سیکولرزم: مباحث اور مغالطے
سیکولرزم، عصری سیاست و سماجیات کا ایک اہم موضوع اور مظہر بن چکا ہے۔ اتنا اہم کہ بعض اوقات دائیں اور بائیں ہر دو جوانب سے یکساں آہنگ کے ساتھ اس کے حق میں یوں بات کی جاتی ہے گویا عالم انسانیت کے جملہ عوارض کا شافی علاج یہی ہے۔ تاہم، ہمارے ہاں ہر اہم موضوع کی طرح یہ بھی اپنی نہاد میں ایک "غلط فہمی پر مبنی اصطلاح" بن کر رہ گئی ہے۔ البتہ ایک فرق یہ کہ اس کے چیستان بننے کے عمل میں جہاں تہاں کچھ "شعوری کاوش" بھی دخیل نظر آتی ہے۔
سیکولرزم کے حق میں دیے جانے والے دلائل، اس کے خلاف اٹھنے والا فوری اور جذباتی رد عمل اور اس حوالے سے شعوری اور لاشعوری مغالطوں نے اتنی دھول اڑا رکھی ہے کہ حقیقت نظروں سے اوجھل ہو کر رہ گئی ہے اور اس باب میں ایک عام آدمی بھی اتنا ہی لاعلم ہے جتنا اس کے حق میں اور خلاف بات کرنے والے اہل علم۔
طارق جان – یکے از ہم جلیسانِ ما – کی تکمیلیت پسند طبیعت اور مشکل پسند مہم جویانہ مزاج نے زیر نظر موضوع پر جب قلم اٹھایا تو موضوع سے اپنی رغبت، وسیع مطالعے، عصری، فکری تناظر میں مشاہدے اور ژرف نگاہی نے یہ کتاب تخلیق کی جو بلا مبالغہ اپنے موضوع پر اردو زبان میں حوالے کی چیز بن کر سامنے آئی ہے۔ اور اس موضوع پر ہر دو رائے رکھنے والے عوام اور اہل علم کے لیے سنجیدہ اور فکر کو مہمیز کرنے والا لوازمہ فراہم کرتی ہے۔ یہ کتاب یقیناً سیکولرزم کی بحث کو دلیل سے آگے بڑھاتے ہوئے قومی فکری انتشار کو، کسی بھی جانب، یکسوئی میں بدلنے کے لیے معاون ثابت ہوگی۔
کتاب کی صفحہ آرائی، تزئینی لوازمہ، سرورق اور مجموعی پیشکش اپنے اندر بیک وقت مغربی اور مشرقی جھلک رکھتی ہے۔ اس کاوش میں مصنف کی خوش ذوقی بھی محرک رہی۔ گو اس دوران بعض مقامات پر ان کے اصرار نے، خوگر حمد کو گلہ کرنے کا موقع بھی فراہم کیا مگر بالعموم ان کے مشورے کتاب کے صوری حسن میں اضافے کی ہماری کوشش میں معاون رہے۔
امید ہے صاحبان ذوق ہماری کاوش سے حظ اٹھائیں گے اور ارباب جمال بصری راحت کشید کریں گے۔
آپ کی رائے کا منتظر
شاہد اعوان
تمہید
لادینی خطرات؟
میں سیکولرزم کو کیوں وطن عزیز کے لیے خطرہ سمجھتا ہوں؟ میرے لیے یہ کوئی لمحہ مسرت نہیں ہوگا اگر میں سنسنی پھیلانے والا ہوائی (alarmist) کہلاؤں۔ لیکن حالات و واقعات کی شہادت اتنی قوی ہے کہ میں چشم پوشی کی کوشش بھی کرتا تو یہ سب کچھ مجھ پر الٹ پڑتا۔ میں نے تو اپنی ذہنی صحت کو بچانے کی کوشش کی ہے۔ سامنے کی شہادت پر میں نے جتنا سنجیدگی سے سوچا، اتنا ہی قائل ہوتا گیا۔ مسئلہ بہت سنگین ہے اور خطرہ بھی اسی قدر ہولناک۔
ہمارے ہاں سلامتی کا روایتی تصور بیرونی جارحیت یا پھر کم یا شدید سطح کے مسلح تصادم سے مخصوص رہا ہے۔ جس کی وجہ سے تخریب کاری، اس کی نوعیت اور اس کی مختلف اقسام اپنی پرکار و پرپیچ چالوں کی وجہ سے مبہم اور مغلق رہیں اور اس طرح اسے وطن عزیز میں وہ توجہ اور اہمیت نہ مل پائی جس کی یہ مستحق تھی۔ یہ تک اندازہ لگانے کی کوشش نہیں ہوئی کہ مملکت کے لیے ایسی تخریب کاری کے ممکنہ نتائج و اثرات کیا ہو سکتے ہیں۔
آخر کیا وجہ ہے کہ جس تخریب کاری کی طرف میں اشارہ کر رہا ہوں وہ ہمارے خفیہ اداروں اور ہیئت مقتدرہ کی فہم میں نہیں آتی۔ اس کے لیے آسان مثال یوں ہوسکتی ہے کہ جب آپ فضا میں بغیر کسی مطلوبہ ہدف کے دیکھتے ہیں تو دور نگاہ تک کوئی غیر معمولی شے نظر نہیں آتی، سوائے وسعت بیکراں، اور کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ لیکن اگر آپ ہدف کے متلاشی ہیں تو پھر اگر وہ ہے تو ضرور جلد یا بدیر نظر آجائے گا۔ اسی لیے جب کوئی کسوٹی اور زاویہ نظر سامنے نہ ہو تو تخریب پر نظر نہیں پڑتی۔ اس کا شعور تو انہی افراد کو ہوتا ہے جو مملکت کی بنیادوں اور اس کے رہنما اصولوں سے کماحقہ واقف ہوں، کیونکہ انہی سے وہ پیمانہ متشکل ہوتا ہے جس سے تخریب کو جانچا جا سکتا ہے اور اس کی نوعیت اور شدت کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔ دوسرا پیمانہ جو باآسانی سمجھ میں آسکتا ہے یہ ہے کہ باہم متقابل رکھ کر ایک طرف تو سیاسی کرداروں اور ابلاغ عامہ کی وضع و ہیئت کا جائزہ لیا جائے اور دوسری طرف مملکت کے مفادات، اس کی سلامتی اور استقلال کو بہ نظر غائر دیکھا جائے۔
کیا ایسی کسوٹی تشکیل دینا ضروری ہے؟ جواب ہاں میں ہے۔ قابل قبول پیمانہ موجود نہ ہو تو قومی مسائل پر فیصلہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ اور اگر فیصلہ ہو بھی تو یہ ایک انفرادی ردعمل تو ہوسکتا ہے لیکن معروضی نہ ہوگا، ایسے فیصلوں میں غصہ، عصبیت اور انتقام کا جذبہ بھی کارفرما ہوسکتا ہے۔ یہ چیز آزادی کے تصور کی نفی ہوگی، جبکہ یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ اظہار کی آزادی صحت مند معاشرتی ترقی کے لیے ضروری ہوتی ہے۔ چنانچہ ایسا کوئی بھی پیمانہ لازماً معروضی ہونا چاہیے؛ اس کا اطلاق یا نفاذ آسان اور شفاف ہو اور سب متعلقہ کرداروں — حکومت، سیاسی پارٹیوں، عدلیہ، فوج، تعلیمی اداروں اور بالیقین ابلاغ — پر یکساں حاوی ہو۔ ایسا ایک پیمانہ دستور پاکستان کے آرٹیکل 2-الف، 31، 40، 227 اور تعزیرات پاکستان کی دفعہ 123-الف کی صورت میں موجود ہے۔ ان دستاویزات پر قوم کا اجماع ہے اور ان میں پاکستانی عوام کی تمناؤں، ان کے قومی اقدار اور تاریخی روایات کی تجسیم کی گئی ہے۔
یہی قانونی اور دستوری دفعات اصلاً ہمارا حفاظتی حصار ہیں جن سے ان آزادیوں کی حدود کا تعین ہوتا ہے جن سے معاشرے کو لطف اندوز ہونا چاہیے۔ یہی وہ جواز ہے جو معاشرے کو معنویت اور وجود بخشتا ہے اور اسے عالمی ماحول کی جارحیت سے بچا سکتا ہے۔
لیکن وہ اصل خطرہ کیا ہے جو ریاستی ردعمل کو انگیز کرتا ہے؟ یہ سمجھنے کے لیے دیکھنا پڑے گا کہ یہ لادین نظریہ ہے کیا اور اس کے پاکستانی پیروکار کون لوگ ہیں؟ یہ حضرات خود پاکستان کے متعلق کیا ارشاد فرماتے ہیں اور قوم کو کیا حقیقی مسائل درپیش ہیں؟
ابتدا میں لادینیت (سیکولرزم) تنقیدی بیانیے کی شکل میں سامنے آتی ہے جس کا ہدف کسی معاشرے کی قدامت اور اس کی روایات ہوتی ہیں۔ یہ سب کھیل ترقی اور جدیدیت کے نام پر ہوتا ہے۔ دوسرے مرحلے میں وہ قدروں پر حملہ آور ہوتی ہے تاکہ معاشرہ لڑکھڑانے لگے۔ اور تیسرے مرحلے میں وہ دوسروں کے مقابل ایک جدلیاتی انداز میں سامنے آتی ہے جس کا رویہ جارحانہ اور غلو پرستانہ ہوتا ہے اور جو زندگی کے ہر شعبہ پر اپنی گرفت قائم کرنا چاہتی ہے۔
اسے آپ سیکولرزم کی تنگ نظری کہہ لیں یا پھر اس کی وجہ مغرب کا وہ انداز فکر جو ایک کلی، غیر منقسم صداقت کو روحانی اور لادینی خانوں میں بانٹنا چاہتی ہے۔ ظاہر ہے ایسی صورت میں نتیجہ وہی ہوگا جو سیکولرزم چاہتی ہے۔ یعنی جہاں روح کا معاملہ خدا کے سپرد ہوا تو کار جہاں انسانوں کو تفویض ہو گئے۔ اس تقسیم کی شروعات جیسی بھی ہوئی ہوں نتیجے میں ایک لا ینحل مسئلہ سامنے آکھڑا ہوتا ہے۔ کیونکہ جہاں اس کوشش سے مادیت کو یک گونہ رفعت اور وقار ملتا ہے وہیں حیات کی بطور ایک کل اور اکائی کی نفی ہو جاتی ہے۔
ثانیاً، یہاں یہ بات بھی سمجھنی ضروری ہے کہ روحانیت دنیا اور مادیت سے لاتعلق ہو کر بذاتِ خود کوئی معنی نہیں رکھتی کیونکہ مادی وجود ہی اس کی قیام گاہ ہے۔ اس لیے اگر اسے بے جسم کر دیا جائے تو اس کا کردار بے معنی ہو جاتا ہے، وہ مادی وجود پر اپنا نقش چھوڑ نہیں پاتی۔
سیکولر لادین تعصب اور تنگ نظری جب خالق کائنات کی حکمت بالغہ کو ایک طرف رکھ کر سیکولر اشرافیہ کی دانش کا سہارا لیتی ہے تو وہ ایک عریاں ناشائستگی کا رُوپ دھار لیتی ہے۔ اس کے صلے میں یہ اشرافیہ جو قیمت مانگتی ہے وہ بے حد گراں ہے کہ ایک طرف تو وہ انسان کو روحانیت سے محروم کر دیتی ہے اور دوسری طرف انسان کو یک رخا یعنی محض مادی انسان بنا دیتی ہے۔ ایسے میں یہ روحانیت سے محروم ادھورا وجود جب کوئی معروضی طور طریقے سامنے نہیں پاتا تو مایوس ہو کر اپنی ذات کی طرف لوٹتا ہے جہاں اسے موضوعیت کے لامتناہی اضطراب کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ اسے قدم قدم پر فیصلہ کرنا پڑتا ہے؛ جس میں نہ میزان ہے نہ کسوٹی۔ زندگی بغیر سانچے کے، نہ اخلاق نہ قدریں۔ ایک بے سکون، ناپائیدار زندگی، ایک بے سمت تغیر جس میں ثبات نہیں، جس میں حرکت تو ہے لیکن بے منزل بے مراد۔ اس لیے اس سے کراہت آمیز ابکائی تو مل سکتی ہے لیکن سمت کا پتہ نہیں چل پاتا۔ اس کا اولین شکار عقائد و ایمانیات کا وہ مجموعہ ہوتا ہے جو ہر شیطانی حملے کے خلاف حیات انسانی کا واحد سہارا ہے۔
ساتھ ہی یہ لادین طرز فکر ان سب چشمہ ہائے حیات کے سوتے خشک کر دیتی ہے جو عقیدہ و ایمان سے عبارت ہیں۔ اسی لیے اگر لادین معاشرہ حوصلہ اور جرأت کی قدروں سے خالی ملے تو قطعاً تعجب نہیں ہونا چاہیے۔ اس کی برداشت کی سطح اتھلی اور صبر و استقامت کی صلاحیت بے نام ہوتی ہے۔ ہر دم منڈلاتی موت اس کا مقدر ہے۔
لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ سیکولر لادینیت کے خدا نہیں ہوتے۔ مادیت، غیر فطری اور بے ربط منفی کردار اور ایک تند و واضح اسراف و تبذیر، جدید مورتیوں کا مقدس روپ دھار لیتے ہیں لیکن اس سے انسانوں میں وفا پیدا نہیں بلکہ ایک بے مہار ہوس ضرور پیدا ہوتی ہے۔ انسانیت انفرادی اور اجتماعی رویوں کے رنگ میں بھی تکمیل ذات کی طرف سرپٹ رواں تو رہتی ہے لیکن وہ کبھی تسلی اور سکون نہیں پاتی۔ ہر تمنا ایک نئی بھوک جگاتی ہے۔ یہاں تک کہ باندھنے والے رشتے کمزور پڑتے چلے جاتے ہیں۔ انسان فرد فرد ہو کر سیال لہروں میں بہتے رہتے ہیں اور انہیں کوئی سہارا نہیں ملتا جو تحفظ کا ضامن ہو۔ ایمان اور امید سے خالی اجسام کو لادینیت کسی قسم کا جوہر اور استناد دینے سے منکر ہی نہیں عاجز رہتی ہے۔
مملکت کی سلامتی کا ایک اہم عامل شہریوں کی وفا شعاری ہے۔ لیکن یہ وفا تبھی روبہ کار آتی ہے جبکہ وہ مملکت جس کے وہ باسی ہیں، ان کے ضمیر کو مہمیز لگائے اور انہیں اپنے ماورائے سحر میں مبتلا رکھے۔ مثلاً 1980ء کے عشرے میں بعض دہشت گردوں کے اعترافات جنہوں نے عوامی اجتماعات میں بم چلائے یا مساجد اور امام بارگاہوں کو نشانہ بنایا - صرف چند روپوں کی حرص میں۔ یہ سب لادین اثرات کے شاخسانے ہیں۔ ان کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں بنتا۔ ان لوگوں کا نہ تو کوئی مقصد ہوتا ہے نہ نظریہ۔ وہ خود اعتراف کرتے ہیں کہ انہوں نے چند ٹکوں کے لیے یہ حرکتیں کیں اور پاکستان کی حد تک یہ رقم انہیں ہندوستان یا اسی جیسے کچھ ملک یا ادارے دیتے رہے ہیں۔ اسی طرح سیکولر لادین سیاسی جماعتیں یا تو پاکستان کے مقابل اپنے نظریے پر زور دیتی ہیں یا ہندی تال پر رقص کرتی ہیں کہ پاکستان کو لادین ریاست بنایا جائے گا۔ پہلی صورت میں خود یہ پارٹیاں سمجھتی ہیں کہ سیکولر لادینیت کو بھی فروغ ملے گا اگر پاکستان کی اسلامی شناخت ختم کر کے اسے ہندوستان کی گود میں ڈال دیا جائے۔ دوسری صورت میں یہ لادین سوچ ہے۔
ہارلڈ ایڈمز انس (Harold Adams Innis) کے مطابق تہذیبیں اقدار پر مبنی دنیاوی اور غیر مقید مکانی ثقافتوں کے درمیان برپا کشمکش کے انداز میں پروان چڑھتی یا پستی کی طرف لڑھکتی رہتی ہیں کیونکہ یہ دونوں ثقافتوں پر مبنی متصادم علمی اجارہ داریوں کو جنم دیتی ہیں، ایک حساس تہذیب، بلکہ کوئی بھی معاشرہ ہمیشہ اس فکر میں رہتا ہے کہ وقت اور مائل بہ مکان تعدیل و توسط کے درمیان توازن برقرار رہے۔ انس کے بہ قول ماضی میں اس ڈھنگ کا توازن کلاسیکی یونان، نشاۃ ثانیہ کے اطالیہ اور الزبتھ دور کے برطانیہ میں حاصل کر لیا گیا تھا۔ بدقسمتی سے وطن عزیز میں یہ توازن بگڑ گیا ہے۔
اس سارے پس منظر میں دکھ والی بات یہ ہے کہ پاکستان کی ہیئت مقتدرہ جس میں سیاسی حکومتیں بھی شامل ہیں، ابھی قوم کو قائل نہیں کر پائی کہ وہ درپیش خطرہ کا ادراک اور پیش بندی کر سکے۔ 1970 میں جب پاکستان دولخت ہوا، یا بعد میں جب کراچی اور اندرون سندھ شورشوں کی زد میں رہے، تو یہ ادوار ہماری خفیہ ایجنسیوں یا ہیئت حاکمہ کی اہلیت کی اچھی تصویر پیش نہیں کرتے۔ یہی معاملہ تحریک اور اس کے پیش نظر ایجنڈے کا ہے، جو کہ خود ایک تخریبی نام ہے۔ جب تک ہمیں یہ معلوم نہ ہو کہ اطلاعاتی ماحول کی ہیئت ترکیبی کیا ہے اور ہماری سلامتی اور قومی بہبود کے حوالے سے اس کی اہمیت کیا ہے، تو جان لیجیے کہ پاکستان کا مستقبل مشکلات و مصائب کے بھنور میں پھنس گیا ہے۔
ہمیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اطلاعاتی ماحول خود ہماری قومی سلامتی کے ماحول کی توسیع ہے۔ دونوں کا ملاپ ہی تخریب کے خلاف ہمارا دفاعی مورچہ ہے۔ اس مورچہ میں ذرا سا شگاف بھی سلامتی کے مسائل پیدا کرنے کا باعث بن جاتا ہے۔ اطلاعاتی ماحول میں اسی وقت چھید پڑ جاتے ہیں جب اس کے الیکٹرانک اور اشاعتی میڈیا کے اجزا قومی ایجنڈا ایک طرف رکھ کر اپنا ہی مرتب کردہ نصاب لے بیٹھتے ہوں۔ ابتدا ہر اس چیز کی تحقیر و تخفیف سے شروع ہوتی ہے جو قوم کی نگاہوں میں اس کی جغرافیائی اور سیاسی سلامتی، حب الوطنی اور بنیادی اقدار کے حوالے سے قدر و منزلت اور تقدس کی حامل ہو۔ جس کے نتیجے میں بالآخر معاشرے کا اجتماعی وجود بکھرنے لگتا ہے۔ تضادات اور تصادم روزمرہ کا معمول بن جاتے ہیں۔
یہی بات ایک اور ڈھنگ سے بھی کہی جاسکتی ہے۔ اگر ذرائع ابلاغ کو اجازت ہو کہ وہ بنیادی مسائل پر قائم شدہ اجماع کو توڑ کر کوئی نیا آہنگ سامنے لائیں تاکہ قومی شعور کی شکست و ریخت ہو اور وسوسوں اور ذہنی اختلال کو راہ دیں، یا قوم کے ذہنی تحفظات کو تھپکیاں دے کر اغیار کے لیے نرم و گداز بنائیں، تو یہ ایسا ہی ہے جیسے کسی کو بغیر لڑے ہتھیار ڈال دینے پر آمادہ کر لیا جائے۔ ذرائع ابلاغ کے مختلف گوشوں پر ایسے افراد کا قبضہ جنہیں کسی نہ کسی وجہ سے مملکت سے ایک طرح کا بیر ہو، تباہی کا مظہر ہوتا ہے۔ ایسے لوگ صحافتی اور فنونی آزادیوں کے نام پر مملکت کی جڑیں ایک ایک کر کے کترتے رہتے ہیں، اور یہ ایک بھیانک اور ڈراؤنی جنگ ہے۔
یہ بتانے اور سمجھنے کے لیے زیادہ سوجھ بوجھ کی ضرورت نہیں کہ کرداری فنون اور صحافتی حلقے جو آزادیاں مانگتے ہیں ان کی افادیت اس وقت تک ہوسکتی ہے جب تک وہ اس معاشرے اور اس کی روایات سے ہم آہنگ رہیں، جس میں انہیں کام کی اجازت ملی ہوتی ہے۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ یہ دونوں حلقے مملکت کے اختیار و اقتدار کے مراکز کی ذرا پروا نہیں کرتے۔ مقتدر حلقوں کی طرف سے اغماض کی وجہ سے ابلاغی اداروں کے منتظمین اور ان کے ملازم صحافی، ایک ایسی من موجی صورت حال کو پیدا کر دیتے ہیں جس میں کوئی ضابطہ روبہ کار نہیں رہتا۔ پھر جو مرضی لکھا جائے اور دکھایا جائے۔ ہر دو صورتوں کی حد پرواز خیال سے بھی پرے لگتی ہے۔
اس صورت حال میں کوئی بھی تحریر یا بیان جو دستوری سرچشمے سے روشنی حاصل نہ کرے، پاکستان کے لیے تباہی کا باعث ہوسکتا ہے۔ یہ محض خیالی اندازہ نہیں بلکہ زندگی کی حقیقت ہے جس سے اقتدار کے ایوان آنکھیں چراتے ہیں۔ ہر گزرنے والا دن ہمیں قائل کر رہا ہے کہ آزادی کا غلط استعمال کر کے ہمارے ذرائع ابلاغ الا ماشاء اللہ، ادائیگی فرض سے مجرمانہ غفلت برتتے ہیں۔ یہ مملکت پاکستان کے خلاف دراندازی ہے اور عوام الناس کی اقدار و روایات کی نفی ہے۔ باقی جرائم کی بہ نسبت ابلاغی ذرائع کا جرم بدتر اور قبیح ہوتا ہے کیونکہ یہ اس پاکستان کے خلاف ایک مسلسل جنگ ہے جس نے ان اداروں کے سر پر سایہ کیا ہوا ہے۔ ہمارے ملکی میڈیا کا ایک حصہ جن قومی تصورات کی جھاگ اڑاتا رہتا ہے ان میں سے بعض درج ذیل ہیں:
- قومی ریاست بری ہے۔ چنانچہ حب الوطنی بھی بری چیز ہے۔
- قومیت کا تصور محدود ہے اور تنگ نظری پر مبنی ہے۔
- پاکستان دنیا میں سب سے بری ایک ناکام ریاست ہے۔
- پاکستان کا اسلامی تشخص (برائے نام ہی سہی) فرقہ وارانہ اور خوف زدہ کرنے والا ہے۔
- پاکستان کا کوئی مستقبل نہیں۔
- انڈیا کے ساتھ کنفیڈریشن (قائم ہونی چاہیے)۔
- سارک ماقبل آزادی کے برطانوی ہند کا شکلہ (یا سہارا دینے والی پچر) ہے۔
- مسلمانوں کی اجتماعی شناخت ازمنہ وسطی کی سی اور گھٹیا ہے۔ اسے یا تو جنوبی ایشیائی ہونا چاہیے ورنہ پھر کچھ بھی نہیں۔
- تاریخ کی تدوین نو ہو۔ پاکستانی اصلاً ہندوستانی ہیں۔
- کشمیری پاکستان میں شامل نہ ہوں کہ یہ ان کے لیے اچھا نہ ہوگا۔
اس کے علاوہ انگریزی میڈیا، جس پر لادینیوں کا غلبہ ہے، مسلمانوں سے متحارب احزاب کا قلعہ بند مورچہ ہے جہاں سے پاکستانی عوام کے سماجی اور اخلاقی اقدار پر مسلسل گولہ باری ہوتی رہتی ہے۔ ایک نظر ان کے منتخب کردار اور مطالب بھی دیکھیں:
- مسلمان ہونا اچھی شناخت نہیں۔
- انسانی کردار کی ضابطہ بندی، جو اصلاً معاشرے کی تعمیر و تکمیل ہے، قابلِ ملامت ہے۔
- بے قید اور غیر ذمہ دار صنفی تعلق شہوت و عشق کا لطف اور لاہوتی لمحات سے عبارت ہے۔
- بعض سیکولر نظریاتی ہم نوا اتنے دلیر ہو گئے ہیں کہ وہ اغیار کو دعوت دے رہے ہیں کہ پاکستان کی ایٹمی صلاحیتوں اور تنصیبات کو بین الاقوامی کنٹرول میں لے لیا جائے اور انہیں عام معائنہ کے لیے کھول دیا جائے۔
اگرچہ انگریزی پڑھنے والے لوگ معاشرے میں بہت قلیل التعداد ہیں لیکن یہی طبقہ سب سے زیادہ مؤثر حلقہ ہے یعنی مسلح افواج، سول ملازمین، کارپوریٹ انتظامیہ، عدلیہ اور تعلیمی مراکز کے متعلقین وغیرہ۔ میڈیا کی طرف سے روزانہ جو کچھ کانوں میں انڈیلا جا رہا ہے کیا اس کے بعد یہ لوگ قوم اور مملکت کے حق میں صحیح فیصلہ کرنے کے قابل رہیں گے؟ کیا یہ دستور پاکستان کے آرٹیکل 2-الف میں بیان شدہ مقاصد کے دفاع میں کھڑے رہ سکیں گے؟ یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اس متاثرہ حلقے کا ردعمل ایسے حالات میں کیا ہوگا۔
قومی سیاسی فضا بھی تکلیف دہ ہوسکتی ہے۔ یہ بھی اطلاعاتی اور لادین فضاؤں کا ایک تسلسل ہی ہے کہ اس میں دشمن جاں لادین جماعتوں اور این جی اوز نے نقب لگا دی ہے۔ اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے یہ لوگ دو کام کر رہے ہیں۔ اولاً، یہ قومی یگانگت کو پارہ پارہ کر رہے ہیں کہ قوم مہاجر، سندھی، بلوچی، پٹھان، پنجابی اور کشمیری قومیتوں میں بٹی نظر آرہی ہے۔ ثانیاً یہ قومی مسائل کو علاقائی رنگ دے رہے ہیں۔ یہ خیال عام کیا جا رہا ہے کہ پاکستانیوں کی باہمی نفرتیں عام ہیں اور ان میں کچھ بھی مشترک نہیں، نہ طور طریقوں میں اور نہ لباس و عادات میں (قیافہ و سیمائیات) لیکن اسی سانس میں پوری ڈھٹائی سے یہ جھوٹ بھی پھیلاتے ہیں کہ ہندوستانی اور پاکستانی بالکل یک رنگ ہیں۔ یہ حضرات ملک کے اندر وفاق کے مخالف ہیں اور مرکز سے آزادی چاہتے ہیں لیکن پاؤں پڑ پڑ کر التجا کر رہے ہیں کہ ہم اکھنڈ بھارت میں شامل ہو جائیں۔ یہ سب پاکستان مخالف ہیں، فوج سے انہیں نفرت ہے، اسلامی تشخص سے انہیں بیر ہے اور مسلم اقدار سے یہ نالاں ہیں۔
سب سے آخر میں بظاہر ایک پاکستانی چہرہ بھی بلند آہنگ انداز میں اس بھیڑ میں شامل ہو گیا ہے۔ یعنی پاکستان پیپلز پارٹی جو ہر طرح کے لادینوں کے لیے چھتری درخت ہے اور پوری آزادی سے پاکستان، ہندوستان کنفیڈریشن کے لیے آواز بلند کرتی رہی ہے کہ دونوں ملکوں سے باری باری صدور مقرر ہوں اور ایک کرنسی ہو۔ اس کے ثقافتی ونگ کی سربراہی فخر زمان کے پاس ہے جو ایک متحدہ پنجابی شعور اجاگر کرنے میں مصروف ہیں۔
میرے اس دعوے پر یہ لوگ ناک بھوں چڑھائیں گے۔ بہت ممکن ہے کہ پالیسی ساز حضرات حسب معمول اس ابھرتے خطرے کو نظر انداز کر دیں یا حکم لگا دیں کہ اس کی کوئی حقیقت نہیں۔ یہ ایسے ہی ہوگا جیسے 1980ء میں یونیسکو کی ایک رپورٹ Many Voices, One World کا حشر ہوا جب بین الاقوامی کمیشن نے امریکہ کے زیر اثر نام نہاد نیو ورلڈ انفارمیشن کے متعلق اپنی تشویش ظاہر کی تھی امریکی پریس نے اس رپورٹ کا مضحکہ اڑایا۔ ایڈورڈ سعید نے لکھا: "انطونی سمتھ کی کتاب The Geopolitics of Information مسئلہ کا ادراک رکھتی ہے۔ سمتھ نے الیکٹرانک خطرے کو سامراجیت سے بھی بڑی مصیبت قرار دیا تھا۔ اس نے لکھا:
ہمیں اندازہ ہو جاتا ہے کہ نوآبادیاتی نظام کا خاتمہ اور قومیتوں سے بالاتر سامراجی تعلقات کا خاتمہ نہ تھا بلکہ یہ صرف اس جغرافیائی و سیاسی جالے کو بہ انداز نوبننے، پھیلانے کی تدبیر تھی جو اصلاح کلیسا کے بعد سامنے آئی۔“ اس کے بے پناہ اثر اور جانب داری کا ذکر کرتے ہوئے وہ کہتا ہے: "نئے ذرائع ابلاغ ایک اثرپذیر ثقافت میں بہت گہرائی تک نفوذ کی طاقت رکھتے ہیں۔ یہ اثراندازی ماضی کے ٹیکنالوجی مظاہر کو حاصل نہ تھی۔ نتیجہ ایک عمومی اور حد درجہ بڑے پیمانے کی تباہی ہوگی۔ یعنی آج کے ترقی پذیر معاشروں میں سماجی تضادات پوری شدت سے ابھر کر سامنے آسکتے ہیں۔
ذرا دیر کے لیے امریکی سامراجیت اور اس کے جغرافیائی سیاسی جال کی طرف ہونے والے اشاروں کنایوں کو انڈین اقدامات میں بدل کر دیکھیے تو میڈیا کی برپا کی ہوئی جنگ کا اصل چہرہ سامنے آجاتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ، ہندوستان نے یہ جنگ پاکستانی نجی چینلز تک پھیلا دی ہے اور اپنے تخریبی مقاصد کے لیے انہیں استعمال کر رہا ہے۔ ان چینلز کو کام کرنے کی اجازت پاکستان میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (Pakistan Media Regulatory Authority) نے دے دی لیکن پیمرا میں نہ یہ اہلیت ہے نہ تڑپ کہ ان چینلز کو غلط ہاتھوں میں جانے سے روک سکے۔ لوگ تو انہیں دیکھتے ہیں کہ یہ اپنے ہی ابلاغی ادارے ہیں لیکن غیر محسوس طور پر ایسے تصورات اخذ کرتے جاتے ہیں جو انہیں ان کی قومیت، ان کے تاریخی شعور اور ان کی روایات و اقدار کے ضمن میں تحقیر و تضحیک کا سبق دھیمے لہجے میں پوری مکاری سے ازبر کرا رہے ہیں۔ ان میں سے بیشتر چینلز پاکستان کو انڈیا کے رنگ میں رنگنے کی خاطر اپنے بے مہار اظہار میں بدخصال گمراہی کی حد تک آگے بڑھ چکے ہیں۔ بعض نجی ٹی وی چینلز تو ہندوستانی اداکاروں کو معاوضہ دے کر پاکستانی کرداروں کے ساتھ ڈراموں اور ٹاک شو میں سامنے لاتے ہیں تاکہ پاکستانیت کے برعکس برصغیر کا ایک رنگ ذہنی سانچہ قوم پر تھوپا جا سکے۔
آپ اسے لاپروائی کہیں یا تخریب اور اس کے دور رس اثرات کو سمجھنے کی نااہلیت قرار دیں، پاکستانی ہیئت مقتدرہ خودرائی کے لباس فاخرہ میں گردباد کے سامنے آنکھیں موندھے بیٹھی ہوئی ہے جبکہ پاکستان اور ہندوستان کی حد بندی ختم کرنے کا کام روز روشن ہو رہا ہے۔ یہ تخریب کا ایک شوریدہ سر عمل ہے جو پورے اطمینان سے ہو رہا ہے۔ پاکستان کے علاوہ کوئی اور ملک ایسی حرکت برداشت نہیں کر پائے گا۔ ایک بار پھر پروفیسر انس کا قول دیکھیے:
"ہر تہذیب کی بقا اس میں ہے کہ اس کے مکان و زمان کی حد خود اس کے اختیار میں ہو۔"
کیا ترسیل ابلاغ کے ذرائع پر ہمارا کنٹرول ہے؟ کیا ابلاغی ادارے اور لادین وفاقی اور علاقائی سیاسی پارٹیاں مملکت کے مفادات سے متفق ہیں؟
ممکن ہے پاکستان کی ہیئت حاکمہ کے پاس ان سوالوں کا جواب ہو لیکن عام آدمی کے ہوش و حواس پر ہتھوڑے برس رہے ہیں۔ انہیں بالکل سمجھ نہیں آ رہی کہ قومی سلامتی کے ضمن میں میڈیا کا یہ رویہ اور حکومت کی یہ سرد مہری کیوں ہے؟ وہ یہ جانتے ہیں کہ لادین حضرات پاکستان کی موت سے کم کی خواہش نہیں رکھتے، وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ لوگ پاکستان کو آہستہ آہستہ لیکن بالیقین موت کی وادی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ سنگین حالات کی شدت میں ایک اور چیز اضافہ کر رہی ہے کہ حکومتیں ماضی کی ہوں یا حال کی، وہ صرف میڈیا میں اپنی ذاتی رونمائی کی خواہش کی اسیر رہی ہیں۔ انہیں قطعاً کوئی فکر نہیں کہ لادین میڈیا اور سیاسی جماعتیں مملکت پاکستان کا کیا حشر کر رہی ہیں۔
یہ سمجھنا ہر شخص کی ذہنی رفعت اور بلندی پر منحصر ہے کہ قومی افق پر چھائے ہوئے کالے بادل ہر لحاظ سے ہمارے قومی وجود کے لیے خطرناک ہیں۔ جب بھی ہندوستان اور امریکہ کی طرف سے پاکستان کے لیے کوئی مصیبت کھڑی کی گئی تو انہیں افغانستان کے شمالی اتحاد جیسے کسی چہرے کی تلاش ہوگی اور لادین عناصر اور پارٹیاں فوراً لبیک کہیں گی۔
باب 1
بت پرستی کا نیا روپ: سیکولرزم
کیا واقعی سیکولرزم ایک حاسد نظریہ ہے جو قریب آنے والی ہر چیز کو بلیک ہول کی طرح اپنے اندر کھینچ لیتا ہے؟ یا پھر یہ کوئی نرم رو سیاسی تصور ہے جو محض مذہب اور ریاست میں تفریق چاہتا ہے؟ اس سوال کا انحصار دیکھنے والے کی ذہنی تربیت اور فکری اٹھان پر ہے۔ معاملہ شیخ سعدی کی اس کہاوت کے تین اندھوں سے ملتا جلتا ہے، جس میں ہر "اندھے" کے خیال میں ہاتھی کی شکل و صورت مختلف تھی۔
مثلاً سیکولرزم کو ایک ہمدرد سیکولر، ایک نظریہ ساز، اہل مجموعہ فکر و نظر بتائے گا، جسے ہر مذہبی اور الہامی چیز سے نفرت ہے۔ جبکہ ایک سیکولر سیاستدان، اور بالخصوص مسلم دنیا سے وابستگی رکھنے والا، اس مسئلے پر براہ راست موقف اختیار کرنے سے گریز کرتے ہوئے "ترقی" کی عوامی بولی بولے گا اور اسلامی نظام کی براہ راست مخالفت کے بجائے ملائیت، سیاہ روی اور فرقہ بازی کا نام لے کر دینی رجحانات کے خلاف ہیجان انگیز گفتگو کرے گا۔
سیکولر انداز سیاست میں مذہب کو کس حد تک برداشت کیا جا سکتا ہے، اس کا انحصار اس حقیقت پر ہوگا کہ مذہب انسانی معاملات میں کہاں تک دخل اندازی کرتا ہے یا اس سے کنارہ کش رہتا ہے۔ ایک سیکولر نظریہ ساز ہو یا کوئی سیاستدان، دونوں سمجھتے ہیں کہ دینی روایت کا دور گزر چکا ہے، گویا اب رسم جہاں اور ہے دستور زماں اور۔
مابعد جدیدیت (postmodernism) کی زبان میں یوں کہیں گے کہ مذاہب اور ادیان محض عہد رفتہ کی عظیم حکایتیں ہیں۔ بقول ٹرنر (Turner) سیکولرائزیشن نفس انسانی کے متعلق ان نہایت ہی روایتی تصورات کا ترکیبی جزو ہے، جو نفس کو اس کے بے ساختہ جوابی عمل سے پہچانتے ہیں۔ جس کی وجہ سے انفرادیت پسندی اور ذاتی رویوں نے ایک واضح سماجی رجحان اختیار کر لیا ہے، جس کا محور مذہبی فکر سے نفرت اور اس سے آزادی ہے۔
چنانچہ دیکھنا یہ ہوگا کہ دین و مذہب کے برعکس سیکولرزم ہے کیا؟
اس اصطلاح کی جڑیں لاطینی لفظ سیکولم میں ہیں، جس کا مطلب ہے زمانہ حال۔ یہاں زمانہ حال کی تعبیر کچھ اس طرح ہوگی کہ یہ عالم آخرت کا دوسرا رخ ہے، وہ آخرت جو شاید ہو یا نہ ہو۔ یا ایک دور نو جو ایسے سلسلہ تاریخ کا مطالبہ کرتا ہے، جس میں حال کا ماضی سے کوئی تعلق نہ ہو۔ اقدار کی ایک ایسی لاتعلقی یا اضافیت جو تاریخ کی ہر حرکت کے ساتھ خود بخود منصۂ شہود پر آئے۔ سیکولرزم کا کوئی بھی مفہوم تسلیم کر لیں، یہ نظریہ اپنی اصل کے اعتبار سے اتنا پرانا ہے کہ خود اسے فرسودہ کہیں تو مناسب ہوگا۔ یہ بنیادی طور پر اپنے مزاج میں الہامی ہدایت کا سخت حریف ہے کیونکہ یہ دونوں اپنی اصل میں تام (holistic) ہیں۔ سیکولرزم نے مظاہر پرستی، پیشوائی، گرہوں، موروثی بادشاہتوں، آج کی سائنسی رویے (scientism) اور مابعد جدیدیت کو پروان چڑھانے اور باقی رکھنے میں مدد دی ہے۔ یہ بات بظاہر مہمل اور متناقض لگتی ہے کہ سیکولرزم اجماع ضدین کو ممکن دکھا رہا ہے، لیکن انسان کے خود ساختہ مذاہب اور بعض حالتوں میں تصوف سے اس کا لگاؤ اور قیاسی فکر اور تصورات کے لیے اس کی رغبت بالکل فطری امر ہے، کیونکہ وحی و الہام کے برعکس اس کا سارا زور انسانی فکر و عمل پر ہے، اور اسی چیز کو وہ انسان کے تہذیبی وجود کے اساس و بنیاد طے کرنے والا حقیقی عامل مانتا ہے۔
اس بات کو یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ انسانی دماغ کی ہر وہ اختراع، جو اللہ تعالیٰ کے حق حکمرانی کو خود ساختہ خانوں میں بانٹتی ہے، سیکولر ہی کہلائے گی۔ مثلاً:
- تمام خرافات (یونانی ہوں یا رومن) اپنی اصل میں سیکولر ہیں؛
- ہر بادشاہ جو اپنی حکمرانی کی سند حضور خداوندی (divine) سے لاتا ہو، وہ بھی سیکولر ہے؛
- پیشوائی کے یہ دعوے کہ انہیں ثالثی اور مختاری کی الہی سند حاصل ہے، سیکولرزم ہی کے مظاہر ہیں؛
- کوئی شخص جو اللہ پر ایمان رکھتا اور نماز وغیرہ پڑھتا ہو، لیکن اپنے عقیدے (اسلام) کے سیاسی، سماجی اور اجتماعی اطلاق کا منکر ہو، سیکولر ہے؛
- کوئی شخص یا گروہ اگر عقیدے کے سماجی مطالبات کو چھوڑ کر خالی خولی روحانیات پر زور دے، وہ بھی سیکولر ہے؛
- کوئی بھی طرز حکمرانی جس میں حاکمیت اعلیٰ عوام الناس کی مانی جائے اور انہی کے عزم اور خواہشات کو قانون سازی کا منبع تسلیم کیا جائے، وہ بھی سیکولر ہی ہے۔
درج بالا میرا نقطۂ نظر اس روایتی تصور سے مختلف ہے جس کا دعویٰ ہے کہ: سیکولرزم نے 1830ء کے عشرے میں اس یورپی ہیجان میں جنم لیا، جب ایک طرف غیر جذباتی جامد عقائد و افکار (جیسا کہ عیسائی پیشواؤں کا عمل تھا) تھے اور دوسری طرف دولت مند اور طاقتور حلقوں کے مذہبی اور سیاسی آزادیوں کے خلاف معاندانہ طرز عمل کا آپس میں گٹھ جوڑ ہورہا تھا۔ یوں پہلے سے پروان چڑھتے خدا بیزاری کے ریشوں (تھامس بیکن اور تھامس ہکسلے)، افادیت پسندی (جریمی بینتھم اور جیمس مِل) اور قابل مشاہدہ وضعیات (سینٹ سائمن اور آگسٹ کومٹ) کو فکری گٹھ جوڑ کا موقع ملا۔
عصر حاضر کے سیکولرزم کا راستہ جس چیز نے صاف کیا، وہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار مغربی نظام تھا جسے ایک طرف کلیسائی اقتدار اور دوسری طرف خاندانی بادشاہتوں کے ستونوں نے سہارا دیا ہوا تھا۔ اس سیکولر عمل کو جس چیز نے تیز تر کیا وہ سائنسی امکانات اور توقعات تھیں، جس کے سحر میں عام لوگ گرفتار ہوئے اور خواب حقیقت بنتے دکھائی دینے لگے۔
عملداری اور اختیار کا مسئلہ
سیکولرزم اور مذہب میں تنازع روزِ اول سے موجود ہے، کیونکہ دونوں عملداری کے معاملے میں سخت جان حریف واقع ہوئے ہیں۔ مثلاً مذہب اپنے آپ کو حق بجانب سمجھتا ہے کہ وجود انسانی کے لیے عالم آخرت پر زور دے، کیونکہ انسان کی اخلاقی بحالی کے لیے ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کو قادر مطلق اور فنا سے بالاتر ہستی اور انسانی زندگی کو فانی اور جوابدہ مانا جائے۔ مذہب کے نزدیک ان اساسیات کا حصول اسی صورت میں ممکن ہے جب انسان کے معاشرتی اور سیاسی نظام کو اس طرح سے ترتیب دیا جائے کہ استحصال کے بجائے انصاف کی راہ کشادہ ہو اور انسان اپنے اخلاقی و روحانی اور مادی امکانات کا ذمہ داری کے ساتھ اظہار کر پائے۔
سیکولرزم کو اس سے انکار ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ مذہبی دعووں کی بنیاد پر کیے گئے من مانے فیصلے کس طرح سماج کی اصلاح کر سکتے ہیں، جبکہ ان دعووں اور فیصلوں کا ماخذ ایک غیر یقینی اور مبہم ذریعہ اور اس کے کام اور احکام ہوں۔ لہٰذا مذہب اور سیکولرزم میں نزاع کا معاملہ اقتدار اور اختیار سے متعلق ہے۔
یہی وجہ ہے کہ خواہ مذہب ہو یا سیکولرزم، اس کشمکش میں کوئی بھی سر جھکانے کو تیار نہیں ہے۔ اس زاویہ سے دیکھیں تو یہ کہنا کہ ان میں الحاق ممکن ہے، ذہنی مغالطہ کے سوا کچھ نہیں۔ اسی طرح یہ سوچنا کہ دونوں باہم رہ سکتے ہیں دونوں کی فطرت سے ناواقفی کی دلیل ہوگی۔ ان کا ٹکراؤ ان کی فطرتوں میں ودیعت ہے۔ مذہب کو زندہ رہنے کے لیے لازم ہے کہ وہ پہاڑوں اور غاروں سے اترے اور زندگی کے بہاؤ میں آئے۔ سیکولرزم کو زندہ رہنے کے لیے ضروری ہے کہ مذہب پہاڑوں پر اور مزاروں اور خانقاہوں میں ہی رہے، تاکہ وہ اپنی من مانی کرتے ہوئے انسانی آدرشوں کو ان کے اخلاقی اور روحانی متن سے محروم کرے۔
آویزش کے اس سارے منظر نامے کو مختصر طور پر دیکھا جائے تو یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ مذہب کو سماجی رشتوں ناطوں سے دور رکھیں تو یہ مرجھانے لگتا ہے۔ اسی طرح جہاں اور جب مذہب کو برتری ملتی ہے، تو سیکولر فکر بدمزگی سے پسپائی پر مجبور ہوتی ہے۔
ساتھ ہی یہ بات بے جوڑ ہے کہ ایک شخص خدا پر ایمان بھی رکھے اور سیکولر بھی ہو۔ کیونکہ یہ ایک ناممکن مقدمہ ہے کہ خدا کو موجود تو مان لیا جائے لیکن مادی موجودات سے اس کے کسی تعلق اور واسطے کو تسلیم نہ کیا جائے۔
اس نظریے کے اصل کی بحث میں یہ دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ جہانِ فلسفہ میں سیکولرزم اور مادیت پرستی اپنے اصل میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ لیکن ایسا سوچنا سطحی عمل ہوگا۔ کیونکہ اس کی بنیاد نہ تو سیکولرزم کی تاریخ میں موجود ہے، نہ فلسفے میں۔ سچ یہ ہے کہ سیکولرزم نے مادیت پرستی کی کوکھ سے جنم لیا ہے۔ ایچ بی ایکٹن (H.B. Acton) کے الفاظ میں مادیت پرستی کا نام عقائد کے اس یک نسلی مجموعے کو ملا جس کا تعلق دنیا کی اس فطرت سے ہے جو مادہ کو اولیت اور دماغ (یا روح) کو ثانوی حقیقت کا مقام دیتا ہے۔
یہ سوالات کہ جس کائنات میں ہم رہتے ہیں اس کی نوعیت اور اصل کیا ہے؟ یا یہ کہ زندگی کن ضابطوں اور قاعدوں کی پابند ہو؟ لازمی طور پر قیاسی تصورات (فی الاصل خیال آرائیوں) کے دائرے میں آتے ہیں۔ ایسے سوالات کے جوابات فلاسفہ مذہب کی پابندی سے آزاد رہتے ہوئے دینا چاہتے ہیں۔ چنانچہ یہ دیکھ کر کوئی حیرت نہیں ہوتی کہ ڈی ہولباخ (1723-1789) قیاسی فکر کو ہر طرح کی مادیت پرستی کا عہد نامہ جدید کہتا ہے۔
لیکن جہاں قیاسی تصور زندگی نے مادیت پرستی کے بیج بوئے، ثانی الذکر نے سیکولر عقیدے کو علمیاتی بنیاد فراہم کرنے کے لیے رضاعی ماں کا کردار ادا کیا۔ اس کا مشاہدہ مادیت پرستی کے ابتدائی کلاسیکی اظہار کے حوالے سے لیوسیپس (Leucippus) اور ڈیموکریٹس (Democritus) کے افکار میں کیا جا سکتا ہے۔ جن کے مطابق:
- عالم موجودات سوائے ایٹمی ذروں کے اجماع کے اور کچھ بھی نہیں؛
- احتمال و اتفاق کوئی چیز نہیں۔ یہ ہماری جہالت پر پردہ ڈالنے کی افسانہ طرازی ہے۔ ہر چیز کے وقوع پذیر ہونے کی ایک علت اور ضرورت ہوتی ہے۔ یہ ضرورت اس کی ساخت کا لازمی جزو اور خودکار ہوتی ہے اور اس کا کوئی مقصدی یا غائی انجام نہیں ہوتا۔
- وجود کی کوئی روحانی اہمیت نہیں کیونکہ لاشے سے کچھ بھی برآمد نہیں ہوتا۔
- مادے کی مقدار ہمیشہ وہی رہتی ہے۔ نہ کچھ تخلیق ہوتا ہے، نہ کبھی ضائع ہوتا ہے۔
یہ سارا تصور اپنی اصل میں سیکولر ہے اور سیکولرزم کی پرداخت کے لیے زرخیز زمین فراہم کرتا ہے۔ یہ خیال بھی قطعی طور پر غلط ہے کہ سرمایہ داری اور سوشلزم نے سیکولرزم کو جنم دیا۔ معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ کیونکہ اول الذکر وجود میں آ ہی نہیں سکتے تھے اگر انسانی کردار نے اپنے متعلق آزاد روی پر مبنی سوچ کی راہ نہ اپنائی ہوتی۔ یہی آزاد فکری، سیکولرزم کا بنیادی اصول ہے۔
خود کارل مارکس کا بھی یہی خیال تھا۔ مقدس خاندان کے نام سے اس کی 1845ء کی کاوش نے روایتی طور پر یہ تسلیم کیا کہ علوم طبیعی اور سوشلزم اٹھارویں صدی کی فرانسیسی مادیت پرستی کے نتائج تھے۔
سیکولرزم کا مقدمہ پیش کرنے والوں کی ایک اور کوتاہ نظری یہ ہوتی ہے کہ وہ اعتقادی مادیت پرستی کو فروغ و مادی مفاد کے لیے کی جانے والی کاوشوں کے ساتھ گڈ مڈ کر دیتے ہیں۔ فلسفہ ان دو امور کو ایک نہیں سمجھتا: مادیت پرستی ایک نظام حیات ہے، جو حقیقت واقعی کی فطرت سے بحث کرتی ہے یہ صحیح تر الفاظ میں اس کا ایک مضبوط مابعد الطبیعی زاویہ نگاہ ہے۔ عام فہم گفتگو میں مال و متاع کے لیے انفرادی تڑپ کو مادیت پرستی سے گانٹھنا شاید قابل تسلیم ہو، لیکن فلسفیانہ بحث میں اس کی گنجائش نہیں۔
مذہب اور ریاست میں تفریق
یہ کہنا بھی نہ صرف غلط ہے، بلکہ الجھن پیدا کرتا ہے کہ: سیکولرزم دراصل مذہب اور ریاست کے درمیان حد بندی کی باڑھ ہے۔ اس مفروضے کے نتیجے میں خود سیکولرزم کی بطور ایک نظریے کی تحقیر ہوتی ہے۔ یہ حیات انسانی کے متعلق مذہب کے طرز و سلوک کا بھی غلط مطالعہ ہے۔ یہ تفریق مذہب کی جان نکال لیتا ہے کیونکہ اس طرح تو اللہ تعالیٰ کے اختیار مطلق کی مکمل طور پر نفی ہوتی ہے اور اسے ایک بے جان وجود کی شناخت دی جاتی ہے، یا زیادہ سے زیادہ ایک مقدس و مکرم یادگار ہے! ساتھ ہی سیکولر ریاست، قانون سازی اور نظم عدل سے لے کر تعلیم اور ثقافتی امور تک کا سارا اختیار اپنے ہاتھ میں لے لیتی ہے۔ یہ سارا مقدمہ سادگی اور بھولپن کا نادر نمونہ ہے کہ: یا تو خدا ہے ہی نہیں، اور اگر موجود ہے تو اس کے پاس اپنی مخلوق کے لیے کوئی عملی منصوبہ نہیں۔ اور یہ کہ اسلام جو ازمنہ وسطیٰ سے تعلق رکھتا ہے، زمانے سے بہت پیچھے رہ گیا ہے۔
لاریب، اس طرح کا تصور قادر مطلق خدا کی جگہ نئی بت پرستی کو سامنے لاتا ہے، جس میں عامۃ الناس خود ہی اپنے حاکم اعلیٰ اور خود ہی رعیتِ محکومہ ہوتے ہیں۔ اب آج کے جمہوری مغالطوں اور عوام کو مقام خداوندی تک اٹھالے جانے کے متعلق خواہ کوئی کچھ بھی کہے، عوام کی حاکمیت کا سارا تصور ایک لایعنی فسانہ طرازی ہے، جس کے فضائل بیان کر کے جو چاہے دل بہلاتا رہے، لیکن یہ ایک منظم اور مربوط سیاسی نظریے کی تشکیل و تعمیل میں یکسر ناکام ثابت ہوا ہے۔ یہ سوچنا نری ذہنی پسماندگی ہے کہ "عوام اپنے سے جدا اور خود سے بالاتر ہوکر اپنے آپ پر حکومت کرتے ہیں" یہ کیسے ممکن ہے کہ عوام کو خدائی کے بلند ترین مقام پر بھی لے جایا جائے اور پھر ساتھ ہی رعیت کی پست سطح پر بھی رکھا جائے؟ کسی بھی ڈھنگ سے جائزہ لیں، ساری بات متضاد اور ناممکن گورکھ دھندہ ہے۔
مذہب اور ریاست میں تقسیم اور تفریق کا لازمہ یہ بھی ہے کہ قوانین روبہ کار رہیں، کفایت اور کارکردگی سے پیوستہ ہوں، اور ان کی بنیاد لازماً اخلاقیات پر نہ ہو۔ کیونکہ اخلاقیات کے بارے میں یہ شبہ پایا جاتا ہے کہ یہ مذہب کے سائے میں رہنے والی کوئی باطنی چیز ہے۔ دوسری جانب اگر قانون کے پورے تصور کو اخلاقی پس منظر سے کاٹ دیا جائے تو وہ معیوب ہوجاتا ہے، کیونکہ یہ اطاعت کا مطالبہ تو کرتا ہے لیکن انسانی ضمیر پر دستک نہیں دیتا۔ اس صورت میں قانون محض حکم نامہ بن کر رہ جاتا ہے، جس پر چاروناچار عمل تو ممکن ہے لیکن اس کی تکریم نہیں۔ اخلاقی اور قانونی قواعد کی اسی تفریق کی وجہ سے سیکولر معاشرے حد سے زیادہ قانونی بھی ہوجاتے ہیں اور ساتھ ہی ان میں جرائم بھی بڑھ جاتے ہیں۔ ایسے معاشروں میں قانونی ضابطوں پر عمل تو کیا جاتا ہے لیکن اخلاقی ضابطے بے دھڑک توڑے جاتے ہیں۔
سیکولر خواتین و حضرات چاہیں تو اخلاقیات کے مطالبے ٹھکرا سکتے ہیں لیکن اچھی سوسائٹی کیا ہوتی ہے یہ مسئلہ جوں کا توں موجود رہے گا۔ ہمارے اس دور کا یہ زندہ سوال بار بار ابھر کر سامنے آتا ہے کہ ایک اچھا سماجی ڈھانچا کس طرح حاصل کیا جا سکتا ہے؟ ایسا معاشرہ جس میں قانونی اور اخلاقی محکمانہ اختیار میں جدائی نہ ہو۔ ارسطو کی اصطلاح میں ایسا معاشرہ جس میں ایک اچھا انسان ایک اچھا شہری بھی ہو۔ جب بات اس طرح بیان کریں گے تو معاملہ یکدم سیاسی اور قانونی جواز کی بحث برپا کر دیتا ہے۔ میرا خیال ہے یہی معاملے کی اصل جڑ ہے۔ مذہب اور ریاست میں تفریق پر اتنا زیادہ زور ہی اصل مسئلہ بن جاتا ہے۔
مزید برآں حقیقی مذہب کے متعلق نہیں کہا جا سکتا کہ یہ کبھی مفید، کبھی پُرخطر - عموماً غیر ضرر رساں اور ذاتی معاملہ ہے۔ اس طرح کی تعریف یہ حقیقت نظر انداز کر دیتی ہے کہ مذہب (اصلاً دین) ذاتی معاملہ نہیں ہوسکتا۔ الہیات اپنے تفویض شدہ کام سے مخلص نہیں ہوسکتی کیونکہ ذات باری تعالیٰ کو مرکز قرار دینے کی کوئی بھی سنجیدہ سوچ معاشرتی تشکیل نو کا مطالبہ کرتی ہے۔
لیکن اتنے واضح تضاد کے برعکس، سیکولرزم کی خواہش بس یہی ہے کہ انسانی عمل کے سیاسی و سماجی دائرے میں مذہبی اثر ختم کر دیا جائے۔ کیونکہ ایسا ہوجائے تو سیاسی عمل پر سے روحانی سائبان ہٹ جائے گا۔ پیغام بالکل واضح ہے۔ زندگی کے متعلق دین کا اجتماعی تصور قبول نہیں۔ نہ اس کے ثقافتی ارتباط کی علامات کو اپنا اثر دکھانے کی اجازت ہوسکتی ہے۔ سیکولرزم کا یہ لازمی تقاضا ہے کہ انسانی زندگی کسی الہامی فرمان سے بالکل آزاد ہو، عوام کے ذہنوں سے تاریخ کا سحر توڑ ڈالا جائے تاکہ وہ ماضی کی رومانویت میں ڈوبے رہنے سے باز آجائیں۔
چنانچہ مذہب اور ریاست میں دوری کی نقشہ گری بے مقصد نہیں ہے۔ اس میں وہ سارے رنگ موجود ہیں، جو سینٹ سائمن، آگسٹ کومٹ، سگمنڈ فرائڈ اور ایمیل درکیم نے اپنی تحریروں میں بھرے۔ ان سب نے مذہب کو انسان کا بچپنا جانا۔ کومٹ (Comte) نے سوشل اسٹیج کا نظریہ کے نام سے ایک ترکیب پیش کی، جس میں مفروضوں کی بنیاد پر انسانی ارتقا کی تصویر کشی کی گئی کہ کس طرح انسانیت کا فکری سفر الہیات سے شروع ہوا اور رفتہ رفتہ فلسفہ اور بالآخر سائنس تک جا پہنچا۔ درکیم (Durkheim) کو مذہب میں ایک ادراکی اور وجدانی روح نظر آئی، کیونکہ سوسائٹی کو باہم جوڑے رکھنے میں اس کا کردار تھا۔ ٹائلر (Tylor) کو مذہب کی تاریخ مظاہر پرستی سے مشرکانہ افعال اور بالآخر وحدانیت کی طرف حرکت کرتی دکھائی دی۔ فرائڈ اس نتیجے پر پہنچا کہ مذہب حقیقت کلی کو ایک مغالطہ آمیز سانچے میں ڈھالتا ہے۔ تاکہ عمومی سطح پر دکھوں کا مداوا ہو۔ اس نے لوگوں کو تلقین کی کہ احساس گناہ سے پیچھا چھڑائیں کیونکہ اس سے وہ اعصابی امراض میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ کارل مارکس کو انسان بندھنوں میں جکڑا نظر آیا اور اس کے خیال میں مذہب بھی ایک جکڑ بندی تھی۔ پیداواری عوامل کو اولیت عطا کر کے اس نے یہ گمان کیا کہ واضح نظر آنے والے اقتصادی اور معاشی تعلقات کے نیچے ہی "باطنی قالب اور سانچے موجود ہیں۔"
مختصر یوں سمجھ لیجیے کہ ان حضرات نے انسانی معاشرے کی تشکیل و ارتقا میں تین مراحل کا مفروضہ قائم کیا: پہلا مرحلہ الہیاتی تھا جس میں مذہب سماجی عمل کا اولین محرک تھا۔ اس کا کردار یکجائی اور عمل دونوں سے متعلق تھا۔ دوسرا مرحلہ وہ تھا جب معاملہ مذہب سے فلسفہ کی طرف منتقل ہوجاتا ہے۔ جب انسان اپنی عقلی صلاحیتوں کو آزادانہ استعمال کا موقع دیتا ہے اور فکر و نظر کا ہمہ گیر نظام وضع کرتا ہے۔ تیسرے مرحلے میں سائنس سامنے آتی ہے۔ جس کی فکر اور سوچ میں کوئی بھی حقیقت اپنی ظاہری شکل میں اس وقت تک قبول نہ ہوگی، جب تک کہ اس کی تصدیق مشاہدہ اور تجربہ نہ کر دیں۔ سائنسی اکتشافات ہی حقیقت کی پردہ کشائی کریں گے اور انہی کے مطابق وضع شدہ قوانین اس معاشرے کی تشکیل کریں گے، جس پر مذہب کی دھند، توہم پرستی اور جہالت کی چھاپ نہیں ہوگی۔
سائنس پر قائم سماج اور یقینِ کامل کی رخصتی
مذکورہ بالا حکماء کے باہمی اختلافات چھوڑیے کہ وہ اکثرو بیشتر سطح بینی پر مشتمل ہیں۔ دراصل ان کے ذہنی منظر نامے کو نظریہ ارتقا نے جلا بخشی۔ ساتھ ہی یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ اس معاملے میں منفرد نہیں تھے کہ جنہوں نے شعوری طور پر اس ارتقائی مفروضے کو امرِ واقعی تسلیم کر لیا تھا، جسے ڈارون کا نظریہ فطری انتخاب (natural selection) منظر عام پر لایا تھا۔ اور بھی کئی تھے جنہوں نے آنکھیں بند کر کے اس مفروضے کو بطور حقیقت گلے لگایا۔ مثلاً ہربرٹ سپنسر (Herbert Spencer) کو ارتقائی نظریہ میں آزاد منڈی کی سرمایہ داری کا جواز مل گیا۔ پیٹر کروپوٹکن (Peter Kropotkin) نے اس میں باہمی انارکی کی معقولیت ڈھونڈ نکالی۔ نطشے نے اسی سے سیاسی مطلقیت (absolutism) کا نتیجہ اخذ کیا۔ کارل مارکس کی جدلیاتی مادیت کو بھی ڈارون کے نظریہ ارتقا ہی سے کمک پہنچی۔ تھامس ہکسلے (Thomas Huxley) نے ارتقا کو اقوام متحدہ کے چارٹر سے لاجوڑا۔ غرض اتنے مختلف النوع استخراجات (inferences) تھے جو ایک سائنسی دانش سے جنم لیتے چلے گئے۔
یہ سچ ہے کہ یہ سب محض انفرادی استخراج و استنباط کی من مانی صورتیں تھیں، جہاں ہر ایک نے ایک مخصوص فکر کی آبیاری کے لیے اس نظریہ کو استعمال کیا۔ تاہم اس طرز فکر سے معاشرتی علوم اور امن اور ہم آہنگی کے لیے انسانی تڑپ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ انہی احباب کا طرز بیان اختیار کر کے بات کریں تو یوں کہیں گے کہ اپنے بھولپن میں معاشرتی علوم کے یہ دیو قامت دانشور، اتنی سی بات سمجھنے سے بھی قاصر رہے کہ سائنس انسان کی مادی حالت تو شاید درست کر سکتی ہے لیکن اس کے اخلاقی اور روحانی تزکیے کے معاملے میں کوئی خدمت انجام دینے سے معذور ہے۔ مزید برآں، ان کا ماخذ استخراج سائنسی طریق کار کا انسانی معاملات پر اندھادھند اطلاق درست نہیں، کیونکہ خواہ کسی بھی پیمانے پر جانچیں انسان اور اس کے معاملات ایک اور ہی جہان ہیں۔ سائنس تو اسباب و علل اور زمان و مکان کے تعلقات سے بحث کرتی ہے۔
اب یہ سوچنا کہ سائنس صداقت مطلقہ کی پردہ کشائی بھی کر سکتی ہے، نری سادگی ہے۔ نہ اس انداز سے سامنے آنے والے تصورات اصلاً سائنسی ہوتے ہیں، نہ انہیں پرکھا جا سکتا ہے۔ وجہ بالکل سادہ ہے کہ سائنس ایک پیش آمدہ صورت واقعہ کی تشریح تو کر سکتی ہے لیکن انسانی عمل اور اس کے پس پردہ محرکات کی تہذیب کے لیے کوئی معیار یا ضابطہ تجویز نہیں کر سکتی۔ بقول ٹولمین (Toulmin) جو کہ خود سائنسدان ہے:
”جب ہم ایک وقتی، ہنگامی اور پوری احتیاط سے موزوں کردہ نتیجہ فکر و مشاہدہ کو آفاقی صداقت سمجھ بیٹھتے ہیں، یا جب ہم کسی ایسے اکتشاف کو بڑھا چڑھا کر دکھاتے ہیں جس کا دائرہ فکر و اثر متعین اور محدود ہوتا ہے اور اسے دوسرے دوائر میں مشکل مسائل کے حل کے طور پر پیش کرتے ہیں، مثلاً اخلاقیات، جمالیات، سیاست یا فلسفہ کے مسائل، تو ہم بے چاری سائنس سے وہ کچھ چاہتے ہیں جو وہ دینے سے قاصر ہے اور یوں اس کے تصورات کو خرافات میں بدل دیتے ہیں۔“
سائنس پر مبنی سماجی تشکیلات اور اداروں کی کمزوریاں جو بھی ہوں، لیکن سائنسی ترغیبات ان لوگوں کے لیے اتنی زور دار تھیں جو طبیعی قوانین دریافت کرنے اور پورا اختیار حاصل کرنے کے بعد یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ وہ سائنسی انداز فکر و نظر (scientism) کا اطلاق مذہبی عقائد پر بھی کر سکتے ہیں اور یوں اپنے لیے فتح کا ایک اور جھنڈا گاڑھ سکتے ہیں۔
لیکن اگر سائنس نے مادی نعمتوں اور سہولتوں کا چسکا دیا تو سائنسی فکر و نظر نے عیسوی مذہب کی خرابیاں اجاگر کر دیں۔ تنقیدی جائزے نے بائبل کی اساسی ساخت سے متعلق مسائل ادھیڑ کر سامنے رکھ دیے ۔ یوں جہاں جہاں الہامی کلام میں انسانی بیان کی آمیزش تھی وہ آشکارا کردی۔ کتاب مقدس کی الہیات مشرکانہ فکر و تصور سے آلودہ تھی کہ اس کے طریق عبادت اور سلوک میں ایک طرف صلیب تھی تو دوسری طرف کفارہ ادا کرنے کے لیے انسانی وجود اختیار کرنے والا خدا کا بیٹا (son-God) تھا۔ اس پر مستزاد اس کا علم فلکیات یونانی حکماء کا عطا کردہ تھا۔ بشر اور خدا کی خود ساختہ یکجائی نے کتاب کے متن کو آلودہ اور نامقدس بنا کر رکھ دیا۔ عیسائی انجیل کی نظر سے دیکھیں تو تاریخ، پیغام اور الہام پر حاوی نظر آئے گی۔
اس سے بھی بدتر صورت یہ ہے کہ سائنسی فکر و نظر کا اطلاق انسان پر کریں تو نور الہی سے منور اس تخلیق کی الہامی تکریم مٹ کر رہ جاتی ہے۔ اب وہ محض بولنے، پڑھنے، لکھنے اور تعمیر و ترقی کرنے والا ایک بڑا بندر ہے جس نے ارتقا کے مراحل طے کر کے حادثاتی طور پر بشر کا مرتبہ پالیا۔ اس کی شرافت و نجابت جس کا اظہار اس کے جذبۂ ترحم، حوصلہ مندی اور قوتِ فیصلہ سے ہوتا ہے، وہی غلطی جو سیکولر حلقوں نے نظریہ ارتقا کے ضمن میں کی، اضافیت کے بارے میں بھی برابر دہرائی گئی۔ اگر کچھ معروضی سچائی رہ گئی تھی تو وہ باقی نہ رہی۔ سائنس اپنی تمام تر تابناکی کے یقین کامل کو نگلے جا رہی تھی۔ سیکولر ریاست کے شہری اندر سے کھوکھلے ہو کر رہ گئے۔ اگر یہ دنیا بے معنی تھی تو پھر زندگی بھی بے معنی ٹھہری۔ انسانی زندگی خود انہدامی کا لمحہ بہ لمحہ تسلسل بن کر رہ گئی۔ بقول لیوس ممفورڈ (Lewis Mumford) ”پتھر کے دور کا کوئی غریب ترین وحشی بھی شاید اتنی مفلس و کنگال اور اخلاقی گراوٹ میں لتھڑی ہوئی سماجی زندگی کا فرد نہ ہوگا۔“ اس احساس محرومی میں کمزور اور طاقتور یکساں مبتلا تھے، کسی کے لیے جائے اماں نہ تھی۔ آئن سٹائن جیسے لوگ نہ صرف اپنے نظریہ اضافیت کے سماجی نتائج پر فکر مند تھے، بلکہ کوانٹم میکانیات (quantum mechanics) کے متعلق بھی انہیں وہی تشویش لاحق تھی، جس نے جوہری دنیا کو مبہم اور مجہول بتایا تھا۔ آئن سٹائن نے اپنے ساتھی میکس بورن (Max Born) کے نام خط میں اس ذہنی خلجان کو بیان کیا:
”تم ایک ایسے خدا پر ایمان رکھتے ہو جو پانسے کھیلتا ہے لیکن میں ایک ایسی کامل، پرامن اور باضابطہ دنیا پر یقین رکھتا ہوں جو حقیقی طور پر موجود ہے اور میں بے حد قیاسی انداز میں اسے گرفت میں لانے کی کوشش کر رہا ہوں۔“
مغربی سیکولر معاشرے میں ایمان و ایقان کا فقدان دیکھ کر برٹرینڈ رسل نے (جو ہرگز مذہبی نہ تھا) خواہش ظاہر کی کہ کاش پرانی قدریں پھر بحال ہو سکیں۔ اس کے خیال میں عیسائیت میں بیسیوں عیب تھے لیکن اس کی کامل رخصتی مغرب کے لیے تباہ کن ثابت ہوئی ہے۔ جوزف ووڈ کرچ (Joseph Wood Krutch) لکھتا ہے:
"ضابطے اور پیمانے قیاسی چیزیں ہیں لیکن یہ بات بے حد مشکوک ہے کہ کوئی انسان اس یقین کے بغیر کہ وہ جیسے بھی حقیقی پیمانے ہیں، روحانی یا طبعی طور پر اچھی زندگی گزار سکتا ہے۔ کیونکہ ان ضابطوں کے بغیر معاشرہ انارکی کی لپیٹ میں آ جاتا ہے اور فرد کو اپنی ذات اور کائنات کے درمیان قائم ہو جانے والے ناقابلِ برداشت عدم توازن اور بے آہنگی کا احساس ہونے لگتا ہے۔ آخرکار وجدانی اور جذباتی طور پر انسان ایک اخلاقی جانور ہے۔"
کتنا شدید اور بھرپور اعتراف ہے۔ لیکن اس کے باوجود گرچ کے بیان میں موجود طرفہ تماشا بھی قابل توجہ ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اخلاقی اقدار "قیاسی چیزیں" ہیں، لیکن سیکولر سماجی منظر سے خوف زدہ اور پریشان ہو کر وہ وہی قیاسی طرز کہن ایجاد کرنا پسند بھی کرتا ہے۔
عقلیت پرستی اپنا تضاد خود پیدا کرتی ہے
ایک مہیب اندھی مشینی قوت کی طرح سیکولرزم نے ہر دوسری چیز کو روند ڈالا، اور جب اس نے اپنے اہداف حاصل کر لیے تو اس میں دلیل اور محبت کے نام سے کچھ باقی نہ رہا۔ پھر یہ بھی دور دفع ہوئی اور اتنی ہی بری ٹھہری جتنا ان کے نزدیک مذہب تھا، کیونکہ اس نے:
- "وحدت، علت و معلول، تشخص اور ٹھوس وجود جیسے امور اپنا لیے ہیں۔"
یہ 180 درجے کی الٹی چھلانگ تھی۔ دلیل و برہان جو جدیدیت کے امتیازی وصف بیان کیے گئے تھے، زندگی کے تعارف میں معیار پر پورا اترنے میں ناکام ہونے لگے۔
بت پرستی کا نیا روپ: سیکولرزم
خود منطق (Logic) جو کبھی دلائل کی ماں ہے اور جو کبھی علم کامل مانی جاتی تھی، اضافی ہی معلوم ہونے لگی۔ کم از کم سات ایسے سسٹم وجود میں آ گئے جو اس کے دو ہزار سالہ تقلب ناپذیری (Immutability) لیے ہوئے بھاری بھرکم چہرے کو چیلنج کرنے لگے۔ مؤرخ پال جانسن کہتا ہے: "ایک ایسی دنیا میں جہاں منطق کے اصول و قوانین بدلے اور شکست و ریخت کا شکار ہوئے، یہ دیکھ کر بالکل اچنبھا نہیں ہوتا کہ جدید ادوار ویسی صورت نہ پا سکے، جیسے وہ 1920ء کی نسل کو منطقی نظر آتے تھے۔"
اس صورت حال میں سیکولرزم کو ایک دوسرا رخ اختیار کرنے میں زیادہ دیر نہیں لگی۔ نئی نئی بیماریوں کا ایک سلسلہ چل نکلا۔ مثلاً اخلاقی بے ضابطگی، شکستگی، بے زاری اور برگشتگی جیسے عوارض سامنے آئے۔ فلسفہ وجودیت، موقع محل کے مطابق بدلتے اخلاقیات، بیہودہ اور ظلم و ستم کے معاشرتی بھونڈے پن نے علامات کی شکل بھی اختیار کی اور ایک بے ہنگم دنیا کے نقیب اور پیش رو بھی ہے۔ جن کی پشت پر کوئی خدا موجود نہ تھا، نہ کوئی ضابطے تھے اور نہ اصول، کہ جن کی پابندی کی جاتی۔ یہ سب کچھ ویسے ہی بے معنی تھا جیسا ایک بے کار، بے ہنگم اور واہیات دنیا کا اعتقاد۔ یہ امر خود ان پر بھی واضح ہو گیا جو اس نظریہ کے حامی تھے۔
جوزف فیچر (Joseph Fletcher) کے مطابق:
"اضافی اور متعلق ہونے کا مطلب یہ ہے کہ کسی نہ کسی چیز کے حوالے سے یہ اضافت ہوگی۔ قطعی اضافی ہونا تو غیر مرتب ہونا ہے، ناقابلِ قیاس، ناقابلِ تصفیہ، لایعنی اور غیر اخلاقی۔ حقیقی اضافیت کے لیے ضروری ہے کہ کوئی معروضی اور مطلق قدر ہو۔"
کیا یہ کوئی عجیب و غریب بات تھی؟ ایک بے مغز اور تہی دامن دنیا، جس میں کوئی متعین نمونہ اور طریق موجود نہ ہو، وہاں معاملات کو صحیح ڈھنگ پر چلانے کی کیا صورت ہوگی؟ کیرک گارڈ کا جواب یہ ہے: "جذبات کا فیصلہ ہی قابلِ اعتماد ہوگا۔" موصوف کا خوبصورت تراکیب کا میلان اپنی جگہ لیکن اگر دنیا ناقابلِ اعتبار ٹھہرے تو پھر خود جذبات کی بھی کوئی سند نہیں۔ ڈنکن ولیمز (Duncan Williams) کو اس بات میں دوغلا پن نظر آیا۔ چنانچہ اس نے کھل کر پوچھا:
"ایک غیر منظم، منتشر اور انکل پیچو دنیا میں دفور جذبات سے ابھرنے والے نتیجے پر بھروسا کیوں کیا جائے؟"
یہ قطعاً حیرت کی بات نہیں کہ کسی سماجی اثاثے اور معاون کے بغیر سیکولر معاشرہ انمل بے جوڑ رہتا ہے، جو ذروں کی طرح منقسم اور خوف زدہ افراد پیدا کرتا ہے، جنہیں ایک دوسرے سے کوئی رغبت نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ جدیدیت "تفریق اور جدائی ڈالنے والی ثقافت" بن گئی۔ ایک کھوکھلی سوسائٹی جس میں یہ بات واضح ہوگئی کہ ہر سماجی فرض خطرے سے دوچار اور افراد کا باہمی تعلق اور رشتہ شیشے سے نازک تر رہے گا۔
عقلیت کے لیے مغرب کا شور و غوغا بے نتیجہ بھی نہ تھا۔ اس نے سیکولر معاشروں کو منظم شکل دی۔ ٹیکنالوجی اور نئے آلات اور طریقوں نے نہ صرف حسن کارکردگی دی بلکہ زبردست قوت بھی فراہم کی۔ البتہ نقصان بھی واضح تھا۔ ایک بانجھ یکسانیت سماجی منظر پر حاوی ہو کر رہ گئی، جس نے قوس قزح کے سات رنگوں کو یک رنگ منظر میں تبدیل کر کے رکھ دیا۔ اگر کاروبار سیاست کو قومی ریاست کی تکریم و تقدیس نے اطلاقی شان اور وسعت عطا کی، تو معاش و اقتصاد کو یا تو استحصالی سرمایہ داری نے اپنے ہاتھ میں لے لیا، یا پھر دم گھونٹنے والی سوشلسٹ نوکر شاہی نے اچک لیا۔ جبکہ انسانی معاشرے پر بے رحم مادیت نے پنجے گاڑ لیے۔ اب انسان ہوں یا ثقافتیں، یہ سب محض قابل استعمال اشیاء ٹھہریں۔
اسی طرح تعلیم حکومت میں جمہوریت مجرد اعداد و شمار کا کھیل بن کر رہ گئی ۔ وہ یوں کہ اکثریت کی آمریت مسلط ہو گئی۔ دیگر مذاہب کے پیروکاروں اور ان کے ثقافتی تقاضوں کی کوئی فکر باقی نہ رہی۔ سیکولرزم نے بہ شمول خواتین اور مذہبی اور نسلی گروہوں کے بھی اقلیتوں سے صرف نظر کو راہ دی۔ میکس ویبر کے بقول: "سیکولر سماجی منظر محض سطحی طور پر کثریت لیے ہوئے ہے۔"
عقلیت پر اتنے اصرار نے روح کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیا۔ انسانی تعلقات میں بعد، دوری اور کاروباری انداز در آئے۔ گرمی احوال میں کمی آئی تو طعن آمیز محاوروں اور زہر ناک اصطلاحات کا چرچا عام ہوا۔ انسان کو ایک بے روح مصنوعی وجود، روبوٹ یا ایسے ہی کچھ نام ملے، جو سانس تو لے رہا تھا لیکن زندہ اور متحرک وجود نہ تھا۔ عقلیت پسندوں کے لیے سماجی منظر کوئی دور پار کی چیز بن کر رہ گئی، جس کے ساتھ وہ اپنی کوئی نسبت قائم نہیں کر پا رہے تھے۔
اگر سماجیات (Sociology) انسانی حالت کی تشریح کے لیے نظریات سامنے لائی، تو نفسیات نے لاتعلقی کی بات عام کر دی۔ ایسا اس لیے ہوا کہ عقلیت پسندی میں ابتدا ہی سے خرابی کی کوئی صورت مضمر تھی۔ تخلیقی جوہر دکھانے کے لیے اسے ایک ٹھوس سانچے کی ضرورت تھی۔ سٹینلے پیری (Stanley Perry) کے الفاظ میں اسے: "ایک صحت مند روایت کا سیاق و سباق" چاہیے تھا، اصل مجرم تو بڑھا چڑھا کر پیش کی گئی موضوعیت تھی، جس نے رضاکارانہ طور پر نفس کو مقام تعظیم پر لا بٹھایا، تا کہ ایسے اوٹ پٹانگ فیصلے کیے جا سکیں، جن پر مذہب اور تاریخ کا واجبی سا بوجھ بھی نہ ہو۔ چونکہ ان دونوں کی ماورائیت انسانی فکر و عمل کو مسخ کر دیتی ہے، لہٰذا اپنے اندر کے امکانات کو بروئے کار لانے کے لیے نفس کو حقیقی دنیا میں بے قید سیال حرکت کی اجازت ہونی چاہیے، جس کی شرح تعبیر وہ خود اپنے تجربات کی بنیاد پر کرے گا۔ ہیڈیگر (Heidegger) کے مطابق: "صرف وہی (یعنی نفس) ٹھوس معروضیت کی بنیاد میں موجود اور نمائندگی کے قابل ہے۔"
سیکولر ذہن کے نزدیک خود وہ طریق کار بھی اہم ہے جس کے ذریعے سے ایک نفس انسانی اپنے فیصلوں کے لیے متن فراہم کرتا ہے، کیونکہ یہی جدلیت ترقی کو ممکن بناتی ہے۔ رسمی عقلیت کے فوائد اپنی جگہ اس کی مرکز گریز سماجی حرکت کچھ زیادہ فرحت بخش ثابت نہیں ہو سکی۔ سماجی حرکت پر کنٹرول کا کمزور ہونا اس کی ناکامی بنا، اور تہذیب نفس میں کمی دوسرا نشانہ بنا۔ اس صورت حال میں عالی ظرفی، شجاعت، حوصلہ مندی، بزرگی اور جذبہ ترحم گزرے ہوئے وقتوں کی یادیں بن کر رہ گئے۔ سیکولر سوسائٹی جیسی کچھ ڈھل مل ہے، یہ رسم و رواج اور عادت کے نام پر کچھ بھی ضابطے اور طور طریق وضع کر سکتی ہے۔ جنسی آزاد روی اور حرامی بچوں کی پیدائش سے لے کر اسقاط حمل اور نشہ بازی سے آگے بڑھ کر ہم جنسیت تک اس کے لیے سب کچھ فطرت کے عین تقاضے ہیں۔ اس طرح کے سماج میں قول و قرار کا کوئی وزن نہیں ہوتا، نہ اخلاقی پیمانے قابل توجہ ہوتے ہیں۔ یہ ایک پژمردہ تمدن ہے، جو حب ذات کی گہرائیوں میں ڈوبا رہتا ہے۔
سیکولرزم ہی کی ترقی یافتہ شکل مابعد جدیدیت ہے، جس کے خواب و خیال کی ابتدا فنون لطیفہ (تعمیرات، افسانہ، مصوری) میں ہوئی، جو اصلاً سیکولرزم کے درج بالا بیمار پہلوؤں کی درستگی کی کوشش تھی۔ ناقد کہتے ہیں کہ جدیدیت نے زندگی کو اس کے حسن و آہنگ سے محروم کر دیا ہے۔ اب اس کا وجود "عہد رفتہ" کے کسی عبرت آموز کھنڈرات کا سماجی منظر نامہ پیش کرتا ہے۔ عقلیت پسندی سے اس کے ملاپ کو ہم جنس اور موروثی نظامات کی تشکیل کا ذمہ دار گردانا جاتا ہے۔ اس کے جواب میں مابعد جدیدیت "مطلق اقدار سے چمٹے رہنے کے بجائے مضمرات پر غور و فکر کی دعوت دیتی ہے۔ اسی طرح عقل کے گلی تسلط کی جگہ جذبات کے آزادانہ اظہار پر زور دیتی ہے، کیونکہ بصورت دیگر یہ ذات کے لیے تباہ کن اور اعصابی بے چینی کا باعث ہوگی۔
صاف ظاہر کہ مابعد جدیدیت کا یہ پہلو فرائڈ میں نفسیات کی تکرار ہے۔ وجودیت کی فکر سے استفادہ کرتے ہوئے، مابعد جدیدیت کا انسانوں سے مطالبہ ہے کہ کسی اخلاقی بنیاد کے وجود سے انکار کی بنیاد پر بات چلائی جائے۔ اسی طرح انسان دوستی سے بھی شروعات نہ کی جائے۔ ماضی کے ایسے وثیقوں سے بھی صرف نظر کیا جائے، جن کی متنی (Textual) صداقت کے ساتھ ماضی کے کسی روحانی یا ثقافتی واقعے کا تذکرہ ہو، اور جو اس سلسلے میں کوئی ایسا اصول بیان کریں جو انسانوں کو قبولیت اور عمل پر مجبور کرے۔ یہ سب لائق اعتنا نہیں ہونے چاہئیں۔ مابعد جدیدیت کے علم برداروں کے نقطۂ نظر سے یہ عمل بالآخر انسانیت کے روایتی تصور کو منہدم کر دے گا۔ ایسا کرتے ہوئے بین الثقافتی مکالمے کا امکان بھی خود بہ خود ختم ہو جائے گا۔ ان کے نزدیک زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ماضی کو حال سے کاٹ کر رکھ دیا جائے، تاکہ یاد ماضی کی حسرتوں پر جمعیتوں اور آبادیوں کی تشکیل و تعمیر کا رخ موڑ دیا جائے۔ ساری تڑپ اور پیاس حال کے لیے نہ صرف پیدا کی جائے، بلکہ اسے ہر حال میں برقرار رکھا جائے۔
لیکن یہ بات مابعد جدیدیت کی فطرت اور مزاج کے خلاف ہوگی، اگر وہ بطور ایک رجحان اور سلوک کے اپنی توجیہ نہ کرے جو درپیش ماحول سے توافق کرتی ہے۔ اس میں بنیادی کردار بہر طور انسان کا موضوعی نفس ہے جو معروضی دنیا سے معاملہ کرتا ہے، جس میں ثالثی کردار سماجی اداروں کے ارتقا کا ہے۔ یہ ارتقا اداروں کو استقلال اور استحکام سے فرسودگی و بد انتظامی کی طرف لانے کا عمل ہے۔ جہاں "پیشہ ورانہ معاملات، جذباتی اور جنسی تعلقات، ثقافتی اور خاندانی، بین الاقوامی اور سیاسی امور میں دیر پا تعلقات کے بجائے عارضی عہد و پیمان کا چلن عام ہو۔" مابعد جدیدیت کا اس طرح کا تعارف نسبتاً بہتر عملیت کے لیے ازبس ضروری ہے۔
مابعد جدیدیت کے علم برداروں کے نزدیک انفارمیشن ٹیکنالوجی "وہ منہ مانگا ذریعہ کار ہوگی، جس سے مارکیٹ سسٹم کی تنظیم بھی ہوگی اور اسے کنٹرول بھی کیا جائے گا۔ بلکہ معاملہ خود علوم تک بڑھایا جا سکے گا اور اس سارے عمل پر حکمرانی صرف کارگزاری کی ہوگی۔"
"یہ ہی بات دوسری طرح یوں کہہ سکتے ہیں کہ نفس انسانی جبلی طور پر اپنے خالق کو جانتی اور مانتی ہے۔ اس صلاحیت کا اللہ تعالیٰ سے ایک ربط اور تعلق ہے، کیونکہ اس کی ذات نے ہی تو انسانی نفس کو وجود بخشا۔"
سیکولر ایجنڈے سے سنجیدہ حوالے اب خارج ہو چکے۔ ان کے بجائے مابعد جدیدیت اس رنگارنگی کی متلاشی ہے جو اتنی مضبوط اور توانا ہو کہ ٹیکنالوجی کے زور پر قائم نظام کی بالا دستی توڑ سکے۔ اس معاملے میں وہ دانشور حضرات سے توقع رکھتی ہے کہ وہ ہر اول دستے کا کردار ادا کریں اور رائج الوقت سسٹم کے خلاف مستند تنقیدی جائزے پیش کریں۔ سائنسی اتفاق رائے کو چیلنج کیا جائے کیونکہ یہی چیز معاشرہ کو قوت دیتی ہے۔ زیادہ بہتر ہوگا کہ ثقافتوں کی بو قلمونی اور بین الاقوامیت کی حوصلہ افزائی ہو اور انہیں یقینی بنایا جائے، کیونکہ اسی سے آخر کار ہر جگہ اقدار پر مبنی نظام ہائے حیات ٹوٹ پھوٹ جائیں گے۔
اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ سیکولرزم کا یہ مابعد جدید چہرہ نو، سرمایہ داری کا فلسفے کے محاذ پر ہر اول مورچہ ہے، جس کے نزدیک قومی ریاست اپنے دائرے اور جغرافیہ میں اس کی جوع الارض، تجارتی منڈیوں اور خام مال کے ذرائع پر قبضے کی خواہش کے لیے بہت تنگ ہے۔ اس لیے صارف معاشروں پر زور، سرحدات کی بندشیں ڈھیلی کرنا اور تجارتی محاصل میں کمی لانا، اس کے اہداف ہیں۔ دنیا بھر کے دروازے سرمایے کے لیے چوپٹ کھلے ہونے چاہئیں، یہ اس کا منشا ہے۔ قومی ریاست ایک حقیقی دشمن ہے کیونکہ یہاں صنعتی بنیاد ڈالی جاتی ہے تا کہ عوامی ضرورتیں مقامی سطح پر پوری ہوں۔ ترقی پذیر اور غیر ترقی یافتہ ممالک کے ارزاں اور کم قیمت مزدور مغرب کی گراں قیمت اشیاء بیچنے کی صلاحیت کے لیے تباہ کن ہیں۔ اس لیے ایک طرف نجکاری اور دوسری طرف مقامی کرنسیوں کا ڈالر میں مبادلہ ایسے دو ہتھیار ہیں جو چھوٹے ممالک کا دوسروں پر انحصار بڑھاتے چلے جاتے ہیں۔ عالمی مالیاتی فنڈ (IMF) اور عالمی بینک بیمار معیشتوں کی اصلاح کے پردے میں قبضہ و کنٹرول کے نئے آلات اور حربے ہیں۔ اس پس منظر میں مابعد جدیدیت کو مختصر یوں بیان کیا جا سکتا ہے:
- پائیداری کی جگہ نا بستگی اور اجنبیت
- اصلی اور ٹھوس کام کے بجائے محض دکھاوا
- اطلاعاتی سوسائٹی۔ عام کلچر اور معیشت کی، باہم پیوستگی
- ذات کی تشکیل بہ ذریعہ صارفانہ نظام
- ہم رنگ اقدار اور تناسبی طریق فکر و عمل
- جذبات و خواہشات کی اولیت (عیش و نشاط اور نمود و نمائش کا حصول)
- تکثیری ثقافت
- عالمگیریت
ثقافت میں تکثیریت فی الاصل ایک مخصوص حالت کا نام ہے، جہاں انسانی حقوق کے ورد پر ہمہ وقت زور اور لطف و مہر و آلات کا کام دیتے ہیں، یا پھر وہ تناؤ کم کرنے کے ذرائع ہیں جن کے ذریعے سوسائٹی کو موم کی ناک بنایا اور تابع مہمل رکھا جا سکتا ہے۔ صارفیت کا جذبہ اور رجحان وہ کھلونے ہیں، جن سے یہ سیکولر لادین معاشرہ کھیلتا رہے گا۔
اس زاویہ نظر سے مابعد جدیدیت ایک نیا طرز حیات بھی ہے اور سیکولر مغرب کی بالا دستی کا ذریعہ بھی۔ بالکل اسی سے منسلک ایک سوال پیدا ہوتا ہے:
کیا مابعد جدیدیت ہمارے زمانے کے حاوی تصور کے طور پر عزت و احترام کا مقام پا سکے گی اور رائج الوقت نظام پر اس کا عکس پڑے گا؟
اس چیز کا انحصار اس بات پر ہے کہ کیا مابعد جدیدیت نقد و نظر اور تنقیدی بحث کی سطح سے اٹھ کر کوئی ٹھوس نظام فکر و عمل دینے کے قابل ہو پائے گی یا نہیں۔ اسے بس اتنی کامیابی مل سکی ہے کہ اس نے اپنا آپ مغربی حکومتوں کے حوالے کر دیا ہے، جنہوں نے اسے انسانی حقوق، تحریک نسواں، مریضانہ حد تک صارفیت، اور عالمی یک قطبیت کے دائروں میں خوب استعمال کیا۔ اور وہ بھی سیاسی ڈنڈے کے طور پر جس سے ان ترقی پذیر ممالک کی سرکوبی کی گئی، جنہیں مغرب نے "گستاخ" اور اپنی اصطلاح میں "بدمعاش" قرار دیا۔ لیکن کیا مغرب کے سیکولر حضرات اس سے آگے بھی بڑھ پائیں گے اور مابعد جدیدیت کے الجھے ہوئے بے ہنگم سلسلے کو موقع دیں گے کہ وہ عقل اور دلیل پر قائم منضبط ڈھانچوں کی جگہ لے لیں؟ ایسا ہوتا بالکل نظر نہیں آتا۔
موضوعی طرز فکر و طرز عمل میں حیات انسانی شاید حالات سے نمٹنے کا اسلوب فن ہو لیکن اس کے یہ ممکن نہیں کہ وہ فنون کی اختراعی امیج اور اسلوب کی نقل کر سکے، وہ کسی صورت بھی اپنی ذات میں گم فنکار کی طرح نہیں ہو سکتی۔
زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ایک ہم آہنگ اور خود مختار نفس انسانی نہ تو قابلِ عمل خیال ہے کیونکہ بات اضافیت تک جا پہنچتی ہے، جس سے بالآخر معاشرتی وجود تہہ و بالا ہو کر رہ جاتا ہے۔ نہ یہ تصور فلسفیانہ بنیادوں پر کسی فرد یا معاشرہ کے لیے کوئی معقول بنیاد ہی فراہم کرتا ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ کوئی نفس خالی الذہن ہو اور پھر اسے واقعی آزاد بھی کہا جا سکے۔ انسانی عقل و شعور کی تشکیل اور تنظیم نہ صرف ایک شعوری اور مقصدی کوشش ہے، جو معاشرتی لوازم سے ہم آہنگ ہوتی ہے، بلکہ کچھ دوسرے عوامل بھی اس میں شریک کار ہیں، جو تحت شعوری میں بھی دنیا کی نگاہوں سے دور بہت ہی عجیب و غریب کام کرتے ہیں۔ آخر انسان کسی ایسی فضا میں تو پروان نہیں چڑھتا کہ جس میں نہ اطلاعات موجود ہوں اور نہ قدروں سے تہی اور رسم و رواج سے عاری ہو۔
ایسے کارگر عوامل میں تاریخ بھی شامل ہے، جسے ناقابلِ گرفت سلسلۂ مدارج سمجھ کر ازبس خارج نہیں ٹھہرایا جا سکتا: "ایک ایسا سٹیج جس میں پاگل پن اور دکھ درد ہو۔" اس کے برعکس تاریخ سے ہم ماضی کو سمجھ سکتے ہیں، قوموں کے عروج و زوال اور ماضی کے فیصلوں کو جنہوں نے ہمارے حال کو متاثر کیا تاریخ ہی سے سمجھا جا سکتا ہے۔ ماضی کے ورثے کے گہرے باطنی مشاہدے کے بغیر ہمارا حال ہمارے لیے قحطاً بے معنی ہے۔
اسی طرح حقیقت زمانی و مکانی کی تشریح اور تعریف کو "ایک منتشر، یک زمانی اور خود کار کائنات" کے مماثل قرار نہیں دیا جا سکتا ہے، کیونکہ اس طرح کی تشریح کسی ناول کے پلاٹ کے لیے تو موزوں لگتی ہے، جس میں ایک ذہین اور مضبوط اعصاب کا حامل ادیب خود اپنے "دکھوں کو ترک تحریف اور تشکیل نو" کے سانچے میں ڈھال کر دکھاتا ہے۔ لیکن ایسی خود ساختہ مافوق الحقیقت منظر کشی جو مذکورہ ادیب کے ذہن سے چھین کر سامنے آئے، حقیقت سے دور پار کا بھی تعلق نہیں رکھتی، خصوصاً جب بات عالم کائنات کی ہو رہی ہو۔ مثلاً محض تین سو برس پہلے کی بات ہے کہ کائنات کی شرح و تعبیر ایک عظیم مشین سے کی گئی، جسے مادہ اور رفتار کی اصطلاحات سے سمجھا جا سکتا تھا۔ مادہ، مکاں اور زماں کے تشکیشی تناظر میں کائنات کیسے دکھائی دیتی ہے، ایسی درجہ بندی اور اقسام کا یا تو علم ہی نہ تھا یا انہیں حادثاتی شمار کیا گیا۔ اس کے بعد قدری نظریہ (Quantum Theory) سامنے آیا۔ نتیجتاً تحت جوہری سطح پر ابہام اور عدم یقین پیدا ہوا، جس نے پرانے تصور کو شدید شکست و ریخت سے دوچار کر دیا۔ کائنات دیکھتے ہی دیکھتے ایک مسائکستان بن گئی۔ آئن سٹائن جیسے لوگوں نے نظریہ انتشار کا انکار کر دیا، کیونکہ اس کے خیال میں سوائے استحکام اور تنظیم کچھ اور ممکن ہی نہ تھا۔ وائٹ ہیڈ (Whitehead) کو سماجی سائنس دانوں کا رجحان پسند نہ آیا، نہ اسے وہ لوگ بھلے لگے، جنہوں نے سائنسی تجریدات کو ٹھوس حقائق کا نام دیا۔ اس نے ایسے رویوں کو "بے محل محکمیت" (Misplaced Concreteness) کو بودی منطق قرار دیا۔
"وہی غلطی جو سیکولر حلقوں نے نظریۂ ارتقا کے ضمن میں کی، اضافیت کے بارے میں بھی برابر دہرائی گئی۔ اگر کچھ معروضی سچائی رہ گئی تھی تو وہ باقی نہ رہی۔ سائنس اپنی تمام تر تابناکی کے یقین کامل کو نگلے جا رہی تھی۔"
اسی طرح یہ بھی ایک خطرناک سوچ ہوگی، اگر وجود انسانیت اور اس کی نمو کو ذات نفس اور حقیقت کے درمیان موافقت سے متعلق کر دیا جائے، یا جیسے کہا جاتا ہے کہ تمام معاشرتی مظاہر اور ان کا متن فرد کی کاوشوں کا مرہون منت ہے۔ ڈیوڈ کولب (David Kolb) اس موضوع پر ہیگل اور ہیڈیگر کے خیالات کی تلخیص یوں پیش کرتا ہے: "انسان یہ خواب دیکھنا چھوڑ دے کہ وہ ایک نا پیدا کنار خط مستقیم میں چلتا ہوا ایک دائرے میں داخل ہو جائے گا۔ اسے اس دائرے کا وجود ماننا پڑے گا، جس کے اندر وہ پہلے سے موجود ہے اور دائرہ بھی وہ جس کی مقدار یا لمبائی اپنے امکانات کے حوالے سے محدود ہے۔ دائرے کی فطرت اور ساخت پر تو دونوں حضرات مختلف فیہ ہیں لیکن اس امر کی تردید میں وہ متفق ہیں کہ نفس ایک ایسے مکان (Space) میں موجود ہے جو لا محدود امکان کا حامل غیر جانبدار پس منظر ہے۔"
اسلام ہی واحد نظریہ ہے
اسلام کی نظر میں یہ جہان کوئی مشین کی طرح کی چیز نہیں ہے، جسے (معاذ اللہ) کوئی بہرا اور بے تعلق خدا گردش دے رہا ہو۔ نہ یہ منتشر اجزاء کا کوئی ملغوبہ ہے جو ہر وقت آپس میں ٹکرا رہے ہوں۔ اس سے قطعی مختلف یہ دنیا ایک بہت پیچیدہ تشکیل ہے، جس میں باہمی اجماع کا اصول پوری طرح کار فرما ہے، جو ایک بہت منفرد تامی تشکیل میں گتھا ہوا ہے۔ یہ جہاں رنگ و بو، اتفاقیہ وجود میں نہیں آیا، کہ جس کا نہ آغاز ہو اور نہ کوئی انجام۔ یہ تخلیق ایک پروگرام کے تحت ہوتی ہے جس کی سمت متعین ہے اور زیادہ اہم بات یہ کہ انسان اس میں مرکزی حیثیت کا مالک ہے۔ اس جہان پر ایک قوی و قیوم، متعلق و فکر مند اور بزرگ و برتر خدا حکمران ہے۔ اگر کسی کو کہیں بہ ظاہر بے ربطی اور انتشار نظر آتا ہے تو یہ موجودہ انسان کی اپنی کوتاہ نظری ہے کہ وہ دیکھ نہیں پا رہا کہ اس عالم کا درو بست بے حد محکم و منتظم ہے۔ یہ جہاں انسان کے گرد گھوم رہا ہے۔ کیونکہ ہر ثانوی واقعہ جو مشاہدے اور ادراک میں آئے انسانی زندگی کے لیے محمد اور معاون ہے، اسی میں ہدایت اور رہنمائی بھی شامل ہے۔ امر واقعی یہ ہے کہ اللہ کے حضور سے عطا شدہ ہدایت، حیات انسانی کی منطقی تکمیل ہے۔ اگر یہ نہ ہو تو مخلوق کے لیے خالق ارض و سماء کا ہونا، نہ ہونا برابر ہو جاتا ہے اور خود تخلیق بے معنی ٹھہرتی ہے۔ چنانچہ وحی و الہام پر مبنی اسلام نے درج ذیل خبر دی:
- اللہ وحدہ لاشریک اور بے مثل ہے۔ ساری موجودات کا سر چشمہ، ایک جل و علی خالق جس کا کوئی ثانی نہیں۔
توحید باری کا یہ بنیادی اصول دو قطبی ہے: ایک طرف خالق ہے، دوسری طرف مخلوق۔ دونوں وجودی لحاظ سے غیر متجانس (Disparate) ہیں۔ نہ یہ دونوں ایک ہیں اور نہ یکساں۔ تخلیق اللہ رب العزت کی صفت خالقیت پر منحصر ہے۔ اس طرح یہ دونوں مقصدی صداقتیں ہیں۔
دوسری مخلوقات سے مختلف عالم تخلیق میں انسان کا خصوصی مقام ہے، جو ایک مخصوص جبلت اور انداز میں بندھی ہوئی ہیں اور انہیں فطرت کے بے لچک قوانین اور ضابطے کس کر رکھتے ہیں۔ انہیں طبیعی اور اخلاقی حوالوں سے بے قید آزادی حاصل رہتی ہے۔ اس آزادی کی مخصوص غایت ہے جو انسانی تکریم سے ہم آہنگ ہے۔ یعنی انسان کی یہ صلاحیت کہ وہ الہامی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے اپنا اظہار کر پائے۔ انسان نہ تو تخلیقی طور پر قابل نفرت ہے، اور نہ وہ روز اول سے کسی گناہ اول میں لتھڑا ہوا ہے۔ اس کے قطعی برعکس اللہ تعالیٰ نے انسان کو زمین پر اپنا نائب اور خلیفہ بنایا، تاکہ اللہ رب العزت کے ارادوں اور مرضیات کی تکمیل ہو۔ یعنی انسان زمین پر ایک ایسی تہذیب کو بروئے کار لائے، جو اپنی ذات میں امن سے رہے اور خارج میں دوسروں سے نہ الجھے۔ کیونکہ اپنے حقیقی سرچشمے (ذات باری تعالیٰ) سے اس کے تعلق کا یہی تقاضا ہے جسے مخلوق کی فلاح و بہبود چاہیے۔ بہ قول ڈاکٹر اسماعیل الفاروقی:
"اللہ رب العزت کی بالا تر مرضی و منشا کے بغیر کائنات کی کوئی حقیقت اور غائت ہی نہیں ہو سکتی، جو انسان کی اخلاقی سعی و عمل کا مقصود و مطلوب ہے ... اگر انسان تخلیق خداوندی کا سرتاج ہے تو اسی بناء پر ہے کہ ذاتی سطح پر اخلاقی کاوش اور عمل کے ذریعے وہ واحد کائناتی واسطہ ہے، جس ذریعے برتر الہی مرضی، زمان و مکان کے منتظم سماوی وجود میں داخل ہوتی اور تاریخ بن جاتی ہے۔"
اس صورت گری میں اللہ تعالیٰ پر ایمان زندگی کا اصول بن جاتا ہے، جس کی بڑی انقلابی اہمیت ہے۔ انسان اپنے وجود کی آخری حد تک پہنچ جاتا ہے، تاکہ وہ زندگانی کی اس تمثیل میں اپنا کائناتی کردار بخوبی ادا کر سکے۔
اسلام کو اپنے الہامی ہونے پر اس درجہ یقین کامل ہے کہ وہ بقول الفاروقی اپنے آپ کو سائنسی حقیقت کے مماثل قرار دیتا ہے، جس کی تصدیق باقاعدہ حقیقی مشاہدہ کرنے والا کر سکتا ہے، بشرطیکہ اس کی تجزیاتی صلاحیتیں، اس کی تربیتی اٹھان، اس کے موروثی عقیدے اور پڑھائی گئی تاریخ نے مسخ نہ کر دی ہوں۔ یہ بھی ضروری ہے کہ وہ کلی حیات کی پنہائی میں اپنے آپ کو رکھ کر صورت حال کا جائزہ لے، تاکہ اسے موجودات کا کامل تصور حاصل ہو۔ فرد کی ذات، اس طرح خالی الذہن ہو کر اپنے حقیقی تشخص کو پا سکے گی، جسے ایک متعین مقصد حاصل ہوگا، جو باقی سارے اثرات کا راستہ روک دے گا اور زمان و مکان میں اس کے آگے بڑھتے چلے جانے کا جواز فراہم کر دے گا۔
قرآن پاک نفس انسانی کو آیات الہی کی نشست گاہ قرار دیتا ہے کہ جب وہ "تمدن کے بھاری بوجھ سے آزاد ہو کر عمل کرے تو اللہ تعالیٰ کے وجود کی تصدیق کرتا ہے۔" یہی بات دوسری طرح یوں کہہ سکتے ہیں کہ نفس انسانی جبلی طور پر اپنے خالق کو جانتی اور مانتی ہے۔ اس صلاحیت کا اللہ تعالیٰ سے ایک ربط اور تعلق ہے، کیونکہ اس کی ذات نے ہی تو انسانی نفس کو وجود بخشا۔
قرآن پاک میں نفس انسانی کی تین حالتیں بیان ہوئی ہیں:
- نفس امارہ: وہ نفس جو انسان کو بدی پر اکساتا ہے۔
- نفس لوامہ: وہ نفس جو غلط کار کو ملامت کرتا ہے۔
- نفسِ مطمئنہ: وہ نفس جو اسلام کی صداقت پر مطمئن اور جسے ایمان کی نعمت حاصل ہے۔
یہ تین آزاد نفوس نہیں ہیں بلکہ ایک ہی مربوط نفس کی تین کیفیتیں اور اعمال ہیں۔ یہ نفس اس حوالے سے خود مختار ہے کہ اسے یہ اختیار دیا گیا ہے کہ چاہے تو اپنے خالق اللہ رب العزت سے جھک جائے اور چاہے تو اس ذات باری تعالیٰ کا انکار کر دے۔ پہلی صورت میں وہ مسلم ہے جبکہ دوسری صورت میں کافر یا مشرک، (جو اپنی ذات ہی کو حاکم و مختار بنا بیٹھے یا قومیت، نسلیت، رواجات، قیاسی نظریات اور خواہشات نفس جیسے باطل خداؤں کی بندگی کرے)۔
قرآن پاک کہتا ہے: "اللہ نے مومنوں کی جان اور ان کے مال، جنت کے بدلے خرید لیے۔ سو وہ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں۔ مارتے بھی ہیں اور مارے بھی جاتے ہیں۔ یہ اللہ کا سچا وعدہ ہے تورات، انجیل اور قرآن میں۔ اور اللہ سے بڑھ کر کون اپنے وعدے میں سچا ہے؟ لہٰذا اللہ سے کیے ہوئے اس خرید و فروخت پر خوشیاں مناؤ۔ اور یہی بہت بڑی کامیابی ہے۔" اس آیت کی تفسیر میں صاحب تفہیم القرآن کہتے ہیں کہ ایمان "ما بعد الطبیعی تصور نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ طے کردہ معاملہ ہے، جس میں ایک مومن اپنا نفس (زندگی) اور اپنا مال اللہ کے ہاتھ بیچنے پر راضی ہوتا ہے اور جواب میں وہ ملنے والی جنت کا وعدہ قبول کرتا ہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ جو کچھ اس نے اللہ کے ہاتھ بیچا وہ واقعی اس کا اپنا تھا۔ دراصل مومن کے پاس (اور کسی بھی انسان کے پاس) اپنا کچھ بھی نہیں جس پر وہ ملکیت کا دعویٰ کر سکے۔ اس کا سب کچھ اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ ہے۔ ہاں! اس حیات ارضی میں وہ عطا کردہ امانتوں کو کیسے استعمال کرتا ہے، یہ اختیار اس کا اپنا ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ کا وعدہ بالکل برملا اور واضح ہے کہ اگر انسان نے بطور امین ذمہ داری کا مظاہرہ کیا، تو آخرت میں (جنت الفردوس) کا مستحق اور وارث ہوگا۔
بقول سید مودودی اس معاہدے کے مضمرات دگنا ہیں: انسان دو طرح کے امتحانات میں ڈالے گئے ۔ اولاً، کیا انہیں اپنے قول و قرار کا پاس ہے اور وہ اطاعت گزار ہیں؟ ثانیاً، کیا انہیں اللہ تعالیٰ کے اس وعدے پر یقین ہے کہ انہیں جزا آخرت میں ملے گی؟
اسلامی شریعت میں جو بھی یہ عقیدہ رکھے اور اس کی شہادت دے تو وہ مومن ہے۔ جب تک اس کے خلاف کوئی بات ثابت نہ ہو جائے، کوئی بھی عدالت (یا مفتی) اس کے دائرہ اسلام میں ہونے کا انکار نہیں کر سکتی۔ اس کے برعکس اللہ رب العزت عقیدے کی ظاہری شکلوں سے متاثر نہیں ہوتا۔ وہ ہر شخص کے دل میں جھانکتا ہے۔ یہ بالکل ممکن ہے کہ ایک شخص نمازی اور روزہ دار ہو لیکن اپنے جان و مال اللہ کے ہاتھ دینے سے ہچکچائے۔ اس صورت میں دنیا والے تو اسے مومن (مسلم) تسلیم کریں گے لیکن اللہ تعالیٰ کے ہاں ایسا ایمان اور اسلام تسلیم نہیں ہوگا۔
جب ایمان کی کیفیت یہ ہو تو لازم ہے کہ یہ اسلامی طرز عمل کو چھان پھٹک کر غیر اسلامی طور طریقوں سے جدا کر کے اپنائے۔ ایک مومن نفس حیات، دنیا کی اس کشمکش میں خالق کائنات کے عطا کردہ بنیادی اصولوں کی روشنی سے استفادہ کرتا ہے اور جان بوجھ کر ایک لمحے کے لیے بھی ان اصولوں اور ضابطوں کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔ اگر کبھی کوئی قدم غلط پڑ جائے تو وہ تائب ہو کر اللہ کی طرف پلٹتا ہے۔ یہی حال پوری مسلم سوسائٹی کا بھی ہے کہ وہ بہ شمول کاروبار حکومت، زندگی کے سارے معمولات اللہ تعالیٰ کی ہدایت کی روشنی میں طے کرتی ہے۔
"کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ اسلام ایک سربند نظام دیتا ہے، جس میں انسانی عقل و دانش کے لیے کوئی جگہ نہیں؟ اسلام اس خیال کی نفی کرتے ہوئے کہتا ہے کہ مرضیات الہی کا اتباع، اظہار ذات کی کوئی اوٹ پٹانگ مہم جوئی نہیں ہے۔"
کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ اسلام ایک سربند نظام دیتا ہے، جس میں انسانی عقل و دانش کے لیے کوئی جگہ نہیں؟ اسلام اس خیال کی نفی کرتے ہوئے کہتا ہے کہ مرضیات الہی کا اتباع، اظہار ذات کی کوئی اوٹ پٹانگ مہم جوئی نہیں ہے۔ ایک مسلم نفس کھوکھلا اور نا آسودہ وجود نہیں ہوتا، نہ یہ برجرین (Bergerian) انداز میں کوئی ننگا ناچا نفس ہوتا ہے۔ یہ ایک اطاعت گزار نفس ہے۔ یہ اپنا آپ اور اپنا ماحول سنوارنے کے لیے قدری دائروں کے اندر رہتے ہوئے عقل و دانش سے بحث کرتا ہے۔ میکس ویبر کے الفاظ میں کہا جا سکتا ہے کہ اسلام اصطلاحی اور حقیقی عقلیت میں امتیاز کرتا ہے۔ اصطلاحی عقلیت کے کوئی نشانات راہ نہیں ہوتے۔ جبکہ حقیقی عقلیت کے نشانات بالکل واضح ہیں۔ عقلیت کی یہ قسم چند مخصوص اقدار میں پیوست ہے، جو روایت کا احترام کرتی ہے اور حقیقی مجاز اٹھارٹی کو تسلیم کرتی ہے۔ یہ عقلیت مقصدی بھی ہوتی ہے کیونکہ یہ اصلاح اور توازن کی طالب ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک خدا پر ایمان رکھنے والوں کو آپس میں منقسم نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن یہ اتحاد باہمی ٹھونسا نہیں جاتا بلکہ اسلام کے بنیادی اصولوں سے حاصل ہوتا ہے۔ اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ کبھی امت میں اختلاف رائے واقع نہ ہو۔ یہ اصلاً اختلاف میں اتفاق اور اتحاد کا منظر ہے، جہاں جدا گانہ رائے کی اجازت تو ہے، لیکن یہ مختلف النوع سر مل کر ایک خوش رنگ لے کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔
اس نظام حیات میں غیروں کو بھی شامل رکھنے کی پوری پوری گنجائش اور طریق کار موجود ہے۔ اسے نسلی، لسانی اور گروہی اختلافات قبول ہیں، بلکہ وہ بھی جس نے محض کوئی روپ دھارا ہو، لیکن یہ سب مل کر اپنے ایک رب اللہ ذو الجلال کی طرف رواں دواں رہتے ہیں۔ اسلام میں عقل و فکر اور تدبیر پر زور بہت زیادہ ہے۔ ڈاکٹر اسماعیل الفاروقی کا خیال ہے کہ عقلی دلائل کا یہاں سہ جہتی کردار ہے:
- اولاً ان سارے تصورات اور فکری نظامات کا انکار جو حقیقت سے میل نہ کھاتے ہوں؟
- ثانیاً ہر طرح کے تضادات کی چھانٹی؛ اور
- ثالثاً نئے حالات و واقعات کے لیے ذہن کو کھلا اور آمادہ رکھنے کی صلاحیت۔
الفاروقی کے خیال میں عقلیت کا مؤخر الذکر پہلو اسلام کی نظر میں بے حد اہم ہے، کیونکہ اس کے ذریعے مسلم معاشرے کو ضابطہ بند اور جابر قدامت پرستی سے بچایا جا سکتا ہے۔
لگتا ہے اسلام کا یہی پہلو ہے جس نے پروفیسر ٹرنر (Turner) کو اس اعتراف پر مجبور کر دیا کہ اسلام مابعد جدیدیت کا جواب ہے۔
سیکولر حضرات سے ہم وہی کچھ عرض کریں گے جو پال جانسن نے آزادی کی نو نوشتہ تاریخی دستاویز "Palimpsests of Freedom" کے عنوان کے تحت لکھا:
"وہ جو 1980ء کے عشرے میں دقیانوسی اور متروک ہی نہیں بلکہ مضحکہ خیز بھی لگا۔ وہ مذہبی عقیدہ نہ تھا بلکہ اس کے زوال و انتقال کے متعلق وہ پیشین گوئیاں تھیں جو فیور باخ، مارکس، کونٹ، درکیم، فریزر، ویلز، شا، زیڈ، سارترو اور بہت سے دوسرے حکماء کہہ گئے تھے۔ ہمارے دور کے اختتام پر خود سیکولرائزیشن کی اصطلاح پر سوالیہ نشان لگ گیا .... دین و مذہب کا متبادل، وضعیت (Positivism) جو سیکولرزم کی جان ہے، یوں غائب ہوئی کہ اس کا نام و نشان نہیں مل رہا تھا اور اس طرح جان ہنری نیو مین کی رائے کی تصدیق ہوگئی کہ حقیقی ادیان اپنی اٹھان میں سست رو ہوتے ہیں لیکن ایک دفعہ اس کا پودا لگا دیا جائے تو اس کا اکھاڑنا مشکل ہے۔ اس کے مقابل عقل و دانش کے جھوٹے دعویدار اپنی کوئی جڑیں نہیں رکھتے۔ اچانک (کھمبیوں کی طرح) سر اٹھاتے ہیں اور ایسے ہی اچانک مرجھا کر ختم ہو جاتے ہیں۔ یہ بالکل ممکن اور متوقع ہے کہ 1980ء میں بہت کم ملحدین باقی رہے، بہ نسبت اس تعداد کے جو 1980ء میں تھی۔"
جو مسلمان اپنے آپ کو سیکولر کہتے ہیں، یا وہ جو سمجھتے ہیں کہ اسلام سے جان چھڑائے بغیر بھی وہ سیکولرزم کی پیروی کر سکتے ہیں، ان سے کئی سوال پوچھے جا سکتے ہیں:
قرآن پاک میں سماجی، اقتصادی اور سیاسی معاملات کے متعلق بہت سے احکامات اور اخلاقی تعلیمات موجود ہیں، جو مملکتی انتظام و انصرام کے بغیر تشنہ تکمیل رہتے ہیں۔ جب صورت واقعہ یہ ہے تو کیا اسلام کے ایک بڑے حصے کو چھوئے بغیر چھوڑ دیا جائے؟ اس کے لیے کون سا قانونی یا شرعی جواز موجود ہے؟ کیا ایسا ہی معاملہ انسان کے اپنے بنائے ہوئے مجموعہ قوانین سے بھی کیا جا سکتا ہے، جب کوئی شہری اٹھ کر اعلان کر دے کہ ٹھیک ہے میں اس قانون کو تسلیم کرتا ہوں، لیکن وہ دوسرے فلاں والے کو نہیں مانتا؟ کیا مملکت اس طرز عمل کی اجازت وہاں بھی دے گی؟
قرآن و سنت کے پیش نظر ایک تہذیب کی تشکیل ہے۔ اسلامیانے کی پکار دیے بغیر ایسا کرنا کیسے ممکن ہو گا، یا اسلام کے بارے میں "کچھ لو، کچھ چھوڑ دو" کا رویہ اپنایا جائے گا؟ یا آگے بڑھ کر سیکولرزم کے ساتھ مداہنت یعنی من مرضی کے مطابق لین دین کا معاملہ کرنا ہوگا؟ ہرمان کوئن (Hermann Cohen) جیسا غیر مسلم بھی نبوت کے جوہر کی سچائی کو سمجھنے میں کامیاب رہا، جب اس نے کہا: "تصور نبوت کی ممتاز اور نمایاں خصوصیت کیا ہے؟ وہ یہ حقیقت ہے کہ دین اور سیاست میں تفریق ممکن نہیں۔"
اصطلاحات کا تضاد تو بھول جائیں، ایک سیکولر مسلمان کم از کم کھلے عام یہ کہہ سکتا ہے کہ قرآن کتاب مقدس ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس کا رویہ قرآن کی طرف احترامی ہو، کہ یہ اللہ تعالیٰ کا نازل کردہ کلام ہے اور کسی ڈھنگ کی برکت کے حصول کے لیے وہ اسے احترام اور محبت سے چوم بھی سکتا ہے۔ ہر دو صورتوں میں تاثر یہی ابھرے گا کہ یہ کتاب الہامی ہے، تبرک ہے اور ارفع و اعلیٰ ہے۔ ورنہ اس سیکولر مرد یا عورت کے دل میں احترام کے یہ جذبات ابھر ہی نہیں سکتے تھے۔ طرفہ تماشا ہے کہ تضاد یہیں پر اپنے آپ کو بے نقاب کر دیتا ہے۔ اگر قرآن وحی الہی پر مبنی ہے (اور یقیناً ایسا ہی ہے) اور اگر اس میں برکت ہے تو پھر اس کی تعلیمات کو وہی تقدیس کیوں نہیں دی جاتی؟ کیا اس کے مقدس بیان میں کچھ کفر و الحاد بھی موجود ہے؟ یہ تو ممکن ہی نہیں۔ جو مقدس ہو وہ الحاد کو کہاں برداشت کرے گا؟ غرض سیکولر اصحاب کے نزدیک قرآن وہ ایک تجریدی وجود رکھتے ہوئے، جس میں ہدایت اور رہنمائی کے نام سے کچھ نہ ہو، وحی پر مبنی اور الہامی بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن وہ ہدایت جس کی خاطر ہی یہ قرآن نازل ہوا اور جسے قرآن انسانوں کی اصل ضرورت اور احتیاج بتاتا ہے، اس کے لیے تھوڑا سا احترام بھی نہ ہو۔ یہ رویہ ظاہر کرتا ہے کہ سمجھ بوجھ کا کوئی اہم مسئلہ درپیش ہے۔ مثلاً، اگر قرآن کا محض احترام مقصود تھا اور اسے آنکھوں سے بھی لگایا جانا تھا تو اسے کتاب نہیں بلکہ کسی متبرک یادگار کے طور پر اتارا جاتا۔ کیونکہ کسی متبرک حصے کے لیے تقدیس و احترام کی پوجا پاٹ کی طرح کی رسمی شکل تجویز کی جا سکتی تھی۔ لیکن "الکتاب" کا تقاضا تو یہ ہے کہ اس کی تلاوت ہو، اس پر غور و فکر ہو اور اس کے فرامین پر عمل کیا جائے۔
یہ بھی دیکھیں کہ اگر قرآن صداقت ہے تو پھر یہ غیر متبدل ہے، ابدی ہے اور برگزیدہ ہے۔ اس کے برعکس اگر سیکولرزم کا اتباع ہونا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ آج کے حالات کے لیے یہ نظریہ تو صحیح ہے، لیکن اسلام ناقابلِ عمل ہے۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی بنتا ہے کہ اسلام کی بہ نسبت سیکولرزم صحیح تر ہے، یا بدرجہ آخر ایک ہی وقت میں دو حتمی صداقتیں موجود ہو سکتی ہیں، جن میں سے ایک پر دوسری کی نسبت زیادہ عمل ہوگا۔
آپ منطق کی زبان میں بات کریں یا اسلامی حوالے سے جائزہ لیں، سیکولرزم کے لیے اسلام میں کوئی گنجائش موجود نہیں۔ جب صورت واقعہ یہی ہے تو کیا مسلم معاشرے کے اندر سیکولر دوست بہانہ بازیاں کر رہے ہیں؟ یا کیا واقعی یہ بات صحیح ہے کہ انہیں پتہ ہی نہیں کہ وہ کیا مہمل بات کر رہے ہیں؟
سیکولر الحاد، مذہب اور سائنس
کیا موت کے بعد زندگی ہے؟
کیا خدا ہے جس نے کائنات اور اس کے مکینوں کو تخلیق کیا اور جو انسانوں کو ان کے انجام کی طرف ہانک رہا ہے؟ یہ سوال زمانہ جدید سے متعلق نہیں کہ یہ کہا جا سکے کہ چونکہ انسان "بے علم تاریک زمانوں" سے نکل کر علم سے منور زمانے میں آ گیا ہے، اس لیے یہ سوال پیدا ہو گیا ہے۔ دراصل یہ سوال اتنا ہی پرانا ہے جتنا خود انسان۔
اسی لیے زمانہ قدیم کے فلاسفہ میں اگر ہمیں ایک طرف سقراط (470-389 ق م) خدا کی وحدانیت اور حیات بعد الموت میں پختہ یقین رکھے نظر آتا ہے تو دوسری طرف ارسطو (384-365 ق م) ہے جو مادہ کو ابدیت دیتے ہوئے حیات بعد الموت کی تقریباً نفی کرتا دکھائی دیتا ہے۔ لیکن فلاسفہ میں جن افراد نے ان موضوعات پر مستحکم موقف اختیار کیا، ان میں ڈیموکریٹس، لیوسپس اور ایپی کیورس (Epicurus) نمایاں ہیں۔ مؤخر الذکر کے بارے میں تو یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ وہ ہمارے آج کل کے سیکولر اور لبرل حضرات (زنادقہ) کا پیش رو ہے، جس کے بہ قول انسان اور خود کائنات کا وجود ایٹمی ذرات سے بنا ہے، اس لیے انسان کی موت کے بعد یہ ذرات منتشر ہو کر اپنے اصل مادہ سے مل جاتے ہیں۔ اس کا یہ بھی خیال تھا کہ جس طرح جسم مرتا ہے اسی طرح انسانی ذہن یا روح بھی فنا ہو جاتی ہے۔ خدا کی ذات اگر کہیں ہے بھی تو اس کا دنیاوی زندگی سے کوئی تعلق نہیں، نہ کوئی ایسی خدائی حکمت اور ارادہ ہے، جو انسان اور عالم کائنات کی تخلیق کے پیچھے کارفرما ہے۔
ان نظریات کی قدامت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان تینوں یونانیوں کا زمانہ پانچویں اور چوتھی صدی قبل از مسیح ہے۔
یونانیوں کے بارے میں تو یہ رعایت دی جا سکتی ہے کہ ان کا ضمیر فلسفہ سے گندھا ہوا تھا اور وہ ایسی باتیں کہہ سکتے تھے لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ ایام جاہلیت کے عرب جن کے ہاں فلسفہ کی مستحکم روایت ہمیں نظر نہیں آتی وہ بھی اپنی لادین ذہنیت کی بناء پر بعث بعد الموت کا تصور اپنانے سے عاجز تھے۔ ایک بدوی شاعر اسے "حدیث خرافتہ" (لا یعنی افسانہ) سمجھتا ہے۔
حیرت انگیز بات ہے کہ ان حقائق کے ہوتے ہوئے ہمارے زمانہ کے "جدیدیے" یہ تاثر دے رہے ہیں گویا انکار آخرت کوئی نیا نظریہ ہے، جس کا وقت آن لگا ہے۔ سیکولر ازم (لادینیت) کی اساس میں یہی نظریہ کارفرما ہے۔
اسلام کی آمد اتنی جاندار اور اس کی توحیدی فکر اتنی تابناک اور استدلال سے بھرپور تھی کہ عرصہ دراز تک ملحدانہ خیالات اپنا منہ چھپانے پر مجبور ہو گئے۔
دسویں صدی عیسوی میں جب نئے علوم کے نام پر مسلمانوں کے ایک مخصوص طبقے نے مادیت اور روحانیت میں توازن کو بگاڑنے کی کوشش کی تو اس کے پس پردہ بھی یونانی فلاسفہ کے وہی خیالات تھے جو اوپر بیان کیے گئے ہیں۔ ایک عرصے تک مسلمانوں کا تعلیم یافتہ طبقہ اس زمانے کے جدیدیوں کی وجہ سے یونانی فکر کی پھیلائی ہوئی ذہنی ٹامک ٹویوں میں مبتلا رہا، یہاں تک کہ مسلمانوں کی اجتماعی دانش نے انہیں رد کر دیا۔ ان خیالات کی جدت کا اندازہ حسب ذیل امور سے کیا جا سکتا ہے:
- کہ یہ جہاں لامتناہی ہے۔ اور یہ کہ کئی آسمان زندہ مخلوق ہیں جو اپنی مرضی سے حرکت پذیر ہیں۔
- معجزات یا فطرت کے عام چلن سے انحراف ناممکن باتیں ہیں۔
- اللہ تعالیٰ کا علم آفاقی معاملات میں ہے تخصیصی امور میں نہیں۔
- اللہ تعالیٰ کی کوئی ایسی صفات نہیں جو اس کے جوہر (Essence) سے ممتاز ہوں۔ وہ بس موجود ہے کسی متعین کردار کے بغیر۔
- بعث بعد الموت جسم کے ساتھ نہیں ہوگا۔ یہ خالصتاً روحانی معاملہ ہوگا، جس میں جسمانی لذائذ یا تکالیف نہیں ہوں گی۔
چنانچہ کوئی حیرت کی بات نہیں کہ ملتِ اسلامیہ کے اجتماعی ضمیر نے یونانیوں کے علم کائنات کا بھی انکار کیا اور ان کے فلسفیانہ تصورات بھی ٹھکرا دیے اور ان قرآنی افکار و نظریات کو قبول کیا جو باقی اور رو بہ عمل ہیں۔ بعض مغربی اہل فکر، مسلمانوں کے اس فیصلے کو اس وقت کی صورت حال کا نمایاں بے مثال اسلوب قرار دیتے ہیں۔
اسی طرح جدیدیت کا دعویٰ اور دین کا انکار بیسویں صدی کا کوئی انوکھا معاملہ نہیں۔ امام غزالی رحمہ اللہ (1058-1111ء) کے وقت بھی اسی ڈھنگ کے بیمار روگی موجود تھے، انہوں نے اپنی شاہکار تصنیف "تہافت الفلاسفہ" میں اس امر کا ذکر کیا ہے:
"ہمارے اس دور میں ایسے لوگ موجود ہیں جو ذہنی صلاحیتوں کے حوالے سے اپنے آپ کو دوسروں سے برتر سمجھتے ہیں۔ یہ لوگ دین کی حالتوں اور حرمتوں کی تحقیر کرتے ہیں۔ اور وجہ صرف اس قدر ہے کہ انہوں نے سقراط ... افلاطون اور ارسطو کے بھاری بھرکم نام سن رکھے ہیں، یا ان فلاسفہ کے شاگردوں کی اپنے اساتذہ کی شان میں مبالغہ آمیز تعریفیں اور مدح سرائیاں کہیں سے پڑھ کر آئے ہیں۔"
امام غزالی کے خیال میں ایسے لوگوں کی باتیں سطحی اور بے مغز تھیں۔
عہد جدید کے زنادقہ اور ذات خداوندی
کیا خدا ہے؟ قدیم زمانے کی طرح عہد جدید کے زنادقہ بھی اللہ تعالیٰ کی ذات اقدس کے منکر ہیں۔ ان کے مذہب کے بارے میں معاندانہ رویہ کے پیچھے بھی یہی تشکیکی روش ہے۔
منکرین خدا کا کہنا ہے کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ خدا ہو اور وہ ابدی ہو اور خود اس کا کوئی ماخذ نہ ہو۔ یہ اعتراض ظاہری منطق کے مطابق تو درست ہو سکتا ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی منکرین خدا کا مادے کو وہی خصوصیات دینا جو خدا کی ذات سے مخصوص ہیں، مثلاً مادے کا ابدی ہونا، اس پر فنا نہ آنا، اس کے ماخذ کا نہ ہونا، اپنی ہی منطق کو رد کرنا ہے۔
اسی طرح اگر مادے میں یہ ساری خصوصیات ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ منکرین مادے کو شعور دے رہے ہیں اور شعور بذات خود مادے کی ضد ہے۔ اگر مادے میں شعور کی موجودگی کو تسلیم کر لیا جائے تو پھر مادے اور خدا میں فرق نہیں۔ اس لیے یہ کہنا کہ خدا نہیں مگر مادہ ہے منطق کے اعتبار سے غلط ہے، کیونکہ اگر ایک ہو سکتا ہے تو دوسرا بھی ہو سکتا ہے۔
دوسری طرف سالمیاتی حیاتیات میں ڈی این اے سالمہ کے اتفاقی تقلب (Mutation) کو خالق کا درجہ دیا جا رہا ہے، جو اپنی خالقیت سے رنگارنگ اندر کی دنیا خلق کر رہا ہے۔
اس سے آگے یہی سالمہ سائنسدانوں کے نزدیک ایک ایسے انسانی وجود کی تخلیق کا باعث ہے جس کا ذہن بذات خود تخلیقی سرگرمیوں کا محرک ہے۔ یہ دونوں تصورات بظاہر بے خدا ہونے کے باوجود اپنی ستم ظریفی میں یکتا ہیں کہ وحدانیت ہی کی طرف جاتے ہیں، خواہ وہ وحدانیت مادے کی ہو یا سالے کی۔
منکرین خدا یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر خدا اچھائی ہے تو یہ برائی کہاں سے پیدا ہو گئی؟ ان کے نزدیک اس کا مطلب یہ ہے کہ برائی بھی خدا کی پیدا کردہ ہے اور اگر برائی خدا کی ذات یعنی اچھائی سے پیدا ہوئی ہے تو پھر خدا کی ذات نعوذ باللہ برائی ہے۔
اسی طرح اچھائی برائی کا مخمصہ بھی نیا نہیں بلکہ اتنا ہی پرانا ہے جتنا یونانی آزاد خیال مفکر اپنی کیورس ہے۔ کیونکہ ثابت شدہ علم کے مطابق وہی پہلا فرد تھا جس نے یہ سوال اٹھایا۔ یہ سوال اس لحاظ سے بے معنی ہے کہ دنیائے عالم میں ہر شے کی ضد ہے کہ جس سے ہر دو فریقین کی شناخت بنتی ہے۔ مثلاً سفید کی ضد سیاہ ہے۔ صبح کی ضد شام ہے، روشنی کی ضد اندھیرا ہے۔ خوشی کی ضد غم ہے۔ محبت کی ضد نفرت ہے۔ اسی طرح اچھائی کی ضد برائی ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو کوئی حقیقت اور کیفیت معنی نہ رکھے اور اپنی تاثیر اور تشخص سے محروم ہو جائے۔
اس مسئلے کو ایک اور پہلو سے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ سورج اور دنیائے عالم کے درمیان اگر بادل آجائیں تو اندھیرا ہو جاتا ہے۔ جس کی وجہ یہ نہیں ہوتی کہ سورج فنا ہو گیا ہے بلکہ وہ موجود رہتا ہے۔ آپ ذرا بادلوں سے اوپر جائیں، سورج اپنی تمام تر تمازت کے ساتھ موجود پائیں گے۔ اسی طرح رات کا اس لحاظ سے کوئی مستقل وجود نہیں کہ وہ نفس بالذات کوئی وجودی حیثیت نہیں رکھتی، کیونکہ جب کرہ ارض کے ایک حصے میں رات ہوتی ہے تو دوسری جگہ دن ہوتا ہے۔ اس تغیر و تبدل میں زمین کی گردش کار فرما ہے، جو ایک خاص رفتار سے اپنے محور کے گرد گھومتی ہے اور اس طرح تاریکی اور روشنی کی وہ کیفیت پیدا کرتی ہے جسے رات اور دن کہتے ہیں۔
تو کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ خدا چونکہ نور ہے اور نور اور تاریکی میں بعد ہے تو پھر یہ تاریکی کیسے پیدا ہو گئی ہے؟
اسی طرح آزمائش کا وجود ضروری ہے کہ اس کی موجودگی ہی میں انسانوں کے کردار کی پرکھ ہو سکتی ہے۔ انسان کی خود مختاری اور اس کی تکمیل اسی صورت ممکن ہے کہ وہ بدی کے ہوتے ہوئے اخلاقی کمالات کی آرزو کرے اور اسے آسودہ کرنے کی کوشش کرے۔
خود خدا کے تصور میں جو مختلف النوع اوصاف وابستہ کیے جاتے ہیں وہ بظاہر متضاد نظر آتے ہیں، لیکن ان اوصاف کا اجتماع ہی ایک مکمل ذات باری تعالیٰ کا تاثر ابھارتے ہیں۔ رحمانی کی صفت کے ساتھ ہی قہاری و جباری بھی منسوب ہے کہ مؤخر الذکر کی عدم موجودگی میں رحمان ہونے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کی ذات بابرکات سے مختلف امور پیدا ہوتے ہیں۔ جن میں کوئی تناقص نہیں۔
مظاہر کائنات میں ایسی کئی کیفیات ہیں جن میں مختلف النوع اشیاء یا اجزاء مل کر نئے مرکبات کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ روشنی ہی کو لے لیں۔ اس میں جو مختلف رنگ ہیں وہ منشور سے گزر کر ظاہر ہو جاتے ہیں۔ خود بعض رنگ کئی رنگوں کے امتزاج سے وجود میں آتے ہیں۔
تو معلوم یہ ہوا کہ مختلف المزاج اشیاء مل کر ایک نئی شکل اختیار کرتی ہیں جو زیادہ مستحکم ہوتی ہیں اور ساتھ ہی مختلف المزاج اجزاء کی صفات سے جدا ایک نئی صفت لیے نظر آتی ہیں۔
تو کیا تضادات حقیقی نہیں ہیں؟
در اصل تضادات اسی وقت ابھر کر ایک جارحانہ انداز اختیار کرتے ہیں، جب وہ کسی ترتیب اور مرکب حالت سے نکل کر علیحدہ کھڑے ہو جاتے ہیں۔ کچھ اسی قسم کی کیفیت ایٹم کی انتشاری حالت ہے، جب اس کے اجزاء نیوٹران اور پروٹان جدا کر دیے جاتے ہیں۔ دونوں کا اجتماع ایٹم کو نہ صرف بناتا ہے بلکہ اسے استحکام بھی دیتا ہے۔
بدی بھی جب اپنے ماحولی مزاج سے منحرف ہوتی ہے تو اس کی برائی کی کیفیت میں شدت پیدا ہونا شروع ہو جاتی ہے، یہاں تک کہ وہ خود اپنی ہی ہیجانی حالت میں اپنے ماحول کو نقصان پہنچانا شروع کر دیتی ہے۔ شاید یہ کہنا مناسب ہوگا کہ شر اپنی اشتعالی حالت میں متشدد ہو کر شیطان بن گیا۔
شیطان کے بارے میں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اگر وہ اپنی اصل میں جن یا فرشتہ تھا تو پھر وہ شیطان کیسے بن گیا کہ مردود ہوا۔ اللہ کی چنیدہ مخلوق تو اپنی صفت میں اللہ تعالیٰ کی تابعدار اور اطاعت گزار ہوتی ہے! اس ساری تبدیلی کے عمل کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے جوہر کو سمجھا جائے۔
وہ اپنی ابتلا سے پہلے فرشتوں میں مقام اولیٰ پر فائز تھا۔ کہا جاتا ہے وہ فرشتوں کی تعلیم و تربیت پر مامور تھا۔ ظاہر ہے جو دوسروں کو تعلیم دے وہ علم میں ممتاز اور ساتھ ہی اپنی مثبت صفات میں یکتا ہوگا۔ غالباً یہی دو خصوصیات اسے اس راستے پر لے گئیں، جس سے اس کے باطن میں بگاڑ پیدا ہوا۔
تبدیلی کے اس عمل کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ خود وفور علم اور اس کے ممکنہ اثرات کو سمجھا جائے۔ مثلاً علم اپنی تاثیر میں حدت رکھتا ہے۔ شروع میں بالعموم حیرت و استعجاب، درمیان میں شیرینی و حلاوت اور آخر میں وفور علم کی وجہ سے مستی و جذب، ان تینوں کیفیات کے بعد شعور ذات کا ادراک، دوسروں سے مختلف ہونے کا احساس اور اسباب و علل سے آگے ذہنی سفر، مجرد فکر اور بالآخر اس کا امکان کہ تشکیک اور نفی پر جا کر منتج ہو۔
دوم، نیکی کا ارتکاز کسی نفس میں ایک خاص کیفیت پیدا کر سکتا ہے، جیسے تقویٰ سے تفاخر، ایسی کیفیت نیکی کی ضد ہو سکتی ہے۔ بالخصوص ایسی حالت میں جب بندہ احساسِ ذات سے خبط عظمت میں مبتلا ہو جائے اور شدت احساس میں اپنے نفس کے مدار پر محو رقص ہو، یہاں تک کہ ایک نئی کیفیت اس میں پیدا ہو جائے، جسے سائنسی مشاہدے میں افزودگی یا تابکاری انتشار کہا جا سکتا ہے۔ شیطان کے ساتھ بھی شاید کچھ ایسا ہی ہوا۔ اس کا نیکی سے معمور وجود بدی میں مجسم ہو گیا۔
بدی کا استعارہ موت؟
انسان کے دکھوں اور غموں میں بیماریوں کے ساتھ موت دنیا میں بدی کا استعارہ سمجھی جاتی ہے۔ منکرین خدا بیماریوں اور موت کو جواز بنا کر خدا کے بارے میں کہتے ہیں کہ اگر وہ رحیم و کریم ہے تو پھر انسان پر یہ ظلم کیسا؟
موت کی نوعیت خواہ کیسی بھی ہو اس سے گریز کے پیچھے انسان کی یہ خواہش ہے کہ وہ دنیا میں ہمیشہ زندہ رہے، جو نہ صرف ممکن نہیں بلکہ ناقابلِ عمل بھی ہے، کیونکہ حیاتیاتی زندگی کا تسلسل میں رہنا، بالآخر فراغت کی بجائے قلت، وسعت کی جگہ تنگی، امن کی بجائے جنگ اور تصادم ہوگا۔ بالفاظ دیگر موت زندگی کو زندہ رہنے والوں کے لیے آسان بناتی ہے۔
اسی طرح موت اور وقت کی قدر میں گہرا تعلق ہے۔ ایک ایسی زندگی جس پر موت نہ آتی ہو، وہ وقت کی قدر سے آشنا نہیں ہو پائے گی کیونکہ وقت کا ناقابلِ انقطاع بہاؤ جس میں دکھ بھی نہ ہو انسان کو احساس زیاں سے محروم کر دیتا ہے۔ وہ ماحول کا تناؤ جو تخلیق کی آرزو اور وقت کی تنگنائی سے پیدا ہوتا ہے، وقت کے ناتمام ہونے سے ممکن نہیں ہو گی۔
اسی لیے اگر یہ کہا جائے کہ وقت (الدھر) پر اگر موت نہ آئے تو وہ اپنی قدر اور معنی کھو دیتا ہے تو غلط نہ ہوگا۔ وقت کی قدر سے ہی زندگی میں کمال و حسن آتا ہے۔ انسانی کاوشوں میں مقصدیت پیدا ہوتی ہے اور یہ سب کچھ موت کی عطا ہے۔
اسی طرح موت کے یک سر نابود ہو جانے سے یہ لازم ٹھہرے گا کہ آبادی کے ایک حد تک پہنچنے کے بعد نئے بچوں کی پیدائش کے عمل کو ختم کر دیا جائے، جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ دنیا معصوم بچوں کی مسکراہٹوں اور دل آویز حرکتوں سے محروم ہو جائے گی۔ اسی طرح وہ سارا تعمیری عمل جو بچوں کی پیدائش سے لے کر ان کی تربیت اور ان کی جوانی پر ختم ہوتا ہے، والدین کی زندگی سے نکل جائے گا۔ نہ محبت کے وہ انداز، نہ ولدیت کی وہ وارفتگی، نہ وہ بچوں کی کامیابیوں میں شرکت اور مسرت کا احساس، نہ وہ چھوٹوں کا بڑوں کے لیے احترام یہ سب کچھ انسان سے چھن جائے گا۔ انسان کی زندگی بچوں کے بغیر نامکمل اور نا آسودہ ہو کر رہ جائے گی۔
اسی طرح انسان کی پیدائش سے یہ امر مترشح ہے کہ کوئی ذی روح بے جواز پیدا نہیں ہوا کرتی۔ اس کے اعضاء، جوارح، اس کی ذہانت، اس کے جذبات، اس کی یہ اہلیت کہ وہ ایثار و قربانی دے سکتا ہے اور اس کا کسی آرزو کو رکھنا اور آدرش کا پالنا، اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ وہ بے معنی تخلیق نہیں۔
دسویں صدی عیسوی میں جب نئے علوم کے نام پر مسلمانوں کے ایک مخصوص طبقے نے مادیت اور روحانیت میں توازن کو بگاڑنے کی کوشش کی تو اس کے پس پردہ بھی یونانی فلاسفہ کے وہی خیالات تھے جو اوپر بیان کیے گئے ہیں۔
لیکن باوجود اس کے کہ انسانی پیدائش کا یہ پہلو دور از کار نہیں، یہ سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ انسان کی وہ تمام سعی و کوشش جو اس کے عرصہ حیات پر محیط ہیں ان کا کیا ہوگا؟
وہ فصل جو بوئی گئی تھی اس کی کٹائی کب اور کیسے ہوگی؟ یہی وہ پہلو ہے جس کا جواب صلہ آخرت پر منتج ہوتا ہے۔ ایسا نہ ہو تو بے ثمر موت حیات کو ایک مشق ناصبور بنا دے اور زندگی واقعی کسی احمق کی داستان سرائی سے زائد نہ ہو۔
سائنس اور دین و مذہب کا اشتراک ممکن ہے
وجود باری تعالیٰ حقیقت کبریٰ ہے لیکن ساتھ ہی ہر دور کا معمہ بھی ہے۔ ممکن ہے انسان کبھی عقل و خرد کی راہ سے اس تک پہنچ پائے لیکن یہ قطعی ناممکن ہے کہ اللہ کی ہستی کا کلی ادراک اور احاطہ کیا جا سکے۔ "عقلِ محض کے ضمن میں تو یہ بات بالخصوص صحیح ہے کہ یہ معروضی حقیقت تک پہنچتے پہنچتے ہانپ جاتی ہے۔"
اگر عقل اور منطق بے سود کاوش ہے تو سائنسی سوچ اور تجرباتی طریق تلاش بھی زندگی کا یہ معمہ حل کرنے میں ناکام اور قاصر ہے۔ سائنسی حلقوں میں یہ بے پر کی فیشن بن چکی ہے کہ طبیعی قوانین نے ہی اس جہانِ رنگ و بو کو وجود بخشا۔ جیرالڈ شروڈر (Gerald Schroeder)، جو خود بھی سائنسدان ہے، ایک حتمی سوال اٹھاتا ہے:
"کیا یہ (قوانین فطرت) کائنات کے وجود میں آنے سے پہلے موجود تھے؟ (اگر ہاں تو) اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ یہ قوانین اس طبیعی مواد اور مادے کے بغیر ہی موجود تھے، جس پر ان کا اطلاق ہونا تھا۔ فزکس ہو اور طبیعی مواد نہ ہو، کافی عجیب اور بے ڈھنگی سی بات لگتی ہے۔"
آخری بات شروڈر یہ کہتا ہے کہ "ہم سائنسدان اس ایک حل یا نتیجے کے سوا کچھ اور کہنے سے قاصر ہیں۔"
اسی سے ملتی جلتی بات جرمن مفکر لائبنِز (Leibniz) نے سترہویں صدی عیسوی میں فلسفہ کی زبان میں کہی:
Why is there something rather than nothing?
