، اس لیے قابلِ سزا ہو۔ چنانچہ غریب پر مقدمہ چلایا گیا اور اسے تمام حقوق سے محروم کر دیا گیا۔ لیکن اس سے مصطفیٰ کامل کے عزائم اور ان کی سرگرمیوں میں کوئی اضمحلال واقع نہیں ہوا بلکہ انہیں اور مدد مل گئی۔ علی فہمی کامل اپنے بھائی کے ساتھ نجاتِ وطن کی تحریک میں شریک ہو گئے اور حزب الوطنی کے قیام میں ان کو پوری مدد دی۔ آجکل وہ اس جماعت کے سیکرٹری ہیں۔

(یہ مضمون ۱۹۲۴ء میں لکھا گیا تھا)۔

اخبار کا اجراء

چار برس تک مصطفیٰ کامل پاشا مصر اور یورپ میں تقریر و تحریر اور مراسلات کے ذریعے اپنے مقصد کی تبلیغ کرتے رہے۔ مصر کے گوشے گوشے میں پہنچ کر انہوں نے تقریریں کیں۔ یورپ میں فرانس، جرمنی، آسٹریا اور انگلستان وغیرہ ممالک میں دورہ کیا اور ایک طرف عام جلسوں میں تقریریں کر کے رائے عامہ کو اپنا ہم خیال بنانے کی کوشش کی اور دوسری طرف مدبرینِ سیاست سے مل کر مسئلۂ مصر میں ان سے تبادلۂ خیال کیا۔ اس کے ساتھ ہی مصر اور یورپ کے اخبارات میں کثرت سے مضامین لکھے اور گلیڈ اسٹون اور سالسبری جیسے مدبروں کو مراسلات کے ذریعے ان کی حکومت کے وعدے یاد دلا کر اس شرمناک سیاست پر جو ان لوگوں نے اختیار کر رکھی تھی انہیں غیرت دلاتے رہے۔ اس چہار سالہ تجربے سے انہوں نے یہ سبق حاصل کیا کہ کوئی تحریک اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک کہ اس کا ایک تبلیغی آرگن نہ ہو۔ اس خیال سے انہوں نے ایک اخبار نکالنے کی تیاری شروع کی اور تھوڑی مدت میں سب سامان مکمل کر کے ۲ نومبر ۱۹۰۰ء سے "اللواء" (علم) کی اشاعت شروع کر دی جو شائع ہوتے ہی اتنا مقبول ہوا کہ جیسے پہلے ہی سے لوگ اس کے بھوکے تھے۔ اس پرچے کا مقصدِ وحید وہی تھا جو خود مصطفیٰ کامل کی زندگی کا مقصدِ وحید تھا۔ لہٰذا اس کے متعلق کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ البتہ یہ ایک حقیقت ہے جس کا اعتراف خود دشمنوں نے بھی کیا ہے کہ "اللواء" علمی اور ادبی خصوصیات کے لحاظ سے مصر کا بہترین پرچہ تھا۔ اس کی زبان نہایت فصیح، اندازِ بیان حد درجہ مؤثر، استدلال بے حد قوی اور معلومات صحت اور وسعت دونوں اعتبار سے اعلیٰ درجہ کی تھیں۔ اس کی آواز سر زمینِ مصر کے کونے کونے میں پہنچی۔ مصری عوام اور تعلیم یافتہ گروہ دونوں اس کے یکساں شائق تھے۔ مصر کے ان پڑھ گنوار تک اس کو پسند کرتے تھے اور جب وہ گاؤں میں کسی پڑھے لکھے آدمی کے پاس پہنچ جاتا تو جاہل کسان اس کے گرد جمع ہو جاتے اور اس کو پڑھوا کر سننے لگتے تھے۔ اس زبردست تبلیغی آرگن نے مصری ذہنیات کو ایک مرکز (آزادیٔ مصر) پر مجتمع کرنے میں غالباً سب سے زیادہ حصہ لیا۔ ایک طرف جاہل آبادی کو جو اپنی مظلومیت سے خود ناواقف تھے ان حالات کا احساس پیدا ہو گیا جو ان کی دولت کو چوسے جا رہے تھے اور ان کے دماغوں میں برطانوی احتلال کی مضرتوں نے ایسی مستحکم جگہ پکڑ لی کہ ہر کسان بجائے خود اس کا مستقل دشمن بن گیا اور دوسری طرف تعلیم یافتہ گروہ کے سامنے یہ حقیقت بے نقاب ہوگئی کہ جب تک وہ متحدہ ہو کر ایک سنگین عزم کے ساتھ برطانوی احتلال کے خلاف جدوجہد نہ کریں گے اس وقت تک نیل کا آزاد ہونا اور مصری قوم کا اپنی فلاح و بہبود پر خود قادر ہو جانا ایک خواب ہے جس کی تعبیر کبھی حاصل نہیں ہو سکتی۔

مصری جذبات میں تلاطم کے اسباب

مصطفیٰ کامل ہر قسم کی مزاحمتوں اور ہمت شکن خطرات کے باوجود اس تبلیغ کو برابر پھیلاتے رہے۔ یہاں تک کہ وہ زمانہ آگیا جب ان کی آرزوئیں بر آنے کے سامان پیدا ہونے لگے۔ ۱۹۰۴ء اور ۱۹۰۶ء ایسے اہم واقعات لے کر آئے جنہوں نے مصریوں میں جوش اور ہمت دونوں کو بڑھا دیا اور ایک حقیقی لیڈر کے لیے بہت آسان ہو گیا کہ اس سے فائدہ اٹھا کر اہرام کی سرزمین میں اتحاد کی تخم ریزی کرے۔ ان واقعات میں سب سے زیادہ اہمیت تین واقعات کو حاصل ہے۔

  1. جنگِ روس و جاپان: جس نے تمام مشرقی اقوام پر سے مغرب کے اس رعب کو اٹھا دیا جو گزشتہ صدی میں ان کے دلوں پر چھا گیا تھا۔ مشرقی قومیں جو پورے ڈیڑھ سو برس سے دیکھ رہی تھیں کہ مغرب ان کو ہر میدان میں شکست دے رہا ہے اور زندگی کی ہر دوڑ میں ان سے آگے نکلتا ہے، قدرتی طور پر یہ سمجھ چکی تھیں کہ مغرب صرف تقدم اور ترقی ہی کے لیے پیدا ہوا ہے اور مشرق کی قسمت میں محض تأخر اور تنزل لکھا ہے۔ یہ عقیدہ ان کے ذہنوں پر مسلط ہو گیا تھا کہ ان کے لیے مغرب کے مقابلے میں جیتنا اتنا ہی مشکل ہے، جتنا نور کے مقابلے میں ظلمت کا فتحیاب ہونا اور آگ کے سامنے ٹھوس کا غالب آنا۔ مغرب کی کامیابی کے لیے یہ ذہنی عقیدہ بھی اس کے دوسرے اسبابِ تقدم سے کچھ کم مفید نہ تھا، کیونکہ افراد کی طرح جماعتیں بھی اپنے مقابل سے مرعوب ہو جاتی ہیں اور ان کے ذہنوں پر جب یہ خیال مستولی ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے مقابل کے سامنے ہرگز کامیاب نہیں ہو سکتیں تو ان میں سے مقابلے کی طاقت خود بخود سلب ہو جاتی ہے اور ان کے جسموں سے پہلے ان کے دل مفتوح و مغلوب ہو جاتے ہیں۔ روس جیسی عظیم الشان یورپین طاقت پر جاپان جیسی حقیر ایشیائی قوت کی فتح نے پہلی مرتبہ اس پردے کو اٹھایا۔ اس نے ثابت کر دیا کہ مشرق کا تنزل کچھ اس لیے نہیں کہ وہ تنزل ہی کے لیے پیدا ہوا ہے، بلکہ وہ محض اپنی غفلت سے اس حال کو پہنچا ہے۔ پس اگر دوسری مشرقی قوتیں بھی اسی طرح خوابِ غفلت سے بیدار ہوں جس طرح جاپان ہوا ہے اور وہ بھی اپنی رفعِ شان کے لیے ایسی ہی کوششیں کریں جیسی جاپان نے کی ہیں تو مغرب کچھ ترقی کا ٹھیکیدار نہیں ہے۔ اس انکشافِ حقیقت نے جس طرح چین، ہندوستان، ایران اور ترکی وغیرہ مشرقی ممالک کی آنکھیں کھول دیں، اسی طرح مصر نے بھی اس سے خاص اثر لیا گیا اور تاریخ کا مبصر کہتا ہے کہ تمام مشرقی اقوام کی طرح مصر نے بھی اس فتح کو روس کی نہیں، جاپان کی فتح نہیں بلکہ مغرب پر مشرق کی فتح سمجھا اور اس خیال نے اس میں ایک نئی روح پیدا کر دی۔
  2. ترکی اور انگلستان کا جھگڑا: ۱۹۰۶ء کا قضیۂ سرحد جس نے مصر پر برطانوی احتلال کی حقیقت اور اس کے اصلی معنی کو بے نقاب کر دیا۔ اس قضیہ سے پہلے اگرچہ برطانیہ عملاً مصر پر قابض تھا مگر برطانوی مدبرین اس پر ترکی کے شاہانہ اختیارات کو تسلیم کرتے تھے اور کم از کم زبان سے یہی کہا جاتا تھا کہ مصر ترکی ہی کا ایک صوبہ ہے جسے اندرونی خود مختاری حاصل ہے۔ مگر جب ۱۹۰۶ء میں بعض ترکی دستے عقبہ کی طرف بڑھے تو برطانیہ کے لیے اپنے اصل ارادوں پر پردہ ڈالے رکھنا مشکل ہو گیا اور اس نے یہ محسوس کر کے کہ ترکی فوجیں اگر جزیرہ نمائے سینا پر قابض ہو گئیں تو پھر نہرِ سویز خطرے میں پڑ جائے گی، ترکی-مصری سرحد کا مسئلہ کھڑا کر دیا اور باوجودیکہ خود مصری گورنمنٹ جو اصلی مدعی ہو سکتی تھی، اس معاملہ میں بالکل خاموش تھی، انگریزی مدبرین برابر مصر کے نام سے جھگڑتے رہے۔ یہاں تک کہ برطانوی بیڑہ مشرقی پانی میں بھیج دیا گیا اور جنگ تک کی دھمکی دے دی گئی۔ اس سے مصر کے تمام حلقوں میں سخت بے چینی پیدا ہوگئی اور مصر کے بچے بچے نے سمجھ لیا کہ برطانیہ مصر کا مالک الملک لا شریک لہ بننے کا فیصلہ کر چکا ہے اور اس کے خلاف ہر کوشش کو خواہ وہ کتنی ہی حق بجانب ہو، تلوار کی قوت سے دبانے کے لیے تیار ہے۔ اس خیال نے مصریوں کے غیظ و غضب کو مشتعل کر دیا۔
  3. ڈنشاوی کا حادثہ: ۱۹۰۶ء کا حادثۂ ڈنشاوی جس نے برطانوی احتلال کے خلاف مصری نفرت کے آتش گیر مادوں کو دفعتاً ٹھیس پہنچا دی اور مصری وطنیت کو ایسا کاری زخم لگایا کہ آج تک ہر محبِ وطن کے دل میں اس کی ٹیس موجود ہے۔ اس حادثے کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک مصری گاؤں میں فلاحین کی ایک جماعت سے برطانوی افسروں کی ایک پارٹی متصادم ہو گئی۔ اور اس تصادم میں برطانوی افسروں نے آتشیں اسلحہ استعمال کر کے نہایت بے رحمی کے ساتھ نہتے فلاحین کو قتل کر ڈالا اور بعد میں جب مقدمہ چلایا گیا تو برطانوی عدالت نے مجرموں کو سزا دینے کے بجائے الٹا مظلوموں کو قید کیا اور احتجاج کرنے پر کہا گیا کہ یہ سب انتظام اس لیے کیا گیا ہے تاکہ آئندہ سے گستاخ مصری عوام کو برطانوی افسروں سے دست و گریباں ہونے کی جرات نہ ہو۔ یہ واقعہ ایسا شرمناک تھا جس پر سر سڈنی لو، لارڈ کرومر اور سر ویلنٹائن چرول جیسے لوگوں نے اپنی کتابوں میں اظہارِ افسوس کیا اور یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ برطانوی افسروں کا طرزِ عمل اور اس پر برطانوی عدالت کی بے انصافی بجا طور پر قابلِ نفرت ہے۔ ظاہر ہے کہ جب مصر کے دشمنوں نے اس واقعہ کو قابلِ نفرت قرار دیا ہے تو خود اہلِ مصر کے دلوں میں کیسے جذبات پیدا ہوئے ہوں گے۔

حزب الوطنی کا قیام

مصطفیٰ کامل پاشا نے ان تمام مواقع سے فائدہ اٹھایا اور مصر کے تعلیم یافتہ گروہ کو جو ان حالات میں اہلِ مصر کا تنہا نمائندہ ہو سکتا تھا، حزب الوطنی کے قیام کی دعوت دی۔ جسے بڑی گرم جوشی کے ساتھ قبول کیا گیا اور ۷ دسمبر ۱۹۰۷ء کو ایک اجتماع میں مصر کی نیشنلسٹ پارٹی باقاعدہ قائم کردی گئی۔ ۲۰ دسمبر کو ایک عظیم الشان جلسے میں جو نہ صرف قاہرہ کی عام آبادی پر مشتمل تھا، بلکہ تمام انحائے مصر سے اس کی شرکت کے لیے بے شمار مخلوق کھنچ آئی تھی، اس جماعت کے قیام کا اعلان کیا گیا۔

انتقال

مگر افسوس کہ مصطفیٰ کامل کو ایک دن بھی اس درخت کا پھل کاٹنا نصیب نہ ہوا، جسے اس نے مدت کی عرق ریزیوں کے بعد لگایا تھا۔ ۲۰ دسمبر کے جلسے میں وہ بسترِ مرگ سے اُٹھ کر آئے تھے۔ نقاہت اور کمزوری کے باوجود تقریر کی اور اپنے گیارہ برس کے پکائے ہوئے منصوبے کو پورا دیکھ کر طبعاً ان کی گویائی میں غیر معمولی جوش تھا۔ جلسہ سے واپس گئے تو بیماری زیادہ بڑھ گئی۔ ڈیڑھ مہینہ تک سخت بیمار رہے۔ آخر ۱۰ فروری ۱۹۰۸ء کو مقرر ساعت آن پہنچی۔ آخری سانسوں میں بھائی کو بلایا اور وصیت کی کہ میرے بعد کام کو جاری اور وطن کی آزادی کے لیے ہر قربانی پر آمادہ رہنا۔ الفاظ منہ سے نکل رہے تھے اور بدن کی روح سلب ہو رہی تھی۔ یہاں تک کہ ایک ہچکی نے "اِذَا جَاءَ اَجَلُهُمْ لَا يَسْتَاْخِرُوْنَ سَاعَةً وَّلَا يَسْتَقْدِمُوْنَ" کا قطعی فیصلہ سنا دیا۔ ایک دقیقہ بھی نہ گزرنے پایا تھا کہ دفعتاً قاہرہ سے زندگی کے آثار سلب کر لیے گئے۔ دکانیں بند ہو گئیں۔ کارخانے معطل ہو گئے۔ مدارس کو چھٹی دے دی گئی۔ دفاتر کا کام روک دیا گیا۔ قاہرہ سے خوشی کی چہل پہل جاتی رہی اور سارا شہر ماتم و سوگواری کا مجسمہ بن گیا۔ جس وقت مرحوم کا جنازہ مکان سے اٹھایا گیا تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ قاہرہ کی تمام آبادی اپنی آرزو کی لاش پر رونے کے لیے امنڈ آئی ہے۔ دو میل تک سڑک پر آدمی ہی آدمی تھے۔ کوٹھوں پر عورتیں جمع تھیں۔ اور ہر طرف نالہ و شیون، تکبیر و تہلیل کے سوا کوئی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ لوگوں کا اندازہ ہے کہ کم از کم بیس ہزار انسان اس جنازے کے ساتھ تھے۔ "ایجپٹ ان ٹرانزیشن" کا مصنف کہتا ہے کہ مشرق جیسے جذبات پرست طبقہ میں بھی ایسے عظیم الشان اجتماع کبھی شاذ و نادر ہی دیکھنے میں آتے ہیں۔ بعد میں جب مصر کے اطراف و جوانب میں یہ خبر مشہور ہوئی تو سارا مصر ماتم کدہ بن گیا۔ ہر جگہ سوگ میں عام ہڑتال ہوئی۔ جلسوں میں مرحوم کا ماتم کیا گیا۔ اخبارات نے درد ناک مرثیے لکھے۔ مخالفین اور موافقین سب نے مل کر مصر کے اس ناقابلِ تلافی نقصان پر آنسو بہائے اور درحقیقت ارضِ مصر کے بچے بچے نے محسوس کیا کہ ایک ذات سے ان سب کی قسمتیں وابستہ تھیں جو دفعتاً اٹھا لی گئی اور اب ان کا کوئی ولی اور وارث نہیں رہا۔ چار یوم تک سوگ میں مبتلا رہنے کے بعد حزب الوطنی کا جلسہ منعقد ہوا اور نہایت رنج و الم کے ساتھ اس جماعت نے اپنے لیڈر کی کرسی محمد بیک فرید کو دی اور ان کے دوشِ نازک پر مصر کی رہنمائی کا وہ عظیم الشان بار رکھا جسے اٹھانے کے لیے اس وقت مصر کی ڈیڑھ کروڑ آبادی میں ایک شخص بھی پوری اہلیت نہ رکھتا تھا۔ اللہ کی مصلحتوں میں انسان کو دخل دینے کا نہ کوئی حق ہے نہ چارہ، مگر کہنا پڑتا ہے کہ مرحوم کو جیسے زبردست کام کے لیے پیدا کیا گیا تھا، اس کے لیے اتنی بھی عمر نہ دی گئی جتنی کھانے پینے اور مرنے کے لیے عام انسانوں کو عطا ہوتی ہے۔ اس غریب نے ابھی دنیا میں ۳۲ ہی بہاریں دیکھی تھیں اور اس عمر کو پہنچا تھا جب اس کا شعور و تجربہ پوری پختگی کو پہنچ کر وہ اہم نتائج پیدا کرتا جو ہمیشہ دنیا کی غیر معمولی ہستیاں پیدا کیا کرتی ہیں۔ مگر وہ عمرِ طبعی کے لگ بھگ بھی نہ پہنچنے پایا اور بیچ ہی میں "کُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ" کا پیغام اسے مل گیا۔

مرحوم کے عزائم

مرحوم بڑے عزائم کا انسان تھا۔ بارہ برس کی نہایت مختصر پبلک زندگی میں اس نے جو کچھ کیا وہ تم دیکھ چکے ہو۔ آئندہ کے لیے وہ اپنے سینہ میں بڑے بڑے ارادے رکھتا تھا اور جب ہم دیکھتے ہیں کہ وہ محض منصوبوں کا آدمی نہ تھا بلکہ مجسم قول کے ساتھ سراپا عمل بھی تھا تو ہمیں یقین کرنا پڑتا ہے کہ اگر عمر وفا کرتی تو وہ ضرور ان سب باتوں کو کر کے بھی دکھا دیتا جو اس نے کہی تھیں۔ بعض خاص خاص عزائم کا میں یہاں ذکر کرتا ہوں جنہیں مجید آفندی ایڈیٹر "اللواء" نے مرحوم کو دفن کرنے کے بعد اپنی ایک دردناک تقریر میں بیان کیا تھا۔ ان کے مطالعہ سے نہ صرف معلوم ہو گا کہ ان کے کیا ارادے تھے، بلکہ ان کی عمیق سیاسی بصیرت اور بلند فکری کا بھی اندازہ ہوگا۔

  1. ان کا ارادہ تھا کہ حادثۂ ڈنشاوی کی یادگار میں ایک مدرسہ قائم کریں جس سے فیضانِ تعلیم کے ساتھ ہی ساتھ اہلِ مصر میں عموماً اور ان نوجوان طلبہ میں خصوصاً مصر کی ذلت و مظلومی کا تذکار اور اس کے ساتھ مصر کی شدید ضرورتِ آزادی کا احساس تازہ رہے۔
  2. وہ پہلی فرصت میں جاپان جانا چاہتے تھے، تاکہ نہ صرف جاپانی قوم کی ترقی اور اس کی حیرت انگیز قوت کا راز دریافت کریں بلکہ مشرقیت کے رشتہ سے اس نوخیز قوت کو مصر کا ہمدرد بنانے کی کوشش کریں۔
  3. وہ ہندوستان بھی آنا چاہتے تھے اور اس سے ان کا مقصد یہ تھا کہ ان زبردست روابط کو واسطہ بنا کر جو مذہبی، سیاسی اور جغرافیائی حیثیت سے مصر اور ہندوستان کے درمیان ہیں، ان دونوں ملکوں میں اتحاد قائم کریں اور مصری و ہندی اہلِ سیاست کے میل جول سے سعی و جدوجہد کا وہ متحدہ راستہ اختیار کریں، جو متحدہ دشمن کے مقابلے میں متحدہ مقصد کو حاصل کرنے کے لیے کارآمد ہو۔
  4. وہ چاہتے تھے کہ مصر میں ایک نیشنل کانگریس قائم کر کے حصولِ آزادی کی تحریک میں امریکہ کی پیروی کریں۔ یہی ان کا اصل مقصود تھا، جس کے لیے انہوں نے حزب الوطنی کے نام سے بنیادی پتھر رکھا تھا۔
  5. انہوں نے اس حقیقت کو محسوس کر لیا تھا کہ جب تک کسی ملک کا نظامِ تعلیم درست نہ ہو اس وقت تک وہ ہرگز ترقی نہیں کر سکتا۔ اس لئے وہ ملک میں تعلیم کی اصلاح کرنا چاہتے تھے اور چونکہ ازہر اور مصر کی موجودہ یونیورسٹیاں دونوں دائرۂ اصلاح سے باہر تھیں، اس لئے وہ ایک آزاد قومی یونیورسٹی قائم کرنا چاہتے تھے۔
  6. ان کی نظر سے یہ حقیقت بھی پوشیدہ نہ تھی کہ مصر کی معاشرتی و تمدنی حالت نہایت ردی ہے اور جس قوم کے رسوم و عادات ذلیل ہوں، اس سے کسی بلند ذہنیت کے دائرہ میں ترقی کرنے کی ہرگز توقع نہیں کی جا سکتی۔ لہٰذا وہ ایک سوشل کانفرنس قائم کر کے مصر کی معاشرتی تربیت کے لئے ایک عملی نظام قائم کرنا چاہتے تھے۔
  7. انہوں نے سلطان عبدالحمید سے مدینہ طیبہ کا منصبِ خطابت حاصل کیا تھا اور اپنا کام شروع کرنے کے لئے محض حجاز ریلوے کی تکمیل کے منتظر تھے۔ اس سے ان کا مقصد یہ تھا کہ موسمِ حج میں جب کرۂ ارض کے گوشہ گوشہ سے مسلمان اپنے مرکز پر جمع ہوتے ہیں، وہ انہیں عام طور پر خطبے دیں اور ان میں اتحادِ اسلامی کی تبلیغ کریں۔

اگرچہ ان مقاصد میں بعض ایسے ہیں جنہیں پورا کرنے کے لئے مدتوں کی مساعی درکار ہیں اور بعض کے اصلی منشا کا حصول تو کئی عمریں چاہتا ہے لیکن اگر انسان کی عمرِ طبعی ۶۰، ۷۰ برس فرض کر لی جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ مصطفیٰ کامل پاشا ابھی عمرِ طبعی کے نصف کو پہنچے تھے اور اگر انہیں بقیہ ۳۲ برس بھی جی لینے کا موقع مل جاتا تو وہ اپنے بہت سے مقاصد حاصل کر لیتے اور بعض نہایت مفید کاموں کو ایسی بنیادوں پر قائم کر جاتے جنہیں بعد کو تکمیل تک پہنچانے کے لئے کسی ایسی ہی غیر معمولی قابلیتوں کے نادر الوجود انسان کی ضرورت نہ ہوتی۔ حق یہ ہے کہ جب تک مصر زندہ ہے اور مصری قوم میں اپنے اعاظم کی قدر و منزلت باقی ہے، مصطفیٰ کامل کا نام محو نہیں ہو سکتا۔

(زنگار، جون ۱۹۲۴ء)

مصطفیٰ کمال اتاترک

بلاشبہ اتاترک اچھا جنرل تھا۔ قیادت کی بعض صلاحیتیں بھی اس میں پائی جاتی تھیں۔ سیاسی تدبر بھی ایک حد تک اس میں موجود تھا۔ اس کی رہنمائی میں ایک شکست خوردہ قوم تباہی سے بچ گئی اور اس نے اپنے قومی وطن کو پھر سے ایک آزاد سلطنت بنا لیا۔ اس کارنامے پر اس کی جتنی چاہیے تعریف کر لیجئے لیکن تہذیبی و تمدنی مسائل میں اس کے علم و بصیرت کا معیار ہمارے کالجوں سے نکلے ہوئے عام صاحب بہادروں سے کچھ بھی زیادہ اونچا نہ تھا۔ اپنے ملک کو آزاد کرانے کے بعد جب احسان مند ترک قوم کو اس نے اپنا گرویدہ پایا، تو اسے اپنے متعلق یہ غلط فہمی ہوگئی کہ میں حکیم بھی ہوں اور ایک نئی قوم کی تعمیرِ جدید کا کام تنہا اپنے ہاتھ میں لے لیا اور ان تمام لوگوں کو جو اس معاملہ میں کم از کم اس سے زیادہ علم و بصیرت رکھتے تھے، میدان سے ہٹا دیا۔ اس طرح مختارِ مطلق بننے کے بعد اس نے جو کچھ کیا، مغربی تہذیب کا ہر مشرقی نقال اس کے سے اختیارات پا کر وہی کرتا۔ کسی مجتہدانہ فکر، کسی قوتِ انتخاب، کسی صلاحیتِ تنقید اور کسی آزادانہ اختراعی قابلیت کا اس کے پورے کارنامے میں ادنیٰ شائبہ تک نہیں ملتا۔ خیالات، اصول، طریقے، سب ہی چیزیں تو وہ مفلس دماغ کا انسان یورپ سے مانگ لایا اور اپنے ذاتی اجتہاد سے ذرہ برابر کام لیے بغیر جوں کا توں اپنی قوم کے سر منڈھتا چلا گیا۔ اس بے چارے میں اتنی تمیز بھی نہ تھی کہ یورپ کے اسبابِ عروج اور اسبابِ تنزل میں فرق کرتا۔ عام سطحی النظر لوگوں کی طرح اس نے بھی یہی سمجھا کہ برسرِ عروج قوموں کی ہر چیز اچھی ہے۔ چنانچہ اچھی چیزوں کے ساتھ ایسی بیماریاں بھی ترکی میں لے آیا جن کی وجہ سے خود یورپ کی زندگی آج تباہ ہو رہی ہے۔ یہ کونسا ایسا بڑا کارنامہ ہے جس کی بنا پر اس شخص کو آسمان پر چڑھایا جاتا ہے؟ دنیا کے تہذیبی معماروں کی صفِ اول میں تو درکنار وہ غریب تو ان کی صفِ آخر میں بھی جگہ پانے کے قابل نہیں۔ ایک کاپی نویس کی آپ اس حیثیت سے جتنی چاہے تعریف کر لیجئے کہ بہت صحیح نقل کرتا ہے اور نقل و اصل میں ذرا فرق باقی نہیں رہنے دیتا، مگر کیا انشا پردازوں کی مجلس میں اس کو دہلیز پر بھی کھڑے ہونے کی جگہ مل سکتی ہے؟ ہم یورپ کے ان ناخدا شناس مفکرین کی قدر کر سکتے ہیں جنہوں نے اپنے زورِ طبع سے کسی نئے نظامِ فکر و عمل کی بنا رکھی، مگر اتاترک اور رضا پہلوی جیسے آدمیوں کی ہم کیا قدر کریں، جن کی پوری زندگی سے ایک اجتہادی کارنامہ بھی نکال کر نہیں بتایا جا سکتا۔

(ترجمان القرآن، مئی، جون ۱۹۴۰ء)

غالب مرحوم

میں صرف غالب کے کلام ہی کا مداح نہیں ہوں بلکہ ان سے میرا ایک ذاتی تعلق بھی ہے۔ میرے نانا مرزا قربان علی بیگ سالک مرحوم ان کے خاص شاگردوں میں سے تھے اور ان کا مکان بھی دہلی میں میری ننھیال کے مکان سے متصل واقع تھا۔ اس طرح میں نے آنکھیں ہی ایک ایسے خاندان میں کھولی ہیں جو ان کے کلام ہی سے نہیں، ان کی ذات سے بھی بہت قریبی تعلقات رکھتا تھا۔ مجھے بچپن سے ان کے کلام کے ساتھ عشق رہا ہے اور میں ان کو ہند و پاکستان ہی کے نہیں، دنیا کے شعراء کی صفِ اول کا شاعر سمجھتا ہوں۔ یہ ہماری خوش قسمتی تھی کہ ہمارے اندر ایسا بے نظیر سخنور پیدا ہوا اور یہ اس کی بدقسمتی تھی کہ وہ ایک پس ماندہ قوم کے بھی انتہائی انحطاط کے زمانے میں پیدا ہوا جس کی وجہ سے دنیا نے شعر و ادب کی تاریخ میں آج تک اس کو وہ مقام بھی نہ دیا جو اس سے بہت فروتر درجے کے شعراء کو صرف اس لیے مل گیا کہ وہ ایک جاندار قوم میں پیدا ہوئے تھے۔

(مکاتیب سید ابوالاعلیٰ مودودی، حصہ اول، ص ۲۳۱)

مولانا محمد علی جوہر

(۱)

مولانا محمد علی سے میرے روابط کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ میرے سب سے بڑے بھائی ابو محمد صاحب مرحوم جو بھوپال میں مقیم تھے، مولانا مرحوم کے دوستوں میں سے تھے اور دوستی کے یہ روابط خاصے گہرے اور مضبوط تھے۔ ڈاکٹر انصاری مرحوم، ڈاکٹر عبدالرحمن، شعیب قریشی اور عبدالرحمان سندھی (صدیقی) صاحب سے بھی ان کے بڑے گہرے دوستانہ مراسم تھے اور مؤخر الذکر دونوں حضرات تو بسا اوقات مہینوں ہمارے ہاں مہمان رہتے تھے۔ یہ مخلص لوگ تھے، علی گڑھ کی مخصوص تہذیب اور شائستگی کا نمونہ۔ قومی درد رکھتے تھے، ایثار کا جذبہ انہیں بے گھر کیے ہوئے تھا۔ یہ بیرسٹر تھے، انگریزی کے صاحبِ طرز ادیب تھے، اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں خطابت کے جوہر دکھاتے تھے، ان کی قابلیت اپنے لیے نہیں تھی، قوم کے لیے تھی۔ خود میرے بھائی ابو محمد صاحب بھی اس حلقۂ اخوان الصفا کے ایک رکن تھے، ان لوگوں میں خوب بنتی تھی اور اس مجمعِ رنداں کے پیرِ مغاں محمد علی کو سب چاہتے بھی تھے اور ان کی عظمت کے آگے سر بھی جھکاتے تھے۔

۱۹۲۴ء میں جب مولانا محمد علی دوبارہ "ہمدرد" جاری کرنے کے انتظامات کر رہے تھے، بھائی ابو محمد صاحب مرحوم نے مجھے رائے دی کہ میں اس ادارہ سے وابستہ ہو جاؤں۔ اس سے پہلے میں متعدد اخباروں میں کام کر چکا تھا۔ میں نے بھی اس کو غنیمت سمجھا کہ مجھے مولانا محمد علی جیسے شخص کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملے، چنانچہ میں بھائی صاحب کے ساتھ ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ یہ میری اُن سے پہلی ملاقات تھی۔ ایک بزرگ اپنے چھوٹے کے ساتھ جس محبت و شفقت کے ساتھ پیش آسکتا ہے، اس سے کچھ زیادہ ہی محبت و شفقت مجھے محمد علی کی طرف سے ملی، کیونکہ وہ ہر معاملہ میں بالخصوص دوستی و محبت کے معاملہ میں بہت زیادہ انتہا پسند تھے۔ چنانچہ اس کے بعد بارہا ان کی خدمت میں حاضری کا موقع ملتا رہا اور ہمیشہ یہی محسوس ہوا کہ میں ایک بڑے لیڈر سے نہیں بلکہ اپنے بڑے بھائی سے مل رہا ہوں۔

ابھی "ہمدرد" کے اجراء کے انتظامات ہی ہو رہے تھے کہ میں نے اس سے وابستہ ہونے کا ارادہ ترک کر دیا۔ دراصل چند ہی روز بعد میں نے محسوس کر لیا تھا کہ فکری ہم آہنگی، جذباتی عقیدت اور سیاسی معاملات میں تمام تر اتفاقِ رائے کے باوجود میرا اور ان کا نباہ نہیں ہو سکتا۔ ان کی "مہرِ پدر" میں "قہرِ پدر" بھی شامل تھا، اور وہ بھی پوری شدت اور انتہا پسندی کے ساتھ۔ میری پرورش جس ماحول میں ہوئی تھی اس نے خود میرے مزاج اور افتادِ طبع کا بھی ایک نہ ٹوٹنے والا سانچہ بنا دیا تھا۔ اگر ساتھ رہتا تو اندیشہ تھا کہ یہ سانچہ ٹوٹ نہ جائے۔ لہٰذا میں نے فیصلہ کر لیا کہ "ہمدرد" کے عملۂ ادارت سے وابستگی اختیار نہیں کروں گا، البتہ اس سے باہر رہ کر جو خدمت بھی اس بطلِ جلیل کی بن آئے گی، کروں گا۔

اتفاق کی بات اسی زمانہ میں جمعیت علمائے ہند کو اپنے آرگن روزنامہ "الجمعیۃ" کے لیے ایک ایڈیٹر کی ضرورت پیش آئی۔ ہندوستانی سیاست کا داخلی اور خارجی اعتبار سے یہ بڑا اہم اور نازک دور تھا، اربابِ جمعیت کو ایسے ایڈیٹر کی تلاش تھی جو واقعات و مسائل اور حوادث و افکار پر اپنے اداریوں میں جن خیالات کا اظہار کرے، ایک طرف دورِ جدید کی سیاسی بصیرت کے معیار پر پورے اترتے ہوں دوسری طرف مذہبی نقطۂ نظر بھی پورے توازن کے ساتھ ان میں سمویا ہوا ہو۔ اس مقصد کے لیے اربابِ جمعیت کی نگاہِ انتخاب مجھ پر پڑی، کیونکہ وہ پہلے سے مجھ پر اعتماد رکھتے تھے اور میں ۱۹۲۱ء میں ان کے اخبار "مسلم" کا ایڈیٹر رہ چکا تھا اور میں نے بھی "ہمدرد" کے بجائے "الجمعیۃ" کی پیش کش قبول کرنے کو ترجیح دی، کیونکہ یہاں میں خود پرچے کو چلانے کا ذمہ دار تھا، کسی دوسرے کی ماتحتی میں مجھے کام کرنا نہ تھا۔

۱۹۲۴ء سے ۱۹۲۸ء تک میں یہ ذمہ داری انجام دیتا رہا۔ اس عرصہ میں برابر محمد علی سے استفادے کا، ان سے فیضِ صحبت حاصل کرنے کا اور ان کی شخصیت کو بہت زیادہ قریب سے دیکھنے کا مجھے موقع ملا۔ لیڈروں سے یہ دنیا نہ کبھی خالی رہی ہے، نہ رہے گی، لیکن اس درویشِ خدا مست کی قیادت کی شان ہی کچھ اور رکھتی تھی۔ پھر اس کے بعد آج تک مسلمانوں میں کوئی لیڈر ایسا نظر نہیں آیا جو سیاسی بصیرت کے ساتھ ایسا گہرا دینی جذبہ بھی رکھتا ہو اور اپنی دین داری سے اپنی تحریک کے کارکنوں میں بھی دینی روح پھونک سکتا ہو۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ "الجمعیۃ" نے میرے دورِ ادارت میں ہمیشہ پورے خلوص و استقلال و استقامت کے ساتھ محمد علی کی ہمنوائی کی، مخالفوں کی تبلیغات میں اس کا ساتھ دیا۔ جب اس پر تیروں کی بارش ہوتی تھی تو اس کی ایک ڈھال "الجمعیۃ" بھی تھا۔

محمد علی کا سا عظیم الشان آدمی غلام آباد ہندوستان نے شاید کوئی نہیں پیدا کیا، وہ گاندھی کا چیلا تھا، لیکن آغا خاں اور مہاراجہ محمود آباد اس کے حضور میں جھک کر آتے تھے، وہ اقلیت کا ایک فرد تھا، لیکن اکثریت کا سب سے بڑا لیڈر گاندھی اس کی جیب میں تھا اور پٹیل، موتی لال، جواہر لال، راجندر پرشاد وغیرہ تو اس سے دوسرے ہی درجہ پر تھے۔ وہ ایک غلام ملک کا باشندہ تھا، لیکن دنیا کی سب سے بڑی سامراجی حکومت اس سے ڈرتی تھی۔ وہ بڑی آسانی سے انگریزی دور میں کم از کم کسی صوبے کی گورنری یا وائسرائے کی ایگزیکٹو کونسل کا ممبر تو بن ہی سکتا تھا لیکن ان مناصبِ عالیہ پر اس نے کبھی نگاہِ غلط انداز ڈالنا بھی گوارا نہ کیا۔

اس کی زندگی کا مقصد منہاجِ خلافتِ راشدہ پر خلافت کا قیام تھا۔ وہ پابندی سے نماز پڑھتا تھا، پابندی سے روزے رکھتا تھا اور ذاتِ رسالت مآب ﷺ سے اس کے عشق اور شیفتگی کی یہ کیفیت تھی کہ "جب نام ترا لیجیے تب اشک بھر آئے"۔ اس کی دوستی بھی اللہ کے لیے تھی، اور دشمنی بھی اللہ کے لیے۔ اسی لیے وہ دوستوں کو دشمن اور دشمنوں کو دوست بناتا رہتا تھا۔ وہ بغاوت کے جرم میں جیل بھی گیا اور اس جرم میں پھانسی کا مشتاق بھی رہا، خود ہی کہتا ہے:

