معروف و منکر مولانا سید جلال الدین عمری

معروف و منکر

دعوت الی الخیر کی مختصر تشریح اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر پر مفصل بحث

مولانا سید جلال الدین عمری

طبع جدید

قرآن مجید نے امر بالمعروف و نہی عن المنکر کو امت مسلمہ کا نصب العین اور مقصد وجود قرار دیا ہے۔ پیش نظر کتاب اسی کی شرح و تفصیل ہے۔ یہ مئی ۱۹۶۷ء میں پہلی بار شائع ہوئی۔ اللہ کا شکر ہے کہ اسے اپنے موضوع پر ایک مستند تحریر کی حیثیت سے دیکھا گیا اور اس کے متعدد ایڈیشن ہندوستان اور پاکستان سے نکلے۔ اس کے ترجمہ کی طرف بھی توجہ کی گئی۔ اب تک عربی، ترکی (عرصہ سے) انگریزی، ہندی، بنگلہ اور تامل میں اس کا ترجمہ ہو چکا ہے۔ کویت کی تنظیم ’’الاتحاد الاسلامی العالمی للمنظمات الطلابیة (IIFSO)‘‘ کے ذریعہ بڑے پیمانہ پر اس کی اشاعت عمل میں آئی۔ کہیں کہیں یہ ترتیب نصاب میں بھی داخل ہے۔ بعض حضرات نے اس سے اپنی تحریروں میں بھی حوالہ کے ساتھ اور کبھی بغیر حوالہ کے فائدہ اٹھایا ہے۔

وقت گزرتے دیر نہیں لگتی۔ اس کتاب کی تالیف جنوری ۱۹۶۷ء میں ہوئی ۔ اس پر سینتالیس (۴۷) سال گزر چکے۔ اس طویل عرصہ میں اس پر نظر ثانی کی نوبت نہیں آئی تھی۔ اپنی دیگر مصروفیت ہی کے دوران میں اب اللہ تعالیٰ نے اس کا موقع عنایت فرمایا۔ میں نے پوری کتاب پر نظر ڈالی ہے۔ روا ایک مقامات پر کسی قدر نئے مواد کا اضافہ کیا ہے اور زبان و بیان کے پہلو سے بھی بہتر بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔

کتاب کی تالیف کے وقت اس کے مآخذ کے قدیم نسخے ہی عموماً پیش نظر تھے۔

طبع جدید

بعد میں ان میں سے پیش تر کے جدید ایڈیشن زیادہ اہتمام سے شائع ہوچکے ہیں۔ ان کے جو ایڈیشن دستیاب ہو سکے، حوالے ان کے مطابق کر دیئے گئے ہیں۔ یہ خدمت عزیز مکرم سراج احمد فلائی نے انجام دی ہے۔ اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے۔ برادرم ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی کا شکر گزار ہوں کہ کتاب کے نئے ایڈیشن میں ان کا تعاون حاصل رہا ہے۔ انہوں نے توجہ سے اس کی پروف ریڈنگ کی، جہاں ضرورت محسوس کی حوالے چیک کیے ۔ توقع ہے، یہ کوششیں اس کی قدر و قیمت اور افادیت میں اضافہ کا باعث ہوں گی۔ دعا ہے اللہ تعالیٰ اسے قبول فرمائے اور مصنف کے لیے ذخیرہ آخرت بنادے۔

جلال الدین
۲۷ دسمبر ۱۹۶۲ء

دیباچہ

امر بالمعروف و نہی عن المنکر قرآن و حدیث کی ایک اصطلاح ہے۔ یہ کتاب بظاہر اسی اصطلاح کی تشریح و تفسیر ہے۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ اس میں اسلام کا پورا نظام عقائد و اعمال زیر بحث آگیا ہے اور اس کی ایک جامع تصویر مرتب ہوئی ہے۔ اس سے توقع ہے کہ اس امر کی یہ خوبی وضاحت ہو گی کہ اسلام کی دعوت کیا ہے اور اس دعوت کو دنیا میں پھیلانا اور غالب و سرفراز کرنا اس کے ماننے والوں کے لیے کس قدر ضروری ہے، اور پھر اس دعوت کے نتیجے میں کس قسم کی ریاست وجود میں آتی ہے اور اس کا ہر فرد کس طرح معاشرے کی برائیوں کے مٹانے اور بھلائیوں کے پھیلانے میں لگ جاتا ہے؟

اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں اور ان پر ایمان لانے والوں سے جو کام لینا چاہتا ہے اس کے لیے قرآن و حدیث میں بہت سی اصطلاحیں استعمال کی گئی ہیں۔ جیسے دعوت الی اللہ، انذار و تبشیر، شہادت علی الناس، اصلاح و نصیحت، تذکیر و تبلیغ، جہاد فی سبیل اللہ، اظہار دین، اقامت دین، اعلاء کلمة اللہ، تواصی بالحق، تعاون علی البر وغیرہ۔ ان ہی میں ایک اصطلاح امر بالمعروف و نہی عن المنکر بھی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ ان اصطلاحات کے درمیان کسی قدر فرق و اختلاف ہے۔ کسی میں اس کام کا کوئی خاص پہلو نمایاں کیا گیا ہے اور کسی میں دوسرا پہلو پیش ہوا ہے، کسی میں محدودیت ہے اور کسی کا مفہوم وسیع ہے۔

لیکن اس کے باوجود ان میں ایک ہی حقیقت بیان ہوئی ہے اور ایک ہی مقصد ظاہر کیا گیا ہے۔ اس لیے اگر آپ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کو سمجھ لیں تو اس کار عظیم کو آسانی سے سمجھ سکتے ہیں، جس کے لیے قرآن نے موقع و محل کی مناسبت سے یہ مختلف تعبیریں اختیار کی ہیں۔

جس شخص نے کبھی قرآن و حدیث کا تھوڑا بہت مطالعہ کیا ہے وہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی اہمیت سے انکار نہیں کر سکتا۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ نے اسے مسلمانوں کا امتیازی وصف اور ان کی ملی توانائی کا ذریعہ قرار دیا ہے اور اس سے غفلت اور کوتاہی کو ان کی ہلاکت کا سبب بتایا ہے۔ جس کام کو شریعت نے اتنی اہمیت دی ہے اس کے بارے میں بعض اہم سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ کیا وہ فرض ہے یا نہیں؟ فرض ہے تو ہر صاحب ایمان پر فرض ہے یا مسلمانوں کے کسی خاص طبقہ اور جماعت پر؟ اس کا معنی و مفہوم کیا ہے؟ اس کا تعلق صرف مسلمانوں سے ہے یا غیر مسلموں سے بھی؟ یہ کوئی وسیع کام ہے یا اس کی نوعیت محدود ہے؟ اس کے حدود و شرائط کیا ہیں اور یہ کن صفات کا تقاضا کرتا ہے؟ یہ کتاب ان تمام سوالات کا تفصیلی جواب ہے۔

امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا ذکر قرآن کی بہت سی آیتوں اور بہ کثرت احادیث میں ہے۔ ان میں سے بعض آیات و احادیث امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتی ہیں۔ مثلاً ایک ہی آیت سے امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا وجوب بھی ثابت ہوتا ہے، اس کی نوعیت بھی ظاہر ہوتی ہے، اس کی وسعت و جامعیت کا تصور بھی ملتا ہے اور اس کے حدود و شرائط بھی معلوم ہوتے ہیں۔ اس طرح کی آیات و احادیث کو ہر بحث کے ذیل میں نقل کیا جاتا تو مواد کی تکرار ہوتی اور کتاب کی ضخامت بڑھ جاتی، اس لیے جس آیت یا حدیث کا جس بحث سے خاص تعلق ہے وہ اس کا ذکر کیا گیا ہے۔ بقیہ مباحث میں اس کا ذکر نہیں۔ لیکن اگر ہر بحث کا دار و مدار

ہی کسی ایسی آیت یا حدیث پر ہو جس کا پہلے ذکر آچکا ہے تو بجائے اس کے کہ اس کا محض حوالہ دیا جائے بعینہ اسے دوبارہ نقل کر دیا گیا ہے، تاکہ بحث کے وقت اس کے الفاظ سامنے رہیں۔

کتاب کے مباحث باہم اس قدر مربوط ہیں کہ ان کو ایک دوسرے سے بالکل الگ کرنا مشکل ہے، چناں چہ مسئلہ کے ایک پہلو سے بحث کرتے ہوئے کہیں کہیں اس کے دوسرے پہلو بھی زیر بحث آگئے ہیں، اس لئے کسی بھی بحث کو پوری طرح سمجھنے اور اس سے متعلقہ کل مواد کو جاننے اور پرکھنے کے لئے صرف اس بحث کو دیکھنا کافی نہیں ہے، بلکہ پوری کتاب کا مطالعہ ضروری ہے۔

قرآن نے ایک جگہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے ساتھ بعثت الی الخیر کا بھی ذکر کیا ہے۔ کتاب میں پہلے اسی کی مختصری تشریح ہے۔ اس تشریح سے امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے سمجھنے میں مدد ملی ہے۔

اس کتاب میں دین کے کسی پہلو پر عقلی رنگ میں بحث نہیں کی گئی ہے، بلکہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی دی ہوئی ہدایات کو ان ہی کے الفاظ میں پیش کر دیا گیا ہے۔ کیوں کہ اس کے مخاطب اصلاً وہ لوگ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان رکھتے ہیں اور جن کے نزدیک کسی چیز کے قابل قبول اور واجب الاتباع ہونے کے لئے اتنی بات کافی ہے کہ وہ اللہ کی کتاب یا اس کے رسول ﷺ کی سنت میں موجود ہے۔

کتاب وسنت کی تعبیر میں ان کے ماننے والوں کے درمیان اختلاف ہوسکتا ہے۔ یہ اپنے حدود میں جائز ہی نہیں، بلکہ پسندیدہ بھی ہے، لیکن بعض اوقات یہی اختلاف ایک انسان کے انداز فکر کے دائرہ سے انداز فکر سے قطعاً جدا کر دیتا ہے اور کتاب وسنت پر ایمان کے دعویٰ کے باوجود، دونوں ایک دوسرے سے بالکل مخالف سمت میں سوچنے لگتے ہیں۔ جہاں اس طرح کی دو متضاد تعبیریں ہمارے سامنے ہوں،

ہم کسی ایسی تعبیر کو قبول نہیں کرسکتے جو قرآن و حدیث کے الفاظ اور ان کے مفہوم سے دور ہو اور جسے علوم قرآن و حدیث کے ماہرین اور محققین نے رد کر دیا ہو۔ کیوں کہ قرآن و حدیث کی وہی تعبیر صحیح ہوسکتی ہے جو ان کے الفاظ سے براہ راست نکلتی ہو، یا جسے کم از کم ان کے اسلوب اور انداز بیان سے استنباط کیا گیا ہو اور جس کی تائید قابل اعتماد اور اونچی سطح کے اصحاب علم کر رہے ہوں۔

میں نے اس کتاب میں بھی دوسرا طریقہ اختیار کیا ہے۔ جس کی وجہ سے کتاب اللہ کا شکر ہے، اپنے موضوع پر ایک مستند چیز بن گئی ہے۔ لیکن اس کے باوجود اس میں ایک نہیں متعدد خامیوں کا امکان ہے۔ مجھے بڑی خوشی ہوگی اگر میں ان خامیوں سے آگاہ ہوسکوں۔ اللہ نے چاہا تو مجھے ان کے اعتراف اور ان کی اصلاح میں کبھی تامل نہ ہوگا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس حقیر کاوش کو قبول فرمائے اور اس سے اس کے بندوں کو بیش از بیش فائدہ پہنچے۔

جلال الدین
۲۷ روری ۱۹۷۷ء

دعوت اِلَی الْخَیْر

دعوت اِلَی الْخَیْر کا حکم

سورہ آل عمران میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو حکم دیا ہے:

وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَ يَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ ۚ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ﴿۱۰۴﴾

ترجمہ: تم میں سے ایک جماعت ضرور ایسی ہونی چاہیے جو خیر کی طرف بلائے، معروف کا حکم دے اور منکر سے روکے۔ ایسے ہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں۔

(آل عمران: ۱۰۴)

پس منظر

اس آیت سے پہلے یہود کا تذکرہ ہے کہ وہ خود بھی خدا کے دین کو چھوڑ چکے ہیں اور دوسروں کو بھی اس سے باز رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اسی وجہ سے وہ ہدایت سے محروم ہوگئے اور خدا کی محبت کے مستحق نہیں رہے۔ اس کے بعد مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ پوری طرح خدا کا تقوی اختیار کریں، زندگی کے آخری لمحات تک اسلام پر قائم رہیں، باطل کے مقابلے کے لیے متحد و متفق ہوجائیں، سب مل کر خدا کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لیں اور گروہ بندی اور افتراق سے بچیں۔ ان صفات کا تعلق ان کی داخلی زندگی سے تھا۔ اس کے بعد انہیں خارج کا پروگرام دیا گیا کہ وہ دنیا کو خیر کی طرف بلائیں،

معروف کا حکم دیں اور منکر سے منع کریں۔ یہی بات مفسرین نے کہی ہے۔ ہم یہاں دو مفسرین کے الفاظ نقل کرتے ہیں۔

امام رازی فرماتے ہیں:

اللہ تعالیٰ نے سابقہ آیات میں اہل کتاب کی دو باتوں پر مذمت کی ہے۔ ان میں سے ایک یہ کہ اس نے ان کے کفر کی مذمت کی اس کے بعد اس بات پر ان کی مذمت کی کہ وہ دوسروں کو کفر میں مبتلا کرنے کی کوشش کرتے ہیں، پھر جب مسلمانوں سے خطاب کیا تو پہلے انہیں تقویٰ اور ایمان کا حکم دیا ... اس کے بعد انہیں ہدایت کی کہ وہ دوسروں کو ایمان و اطاعت کے دائرے میں لانے کی کوشش کریں۔

مفاتیح الغیب (التفسیر الکبیر) المجلد الرابع، الجزء ٨، ص ٣٥/١

علامہ سید محمود آلوسی فرماتے ہیں:

اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اپنی ذات کی تکمیل کا حکم دینے کے بعد (اس آیت میں) دوسروں کی تکمیل کا حکم دیا ہے۔ تا کہ وہ ایسے (یعنیوں (ہادیوں) کے برعکس ہدایت یافتہ ہونے کے ساتھ دوسروں کی ہدایت کرنے والے بھی ہوں گے۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے سابقہ آیات میں ان کا جو حال بیان کیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ خود بھی گم راہ ہیں اور دوسروں کو بھی گم راہ کر رہے ہیں۔

روح المعانی، المجلد الثانی، الجزء ٣، ص ٣٣/١

اللہ تعالیٰ امت مسلمہ سے جو کام لینا چاہتا ہے اس کے لیے اس آیت میں دو اصطلاحیں استعمال کی گئی ہیں:

  1. دعوت الی الخیر اور
  2. امر بالمعروف و نہی عن المنکر

معنی و مفہوم

پہلے دعوت الی الخیر کو لیجئے۔ خیر سے مراد اللہ تعالیٰ کا وہ دین ہے جو محمد ﷺ کے ذریعہ امت مسلمہ کو ملا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو نظام زندگی عطا کیا ہے، جو عقائد و نظریات دیے ہیں، جو قوانین سیاست بتائے ہیں، جو ضابطہ اخلاق دیا ہے اور جن اصول عبادت کی تعلیم دی ہے، وہی 'خیر' ہے، اور دنیا کو اس 'خیر' کی طرف بلانا امت مسلمہ کی ذمہ داری ہے۔ اس امت کے لیے خیر و شر کا پیمانہ اللہ کا دین ہے۔ جو کچھ اللہ کے دین میں ہے وہ خیر ہے اور جو اللہ کے دین سے خارج ہے وہ شر ہے۔ اللہ کے دین کے سوا نہ تو کسی تصور حیات سے اسے دلچسپی ہوسکتی ہے اور نہ وہ دنیا کو اس کی دعوت دے سکتی ہے۔ دنیا کے جتنے فلسفے، جتنے نظام حیات اور جتنے قوانین زندگی ہیں، وہ سب کے سب اس کی نگاہ میں شر کی مختلف شکلیں ہیں۔ ان میں خیر کے پہلو ہیں بھی تو شر ان پر غالب ہے۔ وہ ان کو مٹانے اور ان کی جگہ اللہ کے دین کو قائم کرنے کے لیے وجود میں آتی ہے۔

'دعوت الی الخیر' کا مطلب دین کے کسی جزو کی طرف دعوت دینا نہیں ہے، بلکہ کل دین کی طرف دعوت دینا ہے۔ امت مسلمہ جب تک پورے دین کی دعوت لے کر اٹھے وہ 'دعوت الی الخیر' کے فرض سے سبک دوش نہیں ہوسکتی۔ اگر وہ صرف اصلاح اخلاق کی مہم چلاتی ہے، یا اس کے سامنے محض سیاسی انقلاب ہے، یا وہ عبادات کی تلقین

تک اپنی مساعی کو محدود رکھتی ہے، یا اس کا مطلوب صرف معاملاتی زندگی کو درست کرنا ہے تو اس سے دعوت خیر کا حق بھی ادا نہ ہوگا۔ اس میں شک نہیں کہ ان میں سے ہر کام دین کا کام ہے اور اس میں خیر کا جز و یقیناً موجود ہے، لیکن امت مسلمہ پر فی خیر کی دعوت پر مامور نہیں ہے، بلکہ اسے 'خیر کل' کی دعوت کا حکم دیا گیا ہے جیسا کہ قرآن مجید کے متعدد ارشادات سے واضح ہوتا ہے۔ مثلاً سورہ انبیاء کی حسب ذیل آیت کو دیکھئے، قرآن نے حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت اسحاق علیہ السلام اور حضرت یعقوب علیہ السلام کے ذکر کے بعد کہا ہے:

ہم نے ان کو امام بنایا۔ وہ ہمارے حکم کے مطابق لوگوں کی ہدایت کرتے تھے اور ہم نے ان کو وحی کی 'خیرات' (بھلائیوں) کے کرنے کی، اور نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ دینے کی، اور وہ ہمارے عبادت گزار تھے۔

یہاں 'خیرات' کا لفظ ان اعمال کے لیے استعمال ہوا ہے، جن کے کرنے کا اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں کو حکم دیا تھا۔ ظاہر ہے پیغمبروں کو جن اعمال خیر کی وحی کی جاتی تھی ان کا دائرہ بہت وسیع تھا۔ اس میں عبادات، اخلاقیات اور معاملات سب ہی شامل تھے۔ اسی کا نام دین و شریعت ہے۔ اس سے بالکل واضح ہے کہ 'خیرات' کا لفظ کل شریعت کی جگہ بولا گیا ہے، جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے پیغمبروں کو ملی تھی اور جس کے تحت وہ زندگی گزارتے تھے۔ چناں چہ علامہ بغوی نے اس آیت کی تشریح اس طرح کی ہے:

"ہم نے انھیں امام بنایا۔ وہ ہمارے حکم سے ہدایت کرتے تھے۔ یعنی نمونہ خیر جس میں ان کی پیروی کی جاتی تھی۔" وہ ہمارے حکم سے ہدایت

کرتے تھے۔" کا مطلب یہ ہے کہ وہ لوگوں کو ہمارے دین کی دعوت دیتے تھے اور ہم نے ان کی طرف اعمال خیر کی وحی کی، یعنی شریعتوں پر عمل کا حکم دیا۔

معالم التنزیل المطبوع علی ہامش الخازن: ٣٠/٣

مفسر خازن نے بھی فِعْلَ الخَيْرَاتِ کی تشریح العمل بالشَّرَائِع سے ہی کی ہے:

کسی ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ خیر اللہ تعالیٰ کی شریعت کا دوسرا نام ہے۔ پیغمبروں کو اسی خیر پر عمل کا حکم دیا جاتا تھا، ان کی زندگی اسی کا نمونہ ہوتی تھی اور وہ دوسروں کو اسی کی دعوت دیتے تھے۔ اسی چیز نے انہیں عبدیت کے مقام بلند تک پہنچایا اور وہ اللہ کے نزدیک عبدار قرار پائے۔

لباب التاویل فی معانی التنزیل: ٣٠/٣

خیر کا مفہوم سمجھنے کے لیے ایک اور آیت لیجئے، جو سورہ مائدہ میں ہے۔ یہ آیت اختلاف شرائع کا ذکر کرتی ہے۔ اللہ کا دین اپنی حقیقت اور روح کے اعتبار سے ہمیشہ ایک ہی رہا، اس میں کبھی کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔ لیکن مختلف ادوار میں احکام شریعت مختلف رہے ہیں۔ چناں چہ بنی اسرائیل کو جو شریعت دی گئی تھی، محمد ﷺ کی بعثت کے بعد وہ بدل گئی اور آپ کو ایک نئی شریعت دی گئی، لیکن یہ اختلاف شریعت اصل دین میں اختلاف کے ہم معنی ہرگز نہیں ہے۔ اس لیے خدا پرستی کا تقاضا یہ ہے کہ جس دور میں جو احکام شریعت نازل ہوں ان کے سامنے سر جھکانے کے لیے انسان تیار ہوجائے۔ جو شخص نئی شریعت کے آنے کے بعد بھی پچھلی شریعت کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہے وہ اللہ تعالیٰ کا نافرمان ہے۔

ہم نے تم میں سے ہر گروہ کے لیے ایک شریعت اور ایک راہ متعین کی ہے۔ تو اب تم خیرات (بھلائیوں) میں ایک دوسرے سے آگے بڑھو۔

یہاں 'خیرات' میں آگے بڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ اس شریعت پر عمل کیا جائے جو محمد ﷺ پر نازل ہوئی ہے۔ کیوں کہ اب نجات اسی شریعت کی اتباع میں ہے۔ چناں چہ ابن کثیر رحمہ اللہ علیہ نے فَاسْتَبِقُوا الخَيْرَاتِ کی تشریح ان الفاظ میں کی ہے:

اس سے مراد ہے اللہ کی اطاعت اور اس کی شریعت کا اتباع، جسے اس نے پچھلی شریعتوں کی ناسخ بنایا ہے اور اس کی کتاب قرآن مجید کی تصدیق، جو اس نے سب سے آخر میں نازل کی ہے۔

۱ تفسیر ابن کثیر، ٤٥٠/١

علامہ سید محمود آلوسی فرماتے ہیں:

جلدی کرو ان صحیح ترین عقائد اور اعمال صالحہ کے اختیار کرنے میں جو قرآن کریم میں درج ہیں، کیوں کہ یہی تمہارے لیے دنیا و آخرت میں بہتر ہے۔

۲ روح المعانی، المجلد الثالث، الجزء ٥، ص ٣٣٢/٢

علامہ نظام الدین نیشاپوری لکھتے ہیں:

یہاں 'خیرات' سے اللہ تعالیٰ کی مراد صحیح ترین عقائد اور وہ ثابت شدہ اعمال ہیں، جن کے کرنے کا انسانوں کو حکم دیا گیا ہے۔

۳ غرائب القرآن ورغائب الفرقان المطبوع علی ہامش ابن جریر: ٣٥/١

ان تشریحات سے واضح ہے کہ خیرات میں سبقت کے معنی ہیں اللہ تعالیٰ کی بندگی، اس کے رسول ﷺ کی اطاعت اور احکام شریعت کے اتباع میں آگے بڑھنا۔ 'خیر' کے ایک لفظ میں وہ پورا نظام عقائد و اعمال سمٹ آیا ہے جو قرآن کی شکل میں نازل ہوا ہے۔ اسی 'خیر' کی طرف دنیا کو دعوت دینے کا امت مسلمہ کو حکم دیا گیا ہے۔

اب آپ براہ راست اس آیت کو لیجئے جس میں 'دعوت خیر' کا حکم موجود ہے اور دیکھئے کہ اس کی تشریح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے، صحابہ و تابعین نے اور قرآن علیم کے محققین نے کیا کی ہے؟

سنت کا بیان

ابو جعفر باقر فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ نے یہ آیت پڑھی:

تم میں ایک گروہ ایسا ضرور ہونا چاہیے جو خیر کی طرف دعوت دے۔

اور فرمایا:

القُرآنِ وَ سُنَّتِي قرآن اور میری سنت کی اتباع کا نام خیر ہے

ا۔ فتح القدیر، الشوکانی: ٢٦٩/١

'دعوت خیر' کا مطلب یہ ہے کہ قرآن و سنت کی طرف دعوت دی جائے۔ قرآن و سنت کی دعوت کے سوا کوئی دوسری دعوت لے کر امت مسلمہ اٹھتی ہے تو وہ نہ دعوت خیر ہوگی اور نہ اس کا کام دعوت خیر کا کام ہوگا۔

سلف کی تشریحات

ابوالعالیہ اور اربیعی نے 'خیر' کے بارے میں بعض تابعین کے اقوال نقل کیے ہیں:

خیر سے مراد اسلام ہے۔ یہ قتادہ کا قول ہے۔ یا اس سے مراد اللہ کی اطاعت ہے۔ یہ ابو سلیمان دمشقی نے کہا۔ یا اس سے مراد جہاد اور اسلام ہے۔

۲۔ البحر المحیط: ٦٦/٣

علامہ بغوی نے 'خیر' کی تشریح اسلام سے کی ہے۔ اور یہی تشریح 'جلالی' میں موجود ہے۔ لیکن یہ فراموش کرنا چاہیے کہ اسلام سے مراد کوئی ایک جزو یا کسی خاص

معاملہ میں 'اللہ تعالیٰ کی اطاعت' نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد اس کا نازل کردہ پورا دین اور زندگی کے تمام معاملات میں اس کی اطاعت ہے۔ اور اسی مکمل دین کی دعوت کا امت مسلمہ کو حکم دیا گیا ہے۔ چناں چہ علامہ صاوی جلالیین کی شرح میں فرماتے ہیں:

مفسر نے خیر کو اسلام کے لفظ سے محدود کیا ہے۔ کیونکہ اسلام تمام معاملات کی اساس ہے۔

ا۔ حاشیہ الصاوی علی تفسیر الجلالین: ٤٥٠/١

ہمارے قدیم ترین مفسر امام ابن جریر طبری نے اسے اور واضح کیا ہے:

اے اہل ایمان ! تم میں ایک ایسی امت ہونی چاہیے جو خیر کی طرف دعوت دے۔ 'خیر' کا مطلب ہے اسلام اور اس کی شریعت، جسے اللہ نے اپنے بندوں کے لیے جاری کیا ہے۔

۲۔ جامع البیان فی تفسیر القرآن: ٣٠/٤

علامہ ابوالعالیہ اور ربیعی فرماتے ہیں:

'دعوت الی الخیر عام ہے۔ اس میں وہ تمام الافعال شامل ہیں، جن کے کرنے کا شریعت حکم دیتی ہے یا جن سے اس نے منع کیا ہے

۳۔ البحر المحیط: ٦٥/٣

قاضی بیضاوی لکھتے ہیں:

'دعوت الی الخیر عام ہے۔ اس کا مطلب ہے ان تمام چیزوں کی طرف دعوت دینا جن میں دین و دنیا کی صلاح ہے۔

٤۔ انوار التنزیل و اسرار التاویل: ١٠/٢

یہی تفسیر شیخ ابو السعود اور علامہ سید محمود آلوسی نے کی ہے۔ یہ صلاح دین و دنیا، جس کی طرف امت مسلمہ کو دعوت دیتا ہے، اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت

میں موجود ہے۔ جو عقائد و اعمال ان دو ذرائع سے ثابت ہیں، وہی اصلاح کے ضامن ہیں، باقی ہر مسلک و خیال اور ہر نظریہ و عمل فساد اور ضلالت ہے۔ یہی مطلب ان مفسرین کا بھی ہے۔ شیخ اسماعیل حقی نے صلاح دین و دنیا کو 'تکلیف شرعی' کا نام دیا ہے اور 'تکلیف شرعی' کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ سے ثابت ہوتی ہے:

تم میں ایک ایسی امت ضرور ہونی چاہیے جو خیر کی طرف دعوت دے) یعنی ایسی جماعت جو خیر کی داعی ہو۔ خیر کا مطلب ہے وہ چیز جس میں دین و دنیا کی بہتری پائی جائے۔

اور اس کی شریعت، جسے اللہ نے اپنے بندوں کے لیے نازل کیا ہے۔

١. روح البیان: ٣٥٢/٢

آپ نے دیکھا کہ قرآن سے بھی ثابت ہے اور ہر مفسر نے یہی کہا ہے کہ 'دعوت خیر' دعوت اسلام کے ہم معنی لفظ ہے۔ ظاہر ہے امت مسلمہ کو دعوت خیر پر مامور کرنے کا مطلب یہ کسی طرح نہیں ہوسکتا کہ وہ دنیا کے سامنے اسلام کی بس تعریف کرتی رہے، یا اس کی حقانیت پر کوئی کتاب لکھوا دے۔ اس دعوت کا حق اس وقت تک ادا نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ اس کے لیے وقف نہ ہو جائے اور اپنی تمام قوتیں دنیا میں اسے قائم کرنے کے لیے صرف نہ کر دے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ اس کی ساری جد و جہد اسی مقصد کے لیے ہو، وہ اپنا سارا سرمایہ حیات اس میں لگا دے، اس کی مساعی و جنگ اسی راہ میں ہو اور وہ اسی لیے جئے اور مرے۔


امر بالمعروف و نہی عن المنکر

وجوب اور اہمیت

امربالمعروف و نهی عن المنکر کارنبوت کے لیے قرآنی اصطلاح ہے

معروف کا حکم دینا اور منکر سے روکنا پیغمبروں کا کام ہے۔ قرآن نے پیغمبروں اور ان کے بھیجے جانے مشنوں کے کام کو جن اصطلاحات میں بیان کیا ہے، ان میں ایک اصطلاح امربالمعروف ونهی عن المنکر، بھی ہے۔ چناں چہ رسول اکرم کے بارے میں ارشاد ہوا:

يَأْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْهٰیهُمْ عَنِ ده ان اہل کتاب) کو معروف کا حکم دیتا ہے الْمُنْكَرِ (الاعراف: ۱۵۷) اور منکر سے روکتا ہے۔

الاعراف: ۱۵۷

حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو امربالمعروف ونهی عن المنکر کی نصیحت کی

حضرت لقمان اپنے بیٹے کو نصیحت فرماتے ہیں کہ معروف کا حکم دو اور منکر سے روکو اور اس راہ میں جو مصیبت آئے اسے برداشت کرو۔ یہ کام بے پناہ صبر اور ہمت چاہتا ہے اور اس پر ارباب عزیمت ہی جم سکتے ہیں:

يبْنَيَ اَقِمِ الصَّلٰوةَ وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوْفِ اے میرے بیٹے! نماز قائم کر، معروف کا حکم وَانْهَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَاصْبِرْ عَلٰى مَا دهے اور منکر سے منع کر اور اس راہ میں جو اَصَابَكَ اِنَّ ذٰلِكَ مِنْ عَزْمِ تکلی فپہنچے اس پر صبر کر ۔ یقینا یہ بڑی الْاُمُوْرِ ٥ (لقمان: (1) عزیمت کا کام ہے۔

لقمان: ۱۷

حضرت لقمان لوگوں کو خدا کے پیغمبر نہیں تھے۔ لیکن صالح اور خدا ترس انسان ضرور تھے۔ قرآن نے ان کی اہمیت اس لیے نہیں نقل کی ہے کہ اس سے ان کے اخلاق اور سیرت پر روشنی پڑتی ہے، بلکہ اس لیے نقل کی ہے کہ اس کی اتباع کی جائے۔ خاص فرماتے ہیں:

إِنَّمَا حَكَمٰى اللّٰهُ تَعَالى لَنَا ذٰلِكَ عَنْ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے کی یہ نصیحت ہمیں عَبْدِه لَقَدْ هُوَ بِالْمَنْتَهٰى اِلَیهِ اس لیے سنائی ہے کہ ہم اس کی اتباع کریں اور اس تک پہنچیں۔

ا ۔ احکام القرآن: ۲ / ۵۹۲

اہل کتاب کا حق پرست گروہ امر بالمعروف ونهی عن المنکر کا فرض انجام دے رہا تھا

نزول قرآن کے وقت اہل کتاب کے اندر زبردست فساد اور بگاڑ پیدا ہوچکا تھا اور وہ اللہ کے دین کو چھوڑ چکے تھے، لیکن اس کے باوجود ان میں ایک گروہ راہ راست پر قائم تھا اور امربالمعروف و نهی عن المنکر، کا فرض انجام دے رہا تھا۔ قرآن نے اس کی تعریف کی ہے۔ یہ اس حقیقت کا اظہار ہے کہ راہ راست پر قائم رہنے کے لیے امربالمعروف ونهی عن المنکر ایک لازمی شرط ہے۔ اس کے بغیر راہ راست پر قائم رہنے کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا۔ چناں چہ ارشاد ہے:

لَيْسُوا سَوَاءً مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ اُمَّةٌ اہل کتاب سب کے سب ایک سے نہیں ہیں۔ قَائِمَةٌ يَّتْلُوْنَ اٰيٰتِ اللّٰهِ اٰنَاءَ الَّيْلِ وَ هُمْ ان میں ایک جماعت راہ راست پر قائم ہے۔ یہ يَسْجُدُونَ ٥ يُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْيَوْمِ لوگ رات کے اوقات میں اللہ کی آیتوں کی الْاٰخِرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ تلاوت کرتے اور اس کے سامنے سجدہ ریز ہوتے عَنِ الْمُنْكَرِ وَ يُسَارِعُونَ فِي ہیں، اللہ پر اور آخرت کے دن پر یقین رکھتے الْخَيْرَاتِ وَ اُولٰئِكَ مِنَ ہیں اور معروف کا حکم دیتے ہیں اور منکر سے روکتے الصّٰلِحِيْنَ ٥ ہیں ۔ ان لوگوں کا شمار صالحین میں ہے۔

آل عمران: ۱۱۳-۱۱۴

امربالمعروف و نهی عن المنکر کو اہلِ علم نے پیغمبروں کا کام کہا ہے

اس سے معلوم ہوا کہ کارِ نبوت کے لیے امر بالمعروف و نهی المنکر، کی تعبیر ٹھیک قرآنی تعبیر ہے۔ یہ کوئی محدود تعبیر نہیں ہے ، جو انبیاء اور ان کے جانشینوں کے کام کے کسی ایک حصے کو ظاہر کرتی ہو، بلکہ یہ اس ہستی و جدوجہد کو پوری طرح نمایاں کرتی ہے جو انبیاء اور ان کے جانشین اللہ کے دین کی راہ میں کرتے تھے۔ ان کی تمام تعلیمات امر و نهی پر مشتمل تھیں۔ وہ یا تو معروف کا حکم دیتے تھے یا منکر سے روکتے تھے۔ اس تعبیر کے ذریعے یہ آسانی سمجھا جاسکتا ہے کہ وہ کیا کام ہے جو ہر نبی اور اس کی امت کے صلحاء نے اپنے دور میں انجام دیا اور جس کے کرنے پر آج امت مسلمہ مامور ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ تعبیر بہ ظاہر چند الفاظ کا مجموعہ ہے، لیکن ان ہی چند الفاظ میں انبیاء کا مقصد بعثت بیان کر دیا گیا ہے۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں اہلِ علم نے یہی بات کہی ہے۔

امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں:

الامر بالمعروف والنهى عن امربالمعروف و نهی عن المنکر، جس کی ہدایت المنكر الذي انزل الله به كتبه کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتابیں نازل کیں و ارسل به رسله ، من الدين اور اپنے رسول بھیجے، جزء دین ہے۔

ا ۔ الحجة فی الاسلام، ص : ۵۷

علامہ قرطبی فرماتے ہیں:

ان الأمر بالمعروف والنهی عن معروف کا حکم دینا اور منکر سے روکنا پچھلی المنكر كان واجبًا في الأمم امتوں پر واجب تھا۔ یہی رسالت کا فائدہ ہے المتقدمة ، وهو فائدة الرسالة اور یہی نبوت کی جانشینی ہے۔ وخلافة النبوة

۲۔ الجامع لاحکام القرآن، المجلد الثانی، الجزء ۴، ص ۳۱۰

علامہ سیف الدین آمدی فرماتے ہیں:

مَامَنَ أُمَّةً إِلَّا وَقَدْ أَمَرَتْ بِالْمَعْرُوفِ جتنی بھی امتیں گزری ہیں ان میں سے ہر امت كَانَ يَتَّبِعُ أَنْبِيَاءَهُمْ وَ شَرَائِعَهُمْ، وَنَهَتْ نے معروف کا حکم دیا۔ مثال کے طور پر ان کا عَنِ الْمُنْكَرِ كَمَا يَنهٰى عَنِ الْإِلْحَادِ وَ دين اپنے نبیوں اور ان کی شریعتوں کی اتباع کا حکم تَكْذِيْبِ أَنْبِيَائِهِمْ ۔ تھا ان کا الحاد اور تکذیب انبیاء سے منع کرنا۔

ا ۔ الاحکام فی اصول الاحکام : ۱ / ۴۸

امام رازی ایک سوال قائم کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

الأمر بالمعروف والنهى عن المنكر امر بالمعروف و نهی عن المنکر اور خدا پر والأيمان بالله... إن هذه الصفات ایمان به... ان تمام امتوں میں الثلثة كانت حاصلة في سائر الأمم التلتۃ تھی موجود تھیں ۔

۲۔ مفاتیح الغیب : المجلد الرابع، الجزء ۸، ص ۱۵۷

علامہ رشید رضا مصری لکھتے ہیں:

فَقَدْ جَرَتْ سُنَّةُ الْأَنْبِيَاءِ وَ الْمُرْسَلِينَ انبیاء اور مرسلین اور سلف صالحین کی یہ سنت رہی الصَّالِحِينَ عَلَى الدَّعْوَةِ إِلَى الْخَيْرِ وَ ہے کہ انہوں نے خیر کی دعوت دی، معروف الْأَمْرِ بِالْمَعْرُوفِ وَ النَّهْي عَنِ کا حکم دیا اور منکر سے منع کیا۔ اگرچہ یہ کام الْمُنْكَرِ وَ إِنْ كَانَ مَحْفُوفًا مشقتوں اور تکالیف سے گھرا ہوا ہے۔ بِالْمَكَارِهِ وَ الْمَخَاوِفِ ۔

۳۔ تفسیر القرآن الحکیم (المنار): ۲۴ / ۴۴

امربالمعروف ونهی عن المنکر امت مسلمہ کا فرض منصبی ہے

اہل علم کی ان تصریحات سے واضح ہے کہ امربالمعروف و نهی عن المنکر، ہر دور میں اللہ تعالیٰ کے پیغمبروں اور ان کی امتوں کا کام رہا ہے۔ اسی کام کے لیے امت مسلمہ وجود میں آئی ہے۔ اس کا مقام یہ نہیں ہے کہ وہ بس اپنی حد تک صلاح وتقویٰ کی زندگی گزارتی رہے، بلکہ اسے دنیا کی ہدایت اور راہ نمائی کی ذمہ داری بھی انجام دینی ہے۔ وہ

عابد و زاہد بھی ہے اور ہادی ورہ نما بھی۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت اور مخلوق کی ہدایت اس کے کام کے دو جزء ہیں۔ آج اگر وہ ان میں سے کسی بھی جزء کو چھوڑ بیٹھے تو کل قیامت کے روز اس سے تخت باز پرس ہوگی اور وہ ناکام و نامراد قرار پائے گی۔ قرآن کی آیت ذیل میں اس کا امتیاز خاص بیان ہوا ہے:

كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تم بہترین امت ہو جسے لوگوں کی تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ ہدایت کے لیے نکالا گیا ہے، تم معروف کا الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ ٥ (آل عمران : ۱۱۰) حکم دیتے اور منکر سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو ۔

آل عمران : ۱۱۰

اس آیت میں امت مسلمہ کو خیر امت کہا گیا ہے اور اس کی دو صفات بیان ہوئی ہیں۔ ایک یہ کہ وہ معروف کا حکم دیتی اور منکر سے روکتی ہے اور دوسری یہ کہ وہ اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتی ہے۔ اللہ پر ایمان یہ ہے کہ انسان اس کو اپنا معبود اور حاکم مانے اور اس کے احکام کو بے چوں و چرا تسلیم کرے۔ ایمان یقین قلب اور کامل اتباع کا دوسرا نام ہے۔ چناں چہ مفسر خازن نے اس موقعے پر ایمان باللہ کی تشریح ان الفاظ میں کی ہے:

(وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ ) أَيْ وَتُصَدِّقُوْنَ تم اللہ پر ایمان رکھتے ہو یعنی تم اس کے بِاللّٰهِ وَ تُخْلِصُوْنَ لَهُ التَّوْحِيْدَ وجود کی تصدیق کرتے ہو، اس کو سچے دل سے وَالْعِبَادَةَ ایک مانتے ہو اور اس کی بندگی کرتے ہو۔

ا ۔ لباب التأویل فی معانی التنزیل : ۱ / ۳۴۹

اس کا مطلب یہ ہے کہ اس امت کو خیر امت، کا لقب اس لیے ملا ہے کہ ایک طرف تو وہ شر سے بھری ہوئی دنیا کے لیے خیر ثابت ہوگی اور سیدھی راہ دکھائے گی اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ کی کامل اطاعت اور فرماں برداری کرے گی۔ یہ دو طرفہ کام اس امت کو اتنے اونچے مقام تک پہنچا دیتا ہے کہ کوئی بھی امت اس عظمت کو پا نہیں سکتی۔ اس کام کی وجہ سے اس کے اندر پیغمبرانہ شان پیدا ہو جاتی ہے اور جس امت میں یہ شان پیدا ہو جائے ، خدا کی اس زمین پر اس سے بہتر کوئی دوسری قوم ہے نہ اور ہوسکتی

ہے۔ علامہ صاوی اس آیت کی تشریح میں فرماتے ہیں:

أَنَّ الْاُمَّةَ لَهَا شَبَهٌ بِالْاَنْبِيَاءِ مِنَ اس امت کو انبیاء سے ایک گونہ مشابہت ہے، حَيْثُ إِنَّهَا مُهْتَدِيَةٌ فِي نَفْسِهَا اس طرح کہ وہ خود بھی راہ یاب ہے اور هَادِيَةٌ لِغَيْرِهَا . دوسرں کو بھی راہ دکھاتی ہے۔

۔ حاشیہ الصاوی علی تفسیر الجلالین : ۱ / ۱۵۲

حقیقت یہ ہے کہ امر بالمعروف و نهی عن المنکر اور اللہ پر ایمان اور اس کی اطاعت، خیر امت کی امتیازی خصوصیات ہیں۔ اگر وہ ان خصوصیات کو کھو دے تو اس کی عظمت اس سے چھن جائے گی اور اس میں اور دنیا کی دوسری قوموں میں کوئی فرق نہ رہ جائے گا۔ حضرت عمرؓ نے ایک حج کے موقعے پر مذکورہ بالا آیت پڑھی اور فرمایا:

يَا أَيُّهَا النَّاسُ مَنْ سَرَّه أَنْ يَكُونَ اے لوگو! تم میں سے جو شخص اس خیر امت مِنْ تِلْكَ الْأُمَّةِ فَلْيُؤَدِ شَرْطَ اللّٰهِ میں شامل ہونا چاہے تو اس کے لیے اللہ تعالیٰ مِنْهَا جو شرط رکھی ہے وہ پوری کرے گا۔

۲۔ جامع البيان في تفسير القرآن : ۴ / ۴۷

مجاھد اس آیت کی تشریح میں فرماتے ہیں:

كُنتُمْ خَيْرَ النَّاسِ لِلنَّاسِ عَلٰى هذا تم انسانوں کے حق میں بہترین انسان ہو، اس الشَّرَطِ أن تَأْمُرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَ شرط کے ساتھ کہ تم معروف کا حکم دیتے ہو تَنهٰوا عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ ٥ منکر سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔

۳۔ خواطر سابی ، ص ۴۸

علامہ قرطبی فرماتے ہیں:

(تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَ تَنَهَوْنَ عَنِ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ تم معروف کا حکم دیتے ہو الْمُنْكَرِ) مَدْحٌ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ مَا أَقَامُوا اور منکر سے روکتے ہو اس امت کی تعریف ہے ذَلِكَ وَانْصِفُوا بِهِ فَلِذَا تَرَكُوا جب تک کہ وہ اس پر قائم رہے اور یہ صفت اس التَّغْيِيرَ وَتَوَاطَوا عَلَى الْمُنْكَرِ زَالَ کے اندر پائی جائے، لیکن اگر وہ منکر کو بدلنے کا عَنْهُمْ اِسْمُ الْمَدْحِ وَلَحِقَهُمْ اِسْمُ کام چھوڑ دیں اور منکر پر اتفاق کرلے تو اللہ نے

۔ حاشیہ الصاوی علی تفسیر الجلالین : ۱ / ۱۵۲ اس سے جو مدح کا نام دیا ہے وہ اس سے چھن جائے گا

وَ كَانَ ذٰلِكَ سَبَبًا لِّهَلَاكِهِم اور اس کے ساتھ مذمت چمٹے جائے گی اور بھی چیز اس کی ہلاکت کا سبب ہوگی۔

۴۔ الجامع لاحکام القرآن، المجلد الثانی، الجزء ۴، ص ۴۸

امام رازی نے اسی حقیقت کو عقلی اور قانونی زبان میں اس طرح بیان کیا ہے:

انَّ ثَبَتَ فِيْ اُصُوْلِ الْفِقْهِ اَنَّ ذِكْرُ اصول فقہ کا ایک مانا ہوا قاعدہ ہے کہ کسی الْحُكْمِ مَقْرُوْنَا بِالْوَصْفِ الْمُنَاسِبِ حکم کا اس کے مناسب وصف کے ساتھ ذکر لَهُ يَدلُّ عَلَى كَوْنِ ذٰلِكَ الْحُكْمِ کرنا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ وہ مُعَلَّلًا بِذٰلِكَ الْوَصْفِ، فَهٰا هُنَا وصف اس حکم کی علت ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ حُكُ مَتَعَالَى بِثُبُوْتِ وَصْفِ الْخَيْرِيَّةِ نے اس امت کے لیے خیر یت کے وصف کا لِهٰذِهِ الْأُمَّةِ، ثُمَّ ذِكْرُ عَقِيْبِهِ هٰذَا اعلان کیا ہے۔ پھر اس کے ساتھ ہی اس حکم الْحُكْمِ وَ هٰذِهِ الطَّاعَاتُ، اَعْنَى الْأَمْرَ اور ان عبادات کا (یعنی امر بالمعروف و نهی بِالْمَعْرُوفِ وَ النَّهْي عَنِ الْمُنْكَرِ وَ عن المنکر اور ایمان کا ذکر فرمایا ہے) اس الْإِيْمَانَ، فَوَجَبَ كَوْنُ تِلْكَ سے لازم آیا کہ یہی عبادات 'خیر یت' کے اس الْخَيْرِيَّةِ مُعَلَّلَةً بِهَذِهِ الْعِبَادَاتِ وَصْف کی علت ہیں۔

۲۔ مفاتیح الغیب (تفسیر الکبیر)، المجلد الرابع، الجزء ۸ ص ۱۵۷

امربالمعروف ونهی عن المنکر اہل ایمان کی ایسی صفت ہے ، جو ان سے کسی بھی حال میں جدا نہیں ہوسکتی۔ مومن کی تصویر جب بھی سامنے آئے گی تو اس میں یہ خوبی ضرور شامل ہوگی۔ اس کے بغیر مومن کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا۔ اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو جس حالت میں دیکھنا چاہتا ہے اس حالت میں وہ اسی وقت موجود ہوں گے جب کہ وہ امربالمعروف ونهی عن المنکر، کا فریضہ انجام دے رہے ہوں۔ ایمان کا معیار مطلوب یہ نہیں ہے کہ آدمی اپنے دامن کو مصیبت سے بچائے رکھے، بلکہ حقیقی ایمان وہ ہے جو ڈوبتی ہوئی انسانیت کو سہارا دیگا اور کفر و شرک کے خلاف اضطراب اور بے تابی پیدا کرتا ہو۔ جو ایمان دنیا کو مجرم ہدایت دیکھ کر تڑپ اٹھے وہ اپنی روح کو کھو چکا ہے اور اس میں ایمان کی شان باقی نہیں ہے۔

قرآن نے امت مسلمہ کو خیر امت اس لیے کہا ہے کہ وہ معروف کا حکم دیتی اور منکر سے روکتی ہے اور اللہ پر ایمان رکھتی ہے۔ اسی طرح اہل کتاب کے حق پرست گروہ کو امة قائمة (راہ راست پر قائم رہنے والی امت) کہا ہے، کیوں کہ اس گروہ سے تعلق رکھنے والے اللہ کی کتاب کی تلاوت کرتے ہیں، اس کی عبادت گزار ہیں۔ خدا اور آخرت پر ایمان رکھتے ہیں، اور یہ کہ وہ:

يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ معروف کا حکم دیتے ہیں اور منکر سے الْمُنْكَرِ ٥ روکتے ہیں ۔

آل عمران : ۱۱۳

اس سے معلوم ہوا کہ خیر امت بننے اور راہ راست پر قائم رہنے کے لیے صرف ذاتی صفات مطلوب نہیں ہیں، بلکہ اس کے لیے دوسروں کی ہدایت و راہ نمائی کے اوصاف بھی ضروری ہیں۔

علامہ ابو السعود نے اس فقرہ کی شرح ان الفاظ میں کی ہے:

(وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ معروف کا حکم دیتے ہیں اور منکر سے روکتے الْمُنْكَرِ) صفتان أخريان لأمة ہیں ، راہ راست پر قائم رہنے والے گروہ کی یہ اُجْرِيَتَا عَلَيْهِمْ تَحْقِيقًا لِّمُخَالِفَتِهِمْ مزید دو صفتیں بیان ہوتی ہیں، تاکہ یہ واقع الْيَهُودِ فِي الْفَضَائِلِ الْمُتَعَلِّقَةِ کرنے کے بعد کہ وہ ان فضائل میں جو بِتَكْمِيلِ الْغَيْرِ آثَارٍ بَيْنَ مُبَايَنَتِهِمْ ہے، یہ بھی روشن کر دیا جائے کہ ان فضائل لَهُمْ فِي الْخَصَائِصِ الْمُتَعَلِّقَةِ میں جو تکمیل غیر سے متعلق ہیں اس کی بِتَكْمِيلِ النَّفْسِ، وَ تَعْرِيضًا روشنی ان سے جدا ہے۔ اس میں یہود پر تعریض بِمُدَاهَنَتِهِمْ فِي الْاَحْتِسَابِ بِلَا بھی ہے کہ وہ لوگوں کے احتساب میں مداہنت بِتَمْكِيْسِهِمْ فِي الْأَمْرِ بِإِضْلَالِ دکھا رہے ہیں، بلکہ الٹے انہیں گم راہ کر رہے النَّاسِ وَصَدِّهِمْ عَنِ سَبِيلِ اللّٰهِ فَانَّه ہیں اور اللہ کی راہ سے روک رہے ہیں اور یقینا یہ أمْرٌ بِالْمُنْكَرِ وَنَهْي عَنِ الْمَعْرُوفِ ۔ منکر کا حکم دینا اور معروف سے روکنا ہے۔

ا ۔ ارشاد العقل السليم الي مزايا الكتاب الكريم للمسعودي بيس الحمد السعودي على بعض التفسير الكبير : ۲ / ۵۰۲

ابوحیان اندلسی فرماتے ہیں:

لَمَّا كَمُلُوا فِيْ أَنْفُسِهِم سَعَوْا فِيْ جب وہ اپنی ذات میں مکمل ہو چکے تو امربالمعروف و نهی عن المنکر کے اوصاف کے ذریعہ تَكْمِيلِ غَيْرِهِمُهُمُ النَّفْعُ الْوَصِفَيْنَ اُنهوں نے دوسروں کی تکمیل کی کوشش کی۔

ا ۔ البحر المحيط : ۲ / ۳۷۲

حضرت لقمان کی نصیحت میں اقامت صلوٰۃ کے ساتھ امربالمعروف و نهی عن المنکر، ذکر موجود ہے۔ یہ حقیقت میں تکمیل ذات و تکمیل غیر، کے دو عنوانات ہیں۔ علامہ سید محمود آلوسی اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں:

(يبْنَيَ أَقِمِ الصَّلٰوةَ ) تَكْمِيلَا اے میرے بیٹے! نماز قائم کر، اپنی ذات کی لِنَفْسِكَ ... (وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوْفِ وَانْهَ تکمیل کے لیے ..." اور معروف کا حکم دو اور عَنِ الْمُنْكَرِ) تَكْمِيلًا لِغَيْرِكَ منکر سے منع کر دوسروں کی تکمیل کے لیے ۔

۲۔ روح المعانی ، المجلد الحادی عشر، جزء ۲۱، ص ۸۹

امام رازی نے اسی بات کو کسی قدر تفصیل سے بیان کیا ہے:

إذَا كَمُلْتَ اَنْتَ فِيْ نَفْسِكَ خدا کی عبادت کے ذریعے جب تم اپنی ذات بِعِبَادَةِ اللّٰهِ فَكَمِّلْ غَيْرَكَ ، فَإِنَّ کو تکمیل کرچکے تو دوسروں کی بھی تکمیل کرو۔ شَغْلَ الْاَنْبِيَاءِ وَوَرَّثَتْهُم مِنَ الْعُلَمَاءِ کیوں کہ انبیاء اور ان کے وارث علماء کا یہ کام هُوَ اَنَّ يَكْمُلُوا فِيْ أَنْفُسِهِم رہا ہے کہ وہ اپنی ذات کی بھی تکمیل کرتے وَيُكَمِّلُوا غَيْرَهُم اور دوسروں کی بھی ۔

۳۔ مفاتیح الغیب : المجلد الثالث عشر، الجزء ۱۸، ص ۲۴۵

سورۃ توبہ کی ایک آیت اس حقیقت کو اور واضح کرتی ہے جس میں اہل ایمان کی صفات بیان کی گئی ہیں:

التَّائِبُوْنَ الْعَابِدُوْنَ الْحَامِدُوْنَ وہ خدا سے توبہ کرنے والے، اس کی عبادت السَّائِحُوْنَ الرَّاكِعُوْنَ السَّاجِدُوْنَ اس کی حمد و ثنا کرنے والے الْآمِرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَالنَّاهُوْنَ اس کی راہ میں زمین میں گھومنے والے ، رکوع کرنے والے ، سجدہ کرنے والے ، معروف کا

عَنِ الْمُنْكَرِ وَالْمُحَافِظُونَ لِحُدُودِ حکم دینے والے اور منکر سے روکنے والے اور اللَّهِ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ (التوبه:۱۱۲) الله کی حدود کی حفاظت کرنے والے ہیں اور تم مؤمنوں کو خوش خبری دے دو ۔

التوبه:۱۱۲

اس آیت میں جو صفات بیان ہوئی ہیں، ان میں کچھ تو وہ ہیں، جن کا تعلق اہلِ ایمان کی ذات سے ہے اور کچھ وہ ہیں جو دوسروں کے درمیان ان کے کام کو بتاتی ہیں ۔ جیسے عبادت الله تعالیٰ کی حمد و ثناء، اس کی راہ میں سیر و سیاحت اور رکوع و سجدہ ایسی صفات ہیں ، جن کے اثرات ان کی ذات تک محدود ہیں اور دوسروں کے لیے وہ جو کچھ کرتے ہیں اسے امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے الفاظ میں پیش کیا گیا ہے ۔

علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

يَنْفَعُونَ خَلْقَ اللَّهِ ، وَيُرْشِدُونَهُم إِلَى وہ مخلوق کو فائدہ پہنچاتے ہیں اور امر بالمعروف و طَاعَةِ اللَّهِ بِالْأَمْرِ بِالْمَعْرُوفِ وَ نہی عن المنکر کے ذریعہ انہیں خدا کی بندگی کی نَهْيِهِ عَنِ الْمُنْكَرِ مَعَ الْعِلْمِ بِمَا يَنبَغِي راه دکھاتے ہیں ۔ ساتھ ہی یہ جانتے ہیں کہ کون فِعْلُهُ وَيَجِبُ تَرْكُهُ وَهُوَ حِفْظُ سا کام کرنا چاہیے اور کون سا کام نہیں کرنا حُدُودِ اللَّهِ فِي تَحْلِيلِهِ وَتَحْرِيمِ چاہیے ۔ اس کو حدود الله کی حفاظت کہتے ہیں ۔ عِلْماً وَعَمَلاً ، فَقَامُوا بِعِبَادَةِ الْحَقِّ وَ یعنی اللہ تعالیٰ نے حلال و حرام کے جو حدود مقرر نُصْحِ الْخَلْقِ، وَلِهَذَا قَالَ "وَبَشِّرِ في علم و عمل دونوں پہلوؤں سے ان کی حفاظت کی ہے ۔ پس اس طرح اہل الْمُؤْمِنِينَ" لأَنَّ الْإِيمَانَ يَشْمَلُ هُذَا ایمان، اللہ کی عبادت کے ساتھ مخلوق کی خیر خواہی کا الْكُلِّ ، وَالسَّعَادَةُ كُلُّ السَّعَادَةِ لِمَنْ فرض بھی انجام دیتے ہیں ۔ اسی لیے کہا کہ اتَّصَفَ بِهِ مؤمنوں کو خوش خبری دو کیونکہ ایمان ان تمام باتوں کو شامل ہے اور سعادت پوری کی پوری اسی کے لیے ہے جو اس سے متصف ہو ۔

1. تفسیر ابن کثیر : ۳۹۲/۲

علامہ سید محمود آلوسی نے اس حقیقت کو صرف ایک جملہ میں ادا کر دیا ہے:

كَأَنَّهُ قِيلَ : الْكَامِلُونَ فِي أَنفُسِهِم گویا آیت میں یہ بات کہی گئی ہے کہ وہ اپنی ذات الْمُكْمِلُونَ لِغَيْرِهِمْ میں کامل ہوتے ہیں اور دوسروں کی تکمیل کرتے ہیں ۔

۲. روح المعانی، المجلد السادس الجزء 11، ص ٣٣

امام رازی اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر، نه صرف یه که عبادت ہے، بلکه مشکل ترین عبادت ہے :

كُلُّ مَا سَبَقَ مِنَ الصِّفَاتِ عِبَادَاتٌ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے ذکر سے پہلے يَأْتِي بِهَا الْإِنْسَانُ لِنَفْسِهِ وَلَا تَعَلَّقَ جن صفات کا تذکرہ آیا ہے وہ ایسی عبادتیں لِشَيْءٍ مِنْهَا بِالْغَيْرِ . أَمَّا النَّهْي عَنِ ہیں، جن کو انسان اپنی ذات کے لیے انجام الْمُنْكَرِ فَعِبَادَةٌ مُتَعَلِّقَةٌ بِالْغَيْرِ ... النَّهْي دیتا ہے ۔ ان میں سے کسی صفت کا دوسروں عن الْمُنْكَرِ أَصْعَبُ أَقْسَامِ الْعِبَادَاتِ سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن، منکر سے روکنا ایسی عبادت ہے جو دوسروں سے متعلق ہے

ا۔ التفسير الكبير، المجلد التاسع، الجزء 1٦، ص ١٣٦

امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں:

منكر سے روکنا سخت ترین عبادت ہے ۔

۲. رسالة الحسبة : ص ١٣

وَمِنْ عِبَادَتِهِ وَطَاعَةِ أَمْرِهِ الْأَمْرُ الله تعالیٰ کی عبادت اور اس کی اطاعت میں یہ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهْيُ عَنِ الْمُنْكَرِ بات بھی شامل ہے کہ اپنے امکان کی حد تک بِحَسَبِ الْإِمْكَانِ مَعْرُوف كو حكم ديا جائے اور منکر سے روکا جائے ۔

۳. الجامع الاحكام القرآن لابی عبد اللہ القرطبی المجلد الثانی، الجزء ٨، ص ٣٨

حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالٰی امت مسلمہ سے دنیا کی اصلاح کا مشکل ترین کام لینا چاہتا ہے ۔ اسی کام کو انجام دینے کا نام امر بالمعروف و نہی عن المنکر ہے ۔ یہ اس امت کے دین و ایمان کا تقاضا ہے کہ دنیا کو معروف کا حکم دے اور منکر سے روکے ۔ یہ کام اصلاح پیغمبران کا ہے اور امت مسلمہ کو اس میں پیغمبروں کی نیابت کرنی ہے اگر وہ اس کام کو چھوڑ دے تو اپنے صحیح مقام پر باقی نہیں رہ سکتی ۔ حضرت حسن بصری رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

قال النَّبِيُّ : مَنْ أَمَرَ بِالْمَعْرُوفِ وَ نبی ﷺ نے فرمایا جو شخص معروف کا حکم دے اور نَهَى عَنِ الْمُنْكَرِ فَهُوَ خَلِيفَةُ اللَّهِ فِي منکر سے روکے وہ خدا کی زمین میں خدا کا نایب ہے، خدا کے رسول کا نائب ہے اور خدا أَرْضِهِ وَخَلِيفَةُ رَسُولِهِ وَخَلِيفَةٌ كِتَابِهِ کی کتاب کا نائب ہے ۔

ا۔ رواه البيهقي في شعب الايمان (مشكوة المصابيح، كتاب الآداب، باب في الامر بالمعروف و النهى عن المنكر، رقم الحديث : ٤ / ٤٠٧٣ ٣)

امر بالمعروف و نهی عن المنکر کا وجوب اور اهمیت احادیث سے ثابت ہے

اب اس بحث کے ذیل میں چند احادیث پیش کی جارہی ہیں، جن پر ایک نظر ڈالنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا ذکر علم و دین، تقویٰ اور صلہ رحمی جیسے اعلیٰ ترین اوصاف کے ساتھ کیا ہے ۔ بالفاظ دیگر انسان کمال یہ ہے کہ وہ فکر و عمل کی انفرادی خوبیوں کے ساتھ دعوت و تبلیغ اور دوسروں کی اصلاح کی جدوجہد بھی کرتا رہے ۔ پھر اس کام کو آپ نے دین کے بنیادی ارکان کی صف میں جگہ دی ہے اور اس شخص کو اسلامی سوسائی کا اچھا فرد مانتے سے انکار کر دیا ہے، جس میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی ذمے داری کا احساس نہ ہو ۔ سب سے آخری بات یہ کہ اس کام کا آپ نے نہ صرف یہ کہ تاکیدی حکم دیا ہے، بلکہ اس کو چھوڑنے پر عذاب الہی کے نزول کا اندیشہ ظاہر فرمایا ہے ۔

ورقة بنت ابی لهبؓ فرماتی ہیں :

قَامَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ وَهُوَ عَلَى نبی ﷺ منبر پر وعظ فرما رہے تھے کہ ایک شخص کھڑا الْمِنْبَرِ فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، أَيُّ ہو کر آپ کی طرف بڑھا اور سوال کیا کہ اے الله النَّاسِ خَيْرٌ ؟ فَقَالَ : خَيْرُ النَّاسِ کے رسول ! انسانوں میں سب سے بہتر کون ہے ؟ أَتْقَاهُمْ وَ أَنْقَاهُمْ وَ أَمَرُهُمْ آپ ﷺ نے فرمایا: جو ان میں سب سے زیادہ بِالْمَعْرُوفِ وَ أَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ متقی ہو اور جو ان میں سب سے زیادہ معروف کا حکم دے اور منکر سے روکے اور جو سب سے وَ أَوْصَلُهُمْ لِلرَّحِمِ زیادہ رشتوں کو ملانے رکھے ۔

ا۔ مسند احمد : ۱۲۲/۶ ، قال الحافظ المنذری رواہ ابوالشیخ فی کتاب الثواب والجبر تی فی الزهد الكبير وغيره الترغيب والترهيب : ١٦٢/٣)

حضرت ابو ہریرہ کی روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا :

الْإِسْلَامُ أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ لَا تُشْرِكُ بِهِ اسلام یہ ہے کہ تم اللہ کی بندگی کرو، اس کے شَيْئًا ، وَتُقِيمَ الصَّلَاةَ، وَتُؤْتِي الزَّكَاةَ ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کرو، نماز قائم کرو،

وَتَصُومَ رَمَضَانَ، وَتَحُجُّ الْبَيْتَ، زکاة اداء کرو، رمضان کے روزے رکھو، بیت اللہ کا وَتَسْلِيمُكَ عَلَى اهْلِكَ ، فَمَنْ حج کرو، معروف کا حکم ده اور منکر سے روکو اور انْتَقَصَ شَيْئًا مِنْهُنَّ فَهُوَ سَهُمْ مِنَ اپنے گھر والوں کو سلام کرو ۔ ان میں سے کسی الْإِسْلَامِ يَدَعُهُ ، وَمَنْ تَرَكْهُنَّ كُلَّهُنَّ بھی چیز کو جو شخص کم کرتا ہے وہ اسلام کا ایک سہم چھوڑ دیتا ہے اور جس نے ان سب فَقَدْ وُلّى الْإِسْلَامَ ظَهْرَهُ چیزوں کو چھوڑ دیا تو اس نے اسلام ہی سے

ا۔ رواه ابو داؤد : ٤٣٣٨ ، والمنذری : ١٦١/٣، ابن ماجه: ٤٠٠٤

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں :

ليسَ منَّا مَنْ لَّمْ يَرْحَمْ صَغِيرَنَا، وَ وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جو ہمارے یُوَفِّرْ كَبِيرَنَا وَ یَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَ چھوٹے پر رحم نہ کھائے اور ہمارے بڑوں کی تعظیم نہ کرے، معروف کا حکم نہ دے اور منکر یَنْهى عَنِ الْمُنْكَرِ سے منع نہ کرے ۔

۲. رواه الترمذی ، ابواب الفتن، باب ماجاء فی الامر بالمعروف والنهي عن المنكر

حضرت حذیفہ کی روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا :

وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَتَأْمُرُنَّ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری بِالْمَعْرُوفِ وَلَتَنْهَوْنَّ عَنِ الْمُنْكَرِ جان ہے، تم ضرور معروف کا حکم دو اور منکر سے أَوْ لَيُوشِكَنَّ اللَّهُ أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ روکو، ورنہ وہ وقت دور نہیں کہ اللہ تعالٰی تم پر اپنا عَذَاباً مِنْهُ فَتَدْعُونَ فَلَا عذاب نازل کردے ۔ اس وقت تم اس سے دعا يُسْتَجَابُ لَكُمْ करोगे، لیکن تمہاری دعا سنی نہیں جائے گی ۔

٣. رواه احمد والترمذی ولفظ لہ وابن حبان فی صحیحہ (الترغيب والترهيب : ٤٦٣/٣)

حضرت جابرؓ فرماتے ہیں :

قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : "أَوْحِي اللَّهُ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالٰی نے حضرت عَزَّ وَجَلَّ إِلَى جِبْرِيلَ عَلَيْهِ السَّلَامُ جبریل کو وحی کی کہ فلاں شہر کو اس کے باشندوں أنْ أقْلِبْ مَدِينَةَ كَذَا وَكَذَا بِأَهْلِهَا، کے ساتھ الٹ دو ۔ اس پر حضرت جبریل نے کہا:

فقال يارب إن فيهم عبدك خدایا اس میں تیرا فلاں بندہ بھی تو ہے، جس نے فُلَانَا لَمْ يَعْصِكَ طَرْفَةَ عَيْنٍ، ایک لمحہ کے لیے تیری معصیت نہیں کی ۔ رسول فقال : قَلِبَهَا عَلَيْهِ وَ عَلَيْهِمْ اس شہر کو جبریل اس شخص کے اور سارے لوگوں کے فَإِنَّ وَجْهَهُ لَمْ يَتَمَعْرْ فِي سَاعَةٍ اوپر الٹ دو ۔ کیوں کہ (شہر میں نافرمانی ہوتی رہی قط ) یعنی میری خاطر ایک گھڑی کے لیے بھی اس کے چہرے کا رنگ متغیر نہیں ہوا ۔

1. رواه البيهقي في شعب الايمان (مشكوة المصابيح، كتاب الآداب، باب في الامر بالمعروف و النهى عن المنكر، رقم الحديث : ٤ / ٤٠٧٣ ٣)

امر بالمعروف و نہی عن المنکر وجوب امت کا اتفاق

سلف سے خلف تک اب کوئی بھی صاحب علم ایسا نہیں ملے گا، جس نے امر بالمعروف و نہی عن المنکر، کو اساسی دین کی حیثیت سے نہ پیش کیا ہو اور اسے امت مسلمہ کا اہم فریضہ نہ قرار دیا ہو ۔

ضحاک فرماتے ہیں :

الْأَمْرُ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهْي عَنِ امر بالمعروف و نہی عن المنکر الله تعالی کے متقین الْمُنْكَرِ فَرِيضَةٌ مِن فَرَائِضِ اللَّهِ گروہ فرائض میں سے ایک فرض ہے، جسے اللہ كَتَبَهَا اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ تعالٰی نے مؤمنوں کے لیے لازم کر دیا ہے ۔

ا۔ الجامع الاحكام القرآن لابی عبد اللہ القرطبی المجلد الثانی، الجزء ٨، ص ٣٨

امام غزالی نے احیاء العلوم میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر پر بحث کا آغاز ان الفاظ میں کیا ہے :

الْأَمْرُ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهْي عَنِ امر بالمعروف و نہی عن المنکر دین کا عظیم ترین الْمُنكَرِ وَهُوَ الْقُطْبُ الْأَعْظَمُ فِي ستون ہے ۔ یہ وہ اہم کام ہے، جس کے سرانجام الدِّينِ ، وَهُوَ الْمَهُمُّ الَّذِي ابتعث کے لیے اللہ نے تمام انبیاء کو بھیجا ہے ۔ اگر اللَّهُ لَهُ النَّبِيِّينَ أَجْمَعِينَ، وَلَو طُوِی اس کو لپیٹ کر رکھ دی جائے، اس علم بِسَاطُهُ وَأَهْمَلَ عِلْمُهُ وَعَمَلُهُ اور اس پر عمل چھوڑ دیا جائے تو کار نبوت

لَعَطِلَتِ النُّبُوَّةُ وَاضْمَحَلَّتِ الدِّيَانَةُ، وَ معطل ہوجائے گا اور دین کمزور پڑ جائے گا عَمَّتِ الْفَتْرَةُ ، وَفَشَتِ الضَّلَالَةُ وَ (اس سے) دورِ جاہلیت عام ہو گا، گم راہی پھیل شَاعَتِ الْجَهَالَةُ، وَ اسْتَشَرَى گی، جہالت بڑھے گی، فساد و شر پھیل الْفَسَادُ، وَاتَّسَعَ الْخَرْقُ وَ خَرِبَتْ ہو گا اور قیامت سے پہلے انہیں الْبِلَادُ، وَ هَلَكَ الْعِبَادُ ، وَ لَمْ اپنی ہلاکت کا احساس تک نہ ہو گا، لیکن افسوس يَشْعُرُوا بِالْهَلَاكِ إِلَّا يَوْمَ التَّنَادِ، وقد کہ جس کا ہمیں خطرہ تھا وہ اب واقع ہو چکا كَانَ الَّذِي خِفْنَا أَنْ يَكُونَ، فَإِنَّا لِلَّهِ وَ ہے ۔ انا لله و انا اليه راجعون ۔ کیوں کہ دین کی إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ، لَقَدِ انْدَرَسَ مِنْ اس بنیاد کا علم و عمل ختم ہو گیا ہے اور اس کی هُذَا الْقُطْبِ عِلْمُهُ وَ عِلْمُهُ ، وَانْمَحَقَ ظاہری صورت اور حقیقت دونوں بالکل مٹ بِالْكُلِّيَّةِ حَقِيقَتُهُ وَ رَسْمُهُ، فَاسْتَوْلَتْ چکی ہیں، دلوں پر مخلوق سے موانست چھا گئی عَلَى الْقُلُوبِ مُدَاهَنَةُ الْخَلْقِ، ہے اور ان کے اندر خالق حقیقی کا پاس و لحاظ وَانْمَحَتْ عَنْهَا مُرَاقَبَةُ الْخَالِقِ، باقی نہیں رہ گیا ہے ۔ لوگ خوشابست نفس کی وَاسْتَرْسَلَ النَّاسُ فِي اتِّبَاعِ پیروی میں جانوروں کی طرح جھونٹ گئے الْهَوَى وَالشَّهَوَاتِ اسْتَرْسَالَ ہیں، اور سفر زمین پر کسی ایسے مومن صادق کا الْبَهَائِمِ، وَعَزَّ عَلَى بِسَاطِ الْأَرْضِ وجود دشوار ہو گیا ہے ۔ جسے الله کے معاملے میں مُؤْمِنٌ صَادِقٌ لَا تَأْخُذُهُ فِي اللَّهِ لَوْمَةُ کسی ملامت گر کی ملامت کی پروا نہ ہو، لہذا لَائِمٍ . فَمَن سَعَى فِي تَلَافِي هَذِهِ جو شخص اس جہالت کی حالت کو دور کرنے اور الْفَتْرَةِ وَسَدِّ هَذِهِ الثُّلْمَةِ، إِمَّا اس فساد کو بند کرنے کی کوشش کرے گا، مُتَعَلِّماً بَعِلْمِهِا أَوْ مُتَقَيّداً خواه وہ اس کی تعلیم و اشاعت کی ذمہ داری لِتَقْيِيدِهِ، مُجَدِّداً لِهَذِهِ السُّنَّةِ قبول کرے یا اس کی عقیدہ کا بار اٹھائے، اس الدَّائِرَةِ ، نَاهِضاً بِأَعْبَائِهَا، وَ طرح اس نئی ہوئی سنت کی تجدید کرے، مُتَصَبِّرًا فِي إِحْيَائِهَا كَانَ مُسْتَأْثِراً او ر اس کو زندہ کرنے کے لیے کمر کس لے تو مِنْ بَيْنِ الْخَلْقِ بِإِحْيَاءِ سُنَّةٍ ایسی سنت کو زندہ کرنے کی وجہ سے، جسے

سُنَّةٍ أَفْضَلَ الزَّمَانِ إِلَى إِمَامَتِهِ، زمانے نے مٹا دیا ہے، اللہ کی مخلوق کے وَمُسْتَجْلِبَاً بِقُرْبِهِ تَنَصِفَ نَصِيب درمیان اس کا مقام بہت اونچا اور ممتاز ہوگا دَرَجَاتِ الْقُرْبِ دُونَ فُرُوتِهَا اور اسے دربار خداوندی میں ایسی قربت ہو گی کہ قربت کوئی بھی درجہ اس کی بلندی کو پا نہیں سکے گا ۔

ا۔ احياء علوم الدين : ٢٣٣/٢.

اس کے بعد پہلا باب اس صراحت کے ساتھ شروع کرتے ہیں :

الْبَابُ الْأَوَّلُ فِي وُجُوبِ الْأَمْرِ پہلا باب اس بیان میں کہ امر بالمعروف و بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهْي عَنِ الْمُنكَرِ و نهی عن المنکر، واجب ہے اور اسی میں اس فَضِيلَتِهِ وَ الْمَذَمَّةِ فِي إِهْمَالِهِ وَ کی فضیلت کا اور اسے ترک کرنے اور إِضَاعَتِهِ . وَ يَدُلُّ عَلَى ذَلِكَ بَعْدَ ضائع کرنے کی مذمت کا ذکر بھی ہو گا ۔ ان إِجْمَاعِ الْأُمَّةِ عَلَيْهِ، وَإِشَارَاتِ تمام باتوں پر اجماع امت اور عقل سلیم کے الْعُقُولِ السَّلِيمَةِ إِلَيْهِ، الْآيَاتُ وَ اشارات کے بعد قرآن کی آیتیں رسول الْأَخْبَارُ وَالْآثَارُ. الله صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث اور آثار صحابہ دلالت کرتے ہیں ۔

ابو بكر جصاص فرماتے ہیں :

أَكَدَ اللَّهُ تَعَالَى فَرْضَ الْأَمْرِ الله تعالٰی نے اپنی کتاب کے بہت سے بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهْيِ عَنِ الْمُنْكَرِ مقامات میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر، مَوَاضِعَ مِنْ كِتَابِهِ ، وَبَيَّنَهُ رَسُولُ کے فرض کو تاکید کے ساتھ بیان کیا ہے اور اللَّهِ ﷺ فِي أَخْبَارٍ مُتَوَاتِرَةٍ عَنْهُ رسول الله ﷺ نے اپنی متواتر حدیثوں میں فِيهِ، وَأَجْمَعَ السَّلَفُ وَالْفُقَهَاءُ پوری تفصیل سے اس کا ذکر کیا ہے ۔ الْأَمْصَارِ عَلَى وُجُوبِهِ اسلاف امت اور مختلف علاقوں کے فقہاء اس کے وجوب پر متفق ہیں ۔

۲. احكام القرآن : ٢٠٨/٢

علامہ ابن حزمؒ فرماتے ہیں :

اتَّفَقَتِ الْأُمَّةُ كُلُّهَا عَلَى وُجُوبِ امت ساری کی ساری اس بات پر متفق ہے الْأَمْرِ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهْي عَنِ الْمُنْكَرِ کہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر واجب ہے اور بِلَا خِلَافٍ مِنْ أَحَدٍ مِنْهُمُ اس میں کسی ایک کا بھی اختلاف نہیں ہے ۔

٣. الفصل فى الملل والاهواء والنحل : ٤٠/١.

امام نووی لکھتے ہیں :

قَدْ تَطَابَقَ عَلَى وُجُوبِ الْأَمْرِ امر بالمعروف و نہی عن المنکر، کے واجب ہونے بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهْي عَنِ الْمُنْكَرِ الْكِتَابُ پر کتاب و سنت اور اجماع امت سب متفق والسُّنَّةُ وَإِجْمَاعُ الْأُمَّةِ . وَهُوَ أَيْضاً ہیں ۔ یہ دین کا خیر خواہ بھی گیا ہے اور امر بالمعروف مِنَ النَّصِيحَةِ الَّتِي هِيَ الدِّينُ و نهی عن المنکر، اسی خیر خواہی کا جزو ہے ۔

1. شرح مسلم ، المجلد الاول، الجزء ۲، ص ۲۵

امام شوکانی فرماتے ہیں :

وجوبُه ثَابتُ بالكِتابِ والسُّنَّةِ، وَهُو وُجوب امر بالمعروف و نهی عن المنکر، کا واجب ہونا مِنْ أَعْظَمِ وَاجِبَاتِ الشَّرِيعَةِ، وَأَصْلُ کتاب و سنت سے ثابت ہے ۔ یہ شریعت کا عَظِيمٌ مِنْ أُصُولِهَا، وَرُكْنٌ مَشِيدٌ مِن عَظِيم ترین فریضہ، اس کی بہت بڑی اصل اور أَرْكَانِهَا وَبِهِ يَكْمُلُ نِظَامُهَا وَيَرْتَفِعُ اس کے ارکان میں ایک مضبوط رکن ہے ۔ سَنَامُهَا اسی سے شریعت کا نظام مکمل ہوتا ہے اور اس کی چوٹی اونچی ہوتی ہے ۔

۲. فتح القدیر : ۲۳/۲

معروف کا حکم دینا اور منکر سے روکنا امت مسلمہ کا فرض منصبی ہے ۔ جو حکومت صحیح معنی میں اسلامی حکومت ہوگی وہ پوری طرح نگه داشته کرے گی کہ امت اس فرض سے غافل نہ ہونے پائے ۔ امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں کہ امر بالمعروف و نهی عن المنکر اور جہاد شریعت کے واضح ترین اور متواتر احکام ہیں ۔ اگر امت کا کوئی طبقہ ان کو ترک کرے تو اسلامی حکومت اس کے خلاف جنگ کرے گی ۔

كُلُّ طَائِفَةِ خَرَجَتْ عَن شَرْعِيَّةِ مِن جو گروه اسلامی حکومت کے کسی بھی واضح اور شَرَائِعِ الْإِسْلَامِ الظَّاهِرَةِ الْمُتَوَاتِرَة متواتر حکم سے خروج کر دے تو مسلمانوں فَإِنَّه يَجِبُ قِتَالُهَا بَاتِّفَاقِ أَئِمَّةِ اس کے جنگ کرنے پر اتفاق ہے کہ اس سے جنگ المسلمين . و إن تَكَلَّمَت لِشَهَادَتَين کی جائے گی، اگر چہ وہ توحید و رسالت کا فإذا أَقَرُّوا الشَّهَادَتَيْنِ وَامْتَنَعُوا عَن اقرارکرتا ہو ۔ مثلاً توحید و رسالت کے اقرار کے ساتھ اگر وہ پانچ وقت کی نماز چھوڑ دے

الصَّلَوَاتِ الخَمْسِ وَجَبَ قِتَالُهُمْ تو اس سے جنگ ضروری ہے تا آنکہ وہ نماز حتى يُصَلُّوا ... وَ كَذَلِكَ إِنْ پڑهنے لگے ... اسی طرح اگر وہ امر امْتَنَعُوا عَنِ الْأَمْرِ بِالْمَعْرُوفِ بالمعروف و نهی عن المنکر، کو اور کفار سے وَالنَّهْي عَنِ الْمُنْكَرِ وَجِهَادِ الْكُفَّارِ کردے کہ وہ یا تو اسلام لائیں یا چھوٹھے إلى أن يُسْلِمُوا أَوْ يُؤَدُّوا الْجِزْيَةَ بن کر اپنے ہاتھ سے جزیہ ادا کریں، تو اس عَن يَدِهِمْ صَاغِرُونَ سے جنگ کی جائے گی ۔

1. مجموع فتاوى ابن تيميه : ٨٩/٢٨

ایک آیت کا صحیح مفهوم

یہ بحث مکمل رہے گی اگر اس سلسلے کی ایک آیت کی تشریح نہ ہو ۔ یہ آیت سورة مائدة کے چودھویں رکوع میں ہے اور الفاظ یہ ہیں :

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ أَنفُسُكُمْ لَا اے ایمان والو تم اپنی فکر کرو ۔ جو شخص بھی يَضُرُّكُمْ مَّن ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ گم راہ ہو گا وہ تم کو کوئی نقصان نہیں پہنچا (المائدة : ١٠٥ ) اگر تم راه راست پر ہو گئے ۔

المائدة : ١٠٥

اس آیت کے الفاظ سے یہ ظاہر یہ شبہ ہوتا ہے کہ امر بالمعروف و نهی عن المنکر صرف یہ کہ واجب نہیں ہے، بلکہ سرے سے اس کی ضرورت ہی نہیں ہے نجات کے لیے اتنی بات کافی ہے کہ آدمی اپنی ذات کی فکر کرے اور اپنے نفس کی اصلاح و تربیت میں لگا رہے ۔ لیکن مفسرین نے بالا تفاق اس مفہوم کو غلط قرار دیا ہے، کیوں کہ مفہوم قرآن و حدیث کی بہت سی تصریحات سے ٹکراتا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ آیت میں ان ایمان والوں کو تسلی دی گئی ہے جو فتنہ و شر کے ماحول میں حق پر ثابت قدم تھے اور مسلمان دعوت دین کا کام انجام دے رہے تھے کہ اگر تمہارے عزم و حوصلے نے شکست نه مانی اور تم خدا کے دین کے ساتھ چمٹے رہے اور اس سے سر مو انحراف نہیں کیا تو مخالف قوتیں تمہیں قطعا کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گی ۔ اس میں اس بات کا بالکل ذکر نہیں ہے

کہ اہل ایمان امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فرض چھوڑ بھی دیں تو کامیاب و کام ران ہی ہوں گے ۔ بعض مفسرین نے اس سلسلے میں ایک نکتہ کی بات کہی ہے ۔ وہ یہ کہ قرآن نے یہ کہا ہے کہ اگر تم سیدھی راہ پر ہو گئے تو راہ راست سے بھٹکنے والے تم کو کوئی نقصان نہیں پہنچائیں گے اور انسان سیدھی راہ پر اسی وقت ہوتا ہے جب کہ وہ نہ صرف اپنی اصلاح کی فکر کرے، بلکہ دوسروں کی اصلاح کی بھی جدوجہد کرتا رہے ۔ اس کوشش کو ترک کرنے کے بعد انسان اپنی ذات کی حد تک کتنا ہی نیک کیوں نہ ہو راہ ہدایت سے دور ہو جاتا ہے ۔ یہ محض ایک نکتہ لطیف ہی نہیں، بلکہ اس میں قرآن و حدیث کی روح کھینچ کر آ گئی ہے ۔ زمخشری اس آیت کے ذیل میں لکھتے ہیں :

لَيْسَ الْمُرَادُ تَرْكُ الْأَمْرِ بِالْمَعْرُوفِ اس سے مراد امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا وَالنَّهْي عَنِ الْمُنْكَرِ، فَإِنَّ مَن ترك کرنا نہیں ہے، کیوں کہ جو شخص قدرت تَرَكَهُمَا مَعَ الْقُدْرَةِ عَلَيْهِمَا فَلَيْسَ رکھتے ہوئے ان کو چھوڑ دے وہ ہدایت بِالْمُهْتَدِ ، وَ إِنَّمَا هُوَ هَدَى الضَّلَالِ پر نہیں ہے، بلکه وه ان گم راہ افراد میں سے بين دن کے اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر الَّذِينَ فَصَلَتِ الْآيَةُ بَيْنَهُم وَبَيْنَكَ کے درمیان آیت نے دوری ڈال دی ہے ۔

1. الكشاف عن حقائق التنزيل : ٣٨٧/١

علامه ابو السعود کہتے ہیں :

وَ لَا يَتَوَهَّمَنَّ أَنَّ فِيهِ رَخَصَةٌ فِي یہ خیال ہرگز نہ ہو کہ اس میں استطاعت ترك الْأَمْرِ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهْي عَنِ ترک بالمعروف و نهی عن المنکر کے الْمُنْكَرِ مَعَ اسْتِطَاعَتِهِما كَيْفَ لَا نہیں ہو گا جب کہ ہدایت یاب ہونے میں مِنْ جملة اهتداء أن ينكر على یہ بات بھی شامل ہے کہ اپنی طاقت کی حد المُنكَر حَسْبَمَا تفي به الطَّاقَةُ تك منكر پر تکبر کی جائے ۔

۲. ارشاد العقل السليم الى مزايا الكتاب الكريم : ١٩٩/٣

یہی بات جصاص نے ان الفاظ میں کہی ہے :

وَمَنِ اهْتَدَى فَإِنَّمَا يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ ۚ وَمَن ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا ۗ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ ۗ وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّىٰ نَبْعَثَ رَسُولًا

یعنی جو ہدایت قبول کر لے تو وہ اپنی ذات کے لیے ہی کرتا ہے اور جو بھٹک جائے تو اس کا بوجھ اسی پر ہے اور کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا اور جب تک ہم رسول نہ بھیج لیں عذاب دینے والے نہیں ہیں۔

اس آیت پاک ہونے میں یہ بات بھی شامل ہے کہ اپنی ذات کے لیے ہی اور دوسروں کے لیے میں بھی خدا کے حکم کی اتباع کی جائے۔ پس آیت میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے فرض کے ساقط ہونے پر کوئی دلیل نہیں۔

۱. احکام القرآن : ۲/۵۹۲

حضرت ابوہریرہؓ ایک خطبہ میں فرماتے ہیں کہ تم لوگ اس آیت کو رخصت سمجھتے ہو ۔ اللہ کی قسم ، اس نے اس سے زیادہ سخت آیت قرآن میں نازل نہیں کی ۔

۲. جامع البیان فی تفسیر القرآن : ۲۰/۷

ایک دوسری روایت میں ہے کہ تم لوگ اس آیت کو پڑھتے ہو اور اللہ تعالیٰ نے اسے جس موقع ومحل میں استعمال کیا ہے اس کے برعکس موقع ومحل میں استعمال کرتے ہو ۔ میں نے رسول اکرم کو فرماتے سنا ہے :

إِنَّ النَّاسَ إِذَا رَأَوُا الْمُنكَرَ بَيْنَهُمْ فَلَمْ يُنكِرُوهُ يُوشِكُ أَن يَعُمَّهُمُ اللَّهُ بِعِقَابِهِ

جب لوگ اپنے درمیان منکر کو دیکھیں اور اس پر نکیر نہ کریں تو بعید نہیں کہ اللہ ان سب پر اپنا عذاب نازل کردے۔

۳. مسند احمد : ۱۸/۶ ۔ ترمذی ، کتاب الفتن ، باب ماجاء فی الامر بالمعروف والنھی عن المنکر ورواہ ایضا ابوداود ، ابن ماجہ ، والنسائی و غیر هم

غرض اس آیت سے امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے وجوب کی نفی ہرگز نہیں ہوئی۔ بلکہ وہ اس کی فرضیت کو اور زیادہ محکم کرتی ہے۔ قرآن و حدیث میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کو دین کے ایک اہم فریضہ کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے اور آج تک کسی بھی صاحب علم نے اس کی اس حیثیت کا انکار نہیں کیا۔ اگر ہم اپنے اندر اللہ تعالیٰ کے دین کو صحیح حالت میں دیکھنا چاہتے ہیں اور ساتھ ہی اسے دنیا میں غالب و سربلند کرنے کے آرزو مند ہیں تو اس کی صورت سوائے اس کے کچھ نہیں ہے کہ معروف کا حکم دیں اور منکر سے روکیں۔ اللہ تعالیٰ کا ہم سے یہی مطالبہ ہے اور یہی اس کے پیغمبروں کا راستہ ہے۔ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا


فرض كفايه يا فرض عين

اس بات سے کسی بھی صاحب علم کو اختلاف نہیں ہے کہ امر بالمعروف و نهی عن المنکر فرض ہے۔ ہاں یہ سوال ضرور اختلافی رہا ہے کہ اس فرض کی نوعیت کیا ہے؟ آیا یہ فرض عین ہے یا فرض کفایہ؟ اس سوال پر غور کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے ہم ان دونوں کے فرق کو سمجھ لیں۔ اس فرق کو علامہ ابن ہذلان حنبلی نے بہت اچھے انداز میں بیان کیا ہے۔ ہم یہاں اس کا خلاصہ اپنے الفاظ میں پیش کرتے ہیں۔

فرض كفايه اور فرض عين كا فرق

فرض کفایہ اور فرض عین دونوں ہی میں تقویت اور مصلحت پائی جاتی ہے ، لیکن فرق یہ ہے کہ فرض کفایہ میں شریعت کا یہ مقصد نہیں ہوتا کہ ہر شخص کو اس کی تکلیف دی جائے ، بلکہ اس سے شریعت صرف یہ چاہتی ہے کہ اس میں جو مصلحت پائی جاتی ہے وہ حاصل ہوجائے۔ لہٰذا اگر کسی ایک شخص کے ذریعے بھی یہ مصلحت حاصل ہوجاتی ہے تو مقصود پورا ہوجاتا ہے اور دوسروں کو اس کی تکلیف دینے کی ضرورت نہیں رہتی ، اس کے برعکس فرض عین میں مقصد یہ ہوتا ہے کہ جن لوگوں کو اس کا حکم دیا گیا ہے ان میں سے ہر ایک اسے بجالائے۔

١. الدر على ابی مذھب الامام احمد بن حنبل ، ص ۳۳ ، ۱۰۴

مولانا عبد العلی انصاری ( بحر العلوم ) فرماتے ہیں :

كسی چیز کے واجب قرار دینے سے مقصود یہی ہے کہ مکلف کو اس کی انجام دہی كی مشقت میں مبتلا ركھا جائے ، جیسا کہ ارکان اربعه (نماز ، روزہ ، حج اور زکوٰة) میں ہے۔ كسی مقصود كو كسی دوسری ہی چیز ہر شخص کے لیے کوئی ایسا عمل واجب ہو جس کے کرنے سے وہ مقصود حاصل ہو جائے ، جیسا کہ جہاد ہے۔ یہ واجب ہوا ہے إعلاء كلمة الله کے لیے۔ اگر بعض اشخاص جہاد کا فرض انجام دے دیں تو اعلاء کلمہ الله حاصل ہو جائے گا اور وجوب ساقط ہو جائے گا۔

١. فواتح الرحموت بشرح مسلم الثبوت ، مطبوع مع المصفي للغزالي : ١/ ٤٣

فرض كفايه سب پر فرض ہے يا بعض پر؟

فرض کفایہ اور فرض عین کے اس فرق پر جہاں علماء کا اتفاق ہے وہاں ان کے درمیان یہ اختلاف ہے کہ فرض کفایہ کی نوعیت کیا ہے کہ وہ سب پر فرض ہوتا ہے اور بعض کے ادا کرنے سے سب ساقط ہو جاتا ہے یا وہ صرف بعض ہی افراد پر فرض ہوتا ہے؟ علماء کی اکثریت نے پہلے نقطۂ نظر کو ترجیح دی ہے جب کہ امام رازی، علامہ ابن سبکی اور امام شافعی جیسے محققین دوسرے نقطۂ نظر کے قائل ہیں۔ دوسرے نقطۂ نظر کے قائلین میں یہ اختلاف ہے کہ آیا وہ بعض ، جن پر فرض کفایہ کی ذمے داری عائد ہوتی ہے ، متعین ہیں یا غیر متعین؟ ابن سبکی نے لکھا ہے کہ مسلک مختار یہ ہے کہ وہ غیر متعین ہیں، کیوں کہ ان کے متعین ہونے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ یہ ایک خیال یہ بھی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک متعین ہیں۔ البتہ اس فرض کو خواہ یہ متعین افراد ادا کریں یا

١. دیکھئے مجمع البحر مع شرح الجلال الحلی و حاشية البنانی : ١٨٦/١ ، ١٨٧
٢. امام شافعی کا نقطۂ نظر ان ہی کے الفاظ میں آگے چل کر ہم بیان کریں گے

کوئی دوسرا فرد ان کی ذمے داری ساقط ہوجائے گی۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ فرض کفایہ جن بعض افراد پر فرض ہے وہ وہی ہیں جو اسے انجام دیں گے۔

امام شافعی فرماتے ہیں کہ فرض کفایہ ان لوگوں پر فرض ہوتا ہے جو اس کو انجام دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

امر بالمعروف ونہی عن المنكر جمہور کے نزدیک فرض کفایہ

جمہور امت کے نزدیک امر بالمعروف ونہی عن المنکر فرض کفایہ ہے۔ بعض لوگوں نے اسے فرض عین بھی کہا ہے۔

علامہ سید محمود آلوسی کہتے ہیں :

إِنَّ الْعُلَمَاءَ اتَّفَقُوا عَلَى أَنَّ الْأَمْرَ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهْيَ عَنِ الْمُنكَرِ مِن فُرُوضِ الْكِفَايَةِ ، وَلَمْ يُخَالِفْ فِي ذَلِكَ إِلَّا النَّزْرُ

علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ امر بالمعروف والنہی عن المنکر فروض کفایہ ہے ۔ اس سے صرف چند لوگوں نے اختلاف کیا ہے۔

٣. روح المعانی ، المجلد الثانی ، الجزء سوم ، ص ۸۳۸

یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ جمہور میں وہ لوگ بھی شامل ہیں ، جن کی رائے میں فرض کفایہ سب پر فرض ہوتا ہے اور بعض کے ادا کرنے سے سب ساقط ہوجاتا ہے اور وہ لوگ بھی شامل ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ فرض کفایہ بعض ہی افراد پر فرض ہوتا ہے۔

جمہور کی اکثریت کا نقطۂ نظر پہلی دلیل

علماء کی اکثریت نے جو نقطۂ نظر اختیار کیا ہے۔ یہاں ان کے دلائل پیش کیے جا رہے ہیں۔ ان کی پہلی دلیل قرآن کی یہ دو آیتیں ہیں :

  1. وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ (آل عمران : ١٠٤)
  2. كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ (آل عمران : ١١٠)

تم میں ایک جماعت ضرور ایسی ہونی چاہیے جو خیر کی طرف بلائے ، معروف کا حکم دے اور منکر سے منع کرے۔

تم بہترین امت ہو جسے انسانوں کی اصلاح کے لیے وجود میں لایا گیا ہے۔ تم معروف کا حکم دیتے اور منکر سے منع کرتے ہو۔

ابن العربی مالکی کہتے ہیں کہ یہ دونوں آیتیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر فرض کفایہ ہے۔ یعنی کیوں کہ پہلی آیت یہ کہتی ہے کہ امت میں ایک ایسی جماعت کا وجود ضروری ہے جو امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فرض انجام دے اور دوسری آیت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ پوری امت کے کرنے کا کام ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کو پوری امت پر فرض ہے۔ لیکن بعض افراد کے ادا کرنے سے وہ کل افراد امت سے ساقط ہو جاتا ہے۔

١. احکام القرآن : ۲۹۲

اکثر مفسرین نے لکھا ہے کہ پہلی آیت میں حرف "من" تبعیض کے لیے ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا انجام دینا امت کے ہر فرد کے لیے ضروری نہیں ہے ، بلکہ یہ صرف بعض افراد پر واجب ہے۔ چناں چہ زمخشری اور قاضی بیضاوی کہتے ہیں :

من للتبعيض ، لأن الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر من فروض الكفاية

من تبعیض کے لیے ہے ، کیوں کہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا شمار فروض کفایہ میں ہوتا ہے۔

۲. الكشاف عن حقائق التنزیل : ۳/۸۸۔ اس استدلال کے بارے میں آپ کہہ سکتے ہیں کہ "من" تبعیض کے لیے ہونے کی یہ عجیب دلیل ہے کہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر فرض کفایہ ہے۔ کیوں کہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فرض کفایہ ہونا خود زیر بحث ہے اور وہ اسی وقت ثابت ہوسکتا ہے جب کہ قواعد کی رو سے یہ ثابت کیا جائے کہ "من" یہاں تبعیض ہی کے لیے ہے ۔

اسی آیت کے ذیل میں ابو بکر جصاص لکھتے ہیں:

أَيْ الْآيَةِ بِيان أَنَّهُ فَرْضُ كِفَايَةٍ لَا فَرْضُ عَيْنٍ ، وَأَنَّهُ إِذَا قَامَ بِهِ أُمَّةٌ سَقَطَ الْفَرْضُ عَنْ الْآخَرِينَ ، إذ لَمْ يَقُلْ : كُونُوا كُلُّكُمْ آمِرِينَ بِالْمَعْرُوفِ بَلْ قَالَ : وَلْتَكُن مِّنْكُمْ أُمَّةٌ ، فَإِذَا قَامَ بِهِ وَاحِدٌ أَوْ جَمَاعَةٌ سَقَطَ الْحَرَجُ عَنِ الْآخَرِينَ.