"ایسا کیوں ہے کہ نہ ہونے کے برعکس کچھ نہ کچھ موجود ہے؟"
یہ سوال تو ازلی ہے کہ آخر حیات کو کیا ضرورت پڑی کہ وہ عدم سے وجود میں آگئی؟ یہ اساسی سوال جو اہم مضمرات رکھتا ہے اس میں یہ پہلو بڑا فکر انگیز ہے کہ اگر ابتدا میں کچھ نہ ہو تو پھر اس سے معدوم تو ممکن ہے لیکن نمو نہیں۔
پال ڈیویز (Paul Davies) جو کہ خود ایک معروف سائنسدان ہے کہتا ہے کہ "میں نے جب بھی اپنے ساتھی سائنسدانوں سے یہ پوچھا کہ طبیعی قوانین میں یہ صلاحیت کہ وہ قابل فہم ہیں ایسا کیوں ہے؟ تو انہوں نے یا تو یہ کہا کہ "یہ غیر سائنسی سوال ہے۔" یا پھر یہ کہ "کسی کو نہیں معلوم۔"
اس سب کے باوجود بہر طور حقیقت یہی ہے کہ سائنس کی طرف سے اس سوال کا جواب ابھی آنا ہے کہ قوانین فطرت کیوں موجود ہیں؟
بہ قول پال ڈیویز کے جب تک سائنس طبیعی قوانین کے بارے میں ایک قابل فہم تھیوری، جسے پرکھا جا سکے، لے کر نہیں آتی، اس وقت تک اس کا یہ دعویٰ کہ "وہ اعتقادات سے آزاد ہے ایک جھوٹا اور مہمل دعویٰ ہے۔"
سائنس سے وابستہ افراد یہ بھی کہتے پائے گئے ہیں کہ مذہب تو ایمانیات کی بات کرتا ہے، جس میں عقلی استدلال کی گنجائش نہیں، جب کہ سائنس میں ایمانیات کا مفروضہ نہیں۔ لیکن یہ بات بھی درست نہیں۔ تمام سائنس اس اعتقاد پر مبنی ہے کہ عالم کائنات ایک منضبط و مربوط نظم میں ہے، جسے عقل اپنے احاطہ اور ادراک میں لا سکتی ہے۔
مشہور سائنسدان ڈاکٹر فرانسس کولنز (Francis Collins) کا یہ کہنا بڑا عجیب و غریب پہلو رکھتا ہے کہ جو مادہ پرست یہ کہتے ہیں کہ مادہ پرستی میں یقین خدا پرستی کے مقابلے میں آسان ہے، انہیں یہ جان کر حیرت ہوگی کہ اب مادہ میں یقین اتنا آسان نہیں رہا جتنا قدریہ میکانکس کے اطلاق سے پہلے تھا۔ مثلاً: نیوٹران اور پروٹان جنہیں ہم جوہری نواط (Nucleus) کے اساسی اجزاء سمجھتے تھے، در حقیقت چھ مختلف نوعیت یا رنگوں کے ذروں سے بنے ہیں۔ اس میں عجیب تر پہلو یہ ہے کہ ہر رنگ تین رنگوں (سرخ، سبز اور نیلا) پر مشتمل ہے۔
بات یہاں تک بھی ختم ہو جاتی تو شاید مادہ پرستوں کا بھرم تھوڑا بہت رہ جاتا۔ اب یہ کہا جا رہا ہے کہ حقیقت اس سے بھی زیادہ پیچیدہ ہے۔ مادی دنیا کو جن عناصر نے یک جا رکھا ہوا ہے اس میں ثابت شدہ علم کے مطابق نو دریافت ذرات میں فوٹانز (Photons) کے ساتھ گریویٹانز (Gravitons) اور گلو اونز (Gluons) اور میواونز (Muons) بھی پائے گئے ہیں۔
اس سے بھی زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ ڈاکٹر کولنز کے مطابق یہ سب کچھ باوجود اپنی پیچیدہ ساخت کے، اپنے حسابی بیان میں آسان اور خوبصورت ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ کیا یہ سب کچھ خود بخود ہو رہا ہے؟ یہ کیوں کر ممکن ہے کہ کائنات کے اطوار خواہ کتنے بھی پیچیدہ کیوں نہ ہوں، انہیں آسان حسابی بیان دیا جا سکتا ہے؟ بالفاظ دیگر تحت ایٹمی دنیا ساختی اعتبار سے پیچیدہ، مشاہدہ میں حسین و جمیل اور بیان میں اتنی آسان کہ چھوٹے سے حسابی فارمولے میں ضبط تحریر کی جا سکے۔
نیلز بوہر نے جب جوہری نواط کی ساخت کا مطالعہ کیا، تو اسے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ کس طرح سے الیکٹران جوہری نواط کے گرد دائرے کی شکل میں بصورت شمسی نظام، اپنے آپ کو اپنے مدار میں برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ اس پر استعجاب یہ کہ سب گردش میں ہیں۔ فرق صرف یہ تھا کہ شمسی نظام کے پس پردہ کشش ثقل کارفرما ہے جو اسے باہمی ٹکراؤ سے بچاتی ہے، جبکہ یہاں ایسا نہیں تھا۔ ایسی حالت میں نیلز بوہر کے لیے بڑا سوال یہ تھا کہ آخر ایسا کیوں ہو رہا ہے کہ الیکٹران اپنے منفی چارج کی وجہ سے مثبت چارج کے پروٹان سے جا کر نہیں ٹکراتے، کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو مادی دنیا ایک خوفناک دھماکے سے اڑ جاتی۔ نیلز بوہر کی تحقیق سے یہ معلوم ہوا کہ یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب الیکٹران ایک خاص Finite حالت میں موجود رہیں۔ اور الیکٹران اور پروٹان کے درمیان کشش ثقل کی بجائے برقی قوت باہمی کشش کا باعث ہو۔
ہیزن برگ کے نزدیک قدریہ میکانکس کے مطابق تحت ایٹمی دنیا انتہائی چھوٹے ذرات سے تشکیل پاتی ہے جن میں فاصلے بہت قلیل ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ناممکن ہے کہ کسی تحت ایٹمی ذرے کے مقام اور حرکت کی صحیح پیمائش کی جا سکے۔ مثلاً: جتنی بھی احتیاط اور باریک بینی سے جوہری ذرے کے مقام کا تعین کیا جائے اتنا ہی یہ کہنا مشکل ہو گا کہ اس کی صحیح حرکت کی رفتار کیا ہوگی۔
دوم، تحت ایٹمی ذرہ کے راستے کو اسی صورت میں معلوم کیا جا سکتا ہے جب اس کا مشاہدہ کیا جائے۔ بالفاظ دیگر دنیا خواہ کیسی بھی حالت میں ہو، اسے مشاہدہ تشکیل دیتا ہے۔
یہ اعترافات سامنے رکھیے اور سوچیے کہ فلسفہ اور سائنس مادی دنیا کے حوالے سے بے بسی کے کس مقام پر کھڑے ہیں۔ یہ جان کر ہمیں کوئی آسودگی نہیں ملتی کہ دونوں ہی نظریہ علم ابھی تک بنیادی انسانی مسائل سے گھتم گتھا ہیں۔ مثلاً، کیسے یقین کیا جائے کہ طبعی دنیا کی وہ صورت جو سائنس ہمیں بتا رہی ہے اور جو ہمارے تجربے سے قطعی مختلف ہے، واقعتاً صداقت کی تشریح و توضیح کرتی ہے جیسی کہ وہ اصل میں ہے۔ یہ سوال اس لیے اہم ہے کہ وہ سائنسدان یا فلاسفہ جو ہمیں دنیا کی حقیقت کے بارے میں آگاہ کر رہے ہیں بہر طور ان کی دماغی کاوش ہے۔ لیکن یہ سوال اتنا اہم ضرور ہے کہ پوچھا جائے کہ اگر انسانی دماغ انسانی وجود کا حصہ ہے تو آخر دماغ اپنے وجود سے خارج میں جا کر فطرت کا ادراک کیسے کر سکتا ہے؟ کیا سائنس ہمیں دنیا کے متعلق وہی کچھ بتاتی ہے جیسی کہ وہ ہے یا صرف اتنا کر رہی ہے کہ ہمارے تجربات کی ایک من پسند ترتیب و تشکیل ہمارے سامنے لے آئے؟ دماغ سے سوچی دنیا اسی صورت میں معروضی ہو سکتی ہے، اگر اسے دیکھنے والا یا اسے سوچنے والا بذات خود بھی معروض ہو۔ بالفاظ دیگر اس کا جسم اس کا ذہن اپنے ماحول، اپنے ثقافتی اور تہذیبی ورثہ کے اثرات سے کلی طور پر آزاد ہو یا پھر ذہن اپنی طبعی محدودات سے آزاد اور ماوراء ہو۔ ایسا ممکن نہیں۔
اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ عقل اتنی آزاد اور کامل ہے کہ وہ انسان اور کائنات سے متعلق حقیقتوں کا ادراک کر سکتی ہے، تو پھر بھی اسے مشاہدہ پر انحصار کرنا پڑے گا، جو خود مسائل سے اٹا ہوا ہے۔ مثلاً مشاہدہ اس کا کیا جا سکتا ہے جس کا حواس احاطہ کر سکیں۔ دوم، جو جس حد تک نظر آتا ہے، وہ بیان کیا جا سکے اور جس کی فہم اور تعبیر ممکن ہو۔ ہمارے احوال میں کئی چیزیں ناقابلِ بیان ہیں۔
یہ عجز اور بے مائیگی اپنی جگہ لیکن سائنس، جسے ناروا طور پر دین و مذہب کے مقابل کھڑا دکھایا جاتا ہے، معرفت الہی کے ضمن میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ اس حوالے سے فزکس اور علم الحیات کئی ایسے شواہد سامنے لا رہے ہیں، جو تلاشِ حق میں مفید اور معاون ہیں۔ ان سے جو محبت ابھر کر سامنے آتی ہے، اس میں بڑا قابل لحاظ وزن ہے اور یہ محبت میرے نزدیک سات سطحوں پر کام کرتی ہے:
- وہ فطری قوتیں جنہوں نے اس کارخانہ کون و مکاں کو جوڑے رکھا ہے، ایک متبدل اور متغیر خصوصیت ظاہر کر رہی ہیں۔ یہ قوتیں جنہیں ہم کششِ ثقل، برقی مقناطیسی قوت، طاقتور اور کمزور نیوکلیائی بندھن (Bonds) کہہ سکتے ہیں، اپنی فطرت اور نوعیت کے اعتبار سے بظاہر متضاد ہیں لیکن ان کا کام ایک ہی ہے کہ عالم کائنات کو باوجود اس کی ہمہ رنگی کے، باندھ کر رکھیں تا کہ یہ منتشر نہ ہونے پائے۔ ان میں واسطہ اور تعلق صرف ایک وجود سے ہے، جسے فوٹان (Photon) نام ملا۔ بہ ظاہر سارا جہان ایک منتشر سلسلہ لگتا ہے، لیکن اصلاً ایک حد درجہ منتظم، مربوط اور متوازن کائنات ہے، جس کا اظہار زمان و مکان میں بھی ہوتا ہے اور مادے کے فطری اور خلقی خواص میں بھی۔ ایٹم سے سالمہ (Molecule) اور نیوکلیائی ذرات سے ہر اس چیز تک میں، جو ان کے ملنے سے وجود میں آئی، قانون تزویج کارفرما نظر آتا ہے (یہ بات قرآن نے تصریحاً بتائی کہ ہر چیز زوج زوج پیدا کی گئی ہے)۔
مزید برآں، خود سائنسی تحقیق اس امر کی تصدیق کرتی ہے کہ وہ عناصر جن سے یہ دنیا بنی، سب ایک دوسرے پر منحصر اور محتاج ہیں۔ "گایا" (Gaia) مفروضہ، جو جیمز لوولاک (James Lovelock) نے پیش کیا، بتا رہا ہے کہ حیاتی مادہ، ہوا، سمندر اور خشک زمین سب کے سب ایک عظیم الجثہ سسٹم کے اجزاء ہیں، جس کے تصرف میں حرارت کی کمی بیشی، ہوا اور پانی کی ترکیب اور زمین کی تیزابیت (pH) وغیرہ ہیں، تاکہ یہ سب زمین کی بالائی حیاتیاتی پرت (Biosphere) کی بقا کے لیے بدرجہ اتم موجود اور میسر رہیں۔ لوولاک کے کہنے کے مطابق یہ پورا نظام ایک واحد حیاتی وجود کی طرح کام کرتا ہے، گویا ایک زندہ مخلوق ہے۔
"گایا نظریئے کی رو سے کرۂ ارض اپنے اندر حیات افروز مخفی اہلیت رکھتا ہے جس کی بنا پر وہ اس قابل ہے کہ وہ اپنے دامن میں قیام پذیر مخلوقات کی زندگی و بقا اور آسودگی کے لیے از خود اقدامات اٹھائے، ایک ایسی ماں کی طرح جو شفیق ہو اور جسے اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہو۔ مثلاً، اس زمین کے اوپر جو فضا ہے اور سمندروں کے اندر جو پانی ہے ان کی کیمیائی ساخت اور اجزائی تناسب جن پر یہ دونوں مشتمل ہیں حیاتیاتی انتظام و انصرام میں ہیں۔ اسے یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ زمین سے بالا فضا میں میتھین اور آکسیجن دونوں بیک وقت موجود ہیں، جو سورج کی روشنی میں مل کر کاربن ڈائی آکسائیڈ اور پانی کے بخارات پیدا کرتے ہیں۔
اس سارے عمل کے لیے ضروری ہے کہ فضا میں میتھین کی ایک خاص مقدار موجود رہے۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب کم از کم پانچ سو ملین ٹن گیس ہر سال فضا کو ملتی رہے۔ اسی طرح آکسیجن کی مقدار کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کی کمی کو پورا کرنے کے لیے دگنی مقدار یعنی ایک ہزار ملین ٹن آکسیجن فضا کو ملتی رہے۔ اس سارے عمل میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آکسیجن فضا کو کیسے ملتی ہے؟ تسلیم شدہ معلومات کے مطابق اس کا ماخذ آبی بخارات ہیں جو دریاؤں اور سمندروں سے پیدا ہوتے ہیں اور جب فضا میں پہنچتے ہیں تو پھٹ جاتے ہیں، جس سے ہائیڈروجن جدا ہو کر خلا میں چلی جاتی ہے اور آکسیجن پیچھے رہ جاتی ہے۔
جنگلات میں آگ کا عمل بھی بلاوجہ نہیں۔ ہوا میں آکسیجن کی محفوظ مقدار 21 فیصد ہونی چاہیے۔ جب کسی وجہ سے یہ مقدار زائد ہو جائے تو جنگلات میں از خود آگ لگ جاتی ہے، تا کہ زائد مقدار کو ضائع کیا جا سکے۔
سائنس اب ہمیں بتا رہی ہے کہ اگر ہوا میں آکسیجن کی مقدار 25 فیصد تک پہنچ جائے تو دنیا بھر میں آگ بھڑک اٹھے، اور سب کچھ خاکستر ہو جائے۔
اسی طرح زندگی کو جاری و ساری رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ اسے مناسب درجہ حرارت پر توانائی ملتی رہے۔ مثلاً اگر سورج کی سطح پر درجہ حرارت بجائے 5000 ڈگری کے 500 ڈگری ہو اور زمین نسبتاً اس کے قریب ہو تو ہمیں تپش تو اسی طرح ملے گی اور درجہ حرارت بھی کم و بیش اتنا ہی رہے گا، لیکن زندگی رواں نہیں ہو سکے گی۔ بالفاظ دیگر زندگی اسی وقت نمو پاتی ہے جب اسے توانائی کی مطلوبہ مقدار ایک خاص درجہ حرارت پر ملے جس سے مختلف کیمیائی اعمال اور اطوار کو ممکن بنایا جا سکے۔
نیا کائناتی نظریہ جو انشقاق عظیم (Big Bang) اور اس تصور پر استوار ہے کہ کائنات تقریباً 12 بلین برس پہلے ایک دھماکے سے وجود میں آئی۔ یہ عمل "افراط" یا "پھیلاؤ" کے نام سے جانا جاتا ہے، جس میں تحت ایٹمی ضخامت سے ایک فٹ بال کی جسامت تک پہنچنے میں ایک سیکنڈ کے لاکھوں، اربوں، اربوں، اربوں حصے سے بھی کم وقت لگا۔ اچانک اور یک لخت ہوئی۔
سائنسدانوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ جو نہی دھماکہ ہوا تو وہ تمام اساسی قدریں سامنے آگئیں کہ جن سے زندگی ممکن ہو سکتی تھی۔ انشقاق کے ابتدائی لمحات ہی میں چاروں قوتیں کشش ثقل، برقی و مقناطیسی قوت، طاقتور اور کمزور نیوکلیائی بندھن اور اساسی لامتبدلات کی قدریں اپنی عمیق خصوصیات کے ساتھ آموجود ہوئیں، جو زندگی افروز تھیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو عالم کائنات حیات کی افزدوگی کے قابل نہ ہوتی۔
نظریہ انشقاق یہ بھی ہمیں بتاتا ہے کہ زمان (الدھر) کے ایک مخصوص مرحلے میں کائنات وجود میں آئی اور تھرموڈائنامکس (Thermodynamics) کے قانون ثانی کے مطابق ایک متعین اور محدود وقت کے اندر جس طرح کائنات وجود میں آئی اسی طرح یہ بکھر کر فنا بھی ہو سکتی ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ کا بہ طور خالق وجود سامنے موجود ہے، ورنہ یک لخت (کن) سے کس نے سب کچھ پیدا کیا اور یکدم کون فنا کرے گا؟
یہ امر بھی پیش نظر رہے کہ اسی قانون کے مطابق کائنات مائل بہ زوال ہے۔ لیکن شروع میں چونکہ کائنات کو استقرار چاہیے تھا، اس لیے زائل ہونے کا عمل معطل کیا گیا، تا کہ ابتدا ہی میں زائل نہ ہو جائے۔ اس لیے اس بات کا امکان ہے کہ اس کی ابتدا زائل ہونے کے عمل کو روک کر بڑے منظم انداز سے ہوئی۔
سائنس البتہ اس سوال کا جواب نہیں دیتی کہ انشقاق کی ضرورت کیا تھی، اور اگر تھی تو اس میں اتنے نظم کا اہتمام کیوں کر ممکن ہو سکا؟
راجر پینروز (Roger Penrose) جیسے سائنسدانوں کے خیال میں ایک ایسی کائنات جس میں تحیر انگیز نظم ہے، اسی صورت میں ممکن ہو سکتی تھی کہ انشقاق کا سارا حادثہ، جس سے زندگی نمو پا سکے، انتہائی مہارت اور درستگی سے انجام دیا جاتا۔ "یہ درستگی پینروز کے مطابق 1010123 تناسب ہے، جو ناممکنات میں سے ہے۔"
ہیزن برگ کا اصول عدم یقین (Heisenberg Uncertainty Principle) اس امر کی شہادت پیش کر رہا ہے کہ علت و معلول کی شہادت جو یہ جہانِ رنگ و بو پیش کر رہا ہے تحت ایٹمی سطح پر جا کر تحلیل ہو جاتی ہے اور ایک ایسے جہانِ ہست و بود کا تصور سامنے لاتا ہے جس پر ایک عظیم و کبیر ذہن حکمران ہے۔ "یہ اصول نیوٹن کے میکانکی تصور کے خلاف ہے کہ حقیقت نفسی (Reality) ایک عظیم الجثہ مشین ہے یا یہ کہ عالم کائنات محض علت و معلول کے مطابق چل رہی ہے اور یہ کہ اس کے پیچھے کوئی اعلیٰ و برتر ذہن کارفرما نہیں۔ اگر اس سب کچھ کو تسلیم کر لیا جائے تو اس سے یہ ممکن ہو جاتا ہے کہ ہم روحانی پس منظر میں حقیقت کی تشریح کر سکیں۔"
ہیزن برگ کا اصول عدم یقین کا ایک اور پہلو اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز تھا۔ اب تک کی سائنس ہمیں یہ بتا رہی تھی کہ دنیا کی حقیقت مشاہدہ سے وابستہ ہے اور مشاہدہ ہمیں یہ بتا رہا تھا کہ حقیقت مادہ ہی ہے جو نظر آتا ہے، جسے محسوس کیا جا سکتا ہے۔ بالفاظ دیگر قدریہ میکانکس کی آمد سے پیشتر وہ دنیا جو نظر آتی تھی اہم تھی لیکن اب مادہ محسوس سے ماوراء ایک نئی تحت ایٹمی دنیا اور دیکھنے والا یعنی شاہد بھی اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ جب شاہد مشہود کو دیکھتا ہے تو نظم سے باہر رہ کر دیکھتا ہے۔ "وہ کیا دیکھنا چاہتا ہے اس کا فیصلہ وہ خود کرتا ہے، جن میں اس کا شعور اور اہلیت ادراک اہم ترین عوامل ہیں۔"
ہیزن برگ کے اصول عدم یقین سے یہ ممکن ہو گیا ہے کہ انسان کے فکر و عمل کی آزادی اور استقلال کا دفاع کیا جا سکے، کیونکہ اگر یہ سب کچھ خود کار مشین نہیں تو پھر انسان بھی محض ناظر و شاہد نہیں، نہ کوئی مشین ہے، بلکہ اپنے فکر و عمل میں وہ ایک باوقار، خود مختار، ذی ہوش وجود رکھتا ہے، جو اپنے اعمال کا ذمہ دار ہے۔
بیسویں صدی کی طبیعیات نے اس پرانے تصور کو ادھیڑ کر رکھ دیا ہے کہ مادہ ٹھوس ہے، اور دنیا کا نظام میکانکی ہے۔ "قدریہ میکینکس متفرق خوردہ ذرات پر مشتمل توانائی پر نیلز بوہر (Niels Bohr) کی تحقیق نے ثابت کر دیا ہے کہ مختلف تناظر میں تحت ایٹمی ذرہ ایک لہر بھی بن سکتا ہے اور ذرہ بھی رہ سکتا ہے، چنانچہ "حقیقت" معروضی نہیں بلکہ مظہریاتی (Phenomenological) ہے۔"
یعنی حقیقت وہ نہیں جو کہ لہر کی شکل میں مصروف عمل نظر آ رہی ہے، بلکہ معلومات کی وہ عددی تخلیص ہے، جو کسی لہر کی حرکت میں موجود ممکنات کی حسابی پیمائش سے حاصل ہوتی ہے۔ دوم یہ کہ انسان کی عالم کائنات سے وابستگی جو اس کے ادراک حقیقت کو ممکن بناتی ہے، اس میں انسان کا ذہن فیصلہ کن عامل ہے۔ سوم، ذہن کو مادے پر فوقیت حاصل ہے۔ یعنی حقیقت مادے سے زائد شے ہے جسے ذہنی کہا جا سکتا ہے۔
بالفاظ دیگر یہ ہدایت ہے، جو کہ لہر یا ذرے میں پنہاں ہے نہ کہ مادہ جو اہم ہے۔
کچھ ایسے ہی امکانات کو پیش نظر رکھتے ہوئے نیلز بوہر نے کہا: "اگر کوئی قدریہ میکینکس (کے نتائج) سے حیرت زدہ نہیں ہوا، تو اس نے اسے سمجھا ہی نہیں۔"
سالمیاتی علم الحیات میں عظیم پیش رفت یہ بات سامنے لائی ہے کہ نامیاتی حیات کوئی علیحدہ منفرد یا متفرق معاملہ نہیں ہے، نہ تقابلی اور جہدِ بقا کا قصہ ہے، جیسا کہ ڈارونی کلاسیکی نظریہ ارتقا نے سمجھ رکھا ہے، بلکہ یہ ایک مخصوص اور متعین سمت میں رواں دواں ہے۔ یہ انکشافات نئے اطوار سامنے لا رہے ہیں کہ خالصتاً مقصدیت کی تازہ روشنی میں عمل ارتقا کو دیکھا اور سمجھا جائے۔ وہ ارتقا جو بے ترتیب نہ ہو بلکہ اس میں خلاقی کی شان ہو۔
علم کے یہ نئے افق یہ بات بھی سامنے لا رہے ہیں کہ انواع کا ایک منظم انداز ہے جو آسانی سے تبدیل نہیں ہوتا۔
اسی طرح انواع کا بالکل یک بارگی پھوٹ کر ابھرنا، جیسا کہ کائنات کی پیدائش کے بارے میں کیمبرین (Cambrian) دھماکے کا نظریہ ہے، ایک زیادہ امکانی اور قابل قبول صورت لگتا ہے بہ نسبت اس کے کہ قدرتی انتخاب اور ماحول میں ڈھل کر نئی شکل اختیار کرنے کا تدریجی ارتقا وقوع پذیر ہوا ہو۔
دماغی امراض کے حوالے سے لاشعور میں واقع پوشیدہ محرکات و عوامل، یعنی تحلیل نفسی کا علم (Depth Psychology) پر تحقیق جیسے جیسے آگے بڑھ رہی ہے، اس سے نہ صرف لاشعور کی ڈور ترتیب میں آنے لگی ہے، بلکہ خود انسان اور اس کی پیدائش کے بارے میں ایک نیا دریچہ کھول دیا ہے۔ اس سلسلہ میں سٹینلوف گراف (Stanislav Grof) کے کام نے سائیکو ڈائنامک نظریے میں انقلاب برپا کر دیا ہے، جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اس سے دین و مذہب پر بڑے گہرے اثرات پڑیں گے۔ اب یہ انسانوں کے لیے ممکن ہو گیا ہے کہ وہ عمل انگیز نفسیاتی تحریکی مواد کے زیر اثر واپس اپنی پیدائش کے زمانے میں پہنچ جائیں اور رحم مادر سے جدائی کے ہولناک جذباتی صدمہ نیز موت و حیات کی کشمکش جیسی اذیت ناک زچگی کے تجربے کا احساس و ادراک کر سکیں۔
بالفاظ دیگر، وقت ولادت کے ذرا آگے پیچھے کا یہ مرحلہ خود نوع انسانی کی ابتدائی کیفیت نسبتاً کمتر سطح پر دہرا دیتا ہے، جب جنت میں آدم و حوا کی تخلیق ہوئی، جب وہ اپنے خالق سے جدا کیے گئے اور جب زمین پر انسانی زندگی کی ابتدا ہوئی۔
ایک صدی پہلے سائنس اپنے فارمولے کائنات پر ٹھونس رہی تھی، جس کی وجہ سے نتائج من مانے نکالے جا رہے تھے۔ لیکن قدریہ میکانکس کے بعد سے سائنس کا اسلوب ہی بدل گیا ہے۔ اب سائنس خود کائنات میں جو حسابی اطوار ہیں انہیں دریافت کر رہی ہے۔ اور اس کی بنیاد پر بتا رہی ہے کہ کائنات کی بقا اور حیات کے پس پردہ انتہائی پیچیدہ قوتیں کارفرما ہیں۔ ان میں توازن اور تحمل ہے اور ساتھ ان کے اطوار میں ایک نفیس ترین آہنگ ہے، جو دن بدن واضح ہوتا جا رہا ہے۔ مثلاً جوہری قوتوں ہی کو دیکھ لیں: ان میں ایک طاقتور اور دوسری نسبتاً کمزور قوت ہے۔ جوہری نواط (Nucleus) کے ذروں کو آپس میں باندھنے کے لیے ضروری ہے کہ دونوں قوتوں میں 1010 میں 1 کے تناسب سے ارتباط اور توازن موجود ہو۔ اگر طاقتور قوت ذرا برابر بھی کم ہو تو صرف ہائیڈروجن برقرار رہے ۔ اور اگر رتی بھر بھی زائد ہو، تو ہائیڈروجن ناپید ہو جائے۔ نتیجتاً نہ سورج ہو نہ پانی اور نہ دیگر اساسی عوامل جو زندگی کی نمود اور بقا کے لیے ضروری ہیں۔
کاربن کے بارے میں یہ ثابت شدہ علم ہے کہ اس کی غیر موجودگی حیات کو ناممکن بنا دیتی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہ فراواں بھی ہوتی اور اس کا پیدائشی عمل آسان ترین ہوتا۔ لیکن جہاں یہ فراواں ہے وہاں اس کا تخلیقی عمل مشکل ترین ہے۔
بہ قول پروفیسر سٹیفن بار (Stephen Barr) ماہرین طبیعیات حیران ہیں کہ اتنی کثرت سے کاربن کائنات میں موجود ہے، لیکن جس طرح سے کاربن وجود میں آتی ہے اسے لازماً کم سے کم مقدار میں ہونا چاہیے تھا۔ سائنسدانوں کے نزدیک اس کا عمل وجود ایک انتہائی خطرناک حد تک مشکل اور نازک ہے۔ مثلاً ایک کاربن ایٹم تین بار ٹکراؤ کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے اس کو سہ گونا الفا عمل کہا جاتا ہے۔
اس عمل میں پہلا مرحلہ اس وقت مکمل ہوتا ہے جب ایک ستارے کے اندر ایک ہیلئم نواط دوسرے ہیلئم سے متصادم ہوتا ہے جس کے نتیجے میں بریلیئم کا ایک عارضی آئسوٹوپ معرض وجود میں آ جاتا ہے۔ پھر جب یہی نومولود بریلیئم تیسرے ہیلئم نواط سے متصادم ہوتا ہے تو کاربن وجود میں آتی ہے۔
اس کے پیدائشی عمل کی پیچیدگی کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس غیر معمولی سہ گونا الفا عمل میں وقفے کا دورانیہ ایک ارب کا سوملین ایک سیکنڈ میں ہے جب کاربن کا ایک ذرہ معرض وجود میں آتا ہے۔
فریڈ ہویل (Fred Hoyle) جس نے کاربن اور آکسیجن میں حرارتی سطح کا صحیح تخمینہ لگایا، اس کے کہنے کے مطابق کاربن نواط کی حرارتی سطح اتنی ہی ہے جتنی کاربن اور آکسیجن کے مرکب کو یک جا رہنے کے لیے ضروری ہے۔ یہ حرارتی سطح تیسرے نواط ہیلئم اور بریلیئم ایٹم کی مشترکہ حرارتی سطح کے مساوی ہے۔
فریڈ ہویل کا کہنا ہے کہ اس کے الحاد پن کو اس وقت سخت دھچکا لگا جب اس نے حساب لگایا کہ ایسا سہ گونا الفا عمل تصادم اس وقت تک نہیں ہو سکتا، جب تک اس کے پس پردہ کسی انتہائی حکیم و دانا کا دست قدرت نہ ہو۔ وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ اتنا مشکل عمل اتنی درستگی کے ساتھ ناممکنات میں سے ہے۔
سی۔ ایس لیوس (C.S. Lewis) نے اپنی تصنیف Miracles میں جو کچھ کہا ہے وہ بھی موضوع سے کافی متعلق ہے۔ مثلاً:
"تحت ایٹمی فزکس کی پر اسرار دنیا میں سائنس بہ ظاہر اپنی آخری حدوں کو پہنچ رہی ہے۔ یہ ایک عجیب و غریب جھٹپٹے کا نیم روشن عالم ہے جہاں ذرات بیک وقت موجود بھی ہیں اور غیر موجود بھی۔ جہاں مادہ اور توانائی دونوں کو صرف حسابی فارمولا میں ہی بیان کیا جا سکتا ہے۔ جہاں وقت سکڑ سمٹ کر محض ایک ذہنی منظر بن جاتا ہے۔ جہاں ہم حقیقت (Reality) کو دیکھ رہے ہوتے ہیں۔"
1977ء میں برکلے ماہر طبیعیات ہنری پیئرس سٹیپ (Henry Pierce Stapp) نے زور دے کر کہا: "فطرت کے متعلق ہم جو کچھ بھی جانتے ہیں وہ اس تصور سے متفق ہے کہ اس کے بنیادی طریق اعمال (Process) زمان و مکان کے دائرے سے باہر ہیں لیکن وہ ان حوادث کو جنم دیتے ہیں جو خود زمان و مکان کے اندر ہوں:
"اس بات کا امکان موجود ہے کہ فطرت حقیقتاً زماں کے اندر نہ ہو، اور یہ تو یقینی ہے کہ اللہ تعالیٰ زمان و مکان کی حدود میں مقید نہیں۔ وقت یا زماں بھی شاید ہمارے محولہ بالا ذہنی یا جغرافیائی منظر کی طرح ہمارے تصورات کا ایک انداز ہو۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کے لیے سارے طبیعی حوادث اور بھی انسانی اعمال اس کے سامنے ایک ازلی و ابدی حال (Now) کی شکل میں موجود ہیں۔"
سائنس کی نامعتبر اور غیر حتمی فطرت
چونکہ فلسفیانہ نظریات اپنی فطرت میں ظنی اور قیاسی ہوتے ہیں، اس لیے وقت کے ساتھ ساتھ از کار رفتہ ہو کر ختم ہو جاتے ہیں۔ اور اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں۔ لیکن سائنس جو دعویٰ کرتی ہے کہ وہ ظنی اور قیاسی نہیں بلکہ مادی مشاہدات، احوال اور تجرباتی طور طریقوں پر اپنے نتائج کو استوار کرتی ہے۔ ان کے اندازے دوسروں کے مقابلے میں زیادہ معتبر اور اطمینان بخش ہونے چاہئیں تھے۔ اس سب کے باوجود سائنسی علوم پر بھی عدم پائیداری کی کیفیت حکمران رہتی ہے۔ ذرا سوچیے کہ نیوٹن کی طبیعیات آج کہاں ہے، جس میں "مطلق حرکت، خط مستقیم اور راست زاویہ" کی باتیں تھیں۔ یا مثلاً مادہ کی ان گنت مقدار یا تو دے (Mass) اور مکان و زمان کا کیا بنا جن کی معلمین و مدرسین کے نزدیک تو کوئی اہمیت نہ تھی لیکن گیلیلیو کے لیے ان کا مقام مرکزی تھا، جو انہیں شاہد (دیکھنے والے) سے آزاد بنیادی خواص کے طور پر لیتا تھا۔ نظریہ اضافیت میں مادے کا مجمع اور رفتار مشاہدہ کرنے والے سے جدا اور آزاد نہیں ہوتے۔
اسی طرح یہ مادی دنیا، جسے کبھی "لازماً ایک" جامد اور غیر متبدل ڈھانچا اور ہیکل" مانا جاتا تھا، اب اسے مائع اور حرکی تسلیم کیا جاتا ہے۔ نظریۂ اضافت سامنے آیا تو سمجھ میں آنے والی صلاحیت اور اکملیت جنہیں فیصلہ کن سمجھا گیا تھا، پادر ہوا ہوئے، اور ان کی جگہ غیر یقینی نے لے لی۔ اب حقیقت محض مادہ یا توانائی (Energy) نہیں بلکہ انفارمیشن بمعنی ہدایات ہے۔ یہ قول گریگوری چائٹن (Gregory Chaitin) کے مادہ اور انرجی اب ثانوی ہیں اور انفارمیشن اولیٰ۔ اسی طرح اس کے کہنے کے مطابق انفارمیشن (ہدایات) خواہ وہ ڈی این اے کے اندر ہو یا اعصابی ریشوں کی حرکت میں ہو جنہیں ہارمونز آگے لے جا سکتے ہیں اس کے لیے مادی واسطہ یا اس کی ظاہری مادی صورت اہم نہیں۔
نئے علوم قدریہ میکانکس، بلیک ہول، پارٹیکل اسٹروفزکس، کاسمالوجی اور انفارمیشن نے کائنات کے بارے میں تمام تر پرانے سائنسی نظریات تہہ و بالا کر دیے ہیں۔ انسانوں اور عالم غائب کے درمیان جو پردہ تھا، اب وہ قدرے سرکنا شروع ہوا ہے اور اب یہ ممکن ہو گیا ہے کہ محسوسات سے آگے بڑھ کر عالم غائب کو خواہ جزوی حد تک ہی ہو جانا جائے۔
ان حیرت انگیز انکشافات اور ان کے مضمرات نے اہل علم طبقہ کو ششدر کر کے رکھ دیا۔ بہ قول پال جانسن (Paul Johnson):
"ایسے لگتا ہے کہ چکر کھاتے گلوب (زمین) کو اس کے محور سے ہٹا کر ایک ایسی کائنات میں آوارہ تیرتے پھرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے جو اب ناپ تول کے معروف پیمانوں سے ہم آہنگ نہیں۔"
مثلاً، ارتقا کی مثال لیجیے، جو کبھی علم الحیات کا توضیحی مثالی نمونہ تھا، آج اسے انسانی بصارت کے پیچھے کیمیاوی انکشافات ہوں، یا انسانی جسم کا مدافعتی نظام (Immune System) ہو یا خون کے جم جانے کی خاصیت، غرض ہر حوالے نے نظریہ ارتقا کو نگل لیا ہے۔ کہتے ہیں یہ سارے نظام اتنے پیچیدہ اور گنجلک ہیں کہ بہ قول مائیکل بہی (Michael Behe) پروفیسر بائیو کیمسٹری:
"تم بہ چشم سر دیکھ سکتے ہو کہ ان کی تشکیل و تنظیم ایک حکیم و دانا ذات نے کی ہے۔ ان کی صورت گری ڈارون کے نظریہ ارتقا سے قطعاً نہیں ہوئی۔"
خود پیدائش کا عمل خواہ وہ سالمے میں ہو یا کسی اور باطنی وجود میں، ترتیب اور نظم کا واضح اظہار ہے۔ مثلاً یہ تو آسانی سے کہہ دیا جاتا ہے کہ چوزہ انڈے سے پیدا ہوا لیکن یہ امر نظر انداز کر دیا جاتا ہے، کہ انڈے میں باطنی حیات کیسے پیدا ہوئی؟ یا رحم مادر میں زندگی نے کیوں کر کروٹ لی؟ یا پھر خلیے کس طرح استقرار حمل میں نئے اجزاء بنانے لگے؟ یہ تو اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب اس کے پس پردہ حیات کا مقصد ہو اور اس کی تشکیل اور تکمیل میں کوئی تعمیراتی نقشہ اور ہدایت ہو۔
اس لیے ساختیاتی فکر کے ماہرین علم الحیات ڈارون کے نظریہ ارتقا کو تقریباً دفن کر چکے ہیں۔ اس فکر کی رو سے یہ قدرتی انتخاب نہیں بلکہ پیچیدہ تعمیراتی ارتباط کے قوانین ہیں یا جہانِ فطرت میں ودیعت شدہ خود تنظیمی کا اصول ہے، جس کے تحت ارتقا ظہور میں آتا ہے۔
تھامسن کوہن (Thomas Kuhn) کہتا ہے:
"بہتوں کے لیے نظم کائنات جس میں غایت و مقصد ہو بحیثیت ارتقائی نظریہ کے کافی اہم تھا، (ایسے لوگوں) کے لیے ڈارون کا فرمان قابل قبول نہیں۔ انواع کی ابتداء کا نظریہ کوئی ایسا ہدف تسلیم نہیں کرتا جو خدا یا فطرت نے مقرر کر رکھا ہو۔ .... یہ یقین اور عقیدہ رکھنا کہ یہ دراصل انواع کے درمیان جہد للبقا کے ذیل میں قدرتی انتخاب تھا کہ دوسرے جانوروں اور پودوں کے ساتھ ساتھ انسان بھی وجود میں آگیا، ڈارونی نظریہ کا حد درجہ مشکل اور اضطراب انگیز پہلو ہے۔ (کیونکہ) کوئی متعین ہدف اور مقصد موجود نہ ہو تو "ارتقا"، "تعمیر اور ترقی" بالکل بے معنی ہو جاتے ہیں۔ بہت سے لوگ تو سمجھتے ہیں کہ یہ اصطلاحات اپنی اصل میں خود تکذیبی ہیں۔"
اس سے بڑا فکری انقلاب اور کون سا ہو سکتا ہے کہ اب ڈارونی ارتقا پسندوں کو طعن و تشنیع کا سامنا ہے۔
ارتقا پسندوں کے طریق مطالعہ و تحقیق کو ڈاکٹر جیرالڈ شروڈر قدامت کی طرف رجعت اور ڈارون دور کی طرف واپسی کا الزام دیتا ہے، جب خلیاتی بائیولوجی کو کسی جھلی کے اندر لجلجے لیس دار مادہ کا معاملہ سمجھا جاتا تھا۔
سالمیاتی بائیولوجی نے بتا دیا ہے کہ حیات ایک بے حد پیچیدہ عمل ہے۔ بوسیدہ تحجرات (Fossil) کا ریکارڈ تو اچھا خاصا معمہ ہے۔
اس پر تبصرہ کرتے ہوئے شروڈر کہتا ہے:
"تین ارب سالوں تک زندگی سے متعلقہ قدیم ترین تحجرات (جرثومے اور کائی) تقریباً 305 سے 308 ارب سالوں پر محیط عرصہ تک اور اولین شواہد حیوانی حیات کے سامنے آنے تک 530 ملین سال قبل، متحجراتی ریکارڈ یہ ظاہر کرتا ہے کہ حیاتیاتی بناؤ یک خلیاتی یا ایسے خلیوں کا اکٹھ (Cluster) نظر آتی ہے، جن کی کوئی شکل نہیں تھی۔ کسی ہاتھ پاؤں، منہ، آنکھ یا جوڑ بند کا پتہ نہیں لگتا۔ نیز ان قدیمی متحجرات میں کوئی نشان آج کی موجود انواع و اقسام کا نہیں ملتا جو اپنی انتہائی پیچیدہ شکل میں اتنی بڑی تعداد میں سامنے آئیں اور اسی بنیادی جسمانی ساخت کے ساتھ جو ہم اب دیکھتے ہیں۔ اسی کو سائنس کے اصحاب دانش حیوانی حیات کا کیمبرائی (Cambrian) دھماکہ کہتے ہیں۔ انہی تشکیلات (Structures) میں سے ایک "آنکھ" ہے۔ آنکھوں کی اولین شکل کثیر الباری تھی اور ان کے عدسے کی متحجراتی شکل بصری لحاظ سے اتنی کامل تھی جو پانی میں دیکھ سکتی تھی، جس میں یہ اولین جاندار رہتے بستے تھے۔"
آنکھوں کی مثال سامنے رکھ کر شروڈر کہتا ہے:
"خاص طور پر حیرت افزا تو ان موروثیوں (Genes) کی موجود یکسانیت ہے جو جانداروں کے پانچوں سلسلوں (Phyla) میں آنکھوں کی ابتدائی ساخت اور بصارت کے نظام میں ملتی ہے۔ اگر متحجراتی ریکارڈ میں جاندار اجسام کے ان پانچ سلسلوں کا کوئی ایک جد اعلیٰ ہونے کا اشارہ ملتا، جس میں آنکھ کی ابتدائی نو خیز شکل ہوتی تو یکسانیت کی وضاحت ہو جاتی کہ وہ اس ابتدائی جاندار (حیوان) میں پیدا ہوئی تھی۔ لیکن اس ابتداء میں تو کوئی حیوان موجود ہی نہیں تھا، چہ جائیکہ آنکھ کی کسی قدیم ابتدائی شکل کا موجود ہونا تسلیم ہو، جو کامل آنکھیں رکھنے والے تجرات میں ملتی ہے۔"
ایم آئی ٹی (MIT) سائنسدان شروڈر مزید کہتا ہے: "اتفاقی اور حادثاتی رد عمل (تقلب یا ارتقائی تشکیل) اتنا پیچیدہ موروثی (gene) باردگر پیدا ہی نہیں کر سکتا۔ پانچ دفعہ ایک ہی سا انفرادی رد عمل یا تقلب تو بالکل انہونی بات ہے۔ جیسے بھی ہوا، یہ سب کچھ ایک سوچے سمجھے پروگرام کا نتیجہ ہے۔"
مزید برآں، ڈارون کے شاگردوں کو فطرت میں "اتفاق" دکھائی دیتا ہے اور مقصدی وجود کائنات پر شک لیکن خود ڈارون کو اپنے اتفاق والے نتیجے پر شک ہی رہا، اگرچہ اس کے ڈنکے بہت بجے۔ اپنی خود نوشت میں وہ یہ اعتراف کرتا ہے:
"کیا وہ انسانی دماغ جو مجھے پورا یقین ہے کہ ایک کمترین سطح کے جاندار کے دماغ کی ارتقائی صورت ہے، اس قابل ہے کہ اتنے عظیم نتائج اخذ کرنے کے معاملے میں اس پر اعتماد کیا جا سکے؟ ممکن ہے یہ جہانِ ہست و بود سبب اور نتیجے کے مابین تعلق کی وجہ سے نہ ہو، جو ہمیں اتنا چونکانے والا لگتا ہے، بلکہ ہو سکتا ہے کہ توارثی (inherited) تجربے پر بنی ہو؟" ۲۴
پروفیسر جیکی (Jaki)، جو ایک مشہور سائنسدان ہے، اس پر سخت کاری تبصرہ کرتا ہے:
"ڈارون اتنا بڑا فلسفی نہیں تھا کہ وہ یہ سمجھ پاتا کہ اگر اس کے اس سوال میں ذرا بھی جان ہے تو فطری انتخاب کے متعلق اس کا دعویٰ محض توارثی تجربہ کا اثر مانا جائے گا۔ جس کا مطلب یہ بنا کہ اس قول میں کوئی حقیقی دانش ورانہ وصف اور خوبی موجود نہیں۔" ۲۵
سیکولرزم: مباحث اور مغالطے
نظریہ ارتقا میں مفروضات کی بھرمار
جولین ہکسلے اپنے "پیر مغاں" کا تعارف The Origin of Species میں کم و بیش یہی الفاظ "ہو سکتے تھے" اور "ہوں گے" استعمال کر رہا ہے۔ ہکسلے کہتا ہے:
"یہ کتاب - "ابتدائے انواع"۔ اتنی اہم اور عظیم کیوں ہے؟ اولاً، اس لیے کہ یہ ارتقا کی حقیقت کو اتنی آسانی سے ثابت کرتی ہے:
"اس میں بے بہا منتخب شواہد اکٹھے کیے گئے ہیں کہ اپنی موجودہ شکل میں موجود اجسام - حیوانات اور پودے - جدا جدا تخلیق نہیں ہو سکتے تھے، بلکہ ضرور آہستہ خرام تبدیلی کے ذریعہ ابتدائی شکلوں سے ارتقا پذیر ہوئے ہوں گے ۲۶"
خود ڈارون کو بھی اپنے نظریے کی خامیوں کا پتہ تھا۔ اس کی مذکورہ کتاب کا چھٹا باب، جس کا سرنامہ ہی "نظریے کی کمزوریاں" (Difficulties of the Theory) ہے، کچھ اور باتوں کے علاوہ یہ بھی بتاتا ہے کہ "بیچ کی کڑیاں (درمیانی شکلیں) یا "مسنگ لنک" مل نہیں پا رہے۔ وہ خود ناقدین ہی کے اعتراضات نقل کرتا ہے جب کہتا ہے: "اگر انواع دوسری انواع سے کسی نازک درجہ بندی اور ترتیب سے وقوع پذیر ہوئی ہیں تو ہمیں ہر جگہ وہ درمیانی مراحل اور شکلیں کیوں نظر نہیں آتیں؟" وہ ان مشکلات اور کمزوریوں کو اپنے پیش کردہ نظریے کے لیے "مہلک" بھی سمجھتا ہے۔ لیکن وہ یہ جواب دے کر مطمئن ہو جاتا ہے کہ متحجرات کا ریکارڈ ابھی پوری طرح مرتب نہیں ہوا .....
"لہذا فی الوقت یہ امید نہیں رکھنی چاہیے کہ ہمیں ایک علاقے میں کئی طرح کے درمیانی مراحل مل پائیں گے، حالانکہ وہ وہاں لازماً موجود رہے ہوں گے، بلکہ ہو سکتا ہے کسی منجمد شکل میں وہیں کہیں دفن پڑے ہوں۔"
اپنی کتاب کے صفحہ ۱۶۳ پر وہ ایک بار پھر وہی بات دہراتا ہے کہ:
"اگر میرا نظریہ درست ہے تو ایک گروپ کی بھی انواع کو باہم متصل جوڑ کر دکھانا یقینی طور پر درست ہوگا۔" ۲۷
"اس نام نہاد سائنسی ارتقا کی زبان دیکھیے ۔ ایسا ہوا ہوگا "فی الوقت امید نہ رکھی جائے"؟ "ہو سکتا ہے۔ کہیں موجود ہوں۔ اگر سائنسی حقیقت یہی ہے تو تک بازی کیا ہوتی ہے؟"
اس طرز فکر پر تبصرہ کرتے ہوئے شوٹ (Shute) بالکل بجا کہتا ہے: "اپنی باری آئی تو نظریہ ارتقا مغرب کے تقریباً سبھی پڑھے لکھے اصحاب کا متعصب مذہب بن کر رہ گیا، جو ان کی سوچ اور فکر پر، ان کے خطاب و اعلانات پر اور ان کی تہذیب کی ساری امیدوں پر سوار اور حکمران ہے۔"
اتفاقی تقلب (mutation) کی بات کرتے ڈاکٹر جیرالڈ شروڈر ایک دلچسپ کہانی سناتے ہیں کہ:
جب لارنس میٹلر (Lawrence Mettler) اور تھامس گریگ (Thomas Gregg) نے اپنی کتاب "آبادی، توریت اور ارتقا" (Population, Genetics and Evolution) میں ارتقا کے حوالے سے کچھ حساب اور ہندسہ داخل کرنا چاہا تو انہوں نے ہنری شیفر (Henry Schaffer) کی مدد لی۔ اس قطعی لادین موضوع اور متن میں شیفر ریاضی سے مدد لینے کے بعد صاف الفاظ میں کہتا ہے کہ [حیاتی ارتقا کا بذریعہ اتفاقی تقلب (chance mutation) اور اس کا اشکال اور ہیئت میں تبدیلی پیدا کرنے کا امکان، بے حد کمزور ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کو ڈاکن (Dawkin)، گولڈ (Gould) اور دوسرے اتفاقی ارتقا کے ترجمانوں کے کاموں میں امکان کے حوالے سے کوئی ٹھوس اور سنجیدہ مطالعہ تلاش کرنے میں کافی سردردی کرنی پڑتی ہے۔" ۲۹
یہ عجز اور بے مائیگی اپنی جگہ لیکن سائنس، جسے ناروا طور پر دین و مذہب کے مقابل کھڑا دکھایا جاتا ہے، معرفتِ الٰہی کے ضمن میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ اس حوالے سے فزکس اور علم الحیات کئی ایسے شواہد سامنے لا رہے ہیں، جو تلاشِ حق میں مفید اور معاون ہیں۔
تبھی تو شروڈر "اصحاب ارتقا" کے طریق مطالعہ و تفتیش کو "فرسودہ اور ڈارون عہد کی طرف مراجعت" کا الزام دیتا ہے، جب خلیاتی علم الحیات کو چھلی میں موجود لیس دار مادہ کا سا سادہ معاملہ سمجھا جاتا تھا۔
پال ڈیویز (Paul Davies) نے نظریہ ارتقا کو نظریہ پیچیدگی (complexity theory) دوم، نظریہ معلومات (information theory) اور سوم، نظریۂ اضافیت سے متعلق کوانٹم تھیوری کا طریقہ کار (quantum information processing) سے جانچنے کی کوشش کی ہے، جس نے ارتقا پسندوں کے لیے نئی پیچیدہ صورت حال پیدا کر دی ہے۔ نظریہ پیچیدگی تو پہلے بھی ڈارون کی مخالفت میں دوسرے لوگ پیش کرتے رہے ہیں، لیکن انفارمیشن تھیوری اور کوانٹم تھیوری کا طریقہ کار نسبتاً نئے ہیں۔ اور جوں جوں ان دو شعبوں میں پیش رفت ہوتی جا رہی ہے، ڈارون کا نظریہ بھی معدوم ہوتا چلا جائے گا۔
پال ڈیویز کے کہنے کے مطابق ہر انسان کے جسم میں ایک پیغام پوشیدہ ہے جس کی زبان قدیم ہے۔ یہ سب کچھ کیسے شروع ہوا، یہ ابھی تک انسان کے علم میں نہیں آیا اور نہ شاید کبھی آئے۔ اس پوشیدہ تحریری پیغام کو کبھی کھولا گیا تو شاید وہ راز مل جائے کہ جس سے انسان کی تخلیق ممکن ہو سکتی ہے۔ یہ پیغام ظاہر ہے سیاہی سے نہیں لکھا گیا بلکہ چھوٹے چھوٹے ایٹمی ذروں کو اس طرح سے جوڑا گیا ہے کہ اس سے ڈی این اے (deoxyribonucleic acid) وجود میں آ گیا۔ پال ڈیویز کے مطابق یہ کرہ ارض پر حیرت انگیز سالمہ ہے، جو تخلیق آدم کا بلیو پرنٹ ہے۔ اس سے انسان بنتا ہے، اس کی شکل، اس کے احساسات اور رویے اس سالمہ سے پھوٹتے ہیں۔ یہ جادوئی سالمہ سب مخلوقات میں مشترکہ بھی ہے اور جدا بھی۔ یہ کیسے بنا، یہ اپنا کام کیوں کرتا ہے، کون اسے کام پر مجبور کرتا ہے اور یہ پیغام کس طرح دوسروں کو دیتا ہے؟ اور سوالوں کا سوال یہ کہاں سے آیا؟ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ یہ خلا سے وارد ہوا ہے۔
ڈی این اے کا مقام اپنی جگہ لیکن اس سے بھی آگے اور ایک عالم حیرت ہے، جسے انسانی خلیہ (cell) سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ خلیے سالموں کے اشتراک عمل سے بنتے ہیں، اور اپنی ساخت اور عمل میں ہر خلیہ ایک شہر سے مشابہت رکھتا ہے۔ سالمے اپنی ادائیگی فرائض میں ہمہ وقت حرکت پذیر رہتے ہیں۔ ہر سالمہ کی ایک خاص ذمہ داری ہے، جسے اس نے انجام دینا ہوتا ہے۔ ان سالموں میں باہمی ارتباط ہے۔ بظاہر انفرادی سطح پر سالموں کی حرکات و سکنات میں نظم نظر نہیں آتا، وہ ٹکراتے دکھائی دیتے ہیں، اور ایک عجب انداز سے آگے پیچھے حرکت میں سرگرداں نظر آتے ہیں۔ لیکن اس سب انارکی کے باوجود، یہ سالمے ایک اجتماعی عمل میں مصروف ہیں۔ پال ڈیویز کی زبان میں یہ زندگی کا رقص ہے، جسے وہ انتہائی مہارت سے انجام دیتے ہیں۔ ۳۰
ڈارونی ارتقا کی مذکورہ مشکلات اور مسائل کے باوجود اس سے یہ دلیل لانا کہ اب دین و مذہب کسی کام کے نہیں رہے اور بے کار ہو گئے ہیں، ایک عجیب اور انوکھی بات ہے۔ بیسویں صدی کی سائنس درحقیقت نام نہاد طبیعی حقیقت کو بہت پیچھے چھوڑ چکی ہے۔ جان ہنڈلے بروک (John Hendley Brooke) کہتا ہے:
"ڈنمارک کے مشہور ماہر طبیعات نیلز بوہر (۱۸۸۵-۱۹۶۲ء) نے ۱۹۳۵ء میں آئن سٹائن کے ساتھ اپنے مشہور مکالمہ میں یہ دلیل پیش کی کہ کوانٹم نظریے کی ریاضیاتی شکل (quantum mechanics) کا یہ لازمی مطالبہ ہے کہ علت و معلول کے کلاسیکی تصور کو پوری طرح جھٹک دیا جائے اور طبیعی حقیقت کے مسئلے کے ضمن میں اپنے رویوں میں بنیادی تبدیلی لائی جائے۔ آرتھر سٹینلے ایڈنگٹن (۱۸۸۲-۱۹۴۴ء) نے جو برطانوی ماہر فلکیات اور کوئیکرز (Quakers) فرقے سے تعلق رکھتا تھا، روایتی عیسائی عقائد و رسوم سے محترز صلح جو تھا، [اس بدلتی حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے] یہ غیر معمولی بیان دیا کہ ایک معقول سائنسی انسان کے لیے مذہب ۱۹۲۷ء کے آس پاس ممکن ہو سکا۔ ۳۱
۱۹۲۷ء فی الاصل سائنس اور مذہب کی تاریخ کا بہت اہم لمحہ ہے، کیونکہ اس برس تین ایسے بڑے اکتشافات ہوئے کہ جن سے مذہب کی واپسی ممکن ہوگئی، پہلے تو ہائزنبرگ کا غیر ایقانی اصول (uncertainty principle) سامنے آیا۔ اس کے بعد نیلز بوہر کا اصول معاونت، اور جارج لیمترے (George Lemaître) کا انشقاق عظیم (big bang) کا نظریہ منصہ شہود پر آ گئے۔ ان کا ذکر میں کر چکا ہوں۔
مذہب کی واپسی کا ایک اہم سبب جدید معاشروں میں اخلاقی قدروں کی توڑ پھوڑ ہے اور یہ احساس کہ زندگی کی رہنمائی میں سائنس نے جو خواب دکھائے تھے، وہ پورے نہیں ہوئے۔
تخلیق حیات کا امکان خارج از بحث ہے
بائیو کیمیا دان (biochemists) لحمیات (proteins) کی ترکیب میں الجھے سر کھپا رہے ہیں کہ سالمیاتی ارتقا سے کسی طرح تخلیق حیات دکھا پائیں۔ اس ضمن میں دو دلچسپ تصورات ابھر کر سامنے آئے۔ پہلا خیال جے بی ایس ہالڈین (J.B.S. Haldane) نے ۱۹۲۸ء میں پیش کیا کہ ماقبل حیات آکسیجن نہیں بلکہ امونیا پر بنی تھی۔ دوسرا خیال اس کے چھ برس بعد ایک روسی سائنسدان الیگزینڈر اوپارین (Alexander Oparin) نے پیش کیا۔ اسے اپنے خیالی اور تصوراتی قدیم سمندر میں تنویر (lighting) اور الٹرا تیز بنفشی روشنی کی ترکیب سے دلچسپ حیاتیاتی سالمے بنتے نظر آئے لیکن کوئی باقاعدہ تجربہ کر کے دیکھنے میں مزید ۲۰ برس لگ گئے۔ ۱۹۵۳ء میں ہیرلڈ یوری (Harold Urey) اور اس کا شاگرد سٹینلے ملر (Stanley Miller) مفروضہ قدیم کیفیت (یعنی امونیا، میتھین گیس اور پانی کا آمیزہ) تشکیل دے کر حیاتی سالمیات (biologic molecules) پیدا کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ فی الوقت انہوں نے امینو ایسڈ (amino acids) اور کچھ نامیاتی سالمے بنائے تھے۔ لیکن لحمیات یا کوئی ابتدائی خلیہ تیار کرنے سے ابھی سائنسدان معذور ہیں۔ بقول گارڈن ٹیلر کے:
"تم ڈی این اے کے بغیر لحمیات نہیں بنا سکتے، اور ڈی این اے کسی عمل انگیز خامرہ (enzyme) کے بغیر تیار نہیں ہو سکتا۔ اور یہ خامرہ خود پروٹین ہے۔ یہ وہی مسئلہ ہے کہ انڈا پہلے یا چوزہ؟" ۳۲
اٹکل پچو اندازہ ہے کہ حیات کی ابتدا خامرات سے بالکل اتفاقاً ہوئی۔ لیکن یہ بات غیر معقول ہے، کیونکہ ایسی کسی تخلیق کے لیے "استقرار حمل اور پرورش کا ایک لمبا زمانہ چاہیے۔" ٹیلر کے خیال کے مطابق اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ "جیسے ہی موزوں اور قابلِ برداشت حالات میسر آ گئے، حیات فوراً ابھر کر سامنے آ گئی۔" ۳۳
لیکن قبل اس کے کہ تجربہ گاہ میں حیات کی تخلیق کے امکان پر سائنس خوشی کے شادیانے بجاتی، ایچ کوئسٹلر (H. Quastler) نے، جن کا بائیو کیمسٹری میں بہت بڑا نام ہے، یہ کہہ کر ساری امیدوں پر پانی پھیر دیا کہ ایسی کسی کامیابی کے خلاف امکانات اتنے ہیں، جیسے عدد ۱ کے بعد ۳۰۱ دفعہ صفر لگا دیے جائیں (10-600)۔ گویا ریاضی کی زبان میں ایسا ہونا قطعی ناممکن ہے۔ کائنات کے ضمن میں یہ عدم امکان (10-415) سے لے کر (10-600) تک ہے۔ ٹیلر (Taylor) اس ساری بحث کو سمیٹتے ہوئے کہتا ہے: "قصہ مختصر، یہ خوش خیالی بے پناہ درجے تک غیر حقیقی اور غیر منطقی ہے۔ ۳۴" یعنی یہ کہ عمل ارتقا کی پشت پر کوئی امکان سرے سے موجود ہی نہیں۔
اس بھاری بھرکم اور مستند فیصلے کے باوجود تجربہ گاہ میں حیات پیدا کرنے کی کوششیں ختم نہیں ہوئیں۔ ان تجربات میں ہارورڈ میڈیکل سکول کا نام نمایاں ہے۔ جیک سوزٹیک (Jack Szostak) اور اس کے ساتھی اولین جھلی دار اجزا بنانے میں کامیاب ہو گئے ہیں اور ان کے کہنے کے مطابق یہ protocellular structures اب خود بخود افزائش کر رہے ہیں۔
یہی حضرات ایک خاص قسم کی مٹی جسے montmorillonite کہتے ہیں پر تجربہ کر رہے ہیں۔ اس مٹی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ڈی این اے کے کیمیائی عمل میں معاون ثابت ہو رہی ہے، جس سے چکنے ترشے (fatty acid) تبدیل ہو کر بیضوی جھلیاں بن رہی ہیں۔
یہ مٹی کا تصور انہوں نے بائبل اور قرآن کے مٹی سے بنائے گئے انسان سے لیا ہے۔ قطع نظر اس کے کہ یہ تجربات کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں، مذہب اب بھی سائنس کی رہنمائی کرتے دکھائی دیتا ہے۔
زندگی کی رہنمائی میں سائنس کی بے چارگی
رابرٹ پارک (Robert Park) علم الطبیعیات اور معاشرہ کے ضمن میں لکھتے ہوئے اس حیرت کا اظہار کر رہا ہے کہ "سائنس نے مادہ کی دنیا میں موجود بے پناہ توانائی کا کھوج لگا کر ایسی قوتوں کو سامنے آنے دیا جنہیں سائنس قابو میں نہیں رکھ سکتی۔ وقت کی زمانی جہت کی تباہی کے بعد (ایمانی ثقافت، حیات بعد الموت، اخلاقیات کا نظام) جدید جامعات سے فارغ ہونے والوں اور تہذیب جدید ہر دو کے سامنے یہ مسئلہ پیدا ہو گیا ہے کہ ایسی اخلاقی قوتیں کہاں سے لائیں، جو ان طبیعی قوتوں کی پیدا کردہ قوتوں کے مقابل کھڑی ہو سکیں۔
خدا کو بے دخل کر کے اس کی جگہ سائنس یا کسی واہیات خود ساختہ نظریے کو بٹھانا نہ تو آسان تھا
اور نہ اس سے انسان کو سکون ممکن تھا۔ جب سے یہ بے ہودگی ہوئی ہے، جدید انسان کو قرار نہیں مل سکا۔ وہ مایوسی کے سمندر میں بے مقصد اور بے سمت ہچکولے کھا رہا ہے۔ انسان کے خود ساختہ خداؤں کے ضمن میں لکھتے ہوئے ویلیس سٹیونز (Wallace Stevens) بڑی گہری اور بصیرت افروز بات کہتا ہے:
"ان (جھوٹے) معبودوں کو ہوا میں تحلیل ہوتے اور بادلوں کی طرح منتشر ہوتے دیکھنا عظیم انسانی تجربات میں سے ہے .... یہ ہمارا نہیں ان معبودوں کا انہدام تھا، لیکن لگا یہی کہ کسی نہ کسی درجے میں جیسے خود ہم ملیامیٹ ہو کر رہ گئے ہوں۔" ۳۵
ایسا لازماً ہونا تھا۔ جس زندگی میں عقیدہ اور ایمان نہ ہو اسے معاشرتی بیگانگی، فتنہ انگیزی، تشکیک و ارتیاب، ہم جنس پرستی، اکتاہٹ اور بیزاری اور بے معنی حرکات آ لیتی ہیں۔
اب تک کی ساری بحث اور شواہد یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں کہ سائنسی نظریات اپنی سچائی میں حتمی نہیں اور نہ ہی ان سے زندگی کے بارے میں کوئی قابل عمل ہدایات ملتی ہیں۔ اسی طرح سیکولر حضرات کی طرف سے پھیلایا ہوا یہ خیال کہ سائنس اور مذہب باہم متصادم ہیں، کوئی بنیاد نہیں رکھتا۔ مذہب اپنی فطرت کے اعتبار سے انسان کی ضرورت ہے اور رہے گا۔ یہ معاشرے کی تشکیل، ترتیب اور نظم میں کتنا کارآمد ہو سکتا ہے، اس کا انحصار اس کی تعلیمات کی سچائی اور ماخذوں کے اعتبار پر ہے۔ کم از کم اسلام کے بارے میں تو بلا شبہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ ہر دور میں زمانہ سے آگے رہا ہے، جس کی وجہ سے اس کی عظمت اور علویت ہمیشہ برقرار رہی۔ بقول ایچ اے آر گب (H.A.R. Gibb) اسلام (القرآن) "منطقی کمال، انسانی معقولیات اور استدلال (reason) میں حد درجہ روشن مقالہ ہے۔" ۳۶
باب ۲: سیکولرزم لادینیت ہے
سیکولرزم لادینیت ہے
حمید اختر صاحب پرانے لکھنے والے ہیں۔ ان میں یہ خوبی ہے کہ وہ اپنے آدرش سے مخلص ہیں اور کبھی کبھار گھل بھی جاتے ہیں۔ جب سے آنجہانی سوویت یونین تاریخ کے کباڑ خانے کی نذر ہوا ہے، وہ اپنے دیگر ساتھیوں کی طرح اب اپنے آپ کو سیکولر کہتے ہیں۔ اور یہ بات غلط بھی نہیں کیونکہ اشتمالیت (کمیونزم) میں سے اگر آپ پرولتاری آمریت اور اجتماعی ملکیت کے تصورات کو نکال دیں، تو وہ اپنے اصل میں سیکولرزم کے قریب تر ہے۔
موصوف نے اپنی حالیہ تحریر میں چند اساسی نوعیت کی باتیں کی ہیں ۔ مثلاً انہیں دکھ ہے کہ لوگ سیکولرزم کو لادینیت کیوں کہتے ہیں، جبکہ سیکولرزم سے مراد مذہب کو ریاستی امور سے دور رکھنا ہے۔ دوم، جو لوگ اس ملک میں اسلامی نظام کے احیاء کی بات کرتے ہیں وہ اپنی تاریخ سے لاعلم ہیں اور یہ نہیں جانتے کہ جب خلفائے بنو امیہ اور بنو عباس نے موروثی بادشاہت اختیار کی تو وہ سیکولر تھی۔
میں انہی دو بنیادی نکات سے متعلق چند گزارشات پیش کروں گا۔
آیا سیکولرزم لادینیت ہے یا نہیں، تو اس کا انحصار اس کے جوہر سے ہے۔ اس کا فیصلہ نہ میں کر سکتا ہوں نہ موصوف۔ اس کے لیے ہمیں معروضی ماخذوں کی طرف رجوع کرنا پڑے گا، جو سیکولر حضرات دانستہ نہیں کرنا چاہتے۔ محض یہ کہہ دینا کہ سیکولرزم ریاست اور مذہب میں تفریق چاہتا ہے مکمل سچائی نہیں، بلکہ ہمیں دیکھنا پڑے گا کہ سیکولرزم واقعتاً چاہتا کیا ہے؟
یوں تو سیکولرزم کی تعریف متعین کرنے میں بہت سے نام لیے جا سکتے ہیں، جیسے جارج ہولی اوک، پیٹر برجر، ہاروی کاکس، میکس ویبر، درکھیم، ولیم لیکی اور برنارڈ لوئیس وغیرہ لیکن چونکہ ہولی اوک کے بارے میں مشہور ہے کہ اس نے ہی پہلے اس اصطلاح کو متعارف کرایا تھا، اس لیے اسی سے شروع کرنا چاہیے۔ اس کے نزدیک:
"سیکولرزم نام ہے اس ضابطے کا، جس کا تعلق دنیا سے متعلق فرائض سے ہے۔ جس کی غایت خالصتاً انسانی ہے اور یہ بنیادی طور پر ان (افراد) کے لیے ہے جو الہیات کو نامکمل یا ناکافی، ناقابل اعتبار یا ناقابل یقین (یعنی فضول اور بے معنی) سمجھتے ہیں۔" ۱
بقول ہولی اوک سیکولرزم میں خدا کا متبادل سائنس ہے۔ اس کے اپنے الفاظ ہیں:
"Science is the available Providence of man."
بالفاظ دیگر سیکولرزم اسی وقت بطور نظریہ سامنے آتا ہے جب انسان مذہب سے غیر متعلق ہونا شروع کر دے، اسے مذہب میں اپنے مسائل کا حل نہ ملے، یا پھر وہ یہ سمجھے کہ مذہبی عقائد ناقابل یقین ہیں۔ کھل کر کہا جائے تو سیکولرزم ایک ہمہ پہلو ضابطۂ حیات ہے، جسے مذہب کا متبادل کہا جا سکتا ہے۔ اس حقیقت کا ادراک کرتے ہوئے امریکن مفکر رابرٹ گرین نے
سیکولرزم کو انسانیت کا مذہب قرار دیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ دنیا کو سمجھنے کے لیے انسان کو مذہب اور نیم مذہب نقطۂ نگاہ سے نکالنے کا نام ہے۔ یعنی انسان کو ان تمام مذہبی علامتوں اور مافوق الفطرت افسانوں سے آزاد کرنا ہے، تاکہ وہ آخرت کی طرف نہ دیکھے اور محض دنیا کے ہنگاموں میں مصروف عمل رہے۔
ہولی اوک کی سیکولرزم کی تعریف سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ مذہب "اس دنیا" کے لیے ہے جب کہ سیکولرزم "اس دنیا" کے لیے ہے۔ سیکولر حضرات دین اور دنیا کی تقسیم کو سیکولرزم کی اساسی فکر بتاتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ اسلام جیسا دینی نظریہ آخرت کو بڑی اہمیت دیتا ہے۔ لیکن ساتھ ہی دنیا کو اس کی کھیتی قرار دیتا ہے، بغیر اس دنیا کے آخرت کا کوئی تصور نہیں۔ اسی لیے مسلمانوں کے ہاں دین اور دنیا میں تفریق نہیں کہ یہ ایک ہی سلسلۂ حیات ہے۔ آپ خود ہی انصاف فرمائیں کہ ایسا کون سا الہامی مذہب ہے جو آئے تو دنیا کے لیے اور پھر خود ہی جنگلوں اور پہاڑوں میں منہ چھپا کر بیٹھ جائے؟ کیا اس طرح کوئی مذہب یا نظریہ، جو اجتماعی میلانات رکھتا ہو، زندہ رہ سکتا ہے؟
یہ سوال اس لیے اہم ہے کہ اس کے عمرانی نفسیات اور فلسفیانہ پہلو ہیں جنہیں اگر نظر انداز کر دیا جائے تو فرد کا بھی نقصان ہے اور معاشرے کا بھی۔ مثلاً اگر میں یہی سوال سیکولرزم کے بارے میں کروں کہ کیا ایک سیکولر فرد اپنی سیکولر فکر کا تحفظ کر سکتا ہے جب کہ اسے سیکولر اقدار پر مبنی معاشرتی ماحول سے محروم رکھا جائے؟ کیا زندگی کے بارے میں سیکولر وژن کا حصول ممکن ہو سکتا ہے اگر معاشرتی حرکیات سیکولر ریاست کے تصرف میں نہ ہوں؟ عقل اور منطق کی رو سے اس کا جواب نفی میں ہے۔
یہی وجہ ہے کہ مذہب کو نجی معاملہ قرار دینے سے مسئلہ حل نہیں ہوتا کیونکہ یہ معاملہ کچھ اور
ہے۔ اس نقطہ نظر کو قبول کرنے کا مطلب یہ ہے کہ مذہب کو زندہ درگور کر دیا جائے۔
آپ اس سارے معاملے کو کسی بھی پہلو سے دیکھیں یہ اپنی روح میں ایک حقیقی ہم زیستی کا مسئلہ ہے۔ مذہبی رویے اسی صورت میں زندہ رہ سکتے ہیں جب انہیں ان کی روح اور منشا کے مطابق ماحول دیا جائے، جو واضح طور پر نظر آئے، بازاروں میں اور عدالتوں میں معیشت میں اور سیاست میں، تاکہ فرد اپنی قدروں کی جھلک ان میں دیکھ سکے، اور اس طرح انفرادی اخلاقی کوشش کو معاشرتی روپ میں تقویت ملے، اور خود معاشرہ فرد کی اخلاقی جہت اور اس کی روحانی آرزوؤں کو منعکس کر سکے۔
بالفاظ دیگر یہ نہ صرف دو رویہ عمل ہے بلکہ ایک دوسرے کے وجود اور بقا کے لیے ازبس ضروری ہے۔ یہ نہ ہو تو معاشرے گندھے ہوئے مربوط نہیں رہتے، اور فرد خود معاشرے سے جدا بے کیف لمحوں کی اذیت میں شکست و ریخت کا شکار ہو جاتا ہے۔
سیکولرزم چونکہ خود معاملات زندگی کی باگ دوڑ اپنے ہاتھ میں لینا چاہتا ہے، اس لیے وہ مذہبی سوچ اور رویوں کو برداشت نہیں کر پاتا۔ پیٹر گلاسنر (Peter Glasner) اپنے مشاہدے اور مطالعے کی بنیاد پر دعویٰ کرتا ہے کہ سیکولرزم کا منتہائے مقصود "مذہب کا زوال ہے۔" ۳
جیفری ہیڈن (Jeffrey Hadden) نے تو یہاں تک کہا ہے کہ "سیکولر عمل بذات خود عقیدہ ہے تھیوری نہیں، جسے مذہب سے گہری اور ہمیشہ کے لیے عداوت ہے۔" ۴
رابرٹ بیلہ (Robert Bellah) نے سیکولرزم کے عمل کو افسانہ یا اسطورہ کہا ہے۔ اس کے نزدیک "یہ ایک جذباتی مربوط حقیقت نفسی کی تصویر بناتی ہے۔ اس لحاظ سے یہ مذہب ہے نہ کہ سائنسی (فکر)۔" ۵
سیکولر حضرات یہ دعوی بھی کرتے پائے گئے ہیں کہ سیکولرزم مذہب کے خلاف جارحانہ عزائم نہیں رکھتا، کیونکہ یہ مذہب کے معاملے میں غیر جانبدار ہے۔ اسے کم سے کم الفاظ میں سفید جھوٹ کہا جا سکتا ہے۔ خود مغرب میں چونکہ سیکولرزم کی علمداری ہے وہ اس کی روح، اثرات اور مضمرات سے بخوبی واقف ہے۔ چنانچہ یہ کوئی حیرت کی بات نہیں کہ کینیڈا کی کرسچین پارٹی کے قائد ران گرے (Ron Gray) سیکولرزم کو مذاہب کے لیے خطرہ قرار دیتے ہیں۔ بہ قول ان کے:
"سیکولرزم دنیا کے بارے میں ایک مذہبی نقطۂ نگاہ ہے (جو) کہ فی نفسہ اس کرہ ارض پر ایک انتہائی متعصب عقیدہ ہے، اس کا منتہائے مقصود ہر دوسرے مذہب کو نیست و نابود کرنا ہے۔"
یہ کوئی سیاسی بیان نہیں بلکہ حقیقت کا عملی ادراک ہے۔
امریکی سپریم کورٹ نے اپنے ۱۹۶۱ء کے ایک فیصلے میں سیکولرزم کو خدا کے وجود کا نہ صرف مخالف کہا ہے بلکہ اسے مذاہب میں سے ایک مذہب قرار دیا ہے:
"جو مذاہب ملک میں یہ تعلیم نہیں دیتے جسے بالعموم خدا کے وجود پر ایمان کہا جا سکتا ہے، ان میں بدھ ازم، تاؤ ازم، اخلاقی ثقافت، سیکولر انسان نوازی اور دیگر (شامل ہیں)۔" ۷
اتنے سارے مستند حوالوں کے بعد تو اس امر کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے کہ سیکولرزم کی لادینیت کو ثابت کرنے کے لیے مزید گفتگو کی جائے لیکن اتمام حجت کے لیے میں یہاں چارلس ٹیلر (Charles Taylor) کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ چار برس پیشتر اس کی آٹھ سو سے زائد صفحات پر مشتمل کتاب A Secular Age کو ٹمپلٹن ایوارڈ ملا تھا۔ ٹیلر کا کہنا ہے کہ سیکولر
افراد کی ہمیشہ سے یہ خواہش رہی ہے کہ مذہب یا تو سیکولرزم کی راہ سے ہٹ جائے، یا پھر سیکولرزم کے ہمرکاب ہو، تاکہ انسان مذہبی دھند سے آزاد عقل کی روشنی میں آگے بڑھ سکے۔ اس کے خیال میں نعوذ باللہ خدا کی موت سے مراد یہی ہے کہ ماضی کا مذہب اب آواز گم گشتہ ہے، جسے کوئی سننے کو تیار نہیں۔
سیکولر دور، جسے ٹیلر جدیدیت کے ہم معنی استعمال کرتا ہے، سائنسی (وضعیتی) اسلوب فکر ہے جس میں عملیت پسندی، منفی آزادی، انفرادیت اور وسیلہ گر عقلیت پسندی ہے۔ سیکولر فکر کے مطابق اگر انسان کی راہ میں "جھوٹے توہم پرستانہ عقائد اور بے معنی مابعد الطبیعیات، مزاحم نہ ہوں تو وہ یہی کچھ چاہے گا۔" بالفاظ دیگر یہی انسان کی فطرت ہے۔
اس لحاظ سے انفرادیت وہ نتیجہ ہے جو انسان کی تکریم نفس سے پیدا ہوتا ہے، جس میں خدا سے متعلق پر فریب دعوے نہیں ہوتے اور نہ ہی معاشرے میں مذہب پر استوار "مقدس نظام" ہوتا ہے۔ گزشتہ مذہبی ادوار سادہ لوحی پر مبنی تھے اس لیے اب مذہب قصہ پارینہ سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔ لیکن اس سب طول بیانی کے باوجود سیکولر فکر یہ جواب دینے سے گریز کرتی ہے کہ انسان اپنی وضعیت اور عملیت پسندی کے، ماضی کی طرف مڑ مڑ کر کیوں دیکھتا ہے، مذہب کیوں اب بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے؟ تمام تر الحادی کوششوں کے اس عقل پرستانہ دور میں سیکولر طمطراق اور حکمرانی کے باوجود خدا کیوں کر انسانی نفوس میں زندہ ہے؟
بقول چارلس ٹیلر سیکولر بیانیہ میں، سیکولر عمل کو ناگزیر اور اس کی آمد کو انسان کا ارتقا سمجھا جاتا ہے۔ بالفاظ دیگر وہ اسے فطری عمل گردانتے ہیں۔ اس کے برعکس کیلی فورنیا یونیورسٹی کے کرسچن سمتھ (Christian Smith) اپنی ضخیم کتاب The Secular Revolution میں اسے زبردستی اور سازش کا عمل قرار دیتا ہے، جسے مسلط کیا گیا ہو۔ ۶
اس ساری گفتگو کے بعد یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ سیکولرزم سے متعلق جتنے بھی مباحث ہیں ان میں بات وہی ہے جو جارج ہولی اوک نے کہی تھی۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ان میں سے کچھ ناک کو آگے سے پکڑ رہے ہیں اور کچھ ہاتھ گھما کر۔
بہرحال ان سب میں قدر مشترک یہی ہے کہ انسانوں کو اپنے معاملات کے حل کے لیے کسی خدا، مذہب، روایت، تاریخ اور الہامی اخلاقیات کی طرف جانے کی ضرورت نہیں، کیونکہ انسان خود مکلف اور اس قابل ہے کہ وہ اپنی عقل ہی کو اپنی سوچ اور فکر کا محور بنائے۔ یہی وجہ ہے کہ سیکولرزم اصرار کے ساتھ یہ کہتی ہے کہ کوئی دوسری دنیا نہیں۔ یہ زندگی کا ضیاع ہے کہ اسے آخرت کے خوف سے متعلق کر دیا جائے۔
سیکولرزم کا مسئلہ محض فلسفے کا نہیں کہ ذہنی عیاشی کا خط اٹھایا جائے۔ اگر بات یہیں تک محدود ہوتی یعنی محض فلسفیانہ حد تک، تو کوئی بات نہ تھی اور نہ ہونی چاہیے، کیونکہ یہ ہر ایک کی اپنی سوچ اور ضمیر کی بات ہے کہ وہ کیا خیالات رکھنا چاہتا ہے۔ لیکن جب ایسی سوچ ایک نظریہ یا آئیڈیالوجی کی شکل اختیار کرتی ہے اور سیاسیات، معاشیات، اخلاقیات اور زندگی کے دیگر شعبہ جات کو تمام تر ریاستی مشینری کے ساتھ اپنے دائرہ تصرف میں لانا چاہتی ہے تو پھر سیکولرزم اقتدار اور تسلط کا مسئلہ بن جاتی ہے۔
اس ساری بحث کے بعد پوچھا جا سکتا ہے کہ سیکولرزم کو کس نے یہ حق دیا ہے کہ وہ ایک مسلمان معاشرے میں انسانی معاملات کو اپنی جکڑ میں لے؟
وہ کیوں خود تو ریاستی امور کو کنٹرول کرے اور مذہب کو سیاست سے باہر رکھے؟ جبکہ مذہب یہ دعویٰ رکھتا ہو کہ وہ انسانی مسائل کو بہتر طریقے سے حل کر سکتا ہے۔
اس کے لیے ہمیں معروضی ماخذوں کی طرف رجوع کرنا پڑے گا، جو سیکولر حضرات دانستہ نہیں کرنا چاہتے۔ محض یہ کہہ دینا کہ سیکولرزم ریاست اور مذہب میں تفریق چاہتا ہے مکمل سچائی نہیں۔
عقل کا وہ کون سا پیمانہ ہے جس سے سیکولرزم کو یہ اختیار دیا جا سکتا ہے کہ وہ خود تو غلیت پسند بن جائے اور خدا اور اخلاقیات کو انسانی دائرہ کار سے بے دخل کر کے اپنے آپ کو واحد سچائی قرار دے؟
تو جناب حمید اختر! بات محض سیاست کو مذہب سے دور رکھنے کی نہیں، یہ بات کچھ اور ہے جسے آپ چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ آپ کے ہمرکاب ساتھی تو وہ سب کچھ اندرون متن یا زیر سطور کہہ رہے ہیں جن سے ان کی اسلام دشمنی واضح ہوتی ہے۔
مثلاً مشرف کے نامشرف دور میں وزیر اعظم شوکت عزیز نے خشک سالی سے نجات کے لیے عوام سے دعا اور نماز استسقاء کی اپیل کی تو جواب میں آپ کے ممدوح ڈاکٹر پرویز ہود بھائی نے روزنامہ ڈان میں طنزاً لکھا کہ بارشیں نمازوں سے نہیں آتیں، یہ تو قانون فطرت کے مطابق بادل بنتے ہیں اور برستے ہیں۔ پرویز ہود بھائی لگے ہاتھوں یہ بھی بتا دیتے کہ:
"قانون فطرت" کس کے اماں باوا نے بنائے ہیں؟
یا یہ کہ خود قوانین فطرت کس طرح وجود میں آئے؟ کیا وہ مظاہر فطرت کے پیدا ہونے سے پہلے متشکل ہوئے؟ یا یہ کہ وہ مظاہر فطرت کے وجود میں آنے کے بعد پیدا ہو گئے؟
اگر پرویز ہود بھائی مسئلہ کے اس پہلو پر بھی روشنی ڈالتے تو پاکستان کے "جذباتی" مذہبی عوام کے علم میں اضافہ ہو جاتا۔
حمید اختر صاحب نے اپنے ایک گزشتہ کالم میں "داڑھی والوں" کے بارے میں طنزاً فرمایا کہ موجودہ حالات میں ان سب کو پکڑ لینا چاہیے۔ یہ تو پھر معمولی بات ہے، بینا سرور تو کھل کر یہ چاہتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات بابرکت کی اہانت کی اجازت ہونی چاہیے، میں یہاں بوجہ خوف فساد موصوفہ کا کہا ہوا نقل نہیں کرنا چاہتا۔
حالیہ دنوں میں جیو ٹی وی کے پروگرام "چوراہا" میں جس کے میزبان حسن نثار ہیں، قرآن کریم کو زیر بحث لانے کی عبث کوشش ہو رہی تھی کہ قرآن تو کہتا ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ ماؤں کے رحم میں بیٹا ہے یا بیٹی، جبکہ سائنس نے ممکن بنا دیا ہے کہ بچے کی جنس کے بارے میں پیش از وقت بتا دے۔
ایسی گفتگو کے مضمرات واضح تھے کہ قرآن کا دعویٰ نعوذ باللہ باطل ہے۔ وہ تو بھلا کرے ایک مولوی صاحب کا جنہیں میزبان غالباً اپنی چھری نیچے لانا چاہتے تھے، کہ انہوں نے سورۃ لقمان کی آخری آیت پڑھ کر کہا کہ اس میں تو بچے کی جنس کی بات ہی نہیں۔ یہاں تو بات یہ کہی جا رہی ہے کہ جو کچھ ماں کے پیٹ میں ہے۔
مصری عالم شیخ محمد متولی نے اپنی کتاب میں اس غلط فہمی کا ازالہ کیا ہے۔ ان کے مطابق جو الفاظ ہیں "ویعلم مافی الارحام" ہیں، اس میں "ما" سے مراد یہی ہے کہ وہ جو ان کے پیٹ میں ہے۔
دراصل حسن نثار صاحب اور ان کے ہم نفس جناب قاسم پیرزادہ سنی سنائی باتوں کو یوں بیان کرتے ہیں جیسے وہ دانش اور سچائی کے رقیب ہوں، یہ البتہ ضرور ہے کہ بعض مترجمین نے جیسے فتح محمد جالندھری صاحب نے اس آیت کریمہ کا ترجمہ کرتے ہوئے بریکٹوں کے درمیان لکھ دیا ہے (نر ہے یا مادہ)۔ اب یہ تو مترجم کی اختراع ہے کہ وہ ایک عمومی آیت کو جس کے مضمون میں وسعت ہے محدود معنی میں لے رہا ہے جو کہ قرآن کا قطعاً مفہوم نہیں۔
اگر بات واقعتاً جنس کی ہوتی تو "ما" کی بجائے "ابن" اور "بنت" یا "ذکر" اور "انثیٰ" جیسے ملتے جلتے الفاظ استعمال ہوتے۔ صاحب فہم القرآن نے جو ترجمہ کیا ہے اس کے مطابق "وہی ہے جو جانتا ہے کہ ماؤں کے پیٹ میں کیا پرورش پا رہا ہے۔" ۱۸ یہی بات یورپی نومسلم پکتھال نے اپنے انگریزی ترجمہ میں کی ہے۔
سونوگرافی سے تو صرف اس حد تک معلوم ہو سکتا ہے کہ بچے کی جنس کیا ہے، وہ بھی اس وقت جب حمل ایک خاص مدت کا ہو جائے۔ لیکن سائنس یہ نہیں بتا سکتی کہ جب نطفہ واقع ہوا تھا، یا جب حمل قرار پایا تو ہونے والے بچے کی جنس کیا ہوگی، نہ سائنس یہ بتا سکتی ہے کہ بچہ پیدائش کے بعد اپنے کردار اور اخلاق میں کیسا ہوگا اور کیا ہوگا؟ یہ معلومات اللہ تعالیٰ ہی کی ذات کو ہے۔
اس ساری بحث سے قطع نظر "چوراہا" کے میزبانوں کو آخر یہ کیا ضرورت پڑی کہ وہ قرآن کو زیر بحث لائیں۔ پروگرام کے انعقاد سے بہت پہلے جیو ٹی وی مسلسل اپنے ناظرین کو یہ اطلاع اور تاثر دے رہا تھا کہ "چوراہا، دیکھیے، جیسے نعوذ باللہ قرآن، سائنس کے آگے بے بس ہو گیا ہے۔" حسن نثار اور قاسم پیرزادہ کم از کم اپنی تیاری تو مکمل کرتے، قرآن کے مختلف تراجم دیکھتے۔ قرآن کے الفاظ کے لغوی معنی دیکھتے کہ ان کا صحیح مقام کیا ہے۔ آیا متن اس کی اجازت دیتا ہے کہ مذکورہ آیت کریمہ کو محدود معنی میں لیا جا سکے؟
ظاہر ہے جہاں شرارت پیش نظر ہو، مذہب کی تحقیر مقصود ہو وہاں سنجیدہ علمی اسلوب اختیار نہیں کیا جاتا۔ اسلام کو نیچا دکھانا، اس کی بلا واسطہ تحقیر و تذلیل کرنے میں سیکولر حضرات کیا کیا کرتب دکھاتے ہیں، یہ ان کی تحریروں سے عیاں ہے۔
اس سب کے باوجود ستم ظریفی دیکھیں کہ سیکولر حضرات زندگی کی ہر روش اور چلن سے مذہب کو کھرچ کھرچ کر نکالنا چاہتے ہیں اور پھر پوپلا منہ بنا کر عوام کی طفل تسلی کے لیے کہتے پھرتے ہیں کہ نہیں، ہم تو مذہب کے خلاف نہیں!
سیکولر مرد و زن جس طرح سے مسلمانوں کے دین و ایمان پر حملہ آور ہوئے ہیں، اس کا اندازہ سوشلسٹ پاکستان نیوز ۲۰ اگست ۲۰۱۱ء کی ایک حالیہ ای میل تحریر سے لگایا جا سکتا ہے:
"جس طرح سے مخلص مسلمان معصوم لوگوں کو تباہی سے دوچار کر رہے ہیں اس کے لیے ضروری ہے کہ برائے نام (معتدل) مسلمان جنہیں اسلام کے بارے میں تحفظات یا شکوک ہیں، وہ اپنے مہذب ضمیر کے ساتھ اسلامی تحریروں [قرآن] کو احتیاط کے ساتھ پڑھیں تا کہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ اسلام اصل میں چاہتا کیا ہے، اور سوچیں کہ کیا واقعی اسلام کو بہ طور عقیدہ اور رہنما اختیار کرنا چاہیے؟ یہ یقیناً بہتر (فیصلہ) ہوگا کہ بندہ کافر اور آزاد ہو، بجائے اس کے کہ منافق بنے، ایسا فیصلہ تمام انسانیت کے لیے محفوظ و مامون ہوگا۔"
اسی لیے میں سیکولرزم کو فتنہ ارتداد سمجھتا ہوں۔ یہ جو مسلمانوں کو دھوکہ دینے کے لیے کہتے پھرتے ہیں کہ سیکولرزم کا ترجمہ لادینیت نہیں ہونا چاہیے ان کی یہ تحریریں بھی ذرا دیکھ لی جائیں۔
قرآن میں جہاں اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو دشمنوں کے خلاف تیاری کرنے کی ہدایت کرتے ہیں، اس پر تبصرہ کرتے ہوئے یہ سیکولر صاحب طعنہ زن ہوتے ہیں:
"حیرت کی بات ہے کہ قرآن کو اللہ کی تصنیف قرار دیا جاتا ہے۔"
شرعی قوانین کی مخالفت کرتے ہوئے یہ الحاد اور کفر کا پیروکار اپنے زہر آلود قلم سے لکھتا ہے:
"شرعی قوانین سے اللہ کی آمریت قائم ہوتی ہے۔"
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نعوذ باللہ دہشت گرد کہا گیا ہے:
"I have been made victorious with terror, says the Prophet of Islam, and indeed he had."