مستحقِ دار کو حکمِ نظر بندی ملا
کیا کہوں کیسی رہائی ہوتے ہوتے رہ گئی

مولانا محمد علی کا ایک معمول یہ تھا کہ ہر جمعہ کو نماز کے بعد جامع مسجد میں اس مکبر پر جو صحن میں تھا کھڑے ہو کر حالاتِ حاضرہ پر تقریر کیا کرتے تھے۔ میں ان کی یہ ہفتہ وار تقریر پابندی سے سنتا تھا اور مجھے اس حقیقت کے اظہار میں کوئی تامل نہیں کہ ان تقریروں سے میں نے فکری طور پر بہت فائدہ اٹھایا اور یہی وجہ تھی کہ ایک سامع کی حیثیت سے شاید ہی اپنے دورانِ قیام دہلی میں کوئی تقریر میں نے ناغہ کی ہو۔

۱۹۲۶ء میں سوامی شردھانند کو ایک مسلمان نے قتل کر دیا، یہ بڑا سخت حادثہ تھا۔ ہندو مسلم اتحاد کی بنیادیں ویسے ہی ایک عرصہ سے ہل رہی تھیں، اب قریب قریب منہدم ہو گئیں، ہر طرف سے مسلمانوں پر حملے ہونے لگے کہ یہ متعصب ہیں، وحشی ہیں، خونی ہیں۔ حتیٰ کہ گاندھی جی تک بے ساختہ کہہ اٹھے کہ مسلمانوں کی سرشت میں خون ریزی شامل ہے۔ مولانا محمد علی مسلسل اپنی تقریروں میں اسلام کا دفاع کرتے رہے، مستشرقینِ فرنگ اور متعصبینِ ہند کا جواب اپنے مبلغِ علم کے مطابق دیتے رہے۔ ایک روز انہوں نے اپنی تقریر میں فرمایا: "کاش کوئی شخص اسلام کے خلاف ان افترا پردازیوں کا جواب دلائل و براہین کے ساتھ کتاب و سنت کی روشنی میں لکھ کر اسلام کے جہاد کی حقیقت دنیا کے سامنے آشکارا کر سکے۔" وہیں بیٹھے بیٹھے میرے دل میں خیال آیا، وہ شخص میں ہی کیوں نہ بن جاؤں؟ واپس آکر میں نے اس موضوع سے متعلق جتنی بھی معتبر اور مستند کتابیں فراہم ہو سکتی تھیں جمع کیں، اور چند روز بعد "الجمعیتہ" میں "الجہاد فی الاسلام" کے عنوان سے ایک سلسلۂ مقالات شروع کر دیا، جب اس کے ۲۴ نمبر شائع ہو چکے تو میں نے محسوس کیا کہ موضوع اتنا اہم ہے کہ مقالات کا متحمل نہیں ہو سکتا، یہ ایک مستقل تصنیف کا طالب ہے، چنانچہ میں نے دو تین سال کی تحقیق و مطالعہ کے بعد اسی نام سے ایک کتاب مکمل کر لی جس کا پہلا ایڈیشن دارالمصنفین اعظم گڑھ سے مولانا سید سلیمان ندوی نے شائع کیا تھا، بعد میں مزید اضافوں اور نظرِ ثانی کے بعد میں نے خود اسے شائع کیا۔

۱۹۳۰ء میں حق اور سچائی پر ہونے کے باوجود محمد علی بالکل یکہ و تنہا رہ گئے تھے، گاندھی جی اور جواہر لال کی قیادت میں کانگرس نے ان کے خلاف زبردست مورچہ قائم کر لیا تھا، زندگی بھر کے ساتھی جنہیں انہوں نے لیڈر بنایا تھا، ان کا ساتھ چھوڑ کر کانگرس سے جا ملے تھے، اور مل ہی نہیں گئے تھے بلکہ محمد علی کی سیاست ہی پر نہیں بلکہ ان کے خلوص و دیانت پر بھی حملے کر رہے تھے۔ محمد علی ان سب سے لڑ رہے تھے۔ وہ بیمار تھے، دل کے بار بار حملے ہوتے تھے، ذیابیطس نے نڈھال کر دیا تھا، ساتھیوں کی بے وفائی نے زندگی سے بددل کر دیا تھا، اسی حالت میں وہ بھوپال آئے، وزیرِ ریاست شعیب قریشی کے ہاں جو ان کے داماد بھی تھے ٹھہرے، لیکن نواب حمید اللہ خاں نے انہیں زبردستی اپنا مہمان بنایا۔ میں بھی اسی زمانے میں بیمار ہو کر اپنے بڑے بھائی کے ہاں گیا ہوا تھا، محمد علی بسترِ علالت پر دراز تھے، اور یہی بسترِ علالت ان کے لیے بالآخر بسترِ مرگ ثابت ہوا۔ میں اکثر ان کی خدمت میں پہنچ جاتا اور وہ فسانۂ غمِ دل لے کر بیٹھ جاتے۔ یہ فسانۂ غمِ دل سن کر غیروں کا دل دو نیم ہو جاتا تھا، تو خود ان پر کیا کچھ نہ گزر رہی ہوگی؟ انہیں اپنی بیماری کی اتنی فکر نہ تھی، اپنے چہیتے اور پرانے ساتھیوں کی بے وفائی کا اتنا غم نہ تھا، جتنی یہ فکر، جتنا یہ دھڑکا کہ ملتِ اسلامیہ اس بھنور سے کس طرح صحیح سلامت نکلے گی؟

یہی چیز تھی جس نے انہیں مجبور کر دیا کہ بسترِ مرگ پر لندن جائیں، گئے اور وہاں جا کر اعلان کیا کہ اگر آزادی نہ ملی تو غلام دیس میں زندہ واپس نہیں جائیں گے۔ آزادی نہیں ملی اور گو غلام دیس کی خاک نے انہیں اپنی طرف کھینچا لیکن:

خاکِ قدس او را بہ آغوشِ تمنا در گرفت
رفت در فردوس زاں راہے کہ پیغمبر گذشت

نہ جانے کہ اقبال کا یہ بہترین مرثیہ ان کے مجموعۂ کلام میں کیوں نہیں شامل کیا گیا۔

محمد علی کی موت پر سب روئے، دوست بھی اور دشمن بھی۔ اور یہ آنسو سب کی چشمِ دل سے ٹپکے تھے۔ جن لوگوں کو محمد علی سے، ان کی سیاست اور ان کی صحافت سے اختلاف تھا وہ بھی محسوس کرتے تھے کہ محمد علی متحدہ ہندوستان کا انمول ہیرا تھا جسے موت نے چھین لیا۔ میرا یہ حال تھا کہ یہ خبر سنی تو ضبطِ گریہ ناممکن ہو گیا، کئی دن تک یہ عالم رہا کہ محمد علی کی یاد آئی اور آنکھوں سے آنسو رواں ہوتے، اور ایسا دن میں کئی کئی مرتبہ ہوتا تھا۔ بہت دنوں کے بعد طبیعت سنبھلی لیکن اب تک یہ کیفیت ہے کہ جب محمد علی کا ذکر چھڑتا ہے، اس کا نام سنتا ہوں، اس کی کوئی تحریر نظر سے گزرتی ہے تو دل میں عقیدت کا ایک گہرا جذبہ بیدار ہو جاتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے حال پچھلے قدموں دوڑتا ہوا ماضی میں پہنچ گیا ہے، اور وہ مجاہدِ صف شکن مصروفِ جہاد ہے، برطانوی استعمار سے بھی، ہندو سامراج سے بھی اور رفیقانِ گریز پا سے بھی، وہی نزار جسم لیکن وہی تیور، وہی دیدبہ! اللہ اس پر رحمت کرے۔ اللہ ہم میں پھر کوئی محمد علی پیدا کر دے کہ جتنی محمد علی جیسے لیڈر کی آج ضرورت ہے آج سے چالیس برس پہلے نہ تھی!

(علی برادران، مرتبہ رئیس احمد جعفری)

(۲)

ماہنامہ "اردو ڈائجسٹ" لاہور میں مولانا محترم کا ایک انٹرویو شائع ہوا۔ اس میں مدیر اردو ڈائجسٹ نے ایک سوال مولانا محمد علی کے بارے میں بھی کیا۔

سوال: مولانا، آپ مولانا محمد علی جوہر کی شخصیت کے بارے میں کیا تاثر رکھتے ہیں؟ ایک طبقے کی یہ رائے ہے کہ وہ سادگی سے گاندھی جی کا فریب کھاتے رہے؟

مودودی صاحب نے دکھ کے ایک گہرے تاثر میں ڈوبتے ہوئے جواب دیا:

"ایک شخص کے مرنے کے بعد آپ جو چاہیں اس سے متعلق کہہ سکتے ہیں، لیکن درحقیقت مولانا محمد علی جوہر مسلمانوں کے لیے سب سے گہرا درد رکھتے تھے۔ میں سمجھتا ہوں اس کے بعد سے پھر ایسا سچا دینی جذبہ رکھنے والا لیڈر پیدا نہیں ہوا۔ انہوں نے غلطیاں کی ہوں گی لیکن میں نے بہت ہی کم لوگ ایسے دیکھے ہیں، جو اسلام کے لیے اتنا گہرا اخلاص رکھتے ہیں۔ یہ ان جیسے لوگوں ہی کے کردار کا اثر تھا کہ کسی کے لیے یہ ممکن ہی نہ تھا کہ اسلام کی تعلیمات اور اس کے شعائر کا احترام اور ان پر عمل پیرا ہوئے بغیر وہ سیاسی لیڈر بن سکے۔"

(ملاقاتیں، ص ۱۷)

مولانا حمید الدین فراہیؒ

عام طور پر تسلیم کیا گیا ہے کہ متاخرین میں قرآن مجید کے فہم و تدبر کے لحاظ سے بہت کم لوگ اس مرتبہ پر پہنچے ہیں جس پر اللہ تعالیٰ نے مولانا حمید الدین فراہی مرحوم کو سرفراز فرمایا تھا۔ انہوں نے اپنی عمر کا بیشتر حصہ کلام اللہ کے معانی کی تحقیق میں صرف کیا اور عربی زبان میں ایک ایسی محققانہ تفسیر لکھی تھی جس کی نظیر متقدمین کی تصنیفات میں بھی کم ملتی ہے۔

(یہ مضمون مولانا کے ان تبصروں سے مرتب کیا گیا ہے جو کہ انہوں نے ماہنامہ "ترجمان القرآن" میں مولانا فراہی مرحوم کی تفسیر کے اردو ترجمہ کے مختلف حصوں پر کیے تھے۔ یاد رہے کہ مولانا فراہی کی تفسیر عربی میں ہے جس کا اردو ترجمہ مولانا امین احسن اصلاحی کے قلم سے ہے۔ افسوس کہ مولانا مرحوم اپنی اس تفسیر کو مکمل نہ کر سکے اور اب یہ سرمایہ تفسیرِ قرآن مجید کی آخری چند سورتوں تک محدود ہے۔ - مرتب)

مولانا فراہی رحمۃ اللہ علیہ کا تفسیرِ قرآن میں ایک خاص اسلوب ہے، جو اہلِ نظر سے پوشیدہ نہیں، وہ قرآن کریم پر روایات اور اسرائیلیات سے الگ ہو کر غور کرتے ہیں جس میں نظمِ کلام پر خاص توجہ رہتی ہے۔ ان کے نزدیک اللہ تعالیٰ کا کلام نظم و ترتیب سے خالی نہیں ہو سکتا۔ آیات کی تاویل اور الفاظ کی تشریح میں ان کا اعتماد خود قرآن کریم اور اس کے بعد کلامِ عرب پر ہے اور خاص کر کلامِ جاہلیت پر ان کی نگاہ اتنی دقیق اور وسیع ہے کہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ یہ بات پورے اطمینان کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ شاید ہی عربی کا کوئی اچھا شعر ہو جو ان کے پیش نظر نہ ہو۔

"فاتحۂ تفسیر نظام القرآن" علامہ مرحوم کی مشہور تفسیر کا مقدمہ ہے جس میں انہوں نے اپنے مدت العمر کے تدبر فی القرآن کا نچوڑ پیش کیا ہے۔ نہ صرف ان کے طریقِ تفسیر کو سمجھنے کے لیے اس حصہ کا مطالعہ ضروری ہے، بلکہ جو شخص قرآن مجید کو محققانہ طریق پر سمجھنا چاہتا ہو اس کے لیے یہ مقدمہ ایک اچھا رہنما ثابت ہوگا، کیونکہ اس میں ایک فاضل محقق نے ان مہمات مسائل پر روشنی ڈالی ہے جو قرآن کا تحقیقی مطالعہ کرنے والے ہر شخص کو پیش آتے ہیں۔ تفسیرِ قرآن کے اہم ترین مسائل میں سے ایک مسئلہ آیات اور سورتوں کے ربط و نظام کا ہے اور یہ ایسا پیچیدہ مسئلہ ہے کہ بہت سے مفسرین نے سرے سے ربط و نظام کے وجود ہی سے انکار کردیا ہے۔ علامہ مرحوم اس کے قائل ہیں اور انہوں نے اس کے وجوہ و دلائل بیان کیے ہیں جو ہر محقق کے لیے لائقِ غور ہیں۔ اسی طرح انہوں نے ان سوالات پر بھی اصولی بحث کی ہے کہ تفسیرِ قرآن میں خود قرآن سے، شانِ نزول، احادیث اور اقوالِ صحابہ سے، کلامِ عرب سے، کتبِ سابقہ سے کس طرح مدد لینی چاہیے۔ یہ سب اہم مباحث ہیں اور ان میں طالبِ علم کے لیے بہت کچھ فوائد ہیں۔

مصنف نے عموماً قرآن مجید کی چھوٹی چھوٹی سورتوں کے اسرار و معارف بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کیے ہیں اور ان کے عمود، نظمِ کلام، موقع و محل اور جامع الفاظ پر اس قدر پھیل کر نگاہ ڈالی ہے کہ ہر سورت اکثر و بیشتر مضامینِ قرآن کا ایک جامع خلاصہ نظر آنے لگتی ہے۔

غرض یہ کہ کتاب کا ہر صفحہ اعلیٰ درجہ کی تحقیق سے لبریز ہے اور قرآن مجید کے علم کے معانی میں غور و خوض کرنے والوں کو تدبر کی نئی نئی راہیں دکھاتا ہے۔ آثارِ فطرت اور تاریخ سے قرآن کے استدلال کو علامہ مرحوم جس بالغ نظری کے ساتھ کھول کھول کر واضح کرتے ہیں اور اس ضمن میں جیسے جیسے لطیف نکات بیان کرتے ہیں، وہ ان کا خاص حصہ ہے۔

وَذَٰلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاءُ

مولانا عبیداللہ سندھی

۱۹۳۹ء کی بات ہے مولانا عبید اللہ سندھی رہائی کے بعد لاہور تشریف لائے۔ مجھے ان کی آمد کی اطلاع ملی تو میں نے سوچا کہ میں ان کے استقبال کے لیے جاؤں گا۔ وہ سندھ ایکسپریس سے تشریف لا رہے تھے۔ ان سے میری پہلے کبھی ملاقات نہیں ہوئی تھی اور نہ انہوں نے مجھے دیکھا ہوا تھا۔ اس لیے میں نے سوچا کہ لاہور کے اسٹیشن پر بھیڑ ہوگی، شاید ان کی تلاش میں دقت ہو اس لیے مناسب ہے کہ ان سے لاہور چھاؤنی کے اسٹیشن پر ملا جائے۔ جب گاڑی کینٹ سٹیشن پر رکی تو میں نے گھوم پھر کر ادھر ادھر دیکھا۔ اچانک وہ تھرڈ کلاس کے ڈبے سے نکلے اور سیدھے میری طرف آئے، انہوں نے آتے ہی میرا ہاتھ پکڑ کر کہا:

"آپ مودودی صاحب ہیں؟" میں نے ان سے پوچھا۔ "آپ نے مجھے کیسے پہچانا؟"

فرمانے لگے: "میں نے آپ کی تحریروں سے آپ کا ایسا ہی حلیہ پایا، اس لیے آپ کو فوراً پہچان گیا۔"

مولانا عبیداللہ سندھی جیسا صاحبِ فراست آدمی میں نے کم ہی دیکھا ہے، ان کے علم و فضل میں کوئی شبہ نہیں، ایسے وسیع النظر عالم اب کہاں؟ میں نے ان کے نظریات پر بڑی کڑی گرفت کی تھی اور یہ بھی امرِ واقعہ ہے کہ وہ بڑی جلدی برہم ہو جایا کرتے تھے۔ لیکن مولانا سندھی میری ہر تحریر پڑھتے تھے مگر کبھی برا نہیں مانتے تھے۔ ان کی مشتعل مزاجی کا یہ عالم تھا کہ ایک دفعہ مولوی ظفر اقبال صاحب نے مجھ سے کہا کہ انہیں مولانا سندھی سے ملنے کا شوق ہے۔ میں نے مولانا سے ان کی ملاقات کروائی تو گفتگو میں مولوی صاحب نے کوئی ایسی بات کہہ دی جو مولانا کے نظریات کے خلاف تھی۔ بس مولوی صاحب کی زبان سے ایسی بات کا نکلنا تھا کہ مولانا سندھی آپے سے باہر ہو گئے۔ لیکن میرے ساتھ گفتگو میں ان کی آواز کبھی بلند نہیں ہوئی تھی۔

(ہفت روزہ "ایشیا" لاہور - ۲۲ جنوری ۱۹۷۸ء)

مولانا سندھی مرحوم جن کی وفات زمانہ حال کا ایک قومی سانحہ ہے، ان لوگوں میں سے تھے جو اپنے مقصد اور تخیل کے پیچھے اپنا پورا سرمایۂ زندگی لگا دیتے ہیں۔ اسی وجہ سے وہ لوگ بھی ان کے احترام پر مجبور ہیں جو ان کے خیالات سے اتفاق نہیں رکھتے۔ لیکن مولانا مرحوم اپنے خیالات کو عمل میں لانے کا جتنا زبردست جوش اور ولولہ رکھتے تھے، انہیں سمجھانے کی اتنی قدرت نہ رکھتے تھے۔ ان کا تخیل ایک شارح کا محتاج تھا جو ان کی بات سمجھ کر دوسروں کو اچھی طرح سمجھائے۔ یہی خدمت ان کے لائق شاگرد پروفیسر محمد سرور صاحب نے انجام دی ہے۔

(یہ مضمون مولانا مودودی کے اس تبصرے سے ماخوذ ہے جو کہ انہوں نے پروفیسر محمد سرور صاحب کی تالیف "مولانا عبیداللہ سندھی" پر لکھا تھا۔ - مرتب)

مولانا سندھی نے جس طرز پر نیشنلزم اور بین الاقوامیت کو یکجا جمع کیا تھا اس کا یہ لازمی تقاضہ تھا کہ ایک طرف تو وہ بین الاقوامیت کی خاطر (اور ہندوستانی نیشنلزم کی خاطر بھی) وحدتِ ادیان کا ایک فلسفہ وضع کرتے اور دوسری طرف مخصوص مذہبی شرائع و قوانین اور تہذیبی صورتوں کو قومی خصوصیات قرار دے کر ان کے ترک و اختیار کی آزادی تمام قوموں کے لیے ثابت کرتے۔ چنانچہ انہوں نے یہی کیا۔ وہ چند مطلق (بے صورت) صداقتوں کو اصل دین قرار دے کر کہتے ہیں کہ وہ تمام ادیان اور تمام انسانوں میں مشترک ہیں اور قرآن دراصل انہیں کی طرف دعوت دینے آیا ہے، پھر ان شرائع اور سنن کو جو قرآن اور اسوۂ محمدی میں مقرر کی گئی ہیں اور جن پر عہدِ نبوت اور خلافتِ راشدہ میں مذہبی، معاشرتی، تمدنی اور سیاسی زندگی کی تشکیل کی گئی تھی، محض قومی رسوم قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان رسوم کو عالمگیر قانونِ زندگی بنانا مقصود نہ تھا بلکہ دینِ مطلق کے اندر ان رسوم کو قومی حالات و ضروریات کے مطابق ڈھالنے اور بدل لینے کی گنجائش ہے۔

تخیل کی بے پایاں وسعتوں کو لیے ہوئے مولانا سندھی جب تاریخِ اسلام پر نظر ڈالتے ہیں تو انہیں خلفائے راشدین، بنو امیہ، بنو عباس، اکبر اور اورنگ زیب سب ہی یکساں قابلِ قدر اور قابلِ تعریف نظر آتے ہیں۔ اگر ہم حسنِ ظن سے کام لیں تو کہہ سکتے ہیں کہ مولانا مرحوم کے نظامِ فکر کے بیشتر اجزاء ایسے تھے جو ان کا اصل عقیدہ و مسلک نہ تھے بلکہ انہوں نے یہ ایک جدید علمِ کلام محض اس لیے مرتب کیا تھا کہ ان کے نزدیک موجودہ زمانہ میں دین کی دعوت انہی اصولوں پر پھیلائی جا سکتی تھی لیکن اس حسنِ ظن کے باوجود ہمیں یہ کہنے میں کوئی باک نہیں ہے کہ ان کا یہ جدید فلسفہ و کلام قطعی غلط اور سراسر ضلالت ہے۔ اور اگر دین کی دعوت پھیلنے کی بس یہی ایک صورت رہ گئی ہے تو اس طرح اس کے پھیلنے سے نہ پھیلنا بدرجہا بہتر ہے۔ مولانا مرحوم کی یہ بڑی خوش قسمتی تھی کہ ان کا تعلق علماء کرام کے اس طبقہ سے تھا جو اپنی گروہ بندی کی عصبیت میں کمال کو پہنچا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مولانا سب کچھ فرما گئے اور چھپوا بھی گئے اور پھر بھی تنقید کی زبانیں بند اور تعریف کی زبانیں تر رہیں۔ ورنہ اگر کہیں انہوں نے اس طبقۂ خاص سے باہر جگہ پائی ہوتی تو ان کا استقبال سرسید اور علامہ مشرقی سے کچھ کم شاندارانہ نہ ہوا ہوتا۔

(ترجمان القرآن، جولائی تا اکتوبر ۱۹۴۴ء)

علامہ اقبال کا اصل کارنامہ

علامہ اقبال نے اسلامی تاریخ میں جو عظیم الشان اصلاحی کارنامہ انجام دیا، اگرچہ وہ بجائے خود نہایت قیمتی ہے، لیکن اس کی قدر و قیمت اس وقت بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے جب ہم اس بات پر نگاہ ڈالتے ہیں کہ انہوں نے کن حالات میں یہ کارنامہ انجام دیا۔ کسی مصلح کے کام کو جانچنے کے لیے صرف یہی دیکھنا کافی نہیں ہوتا کہ اس نے کیا کام کیا ہے، بلکہ یہ دیکھنا بھی ضروری ہوتا ہے کہ وہ حالات کیا تھے جن میں اس نے وہ کام کیا۔

۱۹۲۴-۳۸ تک کا ہندوستان اور علامہ اقبال

میں ایک مختصر طریقے سے آپ حضرات کے سامنے ماضی قریب کی تاریخ کا ایک ورق کھولنا چاہتا ہوں۔ اس تاریخ سے میں خود بھی گزرا ہوں اور میں نے اپنی آنکھوں سے اس کا مشاہدہ کیا ہے۔ ۱۹۲۴ء سے ۱۹۳۸ء تک کا زمانہ ہندوستان کے مسلمانوں کی تاریخ کا نازک ترین زمانہ تھا۔ اس وقت مسلمانوں نے تحریکِ خلافت میں اپنی تمام تر پونجی لگا دی تھی۔ ان کو یہ احساس تھا کہ خلافتِ اسلامیہ کو بچانے کے لیے اور مسلمانوں کے مقاماتِ مقدسہ کو اغیار کے قبضہ سے چھڑانے کے لیے جو کچھ ہم سے ہو سکتا ہے وہ ہمیں کر گزرنا چاہیئے۔ اس غرض کے لیے انہوں نے نہ اپنا مال خرچ کرنے میں کوئی کسر اٹھا رکھی اور نہ اپنی جانیں قربان کرنے میں کوئی دریغ کیا۔ وہ اس مقصد کے لیے اس حد تک گئے کہ جن ہندووں کے متعلق ان کو صدیوں سے تجربہ تھا کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں کیا جذبات رکھتے ہیں، انہوں نے ان کے ساتھ بھی محض اس امید پر اتحاد و تعاون کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی کہ کسی طرح سے ہم خلافت کے ادارے کو بچالے جائیں اور اپنے مقاماتِ مقدسہ کو اغیar کے قبضے سے چھڑا لیں، لیکن آخر کار اس ساری تگ و دو کا جو انجام ہوا وہ یہ تھا کہ جس خلافت کو بچانے کے لیے انہوں نے سر دھڑ کی بازی لگائی تھی اس کی بساط انہی لوگوں نے لپیٹ دی جن کی خلافت کے لیے مسلمان کوشش کر رہے تھے اور جن مقاماتِ مقدسہ کی حفاظت کے لیے وہ اپنی جان لڑا رہے تھے انہی مقاماتِ مقدسہ کے رہنے والے قومیت کے بت کے پرستار بن گئے اور انہوں نے آپس میں کشت و خون شروع کر دیا۔ آپس میں عداوتوں اور لڑائیوں پر اُتر آئے اور وہ خود ہی مقاماتِ مقدسہ پر اغیار کے مستقل قبضے اور تسلط کا ذریعہ بن گئے۔ ایک طرف تو ہندی مسلمانوں کو خلافت کے تحفظ کے سلسلے میں اپنی ساری کوششوں کا یہ نتیجہ دیکھنا نصیب ہوا اور دوسری طرف جس کانگریس کے ساتھ انہوں نے اتحاد اور جن ہندوؤں کے ساتھ انہوں نے تعاون کیا تھا وہی ان پر ٹوٹ پڑے اور ۱۹۲۴ء سے ہندو مسلم فسادات کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اس سارے عرصے میں کانگرس کے لیڈروں کو ان لوگوں کی مذمت کرنے کی کبھی ہمت نہ ہوتی جو مسلمانوں کے ساتھ یہ مظالم کر رہے تھے۔ گویا مسلمانوں کو اس موقع پر دوہری شکست سے دوچار ہونا پڑا۔

ایک طرف جس مقصد کے لیے جان لڑائی تھی وہ مقصد فوت ہو گیا اور دوسری طرف جن لوگوں سے اتحاد کیا تھا وہ مسلمانوں سے لڑنے اور ان کو تباہ کرنے کے درپے ہو گئے۔ سب سے زیادہ انہوں نے گاندھی جی پر اعتماد کیا تھا اور انہیں اپنا لیڈر بنایا تھا، مگر خود انہی کو کبھی اس بات کی توفیق نہ ہوئی کہ وہ اس مرحلے پر مسلمانوں پر ہندوؤں کی زیادتیوں کے خلاف زبان کھولتے۔ اس صورتِ حال کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں پر یکا یک ایک سخت مایوسی طاری ہو گئی اور ان کی ہمتیں ٹوٹ گئیں۔ میں اس زمانے میں ہونے والے ان سارے حالات کا شاہد ہوں اور بکثرت ایسے لوگ بھی موجود ہیں جن کے سامنے یہ ساری تاریخ گزری ہے کہ کس طرح مسلمان ایک شدید مایوسی کا شکار ہو کر رہ گئے۔ اس کے ساتھ اس ساری لیڈرشپ سے مسلمانوں کا اعتماد اٹھ گیا، جس نے تحریکِ خلافت اٹھائی تھی اور اس میں کانگریس کے ساتھ اتحاد کیا تھا۔ اس طرح مسلمان مایوس بھی ہو گئے اور بے قیادت بھی رہ گئے۔ پوری قوم میں ایک ہمہ گیر اور شدید انتشار کی کیفیت رونما ہو گئی۔ اس انتشار کی حالت میں مسلمان اپنی آنکھوں سے یہ دیکھ رہے تھے کہ غیر مسلم ایک لیڈر کی لیڈر شپ میں پوری طرح سے متحد ہیں اور ہندوستان پر اپنے قبضے کی تکمیل کرنے کے لیے ہر ممکن جدوجہد میں مصروف ہیں اور دوسری طرف مسلمان بالکل اس قابل نہیں تھے کہ اس صورتِ حال کا مقابلہ کر سکیں اور اپنے تحفظ کی کوئی تدبیر اختیار کر سکیں۔

ایک طرف تو یہ مصیبت تھی اور دوسری طرف عین اسی زمانے میں یہ فتنہ رونما ہوا کہ مسلمانوں کے اندر الحاد و دہریت کی تحریکیں اٹھنی شروع ہوئیں اور اسلام کی حقانیت پر کھلم کھلا حملے کیے جانے لگے۔ مسلمانوں کی پوری تاریخ میں کبھی اس طرح علانیہ الحاد و دہریت کی دعوت نہیں اٹھی تھی جس طرح کی اس زمانے میں اٹھی۔ مسلمانوں کے تعلیمی اداروں میں کمیونزم کی اشاعت شروع ہو گئی۔ پورے پورے رسائل و جرائد اس غرض کے لیے نکلنے شروع ہو گئے کہ مسلمانوں میں الحاد و دہریت کی تبلیغ کریں۔ اخلاقی بے قیدی کی تعلیم مسلمانوں کو دی جانے لگی اور کھلم کھلا دی جانے لگی۔ رفتہ رفتہ حال یہ ہو گیا کہ لوگوں کو یہ بات عجیب معلوم ہونے لگی کہ کوئی شخص پڑھا لکھا بھی ہو اور وہ خدا کو بھی مانتا ہو اور نماز روزہ جیسے احکام کی پابندی بھی کرتا ہو۔ اندازِ نظر اس حد تک بدلا کہ لوگ یہ سمجھنے لگے کہ جو شخص نماز پڑھ رہا ہے اس کو اپنی حرکت پر شرمانا چاہیئے، جو نہیں پڑھ رہا ہے اس کو شرمانے کی ضرورت نہیں۔

ایک طرف تو مسلمانوں کے سیاسی اور تہذیبی و نظریاتی انحطاط کا یہ عالم تھا اور اس کے ساتھ جس مصیبت میں وہ گرفتار تھے، وہ یہ تھی کہ ان کی کوئی قابلِ اعتماد قیادت اس وقت موجود نہیں تھی۔ جن لوگوں نے جنگِ عظیم اول سے پہلے اور جنگ کے زمانے میں جس حد تک بھی ہو سکا تھا اسلام کے علم کو بلند رکھا تھا وہ یا تو خاموش ہو چکے تھے، یا مسلمانوں کے اندر ان کے اثر و نفوذ کو نقصان پہنچ چکا تھا، یا انہوں نے اسلام کی دعوت کا راستہ چھوڑ کر قومیت اور وطنیت کی دعوت کا راستہ اختیار کر لیا تھا۔ اس عالم میں صرف اقبال وہ شخص تھا جس نے اس پوری صورتِ حال کا مقابلہ کیا اور واقعہ یہ ہے کہ ۱۹۲۴ء سے ۱۹۳۸ء تک چودہ سال کی مدت میں اسلامی تحریک اور اسلامی جذبے کے احیاء کے لیے اور مسلمانوں میں اسلامی اور ملی شعور کو اُبھارنے اور بیدار رکھنے کے لیے اگر کوئی سب سے بڑی طاقت کام کر رہی تھی، تو وہ اکیلے اقبال کی طاقت تھی۔ جو لوگ بھی کلامِ اقبال پر نگاہ رکھتے ہیں اور انہوں نے ان کی نظم و نثر پڑھی ہے وہ اس بات کی گواہی دیں گے کہ اقبال نے ہندی مسلمانوں کے گرتے ہوئے وقار کو بچانے اور انہیں اپنے مٹتے ہوئے ملی تشخص کو بچانے کے لیے کس طرح آمادہ کیا اور اس غرض کے لیے انہوں نے نظم و نثر دونوں کی قوت سے کام لیا۔

اقبال کے کارنامے کو ہم مختلف عنوانات کے تحت بیان کر سکتے ہیں:

علامہ اقبال کے کارنامے اور افکار

اس تحریر میں علامہ اقبال کی فکر، ان کے کارناموں اور ان سے متعلق چند غلط فہمیوں کا ازالہ کیا گیا ہے۔

1. مغربی تہذیب پر ضربِ کاری

سب سے اہم کام جو اقبال نے انجام دیا وہ یہ تھا کہ انہوں نے مغربیت اور مغربی مادہ پرستی پر پوری قوت کے ساتھ ضرب لگائی۔ اگرچہ یہ کام اس وقت علمائے دین اور اہل مدارس اور خطیب حضرات بھی انجام دے رہے تھے، مگر ان کی باتوں کو یہ کہہ کر نظر انداز کر دیا جاتا تھا اور کیا جا سکتا تھا کہ یہ لوگ مغربی فلسفہ اور مغربی تہذیب و تمدن سے واقفیت نہیں رکھتے۔ لوگ ان اہل علم کی بات کو کچھ زیادہ وزن نہیں دیتے تھے جو اگرچہ دین سے تو واقف تھے، لیکن مغربی علوم، مغربی فلسفے، مغربی شہرت اور مغربی زندگی سے پوری طرح واقف نہیں تھے۔ ان کے برعکس اقبال وہ شخص تھا کہ وہ ان سے زیادہ مغرب کو جانتا ہے اور ان سے زیادہ مغرب کے فلسفے اور مغربی علوم سے واقف ہے۔ اس لیے جب اقبال نے مغربیت، مغربی مادہ پرستی، مغربی فلسفے اور مغربی افکار پر چوٹ لگائی، تو مسلمانوں پر مغرب کی جو مرعوبیت طاری تھی وہ کافور ہونے لگی اور واقعہ یہ ہے کہ اس مرعوبیت کو توڑنے میں اکیلے اقبال کا کارنامہ سب سے بڑھ کر ہے۔

اگرچہ علامہ اقبال نے مسلمانوں کی جسمانی غلامی توڑنے کے لیے بھی کوشش کی اور ان کو آزادی کا سبق بھی دیا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ کسی قوم کا ذہن اگر غلام ہو تو خواہ اس کا جسم آزاد بھی ہو جائے تب بھی وہ قوم آزاد نہیں رہ سکتی۔ اس وجہ سے اقبال نے مسلمانوں کی اس ذہنی غلامی کو بھی ختم کرنے کی کوشش کی جو ان پر طاری ہو گئی تھی۔ اقبال کا یہ خودی کا فلسفہ جس کے متعلق لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ کوئی طلسم یا معمہ ہے، یہ درحقیقت اس بات کے لیے تھا کہ مسلمان اپنے آپ کو پہچانیں کہ وہ کیا ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ مسلمان اپنے آپ کو بھول گئے تھے، ان کو اپنی تاریخ سے شرم آتی تھی، وہ اپنی روایات، اپنی تہذیب، اپنے عقیدے اور اپنی اخلاقی اقدار کے بارے میں شدید احساس کمتری کا شکار ہو چکے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ اگر دنیا کی تاریخ میں کوئی قابل قدر چیز ہے تو وہ صرف اہل مغرب کی پیش کی ہوئی ہے۔ یہ صورت حال اس وجہ سے پیدا ہوئی کہ مسلمانوں کی نئی نسلوں کو کچھ پتہ نہیں تھا کہ ان کا اپنا سرمایہ کیا ہے۔

اس موقع پر اقبال مرحوم نے مسلمانوں کے اندر یہ احساس پیدا کیا کہ تم دنیا بھر میں سب سے زیادہ قابل فخر تہذیب رکھتے ہو۔ تمہارے پاس دنیا کا بہترین نظام حیات ہے اور تم سب سے زیادہ صحیح اور اعلیٰ اخلاقی اقدار رکھتے ہو۔ اپنی خودی کو پہچانو اور اپنے آپ کو جانو کہ تم کیا ہو۔ تم نے اپنے آپ کو کھو دیا ہے اور اپنی حقیقت کو گم کر دیا ہے۔ اپنے قومی تشخص کو سمجھو اور اپنی سربلندی کے لیے سرگرم عمل ہو جاؤ۔

اس کے ساتھ اقبال نے مسلمانوں کے اندر یہ احساس پیدا کیا کہ اسلام کوئی پرانا اور ازکار رفتہ نظام نہیں ہے جو اس زمانے میں کام نہ کر سکتا ہو۔ انہوں نے اپنے شعر سے بھی اور اپنی نثر سے بھی یہ بات مسلمانوں کے ذہن نشین کی کہ اسلام ازلی اور ابدی اصولوں کا حامل ہے۔ اسلام کسی وقت بھی پرانا نہیں ہو سکتا۔ اس کے اصول ہر زمانے میں یکساں قابل عمل ہیں۔ اگرچہ اسلام کی حقانیت کی شہادت اس وقت علمائے دین منبروں پر بھی دے رہے تھے اور مدرسوں میں بھی، لیکن جب اس مغربی تہذیب کی آغوش میں پرورش پائے ہوئے اور مغربی فلسفے پر عبور رکھنے والے آدمی نے اٹھ کر اسلام کی حقانیت کی شہادت دی تو مسلمانوں کے قلوب و اذہان پر اس کا نہایت گہرا اور پائیدار اثر پڑا۔ اس وقت مختلف فتنوں کی یلغار کے درمیان مسلمانوں کی جو نسل گمراہ ہو رہی تھی اس کو بچانے کے لیے اہل منبر وہ کام نہیں کر سکتے تھے جو مغربی تعلیم یافتہ اور مغربی علوم میں مہارت کاملہ رکھنے والا یہ آدمی انجام دے سکتا تھا اور واقعہ یہ ہے کہ جب اس نے ایک باوقار، پر اعتماد اور مجتہدانہ شان کے ساتھ اسلام کی حقانیت کی شہادت دی تو نئی نسل کے اندر ایک نیا اسلامی شعور پیدا ہوا۔