اس آیت کا بیان ہے کہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر فرض کفایہ ہے ، فرض عین نہیں۔ اور یہ کہ اگر ایک جماعت (بھی) اس پر عمل کرے تو دوسرے تمام افراد سے وہ ساقط ہوجائے گا۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ تم سب کے سب معروف کا حکم دینے والے بن جاؤ ، بلکہ یہ فرمایا کہ تم میں ضرور ایک جماعت (اس کام کے لیے) ہونی چاہیے۔ پس جب کسی ایک فرد یا کسی ایک جماعت کے ذریعہ یہ فرض انجام پاجائے تو دوسروں سے ذمے داری ساقط ہوجائے گی ۔

۱. احکام القرآن : ۲/۷

دوسری دلیل

امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے فرض کفایہ ہونے کی دوسری دلیل یہ ہے کہ یہ کام بڑی اونچی صلاحیت کا تقاضا کرتا ہے ، اس کے لیے ضروری ہے کہ آدمی کو شریعت کا وسیع علم ہو ، وہ نفسیات شناس اور دور اندیش ہو ، موقع ومحل کی نزاکت کو سمجھتا ہو اور یہ جانتا ہو کہ کس شخص کے ساتھ کس نوعیت کا رویہ اختیار کیا جائے ۔ ظاہر ہے اس کی صلاحیت

۲. احیاء علوم الدین : ۲/ ۳۳۳

ہر ایک میں نہیں ہوتی۔ اس لیے وہ فرض عین نہیں ہوسکتا۔ زمخشری کہتے ہیں :

لأَنَّهُ لَا يَصْلُحُ إِلَّا مَنْ عَلِمَ الْمَعْرُوفَ وَالْمُنكَرَ ، وَكَيْفَ يُرَتِّبُ الْأَمْرَ فِي إِقَامَتِهِ ، وَكَيْفَ يُبَاشِرُ ، فَإِنَّ الْجَاهِلَ رُبَّمَا نَهَى عَنِ الْمَعْرُوفِ وَأَمَرَ بِمُنكَرٍ ، وَ رُبَّمَا عَرَفَ الْحُكْمَ فِي مَذْهَبِهِ ، وَ جَهِلَهُ فِي مَذْهَبِ صَاحِبِهِ فَنَهَاهُ عَن غَيْرِ مُنْكَرٍ ، وَقَدْ يَغلَطُ فِي مَوْضِعِ اللَّيْنِ وَ يَلِينُ فِي مَوْضِعِ الغَلِظَةِ ، وَلَينْكِرُ عَلَى مَنْ لَا يَزِيدُهُ إِنكَارُهُ إِلَّا تَمَادِياً أَوْ عَلَى مَنْ الْإِنْكَارُ عَلَيْهِ عَبَثٌ.

كیوں کہ اس کام کو وہی شخص اہل ہوسکتا ہے جو معروف ومنکر کو جانتا ہو اور یہ بھی جانتا ہو کہ كس ڈھنگ سے اس کو قائم کرے اور کیسے اس کو انجام دے ، كیوں كہ جاہل محض ایا بدقه معروف سے روک دے گا اور منکر كا حکم دینے لگے گا ۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے مذهب میں تو ایک چیز کے حکم کو جانتا ہو اور جس سے معاملہ ہے اس کے مذهب میں اس کو نہ جانتا ہو ۔ لہذا وہ غیر منكر سے نہی کر بیٹھے ۔ اور یہ کہ اگر ایک شخص (بھی) اس پر عمل کرے تو دوسرے تمام افراد سے وہ ساقط ہوجائے گا۔ كیونكہ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا كه تم سب کے سب معروف كا حکم دینے والے بن جاؤ بلكہ یہ فرمایا كه تم میں ضرور ایک جماعت (اس كام كے لیے) ہونی چاہیے۔ پس جب كسی ایک فرد یا كسی ایک جماعت كے ذریعہ یہ فرض انجام پاجائے تو دوسروں سے ذمے داری ساقط ہوجائے گی ۔

١. اكتشاف عن حقائق التنزيل : ٢/۳۸۹

قائلین فرض عين كے دلائل

جو لوگ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کو فرض عین کہتے ہیں وہ اس دلیل کو نہیں مانتے کہ آیت وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ میں "من" تبعیض کے لیے ہے ، کیوں کہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے لیے نہیں آیا ، بلکہ وہ ٹھیک اسی طرح بطور مجاز استعمال ہوا ہے ، جس طرح وہ قرآن کی ایک دوسری آیت يَغْفِر لَكُم مِّن ذُنُوبِكُمْ میں استعمال ہوا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کا یہ ترجمہ صحیح نہیں ہوگا کہ خدا تمہارے بعض گناہوں کو معاف کرے گا ، بلکہ صحیح ترجمہ یہ ہوگا کہ خدا تمہارے گناہوں کو معاف کرے گا۔ گویا ان کے نقطۂ نظر سے آیت کا مفہوم یہ ہے کہ تم کو لازماً ایک ایسی امت ہونا چاہیے، جو

٢. جصاص ، احكام القرآن : ٢/ ۳۸۳

معروف کا حکم دے اور منکر سے منع کرے۔

رہتی ہے یہ بات کہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فرض صرف اہل علم ہی انجام دے سکتے ہیں تو یہ صحیح نہیں ہے۔ ہر مسلمان دین کی بنیادی باتوں سے واقف ہوتا ہے۔ کون نہیں جانتا کہ نماز اور روزہ فرض ہے اور زنا اور شراب حرام ہے۔ ہم یہ سوچ بھی نہیں سکتے کہ ایک شخص مسلمان بھی ہو اور وہ ان موٹی موٹی باتوں سے ناواقف بھی ہو۔ لہٰذا ان کے سلسلے میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فرض انجام دینا ہر مسلمان کے امکان میں ہے ۔ اس کے لیے کسی خاص علمی قابلیت کی ضرورت نہیں ہے۔ بلاشبہ عام آدمی علمی مسائل اور تحقیقاتی امور میں نہ رائے زنی کرسکتا ہے اور نہ اسے کرنا چاہیے۔ لیکن بالکل کھلے ہوئے معروفات و منکرات کے بارے میں جس طرح ایک عالم امر و نہی کا فرض انجام دے سکتا ہے۔ اسی طرح ایک جاہل کے لیے بھی اس ذمے داری کا ادا کرنا دشوار نہیں ہے۔

ایک ضمنی بحث کے ذیل میں علامہ عبد القادر عودہ شہید کہتے ہیں :

إن وضع واجب الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر من الوجهة الشرعية لا يختلف عن وضع واجب أداء الصلاة و النهي عن السرقة و الزنا ، فهما واجبات على جميع المكلفين ، غير أن واجب الأمر بالمعروف و النھی عن المنكر منوط بالقدرة ، فمن قدر على القيام به وجب عليه ، وإذا قام به من تسقط عنه ذمته .

ان وضع واجب الامر بالمعروف و النهی عن المنکر کی گردن پر امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے وجوب کی ذمے داری رکھ دی ہے ۔ وہ نقصان نہیں پہنچتا جس کا ان لوگوں کو ایذار پہنچنے کا اندیشہ ہو۔ کیوں کہ جاہل قدرتی طور پر صرف ان چیزوں کا حکم دے گا یا منع کرے گا جو بالکل ظاہر ہیں اور جن میں کوئی اختلاف نہیں ہے ۔ جیسے نماز کی ادائیگی کا حکم دینا یا چوری اور زنا سے منع کرنا۔

۱. التشریع الجنانی الاسلامی : ٤٩٥/١

اس استدلال کی خاصی بالائی واضح ہے۔ پوری امت پر امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے واجب ہونے سے یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ امت کے ہر فرد پر بحی واجب ہو جائے۔ جو لوگ اسے فرض کفایہ کہتے ہیں وہ بھی اس کے قائل ہیں کہ وہ پوری امت پر فرض ہے ( بعض لوگوں کو اس سے اختلاف بھی ہے ) البتہ وہ اس کے سقوط کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ بعض افراد کے ادا کرنے سے وہ پوری امت سے ساقط ہو جاتا ہے۔ ظاہر ہے اس دعوے کی تردید نہیں ہوتی۔

مفتی شفیع محمد عبده کی رائے میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر فرض عین ہے۔ وہ آیت وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ کی تشریح میں فرماتے ہیں :

"جس مفروضه پر قرآن کے اس خطاب کو محمول کیا جانا چاہیے ، وہ یہ ہے کہ مسلمان ان چیزوں سے ناواقف نہیں ہوگا، جو اس پر واجب ہیں کیوں کہ اس کو (شریعت کے) جاننے اور معروف ومنکر کے درمیان فرق کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں (معروف و منکر کا معلوم کرنا کوئی پیچیده مسئله نہیں ہے کیوں کہ) معروف سے مراد جب وہ مطلقاً بولا جائے تو ایسی چیزیں ہوتی ہیں جن کو انسان کی عقل اور نیک طبائع جانتی ہیں ۔ اس کے برعکس منکر ان چیزوں کو کہا جاتا ہے جن کو عقل انسانی اور سلیم طبیعتیں ناپسند کرتی ہیں۔ اس کے جاننے کے لیے حاشیه عابدین، فتح القدیر اور مبسوط کے پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کی رہنمائی کے لیے - سلامتی فطرت کے ساتھ - الله کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت کافی ہے، جو تواتر اور مسلسل عمل کے ذریعے ہم تک پہنچی ہے۔ یہ ایسی چیز ہے کہ کسی بھی شخص کو اس سے ناواقف رہنے کی (شرعاً) کوئی گنجائش نہیں ہے، (کیوں کہ) مسلمان تو اسی وقت مسلمان ہوتا ہے جب کہ وہ اس کو جانتا ہو۔ جو لوگ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے عموم کا انکار کرتے ہیں وہ ( گویا) اس بات کو جانچتے ہیں کہ مسلمان اس طرح جاہل رہے کہ نہ تو وہ خیر وشر کے فرق کو جانتا ہو اور نہ معروف و منکر میں تمیز کرتا ہو۔ ظاہر ہے دینی نقطۂ نظر سے اس کو کوئی جواز نہیں ہے ۔

١. تفسیر القرآن الكريم (المنار) : ٣/ ٨٠

اس ضمنی بحث کے ذیل میں ایک دوسری دلیل فرماتے ہیں :

فَرِيضَةُ الأَمْرِ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهْيِ عَنِ الْمُنْكَرِ أَرْجَحُ مِنْ فَرِيضَةِ الْحَجِّ لِأَنَّهَا مُسْتَطَاعَةٌ لَهَا

فریضة الامر بالمعروف والنہی عن المنکر فرائض حج سے بھی زیاده موكده ہے كیونكہ حج کے لیے استطاعت شرط ہے اور اس کے لیے نہیں

مستطاعة دائماً اس پر ہر حال میں عمل ہوسکتا ہے۔

١. تفسیر القرآن الکریم (المنار) : ۳۵/۴

حقیقت یہ ہے کہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے لیے کسی اجتہاد کی بھی ضرورت ہوگی۔ اس کی ذمے داری اہل علم پر عائد ہوتی ہے۔ اسی طرح ایک عام آدمی کا دوسروں کو دین کی بنیادی باتیں بتانا بھی امر بالمعروف و نہی عن المنکر ہی کی تعریف میں آتا ہے۔ یہ کام کسی علمی انداز میں ہوگا اور کسی بالکل ساده طریقے سے انجام پائے گا۔ اس کے لیے کبھی قرآن و حدیث کے وسیع مطالعہ اور دینی علوم میں گہری بصیرت مطلوب ہوگی اور کبھی دین کی مبادیات اور اس کی اصولی تعلیمات کا علم کافی ہوگا۔ اس کام میں ایسے مسائل بھی سامنے آئیں گے جو اپنے حل کے لیے اونچے درجے کی علمی صلاحیت اور حالات زمانہ سے غیر معمولی واقفیت کا تقاضا کریں گے اور ایسے مسائل پر بھی گفتگو ہوگی کہ تھوڑے سے علم و فہم سے ان کا تصفیه ہوسکے ۔ لہٰذا یہ بات صحیح نہیں ہے کہ جو لوگ اعلیٰ پیمانے پر یہ کام نہ کرسکتے ہوں وہ اسے بالکل چھوڑ بیٹھیں اور اپنے حدود کے اندر بھی اسے انجام نہ دیں۔

اکثریت کے نقطۂ نظر پر اعتراض

ہمارے علماء کی اکثریت کا دعویٰ یہ ہے کہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر پوری امت پر واجب ہے ، لیکن اگر بعض افراد بھی اسے ادا کردیں تو پوری امت سے اس کا وجوب ساقط ہو جاتا ہے ۔ اس کی وجہ وہ یہ بیان کرتے ہیں کہ ہر شخص میں اس کی صلاحیت نہیں ہوتی ، اس لیے وہ ہر ایک پر واجب نہیں ہوسکتا۔ لیکن یہ دلیل اپنے دعوے کی آپ تردید ہے۔ کیوں کہ شریعت کا کوئی بھی حکم کسی شخص پر اسی وقت واجب ہوتا ہے جب کہ وہ اس کو ادا کرسکتا ہو۔ اگر کسی میں اس کے ادا کرنے کی استطاعت ہی نہیں ہے تو وہ اس پر واجب بھی نہیں ہے۔ اس اصل کے تحت امر بالمعروف و نہی عن المنکر کو بھی

ان افراد پر واجب ہونا چاہیے جن میں اس کو ادا کرنے کی استطاعت ہے۔

١. الجامع لاحکام القرآن : ۴ / ۴۷

امام رازی اسی طرح کا ایک استدلال پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر چوں کہ فتنوں اور ہلاکتوں کا باعث بھی ہوسکتا ہے اس لیے یہ ہر شخص پر واجب نہیں ہے۔ امام رازی کہتے ہیں :

إن الأمر بالمعروف و النھي عن المنكر قد يكون سببا لثورۃ الفتن و ہلاك النفس

امر بالمعروف و نہی عن المنکر کبھی فتنوں کے اٹھنے اور جانوں کے ضائع ہونے کا سبب بھی بن سکتا ہے۔

١. مفاتیح الغیب : المجلد الرابع، الجزء ۸ ص ۱۵۸

ہمیں یہ بات بھی ماننی پڑے گی کہ بسا اوقات امر بالمعروف و نہی عن المنکر سے فائدہ کے بجاۓ الٹا نقصان ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ یہ اندیشہ جس حد تک حقیقی ہو اس حد تک اس سے گریز کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اس کو ایک قاعدہ کے طور پر پیش کرکے امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے پورے فریضے سے صرف نظر کرنا درست نہیں۔ اسلام نے جب یہ فریضہ عائد کیا ہے تو اس میں ان تمام پہلوؤں کو پیش نظر رکھا ہے۔ شریعت کا منشا یہ نہیں ہے کہ لوگ اس فریضے کو انجام دینے میں اپنی جانوں کو خطرہ میں ڈالیں ، یا کسی بڑے فتنہ کا باعث بنیں۔ اگر کسی خاص صورت حال میں واقعی کوئی نقصان کا اندیشہ ہو تو اس صورت میں نرمی سے کام لیا جا سکتا ہے یا خاموشی اختیار کی جا سکتی ہے ، یا اس معاملے کو متعلقہ حکام پر چھوڑا جا سکتا ہے۔

صح نقطۂ نظر

ہم نے دونوں طرف کے دلائل اختصار کے ساتھ بیان کردیے ہیں۔ ان دلائل پر اعتراضات بھی ہوئے ہیں اور ان کے جوابات بھی دیے گئے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ نہ تو یہ خامیاں سے بالکل پاک ہیں اور نہ ان سے یہ مسئلہ صحیح نہج پر حل ہوسکتا ہے۔ اس کا معقول حل بعض دوسرے اہل علم نے پیش کیا ہے۔ ان ہی میں امام شافعی کی کتاب "الموافقات فی اصول الشریعۃ" کے شارح اور تعلیقات نگار شیخ عبداللہ دراز بھی ہیں۔ اس سے قبل امام شافعی کے نقطہ نظر کا ذکر آچکا ہے۔ ان کے نزدیک فرض کفایہ صرف ان ہی افراد پر فرض ہوتا ہے جو اس کو انجام دینے کی اہلیت رکھتے ہوں۔ اس کی تائید میں انھوں نے آیت "وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ" اور بعض دوسری آیتیں پیش کی ہیں۔ شیخ عبداللہ دراز اس سے اختلاف کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

هذه الآيات لا تدل على أن یہ آیتیں اس بات پر دلالت نہیں کرتیں کہ الطلب متوجه إلى البعض بل مطالبہ صرف بعض سے ہے، اس لیے کہ للمانع أن يقول المعنى يجب اس سے اختلاف کرنے والا یہ کہہ سکتا ہے الجمع أن ينهضوا لذلك، کہ ان آیات کا مطلب یہ ہے کہ سب پر ويعهدوا له، ويعاونوهم بكل واجب ہے کہ اس کام کی انجام دہی کے الوسائل، ليتحقق هذا المهم من لیے بعض کو کھڑا کریں، اس کے لیے ان کو تیار کریں اور ہر طرح ان کی معاونت کریں، المصلحة، فإن لم يحصل هذا تا کہ مصلحت کی یہ مہم تحقق ہوجائے۔ کیوں المصلحة أثم جميع کہ مصلحت کی یہ مہم اگر انجام نہ پائے تو المكلفين المتأهلين وغيره اہلبت رکنے والے اور نہ رکنے والے سارے کے سارے مخاطبین گناہگار ہوں گے۔

١۔ الموافقات فی اصول الشریعۃ: ١/ ٤٧٩ (حاشیہ نمبر (٢)

دلچسپ بات یہ ہے کہ خود امام شافعی اپنی بحث کے آخر میں فرماتے ہیں کہ

اگر ایک خاص پہلو سے غور کیا جائے تو یہ بحث کوئی حقیقت نہیں رہتی اور وہ پہلو وہی ہے شیخ عبداللہ دراز نے پیش کیا ہے۔ ان کے الفاظ یہ ہیں:

قد يصح أن يقال: إنه واجب على بطور جواز یہ کہنا بھی صحیح ہوگا کہ دعوت خیر کا کام الجميع على وجه من التجوز، سب پر واجب ہے، کیوں کہ اس فرض کو انجام لإن القيام بذلك الفرض قيام دینا حقیقت میں دین کی ایک عمومی مصلحت کو پورا بمصلحة عامة، فهم مطلوبون کرنے سے متعلق نہیں ہوتا اور واجب کفایہ سدها على الجملة، فبعضهم هو مطلوب ہوتا ہے۔ اور وہ لوگ ہیں جن میں قادر عليها مباشرة وذلك من اس کی اہلیت ہوتی ہے، بقیہ لوگ اگر چه بذات كان أهلاً لها، والباقون و إن لم خود اسے انجام دینے کی قدرت نہیں رکھتے، لیکن يقدروا عليها، قادرون على إقامة قدرت رکھنے والوں کو اس کام کے لیے آمادہ القادرين، فمن كان قادراً على اور تیار کرنے کی طاقت ضرور رکھتے ہیں۔ پس الولاية فهو مطلوب بإقامتها، ومن جو شخص اس کو بذات خود انجام دینے کی صلاحیت لا يقدر عليها مطلوب بأمر آخر رکھتا ہے اس سے تو اس پر عمل کا مطالبہ ہے اور و هو إقامة ذلك القادر و إجباره جو خود اس پر قادر نہیں ہے اس سے ایک دوسری على القيام بها، فالقادر إذا جہت سے متعلق ہے اور وہ یہ قدرت رکھنے والے مطلوب بإقامة الفرض، و غير کو اس پر عمل کے لیے تیار کرنا اور اس کی انجام دہی القادر مطلوب بتقديم ذلك پر مجبور کرنا۔ فرض تو قدرت رکھنے والے سے تو القادر إذ لا يتوصل إلى قيام اقامہ فرض کا مطالبہ ہے اور قدرت نہ رکھنے القادر إلا بإقامة من باب ما والے سے قدرت رکھنے والے کو آگے بڑھانے لا يتم الواجب إلا به، وبهذا الوجه کا مطالبہ۔ جب قدرت رکھنے والا اسی وقت کھڑا يرتفع مناط الخلاف، فلا يبقى ہوگا جب وہ کھڑا کیا جائے تو اسے کھڑا کرنا للمخالفة وجه ظاهر ضروری ہے۔ یہ گویا اس طرح کی چیز ہے کہ واجب کی تکمیل کے لیے جو چیز ضروری ہوتی ہے وہ بھی واجب ہو جاتی ہے۔ اس طریقے سے اختلاف کی بنیاد ختم ہو جاتی ہے اور مخالفت کا کوئی واضح سبب نہیں رہتا۔

ا۔ الموافقات فی اصول الشریعۃ: ١/ ٤٧٩

امام شافعی کے اس بیان سے جس طرح یہ سوال حل ہو جاتا ہے کہ فرض کفایہ پوری امت پر فرض ہے یا اس کے بعض افراد پر، اسی طرح اس سے امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے فرض کفایہ یا فرض عین ہونے کی بحث بھی ختم ہوجاتی ہے۔ مفتی شیخ محمد عبدہ نے اسی نہج سے اس مسئلہ پر غور کیا ہے۔ ان کے نزدیک امر بالمعروف و نہی عن المنکر فرض عین ہے۔ جو لوگ اس کو فرض کفایہ کہتے ہیں ان کی ایک دلیل (جیسا کہ ہم بیان کرچکے ہیں) یہ ہے کہ قرآن نے اس کام کے لیے "وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ الخ" کہا ہے اور من یہاں تبعیض کے لیے ہے۔ شیخ محمد عبدہ نے ان کے اس دعوے کو مان کر آیت کی اس انداز میں تشریح کی ہے کہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر فرض کفایہ ہوتے ہوئے بھی فرض عین کی سی حیثیت اختیار کر جاتا ہے۔ فرماتے ہیں: "مِنْ" تبعیض کا ماننے کے بعد آیت کا مطلب یہ ہے کہ تم میں ایک ایسی ممتاز امت ہونی چاہیے جو دعوت الخیر اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے فرض کو لے کر کھڑی ہو۔ اس حکم کے مخاطب تمام اہل ایمان ہیں، کیوں کہ وہی اس بات کے مکلف ہیں کہ اپنے میں سے ایک ایسی امت کا انتخاب کریں جو اس فرض کو انجام دے۔ گویا دو طرح کے فرائض ہیں: ایک وہ جو تمام مسلمانوں پر عائد ہوتا ہے اور دوسرا وہ جو اس امت پر عائد ہوتا ہے جسے وہ دعوت کے لیے منتخب کریں۔ یہ حقیقت اسی وقت واضح ہوگی جب کہ ہم لفظ 'امت' کو جسے قرآن نے یہاں استعمال کیا ہے، ٹھیک سے سمجھ لیں۔ 'امت' کے معنی محض جماعت کے نہیں ہیں، جیسا کہ کہا جاتا ہے۔ کیوں کہ جماعت کے لفظ میں عموم ہے اور اس کے مقابلے میں 'امت' کا لفظ خاص ہے۔ اس سے مراد ایسے افراد کا مجموعہ ہے جن میں کوئی رابطہ ہو اور جن کے درمیان ایسی وحدت ہو کہ وہ ایک جسم کے اعضاء بن جائیں۔ جب ہم کہتے ہیں کہ دعوت کے اس کام کے لیے امت کی تشکیل کے ذمہ دار تمام مسلمان ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کو وجود میں لانے، اس کو اپنے کام میں مدد دینے اور اس کی رفتاری نگرانی کرنے میں حسب استطاعت ہر شخص کے ارادے اور عمل کا شامل ہونا ضروری

ہے۔ اگر اس امت سے کوئی لغزش یا انحراف نظر آئے تو ان سب کی ذمہ داری ہے کہ اسے راہ صواب کی طرف لوٹا دیں۔

اس میں شک نہیں کہ دین کی تبلیغ اور امت کی اصلاح اور خیر خواہی کا کام آسان نہیں ہے، لیکن اس کے باوجود ہر شخص اسے اپنی قوت و صلاحیت کے مطابق انجام دے سکتا ہے۔ اگر کسی میں یہ صلاحیت ہے کہ پورے عالم انسانی میں معروف کو قائم کرے اور منکر کو مٹادے تو ضرور اسے اس فرض کو اسی وسیع پیمانے پر انجام دینا چاہیے، لیکن جس میں اتنی صلاحیت نہیں ہے وہ اپنے لیے نسبتاً محدود دائرے کا انتخاب کرسکتا ہے۔ اگر کسی بھی پہلو سے اس میں اس کام کی صلاحیت نہیں ہے تو اس کے لیے کم سے کم یہ راہ تو کھلی ہوئی ہے کہ اہل افراد کو اس کام پر آمادہ کرے اور ان کے ساتھ تعاون کرے، تاکہ امر بالمعروف و نهی عن المنکر کا فرض براہ راست نہ سہی بالواسطہ ہی انجام پاسکے اور وہ بالکلیہ اس فرض کا تارک نہ قرار پائے۔

۱۔ رشید رضا، تفسیر القرآن الحکیم (تفسیر المنار): ٣٦/٣، ٣٧/٩

جمہور کے مسلک کی توضیح مزید

جو لوگ امر بالمعروف و نهی عن المنکر کو فرض کفایہ کہتے ہیں اور جو اس کے فرض عین ہونے کے قائل ہیں، دونوں کے دلائل تفصیل سے بیان کردیے گئے ہیں۔ پھیلا نقطہ نظر جمہور کا ہے۔ اس کے بعض پہلو ابھی توضیح کے محتاج ہیں۔

امر بالمعروف و نهی عن المنکر کو اگر ہم فرض عین نہ کہیں اور جمہور کی رائے کے مطابق اسے فرض کفایہ ہی قرار دیں تو اس سے اس کے وجوب کی حیثیت بدل نہیں جائے گی۔ بلکہ وہی حقیقت ہوگی جو فرض عین کی ہوتی ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ واجب العین اور واجب علی الکفایہ کی حقیقت ایک دوسرے سے مختلف ہے، لیکن یہ خیال صحیح نہیں ہے۔ علامہ آمدی فرماتے ہیں:

لا فرق عند أصحابنا بين واجب ہمارے اصحاب کے نزدیک واجب عین اور العین و الواجب على الكفاية من واجب کفایہ میں وجوب کے پہلو سے کوئی فرق جهة الوجوب لشمول حد نہیں ہے۔ کیوں کہ دونوں واجب کی تعریف الواجب لهما، خلاقاً لبعض الناس میں آتے ہیں۔ بعض لوگوں کو اس سے اختلاف مصيراً منه إلى أن واجب العین لا ہے۔ اس بنیاد پر کہ واجب عین دوسرے کے ادا يسقط بفعل الغير، بخلاف واجب کرنے سے ساقط نہیں ہوتا اور واجب کفایہ الكفاية، وغاية الاختلاف في ساقط ہو جاتا ہے۔ لیکن اس سے زیادہ سے زیادہ طريق الإسقاط، وذلك لا يوجب تفاوت ہوتا ہے۔ اس سے وجوب کی حقیقت الاختلاف في الحقيقة میں اختلاف لازم نہیں آتا۔

١۔ الاحکام فی اصول الاحکام: ١/ ١٣١، ١٣٢، ١٣٣

فرض عین کی ذمہ داری جماعت کے ہر فرد پر عائد ہوتی ہے اور فرض کفایہ کی پوری جماعت پر۔ لہٰذا فرض عین کی ادائیگی کے لیے جس طرح ایک شخص فکرمند ہوتا ہے، اسی طرح فرض کفایہ کی ادائیگی کے لیے پوری جماعت کو فکرمند ہونا چاہیے، کیوں کہ جو جماعت فرض کفایہ کو ترک کردے، خواہ قصد اً یا اپنی غفلت اور کوتاہی سے، اس کے تمام افراد گناہگار ہوں گے۔ ہاں اگر ان میں سے بعض بھی اسے انجام دے دیں تو یہ ذمہ داری سب سے ساقط ہو جائے گی اور ان لوگوں کو ثواب ملے گا جو اسے انجام دیتے ہیں۔ چناں چہ مولانا عبدالحی انصاری نے واجب علی الکفایہ کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے:

الواجب الذى من شأنه أن يثاب ایسا واجب جس کی خصوصیت یہ ہے کہ اس پر الآتون ولو يعاقب التاركون، اذا عمل کرنے والے ثواب پائیں گے اور چھوڑنے أتى به البعض، وإن لم يأت أحد والوں کو سزا نہیں دی جائے گی (لیکن یہ اس وقت) جب کہ بعض لوگ اس کو انجام دے یعاقب الكل۔ دیں، اگر کوئی بھی اسے انجام نہ دے تو سب کے سب سزا کے مستحق ہوں گے۔

۲۔ شرح مسلم الثبوت: ٢/ ١٢٠، ١٢٣

اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی جماعت خدا کی گرفت سے بچنا چاہتی ہے تو اس کا نظام ایسا ہونا چاہیے کہ امر بالمعروف و نهی عن المنکر کا فرض ہر وقت اس میں انجام پاتا رہے اور اس کے اندر ایسے افراد موجود ہوں جو جملہ کاموں کا حکم دیں اور برائیوں سے منع کریں۔

فرض کفایہ افضل ہے یا فرض عین؟ جلال المحلی لکھتے ہیں کہ فقہاء نے اس سوال سے صراحتاً بحث نہیں کی ہے، البتہ ان کی تحریروں سے محسوس ہوتا ہے کہ وہ فرض عین کو افضل سمجھتے ہیں، کیوں کہ شریعت نے اس کو فرض کفایہ کے مقابلے میں زیادہ اہمیت دی ہے اور ہر مکلف سے اس پر عمل کا مطالبہ کیا ہے، جب کہ فرض کفایہ، امر بالمعروف و نهی عن المنکر کو فرض کفایہ کہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اگر امت مسلمہ کا کوئی ایک فرد یا چند افراد زمین کے کسی گوشے میں اس فرض کو انجام دے رہے ہوں تو پوری امت اس سے سبک دوش ہو جائے گی۔ امر بالمعروف و نهی عن المنکر کا تقاضا ہے کہ ایک طرف ان لوگوں میں کام کیا جائے جو اس سے ناواقف ہیں اور دوسری طرف مسلمانوں میں اس فرض کو انجام دیا جائے۔ پہلا کام جتنا دشوار ہے، دوسرے کام کی دشواری اس سے کم نہیں ہے۔ کیوں کہ امت مسلمہ کسی چھوٹی سی جماعت کا نام نہیں ہے، بلکہ اس وقت وہ دنیا کی کسی بڑی ملت ہے اور ایک آب نہیں کروڑوں نفسوں پر مشتمل ہے۔ وہ کسی خاص خطہ زمین میں آباد نہیں ہے، بلکہ مختلف علاقوں میں پھیلی ہوئی ہے اور اس کی کوئی ایک زبان نہیں ہے، بلکہ متعدد زبانیں بولتی ہے۔ اس طرح یہ امت ایک دینی وحدت ہونے کے باوجود اپنے اندر بہت سے تمدنی و جغرافیائی اختلافات رکھتی ہے، جن کی وجہ سے فطری طور پر اس کے ایک گروہ کے بہت سے مسائل دوسرے گروہ کے مسائل سے جدا ہیں اور اس کا ایک طبقہ جن حالات سے دوچار ہے دوسرا طبقہ ان سے مختلف حالات میں گھرا ہوا ہے۔ اس لیے کسی ایک فرد یا جماعت کے امکان میں نہیں ہے کہ امر بالمعروف و نهی عن المنکر کے وسیع کام کو امت کے اندر

نصیحت کی جائے یا کسی شرابی کو شراب سے باز رکھنے کی کوشش کی جائے، ان میں سے پہلا کام مستقل ہے اور دوسرا وقتی اور عارضی۔ کیوں کہ پہلے کام کی نوعیت ایسی ہے کہ اس کو ہر شخص اپنی استعداد کی حد تک زندگی بھر انجام دے سکتا ہے، کوئی بھی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ کام ختم ہوگیا اور اب اس کی ضرورت نہیں رہی۔ اس پہلو سے امر بالمعروف و نهی عن المنکر کو فرض عین کہنا غلط نہ ہوگا۔ لیکن دوسرا کام اس

اور باہر پوری طرح انجام دے۔ یہ کام اسی وقت ہوسکتا ہے جب کہ مختلف ملکوں اور مختلف علاقوں میں بہت سی جماعتیں اسے انجام دے رہی ہوں۔ اگر ہم کسی ایسی تنظیم کا تصور بھی کریں جو اپنے غیر معمولی مسائل وذرائع کی بنا پر ساری دنیا میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فرض انجام دینے کی حیثیت میں ہوتو بھی وہ ہر خطہ اور ہر علاقے میں ایسے کارکنوں کی محتاج ہوگی جو وہاں کے حالات کی رعایت سے یہ کام کرسکیں۔ قرآن نے اس کام کا جو طریقہ بتایا ہے وہ یہ ہے:

فَلَوْلَا نَفَرَ مِن كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ تو ایسا کیوں نہیں ہوا کہ ان کے ہر گروہ سے طَائِفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ ایک جماعت نکلتی، تاکہ دین میں سوجھ بوجھ وَلِيُنذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِم حاصل کرے اور جب وہ اپنی قوم کے لوگوں لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ (التوبه: ۱۲۲) کی طرف لوٹتے تو ان کو خدا کے عذاب سے ڈراتے شاید کہ وہ (اس سے) بچیں۔

التوبه: ۱۲۲

قاضی بیضاوی نے اس آیت کی جو تشریح کی ہے اس کے ضروری حصے ہم یہاں نقل کرتے ہیں:

فهلّا نفر من كل جماعة كثيرة پس کیوں نہیں نکلی ہر بڑی جماعت سے چھوٹے قليلة وأهل بلدة جماعة قليلة بہت قلیل یا اہل شہر سے میں سے ایک چھوٹی ... ليجعلوا غابة سعيهم ومعظم جماعت .... تاکہ دین کی سوجھ بوجھ حاصل غرضهم من الفقاهة، إرشاد کرنے، وہ اپنی کوشش کی غایت اور سیدھی راہ دکھانے کی اور خدا کے عذاب القوم وانذارهم ط۔ سے ڈرانے کی.

ا۔ انوار التنزیل و اسرار التاويل: ٢/٣٥٨

اس کا مطلب یہ ہے کہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا مختلف ملکوں اور مختلف خطوں ہی میں انجام پانا کافی نہیں ہے، بلکہ ہر شہر، ہر بستی اور ہر چھوٹی بڑی آبادی میں اس کے نظام کا موجود ہونا ضروری ہے۔ علامہ بغوی اسی آیت کے ذیل میں کہتے ہیں:

فقه، احکام دین کی معرفت کا نام ہے۔ اس کی دو قسمیں ہیں: فرض عین اور فرض کفایہ۔ پہلی قسم میں طہارت، نماز اور روزے کے احکام شامل ہیں کہ ان کا جاننا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ اسی طرح ہر وہ عبادت جس کو شریعت نے کسی پر واجب کیا ہو، اس کے لیے اس کے احکام کا جاننا بھی فرض عین ہے۔ جیسے زکوة اور حج کہ یہ جن پر واجب ہوجائیں ان کے لیے ان کے احکام کا جاننا ضروری ہے۔ فرض کفایہ یہ ہے کہ آدمی اس حد تک علم حاصل کرے کہ وہ اجتہاد کرنے اور فتوی دینے کی حیثیت میں ہوجائے۔ جب کسی شہر کے لوگ تمام کے تمام اس حد تک علم حاصل کرنے سے رہ جائیں تو سب ہی گنہ گار ہوں گے، لیکن اگر ہر شہر میں سے ایک شخص بھی اتنی تعلیم حاصل کرلے تو دوسروں سے بوجھ اتر جائے گا اور شہر کے سب لوگوں کی ذمے داری ہوگی کہ پیش آنے والے معاملات میں اس کی تقلید کریں۔

ا۔ معالم التنزیل علی ہامش الخازن: ۳/۳۸

گویا دین کا وسیع علم رکھنے والے افراد کا ہر بستی میں ہونا لازمی ہے، تاکہ لوگ ان سے راہ نمائی حاصل کریں اور اپنے تمام مسائل میں ان کی طرف رجوع کریں جن میں شریعت کا نقطۂ نظر وہ نہ جانتے ہوں۔ اگر کسی آبادی میں ایسا ایک فرد بھی نہیں ہے تو پوری آبادی گنہ گار ہوگی اور اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کی گرفت ہوگی۔

امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں:

الأمر بالمعروف والنهي عن امر بالمعروف و نهی عن المنکر فرض عین نہیں المنكر لا يجب على كل أحد اس لیے ہر ایک پر واجب نہیں ہے، بلکہ فرض بعينه بل هو على الكفاية، كما كفایہ ہے، جیسا کہ قرآن دلالت کرتا ہے دل عليه القرآن. ولما كان چوں کہ جہاد اسی کا ایک جز ہے اور اس سے الجهاد من تمام ذلك كان اس کی تکمیل ہوتی ہے اس لیے وہ بھی فرض الجهاد أيضاً من فروض الكفاية كفایہ ہے۔

۲. الحسبة فی الاسلام: ص: ۶۱

جهاد کے بارے میں فقہائے لکھا ہے کہ اگر کسی شہر پر دشمن کا حملہ ہوجائے تو اس شہر کے تمام لوگوں پر دشمن کا مقابلہ کرسکتے ہوں، جہاد فرض ہوجائے گا۔ اگر شہر کے لوگ دشمن کے مقابلے کی طاقت نہ رکھتے ہوں یا طاقت کے باوجود غفلت اور کوتاہی کریں رہے ہوں تو ان کے قریب کے لوگوں پر دشمن کا مقابلہ فرض ہوگا۔ اگر ان سے بھی مقابلہ نہ ہوسکے تو پھر ان کے قریب کے لوگوں پر یہ فرض عائد ہوگا... اس طرح یہ تدریج مشرق و مغرب کے تمام اہل اسلام پر جہاد فرض ہوتا چلا جائے گا

ا۔ فتح القدیر والعتنایہ علی الہدایہ: ۴/۲۸۰ و ۴/۳۸۱

ٹھیک اسی طرح قیاس کہتا ہے کہ جہاں معروف قائم نہ ہو اور منکر کا ارتکاب ہو رہا ہو وہاں کے لوگوں کی ذمے داری ہے کہ معروف کو قائم کرنے اور منکر سے باز رکھنے کی کوشش کریں۔ لیکن اگر اس ذمے داری کو وہ محسوس نہ کر رہے ہوں یا محسوس کرنے کے باوجود غفلت برت رہے ہوں تو قریب و جوار کے لوگوں کی ذمے داری ہوگی کہ وہاں پہنچیں اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فرض انجام دیں۔ فرض کیجیے کوئی مسلم آبادی منکرات میں مبتلا ہے یا اس کے عقائد بگڑ گئے ہوئے ہیں اور ان کی اصلاح کرنے والا کوئی ایک فرد بھی اس آبادی میں نہیں ہے تو قریب کے رہنے والوں پر شرعاً ان کی اصلاح کی ذمے داری عائد ہوگی۔ اور اگر وہ بھی اس فرض کو انجام نہ دیں تو جہاد کی طرح یہ تدریج وہ پوری امت پر عائد ہوتی چلی جائے گی۔

جمہور کے نزدیک امر بالمعروف ونہی عن المنکر اگر چہ فرض کفایہ ہے، لیکن بعض اوقات وہ فرض عین بھی ہوجاتا ہے۔ اس طرح کی چند صورتیں ذیل میں پیش کی جارہی ہیں:

(1) جس شخص کو اسلامی حکومت اس کام پر مامور کردے اس کے لیے وہ فرض عین ہے۔ نظام الدین نیشا پوری کہتے ہیں:

ان نصب لذلك رجل تعين عليه اگر امر بالمعروف و نهی عن المنکر کے لیے بحكم الولاية، وهو المُحتسب ا کسی کو متعین کر دیا جائے تو ریاست کے حکم سے وہ اس پر لازم ہوجائے گا۔ اس شخص کو محتسب کہا جاتا ہے۔

ا۔ الخراب القرآن و غائب الفرقان علی ہامش ابن جریر: ۳/۴۰

(۲) اگر کسی جگہ معروف کو مٹایا جارہا ہے یا منکر کا ارتکاب ہو رہا ہے اور اس کا علم صرف ایک ہی شخص کو ہے تو اس پر امر بالمعروف ونہی عن المنکر فرض عین ہے۔ ملا علی قاری کہتے ہیں:

ان الأمر بالمعروف والنهي عن امر بالمعروف و نهی عن المنکر یقیناً فرض المنكر فرض كفاية إن علم به کفایہ ہے بشرطے کہ اس کو ایک سے أكثر من واحد والا فهو فرض زیادہ افراد جانتے ہوں، ورنہ وہ فرض عین عين على من رآه " ہے، اس شخص کے لیے جو اس معاملے سے واقف ہو۔

۲. المسلم للمین لہم الامین: ص ۱۸۹

(۳) امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے سلسلے میں اگر دلائل سے بحث کی ضرورت پڑے تو جس شخص میں یہ صلاحیت ہوگی اس کے لیے وہ فرض عین ہے۔ ابن العربی مالکی فرماتے ہیں:

الأمر بالمعروف و النهي عن امر بالمعروف ونهی عن المنکر فرض کفایہ المنكر فرض كفاية ... وقد يكون ہے ... کبھی وہ فرض عین بھی ہو جاتا ہے فرض عين إذا عرف المرء من جب کہ آدمی اپنے اندر نظر و فکر کی صلاحیت نفسه صلاحية النظر والاستدلال پاتا اور بحث و مناظرے کی ذمے داری بالجدال أو عرف ذلك منه. اٹھانے کی طاقت محسوس کرتا ہو، یا اس کے اندر یہ چیز دیکھی گئی ہو۔

۳. احکام القرآن: ۱/۲۹۲

امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی اگر کسی میں طاقت ہے اور دوسرا کوئی شخص اسے انجام نہیں دے رہا ہو تو اس کے لیے وہ فرض عین ہے۔ امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں:

وهو فرض على الكفاية، وہ فرض کفایہ ہے، اور فرض عین ہو جاتا و يصير فرض عين على القادر ہے اس قدرت رکھنے والے شخص پر جس الذي لم يقم به غيره ا کے علاوہ کوئی دوسرا شخص اسے نہ انجام دے رہا ہو۔

ا۔ الحسبة فی الاسلام: ص ۳۴

اسی بات کو امام غزالی نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:

إن الأمر بالمعروف والنهي عن امر بالمعروف و نهی عن المنکر واجب ہے اور المنكر واجب وإن فرضه لا ساتھ نہیں ہوتی الا یہ کہ کوئی انجام دینے والا يسقط مع القدرة إلا بقيام قائم به ا اسے انجام دے دے۔

۲. احیاء علوم الدین: ۳/۴، ۳۴۵

ان تفصیلات سے واضح ہے کہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کو فرض کفایہ ماننے کا نتیجہ بلاشبہ یہ تو ہوگا کہ کچھ لوگ اس میں مصروف ہوں گے اور کچھ مصروف نہیں ہوں گے، لیکن اس کا نتیجہ یہ نہیں نکلے گا کہ حالات اس کا تقاضا کر رہے ہوں اور وہ انجام پانے سے رہ جائے۔ جب بھی کسی معاملے میں امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا تقاضا ہو وہ لازماً پورا ہوگا۔ اس میں غفلت اور کوتاہی کی قطعاً اجازت نہیں ہے۔


معنی و مفہوم

امر بالمعروف ونہی عن المنکر اخلاقی اصطلاح نہیں ہے

امر بالمعروف ونہی عن المنکر، اس انقلابی کام کا عنوان ہے جو اللہ تعالیٰ امت مسلمہ سے لینا چاہتا ہے۔ اس لیے ہمیں یہ جاننا ضروری ہے کہ معروف ومنکر کیا؟ اور معروف کا حکم دینا اور منکر سے روکنا کسے کہتے ہیں؟ اس کے بغیر ہم کبھی بھی اس کا حق ادانہیں کرسکتے۔ ہماری عام بول چال میں معروف ان اخلاقی خوبیوں کو کہتے ہیں جن کا اچھا ہونا ہر ایک کے نزدیک تسلیم شدہ ہے۔ اسی طرح منکر کی اصطلاح ان اخلاقی خرابیوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے، جن کو عقل سلیم برا مانتی ہے، اس لیے امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے معنی یہ سمجھے جاتے ہیں کہ اچھے کاموں کی نصیحت اور برے کاموں کی مذمت کی جائے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ قرآن کا بتایا ہوا مفہوم نہیں ہے۔ اسے ہمارے استعمال نے، بلکہ زیادہ صحیح معنی میں ہمارے تنگ ذہن نے پیدا کیا ہے۔ قرآن کے نزدیک نہ تو معروف ومنکر کا دائرہ محض اخلاقیات تک محدود ہے اور نہ اس نے امر ونہی کے الفاظ وعظ و تبلیغ کے لیے استعمال کیے ہیں۔ قرآن کی زبان میں امر بالمعروف ونہی عن المنکر، کے معنی بہت وسیع ہیں۔ اس میں دین کو اپنی صحیح حالت میں باقی رکھنے اور اسے قائم و غالب کرنے کی تمام کوششیں شامل ہیں۔ جس شخص کے ذہن میں معروف ومنکر کا محدود تصور ہوگا وہ اخلاق کی تذکیر و تلقین کے بعد مطمئن ہو جائے گا کہ امر

امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا حق ادا ہو گیا اور امت مسلمہ اپنے فرض سے سبک دوش ہوگئی۔ اقامت دین کا بھاری بوجھ اٹھانے کی نہ اسے فکر ہوگی اور نہ وہ اسے اپنی ذمہ داری سمجھے گا، بلکہ ہوسکتا ہے کہ دین کو قائم کرنے کی جدوجہد اس کے نزدیک امت مسلمہ کے حدود کار سے خارج ہو۔ آپ اس سے کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے دین کو قائم کرنے کا حکم دیا ہے اور وہ جہاد سے گریز کرے گا کہ اخلاق کی تبلیغ کے بعد ہمارا فرض ادا ہو جاتا ہے۔ اس کا مطلب صرف یہ نہیں ہے کہ اس نے امر بالمعروف و نهی عن المنکر کی اصطلاح نہیں سمجھی اور اس کے معنی غلط بیان کیے ہیں، بلکہ واقعہ یہ ہے کہ دین کا صحیح تصور اس کے ذہن میں نہیں ہے اور وہ اس کام کی نوعیت سے ناواقف ہے، جس کے کرنے پر امت مسلمہ اللہ عزوجل کی طرف سے مامور ہے۔

امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا صحیح مفہوم

امر بالمعروف ونہی عن المنکر خالص قرآنی اصطلاح ہے۔ اس پر چند نکات کے تحت غور ہونا چاہیے۔ امید ہے اس سے اس کا صحیح مفہوم واضح ہوگا۔

نکتہ اول: قرآن مجید نے امر بالمعروف و نهی عن المنکر کی اصطلاح پیغمبروں کے کام کے لیے استعمال کی ہے اور یہ واقعہ ہے کہ پیغمبر محض اخلاق کا درس دینے نہیں آتے ہیں، بلکہ اخلاق کی تعلیم ان کے وسیع کام کا صرف ایک حصہ ہوتی ہے۔ وہ انسانوں کو اللہ واحد کی عبادت اور بندگی کی دعوت دیتے ہیں اور اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان صرف اللہ تعالیٰ کے سامنے سر جھکائے اور زندگی کے ہر معاملے میں اس کے احکام کا پابند ہو۔ ان کا مطالبہ زندگی کے کسی ایک پہلو میں اصلاح کا نہیں ہوتا، بلکہ وہ ہمہ جہت اصلاح چاہتے ہیں۔ ان کی ساری تگ و دو اس لیے ہوتی ہے کہ انسان پوری طرح اللہ تعالیٰ کا غلام بن جائے اور اپنے عقائد و

نظریات میں، بندگی کے آداب میں، اخلاق و معاملات میں، تہذیب و معاشرت میں، طرز حکومت و سیاست میں غرض ہر عمل میں اس کے احکام کا تابع ہوجائے۔ ان کی اسی سعی و جہد کو امر بالمعروف ونہی عن المنکر کہا گیا ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ معروف میں وہ تمام امور شامل ہیں جن کے اختیار کرنے کا پیغمبر حکم دیتے ہیں اور منکر مراد وہ ساری چیزیں ہیں جن سے وہ منع کرتے ہیں، اور ان کے امر و نہی کا تعلق زندگی کے کسی ایک گوشے سے نہیں، بلکہ تمام گوشوں سے ہوتا ہے۔

نکتہ دوم: پیغمبروں کا جو مقصد حیات ہے، ٹھیک وہی امت مسلمہ کا بھی مقصد وجود ہے۔ اس لیے اس کی بھی ذمے داری ہے کہ دنیا کو معروف کا حکم دے اور منکر سے منع کرے۔ اسی کام کی وجہ سے اسے خیر امت کہا گیا ہے۔ اگر امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا مطلب محض اخلاق کی وعظ و تلقین ہے تو دنیا کے مختلف گروہ اور مختلف جماعتیں ہمیشہ یہ کام انجام دیتی رہی ہیں۔ موجودہ دور ہی کو لیجیے، گو کہ اس میں بداخلاقی اپنی آخری حد تک پھیلی ہوئی ہے اور بہت سی اخلاقی قدریں بدل چکی ہیں، لیکن اس کے باوجود ہر جگہ اخلاق کی درس و تدریس ہوتی ہے، اخلاق کے موضوع پر تحریریں مرتب ہو رہی ہیں اور بہت سی ایجنسیاں اور ادارے اخلاق کی تبلیغ و اشاعت پر اپنی توجہ صرف کرتے ہیں۔ اگر امت مسلمہ بھی اسی تنگ دائرہ میں گم ہوجائے تو وہ اخلاق کی اصلاح کرنے والے گروہوں میں سے ایک گروہ ہوگی، صرف اس ایک عمل کی وجہ سے دنیا کی امتوں میں اس کے خیر امت ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسے محض اصلاح اخلاق نہیں بنانا ہے، بلکہ زندگی کے ہر میدان میں اصلاح کا فرض انجام دینا ہے، تب ہی اس کا کام پیغمبروں کا کام ہوگا اور اس کی حیثیت ایک ممتاز گروہ کی ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے اسے خیر امت کا مقام اس لیے نہیں عطا کیا ہے کہ وہ دین کے کسی ایک حصے کی تبلیغ کرتی ہے، بلکہ یہ مقام اسے اس لیے ملا ہے کہ وہ دنیا میں اللہ کے پورے دین کو قائم و غالب کرنے کے لیے وجود میں آئی ہے۔

علامہ ابوحیان اندلسی فرماتے ہیں کہ جن لوگوں کو قرآن نے خیر امت کا لقب دیا ہے انھیں اس لیے دیا ہے کہ

وصفهم الى الايمان برسول انھوں نے رسول اللہ ﷺ پر ایمان لانے میں الله وبلدارهم الى نصرته، ونقلهم سبقت کی، آپ کی مدد کے لیے سب سے عنه علم الشريعة، وافتتاحهم پہلے آگے بڑھے، آپ سے شریعت کا علم البلاد دوسروں تک منتقل کیا اور (اللہ کا کلمہ بلند کرنے کے لیے) ملکوں کو فتح کیا۔

ا۔ البحر المحیط: ۳/۲

نکتہ سوم: قرآن نے سورۃ آل عمران میں امت مسلمہ کو دعوت الی الخیر اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر، کا ایک ساتھ حکم دیا ہے۔ یہ دو الگ الگ حکم نہیں، بلکہ دوسرا حکم پہلے حکم کی شرح ہے۔ دعوت الی الخیر کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کو اللہ تعالیٰ کے پورے دین اور اس کی پوری شریعت کی طرف دعوت دی جائے۔ مفسرین نے کہلا ہے کہ اسی بات کو ثبت اور منفی دونوں پہلوؤں سے، امر بالمعروف ونہی عن المنکر، کی اصطلاح میں بیان کیا گیا ہے۔ ہم یہاں امام رازی اور تمام الدین نیشا پوری کے الفاظ نقل کرتے ہیں۔ امام رازی فرماتے ہیں:

الدعوة إلى الخير جنس تحته دعوت الی الخیر ایک جنس (وسیع حکم) ہے نوعان احدها الترغيب في فعل جس کے دو نوع ہیں: ایک یہ کہ ان کاموں ما ينبغي وهو الأمر بالمعروف ہیں جن کا نام امر بالمعروف ہے۔ دوسری والثاني الترغيب في ترك ما لا یہ کہ ان چیزوں کے چھوڑنے کی ترغیب دی ينبغي وهو النهي عن المنكر جائے جو نامنکر ہیں۔ اسی کو نہی عن المنکر کہا جاتا ہے۔

۲. البحر المحیط، الجلد الرابع، الجزء ٨، ص ١٧٦

نظام الدین نیشا پوری کہتے ہیں:

ولا جرم اتبعه النوعين زيادة تھی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دعوت الی الخیر في البيان .. پھر ان کا مزید وضاحت کے لیے کیا۔

ا۔ غرائب القرآن و رغائب الفرقان علی ہامش ابن جریر: ۳/۴۰

اس سے واضح ہے کہ دعوت الی الخیر اور امر بالمعروف ونہی المنکر دونوں حکموں کا منشا یہ ہے کہ دنیا کو اللہ تعالیٰ کے دین کی طرف بلایا جائے اور اسے تمام و کمال غالب وسربلند کرنے کی کوشش کی جائے۔

اہل علم کی تصریحات

یہ خیال کہ معروف و منکر کا دائرہ اخلاق تک محدود ہے، بے دلیل ہے۔ اس کی کوئی علمی اساس نہیں ہے۔ تیرہ صدیوں میں کسی قابل ذکر صاحب علم نے یہ دعوی نہیں کیا ہے کہ یہ اخلاقی اصطلاحات ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ معروف ومنکر کے الفاظ بہت وسیع معنی رکھتے ہیں۔ ان میں عقائد و عبادات اور اخلاق و معاملات سب ہی شامل ہیں۔ انھیں کسی ایک شعبۂ زندگی کے ساتھ مخصوص کرنا ان کی وسعت کو ختم کرنا ہے۔ یہاں بعض اہل علم کی تصریحات پیش کی جارہی ہیں، جن سے اس خیال کی جڑ کٹ جاتی ہے کہ معروف اخلاقی خوبیوں کا اور منکر اخلاقی خرابیوں کا نام ہے۔

قاضی شوکانی:

أخرج ابن ابي حاتم عن أبي ابن ابی حاتم کی روایت ہے کہ ابو العالیہ نے العالية قال: كل آية ذكر کہا ہے کہ ہر وہ آیت جس میں قرآن نے امر الله في القرآن في الأمر بالمعروف کا ذکر کیا ہے، اس میں معروف سے بالمرو فدعو الاسلام ، والنهى مراد اسلام ہے اور نہی عن المنکر کا مطلب عن المنكر فهو عبادة الاوثان بتوں کی عبادت سے منع کرنا ہے، لیکن امر انتهى، وهو تخصيص بغير بالمعروف و نهی عن المنکر کی اس تخصیص کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ صرفی زبان میں اور

ا۔ فتح القدیر: ۱۴۹/۲

مخصوص فلیس فی لغة العرب شریعت کے استعمال میں اس تخصیص پر ولا فی عرف الشرع مایدل دلالت کرنے والی کوئی دلیل نہیں۔ على ذلك. (اس لیے اسے عام ہونا چاہئے۔)

ابوحبان اندلسی:

فسر بعضهم المعروف بالتوحید بعض لوگوں نے معروف کی تفسیر توحید سے والمنكر بالكفر ولاشك أن اور منکر کی تفسیر کفر سے کی ہے۔ بلاشبہ توحید التوحيد رأس المعروف و الکفر سب سے بڑا معروف اور کفر سب سے بڑا رأس المنكر، ولكن الظاهر للعموم منکر ہے۔ لیکن واضح بات یہ ہے کہ ان فى كل معروف مامور به في لفظوں میں عموم ہے۔ معروف سے ہر وہ الشرع، وفى كل منهى عنه في چیز مراد ہے، جس کا شریعت نے حکم دیا ہے الشرع. اور منکر میں وہ تمام باتیں شامل ہیں، جن شریعت نے منع کیا ہے۔

ب۔ البحر المحیط: ۱۶/۳

امام رازی:

رأس المعروف الأيمان بالله، و معروف کی اصل اللہ پر ایمان ہے اور منکر رأس المنكر الكفر بالله. کی اصل اللہ کا انکار ہے۔

ج۔ البحر المحیط، المجلد الثامن، ۱۷۹۔۱۸۰ ب۔

ابوبكر جصاص:

المعروف هو أمر الله ... والمنكر معروف سے مراد اللہ کا حکم ہے ... اور جس هو ما نهى الله عنه. چیز سے اللہ نے منع کیا ہے وہ منکر ہے۔

ه۔ احکام القرآن: ۲۴/۳

حدادی:

المعروف هو السنة، والمنكر هو معروف سنت کو اور منکر بدعت کو کہتے ہیں۔ البدعة.

ه۔ روح البیان: ۹۵۹/۱

علامہ سید محمود آلوسی:

و المتبادر من المعروف الطاعات ظاہر معروف میں تمام اطاعتیں شامل ہیں و من المنكر المعاصى التي اور منکر سے وہ سب معصیتیں مراد ہیں، جن أنكرها الشرع. سے شریعت نے منع کیا ہے۔

ا۔ روح المعانی، المجلد الثانی، الجزوہ ۳، ص ۳۲

علامہ ابن حجر ہیتمی:

المراد بالأمر بالمعروف والنهي امر بالمعروف و نہی عن المنکر سے مراد ہے عن المنكر الأمر بواجباة الشرع ان چیزوں کا حکم دینا جنہیں شریعت نے والنهى عن محرماته واجب کیا ہے اور ان چیزوں سے منع کرنا جنہیں شریعت نے حرام قرار دیا ہے۔

ب۔ الدرر المنثور فی اطراف الآیہ نمبر: ۱۰۵/۲

ابن مالک:

(المنكر) هو ماليس فيه رضا الله جس قول یا فعل میں اللہ کی رضا شامل نہیں من قول أو فعل والمعروف ضده ہے وہ منکر ہے اور معروف اس کی ضد ہے۔

ت۔ مشارق الانوار شرح مشارق الانوار: ۴۸/۱

ملا علی قاری:

المنكر ما أنكره الشرع، وكرهه، و منکر وہ چیز ہے، جس سے شریعت منع کرے، لم یرض به. جو اسے ناپسند ہو اور جس سے وہ خوش نہ ہو۔

ث۔ المتین و المعین لفهم الاربعين: ص ۱۸۸

علامہ مناوی:

(من رأى منكم منكراً) شيئاً قبيحاً جو شخص تم میں سے منکر کو دیکھے یعنی ایسی الشرع فعلا أو قولاً (فليغيره) ۵ چیز جسے شریعت نے ناپسند کیا ہے، خواہ وہ فعل ہو یا قول تو اسے بدل دے۔

ج۔ التیسیر بشرح الجامع الصغیر: ۱۸/۱

امام ابن تیمیہ:

يدخل في المعروف كل واجب وفی معروف میں ہر واجب اور منکر میں ہر قبیح المنكر كل قبيح و القبائح هى السيات چیز داخل ہے۔ قبیح چیزوں سے مراد برائیاں وهى المحظورات کالشرک و ہیں۔ یعنی وہ باتیں جن سے شریعت نے منع الکذب و الظلم و الفواحش. کیا ہے۔ مثال کے طور پر شرک، جھوٹ، ظلم اور تمام بے حیائی کے کام۔

ا۔ العقيدة الاصفهانية، ص ۱۳۱

حضرت شاہ عبد الحق محدث دہلویؓ نے حدیث کے مشہور مجموعہ "مشکاۃ المصابیح" کی شرح فارسی اور عربی دونوں زبانوں میں کی ہے۔ اپنی فارسی شرح میں معروف ومنکر کے معنی ان الفاظ میں بیان کیے ہیں:

"معروف از معرفت است بمعنی شناختن یعنی آن چہ شناختہ شده است در شرع و شرع بدان وارد شدہ است .... و مقابل او منکر است کج کاف بمعنی شناختہ نشده و شرع وارد نشده و رویے "۔

(معروف معرفت سے ہے۔ اس کے معنی ہیں پہچانا۔ یعنی وہ چیز جو شریعت میں جانی پہچانی ہو اور شریعت سے اس کا ثبوت ہو۔ اس کے بالمقابل 'منکر' ہے۔ یعنی وہ چیز جو نہ پہچانی جائے اور اس کے متعلق شریعت کا حکم موجود نہ ہو۔)

ب۔ شرح شیخ عبد الحق محدث دہلوی، الجزء المدعوات : ۴/۱، ۳۷ باب امر بالمعروف

بعض روایات کی شرح میں بھی حضرت محدث دہلوی نے اس مفہوم کی صراحت کی ہے۔ مشہور حدیث ہے: "من رای منکم منکرا فلیغیره بیده (مسلم)."

تم میں سے جو کوئی کسی غیر شرعی عمل کو دیکھے تو چاہیے کہ اسے بدل دے اور لوگوں کو اس سے باز رکھے اپنے ہاتھ سے (یعنی اگر استطاعت ہو تو طاقت سے روک دے)۔"

اس کا ترجمہ ان الفاظ میں کیا ہے:

"ہر کہ پسندیدہ شناختہ مشروع را پس باید که تغییر و ید او بازدارد از گردن او بدست خود"۔

ج۔ حواله سابق، ص ۳۷۔۳۸

مسند احمد اور ترمذی کی ایک روایت میں ہے: "كل معروف صدقة " شيخ محدث دہلوی نے اس کا ترجمہ وتشریح ان الفاظ میں کی ہے:

"ہر کار که بر شناختہ شدہ است و و ورود او در شرع صدق است "۔

"ہر اس کار خیر کا کرنا، جو شریعت

 امر بالمعروف و نہی عن المنکر


صحیح مسلم میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بنی آدم کے ہر فرد کو اللہ نے اس طرح پیدا کیا ہے کہ اس کے جسم میں تین سو ساٹھ جوڑ ہیں۔ آدمی کا تسبیح، تحمید، تہلیل اور استغفار کرنا، یا اگر راستہ میں پتھر یا خاردار کوئی چیز ہو تو اسے ہٹا دینا اور معروف کا حکم دینا اور منکر سے روکنا (یہ سب اس کے شکر کے طریقے ہیں)۔


ابوداؤد، المعالم: ۳/۴۵، کتاب الزکاة، باب فضل الصدقة کے تحت اسی حدیث کے ایک حصے، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر، کی تشریح ان الفاظ میں کی گئی ہے:


یا هر نکے بر مشروع کہ شناختہ می شود وجود او در شرع و نہی کردن از مشروع کہ شناختہ نمی شود

یا اس نے معروف کا حکم دیا یعنی کسی مشروع کا حکم دیا جس کا وجود شریعت میں جانا پہچانا ہے، منکر سے منع کیا، یعنی کسی ایسے عمل سے منع کیا جو شریعت میں جانا پہچانا نہیں ہے۔



اوپر جن اقوال و افعال کا ذکر ہے وہ ایک طرف اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر دوسری طرف۔ ان دونوں افعال کی اہمیت ان سب سے زیادہ ہے۔


حقیقت یہ ہے کہ معروف کا لفظ محض اعلیٰ اخلاقی اقدار کے لیے نہیں بولا جاتا، بلکہ اعلیٰ اخلاق اس کا صرف ایک حصہ ہیں۔ اسی طرح منکر میں بگڑے ہوئے اخلاق ضرور شامل ہیں، لیکن اس کے معنی محض بداخلاقی کے نہیں ہیں، بلکہ پورا دین معروف ہے اور جو نظریہ حیات اور طریقہ زندگی اس کے خلاف ہے وہ منکر ہے۔ اسے اس طرح بھی کہا جاسکتا ہے کہ اللہ کی ذات وصفات، رسول کی رسالت، سنت و شریعت اور کل اسلامی قانون معروف ہے اور اللہ اور اس کے رسول کا انکار اور دین و شریعت کی مخالفت کا دوسرا نام منکر ہے۔ یہ موضوع بہت نازک اور بے حد اہم ہے، اس لیے اس پر ہم ایک اور رخ سے مزید تھوڑی سی بحث کرنا چاہتے ہیں۔


اللہ کا قانون معروف ہے اور جو حکم اللہ کے قانون سے ٹکرائے وہ منکر ہے


انسان قانون کا محتاج ہے اور قانون دینے کا حق صرف اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے۔ انسان نہ تو شخصی زندگی میں قانون سے بے نیاز ہوسکتا ہے اور نہ جماعتی زندگی میں، لیکن یہ بات اس کے لیے جائز نہیں ہے کہ خود سے کوئی قانون بنالے اور اس پر عمل شروع کر دے۔ اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ قانون "معروف" ہے اور جو قانون اس کے قانون سے ٹکرائے وہ "منکر" ہے۔ اگر انسان اللہ تعالیٰ کا انسان کو قانون ساز مان لے تو اس کی زندگی "معروف" کے تابع ہوجاتی ہے اور صحیح رُخ پر چلنے لگتی ہے اور اگر وہ اللہ تعالیٰ کی اس حیثیت کو ماننے سے انکار کر دے تو اس کے سامنے صرف دو ہی صورتیں رہ جاتی ہیں۔ ایک یہ کہ قانون دینے اور فیصلہ کرنے کا اختیار خود اُس (انسان) اور عقل کو سونپ دے اور ان کے احکام کا پابند ہوجائے۔ دوسری یہ کہ اپنے ہی جیسے کسی فرد یا گروہ کی غلامی قبول کر لے۔ یہ دونوں ہی صورتیں اس کے لیے تباہ کن ہیں۔


امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو اللہ واحد کا غلام بنایا جائے اور اللہ کے سوا ہر ایک کی غلامی سے نجات دلائی جائے۔ اللہ کا قانون غالب و سربلند ہونے کے لیے آیا ہے۔ جو لوگ اللہ پر ایمان و یقین رکھتے ہیں، ان کا فرض ہے کہ اسے غالب کرنے اور اس کے مخالف قوانین کو مٹانے کی کوشش کریں۔


اللہ تعالٰی چاہتا ہے کہ اس کے دین کو جو لوگوں کا قوتوں (قوت) قبول کیا جائے اور اس میں کسی دوسرے فکر و عمل کی آمیزش نہ ہونے پائے۔ زندگی کے ہر معاملے میں صرف اس کا قانون چلے اور اسی کے احکام کی اتباع کی جائے۔ قانون سازی اللہ کا حق ہے۔ ہم خود سے نہ تو کوئی قانون بنا سکتے ہیں اور نہ اس کے دیے ہوئے قانون میں تحریف کرسکتے ہیں۔ اللہ کے دین سے انحراف اور بغاوت ہی "منکر" نہیں ہے، بلکہ یہ بھی منکر ہے کہ اس کے دین کو بدل دیا جائے اور اپنی طرف سے کمی بیشی کرکے اس کی اتباع کی جائے۔ اللہ تعالیٰ ہم سے "منکر" کی اتباع کا نہیں، بلکہ "معروف" کی اتباع کا مطالبہ کرتا ہے اور اتباع معروف کے معنی یہ ہیں کہ اللہ کے دین کو جیسا کچھ وہ ہے، قبول کیا جائے اور اسے اپنے اندر اور باہر غالب کرنے کی مخلصانہ کوشش کی جائے۔


امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں:


الأمر والنهي من لوازم وجود بني آدم، فمن لم يأمر بالمعروف الذي أمر الله به ورسوله، وينه عن المنكر الذي نهى الله عنه ورسوله، ويؤمر بالمعروف الذي أمر الله به ورسوله وينهى عن المنكر الذي نهى الله عنه ورسوله وإلا فلا بد أن يأمر وينهى، ويؤمر وينهى إما بما يضاد ذلك وإما بما يشترك فيه الحق الذي أنزله إلا بالباطل الذي لم ينزله الله، وإذا اتخذ ذلك ديناً كان ديناً مبتدعاً۔

حکم دینا اور منع کرنا انسانی زندگی کے لیے ایک لازمی شے ہے۔ اب جو شخص اس معروف کا حکم دے جس کا حکم اللہ اور اس کے رسول نے دیا ہے، اور اس منکر سے منع نہ کیا جس سے کہ اللہ اور اس کے رسول نے منع کیا، بلکہ (کسی اور چیز کا) حکم دیا اور منع کیا، یا (کسی اور چیز کا) حکم دیا جائے اور منع کیا جائے، تو یہ یا تو اس (اللہ کے حکم) کے بالکل خلاف ہوگا یا اس میں حق کے ساتھ وہ باطل شامل ہوگا جسے اللہ نے نازل نہیں کیا ہے۔ اور اگر اسے دین بنا لیا جائے تو یہ ایک خود ساختہ دین ہوگا (خدا کا دیا ہوا دین نہ ہوگا)۔



اہل علم کی ان تشریحات سے بالکل عیاں ہے کہ معروف و منکر اخلاقی اصطلاحات نہیں ہیں، بلکہ شرعی اصطلاحات ہیں۔ یہ ان مطالبات کی ایک جامع تعبیر ہیں، جو اللہ کا دین اور اس کی شریعت ہم سے کرتے ہیں۔ اللہ کا دین جن عقائد و افکار کا، جن اصول عبادات کا، جن اخلاق و معاملات کا اور جس تمدن و سیاست کا ہمیں حکم دیتا ہے وہ سب کے سب معروفات ہیں اور جن عقائد و نظریات سے، عبادات کے جن طریقوں سے، اخلاق کے جن اصولوں سے اور جن قوانین تمدن و سیاست سے منع کرتا ہے وہ سب کے سب منکرات ہیں۔ ان ہی کے امر و نہی کا امت مسلمہ کو حکم دیا گیا ہے۔


معروف و منکر کا فیصلہ شریعت سے ہوگا


یہاں ایک غلط فہمی کا دور ہونا ضروری ہے۔ کیوں کہ جب تک یہ غلط فہمی رفع نہ ہو معروف ومنکر کا ٹھیک ٹھیک مفہوم واضح نہیں ہوسکتا۔ وہ یہ کہ معروف کے لفظ میں جاننے پہچاننے اور پسند کرنے اور منکر کے لفظ میں نہ جاننے اور نہ پسند کرنے کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جس چیز سے انسان آشنا اور مانوس ہو، یا جو عمل کسی جماعت کے درمیان متعارف اور پسندیدہ ہو وہ معروف ہے اور جس چیز سے کوئی فرد یا جماعت ناواقف ہو اور جسے وہ ناپسند کرتے ہوں وہ منکر ہے۔ کیوں کہ معروف و منکر کے الفاظ قرآن و حدیث کی زبان میں ایک خاص مفہوم رکھتے ہیں، اس کے تجزیے سے معلوم ہوتا ہے کہ معروف صرف وہی عقیدہ و عمل ہے جو اللہ تعالیٰ کی شریعت میں جانا پہچانا اور پسندیدہ ہو۔ جو عقیدہ و عمل اس کی شریعت میں نا پہچانا اور پسندیدہ نہ ہو وہ منکر ہے۔ اگر ہماری عقل کسی فکر کو دریافت کرے یا کوئی طریقہ لوگوں میں شہرت پا جائے اور اس کو پسندیدہ نظروں سے دیکھا جانے لگے تو وہ اسی وقت معروف کہلائے گا جب کہ وہ قرآن و حدیث کے نزدیک بھی معروف ہو۔ اسی طرح ہماری عقل کسی چیز کو نا پسند کرے یا رواج عام میں اس کا غیر مشہور اور غیر پسندیدہ ہونا اسے منکر نہیں بنا دے گا، تا آنکہ شریعت بھی اسے منکر نہ کہہ دے۔ کوئی بھی عقیدہ و عمل اسی وقت معروف یا منکر قرار پائے گا جب کہ شریعت اسے معروف یا منکر قرار دے۔ ہوسکتا ہے کہ وقت کے دانش مند کسی عمل کو معروف کی حیثیت سے دیکھیں اور وہ شریعت کے نزدیک منکر ہو، یا کوئی عقیدہ و عمل ان کے لیے منکر ہو اور شریعت اسے معروف کا عنوان عطا کردے۔


امام راغب فرماتے ہیں:


المعروف اسم لكل فعل يعرف بالعقل او الشرع حسنه و المنكر ما ينكر به

معروف ہر اس عمل کا نام ہے جس کی خوبی عقل سے معلوم کی جائے یا شریعت سے اچھا کہے اور منکر وہ ہے جسے عقل اور شریعت نا پسند کرتے ہیں۔



اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ معروف و منکر کے معلوم کرنے میں عقل کا مرتبہ شریعت کے برابر ہے، کیوں کہ عقل اس معاملے میں آزاد نہیں۔ بلکہ شریعت کی تابع ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ عقل میں اگر فساد نہیں ہے اور وہ صحیح حالت میں ہے تو اللہ تعالیٰ کی شریعت سے پوری طرح ہم آہنگ ہوتی ہے۔ کیوں کہ شریعت کا کوئی بھی حکم عقل سے متصادم نہیں ہے۔ اسی وجہ سے امام راغب نے شریعت کے ساتھ عقل کا بھی ذکر کیا ہے۔ ورنہ جہاں عقل کسی چیز کے معروف یا منکر ہونے کا فیصلہ نہ کرسکے وہاں شریعت ہی کو فیصلہ کن حیثیت حاصل ہوگی۔


اس کی صراحت انھوں نے "منکر" کی تشریح میں کی ہے۔ چناں چہ فرماتے ہیں:


المنكر كل فعل تحكم العقول الصحيحة بقبحه او تتوقف في استقباحه واستحسانه العقول، فحكمت الشريعة بقبحه

منکر وہ ہے جسے عقل صحیح برا کہے، یا جس کے اچھا یا برا ہونے کا عقل فیصلہ نہ کرسکے اور شریعت اس کی قباحت کا فیصلہ کردے۔



ابن العربی فرماتے ہیں کہ جس عمل کو شریعت نیک کہہ دے وہ معروف ہے، خواہ رواج اور دستور اس کے موافق ہو یا مخالف، کیوں کہ قانون دینے کا حق رواج کو نہیں، بلکہ شریعت کو حاصل ہے۔


يطلق اسم المعروف على ما عرف بأدلة الشرع من اعمال البر، سواء جرت به العادة أم لا.

معروف کا اطلاق ہر اس نیک عمل پر ہوتا ہے جو دلیل شرعی سے معلوم ہو، خواہ عادت اس کے مطابق ہو یا نہ ہو۔



بعض اوقات اہل علم مسلم سوسائٹی کے درمیان کسی چیز کی شہرت و عدم شہرت اور اس کی پسند و ناپسند کا اس طرح تذکرہ کرتے ہیں، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ معروف و منکر کی تعیین میں شریعت کے ساتھ شاید مسلم سوسائٹی کے زوق و قبول کو بھی دخل ہے۔ لیکن یہ خیال صحیح نہیں ہے۔ اس میں شک نہیں کہ جو عقیدہ و عمل اہل ایمان کے درمیان متعارف ہو اور جسے وہ اچھا سمجھتے ہوں ہم اسے معروف کہیں گے۔ اسی طرح جس فکر و عمل سے وہ ناواقف ہوں اور جس کو وہ ناگوار محسوس کرتے ہوں اسے ہم منکر قرار دیں گے لیکن اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ یہ ان کی عقل کا فیصلہ ہے، یا یہ کہ یہ ان کے تجربے اور نسلی و قومی روایات کے مطابق ہے۔ بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کے ماننے والے جس چیز کو بھی معروف یا منکر کہتے ہیں، اللہ کے دین کی روشنی میں اور اس کی شریعت کی اتباع میں کہتے ہیں۔ ان کے درمیان وہی فکر و عمل معروف کی حیثیت اختیار کرتا ہے، جسے اللہ کی شریعت معروف کہے اور جس عقیدہ و عمل کو اس کی شریعت منکر قرار دے وہ ان کے نزدیک بھی بے چوں وچرا منکرات کی فہرست میں شامل ہو جاتا ہے۔ وہ کبھی اس کی جرات نہیں کر سکتے کہ جس چیز کو شریعت معروف کہے اسے منکر سمجھ کر چھوڑ بیٹھیں اور جس عمل کو منکرات میں شمار کرے اسے معروف کی حیثیت سے اختیار کر لیں۔


علامہ ابن حجر (غالباً العسقلانی مراد ہیں، ذکر الطبرانی کی طرف ہے) فرماتے ہیں:


أصل المعروف كل ما كان معروفاً، ففعله جميل مستحسن غير مستقبح عند أهل الإيمان بالله، وإنما سميت طاعة الله معروفاً لأنه مما يعرفه أهل الإيمان ولا يستنكرون فعله، وأصل المنكر ما أنكره الله ورأوا فعله قبيحاً، ولذلك سميت معصية الله منكراً، لأن أهل الإيمان يستنكرون فعلها ويستعظمون ركوبها.

معروف کی اصل ہر وہ چیز ہے جو (شریعت کے نزدیک) جانی پہچانی اور مشہور ہو۔ پس اس کا کرنا خدا پر ایمان رکھنے والوں کے درمیان اچھا اور حسین ہوتا ہے اور اسے ناپسند نہیں کرتے ہیں۔ اللہ کی اطاعت کو اس لیے معروف کہا جاتا ہے کہ اسے اہل ایمان خوب پہچانتے ہیں اور اس عمل کو ناپسند نہیں کرتے۔ منکر کی اصل ہر وہ چیز ہے جس کو اللہ تعالیٰ ناپسند کرے اور جس کے ارتکاب کو اہل ایمان قبیح سمجھتے ہوں۔ اسی وجہ سے اللہ کی معصیت کو منکر کہا جاتا ہے، کیوں کہ اہل ایمان اسے ناپسند کرتے ہیں اور اس کے ارتکاب کو بڑا جرم سمجھتے ہیں۔



امام شوکانی امت مسلمہ کے افراد کے بارے میں فرماتے ہیں:


انهم يأمرون بما هو معروف فی هذه الشريعة وينهون عما هو منكر، فالدليل على كون ذلك الشيئ معروفا اومنكرا هو الكتاب او السنة.