ایسی بے مغز سطور پر کوئی کیا تبصرہ کرے گا، نہ عقل نہ دلیل صرف آتش نوا زبان، جس میں مسلمانوں کی دل آزاری ہے، ان کے عقیدے اور ایمان کی توہین ہے۔ البتہ اس "روشن خیال" نام نہاد عقل پرست سے پوچھا جا سکتا ہے:
- تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عرب کفار کے خلاف تلوار اٹھانے کے عمل کو دہشت گردی کہتے ہو۔ کیا انہیں حق نہیں تھا کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کے دفاع کے لیے تلوار اٹھاتے؟
- کیا خدا کا نبی گھر کے سامنے سرنگوں ہو جایا کرتا ہے؟
- کیا نبی کی یہ شان ہوتی ہے کہ وہ گھر کو اجازت دے کہ وہ حق اور سچائی کو تاراج کر دے، اور وہ تماشا دیکھتا رہے؟
- کیا جارحیت کا سد باب کرنا دہشت گردی ہوتا ہے؟
- کیا اپنے مال، عزت اور آبرو کی حفاظت کے لیے جنگ دہشت گردی ہے؟
- تم شرعی قوانین کو اللہ تعالیٰ کی آمریت کہتے ہو۔ کیا غیر مسلم قوانین کے اطلاق سے ان کی آمریت قائم ہوتی ہے یا یہ صرف شرعی قوانین سے منسوب ہے؟
- کیا یہ حق صرف انگریزی یا یورپی قوانین کا ہے کہ ان کا نفاذ کیا جائے؟
سیکولرزم بمعنی لادینیت کی بحث میں دوسرا مستند ماخذ، جو یہ فیصلہ کر سکتا ہے کہ سیکولرزم لادینیت ہے یا نہیں، خود قرآن حکیم ہے۔ مثلاً سیکولر حضرات نفاذ شریعت کے خلاف ہر وقت مورچہ بند رہتے ہیں۔ اور ساتھ ہی فرماتے جاتے ہیں کہ ہم مذہب کے خلاف نہیں۔ قرآن ایسے تصورات اور رویوں کو کفر سے تعبیر کرتا ہے۔ میں اپنی بات کی تائید میں سورۃ البقرۃ کی آیت ۸۵ کا حوالہ دوں گا:
"کیا تم کتاب کے ایک حصہ پر ایمان رکھتے ہو اور دوسرے حصہ کا انکار کرتے ہو، تو جو تم میں سے ایسی حرکت کریں تو ان کی سزا سوا اس کے کیا ہو سکتی ہے کہ دنیا کی زندگی میں تو رسوائی ہو اور قیامت کے دن سخت سے سخت عذاب میں ڈال دیے جائیں۔"
سورۃ المائدہ ۴۲ میں یہی بات کہی گئی ہے:
"جو لوگ خدا کے نازل فرمائے ہوئے احکامات کے مطابق حکم نہ دیں تو ایسے ہی لوگ کافر ہیں۔"
اب آپ ہی فرمائیں کہ سیکولرزم کو لادینیت اور کفر نہ کہا جائے تو کیا کہا جائے۔
اصل میں سیکولر حضرات کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ یورپین مذہبی تجربے کو پاکستان کے معاشرتی منظرنامے
پر تھوپنا چاہتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ اسلام عیسائیت نہیں اور نہ مسلم دنیا مغربی تہذیب کا حصہ ہے۔ اسی لیے اس سارے عمل سے جو نتیجہ وہ نکالتے ہیں وہ غلط اور گمراہ کن ہوتا ہے۔
کیا مسلمانوں کی موروثی بادشاہت سیکولر تھی؟
حمید اختر صاحب کا دوسرا مقدمہ خلافت راشدہ کے بعد مسلمانوں ہی کی موروثی بادشاہت کو سیکولر کہتا ہے۔ مجھے نہیں معلوم اس سے موصوف کی کیا مراد ہے۔ اگر سیکولر سے مراد دنیاوی مسائل سے متعلق ہونا ہے تو پھر خلافت راشدہ بھی سیکولر تھی۔ اسی لیے سوال پیدا ہوتا ہے کہ آپ خلافت راشدہ کے زمانے کے بعد کے زمانے کو کیوں سیکولر سمجھتے ہیں؟ کیا اس لیے کہ موروثیت میں خلافتِ راشدہ کی طرح آزاد بیعت نہیں ہوتی تھی؟ یا پھر کوئی اور وجہ ہے؟ اس حد تک تو یہ بات درست ہے کہ خلافت راشدہ اور موروثیت میں بڑا واضح فرق ہے اور مسلمانوں کا مثالی نظام ہمیشہ سے خلافت راشدہ رہا ہے۔ لیکن یہ نتیجہ نکالنا کہ جیسے موروثی بادشاہت کے ساتھ ہی اسلامی نظام کو دیس نکالا مل گیا تھا، قطعاً غلط بات ہے۔ ہاں البتہ یہ تاریخی امر ہے کہ خلافت راشدہ کے بعد مسلمان مفکرین و علماء میں یہ تشویش پیدا ہوئی کہ بدلتے حالات میں موروثی بادشاہت سے کس طرح نمٹا جائے۔ کچھ لوگوں نے بغاوتیں کیں، لیکن بالآخر یہ اجماع پیدا ہو گیا کہ اگر مسلمان حکمران اسلامی نظام عدل اور نفاذ شریعت کو برقرار رکھیں تو ان کی اطاعت کی جا سکتی ہے۔ اس طرز فکر کو بعد میں الماوردی، ابن خلدون اور ابن تیمیہ نے باقاعدہ تحریر کیا اور حکمرانوں کے لیے لازم قرار دیا کہ وہ شریعت کے محافظ اور نگہبان بنیں۔
یہ کوئی حیرت کی بات نہیں کہ مسلمانوں کی تاریخ میں ایسے کئی سلاطین گزرے ہیں جن کی شرافت، حمیت اور عظمت کی قسمیں کھائی جا سکتی ہیں۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ بالعموم وہ
شریعت کے محافظ اور نگہبان تھے۔ انہی سلاطین کے دور میں اسلامی سلطنت کو وسعت اور استحکام ملا۔ انہوں نے ہی مسلمانوں کی عزت و آبرو کا بھرم رکھا اور اسلامی قوانین کے اطلاق کو جاری و ساری رکھا۔ خود ہمارے ہاں غوریوں، غزنویوں، لودھیوں اور مغلوں نے اسلامی طرز معاشرت اور اسلامی قوانین کو برقرار رکھا، یہاں تک کہ چھوٹی چھوٹی ریاستوں، جیسے بہاول پور، سوات اور دیر وغیرہ میں قیام پاکستان کے بعد بھی اسلامی نظام عدل رہا۔ ان بادشاہوں کو جنہیں سیکولر حضرات ملعون کرتے تھکتے نہیں، مسلمان معاشرے کی اسلامی سمت برقرار رکھنے میں زبردست کردار ادا کیا۔ طوالت سے بچنے کے لیے صرف ایک مثال دوں گا۔
جب امویوں کے دور کے آخری عرصے میں زنادقہ تحریک نے پر پرزے نکالے تو عباسی خلفاء المنصور اور المہدی نے تہیہ کر لیا کہ انہیں ختم کر دیا جائے۔ زنادقہ، جیسا کہ ان کے بارے میں معلوم ہے، الحاد کا پرچار کرتے تھے۔ وہ خدا اور مذہب میں یقین نہیں رکھتے تھے اور عوام کو شراب نوشی، زنا اور جوئے کی طرف راغب کرتے تھے۔ چنانچہ نہ صرف انہیں قتل کیا گیا، بلکہ فتنہ ارتداد کے خلاف کتابیں حکومتی سرپرستی میں لکھائی گئیں۔ اسی طرح جب خلیفہ المہدی دنیا سے رخصت ہونے لگا تو اس نے اپنے بیٹے الہادی کو جو وصیت کی وہ اس کے اسلامی جذبوں کی ترجمان ہے۔
"اگر یہ حکومت کبھی تمہارے ہاتھ آئے تو مانی کے پیروکاروں کو ختم کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑنا۔"
اس لیے یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ کیا ایک مسلمان معاشرے کو لادینیت کی طرف ہانکا جا سکتا ہے؟ مسلم دنیا میں جہاں بھی یہ تجربہ کیا گیا، وہاں اس کے نتائج خود سیکولرزم اور مسلمانوں کے لیے ہولناک نکلے ہیں۔ ایرانی تجربہ بالآخر انقلاب کی شکل میں ڈھل گیا اور اتاترک کا ترکی عثمانیوں کے نقش قدم پر چل پڑا ہے۔ پاکستان میں کیا ہوتا ہے، یہ آنے والا وقت بتائے گا۔
باب ۴: جدیدیت، سائنس اور الہامی دانش کا مسئلہ
جدیدیت، سائنس اور الہامی دانش کا مسئلہ
کچھ عرصہ سے بعض انگریزی اخبارات میں سوچی سمجھی سازش کے تحت قرآن کو نعوذ باللہ ماضی کی ایک روایتی دانش، مسلمانوں کے ماضی کو ایک خیالی دنیا (یوٹوپیا) اور اسلام کی طرف ہماری آرزوئی مراجعت کو "پتھر کے دور" کی طرف پلٹنے کے مترادف گردانا جا رہا ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ مذہب اور سائنس میں کوئی ازلی تصادم ہے۔
جدیدیت کیا ہے؟
یہ اصرار کرنا کہ جدیدیت (modernity) اور مغربیت لازم و ملزوم ہیں اور کسی معاشرے کے جدید بننے کے لیے ضروری ہے کہ وہ مغربیت کو اپنائے، یا یہ کہ جدیدیت سیکولرزم کی خارجی شکل ہے اور دونوں ایک دوسرے کی ضرورت ہیں، دراصل ایک پیچیدہ سوال کو سادگی سے پیش کرنا ہے۔
اسی طرح یہ کہنا کہ جتنی زیادہ جدیدیت کسی معاشرے میں آئے گی اتنا ہی سیکولرزم کا پھیلاؤ ہوگا، غلط بیانی تو ہو سکتی ہے لیکن حقیقت نہیں۔ ایسا کہنے والا جدید علوم کے نئے افقوں سے نا آشنا قرار پائے گا۔ یہ میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ جدیدیت اور سیکولرزم کے لازم تصور کو بیسویں
صدی کے چھٹے عشرے میں پیٹر برجر (Peter Berger) اور دوسرے عالمان سماجیات نے پیش کیا تھا۔
پیٹر برجر کی مشہور کتاب The Sacred Canopy جو اسی زمانے کی تخلیق ہے، اسی موقف کی ترجمانی کرتی ہے۔ لیکن ۱۹۹۰ء کے عشرے میں پیٹر برجر اور اس کے دیگر رفقاء نے اپنے اس دعوے کو اس بنا پر واپس لے لیا کہ دنیا میں ایسا ہوا نہیں۔ جدیدیت تو آئی لیکن سیکولرزم کو وسعت نہیں مل سکی۔ مذہب نہ صرف کسی نہ کسی شکل میں موجود رہا، بلکہ قدامت پرست جماعتیں مذہبی حلقوں کے زور پر خود یورپ اور امریکہ میں اقتدار کے ایوانوں میں آبیٹھیں۔ جس کے نتیجے میں اخلاقی مباحث اور قدریں، سیاسی و سماجی بیانیہ میں پھر سے اہمیت اختیار کر گئیں۔
مسلم دنیا کے نقشے پر ایران اور ترکی جو نسبتاً زیادہ جدیدیت میں رنگے ہوئے تھے وہاں مذہب نے سیاسی اور معاشرتی سطح پر زبردست پیش رفت کی اور ایک زمانے کو اتھل پتھل کر کے رکھ دیا۔ اس لیے اگر میں یہ کہوں کہ جدیدیت اور اس سے متعلقہ مقدمات کو اس طرح سادگی سے پیش کرنا موضوع سے انصاف نہیں تو شاید غلط نہ ہوگا۔ ایسی روش نہ صرف بدنیتی پر مبنی ہے بلکہ اپنے اندر خطرناک سیاسی مضمرات بھی سموئے ہوئے ہے۔ میں اسے بدنیت روش اس لیے کہتا ہوں کہ اس سے مسلمانوں کی "بیماری" کے لیے مغرب کے تجویز کردہ نسخے کی بو آتی ہے۔ کیلی فورنیا میں ورلڈ افیئرز کونسل کے سامنے سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر کی تقریر (مورخہ یکم اگست ۲۰۰۴ء) میں مغربی اقدار کے ذریعے سے مسلم عوام کی تبدیلی قلب کی بات کی گئی ہے۔ بلیئر کے الفاظ تھے:
We could have chosen security as battleground. But we did not. We chose values
"ہم چاہتے تو سیکورٹی کو میدان جنگ بناتے لیکن ہم نے یہ نہیں کیا، ہم نے اقدار کا انتخاب کیا۔"
اہل مغرب اچھی طرح جانتے ہیں کہ مسلمانوں کی اسلام سے وابستگی انہیں مغربی تسلط کے خلاف مزاحمتی جذبہ عطا کرتی ہے۔ اور یہ کہ وہ اسی صورت میں مغرب کے سامنے سر تسلیم خم کریں گے کہ ان کے وجود سے اسلام کو نکال کر انہیں نیا روپ اور نیا وجود دے دیا جائے۔
جدیدیت کوئی نئی شے نہیں
جدیدیت کے بارے میں یہ دعویٰ کرنا بھی حد درجہ سادگی اور بھولپن ہوگا کہ دنیا نے صرف موجودہ عہد میں ہی اسے دیکھا ہے۔
فریڈرک نطشے (Nietzsche) جدیدیت کے سرخیلوں میں شمار ہوتا ہے۔ اس کے نزدیک جدیدیت اپنے جوہر میں کوئی نئی معاشرتی تبدیلی نہیں، بلکہ یہ تسلسل ہے ماضی کے خیالات اور افکار کا۔ نہ یہ کوئی مستقل شے ہے جسے ہمیشہ قرار رہے گا۔ یہ شاید اچنبھے کی بات ہو، لیکن نطشے یہ دعویٰ کرتا ہے کہ جدیدیت کے تمام عناصر ترکیبی یا ادارے مثلاً جدید سائنس جو اسباب و علل سے عبارت ہیں، لبرل جمہوری سیاست گری، رومانیت، انسان پرستی اور آزاد فکر اشتراکیت سب اپنی اصل میں افلاطونیت اور عیسائیت ہی ہیں۔ ۱
اس پس منظر کا انکار کرنا اور جدیدیت کو اس سے جدا کر کے دیکھنا نطشے کے نزدیک درست نہیں، یہ دوسری بات ہے کہ اب افلاطونی عیسوی قدریں اپنا تحرک کھو چکی ہیں، انسان کے
"یہ اصرار کرنا کہ جدیدیت اور مغربیت لازم و ملزوم ہیں اور کسی معاشرے کے جدید بننے کے لیے ضروری ہے کہ وہ مغربیت کو اپنائے، یا یہ کہ جدیدیت سیکولرزم کی خارجی شکل ہے اور دونوں ایک دوسرے کی ضرورت ہیں، دراصل ایک پیچیدہ سوال کو سادگی سے پیش کرنا ہے۔"
"سارے خدا اخلاقیات سے لے کر فلسفہ تک وفات پا گئے ہیں۔" ۲
ہیگل (Hegel) بھی تقریباً یہی بات کرتا ہے، بالخصوص جب وہ جدیدیت کو بمعنی انقلاب قرار نہیں دیتا، بلکہ اسے ایک تاریخی عمل کی شکل میں دیکھتا ہے جو اپنے باطن کے زور سے آگے بڑھتی ہے۔ البتہ جہاں نطشے جدیدیت کو مستقل نئے نہیں سمجھتا وہاں ہیگل اسے مستقل بالذات سمجھتا ہے۔ ۳
ہیگل یہ بھی کہتا ہے کہ انسان اپنے آپ کو فرد واحد کی حیثیت سے، جو خود کفیل ہو اور جو اپنی ذات میں ہر لحاظ سے آزاد اور خود مختار ہو دریافت نہیں کر سکتا، بلکہ وہ لازماً یا تو کسی تاریخی اخلاقی ضابطے سے متعلق ہوگا، یا پھر کسی خاندان کا فرد ہوگا یا سول سوسائٹی کا شریک کار ہوگا۔ اگر یہ عوامل موجود نہ ہوں تو فرد کی طرف سے کوئی ایسا حقیقی قابلِ ذکر جواب نہیں آئے گا جو اپنی نوعیت کے اعتبار سے جامع یا ہمہ گیر ہو۔ ۴
مارٹن ہائیڈیگر (Martin Heidegger) جدیدیت کو بیان کرتے ہوئے اسے بے ثبات یا
ایسی سچائی قرار دیتا ہے جس کی اصل نہ ہو۔ وہ جدیدیت کو کامل بے معنویت کا دور کہتا ہے۔ ۵
ایمیل درکھیم (Emile Durkheim) جسے اہل مغرب جدید عمرانیات کا بانی گردانتے ہیں، فرد کو نفس بالذات نہیں سمجھتا۔ اسی لیے وہ انسانی رویوں، احساسات اور سوچوں کو فرد کے داخل میں نہیں بلکہ خارج میں دیکھتا ہے۔ اس کے نزدیک انسان ایک "سماجی حقیقت" ہے، جسے معاشرہ تخلیق کرتا ہے: "وہی اس کے رویوں اور سوچ کو شکل دیتا ہے۔" ۶
انسان کس حد تک اپنی سوچ اور رویے میں معاشرے کی گرفت میں ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ ذہن نہیں، بلکہ جذبات کا معاملہ ہے، کیونکہ انسان جذباتی طور پر اجتماعی ضمیر سے بندھا ہوتا ہے جو اس کی انا سے بالا شے ہے۔ جو چیز ہمیں اپنے عمل میں اطمینان دلاتی ہے وہ ہمارا یہ احساس ہوتا ہے کہ ہم جو بھی کر رہے ہیں اس کے پیچھے معاشرے اور اخلاقی رویوں کی تائید ہے۔
پس اس ساری بحث کے پس منظر سے جو سچائی ابھرتی ہے وہ یہ ہے، کہ فرد کی ذات بذات خود کوئی ایسی شئے نہیں جو توانا اور اس حد تک خود مختار ہو کہ اس کی فکر اور فیصلوں میں نہ ماضی اثر انداز ہوتا دکھائی دے، اور نہ مذہبی اور تہذیبی اثرات سے مبرا ہو۔
اسی لیے یہ بات فرد تک ہی محدود نہیں بلکہ معاشروں اور ان سے پیدا سوچ کا بھی احاطہ کرتی ہے۔ کوئی طرز فکر یا زندگی کی روش یک لخت وجود میں نہیں آتی، بلکہ اس کے پیچھے ماضی کی فکری وراثت ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے جدیدیت کوئی نئی دریافت نہیں۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے مابعد جدیدیت کی اصطلاحی ترکیب کو سامنے رکھیں، اگر جدیدیت نہ ہوتی تو مابعد جدیدیت بھی پیدا نہ ہو سکتی۔
درحقیقت ہر عہد کی اپنی ایک جدیدیت ہوتی ہے، جس کا تعلق انسانی حالات کی بہتری سے
ہے۔ جو حکومتی کارکردگی اور مستعدی کو یقینی بنانے سے لے کر پیداوار کے ذرائع میں بڑھوتری اور مواصلاتی نظام کی ترقی پر محیط ہے۔ کوئی بھی معاشرہ جو ان نتائج کو حاصل کر لیتا ہے، جدید معاشرے سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ مذہب اور تاریخ کے بندھنوں سے آزاد محض خودی اور ذات (self) کے وہ نظریات، جو نفس انسانی کو ہر چیز کے بارے میں مختار کل اور فیصلہ کن صفات کا حامل قرار دیتے ہیں، جدیدیت کے اجزائے ترکیبی نہیں قرار دیے جا سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ معاشرتی عقائد و اقدار خواہ کچھ بھی ہوں، ہر عہد کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ سماجی اور تاریخی تقاضوں کے جواب میں دلیل اور عقل کو بروئے کار لائے۔ لیکن اظہار عقل یا دلیل (reason) کے روبہ عمل ہونے کے لیے یہ ضروری نہیں کہ وہ تمام ورثے کے انہدام کی حد تک پہنچ جائے ۔ کیونکہ یہ وہ نکتہ ہے جہاں اس کا تعلق زندگی سے باقی نہیں رہتا۔
جس چیز نے عہد حاضر کی جدیدیت کو مضر بنا دیا ہے، وہ اس کا ہر بندش سے آزاد ہونا ہے۔ نتیجتاً اس کی ہر روش میں ضد پیدا ہو گئی ہے۔ انسان کے پاؤں اکھڑ گئے ہیں، وہ معاشرہ میں بامعنی انداز میں کھڑا دکھائی نہیں دیتا۔
سائنس اور روحانی اقدار
اسی طرح یہ بھی کوئی صحیح سائنس فہمی نہیں ہوگی اور نہ زندگی سے متعلق مسائل کے بارے میں مذہبی رویے کی صحیح توضیح ہو گی اگر یہ سمجھ لیا جائے کہ سائنس تو صرف وضیعتی اور حسابی عمل (empiricism) ہے، جس کا اخلاقی و روحانی اقدار سے کوئی رشتہ نہیں ہوتا اور مذہب محض غیر عقلی توہمات ہیں جو انسان کی ترقی میں حائل ہیں۔
جس چیز نے عہد حاضر کی جدیدیت کو مضر بنا دیا ہے، وہ اس کا ہر بندش سے آزاد ہونا ہے۔ نتیجتاً اس کی ہر روش میں ضد پیدا ہو گئی ہے۔ انسان کے پاؤں اکھڑ گئے ہیں، وہ معاشرہ میں بامعنی انداز میں کھڑا دکھائی نہیں دیتا۔
تھامس کوہن (Thomas S. Kuhn) نے اپنی مقبول عام تحریر The Structure of Scientific Revolution میں آوارہ خراموں اور لادینوں کی اس متشددانہ فکر کا تارو پود بکھیر کر رکھ دیا ہے۔
مشہور ماہر سماجیات ایمیل درکھیم جسے ابن خلدون کے بعد زمانہ جدید میں سماجیات کا بانی سمجھا جاتا ہے، کی سوچی سمجھی رائے ہے کہ سائنس اور دیگر عقلی علوم کا تانا بانا مذہبی تصورات اور فکر سے بنایا گیا ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر انہوں نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ "مذہب سے ہی ہر وہ شے پیدا ہوئی ہے جو معاشرے کے لیے ازبس ضروری ہے۔"
Religion gave birth to all that is essential in the society. 4
اس لیے اخلاقی اقدار کو نظر انداز کر کے سائنسی علوم کو اختصاصی یا استثنائی مقام دینا اور سمجھنا کہ جیسے یہ انسانوں اور ان کے احوال سے کوئی بالا مجموعہ خیالات و فکر ہیں، بذات خود سیکولر انتہا پسندانہ بلکہ متشددانہ سوچ ہے جسے علمی اور عقلی معیارات باطل قرار دیتے ہیں۔
شاید اسی لیے البرٹ آئن سٹائن سے متعلق یہ واقعہ پڑھ کر ہمیں کوئی اچنبھا نہیں ہوتا۔ بقول ڈاکٹر برائن سوم (Brian Swimme) جو بذات خود ایک سائنس دان ہے:
"آئن سٹائن بارہا مایوسی کا شکار ہوا، کیونکہ وہ تخلیق کائنات کے ضمن میں اپنا ایک ذاتی تجربہ دوسروں کو سمجھانے میں ناکام رہا۔ جب اس سے پوچھا گیا کہ اسے کس چیز کی تلاش ہے؟ تو اس کا جواب تھا: میں جاننا چاہتا ہوں کہ ذات قدیم [اللہ] سوچتی کیسے ہے؟ باقی تو تفصیل ہے۔" ۸
جیسا کہ سائنس دان فریڈ ہوئل (Fred Hoyle) نے اپنے گہرے مشاہدے کی بنیاد پر یہ بات کہی:
"مجھے ہمیشہ یہ بات بڑی عجیب لگی کہ جہاں سائنس دانوں کی اکثریت دین و مذہب سے پرہیز کرتی ہے، فی الاصل ان کے تصورات پر مذہب کا اثر اور غلبہ علمائے دینیات سے بھی زیادہ دیکھنے کو ملا ہے۔" ۹
اسی طرح الہامی مذہب اور سائنس کو ایک دوسرے کے مقابل صف آرا دکھانا اب علمی اور سائنسی حلقوں میں ایک فرسودہ اور ازکار رفتہ بات سمجھی جانے لگی ہے۔ کیونکہ تصادم اور کشمکش کا یہ تصور ان کی حقیقی روح سے مطابقت نہیں رکھتا۔ ان دونوں کی ایک مختلف النوع تاریخ ہے، یعنی کبھی تو ان میں عمل داری (territory) کے سوال پر کشیدگی اور تناؤ کی کیفیت نظر آتی ہے اور کبھی دونوں ہمجولی بن کر ہاتھ میں ہاتھ دیے چل رہے ہوتے ہیں۔
اصول و نظریات کے ٹکراؤ کا تصادمی ماڈل جو وائٹ (White) اور ڈریپر (Draper) نے صدی بھر پہلے وضع کیا تھا، اور جسے لبرل لادین حضرات مذہب پر پھبتیاں کسنے کے لیے اکثر
حوالے کے طور پر پیش کرتے رہے ہیں، اس کا اعتبار قریب قریب ختم ہو چکا ہے۔ اس کے مقابلے میں ایسا بیش بہا تحقیقی مواد سامنے آگیا ہے جو یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ مغرب میں سائنسی علوم کی نمو اور ترویج میں ان مذہبی تعلیمی اداروں کا بڑا ہاتھ ہے، جو خود چرچ (کلیساء) کے قائم کردہ تھے۔ ان میں یسوعی فرقہ اور متکلمین (Jesuits and Scholastics) گروہ ہیں، جب کہ مسلم دنیا میں دینی مدارس (روایتی اسکولوں) نے مربوط فنون کے وہ علماء اور حکما پیدا کیے جو بہ یک وقت دینیات، کارگاہ فطرت اور سماجی علوم میں یگانہ روزگار تھے۔ خود نظام سرمایہ داری، جو جدیدیت کی جان ہے، اپنی ترقی اور ارتقا کے لیے پروٹسٹنٹ ضوابط اخلاق کی ممنون ہے۔ اس موضوع پر معروف جرمن ماہر عمرانیات میکس ویبر کی کتاب Protestantism and The Rise of Capitalism ایک نہایت جاندار تحریر ہے۔
جدیدیت کا منفی رخ
آج کی دنیا کے لیے سائنس کی جو بھی اہمیت ہو اور انسانی احوال کی بہتری اور مادی نمو میں اس کا جو بھی کردار رہا ہو، اس نے ساتھ ہی ساتھ مسائل کا ایک انبار بھی کھڑا کر دیا ہے، جو مسلسل اور مستقل بنیادوں پر حل طلب ہیں۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں یہ مخصوص مسائل ابھی کچھ زیادہ بڑے پیمانے پر نظر نہیں آتے، لیکن صنعتی مغرب کو اسی سائنس کی بے مہار حاکمیت کے ہاتھوں نت نئی مصیبتوں کا سامنا ہے جو جدیدیت کا مخصوص تحفہ ہیں۔ ٹیکنالوجی نے انسان کو شرف انسانی سے محروم کر دیا ہے۔ اس کو قدرتی سادہ ماحول سے نکال کر مشینی اختراعات کی دنیا میں الجھا دیا ہے، جس نے ایک ایسے ذہنی رویے کو جنم دیا ہے جو بقول پروفیسر تارناس (Tarnas) ہر مسئلے کا حل ٹیکنالوجی میں حقیقی وجودی محرکات کی قیمت پر تلاش کرتا ہے۔" ۱۱ جدیدیت نے فضائی
آلودگی، ماحولیاتی نظم (ecosystems)، ایٹمی فضلے کی تابکاری، ایٹمی مراکز کی وقتاً فوقتاً شکست و ریخت، کیڑے مار ادویات سے پھیلنے والے مفاسد اور اوزون (ozone) تہہ کی بربادی کے مسائل بھی پیدا کر دیے ہیں۔ سماجی حوالوں سے بھی جدیدیت کے اثرات و نتائج ہولناک ہیں۔ جرائم کی شرح کبھی اتنی بلند سطح پر نہ تھی جیسی آج ہے۔ شراب نوشی، نشہ بازی، بے مہار جنسی طرز عمل، غیر شادی شدہ ماؤں اور ناجائز اولاد کی بھرمار، جنسی امراض خبیثہ، برہنگی کا رواج (nudity) اور نفسیاتی امراض .... یہ سب اس دور جدید کے شاخسانے ہیں۔
اور تو اور جنگوں میں انسانوں کا قتل عام نئی حدود کو چھو رہا ہے۔ دوسرے لفظوں میں کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ انسانوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کے خبط کو "سائنسی ترقی" کا نام دینے کا وحشیانہ طرز عمل انسانیت کی تذلیل کا دوسرا نام ہے۔ اب فرد سے فرد کا دوبدو مقابلہ نہیں ہوتا جہاں عمل اور رد عمل کا فیصلہ انفرادی انسانی سطح پر ہوتا تھا۔ جہاں فتح و شکست کو ذاتی تجربے کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ جب قاتل اور مقتول آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھتے اور لڑائی اور مقابلے کے ہر پہلو کو شجاعت، انتقام، نجات، پچھتاوے اور ایسے سے بھرپور انسانی ڈرامے کے روپ میں پڑھ سکتے تھے۔ بے مہار ٹیکنالوجی کے تابع جدیدیت نے اس جنگ کو بھی بدترین سطح کی غیر انسانی مشق بنا دیا۔ اب انسان قتل نہیں کیے جاتے بلکہ دور پار سے چلائے گئے عام بربادی کے ہتھیاروں کے ذریعے بے بس بچوں، بوڑھوں، عورتوں، بیماروں پر مشتمل پوری کی پوری آبادیاں ہلاک کر دی جاتی ہیں، جو اپنے پیچھے ریڈیائی لہروں سے آلودہ پانی کے ذخائر اور مسخ شدہ لاشوں کے ڈھیر چھوڑ جاتے ہیں۔ یقیناً یہ سب کچھ جدیدیت کا کوئی خوب صورت روپ نہیں دکھاتا۔
جدیدیت سے متعلق ڈاکٹر پپن (Pippin) کا تجزیہ ایک ایسا مواخذہ ہے، جس میں جدیدیت اور اس کے نتائج و عواقب کے متعلق مغربی سوسائٹی کے اندیشوں کا نچوڑ سامنے آ جاتا ہے۔ وہ کہتا ہے:
"جدیدیت نے ہم سے ایک ایسی ثقافت کا وعدہ کیا تھا جس کے زیر سایہ لوگ خوف سے آزاد، معقول، مائل بہ جستجو اور خود کفیل ہوں گے۔ لیکن بدرجہ آخر ہمیں ایک ریوڑ نما معاشرہ ملا ہے، جس کے افراد حیران و سرگرداں، ڈرپوک، مقلد اور روایت پسند، خوف زدہ بھیڑیں ہیں ... یک قطبی، پیش پا افتادہ اور لش پش ثقافت۔" ۱۲
ڈنکن ولیمز (Duncan Williams) کا خیال ہے کہ مغربی دنیا اور اس کی تہذیب و ثقافت "تشدد اور انسانیت سوز درندگی و حیوانیت سے لبریز ہو چکے ہیں۔" ۱۳
نطشے تو یہاں تک کہتا ہے کہ "یہ دور انسان کا آخری دور ہے، جدیدیت نے ہمیں معدومیت سے دوچار کر دیا ہے۔" اس چیز نے مشہور برطانوی مورخ آرنلڈ ٹوائن بی (Toynbee) کو جدیدیت اور مغرب کے مستقبل کے بارے میں پریشان کر دیا تھا۔ اس میں حیرت کی کوئی بات نہ تھی، کیونکہ اسے جو کچھ نظر آ رہا تھا وہ روز روشن کی طرح عیاں تھا۔ اپنی موت سے کچھ ہی عرصہ پہلے اس نے لکھا: "دنیا کی تباہی کا مستقبل قریب میں واقع ہونا جسے انبیاء و رسل نے وجدانی طور پر مشاہدہ کیا، اس کے قدموں کی چاپ اب سنائی دینے لگی ہے۔ آج اس منتہا کا قریب الوقوع ہونا محض ایمان بالغیب کی بات نہیں، بلکہ مشاہدے اور تجربے کی بنیاد پر ایک مانی ہوئی حقیقت اور یقینی واقعہ ہے۔" ۱۴
"اگر جدیدیت سے مراد جدت پسندی اور نئے تخلیقی افق ہیں یا اس سے مراد حسن کارکردگی ہے، جس سے معاشرہ کی پیداواری صلاحیت بڑھے، یا یہ کہ جدیدیت سیکولرزم کی خارجی شکل ہے اور دونوں ایک دوسرے کی ضرورت ہیں، دراصل ایک پیچیدہ سوال کو سادگی سے پیش کرنا ہے۔"
میکس ویبر تو یہاں تک کہہ گیا ہے کہ: "جدیدیت: افسر شاہی عقلیت پسندی کا آہنی پنجرہ ہے، جس نے ہمارے اس جدید دور کی زندگی کے ہر پہلو کو گرفت میں لیا ہوا ہے۔" ویبر کا خیال ہے کہ "یہ اپنی پنجرہ اس قابل نہیں کہ اس میں محبوس رہ کر زندگی گزاری جائے۔" اس کا اندازہ ہے کہ "مستقبل میں اس بے مہار ترقی کے اختتام پر بالکل نئے مصلحین اور مبلغین سامنے آئیں گے۔ یا پھر پرانے تصورات اور نظریات کو دوبارہ ایک عظیم حیات نو ملے گی۔" ۱۵
مذہب کا تخلیقی کردار
اسلام جیسے الہامی ادیان و مذاہب نے کبھی مادی ترقی کی مخالفت نہیں کی۔ فی الحقیقت اسلام ایک ہمہ گیر اور ہمہ جہت ترقیاتی ماڈل کا علم بردار ہے۔ اور اس نے انسانی زندگی میں مادی بہتری اور خوش حالی لانے کے لیے ہمیشہ سائنسی ترقی میں مدد دی۔ قرآن بنیادی طور پر سائنس کی کتاب نہیں لیکن اس نے فطرت (nature) اور اس کے طریق عمل کے بارے میں جو بھی خبر
دی ہے، وہ سچ ثابت ہوئی۔
کوپرنیکائی انقلاب (Copernican Revolution) نے اپنے لازم اثر اور نتیجے کے طور پر انسان کی اصل پوزیشن بدل کر رکھ دی کہ وہ اشرف المخلوقات نہیں بلکہ لا تعداد سیاروں سے مزین بے کراں کائنات کی سطح پر محض ایک حقیر مخلوق ہے۔ جدید فلکیاتی دریافتوں پر مبنی تازہ ترین تصور یہ ہے کہ ہماری زمین اس مسلسل پھیلتی کائنات کے عین مرکز میں واقع ہے۔ یہی بات ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ کائنات پھیل کر جتنی بھی وسیع ہو جائے نسل انسانی سے آباد یہ زمینی کرہ ہمیشہ اس کے مرکز میں رہے گا۔ اسی طرح انسان کی یہ صلاحیت کہ نظم کائنات کو سمجھ سکے اس کی غیر معمولی خصوصیت کا ایک پرکشش اور جاذب نظر پہلو ہے۔ ڈاکٹر پال ڈیویز (Paul Davies) جیسے سائنس دان یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ انسان میں یہ حیرت انگیز صلاحیت کیوں اور کیسے موجود ہے کہ وہ کائنات کے رازوں کا متلاشی رہا ہے اور انہیں منکشف کرتا رہتا ہے۔ اس کا یہی مطلب بنتا ہے کہ انسان اور کائنات میں اس کے مقام و مرتبے کی ایک خاص اہمیت ہے۔ قرآن انسان کے اسی شرف اور تکریم کے لیے توصیفی کلمات ادا کرتے ہوئے اس کی ذہنی، جذباتی اور اخلاقی ترکیب کو بہترین تشکیل "احسن تقویم" قرار دیتا ہے۔
اسی طرح پھیلتی بڑھتی کائنات کا تصور سائنسی دنیا میں ایک نسبتاً تازہ خیال ہے۔ اس سے پہلے مسلسل وسعت پذیر کائنات کی بات آئن سٹائن جیسے لوگوں کو بھی پریشان کر رہی تھی۔ شاید یہ بات سن کر لوگوں کو حیرت ہو کہ اپنے عمومی نظریہ اضافیت کے ساتھ ساتھ ہی آئن سٹائن نے ۲۲ نومبر ۱۹۱۴ء کو یہ بھی معلوم کر لیا تھا کہ کائنات کی وسعت پذیری کا حسابی امکان موجود ہے۔ چونکہ اس کا یہ اکتشاف اس وقت کے سائنسی عقائد کے خلاف جا رہا تھا، اس لیے اس نے کائناتی غیر مبدلات "cosmological constants" کی حسابی اصطلاح کی آڑ میں اپنی نئی
دریافت کو دنیا سے چھپا لیا تھا، مبادا اس سے اس وقت تک کے قائم نظریات کہیں تحلیل نہ ہو جائیں۔" ۱۶
لیکن چھ برس بعد ہبل (Hubble) کی رصدگاہ نے وسعت پذیر کائنات کی تصدیق کر دی، جسے آئن سٹائن نے ابتداً نظر انداز کرنے کی کوشش کی تھی۔ کیا واقعی کائنات کی وسعت پذیری ایک نیا تصور تھا؟ جی ہاں لیکن صرف سائنس کے لیے۔ قرآن کے لیے نہیں جس نے صدیوں پہلے کہہ دیا تھا:
وَالسَّمَاءَ بَنَيْنَهَا بِأَيْدٍ وَ إِنَّا لَمُوسِعُونَ (الذاریات ۵۱: ۴۷)
"آسمان کو ہم نے اپنے زور سے بنایا ہے اور ہم (اس کی پوری قدرت رکھتے ہیں اور) اسے وسعت دیتے جا رہے ہیں۔"
قرآن میں چاند کا اس انداز سے (بھی) ذکر موجود ہے کہ گویا یہ اپنے وجود کے لیے محض سورج کا محتاج نہیں بلکہ ایک جداگانہ وجود رکھتا ہے، جو سائنس کا اب تک کا مسلمہ نظریہ تھا۔ آج نئی فلکیاتی دریافتیں بتاتی ہیں کہ اس کی تنویر (روشنی) خود اس کے اپنے وجود سے بھی ہے۔ بہ قول ڈاکٹر سوم (Swimme) "چاند کوئی منجمد تودہ نہیں ہے۔ ... بلکہ ایک اہم واقعہ (event) ہے جو موجودات عالم میں ہر لمحہ تھر تھرا رہا ہے۔" ۱۷
مذہبی عقیدہ کس طرح کائنات کی صحیح تصویر کشی تک رہنمائی کرتا ہے۔ اس کی ایک نمایاں مثال پروفیسر عبد السلام کے تحقیقی مقالے "حسن توازن کے تصورات اور مادے کا بنیادی نظریہ" میں "Symmetry concepts and the fundamental Theory of matter" دیکھی جا سکتی ہے۔ پروفیسر موصوف کے کام کو ان نظریات کا حصہ مانا جاتا ہے جنہوں نے بیسویں صدی کی بہت سی دریافتوں اور ترقیات کی اساس مہیا کی۔ ۱۸ اپنے شاندار تحقیقی کام میں
پروفیسر عبد السلام نے دکھایا ہے کہ کائنات اور اس کے اجزا میں خوش اندامی اور متناسب پن ہے، جس نے اسے توازن کا حسن عطا کیا ہے۔ اپنے مقالے کا لب لباب اور نچوڑ وہ قرآن کے درج ذیل الفاظ میں بیان کرتے ہیں: ۱۹
مَا تَرَى فِي خَلْقِ الرَّحْمَنِ مِنْ تَفَاوُتٍ طَ فَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرَى مِنْ فُطُورٍ ﴿الملک ۶۷: ۳﴾ ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ كَرَّتَيْنِ يَنْقَلِبْ إِلَيْكَ الْبَصَرُ خَاسِئًا وَهُوَ حَسِيرٌ ﴿الملک ۶۷: ۴﴾
"تم رحمان کی تخلیق میں کسی قسم کی بے ربطی نہ پاؤ گے۔ پھر پلٹ کر دیکھو، کہیں تمہیں کوئی خلل نظر آتا ہے؟ بار بار نگاہ دوڑاؤ۔ تمہاری نگاہ تھک کر نامراد پلٹ آئے گی۔"
ڈاکٹر عبدالسلام کا تحقیقی کام جس کے لیے انہیں نوبل انعام ملا، فطرت میں موجود کمزور اور برقی مقناطیسی قوتوں کے اتحاد و اتصال کو ثابت کرتا ہے کہ یہ دراصل ایک ہی قوت کے دو پہلو ہیں۔ یہ خیال انہیں اصلاً الہامی تصور توحید اور تخلیق کی وحدت سے حاصل ہوا جس کا ظہور ایک ذات واحد یعنی خالق کائنات سے ہوا ہے۔
کوانٹم میکانکس میں مشہور ڈینش سائنسدان نیلز بوہر (۱۸۸۵-۱۹۶۲ء) کا نظریہ معاونت (complementarity)، جس میں مظاہر فطرت خواہ وہ ایٹمی سطح پر ہوں یا پھر تحت ایٹمی سطح پر ان میں معاونت اور ہم بستگی ہے، اپنی اصل میں الہامی مذاہب سے اخذ کیا گیا ہے۔
اس طرح مذاہب کا فرد کی انفرادیت اور اس کا خود مختار ہونا جس میں اسے زندگی میں فیصلے کرنے کے لیے آزادی دی گئی ہے، اس کی جھلک نیلز بوہر کے نظریۂ کوانٹم میکانکس میں واضح
دکھائی دیتی ہے۔
مزید برآں سائنس میں جاری یک پہلو رویے (جس میں کسی ایک پہلو کو کل میں سے نکال کر اسے کل کی تعبیر سمجھا جاتا ہے) کو ترک کر کے کلیت یا تامیت (holistic) کو اختیار کرنا، یہ بھی مذاہب کی دین ہے۔ وحدانیت، جو اللہ تعالیٰ کی ذات سے منسوب ہے، وہی وحدانیت اللہ کی تخلیق کردہ عالم کائنات میں بھی ہے۔ مظاہر فطرت باوجود اپنی رنگا رنگی کے، بالآخر یک تام ہیں۔ ان میں یک جہتی اور باہمی قربت ہے جس سے وہ کل بنتے ہیں۔ کوانٹم میکانکس کے بعد سے یہی صائب سائنسی انداز تحقیق ہے کہ بجائے اس کے آپ اشیاء کو کل سے جدا کر کے دیکھیں، آپ اسے کل کے اندر دیگر اجزا کے ساتھ دیکھیں، تا کہ نتائج صحیح نکلیں۔
اسی طرح آج کے جدید دور کے تمام اہم نظریات کم و بیش مذاہب بالخصوص اسلام کے مرہون منت ہیں۔ مثلاً واقعہ انشقاق (big bang) جو اس بات پر مصر ہے کہ عالم کائنات یک لخت ایک بڑے دھماکے سے وجود میں آئی۔ یہ قرآن کریم کے کن فیکون (ہو جا) کے مشاہدہ ہے۔
کوانٹم میکانیت کا قانون تھرمو ڈائنامکس جو توانائی کے بالآخر زائل اور تمام ہونے کی بات کرتا ہے، اپنی اصل میں قرآن کا عکس ہے، جب سورج ٹھنڈا ہو جائے گا اور زمین لپیٹ دی جائے گی۔ اسی طرح مقصدی ارتقا جس کے پیچھے سمت اور ساخت ہے، مذاہب کی عطا ہے۔
تازہ ترین سائنسی نظریات میں یہ تھیوری کہ مادہ نہیں بلکہ اس کے پس پردہ ہدایت بمعنی انفارمیشن اہم ہے، خود قرآن سے ماخوذ ہے۔ یعنی کائنات کی ہر حرکت کے پیچھے ہدایت ربانی مضمر ہے۔
سائنسی نظریات کس طرح مذہب سے متاثر ہوتے ہیں اس کی ایک اور مثال اومیگا پوائنٹ تھیوری ہے جسے ڈاکٹر فرینک ٹپلر (Frank Tipler) نے بیسویں صدی کے آخری
عشرے میں پیش کیا۔ اس تھیوری کے مطابق ساری کائنات کو ایک اعلیٰ برتر ذہن، ایک طاقتور، عقل کل کمپیوٹر میں تبدیل کر سکتا ہے۔
ٹیلر کے مطابق اس نے اومیگا پوائنٹ کا تصور یسوعی فرقہ کے مشہور صوفی اور سائنس دان پیری ڈی چارڈن (Pierre Teilhard de Chardin) سے لیا ہے۔ موخر الذکر ایک ایسے مستقبل کو دیکھ رہا ہے جس میں تمام جاندار مخلوقات بالآخر خدائے واحد کی ذات میں تحلیل ہو جائیں گی۔ ٹیلر کا خیال تھا کہ یہ سوچنا ناممکن ہے کہ ایک لافانی ذہن کس حد تک اپنی سوچ میں جا سکتا ہے۔ لیکن پھر اس کے کہنے کے مطابق جرمن ماہر الہیات ولف ہارٹ پیننبرگ (Wolfhart Pannenberg) کا ایک مضمون اس کی نظر سے گزرا، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ مستقبل میں تمام عالم انسانیت کو اللہ واحد اپنے ذہن میں واپس سمیٹ لے گا۔ ٹپلر کی The Physics of Immortality نے اس خیال سے تحریک پائی۔ اومیگا پوائنٹ میں یہ قدرت ہوگی کہ وہ تمام انسانوں کو حیات نو دے، ایک ایسے جہان میں جس پر موت نہ آتی ہو؟ ۲۱
چنانچہ سائنس کی مخالفت تو دور کی بات ہے، مذہبی عقائد کا کردار تو تخلیقی عوامل کا رہا ہے۔ جب بھی انہوں نے دیکھا کہ سائنس کائناتی سچائی کی تلاش میں غلط نتائج پر پہنچ رہی ہے تو انہوں نے اس کی لغزشوں کی تصحیح کی۔ آج تک کوئی ایسی قابل قبول شہادت سامنے نہیں آئی، جس سے ثابت ہوتا ہو کہ مسلمان معاشروں میں دین و مذہب سائنسی طرز فکر و عمل کی ضد ہیں۔ اکا دکا واقعات جیسے ۱۹۷۰ء کے عشرے میں کسی سعودی نے ٹیلی ویژن توڑ دیا یا برسوں پہلے کچھ علما نے لاؤڈ سپیکروں کے استعمال کی ممانعت کا فتویٰ دیا، یہ قطعاً ثابت نہیں کرتے، نہ ان کی یہ شرح و تعبیر جائز ہے کہ سائنس کی کوئی منظم مخالفت ہوئی۔ پھر ایسی خطاؤں کو صرف علمائے دین سے جوڑ دینا بھی غلط ہے۔ ایک شاذ قول یا واقعہ کو اجتماعی رویہ اور اصول کلیہ قرار دینا بجائے خود غیر
سائنسی رویہ ہے، جو ان اصحاب کو تو بالکل نہیں جچتا جو واضح حقائق کو نظر انداز کرتے ہوئے سائنسی حجت کا مقدمہ لڑتے پھرتے ہیں۔
اور اگر بالفرض ٹیلی ویژن کی دیندار حلقوں کی جانب سے مخالفت کی بھی گئی تھی تو یہ کسی مشینی ایجاد کی مخالفت نہیں تھی، بلکہ اس کے ممکنہ تہذیبی اثرات تھے جنہیں وہ وقت سے پہلے دیکھ رہے تھے۔
آج اکیسویں صدی میں ٹیلی ویژن کے مضر اثرات بذات خود ایک حقیقت ہیں اور پچھلے دو عشروں میں ان پر متعدد نوعیت کا تخلیقی کام ہوا ہے، جو ہمیں بتاتا ہے کہ اس سے یادداشت کند ہو جاتی ہے، عرصہ توجہ مختصر ہو جاتا ہے، تحریر پڑھنے میں تکلیف ہوتی ہے اور مسلسل بیٹھنے سے جسمانی ساخت میں بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے۔ مارشل میکلوہن (Marshall McLuhan) کے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے متعلق مطالعے اپنی تخلیقی جدت اور گہرائی کے حوالے سے غیر متنازع ہیں۔ وہ جب ٹیلی ویژن کو "ابولہ و بے مغز (idiot) باکس" کا نام دیتا ہے تو بالکل حیرت نہیں ہوتی۔
اسی طرح یہ باور کرنا اور کراتے رہنا کہ ہماری ساری کوتاہیاں اور کمزوریاں محض ان علما کی وجہ سے ہیں ایک سنگین غلط بیانی ہے۔ مثلاً اس کا تو یہ مطلب بنتا ہے کہ پاکستان پر یہی علمائے دین حضرات حکمران رہے ہیں، ہماری سول سروس کو یہی بزرگ چلا رہے ہیں، ہمارے تعلیمی ادارے انہی کے ہاتھوں میں ہیں اور آزادی کے بعد کے چھ عشروں کے دوران ہماری قومی پالیسیاں یہی علما طے کرتے رہے ہیں۔ یہ جو آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے، کیا اس کے ذمہ دار یہی مولوی حضرات ہیں؟ ایسا اخذ کردہ نتیجہ قطعاً غیر سائنسی ہوگا۔ بالخصوص جب یہ رویہ ان لوگوں کا
نزدیک مغربی تہذیب کا اولین جزو ہے۔ بقول اس کے جدیدیت بذات خود کوئی شے نہیں، بلکہ اس کے نزدیک یہ اس وقت وجود میں آتی ہے جب مغربی تہذیب کے چاروں عناصر باہم مربوط ہوتے ہیں۔ بالفاظ دیگر جدیدیت مذکورہ چار بنیادی عناصر سے مرکب ہے۔
جدیدیت کا جو نسخہ ہنٹنگٹن نے تجویز کیا ہے اسلام کے لیے اس میں کوئی مسئلہ نہیں۔ کیونکہ عیسائیت کا عقیدہ تثلیث اگر بیچ میں سے نکال دیں تو باقی تصورات اور موضوعات سے اسلام کا ٹکراؤ نہیں ہے۔ مثلاً تکثیریت جسے جدیدیت کی اختراع قرار دیا جاتا ہے، اپنی اصل میں قدیم ہے۔ مسلمانوں کی عالمگیر اسلامی ریاست میں یہودی اور عیسائی ساتھ ساتھ رہتے تھے اور اپنے دائرہ عقائد اور ثقافت پر عمل کرتے تھے، تینوں کے دنیا کے بارے میں رویے بھی مختلف تھے، اس کے باوجود کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ مسلمانوں نے بالعموم بطور پالیسی اپنی اقلیتوں پر عرصہ حیات تنگ کیا ہو۔ اس کی وجہ خود قرآنی تعلیمات اور نبی اکرم کا اسوہ حسنہ تھا۔ اس لیے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اسلام اور مسلمانوں کے لیے تکثیریت کوئی نئی حقیقت یا فکر نہیں۔
اگر جدیدیت سے مراد جدت پسندی اور نئے تخلیقی افق ہیں یا اس سے مراد حسن کارکردگی ہے، جس سے معاشرہ کی پیداواری صلاحیت بڑھے، یا یہ کہ جدیدیت سے مراد انتظام و انصرام کے وہ مختلف النوع نظام ہیں کہ جن سے یہ اہداف حاصل ہو سکیں تو پھر اسلام کو اس سے کوئی ضد نہیں۔ اسی طرح جدیدیت اگر سائنس کو افزودگی اور نمو کا انجن سمجھتی ہے یا خالص عقلیت کا تقاضا کرتی ہے تو اسلام کو یہ بھی قبول ہے۔ شرط صرف ایک ہے کہ جدیدیت اس الہامی دائرے کے اندر رہ کر یہ ساری تگ و تاز کرے، جس کا احترام ایک مسلمان معاشرہ لازمی قرار دیتا ہے۔
لیکن اسلام جدیدیت کے بے مہار اسراف و تبذیر کو، یا ایسی حدود نا آشنا انفرادیت کو جو سوسائٹی کی ترجیحات سے اغماض برتتی ہے، قبول کرنے پر آمادہ نہیں۔ اسی طرح سوقیانہ بازاری پن اور
بہیمانہ نفس پرستی کی علم بردار مغربی تاجرانہ ثقافت کو بھی اسلام ناقابل برداشت سمجھتا ہے۔ اب کسی کا دل چاہے تو اسے "تنگ نظری" کہہ لے یا "عقل پرستی" سے اجتناب، مسلمان معاشرہ میں یہ ناہنجار جدیدیت بالکل بار نہیں پاتی، اس لیے مردود ہے۔
باب ۵: دانشوری یا تخریب کاری؟
دانشوری یا تخریب کاری؟
دنیا میں شاید ہی کوئی ایسی حکومت یا ایسا میڈیا ہو جو اپنے ہی ملک کے خلاف ایسی تحریروں کی اجازت دیتا ہو جن میں اس کی بربادی اور نابودی کا ذکر ہو، اور یہ سب کچھ آزادی رائے کے نام پر ہضم کیا جاتا ہو۔ ہماری بد نصیبی دیکھیں، پاکستانی میڈیا کو یہ استثنیٰ حاصل ہے۔
ان جملوں کا پس منظر وہ مضمون ہے، جسے ڈاکٹر منظور احمد (ریکٹر انٹرنیشنل اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد) کے حوالے سے روزنامہ پاکستان اور روزنامہ نوائے وقت نے شائع کیا۔ یہ مضمون کیوں شائع کیا گیا، بجائے خود میڈیا پر ایک تبصرہ ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہمارے حکومتی اور صحافتی ادارے اس شعور سے عاری دکھائی دیتے ہیں کہ وہ کسی تحریر کو پرکھ سکیں کہ اس میں کون سے نفسیاتی اور عمرانی پہلو ایسے ہیں جو تخریبی مضمرات لیے ہوئے ہیں۔ یہ مسئلہ اس لحاظ سے بھی افسوس ناک ہے کہ ہماری صحافت کے نزدیک تخریب کاری صرف بم دھماکوں تک محدود ہے اور وہ یہ فہم نہیں رکھتی کہ بعض تحریریں جن کا ہدف انسانی ذہن ہوتا ہے کہیں زیادہ تخریبی ہو سکتی ہیں۔ ایسی تحریریں ذرائع ابلاغ کو اپنے منفی مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہیں۔
اظہار ابلاغ پر بے جا قدغن یقیناً ناپسندیدہ عمل ہے، مگر ملکی سلامتی کے اپنے اصول ہیں۔ اسی طرح کچھ دستوری تقاضے بھی ہیں جن سے انحراف کسی ادارے یا شہری کو زیب نہیں دیتا۔ دستور پاکستان کی شق ۲ - الف ان تمام امور کا احاطہ کرتی ہے جن کا احترام اور ان پر عمل وطن عزیز کو فکری انتشار سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔ یہ ایک معروف اور معروضی میزان ہے۔ اسی طرح اس سے متعلقہ قوانین جیسے قانون فوجداری دفعہ ۱۲۳ ہے، جس میں وضاحت سے مذکور ہے کہ جو شخص اپنی تحریر یا گفتگو سے یا ایسی علامات یا بصری مظاہر سے، جن سے پاکستان کی تشکیل بذریعہ تقسیم (ہند) کی مذمت ہو .... اسے دس سال قید با مشقت مع جرمانہ سزا دی جائے گی۔
اب یہ تو بڑی ستم ظریفی ہے کہ ایک شخص پاکستان کی خدمت کرے، اس کی تشکیل کو غلط کہے یعنی اس کی وجہ قیام اور مقصد وجود میں خرابی بسیار دیکھے۔ وہ اسے آزادی فکر کے نام پر تختہ مشق بنائے، اور پاکستان کے دو موقر جریدے اسے اس لیے شائع کر دیں کہ اس تخریبی فکر پر بحث کی جائے، کچھ مناسب نہیں لگا۔
آزادی رائے کیا ہوتی ہے اس کی حدود کیا ہیں؟ کیا فرد کی آزادی رائے کسی قوم کی حیات و بقا سے افضل ہے؟ یہ وہ موضوعات ہیں جو الگ بحث کے متقاضی ہیں۔ اس جواب دعوئی میں، میں صرف ان مقدمات پر گفتگو کروں گا، جو ڈاکٹر منظور احمد نے اپنے مضمون میں قائم کیے ہیں۔ موضوعات کے نکات درج ذیل ہیں:
- پاکستان نیا نام ہے۔ تاحال یہ ایک خارجی تصور ہے جو ہمارے تشخص کی علامت نہیں بن سکا۔
- پاکستان نہ بنتا تو اچھا تھا۔
لادین ذہن کا مسئلہ
اس سے پیشتر کہ میں مقدمے کے پہلے اور دوسرے نکتے سے متعلق گفتگو کروں، اگر میں ڈاکٹر منظور احمد کے خیالات سے ان کی شخصیت اور فکر کا خاکہ بناؤں وہ مجھے لازماً سیکولروں کے اس قبیلے سے متعلق دکھائی دیتے ہیں جو پاکستان کے وجود کو نہیں چاہتے، خاص کر ایسے پاکستان کو جو اپنی تاریخ، وجہ تسمیہ اور دستوری اعتبار سے اسلام کے اجتماعی نظام زندگی سے گندھا ہوا ہے۔ اسی لیے وہ ہندوستان میں اقلیت بن کر رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ اس لحاظ سے بھی افسوس ناک ہے کہ چھ عشرے گزرنے کے بعد بھی، اس ملک سے تمام تر فوائد سمیٹنے کے باوجود وہ وطن عزیز کو ہندوستان کی گود میں دھکیلنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے اس ضمن میں جتنے بھی مقدمات قائم کیے ہیں، وہ اسی فکر کی تعبیر ہیں۔ میں انہیں لادین (سیکولر) کیوں کہتا ہوں؟ اس لیے کہ ان کی فکر میں وطن یا تو محض جغرافیے کا نام ہے یا پھر کسی زبان و نسل سے ممکن ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسا وطن جسے خود اسلام نے تخلیق کیا ہو، جس کا جذبہ محرک اسلامی قومیت ہو اور جو اس علاقے میں مسلمانوں کے کم و بیش ایک ہزار سالہ دور کے زندہ تجربے کا مظہر ہو، ان کے نزدیک ناقابلِ قبول ہے۔
وہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پیروی میں شخصی آزادی اور قوت فیصلہ ختم ہو جاتی ہے۔ بالفاظِ دیگر سچائی کیا ہے اور جھوٹ کیا ہے، اس کا اختیار تعین انسان کی ذات ہے نہ کہ خدا کا حکم۔ یہ بات کہتے ہوئے وہ بھول جاتے ہیں کہ انسانی زندگی کی تعمیر میں آفاقی قدریں، تاریخ اور روایات ہوا کرتی ہیں۔ خود معاشرہ اس وقت وجود میں آتا ہے جب افراد اپنی ذاتی پسند و ناپسند کو معاشرے کے تابع کر دیتے ہیں۔ آخر زندگی کوئی انگریزی ناول تو نہیں ہے کہ جس میں ناول نویس اپنے ذہن میں ایک دنیا تخلیق کرتا ہے اور اپنے کرداروں کے ذریعے سے اپنی دنیا کا اثبات کرتا ہے۔ ایسی تخیلاتی دنیا میں ذاتی اقدار ہی اہم ہوتی ہیں۔ غالباً موصوف اسے انگریزی ناول سمجھتے ہیں۔
سچائی کیا ہے اور جھوٹ کیا ہے کا جواب اگر اللہ تعالیٰ کی ذات کے بجائے انسان خود دینے لگے، یعنی فلسفہ اضافیت (relativism) قرآن کی جگہ لے لے، تو اس کا لازمی انجام اخلاقی بحران اور انتشار ہوگا۔ جس انداز سے خود مغرب میں اس موضوع پر بات ہو رہی ہے، اس سے صاف دکھائی دے رہا ہے کہ وہ معروضی قدروں کے بغیر معاشرتی حرکیات پر کنٹرول کھو چکے ہیں۔ اور اب وہ یہ محسوس کرتے ہیں کہ وہاں انفرادیت تو بلا شبہ ہے، لیکن اجتماعیت نہیں رہی۔ انہیں یہ تسلیم کرنے میں کوئی تامل نہیں کہ مغرب ایک سنگین اخلاقی بحران میں مبتلا ہے۔
قرآن کی بنیادی اصطلاحیں استعارہ نہیں
ڈاکٹر موصوف کی یہ سوچ بھی واضح ہے کہ وہ انسان کو اللہ تعالیٰ کا نائب ہونا غلط سمجھتے ہیں۔ اس طرح وہ خدا کو تکوینی اختیار (بحیثیت خالق، مقتدر اور قانون دہندہ) دینے کو تیار نہیں۔ وہ نیابتِ الٰہیہ کو محض ایک استعارہ سمجھتے ہیں، نہ کہ بالفعل کوئی چیز۔ اب یہ بڑی ستم ظریفی ہے کہ وہ خود تو اجتہاد کے نہ ہونے پر سینہ کوبی کرتے نظر آتے ہیں، مگر خود انہوں نے اجتہاد کا جو نمونہ پیش کیا ہے اہلِ علم کو تو چھوڑیں ایک عام تعلیم یافتہ انسان بھی شاید اسے قبول کرنے پر تیار نہ ہو۔ ایک ایسی کتاب جو زندگی سے متعلق ہو اس کے مرکزی موضوعات استعارہ نہیں ہوا کرتے، خاص کر وہ کتاب جو ہدایتِ الٰہی ہو۔ ڈاکٹر موصوف جیسے سیکولر افراد، دن رات انسان اور انسانیت (humanism) کی بات کرتے ہیں، لیکن ساتھ ہی وہ انسان کو اس شرف سے محروم کرنے پر تلے ہوئے ہیں کہ وہ خدا کی تخلیق ہے اور اسے نیابتِ الٰہیہ حاصل ہے۔
نہیں جناب! خلیفۃ الارض کی اصطلاح اپنے اندر ایک بنیادی حقیقت سموئے ہوئے ہے، جس کا تعین خود قرآن ہی نے کیا ہے۔ مثلاً یہ کہ انسان کسی حیوان کی اولاد نہیں، بلکہ وہ خدا کی تخلیق ہے اور اس طرح اگر اسے سلامتی، عدل اور خوف سے مبرا زندگی کی ضرورت ہے تو پھر خدا کی ہدایات پر زندگی گزارے۔ اس کے لیے خدا نے انسان کو مکلف کر دیا ہے کہ وہ دنیا کے وسائل کو ایک پاکیزہ تمدن کی تعمیر میں استعمال کرے، تاکہ زندگی اپنے تمام رنگوں کے ساتھ بندگی رب میں ڈھل جائے۔ ظاہر ہے اس قسم کے تصورِ انسان اور تصویرِ زندگی میں سیکولر ازم کی گنجائش نہیں رہتی، اور یہی چیز موصوف کو پریشان کیے ہوئے ہے۔ چونکہ موصوف عقیدے کے اعتبار سے سیکولر ہیں اور انسان کو ہر پابندی سے آزاد اور خود مختار سمجھتے ہیں، اس لیے ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ نیابتِ الٰہیہ جیسے مرکزی قرآنی موضوع کو استعارہ سے زیادہ اہمیت نہ دیں۔
مزید براں ستم ظریفی دیکھیں کہ ایک طرف تو وہ علماء کے فتاویٰ سے سخت بیزار ہیں، کیونکہ ان کے خیال میں ایک پابند زندگی سے انسان اپنے نفس کا پورا اظہار نہیں کر پاتا، اور اس طرح جو لذت ذہنی آوارگی اور بے راہ روی سے مل سکتی ہے، وہ ممکن نہیں ہو پاتی۔ لیکن خود موصوف فتوئی دینے پر تلے ہوئے ہیں، بلکہ بیشتر سیکولر حضرات دن رات اس عملِ فتویٰ نویسی میں مصروف ہیں۔ ان کے نزدیک جو مے بھی جدید سیکولرازم کے کھونٹے پر نہیں ٹکتی وہ بیکار اور فرسودہ ہے۔ موصوف تو ایک قدم بڑھ کر خود قرآن پر ہاتھ صاف کر رہے ہیں۔ مولوی حضرات کے فتاویٰ غلط ہو سکتے ہیں، ان کا استخراج بھی ناقص ہو سکتا ہے، شاید موجودہ زمانے کے حوالے سے ان کا علم بھی کمزور ہو سکتا ہے۔ اس سب کچھ کے باوجود، ان میں بہر حال یہ دیانت داری موجود ہے کہ وہ اپنے فتاویٰ کی بنیاد ضرور بتائیں گے۔ مگر دوسری طرف ڈاکٹر موصوف یہ بتانے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے کہ جب وہ خلیفہ الارض اور استخلاف فی الارض جیسے مرکزی موضوعات کو استعارہ سمجھتے ہیں تو اس کی بنیاد کیا ہے؟ کیا یہ اطلاع انہیں قرآن و سنت سے ملی ہے یا کسی باطنی علم سے؟ انسان میں کچھ تو عجز ہونا چاہیے کہ وہ اپنے منہ سے نکلی کسی بات کو ظن تک ہی رکھے اور فتوے نہ دے۔ ممکن ہے اتنی رعونت آمروں کو زیب دیتی ہو، مگر اہلِ علم کا یہ شیوہ نہیں۔
اسلامی تہذیب بیسویں صدی کی ایجاد نہیں
ان کی اسی فکر کا نتیجہ ہے کہ وہ اسلام کو نہ تو وجہ اتحاد سمجھتے ہیں اور نہ تہذیبی اکائی تصور کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں اسلامی تہذیبی اکائی کا تصور بیسویں صدی کی ایجاد ہے، جسے غالباً اسلامیانِ پاکستان نے ۱۹۴۷ء کے بعد وضع کیا ہو۔ اب اس سے بڑی زیادتی اور کیا ہوگی کہ لا تعداد کتابوں میں خود مغربی مصنفین اسلامی تہذیب کو عالمِ انسانیت کی ممتاز ترین تہذیبوں میں ایک تہذیب تسلیم کرتے ہیں۔ وہ برملا اس کی ان مخصوص خصوصیات کا بھی ذکر کرتے ہیں، جو اسے دوسری تہذیبوں سے ممیز کرتی ہیں۔ یہ تہذیب اپنی وسعت اور رنگارنگی کے باوجود ہر مسلمان ملک میں یکساں ہے۔ اس میں بلاشبہ مقامی رنگ ہیں جو ہونے بھی چاہئیں، کیونکہ ایک بڑی تہذیب اسی وقت وجود میں آتی ہے، جب وہ مقامی رنگوں کو اپنے اندر سمونے اور ساتھ ہی ان پر اپنی چھاپ لگانے کی صلاحیت رکھتی ہو، تاکہ وہ کل کا حصہ بھی بنیں اور ان کی انفرادیت بھی برقرار رہے۔
میں بیسویں صدی کے ممتاز مورخ ٹائن بی کی A Study of History اور ول ڈیورنٹ کی The Story of Civilization سے حوالہ جات دے کر مضمون کو بوجھل نہیں بنانا چاہتا، البتہ خود قائد اعظم محمد علی جناح کے حوالے سے بات کرنا چاہوں گا۔
قائد اعظم نے مارچ ۱۹۴۰ء میں اپنی صدارتی تقریر میں لندن ٹائمز کا حوالہ دیا تھا، جس میں یہ کہا گیا تھا کہ: "بلاشبہ ہندوؤں اور مسلمانوں میں فرق محض (انفرادی) مذہب کا نہیں بلکہ یہ قانون اور ثقافت کا بھی ہے جس کی وجہ سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ دونوں دو مخصوص اور مختلف تہذیبیں ہیں۔ اس کے باوجود آنے والے زمانے میں یہ توہمات ختم ہو جائیں گے اور انڈیا ایک قوم میں ڈھل جائے گا۔" میں یہاں انگریزی کے اصل الفاظ بھی پیش کیے دیتا ہوں، تاکہ کوئی ابہام نہ رہے۔ لندن ٹائمز کا یہ تبصرہ گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ ۱۹۳۵ء کے حوالے سے تھا:
Undoubtedly the difference between the Hindus and Muslims is not of religion in the strict sense of the word, but also of law and culture that they may be said indeed to represent two entirely distinct and separate civilisations. However, in the course of time the superstitions will die out and India will be moulded into a single nation.
قطع نظر اس کے کہ لندن ٹائمز ہمارے دیسی سیکولروں کی طرح ہندوؤں اور مسلمانوں میں انتہائی گہرے اختلافات کو تسلیم کرنے کے باوجود بھی اپنی استعماری رجائیت میں اُمید رکھتا ہے کہ دونوں بالآخر ایک ہو جائیں گے۔ انگریزی کے اس حوالے میں لفظ "civilisation" غور طلب ہے۔ مسلمانوں کی علیحدہ تہذیب کا وجود اور تشخص کوئی کل ہند مسلم لیگ کی تخلیق کردہ اصطلاح نہیں جو اچانک بیسویں صدی میں منصہ شہود پر آگئی تھی، بلکہ غیر بھی ۱۹۳۰ء کے عشرے میں اسلامی تہذیب کے تشخص کے بارے میں یہی سوچ رکھتے تھے۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے قائد اعظم نے کیا خوب کہا تھا:
(So according to the London Times, the only difficulties are superstitions). These fundamental and deeprooted differences, spiritual, economic, cultural and political, have been euphemised as mere 'superstitions'. But surely, it is a flagrant disregard of the past history of the Sub-continent of India as well as the fundamental Islamic conceptions of society.....
لہٰذا لندن ٹائمز کی سوچ کے مطابق واحد مشکلات (ہندو مسلم تعلقات میں) توہمات ہیں۔ یہ ان اساسی اور گہرے اختلافات کو جو روحانی، معاشی، ثقافتی اور سیاسیات پر محیط ہیں انہیں سہل زبان میں محض توہمات قرار دینا (عجیب بات ہے)، جو بلاشبہ نہ صرف برصغیر کی تاریخ سے بلکہ بنیادی اسلامی نظریہ معاشرت سے بھی صریح زیادتی ہے۔
پاکستان ایک دینی اور تاریخی تقاضا
ڈاکٹر منظور صاحب کو مسلم لیگ کی ۱۹۳۲ء سے ۱۹۴۲ء تک کی قراردادوں میں اسلامی مملکت کا ذکر نہیں ملتا۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ ایسی بیشتر قراردادوں کا ایک مخصوص پس منظر ہے، جو زیادہ تر دستوری ترامیم سے متعلق ہیں جن کے مخاطب انگریز اور ہندو ہیں۔ مسلم لیگ کے پرچم تلے تحریک پاکستان کی بنیاد محض یہ قراردادیں نہیں۔ اس کا ایک مزاج ہے، تحرک ہے اور اس کے قائدین کے بیانات ہیں۔ ایک اچھا سکالر ان سب کو ملا کر دیکھتا ہے اور فیصلہ کرتا ہے۔ چونکہ موصوف تاریخ کو ایک مخصوص رنگ میں دیکھنا چاہتے ہیں، اسی لیے انہیں تحریک پاکستان میں اسلامی مملکت کا سراغ نہیں ملتا۔ لیکن مغربی مورخین اور سوچنے سمجھنے والے دانشوروں کو مسلم لیگ کی قومی تحریک میں اسلامی مملکت ملتی ہے۔
ایک پاکستانی (؟) سیکولر کی سوچ اور فکری استخراج میں، اور ایک مغربی ذہن کی نتیجہ اخذ کرنے کی صلاحیت میں اتنا ہی فرق ہے جتنا عدم دیانت اور دیانت میں ہے۔ مثال کے طور پر پروفیسر ولفریڈ کینٹ ویل سمتھ اپنی مشہور کتاب Islam in Modern History میں کھلے دل سے اعتراف کرتا ہے کہ قیام پاکستان مسلمانوں کے مذہبی وجود کا مرہونِ منت ہے۔ پروفیسر سمتھ کہتا ہے کہ نظریاتی اعتبار سے یہ کوئی علاقائی، معاشی، لسانی اکائی نہ تھی، بلکہ یہ کوئی وطنی قومیت بھی نہ تھی کہ جو ریاست کی متلاشی تھی، یقیناً یہ ایک مذہبی قوم تھی۔ سمتھ یہ کہنے کے بعد یہاں تک کہہ جاتا ہے کہ ہندوستان میں اسلامی ریاست کے لیے جدوجہد اپنی اصل کے اعتبار سے کوئی عملیاتی نتیجہ نہ تھا جس کی بناء پر ایک ریاست اسلامی ریاست بننا چاہتی تھی، بلکہ یہ ایک ایسی تحریک تھی جس کے ذریعے اسلام ریاست کا طالب تھا۔
Ideologically it was not a territorial or an economic or a linguistic or even strictly a national community that was seeking a state, but a religious community. The drive for an Islamic state in India was in origin not a process by which a state sought Islamicness but one by which Islam sought a state.
پروفیسر سمتھ نے یہ نتیجہ کیسے اخذ کر لیا، کیا یہ خود ساختہ خیال تھا؟ سمتھ چونکہ محقق ہے، وہ کسی پروپیگنڈے کا شکار بھی نہیں کہا جا سکتا۔ اس کے سامنے تحریک پاکستان، اس کے قائدین کے بیانات، عوام کی جذباتی کیفیات اور اس علاقے میں مسلمانوں کی تاریخ تھی۔ تحریک پاکستان کے دنوں میں وہ اسی علاقے میں موجود تھا، پھر خود قائد اعظم کی کم و بیش ایک سو سے زیادہ ایسی تقاریر موجود ہیں، جن میں انہوں نے اسلامی نظام اور اسلامی قانون کی بات کی ہے۔ کیا اسلامی قانون کے نفاذ سے کوئی ریاست اسلامی رنگ اختیار نہیں کرتی؟ میں یہاں اس ذہنی پراگندگی کو جو سیکولر طبقوں نے ہی پھیلائی ہے کہ اسلامی قانون محض سزائیں ہیں کو دور کرنا چاہتا ہوں۔ سزائیں تو لازماً ہیں، کیونکہ دنیا کے ہر قانون میں یہ سزائیں نظامِ عدل کا حصہ ہوتی ہیں، ان کے اطلاق سے ہی عدل کے قیام کے امکانات پیدا ہوتے ہیں اور قانونِ شریعت تو اپنی تمام تر وسعتوں اور جلال کے ساتھ عادلانہ نظام کو ممکن بناتا ہے۔ اس میں تقسیمِ وسائل کا عدل (distributive justice) ہے۔ معاشرتی عدل (social justice) بھی ہے اور سیاسی اور معاشی عدل (economopolitical justice) بھی۔
سیکولر حضرات کے لیے ایک اور بڑا مسئلہ اسلام میں قانون سازی کا اصول ہے، جو ان کی سیاسی دانش میں معاشرے کو سیکولر بنانے میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔
یہ لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ سزا محض تعزیر نہیں ہوتی، بلکہ اس سے مقصود اصلاحِ فرد اور معاشرتی قدروں کا اثبات ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر مسلمان معاشرہ زنا کو گناہ کبیرہ سمجھتا ہے تو اس کی وجہ عفت، حیا، پاکیزگی اور حسب نسب کی صداقت کو معاشرے میں فروغ دینا ہے۔ لہٰذا یہ ترجیحات کی بات ہے۔ ڈاکٹر موصوف اس بات پر مضطرب ہیں کہ اسلام میں قوانین یا تو متعین ہیں یا ان سے استخراج کیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے کسی مفسدہ کو ختم کرنے یا کسی اخلاقی قدر کو معاشرے میں قائم کرنے کے سلسلے میں مناسب قانون سازی کا حق انسانی اختیار میں نہیں رہا۔ بلکہ ان کے اپنے الفاظ میں خدائی نیت کے شارحین کے نام منتقل ہو گیا ہے۔
کیا ہی اچھا ہوتا اگر وہ اپنے قارئین کی ذہنی تربیت کے لیے اس اخلاقی قدر کا بھی ذکر کرتے جو وہ مسلمان معاشرے میں بذریعہ قانون پیوند کرنا چاہتے ہیں۔ مسلمانوں کو تو اتنا ہی اخلاق چاہیے جتنا خود قرآن اور اسوہ رسول میں بتایا گیا ہے۔ اس سے زیادہ اخلاق ہمارے معاشرے کے لیے مفسدہ ہے۔ اسی طرح کسی مفسدہ کو ختم کرنے کے لیے انہیں اختیار چاہیے تو اس کے لیے اسلامی قانون سازی میں بڑی وسعت ہے۔ امام غزالی نے اسلامی فکر اور مزاج سے استخراج کرتے ہوئے مصالح کا جو تصور دیا ہے، اس میں بڑی گنجائش ہے۔ اسی طرح قیاس بھی اسلامی قانون سازی میں ایسا معروف طریقہ ہے، جس سے کسی بھی مفسدہ کو دور کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود اگر اس سے ان کی مراد خود اسلام ہی وہ مفسدہ ہے، جس کا مٹانا انہیں بذریعہ قانون سازی مطلوب ہے، تو یہ اجازت انہیں ملنے سے رہی۔ اس کے لیے انہیں کروڑوں انسانوں کی گردنیں کاٹنی پڑیں گی۔ اسی طرح اسلامی قانون سازی میں انہیں اجتہاد سے بھی شکایت ہے۔ ان کے نزدیک ایسا اجتہاد جو صرف ضمنی تبدیلی تک ہی محدود ہو، بیکار شے ہے۔ موصوف کو ایسا اجتہاد چاہیے جس سے وہ لادینیت اور باطل نظاموں کی قدروں کی کاشت کر سکیں۔ جو آزادی ڈاکٹر منظور صاحب قانون سازی کے معاملے میں مانگتے ہیں وہ تو خود مغرب کی قانونی روایت میں نہیں ہے۔ وہاں "natural law" اساسی ہے، جس کے خلاف بالعموم قانون سازی نہیں ہو سکتی، اور یہاں ڈاکٹر موصوف خود قرآن کے خلاف قانون سازی کا حق، فکری آزادی کے نام پر مانگتے نظر آتے ہیں۔ ایسی دانش سے الامان!
کیا سیکولرزم اسلام کا مسئلہ نہیں؟
ڈاکٹر موصوف کا یہ کہنا کہ اسلام میں سیکولر ازم مسئلہ نہیں، یہ مسئلہ تھیوکریسی نے پیدا کیا ہے ایک عجیب و غریب بیان ہے جس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ موصوف باوجود سیکولر (لادین) ہونے کے سیکولرزم کے بارے میں اطلاع نہیں رکھتے، یا کسی وجہ سے دانستہ سیکولرزم کے مفہوم کا تعین نہیں کرنا چاہتے۔
ان کے اس مجہول بیان میں تین متضاد چیزیں ہیں: اسلام، سیکولرزم اور تھیوکریسی (پاپائیت)۔ چونکہ تینوں باہم متضاد ہیں اس لیے انہیں ملانے سے جھوٹ پیدا ہو گیا ہے۔ اگر وہ خود ہی اپنے قارئین کو یہ بتا دیتے کہ اسلام سے ان کی کیا مراد ہے اور سیکولرزم و پاپائیت کا کیا حدود اربعہ ہے تو شاید یہ اشکال پیدا نہ ہوتا۔
اسلام تو الہامی بنیادوں پر ایک نیا انسان بنانا چاہتا ہے، جس میں انسانی شخصیت کی تعمیر خدا کے وجود اور اثبات پر ہو، ایک ایسی تعمیر جو ذاتی نجات کے تصور سے بالا دنیا سے گریز کرتے ہوئے نہیں بلکہ اس کے اندر رہتے ہوئے کی جائے، تاکہ وہ تمدنی تقاضوں سے آشنا ہوتے ہوئے اس کی صورت گری کرے اور اپنے اور دوسروں کے لیے انسانی زندگی کو اخلاقی، روحانی اور مادی پہلوؤں سے آراستہ کر سکے۔ بالفاظِ دیگر اسلام کے نزدیک تعمیر نو کے چار پہلو ہیں:
- اول، فرد کی اصلاح، تاکہ وہ اپنے ذہنی، جذباتی اور اخلاقی امکانات کو بروئے کار لاتے ہوئے زندگی کا اثبات کرے۔
- دوئم، اسے معاشرہ سے منضبط کرے، تاکہ اس میں منفی انفرادیت پیدا نہ ہو اور وہ اجتماعیت کی خیر و فلاح سے مستفید ہو۔
- سوئم، معاشرہ کی تربیت کرے، تاکہ اس میں بوجہ ایمان و یقین نظم پیدا ہو، اور وہ اپنی اساسیات پر مضبوط کھڑا ہو سکے اور اس طرح وحدت کو ممکن بنائے۔
- چہارم، وہ قوانین فطرت سے آگاہی حاصل کرے یہ دیکھنے کے لیے کہ اللہ کی شریعت کائناتِ عالم میں کس طرح کار فرما ہے، اور اس کے وہ کون سے اسلوب ہیں کہ جن سے استفادہ کرتے ہوئے اسے انسانی معاشرہ اور تمدن کی تعمیر نو میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔
یہ ہے وہ چار جہتی ترقی، جو اسلام کو استخلاف فی الارض ممکن بنانے کے لیے انسان میں مطلوب ہے۔
کیا سیکولرزم بھی یہی کچھ چاہتا ہے؟ کیا زندگی کی تعمیر و تہذیب میں سیکولرزم الہامی ہدایت کو قبول کرلے گا؟ یہ وہ بنیادی سوالات ہیں جن کے جوابات اس بحث میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔
مجھے یہ سوالات نہ اٹھانے پڑتے اگر موصوف خود آگے بڑھ کر سیکولرزم کے مفہوم کا تعین کرتے، لیکن انہوں نے اس سے گریز کیا۔ اس لیے نہیں کہ وہ سیکولرزم کو جانتے نہیں، بلکہ اس لیے کہ پاکستانی سیکولر حضرات کا یہ مخمصہ ہے کہ وہ اس غیر اسلامی فکر اور منہجِ علم کو کس طرح مسلمان معاشرے میں پیش کریں، کہ اس کی واضح لادینیت کو چھپایا بھی جائے اور اس کے مقاصد کو آگے بڑھایا بھی جا سکے۔
ڈاکٹر منظور صاحب کا یہ کہنا کہ سیکولرزم اسلام کا مسئلہ نہیں یہ تھیوکریسی نے پیدا کیا ہے، اسی مخمصے کا اظہار ہے۔ سیکولر تعلیم نے کیسی کیسی تباہ کاریاں پھیلائیں، اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگائیں کہ غیر مسلم برنارڈ لیوئس (Bernard Lewis) جیسے محقق اور دانشور یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہیں کہ اسلام محض عقیدہ نہیں ہے، یہ تو ایک برتر شناخت اور وفا کا محور ہے، جو دیگر سب وفاداریوں پر محیط ہے۔ برنارڈ لیوئس کے الفاظ قابل غور ہیں:
Islam is not only a matter of faith and practice, it is for many an also an identity and loyalty—identity and loyalty that transcends all others. (The Crisis of Islam: Holy War and Unholy Terrorism)
مگر دوسری طرف ایک ایسا شخص ہے جو مسلمان معاشرے میں پیدا تو ہوا ہے، لیکن وہ اسلام کو اس کی اجتماعی شکل میں دیکھنے کے لیے تیار نہیں ہے، بلکہ اس کے برعکس وہ اسے محدود کرنے پر تلا ہوا ہے۔
تو وہ سیکولرزم کیا چیز ہے، جسے مسلمان عوام قبول کرنے کو تیار نہیں۔
سیکولرزم سے مراد وہ نظریہ حیات ہے جو صرف مادے کو حقیقت ازلی مانتا ہے، نہ کہ کسی ایسے خدا کو جو کائنات کا خالق و مالک ہو۔ جہاں بعض سیکولر حضرات خدا کے وجود کو مانتے ہیں، تو وہاں ان کی نظر میں اس کی حیثیت محض ایک ایسے رب کی ہے جو نہ ہادی ہے نہ مولا۔ جو دنیا اور اس کی مخلوقات کو تخلیق کر دینے کے بعد ان سے لاتعلق آسمانوں میں بیٹھا ہوا ہے اور یہ کائنات ایک خود کار مشین کی طرح بس چلتی جا رہی ہے۔
اسی طرح سیکولر حضرات کے نزدیک رسالت یا نبوت خود ساختہ ادارے ہیں، جن کی کوئی حقیقت نہیں۔ سزا و جزا اور یوم القیامہ انسانوں کو خوف زدہ کرنے کی ایک کوشش ہے اور جنت کی کوئی حقیقت نہیں۔ ان عقائد کا منطقی نتیجہ سیکولر حضرات کی یہ فکر ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پیغمبر اور رسول نہیں ہیں بلکہ محض مصلح (reformer) ہیں۔
سیکولرزم یہ بھی کہتا ہے کہ انسان کو کسی الہامی ہدایت کی ضرورت نہیں، بلکہ وہ فکر اور عمل کے میدانوں میں مکمل طور پر خود مختار ہے۔ وہ کسی ماورائے ہستی کے سامنے جواب دہ نہیں، انسانی عقل ہی وہ اصل میزان ہے جو کسی عمل اور سوچ کی صحت کا فیصلہ کر سکتی ہے۔
لہٰذا سیکولرزم تقاضا کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کی ہدایت کو اجتماعی معاملات سے دور رکھو۔ لوگ اگر نماز پڑھتے ہیں تو پڑھنے دو، باقی اپنے تمام تر معاملات کو چند لوگوں کی عقل پر چھوڑ دو اور جو وہ کہیں کرتے رہو۔ مثلاً فحاشی کیا ہے؟ اس کا فیصلہ فلم، ٹی وی، فیشن انڈسٹری اور بازار حسن سے وابستہ افراد کی عریاں دانش کرے گی۔ اسی طرح عورت مرد کے جنسی تعلقات کے حوالے سے کسی معاشرے یا مذہب کو کوئی اختیار نہیں کہ ان پر قدغن لگائیں۔ غرض خیر و شر کی جتنی بھی جہتیں ہیں اور حلال و حرام کی جتنی بھی اقسام ہیں، ان کے تعین کا حق اللہ تعالیٰ کو نہیں بلکہ افراد کی مرضی اور پسند پر موقوف ہے۔
اسی طرح ہماری روایات میں پاپائیت نام کی کوئی شے نہیں جو بالعموم تھیوکریسی سے پیدا ہوتی ہے۔ اس تصور کو ڈاکٹر موصوف درآمد کر رہے ہیں، جو اسلامی فکر سے متصادم ہے۔ عیسائیت بالخصوص رومن کیتھولک مذہب میں پوپ جو فیصلہ کرے وہ قانون ہے۔ اس کے لیے ضروری نہیں کہ وہ بائبل سے دلیل لائے، کیونکہ وہ خدائی مرضی اور منشاء کا راز دان سمجھا جاتا ہے۔ اس کے برعکس ہم مسلمانوں کے ہاں پوپ جیسی کوئی مقتدر ہستی وجود نہیں رکھتی کہ جس کے فیصلے عوام پر لازمِ اطاعت ہوں۔ اسلام میں تو دلیل قرآن اور سنت ہے۔ اگر کسی کی رائے کے پیچھے ان دو اساسی ماخذوں سے سند نہیں تو وہ لازمِ اتباع نہیں۔ اس لیے مسلمانوں کے اجتماعی ضمیر نے کبھی یہ گوارا نہیں کیا کہ وہ انفرادی فیصلوں کو خدائی فیصلے قرار دے یا کسی فرد کو خدائی نیت کا شارح قرار دے۔
یہاں اس مسئلہ کا یہ پہلو بھی پیش نظر رہے تو بہتر ہوگا کہ کسی رائے کا اظہار بذات خود اس امر کی ضمانت نہیں کہ اسے قبول کر لیا جائے گا۔ یہ پاپائیت سے مخصوص ہے، اسلام میں یا مسلمانوں میں نہیں۔ ایک ہی مسئلہ پر ایک سے زائد آراء ہو سکتی ہیں اور کسی رائے کے اختیار کرنے کا فیصلہ عوام کی اکثریت ہی کر سکتی ہے۔ یا اگر وہ رائے کسی فرد کے لیے مخصوص ہے تو وہ خود فیصلہ کرے گا کہ وہ رائے صائب ہے یا نہیں۔ یہ کفر اور ایمان کا مسئلہ نہیں جو کہ پاپائیت میں تو بنے گا مگر اسلام میں ہرگز نہیں۔ اس کی وضاحت اس لیے بھی ضروری ہے کہ سیکولر حضرات اسلام کی مخالفت اور سیکولرزم کی حمایت میں منطق اور عقل دونوں کو پامال کرتے ہیں۔ مثلاً ڈاکٹر منظور صاحب سے بہتر موقف، جو انہوں نے اپنے تراشیدہ جملے میں پیش کیا ہے، ان سیکولر حضرات کا ہے جو عوام کو باور کراتے ہیں کہ سیکولرزم مذہب مخالف نہیں، وہ صرف ریاستی امور سے مذہب کو دور رکھنا چاہتا ہے۔
بظاہر یہ بیان ان لوگوں کو اپیل کرتا دکھائی دیتا ہے، جو نہ مذہب کو اچھی طرح جانتے ہیں اور نہ سیکولرزم کو جو اپنی اصل میں ایک دوسرے سے متصادم ہیں۔ مثلاً یہ پوچھا جا سکتا ہے کہ:
- اگر ایک مذہب اجتماعی امور سے لاتعلق نہ ہو اور ان کے لیے اپنے اندر ہدایت رکھتا ہے تو کیا آپ پھر بھی اسے اجتماعی اُمور سے دور رکھیں گے؟ اور اگر رکھیں گے تو کیوں؟
- اسی طرح یہ کہنا کہ ہم مذہب کے مخالف نہیں، تاہم اسے ریاستی امور سے دور رکھنا چاہتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مذہب ریاستی امور کی تنظیم و انصرام اور اصلاح کرنا چاہتا ہے، مگر آپ اسے روکنا چاہتے ہیں۔ اگر ایسی صورت ہے تو آپ کیوں روکنا چاہتے ہیں؟
- کیا اس لیے کہ آپ کی نظر میں یہ فرسودہ ہے؟
- کیا موجودہ دور میں یہ قابل اطلاق نہیں؟
- کیا اس میں ایسا طریقہ اصلاح اور تبدیلی نہیں جو نئے مسائل سے نبٹ سکے؟
- کیا تعبیر، اطلاق، تمدنی تقاضوں اور علم کے نئے آفاق کی جستجو میں یہ عقل کے خلاف ہے؟
- کیا اس میں ریاستی اور اجتماعی امورِ زندگی کے لیے ہدایت موجود نہیں ہے؟
ان پانچوں صورتوں میں سیکولر حضرات اسلام کے حقِ ہدایت کے مخالف ہیں۔ وہ اپنی تحریروں میں اسلام کو قرونِ وسطیٰ کی پیداوار سمجھتے ہیں، جو شاید اس دور میں تو قابل قبول تھا مگر اب نہیں، اور جو لوگ اسلام کی بات کرتے ہیں انہیں وہ طنزیہ "جذباتی" کہہ کر خاموش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ سب کچھ کہنے کے باوجود جب انہیں احساس ہوتا ہے کہ شاید عوام الناس اسے ہضم نہیں کر پائیں گے تو وہ اس واضح تضاد کو نگل لیتے ہیں اور کہتے ہیں: "ہم اسلام مخالف نہیں ہم تو پاپائیت کے خلاف ہیں۔" ڈاکٹر موصوف نے یہی کچھ کہا ہے۔ ظاہر ہے ایسا استدلال تو عوام کو چوسنی دینے والی بات ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس مجازی گفتگو میں لفظ پاپائیت کے پیچھے قرآن پر چوٹ کرنا مطلوب ہوتا ہے۔
ڈاکٹر موصوف کے اس سارے مقدمے پر بحث کرنے کے بعد یہ پوچھا جا سکتا ہے کہ اگر مذہب کو دنیاوی معاملات سے لاتعلق رکھ کر محض انسان نے ہی فیصلے کرنے ہیں، تو پھر مسلمان بھلا اس ہدایت کے ساتھ کیا معاملہ کریں گے کہ جسے وہ الہامی سمجھتے ہوئے قبول کرتے ہیں۔ اس کا منطقی نتیجہ تو پھر اسلام کو ترک کرنا ہے۔ کیا یہی مطلوب ہے؟
پاکستان ہزار سالہ مسلم دورِ حکمرانی کی باقیات ہے
ڈاکٹر صاحب نے پاکستان کے بارے میں جو کچھ لکھا ہے، اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ۱۹۴۷ء سے قبل کی جغرافیائی پوزیشن پر جانا چاہتے ہیں۔ بالفاظِ دیگر وہ ہماری ہزار سالہ تاریخ کے پہیہ کو الٹا گھمانا چاہتے ہیں۔ انہیں شاید یہ بھی نہیں معلوم کہ ایسی صورت میں پورا علاقہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے عدم توازن کا شکار ہو جائے گا اور اس میں نقصان سب سے زیادہ ڈاکٹر موصوف کے اپنے پسندیدہ ہندوستان کا ہوگا۔ مسلمانانِ پاکستان اسے اندر سے پھاڑ دیں گے۔
مجھے شبہ ہے کہ ڈاکٹر موصوف اپنی اس تیشہ زنی کے مضمرات سے واقف نہیں اور یہ بہت بڑا ظلم ہے جو بعض سیکولر حضرات اس ملک عزیز سے کرنا چاہتے ہیں۔ مسلمانوں نے تاریخ کے مختلف ادوار میں ہندوؤں کے ساتھ کبھی قربت محسوس نہیں کی۔ وہ ہمیشہ ایک دوسرے سے دور دور رہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں تاریخ سے ایسی کوئی شہادت نہیں ملتی جس میں ہندوؤں اور مسلمانوں کی مشترکہ سوچ دکھائی دیتی ہو یا جہاں انہوں نے اپنے تہذیبی رویوں پر مفاہمت کی ہو۔ مجھے ان کی تحریر پڑھ کر یوں محسوس ہوتا ہے، جیسے وہ اپنی دانش کو نہ صرف علامہ محمد اقبال اور قائد اعظم محمد علی جناح بلکہ مسلمانوں کی اجتماعی دانش سے بھی برتر سمجھتے ہوں۔ یہ تکبر کی ایک اوچھی حرکت ہے، کیونکہ پاکستان مسلمانوں کی اجتماعی دانش کا مظہر ہے۔
جہاں تک وطن عزیز کے نئے نام کا تعلق ہے، یہ نیا ضرور ہے لیکن اس علاقے میں جسے ہم محبت سے پاکستان کہتے ہیں، مسلمانوں کا وجود نیا نہیں۔ اس کا باطن اتنا ہی قدیم ہے جتنا کہ سیدنا عثمان کے عہد میں صحابہ کرام کا بلوچستان آنا، مسلمانوں کا صدیوں سے اس علاقے میں قیام، ان کا تفوق اور اقتدار اس کے وجود کو تاریخی جواز دیتا ہے۔ سیاسی اور تہذیبی اعتبار سے موجودہ پاکستان اس علاقے میں ہمارے وجود کی علامت اور ہمارے ہزار سالہ دورِ اقتدار کی باقیات ہے۔
تشکیل پاکستان میں مسلمان دورِ حکمرانی ایک بڑا اہم محرک ہے، جسے بالعموم نظر انداز کر دیا جاتا ہے اور بات کو محض مسلمانوں کے کچھ معاشی یا سیاسی حقوق اور دو قومی نظریہ تک محدود کر دیا جاتا ہے، جیسے اس علاقے کے مسلمانوں کی تاریخ بیسویں صدی سے شروع ہوتی ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمان دورِ حکمرانی نہ ہوتا تو نہ ہمارا اسلامی تشخص برقرار رہتا، نہ ہم میں یہ طلب ہوتی کہ ہمارا جدا گانہ تشخص اور ہماری حیثیت بطور ایک آزاد قوم باقی رہے۔ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے بعد مسلمانوں کے سامنے یہ سوال شدت سے ابھر کر آیا کہ اگر وہ اپنی گزشتہ مسلم سلطنت کا پوری طرح احیاء نہیں کر سکتے، تو کسی نہ کسی طرح جزوی طور پر اسے بحال کر لیں۔ ایسی صورت میں وہ ایک نئے نام کے ساتھ ہی واپس آ سکتی تھی۔ یہ نام اتنا خوبصورت، اتنا با معنی تھا کہ جس نے سنا وہ جھوم اٹھا۔ "لے کے رہیں گے پاکستان" مسلمانوں کے دلوں کی آواز بن گئی۔ اس سے جذباتی وابستگی فی الفور پیدا ہوئی کہ اس کے پیچھے مسلمانوں کا تاریخی شعور تھا، جس کی ہیئت میں حکمرانی اور اقتدار کا تفاخر تھا، اس احساس کے ساتھ کہ اس سے ہماری ذات کا اثبات ہوتا ہے اور خود ہمارے وجود کو تکریم ملتی ہے۔ ڈاکٹر منظور احمد جیسے لوگ اگر اس روحانی اور قلبی واردات سے نہیں گزرے تو یہ ان کی بد قسمتی ہے۔ سیکولر حضرات کا یہی المیہ ہے کہ مسلسل نفی کے بعد ان کے حصے میں نفی کے سوا کچھ نہیں آتا۔
پھر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جب مسلمانوں کی وسیع و عریض سلطنت سمٹ کر موجودہ پاکستان کی جغرافیائی حدود میں متعین ہوئی، تو انہی علاقوں میں ہوئی جہاں مسلمانوں نے ساتویں اور آٹھویں صدی عیسوی میں اپنے قدم جمائے تھے اور جن کے اخلاق کریمہ اور اسلام کی عظمت کی بدولت مقامی آبادی بڑی تعداد میں اُمتِ مسلمہ کا حصہ بنی۔ اس طرح پاکستان کے قیام سے تقریباً گیارہ سو سال پہلے مسلمانوں نے اس علاقے کو جو پہلے بھی ہندوستان کا حصہ نہیں تھا، اس کی سرحدوں کا تعین پانی پت کے قریب ایک مقام پر کر دیا، جس کا نام انہوں نے سرہند رکھا، یعنی وہ سرحدی حد جو مسلمانوں کے علاقے کے تصرف و اختیار کو ہندوستان سے علیحدہ کر دے۔
وطن سے محبت بالعموم جغرافیائی نہیں ہوتی، یہ محبت اور جذبہ ان تصورات اور عقائد سے منسوب ہوتا ہے، جو کسی علاقے سے وابستہ ہوتے ہیں۔ یہ تصورات اور عقائد پاکستان میں رہنے بسنے والوں کی اسلام سے نسبت، مدینہ کی اسلامی ریاست سے گہری محبت، اور اس ولولہ انگیز تاریخ کا حصہ ہے، جس نے اس علاقے کو مسلمانوں کا گھر بنا دیا۔ ان حوالوں سے یہ گھر نیا نہیں قدیم ہے۔ اس میں وادی سندھ کی انفرادیت اور قدامت بھی ہے، جو اسے گنگا جمنا کی تہذیب سے جدا کرتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی وہ خودی اور ہستی کا شعور بھی ہے، جو صرف خود شناسی اور احترامِ ذات سے پیدا ہوتا ہے۔ پاکستان، اہلِ پاکستان کو اسی لیے عزیز ہے کہ یہ ان کے تاریخی وجود کی زندہ علامت ہے۔ یہ ان کے ایک آزاد حکمران قوم ہونے کا تسلسل ہے۔ بلاشبہ آج بنگلہ دیش، پاکستان سے الگ ہے، مگر اس نے اپنا وجود ہندوستان میں معدوم نہیں ہونے دیا، حالانکہ وہ جغرافیائی حوالے سے موجودہ پاکستان کے تہذیبی سرچشموں سے کہیں کمزور حوالے رکھتا ہے۔ اس کے باوجود وہ اپنی مسلم ریاست کو بھارت میں تحلیل کرنے کے لیے تیار نہیں۔ یہ بد قسمتی ہمارے ملک کے سیکولر دانشوروں کے حصے میں آئی ہے کہ انہیں اجنتا کے غاروں اور راجستھان کے مندروں سے ابلتا ہوا خود ساختہ سیکولرزم اچھا لگتا ہے۔
ڈاکٹر منظور احمد کا یہ کہنا کہ یہودیوں کی طرح اہل پاکستان جنوبی ایشیا میں جلا وطنی کے دکھ سے دوچار نہیں ہوئے، بظاہر درست بات ہے۔ مگر یہ احساس ضروری بھی نہیں کیونکہ محض اسی کے ہونے سے وطن کی محبت پیدا نہیں ہوا کرتی۔ آخر آج بھی یہودی، اسرائیل سے باہر رہ رہے ہیں، اور اسرائیل نہیں جانا چاہتے، باوجود اس امر کے کہ بعض جگہوں پر بالخصوص فرانس میں تو صیہونیوں نے خود یہودیوں کے گھروں اور ان کی عبادت گاہوں کو آگ لگائی، تا کہ وہ عدم تحفظ کے سبب فرانس چھوڑ کر اسرائیل جائیں۔ اس کے لیے بڑی بڑی رقوم مختص بھی کی گئیں اور آسائشوں کی ترغیب بھی دی گئی، مگر یہ ساری تگ و دو بالعموم ناکامی سے دوچار ہوئی۔ تو معلوم ہوا جلا وطنی (diaspora) میں رہنا اتنا بڑا المیہ نہیں ہوتا، اگر میزبان سرزمین ان کے لیے اپنے بازو وا کر دے۔ البتہ جلا وطنی سے زیادہ بڑا المیہ کسی قوم کا یہ احساس محرومی ہوتا ہے کہ اس سے اس کی عزت اور شرف چھین لیے جائیں، جو اسے بربنائے اقتدار اور تصرف حاصل تھے۔
مسلمانوں کے لیے کم و بیش ایک صدی سلطنت دہلی کے تخت سے دور رہنا اتنا بڑا المناک واقعہ تھا، جس کی تلافی دوبارہ حصول اقتدار سے ہی ہو سکتی تھی اور وہ پاکستان تھا۔
تو جناب! پاکستان تاریخ کا تسلسل ہے۔ یہ مسلمان دورِ حکمرانی کی باقیات ہے۔ یہ مسلمانوں کی اس خواہش کی تکمیل ہے کہ انہیں اقلیت نہ بنائیں، سیکولر ہندوستان کی چند عددی نشستوں کا انہیں پروانہ نہ دیں۔ انہیں گلی اختیار چاہیے تھا، تاکہ وہ اپنے مقدر کا فیصلہ خود کر سکیں۔ یہ اس لیے بھی ضروری تھا کہ مسلمان غلامی کے لیے اور جزوی مراعات کے لیے پیدا نہیں ہوا۔ وہ شریعت کے تحت اپنی زندگی گزارنا چاہتا ہے۔ موجودہ دور میں اسلامی نظام کی طرف جاتے ہوئے ہم سے تدبیر کی غلطیاں بھی ہوں گی، اغیار ہمارا راستہ بھی روکیں گے لیکن ہمیں کتنا ہی عرصہ کیوں نہ لگے، ہم اپنا راستہ خود بنائیں گے۔
اسلام سے وحدت پیدا ہوتی ہے
پاکستان سے پاکستانیوں کی وابستگی ڈاکٹر منظور صاحب کو نظر نہیں آتی۔ وہ علاقوں اور زبانوں سے تعلق کو دیکھتے ہیں۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اسلام سے وحدت پیدا نہیں ہوتی اور اس کے لیے مشرقی پاکستان کی مثال دیتے ہیں۔ حالانکہ اسے دھکے دے دے کر نکالنے والی یہی سیکولر مقتدرہ اور سیکولر دانش تھی، جس نے مشرقی پاکستانی بھائیوں کی توہین و تذلیل کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا۔ حیرت کی بات ہے کہ وطن عزیز میں رہتے ہوئے بھی انہیں عوام میں وہ وارفتگی نظر نہیں آتی کہ جب ہمارے کھلاڑی ہندوستان کو شکست دیتے ہیں، اور نہ انہیں ان کی دل گرفتگی ہی نظر آتی ہے، جب پاکستانی ٹیم کو شکست ہوتی ہے۔
تاہم یہ بات بھی درست ہے کہ وطن سے محبت میں مدوجزر آتے رہتے ہیں۔ یہ کسی لمحہ کم بھی ہو سکتی ہے اور یہ کوئی نرالی بات نہیں۔ دنیا کے ہر ملک میں ایسا ہوتا ہے، خود امریکہ جس کی فکری اور سائنسی فتوحات بے پناہ ہیں اور جہاں مادی خوشحالی بھی ہے، یہ گفتگو مجالس میں جاری رہتی ہے کہ امریکہ پستی اور بحران کا شکار ہے۔ ہمارے ہاں تو قومی جھنڈا جلانے کا شاذ ہی کوئی واقعہ پیش آیا ہو، لیکن امریکہ میں تو اکثر ہوتا رہتا ہے۔ حب الوطنی کی تحقیر کرنا اور وطن کے ذکر پر ناک بھوں چڑھانا پاکستانی سیکولر ازم اور لبرل ازم کی تعلیمات کا حصہ ہے۔ ثبوت میں انگریزی اخبارات سے ایسی کئی تحریریں پیش کی جا سکتی ہیں، جن میں وطن عزیز کو نہ صرف بُرا بھلا کہا گیا، بلکہ اسے ایک مصنوعی ریاست بھی قرار دیا گیا (دیکھیں ایک نامعلوم ماخذ)۔ اب اگر ایسی تحریروں کے اثرات کچھ لوگوں پر پڑ جائیں تو یہ کچھ عجب نہیں۔ بہر طور یہ سیکولر حضرات کی ناکامی ہے کہ اس سب کوشش کے باوجود اہل پاکستان کی غالب اکثریت اپنے وطن سے بے پناہ محبت کرتی ہے۔ کئی لوگ ایسے بھی ہیں جو حکومت اور وطن میں تمیز نہیں کر پاتے۔ اس لیے جب انہیں ٹوکیں تو وہ فوراً تصحیح کرتے ہیں کہ ہماری مذمت سے مراد حکومت ہے، نہ کہ پاکستان۔
ڈاکٹر منظور احمد مغرب میں بیٹھے پاکستانیوں کی وطن سے محبت کو بھی منفی انداز میں دیکھتے ہیں۔ اس کی وجہ انہیں ان کے داخل میں نظر نہیں آتی، بلکہ وہ اسے غیر اقوام میں رہنا قرار دیتے ہیں، جو ان کے خیال میں انہیں وحدت میں پروتی ہے۔ ان کا اس طرح سے سوچنا مارکسی فکر کا شاخسانہ ہے، جو خارجی اور مادی عوامل میں ہی انسانی طرز عمل کو دیکھتے ہیں۔ اور یہ بھول جاتے ہیں کہ وطن کی یاد (nostalgia) بھی اس کا باعث ہو سکتی ہے یا یہ کہ بیرون ملک ان کا قیام انہیں میزبان ملک سے اپنے وطن کا موازنہ کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے اور انہیں یہ احساس دلاتا ہے کہ آخر ہمارا ملک اتنا خراب نہیں جتنا ہم وہاں رہتے ہوئے اپنی کم فہمی کی وجہ سے محسوس کرتے تھے۔
تقابل اور موازنہ ہی صحیح ذہنی تناظر دیتے ہیں، جس طرح ہم اچھائی کو برائی اور دن کو رات کی ضد سے ہی پہچانتے ہیں۔ اسی طرح یاد وطن بھی تقابلی صورت حال میں آتی ہے اور یہ اسی صورت میں پیدا ہوتی ہے جب بیرون ملک انسان اپنے وطن سے دور اس سے وابستہ تصورات، احساسات اور قلبی و روحانی واردات کی گرفت کو اپنے اوپر محسوس کرتا ہے۔ اور وہ خیال ہی خیال میں اپنے وطن سے ہم کلام ہوتا ہے۔ اس لیے بیرون ملک پاکستانیوں کی اپنے وطن سے وابستگی اور محبت کو محض "غیر کی موجودگی" سے تعبیر کرنا علمی لحاظ سے درست نہیں، کیونکہ یہ صرف یک رخہ نتیجہ اخذ کرنے کی کوشش ہے۔
اسی طرح ہمارے سیکولر دانشور حضرات ایک ایسے پاکستان کو قبول کرنے کو تیار نہیں جس کے پیچھے مسلم قومیت کی کرشمہ سازی ہو۔ ان کے خیال میں جنوبی ایشیا میں ہندوؤں کی موجودگی مسلمانوں کی مختلف ثقافتی اور لسانی اکائیوں میں وحدت کا باعث بنی۔ اس لیے جب سامنے غیر نہ رہے تو یہ وحدت ٹوٹ گئی۔ مشرقی پاکستان کا علیحدہ ہونا بھی اسی وجہ سے تھا۔ وہ اس کو بنیاد بنا کر طعنہ دیتے ہیں کہ اگر اسلام میں اتنی قوت ہوتی تو پھر پاکستان ایک رہتا۔ لیکن وہ اس کی تعبیر نہیں کرتے کہ ۲۴ سال تک مشرقی پاکستان وفاق پاکستان کا حصہ کیوں کر رہا؟ یا یہ کہ موجودہ پاکستان اب تک کیوں وفاقی وحدت کی شکل میں برقرار ہے؟
جناب، یہ اسلام ہی کا اعجاز ہے کہ ابھی بھی یہ قوم اسلام کی متلاشی ہے۔ اتنی دیر پا مؤثر رہنے کی صلاحیت تو کسی نظام میں بھی نہیں کہ آپ نظام بھی نہ نافذ کریں اور وہ نظام صرف نام کی وجہ سے آپ کو اکٹھا رکھے۔ سیکولروں کو اس حقیقت کا اعتراف ہے۔ اسی لیے پاکستان کی وحدانی قوت کو پاش پاش کرنے میں لسانی اور علاقائی تعصبات ابھارنے میں ان کا واضح ہاتھ ہے۔ آج قومیتوں کی سیاست کون سے گروہ کر رہے ہیں؟ بنگلہ دیشی تحریک سے لے کر سندھو دیش، بلوچ قوم پرست تحریکیں، پختون شدت پسند، مہاجر ازم کے علم بردار اور خود پنجاب میں پنجابیت اور سرائیکیت کا فتنہ جگانے والے کون لوگ ہیں؟ کیا یہ دینی پس منظر کے حامل لوگ ہیں؟ ایک اندھا بھی دیکھ سکتا ہے کہ پاکستان کے ملی اور جغرافیائی وجود پر تیشہ زنی کرنے والے یہ تمام لادین گروہ جس قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں، اس کے عناصر ترکیبی لسانی قوم پرستی، بے دینی، ہندو دوستی اور اباحیت پسندی ہیں۔
پاکستان کی وحدت کی دشمن سیکولر قوتیں ہیں
یہ روشن خیال کسی قسم کی روشنی پھیلا رہے ہیں، اس سیکولر روشن خیال دیگ کے چند دانے چکھ کر آپ بھی دیکھ سکتے ہیں:
- ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے کہا: "جو ڈرامہ برصغیر میں ہوا وہ کہیں نہیں ہوا۔ دو قومی نظریہ دھوکا ہے۔" (روزنامہ نوائے وقت، ۲ نومبر ۲۰۰۴ء)
- الطاف حسین نے یہ بھی کہا: "اگر میں برصغیر کی تقسیم کے وقت ہوتا، تو مخالفت میں ووٹ دیتا۔" (ٹائمز آف انڈیا، ۵ نومبر ۲۰۰۴ء)
- سندھی عوامی تحریک کے صدر رسول بخش پلیجو نے کہا "یہ پاکستان غیر قانونی اور غیر آئینی ہے، اسے ختم ہونا چاہیے۔" (روزنامہ نوائے وقت، ۲ اکتوبر ۲۰۰۶ء)
- ورلڈ سندھی کانگریس کے نمائندے منور لغاری نے ہندوستان میں فرمایا: "پاکستان سے آزادی دلاؤ، مسئلہ کشمیر ختم ہو جائے گا۔" انہوں نے مزید فرمایا: "پاکستان ۷۰ فیصد وسائل سندھ سے حاصل کرتا ہے۔ سندھ کی آزادی سے پاکستان کو وسائل ملنا بند ہو جائیں گے۔" (روزنامہ امت، ۲۸ مارچ ۲۰۰۱ء)
- پیپلز پارٹی جسے "کی رنجیر" بھی کہا جاتا ہے، اس کے گجرات سے تعلق رکھنے والے لیڈر فخر زمان صاحب نے فرمایا: "پنجابی کی مخالفت کرنے والے کو کچل دیں گے۔" اس طعنے پر کہ وہ پنجاب کے الطاف حسین ہیں، فخر زمان نے کہا: "اگر کسی اہل زبان نے پنجابی کی مخالفت کی تو وہ سمجھ لے، وہ پنجاب میں نہیں رہے گا۔"
یہ لوگ غیروں کے کتنے پیارے ہیں، اس کا اندازہ بھارتی پنجاب کی سنگیت ناٹک اکیڈمی کی سریندر کور کے طرز بیان سے لگائیں:
فخر زمان کو ہماری پوری تائید حاصل ہے۔ (روزنامہ خبریں، ۱۶ اپریل ۲۰۰۱ء)
یعنی پاکستان میں جو سیکولر حضرات لسانی عصبیتوں کا فتنہ اٹھا رہے ہیں، اسے انڈیا کی پوری حمایت حاصل ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سیکولر یہ سب کچھ کیوں کر رہے ہیں؟ کیا اس طرز فکر سے کسی معاشرے میں وحدت پیدا ہوتی ہے؟ یا اس سے معاشرہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتا ہے؟ ظاہر ہے یہ سب کچھ اس لیے کیا جا رہا ہے کہ پاکستانی قوم کی اسلامی وحدت کو ختم کیا جائے، تاکہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔
اب یہ تو بڑی مضحکہ خیز بات ہے کہ آپ اسلام کے بارے میں کہیں کہ: "یہ کوئی قومی وحدت کا وسیلہ نہیں، کیونکہ یہ ناکام ہو گیا ہے" اور ساتھ ہی اس کی پیدا کردہ وحدت کو لسانی اور نسلی سیاست اور فکر کے ذریعے برباد بھی کریں۔
مسلم پاکستان اور سیکولروں میں یہ ٹکراؤ قدیم ہے۔ پاکستان میں دستور سازی کی تاریخ میں جو بیانات، قرارداد مقاصد کے حوالے سے ہندو نمائندوں نے پارلیمان میں دیے، انہی کی جگالی آج کے سیکولر حضرات کر رہے ہیں۔ پھر انہی سیکولروں نے قرارداد مقاصد کو آئین کا دیباچہ بنا دیا، تاکہ اس کا نفاذ نہ ہو سکے۔ جب اسے عوامی دباؤ کے پیش نظر صدر محمد ضیاء الحق نے قابلِ نفاذ شق بنایا تو سیکولر نے یہ کہہ کر کہ قرارداد مقاصد والی شق آئین کی دوسری شقوں کی طرح ہے یعنی سب شقیں برابر ہیں، اس کی اولیت اور اہمیت کی راہ کاٹ دی۔
ابھی تک سیکولر طبقے اپنے حربوں میں کامیاب ہیں، کیونکہ سول اور ملٹری بیورو کریسی ان کی پشت پناہ بنی ہوئی ہے۔ اب یہ کیسی دانش ہے کہ آپ اسلامی نظام کے نفاذ کی راہ کو تو خود روکیں اور پھر خود ہی یہ بھی کہتے جائیں کہ: "قائد اعظم کے ذہن میں کوئی اسلامی نقشہ نہیں تھا، اگر تھا تو کہاں گیا؟ ہمیں تو نظر نہیں آتا۔"
قائد اعظم نے کبھی یہ نہیں کہا کہ وہ قوم کو ایک خاص قسم کا اسلامی نظام دیں گے۔ بلکہ بہ تکرار یہ کہا کہ ہمیں پاکستان چاہیے، تاکہ ہم اسلام کی اجتماعی ہدایات کو رو بہ عمل لاسکیں۔ انہوں نے اپنی آخری تقریروں میں وطن عزیز کو ایک ایسی تجربہ گاہ قرار دیا جہاں اسلام کو موجودہ زمانہ میں رو بہ عمل لایا جا سکے اور انہوں نے یہ کام گورنر اسٹیٹ بنک زاہد حسین کے سپرد کیا کہ وہ معاشیات کو اسلامی خطوط پر ڈھالیں۔
جب کسی نے قائد اعظم سے پوچھا کہ وطن عزیز کا دستور کیا ہوگا؟ تو اس جمہوریت پرست شخص نے کہا کہ "یہ دستور ساز اسمبلی کا کام ہے کہ دستور بنائے۔" بالفاظِ دیگر وہ اسلامی نظام کے خدو خال تو دیتے رہے تھے، لیکن ان خدو خال پر دستور مرتب کرنا دستور ساز اسمبلی کا کام تھا۔ یہ بات تو ریکارڈ پر ہے کہ اسلام کے بارے میں ان کی حساسیت بڑی گہری تھی۔ ان کے کردار اور ان کے طرز تکلم کی سنجیدگی اس وقت کے سیکولر حضرات کو بھی کھٹکتی تھی۔ چنانچہ کراچی کی تقریبِ میلاد النبی میں انہوں نے کہہ بھی دیا کہ جب ہم اسلام کی بات کرتے ہیں تو کئی لوگ برا مناتے ہیں۔
Islamic principles have no parallel... no doubt there are many people who do not quite appreciate when we talk of Islam....
اسلامی اصولوں کا کوئی جواب نہیں .... بلاشبہ کئی لوگ بُرا مناتے ہیں جب ہم اسلام کی بات کرتے ہیں ۔
اب یہ کہنا کہ قائد اعظم نے بھی اپنے مقاصد کے حصول کے لیے اسلامی محرکات کو استعمال کیا ایک عظیم بہتان ہے۔ اچھا ہوتا کہ اگر ڈاکٹر منظور احمد قائد کے "اپنے مقاصد" کا بھی ذکر کرتے۔ اگر ان مقاصد میں پاکستان شامل تھا اور اس کے لیے انہوں نے اسلام کا نام لیا تو اس میں کیا برائی تھی؟ آخر رسول اللہ کی قوم کو کفر کے نام پر تو متحرک نہیں کیا جا سکتا۔ محرکات تو تاریخ ہوا کرتی ہے، عقیدہ ہوتا ہے، مشکلات سے نکلنے کا احساس ہوتا ہے۔
سیکولر حضرات سے میری گزارش ہے کہ وہ اپنے مطالبات، فکری بحثوں اور سیاسی ایجنڈے کو دستور پاکستان کے اندر ہی محدود رکھیں اور پاکستان کے خلاف مورچہ بندی نہ کریں۔ اس میں ہم سب کی بھلائی ہے۔
باب ۶: قرار داد مقاصد اور سیکولر مغالطے
قرارداد مقاصد اور سیکولر مغالطے
ماروی سرمد صاحبہ آج کل سیکولر حلقوں کی راج دلاری بنی ہوئی ہیں، ان کا ایک مضمون بعنوان "۲ مارچ: جناح کے پاکستان کی موت" حال ہی میں ڈیلی ٹائمز میں شائع ہوا۔ قطع نظر اس کے کہ یہ عنوان بذات خود باعث اذیت تھا، تمام مضمون تاریخی اغلاط سے آلودہ، استدلال اور منطق کی پامالی کا مرقع اور قاری کی عقل کی تذلیل کا شاہ کار ہے۔
اخبار مذکور نے خاتون کی جو تصویر دی ہے، وہ اپنی جگہ نفس مضمون کی تعبیر ہے۔ پیشانی پر ہندوانہ بندیا، گلے میں اسی قماش کی مالا اور جسم پر ویسے ہی فیشن کی ساڑھی۔ وہ اپنے چہرے مہرے اور ظاہری ڈھب سے پاکستانی خاتون دکھائی نہیں دیتیں۔
میری کوشش ہو گی کہ بلا کم و کاست ان کے مضمون کے چیدہ چیدہ نکات نقل کروں، تاکہ قرارداد مقاصد کے حوالے سے سیکولر فکر کے خدو خال نمایاں ہوں، اور ساتھ ہی سیکولر حضرات کا طریقہ واردات بھی آشکارا ہو۔ موصوفہ کے مطابق:
- پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کی حیثیت نمائندہ نہیں تھی۔
- قرارداد کی مخالفت اقلیتی نمائندوں اور [روشن خیال] سیکولر مسلمان اراکین نے کی تھی۔
- قائد اعظم کے دست راست لیاقت علی خان نے اپنے قائد کے رہنما اصولوں سے رو گردانی کرتے ہوئے قرارداد مقاصد پیش کی۔
- مسلم لیگ کی ماضی کی قراردادوں میں کہیں بھی اسلام کا ذکر نہیں۔
- دستور ساز اسمبلی کا اجلاس قرآن خوانی سے شروع ہوا، حالانکہ قائد اعظم کی زندگی میں ایسا نہیں ہوتا تھا۔
- قائد اعظم پاپائیت (تھیوکریسی) کے مخالف تھے۔
- قرارداد مقاصد اس لیے اپنائی گئی کہ یہ مسلم لیگ پر تاریخ کا قرض تھا۔ وہ اپنے آپ کو چونکہ مسلمانانِ جنوبی ایشیاء کی واحد نمائندہ جماعت کہتی تھی، اس لیے وہ مسلمانوں کے تصورات کی کھل کر مخالفت نہیں کر سکتی تھی۔
یہ وہ چیدہ چیدہ نکات ہیں، جس پر موصوفہ نے اپنے مضمون کی بنیاد رکھی ہے۔
قیام پاکستان اور قرارداد مقاصد کے بارے میں اگر آپ ۱۹۴۰ء کے عشرے کے مباحث دیکھیں تو ہندوؤں کا وہی موقف اور وہی استدلال سامنے آتا ہے، جو آج سیکولروں کا ہے۔ بالفاظ اقبال "وہی حیلے ہیں پرویزی" میں نے یکم اپریل کو موصوفہ کے مضمون پر چند سوالات اٹھائے تا کہ اگر واقعتا ان کا موقف درست ہے اور تاریخی متن اس کی تائید کرتا ہے تو وہ بالترتیب اسے پیش کر دیں۔ میرے سوالات مندرجہ ذیل تھے:
"میں نے آپ کا مضمون پڑھا۔ میں اپنی سی سعی کر رہا ہوں کہ آپ نے جو تحریر کیا ہے اسے سمجھوں۔
آپ نے لکھا ہے کہ قائد اعظم تھیوکریسی (پاپائیت) کے خلاف تھے۔ میں نے ان کی تقریروں کو بغور پڑھا۔ میں آپ سے اتفاق کرتا ہوں کہ وہ واقعتا تھیوکریسی کے مخالف تھے۔
میں نے ان کی وہ تقاریر بھی پڑھی ہیں جو انہوں نے ۱۹۴۰ کے عشرے میں کی تھیں، جس میں ۹۰ سے زیادہ بار انہوں نے اسلامی معاشرے، اسلامی قانون اور اسلامی طرز حکمرانی کا ذکر کیا ہے۔
اب میرا مسئلہ کیا ہے؟
- اگر محمد علی جناح تھیوکریسی کے مخالف تھے، جو وہ واقعتا تھے تو پھر وہ اسلامی معاشرت، سیاست اور قانون کی بات کیوں کر رہے تھے؟
- یہ تو دو متضاد باتیں ہوئیں۔ کیا اس طرح وہ اپنے آپ کو ایک متضاد شخصیت ثابت کر رہے تھے؟
- اگر بات یہ نہیں ہے، تو کیا وہ اسلامی حکومت کو پاپائیت سے مختلف شے سمجھتے تھے؟
- ان کی گیارہ اگست ۱۹۴۷ء والی تقریر (ان تمام سیکولر تعبیرات کے باوجود) بہر طور ان کی بے شمار تقاریر میں صرف ایک تقریر ہے۔ اگر ایسا ہے تو کیا یہ علمی اور منطقی لحاظ سے مناسب ہوگا کہ محض اس واحد تقریر کو ان کی سوچ و فکر کا ماخذ قرار دیا جائے؟
- اگر واقعتاً ایسا ہی ہے تو پھر آپ قائد اعظم کی ان تقاریر کو جو انہوں نے گیارہ اگست کے بعد کیں، اور جن میں انہوں نے نئی مملکت کی سیاسی اور عمرانی تعمیر میں اسلام کے کردار کا ذکر کیا تھا، آپ اسے کیا مقام دیں گی؟
- ایسی صورت میں ان کے آخری خطبات کی آپ کیا تشریح اور تعبیر کریں گی؟
- تھیوکریسی سے متعلق میں آپ سے پوچھنا چاہوں گا کہ کیا آپ کے خیال میں دور نبوی کی مدنی ریاست تھیوکریسی تھی؟
- آپ کا موقف ہے کہ قرارداد مقاصد اقلیتوں کی مخالفت کے باوجود اختیار کی گئی۔
- کیا آپ کے خیال میں تحریک پاکستان کا جذبہ محرکہ مسلمانوں کے دینی اور علمی تصورات کی تکمیل کے بجائے محض ہندو اقلیت کو خوش کرنا تھا؟
- کیا آپ کے خیال میں جمہوری معاشروں میں قوانین بغیر کسی مخالفت کے ہمیشہ متفقہ طور پر ہی بنائے جاتے ہیں؟
- کیا دنیا میں اقلیت کو یہ حق دیا جاتا ہے کہ وہ کسی ملک کی عظیم اکثریت کی مقتدرانہ حقِ حاکمیت کی مخالفت کرے اور پھر اپنی رائے کے برعکس اقلیت ہی کی بات کو قبول اور تسلیم کرے؟
- کیا قرارداد مقاصد اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی کوئی ضمانت نہیں دیتی؟
آپ کے مضمون سے یہ بھی عیاں ہوتا ہے کہ "قرارداد مقاصد جناح کی موت کے بعد اختیار کی گئی، اس لیے اس کی صحت مشکوک ہے۔" اب سوال پیدا ہوتا ہے:
- کیا آپ کے خیال میں قائد اعظم کی وفات کے بعد کوئی قانون سازی نہیں ہونی چاہیے تھی؟
- یا صرف انہی کو قانون سازی کا اختیار تھا؟
- کیا جناح صاحب نے کبھی یہ دعویٰ کیا تھا کہ صرف وہ ہی قانون دے سکتے ہیں؟
آپ کے جوابات سے میرے لیے اور دیگر افراد کے لیے یہ ممکن ہوگا کہ قرارداد مقاصد کے بارے میں اصل صورت حال کو بہتر طور پر سمجھ سکیں۔
سات اپریل کو مجھے مذکورہ خاتون کی طرف سے درج ذیل جواب موصول ہوا:
طارق جان، اسلام کسی صورت بھی تھیوکریسی کے تصور کی حمایت نہیں کرتا، اس لیے فطری طور پر قائد اعظم نے کبھی اسے اپنی حمایت نہیں دی۔ مختصراً وہ ایک ایسی ریاست بنانا چاہتے تھے، جہاں اسلامی اصول، جیسے مساوات، معاشرتی انصاف، قانون کی حکمرانی کو ممکن بنایا جا سکے۔ دراصل اگر اسلامی اصولوں کو نافذ کیا جائے تو ہمیں ایک فلاحی مملکت مل سکتی ہے نہ کہ تھیوکریسی۔ قائد کے تصورِ ریاست کو غلط سمجھا گیا ہے، جس سے یہ مغالطہ پیدا ہوا ہے کہ ان کی باتوں اور عمل میں تضاد ہے۔ ایسا کوئی بھی تاثر غلط ہوگا۔ قرارداد مقاصد اتنی اہمیت کی متقاضی نہیں جتنی اسے دی جاتی ہے۔ یہ تو صرف ایک دستاویز ہے جو مولویوں کو خوش کرنے کے لیے اختیار کی گئی۔
اس کے جواب میں میں نے حسب ذیل عریضہ لکھا:
"آپ میرے تمام سوالات کو نظر انداز کرتے ہوئے محض تھیوکریسی (پاپائیت) کا ذکر کر رہی ہیں۔ چلیں یوں ہی سہی! تاہم میری تعلیم کے لیے اب آپ مجھے بتائیں:
- کیا اسلامی قوانین کا اطلاق کسی ریاست کو تھیوکریسی بنا دیتا ہے؟ یا یہ کہ اسلامی ریاست تھیوکریسی ہی ہوتی ہے؟
اگر ایسا ہے تو پھر آپ قائد اعظم کی حسب ذیل تقاریر کو آپ کیا فہم دیں گی؟
"پاکستان کا مطلب محض آزادی اور خود مختاری نہیں بلکہ مسلم نظریہ حیات (آئیڈیالوجی) ہے جس کا تحفظ ہم نے کرنا ہے، جو ہمیں ایک قیمتی تحفہ اور بیش بہا دولت کی شکل میں ملی ہے اور جس کی ہمیں اُمید ہے کہ دوسرے بھی اس سے استفادہ کریں گے۔"
"دستور ساز اسمبلی کا یہ کام ہوگا کہ وہ مسلمانوں کے لیے ایسے قوانین بنائے، جو شرعی قوانین سے متصادم نہ ہوں، اور مسلمانوں کے لیے اب یہ مجبوری نہیں ہوگی کہ وہ غیر اسلامی قوانین کے پابند ہوں۔"
تو محترمہ بات محض معاشرتی انصاف، مساوات اور قانون کی حکمرانی کی نہیں تھی۔ قائد اعظم مسلمانوں کے نظریہ حیات (آئیڈیالوجی) اور شرعی قوانین کے اطلاق کا ذکر کر رہے تھے۔
جہاں تک قرارداد مقاصد کی نوعیت کی بات ہے تو آپ کا ارشاد ہے کہ یہ کوئی اہم دستاویز نہیں کہ اسے اتنی اہمیت دی جائے۔ (ویسے آپ جس طبقہ فکر کی نمائندگی کر رہی ہیں، وہ اس قرارداد پر ہی تو اپنا چہرہ دن رات پیٹ رہا ہے)۔
بجا فرمایا آپ نے، مگر تحریک پاکستان کے قائدین کیا کوئی فاتر العقل لوگ تھے کہ اسے قانونی دستاویز کی شکل دے رہے تھے؟
یہ کام تو دستور ساز اسمبلی ہی کو تفویض کیا گیا تھا کہ وہ وطن عزیز کے لیے دستور سازی سے قبل اس کے خدو خال کا تعین کرے اور اسے ایک قابل عمل فریم دے، تاکہ تحریک پاکستان کی عظیم آدرش، اس کے ولولوں اور جذبوں کو متشکل کیا جا سکے۔
اس دستور ساز اسمبلی کی نمائندہ حیثیت مستند تھی، کیونکہ اس دستور سازی میں تحریک پاکستان کی تقریباً ساری قیادت مصروف عمل تھی۔ بالفاظ دیگر یہ کوئی دھاندلی اور پیسے کی پیداوار ایرا غیرا اسمبلی نہیں تھی، بلکہ یہ بانیانِ پاکستان کی مجلس تھی، جنہوں نے مملکت پاکستان کو ممکن بنایا تھا۔ اس کو یہ طعن دینا کہ یہ نمائندہ نہیں تھی، حد درجہ کی توہین آمیزی ہے!