2. وطنی قومیت کی تردید

اس کے ساتھ علامہ اقبال نے جو عظیم کارنامہ انجام دیا وہ یہ ہے کہ انہوں نے وطنی قومیت اور قوم پرستی پر ایک شدید ضرب لگائی۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر انہوں نے قوم پرستی، نیشنلزم اور وطنی قومیت پر بروقت ضرب کاری نہ لگائی ہوتی تو آگے چل کر مسلمانوں کو کانگریس میں جذب کرنے کے لیے جو تحریک اٹھی تھی اس سے مسلمانوں کا بچ جانا محال تھا۔ ایسے حالات میں کہ جب علمائے دین تک اٹھ کر مسلمانوں کو وطنی قومیت کا درس دینے لگے تھے اور مسلمانوں کے بڑے بڑے متقی علماء تک مسلمانوں سے یہ کہنے لگے تھے کہ وطنی قومیت سے تمہارے دین کو کوئی خطرہ نہیں۔ اس موقع پر یہ صرف اقبال تھا جس نے پوری شدت کے ساتھ اس تباہ کن تصور کا تار و پود بکھیرا اور لوگوں کو پوری قوت کے ساتھ یہ بتایا کہ وطن بھی ایک بت ہے اور وطن کی پرستش کرنا بھی ویسا ہی شرک ہے جیسا کہ کسی بت کی پرستش کرنا شرک ہے۔ اگر اقبال نے یہ تعلیم بروقت نہ دی ہوتی تو بعد میں کانگریس نے رابطہ عوام (Mass Contact) کی جو تحریک شروع کی تھی اور جس میں علماء اور اشتراکی حضرات بھی شریک تھے، وہ تحریک مسلمانوں کو ہندوؤں کے اندر اس طرح گھلا دیتی جیسے نمک پانی کے اندر گھل جاتا ہے، لیکن اقبال نے مسلمانوں میں یہ احساس پیدا کیا کہ قومیت وطن اور زبان سے نہیں بنتی ہے بلکہ قومیت دین اور عقیدے سے بنتی ہے۔ اس نے مسلمانوں میں اس شعور کو بیدار کیا کہ تم ایک عقیدہ اور ایک تہذیب رکھنے والی قوم ہو، تمہاری قومیت ان لوگوں سے بالکل مختلف ہے جن کی تہذیب اور عقیدہ و مسلک تم سے الگ ہے۔

3. وحدتِ ملّی کا احساس

اس کے ساتھ اقبال نے مسلمانوں کے اندر یہ احساس بھی ابھارا کہ تمام دنیا میں ملت اسلامیہ ایک وحدت ہے اور اس کو ایک وحدت ہونا چاہیے۔ اس طرح انہوں نے بیک وقت دو کام کیے۔ باہر کی دنیا میں مسلمان جس طرح قوم پرستی میں مبتلا ہو کر ایک دوسرے سے کٹ رہے تھے اور ایک دوسرے کو کاٹ رہے تھے اور جس طرح ترکوں اور عربوں کے درمیان ایک المناک کشمکش برپا ہوئی اور اس کے نتیجے میں شرق اوسط پر جو تباہی آئی اور تمام ممالک اسلامی سخت مصیبت میں مبتلا ہو گئے وہ سب اس قوم پرستی کا نتیجہ تھا، جس کی تبلیغ و اشاعت عیسائیوں نے عربوں اور ترکوں کے درمیان کی تھی۔ ایک طرف تو اقبال نے تمام دنیا کے مسلمانوں کو اس بات کی دعوت دی کہ تم ایک ملت واحدہ ہو اور جس قوم پرستی میں تم مبتلا ہو یہ ایک بالکل غلط اور مہلک تصور ہے اور دوسری طرف انہوں نے ہندی مسلمانوں میں یہ احساس پیدا کیا کہ تم مسلمان ہونے کی حیثیت سے ایک قوم اور ایک ملت ہو۔ تمہارا کسی دوسری قوم میں جذب ہونا سراسر ایک باطل نظریہ ہے۔

اگر اقبال نے بروقت یہ اقدام نہ کیا ہوتا اور اسلامی قومیت کے صحیح تصور کی تبلیغ کر کے مسلمانوں کے اندر اپنی اسلامی قومیت کا احساس پیدا نہ کر دیا ہوتا تو آج اس پاکستان کا کہیں وجود نہ ہوتا۔ آج اگر ہندوستان میں مسلمان ایک قوم کی حیثیت سے اپنے تہذیبی وجود پر اصرار کر رہے ہیں تو وہ بھی اسی تعلیم کی وجہ سے کر رہے ہیں جو اقبال نے اس وقت دی تھی اور یہ پاکستان بھی اسی تعلیم کی وجہ سے معرض وجود میں آیا جس نے مسلمانوں میں اس احساس کو بیدار کر دیا کہ وہ ایک قوم اور ایک ملت ہیں۔

4. دین و سیاست کے متعلق باطل تصور کی بیخ کنی

اقبال نے ایک بڑا کارنامہ یہ بھی انجام دیا کہ دین اور سیاست کی علیحدگی اور دین و دنیا کی تفریق کا جو تصور مغرب سے آ کر مسلمانوں میں پھیل رہا تھا اور جس کی وجہ سے لوگ یہ سمجھنے لگے تھے کہ اہل دین کو سیاست سے کیا تعلق اور دین کو سیاست میں گھسیٹنے کا کیا کام، اقبال نے اس باطل تصور کا ٹھیک وقت پر مقابلہ کیا۔ اس نے دینِ بے سیاست کی بھی برملا مذمت کی اور سیاستِ بے دین کو بھی علانیہ مذموم قرار دیا۔ سیاستِ بے دین کے متعلق اقبال کا ایک مصرع ایسا ہے کہ اس موضوع پر تمام دنیا کا لٹریچر ایک طرف اور وہ مصرع ایک طرف۔ ان کا کہنا ہے کہ:

جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

اگر آپ اس موضوع پر دنیا بھر کی کتابیں پڑھ ڈالیں تو آپ دیکھیں گے کہ اس مصرع میں ان سب کا خلاصہ اور عطر نکال کر رکھ دیا گیا ہے۔ اقبال نے ان الفاظ سے دراصل یہ بات ذہن نشین کی ہے کہ جب تم سیاست کو دین سے الگ کرتے ہو تو اس کا نتیجہ سوائے وحشت و بربریت اور ظلم و ستم کے اور کچھ نہیں ہو سکتا۔ سیاست صرف اسی صورت میں ٹھیک رہ سکتی ہے جبکہ دین اس کو صحیح راستے پر قائم رکھنے کے لیے ایک رہنما قوت کی حیثیت سے اس کے ساتھ موجود ہو۔

اسی طرح سے مسلمانوں کے دماغوں میں جو یہ خیال جاگزیں ہو چکا تھا کہ اہلِ دین کا کام تو بس اللہ اللہ کرنا ہے یا مسجدوں اور مدرسوں میں فقط قرآن و حدیث پڑھنا ہے، ان کا سیاست سے بھلا کیا تعلق، اس غلط تصور پر بھی اقبال نے ایک کاری ضرب لگائی ہے اور اس کو بھی ایک مصرع میں بیان کر دیا اور واقعہ یہ ہے کہ اس موضوع پر جتنا کچھ لکھا جا سکتا ہے وہ سب ایک طرف اور وہ مصرع ایک طرف۔ اقبال کہتا ہے کہ:

عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کارِ بے بنیاد

اس ایک مصرع میں یہ سب حقیقت کھول دی گئی ہے کہ اگر دین کے پاس اپنے عقیدے اور نظام کو نافذ کرنے کے لیے طاقت نہیں ہے تو طاقت جس شخص یا گروہ یا نظام کے پاس ہے وہ دنیا کو اپنے راستے پر ہانک کر لے جائے گا۔ آپ کے لیے کلیمی کرنے کا کیا موقع باقی رہے گا اور وہ کلیمی کہاں بروئے عمل آئے گی۔

اقبال اور جدید اِزم

اقبال نے پورے زور کے ساتھ یہ بات بھی لوگوں کے ذہن نشین کی کہ موجودہ زمانے کے اِزم انسانیت کے دکھوں کا مداوا نہیں ہیں بلکہ واقعہ یہ ہے کہ اس زمانے میں جتنا ظلم و ستم، فساد و غارت گری اور انسانیت کے لیے آلام و مصائب رونما ہوئے ہیں وہ سب انہی اِزموں کا کیا دھرا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال نے جس طرح ان اِزموں میں سے سرمایہ داری کی مذمت کی ہے اسی طرح سے اس نے اشتراکیت کی بھی مذمت کی ہے۔ ان کا آخری پیغام جو انہوں نے اپنی وفات سے دو ڈھائی مہینے پہلے آل انڈیا ریڈیو سے دیا تھا اور غالباً ان کو یہ پتہ بھی نہیں تھا کہ وہ یہ آخری پیغام دنیا کو دے رہے ہیں، اس میں انہوں نے بالکل وضاحت کے ساتھ یہ بتایا ہے کہ اس وقت انسانیت جن مصائب میں گرفتار ہے اور جس ہلاکت و تباہی کی طرف بڑھ رہی ہے وہ سب ان اِزموں کی وجہ سے ہے۔ ان کے اس پیغام پر مشکل سے دو سال گزرے تھے کہ وہ تباہی جنگ دوم کی صورت میں دنیا پر مسلط ہوئی اور اس کے بعد بھی اس کا خطرہ مستقل طور پر موجود ہے۔ انہوں نے وضاحت کے ساتھ یہ بتایا تھا کہ انسانوں کے یہ خود تراشیدہ ماڈرن اِزم ہی دراصل انسان کے مصائب کا سرچشمہ ہیں اور انہی اِزموں نے اس وقت انسانیت کو مصیبتِ عظمیٰ میں مبتلا کیا ہے اور اس کے لیے تباہی اور بربادی کی راہیں ہموار کی ہیں۔ انہوں نے اپنے اس پیغام میں اشتراکیت، سرمایہ داری، ملوکیت، آمریت، نازیت، فسطائیت سبھی کی مذمت بھی کی ہے اور انہیں انسانیت کے لیے مہلک قرار دیا ہے۔

قرآن کی پیروی کا درس

اس کے ساتھ اقبال نے مثبت طور پر یہ بات مسلمانوں کے ذہن نشین کی ہے کہ تمہاری مصیبتوں اور مسائل کا اگر کوئی حل ہے، تو وہ صرف یہ ہے کہ تم قرآن کی پیروی کرو اور اپنی زندگیوں پر اسلام کے آئین کو نافذ کرو۔ انہوں نے ۱۹۳۷ء میں قائد اعظم کے نام جو خط لکھا تھا اس میں واضح طور پر یہ بتایا تھا کہ مسلمانوں کے معاشی مسائل کا کوئی حل ہے تو وہ صرف اسلامی آئین کے نفاذ میں مضمر ہے۔

یہ وہ کارنامہ تھا جو اقبال نے اپنی زندگی میں انجام دیا۔ اب اس کے مقابلے میں اس الزام کی حقیقت دیکھیے کہ اقبال خدانخواستہ سوشلسٹ تھے۔

کسی آدمی کی فکر اور اس کے نقطہ نظر کو جانچنے کے لیے اس کی کسی عبارت سے کوئی ایک آدھ فقرہ سیاق و سباق سے الگ نکال کر اس سے کوئی نتیجہ اخذ کرنا درست نہیں ہوتا۔ دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ وہ شخص بحیثیت مجموعی کس نظام فکر کے لیے برسوں کام کرتا رہا، کس خیال اور نظریے کو زندگی بھر لوگوں کے ذہن نشین کرتا رہا اور فی الجملہ اس نے کیا کارنامہ انجام دیا۔ اس لحاظ سے اگر اقبال کے سارے کام کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ صرف اسلام کا داعی تھا، کسی دوسرے نظریے اور نظام کا داعی نہ تھا۔ وہ اس بات کا ہرگز قائل نہیں تھا کہ اسلام کے سوا کسی چیز کو یا اسلام کے ساتھ کسی چیز کو اختیار کر کے ہماری نجات ہو سکتی ہے۔ اب یہ ایک عجیب لطیفہ ہے کہ جن لوگوں نے اقبال کی زندگی میں اس کے اس کام کی وجہ سے اسے رجعت پسند قرار دیا تھا اور اس بنا پر قرار دیا تھا کہ یہ شخص ایک صدیوں پرانے نظام کی طرف لوگوں کو بلا رہا ہے اور اس کی بنیاد پر لوگوں کو جمع کرنے کی کوشش کر رہا ہے، آج وہی لوگ اس کی وفات کے بعد کہہ رہے ہیں کہ وہ اسلام کا نہیں بلکہ سوشلزم یا اسلامی سوشلزم کا قائل تھا۔ یعنی پہلے اس شخص کو جب کہ اس کے اصلی خیالات سامنے آئے، اس بنا پر رجعت پسند قرار دیا کہ اس کے دلائل و نظریات کا توڑ کرنا ان کے بس میں نہیں تھا اور جس نظریے اور نظام کی طرف وہ ان کو بلا رہا تھا اس کے یہ لوگ دشمن تھے، لیکن اس کے بعد جب دیکھا کہ اس شخص کی گرفت (Hold) تعلیم یافتہ طبقے کے دماغوں پر بہت مضبوط ہو چکی ہے، اور اس کی فکر قبولِ عام کی سند حاصل کر چکی ہے، اس لیے اب اس کی مذمت نہیں کی جا سکتی تو انہوں نے کہا کہ اچھا اگر اس کو (Condemn) نہیں کر سکتے تو اس کو (Convert) کرو اور کہو کہ وہ تو سوشلزم کا قائل نکلا۔

سوشلزم کے الزام کی حقیقت

لیجیے، سوشلزم بھی اقبال کے کلام سے برآمد کیا جاتا ہے۔ ذرا ایک نظر اسے بھی دیکھتے چلیے۔ ان کا مشہور شعر ہے کہ:

جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو

اول تو آپ یہ دیکھیں کہ جس سلسلہ کلام میں انہوں نے یہ بات فرمائی ہے، اس کے اندر اس شعر کا یہ مفہوم نہیں ہے کہ اے اشتراکی گوریلو! اٹھو اور لوگوں کے کھیتوں کو جلا دو۔ سلسلہ کلام یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں سے فرما رہا ہے کہ دنیا میں جو ظلم و ستم برپا ہے یہ ہمارے عذاب کو دعوت دے رہا ہے اور اگر لوگوں کے درمیان انصاف قائم نہ کیا گیا تو تمہیں یہ اجازت بلکہ حکم ہے کہ ان سب کھیتوں کو جلا دو جن سے دہقان کو روزی میسر نہیں آتی۔ گویا یہ فرمان آدمیوں کے لیے نہیں تھا بلکہ یہ بات شاعر کے تخیل کے مطابق اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتوں سے کہی تھی۔

لیکن فرض کیجئے اگر سلسلہ کلام سے صرفِ نظر بھی کر لیا جائے تب بھی شعر کا یہ مفہوم اخذ کرنا صحیح نہیں۔ ایک شاعر کسی مضمون کو ادا کرنے کے لیے جب کسی بات پر زور دیتا ہے تو وہ مبالغے کی زبان استعمال کرتا ہے۔ یہ سخن فہمی سے آدمی کی محرومی کی علامت ہے کہ وہ شاعر کے کسی شعر کو مفتی کا فیصلہ سمجھ بیٹھے۔ مثال کے طور پر آپ دیکھیں کہ غالب نے کہا تھا:

تم سلامت رہو ہزار برس!
ہر برس کے ہوں دن پچاس ہزار

اب کیا واقعی غالب کے پیش نظر یہ بات تھی کہ اس کا ممدوح کروڑوں سال زندہ رہے۔ ظاہر بات ہے کہ اس کے پیش نظر یہ چیز نہیں تھی بلکہ اس کا مقصد اس کے حق میں درازیِ عمر کی دعا کرنا تھا۔ اس بات کو ادا کرنے کے لیے اس نے مبالغے کی زبان استعمال کی اور مبالغہ شعر میں حسن پیدا کرتا ہے۔ اگر اقبال اس موضوع پر تقریر کرتے کہ لوگوں کے اندر بے انصافی پائی جاتی ہے اور ان کے حقوق پامال کیے جا رہے ہیں اس لیے اس ظلم اور بے انصافی کا ازالہ ہونا چاہیے تو وہ کبھی اس مقصد کے لیے لوگوں کو یہ نہ کہتے کہ جاؤ اور جا کر کھیتوں کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو۔ اور بالفرض اگر کوئی شخص جا کر ان سے کھیتوں کو جلانے کی اجازت مانگتا تو وہ کبھی اس کی اجازت یا حکم نہ دیتے۔ شعر کی زبان میں یہ بات سمجھانے کے لیے کہ جہاں فی الواقع لوگوں کے ساتھ انصاف نہ ہو رہا ہو وہاں لوگوں کو سبق سکھانے اور سزا دینے کی ضرورت ہے، انہوں نے مبالغے کی زبان اور شاعرانہ طرزِ ادا سے کام ضرور لیا لیکن یہ کسی مفتی یا قاضی کا فیصلہ نہیں تھا۔

اقبال اور عدلِ اجتماعی

اسی طرح اگر اقبال نے کبھی اپنی کسی تحریر میں "اسلامی سوشلزم" کا لفظ استعمال کیا تو اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ اقبال نے اسلامی سوشلزم کا کوئی فلسفہ ایجاد کیا تھا اور اپنی ساری عمر وہ اس فلسفے کی تبلیغ کرتے رہے۔ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ آدمی کو یہ اندازہ بھی نہیں ہوتا کہ آگے چل کر بعض خاص لوگ کسی لفظ کو کیا معنی پہنانے والے ہیں۔ اس وقت اقبال نے جو بات کہی تھی وہ یہ تھی کہ معاشرتی اور اجتماعی انصاف (Social Justice) کے لیے کسی سوشلزم کی طرف جانے کی ضرورت نہیں۔ یہ سب کچھ اسلام میں بھی تو موجود ہے، بلکہ زیادہ صحیح یہ ہے کہ اسلام ہی میں موجود ہے۔ اس غرض کے لیے اگر کسی وقت انہوں نے یہ لفظ استعمال کر بھی لیا جیسا کہ قائد اعظم نے بھی کبھی یہ لفظ استعمال کر لیا ہوگا تو اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ یہ ان کا کوئی مستقل فلسفہ یا نظریہ تھا۔ آدمی کا فلسفہ یا نظریہ وہ ہوتا ہے جس کی تبلیغ و تلقین اور اس کی تشریح و توضیح میں وہ اپنی قوتیں کھپاتا ہے۔ اقبال نے تبلیغ میں تو اپنی ساری قوتیں اسلام کے لیے کھپائیں اور سارا زور لوگوں کو اس بات کی طرف بلانے کے لیے صرف کیا کہ تم اسلام کے فلسفہ زندگی اور نظریہ حیات کو اختیار کرو۔ لیکن اگر کوئی اٹھ کر اس کی طرف یہ بات منسوب کرے کہ وہ سوشلزم کا قائل تھا تو اس سے زیادہ بے انصافی کی بات کیا ہو سکتی ہے۔ اگر اقبال اسلامی سوشلزم کے قائل ہوتے تو اس کے اصول اور تفاصیل بیان کرتے اور بتاتے کہ اس سے ان کی مراد کیا ہے اور پھر لوگوں کو اس کی تبلیغ و تلقین بھی کرتے مگر اس بات کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں ہے کہ انہوں نے کبھی ایسا کیا ہو۔ اس لیے یہ ایک صریح علمی بددیانتی (Intellectual Dishonesty) ہے کہ کوئی آدمی کسی صاحبِ فکر کی طرف ایک نظریہ منسوب کر دے جو درحقیقت اس کا ہے نہیں۔

سوشلزم یا کسی دوسرے غیر اسلامی اِزم کے برعکس اقبال نے بڑی وضاحت اور قطعیت کے ساتھ مسلمانوں کو یہ تصور دیا کہ محض سیاسی آزادی یا اقتصادی بہبود ہی تمہارا مقصود نہیں ہے بلکہ اسلام کی حفاظت تمہارا اصل مقصد ہے۔ اس نے بار بار یہ بات لوگوں کے ذہن نشین کی تھی کہ ہمارا عقیدہ، ہماری تہذیب، ہماری روایات اور ہماری اخلاقی اقدار ہی ہمارے لیے اصل چیزیں ہیں۔ محض روٹی یا زمین کا ٹکڑا کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کے لیے ایک مسلمان جئے یا مرے۔ اقبال نے واضح طور پر یہ کہا تھا کہ مسلمانوں کو ایک وطن صرف اس لیے چاہیے کہ وہ وہاں اسلام کے اصولوں پر زندگی بسر کر سکیں۔ ان کی ۱۹۳۰ء کی تقریر سے جس میں انہوں نے پاکستان کی اصطلاح استعمال کیے بغیر پاکستان کا تخیل پیش کیا تھا، یہ بات صاف معلوم ہوتی ہے کہ ان کی نظر میں اگر کوئی چیز اہم تھی تو صرف یہ کہ کسی طرح اسلام اور اہل اسلام کو سربلندی نصیب ہو۔ وہ یہ سمجھتے تھے کہ ہندوستان میں ہندوؤں کے ساتھ رہ کر مسلمان اپنی تہذیب پر قائم نہیں رہ سکتے اس لیے انہوں نے صرف مسلمانوں کی تہذیب کو زندہ رکھنے کے لیے ایک الگ اور آزاد مملکت کے حصول کا تصور پیش کیا۔ ان سب چیزوں کو دیکھنے کے بعد محض کسی ایسے لفظ یا اصطلاح کی بنیاد پر جو انہوں نے اتفاقاً کسی موقع پر کسی دوسرے سیاق و سباق (Context) میں کسی دوسرے مفہوم میں استعمال کی ہو، اس کی طرف کسی خاص نظریے کو منسوب کرنا صریح بددیانتی بھی ہے اور مسلمانوں کو دھوکا اور فریب دینا بھی ہے۔

آخری بات

اس سلسلے میں آخری بات یہ ہے کہ علامہ اقبال اور قائد اعظم آپ کو اسلام کی بنیاد پر ایک وطن دے کر گئے ہیں۔ اقبال نے آپ کو فکر اور نظریہ دیا اور قائد اعظم کی قیادت میں آپ کو یہ وطن حاصل ہوا۔ اس وطن کی انوکھی شان یہ ہے کہ اس کا نظریہ پہلے وجود میں آیا اور ملک بعد میں بنا۔ اگر اس ملک کے بنیادی نظریے کو یا دوسرے لفظوں میں اس کی نظریاتی بنیاد کو ہٹا دیا جائے تو یہ ملک قائم نہیں رہ سکتا۔ آج اس ملک کی نظریاتی بنیاد پر مختلف اطراف سے حملے کیے جا رہے ہیں، لیکن کیا آپ اس چیز کو جو ان محنتوں اور عظیم قربانیوں کے نتیجے میں حاصل ہوئی، یوں ہی اپنی غفلت اور کوتاہ ہمتی سے ضائع کر دیں گے؟ میں کہتا ہوں کہ اگر آپ نے اس کو کھو دیا تو گویا تاریخِ انسانی میں یہ بات ثابت کر دیں گے کہ ایک بیوقوف قوم تھی جس نے لاکھوں جانوں، ان گنت عصمتوں اور کروڑوں اور اربوں روپوں کی جائیدادیں قربان کر کے ایک وطن حاصل کیا، مگر وطن حاصل کرنے کے بعد ۲۳ برس کی مدت کے اندر ہی اندر اس کو کھو بھی دیا۔ اگر خدانخواستہ ایسا ہوا تو تاریخ میں آپ کا مقام ایک بے وقوف اور ایک احمق قوم کی حیثیت سے باقی رہ جائے گا بشرطیکہ آپ کی تاریخ کو باقی رہنے دیا گیا۔ اگر آج آپ نے اشتراکیت یا وطنی قومیت کے نظریے یا کسی اور باطل اِزم کو اختیار کیا تو صرف یہی نہیں کہ آپ کی آزادی ختم ہو جائے گی بلکہ میں کہتا ہوں کہ آپ کا وجود بھی ختم ہو جائے گا اور مجھے یہ کہنے میں تامل نہیں کہ اسپین کے بعد تاریخ کا یہ دوسرا بھیانک المیہ ہوگا کہ اس برصغیر میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کا خاتمہ ہو گیا۔

اس وجہ سے یہ وقت ہے کہ مسلمانوں کے نوجوان، مرد اور عورتیں، بچے اور بوڑھے سب اس بات کے لیے متحد ہو جائیں کہ وہ یہاں اسلام کا نظام ہی غالب کریں گے اور ان لوگوں کی کوششوں کو قطعی طور پر ناکام بنا دیں گے جو مسلمانوں کو اسلام کے عقیدے اور نظامِ حق سے منحرف کرنا چاہتے ہیں اور اس طرح ان کو فتنوں میں مبتلا کر کے تباہی کی طرف دھکیلنا چاہتے ہیں۔

(خطاب بموقع یومِ اقبال - ۲۱ اپریل ۱۹۷۰ء، پنجاب یونیورسٹی ہال، لاہور)


حیاتِ اقبال کا سبق

دنیا کا میلان ابتدا سے جدید ترین دور تک اکابر پرستی (Hero Worship) کی جانب رہا ہے۔ ہر بڑی چیز کو دیکھ کر "ھذا ربی ھذا اکبر" کہنے کی عادت جو قدیم ترین انسانوں سے شروع ہوئی تھی، آج تک اس سے نہیں چھوٹی ہے۔ جس طرح دو ہزار برس پہلے بدھ کی عظمت کا اعتراف اس مخلوق کے نزدیک بجز اس کے اور کسی صورت سے نہیں ہو سکتا تھا کہ اس کا ایک مجسمہ بنا کر اس کی عبادت کی جائے۔ اسی طرح آج بیسویں صدی میں دنیا کی سب سے زیادہ سخت منکرِ عبودیت قوم، روس کا ذہن لینن کی بزرگی کے اعتراف کی کوئی صورت اس کے سوا نہیں سوچ سکتا کہ اس کی شخصیت کے آگے مراسمِ عبودیت بجا لائیں۔

لیکن مسلمانوں کا نقطہ نظر اس باب میں عام انسانوں سے مختلف ہے۔ اکابر پرستی کا تصور اس کے ذہن کی افتاد سے کسی طرح میل نہیں کھاتا۔ وہ بڑوں کے ساتھ برتاؤ کرنے کی صرف ایک ہی صورت سوچ سکتا ہے، یعنی "أُولَئِكَ الَّذِينَ هَدَى اللهُ فَبِهُدَاهُمُ اقْتَدِه"۔ اللہ نے ان کو زندگی کا سیدھا راستہ بتایا تھا جس پر چل کر وہ بزرگی کے مراتب تک پہنچے۔ لہٰذا ان کی زندگی سے سبق حاصل کرو اور اس کے مطابق عمل کرو۔ اسی نقطہ نظر سے میں اس مختصر سے مضمون میں اپنی قوم کے نوجوانوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ جس اقبال کی عظمت کا سکہ ان کے دلوں پر بیٹھا ہوا ہے، اس کی زندگی کیا سبق دیتی ہے۔

سب جانتے ہیں کہ اقبال نے وہی مغربی تعلیم حاصل کی تھی جو ہمارے نوجوان انگریزی یونیورسٹیوں میں حاصل کرتے ہیں۔ یہی تاریخ، یہی ادب، یہی اقتصادیات، یہی سیاسیات، یہی قانون اور یہی فلسفہ انہوں نے بھی پڑھا تھا اور ان فنون میں بھی وہ مبتدی نہ تھے بلکہ منتہی اور فارغ التحصیل تھے۔ خصوصاً فلسفہ میں تو ان کو امامت کا مرتبہ حاصل تھا، جس کا اعتراف موجودہ دور کے اکابرِ فلسفہ تک کر چکے ہیں۔ جس شراب کے دو چار گھونٹ پی کر بہت سے لوگ بہکنے لگتے ہیں، یہ مرحوم اس کے سمندر پیے بیٹھا تھا۔

پھر مغرب اور اس کی تہذیب کو بھی اس نے محض ساحل پر سے نہیں دیکھا تھا جس طرح ہمارے ۹۹ فیصدی نوجوان دیکھتے ہیں، بلکہ وہ اس دریا میں غوطہ لگا کر اتر چکا تھا اور ان سب مرحلوں سے گزرا تھا جن میں پہنچ کر ہماری قوم کے ہزاروں نوجوان اپنے دین و ایمان، اپنے اصولِ تہذیب و تمدن اور اپنے قومی اخلاق کے مبادی تک سے برگشتہ ہو جاتے ہیں، حتیٰ کہ اپنی قومی زبان تک بولنے کے قابل نہیں رہتے۔

لیکن اس کے باوجود اس شخص کا کیا حال تھا؟ مغربی تعلیم و تہذیب کے سمندر میں قدم رکھتے وقت وہ جتنا مسلمان تھا، اس کے منجدھار میں پہنچ کر اس سے زیادہ مسلمان پایا گیا۔ اس کی گہرائیوں میں جتنا اترتا گیا اتنا ہی زیادہ مسلمان ہوتا گیا۔ یہاں تک کہ اس کی تہہ میں جب پہنچا تو دنیا نے دیکھا کہ وہ قرآن میں گم ہو چکا ہے اور قرآن سے الگ اس کا کوئی فکری وجود باقی ہی نہیں رہا۔ وہ جو کچھ سوچتا تھا، جو کچھ دیکھتا تھا، قرآن کی نظر سے دیکھتا تھا۔ حقیقت اور قرآن اس کے نزدیک شے واحد تھے اور اس شے واحد میں وہ اس طرح فنا ہو گیا تھا کہ اس دور کے علمائے دین میں بھی مجھے کوئی ایسا شخص نظر نہیں آتا جو فنا فی القرآن میں اس امامِ فلسفہ اور اس ایم اے، پی ایچ ڈی، بار ایٹ لا سے لگا کھاتا ہو۔

بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ آخری دور میں اقبال نے تمام کتابوں کو الگ کر دیا تھا اور سوائے قرآن کے اور کوئی کتاب وہ اپنے سامنے نہ رکھتے تھے۔ سالہا سال تک علوم و فنون کے دفتروں میں غرق رہنے کے بعد جس نتیجے پر پہنچے تھے، وہ یہ تھا کہ اصل علم قرآن ہے اور یہ جس کے ہاتھ آجائے وہ دنیا کی تمام کتابوں سے بے نیاز ہے۔ ایک مرتبہ کسی شخص نے ان کے پاس فلسفہ کے چند سوالات بھیجے اور ان کا جواب مانگا۔ ان کے قریب رہنے والے لوگ متوقع تھے کہ اب علامہ اپنی لائبریری کی الماریاں کھلوائیں گے اور بڑی بڑی کتابیں نکلوا کر ان مسائل کا حل تلاش کریں گے مگر وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ لائبریری کی الماریاں مقفل کی مقفل رہیں اور وہ صرف قرآن ہاتھ میں لے کر جواب لکھوانے بیٹھ گئے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ مبارک کے ساتھ ان کی والہانہ عقیدت کا حال اکثر لوگوں کو معلوم ہے مگر کسی کو یہ معلوم نہیں کہ انہوں نے اپنے سارے تفلسف اور اپنی تمام عقلیت کو رسولِ عربی کے قدموں پر ایک متاعِ حقیر کی طرح نذر کر کے رکھ دیا تھا۔ حدیث کی جن باتوں پر نئے تعلیم یافتہ نہیں، پرانے مولوی تک کان کھڑے کرتے ہیں اور پہلو بدل بدل کر تاویلیں کرنے لگتے ہیں، یہ ڈاکٹر آف فلاسفی ان کے ٹھیٹھ لفظی مفہوم پر ایمان رکھتا تھا اور ایسی کوئی حدیث سن کر ایک لمحہ کے لیے بھی اس کے دل میں شک کا گزر نہ ہوتا تھا۔ ایک مرتبہ ایک صاحب نے ان کے سامنے بڑے اچنبھے کے انداز میں اس حدیث کا ذکر کیا جس میں بیان ہوا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اصحابِ ثلاثہ کے ساتھ کوہِ احد پر تشریف رکھتے تھے۔ اتنے میں اُحد لرزنے لگا۔ حضور نے فرمایا کہ "ٹھہر جا، تیرے اوپر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہیدوں کے سوا کوئی نہیں ہے۔" اس پر پہاڑ ساکن ہو گیا۔ اقبال نے حدیث سنتے ہی کہا کہ اس میں اچنبے کی کون سی بات ہے؟ میں اس کو استعارہ و مجاز نہیں، بالکل ایک مادی حقیقت سمجھتا ہوں اور میرے نزدیک اس کے لیے کسی تاویل کی حاجت نہیں۔ اگر تم حقائق سے آگاہ ہوتے تو تمہیں معلوم ہوتا کہ ایک نبی کے نیچے آ کر مادے کے بڑے سے بڑے تو دے بھی لرز جاتے ہیں، مجازی طور پر نہیں، واقعی لرز اٹھتے ہیں۔

اسلامی شریعت کے جن احکام کو بہت سے روشن خیال حضرات فرسودہ اور بوسیدہ قوانین سمجھتے ہیں اور جن پر اعتقاد رکھنا ان کے نزدیک ایسی تاریک خیالی ہے کہ مہذب سوسائٹی میں ان کی تائید کرنا ایک تعلیم یافتہ آدمی کے لیے ڈوب مرنے سے زیادہ برا ہے، اقبال نہ صرف ان کو مانتا اور ان پر عمل کرتا تھا بلکہ برملا ان کی حمایت کرتا تھا اور اس کو کسی کے سامنے ان کی تائید کرنے میں باک نہ تھا۔ اس کی ایک معمولی مثال سن لیجیے: ایک مرتبہ حکومتِ ہند نے ان کو جنوبی افریقہ میں اپنا ایجنٹ بنا کر بھیجنا چاہا اور یہ عہدہ ان کے سامنے باقاعدہ پیش کیا گیا مگر شرط یہ تھی کہ وہ اپنی بیوی کو پردہ نہ کرائیں اور سرکاری تقریبات میں لیڈی اقبال کو ساتھ لے کر شریک ہوا کریں گے۔ اقبال نے اس شرط کے ساتھ یہ عہدہ قبول کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ اور خود لارڈ ولنگڈن سے کہا کہ "میں بیشک ایک گنہگار آدمی ہوں۔ احکامِ شریعت کی پابندی میں بہت کوتاہیاں مجھ سے ہوتی ہیں مگر اتنی ذلت اختیار نہیں کر سکتا کہ محض آپ کا ایک عہدہ حاصل کرنے کے لیے شریعت کے حکم کو توڑ دوں۔"

اقبال کے متعلق عام خیال یہ ہے کہ وہ فقط اعتقادی مسلمان تھے۔ عمل سے ان کو کچھ سروکار نہ تھا۔ اس بدگمانی کے پیدا کرنے میں خود ان کی افتادِ طبیعت کا بھی بہت کچھ دخل ہے۔ ان میں کچھ فرقہ ملامتیہ کے سے میلانات تھے، جن کی بنا پر اپنی رندی کے اشتہار دینے میں انہیں کچھ مزا آتا تھا ورنہ درحقیقت وہ اتنے بے عمل نہ تھے۔ قرآن مجید کی تلاوت سے ان کو خاص شغف تھا اور صبح کے وقت بڑی خوش الحانی کے ساتھ پڑھا کرتے تھے مگر اخیر زمانے میں طبیعت کی رقت کا یہ حال ہو گیا تھا کہ تلاوت کے دوران روتے روتے ہچکیاں بندھ جاتی تھیں اور مسلسل پڑھ ہی نہ سکتے تھے۔ نماز بھی بڑے خشوع و خضوع سے پڑھتے تھے مگر چھپ کر۔ ظاہر میں یہی اعلان تھا کہ میں تو گفتار کا غازی ہوں۔

ان کی سادہ زندگی اور فقیرانہ طبیعت کے حالات ان کی وفات کے بعد ہی لوگوں میں شائع ہوئے ورنہ عام خیال یہی تھا کہ جیسے اور سر صاحبان ہوتے ہیں ویسے ہی وہ بھی ہوں گے۔ اور اسی بنا پر بہت سے لوگوں نے یہاں تک بلا تحقیق لکھ ڈالا تھا کہ ان کی بارگاہِ عالی تک رسائی کہاں ہوتی ہے۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ یہ شخص حقیقت میں اس سے بھی زیادہ فقیر منش تھا، جتنا اس کی وفات کے بعد لوگوں نے اخبارات میں بیان کیا ہے۔ ایک مرتبہ کا واقعہ سن لیجیے جس سے اس نائٹ اور بیرسٹر کی طبیعت کا آپ اندازہ کر سکیں گے۔ پنجاب کے ایک دولت مند رئیس نے ایک قانونی مشورے کے لیے اقبال اور سر فضل حسین مرحوم اور ایک دو اور قانون دان اصحاب کو اپنے ہاں بلایا، اور اپنی شاندار کوٹھی میں ان کے قیام کا انتظام کیا۔ رات کو جس وقت اقبال اپنے کمرے میں آرام کرنے کے لیے گئے تو ہر طرف عیش و تنعم کے سامان دیکھ کر اور اپنے نیچے نہایت نرم اور قیمتی بستر پا کر معا ان کے دل میں خیال آیا کہ جس رسولِ پاک کی جوتیوں کے صدقے میں آج ہم کو یہ مرتبے نصیب ہوئے ہیں اس نے بورئیے پر سو سو کر زندگی گزاری تھی۔ یہ خیال آنا تھا کہ آنسوؤں کی جھڑی بندھ گئی۔ اس بستر پر لیٹنا ان کے لیے ناممکن ہو گیا۔ اٹھے اور برابر کے غسل خانے میں جا کر ایک کرسی پر بیٹھ گئے اور مسلسل رونا شروع کر دیا۔ جب ذرا دل کو قرار آیا تو اپنے ملازم کو بلا کر اپنا بستر کھلوایا اور ایک چارپائی اس غسل خانے میں بچھوائی اور جب تک وہاں مقیم رہے، غسل خانے ہی میں سوتے رہے۔ یہ وفات سے کئی برس پہلے کا واقعہ ہے، جب باہر کی دنیا ان کو سوٹ بوٹ میں دیکھا کرتی تھی۔ کسی کو خبر نہ تھی کہ اس سوٹ کے اندر جو شخص چھپا ہوا ہے، اس کی اصلی شخصیت کیا ہے۔ وہ ان لوگوں میں سے نہ تھا جو سیاسی اغراض کے لیے سادگی و فقر کا اشتہار دیتے ہیں اور سوشلسٹ بن کر غریبوں کی ہمدردی کا دم بھرتے ہیں مگر پبلک کی نگاہوں سے ہٹ کر ان کی تمام زندگی رئیسانہ اور عیش پسندانہ ہے۔