جو چیز اس شریعت میں معروف ہے وہ اس کا حکم دیتے ہیں اور جو چیز منکر ہے اس سے منع کرتے ہیں، پس اس چیز کے معروف یا منکر ہونے کی دلیل کتاب یا سنت ہوگی۔



معنی و مفہوم


چناں چہ اسی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ متعدد علماء امت نے معروف و منکر کی تعریف عقل و حکمت اور فلسفہ و منطق کی اصطلاحات میں یا اپنے دور کے رسم و رواج کی روشنی میں نہیں کی، بلکہ اس کے لیے خالص شرعی اصطلاحات استعمال کی ہیں۔ ان کے نزدیک معروف و منکر کے الفاظ اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور نافرمانی، حلال و حرام، فرض اور نفل اور استحباب اور کراہت کا اظہار کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ شریعت معروف و منکر کا تعین کرے گی، کسی اور ذریعہ سے اس کا تعین نہیں ہوگا۔ کیوں کہ اللہ کی شریعت ہی ہمیں یہ بتاتی ہے کہ کن اعمال سے وہ خوش ہوتا ہے اور وہ اعمال کون سے ہیں جو اس کی ناخوشی کے موجب ہیں؟ کون سی چیز حلال ہے اور کون سی چیز حرام؟ کسی کام کا کرنا ضروری یا پسندیدہ ہے اور کس کام کا کرنا ناجائز اور غیر مطلوب ہے؟


علامہ ابن اثیر نے معروف کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے:


(المعروف) اسم جامع لكل ما عُرف من طاعة اللّٰه والتقرب إليه والإحسان إلى الناس وكل ما ندب إليه الشرع ونهى عن مخمّصاته ومقبّحاته، وهو من الصفات الغالبة؛ أي: أمر معروف بين الناس إذا رأوه لا ينكرونه.

معروف نیک کام کو کہتے ہیں۔ اس میں اللہ کی اطاعت، اس کا تقرب، لوگوں کے ساتھ حسن سلوک اور وہ تمام نیکیاں شامل ہیں، جن کی شریعت نے ترغیب دی ہے اور معروف میں ان برائیوں سے بچنا بھی شامل ہے جن سے اس نے منع کیا ہے۔ یہ صرف غالب میں ہے۔ یعنی معروف و منکر وہ کام ہے جو لوگوں کے درمیان معروف یعنی جانا پہچانا ہو اور جب وہ اسے دیکھتے ہوں تو ناپسند نہ کرتے ہوں۔



منکر کی تعریف میں علامہ موصوف فرماتے ہیں:


المنكر ضد المعروف، وکل ما قبح حرام و مکروه هو منکر.

منکر، معروف کی ضد ہے۔ ہر وہ چیز جسے شریعت نے قبیح، حرام اور مکروہ کہا ہے منکر ہے۔



علامہ صاوی لکھتے ہیں:


المعروف المراد به ما طلبه الشارع على سبيل الوجوب كالصلوات الخمس وبر الوالدين وصلة الرحم، أو الندب كالنوافل وصدقات التطوع... المنكر المراد به ما نهى عنه الشارع إما على سبيل الحرمة كالزنا والسرقة، أو على سبيل الكراهة

معروف سے مراد ایسے امور ہیں جن کا کرنا شارع (اللہ تعالیٰ) یا تو ہم پر واجب قرار دے، جیسے کہ پانچ وقت کی نمازیں یا والدین کے ساتھ حسن سلوک اور صلہ رحمی یا جسے اس نے مندوب ٹھہرایا ہو، مثلاً نفل نمازیں یا نفل صدقات... منکر سے مراد وہ چیز ہے جسے شارع نے حرام قرار دے کر اس سے منع فرمایا ہو، جیسے زنا اور چوری یا جسے اس نے ناپسندیدہ قرار دیا ہو۔



امر عبد القادر عوده شہید کہتے ہیں:


الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر يدخل فيه الأمر بكل ما أوجبت الشريعة عمله أو حبب للناس فعله من صلاة وصيام وحج وتوحيد وغير ذلك، والنهي عن المنكر يدخل فيه النهي عن كل ما خالف الشريعة من أعمال وعقائد، فيدخل فيه النهي عن الثالوث وعن القول بصلب المسيح وقتله، ويدخل فيه النهي عن الرهبانية وشرب الخمر وأكل لحم الخنزير وغير ذلك مما تخالف فيه الشريعة الإسلامية الأديان الأخرى.

امر بالمعروف و نہی عن المنکر میں ہر وہ عمل شامل ہے جس کا کرنا شریعت نے واجب یا پسندیدہ قرار دیا ہو، جیسے نماز، روزہ، حج، توحید وغیرہ۔ نہی عن المنکر میں ان تمام اعمال و عقائد سے منع کرنا شامل ہے جو شریعت کے مخالف ہوں۔ اس میں مختلف قسم کے عقیدہ سے اور اس عقیدہ سے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو صلیب پر چڑھایا گیا یا ان کا قتل کیا گیا، منع کرنا شامل ہے۔ اسی طرح اس میں رہبانیت، شراب نوشی، سور کا گوشت کھانے اور ایسی تمام چیزوں سے منع کرنا بھی داخل ہے جن میں اسلامی شریعت دوسرے مذاہب سے مختلف ہے۔



ان تفصیلات سے بالکل واضح ہے کہ معروف و منکر ایسے الفاظ نہیں ہیں کہ انسان جس چیز پر چاہے ان کا اطلاق کرے، بلکہ ان سے اللہ تعالیٰ کی مرضی و نا مرضی کا اظہار ہوتا ہے۔ کسی چیز کے معروف یا منکر ہونے کا فیصلہ کرنا انسان کا کام نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے۔ اللہ تعالیٰ کی شریعت ہی یہ بتا سکتی ہے کہ کون سی چیز معروف ہے اور کون سی چیز منکر؟ جو شخص یہ سمجھتا ہو کہ کسی چیز کو معروف یا منکر قرار دینا خدا کی شریعت کا نہیں، اس کا اپنا حق ہے، وہ اللہ کی بجائے اپنی ذات کو شارع اور قانون ساز سمجھتا ہے۔ یہ اللہ کا انکار ہی نہیں، اس سے بغاوت بھی ہے، جس کے تصور ہی سے انسان کانپ جاتا ہے۔


وسعت اور جامعیت


امر بالمعروف و نہی عن المنکر دعوتی اور تربیتی کام ہے


امر بالمعروف و نہی عن المنکر دراصل دو کاموں کا مجموعہ ہے۔ دعوت و تبلیغ اور تنظیم و تربیت۔ یہ دونوں کام ایک فطری ترتیب کے ساتھ انجام پاتے ہیں۔ پہلے اللہ تعالیٰ کے دین کی طرف لوگوں کو بلایا جاتا ہے، اس کے بعد ان افراد کی تنظیم و تربیت کی جاتی ہے جو اس کا ساتھ دینے کے لیے تیار ہوں۔ اسی تنظیم اور تربیت پر دعوت کی کام یابی اور ناکامی کا انحصار ہوتا ہے۔ اگر تنظیم مضبوط اور تربیت صحیح ہے تو دعوت کام یاب ہوگی، ورنہ اس کی ناکامی یقینی ہے۔ اس لیے دعوت و تبلیغ اور تنظیم و تربیت کے درمیان بہت ہی گہرا اور قریبی ربط ہے۔ دعوت کے بغیر تنظیم و تربیت وجود میں نہیں آسکتی اور تنظیم و تربیت کے بغیر دعوت کا اپنی آخری منزل تک پہنچنا ناممکن ہے۔


اس میں شک نہیں کہ دعوت و تبلیغ اور تنظیم و تربیت کے مخاطب جدا جدا ہوتے ہیں۔ اللہ کے دین کی دعوت ان لوگوں کو دی جاتی ہے جنھوں نے ابھی اسے قبول نہیں کیا ہے اور جو لوگ اسے قبول کر چکے ہیں ان کی تنظیم و تربیت کی جاتی ہے، لیکن اس کے باوجود یہ دونوں کام ایک ہی مقصد کے تحت انجام پاتے ہیں۔ ایک مخلص جو اللہ اور رسول پر ایمان رکھتا ہے اور اس کے دین کو عین حق سمجھتا ہے وہ اس کی طرف دنیا کو دعوت دے گا اور اسی کی اساس پر لوگوں کو جمع کرے گا۔ اس کے برخلاف جو شخص اللہ اور رسول کا منکر اور اس کے دین کا مخالف ہے اس کی تبلیغ و تنظیم بھی اس بنیاد پر ہوگی۔ اس لیے گو یہ ظاہر یہ دو کام ہیں، لیکن حقیقت میں ایک ہی کام کے دو رخ ہیں۔


امت مسلمہ کو دعوت و تبلیغ اور تنظیم و تربیت دونوں ہی کام کرنے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں اسے امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فرض اپنے دائرے کے باہر بھی انجام دینا ہے اور اندر بھی۔ جو کام وہ اپنے دائرے سے باہر کرے گی اسے ہم دعوت و تبلیغ کہیں گے اور جو عمل وہ اپنے دائرے کے اندر انجام دے گی اسے تنظیم و تربیت کہا جائے گا۔ ہمارے مفسرین فرماتے ہیں کہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر میں ایمان و اسلام کی دعوت، غیر اللہ کی عبادت اور بندگی کی مخالفت، کفر و شرک کی تردید اور اللہ کی راہ میں جہاد بھی شامل ہے اور حدود و تعزیرات کا قیام، انفاق فی سبیل اللہ، اتباع سنت اور اجتناب بدعت کی تلقین بھی داخل ہے۔ ظاہر ہے، یہ دو طرح کے کام ہیں۔ ان میں سے اول الذکر کا تعلق دعوت سے ہے اور ثانی الذکر کا تنظیم و تربیت سے۔ یہی نہیں کہ مفسرین امر بالمعروف و نہی عن المنکر میں ان دونوں قسم کے کاموں کو شامل سمجھتے ہیں، بلکہ وہ اس سے متعلق تقریباً ہر آیت کے ذیل میں ان کا ایک ہی ساتھ ذکر کرتے ہیں، خواہ اس آیت کا تعلق اپنے الفاظ کے لحاظ سے دعوت سے ہو یا تنظیم و تربیت سے۔ گویا قرآن مجید میں جہاں بھی امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا حکم ہے وہ اپنے اندر یہ ہدایت لیے ہوئے ہے کہ امت کو اپنی اصلاح بھی کرنی ہے اور دوسروں کے درمیان اللہ تعالیٰ کے دین کو قائم بھی کرنا ہے۔ یہاں ہم کسی قدر وضاحت سے اس پر گفتگو کرنا چاہتے ہیں۔


امت مسلمہ کو امر بالمعروف و نہی عن المنکر دوسروں میں انجام دینا ہے


اللہ تعالیٰ امت مسلمہ سے جو کام لینا چاہتا ہے، اسے اس نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:


كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ

(آل عمران: ۱۱۰)

تم بہترین امت ہو جسے لوگوں کے لیے نکالا گیا ہے۔ تم معروف کا حکم دیتے ہو اور منکر سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔



آیت کا انداز بیان صاف بتا رہا ہے کہ اس کے اندر جس امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا ذکر ہے اسے امت مسلمہ کو اپنے دائرے سے باہر انجام دینا ہے۔ یہ امت بحیثیت امت لوگوں کے لیے نکالی گئی ہے اور اس لیے نکالی گئی ہے کہ لوگوں کو معروف کا حکم دے اور منکر سے روکے۔ وہ خود بخود وجود میں نہیں آئی ہے، بلکہ انسانوں کی اصلاح و ہدایت کے ایک متعین مقصد کے لیے برپا کی گئی ہے اور ایک بڑا کام اسے انجام دینا ہے۔ یہ وہ دنیا کو راہ ہدایت دکھانے اور دین حق کی دعوت دے۔ ہر گروہ اپنا مقصد حیات متعین کرنے میں اور ہر جماعت اپنی راہ تلاش کرنے میں آزاد ہے، لیکن خیر امت اس گروہ کا نام ہے جو اپنے اس اختیار سے دست کش ہو چکا ہے اور اللہ کے دیے ہوئے نصب العین کو بے چون و چرا تسلیم کر چکا ہے۔ اس لیے اسے یہ حق ہی نہیں ہے کہ خدا کے حکم کے بغیر کوئی راہ متعین کرے اور اس پر دوڑنا شروع کرے۔ جس دن امت مسلمہ اس جرم کا ارتکاب کرے گی وہ 'خیر امت' کے مقام پر باقی نہیں رہ سکتی۔ اسے دنیا میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا حکم ملا ہے اور اس حکم کو بجالانا اس کی زندگی کا مقصد ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک ڈیوٹی پر لگائی گئی ہے اور اس کی کام یابی و ناکامی کا فیصلہ کل قیامت کے دن اسی بنیاد پر ہونے والا ہے کہ اس نے اس ڈیوٹی کو انجام دیا یا نہیں؟


شیخ ابو السعود نے 'أخرجت للناس' کی تشریح ان الفاظ میں کی ہے:


أخرجت للناس صفة للأمة، واللام متعلقة بـ أُخرِجَتْ؛ أي: أظهرت لهم. فقيل: بخَيرُ أُمَّةٍ؛ أي: كنتم خيرَ الناس، فهو صريح في أن الخَيْرِيَّةَ بمعنى النفعِ للناس إن فُهِم ذلك من الإخراج لهم تمامَ زمانِ الأعصار. فقوله: أُخرِجَتْ للناس؛ أي: أُظهِرَتْ للناس حتى تميّزَتْ وعُرِفَ وفُضِّلَ بينها وبين غيرها. والثاني: أن قوله: للناس من تمام قوله: كنتم، والتقدير: كنتم خيرَ أُمَّةٍ للناس.

اخرجت للناس صفت متعلقہ باأخرجت ہے۔ 'للناس' میں لام متعلق ہے اخرجت۔ یعنی ظہور میں لائی گئی ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ لام کا تعلق لفظ 'خیر امت' سے ہے، اس کا مطلب تم لوگوں کے حق میں بہترین انسان ہو، جو اس امر کی صریح دلیل ہے کہ 'خیر' ہونے کا مطلب لوگوں کے لیے نفع بخش ہونا ہے۔ اگر اس کا مطلب تمام زمانوں کی امتوں میں خیر ہونا سمجھا جائے، تو 'اخرجت للناس' کا مطلب یہ ہوا کہ وہ لوگوں کے لیے ظاہر کی گئی، یہاں تک کہ وہ ممتاز ہوگی اور پہچانی جائے گی، اور دوسری قوموں سے الگ کر کے نمایاں کر دیا گیا۔ دوسرا قول یہ ہے کہ لفظ 'للناس' 'کنتم' سے شروع ہونے والے جملے ہی کا جزء ہے، جس کے پیش نظر معنی یہ ہوں کہ تم لوگوں کے لیے بہترین امت ہو۔



حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں:


كنتم خير أُمَّةٍ أُخرِجَتْ لِلنَّاسِ، قال: خير الناس للناس تأتون بهم في السلاسل في أعناقهم حتى يدخلوا في الإسلام

تم بہترین امت ہو جسے لوگوں کے لیے وجود میں لایا گیا۔" اس کا مطلب یہ ہے کہ تم لوگوں کے حق میں بہترین انسان ہو کہ انھیں گردنوں میں زنجیریں ڈال کر لاتے ہو، یہاں تک کہ وہ دائرہ اسلام میں داخل ہو جائے۔



امت مسلمہ کے بارے میں حضرت ابوہریرہ کے اس قول 'خير الناس للناس' (انسانوں کے لیے بہترین انسان) کی تشریح حافظ ابن حجر نے ان الفاظ میں کی ہے:


ای خیر بعض الناس لبعضهم اى انفعهم لهم وانما كان ذلك لكونهم كانوا سببا فی اسلامهم

یعنی لوگوں میں سے بعض، بہتر ہیں بعض کے لیے۔ مطلب یہ ہے کہ وہ ان کو سب سے زیادہ نفع دیتے ہیں، کیوں کہ وہ ان کے اسلام کا ذریعہ بنتے ہیں۔



ہم نے اوپر جو عبارات نقل کی ہیں ان میں بعض لفظی بحثیں آگئی ہیں جو یقینا عام دلچسپی کی نہیں، لیکن محض اس لیے ان کو نقل کیا گیا ہے، تاکہ قرآن کے ایک ایسے ارشاد کی خاص علمی و ادبی انداز میں توضیح ہو جائے جس کا تعلق اس امت کے مقصد حیات سے ہے۔ قرآن کا فرمانا ہے کہ یہ امت مسلمہ لوگوں کے لیے نکالی گئی ہے۔ ان مباحث کی روشنی میں اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ امت انسانوں کے لیے دنیا کی ہر قوم، ہر جماعت اور ہر ملت سے زیادہ نفع پہنچانے والی ہے، کیوں کہ وہ ان کو سیدھی راہ دکھاتی ہے، خدا کے دین کی طرف دعوت دیتی ہے اور دائرۂ اسلام میں لاتی ہے۔ اسی بات کو قرآن نے آگے ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ تم معروف کا حکم دیتے اور منکر سے روکتے ہو۔ اس سے قطعی طور پر یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ 'امر بالمعروف و نہی عن المنکر' فی الواقع دعوتی کام ہے اور امت مسلمہ کو تمام انسانوں کے درمیان یہ کام انجام دینا ہے۔


امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے دعوتی پہلو کا وہی شخص انکار کر سکتا ہے جس نے یا تو الفاظ قرآن پر غور نہ کیا ہو یا قصداً اس کے اس رخ کا انکار کرنا چاہتا ہو۔


شہادت على الناس میں امر بالمعروف ونہی عن المنکر شامل ہے


اس آیت میں جو بات کہی گئی ہے ٹھیک وہی بات قرآن نے ایک دوسرے موقعے پر ان الفاظ میں کہی ہے:


وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا

(البقرة: ۱۴۳)

اور اسی طرح ہم نے تم کو امت وسط (یعنی معتدل امت) بنایا، تاکہ تم لوگوں پر گواہ بن جاؤ اور رسول تم پر گواہ ہوں۔



یہاں امت مسلمہ کو امت وسط کہا گیا ہے اور وہاں 'خیر امت' کہا گیا تھا۔ ان دونوں میں معنی و مدعا کا کوئی فرق نہیں ہے۔ کیوں کہ خیر امت وہی ہوگی، جس کا دامن فکر و عمل افراط و تفریط سے محفوظ ہو اور جو زندگی کے میدان میں توازن اور اعتدال پر جمی رہے۔ امت کے کام کو یہاں 'شہادت علی الناس' سے تعبیر کیا گیا ہے اور وہاں 'اخرجت للناس تامرون بالمعروف وتنهون عن المنكر' کے الفاظ استعمال کیے گئے تھے۔ لیکن 'شہادت علی الناس' کے مفہوم میں یہ بات لازمًا شامل ہے کہ لوگوں کو معروف کا حکم دیا جائے اور منکر سے منع کیا جائے۔ دونوں ہی تعبیرات امت کو اس کی دعوتی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کرتی ہیں۔


شہادت علی الناس پر تفصیلی بحث کے لیے ملاحظہ ہو راقم کی کتاب 'تجلیات قرآن'


امت کی اصلاح و تربیت بھی امر بالمعروف و نہی عن المنکر ہے


ان تفصیلات سے معلوم ہوا کہ امت مسلمہ کے بارے میں قرآن کا یہ اعلان کہ 'كنتم خير أمة اخرجت للناس' اس کے دعوتی کام کا اعلان ہے۔ لیکن اس سے یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ امت کی اپنی اندرونی اصلاح اور تربیت و تنظیم کا کام آیت کے مفہوم سے خارج ہے۔ کیوں کہ یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ امت مسلمہ جس طرح دعوت سے غافل نہیں ہوسکتی اسی طرح اپنی اصلاح اور تنظیم و تربیت سے بھی ایک لمحے کے لیے صرف نظر نہیں کر سکتی۔ جو کام وہ اپنے دائرے سے باہر کرنا چاہتی ہے وہ اس کے لیے اپنے دائرے کے اندر بھی کرنا ضروری ہے۔ وہ دوسروں کے سلسلے میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فرض انجام دینے سے پہلے اپنے آپ کو معروف کا حکم دے گی اور منکر سے باز رکھے گی۔ اگر وہ اپنے آپ کو معروف کو قائم نہ کرے اور اپنے آپ کو منکر سے نہ روکے تو دوسروں کو کس منہج معنی میں نہ تو معروف کا حکم دے سکتی ہے اور نہ منکر سے منع کرسکتی ہے۔


اس لیے یہ دونوں ہی قسم کے کام آیت کے مفہوم میں شامل ہیں۔


علامہ صاوی کہتے ہیں:


قوله: للناس إنما عنّ للهمم دون من... إشارة إلى أن هذه الأمة نفع ورحمة لنفسها وللخلق عموماً في الدنيا بالدعاء لجميع الأمم، وفي الآخرة بالشهادة للأنبياء.

قرآن نے لوگوں کے لیے کہا ہے: 'للناس' اس طرف اشارہ ہے کہ یہ امت اپنے لیے بھی اور خدا کی تمام مخلوق کے لیے بھی دنیا و آخرت میں سراپا نفع و رحمة ہو ۔ وہ اس طرح کہ دنیا میں وہ تمام قوموں کو دین حق کی طرف بلائے گی اور آخرت میں انبیاء کے حق میں گواہی دے گی۔



ملا جیون کہتے ہیں:


أُخرِجَتْ للناس: للأنبياء؛ للشهادة على دعوتهم، أو للكفار لقتالهم، أو للمؤمنين عامة لهم.

(یہ امت) لوگوں کے لیے نکالی گئی ہے۔ یعنی انبیاء کے لیے، تاکہ ان کی دعوت پر گواہی دے، یا کفار کے لیے تاکہ ان سے جنگ کرے، یا عام مؤمنین کے لیے۔



وسعت اور جامعیت


علامہ ساوی (صاوی) اسی آیت کے یہ الفاظ کہ "امت اپنے" لیے بھی اور خدا کی تمام مخلوق کے لیے بھی دنیا و آخرت میں نفع و رحمت کا باعث ہوگی" ظاہر کر رہے ہیں کہ امت کو دعوتی اور تبلیغی دونوں ہی کام کرنے ہیں۔ اس کے خیر امت ہونے کا تقاضا ہے کہ وہ "امر بالمعروف و نہی عن المنکر" کا فرض اپنے دائرے کے اندر بھی انجام دے اور باہر بھی۔ اسی بات کو علامہ جیون نے یوں کہا ہے کہ "یہ امت کفار سے جنگ کے لیے برپا کی گئی ہے یا عام اہل الایمان کے لیے قائم کی گئی ہے!"


قرآن نے امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا حکم عام دیا ہے


امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی وسعت اور جامعیت کو سمجھنے کے لیے ایک دوسری آیت پر غور کیجیے، جس میں امت مسلمہ کو حکم ہے کہ:


وَلْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّةٌ يَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَيْرِ وَ يَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ يَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ ؕ وَ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ

(آل عمران: ١٠٤)

تم میں ایک گروہ ضرور ایسا ہونا چاہیے جو خیر کی طرف بلائے اور معروف کا حکم دے اور منکر سے روکے اور یہی لوگ کام یابی پانے والے ہیں.



پہلی آیت میں اخرجت للناس کے الفاظ بتا رہے تھے کہ یہ امت تمام لوگوں کے لیے نکالی گئی ہے، تاکہ انھیں معروف کا حکم دے اور منکر سے منع کرے اور اس آیت میں دعوت الی الخیر اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا بالکل عام حکم دیا گیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اس آیت میں بھی اخرجت للناس کے معنی موجود ہیں۔ کیوں کہ یہاں یہ نہیں کہا گیا کہ امت کو کسی مخصوص گروہ یا جماعت کے درمیان امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فرض انجام دینا ہے۔ بلکہ بات پورے عموم کے ساتھ کہی گئی ہے۔ اس لیے امت کی ذمے داری اسی وقت ساقط ہوگی جب کہ ہر گروہ اور ہر جماعت یعنی تمام انسانوں کو معروف کا حکم دے اور منکر سے منع کرے۔


علامہ سید محمود آلوسی فرماتے ہیں:


حذف المفعول الصريح من الأفعال؛ الدالة إما للإعلام بظهوره، أي: يدعون الناس ولو غير مكلفين، ويأمرونهم وينهونهم، وإما للقصد إلى إيجاد نفس الفعل، على حد: فلان يعطي؛ أي: يفعلون الدعاء والأمر والنهي ويوقعونها.

مفعول صریح تینوں افعال سے حذف کر دیا گیا ہے (یعنی آیت میں یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ دعوت الی الخیر اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا کام کس پر کیا جائے) یہ حذف یا تو یہ ظاہر کرنے کے لیے ہے کہ ان افعال کا مفعول خود بخود واضح ہے۔ یعنی یہ کہ وہ لوگوں کو دعوت دیتے ہیں خواہ وہ غیر مکلف ہی کیوں نہ ہوں اور انھیں معروف کا حکم دیتے اور منکر سے منع کرتے ہیں، یا اس حذف کی غرض یہ ہے کہ اصل مقصد فعل کا وجود میں آنا ہے، جیسا کہ کہا جاتا ہے فلاں عطا کرتا رہتا ہے (اس سے یہ بیان کرنا مقصود نہیں ہوتا کہ وہ کسے عطا کرتا ہے) پس اس لحاظ سے آیت کا مطلب یہ ہوا کہ وہ دعوت اور امر و نہی کے فرائض انجام دیتے ہیں اور ان کو وجود میں لاتے ہیں۔



گویا علامہ موصوف کے نزدیک آیت کے عموم کی دو وجہیں ہو سکتی ہیں: ایک یہ کہ بلا استثنیٰ سب کو معروف کا حکم دیا جائے اور منکر سے منع کیا جائے، دوسری وجہ یہ کہ مقصد صرف یہ واضح کرنا ہے کہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا کام اس امت سے انجام پاتا رہا ہے۔ یہ بتانا پیش نظر سرے سے ہے ہی نہیں کہ کس گروہ اور جماعت کے درمیان یہ انجام پا رہا ہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ اس شکل میں آیت کے عموم کی غرض و غایت پوری طرح واضح نہیں ہوئی۔


سیدھی اور صاف بات ہے کہ قرآن نے امر بالمعروف و نہی المنکر کا بالکل عام حکم دیا ہے اور امت کو اسی عموم کے ساتھ اس پر عمل کرنا ہے۔ ایک طرف یہ شعار انسان اللہ تعالٰی کے دین سے بے بہرہ اور غافل ہیں اور دوسری طرف امت مسلمہ پر امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فرض عائد ہوتا ہے۔ یہ فرض امت سے اسی وقت ساقط ہوگا جب کہ وہ پوری قوت کے ساتھ اللہ کے دین کو ان تمام انسانوں تک پہنچانے کی کوشش کرے جو اس سے یا تو بالکل محروم ہیں یا اس کو ماننے کے باوجود اس کے باغی اور منحرف ہیں۔ امت کے اس کام کو ہم کسی بھی گروہ کے ساتھ مخصوص نہیں کر سکتے۔ کیوں کہ اگر امت نے انسانیت کے ایک طبقے کو اللہ کے عذاب سے بچانے کی کوشش کی اور دوسرے کو اس میں گرفتار ہونے دیا تو یہ قرآن کے منشا کی خلاف ورزی ہوگی اور وہ اپنی ذمے داری سے کسی سیک روش نہ ہو سکے گی۔ اللہ تعالٰی چاہتا ہے کہ اس فرد اور ہر اس قوم تک اس کا دین پہنچے جو اس سے ناواقف ہے۔ جہاں معروف مٹ رہا ہو اسے وہاں زندہ کیا جائے اور جہاں منکر فروغ پا رہا ہو وہاں اسے ختم کیا جائے۔ برائی خواہ کسی فرد میں ہو یا کسی خاندان اور قبیلے میں، کوئی محلے، مملکت میں پھیلا ہو یا کوئی شہر، بلکہ ملت میں ہو یا پورے ملک اور وطن میں، اسے لازماً ختم ہونا چاہیے، یہاں تک کہ ہر فرد اور ہر جماعت اللہ کے دین اور اس کی شریعت کی مطیع اور اس کے احکام کی تابع ہو جائے۔


حقیقت یہ ہے کہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر قرآن کی بہت ہی جامع اصطلاح ہے۔ معروف و منکر میں اللہ کا دین اپنی تمام تفصیلات کے ساتھ اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر میں اس دین کی ہر چھوٹی بڑی خدمت آجاتی ہے۔ اسی وجہ سے ابن العربی مالکی کہتے ہیں:


الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر أصل الدين والإسلام، وهو أيضا انتهاؤه واتباعه.

امر و نہی عن المنکر ایک عظیم موضوع ہے اور یہ دین و اسلام کی بنیاد ہے اور اس کا انجام بھی دین و اسلام کی اتباع ہی ہے۔



قرآن مجید کی ہدایات اور اہل علم کی تصریحات سے واضح ہے کہ "امر بالمعروف و نہی عن المنکر" میں دعوت و تبلیغ اور تنظیم و تربیت دونوں ہی قسم کے کام شامل ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امت مسلمہ کو یہ فرض غیر اسلامی ماحول میں بھی انجام دینا ہے اور اسلامی ماحول میں بھی۔ غیر اسلامی ماحول میں باطل افکار پر تنقید کرنا، کفر و شرک کے مقابلے میں پوری قوت سے اسلام کو پیش کرنا، باطل کو مٹانے اور حق کو کامیاب بنانے کی جدوجہد کرنا اور اس راہ میں جان و مال کی بازی لگا دینا امر بالمعروف و نہی عن المنکر ہے۔ اسلامی معاشرے میں اس کا تقاضا یہ ہے کہ اسے مضبوط بنایا جائے، اس میں بگاڑ نہ پیدا ہونے دیا جائے، اس کی اصلاح کی کوشش کی جائے اور اسے اس قابل بنایا جائے کہ وہ دنیا میں اسلام کی سر بلندی کا ذریعہ بن جائے۔


دعوت دین


یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اللہ تعالٰی کا دین محمد ﷺ پر انتہائی مخالف ماحول میں نازل ہوا۔ اس کا نظام وقت کے نظام سے اور اس کا مزاج وقت کے مزاج سے بالکل مختلف تھا۔ اس کا طریقہ کار عمل کی ان راہوں سے الگ تھا جن پر دنیا چل رہی تھی۔ لوگ اس سے نامانوس تھے اور اس کے نام سے وحشت محسوس کرتے تھے۔ جو باہمت نفسوں اس کو قبول کرتے وہ اپنے حلقوں سے کٹ جاتے اور ماحول ان کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہ ہوتا۔ لیکن آہستہ آہستہ حالات میں تبدیلی رونما ہوئی اور لوگ اللہ کے دین سے مانوس ہونے لگے۔ مختلف گروہوں سے افراد جمع ہو کر اس کی طرف آنے شروع ہوگئے اور اس کی جڑیں مضبوط ہوتی چلی گئیں۔ اس دین کی خاطر حضور اکرم ﷺ اور آپ کے صحابہؓ نے بڑی قربانیاں دیں۔ ایسی قربانیاں کہ تاریخ ان کی مثال نہیں پیش کرسکتی۔ وہ بے سروسامان تھے، کم زور تھے اور گنتی میں چند تھے۔ اس کے بالمقابل ان کے دشمن ہر طرف پھیلے ہوئے تھے اور ساز و سامان اور عددی قوت کے لحاظ سے بہت طاقت ور تھے۔ لیکن اس کے باوجود آپ کے صحابہ بھی پست ہمت نہیں ہوئے۔ وہ صبر و ثبات کے ساتھ اپنے مخالفین کا مقابلہ کرتے رہے۔ یہاں تک کہ حریف طاقتوں پر ان کو غلبہ نصیب ہوا اور اللہ تعالٰی کی زمین پر اس کی حکومت قائم ہوگئی۔ آج سے چودہ سو سال قبل انجام پانے والا یہ کارنامہ "امر بالمعروف و نہی عن المنکر" کی جامع اور مستند اور عملی تفسیر ہے۔


اس کارنامے کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ تین مختلف کاموں پر مشتمل ہے:



دعوت و تبلیغ

جہاد فی سبیل اللہ

اسلامی ریاست کا قیام



ان میں سے ہر کام "امر بالمعروف و نہی عن المنکر" ہے، کیوں کہ ان سب کا واحد مقصد ہے معروف کا قائم کرنا اور منکر کا مٹانا۔ جو جہاد، جو دعوت، جو جہاد اور جو حکومت امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے لیے نہیں ہے نہ وہ دعوت اللہ کے دین کی دعوت ہے، نہ وہ جہاد اللہ کی راہ میں جہاد ہے اور نہ وہ حکومت اللہ کی فرمان روائی اور اس کے قانون کی حکومت ہے۔


یہاں ہم پہلے دعوت و تبلیغ پر گفتگو کریں گے۔ اس کے بعد جہاد فی سبیل اللہ اور اسلامی ریاست سے بحث ہوگی۔


دین و شریعت کی تبلیغ


امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی اصطلاح میں امر و نہی کے الفاظ سے بعض اوقات یہ شبہ ہوتا ہے کہ شاید یہ دعوتی اور تبلیغی کام نہیں ہے۔ بلکہ اس کے لیے اقتدار اور حکومت کی ضرورت ہے۔ لیکن گزشتہ صفحات میں ہم نے امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا جو معنی و مفہوم بیان کیا ہے اور اس کی وسعت و جامعیت پر جو بحث کی ہے، اس سے خود بخود اس شبہ کی تردید ہوجاتی ہے اور اس میں کوئی شبہ نہیں رہ جاتا کہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر میں دین کی دعوت و تبلیغ بھی شامل ہے۔ تاہم یہاں اہل علم کی مزید دو تین تصریحات پیش کی جا رہی ہیں۔


قرآن نے خیر امت کا امتیازی وصف یہ بیان کیا ہے کہ وہ معروف کا حکم دیتی اور منکر سے روکتی ہے۔ اس کی تشریح میں علامہ ابن جریر طبری فرماتے ہیں:


قوله: تأمرون بالمعروف؛ تأمرون بالمعروف بالله ورسوله؛ يعني: الإيمان بالله ورسوله والعمل بشرائعه، وتنهون عن المنكر؛ يعني: وتنهون عن الشرك بالله وتكذيب رسوله وعن العمل بما نهى عنه رسوله.

معروف کا حکم دیتے ہو اس سے اللہ تعالٰی مراد لیتا ہے: ایمان لائے باللہ و رسولہ اور اس کے رسول پر ایمان اور اس کی شریعت پر عمل کا حکم دیتے۔ منکر سے منع کرتے ہو اس کا مطلب یہ ہے کہ تم اللہ کے ساتھ شرک اور اس کے رسول کی تکذیب اور جن چیزوں سے اس نے منع کیا ہے ان کے ارتکاب سے منع کرتے ہو۔



تلامذہ کہتے ہیں:


تأمرون بالمعروف؛ أي: بالإيمان بمحمد صلى الله عليه وسلم والقرآن وبجميع الطاعات، وتنهون عن المنكر؛ أي: عن الكفر وسائر المعاصي.

تم معروف کا حکم دیتے ہو یعنی محمد ﷺ اور قرآن پر ایمان کا حکم دیتے ہو، یا یہ کہ تم تمام طاعتوں کا حکم دیتے ہو۔ منکر سے منع کرتے ہو یعنی کفر اور تمام معصیتوں سے منع کرتے ہو۔



اسی طرح قرآن کا یہ حکم کہ دعوت الی الخیر اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے لیے امت میں لازماً ایک گروہ ہونا چاہیے، امام شوکانی اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں:


عن الضحاك في قوله: يأمرون بالمعروف؛ قال: يدعون إلى الإيمان بالله ورسوله، والنفقة في سبيل الله، وما كان من طاعة الله، وينهون عن الشرك والكفر.

ضحاک فرماتے ہیں کہ اللہ تعالٰی کا یہ فرمانا (یامرون بالمعروف) مراد وہ گروہ ہے جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے، اللہ کی راہ میں خرچ کرنے اور اس کے ہر حکم کی اطاعت کرنے کا حکم دے، اور منکر سے منع کرنے یعنی شرک و کفر سے منع کرے۔



ان تصریحات کے بعد کوئی شخص اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا کہ علماء امت کے نزدیک امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ لوگوں کو اللہ اور اس کے رسول اور قرآن کی طرف دعوت دی جائے اور شرک، کفر اور انکار رسالت سے منع کیا جائے۔


بلکہ سید مرتضیٰ ابو العالیہ نے یہاں تک کہا ہے:


كل ماذكره الله في القرآن من الامر بالمعروف و النهی عن المنکر، فالامر بالمعروف دعاء من الشرک الی الاسلام و النهی عن المنکر النهی عن عبادة الاوثان و الشیاطین

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں "امر بالمعروف و نہی عن المنکر" کا جو بھی ذکر کیا ہے اس میں امر بالمعروف کا مطلب ہے شرک سے اسلام کی طرف دعوت دینا اور "نہی عن المنکر" سے مراد بتوں اور شیاطین کی عبادت سے روکنا۔



محمد ﷺ کو مکہ میں امر بالمعروف کا حکم دیا گیا


یہ معلوم کرنے کی، کہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر دعوتی کام بھی ہے یا محض سیاسی کام؟ سب سے اطمینان بخش شکل یہ ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ کے کارناموں پر نظر ڈالی جائے اور یہ دیکھا جائے کہ آپ نے امر بالمعروف کا فریضہ صرف اقتدار و حکومت کے بعد ہی انجام دیا تھا یا اس سے پہلے بھی انجام دیا تھا؟ آپ کی ذات ہمارے لیے اسوہ ہے۔ ہمیں اس راہ پر چلنا ہے جس پر آپ کے نقش پا ثبت ہیں اور وہ کام کرنا ہے جو آپ نے کیا تھا۔ اس سوال کا جواب ہمیں سورہ اعراف میں ملتا ہے، جس میں آپ کو امر بالمعروف کا حکم دیا گیا ہے۔ سورہ اعراف مکی ہے۔ اس سورہ میں امر بالمعروف کا حکم یہ ظاہر کر رہا ہے کہ امر بالمعروف غیر اسلامی ماحول میں تبلیغ دین کا بھی نام ہے۔ کیوں کہ جب تک آپ مکہ میں رہے اللہ کے دین کی تبلیغ ہی فرماتے تھے۔ اس وقت آپ حکم راں نہیں تھے کہ ریاست کے ذریعے "امر بالمعروف و نہی عن المنکر" کا فرض انجام دیتے۔ یہ نہ صرف اس بات کی دلیل ہے کہ امر بالمعروف میں دعوت و تبلیغ بھی شامل ہے، بلکہ اس بات کی بھی دلیل ہے کہ امر بالمعروف کا آغاز تبلیغ و دعوت ہی سے ہوتا ہے۔ اس کی سیاسی حیثیت اس کے بعد شروع ہوتی ہے۔


اب آپ وہ حکم سنئے جو سورہ اعراف میں نازل ہوا ہے:


خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ

(الاعراف: ۱۹۹)

درگزر کرو، معروف کا حکم دو اور جاہلوں سے اعراض برتو۔



آیت میں 'عرف' کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جو معروف کے ہم معنی ہے اور معروف، جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں، اللہ کے دین اور اس کی پوری شریعت کو کہا جاتا ہے۔ یہ حکم آپ کو ایک ایسے ماحول میں ملا جس پر شرک کی حکومت تھی اور جو اپنے مزاج اور ساخت کے لحاظ سے سراسر توحید کے مخالف تھا۔ چناں چہ جب آپ نے توحید کا اعلان کیا تو سارا ماحول دشمن بن گیا، ہر طرف سے دشنام طرازی، طعن و لعن اور مخالفت شروع ہوگئی اور آپ کو اس قدر صدموں اور اذیتوں سے دوچار ہونا پڑا کہ اس کے تصور ہی سے روح کانپ جاتی ہے۔ اس پس منظر میں "امر بالمعروف" کا مطلب واضح طور پر یہ ہے کہ حالات کی سنگینی اور نزاکت کے باوجود اللہ کا دین آپ اس کے بندوں تک پہنچاتے رہیں۔ اور اس میں کسی قسم کی کوتاہی نہ کریں۔ یہاں یہ بات فراموش نہیں ہونی چاہیے کہ یہ دین کے کسی ایک پہلو کی تبلیغ کا حکم نہیں ہے۔ بلکہ پورے دین کی تبلیغ کا حکم ہے۔ دین کے کسی بھی حصے کو ہم اس حکم سے الگ نہیں کرسکتے۔


امام ابن جریر طبری فرماتے ہیں:


إن اللّٰه أمر نبيه صلى اللّٰه عليه وسلم أن يأمر الناس بالعرف، وهو المعروف في كلام العرب... فمن المعروف كله العفو عن ظلم، وكل ما أمر اللّٰه به من الأعمال أو ندب إليه فهو من العرف، ولم يخصص اللّٰه من ذلك معنىً دون معنى، فالحق فيه أن يقال: قد أمر اللّٰه نبيه صلى اللّٰه عليه وسلم أن يأمر عباده بالمعروف كله لا ببعض معانيه دون بعض.

اللہ نے اپنے نبی ﷺ سے کہا کہ آپ لوگوں کو عرف کا حکم دیں۔ کلام عرب میں 'عرف' 'معروف' کو کہتے ہیں۔ ... اور معروف میں یہ بات بھی شامل ہے کہ جو ہم سے رشد و فوز طلب کرے ہم اس سے رشتہ جوڑیں، جو ہمیں محرم کر دے ہم اس کا حق ادا کریں اور جو ہم پر زیادتی کرے ہم اس سے درگزر کریں۔ اور وہ تمام اعمال جن کا اللہ نے حکم دیا ہے یا جن کی اس نے ترغیب دی ہے وہ معروف میں داخل ہیں۔ اللہ نے اپنے اس ارشاد میں 'معروف' کے کسی خاص اور محدود معنی کی تخصیص نہیں کی ہے۔ اس لیے اس معاملے میں صحیح بات جو کہی جا سکتی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ نے اپنے نبی کو حکم دیا کہ وہ اس کے بندوں کو تمام معروقات کا حکم دیں۔ نہ یہ کہ بعض کا حکم دیں اور بعض کا نہ دیں۔



"امر بالمعروف" کی تفسیر خازن اور بغوی نے چند الفاظ میں کی ہے، لیکن اتنی بات وضاحت کے ساتھ کہہ دی ہے کہ یہ حکم پورے دین کی تبلیغ پر حاوی ہے جو اللہ کی طرف سے محمد ﷺ کو ملا ہے۔


خازن فرماتے ہیں:


وأمر بالمعروف؛ يعني: وأمر بكل ما أمرك الله به، وهو ما عرفته بالوحي من الله عز وجل، وكل ما يعرفه الشارع.

"امر بالمعروف" کا حکم دو یعنی ہر اس چیز کا حکم دو جس کا اللہ نے تمہیں حکم دیا ہے۔ اس میں وہ تمام باتیں شامل ہیں جو اللہ کی طرف سے نازل کردہ وحی کے ذریعہ آپ کو معلوم ہوں۔ ہر وہ چیز جسے شارع جانتا ہو 'معروف' ہے۔



علامہ بغوی کے الفاظ ہیں:


وأمر بالعرف؛ أي: بالمعروف، وهو كل ما يعرفه الشرع.

"امر بالمعروف" یعنی معروف کا حکم دو۔ اس سے مراد ہر وہ چیز ہے جسے شریعت جانتی ہو۔



عطاء تابعی کہتے ہیں کہ "یامرهم بالمعروف" سے مراد کلمہ "لا اله الا الله" ہے۔ لیکن یہ تخصیص بغیر کسی دلیل کے ہے۔


امر بالمعروف میں نہی عن المنکر شامل ہے


اس آیت میں صرف امر بالمعروف کا ذکر ہے، نہی عن المنکر کا ذکر نہیں ہے۔ اسی طرح بعض آیات و احادیث میں صرف نہی عن المنکر کا ذکر ہے، امر بالمعروف کا ذکر نہیں ہے، لیکن یہ الفاظ کی حد تک ہے، ورنہ امر بالمعروف کے حکم میں نہی عن المنکر اور نہی عن المنکر کے حکم میں امر بالمعروف خود بخود شامل ہے۔


ملا علی قاری فرماتے ہیں:


الامر بالمعروف یعم النھی عن المنکر

امر بالمعروف میں نہی عن المنکر شامل ہے۔



علّامی کہتے ہیں:


الامر بالشىء نهى عن ضده

کسی چیز کا حکم دینا (حقیقت میں) اس کی ضد سے منع کرنا ہے۔



اسی طرح ایک حدیث میں رسول اکرم ﷺ نے "تغییر منکر" کا تو حکم دیا ہے لیکن اس کی جگہ معروف کو قائم کرنے کا ذکر نہیں فرمایا ہے، اس کی وجہ ملا علی قاری نے ان الفاظ میں بیان کی ہے:


لان النھى عن المنکر شامل له اذ النهي عن الشئ امر بضده

کیوں کہ نہی عن المنکر میں امر بالمعروف شامل ہے۔ اس لیے کہ کسی چیز سے منع کرنا حقیقت میں اس کی خلاف چیز کا حکم دینا ہے۔



محمد ﷺ معروف کا حکم دیتے اور منکر سے منع کرتے تھے


اس بحث سے قطع نظر اسی سورہ اعراف کی ایک دوسری آیت میں یہ دونوں ہی احکام ایک ساتھ مذکور ہیں۔ اہل کتاب کا ذکر ہے:


الذين يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِنْدَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنْجِيلِ يَأْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَالَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ ۚ فَالَّذِينَ آمَنُوا بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِي أُنْزِلَ مَعَهُ ۙ أُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ

(الاعراف: ۱۵۷)

جو اس رسول نبی امی کی اتباع کرتے ہیں، جس کا ذکر وہ اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں، جو انہیں معروف کا حکم دیتا ہے اور منکر سے منع کرتا ہے، پاک چیزیں ان کے لیے حلال کرتا ہے اور ناپاک چیزیں ان پر حرام کرتا ہے اور ان پر سے وہ بوجھ اتارتا ہے جس کے نیچے وہ دبے ہوئے ہیں اور ان زنجیروں کو کھولتا ہے جن میں وہ گرفتار ہیں، پس جو لوگ اس پر ایمان لائیں، اس کی حمایت اور نصرت کریں اور اس روشنی کی جو اس کے ساتھ نازل ہوئی ہے اتباع کریں، وہی فلاح پانے والے ہیں۔



اس آیت میں اللہ کے رسول ﷺ کی تین صفات بیان ہوتی ہیں: پہلی صفت یہ کہ آپ معروف کا حکم دیتے ہیں اور منکر سے روکتے ہیں۔ دوسری صفت یہ کہ آپ پاک چیزوں کو حلال اور ناپاک چیزوں کو حرام کرتے ہیں، تیسری صفت یہ کہ آپ غیر ضروری بوجھ اتارتے ہیں اور بندشیں کھولتے ہیں۔ بعد کی دونوں صفتیں حقیقت میں پہلی صفت کی شرح و تفسیر ہیں۔ پاک چیزوں کو حلال کرنا امر بالمعروف کے اندر شامل ہے اور ناپاک چیزوں کو حرام کرنا نہی عن المنکر کا ایک حصہ ہے۔ اسی طرح امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا تقاضا یہ ہے کہ انسان کو خود ساختہ رسوم و اعمال سے نجات دلائی جائے اور اسے اللہ کی بندگی کے سوا ہر بندگی سے آزاد کرایا جائے۔


امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں:


هو الذي أمر اللّٰه على لسانه بكل معروف ونهى عن كل منكر، وأحل كل طيب وحرم كل خبيث... فبه كمل دين اللّٰه المتضمن للأمر بكل معروف والنهي عن كل منكر، وإحلال كل طيب وتحريم كل خبيث... وتحريم الخبائث يندرج في معنى النهي عن المنكر، كما أن إحلال الطيبات يندرج في الأمر بالمعروف؛ لأن تحريم الطيبات مما نهى اللّٰه عنه. وكذلك الأمر بجميع المعروف والنهي عن كل منكر مما لا يتم إلا للرسول الذي تمم اللّٰه به مكارم الأخلاق المندرجة في المعروف.

آپ ہی کی ذات ہے جس کی زبان سے اللہ نے ہر معروف کا حکم دیا اور ہر منکر سے منع کیا، ہر پاک چیز کو حلال کیا اور ہر ناپاک چیز کو حرام کیا۔ آپ ہی کے ذریعے خدا کے اس دین کی تکمیل ہوئی، جس میں ہر معروف کا حکم ہے اور ہر منکر سے ممانعت ہے، ہر پاک چیز کو حلال کیا ہے اور ہر ناپاک چیز کو حرام کیا گیا ہے۔ ناپاک چیزوں کو حرام کرنا نہی عن المنکر کے مفہوم میں شامل ہے، جیسے کہ پاک چیزوں کو حلال کرنا امر بالمعروف میں آتا ہے، اس لیے پاک چیزوں کو حرام ٹھہرانا ان کاموں میں شامل ہے جن سے اللہ نے منع کیا ہے۔ اسی طرح یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تمام معروفات کا حکم دینا اور تمام منکرات سے منع کرنا اسی رسول کے لیے ہوسکتا ہے جس کے ذریعے اللہ نے ان تمام اعلیٰ اخلاقیات کی تکمیل کی ہے۔ جو معروف میں شامل ہیں۔



محمد ﷺ نے ہر گروہ کو معروف کا حکم دیا اور منکر سے منع کیا


آیت میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا ذکر اس سیاق میں آیا ہے کہ آپ ﷺ یہود کے درمیان یہ کام انجام دیتے ہیں، لیکن ظاہر ہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ ﷺ دوسروں کو معروف کا حکم نہیں دیتے تھے اور منکر سے روکتے نہیں تھے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ خواہ یہود و نصاریٰ ہوں یا مشرکین و منافقین، ان میں سے جس گروہ پر بھی آپ ﷺ نے دین حق کی تبلیغ کی اسے معروف کا حکم دیا اور منکر سے منع کیا، بلکہ جیسا کہ اس سے پہلے ذکر آچکا ہے کہ آپ ﷺ اپنے ساتھیوں کی جو تربیت کرتے تھے، انہیں امور خیر کی جو تعلیم دیتے تھے، اخلاق حسنہ کی جو نصیحت فرماتے تھے اور آداب زندگی کی جو تلقین کرتے تھے وہ سب امر بالمعروف و نہی عن المنکر میں ہی شامل ہے۔ یہ کام ابتدا ئے دعوت سے انتہائے دعوت تک جاری ہے اور دائمی اسے اس وقت تک انجام دیتا ہے جب تک کہ اس کے جسم میں جان باقی ہے اور وہ حرکت و عمل کے قابل ہے۔ اسی وجہ سے مفسرین نے یہاں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کو یہود کے ساتھ مخصوص نہیں سمجھا ہے، بلکہ اسے بہت ہی مختلف النوع اور وسیع کام کی حیثیت سے پیش کیا ہے۔


حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں:


يأمرهم بالمعروف وينهى عن المنكر، هذه صفة الرسول صلى الله تعالى عليه وآله وسلم في الكتب المقدمة، وكذا كان يأمر إلا بخير ولا ينهى إلا عن شر... ومن أهم ذلك وأعظمه ما بعثه الله به من الأمر بعبادته وحده لا شريك له والنهي عن عبادة سواه، كما أرسل به جميع الرسل قبله.

معروف کا حکم دیتے ہیں اور منکر سے روکتے ہیں، یہ صفت آپ کی پہلے کی کتابوں میں بیان ہوتی ہے اور یہی آپ کا حال تھا کہ آپ جس بات کا بھی حکم دیتے وہ خیر ہوتی اور جس چیز سے بھی منع کرتے وہ شر ہوتی۔ اس سلسلے کی اہم ترین چیز وہ ہے جس کو دے کر اللہ نے آپ کو مبعوث فرمایا تھا یعنی یہ کہ اللہ واحد کی عبادت کا حکم دیں اور اس کے سوا ہر ایک کی بندگی سے منع کریں، جیسا کہ آپ سے پہلے بھی تمام رسول یہی تعلیم لے کر آئے تھے۔



علامہ بغوی اس ٹکڑے کی شرح میں فرماتے ہیں:


يأمرهم بالمعروف؛ أي: بالإيمان، وينهيهم عن المنكر؛ يعني: عن الشرك. قيل: المعروف الشريعة والسنة، والمنكر ما لا يعرف في الشريعة ولا سنة. وقال عطاء: يأمرهم بالمعروف بخلع الأنداد، ومكارم الأخلاق، وصلة الأرحام، وينهيهم عن عبادة الأوثان وقطع الأرحام.

آپ معروف کا حکم دیتے ہیں یعنی ایمان کا حکم دیتے ہیں اور منکر سے منع کرتے ہیں یعنی شرک سے منع کرتے ہیں۔ بعض لوگوں نے کہا کہ معروف سے مراد شریعت اور سنت ہے اور منکر ہر وہ شے ہے جو شریعت میں معلوم (و مقبول) نہ ہو۔ عطاء تابعی نے یامرهم بالمعروف کے معنی یہ بیان کیے ہیں کہ آپ انہیں اللہ کے چھوڑے ہوئے شریکوں سے علیحدگی، اعلیٰ اخلاق کی پابندی اور صلہ رحمی کا حکم دیتے ہیں، اور انہیں منکر سے منع کرتے ہیں اس کے معنی یہ ہیں کہ آپ بتوں کو پوجنے اور رشتہ توڑنے سے منع کرتے ہیں۔



شیخ اسماعیل حقٰی کہتے ہیں:


يأمرهم بالمعروف؛ أي: بالتوحيد وشرائع الإسلام، وينهيهم عن المنكر؛ أي: عن كل ما لا يُعرَف في شريعة ولا سنة.

آپ انہیں معروف کا حکم دیتے ہیں یعنی توحید اور اسلامی شریعت کا حکم دیتے ہیں۔ اور انہیں منکر سے منع کرتے ہیں۔ یعنی ہر اس چیز سے منع کرتے ہیں جو شریعت اور سنت میں جانی پہچانی (اور پسندیدہ) نہیں ہے۔



ابن جریر طبری فرماتے ہیں:


يأمر هذا النبي الأمي أتباعه بالمعروف، وهو الإيمان بالله ولزوم طاعة أمره ونهيه، فذلك المعروف الذي يأمرهم به. وينهى عن المنكر، وهو الشرك بالله والانتهاء عما نهاهم الله عنه.

یہ نبی امی اپنی اتباع کرنے والوں کو معروف کا حکم دیتے ہیں۔ معروف سے مراد ہے اللہ پر ایمان اور اوامر و نواہی میں اس کی لازمی اطاعت۔ یہی وہ معروف ہے، جس کا آپ ان کو حکم دیتے ہیں۔ انہیں منکر سے منع کرتے ہیں یعنی اللہ کے ساتھ شرک اور اس بات کا خاتمہ جس چیزوں کو ممنوع قرار دیا ہے ان سے باز رہیں۔



امام رازی نے اس فقرہ کی بہت ہی جامع و مانع تفسیر کی ہے۔ ان کی تفسیر اس قابل ہے کہ پوری کی پوری یہاں نقل کی جائے:


جماع الأمر بالمعروف محصور في قوله عليه الصلاة والسلام: التعظيم لأمر الله والشفقة على خلق الله. وذلك لأن الموجود إما واجب الوجود لذاته وإما ممكن الوجود لذاته. أما الواجب لذاته فهو الله جل جلاله، وأعظم معروف الإيمان به، وتعظيم أمره، وإظهار الخضوع والخشوع لجناب عظمته، والاعتراف بكونه موصوفاً بصفات الكمال، مبرأً عن النقائص والآفات، منزهاً عن الأضداد والأنداد. وأما الممكن لذاته فإن لم يكن حيواناً فلا سبيل إلى إيصال الخير إليه؛ لأن الانتفاع مشروط بالحياة. ومع هذا فإنه يجب النظر إلى كلها بعين التعظيم، من حيث إنها مخلوقة لله تعالى، ومن حيث إن كل ذرة من ذرات المخلوقات لما كانت دليلاً قاهراً وبرهاناً باهراً على توحيده وتنزيهه فإنه يجب النظر إليها بعين الاحترام. وأما إن كان ذلك المخلوق من جنس الحيوان فإنه يجب إظهار الشفقة عليه بأقصى ما يقدر الإنسان عليه، ويدخل فيه بر الوالدين، وصلة الأرحام، ولب المعروف. فثبت أن قوله عليه الصلاة والسلام: التعظيم لأمر الله والشفقة على خلق الله كلمة جامعة لجميع جهات الأمر بالمعروف... قوله: وينهى عن المنكر المراد منه أضداد الأمور المذكورة وهي: عبادة الأوثان، والقول في صفات الله بغير علم، والكفر بما أنزل الله على النبيين، وقطع الرحم، وعقوق الوالدين.

نبی ﷺ کے الفاظ "اللہ کے حکم کی تعظیم اور اس کی مخلوق پر شفقت" امر بالمعروف کے سارے پہلوؤں پر حاوی ہیں۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ موجودات کی دو قسمیں ہیں: ایک وہ جو اپنے وجود میں کسی کی محتاج نہیں ہے اور دوسری وہ جو اپنے وجود میں کسی کی محتاج ہے۔ وہ غیر متناہی وجود صرف اللہ تعالٰی کا ہے اور اس سے بڑا معروف کوئی نہیں ہے۔ اور اس کی تعظیم اور اس کی بندگی کی جائے اور اس کی جناب میں خشوع و خضوع کا اظہار کیا جائے۔ اور اس بات کا اعتراف کیا جائے کہ اس کے اندر تمام صفات کمال موجود ہیں اور وہ تمام نقائص اور آفات سے پاک اور مخالفوں اور ہم سروں کے وجود سے بلند ہے۔ اب رہی وہ چیز جو اپنی ذات میں دوسرے کی محتاج ہے اگر وہ ذی حیات نہیں ہے تو اسے فائدہ پہنچانے کی بھی کوئی صورت نہیں، اس لیے کہ فائدہ اٹھانے کے لیے حیات شرط ہے لیکن پھر بھی ضروری ہے کہ اس کو بھی اسی حیثیت سے عزت و احترام کی نظروں سے دیکھا جائے کہ وہ اللہ تعالی کی مخلوق ہے اور یہ کہ مخلوقات کا ہر ذرہ جب اللہ تعالی کے ایک اور بے عیب ہونے کی مضبوط دلیل اور واضح حجت ہے تو ضروری ہے کہ اسے احترام کی نظر سے دیکھا جائے اور اگر اللہ کی مخلوق ذی حیات ہے تو ضروری ہے کہ انسان اس پر جس قدر شفقت کر سکتا ہے اس قدر شفقت کرے۔ اسی جنس کے ساتھ حسن سلوک، صلہ رحمی اور نیکیوں کا پھیلانا بھی شامل ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ نبی ﷺ کے الفاظ "اللہ کے حکم کی تعظیم اور اس کی مخلوق پر شفقت" ایک ایسا جامع کلمہ ہے، جو امر بالمعروف کے تمام پہلوؤں پر حاوی ہے۔ آپ انہیں منکر سے منع کرتے ہیں۔ اللہ کے اس قول سے یہ مطلب ہے کہ اوپر جو باتیں بیان ہوئی ہیں ان کے خلاف جتنی باتیں ہیں ان سب سے منع کیا جائے۔ اس میں بتوں کی پرستش، بغیر جانے بوجھے اللہ کی ذات و صفات کے بارے میں زبان کھولنا، انبیاء کی تعلیمات کا انکار، رشتوں کا قطع کرنا اور باپ باپ کی نافرمانی بھی کچھ شامل ہے۔



اہل علم کی ان تحقیقات کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ کے رسول محمد ﷺ نے انسانوں کو دعوت دی کہ وہ اس وسیع کائنات پر غور کریں اور اپنے خالق و مالک کو پہچانیں۔ آپ ﷺ نے انہیں اللہ کے صحیح تصور سے آگاہ کیا، اعلیٰ اخلاق کی تعلیم دی اور ایک دوسرے سے محبت کرنا سکھایا۔ اس کے ساتھ جن لوگوں نے اللہ کے دین کو قبول کیا آپ نے انہیں اللہ کی عبادت اور اس کی شریعت کی اتباع کا حکم دیا اور ان کی سیرت و کردار کی اصلاح کی۔ آپ ﷺ کے اس دعوتی و تربیتی کام کو قرآن نے امر بالمعروف و نہی عن المنکر سے تعبیر کیا ہے۔


امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور انذار


امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور انذار پر آئندہ گفتگو ہوگی۔ اس بحث سے واضح ہے کہ اللہ کے دین کو اپنی صحیح اور خالص شکل میں پیش کرنا اور دنیا کو اس کی اتباع کی دعوت دینا بھی امر بالمعروف و نہی عن المنکر ہے۔ آپ چاہیں تو اسے دعوت توحید بھی کہہ سکتے ہیں، کیوں کہ اس میں ایک طرف شرک اور اس کی بنیاد پر تعمیر ہونے والے پورے نظام حیات کا رد و انکار ہے اور دوسری طرف یہ ثابت کیا گیا ہے کہ بندگی کے لائق صرف اللہ تعالٰی کی ذات ہے، اس کے سوا کوئی ایسی ہستی نہیں ہے جس کی عبادت کی جائے اور جسے انسان اپنا معبود اور حاکم سمجھے۔ اگر انسان اللہ کی بندگی سے بغاوت کردے تو دنیا و آخرت میں اسے تباہی سے کوئی چیز بچا نہیں سکتی۔


دعوت و تبلیغ کے لیے قرآن نے انذار، تبشیر، ابلاغ، تذکیر وغیرہ اصطلاحات بھی استعمال کی ہیں۔ ان اصطلاحات میں اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر میں دعوت و تبلیغ کی حد تک کوئی فرق نہیں ہے۔ مثال کے طور پر انذار کو لیجیے۔ یہ اصطلاح قرآن نے پیغمبروں کے دعوتی کام کے سلسلے میں بہ کثرت استعمال کی ہے۔ رسول اکرم ﷺ کو بار بار تذکیر و انذار پر مبعوث کیا گیا ہے۔ آپ ﷺ پر دوسری یا تیسری وحی کا آغاز ان الفاظ سے ہوا:


يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ ۙ قُمْ فَأَنْذِرْ

(المدثر: ۱-۲)

اے چادر میں لپٹنے والے! اٹھو اور (لوگوں کو) انذار کرو (یعنی ڈراؤ)۔



ایک جگہ تو کہا گیا:


إِنَّمَا أَنْتَ مُنْذِرٌ ۖ وَلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ

(الرعد: ۷)

تم تو صرف انذار کرنے والے (ڈرانے والے) ہو اور ہر قوم میں ایک ہدایت کرنے والا گزرا ہے۔



انذار کے اصل معنی ہیں انسانوں کو اللہ تعالٰی سے بغاوت کے تباہ کن انجام سے باخبر کرنا۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انذار کے حکم کا منشا صرف اسی منفی عمل تک محدود ہے، بلکہ یہ منشا بہت وسیع ہے اور اس میں انسانوں کی ہدایت کا وہ پورا کام شامل ہے، جس کی ذمے داری اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے رسولوں پر عائد ہوتی ہے۔ کسی قوم کے درمیان انذار کا یہ کام انجام پاچکنے کے بعد بھی اگر وہ اللہ کی طرف نہ پلٹے تو اس پر اتمام حجت ہوجاتی ہے اور خدا کا عذاب نازل ہوجاتا ہے۔


انذار کے اس مفہوم کو سامنے رکھیے اور پھر امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور انذار کے معنوی ربط کے بارے میں امام ابن تیمیہ کے ان الفاظ پر غور کیجیے:


نفس الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر هو الإنذار.

معروف کا حکم دینا اور منکر سے منع کرنا ہے۔



اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے رسول اپنی قوموں میں انذار کا جو فرض انجام دیتے ہیں اسے امر بالمعروف و نہی عن المنکر بھی کہا جائے گا۔


یہاں ایک خاص پہلو کی وضاحت مناسب معلوم ہوتی ہے، وہ یہ کہ قرآن مجید نے انذار کے ساتھ عموماً "تبشیر" کا لفظ بھی استعمال کیا ہے، جس میں بشارت اور خوش خبری کے معنی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے رسول ایک طرف صالح عقیدہ و عمل کے نتائج بد سے ڈراتے ہیں اور دوسری طرف صحیح عقیدہ اور حسن عمل پر فوز و فلاح کی بشارت بھی دیتے ہیں۔ یہ دو طرفہ عمل وہ دلائل کے ساتھ انجام دیتے ہیں، جب کہ مخالفین کے پاس کوئی دلیل نہیں ہوتی، وہ بے دلیل انہیں شکست دینا چاہتے ہیں:


وَمَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِينَ إِلَّا مُبَشِّرِينَ وَمُنْذِرِينَ ۚ وَيُجَادِلُ الَّذِينَ كَفَرُوا بِالْبَاطِلِ لِيُدْحِضُوا بِهِ الْحَقَّ وَاتَّخَذُوا آيَاتِي وَمَا أُنْذِرُوا هُزُوًا

(الكهف : ۵۶)

رسولوں کو تو ہم بس بشارت دینے والے اور ڈرانے والے بنا کر بھیجتے ہیں۔ جن لوگوں نے کفر کی روش اختیار کی وہ باطل کے ذریعے (جھگڑا) بحث و حجت کرتے ہیں، تاکہ اس طرح حق کو شکست دے دیں۔ انہوں نے میری آیات اور جس انجام سے انہیں ڈرایا گیا اسے مذاق بنا لیا ہے۔



انذار و تبشیر کے اس عمل ہی سے مخالفین پر حجت تمام ہوتی ہے۔


تجدید دین و اصلاح امت


بات کی محتاج نہیں ہے کہ اس کو دین قبول کرنے کی دعوت دی جائے، بلکہ وہ صرف اصلاح کی محتاج ہے۔ دوسرا طبقہ امت کے ان افراد کا ہے جن کا اللہ کے دین پر ایمان تو شاید ابھی پختہ نہیں ہوا ہے، لیکن ان کے ذہنوں میں اس کی بنیادیں ضرور متزلزل ہوگئی ہیں۔ ان کو اس امت سے جوڑنے والی چیز اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت نہیں ہے، بلکہ وہ سماجی اور نسلی تعلقات ہیں جو کسی گروہ کے ساتھ رہنے کے نتیجے میں فطری طور پر پیدا ہوجاتے ہیں۔ یہ تعلقات اگر نہ ہوئے تو شاید دین و ملت سے ان کا رشتہ باقی نہ رہتا۔ اس سے بھی آگے امت میں ایسے لوگ بھی ہیں جو نہ صرف اس دین سے اختلاف رکھتے ہیں، بلکہ علانیہ اس کا مذاق اڑانے میں بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔ ظاہر ہے یہ سب لوگ دعوت دین کے اسی طرح محتاج ہیں جس طرح امت سے باہر کے لوگ اس کے حاجت مند ہیں ۔


نزول قرآن کے وقت اہل کتاب کا اعتقادی اور عملی بگاڑ امت مسلمہ کے موجودہ بگاڑ سے کہیں زیادہ تھا، ان کی اکثریت اللہ کے دین سے منحرف اور باغی ہوچکی تھی ۔ اللہ کے آخری رسول کے اعلان رسالت کے بعد اُن کے لیے نجات کا راستہ صرف یہ تھا کہ وہ آپ کی رسالت کو تسلیم کرتے اور آپ کی امت میں داخل ہوجاتے، کیوں کہ آخری رسول کے آنے کے بعد پچھلی تمام شریعتیں منسوخ ہو چکی تھیں ۔ اب انھیں اپنی شریعت پر عمل کی قطعاً اجازت نہیں تھی، اس لیے کہ جن آسمانی کتابوں پر ان کے دین کی بنیاد تھی، خود ان میں بھی صاف صاف آپ کی اتباع کا حکم چلا آ رہا تھا، لیکن انھوں نے آپ کی دشمنی میں اپنی کتابوں میں تحریف کردی، تاکہ آپ کو اللہ کا رسول اور فرستادہ نہ ماننا پڑے۔ اس کے بعد بھی وہ اپنے آپ کو اللہ کے دین کے متبع اور اس کے علمبردار ہی سمجھتے رہے، مگر حقیقت میں وہ اس سے نکل چکے تھے، البتہ ایک چھوٹا سا گروہ ان میں وہ بھی تھا جس کا رویہ اس روش عام سے مختلف تھا۔ یہ لوگ نہ صرف یہ کہ خود راہ راست پر قائم تھے، بلکہ دوسروں کی اصلاح کی کوشش بھی کر رہے تھے، وہ اپنی قوم کو رسول اکرم ﷺ کی مخالفت سے روکتے اور آپ پر ایمان لانے کی دعوت دیتے ۔ ان کے اس اصلاحی اور دعوتی کام کو قرآن نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:


وَ يَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ يَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ يُسَارِعُوْنَ فِي الْخَيْرَاتِ

وہ معروف کا حکم دیتے ہیں اور منکر سے روکتے ہیں اور نیک کاموں میں تیزی دکھاتے ہیں ۔


(آل عمران: 114 کا جزو)


اس سے جہاں یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ”امر بالمعروف و نہی عن المنکر“ منکرین حق کے درمیان کا دعوتی کام ہے۔ وہیں یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ یہ کام کبھی اپنی قوم کے اندر بھی انجام پاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ اہل کتاب کا حق پرست گروہ اپنی قوم سے باہر کسی بھی دوسرے شخص کو اللہ اور رسول ﷺ پر ایمان لانے اور ان کی اطاعت کی دعوت نہیں دے رہا تھا، بلکہ صرف یہ ہے کہ وہ اپنی قوم کے درمیان بھی دعوت کی ذمہ داری انجام دے رہا تھا۔ اسی وجہ سے مفسرین نے ان کے اس دعوتی کام کو ان کی قوم کے ساتھ مخصوص نہیں قرار دیا ہے بلکہ اسے عمومی طریقہ کار کی حیثیت سے پیش کیا ہے۔


چناں چہ سورہ آل عمران کے مذکورہ فقرے کی تشریح میں امام ابن جریر طبری فرماتے ہیں :


يَأْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْإِيْمَانِ بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِه، وَتَصْدِيْقِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَا جَاءَ بِهِ. وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ) يَقُوْلُ: وَيَنْهَوْنَ النَّاسَ عَنِ الْكُفْرِ بِاللّٰهِ، وَتَكْذِيْبِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَا جَاءَ بِهِ مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ

وہ لوگوں کو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان کا حکم دیتے ہیں اور محمد ﷺ اور آپ کے اس دین کی تصدیق کا حکم دیتے ہیں، جسے آپ کی طرف سے لائے ۔ ”منکر سے منع کرتے ہوئے“ یعنی وہ لوگوں کو اللہ کے کفر اور محمد ﷺ و دین کی تکذیب سے منع کرتے ہیں۔



جصاص کہتے ہیں:


صِفَةٌ لِّهٰؤُلَاءِ الَّذِيْنَ آمَنُوْا مِنْ أَهْلِ الْكِتٰبِ لِأَنَّهُم آمَنُوْا بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِه وَ دَعَوا النَّاسَ اِلٰى تَصْدِيْقِ النَّبِيِّ وَ الْإِنْكَارِ عَلٰى مَنْ خَالَفَه فَكَانُوْا مِمَّنْ قَالَ اللّٰهُ تَعَالٰى (كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ)

اہل کتاب میں سے جو لوگ ایمان لائے یہ ان کی صفت ہے، کیوں کہ وہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے تھے ، اور انھوں نے لوگوں کو دعوت دی تھی کہ نبی ﷺ کی تصدیق کریں اور آپ کی مخالفت کرنے والوں کی مخالفت کریں ۔ اس طرح وہ ان لوگوں میں شامل ہوگئے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ ”تم بہترین امت ہو جسے لوگوں کی اصلاح کے لیے نکالا گیا ہے۔“



امر بالمعروف و نہی عن المنکر علمی کام بھی ہے


دعوت دین بالکل سادہ کام نہیں ہے، بلکہ اس میں جہاں وعظ و نصیحت اور تذکیر و تلقین کی ضرورت پڑتی ہے، وہیں دین کو خالص علمی رنگ میں پیش کرنا اور اسے دلائل سے ثابت کرنا بھی ہوتا ہے۔ دین کی یہ علمی و استدلالی خدمت بھی امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا ایک پہلو ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ کو ”امر بالمعروف و نہی عن المنکر“ کا اس وقت حکم دیا گیا تھا جب کہ آپ مکہ میں تھے اور دین کو پوری قوت کے ساتھ دلائل کے ذریعہ پیش کیا جا رہا تھا۔ آپ دین کو قبول کرنے کی نصیحت ہی نہیں فرما رہے تھے، بلکہ ایک طرف ان اعتراضات کے جوابات بھی دے رہے تھے جو مخالفین کی طرف سے اللہ کے دین پر کیے جا رہے تھے، دوسری طرف دلائل کے ذریعے یہ ثابت فرما رہے تھے کہ یہی دین، دین حق ہے اور اسی کی اتباع میں نوع انسانی کی نجات ہے۔ یہ دلیل ہے اس بات کی کہ دین کو دلیل و برہان کے ساتھ پیش کرنا بھی امر بالمعروف کے اسی وسیع کام کا ایک حصہ ہے جس کا آپ کو حکم دیا گیا تھا۔


امام رازی فرماتے ہیں کہ مفسرین نے ”امر بالمعروف“ کی تشریح ان الفاظ میں بھی کی ہے:


(وأمر بالعرف) أي: بإظهار الدين الحق وتقرير دلائله.

”معروف کا حکم (یعنی دین حق) کی وضاحت اور اس کے دلائل کے اثبات کے ذریعے ۔



ابن العربی مالکی کہتے ہیں کہ دین کو علمی رنگ میں پیش کرنا اور اسے دلائل سے ثابت کرنا ”امر بالمعروف و نہی عن المنکر“ میں داخل ہے۔ ان کے الفاظ ہیں:


وَ مِنَ الْأَمْرِ بِالْمَعْرُوْفِ وَ النَّهْيِ عَنِ الْمُنْكَرِ نُصْرَةُ الدِّيْنِ بِإِقَامَةِ الحُجَّةِ عَلَى الْمُخَالِفِيْنَ

یہ بات بھی امر بالمعروف و نہی عن المنکر میں شامل ہے کہ مخالفین پر حجت قائم کرکے دین کی مدد کی جائے ۔



حقیقت یہ ہے کہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر میں دعوت دین کی پوری جدوجہد شامل ہے۔ اس کا فطری اور لازمی تقاضا ہے کہ دنیا کو اللہ کے دین کی طرف بلایا جائے، شرک و کفر سے، رسالت کی تکذیب سے اور قانون شریعت کی مخالفت سے روکا جائے ۔ اس بات کو دلائل سے ثابت کیا جائے کہ اللہ کا دین ہی دین حق ہے اور اسی میں نوع انسانی کی نجات ہے اور پھر اس دین کو فروغ دینے اور پھیلانے کی ہر ممکن کوشش کی جائے۔ خوش نصیب وہ ہیں جو اس کام میں لگے ہوئے ہیں اور بد نصیب وہ ہیں جو اس کو اس طرح چھوڑے ہوئے ہیں جیسے یہ ان پر فرض ہی نہیں ہے اور جیسے اللہ کی کتاب اس حکم ہی سے خالی ہے ۔


جہاد فی سبیل اللہ


جہاد فی سبیل اللہ کا مفہوم


”جہاد فی سبیل اللہ“ شریعت کی ایک مخصوص اصطلاح ہے۔ اس کا مطلب ہے اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی پوری قوت صرف کر دینا ۔ اللہ کا دین چاہتا ہے کہ انسان اس کے لیے اپنی جان، اپنا مال، اپنے تعلقات، اپنی خواہشات، اپنا چین و آرام ، سب کچھ قربان کردے ۔ اس کے بغیر صحیح معنی میں دین کی اتباع ہو سکتی ہے اور نہ اس کی خدمت ۔ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے :


وَجَاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهَادِهِ ۚ

(الحج:۷۸)

اللہ کی راہ میں جہاد کرو، جیسا کہ جہاد کرنے کا حق ہے ۔



امر بالمعروف و نہی عن المنکر جہاد فی سبیل اللہ ہے


جہاد فی سبیل اللہ اپنے اندر بہت وسیع مفہوم رکھتا ہے ۔ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا پورا کام جہاد ہے ۔ انسان جس معروف کو بھی قائم کرنے اور جس منکر کو بھی مٹانے کی کوشش کرتا ہے وہ حقیقت میں اللہ کی راہ میں جہاد کرتا ہے۔


علامہ ابن عابدین جہاد کے بارے میں فرماتے ہیں :


هذا عام، يشمل المجاهدَ بكل أمرٍ بمعروف ونهيٍ عن المنكر.

جہاد عام ہے، جو کسی بھی معروف کا حکم دینے اور کسی بھی منکر سے روکنے کے لیے کوشش کرنے والے فرد کو شامل ہے۔



جہاد فی سبیل اللہ کی ایک خاص شکل یہ ہے کہ طاقت کے ذریعے اللہ کے دین کو غالب و سربلند کیا جائے، دنیا کو فتنہ و فساد سے پاک کیا جائے اور اللہ کے بندوں کے لیے ایسے حالات فراہم کیے جائیں کہ وہ سکون اور اطمینان کے ساتھ اس کی عبادت و اطاعت کر سکیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ بعض اوقات اللہ کی زمین کو فتنہ و فساد سے پاک کرنے اور حق و صداقت کو سربلند کرنے کے لیے طاقت کا استعمال ناگزیر ہو جاتا ہے ۔ جب دنیا عدل و انصاف کی پیاسی ہو، جب انسان اپنے ہی جیسے انسانوں کے لیے درندہ بن جائے، جب قومیں اور نسلیں ظلم و زیادتی سے کراہ رہی ہوں اور جب اللہ کے بندے محض اس وجہ سے ستائے جائیں کہ وہ اس کو یاد کر رہے ہیں اور اس کی مرضی کے مطابق زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں، اس وقت ان لوگوں کا خاموش رہنا، جو اس ظلم کو مٹا سکتے ہوں، بہت بڑا جرم ہے۔


اللہ کی راہ میں جنگ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی ایک فرع ہے


رسول اکرم ﷺ اور آپ کے صحابہ جب تک مکہ میں تھے، اس حیثیت میں نہیں تھے کہ اللہ کی زمین سے باطل کو مٹاتے اور دین حق کو قائم و غالب کرتے ۔ کیوں کہ وہ خود مظلوم تھے، کم زور اور بے بس تھے۔ ان پر اس درجہ زیادتی ہو رہی تھی کہ وہ اللہ کے دین پر عمل کر رہے ہیں اور دوسروں کو اس کی دعوت دے رہے ہیں ۔ یہ ظلم جب اپنی آخری حد کو پہنچ گیا تو آپ کو اور آپ کے صحابہ کو مدینہ ہجرت کرنی پڑی ۔ ہجرت کے بعد مظلومیت کا دور ختم ہوا اور آپ کو اتنی طاقت حاصل ہوئی کہ اللہ کی زمین سے بد زور ظلم و زیادتی کو مٹا کر اس کی طرف سے بھیجا ہوا نظام عدل و قسط قائم کریں ۔ اس وقت آپ کو طاقت کے ذریعے جہاد کا حکم دیا گیا ۔ اس کام کے لیے قرآن نے ”قتال فی سبیل اللہ“ کی اصطلاح بھی استعمال کی ہے، یعنی ایسی جنگ جو صرف اللہ کو خوش کرنے اور اس کے دین کو غالب کرنے کے لیے لڑی جائے ۔ یہ جنگ ”امر بالمعروف و نہی عن المنکر“ کے وسیع کام کا ایک جزء ہے۔ اس کا صریح حکم کو مدینہ میں دیا گیا، لیکن اس کی بنیاد کی تعلیمات مکہ میں رکھی گئیں اور ہجرت کے بعد مدینہ میں اس کا حکم صادر ہوا ۔


چناں چہ علامہ شاطبی اپنی کتاب الموافقات فی اصول الشریعۃ میں فرماتے ہیں:


الْجِهَادُ الَّذِى شُرِعَ بِالْمَدِينَةِ فَرْعٌ مِّنْ فُرُوْعِ الْأَمْرِ بِالْمَعْرُوْفِ وَ النَّهْيِ عَنِ الْمُنْكَرِ وَهُوَ مُقَرَّرٌ بِمَكَّةَ

جہاد، جو مدینہ میں شروع ہوا ، امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی فروع میں سے ایک فرع ہے اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا حکم مکہ ہی میں صادر ہو چکا تھا ۔



اس کتاب کے شارح اور تعلیق نگار شیخ عبد العزیز کہتے ہیں :


بَلْ هُوَ اَعْلٰى فُرُوْعِه

بلکہ جہاد فی سبیل اللہ ”امر بالمعروف و نہی عن المنکر“ کی فروع میں سب سے اعلیٰ فرع ہے۔



اہل علم کی تصریحات


اس جہاد کے کچھ خاص حدود و شرائط ہیں، جن کے بغیر اس کی قطعاً اجازت نہیں ہے۔ یہاں ان حدود و شرائط سے بحث نہیں ہے۔ اس وقت صرف یہ عرض کرنا ہے کہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر میں جس طرح دین کی دعوت اور اس کی تبلیغ شامل ہے، ٹھیک اسی طرح دین کی حفاظت اور اس کے غلبہ و سربلندی کے لیے ان لوگوں سے جنگ کرنا بھی شامل ہے، جو اس کو مٹانا اور تباہ کرنا چاہتے ہیں۔ یہاں بعض مستند اہل علم کی تصریحات پیش کی جا رہی ہیں، جن سے اس دعوے کی تائید ہوتی ہے۔


حضرت عبد اللہ بن عباس فرماتے ہیں :


كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخرِجَتْ لِلنَّاسِ، يَقُولُ: تَأْمُرُوْنَهُم بِالْمَعْرُوْفِ؛ أَنْ يَشْهَدُوْا أَنْ لَّا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ، وَيُقِرُّوْا بِمَا أَنزَلَ اللّٰهُ، وَيُقَاتِلُوْنَهُم عَلَيْه. وَلَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ هُوَ أَعْظَمُ الْمَعْرُوْفِ. وَتَنْهَوْنَهُم عَنِ الْمُنْكَرِ، وَالْمُنْكَرُ هُوَ التَّكْذِيْبُ، وَهُوَ أَكْبَرُ الْمُنْكَرِ.