قائد اعظم کے انتہائی معتمد ساتھی وزیر اعظم لیاقت علی خان نے قرارداد مقاصد کی منظوری کو "تاریخ ساز لمحہ" سے تعبیر کیا، اس کی اہمیت کو "قیام پاکستان جتنا عظیم واقعہ" قرار دیا۔ جی ہاں! یہ ان کے اپنے الفاظ ہیں۔
یہ کہنا بھی حقیقت کو جھٹلانے کے مترادف ہے کہ: "قرارداد مقاصد قائد اعظم کے موقف کے برعکس تھی۔" خود مسلم لیگ کے محترم رکن اسمبلی سردار عبدالرب نشتر مرحوم نے اس کا جواب ہندو نمائندے کے اعتراض پر دیا تھا:
یہ درست ہے کہ قائد اعظم نے اقلیتوں کو وعدے وعید کیے تھے لیکن قائد اعظم نے ساتھ ہی اکثریت کو بھی یقین دہانیاں کرائی تھیں۔ مطالبہ پاکستان کے پیچھے ایک خاص نظریہ حیات (آئیڈیالوجی) اور ایک خاص مقصد تھا، اور یہ قرارداد جو پیش ہوئی ہے، عین ان یقین دہانیوں کے مطابق ہے جنہیں قائد اعظم اور مسلم لیگ کے قائدین نے اکثریتی (عوام) اور اقلیتوں کو دی تھیں۔ ہم نے ایسا کچھ نہیں کیا اور نہ ہم میں سے کسی کی یہ جرات ہے کہ وہ کوئی ایسی حرکت کرے، جو قائد اعظم کے فرمودات کے برعکس ہو۔
اقلیتوں کے اس مطالبے پر جو کانگریس پارٹی کے رکن اسمبلی جناب چکرورتی نے کیا تھا کہ قرارداد مقاصد میں غیر مبہم انداز میں یہ کہا جائے کہ ان کے حقوق اقوام متحدہ کے منشور میں مذکور حقوق کے مطابق ہونے چاہئیں، سردار عبدالرب نشتر نے برملا کہا:
انہوں نے اقوام متحدہ کے منشور سے بعض حصے پڑھ کر سنائے ہیں۔ جب میں نے اس قرارداد کی ایک شق سے اس کا تقابل کیا تو اسے میں نے اس سے کئی گنا زائد پایا، جو میرے دوست جناب چکرورتی نے پڑھ کر سنایا تھا۔
در اصل دستور اسمبلی کے مباحث میں ہندو اراکین کی طرف سے جو باتیں کی گئی تھیں، ان میں یہ واضح تھا کہ وہ پاکستان بننے کے خلاف تھے۔ وہ یہ بھی چاہتے تھے کہ مسلمان اپنا مذہب ایک طرف رکھتے ہوئے نئی مملکت پاکستان کو سیکولر قرار دیں۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ اسلام کو معاشرے کی تعمیر میں کوئی جان دار کردار دیا جائے۔ جب قائد اعظم نے اپنی ۱۱ اگست کی تقریر میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ اور معاشرتی و سیاسی حقوق میں انہیں مساویانہ مقام دلانے کا اعادہ کیا تو وہ سمجھے کہ شاید پاکستان ایک سیکولر ملک ہوگا۔
ان جذبات کا اظہار سری چندرا چٹوپادھیا، جو کہ مشرقی بنگال سے کانگریس پارٹی کے اسمبلی رکن تھے، ان الفاظ میں کیا:
ہمارا خیال تھا کہ سیاست اور مذہب کو یکجا نہیں کیا جائے گا۔ یہ قائد اعظم محمد علی جناح کا اس ایوان میں فرمودہ تھا۔ لیکن ہمارے سامنے جو قرارداد ہے وہ مذہب پر استوار کی گئی ہے۔
غرض اس وقت کی مسلم لیگ قیادت نے بغیر کسی استثنا کے اقلیتی نمائندوں کے اس تاثر کو رد کر دیا کہ وہ قائد اعظم کے فرمودات سے انحراف کر رہے تھے۔
وزیر اعظم لیاقت علی خان نے تو انتہائی غیر مبہم انداز میں واضح کیا کہ پاکستان کا مقصد اولیٰ مسلمانوں کی اس خواہش کا احترام ہے کہ وہ اسلام کے سایہ تلے زندگی گزارنا چاہتے ہیں:
"جناب والا، میں اس لمحۂ موجود کو حصولِ آزادی کے بعد وطن عزیز کی زندگی کا انتہائی اہم موقعہ سمجھتا ہوں، کیوں کہ حصولِ آزادی سے ہمیں یہ موقع نصیب ہوا کہ ہم ملک اور اس کے سیاسی و سماجی نظام کو اپنے تصورات کے مطابق تعمیر کریں۔ میں اس ایوان کو یہ یاد دلانا چاہتا ہوں کہ بابائے قوم قائد اعظم نے اس موضوع پر اپنے احساسات کا کئی بار اظہار کیا اور قوم نے غیر مبہم انداز میں اس کی تائید و توثیق کی۔ پاکستان اس لیے معرضِ وجود میں آیا کہ مسلمانانِ برصغیر اپنی زندگیوں کو اسلامی روایات اور تعلیمات کے مطابق ڈھالنا چاہتے تھے، کیوں کہ وہ چاہتے تھے کہ دنیائے عالم کو یہ دکھا سکیں کہ اسلام ان تمام بیماریوں کا شافعی علاج ہے، جو آج انسانیت کی زندگی کو چاٹ رہی ہیں۔"
جب ہندوؤں کی طرف سے سیکولر پاکستان کا راگ مسلسل الاپا جانے لگا تو تاریخ کے معروف استاد رکن دستور ساز اسمبلی ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی نے اس تاثر کی شدید الفاظ میں تردید کی کہ قائد اعظم کسی سیکولر ریاست کے علم بردار تھے:
"اگر سیکولر سے مراد یہ ہے کہ اسلامی تصورات، مذہب کے اساسی اصول اور یہ کہ وہ اخلاقی انداز فکر، جو مذہب ہمارے عوام میں پیدا کرنا چاہتا ہے، ان سے ہم دست بردار ہو جائیں، تو پھر جناب والا، مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ ایسی سیکولر جمہوریت ہمیں پاکستان میں قطعاً قابل قبول نہیں ہوگی۔"
موصوفہ نے قرارداد مقاصد کی مخالفت میں ہندو نمائندوں کے علاوہ سیکولر مسلمان اراکین اسمبلی کا بھی ذکر کیا ہے۔ قطع نظر اس کے کہ سیکولر مسلمان کی ترکیب اجتماع ضدین ہے (کیوں کہ مسلمان لا دین ہو کر مسلمان نہیں رہ سکتا) موصوفہ نے اپنے قارئین کو ان "سیکولر مسلمان" اراکین کے نام نہیں بتائے، جنہوں نے قرارداد مقاصد کی مخالفت کی تھی۔ شاید موصوفہ کی اس سے مراد میاں افتخار الدین ہیں، جو معروف کمیونسٹ تھے۔ کمال یہ ہے کہ باوجود کمیونسٹ ہونے کے ان میں اتنی اخلاقی جرات نہیں تھی کہ وہ قرارداد مقاصد کی کھل کر مخالفت کرتے۔ دستوری مباحث میں وہ ہمیں جابجا اسلام کی تعریف کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ البتہ کچھ ترامیم کا وہ طنزیہ انداز میں ذکر ضرور کرتے ہیں۔ مثلاً ڈیڑھ سال ہو چکے ہیں لیکن ابھی تک نوابزادگان کی ریاستوں کو ختم نہیں کیا گیا۔ یا پھر یہ کہ جب تک عوام کو مکمل ووٹ ڈالنے کا حق نہیں دیا جاتا، یہ قرارداد ان کے خیال میں نامکمل رہے گی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جب ہندو اراکین کی ترامیم پر آراء لی گئیں تو موصوف غیر جانب دار ہو گئے اور اپنی رائے کا اظہار نہیں کیا۔
تو پھر ہمارے وطن عزیز کے یہ روشن خیال اور پڑھے لکھے سیکولر مرد و زن کون سے سیکولر مسلمانوں کا ذکر کرتے ہیں جنہوں نے ہندو اراکین کے ساتھ مل کر قرارداد مقاصد کی مخالفت کی تھی؟
خیر یہ کوئی انہونی بات نہیں۔ اس طرح کا جھوٹ سیکولر طائفہ بولتا رہتا ہے۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ مسلم لیگ کی قراردادوں میں اسلام کا کہیں ذکر نہیں ہے۔ سیکولر لابی، موصوفہ سمیت، اس امر کو نظر انداز کر دیتی ہے کہ بیشتر قراردادیں آئینی تجاویز سے متعلق تھیں۔ اگر آپ نے ایسی قراردادوں کے پیچھے مسلم لیگی فکر دیکھنی ہے تو ان تقاریر میں دیکھیں جو قائدین نے ایسے مواقع پر کی تھیں۔ مثلاً ۱۹۴۰ء کی قرارداد لاہور کی منظوری سے پہلے جو تقریر قائد اعظم نے کی تھی، اس کے مندرجات میں نہ صرف ان کا مسلمانوں کے تہذیبی پس منظر اور اسلامی فکر کا گہرا ادراک جھلکتا ہے بلکہ وہ تاریخ کے عظیم شعور کے ساتھ اس نتیجے پر پہنچتے دکھائی دیتے ہیں کہ ہندو اور مسلمان نہ پہلے ایک قوم تھے اور نہ اب، یا مستقبل میں کبھی ایک ہو سکتے ہیں۔ اس کی وجہ وہ یہ بتاتے ہیں کہ اسلامی تصور معاشرت ہندو تصورات سے بالکل جدا ہے۔
پھر اپنے باوقار اور مدبرانہ انداز میں انہوں نے کہا:
"باوجود ہزار سالہ قریبی رابطوں کے دونوں قومیں آج بھی اتنی ہی مختلف ہیں جتنی پہلے تھیں، ان کے بارے میں یہ توقع رکھنا کہ وہ محض ایک جمہوری دستور کی بدولت قومِ واحد بن جائیں گے اور انہیں برطانوی پارلیمانی قوانین کے مصنوعی طریقوں سے بزور اکٹھا رکھا جا سکتا ہے (عبث ہوگا)"
ہندو مسلم وحدت کی برطانوی دور کی ناکام کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا:
"جو نتائج ۱۵۰ سالہ برطانوی دور کی وحدانی حکومت حاصل کرنے میں ناکام رہی وہ کسی طور بھی ایک مرکزی وفاقی حکومت حاصل نہیں کر سکتی۔"
مسلمانوں اور ہندوں کے مسئلے کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے واشگاف طور پر کہا:
"ہندوستان کا مسئلہ دو گروہوں کا نہیں بلکہ یہ ایک بین الاقوامی نوعیت کا مسئلہ ہے اور اسے ایسے ہی دیکھنا چاہیے۔"
ہندوؤں کے اس ذہنی مغالطے کو جو آج ہمارے سیکولر مرد و زن دوبارہ پھیلا رہے ہیں کہ ہندو اور مسلمان بطور ایک قوم، سیکولر جمہوریت میں یکجا رہ سکتے ہیں، قائد اعظم نے گہرے تاریخی شعور کے ساتھ اسے کلی طور پر رد کیا اور کہا:
"میرے لیے یہ سمجھنا انتہائی مشکل امر ہے کہ ہمارے ہندو دوست کیوں اسلام اور ہندوازم کی اصلی نوعیت کو سمجھنے سے قاصر ہیں؟ یہ دونوں عام مذہبی اصطلاح کے مذاہب نہیں۔ در حقیقت یہ دو مخصوص نوعیت کے سماجی نظام (زندگی) ہیں، اور یہ سراب سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتا کہ ہندو اور مسلمان کبھی ایک قوم بن سکتے ہیں۔"
"ہندو اور مسلمان دو جدا مذہبی تصورات، سماجی روایات اور ادبیات رکھتے ہیں۔ نہ وہ باہمی شادیاں کرتے ہیں، نہ ایک جگہ کھانا کھاتے ہیں۔ بلاشبہ وہ دو مختلف جدا گانہ تہذیبوں سے پیوست ہیں، جس کی بنیاد میں متصادم تصورات اور زاویہ فکر ہیں۔ زندگی سے متعلق ان کی سوچیں جدا ہیں۔ یہ بالکل واضح امر ہے کہ ہندو اور مسلمان تاریخ کے مختلف ماخذوں سے تحریک (اور ولولہ) لیتے ہیں۔ ان کی رزمیہ کہانیاں جدا ہیں، ان کے ہیروز اور داستانیں جدا ہیں۔ عموماً ایک کا ہیرو دوسرے کا ولن ہے۔ اس طرح ان کی فتوحات اور شکستیں ایک دوسرے سے گڈمڈ ہیں۔"
ہندوؤں اور انگریزوں کو خبردار کرتے ہوئے قائد اعظم نے فرمایا:
"ایسی دو قوموں کو ایک ایسے ریاستی بندوبست میں یکجا کرنا جس میں ایک عددی اقلیت ہو اور دوسری اکثریت ہو، لازماً روز افزوں بے چینی اور بالآخر اس نظام کی تباہی ہوگی جسے ایسی ریاست کے انتظام و انصرام کے لیے تجویز کیا جائے گا۔"
"مسلمان معروف معنی میں اقلیت شمار نہیں کیے جا سکتے۔ مسلمان ہر لحاظ سے ایک قوم ہیں اور ان کے لیے لازم ہے کہ ان کا اپنا وطن، اپنا جغرافیہ ہو اور اپنی مملکت ہو۔"
"ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے عوام اپنی آدرش اور تصورات کے مطابق اپنی روحانی، ثقافتی، معاشی، سماجی اور سیاسی لحاظ سے نمو پا سکیں۔"
موصوفہ کو اگر اس اقتباس میں اسلام اور اسلامی ریاست نظر نہیں آتے تو پھر یہ امر واضح ہے کہ یا تو انہیں تاریخ پاکستان پر دسترس نہیں، یا پھر وہ سمجھنا نہیں چاہتیں۔
اپنی تقریر کے اس حصے میں قائد اعظم نے چار مختلف اسلوب بیان اختیار کیے ہیں جو نہ صرف باہم ایک دوسرے سے پیوست ہیں بلکہ ایک دوسرے کا متبادل بھی ہیں:
- اسلام کا نظریہ معاشرہ
- اسلام مذہب نہیں بلکہ ایک ممتاز سماجی بندوبست (اور نظام) ہے۔
- اسلام ایک تہذیب ہے۔
- مسلمان کا جذبہ محرکہ کا ماخذ تاریخ میں ہندوؤں سے جدا ہے۔
ان نکات میں جس طرح اسلام کا چار مختلف سطحوں پر ذکر کیا گیا ہے، کیا ان کو سمجھنے کے لیے کسی تفصیل کی ضرورت ہے؟
قائد اعظم کے انتخاب الفاظ اور تراکیب میں، جو ان کی نیت اور ارادے کو بیان کرتے ہیں، ایک لفظ میں بھی کہیں ابہام نہیں آتا، نہ ہی یہ دور از کار ہیں کہ ان کے مخاطب ان کو سمجھ نہ پائیں۔
مثلاً، "اسلامی نظریہ سماجی بندوبست (اور نظام)" سے مراد اس کے بنیادی اعتقادات، اس کا دنیا کو دیکھنے کا انداز، اس میں افراد کا کردار، اور کس طرح معاشرتی حرکات پر اختیار حاصل ہو کہ جس سے نہ صرف افراد کی ایک خاص سانچے میں تربیت ممکن ہو بلکہ وہ اپنے ترقیاتی اہداف، نمو اور استحکام کو حاصل کر سکیں۔ اس میں لازم قانون سازی اور حکومت کی تشکیل ہے۔
جب وہ کہتے ہیں کہ "اسلام مذہب نہیں بلکہ ایک ممتاز اور یکتا سماجی بندوبست (اور نظام) ہے" تو اس سے مراد ان کی ہمہ پہلو پوری زندگی ہے۔ اس سے یقیناً ہمارے سیکولر مرد و زن کو مایوسی ہوگی۔
اسی طرح جب وہ اسلام کو تہذیبی تناظر میں رکھتے ہوئے اسے ایک جداگانہ تہذیب قرار دیتے ہیں تو وہ ریاست کے سیاسی تصور سے بھی بالا بات کرتے ہیں۔
علمی ماخذوں میں تہذیب سے مراد کسی قوم کا وہ طرز فکر اور انداز معاشرت ہے کہ جس سے وہ اپنے وجودی جوہر کا اظہار اپنے وسیع تر معنی میں کرتی ہے۔ اس میں کسی قوم کے اساسی اعتقادات اور اقدار سے لے کر اخلاقی، سماجی اور سیاسی پہلو شامل ہوتے ہیں کہ جن پر ان کی زندگی استوار ہوتی ہے۔
بالفاظِ دیگر یہ ایک ایسا اجتماعی ماحول ہوتا ہے، جو لوگ اپنی روحانی اور اخلاقی اقدار کی حدود میں رہتے ہوئے اپنی اساسی ماخذوں سے متاثر اور متحرک ہو کر اپنی ذہانت سے تشکیل کرتے ہیں۔ ایک ایسا ہمہ پہلو ماحول جس میں ان کا تصورِ جمال ان کے طرز معاشرت اور تعمیر، شہروں کی منصوبہ بندی، فنون اور ادبیات میں جھلکتا ہے اور جن سے زندگی کی ترویج ایک خاص انداز سے ہوتی ہے کہ وہ اس سے نمو اور حرکت پائے۔
اسی طرح قائد اعظم کا یہ کہنا کہ مسلمان ہندوؤں سے مختلف تاریخ کے ماخذوں سے تحریک (اور ولولہ) لیتے ہیں، اپنی جگہ ایک بڑا اہم نکتہ ہے۔ یہاں لفظ تاریخ بڑا واضح مفہوم اور اہمیت رکھتا ہے کیونکہ اس میں اس امر کا اعتراف ہے کہ مسلمان عوام کی ایک طویل تاریخ ہے، جو زمان و مکان پر پھیلی ہوئی ہے، ان کا ارتقاء ان کی جذباتی اور ذہنی ساخت، ان کے اعتقادات اور ان کے جذبات اور ولولے، اور کس طرح تاریخ کے فیصلے ساز لمحات میں انہوں نے اپنے عمل اور رد عمل کا اظہار کیا۔
در حقیقت بغیر اس عہد عظیم کے کہ جب اسلام نے اپنے آپ کو ایک زلزلہ خیز انداز سے عالمی منظر پر متعارف کرایا تھا، مسلمانوں کا اجتماعی وجود ممکن نہ ہوتا، نہ اسلامی سماجی نظام ہوتا اور نہ اسلامی ریاست یا اسلامی تہذیب ہوتی۔ بلاشبہ یہاں اس تقریر میں جناح صاحب پہلی بار بہ طور ایک مفکر، ایک دوربین انسان اور مدبر سیاسی رہنما کے سامنے آتے ہیں۔
ماروی سرمد صاحبہ اور ان کے سیکولر قبیلے کو یہ پیغام پہنچے کہ محض نعرہ بازی اور سطحی اسلوب سے علمی مباحث پر بات نہیں کی جا سکتی۔
لیکن مجھے نہ چاہتے ہوئے بھی یقین ہے کہ وہ غلط بیانی سے گریز نہیں کریں گے۔ وجہ اس کی ظاہر ہے: جہاں آنکھوں پر سیکولرزم کے کھوپے چڑھے ہوئے ہوں وہاں کچھ اور دکھائی نہیں دیتا۔ سیکولر فکر کا یہ خاصہ ہے کہ وہ ہر شے کو، ہر فکر کو اور تاریخ کے ہر دور کو اپنی سوچ کے مطابق دیکھنا چاہتی ہے۔ اس کے نزدیک حقائق وہ نہیں جو موجود ہیں بلکہ وہ ہیں جو وہ بیان کرے۔
آپ ان کے موقف کا جواب دینا چاہیں بھی تو یہ نام نہاد عقل پرست اور آزادی رائے کی دہائی دینے والے، اخبارات اور رسائل کے دروازے آپ پر بند کر دیں۔
ستم ظریفی دیکھئے کہ جن مذہب پرستوں پر یہ مقفل اذہان اور اندھی عقیدہ پرستی کا الزام لگاتے ہیں، ان کے مقابلے میں یہ ہزار گنا زیادہ تاریک راہوں کے مسافر ہیں۔
باب ۷: سیکولر لابی، تاریخ اور اورنگزیب عالمگیر: ان کے ماخذوں کا تنقیدی جائزہ
سیکولر لابی، تاریخ اور اورنگزیب عالمگیر: ان کے ماخذوں کا تنقیدی جائزہ
تاریخ بھی عجب فتنہ گر ہو سکتی ہے، یہ اگر چاہے تو اپنے آئینہ میں دیکھنے والے کو تختۂ دار پر چڑھا دے، یا پھر ایک دم گھٹتی فضا میں بادِ صبا کا جھونکا بن جائے۔ اس کے روپ سے قطع نظر تاریخ سے صرف نظر مشکل امر ہے۔ یہ تاریخ ہی کا فیض ہے کہ اس سے علمی سانچے بنانے میں مدد ملتی ہے۔ اس کے بغیر نہ حال کی تعبیر ممکن ہے اور نہ مستقبل کی صورت گری کا کوئی حوالہ۔ تاریخ کے اس جوہری کردار کو نظر انداز کرنے یا اس کے شعور سے تہی دامن ہونے کا رویہ قوموں کو بند سرنگ میں داخل کر دیتا ہے۔ ایک ایسا وجود جو تاریخی یادداشت اور شعور سے محروم ہو، جو بظاہر تو دکھائی دے لیکن کوئی جان دار اظہار نہ بنا پائے کہ توجہ اور احترام کا مستحق ٹھہرے۔
تاریخ اس اعتبار سے بھی اہم علمی ماخذ ہے کہ یہ محض گزرے وقتوں کا بیان نہیں، بلکہ اس سے ایک قوم کے نامیاتی وجود کی عکاسی ہوتی ہے۔ اس کے مطالعے سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ کسی قوم نے زندگی کو آہنگ دینے اور معاشرے کی تہذیب کے لیے کیا کیا۔ رقابت اور جنگ و جدل سے عبارت عالمی پس منظر میں اس نے عرصۂ حیات کیسے گزارا؟ اس لحاظ سے تاریخ ایک امانت ہے، جس کے پیغام کو بگاڑنا یا اس کے سیاق و سباق کو مجروح کرنا ایک سنگین جرم ہے۔
تاریخ کی ایک اہمیت یہ بھی ہے کہ شکستہ دلوں کو حوصلہ بخشے اور مایوسی کی دلدل میں پھنسے ہوؤں کو قوت فراہم کرے۔ تاریخ کا کردار خبر دار کرنے والے نذیر کا بھی ہے، کہ ماضی کا کوئی حادثہ اب بھی پیش آسکتا ہے، اور اس بات پر خبردار کرنا کہ شاید آج کی بے تدبیری سے پیدا شدہ ہلاکت خیزی گزرے ہوئے کل سے زیادہ ہو۔
اس لحاظ سے تاریخ کے دریچوں سے ابھرے علم کی فوقیت مستقبل بینی اور تعمیر معاشرہ میں اس کی تخلیقی و تعمیری اہلیت کا دیگر معاشرتی علوم مقابلہ نہیں کر سکتے۔ اطالوی مفکر بینے دیتو کروچے (Benedetto Croce) نے سچ کہا کہ تاریخ نہ صرف فلسفہ سے افضل ہے بلکہ اسے (حقیقت میں) تحلیل کرتی ہے۔
کروچے سے کئی گنا بہتر انداز میں تاریخ کی اہمیت کا ادراک مسلمان مؤرخ اور جغرافیہ دان ابوالحسن علی المسعودی (۸۹۶-۹۵۶) نے نو سو سال پہلے کیا۔ اس کے مطابق:
اگر علماء اور حکماء نے اپنی فکر اور خیالات کو تمام ادوار اور زمانوں میں منضبط نہ کیا ہوتا تو علوم کی اساسیات مفقود ہو جاتیں اور ان کے استخراج اور نتائج گم ہو جاتے ۔ یہ اس لیے کہ کسی بھی شعبہ علم کے لیے ضروری ہے کہ وہ تاریخ سے اخذ ہو۔ اس سے تمام دانش و برہان کی نمو ہوتی ہے۔ تمام فقہ اس سے پھوٹتی ہے۔ تمام حسن بیان اس سے سیکھا جا سکتا ہے۔ وہ جو بذریعہ تمثیل گفتگو کرتے ہیں وہ تاریخ سے ہی استدلال کرتے ہیں۔ اور وہ جو صاحب رائے ہیں، اظہار کے لیے اس سے دلائل اخذ کرتے ہیں۔ تاریخ کی برتری دوسرے تمام علوم پر واضح ہے۔
اس لحاظ سے دیکھا جائے تو تاریخ مسلمانوں اور سیکولرسٹوں دونوں کے لیے یکساں اہم ہے۔ گو دونوں کے لیے استدلال جدا جدا ہے۔
ایک عرصے سے سیکولر حضرات (زنادقہ) اس کوشش میں سرگرداں ہیں کہ چیدہ چیدہ تاریخی واقعات کو ان کے سیاق و سباق سے جدا کر کے مسلمانوں کی تاریخ کو نئے سرے سے لکھیں، تاکہ من پسند نتائج اخذ کیے جا سکیں۔ اس سارے عمل میں منطقی مغالطہ آمیزی اور بے انصاف ذہن کے الجھے ہوئے دلائل کے ساتھ ایک بیانیہ تیار کیا جاتا ہے، تاکہ سیکولر ایجنڈا آگے بڑھ سکے، اور مسلم سماجی منظر پر سیکولر ازم کو حاوی کیا جا سکے۔
قتل تاریخ کے مرتکب ایسے افراد تاریخ میں تحریف بھی کر گزرتے ہیں، تاکہ لوگوں کے دلوں میں اپنے تاریخی ورثے سے نفرت پیدا ہو، اور یوں ماضی سے ان کا رشتہ کٹ جائے، اور انہیں اس سے کوئی حوصلہ اور امنگ حاصل نہ ہو۔ اگر آج کی نسل ماضی کے لوگوں کا تسلسل ہے (جو یقینی ہے) تو ان کی توہین کے لیے یہ کہہ دینا کافی ہے کہ ان کا ماضی بھی کچھ قابل فخر نہیں۔ یہ ساری کوشش صرف اس لیے ہو رہی ہے کہ عام لوگ عزت نفس کے باب میں بے مایہ اور کھو کھلے ہو جائیں، اور اس طرح وہ حال میں تاریخ سے عرفان ذات حاصل کرنے سے محروم رہیں۔ یوں وہ آج کی پیچیدہ اور بدلتی دنیا میں اپنا وہ عکس نہ دیکھ پائیں جو تاریخ انہیں دکھا سکتی ہے۔
سیکولر حضرات کے نزدیک اگر آج کی دنیا جس کی تعریف سیکولر جدیدیت متعین کرتی ہے، نظریے اور اصولی علمیات کی موت ہے تو پھر تاریخ جو گزرے ہوئے ماضی کا بیانیہ ہے، انسانی ذہنوں سے اپنے تمام تر حوالے کے ساتھ کھرچ دینی چاہیے، تاکہ سیکولرزم کا مرحلہ آسان ہو سکے۔ "سنجیا ہو جان گلیاں، تے وچ مرزا یار پھرے۔"
تاریخ کے حوالے سے یہ ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ مسلمانوں کے نزدیک تاریخ ایسی مسلسل کشمکش اور تگ و دو ہے کہ جس سے ملی اقدار کو واقعات اور عمل کی شکل دی جاتی ہے۔ جبکہ سیکولر حضرات (زنادقہ) کے نزدیک یہ محسوسات کی دنیا اور انسان کے سماجی تجربات ہیں اور بس۔
اسی لیے لوگوں کے ذہن کو تاریخ سے لاتعلق کرنا یا انہیں ان کی تاریخ کے سحر سے نکال دینا سیکولر مقاصد کو بڑھانے اور پھیلانے کے لیے ضروری ہے۔ اس کا سب سے کارگر اور تیر بہدف نسخہ یہ ہے کہ مسلم تاریخ کو بُرا بھلا کہا جائے۔ خصوصاً ان رجالِ عظیم کو جو اپنی شخصیت اور کارہائے نمایاں سے لوگوں کی اقدار کو معنی عطا کرتے ہوئے تاریخ کو وجود میں لانے کا باعث بنتے ہیں۔ ایسے لوگ اپنی تمام تر تابندگی کے ساتھ موجود رہیں تو تاریخ ایک زندہ تجربے کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔
محمد اورنگ زیب عالمگیر (۱۶۱۸-۱۷۰۷) کے وجود اور کردار پر ہندو اور مغربی مورخین ایک عرصے سے حملہ آور ہیں۔ خود مسلم معاشرے کے اندر سے یہ وار ان سیکولر حضرات (زنادقہ) کی طرف سے ہوا ہے، جن کے نام مسلمانوں ہی کے سے ہیں۔ ان کے دانشورانہ فتوے کے مطابق اورنگ زیب کے کردار کا کمزور ترین پہلو اس کا اپنے بھائیوں کے خلاف ظالمانہ طرز عمل اور اپنے باپ شہاب الدین محمد شاہ جہاں (۱۵۹۳-۱۶۶۶) کو بند اسیری میں ڈالنا تھا۔
یہ حقیقت ہے کہ اورنگ زیب کے تین بھائی جان سے گئے، اور والد شاہ جہان آگرہ قلعہ کی تنہائی میں مقید رہے۔ لیکن ان واقعات کو پورے پس منظر سے جدا کر کے محض منفرد قصے سمجھنا، جیسے وہ تاریخ کا ایسا کردار ہے کہ جس کے سر پر ظلم و ستم کا بھوت سوار تھا، یا وہ غیر معمولی طور پر حرصِ اقتدار میں مبتلا تھا، جس کی وجہ سے اس نے یہ سب کر ڈالا، قطعاً غلط اور بے ثبوت مقدمہ ہے۔
اگر اورنگ زیب کا کردار باقی ہر لحاظ سے اجلا اور بے داغ تھا تو ہم اس کے دامن پر بظاہر یہ دھبے کیوں دیکھ رہے ہیں؟ یا اسے کس بات نے مجبور کیا کہ باپ اور بھائیوں کے ساتھ وہ سخت رویہ اپنائے جس کا اسے الزام دیا جاتا ہے؟ یہ وہ بنیادی سوالات ہیں، جن کا جواب طلب چاہیے۔ لیکن اصل حقیقت تک پہنچنے کی کد و کاوش سیکولر حضرات کا مقصد اور مدعا ہی نہیں۔ ان کا تو ایک ہدف ہے، اور وہ یہ کہ اس طریقہ واردات سے مطلوبہ نتیجہ کیسے حاصل کیا جائے۔ سچ اگر قتل ہوتا ہے تو ان کی بلا سے۔ ڈاکٹر محمد اقبال (م ۱۹۳۸ء) اپنی ایک عظیم نظم میں ان یک چشم متنفرین کو "کور ذوقاں" کا نام دیتے ہیں کہ انہیں اورنگ زیب کے کمالات نظر نہ آئے اور انہوں نے قصے کہانیاں گھڑ لیں:
کور ذوقاں داستان ہا ساختند
وسعتِ ادراکِ او نشناختند
اورنگ زیب پر یہ الزام کہ اس نے اپنے باپ کو قید و بند میں ڈالا، جزوی صداقت کا حامل مقدمہ ہے۔ واقعات کے اعتبار سے یہ سب کچھ اب تاریخ میں مدفن ہے۔ اس پر اس طرح کا تبصرہ کہ یہ واقعات ہوئے ہی نہیں، ایک بے سود کوشش ہوگی۔ ایسی بات کہنا علمی لحاظ سے نا درست اور غیر منصفانہ سمجھا جائے گا۔
طریق تحقیق و تجزیہ کا سوال
کسی بھی تاریخی حقیقت کو جاننے کے لیے پانچ ذرائع اہم ہوتے ہیں:
- تاریخ کے سٹیج پر نمودار ہونے والے اہم کرداروں کی خود نوشت۔
کسی شخص کا کردار موضوع بحث ہو تو اس کے تجزیے کے لیے درج ذیل ذرائع کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے:
- اس کے ذاتی روزنامچے اور خطوط۔
- اس شخص کا کردار جو موضوع بحث ہے۔
- ماضی کے معاصر وقائع، خصوصاً ان حضرات کی تحریریں، جنہوں نے خود اس زمانے کے حالات کو دیکھا۔
- اور آخر میں وہ مرتب کردہ تاریخ، جو غیر جانبدار مورخین نے معروضی انداز میں ضبط تحریر کی ہو۔
ان ذرائع میں بھی مسئلہ ہو سکتا ہے۔ یہ کس حد تک قابل قبول ہو سکتے ہیں؟ اس بات کا انحصار کئی عوامل پر ہے، مثلاً کسی شخصیت کا خاکہ جو ایک مؤرخ تیار کرتا ہے، حالات اور کرداروں کے ضمن میں کتنا معروضی اور منصفانہ تھا؟ اس کی قوت محرکہ پر کن عوامل کا اثر تھا؟ کیا اس کی پشت پر کوئی حسد و بغض، نظریاتی، نسلی یا مذہبی تعصب تو موجود نہ تھا؟ اور کیا وہ اتنا عادل اور دیانت دار تھا کہ صحیح شہادت پیش کر سکے؟ کیا اس میں مناسب اہلیت موجود تھی کہ وہ اپنے تنقیدی مغالطوں کے جالے صاف کر کے غلط کو سچ سے چھانٹ سکتا تھا؟
ظاہر ہے اس معیار پر چند لوگ ہی اتر پائیں گے۔ اس نقطہ نظر سے تاریخ نویسی ایک مشکل فن ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ حضرات جو تاریخی مواد کے اس انبار سے اپنے لیے نتائج اخذ کرتے ہیں، ان میں بھی کم و بیش وہی خوبیاں اور خصوصیات موجود ہونی چاہیئں جو خود تاریخ نویسی کے لیے نہایت ضروری ہیں۔ تشریحی وضاحت کی اہلیت جسے فرانسیسی فلاسفر میشیل فوکو (Michel Foucault) ماہر آثار قدیمہ کا نام دیتا ہے، بے حد اہم معاون ہے، ورنہ نتائج بدنما برآمد ہو سکتے ہیں یا زیادہ سے زیادہ انہیں ایسے پروپیگنڈے کا نام دیا جائے گا، جو ایک مخصوص سیاسی ایجنڈا کو آگے بڑھانے کے لیے درکار ہوتا ہے۔
سیکولرزم: مباحث اور مغالطے
اس بات کو یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ تشریحی وضاحت میں "معنی اور تفہیم کے افق" کا تصور لازماً شامل ہوتا ہے۔ یہاں مقصود یہ غرض ہوتی ہے کہ بظاہر متناقض امور اور اطلاعات میں مشترکات معلوم کی جائیں، تا کہ فہم و ادراک کا افق ابھر کر سامنے آئے۔ جس سے واقعات نکھر جائیں اور ان میں باہم ربط اور توازن کی منطق دکھائی دینے لگے۔ آثار قدیمہ کا علم اپنے اسلوب تحقیق میں اس کشادہ مدار کو واضح کرتا ہے، جس میں کوئی بیانیہ نمو پاتا ہے۔ بقول میشیل فوکو: "ایک وقت تھا کہ علم آثار قدیمہ ایک شعبہ کے طور پر گونگی یادگاروں سے متعلق علم تھا۔ ... وہ یادگاریں جن کا کوئی پس منظر نہ ہو اور اس کی خواہش تھی کہ اسے تاریخ کا مقام ملے۔ اسے معنویت اس وقت ملی جب اس نے ایک تاریخی بیانیے کا روپ دھارا: اس کے بالمقابل ہمارے زمانے میں تاریخ نے کوشش کی کہ اسے علم آثار قدیمہ کا سا مقام مل جائے، تا کہ وہ تاریخی یادگار کے اندر موجود اس کی نوعیت اور ساخت کو بیان کر سکے۔"3
مزید برآں اگر ایک تاریخی شخصیت کی چھان پھٹک کرنی ہے اور اس کے ظاہر و باطن کو پوری طرح کھنگالنا ہے تو پھر اس کی داخلی شخصیت کا جائزہ لازمی ہو گا۔ جو دراصل مظہر ہے اس کے تاریخی، اقتصادی اور سیاسی ماحول اور ان سماجی طور طریقوں کا کہ جن میں وہ پلا بڑھا تھا۔ پھر یہ کہ اس کی مادری زبان کیا تھی اور اس نے کون سے علوم پڑھے اور یہ علوم کن سماجی رویوں کا اظہار کر رہے تھے؟ فوکو ہی کے انداز بیان میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں "یادگار کی فطری اور تخلیقی تشریح" کو معلوم کرنا ہے۔
ماخذوں کا مسئلہ: عیسائی سیاح اور ان کے تعصبات
اورنگ زیب کے متعلق ان تصورات کا زیادہ بڑا حصہ فرانسیسی سیاح اور معالج فرانسوا برنیے (François Bernier (1688-1725)) جیسے لوگوں کی عطا ہے، جو اسلام سے اپنے بغض و عداوت اور عیسائیت کی طرف داری کرتے ہوئے اپنے آپ کو قابو میں رکھنے کی ذرا سی بھی کوشش نہیں کرتے۔ یہ یک چشمی رویہ ہر چیز کے متعلق ان کے نقطہ نظر کو بگاڑ کر رکھ دیتا ہے، سوائے اس کے جو ان کے خیال میں عیسائیت کے لیے مفید مطلب ہو۔ مثال کے طور پر برنیے، بادشاہ نور الدین سلیم جہانگیر، اور دارا شکوہ کی بڑی تعریف کرتا ہے، کیونکہ اس کا خیال تھا کہ دونوں عیسائیت کی طرف مائل تھے۔
برنیے جو دارا شکوہ کا طبیب رہا تھا، اس کی دل کھول کر تعریفیں کرتا ہے اور اپنے پڑھنے والوں کو یہ تاثر دیتا ہے کہ دارا کو بس عیسائی ہی سمجھا جائے۔ وہ دارا کے عیسائیت کی طرف جھکاؤ کے سوتے ریورنڈ بوزی (Reverend Buzee) سے نیاز مندانہ تعلقات کا نتیجہ سمجھتا ہے، جس نے اسے عیسائیت کی تعلیم دی تھی اور بہت سے عیسائی توجے بھی مہیا کیے تھے، جن سے اس کا توشہ خانہ تیار ہوا۔ برنیے (کے سفرناموں کا مدیر) آرچی بالڈ کانسٹیبل (Archibald Constable)، فرانسوا کیٹرو (Francis Catrou) کی "ہندوستان میں مغل خاندان کی تاریخ" کی سند کے ساتھ، جو 1826 کو لندن سے شائع ہوئی، یہ اضافہ کرتا ہے کہ "اگر ریورنڈ ہنری بوزی کے مشوروں پر عمل کیا جاتا تو قطعی ممکن تھا کہ عیسائیت تخت (دہلی) پر براجمان ہو جاتی۔"4
اسلام سے عداوت کا اظہار ہو تو برنیے ساری احتیاط بالائے طاق رکھ دیتا ہے۔ اس کے نزدیک اسلام ایک "توہم پرستی" ہے، ایک "مہلک اور تباہ کن مجموعہ قوانین" جو تلوار کے زور پر نافذ ہوا، اور اب بھی اسی ظالمانہ تشدد کے بل پر انسانیت پر مسلط ہے۔ اسلام کو ایک "قابل نفرت فریب" کا نام دیتے ہوئے وہ اسے ایک بے معنی اور فضول ٹوٹکا قرار دیتا ہے۔5
جہانگیر بھی عیسائیت کے لیے اپنے دکھاووں اور ظاہری بیانات کی وجہ سے برنیے سے تائیدی سند حاصل کر لیتا ہے۔ برنیے کہتا ہے کہ بہر مرگ پر جہانگیر نے "ایک عیسائی کی موت مرنے کی تمنا کی تھی"۔ آرچی بالڈ کانسٹیبل، کیٹرو سے مستعار ایک اور کہانی بھی سنانے میں کمال درجے کی جلد بازی کا سہارا لے کر کہتا ہے کہ جہانگیر بعض کھانوں پر اسلامی شرعی قدغنوں سے تنگ آ گیا تھا اور اس نے یہ جاننا چاہا کہ "ہر قسم کے کھانے پینے کی بے قید آزادی کسی مذہب میں ہے؟" علماء نے اسے بتایا کہ ایسا صرف عیسائی مذہب میں ممکن ہے۔ اس پر وہ کہنے لگا: "پھر تو ہم سب کو عیسائی بن جانا چاہیے۔"6
برنیے نے اسلام کو "فضول ٹوٹکا" تک کہہ دیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو "جعلساز" قرار دیا اور یہ کہ "یہ دین تشدد سے پھیلا"۔ اپنی تحریر کے ان دو صفحات بعد ہی وہ پھسل گیا۔ اب وہ مسلمانوں کی تعریف کر رہا تھا کہ "یہ نسبت اس بے اعتنائی کے جو عیسائی اپنے گرجوں میں روا رکھتے ہیں۔ انہیں اپنے دین سے گہری عقیدت ہے۔ بقول اس کے "مسلمان مساجد میں عبادت میں مشغول ہوتے ہیں تو نہ سر کو جنبش دیتے ہیں نہ کوئی ہلکا پھلکا لفظ زبان سے نکالتے ہیں۔ بلکہ مسلمان ایک گہری اور حیرت انگیز تعظیم و تکریم کی کیفیت میں ڈوبے ہوئے ہوتے ہیں"۔7
وہ اپنی اس خواہش کی تکمیل پر مایوسی کا اظہار بھی کرتا ہے کہ "مسلمانوں کو کبھی عیسائی نہیں بنایا جا سکے گا۔ نہ انہیں باور کرایا جا سکتا ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) جھوٹے نبی تھے۔"10
برنیے منطق میں کمزور واقع ہوا ہے، یا ممکن ہے اس باب میں اس کے تعصبات اس کی اہلیت پر حاوی ہو گئے ہوں کہ وہ واقعات کو منطقی انداز سے پرکھ سکے، ورنہ وہ ایسی تضاد بیانی سے پہلے ضرور غور کرتا کہ جن لوگوں کی گردنیں اسلام کے سامنے زبردستی جھکائی گئی ہوں، کیا ان کا اپنے دین اور نبی سے رویہ ویسا ہی ہونا چاہیے، جیسے برنیے بیان کر رہا ہے؟ یہ رویہ تو انہی لوگوں کا ہو سکتا ہے جنہیں اپنے عقیدے سے پیار ہو اور جو سمجھتے ہوں کہ اسلام ہی صداقت کلی ہے۔
مسلمانوں سے اس کا یہی تعصب ہے جو اسے اورنگ زیب سے متنفر کرتا ہے۔ جب اورنگ زیب نے دکن کی گورنری لینے سے انکار کیا اور اپنے لیے عبادت اور استغراق کی زندگی کو ترجیح دی تو برنیے کو یہ سب کچھ ایک "مذاق آلودہ فریب" لگا "ایسی پرہیز گاری کا ڈھونگ جو اصلاً اس کے دل میں تھی ہی نہیں"۔ "وہ اورنگ زیب کی ساری زندگی کو 'سازش اور اختراع کا مستقل سلسلہ' قرار دیتا ہے۔"11
اورنگ زیب کے کردار کی کیفیت اگر یہی تھی تو پھر منطقی طور پر بہت سے لوگوں کو اس کے غیر حقیقی اور ظاہری تقویٰ، نفاق اور مذبذب شخصیت کا پتہ ہونا چاہیے تھا۔ لیکن لگتا ہے اورنگ زیب کی مبینہ چالا کی اور فریب اتنا دبیز پردوں میں چھپی ہوئی تھی کہ سوائے دارا شکوہ کے اسے کوئی نہیں جانتا تھا، جو اسے استہزائی انداز میں "وہ نمازی" کہتا ہے۔ یا پھر برنیے کے مطابق دارا شکوہ اسے "کٹھ ملا، ہٹ دھرم جو ہر وقت نماز اور اذکار میں مشغول رہنے والا"12 کہہ کر مذاق اڑاتا تھا۔ گویا کہ دوسرا کوئی بھی فرد اصل عالمگیر کو نہ جان سکا اور شاہجہانی دربار میں اسے احترام اور استحسان کی نظروں سے ہی دیکھا جاتا رہا۔ ایسی سحن سازی کے سبب برنیے نہ تو مسلمانوں کے لیے قابل اعتماد مؤرخ ہے اور نہ اورنگ زیب کی ذات اور عہد کے تجزیے کے لیے کوئی سنجیدہ حوالہ۔ دارا نے اس کی ساری توجہ اپنی طرف کھینچ رکھی ہے۔
اس مقصد کے لیے اطالوی سیاح نکولاؤ مانوچی (Niccolao Manucci (1639-1717)) یا جاں تیورنئے (Jean Baptiste Tavernier (1605-1689)) بھی لائق اعتبار نہیں ہیں، کیونکہ انہوں نے بھی مخصوص نقطہ نظر کے تحت دارا ہی پر نظریں جما رکھی تھیں۔ جو انہیں اپنے خوابوں کا شہزادہ نظر آتا تھا، جو مسلم ہندوستان کے تخت پر عیسائیت کو بٹھائے گا۔ مگر اورنگ زیب کی کامیابی نے ان کی امیدوں پر پانی پھیر دیا اور یوں وہ اس کے جانی دشمن بن گئے۔ اس لیے انہوں نے دیانت کا دامن چھوڑ کر پوری ڈھٹائی کے ساتھ اورنگ زیب کی زندگی سے منسوب واقعات میں اپنے خیالات و احساسات کی رنگ آمیزی شروع کر دی۔
مثال کے طور پر برنیے کو اورنگ زیب کا تقویٰ ایک ظاہرداری اور بہروپ لگا جس کو "اس نے باطن میں کبھی محسوس نہیں کیا"13، اس انداز فکر کو اورنگ زیب کے کردار کا موضوعی مطالعہ ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔ برنیے نے لفظ "felt" استعمال کیا جو قیاسی اور ثبوت طلب ہے، کیونکہ اس کا تعلق انسان کی سوچ اور ارادے کے مخفی گوشے سے ہے، جس کا باہر سے نہ مشاہدہ ہو سکتا ہے نہ تصدیق۔ یہی وجہ ہے کہ ہر وہ بات جس کا تعلق اورنگ زیب سے بنتا ہے، پہلے ان مغربی قلم کاروں کے ذہن سے کشید ہو کر آتی ہے، جہاں اسے گھما پھرا کر مخصوص معنی پہنائے جاتے ہیں، تا کہ وہ ایک چالاک منصوبہ ساز نظر آئے، جو شارک مچھلی کی طرح اپنے شکار کا بے رحمی سے پیچھا کرتا ہے۔ اگر ہم یہ مان بھی لیں کہ برنیے میں ایسی کوئی پراسرار اہلیت موجود تھی کہ وہ اورنگ زیب کے ذہن میں جھانک لیتا تھا، تب بھی اس کے مشاہدات کا ان حقائق سے کوئی تال میل نہیں بنتا، جو ہمیں اورنگ زیب کے مکتوبات میں نظر آتے ہیں، اور جنہیں سیاح موصوف اپنے مقصد کے لیے منتخب طور پر استعمال کرتا ہے۔ نتیجہ یہ کہ اس کی تاریخ نویسی ذاتی تعصب کے اظہار میں بدل جاتی ہے۔
اورنگ زیب پر سنگ باری کرنے والے اسی برنیے نے شاہ جہاں کے اپنی بیٹی شہزادی جہاں آراء (1614-1681) کے تعلق کو جس قبیح انداز میں بیان کیا، وہ بھی عفونت زدگی اور تہمت بازی کا گھناؤنا نمونہ ہے، جس سے قاری کے جذبات و احساسات بری طرح مجروح ہوتے ہیں۔ ایک سیاح جس نے مورخ کا روپ دھارا ہوا تھا، اس حد تک چلا گیا کہ باپ بیٹی کے معصومانہ رشتے کو جنسی تعلق کا نام دے بیٹھا۔ واقعی ایسا معاملہ کسی یورپی حاشیہ خیال میں آ سکتا ہے (Old Leg Folly Team Old Leg Folly) جسے ہر قرب و تعلق میں جنس ہی نظر آتی ہے۔ خواہ یہ تعلق اتنا پاک، محترم اور مقدس ہو کہ ایک بیٹی اپنے بیمار باپ کی تیمارداری کر رہی ہو۔ برنیے کا بیان ایک اخلاق باختہ اور ماؤف ذہن ہی کی پیداوار ہو سکتا ہے۔ کہتا ہے: "یہ افواہ مشہور ہے کہ اس کا اپنی بیٹی سے تعلق اس حد کو جا پہنچا جو ناقابلِ یقین ہے، جس کے لیے جواز اسے مولویوں کے فتوے سے ملا۔ جنہوں نے اسے بتایا: بادشاہ کو اس درخت کا پھل کھانے سے روکنا ظلم ہو گا، جسے اس نے خود بویا"14 یہاں جھوٹ افسانہ طرازی اور سکینڈل بازی نے تاریخ نویسی کے بلند و بالا دعوے کو رسوا کر ڈالا ہے۔ پہلے تو باپ بیٹی کا رشتہ زناکاری میں بدل دیا گیا، پھر مبینہ طور پر باپ معاملہ کو خود طشت از بام کر دیتا ہے۔ اس کے بعد اس زناکاری کو مذہبی سند دینے کے لیے مولویوں کی مدد حاصل کی جاتی ہے۔ برنیے نے اس افسانہ طرازی میں حد درجہ غیر ذمہ داری اور لچر پن کو عروج پر پہنچاتے ہوئے سوقیانہ زبان استعمال کی ہے۔
"جنسی بدکاری کے تعلقات کہیں بھی ہوں یہ بنیادی انسانی اخلاقی رویوں کی پامالی ہے، جو لوگوں کو باہمی اعتماد، ذمہ داری اور احترام کے رشتوں میں باندھے رکھتے ہیں۔ انہی اخلاقی رویوں سے ماں، بیٹا، باپ، بیٹی، بھائی، بہن اور ایسے ہی دوسرے خوبصورت رشتے جنم لیتے ہیں۔ قریبی رشتے میں جنسی بے راہ روی تو ہر وہ چیز تباہ و برباد کر دیتی ہے جو سماجی زندگی کی جان ہے۔ اس کا پہلا شکار خاندانی نظام اور اس کا تقدس ہوتا ہے، وہ خاندان جس سے زندگی کو معنی ملتے ہیں اور جو انسان کی شخصی نشوونما کا لازمہ ہے۔ لیکن برنیے کا بیان کردہ شاہ جہاں ایک حد درجہ بیہودہ اور خوفناک نفسیات کا مالک انسان نظر آتا ہے، جو بیٹی سے اپنے جنسی تعلق کو کھلے عام نہ صرف بیان کرتا بلکہ شریعت سے اس کے لیے مدد چاہتا ہے، "معلوم نہیں کون علماء اسے یہ رعایت دے دیتے ہیں کہ جو پودا اس نے خود لگایا، اس کا پھل وہ چن لے"15
یہاں ایک لمحے کے لیے رک کر ہم اس بیان کا جائزہ لیتے ہیں۔ برنیے اپنی کلچر بیانی میں یہ بات بھول جاتا ہے کہ جو ظاہر ہو اور جس کے متعلق ملاؤں کا فتویٰ موجود ہو، اسے "افواہ" نہیں کہا جا سکتا، وہ امر واقعی ہوتا ہے۔ بات اگر منطق کی ہو اور استدلال پر مبنی واقعات و حالات ہوں تو برنیے یہاں پر اپنے قاری کو بالکل مایوس کر دیتا ہے۔ برنیے کے مدیر کانسٹیبل نے فرانسوا کیٹرو جو حاشیہ اپنے بیان میں ضمناً جوڑا ہے، وہ اس سارے قصے کو لغو بتا کر رد کر دیتا ہے کہ "بدنیت اور کینہ ور درباریوں کے علاوہ کہیں اور اس افسانہ طرازی کا شائبہ تک نہیں ملا۔"15
برنیے چونکہ اسلام کے خلاف اپنے بغض و عداوت سے جان چھڑا نہیں پاتا، اس لیے وہ امام ربانی شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی (1564-1624) کی اسلامی تحریک احیاء اور اس سے مثبت اثر لینے والے افراد کا تذکرہ نہیں کرتا اور انہی متاثرین میں سے ایک خود شاہ جہاں بھی تھا۔ اورنگ زیب کے مکتوبات میں شاہ جہاں کے اعلیٰ اخلاقی مرتبے اور اسلامی تعلیمات کے لیے اس کے ولی احترام کا بیان موجود ہے۔ بے چاری جہاں آراء، جسے برنیے اپنے غیر ذمہ دار قلم کاری سے ذبح کر کے رکھ دیتا ہے، وفور جذبات سے اپنے باپ کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتی ہے کہ وہ دین کے لیے احترام کے جذبات رکھتا تھا اور اخلاقی طور پر بلند شخصیت تھی:
"از اول تا ایں دم، اس نے اللہ تبارک و تعالیٰ کے احکامات پر کتاب و سنت نبوی (صلی اللہ علیہ وسلم) کے مطابق عمل کیا"۔16
یہ اندرونی شہادت زیادہ وزنی اور قابل قبول ہے، کیونکہ یہ کسی اور نے نہیں بلکہ اس کی بیٹی نے دی، جس سے شاہ جہاں کی طرف منسوب کی گئی غلط باتوں کی تردید ہو جاتی ہے۔ اسلام کے لیے شاہ جہاں کی خدمات بڑی واضح ہیں، جبکہ اکبر اور جہانگیر کی پالیسیوں سے بہت کچھ نقصان ہو چکا تھا۔ جہاں تک اس کا اپنی اولاد سے تعلقات کا معاملہ ہے، یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں کہ دارا شکوہ اور جہاں آراء کے ساتھ شاہ جہاں کو بہت پیار تھا اور انہیں اپنی بھر پور توجہ سے نوازتا رہا۔
تیورنئے (Tavernier) کا معاملہ یہ ہے کہ اورنگ زیب اور شاہ جہاں کے تعلقات کے بیان میں اس نے بدترین تعصب کا مظاہرہ کیا ہے۔ اسے یہ بات "عجیب" لگتی ہے کہ اورنگ زیب نے باپ کے اخراجات پر قدغن لگائی اور خزانہ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ حالانکہ وہ جانتا ہے کہ اورنگ زیب کو ختم کرنے کے لیے دارا کی کوششوں کو مالی معاونت شاہ جہاں ہی فراہم کر رہا تھا۔ تیورنئے کو یہ بات جاننا چاہیے تھی کہ دارا شکوہ کو ملنے والی رقوم کا سلسلہ نہ روکا جاتا تو ملک میں افراتفری، انتشار اور ہنگامہ جاری رہتا۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ تیورنئے کے سوانح نگار پروفیسر چارلس جورٹ (Charles Joret) اس کی تحریروں کو اپنی تحقیق مطبوعہ 1886ء (پیرس) میں "چربہ سازی" کا نام دیتا ہے اور واضح طور پر کہتا ہے کہ وہ اپنا تاریخی مواد برنیے ہی سے مستعار لیتا ہے۔ جب کہ ایچ۔ اے۔ روز اس کے "استنادی دعوؤں" پر یہ سوال اٹھاتا ہے کہ وہ ایک ایسا شخص ہے کہ جس کے بارے میں یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ وہ ان واقعات کا چشم دید گواہ نہ تھا "جب کہ اس نے دعوے یہی کیے ہیں کہ اس نے وہ واقعات خود دیکھے ہیں"19۔ روز (Rose) یہ بھی بتاتا ہے کہ: "بیجا پور کے متعلق اس کے بیان نے ایک مضبوط شبہے کو کھڑا کر دیا ہے، کیونکہ وہ تو کبھی اس شہر میں گیا ہی نہیں تھا"۔ لغت اور زبان پر اس کا عبور بھی بے حد کمزور تھا: "جستہ جستہ دو ایک الفاظ کی حد تک"20۔
تاریخی پس منظر کا جائزہ
سچائی تک پہنچنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم تینوں کرداروں ۔ شاہ جہاں، دارا شکوہ اور اورنگ زیب کا جائزہ لیتے ہوئے آٹھ پہلوؤں کو پیش نظر رکھیں، تا کہ ہر ایک کے طرز عمل کو اچھی طرح سمجھا جا سکے:
- کیا مغلیہ دور میں ولی عہدی کی کوئی باقاعدہ پالیسی موجود تھی؟
- اپنے بڑے بیٹے دارا شکوہ کے ساتھ شاہ جہاں کا طرز عمل کیسا تھا؟
- شاہ جہاں کا اپنے تیسرے بیٹے اورنگ زیب سے رویہ کیسا تھا؟
- دارا شکوہ کا اپنے چھوٹے بھائیوں سے سلوک کیسا تھا؟
- اس وقت کا عمومی سیاسی و سماجی ماحول کیسا تھا؟
- کیا کوئی دھڑے بندی موجود تھی، جو مخالف مذہبی کیمپوں میں مجتمع ہو گئی ہو؟
- کیا ایسے دونوں کیمپ خاموش بیٹھے تھے یا آپس میں دست و گریباں تھے؟
- شاہجہانی دربار کے اکابرین، اہل الرائے، علمائے کرام اور عام لوگ اس سارے معاملے کو کیسے دیکھ رہے تھے؟
یہ سارے پہلو جواب طلب ہیں، کیونکہ ان کے بغیر تاریخ کے اس اہم دور اور اس میں ملوث ان باپ بیٹوں کا کردار دھند سے باہر نہیں نکلے گا۔ شاہ جہاں ہو یا کوئی دوسرا مغل حکمران، ولی عہدی کے ضمن میں ان کے ہاں کوئی باقاعدہ پالیسی نہیں تھی۔ اس طرح یہ روایت بھی موجود نہیں تھی کہ باپ کی گدی پر لازماً بڑا بیٹا ہی براجمان ہو گا۔ بلکہ تخت و تاج اسے ہی ملتا تھا، جو کشمکش میں سب سے سخت جان ابھرے۔
شاہ جہاں بالکل اچانک بیمار پڑا۔ ہو سکتا ہے اسے پہلے سے کچھ بیماری لاحق ہو لیکن جب زوال کا وقت آیا تو سب کچھ اچانک ہوا اور وہ حکمرانی کی باگ تھامے رکھنے کے قابل نہ رہا۔ اپنی بیماری سے برسوں پہلے اپنی اولاد کی حکمرانی کی صلاحیتوں پر ایک درباری سے بات کرتے ہوئے اس نے دارا شکوہ پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا، جبکہ اورنگ زیب کے متعلق اس نے مثبت رائے دی۔ بے شک اس کا دل دارا کے ساتھ تھا، اور عقل کا فیصلہ اورنگ زیب کے حق میں تھا۔ لیکن بالآخر دلی جذبات نے عقل و خرد کو چت کر دیا۔
کوئی چاہے تو دارا کے لیے شاہ جہاں کی محبت کا معقول جواز پیش کر سکتا ہے۔ یہ ممکن بھی ہے کہ چونکہ دونوں ہمیشہ یکجا رہے، اس لیے اس پدری شفقت میں اضافہ ہوتا گیا۔ بیشتر وقت شاہ جہاں نے دارا کو دربار سے قریب رکھا، جبکہ اس نے دوسرے بیٹوں کو صوبوں کی گورنری اور انتظامی امور میں مشغول رکھا۔ باپ بیٹے کے قرب و تعلق کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ دارا شکوہ ذاتی طور پر ایک پرکشش انسان تھا، اس کا رکھ رکھاؤ، علم و ادب سے اس کا لگاؤ، اس کی دلچسپ صوفیانہ حکایت گوئی جو اس میں صوفیاء اور ہندو جوگیوں کی صحبت سے پیدا ہوئی تھی۔ قرائن سے اندازہ ہوتا ہے کہ دارا اپنے باقی بھائیوں سے زیادہ وجیہہ، خوبصورت اور خوش اطوار تھا۔ یہ سب کچھ اپنی جگہ لیکن وہ امور سلطنت کے لیے نہیں بنا تھا۔ ذہنی صلاحیتیں ہوں یا جسمانی خوبیاں، اس کا اورنگ زیب سے کوئی تقابل نہ تھا۔ زندگی کے متعلق اس کے رویے میں بھی خرابی تھی۔ وہ آزاد خیال بھی تھا اور مذہبی معاملات میں، عقائد میں تطبیق دینے والا صلح کل، یعنی اکبری پالیسی کا پیروکار بھی تھا۔ اسے ہندو دانشوروں اور مذہبی پنڈتوں نے گھیرا ہوا تھا۔ ایک ایسے مسلم معاشرے میں جو ہندو انڈیا میں اپنی شناخت اور بقا کے حوالے سے روز افزوں پریشانی کا شکار تھا، وہ قابل قبول کردار نہ تھا۔ ان احساسات کو حضرت مجدد الف ثانی کی تجدیدی تحریک مزید تیز تر کر رہی تھی۔
مسلمان عوام سمجھ رہے تھے کہ اگر دارا اقتدار میں آیا تو یہ ان کی بربادی کا پیغام ہو گا۔ سب سے بڑا بیٹا ہونے کی وجہ سے دارا شکوہ کے ذہن میں بچپن ہی سے یہ بات بیٹھی ہوئی تھی کہ وہ مستقبل کا حکمران ہے۔ پیار، محبت اور نیاز مندی کا جو پرسرور ہالہ اس کے گرد موجود رہا، اس میں اس کی اٹھان ایک انا پرست، خوشامد پسند اور بڑبولے انسان کے طور پر ہوئی۔ ماحول کی ساری آسانی اور سازگاری کے باوجود وہ خود اعتمادی سے عاری اور داخلی سطح پر ایک مضطرب و مذبذب انسان تھا۔ یہ چیزیں اس کے احوال و آثار سے بآسانی دیکھی جا سکتی ہیں۔ حسد اور خوف کے جذبات اس کے دماغ میں جنم لیتے اور ظاہری زندگی میں ابھرتے رہے۔ وہ یہ حقیقت نہ سمجھ سکا کہ اصل مسئلہ خارج میں نہیں بلکہ خود اس کے اندر اس کی ذات میں پیوست ہے۔ اپنے چھوٹے بھائی اورنگ زیب کی شکل میں وہ اپنی شکست دیکھ رہا تھا۔ اورنگ زیب کی فوجی فتوحات، انتظامی کامرانیاں اور اس کے مقابلے میں اپنی ڈھل مل کیفیت اور سرکاری امور میں بری کارکردگی کے زیر اثر وہ اعصابی تناؤ کا شکار ہوتا چلا گیا۔ اس کی اس ذہنی حالت کا اظہار ان سازشوں سے ہو رہا تھا جو وہ بھائی کے خلاف کر رہا تھا۔
اپنے آپ کو غیر محفوظ جان کر اسے اسی راستے میں عافیت دکھائی دی کہ باپ کی محبت، قوت اور وسائل کے ساتھ مضبوطی سے بیزار رہے، اور اسے دوسرے بیٹوں سے بدظن کر کے دور رکھے۔ اس مقصد کے لیے اورنگ زیب کی بھیانک تصویر کشی ضروری تھی۔ اس کے بارے میں یہ تاثر گہرا کیا کہ وہ آگے بڑھنے کے مرض کا شکار تھا اور یہی عزائم اسے مجبور کر رہے تھے کہ بغاوت کی آبیاری کرے، اور جسے اپنے ماں باپ کی کوئی فکر نہیں۔ ان باتوں نے شاہجہاں کو اورنگ زیب کی طرف سے مستقل تشویش میں مبتلا کر دیا۔
شیخ احمد سرہندی کی احیائی تحریک نے سترہویں صدی عیسوی کے ماحول میں بڑی ہلچل پیدا کر دی تھی۔ جب اورنگ زیب اور اس کے بھائی نوجوانی کی سرحد میں داخل ہوئے تو یہ تحریک پورے زوروں پر افقی اور عمودی ہر دو سطح پر آگے بڑھ رہی تھی۔ اس تحریک سے پہلے شاہجہاں روشناس ہوا اور پھر خود اورنگ زیب متاثر ہوا۔ عوام الناس تو پہلے ہی اس کے زور دار بہاؤ کے ساتھ تھے۔
اس کے برعکس مذہب اور ثقافتوں کے حوالے سے دارا شکوہ کا طرز عمل ہندو اشرافیہ اور انتظامی اہلکاروں کے لیے جذباتی اپیل رکھتا تھا۔ وہ دارا کی شکل میں اکبر بادشاہ کا دوسرا جنم دیکھ رہے تھے کہ جس کی تخت نشینی سے بالآخر اسلام مقامی اثر پذیر ثقافت میں اپنا وجود کھو بیٹھے گا۔ اسی لیے انہوں نے اپنا سب کچھ دارا پر لگا دیا تھا۔
چنانچہ ہم اس صورت حال میں جو کچھ دیکھ رہے ہیں، وہ مسخ شدہ نفسیات، طاقت کے کھیل، اندھی محبت اور ایک ابلتا ہوا تہذیبی آمیزہ ہے۔ جب پس منظر میں یہی تصویر دکھائی دیتی ہے تو دیگر شخصیات، اورنگ زیب اور دوسرے لوگوں کے عزائم کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔
سب سے پہلے ہم برینٹے کے اس الزام کو لیتے ہیں: "کہ جب اورنگ زیب نے اوائل میں دکن کی گورنری چھوڑنے کی آرزو کی تو اس کے پیچھے اخلاص نہیں تھا" بلکہ یہ باپ اور بھائیوں کو اقتدار اور حکمرانی کے منظر سے ہٹا کر سلطنت ہتھیانے کی تدبیر تھی۔ وہ اس کی شخصیت کو محض دجل و فریب سمجھتا ہے اور اس کی مذہبیت کو دکھاوا قرار دیتا ہے، سردست ہم ان الزامات کو جوں کا توں قبول کرتے ہوئے شواہد ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ معاملہ تحقیق کا بہت اہم سوال لیے ہوئے ہے۔ کیونکہ اگر اورنگ زیب کوئی مکار بہروپیا تھا، تب برینٹے کے الزامات واقعی سچ ثابت ہوں گے۔ لیکن اس کے برعکس اگر وہ ایک مخلص اور راست باز انسان تھا اور اس کے قول و فعل میں تضاد نہیں تھا تو اس کے خلاف سارے الزامات پادر ہوا ہوں گے۔
اورنگ زیب کے مکتوبات کے مطابق اس نے دو بار گورنری سے دستبرداری کی پیش کش کی، لیکن باپ کی ناراضی دیکھ کر فیصلہ واپس لے لیا۔ اس کا پہلا استعفیٰ اس وقت سامنے آتا ہے جب اسے دکن کا گورنر نامزد کیا جاتا ہے۔ دس برس بعد وہ پھر اس موقع پر یہ پیش کش دہراتا ہے، جب اس کی بہن شہزادی جہاں آراء اپنی سالگرہ پر آگ میں جھلس جاتی ہے۔ اورنگ زیب اسے دیکھنے آتا ہے۔ شاید بہن کی حالت دیکھ کر وہ اتنا دل گرفتہ ہوتا ہے کہ وہ شاہی لذائذ و اقتدار پر لات مار کر تنہائی اور خلوت گزینی کی زندگی گزارنے کا فیصلہ کر لیتا ہے۔22
اس کے ایک مکتوب میں دستبرداری کی وجہ درج ہے۔ اپنی بہن کو لکھے گئے خط میں وہ ان ناانصافیوں کا تذکرہ کرتا ہے جو اس کے ساتھ کی گئیں۔ اگرچہ وہ کسی کا نام نہیں لیتا لیکن واضح طور پر اس کا اشارہ باپ اور بڑے بھائی دارا شکوہ کی طرف ہے۔ زیادہ دکھ اسے دارا شکوہ کے ہتک آمیز رویے سے تھا، جس نے شاہ جہاں کو آمادہ کر کے، شورش زدہ دکن کے گورنر کی حیثیت سے اس کے انتظامی فنڈ کاٹ دیے اور ایک ایسے وقت اس کی زیر کمان فوج میں کمی کرا دی، جبکہ وہ مملکت کے دشمنوں سے برسر پیکار تھا۔ اس تجربے نے اسے داخلی سطح پر توڑ پھوڑ کر رکھ دیا۔ زندگی میں پہلی بار وہ دنیا کا حقیقی چہرہ دیکھ رہا تھا: بد شکل، مکروہ اور ظالم دنیا، جس میں قابلیت اور عبقریت، اخلاق اور مملکت کے لیے خدمات کی کوئی قدر و قیمت اور وقعت نہ تھی۔ وہ لکھتا ہے:
"اس فانی دنیا اور اس کے فوائد و منافع کے لیے جان لڑانا بے سود ہے۔ وہ بے توقیری کی اس زندگی سے چھٹکارا چاہتا ہے جو دوسروں نے اس پر تھوپ دی تھی، تا کہ دوسروں کو سکون میسر آجائے کہ "اچھا ہوا اقتدار کی راہداریوں سے ایک ممکنہ چیلنج تو رخصت ہوا۔"23
ان خطوط سے یہ پتہ نہیں چلتا کہ اورنگ زیب کو اقتدار کی کوئی شدید خواہش تھی، بلکہ وہ تو سب کچھ دوسروں کے لیے چھوڑ کر گوشہ نشین ہونا چاہتا تھا۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ وہی اورنگ زیب جو ان لوگوں کی نظر میں ایک ہٹ دھرم شخص تھا، جس نے ان کے بقول چالاکی سے زہد و تقویٰ کا لبادہ اوڑھ رکھا تھا، وہ تخت نشینی کے بعد 43 سال کی عمر میں قرآن پاک حفظ کر لیتا ہے۔ اس کا ہم عصر شاعر ضمیر ان مبارک لمحات کو اپنے ایک قطعہ میں جاوداں کر دیتا ہے۔
تو حامی شرع و شارع حامی تو
تو حافظ قرآن و خدا حافظ توتو دین و شریعت کا حامی و مددگار ہے
اور شارع تیرا حامی اور ناصر ہے، تو حافظ قرآن ہے اور
خدا تیرا حافظ ہے۔
اس کا 43 سال کی عمر میں قرآن پاک کو حفظ کرنا خصوصاً اہم بات ہے۔ کیونکہ چھوٹی عمر کے برعکس اتنی بڑی عمر میں حفظ قرآن بہت مشکل کام ہے۔ بچے تو والدین کے دباؤ اور استاد کی سختی کے تحت ایسا کرتے ہیں لیکن بڑی عمر کا انسان آزاد مرضی سے حفظ کی مشقت اسی وقت اٹھائے گا جب دینی جذبہ اسے ایسا کرنے پر ابھارے گا۔
کافی شہادت موجود ہے کہ اورنگ زیب با جماعت نماز کا پابند تھا اور بڑے شوق سے روزے رکھتا تھا۔ غریب کی مدد کا معاملہ ہوتا تو اس کے ہاتھ بڑے فراخ تھے۔ تاج پوشی کے بعد اس نے پہلا کام یہ کیا کہ عام آدمی کو متاثر کرنے والے اسی (80) ٹیکس ختم کر دیے ۔24 "مآثر عالمگیری" میں ہے کہ حالت جنگ میں بھی وہ خشوع کے ساتھ نماز ادا کیا کرتا تھا۔ بلخ کی مہم کے دوران دشمن کے دستوں نے اسے گھیر لیا تھا لیکن (نماز کے وقت) وہ گھوڑے سے اترا اور امامت شروع کر دی۔ امیر بلخ عبد العزیز خان یہ منظر دیکھ کر اتنا سخت متاثر ہوا کہ اس نے لڑائی سے یہ کہہ کر ہاتھ کھینچ لیا کہ "ایسے شخص سے لڑنا اپنی موت کو دعوت دینا ہے۔"25
اورنگ زیب عالمگیر کا رویہ اپنے ذاتی اسٹاف، امرائے دربار اور عام لوگوں کے ساتھ یکساں لحاظ، مروت اور مساوات کا تھا۔ باپ نے جب نصیحت کی کہ "سب کو ایک سا نہ سمجھے اور مقام و مرتبے کے لحاظ سے تمیز روا رکھے" تو اس نے جو جواب دیا وہ اس کے اعلیٰ اخلاق کا مظہر تھا۔ کہتا ہے: "عزت اور سر بلندی انسانوں سے نہیں ملتی، بلکہ کائنات کے خالق اور مالک اللہ کے حضور سے نصیب ہوتی ہے۔"26 اپنے برتاؤ میں وہ اس حدیث نبوی کا اتباع کرتا ہے جس کے راوی حضرت انس بن مالک ہیں: مَنْ أَذَلَّ نَفْسَهُ. عَزَّزَهُ الله (جو عاجزی اختیار کرتا ہے، اللہ اسے عزت سے نوازتا ہے)27 ۔ اورنگ زیب سمجھتا تھا کہ کسی کی عزت نفس کو مجروح کرنا سب سے بڑا گناہ ہے۔
تخت نشینی کے بعد اس نے نفاذ شریعت کے لیے بنیادی اقدامات کیے۔ اخلاقی ماحول کو گندگیوں سے پاک کیا۔ جید علماء کی مجلس قائم کر کے قوانین کی تدوین کی، جس کے نتیجے میں "فتاویٰ عالمگیری" منصہ شہود پر آگئی۔ یقیناً اس کے یہ سارے اقدامات مذہبی بہروپ کے زمرے میں قطعاً نہیں آتے۔
اورنگ زیب نے شاہی خانوادے میں آنکھ کھولی۔ وہ شاہ ابن شاہ تھا، جس کے پاس ایک ایسی مملکت کے داخلی اختیارات اور بے پناہ وسائل تھے، جو اپنے وسیع خزانوں کے لیے مشہور تھی۔ وہ چاہتا تو ہمارے آج کے "منتخب" حکمرانوں کا چال چلن اپنا سکتا تھا کہ نفسانی عیش و عشرت میں لوٹ لگاتا رہتا۔ لیکن وہ اپنے رب اللہ بزرگ و برتر کی کبریائی و جبروت کے حضور جھک گیا۔ نرم و گداز بستر سے علیحدہ رہ کر اس کی راتیں تہجد میں گزرتیں۔ زیادہ اہم بات یہ کہ وہ تہذیبوں کے اسباب زوال پر بڑی گہری نظر رکھتا تھا۔ وہ اکثر اس فکر اور تشویش میں مبتلا رہا کہ برصغیر جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کا مستقبل کیا ہو گا۔ اسے سامنے تاریک دن نظر آ رہے تھے۔ اس کے اجداد اور پیش روؤں نے اسلام کی تبلیغ اور استحکام میں برس ہا برس جس تساہل اور لاپروائی سے کام لیا تھا، اس کے اثرات سامنے آ رہے تھے۔ وہ اس تباہی و بربادی کا رخ موڑنا چاہتا تھا۔ اورنگ زیب کی تاریخی یادداشت بہت تیز تھی۔
اورنگ زیب نے ایسے ملک میں آنکھ کھولی جس نے جلال الدین اکبر کی اسلام سے دشمنی بھی دیکھی، جس کی یہ خواہش اور کوشش تھی کہ مسلم سوسائٹی کو دینِ اسلام سے پھیر دے اور اس کے نتیجے میں (ہندوؤں کی خوش دلی اور تعاون کی شکل میں) اپنے لیے سیاسی فوائد سمیٹ لے۔ اورنگ زیب کو اپنے پردادا اکبر، اپنے دادا جہانگیر اور شیخ احمد سرہندی کے باہمی نزاع کا بھی پورا علم تھا۔ اسے یہ بھی معلوم تھا کہ اکبر نے تو بچوں کے ناموں کے ساتھ "محمد" کا لاحقہ لگانے کی بھی ممانعت کر دی تھی، اسلامی کیلنڈر منسوخ کر دیا تھا اور عربی زبان، قرآن پاک اور شرعی قوانین کی تعلیم پر پابندی عائد کر دی تھی۔ اس سے یہ بات بھی پوشیدہ نہ تھی کہ اکبر نے مسلمانوں کو نماز پڑھنے، روزہ رکھنے اور حج بیت اللہ تک پر جانے سے روکنے کا حکم دیا، جبکہ شراب نوشی اور سور کے استعمال کی حوصلہ افزائی کی گئی۔
بقول یورپی مؤرخ ونسنٹ سمتھ (Vincent A. Smith) جس نے اکبر پر تحقیقی کام کیا ہے، اسے اکبر مسلمان نہیں نظر آتا تھا۔ برنیے کا مدیر آرچی بالڈ کانسٹیبل، کارٹو کی سند کے ساتھ کہتا ہے: "ارتداد شاہی خاندان میں در آیا تھا۔ شاہ جہاں کی دو بیٹیوں نے عیسائیت قبول کر لی تھی۔"28 اس درجہ سنگین صورت حال میں مسلمان جانتے تھے کہ وہ عددی اعتبار سے اقلیت ہیں اور بحیثیت مسلم امت ان کا وجود اپنے عقیدے سے مضبوطی سے جڑے رہنے پر منحصر تھا۔ کفر کے اس ماحول میں بقا کے لیے وہ لازمی طور جانتے تھے کہ ان کے تہذیبی رویے ہر طرح کے غیر اسلامی اثرات سے پاک رہنے ضروری ہیں۔
اس پس منظر میں اورنگ زیب، دارا شکوہ چپقلش محض تخت دہلی کا جھگڑا نہ تھا۔ یہ مسلمانوں اور ہندوؤں کے مابین تہذیبوں کا ٹکراؤ کا فطری مظہر تھا جن کی نمائندگی دو مثالی نمونے (عالمگیر اور دارا) کر رہے تھے۔ دارا شکوہ سمجھتا تھا کہ اپنشد (Upanishad) قرآن پاک سے برتر کتاب ہے۔ اس نے "سیر الاسرار" کے نام سے خود اس کا فارسی ترجمہ کیا۔ الہ آباد کے شیخ محب اللہ کے نام اس کا خط تاریخ نے محفوظ رکھا ہے، جس میں وہ اس حد تک جاتا ہے کہ وہ اپنے "وجدانی معارف و اثرات" کو الہامی کتب کے مندرجات سے بدرجہا بہتر سمجھتا ہے۔29
دارا شکوہ کے ایسے خیالات مسلمانوں میں بے چینی اور اشتعال پیدا کر رہے تھے۔ شاہی تخت پر اس کے ممکنہ قبضے کا خیال ہندوؤں کو اس کی طرف کھینچ رہا تھا، کیونکہ دارا کی کامیابی میں انہیں مسلمانوں کے تسلط کے خاتمے کی جھلک نظر آ رہی تھی۔ مسلمانوں کے لیے ہندوؤں کا دارا شکوہ کی نامزدگی پر مجتمع ہونا گزرے ہوئے عہد اکبری کی تاریخ دہرائے جانے کے مترادف تھا۔ ایک بار پہلے بھی ہندوؤں نے یہ کوشش کی تھی کہ ایک ہندو رانی سے بطن سے پیدا ہونے والا اعلیٰ جہانگیر کا بیٹا خسرو، اکبر کا جانشین بن جائے۔
1657 عیسوی کی ابتداء میں شاہ جہاں بیمار پڑا تو سلگتے جذبات، جو ابھی تک قابو میں تھے، دو مخالف اور متحارب قوتوں میں ڈھلنے لگے۔ دارا شکوہ نے اس میں امکانات کو سب سے پہلے بھانپا اور شاہ جہاں کو اس کے دوسرے بیٹوں سے کاٹ کر جدا کر دیا۔ اس مقصد کے لیے اس نے دربار کو ایسے امراء سے پاک کرنا شروع کر دیا، جن کے متعلق اندیشے تھے کہ وہ دوسرے شہزادوں خصوصاً اورنگ زیب سے مراسم رکھتے ہیں۔ دربار میں اورنگ زیب کے رابطہ افسر عیسیٰ بیگ کو پہلے حوالہ زنداں کر دیا گیا، پھر اس کی جائیداد ضبط کر لی گئی۔ دارا شکوہ نے مراد بخش (م: 1661ء) کے خلاف بھی اقدام کیا اور گجرات میں اس کی جگہ اپنے حامی قاسم خان کو مقرر کر دیا۔ فتنہ انگیزی بڑھانے کے لیے اس نے مراد کو آمادہ کیا کہ برار میں اورنگ زیب کا علاقہ اپنے قبضے میں لے لے، تا کہ دونوں میں جنگ بھڑک اٹھے۔ لیکن مراد کو سازش کی سن گن مل گئی۔ اس نے سورت فتح کر کے خود اپنی بادشاہت کا اعلان کر دیا۔
اورنگ زیب اس ساری صورت حال کا دکھ اور افسوس کے ساتھ مشاہدہ کر رہا تھا۔ ہر گزرے دن کے ساتھ وہ دارا شکوہ کے ہاتھ اپنی گردن پر تنگ ہوتے دیکھ رہا تھا۔ اگر دارا شکوہ کی صوفی طبیعت میں کوئی خفیہ پہلو تھا تو وہ جلد ہی ظہور میں آنے والا تھا۔ اس کے ضمن میں تین باتیں بالکل واضح تھیں: وہ اسلام کا مخالف اور آزاد رو تھا اور تخت پر قبضہ کے لیے پوری بے رحمی سے سب کچھ کر گزرنے پر تلا ہوا تھا، خواہ اس کی جو بھی قیمت اسے چکانی پڑے۔ اس نے قبیح حربے جاری رکھے۔ وہ شاہ جہاں کے جعلی دستخطوں کے ساتھ شاہی فرامین جاری کرتا، شاہ جہاں کے صحت مند ہونے کا تاثر پھیلاتا اور بھائیوں کے خلاف ایک عظیم جنگی مشین کی تیاری اور تقویت میں جتا رہا۔ پہلے قدم کے طور پر اس نے دکن سے مغل افسران کو واپس بلایا، جو دراصل اورنگ زیب کا سیاسی حلقہ اثر تھا۔ پھر اس نے مالوہ کو ضبط کر لیا جو اورنگ زیب کی جاگیر تھی۔ یہ گویا اورنگ زیب کی پشت میں خنجر گھونپنا تھا، جو اس وقت بیجا پور میں جنگجو ہندو مرہٹوں سے برسرِ پیکار تھا، جو سلطنت دہلی کے دشمن تھے۔ کوئی شک نہیں کہ اورنگ زیب کے لیے بے حد مشکل صورت حال پیدا کر دی گئی، جو بیجا پور اور گولکنڈہ کو یہ تاثر نہیں دینا چاہتا تھا کہ مملکت مختلف دھڑوں میں بٹی ہوئی ہے۔ مرکزی اقتصادی امداد اور فوجوں میں کٹوتی نے دکن میں اس کی موجودگی قریب قریب غیر یقینی بنا دی تھی۔ بڑا بھائی گھل کر اس کے خلاف میدان میں آ گیا تھا۔ اورنگ زیب کی تحقیر کرنے والے بتائیں کہ ان حالات میں اسے کیا کرنا چاہیے تھا؟ کیا وہ اپنا آپ ایک منتقم مزاج بھائی کے سامنے ڈال دیتا یا اپنی زندگی بچاتا؟
اس خونیں اور مایوس کن منظر میں شہزادہ شجاع (م: 1660ء) نے بھی اپنی تخت نشینی کا اعلان کر دیا۔ بالفاظ دیگر اورنگ زیب جس نے اپنی شاہی خواہشات کو تھامے رکھا تھا، مگر اس کے سامنے تخت کے تین دعوے دار سامنے آ گئے تھے۔ تن تنہا اس نے جلد سے جلد شاہ جہاں تک پہنچنا چاہا۔
جنوری 1658ء میں اورنگ زیب برہان پور پہنچا۔ وہیں سے اس نے باپ کو خط لکھ کر اس کی صحت کا پوچھا۔ مہینہ بھر انتظار کے باوجود اسے کوئی جواب نہ ملا۔ اسے اب بھی معلوم نہ تھا کہ آگرہ میں کیا کھچڑی پک رہی تھی۔ ایسے میں اچانک عیسیٰ بیگ، قید خانے سے آزادی ملتے ہی اورنگ زیب کے لشکر گاہ میں وارد ہوا، اور شاہی دربار میں جاری دارا شکوہ کی ریشہ دوانیوں کے قصے عالمگیر کے گوش گزار کر دیے۔ یوں خبر دار ہو کر اورنگ زیب، مراد سے ملنے دیپال پور چل پڑا۔ وہاں سے دونوں بھائی آگرہ کی طرف روانہ ہوئے تا کہ بیمار باپ کو دیکھ سکیں اور اس سے دارا شکوہ کے ضمن میں انصاف کے طلب گار ہوں، جو ان کے خلاف ”مارو یا مر جاؤ“ کے منصوبے باندھے بیٹھا تھا۔ جنگی چالوں کا ماہر ہونے کی بناء پر اورنگ زیب ایک ہی حملے میں شہر پر قبضہ کر سکتا تھا، لیکن وہ اب بھی صبر و ضبط سے کام لے رہا تھا۔ اس نے اپنا قاصد راجا جسونت سنگھ کے پاس بھیجا اور اس پر زور دیا کہ وہ بادشاہ تک اورنگ زیب کے جانے کی راہ میں مزاحم نہ ہو، کیونکہ اس کے پیش نظر صرف ملاقات تھی۔ لیکن جسونت سنگھ نے سخت ہتک آمیز انداز میں اسے راستہ دینے سے انکار کر دیا۔ اس نے اورنگ زیب کی شخصیت کا ذرا بھی لحاظ نہ کیا۔ بلکہ مزید یہ بھی کہہ دیا کہ یہی بادشاہ سلامت کی مرضی تھی ۔30
یہ دیکھ کر کہ جھگڑا بڑھ رہا ہے، دربار کے مسلمان امراء نے بھی دارا شکوہ کو مشورہ دیا کہ اورنگ زیب کو باپ سے ملنے دے۔ لیکن اس وقت تک ہندو حلقہ دارا شکوہ کے گرد مکمل ہو چکا تھا، اور دارا کو اب باپ، بھائیوں کے برعکس وہی اچھے لگ رہے تھے۔ راؤ ستر سال اور رام سنگھ نے رائے دی کہ مقابلہ کیا جائے اور دارا شکوہ فوراً تیار ہو گیا، کیونکہ اسے اورنگ زیب کے خلاف من کی مراد، اسی میں پوری ہوتی نظر آ رہی تھی۔ اس طرح ہندو مدد اور تائید سے حوصلہ پا کر اس نے مسلمانوں کے خلاف یہ ذلت آمیز الفاظ کہے: "بہت جلد میں ان کوتاہ لباسوں کو ستر سنگھ کے ذاتی ملازموں کی طرح بھاگنے پر مجبور کر دوں گا ۔"31
ادھر وہی ہوا جو ہونا تھا کہ راجہ جسونت سنگھ، اورنگ زیب کے دستوں سے پہلی جھڑپ ہوتے ہی بھاگ دوڑا۔ اورنگ زیب چاہتا تو اسے روند کر رکھ دیتا لیکن اس نے خود اسے فرار ہو جانے دیا۔ شاہ جہاں کے نام اپنے ضمنی مکتوب میں وہ اپنی سوچ کا اظہار یوں کرتا ہے:
"اگر میرا آپ سے ملنے کے علاوہ کچھ اور مقصد ہوتا تو میں بڑی آسانی سے جسونت سنگھ اور اس کے لشکریوں کا تعاقب کر کے ان سب کو موت کے گھاٹ اتار دیتا۔ خصوصاً جبکہ وہ بے بس اور ذلیل ہو کر شکست کی وادی میں بھٹکتے پھر رہے تھے۔... لیکن مقصد تو آپ تک پہنچنے کے لیے راستہ حاصل کرنا تھا۔"32
بنگالی نژاد ہندو مورخ سر جا دوناتھ سرکار (م: 1958ء) ، جو اپنے تعصبات پر بمشکل پردہ ڈال پاتا ہے، اورنگ زیب سے دشمنی کے جذبات رکھنے کے باوجود اس کی تائید کرتا ہے:
"اورنگ زیب نے رحم دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تعاقب کی ممانعت کر دی، اور کہا کہ: انسانی جانوں کی یہ معافی خالق کے حضور اس کی طرف سے زکواہ تھی ۔..."33
تاہم جادو ناتھ سرکار ڈنک مارے بغیر نہیں رہا: "لیکن ظاہر ہے اورنگ زیب کے عقیدے کے مطابق خالق صرف مسلمانوں کا خالق ہے۔ شہزادے نے افسروں کو حکم دیا تھا کہ ہر مسلمان جو میدان میں نظر آئے اس کی جان بخش دی جائے اور دشمن کے کیمپ میں مسلمانوں کے مال اور عصمت کو بچایا جائے۔ لیکن ہندو اس کے دائرہ ترحم سے باہر تھے۔"
جادو ناتھ سرکار کی معلومات کا ذریعہ مشتبہ ہے۔ اورنگ زیب کا اپنا مکتوب اصل بات سامنے لا رہا ہے کہ اس کا حکم مسلمانوں کے لیے مخصوص نہ تھا۔ بلکہ وہ جسونت سنگھ اور اس کے لشکریوں کا عمومی ذکر کرتا ہے۔ اس کے الفاظ ہیں: "میں بڑی آسانی سے جسونت سنگھ اور اس کے لشکریوں کا تعاقب کر کے ان سب کو موت کے گھاٹ اتار دیتا ۔..."
اس کے خط سے یہ بھی ظاہر ہو رہا ہے کہ اس کے مقابل فوج جسونت سنگھ کے کمان میں تھی کیونکہ برینٹے کے بقول قاسم خان لشکر چھوڑتے ہی میدانِ جنگ سے بھاگ گیا تھا۔ چنانچہ رہ جانے والی فوج سنگھ کے کمان میں لڑ رہی تھی۔ شجاع کے نام مراد بخش کے خط سے واضح ہوتا ہے کہ کون سے دستے کس کی کمان میں تھے، بلاشبہ سادات، راجپوت، افغان اور مغل بھی دستوں کی قیادت جسونت سنگھ کے ہاتھ میں تھی تھی۔ اسے اگر اورنگ زیب کے خط کے ساتھ ملا کر پڑھیں تو کوئی ابہام باقی نہیں رہتا اور جادو ناتھ سرکار والی تاریخ نویسی کے چہرے سے نقاب اتر جاتا ہے۔
معاملہ کچھ بھی ہو، جادو ناتھ سرکار کو یاد نہیں رہتا کہ جسونت سنگھ نے اورنگ زیب کو باپ کے پاس جانے سے روکتے ہوئے ہتک آمیز رویہ بھی اپنایا اور دارا شکوہ کی طرف سے اس سے عملاً لڑنے بھی آیا۔ اگر اورنگ زیب واقعی متعصب اور سنگ دل انسان تھا تو اس کا جسونت کو چھوڑ دینا جبکہ وہ کافر بھی تھا اور شہزادے کے سامنے بے بس ہو گیا تھا، اور بعد میں اسے اہم انتظامی عہدوں پر فائز کرنا تو کچھ اور ہی ظاہر کر رہا ہے۔ لیکن متعصب دل فیاضیوں کو تسلیم نہیں کیا کرتا، بلکہ یہ ہمیشہ دلی ارادوں اور افعال و واقعات کا من پسند مطلب ہی نکالتا ہے۔
اس دوران میں شاہ جہاں کو حالات کی سنگینی کا احساس ہو گیا کہ پانسہ پلٹ گیا ہے۔ اس نے دارا کو سمجھایا کہ بھائیوں کو آگرہ آنے دے، لیکن اس نے التفات نہ دکھائی۔ ہندو اپنے خوابوں کی تحمیل کی خاطر اس پر اپنی گرفت مضبوط کیے جا رہے تھے۔ اس موقع پر اورنگ زیب پھر کوشش کرتا ہے کہ باپ کو قائل کرے کہ وہ خود مداخلت کرے اور اس طرح خونریزی کے خطرے کو ٹال دے۔ اس نے شاہ جہاں کو دو خط لکھے۔ پہلا خط جعفر خان لے کر گیا۔ لیکن اس وقت تک شاہ جہاں اپنا سارا وزن دارا شکوہ کے پلڑے میں ڈال چکا تھا۔ اس نے خط کے مندرجات پر توجہ ہی نہ دی، بلکہ دارا کی فوجوں کو رخصت کرتے ان کی کامیابی کے لیے خصوصی دعا کی۔ اورنگ زیب نے دوسرا خط اس وقت لکھا جب دارا شکوہ کا لشکر جرار دھول پور پہنچ گیا تھا۔ وہ پھر باپ سے گزارش کر رہا تھا کہ دارا شکوہ کو اس کے خلاف جنگ سے روکے، بصورت دیگر دارا شکوہ کے لیے شکست سے بچنا ممکن نہیں ہو گا۔35
وہی ہوا کہ دارا شکوہ نے شکست کھائی اور آگرہ کی طرف بھاگا۔ وہ اپنی زندگی کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہا تھا، لیکن شاہ جہاں کی اس بڑے بیٹے کی محبت میں بے قرار تھا۔ اس نے سونے جواہرات سے دارا شکوہ کی مدد کی۔ مزید یہ کہ اس نے صوبوں کے گورنروں کو لکھا کہ دارا شکوہ کی مدد کو پہنچیں۔ لیکن قسمت کی بازی پلٹی اور شاہ جہاں اورنگ زیب سے ملاقات پر مجبور ہوا۔ اس نے آمادگی کی اطلاع دینے کے لیے فضل خان اور سید ہدایت اللہ کو اورنگ زیب کے پاس بھیجا۔ اورنگ زیب نے ہامی بھر لی کہ جنگی صورت حال معمول پر آتے ہی وہ باپ سے ملنے پہنچ جائے گا۔
شاہ جہاں کچھ انتظار کر سکتا تھا لیکن اب اسے ملاقات کی بے چینی لگی ہوئی تھی۔ اس سے اورنگ زیب کے کانوں میں خطرے کی گھنٹی بج گئی۔ اگر وہ قلعہ میں داخل ہوتے ہی قتل کر دیا گیا تو؟ شاہ جہاں کے نام اس کے ایک خط میں ان اندیشوں کا اظہار موجود ہے:
"میری انسانی کمزوریاں اور میرے اندیشے اور شبہات جو میرے ذہن پر یورش کر رہے ہیں، مجھے حوصلہ نہیں دے رہے کہ میں اعلیٰ حضرت کی قدم بوسی کی سعادت حاصل کروں ... تاہم اگر میری ذاتی تسلی کی خاطر آپ میرے کچھ دستوں کو قلعے میں داخل ہونے اور دروازوں پر متعین ہونے کی اجازت مرحمت فرما دیں ... تو میں ضرور حاضر ہوں گا اور آپ کے پائے مبارک چوم کر معذرت خواہی کروں گا ۔"36
اورنگ زیب کے اندیشے بلا وجہ نہ تھے۔ ماضی میں تو اس کی بار بار درخواستوں پر بھی باپ ملاقات پر آمادہ نہیں ہو رہا تھا، کیونکہ وہ پوری طرح دارا شکوہ کے ساتھ تھا۔ اب وہ خط در خط لکھ کر ملاقات کے لیے اتنا بے چین کیوں ہو رہا ہے؟ یہاں سینیورا مانوچی کی گواہی، جو دل و جان سے دارا شکوہ کا حمایتی تھا، سمور گڑھ میں اس کے فوج کے ساتھ تھا، قابل توجہ ہے۔ مانوچی کہتا ہے کہ شاہ جہاں، دراصل اورنگ زیب کو "قوی الاعضاء تاتاری، قلمق اور ازبک خواتین کے ہاتھوں قتل کرانا چاہتا تھا"۔
فرانسیسی سیاح برینٹے نے بھی اپنے سفرنامے میں ایسی ہی بات لکھی ہے۔ محل کے اندر کی بات اورنگ زیب کی چھوٹی بہن روشن آراء جان گئی تھی اور اس نے بھانڈا پھوڑا اور بھائی کو باپ کے ارادوں سے خبردار کر دیا۔ اورنگ زیب کو یقین ہو گیا کہ جب تک باپ کے ہاتھ میں استعمال کے لیے طاقت اور وسائل ہیں، وہ دارا شکوہ کی معاونت سے باز نہیں آئے گا۔ دانش اور تجربہ تقاضا کر رہے تھے کہ وہ قلعہ آگرہ کو شاہ جہاں کے آدمیوں سے خالی کرانے کا مطالبہ کرے۔ یہ ساری باتیں جان کر بھی سیکولر حضرات اورنگ زیب کو ظلم و زیادتی کا الزام دیتے ہیں۔ اورنگ زیب کی جگہ کوئی بھی دوسرا شخص ایسے حالات میں کیا کرتا؟
جی ہاں! اورنگ زیب نے آگرہ کا قلعہ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ لیکن اس کے باوجود کہ شاہ جہاں نے اس کے لیے سخت مخاصمانہ صورت حال پیدا کر دی تھی، اس نے باپ سے نرمی اور مہربانی کا سلوک روا رکھا۔ اس سے کم تر اخلاق والا اس کا کوئی دوسرا بھائی، اس کیفیت کو "انتقام" کا بہانہ بنا لیتا۔
برینٹے اس واقعے کے تذکرے میں اورنگ زیب کے رویے کو باپ کے حق میں غیر پسرانہ اور ظالمانہ قرار دیتا ہے۔ لیکن وہ واقعات ماسبق جو اس حادثے کا سبب بنے، بیان نہیں کرتا۔ سچ یہ ہے کہ جب شاہ جہاں نے شہر میں کھلے انداز گفتگو سے اورنگ زیب سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا "زود آئی، دل تنگ مارا مانوس جاں باش، یعنی جلد آ جا، اور میرے بھینچے ہوئے دل کے لیے راحت جان بن جا۔"
لیکن قلعہ میں اورنگ زیب کے جانے سے پہلے ہی اس کے ماموں شائستہ خان اور شیخ میرا سے روکنے میں کامیاب ہو گئے۔ جس واقعے نے حتمی فیصلہ کرنے میں مدد دی، وہ ناہر دل خان چیلہ نامی شخص کا پکڑا جانا تھا، جو شاہ جہاں کا خط دارا کے پاس لے جا رہا تھا۔ بادشاہ نے دارا شکوہ سے دار الحکومت میں رکنے کے لیے کہا تھا کہ "سیم و زر اور فوجوں کی کوئی کمی نہیں" : "میں یہ معاملہ یہیں ختم کر دوں گا۔" بات واضح ہے کہ اس کے ارادے اورنگ زیب کو قتل کرنے کے تھے۔
والی کابل مہابت خان کے نام خط میں شاہ جہاں، دارا شکوہ کے لیے محبت کے گہرے جذبات کا اظہار کرتا ہے۔ وہ بیٹے دارا شکوہ کو "دارائے من" (میرا دارا) کہہ کر پکارتا ہے۔ یہ اگرچہ سرکاری مکتوب تھا، خصوصی حالات میں لکھا گیا تھا اور اس طرح کے اظہار محبت کے لیے موزوں نہ تھا۔ لیکن شاہ جہاں دل کے ہاتھوں مجبور تھا۔
برنیے کو اس پورے قصے پر اعتراض ہے۔ یہاں بھی اس کا سارا بیان سوائے قیاس کے کچھ نہیں، جس میں تاریخ نویسی والی کوئی خوبی نہیں۔ کہتا ہے: "بہت سے ذہین لوگ ان الزامات کی صداقت کا انکار کرتے ہیں کہ یہ خط جسے اس انداز سے عام کیا گیا، لوگوں کو دھوکا دینے کی ایک کوشش تھی" ، "لیکن برینٹے ان ذہین لوگوں میں سے کسی ایک کا بھی نام نہیں بتاتا جنہیں وہ جانتا ہو۔"
تیورنئے (Tavernier) شاہ جہاں کا خط پکڑے جانے کا ذکر ہی نہیں کرتا، جس نے باپ سے ملنے کے ضمن میں اس کے ارادے بدل ڈالے۔ اس کے خیال میں اورنگ زیب طاقت کے میدان کا کھلاڑی ہے، بہت سرد مزاج اور انتہائی چالاک فتنہ پرداز۔ لیکن یہ کہ وہ ایک بیٹا بھی تھا، ایک بندہ مومن بھی اور آخر کو انسان تھا۔ یہ سب پہلو برینٹے کے نزدیک قابل توجہ امور ہیں ہی نہیں۔
ان خطوط کی بناء پر اورنگ زیب کو یقین ہو گیا تھا کہ باپ اسے قتل کر دے گا۔ چنانچہ اس کا فیصلہ تھا کہ دارا شکوہ کی رخصتی لازم ہے۔ اس کا تخت دہلی کا ہند و پسند دعوے دار کے طور پر موجود ہونا، سلطنت میں فتنہ و فساد کا باعث تھا۔ بلکہ جنوبی ایشیا میں مسلم اقتدار کو ختم کرنے کا باعث بن سکتا تھا۔ اس طرح مجبور ہو کر اس نے شاہ جہاں کا ذاتی سٹاف اس کے پاس سے ہٹا دیا، اور اس کے گرد ایک نیا انتظامی ڈھانچا قائم کر دیا۔ یہاں اورنگ زیب کا ایک خط جو اس کے مجموعہ مکاتیب میں موجود ہے، لازماً زیر نظر رہنا چاہیے:
"میں اعلیٰ حضرت سے بار بار درخواست کرتا ہوں کہ یہ آگ بھڑکانے والے خطوط نہ لکھے جائیں ... اب میں بے بس ہو گیا ہوں۔ میں ان فتنہ پرداز خواجہ سراؤں کو آپ کے سٹاف سے فارغ کر رہا ہوں ..... میں کئی دفعہ یہ یقین دہانی بھی کرا چکا ہوں کہ آگرہ کی طرف بڑھتے ہوئے میری ذرا بھی خواہش نہیں تھی کہ میں شاہ اسلام سے تخت و تاج چھین لوں۔ میں اللہ کو گواہ ٹھہراتا ہوں کہ ایسا برا خیال میرے ذہن میں آیا ہی نہیں۔
آپ کی علالت کے ابتدائی ایام میں جب بڑے شہزادے نے، جس میں ایک مسلمان کے شریفانہ کردار کا ذرہ بھر نقش موجود نہیں، اقتدار ہاتھ میں لیا اور الحاد اور بے دینی کا علم بلند کیا تو میں نے اسے اپنی اسلامی ذمہ داری سمجھا کہ اسے مسندِ اقتدار سے اتار پھینکوں۔ چونکہ آپ عالی وقار کا ایک ہی جانب جھکاؤ رہا، حالات کی سنگینی کا احساس نہ کر پائے اور بڑے شہزادے کو بے دینی پھیلانے کی آزادی دیے رکھی۔ میں نے تہیہ کر لیا کہ اس کے خلاف جہاد کروں۔"
وہ تشویشناک صورت حال کیا تھی جو اورنگ زیب کے ذہن کو پریشان کر رہی تھی؟ یہ ہندوستان نامی غیر مسلم سمندر میں مسلم امہ کے مستقبل کا سوال تھا۔ مسلمان ایک دوسرا اکبر نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔ دارا شکوہ کی تخت نشینی سوسائٹی اور مملکت کے اسلامی خدو خال مٹا کر رکھ دیتی۔ بلکہ مملکت، مسلم حمایت سے محروم ہو جاتی، جو اس کے وجود اور تسلسل کا بڑا ذریعہ تھا۔ حکیم الامت اقبال نے تقریباً یہی بات فرمائی تھی ۔
تخم الحادے کہ اکبر پرورید
باز اندر فطرت دارارمیداکبر نے الحاد کا جو بیج بویا وہ دارا کی شکل میں دوبارہ پھوٹ پڑا۔
اورنگ زیب کے ارادوں کا پتہ شاہ جہاں کے نام اس کے ایک اور خط سے بھی ہوتا ہے:
"جب تک طاقت اور اختیار آپ کے مبارک ہاتھوں میں رہا، آپ کی اطاعت مجھ پر لازم تھی۔ اللہ بزرگ و برتر گواہ ہے کہ میں نے اپنی حدود سے کبھی تجاوز نہیں کیا۔ لیکن جب آنجناب بیمار پڑ گئے تو شہزادے (دارا) نے آپ کے اختیارات سلب کر لیے۔ اس نے پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وسلم) کے دین کی جگہ ہندوؤں کا بت پرستانہ مذہب پھیلانا شروع کر دیا، جس سے سلطنت میں بے چینی پھیل گئی۔
"اپنے آپ کو حقیقی جانشین سمجھ کر اس دارا نے آپ کو بادشاہی سے معزول کر دیا، جس کا میں نے گزشتہ خطوط میں ذکر کیا ... چنانچہ میں برہان پور سے چل پڑا کہ کہیں یوم آخرت اللہ تعالیٰ مجھے ذمہ دار نہ ٹھہرائے کہ میں نے فساد کو کیوں نہیں دبایا۔"
دوسرے خطوط کی طرح اس خط میں بھی اورنگ زیب اپنی کامیابی کو اللہ کی عطا کردہ بتاتا ہے، جو اس کے مومن بندوں کو نصیب ہوتی ہے۔ وہ باپ سے پوچھتا ہے کہ اگر آپ کی مدد سے دارا شکوہ کامیاب ہو جاتا ہے، تو کیا صورت حال بن جاتی؟ کیا اس سے مسلمانوں پر تباہی نہ آجاتی اور دنیا بے نور نہ ہو جاتی؟ اس کے باوجود باپ کے لیے محبت اور احترام کا جذبہ اس کے دل میں موجزن رہا۔ اس خط میں وہ لکھتا ہے:
"ان حالات میں اللہ تعالیٰ کی عنایات پر شکر گزار ہوں جو مجھ پر ہوئیں۔ آپ نے میری تعلیم و تربیت اور نگہداشت کے لیے جو کچھ کیا اس پر اظہارِ تشکر بھی میرے لیے ممکن نہیں۔ میں کسی صورت اس سعادت سے محروم نہیں ہونا چاہتا، نہ میں اپنے فرائض سے کوتاہی کا ارتکاب گوارا کر سکتا ہوں۔ نہ میں اس مختصر عرصہ حیات کی خاطر اپنے آپ کو اجازت دوں گا کہ آپ کے احساسات کو ذرا بھی ٹھیس پہنچ پائے۔ جو کچھ پیش آیا وہ اللہ کی مشیت تھی اور اسی میں قوم اور سلطنت کے لیے خیر اور بھلائی ہے۔"
یہ ایک عظیم بادشاہ کا اپنے "قیدی" باپ کے نام خط ہے۔ اس میں پسرانہ جذبات ہیں، وہ باپ کو تسلی دے رہا ہے کہ اللہ کی مشیت اور رضا کے سامنے سر جھکا لے اور دل میلا نہ کرے۔ فی الاصل یہ حالات کو معمول پر لانے اور مصالحت کی ایک پیشکش تھی، تا کہ محبت اور اعتماد کی فضا بحال ہو۔ اس سے اسلام کے لیے اس کی گہری محبت کا اظہار بھی ہوتا ہے اور یہ کہ اسے مسلم امت اور مملکت کے متعلق کیا اندیشے لاحق تھے ان سے بھی آگاہی ہوتی ہے شاہ جہاں جو ہمیشہ ہی ایک مشکل باپ بنا رہا، آمادہ نہیں ہو رہا تھا کہ نظام کی اصلاح ہو اور معاملات پھر سے ٹھیک ہو جائیں۔
انسان جب ان حالات کو دیکھتا ہے جن میں اورنگ زیب پھنس چکا تھا اور ساری موجود شہادتوں کا جائزہ لیتا ہے تو اسے حیرت ہوتی ہے کہ آخر اس نے باپ سے وہ کیا برا سلوک کیا، جس کا الزام اسے ہندو، یورپی اور سیکولر مؤرخین اور تجزیہ نگار دیتے ہیں۔
طرفہ تماشا یہ ہے کہ تخت شاہی سے تو شاہ جہاں کو بڑے بیٹے دارا شکوہ نے اتارا تھا، نہ کہ اورنگ زیب نے، جو آخری گھڑی تک باپ کے احترام میں دوسرے بھائیوں کے برعکس تخت پر بیٹھنے سے انکار کرتا رہا۔ اگر اس نے قلعہ میں داخلے کے مقامات پر محافظ بٹھا دیے تھے یا شاہ جہاں کو گھیرے رکھنے والے خواجہ سراؤں کو نکال دیا تھا، تو اس میں کون سی ایسی بری بات تھی؟ سیکولر دانش ور شاید یہی سمجھتے ہیں کہ آگرہ کا قلعہ بھی لاہور یا اٹک قلعوں کی طرح کا کوئی قید خانہ تھا۔ حقیقت اس سے بالکل مختلف تھی۔ سچ یہ ہے کہ قلعہ کے اندر موجود شاہی محل مرتے دم تک شاہ جہاں کے قبضہ میں رہا۔ برنیے کا اظہار عداوت و خصومت اسے یہ ماننے کی اجازت دے دیتا ہے کہ اگر چہ شاہ جہاں کی رہائش گاہ پر محافظ بٹھا دیے گئے تھے لیکن اورنگ زیب ہمیشہ باپ سے عزت و احترام سے پیش آیا اور اسے "عیش و تعیم اور توقیر سے نوازتا رہا"37۔ برینٹے کی گواہی یہ بھی ہے کہ شاہ جہاں نے جو کچھ مانگا اورنگ زیب نے مہیا کر دیا: "اس نے اسے تحائف سے لاد دیا۔ ایک فال گر کاہن کی طرح اس سے مشورے لیتا رہا اور اس کے باپ کے نام لکھے گئے خطوط سے فرض شناسی اور اطاعت گزاری کا اظہار ہوتا ہے ۔"38
اورنگ زیب نے ان جذبات اور فیاض رویوں کا برتاؤ اس والد کے ساتھ کیا، جس نے جواب میں پدرانہ شفقت سے ہاتھ اٹھا لیے تھے، جو اسے ختم کرنے کے لیے پہلے دارا شکوہ سے ملا رہا، پھر خود قلعہ میں اس کو موت کے گھاٹ اتارنے کی منصوبہ بندی کی، بلکہ مراد کو بھی اکسایا کہ اسے قتل کر دے۔ شاہ جہاں کا مراد کے نام خفیہ خط جسے اورنگ زیب کے چست اور بیدار خفیہ کاروں نے راستے میں اچک لیا، واقعی ایک متعصب اور مایوس ذہن کی پیداوار ہے۔ پوری سلطنت مراد پر نچھاور کر کے وہ اسے مشورہ دے رہا ہے کہ اورنگ زیب کو کھانے کی دعوت میں بلا کر قتل کر دے۔ خط کے الفاظ خون منجمد کر دینے والے ہیں:
"بادشاہی کل ہندوستان با طبیب نفس و توئی ضمیر به آن فرزند سعادت پیوند حوالہ نموده ایم برادر زاده را بهانه ضیافت به خانه خود طلب داشته ..."
شاہ جہاں نے یہ سازشی انداز کیوں اختیار کیا؟ ایک پیچیدہ سوال ہے۔ شاید یہ ایک غیر متوازن نفسیات کا مسئلہ ہے۔ بہر کیف اورنگ زیب نے ہر پیمانے سے اپنے آپ کو عظیم ترین مغل حکمران ثابت کیا کہ وہ خود اپنے نام کی طرح تخت شاہی میں جڑا ہوا ہیرا دکھائی دیتا ہے۔ باپ کے متعلق اس کے خدشات بے بنیاد نہ تھے۔ اس امر کے کافی شواہد موجود ہیں کہ باپ کی نگرانی کا فیصلہ اس نے جوابی طور پر خود حفاظتی کے پیش نظر کیا۔ یہی وجہ ہے کہ بقول برنیے جب اورنگ زیب ابتدائے حکومت میں سخت بیمار پڑا تو اس نے اپنے بیٹے سلطان معظم کو وصیت کی کہ اس کی وفات کی صورت میں وہ اپنے دادا (شاہ جہاں) پر سے نقل و حرکت کی ساری پابندیاں اٹھا دے۔
برینٹے کا مسئلہ اس کا موضوعی مفروضہ (thesis) ہے، جس میں وہ الجھا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ کبھی کبھار سچ اس کی نوک قلم پر آ جاتا ہے لیکن پھر اس کا وہی مفروضہ اسے کھینچ گھسیٹ کر کیچڑ میں لت پت کر دیتا ہے۔ اب وہ اپنی گزشتہ بات بھول کر اورنگ زیب کے خلاف بے تکی ہانکنے لگتا ہے۔ شومئی قسمت اس کے پاس اپنی بات ثابت کرنے کے لیے کچھ نہیں۔ گو وہ پوری کوشش کر کر کے بات بنا لیتا ہے، تاکہ وہ اورنگ زیب کے منہ پر ذلت اور رسوائی کے داغ ثبت کر سکے۔ لیکن اپنی ہی ایجاد کردہ خاک میں اپنے آپ کو لتھڑنے کے سوا اسے اور کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ ایسی ہر کوشش کے بعد اورنگ زیب کا چہرہ کچھ اور نکھر کر سامنے آ جاتا ہے۔
اپنے ایک خط میں، جس کے متعلق برنیے کا دعویٰ ہے کہ اس نے خود لکھا ہے، اورنگ زیب کھل کر باپ سے ایک متنازع فیہ بات کرتا ہے۔ برینٹے کے مطابق اس قضیے میں اورنگ زیب عام مغل رواج کے مطابق میت کی جائیداد شاہی خزانے کے لیے ضبط کرنے کے خلاف ہے اور کہتا ہے: "بے شک یہ طریقہ سود مند ضرور ہے، لیکن کیا اس میں موجود بے انصافی اور ظلم کا ہم انکار کر سکتے ہیں؟"
خط کے مندرجات بتاتے ہیں کہ شاہ جہاں نہ صرف مرنے والوں کی جائیداد ضبط کرنے کی تجویز دے رہا ہے، بلکہ سلطنت کی جغرافیائی حدود اور اموال میں اضافہ کی تلقین بھی کرتا ہے۔ مگر اورنگ زیب کا اسلامی ضمیر یہ باتیں گوارا نہیں کرتا۔ سلطنت کی توسیع سے بھی وہ انکاری ہے۔ اس کا خیال ہے: "عظیم فاتح ہمیشہ عظیم بادشاہ ثابت نہیں ہوئے ۔ واقعی عظیم حکمران وہ ہے جو اپنی زندگی کا بڑا مقصد یہ بنائے کہ اپنی رعیت پر عادلانہ حکومت کرنی ہے"40۔
اپنے بارے میں شاہ جہاں کا منفی تاثر زائل کرنے کے لیے وہ کہتا ہے: "جیسا آپ کا گمان ہے، تخت پر بیٹھنے کے بعد میں مغرور اور گستاخ نہیں ہو گیا۔ آپ کا چالیس سالہ تجربہ آپ کو بتانے کے لیے کافی ہے کہ تاج شاہی کتنا بوجھل زیور ہے اور عوام کی نظروں سے ہٹتے وقت حکمران کتنا دکھی اور مغموم ہوتا ہے۔"41
قطع نظر اس کے کہ یہ خط اورنگ زیب کے خلاف بدخواہوں کے ان الزامات کو دفن کر دیتا ہے کہ وہ تخت سنبھالنے کے بعد باپ کو قید کرنے اور اس کے ساتھ زیادتیاں کرنے کا مرتکب ہوا۔ تصویر یہ بنائی جاتی ہے کہ باپ جیل میں سڑ رہا ہے، کوئی اس سے بات نہیں کر سکتا، نہ مل پاتا ہے، واقعات کے اعتبار سے قطعاً نا درست ہے۔ مذکورہ خط اورنگ زیب کی صحیح شخصیت بھی سامنے لاتا ہے۔ باپ بیٹا ایک دوسرے سے صلاح مشورہ کرتے پائے جاتے ہیں۔ جہاں وہ اپنے باپ سے اختلاف کرتا ہے، وہاں دلیل اور برہان ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ اس نے دو ٹوک فیصلے کیے لیکن وہ نہ بدخو تھا اور نہ ظالم۔ اس کے بیان سے صرف اسلامی جوہر آشکارا ہو رہا ہے، جسے اپنی رعیت کے بہبود کی فکر لاحق تھی اور اس کا یہ عزم تھا کہ وہ عوام کو عدل و انصاف دے گا۔
برنیے جس طرح اس خط کا اعادہ کرتا ہے، وہ اورنگ زیب کو ایک ایسے بیٹے کے طور پر قطعاً پیش نہیں کرتا، جو اپنے والد سے خطاب میں بہت محتاط اور مؤدب ہے۔ اس کے برعکس "رقعات عالمگیر" ہمارے ذہنوں میں ایسے بیٹے کا تصور بٹھاتا ہے جو والد کے احترام کا بے حد خیال رکھتا اور اپنے بیان میں بیچ بیچ میں گہری احترامی کیفیت اور اطاعت کے الفاظ استعمال کرتا جاتا ہے۔ مثلاً وہ اکثر و بیشتر باپ کو خطاب کرتے ہوئے "پیر و مرشد"42، "قبلہ و کعبہ"43، "قبلہ دین و دنیا"، "قبلہ جہاں و جہاں سلامت"44، "اعلیٰ حضرت"45 "مرشد کامل سلامت"46 جیسے القاب استعمال کرتا ہے۔ جبکہ اپنی ذات کے لیے "مرید فدوی"47 اور "مرید عقیدت کیش"48 جیسے الفاظ ہی مناسب سمجھتا ہے۔
چنانچہ قواعد کو تجزیے کی سان پر چڑھا کر دیکھیں تو برینٹے کی تحریر تضاد بیانی کا مرقع ہے، جس میں مذکورہ القابات جگہ نہیں پاتے، جبکہ یہ اورنگ زیب کا اپنے والد کے لیے مخصوص طرز تحریر ہے۔ برینٹے کا مقصد ایک ہی لگتا ہے کہ باپ کے ضمن میں اورنگ زیب کی سختیوں کے متعلق اپنے مفروضے کو درست ثابت کر دے۔ حقیقی تاریخ نویسی کے معاملے میں برینٹے شہادت کے بارے میں محتاط نہیں ہے، وہ واقعات کی توضیحی تشکیل میں مصروف رہتا ہے۔ اور حقائق کے بجائے اپنے ذاتی تصورات سے سارا بیانیہ مرتب کرتا ہے۔ اس کا بیان کو واقعات کی من مانی تشریح تو کہا جا سکتا ہے لیکن اسے وہ ٹھوس شہادت نہیں کہا جا سکتا کہ جس پر ایک راست مقدمے کی بنیاد اٹھائی جا سکے۔
ارتداد کا راستہ روکنا
برینٹے کی اطلاع ہے کہ دارا شکوہ کی موت علماء کی ایک مجلس کے اجتماعی فیصلے یا فتوے کے نتیجے میں ہوئی تھی، نہ کہ اورنگ زیب کے شاہی فرمان کے نتیجے میں علما کی مخاصمت کی وجہ ظاہر ہے دارا شکوہ کے کافرانہ عقائد تھے، جن کا وہ اپنے آغاز جوانی سے بر ملا اظہار کر رہا تھا۔ اس نے سات کتابیں لکھیں جن میں دو اشتراک سے لکھی گئیں، نیز اپنشد کا فارسی ترجمہ کیا۔ چنانچہ اشرافیہ کی اکثریت، علمائے کرام اور عوام الناس میں اس کے کفریہ عقائد کا چرچا تھا۔
جس چیز نے دارا شکوہ کے خلاف مخالفانہ جذبات کو زبان بخشی اور اس مزاحمت کو اتحاد میں پرویا، وہ دارا شکوہ کی مسلم ہند کے تخت پر بیٹھنے کی خواہش تھی۔ یہ ایک وسیع اتحاد تھا، ہدف یہ تھا کہ اکبر کا الحادی دور دوبارہ نہ آنے پائے۔ مجدد الف ثانی کی تحریک نے اورنگ زیب کو مجبور کیا کہ وہ دارا شکوہ کے خلاف فوجی محاذ پر لیڈر کا کردار ادا کرے۔ شاید کم لوگوں کو علم ہو کہ اورنگ زیب مذکورہ تحریک کا نمایاں کارکن تھا، جس نے حضرت احمد سرہندی مجدد الف ثانی کے فرزند ارجمند اور خلیفہ خواجہ معصوم کے ہاتھ پر باقاعدہ بیعت کی تھی۔53
برینٹے کا مدیر کانسٹیبل (Constable) مانوچی کے حوالے سے بتاتا ہے: "عیسائی جذبات جن کے ذریعہ مشنری پادریوں نے کوشش کر کے اسے (یعنی دارا کو) سرگرم کیا تھا، اس کی زندگی کے آخری لمحات میں بیدار ہو گئے تھے۔" موت سے پہلے اسے کہتے سنا گیا:
"محمد مارا میکوشد، ابن اللہ مریم می باشید [محمد مجھے موت دے رہا ہے، جبکہ ابن اللہ اور مریم مجھے نجات دلائیں گے]"55
ہمیں یقین نہیں کہ دارا کا سر اورنگ زیب کو دکھایا گیا تھا یا نہیں۔ برینٹے کا بیان ہے کہ سر بادشاہ کے پاس لایا گیا۔ اس نے پانی منگایا، سر دھویا اور چہرے پر نظر پڑتے ہی وہ بھائی کے انجام پر رو دیا اور کہا "آہ، بد بخت! یہ منظر میری آنکھوں کو مزید اذیت نہ دے۔ یہ سر لے جاؤ اور مقبرہ ہمایوں میں دفن کر دو"56۔ اگر اورنگ زیب اتنا ہی ظالم اور سخت گیر تھا، جیسے کہ الزام دیا جاتا ہے تو خود اپنے بھائی کے انجام پر وہ رو کیوں رہا تھا؟ اور سب کو چھوڑ کر اس نے کٹا ہوا سر خود کیوں دھویا؟ کیا ظالم اور سنگ دل انسان کا رویہ ایسا ہی ہوتا ہے؟
دارا شکوہ مرتد تھا، جو ہندو مدد اور عیسائی مشنریوں، تجار اور کرائے کے قاتلوں کی در پردہ تائید حاصل کر کے لوگوں کی اسلامی روح کچلنا چاہتا تھا۔ اورنگ زیب نے مسلم عوام کی مضبوط حمایت کے ذریعے اس کا مقابلہ کیا۔ تاہم دارا آخر بھائی تھا۔ وہ مسلمان گھرانے میں پیدا ہونے والے شہزادے کے انجام پر فطری طور پر آبدیدہ تھا، لیکن ان احساسات کے علی الرغم اسے کچھ اور کرنا پڑا۔ کیونکہ نہ قانون شرع کا کوئی ضابطہ اجازت دے رہا تھا اور نہ سلطنت کی سلامتی کے حوالے سے یہ بات قابل قبول تھی کہ کفر اور ارتداد کو سزا دیے بغیر بچ جانے دیا جاتا۔ جس حوالے سے بھی دیکھیں، دارا شکوہ مسلم تشخص کے تزویراتی (strategic) تقاضوں کے لیے خطرہ بن گیا تھا۔ وہ مسلمان جو اقلیت میں ہونے کے باوجود ہندوستان کے حکمران تھے۔ یہاں پر ایک اور حیرت انگیز بات پیش نظر رہنی چاہیے، اور وہ یہ کہ اورنگ زیب سے پہلے بھی برادر کشی کی جنگیں ہوئیں اور خون بہائے گئے۔ ان سب میں صرف اورنگ زیب کو خنجر آزمائی کے لیے منتخب کرنا خاص مقصد اور ارادے کا پتہ دیتا ہے۔
قابلِ غور پہلو یہ ہے کہ جانشینی کی جنگ دارا شکوہ نے شروع کی تھی۔ عملاً آگرہ میں ڈیرہ ڈال کر باپ کو تنہا کر دیا تھا (برنیے کہتا ہے "قید کر دیا تھا")۔ باپ کے جعلی دستخط کیے اور جسونت سنگھ کی کمان میں متحدہ افواج کو مسلمانوں سے لڑنے بھیجا۔ اس کے باوجود دارا تو بے قصور ہے، خوش اطوار ہے، اعلیٰ حیات کا مالک اور عقل و دانش میں پورا صوفی بزرگ ("مرشد باصفا") اور جانے کیا کیا ہے۔
شہزادہ مراد کے معاملہ میں بھی جھوٹ کی آمیزش ہے۔ اورنگ زیب نے اسے بھی قتل نہیں کیا تھا۔ بلکہ دونوں بھائی دارا شکوہ اور اس کے ہندو مشرکانہ عقائد کی ترویج کے خلاف صف آراء تھے۔ کئی مؤرخ بتاتے ہیں کہ مراد مزاجاً تند و تیز تھا، شرابی اور خوشامد پسند تھا۔ اس پر اس کی جرات اور حوصلہ مندی نے مہمیز لگائی۔ مفاد پرستوں کے گھیرے میں آکر وہ جلد ہی ان کے سازشی چکروں میں آ گیا۔
اورنگ زیب سے معاہدہ کے نتیجہ میں اسے کابل، لاہور، کشمیر، ملتان، بھکر بٹھیٹہ سے لے کر خلیج عمان تک حکمرانی کے لیے وسیع علاقہ مل گیا تھا۔ لیکن اس کی ذہانت کے مقابلے میں اس کے لمبے چوڑے ارادے اور حوصلے اسے لے ڈوبے۔ اورنگ زیب سے تعاون کے عہد و پیمان کو پس پشت ڈال کر اس نے شاہ جہاں سے تعاون کی پینگیں بڑھائیں۔ یہ جانتے ہوئے کہ شاہ جہاں اورنگ زیب کے معاملات الجھے ہوئے ہیں اور معاملہ اورنگ زیب کی فتح کے بعد بھی ختم نہیں ہو گا، اپنے لیے خصوصی معافی کا خواست گار ہوا۔ شاہ جہاں نے بھی معذرت قبول کر کے معافی دے دی اور ساتھ ہی پورے مسلم ہندوستان پر اس کا حق حکمرانی بھی تسلیم کر لیا۔ اہم ترین بات یہ تھی کہ یہاں پر بھی شاہ جہاں نے اسے اورنگ زیب اور اس کے بیٹوں کے قتل کا مشورہ دیا۔
یہ وہ دن تھے جب آگرہ پر اورنگ زیب نے کنٹرول حاصل کر لیا تھا۔ اس نے زخمی مراد کو صحت یابی کے لیے پیچھے چھوڑا اور خود دارا شکوہ کے تعاقب میں چل پڑا، جو دہلی میں ڈیرہ جمائے بیٹھا تھا۔ لگتا ہے بیٹے (دارا) اور باپ کی یکجائی انہیں اورنگ زیب کے خلاف سازشوں کا موقع دے رہی تھی۔ اس موضوع پر اورنگ زیب کے خطوط کافی روشنی ڈالتے ہیں۔ مراد کے خدشات جو اورنگ زیب کے ارادوں کے متعلق اس کے ذہن میں جنم لے سکتے تھے، ختم کرنے کے لیے اورنگ زیب نے اسے دو سو گھوڑے اور بیس لاکھ روپیہ بھیجا۔ ساتھ ہی یہ یقین دہانی بھی کرا دی کہ دارا کا معاملہ کامیابی سے سلجھاتے ہی اسے واپس اپنے موعودہ علاقوں کی طرف جانے کی اجازت ہو گی۔
لیکن مطلق بادشاہی کے خواب مراد کو اندھا کر چکے تھے۔ اس نے شاہ جہاں کی بات مان لی اور تخت شاہی پر اپنے دعوے کا اعلان کر دیا۔ اس صورت حال نے اورنگ زیب کو دکھی اور آزردہ کر دیا۔ اسے نتائج کا خوف لاحق ہو گیا کیونکہ اب تین حریف اس کے سامنے تھے۔ چنانچہ اس نے خطرے کو سر ابھارنے سے پہلے کچل دیا۔ مراد کو پکڑ کر گوالیار کے قلعے میں ڈال دیا۔ وہاں اسے فیاضانہ عطیات سے نوازا گیا۔ اس کا گھرانہ اس کے ساتھ رہا اور اس کی خاص محبوبہ سرستی بائی اس کی دسترس میں رہی۔ لیکن مراد کی بگڑی نفسیات کو چین نہ آیا، اس نے فرار کی کوشش کی۔ اسے اس وقت گرفتار کر لیا گیا جب وہ اپنی محبوبہ سے رخصت ہو رہا تھا۔ اورنگ زیب اسے قتل کر سکتا تھا، لیکن اس نے اس کے خون سے ہاتھ رنگنا پسند نہ کیا۔ اسے چار سال تک حفاظتی حراست میں رکھا گیا۔ یوں اسے اچھی خاصی مہلت دی گئی کہ وہ کوئی فیصلہ کر سکے۔
تاہم جب اورنگ زیب سریر آرائے سلطنت ہوا تو قاضی کی عدالت میں مراد کے خلاف قصاص کا مقدمہ دائر ہو گیا۔ اس پر الزام تھا کہ اس نے اپنے وزیر سید علی نقی کو قتل کر دیا تھا۔ یہ مقدمہ مقتول کے بیٹے کی استدعا پر قائم ہوا تھا۔ عدالت نے علی نقی کے بیٹے کو دیت قبول کرنے پر آمادہ کرنا چاہا لیکن وہ قصاص (خون کے بدلے خون) پر اڑا رہا۔ اورنگ زیب کو اس کے خلاف قصاص کا مقدمہ اچھا نہ لگا۔ اس نے مقتول کے بیٹے کے سامنے ناراضی کا باقاعدہ اظہار کیا۔ خانی خان کا حوالہ میاں محمد نے دیا ہے کہ "مغضوب النظر بادشاہ گردید" (بادشاہ کی نظروں میں مغضوب ٹھہرا)58۔ کچھ لوگ کہیں گے کہ اورنگ زیب قاضی کے فیصلے کو ختم کر دیتا۔ ہاں، وہ کر سکتا تھا لیکن اس نے نہیں کرنا تھا۔ بطور ایک مسلمان کے، جس کی نظر میں اہمیت شریعت الہی کی تھی اور عدالتی فیصلے کا احترام تھا، اسے معاملے سے دور ہی رہنا تھا۔ دل میں وہ بے شک کڑھتا رہتا اور غم سے گھلتا رہتا لیکن اس نے قانون کو راستہ دینا تھا کہ وہ اپنا آپ منوائے۔
اورنگ زیب کو بدنام کرنے کے لیے برینٹے کہانی بنتا ہے کہ مراد کے ساتھ دھوکا کیا گیا اور اسے دارا کو ختم کر دینے کے بعد بادشاہ بنانے کا وعدہ پورا نہیں کیا گیا۔ برینٹے کی دلیل یہ ہے کہ جب دارا کے خلاف متحدہ محاذ بنانے کے لیے اورنگ زیب کوشاں تھا تو اس نے مراد سے وعدہ کیا تھا کہ کامیابی کی صورت میں سلطنت اسے ملے گی۔ لیکن یہاں پھر برنیے کی زنبیل چالبازیوں سے بھری ہوئی ہے اور وہ منہ بھر بھر کر جھوٹ بولتا ہے۔ وہ اپنے دعوے کے ثبوت میں کوئی دستاویز سامنے نہیں لاتا۔ بس دونوں کے درمیان معاہدے کی اپنی تاویل بیان کرتا ہے کہ اورنگ زیب نے اپنے چھوٹے بھائی کو "اعلیٰ حضرت" کہہ کر مخاطب کیا تھا۔ کیونکہ طے شدہ برتر مرتبے کا ادب لحاظ اسے کرنا تھا۔
خوش قسمتی سے معاہدے کا متن اورنگ زیب کے مکاتیب کے مجموعے میں موجود ہے، جس میں واضح طور پر لکھا ہے کہ دارا کا معاملہ نمٹانے کے بعد وہ اپنے تفویض شدہ علاقوں پر حق حکمرانی رکھے گا۔ معاہدے میں من جملہ یہ بھی ہے کہ دونوں بھائی اکٹھے رہیں گے۔ اورنگ زیب کے سامنے مراد نے جو اقرار کیا کہ اس "دشمن دین و جان (دارا)" کو ختم کرنے کے بعد وہ "ہمیشہ اور ہر جگہ اورنگ زیب کا ساتھ دے گا، اور وہ اپنے طے شدہ علاقوں کے علاوہ اور کچھ طلب نہیں کرے گا۔"
مراد کے اس عہد کے جواب میں اورنگ زیب کہتا ہے کہ: "جب تک 'عزیز تر از جان' بھائی مخلص رہے گا، ہماری بخشش اور عنایات کا سلسلہ جاری رہے گا۔ ہماری باہمی محبت اور توجہ اپنے مقاصد کے حصول اور دارا شکوہ لعین کا کانٹا نکال دینے کے بعد پہلے سے بھی زیادہ شدت سے جاری رہے گی۔ اس کے ایک سنجیدہ مقصد کے طور پر یہ عہد بھی اس میں درج ہے کہ: "سید المرسلین محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے دین کے قیام اور سر بلندی کے لیے اور دارالاسلام سے زندقہ والحاد کو اکھاڑ پھینکنے کی کوشش جاری رہے گی۔" عہد نامے میں دو آیات قرآنی کا حوالہ موجود ہے، جن میں عہد کی پابندی پر زور ہے۔ دستاویز کا سرنامہ بھی کافی اہم ہے، یعنی "عہد نامہ که بوجه التماس بادشاہ زاده مراد بخش قلمی شد" (عہد نامہ جو بادشاہ زادہ مراد بخش کی درخواست پر لکھا گیا)۔
اب دیکھیے، اس عہد نامے سے کیا بات سامنے آ رہی ہے:
- کہ پہلے ایک زبانی معاہدہ ہوا، جسے مراد کی خواہش پر ضبط تحریر میں لایا گیا۔
- کہ قول اورنگ زیب نے دیا، جبکہ مراد کے ساتھ یہ عہد ہو رہا تھا۔
لیکن برنیے بد دیانتی سے اورنگ زیب کو قابل نفرین بنا کر دکھاتا ہے۔ وہ اپنا ہی ایک عہد نامہ ایجاد کرتا ہے اور پھر اس نقل کو اصل کر دکھاتا ہے جس کا الزام اورنگ زیب کے سر پر آتا ہے اور یوں اسے "برائی کا مجسمہ" بنا کر پیش کرتا ہے۔
دو شہادتیں ایسی ہیں کہ ان سے صرف نظر ممکن نہیں۔ ایک کا ذکر ہو چکا، جس کا تعلق عہد نامہ سے ہے جو اورنگ زیب کو عہد کرنے والا بنا کر اونچا مرتبہ دیتا ہے کہ وہ دوسروں پر عنایات کرتا ہے۔ اور ان دوسروں میں مراد بخش بھی شامل ہے۔ دوسری شہادت سمور گڑھ کی لڑائی کی کمان ہے۔
Medieaval India Under Mohammadan Rule میں سٹینلے لین پول (1712-1764) لکھتا ہے کہ اورنگ زیب نے لڑائی کی قیادت اپنے ہاتھ میں رکھی، پول کے الفاظ ہیں:
"کمان (قلب لشکر) اپنے ہاتھ میں رکھتے ہوئے ۔ اس نے مراد کو میسرہ (بائیں بازو) پر رکھا اور بہادر خان کو میمنہ (دائیں بازو) سونپا۔ اور ہر اول دستے کے ساتھ اپنے بیٹے محمد کو بھیجا کہ وہ توپ خانے کے ساتھ رہے، جو حسب معمول سب سے اگلی صف میں تھا ۔"62
لشکر کی یہ ترتیب بتاتی ہے کہ مرکزی کمان اورنگ زیب کے ہاتھ میں رہی، جبکہ مراد کو بائیں بازو میں اضافی کمک والی پوزیشن پر رکھا گیا۔
لڑائی کے بعد اورنگ زیب مراد بخش اور دوسروں کو انعامات دیتا ہے۔ یہ عطیات قبول کر کے اور عہد نامہ کی درخواست دے کر مراد اورنگ زیب کے مقابلے میں ثانوی حیثیت تسلیم کرتا ہے اور نہ کہ بادشاہ کی پوزیشن اختیار کرتا ہے، جیسا کہ برنیے دعویٰ کرتا ہے۔
زیر بحث قضیے کے تین مفروضے
اب تک جو کچھ ہم عرض کر چکے ہیں، اس سے تین قابل ذکر مفروضے (theses) سامنے آتے ہیں: یہ کہ اورنگ زیب ایک جابر حکمران، ایک بدکردار شخص اور ہوس اقتدار میں اندھا ہو جانے والا فرد ہے؟ یا یہ کہ اس نے حفاظت خود اختیاری کے تحت سب کچھ کیا، اور بدرجہ آخر یہ کہ وہ ہندوستان نامی ہندو سمندر میں مسلمانوں کا تشخص بحال رکھنا چاہتا تھا۔
- پہلے مفروضے کے حق میں کوئی ایسی تاریخی شہادت نہیں ملتی، جو اسے مجرم ثابت کر سکے۔
- دوسرے مفروضے کو تقویت دینے والا لوازمہ موجود ہے کہ خود حفاظتی کا محرک جذبہ بڑی حد تک کام کر رہا تھا؟
- تیسرے مفروضے کے دلائل بھی بے حد مضبوط ہیں۔ اورنگ زیب عالمگیر کے اندیشے کہ مسلم تشخص کو بحال رکھنا ہے، اس کی ساری زندگی سے عیاں ہے۔ مجددی تحریک کے ساتھ اس کی دلی وابستگی اور تخت شاہی پر بیٹھنے کے بعد اسلامی شریعت کے اجرا کے لیے اس کی تگ و دو یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں۔
بظاہر دوسرے اور تیسرے مفروضے میں ٹکراؤ محسوس ہوتا ہے، لیکن گہرا جائزہ لیں تو یہ اختلاف اور ٹکراؤ ختم ہو جاتا ہے۔ ذیل کی وضاحت سے یہ بات سامنے آ جائے گی:
اسلام میں بقائے زندگی مقاصد شریعت میں سے ہے۔ جان اہم اور قیمتی ہے، جسے بچانا لازم ہے۔ اورنگ زیب کے لیے سب سے پہلے اپنی جان کو لاحق خطرات سے نمٹنا ضروری تھا، جو بھائیوں اور باپ کی طرف سے اسے لاحق تھے۔ اس کے بغیر وہ اسلام کی خدمت بھی نہ کر پاتا۔ اس کے بڑے بھائی دارا شکوہ کو اصل نفرت اورنگ زیب کے دینی جذبے سے تھی ۔ دارا نے جب اپنی بادشاہی کا اعلان کر دیا تو پھر اورنگ زیب اس کی نظر میں صرف ایک باغی تھا۔ آخری دونوں مفروضے اتنے معقول ہیں کہ کسی رنگ آمیزی اور قیچی چلانے سے بھی ان کا بطلان نہیں ہو سکتا۔
ایک سوال جو قاری کا پیچھا نہیں چھوڑتا، یہ ہے کہ برینٹے جیسے مؤرخ، اورنگ زیب کے افعال میں خرابیاں اور خامیاں ہی کیوں دیکھ رہے ہیں۔ وہ سارے برے ارادے اسی کی طرف کیوں منسوب کر دیتے ہیں۔ انہیں اورنگ زیب کا دینی میلان یاد نہیں رہتا۔ اس کا صاف کردار بھی وہ نہیں دیکھ پاتے ، بلکہ اسے "فریب دہی کا لب لباب" سمجھتے ہیں۔ ہم برینٹے کی عیسائیت کا ذکر پہلے بھی کر چکے ہیں اور یہ بھی کہ وہ اسلام سے کتنی نفرت کرتا تھا اور جو شخص اسلام کے دفاع میں کھڑا تھا وہ اسے کتنا برا لگ رہا تھا۔
ایک دوسری وجہ قابل غور ہے۔ یہ بھی برینٹے کی عیسائیت ہی ہے لیکن ذرا مختلف انداز میں۔ سینٹ پال م: 67ء کی عیسائیت میں مذہب کو دنیا سے رغبت نہیں ہونی چاہیے اور اقتدار کی ہر شکل سے اسے دور رہنا چاہیے۔ جو کچھ آسمانی (ربانی) ہے، اسے شیطانی دنیا سے بے تعلق ہونا چاہیے۔ مذہب اور زندگی کا یہ دوئی پسند تصور اپنے ہی پیمانے ایجاد کر دیتا ہے۔ پھر افراد اور ان کے اعمال اس پیمانے پر جانچے جاتے ہیں۔ اب اگر کوئی شخص اپنی زندگی میں مذہب پر کار بند ہے اور پھر بھی اقتدار حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو یہ حضرات اسے فریب کا الزام دیتے ہیں کہ دنیا کی رغبت دیکھ کر تقویٰ باقی نہیں بچتا۔ یہ کردار ان کی نظروں میں مشتبہ ہے۔
جب برینٹے الزام لگاتا ہے کہ اورنگ زیب کی مذہبیت "دکھاوا" تھی، جو دراصل اس کے اندر نہ تھی اور یہ کہ اس کی زندگی "مستقلاً سازشوں اور جعل و اختراع" سے عبارت تھی، تو ساری بات سمجھ آ جاتی ہے۔ اس کے خیال میں اورنگ زیب محض نمائشی انسان ہے، کوئی مخلص بندہ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ برنیے ہو یا اسلام کے متعلق مغرب کے مطالعہ کنندگان کا پورا جتھہ، محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی نبوت کی تکذیب کرتا ہے۔ آنحضور کے بلند و ارفع مقام کے مقابلے میں تو اورنگ زیب ایک حقیر امتی ہے۔ برنیے اور اس کے دوسرے دوست اس بے چارے کے ساتھ کیا انصاف کریں گے۔
اورنگ زیب کا اصل جرم
اورنگ زیب کا اصل جرم کچھ اور ہے، جس کے لیے ہر ڈھنگ کے سیکولر عناصر، خواہ وہ ہندو ہوں، مغربی مؤرخین ہوں یا نام نہاد مسلمان پاکستانی سیکولر، اسے کبھی نہیں بخشیں گے۔ اس نے ہندو دلدل میں پھنسے مسلمانوں کا تشخص بچانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی۔ ہندو تو خاص طور پر آتش زیر پا ہیں کہ اورنگ زیب نے ان کی فتح کی امیدوں پر اس وقت پانی پھیر دیا کہ "دو چار ہاتھ جب جب کہ لب بام رہ گئے تھے"63۔ عیسائی مورخ اس لیے آگ بگولا ہیں کہ تخت دہلی پر عیسائیت کی حکمرانی کے خواب اس نے بکھیر کر رکھ دیے۔
اگر مسلمانوں پر اکبر اور دارا شکوہ کی طرح کے چند اور حکمران حکومت کر لیتے تو صحیح تر الفاظ میں نہ آج پاکستان نام کی کسی مملکت کا وجود ہوتا، نہ اسلام کی سربلندی یا سیکولرزم کی مخالفت کے نعرے گونج رہے ہوتے۔
ایک علامت کے طور پر ہمارے جذبات و احساسات پر اورنگ زیب کی گرفت بہت مضبوط ہے، کیونکہ اس نے مسلم شعور کو حیات تازہ بخشی، ہماری لڑکھڑائی قومی شخصیت کو سہارا دیا اور خطرے کو بھانپنے کی ہماری سوچ کو بیداری اور توانائی بخشی۔ اس نے ہمیں یہ بھی سمجھا دیا کہ جب خونیں رشتے بھی اسلام کے خلاف صف آراء ہو جائیں تو ان کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہتی ۔ عالمگیر کو آزاد روی پر مبنی کفر کی حقیقی فطرت کا بہ خوبی اندازہ تھا۔ یہ اس نے ہمیں سمجھا دیا کہ مذہبی معاملات میں بگ ٹٹ آزاد روی محض ایک نظریہ یا فلسفہ نہیں، یہ تو قوت اور اختیار کی ڈاکٹرائن (doctrine) ہے جو حکومت پر قبضے سے کم پر راضی نہیں ہوتی۔ یا تو آپ اسے سینگوں سے پکڑیں ورنہ یہ خود آپ کو ادھیڑ کر ختم کر دے گی۔ بہ ایں ہمہ سیکولر اندازوں کے مطابق اورنگ زیب کو رگیدتے رہنا بہت ضروری ہے، ورنہ وہ اپنے کردار سے لوگوں کو بتاتا رہے گا کہ آج اس اکیسویں صدی میں بھی اصل مسئلہ کیا ہے۔
مزید براں اورنگ زیب محض بادشاہ نہ تھا، وہ ایک نجات دہندہ تھا، ایک دور اندیش انسان تھا، جسے اپنا عظیم و مقدس کردار صاف نظر آ رہا تھا۔ اپنے عہد کے منظر نامے پر اس نے اپنا کردار کمال خوبی اور حوصلہ مندی سے ادا کیا۔ فی الواقع اس نے مسلمانوں کو شک، تذبذب اور خوف کی بے سکون کیفیت سے نکالا۔ انہیں یقین و ایمان اور ولولہ تازہ دیا، جس نے انہیں اپنی نظروں میں باوقار بنا دیا۔ آج چار صدیاں گزرنے کے بعد بھی اس کے مخالفین کی زہریلی پھنکاریں ثابت کرتی ہیں کہ اپنے وقت کی نیام میں وہ اسلام کی بہترین تلوار تھی۔ اقبال نے کیا خوب کہا:
پایہ اسلامیاں برتر ازوں
شرع پیغمبر ازوں احتراممسلمان ان کی کوششوں کے نتیجہ میں دنیا میں بہتر مقام پر ہیں۔ رسول اللہ کی شریعت کا احترام انہی کے رہین منت ہے۔
باب: سیکولر جماعتیں، صحافت اور تخریب
سیکولر جماعتیں، صحافت اور تخریب
اپنے جغرافیائی محل وقوع کی بدولت پاکستان اگر ایک طرف وسط ایشیاء تک پہنچنے کی فطری راہ گزر ہے، تو دوسری طرف اس کی سرحدیں دنیا میں تیزی سے اہمیت اختیار کرتے ممالک چین، ایران، افغانستان اور ہندوستان سے بھی ملتی ہیں۔ افغانستان کی مسلسل دگرگوں حالت اور ہندوستان کے معاندانہ علاقائی عزائم کی وجہ سے پاکستان اپنے جغرافیائی اور تزویراتی محل وقوع کو لاحق خطرات سے بے اعتنائی نہیں برت سکتا۔ اس پر مستزاد اس کی آبادی، ایٹمی طاقت ہونا اور من جملہ اس کا اسلامی تشخص، وہ عوامل ہیں جو امریکہ اور یورپی ممالک جیسی دور پار کی طاقتوں کو بھی اس کے اندرونی معاملات میں دخل انداز ہونے کی دعوت دیتے ہیں۔ اگر اس خطے کی مجموعی آبادی کو مد نظر رکھیں تو پاکستان دنیا کے تقریباً دو ارب 25 کروڑ سے زائد انسانوں کے درمیان پھنسا ہوا ہے۔ اس لیے یہ سوچنا کہ دوسرے اسے نظر انداز کریں گے یا امن چین سے رہنے دیں گے محض سادگی ہے۔ اسی کشاکش سے پاکستان تخریب کاری کا اکھاڑا بنا ہوا ہے۔
بد قسمتی سے پاکستان میں تخریب کاری اور اس کی ممکنہ صورتوں کو قومی سلامتی کے محدود روایتی چوکھٹے میں رکھ کر دیکھا جاتا رہا ہے، جس سے نتائج عموماً درست نہیں نکلتے۔ مثلاً جب ہم تخریبی سرگرمیوں کو کم یا بڑے درجے کے مسلح تنازعات تک محدود کرتے ہیں، تو ہمارے ذہن میں اس سے یہی تصور آتا ہے کہ جیسے تخریب کاری محض ریاست کے خلاف مسلح بغاوت کا نام ہے اور بس۔ حالانکہ یہ تصور کئی وجوہ سے غلط ہے۔
- اولا، یہ قومی سلامتی کا بہت ہی سطحی تصور ہے، کیونکہ تخریب کاری کی اور بھی کئی شکلیں ہیں، جنہیں نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔
- ثانیاً، تخریب کاری کو محض مسلح کارروائیاں یا صرف دہشت گردی کے حملے تک محدود سمجھنے کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ ہماری سلامتی کے ادارے یا سیکورٹی ایجنسیاں اور انتظامیہ ایک مصنوعی آسودگی اپنے اوپر مسلط کر لیتی ہیں، اور اس وقت تک سکون کی نیند سوئے رہتی ہیں، جب تک کوئی چھوٹے یا بڑے درجے کی تخریب کاری "دہشت گردانہ کارروائی" وقوع پذیر نہ ہو جائے اور جب تک ایسا واقعہ نہ ہو قوم کو بھی تخریب کاری کا پتہ نہیں چلتا۔
- ثالثاً کسی چھوٹی یا بڑی دہشت گردی نہ ہونے کے وقفے کے دوران "سب اچھا ہے" سمجھ کر سوتے رہنے سے تخریب کار گروہوں کو خاموشی سے اپنا کام جاری رکھنے کا موقع ملتا ہے۔ کم یا زیادہ بڑے پیمانے کی متشدد کارروائیوں کی عدم موجودگی حکومتی اداروں اور خود قوم کی حسیات کو سن کر دیتی ہے، جس سے فائدہ اٹھا کر متشدد گروہ اپنی مسلسل کوششوں سے قوم کو بالآخر بحرانوں کی طرف دھکیلنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔
بد قسمتی سے اس سارے عمل میں نہ کوئی شر پسندوں کو پہچان پاتا ہے اور نہ انہیں یکہ و تنہا کر کے ان کی بیخ کنی کی کوشش کی جاتی ہے۔ سیاسی سرگرمیوں میں ایسی جماعتوں کی شمولیت انہیں سیاسی جماعت کا تقدس عطا کرتی ہے اور ان کے تخریب کاروں کو سیاسی کارکن کی پہچان دیتی ہے۔
تخریب اور اس کی اقسام
لفظ "تخریب" کا مصدر "الٹنا" یا "تباہ کرنا" ہے، اس کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ لوگوں کے کردار اور اخلاق میں نقب لگا کر انہیں ان کے اصل سے ہٹا دیا جائے۔ اس کے بالمقابل خود تخریب کا مطلب یہ بنتا ہے کہ ایک مستحکم صورت حال کو پلٹ دیا جائے، تا کہ سیاسی و سماجی منظر نامے پر ایک مختلف طرح کی اخلاقی و سیاسی حقیقت کو لادا جا سکے۔ یہ نئی حقیقت کوئی بھی روپ دھار سکتی ہے، یعنی یا تو ایک بالکل نئی جغرافیائی صورت گری یا کم از کم مملکت کی اختیار و اقتدار سے محرومی۔
اس پورے عمل میں تخریبی عناصر مسلسل تلخ نو رہتے ہیں، وہ بڑھا چڑھا کر حالات کو دگرگوں دکھاتے ہیں، تاکہ عوام میں حالات سے مایوسی پھیلے اور وہ اشتعال میں آکر کسی انتہا تک جانے کے لیے تیار ہو جائیں۔ مخصوص سیاسی و سماجی حالات بھی اس ضمن میں ان کی معاونت کرتے ہیں، جنہیں وہ شاطرانہ انداز سے استعمال کرتے ہیں، تضادات کو ابھارتے ہیں، پورے ملک میں محرومیوں کو اپنے لسانی گروہ تک محدود کرتے ہیں، تا کہ یہ بتایا جا سکے کہ صرف انہی سے زیادتی ہو رہی ہے۔ وہ مظلوم ہیں اور دوسرے ظالم۔ ان کی یہ شاطرانہ چال متعلقہ لوگوں کے لیے نہ صرف تفہیم کا باعث بنتی ہے، بلکہ تخریب کا جواز بھی فراہم کرتی ہے۔
جس سیاسی ماحول میں اسے کام کرنا پڑتا ہے، اس کا لحاظ کرتے ہوئے یہ تخریبی گروہ دو سوچے سمجھے متضاد رویوں اور خون آشامیوں کو بیک وقت قائم رکھتا ہے۔ جس کے لیے یہ انتہا پسندی اور معقولیت کی درمیانی راہ اپناتے ہوئے کچھ قومی حقائق کو یک سر رد کرتا رہتا ہے اور کچھ کو مشروط طور پر قبول کرتا ہے۔ اس کی سر ہمیشہ اونچی اور اشتعال انگیز ہوتی ہے۔ ایک مرگ آسا راگ، کبھی بغض و حسد تو کبھی دھمکیاں۔ لیکن اس کی قیادت اپنی وضع قطع اور لہجہ میں ایک مخصوص قسم کا مسیحائی رنگ قائم رکھتی ہے۔
بد قسمتی سے ہم اس سوچ کے عادی ہوتے جا رہے ہیں کہ وقفے وقفے سے دہشت گردی کی واردات سے کوئی فرق نہیں پڑتا، گویا یہ ایک بے تکا بے شعور عمل ہے، جو وقت گزرنے پر اپنی موت آپ مر جائے گا۔ لیکن جب ہم دیکھتے ہیں کہ دہشت گردی سے سیاسی تبدیلی ممکن ہے اور اس عمل نے فی الواقع اسرائیل جیسی ناجائز مملکت کو جنم دینے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے تو ہمیں احساس ہوتا ہے کہ ہمارا تصور درست نہیں ہے۔
تشدد کے متعلق ہمارا ایک انداز فکر یہ بھی ہے کہ یہ ایک وقتی عارضہ ہے، جو کسی قوم کو اس کے مخصوص سیاسی و معاشرتی حالات کی وجہ سے لاحق ہو جاتا ہے۔ اگر اسے موقع دیا جائے تو یہ بیماری خود ہی اپنا علاج ڈھونڈ لیتی ہے۔ لیکن یہ بھی ادھورا سچ ہے اور اس کی سادہ سی وجہ یہ ہے کہ ہر تخریبی گروہ نے اپنی مرضی کی تبدیلی کے لیے سوچا سمجھا پروگرام وضع کیا ہوتا ہے۔ اب وہ کیسے چاہے گا کہ حالات میں کوئی مثبت تبدیلی اس کے پروگرام کو غیر موثر کر کے رکھ دے؟ یہ گروہ صورت حال کو جوں کا توں بھی نہیں رہنے دے گا، خواہ وہ کتنی ہی موثر کیوں نہ ہو۔
ایسے متشدد گروہ کا تو کام ہی یہ ہوتا ہے کہ غیر یقینی کی فضا پیدا ہو، تاکہ سیاسی اختلافات اور جھگڑے سر ابھاریں۔ اس مقصد کے لیے یہ تشدد کے حربے بروئے کار لاتا ہے۔ لیکن جیسے جیسے
وقت گزرتا ہے، اسباب و نتائج کے درمیان ایک خاص قسم کی ہم کاری اور تعامل جنم لیتے ہیں۔ تشدد بالآخر تخریبی گروہ کا ایک خاص مزاج بنا دیتا ہے، اور وہ کسی نشئی کی طرح اس کا اسیر ہو جاتا ہے۔ شہوت انگیزی کی سی کیفیت، جذبات کا ہیجان، طاقت اور اختیار کا سر پر سوار بھوت، اس کے شاخسانے ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے جو مملکت کی سلامتی کے ذمہ دار ہوتے ہیں، اس گروہ کا خاص نشانہ بنتے ہیں۔ پولیس کا کوئی جوان مارا جاتا ہے تو یہ اصلاً عوام الناس کے نام ایک پیغام ہوتا ہے کہ وہ جس مملکت کے شہری ہیں وہ محض ایک افسانہ ہے۔ جس کا جڑوں تک کھوکھلا اور بددیانت نظام عام آبادی کے کام نہیں آسکتا اور یہ کہ اس مملکت نے جس کے وہ شہری ہیں، اپنے اخلاقی جواز کو کھو دیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں عوام الناس نے جس ریاست کو اپنے خوابوں کی تعبیر جانا تھا، وہ اب سراب بن کر رہ گئی ہے۔
بعض اوقات یہ تخریبی گروہ اپنی متشدد کارروائیوں سے لوگوں کو احساس دلاتے ہیں کہ جس دہشت گردی سے انہیں واسطہ ہے، اس سے اگر آزادی مطلوب ہے تو وہ اپنے آپ کو موجودہ ہیئت قائمہ سے جدا کر لیں اور اپنی وفاداری تخریبی گروہ سے استوار کر لیں۔
بالفاظِ دیگر تشدد کا عمل محض تشدد نہیں ہوتا، بلکہ یہ ایک کٹھالی ہوتی ہے جو ایک نئی ساختی نفسیات کی صورت گری میں معاون ہوتی ہے۔ جس سے مضروب کا نیا ساختی ذہن متشدد گروہ کی ہر تعبیر کو قبول کرنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔ ظالموں سے ابتدائی نفرت اور مغائرت اگلے مرحلے میں اطاعت اور وفاداری کے جذبوں میں ڈھل جاتی ہے۔ خوف زدہ عوام اپنی نفسیات سے خوف کو نکالنے کے لیے متشدد گروہ کے اشارہء ابرو پر جان و مال نچھاور کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ اس طرح مملکت کے خلاف بالآخر ایک ایسی اندھی اور بہری مشین وجود میں آ جاتی ہے، جس کی قوتِ محرکہ ان کی خود ساختہ نفرت ہوتی ہے۔
سیکولر جماعتیں، صحافت اور تخریب
ذہنی تخریب
خون آشام تخریب کاری کے برعکس ذہنی تخریب انسان کے عقلی و جذباتی سانچے کو بطور ہتھیار استعمال کرتی ہے۔ ایسی تخریب کاری نسبتاً زیادہ گہرے اثرات کی حامل ہوا کرتی ہے، کیونکہ اس میں دھوکے اور فریب کی پرکاری ہوتی ہے۔ چونکہ حملہ پوری قوم کے ذہنی افق پر ہوتا ہے اس لیے کبھی یہ پتہ نہیں چلتا کہ کتنے لوگ شکار ہوئے، ساتھ ہی کم خرچ ہونے کے علاوہ اس میں پردہ پوشی کا بھی پورا انتظام ہوتا ہے کیوں کہ تخریب کار عناصر دانشوروں، اساتذہ اور فن کاروں کے روپ میں ہوتے ہیں جو ابلاغ کے ذرائع، تعلیمی اداروں اور کرداری فنون کے مراکز کو اپنی کمین گاہیں بناتے ہیں۔ بظاہر دلیل و برہان سے اپیل ہوتی ہے، مسائل کے آسان حل کی توقعات باندھی جاتی ہیں، لیکن اس کے پس پردہ ایک شدید جذباتیت ہوتی ہے، جو مخاطبین کے اذہان کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ معاملہ انسانی ذہن اور جذبات کا ہوتا ہے، اس لیے اس کے تباہ کن اثرات کا پورا احاطہ کرنا بظاہر ناممکنات کے دائرے میں آتا ہے۔ اگر کہیں کوئی احتساب کی جرات کر بھی بیٹھے تو پوری ڈھٹائی سے آزادی رائے کی دُہائی دی جاتی ہے، جس کی تذلیل، تعزیر سے بے خوف یہ لوگ اکثر کرتے ہیں۔
چونکہ یہ لوگ ملک کے اندر معاشرے کا حصہ ہوتے ہیں، اس لیے انہیں مارِ آستین کہا جا سکتا ہے۔ یہ اپنے ہدف کو نظام کے اندر رہ کر انجام دیتے ہیں۔ کسی مافیا سنڈیکیٹ کی طرح جوابی ردعمل ان کے لیے ناقابلِ برداشت ہوتا ہے۔ یہ پورا اداراتی کنٹرول چاہتے ہیں، تاکہ قوم کے ذہنی افق کی نئی صورت گری کر سکیں۔ سیاق و سباق میں رکھ کر کبھی تو امن کے حوالے سے بات ہوگی تو کبھی اقتصادی نمو یا سیکولر جدیدیت کے نام پر، چنانچہ یہ قوم کو ہردم جھکتے رہنے اور علاقے میں جس کا چودھری ہندوستان ہو، ایک ماتحت کردار قبول کرنے پر آمادہ کرتے رہتے ہیں۔
ان کا ایک اور ہتھیار تاریخ کی تدوینِ نو کا کارِ شر انگیز ہے۔ مسلم تاریخ ان کی نظر میں غیر انسانی، غیر منصفانہ اور بے وقعت بیانیہ ہے۔ ان کا سارا زور اس پر ہوتا ہے کہ مسلمان اپنی تاریخ سے بیگانہ ہو جائیں کیونکہ بقول ان کے: "اس میں کچھ بھی سودمند نہیں۔" یوں مسلمانوں کو امیدوں اور تمناؤں سے محروم کرکے اور انہیں جذباتی طور پر سرد کرکے ایک ظلم پرور جارح دنیا کے سامنے تنہا اور خوف زدہ چھوڑ دیا جاتا ہے۔
اس انداز کی تخریب، قومی شعار اور استعاروں کو بھی نشانہ بناتی ہے اور انہیں اس طرح سے بگاڑتی ہے کہ وہ اپنے جذبات انگیز جوہر میں غیر موثر ہو جائیں۔ یہ تخریب اتنی پرکار ہے کہ عامۃ الناس کو عضوِ معطل بنا کر رکھ دے یا انہیں چھوٹے چھوٹے ثانوی درجے کے مسائل میں الجھا دے۔ یہ اس حوالے سے سوقیانہ اور ظلم کی چکی بھی ہے کہ یہ پوری ڈھٹائی سے عوام کو یاد دلاتی رہتی ہے کہ وہ ایک تیسرے درجے کی قوم ہیں۔ دراصل یہاں پر ہدف قومی نفسیات ہوتی ہے، تا کہ اس سے خود توقیری کھرچ کھرچ کر نکالی جا سکے، جس سے بالآخر وہ قومی تفاخر سے محروم، اجتماعی شعور سے بیگانہ، بیزار اور سنکی ہو جاتی ہے۔ اس کا مقصد ماسوا اس کے اور کچھ نہیں ہوتا کہ مسلمان قوم اپنے وجود میں چنگاری سے محروم ایک راکھ کا ڈھیر بن جائے۔
صورتِ حال یہ ہو تو پوچھا جا سکتا ہے کہ اس تخریب کا فائدہ کسے پہنچانا مطلوب ہے؟ سب سے اہم مدِمقابل بالیقین ہندوستان ہے، کیونکہ اس کی جانب سے غلبے اور استیلا کے ارادے بڑے واضح ہیں۔ لیکن ہندوستان اس جنس کا اکیلا خریدار نہیں، خود امریکہ بھی اس معاملے میں اس سے پیچھے نہیں۔ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو منجمد کرنا ہو یا اسلام کو رگیدنا ہو، دہشت گردی کے الزامات ہوں یا خواتین کے عدمِ اختیار کا مسئلہ، یا توہینِ رسالت کی بحث ہو یا حدودِ قوانین ہوں، سیکولر جنگ آزما کالم نگاروں، انتشار پرور مضامین نویسوں اور گفتگو سے آگ بھڑکانے والے اینکر پرسنز نے امریکہ کے حق میں تحریروں یا غلط فہمیوں کے انبار لگا دیے ہیں۔ یہ کوشش بڑھتے بڑھتے دھمکیوں اور ترہیب کا انداز بھی اختیار کر گئی ہے۔ مقصد واضح ہے کہ پاکستان کو دنیا کی برادری میں یکہ و تنہا کر دیا جائے۔
ایسی تخریب کاری جس کا ماخذ دشمن ملک ہوتا ہے، عموماً ایک ہمہ گیر جارحانہ حکمتِ عملی کا حصہ ہوتی ہے، جس کا مقصد غلبہ اور کنٹرول ہوتا ہے۔ آلہ کار میڈیا سے وابستہ مقامی افراد ہوتے ہیں جو ان مسائل پر راہ ہموار کرتے ہیں کہ جن سے دشمن ملک کے تزویراتی اہداف کا حصول ممکن ہو سکے یا معاشرے میں کسی نام نہاد سیاسی گروہ اور موجودہ زمانہ میں این جی اوز کے ذریعے خلجان و ہیجان کی کیفیت پیدا کی جا سکے ۔ وہ عام فہم مسائل جن کا حل ممکن اور سہل ہو، انہیں الجھایا جا سکے، یا ترقی کے عمل کو روکا، پیداواری صلاحیتوں کو مجروح کیا اور بے چینی کو پھیلایا جا سکے۔
تخریبی عمل میں میڈیا کا کردار
ایسا کیوں کیا جاتا ہے؟ اس کا اندازہ اس واقعے سے کیا جا سکتا ہے۔ ۱۹۵۰ء کے عشرے کے آخر میں سابق سوویت یونین نے امریکہ پر ایک الزام لگایا تھا اور ثبوت کے طور پر ایک خط جاری کیا جو مفروضہ طور پر نیلسن راک فیلر نے تب امریکی صدر آئزن ہاور کو لکھا تھا۔ اس کے الفاظ درج ذیل تھے:
مختصراً ہماری پالیسی لازماً عالمگیر ہونی چاہیے۔ یعنی سیاسی اور نفسیاتی حربے اور اقتصادی، فوجی اور خصوصی اقدامات ایک گل میں گندھے ہوئے ہوں۔ بالفاظِ دیگر ہمارے سارے گھوڑے ایک ساتھ جتے ہوئے ہوں... اگر سب سفارشات پر عمل ہو تو نہ صرف امریکہ کی عالمی پوزیشن بحیثیت مجموعی مضبوط ہو گی، بلکہ مستقبل میں کسی بھی امریکی فوجی مہم کو بہت آسان بنا دے گی۔
یہ خط، بقول امریکہ، سوویت یونین کی جعل سازی تھی لیکن اس کے مندرجات بالکل مطابقِ واقعہ تھے۔ اس میں امریکہ کے تزویراتی مقاصد کے حصول کا طریقِ کار پورے طور پر عیاں ہو رہا تھا۔
ہمارے ہاں اخبارات اور رسائل کی اشاعت میں جو حیرت انگیز اضافہ ہوا ہے، یہ عام شرحِ خواندگی کا ایک متناسب جواب ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں چالیس سے پچاس لاکھ افراد روزانہ شائع شدہ تحریروں سے استفادہ کرتے ہیں۔ یہ معلوم کرنا تو مشکل ہے کہ کتنے لوگ ہیں جو اخباری اطلاعات پر تنقیدی نگاہ ڈالتے ہیں اور وہ کتنے ہیں جن میں ایسی تحریروں سے کسی طرح کا ہیجان اور تحرک پیدا نہیں ہوتا۔ لیکن پرنٹ میڈیا کے دیے ہوئے یہ سارے کوائف بہر کیف قاری کے ذہن میں داخل ہوتے ہیں، اور ان سے اس کے تصورات کی تعمیر و تشکیل ہوتی اور اس کا اندازِ فکر و عمل متاثر ہوتا ہے۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ مذکورہ خبریں اور کوائف نہ تو کسی واقعے کی صحیح تصویر کشی ہوتی ہے اور نہ حقائق کا قابلِ مطالعہ مجموعہ۔ یہ نرا پروپیگنڈا ہوتا ہے۔ چونکہ بیانِ واقعہ اور پروپیگنڈا ایک طرح سے متعاون اور بظاہر ہم رنگ ہوتے ہیں، اس لیے دونوں میں تمیز کافی مشکل ہوتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہو کہ میڈیا کی تخریبی سرگرمی سے اب تک صرفِ نظر ہو رہا ہے۔ بقول ایک امریکی دانشور کے جو پروپیگنڈے کے فن کے ماہر ہیں: ”ماضی میں پروپیگنڈے کا توڑ عموماً غیر واضح اور نتائج کے حوالے سے بیشتر پریشان کن رہا ہے، کیونکہ ہم نے اصطلاحوں (صحافتی تحریروں اور پروپیگنڈے) کو اپنے تئیں جدا کیا ہے لیکن وہ باہم یک جان ہیں۔“
میڈیا اتنا طاقتور اور موثر ہتھیار ہے کہ یہ کسی بھی گروہ یا قیادت کو تباہ کرکے رکھ دے، خواہ وہ کتنے ہی اچھے کیوں نہ ہوں۔ اسی طرح وہ چاہے تو ایک مصنوعی قیادت بھی کھڑی کر سکتا ہے یا لوگوں کے ذہنوں میں کوئی غیر حقیقی خیال بٹھا سکتا ہے، خواہ اپنی اصل میں وہ کتنا ہی انوکھا، غیر فطری اور محیر العقول ہو۔ واقعات اور شخصیات کے بارے میں یہ عامۃ الناس کی رائے بنا بھی سکتا ہے اور بگاڑ بھی سکتا ہے۔ سرخوشی، انبساط اور قبولیتِ عامہ کے احساسات بھی جگا سکتا ہے۔ غرض جب چاہے لوری دے کر سلا دے اور جب چاہے زندگی کی حرارت دے دے۔ ابلاغِ عامہ کے یہ امکانات دنیا بھر میں بدیہی اور مسلمہ ہیں۔ لیکن میڈیا کا تخریبی کردار اور دشمن کا آلہ کار بننا نسبتاً تھوڑے لوگوں کے علم میں ہے، حالانکہ سرد جنگ (۱۹۴۶ - ۱۹۹۱ء) کے زمانے میں امریکہ اور سوویت یونین دونوں نے یہ ہتھیار پوری مہارت اور چالاکی سے ایک دوسرے کے خلاف استعمال کیا اور اسے ایک باقاعدہ سائنس بنا دیا ہے۔
تاریخی حوالوں سے تخریب
جھکتے رہنے اور علاقے میں جس کا چودھری ہندوستان ہو، ایک ماتحت کردار قبول کرنے پر آمادہ کرتے رہتے ہیں۔ ان کا ایک اور ہتھیار تاریخ کی تدوینِ نو کا کارِ شر انگیز ہے۔ مسلم تاریخ ان کی نظر میں غیر انسانی، غیر منصفانہ اور بے وقار بیانیہ ہے۔ ان کا سارا زور اس پر ہوتا ہے کہ مسلمان اپنی تاریخ سے بیگانہ ہو جائیں کیونکہ بقول ان کے: ”اس میں کچھ بھی سودمند نہیں۔“ یوں مسلمانوں کو امیدوں اور تمناؤں سے محروم کرکے اور انہیں جذباتی طور پر سرد کرکے ایک ظلم پرور جارح دنیا کے سامنے تنہا اور خوف زدہ چھوڑ دیا جاتا ہے۔
اس انداز کی تخریب، قومی شعار اور استعاروں کو بھی نشانہ بناتی ہے اور انہیں اس طرح سے بگاڑتی ہے کہ وہ اپنے جذبات انگیز جوہر میں غیر موثر ہو جائیں۔ یہ تخریب اتنی پرکار ہے کہ عامۃ الناس کو عضوِ معطل بنا کر رکھ دے یا انہیں چھوٹے چھوٹے ثانوی درجے کے مسائل میں الجھا دے۔ یہ اس حوالے سے سوقیانہ اور ظلم کی چکی بھی ہے کہ یہ پوری ڈھٹائی سے عوام کو یاد دلاتی رہتی ہے کہ وہ ایک تیسرے درجے کی قوم ہیں۔ دراصل یہاں پر ہدف قومی نفسیات ہوتی ہے، تا کہ اس سے خود توقیری کھرچ کھرچ کر نکالی جا سکے، جس سے بالآخر وہ قومی تفاخر سے محروم، اجتماعی شعور سے بیگانہ، بیزار اور سنکی ہو جاتی ہے۔ اس کا مقصد ماسوا اس کے اور کچھ نہیں ہوتا کہ مسلمان قوم اپنے وجود میں چنگاری سے محروم ایک راکھ کا ڈھیر بن جائے۔
صورتِ حال یہ ہو تو پوچھا جا سکتا ہے کہ اس تخریب کا فائدہ کسے پہنچانا مطلوب ہے؟ سب سے اہم مدِمقابل بالیقین ہندوستان ہے، کیونکہ اس کی جانب سے غلبے اور استیلا کے ارادے بڑے واضح ہیں۔ لیکن ہندوستان اس جنس کا اکیلا خریدار نہیں، خود امریکہ بھی اس معاملے میں اس سے پیچھے نہیں۔ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو منجمد کرنا ہو یا اسلام کو رگیدنا ہو، دہشت گردی کے الزامات ہوں یا خواتین کے عدمِ اختیار کا مسئلہ، یا توہینِ رسالت کی بحث ہو یا حدودِ قوانین ہوں، سیکولر جنگ آزما کالم نگاروں، انتشار پرور مضامین نویسوں اور گفتگو سے آگ بھڑکانے والے اینکر پرسنز نے امریکہ کے حق میں تحریروں یا غلط فہمیوں کے انبار لگا دیے ہیں۔ یہ کوشش بڑھتے بڑھتے دھمکیوں اور ترہیب کا انداز بھی اختیار کر گئی ہے۔ مقصد واضح ہے کہ پاکستان کو دنیا کی برادری میں یکہ و تنہا کر دیا جائے۔
یہ بات ایم جی چتکارا نے لکھی جب کہ دکھاوے کا عنوان تھا: ”ہندو پاک ہم آہنگی اور دوستی: اک نیا تصور۔“ اس حوالے سے محض دو صفحات بعد چنکارا اپنی بات دہرا رہا ہے: ”اس ملک (ہندوستان) کا جن حالات کے تحت بھی بٹوارا ہوا... یہ تری لعنت تھی۔“
تقسیم کو ختم کرنے اور اکھنڈ بھارت بنانے کی خواہش ہندی نفسیات میں گہری پیوست ہے۔ مثلاً، جواہر لعل نہرو نے جنرل کریاپا کو تسلی دی: ”ایک بات کا مجھے کامل یقین ہے کہ بالآخر اکھنڈ بھارت بنے گا۔“
چتکارا بار بار یہ بتانے کی کوشش کرتا ہے کہ برصغیر کے مسلمان پرانے ہندو ہی تو ہیں۔ وہ یہ بات بھول جاتا ہے کہ پاکستانیوں کی اکثریت – یعنی بلوچی، پٹھان، سید، قریشی، عباسی، اعوان، ارائیں، گجر، گرد، ہزارہ، بیگ، انصاری اور بہت سے دوسرے – اپنی اصل میں سرے سے روایتی ہندوستانی ہی نہیں۔ چنکارا جن لوگوں کی تبدیلی مذہب کی بات کرتا ہے، وہ بھی باقی مسلمانوں کے ساتھ شادی بیاہ کے ناطے نسلی طور پر جڑ چکے ہیں۔ چنانچہ قطعاً حیرت نہیں ہوتی جب جی ایچ ہر کلاٹس اور جیمز مل جیسے مورخین مسلمانوں کو باقی ہندوستانیوں سے منفرد نسلی اکائی قرار دیتے ہیں۔ بہ ایں ہمہ، چنکارا ہندوستان کے عوام کی درجہ بندی کچھ یوں کرتا ہے: ”وہ جو ہندو ہیں، اور وہ جو ہندو تھے۔“
پرجوش ہندی وطن پرستی اپنی جگہ لیکن یہ بیان ایک خود سر اور ضدی دماغ شخص کی بے سود ہرزہ سرائی ہے، جو ہر چیز کو صرف ہندی عینک سے دیکھتا ہے۔ اگرچہ ساتھ ساتھ مکارانہ طور پر اپنے قاری کو باور کراتا رہتا ہے کہ وہ قومیت کی تشکیل میں مذہب کے کردار کو تسلیم نہیں کرتا۔ ہر دوسرے جھوٹے کی طرح چنکارا بھی حافظے کی خرابی کا شکار ہے کیونکہ وہ جلد ہی دعویٰ کرتا ہے کہ ہندو ایک قوم ہیں۔ اس کا کہنا ہے: ”ایک قوم ہمیشہ موجود رہتی ہے اور وہ ہندو قوم ہے جو زمانہ دراز سے موجود ہے۔“ لیکن وہ یہ بتانے سے گریز کرتا ہے کہ ایک ہندو کو کیا چیز ہندو بناتی ہے؟ کیا ہندو ازم پر ایمان لائے بغیر بھی کوئی ہندو ہوگا؟ کیا بدھ مت کے پیروکار اور جینی بھی اپنے آپ کو ہندو قرار دیں گے؟ وہ ایسے سوال کا سامنا نہیں کرتا۔
مسلم قومیت، جو مملکتِ پاکستان کی بنیاد ہے، چنکارا کا خصوصی ہدف ہے۔ اس کی اس صاف بیانی کا اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ وہ لگی لپٹی رکھے بغیر کھل کر کہتا ہے کہ پاکستان کی مسلم قومیت ہندو قومیت کا روپ لے لے۔ چنانچہ اس کی تجویز ہے: ”دو قومی نظریے اور اسلامی پاکستان میں لادینیت (سیکولرزم) کے مقام و حیثیت پر از سر نو غور ہو...“
چتکارا اتنا ہوش مند ضرور ہے کہ جانتا ہے کہ پاکستانی قوم کی قوتِ حیات اسلام سے ہے۔ اس کے خیال میں پاکستان کے اسلامی تشخص کو ختم کرنا ایک اہم ترین تزویراتی ضرورت ہے۔ وہ کہتا ہے:
انڈیا کو ہندو مسلم نفسیات کا وہ شعور ہونا چاہیے جس کا تجزیہ گاندھی جی نے کیا تھا، اور اس بات کا احساس کرنا چاہیے کہ جب تک پاکستان دنیا کے نقشے پر ایک آزاد اسلامی ریاست کی شکل میں موجود ہے، مستقل امن، خوشحالی اور استحکام ایک ناتمام بھارتی خواب ہی رہے گا۔
وہ پاکستان کے لیے جمہوریت کو پسند کرتا ہے، کیونکہ اس کا خیال ہے کہ جمہوریت جنگ کی حامی نہیں ہوتی۔ یہ قول اصلاً جرمن مفکر کانٹ (Kant) سے متعلق ہے۔ جس کی خوشہ چینی، بغیر نام لیے، چنکارا کرتا ہے۔ وہ یہ بھول جاتا ہے کہ گزشتہ دونوں عظیم جنگیں جمہوریتوں نے ہی لڑی ہیں۔ لیکن اس کی یہ کینٹ (Kantian) فکر بھول جائیے، کیونکہ وہ اصلاً اپنے ذہن میں یہ بات واضح رکھتا ہے کہ جمہوری بساط پر اپنے پیارے بڑھانے، یعنی پاکستان کے خلاف دباؤ ڈالنے والے مقاماتِ نفوذ پیدا کرنا ممکن ہوگا۔ راجیو شرما کی کتاب ”دی پاکستان ٹریپ“ میں جی این ڈکشٹ تو یہاں تک کہہ گیا ہے کہ ”پاکستان کی سیاسی پارٹیوں میں دراندازی کرنی چاہیے۔“ چنکارا کا خیال ہے کہ پاکستان ایک بگڑا چھو کرا ہے: ”یہ ۱۹۴۷ء ہی سے خود اپنے لیے اور انڈیا کے لیے بھی ایک مسئلہ بنا ہوا ہے۔“ چنانچہ تقسیم کا قصہ پاک کرکے از سر نو متحدہ ہند قائم کر دیا جائے۔
وہ جانتا ہے کہ اسلام اور مسلمان اپنی اصل میں ایک ہیں۔ اسلام ہی مسلمانوں کو یک جان رکھتا اور بڑھنے پھیلنے پر آمادہ کرتا رہتا ہے۔ مسلمانوں کا رشتہ اسلام سے توڑنا اس کا اولیں مقصد ہے۔ مسلمانوں کو اپنے منتخب راستے سے بھٹکانے کے لیے وہ کچھ اس قسم کا تصور انڈیلنے کی کوشش کرتا ہے کہ محمد علی جناح کے پیش نظر اسلامی پاکستان نہیں بلکہ مسلم پاکستان تھا۔ اپنے نقطہ نظر کو ثابت کرنے کے لیے وہ مشری پرکاش کی کتاب "Pakistan: British and Early Days" (پاکستان: برطانیہ اور ابتدائی ایام) سے حوالے نکال کر دکھاتا ہے کہ جناح نے پاکستان کو اسلامی مملکت بنانے کا نہیں سوچا تھا۔ چونکہ اسلامی ریاست کا مطلب قرآنی احکام و فرامین کے مطابق حکومت چلانا ہوگا جبکہ مسلم ریاست کا مفہوم صرف یہ ہوگا کہ شہریوں کی عظیم اکثریت عقیدتاً مسلمان ہے اور انہی کے ہاتھوں میں اقتدار اور حکومت چلانے کا اختیار ہوگا۔ اس خیال کی مضحکہ خیزی اور بے ہودگی تو واضح ہے، چنکارا اس سوال کا جواب دینے سے بھی قاصر ہے کہ آیا ایک مسلمان قرآنی تعلیمات سے روگرداں ہو کر مسلمان رہ سکتا ہے؟ لیکن اپنے پاکستانی لادین رنگ ریز ہم سفروں کی طرح وہ بھی اس طرح کی حقیقتوں سے نظر چرا کر نکل جانے کی کوشش کرتا ہے۔
اپنے اکھنڈی منصوبے کے لیے وہ پاکستان کو لسانی اور ثقافتی بنیادوں پر پھاڑنے کی رائے پیش کرتا ہے۔ اس کا کہنا ہے: "لسانی عامل، دین (اسلام) کے مقابل ہمیشہ زیادہ طاقتور رہا ہے۔" اور تقسیم ہند کو ملیامیٹ کرنے کے لیے بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔
کیا اس ہرزہ سرائی میں چنکارا اکیلا ہے؟ نہیں، اس کے ہم آواز گاندھی، نہرو اور پٹیل کے علاوہ لا تعداد اور بھی ہیں۔ آچاریہ ونوبا بھاوے، اور اروبندو گھوش، اور آچاریہ کرپالانی سے لے کر سی ایس وینکٹ ا تا چاریہ، منی شنکر آئر، اور ڈاکٹر ملک رائے آنند... یہ سب پاکستان کے خلاف اپنے منصوبوں میں ہم فکر ہیں۔ پھر ان کے قدم بہ قدم ایل کے ایڈوانی، رام جیٹھ ملانی اور بال ٹھاکرے جیسے سیاست دان ہیں، جی این ڈکشٹ جیسا سفارت کار ہے، وی این شرما اور این سی سوری جیسے فوجی دماغ ہیں، ٹی ایس آر سبرامنیم اور این این ووہرا جیسے بیوروکریٹ اور ڈی سی پاتھک، ایس کے دتے، اور ایس کے دار و والا جیسے ماہر سراغرساں ہیں۔ ان سب لوگوں کی توجہ سے، ہندوستان نے ایک پوری نسل تیار کر لی ہے، جس کی آنکھوں میں یہ سنہرا خواب بسا لیا گیا ہے کہ تاریخ کا دھارا موڑا جائے اور پاکستان کو توڑ پھوڑ دیا جائے۔
ظاہر ہے پاکستان کی شکست و ریخت کے ہندی منصوبے اس وقت تک بروئے کار نہیں لائے جا سکتے، جب تک خود پاکستان کے مقامی میڈیا میں اس بھارتی تخم ریزی کو اٹھائے رکھنے والے عرض کار (surrogates) موجود نہ ہوں۔ اور اس طرح عام لوگوں کے ذہنوں کو انتشار کا شکار کرکے انہیں نفرت و کراہت اور قلبی چین اور بدنیتی کی کیفیت میں مبتلا کر دیں۔ ہندی ایجنڈا معلوم کرنا ہو اور اس کے ارادوں کی پڑتال کرنی ہو تو اپنے ”پاکستانی پریس میں رسوخ رکھنے والے ایک مخصوص حلقے کی تحریروں پر نگاہ ڈال لینے کی ضرورت ہے:
دریائے سندھ اور گنگا سے، ہندیوں کے لیے ایک پیغام کے عنوان کے تحت نجم رفیق ”دی نیوز“ میں رقم طراز ہے:
میں پاکستان اور انڈیا کی جگہ سندھ اور گنگا کے حوالے سے بات کرتا ہوں... میرے نقطہ نظر سے سندھ اور گنگا، معاملے کو زمان و مکان کے ایک مناسب چوکٹھے میں رکھ دیکھنے کا قابل فہم انداز ہے۔ یہ یقیناً ایک نیا چوکٹھا ہے لیکن یہ ایسا قرینہ ہے کہ گزشتہ نصف صدی کے حالات و واقعات اس دس ہزار سال عظیم الشان اور مسلسل جاری سفر میں محض ایک مختصر موڑ دکھائی دینے لگتے ہیں۔
یہ نوحہ پڑھنے کے بعد کہ (ہندو پاک میں) ذاتی پہچان اور یک جہتی کا تصور بہت کمزور ہے، وہ اپنی تان ان الفاظ میں جاری رکھتا ہے:
البتہ افسوس ناک امر یہ ہے کہ دونوں بڑی (ہندو اور مسلم) آبادیوں نے ایک متحدہ پلیٹ فارم سے ایک ہی قومی شناخت کی جدوجہد سے انکار کر دیا۔ اس کے بجائے دونوں نے اپنے اپنے لیے تنگ مذہبی تقسیم منتخب کرلی۔ مذہبی فسادات، جنہوں نے آج تک انہیں اندھا بنا رکھا ہے، قومی یکجہتی کی راہ کا ایک اور سنگ گراں ثابت ہوئے... یہ بات یاد نہ رہی کہ قومی شناخت ایک ارتقائی عمل ہے اور اسے مصنوعی طریقوں سے پیدا نہیں کیا جا سکتا۔ حالانکہ اس کے علی الرغم ہندی شناخت پہلے دن سے موجود تھی۔
درج بالا تراشہ جو ایک لمبے چوڑے مضمون سے لیا گیا ہے، وہ سب کچھ اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے جو ہندوستانی کہہ رہے ہیں۔ یعنی: پاکستان ایک اسلامی قومی شناخت پر زور چھوڑ دے، کیونکہ یہ ایک مصنوعی ترکیب ہے۔ اسے بھارتی شناخت اپنا لینی چاہیے کہ وہی حقیقی ہے۔
”دی نیوز“ ہی کے پولیٹیکل اکانومی صفحہ کے انچارج ایڈیٹر شہزاد امجد اپنے دوسرے مضمون میں پاکستان کو ایک تضاد اور شئے معدوم قرار دیتے ہیں:
پاکستان ایک ایسی قومی مملکت ہے جس کا ڈھانچہ تو موجود ہے، مگر جو نفسیاتی طور پر کالعدم ہے، اس کے گوناگوں مسائل کی جڑیں ایک صورت حال میں پیوست ہیں، اور وہ صورت حال عدم وجود کی ہے۔ ایک ایسی جغرافیائی اکائی، جو کسی بھی لمحے نئی حد بندی کے متبادل تصور کی زد میں ہے۔
یہ پاکستان کے وجود کی نفی پر مبنی سوقیانہ طرزِ خطاب بلا روک جاری ہے۔ پاکستان کی مسلم قومیت پر ہلہ بولتے ہوئے یہی قلم کار (شہزاد امجد) ”جنوبی ایشیائی منزل--صفر؟ اعصابی مریض؟ یا دونوں؟“ کے عنوان کے تحت مسلمانوں اور ان کے زعما کو، جنہوں نے تحریکِ پاکستان کی قیادت کی اور جو پاکستان کے قومی اخلاق اور مزاج پر یقین رکھتے تھے انہیں ازمنہء وسطی کے مذہبی جنگ باز قرار دیتا ہے۔ اس کے اپنے الفاظ میں اقبال اور جناح قرونِ وسطی کے لوگ اور عظیم ترین غدار تھے، شہزاد امجد لکھتا ہے:
یہ قرونِ وسطی کے مذہبی جنگ جو اپنے اصل اور جوہر میں علاقے کے ”سب سے بڑے غدار ہیں“۔ یہ وہ حکمران ہیں جنہوں نے مختلف النوع نظریاتی چھینا جھپٹیوں اور سیاسی فرہنگ کے پردے میں انسانیت کے ایک ایسے بہت بڑے حصے سے بے وفائی کی، جس نے (انگریز) راج کے خلاف جنگِ آزادی کے دورِ شباب میں دلیرانہ مزاحمت کی
اس کے خیال میں، اسی وجہ سے، کشمیر کو پاکستان میں شامل نہیں ہونا چاہیے: وہ پوچھتا ہے: ”کیا ہم پاکستانیوں کو یہ حق پہنچتا ہے کہ کشمیریوں پر اپنا علاقائی دعویٰ جتائیں؟ کیا کوئی اخلاقی جواز ہے کہ ہم کشمیر کے پاکستان سے الحاق کا مطالبہ کریں؟“
کشمیر پر ہندوستانی تسلط کو برقرار رکھنے کے لیے ”دی نیوز“ کے پولیٹیکل اکانومی کا مدیر اکثر وادئ کشمیر کی صورت حال کا کراچی سے موازنہ کرکے مماثلت قائم کرتا ہے۔ ”ترقی خود تخریبی ہے“ کے عنوان سے ان کا بیان اصلاً تخریب ہی کی نمونے کی تحریر ہے۔ یہ بیان دراصل ایک انٹرویو تھا، جو ایک ہندوستانی ایشین منڈی سے لیا گیا، جسے، انٹرویو لینے والا روشن خیال صحافی اسے جدید ہند کا سقراط قرار دیتا ہے:
پولیٹیکل اکانومی: ”کیا آپ کشمیر اور کراچی کی صورت حال میں مماثلت دیکھتے ہیں؟“
مندی: ”نہیں، کشمیر کا مسئلہ کشمیریوں کے حقوق سے انکار کا پیدا کردہ روگ ہے اور یہی مسئلے کی جڑ ہے۔ جبکہ کراچی اس علاقے میں مکمل قومی حکومتیں قائم کرنے کی درد انگیز کوششوں کا نتیجہ ہے. دل سوز اور رقت انگیز ان معنوں میں کہ مہاجروں کو ایک قومی حکومت کا خواب آ گئیں تصور دے کر اپنی سرزمین سے اکھاڑا گیا۔ جبکہ وہ قومی مملکت کبھی وجود میں ہی نہ آئی...“
کوئی اس کیفیت کو حسرت ناک قرار دے، لیکن یہ پھر بھی خوش کلام تلخ نوائی ہے: اگر مقصد ہماری قومیت کی تحقیر اور کشمیریوں کے حق خود ارادیت کو جھٹلانا تھا تو اس بیان نے وہ مقصد پورا کر دیا۔ یہ سوال اس انٹرویو کے موضوع سے غیر متعلق اور بے جوڑ تھا، کیونکہ اصل زیر بحث ترقی کا موضوع تھا۔ بہر کیف ”دی نیوز“ نے چاہا کہ (من کی بات) ایک انڈین کے منہ میں ڈال دے، تا کہ وہ پاکستان کو گالی دے سکے۔ سنیے کہ جناب سقراط صاحب کیا فرماتے ہیں:
کشمیر ایک روگ ہے جو کشمیریوں کو حق خود ارادیت دینے سے انکار کی وجہ سے پیدا ہوا۔
مطلب اس کا یہ ہوا کہ یہ (بھارت کا ایک اندرونی مسئلہ ہے جس کا کشمیریوں کو درندگی کا شکار کرنے، ان کی خواتین کی عصمت دری کرنے، ان کے گھر جلانے، اور ان کے نوجوانوں کے قتل سے کوئی تعلق نہیں بنتا۔ اسی طرح اس کا کوئی تعلق اس حقیقت سے بھی نہیں بنتا کہ ہندوستان نے کسی اور کی زمین پر غاصبانہ قبضہ کیا ہوا ہے۔
”دی نیوز“ کا سقراط اصل زہر افشانی کراچی کے معاملہ میں کرتا ہے۔ اس کی پاکستان سے نفرت کرنے والی قومی میراث اور مسخ شدہ ذہنیت کی حقیقت کھل کر سامنے آ جاتی ہے، جب کہتا ہے:
کراچی اس علاقے سے مکمل قومی ریاستیں قائم کرنے کی حسرت ناک کوششوں کا شاخسانہ ہے۔ ان معنوں میں حسرت ناک کہ مہاجروں کو قومی ریاست کا خواب آ گئیں تصور دے کر ان کو ان کی اپنی زمین سے اکھاڑا گیا۔ حالانکہ وہ قومی مملکت کبھی وجود پذیر نہ ہوئی۔
اسی اخبار میں ندیم فاروق پراچہ پاکستان کو ایک زیبائشی مملکت کا نام دیتا ہے۔ ”پاکستان! میرے لیے مت رو“ کے ذیلی عنوان کے تحت لکھتا ہے:
بلوچ، سندھی اور بالآخر قومیتوں کے ابھرتے تصور کو پاکستان کی ناکامی اور اس کا ایک نمائشی مملکت ہونا سمجھا جا رہا ہے۔ یہ شاید اس بات کا بھی اظہار ہے کہ مفروضے طور پر پاکستان کا (ایک مملکت کا) سارا تصور ہی ناکام ثابت ہوا۔
”دی نیوز“ کے دو مضمون نگاروں: عائشہ گزدر اور مظہر زیدی کے خیال میں سرحدی لکیریں رکاوٹیں ہیں:
تماشائیوں کو شاید پتہ ہے کہ یہ (بین الاقوامی سرحد) واحد وہ مقام ہے، جہاں پاکستان اپنے سے بڑے ہمسایہ کے ہم پلہ ہے۔ اسی صورت حال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستانی گارڈ کافی زیادہ چست اور ناراض شکل بنائے ہوتے ہیں۔ دوسری طرف ہندی گارڈ نسبتاً واضح طور پر خاموش اور کافی کم مدافعتی انداز لیے ہوتے ہیں۔ شاید کم از کم ان پندرہ منٹوں کے دوران (فوجی) جوانوں کے کرخت اور تنے ہوئے چہرے ہی پرجوش مجمع کو احساس دلاتے ہیں کہ وہ ایک قوم اور ایک ملک ہیں....