اقبال کے نائٹ ہڈ اور سر شفیع مرحوم جیسے حضرات کے ساتھ ان کے سیاسی رشتے کو دیکھ کر عام طور پر یہ خیال تھا اور اب بھی ہے کہ وہ محض شاعری ہی میں آزاد خیال تھے، عملی زندگی میں آزاد خیالی ان کو چھو کر بھی نہ گزری تھی بلکہ وہ نرے انگریز کے غلام تھے۔ لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ ان کے قریب جو لوگ رہے ہیں اور جن کو گھر کے ربط و ضبط کی بنا پر ان کی اندرونی زندگی اور ان کے اندرونی خیالات کا علم ہے، وہ جانتے ہیں کہ انگریزی سیاست سے ان کو خیال اور عمل دونوں میں سخت نفرت تھی۔ بارگاہِ حکومت سے وہ کوسوں دور بھاگتے تھے۔ سرکار اور اس کے پرستار دونوں ان سے سخت بدگمان تھے اور ان کی ذات کو اپنے مقاصد میں خارج سمجھتے تھے۔ سیاسیات میں ان کا نصب العین محض کامل آزادی ہی نہ تھا بلکہ وہ آزاد ہندوستان میں دارالاسلام کو اپنا مقصودِ حقیقی بنائے ہوئے تھے۔ اس لیے کسی ایسی تحریک کا ساتھ دینے پر آمادہ نہ تھے جو ایک دارالکفر کو دوسرے دارالکفر میں تبدیل کرنے والی ہو۔ صرف یہی وجہ ہے کہ انہوں نے عملی سیاسیات میں ان لوگوں کے ساتھ مجبوراً تعاون کیا جو برٹش گورنمنٹ کے زیرِ سایہ ہندو راج کے قیام کی مخالفت کر رہے تھے۔ مقاصد کے اعتبار سے ان میں اور اس طبقے میں کوئی ربط نہ تھا مگر صرف اس مصلحت نے ان کو اس طبقے کے ساتھ جوڑ رکھا تھا کہ جب تک مسلمان نوجوانوں میں "دارالاسلام" کا نصب العین ایک آتشِ فروزاں کی طرح بھڑک نہ اٹھے اور وہ اس کے لیے سرفروشانہ جدوجہد پر آمادہ نہ ہوں، اس وقت تک کم از کم انقلاب کے رخ کو بالکل دوسری جانب پلٹ جانے سے روکے رکھا جائے۔ اس بنا پر انہوں نے ایک طرف اپنی شاعری سے جوانانِ اسلام کے دلوں میں وہ روح پھونکنے کی کوشش کی جس سے سب لوگ واقف ہیں اور دوسری طرف عملی سیاسیات میں وہ روش اختیار کی جس کے اصل مقصود سے چند خاص آدمیوں کے سوا کوئی واقف نہیں اور جس کے بعض ظاہری پہلوؤں کی وجہ سے وہ خود اپنے بہترین عقیدت مند معترفین تک کے طعنے سنتے رہے۔

(اسٹوڈنٹس میگزین جوہر، اقبال نمبر، جامعہ ملیہ یونیورسٹی دہلی - ۱۹۳۸ء)


اقبال: عہد ساز شخصیت (انٹرویو)

(ماہنامہ سیارہ، لاہور کے اقبال نمبر میں علامہ مرحوم سے متعلق مولانا مودودی کا یہ معلومات افزا انٹرویو شائع ہوا)

سیارہ: مولانا! آپ نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ "اقبال میرا روحانی سہارا تھا۔" اس کے پس منظر میں کیا المیہ کارفرما ہے؟

مولانا: ڈاکٹر صاحب مرحوم نے مجھے پٹھان کوٹ میں آنے کو لکھا تھا اور مجھ سے وعدہ فرمایا تھا کہ اگر تم اس جگہ آ کر بیٹھ جاؤ، تو میں بھی سال میں چھ مہینے وہاں گزارا کروں گا۔ اس میں ایک ایسی جاذبیت تھی جس کی وجہ سے میں نے فوراً ہی اس تجویز کو قبول کر لیا اور حیدرآباد سے پٹھان کوٹ چلا آیا۔ مگر اس ساری داستان کا المیہ یہ ہے کہ مارچ میں میں پٹھان کوٹ منتقل ہوا اور اپریل میں ڈاکٹر صاحب کا انتقال ہو گیا۔ اُس وقت مجھ پر اس حادثے کا شدید اثر تھا، اسی احساس نے مجھے یہ الفاظ لکھنے پر مجبور کیا۔

سیارہ: مولانا! آپ کے اور علامہ اقبال کے درمیان جو مراسلت یا گفتگو ہوئی اسے اگر تفصیلاً بتا دیں تو مفید ہوگا۔

مولانا: وہ خطوط تو میرے پاس نہیں ہیں۔ لیکن دوسری تفصیلات بتائے دیتا ہوں۔

(مولانا نے اپنے مخصوص دھیمے دھیمے انداز میں یہ کہنا شروع کیا)

چودھری نیاز علی صاحب نے دین کی خدمت کے پیش نظر ایک ادارہ قائم کرنے کے لیے زمین وقف کی اور عمارات بنانی شروع کیں لیکن ان کے سامنے یہ متعین نہ تھا کہ ادارہ کس قسم کا ہو۔ انہوں نے مجھ سے مشورہ طلب کیا کہ کس قسم کا ادارہ قائم کیا جانا چاہیے۔ میں نے ایک خاکہ لکھ کر بھیجا جو ان خطوط پر تھا جو بعد میں نے دارالاسلام کے بارے میں شائع کیا۔

اسی دوران میں انہوں نے علامہ صاحب سے بھی رہنمائی کی غرض سے خط و کتابت کی۔ اس خط و کتابت کی تفصیلات مجھے معلوم نہیں ہیں۔ البتہ یہ مجھے چودھری نیاز علی صاحب سے معلوم ہوا کہ میری تجویز کردہ اسکیم انہوں نے علامہ مرحوم کو دکھائی تھی اور انہوں نے اسے پسند کیا تھا اور فرمایا تھا کہ اس وقت کرنے کے یہی کام ہیں۔ اس سلسلے کی ساری خط و کتابت چودھری نیاز علی صاحب کے پاس محفوظ ہے اور ان سے حاصل کی جا سکتی ہے۔ بلکہ... وہ غالباً ایک دفعہ شائع کر چکے ہیں۔ تقریباً ۱۹۳۶ء ہی کا زمانہ تھا جب پہلی مرتبہ علامہ صاحب نے مجھے نذیر نیازی صاحب یا میاں شفیع صاحب کے ہاتھ سے خط لکھوایا تھا کہ میں حیدرآباد چھوڑ کر پنجاب میں منتقل ہو جاؤں۔ مگر اس وقت میں نے اظہارِ معذرت کر دیا تھا، کیونکہ اس وقت میں حیدرآباد ہی میں رہنے کا خیال رکھتا تھا اور وہاں میں نے زمین بھی اس غرض سے خرید لی تھی کہ اس طرح کا ایک ادارہ قائم کروں گا جس کی تجویز انہوں نے کی تھی۔

سیارہ: علامہ صاحب نے آپ کو پنجاب آ جانے کے لیے کوئی خاص وجہ بھی لکھی تھی؟

مولانا: بس یہ خواہش ظاہر کی تھی کہ میں پنجاب چلا آؤں، زیادہ تفصیل نہیں لکھی تھی۔ اس وقت تو میں نہیں سمجھ سکا تھا کہ اس کی مصلحت کیا ہے، البتہ ۱۹۳۷ء کے وسط تک پہنچ کر مجھے یہ خود محسوس ہونے لگا تھا کہ جنوبی ہند کو چھوڑ کر مجھے شمالی ہند کی طرف رخ کرنا چاہیے۔ اسی زمانے میں چودھری نیاز علی صاحب نے اصرار کیا کہ میں پنجاب کا سفر کروں اور کم از کم ان کے اس مقام کو دیکھ لوں جو انہوں نے ایک ادارہ قائم کرنے کے لیے وقف کیا تھا۔ میں خود بھی ضرورت محسوس کر رہا تھا کہ شمالی ہند کا سفر کر کے کسی ایسی جگہ کا انتخاب کروں، جہاں اپنے عزائم کے مطابق مجھے کام کرنے کا موقع ملے۔ اسی خیال سے میں نے شاید اگست ۱۹۳۷ء کے آخر میں پنجاب کا سفر کیا اور جالندھر اور لاہور سے ہوتا ہوا پٹھان کوٹ پہنچا۔ اسی سفر میں علامہ اقبال مرحوم سے تفصیلی گفتگو ہوئی اور انہوں نے مجھ سے فرمایا کہ چودھری نیاز علی صاحب نے جو جگہ وقف کی ہے میں اسی کا انتخاب کروں اور وہ ادارہ قائم کروں جس کا خاکہ میں نے چودھری صاحب کے نام اپنے خط میں لکھا تھا۔

سیارہ: آپ کا شمالی ہند کو مرکز بنانے کا ارادہ کیوں ہوا؟

مولانا: میں نے یہ محسوس کیا کہ جنوبی ہند میں کام کرنے کے مواقع روز بروز کم ہوتے جا رہے ہیں اور جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے، ان کے مستقبل کا فیصلہ بڑی حد تک شمالی ہند میں ہوگا۔

سیارہ: آپ کی اور علامہ اقبال مرحوم کی تفصیلی گفتگو ہوئی، اس میں کون سے مسائل زیادہ زیر بحث رہے؟

مولانا: اس وقت جو گفتگو ہوئی، وہ یہی تھی کہ مسلمانوں کے لیے کس نوعیت کے تعمیری کام کی ضرورت ہے۔ اس معاملے میں میرے اور مرحوم کے خیالات قریب قریب یکساں تھے، اور کام کا وہی خاکہ ان کے پیش نظر تھا، جو میں نے پیش کیا۔ اسی کو عملی جامہ پہنانے کی تدابیر ہی ہم اس گفتگو میں سوچتے رہے، تفصیلات مجھے یاد نہیں رہیں۔

سیارہ: کیا اس وقت یہ چیز پیش نظر تھی کہ ہندوستان میں ایک اسلامی تحریک چلائی جائے؟

مولانا: اس وقت تحریک پیش نظر نہ تھی۔ اس وقت دو چیزیں پیش نظر تھیں۔ ایک یہ کہ علمی حیثیت سے ان گوشوں کو پُر کیا جائے جن کے خالی ہونے کی وجہ سے اسلامی نظام زندگی موجودہ زمانے کے لوگوں کو ناکافی اور ناقابل عمل نظر آ رہا ہے۔ دوسرے یہ کہ ایسے لوگ تیار کیے جائیں جو مسلمانوں کی فکری اور عملی رہنمائی کرنے کے قابل ہوں۔ ایک خاص اور جامع اسلامی تحریک کا تخیل اس وقت واضح طور پر سامنے نہیں تھا۔

سیارہ: علامہ اقبال اس وقت علمی میدان میں کون سے کاموں کو زیادہ اہمیت دیتے تھے؟

مولانا: زیادہ تفصیل یاد نہیں۔ اسلامی قانون اور فلسفہ کی تدوین ان کے پیش نظر تھی۔ اس وقت جو بات ہوئی یہی تھی۔

سیارہ: مولانا! سنا ہے کہ علامہ اقبال "ترجمان القرآن" کا خاص طور پر مطالعہ کیا کرتے تھے؟

مولانا: یہ مجھے بعد میں نذیر نیازی صاحب اور میاں شفیع صاحب سے معلوم ہوا کہ علامہ مرحوم "ترجمان القرآن" بڑے غور سے پڑھتے تھے اور "الجہاد فی الاسلام" پڑھوا کر سنی تھی اور بہت پسند کیا تھا۔

سیارہ: مولانا! اسلامی نقطہ نظر سے اقبال کو کونسی چیز عظمت بخشتی ہے؟

مولانا: اس وقت حقیقت میں ایک ایسے انسان کی ضرورت تھی جو مغربی تعلیم پر فخر کرنے والے عام لوگوں سے زیادہ تعلیم پایا ہوا ہو، اور ان سے بڑھ کر ہی مغربی علوم پر نگاہ رکھتا ہو۔ اور پھر وہ اس پرزور طریقے سے اسلامی نظریات کی تائید کرے کہ مغرب زدہ لوگ اس کے سامنے بولنے کی ہمت نہ کر سکیں۔ علامہ اقبال کا اصل Contribution یہ ہے کہ اس وقت جو مغربی علوم و فنون کا رعب تھا اور ایک عام تصور تھا کہ اسلام اس زمانے میں نہیں چل سکتا، مغربی تہذیب سے Compromise کرنا ضروری ہے اور اسلامی نظریات کو مغربی نظریات میں ڈھالا جائے، اس تصور کو اقبال نے توڑا۔ اس لحاظ سے اس وقت اسلامی تحریک کے لیے اقبال کی شخصیت اہم سہارا تھی۔ ضروری نہیں ہے کہ کوئی شخص ان کی تمام آراء سے اتفاق کرے لیکن بحیثیت مجموعی انہوں نے جو خدمت سرانجام دی، وہ بہت اہم اور قابل قدر ہے۔

سیارہ: مولانا! اقبال کی عملی زندگی، ان کے آئیڈیل کے مطابق نہ تھی؟

مولانا: آپ ان کی خوبیوں کو Example بنانے کی کوشش کریں اور ان کی عملی کمزوریوں سے صرف نظر کریں۔

سیارہ: مولانا! بعض اوقات اقبال کے کئی نظریات الجھے ہوئے محسوس ہوتے ہیں؟

مولانا: بھئی، ایک شاعر کو غیر شاعر کی حیثیت سے دیکھنا، اس پر سب سے بڑا ظلم ہے۔ علامہ اقبال مرحوم کو بھی اس نگاہ سے دیکھنا ظلم ہی ہوگا۔ آپ ان کی خوبیوں کو پیش نظر رکھیں جو آپ اور پوری قوم کے لیے مفید ہیں۔

(ماہنامہ سیارہ، اقبال نمبر، مئی ۱۹۶۳ء)


سرودِ رفتہ (انٹرویو)

(درج ذیل انٹرویو محترم نعیم صدیقی صاحب نے ماہنامہ سیارہ (لاہور) کے لیے مولانا سے حاصل کیا جو فروری-مارچ ۱۹۷۸ء کی اشاعت میں شائع ہوا۔)

نعیم صدیقی: آپ کے مطالعہ اقبال کا کہیں تذکرہ پڑھا۔ بات کچھ اور انداز سے ہے۔

مولانا مودودی: ہاں وہ کسی طرح آ گئی ہے۔ مجھے کچھ علم نہیں۔ اسے پڑھ کر دو ایک پہلوؤں سے غلط تاثرات پیدا ہوتے ہیں۔

نعیم صدیقی: مثبت طور پر میں جاننا چاہتا ہوں کہ آپ کے دائرہ مطالعہ میں اقبال کی نگارشات تھیں یا نہیں۔

مولانا مودودی: یقیناً! اقبال کی بعض نظمیں بچپن میں یاد کی ہوئی تھیں۔ بہت سی چیزیں خود والد مرحوم نے یاد کرائی تھیں۔ ان میں مسدس حالی بھی شامل تھی۔ والد مرحوم دہلی کالج میں حالی کے شاگرد بھی رہے تھے۔ آہستہ آہستہ اقبال کی شاعری اور خیالات سے مناسبت پیدا ہوتی گئی۔

نعیم صدیقی: علامہ اقبال سے تعلقات کا کس طرح نشوونما ہوا؟

مولانا مودودی: ایک دن علامہ کا خط یکایک حیدرآباد میں موصول ہوا۔ اس میں لکھا تھا کہ تم پنجاب منتقل ہو جاؤ، کیونکہ جنوبی ہند آنے والے حالات کے لحاظ سے ایک محفوظ علاقہ نہیں ہے۔ جو کام تم کر رہے ہو اس کے لیے پنجاب میں میدان ہے۔ اس خط کو پڑھ کر مجھے یہ اندازہ ہوا کہ علامہ اقبال مجھے جانتے ہیں۔

نعیم صدیقی: قطع کلام معاف! اس سے علامہ کی نگاہِ دور بین کی رسائی کا اندازہ ہوتا ہے۔ نہ صرف ملک کی تقسیم کے امکان پر ان کی نظر تھی، بلکہ اس سے پیدا ہونے والے محشر آفریں حوادث کا بھی اندازہ تھا۔ وہ ۱۹۳۷ء میں ۱۹۴۷ء کے خونی مناظر کو دیکھ رہے تھے۔ خیر تو آپ کچھ فرما رہے تھے۔

مولانا مودودی: میں نے سوچا کہ جہاں مسجد شہید گنج کا ایجی ٹیشن چل رہا ہے، کچھ لوگ روپوش ہونے کی سوچ رہے ہیں، وہاں جا کر میرے جیسا آدمی کیا کر سکے گا۔ چنانچہ میں نے علامہ مرحوم کو لکھا کہ مجھے آپ کی اس رائے سے اتفاق نہیں کہ جنوبی ہند کام کرنے کے لیے موزوں علاقہ نہیں ہے۔ پھر میں ۱۹۳۷ء میں دہلی گیا اور اس خیال میں تھا کہ سوچ سمجھ کر رائے قائم کروں کہ کس جگہ اپنا مستقر بنایا جائے۔

نعیم صدیقی: آپ کے جوابی خط کے بعد کوئی اور خط بھی ڈاکٹر صاحب نے لکھا؟

مولانا مودودی: ہاں آنے سے قبل بھی دو تین خط ملے، اور بعد میں بھی۔

نعیم صدیقی: نہایت قیمتی اور اہم خطوط تھے؟

مولانا مودودی: بدقسمتی سے پٹھان کوٹ سے جس عالم میں ہجرت کرنی پڑی اس کی وجہ سے کتابوں اور دوسرے کاغذات کے علاوہ میرے جمع شدہ خطوط کا قیمتی ذخیرہ بھی ضائع ہو گیا۔ متعدد شخصیتوں کے اہم خطوط میرے پاس تھے۔ ایک بھی نہیں بچا۔

نعیم صدیقی: آپ فرما رہے تھے کہ مستقر طے کرنے کا معاملہ آپ کے زیر غور تھا۔

مولانا مودودی: جی ہاں۔ اسی زمانے میں چودھری نیاز علی خاں جو دہلی آئے تھے، وہ بھی مجھ سے ملے۔ وہ میرے پنجاب منتقل ہونے کے لیے اصرار کرتے رہے۔ مرحوم کا تقاضا یہ تھا کہ چل کے اس تیاری کو دیکھ تو لیجیے جو ہم کر رہے ہیں۔ اس خیال سے کہ اس جگہ کو بھی دیکھ لوں اور علامہ اقبال سے بھی مل لوں، میں نے سفر پنجاب کا فیصلہ کر لیا۔ شرقی صاحب نے جالندھر میں ٹھہرنے کے لیے اصرار کیا۔ وہیں پہلی بار میری ملاقات علامہ علاء الدین صدیقی مرحوم سے ہوئی۔ جالندھر سے لاہور آ کر میں اقبال سے ملا۔ کچھ دیر گفتگو ہوئی۔ بطور خلاصہ یہ بات مجھے یاد ہے کہ علامہ کا مجوزہ پروگرام یہ تھا کہ اسلامی فقہ کو نئے سرے سے مرتب کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اگر اس کام کے لیے تم تیار ہو جاؤ تو میں ہر سال چھ ماہ یہاں آیا کروں گا اور مل کر کام کریں گے۔ میں نے کہا کہ میری اس سے زیادہ کیا خوش قسمتی ہو گی کہ آپ کے ساتھ کام کروں۔ یہ میرے لیے اتنی بڑی کشش (Attraction) تھی کہ میں نے حیدرآباد سے پنجاب منتقل ہونے کی تیاری شروع کر دی۔ مارچ ۳۸ء میں منتقل ہوا اور ابھی سامان رکھوا ہی رہا تھا (جس سے فارغ ہوتے ہی علامہ سے ملاقات کے لیے لاہور جانا تھا) کہ ۱۹ اپریل ۱۹۳۸ء میں ان کا انتقال ہو گیا۔

نعیم صدیقی: کیا آپ اقبال کو سمجھنے کے لیے اس کی کسی خاص تحریر یا کتاب کو خصوصی اہمیت دے کر اس کی سفارش کریں گے؟

مولانا مودودی: مشکل یہ ہے کہ اقبال کے یہاں خیالات میں مسلسل ارتقاء پایا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اپنی مشہور کتاب "Reconstruction of Religious Thought in Islam" میں وہ ترکی انقلاب اور مصطفیٰ کمال کی شخصیت کو بڑا مثالی تصور کرتے ہیں اور خوب تائید کرتے ہیں مگر بعد میں جب الحاد کا تفصیلی نقشہ سامنے آتا ہے تو ان کی رائے بالکل بدل جاتی ہے۔ اقبال کے اصل میں تین دَور ہیں۔ آخری اور تیسرے دور میں آ کر ان کے ذہن اور دل پورے کے پورے مسلمان ہو گئے۔ وہ زمانہ ایسا تھا کہ ہندوستان بھر کے مسلمانوں کے اندر الحاد اور مغربی تہذیب سے مرعوبیت پھیلی ہوئی تھی، اور فخریہ اسلام کا مذاق اڑایا جاتا تھا۔ اس زمانے میں اتنی بڑی شخصیت کا مغربی تہذیب کے محاذ سے اسلام کی علمبرداری کے لیے اٹھ کھڑے ہونا بہت اثر انداز ہوا۔ اس دور کے لحاظ سے جتنا مطالعہ ان کا جدید فلسفہ و سائنس کا تھا، اس کا اثر نہ صرف یہاں کے جدید تعلیم یافتہ طبقے پر پڑا بلکہ مغربی فلسفی بھی ان کے نقطہ نظر کی طرف توجہ کرنے پر مجبور ہو گئے۔ کیونکہ اقبال انہی کے علوم سے آراستہ ہو کر ایک نئی راہِ فکر پیش کر رہے تھے۔

نعیم صدیقی: میں نے تمہیدی گفتگو میں مولانا ابو الکلام آزاد کا مطالعہ کرنے کے متعلق سرسری طور پر ایک ضمنی سی بات چھیڑی تھی۔ اس کے متعلق کچھ کہنا پسند کریں گے۔

مولانا مودودی: "الہلال" والے ابو الکلام کے متعلق میرا تاثر اس وقت (قریباً ۱۵ سال کی عمر میں) اسلام کو پوری طرح سمجھ نہ سکنے کی وجہ سے یہ تھا کہ ان سے زیادہ دین کی سمجھ رکھنے والا کوئی نہیں۔ یہ ذکر ہے "الہلال"، "البلاغ" اور "تذکرہ" والے مولانا آزاد کا۔ بعد میں ان کو اچھی طرح پڑھنے کے بعد اندازہ ہوا کہ مولانا کے یہاں بہت سے خلا ہیں اور بہت سی چیزیں اسلامی نظریے کے ساتھ گڈمڈ ہو گئی ہیں۔ بعد میں تمام تر توجہ مولانا محمد علی جوہر مرحوم کی طرف ہو گئی۔ وہ جب بھی ملتے بڑی محبت کرتے تھے اور بڑی توجہ سے بات کرتے تھے۔ میری پہلی ملاقات مولانا محمد علی سے بھوپال میں ہوئی۔ ان کے آخری سفر یورپ کی تقریر اپنے مقصد و مدعا اور پرزور اندازِ بیان کے لحاظ سے منفرد ہے۔ لیکن اس میں یہ بھرپور جذبہ کہ "میں غلام ہندوستان میں زندہ واپس نہیں جانا چاہتا بلکہ انگریز قوم کو میری قبر کے لیے دو گز زمین بھی یہیں دینی ہوگی،" کتابِ تاریخ کا ایک ناقابلِ فراموش باب ہے۔

نعیم صدیقی: اور مولانا ظفر علی خاں؟

مولانا مودودی: مولانا ظفر علی خاں بہت قادر الکلام تھے۔ ان کی قادرالکلامی کا اثر مجھ پر بہت تھا۔ ہاں، ایک اور دلچسپ بات!... (اچانک ایک صاحب کمرے میں داخل ہوئے۔ انہوں نے کوئی بات کی اور پھر ٹوٹا ہوا سلسلہ جڑا) ... ہاں وہ دلچسپ بات ایک صاحب کی بیان کردہ یہ روایت ہے کہ مولانا ابوالکلام آزاد کے سامنے میرا ذکر چھڑا تو فرمانے لگے "یہ کبھی ہمارا ارادہ تھا اس کام کے کرنے کا، مگر ہم کسی اور طرف چلے گئے، اور وہ اس کو لے کے اسی کے ہو رہے۔" یہ میں نہیں کہہ سکتا کہ یہ روایت کہاں تک صحیح ہے۔


شذرات

اقبال کا نظریہ آرٹ

آرٹ سے مقصود کیا ہے؟ اس کے متعلق دورِ حاضر کے سب سے بڑے باریک بین مبصر علامہ اقبال کی رائے قابلِ غور ہے۔ انہوں نے رسالہ "نیو ایرا" (New Era) میں تحریر فرمایا ہے کہ:

"حیات، تمام انسانی اعمال کا منتہائے مقصود ہے۔ انسانی اعمال کا مقصد صرف یہ ہے کہ اس کی زندگی شاندار، موثر اور افزوں ہو جائے۔ اس لیے ضروری ہے کہ جملہ انسانی آرٹ کو اس مقصدِ عظمیٰ کے ماتحت رکھا جائے اور جو شے زندگی کو جس قدر فراوانی عطا کرے اسی قدر اعلیٰ اور اشرف خیال کی جائے۔ بلند ترین آرٹ وہ ہے جو ہمارے اندر خفتہ قوتِ ارادی کو بیدار کرے تاکہ ہم زندگی کی مشکلات کا کامیابی کے ساتھ مقابلہ کر سکیں۔ وہ تمام علوم و فنون جو خواب آور ہیں، جو ہمیں گرد و پیش کے ان حقائق سے غافل کر دیں جن کی معرفت ہی پر زندگی کا انحصار ہے، وہ دراصل بربادی کا، موت کا پیغام ہیں۔ آرٹ وہ ہے جو ہمارے اندر بیداری کی روح پھونک دے، نہ کہ وہ جو ہم پر عالی شکر طاری کرے۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ آرٹ کا منتہائے مقصود خود آرٹ ہے، وہ نادانستہ طور پر تمہیں گمراہ کرنے اور ہماری زندگی و توانائی کو فنا کر دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ لہٰذا ہم پر ضروری ہے کہ ہم ایسے نادان دوستوں سے ہوشیار رہیں۔"

اسی نظریے کو وہ "ضربِ کلیم" میں ان اشعار میں بیان فرماتے ہیں:

اے اہل نظر ذوق نظر خوب ہے لیکن
جو شے کی حقیقت کو نہ دیکھے وہ نظر کیا

مقصودِ ہنر سوزِ حیات ابدی ہے
یہ ایک نفس یا دو نفس مثلِ شرر کیا

جس سے دلِ دریا متلاطم نہیں ہوتا
اے قطرۂ نیساں وہ صدف کیا وہ گہر کیا

شاعر کی نوا ہو کہ مغنی کا نفس ہو
جس سے چمن افسردہ ہو وہ بادِ سحر کیا

بے معجزہ دنیا میں ابھرتی نہیں قومیں
جو ضربِ کلیمی نہیں رکھتا وہ ہنر کیا

پہلے اور دوسرے نظریہ کا فرق دیکھیے۔ ایک طرف حقائق کی جستجو کرنے والوں نے اقبال کے کلام سے نئی زندگیوں کی تعمیر کر لی ہے اور دوسری طرف آگرہ اور لکھنؤ میں ابھی تک اسی الجھن میں گرفتار ہیں کہ اقبال نے بلبل کو مذکر باندھا ہے یا مونث؟ اور نہ معلوم ابھی کب تک اس تحقیقِ عظیم کا سلسلہ جاری رہے گا کہ بلبل فی الواقع مونث ہے یا مذکر؟

(رسالہ ایمان، پٹی، ضلع لاہور، ۱۵ اپریل ۱۹۴۰ء)

اقبال سے دو ملاقاتیں

علامہ اقبال مرحوم سے میری کل دو ہی ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ ایک اس زمانے میں جب مدراس سے پلٹتے ہوئے انہوں نے حیدرآباد میں اپنے مشہور چھ خطبات سنائے تھے۔ دوسری ۱۹۳۷ء کے آخر میں، جب اُن کے ارشاد پر میں نے پنجاب منتقل ہو جانے کا فیصلہ کیا۔ ان دونوں ملاقاتوں کا کوئی خاص تاثر اس مجموعی تاثر سے الگ اور مختلف نہ تھا جو میں پہلے ہی ان کے علم و فضل، ان کے تفکر اور ان کی خدمتِ اسلام کے بارے میں رکھتا تھا اور آج بھی رکھتا ہوں۔

فکرِ اقبال کا مستقبل

کسی معاشرے میں کسی فکر کے مستقبل کا انحصار دو چیزوں پر ہوتا ہے۔ ایک یہ کہ وہ فکر بجائے خود دلوں اور دماغوں کو اپیل کرنے کی کتنی طاقت رکھتی ہے۔ دوسرے یہ کہ معاشرے میں ذہنی، اخلاقی اور علمی حیثیت سے کتنی قوتیں اس فکر کی تائید کرنے والی موجود ہیں۔ فکرِ اقبال کے معاملے میں پہلی چیز کے لحاظ سے تو کمی نہیں ہے مگر دوسری چیز کی بڑی کمی ہے اور یہ کمی روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ اس لیے یہ کہنا تو مشکل ہے کہ یہاں اس کا کوئی مستقبل نہیں ہے، مگر یہ کہنا بھی آسان نہیں ہے کہ بڑا شاندار مستقبل ہے۔

فلسفۂ خودی

خودی سے مراد عرفانِ نفس ہے۔ دنیا و آخرت میں انسان کی فلاح و کامرانی کا سارا انحصار خود شناسی و خدا شناسی پر ہے اور خدا شناسی بھی خود شناسی کے بغیر ممکن نہیں۔ اس کے برعکس خود فراموشی و خدا فراموشی ہی تمام برائیوں کی جڑ ہے اور خدا فراموشی میں بھی انسان خود فراموشی ہی کی وجہ سے مبتلا ہوتا ہے۔

چھ خطبات

یہ خطبات ایک ایسے زمانے میں تحریر کیے گئے تھے جبکہ اسلامی فکر و نظر اور دستورِ حیات پر مغرب کی یلغار نے دنیائے اسلام میں بڑی انقلاب انگیز شکل اختیار کر لی تھی اور اس پر ایک ہلچل برپا تھی۔ اس وقت جو ابتدائی کوششیں اسلامی عقیدے اور نظامِ فکر و عمل کو از سرِ نو مرتب کرنے کے لیے کی گئیں، ان میں علامہ مرحوم کے ان خطبات کا بڑا اہم مقام ہے لیکن یہ کہنا صحیح نہ ہوگا کہ یہ ترتیبِ جدید بالکلیہ درست تھی۔ اس میں وقت کے حالات کا اثر بھی پایا جاتا ہے اور بعض مسائل کے بیان میں بھی خامیاں ہیں۔ اس لیے اگر کوئی اسے فکرِ اسلامی کی ترتیبِ نو کے معاملے میں حرفِ آخر کہے تو غلط ہو گا۔ البتہ اس طرزِ خاص کے لٹریچر میں مقدمۃ الجیش کی حیثیت سے اس کی قدر ناقابلِ انکار ہے۔

(ماخوذ از مکاتیب سید ابوالاعلیٰ مودودی، حصہ اول، ص ۱۵۴، ۱۵۵)

ابلیس کی مجلسِ شوریٰ

اقبال کی نظم "ابلیس کی مجلسِ شوریٰ" جس طرح مسلمانوں کو ایک انوکھے انداز میں ان کی غفلتوں اور گمراہیوں پر تنقید کرتی ہے، اسی طرح عام انسانوں کو بھی یہ بتاتی ہے کہ جن فتنوں کو وہ اپنے لیے حقیر سمجھ رہے ہیں، ان میں سے ہر ایک کی تہہ میں انسان کی بربادی کا سامان چھپا ہوا ہے اور اصلی فلاح کسی اور چیز میں ہے جس سے ابلیس کانپ رہا ہے اور ہر ممکن طریقے سے کوشش کر رہا ہے کہ نوعِ انسانی کہیں اس آبِ حیات کا پتا نہ پا سکے۔ اس لحاظ سے اس نظم کا مسلمانوں تک پہنچنا جس قدر ضروری ہے، اسی قدر خصوصیت کے ساتھ ان مغربی اقوام تک اس کا پہنچنا اور بھی ضروری ہے، جو آج کل ابلیس کے مشن کی علمبردار بنی ہوئی ہیں۔

(ماہنامہ ترجمان القرآن، لاہور)

فقر کا مفہوم

سوال: علامہ اقبال مرحوم نے اپنے کلام میں "فقر" کا لفظ کثرت سے استعمال کیا ہے۔ میں اس موضوع پر ان کے اشعار جمع کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ آپ کے نزدیک فقر سے کیا مراد ہے؟

جواب: "فقر" کے لغوی معنی تو احتیاج کے ہیں۔ لیکن اہلِ معرفت کے نزدیک اس سے مراد مفلسی اور خانہ بدوشی نہیں ہیں، بلکہ خدا کے سوا ہر ایک سے بے نیازی ہے۔ جو شخص اپنی حاجت مندی کو غیر اللہ کے سامنے پیش کرے اور جسے غناء کی حرص دوسروں کے آگے سر جھکانے اور ہاتھ پھیلانے پر آمادہ کرے، وہ لغوی حیثیت سے فقیر ہو سکتا ہے مگر نگاہِ عارف میں دریوزہ گر ہے، فقیر نہیں ہے۔ حقیقی فقیر وہ ہے جس کا اعتماد ہر حالت میں اللہ پر ہو، جو مخلوق کے مقابلے میں خوددار اور خالق کے آگے بندہ عاجز ہو۔ خالق جو کچھ بھی دے، خواہ وہ کم ہو یا زیادہ، اس پر قانع و شاکر رہے اور مخلوق کی دولت و جاہ کو نگاہ بھر کر بھی نہ دیکھے۔ وہ اللہ کا فقیر ہوتا ہے نہ کہ بندوں کا۔

(ترجمان القرآن، لاہور، اپریل ۱۹۷۷ء)


مولانا ابوالکلام آزاد

(محترم مولانا مودودی کا برسوں یہ معمول رہا کہ وہ عصر سے مغرب تک عام ملاقات کے لیے باہر بیٹھتے اور ملاقات کی غرض سے آنے والے حضرات کے مختلف سوالات کے جوابات بھی دیتے۔ اس عصری نشست کے موقع پر ایک دفعہ ایک صاحب نے مولانا ابوالکلام آزاد مرحوم کے بارے میں مولانا سے استفسار کیا، سائل کا سوال اور مولانا کا جواب درج ذیل ہے۔ - مرتب)

سوال: مولانا! مجھے ایک سوال مولانا ابوالکلام آزاد مرحوم کے بارے میں دریافت کرنا ہے۔ یہ کہ جب ۱۹۴۱ء میں جماعت اسلامی کا قیام عمل میں آیا تو مولانا آزاد مرحوم کن خطوط پر کام کر رہے تھے؟

مولانا نے فرمایا: وہ انڈین نیشنل کانگرس سے وابستہ تھے اور برسوں سے اس کے پروگرام کے مطابق کام کر رہے تھے۔ کانگریس میں وہ ایک نمایاں مقام رکھتے تھے۔

ان صاحب نے کہا: اس صورت میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا مولانا ابوالکلام آزاد مرحوم نے بھی جماعت اسلامی کی اس طرح مخالفت کی جس نوع کی مخالفت کا آج کل مظاہرہ کیا جاتا ہے؟

مولانا نے دھیمے اور ٹھہرے ہوئے لہجے میں فرمایا: مولانا آزاد ایک شریف النفس اور وسیع الظرف انسان تھے۔ وہ ان حضرات میں سے تھے جو گالیاں سنتے تو ہیں لیکن کبھی کوئی ان کی زبان سے کسی کے لیے گالی نہیں سنتا۔

(ماخوذ از ۵-اے، ذیلدار پارک)


قائد اعظم محمد علی جناح

(1)

(قائد اعظم کو یہ خراجِ عقیدت مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے ستمبر ۱۹۴۸ء میں پیش کیا تھا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مولانا مودودی کے دل میں قائد اعظم کا کیا مقام ہے۔)

اس مہینے مسلمانوں کو دو ایسے زبردست حادثے پیش آئے جنہوں نے ان کی قومی زندگی پر نہایت گہرا اثر ڈالا ہے اور عظیم رنج پہنچایا ہے، اس لیے ہم ان حوادث پر اور ان کے اثرات و نتائج پر اور ان سے عہدہ برآ ہونے کی صورت پر کچھ گفتگو کریں گے۔

پہلا حادثہ بانیِ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم کی وفات کا ہے۔ ان کی شخصیت پچھلے دس بارہ سال سے مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کا مرکز و محور بنی ہوئی تھی۔ ساری قوم ان پر مجتمع تھی۔ ان کی رہنمائی پر سب کو بھروسہ تھا۔ انہی کے ذاتی اثر و رسوخ نے تمام منتشر عناصر کو سمیٹ کر مسلمانوں کو ایک متحدہ قوم بنایا تھا۔ انہی کے اعتماد پر قوم نے اپنی پوری طاقت اس جدوجہد میں لگا دی تھی جس کے نتیجے میں آخرکار پاکستان قائم ہوا اور قیامِ پاکستان کے بعد اس مملکت کی عمارت جس مضبوط ستون کے سہارے پر تعمیر ہوئی تھی وہ بھی انہی کی جامع اور معتمد علیہ شخصیت تھی۔ ان کے بعد کوئی دوسرا شخص بلکہ کوئی پورا گروہ بھی ہمارے درمیان ایسا موجود نہیں ہے جس سے لوگوں کو محبت ہو، جس کا احترام دلوں میں جاگزیں ہو، جس کے اخلاص اور تدبیر اور عزم و ہمت پر سب کو اعتماد ہو، جس کی آرزو پر تمام قوتیں حرکت میں آ جائیں اور جس کی مقناطیسی کشش ہمارے شیرازہ قومی کے مائلِ انتشار اجزاء کو باہم پیوست رکھ سکے۔ صرف ملک کے اندر ہی نہیں، باہر بھی پاکستان کی جو کچھ ساکھ اور دھاک تھی وہ زیادہ تر اسی آزمودہ کار مدبر کی بدولت تھی۔ کوئی دوسری شخصیت ہمارے ہاں ایسی نہیں ہے کہ اس کے وقار اور تدبر کو بین الاقوامی برادری میں اس درجہ بھروسے اور اعتبار کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہو۔ دنیا کے لیے تو مرحوم کی وفات محض ایک بڑے انسان اور مشہور رہنما کی رحلت ہی ہے، مگر ہمارے لیے یہ ایک بہت بڑی قومی مصیبت ہے، کیونکہ اس سے ہماری نوخیز مملکت کی طاقت اور ہماری قومی زندگی کو ایسا نقصان پہنچا ہے جس کی تلافی مشکل نظر آتی ہے، الا یہ کہ اللہ تعالیٰ ہی رحم فرمائے اور ہماری مدد کرے۔