”تم بہترین امت ہو جسے لوگوں کے لیے نکالا گیا ہے۔“ اللّٰه تَعَالٰى کہتا ہے : ”تم ان کو معروف کا حکم دیتے ہو، یعنی اس بات کا گواہی دیں کہ سوائے خدا کے کوئی معبود نہیں ہے اور اقرار کریں کہ جو دین اس نے نازل کیا ہے وہ حق ہے۔ اور اس بنیاد پر تم ان سے جہاد کرتے ہو ۔ کیوں کہ سب سے بڑا معروف لا الہ الا اللہ ہے۔ تم ان کو منکر سے (یعنی اللہ کی تکذیب سے) منع کرتے ہو اور اللہ کی تکذیب سب سے بڑا منکر ہے۔



امام رازی ہمارے علم کلام کی ایک اہم شخصیت ہیں۔ وہ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کی تائید میں کہتے ہیں:


تَفْضِيْلُهُم عَلَى الْأُمَمِ الَّذِيْنَ كَانُوْا قَبْلَهُم إِنَّمَا حَصَلَ لِأَجْلِ أَنَّهُم يَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ بِأَقْوَى الْوُجُوهِ وَهُوَ الْقِتَالُ؛ لِأَنَّ الْأَمْرَ بِالْمَعْرُوْفِ قَدْ يَكُوْنُ بِالْقَلْبِ وَ بِاللِّسَانِ وَ بِالْيَدِ، وَأَقْوَاهَا مَا يَكُوْنُ بِالْقِتَالِ؛ لِأَنَّهُ إِلْقَاءُ النَّفْسِ فِي خَطَرِ الْقَتْلِ. وَأَعْظَمُ الْمَعْرُوْفَاتِ الدِّينِ الْحَقُّ وَالْإِيمَانِ وَالتَّوْحِيدِ وَالنُّبُوَّةِ. وَأَنْكَرُ الْمُنكَرَاتِ الْكُفْرُ بِاللّٰهِ. فَكَانَ الْجِهَادُ فِى الدِّينِ تَحَمُّلَ إِبْعَادِ الْمَضَارِّ لِغَرَضِ إِيْصَالِ الْخَيْرَاتِ، أَعْظَمِ الْمَنَافِعِ، وَتَ

 امت مسلمہ کی فضیلت کی وجہ یہ ہے کہ وہ معروف کا حکم دیتے اور منکر سے روکنے کا کام سب سے اہم اور اعلیٰ طریقے سے انجام دیتی ہے یعنی جہاد و قتال کے ذریعے۔ کیوں کہ امر بالمعروف کبھی دل سے، کبھی زبان سے اور کبھی ہاتھ سے ہوتا ہے اور ان میں سب سے مضبوط طریقہ قتال ہے۔ کیوں کہ اس میں انسان کو قتل کے خطرے میں اپنی جان ڈالنا پڑتا ہے۔ سب سے بڑا معروف دین حق اور توحید و نبوت پر ایمان ہے اور سب سے بڑا منکر اللہ کا انکار ہے۔ پس دین کی راہ میں جہاد کا مطلب یہ ہوا کہ انسان دوسروں کو سب سے بڑا فائدہ پہنچانے اور سب سے بڑے نقصان سے بچانے کے لیے اپنے آپ کو سب سے بڑے نقصان اور سب سے بڑے مضار سے بچانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس لیے لازم آیا کہ جہاد عبادت میں سب سے بڑا عبادت ہے۔ اور جب ہمارے شریعت میں جہاد کا کام دوسری شریعتوں کے مقابلے میں زیادہ اونچا اور نمایاں ہے تو اس لیے وہ امت مسلمہ کی فضیلت کا سبب ہوگیا ۔ اور یہی مطلب ہے حضرت عبد اللہ بن عباس کے قول کا (جو اوپر نقل کیا گیا ہے)۔

امام رازی یہ فرماتے ہیں:

اِنَّ هٰذِهِ الْأُمَّةَ خَيْرُ الْأُمَمِ لِلنَّاسِ فَهُم اَنفَعُهُم لَهُم وَ اَعْظَمُهُم اِحْسَاناً اِلَيْهِم لِاَنَّهُم كَمَلُوْا اَمَرَ النَّاسِ بِالْمَعْرُوْفِ وَ نَهْيِهِم عَنِ الْمُنْكَرِ جِهَةَ الصِّفَةِ وَ الْقَدَرِ حَيْثُ اَمَرُوْا بِكُلِّ مَعْرُوْفٍ وَ نَهَوَا عَنِ الْمُنكَرِ لِكُلِّ اَحَدٍ وَ اَقَامُوْا ذٰلِكَ بِالْجِهَادِ فِي سَبِيلِ اللّٰهِ بِأَنفُسِهِم وَ اَمْوَالِهِم

اللہ تعالیٰ نے یہ بات واضح کردی کہ امت مسلمہ انسانوں کے حق میں بہترین امت ہے۔ پس وہ انھیں سب سے زیادہ نفع پہنچانے والی ہے ، اور اس کا احسان ان پر سب سے بڑا ہے کیوں کہ اس نے لوگوں پر امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی حیثیت اور مقدار دونوں پہلوؤں سے تکمیل کردی ۔ اس لیے کہ اس نے معروف کا حکم دیا اور ہر ایک منکر سے منع کیا اور جان و مال سے اللہ کی راہ میں جہاد کرکے اس فرض کو انجام دیا اور یہ اللہ کی مخلوق کو فائدہ پہنچانے کی آخری حد ہے۔

الجامع لاحکام القرآن المجلد الثانی، الجزء ۴ ص ۳۱

آگے چل کر اسی بحث کے ذیل میں فرماتے ہیں:

فَمَعْلُوْمٌ اَنَّ الْأَمْرَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ النَّهْيِ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ اَتَمَامُه بِالْجِهَادِ هُوَ مِنَ اَعْظَمِ الْمَعْرُوْفِ الَّذِي اَمَرَنَا بِه

یہ بات سب جانتے ہیں کہ معروف کا حکم دینا اور منکر سے منع کرنا اور جہاد کے ذریعہ اس کی تکمیل کرنا ان سب سے بڑے معروفات میں سے ہے جن کا ہمیں حکم دیا گیا ہے ۔

ا لجامع لبیان فی تفسیر القرآن : ۳/ ۲۷

ایک اور موقعے پر امام رازی یہ فرماتے ہیں:

اِنَّ اللّٰهَ اَمَرَ الْمُؤْمِنِينَ بِالْإِيمَانِ وَ الْعَمَلِ الصَّالِحِ وَ اَمَرَهُم بِدَعْوَةِ النَّاسِ وَ جِهَادِهِم عَلٰى الْإِيْمَانِ وَ الْعَمَلِ الصَّالِحِ كَمَا قَالَ تَعَالٰى وَ لَيَنصُرَنَّ اللّٰهُ مَن يَّنصُرُه اِنَّ اللّٰهَ لَقَوِيٌّ عَزِيْزٌ o الَّذِيْنَ اِن مَّكَّنّٰهُم فِي الْأَرْضِ اَقَامُوْا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوْا الزَّكٰوةَ وَ اَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَ نَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ وَلِلّٰهِ عَاقِبَةُ الْأُمُوْرِ

اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو ایمان اور عمل صالح کا حکم دیا ہے ۔ ساتھ ہی انھیں اس بات کا بھی حکم دیا ہے کہ وہ لوگوں کو ایمان اور عمل صالح کی دعوت دیں اور اس کے لیے ان سے جہاد کریں ، جیسا کہ اس نے فرمایا ہے کہ ”اللہ اس کی مدد کرتا ہے جو اس (اس کے دین کی) کی مدد کرتا ہے۔“ یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم انھیں زمین میں اقتدار عطا کریں تو وہ نماز قائم کریں گے ، زکوٰۃ دیں گے ، معروف کا حکم دیں گے اور منکر سے روکیں گے اور تمام معاملات کا انجام اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔“

البحر المحیط، المجلد الثامن ، الجزء ۱۹ ص ۱۲۳

امام رازی نے اپنے دعویٰ کے استدلال میں سورہ حج کی جو آیات پیش کی ہیں وہ اس کام کو ظاہر کرتی ہیں، جو امت مسلمہ اقتدار پر آنے کے بعد انجام دیتی ہے۔ اس کی تشریح آئندہ باب میں آئے گی۔ یہاں صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر میں دعوت دین کی طرح جہاد بھی شامل ہے۔

علامہ ابن جریر طبری فرماتے ہیں:

وَلْتَكُن مِّنكُم اُمَّةٌ ... وَيَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ یَقُوْلُ يَأْمُرُوْنَ النَّاسِ بِاتِّبَاعِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ سَلَّمَ وَدِيْنِهِ الَّذِي جَاءَ بِهِ مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ یَقُوْلُ وينهون عن الكفر باللّٰه و التَّكْذِيبِ بِمُحَمَّدٍ وَبِمَا جَاءَ بِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ بِجِهَادِهِمْ بِالْأَيْدِي وَ الْجَوَارِحِ حَتَّىٰ يَنْقَادُوا لَكُمْ بِالطَّاعَةِ

”تم میں ایک گروہ ضرور ایسا ہونا چاہیے ... جومعروف کا حکم دے یعنی جو لوگوں کو محمَّد ﷺ اور اللہ کی طرف سے آپؐ کے لائے ہوئے دین کی اتباع کا حکم دے اور منکر سے منع کرے۔ یعنی اپنے دست و بازو سے جہاد کے ذریعے اللہ کے انکار اور محمَّد صلی اللہ علیہ وسلّم اور آپؐ کے لائے ہوئے دین کی تکذیب سے روکے۔ یہاں تک کہ وہ تمھارے مطیع ہوجائیں اور اطاعت قبول کریں ۔

ا لجامع لبیان فی تفسیر القرآن : ۳/ ۲۷

علامہ قرطبی فرماتے ہیں:

إن أحسن أوصاف المؤمن الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر و رأسها الدِّعَاءُ إِلَى الْإِسْلَامِ والقتال علیه

امر بالمعروف و نهی عن المنکر مومن کا سب سے مخصوص وصف ہے۔ اور اس کام کی مختلف شکلوں میں اسلام کی طرف دعوت دینا اور اس کے لیے جنگ کرنا سرفہرست ہے۔

الجامع لاحکام القرآن المجلد الثانی، الجزء ۴ ص ۳۱

امام رازی فرماتے ہیں:

رأس المعروف الإيمان باللّٰه و رأس المنكر الكفر بالله والجهاد يوجب الترغيب في الإيمان و الزجر عن الكفر والجهاد داخل فی باب الامر بالمعروف والنهي عن المنكر'

سب سے بڑا معروف اللہ پر ایمان اور سب سے بڑا منکر اللہ کا انکار ہے۔ جہاد لازماً ایمان کی ترغیب کا اور کفر سے باز رکھنے کا ذریعہ بنتا ہے اور یہ جہاد امر بالمعروف و نهی عن المنکر کے اندر شامل ہے۔

تفسیر کبیر (الجامع لاحکام القرآن المجلد الثانی، الجزء ۴ ص ۳۱، الجامع لبیان فی تفسیر القرآن : ۳/ ۲۷، البحر المحیط، المجلد الثامن ، الجزء ۱۹ ص ۱۲۳)

شمس الائمہ سرخسی فرماتے ہیں:

و قد سمى رسول الله الجهاد سنام الدين وفيه امر بالمعروف و نهی عن المنكر وهو صفة هذه الأمة و فيه تعرض لأعلى الدرجات و هو الشهادة

رسول اللہ نے جہاد کو دین کی چوٹی کہا ہے۔ جہاد میں معروف کا حکم دینا اور منکر سے منع کرنا ہوتا ہے اور یہ اس امت کی صفت ہے۔ پھر جہاد میں فلاح و سعادت کی سب سے اونچے درجے یعنی شہادت کے لیے بھی انسان اپنے کو پیش کرتا ہے۔

شرح السیر الكبير : ۱/ ۱۸ ، ۱۹ ، ۲۰

شاہ ولی اللہ کا نقطۂ نظر

حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے نزدیک اس امت کے خیر امت ہونے اور لوگوں کے لیے اس کے نکالے جانے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے رسول محمّد ﷺ جس مقصد کے لیے دنیا میں آئے تھے اس کی تبلیغ و اشاعت کے لیے یہ امت سارے عالم میں پھیل جائے گی اور اللہ کی راہ میں جہاد کرے گی۔ چناں چہ اس موضوع پر بحث کرتے ہوئے کہ رسول اکرم ﷺ کے ذریعے دنیا کو ایک ایسا جامع اور مکمل دین ملا جس نے پچھلے تمام دینوں کو منسوخ کر دیا ، شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ اس دین کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ مختلف قومیں مذہب کی بنیاد پر برسرپیکار تھیں، مذہب کی حقیقت گم ہو چکی تھی اور صرف چند مراسم رہ گئے تھے :

مَعَتُ الْحَاجَةُ إِلَىٰ إِمَامٍ رَاشِدٍ بِعَامِلِ الْمِلَّةِ الْخَلِيفَةِ الرَّاشِدِ مَعَ الْمُلُوكِ الْجَائِرَةِ ۔۔۔۔۔ وَهٰذَا الْإِمَامُ الَّذِي يَجْمَعُ الْاُمَمَ عَلَىٰ مِلَّةٍ وَاحِدَةٍ يَحْتَاجُ إِلَىٰ أُصُولٍ ۔۔۔۔۔ مِنْهَا أَنْ يَدْعُوَ قَوْماً أَلَىٰ السُّنَّةِ الرَّاشِدَةِ وَيَرْحَمُهُمْ وَيُصْلِحُ شَأْنَهُمْ، ثُمَّ يَتَّخِذُهُمْ بِمَنْزِلَةِ جَوَارِحِهِ فَيُجَاهِدُ أَهْلَ الْأَرْضِ وَيُفَرِّقُهُمْ فِي الْآفَاقِ وَهُوَ قَوْلُهُ تَعَالَىٰ كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ

(اس لیے) ایک ایسے صالح رہ نما کی حاجت پیش آئی جو مختلف قوموں کے ساتھ اس طرح مُعَامَلَہ کرتا ہے... تمام قوموں کو ایک دین پر جمع کرنے والا یہ راہ نما چند اصولی باتوں کا ضرورت مند ہوگا.. ان میں سے ایک یہ ہے کہ وہ پہلے کسی ایک گروہ کو راہ راست کی طرف دعوت دے، اس کا تزکیہ کرے اور اس کے حالات کو سنوارے، پھر اسے اپنا دست و بازو بنائے اور اس کی مدد سے اہل دنیا سے جنگ کرے اور اطراف عالم میں اسے (اس پاک مقصود کے لیے) پھیلادے۔ یہی مدعا ہے اللہ تعالٰی کے ارشاد کا کہ تم خیر امت ہو جسے لوگوں کے لیے نکالا گیا ہے۔

حجة الله البالغة : ۲۲۰/۱ - ۲۲۲

اس کے بعد شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ آخری دین جب نازل ہوا تو روم و ایران کی سلطنتیں متمدن دنیا پر چھائی ہوئی تھیں اور وقت کے افکار و خیالات اور تہذیب و تمدن پر ان ہی کا قبضہ تھا۔ اس لیے ضروری ہوا کہ ان دونوں سلطنتوں کو ختم کردیا جائے، تاکہ ان کی جگہ دین حق کی حکومت قائم ہو سکے :

لَمَّا أَرَادَ اللَّهُ تَعَالَىٰ إِقَامَةَ الْمِلَّةِ الْعَوْجَاءِ وَأَنْ يُخْرِجَ لِلنَّاسِ أمَةَ تَأْمُرُهُم بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْهَاهُم عَنِ الْمُنكَرِ وَ تَغَيِّرُ رُسُومَهُم الْفَاسِدَةَ كَانَ ذٰلِكَ مَوْقُوفًا عَلَىٰ زَوَالِ دَوْلَةِ هٰذَيْنِ مَيْسَرٍ بِالتَّعَرُّضِ لِحَالِهِمَا ، فَإِنَّ حَالَهُمَا يُسْرَىٰ فِيٰ عَرَضِ جَمِيعِ الْأَقَالِيمِ الصَّالِحَةِ وَ يَكَادُ يَسْرَىٰ، فَقَضَىٰ اللَّهُ بِزَوَالِ دَوْلَتِهِمَا وَ أَخْبَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَانِ هَلَكَ كِسْرَىٰ فَلَا كِسْرَىٰ بَرَبِّكَ بَعْدَهُ وَ هَلَكَ قَيْصَرُ فَلَا قَيْصَرَ بَعْدَهُ و نَزَلَ الْحَقُّ الدَّامِغُ لِبَاطِلِ جَمِيعِ الْأَرْضِ فِيٰ دَمْغِ بَاطِلِ الْعَرَبِ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَ اَصْحَابِهِ وَ دَمْغِ بَاطِلِ هٰذَيْنِ الْمَلَكَيْنِ بِالْعَرَبِ وَ دَمْغِ سَائِرِ الْبِلَادِ وَهِيَ بِمُلْهَمِهِمَا وَ لِلَّهِ الْحُجَّةُ الْبَالِغَةُ

اللہ تعالٰی نے جب ارادہ کیا کہ بگڑے ہوئے دین کو ٹھیک کرے اور ایک ایسی امت کو وجود میں لائے جو انسانوں کو معروف کا حکم دے اور منکر سے منع کرے اور ان کے بگڑے ہوئے رسم و رواج کو مٹادے۔ تو یہ کام روم وایران کی سلطنتوں کے زوال پر موقوف تھا اور ان کے حالات کو درست کیا جائے بغیر جنگ کیے ممکن نہ تھا۔ اس لیے اللہ نے ان دونوں سلطنتوں کے زوال کا فیصلہ کر دیا اور نبی ﷺ نے بطور مبشر اعلان فرمایا کہ کسریٰ ہلاک ہوگا، اب بعد کوئی کسریٰ پیدا نہ ہوگا اور قیصر ہلاک ہوگا، اب کوئی قیصر پیدا نہ ہوگا، اور وہ حق نازل ہوا جو تمام روئے زمین کے باطل کا سر توڑ دینے والا تھا۔ اس کی صورت یہ ہوئی کہ پہلے نبی ﷺ اور آپؐ کے صحابہؓ نے عرب کے باطل کو توڑا، پھر عرب نے ان دونوں سلطنتوں کے باطل کو ختم کیا اور آخر میں ان کو اُن کے ذریعہ سے تمام ممالک کے باطل کا سرمحل کردیا گیا اور حقیقت تو وہیں حجت اللہ بالغہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔

حجة الله البالغة : ۲۲۰/۱ - ۲۲۲

حقیقت یہ ہے کہ یہ امت اللہ کا کلمہ بلند کرنے اٹھی ہے۔ اس کام کا مقصد ہے دنیا سے نظام باطل کو مٹا کر روئے زمین پر اللہ تعالٰی کی حکومت قائم کرنا۔ وہ اپنی ذمے داری سے اس وقت سبک دوش ہوسکتی ہے جب کہ وہ اس راہ میں اپنی پوری قوت صرف کردے، اپنا تمام فکری و عملی سرمایہ کھپا دے اور اپنے جان و مال کی بازی لگا دے۔ اسی کام کا نام قرآن و حدیث کی زبان میں جہاد رکھا گیا ہے اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر بھی یہی ہے۔

اسلامی ریاست

امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے لیے اقتدار کی ضرورت

اللہ تعالٰی نے سورۂ آل عمران میں امت مسلمہ کو دعوت الی الخیر اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا حکم دینے کے فوراً ہی بعد فرمایا ہے :

وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَ اخْتَلَفُوا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْبَيِّنَاتُ أُولَٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ

(آل عمران: ۱۰۵)

ان لوگوں کے مانند نہ ہو جاؤ جو فرقوں میں بٹ گئے اور اپنے پاس کھلی ہوئی ہدایات آنے کے بعد (بھی) اختلافات میں پڑ گئے۔ یہ وہ ہیں جن کے لیے بڑا عذاب ہے۔

یہ بڑی قابل غور بات ہے کہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے ساتھ ہی تفرق و اختلاف سے کیوں منع کیا گیا ہے؟ اس کی بہت سی وجہیں ہوسکتی ہیں، لیکن جو سب سے بڑی اور نمایاں وجہ ہے، وہ یہ ہے کہ 'امر بالمعروف و نہی عن المنکر' کا فرض، جس طرح دعوت و تبلیغ کا تقاضا کرتا ہے اسی طرح وہ اقتدار و حکومت بھی چاہتا ہے اور اقتدار وحکومت تک رسائی کے لیے اتحاد و اتفاق انتہائی ضروری ہے۔ کیوں کہ جس قوم میں اختلاف و انتشار ہو وہ اللہ کی زمین پر اقتدار کی مستحق نہیں رہتی اور اس پر حکومت مسلط ہو جاتی ہے، اس کو دوسروں کی غلامی قبول کرنی پڑتی ہے اور وہ اپنی مرضی کا سیاسی نظام قائم کرنے اور اس پر عمل کرنے کے حق سے محروم ہو جاتی ہے۔ یہی حقیقت اس آیت میں مسلمانوں کو سمجھائی گئی ہے۔ اس میں ان کو بتایا گیا ہے کہ سیاسی سطح پر 'امر بالمعروف و نہی عن المنکر ' کا فرض انجام دینا تمہارے لیے اس وقت ممکن ہوگا جب کہ تمھاری صفوں میں اتحاد ہو اور الفت و محبت نے تمھیں جسد واحد بنا دیا ہو۔ اس کے برعکس تم نے اپنا اتحاد و اتفاق کھو دیا تو تمھاری سیاسی قوت پارہ پارہ ہو جائے گی اور اقتدار تمھارے ہاتھ سے لازماً چھن جائے گا۔ اس کے بعد ہو سکتا ہے کہ تم معروف کی اتباع اور منکر سے اجتناب کی نصیحت تو کرتے رہو، لیکن معروف کا قانونی نفاذ اور منکر کی سیاسی بندش تمھارے لیے ناممکن ہو جائے گی۔

امام رازی نے اس آیت کو دو ذریعہ بیان کیے ہیں۔ ایک یہ کہ اس کا تعلق پورے سلسلہ کلام سے ہے۔ اور دوسرا یہ کہ وہ خاص امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے حکم سے متعلق ہے۔ علامہ رشید رضا نے پہلے کو پسند کیا ہے۔ لیکن دوسرے کو پہلے پر ترجیح دی ہے۔ یہاں اسی دوسرے ربط کو امام رازی ہی کے الفاظ میں پیش کیا جا رہا ہے :

انه تعالى لما امر بالمعروف و النهى عن المنكر و ذلك مما لا يتم إلا إذا كان الأمر بالمعروف قادرا على تنفيذ هذا التكليف على الظلمة و المتغالبين ولا تحصل هذه القدرة الا اذا حصلت اللمة والشجية بين اهل الحق و الدین لا جرم حذرهم تعالى من الفرقة و الاختلاف لكي لا يصير ذلك سبباً لعجزهم عن القيام بهذا التكليف

اللہ تعالٰی نے امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا جو حکم دیا ہے اس کی تکمیل اسی وقت ہوسکتی ہے جب کہ امر بالمعروف کے فرض کا انجام دینے والا ظالموں اور حد سے بڑھنے والوں کے خلاف اپنے اس فریضے کی انجام دہی کی قدرت رکھتا ہو اور یہ قدرت اسی وقت حاصل ہو سکتی ہے جب کہ حق پرستوں اور دین والوں کے درمیان الفت و محبت ہو، اس لیے اللہ نے ان کو اختلاف سے منع کیا تاکہ وہ امر بالمعروف کے فرض کی انجام دہی سے عاجز نہ ہو جائیں۔

تفسیر القرآن العظيم ( المنار ):۴/ ۲۸، مفاتيح الغيب، المجلد الرابع ، الجزء ۸ ص ۱۴۲، غرائب القرآن و رغائب الفرقان :۴/ ۳۴

علامہ نظام الدین نیشاپوری نے بھی 'امر بالمعروف و نہی عن المنکر' کے حکم اور اس آیت کے درمیان یہی ربط بیان کیا ہے۔ ان دونوں آیتوں کے ربط سے قطع نظر، بقول امام تیمیہ 'خود امر بالمعروف میں یہ بات شامل ہے کہ امت کے اندر اتحاد پیدا کرنے اور اسے اختلاف و انتشار سے بچانے کی کوشش کی جائے۔ چناں چہ فرماتے ہیں :

من الأمر بالمعروف الأمر بالاتفاق و الاجتماع و النهى عن الفرقة

امر بالمعروف میں اتحاد اور اجتماع کا حکم دیا جائے اور افتراق سے منع کیا جائے۔

مجموعہ الرسائل الکبری، الرسالہ السیاسۃ، الوصيۃ الکبری : ۱/ ۴۰۹

حقیقت یہ ہے کہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا آخری حد تک انجام دینے کے لیے قوت اور اقتدار بالکل ناگزیر ہے اور اقتدار اتحاد کے بغیر نہ حاصل ہوتا ہے اور نہ باقی رہتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ 'امر بالمعروف و نہی عن المنکر' کار دعوت ہی نہیں، بلکہ سیاسی عمل بھی ہے۔ اس سے زیادہ صحیح تعبیر شاید یہ ہوگی کہ 'امر بالمعروف و نہی عن المنکر دعوت بھی ہے اور سیاست بھی۔ گزشتہ صفحات میں اس کے دعوتی پہلو کی تشریح گزرچکی ہے۔ یہاں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے سیاسی رخ سے بحث پیش نظر ہے۔

اسلامی ریاست کا منشور (Manifesto)

اللہ تعالٰی نے اس امت کے سب سے پہلے اور سب سے اونچے طبقے کے بارے میں صراحت کی ہے کہ زمین میں اقتدار پانے کے بعد وہ معروف کا حکم دیں گے اور منکر سے روکیں گے۔ اور جن اصول و نظریات پر ان کا ایمان ہے ان کو انسانوں کے درمیان نافذ کریں گے۔ ایسا نہیں ہوگا کہ اقتدار ملنے سے پہلے جس دین کی دعوت دے رہے تھے، اقتدار کے ملنے کے بعد وہ اسے بھلا دیں اور اپنی خواہشات کی تکمیل میں لگ جائیں۔ چناں چہ سورۂ حج کی آیت میں یوں آیت دیکھنے کہ صحابہ کرام کو اقتدار و حکومت عطا کرنے سے پہلے ہی اللہ تعالٰی فرماتا ہے :

الَّذِينَ إِنْ مَّكَّنّٰهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتَوُا الزَّكٰوةَ وَ اَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَ نَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ وَ لِلّٰهِ عَاقِبَةُ الْاُمُوْرِ

(الحج: ۴۱)

یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم انھیں زمین پر اقتدار عطا کریں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، معروف کا حکم دیں گے، منکر سے روکیں گے اور تمام معاملات کا انجام اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے!

اس میں اس کار سیاسی کو ظاہر کیا گیا ہے جو امت مسلمہ اقتدار پانے کے بعد انجام دیتی ہے۔ اس سے آپ جان سکتے ہیں کہ اسلامی حکومت کس مقصد کے لیے وجود میں آتی ہے؟ اس کا مزاج کیا ہوتا ہے؟ اس کے اعمال کس قسم کے ہوتے ہیں؟ اور وہ اپنے تمام وسائل و ذرائع کس راہ میں لگاتی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ قرآن کی یہ مختصر سی آیت بہت ہی واضح الفاظ میں اہل ایمان کے ہاتھوں قائم ہونے والی حکومت کے بنیادی فرائض کا اعلان ہے۔ اسی حقیقت کے بیان کے لیے حافظ ابو البرکات نسفی اور بعض دوسرے مفسرین نے یہ تعبیر اختیار کی ہے :

ھو اخبار من اللّٰه عما سيكون عليه سيرة المهاجرين ان مكنهم في الارض و بسط لهم في الدنيا و كيف يقومون بامر الدین

یہ اللہ کی طرف سے اس بات کا پیشگی اعلان ہے کہ اگر وہ مہاجرین کو زمین میں اقتدار بخشے گا اور مال و دولت میں وسعت عطا کرے تو ان کی سیرت کا کیا حال ہوگا اور وہ کس طرح دین کے معاملے کی ذمے داریاں سنبھالیں گے۔

Note on Hajj 41: سورۂ حج کی اس آیت سے پہلے مہاجرین کا ذکر ہے، اس لیے گویا آیت میں اصلاً ان ہی کے اوصاف بیان ہوئے ہیں۔ لیکن ظاہر ہے یہ صفات صرف مہاجرین ہی سے مطلوب نہیں ہیں، بلکہ پوری امت اور اس کے سب ہی طبقات میں ان کا پایا جانا ضروری ہے۔ اسی وجہ سے جن مفسرین کے پیش نظر آیت کا سیاق رہا ہے ان کے نزدیک آیت میں مہاجرین کا ذکر ہے، لیکن جن اصحاب نے آیت کے مفہوم اور منشا کو سامنے رکھا ہے انھوں نے امت کے دیگر طبقات کو بلکہ پوری امت کو اس میں شامل سمجھا۔ قتادہ کہتے ہیں، اس سے مراد صحابہؓ ہیں اور حضرت عبداللہ بن عباسؓ کے نزدیک اس سے مراد مہاجرین، انصار اور تابعین مراد ہیں۔ مگر بعض اہل علم کا بیان ہے کہ آیت میں پانچ وقت کی نماز پڑھنے والوں کا ذکر ہے۔ حسن بصری اور ابوالعالیہ کی رائے میں اس سے امت محمدیہ مراد ہے اور مطلب یہ ہے کہ اگر اللہ ان کو اقتدار دے تو وہ نماز قائم کریں گے۔ ابن ابی نجیح کہتے ہیں کہ اس میں حاکم کا بیان ہوا ہے۔ ضحاک کا قول ہے کہ جن لوگوں کو اللہ تعالٰی حکومت و سلطنت عطا کرے ان پر اس آیت میں ایک شرط لگائی ہے اور ( انھیں اس شرط کا پورا کرنا ضروری ہے) علامہ قرطبی نے اپنی تفسیر میں ان اقوال کو نقل کرنے کے بعد آخری قول کے بارے میں اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔ (دیکھیے الجامع لاحکام القرآن، المجلد السادس، الجزء ۱۲، ص ۷۴)

اہل ایمان کے شخصی و سیاسی اوصاف

سورۂ حج کی مذکورہ بالا آیت میں ان ایمان والوں کے، جو اقتدار و حکومت کے مالک ہوں، چار اوصاف بیان ہوئے ہیں۔ اقامت صلوٰۃ، ایتاء زکوٰۃ، امر بالمعروف و نہی عن المنکر ۔ پہلے دو وصف ان کے ذاتی کردار کی نشان دہی کرتے ہیں اور بعد کے دو صفات میں ان کا اجتماعی و سیاسی کردار بیان ہوا ہے۔ دور جدید کے مفسر علامہ احمد مصطفٰی المراغی نے اس آیت کی تفسیر کے بعد اس کا خلاصہ ان الفاظ میں بیان کیا ہے :

انهم هم الذين كملوا انفسهم بإستحضار المعبود والتوجة اليه في الصلوة علىٰ قدر الطاقة و نقربوا من درجات الكمال و هم كانوا عونا لا ممهم بإعانة فقراءهم و ذو الحاجة منهم و عملوا غیرهم فاضلوا عليهم من علومهم و آدابهم و منعوا المفاسد التى تعوق غيرهم عن الوصول عن الرقى الخلقي و الاداب السامية

یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے نماز میں طاقت کی حد تک معبود کے استحضار اور اس کی طرف توجہ سے اپنے نفس کی تکمیل کی اور کمال کے درجات سے قریب ہوئے اور وہ فقراء و حاجت مندوں کی مدد کرکے اپنی قوموں کے مددگار ہوں اور پھر انھوں نے دوسروں کی تکمیل کی ہے۔ اس طرح کہ ان میں اپنے علوم و آداب پھیلائے اور انھیں ان مفاسد سے منع کیا جو اخلاقی بلندی اور اونچے آداب تک پہنچنے سے ان کو روکتے ہیں۔

تفسیر المراغی : ۱۷/ ۱۲۰

علامہ ابن جریر طبری اسی آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:

يعنى بقوله إن مَّكَّنّٰهُمْ فِي الْأَرْضِ أَنْ وَّطَّنَّا لَهُمْ فِي الْبِلَادِ فَقَهَرُوا الْمُشْرِكِيْنَ وَ غُلِبُوْهُم عَلَيْهِم وَ هُمْ اَصْحَاب رَسُوْلُ الله صلى الله عليه وسلم، يقول ان نصرنا هم علىٰ اعدائهم و قهروا مشرکی مكة اطاعوا اللّٰه فَأَقَامُوا الصَّلٰوةَ بحدودها و اٰتَوُا الزَّكٰوةَ، يَقُوْلُ اعطوا زكوة اموالهم من جعلها اللّٰه له، وَ اَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَ نَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ وذلك مما يدعو الناس الى توحيد اللّٰه و العمل بطاعته و مایعرفه اهل الإيمان بالله، وَ نَهَوُا عَنِ الْمُنْكَرِ، يَقُوْلُ وَ نَهَوُا عَنِ الشِّرْكِ بِاللّٰه و العمل بمعاصيه الذى ينكره اهل الحق و الدین لاجرم هم نافر الإيمان بالله.

یعنی اگر ہم نے انھیں شہروں میں بسا دیا اور اُنھوں نے مشرکین کا زور توڑ دیا اور ان پر غالب آگئے۔ اس سے مراد رسول اللہ ﷺ اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اگر ہم نے دشمنوں کے مقابلے میں ان کی مدد کی اور وہ مشرکین کو قہر غالب آگئے تو اللہ تعالٰی کی اطاعت کریں گے اور نماز کو اپنے تمام حدود و آداب کے ساتھ قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے یعنی یہ لوگ اللہ کے بتائے ہوئے مستحقین کو اپنے مالوں کی زکوۃ حوالے کرتے رہے ہیں۔ معروف کا حکم دیں گے۔ یعنی لوگوں کو اللہ کی وحدانیت کی، اس کی اطاعت و فرمان برداری کی اور ان اعمال کی دعوت دیں گے جو اہل ایمان کے درمیان جائز پہچانے (اور مقبول) ہیں۔ اور منکر سے منع کریں گے یعنی اللہ کے ساتھ شرک کرنے سے اور اس کی نافرمانی سے روکیں گے، جسے اہل حق اور اہل ایمان ناپسند کرتے ہیں۔

الجامع لبیان فی تفسیر القرآن : ۱۷/ ۱۵۸

امام شاہ ولی اللہ دہلوی فرماتے ہیں:

اقاموا للصلوۃ وآتوالزکوۃ اشارہ است باقامت ارکان اسلام و اموروا بالمعروف۔ مثال است احیاء علوم دین ونهوا عن المنکر۔ مثال است جهاد کفار و اخذ جزیه راز با اینکه منکر سے زیادہ تر از کفر نیست و نتیجه درد سے بالاتر از قتل اهل کفر وقتل جزیه نه و مثال است اقامت حدود وقريرات مبصرأة مسلمين!

نماز قائم کریں گے اور زکوٰۃ دیں گے۔ اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ سارے ارکان اسلام کو قائم کریں گے "معروف کا حکم دینا" میں علوم دین کا زندہ کرنا (بھی) شامل ہے۔ منکر سے منع کریں۔ اس میں کفار کے ساتھ جہاد کرنا اور ان سے جزیہ لینا (بھی) داخل ہے۔ کیوں کہ کفر سے بڑا منکر کوئی نہیں اور اہل کفر کو منع کرنے کی سب سے آخری شکل یہ ہے کہ انھیں قتل کیا جائے اور ان سے جزیہ لیا جائے۔ پھر اس میں بھی منکر میں نافرمان مسلمانوں پر حدود قائم کرنا اور تعزیرات جاری کرنا بھی شامل ہے۔

ازالة الخفاء عن خلافة الخلفاء: ۱/ ۳۳۔ حضرت شاہ ولی اللہ اور بعض دیگر اہل علم نے امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے دائرے میں جن امور کا ذکر کیا ہے ان میں سے ہر ایک کا موقع و محل اور اصول و احکام الگ ہیں۔ یہاں اس کی بحث نہیں ہے۔ صرف اس کی وسعت کے اثبات کے لیے ان کا حوالہ دیا گیا ہے۔

ریاست کے اختیارات اور احتساب

علامہ قرطبی امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے سلسلے میں ریاست کے اختیارات کا ذکر فرماتے ہیں:

ان الامر بالمعروف لا يليق بكل احد وانما يقوم به السلطان اذا كانت اقامة الحدود اليه والتعزير الى رأيه والحبس والاطلاق له و النفی والتغریب، فينصب في کل بلدة رجلا صالحا قويا امينا و یامره بذلك ويمضي الحدود على وجهها من غير زيادة. قال تعالى الذين ان مكناهم في الارض اقاموا الصلوۃ۔۔ الخ!

امر بالمعروف کے لیے ہر ایک مناسب نہیں ہوسکتا۔ اس کا کام حکمران ہی انجام دے گا۔ کیوں کہ حدود کا قائم کرنا اس کا کام ہے اور تعزیر اسی کی رائے کے مطابق ہوتی ہے۔ اسی طرح قید و رہا کرنے نیز جلاد وطن کرنے کا اختیار بھی اسی کو ہے۔ پس وہ ہر شہر میں کسی صالح، مضبوط اور امانت دار آدمی کو اس کام پر مقرر کرے گا اور اسے اس کا حکم دے گا اور حدود کو صحیح شکل میں بغیر کسی زیادتی کے جاری کرے گا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: مگر ہم نے ان کو زمین میں اقتدار عطا کیا تو وہ نماز قائم کریں گے.... الخ

الجامع لاحکام القرآن، المجلد الثانی، الجزء ۳۱، ص ۳۱

امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں:

الأمر بالمعروف والنهى عن المنكر لايتم الابالعقوبات الشرعية، فان الله يزع بالسلطان مالا يزع بالقرآن، واقامة الحدود واجبة على ولاة الامور، وذلك يحصل بالعقوبات على ترک الواجبات وفعل المحرمات۔

امر بالمعروف و نهی عن المنکر کی تکمیل شرعی سزاؤں کے نفاذ کے بغیر نہیں ہوسکتی۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ اقتدار حکومت کے ذریعے ان کاموں کو بھی روک دیتا ہے جو قرآن کے ذریعے نہیں رکا کرتے۔ حدود کا قائم کرنا حکام پر واجب ہے اور یہ چیز حاصل ہوتی ہے واجبات کے چھوڑنے اور محرمات کے ارتکاب کرنے پر سزا دینے سے۔

الخسبة فی الاسلام، ص ۴۴

معلوم ہوا کہ قرآن نے اہل ایمان کے اقتدار و حکومت کا جو حال بیان فرمایا ہے: وہ یہ ہے کہ وہ ایک طرف خدا کے مطیع و فرماں بردار اور اس کے بتائے ہوئے حدود کے پابند ہوتے ہیں اور کسی بھی معاملہ میں ان سے خود سری اور بغاوت کا مظاہرہ نہیں ہوتا، دوسری طرف وہ خدا کے دین کی دعوت دیتے ہیں، ایمان و عمل صالح کی تبلیغ کرتے ہیں، دنیا کو شرک و معصیت سے باز رکھتے ہیں، علوم دین کو زندہ اور قانون شریعت کو نافذ کرتے ہیں، جن چیزوں کو خدا نے واجب کیا ہے ان کے چھوڑنے اور جن چیزوں سے اس نے منع کیا ہے ان کے ارتکاب کرنے پر سزا دیتے ہیں۔ سب سے آخری بات یہ کہ وہ خدا کی راہ میں اس وقت تک اپنا جہاد جاری رکھتے ہیں جب تک کہ بدی کی جگہ نیکی اور شرک کی جگہ خیر نہ آجائے اور ہر طرف خدا کا دین قائم و غالب نہ ہوجائے۔

امر بالمعروف و نهی عن المنکر کا حکم پوری شریعت کا نفاذ چاہتا

یہاں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اہل علم کی جو تشریحات اوپر نقل کی گئی ہیں ان میں دین کے چند بنیادی امور ہی نمایاں ہوگئے ہیں، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اسلامی ریاست کے لیے صرف ان ہی چند باتوں میں قوانین الہی کی پابندی ضروری ہے، بلکہ پورے دین کی اطاعت و خدمت اس کا فرض ہے 'امر بالمعروف و نہی عن المنکر، جسے قرآن نے اسلامی ریاست کے حکم رانوں کا وصف خصوصی بتایا ہے، اپنے اندر جیسا کہ اوپر واضح کیا جاچکا، بڑی وسعت رکھتا ہے۔ معروف میں ہر وہ عقیدہ و عمل داخل ہے جس کی شریعت نے تعلیم دی ہے اور منکر میں ایسے تمام عقائد و اعمال شامل ہیں جن سے شریعت نے منع کیا ہے۔ اسی لیے امر بالمعروف و نہی عن المنکر یہ ہے کہ ان تمام اوامر و نواہی کے بارے میں ٹھیک وہ رویہ اختیار کیا جائے جس کا اسلامی شریعت تقاضا کرتی ہے۔ اسی وجہ سے علامہ محمد خلیب شربینی (رحمۃ اللہ علیہ) نے اسلامی ریاست کے حکم رانوں کے اس وصف کی تشریح ان الفاظ میں کی ہے:

(و أمروا بالمعروف) ای الذی امر الله تعالى به و رسوله (ونهوا عن المنكر) اى الذى نهى الله ورسوله عنه!

معروف کا حکم دیں (یعنی ان چیزوں کا حکم دیں جن کا اللہ اور اس کے رسول نے حکم دیا ہے) اور منکر سے منع کریں (یعنی ان چیزوں سے منع کریں گے جن سے اللہ اور اس کے رسول نے منع کیا ہے)۔

السراج المنیر: ۲/ ۴۵۳

اس سے واضح ہے کہ اسلامی ریاست کے حکم رانوں کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ معروف کا حکم دیتے اور منکر سے منع کرتے ہیں دراصل یہ معنی رکھتا ہے کہ وہ اپنے حدود اقتدار میں اللہ کی شریعت کو بے کم و کاست نافذ کرتے ہیں اور ان کا پورا نظام سلطنت اللہ تعالیٰ کے قانون کے تابع ہوتا ہے۔

امر بالمعروف و نهی عن المنکر اسلامی ریاست کا مقصد ہے

حقیقت یہ ہے کہ امر بالمعروف و نهی عن المنکر ہی اسلامی ریاست کی اصل بنیاد ہے۔ اسی کے لیے وہ وجود میں آتی ہے اور اسی سے اس میں اور دوسری ریاستوں میں فرق واقع ہوتا ہے۔ معروف کا حکم دینا اور منکر سے منع کرنا اس کا مقصد وجود ہے۔ اگر یہ مقصد اس کے کاموں میں نہیں رہا تو اس کی اسلامیت ختم ہوگئی۔

ابن عربی مالکی کہتے ہیں:

الامر المعروف والنهى عن المنكر الذى هو اصل الدين و خلافة المسلمين!

امر بالمعروف ونهی عن المنکر دین کی بنیاد اور مسلمانوں کی خلافت کی اساس ہے۔

احکام القرآن: ۱/ ۴۹۳

علامہ ابن تیمیہ فرماتے ہیں:

اذا كان جماع الدين وجميع الولايات هو امر ونهى فالامر الذى بعث الله به رسوله هو الامر بالمعروف والنهى الذى بعثه هو النهي عن المنكر و هذا نعت النبي والمؤمنين!

جب پورا دین اور تمام حکومتی مناصب دراصل امر و نہی سے عبارت ہیں تو وہ امر جسے دے کر اللہ نے اپنے رسول کو بھیجا ہے امر بالمعروف ہے اور وہ نہی جسے دے کر اللہ نے اپنے رسول کو بھیجا وہ نہی عن المنکر ہے اور یہی امر بالمعروف و نهی عن المنکر نبی اور اہل ایمان کا وصف ہے۔

الخسبة فی الاسلام، ص ۴۰

امر بالمعروف و نهی عن المنکر اسلامی ریاست کا کوئی ایک کام نہیں ہے، بلکہ کل کام ہے۔ وہ اپنے تمام وسائل و ذرائع کے ساتھ اسی کام کی تکمیل کرتی ہے۔ اس کا ہر شعبہ اسی کے تابع ہوتا ہے اور اسی کے لیے کام کرتا ہے۔ علامہ ابن تیمیہ اور ابن قیم ایک زبان کہتے ہیں:

جميع الولايات الاسلامی مقصودها الامر بالمعروف والنهي عن المنكر!

سارے اسلامی مناصب حکومت کا مقصد امر بالمعروف و نہی عن المنکر ہے۔

الحسبة فی الاسلام، ص ۵۰۔ الطرق الحکمیة فی السیاسة الشرعیة، ص ۲۱۷

اس اجمال کی تفصیل بھی امام ابن تیمیہ کے الفاظ میں سن لیجیے:

و الولايات كلها الدينية مثل امرة المؤمنين و مادونها من ملک ووزارة و ديوانه سواء كانت كتابة خطاب اوکتابة حساب لمستخرج او مصروف فی ارزاق المقاتلة او غيرهم و مثل امارة حرب و قضاء و حسبة وفروع هذه الولايات انما شرعت للامر بالمعروف و النهي عن المنكر!

سارے اسلامی مناصب حکومت جیسے مومنوں کی امارت یا اس سے کم تر کوئی منصب جیسے سرداری، وزارت، دیوانی امور، خواہ ان امور کا تعلق خط و کتابت سے ہو یا خراج کی آمدنی یا بچت وغیرہ کے حساب و کتاب سے (اسی طرح) جنگ کی سربراہی و عدالت، احتساب اور ان تمام محکموں کی شاخیں تو یہ سب کی سب 'امر بالمعروف و نهی عن المنکر' کے لیے مشروع کی گئی ہیں۔

الخسبة فی الاسلام، ص ۴۰

امر بالمعروف و نهی عن المنکر میں احتساب بھی شامل ہے

جس طرح اسلامی ریاست کے لیے ضروری ہے کہ اس کی مالیات شریعت کی تابع ہوں، اس کی عدالتوں میں اسلامی قانون کی حکم رانی ہو اور اس کا نظام تعلیم اسلامی ہدایت کے مطابق ہو، اسی طرح امت کی عام دینی و اخلاقی اصلاح اور اس کا احتساب بھی اس کے لیے ضروری ہے۔ ہمارے علماء نے امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے ذیل میں بڑے اہتمام کے ساتھ اس کا ذکر کیا ہے۔

علامہ ابن خلدون لکھتے ہیں:

انما الحسبة فهي وظيفة دينية من باب الامر بالمعروف والنهي عن المنكر الذى هو فرض علی القائم بامور المسلمين، یعنی لذلك من يراه اهلا له فیتعین فرضه و يتخذ الاعوان علی ذلك و يبحث عن المنكرات و يذب على قدرها و يحمل الناس على المصالح العامة فی المدينة!

احتساب امر بالمعروف و نهی عن المنکر کے ذیل کا ایک دینی فریضہ ہے اور امر بالمعروف و نهی عن المنکر مسلمانوں کے سربراہ پر فرض ہے۔ یعنی وہ اس کام پر کسی ایسے شخص کو جسے وہ اس کے لیے اہل سمجھے گا متعین کرے گا اور اس پر اس فرض کی ادائیگی متعین طور سے لازم ہو جائے گی۔ وہ اس کام کے لیے اپنے بہت سے مددگار رکھے گا، منکرات کے بارے میں چھان بین کرتا رہے گا اور ان پر ان کی مناسبت سے تادیب کرے گا اور لوگوں کو شہر کے مصالح عامہ پر مجبور کرے گا۔

مقدمہ ابن خلدون، ص ۴۳۵

علامہ نے احتساب کے شعبے سے متعلق جو کام بتائے ہیں ان کو تین عنوانوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:

  • امت کی دینی و اخلاقی اصلاح، جیسے لوگوں کو نماز کا حکم دینا، اماموں اور موذنوں کی نگرانی کرنا، تاکہ ان سے اپنے فرائض میں کوئی غلطی یا کوتاہی اور غفلت نہ ہونے پائے، نا اہل اشخاص کو شریعت کے مسائل میں رائے زنی سے روکنا، اسی طرح اس بات کا خیال رکھنا کہ کسی سے کوئی غیر اخلاقی اور غیر شرعی حرکت نہ سرزد ہو، مثال کے طور پر اجنبی عورتوں سے بات چیت اور اختلاط وغیرہ۔
  • ایسے معاملات کے بارے میں اقدام کرنا جو عدالت کے دائرہ کار سے باہر ہوں یا جن کی نوعیت ایسی ہو کہ مشکل ہی سے وہ عدالت میں پہنچ سکے ہوں، جیسے ناپ تول میں کمی، کاروبار میں دھوکہ دہی، اشیاء خوردنی میں ملاوٹ، ناجائز اشیاء کی خرید و فروخت، لین دین میں خلاف شرع طریقوں کا اختیار کرنا وغیرہ۔
  • مصالح عامہ کی نگرانی، جیسے بستیوں میں پانی کا مناسب انتظام کرنا، ٹریفک کے اصول بنانا اور اس کی پابندی کرانا، مسافر خانوں کی تعمیر اور مسافروں کو سہولتیں بہم پہنچانا، جن عمارتوں کے گرنے کا خطرہ ہو ان کو اس طرح گرانا کہ کوئی جانی و مالی نقصان نہ ہو۔

احتساب خالص حکومتی سطح ہی پر انجام پانے والا کام نہیں ہے، بلکہ عام افراد کو بھی اس کا حق حاصل ہے۔ احتساب پر سرکاری افراد کے مامور ہونے کے باوجود غیر سرکاری افراد خلاف شرع امور پر کسی کا، حتیٰ کہ امراء و حکام کا بھی احتساب کرتے ہیں، لیکن عام اشخاص کے لیے وہ ایک نفلی کام ہے اور سرکاری محتسب کے لیے اس کی انجام دہی فرض ہے۔

علامہ ماوردی فرماتے ہیں کہ اس سے دونوں کی حیثیتوں میں حسب ذیل نو پہلوؤں سے فرق واقع ہو جاتا ہے:

  • محتسب کے لیے احتساب فرض عین ہے، کیوں کہ اس پر فرائض احتساب حکومت کی طرف سے متعین ہوتے ہیں اور متنفل (رضاکار) کے لیے اس کی نوعیت فرض کفایہ ہے۔
  • محتسب اس کو چھوڑ کر کسی دوسرے کام میں مشغول نہیں ہو سکتا اور متنفل کے لیے اس کی اجازت ہے۔
  • محتسب اس بات پر متعین ہوتا ہے کہ جن معاملات میں بھی منکر ضروری ہے ان میں لوگ اس سے مدد طلب کریں اور متنفل اس پر متعین نہیں ہوتا۔
  • جو شخص اس سلسلے میں مدد طلب کرے محتسب کے لیے اس کی مدد کرنا ضروری ہے اور متنفل کے لیے ضروری نہیں ہے۔
  • بڑے بڑے منکرات کے بارے میں تحقیق کرنا کہ کہاں ان کا ارتکاب ہو رہا ہے اور پھر وہاں پہنچ کر ان کو روکنا، اسی طرح یہ دیکھنا کہ بالکل کھلے ہوئے معروفات کہاں چھوڑ دیئے گئے ہیں اور پھر ان کا قائم کرنا محتسب کا فرض منصبی ہے، لیکن متنفل کے لیے یہ چھان بین اور تحقیق ضروری نہیں ہے۔
  • محتسب چوں کہ احتساب پر باقاعدہ متعین ہوتا ہے اور وقت ضرورت لوگ اس سے مدد طلب کرتے ہیں لہٰذا وہ اپنے فرائض کی ادائیگی کے لیے احکام و انصار کو طلب کرنا جائز ہے۔ اس کے برخلاف متنفل کے لیے یہ جائز نہیں ہے۔
  • عام منکرات کے سلسلے میں محتسب کو تعزیر کا، جو حد شرعی تک نہ پہنچے، حق ہے (کیوں کہ حد شرعی کا نفاذ اسلامی عدالت ہی سے ہوگا)، لیکن متنفل کو تعزیر کا حق نہیں ہے۔
  • محتسب اپنی اس خدمت پر بیت المال سے تنخواہ لے سکتا ہے، لیکن متنفل کے لیے اس کام پر وظیفہ لینا جائز نہیں ہے۔
  • جن چیزوں کا تعلق عرف اور مصالح عامہ سے ہے ان میں محتسب اپنے اجتہاد کے مطابق کام کر سکتا ہے اور متنفل کو اس کی اجازت نہیں ہے۔

تنصیل کے لیے دیکھئے الاحکام السلطانية، ص ۳۲۱ وما بعدها۔ الطرق الحكمیة فی السیاسة الشرعیة، ص ۳۱۵ و ما بعدها۔

اسلامی ریاست کی غرض و غایت، اس کے طریق کار اور اس کے مزاج سے متعلق اس تفصیل سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ امر بالمعروف و نهی عن المنکر نہ تو اسلامی ریاست کا اختیاری عمل ہے کہ اس کو کرے یا نہ کرے، جس میں وہ آزاد ہے اور نہ اس کی حیثیت محض احتساب کی ہے کہ اس کے کرنے پر وہ اجر و ثواب کی مستحق قرار دی جائے اور نہ کرنے پر اس کو غلط کار نہ کہا جاسکے، بلکہ یہ اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے متعین کیا ہوا فرض ہے، جس کا ادا کرنا اس کے لیے خاص ذمہ داری ہے۔ اس کو نظر انداز کرنا کیسا معنی، اس میں کوتاہی اور غفلت اس کے لیے جائز نہیں ہے، کیوں کہ اس سے اس کی اسلامیت کا تعین ہوتا ہے اور اسی پر اس کے دینی و غیر دینی ہونے کا انحصار ہے۔

امر بالمعروف و نهی عن المنکر ریاست کے لیے واجب ہے

اسلامی ریاست امر بالمعروف و نهی عن المنکر کے لیے وجود میں آتی ہے، اس لیے اس کے سربراہ کی ذمے داری ہے کہ ریاست میں معروفات کا قیام عمل میں لائے اور منکرات کو ختم کرے۔ کیوں کہ اگر وہ اس کام کو چھوڑ دے تو ریاست کسی اپنے مقصد میں کام یاب نہیں ہوگی۔ اسی وجہ سے علماء نے لکھا ہے کہ فرماں روائے ریاست کے لیے امر بالمعروف و نهی عن المنکر واجب ہے۔ چناں چہ سورہ حج کی جو آیت اس بحث میں اوپر گزر چکی ہے اس کے ذیل میں نواب صدیق حسن خاں مرحوم لکھتے ہیں:

فيه ايجاب الامر بالمعروف و النهي عن المنكر على من مكنه الله فى الارض و اقدره على القيام بذلك!

اس میں امر بالمعروف و نهی عن المنکر کو ان لوگوں پر واجب کر دیا گیا ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے زمین میں اقتدار عطا کرے اور اس ذمے داری کے اٹھانے کی طاقت بخشے۔

فتح البیان فی مقاصد القرآن: ۷/ ۱۹۳

اسلامی ریاست کے سربراہ کے لیے امر بالمعروف و نهی عن المنکر واجب ہی نہیں، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ دوسروں کے مقابلے میں اس پر اس کی زیادہ ذمے داری عائد ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے پاس اس کی غیر معمولی طاقت ہوتی ہے اور طاقت و استطاعت ہی وہ چیز ہے، جس کے مطابق امر بالمعروف و نهی عن المنکر کا وجوب ہوتا ہے۔ امام ابن تیمیہ نے اس اصول کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے:

ذو السلطان اقدر من غيرهم احتساب وعلیهم من الوجوب ما ليس على غيرهم، فان مناط الوجوب هو القدرة فيجب على کل انسان بحسب قدرته!

اقتدار والے (امر بالمعروف و نهی عن المنکر کی انجام دہی پر) دوسروں کے مقابلے میں زیادہ طاقت رکھتے ہیں، اس لیے ان پر اس حد تک واجب ہے جو دوسروں پر نہیں۔ کیوں کہ وجوب کی بنیاد قدرت ہے۔ اس لیے ہر انسان پر وہ اس کی قدرت کے لحاظ سے واجب ہوتا ہے۔

الخسبة فی الاسلام، ص ۴۰

امام شوکانی فرماتے ہیں کہ جو شخص زیادہ سے زیادہ قدرت اور استطاعت رکھنے کے باوجود امر بالمعروف و نهی عن المنکر کو چھوڑ بیٹھے وہ شریعت کے نزدیک گناہ گار ہوگا، چاہے وہ دوسروں سے بڑھ کر پایا جائے۔ اپنے ایک رسالہ میں لکھتے ہیں:

من كان اقدر علی الامر بالمعروف والنهي عن المنكر كان ذنبه اشد و عقوبته اعظم و معصيته افظع و بهذا جاءت حجج الله و قامت براهینه و نطقت به کتبه و ابلغته الى عباده رسله!

جو شخص امر بالمعروف و نهی عن المنکر کی انجام دہی پر زیادہ قادر ہو، اس کا گناہ زیادہ سخت، اس کی سزا زیادہ بڑی اور اس کی معصیت بھی زیادہ گناہ کی ہوگی۔ اس حقیقت پر اللہ کی طرف سے دلائل و براهین آئے ہیں، یہی بات اس کی کتابیں کہتی ہیں اور یہی اطلاع اس کے رسولوں نے اس کے بندوں تک پہنچائی ہے۔

مجموعة الرسائل المنيرية، الجزء الثانی (الدواء العاجل فی دفع العدو الصائل، ص ۳)

امام شوکانی کا یہ بیان قرآن و حدیث کی ٹھیک ٹھیک ترجمانی کر رہا ہے اور یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ عام آدمی کا امر بالمعروف و نهی عن المنکر کو ترک کرنا جتنا بڑا جرم ہوسکتا ہے، اس سے بڑا اور سنگین جرم یہ ہے کہ حاکم ریاست اسے چھوڑ بیٹھے۔ کیوں کہ وہ اس کی زبردست طاقت رکھتا ہے اور کسی بھی دوسرے شخص کے مقابلے میں اس کام کو زیادہ آسانی اور خوبی سے انجام دے سکتا ہے۔

حکام کی اصلاح بھی امر بالمعروف و نهی عن المنکر ہے

اسلامی ریاست خالص دینی ریاست ہے۔ اس لیے اس کے حکم رانوں کا خدا ترس، دین دار، معروفات کا متبع اور منکرات سے مجتنب ہونا ضروری ہے۔ لیکن عام انسانوں کی طرح وہ بھی انسان ہی ہوتا ہے۔ لہٰذا وہ معروفات کو چھوڑ بھی سکتا ہے اور منکرات کا ارتکاب بھی اس سے ممکن ہے۔ بلکہ زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ اس کے بگڑنے اور غلط راہ پر جانے کے امکانات اور لوگوں سے زیادہ ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر وہ کسی معروف کو ترک کر دے یا کسی منکر کا ارتکاب کرنے لگے تو عام مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے؟ یہ مسئلہ بہت ہی پیچیدہ ہے اور اس کو ٹھیک ٹھیک سمجھنے کے لیے پہلے بعض اصولی باتوں پر غور کرنا ہوگا۔

امر بالمعروف و نہی عن المنکر حکومت کی بھی ذمہ داری ہے اور عوام کی بھی۔ جس طرح حکومت کا فرض ہے کہ ریاست کے کسی شہری کا عمل خلاف شرع ہے تو اس سے باز پرس کرے، ٹھیک اسی طرح عوام کو بھی سربراہان ریاست کے احتساب کا حق ہے، لیکن اس کے ساتھ اسلامی ریاست کے سربراہوں کی تعظیم و احترام کا بھی حکم ہے۔

چناں چہ حدیث میں ہے:

من اکرم سلطان الله في الدنيا اھان الله يوم القيامة، ومن اھان سلطان الله في الدنيا اھان الله يوم القيامة!

جو شخص دنیا میں اللہ کے سلطان کی عزت کرے گا اللہ تعالیٰ قیامت میں اس کی عزت کرے گا (اس کے برعکس) جس شخص کا اللہ نے حاکم بنایا ہے جو کوئی دنیا میں اسے ذلیل کرے گا اللہ تعالیٰ قیامت میں اس کو ذلیل کرے گا۔

مسند احمد: ۳/۴، ۲/۷۔ و فی الترمذی عن ابی سعید الخدری من اھان سلطان اللہ فی الارض اھانہ اللہ الخ۔ الباب الفتن، باب ماجاء فی الخلفاء

اس میں شک نہیں کہ حاکم کو معروف کا حکم دینا اور منکر سے منع کرنا عوام کی ذمے داری ہے، لیکن اس فرض کو انجام دیتے وقت انھیں اس بات کا خیال رکھنا ہوگا کہ حکام کا وقار باقی رہے اور پبلک میں ان کی سبکی اور بے قدری نہ ہونے پائے۔ اس کی صورت حدیث میں یہ بتائی گئی ہے:

من اراد ان ینصح لسلطان بامر فلا یبدله علانیة ولکن لیاخذ بیدہ فیخلوبه فان قبل منه فذلک و الا كان قد ادى الذی علیه له.

جو شخص حاکم کو کسی معاملے میں نصیحت کرنا چاہے تو علانیہ اس کا اظہار نہ کرے، بلکہ اس کا ہاتھ پکڑ کر لے جائے اور تنہائی میں اس کو نصیحت کرے۔ اگر وہ اس کو قبول کرلے تو ٹھیک ہے، ورنہ نصیحت کرنے والے نے اپنی ذمے داری پوری کردی۔

مسند احمد: ۳/۴۰۳

مختلف فقہاء کا نقطۂ نظر

جہاں تک وعظ و نصیحت کے ذریعہ حکام کی اصلاح کا تعلق ہے، اس سے تو کسی کو بھی اختلاف نہیں ہے چناں چہ یہ کام مختلف ادوار میں ہوتا رہا ہے اور اس کے ہاتھ اچھے نتائج بھی نکلے ہیں۔ اصل سوال اس وقت پیدا ہوتا ہے جب کہ زبانی تنقید و احتساب کا اثر نہ ہو اور حاکم اپنی غلط روش پر جما رہے۔ اس بارے میں امام غزالی فرماتے ہیں:

اگر حاکم اپنی بے عملی اور ناواقفیت کی بنا پر منکر کا ارتکاب کرے تو رعایا اس کی ناواقفیت دور کرے۔ باقی رہی اس سے آگے کی بات، مثلاً اگر اس کے خزانے میں ناجائز مال ہو تو اس پر قبضہ کرلینا اور حق داروں کو دے ڈالنا، یا اس کے کپڑوں میں ریشم شامل ہو تو اس کو نوچ کر الگ کر دینا، یا وہ شرابی ہو تو اس کے گھر میں گھس کر شراب کے برتن توڑ دینا، تو اس میں جہاں ایک طرف اس بات کا خدشہ ہے کہ حاکم کا رعب و دبدبہ ختم ہوجائے گا، جس کی کہ ممانعت ہے، تو دوسری طرف یہ حقیقت بھی موجود ہے کہ منکر پر سکوت اختیار کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ اس مشکل صورت حال کا حل یہ ہے کہ دیکھا جائے وہ منکر کتنا بڑا ہے، جس کا کہ حاکم مرتکب ہو رہا ہے، اور ساتھ ہی اس کا بھی اندازہ کیا جائے کہ حاکم کے اس امر سے باز رکھنے کے لیے اگر طاقت استعمال کی گئی تو اس سے اس کی ہیبت کس قدر کم ہوسکتی ہے؟ اور پھر اس کے مطابق اقدام کیا جائے۔ یہ خالص اجتہادی معاملہ ہے جس کے لیے کوئی لگا بندھا اصول وضع نہیں کیا جاسکتا!

احیاء علوم الدین: ۲/۳۹۶

اس میں شک نہیں کہ اسلامی ریاست کا حاکم اگر ناواقفیت کی بنا پر یا کسی وقتی جذبے کے تحت منکر کا ارتکاب کر گزرے تو زبانی نصیحت کارگر ہوسکتی ہے اور بالعموم ہوتی بھی ہے۔ اس سے آگے اس کا بھی امکان ہے کہ وہ قصداً معروف کو ترک کر دے اور منکرات میں مبتلا ہوجائے، بلکہ اس کا بھی خطرہ ہے کہ وہ ریاست کے وسائل و ذرائع کو نئے نئے منکرات کے پھیلانے اور منکرات کے فروغ و سینے میں لگادے، اس کی قوت برائیوں کے پھیلانے میں صرف ہونے لگے، اس کے عمال اور کارکن فرائض دینی کو خود بھی چھوڑ بیٹھیں اور ان کے چھوڑنے والوں پر گرفت بھی نہ کریں، محرمات شرع کا خود بھی ارتکاب کریں اور ارتکاب کرنے والوں کو کوئی سزا بھی نہ دیں، تو کیا اس صورت میں بھی اسلامی ریاست کے عوام کو قوت کے ذریعے اپنے حاکم کی اصلاح کا حق ہے یا نہیں؟ کیا وہ صبر و سکون کے ساتھ اس صورت حال کو برداشت کرتے رہیں گے، یا اس کو بدلنے اور اپنے بدکردار حاکموں کی جگہ نیک سیرت حکام کو لانے کی کوشش کریں گے؟ ان حالات میں امام غزالی کا فتوی غالباً یہی ہوگا (جیسا کہ اوپر کی عبارت سے معلوم ہوتا ہے) کہ حاکم کے احترام کا اب کوئی موقع نہ رہ جائے گا اور طاقت کے ذریعے اس کے منکر کو مٹانا واجب ہوگا۔

علامہ ابن حزم کا نقطہ نظر

امام ابن حزم اور علامہ ابوبکر جصاص نے اس موضوع پر خاصی طویل بحث کی ہے، لیکن اس کو پوری طرح سمجھنے کے لیے یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ ان کی بحث دو جہتوں کا مجموعہ ہے۔ ایک یہ کہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے لیے اسلامی ریاست کے حاکم کے خلاف تلوار اٹھانے کا کیا حکم ہے؟ دوسری یہ کہ اسلامی ریاست کا کوئی طبقہ اگر بغاوت کردے تو اس کے مقابلے میں کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے؟

پہلے ہم امام ابن حزم کی بحث کی خلاصہ اپنے الفاظ میں پیش کرتے ہیں:

"پوری امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ (حاکم وقت اور بغاوت کرنے والوں پر) امر بالمعروف و نہی عن المنکر واجب ہے۔ اس سے کسی بھی شخص کو اختلاف نہیں۔ البتہ اس کی کیفیت کے بارے میں اختلاف ہے۔ بعض قدیم اہل سنت، جن میں صحابہ کی ایک جماعت اور ان کے بعد کے لوگ بھی شامل ہیں، یہ رائے رکھتے ہیں کہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر پر عمل صرف دل سے اور طاقت ہو تو زبان سے ہوگا۔ اس سے آگے قوت کے ذریعے اور ہتھیار اٹھا کر اس کام کو کبھی بھی انجام نہیں دیا جائے گا۔ ان کی یہ رائے اس صورت میں ہے جب سربر اہ مملکت عادل نہ ہو لیکن اگر وہ منصف اور عادل ہے اور اس کے مقابلے میں کسی فاسق و فاجر نے تلوار اٹھالی ہے تو وہ سب اس بات پر متفق ہیں کہ امام عادل کے ساتھ ہو کر اس سے جنگ کی جائے گی۔

اہل سنت کے ایک دوسرے گروہ کی رائے یہ ہے کہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے لیے اس وقت تلوار اٹھانا بالکل واجب ہے جب کہ دفع منکر کی سوائے اس کے اور کوئی صورت نہ رہ جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر اہل حل و عقد جماعت کی شکل میں ہوں اور ان کے لیے دفع منکر کا امکان بھی ہو، ساتھ ہی وہ اپنی جان ومالی سے مایوس بھی نہ ہوں، تو قوت کے ذریعے معروف کا حکم دینا اور منکر سے منع کرنا ان پر فرض ہے، لیکن اگر وہ اتنی تعداد میں ہوں کہ اپنی قلت اور ضعف کی وجہ سے کام یابی کی توقع نہ کر سکتے ہوں تو ان کو اجازت ہے کہ تغیر بذریعہ ید کو چھوڑ دیں اور حسب استطاعت تغیر باللسان یا تغیر بالقلب پر عمل کریں۔ یہ رائے صحابہ کی ایک بہت بڑی تعداد، عام تابعین، تمام خوارج اور فرقہ زیدیہ کی ہے۔

جو لوگ پہلے نقطہ نظر کے قائل ہیں ان میں سے بعض کا کہنا ہے کہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے لیے تلوار اٹھانے میں بڑا نقصان ہے، کیوں کہ اس سے محرمات کی اباحت خوں ریزی، اموال کی لوٹ مار، بے عزتی، انتشار اور بد نظمی پھیلتی ہے۔ اس کا جواب دوسروں نے یہ دیا ہے کہ جو شخص امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فرض انجام دے اس کے لیے قطعاً جائز نہیں ہے کہ ناحق کسی کے مال پر قبضہ کرے، یا جو لوگ لڑنا نہ چاہیں ان سے تعرض کرے، بلکہ اس کو کسی بھی ممنوع فعل کے ارتکاب کی اجازت نہیں ہے۔ اگر وہ اس قسم کی کسی حرکت کا ارتکاب کرتا ہے تو یہ خود ایک منکر ہے، جس کی تغیر ہونی چاہیے۔ لیکن اس کا ارتکاب (امر بالمعروف) کوئی کرے خواہ وہ کم ہوں یا زیادہ، ناجائز نہیں ہے، بلکہ یہ اس کا فرض ہے۔ اس کے برعکس اگر منکر لوگوں کو قتل کرتا، ان کے اموال پر قبضہ کر لیتا اور ان کی عورتوں کی بے عزتی کرتا، یہ منکر ہے اور لوگوں پر اس کی تغیر واجب ہے، جن اندیشوں کا ان لوگوں نے ذکر کیا ہے وہ تغیر منکر اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی راہ میں آکر رکاوٹ بن سکتے ہیں تو یہی چیز اہل حرب سے جہاد میں بھی مانع ہو سکتی ہے، حالاں کہ کوئی بھی مسلمان جہاد کے وجوب کا انکار نہیں کرتا۔ فرض کیجیے جہاد کے نتیجے میں نصاری مسلمانوں کی عورتوں اور بچوں کو قید کر لیں، ان کے اموال لوٹ لیں اور ان کی بے عزتی کریں تو کیا ان سے جنگ نہیں کی جائے گی؟ ظاہر ہے، کوئی بھی مسلمان اس کا قائل نہیں ہے۔ بلا اختلاف سب کے نزدیک ان سے جہاد واجب ہے۔ اگر آپ غور کریں تو معلوم ہوگا کہ کفار سے جنگ اور غلط کار حکام رانوں کے خلاف تلوار اٹھانے میں کوئی جوہری فرق نہیں ہے، کیوں کہ ان میں سے ہر ایک جہاد اور قرآن و سنت کی طرف دعوت ہے۔ جب کوئی ظلم واقع ہو، خواہ وہ چھوٹا ہی کیوں نہ ہو تو ضروری ہے کہ اس سلسلے میں امام سے گفتگو کی جائے اور اس سے اس کو روکا جائے۔ اگر وہ رک جائے اور حق کی طرف رجوع کرے یا قصاص لینے یا حد جاری کرنے کا معاملہ ہو اور وہ اس کے لیے تیار ہوجائے تو اس کو مجبور کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ جیسے وہ پہلے مسلمانوں کا امام تھا اب بھی ان کا امام رہے گا، لیکن اگر وہ ان احکام کے نفاذ کے لیے تیار نہ ہو اور حق کی طرف رجوع نہ کرے تو اس کا معزول کرنا اور اس کی جگہ کسی دوسرے شخص کو لے آنا جو حق کو قائم کرے، ضروری ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ

(الماندہ:۲)

نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں باہم تعاون کرو، لیکن گناہ اور زیادتی کے کاموں میں تعاون نہ کرو۔

شریعت کے واجبات میں سے کسی بھی واجب کو ضائع کرنا قطعاً جائز نہیں ہے۔

الابانت عن اصول الدیانہ صفحہ؟، الفضل فی الملل والاہواء والنحل: ۲/۱۴۴-۱۴۶

جصاص کا نقطہ نظر

علامہ ابوبکر جصاص فرماتے ہیں: "سلف اور خلف کے علماء و فقہاء میں سے کسی نے امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے وجوب کی مخالفت نہیں کی، سوائے حشویہ کے ایک گروہ اور نواقف احادیث صحیحہ کے ذریعے ان لوگوں کو باغی گروہ سے جنگ کرنے اور ہتھیار کے ذریعے امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فرض انجام دینے کی صحت سے اختلاف ہے۔ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے لیے اگر ہتھیار اٹھانا اور باغی گروہ سے لڑنا پڑے تو اس کو فتنہ وفساد کہتے ہیں، حالاں کہ وہ اس سلسلے میں اللہ کا یہ قول سن چکے ہیں:

فَقَاتِلُوا الَّتِي تَبْغِي حَتَّى تَفِيءَ إِلَى أَمْرِ اللَّهِ

(الحجرات: ۹)

(تم) باغی جماعت سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف رجوع کر لے)

آیت کے الفاظ کا واضح تقاضا ہے کہ باغی گروہ سے جنگ کرنا واجب ہے (یہ صراحت ان کے سامنے ہے، اس کے باوجود) وہ کہتے ہیں کہ حاکم وقت ظلم و جور اور فسق و فجور کرے یا قدس لہٰ اللہ نے حرام قرار دیا ہے، جسے منکرات کا بھی ارتکاب کرے تو اس پر نکیر نہیں کی جائے گی۔ ہاں اگر غیر حاکم سے ان کا ارتکاب ہو تو زبان یا ہاتھ سے نکیر کا حق ہے۔ مگر اس صورت میں بھی ہتھیار اٹھانے کی اجازت نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ امت کے حق میں اس کے مخالفین سے زیادہ برے ہیں، کیوں کہ انھوں نے لوگوں کو باغی گروہ سے جنگ اور حاکم کے ظلم و جور پر نکیر کرنے سے روک دیا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ فاسق و فاجر یکے بعد دیگرے اسلام کے دشمن غالب آجائے ہیں، سرحدیں خراب ہو رہی ہیں، ظلم کھیل رہا ہے، شہر برباد ہو رہے ہیں، الحاد، غلو، مذاہب خبیثہ اور حزبیہ خبیثہ جیسے فرقے ظاہر ہو چکے ہیں۔ یہ سب نتیجہ ہے امر بالمعروف و نہی عن المنکر کو چھوڑنے اور سلطان جائر پر نکیر نہ کرنے کا"۔

احکام القرآن: ۳/۲۳۴

امام الحرمین فرماتے ہیں:

اذا جار والي الوقت وظھر ظلمه وغشمه ولم ينزجر عن نصائحه وازجره عن سيئاته بالقول فلاحل له وهذا لا باس به فاما ان يستظهر عليه بالقتال فلا الحل والعقد التواطو على خلعه و لو بشھر الاسلحة ونصب الحروب!

جب وقت کا حاکم ظلم اور اس کا ظلم و جور نمایاں ہوجائے اور زبان سے منع کیا جائے وہ اپنے اس برے عمل سے باز نہ آئے تو اہل حل و عقد اس کی معزولی پر اتفاق کرنا چاہیے، خواہ اس کے لیے تلوار اٹھانا اور جنگ کرنا ہی پڑے۔

شرح مسلم للنووی: المجلد الاول، الجزء ۲، ص ۲۳

امام نووی اس خیال کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:

هٰذا الذي ذكره من خلعه غريب و مع هٰذا فھو محصول على ما اذا لم يخف منه اثارة مفسدة اعظم منه!

امام کی معزولی کی یہ بات، جو امام الحرمین نے کہی ہے، کچھ انوکھی سی ہے۔ اس کے باوجود وہ ایسی صورت حال پر محمول ہوگی جب کہ اس سے کسی اس ظلم سے بھی بڑے فتنے کے برپا ہو جانے کا اندیشہ نہ ہو۔

حوالہ سابق

امام نووی نے اپنے اس خیال اور تبصرے پر کوئی دلیل نہیں دی ہے، حالاں کہ امام الحرمین اپنی اس رائے میں منفرد نہیں ہیں، بلکہ جیسا کہ ابھی ہم نے بیان کیا ہے، امام ابن حزم اور علامہ ابوبکر جصاص جیسے محققین ان کے ساتھ ہیں۔ باقی رہی یہ بات کہ عزل امام کا اقدام اس وقت کیا جائے گا جب کہ کسی بڑے فتنے کا اندیشہ نہ ہو تو اس کی معقولیت سے کون انکار کر سکتا ہے؟

تجدید دین و اصلاح امت

قوموں کے عروج و زوال کا قانون

دنیا کا کوئی بھی گروہ ایسا نہیں ہوسکتا، جس کا ہر فرد برائیوں سے پاک اور صلاح و تقویٰ کے اونچے معیار پر ہو۔ ہر جماعت میں اچھے اور برے دونوں طرح کے انسان ہوتے ہیں۔ جماعت کے نیک اور صالح افراد کی ذمے داری ہے کہ معاشرے میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے لیے برابر سرگرم کار رہیں، بروں کی اصلاح کریں اور ان کو راہ راست پر لے چلیں۔ اگر انھوں نے اس میں کوتاہی کی تو برائی عام ہوگی اور پوری قوم کو تباہ کر کے رکھ دے گی۔ کسی قوم کے اندر شر کو پھیلانے اور شر کو مٹانے والے افراد اس کا جو ہر حیات ہوتے ہیں جب وہ خاموش ہو جاتے ہیں تو قوم اپنی زندگی کھو دیتی ہے۔ قوموں کے عروج اور ترقی کا زیادہ تر انحصار اس پر ہوتا ہے جب کہ وہ اپنی اجتماعی زندگی سے برائیوں کو مستقل دور کرتی اور اپنی اخلاقی قوت میں ہر دن اضافہ کرتی رہتی ہے۔ جس جماعت میں نیک سیرت افراد کی تعداد بدکردار لوگوں سے زیادہ ہو اور برائی صرف چند گوشوں میں محدود ہو، اللہ تعالیٰ اسے زمین پر باقی رکھتا اور اس کے لیے ترقی کے مواقع فراہم کرتا ہے۔ لیکن اگر بروں کی تعداد اچھوں کی تعداد پر غالب آجائے اور زندگی کے ہر گوشے میں بدی پھیل جائے تو اللہ کا قانون یہ ہے کہ وہ زوال کی طرف بڑھنے لگتی ہے اور بحیثیت ایک قوم دھیرے دھیرے ختم ہو جاتی ہے۔ اس تباہی و بربادی میں وقت تو لگ سکتا ہے اور بالعموم لگتا بھی ہے، لیکن کوئی قوم اس سے بالکل محفوظ نہیں رہ سکتی۔ یہی حقیقت قرآن کریم کی اس آیت میں بیان ہوئی ہے:

وَاتَّقُوا فِتْنَةً لَّا تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنكُمْ خَاصَّةً وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ

(الانفال:۲۵)

اس فتنے سے ڈرو جو خصوصی طور پر تم میں سے صرف ان ہی لوگوں کو لاحق نہیں ہوگا جنھوں نے ظلم کیا ہے (بلکہ وہ عام ہوگا اور اس کی زد میں سب ہی آجائیں گے)۔

رسول خداﷺ سے حضرت زینب بنت حجش نے پوچھا:

أنھلک وفینا الصالحون؟

کیا ہم ہلاک ہو جائیں گے جب کہ ہمارے اندر نیک لوگ بھی موجود ہوں گے؟ آپ نے جواب دیا:

نعم اذا كثر الخبث

ہاں جب کہ بدی بہت بڑھ جائے۔

بخاری، کتاب الفتن، باب و یل للعرب من شرقد اقترب۔ مسلم، کتاب الفتن واشراط الساعۃ

یہ نصوص اپنے مفہوم میں واضح ہیں کہ جب کسی قوم پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوتا ہے تو اس کی زد میں بروں کے ساتھ نیک اور صالح افراد بھی آجاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے اس عام قانون کے سلسلے میں بعض تفصیلات بھی قرآن و حدیث میں بیان ہوئی ہیں۔ یہاں ان کی کسی قدر وضاحت کی جائے گی۔

مصلحین عذاب عام سے محفوظ ہوتے ہیں

بعض لوگ اپنی حد تک تو نیک ہوتے ہیں، لیکن دوسروں میں نیکی نہیں پھیلاتے۔ وہ خود تو بدی سے بچتے ہیں، لیکن معاشرے میں بدی کو برداشت کرتے رہتے ہیں۔ اس کے برعکس بعض لوگوں کی نیکی انھیں اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ وہ دنیا میں نیکی کو بڑھنے اور بدی کو فروغ پاتے ہوئے دیکھیں۔ وہ نیکی پر عمل بھی کرتے ہیں اور دوسروں میں اسے پھیلاتے بھی ہیں، بدی سے اجتناب بھی کرتے ہیں اور دوسروں کو اس سے باز رکھنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔

ہمارے بعض علماء نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب عام آتا ہے تو بروں کے ساتھ یہ دونوں ہی قسم کے نیک انسان اس کی لپیٹ میں آجاتے ہیں۔ لیکن یہ خیال صحیح نہیں ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ عذاب عام میں بروں کے ساتھ صرف پہلی قسم کے افراد ہلاک ہوتے ہیں اور دوسری قسم کے نیک انسان بچا لیے جاتے ہیں۔ قرآن نے صراحت کی ہے کہ جب اللہ کی نافرمان قوموں پر اس کا عذاب نازل ہوا تو اس نے اپنے رسولوں اور اہل ایمان کو بچا لیا:

فَقَدَّمْنَا الَّذِينَ آمَنُوا وَنَجَّيْنَا الَّذِينَ يَتَّقُونَ

(يونس:۱۰۳)

پھر ہم (جب کہ ہمارا عذاب آتا ہے) بچا لیتے تھے ایسے رسولوں کو اور ان لوگوں کو جو ایمان لائے۔ یہی ہمارا طریقہ ہے۔ ہم حق پر تھے اس کو بچا لیتے۔

اللہ تعالیٰ کے رسول اصلاح و ہدایت کے لیے بھیجے جاتے ہیں، ان کی بہترین صلاحیت اس کام میں صرف ہوتی ہے۔ ان کی قومیں جس ظلم اور فتنہ و فساد میں مبتلا ہوتی ہیں وہ اس کے خلاف پوری قوت کے ساتھ اور مسلسل جدوجہد کرتے ہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ ان کو اس ظلم کے نتیجے سے بھی محفوظ رکھتا ہے جس سے ان کی قومیں دوچار ہوتی ہیں۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ دنیا کو راہ ہدایت دکھانے والے بہرحال اللہ کے عذاب سے محفوظ ہوتے ہیں۔ احادیث میں صراحت کے ساتھ کہا گیا ہے کہ بروں کے ساتھ بھلے اس وقت اللہ کے عذاب کی زد میں آتے ہیں جب کہ وہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فرض ترک کر چکے ہوں اور اصلاح حال کی کوشش نہ کر رہے ہوں۔

رسول اکرمﷺ فرماتے ہیں:

ما من قوم يعمل فيھم بالمعاصي يقد رون على ان يغيّروا ثم لم يغيّروا الا يوشك ان يعمّھم الله بعقاب منه!

جس کسی قوم میں اللہ کی نافرمانی ہوتی ہے اور اس میں ایسے لوگ موجود ہوں جو اس کو بدل سکتے ہوں اور پھر وہ نہ بدلیں تو بہت جلد اللہ تعالیٰ ان پر اپنا عذاب عام بھیج دے گا۔

ابوداؤد، کتاب الملاحم، باب الامر و النھی۔ و روی الترمذی و النسائی بمعناه

ایک دوسری روایت ہے:

ان اللہ عز وجل لا یعذب العامه بعمل الخاصه حتی یسوا المنکر بین ظهرانیهم و هم قادرون علی ان ینکروا فلا ینکروا فاذا فعلوا ذلک عذب اللہ الخاصه والعامه

اللہ تعالیٰ خاص لوگوں کے عمل کی وجہ سے عام لوگوں کو عذاب نہیں دیتا، تاآنکہ وہ اپنے درمیان منکر کو دیکھیں اور اس پر نکیر کی قدرت کے باوجودنکیر نہ کریں، جب ان کی روش یہ ہوجاتی ہے تو اللہ تعالیٰ خاص اور عوام سب پر اپنا (عذاب بھیج دیتا ہے)۔

مسند احمد، ابن ماجہ، ابن حبان

عذاب نازل کردیتا ہے۔

یہ حدیثیں ظاہر کر رہی ہیں کہ اللہ کا عذاب یا تو کسی قوم کے ان لوگوں پر آتا ہے جو منکرات میں مبتلا ہوں یا ان لوگوں پر جو ان منکرات کو مٹانے کی طاقت رکھنے کے باوجود ان کو مٹانے کی کوشش نہ کر رہے ہوں۔ اس سے خود بخود یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ وہ افراد جو بگڑے ہوئے ماحول میں تغیر منکر کا فرض انجام دے رہے ہوں وہ اللہ کے عذاب سے محفوظ ہوتے ہیں۔ امام ابن ابی زہرہ اور علامہ قرطبی کی بھی یہی رائے ہے۔

اصحاب سبت کے واقعہ سے تائید

اس کی تائید اصحاب سبت کے واقعہ سے بھی ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے لیے سبت یعنی ہفتہ کے دن کو مقدس قرار دیا تھا۔ ان کو حکم تھا کہ وہ اس دن کو اللہ کی عبادت کے لیے مخصوص کردیں اور کوئی دنیوی کام نہ کریں۔ لیکن ان کی ایک آبادی جو سمندر کے کنارے واقع تھی، اس حکم کی خلاف ورزی کی اور ہفتہ کے دن مچھلی کا شکار کرنے لگی۔ قرآن کہتا ہے کہ ان کے اس غلط رویہ پر آبادی کے ایک طبقے نے نصیحت کی اور انھیں باز رکھنے کی کوشش کی تو ایک تیسرے طبقے نے ان مصلحین سے کہا:

لِمَ تَعِظُونَ قَوْمًا اللَّهُ مُهْلِكُهُمْ أَوْ مُعَذِّبُهُمْ عَذَابًا شَدِيدًا

تم ان لوگوں کو کیوں نصیحت کرتے ہو جنھیں اللہ ہلاک کرنے والا یا سخت عذاب دینے والا ہے۔

(الاعراف: ۱۶۴)

ان نصیحت کرنے والوں کے پاس اس کا جواب یہ تھا کہ ہم سب کچھ اس لیے کر رہے ہیں تاکہ:

مَعْذِرَةً إِلَىٰ رَبِّكُمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ

ہمارے رب کے حضور ہم معذرت پیش کرسکیں اور شاید یہ لوگ اپنے غلط رویہ سے باز آجائیں۔

(الاعراف: ۱۶۵)

اس طرح یہ آبادی تین گروہوں میں بٹ گئی۔ ایک گروہ نے اللہ کے حکم کی صریح خلاف ورزی کی اور سبت کی حرمت پامال کی، دوسرے گروہ نے اس کو نصیحت کی اور باز رکھنے کی کوشش کی، تیسرے گروہ نے نہ تو اللہ کے حکم کی نافرمانی کی اور نہ اس گروہ کو جو علانیہ نافرمانی کر رہا تھا، اس سے باز رکھنے کی کوشش کی۔ قرآن ان تینوں گروہوں کے ذکر کے بعد کہتا ہے:

فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُكِّرُوا بِهِ أَنجَيْنَا الَّذِينَ يَنْهَوْنَ عَنِ السُّوءِ وَأَخَذْنَا الَّذِينَ ظَلَمُوا بِعَذَابٍ بَئِيسٍ بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ فَلَمَّا عَتَوْا عَن مَّا نُهُوا عَنْهُ قُلْنَا لَهُمْ كُونُوا قِرَدَةً خَاسِئِينَ

پس جب وہ ان باتوں کو بالکل فراموش کر گئے، جن کی ان کو نصیحت کی گئی تھی تو ہم نے ان لوگوں کو بچا لیا جو انھیں برائی سے روکتے رہے تھے اور ظلم کرنے والوں کو ان کی نافرمانی کی وجہ سے سخت عذاب میں پکڑ لیا۔ پس جب وہ اس جرم میں حد سے بڑھ گئے، جس سے ان کو منع کیا گیا تھا تو ہم نے ان سے کہا کہ ہو جاؤ بندر ذلیل و خوار۔

(الاعراف: ۱۶۵-۱۶۶)

ان آیات میں قرآن نے صراحت کے ساتھ دو باتیں کہی ہیں: ایک یہ کہ جس گروہ نے حکم خداوندی کی نافرمانی کی وہ اس کے عذاب میں گرفتار ہوگیا۔ دوسری یہ کہ جن لوگوں نے اس گروہ کو اس نافرمانی سے روکنے کی کوشش کی وہ اس عذاب سے محفوظ رہے۔ یہ اس بات کا کھلا ہوا ثبوت ہے کہ اللہ کی طرف سے کسی قوم پر عذاب آتا ہے تو وہ لوگ اس سے بالکل مامون ہوتے ہیں جو اس کے اندر امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فرض انجام دیتے رہتے ہیں۔

اوپر کے واقعہ میں قرآن نے اس تیسرے گروہ کے انجام کا صراحت سے کوئی ذکر نہیں کیا۔ جو نہ تو سبت کی حرمت کو پامال کر رہا تھا اور نہ ان لوگوں کو منع کر رہا تھا جو اس جرم کا ارتکاب کر رہے تھے۔ بعض علماء نے کہا ہے کہ یہ گروہ بھی نجات یافتہ والوں میں تھا، لیکن بعض دوسرے اہل علم کی رائے ہے کہ اللہ کا عذاب اس پر بھی آیا تھا۔ اوپر ہم نے جو حدیثیں نقل کی ہیں ان سے اسی دوسری رائے کی تائید ہوتی ہے۔ کیوں کہ ان سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ جب کسی قوم میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی طاقت رکھنے والے افراد اس فرض کو چھوڑ دیتے ہیں، تو نہ صرف قوم تباہ ہوتی ہے، بلکہ اس کے ساتھ وہ خود بھی تباہ ہوتے ہیں۔ علامہ شوکانی فرماتے ہیں:

فإن من يتأهل للأمر بالمعروف والنهي عن المنكر معرضا عن ذلك غير قائم بحجة الله ولا مبلغ لها إلى عباده فهو شريكهم في جميع ما اقترفوه من معاصي الله سبحانه مستحق للعقوبة المعجلة والمؤجلة قبلهم، كما صح في قصة من تعدى السبت من اتباع موسى عليه السلام فإن الله تعالى ضرب من ترك الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر بسخط عذابه و مسخهم قردة و خنازير مع أنهم لم يفعلوا ما فعله المعتدون من الذنب بل سكتوا عن إبلاغ حجته والقيام بما أمرهم به من الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر، والحاصل أنه لا فرق بين من فعل المعصية و بين من رضي بها و لم يفعلها و بين من لم يرض بها لكن ترك النهي عنها مع عدم المسقط لذلك عنهم.