بھارتی گارڈ کا حوالہ دیتے ہوئے وہ لکھتے ہیں: کہ گارڈ کی نظر میں دونوں ملکوں میں کوئی فرق نہیں۔ سرحد میں رکاوٹیں انسانوں کی کھڑی کی ہوئی ہیں۔ بھونچکا سا ہو کر پاکستانی تماش بین اس سے متفق ہونے لگتا ہے۔ یہ دیکھ کر ہماری طرف کے ایک تنومند مونچھوں والے گارڈ نے ان ”امن مذاکرات“ کی نازک کونپل کو توڑ ڈالا۔
یہ حد درجہ اشتعال انگیز مواد ہے، جو سرحدات کی توہین کرکے انہیں مصنوعی قرار دیتا ہے۔ ہندی فوجیوں کی انسان دوستی کی تعریف کرتا ہے۔ پاکستانیوں کا منہ پھولا ہوا دکھاتا ہے۔ پھر اسی سانس میں چپکے سے یہ بھی کہہ گزرتا ہے کہ پاکستانی تو ہندوستان کے لیے دوستانہ جذبات رکھتے تھے، لیکن انہیں اس سے روک دیا گیا۔ ان کے خیال میں پاکستانی قومیت کا کوئی وجود نہیں: ”بس جوانوں کے کرخت اور چڑھے ہوئے چہرے دیکھ کر ہی وہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ ایک قوم ہیں۔“
اتنا کچھ کہہ دینے کے بعد بھی ان صاحب کی تسلی نہیں ہوئی۔ پھر یہ قلم کار کسی ۷۰ سالہ سفید بالوں والے بوڑھے قانون دان کے ساتھ ایک اختراعی بات چیت درج کرکے اپنے اندر کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہیں صرف یہ دکھانا مطلوب ہے کہ بوڑھی نسل کو کتنا افسوس ہو رہا ہے۔ بوڑھا یادِ ماضی میں غوطے کھا کر انگریزی راج کے دنوں کو یاد کرتا ہے: ”میں علی گڑھ کالج کے لیے ہر ہفتہ اسی سڑک پر بس کے ذریعے جاتا تھا۔ پتہ نہیں باقی چھ دن کیا کرتا تھا؟“ یہ بوڑھا قانون دان جو اکثر سرحد پر آتا رہتا ہے، بیان کرتا ہے [جی ہاں! اس کے کرنے کا یہی کام رہ گیا ہے]۔ ”اب تو میں ان درختوں کے نظارے سے ہی لطف اندوز ہوتا رہتا ہوں۔“ [سچ ہے، غریب بابا۔ صرف سرحد کے درخت اسے مزہ دیتے ہیں۔ کہیں اور کے درختوں میں باس کہاں]۔ ”یہ پرندے کتنے خوش قسمت ہیں کہ یہ ان مصنوعی رکاوٹوں (سرحدوں) کے آر پار نکل جاتے ہیں!“ ماضی کا دکھڑا رونے والے بابے کے سفید بال ڈھلتے سورج کی روشنی میں دمک رہے ہیں۔
مصنوعی سرحدات والا یہ کوئی جامد تصور نہیں، بلکہ اس پکے راگ کو پلٹ پلٹ کر گانے والے مختلف روپ دھار کر سامنے آتے ہیں۔ لاہور کی عالمی پنجابی کانفرنس منعقدہ ۳۰ جنوری ۲۰۰۴ء نے ”دی نیوز“ کے پہلے صفحہ پر تین کالمی موٹی سرخی کو جنم دیا: ”بھارتی پنجاب کے وزیر اعلیٰ سنگھ مصنوعی سرحدوں کو ختم کرنے کے حق میں۔“
اسی طرح کی سرخی اچھالنا کوئی بے مقصد مشق نہ تھی جو سیکولر پریس نے بے سوچے سمجھے کی ہو۔ نہیں، بلکہ یہ برسوں پرانے ہندی خواب کے ساتھ پوری ہم مزاجی سے ملتی ہے کہ پاکستان کی اقتدارِ اعلیٰ کی حیثیت ختم کرکے رکھ دی جائے۔ مثلاً اسی اخبار میں وارد یہ بیان پڑھیے:
تقسیم (برصغیر) شیطانی فعل ہی نہیں تھا پورا پاپ تھا۔ ہم اسے بروقت نہ روک سکے اور اب یہ شاید ایک امر واقعی کے طور پر موجود ہے۔ لیکن عوام کی سطح پر باہمی مکالمہ اس تقسیم پر لکیر پھیر سکتا ہے۔
ثانیاً اصل اہمیت اس کی نہیں کہ پاکستان ایک نیشن سٹیٹ کے طور پر باقی رہتا ہے۔ اصل اہمیت پاکستان میں بسنے والے عوام کی بہبود کی ہے (ڈاکٹر طارق بنوری)۔
کشمیری پاکستان کے قیام کی قیمت ادا کیے جا رہے ہیں۔ ایسا نہیں کہ پاکستان کشمیر کے لیے دکھ اٹھا رہا ہو۔ میں جو امکان دیکھ رہی ہوں وہ جنوبی ایشیائی مملکتوں کی کنفیڈریشن ہے۔ موجودہ حالات میں یہ ناقابلِ عمل محسوس ہوگا، لیکن یاد رہے کہ جس نسل کے ہاتھ میں آج زمام کار ہے وہ سرد جنگ کے پروپیگنڈے سے متاثر تھی۔ اگلی نسل ان سارے معاملات پر مختلف نقطہ اپنا سکتی ہے (ڈاکٹر مبشّرہ تک)۔
درج بالا تخریبی بیانات اس سمپوزیم کا حصہ ہیں جس کا انعقاد ”دی نیوز“ نے کیا اور جس کا عنوان تھا: "کیا پاکستان باقی رہ سکتا ہے؟" سمپوزیم کی ساخت اور ترتیب پوری چالاکی سے طے کی گئی تھی۔ صرف ایک سوال ہے، جو چھ شرکاء سے پوچھا گیا۔ ساتھ میں ہر ایک کی تصویر ہے۔ سب کافی پڑھے لکھے لوگ ہیں، چنانچہ یہاں بیان کردہ خیالات کو استناد اور اعتبار حاصل ہے۔ ان کے جوابات کا تانا بانا ایک ہی اساسی دلیل کے ارد گرد تیار کردہ ہے، جس میں یہ اہلیت ہے کہ وہ پاکستان کے ایک مملکت کے تصور کے خلاف ایک نیا شعور اجاگر کرے۔ پوری ترکیب ایک پہلے سے طے شدہ معاملے کا پتہ دیتی ہے۔ اس صحافتی ڈرامے میں ہر شریک گفتگو کے لیے واضح اشارہ ہے کہ اسے کیا کہنا ہے۔ ان کی سوچ اور فکر طارق علی سے ہم آہنگ ہے جسے مسلم پاکستان سے قلبی نفرت ہے۔ اسی طارق علی کی کتاب پوری ترکیب کا عنوان قرار پاتی ہے۔ موضوعِ بحث کے ابتدائیہ میں نعمان نقوی، طارق علی کا حوالہ بھی دیتا ہے:
وہ سوال جو پاکستان کی نئی نسلوں کو کسی پلٹ پلٹ کر آنے والے بھوت کی طرح پریشان کرتا ہے، صرف اتنا ہی نہیں کہ یہ ملک باقی رہے گا یا نہیں، بلکہ یہ ہے کہ کیا اس کے وجود میں آنے کا کوئی جواز بنتا تھا۔
”دی نیوز“ کے اداراتی صفحے کے ایک مضمون میں بینا سرور ایک ڈرامائی انداز سے یہ اپیل کرتی ہیں: ہندو مسلم لادین یکجہتی کی بنیاد پر ایک کلیتاً خود مختار کشمیر وجود میں آئے۔ اس کے خیال میں کشمیریت کا تھکا ہارا ہندی تصور، کشمیریوں کی اسلامیت اور پاکستان میں ان کے شامل ہونے کی خواہش کی جگہ لے ۔ وہ جان بوجھ کر اس امر واقعی پر پردہ ڈالنے کے لیے لیپا پوتی کرتی ہیں کہ آزاد کشمیر کی تحریک کے بھی نعرے اور نشان اپنی اصل میں اسلامیت اور پاکستانیت سے موافقت رکھتے ہیں۔ وہ اس بات کو یکسر نظر انداز کرتی ہیں کہ پنڈتوں نے بالعموم یک زبان ہو کر کشمیر کے حق خود ارادیت کی مخالفت کی، جس کا فیصلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت ہوا۔ ان کے خیال میں مطالبہ صرف انڈین یونین کے اندر ایک جدا صوبہ کی تشکیل کا ہے۔
اس بیان کی نزاکت قابل توجہ ہے۔ یہ بیان اس وقت سامنے آیا جب تنازعِ کشمیر پر جلد بات چیت شروع ہو رہی تھی ۔ پاکستان اور کشمیر کاز کی صحیح وکالت کرنے کے بجائے وہ مکمل آزاد اور خود مختار کشمیر کا بھوت کھڑا کر رہی تھیں تا کہ کشمیر پر موجودہ صورت حال جوں کی توں باقی رہے اور اسی میں ہندوستان کا فائدہ ہے۔
انگریزی جریدے اور دہشت گرد ریاست
ہمارا انگریزی پریس جو فتنے اٹھا رہا ہے، یہ بھی اس کا ادھورا بیان ہے۔ مغربی دنیا میں پاکستان کا ایک دہشت گرد ریاست اور ایک عدم روادار معاشرہ کے طور پر تعارف خود بخود تو نہیں ہو گیا۔ ہمارے سیکولر پریس نے مسلسل لکھ لکھ کر، بات کا بتنگڑ بنا کر اور ایک ہی بات بار بار دہرا کر یہ فضا پیدا کی ہے۔ مثلاً فروری اور اپریل ۲۰۰۱ء کے صرف دو ماہ کے عرصہ میں ”نیوز لائن“ نے تین بھاری بھر کم مقالے پاک افغان تعلقات کے حوالے سے شائع کیے۔ ان میں فرقہ پرستی کو اسلامائزیشن اور جہادی گروپوں کے کھاتے میں ڈالا گیا۔ سرورق کی ایک کہانی میں جو جہاد سے متعلق تھی، ایسے کیمپ دکھائے گئے، جن میں غیر ملکیوں کو تربیت لیتے دکھایا گیا ہے۔ اسی عرصے میں ماہنامہ ”ہیرالڈ“ نے اپنے اپریل کے شمارے میں پاکستان پر الزام لگایا کہ اقوام متحدہ کی پابندیوں کے باوجود اس نے افغانوں کو ہتھیار مہیا کیے ہیں۔ ”بے جگر بت شکنی“ کے عنوان کے تحت اس نے لکھا:
اگرچہ طالبان کے بین الاقوامی حمایتیوں کا ردعمل کابل کو ہتھیاروں کی نئی کھیپ دینے کی شکل میں تھا۔ اور ایک طالبان نے ۲۳ مارچ کو طورخم سرحد پر چھ ٹرکوں کی قسط چھپ چھپا کر یوں وصول کی کہ اقوام متحدہ کو خبر نہ ہونے پائے، جس نے طالبان پر ہتھیاروں کے ضمن میں پابندی لگا رکھی ہے۔ ان ترسیلات کو قطعی خفیہ رکھا جا رہا ہے تا کہ نقصان سے بچا جا سکے۔
سچ یا جھوٹ سے قطع نظر، یہ بیان از خود شر انگیزی تھی۔ اس سے لازماً پاکستان کے لیے مسائل کھڑے ہونے تھے۔ لیکن ہیرالڈ کو اس کی خاک پروا نہ تھی۔ جنوری کے شمارے میں کشمیر میں جنگ بندی کا معاملہ نمایاں تھا جس کی تان اس پر ٹوٹی کہ کشمیر کو مکمل آزادی دے دی جائے۔ پھر مارچ کا شمارہ آیا تو سرورق قصہ اسامہ بن لادن اور اس کے پاکستان سے رابطوں اور تعلقات کا تھا۔
”دی نیشن“ کی کہانی کہ طالبان پاکستان میں پناہ لیے ہوئے ہیں، ایک تو ناقابلِ یقین حد تک مبالغہ آمیز تھی، بلکہ خبث باطن کا مظاہرہ بھی تھی، کیونکہ اس کے ذریعے امریکہ کے اعصاب کو چھیڑنے کی کوشش کی گئی تھی، جو پہلے ہی طالبان القاعدہ محوری تعلق کے ضمن میں حد درجہ حساسیت میں مبتلا اور بدکا ہوا تھا۔ جس طرح ایسی کہانیوں کا خاصہ ہوتا ہے، اس کی سرخی شعلہ بار تھی۔ ”پشتون علاقوں میں طالبان کا تازہ دم نمو“۔ تمہید کی اٹھان اور تراش کافی چالاکی سے کی گئی، ایک طرف امریکی نائب وزیر خارجہ رچرڈ آرمیٹج (Richard Armitage) کا خوش خیال بیان کہ افغانستان میں امریکہ مخالف قوتوں کا صفایا کر دیا جائے گا، تو دوسری طرف طالبان کے ایک مولوی صاحب اتنے ہی پُر امید اور پختہ ارادے کا اظہار کر رہے تھے کہ امریکیوں کو افغانستان سے مار بھگایا جائے گا۔ درج ذیل ٹکڑا تو کسی ہالی ووڈ فلم کا منظر لگتا ہے:
کوئٹہ کے مضافات میں بعد از نمازِ مغرب ہزارہا افغان اور پاکستانی طالبان جو اپنے سیاہ لباس، سیاہ داڑھیوں اور لمبے اُلجھے بالوں کی بنا پر نمایاں ہیں، گلیوں میں پھیل جاتے ہیں۔
یہ پورا بیان مشکوک اور تصدیق طلب ہے۔ مثلاً جس (بے نام) مولوی صاحب کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، کیا اس نے کسی اجتماع میں تقریر کی تھی؟ یا اس نے احمد رشید (مضمون نگار) سے براہ راست بات چیت کی؟ متن میں قاری کو ایسی کوئی سند نہیں ملتی۔ ترتیب کلام البتہ بتا رہا ہے کہ مولوی صاحب کا اعلانِ مزاحمت اور ہزاروں طالبان کا گلیوں میں اُمنڈ آنا کسی جلسے یا ریلی سے متعلق ہے، جبکہ متن سے اس کی تردید ہوتی ہے، کیونکہ وہاں بیان دو مختلف مواقع کا ہو رہا ہے۔ بعد از نماز ہجوم والا ٹکڑا کہانی بنانے کے لیے بعد کی اضافی تخلیق ہے۔
لیکن اس ہزارہا ہزار والی مبالغہ گوئی سے صرفِ نظر کر لیجیے۔ یہ واضح نہیں کہ اتنے سارے لوگ کسی ایک بڑی مسجد سے برآمد ہوئے یا مساجد کے کسی جھنڈ سے نکلے؟ ایک بہت بڑی مسجد جس میں اتنے لوگ سما سکیں یہ مشکل ہی کوئٹہ کے گرد و نواح میں موجود ہو سکتی ہے۔ پشتون آباد میں تو بالکل نہیں، جہاں کی جامع مسجد میں کم و بیش دو ہزار نمازیوں کی گنجائش ہے اور وہ بھی نمازِ جمعہ کے لیے۔ لیکن ”دی نیشن“ نے تو صریح طور پر نمازِ مغرب کا وقت بتایا ہے۔ اس وقت کی نماز میں تو جمعہ سے یقیناً کم لوگ آتے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ کئی مساجد سے لوگ نکلے تو اس کا نتیجہ بھی اتنا بڑا ہجوم نہیں ہو سکتا جو ایک خصوصی تاثر قائم کرنے کے لیے قصہ گو صاحب حقیقت بنا کر دکھا رہے ہیں۔ وجہ ظاہر ہے کہ ہر مسجد جو آبادی کی چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں میں موجود ہو، وہاں سے لوگ نماز ختم کرکے عموماً تنگ گلیوں سے ہوتے ہوئے اپنے اپنے گھروں کی راہ لیں گے۔
اس طرح احمد رشید ابہام کا سہارا لیتا ہے جو دیانت دارانہ رپورٹنگ کی زبان نہیں ہے۔ مشکوک اشارے اور مبہم کلام کسی تجریدی تصور کے لیے وسیلہ اظہار تو بن سکتے ہیں، جہاں مجازانہ پیرایہ اس کی پراسراریت میں اضافہ کر سکتا ہے، لیکن اسے کسی واقعے کی رپورٹنگ کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ یہاں معروضیت لازمی ہے۔
یہ مذکورہ بالا ٹکڑا جو کوئٹہ میں طالبان کی موجودگی کا الزام لگا رہا ہے، چند اور مسائل سے بھی بوجھل ہے۔ احمد رشید کے مذکورہ ہجوم کے افراد کو ایک ہی رنگ ڈھنگ میں دیکھتا ہے۔ سیاہ لباس، سیاہ داڑھیاں اور بن سنورے لمبے بال۔ اس کا خیال ہے کہ یہی پاکستانی اور افغانی طالبان کی یکساں پہچان اور علامت ہے۔ جو لوگ پشتون روایات سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ اگر کوئی شیعہ مسلک کا نہ ہو، تو وہ سیاہ لباس نہیں پہنا کرتے اور طالبان شیعہ نہیں ہیں۔ اور اگر قصہ گو کا یہ بیان صحیح ہے کہ وہ طالبان ہی تھے تو سوال کیا جا سکتا ہے کہ کیا سیاہ رنگ طالبان کا شعار یا کوئی علامت ہے؟ کیا ان سب کے لمبے ناتراشیدہ بال ضرور ہوتے ہیں؟ اور اگر ایسا ہے بھی تو طالبان اپنے اس شعار کی عام نمائش ایک ایسے ملک میں کیوں کریں گے، جو بین الاقوامی اتحاد کا ہراول کا کردار ادا کر رہا ہے اور جسے ان طالبان کو پکڑ پکڑ کر امریکہ کے حوالے کرنے میں کوئی باک نہیں ۔ کیا طالبان بالکل پاگل ہو گئے ہیں؟
ایسا ہی لاینحل مسئلہ طالبان کا وہ خاکہ ہے جس کی تصویر کشی احمد رشید نے الجھے لمبے بالوں کی شکل میں کی ہے۔ جو لوگ دستار استعمال کرتے ہیں، وہ عموماً ڈھنگ سے سنوارے ہوئے بال رکھتے ہیں، بالخصوص جب انہیں نماز پڑھنی ہو۔ وضو میں بال کی جڑوں تک پانی پہنچایا جاتا ہے۔ اوپر کس کر پگڑی باندھی جاتی ہے۔ ایسے میں بال الجھے ہوئے نظر نہیں آئیں گے، بلکہ بالوں میں نمی کی چمک بھی ہوگی اور رکھ رکھاؤ بھی۔ بات دراصل یہ ہے کہ رشید کا طالبان کی شکل و صورت کا اشتعال انگیز خاکہ کسی محاذ سے پلٹنے والے جنگ جو کا تاثر دینے میں اس وقت تک ناکام رہتا ہے جب تک وہ اس کی تصویر کشی کرتے ہوئے اسے ایک وحشی کا روپ نہ دے۔ اُلجھے ہوئے بال، کالے لباس والا حلیہ یقیناً گوریلا جنگ میں ملوث کسی گوریلے کا روپ تو ہو سکتا ہے، لیکن پشتون آباد کی بستی میں رہائش پذیر عام آدمی کا ہرگز نہیں۔ اس سے بھی بدتر یہ کہ احمد رشید صریح طور پر پاکستانی حکومت پر طالبان کی مدد کا الزام دھر رہا ہے:
یہ بالکل واضح ہے کہ صدر پرویز مشرف اور فوج افغانستان کے پشتون علاقے میں اپنا اثر و رسوخ قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ اس عمل میں صرف طالبان ہی وہ حلیف ہیں جو ایسا کر سکتے ہیں۔
مزید یہ کہ مشرف بہت چالاک کھیل کھیل رہا ہے۔ ایک طرف امریکیوں پر حاصل شدہ اثر استعمال کر رہا ہے، لیکن اقدامات صرف اسی قدر کر رہا ہے کہ امریکہ کی علی الاعلان تنقید کی شدت کم رہے۔
یہ مبہم اور الجھے ہوئے نتائج فکر تو چھوڑیے، پوچھنا یہ ہے کہ سیکولر پریس یہ سب مجرمانہ حرکتیں کس کی خاطر کر رہا ہے؟ کیا قومی مفاد بھی کوئی قابل لحاظ چیز ہے؟ اور سلامتی کے معاملات میں شعور و احتیاط کی بھی ضرورت ہے یا نہیں؟ سیکولر پریس کو اس سے کوئی غرض نہیں۔
اخلاقی بگاڑ
میڈیا کے تھیٹر میں اس تخریبی کھیل کا دوسرا رخ اخلاقی بگاڑ پیدا کرنا ہے۔ خاندان کی سماجی اکائی کو غیر مستحکم کرنا، خواتین کی ایسی تصویر کشی کرنا کہ وہ بس صنفی تشفی کا ایک بے بس اور مجبور ذریعہ ہیں۔ اس پہلو سے اس سارے مسئلے کو دیکھا جائے تو آزاد صنفی تعلقات کا فروغ بھی اپنی تعریف میں تخریبی کوشش ہے، کیونکہ اس کا آخری نتیجہ ہماری سوسائٹی کی اسلامی بنیاد کی کمزوری اور نئے اور اجنبی سماجی تصورات پر مبنی شعور کی تراش کرنا ہے، جس میں جنسی اختلاط اور بے راہ روی کے خلاف مزاحمت یا تو کم ہوگی یا پھر ناپید۔ یہ ساری کوشش مسلم تشخص کے خلاف جاتی دکھائی دیتی ہے۔
نوجوانوں کے لیے ”دی نیوز“ کا رسالہ "US" اور ہفت روزہ ”فرائیڈے ٹائمز“ لاہور اسی طرح کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ ایک لڑکی کو نصیحت ہو رہی ہے اور ہمارے خیال میں یہ خود ساختہ قصہ ہو سکتا ہے کہ وہ صنفی لطف و اطمینان کے لیے ارتعاشی آلہ (vibrator) استعمال کر سکتی ہے۔ بتایا جاتا ہے:
ہاں ایسا آلہ موجود ہے البتہ مجھے دھڑکا ہے کہ تیری ماں ایک بات ٹھیک کہہ رہی ہے۔ یہ آلہ تیری بکارت میں رخنہ ڈالے گا، کیونکہ تم اسے اس وقت موثر طور پر استعمال کر سکتی ہو جب وہ (آلہ) اس پردے کو پھاڑ دے جو تیری دوشیزگی کو برقرار رکھتا ہے، جب تک تیرا جیون ساتھی نہ آ جائے جو تجھے بیاہ لے جائے۔ جب تک پردہ باقی ہے تم یہ آلہ استعمال نہیں کر سکتی۔ اس میں سماجی طور پر کوئی برائی نہیں، ہاں البتہ یہ آلہ آسانی سے بازار میں دستیاب نہیں ہے۔ صرف اونچی دکانوں میں مل سکتا ہے، اس لیے مجھے یقین ہے کہ تم یہ بات سمجھتی ہو کہ یہ کوئی مذہبی یا معاشرتی مخمصہ نہیں۔ سوال صرف یہ ہے کہ تم کب اور کس حالت میں یہ آلہ واقعی استعمال کر سکتی ہو؟
درج بالا ٹکڑا، جس پر پُرفریب عنوان ”رازدارانہ“ لگایا گیا ہے، اپنے انداز میں بدفطرتی اور چالاک افعی ہے۔ ذرا سنیے! اس میں کوئی سماجی خرابی نہیں۔ اور کہ ”مذہبی اور معاشرتی مخمصہ نہیں“ تم مصنوعی صنفی اعضا (ارتعاشی آلات وغیرہ) ”اُونچی دکانوں“ سے حاصل کر سکتی ہو۔ پس، آگے بڑھو اور استعمال کرو۔ بات صرف اتنی ہے کہ تم کب اور کس حالت میں یہ آلہ استعمال کر سکتی ہو۔
اس کلام میں بداخلاقی کی جو ترغیب ہے وہ تو چھوڑیے، سوال یہ ہے کہ جس لڑکی نے کبھی یہ ارتعاشی آلات استعمال کیے، کیا اسے ایسا خاوند مل پائے گا جو اسے جنسی طور پر مطمئن کر سکے؟ اسے لازماً باقی زندگی ارتعاشی اعانات اور جھٹکوں پر گزارنی ہوگی۔
یہ بات یہی ختم نہیں ہوتی، ”فرائیڈے ٹائمز“ نے تو پورے فخر و انبساط کے ساتھ سٹیج ڈرامہ ”اندامِ نہانی کی یک طرفہ گفتگو“ (The Vagina Monologues) کے افتتاحی شو پر ایک موٹی سرخی جمائی: ”شش شش تمہیں آزاد کیا جا رہا ہے!“ اس موقع کو بھرپور انداز میں رپورٹ کیا گیا، جیسے یہ کوئی بڑا اہم اخلاقی اہمیت رکھنے والا واقعہ ہو:
شو کی اصل قوت اور تاثیر الفاظ کے چناؤ اور اس پیغامِ حریت میں تھی، جو اس کھیل کے کرداروں کے ذریعے سے پیش کی گئی۔ خواتین کے صنفی اظہار اور اندامِ نہانی کا ذکر مسرت اس طرح سے کیا گیا کہ ناظرین میں موجود خواتین ایک خاموش معنوی تصدیق کی کیفیت میں آ گئیں، اور انہوں نے اپنے اوپر امتناع کے جو خول چڑھا رکھے تھے اور جو ذہنی رکاوٹیں کھڑی کی تھیں، وہ بالآخر ختم ہو گئیں۔ عائشہ عالم ان سے پوچھ رہی تھی: 'چ' 'چ' [چ] 'چ' لاہور جی! کیا یہ لفظ کہتے منہ ٹیڑھا ہو جائے گا؟ دلچسپی کی بات ہے کہ ناظرین کسی حد تک دم بخود رہے۔ انہیں کچھ بے چینی سی بھی ہو رہی تھی یہاں تک کہ ٹی ایف ٹی کے مرد فرائیڈے کامی نے حوصلہ کیا اور آگے بڑھ کر جواباً چیخا: چ... چ۔ ذرا ہی دیر میں سارا ہال اس لفظ سے گونج رہا تھا۔ نادیہ جمیل نے، جس نے یہ شو لاہور میں متعارف کرایا [واقعی بڑا کام کیا]۔ ایک پُر جوش، توانا اور مسرور ترنگ اور اپنے مخصوص انداز میں خواتین کے درد انگیز فریادوں کی نقل اتارنی شروع کر دی۔ وہ افریقی امریکی لغت اور گالیوں سے معمور فریادوں سے چلی، بے آواز آہوں سے ہوتی، پاکستانی 'ہائے' اور 'اوئی' تک پہنچ گئی، کہ ڈراما دیکھنے اور آوازیں سننے والوں کو بڑا مزہ آیا۔
”فرائیڈے ٹائمز“ بہت پرجوش انداز میں ان فنکار خواتین کی تعریف و توصیف کرتا ہے، جنہوں نے اپنے شخصی اور مخفی زنانہ تجربات کو ناظرین کے سامنے کھول کر رکھ دیا تھا، خواہ ان کا تعلق حیض و نفاس سے ہو یا زچگی سے، خواہ جنس مخالف سے صنفی رابطے کا معاملہ ہو یا ہم جنس پرستی کا، خواہ زنا بالجبر اور زور زبردستی کا تجربہ ہو یا پیار محبت اور عضویاتی نامیاتی جنسی ملاپ کا واقعہ ہو۔
کیا آزادی اظہار کی کوئی حد ہے یا نہیں؟ ”فرائیڈے ٹائمز“ تو کسی حد پر رکنے کے لیے تیار نہیں۔ اس کے ایڈیٹر کو نہ تو اس ملک کے دستور کا کوئی پاس ہے، نہ یہاں کی مسلمان سوسائٹی کے طور طریقوں اور عقائد کا کوئی لحاظ ہے۔
ہندی تخریبی پلان
میڈیا کے ذریعے ہندی تخریبی سرگرمیوں کا سانچا اگر یہ ہو جس کا مختصر تذکرہ اوپر ہو چکا ہے، تو اس کا اصل کھیل سمجھنا مشکل نہیں ہونا چاہیے۔ اس کی واضح تزویراتی اہداف اور حربی سوچ سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے مقاصد کیا ہو سکتے ہیں اور انہیں وہ کیسے حاصل کر سکتا ہے:
- مسئلہ نمبر ۱: پاکستانیوں کو کیا چیز آپس میں جوڑنے والی ہے؟ جواب ظاہر ہے: اسلام۔
- ہندی حل: اسلام کی اپیل کو فرقہ واریت ابھار کر نقصان پہنچاؤ۔ پھر الزام بھی اسلام ہی پر دھر دو کہ اس کے نفاذ کا مطالبہ معاشرے کے لیے نقصان دہ ہے۔
- مسئلہ نمبر ۲: اگر معاشرے میں اسلام غالب بن کر نافذ ہو جائے، جیسا کہ دستورِ پاکستان میں دکھایا گیا ہے، تو کیا پاکستانی یک رنگ اور شیر و شکر ہو جائیں گے کہ وہ سیکولر انڈیا سے مختلف نظر آئیں؟ اگر جواب ہاں میں ہے تو پھر انڈیا کو کیا کرنا چاہیے؟
- ہندی حل: پاکستانی دانشور ایجنٹوں اور کارکن صحافیوں کو اکساؤ کہ وہ اسلامی اقدار اور طرز فکر پر از کار رفتہ رجعت پسند اور نئے تقاضوں سے غیر ہم آہنگ ہونے کا الزام لگائیں۔ بتائیں کہ اسلام آیا تو سوسائٹی طالبان ڈھنگ اختیار کرلے گی اور یہ کہ اس طرح سے مملکت جنونیوں کے ہتھے چڑھ جائے گی، جو دلیل و برہان اور ترقی کے دشمن ہیں۔ آزاد روی اور سیکولرزم کا چرچا کیے جاؤ۔ ابتدا میں مملکت اور دین میں بُعد اور دوری کا تصور عام کرو۔ پھر لسان پرستی اور علاقائی مفادات کو ”دبی پسی قومیتوں“ کی علاقائی سیاست سے جوڑ دو، جو ایسے وفاق میں جکڑی ہوئی ہیں جس پر پنجاب کا غلبہ ہے۔
- مسئلہ نمبر ۳: بھارتی مقبوضہ کشمیر میں حالات کو قابو میں لانے کی کیا تدبیر ہو؟
- ہندی حل: وادی میں جہاد کو بدنام کرو۔ پاکستان کو ناکام ریاست بتاؤ اور سوال اٹھاؤ کہ کشمیر کو لینے اور سنبھالنے کی اس میں اہلیت ہی نہیں ہے، جبکہ خود اس کے سماجی اور اقتصادی اشاریے پست درجہ کی غربت کی سطح کے ہیں۔ ساتھ ہی خود مختار کشمیر کا شوشہ اچھالو تا کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کا توڑ کیا جا سکے۔ جہادی قوتوں کا دامن داغدار کرکے دکھاؤ اور اس خوف کو ابھارو کہ یہ لوگ خود پاکستان میں قائم نظم کے لیے خطرہ ہیں۔ بتاؤ کہ اگر یہ گروپ موجودہ سیکولر ہیئتِ حاکمہ کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تو کیا ہوگا؟ خود جہاد کے جواز کو حل بحث بناؤ۔ مثلاً پوچھو کہ اگر جہاد کا حکم مملکت (امیر) نے نہیں دیا تو پھر اس کا شرعی جواز کیا ہے؟ اس مقام پر سیکولر حضرات جو اسلام سے نفرت کرتے ہیں، اسلام ہی کے نام پر دُہائی دیتے ہیں اور جہاد کا شرعی جواز پوچھتے پھرتے ہیں۔ پاکستانی انتظامیہ کے لیے یہ سوال نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن کی طرح کا ہے۔ اگر یہ اہل جہاد کو گلے لگاتی ہے تو گردن زدنی، اور ان سے پنڈ چھڑاتی ہے تو لعنت زدہ۔ ساتھ ساتھ، پاکستان اور انڈیا کے درمیان کنفیڈریشن کے قیام کا خیال پھیلاتے جاؤ۔ نام اسے ترقی کا دو یا علاقائی تجارتی بلاک کا، تاکہ پاکستانی اور کشمیری مسلمانوں کی یکجائی کی خواہش اور آرزو کا جھٹکا ہو۔ کشمیر کے جواب میں کراچی کے حالات کو بھڑکاؤ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نام نہاد زیادتیوں اور سخت گیری کا تذکرہ بار بار کرو۔ ایم کیو ایم کے خلاف مملکتی کردار کی پردہ پوشی کے لیے ماضی میں کراچی سے کی گئی نام نہاد اقتصادی سماجی نا انصافیوں کی بات کرو اور پاکستانی سماج میں مہاجروں کی بری حالت کو مبالغہ آمیز حد تک بڑھا چڑھا کر دکھاؤ۔ اس قسم کی تخریب کا ایک مثالی نمونہ ڈِیزِن فارمیٹسیا (Dezinformatisa) میں موجود ہے:
پوچھنے پر، چیک خفیہ ایجنسی کے ایک سابق افسر لاڈیسلاو بٹ مین (Ladislav Bittman) نے انکشاف کیا کہ اس نے صحافی اجرت پر حاصل کیے تھے، تاکہ وہ ایسے موضوعات پر کام کریں کہ جن سے سوویت مفادات کو تقویت ملے۔ اس طرح کے آپریشن میں ضروری ہے کہ یہ صحافی جس ملک کے لیے کام کر رہے ہوں اس کے حق میں پالیسی بیان نہ دیں۔ بلکہ اصل زور اس بات پر رہا کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور نیٹو کے مفادات کو نقصان پہنچے اور مغربی جرمنی اور فرانس، یا امریکہ اور اتحادیوں کے درمیان دراڑیں ڈالی جائیں۔
یہ خیال پھیلانا بھی بہت ضروری ہے کہ دشمن بکھر رہا ہے۔ مرکزی موضوع میں یہ دلیل دی گئی کہ نیٹو اتحاد ٹکڑے ٹکڑے ہو رہا ہے، کیونکہ امریکہ کے طور طریقے فوجی اور خطرناک تھے اور یورپی ضرورتوں کا لحاظ نہیں رکھتے تھے۔ مثلاً مغربی جرمنی میں امریکہ کو الزام دیا گیا کہ اس نے مابعد جنگ قبضے کے دوران جرمن روایات اور ثقافت کو نظر انداز کیے رکھا اور جرمنوں پر اجنبی ادارے اور سیاسی کلچر تھوپے گئے۔ دوسری طرف فرانس اور دوسرے یورپی ممالک کے سامنے جرمنی کو یوں پیش کیا گیا کہ وہاں نازی رجحانات پھر سے مضبوط ہو رہے ہیں۔ انہیں بتایا جاتا ہے کہ بہت سے جنگی مجرم دوبارہ مغربی جرمنی کی حکومت میں سیاسی اقتدار پر فائز کیے جا رہے ہیں۔ خدشہ ظاہر کیا گیا کہ یہ صورت حال پورے یورپ کے لیے بے حد خطرناک ثابت ہوگی۔
ماضی کا ایک قابلِ مطالعہ قصہ
تخریب کی کئی پرتیں ہوتی ہیں۔ یہ کسی ایک طریقِ کار یا راہِ عمل پر اکتفا نہیں کرتی۔ جہاں تخریب کار قوت و اختیار کے مرکز کے قریب تک پہنچ جائے تو اس کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اہم پالیسی سازوں کا اعتماد حاصل کرے اور اپنے تعلق کو فرد واحد تک ہی محدود رکھے، تاکہ اس کی حیثیت غیر متنازع رہے اور مرکزی شخصیت کے قریبی دوست ہونے کے ناطے اسے مکمل پردہ پوشی حاصل رہے۔ مشہور زمانہ جاسوس ”لارنس آف عریبیا“ اس طرح کی تخریب کا کلاسیکی نمونہ ہے۔
جنگ عظیم اول بیاہوا چاہتی تھی۔ عثمانی خلافت تضادات کا شکار تھی۔ ترکی نے جرمنی کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ برطانوی حکومت کو اس صورت حال پر تشویش تھی۔ اسے مسلم علاقوں کے اتحاد کو توڑنے کا بھاری بھر کم چیلنج در پیش تھا۔ ساتھ ہی وہ مشرقِ وسطی کے تیل پر تسلط چاہتا تھا۔ ٹی ای لارنس کو جو بعد میں لارنس آف عریبیا کے نام سے مشہور ہوا، یہ مشن سونپا گیا۔ اس نے عربوں اور ترکوں میں پھوٹ ڈالنے کی حکمت عملی وضع کی۔ ایک شاطر انسان کے طور پر، جسے انسانی معاملات کا گہرا فہم و شعور حاصل تھا، وہ جلد ہی جان گیا تھا کہ عربوں کی فطری انا سے کھیلا جا سکتا ہے۔ پہلے تو اس نے عربوں کے اس احساس کی دبی چنگاری کو پھونکیں مار کر شعلہ جوالا بنایا کہ اسلامی تاریخ میں ان کا ایک بہت نمایاں مقام و مرتبہ ہے۔ اس نے شریف حسین آف مکہ (اور ان کے موجودہ بادشاہ عبداللہ بن حسین کے پردادا) کو پٹی پڑھائی کہ مسئلہ خلافت اصل مسئلہ نہیں، بلکہ اصل مسئلہ تو عرب سرزمین کا ہے، جسے ترک دبائے بیٹھے ہیں اور جسے واپس حاصل کرنا از بس ضروری ہے۔ اپنی کتاب ”سیون پلرز آف وزڈم“ (دانش و حکمت کے سات ستون) میں وہ شہزادہ عبداللہ کی اپنی مصاحبین سے گفتگو درج کرتا ہے:
عبداللہ نے اپنے سامعین کی حالیہ آزادی اور ماضی میں ترکوں کی (نام نہاد) غلامی کا موازنہ کیا اور آخر میں کہا کہ ترکی کے انحرافی رویے کی بات کرنا، یا پین توران کے غیر اخلاقی اصول و نظریہ کو زیر بحث لانا، یا بے جواز غیر شرعی خلافت کو پیٹنا، بے کار ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ یہ عرب سرزمین ہے اور ترک اس پر دندنا رہے ہیں۔ میری دلیل ان عرب دوستوں کے دل میں گھر کر گئی۔
لارنس جب کہہ رہا تھا کہ: ”میری دلیل دل میں گھر کر گئی“ تو اس کا مطلب کیا تھا۔ بات تو خود عبداللہ کر رہا تھا اور شاہی اختیار کے ساتھ کر رہا تھا۔ لیکن درحقیقت عبداللہ کے خیالات اس کے اپنے نہ تھے، وہ غیر شعوری طور پر انہیں لارنس سے اخذ کرکے اسی کی بولی بول رہا تھا۔ لارنس خود عامل بن کر اسے معمول کی طرح استعمال کر رہا تھا، یہ تخریبی سائنس میں نئی امیج تھی۔ اپنے طریقِ واردات کا تذکرہ لارنس نے خود کیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ عربوں سے معاملہ کرنا سائنس نہیں فن ہے۔ اپنے لیڈر کا اعتماد حاصل کرو اور پھر اسے قائم رکھو۔ لارنس نے تجویز دی:
جب وہ (لیڈر) کوئی سکیم کا منصوبہ دے تو اسے بُرا بتا کر رد مت کرو۔ صرف یہ احتیاط کرو کہ پہلے پہل وہ سکیم ذاتی طور پر تمہارے علم میں آئے۔ ہمیشہ اس پر صاد کرو۔ خوب تعریف کر لینے کے بعد ان میں غیر محسوس تبدیلی کر دو، تاکہ لگے تو یہی کہ منصوبہ بڑے میاں کا ہی ہے، لیکن وہ تمہاری رائے سے ہم آہنگ ہو چکا ہو۔ اس مقام تک پہنچنے کے بعد کوشش کرو کہ وہ اس منصوبے پر جما رہے۔ اس کے خیالات پر پوری گرفت رکھو اور بڑی باریکی اور چابک دستی سے اسے بڑھاوا دیتے رہو۔ لیکن یہ سب کچھ رازدارانہ ہو، تاکہ اس کے علاوہ کسی کو پتہ نہ لگے (اور اس پر بھی پوری طرح واضح نہ ہو) کہ وہ تمہارے دباؤ میں (یعنی زیر اثر) ہے۔
جب اس سے (شریف مکہ) حسین کی متحدہ عرب سلطنت کی خواہش کے بارے میں پوچھا گیا تو لارنس نے حسین کا دفاع کرتے ہوئے کہا:
حسین جو کچھ کر رہا ہے اس میں ہمارا فائدہ ہے، کیونکہ اس کی تگ و دو ہمارے فوری مقاصد کے ساتھ ساتھ ہے کہ اسلامی بلاک ٹوٹے اور عثمانی خلافت کی شکست و ریخت ہو۔
یہ المناک واقعہ اب تاریخ کا حصہ ہے۔ عثمانی خلافت جو مسلم وقار اور عظمت کی ایک بڑی نشانی تھی، چھوٹے چھوٹے بے وزن اور بے وقار ٹکڑوں میں بٹ گئی۔ المیہ البتہ یہ تھا کہ برطانوی تخریب کا سلسلہ اس پر رکا نہیں۔ مسلم بلاک کو توڑنے کے بعد، اس نے ابھرتے عرب بلاک کا بھی گلا گھونٹ کر رکھ دیا تھا۔ لارنس نے تیس لڑائیوں کی قیادت کی تھی۔ ان میں ایک بھی انگریز نہیں مارا گیا۔ شریف حسین سے جو وعدے ہوئے تھے وہ پورے نہ ہوئے۔ اسے ایک چھوٹے سے علاقے کی شاہی پر قناعت کرنے پر مجبور کیا گیا۔ عرب قوم، اگر ایسی کوئی قوم موجود تھی، تو وہ شامی، لبنانی، اردنی اور عراقی وغیرہ قومیتوں میں بٹ کر رہ گئی۔ اس دردناک قصہ کا اہم سبق کیا ہے؟ بیرونی مشوروں اور ایسی جنگوں سے ہوشیار رہیں جن کا ایجنڈا نسلی اور علاقائی ہو۔
علاقائی اور لسانی گروہوں کا قصہ: سیکولر گیم پلان
اب میں وطن عزیز کی موجودہ صورتِ حال سے تخریب کی دو اقسام کا بطور نمونہ ذکر کروں گا: پہلے نمونے کا تعلق علاقائی اور لسانی گروہوں سے ہے، مثلاً سندھو دیش، پختون خواہ، سرائیکی تحریک، اور مہاجر قومی موومنٹ۔ ان کے ساتھ وومن ایکشن فورم اور اس کی مددگار تنظیموں یعنی ہیومن رائٹس ایسوسی ایشن، دستک، بیداری، عورت فاؤنڈیشن، انسٹی ٹیوٹ آف وومن سٹڈیز، ورلڈ پنجابی کانفرنس، سندھی ورلڈ کانفرنس، پختون ورلڈ کانفرنس، اور سب سے آخر میں ظہور میں آنے والی سرائیکی ورلڈ کانفرنس کو بھی شامل کر لیجیے۔ یہ سب تخصیصی (specialized) گروہ ہیں، جو یا صنفی امتیاز کی بنیاد پر کام کرتے ہیں یا پھر لسانی تعصبات کی آڑ میں ہتھکنڈے کرتے ہیں۔ بظاہر تو بات ثقافت کی ہوتی ہے لیکن یہ اپنی اصل میں سیاسی فورم ہیں۔ کیونکہ سبھی سیکولر ہیں اور انڈین شعور و آگہی کو پاکستان میں عام کرنے کے لیے وقف ہیں۔ مثلاً ان سطور پر غور کریں:
ہمیں (یعنی سندھیوں کو) پاکستان سے آزادی دلائیں، کشمیر کا مسئلہ اپنی موت آپ مر جائے گا۔ یہ بات منور لغاری نے دہلی میں کہی۔
ممتاز بھٹو کا ارشاد ہے: ”ایک لاکھ بندے اکٹھے کریں، ہم مینار پاکستان کو اوندھا گرا سکتے ہیں۔“
رسول بخش پلیجو فرماتے ہیں: ”اگر پنجاب ہی نے حکمران رہنا تھا تو برصغیر کی تقسیم کی ضرورت کیا تھی؟... مرکز (سندھ کے لیے) پانی کی تقسیم کا فیصلہ نہیں دے سکتا کیونکہ وہاں پنجاب حکمران ہے۔ بہتر ہے سارک ممالک پر مشتمل کوئی ٹربیونل اس کا فیصلہ کرے ۔“
ان میں سے اکثر تنظیموں کے رابطے بیرونی قوتوں سے ہیں اور یہ کوئی راز کی بات بھی نہیں ہے۔ مثلاً حال ہی میں انسٹی ٹیوٹ آف وومن سٹڈیز نے ایک سیمینار کا اہتمام کیا۔ اس میں ایک غیر ملکی شریک مہمان نے کہا کہ تقسیم (برصغیر) غلط تھی جسے ختم کرنے کا وقت آ پہنچا ہے۔ ایک اور مقرر نے پاکستان اور ہندوستان کی سرحدات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ”یہ دیوارِ برلن ہے۔“ اصل ملی تھیلے سے باہر آئی جب سیمینار کی منتظم نگہت سعید خان نے انکشاف کیا:
ہم پاکستان کو جنوبی ایشیا کے تناظر میں دیکھتے ہیں... ہمیں پورا احساس ہے کہ جنوبی ایشیائی شناخت بہت ضروری ہے...
جنوبی ایشیائی شناخت کی بقا (؟) اس خاتون کے لیے تزویراتی ضرورت ہے، کیونکہ وہ پاکستان کو اسی جنوبی جغرافیہ میں محبوس رکھنا چاہتی ہے، جس کا افغانستان، ایران اور مشرقِ وسطیٰ سے واسطہ نہ ہو، حالانکہ پاکستان کے لیے سلامتی اور سہولت اسی مغربی ایشیا میں ہے، جہاں اس کی مسلمان شناخت پر تاخت کا کوئی خطرہ نہ ہو۔
پاکستان کی جانب سے بنگلہ دیش سے اپنے جرائم کی باقاعدہ معافی مانگنے کی صراحت کرتے ہوئے خاتون کہتی ہیں:
جب تک ہم ۱۹۴۷ء اور ۱۹۷۱ء (کے واقعات) کا صحیح طور پر سامنا نہیں کرتے، ہم بہت سے مسائل کا جواب حاصل نہیں کر پائیں گے، نہ ایک متحدہ جنوبی ایشیا کے طور پر سامنے آ سکیں گے۔
بالفاظِ دیگر، اس نے کھل کر تسلیم کر لیا کہ ایسی کانفرنسیں اور سیمینار ایک تزویراتی ہدف کے حصول کا ذریعہ ہیں، یعنی پاکستان، انڈیا اور بنگلہ دیش کے مابین کنفیڈریشن قائم کرکے برطانوی ہند کی سرحدات کو بحال کر لیا جائے۔
اسی طرح قومی سماجی صورت گری میں اغیار کی قدروں کی پیوند کاری اس گروہ کے لیے تفویض شدہ ایک اور بنیادی کام ہے، تا کہ ایک مطلوبہ شعور سامنے آئے۔ ایسی تنظیمیں پاکستان کی قومی اقدار کو منہ بھر بھر کر گالیاں دیتی ہیں، پاکستانی معاشرے کو صنف کے حوالے سے پدریت پرستی پر مبنی بیان کرتی ہیں اور اسلام کو ایک خارجی اور اوپر سے ٹھونسا ہوا نظریہ قرار دیتی ہیں۔ انہیں تو نرم اور آزاد رو اسلام بھی قبول نہیں۔ ان کا کام، بہ قول نگہت سعید خان ”سب کچھ توڑ پھوڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کرکے، ساری تعمیر کو خرابہ بنا کر... پھر سے ٹکڑوں کو جوڑنا ہے... ایک نئی جون اور نئی ترکیب کے ساتھ۔“ یہ نیا مطمع نظر یا ترکیب کیا صورت اختیار کرے گا؟ اسے نگہت سعید نے تصور و خیال کے ادھار پر نہیں چھوڑ دیا۔ وہ چاہتی ہیں کہ پاکستان انڈیا کی گود میں پہنچ کر موت کو گلے لگا لے۔ اسلام کی جتنی کچھ بھی بری بھلی شکل ہمارے ہاں باقی رہ گئی ہے، موصوفہ اسے ہماری اجتماعی حیات سے پوری طرح کھرچ لینا چاہتی ہیں، تاکہ پاکستانی مسلمانوں پر ہندی آزاد و بے مہار شعور کا نقش بٹھایا جا سکے۔ مزید یہ کہ چونکہ نگہت خان کو کسی وجہ سے مردوں بالخصوص از قسم خاوند مخلوق سے نفرت ہے، اس لیے وہ اقدار پر مبنی عفت و عصمت کے نظام کا معاشرتی سطح پر خاتمہ چاہتی ہیں، تا کہ یہ ایک لچک دار بے راہ معاشرہ بن سکے۔ پاکستان کے مصائب کی یہ فہرست بہت طویل ہے۔
پنجابی ورلڈ کانفرنس میں مقررین نے مذہب کے سوال پر خوب دل کی بھڑاس نکالی۔ ان کا کہنا تھا کہ مذہب ہندوستان اور پاکستان کی جدائی کا سبب ہے۔ اجلاس میں قرآن کی تلاوت غیر ضروری سمجھی گئی کیونکہ ان کے خیال میں یہ وہ پاکستان نہ تھا جو جناح کے پیش نظر تھا۔ کانفرنس کی کامیابی کا تذکرہ کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے اہم عہدے دار اور کانفرنس کے چیئر مین فخر زمان نے بتایا کہ ”پنجابیت اب ایک نظریہ اور ایک حقیقت بن چکی ہے۔ جو بھی اس کی مخالفت کرے گا اسے گلی کوچوں میں عوامی قوت کا سامنا کرنا ہوگا۔“
ان گروہوں کے صرف نام سن کر ہی پاکستان کے مسلم عوام کو چونک جانا چاہیے تھا، کیونکہ یہ گروہ اپنی تخلیق ہی میں پاکستان سے مختلف شناخت رکھتے ہیں، اور اپنی جبلت میں قوم کو منتشر اور منقسم کرنے والے ہیں۔ یہ ظاہر ہے ایک دوسرے سے مختلف ہیں، لیکن پاکستان کی اسلامی شناخت سے نفرت ان کی مشترکہ خصوصیت ہے۔ اسی طرح یہ بھی پاکستان کو انڈیا میں مدغم یا بصورتِ دیگر دونوں کی نام نہاد کنفیڈریشن اور بہ باطن پاکستان کی غلامی دیکھنا چاہتے ہیں۔
ایم کیو ایم کا مظہر
سیکولر نسلی تحریکات میں سے ایم کیو ایم نامی عجوبے کا ظہور ہماری قومی تاریخ کا ایک سنگین واقعہ ہے، کیونکہ اس گروہ کی سرگرمی کا مرکز ہمارا سب سے زیادہ مالدار صنعتی شہر کراچی ہے، جو فی الوقت ہماری واحد بندرگاہ ہے۔ ایم کیو ایم اس لحاظ سے بھی ہماری قومی زندگی کو پھاڑ کر رکھ دینے والا اہم عامل ہے کہ اس نے کلاسیکی مارکسی شہری جنگ کے تصور کو عملی شکل دی۔ اس نے شہر کے اہم ناکوں، تنگ گلیوں اور گنجان آبادیوں کو اپنی گرفت میں لیا۔ دہشت کو انقلاب کے ایک اہم ہتھیار کے طور پر خوب اچھی طرح سمجھا، برتا اور پروپیگنڈا کا ماہرانہ استعمال کیا۔ قصہ مختصر ایم کیو ایم کو پتہ تھا کہ وہ چاہتی کیا ہے۔ اس کا ہدف بالکل واضح تھا: انتظامیہ کو مفلوج کرکے رکھنا، کراچی کا کنٹرول ہاتھ میں لینا اور شہر کو باقی پاکستان سے کاٹ کر رکھ دینا، تا کہ ملک کی اقتصادیات کو بالکل اپاہج کرکے ملک کو ہندوستان کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا جائے۔ استحصال اور مظلومیت کی داد فریاد اس کا چالاک حیلہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب ایم کیو ایم کو کراچی پر پورا سیاسی اور انتظامی کنٹرول حاصل تھا، اور وہ مرکز میں بھی شریک اقتدار تھا تب بھی اس نے دہشت گردی کی کارروائیوں سے دستبردار ہونا قبول نہ کیا۔
اس کے لیڈر الطاف حسین کے لیے یہ ضروری تھا کہ شہر میں یکجہتی باقی نہ رہے اور ایک نیا مہاجر شعور ابھر کر سامنے آئے، خواہ ایسا کرنے کے لیے مختلف نسلی گروہوں کو باہم لڑانا بھی پڑے۔ اس نے ابتداء پٹھانوں، پنجابیوں اور دیگر نسلی گروہوں کے خلاف اشتعال انگیز بیانات سے کی، اور بعد میں ان کے قتل کا سلسلہ شروع کر دیا، تا کہ جب جواب میں کوئی زیادہ بڑی مزاحمتی تحریک نہ اٹھی، تو اس نے خود ہی مہاجروں کا قتل بھی شروع کر دیا، تا کہ ایک بار پاکستان سے منقطع ہو کر وہ اس کے ہاتھ میں بے جان مہرے بن جائیں۔ پندرہ برس تک شہر میں کشت و خون ہوتا رہا۔ اغوا برائے تاوان کی وارداتیں، بم پھٹنا اور زبردستی بھتہ وصول کیا جانا، کراچی کی روزمرہ زندگی کا اضطراب انگیز پہلو بن گیا۔ شہر کی پرکشش مرکزی حیثیت ختم ہو گئی۔ آہستہ آہستہ یہ خوف کی گرفت میں آ کر مایوسی اور دل شکستگی کا شکار ہو گیا۔
قانون نافذ کرنے والی انتظامیہ جو پہلے ہی بدحال تھی، الطاف حسین کی خدمات بجا لانے کے لیے اس کے ہاتھ میں موم کی ناک بن کر رہ گئی۔ الطاف کے غنڈے پکڑے جاتے، جیل بھیجے جاتے لیکن پھر ہنستے کھیلتے اور فتح کے نشان دکھاتے باہر آ جاتے۔ دھمکیوں کے زیرِ اثر آ کر عدالتوں نے انصاف کی فراہمی سے معذوری ظاہر کی۔ الطاف کی دہشت گرد مشین نے عدلیہ کا کام ناممکن بنا کر رکھ دیا۔ وہ دیانت دار پولیس ملازم جنہوں نے فرض کی پکار پر لبیک کہا، غیر طبعی موت کا شکار ہوئے۔ شہری سول ادارے، پانی، بجلی، گیس وغیرہ محکموں، میں اپنے فعال کارندوں کے نفوذ کے ذریعے انہیں عضوِ معطل بنا دیا گیا، تا کہ لوگ ان مصائب کے ہاتھوں عاجز ہو کر خود اپنے پاکستانی وجود سے نفرت کریں۔ الطاف کے غنڈوں کے ٹولوں نے جمہوری عمل کو ایک تماشا بنا کر رکھ دیا۔ انتخابات آزادانہ چناؤ کا عمل نہ تھا، باقی سب کچھ تھا۔ بار بار کی ہڑتالوں نے اقتصادیات کی جان نکال کر رکھ دی، جس کا تباہ کن اثر روزگار اور سرمایہ کاری پر پڑا۔
یہاں وہاں آگ لگا دینے، قتل کرنے اور گاڑیاں جلانے کے نتیجے میں لوگ احتجاجاً سڑکوں پر آنے پر مجبور ہوتے، جس سے شہر اور ملک کے متعلق غلط تصورات جنم لیتے اور بدنمائی ہوتی۔ لاقانونیت اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی افراتفری ہر چیز پر حاوی ہو گئی۔ کراچی شہر دہشت کی کٹھالی بن گیا جس میں الطاف ایک نئے شعور کی صورت گری کر رہا تھا۔ وہ صورت جو اجنبی تھی، تلخ نو تھی اور ہر وہ چیز قبول کرنے پر آمادہ تھی جو اسے پیش کی جاتی۔
”انڈیا ٹوڈے“ سے باتیں کرتے ہوئے الطاف حسین نے صدی کا جھوٹ بولا۔ اس سے پوچھا گیا: ”برصغیر کے مسلمانوں نے تقسیم کے نتیجے میں کیا پایا اور کیا کھویا؟ بیلنس شیٹ کیا کہہ رہی ہے؟“ اس نے جواب دیا: ”مادی لحاظ سے دیکھیں تو ہم نے سب کچھ کھو دیا۔“ مطلب یہی تھا کہ بشمول الطاف حسین سارے مہاجر ہندوستان میں ہی رہ جاتے تو بہتر ہوتے۔ ایسے واہیات اور بے تکے بیانات کا مقصد جن کا کراچی والوں کے سماجی اور سیاسی حالات اور زمینی حقائق سے کوئی واسطہ نہیں بنتا تھا، صرف یہ تھا کہ شہر کے باسی اپنے گھر میں اجنبی بن کر بے وجود گھومتے رہ جاتے۔ قصہ مختصر، کسی بھی دوسرے گروہ کی بہ نسبت ایم کیو ایم نے ہماری قومی نفسیات پر سب سے زیادہ اثر ڈالا۔ اس کی وجوہ درج ذیل ہیں:
- اولاً، یہ واحد شہری گوریلا گروپ ہے۔
- ثانیاً، اسے اپنے اختیار کردہ طور طریقوں میں جزوی کامیابی نصیب ہوئی۔
- ثالثاً، اس نے ایک نئی نسلی شناخت کو جنم دیا اور باقی قوم سے مہاجروں کی ممکنہ اجنبیت کا بیج بویا۔
- رابعاً یہ واحد گروہ ہے جس نے پاکستان سے باہر اپنے آپ کو ستم رسیدہ ظاہر کرنے میں کامیابی حاصل کی۔
- خامساً، اس کا آزمودہ ماڈل دوسرے شہروں میں بھی زیرِ عمل لایا جا سکتا ہے، جس کے نتائج ہماری قوم کے لیے بہت ہولناک ہو سکتے ہیں۔
ایم کیو ایم بین الاقوامی سوشلسٹ تحریک کے ایک بازو کے طور پر دنیاوی امور میں خالصتاً سیکولر نقطۂ نظر کی حامل جماعت ہے۔ ان کے نزدیک اسلام رجعت پسند ہے، انسانی تاریخ کے ایک خاص ارتقائی دور کی پیداوار ہے جس کا کوئی مصرف اب باقی نہیں رہا۔ اس سیکولر نظریے نے ایم کیو ایم کو بنیادی سہارا دیا، یعنی اس کے خیال میں عوام کے نزدیک اصل اہمیت لسانی پہچان کی ہے، ان کی اسلامیت کی نہیں۔ اسی لیے ایم کیو ایم کے نزدیک اسلامی شعور ناقابلِ قبول ہے، کیونکہ اسلامی شعور عام لوگوں کا ہندوستانی یا کسی اور رنگ میں رنگا جانا بہت مشکل بناتا ہے۔ نیز چونکہ مسلم شعور فکر اسلام سے سرشار ہے اور ہند (انڈیا) کے سامنے چیلنج کھڑا کرتا ہے، مسلمان سوسائٹی کی نسلی بنیادوں پر تقسیم و تحلیل ایم کیو ایم کے لیے لازم کی حیثیت رکھتی ہے۔
میں بتاتا چلوں کہ نو آبادیاتی قوتوں نے جب سے غلبہ و استیلا کو شعار بنایا تو ان کے زیر تسلط مقبوضات میں قومیتوں کا تصور ان کا سب سے کاری ہتھیار رہا ہے۔ ایک سامراجی تصور جسے نو آبادیاتی قوتوں نے پروان چڑھایا، اس ہتھیار کا استعمال مقامی اجرت ایجنٹوں کے ذریعے ہوتا ہے کہ محکوموں کے علاقے قبضے میں لیے جائیں اور اپنے مفادات کا سلسلہ آگے بڑھایا جائے۔
”دی پولیٹکس آف مکہ“ نامی ایک خفیہ دستاویز میں ٹی ای لارنس عرف لارنس آف عریبیا نے اس سوال کا سامنا کرتے ہوئے لکھا ہے:
عرب ترکوں کی بہ نسبت زیادہ متلون ہیں۔ اگر ہوشیاری سے معاملہ کیا جائے تو وہ ایک رنگارنگ کی سیاسی پچی کاری پر قانع رہیں گے۔ یہ چھوٹی چھوٹی باہم حاسد نوابیاں اس قابل نہ ہوں گی کہ باہم متحد ہو کر کسی بیرونی قوت کا سامنا کر سکیں۔
الطاف حسین ۱۹۷۰ء کے عشرے میں پلا بڑھا، جب مشرقی پاکستان کے سیکولروں نے اسلامی بنیاد پر قائم پاکستانی شناخت کو خیرباد کہا اور بنگلہ قومیت اختیار کی۔ یہی وقت تھا جب انڈیا بنگلہ دیش کی مہم کامیابی سے سر کرکے باقی ماندہ پاکستان میں نئے فتنے جگانے کی تلاش میں تھا، چونکہ کامیابی نے ہندوؤں کو حوصلہ دیا تھا۔ وہ سوچنے لگے کہ اگر وہ بنگلہ دیش میں کامیاب ہو سکتے ہیں تو کہیں اور بھی اس کا امکان ہے۔ بنگلہ دیش میں آزمائے ہوئے منصوبے کی نوک پلک انہوں نے مزید سنواری جو کچھ یوں تھی:
- پاکستان کی مسلم امہ کی اسلامی امنگوں کو موت کی نیند سلا دو۔ اس کے لیے سیاسی سماجی دوائر میں اسلامی معیاراتِ کمال کو پھلنے پھولنے سے روکو۔
- اسلام کے باہم جوڑنے والے تعلق سے کٹ کر رہ جانے والوں میں بنگالی تصورِ قومیت کا پودا لگاؤ۔
- سیکولروں کی سر پرستی کرو جنہوں نے آگے بڑھ کر علیحدگی کی تحریک کے ہراول کا کردار ادا کرنا ہے۔
- میڈیا اور تعلیمی اداروں میں نفوذ کرو۔
- اردو بولنے والے بہاریوں اور بنگالیوں کے درمیان نفرت پیدا کرو۔
- اعداد و شمار کا کھیل کھیلو اور جور و ستم کی سی کیفیت کو جنم دو۔
- تضحیک، تحریف، توہین اور کردار کشی کے ذریعے اسلامی عناصر کو بے اثر بنا کر رکھ دو۔
- مسلح افواج کو بدنام کرو۔
- سماجی اچھوتوں، ٹھگوں اور جرائم پیشہ افراد کو بھرتی کرکے ایک جوابی مسلح بازو کھڑا کردو۔
- ان مسلح غنڈوں کو سرحد پار ہندی علاقے میں پناہ گاہیں مہیا کرو۔
ہماری خوش قسمتی ہے کہ مشرقی پاکستان کے برعکس کراچی انڈیا کے لیے ایک مشکل جغرافیائی ٹکڑا ہے، کیونکہ قومیت پر مبنی کسی بھی تصور کی کامیابی کے لیے ایک خطہ زمین ضروری ہے۔ کراچی میں مختلف نسلی اور لسانی گروہ ہیں۔ یہ ایک طرح سے چھوٹا پاکستان ہے، جس میں دوسرے علاقوں سے آئے ہوئے صحت مند اور جفاکش نسلیں رہائش پذیر ہیں۔ جب تک ان سب کو اکھاڑ نہ پھینکا جائے شہر پوری طرح ”مہاجر“ رنگ اختیار نہیں کر سکتا۔ ایم کیو ایم نے پٹھانوں، پنجابیوں اور سندھیوں کے قتل کا سلسلہ اسی لیے شروع کیا تھا کہ یہ سب طیش میں آ کر ایک دوسرے کی گردنیں ماریں اور یوں مسلم قومیت کو ادھیڑ کر رکھ دیں۔ تاہم قوم، اسلام جیسا کچھ بھی وہ باقی رہ گیا تھا، کی وحدانی قوت کے تحت مجتمع رہی۔
انڈیا کے لیے اس منصوبے پر عمل کے لیے مشکلات میں اضافہ اس حقیقت سے بھی ہوا کہ مہاجر پورے پاکستان میں بکھرے ہوئے موجود تھے اور ان کی کوئی ایک محکم علاقائی شناخت سامنے نہ آسکی۔ سبھی پاکستانی مہاجروں کی بولی بولتے تھے، انہی کی سی شیروانیاں زیب تن کرتے تھے۔ ان کے اطوار اور رکھ رکھاؤ اور ان کے سماجی رویوں نے قابل قبول معاشرتی معیارات قائم کیے۔ الطاف نے اس وقت کراچی والوں کو قومی دھارے سے کاٹنے کی اپنی سی کوشش کر لی، جب اس نے پٹھانوں، پنجابیوں اور بلوچوں کی بوریوں میں بند لاشیں اندرونِ ملک ان کے علاقوں میں بھیجیں۔ اس نے اس مقصد کے حصول میں بھی کوئی کسر نہ چھوڑی کہ وہ ان ”باہر سے آ کر آباد ہو جانے والوں“ کو نچلا بدمعاش دکھا کر انہیں کراچی کے امن اور ترقی کا دشمن ثابت کر دے اور اس طرح ملک بھر میں لسانی فتنوں کی آگ لگا کر عوام کو ایک دوسرے سے دست و گریبان کر دے۔ لیکن الطاف ہار گیا۔ پاکستان کے مسلمان عوام یہ بازی جیت گئے۔
نیا مرحلہ
بحیثیتِ قوم ہم لوگ اپنی سلامتی کے مسائل کے ضمن میں بہت سادہ لوح واقع ہوئے ہیں۔ آزادی پر آدھی صدی سے زیادہ گزر چکی۔ اس دوران ہمارے خفیہ ادارے سلامتی کا کوئی ایسا معقول اور قابلِ عمل تصور دینے میں بُری طرح ناکام رہے، کہ جس سے ہمیں خطرات کے ان ماخذوں کا کچھ اندازہ ہوتا جو ہماری بقا کے دشمن ہیں۔ یہ ایجنسیاں معاشرے کو یہ باور کرانے میں بھی ناکام رہیں کہ جمہوری اظہارِ رائے اور تخریب میں خط امتیاز کیا ہے۔ زیادہ تر وقت ان کا قومی سلامتی کا تصور صرف خارجی حملہ کو ہی قابلِ توجہ سمجھتا رہا، یا پھر وہ حکومتِ وقت کے خلاف جائز کشمکش کرنے والی حزبِ اختلاف کو ناکام کرنے کے اُدھیڑ بن میں رہیں۔ انہیں کبھی اس بات پر سنجیدہ توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہ ہوئی کہ نفرت کی سیاست کرنا، مملکت کو بے بنیاد اکائی بنا کر گالیاں دینا، اور ملک کی تخلیق کو تاریخ کا عجوبہ بتانا بیرونی طور پر تخلیق شدہ تصورات ہیں۔ اسی طرح یہ بات کہ مسلم قومیت کے خلاف نسلی عصبیت پر زور دینا بھی اپنی اصل میں غداری کے مترادف ہے، کبھی ان سلامتی کے ذمہ داروں کے حاشیہ خیال میں نہ آیا۔ اگر ان ایجنسیوں میں رتی بھر انٹیلی جنس (دانش) بھی ہوتی تو انہیں ایم کیو ایم اور سندھی قوم پرست جسقم، گٹھ جوڑ کا بروقت اندازہ ہو جاتا، اور انہیں ایک ایسے صوبے میں اس ناجائز ملاپ کے تکلیف دہ امکانات کا احساس ہو جاتا، جسے ہندوستان پاکستان کا عضوِ نازک (soft belly) سمجھتا ہے۔ یہ یقین کرنے کی معقول وجہ موجود ہے کہ نہ تو ایجنسی کے راڈاروں نے اس ملاپ کا پتہ چلایا اور نہ اسے ناکام کرنے کی مناسب حکمتِ عملی اختیار کی۔ یہ کیسے ہوا کہ دو ایسی قوتیں جو باہم حریف تھیں اور جنہیں ایک دوسرے کی بقا سے سخت نفرت تھی، باہم شیر و شکر ہو گئیں، یہ کیسے ممکن ہوا کہ الطاف جسے اپنے سندھی ہونے سے انکار تھا، چولا بدل کر سندھی بن بیٹھا ہے؟ کیا خفیہ ایجنسیوں کے دستاویزی محافظ خانوں میں ان لوگوں کے حوالے سے ایسا مواد نہیں ہے، جسے سامنے رکھ کر انتظامیہ سلامتی کے حوالے سے پختہ اور معقول فیصلے کر سکتی؟
فروری ۱۹۹۲ء کا قصہ ہے جب کراچی کے حسرت موہانی ہال میں گلے پھاڑ کر نعرے لگائے گئے: ”سندھ میں ہوگا کیسا گزارہ، آدھا ہمارا آدھا تمہارا۔“ اسی برس جب پیپلز پارٹی کے نامزد کردہ وزیرِ اعلیٰ عبداللہ شاہ کی پی پی حکومت نے ملیر کو جدا ضلع کی حیثیت دینے کا فیصلہ کیا تو الطاف نے اس کی مخالفت کی کہ یہ فیصلہ کراچی کے مفاد میں نہیں۔ جواب میں سندھی سوشلسٹ قوم پرست لیڈر قادر مگسی نے الطاف کے اعلانِ مخالفت کو ہدفِ ملامت بنایا۔ عبداللہ شاہ کی حکومت الطاف کی دھونس دھمکی کے جواب میں جیسی کچھ تذبذب اور ہچکچاہٹ کا شکار ہوئی، اسے کسی نے ایک نسل پرست دہشت گرد تنظیم کی بلیک میل کا نام دیا۔ اس طرح کے دیرینہ بغض و عداوت کے ہوتے ہوئے انہیں کس چیز نے آپس میں جوڑا کہ دونوں نے مل کر شر انگیز نعرے لگائے: ”مہاجر سندھی بھائی بھائی، یہ پگڑی نسوار کہاں سے آئی؟“
ان دو تنظیموں کا گٹھ جوڑ کوئی غیر سنجیدہ مسئلہ نہیں ہے کہ جسے نظر انداز کیا جا سکے۔ دونوں تنظیموں کو احساس ہو گیا ہے، اور انہیں انڈیا کی پشت پناہی بھی حاصل ہے، کہ کراچی کے بغیر آزاد سندھ ناقابلِ تصور ہے۔ اور سندھ کے بغیر آزاد کراچی اس سے بھی زیادہ ناقابلِ عمل تصور ہے۔ اب یہ گمان کرنا کہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ تخریبی سلسلہ خود بخود ختم ہو جائے گا، یا یہ کہ عام آدمی کا فہم و شعور اتنا پختہ ہے کہ وہ ان قوتوں کے پیچھے نہیں چلے گا، نری سادگی اور ابلہ فریبی ہے۔
آئیے پہلے الطاف حسین کو دیکھیے۔ ان صاحب نے سیاستدان کا نقاب اوڑھا ہوا ہے جب کہ اس کے افعال و اقدامات اسے اتنا پکا تخریبی ثابت کرتے ہیں کہ ماضی میں صوبہ اور مرکز کی سطحات پر شریکِ اقتدار ہو کر بھی وہ قومی احساسات کا حامل انسان نہیں پایا۔ پاکستان کو ذبح کرکے رکھ دینے کی اس کی شیطانی خواہش اتنی شدید ہے کہ اس نے کسی مہاجر، سندھی، پنجابی اور پٹھان کو نہیں بخشا۔ اس کا ایک ہی مشن تھا کہ جیسے بن پڑے کراچی اور حیدر آباد کا کنٹرول حاصل کیا جائے، تاکہ اپنے مخصوص ایجنڈے پر عمل درآمد کیا جا سکے۔ یہ ایجنڈا کسی اور کی بہ نسبت ہندوستان کے مقاصد زیادہ پورے کرتا ہے۔ ملک کی حکمران اشرافیہ اور فوج کی خود آرائی اور خود پسندی سے شہہ پا کر اس نے برسوں کراچی کو خون میں نہلایا۔ صرف اپریل ۲۰۰۱ء کے ایک مہینہ کے دوران ۱۵ افراد جان سے گئے، ۴۵ گاڑیاں جلا کر راکھ کر دی گئیں اور پانچ مقامات پر بم دھماکے ہوئے (صرف جنوری سے جولائی ۲۰۱۱ میں ۱۲۴۱ افراد قتل کیے گئے)۔ اب کسی طرح کا گھناؤنا کھیل اس کے پیش نظر ہے؟ مئی ۱۹۹۵ء میں ایک انٹرویو میں اس نے صاف صاف کہا تھا:
لوگوں کو دیوار سے لگایا جا رہا ہے۔ آج وہ جدا صوبے کی بات کر رہے ہیں۔ کل وہ جدا آزاد ملک کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔
یقیناً اس میں کوئی قباحت نہیں کہ اچھی حکومت کاری کی خاطر نئے انتظامی یونٹ قائم کیے جائیں۔ لیکن الطاف کے ذہن میں تو کچھ اور ہی نقشہ ہے۔ مشہور ہندی ہفت روزے ”انڈیا ٹوڈے“ کے سینئر ایڈیٹر شیکھر گپتا سے اپنے جون ۱۹۹۵ء کے انٹرویو میں اس نے اپنی اس خواہش سے پردہ پوری طرح اٹھا دیا کہ پاکستان اور ہندوستان کی کنفیڈریشن قائم ہو۔ الطاف حسین کا ونود شرما سے ۵ نومبر ۲۰۰۴ء کا انٹرویو بھی اس قسم کے خیالات کا عکس ہے۔ جب شرما نے اس سے پوچھا کہ ”پیچھے دیکھتے ہوئے کیا آپ کے خیال میں برصغیر کی تقسیم غلطی تھی؟“ الطاف حسین کا جواب تھا: "اگر میں اس وقت ہوتا تو میں اس کے حق میں ووٹ نہ دیتا۔" اس سے زیادہ کسی کی بد باطنی کا اور کیا اظہار ہو سکتا ہے۔
الطاف کی وہ تقریر جو اس نے ۵ نومبر ۲۰۰۴ء ہندوستان ٹائمز کے زیرِ اہتمام کانفرنس میں کی، اس نے تو الطاف کے حق میں شک کا فائدہ بھی رہنے نہ دیا۔ موصوف نے موضوع سے ہٹ کر دو قومی نظریئے کی تذلیل کی۔ دو قومی نظریے کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے ہوئے، اس نے کہا: ”(یہ) پچھلے پانچ عشروں سے اس علاقے کے لوگوں پر ناقابلِ بیان ابتلاء و مصائب مسلط کیے ہوئے ہے۔“ اس سوال پر کہ ہندوستان اور پاکستان میں مکالمہ جاری رہنا چاہیے، الطاف پھر بہکا اور مکالمہ کے بجائے دونوں ممالک کے درمیان کنفیڈریشن کی بات کرنے لگا۔ بہ قول اس کے:
صرف ایم کیو ایم جیسی جمہوری قوت ہی مرکز میں آ کر جنوبی ایشیا میں یورپی یونین کی طرز کے اتحاد کی طرف پیش قدمی کر سکتی ہے۔
چند برس پہلے آل پارٹیز حریت کانفرنس کے سابق سیکرٹری جنرل جناب غلام محمد صفی جنیوا سے انسانی حقوق سے متعلق ایک اجلاس سے واپس آئے تو ایک مجلس میں انہوں نے ہم تن گوش سامعین کو بتایا کہ وہ بھارت اور ایم کیو ایم کے مابین خطرناک رابطوں کے گواہ ہیں۔ صفی صاحب نے مقبوضہ کشمیر کے ایک شناسا کشمیری پنڈت کو جنیوا میں دیکھا، جس کے پاس ایم کیو ایم کے لیے تشہیری مواد تھا، جس میں پاکستان کو کراچی میں ایک ظالم قوت کے طور پر اجاگر کیا گیا تھا۔ صفی نے حیرت زدہ ہو کر پنڈت سے پوچھا کہ وہ یہ سب کیوں کر رہا ہے؟ بھارتی پنڈت کا جواب تھا: ”یاد رکھو! کشمیر کا ’ک‘ اور کراچی کا ’ک‘ مشترک ہیں۔“ اس طرح کی کسی بھی بین الاقوامی کانفرنس میں جب پاکستان اور کشمیری نمائندوں نے کشمیر میں بھارتی مظالم اور انسانی حقوق کی پامالی کا تذکرہ کیا، ایم کیو ایم نے فوراً اس کا موازنہ کراچی کی صورت حال سے شروع کر دیا۔
الطاف کی بہ نسبت آزاد خیال اور شدت پسند سندھیوں سے بھارتی رابطے پرانے یعنی ۱۹۶۰ء کی دہائی سے ہیں۔ جی ایم سید اور سندھ سٹوڈنٹس فیڈریشن سندھ کی اسلامی شناخت کو سیکولر سندھو دیشی شعور میں بدلنے کے لیے جان توڑ محنت کرتے رہے ہیں۔ جی ایم سید کی کتابیں ”ہینئار پاکستان نے تفن خفاں کھیئے“ (پاکستان کو اب ٹوٹ پھوٹ جانا چاہیے) اور ”سندھو دیش: زنجیروں میں جکڑی ہوئی قوم“ اسی مقصد کی خاطر لکھی گئیں۔ آزاد رو لادین جنونی بالیقین سندھ کو خود مختار مملکت دیکھنا چاہتے ہیں۔ لیکن اندرونِ سندھ، کراچی اور حیدر آباد کی غالب آبادی پاکستان کے حق میں ہو، تو یہ مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ اسی لیے ہندوستان نے ضروری جانا کہ کراچی کی جدا گانہ مہاجر شناخت ہو۔ جب ۱۹۸۰ء کے عشرے میں الطاف حسین کراچی کے افق پر ایک شعلہ بار احتجاجی کے طور پر ابھر کر سامنے آیا تو انڈیا کو اس میں بہت کچھ امکانات نظر آئے۔ اپنے کام کی تکمیل کے لیے الطاف کو اولیت دینا اسے مناسب اور موزوں لگا۔ شاید انڈیا یہ جانتا تھا کہ وہ سندھ میں قطبی کیفیت پیدا کر سکتا ہے۔ ٹھیک اسی وقت انڈیا کا مفاد اس بات میں تھا کہ پاکستانی معیشت کا گلا ہڑتالوں، تخریبی بمباری، اور یہاں وہاں قتل کی وارداتوں کے ذریعے گھونٹ کر رکھ دیا جائے۔ کراچی پاکستان کی شہ رگ ہے۔ الطاف کی پیٹھ تھپکی گئی کہ وہ اس شہرِ رگ میں دانت گاڑ دے۔
جنرل مشرف نے نواز شریف کو دھکا دیا تو اس سے ایم کیو ایم کو اچھی خاصی ضرب لگی۔ ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء کی شام نے صورت حال میں ڈرامائی تبدیلی پیدا کر دی۔ ایک اردو بولنے والے نے، جسے ایم کیو ایم کی لغت پکا مہاجر بتاتی ہے، ایک طاقتور پنجابی وزیرِ اعظم کو رخصت کر دیا تھا۔ ایک ہی جست میں مشرف کے اقتدار میں آنے سے ایم کیو ایم کے سیاسی فلسفے کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیں۔ اس عجیب و غریب صورت حال میں پھنس کر الطاف نے مشرف پر الزام لگایا کہ وہ ہیئتِ مقتدرہ کا بندہ ہے، جسے آئی ایس آئی نے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ البتہ کراچی اور باقی ملک میں لوگ جان گئے کہ الطاف کینہ ور ہی نہیں، بلکہ اس کی باتیں منطق سے عاری ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ آئی ایس آئی کے لیفٹینٹ جنرل محمود احمد کا تقرر مشرف نے کیا اور محمود اردو خوان نہ تھا۔ الطاف کی پریشانی تھیری تھی۔ اگر مشرف کامیاب رہتا ہے تو وہ کراچی والوں کا ہیرو قرار پائے گا، جسے الطاف اپنا خصوصی حلقہ سمجھتا تھا۔ ساتھ ہی مزید بہتری اور پیش قدمی کا نتیجہ یہ ہوگا کہ الطاف خود اپنے گھر میں مشرف کے ہاتھوں ہار جائے گا۔ اس متوقع نقصان سے بے چین ہو کر اس نے اپنا زہر دو قومی نظریے پر انڈیل دیا، جسے وہ ایک ”لعنت“ قرار دیتا ہے۔ الطاف کے لیے یہ مسئلہ اپنے زیرِ اثر علاقے کا تھا جس میں قدم رکھ کر مشرف نے بدترین جرم کا ارتکاب کیا تھا۔
لبرل آزاد روؤں کے خیال میں مشرف نے دوسرا غلط کام یہ کیا کہ اختیار و اقتدار کو غیر متوازن انداز میں نچلی سطح پر منتقل کرنے کی کوشش کی۔ خواتین کی ۳۳ فیصد لازمی نمائندگی کی بے ہودگی اپنی جگہ مشرف کا منصوبہ نچلی سطح پر شرکتِ اقتدار کا بہترین فارمولہ تھا۔ بھارت پسند آزاد خیال لادین جانتے تھے کہ یہ منصوبہ کامیاب ہوا تو ان کی تخریبی سیاست کا فارمولہ ان کے ہاتھ سے چھن جائے گا۔ چنانچہ موقع تھا کہ یہ آزاد خیال لادین عناصر آپس میں مل جائیں۔ پانی کی کمی کا سامنا ہوا تو انہوں نے فضا کو ایک ڈھال کے طور پر استعمال کرنے کا سوچا کہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے معلوم و معروف منصوبے کو کیسے بروئے کار لایا جائے ۔ ہر دوسرے تخریبی عنصر کی طرح انہیں بھی یاد نہ رہا کہ ان کی جانب سے پانی کی کمی کے دلائل اور پنجاب پر الزام تراشی میں بڑا ضعف ہے۔ پانی بہر کیف صوبہ سرحد اور پنجاب سے بہتا ہوا سندھ پہنچتا ہے۔ اوالذکر دونوں صوبے دریائے سندھ کے بالائی ناکے پر بیٹھے ہیں۔ یہ ایک ایسی مشترکہ میراث ہے جو پاکستان کے لوگوں کو باہم متحد رکھنے کا باعث ہے، ان کی جدائی اور تفریق کا سبب نہیں۔ لیکن آزاد خیالوں کا اصل ایجنڈا کچھ اور ہے۔ جیسا کہ میں نے پیچھے ذکر کیا ہے، ۲۷ مارچ کو دہلی میں انڈین پریس سے باتیں کرتے ہوئے سندھ ورلڈ کانگریس کے منور لغاری نے امداد کی اپیل کی اور کہا: "ہمیں پاکستان سے آزادی دلا دو، کشمیر کا جھگڑا ختم ہو جائے گا۔"
کوئی نگاہ اٹھا کر دیکھنا چاہے یا نہ چاہے، لیکن نوشتہء دیوار یہی ہے کہ: پاکستان کے دشمن سیکولر جماعتوں کو آلہ کار بنا کر ملک میں ایسا انتشار پیدا کر سکتے ہیں، جو سنبھالے نہ سنبھلے گا اور جو دشمنوں کے تزویراتی مقاصد اور عزائم کے حصول کو مزید آسان بنا دے گا۔
اس صورتِ حال کا جواب کیا ہے؟
پاکستان مخالف گروہوں کو غیر موثر بنانا لازمی ہے۔ ان گروہوں کی وہ رگ شر کاٹ دینی چاہیے، جس کے ذریعے یہ انڈیا سے غذا حاصل کرتے ہیں اور انہیں کڑی سزا دے کر عبرت کا نمونہ بنا دینا چاہیے۔ بے نظیر بھٹو کی انڈیا کے ساتھ کنفیڈریشن، باری باری کی صدارت اور مشترکہ کرنسی کی تجویز، اور پھر اس تجویز کو پیپلز پارٹی کی ہر سطح پر پذیرائی ایک گہرے اندرونی مرض کی نشان دہی کرتی ہے، جسے بڑھنے پھیلنے سے روکنا ہے۔ بے نظیر کی یہ تجویز اس لیے بھی بے حد تباہ کن ہے کہ وہ ایک بڑی پارٹی کی سربراہ ہیں۔ اسی سے سیکولر سیاسی رجحانات کا اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اختلافِ رائے اور غداری میں تمیز تک نہیں کی جا رہی اور نہ پاکستان موافق اور پاکستان مخالف سیاست میں فرق روا رکھا جاتا ہے۔
ملکی معیشت کا منظر دیکھیے۔ قرض دینے والے اداروں نے معیشت کو بری طرح سے جکڑا ہوا ہے اور ان سے ابھی جان چھڑانی ہے۔ یہ صحیح ہے کہ موجودہ اصلاحات بہت پہلے ہو جانے چاہییں تھیں لیکن ایک مستعد اور رواں دواں معیشت یوں وجود میں نہیں آئے گی کہ صارفین کی جیبیں خالی کر دی جائیں۔ عام صارف جس کے بل پر اقتصادیات کی گاڑی چلتی ہے، مالی طور پر بدحال ہے۔ جب تک سول اور ملٹری بیوروکریسی شفاف طریقے سے اپنے مصرفانہ اخراجات کو لگام نہیں دیتی اور جب تک صارفین کی قوتِ خرید بحال نہیں ہو جاتی، کسی اقتصادی حیاتِ نو کی توقع رکھنا فضول ہے۔ اسی طرح بجلی، گیس کی قیمتوں میں بار بار اتار چڑھاؤ اقتصادیات کے ٹھہراؤ اور حرکت و نمو میں رکاوٹ ہے۔
اس کے ساتھ ہی نوکر شاہی کو نو آبادیاتی ذہنیت سے چھٹکارا حاصل کرنا ہوگا۔ اس کی بے جا رعونت، کام سے عدم رغبت اور ان کی صریح نا اہلیت لوگوں کو مملکت سے بے گانہ بنا رہی ہے، جس سرکاری دفتر کو دیکھیں ایک عقوبت خانہ بنا ہوا ہے، الا ماشاء اللہ۔
اہم ترین بات یہ ہے کہ ۱۹۷۳ء کا دستور مملکتِ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے معاملات چلانے کا بہترین ذریعہ نہیں، کیونکہ ”قراردادِ مقاصد“ کو چھوڑ کر جو ایک تخلیقی اور اجتہادی کوشش تھی کہ تحریکِ پاکستان کے مقاصد کو دستوری رنگ دیا جا سکے، اس کو ایک طرف رکھیں تو دستور کی باقی ساری دستاویز نو آبادیاتی ذہن و اقدار کی خوشہ چینی پر مبنی ہے۔ دستور کو موثر بنانے اور قوم کو بے ایمان اور بے اصول سیاست دانوں کے چنگل سے بچانے کے لیے اس قومی دستاویز میں بعض بنیادی ترامیم ضروری ہیں۔
صدر، وزیراعظم اور ہنود (ہندوستان) میں وزیراعظم کی نوعیت یا تو عدم استحکام اور ٹکراؤ کا ذریعہ ہے یا تدبر سے عاری ایک عیارانہ انتظام ہے، کہ جس میں وزیراعظم بغیر کسی صدارتی قدغن کے من مانی کرے۔ ایسے نظام میں قصر صدارت کی عملاً کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ دستوری اعتبار سے صدر ایک عضوِ معطل ہے، جس کے پاس مراعات تو ہیں مگر کوئی کام نہیں ہے۔ پاکستان میں صدر کا عہدہ چونکہ شاہ برطانیہ کا چربہ ہے اس لیے مؤخر الذکر کی طرح صدر پاکستان کوئی غلطی نہیں کر پاتا۔ وجہ ظاہر ہے: غلط کام کا امکان وہیں ہوتا ہے جہاں کام ہوگا۔ یہاں خیر سے کام ہی نہیں۔ ایک بے اختیار صدر ہماری ہنگامہ خیز اور شورش پسند سیاسی صورت حال میں فالتو بلکہ فردِ ناچیز ہے۔ جو بحران دور کرنے میں کوئی فیصلہ کن کردار ادا نہیں کر سکتا۔
طرفہ تماشا یہ ہے کہ یہ صدارت اس حلقۂ انتخاب یا انتخابی کالج کی مرہونِ منت ہے جس پر غلبہ وزیراعظم کی پارٹی کو حاصل ہے، یوں روزِ اول سے ہی بے چارے صدر کی حالت پتلی ہوتی ہے۔ اسے وزیراعظم کا بندہ بن کر رہنا ہوتا ہے۔ یہ صدارت کی توہین ہے۔ اگر وہ ضمیر کی آواز پر لبیک کہتا ہے اور قومی مفادات کو مقدم رکھتا ہے تو گویا اپنے لیے مصائب کو دعوت دیتا ہے۔ قصہ مختصر پاکستان کا صدر ایک بے ضرر، قوت فیصلہ سے محروم اور قومی خزانے پر ایک بوجھ ہے کہ کچھ کرنے کا اہل ہی نہیں۔ قوم کو ایسے صدر کی ضرورت ہے جو اس کے مفادات کا نگہبان ہو۔ ایک ایسا رہنمائی دینے والا صغیر (whistle blower) جو اس بات کو یقینی بناتا کہ مملکت اور حکومت وقت قرارداد مقاصد کی لفظاً و معناً پیروی کرتے۔ اس سے ایک طرف تو سمتِ منزل اور افزائش و نمو کی ضمانت ملتی تو دوسری طرف سیاسی پارٹیوں میں بیرونی نفوذ کی مؤثر روک تھام ہو سکتی۔ لیکن بد قسمتی سے ایسا نہ ہو سکا، اس کی کئی وجوہ تھیں:
- اول، جس پارٹی نے یہ دستور بنایا، وہ اپنے مزاج میں سیکولر تھی۔ قرارداد مقاصد اسے ورثے میں ملی تھی، جس سے کلی طور پر چشم پوشی کرنا اس کے لیے ممکن نہ تھا کہ سوادِ اعظم اس کی پشت پر کھڑی تھی۔
- دوم، پیپلز پارٹی کے بیشتر ارکان اپنی ذہنی اور جذباتی ساخت میں نو آبادیاتی نظام کی پیداوار تھے ہرچند کہ ان کا لہجہ عوامی اشتراکی تھا۔ وہ قرارداد مقاصد کو ملک میں مطلوبہ مقام دینے کو تیار نہیں تھے۔
- سوم، پیپلز پارٹی کے قائد ذوالفقار علی بھٹو نہ صرف اپنی ذات کے اسیر تھے، بلکہ اقتدار اور طاقت کا ارتکاز اپنی ذات میں چاہتے تھے۔ انہوں نے صدر مملکت کے عہدے کو بے توقیر رکھنا ضروری سمجھا۔
صدر کا انتخاب لازماً براہ راست ہونا چاہیے۔ لیکن انتخاب سے قبل اسے ہیئت مقتدرہ اور خفیہ اداروں کی منظوری اور تائید حاصل ہونی چاہیے جو اس امر کی تصدیق کریں کہ اس عہدہ کے لیے ممکنہ امیدوار نہ صرف عظیم محب وطن ہے بلکہ اس کا تقرر اور سندِ اعتبار قطعی بے عیب ہے، ایک بالغ راست ذہن اور مضبوط کردار کا حامل شخص جس کا بیرونی قوتوں سے کوئی رابطہ اور تعلق نہ ہو۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ دباؤ برداشت کرنے کی صلاحیت سے بہرہ مند ہو اور بر وقت صحیح فیصلے کرنے کا اہل ہو۔
پاکستان کی بے مغز سیاست کے پس منظر میں اچھی بات تو یہ تھی کہ صدارتی نظام لایا جائے، صدر مملکت کا پورے ملک سے براہ راست انتخاب ایک اہم پیش رفت ہوگی کیونکہ اس سے قومی یکجہتی اور وحدت پیدا ہوگی۔ وزیراعظم کا حلقہ انتخاب چونکہ اس کا اپنا حلقۂ نیابت ہوتا ہے، اس لیے وہ اپنے حلقے کا اسیر بن کر رہ جاتا ہے۔ نواز شریف اپنے دورِ حکمرانی میں لاہور کا نمائندہ تھا جس کی تمام تر توجہ اپنے حلقے پر مرکوز تھی۔ اسی طرح یوسف رضا گیلانی ملتان سے باہر نکلتے ہی نہیں۔ یہ وہ بنیادی خامی ہے جو ۱۹۷۳ء کے دستور کی کوکھ سے پیدا ہوتی ہے۔
دستور میں توازن اور صدر مملکت کے عہدے کو توقیر دینے کے لیے ضروری ہے کہ وہ ریاست پاکستان کے مقاصدِ اولیٰ کا محافظ و ترجمان ہو۔ یہ اسی صورت ممکن ہے کہ جب اسے وزارتی پارٹی کے اثر اور دباؤ سے آزاد کیا جائے۔ اس کی اپنی خود مختار حیثیت ہو۔
دوسری اہم ضرورت یہ ہے کہ صدر اور وزیراعظم کی چھان پھٹک کے ساتھ ساتھ وہ سبھی لوگ خفیہ اداروں کی چھلنی سے گزارے جائیں، جو ممکنہ طور پر اسمبلی ممبر یا سینیٹر بن سکتے ہوں۔ ان کی مملکت کے مقاصد سے وفاداری کی دستور کے تقاضوں کے مطابق جانچ پڑتال ہونی چاہیے۔ ایک متحدہ مرکزی کمان کا تصور معقول بھی ہے اور قابل عمل بھی۔ لیکن اگر مملکت اور اس کے معاملات کے متعلق یکساں نقطہ نظر موجود نہ ہو تو ایسی متحدہ کمان سے بھی خیر کی توقع نہیں۔
تیسرا نکتہ یہ ہے کہ ایوان بالا یعنی سینیٹ ایک متحد اور ہم فکر قوم کا غماز ہو، جس میں ہر صوبائی اکائی کو برابر کی نمائندگی حاصل ہو۔ مملکت کے معاملات میں سینیٹ بالا دست ادارہ ہو، جس کا اظہار مالیات، دفاع، عدلیہ وغیرہ سے متعلق اس کے پوری طرح با اختیار کمیٹی سسٹم سے ہوگا۔ سبھی کمیٹیوں کو یہ اختیار ہونا چاہیے کہ وہ متعلقہ وزارتوں کی کارکردگی اور اہداف کا جائزہ لیں اور اگر ان کی کارکردگی اچھی نہ ہو تو ان کی سرزنش کر سکیں، ان کے اخراجات پر قدغن لگا سکیں، ساتھ ہی وہ جسے چاہیں شہادت کے لیے طلب کریں اور غلط بیانی کرنے والے کو سزا دیں۔
چوتھی تجویز یہ ہے کہ موجودہ صوبوں کی جگہ کم از کم 7 نئے صوبے وجود میں لائے جائیں تا کہ ایک طرف تو انتظامی معیار بہتر ہو، نیز علاقائی اور لسانی سیکولر گروہوں کو لگام پڑے اور وہ تخریب کاری سے باز رہیں۔
اگر موجودہ صوبوں کو سیاسی وجوہ کے بغیر برقرار رکھنا ہی ہے تو پھر ہر صوبے میں انتظامی اکائیاں بنائی جائیں جن کے سربراہ نائب گورنر ہوں، اپنی انتظامیہ اور چھوٹی سی مقننہ ہو۔ یہ نائب گورنر، صوبے کے گورنر کے ماتحت ہوں۔
پانچویں بات یہ ہے کہ اگر فی الوقت موجودہ صوبے ہی برقرار رکھے جاتے ہیں، جو ہمارے خیال میں دور اندیشی کا تقاضا نہیں، تو کم از کم ان پارٹیوں کو غیر مؤثر اور عدم فعال کر دیا جائے، جن کی تشکیل نسلی بنیادوں پر ہو اور وہ کسی ایک صوبے تک محدود ہوں۔ انہیں کام کی کھلی آزادی آئین سے ماورا دینے کا مطلب یہ ہے کہ اختلاف و انتشار کی تخم ریزی کا سلسلہ جاری رہے۔
ایم کیو ایم جیسی جماعتیں اگر چاہتی ہیں کہ انہیں ملکی سیاست میں سندِ اعتبار ملے تو پھر ان کی قیادت کو نہ صرف اپنے ماضی پر شرمندگی کا اظہار کرنا چاہیے بلکہ انڈیا نوازی کا تاثر بھی دور کرنا چاہیے۔
چھٹی ضرورت یہ ہے کہ یہ سفیہانہ لبرل شور شرابا بند کر دیا جائے۔ جو بھی آزاد روی اور سیکولرزم کی بات کرتا ہے وہ اصلاً مملکت کی تباہی کے لیے باوردی سرنگیں بچھاتا ہے۔ خدانخواستہ اسلام نہ رہے تو قوم کی روحِ عمل ختم ہو جائے گی اور لوگوں کو متحد رکھنے والی کوئی چیز باقی نہ رہے گی۔ یہی کچھ انڈیا اور دوسرے دشمن چاہتے ہیں۔ دشمن کی دلی مراد کیوں پوری کی جائے؟
ساتویں بات یہ ہے کہ ایک سے زائد نصاب تعلیم ختم کر دیں جو مختلف اذہان پیدا کرنے کا سبب ہیں۔ انہیں باہم جوڑ کر ایک یکساں نصاب تعلیم بنائیے جو اندر اور باہر سے پاکستانی رنگ لیے ہوئے ہو۔ فرانسیسی وزیراعظم لیونل جوپن نے کہا تھا: ”ری پبلک یا جمہوریہ ایک ذہنی رویہ کا نام ہے۔“ بالفاظ دیگر جوپن یہ کہہ رہا ہے کہ کسی کو اس ذہن کو مضطرب کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ اپنے اس خیال کو مزید وضاحت کرتے ہوئے اس نے یہ عمیق تبصرہ کیا: ”مدرسہ جمہوریہ کی جائے پیدائش ہے۔ جہاں تعلیم دینے کے مقصد کے علاوہ اسے یہ امر یقینی بنانا ہوگا کہ بچے ذمہ دار شہریت کی تعلیم لے کر جوان ہوں۔“
اسی طرح قومی بقا اسی میں ہے کہ ہمارے سیاسی اور اطلاعاتی ماحول کا تزکیہ ہو۔ بدقسمتی سے دونوں ہی ادارے مملکت کے دشمن عناصر کی پناہ گاہیں بن چکے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق انڈیا ہمارے معاشرے کے مختلف با اثر حلقوں پر 14 ارب روپے خرچ کر رہا ہے۔ ہو سکتا ہے اس رقم میں مبالغہ ہو لیکن بہرحال اس حقیقت سے غفلت نہیں برتنی چاہیے کہ انڈیا اپنے اثر و نفوذ اور تخریب کاری پر زرِ کثیر صرف کر رہا ہے۔ ہمارے خفیہ اداروں کا یہ کام ہونا چاہیے کہ وہ اس بیرونی نفوذ کا سدِ باب کریں اور ایسے عناصر کو خواہ وہ میڈیا میں ہوں یا علاقائی اور قومی سطح کی پارٹیوں میں، انہیں بے دست و پا کر دیا جائے۔ سیاست دان ہو یا دانش ور جو بھی ہندی بولی بولتا ہے یا ہندوستان کے ساتھ الحاق کی بات کرتا ہے اسے قانون کے تحت غداری کے الزام کا سامنا کرنا چاہیے۔ ایسے عناصر کو میدانِ سیاست اور دانش گاہوں سے ہمیشہ کے لیے نکال باہر کر دیا جائے۔
میڈیا کو ایک آزاد معاشرہ میں کام کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اسے ایک واضح فریم ورک دیا جائے، جس کا واضح مقصد یہ ہو کہ ملکی آزادی کی حفاظت لازمی ہے تا کہ آزادی اظہار سے معاشرہ لطف اندوز ہو سکے۔
ثانیاً، یہ بات اشد ضروری ہے کہ اس بات کا احساس کیا جائے کہ میڈیا مملکت اور معاشرے کے لیے ہوتا ہے نہ کہ مملکت اور معاشرہ میڈیا کے لیے۔ لہٰذا اسے لازماً اپنی حدود میں رہنا ہوگا۔
ثالثاً، ایک ذہین اور دانش مند حکومت باغبان کی طرح ہوتی ہے، جسے جھاڑ جھنکاڑ صاف کرنی ہوتی ہے تا کہ سبزہ اگ سکے۔
رابعاً، ایک اچھی انتظامیہ کو مملکت کا پورا پورا خیال رکھنا چاہیے۔ اسے اس کی قوت کے ماخذوں کا شعور ہونا چاہیے اور یہ ایسے گروہوں اور عناصر کو تقویت دے، جو مملکت کی بنیادوں کو مضبوط کرتے ہیں اور انہیں مزید گہرائی تک پھیلاتے رہتے ہیں۔ ساتھ ہی انتظامیہ ان قوتوں کا استیصال کرے جو مددگار ماخذوں کی کمزوری کا باعث بنتی ہیں۔
اطلاعاتی ماحول اصلاً ملکی سلامتی کے ماحول کا ایک حصہ ہے۔ اسے ان لوگوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا، جنہوں نے اپنے جسم و روح کو اغیار اور ان کے نظامِ تصور کے ہاتھوں بیچ ڈالا ہے۔
ہماری ایک کے بعد ایک آنے والی انتظامیہ کا المیہ یہ ہے کہ اسے اپنی ذاتی توقیر اور احترام کی تو فکر ہوتی ہے، لیکن مملکت کے وقار کا کوئی خیال نہیں ہوتا۔ ہمارے سیاستدان بالعموم طاقت کے کھیل میں تو طاق ہو سکتے ہیں، کیونکہ ان کا ذاتی طور پر بہت کچھ داؤ پر لگا ہوتا ہے، لیکن صاف لگتا ہے کہ ہماری یہ حکومتیں اور سیاستدان اپنی ذہانت کو پاکستان کو بچانے اور اسے طاقتور بنانے پر صرف کرنے میں دلچسپی نہیں لیتیں۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت پر تنقید ہو تو وہ پریس سے محاذ آرائی پر کمر بستہ ہو جاتی ہے۔ لیکن یہی پریس جب مملکت کا مذاق اڑا کر اس کی بنیادیں ادھیڑنے کی کوشش کرتا ہے تو حکومت کی کان پر جوں بھی نہیں رینگتی۔ صحافت کو اس تباہ کن کھیل سے باز رکھنے کی بہت سی وجوہ ہیں:
- مملکت کے خلاف بیان بازی ہو تو اس سے سرکشی اور بغاوت کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔
- بیرون ملک پریس اور سفارتی حلقوں کے سامنے پاکستان کی بھونڈی تصویر کشی ہوتی ہے۔
- ملک کے مخالف عناصر سے اغماض ریاست کے تسلسل سے متعلق شبہات ابھارتا ہے اور ایک عام پاکستانی اپنی نگاہوں میں اپنے آپ کو حقیر اور غیر محفوظ سمجھنے لگتا ہے۔ یہی چیز بیرونی حملہ آوروں اور اندرونی تخریب کاروں کا حوصلہ بڑھاتی ہے۔
اس لیے یہ لازمی ہے کہ میڈیا کو ایک ایسے ضابطہ اخلاق سے وابستہ کیا جائے جو ملکی وحدت اور اس کی سلامتی کو ممکن بنا سکے۔
جہاں تک جمہوریت کی طرف واپسی کا مسئلہ ہے، اور ایسا ایک دن ضرور ہونا ہے، اگر یہ عمل ہماری سیاسی اور اطلاعاتی فضاؤں کی جھاڑ پونچھ کے بغیر کیا گیا تو یہ قوم کا چہرہ لتھڑا کر رکھ دے گا۔ سامنے آئینے میں ایک بھدی بھونڈی شکل ہی نظر آئے گی۔
باب 9
سیکولر حلقے اور اقبال
سیکولر حلقے اور اقبال
اقبال کون تھے اور کیا چاہتے تھے؟ ان کے متعلق عام معروف تصور یہ ہے کہ وہ تحریک پاکستان کی پشت پر زبردست دانشورانہ اور حکیمانہ قوت تھے۔ نیز یہ کہ انہوں نے اسلام کو بطور نظامِ حیات پیش کرنے، نشاۃ ثانیہ کا صور پھونکنے اور تجدید دین کی تحریک برپا کرنے میں عظیم کردار ادا کیا۔ لیکن اس واشگاف حقیقت کے باوجود، وطن عزیز کی بلند آہنگ سیکولر لابی نے قسم کھا رکھی ہے کہ وہ اقبال کی اس واضح تصویر کو بگاڑ کر انہیں آزاد خیال اور کسی درجے میں مذہب بیزار ثابت کرے۔ اقبال کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ وہ برصغیر جنوبی ایشیا میں اسلامی مملکت کے قیام کے خلاف تھے۔ اپنے اس مقدمہ کو ثابت کرنے کے لیے وہ یہ دلیل سامنے لاتے ہیں کہ اقبال عوام پاکستان کے لیے اسلامی مملکت کا نہیں بلکہ مسلمانوں کی مملکت کا تصور پیش نظر رکھتے تھے۔ ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اقبال مسلمانوں کے لیے برطانوی ہند کے اندر ایک خود مختار ثقافتی یونٹ کا قیام چاہتے تھے۔
یہ دونوں باتیں باہم متضاد ہیں، کیونکہ اگر ان کی یہی خواہش تھی کہ برطانوی ہند سے جدا نہ ہوں اور اس کا حصہ بن کر رہیں تو یہ بحث ہی غیر متعلقہ ہو جائے گی کہ وہ اسلامی مملکت چاہتے تھے یا مسلمانوں کی مملکت۔
اگر موضوع زیر بحث کا مطالعہ واقعی سنجیدگی اور متانت سے پیش نظر ہے تو بنیادی اہمیت کے ان تین سوالات کا جواب لازماً لازم ہے:
- کیا ایک مسلمان اس وقت تک صحیح مسلمان ہو سکتا ہے اگر وہ اسلام پر پختہ ایمان نہ رکھتا ہو؟
- کیا ثقافت خود سے الگ کوئی منفرد اور یکتا شے ہے؟ یا اصلاً یہ دین و مذہب ہی ہیں جو قوموں کی ثقافت کی صورت گری کرتے ہیں؟
- کیا اسلامی مملکت محض ایک مذہبی نظم اور رواج ہے یا ایک ایسی مملکت ہے جو عہد و میثاق پر استوار ہوتی ہے؟
سیکولر حضرات ان انتہائی اہم سوالات سے کنی کتراتے ہیں کیونکہ فکری تناظر میں یہی سوال و جواب فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں۔
یہ احباب بڑی اچھی طرح جانتے ہیں کہ اقبال سے ذاتی اختلاف تو ہو سکتا ہے لیکن ان کی مسلم تاریخی شخصیت سے نہیں، جو ستر سے کچھ اوپر برسوں سے قائم اور آج بھی مسلسل رفعت پذیر ہے۔ یہ لوگ اقبال کے فکری اور انقلابی کرشمے اور ان کے عظیم کام کے سحر سے اچھی طرح واقف ہیں۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ اقبال کی شاعری کے اثرات مستقبل میں بھی مدت مدید تک باقی رہنے یقینی ہیں۔ انہوں نے ابھی کئی نسلوں کو متاثر کرنا اور دعوت عمل دینا ہے۔
سیکولر حضرات کو یہ بھی معلوم رہنا چاہیے کہ اس تذبذب زدہ دنیا میں اقبال کی اس لازوال قوت کا حقیقی ماخذ اور سرچشمہ کون سا ہے؟ یہ حقیقت ہے کہ اقبال کی شاعری بجائے خود ایک بے کراں قوت کی حامل ہے، جس میں ایک ساتھ شانِ جلالی ہے، غنائی آہنگ ہے اور جذب و عمل سے بھرپور تحریکیت بھی۔ ان کی ادائیگی کا انداز نرالا اور جمالیاتی لحاظ سے عظیم الشان ہے، جس میں نئے بند اور اچھوتی ترکیبیں ملتی ہیں۔ اقبال کی شاعری کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ بہ یک وقت جذباتی سطح پر فرد کو ابھارتی ہے اور اعلیٰ فکری معیار پر سوچ بھی عطا کرتی ہے۔ اس کی پیش کردہ علامات نہ تو دور پار کی ہوتی ہیں، نہ محض تجریدی اور بے جان۔ وہ ہر رمز کا انتخاب پوری احتیاط سے اسلامی تاریخ سے کرتے ہیں۔ جن میں عام لوگوں کے لیے قرب اور اپنائیت ہے، اور اسی لیے ان کے قاری اور سامع ان کے کلام سے گہرا اثر لیتے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان کا خلوص اور قلبی درد و سوز قاری کو کیف و سرور بخشے اور راستے سرگرم عمل کرے۔
اقبال کے نزدیک اسلام کو نجی معاملے کی سطح پر اتار لانا محض دو جہانوں کی حد بندی کا سادہ معاملہ نہیں تھا۔ بلکہ وہ اس تصور میں شیطانی فریب دیکھ رہے تھے جس کے اثرات مسلمانوں کے لیے انتہائی تباہ کن تھے۔
اسلام سے ان کی یہی شدید محبت اور اس محبت کا ان کی شاعری میں رچاؤ ہے کہ جسے غیر بھی محسوس کیے بغیر رہ نہیں سکتے تھے۔ خود ان کی زندگی میں ڈکنسن (Dickinson) جیسے غیر مسلم نے ان کے فلسفے کو اطلاقی لحاظ سے مخصوص ہونے کا الزام دیا، اگرچہ وہ اس کی روح اور جوہر کی آفاقیت کو تسلیم کرتا تھا۔ اقبال نے جواباً اسے تسلیم کیا۔ لیکن انہوں نے اس پر ایک وصف کا اضافہ کیا:
انسان دوستی کا اعلیٰ تصوراتی معیار شاعری اور فلسفہ میں ہمیشہ آفاقی رہا ہے۔ لیکن اس تصور کو قابل عمل شکل دے کر حقیقی انسانی زندگی میں لائیں تو معاملہ شاعروں اور فلسفیوں کا نہیں رہتا بلکہ اس انسانی آبادی اور سماج سے متعلق ہو جاتا ہے۔ جس کا ایک اعتقادی مجموعہ اور زندگی کا واضح طور پر کھینچا ہوا خاکہ ہوتا ہے۔ ترغیب اور مثالیں قائم ہونے سے یہ خاکہ اور مجموعہ وسعت پذیر رہتا ہے۔ ایسا ایک سماج، میرے عقیدے کے مطابق اسلام ہے۔
کیا اس سب کے باوجود اقبال واقعی سیکولر (لادین) تھے؟
اقبال کو سیکولر ثابت کرنے کے لیے ضروری ہوگا کہ وہ ماقبل 1947 کے سانچے میں ان کو قوم پرست ثابت کریں۔ وہ یہ بھی ثابت کریں کہ وہ دین و مذہب کو محض فرد کا نجی معاملہ سمجھتے تھے، اور بدرجہ آخر اسلام کو ایک فرسودہ اور از کار رفتہ عقیدہ قرار دیتے تھے۔
بنیادی طور پر سیکولر حضرات مذہب سے متعلق ہر اس فرد اور تصور سے منتظر ہیں، جو اپنی شخصیت کے زور پر قومی شعور میں احترام کا حامل ہو۔ اقبال سے انہیں کوئی محبت نہیں، لیکن موجودہ پاکستان میں اقبال ان کی اسی طرح ضرورت ہیں جس طرح جناح۔ مثلاً اگر یہ ثابت کر دیا جائے کہ اقبال سیکولر تھے تو پھر اہل وطن کو قائل کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں اسلامی نظام کے مطالبے کو نظر انداز کر کے سیکولرزم کو نافذ کیا جائے۔ بالفاظ دیگر وہ اپنے لادین پروگرام کے لیے اقبال سے سندِ جواز لینا چاہتے ہیں۔
اسلام پرست یا قوم پرست
یہ سچ ہے کہ اپنے کالج کے زمانے میں دوسرے نوجوانوں کی طرح علامہ اقبال بھی ہندی قوم پرستی کے شیدائی تھے۔ انہوں نے ایسی نظمیں لکھیں جن میں وہ برطانوی ہند کی سرزمین کو مادرِ وطن کہہ کر اس کی مدح سرائی کرتے ہیں۔ اسی طرح وہ ہندو مسلم اتحاد کے بھی حامی رہے۔ لیکن جلد ہی ان کے خیالات میں پختگی آگئی۔ بمبئی کرانیکل کو 1931ء میں دیے گئے اپنے انٹرویو میں انہوں نے کھل کر اعتراف کیا:
”قوم پرستی کے متعلق میرے خیالات میں واضح تبدیلی آچکی ہے۔ اپنی کالج کی زندگی میں، میں ایک پر جوش قوم پرست تھا، لیکن اب ایسا نہیں۔“
انہوں نے بتایا کہ یہ ماہیت قلب ان کی ذہنی اور شعوری پختگی کی وجہ سے ہوئی۔
یہ اسی ذہنی پختگی کی عطا ہے کہ وہ حب الوطنی اور وطن پرستی کو بطور سیاسی نظریہ بت پرستی کا نام دیتے ہیں جو ایک مادی شے کو خدا بنانے کے مترادف ہے۔
اسلام سے ماورا حب الوطنی کو یوں مسترد کرنے کے بعد اقبال کو کچھ اور کہنے کی ضرورت نہ تھی، لیکن انہوں نے یہ اعلان بھی کر دیا:
”یہ ہمارا زندگی بھر کا لافانی مشن ہے کہ بت پرستی کی ہر شکل کو ٹھکرائیں۔ جس چیز کو اسلام مٹانے کا داعی ہے، وہ اسی چیز کو اپنے سیاسی سماج کی تشکیل کا بنیادی اصول قرار نہیں دے سکتا۔ یہ حقیقت کہ رسول اللہ کو اپنے مشن میں کامیابی اور بالآخر وفات آبائی سرزمین سے باہر ملی، اس بارے میں ایک معنوی اشارہ ہے۔“
کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ علامہ تشکیل مملکت ہی کے خلاف تھے؟ ایسا فتویٰ دینے کا مطلب یہ ہو گا کہ ہم میں متن پڑھنے کی صلاحیت ہی نہیں۔ ایک جغرافیائی اکائی کے طور پر مملکت کا وجود تسلیم کرنا ان کے لیے کوئی مسئلہ نہ تھا، کیونکہ اس کا اسلام سے کوئی ٹکراؤ نہیں تھا البتہ مملکت کو خود ایک سیاسی تصور اور نظریہ کے طور پر ماننا انہیں قبول نہ تھا۔ مولانا حسین احمد مدنی کے جواب میں علامہ مرحوم نے کھل کر بتایا ”اپنی سرزمین سے محبت ایک فطری جذبہ ہے لیکن قوم یا وطن کو انسانی سماج کا ایک اصول قرار دینا ان کے خیال میں اسلام کے تصور مملکت سے ٹکراتا ہے، کیونکہ: اسلام کسی دوسرے نظریہ اور قانون کو انسانی معاشرے کے انضباط میں دخل دینے کا روادار نہیں ہے۔“
علامہ کے نزدیک قوم رسول ہاشمی اپنی ترکیب میں خاص اور منفرد ہے، جو اپنے طبعی مقام اور وطینت سے ماورا ہو کر ایک ملت بنتی ہے، جسے ایک عقیدے نے باہم جوڑ رکھا ہے، اور جو دیکھنے پر بہ یک وقت دینی بھی ہے اور دنیاوی بھی۔
اپنی قوم کی اس خصوصیت کی بنا پر وہ اسے دوسروں سے ممیز کرتے ہیں کہ: ”مسلمانوں اور دوسری اقوام میں ایک اصولی فرق یہ ہے کہ اسلام میں قومیت کا تصور دوسری اقوام کے تصور سے یکسر مختلف ہے۔“
وہ کہتے ہیں کہ ہماری قومیت کا جوہر حقیقی نہ تو مشترک زبان ہے، نہ باہمی اقتصادی مفادات ہیں۔ فی الاصل ہم تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قائم کردہ برادری اور مواخات میں شامل ہو چکے ہیں۔ اب کائنات کے متعلق ہمارا ایک مشترک ذریعہ عقائد ہے۔ یہی حال ان تاریخی روایات کا ہے جو ہمیں ورثے میں ملی ہیں۔
اقبال کے نزدیک اسلام کا اپنا مخصوص تہذیبی میلان اور بہاؤ ہے جو امت مسلمہ کے اجتماعی وجود کے اندر تشکیل و تجسیم کا متلاشی ہے۔ ایک ایسی قوم جو بالیدگی کے لیے شدید امنگ رکھتی ہے تا کہ بالآخر یہ ایک آفاقی مملکت میں ڈھل جائے۔ علامہ کا خیال تھا کہ اسلام کو اپنی تہذیب کی تشکیل کے لیے جغرافیہ چاہیے۔ اسلام کی اس پیش رفت پر کسی زمانی و مکانی حوالے سے کسی طرح کی قدغن ایک قابل ملامت حرکت ہے۔
اقبال آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مثال پیش کرتے ہیں۔ وہ قریشی تھے اور دوسرے لوگوں کی طرح ایک عرب۔ پھر وہ اپنے قریبی رشتہ داروں مثلاً ابولہب سے کیوں جدائی اختیار کر گئے؟ وہ کہہ سکتے تھے کہ مان لیا میرا اپنا عقیدہ ہے، تم لوگ اپنے مشرکانہ عقائد پر قائم رہو اور ہم مل کر ایک متحدہ عرب قوم بن جاتے ہیں لیکن:
اگر قوم از وطن بودے محمد نہ دادے دعوت دیں بولہب را
(یعنی اگر قوم وطن سے بنتی تو محمد، ابولہب کو اسلام کی دعوت نہ دیتے)
پیغمبر اسلام کی یہ دعوت ایک ایسی امت وجود میں لانا چاہتی ہے جس کی بنیاد جغرافیہ، نسل اور زبان نہ ہو، بلکہ مومنین کی اخوت اور بھائی چارہ ہو، پوری تاریخ انسانی کی واحد حتمی اور فیصلہ کن کوشش ہے۔ اسلام کے اس پہلو پر اقبال کہتے ہیں:
”اسلام نے تیرہ صدیوں میں وہ کچھ کر دکھایا جو باقی ادیان و مذاہب تین ہزار برسوں میں نہ کر سکے ہیں۔“
علامہ اقبال نے سیکولر حضرات کے اس دعوے کی قلعی واشگاف طور پر کھول دی تھی کہ پاکستان کا مطالبہ جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کی اقتصادی بدحالی کے جواب میں سامنے آیا تھا۔ انہوں نے تنبیہ کی تھی کہ:
”اگر ہندوستان میں مسلمانوں کا مقصد اور ہدف محض سیاست کے ذریعے آزادی کا حصول اور کچھ معاشی خوشحالی ہے اور اسلام کا تحفظ اور دفاع ان کے پیش نظر نہیں جیسا کہ (ہندی) قوم پرستوں کے کردار سے عیاں ہے، تو مسلمان اپنے عزائم میں کبھی کامیاب نہیں ہو پائیں گے۔“
اسلام ایک ثقافتی اکائی