بے وقت موت ایک ملحدانہ اصطلاح ہے۔ مسلمان کے نزدیک ہر موت ٹھیک اپنے وقت پر ہوتی ہے اور خدا اس کا وقت کسی مشورے سے نہیں بلکہ اپنی حکمت اور مصلحت کے لحاظ سے مقرر کرتا ہے۔ ایک موت ہی پر کیا موقوف ہے، خدا کی اس خدائی میں جو کچھ بھی ہوتا ہے، عین اپنے مناسب وقت پر ہوتا ہے اور اس وقت پر اس کے صدور میں وہ مصلحتیں ہوتی ہیں جن کو ہم نہیں سمجھ سکتے۔ البتہ جو بات ہم یقین کے ساتھ جانتے ہیں، وہ یہ ہے کہ موت و حیات کا یہ سارا ہنگامہ ہماری آزمائش کے لیے ہے۔ "خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا"۔ دنیا کا ہر حادثہ اور ہر واقعہ اپنے اندر خیر کا پہلو بھی رکھتا ہے اور شر کا پہلو بھی۔ انسان کی آزمائش اس میں ہے کہ وہ اس کی جانبِ خیر کو جذب کرتا ہے یا جانبِ شر کو۔ انفرادی حوادث میں افراد کی آزمائش ہوتی ہے اور قومی حوادث میں قوم کی۔ جس شخص یا گروہ کا مزاج صالح ہوتا ہے وہ ہر تلخ و شیریں چیز اور ہر مرغوب و نامرغوب واقعے سے اس کی بھلائیوں کو اخذ کرتا ہے اور اس کی برائیوں سے بچ نکلتا ہے۔ اس کے برعکس جس کے مزاج پر فساد کا غلبہ ہوتا ہے اس کو تلخی و شیرینی، راحت اور مصیبت، کامیابی و ناکامی، خوش حالی اور بدحالی، ہر چیز میں شر ہی کے پہلو نظر آتے ہیں اور ظاہری خیر کو بھی وہ اپنے لیے شر میں تبدیل کر لیتا ہے۔ پس درحقیقت ہماری قوم اس وقت آزمائش میں ڈالی گئی ہے۔ اس کو یہ امتحان درپیش ہے کہ وہ اس حادثہ عظیم کو اپنے حق میں وسیلہ خیر بناتی ہے یا وسیلہ شر۔ اگرچہ دعا یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کے نقصانات سے بچائے مگر دعا کے ساتھ خود ہماری اپنی کوشش بھی شرط ہے۔ خدا ہر ایک کو وہی کچھ دیتا ہے جس کے لیے اس نے سعی کی ہو اور جسے اخذ کرنے کی صلاحیت و استعداد وہ اپنے اندر رکھتا ہو۔

قائد اعظم کی وفات میں شر کے پہلو تو بے شمار ہیں جنہیں ہم میں سے ہر ایک چھوٹا اور بڑا اپنے اپنے تخیل کے مطابق محسوس کر رہا ہے۔ مگر اس مصیبت سے جو بھلائیاں ہم جذب کر سکتے ہیں ان کی طرف کم لوگوں کی توجہ منعطف ہوتی ہے۔

اولین چیز جسے ہم مسلمان خوب ذہن نشین کر لیں، وہ یہ ہے کہ ان کے بھروسے اور اعتماد اور تفویض و توکل کا اصل مرکز کوئی دنیوی طاقت نہیں ہونی چاہیے، بلکہ صرف خدائے برتر کی ذات ہونی چاہیے۔ اشخاص اور افراد ہوں یا قومی ذرائع و وسائل، بہرحال فنا پذیر ہیں۔ سب پر زوال آ سکتا ہے اور اپنے وقت پر آتا ہے۔ جو قوم اس قسم کے سہاروں پر جیے گی اس کی اپنی زندگی بھی اتنی ہی ناپائیدار ہوگی جتنے اس کے سہارے ناپائیدار ہوں گے۔ ہماری قومی زندگی کے لیے اگر کوئی مستقل امن اور دوام کی بنیاد ہو سکتی ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ ہم اس خدائے غیر فانی اور لازوال سے اپنا تعلق مضبوط کریں جو غیر فانی اور لازوال ہے۔ یہی وہ حقیقت ہے جو حضرت ابوبکر صدیقؓ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر اپنے مشہور خطبے میں مسلمانوں کو یاد دلائی تھی کہ:

مَنْ كَانَ يَعْبُدُ مُحَمَّدًا فَإِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ مَاتَ، وَمَنْ كَانَ يَعْبُدُ اللهَ فَإِنَّ اللهَ حَيٌّ لَا يَمُوتُ۔

(یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم جس کے معبود تھے، اس کا دل تو واقعی ٹوٹ جانا چاہیے، کیونکہ اس کا بھروسہ ایک فانی معبود پر تھا جو دنیا سے رخصت ہو گیا، مگر جس کا معبود خدا تھا اس کا دل ٹوٹنے کی کوئی وجہ نہیں، کیونکہ خدا زندہ ہے اور وہ بہرحال کبھی مرنے والا نہیں ہے)۔

تعلق باللہ کے بعد دوسری چیز جو ہماری قومی زندگی کے قیام و استحکام اور ترقی و سربلندی کے لیے مضبوط سہارا بن سکتی ہے، وہ اونچے نصب العین کی محبت، ایک پاکیزہ مقصدِ حیات کا عشق اور ایک اصولی نظام سے قلبی اور عملی وابستگی ہے۔ اشخاص و افراد بلاشبہ اجتماعی زندگی میں اپنی ایک فطری اہمیت رکھتے ہیں۔ پراگندہ قوموں کو جوڑ کر متحد کرنے اور انہیں پستی سے اٹھا کر ترقی کی راہ پر لگانے میں کچھ طاقتور شخصیتیں ہی اول اول کام کرتی ہیں مگر جو قوم محض کسی شخصیت کے بل پر اٹھتی ہے، وہ اس شخصیت کے ہٹتے ہی گر بھی جاتی ہے۔ اس کے قیام کو دوام اور اس کے ارتقاء کو استمرار اگر کوئی چیز بخش سکتی ہے، تو وہ صرف یہ ہے کہ اس شخصیت کے سہارے اٹھنے کے بعد وہ کوئی ایسا نصب العین پا لے جس کی کشش اسے ہمیشہ کھینچتی رہے، کوئی ایسا مقصدِ حیات پا لے جس کے عشق میں وہ ہمیشہ سرگرمِ عمل رہے اور کچھ ایسے اصول پا لے جن کی بنیاد پر وہ اپنی حیاتِ قومی کی عمارت مستحکم کر سکے۔ شخصیتیں بہرحال فانی ہوتی ہیں۔ ان کے بل پر قوم تو اٹھ سکتی ہے مگر قائم نہیں رہ سکتی۔ قائم رہنے کے لیے اسے ان چیزوں کی ضرورت ہے جن کی عمر اشخاص و افراد کی عمر سے زیادہ ہو، جو مردانِ کار کی موت کے ساتھ مر نہ جائیں، بلکہ نسل پر نسل ان سے گرمیِ حرکت اور طاقت پاتی چلی جائے۔

یہی بات تھی جو جنگِ احد کے موقع پر قرآن مجید میں فرمائی گئی تھی کہ:

وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ ۚ أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَىٰ أَعْقَابِكُمْ

(محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو ایک پیغام بر کے سوا کچھ نہیں ہیں۔ ان سے پہلے بھی بہت سے پیغام بر آ کر جا چکے ہیں۔ اگر وہ وفات پا جائیں یا شہید کر دیے جائیں تو کیا تم اپنی سابقہ جاہلیت پر پلٹ جاؤ گے؟)

یعنی اگر تمہیں محض شخصیتِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے وابستگی ہے تو تمہارا یہ بھروسہ وقتی اور عارضی ہے۔ ان کے ہٹتے ہی تم پھر پراگندہ ہو جاؤ گے اور اسی جاہلیت میں مبتلا ہو جاؤ گے جس سے نکل کر آئے تھے، لیکن اگر اس شخصیت کے ذریعے سے تم نے ایک نصب العین، ایک مقصدِ حیات اور ایک نظامِ زندگی پا لیا ہے، تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ تمہارا ثبات و قیام اس ذریعے کی موجودگی پر ہی منحصر رہے۔ تمہیں اس کے ہٹ جانے پر بھی تم اپنے اسی مقصد کے لیے جیو گے، اسی نصب العین کے لیے کام کرتے رہو گے اور اسی نظام سے وابستہ رہو گے۔

قائد اعظم کی وفات کے بعد ہمارے لیے اب یہ سوال پہلے سے بھی بدرجہا اہم ہو گیا ہے کہ آیا ہم کوئی ایسا مرکزی تخیل رکھتے ہیں جو ہم مختلف عناصر کے جداگانہ تخیلات پر غالب آ گیا ہو اور ان سب کو اپنی مقناطیسیت سے جوڑ کر ایک وحدت بنا سکتا ہے؟ آیا ہم کوئی ایسا اجتماعی مقصد رکھتے ہیں جو افراد اور قبائل اور خاندانوں اور طبقوں کے جداگانہ مقاصد کو کھا جائے اور یہ سب اس ایک بڑے مقصد کی خدمت میں اپنا تن من دھن سب کچھ لگا دیں؟ آیا ہم کچھ ایسی قدریں رکھتے ہیں جن کی لگن اور طلب ہمارے بچے بچے کے دل میں پیدا ہو چکی ہو، اور وہ ان کے حفظ و بقا اور نشوونما و ارتقاء کو اپنے نفس اور اس کی دلچسپیوں اور خواہشوں سے عزیز تر سمجھتا ہو؟ آیا ہم کچھ ایسے اصول رکھتے ہیں جن کی اتباع سے ہم اپنی حیاتِ قومی کو عدل و انصاف، تعاون و تناصح، امن و اطمینان اور ترقی و تقدم کی پائیدار بنیادوں پر قائم کر سکیں اور ان اسباب کو مٹا سکیں جو ہمارے عناصرِ وجود کو آپس ہی کی کشمکش میں مبتلا کر دینے والے ہیں؟

یہ چیزیں اگر ہمارے پاس موجود ہیں تو ہمیں مطمئن رہنا چاہیے کہ پاکستان مستحکم ہے، محفوظ ہے اور بقاء و ارتقاء کی پوری طاقت رکھتا ہے۔ لیکن اگر بالفرض ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ ان چیزوں کا ہمارے اندر فقدان ہے یا کم از کم اس حد تک قلت ہے کہ ان کی موجودگی سے کوئی خاص فائدہ حاصل نہیں ہو سکتا، تو پھر ہمیں سب سے پہلے اور سب سے بڑھ کر یہ فکر ہونی چاہیے کہ انہیں پیدا کریں اور نشوونما دیں، کیونکہ اب وہ شخصیت ہی باقی نہیں رہی ہے جس کی جاذب اور متحرک طاقت ان کے فقدان کی کسی حد تک تلافی کر رہی تھی۔

(ماہنامہ ترجمان القرآن، ستمبر ۱۹۴۸ء)

(2)

اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں یہ سعادت نصیب ہوئی کہ وہ اس دور میں روئے زمین پر مسلمانوں کی سب سے بڑی مملکت کو وجود میں لانے کا باعث بنے۔ اس کشمکش اور جدوجہد میں انہیں بیک وقت انگریزوں، ہندوؤں اور سکھوں کی شدید مزاحمت و مخالفت سے سابقہ درپیش تھا، جن میں سے ہر ایک قیامِ پاکستان کے خلاف ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے قائد اعظم کو اپنے مقصد میں کامیاب فرمایا اور مخالفین کی متحدہ قوت ان کے مقابلے میں بے بس ہو گئی۔ ان کی اس عدیم النظیر کامیابی کے چند وجوہ تھے اور ان میں سے ہر ایک میں ہمارے لیے ایک سبق ہے۔

پہلی بات یہ کہ جب قراردادِ پاکستان پاس ہو گئی اور برصغیر ہندوستان کے مسلمانوں کے مسئلے کا آخری حل یہی طے پایا کہ ملک تقسیم ہو تو قائد اعظم نے بعض سیکولر اور سوشلسٹ عناصر کے علی الرغم اس بات کا غیر مبہم اعلان کر دیا کہ پاکستان میں اسلام کا اجتماعی نظام قائم کیا جائے گا اور مذکورہ عناصر کو متنبہ کیا کہ وہ اپنی روش سے دست کش ہو جائیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ مسلمان جو خطۂ پاکستان سے دور دراز بستے تھے، وہ بھی اخوتِ اسلامیہ کے جذبے سے سرشار ہو کر قیامِ پاکستان کی جدوجہد میں شریک ہو گئے۔

قائد اعظم رح کی کامیابی کی دوسری وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے مخالفین کی گالیوں اور الزام تراشیوں کو کبھی درخورِ اعتنا نہ سمجھا اور نہ ان کا جواب دینے میں اپنا وقت ضائع کیا بلکہ ہمیشہ اپنے مقصد کو سامنے رکھ کر اس کی طرف مستقل مزاجی سے پیش قدمی کرتے رہے۔ جس انسان کو بھی دنیا میں کوئی مثبت تعمیری کام کرنا ہو، اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس طریقے پر عمل کرے اور زندگی کی مہلت کو مفید اور نتیجہ خیز مصرف میں صرف کرے۔

قائد اعظم رح کی سیرت میں تیسری خوبی یہ تھی کہ وہ ایک جمہوریت پسند انسان تھے۔ انہوں نے ہمیشہ اپنے رفقاء سے مشورہ اور ان کا اعتماد حاصل کرتے ہوئے کام کیا اور پاکستان میں ایک جمہوری نظام کی تشکیل کو پیش نظر رکھا۔ پاکستان میں بعض لوگوں نے اثباتِ جرم کے بغیر شہری آزادیاں سلب کرنے والے سیفٹی ایکٹ کی قسم کے قوانین کو رائج رکھنا چاہا تو انہوں نے صاف طور پر کہہ دیا کہ "میں جن مکروہ قوانین (Wretched) کے خلاف انگریز کی اسمبلی میں آواز اٹھاتا رہا ہوں، اب میں خود انہیں حیاتِ نو کا پروانہ کیسے دے سکتا ہوں؟" اللہ سے دعا ہے کہ وہ ان کی خوبیوں کا مسلمانانِ پاکستان کو وارث بنائے اور مرحوم کو ان کی خدمات کا بہترین اجر عطا فرمائے۔

(مکاتیب، جلد دوم، ص ۲۵۹)


نواب فخر یار جنگ مرحوم

نواب فخر یار جنگ سے میری ملاقات ۱۹۳۵ء میں ہوئی تھی۔ اس کے بعد زمانہ قیام حیدرآباد میں وقتاً فوقتاً ملاقات ہوتی رہی اور بعض مجالس میں بھی ان کے ساتھ شریک ہونے کا موقع ملا۔ مجھے ان کی دو باتوں نے خاص طور پر متاثر کیا۔ ایک ان کی گہری دینداری جو حیدرآباد کے اس ماحول میں اتنے اونچے مناصب پر فائز ہونے کے باوجود اپنی وضع پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہی اور اس میں کبھی فرق نہیں آیا۔ دوسری ان کا پوری سختی کے ساتھ دیانت و امانت اور اصولوں کی پابندی پر قائم رہنا۔ اس معاملے میں نواب وقار الملک مرحوم کی روایات کو زندہ رکھنے والے وہی نظر آتے تھے۔ حالاں کہ ان کے زمانے میں حیدرآباد کا انحطاط وقار الملک مرحوم کے دور سے آگے نکل چکا تھا۔ یہی دو باتیں ہیں جن کی وجہ سے میرے دل میں اُن کی بڑی عزت تھی۔ وہ ایک مخلص اور بے ریا انسان تھے۔ فخر و نمود اور اپنے مرتبے کی بلندی کے احساس و اظہار سے خالی۔ ان سے آدمی خیر ہی کی توقع کر سکتا تھا۔ شر کے اندیشے کی گنجائش نہ تھی مگر بے جا توقعات رکھنے والے اہل غرض ان کو بے خیر کہتے تھے کیونکہ وہ اپنے سرکاری فرائض کے معاملے میں کسی کے ساتھ ناجائز رعایت کرنے والے نہ تھے۔

(۲۵ جنوری ۱۹۶۵ء، صدا تعزیتی مکتوب بنام نواب مشتاق احمد خان صاحب، پسر نواب فخر یار جنگ مرحوم)


سید محفوظ علی بدایونی رح

یہ میرے اوائلِ عمر کی بات ہے جب سید محفوظ علی بدایونی صاحب کے مضامین "دکن ریویو" اور "ہمدرد" میں شائع ہوتے تھے۔ اس وقت میری عمر اتنی نہ تھی کہ میں ان مضامین کی ادبی قدر و قیمت کو اچھی طرح سمجھ سکتا، مگر میرے لیے وہ بہت دلچسپی کا موجب ہوتے تھے اور ان کے لطائف مدتوں ذہن میں تازہ رہے۔

مجھے مرحوم سے ملنے کا کبھی اتفاق نہیں ہوا، لیکن ان کے ملنے والوں سے ملا ہوں اور ان کے اوصافِ حمیدہ ان سے سنے ہیں۔ جدید تعلیم اور ظرافتِ طبع کے باوجود وہ نہایت نیک اور دیندار آدمی تھے۔


سید احمد حسن رح (والدِ محترم)

میرے والد مرحوم مولوی سید احمد حسن صاحب، ۱۸۵۷ کے ہنگامے سے دو سال پہلے دہلی میں پیدا ہوئے تھے۔ مدرستہ العلوم علی گڑھ کے بالکل ابتدائی دور کے طالب علموں میں سے تھے، سر سید مرحوم نے جب مدرسہ قائم کیا تھا تو وہ اپنے خاندان اور رشتہ داروں میں سے بھی بہت سے لڑکوں کو چن کر علی گڑھ لے گئے تھے۔ چونکہ میری دادی صاحبہ مرحومہ سے ان کی قرابت ہوتی تھی، اس لیے میرے والد مرحوم کا انتخاب بھی اسی سلسلے میں ہوا۔ مدرسہ میں سر محمد رفیق اور سر بلند جنگ وغیرہ ان کے رفیقِ جماعت تھے۔

اسی زمانے میں انگریزی تعلیم اور انگریزی تہذیب کے خلاف مسلمانوں میں جو شدید نفرت پھیلی ہوئی تھی، اس کا حال سب جانتے ہیں۔ مگر ہمارا خاندان اس نفرت میں عام مسلمانوں سے بھی کچھ زیادہ بڑھا ہوا تھا، کیونکہ یہاں مذہب کے ساتھ مذہبی پیشوائی بھی شامل تھی۔ میرے دادا صاحب کو والد کا علی گڑھ میں تعلیم پانا سخت ناگوار تھا، مگر سر سید کے خیال سے خاموش تھے۔ ایک مرتبہ ان کے ایک عزیز علی گڑھ تشریف لے گئے اور اتفاقاً ایک جگہ کرکٹ کا کھیل دیکھ کر کھڑے ہو گئے۔ وہاں ان کی نظر والد مرحوم پر پڑی اور یہ دیکھ کر انہیں سخت رنج ہوا کہ ایک پیرِ طریقت کا لڑکا انگریزی لباس پہنے انگریزی طرز کا کھیل کھیل رہا ہے۔ دہلی واپس ہوئے تو دادا صاحب سے مل کر کہا: "بھائی صاحب! احمد حسن سے تو ہاتھ دھو لیجیے۔ میں نے اس کو علی گڑھ میں دیکھا کہ کافر کرتی پہنے گیند بلا کھیل رہا تھا۔"

یہ خبر سن کر دادا صاحب کا پیمانۂ صبر لبریز ہو گیا اور انہوں نے فوراً والد مرحوم کو علی گڑھ سے واپس بلا لیا۔ اس طرح وہ وہاں تکمیلِ تعلیم نہ کر سکے۔ اس کے بعد انہوں نے الہ آباد جا کر وکالت کی تعلیم حاصل کی۔ پھر ریاست دیو گڑھ میں ولی عہد کے اتالیق مقرر ہوئے۔ اتالیقی کا واقعہ بھی دلچسپ ہے۔ راجہ صاحب نے دہلی سے دو آدمیوں کو بلایا تھا تاکہ ان میں سے ایک کا انتخاب کریں۔ ان میں سے ایک میرے والد تھے اور ایک والد مرحوم کے استاد تھے جنہوں نے بچپن میں ان کو پڑھایا تھا۔ دیو گڑھ پہنچ کر جب والد مرحوم کو معلوم ہوا کہ میرے استاد کو بھی بلایا گیا ہے تو انہوں نے راجہ صاحب سے کہلا بھیجا کہ میں اپنے استاد کے مقابلے میں پیش نہیں ہو سکتا، مجھے واپسی کی اجازت دی جائے۔ دوسری طرف استاد صاحب سے والد کا ذکر آیا تو انہوں نے کہا کہ: "وہ میرا شاگرد اور میرے سامنے کا بچہ ہے۔ بھلا وہ میرے مقابلے میں کیا پڑھائے گا۔" دونوں کے اخلاق کے یہ نمونے دیکھ کر راجہ صاحب نے کہا کہ ہمیں استاد کی ضرورت نہیں، شاگرد ہی پسند آیا ہے۔

کئی سال تک والد مرحوم دیو گڑھ میں رہے۔ پھر ایک سازش کے تحت ولی عہد کی زندگی کا خاتمہ کردیا گیا، جس کا والد مرحوم کو سخت صدمہ ہوا اور دیو گڑھ کی ملازمت چھوڑ کر چلے آئے۔ پھر کئی سال تک انہوں نے میرٹھ، غازی آباد اور بلند شہر وغیرہ مقامات میں وکالت کی۔ اس کے بعد ۱۸۹۶ء میں ایک مقدمے میں وکالتاً اورنگ آباد (دکن) تشریف لائے۔ یہاں مولوی محی الدین علی صاحب صوبے کے میرِ عدل تھے اور رشتے میں والد مرحوم کے چچا ہوتے تھے۔ ان کے ایماء سے یہاں وکالت شروع کردی اور چند ماہ میں بڑی تیزی سے کامیابی حاصل کی۔ اس زمانے تک والد مرحوم پر انگریزی خیالات اور انگریزی طرزِ معاشرت کا غلبہ تھا اور مذہبیت کی چنگاری راکھ میں دبی ہوئی تھی۔ مولوی محی الدین علی صاحب کی صحبت نے رفتہ رفتہ ان پر ایسا اثر کیا کہ فرنگیت کے تمام اثرات زائل ہو گئے اور اس کی جگہ اسلامیت پوری طرح متمکن ہو گئی۔ ۱۹۰۴ء میں والد مرحوم نے مولوی محی الدین خاں صاحب سے بیعت کر لی اور ذکر و شغل، ریاضات و مجاہدات اور سلوک و مراقبہ میں لگ گئے۔ تاہم اس وقت تک یہ رنگ اتنا نہ چڑھا تھا کہ وکالت کے ساتھ اس کا نباہنا مشکل ہوتا۔

چار سال تک دین اور دنیا دونوں ساتھ ساتھ چلتے رہے۔ مگر ۱۹۰۷ء میں، جبکہ میں صرف ایک سال کا تھا، والد مرحوم کے لیے ان دونوں کا نباہنا مشکل ہو گیا، اور انہوں نے نہ صرف وکالت بلکہ دنیا کمانے کی فکر ہی کو خیر باد کہا۔ تمام اثاث البیت تقسیم کر کے دہلی تشریف لے گئے اور درگاہ حضرت نظام الدین محبوبِ الٰہی علیہ الرحمہ کے قریب ایک قدیم بستی، عرب سرائے، میں اقامت گزین ہو گئے اور اپنا سارا وقت دینی مشاغل میں صرف کرنے لگے۔ جب تین سال اسی طرح زندگی بسر کرتے گزر گئے تو مولوی محی الدین صاحب نے ان کو پھر اورنگ آباد طلب کیا اور نصیحت کی کہ رجوع الی اللہ کے لیے ترکِ دنیا لازم نہیں ہے۔ صرف یہ کوشش کرو کہ جو کچھ کماؤ جائز طریقے سے کماؤ۔ اس نصیحت پر عمل کر کے والد مرحوم نے پھر وکالت شروع کی، مگر اب یہ رنگ تھا کہ کوئی جھوٹا مقدمہ نہیں لیتے تھے۔ ہر موکل کو سب سے پہلے خود ان کی تحقیقات اور جرح و تنقید کے مرحلے سے گزرنا پڑتا تھا۔ جب انہیں کامل اطمینان ہو جاتا کہ اس کا معاملہ سچا ہے تب کہیں اس کی وکالت کرنے پر راضی ہوتے۔ ان تقیدات کے ساتھ وکالت کا چلنا معلوم۔ رفتہ رفتہ اہل معاملہ کا رجوع ان کی طرف کم ہوتا چلا گیا اور مالی مشکلات بڑھتی چلی گئیں۔ مگر اس کے ساتھ ان کا مذہبی رنگ اور زیادہ گہرا ہوتا چلا گیا، یہاں تک کہ ان کی ذہنیت، ان کے خیالات، ان کی معاشرت، غرض ہر ہر چیز اس قدر بدل گئی کہ یہ شبہ تک کرنے کی گنجائش باقی نہ رہی کہ ان کو کبھی انگریزی تعلیم اور انگریزی خیالات کی ہوا بھی لگی ہے۔ ۱۹۱۴ء تک اورنگ آباد میں وکالت کرتے رہے، پھر حیدرآباد تشریف لائے مگر چند مہینے رہ کر خرابیِ صحت کے باعث بھوپال چلے گئے۔ جہاں میرے بڑے بھائی سید ابو محمد صاحب ایگزیکٹو افسر تھے۔ وہاں ان پر فالج کا حملہ ہوا جس نے ان کو بالکل بیکار کر دیا۔ چار سال تک اسی مرض میں مبتلا رہ کر ۱۹۲۰ء میں انہوں نے انتقال فرمایا۔

والد مرحوم نے اول دن ہی سے تہیہ فرما لیا تھا کہ مجھے مولوی بنائیں گے۔ چنانچہ میری تعلیم بھی اسی ڈھنگ پر ہوئی۔ اردو اور فارسی کے ساتھ عربی زبان اور فقہ و حدیث کے درس پر ڈال دیا گیا اور انگریزی زبان، علوم اور خیالات کی ہوا تک نہ لگنے دی گئی۔ والد مرحوم کو تعلیم کے ساتھ اخلاق و عادات کی اصلاح کا بھی خاص خیال تھا۔ ایک مدت تک انہوں نے مجھے کسی مدرسے میں داخل نہیں کیا بلکہ گھر پر تعلیم دلوائی۔ پڑھنے کے علاوہ جتنے اوقات بچتے تھے، ان میں وہ بیشتر مجھ کو اپنے ساتھ رکھتے تھے۔ اپنے احباب میں لے جاتے تھے، جو سب کے سب ثقہ اور سنجیدہ لوگ تھے۔ راتوں کو انبیاء کے قصے، بزرگانِ دین کے حالات، اسلامی تاریخ کی کہانیاں سناتے، مختلف دلچسپ پیرایوں میں اسلامی عقائد ذہن نشین کرتے اور مذہبی رنگ چڑھانے کی کوشش کرتے تھے۔ عام نشست و برخاست میں بھی انہیں اخلاق و تہذیب کا ہمیشہ خیال رہتا تھا۔ زبان کی طرف بھی ان کی خاص توجہ تھی۔ بیس سال تک دکن میں رہنے کے باوجود ان کی زبان پر وہاں کا ایک لفظ اور ایک محاورہ بھی نہ چڑھا تھا۔ خاص اردوئے معلی بولتے تھے اور زبان کی حفاظت کا خاص خیال رکھتے تھے۔ اس وجہ سے بھی انہوں نے ایک کافی مدت تک اس کا خیال رکھا کہ ہم عام بچوں میں گھلنے ملنے نہ پائیں اور اس حفاظت کے باوجود اگر کبھی گھر کے نوکروں یا دوسرے لوگوں سے سنا سنایا کوئی دکنی لفظ یا محاورہ زبان پر چڑھ جاتا تو وہ فوراً ٹوک دیتے تھے اور صحیح لفظ بتا دیا کرتے تھے۔

(ماخوذ از "مولانا مودودی اپنی اور دوسروں کی نظر میں")


مولوی عبدالحق مرحوم

قومی زبان: مولانا! کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ مولوی صاحب کا میلان الحاد کی طرف تھا؟

مولانا نے بڑے نپے تلے اور دھیمے انداز میں فرمایا: محض سنی سنائی باتوں سے میں کیسے حکم لگا سکتا ہوں۔ مولوی صاحب کے آزادانہ نظریات تو تھے لیکن ان کے اندر دینی غیرت بھی تھی اور یہ ان کے بہت سے مضامین سے ثابت ہوتا ہے۔

قومی زبان: مولانا! مولوی صاحب نے اردو کی جو خدمت سرانجام دی اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟

مولانا: ان کی خدمات بہت زیادہ قابلِ قدر ہیں، انہوں نے اس سلسلے میں جو خدمت سرانجام دی وہ نوجوانوں کے لیے نمونہ ہے۔

مولوی صاحب کے اسلوب کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟

مولانا: مولوی صاحب اعلیٰ درجے کے انشا پرداز تھے۔ مقدمات لکھنے میں ان کو کمال حاصل تھا۔ مقدمات کی وجہ سے تو وہ "مقدمہ باز" مشہور ہو گئے تھے۔ اردو زبان کے بلند پایہ اہل علم میں ان کا شمار ہے۔


مولانا داؤد غزنوی (ایک انٹرویو)

سوال: آپ کو ان کی شخصیت کا کون سا پہلو خاص طور پر سب سے زیادہ پسند تھا؟

جواب: ان کی شخصیت کا یہ پہلو خصوصاً مستحسن تھا کہ وہ جب سے قومی زندگی میں نمایاں ہو کر آئے، انہوں نے ہمیشہ اسلام اور مسلمانوں کے لیے اخلاص کے ساتھ کام کیا۔ ان کی زندگی میں کبھی دورنگی نہیں پائی گئی۔ میں چونکہ خود یک رنگ آدمی ہوں، اس لحاظ سے مجھے ان کی یک رنگی پسند تھی۔

سوال: ان کی وسعتِ مشرب کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟

جواب: میں نے ان کو کبھی تنگ نظر اور متعصب نہیں پایا۔ مسلمانوں کے ملی مسائل میں وہ کسی تعصب کے بغیر دوسرے مسلک کے لوگوں کے ساتھ تعاون کرتے تھے اور اپنا ایک مسلک رکھنے کے باوجود دوسرے مسلک کے لوگوں کے خلاف جنگ آزمائی کبھی ان کا طریقہ نہیں رہا۔

سوال: مولانا کے علمی میلانات کے بارے میں آپ کی رائے؟

جواب: وہ بہرحال ایک عالم و فاضل آدمی تھے۔ ان کے علم و فضل میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں۔ جو شخص ان سے ملتا تھا وہ ان کے علم و فضیلت اور شریفانہ طرز سے متاثر ہوتا تھا۔

سوال: سنا ہے کہ مدینہ منورہ میں آپ دونوں ایک ہی ہوٹل میں مقیم رہے۔ اس قیام و ملاقات کی کوئی تفصیل؟

جواب: مدینہ منورہ میں ملاقات کی صورت یہ تھی کہ وہ مدینہ یونیورسٹی کی کونسل میٹنگ میں شریک ہونے کے لیے وہاں گئے ہوئے تھے اور یہ اتفاق کی بات ہے کہ میں بھی وہاں گیا ہوا تھا۔ ہم دونوں وہاں ایک ہی ہوٹل "فندق التیسیر" میں مقیم تھے۔ اس قیام کے دوران میں ایک روز یکایک مجھے معلوم ہوا کہ انہیں دل کا دورہ پڑا ہے۔ میں یہ افسوس ناک خبر سن کر فوراً ان کے پاس گیا اور جو کچھ خدمت میرے بس میں تھی، وہ میں نے انجام دی اور جب تک افاقہ نہ ہو گیا میں برابر ان کے کمرے میں جاتا رہا۔

(مولانا مودودی نے اس سوال کے جواب کے آخر میں فرمایا:)

یہ بات میرے خیال میں قابلِ ذکر نہ تھی، مگر آپ نے پوچھا ہے، اس لیے میں نے ذکر کر دیا، ورنہ یہ میرا اخلاقی فرض تھا۔

(ماخوذ از "سیدی و ابی"، مرتبہ ابو بکر غزنوی مرحوم)

مولانا مسعود عالم ندوی

مولانا مسعود عالم ندوی کی وفات ایک ایسا حادثہ ہے جس نے مجھے سخت متاثر کیا ہے۔ اس نقصان کو کچھ وہی لوگ محسوس کر سکتے ہیں جو ان کے اوصاف اور کاموں سے واقف ہیں۔ وہ اس ملک کے ان چند گنے چنے لوگوں میں سے تھے جن کو عربی ادب و انشاء میں ایک بلند مقام حاصل ہوا ہے۔ اپنی اس قابلیت سے کام لے کر انہوں نے برعظیم ہندو پاکستان کے مسلمانوں اور عربی زبان بولنے والے مسلمانوں کے درمیان سفارت کے وہ فرائض انجام دیے جو شاید اس دور کے کسی دوسرے شخص نے کم از کم اس حد تک انجام نہیں دیے۔ عرب ممالک کو یہاں کے حالات اور مسائل اور تحریکوں سے روشناس کرانے میں ان کا بہت بڑا حصہ ہے اور اس خدمت کی قدر و قیمت کا اندازہ صرف وہی لوگ کر سکتے ہیں جنہیں معلوم ہے کہ مختلف مسلمان ملکوں کے درمیان براہ راست ذرائع معلومات کا نہ ہونا اور ان کا ایک دوسرے کو جاننے کے لیے محض فرنگی وسائل اطلاعات پر انحصار کرنا کتنا نقصان دہ ہے۔ اس لحاظ سے ان کی وفات درحقیقت ایک قومی نقصان ہے جس کی تلافی کرنے والے کم ہی نظر آتے ہیں۔

جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والوں نے ان کے فقدان کو خاص طور پر شدت کے ساتھ محسوس کیا ہے، کیونکہ انہیں مرحوم کی خوبیوں اور خدمات سے براہ راست سابقہ پیش آیا ہے۔ وہ ایک ایسے حلقے سے تعلق رکھتے تھے جس کے اکابر جماعت اسلامی کو پسند نہ کرتے تھے۔ دوسری طرف، جماعت اسلامی کی بنا جن لوگوں نے ڈالی تھی ان میں سے کسی کے ساتھ بھی مرحوم کے شخصی مراسم نہ تھے بلکہ مجھ سمیت اکثر سے ان کی کبھی ملاقات تک نہ ہوئی تھی۔ اس کے باوجود مرحوم نے محض ”ترجمان القرآن“ میں جماعت اسلامی کی دعوت اور نصب العین پڑھ کر بلا تکلف اس کو قبول کیا اور خود اس کی طرف بڑھنے میں پیش قدمی کی، بغیر اس کے کہ ادھر سے کوئی تحریک کی گئی ہو۔ یہ اس بات کا صریح ثبوت ہے کہ ان کا دل تعصب سے پاک تھا، وہ اپنی رائے میں آزاد تھے، ان کا ضمیر انصاف پسند تھا، اور وہ جس چیز کو حق پاتے تھے اسے پورے خلوص کے ساتھ قبول کر لیتے تھے۔ بعد میں تیرہ چودہ سال کے قریبی تعاون کے دوران میں ہر موقع پر ان کے یہ اوصاف عملاً مشاہدے میں آتے رہے۔ اس کے ساتھ ذہنی توازن کا یہ عالم تھا کہ جماعت سے گہرا تعلق ہو جانے کے بعد بھی اپنے ان اکابر سے ان کے ذاتی تعلق میں کوئی فرق نہ آیا۔ نہ ان کی محبت و عقیدت جماعت کے ساتھ ان کی وابستگی میں کبھی خلل انداز ہوئی اور نہ جماعت سے وابستگی نے ان کے ساتھ شخصی روابط کو کبھی غبار آلود کیا۔

جماعت میں شامل ہوتے ہی انہوں نے محسوس کر لیا کہ جس نصب العین کو اب وہ اختیار کر چکے ہیں وہ ہمہ تن پوری زندگی کا وقف نامہ طلب کرتا ہے۔ چنانچہ کچھ دیر نہ گزرنے پائی تھی کہ وہ اپنی ساری کشتیاں جلا کر آگئے اور جماعتی نظام کے تحت انہوں نے ”دارالعروبہ“ قائم کیا، جس کا مقصد تحریک اسلامی کے لٹریچر کو عربی میں منتقل کر کے انڈونیشیا سے مراکو تک پھیلی ہوئی اسلامی دنیا تک پہنچانا تھا۔ اس کے ساتھ انہوں نے ایسے نوجوان تیار کرنے کی کوشش بھی شروع کر دی جو صحیح عربی لکھنے پر قادر ہوں تاکہ وہ ان کے کام کو آئندہ جاری رکھ سکیں۔ اور یہ سب کچھ انہوں نے ایک ایسی جاں گسل بیماری کی حالت میں کیا جس نے ان کو گھلا کر صرف ہڈی اور چمڑے کا ڈھانچہ بنا ڈالا تھا۔ یہ ان کے عزم اور اخلاص نیت اور جذبہ ایثار و قربانی کا حال تھا، وہ ایک چیز کو حق جاننے کے بعد اسے صرف قبول ہی کر کے نہ رہ گئے، بلکہ اس کو فروغ دینے کے لیے انہوں نے اپنی جان لڑا دی، اس کی خاطر اپنی دنیوی ترقی کے سارے مواقع کو (جو ان جیسی قابلیت کے آدمی کے لیے کچھ کم درخشاں نہ تھے) قربان کر دیا۔ اپنا سارا وقت اور سارا سرمایہ قوت و صلاحیت اسی ایک راہ میں کھپا دیا۔ یہ خوبی جہاں جس انسان میں بھی پائی جاتی ہو، بجائے خود قابل قدر ہے۔ خصوصاً ہماری قوم میں تو اس وقت اس صفت کے حامل لوگوں کا قحط ہے۔ اس لیے ان کی قدر و قیمت اس سے بدرجہا زیادہ ہے جو کسی مالدار قوم میں ہو سکتی ہے۔

۱۹۵۳ء میں جماعت اسلامی پر جو دور ابتلا آیا (بلکہ سچ یہ ہے کہ زبردستی لایا گیا)، اس میں مرحوم کا صبر و ثبات ہم سب کے لیے قابلِ رشک ہے۔ وہ سالہا سال سے دمے کے مریض تھے، ایسے سخت مریض کہ دمے کے دورے کی وہ شدت کبھی ہمارے مشاہدے میں نہیں آئی۔ ان کی صحت تمام تر دوا اور غذا کے خاص اہتمام اور اوقات کی باقاعدگی پر منحصر تھی، اور ان چیزوں میں سے کسی میں فرق آجانا ان کے لیے پیام موت تھا۔ اس حالت میں حکومت نے یکا یک ان کو گرفتار کر کے جیل بھیج دیا اور ان کے مرض کا لحاظ کر کے علاج و غذا کا کوئی خاص انتظام نہ کیا۔ حتی کہ اس مریض ناتواں کو جیل میں چارپائی تک نہ دی گئی۔ جو لوگ اس ظلم کے ذمہ دار تھے ان کو قطعاً کوئی احساس نہ تھا کہ وہ اپنی قوم کے کیسے قیمتی جوہر کو ضائع کر رہے ہیں۔ اور مرحوم کی غیرت یہ گوارا کرنے کے لیے تیار نہ تھی کہ اپنے مرض کا حوالہ دے کر کسی ظالم سے رحم کی بھیک مانگیں۔ جو تکلیفیں بھی پیش آئیں کمال درجہ صبر اور تسلیم و رضا کے ساتھ جھیلتے چلے گئے اور اف تک نہ کی۔ بعید نہیں کہ یہی چیز آخر کار ان کی اچانک وفات کی موجب ہوئی ہو۔ بہر حال چلتے چلتے اُس مرد مومن نے استقامت کا ایک ایسا نمونہ پیش کیا جو بہت سے اہل ایمان کے لیے تقویت قلب کا سبب بنا اور انشاء اللہ آئندہ بھی بنے گا!