جو شخص امر بالمعروف و نهى عن المنکر کی اہلیت رکھتا ہے، وہ اگر اس سے اعراض کر جائے اور اللہ کی حجت قائم نہ کرے اور اس کے بندوں تک اسے پہنچائے تو وہ ان تمام گناہوں میں جن کا اس کے فرمانبردار نہ ارتکاب کرتے ہیں، ان کا شریک قرار پائے گا اور ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو دنیوی اور اخروی سزا ملے گی اس کا وہ بھی مستحق ٹھہرے گا۔ جیسا کہ موسیٰ علیہ السلام کے پیروکاروں میں سے ان لوگوں کے قصہ میں صحیح ہے جنھوں نے سبت کے سلسلے میں زیادتی کی تھی، کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں پر بھی اپنا عذاب نازل کیا تھا، جنھوں نے امر بالمعروف و نہی عن المنکر کو چھوڑ دیا تھا اور ان کی شکلوں کو مسخ کرکے بندر اور سور بنا دیا تھا۔ ایسا اس کے باوجود ہوا کہ اس گناہ (سبت میں شکار) کا ارتکاب ان لوگوں نے نہیں کیا تھا جس کا ارتکاب حد سے بڑھ جانے والوں نے کیا تھا۔ ان کی غلطی یہی تھی کہ اللہ تعالیٰ کی حجت کے پہنچانے اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا جو حکم انھیں ملا تھا اس کے انجام دینے سے وہ رکے رہے۔ حاصل یہ کہ معصیت کا ارتکاب کرنے والے، اس کا ارتکاب نہ کرنے کے باوجود اسے پسند کرنے والے اور اسے پسند نہ کرنے کے باوجود نہی عن المنکر کا فریضہ، بغیر کسی ایسے سبب کے جو فی الواقع ساقط کردینے والا ہو، چھوڑ دینے والے سب کے سب برابر ہیں۔

مجموعہ الرسائل الکبریہ، الجزء الثانی، الرسالة السادسة، ص ۴۴۔۴۵

بروں کی اصلاح نیکوں کا فرض ہے

قرآن نے مختلف مواقع پر حق و باطل کی داستان بیان کی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب کسی قوم میں بگاڑ بڑھتا ہے تو وہ دو گروہوں میں بٹ جاتی ہے۔ ایک طرف اصحاب اعراض ہوتے ہیں جو ہر قدم پر اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ دوسری طرف اصحاب اخلاص ہوتے ہیں جو آگے بڑھ کر اس طرح سینے سے لگا لیتے ہیں کہ وہ ان کے دل و دماغ میں پوری طرح اتر جاتی ہے اور ان کے ایک ایک عمل سے اس کا اظہار ہونے لگتا ہے۔ وہ پوری وفاداری کے ساتھ اس کی خدمت کرتے ہیں اور اس کے لیے ہر طرح کی مشقتیں برداشت کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ ان کی زندگی اور موت اسی کے لیے اور صرف اسی کے لیے ہوجاتی ہے۔ لیکن یہ حالت زیادہ دنوں تک باقی نہیں رہتی، رفتہ رفتہ باطل حق کی جگہ لے لیتا ہے اور افراد کو اپنی لپیٹ میں لینے لگتا ہے، ان کی زندگی نفاق کا شکار ہوجاتی ہے اور وہ اللہ کا نام لینے کے باوجود اللہ سے بہت دور ہوتے چلے جاتے ہیں۔ قرآن نے بعض پیغمبروں کے ذکر کے بعد ایک جگہ فرمایا:

فَخَلَفَ مِن بَعْدِهِمْ خَلْفٌ أَضَاعُوا الصَّلَاةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوَاتِ

پھر ان کے بعد ایسے جانشین (خلف) پیدا ہوئے جنھوں نے نماز کو ضائع کر دیا اور خواہشات کے پیرو ہوئے۔

(مریم: ۵۹)

ایسے برے جانشین (خلف) اپنے صالح اسلاف کے مقابلے میں دین کی خدمت انجام نہیں دیتے، بلکہ وہ اپنے اسلاف کے لیے باعث رسوائی ہوتے ہیں۔ ان کا وجود ملت اسلامیہ کے لیے اس کے داخلی دشمنوں سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہوتا ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ بسا اوقات ایسا ہوا بھی ہے۔ ایسے لوگوں کی اصلاح کی کوشش کرنا اور ان کے غلط اثرات کو پھیلنے سے روکنا، ان لوگوں کی ذمہ داری ہے جو صحیح معنی میں خدا پر ایمان رکھتے ہیں۔ اگر کسی کے اندر اس اصلاح کی تڑپ نہیں ہے اور وہ اس صورت حال کو بدلنے کے لیے بے چین نہیں ہے تو اس کا ایمان خطرے میں ہے۔ نبی ﷺ فرماتے ہیں:

مَا مِنْ نَبِيٍّ بَعَثَهُ اللَّهُ تَعَالَى فِي أُمَّةٍ قَبْلِي إِلاَّ كَانَ لَهُ مِنْ أُمَّتِهِ حَوَارِيُّونَ وَأَصْحَابٌ يَأْخُذُونَ بِسُنَّتِهِ وَيَقْتَدُونَ بِأَمْرِهِ ثُمَّ إِنَّهَا تَخْلُفُ مِنْ بَعْدِهِمْ خُلُوفٌ يَقُولُونَ مَا لاَ يَفْعَلُونَ وَيَفْعَلُونَ مَا لاَ يُؤْمَرُونَ فَمَنْ جَاهَدَهُمْ بِيَدِهِ فَهُوَ مُؤْمِنٌ وَمَنْ جَاهَدَهُمْ بِلِسَانِهِ فَهُوَ مُؤْمِنٌ وَمَنْ جَاهَدَهُمْ بِقَلْبِهِ فَهُوَ مُؤْمِنٌ وَلَيْسَ وَرَاءَ ذَلِكَ مِنَ الإِيمَانِ حَبَّةُ خَرْدَلٍ

مجھ سے پہلے اللہ تعالیٰ نے جس نبی کو بھی کسی امت میں مبعوث فرمایا، اس کی امت میں اس کے ایسے مددگار اور ساتھی ضرور رہے جو اس کے بتائے ہوئے طریقے پر عمل کرتے اور اس کے احکام کی اتباع کرتے۔ پھر ان کے بعد ایسے برے جانشین (خلف) پیدا ہوئے جو باتیں وہ کرتے، جن پر خود عمل نہ کرتے اور کام وہ کرتے جن کا ان کو حکم نہ ملا ہوتا۔ پس جس نے ان سے اپنے ہاتھ سے جہاد کیا وہ مؤمن ہے اور جس نے ان سے اپنی زبان سے جہاد کیا وہ (بھی) مؤمن ہے اور جس نے ان سے اپنے دل سے جہاد کیا وہ (بھی) مؤمن (ہی) ہے۔ لیکن اس کے بعد رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان نہیں ہے۔

مسلم، کتاب الایمان، باب بیان کون النھی عن المنکر من الایمان الخ

دوسروں کی اصلاح سے اپنی اصلاح ہوتی ہے

بگڑے ہوئے ماحول میں نیک سے نیک آدمی کے بھی راہ راست سے بھٹک جانے کا خطرہ ہوتا ہے۔ اس کی نجات کی صورت صرف یہ ہے کہ آدمی اس ماحول سے پوری قوت کے ساتھ اور مسلسل جنگ کرتا رہے۔ شر کے مقابلے میں خیر کا داعی بن جائے اور جہاں کوئی خرابی نظر آئے اس کی اصلاح کے لیے دوڑ پڑے۔ اگر اس میں اس نے کوتاہی کی تو ماحول کے غلط اثرات خود اس کی ذات پر پڑنے لگیں گے اور وہ بگاڑ سے محفوظ نہ رہ سکے گا۔ بسا اوقات انسان یہ دیکھ کر اصلاح کی کوشش چھوڑ دیتا ہے کہ اس کی بات سنی نہیں جاتی اور اس کا اثر ظاہر نہیں ہوتا، حالاں کہ اس میں خود اس کا ذاتی نقصان ہے۔ جب آدمی بدی کے مقابلہ میں شکست کھا کر اصلاح کی کوشش چھوڑ دیتا ہے تو فطری طور پر اس کے دل میں برائیوں کے خلاف وہ نفرت بھی باقی نہیں رہتی جو فی الواقع ہونی چاہیے۔ پھر آہستہ آہستہ وہ ان سے مانوس ہونے لگتا ہے، یہاں تک کہ ایک وقت وہ بھی آتا ہے کہ برائیوں سے شدید نفرت کرنے والا انسان خود ان ہی میں ملوث ہو جاتا ہے۔

امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے چھوڑنے سے بنی اسرائیل کے نیک لوگ بگڑ گئے۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ بنی اسرائیل میں برائیاں پھیلنے لگیں تو ابتداء میں نیک لوگ ان برائیوں پر ٹوکتے تھے، لیکن جب انھوں نے دیکھا کہ ان کی یہ تکیر کارگر نہیں ہو رہی ہے تو انھوں نے خاموشی اختیار کرلی اور پھر یہ بھی ہوا کہ وہ ان ہی برائیوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے لگے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ برائی سے نفرت جو ایک مومن کا سرمایہ ہوتی ہے، ان کے دلوں سے ختم ہوگئی۔ اس کے بعد ان میں ایسے افراد نہیں رہے جو بدی کو بدی کہتے اور اس پر تکیر کرتے۔ جب یہ حالت ہوگئی تو خدا کی نظر عنایت ان سے پھر گئی اور وہ اس کی لعنت کے مستحق قرار پائے۔ ابوداؤد کی روایت ہے:

قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا دَخَلَ النَّقْصُ عَلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ كَانَ الرَّجُلُ يَلْقَى الرَّجُلَ فَيَقُولُ يَا هَذَا اتَّقِ اللَّهَ وَدَعْ مَا تَصْنَعُ فَإِنَّهُ لَا يَحِلُّ لَكَ ثُمَّ يَلْقَاهُ مِنْ الْغَدِ فَلَا يَمْنَعُهُ ذَلِكَ أَنْ يَكُونَ أَكِيلَهُ وَشَرِيبَهُ وَقَعِيدَهُ فَلَمَّا فَعَلُوا ذَلِكَ ضَرَبَ اللَّهُ قُلُوبَ بَعْضِهِمْ عَلَى بَعْضٍ ثُمَّ لَعَنَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَى لِسَانِ دَاوُدَ وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ بنی اسرائیل میں نقص کی ابتداء یوں ہوئی کہ ایک آدمی دوسرے آدمی سے (جو مرتکب جرم ہوتا) ملاقات کرتا اور اسے کہتا کہ اے اللہ کے بندے! خدا سے ڈر اور اپنے اس غلط کام کو چھوڑ دے، کیوں کہ یہ تیرے لیے جائز نہیں۔ (لیکن اس نصیحت کا اس پر کوئی اثر نہیں پڑتا) اب یہ شخص اس سے دوسرے دن ملتا تو یہ چیز اسے اس کے ساتھ کھانے پینے اور بیٹھنے سے نہ روکتی۔ جب یہ حال ہوا تو اللہ نے ان کے دل ایک دوسرے پر مار دیے۔ اس کے بعد آپ نے قرآن کی آیت پڑھی: "بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے کفر کیا ان پر داؤد اور عیسیٰ بن مریم کی زبان سے لعنت کردی گئی۔"

ابوداؤد، کتاب الملاحم، باب الامر والنہی ۔ وروی الترمذی بمعناه

امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے چھوڑنے سے بنی اسرائیل کی مذمت

قرآن نے بنی اسرائیل کے علماء اور سربرآوردہ گروہ کی اس بات پر سخت مذمت کی ہے کہ اللہ نے ان کو اصلاح امت کا اونچا مقام دیا تھا، لیکن وہ اپنی ذمہ داریوں سے غافل رہے۔ عوام ان کے سامنے معصیت کی زندگی گزار رہے تھے، ایک دوسرے پر ظلم و زیادتی کر رہے تھے اور حرام و حلال سے بے نیاز ہوچکے تھے، لیکن وہ اس صورت حال کو تبدیل کرنے کی قطعاً کوشش نہیں کر رہے تھے:

وَتَرَىٰ كَثِيرًا مِّنْهُمْ يُسَارِعُونَ فِي الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَأَكْلِهِمُ السُّحْتَ ۚ لَبِئْسَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿٧٨﴾ لَوْلَا يَنْهَاهُمُ الرَّبَّانِيُّونَ وَالْأَحْبَارُ عَن قَوْلِهِمُ الْإِثْمَ وَأَكْلِهِمُ السُّحْتَ ۚ لَبِئْسَ مَا كَانُوا يَصْنَعُونَ ﴿٧٩﴾

اور تم ان میں سے بہت سوں کو دیکھو گے کہ وہ گناہ اور ظلم و زیادتی کے کاموں میں اور حرام مال کے کھانے میں ایک دوسرے سے سبقت لیے جا رہے ہیں، یقینا بہت برا ہے جو وہ کر رہے ہیں۔ ان کو ان کے ربانی (اللہ والے) اور علماء (احبار) گناہ کی بات کہنے اور حرام مال کھانے سے کیوں نہیں منع کرتے۔ یقینا بہت بری روش ہے جو وہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔

(المائدہ: ۷۸-۷۹)

ان آیات کے ذیل میں امام رازی فرماتے ہیں:

أن الله تعالى استبعد من أهل الكتاب أنهم ما نهوا سلفهم وعوامهم عن المعاصي وذلك يدل على أن تارك النهي عن المنكر بمنزلة مرتكبه لأنه تعالى ذم الفريقين في هذه الآية على لفظ واحد.

اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب سے یہ بات (ان کے مقام و مرتبہ کے لحاظ سے) بعید قرار دی ہے کہ انھوں نے اپنے پیچھے کے لوگوں اور عوام کو معاصی سے منع نہیں کیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ منکر سے روکنے والا بھی منکر کا ارتکاب کرنے والے ہی کے درجے میں ہے، کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں دونوں گروہوں کی ایک ہی قسم کے الفاظ میں مذمت کی ہے۔

مفاتیح الغیب (تفسیر کبیر)، المجلد السادس، الجزء ۱۴، ص ۴۳

اتنا ہی نہیں، امام رازی اور دوسرے مفسرین نے یہ بھی لکھا ہے کہ قرآن نے منکر کا ارتکاب کرنے والوں کے بارے میں اتنا سخت لفظ اختیار نہیں کیا ہے جتنا سخت کہ منکر سے منع کرنے والوں کے بارے میں اختیار فرمایا ہے۔ پہلے گروہ کے لیے تو اس نے صرف 'یعملون' ہی کہا ہے، جب کہ دوسرے کے لیے 'یصنعون' فرمایا ہے۔

قرآن مجید نے ان آیات میں علماء بنی اسرائیل پر جو تنقید کی ہے اس میں امت مسلمہ اور خاص کر اس کے اہل علم کے لیے بڑی عبرت اور بڑا سبق ہے۔ اس میں ان کو بتایا گیا ہے کہ وہ بھی اللہ کی اسی ملامت اور عتاب کا نشانہ بنیں گے اگر وہ اپنی ذمہ داریوں سے غافل رہے اور اصلاح امت کا کام چھوڑ بیٹھے۔ اللہ کو نہ تو کسی سے کوئی ذاتی تعلق ہے کہ اس کی کمزوریوں کے باوجود اس سے محبت کرے اور نہ کسی سے ایسی عداوت اور دشمنی ہے کہ اس کی خوبیوں کے باوجود اس سے نفرت کرے۔ اسی وجہ سے حق پرست علماء نے ہمیشہ اس آیت کو اپنے حق میں زبردست تنبیہ سمجھا ہے۔ ابن جریر فرماتے ہیں:

كان العلماء يقولون ما في القرآن آية أشد توبيخا للعلماء من هذه الآية ولا أخوف عليهم منها.

علماء کہا کرتے تھے کہ قرآن میں کوئی بھی آیت ایسی نہیں ہے، جس میں اصحاب علم کے لیے اس سے زیادہ سخت توبیخ ہو اور جو ان کے لیے اس سے زیادہ خوف کا باعث ہو۔

جامع البیان فی تفسیر القرآن: ۹/۱۰

اس آیت کے بارے میں یہی بات حضرت عبد اللہ بن عباس، ضحاک اور عطاء تابعی نے بھی کہی ہے۔

رسول اکرم ﷺ نے ایک موقع پر بنی اسرائیل کے قومی بگاڑ اور تباہی کے ذکر کے بعد امت کو ہدایت فرمائی:

كَلَّا وَاللَّهِ لَتَأْمُرُنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلَتَنْهَوُنَّ عَنِ الْمُنْكَرِ وَلَتَأْخُذُنَّ عَلَى يَدَىِ الظَّالِمِ وَلَتَأْطِرُنَّهُ عَلَى الْحَقِّ أَطْرًا

ہرگز نہیں! قسم خدا کی، تم ضرور معروف کا حکم دو گے اور ضرور منکر سے روکو گے اور ظالم کا ہاتھ پکڑ لو گے اور اس کو ضرور حق کی طرف پھیر دو گے۔

ابوداؤد، کتاب الملاحم، باب الامر والنہی

امت مسلمہ کا دور اول اس کے لیے مثالی دور ہے

اس امت کے لیے اس کا دور اول ہر حیثیت سے ایک اعلیٰ مثال اور بہترین نمونہ ہے، کیوں کہ یہ دور اللہ کے دین کی خدمت اور اس کے نتائج دونوں پہلوؤں سے اس کا قابل رشک دور تھا۔ اس میں غیر معمولی خدا پرستی اور نیکی یکجا ہوگئی تھی۔ حق غالب اور باطل مغلوب تھا۔ معروف کی حکومت تھی اور منکر سرنگوں تھا۔ بدی کی جگہ نیکی اور شر کی جگہ خیر کی فرماں روائی تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے جس طرح دعوت دین کا کام اعلیٰ پیمانے پر کیا تھا، اسی طرح آپ نے امت کی جس طرح اصلاح و تربیت کی وہ بھی مثالی تھی۔ اس سے بہتر کسی گروہ کی تربیت کا تصور نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اس مبارک دور کے پاکیزہ اثرات آپ کے بعد بھی مدت دراز تک باقی رہے اور پھر یہ بتدریج کم ہوتے چلے گئے۔

بالفاظ دیگر امت اپنے دور خیر و صلاح کے بعد بگاڑ کی طرف بڑھنے لگی۔

نبی ﷺ کی پیشین گوئی:

خَيْرُكُمْ قَرْنِي ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ قَالَ عِمْرَانُ فَلاَ أَدْرِي قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بَعْدَ قَرْنِهِ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلاَثًا ثُمَّ يَكُونُ بَعْدَهُمْ قَوْمٌ يَشْهَدُونَ وَلاَ يُسْتَشْهَدُونَ وَيَخُونُونَ وَلاَ يُؤْتَمَنُونَ وَيَنْذُرُونَ وَلاَ يُوفُونَ وَيَظْهَرُ فِيهِمُ السَّمَنُ

تمھارا سب سے اچھا دور میرا دور ہے، پھر ان لوگوں کا دور ہے جو اس کے بعد آئیں گے۔ اس کے بعد ان لوگوں کا جو اس کے بعد آئیں گے۔ عمران کہتے ہیں مجھے یاد نہیں رہا کہ نبی ﷺ نے اپنے دور کے بعد دو مرتبہ کہا یا تین مرتبہ، پھر ان کے بعد ایسے لوگ ہوں گے جو گواہی دیں گے، لیکن وہ گواہی کے لیے طلب نہیں کیے جائیں گے۔ خیانت کریں گے اور امانت نہیں رکھیں گے۔ وہ نذر مانیں گے، لیکن نذر پوری نہیں کریں گے اور ان میں موٹاپا (عیش پرستی) پھیل گیا ہوگا۔

بخاری، باب فضائل اصحاب النبی ﷺ۔ مسلم، کتاب الفضائل، باب فضائل الصحابہ ثم الذین یلونہم الخ، واللفظ لمسلم

ظاہر ہے، امت کے پہلے لوگوں کی یہ تعریف بلا وجہ نہیں تھی، بلکہ اس لیے وہ تعریف کے مستحق قرار پائے تھے کہ انھوں نے دین کی راہ میں زبردست قربانیاں دی تھیں اور امت کی اصلاح و تربیت اور حق و خیر خواہی سے کبھی غافل نہیں رہے۔ اگر یہ خوبیاں بعد کے کسی دور میں پائی جائیں تو بلاشبہ وہ بھی قابل تعریف ہوگا۔ علامہ قرطبی کہتے ہیں:

أن قرنه إنما فضلوا لأنهم كانوا غرباء في إيمانهم لكثرة الكفار وصبرهم على أذاهم وتمسكهم بدينهم وأن أواخر هذه الأمة إذا أقاموا الدين وتمسكوا به وصبروا على طاعة ربهم في حين ظهور الشر والفسق والمعاصي والكبائر كانوا عند ذلك أيضا غرباء وزكت أعمالهم في ذلك الوقت كما زكت أعمال أوائلها.

آپ کے دور کے لوگوں کو اس لیے فضیلت دی گئی کہ وہ اپنے ایمان کی بنا پر معاشرے میں اجنبی تھے کیوں کہ کفار کی کثرت تھی اور انھوں نے ان کی ایذا رسانیوں پر صبر کیا تھا اور اپنے دین کو مضبوطی سے پکڑے رکھا اور اس امت کے آخری لوگ جب دین کو قائم کریں گے اور اسے مضبوطی سے تھامے رکھیں گے اور اپنے رب کی اطاعت پر صبر کریں گے جبکہ شر، فسق، معاصی اور کبائر کا ظہور ہو تو اس وقت وہ بھی غریب ہوں گے اور ان کے اعمال اس وقت اسی طرح پاکیزہ ہوں گے جس طرح اس امت کے اوائل کے اعمال پاکیزہ ہوئے تھے۔

(ترجمہ از اصل متن - حوالہ ندارد)

دین کی غربت میں اللہ تعالیٰ کا یہ قانون جاری ہے کہ جب غربت حد سے بڑھ جاتی ہے تو دین کی مدد کے لیے اور اس کو زندہ کرنے کے لیے کچھ لوگ اس پر ثابت قدم رہتے ہیں اور اس کے لیے جدو جہد کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کو بے مثال اجر عطا فرماتا ہے۔ اس کو ان چند الفاظ میں سمیٹا گیا ہے۔

بَدَأَ الإِسْلاَمُ غَرِيبًا وَسَيَعُودُ كَمَا بَدَأَ غَرِيبًا فَطُوبَى لِلْغُرَبَاءِ

اسلام اجنبی کی حالت میں شروع ہوا اور پھر وہ اسی طرح اجنبیت کی حالت میں لوٹ جائے گا جیسا کہ شروع میں تھا۔ پس خوش خبری ہے اجنبیوں کے لیے۔

ترمذی، کتاب الایمان، باب ماجاء ان الاسلام بدء غریبا وسيعود غریبا

دین کی اجنبیت کا انکار کرنے والوں میں

بعد کے ادوار میں دین کے اجنبی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ نبی ﷺ کی بعثت کے وقت جس طرح جاہلیت کا غلبہ تھا، پھر جاہلیت کا غلبہ ہو جائے اور ہر طرف باطل کی فرماں روائی ہونے لگے۔ ذہنوں پر غلط افکار چھا جائیں اور صحیح فکر رکھنے اور اسے پیش کرنے والے اقلیت میں چلے جائیں اور انھیں گوارا نہ کیا جائے، گنجان آبادیاں اللہ تعالیٰ کے ذکر اور چرچے سے خالی ہو جائیں اور اس کے دین پر عمل کرنے والے صفحہ زمین پر تھوڑے رہ جائیں، بڑی بڑی بستیوں میں اللہ کا نام اور اس کے دین کی رہ نمائی حاصل کرنے والے کم سے کم ہو جائیں اور انسانوں پر دین سے غفلت چھا جائے۔ چناں چہ نبی ﷺ سے پوچھا گیا کہ جن اجنبیوں کو آپ خوش خبری دے رہے ہیں وہ کون ہیں؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا:

أُنَاسٌ صَالِحُونَ فِي أُنَاسِ سَوْءٍ كَثِيرٍ مَنْ يَعْصِيهِمْ أَكْثَرُ مِمَّنْ يُطِيعُهُمْ

یعنی یہ وہ اللہ کے نیک بندے ہیں جو تاریکی میں روشنی کا چراغ جلاتے ہیں اور جن کے ہاتھوں دنیا میں اصلاح کا کام انجام پاتا ہے۔ یہ باطل کے غلبے سے ہراساں نہیں ہوتے، بلکہ اس کی جکڑت کو توڑنے اور حق کو غالب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کے کام کی نوعیت ٹھیک وہی ہوتی ہے جو پیغمبروں کے کام کی ہوتی ہے۔ ان کے ذریعے بکھرے ہوئے انسانوں کو اسی طرح راہِ ہدایت ملتی ہے جس طرح پیغمبروں کے ذریعے ملتی تھی۔

(مسند احمد: ۱/ ۹۵۸۔ ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب بدء الاسلام غربیا - متن عربی از مسند احمد)

اسی وجہ سے بعض احادیث میں غرباء (دین کی راہ میں اجنبی ہونے والے) کی تعریف ان الفاظ میں کی گئی ہے:

الَّذِينَ يُصْلِحُونَ إِذَا أَفْسَدَ النَّاسُ

یعنی وہ اصلاح کرتے ہیں جب لوگ بگاڑ پیدا کریں۔

(رواه احمد، مدارج السالکین: ۳/۱۲۲)

علامہ ابن اثیر حدیث بالا کی شرح میں فرماتے ہیں:

أنه ) أي الإسلام ) كان في أول أمره كالغريب الذي لا أهله عنده لقلة المسلمين يومئذ وسيعود غريبا كما كان أي يقل المسلمون في آخر الزمان فيصيرون كالغرباء فطوبى للغرباء أي الجنة لأولئك المسلمين الذين كانوا في أول الإسلام ويكونون آخره وإنما خصهم بها لصبرهم على أذى الكفار أولا وآخرا ولزومهم دين الإسلام.

یعنی اسلام اپنے آغاز میں مسلمانوں کی قلت کی وجہ سے اس تنہا اجنبی کی مانند تھا جس کے پاس اس کے گھر کے لوگ نہ ہوں اور پھر وہ اجنبی ہو جائے گا جیسا کہ پہلے تھا۔ یعنی آخر زمانے میں مسلمان اقلیت میں ہو جائیں گے اور اس طرح (غربت کے درمیان) اجنبی بن جائیں گے۔ پس خوش خبری ہے اجنبیوں کے لیے یعنی جنت ہے ان مسلمانوں کے لیے جو اسلام کے دور آغاز میں تھے اور اس کے دور آخر میں ہوں گے۔ خصوصیت سے انھیں جنت کی بشارت دینے کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے دور اول اور دور آخر میں کفار کی ایذا رسانیوں پر صبر کیا اور دین اسلام کو پکڑے رہے۔

النہایہ فى غریب الحدیث: ۵۲/۳، ماده غرب

دین کے ان اجنبی مسافروں کو وہ تمام مشکلات پیش آئیں گی جو حق کے رہبروں کو عموماً پیش آتی ہیں۔ ان کو ستایا جائے گا، ان پر طعن و تضحیک کے تیر برسائے جائیں گے، ان کی آسائش و راحت چھین لی جائے گی، ان کے حق میں چمن کے پھول کانٹوں میں تبدیل ہونے لگیں گے حتیٰ کہ زندگی بھر کے دوست ان کا ساتھ دینے کے لیے تیار نہ ہوں گے اور خونی رشتے دار دشمن جاں بن جائیں گے، ان کے لیے خدا کی زمین تنگ ہونے لگے گی اور وہ اپنے وطن میں غریب الدیار ہو جائیں گے۔ بلکہ ہوسکتا ہے کہ ان کو مظلومیت کے عالم میں گھر بار تک چھوڑنا پڑے۔ چناں چہ ایک حدیث میں غرباء کی تشریح ان الفاظ میں بھی کی گئی ہے:

الْمُهَاجِرُونَ

قبولے سے نکل جانے والے۔

(اشارہ مسند احمد: ۱/ ۹۵۸، ابن ماجہ، الفتن، باب بدء الاسلام غربیا)

محدثین نے لکھا ہے کہ اس سے مراد مہاجرین ہیں۔ اس ایک لفظ سے اجنبیت اور مظلومیت کی تصویر پوری طرح سامنے آجاتی ہے۔ اس سے آپ تصور کر سکتے ہیں کہ وہ کتنی کٹھن راہ تھی جس سے حق کے پہلے مسافر گزرے تھے اور جس سے بعد والوں کو گزرنا پڑے گا۔

دین کی اجنبیت اس کے ماننے والوں میں

دین کی غربت کی ایک شکل یہ بھی ہو سکتی ہے کہ خود دین کے ماننے والے بے دینی کا شکار ہو جائیں، باطل کے سیلاب میں وہ اس طرح بہہ جائیں جس طرح منکرین خدا بہہ جاتے ہیں، ان میں وہ ایمانی قوت باقی نہ رہے جو حقیقتوں کے مقابلے میں مرد مومن کو ثابت قدم رکھتی ہے۔ ان کے اندر ایسے اصحاب فکر کم سے کم ہو جائیں جو دین کی روشنی میں اپنے مسائل پر غور کرتے ہیں اور ایسے اصحاب عمل کی تعداد گھٹ جائے جو اپنے ہر اقدام سے پہلے دین کا نقطہ نظر معلوم کریں اور اس کے مطابق اپنی راہ متعین کریں۔ بالفاظ دیگر دین کا نام لینے والے تو اکثریت میں ہوں، لیکن صحیح دین کی فکر کے حامل اور دین کی راہ پر چلنے والے اقلیت میں رہ جائیں۔ ظاہر ہے، ان حالات میں خود دین کے ماننے والوں کے درمیان ہی دین کے حقیقی خادموں اور اس کے سچے وفاداروں پر اجنبیت کا عالم چھا جائے گا، لیکن اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک یہ اجنبیت بہت ہی مبارک اجنبیت ہے۔ نبی اکرم ﷺ کے ارشادات میں اس اجنبیت کا بھی بیان موجود ہے۔ آپ سے لوگوں نے پوچھا کہ غرباء سے مراد کون ہیں؟ آپ نے جواب دیا:

الَّذِينَ يَزِيدُونَ إِذَا نَقَصَ النَّاسُ

(وہ کم لوگ ہیں) زیادہ ہوں گے، جب کہ لوگ (اس پہلو سے) کم ہوں گے۔

رواه احمد (مدارج السالکین: ۳/۱۲۲)

مطلب یہ کہ غرباء وہ ہیں جو تقویٰ و خدا پرستی میں اس وقت آگے ہوں گے جب کہ دوسرے لوگ اس میں پیچھے ہوں گے۔

اس سے آگے آپ یہ بھی فرماتے ہیں کہ وہ نہ صرف خود صلاح یاب ہوں گے، بلکہ اصلاح امت کا فرض بھی انجام دیں گے۔

الَّذِينَ يُصْلِحُونَ مَا أَفْسَدَ النَّاسُ مِنْ سُنَّتِي

وہ افراد جو اس بگاڑ کی اصلاح کریں گے جسے لوگ میری سنت میں پیدا کرچکے ہیں۔

(حوالہ ندارد، مفہوم روایت)

یہی روایت ان الفاظ کے ساتھ بھی آئی ہے:

الَّذِينَ يُحْيُونَ سُنَّتِي وَيُعَلِّمُونَهَا النَّاسَ

وہ افراد جو میری سنت کو زندہ کریں گے اور لوگوں کو اس کی تعلیم دیں گے۔

ترمذی، کتاب الایمان، باب ماجاء ان الاسلام بدء غریبا وسيعود غریبا

بعض محدثین نے حدیث کی تشریح اسی پہلو سے کی ہے۔ امام اوزاعی فرماتے ہیں:

أما إنه ما يذهب أهل الإسلام ولكن يذهب أهل السنة حتى لا يبقى في البلد منهم إلا رجل واحد.

بے شک اسلام کے نام لیوا نہیں ختم ہو جائیں گے، بلکہ سنت کی پیروی کرنے والے باقی نہیں رہیں گے، یہاں تک کہ پورے شہر میں سنت کی پیروی کرنے والا صرف ایک ہی شخص رہ جائے گا۔

کشف الکربتہ فی وصف حال اھل الغربتہ، ابن رجب حنبلی، ص ۱۰

امام ابن قیم حدیث 'ہذا الاسلام غریبا' کے ذیل میں اپنے دور کا حال بیان کرتے ہیں کہ امت کے اندر بگاڑ اور طریقہ سنت سے انحراف عام ہے، ہر طرف بدعتیں اور خلاف شرع امور دیکھے جاتے ہیں، سماج پر گم راہ فرقے چھائے ہوئے ہیں۔ ان کے مقابلے میں رسول اللہ ﷺ کے طریقے پر عمل کرنے والے اجنبی بن کر رہ گئے ہیں۔ فرماتے ہیں:

وأهل الإسلام في الناس غرباء وأهل الإيمان في أهل الإسلام غرباء وأهل العلم في أهل الإيمان غرباء وأهل السنة الذين يميزونها عن البدع والأهواء غرباء وأما الداعون إليها الصابرون على أذى المخالفين فهم أشد غربة.

”اہل اسلام عام لوگوں میں اجنبی ہیں، اہل ایمان اسلام لانے والوں میں اجنبی ہیں، اہل علم ایمان والوں میں اجنبی ہیں اور سنت و خیر و برکات کو بدعات کے درمیان تمیز کرنے والے اہل سنت بدعتوں میں اجنبی ہیں اور سنت کی طرف بلانے والے اور مخالفین کی ایذا رسانیوں پر صبر کرنے والے تو ان سب سے زیادہ اجنبی ہیں۔

مدارج السالکین: ۳/۱۱۳

لیکن واقعہ یہ ہے کہ وہی اللہ والے ہیں۔ ان کے لیے حقیقت میں کوئی اجنبیت نہیں ہے۔ ان کی اجنبیت اس کثرت کے درمیان ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ

وَإِن تُطِعْ أَكْثَرَ مَن فِي الْأَرْضِ يُضِلُّوكَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ

"اگر تم ان میں سے اکثر کی جو زمین میں ہیں اتباع کرو گے تو وہ تم کو اللہ کے راستے سے پھیر دیں گے۔"

(الانعام: ۱۱۶)

گو یہ لوگ اکثریت میں ہیں، لیکن اللہ اور اس کے رسول اور اس کے دین سے اجنبی ہیں اور ان کی اجنبیت زیادہ وحشت انگیز ہے، خواہ وہ کتنے ہی معروف ومشہو رکیوں نہ ہوں اور لوگ ان کی طرف عقیدت سے اشارے ہی کیوں نہ کرتے ہوں۔

چند سطروں کے بعد (ابن قیم) فرماتے ہیں:

وغربة هذا الإسلام الذي بعث الله به رسوله حقا بين هذه الأمة أشد من غربته في أول ظهوره مع قلة أهله وأتباعه فإن غربته يومئذ كانت من بين الكفار والمشركين وأهل الكتاب وأما اليوم فغربته من بين هؤلاء الأوباش وكثير ممن يدعي الإسلام والانتساب إليه.

”ایک اجنبیت تو وہ ہے جو اللہ والوں اور اس کے رسول کی سنت کی اتباع کرنے والوں کو مخلوق کے درمیان ہوتی ہے۔ یہ اجنبیت جن انسانوں کو یہ نصیب ہو۔ رسول اکرم نے ان کی تعریف کی ہے... یہ اجنبیت (ضروری) نہیں کہ پورے عالم پر چھا جائے، بلکہ یہ کسی جگہ بھی ہو سکتی ہے اور کسی جگہ نہیں بھی ہو سکتی، کسی خاص وقت میں ہو سکتی ہے اور کسی وقت میں نہیں بھی ہو سکتی اور کسی قوم میں ہو سکتی ہے اور کسی قوم میں نہیں بھی ہو سکتی۔ لیکن بہر حال یہ لوگ وہ اجنبی ہیں جو قلبی طور پر اللہ والے ہیں، کیوں کہ انھوں نے اللہ کے سوا کسی کے دامن میں پناہ نہیں لی اور اس کے رسول کے سوا کسی دوسرے کی طرف نہ تو اپنا انتساب کیا اور نہ تعلیمات رسول کے سوا کسی دوسری تعلیم کی طرف دنیا کو دعوت دی۔“

مدارج السالکین: ۳/۱۱۲- ۱۱۴

اسی بحث میں آگے چل کر فرماتے ہیں:

فالإسلام الذي عليه اليوم رسول الله صلى الله عليه وسلم وأصحابه هو أشد غربة منه في أول ظهوره وإن كانت أعلامه الظاهرة ورسومه المشهورة أكثر فالإسلام الحقيقي غريب جدا ودعاته غرباء جدا وأندر منهم من يعرف حقيقة هذا الإسلام ويدعو إليه ويصبر على أذى المخالفين له فهم أشد غربة أولئك هم الأقلون عددا الأعظمون عند الله قدرا و هم الفرقة الناجية

”وہ اسلام جس پر محمد ﷺ اور آپ کے اصحاب قائم تھے، آج اپنے زمانہ آغاز سے زیادہ اجنبی ہے، گو کہ اس کی نشانیاں اور ظاہری رسوم زیادہ معروف و مشہور ہیں۔ حقیقی اسلام اجنبی بن گئے ہیں اور اس پر عمل کرنے والے بے حد اجنبی بنے ہوئے ہیں۔ خیال کرو کہ ایک جماعت کیسے مختصر اور اجنبی نہ ہو گی اکیلی جماعت فرقوں کے درمیان جو اپنے تئیں حق پر سمجھتے ہیں اور جن کے پاس ریاست، منصب اور اقتدار بھی ہے۔ ان لوگوں کی ساری رونق تعلیمات رسول کی مخالفت سے عبارت ہے، کیوں کہ آپ کی تعلیمات ان کی خواہشات پر گراں گزرتی ہیں۔ دین کے بارے میں ان کے شکوک و شبہات سے جو ان کے علم و فضیلت کی آخری حد ہے، اور ان کی خواہشات نفس سے جو ان کے مقاصد اور ارادوں کی انتہا ہے۔ لہٰذا وہ مومن جو اتباع رسول ﷺ کی راہ سے اللہ کی طرف چل رہا ہو وہ ایسے لوگوں کے درمیان کیوں نہ اجنبی ہوگا جو اپنی خواہشات کے غلام اور حرص و ہوا کے تابع ہیں اور ان میں سے ہر ایک اپنی رائے پر نازاں ہے۔“

مدارج السالکین: ۱۱۲/۳- ۱۱۴ (مفہوم روایت 73 فرقے)

اسی سلسلے میں فرماتے ہیں:

والمؤمن الذي نصح لله ولكتابه ولرسوله ولأئمة المسلمين وعامتهم فوجد الناس قد استحسنوا خلاف ذلك ومالوا إلى غيره ورضوا بضد ذلك فعدوه غريبا واستوحشوا منه لما قد ألفوه فإنه لشدة غربته بين هؤلاء يحتاج إلى قوة عظيمة وسلوك منفردهم عنهم

”وہ مومن، جسے اللہ نے اپنے دین کی بصیرت، اپنے رسول کی سنت کی سوجھ بوجھ اور اپنی کتاب کا فہم عطا کیا ہے اور ساتھ ہی اسے یہ بھی دکھا دیا ہے کہ لوگ کن خواہشوں، پرستوں اور گم راہیوں میں گرفتار ہیں اور جس طرح وہ اس صراط مستقیم سے بھٹک گئے ہیں جس پر رسول ﷺ اور آپ کے صحابہ گام زن تھے، اگر وہ اسی راہ راست پر چلنا چاہے تو اسے جاہلوں اور اہل بدعت کی تذلیل و تردید میسر آئے گی ان کی تحقیر و عیب چینی پر صبر کرنا ہوگا۔ وہ لوگوں کو اس سے نفرت دلائیں گے اور اس سے خوف زدہ کریں گے، ان کا سلوک اس کے ساتھ ٹھیک اسی طرح کا ہوگا جس طرح کا سلوک کفار اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ساتھ کرتے تھے۔ اگر وہ ان کو صراط مستقیم کی طرف دعوت دے اور ان کی روشنی پر تنبیہ کرے تو ان کے درمیان قیامت برپا ہو جائے گی، وہ اس کے ساتھ ہر طرح کے مکر کریں گے۔ اس کے لیے دھوکے کے جال بچھائیں گے اور اپنی فوج لے کر اس پر دوڑ پڑیں گے۔ وہ ان کے درمیان اپنے دین میں اجنبی ہوگا، کیوں کہ ان کا دین بگڑ چکا ہوگا۔ وہ اپنی اتباع سنت میں اجنبی ہوگا، کیوں کہ وہ بدعتوں سے چمٹے ہوئے ہوں گے۔ وہ اپنے صحیح عقیدے میں اجنبی ہوگا، کیوں کہ ان کے عقائد غلط اور باطل ہوں گے۔ وہ اپنی نمازوں میں اجنبی ہوگا کیوں کہ ان کی نمازیں فاسد ہوں گی۔ وہ اپنے طریقے میں اجنبی ہوگا، کیوں کہ وہ غلط راہوں پر چل رہے ہوں گے۔ وہ اپنی عقل میں اجنبی ہوگا، کیوں کہ وہ اللہ کے رسول کی طرف منسوب ہوگا اور وہ اپنے جھوٹے راہ نماؤں کی طرف منسوب ہوں گے۔ وہ اپنی معاشرت میں اجنبی ہوگا، کیوں کہ وہ ان کی خواہشات کے خلاف ان سے سلوک کرے گا۔ مختصر یہ کہ وہ اپنی دنیا و آخرت کے تمام معاملات میں بالکل منفرد اور بے گانہ ہوگا اور اپنا کوئی مددگار اور معاون نہ پائے گا۔ وہ جاہلوں کے درمیان عالم، اہل بدعت کے درمیان صحیح سنت اور خواہشوں اور بدعتوں کی طرف بلانے والوں کے درمیان خدا اور اس کے رسول کی طرف بلانے والا ہوگا۔ وہ ایسے لوگوں کے درمیان امر بالمعروف و نهی عن المنکر کا فرض انجام دینے والا ہوگا جن کے نزدیک معروف منکر اور منکر معروف بن چکا ہوگا۔“

مدارج السالکین: ۱۱۲/۳- ۱۱۴

اس سے صاف ظاہر ہے کہ دین کی غربت اور اجنبیت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ وہ اجنبی دین کے ماننے والوں ہی کے درمیان بیگانہ ہو کر رہ جائے اور رسول اکرم ﷺ نے امت کو جو راستہ دکھایا تھا اس سے وہ بھٹک جائے۔ ان حالات میں جو لوگ آپ کی سنت پر قائم رہتے اور اسے زندہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں، یقیناً وہ بہت ہی خوش قسمت ہیں۔ لیکن یہاں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ سنت سے آپ کی زندگی کا کوئی خاص پہلو مراد نہیں ہے، بلکہ وہ پورا طریقہ حیات مراد ہے جس پر آپ چل رہے تھے۔ بالفاظ دیگر جس نظام عقائد و اعمال کی طرف آپ نے دنیا کو دعوت دی ہے، سنت کا لفظ اس پورے نظام کا ترجمان ہے۔ آدمی صحیح معنوں میں متبع سنت اسی وقت ہو گا جب کہ وہ اس پورے نظام کی اتباع کرے۔ اس میں عقیدہ بھی شامل ہے اور عمل بھی۔ آپ کی تعلیمات پر ایمان اس طرح ہو کہ وہ شکوک و شبہات سے یکسر پاک ہو اور ان پر عمل اس طرح ہو کہ کہیں نفسانی خواہشات کی آمیزش نہ ہونے پائے۔ ابن رجب حنبلی لکھتے ہیں:

أما السنة الكاملة فهي الطريقة السالمة من الشبهات والشهوات كما قال الحسن ويونس بن عبيد وسفيان والفضيل وغيرهم.

سنت کاملہ اس راستے کا نام ہے جو (عقائد میں) شبہات سے اور (عمل میں) خواہشات کی دراندازی سے محفوظ ہو۔ جیسا کہ حضرت حسن بصری، یونس بن عبید، سفیان ثوری، فضیل بن عیاض و غیرہم نے کہا ہے۔

کشف الکربتہ فی وصف حال اھل الغربتہ ص ۱۷

دور فتن میں اتباع سنت کا حکم

دین کی غربت اور اجنبیت کے دور کو حدیثوں میں دور فتن بھی کہا گیا ہے، کیوں کہ یہ انسان کے فکر و عمل کی آزمائش کا دور ہوتا ہے۔ اس میں ایسے زبر دست فتنے ابھرتے ہیں کہ بعض اوقات بڑے باہمت اور مخلص اشخاص بھی ان سے پوری طرح محفوظ نہیں رہ پاتے۔ وہ مذہبی یا فکری طوفان کی طرح اٹھتے ہیں اور عقائد و اعمال کی عمارت کو متزلزل کر دیتے ہیں۔ اس امت پر بارہا دور فتن آئے اور اس کے دین وایمان کو آزماتے رہے ہیں۔ آج بھی وہ ایک دور فتن سے گزر رہی ہے، جس میں الحاد و دہریت نے اس کے نظریات و افکار، اخلاق و معاشرت اور تمدن و سیاست کو امتحان میں ڈال رکھا ہے۔ اس امتحان میں کامیابی کا طریقہ پہلے بھی یہی تھا اور آج بھی یہی ہے کہ انسان اس راستے پر مضبوطی سے جما رہے جس پر محمد ﷺ اور آپ کے ساتھیوں کے نقوش پا ثبت ہیں۔ آپ ﷺ نے ایک مرتبہ خطبہ دیا۔ اس کا ایک فقرہ تھا:

فَمَنْ يَعِشْ مِنْكُمْ فَسَيَرَى اخْتِلَافًا كَثِيرًا فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ تَمَسَّكُوا بِهَا وَعَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُورِ فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ

تم میں سے جو شخص میرے بعد زندہ رہے گا وہ بڑا اختلاف دیکھے گا۔ تو تم اس وقت میری سنت اور صاحب رشد و ہدایت خلفاء راشدین کی سنت کی پیروی کرنا۔ اس کو (اپنے اوپر) لازم رکھنا، اس پر مضبوطی سے جمے رہنا اور اسے دانتوں سے پکڑ لینا اور (دین میں پیدا کی جانے والی) نئی باتوں سے دور رہنا، کیوں کہ (دین میں) نئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت گم راہی ہے۔

رواه احمد و ابوداؤد و ترمذی و ابن ماجہ (مشکوة المصابیح، کتاب الایمان، باب فی الاعتصام بالکتاب والسنة)

رسول اکرم ﷺ نے دور فتن میں بدعت سے بچ کر سنت پر قائم رہنے اور اسے زندہ کرنے کی بڑی فضیلت بیان کی ہے۔ ہم یہاں صرف دو روایتیں نقل کرتے ہیں، جو اپنے مضمون میں بہت ہی واضح ہیں:

مَنْ أَحْيَا سُنَّةً مِنْ سُنَّتِي قَدْ أُمِيتَتْ بَعْدِي، فَإِنَّ لَهُ مِنَ الْأَجْرِ مِثْلَ أَجْرِ مَنْ عَمِلَ بِهَا، لَا يَنْقُصُ ذَلِكَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْئًا

جس نے میری سنتوں میں سے کسی ایسی سنت کو زندہ کیا جو میرے بعد مردہ ہو تو اس کو ان سب لوگوں کے اجر کے برابر اجر ملے گا جو اس پر عمل کریں گے۔ بغیر اس کے کہ ان لوگوں کے اجر میں کوئی کمی کی جائے۔

(حوالہ ندارد)

المتمسك بسنتي عند فساد أمتي له أجر شهيد

میری امت کے بگاڑ کے وقت میری سنت کے تھامنے والے کو ایک شہید کا ثواب ہے۔

رواه الطبرانی۔ اس روایت کی سند کے بارے میں حافظ منذری کہتے ہیں: لا باس بہ (الترغیب والترہیب جلد: ۱/۴۱) لیکن علامہ مناوی نے لکھا ہے، اسناده حسن (التيسير بشرح الجامع الصغیر: ۲/۴۴۷)

یہی روایت ان الفاظ کے ساتھ بھی آئی ہے:

مَنْ تَمَسَّكَ بِسُنَّتِي عِنْدَ فَسَادِ أُمَّتِي فَلَهُ أَجْرُ مِائَةِ شَهِيدٍ

جو شخص میری امت کے فساد کے زمانے میں میری سنت پر تمسک اختیار کرے گا اس کو سو شہیدوں کا ثواب ہے۔

رواه البيهقي (الترغیب والترہیب: ۱/۴۱) اس حدیث کے ایک راوی حسن بن قتیبہ کو محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔ لسان المیزان: ۲/۲۶۶، ۴/۲۷۴، ۵/۸۷۰۔ منذری: ۱/۴۷

ان روایتوں سے جہاں اتباع سنت کی اہمیت ظاہر ہوتی ہے وہاں اس بات کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ احادیث میں بدعت کی شدید مذمت کیوں کی گئی ہے اور اسے ضلالت اور گم راہی کیوں قرار دیا گیا ہے۔ بدعت در اصل دین کی تحریف ہے اور اس کے بگاڑ کا دوسرا نام ہے، اس لیے زندگی کے جس گوشے میں بھی بدعت راہ پائے گی اس سے سنت مٹ جائے گی، یعنی اصل دین ختم ہوجائے گا۔

غضیف بن حارث ثمالی کہتے ہیں:

إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَا أَحْدَثَتْ قَوْمٌ بِدْعَةً إِلَّا رُفِعَ مِثْلُهَا مِنَ السُّنَّةِ فَتَمَسُّكٌ بِسُنَّةٍ خَيْرٌ مِنْ إِحْدَاثِ بِدْعَةٍ

نبی ﷺ نے فرمایا کہ جب کوئی قوم کسی بدعت کو ایجاد کرتی ہے تو اس جیسی سنت (اس قوم کے درمیان سے) اٹھالی جاتی ہے۔ لہٰذا سنت کو مضبوطی سے پکڑنا بدعت کے ایجاد کرنے سے بہتر ہے۔

دارمی، مقدمه، باب اتباع السنة

عبداللہ بن دیلمی کہتے ہیں:

بَلَغَنِي أَنَّ أَوَّلَ ذَهَابِ الدِّينِ تَرْكُ السُّنَّةِ يَذْهَبُ الدِّينُ سُنَّةً سُنَّةً كَمَا يَذْهَبُ الْحَبْلُ قُوَّةً قُوَّةً

مجھے یہ بات (حضور اکرم ﷺ) سے پہنچی ہے کہ دین کے مٹنے کا آغاز سنت کو چھوڑنے سے ہوگا۔ دین اس طرح مٹے گا کہ ایک ایک سنت ختم ہوتی چلی جائے گی جیسے رسی کا ایک ایک بل نکل جاتا ہے اور وہ بکھر جاتی ہے۔

دارمی، مقدمه، باب اتباع السنة

اسی وجہ سے ایک روایت میں کہا گیا ہے کہ:

مَنْ وَقَّرَ صَاحِبَ بِدْعَةٍ فَقَدْ أَعَانَ عَلَى هَدْمِ الْإِسْلَامِ

جس شخص نے بدعتی کی تعظیم کی اس نے اسلام کے ڈھانے میں مدد کی۔

بیهقی فی شعب الایمان مرسلا، مشكاة المصابیح، کتاب الایمان، باب فی الاعتصام بالكتاب والسنة

سنت کی راہ جس طرح دین کے آغاز میں اچھی تھی اسی طرح آج بھی اچھی ہے، لیکن منزل ان ہی کی ہے جو ہر بدعت کو مٹانے اور سنت کی راہ پر چلنے کا عزم و حوصلہ رکھتے ہیں۔ امام زہری فرماتے ہیں:

كَانَ مَنْ مَضَى مِنْ عُلَمَائِنَا يَقُولُونَ الِاعْتِصَامُ بِالسُّنَّةِ نَجَاةٌ

ہمارے پچھلے علماء کہا کرتے تھے کہ سنت کو پکڑے رہنے ہی میں نجات ہے۔

دارمی، مقدمه، باب اتباع السنة

فتنوں کا مقابلہ کرنا امر بالمعروف و نهی عن المنکر ہے

اتباع سنت سے یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا جو دین محمد ﷺ نے پیش کیا ہے، انسان ہر حال میں اس پر قائم رہے۔ اس کی طرف دنیا کو دعوت دینے اور اسے قائم و غالب کرنے کی ہر ممکن کوشش کرے اور ان فتنوں اور باطل تحریفوں کا پوری قوت کے ساتھ مقابلہ کرتا رہے جو اس دین کے خلاف اٹھیں۔ یہ وسیع جدوجہد امر بالمعروف و نهی عن المنکر اور اس کے تقاضوں کی تکمیل ہے۔ یہ کام امت میں ہمیشہ ہوتا رہا ہے اور رسول اکرم ﷺ نے پیشین گوئی فرمائی ہے کہ امت کے دور آخر میں بھی ایسے لوگ موجود ہوں گے جو امر بالمعروف و نهی عن المنکر کا یہ فریضہ انجام دیں گے اور دین کے خلاف اٹھنے والے فتنوں کا مقابلہ کریں گے۔

سَيَكُونُ فِي آخِرِ هَذِهِ الْأُمَّةِ قَوْمٌ لَهُمْ مِثْلُ أَجْرِ أَوَّلِهِمْ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُقَاتِلُونَ الْفِتَنَ

اس امت کے آخر میں ایسے لوگ ہوں گے جن کو اس کے اگلوں کا سا اجر ملے گا۔ وہ معروف کا حکم دیں گے اور منکر سے روکیں گے اور فتنوں کا مقابلہ کریں گے۔

بیهقی (مشكاة المصابیح، کتاب الفتن، باب ثواب هذه الامة)

یہی بات آپ نے ان الفاظ میں بھی کہی ہے:

إِنَّ مِنْ أُمَّتِي قَوْمًا يُعْطَوْنَ مِثْلَ أَجْرِ أَوَّلِهِمْ يُنْكِرُونَ الْمُنْكَرَ

میری امت کے (بعد کے) لوگوں کو ان کے اگلوں کے اجر دیے جائیں گے، کیوں کہ وہ برائی پر نکیر کریں گے۔

مسند احمد: ۵/۷

امت میں دین کے محافظین ہمیشہ رہیں گے

محمد ﷺ کے ذریعے دنیا کو آخری بار اللہ تعالیٰ کا دین ملا ہے۔ اس دین کو اللہ تعالیٰ قیامت تک باقی رکھنا چاہتا ہے۔ اس لیے وہ ہر دور میں اس کے محافظ پیدا کرتا رہا ہے اور آئندہ بھی پیدا کرتا رہے گا۔ محمد ﷺ فرماتے ہیں کہ اس دین کے ماننے والوں میں بہت سی دینی و اخلاقی خرابیاں پیدا ہوں گی اور وہ غلط کاری میں پچھلی امتوں کے نقش قدم پر چلیں گے، لیکن اس کے باوجود ان میں ایک گروہ ایسا ضرور موجود ہوگا جو دین کو اس کی صحیح شکل میں باقی رکھے گا۔ دین پر مسلط ہونے والے (فتنے) خواہ اس کے ماننے والوں کی طرف سے ہوں یا اس کا انکار کرنے والوں کی طرف سے، وہ ان کا مقابلہ کرے گا۔ اس کی زبان سچائی کی ترجمان ہوگی اور وہ باطل پرستوں کے مقابلہ میں حق کا اظہار کرتا رہے گا۔ اس راہ میں نہ تو وہ پست ہمت ہوگا اور نہ کوئی اسے مرعوب کر سکے گا، وہ دین کی خاطر ہر محاذ پر لڑے گا اور بڑی سے بڑی قربانی دیتا رہے گا۔ جو کوئی اس گروہ کی حمایت میں نہیں کھڑا ہوگا وہ خود رسوا ہوگا اور جو ان کی مخالفت کرے گا وہ نامراد ہوگا۔

لاَ تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي قَائِمَةً بِأَمْرِ اللَّهِ لاَ يَضُرُّهُمْ مَنْ خَذَلَهُمْ أَوْ خَالَفَهُمْ حَتَّى يَأْتِيَ أَمْرُ اللَّهِ وَهُمْ ظَاهِرُونَ عَلَى النَّاسِ

میری امت میں ایک ایسی جماعت برابر موجود رہے گی جو اللہ کے دین کی ذمہ داریاں اٹھائے ہوئے ہوگی۔ جو اس کو چھوڑ دے گا یا اس کی مخالفت کرے گا وہ اس کو نقصان نہ پہنچا سکے گا، یہاں تک کہ قیامت آجائے گی اور حال یہ ہوگا کہ یہ جماعت لوگوں پر غالب ہوگی۔

مسلم، کتاب الامارة، باب قوله لاتزال طائفة من امتی الخ

امام بخاری کہتے ہیں کہ اس حدیث میں جس جماعت کا ذکر ہے وہ اہل علم کی جماعت ہے۔ امام نووی نے اس حدیث کو زیادہ وسیع معنی میں لیا ہے۔ فرماتے ہیں:

يحتمل أن هذه الطائفة متفرقة بين أنواع المؤمنين منهم شجعان مقاتلون ومنهم فقهاء ومنهم محدثون ومنهم زهاد و آمرون بالمعروف والناهون عن المنكر ومنهم أهل أنواع أخرى من الخير ولا يلزم أن يكونوا مجتمعين بل قد يكونون متفرقين في أقطار الأرض.

ممکن ہے کہ یہ جماعت اہل ایمان کے مختلف طبقات کے درمیان منقسم ہو۔ جن میں راہ خدا میں لڑنے والے بہادر بھی ہوں، فقہاء بھی ہوں، محدثین بھی ہوں، زاہد بھی ہوں، معروف کا حکم دینے والے اور منکر سے روکنے والے بھی ہوں، ان کے علاوہ دوسری بھلائیوں کے کرنے والے بھی ہوں۔ حدیث سے یہ بھی لازم نہیں آتا کہ وہ سب کے سب کسی ایک ہی محلے میں جمع ہوں، بلکہ وہ زمین کے مختلف حصوں میں بکھرے ہوئے بھی ہو سکتے ہیں۔

شرح مسلم للنووی، المجلد الاول، الجزء ۳، ص ۴۳۳

ایک دوسری حدیث میں رسول اکرم ﷺ نے فرمایا ہے:

يَحْمِلُ هَذَا الْعِلْمَ مِنْ كُلِّ خَلَفٍ عُدُولُهُ يَنْفُونَ عَنْهُ تَحْرِيفَ الْغَالِينَ وَانْتِحَالَ الْمُبْطِلِينَ وَتَأْوِيلَ الْجَاهِلِينَ

(دین کے حامل ہوں گے) جو حد سے بڑھنے والوں کی تحریف کو، باطل پرستوں کے غلط دعووں کو اور جاہلوں کی تاویل کو دین سے دور کرتے رہیں گے۔

بیهقی (مشكاة المصابیح، کتاب العلم)

اسی کام کو آپ نے تجدید امت کا بھی نام دیا ہے۔ آپ نے فرمایا:

إِنَّ اللَّهَ يَبْعَثُ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ عَلَى رَأْسِ كُلِّ مِائَةِ سَنَةٍ مَنْ يُجَدِّدُ لَهَا دِينَهَا

اللہ اس امت کے لیے ہر صدی کے سر پر ایسے شخص یا اشخاص مبعوث فرماتا رہے گا جو اس کے دین کی تجدید کریں۔

ابوداؤد، کتاب الملاحم، باب ما یذكر فی القرن، حاکم: ۱/۵۰، مستدرک حاکم: ۴/۵۰۳

امت کے اندر پیدا ہونے والے ان مجددین نے ایک طرف اللہ کے دین کو صحیح حالت میں باقی رکھا اور دوسری طرف اس امت کو بہ حیثیت مجموعی بگڑنے اور راہ راست سے بھٹکنے سے بچایا۔

تاریخ بتاتی ہے کہ محمد ﷺ سے پہلے دنیا میں جو پیغمبر آئے تھے ان میں سے بعض کی تعلیمات بالکل مٹ گئیں اور بعض کی تعلیمات میں خود ان کے ماننے والوں نے ایسی تحریف کردی کہ وہ حق و باطل کا مجموعہ بن کر رہ گئیں، لیکن محمد ﷺ نے دنیا کے سامنے جو دین پیش کیا، آج بھی وہ صحیح شکل میں پوری طرح محفوظ ہے اور اس کی ترجمانی کرنے والے بھی ہر جگہ موجود ہیں۔ جب کبھی اس دین کے خلاف کسی فتنے نے سر اٹھایا اس کو کچلنے کے لیے مردان کار سامنے آئے اور اسے انھوں نے ختم کر کے ہی دم لیا۔

امر بالمعروف و نهی عن المنکر کا یہ جذبہ اس دین کے ماننے والوں میں بعض اوقات کم زور پڑا ہے، لیکن کبھی ختم نہیں ہوا۔ اسی وجہ سے دین کو مٹانے یا بدلنے کی کوئی بھی کوشش کبھی کامیاب نہیں ہوئی۔ دین کے مخلص خادموں اور سچے ترجمانوں نے ہر تحریف، ہر جھوٹے دعوے اور ہر غلط تاویل کا مقابلہ کیا اور دین کی حفاظت کے لیے بڑی سے بڑی قربانی دیتے رہے، ورنہ واقعہ یہ ہے کہ اس دین پر اندر اور باہر سے ایسے شدید حملے ہوتے رہے ہیں کہ اب تک وہ یا تو بالکل ختم ہوچکا ہوتا یا اس کی صورت اس قدر مسخ ہوچکی ہوتی کہ آج اس کا پہچاننا بھی مشکل ہوتا۔

ٹھیک یہی حال اس امت کا بھی ہے۔ جب کبھی اس میں کوئی خرابی پیدا ہوتی ہے تو اس کی اصلاحی قوتیں ابھر آتی ہیں اور اس کو دور کر دیتی ہیں۔ چناں چہ چودہ سو سال کے طویل عرصے میں بھی ایسا نہیں ہوا کہ یہ امت پوری کی پوری راہ راست سے منحرف اور ضلالت اور گم راہی پر متفق ہوگی۔ رسول اکرم ﷺ نے پیش گوئی فرمائی تھی:

إِنَّ أُمَّتِي لَا تَجْتَمِعُ عَلَى ضَلَالَةٍ

یقیناً میری امت گم راہی پر جمع نہ ہوگی۔

ترمذی، ابواب الفتن، باب لا تزال طائفة۔ ابن ماجه، ابواب الفتن، باب السواد الاعظم

یہ پیشین گوئی اب تک صحیح ثابت ہوتی رہی ہے اور یقین ہے کہ آئندہ بھی اس کی تصدیق ہی ہوتی رہے گی۔

امت کی اصلاح اور تجدید دین پوری امت کا کام ہے

اس میں شک نہیں کہ اس امت کے اندر مجددین برابر پیدا ہوتے رہے ہیں اور نازک ترین حالات میں انھوں نے دین کی حفاظت اور امت کی اصلاح کا مشکل کام انجام دیا ہے۔ اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے بعد یہاں ایک اہم سوال پیدا ہوتا ہے، وہ یہ کہ امت کو بگاڑ سے بچانا اور اس کے اندر امر بالمعروف و نهی عن المنکر کا کام کرنا ہر شخص کا فرض ہے یا یہ کسی خاص جماعت کے کرنے کا کام ہے؟ قرآن مجید نے اس سوال کا جواب ان الفاظ میں دیا ہے:

وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَيُطِيعُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ ۚ أُولَئِكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللَّهُ ۗ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ

مومن مرد اور مومن عورتیں، یہ سب کے سب ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ معروف کا حکم دیتے ہیں اور منکر سے منع کرتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ ضرور رحم کرے گا۔ یقیناً اللہ غالب اور حکمت والا ہے۔

(التوبہ: ۷۱)

اس سے معلوم ہوا کہ امر بالمعروف و نهی عن المنکر اور امت کی اصلاح کسی خاص طبقے یا جماعت کی ذمہ داری نہیں ہے، بلکہ یہ پوری امت کے کرنے کا کام ہے۔ قرآن ایمان والوں کو اس حال میں دیکھنا چاہتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کو معروف کا حکم دے رہے ہوں اور منکر سے منع کر رہے ہوں۔ کیوں کہ یہی ان کی صحیح ترین حالت ہے۔ اگر یہ وصف کسی فرد میں نہیں ہے تو وہ مسلم معاشرے کا ایک نا اہل فرد ہے۔ امام غزالی فرماتے ہیں:

فقد نعت المؤمنين بأنهم يأمرون بالمعروف وينهون عن المنكر.

اللہ تعالیٰ نے (اس آیت میں) اہل ایمان کی یہ صفت بیان کی ہے کہ وہ معروف کا حکم دیتے اور منکر سے منع کرتے ہیں۔ پس جو شخص امر بالمعروف و نهی عن المنکر کو ترک کر دے وہ ان مومنین سے خارج ہے جن کو اس آیت میں ذکر کیا ہے۔

احیاء علوم الدین: ۳/۲

علامہ عبدالقادر عودہ شہید فرماتے ہیں:

إن جمهرة الفقهاء توجب الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر على كافة أفراد الأمة عامة لا على فئة معينة منها.

بیشتر فقہاء امر بالمعروف و نهی عن المنکر کو امت کے کسی مخصوص گروہ پر نہیں، بلکہ اس کے سب ہی افراد پر واجب قرار دیتے ہیں۔

التشریع الجنائی الاسلامی: ۱/۴۹۵

امر بالمعروف و نهی عن المنکر اور نصیحت

امت کے درمیان امر بالمعروف و نهی عن المنکر کو قرآن و حدیث میں نصیحت کے لفظ سے بھی تعبیر کیا گیا ہے۔ یہ لفظ اپنے اندر بہت وسیع مفہوم رکھتا ہے۔ چناں چہ لغت کی رو سے اس کے معنی ہیں دھوکا نہ دینا، خلوص کے ساتھ پیش آنا، کسی چیز کو پاک صاف کرنا اور سنوارنا۔ ان معانی کے ذریعہ اس کی وسعت کا اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے۔ علامہ ابن اثیر فرماتے ہیں: نصیحت کا مفہوم کسی ایک لفظ سے ادا نہیں ہوسکتا۔ البتہ اس کو ایک جملے میں اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ "اس شخص کی بھلائی چاہنا جسے نصیحت کی جائے"۔ اس خیر خواہی میں ایمان کی دعوت، اخلاق کی اصلاح اور فکر و عمل کی تربیت سب ہی کچھ شامل ہے۔

وحقيقة النصيحة إرادة الخير للمنصوح له

نصیحت کا مفہوم کسی ایک لفظ سے ادا نہیں ہوسکتا۔ البتہ اس کو ایک جملے میں اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے کہ اس شخص کی بھلائی چاہنا جسے نصیحت کی جائے۔

لسان العرب: ج ۲، ص ۵۰، نیز ج۴، ص ۴۳ (مفہوم نقل کیا گیا ہے)

خیر خواہی اور اصلاح کا یہ جذبہ اسلام اپنے تمام ماننے والوں کے اندر دیکھنا چاہتا ہے، تاکہ معاشرے کا ہر فرد دوسرے کی بھلائی چاہنے والا اور اس کی اصلاح کا طالب بن جائے۔

اسلامی معاشرہ ایسی فضا پیدا کرنا چاہتا ہے کہ اس کے اندر خیر کو پروان چڑھایا جائے اور شر کو دبایا جائے۔ اس کی بنیاد یہ ہے کہ

وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ ۖ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ

نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد نہ کرو۔

(المائدہ: ۲)

اس امت کے راہ راست پر قائم رہنے کی تدبیر قرآن و حدیث میں یہ بتائی گئی ہے کہ وہ اپنے افراد کا سخت احتساب کرتی رہے، نیکی کو پھیلنے پھولنے کے مواقع اور اسباب فراہم کرے اور بدی کو مٹانے کے لیے آخری حد تک اپنی قوت صرف کر دے، امت میں نیکی سے محبت اور برائی سے نفرت اتنی سخت ہو کہ اس کا ایک فرد بھی غلط روی کی جرات کرے تو دس افراد آگے بڑھ کر اسے روک دیں اور راہ راست پر لے آئیں۔ کسی انسان کی مدد صرف یہ نہیں ہے کہ نیکی میں اس کا تعاون کیا جائے، بلکہ یہ بھی اس کی مدد ہے کہ اسے بدی کے راستے پر بڑھنے نہ دیا جائے۔ اسی وجہ سے رسول اکرم فرماتے ہیں:

انْصُرْ أَخَاكَ ظَالِمًا أَوْ مَظْلُومًا قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ هَذَا نَصْرُهُ مَظْلُومًا فَكَيْفَ نَنْصُرُهُ ظَالِمًا قَالَ تَأْخُذُ فَوْقَ يَدَيْهِ

اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ راوی نے کہا کہ اے اللہ کے رسول جب وہ مظلوم ہو تو (پھر) ہم اس کی مدد کریں گے لیکن اگر وہ ظالم ہو تو ہم اس کی کیسے مدد کریں؟ آپ نے فرمایا کہ اس کا ہاتھ پکڑ لو (اور ظلم سے اسے روک دو)۔

بخاری، ابواب المظالم والقصاص، باب اعن اخاک ظالماً او مظلوماً

ایک طرف حاکم محکوم کی اصلاح کی کوشش کرے تو دوسری طرف محکوم، حاکم کی خامیوں کی نشان دہی کرے، امیر غریب کی کم زوریوں کو دور کرے تو غریب امیر کی خرابیوں کو رفع کرے، صاحب علم عام آدمیوں کو جہالت اور نادانی سے بچائے تو عام آدمی بھی اصحاب علم کو ان کی لغزشوں کی طرف توجہ دلائے۔ اس طرح پوری امت میں نصیحت اور خیر خواہی کی ایسی فضا ہو جائے کہ خود بخود اس کی اصلاح ہوتی رہے۔

کیوں کہ اس امت میں جو بگاڑ اور خرابی پیدا ہو گی اس کی اصلاح کی ذمہ داری کسی دوسرے گروہ پر نہیں ہے، بلکہ خود اسی (امت) کو اپنی اصلاح کرنی ہے۔ اس کا ہر شخص دوسرے کا خیر خواہ اور خیر اندیش ہے۔ وہ جس طرح اپنے نفس کی اصلاح و تربیت کی فکر کرتا ہے اسی طرح اسے عام برادران ملت کی اصلاح کی بھی فکر کرنی چاہیے۔ حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: الدِّينُ النَّصِيحَةُ قُلْنَا لِمَنْ قَالَ لِلَّهِ وَلِكِتَابِهِ وَلِرَسُولِهِ وَلِأَئِمَّةِ الْمُسْلِمِينَ وَعَامَّتِهِمْ

نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ دین اخلاص اور خیر خواہی کا نام ہے۔ ہم نے پوچھا خیر خواہی اور اخلاص کس کے ساتھ؟ آپ نے جواب دیا: خدا کے ساتھ، اس کی کتاب کے ساتھ، اس کے رسول کے ساتھ، مسلمانوں کے ائمہ اور مسلمانوں کے ساتھ۔

مسلم، کتاب الایمان، باب بیان ان الدین النصیحة

دین کو قبول کرنے کے نتیجے میں انسان کے اندر جو پاکیزہ جذبات ابھرتے ہیں اس حدیث میں ان کو بہترین انداز میں بیان کر دیا گیا ہے۔ حدیث میں جس خیر خواہی اور اخلاص کا ذکر ہے اس کے دو پہلو ہیں۔ ایک پہلو یہ ہے کہ وہ آدمی کے ایمان و عقیدے اور اس کی ذاتی اصلاح و تربیت سے متعلق ہے۔ اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اس میں دعوت وتبلیغ اور اصلاح و تربیت کے اس وسیع کام کو بیان کیا گیا ہے جو ایک مسلمان کو امت کے اندر اور باہر انجام دینا ہے۔ اس طرح یہ حدیث دین اور اس کے تمام مطالبات کو ایک خاص انداز میں ہمارے سامنے رکھ رہی ہے۔ اسی وجہ سے محدثین نے اس کو بڑی اہمیت دی ہے۔ امام نوویؒ نے اپنے پیش رو علماء کی تصریحات کو سامنے رکھتے ہوئے اس حدیث کے بارے میں جو کچھ لکھا ہے اس کا خلاصہ یہاں پیش کیا جا رہا ہے:

”اللہ تعالٰی کے سلسلے میں ’نصیحت‘ کا مفہوم یہ ہے کہ اس پر ایمان لایا جائے، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا جائے، اس کی صفات میں تحریف نہ کی جائے، بلکہ ان کو جوں کا توں قبول کیا جائے۔ اس کو تمام صفات کمال سے متصف اور تمام نقائص سے پاک مانا جائے، ہر معاملے میں اسی کی اطاعت کی جائے اور اس کی نافرمانی سے اجتناب کیا جائے، اسی سے محبت بھی اسی کے لیے کی جائے اور نفرت بھی اسی کے لیے کی جائے، جو اس کا دوست ہو اسے اپنا دوست اور جو اس کا دشمن ہو اسے اپنا دشمن سمجھا جائے اور جو اس کا منکر اور باغی ہو ضرورت پڑنے پر اس سے جہاد کیا جائے، اس کی نعمتوں کا دل سے اعتراف کیا جائے اور ان پر شکر بجا لایا جائے۔ اللہ کے بارے میں ’نصیحت‘ کے مفہوم میں یہ بات بھی شامل ہے کہ اس کی جو صفات اوپر بیان ہوئی ہیں ان کی طرف لوگوں کو دعوت دی جائے اور ان کو نرمی اور لطف ومحبت سے آمادہ کیا جائے تاکہ وہ ان کو مان لیں اور اس پر ایمان لے آئیں۔“

اللہ کی کتاب کے ساتھ نصیحت اور خیر خواہی کا مطلب یہ ہے کہ اس پر اس حیثیت سے ایمان رکھا جائے کہ وہ اس کا نازل کردہ کلام ہے اور ہر انسانی تحریر و تقریر سے بالکل مختلف اور ممتاز ہے۔ وہ ایسا کلام ہے کہ اس جیسے کلام پر کوئی بھی شخص قادر نہیں ہوسکتا۔ اللہ کی کتاب کے ساتھ یہ بھی خیر خواہی ہے کہ اس کی تعلیم کی جائے، خشوع و خضوع کے ساتھ اس کی تلاوت کی جائے، اس کے احکام سے واقفیت حاصل کی جائے، اس کے علوم و امثال کو سمجھا جائے، اس کے مواعظ سے نصیحت حاصل کی جائے، اس کے عجائبات میں تفکر کیا جائے، اس کے محکمات پر عمل کیا جائے اور اس کے متشابہات کو بے چون و چرا تسلیم کیا جائے اور اس کے تمام احکام اور ان کی قسموں کی حقیقت کی جانب نیز اس کے ساتھ خیر خواہی میں یہ بات بھی شامل ہے کہ اس کے علوم کو پھیلایا جائے اور اس کی طرف دنیا کو دعوت دی جائے۔

اللہ کے رسول کے ساتھ خیر خواہی میں یہ باتیں شامل ہیں: آپ کی رسالت کی تصدیق، آپ کی تعلیمات پر ایمان، آپ کے احکام کی اطاعت، آپ کی زندگی میں اور آپ کے وصال کے بعد آپ کی نصرت و حمایت، جو آپ کا دشمن ہو اس سے دشمنی اور جو آپ کا دوست ہو اس سے دوستی، آپ کی توقیر، آپ کے حقوق کی تعظیم، آپ کی سنت کا احیاء، آپ کی دعوت کی توسیع، آپ کی شریعت کی نشر و اشاعت، اس پر جو الزام لگایا جائے اسے دور کرنا، اس کے علوم کو سیکھنا، اس کے معنی میں غور و فکر کرنا، لوگوں کو اس کی طرف دعوت دینا، احتیاط اور سلیقے سے اس کا سیکھنا اور سکھانا، بغیر علم کے اس بارے میں گفتگو سے پرہیز کرنا، حاملین شریعت کا ادب واحترام کرنا وغیرہ۔ اسی طرح یہ بھی آپ کے ساتھ خیر خواہی ہے کہ آپ کے اخلاق اپنے اندر پیدا کیے جائیں، آپ کے بتائے ہوئے آداب اختیار کیے جائیں، آپ کے اصحاب اور اہل بیت سے محبت کی جائے اور اصحاب بدعت سے دوری اختیار کی جائے۔

ائمہ مسلمین کے ساتھ نصیحت اور خیر خواہی میں یہ باتیں شامل ہیں: حق میں ان کا تعاون اور اطاعت، نرمی اور بہ وقت ضرورت سختی کے ساتھ ان کو نصیحت، ان کی جھوٹی تعریف سے اجتناب، جن باتوں سے وہ غافل ہیں ان سے آگاہ کرنا، مسلمانوں کے جو معاملات ان تک نہیں پہنچ رہے ہیں انھیں ان تک پہنچانا، ان کے خلاف کسی بھی معقول وجہ کے بغیر بغاوت نہ کرنا، لوگوں کو ان کی اطاعت پر ابھارنا وغیرہ۔ خطابی نے لکھا ہے کہ ائمہ مسلمین سے علماء دین بھی مراد ہوسکتے ہیں۔ ان کے ساتھ خیر خواہی کا مطلب یہ ہے کہ ان کے ساتھ حسن ظن رکھا جائے اور احکام شریعت میں ان کی اتباع کی جائے۔

عام مسلمانوں کے ساتھ خیر خواہی یہ ہے کہ جن امور میں دنیا و آخرت کی بھلائی ہے ان کی طرف ان کی رہنمائی کی جائے، ان کی تکلیفوں کو دور کیا جائے، وہ دین و دنیا کی جن چیزوں سے ناواقف ہیں ان سے انھیں واقف کرایا جائے، ان کے عیوب کی پردہ پوشی کی جائے اور ان کی کمزوریوں کو دور کیا جائے، ان پر حسد نہ کیا جائے، ان کے لیے وہی چیز پسند کی جائے جو اپنے لیے پسند ہو اور جو چیز اپنے لیے ناپسند ہو وہ ان کے لیے بھی ناپسند کی جائے، ان کے جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کی جائے، ان کے اندر اعلیٰ اخلاق پیدا کیے جائیں اور ان کو اللہ کی اطاعت پر ابھارا جائے“

شرح مسلم، المجلد الاول، الجزء ۱۷، ص ۳۴-۳۵

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کے ساتھ خیر خواہی کو اتنی اہمیت دی ہے کہ بعض اوقات صحابہؓ سے اس کے لیے آپؓ نے خصوصی عہد و پیمان لیا ہے۔ حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

بَايَعْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم عَلَى النُّصْحِ لِكُلِّ مُسْلِمٍ

میں نے نبی ﷺ سے ہر مسلمان کے ساتھ خیر خواہی کے لیے بیعت کی۔

مسلم، کتاب الایمان، باب بیان ان الدین النصیحة

اس سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ اصلاح امت اور مسلمانوں کے ساتھ نصح و خیر خواہی کا فرض کس قدر غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے۔ اس کام کے خاص شرائط اور حدود و آداب ہیں اور اس کے سلسلے میں ذرائع و وسائل کا سوال بھی بہت اہم ہے، یعنی یہ کہ اصلاح امت کے لیے کون سے ذرائع استعمال کیے جاسکتے ہیں اور کن ذرائع کے استعمال کی اجازت نہیں ہے؟ ان تمام سوالات پر آئندہ تفصیل سے بحث ہوگی۔ گو کہ یہ بحث اصلاح امت سے متعلق ہوگی، لیکن اس کی روشنی میں امید ہے کہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے وسیع کام کے شرائط، حدود و آداب اور ذرائع وسائل کا بھی واضح تصور سامنے آسکے گا۔

شرائط، وسائل و ذرائع اور حدود و آداب

شرائط

امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا انجام دینا کسی خاص وقت، کسی خاص ماحول اور کسی خاص دور میں ضروری نہیں ہے، بلکہ اس کی نوعیت ایسی ہے کہ کسی بھی وقت اس سے غفلت نہیں برتی جاسکتی۔

حواشی:

  1. مائدہ: ۷۸۔۷۹/۵
  2. صحیح البخاری: ۸/۷۸۔۷۹
  3. مجموعہ الرسائل الکبریہ، الجزء الثانی، الرسالة السادسة، ص ۴۴۔۴۵
  4. جامع البیان فی تفسیر القرآن: ۹/۱۰
  5. ابوداؤد، کتاب الملاحم، باب الامر والنہی
  6. بخاری، باب فضائل اصحاب النبی ﷺ۔ مسلم، کتاب الفضائل، باب فضائل الصحابہ ثم الذین یلونہم الخ، واللفظ لمسلم
  7. مسند احمد: ۱/ ۹۵۸۔ ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب بدء الاسلام غربیا
  8. رواه احمد (مدارج السالکین: ۳/۱۲۲)
  9. النہایہ فى غریب الحدیث: ۵۲/۳، ماده غرب
  10. مدارج السالکین: ۳/۱۱۳
  11. کشف الکر بة فى وصف حال اهل الغربتہ، ابن رجب حنبلی، ص ۱۰
  12. ترمذی، کتاب الایمان، باب ماجاء ان الاسلام بدء غریبا وسيعود غریبا
  13. رواه الطبرانی۔ اس روایت کی سند کے بارے میں حافظ منذری کہتے ہیں: لا باس بہ (الترغیب والترہیب جلد: ۱/۴۱) لیکن علامہ مناوی نے لکھا ہے، اسناده حسن (التيسير بشرح الجامع الصغیر: ۲/۴۴۷)
  14. رواه البيهقي (الترغیب والترہیب: ۱/۴۱) اس حدیث کے ایک راوی حسن بن قتیبہ کو محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔ لسان المیزان: ۲/۲۶۶، ۴/۲۷۴، ۵/۸۷۰۔ منذری: ۱/۴۷
  15. دارمی، مقدمه، باب اتباع السنة
  16. بیهقی فی شعب الایمان مرسلا، مشكاة المصابیح، کتاب الایمان، باب فی الاعتصام بالكتاب والسنة
  17. بیهقی (مشكاة المصابیح، کتاب الفتن، باب ثواب هذه الامة)
  18. مسند احمد: ۵/۷
  19. مسلم، کتاب الامارة، باب قوله لاتزال طائفة من امتی الخ
  20. شرح مسلم للنووی، المجلد الاول، الجزء ۳، ص ۴۳۳
  21. بیهقی (مشكاة المصابیح، کتاب العلم)
  22. ابوداؤد، کتاب الملاحم، باب ما یذكر فی القرن، حاکم: ۱/۵۰، مستدرک حاکم: ۴/۵۰۳
  23. ترمذی، ابواب الفتن، باب لا تزال طائفة۔ ابن ماجه، ابواب الفتن، باب السواد الاعظم
  24. احیاء علوم الدین: ۳/۲
  25. التشریع الجنائی الاسلامی: ۱/۴۹۵
  26. لسان العرب: ج ۲، ص ۵۰، نیز ج۴، ص ۴۳
  27. شرح مسلم، المجلد الاول، الجزء ۱۷، ص ۳۴-۳۵
  28. مسلم، کتاب الایمان، باب بیان ان الدین النصیحة
  29. بخاری، ابواب المظالم والقصاص، باب اعن اخاک ظالماً او مظلوماً

امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی شرائط

امر بالمعروف ونہی عن المنکر (سے متعلق آیات و احادیث) کا عموم ہر حال میں ان کے واجب ہونے کا تقاضا کرتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ فقہاء نے یہ بھی لکھا ہے کہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی کچھ شرائط ہیں۔ ان شرائط میں سے بعض پر فقہاء کا اتفاق ہے اور بعض کے بارے میں اختلاف ہے۔ امام غزالیؒ نے اس طرح کی کل پانچ شرطیں بیان کی ہیں۔ تکلیف (آدمی کا شرعی طور پر مکلف ہونا)، ایمان، عدالت (نیکی اور تقویٰ)، حکومت یا اس کی اجازت اور قدرت۔ ہم ان میں سے ایمان، عدالت، حکومت یا اس کی اجازت کو شرائط صحت اور تکلیف اور قدرت کو شرائط وجوب کہہ سکتے ہیں۔ کیوں کہ پہلی تین شرطیں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ ان کے بغیر امر بالمعروف ونہی عن المنکر صحیح نہیں ہے اور بعد کی دو شرطیں بتاتی ہیں کہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کن حالات میں واجب ہوتا ہے اور کن حالات میں اس کا وجوب ساقط ہو جاتا ہے؟ ان تمام شرائط پر آئندہ صفحات میں تفصیل سے بحث ہوگی تاکہ ان کی صحت وضعف کا حال معلوم ہو اور یہ دیکھا جاسکے کہ وہ کس حد تک قابل قبول ہیں؟ پہلے ہم شرائط صحت پر گفتگو کریں گے۔ احتساب یہ ہے کہ معروف کو حکم دیا جائے جب کہ علانیہ اس کو ترک کر دیا گیا ہو اور منکر سے منع کیا جائے جب کہ علانیہ اس کا ارتکاب ہو۔ اس میں شک نہیں کہ احتساب میں معروف کا حکم دیا جاتا اور منکر سے منع کیا جاتا ہے، لیکن وہ کل امر بالمعروف ونہی عن المنکر نہیں ہے، بلکہ محض اس کا ایک شعبہ ہے۔ کیوں کہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی اصطلاح ’احتساب‘ سے زیادہ وسیع معنی و مفہوم رکھتی ہے۔ احتساب امت کی داخلی اصلاح کا عنوان ہے اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر میں امت کی اصلاح کے ساتھ دعوت و تبلیغ اور جہاد و سیاست بھی شامل ہے۔ اس لیے احتساب کی شرائط امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے وسیع کام کی شرائط نہیں ہیں، بلکہ صرف اصلاح امت کے کام کی شرائط ہیں۔ لیکن چوں کہ احتساب ’امر بالمعروف ونہی عن المنکر‘ ہی کا ایک جزء ہے، اس لیے تفصیلات سے قطع نظر جو شرائط احتساب کے لیے قابل قبول ہیں وہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے وسیع کام کی بھی شرائط ہوسکتی ہیں۔

شرائط صحت

ایمان

امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے لیے پہلی شرط ایمان ہے۔ مومن ہی کا یہ کام ہے کہ معروف کا حکم دے اور منکر سے منع کرے۔ اس شرط کی وجہ امام غزالیؒ یہ بیان فرماتے ہیں:

هذا نصرة للدين فكيف يكون من اهله من هو جاحد لأصل الدين!

یہ دین کی نصرت ہے۔ پس اس کام کا اہل وہ کیسے ہو سکتا ہے جو دین کا منکر اور اس کی نافرمانی کرنے والا ہو۔ امر بالمعروف ونہی عن المنکر چوں کہ دین کی نصرت و حمایت کا عمل ہے، اس لیے فطری طور پر دین کو ماننے والے ہی اس کے اہل بھی ہیں اور ان ہی پر اس کی ذمے داری بھی عائد ہوتی ہے۔ رہے وہ لوگ جو دین پر ایمان ہی نہ رکھتے ہوں وہ اس کام کے لیے نہ تو موزوں ہیں اور نہ ان پر اس کی ذمے داری عائد ہوتی ہے۔ علامہ عبدالقادر عودہ شہیدؒ فرماتے ہیں کہ غیر مسلموں کو امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی ذمے داری سے مستثنیٰ قرار دینا اسلام کی رواداری کی دلیل ہے۔ کیوں کہ: ”معروف ومنکر میں پوری شریعت شامل ہے۔ اگر کسی غیر مسلم پر امر بالمعروف ونہی عن المنکر کو واجب قرار دیا جائے گا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ لازمی طور پر وہی عقیدہ رکھے جو ایک مسلمان کا عقیدہ ہے اور وہی بات کہے جو ایک مسلمان کہتا یا کہہ سکتا ہے۔ ظاہر ہے، یہ اکراہ فی الدین ہے، جس کی اسلام میں قطعاً اجازت نہیں ہے۔ حقیقت میں اس شرط کے ذریعے اسلامی ریاست کے غیر مسلموں کو اس بات کی مکمل آزادی دی گئی ہے کہ وہ جو عقیدہ چاہیں رکھیں اور جس عقیدہ کو چاہیں ماننے سے انکار کردیں، ان پر کسی قسم کا جبر نہیں ہے!“

عدالت

بعض لوگوں نے کہا ہے کہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے لیے ضروری ہے کہ آدمی خود بھی معروف پر عمل کرے اور منکر سے باز رہے۔ جو شخص نہ تو معروف پر عمل کرے اور نہ منکر سے باز رہے، اس کو امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا حق نہیں ہے۔ کیوں کہ قرآن و حدیث میں ان لوگوں پر سخت تنقید کی گئی ہے جو دوسروں کو نیکیوں کی دعوت دیتے ہیں اور خود ان کا دامن نیکیوں سے خالی ہوتا ہے۔ ارشاد باری تعالٰی ہے:

أتأمرون الناس بالبر وتنسون أنفسكم

کیا تم لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور اپنے آپ کو بھول جاتے ہو۔

يأيها الذين امنوا لم تقولون ما لا تفعلون كبر مقتا عند الله أن تقولون ما لا تفعلون

اے وہ لوگو جو ایمان کا دعویٰ کرتے ہو تم ایسی باتیں دوسروں سے کیوں کہتے ہو جن پر خود عمل نہیں کرتے۔ اللہ کو یہ بات سخت ناپسند ہے کہ تم کہو وہ جس پر خود عمل نہ کرو۔ اسی طرح احادیث میں واعظین بے عمل کی سخت مذمت کی گئی ہے۔ یہ تو نقلی دلائل ہیں۔ عقلی طور پر بھی کسی بے عمل کا دوسروں کو عمل کی تبلیغ کرنا درست نہیں ہے۔ کیوں کہ اصلاح نفس دوسروں کی اصلاح پر مقدم ہے۔ خود سیدھی راہ پر چلنا اور دین پر ثابت قدم رہنا اصل ہے اور دوسروں کو راہ دکھانا اور دین پر استقامت کی تبلیغ کرنا اس کی فرع ہے۔ ظاہر ہے جب اصل ہی موجود نہ ہو تو فرع کا وجود کیسے ہوسکتا ہے؟ آدمی کا خود صلاح یافتہ ہونا اصل سرمایہ ہے اور دوسروں کی اصلاح کرنا اس کی زکوٰۃ ہے۔ اگر اصل سرمایہ موجود نہ ہو تو زکوٰۃ کس چیز کی ادا ہوگی؟ امام غزالیؒ اس کے جواب میں فرماتے ہیں:

كل ما ذكروه خيالات و انما الحق ان للفاسق من المحتسب برهانه هو أن نقول: هل يشترط في الاحتساب ان يكون المتعاطيه معصوما عن المعاصى كلها؟ فان شرط ذلك فهو خرق للاجماع فم لإباحة الاحتساب اذ لا عصمة للصحابة فضلاً عمن دونهم!