برسوں کے مطالعہ نے اقبال کو قائل کر دیا تھا کہ اسلام ایک عملی ”دنیاوی حقیقت ہے۔“ یہ کسی ایسے درویش یا صوفی کا مذہب نہیں جو خانقاہی زندگی میں محصور ہو۔ اپنے تاریخی خطبہ الہ آباد میں انہوں نے شرکائے مجلس پر یہ حقیقت واشگاف الفاظ میں پیش کر دی تھی:
”میں نے زندگی کا بہت بڑا حصہ اسلام کے بہ غور مطالعہ میں گزارا ہے اور اس کے قوانین، سیاستِ مدنی، ثقافت، تاریخ اور اس عملی ذخیرہ کو کھنگالا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اسلام کی روح سے اس مسلسل ربط و تعلق اور وقت کے ساتھ ساتھ اس کی نقاب کشائی نے مجھے وہ بصیرت عطا کر دی ہے جو مجھے اس کی ایک دنیاوی حقیقت ہونے کی اہمیت جتلاتی ہے۔“
واضح طور پر اقبال، اسلام کو ایک گل کے طور پر دیکھ اور سمجھ رہے ہیں۔ وہ ایسے نابغہ روزگار تھے جن کی اسلامی نظام پر دانشورانہ گرفت تھی۔ وہ اسلام کو دوسرے نظامات کے مقابل پر پرکھتے ہیں اور پھر ان سب کو ٹھکرا کر اسلام کو اولیت دیتے ہیں۔ جب وقت آیا کہ وہ اپنے عقیدے کو الفاظ کا جامہ پہنائیں تو انہوں نے اسی شدت کا مظاہرہ کیا جو ان کی شعلہ نوا شاعری کا خاصہ ہے، حالانکہ اس اظہار کو انہوں نے دلیل و برہان سے مزین کر کے پیش کیا۔
فی الحقیقت اقبال کے نزدیک سیکولرزم ایک مغربی فکر و عمل ہے، جو دین و مذہب کو ایک نجی معاملہ قرار دیتا ہے، جس کا دنیاوی زندگی سے کوئی تعلق نہیں۔ اس کے برعکس اسلام انسانی زندگی کی وحدت کو روح اور مادہ کی ایسی دوئی (duality) میں تقسیم نہیں کرتا کہ دونوں اکائیوں کا آپس میں نباہ نہ ہو سکے۔ اسلام کے نزدیک اللہ تعالیٰ اور کائنات، روح اور مادہ، چرچ (مسجد) اور ریاست نامیاتی طور پر باہم جڑے ہوتے ہیں۔
اقبال کے نزدیک اسلام کو نجی معاملے کی سطح پر اتار لانا محض دو جہانوں کی حد بندی کا سادہ معاملہ نہیں تھا۔ بلکہ وہ اس تصور میں شیطانی فریب دیکھ رہے تھے جس کے اثرات مسلمانوں کے لیے انتہائی تباہ کن تھے۔ قدرت نے انہیں 1930ء میں مسلم لیگ کے تاریخی اجلاس سے خطاب کا موقع عطا کیا، تو انہوں نے کہا:
”... اصل مسئلہ اور اس کے نتائج کیا ہیں؟ کیا دین ایک نجی معاملہ ہے؟ کیا آپ لوگ اسلام کو اسی طرح کے اخلاقی اور سیاسی تصور کی صورت دیکھنا چاہتے ہیں کہ وہ بالآخر دنیائے اسلام بھی اسی انجام سے دوچار ہو جائے جو عیسائیت یورپ میں دیکھ چکی ہے؟“
اقبال کو معلوم تھا کہ اگر دین اپنے آپ کو ایک چھتے کی صورت زندگی کی ہماہمی میں پیوست نہیں رکھے گا تو یہ خود اس دل کے اندر بھی مرجھا جائے گا جو اس کا مسکن ہے۔ اسی لیے وہ اسلام کی کلیت پر زور دینے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے۔
”دین شعبہ جاتی تقسیم کا معاملہ نہیں ہے، نہ یہ خالی خولی تصور اور نظریہ ہے، نہ محض احساس اور نہ نرا عمل ہی۔ یہ تو پورے اور کامل انسان کا مظہر ہے۔“
اقبال اسلام کو باقی ادیان سے جدا کر کے دیکھتے ہیں، جو بالعموم صوفیانہ تیاگ میں شاد کامی کے متلاشی ہیں۔ اس کے برعکس اسلام کی روحانی معراج پیغمبرانہ تجربہ ہے جو اتصال و وحدت کے احساساتی عمل سے راحت و سکون حاصل کر کے واپس پلٹتے ہیں تو مثالی نسیج کی ایک نئی دنیا تخلیق فرماتے ہیں۔ اقبال کے نزدیک معراج سے پیغمبر کی واپسی ایک تخلیقی عمل ہے کیونکہ وہ اپنے آپ کو زمانہ کے بہاؤ میں داخل کر کے تاریخ کی قوتوں کو گرفت میں لے لیتا ہے۔
اقبال کے مطابق یہ پیغمبرانہ اسلام نہ تو سست گام، دیو اور بے عمل ہے، اور نہ ذاتی اور نجی۔ یہ دوسروں سے برسر پیکار ہو کر غلبہ اور بالا دستی حاصل کرتا ہے۔
تھیوکریسی یا اسلام
سیکولر حضرات اس بات کو بھی بہت اچھالتے رہتے ہیں کہ اقبال تھیوکریسی کو نا پسند کرتے تھے اور نتیجہ یہ نکال کر دکھاتے ہیں کہ وہ اسلامی طرز حکومت کے مخالف تھے۔ سیکولر حضرات، اقبال کی علما پر تنقید کو مبالغہ آرائی کی سان پر چڑھا کر یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اقبال کو اس طبقے سے نفرت تھی۔ لیکن یہ لوگ بھول جاتے ہیں کہ نہ تو اسلام اور تھیوکریسی (پادریوں کی حکومت) ایک چیز ہیں اور نہ علامہ کی تنقید بلا امتیاز سب علما کے لیے تھی۔ زیادہ سے زیادہ یہ تنقید ایک مخصوص گروہ سے متعلق تھی۔ میرے علم کی حد تک علامہ نے تھیوکریسی کے سوال پر تین بار اظہار خیال فرمایا ہے۔ سب سے پہلے اپنے 1930ء کے خطاب میں۔ دوسری بار اپنے اس خط میں جو انہوں نے پروفیسر نکلسن کے نام لکھا۔ تیسری بار اپنے پر مغز خطبہ الہ آباد میں ہندی انگریزی خدشات کا ازالہ کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا:
”میں آپ کو لفظ دین کا وہ مفہوم بتا چکا ہوں جو اسلام پر لاگو ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام چرچ نہیں ہے (جہاں مذہبی رہنماؤں کی بات چلتی ہے)۔ اسلام تو مملکت کا نام ہے جس کا تصور ایک معاہداتی نامیاتی وجود کے طور پر سامنے آیا جبکہ روسو (Rousseau) کو صدیوں بعد یہ خیال سوجھا تھا۔ یہ دین اخلاقی تصورات اور معیارات سے حرکت پذیر ہوتا ہے، جو اس امر کی نفی کرتا ہے کہ انسان کی جڑیں اصلاً ارضی ہیں جسے زمین کے ایک یا دوسرے قطعہ کے حوالہ سے پہچانا جائے۔ بلکہ یہ تو ایک روحانی وجود ہے جسے سماجی حرکیات کے حوالوں سے سمجھا جائے گا، جس میں ایک زندہ عامل کے طور پر اس کے کچھ فرائض اور کچھ حقوق ہیں۔“
تھیوکریسی کے تصور میں جاگزیں مرکزی دعویٰ یہ ہے کہ حکمران فرد ہو یا طبقہ، اللہ تعالیٰ کی طرف سے ماموریت کی بنا پر ہر غلطی سے پاک اور بے خطا ہوتا ہے۔ اسلامی مملکت میں حکمران کے لیے یہ امتیاز قطعاً موجود یا قبول نہیں۔ علامہ کا کہنا ہے کہ:
”ہمارے ہاں مملکت دینی اور لادینی کا ملاپ یا گٹھ جوڑ نہیں بلکہ یہ ایک وحدت ہے جس میں مذکورہ تفریق موجود ہی نہیں۔ خلیفہ المسلمین لازماً وہی شخص نہیں ہوگا جو دینی امور کا بھی امام ہو۔ وہ (پاپائی انداز میں) زمین پر خدا کا نمائندہ نہیں ہوتا۔ دوسرے انسانوں کی طرح اس سے بھی لغزش اور خطا کا صدور ممکن ہے اور باقی مسلمانوں کی طرح وہ بھی ایک ہی غیر شخصی قانون کے سامنے سرنگوں اور تابع ہے۔“
آخری اور حتمی بات یہ ہے کہ مخصوص فکر کے حامل علما پر ان کی جزوی تنقید سے یہ تاثر لینا قطعاً سطحی بات ہوگی کہ وہ ان سے نفرت کرتے تھے۔ جمال الدین افغانی اور شاہ ولی اللہ کی وہ جس طرح دل سے قدر کرتے تھے اور انہیں اسلام کے عظیم ائمہ میں سے سمجھتے تھے، پوری طرح شائع اور معلوم حقیقت ہے۔ علامہ مرحوم کا سید سلیمان ندوی سے عقیدت و احترام کا جو رشتہ استوار تھا وہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ سید مرحوم سے تو علامہ دینی معاملات میں مشاورت اور رہنمائی کے طلب گار رہتے تھے۔
اب دیکھنے کی بات یہ ہے کہ علما کے معاملے میں علامہ اقبال کو کیا اڑچن در پیش تھی؟ اولاً اقبال سمجھتے تھے کہ یہ بزرگ قدامت پرست ہیں (اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ علامہ خود آزاد خیال تھے)۔ ثانیاً، علامہ کا خیال تھا کہ یہ علوم کی نئی جہتوں اور وسعتوں سے نا آشنا ہیں۔ ثالثاً، وہ نہیں چاہتے تھے کہ علما اپنے آپ کو ایک جدا پارٹی میں محبوس کر لیں کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ اس راستے کو اختیار کیا گیا تو معاملہ اسی تھیوکریسی تک جا پہنچے گا جیسا کہ مغرب میں سمجھا جاتا ہے۔ علما پر اقبال کی تنقید کا خلاصہ یہی کچھ ہے لیکن حد درجہ سادگی ہو گی اگر یہ سمجھا جائے کہ وہ گویا ان سے تنفر اور بیزاری میں پھنک رہے تھے۔ نفرت اور بیزاری تو دور کی بات ہے، وہ قانون سازی میں علما کے کردار کے حامی اور طلب گار رہے۔ ایران کی قانون ساز مجلس میں علما کے کردار کا ذکر کرنے کے بعد وہ لکھتے ہیں:
”ایران کی دستوری تھیوری کچھ بھی ہو، یہ انتظام خطرات سے خالی نہیں۔ اگر اسے آزمانا ہی ہے تو سنی ممالک میں اسے ایک عارضی (تجرباتی) طور پر آزمایا جائے۔“
ساتھ ساتھ وہ جدید مسلم اسمبلی کے قانون سازی سے متعلق تگ و تاز کے بھی خلاف تھے، کیونکہ ان میں بیشتر وہ افراد ہوتے ہیں جو شریعت محمدی کے رموز اور نزاکتوں سے نا آشنا ہوتے ہیں۔ علامہ کے خیال میں: ”ایسی اسمبلی قانون کی تشریح میں سنگین غلطیوں کی مرتکب ہو سکتی ہے۔“
آخر علامہ نے مسئلہ کا حل کیا بتایا؟ ان کی تجویز تھی کہ: ”علما قانون ساز اسمبلی کا ایک اہم حصہ بن کر رہیں اور قانون سے متعلق سوالات پر آزادانہ بحث مباحثہ کی رہنمائی کریں۔“ یہ بھی ان کے نزدیک ایک عارضی مرحلہ تھا۔ ان کی خواہش تھی کہ مسلمانوں کا نظام تعلیم از سر نو تشکیل دیا جائے تا کہ ان میں ایک مربوط نصاب کے فضلا پیدا ہوں، جو بہ یک وقت کلاسیکی علوم اور جدید علمی افکار و نظریات کے ماہر ہوں۔
علامہ نہیں چاہتے تھے کہ اسلام کی تشریح جدید تعلیم یافتہ اشرافیہ کو سونپ دی جائے، کیونکہ ان لوگوں کی کچھ اپنی اڑچنیں تھیں اور وہ مطلوب اہلیت کے حامل نہ تھے۔
غلط تشریحات کے امکانات کا مؤثر ازالہ صرف ایسے ہی ہو سکتا ہے کہ مسلمان ممالک میں موجود تعلیمی نظام میں اصلاحات کی جائیں، اس نظام کے دائرے میں وسعت لائی جائے۔ اور جدید تفقہ اور قانون سازی کے عمیق دانشورانہ مطالعے کے ساتھ اس تعلیمی نظام کو مربوط اور جاری رکھا جائے۔
سیکولرز اور خطبہ الہ آباد
سیکولر حضرات جب علامہ اقبال کے خطبہ الہ آباد کو اپنے مخصوص انداز میں دیکھتے ہیں تو اس سے ان کے ذہنی سانچے کا پتہ چل جاتا ہے۔ اس سانچے کی یہ خصلت ہے کہ بات بگاڑی جائے، متن میں سے کچھ اہم نکات ساقط کیے جائیں اور اسے ایک ایسی نئی ترتیب دے دی جائے کہ بیان ان کے حسب منشا بدل کر رہ جائے۔ مثلاً یہ حضرات بضد ہیں کہ:
- علامہ اقبال نے اگر علاقائی انتخابی حلقوں اور صوبوں کی حد بندی کی بات کی تو اس سے ثابت ہوتا تھا کہ وہ اسلامی مملکت کے حامی نہیں تھے۔
- علامہ نے جب یہ کہا کہ صوبوں کی حد بندی اور تشکیل نو میں نسبتاً ہم رنگ آبادیوں، زبان، نسل، ثقافت اور مذہبی یگانگت کا لحاظ رکھا جائے تو گویا وہ مان رہے تھے کہ ان کے پیش نظر ریاست میں دین چار بنیادی اجزا میں سے ایک تھا (گویا سب پر حاوی نہیں تھا)۔
- علامہ نے ہندو انڈیا کو یقین دلایا تھا کہ مسلمان ریاست (یا ریاستوں) کا قیام دین و مذہب کی بنیاد پر نہیں ہوگا۔
بلا شبہ، اقبال نے یہی الفاظ استعمال کیے تھے لیکن یہ الفاظ ان کی تئیس صفحات پر محیط تقریر کا حصہ ہیں، جن کا ایک خاص پس منظر تھا۔ جسے نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ سیکولر حضرات ان الفاظ سے اپنی لادین ریاست کے حق میں جو نتائج اخذ کرتے ہیں وہ کھلی علمی خیانت ہے۔ اقبال کے تاریخی خطاب سے سیکولر گروہ نے جو کچھ نچوڑا ہے اس کا باقاعدہ تجزیہ کرنے سے پہلے یہ دیکھنا لازمی ہے کہ 1920ء کے عشرے میں جو تین گروہ یعنی ہندو انڈیا، برطانیہ اور مسلمان باہمی کشمکش میں مبتلا تھے، ان کا اپنا اپنا موقف کیا تھا۔ یہ مطالعہ کئی دوسرے ذرائع سے بھی ممکن ہے لیکن کیوں نہ اقبال ہی سے رجوع کیا جائے جنہوں نے اس خطبہ میں پوری طرح اس مسئلہ کی نقاب کشائی کر دی ہے۔ البتہ یہ بات پیش نظر رہے کہ یہ دوسری جنگ عظیم سے پہلے کی نو آبادیاتی دنیا تھی۔ برطانیہ نے ابھی اپنے مقبوضات سے دست برداری کا عندیہ نہیں دیا تھا۔ خلافت عثمانیہ کے انہدام کے نتیجہ میں برطانیہ کو اسلام سے جو خطرہ محسوس ہو رہا تھا اور مسلمانوں کی یہ تڑپ اور خواہش کہ اپنی پامال شدہ عظمت اور توقیر کی بازیافت ہو، دو ایسے عوامل تھے، جن کے اثرات اور عواقب سے انگریز چشم پوشی نہیں کر سکتے تھے۔ نیز، تب تک مسلمانوں کو یقین نہیں تھا کہ وہ برطانوی ہند کے انتظامی یونٹ سے چھٹکارا پا سکتے ہیں۔ اس حقیقت کو اس بات سے بھی تقویت ملتی ہے کہ ہندو اور انگریز دونوں ہی جداگانہ حلقہ ہائے انتخاب کے خلاف تھے۔ یہ زمینی حقیقت اقبال کے سامنے تھی، جن کو پیش نظر رکھتے ہوئے انہوں نے برطانوی وزیراعظم کا یہ حوالہ دیا کہ اس کی حکومت کے لیے پارلیمنٹ کے سامنے جداگانہ انتخابی حلقوں کی تجویز لانا ایک مشکل مسئلہ ہوگا، کیونکہ مخلوط طریق انتخاب برطانوی جمہوری احساسات و روایات کے زیادہ مطابق ہے۔
دوسری بات یہ کہ ہندوؤں کا یہ خوف کہ ان کی شمال مغربی سرحدوں پر ایک آزاد اسلامی ریاست ہو، اتنا بلا جواز بھی نہ تھا۔ کیونکہ وہ سمجھ رہے تھے کہ اس سے مسلم شناخت کو ایک نئی حرکی توانائی ملے گی اور مسلمانوں کی یہ خواہش بیدار ہو سکتی ہے کہ وہ اس پورے خطہ ہند کو دوبارہ حاصل کریں جس پر کم و بیش ہزار سال تک ان کی حکمرانی رہی۔
اقبال نے مختلف مواقع پر مذکورہ اندیشوں کو سامنے رکھ کر کبھی ترحیمی (elliptically) انداز میں اور کبھی اندازِ دگر بات کی، تاکہ کوئی راہزن مسلمانوں کی منزل کھوٹی کرنے کے لیے گھات نہ لگا سکے۔ جداگانہ انتخابات کے حق میں علامہ نے تین سطحوں پر دلائل دیے:
پہلی سطح پر ان کی دلیل یہ تھی کہ برطانوی ہند کی ثقافتی تکثیریت کے حامل معاشرہ میں مخلوط انتخاب حقیقی جمہوریت کی غمازی نہیں کرتے، کیونکہ اس سے مجلس قانون ساز میں مسلمانوں کی اصل نمائندگی ظاہر نہ ہو سکے گی۔ اس سطح پر اقبال جمہوری استدلال برتتے ہیں۔
دوسری سطح پر وہ یہ تجویز سامنے لاتے ہیں کہ علاقائی حد بندی کر دی جائے تو مسلمان جداگانہ انتخاب کے مطالبہ سے دست بردار ہو جائیں گے۔ یہاں علامہ اظہار کا وہ طریقہ اختیار فرماتے ہیں جس سے انگریز بہ خوبی واقف تھے، ایک سیکولر اظہار۔ لیکن باوجود اس ظاہر دست برداری کے، وہ علاقائی حد بندیوں میں مذہب اور ثقافت کو کمال خوبی سے لے آئے۔
”جس کا مطلب یہ بنتا تھا کہ علاقائی حد بندی ہو تا کہ ”یہ تسلی ہو کہ نسبتاً ہم جنس آبادیاں اکٹھی ہیں جن میں زبان، نسل، ثقافت اور مذہب کی ہم آہنگی ہو۔“
مذکورہ تین باتیں جس ترتیب سے بیان ہوئیں انہیں چوتھی بات یعنی مذہبی ہم آہنگی سے جدا کر کے نہیں لیا جا سکتا، کیونکہ مذہب اور دین وہ محلول ہے جس میں مختلف النوع لسانی، نسلی اور ثقافتی اکائیاں کھل کر یکجان ہو جاتی ہیں۔ اقبال کے نزدیک تو ثقافت یا کلچر دین و مذہب ہی کا ہم معنی ہے۔ زیر بحث خطبہ میں ہمیں کم از کم چھ بار اس کا اظہار ملتا ہے۔ ذیل میں ہم صرف چار کا ذکر کریں گے:
- باقی دنیا کی طرح ہندوستان میں بھی اسلام کی سماجی تشکیل، کلیتہً اسلام کے ایک ثقافت کے طور پر کام کرنے ہی سے ہوئی جسے تحریک ایک مخصوص اخلاقی تصور سے ملی۔
- مسلم سوسائٹی اپنی بے مثال یکسانیت اور اندرونی وحدت کی بدولت، پھل پھول کر وہ کچھ بنی جو آج ہے، اور یہ سب کچھ ان شرعی قوانین اور اداروں کے دباؤ سے ہوا جن کے ساتھ اسلامی ثقافت کا الحاق تھا۔
- اسلام کا دینی معیار اور تصور بنیادی طور پر اس معاشرتی نظم سے متعلق ہے جو خود اسلام کا پیدا کردہ ہے۔
- چنانچہ بغیر کامل ثقافتی آزادی اور مختلف قوموں پر مشتمل وفاقی سیاسی نظام کے، جو اپنے بہتر اور قابل قبول پہلو سے ثقافت اور کلچر ہی ہے، ایک ہم آہنگ قوم کی تشکیل مشکل مسئلہ ہوگی۔
تیسری سطح پر علامہ اقبال امن و امان کا قابل قبول نسخہ آزماتے ہیں، کیونکہ نو آبادیاتی نظام کے تسلسل کے لیے اس کی اہمیت واضح ہے۔ ہندوؤں اور مسلمانوں کی مسلسل کشمکش برطانوی ہند کے لیے سلامتی کے مسائل پیدا کر سکتے تھے۔ یہ دلیل علاقائی حد بندی کے حصول کے لیے بڑی مؤثر تھی۔ لاریب، علامہ ایک ذہین و فطین انسان تھے۔
علامہ اقبال کو معلوم تھا کہ انگریزی مفادات کے لیے اس طعمہ (bait) میں کافی کشش ہے۔ علامہ کے لیے یہ بات بھی کم اہم نہ تھی کہ آزاد اسلامی مملکت کے ضمن میں انگریز اور ہندو کا خوف کم کر دیں۔ یہاں بدیہی طور وہ دین کے دو تصورات میں فرق کرتے ہیں، یعنی: ایک وہ جو غیر مسلم سمجھتے ہیں اور دوسرا وہ جو خود مسلمانوں کا نقطہ نظر ہے۔ اقبال نے اپنے مخصوص لہجے میں کہا کہ:
”اسلام چرچ نہیں ہے۔ یہ تو مملکت ہے جس کا تصور ایک معاہداتی نامیہ کے طور پر ہوا، اسلام کے نزدیک انسان ایک روحانی وجود ہے جس کو سماجی میکنزم کی اصطلاحات میں سمجھا جا سکتا ہے نہ کہ جغرافیہ کے حوالے سے۔“
لیکن سیکولر طائفہ، اقبال کے فرمودات کو بل دیتے اور محض دو سطری بیان ساتھ لگا کر ان کی اگلی بات سے جوڑ دیتے ہیں، جیسے: ”نہ ہی ہندوؤں کو یہ خدشہ ہونا چاہیے کہ آزاد مسلم ریاستوں کے قیام کا مطلب کسی طرح کی مذہبی حکمرانی ہوگی۔“
آپ پورا پیرا ملا کر بہ یک نظر پڑھیں تو صاف مطلب یہ سامنے آتا ہے کہ ”اسلام چرچ نہیں ہے۔“ یعنی تھیوکریسی نہیں، بلکہ ایک ریاست ہے۔
مغرب والوں سے ایک مختلف انداز خطاب کی ضرورت تھی۔ اقبال جانتے تھے کہ مغرب چاہے تو عدم سے بڑی بڑی بلائیں وجود میں لے آئے اور پھر ان پر تیراندازی شروع کر دے۔ گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے جانے سے پہلے، علامہ نے بمبئی کرانیکل کو انٹرویو دیتے ہوئے پان اسلامزم کے دور پار کے اندیشوں کو رفع کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے اسے مغربی تخیل کی ایجاد قرار دیا اور اسے ”زرود خطرے“ (yellow peril) سے تشبیہ دی تا کہ مسلمان ملکوں میں ”یورپی جارحانہ یلغار“ کا جواز پیدا نہ کرایا جا سکے۔ اسی انٹرویو میں انہوں نے اس تاثر کو بھی کم کرنے کی کوشش کی کہ وہ دنیا بھر کے مسلمان ممالک کی کوئی ایسی یونین قائم کرنا چاہتے ہیں جو یورپ کے مقابل کھڑی ہو۔
اس سلسلہ میں انہوں نے بڑی ہنر مندی اور مشاقی سے پروفیسر براؤن کا نام لے دیا (جنہوں نے کہا تھا) ”پان اسلام ان معنوں میں کبھی قسطنطنیہ یا کہیں اور وجود پذیر نہیں رہا۔“
علامہ نے ڈاکٹر ایڈورڈ ٹامسن (Edward Thompson) کے ساتھ ٹائمنز لندن میں بھی اسی مشاقی کے ساتھ اپنے سوچے سمجھے استدلال کو دہرایا تا کہ انگریزی اندیشوں کا ازالہ ہو۔ انہوں نے لکھا کہ ”میں نے برطانوی ایمپائر سے باہر ایک مسلمان ریاست کا مطالبہ نہیں کیا، بلکہ موہوم مستقبل کے ممکنہ نتائج کی بات کی ہے، جس کی صورت گری برصغیر ہند میں آمادہ پیکار عظیم قو میں کر رہی ہیں۔“
انہوں نے ایک بار پھر انگریزوں کے ذاتی مفادات کو اپیل کرتے ہوئے کہا کہ ”وہ برطانوی ہند کی مطمئن اور پوری طرح منتظم صوبوں کی شکل میں تقسیم جدید چاہتے ہیں، جو ایشیائی سطح مرتفع کی بھوکی نسلوں کے خلاف برطانوی سلطنت اور (خود) ہندوستان کے لیے حفاظتی پشتے کا کام دیں گے۔“
اشارہ واضح طور پر سوویت روس کی طرف تھا، جس کے سائے شمالی مغربی ایشیا میں برطانیہ کے زیر اثر علاقوں پر پڑنے لگے تھے۔ اس وقت اقبال شاید یہ نہیں جانتے تھے کہ ان کے الفاظ محض نصف صدی کے اندر (1980ء کے عشرے میں) حقیقت کا روپ دھار لیں گے، جب پاکستان نے افغانوں کے ہاتھ میں ہاتھ دیا اور سوویت روس کو نہ صرف اپنی سرحدات کی طرف بڑھنے سے روک دیا، بلکہ پورے مغرب کو اس اشتمالی روسی خطرے سے محفوظ کر دیا، جس نے 1917ء سے اس کے قلب کو محاصرے میں لے رکھا تھا۔
کیا علامہ اقبال تضاد بیانی سے کام لے رہے تھے؟ مناسب ترین تشریح یہی ہوسکتی ہے کہ وہ ان نو آبادیاتی آقاؤں کے سامنے امن اور سلامتی کے لہجے میں بات کر رہے تھے جو لندن میں چوکس اور چوکنے بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ ان کے سامنے خطرے کی گھنٹی نہیں بجانا چاہتے تھے۔ اس سے پہلے ضروری تھا کہ مسلمان عوام کو ایک ولولہ تازہ دیا جائے، تاکہ انہیں انگریزوں اور ہندوؤں کی انجمن باہمی کے خلاف کھڑا کیا جاسکے۔ ایک خود مختار اور ہمہ مقتدر پاکستان کے حصول سے پہلے صوبوں کی تقسیم نو ایک دانش مندانہ حکمت عملی تھی، جب کہ تحریک پاکستان کے سرگرم ہونے میں ابھی کچھ وقت باقی تھا۔ چنانچہ اقبال نے سب سے پہلے ہندوستانی قومیت کے فرضی تصور کے بھئیے ادھیڑے اور مختلف النوع گروہوں میں ہندی قومی یگانگت کی عقیدے سے معمور امیدوں کو رسوا کیا۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے کل جماعتی مسلم کانفرنس دہلی کی قرار داد کی توثیق کی۔ لیکن جیسے کہ انہوں نے اس موقع پر کہا: ”ذاتی طور پر میں اس قرارداد کے اندر کیے گئے مطالبات سے آگے جاؤں گا۔ میں چاہوں گا کہ پنجاب، شمال مغربی سرحدی صوبہ، سندھ اور بلوچستان ایک مملکت میں مدغم کر دیے جائیں۔ خواہ یہ خود مختاری برطانوی راج کے اندر ہو یا اس کے بغیر۔“ علامہ نے پیش گوئی فرمائی کہ یہ اس علاقے کے مسلمانوں کی آخری منزل ہوگی۔
الہ آباد کا خطبہ ان کے خیالات کی ایک منظم تصویر ہے۔ اس میں وہ اس وفاقی خاکہ کی تفصیلات بتاتے ہیں جو گول میز کانفرنس میں سامنے آئی تھی۔ ہندی راجوڑوں کی وفاقی اسکیم کی حمایت اور ہندو لیڈروں کے ہاتھوں اس کی توثیق - حالانکہ ماضی میں وہ وحدانی طرز حکومت پر مسلسل زور دیتے رہے تھے - مگر یہاں پر اقبال کو اچھا خاصا جھٹکا لگا۔ انہوں نے محسوس کیا کہ اس میں جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کے خلاف انگریز، ہندو اور ریاستی راجوڑوں اور شہزادوں کا گٹھ جوڑ ہے۔ چنانچہ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر مسلمان خاموشی سے اس اسکیم پر رضا مند ہو گئے تو یہ: ”ان کے سیاسی تشخص کے فنا کی رفتار تیز کر دے گی۔“
علامہ کا ذہن اس بارے میں اتنا صاف تھا کہ انہوں نے وفاقی اسکیم میں برطانوی استعمار اور ہندو انڈیا کے درمیان ابھرتی مصالحت کو بھانپ لیا۔ اقبال کے الفاظ میں: ”تم مجھے (یعنی برطانیہ کو) ہند میں موجود رہنے میں مدد دو، اور میں تمہیں جواباً وہ ہندو اشرافیہ دیتا ہوں جو ہندوستان کی باقی اقلیتی آبادیوں کو مستقل طور پر زیر نگیں رکھے گی۔“
اب اگر اقبال نے یہی کچھ کہا ہے تو کیا یہ حد درجہ ظلم نہیں کہ ان کے ساتھ وہ باتیں اور خیالات جوڑے جائیں جو اصلاً علامہ کا مطلب تھا ہی نہیں۔ کوئی بتائے، اگر واقعی وہ اس بات پر راضی تھے کہ محض ”صوبوں کی حد بندی ہو جائے، اور خالص علاقائی انتخابی حلقے وجود میں آجائیں“ تو پھر وہ غلامی اور محکومی کیا تھی جس کا وہ ذکر کر رہے تھے؟ لہٰذا، اقبال کے خطبہ کا بہ نظر غائر مطالعہ بتاتا ہے کہ 1930ء کی ہر دم بدلتی صورت حال میں جب کہ سلطنت برطانیہ نصف النہار پر تھی اور ہندو انڈیا مسلمانوں کو گرفت میں لینے کے لیے ہمہ رنگ تیاریوں میں مصروف تھا، وہ اس منظرنامے میں دیکھ رہے تھے کہ حالات مسلمانوں کے خلاف جارہے ہیں۔ اگر ایک طرف جال کا ایک روپ نہرو کا سوشلزم تھا، تو دوسری طرف جال کا دوسرا روپ لادین انگریزی جمہوریت تھی۔ ایسے نامساعد حالات میں اگر ایک طرف انہیں اپنی قوم کو خبردار کرنا تھا تو دوسری طرف مخالف قوموں کے منفی عزائم کو بے اثر بھی کرنا تھا۔ یہ ایک مشکل کام تھا لیکن علامہ زمین دوز بارودی سرنگوں پر سے کمال حکمت اور دانش کے ساتھ آگے بڑھتے رہے، تا کہ مسلمان ذہن کو پراگندگی اور انتشار سے نکال کر انہیں مستقبل کے لیے تیار کیا جا سکے۔
بے شک علامہ عام مسلمانوں کی سوچ سے بہت مستقبل بین انسان تھے۔ انہوں نے 1930ء کے خطاب میں چار باتیں نمایاں کیں:
- اسلام نہ تو چرچ ہے نہ تھیوکریسی۔ اسلام ایک مملکت ہے، ایک ہمہ گیر نظامِ حیات اور ایک طرز حکومت جو ہر لحاظ سے ایک ارضی حقیقت اور ہر دوسرے نظام سے بہتر ہے۔ خطبہ کے اس پہلو نے سیکولر نظریہ حیات کو کلیتہً منہدم کر دیا ہے۔
- ہندوستانی قومیت مسلمانوں کا مسئلہ نہیں، یہ ایک ناممکن خواب ہے۔ مسلمان اس سحر سے نکلیں۔ خطبہ کے اس پہلو نے دوسرے سیکولر تصور کا خاتمہ کر دیا۔
- جداگانہ انتخابی حلقے اور مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان علاقوں کی تقسیم ایک عملی منصوبہ کے طور پر لینے چاہئیں تا کہ مختلف النوع ہندوستان میں امن اور ہم آہنگی کو فروغ ملے ۔ یہ علامہ کی مدبرانہ حکمت عملی تھی، تا کہ اس وقت کے برطانوی ہند میں وہ سازگار ماحول پیدا کیا جا سکے، جو تخلیق پاکستان کا باعث بنے۔
- مسلمانوں کے لیے مناسب یہی ہوگا کہ مستقبل میں اپنے لیے ایک مستحکم اور متحد مملکت قائم کرنے کا راستہ اپنائیں۔
اگر اس سب کے باوجود سیکولر مرد و زن اقبال کو لادین چہرہ دینا چاہتے ہیں تو پھر اسے کیا کہا جائے، مکر فریب یا خود فریبی؟
باب 10
قائد اعظم محمد علی جناح کی سیکولر صورت گری
قائد اعظم محمد علی جناح کی سیکولر صورت گری
سال 2001ء کے موسم گرما نے کئی شعلے بھڑکتے دیکھے۔ پہلی آگ نیو یارک کی قسمت میں آئی جب اس کے افق سوختہ ساماں نظر آئے۔ پھر افغانستان کی باری آئی اور اسے پتھر کے دور میں واپس دھکیلنے کی خواہش میں امریکہ اور اس کے حلیفوں نے انسانی تاریخ کی بدترین بم باری کی۔ اس آگ کی تپش پاکستان تک بھی پہنچی۔ جونہی امریکہ کا چند حرفی پیغام آیا: ”تم یا تو ہمارے ساتھ ہو، ورنہ دہشت گردوں کے ساتھی“ تو پاکستان کا اسلامی امتیاز ہکلانے لگا، گویا اسلامی احساسِ فکر، اس کی روح میں اتری ہوئی حقیقت نہ ہو بلکہ محض اتفاقی رویہ ہو۔
ہیئت مقتدرہ کی غیروں کی نگاہ میں با اعتبار رہنے کی تڑپ یا بالفاظ دیگر تشخص کی زیر دستی ہر دوسری چیز ماپنے کا پیمانہ بن گئی۔ اس سے پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا تھا کہ سیکولرزم کو اقتدار کے ایوانوں میں اتنی گستاخ اور توانا گونج اٹھانے کا موقع ملا ہو۔ کسی چینی یا جاپانی خاتون کی طرح جو سرجری قبول کرتی ہے کہ اس کا روپ آریائی ہو جائے، ہم نے تالیوں کی گونج میں نیا بہروپ بدلنے کا فیصلہ کیا۔ کسی نے اسے ”دنیا ترقی پسند پاکستان“ کہا اور کسی نے اسے ”معتدل پاکستان“ کا نام دیا۔
اس عمل کے دوران صاحبان اقتدار اور ان کے سیکولر ہم نواؤں کو یہ یاد نہ رہا کہ ایک ایسی قومی نفسیات سے کھیلنا جس کی جڑیں ایک توانا روایت میں پیوست ہوں اور اس کی جگہ ایک نئی ذہنی کیفیت پیدا کرنا، جس کا قومی تاریخ سے کوئی واسطہ نہ ہو، نری بربادی کا راستہ ہے۔ آخر یہ کیسے ممکن ہے کہ لوگ اپنے وجود کے اجزائے ترکیبی کو بھول جائیں۔ ان کی تاریخ، ان کے اطوار و روایات اور سب سے زیادہ محترم ان کی روح کی وہ سرگوشی کہ وہ دوسروں سے مختلف ایک منفرد تہذیبی مقام کی حامل قوم ہیں اور جس کی جداگانہ حیثیت اسلام کی عطا ہے۔ اس ترکیب کو نئی شکل دینے کا مطلب عوام الناس کی فطرت سے جنگ ہے۔ مسلمانوں کی اپنی عقیدۂ حیات سے بے پناہ محبت کہ جس نے انہیں اس جہان ہست و بود میں عزت اور سر بلندی دی اور ان کے شرف انسانی کو سند جواز بخشا۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے کسی بقراطی عقل کی ضرورت نہیں کہ مسلمانوں کی اس ذہنی اور نفسیاتی ترکیب کو نئی شکل دینے کا مطلب عوام الناس کی فطرت سے جنگ ہے۔ لبرل ہیئت مقتدرہ جانتی نہیں، یا جانتے بوجھتے انجان بن رہی ہے کہ اسلامیت کو ختم کرنے کی یہ مشق ہماری قوم کو محض مشت خاک بنا دے گی۔ لیکن افسوس دوسروں کو خوش کرنے کی ترنگ نے ہر قدرِ خیر کا گلا گھونٹ کر رکھ دیا۔
ان صورت گروں کو البتہ دو باتوں نے خوف زدہ کر رکھا ہے: قومی ہیئت کذائی میں اس نویلی تبدیلی کو کیسے برحق ثابت کریں؟ بعض نے کہا کہ نیم سیکولر نظم اپنا لو اور اس بات کی پروا مت کرو کہ اس تشکیل نو کے لیے پیش کی جانے والی منطق کتنی بودی اور بے معنی ہے۔ دوسروں نے رائے دی کہ آزاد لبرل ازم کو گلے لگاؤ (گویا یہ زیادہ قابل قبول شکل تھی) لیکن اس کے خدوخال بیان کرنے کا تکلف مت کرو۔ ایک تیسرا حلقہ بھی ہے جس نے یہ دونوں اصطلاحات مترادف استعمال کیں۔ آخر میں ایسے بھی ہیں جو انہیں یوں پیش کر رہے ہیں جیسے لبرل ازم اور سیکولرزم اپنی اصل میں مختلف ہوں۔ پاکستان کی اس بزدلانہ اور بدیانت فضائے دانش میں، جہاں یہ سیکولر ہم سفر ابہام کو ترجیح دیتے ہیں، کوئی وضاحتی تعریف سامنے نہیں آتی کیونکہ یہ لوگ جانتے ہیں کہ ایک بار انہوں نے اپنے حرف محبوب کی تشریح کر دی تو انہیں لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔
چنانچہ انہوں نے قائد اعظم کی 11 اگست 1947ء کی تقریر کا سہارا لیا، جسے یہ اکثر پارہ پارہ کر کے سناتے رہتے ہیں، تاکہ لوگوں کو یقین آجائے کہ قائد اعظم نے اپنی زندگی میں بس یہی کچھ فرمایا تھا۔ انہوں نے بعض منتخب حصے ایک طرف اٹھا کر رکھ دیے اور چند دل پسند پہلوؤں کی ملمع کاری شروع کردی۔ حالانکہ قائد کے تصور اور شخصیت کو سمجھنے کے لیے مجموعی متن اور جدوجہد کے پورے منظر نامے کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ مثلاً سیکولر طرز فکر کے لوگ اسی امر واقعی سے صرف نظر کرتے ہیں کہ قائد اعظم کی سیاسی زندگی کم و بیش پچاس سال پر محیط ہے۔ لاکھوں کروڑوں لوگوں نے انہیں سنا اور تشکیل پاکستان کے کاز میں ان کے ہم آواز اور ہم رکاب رہے۔ اور یہ سب کچھ دن کے اجالے اور تاریخ کی روشنی میں ہوا۔ صرف 11 اگست کی تقریر نہ تو یکتا تھی کہ قائد اعظم کسی اور موضوع پر نہ بولے ہوں اور نہ یہ ان کا آخری خطاب تھا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق قائد اعظم نے 1940ء سے 1947ء تک کے عرصے میں ایسی 90 اہم تقاریر کیں، جن میں انہوں نے مسلم عوام کو یقین دلایا کہ جو پاکستان وجود میں آ رہا ہے وہ اسلامی ہوگا۔ ان کا ذیل میں قول دیکھیے:
”پاکستان کا مطلب محض آزادی اور استقلال نہیں۔ اس کا مطلب مسلم نظریہ ہے جسے ہم نے بچانا ہے، جو ہم تک ایک بیش قیمت ہدیے اور خزانے کے طور پر منتقل ہوا، اور جس کے متعلق ہمیں امید ہے کہ دوسرے بھی ہمارے ساتھ اس سے مستفید ہوں گے۔“
قائد اعظم نے یہ بھی فرمایا کہ مسلم لیگ پاکستان کا مطالبہ اس لیے کر رہی ہے، تاکہ مسلم عوام وہاں اسلامی قوانین کے تحت حکمرانی کریں۔ دستور ساز اسمبلی کی نوعیت واضح کرتے ہوئے قائد نے فرمایا:
”مجلس دستور ساز… مسلمانوں کے لیے ایسی قانون سازی کر سکے گی جو شرعی قوانین سے متصادم نہیں ہوگی۔ مسلمان اب مزید مجبور نہیں ہوں گے کہ غیر اسلامی قوانین کا اتباع کریں۔“
اب اگر سیکولر حلقہ یہ کوشش کرتا ہے کہ قائد اعظم کو ایک متلون مزاج شخصیت کے طور پر پیش کیا جائے، جس نے اسلامی پاکستان کے ضمن میں عوام سے کیا ہوا وعدہ گیارہ اگست 1947ء کو اٹھا کر طاقِ نسیاں پر رکھ دیا تھا تو وہ اصلاً اخلاقی حوالے سے قائد کی کردار کشی پر تلا ہوا ہے اور پوری ڈھٹائی سے ایسا کر رہا ہے۔
یہ کوئی ایک موقع نہیں جب سیکولر حضرات نے قائد اعظم کی توہین کی ہو۔ نہ انہوں نے اپنی ان کوششوں میں کمی آنے دی ہے کہ تحریک پاکستان میں رچا بسا اسلامی رنگ کھرچ کر رکھ دیں۔ علامہ اقبال کی زندگی کا ایک واقعہ اس صورت حال کی وضاحت کر دیتا ہے۔ میاں افتخار الدین اور جواہر لال نہرو جیسے لادین ان کے پاس آئے اور انہیں قائل کرنا چاہا کہ وہ مسلمانوں کی قیادت اپنے ہاتھ میں لے لیں، کیونکہ مسلمان جناح سے زیادہ ان کی عزت کرتے ہیں۔ علامہ مرحوم نے اس تجویز میں چھپا فتنہ بھانپ لیا کہ وہ قائد کے زیر کمان قائم مسلم اتحاد کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ غصے میں بھرے ہوئے علامہ نے جواب دیا: ”مسٹر جناح ہی مسلمانوں کے اصل لیڈر ہیں اور میں تو ان کا ایک معمولی سپاہی ہوں۔“ اقبال جو اسلام کے شیدائی تھے، جانتے تھے کہ ان کے اسلامی پاکستان کے خواب کی تعبیر قائد اعظم ہی کے ہاتھوں ممکن تھی ۔ ارسطو کو سکندر اعظم کی پشت پر کھڑا ہونا ہی تھا۔
قائد اعظم کے اسلامی جوہر کا اندازہ اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ انہوں نے رتی بائی سے شادی کے لیے یہ شرط رکھی تھی کہ وہ پہلے اسلام قبول کرے۔ پھر سول میرج کے بجائے اپنا نکاح ایک مولوی سے پڑھوایا۔ قائد اعظم نے اپنی اکلوتی بیٹی سے صرف اس لیے قطع تعلق کر لیا کہ اس نے ایک غیر مسلم سے شادی کر کے اسلام سے ناشائستگی کا مظاہرہ کیا تھا۔ قائد کے سوانح نگار سٹینلے ولپرٹ (Stanley Wolpert) انہیں ایک قدامت پسند انسان کے طور پر پیش کرتا ہے۔ رتی بیگم سے ان کی تفریق کی وجہ قائد کا روز بروز اسلام کی طرف رجحان تھا۔ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ قائد اعظم نے مذہبی بنیادوں پر اپنی قومیت کے اظہار پر نہ صرف اصرار فرمایا اور سیکولر ہند سے اس وقت اپنی راہ جدا کر لی، جب انہوں نے جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کی حالت زار کا ادراک کر لیا۔ اس سے وابستہ یہ حقیقت بھی ہے کہ وہ اسلامی نظام کے بقا میں مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ دیکھ رہے تھے۔ اس لیے جب انہوں نے یہ کہا کہ پاکستان اسلامی طرز حیات کی تجربہ گاہ ہو گا تو مسلمان دیوانہ وار ان کی آواز پر لپک پڑے۔
سیکولر حلقے نے مسلمانوں کے اس تاریخی رویے کو یوں نظر انداز کیا جیسے یہ کوئی امر واقعہ نہ تھا بلکہ کوئی اضافہ تھا۔ وہ یہ سب کچھ نگل گئے۔ ان کی یہ متشددانہ خواہش کہ کسی طرح مملکت پاکستان کو اس کے اسلامی تشخص سے محروم کر دیا جائے، انہیں ہر قسم کے جھوٹ اور مکر پر مسلسل مجبور کر رہا ہے۔ وہ قرآن، حدیث نبوی اور پاکستان کی دستوری تاریخ کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرنے سے تو عاجز ہیں، کیونکہ ان ماخذوں میں انہیں کوئی مفید مطلب نکتہ ہاتھ نہیں آ رہا۔ آخری حربے کے طور پر صرف محمد علی جناح ہی کو سیکولر میک اپ دے کر کچھ سند جواز حاصل کرنے کی کوشش کی جاسکتی تھی۔ لیکن یہاں بھی سوائے گیارہ اگست 1947ء کی اکلوتی تقریر کے، جسے ان لوگوں نے پوری بے دردی سے سیکولر پس منظر میں رکھ کر دکھانے کی کوشش کی، باقی کچھ بھی عام لوگوں کے سامنے لانے سے قاصر رہے۔ معمار پاکستان نے انہیں بہت بری طرح مایوس کیا۔
مجلس دستور ساز… مسلمانوں کے لیے ایسی قانون سازی کر سکے گی جو شرعی قوانین سے متصادم نہیں ہوگی۔ مسلمان اب مزید مجبور نہیں ہوں گے کہ غیر اسلامی قوانین کا اتباع کریں۔
مثلاً، وہ قائد اعظم کو ایک ایسا آزاد خیال باور کراتے ہیں جس کے پیش نظر ایک لادین سیکولر ریاست تھی۔ اس کے برعکس وہ لوگ جو دستور کا حوالہ دیتے ہیں اور مملکت پاکستان کے اسلامی جوہر پر زور دیتے ہیں، وہ سب ان کی نگاہ میں عقل و برہان کے دشمن ہیں۔ ہر طرح کی حسیات کو پائے استحقار سے ٹھکراتے ہوئے ان لادینوں نے دستور اور اسلام کی بات کرنے والوں پر بہتان و دشنام کی بوچھاڑ کر دی کہ یہ ”جنونی، سر پھرے ہیں، رجعت پسند ہیں“ اور ”ہٹ دھرم ہیں۔“
لیکن خود یہ لبرل ازم (آزاد روی، روشن خیالی وغیرہ) کیا بلا ہے؟ جب یہ لوگ جناح صاحب پر لبرل ہونے کا ٹھپہ لگاتے ہیں، تو وہ کہنا کیا چاہتے ہیں؟ وہ اس کی کوئی وضاحت نہیں کرتے۔ لیکن جب تک لبرل ازم کی باقاعدہ تعریف متعین نہ کی جائے تو لفظ ”لبرل“ جیسا کہ یہ لبرل حضرات استعمال کرتے ہیں محض ایک ڈھیلا ڈھالا اظہار رہے گا۔
یہ بات ایک رمزیہ مذاق سے کم نہیں لگتی، لیکن واقعہ یہی ہے کہ جب کل ہند مسلم لیگ نے مسلمانوں کے لیے پاکستان کا مطالبہ کیا تو ہندوؤں کو اس کی ہجو میں رجعت پسندی کی پھبتی ہی سوجھی تھی۔ جواہر لال نہرو نے انڈین کانگریس کے روبرو اپنی تقریر میں یہ کہا تھا کہ عام مسلمان آبادی رجعت پسند نہ تھی کیونکہ وہ کانگریس کی ہم نوا تھی۔ نہرو کے بہ قول رجعت پسند سب کے سب مسلم لیگ کے ساتھ تھے۔
30 مارچ 1941ء کی اشاعت میں کانگریس پارٹی کے اخبار میں ہندوؤں کی ذہنی ترجمانی کرتے ہوئے ایک مضمون چھپا، جس میں انہوں نے واشگاف کہا: ”دو باتوں پر کوئی مصالحت ممکن نہیں۔ ملک کی ایسی تقسیم نا قبول ہوگی جس سے جنونیوں (fanatics) کے ارادوں کی تکمیل اور ان کے ذوق کی تشفی کا ساماں ہو۔“
قائد اعظم نے مسلم لیگ کے مدراس سیشن کے خطبہ صدارت میں مذکورہ بیان کا تعاقب کیا اور ہندو سیکولر چیخ و پکار کی حقیقت اپنے مشہور زمانہ اسلوب بیان سے کھول کر رکھ دی، جو پوری تحریک کے دوران ان کا امتیاز رہا۔ قائد کے الفاظ تھے:
”جب یہ لوگ تقسیم کا ذکر کرتے ہیں تو مسلمان کو جنونی بتاتے ہیں لیکن جب یہ خود ہندو ازم کی بات کرتے ہیں تو اپنے آپ کو لبرل اور قوم پرست کا نام دیتے ہیں۔“
فی الحقیقت برطانوی ہند میں یہ مسلم قومیت کا اسلامی چہرہ اور کردار ہی تھا، جس نے ہندو اور مسلمان میں مستقل جدائی ڈالی۔ قائد اعظم، لالہ لاجپت رائے کے سی آر داس کے نام خط (دیکھیے اندر اپراکاش کی کتاب) کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:
”رائے کہتا ہے: ”میں نے گزشتہ چھ ماہ اپنا بہت سا وقت مسلم تاریخ اور مسلم قانون کے مطالعے میں صرف کیا، اور میں سوچنے پر مجبور ہوا کہ ہندو مسلم اتحاد نہ تو ممکن ہے اور نہ قابل عمل…. میرا خیال ہے ان کا مذہب ایسی کوشش پر مؤثر روک لگاتا ہے۔ تمہیں میری حکیم اجمل خان اور ڈاکٹر کچلو سے گفتگو یاد ہے، جو میں نے تمہیں کلکتہ میں سنائی تھی۔ ہندوستان میں حکیم اجمل خان سے زیادہ نفیس مسلمان کوئی نہیں لیکن کیا کوئی ایک بھی ایسا مسلمان لیڈر موجود ہے جو قرآن کو پس پشت رکھ کر فیصلہ کر سکے؟ کاش میرا اسلامی قانون کا مطالعہ جو نتائج دے رہا ہے وہ صحیح نہ ہوں۔“
یہاں پہنچ کر قائد اعظم کا چہرہ ایک اندرونی تاثر سے جگمگا اٹھتا ہے۔ وہ ایک روشن چھب ڈھب کے ساتھ اپنی بنی سنوری مسکراہٹ لبوں پر لاتے ہیں اور ایک ڈرامائی توقف کے بعد کہتے ہیں: ”میرا خیال ہے رائے کا مطالعہ بالکل صحیح ہے“ (محفل میں زور دار قہقہہ)۔
یہ بات بڑی معنی خیز ہے کہ اس تاریخی مکالمہ میں ہندو حضرات، قائد اعظم کو الزام دیتے ہیں کہ وہ رجعت پسند تھے، کیونکہ وہ علاقے اور نسل کی بنیاد پر قائم قومیت کے لادین تصور کو تسلیم نہیں کرتے تھے۔
پھر یہ لبرل ازم ہے کیا جس کی تعریف سیکولر کھل کر نہیں کرتے؟
انسائیکلو پیڈیا آف سوشل سائنسز میں گیدو دی روگیرو (Guido De Ruggiero) لبرل ازم کا تعارف یوں کراتا ہے:
”وہ گہرا پختہ رویہ جو پہلے سے طے کردہ مزعومات کی روشنی میں انسانی معاملات کا تجزیہ کرتے ہوئے انسانی معاشرہ کے مختلف النوع عقلی، اخلاقی، دینی، سماجی، اقتصادی اور سیاسی تعلقات کو مربوط دکھانے کی کوشش کرتا ہے۔“
چنانچہ لبرل ازم کے سامنے اپنا ہی ایک سماج ہے، جس میں انسان خود ہی خیر وشر کے درمیان ثالث اور حکم بنا بیٹھا ہوتا ہے جبکہ مذہب اور اخلاقیات کو کنارے لگا کر غیر منفعل بنا دیا جاتا ہے۔ دی روگیرو بات جاری رکھتے ہوئے کہتا ہے:
”ایسی کسی مداخلت خواہ وہ اخلاقیات کی طرف سے ہو یا مذہب کی طرف سے یا پھر عقل، سماجی، اقتصادی اور سیاسی دائروں میں ہو رہی ہو، لبرل ازم نے ہمیشہ اپنی فوجیں صف آرا رکھیں۔“
چنانچہ یہ لبرل اصطلاح کی تعریف نہیں بلکہ تحریف ہوگی کہ اسے ایک روشن خیال ذہن، ایک کھلے دل اور آزادی پسند روح ثابت کیا جائے۔ لفظ لبرل کے استعمال میں یہ شکیلی انداز کچھ دکھانے سے زیادہ چھپانے کی کوشش ہوگی۔ ڈیوڈ سمتھ تو یہاں تک کہتا ہے:
”آزاد رو اکثر مذہب (کے معاملے) میں غیر مقلد، بلکہ لادین اور متشلک (skeptics)، یہاں تک کہ مذہب کے دشمن واقع ہوئے ہیں۔“
کیا سیکولرزم اور لبرل ازم ایک ہی چیز ہیں؟ یہ دونوں باہم مختلف بھی ہو سکتے ہیں اور یکساں بھی، حالانکہ اختلاف محض گردان میں ہوگا۔ دونوں ہی مذہب کو ثانوی حیثیت دیتے ہیں اور انسانی زندگی میں خدا کے مرکزی کردار کے منکر ہیں۔ دونوں کو اصرار ہے کہ وہی ایسے طریق ہائے حیات ہیں جن پر کوئی حرف گیری نہیں ہو سکتی۔ مزید برآں یہ ہمیشہ سیکولر رواج اور مزاج رہا ہے کہ مذہب کو برداشت نہیں کرنا، بالخصوص جہاں مذہب پبلک معاملات میں کردار ادا کرنے اور خود ترجیحات متعین کرنے پر زور دیتا ہے۔ مغرب ہو یا مشرق، سیکولر ہر جگہ اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ مکالمہ کے در و بست وہ خود طے کریں گے۔ اس سے بھی بد تر بات یہ ہے کہ وہ اپنے مخالفین کا زاویہ نظر بھی خود ہی تخلیق کرتے اور بتاتے رہتے ہیں، بلکہ ان کے عقیدہ و نظریہ کے اجزائے ترکیبی بھی طے کر دیتے ہیں۔ امریکی اسکالر ایڈورڈ سعید جو خود بھی لبرل ہے، اس طرح کے رویوں کو زبردستی کی مشق کا نام دیتا ہے۔
روحِ قائد کو بے چین کرنے کے لیے یہ الزام عائد کر دینا کافی ہے کہ وہ سیکولر پاکستان چاہتے تھے۔ اگر وہ آج زندہ ہوتے تو اپنی 25 جنوری 1948ء کی وہ تقریر ضرور دہراتے جو انہوں نے کراچی بار ایسوسی ایشن کے سامنے کی تھی۔ قائد نے کہا تھا:
”وہ ایسے لوگوں (سیکولر پڑھیے) کو سمجھ نہیں پائے، جو جان بوجھ کر فتنے کھڑے کرتے ہیں اور پروپیگنڈا کرتے ہیں کہ پاکستان کا دستور شرعی بنیادوں پر تشکیل نہیں دیا جائے گا۔“
یہ کہنے کے بعد اس خیال سے کہ کوئی ذرہ بھر شک باقی نہ رہے، قائد نے ایک حتمی بات کہی:
”اسلامی اصولِ حیات آج بھی ویسے ہی قابل عمل ہیں جیسے 1300 برس پہلے تھے۔“
قائد کا یہ خطاب گیارہ اگست کی تقریر کے بعد کا ہے۔
اس لیے سیکولر حضرات کے پاس اب دو ہی راستے ہیں:
- پہلا، یا تو اعلان کر دیں کہ جناح نے 11 اگست 1947ء سے پہلے یا بعد میں اسلامی پاکستان کے حق میں کوئی تقریر نہیں کی تھی۔
- دوسرا رویہ تاریخ کے منہ پر گھلا جھوٹ ہوگا۔ دوسرا رویہ یہ اصول طے کرتا ہے کہ آخری بیان گزشتہ بیان کو منسوخ کر دیتا ہے۔ چنانچہ کیا سیکولر حضرات اپنے قائم کردہ معیار کی روشنی میں یہ ماننے پر تیار ہیں کہ جناح کی 25 جنوری 1948ء کی تقریر نے 11 اگست 1947ء کے بیان کو بے اثر بنا کر رکھ دیا ہے؟ بہتر ہوگا اگر یہ لوگ فیصلہ خود کر لیں۔
باب 11
دریدہ دہن آزاد خیالیاں
دریدہ دہن آزاد خیالیاں
اگر تسلیمہ نسرین کی اسلام کے خلاف دشنام طرازی سوچی سمجھی تھی، تو بنگلہ دیشی عوام کا غم و غصہ ایک زخم خوردہ قوم کا فطری جواب تھا۔ اس برابر کے مخالفانہ رد عمل پر جہاں غیر ملکی میڈیا نے اپنی فطرت کے عین مطابق تسلیمہ کی دریدہ دہنی کو جرات و حوصلہ سے موسوم کیا، اور قرآن کے خلاف اس کی تہذیب سوز یاوہ گوئی کو تحسین کی نگاہ سے دیکھا، وہاں اس کے پاکستانی آزاد خیال ہم نوا آگ اگلتی زبانوں اور ہذیان زدہ قلم کاریوں کے ساتھ اس کے دفاع میں کود پڑے۔
کتابِ الہیٰ کی توہین کے خلاف بنگلہ دیشی رد عمل کو ان حضرات نے ”عوامی دیوانگی“ کا نام دیا۔ ان آزاد خیالوں نے، جو ہر غیر اسلامی موجب و سبب کو گلے لگا کر خوش ہوتے ہیں، پاکستان میں چند ایسے افراد کے خلاف مقدمات کو بھی ہدف تنقید بنایا جن پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کا الزام تھا۔
معدودے چند اظہار نویسوں کے، جنہوں نے معاشرے میں برداشت اور تہذیب کی تلقین کی، باقی سب گلے پھاڑ کر جینے لگے۔ انہوں نے عوام کے غیر منظم رد عمل کو اسلامیانے کی اشرف و نجیب دعوت سے جا جوڑا اور معافی تلافی کی دہائی دی۔ پھر ساتھ ہی اسلام کو فرسودہ نظام بتا کر بدنام کرنے کی کوشش میں اس کے نفاذ کو رجعت قہقری قرار دیا، اور ساتھ ہی یہ رونا بھی رویا کہ اگر رد عمل میں آکر مسلمانوں کی اسلام سے وابستگی کا یہ انداز روکا نہ گیا تو اس مشق کا نتیجہ لاقانونیت اور نا تہذیبی کی شکل میں سامنے آئے گا۔ کچھ اور لوگوں کو ان واقعات میں کسی بڑے مقصد کے لیے رواں کار میکنزم نظر آیا۔ ان کی چیخ و پکار کی اصل وجہ شاید یہی خوف ہے۔
ایسی اکثر تحریروں میں تجزیاتی آلات و طرق ”نو مارکسی“ ہیں۔ اقبال احمد جیسے حضرات نے تو مسلمان دنیا کے لیے مخصوص مارکسی فقرے تک کو استعمال کیا، ”بھوت جو یورپ کے سر پر منڈلا رہا ہے۔“ یہ تحریریں جہاں دخانی لفاظی سے عبارت ہیں، وہیں پاکستان کے خلاف مغربی ایجنسیوں اور حکومتوں کو فتنہ انگیز مواد فراہم کرتے ہوئے حملہ آور ہونے کے لیے راستے بھی بچھاتی ہیں، جو یقیناً قابل اعتراض اور افسوس ناک ہے۔
آزاد خیالوں کو بھی کسی دیگر جارح قوتوں کی طرح پوری آزادی حاصل ہے کہ جب جی چاہے جس کی چاہے ایک خیالی دشمن تصنیف کر کے اس پر چڑھ دوڑیں۔ لیکن برداشت، تہذیب اور شائستگی کا درس دینے کے بعد جب یہ لوگ تسلیمہ نسرین کا معاملہ اٹھاتے ہیں اور اس کا موازنہ سلمان رشدی کے کیس سے کرتے ہیں تو پھر یہ اپنے آپ کو اس گرد و غبار سے اٹی فضا میں لے آتے ہیں، جہاں حقائق اور تعصب، کج بحثی اور ضد میں فرق کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اسی لیے یہ دیکھ کر قطعاً تعجب نہیں ہوتا کہ تسلیمہ کا دفاع کرتے ہوئے یہ مرد و زن ہر قدم پر خود اپنی تردید کرتے جاتے ہیں۔
مثلاً لبرل حضرات توہین رسالت قوانین کے خلاف ہیں اور انہیں کلیہً نو آبادیاتی آقاؤں کا تحفہ قرار دیتے ہیں۔ لیکن جہاں یہ مسلمان عوام کے رد عمل پر تنقید کرتے ہیں، وہیں یہ مطالبہ بھی کرتے ہیں کہ معاملہ ”ٹھنڈے مزاج کے قابل اعتماد ججوں کے سامنے پیش“ ہونا چاہیے۔ بظاہر یہ مناسب توقعات ہیں، لیکن مشکل یوں پیدا ہوتی ہے کہ اگر توہین رسالت کے حوالے سے نہ کوئی قانون ہو، اور نہ مجاز عدالت تو ان کی مطلوبہ منصفانہ سماعت کیسے ممکن ہوگی؟ معلوم ہوتا ہے یہ لوگ حواس باختہ ہو گئے ہیں اور انہیں ڈھنگ کی بات نہیں سوجھ رہی۔ اقبال احمد جیسے پختہ کار مارکسی دانش ور، توہین رسالت کے قانون کو نو آبادیاتی دور کا تحفہ قرار دیتے ہیں لیکن اسی روانی میں یہ بتانا بھول جاتے ہیں کہ اگر نو آبادیاتی دور کے دیے ہوئے توہین رسالت کے قوانین کو نکال دیں تو باقی مقدس ورثہ جو انہیں سابق آقاؤں سے ملا ہے اس کا کیا کریں گے۔ یعنی باقی سب نو آبادیاتی قوانین بہ خوشی قبول اور منظور؟
لیکن زیر بحث موضوع پر انہوں نے صرف اتنا ہی نہیں لکھا۔ چلتے چلاتے انہوں نے کچھ اور ذیلی موضوعات بھی اچھالے ہیں:
- اول، آزادی اظہار کا حق جہاں یہ ایک قابل قدر موضوع ہے، وہیں اس کی حمایت میں ایک رمز گراں بار بھی موجود ہے۔ ہمارے لبرل حضرات، ذمہ دارانہ آزادی صرف مسلمانوں کے لیے مخصوص کرتے ہیں۔ لیکن تسلیمہ اور اس کے ہم نواؤں یا ان غیر مسلموں کے لیے جو مسلمان معاشرے میں رہتے ہوئے ہزل گوئی کرتے ہیں، بے قید آزادیاں مانگتے ہیں تا کہ جس کا جی چاہے مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرتا پھرے۔
- ثانیاً، اسلامیانے کا مطالبہ، جس پر اقبال احمد ”نو اسلامی“ کا ٹھپہ لگاتے ہیں، ایک دلچسپ ترکیب ہے، جو انہوں نے چست کی ہے۔ لیکن ایسی اصطلاحات وضع کرنے کی ان کی پسند اور مشغلہ اپنی جگہ، اس کا جو ظاہر مطلب بنتا ہے وہ یہ ہے جیسے اسلامیانے کی تحریک بیسویں صدی کی پیداوار ہو، جس کی ماضی میں کوئی مثال موجود نہ ہو، اور جیسے یہ محض ایک وقتی ابھار ہو، جو اس قابل ہے کہ اس پر گرفت کی جائے اور یا اسے زبردستی دبا دیا جائے۔ مغرب زدہ طبقے کی یہ جارحانہ سوچ واقعی تشویش ناک امر ہے، کیونکہ اس سے پتہ چلتا ہے کہ یا تو یہ لوگ اس حوالے سے جہالت کا شکار ہیں یا جان بوجھ کر اسلامی تاریخ اور مسلم شعور کی تکذیب کر رہے ہیں۔ تاریخی طور پر اس مختصر دور کے علاوہ جو نو آبادیاتی طاقتوں نے پوری درندگی سے مسلمانوں پر مسلط کیا، مسلمانان عالم بالعموم اسلامی نظمِ حیات کے تحت زندگی گزارتے رہ رہے ہیں۔ جب صورت معاملہ یہ ہو تو پھر مسلمانوں کی ماضی سے جڑنے کی کوشش کو ”نو اسلامیت“ کا نام دینا کہاں تک معقول بات ہو سکتی ہے؟ کوئی اتنا بے انصاف کیسے ہو جاتا ہے کہ نو آبادیاتی دور سے پہلے کے شرعی نظام کی بازیافت کی مسلمانوں کی تمنا کو نو اسلامی کہے۔ نہیں جناب، یہ خالصتاً اسلامی ہے!
- ثالثاً، شریعت اور روحانیت۔ اپنے دوسرے تصورات کی طرح آزاد خیالوں نے شریعت اور طریقت کا متنازع فیہ مناظرہ بھی لادین مغربی روایات سے اخذ کیا ہے۔ وہ اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ یہ مناقشہ مربوط اسلامی سوسائٹی کے تصور کے لیے قطعی اجنبی ہے۔ اقبال احمد، جو لبرل حلقے کے نسبتاً زیادہ پڑھے لکھے فرد کی شہرت رکھتے ہیں، اسلامی نظام کے مطالبے کے خلاف اپنے قاری کے ذہن میں دور پار کے اندیشوں کو ابھارتے ہیں۔ ان کے خیال میں یہ مطالبہ دین اور سیاست کو جوڑنا چاہتا ہے تا کہ کچھ رسومات کو قانون کی شکل میں بزور قوت نافذ کیا جا سکے۔ موصوف کو مزید خدشہ یہ ہے کہ: ”وہ اسلام سے طریقت کو نکال کر اسے ایک سخت گیر ضابطہ فوجداری بنا دیں گے۔“ سادہ الفاظ میں اقبال احمد دین اور سیاست کی جدائی کے نو آبادیاتی تصور پر یقین رکھتے ہیں، مزے کی بات یہ ہے کہ ساتھ ہی وہ نو آبادیاتی نظام کی مخالفت کے بھی دعوے دار ہیں۔
لادین حضرات کو حق ہے کہ وہ اپنے افکار کی تشہیر کے لیے جو چاہیں اسلوب اختیار کریں۔ لیکن جب اسلام جیسے سنجیدہ موضوع پر کلام فرمائیں تو انہیں زیادہ ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ انہیں یہ حق ہے کہ وہ حدود قوانین کو اسلام کے ابتدائی دور سے متعلق قرار دیں، انہیں بے شک جدید دنیا میں متروک تصور کریں۔ لیکن اس میں شرط صرف یہ ہے کہ دین کے معاملے میں اسے اپنا وضع کردہ تناظر نہ دیں بلکہ اسے تاریخ کے تناظر میں دیکھیں۔ مثلاً اگر قوانین کا ذکر قرآن پاک میں موجود ہے اور اگر ان پر نبی اکرم اور ان کے متبعین کی نسل بعد نسل نے بیسویں صدی تک عمل کیا ہے، تو اقبال احمد کا سارا مقدمہ کا رہا بے کار ٹھہرتا ہے۔ اگر اسلامی ماخذوں میں کچھ نہیں، نہ ماضی میں ان قوانین کی پیروی کی کوئی مثال موجود ہے تو ان کی بات خود بخود درست ثابت ہو جائے گی اور اسلامیانے کا مطالبہ خود بخود دم توڑ دے گا۔ یہی ایک طریقہ ہے کہ جس سے وہ اپنی بات کو ثابت کر کے اسلامیانے کے مطالبے کا ابطال کر سکتے ہیں۔ اس سے ہٹ کر اسلام پر حملہ آور ہونے کی ہر حرکت دانش ورانہ بد دیانتی ہے۔
بد قسمتی کی بات ہے کہ یہ لبرل حضرات اپنے پڑھنے والوں کے سامنے قرآن اور سنت میں سے صرف من پسند باتیں پیش کرتے ہیں۔ مثلاً شریعت اور طریقت میں فرق کرتے وقت وہ بھول جاتے ہیں کہ اسلامی قوانین خالی خولی ممانعتیں نہیں، نہ وہ اپنی اصطلاح میں وحشیانہ سزائیں ہیں، بلکہ وہ کچھ اخلاقی اقدار کے پاسبان ہیں۔ اور اس طرح پورے نظام میں اپنی صحیح جگہ پر جچے ہوئے یہ قوانین اسلامی قدروں کی تقویت کا باعث ہیں۔ علاوہ بریں، جب کسی سیکولر معاشرے میں قانون شکنی ہوتی ہے تو یہ ایک سماجی جرم ہوتا ہے۔ لیکن ایک صحیح اسلامی سوسائٹی میں شرعی قانون سے انحراف گناہ ہے، یعنی اللہ رب العزت کے خلاف باغیانہ جرم، جبکہ ساتھ ہی اس کے سماجی اور روحانی پہلو بھی ہوتے ہیں۔
صوفیائے کرام کی آڑ لے کر باتیں بنانا، ان آزاد رو حضرات کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ یہ صوفیائے عظام کو علمائے کرام کے خلاف کھڑا کر کے دکھاتے ہیں، جیسے صوفیا کا تعلق محض روحانیت سے ہو اور انہیں اسلامی قوانین سے کوئی غرض نہ ہو اور علما قانون کے پاس دار اور طریقت کے خلاف ہوں۔
تکنیکی طور پر اس طرح کی تقسیم کا دور پار تک نہ تو کوئی امکان ہے، نہ تاریخ سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ کوئی صوفی اپنے لیے روحانی مقام حاصل ہی نہیں کر سکتا اگر وہ حلت و حرمت کے اسلامی قوانین کے خلاف گستاخانہ رویہ اپنائے۔ اگر وہ ایسا کرے گا تو یہ اس کے ایمان کی نفی ہوگی۔ فی الاصل ایک حقیقی صوفی شریعت کا با عمل عالم ہوتا ہے۔ اسلامی تاریخ ایسی ہمہ پہلو شخصیات کے تذکروں سے بھری پڑی ہے۔ حضرت مجدد الف ثانی اور حضرت علی ہجویری وغیرہ اس روشن سلسلے کی چند مثالیں ہیں۔
تسلیمہ اور اس قبیل کے دوسرے لوگوں کو اگر یہ آزاد رو حضرات مسلمانوں کے جذبات کے خلاف ہرزہ سرائی میں کسی حد تک رہنے کی تلقین فرمائیں تو بہتر ہوگا۔ جمہوریت کا مطلب اکثریت کے خلاف بدتہذیبی تو نہیں ہوتا۔ تسلیمہ میں صرف حس لطیف ہی کی کمی نہیں، اس نے اپنے ملک کے شہریوں کی بھی تحقیر کی۔ اگر اسے ہندوستانی اور مغربی میڈیا نے راج دلاری قرار دیا اور گلے لگایا ہے تو یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اس نے اپنے ہم وطنوں کے خلاف کسی سفاکانہ خیانت کا مظاہرہ کیا ہے۔ اب یہ کہنا، جیسے کہ اقبال احمد کا دعویٰ ہے، کہ اس بی بی کا قصور
غیر واضح ہے اور یہ کہ غیر مسلم نامہ نگار نے شریعت اور قرآن کو خلط ملط کر دیا، اور یہ کہ فی الواقع تسلیمہ نے (تو) شریعت میں ترمیم کا مطالبہ کیا تھا۔ یہ سب باتیں ایک سانس میں کہنا، محض تضاد بیانی ہے۔ یا تو یہ حضرات جانتے ہی نہیں کہ شریعت اور قرآن باہم مترادف ہیں، یا پھر اپنے پڑھنے والوں کو جاہل سمجھ کر ان کے ساتھ عیاری پر مبنی کھیل کھیل رہے ہیں۔
اگر میں اس کی وضاحت کروں تو کہہ سکتا ہوں کہ شریعت طرز زندگی یا ضابطہ حیات کو کہتے ہیں جبکہ قرآن کریم ان سب امور کی تشریح کرتا ہے۔ یہ جاننے کے لیے دیکھیں سورۃ الشوریٰ کی آیت ۲۱، سورۃ الجاثیہ کی آیت ۱۸، اور سورۃ المائدہ کی آیت ۴۸۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی حضرت عبداللہ ابن عباس فرماتے ہیں کہ شریعت ان احکامات کا نام ہے جو قرآن میں نازل ہوئے۔
بظاہر یہ بات بڑی عجیب اور متناقص لگتی ہے کہ تسلیمہ خود ڈاکٹر ہے جبکہ اس کے حمایتی "ترقی پسند" بھی ہیں اور دانش ور بھی لیکن اسلام کے متعلق ان کا مبلغ علم سنی سنائی باتوں پر موقوف ہے۔ مثال کے طور پر دیکھیے کہ ۳۱ جنوری ۱۹۹۴ء کے ٹائمنز میں ایک بنگلہ دیشی رپورٹر کے حوالے سے تسلیمہ کا یہ بیان آیا کہ: ”قرآنی تعلیمات کو اب بھی اصرار ہے کہ سورج زمین کے گرد گھومتا ہے۔ اس بیہودہ گوئی پر وہ تڑکا لگاتی ہے کہ: ”ایسی تعلیمات کے ساتھ ہم کیسے ترقی کریں گے؟" ترقی پسند کہلانے کے جوش میں موصوفہ نے یونانی فلکیات کا ایک فرسودہ نظریہ قرآن کے سر مونڈھ دیا ہے، جس کا قرآن میں کوئی ذکر ہی نہیں۔ تاہم اس موضوع پر جو کچھ قرآن نے کہا ہے وہ دم بخود کر دینے کی حد تک ممتاز ہے، جو نزول قرآن کے وقت کے سائنسی تصورات کے بالکل خلاف تھا۔ قرآن کہتا ہے:
سورج اپنے مستقر کی طرف رواں دواں ہے۔ یہ ایک غالب قوتوں والے علیم خدا کا طے کردہ ضابطہ ہے ... سورج کے لیے ممکن نہیں کہ وہ چاند کو جا پکڑے۔ نہ رات دن پر سبقت لے جاسکتی ہے۔ اور ہر شے اپنے مدار میں گھوم رہی ہے۔ (یس ۳۶: ۱۳۸ اور ۴۰)
سیکولر مرد و زن یہ بات سمجھنے سے غالباً قاصر ہیں کہ قرآن کا محاکمہ سائنس سے نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ سائنس ان قوانین الٰہی کو سمجھنے کی انسانی کاوش کا نام ہے، جو مادی دنیا سے متعلق ہیں۔ جب کہ قرآن انسانی معاملات کی تنظیم کے لیے رب کائنات کی حکمت و دانش کا ایک شعلہ مستعمل ہے۔ چنانچہ سائنس باندی بن کر قرآن کے پیچھے چلنے پر مجبور ہے۔ وہ قرآن سے کبھی آگے نہیں بڑھ پائے گی۔ اس عظمت و جلال ہی کا نام قرآن ہے۔ تسلیمہ نے قرآن کی توہین کر کے اپنے آپ کو برباد کر لیا۔
تسلیمہ قرآن کی چار شادیوں کی اجازت میں بھی ترمیم کی خواہاں ہے (ہفت روزہ ٹائمنز ۲۱ جنوری ۱۹۹۴ء)۔ اس مختصر مضمون میں تعدد ازدواج کی وضاحت ہمارے موضوع سے خارج ہے۔ زیادہ شادیاں مسلم معاشرے کا کوئی عام دستور بھی نہیں ہے۔ آج بھی جبکہ مسلمان پست ترین اخلاقی سطح تک گر گئے ہیں، ان میں تعدد ازدواج کی وہ کیفیت نہیں ہے جیسا کہ کاروبار مغربی مرد اور ان کے مشرقی ہم مشرب گرل فرینڈز کی شکل اور طوائف نوازی کے میدان میں کر رہے ہیں۔ تسلیمہ کو دائرہ نکاح سے باہر عورت کی تذلیل پر مبنی اس غیر ذمہ دارانہ طرز عمل پر تشویش ہونی چاہیے تھی، نہ کہ وہ ایک ایسی اخلاقی صورت حال کو نشانہ تنقید بنائے جب ایک سے زیادہ خواتین سے باقاعدہ قانونی شادی کی جاتی ہے۔
قرآن میں تبدیلی کا مطالبہ اس کی تحریف ہے، جس کی اجازت نہ تسلیمہ کو ہے نہ کسی مملکت اور اس کی ہیئت حاکمہ کو، بلکہ کسی "جاہل ملا" کو بھی یہ اختیار نہیں۔ وجہ سیدھی سادی ہے۔ قرآن اپنی اصل میں اللہ کا نازل کردہ ہے اور اس کی تعلیمات اور فرامین ماورائے زمانہ ہیں، جیسا کہ خود اس کتاب کا اپنے متعلق برحق دعویٰ ہے۔ اس کا ایک لفظ، حرف اور شوشہ بھی انسانی خواہشات کا تختہ مشق نہیں بن سکتا۔
لیکن اسی روانی میں یہ بتانا بھول جاتے ہیں کہ اگر نوآبادیاتی دور کے دیے ہوئے توہین رسالت کے قوانین کو نکال دیں تو باقی "مقدس" ورثہ جو انہیں سابق آقاؤں سے ملا ہے اس کا کیا کریں گے؟ یعنی باقی سب نوآبادیاتی قوانین بہ خوشی قبول اور منظور؟
تسلیمہ کے سر کی قیمت مقرر ہوئی تو اقبال احمد نے جانا کہ اسلام کو کرائے کا قاتل بنایا جا رہا ہے۔ کسی خاص عمل یا تصور کو کوئی شخص جس رنگ میں چاہے دیکھے، لیکن ہوا یہ کہ جب تسلیمہ کے سر کی قیمت مقرر ہوئی تو بنگلہ دیشی حکومت کو ہوش آیا۔ عدالتی کارروائی نئے سرے سے شروع کر دی گئی، تاکہ اس شائمہ کا معاملہ حق و انصاف کے مطابق طے ہو۔ اب مناسب یہی ہے کہ تسلیمہ مغالطوں کا سہارا نہ لے، نہ بات بدلے بلکہ پوری جرات کے ساتھ عدالت میں اپنے خلاف الزام کا سامنا کرے۔ عام لوگ بھی یہی چاہتے ہیں۔ اقبال احمد کو عدالتی کارروائی کی تائید کرنی چاہیے کہ یہ قانون کی حکمرانی ہی تو ان کا مطالبہ تھا۔
لادین اور تاریخ
یہ بات معروف ہے کہ لادینوں کو اسلامی تاریخ سے نفرت ہے۔ لیکن کبھی ضرورت پڑے تو مقصد براری کے لیے اسی تاریخ سے منتخب حوالے بھی دیتے ہیں۔ اپنی دلیل کو وزنی بنانے کے لیے اقبال احمد نے اسلام کی عظمت رفتہ اور مسلم تہذیب کے ظہور کو اپنی خوش لسانی سے نوازا ہے۔ موصوف کو یہاں پر اسلام کا جذبہ ترحم اور تحمل و برداشت کی تعلیم اچھی لگتی ہے۔ کاش وہ اس تاریخ کے مطالعہ میں ذرا اور آگے بڑھ کر اور خود ہی اس سماجی ماحول کا کھوج لگاتے، جس نے اس عظمت و سطوت کو جنم دیا، جس کے حق میں اقبال احمد رطب اللسان ہے۔ اس ڈھنگ کی معروضی مشق لادینوں کو اسلام کی حقیقی عظمت کا پتہ دے سکتی ہے اور انہیں اس اسلامی تہذیب سے روشناس کر سکتی ہے، جو اسی ماحول میں انہی اسلامی قوانین کے صدقے ظہور میں آئی، جن کے اجرا کا خیال ہمارے آج کے زنادقہ کو خوف زدہ کر دیتا ہے۔
مسلمانوں کی آج کی حالت کا موازنہ کرتے ہوئے اقبال احمد نے حیرت سے پوچھا ہے کہ اگر امام ابوحنیفہ کی نسل، جس نے بعد کے لیے اسلامی تاریخ کا ورثہ چھوڑا آج کے مسلمان معاشروں میں آجائے تو اسے کیا محسوس ہو گا؟ مجھے یقین ہے ان کے لیے یہ بڑا ہولناک تجربہ ہو گا۔ ان کی نسل فریاد کرے گی کہ ہم مسلمان ہو کر نو آبادیاتی نظم و ضبط کے تحت زندہ ہیں۔ وہ لوگ اسلامی قوانین اور اخلاقیات سے عاری ہمارے معاشرے دیکھ کر حیرت زدہ رہ جائیں گے۔ وہ خون کے آنسو روئیں گے کہ ہم مغربی قوتوں اور ان کی تہذیب کے سامنے گھٹنے ٹیکے سرنگوں ہیں۔ انہیں یہ دیکھ کر بے حد صدمہ ہوگا کہ کچھ نام نہاد مسلمان اپنے راسخ العقیدہ مسلمانوں کے خاکے اڑا رہے ہیں، اور ان کی مخالفت پر کمر بستہ ہیں جو چند گمراہ افراد کو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کے دین و ایمان کی توہین سے روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اور اس نسل کے لوگ اس بات پر بھی سخت پریشان ہوں گے کہ مسلمان انحراف و ارتداد اور عام زندگی میں نفوذ کر جانے والی منافقت کے مضمرات سمجھنے سے بھی عاری ہو گئے ہیں کہ اب اختلاف رائے کی کوئی حد ہی نہیں۔ منہ بھر بھر کر اسلام کے خلاف ہذیانات بکنا اور آزادی اظہار میں اب کوئی فرق نہیں رہا، گویا اسلام کسی غارت گر جابر حکمران کی بداعمالیوں اور غلط کاریوں کی پوتھی ہو۔
مسلمانوں کے جگر سوز اور بے اصل اسلامی تشخص کا رونا رونے کے بعد امام ابو حنیفہ اور امام شافعی یقیناً تسلیمہ جیسے لوگوں کی تعزیر کا فرمان جاری کرتے۔ جی! تعزیر اور کڑی سزا۔ شاید اقبال احمد کو پتہ نہ تھا (ورنہ ان دو فقہائے اسلام کا ذکر اپنی تائید میں نہ کرتے) کہ امام ابو حنیفہ کے نزدیک مرتد کو توبہ کی مہلت دی جائے گی کہ وہ اپنے بیان سے رجوع کرلے ورنہ اسے توبہ کرنے تک قید کر دیا جائے گا۔ یہ نرمی بھی صنف لطیف (خواتین) سے برتی گئی ہے، کیونکہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے معاملات میں خاتون کے قتل کی اجازت نہیں دی۔ البتہ مرتد مرد اگر عدالت میں تائب نہیں ہوتا اور اپنے بیان سے نہیں پھرتا تو اس کی گردن مار دی جائے گی۔ اسی طرح اگر کوئی مرتد عورت اتفاقی طور پر کسی کے ہاتھوں قتل ہو گئی تو قاتل سے کوئی مواخذہ نہیں ہوگا۔ یہ ہے احناف کی قانونی پوزیشن۔
شافعیہ کہتے ہیں کہ مرتد مرد ہو یا عورت، اگر وہ مقررہ مدت کے اندر توبہ نہ کرے تو قتل کر دیے جائیں۔
اسلام ارتداد اور منافقت کے بارے میں اتنا سخت گیر کیوں ہے؟ یہ ایک ایسا موضوع ہے کہ سچ کے متلاشی کو اس کی پوری چھان پھٹک کرنی چاہیے۔ لیکن جنہیں بے علمی اور جہالت سے رغبت ہے وہ قرآن کے الفاظ میں ان لوگوں جیسے نہیں جو سچائی کے طلب گار ہیں۔
باب ۱۲: لادین آزاد روی سے قومی آزادی کو خطرہ
کیا بے قید آزاد روی سے قومی آزادی کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے؟ آئی اے رحمن کا مضمون Not a Matter of Concessions (یہ رعایتوں کا سوال نہیں) پڑھیے، شاید آپ کو جواب مل جائے۔
ان کی تحریر میں سب کچھ ہے جو نراجی ذہن کا خاصہ ہے، یعنی تصادم اور ہر ایک کے لیے پنجہ آزمائی کی دعوت بھی۔ اگر نہیں تو وہ ہے امن اور سلامتی کی خواہش۔ وہ بے قید آزادی اظہار چاہتے ہیں۔ میں اسے زیادہ سے زیادہ نراجی اظہار کا کیس سمجھتا ہوں، کیونکہ نراجی ذہن صرف اسی چیز کو آزادی تصور کرتا ہے، جو اسے نراجیت پھیلانے میں مدد دے۔ جب یہ اپیل کی جاتی ہے کہ شوق سے ہر چیز پر تنقید کر لو لیکن پاکستان کو معاف رکھو، تو اسے یوں لیا جاتا ہے جیسے آزادی رائے پر قدغن لگ رہی ہو کہ وہ فتنے نہ اٹھا سکے۔ ان کے خیال میں بدعنوانی سے پردے اٹھانا تو لڑکوں بالوں کا کام ہے۔ وہ خود چونکہ ماشاء اللہ بالغ ہیں، اس لیے وہ یہ نہیں کریں گے۔ انہیں تو اپنی من پسند راگنی الاپنی ہے کہ پاکستان کو کیسے تاراج کرنا ہے۔
زنادقہ کی آزادی ہماری غلامی
سوال یہ ہے کہ پھر ان کے ہاں حقیقی آزادی کا تصور کیا ہے؟ مضمون نگار موصوف کے الفاظ میں ان روایتی تصورات کو چیلنج کرنے کی اہلیت جن کا اطلاق عوامی معاملات پر ہوتا ہے۔ یعنی دین کا سیاست میں کردار، ملکی سلامتی کی حکمت عملی، اور تخفیف اسلحہ اور فوجی قوت ختم کرنے کے امور۔ ظاہر ہے وہ آزادی اظہار کو اپنے گروہی موقف کے پھیلاؤ اور وسعت کے لیے مخصوص کرنا چاہتے ہیں، تاکہ ایک مسلمان معاشرے کے روایتی تصورات کو ہدف بنایا جا سکے۔ ان روایتی تصورات میں موصوف اسلام کو "روایتی" کہتے ہوئے کوئی ذہنی الجھن محسوس نہیں کرتے۔ اسی طرح انہیں آزادی رائے کے لیے کسی عوامی طلب اور افادیت کی بھی ضرورت نہیں۔ یوں اہم بنیادی مسائل، جیسے:
- ہمیں یہ طاقت و استحکام کیسے حاصل ہو کہ ہم قوموں کی برادری میں سربلند رہیں، یہ ان کا مسئلہ نہیں۔
- انہیں کوئی تشویش نہیں کہ ہمارے سماجی، معاشی اور سلامتی کے معیارات میں مثبت تبدیلی کیسے آئے۔
- ان کی قلم کاری کو اس سے بھی کوئی واسطہ نہیں کہ ہمارا دستور کیسے قابل عمل بن سکتا ہے؟ (جبکہ ہمارے پاس یہی ایک متفق علیہ چیز ہے)۔
- مرکز اور صوبائی اکائیوں کے دستور کے انحراف پر ہم کیسے روک لگا سکتے ہیں؟
- وہ اس بات پر بھی سوچنا گوارا نہیں کرتے کہ ہم اپنے لوگوں کو کیسے متحد رکھیں اور انہیں بیرونی آدم خوروں سے کیسے بچائیں؟
جب صورت معاملہ یہ ہے تو سوچیے کہ یہ صاحب چاہتے کیا ہیں؟ ان کے مضمون کا مرکزی خیال یہ ہے کہ وہ اظہار کی آزادی مانگتے ہیں تاکہ اسلام کو روایتی قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف مورچہ زن ہو سکیں۔ پہلے قدم کے طور پر وہ اسے ریاستی امور سے خارج کرنا چاہتے ہیں۔ ان کی شدید خواہش ہے کہ وہ دین اور سیاست میں تفریق پیدا کریں، باوجود اس امر کے کہ ریاست پاکستان اس دستوری عہد و میثاق کی پابند ہے کہ وہ اسلامی تصورات کے مطابق عادلانہ نظام قائم کرے، اور معاشرے اور افراد کی کردار سازی اسلامی قدروں کے مطابق کرے، تاکہ ایک مسلمان معاشرے کی اخلاقی جہت دنیا کے سامنے لائی جاسکے۔
اسی طرح جناب آئی اے رحمن اس بات کے بھی طالب ہیں کہ انہیں کھلا چھوڑ دیا جائے کہ وہ غیروں کی رضا جوئی کے لیے اپنی قوم کو اپنے دفاع سے فارغ کر دیں، اور یہ سب کچھ وہ ایک ایسی بے رحم اور سنگ دل دنیا میں رہتے ہوئے کرنا چاہتے ہیں، جس پر ہوس اور طاقت حکمران ہیں۔ اس پہلو سے آزادی اظہار کا مخصوص تصور ہمارے دشمنوں کے لیے خوشی کی نوید ہے، کیونکہ اس کا نتیجہ وطن کے امن و سکون کی بربادی ہے۔ ظاہر ہے دین و سیاست کی تفریق کا مطلب اس قومی اتفاق رائے کی دھجیاں اڑانا ہے، جو ایک مسلمان ملت کے طور پر اس کے وجود کا فیصلہ کرتی ہے۔ وہ خود ہی کہتے ہیں کہ اس کا مطلب روایت کو تبدیل کرنا ہے۔ لیکن موصوف اپنے قاری کو یہ نہیں بتاتے کہ روایت سے ان کا مفہوم کیا ہے؟ اس طرح اپنے وہ قاری کو ابہام کے حوالے کر کے آگے بڑھ جاتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ آزادی کا یہ تصور انہوں نے کہاں سے اخذ کیا؟ غالباً یہ مغرب کی خوشہ چینی ہے، جس کے ساتھ ہمارے یہ سیکولر یا تاریخ کے مسترد شدہ کمیونسٹ حضرات رومان میں مبتلا رہتے ہیں۔ لیکن باوجود اس امر کے وہ مغربی فکر کے خوشہ چین ہیں، خود وہاں بھی بددیانتی کرتے ہوئے صرف اپنے مطلب کی چیز اخذ کرتے ہیں اور جہاں کسی ایسی اجازت پر قدغن لگتی ہو اس سے نظر چرا کر نکل جاتے ہیں۔ مغربی لبرل فلسفہ کی رو سے آزادی ہر شخص کے لیے ہونی چاہیے، تاکہ متصادم نظریات کے بیچ سے سچائی ابھر کر سامنے آئے، جس کا مفہوم یہ ہے کہ بالآخر طاقتور اور جاندار نظریہ حاوی ہو گا۔ اس پس منظر میں صداقت کا مطلب لازمًا بین الموضوعی (intersubjectivity) نہیں ہے جو عدم سے وجود میں آئے۔ بلکہ اس سے کسی پیش آمدہ مسئلے کے ضمن میں ایک روشن خیال اور سوچا سمجھا نکتہ نظر سامنے آنا چاہیے، جس سے معاشرے کو تقویت ملے، نہ کہ اس کی کمزوری کا باعث بنے۔
آزادی رائے قتل کا اجازت نامہ نہیں
یہ دیکھ کر ہرگز حیرت نہیں ہوتی کہ مغرب میں بہترین قانونی آراء آزادی اظہار کے حق میں ہیں، لیکن چند تحفظات کے ساتھ۔ یعنی کوئی چاہے تو بے مہار آزادی کے تصورات کے ساتھ بطور تفریح کھیلتا رہے، لیکن عملی زندگی میں قانونی حدود پار نہیں کی جاسکتیں، نہ سماجی رویوں سے بے نیازی برتی جا سکتی ہے۔ یہ بات قریب قریب سبھی تسلیم کرتے ہیں۔ امریکی جج بریز (Brenner) اور ریورز (Rivers) کہتے ہیں: ”کسی قوم کا دستور، آزادی کے عقیدے میں کتنا بھی بلند بانگ ہو، مگر عملاً ہر معاشرہ کھلے اظہار کو محدود کرتا ہے۔“
قانونی زبان اور مباحث میں مفاد عامہ بہ مقابل حق آزادی اظہار پرسش و تحقیق کا ایک درست اور باضابطہ گوشہ تسلیم کیا گیا ہے، اور اس حوالے سے باقاعدہ قانون سازی ہوئی ہے۔ ان میں اولین اصول اور ضابطہ یہ پیش نظر ہوتا ہے کہ بے قید اظہار رائے سے عوامی مفاد کو نقصان پہنچنے کا احتمال نہ ہو۔ بریز کہتا ہے:
کچھ کوائف کی اشاعت روکنے کے لیے حکومت کو دی جانے والی اجازت سے اگر کوئی مقصد حاصل ہوتا ہے تو اس کی بنیاد یہ دلیل ہو گی کہ باہمی موازنہ میں مفاد عامہ کو پہنچنے والا نقصان زیادہ بھاری اور قابل لحاظ ہے، یہ نسبت [امریکی دستور کی ترمیم اول کی خلاف ورزی کے، جو تقسیم و اشاعت سے پہلے تحریر و تقریر پر پابندی کے خلاف ضمانت مہیا کرتی ہے۔ (بالخصوص) جنگ کے دوران جب حساس معلومات عام کرنے کا نتیجہ امریکی فوجیوں کی ہلاکت یا ہماری فوج کی شکست کی صورت سامنے آنے کا خدشہ ہو تو احتیاطی قدغنوں کا نظریہ (doctrine) زیادہ معقول ہو جاتا ہے۔ ایسے حالات میں یہ نظریہ معاشرے کے خود حفاظتی نظام کا حصہ بن جاتا ہے، جو اس نے اپنی ہی آزاد روی کے آزار اور تباہی سے بچنے کے لیے وضع کیا ہوتا ہے۔“
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور میں آزادی اظہار کا سیاق و سباق آرٹیکل ۲-اے اور پاکستان کے ضابطہ قانون فوجداری (PPC) کی دفعہ ۱۲۳-اے کے دائرے میں واضح طور پر مثبت ہے، جس میں من جملہ یہ کہا گیا ہے:
ہرگاہ کہ بنیادی حقوق کی ضمانت دی جائے گی، بہ شمول فکر، اظہار، عقیدہ، ایمان، عبادت اور تلازم و رفاقت (association) کی آزادی لیکن قانون اور اخلاق عامہ کا پورا لحاظ کرتے ہوئے۔
اس میں وفاق کی علاقائی سلامتی، اس کا استقلال اور اس کے حقوق بہ شمول زمین، سمندر اور فضا پر اس کے اقتدار اعلیٰ محفوظ و مامون ہوں گے۔“
دستور کی مذکورہ آرٹیکل میں دو طرح کے تناؤ (tensions) موجود ہیں۔ ایک قسم کا تناؤ اظہار کی آزادی اور مملکت کی سلامتی کے درمیان ہے۔ دوسری قسم کا تناؤ اگر ایک طرف آزادی اظہار رائے اور ملکی قانون کے درمیان ہے تو دوسری طرف عوام الناس کے اخلاق و کردار سے ہے۔ اس کا کیا مطلب ثابت ہوا؟ یہی کہ جب دونوں میں تصادم ہو تو مملکت، قانون اور عوام الناس کے اخلاقیات کا تحفظ پہلی ترجیح ہوگا۔
اسی طرح پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ ۱۲۳-اے پوری باریک بینی سے یہ طے کرتی ہے:
کوئی بھی فرد، خواہ ملک کے اندر ہو یا باہر کسی کو متاثر کرنے کے ارادے سے، یا یہ جانتے ہوئے کہ وہ کسی شخص، ساری قوم یا عامۃ الناس کے ایک حصے، ممکنہ طور پر متاثر کر لے گا۔ ایک ایسے انداز میں جو پاکستان کی سلامتی کے خلاف تعصب یا پاکستان کے اقتدار اعلیٰ کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہو۔... وہ بول چال یا تحریری الفاظ یا اشارے کنائے، یا کسی واضح نمائندگی سے پاکستان کی تخلیق کو جو ہندستان کی تقسیم کا نتیجہ ہے، برا بھلا کہے گا، یا پاکستان کے اقتدار اعلیٰ کی تخفیف یا تنسیخ کی وکالت کرے گا ۔... خواہ یہ ہمسایہ ریاستوں کے علاقوں میں ادغام کی بات ہو۔... ایسے شخص کو دس برس قید با مشقت دی جائے گی، جرمانہ اس کے علاوہ ہو گا۔“
واضح ہوا کہ اظہار کی آزادی کسی ایسے شخص کو نہیں دی جاسکتی جو دستوری پابندیوں سے پہلو تہی کرے۔ یہ ہر معاشرے کا مشترکہ خاصہ ہے۔ پاکستان میں میڈیا کو اس عمومی ضابطے سے مستثنیٰ قرار نہیں دیا جا سکتا۔
اس کے برعکس صاحب مضمون، آزادی اظہار کا نقشہ ایک ایسے خیالی معاشرہ میں کھینچتے ہیں، جس کے گرد کوئی حفاظتی باڑ نہ ہو۔ جو نہ تاریخ کا شعور رکھتا ہو، نہ اس کی اٹھان اقدار و روایات پر ہو۔ یہ ایک ایسی قوم ہو جس کے سامنے زندگی کا کوئی مطمع نظر نہ ہو اور جو بھٹکی ہوئی سرگرداں اور خود اعتمادی سے عاری قوم کی طرح اپنے وجود اور سلامتی سے بے پروا ہر زخم کھانے کے لیے تیار بیٹھی ہو۔ بالیقین موصوف کچھ ضرورت سے زیادہ تصور کیے بیٹھے ہیں۔
آزادی کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہوتا کہ کسی کا یہ حق تسلیم کیا جائے کہ وہ جسے چاہے چیلنج کرتا پھرے۔ اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ کوئی شخص از خود افلاطون بن کر مقام دانش و آگہی پر براجمان ہو جائے کہ اس سے کسی غلطی کا صدور ممکن نہیں۔ اور وہ یہ فرض کرلے کہ اس کی پوری سوسائٹی جاہل اور کودن ہے۔ وہ اس قومی اتفاق (اجماع) کی بھی پروا نہ کرے کہ مملکت اپنے معاملات کس ڈھنگ سے چلائے۔
موصوف کے نزدیک اظہار کی مادر پدر آزاد روش کو اختیار کرنا لازم ہے، جو اپنے مزاج میں نراجی کیفیت ہے اور کسی ایسے معاشرے میں ہی ممکن ہو سکتی ہے جس کے منہ میں نہ دانت ہوں اور نہ اسے اپنی سلامتی کے ماحول کی کوئی فکر ہو۔ تکلف برطرف، اس رنگ کے جاہلانہ کھوکھلا پن کا حصول اس کرہ ارض پر تو ممکن نہیں۔ وجہ اس کی بہت سادہ سی ہے کہ معاشرے کھلا کھیل کا میدان نہیں ہوتے اور نہ شخصی آزادیاں محض برائے مادر پدر آزادی کے مصداق ہوتی ہیں۔ ہر معاشرہ اس کی اجازت اس پابندی کے ساتھ دیتا ہے کہ اس کا اظہار مخصوص سماجی رویوں اور حدود کے اندر ہو گا۔ یہ معاشرہ اپنے اخلاقیات کے بے حد محتاط اور بندھے اتباع کا مطالبہ کرتا ہے، تاکہ یہ خود تشکیک اور قنوطیت کا شکار ہو کر کمزور نہ پڑے۔ اس بات کو یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ معاشرہ انفرادی آزادیوں پر یہ ذمہ داری عائد کرتی ہے کہ یہ شوق اظہار نہ تو سوسائٹی کے اہم حیاتی اعضا نگلے گا اور نہ اسے ان بنیادی اصولوں کی پٹری سے اتارنے کی کوشش کرے گا، جن کے صدقے میں انفرادی آزادیوں کو جواز اور وزن ملتا ہے۔
اس کے برعکس موصوف سماجی قدروں اور سلامتی کے ماحول کو ہلڑ بازی کر کے تضحیک کا نشانہ بناتے ہیں۔ ان کو اصل دلچسپی صرف ایک بات سے ہے، اور وہ یہ کہ اپنے لیے اور اپنے ہم مشربوں کے لیے دستور سے بالاتر آزادیوں سے جی بھر لیں، تاکہ پاکستانی قوم کو یکجا رکھنے والی بنیادوں کو تہہ و بالا کر سکیں۔ کچھ لوگ پہلے ہی سے اسلامی قوانین کو داغدار بنا کر دکھانے کے لیے میڈیا کا غلط استعمال کر رہے ہیں۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر کیچڑ اچھالتے ہیں۔ یہاں تک کہ اللہ رب العزت کو بھی نہیں بخشتے۔ ایسے لوگوں کے نزدیک اسلامی قوانین پرانے زمانے سے متعلق، سفاکانہ اور رواجوں کا مجموعہ تھے، اسلامی مملکت ایک عذاب تھی اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم محض ایک مصلح تھے۔ اسی طرح ان کے بقول قرآن کا پیش کردہ خدا معاذ اللہ ”پدرانہ (patriarchal) تھا۔ مسلمانوں اور اسلام کے خلاف لادینوں (زنادقہ) کی یہ طیش اور ہذیانات قابل فہم ہیں کہ وہ مذہب بیزار اور اباحیت پسند ہیں، لیکن جس پاکستان نے انہیں سایہ مہیا کر رکھا ہے اس کے وجود سے کیا بغض ہے؟ پوری ڈھٹائی اور بے شرمی سے اعلان کرتے ہیں کہ یہ ایک نمائشی مملکت ہے۔ انہیں پاکستان کا تشخص مصنوعی لگتا ہے اور مکرر اعلان کرتے ہیں کہ ہندوستان کے ساتھ کنفیڈریشن ان کا نصب العین اور ہدف ہے۔
جان ایڈمز (John Adams) جب میساچوسٹس کے دستور کے لیے ”آزاد پریس کی شق“ تیار کر رہا تھا، تو اس نے لکھا: ”پریس کی آزادی مملکت کی سلامتی کے لیے لازمی ہے۔“
اس حساس توقع کے برعکس ہمارے ہاں کے آزادی کے جنگ باز طلب گار اظہار کی کھلی آزادی چاہتے ہیں، تاکہ نہ صرف مملکت پاکستان کو ہتھیاروں سے محروم کر دیں، بلکہ اس روایت کو بھی بدل کر رکھ دیں جو پاکستان کے لیے تخلیق کا سبب تھی اور جس کے طفیل ہم آج اس مقام پر ہیں۔
یہ امر بے حد افسوس ناک ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں اس سے پہلے اظہار آزادی کا اتنا خطرناک اور بے دریغ غلط استعمال نہیں ہوا۔ مملکت کے اساسی کردار کو بدل کر رکھ دینے کی مجنونانہ کوشش میں سیکولر حلقہ آزادی اور انتشار کے باریک فرق کو بھی بری طرح بھلا بیٹھا ہے۔ بے مہار آزادیاں چاہنے والوں کو، میں ایڈورڈ ڈی بونو (Edward de Bono) کا قول یاد دلاتا ہوں: ”تہذیب محض آزادی سے متعین نہیں ہوتی، بلکہ کس طرح آزادی کو ذمہ داریوں، فرائض اور دردمندی سے محدود کیا جائے اور اگر یہ کافی نہ ہوں، تو پھر قانون کا سہارا لیا جائے ۔ جنگل آزاد ہوتا ہے، تہذیب نہیں“۔
باب ۱۳: قانون توہین رسالت: آزادی اور انارکی میں خط امتیاز
ہمارے زمانے کے زنادقہ (سیکولر) توہین رسالت قوانین سے بڑے دل برداشتہ ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ رسالت مآب کی توہین نعوذ باللہ بنیادی حقوق کے زمرے میں لائی جائے اور اس طرح وہ باز پرس سے آزاد ہوں۔ لیکن برا ہو وطنِ عزیز کے دقیانوسی عوام کا کہ وہ اس ضمن میں کسی ایسے حق سے محروم رہنے کو ترجیح دیتے ہیں جس سے توہین رسالت کا پہلو نکلتا ہو۔ سیکولر حضرات کی اب تک کی کوششوں کے تین پہلو نمایاں ہیں:
- اول یہ کہ ایسا کوئی قانون بننے نہ دیا جائے۔
- دوم کسی نہ کسی طرح اسے کالعدم قرار دیا جائے۔
- سوم اگر ایسا ممکن نہ ہو تو پھر ایسی ترامیم قانون میں لائی جائیں جس سے اس کا اطلاق سرے سے غیر موثر ہو جائے۔
سیکولر لابی اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود مندرجہ بالا اول الذکر دونوں صورتوں میں ناکام ہو گئی تو پھر وہ قانون توہین رسالت کو غیر موثر کرنے کے لیے کمر بستہ ہو گئی۔ لیکن برا ہوان ”جذباتی“ مسلمانوں کا کہ انہوں نے ان کی ایک نہ چلنے دی۔ انتظامیہ نے باوجود اپنی آزاد روی کے اچھا کیا کہ توہین رسالت آرڈینینس میں مجوزہ ترمیم واپس لے لی۔ بظاہر تو یہ معمولی سی بات تھی لیکن اپنی علامتی قدر و قیمت میں کافی وزنی ہے۔ اس نے پاکستان کے اٹھارہ کروڑ عوام کو یہ تسلی آمیز پیغام دیا کہ اسلام اس مملکت کی نفسیات میں دور تک پیوست ہے، اور اسے ترک کرنا ملت اسلامیہ پاکستان کو ختم کرنے کے مترادف ہوگا، جس کی اجازت کبھی نہیں دی جانی چاہیے۔
ترمیم کی واپسی سے ہمارے ان ”دانش وروں“ کو مایوسی ہوئی، جو ایک مورچہ بند انتظامیہ کی آس لگائے بیٹھے تھے کہ وہ ان ”تاریک قوتوں“ کے منہ پر ناں کہے گی، جو وطن عزیز میں اسلامی تصورات و روایات کی نمائندگی کرتی ہیں۔ کچھ اور حضرات جنہوں نے اپنے ذہن میں موجودہ حکمرانوں کو سخت گیر آزاد خیال سمجھا ہوا تھا اور جو ان کے خیال میں اسلامی قدروں کے مخالف تھے اور واقعتا ہیں، ان کے منہ لٹک گئے، کیونکہ جو وہ چاہتے تھے وہ نہ ہوا۔ ان کے سوچے سمجھے خاکے بے رنگ رہے۔
فلسفیانہ سطح پر بھی سیکولر نظریے کو دو حوالوں سے جھٹکا لگا:
- اول، سیکولروں کی اولین خواہش یہ ہے کہ ریاست کا دین سے کوئی واسطہ نہیں ہونا چاہیے۔ ساتھ ہی وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ سوسائٹی اپنا استناد دینی جوہر سے نہ پائے، نہ اس کی تعریف دینی نظریے کے تحت متعین ہو۔ اس لحاظ سے کوئی بھی اسلامی حوالہ ان کے نزدیک خطرناک ہے، کیونکہ اس کا مطلب قومی تشکیل میں دین کا کردار تسلیم کرنا ہے۔ اس انداز سے دیکھیں تو مملکت اور دین کی جدائی آزاد خیالوں کے لیے بنیادی تزویراتی اہمیت رکھتی ہے، کیونکہ ایک دفعہ یہ تفریق بروئے کار آ جائے تو پھر مسلم عوام اس سیکولر اقلیت کے سامنے بے بس کھڑے ہوں گے، جو انہیں اپنی دشنام طرازی کا نشانہ بنائے گی، اور اس طرح ان کی اخلاقی اور روحانی قدروں کی پامالی کا سلسلہ تیز تر ہو جائے گا۔ توہین رسالت کے سابقہ قانون کا باقی رکھنا لادینوں کے لیے تشویش ناک یاد دہانی ہے کہ جب سیکولر خواص سب حوالوں سے برتر حوالے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات کے ساتھ الجھنے کی کوشش کریں گے تو سوسائٹی کی طرف سے جوابی اقدام بھی ہوگا۔
- دوم، لادینوں کا تکیہ بدلتے موسموں پر تھا، جو سیکولر تعلیم اور الیکٹرانک میڈیا کا ثمر ہے۔ ان کا خیال تھا کہ پاکستان اور اسلام کے متعلق غیر دوستانہ بین الاقوامی ماحول توہین رسالت کے قانون کی تنفیذ کو معرض التوا میں ڈالنے میں مددگار ثابت ہوگا۔ ان کے ایکشن پلان کی کامیابی کے لیے اس امر کی بے حد اہمیت تھی، کیونکہ ایک بار وہ توہین رسالت کے قانون کو شکار کر لیں تو ان کے لیے آسانی پیدا ہو جاتی کہ وہ آزادی اظہار کی دہائی دیں اور ہر اس سماجی اور اخلاقی قدر کی بیخ کنی کر دیں، جس نے ہماری قوم کو جوڑ رکھا ہے۔ کچھ لوگ اس بد قسمت مہم میں پہلے سے الجھے ہوئے ہیں کہ اسلامی قوانین، نبی اکرم، یہاں تک کہ ذات باری تعالیٰ کو بھی بدنام اور رسوا کیا جائے۔ ان لوگوں کے نزدیک اسلامی قوانین ازمنہ وسطیٰ سے متعلق، وحشیانہ اور رواجی ہیں۔ اسلامی مملکت کو یہ لوگ پھنکار سمجھتے ہیں، آنحضور کو محض مصلح قرار دیتے ہیں اور قرآن کے پیش کردہ خدا کو ”پدرانہ“ سمجھتے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں اس سے پہلے آزادی اظہار کا اتنا بے قید اور بے دریغ استعمال نہیں ہوا تھا۔ ہماری قومی خصوصیت کو کچھ اور شکل دینے کی مجنونانہ کوشش میں لادین حضرات آزادی اور انارکی کے نزدیک فرق کو بالکل بھول جاتے ہیں۔
یہ صحیح ہے کہ توہین رسالت کے معنی و مفہوم دینی قدروں سے ہی ماخوذ ہیں، لیکن سماجی حوالے سے یہ ایک دنیاوی مسئلہ بھی ہے، کیونکہ اس کے قانونی اور امن و امان سے متعلق مضمرات ہیں۔
بہر کیف، آراء و نظریات کی اس کشمکش میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اور مرتبے کی حفاظت بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔ اسلامی نظریہ کے علم بردار کہتے ہیں کہ اسلام جو کچھ بھی کہتا یا چاہتا ہے، اس میں آنحضور کا مقام مرکزی ہے۔ تحقیر اور طنز کے ذریعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی گرفت مسلمانوں پر سے کمزور پڑ جائے تو خود اسلام کے حصے بخرے ہو جائیں گے۔ اس کے جواب میں لبرل روایت کا خیال ہے کہ افراد اور سوسائٹیوں کو مذہبی قیود اور اثرات سے آزاد کر دیا جائے کہ انسانی تاریخی فکر، اداروں اور افراد پر کسی طرح کی پابندی خواہ کتنی ہی ضروری ہو، رجعت پسندی ہے۔ اسی طرح ان کے نزدیک اسلام کے اجتماعی اظہار میں، انہیں ایک مذہبی ریاست کی بو آنے لگتی ہے۔ پس جب سیکولر کسی قانون کو رجعت پسندانہ کہتے ہیں یا اسے غیر مسلم اقلیتوں کے خلاف قرار دیتے ہیں، تو یہ دراصل ان کی سیکولر روایت کا اظہار ہوتا ہے۔ چنانچہ ظاہر بات ہے کہ اس مناظرے میں لبرل آواز اگرچہ کافی کرخت اور بلند آہنگ ہے، لیکن ایک آوارہ للکار سے بڑھکر حیثیت نہیں رکھتی۔ پاکستان کا سواد اعظم یہ پختہ عقیدہ رکھتا ہے کہ آنحضور کے لیے ان کی محبت اور عقیدت ان کی زندگی میں ایسی بنیادی حیثیت رکھتی ہے، جیسی محبت آپ اپنی حیات مبارکہ میں اس امت کے لیے رکھتے تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ اس امت کی سلامتی، ان کے عزت و وقار اور ان کی ترقی اور سرفرازی کے لیے دعا فرمائی کہ یہ امت عالم انسانیت کے لیے عدل و انصاف کی علم بردار ہو۔ چنانچہ منطق بڑی سادہ اور قابل فہم ہے۔ ہمیں جو کچھ بھی ملا، خواہ یہ بحیثیت مسلمان اور انسان اپنے شرف کا احساس ہو یا اللہ کی ذات بابرکات کا ادراک، یہ سب کچھ انہی کی عطا ہے۔ ہم جب زمین کے بے مایہ خس و خاشاک سے زیادہ کچھ نہ تھے تو انہوں نے ۱۴۰۰ برس پہلے ہمیں دنیا کی سب سے بڑی مہذب طاقت بنا دیا تھا۔ نوع انسانی کی تاریخ میں یہ کوئی معمولی بات نہ تھی۔ آنحضور نے تو اپنے پر بھیجے جانے والے درود و سلام میں بھی ہمیں یاد رکھا اور اسے سب مومنین تک وسعت دے دی۔ نتیجہ یہ ہے کہ کروڑوں مسلمان روزانہ ایک دوسرے کے حق میں دعائے خیر کرتے ہیں۔ یہ اجتماعیت اور ایک ملت ہونے کا احساس مسلمانوں کا امتیازی وصف ہے۔ چنانچہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کا ارتکاب کرتا ہے، وہ دراصل پوری امت کی توہین کرتا ہے۔
لیکن سیکولر حضرات کو آنحضور اور ان کی امت کا ان سے گہرا قلبی تعلق محسوس ہی نہیں ہوتا، حالانکہ یہ رشتہ بہت مقدس، گہرا اور بے حد جذباتی نوعیت کا ہے۔
اسلامی نقطہ نظر کے حاملین بجا طور پر یہ کہتے ہیں کہ اقلیتوں کا معاملہ ضرورت سے زیادہ اچھالا جا رہا ہے، اور اسے سیکولر حلقہ اغیار کے روبرو بڑی چالاکی اور چابک دستی سے استعمال کر رہا ہے۔ عیسائی اقلیت کے دوست خوب جانتے ہیں کہ مسلمانوں کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور مریم سے کتنی محبت ہے۔ بلکہ کوئی شخص مسلمان رہ ہی نہیں سکتا اگر وہ انبیائے بنی اسرائیل میں سے کسی کا بھی انکار کر دے۔ اندریں حالات مسلمان بھی دوسروں سے جوابی احترام کی توقع کرتے ہیں۔ توہین رسالت کے بد قسمت معاملے میں بھی ان کا مطالبہ صرف اس قدر ہے کہ شکایت کا فیصلہ قانون کی عدالت کرے۔ اگر معاملہ ضلع سطح کے کسی افسر کے سپرد ہو گا تو یہ عدلیہ کی توہین بھی ہو گی اور اس کی دیانت پر شبہ کا اظہار بھی۔
ایسے معاشرے میں کیا تہذیب اور انسانیت نوازی ہوگی کہ جس میں دوسروں کی توہین برداشت کی جاتی رہے، خواہ وہ کسی عام شہری ہی کی توہین کیوں نہ ہو؟ آخر مملکت اور معاشرے کو یکجا رکھنے کی صورت کیا ہوگی؟ کیا عدم اطمینان پھیلا کر، لوگوں کے جذبات و احساسات مجروح کر کے اور ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کر کے یکجہتی کی توقع رکھی جاسکتی ہے؟ یہ صحیح ہے کہ توہین رسالت کے معنی و مفہوم دینی قدروں سے ہی ماخوذ ہیں، لیکن سماجی حوالے سے یہ ایک دنیاوی مسئلہ بھی ہے، کیونکہ اس کے قانونی اور امن و امان سے متعلق مضمرات ہیں۔
مغرب کا پند نامہ
یہاں توہین رسالت کے حوالے سے مغرب کے طرز عمل پر نگاہ ڈالنا ہمارے موضوع سے متجاوز نہ ہوگا۔ اس سلسلے میں اینگلو سیکسن روایت کو دیکھنا بھی اہم ہے، کیونکہ پاکستانی لادینیوں کی مہربانی سے مغرب کو بھی اس معاملے میں گھسیٹ لیا گیا ہے۔