تیرہ چودہ سال کی رفاقت میں ہم لوگوں نے ان کو ہمیشہ ایک مخلص دوست، ایک بے لاگ مشیر، اور ایک وسیع القلب و وسیع النظر انسان پایا۔ بہت سی باتوں میں ہم سے اختلاف رکھنے اور حسب ضرورت اظہار اختلاف کرنے کے باوجود وہ اپنی رائے میں کبھی اتنی شدت اختیار نہ کرتے تھے کہ ان کے ساتھ موافقت مشکل ہو جائے۔ رائے میں نہایت آزاد اور اظہار رائے میں نہایت بے باک تھے۔ مگر بحث و تمحیص کے بعد جب جماعت کوئی فیصلہ کر لیتی تھی تو اسے پوری فراخ دلی کے ساتھ قبول کر لیتے تھے اور اُسے کامیاب کرنے میں اپنی حد تک کوئی کسر نہ اٹھا رکھتے تھے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ اپنی رائے کے خلاف کسی جماعتی فیصلے پر وہ کبیدہ خاطر ہوئے ہوں یا ان کے گوشہ قلب میں بھی یہ خواہش چھپی ہوئی پائی گئی ہو کہ وہ فیصلہ ناکام ہو اور ان کی رائے کی صحت ثابت ہو جائے۔ اجتماعی زندگی کے لیے یہ صفت اکسیر کا حکم رکھتی ہے۔

ذاتی حیثیت سے ان کی وفات میرے لیے ایک صدمہ عظیم ہے۔ تعریف اور مدح کرنے والوں کی کمی نہیں ہے، مگر خیر خواہ ناصح دنیا میں کم ہی میسر آتے ہیں۔ رحمہ اللہ و طاب ثراہ۔ (ماہنامہ ترجمان القرآن، شوال ۱۳۷۴ھ، جون ۱۹۵۵ء)

مسعود عالم ندوی صاحب کی وفات پر اس کے سوا کیا لکھوں کہ اس کے بعد سے اپنا ایک بازو ٹوٹا ہوا محسوس کرتا ہوں۔ شاید جسم کا بازو ٹوٹنے کی بھی اتنی تکلیف نہ ہوتی جتنی روح کے اس بازو کے ٹوٹ جانے سے محسوس ہو رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو اجر جزیل عطا فرمائے اور اپنے دین کے لیے ایسا ہی کوئی خادم پیدا کرے۔ بظاہر تو یہ جگہ پر ہونی مشکل ہے مگر اللہ کی قدرت ہر چیز پر جاری ہے۔ (چراغ راہ، مسعود عالم ندوی نمبر)


شاہ فیصل شہید

(۲۸ مارچ ۱۹۷۵ء کو ایک اجتماع سے خطاب)

برادران دین!

اس حادثہ فاجعہ کا اب تک میرے دل پر اتنا سخت اثر ہے کہ میں مشکل ہی سے اپنے خیالات آپ کے سامنے بیان کر سکوں گا۔ اپنی زندگی میں مجھے کئی شدید صدمے برداشت کرنے پڑے ہیں اور ہر مرتبہ ان کا ایسا ہی اثر میرے اوپر ہوا ہے۔ سید قطب شہید کو جب پھانسی کے تختے پر لٹکایا گیا تو کئی روز تک میرے حواس قابو میں نہیں تھے۔ ڈاکٹر نذیر احمد صاحب کو جب شہید کیا گیا تو اس کا بھی میرے اوپر اتنا شدید اثر تھا کہ میں کئی روز تک اس کی تڑپ محسوس کرتا رہا۔ اب یہ شاہ فیصل کی شہادت کا واقعہ پیش آیا ہے جس نے میرے اعصاب کو بری طرح مضمحل کر کے رکھ دیا ہے۔ بس اللہ تعالیٰ ہی صبر عطا کرنے والا ہے اور اسی سے ہم توقع رکھتے ہیں کہ وہ ہمیں اپنی سکینت سے نوازے گا۔

میں اس موقع پر جب کہ آپ لوگ جمع ہیں، یہ کوشش کروں گا کہ قدرے تفصیل کے ساتھ شاہ فیصل کے متعلق آپ کو کچھ بتاؤں۔

بحیثیت ولی عہد

سب سے پہلے میں ان کی انسانی حیثیت بتانا چاہتا ہوں۔ ان کے والد سلطان عبد العزیز ابن سعود، جو بعد میں بادشاہ ہوئے اور انہوں نے اپنے لیے سلطان کا لفظ چھوڑ کر ملک کا لفظ استعمال کیا، وہ جانتے تھے کہ ان کی اولاد میں سب سے زیادہ قابل، معاملہ فہم، ذہین اور ہوشیار لڑکا فیصل ہی ہے لیکن انہوں نے اپنے بڑے بیٹے سعود کو اپنا ولی عہد بنایا اور شاہ سعود کے بعد فیصل کی ولی عہدی کا فیصلہ کیا۔ عام طور پر لوگوں کا یہ خیال تھا اور میں نے بارہا لوگوں کو یہ کہتے سنا کہ فیصل اتنا ہوشیار آدمی ہے کہ وہ شاہ سعود کی چلنے نہیں دے گا۔ لیکن جب عبدالعزیز ابن سعود کا انتقال ہوا اور ان کی وصیت کے مطابق بڑے بیٹے کو تخت پر بٹھایا گیا تو فیصل نے پوری وفاداری کے ساتھ اپنے باپ کے فیصلے کی پابندی کی۔ اپنے بڑے بھائی کے ساتھ مخلصانہ تعاون کیا اور کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ انہوں نے کبھی خفیہ یا علانیہ کسی طرح بھی یہ کوشش کی ہو کہ بڑے بھائی کو ہٹا کر خود تخت حاصل کریں۔ جب کبھی بھائی نے ان کے سپرد کوئی منصب کیا اس کو خلوص اور خوش دلی سے قبول کیا اور اپنی حد تک اس کو بڑی ذمہ داری اور خوش اسلوبی سے چلایا۔ لیکن جب یہ محسوس کیا کہ میں اس تفویض کردہ ذمہ داری کو نہیں نبھا سکتا تو اپنی معذرت پیش کر دی اور الگ ہو گئے۔ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ شاہ سعود بادشاہ کی حیثیت سے کرسی پر بیٹھے ہوئے ہیں اور شہزادہ فیصل ان کے پیچھے کھڑے ہیں۔ جب تک دربار جاری رہا فیصل اس وقت تک کھڑے ہی رہے۔ یہ ان کی انسانیت، بے غرضی اور بے لوثی تھی کہ انہوں نے خود تخت حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ بعد میں یہ وہاں کے علماء اور شاہی خاندان کے تمام لوگوں کا متفقہ فیصلہ تھا کہ شاہ سعود کو معزول کر کے شہزادہ فیصل کو تخت پر بٹھایا جائے اور اسی فیصلے کے مطابق وہ حکمران بنے۔

ان کی ایک دوسری صفت جو میری نگاہ میں بہت زیادہ قابل قدر ہے وہ یہ تھی کہ وہ ایک بے داغ اور پاکیزہ سیرت و کردار کے انسان تھے۔ میں نے دیکھا ہے کہ پٹرول کی دولت آنے کے بعد جن ملکوں میں یہ دولت آئی وہاں کے لوگوں کے اوپر اس کا کیا اثر پڑا۔ آپ اندازہ نہیں کر سکتے کہ وہ قومیں جن کی آمدنی لاکھوں میں تھی اس پٹرول کی دولت کی بدولت یک لخت ان کی آمدنی کروڑوں بلکہ اربوں تک پہنچ گئی۔ خدا کی اس دین کو برداشت کرنے اور اپنے آپ کو قابو میں رکھنے کے لیے بہت بڑا ظرف چاہیے تھا لیکن ہوا یہ کہ عرب دنیا میں اس کی بدولت اس قدر عیاشی بڑھی کہ انتہا ہو گئی۔ بڑے بڑے محلات تیار ہوئے، پورے پورے محل ایئر کنڈیشنڈ کیے گئے۔ نہایت قیمتی اور عجیب و غریب موٹریں بنوا بنوا کر لائی گئیں۔ عیش و آرام کے طرح طرح کے سامان اکٹھے کیے گئے لیکن فیصل مرحوم کے متعلق کبھی یہ سننے میں نہیں آیا کہ دولت کے نشے میں مخمور ہو کر وہ بھی کبھی عیاشیوں میں پڑے ہوں۔ ان کی زندگی بالکل پاکیزہ رہی، جب شہزادہ اور ولی عہد تھے اس وقت بھی اور جب سلطنت کے فرماں روا ہوئے اس وقت بھی، اندرون ملک بھی اور بیرون ملک بھی۔ اپنے باپ کے زمانے میں وہ برابر باہر کے مشنوں پر بھیجے جاتے رہے۔ وزارت خارجہ کا منصب بھی ان کو حاصل رہا، باپ کے زمانے میں بھی اور بڑے بھائی کے زمانے میں بھی۔ اور جب وزیر خارجہ نہیں بھی ہوتے تھے تب بھی وہ باہر مشنوں پر جاتے تھے۔ وہ امریکہ اور یورپ کے ممالک میں بارہا پھرے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ امریکہ اور یورپ کی حکومتیں مشرقی ممالک سے آنے والوں کے لیے ”تواضع“ کے کیا کیا سامان فراہم کرتی ہیں۔ یہی نہیں بلکہ ان کو پہلے سے معلوم ہوتا ہے کہ کس شخص کی کیا کمزوری ہے۔ ان کی انٹیلی جنس ان کو باخبر رکھتی ہے کہ جو جو حضرات آرہے ہیں ان کی ذہنیت کیا ہے۔ اسی کے مطابق وہ ان کی تواضع کے لیے ہر طرح کے سامان فراہم کرتے ہیں لیکن فیصل کو وہ کبھی اپنے دام میں نہیں پھانس سکے۔ امریکہ اور یورپ کے چکر کاٹنے کے باوجود یہ شخص اپنے آپ کو ان تمام خرابیوں سے بچاتا رہا جو ان ممالک میں وافر مقدار میں موجود تھیں۔

بحیثیت سربراہ مملکت

پھر جب یہ تخت نشین ہوئے تو اس سے پہلے لوگوں کا یہ خیال تھا اور میں نے بکثرت لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنا تھا کہ یہ ایک ماڈرنسٹ آدمی ہیں۔ باہر بہت گھومے پھرے ہیں اس لیے ان کے خیالات میں بہت آزادی ہے۔ اگر حکومت ان کے ہاتھ میں آتی تو دولت سعودیہ کی وہ مذہبی حیثیت باقی نہیں رہے گی جو اب تک رہی ہے لیکن شاہ فیصل نے تخت نشین ہونے کے بعد ان تمام اندازوں کو غلط ثابت کر دیا۔ معلوم یہ ہوا کہ ان کو اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ گہری محبت ہے اور ان کے اندر کمال درجے کا اخلاص پایا جاتا ہے۔ انہوں نے اپنی طرف سے پوری کوشش کی کہ ان کی مملکت میں وہ برائیاں نہ پھیلنے پائیں جو عام طور پر دنیا کی دوسری مملکتوں میں بکثرت پھیلی ہوئی ہیں۔ سعودی عرب سے نوجوانوں کو اس غرض کے لیے بیرونی ممالک بھیجنا ناگزیر تھا کہ وہ تعلیم حاصل کر کے آئیں اور ایک جدید زمانے کی ریاست کے لیے کارکن فراہم کریں لیکن انہوں نے اپنی حد تک پوری کوشش کی کہ اس چیز کی بدولت ان کے ملک کے اندر برائیاں نفوذ نہ کرنے پائیں اور ملک میں مسلمانوں کی حیثیت سے ایک عرب قوم کو جس طرح رہنا چاہیے اس طرح وہ رہے۔ اس مقصد کے لیے وہ برابر کوشاں رہے۔

بحیثیت ایک مسلمان حکمران کے

سعودی عرب میں ایک اچھا خاصا طبقہ ایسا موجود تھا جو شریعت اسلامی کے نفاذ پر راضی نہیں تھا اور اس بات سے سخت ناخوش تھا کہ وہاں حدود شرعیہ نافذ کی جا رہی ہیں۔ وہ کہتے تھے کہ ہم باہر کی دنیا کو کیا منہ دکھائیں گے کہ ہمارے ہاں ہاتھ کاٹے جا رہے ہیں۔ ایسی سزائیں دی جا رہی ہیں جو مہذب دنیا میں کہیں رائج نہیں ہیں لیکن شاہ فیصل نے قطعاً اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کی اور حدود شرعیہ اسی طرح جاری رکھیں جس طرح ان کے والد نے اپنی زندگی میں جاری کی تھیں اور جس طرح ان کے بڑے بھائی کے زمانے میں جاری رہی تھیں۔ انہوں نے معترضین کی اس خواہش کو بھی کبھی پورا نہیں کیا کہ حدود شرعیہ میں کچھ تھوڑا بہت رد و بدل کر دیا جائے۔ علاوہ بریں ان کے عہد میں علماء کا وہی وقار ملک کے اندر رہا جو سلطان ابن سعود اور شاہ سعود کے زمانے میں تھا۔ وہ علماء کے ساتھ نہایت عزت و احترام کے ساتھ پیش آتے رہے اور تمام دینی معاملات میں انہی کی طرف رجوع کرتے تھے۔

عرب ممالک کو جو مختلف بیماریاں لگی ہوئی تھیں ان میں سے ایک بیماری جس کو یہود اور عیسائیوں نے مشترکہ کوششوں سے پھیلایا تھا وہ یہ تھی کہ عربوں میں عرب قومیت کا زہر سرایت کر گیا تھا۔ دشمنوں نے ایک منصوبے کے مطابق ان کو عرب قومیت کی شراب پلائی اور ان کے اندر عربیت کا شدید تعصب پیدا کر دیا۔ یہ اس کا نتیجہ تھا کہ ایک مدت دراز تک فلسطین جیسے مسئلے کو، جو تمام مسلمانوں کا متفق علیہ مسئلہ تھا، بعض عرب حضرات بے تکلف ”عرب قومیت“ کا مسئلہ قرار دیتے رہے اور ان کو کبھی یہ خیال نہ آیا کہ اگر عربی زبان کو عرب قومیت کی بنیاد سمجھا جائے تو عرب قومیت سے تعلق رکھنے والے دنیا میں دس کروڑ سے زیادہ نہیں ہیں جبکہ مسلمان پوری دنیا میں اسی کروڑ تک پہنچتے ہیں۔ تو کیا مسئلہ فلسطین کے لیے دس کروڑ عربوں کی حمایت کرنا زیادہ وزنی ہے یا اسی کروڑ مسلمانوں کی حمایت حاصل کرنا زیادہ موثر ہے۔ وہ برابر اس کو عربی مسئلہ قرار دیتے رہے، لیکن شاہ فیصل نے اپنے اوپر عرب قومیت کی چھینٹ تک نہیں پڑنے دی۔ وہ ہمیشہ یہی کہتے رہے کہ عرب قومیت کوئی چیز نہیں اصل چیز اسلام ہے۔ اسی طرح یہ فلسطین کا مسئلہ بھی اسلامی مسئلہ ہے۔ انہوں نے اسے کبھی عربی مسئلہ قرار نہیں دیا۔ ان کے اندر عرب قومیت کا قطعاً کوئی تعصب موجود نہیں تھا۔ انہوں نے جس کثرت سے پاکستان کے لوگوں کو اپنے ہاں ملازمتیں دیں اور جس کثرت سے ان کو بلا بلا کر بڑی بڑی تنخواہوں پر رکھا یہ خود اس بات کا ثبوت ہے کہ ان پر عرب قومیت کا زہر کوئی اثر نہیں کر سکا تھا۔ البتہ دوسرے عرب ممالک میں وہ کیفیت موجود نہیں تھی جو سعودی عرب میں پائی جاتی تھی کہ وہاں عرب قومیت کا تعصب سلطنت کے کارکنوں کے اندر تو ہو سکتا تھا لیکن سلطنت میں نہیں تھا۔ وہاں کے جو عناصر باہر کے اثرات قبول کرتے تھے۔ ان کے اندر تو یہ تعصبات پائے جاتے تھے لیکن شاہ فیصل اور ان کے ہاتھ میں جو اختیارات تھے وہ برابر اسلام اور مسلمانوں کے لیے وقف رہے اور ان کے اندر عربیت کا کوئی تعصب نہیں دیکھا گیا۔

بحیثیت زعیم عالم اسلام

اس کے ساتھ جو چیز میں سب سے زیادہ قیمتی سمجھتا ہوں وہ یہ ہے کہ شاہ فیصل مرحوم نے اپنی مملکت کے تمام وسائل اور ذرائع اس بات کے لیے وقف کر دیے تھے کہ اسلام اور مسلمانوں کی زیادہ سے زیادہ خدمت کی جائے، اپنے ملک میں بھی اور دنیا بھر میں بھی۔ یہ شاہ فیصل ہی تھے جنہوں نے بڑی بڑی کانفرنسیں منعقد کیں اور ان میں مختلف مواقع پر اسلامی مقاصد کے لیے دنیا بھر کے ماہرین کو جمع کیا اور ان کے مشورے سے کام کیا۔ ابھی حال ہی میں انہوں نے جدہ میں اکنامک کانفرنس بلائی تھی اور مسلمان سائنس دانوں کی کانفرنس بھی ریاض میں ہونے والی تھی۔ اس سے پہلے وہ اسی طرح کی اور بہت سی کانفرنسیں کر چکے تھے۔ یہ سب کچھ اس غرض کے لیے تھا کہ اسلامی ممالک کے اندر جہاں جہاں بھی قابلیت رکھنے والے لوگ موجود ہیں ان کو جمع کیا جائے اور وہ اپنی قوتوں کو جمع کر کے اسلام کی بھلائی اور سر بلندی کے لیے کام کریں۔

دنیا میں دور دراز ممالک تک میں بکثرت مدرسے ایسے تھے جو شاہ فیصل کے روپے سے ہی قائم ہوئے اور انہی کے روپے سے چل رہے تھے۔ افریقہ، ویسٹ انڈیز اور دنیا کے دوسرے حصوں کے اندر جہاں جہاں بھی ان کے علم میں آیا انہوں نے مسجدیں بنوائیں، مدرسے قائم کیے اور جہاں مدد کی ضرورت تھی وہاں مدد کی۔ اس طرح انہوں نے اپنی دولت کو پہلے دن سے اس مقصد کے لیے وقف کر رکھا تھا کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کی بھلائی کے کام آئے۔

ان کا حال یہ نہیں تھا کہ وہ اس دولت کو اپنی عیش، اپنی شان اور ٹھاٹھ کے لیے استعمال کریں۔ میں نے وہ محل بھی دیکھے ہیں جو ان سے پہلے بادشاہوں کے استعمال میں تھے اور پھر وہ کوٹھی بھی دیکھی ہے جس میں شاہ فیصل بادشاہ ہونے کے بعد مقیم ہوئے۔ انہوں نے عالی شان محلات کے بجائے اس سادہ سی کوٹھی میں رہنا قبول کیا۔ اس کوٹھی کے اندر میری ان سے ملاقات ہوئی۔ حقیقت یہ ہے کہ اس سے دس گنا زیادہ شاندار کوٹھیاں آپ کے گلبرگ میں موجود ہوں گی۔ یہ اس شخص کا حال تھا جس کی سالانہ آمدنی اربوں ڈالر تھی۔ اس کوٹھی کے اندر کوئی بڑا سرو سامان بھی نہیں تھا۔ نہایت سادگی کے ساتھ وہ اس میں رہتے تھے۔ لوگ شاید یہ سمجھیں کہ وہ بخیل تھے لیکن وہ بخیل اگر تھے تو اپنی ذات کے لیے تھے، مسلمانوں اور اسلام کے لیے انتہائی فیاض تھے اور ہر ممکن طریقے سے اپنی دولت اسلام کے لیے صرف کرتے تھے۔

احادیث میں مسلمان کی یہ خوبی بیان کی گئی ہے کہ تمام مسلمان ایک جسد کی طرح ہوتے ہیں، اگر جسم کے کسی ایک حصے میں کانٹا چبھ جائے تو سارا جسم اس کی ٹیسیں محسوس کرتا ہے۔ یہی اس شخص کی کیفیت تھی کہ اسلام اور مسلمانوں کو جہاں کوئی زک پہنچتی تھی وہ اس پر تڑپ اٹھتا تھا۔ ہمارے ہاں بڑی خوشی سے بنگلہ دیش کو تسلیم کیا گیا اور مجیب الرحمن کو بلا کے گلے لگایا گیا کہ تم نے بڑا اچھا کام کیا کہ پاکستان کو توڑ دیا لیکن شاہ فیصل کو جس وقت پاکستان کے ٹوٹنے کی خبر ملی، ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ وہ اس چیز کو برداشت نہیں کر سکتے تھے کہ مسلمانوں کی ایک اتنی بڑی مملکت دشمنوں کی سازشوں سے اس طرح ٹوٹے اور پھر اس پر خوشی منائی جائے۔

اکتوبر ۱۹۷۳ء کی جنگ میں یہ جو تیل کی مار مغربی ممالک کو دی گئی، اس کے پس پردہ ایک بہت بڑی حقیقت ہے جس کو اگر آپ سمجھ لیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ یہ کام کس عورت کا تھا اور اس کے کیا اثرات ہوئے۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ امریکہ کے عام باشندے دنیا کے معاملات اور مسائل میں کوئی دلچسپی بھی نہیں لیتے اور واقفیت بھی نہیں رکھتے۔ ہر شہر اور قصبے میں اپنا ایک اخبار نکلتا ہے اور وہاں کے لوگ اسی اخبار کو دیکھتے ہیں۔ اس میں بس لوکل خبریں ہی ہوتی ہیں کوئی ایک آدھ بین الاقوامی خبر آگئی تو آگئی۔ امریکہ میں بڑے بڑے اخبار شائع ہوتے ہیں، جن کے اندر بین الاقوامی معاملات پر بحثیں ہوتی ہیں اور بیرونی دنیا کی خبریں آتی ہیں۔ وہ عام شہروں میں نہیں ملتے۔ میں نے فلاڈیلفیا جیسے شہر میں جو پندرہ لاکھ کی آبادی کا شہر ہے، بارہا نیویارک ٹائمز تلاش کرایا لیکن نہیں ملا۔ اب اس طرح کی ایک بے خبر قوم پر ایک ایسی قوم مسلط ہوگئی، جس کی دلچسپیاں تمام دنیا سے تھیں، یعنی یہودی قوم۔ یہودی قوم چونکہ تمام دنیا میں پھیلی ہوئی ہے اس لیے وہ بین الاقوامی نقطہ نظر، بین الاقوامی مفادات رکھتی ہے۔ جبکہ اسے امریکہ میں ایک ایسی قوم مل گئی جو بین الاقوامی معاملات سے کوئی دلچسپی اور تعلق ہی نہیں رکھتی تھی۔ اس لیے یہود امریکہ کو برابر استعمال کرتے جا رہے تھے اور دنیا میں ان کی ساری طاقت امریکہ کی دولت اور اسلحہ کی وجہ سے تھی۔ اس کے مقابلے میں سارے عرب ممالک مل کر بھی بے بس ہو رہے تھے۔ اس لیے ایک جنگی ہتھیار کے طور پر ان کو تیل کی مار دینے کا فیصلہ کیا گیا اور یہ فیصلہ نہیں ہو سکتا تھا اگر شاہ فیصل اس کی پشت پر نہ ہوتے۔ سعودی عرب سب سے بڑا تیل پیدا کرنے والا ملک ہے۔ جب شاہ فیصل نے یہ فیصلہ کر لیا کہ تیل کے ہتھیار کو استعمال کرنا چاہیے اور تیل پیدا کرنے والے دوسرے عرب ممالک نے بھی اس سے اتفاق کیا اور عملاً امریکہ کے لیے تیل بند کر دیا گیا، تب ایک ایک امریکن کو اس کی چوٹ لگی۔ بین الاقوامی حالات اور معاملات کا تو اسے کچھ علم نہیں تھا، لیکن جب تیل کی بندش ہوئی تو ایک ایک امریکن نے اس کا اثر محسوس کیا کیونکہ پٹرول کے بغیر نہ اس کا گھر گرم ہو سکتا تھا اور نہ اس کی موٹر چل سکتی تھی۔ جب پٹرول کے بے تحاشا مہنگا ہونے کی وجہ سے گھروں کو گرم کرنے کا انتظام معطل ہوا اور لوگوں کو اپنے گھروں میں سردی لگنی شروع ہوئی، تب انہوں نے سوچنا شروع کیا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے اور کیوں ہو رہا ہے؟ پھر جب انہیں معلوم ہوا کہ یہ یہودیوں کی وجہ سے ہو رہا ہے تو انہوں نے کہا کہ ہم یہودیوں کی خاطر کیوں مصیبت بھگتیں۔ یہ پہلا موقع تھا جب امریکیوں کے اندر یہودیوں کے متعلق یہ احساسات پیدا ہوئے۔ اس زمانے میں یہ حالت ہو گئی کہ لوگ موٹروں کے اوپر لکھ لکھ کر لگانے لگے کہ یہودیوں کو ختم کرو، ان کی وجہ سے ہم کیوں تنگ ہوں۔ یہ صورت حال دیکھ کر بڑے بڑے یہودی لیڈروں نے یہاں تک کہہ دیا کہ اب ہمیں خطرہ ہے کہ کہیں امریکہ میں بھی ہمارا وہی حشر نہ ہو جو جرمنی میں ہو چکا ہے۔ جرمنی میں بھی جب یہودیوں کے متعلق جرمنوں میں عام نفرت پیدا ہوئی تب آخر کار جرمنوں نے ان سے خلاصی حاصل کرنے کے لیے ان کا خاتمہ کرنا شروع کیا۔ یہ پٹرول کی مار جب امریکہ کو دی گئی تو امریکہ میں بھی یہودیوں نے یہ محسوس کیا کہ اب ہم خطرے میں ہیں۔ امریکی جیسی سپر طاقت کو یہ چوٹ اللہ کے جس بندے کی بدولت لگی اور جس نے اس یہودی خطرے کی طرف سے امریکہ کے لوگوں کی آنکھیں کھولیں وہ وہی شخص تھا کہ جس کو آج گولی مار کر ختم کر دیا گیا ہے۔ پھر گولی مار کر جس شخص نے اُن کو ختم کیا ہے اس کی تصویر آج آپ نے اخبارات میں دیکھی ہوگی۔ بالکل امریکہ کے ہیپیوں کی سی تصویر ہے۔ امریکہ ہی میں اس نے تعلیم حاصل کی ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے وہ ہیروئن اور اس سے بھی خطرناک نشہ ایل ایس ڈی (L.S.D.) میں مبتلا تھا۔ اب اس کے معنی اس کے سوا کیا ہیں کہ وہ اس ذہن کا آدمی تھا جو سعودی عرب کی دینی حیثیت کو برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ اس طرح کے آدمی کو بیرون ملک وہ طاقتیں استعمال کر سکتی تھیں جن کے اوپر شاہ فیصل کی پالیسیوں سے چوٹ پڑتی تھی۔

ہمارے لیے یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ کس قسم کی سازش تھی اور کس نے کی، لیکن ابھی چند روز پہلے ہم نے یہ پڑھا تھا کہ سی آئی اے کی فہرست پر اس سال دو بڑی شخصیتیں ہیں جن کا قتل ہونا ہے اور اب دیکھ لیا کہ ایک شخصیت کو ختم کر دیا گیا ہے۔ آگے اللہ بہتر جانتا ہے کہ کیا کچھ ہونا ہے۔ بہرحال اللہ سے یہ دعا کیجئے کہ وہ شاہ فیصل کو ان کی بہترین خدمات کا صلہ دے اور ان کی جو بھی کمزوریاں یا لغزشیں یا خطائیں ہوں ان سب کو معاف فرمائے، ان کے بہترین کاموں کے مطابق ان کو بلند ترین درجات عطا فرمائے۔ یہ بھی دعا کیجئے کہ سلطنت سعودیہ اب تک جس طرح اسلام کی پشت پناہ رہی ہے اسی طرح وہ اب نئے بادشاہ شاہ خالد کے دور میں بھی رہے اور بیرونی دشمنوں کو وہاں کوئی فتنہ برپا کرنے کا موقع نہ ملے۔ دنیا میں اس وقت تیس سے زیادہ مسلمانوں کی حکومتیں موجود ہیں لیکن صرف ایک ہی حکومت ایسی تھی جس کو اسلام اور دنیا بھر کے مسلمانوں کے مسائل سے دلچسپی تھی اور جو اپنے تمام ذرائع اور وسائل اسلام اور مسلمانوں کی بھلائی کے لیے استعمال کر رہی تھی۔ یہ ایک سلطنت اگر اسی طرح باقی رہ جائے تب بھی ہم غنیمت سمجھیں گے اگرچہ ہماری دعا یہ ہے کہ مسلمانوں کی تمام حکومتوں کو اللہ تعالیٰ اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ یہ بھی دعا کیجئے کہ اگر اس حادثے کے پیچھے کوئی سازش ہے تو اللہ تعالٰی سازشیوں کو ناکام کرے اور ان کے مقاصد کو پورا نہ ہونے دے۔ آمین۔


الشيخ حسن الهضيبي

یہ ایک عجیب اتفاق ہے کہ مصر میں شیخ حسن البنا شہید نے جس وقت احیائے اسلام کے لیے کام کرنا شروع کیا تھا، قریب قریب وہی زمانہ تھا جب اس برعظیم پاک و ہند میں بھی ٹھیک اسی مقصد کے لیے کام شروع کیا گیا۔ دونوں کے درمیان شاید ایک دو برس کا فرق ہو، لیکن زمانہ تقریباً یکساں ہے۔ سالہا سال تک ان سے ہم اور وہ ہم سے بے خبر رہے۔ حالاں کہ ایک ہی راستے پر چل رہے تھے۔ ایک مدت دراز کے بعد جا کر ہمیں پتہ چلا کہ مصر میں اخوان کی تحریک انہی اغراض و مقاصد کے لیے چل رہی ہے اور اسی طرح سے سالہا سال کے بعد ان کو بھی یہ معلوم ہوا کہ بر عظیم ہندو پاکستان میں اسی طرح کی ایک تحریک کام کر رہی ہے۔ اب یہ خدا کی مشیت ہے کہ وہاں پہلے اس کے مرشد اول شہید ہوئے پھر مرشد ثانی بھی اپنے رب کے حضور پہنچ گئے اور یہاں اس کام کو جس نے شروع کیا تھا وہ دونوں کا غم سہنے کے لیے آج بھی زندہ ہے۔

اخوان کی تحریک کی قدر و قیمت کا اندازہ اس ملک میں بہت کم لوگوں کو ہے۔ مگر جاننے والے جانتے تھے کہ عرب ممالک میں خصوصاً اور دنیا کے دوسرے لوگوں میں عموماً احیائے اسلام کے لیے جو کام ہوا، مسلمانوں میں دینی، اخلاقی بیداری پیدا کرنے کی جو خدمت انجام دی گئی اور عوام و خواص کو حقیقی اسلام سے روشناس کرانے اور خلوص کے ساتھ اسے سر بلند کرنے کی جو کوشش کی گئی وہ زیادہ تر اخوان ہی کی اس تحریک کا ثمرہ ہے جسے شیخ حسن البنا نے شروع کیا اور شیخ عبد القادر عودہ شہید، سید قطب شہید اور حسن الهضیبی مرحوم نے پروان چڑھایا۔ عرب ممالک میں آپ عراق سے مراکو تک چلے جائیں، ہر جگہ آپ یہی دیکھیں گے کہ جن لوگوں کو بھی اسلام سے گہرا اور قلبی تعلق ہے وہ زیادہ تر اخوان ہی کے آدمی ہیں یا ان کی تحریک سے متاثر ہیں۔ اسی طرح امریکہ اور یورپ میں بھی آپ دیکھیں گے کہ جو عرب نوجوان اسلامی جذبے سے سرشار ہیں وہ اکثر و بیشتر اخوانی ہیں۔ حتی کہ اخوانیت ایک طرح سے اسلامیت کا نشان بن گئی ہے۔ کوئی آدمی تعلیم یافتہ ہو اور پھر دیندار بھی ہو تو لوگ آپ سے آپ سمجھ لیتے ہیں یہ ضرور اخوان میں سے ہے یا کم از کم اس تحریک سے متاثر ہے۔ حتی کہ جب اسلام دشمنی کا روگ بعض عرب ممالک کو لاحق ہوا تو ہر اس نوجوان کے پیچھے سی آئی ڈی لگ جاتی تھی جو نماز پڑھتا نظر آتا تھا۔

یہ اللہ کا بڑا کرم ہے کہ اس فتنے کے دور میں اخوان کی تحریک بروقت برپا ہو گئی اور یہ تحریک نہ اٹھی ہوتی تو ہم نہیں کہہ سکتے کہ عرب ممالک لادینیت، قوم پرستی اور سوشلزم کے طوفان میں کس حد تک پہنچ چکے ہوتے۔

اس سلسلے میں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ پچیس تیس سال پہلے عرب ممالک میں جو لوگ بھی اسلامی جذبے سے عاری تھے اور جن پر سیکولر ازم اور قوم پرستی کا شیطان مسلط تھا، وہ سب انڈین نیشنل کانگریس کے حامی اور تصور پاکستان کے مخالف تھے۔ صرف اخوان ہی کا گروہ ایسا تھا جو پاکستان کا حامی تھا۔ آج بھی وہاں وہی پاکستان کے سب سے زیادہ خیر خواہ ہیں۔ مگر یہ عجیب بات ہے کہ جب اخوان پر نئے ذریعے مظالم ہوئے تو یہاں ان سے ہمدردی کرنے والے بہت کم تھے اور دشمنوں کے پروپیگنڈے سے متاثر ہو کر ان پر الزامات لگانے والے اور تہمتیں گھڑنے والے بہت زیادہ پائے گئے۔ حتی کہ جب انصاف کی مٹی پلید کر کے اخوان کو بدترین سزائیں دی گئیں اور ان کے بہترین آدمیوں کو پھانسیوں پر چڑھایا گیا تو یہاں ایسے لوگوں کی بھی کمی نہ تھی جنہوں نے اس پر احسنت و مرحبا کی صدائیں بلند کیں۔ افسوس کہ لوگوں کو دوست اور دشمن کی تمیز بھی نہیں رہی۔ بے شعوری میں یہ احساس تک نہیں کیا گیا کہ ہم اپنے دوستوں کو بُرا کہہ رہے ہیں اور دشمنوں کی ہاں میں ہاں ملا رہے ہیں۔

ہم خلوص دل سے دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ شیخ حسن الهضیبی کو اپنے دامن رحمت میں جگہ دے، ان کو بلند مرتبے عطا فرمائے۔ ان کی قربانیوں اور خدمات کا بہترین اجر عطا فرمائے۔ جن لوگوں نے ان پر ظلم ڈھائے اور بیس سال تک مسلسل ظلم و ستم ڈھاتے رہے، اللہ تعالیٰ اپنے عدل کے مطابق ان سے انتقام لے اور جس صبر و استقامت کے ساتھ مرحوم نے دین کی راہ میں ہر تکلیف کو برداشت کیا اور اسلامی تحریک کی خدمت قید کی حالت میں بھی کرتے رہے اس کا اجر جزیل انہیں عطا فرمائے۔