جو کچھ ان لوگوں نے کہا وہ سب محض بے بنیاد خیالات ہیں اور صحیح بات یہ ہے کہ فاسق کو احتساب کا حق ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ ہم پوچھتے ہیں کہ جو شخص احتساب کا فرض انجام دے کیا تمام گناہوں سے اس کا معصوم ہونا شرط ہے؟ اگر یہ شرط لگائی جائے تو یہ اجماع امت کی خلاف ورزی ہوگی، مزید برآں یہ احتساب کے دروازے کو بند کرنا ہے۔ کیوں کہ اور لوگوں سے قطع نظر صحابہ کرام بھی معصوم نہیں ہیں۔ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے لیے جو لوگ تقویٰ اور نیکی کو شرط قرار دیتے ہیں ان کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اسے ہر چھوٹے بڑے گناہ سے پاک ہونا چاہیے۔ بلکہ وہ یہ کہتے ہیں کہ اس کے اندر کم سے کم موٹی موٹی نیکیاں موجود ہوں اور وہ کبائر سے بچا رہے۔ امام غزالیؒ اس پر بھی تنقید کرتے ہیں۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ جب ایک شرابی جہاد میں حصہ لے سکتا ہے اور لیتا رہا ہے اور ایک زانی قتل سے منع کرسکتا ہے تو یہ شرط فضول ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ گناہ سے خود باز رہنا ایک الگ چیز ہے اور دوسروں کو گناہ سے منع کرنا دوسری چیز۔ ان دونوں کو ایک ساتھ جوڑ دینا صحیح نہیں ہے۔ ایک شخص جو گناہ گار ہے وہ کہہ سکتا ہے:

يجب على الانتهاء والنهي فمن ابن الملزمني من العصيان باحدهما ان اعصى الله تعالى بالثاني، و اذا تركت النهي واجباً علي فمن اين يسقط وجوبه باقدامي!

گناہوں سے خود رکنا اور دوسروں کو روکنا دونوں مجھ پر واجب ہیں۔ ان میں سے ایک کی نافرمانی سے مجھ پر گناہ لازم آئے، بلکہ دوسرے معاملے میں بھی خدا کی نافرمانی کروں۔ جب منکر کے ارتکاب سے کیسے ساقط ہو جائے گا۔ امام غزالیؒ اس سلسلے میں اصول کلیہ کے طور پر فرماتے ہیں:

اصلاح الغير لا يراد لاصلاح النفس، و لا اصلاح النفس لاصلاح الغير، فالقول بترتب احدهما على الاخرة تحكم

دوسروں کی اصلاح اپنی اصلاح کے لیے نہیں چاہی جاتی اور نہ اپنی اصلاح دوسروں کی اصلاح کے لیے۔ اس لیے یہ کہنا کہ ان میں سے ایک دوسرے پر موقوف ہے محض بے دلیل دعویٰ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر ایک مستقل فرض ہے اور اس کی ادائیگی کے لیے یہ شرط نہیں ہے کہ پہلے دوسرے فرائض پورے کردیے جائیں تب اسے ادا کیا جائے۔ شریعت کا فرض اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ اگر اس کے ادا ہونے کا وقت آگیا ہے تو لازمًا اسے ادا کیا جائے، خواہ دوسرے فرائض ادا ہو رہے ہوں یا نہ ہو رہے ہوں۔ یہی بات علامہ ابوبکر جصاصؒ نے ان الفاظ میں کہی ہے:

ان ترك الانسان لبعض الفروض لا يسقط عنه فروضا غيره، الا ترى ان تركه للصلوة لا يسقط عنه فرض الصوم و سائر العبادات، فكذالك من لم يفعل سائر المعروف و لم ينته سائر المناكير فان فرض الأمر بالمعروف و النهي عن المنكر غير ساقط عنه

انسان کا بعض فرائض کو چھوڑ دینا اس سے بعض دوسرے فرائض کو ساقط نہیں کر دیتا، دیکھو کہ اگر وہ نماز کو ترک کردے تو اس کی وجہ سے روزہ اور دوسری عبادات اس سے ساقط نہیں ہو جاتیں، اسی طرح جو شخص تمام معروفات پر عمل نہ کرے اور تمام منکرات سے باز نہ رہے اس کی وجہ سے امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا فرض اس سے ساقط نہیں ہو جائے گا۔ بلکہ انسان کی دوسروں پر تبلیغ کا مسئلہ ایک اور پہلو سے بھی قابل غور ہے۔ وہ یہ کہ دنیا انسانوں کی باتوں کو قبول کرتی ہے جو باعمل ہوتے ہیں اور جن کے کردار سے ان کے خیالات کی تصدیق ہوتی ہے۔ اس کے برعکس غلط کردار انسانوں کی تبلیغ بالعموم رائیگاں جاتی ہے اور اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ اب فرض کیجیے کہ ایک بے کردار انسان کو کسی وقت اس بات کا یقین ہوتا ہے کہ اس کا امر بالمعروف ونہی عن المنکر کرنا فائدہ مند ہوگا تو سوال یہ ہے کہ کیا اس صورت میں بھی اس کے لیے یہ فرض ہی رہے گا اور اس کے انجام نہ دینے پر وہ قابل مواخذہ قرار پائے گا؟ امام غزالیؒ فرماتے ہیں:

من علم ان قوله لا يقبل في الحسبة لعدم الناس بنفسه فليس عليه الحسبة بالوعظ اذ لا فائدة في وعظه فالفسق يوثّر في اسقاط فائدة كلامه ثم اذا سقط فائدة كلامه سقط وجوب الكلام!

جو شخص احتساب کا فرض انجام دے اس کے فسق کی وجہ سے اس کی بات نہیں سنی جائے گی تو اس پر وعظ ونصیحت کے ذریعے احتساب ضروری نہیں ہوگا، اس لیے کہ اس کے وعظ و نصیحت کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ کیوں کہ اس کا فسق اس کے کلام کے فائدہ کو ساقط کرنے میں مؤثر ہوگا۔ جب اس کے کلام کا کوئی فائدہ ہی نہیں رہا تو کلام کا وجوب بھی ساقط ہوگا۔ یہ بات صرف زبانی نصیحت کے سلسلے میں ہے۔ لیکن امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی ایک شکل اور بھی ہے۔ وہ یہ کہ آدمی قوت وطاقت کے ذریعے معروف کو قائم کرے اور منکر کو مٹادے۔ اس کے لیے یہ شرط نہیں ہے کہ آدمی نیک اور متقی ہی ہو۔ اگر کسی غلط کار اور فاسق کو قوت حاصل ہے تو اسے اپنی قوت کو امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔ امام غزالیؒ فرماتے ہیں:

اما الحسبة القهرية فلا يشترط فيها ذلك، فلا حرج على الفاسق في اقامة الخصور و

رہا طاقت کے ذریعے احتساب تو اس میں یہ (تقویٰ اور نیکی) شرط نہیں ہے۔ فاسق کے لیے اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ وہ شراب خانے امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے لیے جن لوگوں نے نیکی اور تقویٰ کو شرط قرار دیا ہے، جیسا کہ گزر چکا، انھوں نے قرآن کی دو آیتوں سے بھی استدلال کیا ہے۔ امام غزالی ان کے بارے میں فرماتے ہیں:

اما الآيات التي استدلوا بها فهو انكار عليهم من حيث تركهم المعروف لا من حيث امر هم و لكن امرهم دل على قوة علمهم وعقاب العالم اشد لانه لا عذر له مع قوة علمه

جن آیات سے ان لوگوں نے استدلال کیا ہے۔ ان میں یہ عمل انسانوں پر اس پہلو سے تنقید ہے کہ انھوں نے معروف پر عمل کو ترک کر دیا اس پہلو سے نہیں کہ انھوں نے امر بالمعروف کا فرض انجام دیا ہے۔ ان کا معروف کا علم دینا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ان کو علم کی قوت حاصل ہے۔ (لیکن اس کے باوجود جب انھوں نے عمل نہیں کیا تو ظاہر ہے کہ) عالم کے لیے عذاب زیادہ سخت ہے، کیوں کہ قوت علم کی وجہ سے اس کے پاس کوئی عذر نہیں رہ۔ اس سلسلے میں حضرت سعید بن جبیر نے بہت ہی حقیقت پسندانہ اور فطری بات کہی ہے۔ فرماتے ہیں:

لو كان المرء لا يأمر بالمعروف و لا ينهى عن المنكر حتى لا يكون فيه شىء ما امر احد بمعروف ولا نهى عن منكر

اگر امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے لیے یہ شرط ہے کہ انسان کے اندر کوئی خرابی نہ ہو تو کوئی بھی شخص نہ معروف کا حکم دے سکتا ہے اور نہ منکر سے منع کر سکتا ہے۔ امام مالک نے یہ بات سنی تو فرمایا:

صدق، من ذا الذي ليس فيه شىء

(سعید بن جبیر نے سچ کہا۔ کون ایسا شخص ہے جس کے اندر کوئی نقص نہ ہو۔ یہ تو اس مسئلہ کا قانونی پہلو ہے، لیکن جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ آدمی کے قول و فعل میں مطابقت ہونی چاہئے، اس کی اہمیت سے کس کو انکار نہیں ہے۔ حافظ ابن کثیر کہتے ہیں:

ذهب بعضهم الى ان من ترك المعاصي لا ينهى غيره، وهذا ضعيف... و الصحيح ان العالم يامر بالمعروف وان لم يفعله، وينهى عن المنكر وان ارتكب ... لكنه والحالة هذه مذموم على تركه الطاعة و فعله المعصية لعلمه بها و مخالفته على بصيرة فانه ليس من يعلم كمن لا يعلم

بعض لوگ اس طرف گئے ہیں کہ معاصی کا ارتکاب کرنے والا دوسروں کو منع نہیں کر سکتا، لیکن یہ رائے کمزور ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ جو علم رکھے والا معروف کا حکم بھی دے گا اگرچہ وہ اس پر عمل نہ کرے اور منکر سے منع بھی کرے گا اگرچہ اس کا ارتکاب کرے ... لیکن وہ، جب کہ اس کی یہ حالت ہے، یقینا قابل مذمت ہے، کیوں کہ اس نے جانتے بوجھتے اطاعت نہیں کی اور معصیت کا ارتکاب کیا اور بصیرت کے باوجود مخالفت کا رویہ اختیار کیا۔ ظاہر ہے جو شخص جانتا ہے وہ اس کی مانند نہیں ہے جو نہیں جانتا۔ دوسروں کو دین کی تبلیغ کرنا اور اپنے عمل سے اس کی مخالفت کرنا دین کے ساتھ کھلا تضاد ہے۔ اس سے دین کا وقار مجروح ہوتا ہے اور اس کی عظمت کو صدمہ پہنچتا ہے۔ یہ عمل صرف ایمان کی کم زوری کی دلیل ہے، بلکہ اس سے خود کہنے والے کی بات کا بھی کوئی وزن باقی نہیں رہتا۔ قرآن کا مطالبہ یہ ہے کہ جو کچھ تم کہتے ہو اس پر عمل بھی کرو، نفاق کی روش نہ اختیار کرو کہ باتیں تو تمہاری فرشتوں کی طرح معصومانہ ہوں اور کردار ایسا ہو کہ شیطان بھی پناہ مانگے۔ حضرت شعیب علیہ السلام اللہ تعالی کے پیغمبر تھے اور اللہ کا دین انسانوں تک پہنچارہے تھے، لیکن قول و عمل کی اہمیت کا اظہار اس طرح کرتے ہیں کہ جن معاصی سے تمہیں باز رہنے کی تبلیغ کر رہا ہوں خود ان سے آلودہ نہیں ہوں کہ تم میری باتوں کو واعظ بے عمل کی نصیحت سمجھ کر نظر انداز کر دو۔

و ما اريد ان اخالفكم الى ما انهاكم عنه ان اريد الا الاصلاح ما استطعت

اور میں یہ نہیں چاہتا کہ جن باتوں سے میں تم کو منع کر رہا ہوں خود ان کی مخالفت کروں۔ میں تو اپنی طاقت کی حد تک صرف اصلاح چاہتا ہوں۔ رسول اکرم ﷺ واعظ بے عمل کے بارے میں فرماتے ہیں کہ قیامت کے روز اسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا اور وہ اس میں گھوم رہا ہوگا۔ اسے دیکھ کر جہنم کے دوسرے لوگ پوچھیں گے:

الست كنت تامر بالمعروف و تنهى عن المنكر

کیا تو معروف کا حکم نہیں دیتا تھا اور منکر سے منع نہیں کرتا تھا؟ (تو پھر یہاں کیسے نظر آرہا ہے؟) وہ جواب دے گا:

اني كنت امر بالمعروف ولا افعله وانهى عن المنكر و اقعله

ہاں، بلاشبہ میں معروف کا حکم دیتا تھا، لیکن اس پر عمل نہیں کرتا تھا اور منکر سے منع کرتا تھا اور خود اس کا ارتکاب کرتا تھا۔

حکومت یا اس کی اجازت

بعض لوگوں نے کہا ہے کہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر عام لوگوں کے کرنے کا کام نہیں ہے۔ اسے حاکم وقت انجام دے سکتا ہے یا وہ شخص جسے حاکم کی اجازت حاصل ہو۔ پہلے آپ اس سوال پر غور کیجئے کہ کیا امر بالمعروف ونہی عن المنکر صرف حکام کا فرض ہے یا عوام بھی اس کے مکلف ہیں؟ اس میں شک نہیں کہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی نوعیت ایسی ہے کہ بعض اوقات اس میں طاقت کے استعمال کی بھی ضرورت پڑتی ہے، لیکن اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ عام لوگ اس سے بری الذمہ ہیں۔ اسے اسی وقت بجا لایا جائے گا، جب کہ آدمی کے پاس اقتدار وحکومت ہو، کیوں کہ یہ بین واضح احادیث کے خلاف ہے جن میں ظالم حاکموں اور جابر فرمانرواؤں کے خلاف حق و انصاف کے اظہار کی تعریف کی گئی ہے۔ یہاں دو حدیثیں پیش کی جارہی ہیں، ایک حدیث ہے:

افضل الجهاد كلمة عدل عند سلطان جائر

سب سے زیادہ فضیلت والا جہاد ظالم بادشاہ کے سامنے انصاف کا کلمہ کہنا ہے۔ دوسری حدیث کے الفاظ ہیں:

سيد الشهداء حمزة بن عبد المطلب و رجل قام الى امام جائر فامره و نهاه فقتله

شہدوں کے سردار حضرت حمزه بن عبد المطلب ہیں اور وہ شخص جو کسی ظالم امام کے سامنے کھڑا ہوا اور اسے (نیکی کا) حکم دے اور (برائی سے منع کرے اور اس کے نتیجے میں) حاکم اس کو قتل کردے۔ امام نووی فرماتے ہیں:

قال العلماء و لا يختص الامر بالمعروف و النهي عن المنكر ثابت لآحاد المسلمين، قال امام الحرمين و الدليل عليه اجماع المسلمين فان غير الولاة في الصدر الاول والعصر الذي يليه كانوا يامرون الولاة بالمعروف و ينهونهم عن المنكر، مع تقرير المسلمين اياهم و ترك توبيخهم على المشاغل بالامر بالمعروف و النهي عن المنكر من غير ولاية

علماء کہتے ہیں کہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر حکام کے ساتھ مخصوص نہیں ہے، بلکہ یہ حکم مسلمانوں کے عام افراد کے لیے بھی ثابت ہے۔ امام الحرمین فرماتے ہیں کہ اس کی دلیل مسلمانوں کا اجماع ہے، کیوں کہ دور اول اور اس سے قریب کے زمانے میں وہ لوگ جو صحابہ اقتدار میں تھے حاکموں کو معروف کا حکم دیتے اور منکر سے منع کرتے تھے۔ ان کے اس عمل پر عام مسلمان خاموش رہے اور کسی نے اس بات پر انہیں سخت سست نہیں کہا کہ وہ غیر حکومت کے حاکموں کو معروف کا حکم دیتے اور منکر سے منع کرتے ہیں۔ قرآن نے سورہ حج میں اہل ایمان کی یہ صفت بیان کی ہے کہ اگر ان کو زمین میں اقتدار عطا کیا جائے تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوۃ دیں گے معروف کا حکم دیں گے اور منکر سے منع کریں گے۔ (آیت نمبر : ۴۱) یہ واضح دلیل ہے اس بات کی کہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر مسلمان حاکموں کا مخصوص منصب نہیں ہے، بلکہ یہ ہر مسلمان کا فرض ہے، جس کے ادا کرنے سے کوئی بھی شخص اس پر باز نہیں رہ سکتا۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز سورہ حج کی اس آیت کے بارے میں فرماتے ہیں:

الا انها ليست على الوالى وحده و لكنها على الوالى والمولى عليه

سن لو! یہ صرف حاکم ہی کے لیے نہیں ہے۔ بلکہ یہ حاکم اور محکوم دونوں کے لیے ہے۔ اب آئیے اس پہلو پر غور کریں کہ کیا امر بالمعروف ونہی عن المنکر حاکم وقت کی اجازت ہی سے انجام دیا جا سکتا ہے؟ یا اس کے لیے اس کی اجازت کی ضرورت نہیں ہے؟ جو لوگ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے لیے حاکم وقت کی اجازت کو ضروری قرار دیتے ہیں ان کے پیش نظر دراصل اس کام کو منظم کرنا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر ہر شخص کو امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی اجازت دے دی جائے تو اس میں کوئی ترتیب و تنظیم باقی نہیں رہ سکے، بلکہ بسا اوقات بگاڑ کا بھی اندیشہ ہے۔ امام غزالیؒ کو اس شرط کے مخالف ہیں، لیکن فرماتے ہیں کہ اس شرط کے حق میں یہ بات بھی کہی جا سکتی ہے کہ:

ربما يندب لها من ليس اهلا لها لقصور معرفته او قصور ديانته فیؤدی ذلک الى وجوه من الخلل

بسا اوقات احتساب کا فرض ایسا شخص بھی انجام دینے لگتا ہے جو اپنے علم اور دیانت و تقویٰ کی وجہ سے اس کام کا اہل نہیں ہوتا اور یہ چیز بہت سی خرابیوں کا سبب بن جاتی ہے۔ علامہ عبدالقادر عودہ شہید کہتے ہیں:

و الذين يشترطون اذن الامام يقصدون من هذا الشرط تنظيم الامر بالامر و النهي عن المنكر

جو لوگ اس کام کے لیے امام کی اجازت کی شرط لگاتے ہیں وہ اس شرط کے ذریعے امر بالمعروف ونہی عن المنکر کو منظم کرنا چاہتے ہیں۔ قرآن و حدیث میں امر بالمعروف ونہی عن المنکر سے متعلق جو ہدایات ہیں وہ بالکل عام ہیں، اس لیے علماء نے اس شرط کو غیر ضروری قرار دیا ہے اور اس سے اتفاق نہیں کیا ہے۔ امام غزالیؒ فرماتے ہیں:

هذا الاشتراط فاسد، فان الآيات والاخبار التي اوردناها تدل على ان كل من رای منکرا فسکت عليه عصى، اذ يجب نهيه ايما راه و كيف ما راه على العموم، فالتخصيص بشرط التفويض من الامام تحكم لا اصل له

یہ شرط فاسد ہے، کیوں کہ (اس باب میں) جو آیات و احادیث ہم نے نقل کی ہیں وہ بالکل عام انداز میں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ جو شخص کسی منکر کو دیکھے اور خاموش ہو جائے تو اس نے خدا کی نافرمانی کی، کیوں کہ اس کے لیے ضروری ہے کہ جہاں کہیں اور جس حالت میں بھی منکر کو دیکھے روک دے۔ اس حکم میں اس شرط کے ذریعے تخصیص پیدا کرنا کہ نہی عن المنکر اسی وقت ضروری ہے جب کہ یہ ذمے داری امام کی طرف سے سونپی جائے، یہ دلیل ہونی چاہیے۔ جس کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ اسی بحث میں ایسی احادیث نقل کی گئی ہیں جن میں حکام کے جور و ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کی تعریف کی گئی ہے۔ امام غزالی ان احادیث کے حوالے سے فرماتے ہیں:

فاذا جاز الحكم على الامام على مراغمته فكيف يحتاج الى اذنه

جب خود امام کے علی الرغم اس پر حق کا اظہار جائز ہے تو وہ امام کی اجازت کا کیسے محتاج ہوگا۔ اسی سلسلے میں مزید فرماتے ہیں:

استمرار عادات السلف على الحسبة على الولاة قاطع باجماعهم على الاستغناء عن التفويض، بل كل من امر بمعروف فان كان الوالى راضيا به فذاك، و ان كان ساخطا له فشخطه له منكر يجب الانكار علیه، فكيف يحتاج الى اذنه

سلف کا یہ کام جو حکام کے خلاف کرتے رہے ہیں، اس بات کی قطعی دلیل ہے کہ اس کام پر حکام کی طرف سے مامور کیے جانے کی قطعا ضرورت نہیں ہے، بلکہ جو بھی شخص معروف کا حکم دے، اگر حاکم اس سے خوش ہے تو ٹھیک ہے اور اگر وہ اس سے ناخوش ہے تو معروف پر اس کا ناخوش ہونا خود ایک منکر ہے، جس پر تنقید ضروری ہے۔ تو پھر یہ کام اس کی اجازت کا کیسے محتاج ہوگا۔ علامہ سراج الدین بلقینی کہتے ہیں:

كان المسلمون في الصدر الاول و بعده يامرون الولاة بالمعروف و ينهونهم عن المنكر من غير نكير من احد و لا توقيف على اذن، فعلم انه لا يختص بالولاة بل يجوز لاحاد الرعية بالقول والفعل

دور اول اور اس کے بعد (بھی) مسلمان، حکام کو معروف کا حکم دیتے اور منکر سے منع کرتے تھے۔ ان کے اس عمل پر نہ تو کسی نے نکیر کی اور نہ اسے حکام کی اجازت پر موقوف ٹھہرایا۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ حکام کے ساتھ مخصوص نہیں ہے، بلکہ عام رعایا کو بھی اجازت ہے کہ وہ قول و فعل سے اس کو انجام دیں۔ حقیقت یہ ہے کہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر نہ تو مسلم حکام پر اس کی مخصوص ذمہ داری ہے اور نہ اس کے لیے ان کی اجازت ہی کی ضرورت ہے، بلکہ یہ ہر مسلمان کا دینی فریضہ ہے۔ جب بھی وہ اس فرض کو انجام دینے کے موقف میں ہو اسے انجام دینا چاہئے اور وہ انجام دے گا۔

تکلیف

امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے وجوب کی پہلی شرط یہ ہے کہ آدمی شرعاً مکلف ہو، کیوں کہ غیر مکلف پر کوئی حکم واجب نہیں ہوتا اور وہ تمام شرعی ذمے داریوں سے مستثنی ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اگر کوئی نابالغ معروف کا حکم دے یا منکر سے منع کرے تو یہ اس کے لیے ناجائز ہے، بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ اگر وہ اس کام کو چھوڑ دے تو گناہ گار نہ ہوگا لیکن اگر وہ اس کو انجام دیتا ہے تو لازمًا ثواب کا مستحق ہوگا۔ امام غزالیؒ اس شرط کے بارے میں فرماتے ہیں:

انه شرط الوجوب، فاما امكان الفعل و جوازه فلا يستدعى الا العقل، حتى ان الصبي المراهق للبلوغ المميز و ان لم يكن مكلفا فله انكار المنكرو له ان يريق الخمر و يكسر الملاهي و اذا فعل ذلک نال به ثواباً و لم يكن لاحد منعه من حيث انه ليس بمكلف فان هذه قربة وهو من اهلها

یہ صرف وجوب کی شرط ہے، باقی رہا اس عمل کا امکان اور جواز تو یہ عقل کے سوا کسی اور چیز کا مطالبہ نہیں کرتا، یہاں تک کہ ایک بچہ، جو نابالغ ہونے کے قریب ہے اور صاحب تمیز ہے، اگرچہ وہ مکلف نہیں ہے، لیکن اسے اجازت ہے کہ شراب کو بہادے اور آلات لہو و لعب توڑ دے اگر وہ اس پر عمل کرے تو اس کا ثواب بھی پائے گا، کسی کو اسے اس وجہ سے منع کرنے کا حق نہیں ہے کہ وہ مکلف نہیں ہے، کیوں کہ یہ خدا سے قربت کا ذریعہ ہے اور وہ یقینا اس کا اہل ہے۔ اس مسئلہ پر ہم آئندہ بحث کریں گے کہ اسلامی ریاست میں ایک مسلمان خواہ وہ نابالغ ہو یا بالغ، بزیر قوت منکر کے مٹانے کا حق ہے یا نہیں؟

قدرت

امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے وجوب کی دوسری شرط ہے قدرت۔ جو شخص امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی قدرت رکھتا ہو اسی پر معروف کا حکم دینا یا منکر سے منع کرنا واجب ہے۔ اگر کسی میں اس کی قدرت نہیں ہے تو وہ اس پر واجب بھی نہیں ہے۔ رسول اکرم ﷺ کا ارشاد ہے:

من رای منكم منكرا فليغيره بیدہ، فان لم يستطع فبلسانه، فان لم يستطع فبقلبه، وذلک اضعف الایمان

تم میں سے جو شخص بھی کسی منکر کو دیکھے تو اسے ضرور اپنے ہاتھ سے بدل دے۔ اگر وہ اس کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو اپنی زبان کے ذریعے اسے بدلے اور اس کی بھی اس میں طاقت نہ ہو تو اپنے دل سے (برا جانے) اور یہ ایمان کی کم زوری ہے۔ یہ اس امر کی دلیل ہے کہ انسان پر تغیر منکر بذریعہ قوت اس وقت ضروری ہے جب کہ وہ اس کی استطاعت رکھتا ہو، ورنہ اس کا فرض یہ ہے کہ برائی کے خلاف اپنی آواز بلند کرے۔ اگر اس کی بھی اس میں طاقت نہیں ہے تو اس کی ذمے داری صرف یہ رہ جاتی ہے کہ منکر سے نفرت کرے اور دل سے اس کو برا جانے۔ امام ابو بکر جصاص کہتے ہیں:

اخبر النبي صلى الله عليه و سلم ان انكار المنكر على هذه الوجوه الثلاثة على حسب الامكان و دل على انه اذا لم يستطع تغييره بيده فعليه تغييره بلسانه ثم اذا لم يمكنه ذلک فليس عليه اكثر من انکاره بقلبه

نبی ﷺ نے (یہ) بیان کیا ہے کہ منکر پر نکیر کرنا مذکورہ تین طریقوں سے ہوتا ہے، ان میں (پہلا طریقہ) ہاتھ ہے۔ اور اس میں آپ نے یہ بتایا ہے کہ جب منکر کو اپنے ہاتھ سے نہ بدل سکے تو اس کے لیے زبان سے منکر کو بدلنا ضروری ہے۔ اگر اس کا امکان بھی اس کے لیے نہ ہو تو اس کی ذمے داری اس سے زیادہ نہیں ہے کہ اپنے دل سے اس پر نکیر کرے۔

عدم قدرت کی شکلیں

اب ہمیں اس سوال پر غور کرنا ہے کہ عدم قدرت کی کتنی صورتیں ہو سکتی ہیں اور ان مختلف صورتوں میں شریعت کے کیا احکام ہیں؟ آدمی جسمانی طور پر اس قدر کم زور اور بے بس ہو کہ وہ نہ معروف کو قائم کر سکے اور نہ منکر کو مٹا سکے تو اس پر امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی ذمے داری عائد نہ ہوگی۔ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

و لا يغنى ان العاجز ليس عليه حسبة الا بقلبه

یہ کوئی پوشیدہ بات نہیں ہے کہ مجبور پر صرف دل سے احتساب کی ذمے داری عائد ہوتی ہے۔ عدم قدرت اور عجز کی ایک شکل عدم علم بھی ہے۔ جو شخص معروف و منکر سے ناواقف ہے اس پر امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی ذمے داری بھی عائد نہیں ہوتی۔ علامہ عبدالقادر عودہ شہید فرماتے ہیں:

و يلحق بالعجز الحسى العجز العلمي

عجز حسی کے حکم میں عجز علمی بھی داخل ہے۔ معروف و منکر کے حدود بہت وسیع ہیں۔ اس میں دین کی ایسی تعلیمات بھی شامل ہیں جن کا جاننا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے اور ایسے احکام بھی اس میں آتے ہیں جن کے سمجھنے کے لیے مجتہدانہ علم و بصیرت کی ضرورت ہے۔ جو شخص جس حد تک معروف و منکر سے واقف ہے اسی حد تک اس پر ان کا حکم دینا یا منع کرنا ضروری ہے۔ اگر وہ اپنی حد سے آگے بڑھ کر ترجیح اور نقد و احتساب کرے گا تو ہو سکتا ہے کہ دین کی خدمت کے ارادے کے باوجود اس کو نقصان پہنچائے۔ اس لیے علماء نے صراحت کی ہے کہ جن چیزوں کا معروف یا منکر ہونا واضح ہے عوام کو ان ہی کے بارے میں امر و نہی کرنا چاہیے۔ اجتہادی امور پر گفتگو کرنا اہل علم کا کام ہے۔ امام الحرمین فرماتے ہیں:

ان الحكم الشرعي اذا استوى في ادراكه الخاص والعام ففیه للعالم و غیر العالم الأمر بالمعروف والنهي عن المنکر، واذا اختص مدركه بالاجتهاد فليس للعوام فيه امر و نهی بل الأمر فيه موكل الى اهل الاجتهاد

ایسا حکم شرعی جسے ہر خاص و عام جان سکتا ہے، اس کے بارے میں عالم اور غیر عالم دونوں ہی امر بالمعروف ونہی عن المنکر کر سکتے ہیں۔ لیکن ہر حکم کی نوعیت ایسی ہے کہ اس کا معلوم کرنا اجتہاد سے ممکن ہو تو عوام کو اس کے بارے میں حکم دینے یا منع کرنے کا حق نہیں ہے۔ اس میں معاملہ اہل اجتہاد کے سپرد ہے (وہ اپنے اجتہاد کے مطابق اس سلسلے میں اقدام کریں گے)۔ اسی بات کو امام نووی نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:

انما يأمر و ينهى من كان عالما بما يامر به و ینهی عنه و ذلک يختلف باختلاف الشيء، فان كان من الواجبات الظاهرة و المحرمات المشهورة کالصلوة و الصيام و الزنا و الخمر و نحوها، فکل المسلمين علماء بها و ان كان من دقائق الافعال و الاقوال و مما يتعلق بالاجتهاد لم يكن للعوام مدخل فيه و لا لهم انكاره بل ذلک للعلماء۔

امر بالمعروف ونہی عن المنکر وہی شخص کرے گا جو اس چیز کو جانتا ہو جس کا وہ حکم دے رہا ہے یا جس سے منع کر رہا ہے اور مسائل کے اختلاف کے ساتھ یہ امر و نہی بھی مختلف ہوتا ہے۔ اگر مسئلہ کھلے ہوئے فرائض اور مشہور محرمات میں سے ہے، جیسے نماز، روزہ، زنا، شراب وغیرہ تو سب ہی مسلمان اس کو جانتے ہیں۔ لیکن اگر وہ افعال و اقوال کی کوئی باریکی ہے اور اس کا تعلق اجتہاد سے ہے تو عوام کو اس میں داخل نہیں ہے اور نہ ان کو اس پر نکیر کرنا چاہیے، بلکہ یہ اہل علم کا کام ہے۔ امام غزالی نے صراحت کی ہے:

العامی ینبغی له ان لا يحتسب الا فی الجلیات المعلومة

عام آدمی کو صرف ان امور میں احتساب کرنا چاہیے۔ جو بہت ہی واضح اور معلوم ہیں۔

خوف ضرر

عدم قدرت کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا فرض انجام دینے میں آدمی اپنے لیے خطرہ محسوس کرے۔ اس صورت میں یہ فرض اس سے ساقط ہو جائے گا۔ امام غزالیؒ فرماتے ہیں:

لا يقف سقوط الوجوب علی العجز الحسی بل یلتحق به ما يخاف عليه مكر وها و ماله فذلک فی معنی العجز

امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا وجوب صرف عجز حسی ہی کی وجہ سے ساقط نہیں ہوتا، بلکہ اس کے ساتھ یہ صورت بھی شامل ہے کہ آدمی کو کسی تکلیف کے پہنچنے کا خوف ہو۔ یہ بھی عجز ہی کے حکم میں ہے۔ محدث ابن بطال کہتے ہیں:

و النصيحة لازمة على قدر الطاقة اذا علم الناصح انه يقبل نصحه و يطاع امره و امن علی نفسه المكروه، فان خشی اذی فهو في سعة

نصیحت اور خیر خواہی طاقت کے بقدر لازم ہے، جب کہ نصیحت کرنے والا یہ جانتا ہو کہ اس کی نصیحت قبول کی جائے گی اور اس کے حکم پر عمل کیا جائے گا۔ ساتھ ہی اسے کسی تکلیف کے پہنچنے کا اندیشہ بھی نہ ہو۔ اگر اس کا اندیشہ ہو تو اس کی گنجائش ہے کہ نصیحت سے باز آئے۔

ضرر کے مختلف پہلو

امام غزالی نے اپنی کتاب احیاء علوم الدین میں ضرر کے مختلف پہلوؤں پر بڑی تفصیل سے بحث کی ہے۔ یہاں ہم ان کی بحث کا خلاصہ اپنے الفاظ میں پیش کرتے ہیں: انسان اپنے لیے بھی اور اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کے لیے بھی چار چیزیں چاہتا ہے: علم، صحت، دولت و ثروت اور جاہ و مرتبہ۔ ان کے بارے میں اس کو دو باتیں ناگوار ہوتی ہیں: ایک یہ کہ ان میں سے جو چیز حاصل ہے وہ ختم ہو جائے۔ دوسری یہ کہ ان میں سے جس چیز کے مستقبل میں ملنے کی توقع ہے وہ ملتے سے رہ جائے۔ اس کے بعد فرماتے ہیں:

فمرجع المكروه الى قسمين احدهما خوف امتناع المنتظر و هذا لا ینبغی ان يكون مرخصا فی ترک الأمر بالمعروف و النهى عن المنكر

پس مکروہ کی دوقسمیں ہوئیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ جس چیز کا انتظار ہے اس کے رک جانے کا خوف ہو۔ لیکن اس کی وجہ سے امر بالمعروف ونہی عن المنکر کو چھوڑنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ مثال کے طور پر ایک شاگرد اپنے استاذ پر اس لیے تنقید نہ کرے کہ وہ اس سے ناخوش ہوگا اور تعلیم نہ دے گا، یا کوئی مریض ڈاکٹر پر احتساب سے اس لیے گریز کرے کہ وہ اس کا علاج نہیں کرے گا اور اس طرح جس صحت کی اسے توقع ہے وہ حاصل نہ ہو سکے گی، یا آدمی حاکم وقت یا اپنے کسی محسن پر تنقید سے اس لیے خاموش رہے کہ وہ اس کی مالی اعانت بند کر دے گا، اسی طرح آدمی کو کسی سے اونچے مرتبہ و حیثیت ملنے کی توقع ہو اور وہ اس لیے اس پر احتساب نہ کرے کہ وہ حیثیت اسے حاصل نہ ہو سکے گی۔ یہ مثالیں دینے کے بعد امام موصوف فرماتے ہیں:

هذا كله لا يسقط وجوب الحسبة لأن هدم زيادات امتعت و تسمية امتناع حصول الزيادات ضرراً مجازاً، و انما الضرر الحقيقي فوات حاصل، و لا يستثنى من هذا الشيء الا ما تدعو اليه الحاجة و يكون في فواته محذور يزيد علی محذور السكوت علی المنكر

یہ سب چیزیں احتساب کے وجوب کو ختم نہیں کرتیں۔ کیوں کہ یہ اصل پر زائد امتعه ہیں اور ان زائد چیزوں کے حاصل نہ ہونے کو ضرر کا نام دینا مجاز ہے۔ حقیقی ضرر تو یہ ہے کہ حاصل شدہ چیز فوت ہو جائے۔ اس قاعدہ سے کوئی صورت مستثنیٰ نہیں ہوگی۔ الا یہ کہ کوئی ضرورت اس کی داعی ہو اور اس کے فوت ہونے میں ایسا خوف ہو جو منکر پر سکوت کے خوف سے بڑا ہو۔ اس استثنائی شکل کی وضاحت بھی امام موصوف نے اوپر ہی کی مثالوں کے ذریعے کی ہے۔ فرماتے ہیں: فرض کیجیے کہ ایک شخص دین کی بنیادی باتوں سے واقف ہے اور اس کے حدود میں صرف ایک عالم ہے جس سے وہ دین سیکھ سکتا ہے۔ ایسا شخص اسے منکر کا ارتکاب کرتے دیکھتا ہے، اگر وہ اس پر احتساب کرے تو اسے یقین ہے کہ وہ اسے تعلیم دینے سے منع کر دے گا اور اس کے حالات بھی ایسے نہیں ہیں کہ کسی دوسرے سے تعلیم پاسکے۔ اب ایک طرف دین کی بنیادی باتوں سے واقف ہونا بھی ضروری ہے اور دوسری طرف انکار منکر بھی ضروری ہے۔ اس حالت میں احتساب کا فرض انجام دینے والا منکر کی نوعیت اور علم کی ضرورت دونوں کو سامنے رکھ کر خود فیصلہ کر سکتا ہے کہ اسے کون سی راہ اختیار کرنی چاہیے۔ اگر منکر ایسا ہو کہ اس پر تنقید و احتساب کو علم دین پر مقدم ہونا چاہیے تو وہ اسے مقدم رکھے گا، ورنہ علم دین کو ترجیح دے گا اور منکر پر سکوت اختیار کرے گا۔ یا ایک شخص بیمار ہے اور مرض کی نوعیت ایسی ہے کہ علاج میں تاخیر سے صحت کے زیادہ خراب ہونے، بلکہ جان کے جانے کا خطرہ ہے اور اس وقت جو حکیم فراہم ہو سکتا ہے وہ کسی منکر کا مرتکب ہو رہا ہے۔ اگر اس پر تنقید کی جائے تو اس بات کا یقین ہے کہ وہ علاج کے لیے آمادہ نہ ہوگا۔ ایسی صورت میں مریض کو حق ہے کہ اس پر تنقید نہ کرے۔ یا ایک شخص اس قدر کم زور ہے کہ کما نہیں سکتا اور نہ کسی سے مانگ کر زندگی گزار سکتا ہے اور نہ اس کے اندر اللہ تعالیٰ پر بہت زیادہ توکل ہے۔ اگر وہ کسی ایسے شخص کی غلط روش پر تنقید کرے جو اس کا خرچ برداشت کر رہا ہے تو اس کو یقین ہے کہ وہ خرچ دینا بند کر دے گا اور وہ یا تو حرام کھانے پر مجبور ہوگا یا مرجائے گا۔ ایسی صورت میں اسے اجازت ہے کہ اس کی غلط روش پر سکوت اختیار کرے۔ اسی طرح کسی سخی، کوئی فائدہ کسی کے پیچھے لگاہوا ہے اور اس سے نجات پانے کی سوائے اس کے کوئی صورت نہیں ہے کہ کسی صاحب حیثیت آدمی کے ذریعے حاکم وقت سے شکایت کی جائے، لیکن صاحب حیثیت آدمی منکر میں مبتلا ہے۔ مثال کے طور پر وہ ریشم کا استعمال کرتا ہے۔ اگر اس کے استعمال پر تنقید کی جائے تو معلوم ہے کہ حاکم تک رسائی نہیں ہو سکے گی اور یہ غصہ جان لے لے گا۔ ایسی صورت میں آدمی کو اجازت ہے کہ اس پر تنقید نہ کرے اور اپنی جان بچانے کی فکر کرے۔ ان مثالوں کے ذکر کے بعد امام غزالی فرماتے ہیں:

فهذه الأمور كلها اذا ظهرت قويت لم يعد استثناؤها، و لکن الأمر فيها منوط باجتهاد المحتسب حتى يستفتي فيها قلبه، و يزن احد المحذورين بالآخر، و يرجح بنظر الدين لا بموجب الهوی و الطبع، فان رجع بموجب الدين سمى سكونه مداراة، و ان رجع بموجب الهوى سمى سكوته مداهنة، وهذا امر باطن لا يطلع عليه الا بنظر دقیق و لكن الناقد بصير، فحق علی كل متدین فيه ان يراقب قلبه و يعلم ان الله تعالى مطلع علی باعثه و صارفه أنه الدين او الهوی، و ستجد کل نفس ما عملت من سوء او خیر محضرا عند الله و لو في فلتة خاطر او فلتة ناظر من غير ظلم و جور فما الله بظلام للعبيد۔

پس یہ تمام امور جب بالکل ظاہر اور قوی ہو تو ان کا استثناء ہو سکتا ہے۔ لیکن اس سے متعلق ہے۔ وہ اپنے دل سے اس میں کوئی طلب کرے اور دونوں نقصانات کا ایک دوسرے سے موازنہ کرے اور کسی بھی پہلو کو دین کے نقطۂ نظر سے ترجیح دے، نہ کہ خواہش اور طبع کے، اگر وہ دین کے نقطۂ نظر سے سکوت کو ترجیح دے گا تو اس کو مدارات کہا جائے گا اور اگر خواہش کے (مطابق کرے گا تو) یہ باطن کا معاملہ ہے، اس پر وہ گہری نظری کرنے والا (خدا) بخوبی جانتا ہے۔ پس ہر دین دار کو چاہیے کہ اپنے دل کو دیکھے اور یہ سمجھے کہ اللہ تعالیٰ اس بات سے واقف ہے کہ اس کے اقدام کا باعث اور انکار منکر سے پھیرنے والا سبب دین ہے یا خواہش؟ انسان جو کچھ بھی کرے، خواہ وہ برائی ہو یا بھلائی، اس کا بدلہ بغیر کسی ظلم و جور کے اللہ کے نزدیک پائے گا، خواہ وہ دل کے اندر پیدا ہونے والی کھٹک ہو یا کسی دیکھنے والے کی نگاہ اس سے چوک گئی ہو۔ اللہ اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا۔ اس کے بعد امام موصوف نے ضرر کی دوسری قسم سے بحث کی ہے۔ فرماتے ہیں:

اما القسم الثانى وهو فوات الحاصل فهو مكروه و معتبر فی جواز السكوت فی الأمور الأربعة الی العلماء

دوسری قسم ہے حاصل شدہ چیز کا فوت ہو جانا، پس یہ (ہر ایک کے لیے) ناپسندیدہ ہے اور اوپر چار چیزوں میں اس کا اعتبار کیا جائے گا سوائے علم کے۔ اس قاعدے سے علم کو مستثنی کرنے کی وجہ یہ ہے کہ کوئی بھی شخص کسی سے اس کے علم کو نہیں چھین سکتا۔ انسان کے علم کو اگر نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے تو اپنی کوتاہی اور غفلت سے ہے۔ کسی دوسرے میں اس کو نقصان پہنچانے کی طاقت نہیں ہے، اس لیے علم کے بارے میں یہ سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ کوئی اسے ختم کردے گا۔ ہاں آدمی کی صحت کو کوئی چاہے تو نقصان پہنچا سکتا ہے، بلکہ اسے قتل بھی کر سکتا ہے۔ اگر احتساب کے سلسلے میں اس کا خطرہ ہو تو احتساب کا فرض ساقط ہو جاتا ہے، لیکن اس کا احتیاط باقی رہتا ہے۔ اسی طرح احتساب سے انسان کے مال کو خطرہ لاحق ہو تو بھی اس کو اجازت ہے کہ احتساب کا فرض انجام نہ دے اور سکوت اختیار کرے۔ لیکن اس صورت میں بھی اس کے لیے یہی پسندیدہ ہے کہ وہ اپنی دنیا کو قربان کر کے دین کی خدمت انجام دے۔ اس ذیل میں امام غزالی ایک قاعدہ کلیہ یہ بیان کرتے ہیں:

و لكل واحد من الضرب و النهب حد في القلة لا يكثرت كالحية في المال و اللطمة الخفيفة المها في الضرب، و حد في الكثرة يتعين اعتباره ووسط اعتداله لم يكن للحسبة وجوب اصلا على المتدين ان يجتهد فی ذلک و يرجح جانب الدین ما أمكن۔

مار پیٹ اور لوٹ مار، ان میں سے ہر ایک میں کمی کی حد ہے جس کا کوئی اعتبار نہیں کیا جاتا، جیسے کہ مال میں ایک دانق کی کمی آ جائے، یا ایسی ہلکی چوٹ جیسے جس کی تکلیف بہت ہی معمولی ہو۔ اور ایک حد کثرت کی ہوتی ہے جس کا اعتبار کرنا ضروری ہے اور ایک درمیانی حالت ہے جو شریعت میں واضح ہے اور یہاں اجتہاد کی ضرورت پڑتی ہے تو دین داری کے لیے ضروری ہے کہ اس میں اجتہاد کرے اور امکان کی حد تک دین کے پہلو کو ترجیح دے۔ مرتبہ وحیثیت کے سلسلے میں دو باتوں کا خیال رکھنا چاہیے۔ ایک یہ کہ احتساب سے اگر آدمی کی مروت ہی کے ختم ہونے کا خطرہ ہے تو ضرر اس کو اس بات کی اجازت ہوگی کہ وہ اس فرض کو انجام نہ دے۔ مثلاً یہ کہ اس کا چہرہ کالا کر کے بازار میں گھمایا جائے گا۔ لیکن اگر اس سے آدمی کے محض اونچے مقام کے متاثر ہونے کا اندیشہ ہے تو اس کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے۔ مثال کے طور پر ایک شخص بااثر نہیں ہے اور بغیر سواری کے گھر سے نکلنے کا عادی نہیں ہے۔ اب اگر امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے نتیجے میں اس کو یہ اندیشہ ہے کہ اسے بغیر سواری کے باہر نکلنے اور پیدل چلنے پر مجبور کیا جائے گا تو یہ ایسی مجبوری نہیں ہے کہ اس کی وجہ سے امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا فرض ساقط ہو جائے۔ اس صورت میں منکر پر نکیر کرنا احتساب کرنا چاہیے۔ ان تفصیلات کے بیان کرنے کے بعد امام غزالی فرماتے ہیں:

قد دلت العمومات علی تاکد وجوب الحسبة و عظم الخطر فی السكوت عنها، فلا يقابله الا ما عظم فی الدین خطره، و المال و النفس و المروة قد ظهر فی الشرع خطره، فاما مزایا الجاه و الحشمة ودرجات التجمل و طلب ثناء الخلق فكل ذلك لا خطر له

قرآن و حدیث کے الفاظ کا عموم بتاتا ہے کہ احتساب کا وجوب مؤکد ہے اور اس سے سکوت اختیار کرنے میں بڑا خطرہ ہے۔ پس اس کا مقابلہ وہی چیز کر سکتی ہے جس کا نقصان بھی دین کی نظر میں بڑا ہو۔ جہاں تک مال، جان اور مروت کا تعلق ہے، اس کا مرتبہ شریعت میں واضح ہے۔ باقی جاہ و حشمت کے فضائل اور زیب و زینت کے درجات اور مخلوق سے تعریف کی طلب تو ان سب چیزوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔

ملامت، ضرر نہیں ہے

امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے نتیجے میں دوسروں کی تنقید، ناگواری اور ملامت ضرر میں شامل نہیں ہے۔ اس لیے ان سب سے بے نیاز ہوکر مومن کو یہ فرض ادا کرنا ہوگا۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہیں اور جن سے وہ محبت کرتا ہے، قرآن نے ان کے بارے میں کہا ہے:

يُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا يَخَافُونَ لَوْمَةَ لَائِمٍ

وہ اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں، اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈرتے۔ حافظ ابن کثیر اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں:

اى لا يردهم عما هم فيه من طاعة الله و اقامة الحدود و قتال اعدائه و الأمر بالمعروف والنهى عن المنكر لا يردهم عن ذلك راد ولا يصدّهم عنه صاد ولا يحيك فيهم لوم لائم و لا عدل عاذل۔

یعنی ان کی حالت یہ ہے کہ وہ اللہ کی اطاعت کرتے ہیں، اس کے حدود قائم کرتے ہیں، اس کے دشمنوں سے جنگ کرتے ہیں، معروف کا حکم دیتے اور منکر سے روکتے ہیں، اس حالت سے ان کو نہ کوئی پھیرنے والا پھیرتا ہے اور نہ کوئی روکنے والا روکتا ہے ۔ نہ ان پر کسی ملامت کرنے والے کی ملامت اثر انداز ہوتی ہے اور نہ کسی غصہ کرنے والے کا غصہ۔ حضرت عبادہ بن صامتؓ کی روایت ہے:

بايعنا رسول الله صلّى الله عليه و سلم ... على ان نقول بالحق اينما كنا لا نخاف فی الله لومة لائم۔

ہم نے رسول اللہ ﷺ سے بیعت کی تھی...... کہ ہم جہاں کہیں بھی ہوں حق کہیں گے اور اللہ کے بارے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے۔ اس روایت کی تائید ایک دوسری حدیث سے بھی ہوتی ہے۔ حضرت ابوذرؓ فرماتے ہیں:

اوصانی خلیلی ﷺ بخصال من الخير، أوصاني ان لا اخاف فی اللہ لومۃ لائم و اوصانی ان اقول الحق و ان كان مراً

میرے محبوب نے مجھے چند امور خیر کی وصیت کی ہے۔ مجھے تاکید کی کہ اللہ کے بارے میں (کہتے ہوئے) کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈروں اور مجھے تاکید کی کہ حق بات کہوں، خواہ وہ کڑوی ہی کیوں نہ لگے۔ علامہ قرطبی نے لکھا ہے:

اجمع المسلمون فی ما ذکر ابن عبدالبر ان المنكر واجب تغييره على كل من قدر عليه و انه اذا لم يلحقه بتغييره الا اللوم الذي لا يتعدى الى الأذى فان ذلك لا ينبغى ان يمنعه من تغییرہ

ابن عبدالبر کے بیان کے مطابق مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ تغییر منکر ہر اس شخص پر واجب ہے جو اس کی قدرت رکھتا ہو۔ جب کہ منکر کی تغییر سے اس کو صرف ملامت ہی ہو جو تکلیف کی حد تک نہ پہنچ جائے۔ کیوں کہ اتنی سی چیز کو تغییر منکر کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے۔ امام غزالی فرماتے ہیں:

ولو تركت الحسبة بلوم لائم او باغتياب فاسق او شتمه او تعنیفه او سقوط المنزلة عن قلبه او قلب اعماله لم يكن للحسبة وجوب اصلا اذ لا تنفك الحسبة عنه

کسی ملامت گر کی ملامت یا کسی فاسق کی غیبت یا سب و شتم یا درشت کلام یا اس کے دل سے مرتبہ گر جانا، سب ایسی چیزیں ہیں کہ اگر ان کی وجہ سے احتساب کو چھوڑ دیا جائے تو کبھی احتساب واجب ہی نہ ہوگا، کیوں کہ احتساب (کے ساتھ یہ چیزیں) لازم ہے، وہ اس سے جدا نہیں ہوتا ہے۔

دوسروں کو ضرر پہنچنے کا خطرہ

اب تک ضرر کے ان امکانات سے بحث تھی جو امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا فرض انجام دینے والے کی ذات کو لاحق ہو سکتے ہیں۔ ایک امکان یہ بھی ہے کہ جو شخص یہ فرض انجام دے رہا ہے اس کو تو کسی نقصان کا خطرہ نہ ہو، البتہ اس کی وجہ سے اس کے عزیز و اقارب اور دوست و احباب کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو۔ امام غزالیؒ فرماتے ہیں کہ یہ اندیشہ جانی یا مالی ہے تو اسے احتساب نہیں کرنا چاہیے، کیوں کہ جس طرح منکر پر خاموش رہنا ممنوع ہے اسی طرح کسی مسلمان کو تکلیف دینا بھی ممنوع ہے۔ لیکن اگر اس سے ان کی جان و مال کو تو خطرہ نہ ہو البتہ ان کے بارے میں بدزبانی اور بدکلامی ہو سکتی ہو تو دیکھا جائے گا کہ منکر کس درجے کا ہے اور بدکلامی سے پہنچنے والی تکلیف کی مقدار کیا ہے۔ پھر اس کے مطابق فیصلہ کیا جائے گا۔

عدم قدرت اور ضرر کا فیصلہ ظن غالب سے ہوگا

ان تفصیلات سے واضح ہے کہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا وجوب اس وقت باقی نہیں رہتا جب کہ انسان اس کے ادا کرنے سے عاجز ہو یا اس سے کسی ضرر کا خطرہ ہو۔ یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے، وہ یہ کہ عجز اور عدم قدرت یا ضرر کا فیصلہ کس بنیاد پر کیا جائے اس کے لئے محض ظن غالب کافی ہے یا اس کا قطعی اور یقینی علم ہونا ضروری ہے۔ امام غزالی نے خوف ضرر پر گفتگو کرتے ہوئے اس سوال سے بھی بحث کی ہے۔ فرماتے ہیں:

ان غلب على الظن انه يصاب لم يجب، و ان غلب انه لا يصاب و وجب، و مجرد التجویز لا يسقط الوجوب فان ذلك ممكن في کل حسبۃ۔

اگر کسی کو اس بات کا ظن غالب حاصل ہو کہ احتساب کی وجہ سے اس کو تکلیف پہنچائی جائے گی تو اس کے لئے احتساب کرنا ضروری نہیں ہے اور اس کو یہ گمان غالب ہو کہ تکلیف نہیں پہنچائی جائے گی تو احتساب ضروری ہوگا، محض رائے اور خیال کہ ایسا تو نہیں کرتے، کیوں کہ اس کا امکان تو ہر احتساب میں موجود ہے۔ اس بحث میں ایک جگہ فرماتے ہیں کہ احتساب کا وجوب اسی وقت ساقط ہوگا جب کہ آدمی کو ضرر کا علم ہو اور پھر علم کی تشریح ان الفاظ میں کی ہے:

اعنى بالعلم الظن القوی یجوز بمثله ترک استعمال الماء و العدول الى التیمم، فاذا انتهی الى هذا الحد لم یعد ان یرخص فی الترک الحسبۃ!

مراد میرے نزدیک ایسا ظن اور قیاس ہے کہ اس جیسے قیاس پر پانی کے استعمال کو چھوڑ کر تیمم کرنا جائز ہوتا ہے۔ جب قیاس اس حد کو پہنچ جائے تو بعید نہیں کہ ترک احتساب کی اجازت دی جائے۔ ضرر اور عدم ضرر کی بیشتر صورتیں اوپر زیر بحث ہوچکی ہیں اور یہ بھی ثابت ہے کہ اگر صحیح معنی میں خوف ضرر ہے تو امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا وجوب ساقط ہو جاتا ہے۔ اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ اگر کوئی شخص ہر طرح کے خوف اور خطرے سے بے نیاز ہو کر امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا فرض انجام دے تو وہ کسی غلطی کا مرتکب ہوگا۔ یہ نہ صرف یہ کہ اس کے لئے جائز ہے، بلکہ اس سے مطلوب بھی ہے۔ جان و مال کے خوف سے امر بالمعروف ونہی عن المنکر کو چھوڑ دینا محض ایک اجازت ہے، جو شریعت نے کم زور ایمان والوں کو دی ہے۔ عزیمت اور فضیلت کی راہ یہ ہے کہ آدمی اپنا سب کچھ کھو دے، مگر اللہ کے دین کو قائم کرنے اور حق کو حق اور باطل کو باطل کہنے سے باز نہ آئے۔ یہی بات اس حدیث میں کہی گئی ہے جس کی روایت حضرت عمرؓ نے نبی ﷺ کی ہے۔ آپؐ نے فرمایا:

انہ تصیب امتى فى آخر الزمان من سلطانهم شدائد لا ینجو منه الا رجل عرف دین الله فجاهد بلسانہ ویدہ و قلبه، فذلک الذی سبقت له السوابق و رجل عرف دین الله فصدق به و رجل عرف دین الله فسکت علیه، فان رای من یعمل الخیر احبه و ان رای من یعمل الباطل ابغضه علیه فذلک الذی ینجو علی ابطائه کله!

آخر زمانہ میں میری امت کو ان کے بادشاہوں کی جانب سے سختیاں لاحق ہوں گی۔ اس سے وہی شخص نجات پائے گا جس نے خدا کے دین کو پہچانا اور اس کے لئے اپنی زبان اور اپنے ہاتھ سے جہاد کیا ہے۔ پس یہی شخص ہے جس کے لئے خدا کی رحمت اور دنیا و آخرت کی سعادت آگے بڑھے گی۔ اس کے بعد (دوسرا وہ) شخص ہے جس نے اللہ کے دین کو پہچانا اور اس کی تصدیق کی پھر (تیسرا وہ) شخص ہے۔ جس نے اللہ کے دین کو پہچانا اور اس کے سلسلے میں خاموش رہا۔ وہ اگر کسی کو نیک کام کرتے دیکھتا ہے۔ تو اس کی وجہ سے اس سے محبت کرتا ہے اور اگر کسی کو باطل کا ارتکاب کرتے دیکھتا ہے تو اس کی بنا پر اس سے نفرت کرتا ہے۔ تو یہ بھی نجات پائے گا۔ کیوں کہ اس نے بھلائی سے محبت اور باطل سے دشمنی کو اپنے سینے میں چھپائے رکھا۔ اس میں شک نہیں کہ حق کے اظہار و اعلان کے لئے جان و مال کی بازی لگا دینا آسان نہیں ہے۔ اس کے لئے دین کے ساتھ بے پناہ محبت اور خلوص اور بڑے عزم و ہمت کی ضرورت ہے۔ مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ارباب عزیمت اور اصحاب اخلاص ہی کا مقام اللہ تعالیٰ کی جناب میں سب سے اونچا ہے۔ رسول اکرم ﷺ فرماتے ہیں:

الا لا یمنعن رجلا مهابة الناس ان یتکلم بالحق اذا علمه الا ان افضل الجهاد کلمة حق عند سلطان جائر ہے۔

سن لو کہ کسی شخص کو لوگوں کا خوف حق بات کہنے سے نہ روکے جب کہ وہ اس کو جانتا ہو۔ ہاں سن لو کہ سب سے زیادہ ثواب والا جہاد ظالم بادشاہ کے سامنے کلمہ حق کہنا ہے۔ حدیث کا یہ فقرہ پہلے بھی گزر چکا ہے کہ ظالم فرمان روا کے سامنے کلمہ حق کا اظہار سب سے بڑا جہاد ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ احتساب کے لئے آدمی جتنا خطرہ مول لے گا وہ اجر وثواب کا اتنا ہی زیادہ مستحق ہوگا۔ سلطان جائر کے سامنے اظہار حق کو کیوں سب سے بڑا جہاد قرار دیا گیا ہے؟ اس کی وجہ علامہ خطابی نے ان الفاظ میں بیان کی ہے:

انما صار ذلك افضل الجهاد، لأن من جاهد العدو وکان مترددا بین رجاء و خوف لا یدری هل یغلب او یغلب، و صاحب السلطان مقهور فی یدہ فهو اذا قال الحق و امرہ بالمعروف فقد تعرض للطرف و اهدف نفسه للهلاك فصار ذلك من افضل انواع الجهاد من اجل غلبة الخوف!

یہ سب سے زیادہ فضیلت والا جہاد اس لئے کہ جو شخص دشمن سے جہاد کرتا ہے وہ امید و خوف کے درمیان متردد رہتا ہے اور نہیں جانتا کہ آیا غالب آئے گا یا مغلوب ہوگا (اس طرح جہاں اس کی زندگی کے ختم ہونے کا اندیشہ ہو وہاں اس کے نتیجے کا بھی امکان ہے)، اس کے برعکس جو شخص بادشاہ پر جب وہ اس کے سامنے حق کا اظہار کرے گا اور اس کو معروف کا حکم دے گا تو اپنی بہادری کے ذریعے ہوگا اور اپنے آپ کو ہلاکت کا نشانہ بنائے گا۔ اس طرح غلبہ خوف کی وجہ سے یہ جہاد کی سب سے پرخطر کارروائی ہے۔ یہ امت جس کو اللہ نے آخری بار امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی ذمے داری سونپی ہے اور جسے اپنی اصلاح آپ کرنی ہے، حق گوئی و بے باکی کی شان دار تاریخ رکھتی ہے۔ اس میں جہاں اس کی مثالیں ملتی ہیں کہ لوگوں نے ضعف ایمان کے باعث منکر کو برداشت کیا اور معروف کا اظہار نہیں کیا، وہاں ایسی مثالیں بھی کم نہیں ہیں کہ اصحاب عزیمت و ارباب ہمت نے سینہ تان کر باطل کا مقابلہ کیا اور تلوار کی چمکائی میں حق کی گواہی دی۔ یہی چیز اب تک اس امت کی زندگی کی ضامن رہی ہے۔ اگر کسی بھی دور میں یہ امت پستی کی پٹڑی حق کے لیے قربانی اور بے خوفی کے جذبے سے خالی ہو جائے تو وہ اس کے انتہائی زوال اور پستی کا دور ہوگا۔ پھر وہ خدا کی رحمت سے دور ہو جائے گی اور کوئی چیز اس کو تباہی سے نہ بچا سکے گی۔ یہی بات نبی ﷺ کے اس ارشاد میں بیان کی گئی:

اذا راتى تهاب ان تقول للظالم يا ظالم فقد تودع منهم۔

جب تم دیکھو کہ میری امت ظالم کو ظالم کہتے ڈر رہی ہے تو سمجھ لو کہ اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیا گیا ہے (تاکہ اس کے درمیان مصیبت پھیلتی رہے اور وہ اللہ کے عذاب میں گرفتار ہوجائے)۔ جان اور مال کی محبت امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی راہ میں بالعموم سب سے بڑی رکاوٹ ثابت ہوتی ہے۔ جان کس کو عزیز نہیں ہوتی اور مال سے کون بے نیاز ہے؟ آدمی یہ سوچ کر سہم جاتا ہے کہ اگر باطل کو باطل کہوں، خصوصاً اس وقت جب کہ وہ اقتدار کا مالک ہو اور جبر و ظلم کے خلاف آواز اٹھاؤں، جب کہ ہر طرف اسی کی ستم رانی ہو تو مجھے اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔ اگر جسمانی موت واقع ہو تو یہ بھی ممکن ہو سکتا ہے کہ معنوی موت واقع ہو جائے اور معنوی موت بعضی پہلوؤں سے جسمانی موت سے بھی زیادہ سخت ہوتی ہے۔ لیکن یہ خوف اور ہراسانی مومن کی شان سے فروتر اور اس کے ایمان کی کم زوری کی دلیل ہے۔ زندگی اور اسباب زندگی دونوں اللہ کے ہاتھ میں ہیں، کسی انسان کے ہاتھ میں نہیں۔ دین حق کے اظہار میں خوف کھانا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ آدمی اپنی زندگی اور معیشت کا مالک انسانوں کو سمجھتا ہے، یا کم سے کم اللہ کی ذات پر وہ بھروسہ نہیں ہے جو فی الواقع ہونا چاہیے۔ اسی وجہ سے اللہ کے رسول ﷺ کا حکم ہے کہ جان و مال کے خطرات سے بے نیاز ہو کر معروف کا حکم دو اور منکر سے منع کرو۔ کیوں کہ یہی مومن کے ایمان کا تقاضا ہے:

يتها الناس مروا بالمعروف وانهوا عن المنكر قبل ان تدعوا الله فلا یستجیب لکم و قبل ان تستغفروا ولا یغفر لکم، ان الامر بالمعروف و النهی عن المنکر لا یدفع رزقا ولا یقرب اجلا۔

اے لوگو تم معروف کا حکم دو اور منکر سے روکو، اس سے پہلے کہ تم اللہ کو پکارو اور وہ تمہاری پکار کا جواب نہ دے اور اس سے پہلے کہ تم اس سے معافی چاہو اور وہ تمہیں معاف نہ کرے۔ یقینا امر بالمعروف ونہی عن المنکر نہ تو رزق کو دور کرتا ہے اور نہ موت کو قریب کرتا ہے۔

کسی دوسری برائی کے پیدا ہونے کا خطرہ

منها (ای من شرائط الأمر بالمعروف و النهی عن المنكر انتفاء مضرة و مفسدة اكثر من ذلك المنكر او مثله، و هذا في حق الوجوب دون الجواز، حتی قالوا یجوزون ظن انه یقتل و لا ینکی بکتابة بضرب و نحوه لكن یرخص له السكوت

امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی شرائط میں سے ایک یہ ہے کہ جس منکر کو مٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے اس سے بڑا یا اس جیسا ضرر اور فساد پیدا نہ ہو، لیکن یہ بات وجوب کے حق میں ہے جواز کے حق میں نہیں ہے۔ علماء نے یہاں تک کہا ہے کہ اگر کسی کو یہ خیال ہو کہ وہ قتل کر دیا جائے گا اور منکر کا ارتکاب کرنے والے کو کسی معمولی نقصان تک نہیں پہنچے گا جیسے زدوکوب وغیرہ بھی، (پھر بھی اس فرض کو انجام دینا) جائز ہے۔ ہاں اس حالت میں اس کو اجازت نہیں ہے۔

۱۔ امام غزالی کا نقطہ نظر یہ ہے کہ یہ دعویٰ اتنے عموم کے ساتھ صحیح نہیں ہے۔ اس میں شک نہیں کہ دین کے لیے جان دینا شہادت ہے اور شہادت ایک مسلمان کے لیے سب سے بڑی دولت ہے، لیکن مومن کو بہرحال یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ اپنی جان دے کر دین کو کوئی فائدہ پہنچ بھی رہا ہے یا نہیں۔؟ یہ فائدہ محض جان دے دینا نہ دانش مندی ہے اور نہ کارثواب۔ فرماتے ہیں:

ان یعلم انه یصاب بمكروه و لكن یطل المنكر بفعله كما یقدر علی ان یرمی زجاجة الفاسق بحجر فیکسرها، و یریق الخمر، او یضرب العود الذی فی یده ضربة مختلفة فيكسره فی الحال، و یتعطل علیه هذا المنكر و لكن یعلم انه یرجع الیہ فیضرب راسه، فهذا ليس بواجب و ليس بحرام بل هو مستحب

احتساب کرنے والا اگر یہ جانتا ہو کہ اس کو تکلیف تو پہنچے گی، لیکن وہ اپنے عمل سے منکر کو مٹا سکتا ہے، مثلاً اس کو یہ طاقت ہے کہ کسی فاسق کا شراب سے بھرا ہوا گلاس توڑ دے اور اسے بہادے یا اس کے ہاتھ میں عود ستارہ ہے تو اس پر اچانک ایسی ضرب لگائے کہ وہ فی الحال ٹوٹ جائے اور اس کے لیے بے کار ہو جائے، اس کے ساتھ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ اس کا یہ نتیجہ نکلے گا کہ فاسق اس پر پلٹ پڑے گا اور اس کے سر پر دے مارے گا تو اس صورت میں احتساب نہ واجب ہے اور نہ حرام، بلکہ مستحب اور پسندیدہ ہے۔ آگے چل کر امام غزالی نے اس سلسلے میں مزید بحث کی ہے۔ ہم اپنے الفاظ میں ان کے خیالات کا خلاصہ پیش کرتے ہیں: ”اگر احتساب کرنے والے کو اس بات کا خطرہ ہے کہ اس کو مارا پیٹا جائے گا یا ہلاک کر دیا جائے گا تو وہ اپنے آپ کو اس خطرے میں ڈال کر احتساب کا فرض انجام دے سکتا ہے۔ یہ اس کے لیے نہ صرف یہ کہ جائز ہے، بلکہ مستحب ہے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ اس احتساب کا کوئی فائدہ ہو۔ مثلاً اس سے کوئی منکر مٹے یا منکر کا ارتکاب کرنے والے کا وقار اور حیثیت ختم ہو یا کم سے کم اس سے اہل ایمان کو تقویت حاصل ہو لیکن اگر صورت ایسی ہے کہ ایک شخص شراب پینے کی تیاری کر رہا ہے اور ہاتھ میں تلوار لیے ہوئے ہے۔ حالات صاف بتا رہے ہیں کہ اگر اس پر تنقید کی جائے تو نہ صرف یہ کہ وہ تنقید کرنے والے کو ختم کر دے گا، بلکہ شراب بھی پی جائے گا۔ اس صورت میں احتساب کرنا ہمارے خیال میں صحیح نہیں ہے۔ اس لیے کہ یہ محض اپنی ہلاکت ہے اور اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے، حالاں کہ مطلوب یہ ہے کہ دین کا فائدہ ہو اور آدمی قربانی دے کر اس کو بچائے۔ رہا بغیر کسی فائدے کے اپنے آپ کو ہلاکت کے لیے پیش کر دینا تو اس کے جواز کی کوئی وجہ نہیں ہے، بلکہ اسے حرام ہونا چاہیے۔ کسی بھی شخص کے لیے انکار منکر کی وقت مستحب ہے جب کہ وہ منکر کے مٹانے پر قادر ہو یا اس کا کوئی دینی فائدہ متوقع ہو۔ یہ بھی اس شرط کے ساتھ کہ پہنچنے والی تکلیف صرف احتساب کرنے والے کی ذات تک محدود رہے۔ لیکن اگر اس کو یہ پہلے سے معلوم ہو کہ منکر کا ارتکاب کرنے والا اس کے ساتھ اس کے کسی ساتھی، کسی رشتہ دار اور کسی رفیق کو ایذا پہنچائے گا تو اس کے لیے احتساب ناجائز ہی نہیں، بلکہ حرام ہوگا۔ کیوں کہ قدرت اس کا نام نہیں ہے کہ آدمی ایک منکر کو اس طرح مٹائے کہ اس سے دوسرا منکر وجود میں آجائے۔ اس سے آگے ہم یہ بھی کہیں گے کہ اگر محتسب کو یہ معلوم ہو کہ جس منکر پر وہ احتساب کر رہا ہے وہ تو مٹ جائے گا لیکن اس کے نتیجے میں ایک دوسرا شخص کسی دوسرے منکر کا ارتکاب کر گزرے گا تو بظاہر صحی

حقیقت یہ ہے کہ (کبھی کبھی) اس کو (یعنی کسی منکر پر) احتساب نہیں کرنا چاہیے۔ کیونکہ (بعض اوقات) مقصد یہ نہیں ہوتا کہ کوئی خاص فرد (اس خاص) منکر کا ارتکاب نہ کرے۔ بلکہ (احتساب کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ مجموعی طور پر یا اس سے بڑا) مطلق منکر وجود میں نہ آئے۔ انسان جس منکر کو مٹانا چاہتا ہے اور اس کے نتیجے میں جو دوسرا (بڑا) منکر پیدا ہو سکتا ہے، ان دونوں کے درجات میں فرق کو مدنظر رکھتے ہوئے مناسب اقدام کرنا مشکل نہیں ہے۔ مثال کے طور پر ایک شخص کسی کی بکری ذبح کر کے کھانا چاہتا ہے، اگر اس پر احتساب کرنے والے کو یہ معلوم ہو کہ اس منکر سے روکنے کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ وہ کسی انسان کو ذبح کر کے کھا جائے گا تو ظاہر ہے کہ اس وقت احتساب کا فرض انجام دینا انتہائی نامعقول ہوگا۔ اس کے برعکس ایک شخص کسی انسان کو ذبح کرنے جا رہا ہے یا اس کا کوئی عضو کاٹنا چاہتا ہے۔ اگر احتساب کرنے والے کو یہ معلوم ہو کہ احتساب کے نتیجے میں وہ (قتل یا عضو کاٹنے کو) چھوڑ دے گا اور صرف اس کے مال پر قبضہ کرلے گا تو اس وقت بلاشبہ جواز کی صورت نکل آتی ہے۔ اس طرح کے تمام معاملات میں محتسب کو اجتہاد سے کام لینا چاہیے، کیونکہ اس کے لیے کوئی ایک حکم یا لگا بندھا ضابطہ وضع نہیں کیا جا سکتا۔

امام ابن تیمیہ نے اس مسئلے کا بڑا اچھا تجزیہ کیا ہے اور اس کے مختلف پہلوؤں پر بہت نفس بحث کی ہے۔ فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ نے انکار منکر کو امت پر اس لیے واجب قرار دیا ہے کہ اس کے ذریعے معروف، جو اللہ اور اس کے رسولؐ کے نزدیک پسندیدہ ہے، حاصل ہو سکے۔ لیکن اگر کسی منکر پر نکیر کی وجہ سے کوئی ایسا منکر لازم آجائے جو اللہ اور اس کے رسولؐ کے نزدیک اس سے زیادہ مبغوض اور ناپسندیدہ ہو، تو انکار منکر کی اجازت نہیں ہے۔ اس کے بعد لکھتے ہیں:

انكار المنكر اربع درجات الأولَى ان یزول و یخلفه ضده، الثانیَة ان یقل و ان لم یزل بجملته، الثالثَة ان یخلفه ماهو مثله، الرابعَة ان یخلفه ما هو شر منه، فالدرجتان الأولیان مشروعتان و الثالثَة موضع اجتهاد و الرابعَة محرمة۔

انکار منکر کے چار درجے ہیں:

پہلا: وہ زائل ہوجائے اور اس کی جگہ اس کا ضد (معروف) قائم ہوجائے۔

دوسرا: وہ کم ہوجائے، اگرچہ پوری طرح زائل نہ ہو۔

تیسرا: اس کی جگہ اس جیسا ہی (منکر) قائم ہوجائے۔

چوتھا: اس کی جگہ اس سے بدتر (منکر) قائم ہوجائے۔

پہلے دونوں درجے مشروع (جائز و مطلوب) ہیں۔ تیسرا درجہ اجتہاد کا محل ہے اور چوتھا درجہ حرام ہے۔

اس کے بعد امام موصوف نے اس کی مزید تفصیل کی ہے۔ فرماتے ہیں:

عدم افادیت کا یقین

کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے نتیجے میں انسان کو نقصان پہنچنے یا کسی دوسرے منکر کے پیدا ہونے کا اندیشہ تو نہیں ہوتا، لیکن وہ اس کی کوئی افادیت نہیں محسوس کرتا۔ اس صورت میں بعض حضرات کا خیال ہے کہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر واجب اور ضروری ہے۔ امام نووی فرماتے ہیں کہ انسان کی ذمے داری صرف یہ ہے کہ معروف کا حکم دے اور منکر سے منع کرے۔ دوسروں کے قبول کرنے یا نہ کرنے کی ذمے داری اس پر عائد نہیں ہوتی۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:

قال العلماء ولا يسقط عن المكلف الأمر بالمعروف و النهي عن المنكر لكونه لا يفيد في ظنه، بل يجب علیه فعله، فان الذكرى تنفع المؤمنين، و قد قدمنا ان الذي عليه الأمر و النهى لا القبول كما قال الله عز وجل وما على الرسول الا البلاغ

علماء نے کہا ہے کہ یہ فرض شخص سے جو مکلف ہو، سے ساقط نہیں ہوتا کہ اس کے خیال میں وہ غیر مفید ہے، بلکہ اس کے لیے (امر بالمعروف و نہی عن المنکر کو) فائدہ خیال کرنے کے باوجود اس پر عمل کرنا ضروری ہے۔ کیوں کہ نصیحت مومنوں کو فائدہ دیتی ہے۔ ہم اس سے پہلے بیان کرچکے ہیں کہ انسان کا فرض صرف امر و نہی ہے، یہ نہیں ہے کہ دوسرا اس کو قبول بھی کرلے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: (سوا) نا اس پر عمل کرنا ہے۔

امام نووی کے بیان سے بظاہر یوں معلوم ہوتا ہے کہ عدم افادیت کے یقین کے باوجود علماء کے نزدیک امر بالمعروف و نہی عن المنکر واجب ہے، لیکن یہ خیال صحیح نہیں ہے۔ کیوں کہ بالعموم علماء نے یہی لکھا ہے کہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے نتیجے میں کسی غلط ردعمل اور نقصان کا اندیشہ نہ بھی ہو تو وہ کسی مسلمان پر اسی وقت فرض ہوگا جب کہ اس کی افادیت کا اسے یقین ہو۔ اگر وہ اس کو غیر مفید اور عبث خیال کرتا ہے تو اس کا وجوب بھی باقی نہیں رہے گا۔ چنانچہ علامہ عز الدین عبد الملک نے نہی عن المنکر کے وجوب کی جو شرطیں بیان کی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے:

ان يغلب علی ظنه ان نهيه مؤثر لا عبثاً۔

اس کو اس بات کا ظن غالب حاصل ہو کہ اس کا منع کرنا مؤثر ہوگا، عبث نہ ہوگا۔

امام غزالی فرماتے ہیں کہ انسان اگر امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا کوئی فائدہ محسوس کرتا ہو تو وہ اس پر فرض نہیں ہوگا، البتہ اس کا استحباب اس کے لیے باقی رہے گا۔ کیوں کہ جس شخص کی روش پر وہ احتساب کر رہا ہے وہ اپنی روش سے باز آئے یا نہ آئے، اس کا فائدہ تو بہر حال ہے کہ اس سے دین کا اظہار ہوتا ہے اور دوسروں کو شریعت سے واقفیت بہم پہنچتی ہے۔ امام غزالی کے الفاظ یہ ہیں:

ان يعلم انه لا يفيد انكاره لكنه لا يفيد مكروها فلا تجب علیه لعدم فائدتها، و لكن تستحب لاظهار شعائر الاسلام و تذكير الناس بأمر الدین

احتساب کرنے والا اگر یہ جانتا ہے کہ اس کا احتساب کرنا غیر مفید ہے، لیکن اس کو کسی تکلیف کے پہنچنے کا ڈر نہیں ہے۔ تو اس کے لیے احتساب ضروری نہیں ہے، کیوں کہ اس کی کوئی افادیت نہیں ہے۔ البتہ شعائر اسلام کے اظہار اور لوگوں کو امور دین کی تذکیر کی غرض سے مستحب اور پسندیدہ ہے۔

جس خاص معاملہ میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فرض انجام دیا جاتا ہے اس میں اس کی عدم افادیت کے باوجود، چونکہ اس سے شعائر دین کو نمایاں کرنے اور لوگوں کو نصیحت کرنے کا موقع ملتا ہے، اس وجہ سے امام غزالی اور ان کے ہم خیال احباب کے نزدیک وہ مستحب ہے۔ لیکن بعض اصحاب دلیل کی بنا پر اس کو واجب قرار دیتے ہیں، کیوں کہ شعائر دین کا اظہار اور تذکیر خود بھی امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا ایک اہم مقصد ہے اور جب یہ مقصد حاصل ہو رہا ہے تو ہم اسے کسی حال میں نہیں کہہ سکتے۔ اس کے جواب میں علامہ سعد الدین تفتازانی فرماتے ہیں کہ اس میں شک نہیں کہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر سے دین کا وقار بلند ہوتا ہے، لیکن کبھی اس سے دین کو نقصان بھی پہنچ سکتا ہے، اس لیے ہر حال میں اس کو واجب کہنا صحیح نہیں ہے۔ چنانچہ علامہ موصوف اس کے وجوب کی شرائط کے ذیل میں لکھتے ہیں:

منها تجويز التأثير بان لا یعلم ان عدم التاثیر قطعا لئلا يكون عبثا و اشتغالا بما لا يعني، فان قيل يجب وان لم يؤثر اعزازا للدين قلنا ربما تكون اذلالا ۔

ان میں سے ایک شرط یہ ہے کہ اس کے کرنے والے کو اس کے غیر مؤثر ہونے کا قطعی یقین نہ ہو جائے۔ تا کہ وہ کام عبث اور بے فائدہ مشغولیت ہو کر نہ جائے۔ اگر یہ کہا جائے کہ وہ غیر مؤثر ہونے کے با وجود دین کے اعزاز کی خاطر ضروری ہے تو ہمارا جواب یہ ہے کہ بسا اوقات اس میں دین کی تذلیل بھی ہے۔

افادیت کا ایک امکان

امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی افادیت و عدم افادیت کا جب ذکر کیا جاتا ہے تو بالعموم اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جس وقت معروف کا حکم دیا گیا وہ وجود میں آیا یا نہیں؟ یا جس وقت منکر سے منع کیا گیا وہ ختم ہوا یا نہیں۔ لیکن اس پر ایک اور پہلو سے بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ یہ کہ کوئی مسلمان امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فوری اثر قبول کرے یا نہ کرے، لیکن اس سے وہ غیر شعوری طور پر کسی نہ کسی حد تک متاثر ضرور ہوتا ہے، ہوسکتا ہے کہ یہی تاثر بعد میں اس کے منکر کو ترک کرنے اور معروف پر عمل کرنے کا سبب بن جائے۔ کیونکہ ترک معروف اور ارتکاب منکر خود اس کے نزدیک بھی کار ثواب نہیں ہے، بلکہ اس کو وہ اپنے فکر و عقیدہ کے لحاظ سے غلط سمجھتا ہے۔ اگر کسی وجہ سے وہ اصلاح کو قبول نہیں کر رہا ہے تو اس کا کوئی سنجیدہ فیصلہ نہیں، بلکہ محض ایک جذباتی اور ہنگامی ردعمل بھی ہوسکتا ہے۔ اس لیے توقع یہی ہے کہ اس ردعمل کم زور پڑنے پر وہ اپنے رویہ پر نظر ثانی بھی کرسکتا ہے اور اس کی زندگی کے سنورنے کا بھی امکان ہے۔ اس پہلو سے اگر امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی افادیت فوری طور پر ظاہر ہو پھر بھی اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ امام محمد نے اسی پہلو سے اس مسئلہ پر غور کیا ہے اور اس کی خوبی یہی ہے کہ اس میں امت مسلمہ کی نفسیات کی پوری رعایت کی گئی ہے۔ فرماتے ہیں:

وفى الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر يسعه الأقدام وان كان يعلم ان القوم يقتلونه وانه لا يفرق جمعهم بسببه لان القوم هناك مسلمون معتقدون لما يامرهم به فلا بد من ان فعله ينكى في قلوبهم و ان كانوا لا يظهرون ذلك ۔

امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے سلسلے میں ایک جگہ وہ جانتا ہو کہ لوگ اس کو قتل کردیں گے اور خود اس کی وجہ سے ان کی نصیحت منتشر ہوگی۔ کیوں کہ یہاں لوگ مسلمان ہیں اور جن باتوں کا وہ ان کو حکم دے رہا ہے وہ ان پر اعتقاد رکھتے ہیں، اس لیے لازماً اس کا فعل ان کے دلوں پر اثر انداز ہوگا، خواہ وہ اس کا اظہار نہ کرتے ہوں۔

حقیقت یہ ہے کہ مسلمان کے درمیان امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے دو ردعمل متوقع ہیں۔ ایک تو وہ ردعمل ہے جس کے فوراً ظاہر ہونے کا امکان ہے اور دوسرا وہ ردعمل ہے جس کے ظاہر ہونے میں کچھ مدت لگ سکتی ہے۔ فوری ردعمل ان مخصوص حالات کا نتیجہ ہوتا ہے جن میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ انجام پاتا ہے۔ ان حالات میں افراد ہوں یا جماعتیں، بالعموم نیکی سے دور ہوتی ہیں اور بدی کی طرف ان کا رجحان بڑھ جاتا ہے۔ ان میں منکر کو چھوڑنے اور معروف کو قبول کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہوتی، بلکہ بعض اوقات وہ منکر کے خلاف اور معروف کے حق میں کوئی بات سننے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ ان حالات میں جہاں اس کا امکان ہے کہ معروف قائم ہو اور منکر مٹ جائے، وہاں اس کا بھی زبردست خطرہ ہے کہ اس فرض کا انجام دینے والا اپنی جان تک دے دے۔ لیکن اس کے باوجود نہ تو معروف قائم ہو اور نہ منکر مٹے۔ دوسرا (ردعمل) ان حالات کے ختم ہونے کے بعد شروع ہوتا ہے۔ اس وقت اس فرد یا جماعت کو تنہائی سے سوچنے کے زیادہ مواقع حاصل ہوتے ہیں، جنہیں معروف کی دعوت دی گئی تھی یا منکر سے منع کیا گیا تھا۔ یہ ردعمل بالعموم ایک مسلمان فرد یا گروہ پر بہت ہی صالح اور مفید ہوتا ہے۔ اگر کوئی فاسق مسلمان کسی مصلح دین کی گردن اڑادے تو اس کا سینہ اس احساس سے خالی نہیں ہوسکتا کہ اس نے اپنے ایک خیر خواہ اور ناصح کے ساتھ وہ سلوک کیا جو کسی دشمن ہی کے ساتھ روا رکھا جاسکتا ہے۔ کچھ بعید نہیں کہ یہی احساس دین کی طرف اس کی رغبت کا سبب بن جائے۔ اگر وہ خود دین کی طرف راغب نہ بھی ہو تو بہت ممکن ہے کہ تبلیغ واصلاح کی اس کوشش سے بہت سے وہ لوگ فائدہ اٹھا لے جائیں جو برائی و عصیت میں اس کے شریک ہیں۔ لیکن ابھی ان میں قبول حق کی صلاحیت موجود ہے۔ مسلمانوں کی تاریخ میں ایسا بھی نہیں ہوا ہے کہ کسی دور اور کسی خطہ میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فرض انجام پایا ہو اور پوری کی پوری قوم اس کے کچھ اثرات سے محروم رہ گئی ہو۔ اس لیے کسی خاص وقت یا کچھ مخصوص حالات میں اگر اس کی افادیت محسوس نہ ہو تو مستقبل میں بھی اس کی افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ کیوں کہ اگر آج امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی کوشش بار آور نہیں ہو رہی ہے تو اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ آئندہ بھی اس کے نتیجہ خیز ہونے کی کوئی ممکن نہیں۔ بلکہ ہوسکتا ہے کہ جو کوشش آج بالکل بے نتیجہ معلوم ہو رہی ہے، ایک لمبی مدت کے بعد اس کے نتائج ظاہر ہوں۔ اس میں شک نہیں کہ ایسے حالات میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فرض انجام دینا، جب کہ بظاہر اس کا کامیاب ہونے کی توقع بھی نہ کی جائے، ہر کس و ناکس کے لیے ممکن نہیں ہے۔ جب ماحول اس قدر ناسازگار ہو کہ لوگوں کو اللہ کے دین پر ثابت قدم رہنا ہی دشوار ہو رہا ہو تو ان کے لیے یہی بہت ہے کہ وہ اپنے دین و ایمان کی حفاظت کریں، ان پر امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا بوجھ ڈالنا صحیح نہ ہوگا۔ لیکن اگر خواص بھی اس سے آگے نہ بڑھیں تو یہ ان کا اپنی صلاحیتوں کے ساتھ ظلم ہوگا۔

امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی اہمیت، جبکہ ہر وقت اس کی افادیت کا امکان نہ ہو

رسول اکرم ﷺ کی احادیث سے بھی اسی کی تائید ہوتی ہے، کیوں کہ دو طرح کی حدیثیں ہمارے سامنے آتی ہیں۔ ایک طرف تو وہ حدیثیں ہیں جن میں اس بات کی اجازت ہے کہ بگڑے ہوئے حالات میں آدمی گوشہ گیر ہو جائے اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کو چھوڑ دے۔ دوسری طرف وہ حدیثیں ہیں جن میں ان لوگوں کی تعریف کی گئی ہے جو معاشرے کے بگاڑ سے گھبرا کر اس سے کٹ نہیں جاتے۔ بلکہ اس میں رہ کر اصلاح کے فرائض انجام دیتے ہیں، تاکہ جن لوگوں میں قبول حق کی صلاحیت ہے، آج نہیں کل ان کی زندگی سنور جائے اور وہ راہ راست پر آجائیں۔ یہاں پہلے ایسی تین حدیثیں پیش کی جا رہی ہیں، جن میں اس بات کی صراحت ہے کہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فرض اس وقت ساقط ہو جاتا ہے جب کہ اس کی کوئی افادیت نہ محسوس ہو۔

  1. ائْتَمِرُوا بِالْمَعْرُوفِ، وَتَنَاهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ، حَتَّى إِذَا رَأَيْتَ شُحًّا مُطَاعًا، وَهَوًى مُتَّبَعًا، وَدُنْيَا مُؤْثَرَةً، وَإِعْجَابَ كُلِّ ذِي رَأْيٍ بِرَأْيِهِ، فَعَلَيْكَ بِخَاصَّةِ نَفْسِكَ، وَدَعِ الْعَوَامَّ

    تم ایک دوسرے کو معروف کا حکم دو اور منکر سے منع کرو، یہاں تک کہ جب تم دیکھو کہ بخل کی اطاعت ہو رہی ہے، خواہش کی پیروی کی جا رہی ہے، دنیا کو ترجیح دی جا رہی ہے، اور ہر رائے والا اپنی رائے پر ناز کر رہا ہے، تو اس وقت تمہیں اپنی خاص ذات کی فکر کرنی چاہیے اور عوام کو چھوڑ دینا چاہیے۔

    بعض روایات میں ان الفاظ کا اضافہ بھی موجود ہے:

    وَإِذَا رَأَيْتَ أَمْرًا لَا يَدَانِ لَكَ بِهِ

    اور جب تم ایسا معاملہ دیکھو جس کے مقابلے کی تم میں طاقت نہ ہو۔

  2. يُوشِكُ أَنْ يَأْتِيَ عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ يُغَرْبَلُ النَّاسُ فِيهِ غَرْبَلَةً، تَبْقَى حُثَالَةٌ مِنَ النَّاسِ قَدْ مَرِجَتْ عُهُودُهُمْ وَأَمَانَاتُهُمْ وَاخْتَلَفُوا فَكَانُوا هَكَذَا، وَشَبَّكَ بَيْنَ أَصَابِعِهِ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ كَيْفَ لَنَا؟ قَالَ: تَأْخُذُونَ مَا تَعْرِفُونَ، وَتَذَرُونَ مَا تُنْكِرُونَ، وَتُقْبِلُونَ عَلَى أَمْرِ خَاصَّتِكُمْ، وَتَذَرُونَ أَمْرَ عَامَّتِكُمْ

    جلد ہی ایک ایسا زمانہ آئے گا جب لوگ چھلنی کی طرح چھانٹے جائیں گے، اور لوگوں کا کچرا باقی رہ جائے گا جن کے عہد و پیمان اور امانتیں گڈمڈ ہو چکی ہوں گی، اور وہ اختلاف کا شکار ہو کر ایسے ہو جائیں گے۔ (یہ فرماتے ہوئے) آپؐ نے اپنی انگلیوں کو آپس میں پیوست کیا (یعنی وہ ایسے گڈمڈ ہو جائیں گے کہ نیک و بد میں تمیز مشکل ہو جائے گی)۔ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اس وقت ہم کیا کریں؟ آپؐ نے فرمایا: جو چیز تم معروف پہچانو اسے اختیار کرنا، اور جو چیز تم منکر پہچانو اسے چھوڑ دینا، اور اپنے خاص لوگوں (یعنی اپنی ذات اور اہل خانہ) کے معاملات پر توجہ دینا، اور عوام کے معاملات کو چھوڑ دینا۔

  3. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَتَى نَدَعُ الْأَمْرَ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهْيَ عَنِ الْمُنْكَرِ؟ قَالَ: إِذَا ظَهَرَ فِيكُمْ مَا ظَهَرَ فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ، إِذَا كَانَتِ الْفَاحِشَةُ فِي كِبَارِكُمْ، وَالْمُلْكُ فِي صِغَارِكُمْ، وَالْعِلْمُ فِي رُذَالِكُمْ

    حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ پوچھا گیا: یا رسول اللہ! ہم کب امر بالمعروف اور نہی عن المنکر چھوڑ دیں؟ آپؐ نے فرمایا: جب تم میں وہ کچھ ظاہر ہو جائے جو بنی اسرائیل میں ظاہر ہوا تھا، یعنی جب فحاشی تمہارے بڑوں میں، حکومت تمہارے چھوٹوں میں، اور علم تمہارے رذیل (کمینے/فاسق) لوگوں میں آ جائے۔

یہ احادیث اپنے مفہوم میں بہت واضح ہیں۔ لیکن یہاں ہمیں اس حقیقت کو نہیں بھولنا چاہیے کہ ان میں جو حالات بیان ہوئے ہیں، وہ اس نوعیت کے حالات ہیں جہاں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ انجام نہ دینا محض ایک 'جواز' ہے۔

يعنى والله اعلم اذا لم يقبلوا ذلك و اتبعوا أهواء هم و آراء هم فانت فی سعة من تر كهم .