میں اس سلسلے میں برطانیہ کے ”میری وائٹ ہاؤس بنام گے نیوز“ کیس پیش نظر رکھوں گا۔ ۱۹۷۷ء میں گئے (Gay News) نے ایک مصور تشریحی نظم شائع کی، جس میں (معاذ اللہ) حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ہم جنس زدہ دکھایا گیا تھا۔ مقدمے میں پبلشر کو دو کے مقابلے میں دس جیوروں نے مجرم قرار دیا۔ اپیل میں بھی تین اور دو کی اکثریتی رائے نے فیصلہ برقرار رکھا۔ اس کیس میں ارادے اور جذبات کو مجروح کرنے کے دونوں پہلو زیر بحث رہے کہ یہی دوسوال ہمارے ہاں کے لادین بھی اٹھاتے رہے ہیں۔ قانونی کیس کا حوالہ دے کر کوئین یونیورسٹی بلفاسٹ کے شعبہ فقہی امور کے پروفیسر سائمن لی (Simon Lee) کا کہنا تھا:
جج صاحبان کے سامنے سوال یہ تھا کہ آیا ہتک و توہین کا جرم اس بات کو مستلزم ہے کہ اس کی پشت پر ایک ارادہ ہو جو صدمے کی کیفیت کو جنم دے اور عیسائی عوام میں غصے اور آزردگی کا باعث بنے۔ یا جرم یہ بھی ہوگا کہ محض ایک نظم کی اشاعت کا ارادہ تھا جس کے مذکورہ اثرات تو ہوئے جبکہ پبلشر کا مقصد دوسروں کو مشتعل کرنا نہ تھا۔
فیصلے میں کہا گیا کہ اگر کسی کے جذبات مجروح کرنے کا ارادہ نہ بھی ہو، لیکن اس کی اشاعت سے لوگ مشتعل ہو گئے ہوں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ جرم کا ارتکاب کیا گیا ہے۔
سائمن لی کے بہ قول لارڈ سکارمین (Lord Scarman) کا اس قانونی نکتہ پر اظہار رائے منصفانہ حد تک کافی مشہور و معلوم ہے، کیونکہ موصوف برطانوی ججوں کے حلقے میں بہت زیادہ آزاد خیال مانے جاتے ہیں اور بائیں بازو کے بہت پسندیدہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں:
مائی لارڈز! میں اس رائے سے متفق نہیں ہوں کہ توہین و ہتک کے عام قانون کا جرم قانونی نظام میں کوئی مفید خدمت انجام نہیں دیتا۔ اس کے برعکس میں سمجھتا ہوں کہ یہ قانون سازی کا ایک کیس بنتا ہے، جس کا دائرہ غیر عیسائی آبادی کے مذہبی عقائد اور جذبات کے تحفظ تک وسیع کیا جائے۔ اس جرم کا تعلق ان فوجداری جرائم کے گروپ سے ہے، جن کی تشکیل و تسوید برطانوی مملکت کے امن و سکون کے تحفظ کے لیے کی گئی ہے۔ ایک روز افزوں ہم رنگ عقائد و نظریات کے حامل معاشرے میں، جیسا کہ جدید برطانوی معاشرہ ہے، یہ لازم ہے کہ نہ صرف سبھی اختلافی مذہبی عقائد، محسوسات اور طور طریقوں کو احترام دیا جائے بلکہ انہیں فحش گوئی و تذلیل و رسوائی اور تحقیر توہین سے بھی بچایا جائے۔
اس مذکورہ متن میں ایک بہت ہی آزاد خیال جج توہین رسالت کے قوانین کی پاسداری پر زور دے رہا ہے، کیونکہ بہ قول اس کے: اس سے اس کی قوم کے امن و سکون کی حفاظت ہوگی۔ کیا مسلم ملت کے لیے اس سے بڑھ کر بھی عدم استحکام کا باعث کوئی عامل ہوسکتا ہے کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و احترام کی حفاظت کا انتظام نہ ہو؟
باب ۱۴: حدود قوانین کے خلاف لادینوں کی صف آرائی
سیکولر حلقہ، حدود قوانین کی مخالفت کیوں کر رہا ہے؟ کیا اس کا کوئی تعلق خواتین سے ہونے والی بے انصافی سے ہے؟ یا اس ساری مہم کی پشت پر کوئی معاند نظریہ کار فرما ہے جو لادینوں کو مخالفت پر اکساتا اور ان کے جارحانہ عزائم کو مہمیز لگاتا رہتا ہے؟
ان دو سوالوں کے ساتھ ایک تیسرا سوال بھی منسلک ہے۔ آخر مغرب ان قوانین کی منسوخی میں اتنی دلچسپی کیوں لے رہا ہے؟ بیچ میں عائلی قوانین کا مسئلہ اور لوگوں کا یہ مطالبہ بھی آکھڑا ہوا ہے کہ ان میں تبدیلی کی جائے۔ البتہ یہ مطالبہ اتنا پر زور نہیں جتنے شور و شر سے لادین حضرات حدود قوانین کی مخالفت کر رہے ہیں۔
اپنی اصل میں دونوں قوانین کا تعلق اخلاق عامہ سے ہے اور کسی بھی سماجی بندوبست میں ان کا سنجیدگی سے جائزہ لیا جانا چاہیے تھا کہ ان میں پائے جانے والے جزوی نقائص دور کر دیے جاتے، اور ان کی تنفیذ کے عمل میں اصلاح کر لی جاتی تاکہ ایک با اخلاق معاشرہ وجود میں آجاتا۔
بظاہر زنا آرڈینینس اور عائلی قوانین میں تناقص اور تناؤ ہے۔ اول الذکر کسی شادی شدہ یا غیر شادی شدہ فرد کے لیے زنا کا ارتکاب مشکل بنا دیتا ہے۔ جبکہ موخر الذکر قانون میں اندراج کے حوالے سے عدم یکسانیت نے شادی کرنے والے افراد کے لیے مشکل پیدا کر دی ہے۔ چند تحفظات کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ عائلی قوانین کی بعض شقیں جنسی بے راہ روی کا میلان پیدا کرنے کا سبب بن سکتی ہیں۔
خود زنا آرڈینینس بھی نفاذ کے مرحلے میں مسائل کھڑے کر دیتا ہے، کیونکہ اس کا اطلاق ویسے نہیں ہوتا جیسے اسلام کا منشا ہے۔ ماضی میں ایک منتخب جمہوری حکومت نے تو قانون نافذ کرنے والے اداروں کو حکم دیا تھا کہ اس قانون کے تحت اسلام آباد کی حدود کے اندر کوئی مقدمہ درج ہی نہ کریں۔
نتیجہ یہ ہے کہ ہر ڈھنگ کی زنا کاری بدستور عام ہے، قانون تماشہ بنا ہوا ہے اور زنا کاری کی حوصلہ افزائی ہو رہی ہے۔ مذکورہ دونوں قوانین میں چند اور مشابہتیں بھی ہیں۔ دونوں ہی قوانین فوجی حکومتوں نے نافذ کیے، مگر بعد میں منتخب حکومتوں نے انہیں قانون کی شکل میں منظور کرایا۔
صدر ایوب خان مرحوم عائلی قوانین کا تحفہ لائے، کیونکہ ان پر با اثر خواتین لابی کا دباؤ تھا ایک وجہ یہ بھی تھی کہ فوجی حکمران خواتین کے مسائل میں ذرا دلیرانہ طرز عمل کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں۔ صدر جنرل محمد ضیاء الحق کو حدود قوانین کے نفاذ پر پاکستان قومی اتحاد نے مجبور کیا، جس نے ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف نظام مصطفےٰ کی تحریک چلائی تھی۔ چونکہ ضیاء الحق کی حکومت معاشرے کو اسلامی بنانے کے مطالبے کے ماحول میں وجود میں آئی تھی، اس لیے وہ محسوس کر رہے تھے کہ ایسا کرنا ان کے فرائض میں داخل ہے۔
بعد کے برسوں میں دونوں قوانین میں عدالتی فیصلوں کے نتیجہ میں وسعت آتی گئی۔ مثلاً قریب کے زمانے میں فیڈرل شریعت کورٹ نے سفارش کی تھی کہ مسلم فیملی لاز ۱۹۲۱ء کی شق ۵ کے تحت نکاح کا درج نہ کرنا ... نکاح کو فسخ کر دینے کا سبب نہیں بنتا۔ اس فیصلے سے اس ایک اہم سبب کی شدت میں کمی آنی چاہیے جس کے تحت جوڑوں پر زنا کا الزام لگتا رہا ہے۔
اسلام کے تصور اخلاق کے مطابق تشکیل پانے والی سوسائٹی خاندان کی بقا اور تحفظ پر توجہ مرکوز رکھتی ہے، کیونکہ خاندان ہی تہذیبوں کی بنیادی اکائی ہے۔ اسلام کے اصلاحی انقلابی پروگرام میں خاندان کی کم از کم سات خصوصیات ہیں، جنہیں مرکزی مقام حاصل ہے:
- اسلامی معاشرہ: شوہر، بیوی اور بچوں تک محدود بنیادی یا نیوکلیائی (nuclear) خاندان نہیں ہوتا، بلکہ ایک مربوط اور وسیع یونٹ ہوتا ہے، جس کے ذریعے خاندان کے افراد باہمی تعامل کا فن پروان چڑھاتے، مشاورت کرتے اور ایک دوسرے کو برداشت کرتے ہیں۔ علاوہ بریں یہ وسیع تر یونٹ اپنے افراد میں یک جہتی کا تصور پیدا کرتا ہے، تاکہ مل جل کر زندگی کے نشیب و فراز کا سامنا کیا جاسکے۔
- یہ اخلاقی اور روحانی قدروں کا حامل اور امین ہے۔ اس حوالے سے خاندان کا ادارہ ماضی اور حال کے درمیان اہم رابطہ اور بندھن ہے۔
- یہ نوجوان نسل کی تربیت اور تنظیم کا اولین مکتب ہے۔
- خاندان کے اندر نہ صرف قدروں کی تعلیم دی جاتی ہے، بلکہ یہیں سے اگلی نسل کو یہ قدریں منتقل ہوتی ہیں۔
- باہمی احترام و محبت، تفہیم و تعاون، حکم اور تابعداری جیسے اعمال و اوصاف پر زور دے کر یہ متوازن مزاج افراد تیار کرتا ہے۔ انہی سے معاشرے کو استحکام ملتا ہے۔
- خاندان غریب متعلقین کی کفالت اور تحفظ کا ذریعہ ہے کہ وہ مالی طور پر اپنے پاؤں پر کھڑے ہو سکیں۔
- خاندان ایسی بچیوں کو جو مطلقہ ہو کر واپس آنے پر مجبور ہوں یا بیوہ ہو کر مدد اور دستگیری کی محتاج ہو جائیں، انہیں مدد بھی دیتا ہے اور پناہ بھی مہیا کرتا ہے۔
جدید مطالعہ بتاتا ہے کہ خاندان کی ٹوٹ پھوٹ کی دو اہم وجوہ ہیں: ایک تو صنعتی سوسائٹی کی اٹھان ہے اور دوسری وجہ آزاد صنفی طرز عمل ہے۔ اول الذکر عامل نے خاندان کی صورت بدل کر رکھ دی اور اسے وسیع گھرانے سے نیوکلیائی خاندان بنا دیا۔ ثانی الذکر عامل یعنی صنفی آزاد روی نے زوجین کے درمیان بے وفائی، دھوکا دہی اور بالآخر تفریق کو راہ دی۔ اسلام نے زنا کی ممانعت کر کے خاندان کو بچانے کا انتظام کیا۔ حدود قوانین کا سارا تصور ہی یہ ہے کہ مرد ہو یا عورت کسی کی عفت و عصمت کی بنیادی قدر پامال نہ ہونے پائے اور اس طرح غیر ذمہ دارانہ صنفی تعلق کا ہر امکان ختم کر دیا جائے۔
حدود قوانین کی مخالفت کی نوعیت
۱۹۷۹ء میں زنا آرڈینینس کے نفاذ کے ساتھ ہی دو مخالف نقطہ ہائے نظر سامنے آئے۔ ایک چھوٹے سے گروہ نے اس کی مخالفت کی۔ اس گروہ کو ”چھوٹا“ کہا جا سکتا ہے، کیونکہ بے نظیر بھٹو صاحبہ کی پارٹی، جو اصلاً اس گروپ کی نمائندہ ہے، جب اقتدار میں آئی تو اسے ہمت نہ پڑی کہ حدود قانون کو ضابطہ فوجداری سے حذف کر اسکے۔ پھر یہ بھی معلوم رہے کہ مارکسی اور آزاد خیال حضرات پاکستان کے سواد اعظم کی نمائندگی نہیں کرتے، جن کا ایمان اسلام کی ابدی صداقت میں ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت اپنی مغربی اٹھان اور اسلام کے معاشرتی کردار کی مخالفت کے باوجود سر پر اوڑھنی لینے، ہاتھوں میں تسبیح پھرانے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نواسی بی بی زینب کے نام پر ووٹ مانگنے پر مجبور ہوئی۔
مزید براں حدود قوانین کے خلاف اس گروہ کی مخالفت بھی قوانین کے طریق اطلاق اور ایسے ہی دوسرے ثانوی مسائل سے متعلق ہے۔ مثلاً یہ کہ اس قانون کا غلط استعمال ہوتا ہے لہٰذا اسے فسخ کر دیا جائے۔ شاید اس گروہ میں سے کسی سرکردہ شخصیت نے بھی کھل کر یہ نہیں کہا کہ اس کا اصل مقصد مردو زن کے درمیان آزادانہ صنفی اختلاط ہے۔ البتہ دوسری سطح پر کشور ناہید اور فہمیدہ ریاض جیسی بے باک اور آزاد خیال خواتین، عورت کی عفت اور ازدواجی رشتے پر اپنی نظموں اور تحریروں میں طنز کے تیر برساتی رہی ہیں۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ ان کا تحریک نسواں کے نام پر منفی اختلاف اور خواتین کی خود اختیاری کے حوالے سے مغربی انداز گفتگو اصلاً ایک بے باک اور غیر مزاحم سوسائٹی کے حصول کے لیے آڑ ہے۔
یہ لوگ جب حدود قوانین کے خلاف اپنا مقدمہ تیار کرتے ہیں تو کچھ اعداد و شمار کا سہارا لیتے ہیں کہ اتنی خواتین بندی خانوں میں محبوس ہیں۔ اس مشق و تمرین میں اعداد کا کھیل کھیلا جاتا ہے۔ زنا ہی کے مقدمات میں کتنے ایسے (شادی شدہ یا غیر شادی شدہ) مرد ہیں جو جیلوں میں بند ہیں۔ اس سے سیکولر گروہ کو کوئی غرض نہیں۔ وہ اس کی بھی پروا نہیں کرتے کہ آخر کسی مرد اور عورت دونوں نے وہ فعل کیا جس کے نتیجے میں ایک مروجہ قانون کا غلط استعمال ہوا۔ یہ حقائق جان بوجھ کر چھپائے جاتے ہیں تاکہ یک طرفہ اور بدنیتی پر مبنی متعصبانہ صورت گری کی جاسکے۔
کمیشن فار انکوائری فار وومن کی رپورٹ جو جون ۱۹۹۷ء میں لاہور جیل میں زنا کے الزام میں بند خواتین کی تعداد ۲۹ دکھاتی ہے، لیکن مرد ملزموں کا کوئی تذکرہ نہیں ہوتا۔ کل قیدی خواتین کی تعداد ۷۷ دکھائی گئی ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ ۴۸ خواتین کچھ اور الزامات کے تحت جیلوں میں پڑی سڑ رہی ہیں۔ ان کا کیا بنے گا؟ کیا وہ خواتین نہیں ہیں؟
آخر زنا کے مقدمات پر ہی ساری توجہ کیوں مرکوز ہے؟ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مسئلہ نہ خواتین کا ہے نہ ان کے حقوق کے تحفظ کا، جس کا اتنا شور مچایا جا رہا ہے۔ ان کی اصل خواہش عصمت و عفت کی قدر کا خاتمہ کرنا ہے۔ اسی طرح غیرت کے نام پر قتل کے جتنے کیس اچھالے گئے، ان میں یہ حقیقت قصداً چھپائی گئی ہے کہ بیشتر صورتوں میں ایسی متاثرہ خواتین کے اپنے دوست یاروں کے ساتھ قبل نکاح ناجائز اور غیر قانونی تعلقات تھے۔
مزید براں یہ کہنا بھی کہ یہ اپنی اصل میں ہی بری قانون سازی ہے اس لیے اسے ختم کر دیا جائے، قطعاً بودی رائے ہے۔ سیکولر اپنے حق میں صرف اتنی دلیل دے پاتے ہیں کہ قانون کے غلط استعمال کے امکانات زیادہ ہیں۔ جواب میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ کوئی بھی ایسا قانون دکھا دو جس کا غلط استعمال نہیں ہو رہا۔ ہر روز کہیں نہ کہیں، پورے پاکستان میں کسی نہ کسی پر چوری، قتل، منشیات اور غیر قانونی اسلحہ رکھنے کا جھوٹا الزام لگتا ہے۔ جب صورت حال یہ ہے تو کیوں نہ یہ مطالبہ اٹھایا جائے کہ پورے قانونی نظام کی بساط لپیٹ دی جائے۔ بہر کیف ہر مہذب سوسائٹی میں اس امر کا جائزہ صرف قانون کی عدالت لیتی ہے کہ کسی شخص پر لگایا گیا الزام مبنی بر حقیقت ہے یا نہیں؟
حدود قوانین کے حق میں بات کرنے والا یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ قانون سازی کسی بھی مقصد سے ہو، اس کی بنیاد دو اصولوں پر قائم ہے: کیا کوئی اخلاقی قاعدہ، جسے معاشرہ حد درجہ احترام دینا ضروری سمجھتا ہو، پامال تو نہیں ہو رہا؟ کیا جن اخلاقی قدروں کی خلاف ورزی ہوئی، وہ اتنی توقیر رکھتی ہیں کہ ان کی حفاظت ضروری ہو؟ اگر جواب دونوں صورتوں میں ہاں میں ہے تو عدالتی منتظم کو بالکل بے لچک ہو کر ایسا قانون افقی اور عمودی ہر سطح پر نافذ کرنا چاہیے۔ قانون کو لازمًا وہ طریقہ اختیار کرنا ہوتا ہے تاکہ جس قاعدے اور ضابطے کو توڑا گیا تھا اس کا تقدس بحال ہو۔
ظاہر ہے اتنی سی بات پر یہ مکالمہ ختم نہیں ہو جائے گا، کیونکہ جب معاملہ نظریات کا ہو تو لوگ معقولیت کی راہ چھوڑ بیٹھتے ہیں۔ حدود قوانین کے مخالفین اسے متنازع بنانے کی کوشش کرتے رہیں گے۔ اب سوچنا یہ ہے کہ یہ سب کیوں ہو رہا ہے؟
اس کا جواب دو مختلف النوع فلسفوں اور ان کے بظاہر متخاصم روایات کے زیر اثر تشکیل پانے والے رویوں میں ملے گا۔
پاکستان کے مسلم عوام سمجھتے ہیں کہ اسلام ہی برحق، اور اللہ کا نازل کردہ قابل عمل دین ہے۔ ان کا کہنا یہ بھی ہے کہ اسلام کے عطا کردہ بنیادی اصول ابدی ہیں اور ہر زمانے کے لیے ہیں۔ پھر یہ کہ ان اصولوں کی پیروی کر کے ہی انہیں اس کرہ زمین پر سکھ چین نصیب ہوگا اور آخرت میں فلاح ملے گی۔ دوسری بات یہ ہے کہ قوانین کسی بھی تہذیبی دروبست کے لیے بہت اہم ہوتے ہیں۔ اسی لیے اگر اسلام اپنی جدا گانہ تہذیب وجود میں لانے سے قاصر رہے تو اس کا یہ دعویٰ کہ یہ اخلاقی بنیادوں پر استوار ایک عملی نظام ہے، غلط ثابت ہو جائے گا۔
تیسری حقیقت یہ ہے کہ مسلمان اسلام کو اپنی دانش کا امتحان اور چیلنج سمجھتے ہیں۔ اس سلسلے میں ان کی کامیابی کا انحصار اس پر ہے کہ ہر نسل اپنے زمانے میں اسلامی مملکت کے قیام کے لیے دلیرانہ اقدام کرتی رہے۔ حدود قوانین، جو اس ہمہ گیر اسلامی سکیم میں ایک اہم حیثیت رکھتے ہیں، مسلمانوں کو ان کے ماضی سے جوڑتے ہیں۔ اس بندھن کو بدقسمتی سے انگریزی استعماری قوانین نے توڑ پھوڑ دیا ہے۔ نیز کسی قوت کو بھی یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ مسلمان عوام کے اس حق کا انکار کرے کہ وہ اپنے ذہنوں پر لدا ہوا سامراجی تصور جھٹک دیں۔ مسلمانوں میں یہ شدید احساس ہے جیسا کہ رینڈ کارپوریشن کا سینئر سیاسی تجزیہ نگار گراہم فلر (Graham Fuller) ایک مراکشی کا بیان نقل کرتا ہے: ”ہم زندہ تو ہیں لیکن ایسے زمان و مکان میں جن کی حدود مغرب نے متعین کی ہوئی ہیں۔ ہم مغربی زمانوں میں غریب الوطن پھر رہے ہیں۔ (اس لحاظ سے) حد درجہ ہولناک استعمار وہ ہے جو آپ کے وقت میں براجمان ہو جائے کیونکہ اس صورت میں زخم آپ کی عزت و توقیر پر لگتا ہے۔“
حدود قوانین کی مخالفت کی نوعیت: سیاسی پہلو
حدود قوانین کی مخالفت تین بنیادوں پر ہو رہی ہے۔ پہلی یہ کہ اسلام از کار رفتہ نظام ہے، اس لیے قدامت پسند ہے۔ دوم یہ کہ مسلمانوں کے دین ایمان کا لوگوں کے سماجی اور سیاسی امور سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ انسان ارتقا کی اس منزل میں اتنا ذہین اور ہوش مند ہو چکا ہے کہ دلیل و برہان کی بنیاد پر اپنے فیصلے خود کر سکے۔ سوم یہ کہ مردو زن اپنی زندگیوں میں پوری طرح آزاد ہیں، ان پر کسی طرح کا آبائی یا سماجی دباؤ نہیں ہونا چاہیے۔ مختصراً، لبرل ایجنڈے کا جوہر حقیقی یہی ہے۔
یہ لبرل ایجنڈا کم و بیش اس چیز کا چربہ ہے جس کی وضاحت امریکی دانش ور فرانسیس فوکویاما (Francis Fukuyama) مغربی لبرل ازم بالمقابل دوسرے متبادلات کی کامل خستگی اور زبوں حالی کے الفاظ میں کرتا ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ یہی آزاد روی انسانی تہذیبی ارتقا کا نقطہ اختتام ہے، جبکہ مغربی لبرل جمہوریت ایک عالمگیر شکل میں انسانوں کے لیے حتمی طریق حکومت ہے۔
ایک دوسرے امریکی دانش ور سیموئیل ہنٹنگٹن (Samuel Huntington) کے تصور میں، جسے بظاہر مغرب قبول کیے بیٹھا ہے، اسلامی نظام زندگی کو اپنا تہذیبی رقیب سمجھتا ہے۔ یہ قول اس کے یہ دراصل انسان دوست، معقولیت پسند، آزاد رو اور انفرادیت پسندی کا علم بردار مغرب ہے، جسے نامعقول مسلم دنیا کا سامنا ہے، جس کو اصرار ہے کہ وہ تہذیبی طور پر خود مختار اور مختلف ہے۔ جبکہ یہی چیز مغرب کے لیے اہمیت و خطرے کا باعث ہے۔ ہنٹنگٹن لگی لپٹی رکھے بغیر کہتا ہے: ”یہ تہذیبوں کے ٹکراؤ سے کم کا معاملہ نہیں۔ شاید ایک نامعقول لیکن یقیناً تاریخی رد عمل، جو ایک قدیمی حریف سے ہمارے یہودی و نصرانی ورثے اور لادین حال کو لاحق ہے۔ اور اس کا عالمی اظہار دونوں کی طرف سے ہو رہا ہے۔“
یہ عقلیت پسند اور لادین نظریہ اپنی اصل میں خوفناک ہے۔ جو طاقت اور اختیار کی توسیع میں متشدد ہے، اور مدافعت کرنے والوں کو نامعقول قرار دیتے ہوئے ”عدم استحکام کے ایجنٹ“ گردانتا ہے۔ جن سے جنگ ہونی چاہیے اور ممکن ہو تو انہیں زیر دست رکھا جائے یا مجبور کیا جائے کہ مغرب کے زیر سایہ زندگی گزاریں۔
گراہم فلر مغربی لادین فکر کے سامنے سرنگوں دنیا میں اسلام کے ایک قوت کے طور پر باقی رہنے پر گہری نظر رکھتا ہے۔ وہ کہتا ہے: ”کسی اور متقابل دین کے مقابلے میں شاید اسلام زیادہ مربوط ادارہ ہے، جو گہرائی تک ریاست اور معاشرہ میں نفوذ رکھتا ہے۔ یہی بات اسے ایک ثقافتی قوت کے طور پر باقی رہنے والا بڑا عامل بناتی ہے، جو مغرب سے قطعی جدا اور ممتاز ہے۔ یہی خصوصیت اسے مغربی یلغار اور پیش قدمیوں کے مقابلے میں زیادہ محکم پسند اور جبار بناتی ہے۔“
گراہم فلر یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ مملکت اور سوسائٹی کے رنگ میں اسلام کا یہ اداراتی ارتباط اس کے پورے قانونی سلسلے اور ہدایات کا مرہون منت ہے۔ جب پاکستان میں لادین حلقہ حدود قوانین کی تنسیخ کا مطالبہ کرتا ہے یا عام آبادی کے اسلامی جذبوں کی مخالفت کرتا ہے تو وہ اصلاً مغرب کی جنگ لڑ رہا ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے تاثر یہی بنتا ہے کہ اس جنگ میں فائدہ انجام کار مغرب کا اور نقصان سب کا سب مسلم عوام کا ہوتا ہے۔
حدود قوانین کی فلسفیانہ مخالفت
لادینوں کی جانب سے حدود قوانین کی مخالفت نری کھوکھلی لفاظی نہیں بلکہ اس کا ”جدیدیت“ سے باقاعدہ اشتراک ہے، جسے ژان فراحواہ لیوتار (Jean Francois Lyotard) کشمکش کا نام دیتا ہے۔ جو زندگی کے معاملات پر ایک دانش مندانہ گیانی طریق اور سلیقہ مند جوڑ توڑ کے ذریعہ دنیا کو گرفت میں لینے اور ڈھنگ پر لانے کے لیے ہے تاکہ انسانی امکانات بروئے کار لائے جاسکیں۔ ایک شفاف دنیا پر حاوی ہونے کی اس کوشش کا نتیجہ ڈیوڈ کولب (David Kolb) کے نزدیک نہ صرف آزادی کی شکل میں سامنے آیا ہے بلکہ اس نے دہشت اور جبری اتفاق رائے کو بھی جنم دیا ہے۔
چنانچہ، جیسے میں پہلے بتا چکا ہوں، لادینیت پوری طرح معقول یا عقلی نظریہ نہیں ہے، بلکہ ایک درجہ بند سطحی مشق ہے، جس کے ذریعے معاشروں کو ان کے ادیان، رواجات، تاریخ اور طور طریقوں سے محروم کرنا ہے۔ پیٹر برجر (Peter Berger) اسی چیز کو ٹھریاں روپ کا نام دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے:
عزت و ناموس کا تصور مضمرات رکھتا ہے کہ (انسانی) تشخص لازمًا، یا کم از کم اہم طور پر، اداراتی کردار سے وابستہ ہے۔ جبکہ احترام ذات کا جدید تصور اداراتی کردار سے قطعی آزاد ہے ... دنیائے ناموس میں افراد سماجی علامات ہیں، جن کا (جذبہ) ناموس ان کی یادگاری سختی پر آب و تاب سے چمکتے ہیں۔ ایک بہادر شہ سوار کی حقیقی ذات اس وقت ظاہر ہوتی ہے، جب وہ اپنے کردار کی پوری شان کے ساتھ میدان جنگ میں نکلتا ہے۔ اس کے مقابلے میں کسی عورت کے ساتھ ہم بستر ننگا مرد اس کے نفس کا کم تر اظہار ہے۔ یہ دراصل ننگا مرد ہی ہے، بلکہ زیادہ واضح طور پر ننگے مرد کا جنسی اظہار ہے، جو اس کے وجود کا حقیقی ترجمان ہے۔“
برجر کے بقول مذہب انسان کو جھوٹا شعور دیتا ہے۔ اس کے خیال میں فرد اپنے اوپر حاوی سماجی کرداروں سے آزادی پا کر اپنی اصل شخصیت کا کھوج لگا سکتا ہے۔ اس کے نزدیک یہ کردار اس کے اصل کو چھپاتے ہیں۔ اس طرح کے (نقاب) اس میں احتراز ذات پیدا کرتے ہیں۔ انسان کو سراب میں مبتلا کرتے اور بے گانگی اور برے عقیدے میں الجھاتے ہیں۔
حرف آخر
اس نقطہ نظر سے دیکھیں تو حدود قوانین لادینیت اور اس ڈھنگ کی سوسائٹی کی قبولیت عام کی راہ میں سنگ گراں ہیں۔ اگست ۱۹۹۷ء کی کمیشن آف انکوائری فار وومن کی رپورٹ پوری بے باکی سے تسلیم کرتی ہے کہ حدود قوانین، بیجنگ کانفرنس کے اعلامیہ کے مخالف اور اس لیے نامرغوب ہیں۔ لادینوں کو اس امر کی کوئی پروا نہیں کہ سورۃ النور کے احکامات پر عمل ہوتا ہے یا ان کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔
ایک طرف سیکولر ایجنڈا ہے، دوسری طرف حدود قوانین التوا میں پڑے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے زانیوں کو کوڑوں کی سزا نہیں مل رہی۔ چنانچہ جنسی تشدد بلکہ گینگ ریپ کے واقعات بھی روز افزوں ہیں۔ ۱۹۹۹ء میں صرف ایک صوبہ میں ۱۷۹۸ مقدمات جبری زنا اور ۱۳۳ مقدمات اجتماعی زنا کاری کے درج ہوئے۔
یہ اعداد زنا کے عام واقعات کے علاوہ ہیں، جہاں باہمی رضا مندی سے اس جرم کا ارتکاب ہوتا ہے اور معاملہ کبھی سر عام نہیں آتا۔ سیکولر میڈیا کی مہربانی سے خواتین صنفی کھلونے بن چکی ہیں۔ لوگوں کی کھلے عام حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ اخلاقیات کی بات بھول جائیں اور اپنے جنسی غدودوں کے تقاضے پورے کریں۔ قریب ہے کہ ہمارا خاندانی نظم بکھر کر رہ جائے اور جنسی بیماریوں کا سیلاب امڈ پڑے۔ ملک کے دستور نے اس طرح کا معاشرہ پیش نظر نہیں رکھا تھا۔ مثلاً، بے نظیر بھٹو بنام فیڈریشن آف پاکستان کے مشہور مقدمہ میں اخلاقیات پر بات کرتے ہوئے چیف جسٹس محمد حلیم نے اپنے فیصلہ میں لکھا:
اخلاقیات کا مفہوم واضح کرنے کے لیے خود قرآن پاک رہنمائی کرتا ہے۔ سورۃ الانعام کی آیت ۱۵۱ میں فرمانِ خداوندی ہے: ”ظاہر ہو یا چھپے، کسی فحش کام کے قریب بھی مت پھٹکو۔“ اس اخلاقی ضابطے کی پیروی ہر مسلمان پر فرض ہے۔ ضروری اخلاقیات خود پاکستان کے اسلامی نظریے کا حصہ ہیں اور پاکستان کی سلامتی کے اظہار میں شامل ہیں۔ لہٰذا مسلمان انفرادی اور اجتماعی طور پر ایک کلیہ اخلاقی دائرہ کار کے اندر زندگی بسر کرنے کے پابند ہیں کہ یہی قرآن اور سنت سے ثابت ہے۔ کوئی مہذب معاشرہ اس معیار اخلاق کا انکار نہیں کر سکتا۔ اس لیے ہمارے دستور میں مہیا کردہ جمہوریت کے تصور کو انفرادی اور اجتماعی اخلاقی رویے سے فیض یاب ہونا چاہیے اور یہ اسلام (قرآن اور سنت) کے مطابق ہو۔
چیف جسٹس محمد حلیم نے تو یہ تک کہا کہ پاکستانی جمہوریت کو ہمارے معاشرے کی اخلاقی اور روحانی قدروں کے دائرے کے اندر روئے کار آنا چاہیے، اس سے باہر نہیں۔
چنانچہ اخلاقی قدروں کے تحفظ کے لیے اس بات پر زور دینے کی ضرورت ہے کہ صنفی سیاست یا حدود قوانین کی تنسیخ کی بات کرنے کے بجائے ہم نظام انصاف میں عمل درآمد کے کمزور پہلوؤں پر توجہ دیں اور ان کی اصلاح کریں۔ اسلامی قوانین اور نو آبادیاتی قانونی ورثے کا بے جوڑ ملاپ نہ صرف تضادات سامنے لایا ہے، بلکہ اس نے ہماری اخلاقی قدروں کی نشو و نما پر روک لگا دی ہے۔
ہمارے قانونی نظام کو روایتی اسلامی عدالتوں (قضا) کی سی سادگی اپنانی چاہیے، جس میں بندی خانوں (prisons) کی ضرورت معدوم یا بہت کم ہے اور انصاف جلد اور سستا ملتا ہے۔ یہ اس لیے ضروری ہے کہ نظام عدل ہو یا سماجی و سیاسی بندوبست، اسے لوگوں کی بہبود کے لیے ہونا چاہیے، انہیں اذیتیں دینے کے لیے نہیں۔
موجودہ عدالتی نظام میں موجود تضادات کا علاج زیادہ سے زیادہ اسلام پر عمل اور کم سے کم نو آبادیاتی قوانین سے رجوع میں ہے۔ ایسی پیش رفت ہو جائے تو منزل کی طرف سفر رواں ہو جائے گا۔
باب ۱۵: قراردادِ مقاصد اور ہماری صحافت
آج کل آزادی رائے کے نام پر ایک مخصوص گروہ قرارداد مقاصد کے خلاف جس طرح ہذیان اگل رہا ہے، اس سے جی متلانے لگتا ہے۔ اس مہم میں ٹیلی ویژن ٹاک شوز سے لے کر کالم نویسی اور خبروں سے لے کر عوامی رائے عامہ کو اس طرح سے استعمال کیا جا رہا ہے، جیسے قرارداد مقاصد یا تو متروک ہو گئی ہے، یا پھر یہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ جیسے قائد اعظم کے فرمودات کے خلاف قرارداد مقاصد کی شکل میں کوئی سازش کی گئی ہو، جس سے وطن عزیز میں تنگ نظری اور انتہا پسندی پھیل گئی ہے۔
میڈیا کی آزادی کا ایک بڑا مخمصہ یہ بھی ہے کہ پراپیگنڈے اور خبر میں امتیاز نہیں رہا اور نہ جھوٹ اور سچ میں کوئی فرق۔ میڈیا اب عوام کی عقل کا امتحان بن کر رہ گیا ہے۔ یعنی اس نے تو الا ماشاء اللہ گمراہ کرنا ہے، قارئین میں عقل اور تجزیہ کی رمق موجود ہے، تو خود چھان پھٹک کرتے پھریں۔ میڈیا کی ایسی کاوشوں کے پیچھے جو فکر کار فرما ہے اس کے مطابق عوام بیوقوف ہیں، ورنہ شاید اس کی یہ ہمت نہ ہوتی کہ وہ جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ بنا کر پیش کرتا۔
مثلاً آج کل سیکولر عناصر حدود قوانین کو غیر موثر کرنے کے بعد قرارداد مقاصد کے پیچھے پڑ گئے ہیں۔ ان کی تحریروں سے ان کی جو حکمت عملی سامنے آ رہی ہے وہ کچھ یوں ہے:
- قائد اعظم کو سیکولر ثابت کرو۔ اس کے لیے دلیل اور ثبوت کی ضرورت نہیں بس بار بار اس ایک بات کو تسلسل کے ساتھ اور ہر سطح پر دہراتے رہو کہ وہ سیکولر تھے۔
- ان کی گیارہ اگست والی تقریر کو تاریخی سیاق و سباق سے علیحدہ کر کے اسے ایک سیکولر متن دو اور پھر کہو وہ تو سیکولر پاکستان چاہتے تھے۔
- قرارداد مقاصد کو قائد اعظم کی گیارہ اگست والی تقریر کے خلاف ثابت کرو۔
- اخباری مذاکروں اور ٹی وی ٹاک شوز کے ذریعے جن میں زیادہ تر سیکولر لوگ ہوں، ان سے قرارداد مقاصد کے خلاف کہلوایا جائے، تاکہ ظاہر کیا جا سکے کہ لوگ متذکرہ قرارداد کے خلاف ہیں۔
- رائے عامہ کے خود ساختہ جائزوں (سروے) کے ذریعے سے ثابت کیا جائے کہ عوام تو قرارداد مقاصد یعنی پاکستان کے اسلامی تشخص کے خلاف ہیں۔
کچھ عرصہ پیشتر روزنامہ جنگ نے ایک ایسا ہی رائے عامہ کا جائزہ پیش کیا۔ یہ جنگ کا ۱۳ اگست ۲۰۱۰ء کا شمارہ ہے، جس کے صفحہ اول پر تین کالمی سرخی کے ساتھ یہ نوید سنائی گئی ہے کہ ساٹھ فیصد نے قرارداد مقاصد کو قائد اعظم کی گیارہ اگست ۱۹۴۷ء کی تقریر سے متصادم قرار دے دیا۔
روزنامہ جنگ کی یہ خبر اخبار کے اپنے دعوے کے مطابق رائے عامہ کے جائزے پر مبنی ہے، جس میں دانشور، بیوروکریٹ، وکلا، اور صنعت کار شامل تھے۔ جن سے یہ پوچھا گیا کہ آیا قرارداد مقاصد منظور کرنے کی ضرورت تھی اور آیا یہ قائد اعظم کی گیارہ اگست والی تقریر سے متصادم ہے؟ میں اس خبر کا تراشہ بمع متن حوالہ جات میں دے رہا ہوں تاکہ ابہام نہ رہے۔
میرے نزدیک چونکہ یہ ایک انہونی بات تھی لہٰذا میں نے سوچا، ہو سکتا ہے یہ جائزہ سیکولر حضرات کی آراء پر مبنی ہو جسے اکثریتی رائے بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ عموماً یہ سیکولر طریقہ کار رہا ہے۔ یا پھر ہو سکتا ہے کہ کوئی چال چلی جا رہی ہو، جس میں دھوکا دہی سے لوگوں کے ذہنوں میں جھوٹ کو اتارا جا رہا ہو۔ آخر کار انڈیا کے حامی سیکولر حضرات حقائق کو توڑ مروڑ کر تاریخ پاکستان کو از سرنو لکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے انہوں نے سب سے پہلے یہ مقدمہ قائم کرنے کی کوشش کی کہ علامہ اقبال بھی سیکولر تھے اور جناح بھی سیکولر تھے۔
میں نے جب پوری خبر پڑھی تو مجھے یہ دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی کہ پورے متن میں سرخی کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ چونکہ عوامی جائزے کی تفصیلات اگلے شمارہ میں آئی تھیں لہٰذا اگلے دن یعنی ۱۴ اگست کو میں نے اسے بغور پڑھا۔ یہ آراء چار رنگین صفحات پر مشتمل تھیں۔
چونکہ شرکا میں صرف ایک مولوی صاحب تھے اور ایک برام ڈی آواری صاحب جو پارسی برادری سے ہیں، بقیہ میں چھ معروف اور سکہ بند سیکولر، جبکہ دیگر حضرات عدلیہ، جامعات، وکلا، تاجر و صنعت کار، نوکر شاہی اور مسلح افواج کے سابقین سے لیے گئے تھے۔ روزنامہ جنگ کا خیال تھا کہ نتائج ان کی پسند کے مطابق ہوں گے مگر ان کی بد قسمتی کہ ایسا نہ ہوا۔ یہاں تک کہ آواری صاحب (میں ان کی عظمت کو سلام پیش کرتا ہوں) نے بھی اقلیتی فرد ہوتے ہوئے قرارداد مقاصد کی اہمیت اور اس کی حکمت کا اعتراف کیا۔
حقیقت یہ ہے کہ اگر اس جائزے میں احمد علی کرد، تاج محمد لنگاہ، منو بھائی، منیر ملک، اشرف ناصر اور معین الدین حیدر جیسے سیکولر حضرات کو شامل نہ کیا جاتا، تو قرارداد مقاصد کے مخالفین کی تعداد مزید سکڑ کر رہ جاتی۔
شرکاء کی آراء کو پڑھنے کے بعد میرا شک سچ ثابت ہو گیا۔ روزنامہ جنگ والے شرکاء سے وہ بات منسوب کر رہے تھے جو انہوں نے نہیں کہی تھی۔ یہ دن دہاڑے ایسی واردات کیوں کر رہے تھے؟ شاید اس لیے کہ وہ اس طرح ۱۴ اگست کی نسبت سے اپنے سیکولر ایجنڈے کی تکمیل کر سکیں۔ یہ ایک بدترین جھوٹ اور مکاری تھی جو جنگ اپنے قارئین سے کر رہا تھا۔ مثلاً دیکھئے کہ اس جائزے کے اصلی نتائج کیا صورت پیش کر رہے ہیں:
- شرکاء کی کل تعداد: ۲۹
- قرارداد مقاصد کے حامی: ۱۸ یعنی ۶۲ فیصد
- مخالفین: ۷ یعنی ۲۴ فیصد (ان میں ۴ افراد جانے پہچانے سیکولر ہیں)
- جنہوں نے جواب نہیں دیا: ۳ یعنی ۱۰ فیصد
- غیر واضح جواب: ۲ یعنی ۴ فیصد
معلوم ہوا کہ شرکاء کی واضح اکثریت یعنی ۶۲ فیصد قرارداد مقاصد کے حق میں تھی۔ اس تعداد کو اگر ایک اور پہلو سے دیکھا جائے تو زیادہ بھی ہو سکتی ہے۔ مثلاً، معین الدین حیدر اپنے رویے سے سیکولر بنے دکھائی دیتے ہیں، لیکن قرارداد مقاصد کو مذہبی انتہا پسندی قرار دینے کے باوجود کہتے ہیں کہ چونکہ ہمارے ملک میں مسلمان اکثریت میں ہیں، اس لیے) کوئی قانون قرآن و سنت کے خلاف نہیں بن سکتا۔
اب معین الدین حیدر صاحب سے یہ پوچھا جاسکتا ہے کہ جناب آپ ایک طرف تو قرارداد مقاصد کی مخالفت اس لیے کرتے ہیں کہ اس میں وطن عزیز کے اسلامی تشخص کی بات کی گئی ہے، جس کی وجہ سے آپ کے خیال میں ملک میں انتہا پسندی پھیلی۔ مگر دوسری طرف آپ فرماتے ہیں کہ ہمارے ملک میں قانون سازی قرآن و سنت کے خلاف نہیں کی جاسکتی، اس طرح تو آپ کے اس موقف سے (خواہ قرارداد مقاصد ہو یا نہ ہو) آپ کے اپنے ہی الفاظ میں انتہا پسندی پھیلے گی۔
یہ ایک حیلہ گر اور الجھے ہوئے ذہن کی کیفیت ہے، وگرنہ اگر آپ قرآن و سنت پر مبنی قانون سازی کے خلاف نہیں تو پھر منطقی اعتبار سے آپ قرارداد مقاصد کے بھی خلاف نہیں ہو سکتے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ اسے قائد اعظم کی گیارہ اگست والی تقریر سے براہ راست متصادم قرار دینے سے اجتناب کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک مذہبی جماعتوں کو سیاست میں نہیں آنا چاہیے تھا۔
ضیاء الحق سرحدی نے قرارداد مقاصد کی ضرورت کا اعتراف تو کیا لیکن ساتھ ہی یہ کہہ دیا کہ اس میں مذہبی رواداری کا اہتمام نہیں کیا گیا۔ ظاہر ہے یہ بات وہی شخص کہہ سکتا ہے جسے قرارداد مقاصد کے متن سے آگاہی نہ ہو لیکن پھر بھی وہ صاف الفاظ میں اسے قائد کی تقریر سے متصادم قرار نہیں دیتے۔ موصوف کی رائے کو قرارداد مقاصد کے حق میں شامل کیا جاسکتا ہے لیکن میں محتاط انداز اختیار کرتے ہوئے اسے غیر واضح قرار دوں گا۔
عقیل کریم ڈھیڑی سمجھتے ہیں کہ چونکہ پاکستان کا قیام برصغیر کے مسلمانوں کے لیے الگ ریاست کی بنیاد پر وجود میں آیا تھا، اس لیے قرارداد مقاصد کا پیش کیا جانا غیر مناسب بات نہیں تھی لیکن اس کی بنیاد پر جو تبدیلیاں کی گئیں وہ شاید اس کی روح کے منافی تھیں۔ ان کے نزدیک قائد اعظم چاہتے تھے کہ تمام ادیان کے لوگ برابری کی بنیاد پر زندگی گزاریں۔
میڈیا کی آزادی کا ایک بڑا مخمصہ یہ بھی ہے کہ پراپیگنڈے اور خبر میں امتیاز نہیں رہا اور نہ جھوٹ اور سچ میں کوئی فرق۔ میڈیا اب عوام کی عقل کا امتحان بن کر رہ گیا ہے۔ یعنی اس نے تو الا ماشاء اللہ گمراہ کرنا ہے۔
ڈھیڈی صاحب بھی قرارداد مقاصد کی مخالفت نہیں کر رہے، اور نہ قائد کی ۱۱ اگست والی تقریر کو اس سے متصادم قرار دے رہے ہیں۔ یہ گومگو کی کیفیت ہے۔ میں اسے غیر واضح قرار دوں گا۔
اس عوامی (?) جائزے میں چند آراء ایسی بھی آئی ہیں، جن میں تازگی اور فکر کی روشنی ہے۔ مثلاً حفیظ لاکھو نے جو وکیل ہیں دلچسپ بات کی ہے۔ وہ قرارداد مقاصد کی حمایت کرتے ہیں البتہ قائد اعظم کی ۱۱ اگست والی تقریر کو اس سے متصادم قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس تقریر کی کوئی دستوری اہمیت نہیں، کیونکہ یہ ایک سیاسی تقریر تھی جسے پارلیمان کی منظوری حاصل نہیں تھی۔ حفیظ لاکھو صاحب کا یہ نکتہ بڑا اہم ہے جسے اب تک کسی نے پیش نہیں کیا تھا۔
قاضی انور سابق صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے پاکستان کی بنیاد اسلام کو قرار دیتے ہوئے قائد اعظم کی تقریر کو مسلمانوں کے جذبات سے متصادم بیان کیا۔ یہ بھی ایک انتہائی اہم نکتہ ہے، کیونکہ یہ قرارداد مقاصد کی اہمیت اور درستگی کو تسلیم کرتا ہے نہ کہ قائد اعظم کی اس واحد تقریر کو۔
دراصل روزنامہ جنگ کے سروے کا بنیادی مقصد یہ نظر آتا ہے کہ قائد اعظم کی ۱۱ اگست والی تقریر کو برتری دی جائے اور اسے قرارداد مقاصد کے ساتھ متصادم قرار دے کر آخر الذکر کو ختم کر دیا جائے۔ لیکن سروے میں یہ ہوتا نظر نہیں آتا۔ روزنامہ جنگ کا مقصد اس وقت پورا ہوتا جب یہ حضرات قائد اعظم کی تقریر کو قرارداد مقاصد سے متصادم قرار دیتے ہوئے موخر الذکر کو برا سمجھتے، جیسا کہ چھ معروف سیکولروں کا موقف اس جائزے میں ہے، لیکن ایسا ہوا نہیں۔ مثلاً جن لوگوں نے قائد اعظم کی تقریر کو قرارداد مقاصد سے واضح الفاظ میں متصادم قرار دیا بالخصوص حفیظ لاکھو اور قاضی انور صاحبان، وہ پر زور الفاظ میں قرارداد مقاصد کی اہمیت کا اعتراف کرتے ہوئے قائد اعظم کی تقریر کو ثانوی مقام دیتے ہیں۔
یہ اشکال اسی صورت میں پیدا ہوا کہ سروے مرتب کرنے والوں کے ذہن میں شرارت تھی۔ اس جائزے میں قرارداد مقاصد کا خلاصہ تو نہیں دیا گیا لیکن قائد اعظم کی گیارہ اگست والی تقریر کا ایک اقتباس ضرور دیا گیا ہے۔ اس سے بعض اذہان میں دونوں کا موازنہ کرتے ہوئے دشواری پیدا ہوئی۔ انصاف کا تقاضا تو یہ تھا کہ دونوں کا متن دیا جاتا، تاکہ جواب دینے والا سوچ سمجھ کر جواب دے سکتا اور وہ صورت پیدا نہ ہوتی جو ضیاء الحق سرحدی اور عقیل کریم ڈھیڈی کے جوابات سے پیدا ہوئی۔
اس سب کے باوجود باقی سب حضرات نے قرارداد مقاصد کو صحیح قدم سے تعبیر کیا اور ساتھ ہی قائد اعظم کی گیارہ اگست کی تقریر کے متن کو بھی اسلامی قرار دیا۔ یہی وطن عزیز میں اکثریتی موقف بنتا ہے کہ ان دونوں میں تناقص نہیں۔
ان سب پہلوؤں سے قطع نظر روزنامہ جنگ نے رائے عامہ کے جائزے میں وہ تمام اصول پامال کیے جو دنیا بھر میں معروف ہیں اور جنہیں ایسے جائزوں میں پیش نظر رکھا جاتا ہے۔ مثلاً:
- ایسے جائزے (سروے) اپنے چنیدہ افراد کی آراء پر مبنی نہیں ہوتے۔
- ایسے جائزوں میں بغیر کسی ترتیب کے بالعموم معاشرے کے افراد کی آراء معلوم کی جاتی ہیں تاکہ نتائج پہلے سے طے کردہ ایک خاص رجحان کی طرف مائل نہ دکھائی دیں۔ جائزہ مذکور جو کل ۲۹ افراد پر مشتمل ہے، اس میں جان بوجھ کر چھ ایسے سیکولر افراد کو شامل کرنا جو قرارداد مقاصد کے ہمیشہ سے مخالف رہے ہیں۔
- جائزہ لینے والے اپنی پسند ناپسند کو ایک طرف رکھتے ہوئے کسی خاص موضوع پر رائے عامہ کو معلوم کریں تاکہ اس کی نوعیت معروضی رہے۔
اس کے برعکس روزنامہ جنگ نے نہ صرف ایسے جائزوں کے معروف اصولوں کو پامال کیا بلکہ خود اپنے ہی مرتب کردہ جائزے کے برعکس جھوٹی شر انگیز سرخی لگائی کہ ۶۰ فیصد نے قرارداد مقاصد کو قائد اعظم کی ۱۱ اگست والی تقریر سے متصادم قرار دے دیا، حالانکہ متذکرہ جائزے کے مطابق ایسا نہیں تھا۔ یعنی ۶۲ فیصد خواتین و حضرات قرارداد مقاصد کے حق میں تھے۔ ان میں اکثریت ان لوگوں کی تھی جو قائد اعظم کی ۱۱ اگست والی تقریر کو قرارداد مقاصد سے متصادم نہیں سمجھتے تھے۔
یہ ایک افسوس ناک صورت حال ہے۔ اگر صحافت اور الیکٹرانک میڈیا کے یہی اطوار رہے تو خدانخواستہ ہم نہ صرف اپنے ملک میں شناخت کے بحران میں مبتلا ہو جائیں گے، بلکہ شاید اپنی آزادی کو گنوا بیٹھیں گے۔ یقیناً ہمارے دشمن یہی چاہتے ہیں۔
باب ۱۶: میڈیا کو کتنا آزاد ہونا چاہیے؟
یہ سوال کہ صحافت کتنی آزاد ہونی چاہیے بذات خود اس امر کی دلیل ہے کہ اس کی بے لگام آزادی میں کچھ ایسے منفی پہلو موجود ہیں جو تکلیف کا باعث بنتے ہیں۔ وہ منفی پہلو کیا ہیں، انہیں جاننے کے لیے یہ ضروری ہے کہ یہ معلوم کیا جائے کہ میڈیا کن لوگوں کے تصرف میں ہے؟
ہمارے ہاں میڈیا میں پانچ قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں:
- سینہ کوبیے، جو ہر وقت اپنے اوپر کربلا طاری رکھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ قوم بھی ان کی سینہ کوبی کے عمل میں شامل ہو جائے۔
- قنوطیے یا یاس زدہ، جنہیں چاروں طرف مایوسی کے کھنڈرات اور دکھ کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔
- تشکیک پسند یا سنکی جو ہر بات کو جھٹکتے ہیں اور معاشرہ کے مثبت پہلوؤں کو نظر انداز کر کے منفی سوچ پھیلاتے ہیں۔
- بر خود غلط، جو مقام اعلیٰ پر بیٹھ کر بات کرتے ہیں اور اپنا حق سمجھتے ہیں کہ عوام کو ان [جاری ہے...]
اخلاقی قدروں سے محروم کر دیں، جو اُن کے تاریخی تشخص کو موجودہ زمانہ میں ممکن بناتے ہیں، اور اس طرح ایک اجنبی معاشرتی ایجنڈے کو اُن پر مسلط کر دیں۔
رجائیت پسند، جو تنقید کرنے سے گریز نہیں کرتے اور دور سرنگ کے پارا انہیں روشنی بھی نظر آتی ہے۔
ان کے علاوہ میڈیا مالکان کا طبقہ ہے، جنہیں الا ماشاءاللہ، دولت اور طاقت کے حصول سے غرض ہے۔ اُن کے اخبارات میں کیا شائع ہو رہا ہے یا ٹی وی پر کیا آرہا ہے، یہ شاید ان کی دلچسپی کے زمرے میں نہیں آتا۔
ان میں سے پہلے چار بظاہر نفسیاتی عوارض میں مبتلا نظر آتے ہیں۔ لیکن ایسا ہے نہیں، سینہ کوبی ہو یا یاس زدگی، ہنگامی پن ہو یا تشکیک پسندی یا پھر بر خود غلط ذہنیت، یہ سب شعوری طور پر اختیار کیے ہوئے راستے ہیں۔ دیوانہ بہ کار خود ہوشیار کے مصداق، ان کی دیوانگی دانستہ مسلط کردہ ہے۔ وہ آزادیِ رائے سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے وطنِ عزیز کی اساسیات کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔
یہ نفسیاتی جنگ کا مسلمہ قاعدہ ہے کہ ایک دشمن ملک دوسرے کے خلاف جسے وہ زیر کرنا چاہتا ہے:
- یاس
- احساس محرومی
- تشکیک
- ہنگامی پن
- اپنے وجود سے نفرت
- شکستگی
- عدم خود اعتمادی
- مستقبل کے بارے میں مایوسی پھیلائے
اور معاشرے کے مختلف گروہوں میں منافقت، تنگ دلی اور عصبیت کو ہوا دے، تا کہ ایک ہی وطن کے باسی ایک دوسرے سے محاذ آرائی کے راستے پر چل پڑیں اور اس طرح ملکی وحدت کو منتشر کر دیں۔ پھر طے شدہ اساسی امور کو بار بار چھیڑیں، تا کہ جس چیز نے انہیں باندھا ہوا تھا وہ متنازع ہو کر بے اثر ہو جائے۔ اس کے لیے ظاہر ہے میڈیا ہی کو استعمال کیا جا سکتا ہے۔ سیکولر لابی کے جو لوگ یہ کام کر رہے ہیں، وہ جانے پہچانے ہیں۔
سیکولرزم: مباحث اور مغالطے
جہاں تک حکومت اور میڈیا کے نہ ختم ہونے والے تنازعے کا تعلق ہے، اس سے قطع نظر ہمارے ہاں میڈیا کو اُسی وقت پابند کیا جاتا ہے جب حکومتِ وقت کے اعصاب اس کی تنقید کے سامنے جواب دینے لگتے ہیں۔ بس اسی وقت حکومت کی طرف سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ میڈیا اپنی حدود کا احترام کرے اور ایسے ہی وقت پر الزام لگایا جاتا ہے کہ "میڈیا غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کر رہا ہے۔"
پیپلز پارٹی کی حکومت کا مسئلہ کچھ اور رہا ہے۔ وہ غلط کام بھی کرنا چاہتی ہے اور اُس پر کسی بھی طرف سے گرفت بھی پسند نہیں کرتی۔ اس لیے جب کسی غلط کام کی نشاندہی کی جاتی ہے تو اُس کا رویہ ایسا ہوتا ہے جیسے چور چوری کرتے ہوئے پکڑا گیا ہو۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کا مسئلہ ایک اور بھی ہے۔ 1988 کے بعد وہ دو دفعہ اقتدار میں آئی، مگر خیانت، بد نظمی اور چوری کی مرتکب قرار پائی اور اقتدار سے نکالی گئی لیکن چونکہ میڈیا میں اُس وقت وسعت نہیں تھی، بالخصوص الیکٹرانک میڈیا میں، وہ اندھیرے میں وارداتیں کرتی رہی اور عوام بے خبر رہے۔ بے نظیر بھٹو کی دونوں حکومتوں کی حد درجہ خراب کارکردگی پر گرفت کی گئی اور مختلف کہانیاں مرکزی کرداروں کے حوالے سے گردش کرنے لگیں تو کسی نے اُن سے کہا کہ عوام میں اُن کی ساکھ گر رہی ہے تو اُن کے منہ سے بے ساختہ یہ تاریخی فقرہ نکلا: "آپ فکر نہ کریں ہمارے ووٹر اخبارات نہیں پڑھتے۔" اب بھی غالباً پیپلز پارٹی کی یہی سوچ ہے۔ اُس کا خیال ہے کہ اگر میڈیا بیچ میں نہ پڑے تو عوام کو بے وقوف بنا کر رکھا جا سکتا ہے۔ یہی رویہ کم و بیش علاقائی اور لسانی جماعتوں کا بھی ہے۔
یہ رویہ اپنی جگہ لیکن بہرحال حقیقت یہی ہے کہ طاقتور میڈیا اور وہ بھی اتنا وسعت پذیر اور جس کی غیر مشروط آزادی اور توانائی پر امریکہ اور یورپ حیران ہیں، حکومت کے لیے سنگین مسئلہ بن گیا ہے۔ بقول ایک وزیر مملکت کے، حکومت میڈیا پر خودکش حملے کر رہی ہے اور جواباً انہوں نے ٹارگٹ کلنگ شروع کر دی ہے۔
یہ اچھی صورت حال نہیں لیکن وجہ ظاہر ہے۔ جب برسرِ اقتدار لوگ یہ کہیں کہ "ہمارے اوپر تنقید مت کرو" اور میڈیا یہ کہے "ہمیں حق ہے کہ ہم جو کہیں اور جیسے کریں، آپ ہمیں روک نہیں سکتے" یا یہ کہ "میڈیا نے آزادی چھین کر لی ہے" تو پھر یہ بعد المشرقین کا مسئلہ ہے جس پر پل نہیں بنایا جا سکتا۔
بدقسمتی سے ہمارے ہاں مسخرہ پن کچھ زیادہ ہی ہے۔ ہر کوئی اپنے لیے اختیارات سے متجاوز حق مانگتا ہے۔ بالفاظ دیگر وہ غیر مشروط آزادی اپنے لیے مانگتا ہے اور پابندی دوسروں کے لیے۔ مثلاً، کئی عشروں سے برسرِ اقتدار لوگ میڈیا کے لیے ضابطہ اخلاق کی بات کرتے ہیں، مگر کوئی خاکہ جس پر میڈیا عمل کر سکے پیش نہیں کرتے۔ جب معاملہ میڈیا پر چھوڑا جائے کہ وہ خود کسی ضابطہ اخلاق کا پابند ہو تو وہاں سے بھی پیش رفت نہیں ہو پاتی۔
لیکن یہ مسئلہ اتنا بھی پیچیدہ نہیں کہ اس کا حل نہ ڈھونڈا جا سکے، البتہ چند شرائط ہیں جن کو دونوں فریقین کو تسلیم کرنا پڑے گا۔
پہلے قدم پر حکومت کو چاہیے کہ وہ میڈیا کا حق تسلیم کرے کہ وہ اُس کے غلط طرز عمل کو عوام کے سامنے پیش کرے گا۔
حکومت کا میڈیا کی تنقید پر مبالغہ آمیز حد تک حساس ہونا بذاتِ خود ایک بیماری کی علامت ہے، جسے دور کرنا نہ صرف میڈیا کا فرض ہے بلکہ عوام کا حق بھی ہے۔ سمجھدار حکومتیں جو عوام کے سامنے اپنے آپ کو جواب دہ محسوس کرتی ہیں، وہ نہ صرف صحیح مشورہ کی طالب ہوتی ہیں بلکہ اپنے طرز عمل کے ہر وقت احتساب کی بھی متمنی ہوتی ہیں تا کہ خرابی کا سدباب کیا جا سکے۔ اسی طرح وہ عدلیہ کو بھی اپنا معاون سمجھتی ہیں۔ میڈیا اور عدلیہ کے اشتراک سے اچھی حکمرانی ممکن بنائی جاتی ہے۔
لیکن بدقسمتی سے پیپلز پارٹی ہمیشہ تضادات کا شکار رہی ہے، وہ جاگیرداروں اور وڈیروں کی حکومت کو عوام کی حکومت کہتی ہے۔ وہ لاقانونیاں کرتی ہے، اور قانون کی گرفت سے بچنے کے لیے عوام کی دہائی دیتی ہے۔ اُس کے نزدیک عوام کی عدالت اگر انہیں ووٹ دے دے تو پھر وہ تنقید اور قانون دونوں سے بالا ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ میڈیا سے سینگ لڑاتے ہیں، عدلیہ کو آنکھیں دکھاتے ہیں، اور فوج پر چنگھاڑتے ہیں۔
حکومت اور میڈیا کے تنازع میں ایک اور افسوسناک پہلو یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ حکومت اپنی کارکردگی پر تنقید کے بارے میں تو شمشیر برہنہ ہے، لیکن جب میڈیا کا ایک حصہ خود پاکستان کے وجود پر تیغ زنی کرتا ہے اور بار بار کوشش کرتا ہے کہ برطانوی ہند کی تقسیم کو غلط ثابت کرے، تو حکومت کو کوئی پروا نہیں ہوتی، حالانکہ قوانین موجود ہیں جن کے تحت ایسے اخبارات اور ٹی وی چینلز کو سزا دی جا سکتی ہے۔ یہ پہلو اس لیے بھی افسوسناک ہے کہ حکومت کا اولین دستوری فریضہ مملکت کی حفاظت اور استحکام ہے۔
میڈیا کے رویے میں بھی خامیاں ہیں، جن کی وجہ کچھ مفروضے ہیں اور کچھ تلخ حقیقتیں۔ مثلاً میڈیا کو یہ خناس ذہن سے نکال دینا چاہیے کہ آزادی غیر مشروط ہوتی ہے۔ ایسی آزادی اس کرہِ ارض پر کہیں بھی نہیں۔ کیونکہ ایسی آزادی جس کا مدار نہ ہو بالآخر افراتفری کی طرف لے جاتی ہے، جس سے معاشرے اور قومیں کمزور ہوتی ہیں۔ اس طرح میڈیا کو اس پہلو پر بھی توجہ دینی چاہیے کہ اگر اُن کے حقوق ہیں تو اس ریاست اور مسلمان معاشرہ کے بھی کچھ حقوق ہیں جس کے وسائل سے وہ مستفید ہوتے ہیں۔
میڈیا اور حکمرانوں کے اس تنازع میں ایک تیسرا فریق بھی ہے اور وہ پاکستانی عوام ہیں، جو فی الحال خاموش ہیں، مگر اندر سے پریشان ہیں۔ اخبارات کے بعض کالم اور ٹی وی کے بعض ٹاک شوز اور ڈرامے اُن کے ذہن میں کئی سوالات اٹھاتے ہیں، جن کا جواب انہیں نہیں مل رہا۔ وہ سوچتے ہیں یہ کیسے لکھنے والے اور باتیں کرنے والے لوگ ہیں اور کس ملک کے باسی ہیں کہ اپنے ملک کے وجود کو، اُس کی مسلم شناخت کو، اُس کی اخلاقی قدروں کو للکارتے پھرتے ہیں؟ یہ کون مالکان اور کارندے ہیں جو انہیں ایسی گفتگو کا موقع فراہم کرتے ہیں؟
بات کھول کر بیان کی جائے تو پوچھا جا سکتا ہے کہ میڈیا کو کس نے یہ اختیار دیا ہے کہ وہ پاکستان کو بطور ریاست مطعون کرے، یا یہ کہے کہ پاکستان کی تو ضرورت ہی نہیں تھی اور یہ کہ پاکستان کی تخلیق مذہبی تنگ نظری کی رہینِ منت ہے، یا یہ کہ پاکستان سامراجی سازش کا نتیجہ ہے، وگرنہ ہندو اور مسلمان ایک قوم تھے۔ ایسا گھر سیکولر حضرات ہی تخلیق کر سکتے ہیں۔
اسی طرح میڈیا کو کس نے یہ حق دیا ہے کہ وہ نظریہ پاکستان کو اس صدی کا سب بڑا جھوٹ قرار دے، اور اس طرح وہ اس تاریخی اجماع کو توڑنے کی کوشش کرے، جسے خود پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی نے قرار داد مقاصد کا نام دیا۔ اور بعد میں اُسے ذوالفقار علی بھٹو نے 1973 کے دستور میں رہنما اصول کا مقام دیا، یعنی ایسے اصول جن سے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی سمت کا تعین ہوتا ہے۔ بالفاظ دیگر وہ تمام دستوری موضوعات جو قومی اجماع کے نتیجہ میں 1947ء کے عشرے میں طے ہو گئے تھے، اُنہیں بار بار ٹاک شوز اور پرنٹ میڈیا میں زیر بحث لانا، اُن پر طعن اور طنز و تشنیع کرنا، دنیا کے کس جمہوری اور دستوری قواعد میں درست سمجھا جاتا ہے؟
یہ حق نہ دستور پاکستان میڈیا کو دیتا ہے اور نہ معاشرتی و سیاسی تقاضے۔ میڈیا کا یہ کہنا کہ یہ ہمارا بنیادی حق ہے، ایک کمزور موقف ہے۔ کیونکہ کوئی بنیادی حق اپنے اطلاق اور عمل پذیری میں ایک مخصوص متن رکھتا ہے، جس سے کاٹ کر اُس کا اظہار ایک مہمل حرکت بن جاتا ہے۔
دوسرے الفاظ میں کوئی معاشرہ اُسی وقت بنیادی حقوق دیتا ہے جب اُسے یقین ہو کہ ایسا حق اُس کی بقا، سلامتی، استحکام اور انصاف قائم رکھنے میں معاون ہوگا۔ لیکن اگر یہی حق معاشرے میں انتشار پھیلانے، اُس کی قوت مدافعت کو کمزور کرنے، اور اُسے احساس کمتری اور مایوسی و شکست خردگی میں مبتلا کرنے کے لیے استعمال ہو، تو پھر یہ سندِ جواز کھو بیٹھتا ہے۔ اس کی سیدھی سادی مثال حق احترام زندگی ہے۔ ریاست کا فرض ہے کہ وہ اپنے شہری کو تحفظ ذات دے، لیکن اگر وہی شہری کسی کو قتل کرتا ہے یا ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھاتا ہے، تو وہی ریاست اُسے خود مارنے پر تل جاتی ہے۔ یہی حال آزادی رائے کا بھی ہے۔
ظاہر ہے ایسی صورت حال جو متضاد مفادات کے ٹکراؤ کے باعث پیدا ہوئی ہو، اُس سے عہدہ برا ہونے کا ایک ہی راستہ ہو سکتا ہے کہ موضوعی موقف کے بجائے معروضیت کو پیش نظر رکھا جائے۔ کیونکہ معروضیت سے ہی ہمیں وہ میزان مل سکتی ہے، جس سے ہم انفرادی اور اداراتی رویوں کو صحیح یا غلط کہہ سکتے ہیں۔
مسلم قیادت کی ناکامی کا سبب
اسلام ہی ہماری واحد صداقت تھی، لیکن ہم اس سے وفا نہ کر سکے۔
کیا ہماری خستہ حالی کا سبب ”سیاسی اسلام“ کی ناکامی ہے یا قیادت کے بحران کا سوال ہے؟
اس مسئلے پر بحث ہو سکتی تھی۔ لیکن اس اہم موضوع پر کلام کرتے ہوئے ایک انگریزی روزنامے کے مقالہ نگار جناب ایس ایم ظفر جو پارلیمان میں ملک کی نمائندگی کرتے ہیں سیدھی گفتگو کی بجائے آڑھی ترچھی راہ اختیار کرتے ہیں۔ جس سے صاحب تحریر کے بارے میں خوامخواہ شبہات پیدا ہوتے ہیں۔ اگر مذکورہ مقالہ کو لادین انداز و رجحان میں لیا جائے تو اس میں اسلام کو بہ طور نظریہ رد کرنے کی بات ہوئی ہے۔
لیکن مناسب ہوگا اگر اس مضمون کا تنقیدی جائزہ لینے سے پیشتر اس کی روح اور جوہر کا لب لباب پیش کر دیا جائے۔ مضمون کے تین حصے ہیں:
- پہلے میں موضوع گفتگو کا تعارف ہے اس سوال کے ساتھ کہ کیا سیاسی اسلام ناکام ہو چکا؟
- دوسرے حصے میں مسلم زعما اور قیادت کی ناکامی کا تذکرہ ہے۔
- تیسرے حصے میں تجویز کیا گیا ہے کہ نیک نفس کرشماتی قیادت کے بجائے اداروں کی تخلیق کی جائے اور انہی پہ تکیہ ہو۔
بظاہر دیکھیں تو مضمون کی تشکیل کا یہ انداز بالکل درست دکھائی دیتا ہے۔ لیکن چونکہ مصنف موصوف خود سیاسی اسلام کی تعریف متعین کرنے میں ناکام رہے ہیں، اس لیے پورا مضمون اپنے زور اور مفہوم کے حوالے سے مغالطہ انگیز ہو گیا ہے۔ مصنف نے بلا تکلف یہ تو کہہ دیا ہے کہ سیاسی اسلام ناکام ہو چکا، لیکن یہ کہتے ہوئے ساتھ ہی وہ یہ بری خبر بھی سناتے ہیں کہ سیاسی اسلام معاشرے کے نچلے طبقے میں اپنا زور دکھا رہا ہے اور مسلمان آبادی کے بھی طبقات میں اس کی حیاتِ نو سامنے آرہی ہے۔ بلا شبہ یہ تضاد بیانی ہے، کیونکہ اگر سیاسی اسلام ناکام ہو چکا تو پھر یہ معاشرے کی کسی بھی سطح پر اپنا آپ کیسے منوا رہا ہے؟ ناکامی تو صرف ناکامی ہوتی ہے!
تو پھر یہ سیاسی اسلام ہے کیا؟ کیا یہ موجودہ نسل کی مسلم قیادت کی بلند بانگ لفاظی ہے جو عوام الناس کی اسلامی امنگوں کو فریب دینے کے لیے جاری ہے۔ یا پھر یہ سماجی اور سیاسی حوالے سے اس جانے پہچانے اسلام کا قصہ ہے، جسے نافذ کیا گیا ہو اور پھر وہ ناکام ہو گیا ہو؟
بہرحال جو صورت احوال بھی ہو ہمیں اس ذیل میں ناکامی نظر نہیں آتی۔ کسی نظام کی ناکامیابی کا تصور لازماً اس امر پر ہوتا ہے کہ اول اُس کا عملاً نفاذ ہو اور پھر اگر وہ اپنے امکانات کے مطابق نتائج نہ دے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ ناکام ہو گیا۔ اس کے لیے لازم ہے کہ اُسے اُس کے امکانات کی غیر متنازع میزان پر پرکھا جائے اور اُس کی کارکردگی کو وعدوں کے آئینے میں دیکھا جائے۔ ایسی کسی شرائط کی غیر موجودگی میں موصوف کو ناکامی کا پتہ کیسے چلا؟
ناکامی کی صورت میں یہ بھی دیکھنا پڑتا ہے کہ کہیں معاملہ قیادت کی کمزوری، حوصلے اور صلاحیت کے فقدان کا تو نہ تھا۔ یا یہ کہ خود سسٹم کے اندر موجود کوئی خرابی تھی، جس کی وجہ سے مقصد حاصل نہ ہو سکا؟ دونوں صورتوں میں ذمہ داری کا باقاعدہ تعین لازمی ہے کہ اصل خطاکار کا پتہ چلے۔ ہماری دلیل یہ ہے کہ اگر ناکامی ”سیاسی اسلام“ کی ہے تو مصنف کو مسلم دنیا میں قیادت کے بحران کی بات نہیں کرنی چاہیے تھی۔ آخر معصوم قائدین کو سیاسی اسلام کی خام کاری کے لیے کیوں مورد الزام ٹھہرایا جائے؟ زیر نظر مضمون یہ فرق و امتیاز کرنے میں ناکام رہا ہے۔ مثلاً مصنف نے مصطفیٰ کمال اتاترک، سوکارنو اور جمال عبدالناصر جیسے زعما کی جو فہرست مرتب کی ہے، ہو سکتا ہے اُنہوں نے تاریخ پر نقوش چھوڑے ہوں جیسا کہ ان کا دعویٰ ہے۔ لیکن جہاں تک اسلامی قدروں کے احیا کی بات ہے، تو وہ اس سے منہ موڑے دکھائی دیتے ہیں۔ اس فہرست میں کم از کم دو نام ایسے ہیں جو پاگل پن کی حد تک مسلم شعور سے متنفر تھے، اور اسلام سے ہٹ کر انہیں کوئی بھی بات منظور تھی۔
میں یہ نہیں کہوں گا کہ موصوف کو اسلام کا علم نہیں۔ لیکن اسلام کو محدود مذہبی معنوں میں لینا اور مذہب اور سیاسی اسلام کی تفریق کرنا ایک قطعی نامناسب بات ہے، اور شاید ایسا غیر ارادی طور پر ہوا۔ سیاسی اسلام کی ترکیب مغربی دنیا میں ایرانی انقلاب (1979ء) اور فلسطین میں انتفاضہ کے بعد سامنے آئی۔ اس ترکیب کی تشکیل کا مادہ اُبھرتے اسلام کو سمجھنے میں مغرب کی نااہلیت میں ملے گا یا احیائے اسلام کی تحریکوں کے ضمن میں مغربی فہم کی خرابی میں، کہ کیسے ان تحریکوں نے مسلم عوام میں حرکت اور بیداری پیدا کی اور انہیں لادینیت اور اس کے بے ضمیر کارندوں اور دشمن سے ملے گھر کے بھیدیوں کے مقابل کھڑا کر دیا۔ مذہب کا روایتی تصور جسے مغرب سامنے لانے کی کوشش کر رہا ہے، مذہب کو فرد کا ذاتی فعل قرار دیتا ہے، جس کا سکون و اطمینان اس میں ہے کہ مسائلِ حیات کے جھمیلوں سے دور رہ کر بس تسبیح پھیری اور عماموں کے بل کسے جائیں، تو واہ سبحان اللہ۔
دوسری بات یہ ہے کہ اسلامی احیا کا خیال ہی مغرب کے لیے قابل نفرت ہے، کیونکہ سیکولر طرز فکر سے اس کی کوئی نسبت نہیں بنتی۔ مغرب تو یہ سمجھے بیٹھا ہے کہ مذہب انسان کے ماضی کا دور از کار قصہ ہے، جب وہ عقل و دانش کے حوالے سے ابھی نابالغ تھا۔
تیسری بات یہ ہے کہ مغرب اسلام کی سیاسی اور غیر سیاسی تقسیم چاہتا ہے، تا کہ مذہب و دین ان دائروں سے تجاوز نہ کیا کرے جو مغرب نے عالمی سطح پر کھینچ رکھے ہیں۔ بالفاظ دیگر مذہب کو بہ خوشی یہ اجازت دی جا سکتی ہے کہ وہ دور جدید کے تناؤ کم کرنے کے لیے بطور نسخہ آسودگی استعمال ہو، لیکن اسے یہ برداشت نہیں ہوگا کہ وہ حقیقی زندگی کے سماجی اور سیاسی مسائل حل کرنے کے لیے ایک نظام کے طور پر کام کرے۔ اس طرز فکر کے مطابق اگر اسلام کا راستہ روکنا ہے تو لازم ہے کہ اسے اس کی قوت متحرکہ سے محروم کر دیا جائے۔ یہی تباہ کن اور مرگ آسا خواہش تھی، جس نے مغرب کو مجبور کیا کہ وہ "شرعی اسلام" سے مختلف "صوفیانہ اسلام" کی ترکیب خلق کرے۔ لادینوں کو صوفی اسلام اچھا لگتا ہے۔ کیونکہ ان کے خیال میں اسے دنیا سے کوئی سروکار نہیں۔ لیکن شرعی اسلام یا سیاسی اسلام سے انہیں چڑ ہے۔ اسلام کی اس شکل کے لیے لعنت ملامت کا جو انداز اپنایا جاتا ہے، اس کی مظہر ترکیبیں "جنگجو اسلام"، "بنیاد پرستی"، اور بدرجہ آخر "جہادی اسلام" کے ناموں سے رائج ہیں۔ "جہادی اسلام" ایسے کہا جاتا ہے جیسے کوئی ایسا اسلام بھی ہے جو جہاد کا مخالف ہو۔
مجھے یقین ہے کہ اسلام کے متعلق مغربی فکر کے اس ارتقا سے مقالہ نگار نا واقف نہیں ہیں۔ بات کھول کر بیان کریں تو یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ یہ اسلام کی راہ روکنے کے مغربی واردات کا ایک حصہ ہے۔
لہٰذا اگر سیاسی اسلام کی اصطلاح استعمال ہوگی تو اس سے حل طلب مسئلہ حل نہیں ہوگا، بلکہ مزید خرابی ہوگی۔ سب سے پہلے تو خود مصنف کا یہ قول مسخ ہو کر رہ جاتا ہے کہ مسلم دنیا میں قیادت کا حقیقی بحران ہے۔ لیکن جب وہ یہ تمہید باندھتے ہیں کہ ”سیاسی اسلام ناکام ہو چکا ہے“ تو وہ بے خیالی میں اسی مطعون قیادت کو بچاتے ہیں، جسے انہوں نے صحیح طور پر خطاکار ٹھہرایا تھا اور الزام پلٹ کر سیاسی اسلام پر جا ڈالتے ہیں۔
تاہم اصل سوال یہ ہے کہ کیا اسلام کو ٹکڑوں میں بانٹ کر دکھانا جائز ہے، جب کہ خود اسلام بہ حیثیت الدین ناقابل تقسیم وجود ہونے پر مصر ہے؟ قرآن میں تو اُن لوگوں کو سخت سزا کی وعید دی گئی ہے، جو اس کی بعض باتوں کو مانیں اور بعض کا انکار کریں (سورہ البقرہ: 84-85) یہودیوں اور نصاریٰ کے اس طرز عمل پر گرفت کرتے ہوئے کہ وہ احکاماتِ الٰہی پر عمل نہیں کرتے، قرآن پاک نے (سورۃ مائدہ: 83 میں) ایسے لوگوں کو کافر، فاسق اور ظالم قرار دیا ہے۔
اسلام کا یہ زور اور تحکم اور اس امر کی پوری تاریخ اتنی واضح ہے کہ مغرب کے پڑھے لکھے، دیانت دار اصحابِ دانش اسے تسلیم کرتے ہیں۔ مثلاً پروفیسر این لیمٹن (Ann Lambton) اپنی قابل قدر تصنیف "State and Government in Medieval Islam" میں کہتی ہیں:
شریعہ، مغرب میں سمجھے جانے والوں معنوں میں کوئی قانون کی کتاب نہیں ہے۔ شریعہ در حقیقت مسلمانوں کے فرائض کا بیان ہے۔ نظری طور پر یہ انفرادی اور اجتماعی زندگی کے بھی معاملات بشمول تجارت و حرفت کا احاطہ کرتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ سیاسی نظام کی بنیاد مہیا کرتی ہے۔
ریاست کی ماہیت بیان کرتے ہوئے پروفیسر لیمٹن کہتی ہیں:
(اس نظام میں) ریاست موجود ہے۔ کسی اور جمعیت (اور ادارے) کی موجودگی، جو اس کے برابر یا اس سے برتر ہونے کی مدعی ہو، اس ریاست کو کسی طرح محدود نہیں کرتی۔
ہیملٹن گب (Hamilton Gibb) کا بیان بھی بڑا اہم ہے، جب وہ عہد جدید میں اسلامی ورثے کی بات کرتا ہے:
(مسلم) کمیونٹی اس اندھیاری دنیا میں خدائے برتر کی شہادت دینے کے لیے موجود ہے، اور یہ حکومت کا فرض منصبی ہے کہ قانون کی تنفیذ کا کام انجام دے۔
کیا اس کا مطلب یہی نہیں بنتا کہ اسلام کی اساسی روح سے مغربی مفکرین اور صاحب دانش تو آگاہ ہیں لیکن خود ہماری اپنی پڑھی لکھی اشرافیہ اسلام کی ان بنیادی تعلیمات سے بڑی حد تک ناواقف ہے؟
مقالہ نگار مانتے ہیں کہ: ”اسلام سب سے زیادہ تیزی سے پھیلنے والا دین ہے“ لیکن پھر وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ: ”اس وسعت پذیری سے سیاسی اسلام کی قوت اور نفوذ کا اظہار نہیں ہوتا۔ اگرچہ اس سے یہ بات ضرور ثابت ہوتی ہے کہ اسلام میں بہ طور دین کشش اور بڑھنے پھولنے کی قوت موجود ہے۔“ مصنف کا یہ حق ہے کہ وہ چاہیں تو اس انداز کا بیان دیں۔ لیکن یہ تبصرہ ان کے ذاتی مشاہدے پر مبنی مانا جائے گا اور لازماً امرِ واقعی قرار نہیں پائے گا۔ مثلاً جواباً پوچھا جا سکتا ہے کہ مقالہ نگار کو آخر یہ کیسے معلوم ہوا کہ جو لوگ اسلام کو بطور مذہب اختیار کر رہے ہیں، وہ اُسے اپنے لیے قابلِ قبول بنانے کے لیے پہلے اُس کے وجود سے سیاسی اسلام کو جدا کرتے ہیں۔
مذہب کی تبدیلی ایک بہت پیچیدہ عمل ہے۔ سوائے تبشیری (evangelical) عیسائیت کے جو دنیا کے غریبوں میں فلاح عامہ کی راہ سے کام کر رہی ہے، اسلام وہ دین ہے جو اپنے پیغام کی قوت کے بل پر پھل پھول رہا ہے۔ اس میں خیرات کی ظاہری شکل کی پردہ پوشی میں بہلا پھسلا کر تبدیلی مذہب کی کوئی کوشش نہیں ہو رہی۔ اس لیے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ بہت سے لوگ اسلام کو اس کی کلیت اور دورِ جدید کے معاملات سے مطابقت کی وجہ سے قبول کرتے ہیں۔ ڈاکٹر عبدالغنی فاروق نے اپنی کتاب میں قبولِ اسلام کے کئی قابل ذکر واقعات جمع کیے ہیں۔ اس طرح محمد حنیف شاہد کی تالیف "Why Islam is our Choice" (ہم نے اسلام کیوں منتخب کیا) جو دو جلدوں میں ہے، سو سے زائد افراد کا قصہ سناتی ہے۔ تبدیلی مذہب کے لیے محض پوجا پاٹ کو کل دین سے نکال کر کسی کے سامنے پیش کریں تو اس میں اسے کوئی کشش نہیں ملے گی، کیونکہ ایک زندہ و جاوید خدا کے حضور عبادت اور مناجات بھی ادیان کا ایک مشترک عمل ہیں۔ نئے دین میں داخل ہونے والے کو سچائی کی تلاش ہوتی ہے، ایک ایسا دین جو طاقتور، معقول اور ہمہ گیر پیغام کا حامل ہو۔ سیاسی اسلام، جو اصلاً سماجی تبدیلیوں کا نقیب ہے، بالعموم آنے والوں کی توجہ کا مرکز بنتا ہے۔ ایک نو مسلم اسلام کو نکھرے ہوئے ٹکڑوں میں قبول نہیں کرتا۔ مرد ہو یا عورت، تبدیلی کا فیصلہ اس کی زندگی کا انقلابی موڑ ہوتا ہے۔ ایک نپی تلی با معنی حرکت جس کے دور رس نتائج اور اثرات ہوتے ہیں۔ اسلام کو ٹکڑوں میں بانٹنا اور بازیچہ اطفال بنانا ہم پیدائشی مسلمانوں کا مشغلہ ہے کہ جنہیں بغیر کوشش کے یہ نعمت ملی ہے اور وہ اس کی قدر جاننے سے عاری ہیں۔
صاحب مقالہ کی یہ آرزو کہ دیانت دار اور متقی قیادت کی بات چھوڑ کر سارا زور اداروں کی تشکیل پر دیا جائے، کافی لاینحل مسائل کھڑے کرتا ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا دستور، عوامی امور انجام دینے والے افراد کی اہلیت کا باقاعدہ پیمانہ مقرر کرتا ہے۔ دیانت اور امانت اس فہرست کے اہم اجزا ہیں۔ لیکن یہاں بھی زیادتی لادین ہیئتِ مقتدرہ کی طرف سے ہو رہی ہے، جسے بے لچک طور پر اصرار رہتا ہے کہ دستور یا اس طرح کی دفعات تعطل کا شکار رہیں۔ یہ ایک سیدھا سا سوال ہے کہ اگر دستور کی دیانت اور امانت والی شقوں کو بروئے کار نہ لائیں تو ایسے جاندار اور مضبوط ادارے قائم کرنے کی امید کیسے کی جاسکتی ہے، جن کی مقالہ نگار اتنی جذباتی طلب رکھتے ہیں؟ واقعہ یہ ہے کہ ادارہ خواہ کوئی بھی ہو اپنی جبلت اور تخلیق میں مستعد اور معیاری نہیں ہوا کرتا، کیونکہ یہ اپنے جوہر میں محض ایک ذریعہ ہوتا ہے کہ جس سے کسی مقصد کا حصول ممکن بنایا جاتا ہے۔ ادارے میں جو بھی خوبیاں ہوں گی وہ دراصل ان افراد کے اخلاق و اعمال کا عکس ہوں گی جو اس ادارے میں شامل ہوں گے۔
زیادہ واضح بات یہ ہے کہ کسی ادارے میں موجود افراد اور خود اس ادارے کا آپس کا تعلق ہم زینتی کا ہوتا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم موہوم اداراتی کرشموں پر زور دیتے رہنے کی غیر متوازن اور نامسعود روش ختم کر دیں اور پوری اہمیت اس امر کو دیں کہ ایک مقررہ معیار کے افراد تیار ہوں، کیونکہ اپنی حتمی شکل میں ایک فرد ہی ادارہ ہوتا ہے۔
مسلم قیادت واقعی ناکام ہوئی ہے۔ لیکن یہاں بھی معاملے کے دو پہلو ہیں جو نظر انداز نہیں ہونے چاہئیں:
- ماضی قریب میں یہ قیادت زیادہ تر لادین طبقے کے ہاتھ میں رہی ہے، حالانکہ ساتھ ہی دکھاوے کے لیے اسلام کا بھی دم بھرتی رہتی تھی کہ مسلم عوام کے ووٹ حاصل کرنے کا یہ آزمودہ نسخہ تھا۔ مزید براں اختیار و اقتدار سے چمٹے رہنے کا جواز بھی اسی سے ملتا تھا۔
- دوسری بات یہ ہے کہ یہ مسلم قیادت اپنا عقیدے اور ایمان کا مدت سے سودا چکا بیٹھی ہے اور اس کے دل میں اپنی ملی قدروں کی کوئی عزت اور توقیر باقی نہیں۔ سماجی اور سیاسی ترقی کے لیے اس کا ایجنڈا کم و بیش وہی ہے جو مغرب کا ہے۔ زیادہ اہم بات یہ ہے کہ مسلم دنیا کی قیادت یہ سمجھنے میں ناکام رہی ہے کہ اسلام عام لوگوں کے دلوں پر کس حد تک حکمران ہے، نہ اس قیادت کو اس امر کا ادراک ہے، جیسا کہ امریکی سکالر جان ایسپوزیٹو (John Esposito) کہتا ہے، کہ عصری سیاسیات پر یہ مذہبی اثرات کیا شکل اختیار کریں گے؟
ایک اور اہم حقیقت یہ ہے کہ لادین طرز فکر و عمل اختیار کر کے اس نام نہاد قیادت نے مسلم معاشروں میں ٹکراؤ اور فساد کو پروان چڑھایا، جس کے نتیجے میں نظریاتی سہارے کمزور پڑے اور سماجی تحرک کو دھچکا لگا۔ بالفاظ دیگر اسلام کی بنیاد پر عوام میں اتحاد و یگانگت کو فروغ دینے کے بجائے اس لادین قیادت نے حکومت کی مشینری کو خود لوگوں کے مقابل لا کھڑا کر دیا، جو مسلم سوسائٹی کے اندر اس قیادت کے سازشی کردار کو ظاہر کرتی ہے۔
اسلام کے سارے نظام میں موصوف کو شوریٰ کا تصور سب سے زیادہ اچھا لگا، کیونکہ اس میں پارلیمانی جمہوریت سے ایک مشابہت سی موجود ہے۔ لیکن وہ اسلام کے اُن اساسی پہلوؤں سے صرفِ نظر کرتے ہیں کہ جو شوریٰ کو ممکن بناتے ہیں، مثلاً: اسلام کی اخلاقیات، اس کی سماجی اور سیاسی ترجیحات اور اس کی یہ خواہش اور طلب کہ ایک نیا انسان تشکیل پائے، جو خدائے بزرگ و برتر کا مطیع بندہ ہو، اور سرمایہ دارانہ سماج کی بھدی اور بے ڈھنگی مادیت کا چاکر اور غلام نہ ہو۔
مسلم قیادت کے لیے مصنف جو خاکہ تجویز کرتے ہیں، کیا اس میں مذکورہ خوبیوں اور کردار کی بھی کچھ گنجائش موجود ہے یا نہیں؟ لاریب، صرف شریعہ ہی ہمیں عزت و استناد بخشتی ہے اور خیر و خوبی کے لیے ہماری تڑپ بڑھاتی ہے۔ لہٰذا کیا ہی اچھا ہو اگر اس امر کا ادراک کر لیا جائے کہ شریعہ میں ہی ہماری نجات ہے۔ بندہ مسلم جو آج دنیا بھر کا دھتکار اور آفت کا مارا لگتا ہے، ایک بار پھر تاجِ سلطانی پہن سکتا ہے۔
قومی خارجہ پالیسی کے تقاضے
تزویراتی، ثقافتی اور صحافتی پس منظر میں
ایک جاندار خارجہ پالیسی کے ضمن میں پانچ عناصر فیصلہ کن ہوتے ہیں:
- اول، قومی ضروریات کی ترجیحی فہرست
- دوم، طے شدہ قومی مقاصد کے حصول کے لیے تزویراتی حکمت عملی
- سوم، مقاصد کے حصول میں حائل ممکنہ رکاوٹوں کا تدارک
- چہارم، ہمسایہ ممالک میں ترجیحی طور پر ہم خیال یا دوست حکومتوں کے قیام کی کوشش
- پنجم، قومی مفادات کے حصول کے لیے بین الاقوامی فضا کو سمجھنا اور اُسے اپنے حق میں استعمال کرنا۔
اول الذکر دو عناصر اپنی اصل میں نظری ہیں، حالانکہ جوہری طور پر اُن کا تعلق ملک کی سلامتی سے ہے اور ان کا فیصلہ خطرے کے تصور اور نوعیت اور قوم کے عزم اور ارادے سے ہے کہ وہ اس خطرہ سے کیسے نبرد آزما ہونا چاہتی ہے۔ باقی تین عناصر ایک دوسرے کے مددگار ہونے کی وجہ سے خارجہ پالیسی کے نفاذ اور معمولات اور اس پالیسی کی تصوراتی صورت گری سے متعلق ہیں۔ چنانچہ اگر خارجہ پالیسی کی واضح تعریف متعین کرنی ہو تو اس سے مراد کسی قوم کا وہ سوچا سمجھا اور نپا تلا جواب ہے جو وہ اپنی سلامتی اور مفادات کے لوازمات کے حوالے سے پیش نظر رکھے گی۔
ہماری خارجہ پالیسی کی بنیاد اور متعلقات کیا ہوں؟ یہ ایک بہت اہم معاملہ ہے کیونکہ ایک متحارب اور بیشتر غیر دوستانہ عالمی فضا میں یہ ہماری سلامتی کا احاطہ بھی کرتا ہے۔ پھر اس کا تعلق اس سے بھی ہے کہ قومی مفادات کو کیسے آگے بڑھایا جائے۔ ظاہر بات ہے ایسے کسی جواب یا رد عمل کو تاریخ، روایت اور ملکی جغرافیہ کے پیمانوں سے ناپنا ہوگا۔
تاریخ اور روایت کسی قوم کی تعریف متعین کرنے میں بنیادی عوامل ہیں۔ وقت کے دھارے میں براجمان یہ دو حوالے حتمی سوال اٹھاتے ہیں کہ کسی قوم کی تعریف کا تعین زبان، نسل اور جغرافیہ کرے گا یا عقیدہ کرے گا؟ اس سوال کا سیدھا اور راست جواب لازم ہے، کیونکہ اسی سے یہ طے ہو گا کہ ہماری خارجہ پالیسی کا اولین مفاد کس بات میں ہے؟
پاکستان قومیت کی تعریف اپنے جوہر میں صرف عقیدے سے ہی متعین ہو سکتی ہے، یعنی ایک ایسی قوم جو مسلمان ہے، اور جو ایک مخصوص جغرافیائی اقامت اور تاریخ کی عطا ہے، جس کے پس منظر میں یہاں جنوبی ایشیا میں کم و بیش ہزار سالہ مسلمان دورِ حکومت ہے، اور جو اس احساس سے سرشار ہے کہ اسلام ہی نے اُسے تسلسل بخشا اور زمانے کی دست بُرد سے محفوظ رکھا ہے۔
اسی لیے جونہی ہم اپنے ملک کی سلامتی کی طرف آتے ہیں تو عقیدہ (اسلامی نظریہ) اپنے پورے خدو خال اور مطالبات کے ساتھ ہمارے سامنے آکھڑا ہوتا ہے۔ اس لیے اسلامی نظریے کی بقا اور اُس کا تحفظ ہماری خارجہ پالیسی کا سب سے اہم اور مطلوب عنصر ہے۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ جو چیز کسی قوم کو وجود میں لانے کا باعث ہوتی ہے، وہی اگر نظر انداز کر دی جائے تو اُس کو پس پشت ڈالنے کا رویہ بالاخر خود اُس کی کمزوری اور تباہی کا سبب بن جاتا ہے۔
چونکہ ملکی سلامتی ہی خارجہ پالیسی کی تشکیل کرتی ہے، اس لیے لازم ہے کہ مملکت کے اسلامی کردار پر نہ صرف کسی بھی طرح کے حملے کی مزاحمت ہو، بلکہ نت نئے جاندار تخلیقی اقدامات کے ذریعے اس کے اسلامی تشخص کی مسلسل آبیاری بھی کی جائے، تاکہ ملک مضبوط ہو اور وحدتِ ماحول میں خارجہ پالیسی اپنے مقاصد کے حصول کی طرف پیش قدمی کر سکے۔
اس بنیادی تقاضے کے پہلو بہ پہلو مملکتِ خداداد پاکستان کی پالیسی کے پانچ مزید مقتضیات ہیں، جنہیں اول الذکر سے مدد ملتی ہے۔ اجمالی کیفیت کچھ یوں ہے:
- کشمیری عوام کے لیے حق خود ارادیت حاصل کرنا تا کہ وہ ملتِ اسلامیہ پاکستان کا دست و بازو بن سکیں۔
- ایٹمی صلاحیت کو قائم رکھنا۔
- افغانستان، ایران اور دیگر مسلمان ممالک کے ساتھ قریبی تعلقات کا قیام۔
- بنگلہ دیش کو ہندوستانی اثرات کے چنگل سے نکالنا۔
- چین کے ساتھ تعلقات بڑھانا اور مضبوط کرنا۔
چار مذکورہ ممالک میں سے افغانستان ہمارے لیے اہم ترین ملک ہے۔ افغانستان کی صورت میں ہمیں نہ صرف جغرافیائی وسعت ملتی ہے بلکہ جرمنوں کے بقول یہ ہمارا ”لیبن زراوم“ (Lebensraum) ہے، جس کا مطلب ہے کہ وہ زائد قطعہ زمین جو ہماری معیشت کی ترقی کے لیے لازم ہے۔
چنانچہ اگر خارجہ پالیسی کی واضح تعریف متعین کرنی ہو تو اس سے مراد کسی قوم کا وہ سوچا سمجھا اور نپا تلا جواب ہے جو وہ اپنی سلامتی اور مفادات کے لوازمات کے حوالے سے پیش نظر رکھے گی۔
ایک بار بنیادی سلامتی کے یہ تقاضے طے پا جائیں تو پھر ان کو کسی برسرِ اقتدار سیاسی پارٹی کی خواہشات پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ اور نہ کسی غیر سنجیدہ ہرزہ سرا اخبار کو اجازت دی جا سکتی ہے کہ وہ ان تقاضوں کو کاٹتا پیٹتا پھرے۔ خارجہ پالیسی کا یہ پہلو اتنا اہم ہے کہ کوئی بھی قوم ان تقاضوں کو پورا کرنے اور اپنے امکانات بروئے کار لانے کے لیے آخری حد تک جانے پر بھی لازماً تیار رہتی ہے۔ سابق امریکی وزیر خارجہ ڈاکٹر ہنری کیسنجر کے بقول: ”خطرہ خواہ کتنا ہی گھمبیر ہو یا مزاحمت کی نوعیت کا اپنے ظاہر میں کتنا بھی جواز موجود ہو، بین الاقوامی مخالفانہ فضا کا سامنا کرنا چاہیے۔“ وہ اپنی بات کی وضاحت کے لیے برطانیہ عظمیٰ کے دورِ عروج کی مثال دیتا ہے۔ اس کے خیال میں برطانیہ رودبارِ انگلستان کی بندرگاہوں پر قبضہ کے خلاف اعلانِ جنگ سے بھی گریز نہ کرتا، خواہ یہ قبضہ کسی ایسی بڑی طاقت نے ہی کیا ہوتا جس پر پارساؤں کی حکومت ہوتی۔“ اس کا مطلب یہ ہوا کہ قومی مفادات کو محض اندازوں یا کسی مداخلت کار کی تمناؤں اور آرزوؤں پر نہیں چھوڑا جاسکتا، بالخصوص جب وہ مداخلت کار یا جارح طاقت کسی قوم کے لازم مفادات کے لیے خطرہ بن گئی ہو یا پاس پڑوس میں آکر بیٹھ گئی ہو اور وہاں کے حالات دعوتِ عمل دے رہے ہوں۔
خارجہ پالیسی کی موجودہ کیفیت
بہت سے حوالوں سے پاکستان کی خارجہ پالیسی کسی متعین سمت سے عاری اور خوار و زبوں لگتی ہے کہ حرکت تو ہے لیکن بغیر کسی منظم محور کے۔ کشمیر کا مسئلہ اس کی ایک واضح مثال ہے کہ جہاں ہمیں واضح سفارت کارانہ جہت نظر نہیں آتی۔ حق خود ارادی جسے 1948ء کے اقوام متحدہ کی قراردادوں نے طے کیا تھا، اس وقت سے لے کر دو طرفہ مذاکرات کا وہ ڈھونگ جس کی حد بندی شملہ معاہدہ نے کی، اور تیسرے فریق کی مصالحت سے لے کر کشمیریوں کے لیے جداگانہ قومیت کے غلغلے تک، ہم ہر قسم کی تجاویز کو گلے لگانے پر تیار بیٹھے ہیں۔ اُس اندھے کی طرح جو بے ہنگم ٹریفک کے بیچ کسی دوراہے پر کھڑا ہو اور اُسے سمجھ نہ آئے کہ اُس نے جانا کس طرف ہے۔
اسی طرح ہندوستان اور سارک کے حوالوں سے ہمارا رویہ متضاد احساسات اور سادہ میراندازی کی حدود کو پہنچا ہوا ہے، جس کے نتیجے میں ہمارا ردعمل قطعاً غیر واضح ہے۔ ہندوستانیوں کو وہ سب کچھ ملا جس کی انہیں آرزو تھی، یعنی مشرقی پنجاب کے محاذ سے ہماری پسپائی اور ثقافتی معاہدہ۔ لیکن پاکستانیوں کو ہر بار امریکیوں کی طرف سے صدمہ پہنچایا گیا، اور حکم ملا کہ غلاموں کی طرح ہندوستانیوں کی سمت ایک قدم اور بڑھائیں۔
سارک کے پاکستانی حمایتی، اسے ہندوستان کے خلاف علاقے کے چھوٹے ممالک کا اتحاد بتاتے ہیں، مگر خود ہندوستانیوں کی نظر میں یہ 1947ء سے پہلے کے برطانوی ہند کی متبادل صورت ہے، یعنی مختلف قومیتوں اور ممالک کو باہم جوڑنے کا ذریعہ کہ جس سے بنگلہ دیش، پاکستان اور سری لنکا کو کنفیڈریشن کے نام پر ایک بار پھر ہندوستان کے ساتھ لپیٹ دیا جائے۔ جب ہندوستان نے مطالبہ کیا کہ کسی بھی طرح کے بامقصد مذاکرات سے پہلے ثقافتی روابط ضروری ہیں تو ہمارے خارجہ پالیسی کے فیصلہ سازوں نے اسے بہت ہلکا اور بے ضرر معاملہ سمجھا، کیونکہ خود ان حضرات کا نظریاتی طرز فکر (orientation) نہ ہونے کے برابر تھا۔ مثلاً فلم اور فیشن سے وابستہ آج ایسی مشتاق اور متمنی پاکستانی خواتین، عدداً قلیل ہی سہی، موجود ہیں جو منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے ہندوستانی فلموں میں جسمانی نمائش کو قبول کرنے کے لیے خوشی آمادہ ہیں۔
اس عمل کے مضمرات بالکل واضح ہیں۔ جب ایک ہندولڑکا کسی پاکستانی مسلم خاتون کے عاشق کا کردار ادا کرتا ہے تو یہ معاملہ اگرچہ سلولائیڈ نظارے کا مکروہ تماشا ہے، لیکن یہی چیز اپنے باطن میں ہندوستانی شعور کو بڑھانے کی مکارانہ چال بھی ہے، جس کا ہدف ہمارے وہ ذہنی و نفسیاتی تحفظات ہوتے ہیں جو کسی قوم کی اولین دفاعی حد بندی ہوتی ہے۔ ایسی ڈرامائی تمثیل اپنے تاثر میں قطعی لادین (سیکولر) اندازِ فکر کی غمازی کرتی ہے، جس میں مذہب اور عقیدہ ثانوی حیثیت اختیار کر لیتے ہیں۔
ایٹمی قوت کا مسئلہ بھی اپنی نوعیت کا ایک اور انوکھا معاملہ ہے، جس میں تال اور آہنگ نام کو نہیں۔ عالمی غنڈوں کو دور رکھنے کے لیے جو حکمت عملی اپنائی گئی ہے اُس میں نہ مستقبل بینی ہے اور نہ دنیائے عالم میں پاکستانی کردار کا کوئی تصور ہی ہے۔ کوتاہ اندیشی اور خود شکستگی دیکھیں، ہم نے اپنی ایٹمی صلاحیت کو ہندوستان کی ایٹمی صلاحیت سے جوڑ رکھا ہے۔ جیسے علاقے میں ہندوستان ہی واحد ایٹمی طاقت ہو۔ دُور مار میزائلوں نے علاقے کو جو نئی جغرافیائی گہرائی عطا کر دی ہے، وہ بہ ظاہر نظر انداز کر دی گئی۔ اسی طرح یہ امر کہ دشمن کون ہے، ہماری نگاہیں ہندوستان سے آگے نہیں جاتیں۔ جبکہ دنیا میں دوسرے مردار خور بھی موجود ہیں۔
پرانا لیکن برمحل مقولہ ہے کہ جو کسی قاز کے لیے چیتا ہے وہ اُس کے نرمیاں کے لیے بھی مزیدار ہے۔ لیکن یہ حکیمانہ اطلاع ہماری قومی یادداشت سے اُتر چکی ہے۔ ہم نرم چارہ بننے پر آمادہ نظر آ رہے ہیں، جنہیں کوئی بھی پھسلا کر کچھ بھی ماننے پر آمادہ کر لے۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ جب ایٹمی قوت کی حامل کوئی قوم کسی بڑی طاقت سے خوف زدہ رہے کہ وہ اُس کی تنصیبات کو تباہ کر دے گی، تب یہ ایٹمی صلاحیت اُس کی ساری خواہشات اور تمناؤں کے علی الرغم اُس کے کندھوں کا بوجھ بن جاتی ہے۔ پاکستان کو یا تو اپنی ایٹمی صلاحیت کھونی پڑے گی اور یا پھر ایک ایٹمی قوت والا حوصلہ دکھانا پڑے گا۔
الیکٹرانک میڈیا کی تاثر پسندانہ نوعیت مسئلے کو اور بھی زیادہ گمبھیر بنا رہی ہے۔ اس لیے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ابلاغ کا یہ ذریعہ ایک ایسا پیکر تخلیق کرتا ہے، جو اپنی ساخت میں قومی کم اور بین الاقوامی زیادہ ہے۔ اس سے ناظرین کا زاویہ نظر عالمی پردیسی رنگ لیتا جا رہا ہے۔ یہ ہماری اپنی سوچ اور فکر کی ٹوٹ پھوٹ کا وہ عمل ہے جو اس وسیع پیمانے پر اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا۔ چونکہ یہ سارا عمل بہت عیارانہ ہے اس لیے یہ ظاہر کسی کو تشویش لاحق نہیں ہو رہی۔ کیونکہ اصل پیغام کو تفریحی پروگراموں میں لپیٹ کر پیش کیا جاتا ہے۔
مزید برآں، بے مقصد ٹی وی دیکھتے رہنے سے ہماری توجہ اور انہماک میں کمزوری آتی ہے اور ہم کسی معاملہ کے صحیح مطالعہ اور تجزیہ سے قاصر رہتے ہیں۔ وجہ یہ ہوتی ہے کہ الفاظ کسی پیکروں میں ڈھل کر سامنے آتے ہیں۔ کتابوں کے ذریعے ذہن میں منتقل ہونے والے الفاظ، خیالات اور تصورات ایک بھٹی کی مانند ہوتے ہیں جو ذہنی ارتباط کے رُوپ میں ہمیں اپنا آپ اور گردو پیش کی دنیا سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں چمکتے دیکھتے حیاتی پیکر یا تصویریں ہمارے اعصابی نظام کو متاثر کرتی ہیں۔ جس سے ہمیں ایک نیابتی ڈھنگ کا تجربہ حاصل ہوتا ہے اور ہماری بصارت کو مخصوص شکل ملتی ہے۔ مزید یہ کہ ٹی وی معلومات کی تحصیل غیر مستقیم اور غیر مرتب ہوتی ہے۔ چنانچہ اس سے ذہن کا ایسا سانچہ تیار ہوتا ہے جو سائنس اور برہان کا دشمن ہوتا ہے۔
یہ صورت حال ایک ایسی قوم کے لیے حد درجہ تشویشناک ہے جس کی خواندگی کی شرح کم ترین سطح پر ہے۔ وسیع تر پس منظر میں معاملہ کچھ زیادہ ہی سنگین ہو جاتا ہے، کیونکہ ہم سماجی حرکیات کی منظم انداز میں رہنمائی کرنے کے قابل نہیں رہے، کہ وہ قومی مقاصد حاصل کر لیں جو ہمارے ملکی دستور میں پیش نظر ہیں۔
چند برس ہوئے پاکستانی ناظرین پر بڑے اہتمام سے سی این این تھوپ دیا گیا تھا۔ تب دو فوائد کا تذکرہ ہوا تھا:
- اول یہ کہ دنیا بھر کے حوادث و واقعات تک رسائی کا ایک ذریعہ ہوگا اور یوں لوگوں کی معلومات عامہ کی سطح بلند ہوگی۔
- دوسری وجہ یہ بیان ہوئی تھی کہ ہم پاکستان ٹیلی ویژن اور سی این این میں مسابقت چاہتے ہیں۔
یہ کہتے ہوئے لوگ بھول گئے کہ دو مخالف اور متناقص پروگراموں میں مقابلہ نہیں ہوا کرتا، جن میں سے ہر ایک کا اپنا مخصوص نقطہ نظر اور ثقافتی پس منظر ہو۔ اصلاً یہ پاکستانی مسلمان قوم کو اُس کی اسلامی شناخت سے روگرداں کرنے اور پاکستان کو امریکہ کی ثقافتی نو آبادی بنانے کی مذموم حرکت تھی، جو اب بحث طلب مسئلہ ہی نہیں رہا۔
پوری تیسری دنیا کے لیے سی این این کا خبر ناموں کا پروگرام خود اُسی کے بہ قول صرف تین منٹ دورانیہ کا ہوتا ہے اور وہ بھی امریکی محور اور مفادات کے کھونٹے سے بندھا ہوا۔ گویا سی این این کی خبریں دنیا کو امریکی عینک سے دیکھنے کے مترادف ہے۔ بھلا ہو ہماری سادگی کا کہ ہمیں ہمیشہ یہ خوش گمانی رہی کہ ہم دنیا کے واقعات اُسی شکل میں دیکھیں گے جیسے کہ وہ اصلاً ہیں۔ گویا یہ سب کچھ غیر مقصدی ہو اور خلاء سے نازل ہو رہا ہو۔
ہربرٹ شیلر (Herbert Schiller) شعبہ ابلاغ کا ایک حساس امریکی سکالر ہے۔ وہ اطلاعات اور معلومات کی ترسیل اور کنٹرول کو ثقافت پر کنٹرول اور ارتباط کے برابر سمجھتا ہے۔ یہ ایک ایسا منظر اور عمل ہے جو امریکہ کے وسیع و عریض تجارتی اداروں کا پیدا کردہ ہے، جو دنیا بھر کی اپنے مخصوص تصور کے مطابق تشکیل نو چاہتے ہیں۔ یہ تصور یا پیکر عظیم الجثہ کارپوریشنوں اور تجارتی اور صنعتی اداروں کا ہے۔ اس سارے انتظام میں مرکز و محور چاروں طرف پھیلی ہوئی دنیا کا انتظام و انصرام کرنا ہے۔ عالمی پیمانے پر معاشی اور سیاسی لحاظ سے وسیع اور پھیلا ہوا امریکہ اور یورپ اس نظام میں محوری مقام رکھتے ہیں۔ باقی ساری دنیا محیط کی بیرونی سطح ہے۔ اس نقطۂ نظر کے مطابق تجارت ایک ایسے ماحول میں ترقی پاتی ہے جو مغرب کے معاشی اور معاشرتی ماحول سے ہم آہنگ ہو۔ وہ روایتی معاشرے جو اپنے مخصوص سماجی طور اطوار پر زور دیتے ہیں، جو اسرافی طرزِ حیات اور انفرادیت سے لاتعلق رہنا چاہتی ہیں اور جو تجارت و صنعت کی بے مہار آزادی نہیں چاہتیں، وہ اس ثقافت کی راہ کا سنگِ گراں ہیں، جسے مادیت پسند کلیت (totalitarianism) کا نام دیا جا سکتا ہے۔ شیلر اس کو ثقافتی استعمار کہتا ہے۔ اور اس کی تعریف یوں متعین کرتا ہے:
یہ اُن مختلف اعمال کا مجموعہ ہے جس کے ذریعے کوئی سوسائٹی (مغربی) عالمی نظام میں گھیر لائی جاتی ہے۔ پھر اس سوسائٹی کے سر پر سوار حاوی طبقہ یعنی ہیئتِ مقتدرہ کو پھسلایا، دبایا، مجبور کیا اور بعض اوقات رشوت دے کر آمادہ کیا جاتا ہے کہ وہ مقامی سماجی اداروں کی صورت گری ایسے کرے جو غالب محوری قوت کی قدروں اور ثقافت سے ہم آہنگ بلکہ انہیں تقویت دینے والی ہو۔
شیلر جو بات کہہ رہا ہے وہ یہ ہے کہ امریکی یورپی اطلاعاتی نظام بنیادی طور پر اس شان سے وضع کیا گیا ہے کہ وہ ایک مغربی معاشرتی ماحول کو جنم دے، تا کہ مرسل الیہ قوم ایک مرکزی عالمی نظام کا حصہ بن جائے۔ اگر وصول کنندہ ملک یا علاقہ اوپر سے مسلط کیے گئے اس بیرونی اور بیگانہ تصور کی مزاحمت کرے تو بھی اول الذکر میں اتنی تبدیلی ضرور آجائے کہ دونوں ہم بستہ لگیں۔ ان سارے معاملات میں مغرب تیسری دنیا کے ممالک کے مختلف گروہوں میں اپنے نائبین (surrogates) کی وساطت سے کام کرتا ہے۔
ہمارے ملک میں بے نظیر بھٹو کی حکومت سی این این کی غیر ملکی نشریات کو پاکستانی ناظرین پر مسلط کرتی ہے اور نواز شریف کی مسلم لیگی حکومت اُسے قائم رکھتی ہے، لیکن ساتھ ساتھ بتائی بھی رہتی ہے کہ اس کا مقصد عام لوگوں کی بین الاقوامی حالات و واقعات کے متعلق باخبری اور سوجھ بوجھ بڑھانا ہے۔ جنرل پرویز مشرف دور میں ٹی وی چینلز کی بہتات اور سیکولر ثقافت کی ترویج، بالخصوص ہندوستانی پروگراموں کی وساطت سے خود ہماری آزادی کے لیے خطرہ بن چکی ہے۔
میں اس طرز فکر اور طرز ادا کو بے ہودگی سمجھتا ہوں۔ اپنی بقا کے لیے ہمیں یہ جاننا ضروری ہے کہ ثقافت اور خارجہ پالیسی کے درمیان نامیاتی ربط کی صحیح صورت کیا ہے۔
آج اگر ہمارے ہاں پان اسلامزم کا جذبہ اور اس کے حصول کی خواہش موجود ہے، اور اگر ہم ان تصورات کی آبیاری کرتے ہیں کہ ایک عالمی اسلامی بلاک وجود میں آئے، تو یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ ہماری قوم کا جوہر اور اُس کی روح اسلام ہے اور یہ کہ قوم تاریخی اور دستوری ہر دو لحاظ سے مسلم امت کی تشکیل کی خواہش کے حصول کے لیے آرزو رکھتی ہے۔ چنانچہ جب ہم ہندی برصغیر سے منہ موڑتے ہیں اور ضیا بار تابندگی کے ساتھ وسطی ایشیا اور شرق اوسط کی طرف رخ کرتے ہیں تو یہ اس لیے ہے کہ ہم سب اپنے آپ کو ایک مسلم قوم تصور کرتے ہیں۔ آپ اس کے اسلامی قطب پر وار کر کے اس قومِ رسولِ ہاشمی کا ثقافتی جزو ختم کر دیں تو اس ملک کی خارجہ پالیسی بھی خود بہ خود بدل جائے گی، کہ اس کا قبلہ و کعبہ ہی کچھ اور ہوگا۔
میں اس دلیل کو کچھ اور آگے بڑھانا چاہوں گا۔ آپ اُن مسلمان معاشروں کا بہ غور جائزہ لیں جنہوں نے اپنے آپ کو سیکولر بنا لیا ہے۔ آپ کو اب اُن میں اسلامی ارتعاش اُس قسم کا نہیں ملے گا جیسا کبھی ہوا کرتا تھا۔ اُن کی اشرافیہ میں یہ آرزو مر چکی کہ وہ دنیا کے نقشے پر مسلمان اقوام اور اُمت کے جزو لاینفک کے طور پر پہچانی جائیں۔ مثلاً آج سے چند سال پہلے ترکی کی مثال لیجیے، اسے اپنا حصہ مان لے۔ مسلم دنیا کی طرف اس نے پیٹھ پھیر لی تھی۔ یہ اسی لیے ہوا کہ اس کے سماجی نظام کا ثقافتی عنصر بدل دیا گیا تھا۔ ایک بے اصل اور نام کی اسلامی مملکت سے وہ ایک مغربی قوم بن گئی ہے۔ آج اگر طیب اردگان کا ترکی مسلم دنیا کی طرف پلٹ رہا ہے تو اُس کی وجہ وہاں پر اسلام کا احیاء ہے۔ چنانچہ یہ ضروری ہے کہ ہم اپنی خارجہ پالیسی کے ثقافتی مرکبات کو اچھی طرح سمجھیں کہ یہ دونوں حقیقتیں ہم مزاج ہوا کرتی ہیں۔
ہرمن ہیسے (Herman Hesse) نے سچ کہا کہ:
انسانی زندگی مصائب کا شکار ہو جاتی ہے بلکہ بری جہنم بن جاتی ہے جب دو ادوار، دو ادیان اور دو ثقافتیں ایک دوسرے پر چھانے اور اسے ڈھانپنے کی کوشش کریں... ایسا بھی ہوتا کہ ایک پوری نسل ان دو زمانوں اور دو طرزِ...