اللہ تعالیٰ ان اخوان کو بھی بلند مرتبے عطا فرمائے جنہوں نے فلسطین میں یہودیوں کے خلاف جنگ کی اور ایسی بہادری کے ساتھ لڑے کہ یہودی مصر اور دوسری عرب ریاستوں کی باقاعدہ افواج سے بڑھ کر اخوانیوں سے ڈرتے تھے۔ ان میں سے جو اس لڑائی میں شہید ہوئے اللہ ان کی شہادت قبول فرمائے اور جو اس لڑائی میں لڑے اور زندہ بچے اللہ تعالیٰ ان کو مجاہد اور غازی ہونے کا اجر عطا فرمائے۔

یا اللہ! الشیخ حسن البنا کو بلند مرتبے عطا فرما۔ ان کو اپنے مقربین میں جگہ دے۔ ہم گواہ ہیں کہ یہ وہی تھے جنہوں نے وہاں احیائے اسلام کی اس تحریک کو اٹھایا۔ لاکھوں نوجوانوں کی زندگیاں تبدیل کیں اور اس میں وہ روح جہاد پھونکی جس کی بدولت اس وقت تک بھی ہر طرح کے ظلم و ستم کے باوجود مصر کی سرزمین سے اسلامی تحریک کے اثرات نہیں مٹائے جا سکتے۔

یا اللہ! ان لوگوں کی قربانیوں کو بھی قبول فرما جن کو پھانسیوں پر چڑھایا گیا۔ شیخ عبد القادر عودہ اور سید قطب شہید کے دوسرے ساتھیوں کو وہ اجر دے جو تو نے اپنی راہ میں شہید ہونے والوں کے لیے مقرر کر رکھا ہے۔ یا اللہ! ان لوگوں کو بھی بلند مرتبے عطا فرما جنہوں نے ظالموں کی جیلوں میں ہر طرح کی سختیاں برداشت کیں اور ایسے بدترین مظالم سہے جن کے تصور سے بھی انسان کا ضمیر کانپ اٹھتا ہے لیکن ان کے قدموں میں کبھی لغزش نہ آئی اور ان میں سے کسی نے ظالموں کے آگے سر نہیں جھکایا حالانکہ ان کا قصور اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ وہ تیرے دین حق کی سربلندی چاہتے تھے۔


مفتی اعظم فلسطین، السيد امين الحسيني

(مولانا کا درج ذیل انٹرویو مفتی اعظم مرحوم کی پہلی برسی کے موقع پر ہفت روزہ ”استقلال“ لاہور (۲۱ جولائی ۱۹۷۵ء) میں شائع ہوا۔)

سوال: مفتی اعظم فلسطین سید امین الحسینی سے آپ کی پہلی ملاقات کب ہوئی اور آخری کب؟

جواب: مفتی اعظم فلسطین سے میری پہلی ملاقات ۱۹۳۵ء میں ہوئی تھی، جب میں حیدرآباد دکن میں تھا۔ اس زمانہ میں رسالہ ”ترجمان القرآن“ حیدرآباد سے شائع ہوتا تھا۔ مفتی صاحب مصر کے مشہور رہنماء محمد علی علوبہ پاشا کے ساتھ ایران و افغانستان ہوتے ہوئے حیدرآباد پہنچے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب یہودی فلسطین کو اپنا قومی وطن بنانے کی کوشش میں سرگرم تھے اور اس مقصد کے لیے انہوں نے فلسطین کے اندر اور باہر سازشوں کا ایک جال پھیلا رکھا تھا۔ مفتی اعظم اور علوبہ پاشا مسلمانوں کو اس خطرے سے آگاہ کرنے کے مشن پر نکلے ہوئے تھے۔ حیدرآباد پہنچے تو کچھ لوگوں نے ان سے میرا ذکر کیا اور انہوں نے مجھ سے ملاقات کی خواہش کی۔ نواب بہادر یار جنگ مرحوم کے ہاں ایک تقریب میں وہ بھی مدعو تھے اور میں بھی۔ اس طرح میری ان سے پہلی ملاقات ہوئی۔ یہ اس وقت جوان تھے۔ جوش و خروش سے سیاسی زندگی میں داخل ہو چکے تھے اور یہودی سازش کو روکنے کے لیے فلسطین میں زبردست تحریک چلا رہے تھے۔ آخری ملاقات ان کے عہد پیری میں اس وقت ہوئی جب وہ لاہور کی اسلامی سربراہی کانفرنس میں تشریف لائے تھے۔ دفتر جماعت اسلامی میں ایک روز اچانک ہی وہ تشریف لے آئے اور بڑی دیر تک گفتگو فرماتے رہے۔ اس وقت میں نہ جانتا تھا کہ اس مرد بزرگ سے میری یہ آخری ملاقات ہے۔

سوال: مفتی اعظم سے پہلی ملاقات کے بعد آپ کے تاثرات کیا تھے؟ اور آخری کے بعد کیا؟

جواب: پہلی ملاقات ہوئے اب چالیس سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ تفصیلات تو یاد نہیں، بس یہ یاد ہے کہ اپنی تقریر میں بھی اور گفتگو میں بھی وہ اول و آخر مسلمان تھے۔ عرب قوم پرستی کا شائبہ تک بھی ان کی کسی بات میں نہ پایا جاتا تھا۔ فلسطین اور بیت المقدس کے مسئلہ کو وہ سراسر ایک اسلامی مسئلہ سمجھتے تھے اور تمام دنیا کے مسلمانوں کو اس مقصد کے لیے متحد کرنا چاہتے تھے کہ وہ قبلہ اول کو اعدائے دین کے چنگل سے نکالنے کی کوشش کریں۔ آخری ملاقات کے موقع پر یا وہ تاثر پھر تازہ ہو گیا جو چالیس سال پہلے قائم ہوا تھا، میں نے محسوس کیا کہ یہ بندہ حق اپنے اصولوں کا کتنا پکا ہے۔ اپنی سیاسی زندگی کا آغاز جن مقاصد اور اصولوں پر انہوں نے کیا تھا انہی پر اب بھی قائم تھے۔ خاص طور پر فلسطین کے بارے میں شروع سے آخر تک ان کے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ بہت سے دیگر عرب رہنماؤں کے موقف بدل گئے مگر انہوں نے شروع میں جو موقف اختیار کیا تھا آخر تک اسی پر قائم رہے۔ وہ شروع سے اس اصول پر قائم تھے کہ مسئلہ فلسطین کا حل یہ ہے کہ باہر سے آنے والے یہودی یہاں سے چلے جائیں نیز یہ کہ فلسطین کوئی بیرونی طاقت واپس لے کر نہیں دے گی بلکہ مسلمانوں کو اس کے حصول کے لیے خود جہاد کرنا ہو گا۔ وہ فلسطین کے حصول کا واحد حل جہاد ہی کو سمجھتے تھے۔ پہلے بھی اور عمر کے آخری دور میں بھی۔

سوال: قیام پاکستان سے پہلے وہ تحریک پاکستان کے متعلق کیا رائے رکھتے تھے؟ کبھی اس مسئلہ میں ان سے آپ کی گفت گو ہوئی تھی؟

جواب: قیام پاکستان سے پہلے وہ تحریک پاکستان کے زبردست حامی تھے۔ صوبہ سرحد کے مسلمانوں کے الگ وطن کے قیام کی جدوجہد میں مسلم لیگ کے موقف کے حامی اور کانگریس کے مخالف تھے۔ تقسیم ہند کے بعد تو وہ دنیائے عرب میں پاکستان کے سب سے بڑے حامی اور وکیل بن گئے تھے اور معلوم ہوتا تھا کہ انہیں اس ملک سے عشق ہے۔ قیام پاکستان کے بعد قاہرہ میں اخوان المسلمون کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں فلسطین کے بدلے میں پاکستان عنایت کیا ہے۔ اس سے پاکستان کے ساتھ ان کی محبت اور توقعات کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ وہ ابتدا سے عرب سربراہوں کو پاکستان کے قریب لانے کی بھرپور کوشش کرتے رہے۔ بہت سے عرب سربراہوں اور رہنماؤں کے ساتھ ان کے قریبی تعلقات تھے۔ دنیائے عرب میں ان کا بہت اثر تھا۔ انہوں نے ہمیشہ اپنے اثرات اور تعلقات کو پاکستان کے لیے استعمال کیا۔ جن عرب حکومتوں نے مختلف اوقات میں پاکستان سے قریبی اور برادرانہ تعلقات قائم کیے، ان کے ذہن کی تیاری میں مفتی اعظم کا بڑا حصہ تھا۔ مثلاً شاہ فیصل شہید شروع میں ایک عرب رہنما کی طرح پاکستان کے متعلق خیالات رکھتے تھے لیکن آخری عمر میں یہ حال ہو گیا تھا کہ وہ ہم پاکستانیوں سے زیادہ پاکستان سے محبت کرتے تھے۔ اس تبدیلی میں مفتی اعظم کی شاہ فیصل شہید سے دوستی کا بھی ہاتھ تھا۔ ان کی وفات کے بعد دنیائے عرب میں پاکستان کو اتنا بڑا حامی اور اس کے حق میں رائے ہموار کرنے والا شاید ہی کوئی مل سکے۔

سوال: آپ کے علم کے مطابق مفتی اعظم کبھی قائد اعظم اور علامہ اقبال سے بھی ملے ہیں؟

جواب: علامہ اقبال تو پہلی اسلامی کانفرنس میں بھی شامل تھے جو ۱۹۳۱ء میں مفتی اعظم نے بیت المقدس میں بلائی تھی۔ وہ علامہ کے نہ صرف مداح بلکہ عاشق تھے۔ انہوں نے خاص طور پر علامہ کو اس کانفرنس میں بلایا تھا۔ جب بھی ملے انہوں نے ہمیشہ علامہ کے بارے میں نہایت محبت کا اظہار کیا۔ قائد اعظم سے ملاقات کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن خیال یہی ہے کہ ان سے بھی ملے ہوں گے۔ متعدد مسلم لیگی رہنماؤں سے ان کے ذاتی تعلقات تھے۔ مثلاً لیاقت علی خاں مرحوم اور چودھری خلیق الزمان مرحوم وغیرہ۔

سوال: کیا مفتی اعظم پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے کی جانے والی مساعی سے مطمئن تھے؟ سرکاری اور غیر سرکاری مساعی سے؟

جواب: انہوں نے ہمیشہ پاکستان میں اسلامی نظام اور اسلامی اخوت کے قیام پر زور دیا۔ اپنے طور پر انہوں نے اس مقصد کے لیے جو کچھ ہو سکتا تھا، کیا تھا۔ اسلامی نظام کے تو وہ نہ صرف مداح بلکہ پر زور حامی تھے۔ ان کے نزدیک پاکستان کا بقا اسلامی نظام کے نفاذ پر منحصر تھا۔ یہاں کی مختلف حکومتوں نے اس سلسلہ میں جو کچھ کیا اس کی حقیقت کو وہ خوب سمجھتے تھے۔ اور کبھی کسی غلط فہمی میں مبتلا نہیں ہوئے۔ لیکن ہر آتی جاتی حکومت سے انہوں نے اپنے تعلقات اچھے رکھے اور جب کبھی اسلامی تحریک اور حکومت وقت کے درمیان تصادم کا خطرہ پیدا ہوا، انہوں نے اپنی حد تک اس تصادم کو روکنے کی کوشش کی۔ ۱۹۶۵ء کی جنگ کے بعد جب وہ پاکستان آئے تو انہوں نے اپنی تقریروں میں صاف صاف کہا تھا کہ میں پاکستان میں مختلف قسم کی عصبیتوں کو ابھرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔ بلوچی، پنجابی، سندھی اور پٹھان قومیتوں کے نعرے دیے جا رہے ہیں۔ مجھے ڈر ہے کہ قومیتوں کا فتنہ پاکستان کا بھی وہی حشر نہ کرے جو اس سے پہلے یہ عالم عرب کا کر چکا ہے۔ انہوں نے ان فتنوں سے بچنے کے لیے فوری طور پر اسلامی نظام کے قیام کی ضرورت پر زور دیا تھا۔

سوال: کیا وہ عالم عرب کے اندرونی حالات سے مطمئن تھے؟

جواب: ایک زمانہ میں وہ ان حالات کی وجہ سے بڑے پریشان رہتے تھے۔ لیکن آخری عمر میں اتحاد عالم اسلامی کی تحریک کی کامیابی کے امکانات سے قدرے پر امید ہو گئے تھے۔ تاہم چونکہ وہ یہودیوں اور ان کی چالوں پر بڑی گہری نظر رکھتے تھے اور جانتے تھے کہ وہ دنیائے اسلام اور عرب ممالک میں کس کس طرح فکری، نظریاتی اور سیاسی سازشوں کے جال پھیلا رہے ہیں، اس لیے ہر وقت ان سے چوکتے رہتے تھے۔ اصلاح احوال کے لیے وہ مسلمان حکومتوں کے اتحاد اور مسلم ممالک میں اسلامی معاشرے کے قیام کو ضروری سمجھتے تھے۔

سوال: اخوان المسلمین سے ان کے تعلقات کی کیا نوعیت تھی؟

جواب: اخوان المسلمین کے بانی شیخ حسن البنا شہید کے وہ ذاتی دوست تھے۔ انہوں نے اخوان کی دعوت کے بارے میں کہا تھا کہ جہاں میرا کام ختم ہوتا ہے وہاں سے اخوان کا کام شروع ہوتا ہے۔ اسرائیل کے قیام کے فوراً بعد اخوان نے رضا کار بھرتی کر کے یہودیوں کے خلاف جہاد شروع کیا، تو مفتی صاحب ان کے شانہ بشانہ لڑ رہے تھے۔ جب ۱۹۵۴ء میں اخوان پر ابتلاء کا دور آیا تو انہوں نے اخوان کے ساتھ صدر ناصر کے سلوک پر شدید احتجاج کیا تھا۔ پھر جب اخوان کے نامور قائدین کو پھانسی کی سزا کا حکم دیا گیا تو انہوں نے انہیں ذاتی طور پر تار دیے تھے کہ سزا نافذ نہ کی جائے۔ ۱۹۶۶ء میں سید قطب اور ان کے ساتھیوں کی شہادت پر بھی انہوں نے شدید احتجاج کیا تھا۔ وہ کہا کرتے تھے کہ اخوان کا جذبہ جہاد ان کے ابتلاء کا باعث بنا کیونکہ اسرائیل اور یہودیوں کو اندازہ ہو گیا تھا کہ ان کی اصل مخالف قوت دنیائے عرب میں کونسی ہے، اس لیے امریکہ اور روس دونوں کی خواہش یہ تھی کہ اسلام کی اس ابھرتی ہوئی طاقت کو کچل ڈالا جائے۔ افسوس کہ یہ مقصد تو کفار کا تھا مگر پورا مسلمانوں کے ہاتھوں ہوا؟

سوال: کیا وہ آزادی فلسطین کی موجودہ جدوجہد اور طریق کار سے مطمئن تھے؟

جواب: آزادی فلسطین کے نام پر بہت سی تنظیمیں کام کر رہی ہیں۔ ان میں سے بعض یہودیوں اور فلسطینی عیسائیوں کی قائم کردہ بھی ہیں۔ مثلاً جارج حبش کی پاپولر فرنٹ۔ آخری دور میں جب ان تنظیموں نے مشترکہ محاذ قائم کیا اور یاسر عرفات کو اس محاذ کی قیادت سونپی گئی تو وہ اس پر مطمئن تھے۔ میرے علم کی حد تک ان کے یاسر عرفات سے گہرے روابط تھے۔ ایک مرتبہ اس بات پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ عرصہ دراز کے بعد مسئلہ فلسطین فلسطینیوں کے اپنے ہاتھ میں آیا ہے اور دوسرے ان کے پیچھے چل رہے ہیں۔ ورنہ پہلے معاملہ اس کے برعکس تھا۔

سوال: آپ کے خیال میں اہل پاکستان اپنے بھائیوں کی اس جدوجہد میں کس طرح تعاون کر سکتے ہیں؟

جواب: مفتی اعظم اس تعاون کے سلسلہ میں جو کوشش کرتے رہے وہی تھی کہ مسلمان ممالک کسی صورت میں بھی اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرنے کی غلطی نہ کریں بلکہ ہر سطح پر اس کی مخالفت کی جائے، فلسطین کے بارے میں کسی قسم کی سودے بازی نہ کی جائے۔ باہر سے آئے ہوئے یہودیوں کو فلسطین میں آباد ہونے کا حق نہ دیا جائے۔ بیت المقدس کی آزادی کو فلسطین کی آزادی کا جزو لاینفک سمجھا جائے اور اسے ایک آزاد بین الاقوامی شہر بنانے کی تجویز ہرگز نہ مانی جائے۔ اہل پاکستان پر مفتی اعظم مرحوم و مغفور کا یہ حق ہے کہ وہ ان کی تمناؤں کو پورا کرنے میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ان کی ذاتی تمنائیں تھیں بھی نہیں بلکہ ہر سچے مسلمان کے دل کی تمنائیں یہی ہیں۔

سوال: کیا مفتی اعظم مختلف اسلامی ممالک میں اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے چلنے والی مختلف تحریکوں کے طریق کار اور کامیابیوں سے مطمئن تھے؟

جواب: اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے دنیا میں جہاں بھی کوئی تحریک چل رہی ہے اس کے قائدین سے ان کے ذاتی نوعیت کے تعلقات تھے۔ وہ ان تحریکوں سے رابطہ رکھتے تھے۔ ان کے حالات سے واقف تھے اور اگر کہیں کوئی خامی یا غلطی نظر آتی تھی تو اسے بھی بلا روک ٹوک بیان کر دیتے تھے اور اصلاح کا مشورہ دیتے تھے۔

سوال: وہ ان تحریکوں کے درمیان رابطے کی ضرورت محسوس کرتے تھے اور اس مقصد کے لیے کبھی کوشش بھی کی؟

جواب: وہ نہ صرف رابطے کی ضرورت محسوس کرتے تھے بلکہ خود ان کے درمیان ایک رابطہ بنے ہوئے تھے۔ پھر وہ دعوتِ اسلامی کے لیے ایک عام کارکن کی طرح کام کرتے تھے۔

سوال: لاہور کی اسلامی سربراہی کانفرنس کے بارے میں ان کا کیا خیال تھا اور پاکستان کے بنگلہ دیش کو تسلیم کر لینے پر کیا رد عمل تھا؟

جواب: وہ اس بات پر خوش تھے کہ یہ کانفرنس پاکستان میں ہو رہی ہے اور اس میں بہت سے مسلمان ممالک شرکت کر رہے ہیں لیکن اس بات پر سخت آزردہ تھے کہ بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے کا اعلان اس کانفرنس میں کر کے خواہ مخواہ دوسرے مسلمان بھائیوں کو اس فعل میں شامل کر لیا گیا۔ وہ بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے کے حق میں نہیں تھے۔ میری اطلاعات کے مطابق انہوں نے کانفرنس کے اندر ذمہ دار لوگوں سے خود بھی اپنی اس رائے کا اظہار کیا تھا اور ان کو یہ بھی بتایا تھا کہ پاکستان کے لوگوں کا رد عمل اس فعل کے خلاف کتنا شدید ہے۔ حکومت کی کوشش یہ تھی کہ کانفرنس کے شرکاء پاکستانیوں کے اس رد عمل سے واقف نہ ہونے پائیں۔ لیکن وہ مرد مجاہد یہ کام کرتا رہا تاہم چونکہ وہ ایک با ہوش انسان تھے اس لیے جب بنگلہ دیش تسلیم کر ہی لیا گیا تو انہوں نے کہا کہ اب ہمیں اس شر میں سے خیر کے پہلو تلاش کرنے چاہئیں۔

سوال: مفتی اعظم کی زندگی کی کن کن خصوصیات نے آپ کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے؟

جواب: مفتی اعظم کی اصول پسندی اور اخلاص کا میں ہمیشہ قدردان رہا ہوں۔ وہ بڑے مخلص مسلمان تھے اور بڑے مشکل وقت میں بھی اصول کو اپنے ہاتھ سے نہیں چھوڑتے تھے۔ ان میں حکمت اور دانائی انتہا درجے کی تھی۔ انہیں اپنی مجاہدانہ زندگی میں بڑے کٹھن امتحانوں اور آزمائشوں سے گزرنا پڑا اور خدا کے فضل سے اپنی حکمت و دانائی کی بدولت وہ ہر مرتبہ بچ نکلنے میں کامیاب ہوتے۔ وہ مسائل کا تجزیہ کرتے وقت جذبات کو نہیں عقل کو راہنما بناتے تھے۔ مثلاً دنیائے عرب کے دیگر سب رہنماؤں نے عربوں کے انحطاط کا ذمہ دار ترکوں کو ٹھہرایا اور اپنے تمام مسائل کی بات کرتے وقت ان پر بے رحم تنقید کی لیکن مفتی اعظم نے ہمیشہ حقیقت پسندانہ تجزیہ کیا اور جنگ عظیم اول کے زمانے میں پیش آنے والے حالات کی ذمہ داری یکساں ترکوں اور عربوں پر عائد کی۔ جب دنیائے عرب میں عرب قومیت کا طوفان بپا تھا اس وقت بھی انہوں نے اس سلسلہ میں کبھی نسلی تعصب کا اظہار نہیں کیا۔ مفتی صاحب کا حافظہ بھی غیر معمولی تھا۔ پرانے واقعات وہ اتنی تفصیل کے ساتھ بیان فرماتے تھے، گویا وہ اب پیش آتے ہیں اور گزرتے ہوئے حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے وہ ایک ایک واقعہ کے جزئیات تک کا حوالہ دیتے چلے جاتے تھے۔

سوال: مفتی اعظم فلسطین کے مشن کو جاری رکھنے کے لیے ہمیں کیا کرنا چاہئیے؟

جواب: مرحوم کے مشن کا خلاصہ یہ ہے:
۱۔ مسلمانوں اور مسلم ممالک کے درمیان اتحاد قائم ہو۔ صرف مذہبی اور سیاسی میدان میں ہی نہیں بلکہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں بھی ان کے درمیان باہمی روابط مضبوط بنائے جائیں۔
۲۔ مسلمان ممالک اپنے ہاں اسلامی نظام اور اسلامی معاشرے قائم کریں اور اسلام کے اصولوں کے مطابق صحیح جمہوری طریقوں سے کام کریں۔
۳۔ مسلمان کی حیثیت سے زندہ رہنے کے لیے ان کو ہمیشہ جہاد کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ جہاد کے سلسلہ میں وہ بعض مسلمان گروہوں کو خاص طور پر پسند کرتے تھے جن میں پاکستان کے مسلمان، شمالی افریقہ کے بربر مسلمان اور یوگو سلاویہ کے مسلمان شامل ہیں۔ وہ ان کی بہادری اور جذبہ اسلامی کے بہت مداح تھے بلکہ وہ کہا کرتے تھے کہ ترکوں کی اصل قوت یوگو سلاویہ کے مسلمان تھے۔

سوال: مفتی اعظم کی موت کی خبر آپ کو کہاں ملی اور آپ نے کیا محسوس کیا؟

جواب: میں اس وقت امریکہ کے شہر سیراکیوز میں تھا۔ وہاں کے مقامی اخبارات بالعموم مقامی دلچسپیوں تک محدود رہتے ہیں اور بین الاقوامی خبریں ان میں بہت ہی کم ہوتی ہیں۔ ایک روز اتفاق سے نیویارک ٹائمز کا ایک پرچہ مل گیا، جس کے ایک کونے میں اس خبر پر نظر پڑی اور شدید صدمہ ہوا۔ اسی وقت ان کے داماد کو تعزیت کا تار دیا اور ان کی مغفرت کے لیے بار بار دعائیں دل سے نکلتی رہیں۔ ان کو مجھ سے اور مجھ کو ان سے جو گہری دوستانہ محبت تھی اس کی وجہ سے میں نے اس صدمہ کو اتنی ہی شدت سے محسوس کیا جس شدت سے میں اپنے کسی قریب ترین عزیز کی موت کا صدمہ محسوس کرتا ہوں۔

سوال: مفتی اعظم کی زندگی کا کوئی ناقابل فراموش واقعہ جو آپ کے ذہن پر نقش ہو کر رہ گیا ہو؟

جواب: واقعات تو بہت سے ہیں مگر صرف ایک واقعہ بیان کرتا ہوں۔ میں آخری مرتبہ ۱۹۶۶ء میں رابطہ عالم اسلامی کے اجلاس سے فارغ ہو کر جدہ کے ایک ہوٹل میں ٹھہرا ہوا تھا۔ ایک روز یکایک مفتی صاحب میرے پاس تشریف لائے۔ فرمانے لگے، پاکستان میں انتخاب ہونے والے ہیں۔ ان میں جماعت اسلامی کی شرکت کو میں جہاد فی سبیل اللہ سمجھتا ہوں۔ اس جہاد میں پاؤں تو غبار آلود نہیں کر سکتا لیکن اپنا فرض یہ سمجھتا ہوں کہ جماعت کے دعوت و تبلیغ کے جہاد میں مال سے حصہ لوں۔ یہ فرما کر ایک اچھی خاصی رقم نکال کر مجھے دی۔ اس وقت میرے اور ان کے درمیان تیسرا صرف خدا تھا۔ یہ خالص فی سبیل اللہ اتفاق تھا جس میں ریاء کا شائبہ تک نہ ہو سکتا تھا۔ میں نہ صرف ان کے اس جذبے سے بے حد متاثر ہوا بلکہ اس کے ساتھ ہی میرا دل اللہ تعالیٰ کے شکر سے لبریز ہو گیا کہ اس کا ایسا نیک بندہ جماعت اسلامی کے برحق ہونے کا کتنا یقین رکھتا ہے۔


چودھری علی احمد

حیدرآباد سے رسالہ ترجمان القرآن کی اشاعت شروع ہونے کے بعد سب سے پہلے جن لوگوں نے اس کے اندر ایک دعوت اور ایک مقصد کا اثر محسوس کیا اور اس کی طرف توجہ کی ان میں سے ایک چودھری علی احمد خاں مرحوم و مغفور بھی تھے۔ وہ اس وقت پھلور کے فنگر پرنٹ بیورو میں ملازم تھے جو پولیس کا ایک شعبہ تھا۔ انہوں نے مجھ سے مراسلت شروع کی اور ابتدائی خطوط ہی سے مجھے تعجب کے ساتھ یہ مسرت انگیز احساس ہوا کہ پولیس کے اس ملازم کے اندر ایک سعید روح پائی جاتی ہے۔ بعد میں جوں جوں دعوت اور مقصدیت کا رنگ بڑھتا گیا ان کی دلچسپی بھی بڑھتی چلی گئی۔ یہاں تک کہ جب لاہور میں جماعت اسلامی کی تشکیل ہوئی تو جن چند لوگوں کے متعلق میرا پیشگی اندازہ تھا کہ وہ ضرور اس میں شامل ہوں گے، ان کے زمرے میں چودھری صاحب مرحوم کو میں نے آپ ہی آپ شمار کر لیا تھا بغیر اس کے کہ ان کی طرف سے اس کا کوئی اظہار ہو۔ آخر کار واقعات نے میری اس توقع کو صحیح ثابت کیا اور ایک مدت تک پرکھنے کے بعد ایک روز وہ پولیس کی ملازمت ترک کر کے جماعت میں شامل ہو گئے۔

میرے دل میں پہلے ہی ان کی بہت قدر تھی لیکن مجھے ان کے عزم و اخلاص کا صحیح اندازہ اس وقت ہوا جب ۱۹۴۷ء کے آغاز میں مجھ کو خود پھلور جانے کا اتفاق ہوا۔ ملازمت چھوڑنے کے بعد وہ جس پامردی کے ساتھ مالی مشکلات کا مقابلہ کر رہے تھے اور گرد و پیش کے لوگوں کو جس طرح اپنی دعوت و تبلیغ اور اپنے بلند کیریکٹر سے متاثر کر رہے تھے اس کو دیکھ کر میں نے محسوس کیا کہ جماعت اسلامی کو ان کی ذات میں ایک بہترین کارکن میسر آیا ہے۔ میں اسی وقت یہ رائے قائم کر چکا تھا کہ چودھری صاحب ہر میدان میں کام کر سکتے ہیں اور ہر مہم کے لیے موزوں ثابت ہو سکتے ہیں۔

چند مہینے نہ گزرے تھے کہ تقسیم ہند و پاکستان کے بعد فوراً ہی ایسے حالات پیش آگئے جن میں مرحوم کی ان قابلیتوں کا ثبوت مل گیا۔ اگست ۴۷ء کے آخر میں مرکز جماعت اسلامی کو پٹھان کوٹ سے لاہور منتقل کرنے کے بعد ہمارے سامنے فوری اور اہم کام یہ تھا کہ جماعت کی زیادہ سے زیادہ قوت مجتمع کر کے ان مہاجرین کی خدمت کی جائے جو لاکھوں کی تعداد میں سیلاب کی طرح پاکستان کی طرف چلے آرہے تھے۔ اس غرض کے لیے نہ صرف ان رفقاء کو لاہور طلب کیا گیا جو پہلے سے پاکستان میں موجود تھے، بلکہ ان رفقاء کی خدمات بھی طلب کی گئیں جو خود مشرقی پنجاب سے تباہ و برباد ہو کر آرہے تھے اور جن کے لیے خود اپنے ٹھکانے کی تلاش کا مسئلہ کسی دوسرے مہاجر کی نسبت کم اہم نہ تھا۔ خدا کا شکر ہے کہ اس سخت امتحان میں جماعت کے کثیر التعداد ارکان و ہمدرد پورے اترے اور کم از کم ارکان میں سے تو کسی ایک نے بھی اپنی بے سر و سامانی کا عذر کر کے خدمت سے منہ نہیں موڑا۔ پانچ چھ سو کارکنوں کی اس جمعیت کو فراہم کرنے کے بعد ہمارے سامنے یہ سوال تھا کہ اس پورے کام کا ذمہ دار کس شخص کو بنایا جائے؟ اس وقت نہ صرف میری بلکہ جماعت کے دوسرے اہل الرائے حضرات کی نگاہ بھی چودھری صاحب مرحوم پر پڑی۔ اور مجھے یہ معلوم کر کے خوشی ہوئی کہ میں نے ان کے متعلق جو اندازہ کیا تھا، قریب قریب وہی اندازہ جماعت کے دوسرے اہل الرائے حضرات کا بھی تھا۔ اس کام میں انہوں نے اپنی تنظیمی صلاحیت ہی ثابت نہیں کی، بلکہ یہ بھی ثابت کر دیا کہ وہ اپنی انتھک محنت سے اور اپنے حسن اخلاق سے اپنے خلوص کا اثر سب ساتھیوں کے اندر پھیلا دیتے ہیں جو ان کے ماتحت کام کر رہے ہوں۔ ان کی اس خوبی کو بالعموم جماعت کے لوگوں نے محسوس کیا کہ ڈیوٹی لینے میں اور نظم کی پابندی کرانے میں نہایت سخت ہونے کے باوجود کسی شخص کو ان سے ادنیٰ شکایت بھی پیدا نہیں ہوتی، بلکہ ان کی مستعدی اور جفاکشی کی وجہ سے خود کارکنوں میں یہ سپرٹ پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ کسی سخت سے سخت ڈیوٹی کو قبول کرنے اور انجام دینے سے منہ نہ موڑیں۔

اس کے بعد مجھے یقین ہو گیا تھا کہ جماعت اسلامی میں جو چند آدمی مہمات کے لیے موزوں ہیں ان میں سے ایک چودھری صاحب مرحوم ہیں۔ مشرقی پاکستان میں تین سال کے اندر انہوں نے جو خدمات انجام دیں، انہوں نے نہ صرف اس رائے کی تصدیق کی، بلکہ ہم سب کی توقعات سے اپنے آپ کو بڑھا ہوا ثابت کیا۔ مشرقی پاکستان کے پچھلے دورے میں مجھے اس بات کا صحیح اندازہ ہوا کہ چودھری صاحب مرحوم نے وہاں اس قلیل مدت میں کتنا بڑا کام کیا ہے۔ خود مشرقی پاکستان کے رفقاء کو بھی میں نے ان کے حق میں رطب اللسان پایا۔ وہاں کوئی ایک شخص بھی مجھے اب تک نہیں ملا جس نے ان کی کوئی شکایت کی ہو بلکہ جماعت سے شدید اختلاف رکھنے والے لوگوں نے بھی ان کی قابلیت، خلوص، مستعدی اور انتھک محنت کی تعریف کی۔

اب جبکہ اپنی وسعت مطالعہ سے انہوں نے اپنی ذہنی صلاحیتوں کو خوب چمکا لیا تھا اور ہر میدان میں کام کر کے وہ خوب تجربہ کار ہو چکے تھے، ہم یہ توقع رکھتے تھے کہ وہ اللہ کی راہ میں بڑے کارنامے انجام دیں گے، لیکن اپنی مصلحتوں کو اللہ تعالیٰ خود ہی بہتر جانتا ہے۔ جو وقت ہمارے نزدیک ان کے یہاں کام کرنے کا تھا، اللہ تعالیٰ کے علم میں وہی وقت ان کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دینے کے لیے موزوں تھا۔ اگرچہ ہم سب اس نقصان عظیم کو شدت کے ساتھ محسوس کر رہے ہیں، لیکن ہمارے بس میں اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ مرضی الٰہی کے آگے سر تسلیم خم کردیں۔ (علی احمد چودھری، مرتبہ اسد گیلانی)


حضرت مولانا احمد رضا خاں صاحب بریلوی

مکتوب بنام قاضی کوکب النبی صاحب، صدر مجلس صداقت اسلام، لاہور

محترمی و مکرمی، السلام علیکم ورحمۃ اللہ

آپ کا عنایت نامہ ملا۔ مجھے افسوس ہے کہ میں مولانا احمد رضا خاں صاحب کے متعلق کوئی تفصیلی تاثر یا پیغام پیش نہیں کر سکتا۔ میری صحت ایک عرصے سے خراب چلی آرہی ہے اور گذشتہ چند روز سے میری طبیعت بالخصوص بہت خستگی محسوس کر رہی ہے کیونکہ میں جماعت اسلامی کی مجلس شوریٰ اور تحریک جمہوریت کے اجتماعات میں مسلسل شامل ہوتا رہا ہوں۔

مولانا احمد رضا خاں صاحب کے علم و فضل کا میرے دل میں بڑا احترام ہے۔ فی الواقع وہ علوم دینی پر بڑی وسیع نظر رکھتے تھے اور ان کی اس فضیلت کا اعتراف ان لوگوں کو بھی ہے جو ان سے اختلاف رکھتے ہیں۔ نزاعی مسائل کی وجہ سے جو تلخیاں پیدا ہوئیں، جن کا ذکر آپ نے خود بھی دعوت نامے میں کیا ہے، دراصل وہی ان کے علمی کمالات اور دینی خدمات پر پردہ پڑنے کی موجب بنی ہیں۔ جن بزرگوں کی تحریروں کے باعث بحث و مناظرہ کی ابتدا ہوئی وہ اب تو مرحوم ہو چکے اور اپنے رب کے حضور حاضر ہو چکے، مگر افسوس ہے جو تلخی اور گرمی آغاز میں پیدا ہوئی تھی دونوں طرف سے اس میں اضافہ ہی ہو رہا ہے۔

آپ حضرات جنہوں نے مولانا مرحوم سے کسب فیض کیا ہے، آپ کا یہ کام ہے کہ آپ ان تلخیوں کو دور کرنے اور اس خلیج کو پاٹنے کی کوشش کریں اور اختلافی مسائل میں مباحث سے بچتے ہوئے مولانا مرحوم و مغفور کی علمی خدمات سے عامۃ المسلمین کو روشناس کرائیں۔

(خاکسار ابوالاعلیٰ)

(مکاتیب حصہ اول ص ۲۴۰)


ڈاکٹر نذیر احمد شہید

(۱)

ڈاکٹر صاحب مرحوم ان گنتی کے چند افراد میں سے تھے جن کو ہم اپنی قوم کے مخلص ترین انسانوں میں شمار کر سکتے ہیں۔ انہوں نے محض اپنے اخلاق کے بل پر ڈیرہ غازی خاں جیسے جاگیردار زدہ ضلع میں، جو پنجاب کا کالا پانی کہلاتا تھا، اپنے اثرات قائم کیے اور تحریک اسلامی کو نہایت کامیابی کے ساتھ پروان چڑھایا۔ خود ان کو لوگوں کے درمیان اتنی مقبولیت حاصل ہوئی، کہ جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے مقابلے میں عوام نے انتخابات میں ان کو قومی اسمبلی کا رکن چنا۔ یہ ساری کامیابی انہوں نے کسی مکر اور فریب سے نہیں بلکہ کمال درجہ دیانت داری اور کمال درجے کی خدمت خلق اور ہمدردی خلق کے ذریعے سے حاصل کی۔

ان کی زندگی کے آخری زمانے میں میں دیکھ رہا تھا کہ ان کی صحت بری طرح خراب ہو رہی ہے۔ ان کو بے خوابی کا مرض ایسا لاحق ہوا تھا کہ دواؤں سے بھی ان کو نیند نہ آتی تھی۔ مہینوں اسی حالت پر گزر گئے تھے۔ میں بار بار ان سے کہتا تھا کہ ڈاکٹر صاحب خدا کے لیے اپنی صحت پر رحم کریں۔ اس حالت میں آپ جو بار اٹھا رہے ہیں یہ آپ کو ختم کرے گا۔ لیکن مقصد کی لگن اور نصب العین کی دھن میں انہیں اپنے تن بدن کا ہوش نہیں تھا۔ کسی بیماری کی انہوں نے پرواہ نہیں کی۔ وہ رات رات بھر جاگے ہیں اور دن بھر انھوں نے کام کیا ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ ایسے آدمی جو مدتوں میں پیدا ہوتے ہیں ایک گولی چند سیکنڈ میں ان کا خاتمہ کر دیتی ہے۔ وہ ظالم جو ان کے قاتل ہیں وہ اس قابل تو نہیں ہیں کہ اس قوم کو کام کے آدمی تیار کر کے دے سکیں، وہ غنڈے، بد معاش اور ظالم تو فراہم کر سکتے ہیں لیکن شریف، خادم خلق اور نیک انسان فراہم نہیں کر سکتے، البتہ یہ خدمت ضرور انجام دے سکتے ہیں کہ جو لوگ برسوں کی تربیتوں اور محنتوں سے کام کے آدمی بنے ہوں ان کو ایک سیکنڈ کے اندر گولی مار کر ختم کر دیں۔ میں یہ گمان نہیں کر سکتا کہ اس کائنات کا خالق اور زمین کا مالک معاذ اللہ آنکھیں بند کیے ہوتا ہے، نہیں، بلکہ یقیناً وہ دیکھ رہا ہے اور یقیناً وہ منصف ہے۔ اس کے ہاں دیر ہے مگر اندھیر نہیں ہے۔ وہ یقیناً اس کا بدلہ لے گا اور ایسا بدلہ لے گا کہ انشاء اللہ یہ لوگ عبرت بن کر رہ جائیں گے۔ صرف دنیا ہی میں نہیں بلکہ آخرت میں وہ ان سے اس سے زیادہ سخت بدلہ لے گا۔