یعنی، واللہ اعلم، جب وہ (عوام) اسے (معروف کو) قبول نہ کریں اور اپنی خواہشات اور آراء کی پیروی کرنے لگیں تو تم ان کو چھوڑنے میں گنجائش میں ہو۔

دوسری حدیث کے بارے میں ابوداؤد کے ہندوستانی شارح مولانا محمد اشرف عظیم آبادی فرماتے ہیں:

هذا رخصة فی ترك الأمر بالمعروف و النهی عن المنكر اذا كثر الأشرار و ضعف الأخیار.

یہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کو ترک کرنے کی رخصت ہے جب برے لوگ بہت زیادہ ہو جائیں اور نیک لوگ کمزور ہو جائیں۔

تیسری روایت کے ہم معنی ایک روایت نقل کرنے کے بعد علامہ سعد الدین تفتازانی نے لکھا ہے:

الحديث فلما يدل الا على نفی الوجوب عند فوات الشرط بلزوم المفسدة وانتفاء الفائدة

حدیث صرف شرط کے فوت ہونے پر وجوب کی نفی پر دلالت کرتی ہے جب کہ فساد لازم آئے یا فائدہ حاصل نہ ہو۔

جب حالات اس قدر بگڑ جائیں کہ گوشہ گیر ہوئے بغیر آدمی کے لیے اپنے دین و ایمان کی حفاظت دشوار ہو جائے تو اسے معاشرے سے تعلقات ختم کر کے گوشہ گیر ہونے کی بھی اجازت ہے۔ کیونکہ ایمان کو بچانا ہر چیز پر مقدم ہے۔ اس کے لیے دنیا کی ہر چیز چھوڑی جا سکتی ہے، لیکن کسی بھی مقصد کے لیے اسے نہیں چھوڑا جا سکتا۔ یہی وہ وقت ہے جب امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فرض ساقط ہو جاتا ہے۔

امر بالمعروف و نہی عن المنکر فرض کفایہ ہے۔ یہ (فریضہ انجام دینے والے) اپنی ذات کی تکمیل پر اکتفا نہیں کرتے، بلکہ وہ اس سے آگے کے کام بھی انجام دیتے ہیں۔ وہ اپنی (صرف) نگرانی نہیں کرتے، بلکہ دوسروں کو بھی بچانا چاہتے ہیں۔ ان کے لیے گوشہ گیری اور عزلت کی اجازت ہوتی ہے، لیکن (حالات ناسازگار ہونے کے باوجود فعال لوگ) اسے قبول نہیں کرتے۔ کیوں کہ اگر وہ بھی فساد سے گھبرا کر میدان چھوڑ دیں تو دنیا میں نہ کسی معروف قائم ہوگا اور نہ منکر کے خلاف آواز بلند ہوگی۔ دو فریق ہیں: (ایک) انسان اپنے دین کی حفاظت کے لیے معاشرے سے کٹ جائے تو اس میں شک نہیں کہ یہ اس کے لیے (کسی حد تک) صحیح ہوگا۔ کیونکہ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ابھی سینہ میں ایمان کی محبت موجود ہے، لیکن احادیث میں اس سے اونچا مقام یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ کی راہ میں جہاد کیا جائے تاکہ باطل مٹے اور حق زندہ رہے۔ اس سلسلے میں بھی کچھ حدیثیں یہاں نقل کی جاتی ہیں۔

اس حدیث کے بارے میں یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ اس میں مجاہد فی سبیل اللہ اور دامن کوہ میں گوشہ گیر ہونے والے کو ایک جیسی حیثیت دے دی گئی ہے۔ ظاہر ہے، یہ خلاف عدل و انصاف ہوگا جس کی توقع اللہ اور اس کے رسولؐ سے نہیں کی جا سکتی۔ چنانچہ اسی مضمون کی ایک اور حدیث ہے جو اس سے مختصر ہے، لیکن اس میں صراحت ہے کہ افضل اور اعلیٰ مقام جہاد کا ہے اور اس کے بعد ایمان کی حفاظت کے لیے گوشہ نشینی کا:

عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُّ النَّاسِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: «مُؤْمِنٌ يُجَاهِدُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ». قَالُوا: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: «مُؤْمِنٌ فِي شِعْبٍ مِنَ الشِّعَابِ يَتَّقِي اللَّهَ وَيَدَعُ النَّاسَ مِنْ شَرِّهِ»

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: پوچھا گیا: یا رسول اللہ! لوگوں میں کون سب سے زیادہ فضیلت والا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: وہ مومن جو اللہ کی راہ میں اپنی جان اور مال سے جہاد کرتا ہے۔ لوگوں نے پوچھا: پھر کون؟ آپؐ نے فرمایا: وہ مومن جو پہاڑی گھاٹیوں میں سے کسی گھاٹی میں رہ کر اللہ سے ڈرتا ہے اور لوگوں کو اپنے شر سے محفوظ رکھتا ہے۔

دوسری حدیث ہے:

الْمُؤْمِنُ الْقَوِيُّ خَيْرٌ وَأَحَبُّ إِلَى اللَّهِ مِنَ الْمُؤْمِنِ الضَّعِيفِ، وَفِي كُلٍّ خَيْرٌ

طاقتور مومن کمزور مومن سے بہتر اور اللہ کو زیادہ محبوب ہے، اور ہر ایک میں خیر ہے۔

اس حدیث کی شرح امام نووی رحمہ اللہ نے ان الفاظ میں کی ہے:

المراد بالقوة هنا عزيمة النفس والقَرِيحَةُ في أمور الآخرة، فيكون صاحب هذا الوصف أكثر إقداماً على العدو في الجهاد، وأسرع خروجاً إليه وذهاباً في طلبه، وأشدَّ عزيمةً في الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر، وأصبرَ على الأذى في كل ذلك، واحتمال المشاق في ذات الله تعالى، وأرغبَ في الصلاة والصوم والأذكار وسائر العبادات، وأنشطَ قلبًا..

یہاں 'قوت' سے مراد آخرت کے معاملات میں نفس کا عزم اور طبیعت کی مضبوطی ہے۔ جس شخص میں یہ صفت ہوگی وہ جہاد میں دشمن پر زیادہ اقدام کرنے والا، اس کی طرف نکلنے اور اس کی تلاش میں زیادہ تیز ہوگا۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں زیادہ مضبوط ارادے والا، اور ان سب میں پہنچنے والی اذیت پر زیادہ صبر کرنے والا، اور اللہ کی راہ میں مشقتیں برداشت کرنے والا، اور نماز، روزہ، اذکار اور دیگر تمام عبادات کی طرف زیادہ رغبت رکھنے والا، اور دل کا زیادہ چست...

شرائط

ان کو ادا کرے گا اور ان کی محافظت کرے گا۔ رہا نبی ﷺ کا یہ فرمانا کہ ہر میں بھلائی ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ مومن قوى اور مومن ضعیف دونوں میں بھلائی ہے، کیوں کہ دونوں میں ایمان مشترک ہے۔ اس کے ساتھ ضعیف عبادات بھی انجام دیتا ہے (گو وہ اور کام نہ کرسکے)

اس سلسلے کی تیسری حدیث ہے:

المومن الذي يخالط الناس و يصبر على اذاهم، اعظم اجرا من الذى لا يخالطهم و لا يصبر علی اذاهم

وہ مومن جو لوگوں سے ملتا ہے اور ان کی ایذا رسانی پر صبر کرتا ہے اس کا اجر بہت بڑا ہے اس مومن کے اجر سے جو ان سے الگ رہتا ہے اور ان کے میل جول سے پہنچنے والی تکلیف پر صبر نہیں کرتا۔

اس حدیث کی شرح میں علامہ محمد بن اسماعیل الصنعانی لکھتے ہیں:

فيه الفضيلة من يخالط الناس مخالطة يا مرهم فيها بالمعروف و ینها هم عن المنکر و یحسن معاملتهم فانه افضل من الذي یعتزلهم و لا یصبر علی المحالطة

اس حدیث میں اس شخص کی فضیلت بیان ہوئی ہے جو لوگوں سے ملا جلا رہتا ہے، ایسا ملنا کہ جس میں وہ ان کو معروف کا حکم دیتا اور منکر سے منع کرتا ہے اور ان کے ساتھ بہتر سلوک کرتا ہے، وہ افضل ہے اس شخص کے مقابلے میں جو ان سے الگ رہتا ہے اور ان کے میل جول سے پہنچنے والی تکلیف پر صبر نہیں کرتا۔

ا۔ شرح مسلم، الجلد الثامن، الجزیرہ ۱۶، ص ۱۷۵-۱۷۶
۲۔ مسند احمد: ۲/ ۳، ۵۔ ابن ماجہ، ابواب الفتن، باب الصبر على البلاء۔ ترمذی، ابواب صفة القيامة

ان حدیثوں اور ان کی تشریحات سے واضح ہے کہ ایک ایسے معاشرے میں جو فی الحال اپنی اصلاح کے لیے آمادہ نہ ہو امر بالمعروف و نہی عن المنکر فرض تو نہیں ہے، لیکن اس کی اہمیت اور فضیلت برقرار ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر معاشرے میں معروف کو قائم کرنے اور منکر کو مٹانے کی کوشش جاری رہی تو ہوسکتا ہے کہ جو لوگ فرداً فرداً اصلاح قبول کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہیں، آئندہ ان کی اصلاح ہوجائے۔ لیکن اگر امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی کوشش بالکل ہی چھوڑ دی جائے تو اصلاح کی توقع ہی ختم ہو جائے گی اور پورا معاشرہ تباہ ہو جائے گا۔

قدرت مطلقہ

ہم نے اوپر کے صفحات میں تفصیل سے یہ بحث کی ہے کہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی عدم افادیت کا یقین ہو یا اس کے نتیجے میں کوئی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو، تو اس کا وجوب باقی نہیں رہتا۔ لیکن اگر یہ دونوں صورتیں نہ ہوں، یعنی نہ تو خوف ضرر ہو اور نہ اس کے غیر مفید ہونے کا خیال ہو تو امام غزالیؒ نے اسے قدرت مطلقہ سے تعبیر کیا ہے۔ اس صورت میں مومن کو احتساب کا فرض لازماً انجام دینا ہوگا۔ چناں چہ امام موصوف فرماتے ہیں:

ان یعلم ان المنکر یزول بقوله وفعله و لا یقدر له على مکروه فیجب علیه الانکار و هذه هی القدرة المطلقة

اگر احتساب کرنے والا یہ جانتا ہو کہ اس کے کہنے یا اقدام کرنے سے منکر زائل ہوجائے گا اور اس کے نتیجے میں اس کو کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی تو 'نہی عن المنکر' اس کے لیے واجب ہے، اور یہ قدرت مطلقہ ہے۔

ا۔ سبل السلام شرح بلوغ المرام: ۴/ ۱۸۲

امر بالمعروف و نہی عن المنکر قوت سے ہو یا زبان سے، عدم قدرت کا امکان ہے۔ یہاں یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فرض آدمی قوت کے ذریعہ ادا کرنا چاہے یا زبان کے ذریعے، دونوں حالتوں میں عدم قدرت کا امکان پایا جاتا ہے۔ اس لیے یہ فرض بھی دونوں ہی حالتوں میں ساقط ہو جاتا ہے۔

علامہ ابو بکر جصاص لکھتے ہیں:

و هی علی منازل: اوّلها تغييره اس بالید: اِذَا اَمْكَنَ فَاِنْ لَّمْ یُمْکِنْ کان ممکن هو، لکن اکر و ممکن نہ ہو اور ہاتھ وکان فی نفيه خائفا علی نفسه اِذْ اَنْکِرَہ بیدہ فَعَلَیْہِ اِنْكَارُ بلسانه فَانْ تَعَذَّرَ ذٰلِكَ لِمَا وصفنا فعلیه انکارہ بقلبه

پہلا درجہ اس کا تغیر بالید ہے: جب ممکن ہو، لیکن اگر ممکن نہ ہو اور ہاتھ سے منکر کے مٹانے میں اپنی جان کا اس کو خوف ہو تو اس کی ذمہ داری ہے کہ زبان سے انکار کرے۔ لیکن اگر اسی خوف کی وجہ سے یہ بھی اس کے لیے دشوار ہو تو اس کی ذمہ داری ہے کہ اپنے دل ہی سے اس پر تنکیر کرے۔

اَ۔ احکام القرآن للجصاص: ۲/ ۳۸۷

قاضی عیاضؒ نے اس سے زیادہ وضاحت اور تفصیل کے ساتھ لکھا ہے:

ان غلب على ظنه ان تغييره بیده یسبب منکرا اشد من قتله او قتل غیره بسببه كف يده و اقتصر

اگر آدمی کو اس بات کا ظن غالب ہو کہ ہاتھ سے اس کا منکر کو مٹانا کسی ایسے بڑے منکر کا سبب بن جائے گا مثلاً خود اسی کا قتل یا اس کے بجائے اس کی وجہ سے کسی دوسرے کا قتل تو اپنا ہاتھ روک

اذا انکر بقلبه فقد اذی ما علیہ اذالم یستطع علیه سوی ذلک

جب کوئی شخص اپنے دل سے انکار کردے تو اس نے اپنی ذمہ داری پوری کر دی بشرطیکہ وہ اس سلسلے میں اس کے علاوہ کسی دوسری صورت کی طاقت نہ رکھتا ہو۔

۲۔ احکام القرآن: ۲/ ۳۸۷ (حوالہ شاید پچھلے اقتباس کا ہے)

حدیث میں تغییر منکر کے جو مراتب بیان ہوئے ہیں ان کے بارے میں ملاعلی قاری فرماتے ہیں:

من يغير المنكر بالقدرة كان من العاصين، ومن تركه بلا قدرة او يرى مفسدة اكثر من المصلحة و يكون منكرا بقلبه فهو من المومنين

جو شخص قدرت کے باوجود ان کی ترتیب بدل دے وہ گناہ گار ہوگا اور جو شخص عدم قدرت کی وجہ سے یا اس وجہ سے کہ اس کے نتیجے میں وہ اصلاح سے زیادہ بگاڑ دیکھتا ہے، ان کو چھوڑ دے اور اپنے دل سے برائی کو ناپسند کرے تو اس کا شمار اہل ایمان میں ہوگا۔

اس سے زیادہ صراحت ابن حجر ہیتمیؒ نے کی ہے:

يجب تغيير المنكر بكل طريق امكنه، فلا يكفي الوعظ لمن امكنه ازالته بيده، ولا كراهة القلب لمن قدر على النهى باللسان

تغییر منکر واجب ہے ہر اس طریقے سے جو انسان کے امکان میں ہے۔ پس وعظ ونصیحت اس شخص کے لیے کافی نہیں ہے جو منکر کو اپنے ہاتھ سے زائل کرسکتا ہو، اسی طرح کراہت قلب ناکافی ہے اس شخص کے لیے جو زبان سے بھی نہی عن المنکر کی طاقت رکھتا ہو۔

ایک مومن ایسے حالات سے دوچار ہوسکتا ہے جن میں وہ نہ تو عملاً منکر کو مٹا سکے اور نہ اس کے خلاف اپنی زبان استعمال کرسکے، لیکن منکر سے نفرت تو بہر حال اس کے اندر ہونی چاہیے۔ تغییر منکر کا یہ بالکل آخری درجہ ہے، اس کے بعد کوئی درجہ نہیں ہے۔ اگر کسی دل میں برائی سے نفرت اور بے زاری بھی نہیں ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس سے ایمان کی حرارت ختم ہوگئی۔ اسی وجہ سے ایک حدیث میں فرمایا گیا ہے:

وليس وراء ذلک من الایمان حبہ خردل

(تغییر بالقلب) اس کے بعد ایمان نہیں رہتا، حبہ خردل سے۔

اَ۔ الجامع لاحکام القرآن: ۳/ ۲۴۰
۲۔ الزواجر عن اقتراف الكبائر: ۲/ ۳۰۔ ا۔ احیاء العلوم الدین: ۲/ ۲۷۴
ب۔ شرح الزواجر عن اقتراف الكبائر، ص ۱۸۹
ج۔ حواله سابق، ص ۲۲۰

جو شخص بدی اور معصیت سے نفرت کرے گا اور یہ نفرت محض دلی یا مخفی نہیں، بلکہ حقیقی ہوگی تو وہ ان لوگوں سے دور بھی رہے گا جو اس میں آلودہ ہیں۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ آدمی دل میں کسی کی روش کے خلاف شدید جذبات موجود ہوں اور اس کا اظہار تعلقات میں نہ ہونے پائے، اس لیے تغییر بالقلب کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ صحبت سے دوری اختیار کی جائے۔ علامہ ابوبکر جصاص لکھتے ہیں:

وسعة السكوت عنهم بعد ان يجانسهم و یظهر هجرانهم

اگر وہ (تغییر منکر پر قادر نہیں ہے تو) غلط کاروں سے دور رہنے اور اپنی دوری کا اظہار کرنے کے بعد اس کے لیے سکوت کی گنجائش ہے۔

یہی نہیں، بلکہ مومن کے ایمان کا تقاضا ہے کہ اگر وہ کسی منکر کے مٹانے پر قادر نہیں ہے تو اپنی اس بے بسی پر مطمئن نہ ہوجائے، بلکہ اس کے دل میں یہ تمنا اور آرزو پرورش پاتی رہے کہ کاش مجھے طاقت حاصل ہوتی اور یہ منکر میرے ہاتھوں ختم ہوتا۔ مجبور ہوکر منکر کو برداشت کرنے کا جذبہ اس کے اندر نہ ابھرے، بلکہ اس کے سینے میں یہ عزم اور ارادہ جاگزیں رہے کہ جب بھی اسے اس منکر کو مٹانے کی طاقت حاصل ہوگی وہ اس کو مٹا کے رہے گا۔ تغییر بالقلب کے بارے میں علامہ مناوی کہتے ہیں:

يكرهه و یعزم انه لو قدر فعل

منکر کو اپنے دل سے ناپسند کرے اور یہ عزم کرے کہ اگر وہ تغییر منکر پر قادر ہوگا تو ضرور اس کو مٹائے گا۔

اَ۔ مسلم، كتاب الایمان، باب بیان كون النهي عن المنكر من الایمان الخ
ب۔ التیسیر شرح الجامع الصغیر: ۱/ ۲۸
ج۔ احکام القرآن: ۲/ ۲۴۰

ابن حجر ہیثمیؒ کہتے ہیں:

يكره ذلك بقلبه و یعزم انه لو قدر علیه بقول او فعل أزاله

منکر کو اپنے دل سے ناپسند کرے اور یہ عزم کرے کہ اگر وہ زبان سے یا عمل سے تغییر منکر پر قادر ہوگا تو اس کو مٹا ہی دے۔

اَ۔ فتح المبین شرح الاربعین، ص ۲۲۰

امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے شرائط کو ایک صاحب ایمان ضرور اپنے پیش نظر رکھے گا، لیکن کسی بھی حال میں اس کا سینہ قیام معروف اور انکار منکر کے جذبہ سے خالی نہ ہوگا۔ یہ اسے ہمیشہ بے تاب رکھے گا۔

وسائل و ذرائع

دفع منکر کے وسائل یا درجات احتساب

امت کے درمیان امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فرض انجام دینے کے سلسلے میں ذرائع و وسائل کا سوال بہت اہم ہے۔ یعنی یہ کہ ایک ایسی سوسائٹی کے اندر، جو اللہ اور اس کے رسول کو مانتی اور آخرت پر ایمان رکھتی ہے، معروف کے قائم کرنے اور منکر کے مٹانے کے لیے آدمی کن ذرائع کو اختیار کرسکتا ہے اور کن ذرائع کے اختیار کرنے کی اس کو اجازت نہیں ہے؟ امام غزالیؒ نے اس سوال سے بڑی تفصیلی بحث کی ہے، لیکن وہ ان ذرائع کو احتساب کے مختلف درجات سے تعبیر کرتے ہیں اور علامہ عبدالقادر عودہ نے ان کو دفع منکر کے وسائل کا نام دیا ہے۔ یہاں ہم امام غزالیؒ کی بحث کو ہی اختصار کے ساتھ پیش کریں گے۔ فرماتے ہیں: احتساب کے حسب ذیل آٹھ درجات ہیں:

  1. احتساب کرنے والے کو اس بات کا علم ہو کہ فلاں شخص منکر کا ارتکاب کر رہا ہے، لیکن اس کے لیے تجسس کرنا اور کسی کی ٹوہ میں لگے رہنا صحیح نہیں ہے۔ ہاں اگر کسی کو از خود اس کا علم ہو جائے تو وہ اس کے سلسلے میں اقدام کرسکتا ہے۔
  2. بعض اوقات انسان منکر کو منکر نہیں تصور کرتا، بلکہ معروف سمجھنے لگتا ہے اور اپنی اس نادانستگی کی وجہ سے اس کا ارتکاب بھی کر گزرتا ہے۔ اگر اسے معلوم ہو جائے کہ جو کام وہ کر رہا ہے وہ اللہ تعالٰی کے نزدیک ناپسندیدہ اور اس کے کتاب و سنت کے خلاف ہے تو وہ یقیناً اس سے دست کش ہو جائے گا۔ ایسی صورت میں اس کو یہ بتانا کافی ہے کہ اس کا عمل غلط ہے اور اسے اس سے باز رہنا چاہیے۔
  3. اگر کوئی شخص منکر کو منکر سمجھتے ہوئے اس کا ارتکاب کر رہا ہے، یا معروف کو معروف سمجھتے ہوئے اس کی مخالفت کر رہا ہے تو اسے خدا کا خوف دلایا جائے، آخرت کی باز پرس سے ڈرایا جائے اور بہترین اسلوب میں اس کے سامنے سلف صالحین کی سیرت پیش کی جائے، تاکہ وہ ان چیزوں کا اثر قبول کرے اور معصیت کا ارادہ ترک کردے۔
  4. اگر لطف و محبت سے سمجھانے اور نصیحت کرنے کے باوجود کوئی شخص منکر سے باز نہ آئے تو اسے سخت سست کہا جائے اور اس کی ملامت کی جائے، لیکن اس میں اس بات کی احتیاط ہونی چاہیے کہ بد زبانی اور گالم گلوج نہ ہونے پائے۔
  5. وعظ ونصیحت اور سخت کلامی کارگر نہ ہو تو منکر کو قوت سے مٹایا جائے۔ مثلاً گانے بجانے کا سامان توڑ دیا جائے، یا کوئی مرد ریشم کا کپڑا پہنے ہوئے ہو تو اسے پھاڑ کر پھینک دیا جائے۔ لیکن اس پر عمل ہر منکر کے سلسلے میں ممکن نہیں ہے۔ جن منکرات کا ابھی ذکر ہوا ہے وہ یا اس نوعیت کے دوسرے منکرات کو قوت سے مٹایا جاسکتا ہے، لیکن جن منکرات کا تعلق محض زبان یا دل سے ہے، یا جو منکر کا ارتکاب کرنے والے کی ذات تک محدود ہوتے ہیں ان کے سلسلے میں اس پر عمل ممکن نہیں ہے۔
  6. منکر کا ارتکاب کرنے والے کو ڈرایا اور دھمکایا جائے، لیکن اس میں یہ بات محفوظ رہے کہ دھمکی ایسی نہ دی جائے جس پر عمل کرنا شرعاً حرام ہو۔ مثال کے طور پر یہ تو کہا جاسکتا ہے کہ منکر سے باز آؤ ورنہ تمھارا سر توڑ دوں گا، لیکن یہ کہنا صحیح نہ ہوگا کہ منکر سے باز آؤ ورنہ میں تمھارا گھر لوٹ لوں گا، یا تمھارے بچے کو قتل کر دوں گا۔
  7. منکر کا ارتکاب کرنے والے کو مارا پیٹا جائے اور اس کے خلاف ہتھیار نہ استعمال کئے جائیں۔ لیکن اگر ہتھیار اٹھائے بغیر منکر کے مٹانے کی کوئی صورت نہ ہوتو ہتھیار اٹھائے جائیں اور ضرورت کی حد تک ان کو استعمال کیا جائے۔
  8. کوئی شخص تنہا منکر کے مٹانے پر قادر نہ ہو اور اس کے لیے وہ دوسروں سے تعاون حاصل کرے!

اَ۔ التشریع الجنائي الاسلامی: ۱/ ۵۰۵-۵۰۶

اصلاح بذریعہ نصیحت

امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے ان مختلف ذرائع کو ہم دو عنوانوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ ایک اصلاح بذریعہ نصیحت اور دوسرا اصلاح بذریعہ قوت۔ ان دونوں قسم کے ذرائع پر عمل عملی حد تک مذکورہ ترتیب ہی سے ہوگا۔ یعنی پہلے وعظ و نصیحت اور لطف و محبت سے اصلاح کی کوشش کی جائے گی، اگر یہ کوشش بے سود ثابت ہو تو قوت اور زور سے اصلاح کا آغاز ہوگا۔ جب تک پہلے ذریعے کی عدم افادیت کا یقین نہ ہوجائے دوسرے ذریعے کو اختیار نہیں کیا جاسکتا۔ قرآن مجید میں ہے:

وَ اِنْ طَاِئفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَيْنَهُمَا فَاِنْ بَغَتْ اِحْدُهُمَا عَلَى الْاُخْرَى فَقَاتِلُوْا الَّتِي تَبْغِي حَتَّى تَفِىْءَ اِلٰى اَمْرِ اللہ فَاِنْ فَائَتْ فَاَصْلِحُوْا بَيْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَ اَقْسِطُوْا اِنَّ اللہَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَ (الحجرات: ٩)

اور اگر مؤمنوں کی دو جماعتیں آپس میں لڑپڑیں تو تم ان کے درمیان صلح کرادو۔ پھر اگر ان میں سے ایک دوسری پر زیادتی کرے تو تم سب مل کر اس جماعت سے لڑو جو زیادتی کرتی ہے، یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف رجوع کرے۔ پھر اگر وہ رجوع کرے تو تم ان کے درمیان انصاف کے ساتھ صلح کرادو اور انصاف کرو۔ یقیناً اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔

۱۔ احیاء علوم الدین: ۲/ ۳۷۰، ۳۷۱

اس آیت میں مسلمانوں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ اگر ان میں کے دو گروہ کسی وجہ سے آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیان عدل و انصاف کے ساتھ اصلاح کی کوشش کی جائے، لیکن اگر کوئی فریق عدل و انصاف کے سامنے سر جھکانے کے لیے تیار نہ ہو تو مظلوم کی حمایت میں اس سے جنگ کی جائے۔ گویا پہلے سعی اصلاح کی ہدایت کی گئی ہے، اگر یہ کوشش ناکام ہوجائے تو قتال کا حکم ہے۔

اسی وجہ سے علماء نے بالاتفاق یہ بات کہی ہے کہ اگر وعظ و نصیحت کے ذریعے اصلاح ہوسکتی ہے تو طاقت کا استعمال صحیح نہیں ہے۔ چند علماء کی تصریحات یہاں پیش کی جا رہی ہیں:

ابوبکر الجصاص:

امر الله تعالى بالدعاء الى الحق قبل القتال ثم ان أبوا الرجوع قوتلوا

اللہ تعالیٰ نے قتال سے پہلے حق کی طرف بلانے کا حکم دیا ہے۔ اس کے بعد جو فریق حق کی طرف رجوع سے انکار کردے اس سے جنگ کی جائے گی۔

اَ۔ احکام القرآن: ۲/ ۵۳۳

زمخشری:

يُبْدَأُ بالسهل فان لم ينفع ترقى الى الصعب

ابتدائی طریقہ سے ابتداء کی جائے گی۔ اگر وہ غیر مفید ثابت ہو تو اگلا مرحلہ یہ ہے کہ مشکل طریقہ اختیار کیا جائے گا۔

۲۔ الکشاف عن حقائق التنزیل: ۶۹۰/۱

ابن عربی مالکی:

ان الله سبحانه امر بالصلح قبل القتال وعين القتال عند البغي

اللہ تعالیٰ نے قتال سے پہلے صلح کا حکم دیا ہے اور قتال کا تعیین اس وقت کیا ہے جب کہ اس سے بغاوت ہو۔

۳۔ احکام القرآن: ۳/ ۱۷۱

ابو عبد اللہ قرطبی:

فالمنكر اذا امكنت ازالته باللسان فلجعل وال لم يمكنه الا بالعقوبة او القتل فليجعل فان ذال بدون القتل لم يجز القتل

منکر کا ازالہ جب اس کے منع کرنے والے کے لیے زبان کے ذریعے ممکن ہو تو اسی کو اختیار کرے اور اگر اس کا ازالہ سزا یا قتل ہی کے ذریعے ہوسکتا ہو تو اسے بھی اختیار کرسکتا ہے، لیکن قتل کے بجائے اس سے کم تر کسی طریقہ سے ازالہ منکر ہو سکے تو قتل کرنا جائز نہیں ہے۔

اَ۔ الجامع لاحکام القرآن، المجلد الثانی، الجزء ۳، ص ۲۲

کیا عوام کو طاقت کے ذریعہ اصلاح کا حق ہے

ان تصریحات سے واضح ہے کہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے سلسلے میں طاقت کو کام میں لانے سے پہلے اصلاح کی کوشش کی جائے گی۔ اس کا حق ہر مسلمان کو حاصل ہے، بلکہ یہ اس کی شرعی ذمہ داری ہے کہ معروف کی تبلیغ کرے اور منکر کے خلاف آواز اٹھائے، البتہ طاقت کے استعمال کے بارے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس کی اجازت شریعت نے ہر اس شخص کو دے رکھی ہے جس کے پاس طاقت ہو یا یہ صرف حکومت کا حق ہے۔ اس سوال پر علماء نے بڑی لمبی بحثیں کی ہیں۔ ہم ان کے خیالات کو یہاں بہت ہی اختصار کے ساتھ پیش کریں گے۔ علامہ قرطبی کہتے ہیں:

قال العلماء الأمر بالمعروف باليد على الأمراء وباللسان على العلماء و بالقلب على الضعفاء

علماء نے کہا ہے کہ امر بالمعروف کا فرض قوت کے ذریعہ انجام دینا حکام کی، زبان کے ذریعے انجام دینا علماء کی اور دل کے ذریعے انجام دینا کم زوروں یعنی عوام کی ذمہ داری ہے۔

۲۔ ایضاً

علامہ قرطبی نے علماء کی جو رائے نقل کی ہے اس میں بالکل ایک اصولی بات کہی گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ چونکہ حکومت کے پاس طاقت ہوتی ہے اس لیے اس کا فرض ہے کہ قوت کے ذریعے معروف کو قائم کرے اور منکر مٹائے۔ اسی طرح جو افراد دین کا علم رکھتے ہیں اور تبلیغ و اصلاح کا فرض انجام دے سکتے ہیں ان کی ذمہ داری ہے کہ لوگوں کو معروف پر عمل کی ترغیب دیں اور ان پر منکر کی خرابیاں واضح کریں۔ رہے وہ لوگ جو یہ کام بھی بہ حسن و خوبی انجام نہیں دے سکتے ان کی ذمے داری بس اتنی ہے کہ نیکی سے محبت کریں اور برائی سے خوش نہ ہوں۔ بلکہ دل سے اس کو ناپسند کریں۔ علماء کے مذکورہ بالا قول کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ اگر کہیں معصیت کا ارتکاب ہو رہا ہو تو جس شخص کے پاس اقتدار اور حکومت نہیں ہے وہ بالکل سکوت اختیار کرے اور اس کو ختم کرنے کی اپنی حد تک بھی کوشش نہ کرے۔ کیوں کہ اسلام یہ چاہتا ہے کہ جو شخص بھی منکر کو دیکھے اسے نرمی اور محبت سے ختم کرنے کی سعی کرے۔ اس میں کامیاب نہ ہو اور قوت سے اس کو مٹا سکتا ہو تو قوت ہی سے مٹائے۔

شے منکر کی تغییر کے لیے طاقت کا استعمال

امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے سلسلے میں طاقت کے استعمال کی دو صورتیں ہیں: ایک تو یہ کہ کسی شے منکر کو ہم مٹانا چاہیں اور اس کے خلاف طاقت کو کام میں لائیں، مثلاً شراب بہا دی جائے یا گانے بجانے کا سامان توڑ دیا جائے۔ دوسری صورت یہ کہ طاقت کا استعمال شے منکر کے خلاف نہیں، بلکہ منکر کا ارتکاب کرنے والے کے خلاف کیا جائے، مثلاً ایک شخص زنا کرنے جارہا ہے، اسے مار پیٹ کر اس سے باز رکھنے کی کوشش کی جائے۔ اگر اس سے بھی وہ باز نہ آئے تو اسے قتل کر دیا جائے۔

پہلی صورت کے بارے میں امام غزالی فرماتے ہیں:

كسر الملاهي و اراقة الخمور فانه تعالى ما يعرف كونه حقاً بها من غير اجتهاد فلم يفتقر الى الامام

رہا آلات لہو و لعب کا توڑ دینا اور شراب کا بہا دینا تو یہ ایسی چیز ہے کہ جس کا حق ہونا بغیر کسی اجتہاد کے معروف ہے، اس لیے یہ کام امام کی اجازت کا محتاج نہیں ہے۔

۱۔ احیاء علوم الدین: ۲/ ۳۴۷

قاضی عیاض کہتے ہیں:

حق المغير ان یغیر ہ بکل وجه امكنه زواله به قولاً كان او فعلاً، فيكسر آلات الباطل و يريق الخمر بنفسه او يامر یردها الى اصحابه بنفسه او بامره اذا امكنه

تغییر منکر کرنے والے کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ منکر کو ہر طریقہ سے مٹا دے جس سے اس کا مٹانا ممکن ہو، خواہ وہ قول کے ذریعہ ہو یا فعل کے ذریعہ۔ پس وہ باطل کے آلات توڑے گا، یا شراب بہانے کا، یا کسی ایسے شخص کو حکم دے گا، جو اس کام کو انجام دے۔ اسی طرح وہ غصب شدہ چیز کو چھین کر اس کے مالک کے حوالے یا تو خود ہی کردے یا اس کے حکم سے کوئی دوسرا یہ کام کرے۔ جب کہ یہ سب کچھ اس کے امکان میں ہو۔

اَ۔ شرح مسلم للنووی، المجلد الاول، الجزء ۲، ص ۲۳

حافظ ابن قیم فرماتے ہیں:

لا ضمان في كسر أواني الخمر و شق زقاقه

شراب کے برتنوں اور اس کے متکوں کو توڑنے میں کوئی تاوان نہیں ہے۔

۲۔ الطرق الحکمیہ فی السیاسة الشرعیة، ص ۲۵۶

امام غزالی اور قاضی عیاض شافعی المسلک ہیں اور حافظ ابن قیم امام احمد کے متبع ہیں، اس لیے ان تینوں حضرات نے شافعی اور حنبلی فقہ کی ترجمانی کی ہے۔ لیکن احناف اس مسئلے میں غیر مسلم کی ملکیت اور مسلمان کی ملکیت میں فرق کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جس شے منکر کو تلف کیا گیا ہے اس کا مالک مسلمان ہے تو یقیناً اس کا کوئی تاوان نہیں دلوایا جائے گا۔ خواہ اس کا تلف کرنے والا کوئی کافر ہو یا مسلمان، کیوں کہ ایک مسلمان کے نزدیک کسی نا جائز چیز کی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔ اس کے برعکس تلف شدہ چیز کا مالک غیر مسلم ہے تو اس کو لازماً اس کا تاوان دلوایا جائے گا۔ قطع نظر اس سے کہ اس کا تلف کرنے والا مسلمان ہے یا غیر مسلم۔ کیوں کہ اس کے نقطہ نظر سے اس کی مالیت چیز تلف کی گئی ہے۔ علامہ کاسانی فرماتے ہیں:

لا یجب الضمان بتلاف الخمر و الخنزیر علی المسلم سواء كان المتلف مسلماً او ذمیا لسقوط تقوم الخمر و الخنزیر فی حق المسلم، و لو اتلف المسلم او ذمی على ذمى خمراً او خنزیرا يضمن عندنا خلافا للشافعی

(کسی مسلمان کی) شراب اور سور کو کوئی تلف کر دے تو اسے تاوان نہیں ملے گا، خواہ تلف کرنے والا مسلمان ہو یا ذمی، کیوں کہ مسلمان کے حق میں شراب اور سور کی قیمت ساقط ہو جاتی ہے۔ لیکن اگر کوئی مسلمان یا ذمی کسی ذمی (حنفیہ) کے نزدیک تاوان دے گا۔ امام شافعی کو اس سے اختلاف ہے (وہ اس دوسری صورت میں بھی تاوان کے قائل نہیں ہیں)۔

۱۔ بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع: ۷/ ۱۷۶

مرتکب منکر کے خلاف طاقت کا استعمال

یہ گفتگو کسی شے منکر کے خلاف طاقت کے استعمال سے متعلق تھی۔ اب ہمیں منکر کا ارتکاب کرنے والے کے خلاف طاقت کے استعمال کے سلسلے میں غور کرنا ہے۔ کسی شخص کو جرم کا ارتکاب کرتے ہوئے دیکھنے سے انسان پر امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی جو ذمے داری عائد ہوتی ہے اس کو بیان کرتے ہوئے علامہ عبد القادر عودہ شہیدؒ لکھتے ہیں:

اذا شهد الجانی و هو یرتکب الجناية كان لأي شخص ان یمنعه من القوة عن ارتکاب الجریمة و ان يستعمل القوة اللازمة لمنعه سواء كانت الجريمة اعتداء على حقوق الأفراد كالسرقة او اعتداء على حقوق الجماعة كشرب الخمر و الزنا، و هذا ما يسمی بحق الدفاع الشرعی العام

جب مجرم اس حال میں دیکھا جائے کہ وہ جرم کا ارتکاب کر رہا ہے تو ہر شخص کو یہ حق حاصل ہے کہ اسے جرم کے ارتکاب سے بزور روک دے اور اس کو روکنے کے لیے جو ضروری قوت درکار ہے اسے استعمال کرے، خواہ جرم کی نوعیت افراد کے حقوق پر زیادتی کی ہو جیسے چوری، یا جماعت کے حقوق پر زیادتی کی ہو جیسے شراب نوشی اور زنا۔ یہ وہ چیز ہے جسے شریعت کے عمومی دفاع کا حق کہا جاتا ہے۔

۲۔ التشریع الجنائی الاسلامی: ۸۷/۱

علامہ ابوبکر جصاص نے اس موضوع پر بڑی مدلل اور تفصیلی بحث کی ہے۔ ہم یہاں اس کے ضروری حصے تھوڑی سی ترتیب بدل کر نقل کرتے ہیں:

امر بالمعروف و نہی عن المنکر جن حالات میں انجام دیا جاتا ہے وہ دو طرح کے ہوسکتے ہیں: ایک حالت تو یہ کہ اس میں تغییر منکر ممکن ہی نہ ہو اور دوسری حالت یہ کہ اس میں منکر کو بدلنا اور اسے دور کرنا ممکن ہوگا۔ اس صورت میں شریعت کا حکم یہ ہے کہ جو شخص اس کو اپنے ہاتھ سے دور کرنے کی طاقت رکھتا ہو اس کا فرض ہے کہ اسے اپنے ہاتھ سے دور کردے۔ اس کی کئی صورتیں ہوسکتی ہیں: ایک صورت یہ ہے کہ منکر کا ازالہ بغیر تلوار اٹھائے اور منکر کا ارتکاب کرنے والے کو ختم کیے بغیر ناممکن ہوجائے۔ ایسی صورت میں اس پر عمل کرنا بھی ضروری ہے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی یہ دیکھے کہ ایک شخص اس کے یا کسی دوسرے کے قتل کا ارادہ کر رہا ہے، یا اس کا مال چھیننا چاہتا ہے، یا کسی عورت کے ساتھ زنا کرنے یا اسی طرح کی اور کوئی سنگین حرکت کرنے جا رہا ہے اور ساتھ ہی وہ یہ بھی جانتا ہے کہ اگر اس کو زبان سے سمجھایا جائے یا بغیر ہتھیار کے اس کی مزاحمت کی جائے تو وہ باز نہیں آئے گا۔ تو لازماً اسے اس بدکار کو قتل کر ہی دینا چاہیے۔ کیوں کہ نبی ﷺ کا ارشاد ہے کہ "تم میں سے جو بھی شخص منکر کو دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ سے بدل دے"۔ پس جب تغییر منکر کی کوئی صورت سوائے اس کے نہ رہ جائے کہ منکر کا ارتکاب کرنے والے کو ختم کر دیا جائے تو ضروری ہے کہ اس پر عمل کیا جائے۔

امام محمد فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص کسی کا مال غصب کرلے تو آپ کو اجازت ہے کہ اسے قتل کردیں اور سامان اس کے مالک کے حوالے کردیں۔ اسی طرح امام ابو حنیفہؒ، عقبہ زن کے بارے میں فرماتے ہیں کہ آپ اس کو قتل کرسکتے ہیں۔ اس سے آگے بھی ان کا قول ہے کہ اگر کوئی شخص تمہارا دانت توڑنا چاہے تو تم اس کی جان لے سکتے ہو، بشرطے کہ تم ایسے حالات میں گھر جاؤ کہ اس کے خلاف کوئی تمھاری مدد کرنے والا نہ ہو۔

یہی بات ہم ان افراد کے بارے میں بھی کہیں گے جو لوگوں سے غیر قانونی نکاح وصل کرتے ہیں، یعنی یہ کہ وہ مباح الدم ہیں اور مسلمانوں پر ان کا قتل کرنا واجب ہے۔ ہر فرد کو اس کی اجازت ہے کہ ان میں سے جس کسی کے قتل پر بھی وہ قادر ہو، اسے قتل کردے، اس کے لیے ان کو پہلے سے نہ تو سمجھانے کی ضرورت ہے اور نہ تغیر کرنے کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ وہ اسے ناجائز سمجھنے کے باوجود کیے جا رہے ہیں، اس کے لیے ان کو نصیحت کرنا بے فائدہ ہے، وہ کسی اس کو قبول نہیں کریں گے۔ اسی طرح انھیں تغیر کرنے کی ضرورت اس لیے بھی نہیں ہے کہ جو شخص ان کے منکر کو ختم کرنا چاہتا ہے وہ اگر ان کو پہلے سے ڈرائے اور اپنے ارادے سے آگاہ کردے تو وہ اس سے بچنے لگیں گے، اس طرح اس کے لیے ان کے منکر کو مٹانا ناممکن ہوجائے گا۔

یہی حکم ہے ان تمام لوگوں کے بارے میں جو بڑے بڑے اور تباہ کن معاصی پر ت تھڑے ہوں اور علی الاعلان ان کا ارتکاب کرتے ہوں، یعنی امکان کی حد تک ان پر تغیر کرنا اور طاقت ہو تو ان کے عمل کو روکنا واجب ہے۔

اوپر جو کچھ ہم نے کہا ہے اس کی دلیل قرآن کی یہ آیت ہے:

فَقَاتِلُوْا الَّتِي تَبْغِي حَتَّى تَفِىْءَ اِلٰى اَمْرِ الله (الحجرات: ٩)

تم ان سے لڑو، یہاں تک کہ بغاوت کرنے والا فریق اللہ کے حکم کی طرف رجوع کرے۔

۱۔ احکام القرآن: ۲/ ۳۷۸،۳۷۹

اس میں اللہ نے باغی فریق سے اس وقت تک جنگ کرنے کا حکم دیا ہے جب تک کہ وہ اس کے حکم کی طرف لوٹ نہ جائے اور اپنی بغاوت اور منکر کو چھوڑ نہ دے۔

ایک غلط فہمی کا ازالہ

اس سے معلوم ہوا کہ تغییر منکر کے لیے انسان وقت ضرورت کسی شخص کی جان بھی لے سکتا ہے، خواہ وہ یہ فرض اپنی ذات کی مدافعت میں انجام دے یا کسی دوسرے کی مدافعت میں، فرد کی حمایت میں انجام دے یا معاشرہ کی حمایت میں۔ لیکن یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے، وہ یہ کہ انسان کو شریعت نے اپنی اور دوسروں کی جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کا حق دیا ہے۔ اس حق کے تحت وہ اپنے آپ پر اور دوسروں پر ہونے والے ہر حملہ کا دفاع کرسکتا ہے۔ اس حق دفاع اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر میں کوئی فرق ہے یا نہیں؟

اس کا جواب یہ ہے کہ فرق ہے اور یقیناً وہ یہ کہ اپنے اور دوسروں کے حقوق کے لیے دفاع کرنا ایک محدود کام ہے اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا دائرہ اس سے بہت وسیع ہے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی شخص کسی کو قتل کرنا چاہے اور آپ اس کا مقابلہ کریں تو گویا آپ اس حق کو استعمال کریں گے جو دوسروں کی جان کی حفاظت شریعت نے آپ کو دیا ہے۔ یہ ایک مظلوم کا دفاع بھی ہے اور تغییر منکر بھی، لیکن اگر کسی خودکشی کرنے والے کو خود کشی سے آپ روک دیں تو گویا اس میں کسی کے دفاع کا سوال نہیں پیدا ہوتا، لیکن یہ تغییر منکر ہے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص کسی عورت کی عصمت دری کرنا چاہے اور آپ اسے روک دیں تو یقیناً یہ اس عورت کی طرف سے دفاع بھی ہے اور ایک منکر کی تغییر بھی، لیکن اگر کوئی مرد اور عورت اپنی مرضی سے زنا کرنا چاہیں اور آپ ان کو روک دیں تو یہ عورت کی طرف سے دفاع نہیں ہے، بلکہ محض تغییر منکر ہے! غرض یہ کہ شریعت کے خلاف ہر وہ عمل، جس کا مٹانا ممکن ہو، تغییر منکر ہے، خواہ اس کا تعلق دفاع سے ہو یا نہ ہو۔

ا۔ تفصیل کے لیے دیکھئے التشریع الجنائی الاسلامی، ص ۵۱۱، ۵۱۲

عوام کے لیے طاقت کے استعمال کی شرائط

اس تفصیل سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ قوت کے ذریعے تغییر منکر کا حق ہر شخص کو حاصل ہے، لیکن بغیر کسی شرط کے مطلق نہیں ہے، بلکہ اس کے کچھ شرائط ہیں۔ یہاں ان شرائط کا ذکر ضروری ہے۔

  1. منکر کا ارتکاب ہورہا ہو

تغیر منکر کے لیے عام افراد قوت کا استعمال صرف اسی وقت کرسکتے ہیں جب کہ عملاً منکر کا ارتکاب ہورہا ہو۔ اگر کسی جگہ مستقبل میں ارتکاب منکر کا خطرہ ہو تو عوام کے لیے طاقت کا استعمال صحیح نہیں ہے۔ اسی طرح منکر کے وجود میں آنے کے بعد وہ مجرم کو نصیحت تو کرسکتے ہیں، لیکن اس کے خلاف طاقت کو کام میں نہیں لاسکتے۔ امام غزالیؒ فرماتے ہیں:

"معصیت کے تین احوال ہیں: ایک تو یہ کہ معصیت واقع ہوچکی ہو، اس پر حد جاری کرنا یا تعزیر کرنا حکام کا کام ہے، عام افراد کا نہیں۔ دوسری حالت یہ کہ معصیت فی الحال موجود ہو اور اس کا ارتکاب کرنے والا اس میں ملوث ہو۔ اس حالت میں بہر طور معصیت کا مٹانا واجب ہے، بشرطے کہ اس کی وجہ سے اس سے بڑی یا اس جیسی کوئی معصیت نہ پیدا ہو جائے۔ اس کا حق عام افراد کو حاصل ہے۔ تیسری صورت یہ کہ منکر متوقع ہو۔ جیسے کوئی شخص مے نوشی کے لیے مجلس آراستہ کر رہا ہو، لیکن ابھی وہاں شراب موجود نہ ہو۔ اس میں اس بات کا بھی امکان ہے کہ کوئی ایسی رکاوٹ پیدا ہوجائے کہ وہ شراب استعمال نہ کرسکے۔ اس حالت میں اسے صرف نصیحت کی جاسکتی ہے، طاقت کے استعمال کا حق نہ عوام کو ہے اور نہ حکومت کو۔ الا یہ کہ کوئی شخص عادی مجرم ہو اور وہ اسباب کی فراہمی کے بعد ارتکاب جرم کے لیے محض وقت اور موقع کے انتظار میں ہو تو اس بدبختی سے احتساب جائز ہے۔"

اَ۔ تفصیل کے لیے دیکھئے التشریع الجنائی الاسلامی: ۲/ ۳۵۲

علامہ ابن نجیمؒ اس مسئلہ پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

قالوا لكل مسلم إقامة الإنكار في الحال مباشرة المعصية و اما بعد الفراغ منها فليس ذلك لغير الحاكم

فقہاء نے کہا ہے کہ مسلمان کو عین معصیت کے ارتکاب کے وقت انکار کا حق ہے لیکن معصیت سے فارغ ہونے کے بعد سوائے حاکم کے کسی کو یہ حق نہیں ہے۔

۱۔ احیاء علوم الدین: ۲/ ۳۵۲
۲. البحرالرائق شرح کنزالدقائق: ۵/ ۴۷

اس کی جو توجیہ فقہاء کی گئی ہے وہ یہ ہے:

لو عزره حال كونه مشغولاً بالمقاحشة فلله ذلک و انه حسن، لأن ذلک نهی عن المنکر و کل واحد مأمور به، و بعد الفراغ ليس ينهى عن المنكر لأن النهى عما مضى لا یتصور فیتمحض تعزیرًا وذلک الی الامام

گناہ کا ارتکاب کرنے والے کی تعزیر اگر کوئی شخص اس وقت کرے جب کہ وہ اس میں مشغول ہے تو اس کا اسے حق ہے بلکہ یہ کہ ہر ایک کو حکم ہے، باقی رہا گناہ سے فارغ ہونے کے بعد تو اس وقت منکر سے منع نہیں کیا جاتا، کیوں کہ جو چیز گزر چکی اس سے روکنے کا کوئی تصور نہیں کیا جاسکتا۔ یہ خالص تعزیر ہوگی جو امام سے متعلق ہوگی۔

۳ حوالہ سابق

فقہاء نے صراحت کے ساتھ لکھا ہے کہ کسی شخص کے ارتکاب منکر کے بعد اس کے خلاف طاقت کا استعمال قابل مؤاخذہ جرم ہے:

للمحتسب ان يعزر المعزر ان عزره بعد الفراغ منها

احتساب کی طرف سے جو شخص احتساب پر مامور ہے اسے یہ حق ہے کہ تعزیر کرنے والے کو سزا دے، اگر وہ کسی شخص کے معصیت سے فارغ ہونے کے بعد اس کی تعزیر کرے۔

ا۔ مکمل البحرالرائق، ص: ۳۰۶

ایک مثال کے ذریعہ اس کی وضاحت ہوسکتی ہے۔ اگر کوئی شخص کسی پر حملہ کرے اور وہ اپنی جان کے تحفظ میں یا کوئی دوسرا شخص اس کی مدافعت میں حملہ آور کو قتل کردے تو شریعت ان میں سے کسی سے مؤاخذہ نہیں کرے گی۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ تغییر منکر کے لیے قوت کا استعمال اس وقت جائز ہے جب کہ منکر کا ارتکاب ہو رہا ہو۔ اب ایک دوسری صورت فرض کیجئے، وہ یہ کہ حملہ آور حملے کے بعد اس طرح پلٹ جاتا ہے کہ بظاہر اس کا ارادہ دوبارہ حملہ کا نہیں ہے۔ اس حالت میں اگر حملہ آور کو قتل کر دیا جائے تو قاتل سے قصاص لیا جائے گا۔ یہ اس دعویٰ کا ثبوت ہے کہ ارتکاب منکر کے بعد طاقت کے استعمال کی اجازت نہیں ہے۔

  1. ضرورت کی حد تک طاقت کا استعمال کیا جائے

امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے لیے عام افراد بالکل ناگزیر حد تک طاقت کا استعمال کرسکتے ہیں، اس سے زیادہ کی انہیں اجازت نہیں ہے۔ امام غزالیؒ تغییر بالید کا ایک ادب یہ بیان کرتے ہیں:

ان یقتصر فی طریق التغییر علی القدر المحتاج اليه

تغییر منکر کے طریق میں اسی مقدار پر اکتفا کرے جس کا وہ محتاج ہے۔

۲. احیاء علوم الدین: ۲/ ۳۵۹

مثال کے طور پر اگر کوئی شخص کسی کی زمین پر غاصبانہ قبضہ جمائے بیٹھا ہے اور اسے ہاتھ پکڑ کر وہاں سے نکالا جاسکتا ہے تو لاٹھی یا پتھر پھینکنا صحیح نہیں ہے۔

ضرورت سے زیادہ طاقت کا استعمال ایک جرم ہے جس پر شریعت کی طرف سے احتساب ہوگا۔ فرض کیجئے، اگر کوئی شخص شراب کے بہانے کے لیے اس کا ظرف توڑ دے تو اسے تاوان ادا کرنا ہوگا، کیوں کہ شراب کے بہانے کے لیے ظرف کو توڑنا ضروری نہیں ہے۔ ہاں اگر شراب کا برتن توڑے بغیر اس کا بہانا ممکن نہ ہو تو اس شکست و ریخت کی بھی اسے اجازت ہے۔

۳. ایضاً: ۲/ ۳۵۶-۳۵۷

اسی طرح اگر چور کسی مکان میں گھس جائے، اور صاحب مکان یہ جانتے ہوئے کہ چور پکار سے وہ بھاگ کھڑا ہوگا اسے قتل کردے تو اس پر قصاص واجب ہوگا، لیکن اگر اسے یقین ہو کہ وہ چور پکار سے نہیں بھاگے گا تو اسے قتل کرسکتا ہے۔

ا۔ مکمل البحرالرائق، ص: ۳۰۶

امام غزالی رحمہ اللہ علیہ نے اس سلسلے میں اصولی بات یہ فرمائی ہے:

ليس إلى آحاد الرعية إلا الدفع وهو إعدام المنكر، فما زاد على قدر الإعدام فهو إما عقوبة على جريمة سابقة أو زجر عن لاحق وذلك إلى الولاة لا إلى الرعية

عام رعایا کو صرف منکر کے مٹانے کا حق ہے، جو چیز اس سے زیادہ ہو وہ یا تو کسی سابق جرم کی سزا ہوگی یا ہونے والے جرم پر زجر و توبیخ ہوگی۔ اس کا حق حاکم کو ہے، رعایا کو نہیں۔

۲. احیاء علوم الدین: ۲/ ۳۵۹

  1. فتنہ کا خطرہ نہ ہو

قوت کے ذریعے معروف کا قائم کرنا اور منکر کا مٹانا اسی وقت صحیح ہوگا جب کہ اس سے فی الواقع منکر کے مٹنے اور معروف کے قائم کرنے کی توقع ہو اور ساتھ ہی کسی فتنہ کے پیدا ہونے کا اندیشہ نہ ہو۔ عام حالات میں تغییر منکر کے لیے قوت کے تھوڑے بہت استعمال سے فتنہ و فساد کا کوئی خاص خطرہ نہیں ہوتا، لیکن اس مقصد کے لیے ہتھیار اٹھانے میں ضرور اس کا خطرہ ہے۔ اسی وجہ سے امام غزالی فرماتے ہیں کہ عام افراد کو اس کا تو حق ہے کہ منکر کا ارتکاب کرنے والے کو وقت ضرورت زد و کوب کریں، لیکن اس کے خلاف ہتھیار اٹھانے کی اجازت اسی وقت ہوگی جب کہ اس سے کسی فتنہ کے پیدا ہونے کا اندیشہ نہ ہو۔ اس بحث کی ابتدا میں ذکر آچکا ہے کہ امام غزالی نے احتساب کے آٹھ درجات بیان کیے ہیں، ان میں سے ساتویں درجہ کے ذیل میں لکھتے ہیں:

الدرجة السابعة مباشرة الضرب بالید و الرجل وغیر ذلک مما لیس فيه شهر سلاح، و ذلک جائز للاحاد بشرط الضرورة و الاقتصار على قدر الحاجة في الدفع، فاذا اندفع المنکر فینبغی ان یکتف ... فان احتاج الی شهر سلاح و رفعہ یقدر علی دفع المنکر بشهر سلاح وبالجرح فلله ان یتعاطی ذلک مالم تترتب منکرا ارتکاب کرنے والی جماعت کا استعمال

احتساب کا ساتواں درجہ یہ ہے کہ منکر کا ارتکاب کرنے والے کو ہاتھ اور پیر سے مارا جائے، یا کوئی ایسی سزا دی جائے جس میں ہتھیار کا استعمال نہ ہو۔ یہ عام افراد کے لیے وقت احتساب اقدام کیا جائے اور منکر کو دفع کرنے کے لیے جس قدر اقدام کی حاجت ہے اسی پر اکتفا کیا جائے۔ جب منکر دفع ہو جائے تو رک جانا چاہیے۔ اگر احتساب کرنے والا ہتھیار نکالنے کی ضرورت محسوس کرے اور وہ اس کا استعمال کرے اور منکر کا ارتکاب کرنے والے کو زخمی کرکے منکر کو دفع کرنے کی طاقت رکھتا ہو تو اس کو عمل کی اس کو اجازت ہے۔ بشرطے کہ اس سے کوئی فتنہ پیدا ہو۔ منکر کا ارتکاب کرنے والی جماعت کا استعمال

ا۔ ایضاً: ۲/ ۳۶۳

منکر کا ارتکاب کرنے والی جماعت کے خلاف طاقت کا استعمال

اب تک ہم نے اس سوال سے بحث کی تھی کہ منکر کا ارتکاب کرنے والے فرد کے خلاف اسلامی ریاست کا کوئی شہری قوت کا استعمال کرسکتا ہے یا نہیں۔ اس کے بعد دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر منکر کا ارتکاب کوئی جماعت کر رہی ہو یا کوئی ایسا شخص کر رہا ہو جس کا مقابلہ تنہا کوئی فرد نہ کرسکے تو کیا وہ اپنے ہم خیال لوگوں کو جمع کرکے اس کے منکر کو مٹانے کی کوشش کرسکتا ہے؟ یہ سوال اہم بھی ہے اور پیچیدہ بھی۔ کیوں کہ اس طرح کے کسی اقدام میں جہاں منکر کے مٹنے اور معروف کے قائم ہونے کا امکان ہے وہاں فتنہ و فساد کا خطرہ اگر ایک درجہ کا ہے تو جماعتوں کے معاملے میں یہ بڑھ کر سو درجہ ہو جاتا ہے۔ اس لیے امام غزالیؒ فرماتے ہیں:

اما جمع الاعوان و شهر الأسلحة فذلك قد يجر الى فتنة عامة ففيه نظر

مددگاروں کو جمع کرنا اور ہتھیار نکال لینا، یہ ایسا اقدام ہے جو کبھی عمومی فتنہ کا سبب بن سکتا ہے، اس لیے یہ قابل غور مسئلہ ہے۔

۲. احیاء علوم الدین: ۲/ ۳۶۰/

خود امام غزالیؒ کی رائے اس مسئلے میں یہ ہے کہ تغییر منکر کے لیے انسان کو اپنے اعوان و انصار کو جمع کرنے اور جنگ کرنے کی ضرورت کم ہی پڑسکتی ہے، لیکن اگر ضرورت پڑے تو وہ اپنے اعوان و انصار کے ساتھ منکر کو مٹانے کے لیے جنگ بھی کرسکتا ہے۔ انھوں نے احتساب کے جو آٹھ درجات بیان کیے ہیں ان میں آٹھواں اور سب سے آخری درجہ یہ ہے کہ ”آدمی تغییر منکر پر خود قادر نہ ہو اور اس کے لیے ایسے معاونین کا محتاج ہو جو ہتھیار استعمال کرسکتے ہوں۔ اس صورت میں جس فتنہ سے مقابلہ ہے، بسا اوقات وہ بھی اپنے اعوان و انصار سے مدد طلب کرسکتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ دونوں گروہ صف آراء ہوجائیں اور ایک دوسرے سے جنگ کریں۔ اس صورت کے بارے میں اختلاف ہے کہ آیا اس کے لیے امام کی اجازت کی ضرورت ہے یا نہیں؟ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ عام افراد کو اپنے طور پر نہیں کرسکتے، کیوں کہ اس سے فتنوں کو تحریک ملے گی، فساد پھیلے گا اور ملک برباد ہوگا۔ اس کے برعکس بعض دوسرے احباب کا خیال ہے کہ اس کے لیے امام کی اجازت کی ضرورت نہیں۔ یہی بات قرین قیاس معلوم ہوتی ہے، کیوں کہ عام افراد کو جب امر بالمعروف کی اجازت ہے اور اس کا پہلا درجہ دوسرے درجے کی طرف اور دوسرا درجہ تیسرے درجے کی طرف لے جاتا ہے تو یہ لا محالہ آٹھویں درجے تک بھی پہنچا سکتا ہے اور مار پیٹ کی نوبت بھی آسکتی ہے۔ مار پیٹ میں اس کا بھی امکان ہے کہ دوسروں سے مدد حاصل کرنی پڑے۔ پس جب امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فرض انجام دینا ہی ہے تو اس راہ کے فطری لوازم کیونکر وہ روک سکتے ہیں؟ اس کی آخری حد اللہ کی راہ میں صف آرائی اور اس کے معاصی کو مٹانا ہے۔ جب ہم عام سپاہیوں کو اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ وہ خود آپس میں متحد ہو کر اہل کفر کے مختلف فرقوں کے قلع قمع کے لیے جنگ کریں تو اسی طرح اہل فساد کی بیخ کنی بھی عام افراد کے لیے جائز ہونی چاہیے۔ مختصر یہ کہ احتساب کے سلسلے میں معاملہ کا اس حد تک پہنچنا شاذ و نادر ہی ہے، لیکن اس سے قیاس کو بدلا نہیں جا سکتا۔

ا۔ ایضاً علوم الدین: ۲/ ۳۶۱

امام غزالیؒ کی اس رائے سے پوری طرح اتفاق کرنا دشوار ہے۔ اگر کسی ریاست کے شہری ایک دوسرے کے خلاف طاقت کو اس وسیع پیمانے پر استعمال کرنے لگیں جس کی امام موصوف نے اجازت دی ہے تو امن وامان بھی باقی نہیں رہ سکتا، بلکہ ایسا انتشار پھیلے گا کہ خود حکومت بھی اس پر قابو نہیں پاسکے گی۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تغییر منکر کے لیے جب ایک فرد دوسرے فرد کو قتل کرسکتا ہے تو اسی مقصد کے لیے کسی جماعت کو دوسری جماعت کے خلاف ہتھیار اٹھانے کی اجازت کیوں نہیں ہے؟

اس سوال کو حل کرنے کے لیے ہمیں دو باتوں کو پیش نظر رکھنا ہوگا:

پہلی بات یہ کہ جیسا کہ ابھی عرض کیا گیا امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے سلسلے میں کوئی بھی فرد کسی شخص کے قتل کا اقدام اسی وقت کرسکتا ہے جب کہ اس سے کسی فتنے کے پیدا ہونے کا خطرہ نہ ہو۔ اگر فتنے کا خطرہ موجود ہو تو یہ اجازت ختم ہو جائے گی اور اس کے لیے اقدامِ قتل نا جائز ہوگا۔

یہاں اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ جماعت کا معاملہ افراد کے معاملے سے مختلف ہے۔ تغییر منکر کے لیے اگر ایک فرد دوسرے فرد کے خلاف قوت کا استعمال کرتا ہے تو اس میں فتنہ کا اتنا خطرہ نہیں ہے جتنا کہ ایک جماعت کے دوسری جماعت کے خلاف ہتھیار اٹھانے میں ہے۔ ایک زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ افراد کے معاملے میں فتنہ و فساد کا خطرہ اگر ایک درجہ کا ہے تو جماعتوں کے معاملے میں یہ بڑھ کر سودرجہ ہو جاتا ہے۔ اس لیے جماعتوں کو بینوالاقراد پر قیاس کرنا صحیح نہیں ہے۔

دوسری بات یہ کہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے سلسلے میں بلاشبہ افراد کو وقت ضرورت کسی کی جان لینے کی بھی اجازت ہے، لیکن یہ اجازت بہت ہی ناگزیر حالات میں دی گئی ہے۔ ورنہ عام حالات میں تو علماء نے صاف الفاظ میں لکھا ہے کہ اس کام میں جہاں جنگ اور قتال کی نوبت آئے وہاں اسے حکومت کے حوالے کر دینا چاہیے۔ ذیل میں دو تین علماء کی تصریحات پیش کی جارہی ہیں:

اگر کوئی فرد تغییر منکر کے لیے ہتھیار اٹھائے تو ابن عربی مالکی اس کی مخالفت کرتے ہیں، الا یہ کہ منکر کی نوعیت ایسی ہو کہ اس کے خلاف ہتھیار اٹھانا ضروری ہوجائے، اور نہ اٹھانے میں کسی بڑے منکر کے وجود میں آنے کا اندیشہ ہو۔ مثال کے طور پر کوئی شخص کسی کی جان لینے کے درپے ہو تو اس کو بچانے کے لیے ظالم کا مقابلہ کیا جائے۔ اس طرح کے مخصوص حالات سے ہٹ کر عام حالات میں ان کا فتویٰ یہ ہے کہ:

فان لم یقدر الا بمقاتلة وسلاح فلیرکه و ذلک انما ھو الی السلطان لأن شهر السلاح بین الناس قد یکون مخرجا الی الفتنة و ان لا الى الفساد اكثر من الأمر بالمعروف و النهی عن المنکر

اگر کوئی شخص تغییر منکر پر سوائے جنگ کرنے اور ہتھیار اٹھانے کے کسی دوسری صورت سے قادر نہ ہوسکے تو اس کو ترک کردے، کیوں کہ یہ اس کا کام نہیں، بلکہ حاکم کا کام ہے۔ اس کی وجہ یہ کہ عام لوگوں کے درمیان ہتھیار کا استعمال بعض اوقات فتنہ کا سبب بن جاتا ہے اور اس کے نتیجے میں ایسا فساد پیدا ہوتا ہے جو امر بالمعروف نہی عن المنکر کے فائدے کے مقابلے میں بہت بڑا ہوتا ہے۔

ا۔ احکام القرآن: ۳/ ۳۷۰

امام الحرمینؒ فرماتے ہیں:

یسوغ لآحاد الرعية ان یصد مرتكب الكبيرة ان لم ینفع دفعه و یقتله و ارت بات کے بعد کی مزاحمت کرے اور اسے اس سے روکے، اگر وہ نصیحت اور بات چیت کے بعد بھی یہ معاملہ صورت نہ پائے، لیکن یہ اجازت اسی وقت ہے جبکہ نوبت دونوں کے درمیان جنگ کی نہ آجائے۔ فان انتهى الأمر الى ذلک ربط الامر بالسلطان

اسلامی سلطنت کی رعایا میں ہر فرد کے لیے جائز ہے کہ وہ معصیت کبیرہ کا ارتکاب کرنے والے کی مزاحمت کرے اور اسے اس سے روکے، اگر اس کا روکنا مؤثر نہ ہو اور بات قتل تک پہنچ جائے۔ لیکن یہ اجازت اسی وقت ہے جبکہ نوبت دونوں کے درمیان جنگ کی نہ آجائے۔ اگر معاملہ اس حد کو پہنچ جائے تو وہ حاکم سے متعلق ہوجائے گا۔

۲. شرح مسلم للنووی، المجلد الاول، الجزء ۳، ص ۲۳

علامہ جلال الدین شامیؒ لکھتے ہیں:

الإنكار الذي بالقتال، فالإمام و خلفاؤه أولى لأنهم أعلم بالسياسة و معهم عدتها

جنگ کے ذریعہ نہی عن المنکر کا حق امام اور اس کے خلفاء کو ہے (نہ کہ عوام کو)، کیوں کہ وہ سیاست سے زیادہ واقف ہیں اور ان کے پاس اس کا سارا سامان بھی ہوتا ہے۔

ا۔ الكشاف عن حقائق التنزيل: ١/ ۴۶۰

امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے سلسلے میں جب افراد کے لیے بھی، اگر اندیشہ فساد نہ ہو تو ہتھیار اٹھانے کی اجازت دی گئی ہے تو جماعتوں کے لیے اس کی اجازت کیوں نہیں ہوسکتی؟ ہاں جس طرح ناگزیر حالات میں افراد کو قوت کے ذریعہ تغییر منکر کا حق ہے اسی طرح یہ حق جماعتوں کو بھی دیا جاسکتا ہے۔ مثال کے طور پر ڈاکوؤں کا کوئی گروہ کسی گاؤں پر حملہ کردے تو اس گاؤں کے سب ہی لوگوں کی ذمے داری ہے کہ اس کا مقابلہ کریں اور بھگانے کی کوشش کریں، بلکہ اگر ضرورت پڑے تو انہیں اس کی بھی اجازت ہے کہ ڈاکوؤں کو ختم کردیں۔

ان تفصیلات کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ منکر کا ارتکاب کرنے والے گروہ کے خلاف کوئی جماعت اس وقت ہتھیار اٹھا سکتی ہے جب کہ وہ:

  1. اس کام کو حکومت کے حوالے کرنے کی پوزیشن میں نہ ہو۔
  2. اس سے کسی فتنہ و فساد اور امن وامان کے بگڑنے کا اندیشہ نہ ہو۔
  3. ہتھیار نہ اٹھانے میں کسی بڑے منکر کے وجود میں آنے کا ڈر ہو۔

اس کے باوجود اس طرح کے ہر اقدام کی حیثیت ایک استثناء کی ہوگی۔ عام حالات میں صحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ کسی بھی جماعت کو امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے لیے کسی فرد یا گروہ کے خلاف طاقت کے استعمال کی اجازت نہیں ہے۔

حدود و آداب

مسلمانوں کی اصلاح و تربیت اور ان کو معروف کا حکم دینا اور منکر سے منع کرنا جتنا اہم کام ہے، اس میں اتنی نزاکت بھی ہے۔ اس کے خاص حدود و آداب ہیں۔ ان کی رعایت کے بغیر اس کا ٹھیک ٹھیک انجام دینا بہت دشوار ہے، بلکہ ان حدود کو توڑنے اور ان آداب کو نظر انداز کرنے کے بعد اس کا بھی امکان ہے کہ معروف کو قائم کرنے کی فکر میں منکر کا ارتکاب ہونے لگے اور تغییر منکر کی کوشش میں معروف مٹنے لگے۔ ذیل میں ان حدود و آداب کو کسی قدر تفصیل سے پیش کرنے کی کوشش ہوگی۔

امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فرق

امر بالمعروف و نہی عن المنکر میں اصلاح کوئی فرق نہیں ہے۔ معروف کا حکم دینا حقیقت میں منکر سے روکنا ہے اور منکر سے روکنا معروف کا حکم دینا۔ لیکن اگر ان اصطلاحات کے محض الفاظ پر غور کیا جائے تو ان میں فرق ضرور محسوس ہوتا ہے۔ اس فرق کو ہم اس طرح تعبیر کرسکتے ہیں کہ امر بالمعروف مثبت کام ہے اور نہی عن المنکر منفی کام۔ مثال کے طور پر مسلمانوں کی اصلاح، تربیت، ان کی تعلیم و تربیت، عبادات دین میں ان کی ہدایت و راہ نمائی، ان کے ساتھ لطف ومحبت کا سلوک، مشکلات میں ان کی دست گیری اور تعاون، یہ اور اس نوعیت کے تمام کام امر بالمعروف کے تحت آتے ہیں۔

نہی عن المنکر یہ ہے کہ مسلمانوں کو ان تمام عقائد و اعمال سے بچانے کی کوشش کی جائے جو دنیا و آخرت میں ان کے لیے ضرر رساں ہیں۔

امر بالمعروف کا وجوب اور استحباب

امر بالمعروف ہو یا نہی عن المنکر، ان میں سے ہر ایک کے بارے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کسی مسلمان پر کب وہ واجب ہوتا ہے اور کب اس کی حیثیت محض جواز اور استحباب کی رہ جاتی ہے۔ امر بالمعروف کے بارے میں علماء نے لکھا ہے:

الامر بالمعروف تابع للمامور به، فان کان واجبا فالامر به واجب، وان کان مندوبا فمندوب

امر بالمعروف (کا وجوب و عدم وجوب) اس چیز کے تابع ہے جس کا حکم دیا جا رہا ہے، اگر وہ واجب ہے تو اس کا حکم دینا بھی واجب ہے، اگر وہ مندوب ہے تو اس کا حکم دینا بھی مندوب ہے۔

یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری ہے، وہ یہ کہ بعض لوگ منکر اور معصیت کو ایک سمجھتے ہیں، لیکن ان دونوں میں فرق ہے۔ امام غزالیؒ نے اس فرق کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ فرماتے ہیں:

”منکر“ کا مفہوم بہت وسیع ہے، اس میں جو وہ معصیت ہے وہ معصیت کے لفظ میں نہیں ہے۔ منکر ہر ناپسندیدہ عمل کو کہا جائے گا، قطع نظر اس سے کہ وہ کسی مکلف سے صادر ہوا ہے یا غیر مکلف ہے۔ لیکن معصیت کا اطلاق کسی عمل پر اس وقت ہوگا جب کہ اس کا ارتکاب کرنے والا شریعت کی نظر میں مکلف قرار پائے۔ فرض کیجئے، کوئی بچہ شراب پی رہا ہے تو وہ قطعاً معصیت کا ارتکاب نہیں کر رہا ہے، کیوں کہ اس پر اس کا کوئی گناہ نہیں ہے۔ لیکن اس کے باوجود وہ منکر کا مرتکب ہے، اس لیے اس سے منع کرنا ضروری ہے۔ یہاں یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ وہ کوئی پاگل ہے یا کوئی بالکل صورت ہے یا کسی جانور سے زنا کرلے تو اس سے بھی منع کیا جائے گا۔ اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ اس عمل کی یہت ناپسندیدہ ہے اور وہ کھلے عام ہو رہا ہے، بلکہ فی نفسہ اس کا وقوع ناپسندیدہ ہے۔ اس لیے اگر وہ تنہائی میں ہوتا بھی اس سے منع کرنا ضروری ہے۔ اسی طرح نہی عن المنکر کے سلسلے میں چھوٹے اور بڑے منکر کے درمیان بھی فرق کیا جائے گا، بلکہ ہر ایک منکر سے منع کیا جائے گا۔ رہا بہت بڑا منکر ہے اس کے مقابلے میں اجتماعی صورت کو دیکھنا اور تنہائی میں اسے بات چیت کرنا چھوٹا منکر ہے لیکن اس کے باوجود دونوں سے منع کرنا ضروری ہے۔“ (احیاء علوم الدین: ۲/ ۳۵۳)

۲. سیارق الانوار شرح مشارق الانوار: ۱/ ۵۰

نهى عن المنكر كا وجوب اور استحباب

نہي عن المنکر کے بارے میں علامہ ابو السعود کہتے ہیں:

اما النهى عن المنكر فواجب كلفة فان جميع ما انكره الشرع حرام،

رہا نہی عن المنکر تو وہ واجب ہے، کیونکہ وہ تمام چیزیں جنہیں شریعت نے ناپسند کیا ہے، حرام ہیں۔

ا. اعلام المعلى بشرح القواعد المثلى لابن اللحام الكتاب المكروه ۲/۴۵۹

علامہ موصوف کا یہ خیال درست نہیں ہے، صحیح بات یہ ہے کہ امر بالمعروف و نهی عن المنکر دونوں کا ایک حکم ہے۔ جس طرح معروف کے مختلف درجات ہیں اور ان ہی درجات کے لحاظ سے معروف کا حکم دینا فرض یا مستحب قرار پاتا ہے، اسی طرح منکر کے بھی مختلف مراتب ہیں اور ان ہی مراتب کی بنیاد پر نہی عن المنکر کے وجوب اور عدم وجوب کا فیصلہ ہوتا ہے۔ اسی بات کو علامہ قاری نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:

اذا كان المنكر حراما فانه حينئذ وجب الزجر عنه اذ لو كان مكروها لم يجب بل يندب، و كذا الأمر بالمعروف تبع لما يؤمر به فان وجب فواجب وان ندب فمندوب"

اگر منکر حرام ہے تو اس پر زجر و توبیخ واجب ہے، لیکن اگر وہ مکروہ ہے تو زجر و توبیخ واجب نہیں، مندوب ہے۔ اسی طرح امر بالمعروف بھی اس چیز کے تابع ہے جس کا حکم دیا جاتا ہے، اگر وہ واجب ہے تو امر بالمعروف واجب ہوگا اور اگر مندوب ہے تو امر بالفروع بھی مندوب ہوگا۔

۲. العين المعين لفهم الاربعين، ص ۱۸۹

عدم تجسس

شریعت نے تجسس سے منع کیا ہے، اس لیے کسی کی برائیوں کی ٹوہ میں رہنا صحیح نہیں ہے۔ قرآن میں ہے:

وَ لَا تَجَسَّسُوْا (الحجرات:۱۲)

ایک دوسرے کے بھید کو نہ ٹٹولو۔

رسول اکرم ﷺ کا ارشاد ہے:

ان الامير اذا ابتغى الريبة فى الناس افسد هم

جب امیر لوگوں میں شکوک تلاش کرے (یعنی شک کی بنیاد پر ان سے بدگمانی کرے) تو ان کو بگاڑ دے گا۔

ا ابوداؤد، کتاب الادب، باب في التجسس

ایک دوسری روایت میں ہے:

انك ان اتبعْتَ عورات الناس افسدتهم"

اگر تم لوگوں کے عیوب کا پیچھا کرو گے تو ان کو خراب کر دو گے۔

ابوداؤد، کتاب الادب، باب في التجسس و رواه البيهقي في شعب الايمان، مشكوة المصابيح، كتاب الامارة والقضاء

منکر پر گرفت کا حق کسی کو اس وقت حاصل ہوتا ہے، جب کہ کوئی فرد علانیہ کھلم کھلا برائی کا ارتکاب کر رہا ہو۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے کہا گیا کہ فلاں شخص کی داڑھی سے شراب ٹپک رہی ہے تو انہوں نے جواب دیا:

انا قد نهينا عن التجسس ولکن ان يظهر لنا شيء نأخذ به"

ہم کو تجسس سے منع کیا گیا ہے، ہاں اگر کوئی ہمارے سامنے آئے تو ہم اس پر گرفت کریں گے۔

ابوداؤد، کتاب الادب، باب في التجسس

شریعت کا حکم ہے کہ کسی سے معصیت کا صدور ہو جائے تو اس کا اعلان نہ کرتا پھرے، بلکہ اس کو چھپادے، تاکہ پورے ماحول میں اس کے چرچے نہ ہوں اور برائی جن حدود میں ہے ان سے آگے نہ پھیلے۔ چناں چہ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے:

من أصاب من هذه القاذورات شيئا فليستتر بستر الله فإنه من يُبْدِ لنا صفحته نقسم عليه كتاب الله

جو شخص ان گندی چیزوں میں سے کسی گندگی میں ملوث ہوجائے تو اللہ نے اس پر جو پردہ ڈال رکھا ہے اسے ڈالے رہے۔ کیوں کہ اگر کوئی شخص اپنے جرم کو ہمارے سامنے ظاہر کرے گا تو ہم اللہ کا قانون اس پر نافذ کریں گے۔

موطا امام مالک، کتاب الحدود، باب ماجاء في من اعترف علی نفسه بالزنا

اس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص اپنے جرم کو چھپا رہا ہے وہ شریعت کی ہدایت پر عمل کر رہا ہے اور جو اسے نمایاں کرے اور کھولنے کی فکر میں ہے وہ ایک دوسری برائی کا ارتکاب کر رہا ہے۔ اسی لیے علماء نے لکھا ہے کہ امر بالمعروف و نهی عن المنکر کی غرض سے یہ جاننے کی کوشش کرنا کہ لوگوں کی پرائیویٹ صحبتوں میں کیا ہو رہا ہے، صحیح نہیں ہے۔ اسی طرح کسی کی معصیت کی تلاش میں اس کے مکان میں اچانک گھس پڑنا، یا باڑ سے تاک جھانک کرنا، یا اس کے ہم سایوں سے معلومات حاصل کرنا غلط ہے۔ کیوں کہ اگر کوئی ایسے مواقع پر بھی کسی ایسے مکان میں کوئی غلط کام کر بھی رہا ہے تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کے لیے جواب دہ ہوگا۔ جب تک اس کی معصیت گھر کی چہار دیواری میں محصور ہے کسی کو اس سے تعرض کرنے کا حق نہیں ہے۔ اس سلسلے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ایک واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ انھوں نے ایک مرتبہ ایک مکان میں جھانک کر دیکھا تو صاحب مکان کوئی منکر کا ارتکاب کرتے پایا۔ حضرت عمرؓ نے اس پر تنقید کی تو اس نے جواب دیا: امیر المؤمنین! میں نے تو اللہ کی ایک نافرمانی کی تھی اور آپ نے اس کی تین نافرمانیاں کی ہیں۔ حضرت عمرؓ نے پوچھا۔ وہ کیسے؟ اس نے جواب دیا: ”اللہ کا حکم ہے کہ تجسس نہ کرو، آپ نے تجسس کیا۔ اللہ کا حکم ہے کہ گھروں میں ان کے دروازوں سے داخل ہو اور آپ نے چھت سے جھانک کر دیکھا۔ اسی طرح اس کا فرمان ہے کہ کسی کے گھر میں اس وقت تک داخل نہ ہو جب تک کہ اس سے اجازت نہ حاصل کرلو اور سلام کر کے داخل ہو، آپ بغیر اجازت داخل بھی ہوئے اور سلام بھی نہیں کیا۔“ اس کا یہ جواب سن کر حضرت عمرؓ نے اسے چھوڑ دیا اور توبہ کا حکم دیا۔

۱. احیاء علوم الدین: ۲/ ۳۵۲، ۳۵۳

اگر منکر کی علامات بہت ہی واضح ہوں، اس کی ایک مثال یہ ہو سکتی ہے کہ کسی مکان سے گانے بجانے کی آواز آ رہی ہے۔ یا شرابنوش کا شور و غل سنائی دے رہا ہے، اس صورت میں بھی علامہ ابن القیم الجوزیہ کہتے ہیں کہ مکان میں داخل نہیں ہونا چاہیے، بلکہ باہر سے اس پر نکیر کرنا چاہیے۔ کیوں کہ ایک برائی تو صاف ظاہر ہو چکی ہے اور اندر جانے میں جو برائیاں چھپی ہوئی ہیں ان کے بھی سامنے آنے کا امکان ہے۔ نہی عن المنکر کے لیے پوشیدہ خرابیوں کا اظہار و اعلان صحیح نہیں ہے۔

ا. الاحكام السلطانية، ص: ۲۳۴

امام غزالیؒ کو اس سے اختلاف ہے۔ ان کے نزدیک مذکورہ بالا صورت میں گھر میں داخل ہونے اور لہو ولعب کے سامان کو توڑنے اور شراب کے بہا دینے کی اجازت ہے۔ اسی سلسلے میں مزید وہ فرماتے ہیں کہ کسی کسی کے کپڑوں کی تلاشی لینا کہ کہیں اس میں شراب کی بوتل یا گانے بجانے کا سامان تو نہیں ہے، ناجائز ہے، خواہ وہ شخص فاسق ہی کیوں نہ ہو۔ لیکن اگر کوئی شخص کھلے بازار میں ستار یا شراب اس طرح لیے جا رہا ہے کہ پیلا سا کپڑا اس پر پڑا ہوا ہے اور وہ پوشیدہ ہونے کے باوجود نمایاں ہے تو نہی عن المنکر کا فرض انجام دینا چاہیے۔

۲. احياء علوم الدين: ۲/ ۳۵۴

اس معاملے میں امام غزالیؒ ہی کی رائے زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ کسی کی نجی زندگی میں مداخلت صحیح نہیں ہے، لیکن جب کوئی عمل اپنی واضح علامات کے ذریعے مخفی نہ رہے اور عوام کے علم و اطلاع میں آجائے تو اس پر اقدام کرنا ضروری ہے، ورنہ تنفیر منکر کا فرض پوری طرح ادا نہ ہو سکے گا اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے نظام کے باوجود بہت سے منکرات پرورش پاتے رہیں گے۔

اگر منکر کی نوعیت ایسی ہو کہ بعد میں اس کی تلافی ممکن نہ ہو تو علامہ ماوردی تجسس، چھان بین اور فوری اقدام کی اجازت دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر کوئی قابل اعتماد آدمی یہ اطلاع دے کہ ایک شخص زنا کرانے جا رہا ہے یا فلاں آدمی فلاں آدمی کو قتل کرنے کے ارادے سے آبادی سے باہر لیے جا رہا ہے۔ تو یہ ایسی صورت ہے کہ اس میں غفلت نہیں کی جا سکتی، کیوں کہ اس میں زنا، عصمت دری اور خون ناحق کا اندیشہ ہے۔

۳. الاحكام السلطانية، ص: ۲۳۴

اس سے معلوم ہوا کہ عدم تجسس امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے سلسلے کی ایک اہم شرط ہے۔ البتہ بعض ناگزیر حالات میں تجسس کی بھی اجازت ہے۔ امام غزالی فرماتے ہیں:

و قد أمرنا بأن نستر ما ستر الله و ننكر على من أبدى لنا صفحته

ہم کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ جس چیز کو اللہ نے پوشیدہ رکھا ہے اسے پوشیدگی رکھیں اور جو شخص ہمارے سامنے اپنے جرم کا اظہار کرے اس پر نکیر کریں۔

ا. احياء علوم الدين: ۲/ ۳۵۲

اسی سلسلے میں مزید فرماتے ہیں:

معنى التجسس طلب الأمارات المعرفة فالأمارة المعرفة ان حصلت وأورثت المعرفة جاز العمل بمقتضاها، فاما طلب الأمارة المعرفة فلا رخصة فيه اصلا

تجسس کے معنی ہیں علم عطا کرنے والی علامات کی تلاش۔ اگر یہ علامات خود بخود حاصل ہوں اور ان سے (منکر کا) علم ہوجائے تو اس کے مطابق عمل کرنا جائز ہے، لیکن ان علامتوں کو تلاش کرنے کی قطعاً اجازت نہیں ہے۔

۲. ایضاً: ۲/ ۳۵۲

امام غزالیؓ کے ان الفاظ کو اس باب میں قاعدہ کلیہ کی حیثیت دی جا سکتی ہے۔

غیر اختلافی منکرات پر احتساب

صرف اسی منکر پر احتساب ہو جس کا منکر ہونا غیر اختلافی اور متفق علیہ ہو۔ اجتہادی امور میں احتساب کرنا صحیح نہیں ہے۔ امام غزالی احتساب کے شرائط میں سے ایک شرط یہ بیان کرتے ہیں:

ان يكون منكراً معلوما بغير اجتهاد، فكل ما هو محل الاجتهاد فلا حسبة

پس منکر ہونا اجتہاد کے بغیر معلوم ہو۔ ہر وہ چیز جس کے لیے اجتہاد کی ضرورت پڑے اس پر احتساب نہیں ہوگا۔

ا. احياء علوم الدین: ۲/ ۳۵۴-۳۵۳

اس سلسلے میں امام موصوف نے جو کچھ لکھا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے:

"کوئی حنفی کسی شافعی پر اس لیے تنقید نہیں کر سکتا کہ وہ امام شافعی کی پیروی کر رہا ہے اور نہ کسی شافعی کو یہ حق ہے کہ وہ حنفی پر اس لیے احتساب کرے کہ وہ امام ابو حنیفہؓ کا اتباع کر رہا ہے۔ ہاں اگر کوئی شخص اپنے مسلک ہی کے خلاف عمل کر رہا ہو تو اس پر اس پہلو سے احتساب کیا جاسکتا ہے کہ اس نے اپنی تسلیم شدہ فقہ کی خلاف ورزی کی۔ اس نوعیت کے احتساب کا حق ہر شخص کو حاصل ہے خواہ وہ خود اس مسلک پر عمل کر رہا ہو یا نہ کر رہا ہو۔ کیوں کہ کسی مقلد کے لیے یہ بات صحیح نہیں ہے کہ وہ وقت ضرورت محض سہولت کی خاطر اپنے امام کی پیروی چھوڑ دے اور دوسرے امام کی تقلید شروع کردے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص مجتہد ہے اور وہ اپنے اجتہاد کے خلاف عمل کر رہا ہے تو اس پر بھی احتساب کیا جائے گا۔ کیوں کہ مجتہد کو اپنے اجتہاد ہی پر عمل کرنا چاہیے، اپنے اجتہاد کو چھوڑ کر دوسرے کے اجتہاد پر عمل کرنا اس کے لیے صحیح نہیں ہے۔"

جو شخص حکومت کی طرف سے امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے فرض پر مامور ہو اس کے بارے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اختلافی امور میں کیا وہ دوسروں کو اپنی رائے اور اجتہاد پر عمل کے لیے مجبور کر سکتا ہے یا نہیں؟ اس معاملے میں اس کی حیثیت احتساب کرنے والے عام افراد ہی کی ہے یا اس سے مختلف؟ علامہ ابو الحسن ماوردی کہتے ہیں کہ شافعی فقہاء نے اس سلسلے میں دونوں طرح کی رائیں ظاہر کی ہیں۔ بعض لوگوں نے کہا ہے کہ وہ اپنی رائے اور اجتہاد پر عمل کے لیے دوسروں کو مجبور کر سکتا ہے، لیکن بعض دوسرے اصحاب کی رائے ہے کہ اختلافی امور میں اجتہاد کرنے کا حق سب کو حاصل ہے اس لیے احتساب کرنے والا اپنے اجتہاد پر دوسروں کو مجبور نہیں کرسکتا

۲. الاحکام السلطانیۃ، ص: ۲۳۱-۲۳۰

ہمارے خیال میں بھی دوسری رائے زیادہ صحیح اور معقول ہے۔ اجتہادی امور میں ایک سے زیادہ رائے کی گنجائش شریعت نے دی ہے۔ ان میں سے جس رائے کو جو شخص صحیح سمجھے اس پر خود تو عمل کر سکتا ہے، لیکن دوسروں کو مجبور نہیں کر سکتا۔ اس طرح کے معاملات میں کسی ایک رائے کو دوسروں پر مسلط کرنے کے یہ معنی ہوں گے کہ شریعت نے ان میں جو وسعت اور گنجائش رکھی ہے وہ ختم ہوجائے اور افراد غیر ضروری تنگی میں مبتلا ہوجائیں۔ علامہ قاری نے اس سلسلے میں بہت ہی معقول اور روح شریعت کے قریب تر بات کہی ہے۔ فرماتے ہیں:

لا انكار في المختلف فيه بناء على ان كل مجتهد مصيب او كونه مصيبا غير متعين لنا مع ان الامم موضوع عنه و عمن تبعه،

اختلافی امور میں احتساب نہیں ہوگا، اس بنیاد پر کہ ہر مجتہد راہ راست پر ہے، یا یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ راہ راست پر تو ایک ہی ہے، لیکن غلطی کرنے والا ہمارے لیے غیر متعین ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی ہے کہ گمراہ اس سے اور اس کی اجتماع کرنے والوں سے ساتھ ہے۔

اسی سلسلے میں مزید لکھتے ہیں:

ليس له على الأصح ان يحمل الناس على مذهبه، سواء كان مجتهدا او مقلدا، فلم يزل الخلاف بين الصحابة والتابعين،

زیادہ صحیح قول یہ ہے کہ محتسب کو اس کا حق نہیں کہ لوگوں کو اپنے مسلک پر مجبور کرے، خواہ وہ مجتہد ہو یا مقلد، (بلکہ ان کو اپنے اپنے مسلک پر عمل کرنے دے، اس لیے کہ) صحابہ اور تابعین کے درمیان بھی اختلاف رہا ہے۔

۱. العین المعین لفهم الاربعین، ص ۱۹۰

بدعت پر احتساب ضروری ہے

اجتہاد کا تعلق شریعت کے تفصیلی احکام سے ہے۔ اصول دین اور اساسات شرع میں اجتہاد کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص دین کے بنیادی عقائد ہی کو چیلنج کرے تو اسے اجتہادی معاملے کہہ کر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، بلکہ اس پر لازماً احتساب کرنا ہوگا۔ اس طرح کے اصولی اور بنیادی اختلاف کو امام غزالی بدعت سے تعبیر کرتے ہیں اور ان کے بارے میں فرماتے ہیں:

البدع كلها ينبغي ان تهدم ابوابها و ينكر على المبتدعين بدعهم و ان اعتقدوا انها الحق"

تمام بدعتوں کے دروازوں کو بند کرنا اور بدعتیوں کی بدعت پر نکیر کرنا چاہیے، خواہ وہ ان کے حق ہونے ہی کا عقیدہ رکھتے ہوں۔

مخالف شرع کتابوں کا احتساب

امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں کہ کسی ایسی کتاب کا لکھنا جو قرآن و سنت کے مخالف ہو اور اسے مسلمانوں کے درمیان پھیلایا جائے صحیح نہیں ہے۔ اس طرح کی جو کتابیں تصنیف ہوں، شریعت کی طرف سے اجازت ہے کہ ان کو مٹایا اور تلف کر دیا جائے۔

الكتب المتضمنة لمخالفة السنة غير مأذون فيها بل مأذون في محقها و اتلافها وما على الامة اضر منها

ایسی کتابیں جو سنت کی مخالفت پر مشتمل ہوں ان کا کوئی جواز نہیں ہے، بلکہ ان کو مٹانے اور ان کے تلف کرنے کی اجازت ہے۔ کیوں کہ امت کے لیے ان سے زیادہ نقصان دہ کوئی چیز نہیں ہے۔

اسی سے آگے وہ فرماتے ہیں:

الكتب المشتملة على الكذب و البدعة يجب إتلافها و إعدامها، وهى أولى بذلك من إتلاف آلات اللهو والمعازف و اتلاف آنية الخمر، فان ضررها أعظم من هذه

وہ کتابیں جو جھوٹ اور بدعت پر مشتمل ہوں ان کا تلف کرنا اور مٹانا ضروری ہے۔ وہ اس کی زیادہ مستحق ہیں اس کے مقابلے میں کہ لہو و لعب اور گانے بجانے کے آلات اور شراب کے برتن تلف کیے جائیں، کیوں کہ ان کا نقصان ان سب چیزوں سے زیادہ ہے۔

Sources cited in the text:

ا. احیاء علوم الدین: ۲/ ۳۵۵

۲. الطرق الحكمية في السياسة الشرعية، ص ۲۵۴

۳. حوالي سابق

مزید فرماتے ہیں کہ ان کتابوں کو تلف کرنے سے کوئی تاوان واجب نہیں ہوتا:

لا ضمان في تحريق الكتب المضلة و اتلافها!

گم راہ کن کتابوں کے جلانے اور تلف کرنے پر کوئی تاوان نہیں ہے۔

Source cited in the text:

ا. الطرق الحكمية في السياسة الشرعية، ص ۲۵۴

آج کل فکر و آزادی کا جو تصور ہے اس کے لحاظ سے کتابوں کے بارے میں یہ رویہ سخت متضاد معلوم ہوگا، لیکن امت مسلمہ کے مفاد کے پہلو سے اس پر غور کیا جائے تو اسے غلط نہیں قرار دیا جاسکتا۔ امت مسلمہ ایک متحد الفکر گروہ کا نام ہے۔ اسلام اس امت سے جو کام لینا چاہتا ہے وہ اتحاد کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اس لیے وہ نہیں چاہتا کہ اس کا فکری اتحاد ختم ہو اور وہ کسی ذہنی ارتداد اور انتشار فکر میں گرفتار ہوجائے۔ کیوں کہ جب تک امت کو اپنے فلسفیانہ حیات پر پختہ یقین نہ ہو اور اس کی فکری بنیادیں مستحکم نہ ہوں، علم و فن میں وہ مخالف قوتوں کا مقابلہ نہیں کر سکتی، بلکہ تاریخ کا تجربہ ہے کہ جب بھی اس کا اساسی فکر متزلزل ہوا، غیر اسلامی فلسفوں نے اس کو اپنے اندر جذب کرنا شروع کر دیا اور وہ امت جس میں اللہ اور رسول کے داعی پیدا ہوئے تھے، کفر و الحاد کے علم بردار پیدا ہونے لگے۔

جو کتابیں قرآن و سنت سے ٹکرارہی ہوں ان کے بارے میں سخت رویہ اختیار کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ امت کے اندر جب بھی فکری اختلاف رونما ہو، تو اسے انتہا پسندی اور تقییم کے بجائے سختی سے ختم کر دیا جائے، بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ امت کو اپنے دین و ایمان پر ثابت قدم رکھنے کی کوشش کی جائے، تاکہ اس میں اپنے اصول و نظریات سے بغاوت نہ پیدا ہونے پائے۔ اس میں اس بات کی ممانعت نہیں ہے کہ فکر کا مقابلہ فکر سے کیا جائے اور علمی و فکری مباحث کا اسی رنگ میں جواب دیا جائے۔ جو کتابیں قرآن و سنت کے خلاف ہوں ان کے بارے میں امام ابن تیمیہ کے نقطہ نظر کا ابھی ذکر آچکا ہے، وہ بھی ان کی علمی تردید کو نہ صرف مباح، بلکہ حسب ضرورت مستحب اور واجب قرار دیتے ہیں:

اما كتب ابطال الآراء والمذاهب المخالفة لهما فلا بأس بها و قد تكون واجبة و مستحبة و مباحة بحسب اقتضاء حال!

ایسی کتابیں جو کتاب و سنت کے مخالف مذاہب و آراء کے ابطال میں ہوں تو ان میں کوئی حرج نہیں ہے۔ وہ کبھی واجب، کبھی مستحب اور کبھی مباح، حالات کے تقاضے کے تحت ہوتی ہیں۔

Source cited in the text:

ا. الطرق الحكمية في السياسة الشرعية، ص ۲۵۶

رشته داروں کا احتساب

رشتہ داروں کو معروف کا حکم دینا اور منکر سے روکنا ضروری بھی ہے اور اہم بھی، لیکن اس کے کچھ حدود و آداب ہیں۔ ان حدود کی رعایت کے بغیر یہ فرض جس طریقے سے انجام نہیں پاسکتا۔ یہاں صرف والدین اور اولاد اور میاں اور بیوی کے درمیان امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے حدود و آداب بیان کیے جارہے ہیں، کیوں کہ ان رشتوں میں جو نزدیکی پائی جاتی ہے وہ دوسرے رشتوں میں نہیں ہے۔

نابالغ اولاد کا احتساب

اولاد دو طرح کی ہوتی ہے۔ ایک بالغ اولاد اور دوسری نابالغ اولاد۔ شریعت نے ان دونوں میں فرق کیا ہے۔ ان پر والدین کے امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی نوعیت ایک دوسرے سے کسی قدر مختلف ہے۔

نابالغ اولاد کو معروف کا حکم دینے اور منکر سے منع کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ان کو صحیح تعلیم و تربیت دی جائے اور ان کو اس قابل بنایا جائے کہ ہوش سنبھالنے کے بعد وہ اسلام کے مطابق اپنی زندگی بسر کریں۔ حدیثوں میں بچوں کی تعلیم و تربیت کی بڑی فضیلت بیان ہوتی ہے۔ رسول اکرم ﷺ فرماتے ہیں:

لأن يؤدب الرجل ولده خير من ان يتصدق بصاع!

آدمی اپنے بچے کو ایک ادب سکھائے یہ اس سے بہتر ہے کہ ایک صاع صدقہ کرے۔

ایک دوسری حدیث میں ہے:

ما نحل والد ولدا من نحل أفضل من أدب حسن۔

کسی باپ نے اپنے بچّے کو اچھے ادب سے بہتر کوئی عطیہ نہیں دیا۔

Sources cited in the text:

ا. ترمذی، ابواب البر والصلة، باب ماجاء فى أدب الولد

۲. حوالہ سابق

بچوں کی تعلیم و تربیت محض کاروبار نہیں ہے، بلکہ یہ والدین کی شرعی ذمّہ داری ہے۔ اس ذمّے داری سے سبکدوش ہونے کے لیے شریعت نے ان کو وقت ضرورت اولاد کی تعزیر کا بھی حق دیا ہے۔ چناں چہ ایک حدیث میں ہے:

مروا اولادكم بالصلوة وهم ابناء سبع سنین و اضربوهم عليها وهم ابناء عشر!

اپنی اولاد کو نماز کا حکم دو جب کہ وہ سات سال کے ہوں اور جب وہ دس سال کے ہو جائیں تو نماز سے غفلت اور کوتاہی پر ان کو مارو۔

Source cited in the text:

۴. مرقاة شرح المشكاة، كتاب الصلاة باب متى يؤمر الغلام بالصلوة

حدیث میں صرف نماز کے سلسلے میں تنبیہ کا ذکر ہے، لیکن یہ حکم روزے کا بھی ہے کہ والدین پر اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت فرض ہے، اس لیے فقہاء نے لکھا ہے کہ وہ ان کو قرآن کے پڑھنے، علم دین حاصل کرنے اور اسلامی آداب سیکھنے پر مجبور کر سکتے ہیں۔

Source cited in the text:

۵. رد المحتار على الدرالمختار: ٣٦١/٢

بچوں کا سرپرست باپ ہے، اس لیے ان کی تعلیم و تربیت کی ذمّہ داری اصلاً اسی پر عائد ہوتی ہے، لیکن ماں کو بھی اس معاملے میں ایک طرح کی سرپرستی حاصل ہے۔ حضرت مریم کی والدہ نے دعا کی تھی:

رب اني نذرت لك ما في بطني محررا فتقبل منى انك انت السميع العليم (آل عمران: ٣٥)

اے میرے رب میں اس بچے کو جو میرے پیٹ میں ہے دنیا کے تمام کاموں سے آزاد کر کے تیری نذر کرتی ہوں، تو میری یہ نذر قبول فرما۔ یقیناً تو سننے والا اور جاننے والا ہے۔

Source cited in the text:

٦. البحر الرائق شرح كنز الدقائق: ٩٥/٥

علامہ ابوبکر جساس اس واقعہ کے ذکر کے بعد کہتے ہیں:

يدل على ان للام ضربا من الولاية على الولد في تأديبه و تعليمه و امساکه و تربيته، لولاً انها تملك ذلك لما نذرته في ولدها!

اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ بچّے کی تعلیم، تادیب، اسے وقف کرنے اور تربیت کے معاملے میں ماں کو بھی ایک طرح کی سرپرستی حاصل ہے، اگر وہ اس کی حق دار نہ ہوتیں تو اپنے بچّے کے سلسلے میں اس کی نذر نہ مانتیں۔

Source cited in the text:

ا. احكام القرآن: ١٣/٢

اس لیے جس طرح باپ بچے کی تادیب اور تعزیر کا حق رکھتا ہے، اسی طرح ماں کو بھی یہ حق حاصل ہے۔

بالغ اولاد کا احتساب

کم سن اور نابالغ اولاد کی تادیب اور تعزیر کا والدین کو حق ہے، لیکن جب اولاد بالغ ہو جائے تو والدین کا یہ حق باقی نہیں رہتا، کیوں کہ بالغ اولاد کی حیثیت ایک طرح سے اجنبی کی ہو جاتی ہے۔ چناں چہ ابن عابدین کہتے ہیں:

اما الكبير فكالاجنبی!

لڑکا جو بڑا ہو جائے تو اجنبی کی مانند ہے۔

Source cited in the text:

۲. رد المحتار على الدر المختار : ٣/ ٣٦١

لیکن بعض لوگوں نے لکھا ہے کہ بچے کے بالغ ہونے کے بعد بھی والدین کو اس کی تادیب کا حق ہے۔ چناں چہ البحر الرائق میں ہے:

ذكر الاسبیجانی ان للاب ان يؤدب ولده البالغ اذا وقع منه شیء!

اسبیجانی نے بیان کیا ہے کہ باپ کو اپنی بالغ اولاد کی تادیب کا حق ہے، اگر اس سے کوئی غلط حرکت سرزد ہو۔

Source cited in the text:

۴. البحر الرائق: ٤٣/٥

ان دونوں باتوں میں بظاہر تضاد ہے، لیکن حقیقت میں تضاد نہیں ہے، اس کو سمجھنے کے لیے آپ کو نابالغ اور بالغ اولاد کے درمیان فرق کی اس نوعیت کو سامنے رکھنا ہوگا، جو شریعت نے قائم کی ہے۔ وہ یہ کہ نابالغ اولاد غیر مکلّف اور والدین کے تابع ہوتی ہے، اس کے برعکس بالغ اولاد اپنی ایک آزاد اور مستقل حیثیت رکھتی ہے اور اپنے تمام اقوال و افعال کی شرعاً مکلف اور ذمّے دار ہے۔ اس لیے اصولی طور پر یہ بات بالکل صحیح ہے کہ اولاد جب تک نابالغ اور والدین کے تابع ہے، اس کی تادیب کا والدین کو حق بھی ہے، لیکن جب اولاد عاقل و بالغ ہو جائے اور والدین کی تابع نہ رہے تو اس کی تادیب کا حق بھی والدین کو نہیں ہے۔ اس اصولی حقیقت کو ماننے کے بعد عملی نقطہ نظر سے اگر آپ اس مسئلے پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ ہر بچہ بالغ ہوتے ہی تمام ذمّے داریوں کے اٹھانے کے قابل نہیں ہو جاتا، بلکہ بعض اوقات وہ والدین کی سرپرستی اور تعاون کا مزید ایک عرصے تک محتاج رہتا ہے۔ مثال کے طور پر کوئی باپ عاقل و بالغ اور صاحب الرائے لڑکے کو اپنے ساتھ رہنے پر مجبور نہیں کرسکتا، لیکن اگر لڑکے کے اخلاق و عادات کی طرف سے اطمینان نہ ہو تو باپ کو حق ہے کہ اسے کسی الگ مکان میں رہنے کی اجازت نہ دے اور اپنے ساتھ رکھے، تنبیہ ہی نہیں، بلکہ ان حالات میں وہ وقت ضرورت اس کی تادیب بھی کر سکتا ہے۔ چناں چہ مختار میں ہے:

والغلام اذا عقل واستغنى برأيه ليس للأب ضمه الى نفسه الا اذا لم يكن مأموناً على نفسه فله ضمه لدفع فتنة او عار و تادیبه اذ وقع منه شىء۔!

لڑکا جب سوجھ بوجھ والا اور صاحب الرائے ہو جائے اور دوسروں کی رائے کا محتاج نہ رہے تو باپ کو اسے اپنے ساتھ رکھنے کا حق نہیں ہے، الا یہ کہ اس کے بارے میں اطمینان نہ ہو تو فتنہ یا شرمندگی کے بچنے کے لیے باپ اس کو اپنے ساتھ رکھ سکتا ہے اور اگر اس سے کوئی غلط حرکت سرزد ہو تو باپ کو اس کی تادیب کا بھی حق ہے۔

Source cited in the text:

۲. الدر المختار شرح تنویر الابصار : ٨٨٣/٤

جن حالات میں باپ کو یہ حق ہے کہ لڑکے کو بالغ ہونے کے باوجود اپنے ساتھ رکھے، علامہ ابن عابدین کہتے ہیں کہ ان حالات میں باپ نہ ہو تو لڑکے کا جو بھی سرپرست ہو اسے یہ حق ملنا چاہیے، کیوں کہ یہ سب سے بڑی مصلحت اور دفع منکر ہے اور شریعت نے ان دونوں کا حکم دیا ہے:

والظاهر ان داود بھی باپ ہی کی طرح، بلکہ دادا و غیره من العصابات كالاج و العم......فان دفع المنكر واجب على كل من قدر عليه لاسيما من يلحقه عاره وذلك ايضا من أعظم صلة الرحم والشرع امر بصلحتها و يدفع المنكر ما امكن!

اور ظاہر یہ ہے کہ دادا بھی باپ ہی کی طرح، بلکہ دادا کے علاوہ دوسرے عصبات جیسے بھائی اور چچا بھی اسی حکم میں ہیں... کیوں کہ منکر کا دفع کرنا ہر اس شخص پر واجب ہے جو اس کی قدرت رکھتا ہو، خاص طور پر اس شخص کے لیے جس کو اس کی وجہ سے شرمندگی لاحق ہوتی ہو، علاوہ ازیں یہ بہت بڑی مصلحت ہے اور شریعت نے مصلحت اور امکان کی حد تک دفع منکر کا حکم دیا ہے۔

Source cited in the text:

ا. رد المحتار : ٨٨٣/٤/٣

جس طرح بعض حالات میں والدین کو بالغ اولاد کی تعزیر کا حق ہے اسی طرح بعض حالات میں ان پر کچھ ذمّہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں۔ اس کی ایک مثال یہاں پیش کی جا رہی ہے۔ لڑکے کے بالغ اور کسب پر قادر ہونے کے بعد باپ پر اس کی معاشی ذمّہ داری عائد نہیں ہوتی، لیکن لڑکا اگر اس وجہ سے کمانے کی پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ علم دین حاصل کر رہا ہے تو باپ کے لیے اس کا خرچ برداشت کرنا ضروری ہے۔

Source cited in the text:

البحر الرائق : ٤٣/٥

اولاد کو فتنہ میں پڑنے سے بچانا بھی عین مصلحت ہے تو اس کی تعلیم میں مدد دینا امر بالمعروف ہے، گویا اولاد کے بالغ ہونے کے باوجود والدین کو وقت ضرورت ان پر امر بالمعروف بھی کرنا پڑتا ہے اور نہی عن المنکر بھی۔

والدین کا احتساب

اولاد کے لیے ماں باپ پر امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فرض انجام دینا بہت نازک کام ہے اور اس میں بڑی احتیاط کی ضرورت ہے۔ اگر کسی کے والدین نااہلیت کی بنا پر ترک معروف یا ارتکاب منکر کر رہے ہوں تو اس کی ذمّہ داری ہے ان کو احکام شریعت بتائے اور نصیحت کرے۔ اس سے آگے ڈانٹ ڈپٹ یا زد وکوب یا قتل تو اس کی قطعا اجازت نہیں ہے۔ چناں چہ ایک حدیث میں ہے:

ولا تقتل لهما اف و لا تنهرهما وقل لهما قولاً کريماً (بنی اسرائیل: ٢٣)!

انہیں اف تک نہ کہو، انہیں جھڑ کو نہیں اور ان سے ادب و احترام سے بات کرو۔

Source cited in the text:

ا. ترمذی، ابواب البروالصلة، باب ما جاء في البر بلفعل الحديث ۹ د الاداب لا

والدین کا اولاد پر یہاں تک حق ہے کہ اگر وہ اولاد کو قتل بھی کردیں تو ان سے قصاص نہیں لیا جائے گا:

لا يقتل الوالد لولده!

اولاد کے عوض باپ کو قتل نہیں کیا جائے گا۔

Source cited in the text:

۲. الهداية مع شرح العناية على هامش فتح القدير : ٧٨٠/٨

اسی طرح خود لڑکا بھی باپ سے قصاص نہیں لے سکتا۔ مثال کے طور پر کوئی شخص اپنے لڑکے کی ماں کو قتل کردے تو قصاص لینے کا حق لڑکے سے خود بخود ساقط ہو جائے گا۔

Source cited in the text:

۳. صحیح البخاری: ۲۶١/٣، ٢٦٣ ، البحر الرائق شرح كنز الدقائق: ٥٨/٤

کافر ماں باپ جنگ میں اگر اولاد کے سامنے آجائیں تو حکم ہے کہ اولاد انہیں اپنے ہاتھ سے قتل کرنے سے حتی الوسع بچے، الا یہ کہ وہ اس پر حملہ آور ہوں اور اسے اپنی جان بچانے کے لیے اقدام قتل کرنا پڑے ۔

فقہاء نے یہ بھی لکھا ہے کہ اگر والدین پر حد واجب ہو جائے تو اولاد ان پر حد نہیں جاری کرے گی۔

Source cited in the text:

۴. التشريع الجنائي الاسلامي : ٥٠٩/١

اس طرح کی تفصیلات پیش کرنے کے بعد امام غزالی فرماتے ہیں:

فاذا لم يجز له ايذاءه بعقوبة هي حق عليه جنابة سابقة فلا يحوز له ايذاءه بعقوبة هي منع من جنابة مستقبلة متوقعة بل اولى!

جب لڑکے کے لیے باپ کو ایک ایسی سزا کے ذریعے تکلیف دینا جائز نہیں ہے جو اس کے سابق جرم کی وجہ سے اس پر واجب ہوتی ہے تو اس کے لیے ایک ایسے جرم پر باپ کو سزا دینا، جو آئندہ ہونے والا ہے، بلکہ اور اولی ناجائز ہوگا۔

Source cited in the text:

ا. احیاء علوم الدین : ٣٤٦/٢

علامہ ابن عابدین نے فصول العلائی کے حوالے سے لکھا ہے کہ آدمی اپنے ماں باپ کو منکر کا ارتکاب کرتے دیکھے تو ایک مرتبہ انہیں منع کرے اگر وہ باز آجائیں تو ٹھیک ہے، لیکن یہ بھی ان کو ناگوار گزرے تو خاموش ہو جائے اور دعا کرتا رہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت دے اور ان کی غلطیوں سے درگزر فرمائے ۔

Source cited in the text:

۲. رد المحتار على الدر المختار : ٣٦١/٢

بعض لوگوں نے کہا ہے کہ والدین اگر کسی منکر کا ارتکاب کر رہے ہوں تو ان کو ہاتھ لگائے بغیر اس منکر کو مٹا دینا چاہیے جس کا وہ ارتکاب کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر شراب پی رہے ہوں تو ان سے تعرض نہ کیا جائے اور شراب بہادی جائے ۔

بیوی کا احتساب

اب آیئے اس سوال پر غور کیا جائے کہ شوہر کے بیوی کو امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے کیا حدود ہیں؟ اور بیوی کن حدود میں شوہر پر یہ فرض انجام دے سکتی ہے؟ قرآن میں ہے:

الرجال قوامون على النساء (النساء: ۳۴)

مرد عورتوں پر قوّام ہیں۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام نے خاندان کا جو نظام مقرر کیا ہے اس میں شوہر قوّام ہے اور بیوی اس کی تابع اور فرماں بردار۔ شوہر کے قوّام ہونے کا تقاضا محض یہ نہیں ہے کہ وہ بیوی کا معاشی بوجھ اٹھائے اور گھر کے انتظامی معاملات کی نگرانی کرتا رہے، بلکہ یہ بھی ہے کہ شوہر بیوی کے دین و دنیا کی فلاح کی سعی کرے اور اس کے اخلاق و سیرت میں جو خامیاں ہوں ان کی اس طرح اصلاح کرے جس طرح کوئی سرپرست اپنے چھوٹے کی خامیوں کی اصلاح کرتا ہے۔ علامہ ابن کثیر قوّام کی تشریح میں فرماتے ہیں:

الرجل قيم على المرأة، و هو رئيسها و كبيرها و الحاكم عليها ومؤدبها اذا اعوجت!

مرد عورت پر قیم ہے۔ یعنی وہ اس کا سردار، اس کا بزرگ، اس پر حکومت کرنے والا اور جب وہ راہ راست سے منحرف ہو جائے تو اس کی تادیب کرنے والا ہے۔

Source cited in the text:

ا. تفسیر ابن کثیر: ٣٤/٢

جصاص کہتے ہیں:

تضمن قوله الرجال قوامون على النساء قيامهم عليهن بالتأديب و التدبير و الحفظ والصيانة!

مرد عورتوں پر قوّام ہیں اللہ تعالیٰ کے اس قول میں مردوں کا اپنی عورتوں کی تادیب، ان کا انتظام اور ان کی حفاظت و نگرانی کرنا بھی شامل ہے۔

Source cited in the text:

٢. احكام القرآن: ٢٧٠/٢/٣

امر بالمعروف و نہی عن المنکر فرض کفایہ ہے، لیکن اگر کوئی خاص شخص ہی کسی کے ترک معروف یا ارتکاب منکر سے واقف ہو اور وہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی قدرت بھی رکھتا ہو تو یہ کام اس کے لیے فرض کفایہ نہیں، بلکہ فرض عین ہو جاتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ کوئی بھی شخص اپنے بیوی بچوں کی خامیوں سے جس قدر واقف ہو سکتا ہے، اتنی واقفیت کسی دوسرے کے لیے ممکن نہیں ہے۔ اور پھر ان کی اصلاح کی طاقت اور حقوق بھی شرعاً اسے حاصل ہیں۔ ان دونوں باتوں کو سامنے رکھ کر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ آدمی کے لیے اپنے بیوی بچوں کی اصلاح ان بے شمار معاملات میں فرض عین ہو جائے گی، جن سے دوسرے نہ تو واقف ہو سکتے ہیں اور نہ اصلاح کر سکتے ہیں۔ امام نووی امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے موضوع پر بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

ثم انه قد يتعين كما اذا كان في موضع لا يعلم الا هو او لا يتمكن من ازالته الا هو، و کمن يرى زوجته او ولده او غلامه على منكر او تقصير في المعروف!

امر بالمعروف و نہی عن المنکر بعض حالات میں فرض عین ہو جاتا ہے۔ جیسے آدمی کسی ایسی جگہ ہو کہ منکر کے ارتکاب سے صرف وہی واقف ہو یا اس کا ازالہ صرف وہی کر سکتا ہو۔ مثلاً جو شخص اپنی بیوی یا اپنی اولاد یا اپنے غلام کو منکر کا ارتکاب کرتے دیکھے یا معروف میں کوتاہی کرتے دیکھے (تو اس پر امر بالمعروف و نہی عن المنکر واجب ہے)

Source cited in the text:

ا. شرح مسلم: الجلد الاول، الجزء ٦٠، ص ٢٠

عورت اگر شوہر کے حقوق ادا کرنے اور اس کے حکم کی خلاف ورزی کرے تو شوہر کو اس کی تعزیر کا حق ہے۔ چناں چہ قرآن میں ہے:

و التي تخافون نشوزهن فعظوهن واہجروهن في المضاجع و واضربوهن (النساء: ٣٤)

جن عورتوں کی سرکشی کا تمہیں ڈر ہو انہیں سمجھاؤ، خواب گاہوں میں ان سے الگ رہو اور انہیں مارو۔

شریعت نے بیوی کی تعزیر کا شوہر کو جو حق دیا ہے اس سے وہ بیوی کو معروف پر عمل کرانے اور منکر سے باز رکھنے میں مدد لے سکتا ہے۔ لیکن یہاں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اس حق کے استعمال کے کچھ حدود ہیں۔ ان ہی حدود میں شوہر بیوی کی تعزیر کا مجاز ہے:

  1. شوہر کو اس وقت بیوی کی تعزیر کا حق ہے جب کہ وہ بغیر کسی عذر شرعی کے اس کی جنسی خواہش پوری کرنے سے انکار کر دے یا اس کی حکم عدولی کرے اور اس کے مقابلے میں ترش روئی اختیار کرے۔ مثال کے طور پر اس کے ساتھ بد زبانی اور جھگڑا کرے۔ اس کی داڑھی نوچے، اس کے کپڑے پھاڑ دے، اس کے حکم اور استطاعت کے باوجود جائز زینت ترک کردے، اس کی مرضی کے خلاف گھر کا ساز و سامان کسی کو دے دے وغیرہ۔ یا اس سے کوئی غیر اخلاقی حرکت سرزد ہو، جیسے وہ کسی کو گالی دے، اجنبیوں کے سامنے اپنا چہرہ کھول دے، یا ان سے بات چیت کرے، شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے نکل جائے۔ وغیرہ۔
  2. Source cited in the text:

    ا. بدائع الصنائع مع الشرح الدلائل: ٣٨/٢، ٣٩

  3. عورت اگر اپنے نان ونفقہ کے لیے اصرار اور تقاضا کر رہی ہے تو شوہر اسے سزا نہیں دے سکتا، کیوں کہ یہ اس کا حق ہے اور اپنے حق کے لیے وہ اصرار کر سکتی ہے۔
  4. Source cited in the text:

    ۲. البحر الرائق شرح كنز الدقائق: ٩٥/٥

  5. شوہر ناحق اور بلا وجہ بیوی کو مار پیٹ کرے تو خود شوہر کی تعزیر کی جائے گی ۔
  6. Source cited in the text:

    ۳. حوالہ سابق

  7. تعزیر صرف ان ہی منکرات کے ارتکاب پر ہوتی ہے جن کے ارتکاب پر شریعت نے کوئی حد مقرر نہیں کی ہے۔ جن منکرات کے ارتکاب پر شریعت نے حد مقرر کردی ہے ان پر حد جاری ہوگی، تعزیر نہیں ہوگی۔ یہ طے شدہ ہے کہ حد جاری کرنا عوام کا کام نہیں، بلکہ حکام کا فرض ہے۔ اس لیے شوہر صرف ان ہی منکرات کے ارتکاب پر عورت کی تعزیر کر سکتا ہے جن میں شریعت نے کوئی حد مقرر نہیں کی ہے۔ علامہ کاشانی کہتے ہیں:
  8. اذا ارتكبت معصية سوى النشوز ليس فيه حد مقدر فللزوج ان يؤدبها تعزيراً لها لان للزوج ان يعزر زوجته كما للمولى ان يعزر مملوكه!

    عورت شوہر کی نافرمانی کے علاوہ (بھی) کسی ایسی معصیت کا ارتکاب کرے جس پر کوئی حد نہیں ہے تو شوہر کو بطور تعزیر اس کی تادیب کی اجازت ہے۔ کیوں کہ شوہر کو اپنی بیوی کی تعزیر کا اسی طرح حق ہے جس طرح آقا اپنے غلام کی تعزیر کا۔

    Source cited in the text:

    ا. بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع : ۲۳/۴/۲

  9. بیوی کی تعزیر کی ایک حد ہے، جسے حدیث میں ضرباً غیر مبرحا (ایسی مار جو سخت نہ ہو) کہا گیا ہے۔ اس حد سے آگے بڑھنا شوہر کے لیے ناجائز ہے ضرباً غیر مبرح کی تشریح میں عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں: مسواک یا اسی جیسی کسی چیز سے مارنا۔ ایک دوسری روایت میں فرماتے ہیں کہ ایسی ضرب نہیں جس سے اس کی ہڈی ٹوٹ جائے۔ قتادہ کہتے ہیں: ایسی ضرب جس سے اس کے جسم میں کوئی عیب نہ پیدا ہو۔
  10. Sources cited in the text:

    ۲. مسلم کتاب الحج باب حجة النبی ﷺ

    ۳. صحیح الجامع البیان فى تفسير القرآن (ابن جرير): ٥/٥، ٥/٥

    اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو بری طرح مار پیٹ دے تو خود اس کی تعزیر کی جائے گی:

    ادعت على زوجها ضربا فاحشا وثبت ذلك عليه عزر!

    اگر عورت اپنے شوہر کے خلاف بری طرح مار پیٹ کا دعویٰ کرے اور یہ ثابت ہو جائے تو اس کی تعزیر کی جائے گی۔

    Source cited in the text:

    ۴. تنوير الابصار : ٣٦٣/٣

    فقہاء احناف نے یہ بھی لکھا ہے کہ تعزیر کی وجہ سے عورت کی جان چلی جائے تو شوہر پر دیت واجب ہوگی ۔

    Source cited in the text:

    ه. هداية مع فتح القدير : ٣٧٨/٣

  11. بیوی اگر شوہر کے حقوق ادا نہیں کر رہی ہے تو شوہر کو اسے نصیحت کرنا چاہیے اور اگر نصیحت کارگر نہ ہو تو قرآن کی ہدایت ہے کہ وہ اپنا بستر اس کے بستر سے الگ کرلے۔ اگر اس سے بھی راہ راست پر نہ آئے تو شوہر اس کی تعزیر کر سکتا ہے۔ بیوی کی نافرمانی کے ساتھ پہلے ہی قدم پر اس کی تعزیر کا شوہر کو حق نہیں ہے۔
  12. Source cited in the text:

    لا. بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع: ۴/ ۲۴۳

  13. بعض فقہاء کا خیال ہے کہ عورت کی تعزیر اسی وقت صحیح ہے جب کہ اس سے اس کی اصلاح کی توقع ہو ۔ اگر اصلاح کی توقع نہ ہو یا شوہر یہ سمجھتا ہو کہ بغیر سخت قسم کی سزا کے اس کی اصلاح نہیں ہو سکتی تو تعزیر کی اجازت نہیں ہے۔ ان دونوں صورتوں میں تعزیر شوہر کی زیادتی سمجھی جائے گی ۔
  14. Source cited in the text:

    ا۔ البحر الرائق الکتابی الاسلامی: ۱/۵۱۶، ۵۱۷

امر بالمعروف و نہی عن المنکر بہت وسیع کام ہے۔ اس میں پوری زندگی کی اصلاح شامل ہے ۔ عقیدہ و عبادات کی بھی اور اخلاق و معاملات کی بھی۔ اس کے مقابلہ میں شریعت نے شوہر کو بیوی کی تعزیر کا جو حق دیا ہے وہ محدود ہے۔ اس سے وہ چند خاص شعبوں ہی میں بیوی کی اصلاح کر سکتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ بیوی اگر اس حد تک بگڑ جائے کہ وہ نہ صرف شوہر کو تکلیف دے اور اس کے حقوق ادا نہ کرے ، بلکہ حقوق اللہ کو بھی نظر انداز کر جائے اور احکام شرع کی خلاف ورزی کرنے لگے تو شوہر کو کیا کرنا چاہیے؟ اس کا مختصر سا جواب یہ ہے کہ ایسی بیوی کو طلاق دے دینا چاہیے۔ کیوں کہ بے دین بیوی کے ساتھ زندگی گزارنے سے کہیں بہتر ہے کہ اس سے علیحدگی کو اختیار کر لی جائے ۔ چناں چہ البحر الرائق میں العنایۃ کے حوالے سے لکھا ہے:

يستحب طلاقها اذا كانت مليطة مؤذیہ اور تارکۃ للصلوٰۃ لا تقيم حدود الله تعالى:!

اس کا طلاق دینا پسندیدہ ہے جب کہ وہ ہنگامہ کرتی اور تکلیف دیتی ہو، نماز چھوڑ دے اور حدود اللہ کو قائم نہ کرے۔

Source cited in the text:

٢۔ البحر الرائق شرح کنز الدقائق: ۲۲/۴

علامہ ابن عابدین نے اس پر اتنا اضافہ کیا ہے:

الظاهر ان ترک الفرائض غير الصلوة كالصلوة!

بظاہر نماز کے علاوہ دوسرے فرائض کا چھوڑنا بھی نماز ہی کے چھوڑنے کے مانند ہے۔

Source cited in the text:

٣۔ رد المحتار علی الدر المختار: ۴۷۵/۳

حضرت عبد اللہ بن مسعود کہتے ہیں کہ "اللہ تعالیٰ سے میرا اس حال میں ملنا کہ بیوی کا امر میرے ذمہ ہو، اس سے بہتر ہے کہ میں ایسی عورت کے ساتھ زندگی گزاروں جو نماز نہ پڑھتی ہو !"

Source cited in the text:

ا۔ رد المحتار على الدر المختار: ۵/ ۲۷۱۔ یہاں اس بات کا ذکر بھی مناسب ہوگا کہ فقہاء احناف کے نزدیک راجح قول یہ ہے کہ نماز کے چھوڑنے پر شوہر بیوی کی تعزیر بھی کر سکتا ہے۔ دیکھئے البحر الرائق: ۴۹/۵

شوہر کا احتساب

عورت شوہر کی تابع اور محکوم ہے۔ بقول امام غزالی شوہر کے مقابلہ میں بیوی کی حیثیت ایسی ہے جیسی کہ باپ کے مقابلہ میں بچے کی ۔ اس لیے شوہر نادانستہ کسی منکر کا ارتکاب کرے تو بیوی اسے شریعت کا حکم بتائے گی اور جانتے بوجھتے وہ منکر کا ارتکاب کر رہا ہو تو اسے نصیحت کرے گی، اس سے آگے ڈانٹ ڈپٹ یا مار پیٹ کا اس کو حق نہیں ہے۔

Source cited in the text:

۲. احیاء علوم الدین: ۲۹/۲-۲۹۳

اوصاف

امر بالمعروف و نہی عن المنکر کچھ خاص قسم کے اوصاف چاہتا ہے ۔ جس شخص میں یہ اوصاف ہوں وہ اس فرض کو ٹھیک ٹھیک اپنے تمام حدود و شرائط کے ساتھ انجام دے سکتا ہے اور جو ان اوصاف سے خالی ہو اس کے لیے اس فرض کا حق ادا کرنا ممکن نہیں ہے۔ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے لیے جو اوصاف مطلوب ہیں ان میں سے بعض کا ذکر گزشتہ مباحث میں ضمناً آچکا ہے۔ یہاں مزید چند اہم صفات کا ذکر کیا جارہا ہے۔

نماز

بندہ مومن دنیا میں معروف کا قائم کرنے والا اور منکر کا مٹانے والا ہے۔ اللہ اور اس کے رسولؐ نے انسان کو جس بات کا بھی حکم دیا ہے وہ معروف ہے اور جس چیز سے بھی منع کیا ہے وہ منکر ہے۔ یہ دو لفظ پورے دین کا احاطہ کرتے ہیں۔ امر بالمعروف و نہی عن المنکر حقیقت میں اقامت دین کا دوسرا نام ہے۔ اتنا بڑا کام وہی لوگ انجام دے سکتے ہیں جن کی زندگیاں برائی سے پاک ہوں اور جو اپنے اوپر معروف کو قائم کر چکے ہوں۔ جو شخص خود منکر میں آلودہ ہو وہ دوسروں کو اس سے کیا روک سکتا ہے اور جس کی زندگی میں معروف نہ ہو وہ کس منہ سے دوسروں پر معروف کی تبلیغ کر سکتا ہے؟ دنیا میں انقلاب بے عمل واعظ نہیں لاتے، بلکہ اس کے لیے ایسا کردار لوگ مطلوب ہیں ، جو اپنی بات کے آپ نمونہ ہیں اور جو دوسروں کو کہنے سے پہلے خود عمل کرکے دکھائیں ۔ نماز مومن کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ حسن و خوبی انجام دے سکے، دنیا کو بھلائی کا حکم دے سکے اور برائی سے روک سکے حضرت لقمان علیہ السلام کی نصیحت میں اسی طرف اشارہ کیا گیا ہے:

یا بنی اقم الصلوة وامر بالمعروف وانه عن المنكر و اصبر على ما اصابك إن ذلك من عزم الامور (لقمان:۱۷)

اے میرے بیٹے! نماز قائم کر اور بھلائی کا حکم دے اور برائی سے منع کر اور اس راہ میں جو تکلیف پہنچے اس پر صبر کر۔ یقینا یہ بڑی عزیمت کا کام ہے۔

مفسرین نے لکھا ہے کہ حضرت لقمان علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو اقامت صلوٰۃ کی جو نصیحت کی اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی ذات کی تکمیل کرے، اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو اور اپنے اندر تقویٰ اور انابت کی کیفیت پیدا کرے۔ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی نصیحت کا مطلب یہ ہے کہ وہ دوسروں کو دین کی دعوت دے اور ان کی اصلاح و تربیت کی کوشش کرے۔ یہ دو الگ الگ کام ہیں، لیکن ان کے درمیان بہت گہرا رابطہ ہے۔ نماز کو اصطلاحی معنی میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے لیے شرط نہیں ہے، لیکن اس کے باوجود یہ واقعہ ہے کہ نماز سے آدمی اس قابل ہوتا ہے کہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا بوجھ اٹھا سکے۔ جس شخص کو نماز سے تعلق نہیں ہے اس کے لیے امر بالمعروف و نہی المنکر کی ذمہ داری ادا کرنا اور مستقل ادا کرتے رہنا آسان نہیں ہے۔

Source cited in the text:

ا. ملاحظه ہو کتاب کی بحث وجوب اور انابت۔

حقیقت یہ ہے کہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے لیے جن اعلیٰ صفات اور بہترین خوبیوں کی ضرورت ہے وہ نماز سے پیدا ہوتی ہیں۔ جو شخص دنیا کو عیش و تفریح کی جگہ سمجھ کر اس میں گم ہو جائے، بلکہ اسے ایک امتحان گاہ تصور کرے اور اس طرح زندگی گزارے کہ اسے اپنے ایک ایک عمل کی اللہ تعالیٰ کے حضور جواب دہی کرنی ہے، جو اپنے ہر کام میں آخرت کی کام یابی چاہے اور اس کے لیے اپنی تمام کوششیں صرف کر دے ، جس کی رگ رگ میں اللہ کی یاد اتر جائے اور جو ان تمام کاموں سے کنارہ کش ہو جائے جن میں اللہ تعالیٰ سے غافل انسان دلچسپی لیتے ہیں اور جس کی زندگی فواحش و منکرات سے بالکل پاک ہو، وہی امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے عظیم کام کا حق ادا کر سکتا ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ ان اعلیٰ صفات اور بہترین خوبیوں کا سرچشمہ نماز ہے۔ نماز سے زندگی میں اسلامی نقوش ابھرتے ہیں اور اعلیٰ اخلاقیات کی تعمیر ہوتی ہے۔ نماز سے انسان کو ایسی زندگی ملتی ہے جو فواحش و منکر سے خالی، اللہ کی یاد سے معمور اور بندگی کے جذبہ سے سرشار ہوتی ہے۔ یہی بات قرآن کی اس آیت میں کہی گئی ہے:

اقم الصلوٰۃ إن الصلوٰۃ تنہى عن الفحشاء و المنكر و لذکر اللہ اكبر (العنكبوت:۴۵)

نماز قائم کرو، یقینا نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے اور اللہ کی یاد بہت بڑی چیز ہے۔

اس سے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ جو شخص فحش اور منکر کے خلاف جنگ کرنے اور خیر اور معروف کو پھیلانے کے عزم سے میدان میں آئے اس کے لیے نماز کتنی اہمیت رکھتی ہے۔

صبر

حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے ساتھ صبر کی نصیحت کی ہے۔ یہ اس حقیقت کا اظہار ہے کہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر صبر چاہتا ہے۔ یہ صبر انسان اس کا اہل نہیں ہوتا۔ امام رازی فرماتے ہیں:

من يأمر بالمعروف و ينهى عن المنكر يؤذى فامره بالصبر (لقمان: ۱۷)!

جو شخص معروف کا حکم دے اور منکر سے روکے اسے (لوگوں کی طرف سے) تکلیف پہنچائی جاتی ہے۔ اسی لیے حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو صبر کا حکم دیا۔

Source cited in the text:

ا. مفاتيح الغيب (التفسير الكبير)، المجلد الثامن، الجزء ۲۵، ص ۱۳۱

یہی بات سورۃ عصر میں بیان ہوئی ہے۔ وہاں بھی تواصی بالحق کے ساتھ تواصی بالصبر کا حکم ہے۔ تواصی بالحق یہ ہے کہ اہل ایمان ایک دوسرے کو اللہ کے دین کی نصیحت کریں۔ یہ دین کو ماننے والوں کے درمیان امر بالمعروف و نہی عن المنکر ہے۔ تواصی بالصبر یہ ہے کہ دین پر قائم رہنے اور اسے فروغ کی راہ میں جو بھی تکلیف آئے اسے جھیلنے کی باہم ترغیب دی جاتی رہے۔ اس سے امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے لیے صبر کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔

امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے لیے صبر کی ضرورت اور اہمیت کا اندازہ امام ابن تیمیہؒ کے اس بیان سے کر سکتے ہیں کہ:

امر الله الرسل وهم ائمة الامم بالمعروف والنهي عن المنكر بالصبر!

الله تعالیٰ نے رسولوں کو، جو کہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے معاملہ میں دوسروں کے امام ہیں، صبر کا حکم دیا ہے۔

Source cited in the text:

ا۔ الحسنہ فی الاسلام، ص ۷۱

جب اللہ کے پیغمبروں کو امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے لیے صبر کی ضرورت تھی تو عام افراد بغیر صبر کے اسے کیسے انجام دے سکتے ہیں؟

حقیقت یہ ہے کہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر ایک دشوار عمل ہے۔ یہ آدمی کی بہترین صلاحیتوں کو چیلنج دیتا ہے۔ اس میں قدم قدم پر انسان کی قوت برداشت کا امتحان لیا جاتا ہے اور اسے سخت آزمائش سے گزرنا پڑتا ہے۔ یہ نازک مراحل وہی شخص طے کر سکتا ہے جس میں مصائب کو جھیلنے کی طاقت ہو، جو چوٹ پر چوٹ کھانے کے باوجود دین پر جمنے کی استطاعت رکھتا ہو، جسے شبان وقت کے سامنے کلمہ حق کہنے میں باک نہ ہو، جس کے عزم و حوصلہ کا یہ عالم ہو کہ دنیا کی کوئی بھی طاقت اسے سچائی کے اظہار سے باز نہ رکھ سکے اور جس میں اتنی جرأت اور ہمت ہو کہ بڑے سے بڑے جبار اور ظالم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکے۔ اسی طرح امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ انسان پہلے اپنی خواہشات نفس پر غلبہ پائے اور احکام الٰہی کا تابع ہوجائے ، کیوں کہ جس شخص میں اپنے نفس کی خواہشات پر غلبہ پانے کی صلاحیت نہیں ہے وہ دوسروں کو خواہشات کے اتباع سے کیسے روک سکتا۔ صبر کا وصف ان تمام خوبیوں کا جامع ہے۔ صبر کا وصف ہو تو آدمی اس قابل ہوگا کہ سخت ترین حالات میں بھی امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فرض انجام دے سکے اور مسلسل انجام دیتا رہے لیکن جو شخص اس وصف سے محروم ہے وہ اس کام کو اس کے شایان شان انجام نہیں دے سکتا اور اگر کبھی اس کی ہمت کر بھی گزرے تو ثابت قدم نہیں رہ سکتا۔

عفو و اعراض

قرآن مجید نے عفو، امر بالمعروف اور اعراض کا ایک ساتھ ذکر کیا ہے۔ باری تعالیٰ کا ارشاد ہے:

خذ العفو وامر بالمعروف و اعرض عن الجاهلين (الاعراف : ۱۹۹)

عفوی روش اختیار کرو، معروف کا حکم دو اور جاہلوں سے اعراض کرو۔

اس سے واضح ہے کہ امر بالمعروف سے عفو و اعراض کا بہت گہرا تعلق ہے۔ مفسرین نے آیت کے پہلے ٹکڑے خذ العفو کے تین معنی بیان کیے ہیں: ایک یہ کہ لوگوں کے ساتھ عفو و درگزر کا برتاؤ کیا جائے، دوسرے یہ کہ ان سے ایسے برتاؤ و عمل کی توقع رکھی جائے اور نہ ان کا تقاضا کیا جائے ، بلکہ وہ بغیر کسی زحمت کے جس حد تک عمل کر سکتے ہوں اسے گوارا کیا جائے اور انہیں مشقت میں نہ ڈالا جائے ۔ تیسرے یہ کہ مالی مطالبات میں ان پر سختی نہ کی جائے، بلکہ وہ آسانی سے جو بھی دے سکتے ہوں اسے قبول کر لیا جائے ۔ ظاہر ہے، ان تینوں چیزوں کا تعلق اخلاق سے ہے۔

Source cited in the text:

ا. ملاحظہ ہو روح المعانی، المجلد التاسع، الجزء ۹، ص ۱۳۷

قرآن نے امر بالمعروف کی ہدایت سے پہلے عفوی روش اختیار کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان امر بالمعروف کے قابل اسی وقت ہوتا ہے جب کہ وہ اخلاقی حیثیت سے بہت بلند ہو۔ جو شخص حلم اور بردباری کا پیکر ہو، جو لوگوں کی غلطیوں کو معاف کر دے اور جو ان کی ظلم و زیادتی اور طعن و تضحیک کو برداشت کر ے، اسی کے لیے امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی راہ آسان ہوگی ۔ پست اخلاق اور جذباتی انسان یہ دشوار گزار گھاٹی طے نہیں کرسکتا۔

عفو اور امر بالمعروف کی ہدایت کے بعد قرآن نے اعراض کا حکم دیا ہے۔ یہ ترتیب ظاہر کرتی ہے کہ انتہائی شرارت اور حسن اخلاق کے ساتھ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فرض انجام دینے کے باوجود مخاطب کی طرف سے جہالت کا مظاہرہ ہو تو آدمی کو اس سے اپنا رخ پھیر لینا چاہیے۔ کیوں کہ جاہلوں سے الجھنا اس فرض کی شان سے فروتر ہے جو امر بالمعروف و نہی عن المنکر جیسا عظیم مقصد لے کر انسانوں کے درمیان کھڑا ہو۔ قرآن اس کی مخالفت نہیں کرتا کہ کسی مسئلہ پر معقولیت سے بحث کی جائے، لیکن جہاں بات کو سمجھنے کا جذبہ نہ ہو اور محض کج بحثی اور ہٹ دھرمی سے معقول سے معقول دلیل کو رد کیا جارہا ہو، وہاں اس کی ہدایت یہ ہے کہ آدمی جوابی کارروائی میں اپنا وقت ضائع کرے اور سکوت اختیار کرے۔

عفو اور اعراض کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اگر کوئی شخص اللہ اور رسولؐ سے بغاوت کرے تو اس کے ساتھ مداہنت برتی جائے، یا جن اعمال کی ادائیگی سے کوئی بھی فرد مستثنیٰ نہیں ہے ان میں ڈھیل دی جائے اور جن حقوق کا ادا کرنا ہر ایک کے لیے ضروری ہے ان میں نرمی کی جائے، کیوں کہ اس قسم کے معاملات میں نرمی یا غفلت سے شریعت کا سارا نظام ہی درہم برہم ہو کر رہ جائے گا اور ہر شخص من مانی کرنے لگے گا۔ عفو اور اعراض کا تعلق عام اخلاقیات اور انسانی سلوک سے ہے، حقوق اور واجبات سے نہیں ہے۔ امام رازی رحمۃ اللہ علیہ عفو اور امر بالمعروف کے احکام کی نوعیت سے بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

الحقوق التي تستوفى من الناس تؤخذ منهم اما ان يجوز ادخال المساهلة والمساحة فيها واما ان لايجوز ، اما القسم الأول فهو المراد بقوله خذ العفو ويدخل فيه ترک التشدد في كل ما يتعلق بالحقوق المالية، ويدخل فيه ايضا التخلق مع الناس بالخلق الطيب و ترک الغلظة والفضاضة ...... و من هذا الباب ان يدعو الخلق الى الدين الحق بالرفق و اللطف ...... و اما القسم الثانى و هو الذى لا يجوز دخول المساہلة و المسامحة فيه فالحكم فيه ان يأمر بالمعروف و يعرف العارفة و المعروف هو كل أمرعرف انه لابد من الاتيان به وان وجوده خير من عدمه و ذلك لأن في هذا القسم لو اقتصر على الأخذ بالعفو و لم يأمر بالعرف ولم يكشف عن حقيقة الحال لكان ذلك سعيا في تغيير الدين و ابطال الحق و انه لا يجوز۔!

وہ حقوق جو انسانوں سے حاصل کیے جاتے ہیں ان کی دو قسمیں ہیں: یا تو ان میں ڈھیل دی جاسکتی ہے اور صرف نظر ممکن ہے یا یہ بات ممکن نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمانا کہ ”درگزر کی روش اختیار کرو“ پہلی قسم سے تعلق رکھتا ہے۔ اسی میں یہ بات بھی شامل ہے کہ مالی حقوق میں سختی نہ کی جائے۔ لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق کا برتاؤ کیا جائے اور تحقیر اور درشتی کا سلوک نہ کیا جائے ... اسی کے تحت یہ بات بھی آتی ہے کہ لوگوں کو نرمی اور ملاطفت کے ساتھ دین حق کی دعوت دی جائے ... دوسری قسم وہ ہے جس میں درگزر کرنا اور نظر انداز کرنا صحیح نہیں ہے۔ اس کے بارے میں ”امر بالمعروف“ کا حکم ہے۔ اس سے عارف و معروف پر اس کام کو کہتے ہیں جو اس حیثیت سے جانا پہچانا جائے کہ اس کا ادا کرنا ضروری ہے اور اس کے موجود نہ ہونے سے اس کا موجود ہونا بہتر ہے۔ اگر اس دوسری قسم میں بھی درگزر سے کام لیا جائے، معروف کا حکم نہ دیا جائے اور حقیقت حال کو کھلی نہ جانے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ دین کو بدلنے اور حق کو مٹانے کی کوشش کی جاری ہے۔ ظاہر ہے یہ رویہ صحیح نہیں ہے۔

Source cited in the text:

ا۔ مفاتيح الغيب (التفسير الكبير)، المجلد الثامن، الجزء ۱۵، ص ۹۷

ابن تیمیہؒ اعراض کے بارے میں فرماتے ہیں:

ذلك و ان كان امرا من الله نبيه به فانه تادیب منه عز ذکره لخلقه باحتمال من ظلمهم او اعتدى عليهم لا بالأعراض عمن جهل الواجب عليه من حق الله ولا بالصفح عمن كفر بالله و جهل وحدانيته و هو للمسلمين حرب و هو للمسلمين حرب!

یہ غور اللہ کی طرف سے اپنے نبی کو اعراض کا حکم ہے۔ لیکن اس میں اللہ تعالٰی نے اپنی مخلوق کو تادیب کی ہے کہ اسے وہ برداشت کریں۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جو شخص اللہ کے دینی حق کے مقابلہ میں کسی روشنی کا رویہ اختیار کرے اس سے کہ جو اللہ کے ساتھ کفر اور اس کی وحدانیت کا انکار کرے اس سے درگزر کیا جائے، کیوں کہ ایسا شخص مسلمانوں کا محارب ہے۔

Source cited in the text:

ا. جامع البیان فی تفسیر القرآن: ۶/۹

اخلاص

اخلاص ہر کام کی جان ہے۔ دنیا جن کاموں کو عظیم سمجھتی ہے وہ بھی اللہ کے نزدیک بے وزن ہیں اگر ان سے روح اخلاص نکل جائے۔ اسی لیے امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فرض انجام دیتے وقت آدمی کو اپنی نیت کا بار بار جائزہ لیتے رہنا چاہیے کہ کہیں اس میں کوئی کھوٹ تو نہیں ہے، اس کے اخلاص کو کوئی نقصان تو نہیں پہنچ رہا ہے اور وہ اللہ کی رضا کے علاوہ کوئی دوسری چیز تو نہیں چاہ رہا ہے؟

امر بالمعروف و نہی عن المنکر دین کی خدمت اور انسان کے لیے بہت بڑی سعادت ہے۔ اتنی بڑی سعادت کہ اس کے لیے بڑی سعادت کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ یہ سعادت ان لوگوں کو ملتی ہے جو سراپا اخلاص ہوں اور جو اپنی شخصیت کو رضائے الٰہی کی طلب میں گم کر دیں اور جو آخرت کی کامیابی کے سوا کوئی دوسری چیز نہ چاہتے ہوں۔ لیکن یہ ایک واقعہ ہے کہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے کام میں اخلاص کا باقی رہنا بہت مشکل ہے۔ جب آدمی بڑے بڑے مجمعوں میں حق کی ترجمانی کے لیے کھڑا ہو جب اس کی تحریریں بے شمار انسان پڑھتے ہوں، جب وہ بے خوف ہو کر بالکل حق کو حق اور باطل کو باطل کہہ رہا ہو، جب اس کی خدمت دین، اس کی استقامت اور اس کی قربانیوں کا ہر طرف چرچا ہو اور جب تعریف کرنے والی زبانیں اس کی مدح سرائی میں مصروف ہوں تو اس بات کا سخت خطرہ ہے کہ اس کے اندر شہرت، نام آوری اور ریا کا جذبہ ابھر آئے۔ اس جذبے کے ابھر آنے کے بعد امر بالمعروف و نہی عن المنکر سے خواہ دوسروں کو فائدہ پہنچ جائے، لیکن اس غرض کا انجام دینے والا یقیناً اس کے نفع سے محروم ہی رہے گا۔ بلکہ صحیح بات یہ ہے کہ آدمی میں خلوص اور للّٰہیت نہیں ہے تو وہ اپنی تبلیغ و نصیحت سے دوسروں کو بھی فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔ ملا علی قاری فرماتے ہیں کہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے نتیجہ خیز ہونے اور اس راہ میں اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل ہونے کے لیے ضروری ہے کہ انسان اخلاص کے ساتھ یہ فرض انجام دے رہا ہو۔ چناں چہ ان کے الفاظ ہیں:

من اهم شروط الامر بالمعروف النهي عن المنكر ان يكون صاحبه مخلصاً في فعله طالباً إظهار دين اللہ و إعلاء كلمته و إطاعة أمره في بريته دون الرياء و السمعة و الحمية لنفسه و طبيعته فانما ينصر و يزول به المنكر اذا كان صادقاً و في مقام الاخلاص موافقاً، قال الله تعالي ان تنصروا اللہ ینصرکم و یثبت اقدامکم!

امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی ایک اہم شرط یہ ہے کہ اس کام کا کرنے والا اپنے کام میں مخلص ہو اور اس سے اس کا مقصد یہ ہو کہ اللہ کا دین غالب اور اس کا کلمہ بلند ہو اور اس کی مخلوق اس کے احکام کی تابع ہو جائے، ساتھ ہی اس میں ریا اور شہرت اور اپنے نفس اور مزاج کی حمیت کا جذبہ نہ ہو، اگر وہ اپنے عمل میں سچا ہے اور اخلاص کے مقام پر کھڑا ہے تو یقیناً اس کی مدد ہوگی اور منکر زائل ہوگا۔ اللہ تعالٰی فرماتا ہے کہ تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ بھی تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں ثابت قدم رکھے گا۔

Source cited in the text:

ا. احسن اللقم لاربعین، ص ،۱۹۳ ،۱۹۲۔

جو شخص امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فرض انجام دے اسے اس حقیقت کو نہیں بھولنا چاہیے کہ وہ ایک ایسا مقدس عمل انجام دے رہا ہے جس کے لیے اللہ کے پیغمبروں کی بعثت ہوئی تھی اور آپؐ کے صحابہ کرامؓ نے انجام دیا تھا۔ اس لیے اگر اس کے اندر پیغمبروں اور ان کے ساتھیوں کے اخلاص کی معمولی سی جھلک بھی نہیں ہے تو وہ کسی طرح ان کا جانشین نہیں ہو سکتا۔ اخلاص کے بغیر جو شخص امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فرض انجام دیتا ہے گو بظاہر وہ پیغمبرانہ کام انجام دیتا ہے، لیکن یہ کام اس روح سے خالی ہے جو پیغمبروں کے کام میں ہوتی ہے۔ نظام الدین نیشا پوری امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے بعض حدود و آداب بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں:

كل ذلك ايماناً و احتساباً لا سمعة ولا رياء ولا لغرض من الاغراض النفسانية و الجسمانية، وذلك ان هذه الدعوة منصب النبي و خلفائه الراشدين بعدها!

یہ سب کچھ ایمان کے جذبے اور ثواب کی نیت سے ہو، نہ کہ شہرت، ریا اور نفس و جسم کی کسی غرض کی تکمیل کے لیے، اس لیے کہ یہ دعوت نبی اور آپؐ کے بعد خلفائے راشدین کا منصب ہے۔

Source cited in the text:

ا۔ غرائب القرآن ورغائب الفرقان (علی ہامش ابن جریر): ۱/ ۳۳۲-۳۳۱۔

امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فرض ایک بڑے مقصد کے لیے انجام دیا جاتا ہے، وہ یہ کہ اللہ کی زمین پر اس کا کلمہ بلند ہو اور اس کا دین غالب آئے۔ انسان اللہ کا بندہ بن جائے اور باطل سے نجات پائے۔ یہ بہت ہی مقدس کام ہے، اس میں اگر اخلاص نہیں ہے تو ہو سکتا ہے کہ اس سے انسان کے نفس کی تسکین ہو جائے اور دنیا میں اس کی تعریف ہونے لگے، لیکن اللہ کے ہاں اس کے اجر کی کوئی توقع نہیں کی جاسکتی۔

مآخذ

کتاب میں قرآن مجید کی آیات کے نیز سورتوں کے نام اور آیات کے نمبر دے دئیے گئے ہیں۔ دوسرے مآخذ کے حوالے حواشی میں ہیں۔ وہاں ان کے مصنفین، مطابع اور سنین طباعت کی تفصیل نہیں دی گئی ہے۔ یہاں اس کی تفصیل دی جا رہی ہے، تا کہ مراجعت میں آسانی ہو۔ البتہ حدیث کی جن کتابوں کے حوالے کتب و ابواب کی صراحت کے ساتھ دئیے گئے ہیں ان کے مطابع کے ذکر کی ضرورت نہیں سمجھی گئی۔

۱- قرآن مجید۔
منزل من اللہ
۲- ابن الاثیر: مجد الدین ابو السعادات المبارک ابن محمد بن الجزری
لسان العرب - لغات
الحدیث و الاثر - حدیث
دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان
۳- ابن بدران: محمد القادر ابو المنصفلى الشفقى
المدخل إلى مذهب الامام احمد بن حنبل - اصول فقه
ادارة الطباعة المنيرية، مصر
۴- ابن تیمیة: تقی الدین ابو العباس احمد بن تیمیة الحرانی
مجموعه فتاوی شیخ الاسلام ابن تیمیة - فتاوی
مطبع کردستان العلمیہ، مصر، ۱۳۲۶ھ
۵- ابن تیمیة: تقی الدین ابو العباس احمد بن تیمیة الحرانی
شرح العقیدة الاصفهانية - عقائد
فتاوی کی پانچویں جلد میں شامل ہے
٦- ابن تیمیة: تقی الدین ابو العباس احمد بن تیمیة الحرانی
الوصیة الکبری - عقائد
مجموعة الرسائل الکبری، الجزء الاول میں شامل ہے، مطبعۃ المعایة القاهرة، مصر، ۱۳۴۴ھ
۷- ابن تیمیة: تقی الدین ابو العباس احمد بن تیمیة الحرانی
دار الكتاب العربی، بیروت
۸- ابن تیمیة: تقی الدین ابو العباس احمد بن تیمیة الحرانی
رسالة الحمودية - کلام
الكتب الاسلامي للطباعة والنشر، بیروت، لبنان
۹- ابن جرير: ابو جعفر محمد بن جریر الطبری
جامع البيان في تفسير القرآن - تفسیر
المطبعة الميمنية، مصر، ۱۳۲۳ھ
۱۰- ابن حجر: شہاب الدین ابو الفضل احمد بن علی ابن حجر العسقلانی
فتح الباري - شرح حدیث
المطبعة الخيرية، مصر، ۱۳۲۶ھ
۱۱- ابن حجر: شہاب الدین ابو الفضل احمد بن علی ابن حجر العسقلانی
تهذيب التهذيب - اسماء الرجال
دائرة المعارف العثمانیہ، حیدر آباد، ۱۳۲۵ھ
۱۲- ابن حجر: شہاب الدین ابو الفضل احمد بن علی ابن حجر العسقلانی
لسان المیزان - اسماء الرجال
دائرة المعارف العثمانیہ، حیدر آباد ۱۳۴۰ھ
۱۳- ابن حجر: احمد بن حجر الهيتمی
شرح الاربعین - شرح حدیث
المطبعة العامرة، مصر، ۱۳۲۸ھ
۱۴- ابن حجر: احمد بن حجر الهيتمی
الزواجر عن اقتراف الکبائر - تصوف
دار الکتب العلمیہ، بیروت، لبنان
۱۵- ابن حجر: ابو محمد علی بن احمد
الفصل في الملل و الاهواء و النحل (الجزء الرابع) - مذاهب و فرق
دار الكتب العلمیہ، بیروت، لبنان، ۱۹۹۴ء
۱۶- ابن خلدون: عبدالرحمن بن محمد بن خلدون الحضرمی
مقدمة ابن خلدون - تاریخ
مؤسسة الكتب الثقافیہ، بیروت، لبنان، ۱۹۹۲ء
۱۷- ابن رجب: ابو الفرج عبد الرحمن بن رجب الحنبلی
کشف الکربة في وصف حال اهل الغربة - شرح حدیث
المطبعة العمودیۃ، مصر
۱۸- ابن عابدین: محمد امین ابن عمر عابدین
ردالمختار على الدرالمختار - فقه
المطبعة العثمانیة، مصر، ۱۳۲۴ھ
۱۹- ابن العربی: القاضی محمد بن عبد الله المعروف بابي بکر ابن العربی المالکی
احکام القرآن - احکام القرآن
المطبعة السعادة، مصر، ۱۳۳۱ھ
۲۰- ابن القيم: شمس الدین ابو عبد الله محمد بن ابی بکر
اعلام الموقعين عن رب العالمین - فقه
دار الکتب العلمیة، بیروت لبنان، ۱۹۹۴ء
۲۱۔ ابن کثیر: عماد الدین ابی الفداء اسماعیل بن کثیر الدمشقی
مدارج السالکین بین منازل ایاك نعبد و ایاك نستعین - تصوف
مطبعة المنار، مصر، ۱۳۴۳ھ
۲۲۔ ابن کثیر: عماد الدین ابی الفداء اسماعیل بن کثیر الدمشقی
الفصل في احكام الشريعة - سیاست
۲۳- ابن کثیر: عماد الدین اسماعیل بن كثير القرشی الدمشقی
تفسیر القرآن العظيم - تفسیر
مطبعة الآداب، مصر، ۱۳۲۷ھ، دار الحديث القاهرة، ۲۰۰۲ء
۲۴- ابن ماجة: ابو عبد الله محمد بن یزید بن عبد الله بن ماجة القزويني
سنن ابن ماجة - حدیث
۲۵- ابن ملک: عز الدین عبد اللطیف بن عبد العزیز المعروف بابن الملک
مشارق الانوار في شرح مشارق الانوار - شرح حدیث
مطبعة احمد کامل آفتدى، مصر، ۱۳۴۹ھ
۲۶- ابن نجیم: زین الدین ابراهيم بن نجیم
البحر الرائق شرح کنز الدقائق - فقه
دار الكتب العربیہ الکبریٰ، مصر، ۱۳۴۴ھ
۲۷- ابن الہمام: کمال الدین محمد بن عبد الواحد المعروف بابن الہمام الحنفی
فتح القدیر - فقه
المطبعة الکبریٰ الامیریة مصر، ۱۳۱۵ھ
۲۸- احمد بن حنبل
مسند - حدیث
المطبعة الميمنية، مصر، ۱۳۱۳ھ
۲۹- آلوسی: شہاب الدین محمود الألوسی البغدادی
روح المعاني في تفسير القرآن العظیم و السبع المثانی - تفسیر
دار الكتب العلمیة، بیروت، لبنان، ۱۹۹۴ء
۳۰- آمدی: سیف الدین ابو الحسن علی بن ابی علی بن محمد الآمدی
الاحكام في اصول الاحكام - اصول فقه
مطبعة المعارف، مصر، ۱۳۴۴ھ
۳۱- ابوعلى الفاضی: محمد بن اسمعیل بن صلاح الامیر الکحلانی ثم الصنعانی
سبل السلام شرح شرح بلوغ المرام - حدیث
دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان
۳۲- ابوحبان: اثیر الدین ابو حیان محمد بن یوسف بن علی الاندلسی الاندلسی
البحر المحیط - تفسیر
المطبعة السعادة، مصر، ۱۳۲۸ھ
۳۳- ابو داؤد: سلیمان بن اشعث السجستانی
سنن ابی داؤد - حدیث
۳۴- ابو السعود
ارشاد العقل السلیم الی مزایا الکتاب الکریم - تفسیر
تفسیر کبیر رازی، مطبع المطبعة العامرة مصر، ۱۳۰۸ھ کے حاشیہ پر چھپی ہے۔
۳۵- باجرتی: کمال الدین محمد بن حمود الباجرتی
العناية - فقه
۳۷ ھ کے حاشیہ پر چھپی ہے
۳۶- بخاری: محمد بن اسمعیل البخاری
صحیح البخاری - حدیث
۳۷- بغوی: محمد حسین بن مسعود الفراء البغوی
معالم التنزیل - تفسیر
خازن کے حاشیہ پر چھپی ہے۔ دیکھئے نمبر ۳۹
۳۸- بیضاوی: القاضی ناصر الدین عبد اللہ البیضاوی
انوار التنزیل و اسرار التاویل - تفسیر
دار الکتب العلمیة، بیروت ۱۹۸۸ء
۳۹- ترمذی: ابوعیسیٰ الترمذی
جامع الترمذی - حدیث
۴۰- تفتازانی: سعد الدین عمر التفتازانی
شرح المقاصد - عقائد
عالم الکتب، بیروت
۴۱- جصاص: ابو بکر احمد بن علی الرازی الجصاص الحنفی
احکام القرآن - احکام القرآن
دار الكتب العلمیة، بیروت، لبنان، ۱۹۹۴ء
۴۲- حاکم: ابو عبد اللہ محمد بن عبد اللہ المعروف بالاکم النيسابوری
المستدرك على الصحيحين فی الحدیث - حدیث
دائرة المعارف العثمانیہ حیدر آباد، دکن، ۱۳۴۴ھ
۴۳- حلبی: تقی الدین ابو الفداء اسمعیل المقلب باجی آفندی
روح البیان - تفسیر
دار الطباعة العامرہ، استنبول، ۱۲۸۵ھ
۴۴- خازن: علاء الدین علی ابن محمد بن ابراهیم البغدادی المعروف بالخازن
لباب التاویل فی معانی المنزل (المعروف بالتفسیر الخازن) - تفسیر
دار الكتب العلمیة، بیروت، لبنان
۴۵- خطابی: ابوسلیمان احمد بن محمد الخطابی
معالم السنن - شرح حدیث
المطبعة الحلبیة، مصر، ۱۳۵۱ھ
۴۶- خطیب بغدادی: ولی الدین محمد بن عبد اللہ الخطیب التبریزی
مفتاح الصاح - شرح حدیث
دار الفکر، بیروت، لبنان، ۱۹۹۱ء
۴۷- دارمی: ابومحمد عبد الله الدارمی
سنن الدارمی - حدیث
۴۸- رازی: فخر الدین محمد رازی
مفاتیح الغیب (التفسیر الکبیر) - تفسیر
دار الکتب العلمیہ، بیروت، لبنان، ۱۹۹۰ء
۴۹- راغب: ابو القاسم الحسین بن محمد بن الفضل الراغب الاصفهانی
المفردات في غریب القرآن - لغات القرآن
دار المشرق، بیروت، لبنان، ۱۹۹۸ء
۵۰- رشید رضا: السید محمد رشید رضا
تفسیر القرآن الحكیم (تفسیر المنار) - تفسیر
دار المنار، مصر، ۱۳۴۵ھ
۵۱- زمخشری: ابوالقاسم جار الله محمود بن عمر الزمخشری
الکشاف عن حقائق التنزیل - تفسیر
دار الکتب العلمیہ، بیروت، لبنان، ۱۹۹۵ء
۵۲- سیوطی: جلال الدین السیوطی
تفسیر الجلالين - تفسیر
حاشیہ الصاوی کے حاشیہ پر چھپی ہے۔ دیکھئے ۶۰۔
۵۳- شاطبی: ابراهیم بن موسى الشاطبی
الموافقات في اصول الشريعة - اصول فقه
المطبعة الرحمانیة مصر، ۱۳۴۱ھ۔ شرح و تعلیق کے ساتھ چھپی ہے۔
۵۴- شاه ولی الله:
حجة الله البالغة - حکمت
یونین پنٹنگ پریس، دہلی
۵۵- شاه ولی الله:
فتح المعروف - دین
۵۶- شرجى: محمد الشرجي
ازاحة الغناء عن تاريخ الخلفاء - تاریخ
مطبع صدیقی، بریلی، ۱۲۸۹ھ
۵۷- شرجى: محمد الشرجي
السراج الوهاج شرح المنهاج على متن المنهاج - تفسیر
مطبع منشی نول کشور، لکھنؤ
۵۸- شوکانی: محمد بن علی بن محمد الشوکانی
فتح القدیر، الجامع بین فنی الروایة و الدریایة من علم التفسیر - تفسیر
دار الکتب العلمیة، بیروت، لبنان ۱۹۹۳ء
۵۹- شوکانی: محمد بن علی بن محمد الشوکانی
ارشاد الفحول إلى تحقيق الحق من علم الاصول - اصول فقه
المطبعة السعادة، مصر، ۱۳۴۶ھ
۶۰- شوکانی: محمد بن علی بن محمد الشوکانی
الدواء العاجل في دفع العد و الصائل - امر بالمعروف و نهی عن المنكر
مجموعة الرسائل المیریة جزء ثانی میں شامل ہے۔ مطبوعہ ادارة الطباعة المنيرية، مصر، ۱۳۴۴ھ
۶۱- شوکانی: محمد بن علی بن محمد الشوکانی
العد و الصائل
۶۲- صاوی: احمد الساوی
حاشیة الصاوی على تفسیر الجلالين - تفسیر
المطبعة الازهرية، مصر، ۱۳۲۳ھ
۶۳- صدیق حسن خان: ابو الطيب صدیق بن حسن القنوجی
فتح البيان في مقاصد القرآن - تفسیر
المطبعة الکلیة، مصر، ۱۳۰۱ھ
۶۴- طبری: محمد بن حسن بن على الطبرى
تحمیل البحر الایان شرح کنز الدقائق - فقه
دار الكتب العربیہ الکبری، ۱۳۴۴ھ
۶۵- عبد الحق دھلوی:
اشعة اللمعات شرح مشکوة المصابیح (فارسی) - شرح حدیث
مطبع حقار، لکھنؤ، ۱۳۲۴ھ
۶۶- عبد الحق: محمد عبد الحق المہا جر الهندی الملکی
الا کمل على مدارك التنزیل - تفسیر
الکمل الهلال، بہرائچ
۶۷- عبد الحق: محمد الحق محمد بن نظام الدین الأنصاري
فواتح الرحموت شرح سلم الثبوت - اصول فقه
المستصفى من علم الاصول کے ساتھ المطبعة الامیرية، مصر سے چھپی ہے، ۱۳۲۲ھ
۶۸- عبدالقادر عودہ
التشريع الجنائي الاسلامی مقارنا بالقانون الوضعی - فقه
مطبعة دار نہضته القاهره، اسکندريه، مصر، ۱۳۴۸ھ
۶۹- علاء الدین: محمد علاء الدین الحصکی
الدر المختار في شرح تنویر الابصار - فقه
۱۸ کے حاشیہ پر چھپی ہے
۷۰- غزالی: ابو حامد محمد بن محمد بن محمد الغزالی
احیاء علوم الدین - تصوف
دار الكتب العلمیة، بیروت، لبنان
۷۱- قاضی زاده: المولى شمس الدین احمد المعروف بقاضی زاده
نتائج الافكار في کشف الرموز و الاسرار (تکملة فتح القدیر) - فقه
المطبعة الکبریٰ الامیرية، مصر
۷۲- قرطبی: ابوعبد اللہ محمد بن احمد بن ابی بکر الانصاری الاندلسی القرطبی
الجامع لا حکام القرآن - تفسیر
دار الكتب العلمیة، بیروت، لبنان ۱۹۸۸ء
۷۳۔ نیسا پوری: نظام الدین الحسن بن محمد بن حسین القمی النیساپوری
غرائب القرآن و رغائب الفرقان - تفسیر
۷۴- کاشانی: علاء الدین ابو بکر بن مسعود الکاشانی
بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع - فقه
دار الفكر للطباعة و النشر والتوزیع، بیروت، لبنان، ۱۹۹۷ء
۷۵- ماوردی: ابوالحسن علی بن محمد حبیب البصرى
الاحكام السلطانية والولایات الدينية - سیاست
المكتبة المحمودية مصر
۷۶- محمد اشرف عظیم آبادی
عون المعبود على سنن ابی داؤد - شرح حدیث
مطلع انصاری، دہلی
۷۷- محلی: جلال الدین المحلی
تفسیر الجلالین - تفسیر
۶۰ کے حاشیہ پر چھپی ہے۔
۷۸- محلی: جلال الدین المحلی
شرح جمع الجوامع - اصول فقه
حاشیہ علوان اور علامہ شرنبلالی کی تقریر کے ساتھ المطبعة الازهرية، مصر سے چھپی ہے، ۱۳۲۴ھ
۷۹- مراغی: احمد مصطفى المراغى
تفسیر المراغی - تفسیر
قاهره، ۱۹۴۶ء
۸۰- مرغینانی: برهان الدین علی بن ابی بکر المرغینانی
الهدایة (شرح بداية المبتدى) - فقه
۶۹ کے ساتھ چھپی ہے
۸۱- مسلم: ابوالحسین مسلم بن الحجاج
صحیح مسلم - حدیث
۸۲- ملا جیون: شیخ احمد المعروف بملا جیون
التفسیرات الاحمدیة فی بیان الآیات الشرعية - احکام القرآن
جید برقی پریس، دہلی، ۱۲۹۸ھ
۸۳- ملاعلی: علی بن سلطان محمد القاری حنفی
احسن اللقم لاربعین - شرح حدیث
المطبعة الحلبیة، مصر، ۱۳۲۸ھ
٨٢- ملاعلیٰ: علی بن سلطان محمد القاری حنفی
مرقاة المصابيح شرح مشكوة المصابيح - شرح حدیث
دار الفکر بیروت، ١٣١٣ھ
٨٣- مناوی: عبدالرؤف المناوی
الجامع الصغير شرح المغیر - حدیث
دار الطباعة العامرة مصر، ١٣٨٧ھ
٨٣- منذری: عبدالعظیم بن عبدالقوی المنذری
الترغيب والترهيب من الحديث الشريف - حدیث
دار الکتب العلمية بيروت لبنان، ١٩٩٧ء
٨٥- نسائی: ابوعبدالرحمن احمد بن شعیب بن علی النسائی
المجتبی المعروف بالسنن النسائی - حدیث
٨٧- نسفی: حافظ الدین ابوالبرکات النسفی
مدارک التنزيل وحقائق التأويل - تفسیر
٨٧- نسفی: حافظ الدین ابوالبرکات النسفی
کنز الدقائق - فقه
٨٨- نووی: محی الدین ابوزکریا یحیی النووی
شرح صحیح مسلم - شرح حدیث
نمبر ٢٧ کے حاشیہ پر بھیجی ہے دار الکتب العلمية بيروت لبنان، ١٩٩٥ء