انسان کو مارنا بجائے خود جرم عظیم ہے لیکن مومن کو مارنا اتنا بڑا جرم ہے کہ اس کے متعلق قرآن میں کہا گیا ہے کہ ایسے شخص کے لیے خلود فی النار ہے۔ یعنی وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہے گا۔ کجا کہ نیک آدمی کو مارنا اور اپنی اغراض کے لیے مارنا، یہ ایسی چیز نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کو نظر انداز کیا جائے۔

اللہ تعالیٰ لازماً اس چیز کا انتقام لے گا اور عبرت ناک انتقام لے گا۔

ڈاکٹر نذیر احمد جب اس تحریک سے وابستہ ہوئے تو ابتداء ہی میں یہ بات واضح ہو گئی کہ یہ شخص اس تحریک میں مستغرق ہو گیا ہے۔ اس کی زندگی کا کوئی مقصد اس کے سوا ہے ہی نہیں کہ وہ اس تحریک کے لیے کام کرے۔ اس شخص کو اس کی کوئی پرواہ نہیں تھی کہ میرا مطب چلتا ہے یا نہیں۔ میری اولاد کو پیٹ بھر کر روٹی ملتی ہے یا نہیں۔ خدا کے اس بندے پر مہینوں ایسی راتیں گزری ہیں جب اس کی آنکھیں نیند سے محروم رہیں۔ میں کہتا تھا ڈاکٹر صاحب خدا کے لیے اپنی نیند کی فکر کیجئے۔ کیا حال ہو گا آپ کے اعصاب کا، اگر آپ کو نیند بھی نہ ملے اور آپ مسلسل کام کرتے چلے جائیں، مگر ایسی لگن تھی کہ وہ شب و روز تحریک کے لیے کام کرنے کی فکر میں رہتے تھے۔ ان کو ہر طرح کے مقدمے چلا کر مرعوب کرنے کی کوشش کی گئی، مگر انہوں نے کبھی اس کی پرواہ نہیں کی کہ کتنے مقدمات بن چکے ہیں اور کتنے مزید بنائے جا رہے ہیں۔ پھر ان کے اندر اللہ تعالیٰ نے سمجھانے اور اپنی بات دل میں اتارنے کی ایسی صلاحیت اور توفیق پیدا کر دی تھی کہ انہیں ایک مرتبہ ایک سپیشل ٹربیونل میں پیش کیا گیا، جو افسران کے مقدمے کی سماعت کر رہا تھا وہ کچھ دیر تک ان کی باتیں سن کر اتنا متاثر ہوا کہ اس نے مقدمہ ملتوی کر کے ان کو بلا کر اسٹیج پر بٹھایا اور ان سے تحریک کو سمجھنا شروع کر دیا۔ فی الحقیقت جس آدمی کے دل میں حق کی بات اتر چکی ہو، وہ اس کو پوری طرح سمجھے ہوئے ہو تو اس کی بات میں وہ اثر ہوتا ہے کہ بڑے سے بڑا مخالف بھی بہت کچھ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔

(۲)

(سوانح ڈاکٹر نذیر احمد شہید کے لیے مولانا مودودی سے ایک انٹرویو حاصل کیا گیا تھا۔ یہاں اس انٹرویو کے کچھ ضروری حصے نقل کیے جاتے ہیں۔)

سوال: کیا بحیثیت ”امیر جماعت“ آپ ڈاکٹر شہید کے کام سے مطمئن تھے؟ اطاعت امر اور اطاعت نظم کے سلسلہ میں آپ نے انہیں کیا پایا؟

جواب: جب سے ان کے امتیازی اوصاف نمایاں ہونے شروع ہوئے ہیں، ان کو جماعت کے صف اوّل کے کارکنوں میں شمار کرتا رہا۔ ان کی اطاعت امر اور پابندی نظم ہی سے نہیں بلکہ ان کی کارکردگی سے بھی پوری طرح مطمئن تھا۔

سوال: ڈاکٹر شہید تحریک اسلامی کے کس درجہ کے کارکن تھے؟ کن خوبیوں کے باعث انہیں نمایاں مقام ملا؟

جواب: ڈاکٹر شہید کی جو خوبیاں انہیں جماعت کے اندر نمایاں مقام پر لے آئیں وہ ان کی سرگرمی، ان کا ایثار، ان کی قربانیاں، ان کا عوام سے رابطہ اور اپنے ضلع کے مسائل میں دخل دے کر خود اپنے لیے آگے بڑھنے کا راستہ نکالنا تھا۔ ان کا بے خود ہو کر پوری جرات کے ساتھ ظالموں کے مقابلے پر اٹھنا اور بار بار جیل جانے کے باوجود خدمت عوام کے کام سے منہ نہ موڑنا تھا۔

سوال: کیا ڈاکٹر شہید تحریک اسلامی کی مقامی قیادت کے معیار مطلوب پر پورے اترتے ہیں جو آغاز ہی میں تحریک کے کارکنوں کے لیے متعین کر دیا گیا تھا؟

جواب: مذکورہ بالا خوبیوں ہی نے ان کو مقامی قیادت کے اس مرتبے پر فائز کیا جس پر ہم اپنے معیاری کارکنوں کو فائز دیکھنا چاہتے تھے۔ ابتداء سے ہماری جدوجہد یہ رہی ہے کہ ہر علاقے میں ہمارے کارکن اپنی صلاحیت اور اپنی کارکردگی کے ذریعے سے عوام میں قائدانہ حیثیت حاصل کر لیں کیونکہ اس کے بغیر نہ تحریک آگے بڑھ سکتی ہے اور نہ اپنی ملک گیر اسکیموں کو ملک کے ہر حصے میں کامیابی کے ساتھ چلا سکتی ہے۔ ڈاکٹر نذیر احمد شہید نے سالہا سال کی مسلسل کوششوں سے اپنے لیے یہ مقام پیدا کر لیا تھا اور وہ دوسرے کارکنوں کے لیے ایک نمونہ بن گئے تھے۔

سوال: آپ کی جانب سے کئی بار ڈاکٹر شہید کو یہ کہا گیا کہ وہ بیماری میں شدید مصروفیت کو ترک کر دیں، لیکن وہ برابر اپنا کام جاری رکھتے رہے۔ کیا یہ صحیح ہے؟

جواب: یہ صحیح ہے کہ ان کی بیماری اور خصوصاً ان کی بے خوابی کی وجہ سے میں بار بار ان سے یہ کہتا تھا کہ حد سے زیادہ محنت کر کے وہ اپنی زندگی کو خطرے میں نہ ڈالیں۔ کام کے آدمی مدتوں میں تیار ہوتے ہیں۔ لیکن ان پر کام کی ایسی دھن سوار تھی کہ ان سے کسی طرح صبر نہ ہو سکتا تھا۔ اب یہ اللہ کا فضل ہی تھا کہ خرابی صحت اور کثرت کار کے باعث مرنے کے بجائے انھیں خدا کی راہ میں شہید ہونے کا شرف حاصل ہو گیا۔

سوال: شہادت پاکر ڈاکٹر شہید جو رتبہ پا گئے وہ کن لوگوں کو عطا ہوتا ہے؟ کیا ڈاکٹر شہید کو اپنے کیے کا صحیح صلہ ملا ہے؟

جواب: مرحوم کی شہادت فی سبیل اللہ ہر شبہ سے بالاتر ہے۔ ان سے کسی کو کوئی ذاتی دشمنی نہ ہو سکتی تھی۔ ان کا دشمن جو بھی تھا اس بنا پر تھا کہ وہ دین حق کی سربلندی کے لئے کوشاں تھے۔ اس لئے قاتل نے دشمنی دین کی بنا پر انھیں قتل کیا اور انھوں نے راہ خدا میں اپنی سرفروشانہ جدوجہد کے باعث ظالموں کو اپنا ایسا دشمن بنایا کہ انھیں ایک قاتل کی خدمات حاصل کرنے کے سوا اس مجاہد کو راہ حق سے ہٹانے کی اور کوئی تدبیر نظر نہ آئی۔

سوال: ڈاکٹر صاحب کی شہادت کی خبر پر آپ کے فوری تاثرات کیا تھے؟

جواب: ڈاکٹر صاحب کی شہادت پر مجھے ویسا ہی صدمہ ہوا جیسا کسی شخص کو اپنا ایک بازو کٹ جانے کا ہو سکتا ہے۔

سوال: ڈاکٹر شہید کی زندگی میں تحریک اسلامی کے کارکنوں کے لیے کیا کیا نمونے ہیں؟

جواب: ڈاکٹر شہید کی زندگی میں تحریک اسلامی کے کارکنوں کے لیے بہت سے نمونے ہیں۔ اپنے ذاتی مفاد کو راہ حق میں ایک دفعہ نہیں بلکہ مسلسل قربان کرتے چلے جانا۔ اس راہ میں کام کرنے کی لگن بلکہ دھن، کام کے مواقع خود تلاش کرنا اور موقع ہاتھ آتے ہی آگے بڑھ کر اس سے کام لینا، عوام کے دلوں میں اپنے اخلاق، اپنی ہمدردی، اپنے جذبہ خدمت اور اپنی عملی سرگرمی سے جگہ پیدا کرنا، مخالف طاقتوں کے مقابلے میں نڈر اور بے خوف ہو کر کام کرنا، اپنے درپے چوٹیں کھا کر بھی ہمت سے منہ نہ موڑنا۔ یہ ان کی چند نمایاں خوبیاں ہیں جو اس تحریک کے ہر کارکن میں ہونی چاہئیں۔

(ماخوذ از ”سوانح ڈاکٹر نذیر احمد شہید“)


مولانا محمد ادریس کاندھلوی

مولانا کاندھلوی اور میں ایک مدت دراز تک حیدرآباد دکن میں مقیم رہے ہیں اور وہیں میری ملاقات ابتداء ۱۹۲۹ء میں ہوئی تھی۔ اس وقت سے لے کر ان کے آخری ایام تک ان سے ربط و تعلق قائم رہا اور وہ ہمیشہ مجھ سے شفقت و محبت سے پیش آتے تھے۔ دینی علم و فضل اور فہم و بصیرت میں اللہ تعالیٰ نے انہیں حظ وافر عطا فرمایا تھا اور عربی زبان و ادب میں ان کی مہارت اور وسعت نظر مسلم تھی۔ تعلیم و تدریس اور تالیف و تصنیف ان کی زندگی کا اساسی مشغلہ تھا۔ گوشہ نشین اور عزلت گزین انسان تھے۔ تاہم ان کے متعلق یہ خبر معلوم و مشہور ہے کہ وہ انڈین نیشنل کانگریس اور اس کے سیاسی نظریات کے شدید مخالف تھے اور اپنی مجالس میں کانگریس کے ہمنوا دیو بندی علماء پر تنقید کرتے رہتے تھے، اگرچہ وہ خود علماء دیوبند کے اساتین میں شمار ہوتے تھے۔ پاکستان آنے کے بعد اگرچہ عملی سیاست میں انہیں زیادہ شغف نہیں تھا، لیکن ہمارے ملک کو ایک اسلامی ریاست یا لادینی و اشتراکی ریاست بنانے والوں کے درمیان جو کشمکش ابتدا سے جاری ہے اس میں مولانا کی ہمدردیاں ہمیشہ اسلامی عناصر کے ساتھ رہی ہیں۔ جنوری ۱۹۵۱ء میں علماء کا جو اجتماع کراچی میں ہوا تھا اور جس میں اسلامی ریاست کی تاسیس کے لیے بائیس نکات بالاتفاق مرتب کیے گئے تھے، اس اجتماع میں مولانا محمد ادریس مرحوم بھی شامل تھے۔

محمد ایوب خاں صاحب نے مارشل لاء لگا کر مارچ ۱۹۶۲ء میں جو عائلی قوانین جاری کیے تھے ان پر جن علماء نے تنقیدی بیان جاری کیا تھا، ان میں بھی مولانا کاندھلوی شریک تھے۔ ان تمام علماء کو فرداً فرداً مارشل لاء ہیڈ کوارٹرز میں بلا کر ان پر تہدید و تخویف کے حربے آزمائے گئے لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے سب کے سب ثابت قدم رہے۔ مولانا مرحوم کو بھی ڈرایا دھمکایا گیا اور کہا گیا آپ سیدھے سادے انسان ہیں، آپ کو ناحق ورغلا کر دستخط کرائے گئے ہیں۔ آپ نے بڑی جرات سے جواب دیا کہ نہیں میں ایسا بے وقوف یا بے حس نہیں ہوں، جیسا کہ آپ نے فرض کیا ہے۔ ہم سب نے خوب سوچ سمجھ کر باہمی مشورہ کے بعد یہ بیان مرتب کیا ہے اور اسے اشاعت کے لیے دیا گیا ہے۔ جب شریعت کے قانون کو مسخ کیا جا رہا ہو تو علماء خاموش نہیں رہ سکتے۔

حضرت مولانا مفتی محمد حسن ان دنوں علیل ہونے کی وجہ سے زیادہ سوچ بچار کے قابل نہ تھے، مسودہ تیار ہونے پر انہوں نے دریافت کیا کہ دوسرے علماء کے ساتھ مولانا ادریس نے بھی دستخط کر دیے ہیں؟ جب جواب اثبات میں دیا گیا تو انہوں نے بھی فوراً دستخط ثبت کر دیے۔ جماعت اسلامی اور میرے متعلق ہمیشہ حسن ظن کا اظہار فرماتے تھے اور کہتے تھے کہ جب ہم مسلم لیگ سے تعاون کرتے رہے ہیں تو جماعت اسلامی کے ساتھ تعاون کیوں نہ کریں گے۔ گاہے بگاہے میرے ہاں بھی تشریف لاتے اور اپنی بعض تصانیف جو ساتھ لاتے تھے عنایت فرماتے تھے۔ میں بھی اپنی بعض کتابیں بالخصوص ان کے عربی تراجم کی خدمت میں پیش کرتا تھا کیوں کہ انہیں اردو کی بہ نسبت عربی سے زیادہ مناسبت تھی۔ التعليق الصبيح شرح مشکوة المصابيح ان کی بلند پایہ تصنیف ہے۔ عربی اردو میں آپ کی تصانیف کثیر التعداد ہیں۔ مولانا مرحوم اپنے علم و فضل، تقویٰ و تدین اور عدم تصنع کے اعتبار سے سلف کی یادگار تھے۔ درس و تدریس اور تالیف و تصنیف کے ذریعہ سے خلق کثیر آپ سے فیض یاب ہوئی ہے اور ان شاء اللہ یہ فیضان مستقبل میں بھی جاری رہے گا۔

(تذکرہ مولانا محمد ادریس کاندھلوی از محمد میاں صدیقی)


مولانا اختر احسن اصلاحی

مکتوب بنام محمد یوسف اصلاحی، ایڈیٹر ذکری

ابوالاعلیٰ مودودی
۵- اے ذیلدار پارک
لاہور (پاکستان)

عزیزم محمد یوسف صاحب اصلاحی، السلام علیکم ورحمۃ اللہ

آپ کا خط ذکری کے پرچوں سمیت مجھے ملا۔ آپ کی دعائے خیر کے لئے بہت شکر گزار ہوں۔ ریاض الصالحین کا اردو میں ترجمہ ہو چکا ہے مگر میں نے دیکھا نہیں ہے۔ اس لئے مجھے نہیں معلوم کہ اس میں تشریحی نوٹس ہیں یا نہیں اور ہیں تو کیسے ہیں۔ ایک ترجمہ ہمارے مرحوم و مغفور پروفیسر عبدالحمید صدیقی صاحب نے بھی کیا ہے جو ابھی شائع نہیں ہوا۔ امام بخاری کی الادب المفرد کا ترجمہ بھی ہو چکا ہے۔

آپ کی تفسیر سورہ ”یٰس“ پر موجودہ حالت میں کچھ لکھنا میرے لئے مشکل ہے۔ بکثرت لوگوں کی کتابیں میرے پاس اسی غرض کے لئے آئی رکھی ہیں کہ میں ان پر کچھ لکھوں لیکن چھ مہینے کی مسلسل بیماری نے مجھے کسی کام کے قابل نہیں رکھا ہے حتی کہ خطوط بھی دو دو ہفتے پڑے رہتے ہیں اور انھیں جواب دینے کی ہمت نہیں پڑتی۔

یہ جان کر بڑی خوشی ہوئی کہ آپ مولانا اختر احسن اصلاحی صاحب مرحوم و مغفور کے شاگرد ہیں۔ فی الواقع وہ اس زمانے کے اولیاء اللہ میں سے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کو جنت الفردوس میں جگہ دے۔

خاکسار
ابو الاعلیٰ


پروفیسر عبدالحمید صدیقی

یکم اپریل ۱۹۷۵ء کو وہ سانحہ پیش آیا جو پاکستان کے تمام اہل علم و اہل دین کے لیے، جماعت اسلامی کے رفقاء اور ہمدردوں کے لیے، قارئین ترجمان القرآن کے لیے اور ذاتی طور پر خود میرے لیے ایک صدمہ عظیم تھا۔ اس روز اس مجسمہ خیر انسان نے وفات پائی جو ایک سچے مسلمان کی زندگی کا نمونہ تھی۔ اس روز اس خادم دین نے وفات پائی جس نے اپنی زندگی کے پونے ۳۵ سال اسلام کی خدمت میں بسر کر دیے۔ اس روز وہ شخص دنیا سے اٹھ گیا جو دین و دنیا کے علوم کا جامع تھا اور جس کے قلم سے اردو اور انگریزی میں وہ تحریریں نکلیں جو انشاء اللہ رہتی دنیا تک طالبین حق کو نفع پہنچاتی رہیں گی۔ جزاه الله احسن الجزاء۔

میرے لیے مرحوم دست و بازو کا حکم رکھتے تھے۔ ۱۹۵۰ء کے آخری زمانے سے لے کر اپنے آخری مرض تک وہی ترجمان کے اشارات لکھتے رہے۔ انہوں نے اس حد تک مجھے اس رسالے کے بار سے سبک دوش کر دیا کہ میں اپنی خرابی صحت کے طویل دور میں تفہیم القرآن کو مکمل کر سکا ورنہ بیک وقت دونوں کاموں کا بار اٹھانا میرے لیے مشکل تھا۔ اس طرح میں نے جو کچھ بھی تھوڑی بہت دین کی خدمت کی ہے اس کے اجر میں بھی وہ میرے ساتھ شریک ہیں اور اپنی دینی خدمات کا اجر تو وہ پورا پورا خود ہی پائیں گے۔ انشاء اللہ۔

میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ان کو اپنے صالح بندوں میں شامل کر لے اور انہیں آخرت میں وہ اجر عطا فرمائے جو اس نے متقین اور مجاہدین فی سبیل اللہ کے لیے مہیا کر رکھا ہے۔


آغا شورش کا شمیری مرحوم

(۱)

آغا عبد الکریم شورش ایک غریب گھرانے کے چشم و چراغ تھے۔ وہ کسی سرمایہ دار، جاگیر دار یا عہدیدار کے بیٹے یا عزیز نہ تھے۔ کسی سیاسی قیادت یا مذہبی سیادت کے حامل خانوادے میں بھی انہوں نے آنکھ نہیں کھولی تھی۔ کسی جدید کالج یا یونیورسٹی کی سند فراغ بھی ان کے ہاتھ میں نہ تھی۔ نہ کسی قدیم درس گاہ کی دستار فضیلت ہی ان کے زیب سر تھی۔ وہ کسی سیاسی پارٹی کے بڑے رہنما، یا کسی اسمبلی کے ممبر بھی نہ تھے۔ اس کے باوجود مبداء فیاض نے ان کے قلم اور ان کی زبان اور شخصیت میں ایسی کشش و تاثیر اور ایسا رعب اور دبدبہ پیدا کر دیا تھا جس سے دوست شاداں و فرحاں اور دشمن ترساں و لرزاں رہتے تھے۔ میرے نزدیک ان کی اس مقبولیت اور غیر معمولی اثر و رسوخ کی وجہ یہ ہے کہ وہ جس صداقت پر ایمان رکھتے تھے اور جس اصول کو صحیح سمجھتے تھے اس کے لیے اپنی جان لڑا دیتے تھے۔ وہ اگرچہ عابد و زاہد اور متشرع انسان نہ تھے مگر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس سے گہری اور قلبی وابستگی رکھتے تھے اور ناموس رسالت کے تحفظ کی خاطر تیغ بدست اور کفن بر دوش رہتے تھے۔

قیام پاکستان سے قبل جب وہ عملی سیاست میں حصہ لیتے تھے۔ اس وقت انہوں نے قید و بند میں جو جانکاہ اور روح فرسا مصائب و شدائد برداشت کیے ان کی روداد وہ اپنے قلم سے بیان کر چکے ہیں۔ پاکستان قائم ہو جانے کے بعد وہ عملی سیاسیات سے کنارہ کش ہو جانے کا اعلان کر چکے تھے اور ادب و صحافت تک اپنی سرگرمیاں محدود کر دینا چاہتے تھے لیکن آمر اور سلطان جابر کے سامنے کلمہ حق کہنے اور اس کے نتیجے میں ہر خطرے کو انگیز کرنے کے لیے وہ ہر وقت ہمہ تن آمادہ رہتے تھے۔ اس سلسلے میں ان کی بیخوفی اور جاں نثاری کی مثالیں پیش کرنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ تاہم میں اس کی ایک مثال بیان کیے دیتا ہوں جس کا تعلق پاکستان کے ابتدائی ایام اور میری ذات سے بھی ہے۔

۱۹۴۸ء میں جب مجھے میرے ہم رفقائے کار کے ساتھ نظر بند کیا گیا تھا تو اس وقت کے وزیر داخلہ نے پریس کے نمائندوں کو ایک کانفرنس میں مدعو کیا اور ان کے اشارے پر ایک صحافی (امین الدین صحرائی) نے میرے خلاف الزام تراشی شروع کی کہ یہ شخص قائد اعظم کو برا بھلا کہتا ہے اور جہاد کشمیر کا مخالف ہے ...... وغیرہ ذلک۔ شورش کاشمیری مرحوم جو وہاں موجود تھے فوراً اٹھ کھڑے ہوئے اور سختی سے مقرر کو ڈانٹ کر کہنے لگے کہ ایاز قدر خود بشناس۔ تو کون ہوتا ہے جو مودودی کے منہ آتا اور اس کے متعلق ہرزہ سرائی کرتا ہے۔ یہ سب باتیں جھوٹ اور خلاف واقعہ ہیں۔ پھر وزیر موصوف کو مخاطب کر کے کہنے لگے کہ پہلے اپنے گریبان میں منہ ڈال کر دیکھیں اور اپنی صفوں پر نظر ڈالیں، آپ کا وزیر خارجہ وہ شخص ہے جس نے قائد اعظم کا جنازہ تک نہیں پڑھا جو آپ سب کو کافر سمجھتا ہے اور جو یو این او میں تقریر کرتا ہے کہ ہمارا جنگ کشمیر سے کوئی تعلق نہیں ہے نہ ہمارا کوئی آدمی وہاں لڑ رہا ہے، اس پر سناٹا چھا گیا اور کسی کو مزید کچھ کہنے کی جرات نہ ہو سکی۔

اس کے بعد ہر دور کے ارباب اقتدار کو جس طرح ان کی غلطیوں پر برملا انہوں نے ٹوکا ہے اور ان کے جبر و تشدد کا جس طرح ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے، پریس اور پمفلٹ ضبط کرایا ہے اور جیل خانوں میں جس طرح جان گھلائی ہے وہ ایک طویل اور صبر آزما داستان ہے جس کے بیان کے لیے بڑی مہارت درکار ہے۔ قادیان کے متنبی کاذب اور اس کی امت کے خلاف شورش مرحوم ایک شمشیر برہنہ تھے اور اپنی عمر کے آخری لمحات تک وہ اس گروہ کے خلاف برسر پیکار اور مصروف جہاد رہے۔ اس سازشی ٹولے کی ریشہ دوانیوں اور اس کے سیاسی عزائم پر وہ کڑی نظر رکھتے تھے اور انہیں ہمیشہ آشکارا کرتے رہتے تھے۔ علامہ اقبال مرحوم کی قادیانیوں سے متعلق تحریرات کو انہوں نے جمع کر کے شائع کیا۔ جن میں سے بعض ایسی نادر و نایاب تھیں جو غالباً پہلی بار زیور اشاعت پذیر ہوئیں۔ اس جھوٹی نبوت کے خلاف ان کا یہ مسلسل اور پیہم مجاہدہ انشاء اللہ ان کے حق میں بہترین توشہ آخرت ہے۔

جماعت اسلامی اور میرے سے متعلق ان کا رویہ ہمیشہ خیر خواہانہ اور موافقانہ رہا۔ کبھی کبھار مخلصانہ اختلاف بھی کرتے تھے مگر بحیثیت مجموعی ہمارے حق میں کلمہ خیر ہی کہتے تھے۔ میرے خیالات و نظریات سے وہ سب سے پہلے جیل ہی میں روشناس ہوئے۔ پہلے میری کتاب الجہاد فی الاسلام پڑھی، پھر دوسری کتابوں کا مطالعہ کیا۔ پھر مجھ سے شخصی تعارف پیدا کیا جس نے گہری قلبی وابستگی کی صورت اختیار کرلی۔ بارہا ایسا ہوا تھا کہ جب کبھی ان کے جی میں آتا تھا یا کوئی خاص بات انہیں قابل اطلاع و مشورہ محسوس ہوتی تھی، اچانک میرے ہاں آجاتے تھے اور دیر تک بیٹھے گفت گو میں مصروف بلکہ محو رہتے تھے۔ ہم دونوں نے عمر عزیز کا ایک بڑا حصہ قید و بند میں گزارا ہے۔ ایک مرتبہ میری جیل سے رہائی ہوئی تو تشریف لائے، بڑے تپاک سے ملے۔ اور نشاط و انبساط کے ساتھ باتیں کرتے رہے۔ وہیں مجلس میں کسی ذریعے سے معلوم ہوا کہ اسی دن ان کے کسی قریبی عزیز غالباً بھانجے کا انتقال ہوا ہے جس سے میں بالکل بے خبر تھا۔ میں نے تعزیت اور بہت اظہار افسوس کیا اور تعجب سے پوچھا کہ آپ نے بتایا نہیں؟ کہنے لگے۔ بلاشبہ یہ سانحہ رونما ہوا ہے لیکن اس خوشی کی محفل میں اس غم کی خبر سنانے کا کیا موقع تھا۔ میں اپنے غم میں آپ کو شریک کرنے کے بجائے آپ کی خوشی میں شریک ہونے اور خوش آمدید کہنے کے لیے آیا تھا۔ اس سے ان کے ضبط نفس اور مجھ سے تعلق خاطر کا اندازہ ہو سکتا ہے۔

بہر حال اب جب کہ وہ اس دارفانی کو چھوڑ کر عالم جاودانی کو رخصت ہو چکے ہیں اور اپنے رب کے حضور حاضری دے چکے ہیں میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی کوتاہیوں سے درگزر فرما کر ان کے اعمال حسنہ کا انہیں بہترین اجر دے، انہیں جنت میں اپنے سچے اور آخری نبی علیہ الصلوۃ والتسلیم کے قدموں میں جگہ دے۔
(ہفت روزہ چٹان بشورش کاشمیری نمبر، ۱۹۷۶ء)

(۲)

(یہ شورش کاشمیری کی کتاب ”پس دیوار زنداں“ پر مولانا کا تبصرہ ہے۔)

ایک نئے زندانی کے لیے پرانے زندانی کی داستان دلچسپی کی موجب بھی ہے اور سبق آموز بھی۔ میں اس بنا پر نیا زندانی ہوں کہ مجھے پاکستان بننے کے بعد جیل کی زیارتوں کا موقع ملا جبکہ انگریز کے آخری دور سے جیل کے نظام میں اچھی خاصی اصلاحات ہو چکی تھیں، آپ نے انگریز کے بدترین دور استبداد میں قیدیں کاٹی ہیں اور سخت ظلم سہے ہیں اس لیے آپ کی استقامت بعد کے زندانیوں کی بہ نسبت زیادہ قابل داد ہے۔ یہ تو مجھے اجمالی طور پر بخوبی معلوم تھا کہ آپ ان لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے کسی راہ کو اختیار کیا تو خلوص کے ساتھ اور پھر ہر اس تکلیف اور ہر مصیبت کو استقلال کے ساتھ جھیلا جو اس راہ میں پیش آئی، مگر آپ کی اس مفصل داستان کو پڑھ کر دل میں آپ کے لیے پہلے سے بہت زیادہ قدر پیدا ہو گئی، اللہ آپ کو خلوص اور پختگی عزم کی دولت اور زیادہ عطا فرمائے اور آپ سے اپنے دین کا کام لے اور آپ کی خدمات کا بہترین اجر بخشے۔

جہاں تک زبان اور ادب کا تعلق ہے میں پہلے ہی اس بات کا قائل تھا کہ آپ کو اللہ نے کلام پر بڑی قدرت عطا کی ہے اور تمام اصناف سخن میں کمال کے اعتبار سے آپ مولانا ظفر علی خاں مرحوم کے بہترین جانشین ہیں۔ مولانا مرحوم کی جولانی طبع جب اپنے عروج پر تھی تو میں سوچتا تھا کہ اردو ادب میں ایسا جامع کمالات شخص شاید ہی پیدا ہو مگر آپ نے اس خلا کو ایسا بھرا ہے کہ آپ کا خلف الرشید پیدا ہوتا نظر نہیں آتا۔


نوٹ: درج ذیل متن کتاب کے آخر میں موجود اشتہارات کا حصہ ہے۔

اسلامی تعلیمات پر مستند کتابیں

  • قرآنی تعلیمات - محمد یوسف اصلاحی۔ داعی اعظم سیرت رسول پر اپنے انداز کی ہر موضوع پر قرآنی آیات کا بصیرت افروز انتخاب منفرد کتاب۔ تیسرا ایڈیشن -/6
  • اسلامی معاشرہ - محمد یوسف اصلاحی۔ حصہ اول ۹/۰ حصہ دوم رو مجلد رنگین ۲۰۔ زوجین کے خوش گوار تعلقات کے اصول و آداب، جامع کتاب۔ چھٹا ایڈیشن آفسٹ سے۔
  • انوار القرآن - محمد ادریس صاحب۔ تربیتی نقطہ نظر سے قرآنی آیات کا انتخاب اور تشریح و تفہیم /6۔
  • آسان فقہ - محمد یوسف اصلاحی۔ فقہ حنفی کا مستند اردو مجموعہ اپنے موضوع پر ایک جامع کتاب۔ حصہ اول ٪۱۰ حصہ دوم ٪۲۰۔
  • گلدستہ حدیث - حدیث رسول کا مفید مجموعہ (جیبی سائز) تیسرا ایڈیشن قیمت 2/50۔
  • راہ حق کے دو مسافر - قیمت =/3
  • حدیث رسول - چالیس حدیثوں کا ایک مفید ترین مجموعه /75۔
  • ابن مبارک - قیمت =/2
  • ترجمان الحدیث - حدیث کا روشن متن، حدیث کا مقام، راوی کا تعارف، مفصل دلنشیں تشریح، حدیث کی تشریح حدیثوں کے ذریعے۔ قابل فخر پیش کش (زیر طبع)۔
  • مجاہد کی اذان - محمد عنایت اللہ سبحانی۔ دلنشیں قیمت 12/=
  • رسول کی تعلیم - مولانا مودودی صاحب کی منتخب بتیس حدیثوں کی دلنشیں تشریح -/170۔
  • جلوہ فاراں - سیرت رسول پر اپنے انداز کی نہایت موثر اور منفرد کتاب قیمت 12/
  • شمع حرم - محمد یوسف اصلاحی۔ خواتین کیلئے احادیث کا بہت ہی مفید مجموعہ (زیر طبع) قیمت 12/
  • آداب زندگی - محمد یوسف اصلاحی۔ بہت ہی مقبول اور مفید کتاب۔ اسلامی تعلیمات و آداب پر جامع ترین کتاب قیمت 12/
  • ذکر رسول - سیرت پر بہت ہی موثر کتاب /1۔
  • صحیح تصور دین - محمد یوسف اصلاحی /75ء۔
  • حسن معاشرت - والدین اور اولاد کے حقوق و فرائض پر بہترین کتاب۔ تیسرا ایڈیشن -/10۔
  • ۵- اے ذیلدار پارک - مولانا مودودی کی عصری مجالس کی رودادوں کا مجموعہ۔ اپنے انداز کی عجیب و غریب کتاب 14/-
  • خط کیسے لکھیں - پندرھواں ایڈیشن پر 1/25۔
  • تحفظ گائے - عبدالکریم پاریکھ 1/25۔
  • مکاتیب سید ابوالاعلی مودودی - علوم و معارف کا بیش بہا خزانہ۔ حصہ اول -/8 حصہ دوم -/12۔
  • خاتون خانہ - مظہر علی ادیب۔ پردے کے موضوع پر نہایت شگفتہ کتاب 5/-
  • مختصر احکام حج - جیبی سائز 2/-
  • شعور حیات - ذکری کے ولولہ انگیز تربیتی اور دعوتی اداریوں کا مجموعہ (زیر طبع)۔
  • حج اور اس کے مسائل - حج کی روح، احکام، مسائل، دعائیں (زیر طبع)۔
  • یاد دہانی - محمد یوسف اصلاحی۔ تربیت و دعوت کیلئے نہایت موثر کتاب 1/25۔
  • ایک منزل کئی قافلے - یعقوب سروش۔ حج کے تاثرات اور روداد 2/50۔
  • روداد ابتلاء - اخوان المسلمین کے رکن احمد رائف کی قید و بند اور مظالم کی خونچکاں داستان (زیر طبع) قیمت /9۔
  • قافلہ حق - ابن عبد الشکور صاحب 25/ 1۔
  • شخصیات - تاریخ اسلام کی چھبیس نامور علماء، فقہا، مصنفین، مجددین اور اصحاب سیف و قلم کے بارے میں مولانا مودودی کے تاثرات اور گراں قدر رائے۔ بڑا سائز قیمت -/12۔
  • یا ایها الناس - اسعد گیلانی (زیر طبع)۔
  • چٹکتی کلیاں - بچوں کی نظمیں -/75۔
  • بھوت کا ڈر - بچوں کا اصلاحی ناول۔ قیمت 1/50۔
  • حکایات عزیمت - اسلاف کے شہسوار عزم واستقلال کے چیدہ چیدہ واقعات زیر طبع۔
  • بے قابو زبان - محمد الفت احمد 40/ 0 =
  • انفاق فی سبیل اللہ - ابن عبد الشکور (زیر طبع)۔
  • حضرت خولہ کے کارنامے - -2

مکتبہ ذکری رام پور یو۔ پی ۲۴۴۹۰۱


مکاتیب سید ابوالاعلی مودودی

برصغیر اور دوسرے ممالک کے تقریباً ساڑھے چار سو افراد کے نام مولانا مودودی محترم کے گراں قدر خطوط کا بیش بہا مجموعہ

اول: دوم
ترتیب: عاصم نعمانی

تاریخی خطوط کی یادگار دستاویز
بیش بہا علمی، تاریخی، فقہی اور تحقیقی معلومات کا زبردست خزانہ
آپ کی ذاتی لائبریری کی لائق شان زینت

مکتبہ ذکری کی قابل فخر پیش کش

آفسٹ کی نہایت ہی دیدہ زیب اور معیاری طباعت، سفید گلیز کاغذ
حسین و خوشنما رنگین ٹائیٹل

حصہ اول ۱۶۴ خطوط کا مجموعہ قیمت: -/8
حصہ دوم ۲۶۶ خطوط کا مجموعہ قیمت: -/12

مکتبہ ذکری رام پور۔ یوپی (انڈیا)


مولانا ابوالاعلی مودودی کی دو بالکل نئی کتابیں

۵-اے ذیلدار پارک

۵-اے ذیلدار پارک میں مولانا مودودی سے ملاقات عام اور سوال و جواب کی ایمان افروز مجلسیں بعد عصر منعقد ہوتی رہی ہیں۔ کبھی کبھی بعد نماز تراویح بھی۔ انہی مجالس کی ایمان افروز رو دادوں کا پہلا مجموعہ۔

۵- اے ذیلدار پارک
اپنے دور کی عہد ساز کتاب
کل جو تاریخ مرتب ہو گی آج ہی اُس کے خدوخال اپنی آنکھوں سے دیکھیے
علوم و معارف کا دلچسپ اور معلومات افزا مجموعہ
آفسٹ کی نہایت خوبصورت معیاری طباعت
قیمت =/14

مکاتیب سید ابوالاعلی مودودی

بر صغیر اور دوسرے ممالک کے تقریباً ساڑھے چار سو افراد کے نام مولانا مودودی محترم کے گراں قدر خطوط ہندوستان میں پہلی بار۔

ترتیب: عاصم نعمانی
تاریخی خطوط کی یادگار دستاویز
بیش بہا علمی، تاریخی، فقہی اور تحقیقی معلومات کا زبردست خزانہ
آپ کی ذاتی لائبریری کی لائق شان زینت

مکتبہ ذکری کی قابل فخر پیش کش، آفسٹ کی نہایت عمدہ خوبصورت طباعت
قیمت حصہ اول =/8
حصہ دوم =/12
مکمل سیٹ =/34

رعایت: پیشگی قیمت بھیج کر کم از کم ۵ مصارف ڈاک کی زبردست بچت کیجیے۔ پیشگی قیمت بھیجنے والوں کو ہم اپنے خرچ پر کتاب رجسٹرڈ ڈاک سے روانہ کریں گے۔

آرڈرز کی روانگی آرڈرز کے نمبر کے لحاظ سے ہوگی۔ آج ہی آرڈر دیجیے۔

مکتبہ ذکری رام پور (244901) یوپی