ہائے! حیات کی کشمکش میں کھپ جاتی ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ یہ نسل خود اپنی شناخت سے بھی عاجز ہو جاتی ہے۔ پھر اس کا نہ کوئی معیار ہوتا ہے اور نہ اس کی سلامتی کی ضمانت ہوتی ہے۔ حد یہ ہے کہ محض غلامی اختیار کرنے پر بھی جان نہیں چھوٹتی۔
امید کرتا ہوں کہ ہم پر ابھی اتنے برے دن نہیں آئے لیکن مجھے لگتا یہی ہے کہ ہماری صحافت اور ہمارا الیکٹرانک میڈیا، جس کے سر پر ایک حقیر لادین اقلیت سوار ہے، اپنی تنگ نظری اور کوتاہ اندیشی سے شاید چھٹکارا حاصل نہ کر پائے۔ نہ اپنے ماضی کی اُس نفرت اور تعصب سے نجات ہی پاسکے گی، جو ہر اس قدر خیر کے خلاف ہے جو پاکستان کو عزیز ہے۔ یہ ایک تقریباً کامل نوآبادیاتی ذہنی غلامی کا مقدمہ ہے کہ خود توقیری نام کو باقی نہیں رہی، اور حالت یہ ہوگئی ہے کہ خود یہ اقلیت اپنے وجود کے ساتھ بھی امن و سکون سے رہ نہیں سکتی۔
پاکستان کی خارجہ پالیسی کیا ہونی چاہیے؟
جن خصوصی امور کا میں نے نسبتاً تفصیل سے ذکر کیا، اُن کے علاوہ درج ذیل جغرافیائی منطقوں میں، جن کی طرف محض اشارے کر رہا ہوں، پیش رفت کی ضرورت ہے۔ مثلاً:
- جنوبی ایشیا، وسطی ایشیا اور مغربی ایشیا۔
- یورپ اور امریکہ۔
- لاطینی امریکہ۔
چونکہ علاقائی وفاق اور اتحاد قوت کے ہیکل کے طور پر سامنے آرہے ہیں، لہٰذا پاکستان ایک پالیسی تقاضے کے طور پر اپنے سارے امکانات بروئے کار لائے تا کہ اپنے قریب معاشی تعاون تنظیم (ECO) کو ایک متحرک علاقائی گروپ بنایا جا سکے۔
پاکستان کا سارک میں سوائے اس کے کوئی کردار نہیں کہ ہندوستانی غلبہ کے خلاف بنگلہ دیش اور دوسرے علاقائی ممالک کی ممکنہ دست گیری کرے۔ جبکہ ہمارے اصل اتحادی، حلیف اور قوت کے منبع ایکو اور اُس سے ماورا مسلم دنیا میں ہیں۔
ساتھ ہی شرق اوسط سے ہمارے روایتی تعلقات، جو اچھے خاصے سرد پڑ چکے ہیں، انہیں از سر نو تازہ کرنے کی ضرورت ہے۔ غربی اور وسطی ایشیا وہ محوری چرخ ہے جس پر قائم پاکستان کی خارجہ پالیسی کا پہیہ گھومنا چاہیے۔
امریکہ کا نیا عالمی نظام (نیو ورلڈ آرڈر) جو پوری قوت سے حرکت پذیر ہے، اس کے دانت توڑنے کے لیے افغانستان، ایران، ترکی اور چین سے روابط مضبوط کرنے چاہئیں۔ روس کی طرف نئے سرے سے دوستی کا ہاتھ بڑھنا چاہیے، کیونکہ یہ اب بھی ایک عالمی قوت ہے، اگرچہ فی الوقت یہ ملک اپنے مسائل میں اُلجھ کر رہ گیا ہے۔
مشرق بعید میں جاپان سے تعلقات مزید استوار ہونے چاہئیں۔ ساتھ ہی بحر الکاہل کے حلقہ کے ممالک کے ساتھ مضبوط معاشی روابط قائم ہوں۔
یورپ میں ہمارا وقت اور توانائی فرانس اور جرمنی سے تعلقات بہتر بنانے پر صرف ہوں۔ عالمی امریکی غلبہ کے ضمن میں دونوں ممالک کے رد عمل کو سامنے رکھ کر انہیں نئے عالمی نظام کے خلاف متوقع حلیف بنانے پر توجہ مرکوز رہنی چاہیے۔
پاکستان نے جنوبی ایشیا کے ایٹمی توانائی کے حوالے سے جو پانچ قومی مجوزہ کانفرنس کی تجویز دی تھی، اس ڈھنگ کی تجویزوں کے بجائے اصل زور ساری دنیا کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک کرنے پر ہو، جس میں کوئی استثنا قبول نہ کیا جائے۔
ایران کے ساتھ پاکستان کے تزویراتی رابطوں پر پوری توجہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے، کیونکہ نئے عالمی نظام کے تحت سارے اقدامات مسلمانوں کے خلاف ہیں۔ اس ربط کے نتیجے میں دونوں کو الگ تھلگ کرنے کی کوشش ہو سکتی ہے۔ سنی، شیعہ گروہوں کو باہم جوڑنے کے لیے اس رنگ کی تحریک اتحاد کی ضرورت ہے، جیسے عیسائی دنیا میں پروٹسٹنٹ اور کیتھولک فرقوں کو اکٹھا کرنے کے لیے برپا ہوئی تھی۔ یہ اقدام ہماری خارجہ پالیسی کے سامنے ایک اہم ضرورت کے طور پر پیش نظر رہے۔
پاکستان کی ضرورت ہے کہ ایران اور سعودی عرب میں تعلقات خوش گوار رہیں۔ اس کا بالواسطہ راحت بخش اثر ہمارے ملک کے اندر سنی شیعہ جھگڑے پر پڑے گا۔
اسلامی کانفرنس تنظیم کو فعال بنانے کی ضرورت ہے، تا کہ وہ مسلم امہ کی تمناؤں اور آرزوؤں کی حقیقی ترجمان ہو۔ تنظیم کو چاہیے کہ وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی مستقل نشست کا مطالبہ کرے۔ خواہ تنظیم کو رکن بنایا جائے یا اُس کی سفارش پر کسی اہم اسلامی ملک کو، جائزہ لیا جائے کہ کون سی صورت قابلِ عمل ہے۔
اس کے علاوہ اقوام متحدہ کے متوازی او آئی سی کا بین الاسلامی عالمی کردار باقاعدہ وضع، معلوم اور تسلیم شدہ ہو، تاکہ کویت، عراق یا عراق، ایران جیسی جنگیں روکی جاسکیں اور مغرب کو مسلمانوں کے معاملات میں ٹانگ اڑانے سے باز رکھا جا سکے۔
ہندوستان کے پورے جنوبی خطے پر غلبہ اور بحر ہند پر کامل تسلط کی خواہش کا توڑ کرنے کے لیے پاکستان، ایران، افغانستان محور وجود میں آنا چاہیے۔ ہندی امریکی اتحاد میں ان تینوں ممالک کے لیے سنگین خطرات پوشیدہ ہیں، اگرچہ ایران (اور موجودہ)۔ حالات میں افغانستان (ابھی اس کا پورا ادراک نہ رکھتے ہوں)۔
کشمیر کا مسئلہ
مجاہدین کی بے مثال قربانیوں نے کشمیر کا مسئلہ پھر زندہ کیا ہے۔ اس جذبہ کو کم نہ ہونے دیا جائے، کیونکہ یہی اس قضیے کا اصل حل ہے۔ پاکستان ہر ممکنہ کوشش کرے کہ کشمیریوں کو اقوام متحدہ کی ۱۹۴۸ء کی قراردادوں کے مطابق حق خودارادیت حاصل ہو۔ کوئی اور تجویز ہمارے تزویراتی مفادات کے لئے وزن نہیں رکھتی۔
شرق اوسط میں ہندوستانی اثرات
پاکستان کو سنجیدہ کوشش کرنی چاہیے کہ شرق اوسط میں ہندوستانی اثرات کم ہونے کی صورت پیدا ہو، خلیجی ممالک کو باور کرانے کی ضرورت ہے کہ ہندی بحریہ ان کے مفادات کے لئے بھی ایک خطرہ ہے اور یہ کہ وہ اکیلے اس ہندوستانی خطرے کا مقابلہ نہیں کر پائیں گے۔ چنانچہ پاکستان کے ساتھ مل کر ایک مشترکہ بحری قوت تشکیل دی جائے، جس کی مالیاتی ضرورت تیل کی دولت سے پوری ہو۔ سمندر پر ہندوستانی یلغار کا راستہ اسی طرح روکا جا سکے گا۔
دنیا کے متعلق اپنے تصورات کو تازہ کرنا
خارجہ پالیسی کے علاوہ دنیا اور اس کے اہم کرداروں کے متعلق ہمارے تصورات کو جدید معلومات پر استوار ہونا چاہیے۔ ہمیں یہ معلوم ہو کہ ہمارے مخالفین کی دکھتی رگیں کون سی ہیں اور وہ اپنے تزویراتی مقاصد کے حصول کے لیے کس ڈھنگ سے سرگرم عمل ہیں۔ اس طرح کے امور ہماری خارجہ پیش قدمی کے لیے اہم لوازم ہیں۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ کس طرح عالمی کھلاڑی اپنی طاقت اور سریع الحرکت صلاحیت کے تاثر کو دوستوں اور دشمنوں پر ڈرامائی طور طریقوں سے گہرا کرتے ہیں۔ ان عالمی کرداروں کی قوت کا تاثر تھیٹر کے سے انداز میں دوستوں اور دشمنوں پر سوچے سمجھے طریقے سے بٹھایا جاتا ہے، اور اس کے لیے یہ عالمی کردار مقامی مملکتی اداروں اور ابلاغ میں بیٹھے تنخواہ دار کارندوں کو استعمال کرتے ہیں۔
ہمارے لیے یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اقوام عالم کے مفاداتی تصادم میں مخالف قوتوں میں کون سی کرداری خامیاں ہیں، جو ہمارے پالیسی ممکنات میں معاون ثابت ہو سکتی ہیں۔ مثلاً بار بار عالمی طاقتیں اپنے عمل سے یہ ظاہر کر رہی ہیں کہ لذائذ دنیا، مادہ پرستانہ روش نے ان کی قوت عمل میں ضعف پیدا کر دیا ہے، جس کی وجہ سے وہ راست فوجی مقابلے سے خوفزدہ ہیں۔
دوم، جمہوریت کی خوبیاں اپنی جگہ لیکن اس نظام کے اپنے مسائل بھی ہیں ۔ انتخابی حلقوں کے جائز و ناجائز تقاضے اور انہیں پورا کرنا مغربی سیاست دانوں کی مجبوری ہیں، یہ سارے عوامل مل کر ایک ایسی ثقافت کو جنم دیتے ہیں، جو خود پسند اپنی ذات سے محبت میں مبتلا ہیں۔ کسی مضبوط عقیدے کی عدم موجودگی میں ان کی نفسیات توازن سے محروم ہو چکی ہے۔ ان میں موت کا سامنا کرنے کا حوصلہ نہیں کہ کسی لمبی جنگ میں الجھ سکیں۔ چند ہزار تابوت کسی محاذ سے آ جائیں تو لوگ سڑکوں پر ابل پڑتے ہیں کہ فوجیں واپس بلاؤ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا سارا تکیہ الیکٹرانک فریب کاری اور چالوں پر ہوتا ہے اور یہ تیز حملہ کر کے مختصر وقت میں فوائد سمیٹنے کی کوشش کرتی ہیں۔ کوئی قوم، جو ان کے پہلے دھاوے کو برداشت کر کے قدموں پر کھڑی ہو جائے اور انہیں جسمانی زک پہنچا دے، وہ نتائج کو اپنے حق میں کر سکتی ہے۔
خارجہ پالیسی کی توسیعی تقاضے
خارجہ پالیسی کی توسیعی تقاضوں کے طور پر ہمارے لیے تین امور فوری توجہ کے مستحق ہیں۔
- کسی دشمن طاقت کی طرف سے ممکنہ حصار بندی کے اثرات زائل کرنے کے لیے ایک اضافی منصوبہ تیار کیا جائے، اور یہ قومی ایجنڈا کا اہم جزو ہونا چاہیے۔
- نیز یہ مجوزہ منصوبہ ہماری درآمدات اور برآمدات کے حجم اور ضرورتوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے وضع کی جائے، اور اس امر کا ٹھنڈے دل و دماغ سے تعین کیا جائے کہ ہم متبادل اشیاء کتنی جلد تیار کر سکتے ہیں؟
- یہ بھی کہ کسی حد تک ہم اشیائے ضروریہ کے لیے افغانستان، ایران اور چین پر انحصار کر سکتے ہیں۔ سمندری ناکہ بندی کی صورت میں ہمارے لیے یہ تینوں ممالک بے حد اہمیت اختیار کر جاتے ہیں، کیونکہ ان کے ساتھ ہماری جغرافیائی سرحدیں براہ راست جڑی ہوئی ہیں۔ آج ہماری بیشتر بیرونی تجارت ایران اور چین کے علاوہ دیگر ممالک سے ہے۔ ہم نے محفوظ اور رواں دواں تجارت کی ضرورت پیش نظر نہیں رکھی، یعنی جتنی جغرافیائی قربت اور ملاپ ہو اتنی ہی تجارت بھی زیادہ ہونی چاہیے۔ تزویراتی پس منظر میں ہمیں یہ بات ضرور سامنے رکھنی ہوگی۔
کسی بھی کامیاب خارجہ پالیسی کے لیے اس حقیقت کا ادراک ضروری ہوتا ہے کہ اس کی طاقت اور بقا کا حقیقی ذریعہ معاشی استحکام کے علاوہ ملکی یکجہتی اور امن و امان ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ خارجہ پالیسی کی اندرونی ملکی جہت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ ملکی منظر نامہ کی تشکیل و تنظیم بڑی مہارت اور چابک دستی سے ہو۔ لازم ہے کہ تعلیمی اداروں بشمول سول سروس اور ملٹری اکیڈمیوں میں سیاسی پارٹیوں اور میڈیا عناصر کی تربیت کی جائے، تاکہ وہ قرارداد مقاصد، دستور کے آرٹیکل ۳- اے کی روح کو ہر حال میں قائم رکھیں، تاکہ مملکت اور سوسائٹی کے سبھی طبقات ان دستوری تقاضوں کے حوالے سے پرجوش رہیں۔ ہر ایسا گروہ جو اس پالیسی رہنمائی کو قبول کرنے سے انکار کرے، بے اثر بنا دیا جائے، کیونکہ ایسے گمراہ عنصر کو کوئی بھی بیرونی طاقت ٹروجن ہارس کی طرح آلہ کار بنا سکتی ہے اور قوم کی آزادی اور سلامتی کو خطرہ میں ڈال سکتی ہے۔
سفارتی پریس کیڈر کی تخلیق
مجوزہ کیڈر ہمارے قومی سلامتی امور اور ضرورتوں سے پوری طرح واقف ہونا چاہیے۔ یہ بیرونی مہمانوں اور شخصیات سے مکالمہ کے فن میں طاق ہو۔ اس کیڈر کے سبھی ارکان اتنے تیز دماغ اور چابک دست ہوں کہ وہ ایک منتقم اور جارح ملک کے سفارت کار یا حکومتی عہدے دار کو دفاعی پوزیشن اختیار کرنے پر مجبور کر دیں۔ ان کے لیے چارہ نہ رہے کہ وہ پاکستان مخالف سخت نقطہ نظر میں ترمیم پر مجبور ہو جائیں۔ اس طرح کے پڑھے لکھے اور محب وطن پریس کی کوششوں سے وہ بہت کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے جو دفتر خارجہ کے راہداریوں میں گھومنے والے اصحاب ملک کو دلانے میں ناکام رہتے ہیں۔
آخری بات یہ ہے کہ اس بات کا اہتمام اور یقین کر لیا جائے کہ ہمارے میڈیا کو کہیں بیرونی مالی امداد تو نہیں مل رہی۔ نیز یہ کہ قومی تقاضوں سے متصادم کوئی چیز بھی ہمارے اخبارات اور رسائل میں راہ نہ پائے۔ آزاد پریس یقیناً ایک نعمت ہے لیکن اس نعمت کی اصل قدر اسی صورت میں ہو گی کہ اسے غیروں کے اثرات سے پاک اور محفوظ رکھا جائے۔ اگر اسے لادین اقدار کا آلہ کار بننے دیا گیا تو دینی اختلال، مایوسی اور قنوطیت، اپنے مستقبل کے متعلق ہمارے اعتماد کو متزلزل کر دیں گے۔ قوم کسی میدان میں لڑے بغیر ہی چت ہو جائے گی۔ ایسا کبھی اور کسی حال میں بھی نہیں ہونا چاہیے۔
باب ۱۹: پاکستان، ہندوستان تعلقات: امن سپر اندازی میں نہیں
پاکستان اور ہندوستان کے باہمی تعلقات میں ہمیشہ تکلیف دہ رکاوٹیں حائل رہی ہیں۔ جے این ڈکشٹ کی کتاب کے سرنامے میں ذرا سی تصریف کروں تو میں کہہ سکتا ہوں کہ ان تعلقات پر اضطراب انگیز تاریخی ورثے کی گہری چھاپ ہے۔ پاکستان اور ہندوستان کا پہلا آمنا سامنا تہذیبوں کے ٹکراؤ کی شکل میں ہوا، جب مسلمان اول اول جنوبی ایشیا میں وارد ہوئے۔ جیسے جیسے وہ اس سرزمین پر آگے بڑھتے گئے، ان دو قوموں کے تعلقات آگ اور خون کی کٹھالی میں ڈھلنے لگے۔ تجربے نے ہندوؤں کو مجبور کر دیا کہ وہ علاقے میں مسلمانوں کی بالا دستی کے سامنے سر جھکا دیں۔ لیکن اندر اندر وہ غصے اور ناراضی کی آگ میں سلگتے رہے۔ انہیں یہ امر مجبوری یہ تسلیم کرنا پڑا کہ اگرچہ وہ تعداد میں زیادہ تھے لیکن ان میں مسلم قوت اور استعداد کے جواب کی سکت نہ تھی۔ پھر جب مسلمان اپنے اقتدار کو بڑھاتے بڑھاتے کم و بیش ہزار برس تک کھینچ لے گئے، اور انہوں نے ہندی آبادی اور علاقوں میں دور دور تک نفوذ کر لیا، تو دونوں قوموں کے متحارب اور کشیدہ تعلقات کھل کر سامنے آ گئے۔ اس کے بعد باہمی تعلقات کی روز افزوں خرابی ایک طے شدہ بات تھی، جسے نفرت اور بے اعتمادی کی منطق شدید تر کرتی چلی گئی۔
اس صورت حال نے دو جدا کرداروں کو جنم دیا۔ مسلمانوں نے صلح جوئی اور برداشت کی پالیسی اپنائی۔ ایک تو اس لیے کہ ضبط اور برداشت اسلامی تعلیم کا خاصہ ہے۔ ساتھ ہی مسلمان اپنے مقبوضات کو ہاتھ میں رکھنا چاہتے تھے، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ باوجود قوت و اقتدار کے وہ عددی اعتبار سے اقلیت تھے۔ ان کے لیے ضروری تھا کہ وہ اپنے مقبوضات پر اچھی طرح حکمرانی کریں اور ساتھ ہی اپنے اسلامی وجود کی تعمیر اور تہذیب کی تدابیر سوچیں، تاکہ وہ بحیثیت مسلمان قوم، چار اطراف ہندوؤں کے حصار میں اپنے جداگانہ تشخص کو برقرار رکھ سکیں۔ لیکن اس سب کے باوجود طویل غلبے کے اپنے اثرات ہوتے ہیں، جن سے مسلمان بھی نہ بچ سکے۔ ان تمام وجوہ کے ساتھ ایک نفسیاتی پہلو بھی تھا اور وہ بھی اقتدار کی عطا تھی، جو عموماً حکمران اقوام میں پیدا ہو جاتا ہے۔ ان کے طویل عرصے تک غلبہ و اقتدار نے ان میں خود اعتمادی کی ایک کیفیت پیدا کر دی۔ وہ اس ذہنی کیفیت میں مبتلا ہو گئے کہ خواہ ان کی تعداد گنتی میں قلیل کیوں نہ ہو، بحیثیت قوم وہ ناقابل تسخیر ہیں، یہاں تک کہ ان کی پالیسیاں بجائے اس کے کہ وہ اپنی کسی حکمت عملی کے تحت تشکیل دیں، مخالف قوم کے ردعمل میں وضع ہونے لگیں۔
ہندوؤں کی ذہنی سوچ کا دھارا اس سے مختلف تھا۔ وقت نے انہیں سمجھا دیا تھا کہ اپنے احساسات اور جذبات کو ظاہر نہ ہونے دیں۔ ان کے اسلوب گفتگو اور تحریر میں عیاری اور گہرائی آ گئی۔ وہ جان گئے کہ محض تعداد میں برتری ان کے کسی کام نہیں آ رہی۔ انہیں آلات و وسائل میں برتری حاصل کرنی ہوگی۔ چنانچہ اپنی پالیسیاں ترتیب دینے میں انہوں نے اپنے تزویراتی مفادات کو پیش نظر رکھا۔
لہذا ہندوستان سے تعلقات کی بحث میں ہمیں اس ہندی نفسیات سے صرف نظر نہیں کرنا چاہیے۔ ان کی یہ سرشت خوف اور آزردگی کے نتیجے میں لاحق ہونے والا ذہنی عارضہ ہے، جو ماضی کے ضائع کیے ہوئے سبھی تاریخی مواقع کا انتقام لینے پر تلی ہوئی ہے۔
لیکن جہاں ہندوستان کی پاکستان پر غلبہ اور فوقیت کی خواہش واضح ہے کہ وہ اپنی پریشان و مجروح روح کو آسودہ کرے، وہیں ان کے عقل سے عاری پاکستانی گماشتے، گو تعداد میں حقیر سہی، ہندی آموختہ جگالی کرتے نظر آتے ہیں۔ ہندوستانی مفادات کی آبیاری میں کبھی تو وہ ممکنہ اقتصادی خوشحالی کا ذکر کرتے ہیں، کبھی یک طرفہ تخفیف اسلحہ کی نصیحتیں گھوٹ گھوٹ کر پلاتے ہیں اور کبھی موہوم اور افسانوی ہم رنگی اور علاقیت کا راگ الاپتے ہوئے یک جان دو قالب بننے کا سبق دیتے ہیں۔ ان سارے موضوعات کو ان کے عیارانہ طرز بیان اور من موجی سیاسی ستر پوشیوں کو مختصر یوں بیان کیا جا سکتا ہے:
- پرانی نسل، جس نے ہندو مسلم خونیں ٹکراؤ اپنی آنکھوں سے دیکھا، معدوم ہو رہی ہے۔ سرحد کے دونوں اطراف نئی نسل کو ایسی کسی صورت حال سے واسطہ نہیں پڑا۔ چنانچہ پاکستان اور ہندوستان قریب لائے جا سکتے ہیں۔
- قومی ریاست کا تصور ازکار رفتہ ہو چکا۔ اب علاقائی گروپوں کی تشکیل کا دور ہے۔ اب مملکتوں اور حکومتوں کو کنارے بٹھا کر عوام سے عوام کا رابطہ پیدا کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ ریاستیں تو جنگ آزمائی پر تلی ہوتی ہیں، جب کہ عوام امن چاہتے ہیں۔
آئیے ان مفروضہ موضوعات کو دیکھیں کہ ان کا حقیقی مطلب کیا ہے؟ اور خود بہ طور قوم ہمارے لیے ان میں کیا شر پوشیدہ ہے؟
تاریخ کی گواہی اور قومی شعور
اوپر دیئے گئے موضوعات میں سے پہلے موضوع کو میں نے تاریخ کی شہادت اور قومی شعور کا نام دیا ہے۔ یہ اس لیے ضروری ہے کہ یہ موضوع ان دونوں کے ہم زمان و ہم مکان تعلق پر استوار ہے۔ سیکولروں کا یہ نقطۂ نظر اور جس انداز سے سیکولر یہ بات کہتے ہیں اس میں تہہ در تہہ مفروضے چھپے بیٹھے ہیں۔
- اولاً یہ کہ ملت اسلامیہ پاکستان کی کوئی تاریخ نہیں، نہ ان کی زندگی بحیثیت ایک قوم کے کسی تاریخی عمل سے جذباتی اور ذہنی سطح پر کبھی آشنا ہوئی۔
- ثانیاً، ہماری قومی زندگی کسی بے مغز خلاء میں گزری ہے، جس کی وجہ سے کسی ادارے نے، خواہ وہ خاندان ہو، مسجد ہو، مدرسہ ہو یا ہمارا نثری اور شعری اثاثہ ہو، ہمیں تاریخی شعور منتقل نہیں کیا اور نہ ہم الہامی تعلیمات سے مستفید ہوئے۔ جیسے ہم کوئی ملحد و بے دین قوم ہوں جس کی نہ سمت ہو، نہ کوئی آرزو۔ ایسی صورت کا فطری نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ نہ ہمارا قومی شعور ہونا چاہیے اور نہ ہی ماضی۔
واضح رہے کہ یہ دونوں مفروضے اپنی اصل میں مبہم و مضحکہ خیز ذہنی آوارگی کا نمونہ ہیں۔ اگر ان میں سچائی ہوتی تو جنوبی ایشیا میں مسلمانوں کا مسلم شعور موجود نہ ہوتا، بلکہ ۱۹۴۰ء کے عشرے میں ہندی شعور اجاگر ہو کر سامنے آیا ہوتا، کیونکہ پانی پت کی تیسری جنگ (۱۷۶۱ء) لڑنے والے تو کبھی کے سپرد خاک ہو چکے تھے۔ اس کے برعکس ہوا یہ کہ مسلم شعور نے ۱۹۴۷ء میں پاکستان کی شکل میں اپنے ٹھوس وجود کی شہادت دی۔
اسی طرح ہماری نسل کا کوئی فرد نہ تو جنگ بدر میں شریک تھا، نہ بیت المقدس میں فاتحانہ وارد ہونے والے صلاح الدین ایوبی (۱۱۳۸-۱۱۹۳ء) کے لشکر کا حصہ تھا، اور نہ شہاب الدین محمد غوری (۱۱۵۰-۱۲۰۶ء) کے ساتھ سرزمین ہند میں آیا تھا کہ جب اس نے (۱۱۹۲ء) میں ترائن کی جنگ جیتی تھی۔
اسی طرح جب اس علاقے میں مسلمان اپنے تہذیبی شعور کو پھیلا رہے تھے جس میں طہارت، پاکیزگی، علم اور انسان دوستی کی مہک تھی اور ساتھ ہی ایک ایسے منصفانہ نظام کی ابتدا کر رہے تھے، جس میں مسلمان باوجود ایک نظریاتی قوم ہونے کے، شریعت کے سائے میں دوسری اقوام اور ادیان کو وہی حقوق دے رہے تھے جو خود مسلمانوں اور اسلام کو حاصل تھے۔ بلاشبہ عالمی نقشہ پر یہ ایک عظیم پیش رفت اور منفرد تجربہ تھا۔ تکثیریت بطور قدر دنیا میں متعارف ہو رہی تھی مگر اس وقت بھی ہم میں سے کوئی یہ رفعت اور عظمت کے مناظر دیکھ نہیں رہا تھا۔ لیکن آج بھی یہ سارے واقعات ہماری روح کو تمازت بخشتے ہیں، اور ساتھ ہی ہمارے شعور کی تشکیل کرتے ہوئے ہمیں یہ احساس دلاتے ہیں کہ یہی تو ہمارا اصل جوہر ہیں۔
ایسا کیوں ہے؟ اس لیے کہ تاریخ کوئی جامد شے نہیں ہوتی اور نہ یہ کوئی اتفاقی حادثہ ہوتا ہے۔ بلکہ تاریخ تو ایک تخلیقی عمل ہے، جسے کسی قوم کا عزم اور اجتماعی ذہانت وجود میں لاتے ہیں۔ جو وقت کے دھارے میں واقعات کی یوں صورت گری کرتے ہیں کہ ان کی تابناکی اپنے زمانہ سے ماوراء نسل در نسل متاثر کرتی ہے۔ خواہ وہ کامیابی اور کامرانی کا نور فشاں منظر ہو یا شکست اور پسپائی کی اذیتوں کی ٹیس۔ تاریخی واقعات کی بالخصوص یہی حقیقت ہے جو ہمارے وجود اور بقا کی تصدیق کرتی ہے کہ انہی سے ہمیں عظمت اور تکریم ملتی ہے۔
یہ بالخصوص ان تاریخی واقعات کے حوالے سے درست بات ہے، جو ہماری اقدار کی عظمت اور سچائی کو قدر و منزلت دیتے ہیں، یا پھر تاریخ کو ایسا رخ دیتے ہیں جو زندگی اور تہذیب کے عمل کو ہمارے حق میں کر دیتے ہیں۔ اس پیرائے میں تاریخ ایک سیکھنے اور سمجھنے کا عمل ہے، جو شعور ہی سے کام لے کر شعور و آگہی کی تجسیم کرتا ہے۔
میں نے بہتر وضاحت کی خاطر تاریخ کو تعلیم سے تشبیہہ دی ہے، لیکن بہ طور ایک رواں عمل یہ کسی میکانکی ابلاغی اقدام سے بدرجہا زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ یہ ایک ہمہ گیر بہاؤ ہے، ایک آہنگ اور اپنے ہی قسم کا زیر و بم ہے، جو تشکیل و تنظیم ہی نہیں کرتا بلکہ ہمیں اپنی روانی میں ساتھ لے کر چلتا ہے۔ پھر ہم ایک سیل و تموج کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ جس سے ہمیں اپنے وجود کے ہونے کا وہ احساس ملتا ہے، جو بہ حیثیت ایک قوم ہمیں رفعت و بلندی سے ہمکنار کرتا ہے اور مزید یہ کہ ہمیں ہمارے ماضی سے جوڑے رکھتا ہے۔
پھر یہ امر واقعی کہ ہم نے ہندوستان پر کم و بیش ہزار سال حکمرانی کی، یہ احساس کہ مسلمان اپنے برتر و اعلیٰ نظریاتی عقیدے کی بنا پر کسی کے زیردست بن کر نہیں رہ سکتے اور یہ کہ پاکستان کا وجود اسی مسلم حکمرانی کا تاریخی تسلسل ہے۔ ایک باقی رہنے والی حقیقت جس کے مقدر میں ہے کہ وہ ایک بڑی طاقت بن کر ابھرے اور اس خطہ میں آزاد اور باوقار قوم بن کر اپنے وجود کو منوائے۔ یہ احساس اتنا گہرا اور مضبوط ہے کہ وہ ہمیں اپنے آپ کو بھولنے نہیں دیتا۔
قومی ریاست کا متروک تصور؟
قومی ریاست کا تصور ختم ہو چکا یا باقی ہے، اس سوال سے قطع نظر پاکستان میں ہند نواز حلقے لوگوں کو یہ باور کرانے میں لگے ہیں کہ یہ تصور کبھی کا ختم ہو چکا۔ طرفہ تماشہ ہے کہ وطن عزیز میں ایک حقیر اقلیت جو نظریاتی پاکستان کو تسلیم نہیں کر رہی تھی، مجبوری کے عالم میں پہلے تو اسے قومی ریاست کا نام دے رہی تھی، اب پاکستان کی کمزوری کے لمحات میں اس کے جسد کو نوچنے کے لیے گدھوں کی طرح آبیٹھے ہیں اور وطن عزیز کے خلاف دلائل دینے شروع کر دیے ہیں۔
کبھی کہتے ہیں یہ ایک بے اختیار ریاست ہے، تو کبھی معاشیات کا رونا روتے ہوئے تلقین کرتے ہیں کہ ہندوستان کے علاقائی حلیف بن جائیں۔ اس سارے عالمانہ سوفسطائی کھیل میں اصل تجویز پاکستان اور ہندوستان کی کنفیڈریشن کی ہوتی ہے۔ ان میں جو نسبتاً کچھ زیادہ محتاط ہیں، وہ اسے دو ثقافتوں کی دولت مشترکہ کا نام دیتے ہیں۔ اس تجویز میں سارا زور ثقافتوں کی یکسانیت یا معاشی بلاک بنانے پر ہوتا ہے۔
اپنی اس چیستاں سرائی میں وہ یہ بات بالکل بھول جاتے ہیں کہ معاشی بلاک جہاں بھی سامنے آئے، وہ یا تو تھے ہی سیاسی یا ان کا داعیہ اور قوت محرکہ سیاسی تھا۔ یہ بات ان کی تشکیل و تنظیم اور ڈھانچے میں واضح طور پر دکھائی دیتی ہے۔ جس کیس کو بھی لیں، ذرا سے اختلاف کے ساتھ، اس میں ایک محوری قوت سامنے نظر آئے گی، جس کے گرد وہ پورا بلاک گھومتا ہے۔ ایک حوالے سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ معاشی بلاک استعماری دور کی توسیع ہیں، جب غالب قوتوں کو بڑے زمینی رقبوں کی ضرورت لاحق ہوتی تھی، جہاں سے ضروری خام مال بہ کثرت ملتا اور جہاں وسیع منڈی موجود ہوتی۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ استعماری دور میں تاجر طبقہ عموماً ہر اول کا کردار ادا کرتا ہے، جبکہ حکمران اشرافیہ اس کی پشت پر ہوتی ہے۔ سرمایہ دارانہ معیشت میں ہم اسی استعماری دور کی تکرار دیکھ رہے ہیں، جس کے تحت تاجر اپنی اشیاء کی کھپت کے لیے وسیع تر منڈی کی تلاش میں رہتے ہیں۔ جب کہ سرمایہ دارانہ ریاست کی سیاسی قوت ارادی اس کی پشت پر کھڑی رہتی ہے۔
ہم جب یہ کہتے ہیں کہ بلاک یا تحالف کسی محوری طاقت کے گرد بنتے ہیں، تو ہمارے سامنے نارتھ امریکا فری ٹریڈ ایگریمنٹ (NAFTA) کی مثال ہے، جس میں مرکزی قوت امریکہ ہے۔ کونسل فار میوچل اکنامک ایسوسی ایشن (COMECON) میں یہی مقام روس کا ہے اور ساؤتھ ایشین ایسوسی ایشن فار ریجنل کو آپریشن (SAARC) میں اس پوزیشن پر ہندوستان براجمان ہے۔ ان سبھی بلاکوں کی تہہ میں اصل کار فرما خواہش قوت و اقتدار کی توسیع ہے۔ امریکی چاہتے ہیں کہ پورے شمالی اور جنوبی امریکہ پر وہ غالب رہیں۔ روسی، مشرقی یورپ پر اپنے ماضی کے اختیار و اقتدار کا تسلسل چاہتے ہیں۔ ہندوستانی چاہتے ہیں کہ اگر وہ افسانوی اساطیری ہند - مہا بھارت - تخلیق نہ بھی کر پائیں تو کم از کم برطانوی ہند ہی دوبارہ وجود میں آ جائے۔
کسی طاقتور محور پر قائم ان بلاکوں کے برعکس چند اور تجارتی بلاک ہیں، مثلاً آسیان (ASEAN - دی ایسوسی ایشن آف ساؤتھ ایسٹ ایشین نیشنز) اور تنظیم برائے اقتصادی تعاون و ترقی (OECD - آرگنائزیشن فار اکنامک کو آپریشن اینڈ ڈویلپمنٹ) جو اپنے ارکان ملکوں کو طاقتور ہمسایہ ممالک کے اثرات سے بچانے کے لیے وجود میں آئے، یعنی ایشیا میں جاپان سے اور یورپ میں جرمنی، فرانس اور برطانیہ ہے۔ لہذا علاقائی تحالف یا گروپنگ کوئی بے معنی تشکیل نہیں ہوتی۔ اس کی رکنیت کا فیصلہ کچھ اور عوامل کے ساتھ ساتھ، دو اہم امور کو پیش نظر رکھیے گا:
- شناخت کا عمل: کیا ہمارے قومی وجود کا تعین نظریہ کرے گا یا یہ کہ ہم کس علاقہ میں کہاں واقع ہیں، اور کسی قوم اور ملک سے کتنے قریب ہیں، جبکہ وہ ملک اور وہ قوم ہمارے وجود کے ہی منکر ہوں؟
- یہ علاقائی بلاک مستقبل میں کیا شکل اختیار کریں گے؟ اگر کوئی بلاک یا ہیکل ہمیں اندر کھینچ کر جذب کر لے، تو ہمارا کیا بنے گا؟
چنانچہ یہ علاقائی گروپ محض تجارت اور اشیا کے مبادلے کا نام نہیں، اس کی ایک اپنی منطقی حرکت بھی ہے، جس پر مستزاد بڑی محوری طاقت کے خوفناک جغرافیائی ارادے ہیں، جن کا حلیف بننے والی چھوٹی طاقتوں کو اندازہ لگانا ہو گا کہ آخری حساب میں نفع نقصان کا میزانیہ کیا بننے جا رہا ہے؟
ایک قوم جو کسی کے ساتھ مل کر تجارتی بلاک بنانا چاہتی ہے، وہ پہلے اس بات کو یقینی بنائے کہ اس کا تحالف اس سے ملتی جلتی قوموں سے ہو رہا ہے، تاکہ اگر کبھی مائل بہ مرکز (centripetal) بہاؤ اسے اپنے اندر کھینچ بھی لے، جس کا سیاسی ڈھانچہ اس سے مختلف نہ ہو، تو اس کا یہ ادغام اس کی موت نہیں ہو گا بلکہ ایک حیات بخش وجودیت کا پیغام ہو گا۔ پاکستان اس لحاظ سے خوش قسمت ہے کہ اس کا جغرافیہ مغرب کی طرف پھیلتا اور وسیع ہوتا ہے اور یہ ملک بلا انقطاع مسلم ممالک سے جڑا ہوا ہے۔ جس کے نتیجہ میں اسے علاقائی گہرائی (depth) بھی ملتی ہے اور دوست مسلم اقوام سے رابطہ بھی پیدا ہوتا ہے۔
ہم مغرب اور وسطی ایشیا میں مسلم اقوام سے مل کر بلاک بنائیں تو یہ ہمارے لیے محض بقا سے بھی زیادہ حیات بخش اقدام ہوگا۔ جبکہ سارک میں رہ کر ہم ہندوستان کی سیکولر غیر مسلم گود میں ایسے ہی بے بس ہوں گے، جیسے کسی سربند گنبد میں محصور کوئی انسان۔
اس کے ساتھ ساتھ ہمیں سارک کے متعلق خود ہندوستانی سوچ بھی پیش نظر رکھنی ہوگی کہ وہ اسے کیسے دیکھتی ہے۔ ہندوستانی، سارک کو ۱۹۴۷ء سے پہلے کے برطانوی ہند کا متبادل سمجھتے ہیں، ایک ایسا سانچا جس میں ڈھل کر بنگلہ دیش، پاکستان اور سری لنکا ایک کنفیڈریشن کے اندر نئی شکل اختیار کریں گے۔ یہ ثقافتی رابطے اور تجارتی تعلقات اس کنفیڈریشن کا نقطۂ آغاز ہیں۔
اس کے علاوہ ہمیں اس بات کا بھی احساس کرنا چاہیے کہ موجودہ یک قطبی دنیا جس پر امریکہ اور اس کے اتحادی حاوی ہیں، مسلمانوں کے مناسب حال نہیں۔ مغرب نے بوسنیا کو عددی کھیل سے دوچار کر کے ایک مضحکہ خیز اور ظالمانہ سیاسی دروبست میں پھنسا لیا۔ نتیجہ یہ ہے کہ بوسنیا کی مسلمان آبادی صاحب اختیار ہونے کے بجائے بالکل بے دست و پا ہو گئی۔ لیبیا ایک عرصے سے محاصرے کی کیفیت میں رہا۔ یہی حال ایران اور سوڈان کا ہے (اور آخر کار سوڈان کو تقسیم کر کے دم لیا)۔ عراق کا حشر سب کے سامنے ہے۔ کل کو پاکستان یا کسی اور مسلمان ملک کی باری آ سکتی ہے۔ مسلمانوں کو آپس میں یکجائی کی کوئی صورت پیدا کرنی ہوگی، قبل اس کے کہ ان کے ہر ٹکڑے کو یکہ و تنہا کر کے اس کے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑ لیا جائے۔
عوام کا عوام سے رابطہ
حکومتی سطح پر مذاکرات کے بجائے ڈپلومیسی ایک اور رقص ابلیس ہے، مگر حیرت ہوتی ہے کہ خود فراموشی کے اس ہسپانوی سنگت (flamenco) پر تحسین کے ڈونگرے برسائے جا رہے ہیں۔ یہ ڈول جنہوں نے ڈالا ہے وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ جہاں ریاستیں خالی خولی افسانوی وجود ہیں، عوام الناس اصل حقیقت ہیں۔ مقصود تو عوام کی بہبود ہے، ریاست نہیں جس کے وہ باسی ہیں۔ اس مفروضے کو قبول کرنا بہت ہی سادہ لوحی کا مظہر ہوگا لیکن اس سے اغماض برتنا بھی بے حد خطرناک ہو سکتا ہے۔ مذکورہ بیان میں تین اہم مسائل کی نشان دہی کی جاسکتی ہے:
- یہ تصور پاکستان کے بہ حیثیت ایک ریاست کے تصور میں نقب زنی ہے۔ جبکہ پاکستان اٹھارہ کروڑ سے زائد لوگوں کا مسکن اور ان کی تمناؤں کا مظہر ہے۔
- یہ بڑی چالاکی سے ادغام کے ہندوستانی صلح نظر کو آگے بڑھاتا ہے۔
- یہ انسانوں کو محض صارف بنا کر ان کے قد و قامت کی تحقیر کرتا ہے اور اس طرح ان کی فطرت کا قطعاً غلط ادراک کرتا ہے۔ اس پس منظر میں انسان، مادہ پرستوں کی خواہش کے مطابق یک رخا نظر آتا ہے۔ حالانکہ انسان نہ محض مادہ ہے، اور نہ صرف روح۔ دونوں کے ملاپ سے ہی صحت مند اشتراک تخلیق پاتا ہے۔ پھر ان انسانوں کی آرزوئیں، ان کی جدوجہد اور بالاتر مقاصد کے لیے ان کا جذبہ قربانی انہیں منفرد مخلوق بناتے ہیں، اور یہ وہ قدریں ہیں جنہیں عدد اور وزن کے پیمانوں سے نہیں ناپا جا سکتا۔
لہذا جب عام لوگوں کو ریاست پر ترجیح دی جائے تو ان کے درمیان توازن و تناسب بگڑ کر رہ جاتا ہے۔ سارا استدلال ایک طرح کا نراجی مزاج پیدا کرتا ہے۔ بلاشبہ ریاست انسانوں سے ہی آباد ہوتی ہے لیکن ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ دونوں میں گہری مماثلت ہے۔ پھر یہ بھی سچ ہے کہ کوئی انسانی گروہ اتنا سیال نہیں ہوتا کہ وہ ثبات سے محروم تیرتا ہی رہے، جس کا کوئی سماجی اور سیاسی ہیکل نہ ہو اور جسے جب اور جہاں چاہیں دھکیل کر بٹھا دیں۔ وہی لوگ ذروں کا انبار ہوتے ہیں جن کی کوئی وفاداری نہ ہو۔ مثلاً بیرون ملک پاکستانی پرتعیش معاشروں میں رہتے ہوئے بھی اپنے ملک کے حالات اور معاملات سے جذباتی طور پر وابستہ اور متعلق رہتے ہیں۔
یہ وہ دلی لگاؤ ہے جسے الفاظ میں بیان کرنا اور اس کی مخصوص تعریف متعین کرنا ممکن نہیں، کیونکہ ان معاملات میں مادی پیمانے کام نہیں دیتے۔
یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ ریاست در حقیقت اس کے اندر رہنے والے انسانوں کی توسیعی شکل ہے۔ وہ انسان جو ایک اجتماعی احساس کے تفاخر سے سرشار ہوتے ہیں۔ ریاست اپنے جلو میں ماضی اور مستقبل دونوں کو لے کر چلتی ہے۔ یہ لوگوں کی روایات کا مخزن اور ان کے خوابوں کی تعبیر کا ذریعہ ہوتی ہے۔ اس حوالے سے ریاست حال کی نسل سے برتر ہوتی ہے، کیونکہ آنے والے کل کے بچوں کے مفاد کی خاطر اسے حال سے بالاتر ہو کر اپنے وجود کو برقرار رکھنا ہوتا ہے۔ اس لیے ہر ریاست کو بعض بہت تلخ اور ناخوشگوار فیصلے بھی کرنے پڑتے ہیں۔
مزید براں، دور حاضر کے جمہوری تصنع اور عام لوگوں کو درجہ خدائی پر لا بٹھانے کے باوجود، جنگ اور امن کے مسائل کلیتہً ریاست کی عمل داری میں آتے ہیں۔ عوام کے اقتدار اعلیٰ کا سارا تصور ایک ڈھونگ اور بے اصل بیان ہے ۔ کوئی چاہے تو اس تصور سے کھیلتا اور دل بہلاتا رہے، لیکن خود یہ تصور کوئی لگا بندھا سیاسی مجموعۂ اصول و ضوابط دینے سے عاجز ہے۔
زمانے کے ہاتھوں شکار ہونے سے بچ جانے والی صداقت کے پس منظر میں دیکھیں تو مذکورہ مفروضہ، یعنی عوام کی ریاست پر برتری، سراسر واہیات لگتا ہے۔ ایک ایسے دور میں جب نیابتی (representative) حکومت ایک سیاسی معیار اور نمونہ بن چکی ہے، پاکستان میں دھما چوکڑی مچانے والے ہندی گماشتے منتخب شدہ لیڈروں کو عوام الناس سے جدا کر کے دکھاتے۔ ہیں کہتے ہیں کہ: لیڈر تو جنگ کی بھٹی میں سلگانے والے ہوتے ہیں جبکہ عوام امن پسند ہیں، یہ سوال کہ کیا لیڈر اپنے حلقہ نیابت سے منہ پھیر کر لوگوں کی خواہشات اور آرزوؤں سے متصادم موقف اپنا سکتا ہے، بڑی آسانی سے نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ لیکن عصری تاریخ کسی ایسی انداز فکر کا ساتھ نہیں دیتی۔ مثلاً گزشتہ ۶۳ سے زیادہ برسوں کا ہندوستان کا جمہوری رویہ دیکھیے ۔ ہندی عوام اکثر و بیشتر کانگریس کو ووٹ دے کر برسر اقتدار لاتے رہے ہیں، جب کہ یہ پارٹی پاکستان کے حوالے سے حد درجہ جنگ آزما رہی ہے۔ اگر ہندوستانی واقعی امن پسند ہیں اور پاکستان سے جنگ نہیں چاہتے تو انہوں نے نسبتاً کم لڑاکو اور غیر جنگجو پارٹی کو اقتدار میں لانے کی کوشش کیوں نہیں کی؟
بالکل یہی بات جمہوری پاکستان کے ضمن میں بھی کہی جاسکتی ہے۔ کیا ذوالفقار علی بھٹو نے کشمیر کے سوال پر ہندوستان سے ہزار سال جنگ لڑنے کے بلند بانگ دعوے کر کے ووٹ نہیں سمیٹے تھے؟ بھٹو کے تشہیری ماہرین دیواروں کو ایسے پوسٹروں سے کیوں رنگ ریز کر رہے تھے، جن میں بھٹو کو ایک تند و سرکش گھوڑے پر سوار ہندوستان کو دعوت مبارزت دیتا دکھایا جاتا تھا۔ ظاہر ہے اقتدار کی سیڑھی پر چڑھنے کے لیے عام آبادی کے ہندوستان کے خلاف غم و غصے کو استعمال کیا جا رہا تھا۔ ثابت یہ ہوا کہ عام لوگوں اور ان کے لیڈروں کا باہمی تعلق علامتی اور عملی دونوں سطحوں پر استوار ہوتا ہے، جو ایک دوسرے کی پرورش کرتا ہے۔ اس معاملے کو کسی مختلف چوکٹھے میں رکھنا محض دکھاوے کی شیخی اور بے سود مشق ہے۔
اصل بری بات یہ ہے کہ لوگوں کے لوگوں سے رابطہ کے سارے تصور کی بارآوری کسی ہندوستانی ٹیسٹ ٹیوب میں ہوئی۔ پھر یہ جرثومی وجود لا کر پاکستان میں دندناتے ہندوستان پسندوں کے بطن میں فٹ کر دیا گیا۔ پہلی سرکاری اعلیٰ ترین سطح جہاں سے اس خیال کی پذیرائی ہوئی، خود ہندوستانی وزیر اعظم کی ذات تھی۔ "ہندوستان ٹائمز" کے بہ قول اس وقت کے وزیر اعظم نرسمہا راؤ نے کہا: ” پاکستان اور ہندوستان کے تجارتی روابط کا انحصار، لوگوں کے لوگوں سے رابطہ کے اہم ترین تعلق کی استواری پر ہے۔“ ہندی وزیر اعظم نے مزید کہا: ” بات صرف تجارت کی نہیں بلکہ معاشی، سیاسی، ثقافتی تعاون کی کمی صورت حال کی ہے جس پر ہمیں توجہ مرکوز رکھنی چاہیے۔“
بہ الفاظ دیگر، تجارت ہندوستانیوں کی نظر میں ایک حربی چال ہے، جس کے لیے وزیر اعظم نرسمہا راؤ ”معاشی، سیاسی، ثقافتی تعاون کی کلیت“ کی ترکیب استعمال کرتے ہیں۔ یعنی ایک ایسا طریق کار جو بالآخر ایک کنفیڈریشن کی شکل اختیار کر لے، خواہ ابھی پاکستان ہندی یونین میں پوری طرح ضم نہ بھی ہو۔ اب اگر کچھ لوگ یہ تباہ کن کھیل کھیلنے پر تلے ہوئے ہیں، جبکہ نام اسے عوام سے عوام کے رابطے کا دیا جا رہا ہے، تو یہ بہ حیثیت ایک مقتدر اعلیٰ قوم کے ہماری عقل و دانش کی توہین ہے۔
وزیر اعظم راؤ کے سوچے سمجھے الفاظ کسی انفرادی ہندوستانی لیڈر کی ہیجانی ترنگ نہ تھی۔ اس کی پشت پر تین چار عشروں کا عملی منصوبہ تھا، جس کی نقاب کشائی سب سے پہلے ہندی وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے کی۔ رابرٹ ورسنگ (Wirsing) نہرو کا قول نقل کرتا ہے:
پاکستان اور ہندوستان کے مابین کنفیڈریشن ہمیں مرحلہ وار ایسے مراحل تک لے جاسکتی ہے کہ جس سے پاکستان کے مغربی اور مشرقی بازوؤں کو جوڑنے کے لیے کچھ اسی طرز کا انتظام ہو سکے گا اور بالآخر ایک عظیم کنفیڈریشن وجود میں لائی جاسکے گی، جس میں جنوبی ایشیا کی ساری ریاستیں شامل ہوں (اسے برطانوی ہند پڑھیے گا)۔ اس کا کہنا تھا کہ اس سے پاکستان کو کشمیر تک رسائی ملے گی، مشرقی بنگالیوں کے جذبات ٹھنڈے ہوں گے اور فرقہ واریت پر قابو پالیا جائے گا (یعنی مسلم عوام کی مسلمانیت کا کانٹا نکال لیا جائے گا)۔ اس سے پاکستان اور ہندوستان کے درمیان پر امن تعاون کے امکانات پیدا ہوں گے۔
پھر نہرو نے دل کی بات کھول کر بیان کردی: کنفیڈریشن ہمارا آخری اور حتمی ہدف ہے۔
نہرو اور اس کے ہم وطنوں اور ان کے سیکولر پاکستانی گماشتوں کے اذہان کی اس بدفطرت نیم جاہلانہ بلند پروازی کو جانے دیجیے، ہمیں تسلیم ہے کہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان قیام امن واقعی ایک محترم تصور ہے، جس کے حصول کی پوری کوشش ہونی چاہیے، خواہ ہندوستان نے امن کی فضا کو کشمیر میں اپنے بے رحم اقدامات اور پاکستانی سرزمین پر شیعہ سنی جھگڑوں یا کراچی میں کسی فاشسٹ گروہ کی طرف سے جاری گوریلا کارروائیوں کے ذریعے، اپنی طرف سے ختم کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی ہو۔
یہ امن کیا ہے، جسے ہم اپنے لیے اور دوسروں کے لیے چاہتے ہیں؟
جس امن کے ہم متلاشی ہیں وہ عدم جنگ کا نام نہیں، کیونکہ یہ محض خود فریبی پر مبنی لفاظی ہوگی۔ ہمارے لیے امن کسی ایسے امر واقعی کا وجود ہے، جس کی شرط اول یہ ہے کہ دلیل اور برہان مادی طاقت سے اعلیٰ اور برتر ہیں۔ یہ اس تصور پر ایقان کا نام ہے کہ حجت اور دلیل تقاضا کرے تو سوچ اور فکر کو بدلنا ہوگا، اور یہ کہ مسلح طاقت کو دلیل اور محبت کے سامنے سر جھکانا ہوگا، نہ یہ کہ وہ دلیل و برہان کو اندھی بے رحم قوت کے سامنے موم کی ناک بنائے رکھے۔
اس بات کو یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ امن خود طاقت کا تصور ہے۔ یہ اندر اور باہر دونوں حوالوں سے سلامتی کا تصور بھی ہے، جسے ایک عادل اور انسانیت دوست معاشرہ قوت فراہم کرتا ہے ۔ امن کی پکار یہ ہے کہ غاصب کو کمزور بنا کر رکھا جائے اور مظلوم کو طاقت اور توانائی فراہم کی جائے، تاکہ دونوں کے درمیان انسانی توازن اور تناسب قائم ہو۔ یہی وجہ ہے کہ امن کا مطلب نہ تو دست برداری ہے اور نہ سرا اور نہ سرافکندگی۔ امن ہمارے جداگانہ وجود کی تصدیق کا نام ہے۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ہم اپنے نظریات کو پس پشت ڈال کر کسی ایسی واہیات ہرزہ سرائی کو قبول کر لیں، جسے کچھ لوگوں نے ہندوستان کے ساتھ ثقافتوں کی دولت مشترکہ کا نام دیا ہوا ہے۔
باب ۲۰: سی ٹی بی ٹی: استعمار کا نیا روپ اور اس کے سیکولر حمایتی
جوہری تجربات پر جامع پابندی کا معاہدہ (سی ٹی بی ٹی) ایٹمی دھماکوں پر قدغن لگانے کا سادہ مسئلہ نہیں۔ بلکہ یہ حقیقتاً ایک مخصوص ذہنیت کی علامت ہے جسے عرف عام میں مغرب کہتے ہیں۔ اس معاہدہ کی نوعیت اور دائرہ کار سمجھنے کے لیے پہلے خود اس مغرب کے حیاتی اور نفسیاتی پس منظر کو سمجھنا ضروری ہے، جس کا بہترین پیرایۂ اظہار فریڈرک نطشے (Friedrich Nietzsche) کے الفاظ میں طاقت و اختیار کی بے لگام خواہش ہے۔
مؤرخ پال جانسن کا نطشے کے اس قول کا مطالعہ خاصے کی چیز ہے:
ترقی یافتہ قوموں میں مذہبی جذبے کا اضمحلال اور بالآخر خاتمہ ایک بہت بڑا خلا چھوڑے گا۔ نئی عصری تاریخ بیشتر اسی سوال سے بحث کرتی ہے کہ یہ خلا کیسے پُر ہوگا۔ نطشے نے بالکل صحیح اندازہ لگایا کہ یہ عامل "طاقت اور اختیار کی بے لگام خواہش" ہوگی جو مارکس اور فرائڈ کی بہ نسبت انسانی طرز عمل کی زیادہ جامع اور قرین قیاس وضاحت پیش کرتی ہے۔ مذہبی عقائد کی جگہ سیکولر نظریہ آجائے گا اور کلیت پسند مذہبی پروہت، جو اب تک خلا کو پُر کر رہے تھے ان کی جگہ ہمہ گیر قوت اور اختیار سے سرشار سیاست دان ہوں گے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ طاقت و اختیار کی یہ بے لگام خواہش ایک نئے مسیحا کو جنم دے گی، جو ہر رنگ کے مذہبی قیود و ضوابط سے آزاد ہوگا اور جو انسانوں پر حاکمیت اور کنٹرول کی نہ مٹنے والی بھوک میں مبتلا ہوگا۔ [اور اس طرح] پرانے نظام عالم کا خاتمہ اور معروضیت پسند کائنات میں بے سمت تیرنے والی بے لگام دنیا ایک ایسے بدقماش مدبر سیاست دان کے لانے کے حق میں معاون ثابت ہوگی۔
یہ دیکھ کر قطعاً حیرت نہیں ہوتی کہ طاقت اور اختیار کی اس بے لگام تمنا اور آرزو نے ہی وہ جوہری بم ایجاد کیے، جنہوں نے جاپان کے دو ہنستے بستے اور زندگی سے بھرپور شہروں ناگاساکی اور ہیروشیما کو چشم زدن میں نیست و نابود کر دیا، اور یہ درندگی کا بدترین مظاہرہ اس وقت کیا گیا جب کہ دوسری جنگ عظیم ختم ہونے پر تھی۔ یہی تمنا اور آرزو تھی جو ۱۹۶۸ء کے جوہری عدم پھیلاؤ کا معاہدہ وجود میں لائی، جس نے اس بات کو یقینی بنایا کہ جوہری ہتھیاروں سے لیس چند ممالک کی اجارہ داری مستقلاً برقرار رہے۔ اب یہی آرزو مچل کر جامع پابندی کا معاہدہ (سی ٹی بی ٹی) سامنے لائی ہے۔
عالم انسانیت کے سر پر سوار رہنے اور وسائل پر بلا شرکت غیرے تسلط جمانے کی آرزو کا اظہار ہی تو ہے کہ امریکہ دنیا کے چاروں اطراف اڑھائی لاکھ فوج تعینات کیے بیٹھا ہے۔ ایک محتاط اندازہ کے مطابق صرف سال ۲۰۰۵ء تک امریکی دفاعی اخراجات سرد جنگ کی ۹۰ فیصد سطح تک جا پہنچے تھے۔
غالباً اس سے پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا کہ بین الاقوامی معاملات میں طاقت کے اس انداز سے مظاہرہ کیا گیا ہو۔ پال جانسن کا کہنا ہے: "اینورم بیون (Aneurin Bevan) نے اپنی لیبر پارٹی کے رفقاء کے سامنے برطانوی جوہری بم کا دفاع اس بنیاد پر کیا کہ اس بم کے بغیر برطانوی وزیر خارجہ عالمی کونسل چیمبرز میں ننگا [بے وقعت] ہو کر رہ جائے گا۔ لیکن یہ بیان پوری طرح صورت حالات کی جوہری عکاسی نہیں کرتا تھا۔ بم نہ ہوتا تو برطانیہ ان مذاکرات یا ایسی ہی دوسری کوششوں میں سرے سے شرکت کا حقدار ہی نہ ٹھہرتا۔ کیونکہ جس طرح شرفاء کے کلب میں ہوتا ہے، اسی طرح جوہری کلب کسی ننگے کو اپنے کونسل کے چیمبرز میں گھسنے ہی نہ دیتی۔"
استعماریت اور تو اور نوآبادیاتی نشے میں مدہوش قوتیں خواہ سماجی، معاشی اور فوجی اعتبار سے کتنی ہی طاقتور کیوں نہ ہوں، حقیقت یہ ہے کہ وہ اندر سے کمزور اور خوف زدہ رہتی ہیں۔ انہیں اس حقیقت کا اندازہ ہوتا ہے کہ دوسرے ان کے سامنے سر نہیں جھکائیں گے، اور کوئی دن آتا ہے کہ ان کا قاہرانہ تسلط بالآخر ڈھیلا پڑ جائے گا۔ امریکی ذرائع اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے کہتے ہیں: ” وہ قومیں جن کے پاس گنتی کے دس بھی جوہری ہتھیار ہوں، ریاست ہائے متحدہ امریکہ کو تباہ کر سکتی ہیں۔ جوہری ہتھیار اپنی اصل میں برابر کے بڑے مد مقابل ہیں۔ ان سے چھوٹے اور ہر دوسرے لحاظ سے کمزور ملکوں کو بھی وہ طاقت حاصل ہوتی ہے کہ وہ اپنے سے کافی بڑے اور زیادہ طاقتور ملکوں کو دھڑکا سکیں۔“
امریکی نفسیات کے اس پہلو کو ہنری ڈی سوکولسکی (Henry D. Sokolski) نے بہت اچھی طرح اجاگر کیا ہے۔ سوکولسکی امریکی محکمہ دفاع میں جوہری عدم پھیلاؤ کے نائب کے طور پر کام کرتا رہا ہے۔ جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کو ایک تزویراتی خطرہ گردانتے ہوئے وہ کہتا ہے: ”۱۹۴۰ء کے عشرے کے آخر میں جب پہلے پہل سلامتی کے حوالے سے جوہری پھیلاؤ (proliferation) کی اصطلاح عام ہوئی، تو مغرب کا اولین خوف یہ تھا کہ [اشتراکی] روس یہ ہتھیار حاصل کر لے گا۔ یہ تشویش، ان خدشات ہی کی طرح کہ آج چھوٹی قوتیں یہ ہتھیار حاصل نہ کر پائیں، تین امور پر مرتکز رہی:
- چونکہ یہ ہتھیار بڑی بڑی فوجوں اور بحری بیڑوں سے بے نیاز کرنے کا سبب ہیں، اس لیے کوئی امکانی دشمن صرف ایک ایسا بم حاصل کر کے ہی امریکہ کو بڑے پیمانے پر تزویراتی نقصان سے دوچار کر سکتا ہے، خواہ وہ اس ذریعہ سے کوئی جنگ جیت جائے یا امریکہ کو فتح نہ پانے دے۔
- امریکہ کے پاس ان ہتھیاروں سے بچاؤ اور مدافعت کی کوئی موثر صورت موجود نہیں ہے۔ جوہری بیلاسٹک میزائلوں کے میدان میں آنے سے اس کمزوری میں کچھ اور اضافہ ہو گیا ہے۔
- صرف اتنی بات کہ کسی دوسری قوم کے پاس بھی ہتھیار موجود ہیں، یہ سارا تصور بدل کر رکھ سکتی ہے کہ دنیا میں طاقت کی مبارزت کس کے ہاتھ میں ہے۔
چنانچہ یہ سمجھنا کہ عدم پھیلاؤ کے نتیجہ میں جنگ نہیں ہوگی اور امن کو تقویت ملے گی، ایک بے بنیاد دعویٰ ہے۔
خود امریکی ذرائع تصدیق کرتے ہیں کہ پنٹاگون کے نزدیک دنیا ہابزیَن (Hobbesian) ہے جس میں ہر طرف طاقت و بربریت کا دور دورہ ہے جس کی وجہ سے اندیشہ ہائے دور دراز نے اسے حوالہ خوف کر دیا ہے۔ ہر طرف عاقبت نا اندیش خودسر بدمعاش ممالک اور حکومتیں ہیں ... ایک ایسی بے نظم دنیا جو سرد جنگ سے بھی زیادہ خطرناک خصوصیات کی حامل ہے۔
پاکستان اور سی ٹی بی ٹی
زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ پاکستان کو دہشت گرد ریاست قرار دینے کے حوالے سے سخت دباؤ کا سامنا تھا، کیونکہ پاکستان بجا طور پر کشمیر کے حق خودارادیت کی بات کر رہا ہے۔ ۱۹۸۰ء کے عشرے میں افغانستان میں روس کے خلاف افغانستان کی تحریک مزاحمت کے دوران پاکستان نے جو رول ادا کیا، ظاہر ہے وہ "دہشت گردی" نہ تھی۔ بعد کے زمانے میں امریکی انتظامیہ کی جانب سے شاہی فرمان نازل ہوا کہ طالبان کو مجبور کرو کہ وہ اپنے مقابلے میں شکست خوردہ عناصر کو بھی حکومت میں حصہ دار بنائیں۔ اور اب خیر سے سی ٹی بی ٹی ہمارے سامنے ہے ۔ فرمان ہے کہ دستخط کرو۔ پاکستان وہ پرانا امریکی اتحادی ہے جس نے ہر امریکی حکم پر دوسروں سے بہتر خدمات سرانجام دیں اور اب خوار و زبوں ہو کر حیران و سرگرداں کھڑا ہے۔
پھر یہ مذاق (irony) بھی منہ چڑھانے کے ہم معنی ہے کہ جب تک سیاست دانوں کی حکومت تھی تو اشارے آ رہے تھے کہ سیاست دان امریکی دباؤ کے سامنے سرنگوں ہونے والے ہیں۔ لیکن تسلی کی بات یہ تھی کہ ہمارے جوہری پروگرام کی رکھوالی فوج کے سپرد تھی، چنانچہ قوم تشویش اور پریشانی سے بچی رہی۔ لیکن اب تو فیصلے بھی فوجی طاقت نے خود کرنے ہیں ۔ سو لوگ پوچھ رہے ہیں کہ اب ہمارے جوہری پروگرام کا والی وارث کون ہے؟
سی ٹی بی ٹی پر بحث مباحثہ کا انداز بھی درست نہیں ہے۔ سی ٹی بی ٹی پر دستخطوں کے معاملے میں وہ کون سی مشکلات ہیں جو بحیثیت قوم ہمیں درپیش ہیں ۔ اس ضمن میں ملکی انتظامیہ ایک عیارانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے۔ پاکستانی دفتر خارجہ کے رویے میں ایک طرح کی غنودگی اور بے حسی صاف جھلکتی ہے۔ اس میں علم و آگہی کا عنصر نظر نہیں آتا۔ اگر انہیں شک کا بھی فائدہ دیں تو جو کم از کم بات کہی جاسکتی ہے، وہ یہ ہے کہ دفتر خارجہ سی ٹی بی ٹی پر قومی تحفظات کو کم کرنے کے لیے قومی حساسیت کو بے حسی کا شکار کرنے کی سعی میں مصروف رہا ہے۔ یا پھر لوگوں کے اوسان خطا کرنے کے لیے خوف پھیلایا جاتا رہا ہے۔ یہ دونوں طریقے خود شکستگی سے عبارت قومی خودکشی کا راستہ ہیں۔
جب سیکولر حضرات کی طرف سے یہ فرمایا جاتا ہے کہ: ”یہ ہندوستان کے ساتھ امن یا جنگ کا زیر بحث مسئلہ نہیں بلکہ دو فریقوں کے درمیان ایک تلخ مکالمہ ہے، جس میں سے ایک کو خدشہ ہے کہ پاکستان عالمی سطح پر یکہ و تنہا رہ جائے گا، اور دوسرا اسی بات پر شادیانے بجا رہا ہے کہ ایسا ہو، تو اس سے مقصود سی ٹی بی ٹی کے خلاف انتہائی اہم دلائل کو بے وقعت کرنے کی کوشش ہے۔ اسی طرح یہ کہنا بھی غلط ہے کہ یہ ہندوستان کے ساتھ امن یا جنگ کا مسئلہ نہیں ۔ ہمارا سی ٹی بی ٹی پر دستخط کرنا یا نہ کرنا، ہماری قومی سلامتی سے وابستہ ہے اور ہمیں پورا حق ہے کہ کسی بھی فیصلہ کے نتائج و عواقب کو اچھی طرح جانچ پرکھ کر دیکھ لیں۔ ہماری طرف سے عدم امتیاز پر مبنی منصفانہ معاہدے کی طلب، جو ہندوستان کے مقابلے میں روایتی ہتھیاروں کے عدم توازن کا کچھ ازالہ کر سکے، ایک ایسی خواہش ہے جس کی تحقیر نہیں توقیر ہونی چاہیے۔ نیز یہ معاہدہ ایک ایسی سر پھری اور بدقماش قوموں کے ہاتھوں یرغمال دنیا میں تحفظ کی ضمانت دے جو معمولی معمولی باتوں پر چھوٹی اور کمزور اقوام کو دھمکاتی رہتی ہے۔
بہتر یہ ہے کہ پاکستان کو دنیا میں تنہا رہ جانے کے خوف اور تنہائی کے وسوسے میں گرفتار نہ کیا جائے کہ امریکی پالیسی ساز یہی چاہتے ہیں، جسے ان کے پاکستانی سیکولر ہم نوا طوطے کی طرح رٹ کر دہرا رہے ہیں۔ اس لیے اس سنجیدہ مسئلہ پر شور شرابا کے بجائے اچھا ہو گا اگر سی ٹی بی ٹی پر دستخطوں کے سیکولر حمایتی درج ذیل سوالوں کے جواب عنایت فرمائیں:
- امریکہ، پاکستان کو سی ٹی بی ٹی پر دستخطوں پر کیوں مجبور کر رہا ہے؟ سی ٹی بی ٹی کے حق میں بات کرنے والوں کی یہ بات اگر صحیح ہے کہ معاہدہ اپنی اصل میں ایک مردہ دستاویز ہے، تو اس مردہ اور بے کار تحریر پر دستخط کرنے کا فائدہ کیا ہوگا؟
- کیا سی ٹی بی ٹی معاہدہ فیسائل میٹیریل کٹ آف اور جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدات پر حاوی ہوگا؟
- اس کی کیا ضمانت ہے کہ پاکستان سی ٹی بی ٹی پر دستخط کر دے تو آئندہ این پی ٹی کے لیے دباؤ نہیں پڑے گا۔ جبکہ امریکی سرکاری کارندے کھلے عام این پی ٹی کو اگلا مرحلہ قرار دے رہے ہیں۔
- اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ معائنہ کی اجازت دے دی گئی تو معاملہ مداخلت تک نہیں پہنچے گا؟
- کیا پاکستان کو اپنے دفاع کا حق حاصل نہیں؟
خود معاہدہ کے اندر "کم سے کم ممکنہ مداخلتی انداز" کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ کم سے کم اور ممکنہ جیسے الفاظ اور ترکیبیں ایسی ہیں کہ ان کا کچھ بھی غلط مفہوم متعین کیا جا سکتا ہے۔ مزید براں جب کسی دستاویز کی تشریح ہو یا تعبیر کا معاملہ ہو تو متنازع شق کو دیگر شقوں کے ساتھ ملا کر دیکھنا پڑتا ہے کہ آیا قریب کی دیگر شقیں معاہدے کے مقصد کو محدود کرتی ہیں یا اسے واضح کر کے اس میں شدت پیدا کرتی ہیں۔ شق - ۵۸ ان خدشات کو تقویت دے رہی ہے، کیونکہ اس میں کہا گیا ہے: ”ضرورت پڑنے پر مزید مداخلتی طریق کار اپنایا جائے گا۔“
پھر اس سارے عمل میں اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ سول اور فوجی تنصیبات کے ضمن میں حاصل کردہ معلومات خود پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہوں گی۔
عراق پر گزرنے والا وہ سانحہ کہ جب اسرائیل نے حملہ کر کے وہاں کی ایٹمی تنصیبات تباہ کر دی تھیں، اگر اپنے اندر کوئی سبق آموز پہلو رکھتا ہے تو وہ یہی ہے کہ سی ٹی بی ٹی معاہدے پر اعتبار کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اقوام متحدہ ہو یا کوئی اور ادارہ کسی کے پاس بھی وہ اخلاقی جواز اور سند موجود نہیں ہے، جو ایسے معاہدات کے لیے ضروری ہیں۔ سی ٹی بی ٹی کے سیکولر ہم نوا لیپا پوتی کر کے بعض عالمی طاقتوں کے اس ضمن میں مجرمانہ کردار کی پردہ پوشی کرتے ہیں اور ان کا یہ عمل اعانت جرم کے مترادف ہے۔
سی ٹی بی ٹی کے فوائد کے گن گا کر اس پر دستخط کی تلقین کرنے والے کہتے ہیں کہ معاہدے پر دستخط ہو جائیں تو مغرب اور امریکہ کے مطالبات کی کچھ پذیرائی ہو جائے گی۔ اس قسم کے موقف میں جو تضاد ہیں ان سے صرف نظر کر بھی لیا جائے تو کوئی بتائے کہ پاکستان ہی کیوں ہمیشہ رعایتیں دیتا رہے؟ جب پاکستان کا نام آتا ہے تو پھر اس وقت برابری کی سطح پر مفادات کے باہمی احترام کا اصول کہاں غارت ہو جاتا ہے؟
یہ بھی کہا گیا ہے کہ: ”سی ٹی بی ٹی کا تعلق صرف برسر موقع دھماکوں یا تجربات اور ان جگہوں کے معائنہ کاری سے ہے۔ اس کا کوئی تعلق، جوہری عدم پھیلاؤ کے دوسرے طریق کار سے نہیں“۔ اگر یہ بات واقعی صحیح ہے تو اس کی تائید خود معاہدے کے الفاظ اور شقوں سے ہونی چاہیے، کیونکہ کسی مخصوص تشریح کا انحصار معاہدہ کے متن پر ہوتا ہے، نہ کہ اس بات پر کہ معاہدہ کن نیک ارادوں اور تمناؤں کے ساتھ وجود میں آیا تھا۔ معاہدے کی تمہید بذات خود کافی چشم کشا ہے:
ہم (فریقین) سمجھتے اور تسلیم کرتے ہیں کہ ہر طرح کے جوہری تجربات پر پابندی، جو ہتھیاروں کی تیاری اور معیار کو بہتر بنانے پر قدغن لگاتی ہو اور نئے قسم کے جوہری ہتھیاروں کی تیاری کا سلسلہ ختم کر دیتی ہو، اپنے اندر وہ موثر عامل بھی رکھتی ہے کہ جس سے دوسروں کو جوہری ہتھیاروں سے محروم کر دیا جا سکے اور اس طرح ہر پہلو سے جوہری عدم پھیلاؤ کا مقصد حاصل کیا جا سکے۔
بالیقین، معاہدہ اپنی تمہید میں کوئی ابہام باقی نہیں چھوڑتا۔ اپنی نوعیت، معافی اور اہداف کے حوالے سے یہ عدم پھیلاؤ اور جوہری ہتھیاروں کو ختم کرنے کا معاہدہ ہے۔ معاہدہ کے بعض حمایتی قوم کو تسلی دیتے ہوئے ہلکان ہوئے جا رہے ہیں کہ یہ تمہید (preamble) محض دیباچہ ہے، جو معاہدے کے فریق کو پابند نہیں کرتی۔ اپنے موقف کی اندھی پیروی کرتے ہوئے وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ دیباچہ کسی دستاویز کا جوہر اور اس کی روح ہوتی ہے، جس کی روشنی میں متن کو وجودی شکل دی جاتی ہے۔
معاہدے کے حمایتی چند مزید طفل تسلیاں دیتے ہیں:
- کمپیوٹر کے ذریعہ کیا ہوا ٹھنڈا تجربہ اتنا ہی موثر اور نتیجہ خیز ہوتا ہے جتنا کہ گرم تجربہ۔
- کمپیوٹر کی مدد سے بم کے ڈیزائن اور اجزاء میں معیاری بہتری پیدا کی جاسکتی ہے۔
- جوہری ہتھیاروں کا ذخیرہ کامل معیار کے ساتھ قائم رکھا جا سکتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ جوہری ممالک کے باخبر حلقوں نے معاہدے کے حق میں بھی دلائل دیے اور اس کے خلاف بھی۔ لیکن خود امریکہ میں جاری مناظرہ بتا رہا ہے کہ فوائد اور تسلیوں کے خلاف نقطہ نظر ہی آخر کار حاوی رہا۔ امریکی سینیٹ نے سی ٹی بی ٹی کی توثیق سے انکار کر کے یہ حقیقت پوری طرح واضح کر دی۔
سینیٹ کی ذیلی کمیٹی میں بحث کے دوران لارنس لیورمور (Lawrence Livermore) کے نام سے منسوب اعلیٰ درجہ کی قومی جوہری لیبارٹری کی ڈاکٹر کیتھیلین بیلی (Kathlene Bailey) نے کمپیوٹر تجربات کی مخالفت کرتے ہوئے تنبیہہ کی:
نظری حقیقت اصلی حقیقت کی جگہ نہیں لے سکتی۔ ... زیادہ اہم بات یہ ہے کہ لیور مور کے ایڈوانس سپر کمپیوٹر پروگرام کے سربراہ کا کہنا ہے کہ اس عمل کی کامیابی غیر یقینی ہے اور ایک عرصے تک ہمیں یہ پتہ نہیں چل پائے گا کہ کمپیوٹر نظام منصوبہ کے مطابق کام کرے گا۔
جوہری ہتھیار پڑے پڑے کب تک کارآمد رہ سکتے ہیں؟ بحث کے دوران امریکی سینٹ کی ذیلی کمیٹی کے سینیٹر جان گلین نے خبردار کیا: ”ہمہ وقت چوکس اور تیار رہنا ضروری ہے کیونکہ جوہری ہتھیار بہت تیزی سے ناکارہ ہوتے ہیں جس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔“
یہی وجہ ہے کہ لاس الموس (Los Alamos) نیشنل لیبارٹری کے ڈائریکٹر سیگ ہیکر (Sig Hecker) نے ایک تحریر میں کہا: ”اگر ہم نے پابندی نہ لگائی ہوتی تو امریکی تکنیکی حلقہ مشورہ دیتا کہ ہم جوہری تجربات شروع کر دیں۔“
اگر اصل بات وہی ہے جو اوپر بیان ہوئی ہے تو امریکی انتظامیہ سی ٹی بی ٹی پر دستخطوں کے معاملہ میں کیوں تلی ہوئی ہے؟ امریکہ کا خیال ہے کہ معاہدہ ہو جائے تو دوسری قوموں کی جوہری ہتھیار بنانے کی کوشش کا جھٹکا ہو جائے گا اور اس طرح امریکی برتری قائم رہے گی۔ اس موضوع پر جان ہولم (John Holum) کا بیان حتمی ہے۔ وہ کہتا ہے:
کچھ مشاہدہ کرنے والے بالکل صحیح کہہ رہے ہیں کہ ہیروشیما پر استعمال ہونے والا بم تجربے کی منزل سے نہیں گزرا تھا۔ لیکن یہ مت بھولیے کہ ہمیں اس بم کو بی ۲۹ بمبار طیارے پر لادنے کے لیے اس کے نیچے سوراخ کرنا پڑا تھا۔ نرم ترین الفاظ میں بھی کسی قوم کے لیے یہ ایک بڑا چیلنج ہو گا کہ وہ بغیر تجرباتی دھماکے کیسے، ایسے حجم، شکل اور وزن کے جوہری بم بنا سکے، جو ہمارے لیے بہت زیادہ خطرے کا باعث ہوں۔
یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ جان ہولم ۱۹۹۸ء میں (جب کی یہ تحریر ہے) ہتھیاروں پر کنٹرول اور تخفیف اسلحہ ایجنسی کا ڈائریکٹر تھا۔ دوم، اگر جوہری ہتھیار والے ممالک کے پروگرام اس سطح پر منجمد کر دیے جائیں تو اس میں سب سے زیادہ فائدہ امریکہ کو ہوگا۔ مثلاً امریکہ پہلے سے ہی ۱۰۰ ملین نظری آپریشن فی سیکنڈ کمپیوٹر اہلیت رکھتا ہے، جب کہ روس ۷۰۰۰ اور چین ۶۰۰۰ کمپیوٹرا اہلیت رکھتا ہے۔
یہ اہلیت یقیناً امریکہ کو ڈیزائن، ہتھیار سازی اور نئے جوہری ہتھیاروں کی آزمائش کرنے میں برتری دیتی ہے۔ مزید براں، امریکہ کے پاس ۲۰۰۰۰۰ تزویراتی اہمیت کے حامل جوہری ہتھیار ہیں۔ ساتھ ہی معلومات اور کوائف کا ایک انبار ہے، جو اسے ۱۰۴۵ تجربات سے حاصل ہوئے ہیں۔ اس لیے یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ سی ٹی بی ٹی اصلاً امریکی برتری کو یقینی بنانے کا ایک موثر آلہ ہے۔
اس حوالے سے امریکی پالیسی کا ایک اہم پہلو ایشٹن بی کارٹر (Ashton B. Carter) نے واضح کیا تھا۔ موصوف کارٹر کی حکومت میں بین الاقوامی سلامتی پالیسی سے تعلق امور کے اسسٹنٹ سیکریٹری برائے دفاع تھا اور اپریل ۱۹۹۴ء میں مسلح افواج سے متعلق سینیٹ کمیٹی کے سامنے بیان دے رہا تھا:
(بائم - اپ) جائزہ میں ہم نے یہ مشق کی کہ کس طرح ہمارے وہ اقدامات جو ہم نے سرد جنگ کے دوران سوویت یونین اور وارسا اتحادیوں کے خلاف مرتب و منظم کیے تھے، انہیں نئی جہت دے کر استعمال کر سکتے ہیں۔ اب ہمیں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے مفادات کا دفاع بہت سے علاقوں میں کرنا ہے۔ ظاہر ہے کہ ان سبھی صورتوں میں مخالف قوتوں کے پاس، جن کے خلاف امریکی فوجوں کو کارروائی کی ضرورت لاحق ہو سکتی ہے، عام تباہی پھیلانے والے ہتھیار موجود ہوں گے۔ یا ان پر شک کیا جاسکتا ہے کہ ان کے پاس ہوں گے ... (اور) نشانے پر پہنچانے والے ذرائع اور بیلاسٹک میزائل بھی ہوں گے۔
آسان الفاظ میں اس بیان کا مطلب یہ بنتا ہے کہ اگر صورت حال تقاضا کرے، اور امریکہ کسی قوم کو سرنگوں کرنے کے لیے اس پر وار کرنا چاہے تو اس کو ایسا کرنے کی کھلی آزادی ہونی چاہیے۔ ساتھ ہی اچھا ہو گا اگر زیر ہدف ملک کے پاس اپنے دفاع کا کوئی ہتھیار بھی موجود نہ ہو (یہاں عراق پر ۱۹۹۱ء اور ۲۰۰۳ء میں امریکی یلغار کی تفصیلات ذہن میں تازہ کیجیے)۔
اس مقصد کے حصول کے لیے امریکہ نے کئی محاذوں پر پیش قدمی کی ہے:
- اس نے جوہری عدم پھیلاؤ (NPT) کے ضوابط کے جوڑ بند مزید کس دیے اور بین الاقوامی اٹامک انرجی ایجنسی کے حفاظتی معاملات کو مضبوط کر دیا۔
- برآمدی کنٹرول کے لیے سخت اقدامات کیے، اس طرح پاکستان پر پابندیاں عائد ہوئیں۔
- ہتھیاروں پر کنٹرول کے علاقائی معاہدات کی سرپرستی کی ۔ جوہری سسٹم کو عام معائنہ کے لیے کھولنے کا مطالبہ کیا اور باہمی اعتماد سے متعلق اقدامات (CBMS) پر زور دیا ۔ (پاکستان اور انڈیا کے درمیان جاری ٹریک II ڈپلومیسی کو اسی تناظر میں دیکھنا اور سمجھنا ضروری ہے)۔
ان اقدامات کے پہلو بہ پہلو امریکی پالیسی سازوں نے زیر ہدف دنیا کو چار خطوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ یعنی شرق اوسط، یورپ، شمال مشرقی ایشیا، اور جنوبی ایشیا۔ پہلی صورت یعنی شرق اوسط میں، اہم امریکی مفادات کے تحفظ کے لیے، حفاظتی اقدام کے طور پر قوت کا راست استعمال ہو گا۔ جنوبی ایشیا کے متعلق سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کا اعلامیہ "Update on Progress Toward Regional Non-Proliferation in South Asia" کہتا ہے کہ امریکی حکمت عملی کا ہدف یہ ہے کہ پاکستان کا جوہری پروگرام رول بیک ہو، یعنی اسے ڈھانک دیا جائے (capping)۔ امریکی صدر بل کلنٹن کا ۱۸ جنوری کا بیان امریکی خواہش کی مزید تصدیق تھی۔
جوہری عدم پھیلاؤ کی کاوشوں میں ابھی تک امریکہ کو مشکل پیش آ رہی تھی، کیونکہ اسے برسر موقع معائنہ کاری کی سہولت میسر نہ تھی۔ سی ٹی بی ٹی دیرینہ امریکی خوابوں کی اداراتی تعبیر ہے اور ایک ایسا حتمی طریق کار ہے کہ جس سے تباہی کے ہتھیاروں پر اجارہ داری اور دسترس صرف امریکہ کو حاصل رہے گی، جبکہ باقی ساری دنیا اس کے رحم و کرم پر ہوگی۔ دنیا امریکہ کے سامنے نرم چارہ ہوگی، جسے وہ حسب منشا پوری بے دردی سے ڈانٹ ڈپٹ اور مار پیٹ سکے گا۔ امریکی قومی سلامتی کے مشیر سیموئیل برجر کا کہنا ہے:
سی ٹی بی ٹی ہو یا نہ ہو، ہمیں ان (جوہری) سرگرمیوں کی نگرانی کرنی چاہیے۔ (البتہ یہ) معاہدہ ہمارے ہاتھ میں نئے آلات دیتا ہے کہ اپنے اس اہم مشن کی تکمیل کر سکیں۔ (اب ہمارے پاس) ایسے عالمی اعصابی رابطوں کا جال ہوگا، جو ہماری قومی انٹیلی جنس صلاحیتوں کو تقویت دے گا اور ہمیں یہ حق مل جائے گا کہ ہم دوسرے ملکوں میں مختصر نوٹس پر برسر موقع معائنہ کی ہدایت کر سکیں۔
ان حقائق کے پیش نظر سی ٹی بی ٹی پر دستخطوں کی تلقین کرنے والے درج ذیل سوالات کے جواب مرحمت فرمائیں:
- کیا بہ قائمی ہوش و حواس سی ٹی بی ٹی کو مذکورہ دستاویزی شہادت سے جدا کر کے پڑھنا درست ہوگا؟
- کیا یہ امریکہ کو معاونت فراہم کرنا نہ ہوگا کہ وہ پاکستان کو اس کی خون پسینہ سے حاصل کی ہوئی جوہری صلاحیت سے محروم کر دے، یا اسے ڈھانک کر بے اثر کر دے، جبکہ خود امریکی صدر یہ مطالبہ کر رہا ہو؟
- جدید ترین کمپیوٹر میسر نہ ہوں تو ہمارے جوہری پروگرام کے باقی رہنے کے امکانات کیا ہیں؟ جہاں خود امریکی سائنس دان ایسے ٹھنڈے تجربات پر یقین کرنے کو تیار نہیں ہیں، وہاں پاکستان کے لیے کہاں ممکن ہو گا کہ محض کمپیوٹر کی مدد سے نئی ہتھیار سازی کی کوشش کرے۔
- اگر کوئی دشمن ملک پاکستان کو سزا دینے کی ٹھان لے اور خود ہمارے پاس جوہری ہتھیاروں کی چھتری میسر نہ ہو، تب ہمارا کیا حشر ہوگا؟
کیا ہی اچھا ہو کہ ان سوالوں کا جواب دیانت اور حوصلے سے دیا جائے۔
پابندیاں
کسی کو اچھی لگیں یا نہ لگیں لیکن پابندیاں ایک تلخ حقیقت کے طور پر موجود ہیں اور یہ یک قطبی دنیا کا تاریک پہلو ہے۔ اگرچہ امریکہ اس سے پہلے بھی، جب وہ اکیلا آقا و مولا نہ تھا، پابندیاں عائد کرتا رہا ہے۔ امریکی سینیٹر رچرڈ لوگر کے بہ قول: "پہلی جنگ عظیم کے بعد امریکہ نے ۱۵ بار پابندیاں لگائیں۔ دوسری جنگ کے بعد یہ تعداد ۱۰۴ بنتی ہے۔ جبکہ ایک تہائی پابندیاں صرف گزشتہ چار برس (۱۹۹۴-۱۹۹۸ء) کے دوران عائد کی گئیں ۔"
رچرڈ لوگر امریکی صدر کی ایکسپورٹ کونسل کی رپورٹ US Unilateral Economic Sanctions (۱۹۹۷) کا حوالہ دے کر ان پابندیوں کے خلاف اپنے بیان کی صحت ثابت کرتا ہے۔ حالیہ برسوں میں ۷۵ اقوام ان یک طرفہ پابندیوں کا شکار رہیں، جو آدھی دنیا سے زیادہ آبادی پر مشتمل ہیں۔
پابندیوں کا تازہ ترین جائزہ بتا رہا ہے کہ انسانیت کے ۷۰ فیصد کو یہ تلخ گھونٹ پینا پڑا ہے۔ البتہ ان پابندیوں کا ایک اچھا پہلو یہ ہے کہ تکلیف ہر دو فریق کو ہوتی ہے۔ یہ بات عجیب تو لگتی ہوگی، کیونکہ سی ٹی بی ٹی کے پرچارک ہمیں باور کرا رہے ہیں کہ جیسے نقصان صرف پاکستان کا ہو گا۔ ایک اندازہ کے مطابق امریکی تحصیلات کو ان پابندیوں سے ۱۵-۱۹ ارب ڈالر کا خسارہ ہوا اور صرف ۱۹۹۵ء کے ایک سال کے دوران ڈیڑھ لاکھ روزگار متاثر ہوئے۔ چنانچہ ڈالروں کے حساب سے مجموعی امریکی نقصانات ۱۹۹۹ء تک ۷۶ ارب ڈالر ہو گئے تھے۔
چنانچہ یہ کوئی حیرت کی بات نہیں کہ اس صورت حال نے موثر امریکی حلقوں کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ اب عام طور پر تسلیم کیا جانے لگا ہے کہ پابندیوں سے کام بنتا نہیں۔ کئی مطالعہ جات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ”جب ان پابندیوں کو خارجہ پالیسی کے مقاصد کے حصول کا ذریعہ بنایا گیا تو یہ خال خال ہی موثر ثابت ہوئیں۔ اس سے بالخصوص ان کو شاذ ہی فائدہ ہوا جن کی ہم مدد کرنا چاہتے تھے۔ اکثر تو زیر ہدف ملک سے زیادہ خود امریکہ کو نقصان پہنچا۔ ان سے ہماری بین الاقوامی مسابقت اور معاشی تحفظ میں کمزوری آئی۔ اور حالت یہ ہو گئی ہے کہ ہم اکثر ان پابندیوں کو خارجہ پالیسی کے پہلے قدم کے طور پر منتخب کر لیتے ہیں ۔“
ماضی میں جن ملکوں کو پابندیوں کا سامنا رہا ۔ بالخصوص چین، کیوبا، سوڈان، ایران وغیرہ – وہ آخر کار فائدے میں رہے۔ امریکہ نے پابندیاں عائد کیں تو انہوں نے اپنے ذرائع اور وسائل پر انحصار شروع کر دیا۔ اگر کچھ اور نہ بھی ہوتا تو یہ کیا کم ہے کہ وہ امریکی جکڑ بندیوں سے آزاد ہو گئے ۔ اس چیز نے انہیں آزادی اور حریت کا احساس دیا اور ترقی کے لیے خود اپنا نقشہ کار تیار کرنے میں مدد دی۔ معرفت نفس کی اس کیفیت نے انہیں عزت و توقیر دی۔ یہ وہ دولت ہے جسے مادی پیمانے سے نہیں ناپا جا سکتا۔
دوسری بات یہ ہے کہ جلد یا بدیر امریکی پالیسیوں کو منہ کی کھانی پڑے گی۔ آج کا ایک قطبی دنیا کا نقشہ ہیئت و ترتیب میں یکسر بدل جائے گا۔ آج کا سیاسی جغرافیائی توازن جو امریکی قوت کے بل پر ہے، عدم توازن میں بدل جائے گا کیونکہ نئے کھلاڑی میدان میں اتریں گے اور بین الاقوامی منظر پر نئے واقعات و حادثات رونما ہوں گے۔
اس کے ساتھ اس بات کا بھی ادراک اور احساس ہونا چاہیے کہ پابندیاں اس وقت تک موثر ہوتی ہیں اگر ان کے نفاذ میں سارے ہی مغربی اتحادی حصہ لے رہے ہوں۔ معاشی مفادات اپنی حقیقت میں ایثار و قربانی پر مبنی نہیں ہوتے، بلکہ بے رحم معاشی تقاضے ہی ان کا فیصلہ کرتے ہیں۔ ماضی میں امریکہ نے پابندیوں کا جو حصار بھی کھڑا کیا تھا اس میں سوراخ باقی رہے، جن سے خود امریکی حلیف ہی مطلب براری کرتے رہے۔ ایران کا معاملہ سب کے سامنے ہے کہ تجارتی مفاد سامنے ہو تو پابندیوں کا گٹھ جوڑ دھرا کا دھرا رہ جاتا ہے۔
اندریں حالات پاکستان سی ٹی بی ٹی پر دستخطوں کے معاملے سے دور رہے تو بہتر ہے۔ اسے ایک منصفانہ عدم پھیلاؤ کے معاہدے کے لیے زور دینا چاہیے۔ ہماری حکمت عملی کے چیدہ چیدہ خدو خال درج ذیل ہونے چاہیں:
- سی ٹی بی ٹی پر دستخطوں کی بات اس وقت تک ٹالتے رہیں جب تک ہمارے پاس کافی مقدار میں انفجاری مادہ (fissile material) تیار نہ ہو جائے۔
- جوہری تجربات اس وقت تک جاری رکھے جائیں، جب تک کافی کوائف جمع نہ ہو جائیں کہ جن پر ہماری آئندہ کی تحقیق و تفتیش کا مدار ہو۔
- جوہری دھماکوں کا سول اطلاق پیش نظر رکھیں ۔
- تھرمونیوکلیر دھماکوں کا سلسلہ شروع کر دیں، تاکہ چھوٹے سائز کے بم بنانے ممکن ہوں۔
- پاکستان کے جوہری صلاحیت کے حامل ملک ہونے کا حق تسلیم کرائیں۔
- افغانستان کی صورت حال کو مستحکم بنا کر اس کے ساتھ قریبی تعلقات کی بنیاد ڈالیں۔
- چین، ایران، عرب دنیا اور آسیان ممالک سے تجارتی روابط بڑھائیں ۔
- ای سی او ممالک سے تعلقات بڑھا کر سارک میں اپنے مدغم ہونے کا سلسلہ ختم کردیں۔
مذکورہ بالا اقدامات نہ ہوئے تو پاکستان نرم چارہ بنا رہے گا۔ اس کی سلامتی اغیار کے رحم و کرم پر ہوگی اور آزادی اور استقلال کے لیے اس کی خواہش اور تڑپ آرزوئے نا تمام بنی رہے گی۔ نوآبادیاتی نظام ایک نیا جنم لے گا، اور ہمارے انسانی شرف یہاں تک کہ خود ہمارے قیام و بقا کی توہین و تحقیر کا باعث بن جائے گا۔
کشمیر پھر ابل رہا ہے
یہ امر بحث طلب ہے کہ تاریخ خط مستقیم میں چلتی ہے یا ایک دائرے میں گھومتی ہے۔ البتہ کشمیر اور پاکستان کے حق میں یہی ثابت ہوا کہ ان کا سفر مدور ہے۔
یہ جنوری ۱۹۴۸ء کا دن تھا، جب مسلم یلغار کے سامنے بے بس ہندوستان نے کشمیر کو بین الاقوامی تنازع بنانے کے لیے اقوام متحدہ میں فریاد کرنا پڑی۔ تب سے آج تک سارا معاملہ جوں کا توں ہے۔ فرق صرف اتنا پڑا ہے کہ دنیا اب سرد جنگ کے زمانہ کی دو انتہاؤں سے گزر کر یک قطبی ہو گئی ہے۔ سوویت یونین کا وارث روس بین الاقوامی امور میں دخل دینے کے قابل نہیں رہا۔ ادھر پاکستان کا امریکہ پر تاریخی تکیہ علی حالہ برقرار ہے۔ ۱۹۵۰ء کے عشرے کے ابتدائی برسوں میں ہم نے اپنی افادیت مغرب کے پاس گروی رکھ دی تھی کہ اگر وہ کشمیر کا مسئلہ حل کر دے تو ہم کمیونزم کے خلاف اس کا ساتھ دیں گے۔ اس وقت سادہ لوح پاکستانیوں نے یہ بھی سوچا کہ امریکہ، ہندوستان کے مقابلہ میں ان کے مفادات کو عزیز تر جانے گا۔ ہم سوویت یونین کے خلاف امریکہ کے فوجی حلیف بنے، لیکن امریکی رویہ اپنے مفادات کے عملی تجزیہ اور تقاضوں پر مبنی رہا۔
امریکی وزیر خارجہ (۱۹۴۹-۵۳ء) ڈین ایچی سن (Dean Acheson) نے اقوام متحدہ میں جو ہدایات امریکی نمائندے کو دیں، وہ امریکی ذہنیت کی بھر پور عکاسی کرتی ہیں۔ اس نے کہا تھا: ”ہماری سوچ دو تصورات سے تشکیل پاتی ہے۔ اقوام متحدہ کی سرگرمیاں کچھ اس طرح کی ہونی چاہئیں کہ (۱) فریقین کا طرز عمل بے لچک اور منجمد نہ ہونے پائے (۲) پاکستان کو تنازع کے حل کے ضمن میں کافی تسلی اور امید دلائی جائے تا کہ وہ مایوسی کی انتہا کا شکار ہو کر فوجی قوت کے استعمال پر نہ اتر آئے۔“ باوجود اس دکھ کے جو ہمیں بار بار اٹھانا پڑا ہماری ہیئت مقتدرہ ابھی تک یہ امید سینے سے لگائے بیٹھی ہے کہ اسے اقوام متحدہ سے انصاف ملے گا۔ جبکہ امریکی انتظامیہ کا دفتر خارجہ اور اس کے سے دوسرے ہتھ چھٹ بڑی مہارت سے امید کا یہ چراغ بجھنے نہیں دے رہے۔ طرفہ تماشہ یہ ہے کہ امریکہ کا طرز عمل اب بھی اسی دوغلے پن کا آئینہ دار ہے۔ اگر ہندوستان ۱۹۵۰ء کے برسوں امریکی مفادات کے لیے اہم تھا تو اس کی وہ اہمیت آج کچھ زیادہ ہی ہے۔ لیکن اس امر کے واضح ہونے کے باوجود سیکولر پاکستانی حکومتی کارندے، نوجوانوں کی سی دیوانگی اور وارفتگی کے ساتھ امریکی زلف کے اسیر ہیں، جب کہ ہمارے فیصلہ سازوں کا حال کچھ ان نوخیزوں کا سا ہے جو بلوغت کی سرحد میں قدم دھرتے ہچکچاتے۔ ہیں
خود اقوام متحدہ کا ادارہ بھی مسلسل دائرے میں ہی گھوم رہا ہے۔ لیگ آف نیشنز (مجلس اقوام) کے نقش قدم پر چل کر اقوام متحدہ بھی مغربی طاقتوں کی باندی بن چکی ہے۔ اقوام متحدہ کے اس طرز عمل سے صرف نظر کر کے دیکھیں تو کشمیر کا تنازع پانچ واضح طور پر مختلف ادوار سے گزر آیا ہے:
- اقوام متحدہ میں بین الاقوامی حیثیت اختیار کرنا،
- اقوام متحدہ کی شکل میں ثالثی اور مصالحت کی کوشش،
- ہندوستان و پاکستان کمیشن (UNCIP)،
- پاکستان اور ہندوستان کے مابین راست مذاکرات (۱۹۵۳-۱۹۵۶ء)،
- ثالثی کا دوسرا دور،
- براہ راست مذاکرات (۱۹۶۰-۱۹۶۴ء)۔
آج یہ مسئلہ گھوم پھر کر دوبارہ نقطۂ آغاز پر آ گیا ہے۔ بات ہندوستان کے خلاف کشمیریوں کے ہتھیار اٹھانے سے شروع ہوئی تھی۔ اس کے بعد کشمیریوں نے ۴۷ برس اقوام متحدہ اور عالم انسانیت سے آس لگائے رکھی کہ وہ اپنا کردار ادا کریں۔ جب دیکھا کچھ نہیں ہو رہا تو پھر انہوں نے ہتھیار اٹھا لیے۔
مسئلے کے جو حل بتائے جا رہے ہیں ان میں بھی کوئی فرق نہیں آیا۔ بات حق خودارادیت سے ہوتی ہوئی ہندوستانی سامراجی ریاست کے اندر خود مختاری تک گئی۔ تقسیم کشمیر کی بحث بھی چلی اور مکمل خود مختار کشمیر کا ذکر بھی چھڑا اور یہ بھی کہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی تولیت (trusteeship) میں دے دیا جائے۔ بیچ بیچ میں یہ تجویز بھی پیش ہوتی رہی کہ دونوں ملکوں کو کشمیر پر مشترکہ اختیار دے دیا جائے، اگرچہ یہ مؤخر الذکر حل کوئی سوچی سمجھی تجویز نہیں تھی محض بڑبڑاہٹ تھی۔
مسئلہ کشمیر کے کسی بھی ممکنہ حل کے ضمن میں اثباتی اور اختلافی دلائل کی نوعیت بھی نہیں بدلی۔ وہی پرانا ڈھنگ اور آہنگ ہے۔ کوئی چاہے تو اس پورے عمل کو شیطانی چکر کا نام دے دے۔
۱۹۴۷ء میں جب مسئلہ کشمیر، پاکستان ہندوستان دونوں کے دزدیدہ تعاقب میں رہا، تب اقوام متحدہ کی قراردادوں نے کشمیریوں کے حق خودارادیت کو باقاعدہ تسلیم کیا۔ لیکن اس وقت بھی خود اس ادارے سے منسلک لوگ، جنہیں بظاہر منظور شدہ قراردادوں کو عملی شکل دینے کا کام کرنا تھا، ریفرنڈم کے انعقاد میں حائل مشکلات کی بات کر رہے تھے۔ سر اوون ڈکسن (Sir Owen Dixon) ان میں سے ایک تھا، جس نے کشمیری عوام کو کثیر النسل قرار دیا، اور ان کے جغرافیائی اور لسانی تنوع کے قصے سناتا رہا۔ جوزف کوربیل (Joseph Korbel) اقوام متحدہ کے کمیشن برائے پاکستان و ہندوستان کا ایک رکن تھا۔ اسے ریفرنڈم کے انعقاد کا امکان تک مشکوک نظر آتا تھا، کیونکہ اس کے خیال میں: ”عوامی رائے معلوم کرنے کا عمل محض تکنیکی طور پر بھی، زمینی حقائق کے دائرہ کار سے باہر تھا۔“
۱۹۵۰ء کے مابعد برسوں میں سوچ اور فکر کا انداز وہ تھا جو اوپر بیان ہوا۔ اس فکر کی نوک پلک تو ہندوستان نے سنواری جب کہ پاکستان کسی نوزائیدہ بچہ کی طرح انگوٹھا ہی چوستا رہا۔ اس مسئلے سے متعلق نظریاتی عامل کی بابت بھی ہندوستانی رویہ پورے سکون اور اعتماد کا آئینہ دار تھا۔ یعنی اس نے اپنے آپ کو ایک ایسی سیکولر ریاست کے طور پر پیش کیا جس کا مقابلہ مذہبی نراجی قوتوں سے تھا۔ جواہر لال نہرو کی شکل میں انڈیا کے پاس بین الاقوامی سطح کا ترجمان موجود تھا، جو ایک ہی سانس میں کمال چالاکی اور ہوشیاری سے مدبر اور فلسفی کا انداز اپنائے رکھتا۔ ۱۹۴۹ء میں اس نے امریکی سامعین سے خطاب کرتے ہوئے کہا:
کشمیر کا جھگڑا ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان نہیں، بلکہ یہ ان لوگوں کا سوال ہے جو کشمیری قومیت کی بنیاد پر آزادی چاہتے ہیں اور پوری کی پوری آبادی اس کی ہم نوا ہے اور ان کا جھگڑا ان لوگوں سے ہے جو مذہب کی بنیاد پر طے کردہ دو قومی نظریے پر یقین رکھتے ہیں۔
مغرب کو نہرو کا یہ طرز استدلال پسند آ گیا۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے ذاتی نمائندہ کالبن (Calban) کے سوال پر اس نے جو کچھ کہا وہ سفارتی گفتگو میں ترکی بہ ترکی جواب کا بہترین نمونہ تھا اور لادین مغرب کو اس میں بڑا وزن محسوس ہوا:
مذہبی انتہا پسندی سے اپیل، جو امن و امان کی صورت حال بگاڑنے کا سبب بن سکے، ایک جائز سیاسی عمل قرار نہیں دی جاسکتی۔
پاکستان کی کوششوں سے جب مغرب حرکت پذیر ہوتا نظر آیا تو پیچ و تاب کھا کر ہندوستان نے کہا کہ کشمیر اس کا اندرونی مسئلہ ہے اور کشمیری بھی ویسے ہی ہندی ہیں جیسے انڈیا کے دوسرے سب لوگ۔ یہ کہتے ہوئے ہندوستان بھول بیٹھا تھا، جس طرح اب بھی اسے یہ بات یاد نہیں رہتی، کہ مسلمان جس رنگ روپ میں بھی ہوں وہ اپنی تاریخ کا یہ احساس و ادراک ہمیشہ ظاہر کرتے رہیں گے کہ انہوں نے جنوبی ایشیا اور ہندوؤں پر ہزار سال حکمرانی کی اور اب یہ کسی طرح ممکن نہیں کہ انہیں اس خطہ میں لائے بنا کر رکھ دیا جائے۔ ایلین کیمبل جانسن نے اپنی کتاب "Mission with Mountbatten" (1951) میں کھلے دل سے اعتراف کیا: کشمیر اس عمومی جذباتی ٹکراؤ کا مظہر اور رمز و کنایہ ہے جس نے تقسیم (برصغیر) کو ناگزیر بنا دیا تھا۔ پاکستانی انتظامیہ، اپنے عمومی سیکولر ذہن کے باوجود، اس جذباتی اپیل سے بہ خوبی واقف تھی جو کشمیریوں کے دلوں میں اسلامی مملکت کے لیے موجود تھی لیکن اس نے اس کیفیت سے فائدہ اٹھانے کی کوئی کوشش نہ کی۔ بلکہ ان لوگوں نے پاکستان کو اس کے اسلامی راستے سے بھٹکانے کی شعوری تدبیریں کیں۔ انہیں یہ احساس تک نہ ہوا کہ اس گمراہانہ طرز عمل کا نتیجہ کشمیریوں اور پاکستانیوں کے درمیان قائم روحانی رشتے کمزور کرنے کا باعث ہوگا۔ صدر ضیاء الحق کا دور (۱۹۷۷-۸۸ء)، گو بھر پور اسلامی تو نہ تھا، تاہم ایک استثنائی مرحلہ ضرور تھا، جس میں کم از کم پاکستان کے ایک ممکنہ اسلامی ریاست کا خیال ابھر کر سامنے آیا، خواہ حقیقی اسلامی ریاست بننے کی بات ابھی دور کی بات تھی ۔ اس دور میں سوویت یونین کے خلاف افغان جہاد میں حصہ ڈال کر، کسی درجے میں قانون سازی کر کے اور ٹیلی ویژن نشریات کو کسی حد تک ستھرا کر کے پاکستان کو اسلامی ریاست بنانے کی کوشش نظر آتی ہے۔ اس صورت حال میں کشمیریوں نے پاکستان کے لیے خصوصی کشش محسوس کی ۔ انہوں نے اپنی گم شدہ شناخت یعنی وحدت اسلامیہ پر کچھ اتنی قوت اور کھردرے پن سے زور دیا کہ ہندوستان جڑوں تک ڈول گیا۔
اس کے نتیجے میں وہی فطری منطق عود کر آئی۔ یعنی کشمیری اپنی اسلامیت پر زور دیتے رہے اور ہندوستان اپنے دکھوں کے مداوا کے لیے لادینیت کی دہائی دیتا رہا۔ کسی فریق نے شاید چاہا بھی نہ تھا لیکن موجودہ چپقلش نے وہی پرانا انداز اختیار کر لیا ہے جو جنوبی ایشیا میں صدیوں سے ہندو مسلمان مخاصمت اور جھگڑے کا طرۂ امتیاز رہا ہے۔
ہندوستان اس کوشش میں کہ کشمیر اس کے ہاتھ سے جانے نہ پائے، اسے یونین کے اندر محدود خود مختاری دینے پر رضامند ہے۔ یہ وہی خیال ہے جس کی کتر بیونت اور صورت گری اس نے ۱۹۶۰ء کے عشرے میں کی ۔ یہ گویا الٹی زقند ہے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ تاریخ واقعی صراط مستقیم میں نہیں چلا کرتی۔
بطور ایک آپشن خود مختار کشمیر کوئی نئی تجویز نہیں ہے۔ نیشنل کانفرنس کے لیڈر اور ۱۹۶۰ء کے عشرے تک مقبوضہ کشمیر کے وزیر اعلیٰ شیخ عبداللہ وقتاً فوقتاً اس خیال سے کھیلتا رہا، لیکن اس کی ترجیح انڈین یونین کے اندر رہنے کی ہی رہی۔ اس کی موت نے کشمیر کے سیاسی منظر سے ایک کرشماتی وجود ختم کر دیا۔ اب پیچھے وہ سیکولر مبتدی مرید رہ گئے ہیں، جنہیں ایک ایسی صورت حال کا سامنا ہے، جس کی صورت گری وادی میں جاری جہادی تحریک نے کی ہے۔ اس صورت حال میں خود مختار کشمیر اور اس تصور کی علم بردار تنظیم یعنی جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ اور شیخ عبداللہ کے باقیات، دونوں ہی پس منظر میں جا چکے ہیں اور وادی کے لوگوں کے لیے ان میں کم ہی اپیل باقی رہ گئی ہے۔
پاکستان بالیقین اس خیال کی پذیرائی کا سوچے گا بھی نہیں ۔ انڈیا اگر جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کو ترجیح دے رہا ہے تو یہ حقیقی نہیں بلکہ صرف اس کی حربی چال ہے، کیونکہ دور کی سوچنے والی ہندوستانی خفیہ ایجنسیوں کے ہاتھوں میں رہ کر خود مختار کشمیر کا مطلب حالات کو جوں کا توں رکھنا ہے۔
کشمیر پھر ابل رہا ہے
خودمختار کشمیر تو عملاً تب ہی وجود میں آ سکتا ہے کہ پاکستان اور ہندوستان دونوں اس سے ہاتھ اٹھا لیں اور اپنے اپنے علاقائی دعووں سے دست بردار ہو جائیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ وہ غیر جانبدار ہو جائیں اور کشمیریوں کے معاملات میں دخل نہ دیں۔ تیسری صورت یہ ممکن ہو سکتی ہے کہ کشمیری اجتماعی طور پر اس خیال پر متحد اور متفق ہوں۔ خود مختار کشمیر کے لیے ان تینوں میں سے ایک وجہ بھی بروئے کار آتی دکھائی نہیں دیتی۔
خود مختار کشمیر اگر وجود پاتا ہے تو پاکستان کے لیے اس کا مطلب یہ بنے گا کہ جغرافیائی طور پر اس کے دست و بازو کاٹ دیے جائیں اور اس کی علاقائی گہرائی کو محدود کر دیا جائے ۔ اس کا دوسرا مطلب یہ ہوگا کہ دنیا کے اس خطہ میں مسلم شناخت شکست سے دوچار ہو جائے ۔ یہ اس تاریخی عمل کی معکوسی گردش ہوگی، جو ساتویں صدی عیسوی میں برصغیر میں مسلمانوں کی آمد کے ساتھ شروع ہوا تھا۔ اس زاویہ نظر سے دیکھیں تو خود مختار کشمیر کا مطلب کشمیریوں کا ہمیشہ کے لیے ہندی پنجرے میں محبوس ہو جانا ہے۔ یہ وہ نتیجہ ہے جسے وادی میں جہاد برپا کرنے والے کبھی سامنے نہیں آنے دیں گے۔
آبادی کے پہلو سے معاملے کا جائزہ لیں تو بھی خود مختاری کی بات کسی سمت بیٹھتی نظر نہیں آتی۔ طاقت کے چار بلاک واضح دکھائی دیتے ہیں، جن میں سے ہر ایک اپنی اپنی سمت زور لگا رہا ہے۔ کشمیری پنڈت ہیں جو ہندی یونین کے اندر رہتے ہوئے کشمیر کے خطہ محصورہ (enclave) میں اپنے لیے جدا گانہ وطن چاہتے ہیں۔ جموں کے ہندو، ہندوستان میں شامل رہنا چاہتے ہیں۔ شمال میں واقع لداخ کے بدھ سکم کی سی خود مختاری کے خواہاں ہیں۔ آخر میں کشمیری مسلمان ہیں جو اکثریت میں ہیں، وہ پاکستان سے الحاق کے متمنی ہیں۔
سیکولرزم: مباحث اور مغالطے
یہ ساری تقسیم، جس کی جڑیں دور اندر تک تاریخ اور مذہب میں پیوستہ ہیں، خود مختار کشمیر کے تصور کو چلنے ہی نہیں دے رہی۔ سچ یہ ہے کہ اگر ایسی کوئی تدبیر عمل میں لائی گئی تو یہ انڈیا کے خلاف کشمیریوں کے کاز کو کمزور کرنے کے مترادف ہوگی اور وادی میں جاری تحریک کا سارا زور اور آہنگ درہم برہم ہو جائے گا۔
ہماری رائے یہ ہے کہ دو قومی نظریے کی بنیاد پر کشمیر کی تقسیم ہی واحد معقول حل ہے، جس میں آبادی کے ہر بلاک کی آرزوؤں اور خواہشوں کی تکمیل کا بہ قدر حق سامان ہے۔ اس سکیم کے مطابق:
- پوری وادی، کشتواڑہ، ڈوڈا، راجوڑی، پونچھ اور لداخ کے مسلم اکثریتی علاقے کو پاکستان کے ساتھ ملحق ہو جانے دیا جائے۔
- جموں کے ہندو اضلاع ہندوستان کو مل جائیں۔ اور
- لداخ کے بدھ آبادی کو موقع دیا جائے کہ وہ پاکستان یا ہندوستان میں سے کسی ایک کے ساتھ شامل ہونے کا آزادانہ فیصلہ کریں۔
اس سکیم سے ہٹ کر جس تجویز پر بھی غور ہوگا، وہ صرف ہندوستان کے حق میں جائے گی۔
باب 22
انصاف کا طالب کشمیر اور پتھر دل اقوام متحدہ
1948ء سے جب کشمیر کے مسئلے نے عالمی رنگ اختیار کیا، پاکستان کا اصولی موقف کشمیریوں کے لیے حق خودارادیت کا حصول رہا ہے۔ کیا اقوام متحدہ کشمیریوں کو یہ حق استصواب دلانے میں مخلص تھی یا نہیں؟ اور کیا وہ اس مسئلے پر کیے گئے دعووں کی تکمیل کر سکتی تھی؟ محض ایک موہوم اور مشتبہ بات تھی۔ وجہ بالکل ظاہر ہے۔ ایک تو اس معاملے میں خود اقوام متحدہ کا ریکارڈ مایوس کن رہا ہے۔ اس پر مستزاد مغرب کا رویہ بھی حوصلہ شکن تھا جو اس ادارے کا کرتا دھرتا تھا۔ اس طرح جب سے یہ مسئلہ پیدا ہوا اور بڑھتا پھیلتا گیا، ہندوستان کا طرز عمل بھی مصالحانہ نہیں تھا۔
اب یہ بات تاریخ کا حصہ بن چکی ہے کہ انڈیا کسی گھیرے میں آئے ہوئے بیل کی طرح نتھنے پھلاتا اور کھر مار مار کر گرد اڑاتا رہا ہے۔
ہندوستان جب 1948ء میں کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ میں لے گیا تو اس کے سامنے دو مقاصد تھے۔ ایک تو پاکستان پر اپنی تزویراتی برتری قائم رکھنا ۔ دوسرے وقت اور مہلت حاصل کرنا تا کہ وادی میں آبادی کی صورت حال اپنے حق میں کرلے اور مقبوضہ کشمیر پر اپنی گرفت کو قانونی شکل دے سکے۔ یہ وہ وقت تھا جب مجاہدین اپنی ابتدائی برق رفتار کامیابیوں کے بعد، ٹیٹوال، جموں، راجوری اور پونچھ سیکٹروں میں نئی بھارتی فوجی مداخلت کے نتیجہ میں پسپائی پر مجبور ہوئے۔ ہندوستان کو پتہ تھا کہ یہ مسئلہ ایک بار اقوام متحدہ میں چلا گیا تو وہاں کے گرد آلود ذخیرہ دستاویزات میں گم ہو کر رہ جائے گا۔ پاکستان مجبور ہو کر اور یہ سوچ کر انڈیا کے پیچھے پیچھے اقوام متحدہ چلا آیا کہ چونکہ اس کا کیس برحق اور مضبوط ہے، اس لیے اگر سلامتی کونسل نے نو آبادیاتی دور کے بعد کی اخلاقی فضا میں اپنا وزن پاکستان کے پلڑے میں ڈالا تو کشمیر کا تصفیہ اس کے حق میں ہو جائے گا۔
لیکن اس دینی رد عمل میں پاکستان کے اہل حل و عقد تین باتیں فراموش کر بیٹھے:
- اولاً، وقت، جو اس معاملہ میں اہم ترین عنصر تھا، ہندوستان کے حق میں تھا اور سلامتی کونسل اس قسم کا ادارہ نہ تھا جہاں سے انصاف پر مبنی کوئی فیصلہ جلد صادر ہو پاتا۔
- ثانیاً، ہم ایک اہم حقیقت کا ادراک نہ کر سکے جسے اصطلاحاً ”اقوام متحدہ“ کہتے ہیں: ”اقوام متحدہ“ کا نام مستند ماخذوں کی رُو سے ”دوسری جنگ عظیم میں ان اتحادی اقوام کے لیے استعمال ہوا جو محوری قوتوں – جرمنی، اٹلی، جاپان – کے خلاف صف آرا تھیں ۔ دنیا میں اس اصطلاح کو قبول عام تب حاصل ہوا، جب یکم جنوری 1942ء کو 26 اقوام نے اقوام متحدہ کے اعلان پر دستخط کیے اور جس نے اتحادی قوتوں کے جنگی مقاصد متعین کیے ۔ یوں اس تنظیم کو حالت جنگ میں ہی بپتسمہ دے دیا گیا ۔ اس کا ہدف یہ تھا کہ یورپ کے اندر باہمی گروہ بندی اور تنازعات کو روکا جائے اور نو آبادیاتی دور کے بعد وجود میں آنے والی دنیا کو اس طرح سے قابو کیا جائے کہ اس کا خام مال اور اس کی منڈیاں مغربی اقتصادی معیشت کو ترقی دینے کے لیے وقف رہیں۔ پاکستان کی طرح کا تیسری دنیا کا ملک جو کشمیر پر اس ادارے سے کسی فیصلے کا طلب گار تھا، خود ادارے کے اولین مقاصد میں جگہ نہیں پاسکتا تھا۔
- ثالتاً، 1948ء سے 1951ء تک جب ہم معاہدہ بغداد (CENTO) کے رکن نہ تھے تو ہم کشمیر میں استصواب کے حوالے سے دو قراردادیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ لیکن جب ہم نے امریکہ کے کمیونسٹ مخالف کیمپ میں شمولیت اختیار کر لی تو ہمارے بادبانوں سے ہوا نکل گئی۔ پاکستان کی مقتدر اشرافیہ یہ بات سمجھ ہی نہ پائی کہ اس وقت کی سازشوں سے پُر سرد جنگ کے باعث سلامتی کونسل کشمیر کے مسئلہ پر دو دھڑوں میں بٹ کر رہ جائے گی۔ 1950ء کی دنیا کے متعلق ہماری اس بچکانہ ناسمجھ کا یہ عالم تھا کہ سلامتی کونسل میں دھڑے بندی تو رہی ایک طرف، محض اس ادارے کو مداخلت کی دعوت دینے کا مطلب اپنے آپ کو معاملے کی ایک گنجلک منطق میں الجھانا تھا۔ اس دھڑے بندی کی وجہ سے سلامتی کونسل کے اندر مطلوب اجماع کی کوئی صورت باقی نہ رہی۔
اقوام متحدہ سے حاصل فوائد
کیا اقوام متحدہ میں جانے سے ہمیں فائدہ ہوا؟
مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی تین بنیادی قراردادیں ہیں۔ پہلی قرارداد 17 جنوری 1948ء کو پاس ہوئی جس میں پاکستان اور ہندوستان سے کہا گیا کہ وہ صورت حال کو بگاڑنے سے باز رہیں۔ دوسری قرارداد 20 جنوری 1948ء کو منظور ہوئی۔ اس کے ذریعہ اقوام متحدہ کا کمیشن برائے پاک و ہند (UNCIP) تشکیل دیا گیا، جسے تنازع کی تفتیش اور مصالحت کا کام سپر دہوا۔ تیسری قرار داد 6 فروری 1948ء کو سامنے آئی، جو محض قرارداد کا مسودہ تھا۔ 21 اپریل 1948ء کو چوتھی قرارداد پاس ہوئی۔ سب سے پہلے اس میں استصواب کا ذکر ہوا۔
مذکورہ تین قراردادوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے سلامتی کونسل نے درج ذیل چھ قراردادیں بھی منظور کیں:
- 3 جون 1948ء کی قرارداد میں کمیشن سے کہا گیا کہ وہ متنازع علاقہ میں پہنچ جائے۔
- 5 جنوری 1948ء کی UNCIP کی منظور کردہ قرارداد کی میکنائن والی 22 دسمبر 1949ء کی تجویز۔
- سلامتی کونسل کی قرارداد مورخہ 14 مارچ 1950ء ، ڈکسن (Dixon ) رپورٹ
- سلامتی کونسل کی قرارداد مورخہ 30 مارچ 1951ء ، جارنگ (Jarring) رپورٹ
- سلامتی کونسل کی 14 فروری 1957ء کی قرارداد
- سلامتی کونسل کی 21 فروری 1957ء کی قرارداد
ان کے علاوہ کشمیر پر 7 فروری 1957ء کی پانچ طاقتی قرارداد، جسے اشتراکی روس نے ویٹو کر دیا تھا۔ یوں کم و بیش 7 قراردادیں ہیں، جن میں سے تین اہم اور چھ ثانوی نوعیت کی ہیں۔ پاک و ہند کمیشن کے لیے ارکان چیکوسلواکیہ، ارجنٹائن، کولمبیا اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ سے لیے گئے۔ چیکو سلواکیہ کو ہندوستان نے نامزد کیا تھا، جبکہ ارجنٹائن کی نامزدگی پاکستان کی تھی۔
مسئلہ کشمیر پر سَر اوون ڈکسن اور ڈاکٹر جارنگ کی تحریر کردہ رپورٹیں بہت اہم ہیں۔ ان رپورٹوں کے دو پہلو نہ صرف اہم تھے بلکہ کچھ اندر کی بات ظاہر کر رہے تھے۔ مثلاً، رپورٹوں میں ہندوستان کے سخت غیر مصالحانہ رویہ کا تذکرہ تھا، لیکن اس پر ہندوستان کی تنقیص نہیں کی گئی۔ ڈکسن نے تو یہاں تک کہہ دیا:
”ہندوستان اس بات پر کبھی راضی نہیں ہوگا کہ وادی سے فوج نکالی جائے یا کسی بھی طرح کے استصواب کے لیے نظام کار تجویز کیا جائے ۔“
رپورٹ کے پیراگراف 80 میں ڈکسن نے اقوام متحدہ کی نگرانی میں محدود استصواب کی بات کی جو پاکستان نے تو مان لی لیکن ہندوستان نے رد کر دی۔ اس کا استصواب کرانے کے سلسلے میں یہ تبصرہ تو قطعی مضحکہ خیز اور خود اس کے اپنے تفویض شدہ مشن کا مذاق اڑانے کے مترادف تھا کہ مکمل استصواب ممکن نہیں ، کیونکہ اس کے نتیجے میں وسیع پیمانے پر انتقال آبادی ہوگی۔
رپورٹ کے آخر میں اس نے جو سفارش پیش کی اس نے تو گویا کشمیر کے مسئلے کو اقوام متحدہ کے ایجنڈے سے خارج ہی کر دیا۔ پیرا گراف 104 میں اس کی تجویز تھی کہ چونکہ پاکستان اور ہندوستان کے سامنے سارے ممکنہ حل رکھ دیے گئے ہیں، چنانچہ اب بہترین صورت شاید یہی ہے کہ مزید اقدام خود دونوں فریقوں کی طرف سے ہوں ۔ اس کا واضح مطلب یہ بنتا تھا کہ اقوام متحدہ اب ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھ جائے، کیونکہ یہ استصواب کے ضمن میں خود اپنی پاس کردہ قراردادوں کے حق میں بھی کچھ کرنے کے قابل نہیں۔
جارنگ رپورٹ، اوون ڈکسن سے بھی دو ہاتھ آگے نکل گئی ۔ فی الحقیقت جارنگ نے استصواب کے خلاف ہندوستانی دلیل کا لب و لہجہ قبول کر لیا تھا:
”مسائل سے نمٹنے کی ہر ممکن کوشش کر لینے کے بعد میرے لیے اس تشویش کو نظر انداز کرنا مشکل ہے کہ کشمیر متعلق سیاسی، معاشی اور تزویراتی عوامل میں تبدیلی آچکی ہے۔ ساتھ ہی مغربی اور جنوبی ایشیا میں طاقت کے تعلقات کا انداز تبدیل ہو چکا ہے۔“
ڈاکٹر جارنگ ہوں یا سر اوون ڈکسن، اپنے اس طرز بیان میں کسی انفرادیت کے حامل نہ تھے۔
اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انڈیا اور پاکستان (UNCIP) کا ایک اور ممبر، جوزف کوربیل (Joseph Korbel)، جسے کمیشن کے لیے ہندوستان نے نامزد کیا تھا، یہ کہنے کا بھی حوصلہ رکھتا تھا کہ ”استصواب کرانے کا تکنیکی امکان امر واقعی کے حدود سے باہر نظر آتا ہے ۔ یورپ میں اس طرح کے استصوابوں کا حوالہ دیتے ہوئے وہ یہ تک کہہ گیا کہ استصواب صرف پروپیگنڈا، دباؤ اور جھوٹ و اختراع کا ہتھیار ہے۔“
1957ء کا سال آیا تو سوویت یونین (حال روس) پوری قوت اور دلجمعی کے ساتھ ہندوستان کی پشت پر کھڑا تھا۔ وزیر اعظم خروشیف نے تو آزاد و خود مختار مملکت پاکستان کے وجود تک کا مضحکہ اڑایا۔ اس نے پاکستان اور ہندوستان کے درمیان سرحدوں کو مصنوعی قرار دے دیا۔
ایک طرف تو ہندوستان کو سوویت یونین کی یہ پشت پناہی حاصل تھی۔ دوسری طرف امریکہ پاکستان کو طفل تسلیاں دیتا رہا، اور اسے ایک مغالطہ انگیز خواب کے پیچھے دوڑاتا رہا۔ اس خاص دور میں امریکی وزیر خارجہ ڈین ایچی سن (Dean Acheson) کا اقوام متحدہ میں امریکی نمائندہ کو دیا جانے والا مشورہ امریکی ذہنیت کو پوری طرح آشکار کر رہا تھا۔ وہ نہ مسئلہ کشمیر حل کرنا چاہتے تھے، اور نہ ہی پاکستان اور ہندوستان میں جنگ چاہتے تھے۔ پاکستان کے لیے اُن کے پاس سوائے لولی پاپ کے اور کچھ نہیں تھا۔ ایک مناسب تصفیہ کی تسلی اور امید دلائی جاتی رہے تا کہ وہ مایوس ہو کر قوت کے استعمال پر نہ اتر آئے۔
اب یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ امریکیوں نے یہ سارا ڈراما بڑی عیاری سے استیج کیا اور پاکستان انگوٹھا چوستا رہ گیا۔
امریکی ہندی رابطہ
کیا اب اکیسویں صدی میں بھی امریکہ اس معاملہ میں کچھ مدد دے گا؟ جواب واضح طور پر حوصلہ شکن ہے۔ 1950ء کے عشرے میں جب پاکستان امریکہ کا اتحادی تھا اور ہندوستان پوری طرح اشتراکی کیمپ میں تھا، تب بھی امریکی کانگریس نے ہندوستان کی مدد کرنے میں دریغ نہ کیا۔ سینیٹر جان ایف کینیڈی (ڈیموکریٹ) اور جان شیر مین کوپر (ریپبلکن) نے مل کر میوچل سیکورٹی (1958ء) میں دو حزبی ترمیم پیش کیں۔ اس میں کہا گیا تھا:
”امریکہ کا مفاد اسی میں ہے کہ وہ دوسری قوموں کے ساتھ مل کر ہندوستان کو اتنی مقدار میں اور اتنی مدت تک امداد فراہم کریں کہ وہ کامیابی کے ساتھ اپنے اقتصادی پروگرام کی تکمیل کر سکے“
یہ مدد ہندوستان کو مہیا کی بھی گئی۔ ایٹمی ری ایکٹروں کے لیے بھارتی پانی دیا گیا، فوجی ساز و سامان اور سرمایہ کاری بھی ہوئی۔ ہر قسم کی مادی اور جذباتی مدد فراہم کی گئی۔
کچھ امریکی جیسے سینیٹر اوسن ہیچ (Olsin G. Hatch) نے باوجود اس امر کے کہ امریکہ ہندوستان تعلقات میں گرم جوشی پیدا ہو چکی تھی انہیں ”برف کے زمانے“ سے تشبیہ دی۔ یہ دراصل ایک علامتی بیان تھا، جس سے برسوں سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں قائم سرد مہری ظاہر ہوتی تھی۔
جب سے یک قطبی دنیا کا ظہور ہوا، امریکہ ہندوستان کے حق میں خود غرضی کی ہر حد پھلانگ گیا ہے۔ ایک تو یہ اس کے اقتصادی مفاد کا تقاضا ہے، جو ہندوستانیوں کے خواب و خیال میں بھی نہ تھا۔ امریکہ آج ہندوستان کا سب سے بڑا تجارتی ساتھی بن چکا ہے۔ امریکی سرمایہ کاری جو 1990ء میں صرف تقریباً 345 ملین ڈالر تھی، اگلے برس اندازاً 859 ملین ڈالر اور 1993ء میں 9478 ملین ڈالر ہوگئی۔ یہ صرف دو برسوں کے اندر اندر 27 گنا سے زیادہ اضافہ ہے۔ (صرف 2008ء میں امریکی سرمایہ کاری کا بہاؤ 16 ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔ امریکہ آج ہندوستان کا سرمایہ کاری میں سب سے بڑا شریک ہے)۔ ایسے پھیلتے پھولتے باہمی تعلقات اور اس حقیقت کے پیش نظر کہ امریکہ کو 400 ارب ڈالر خسارہ کا سامنا تھا (2011ء تک امریکی خساره 15 کھرب ڈالر تک پہنچ چکا ہے)، ایسی صورت میں اسے ہندوستان جیسی وسیع منڈی کی ضرورت تھی۔ پاکستان کی یہ خواہش کہ امریکہ اقوام متحدہ کے ذریعے کشمیر کے مسئلہ میں ہندوستان کا بازو مروڑے گا، ایک آرزوئے ناتمام ہی رہے گی۔
امریکی ڈپٹی اسسٹنٹ سیکرٹری آف اسٹیٹ ٹیریسیتا شوفر (Teresita Schoeffer) نے مارچ 1991ء میں خارجہ امور کی ہاؤس کمیٹی سے منسلک ایشیا بحر الکاہل معاملات کی ذیلی کمیٹی کے سامنے جو بیان دیا، اسے بہ غور پڑھنے کی ضرورت ہے۔ اس نے کہا تھا کہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادیں بودی اور بے دلیل ہیں اس لیے اب مسئلہ کو دو طرفہ مذاکرات کے ذریعہ حل کیا جائے۔ اس بیان سے پاکستان کے مقتدر طبقوں اور اداروں کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں تھیں کیونکہ شوفر نے کوئی لگی لپٹی نہیں رکھی۔ اس بیان کے چار برس بعد (16 دسمبر 1995ء) اسی ذیلی کمیٹی میں ارکان کانگریس کے سوالات کا سامنا کرتے رابن رافیل (Robin Raphael) نے وہی موقف پھر دہرایا، اگرچہ اُس نے کچھ اضافی باتیں بھی کہہ دیں: ”اب وقت ہے کہ ماضی کے نسخوں کو بھول جائیں۔ اس بیان حلفی میں رافیل نے یہ بھی تسلیم کیا کہ ہندوستان اکیسویں صدی میں ایک ممکنہ عالمی طاقت ہوگی اور عالمی امور میں اس کا کردار ہوگا۔
اقوام متحدہ بحیثیت ایک چال
اگر امریکہ کے ہندوستان کے متعلق تصور اور رویے میں موجودہ تبدیلی نظر انداز بھی کرلیں، تو بھی یہ سوال جواب طلب ہے کہ کیا اقوام متحدہ بہ حیثیت ایک ادارہ، کشمیر میں پاکستان کے حوالے سے امن اور انصاف دلا سکتا ہے؟ یہاں اگر یہ معصومانہ امید باندھی جائے کہ کیا اقوام متحدہ مغربی طاقتوں کے اثر سے آزاد رہ کر فیصلہ کر سکتی ہے؟ جواب قطعی نفی میں ہے۔ اقوام متحدہ کا ماضی کا ریکارڈ اس پر گواہ ہے۔ تشکیل کے کم و بیش 30 برس بعد تک دنیا کے اکثر و بیشتر مسائل کا تصفیہ اس ادارے کے دائرہ اثر سے باہر ہی ہوا۔
دیکھ لیجیے کہ برلن کا محاصرہ کیسے ختم ہوا؟ نہر پانامہ کا قضیہ کیسے طے ہوا؟ اوست پولی تیک (Ostpolitik) معاہدہ جس میں یورپی ممالک کی سرحدات تسلیم کی گئیں، رہوڈیشیا اور زمبابوے جھگڑے کا تصفیہ ہیلسنکی کانفرنس جو یورپ کی سلامتی اور باہمی تعاون سے متعلق تھی، تخفیف اسلحہ کا سالٹ معاہدہ، اسی طرح اسرائیل اور فلسطینی تحریک آزادی کے درمیان معاہدہ اور بالآخر سابقہ سوویت ریاستوں اور مغربی اقوام کے درمیان معاہدہ - یہ سب کچھ اقوام متحدہ کے دائرہ اثر سے باہر اور اس کے بغیر انجام پذیر ہوئے۔
بدقسمتی یہ ہے کہ اقوام متحدہ، جو 1940ء کے عشرے کی اتحادی قوتوں کی وصی (legatee) کی حیثیت رکھتی ہے، کا نسبت نامہ ہی مشکوک ہے۔ پھر اس کے پالنے پوسنے اور پروان چڑھانے کا عمل ایسا داغ دار ہے کہ کسی طور کی لفاظی اور طراری اسے پاک نہیں کر سکے گی۔ اپنی ابتدا ہی سے یہ ادارہ تیسری دنیا کے ممالک کے لیے ایک غیر متحرک اور ہر جنبش سے عاری لیکن پرجوش خطابت والی مجلس مباحثہ کی صورت بنا رہا ہے۔ اس کا کام صرف یہی لگتا ہے کہ مغربی اقوام کے عالمی مفادات کو تقویت دے۔ امن و امان کی بحالی، جو اس کا واحد اہم کام بتایا جاتا ہے، اپنی اصل میں جھگڑے نمٹانے سے زیادہ انہیں الجھائے رکھنے کا ایک جال ہے۔ بوسنیا اس کی ایک واضح مثال ہے، جہاں اس کا 49 فیصد رقبہ سربوں کو ہتھیانے کا موقع دیا گیا اور پھر بڑی سفاکی سے اس کی توثیق کر دی۔ اقوام متحدہ اور امریکہ کے کردار کا ذکر کرتے ہوئے امریکی نمائندہ میڈیلین البرائٹ (Madeline Albright) نے کہا کہ اس کا مقصد ادعائی کثیر جہتی (assertive multilateralism) کو کام میں لانے کے لیے اسے بہ طور ایک اہم عامل استعمال کرنا تھا۔ یہ وہ امریکی تصور ہے جس کا صحیح نظر یہ ہے کہ کثیر جہتی اداروں میں ایسی وسیع حکمت عملی (تشکیل دی جائے) کہ جہاں بھی ضرورت لاحق ہو اور مفید لگے ہماری لیڈرشپ کی رونمائی ہو۔
امریکہ کی فکر یہ ہے کہ دو انتہاؤں میں تقسیم دنیا کی مابعد کی صورت حال کو ویسے نہ چھوڑا جائے بلکہ ”دنیا کی سیاست کو اس رخ پر موڑا اور چلایا جائے کہ دنیا بھر کے بدمعاشوں کا قبلہ امریکی امامت میں مغرب کی سمت مزار ہے۔ اس طرز فکر میں اقوام متحدہ کو اتنی اہمیت دی گئی کہ اگست 1994ء میں امریکی وزارت دفاع میں قیام امن اور جمہوریت کے امور سے متعلق اسسٹنٹ سیکرٹری کا نیا عہدہ پیدا کیا گیا۔ اگر امریکہ کو موقع ملا تو وہ اقوام متحدہ کے خصوصی اصلاحی پروگرام کے حصے کے طور پر نیو یارک میں امریکہ کی براہ راست نگرانی میں آپریشن سنٹر کا ادارہ قائم کر دے گا۔ ایسے انتظامات امریکی نقطہ نظر سے اس لیے ضروری ہیں کہ یہ تیسری دنیا کی مضبوط اور اپنا حق لینے پر تلی ہوئی بعض اقوام کے مقابلے میں سرد پڑتے مغربی حوصلوں کا مداوا کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی شکل میں دکھاوے کی ایک اخلاقی صورت میسر رہتی ہے۔ ساتھ ہی مغرب کو اس کی آڑ میں دنیا بھر کے وسائل استعمال کرنے کا بھی موقع ملتا ہے کہ وہ جس ڈھنگ سے چاہے دنیا کی صورت گری کرے۔
یہ سب کچھ اپنی جگہ لیکن پاکستان کشمیریوں کے لیے حق خودارادیت کے حصول کی خاطر کیا کرے؟ یہ سچ ہے کہ نہ تو اقوام متحدہ استصواب رائے میں دلچسپی رکھتی ہے، نہ امریکہ اور مغربی اقوام کو اس سے کچھ سروکار ہے۔ لیکن پاکستان ہمت نہ ہارے، نہ کشمیریوں کے جائز اور قانونی طور پر مبنی برحق مسئلے کی تائید اور پشت پناہی سے ہاتھ اٹھائے ۔ کشمیری مسلمانوں کی لازوال جدو جہد اور پاکستانیوں کی اُن کی حمایت بالاخر اپنا راستہ خود بنائے گی ۔ ایک سرگرم تحریک جس نے معاشرے کے تمام طبقات کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، تبدیلی اور انقلاب کی اپنی منطق رکھتی ہے۔ یہ کشمیر سے چمٹے رہنے کا ہندوستانی حوصلہ توڑنے پھوڑنے کا باعث بنے گی ۔ اور یہی کشمکش دوسروں کو بھی مجبور کر دے گی کہ وہ کچھ زیادہ انسان دوستی کا مظاہرہ کریں۔ ہر دوسری قدر خیر کی طرح، آزادی کی بھی ایک قیمت ہے۔ اس قیمت کا ایک حصہ یہ بھی ہے کہ ہم پتھروں سے خون نچوڑ نکالنے کی کوشش جاری رکھیں ۔
باب 23
غیر سرکاری تنظیمیں: فتنہ گری کا نیا سامان
مسلمانوں کے معاشرے میں سماجی خدمت کا شعبہ کوئی نئی چیز نہیں ہے، کیونکہ یہ اسلام کے اساسیات کا حصہ ہے۔ قرآن انسانی خدمت کو آخرت کی فلاح و بہبود کے ساتھ جوڑتا ہے (الماعون: 1-3)۔ اس طرح ایک قدیم روایت کے طور پر اس کی جڑیں ہمارے ماضی میں دور تک پیوست ہیں، جب اسلامی معاشرے کے متمول افراد تعلیم اور صحت کی خدمات مہیا کرتے اور غریبوں اور مسکینوں کی کفالت کے پروگرام چلاتے۔ خود آنحضور کے مبارک دور میں وقف کا تصور اسی سماجی خدمت کے تصور سے گندھا ہوا ہے۔ غیر متعصب علمی حلقے تسلیم کرتے ہیں کہ وقف کا ادارہ مسلمانوں کی طرف سے دیگر اقوام اور مذاہب کے لیے اُن کا غیر مستعار تحفہ ہے۔
مغربی استعمار کو عروج ملا تو فکر میں تبدیلی آئی۔ پرانے تصورات کو نئے معنی ملے ۔ سماجی شعبہ میں اب روپے پیسے کی ریل پیل ہے۔ یہ کام ان اداروں اور گروہوں کے ہاتھ میں جا چکا ہے جو بہ ظاہر تو انسانی خدمت کا دعویٰ رکھتے ہیں، لیکن فی الاصل بیرونی قوتوں کے تشکیل دیے ہوئے یا قبول کیے ہوئے سیاسی ایجنڈے کے ہم رکاب ہیں، کیونکہ بیرونی قوتوں کو ان گروہوں کے ساتھ اپنے مفاد کی تعلیق نظر آتی ہے۔
غیر سرکاری تنظیموں کے بارے میں ایسی کون سی نامناسب بات ہے کہ جس کی وجہ سے وہ نفرت کا نشانہ بنتی ہیں ؟ اس کا صحیح جواب تو وہی اقوام مغرب دے سکتی ہیں جو انہیں مالی امداد دے رہی ہیں۔
ابھی حال ہی میں امریکی ماہر سیاسیات ڈاکٹر جو این رولانس (Joan Roelofs) نے غیر سرکاری تنظیموں کو ہاتھی کی طرح بڑا، سانپ کی طرح افعی اور بازنطینی سازش قرار دیا۔ یہ بیان اپنی نوعیت کے اعتبار سے واقعی مذمت سے لبریز ہے۔ لیکن اسے اگر مغربی ایجنڈے کے تناظر میں دیکھا جائے جو سرد جنگ کے اختتام پر ترتیب دیا گیا ہے، تو بات سمجھ آتی ہے۔
پروفیسر جو این رولانس کا مطالعاتی جائزہ The Imperial Uses of Philanthropy اس لحاظ سے اضطراب انگیز ہے کہ اُس میں غیر ریاستی تنظیموں کا تفویض کردہ کردار ان ممالک کے لیے بے حد خطرناک دکھائی دیتا ہے، جہاں وہ کام کر رہی ہیں ۔ اُن کے خیال میں ایسی تنظیمیں اپنے کردار کے حوالے سے مقامی ثقافت کے لیے دور رس نتائج کی حامل ہیں ۔ مثلاً چند سال پہلے تک لوگوں کو بالعموم ”سول سوسائٹی“ کی اصطلاح کا علم نہیں تھا لیکن پھر تھوڑے ہی عرصے میں جن لوگوں کو یہ کام سونپا گیا تھا کہ اسے معروف کرائیں، یہ بالاخر ہماری لغت کا حصہ بن گئی۔
ڈاکٹر رولانس کے مطابق ”سول سوسائٹی“ کی اصطلاح کو معروف کرنا عالمی ایجنڈے کا حصہ تھا۔ اپنی اصل میں اس کی ایجاد اور پرورش سیویکس Civicus نام کی ایجنسی نے کی، جسے سرکاری اور غیر سرکاری شعبوں نے مل کر آگے بڑھایا۔ رولانس کا کہنا ہے کہ: ”اگر ماخذ میں الجھاؤ ہے تو پیغام بالعموم واضح ہے۔ یعنی شہری حقوق اور انتخابات کے ذریعے جمہوریت کو آگے بڑھایا جائے ۔ ساتھ ہی بیرونی سرمایہ کاری و مزدورکاری معاہدات، خام مال کی ترسیل اور فوجی تربیت کے لیے دروازے کھولے جائیں۔ مزید براں ایسے واسطے اور روابط سول سوسائٹی کی تعریف میں راک کنسرٹ اور بازاروں اور گلیوں میں غنڈہ گردی کو بھی شامل کرتے ہیں ۔ اب یہ کوئی حیرت کی بات نہیں کہ راک کنسرٹ پاکستانی میوزک منظر کا آہستہ آہستہ حصہ بن رہے ہیں، اور غنڈہ گردی بڑے شہروں میں جڑ پکڑ رہی ہے۔
سرد جنگ کے بعد کے زمانے میں امریکہ جو کام خفیہ ایجنسیوں کے ذریعے سے کرتا تھا، اب کھلم کھلا کر رہا ہے۔ امریکی ادارہ برائے جمہوریت (The U.S. National Endowment for Democracy) دراصل کانگریس کے پاس کردہ قانون کی تخلیق ہے، اور اس کا کام ڈاکٹر رولانس کے مطابق: ”سی آئی اے کی سرد جنگ کے زمانے کی خفیہ سرگرمیاں ہیں۔ جس کے دائرہ کار میں جائز حکومتوں کو متشددانہ کاروائیوں کے ذریعہ سے عدم استحکام کا شکار بنانا، سیاسی و معاشرتی منظر نامہ پر انارکی کو مسلط کرنا، اور قدیم روایتی معاشروں کو توڑنا ہے۔ اس معاملے میں امریکہ اکیلا نہیں ہے، یہ دراصل مغربی ممالک کا سفاکانہ اتحاد ہے، جس نے بڑی تیزی سے مسلم دنیا میں غیر ریاستی تنظیموں کو گلے لگانا اور پروان چڑھانا شروع کیا ہوا ہے۔ جہاں ایسی تنظیمیں وجود نہیں رکھتیں یا مغرب سے تعاون کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتی ہیں، وہاں وہ انہیں تخلیق کرتا ہے۔ اسی طرح جہاں میڈیا اُن سے گریز کرتا ہے، وہاں وہ اپنی مرضی کا میڈیا وجود میں لے آتے ہیں۔ یہ بیرونی ایجنسیاں غیر ریاستی اداروں میں باہم ارتباط پیدا کرنے میں بھی مصروف عمل ہیں، تاکہ میڈیا کے ذریعے ان مسائل پر مبالغہ آرائی کی جاسکے، جہاں حکومتیں اُن سے پہلو تہی برتی ہوں اور جہاں ممکن ہو سٹرکوں پر مظاہرے بھی کروائے جائیں۔ مثلاً پاکستان میں برٹش کونسل تقریباً 38 مقامی تنظیموں کے ساتھ صنفی برابری کے منصوبہ میں شریک کار ہے۔ ایسی تنظیموں کو مالی معاونت بین الاقوامی محکمہ ترقیاتی امور (DFID) سے مل رہی ہے۔
نیا مرحلہ
ہمیں یہ بات پسند ہو یا نا پسند، لیکن ہمارا قومی اقتدار اعلیٰ اور حق خود اختیاری نہ تو ماضی میں کلیتہً خود مختار تھے اور نہ آج آزاد ہیں۔ جب سامراجی دور تھا تو اُسی کی طرف سے زیر دست ریاستوں پر پالیسیاں ٹھونسی جاتی تھیں۔ سرد جنگ کے دور میں سوویت یونین اور امریکہ جیسی حریف قوتیں دوسرے ممالک کو باج گزار بنائے رکھنے کے لیے کوشاں تھیں۔ آج کے یک قطبی دور میں امریکہ بہ زعم خود ساری دنیا کی قوموں پر بلا شرکت غیرے اثر و اقتدار کا مالک سمجھ رہا ہے۔
سرد جنگ کے زمانہ میں حریف سپر طاقتوں نے قومی ریاستوں کے مطلق العنان حکمرانوں کو بہلانے پھسلانے پر توجہ مرکوز رکھی۔ تعلقات کی نوعیت انفرادی تھی، کیونکہ ایک شخص سے معاملہ آسان مگر گراں بار ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں فیصلہ سازی جمہوری بکھیڑوں سے آزاد ہوتی ہے۔
اس انداز سے بیشتر معاملات ٹھیک چلتے رہے، لیکن کبھی کبھار معاملہ الٹ پڑتا تھا، جیسا مرحوم صدر ایوب خان کے معاملے میں ہوا۔ امریکی صدر ریگن کی حکومت میں سلامتی کا مشیر زبگیف برزنسکی اپنی کتاب Between Two Ages; America's Role in the Technocratic Era میں کہتا ہے کہ امریکہ کو صدر ایوب خان سے بہت زیادہ توقعات تھیں، لیکن اس کے ہاں قومیت کا جذبہ ابھر آنے پر پاک امریکہ تعلقات پر روک لگ گئی۔
ذوالفقار علی بھٹو نے امریکی چہیتے کے طور پر اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کیا۔ لیکن پاکستانی قوم پرستی کے باعث امریکیوں کی نظروں میں وہ بھی گر گئے۔ جنرل ضیاء الحق کی حالت تو سب سے زیادہ نا قابل قبول تھی ۔ وہ نہ صرف ایک سخت جان پاکستانی قوم پرست تھے، بلکہ اسلام کی طرف بھی مائل تھے۔
ان تجربات نے امریکیوں کو قائل کر دیا کہ قومی قیادت کو لالچ اور دھونس کے ہانکنے کے ساتھ ساتھ سول سوسائٹی کے اندر بھی موثر تعلقات کا قیام ضروری ہے، تا کہ متعلقہ مملکت کی سماجی اور سیاسی حرکیات کی تشکیل بھی اپنی مرضی سے کی جاسکے۔ دنیا کے منظر سے سوویت یونین غائب ہوا تو امریکہ کے لیے یہ ضروری نہ رہا کہ پاکستان جیسے ممالک کو نقد یا اشیاء کی شکل میں امداد دے۔ اور اگر فی الفرض امداد جاری رکھنا ضروری ہی ہو تو ریاستی اداروں ہی سے کیوں رابطہ کیا جائے، غیر ریاستی اداروں سے کیوں نہ تعلق بڑھا دیا جائے۔ امریکی پالیسی تشکیل دینے والوں نے یہ بھی سوچا کہ یک قطبی نظام میں اختیار اور کنٹرول کثیر الاطراف ہونا چاہیے۔ لیکن نیا طریق کار یہ تاثر نہ دے کہ وہ ایک سنگی (monolithic) ہے۔ ساتھ ہی ساتھ منتشر اور مختلف النوع اطراف سے ترسیل اور وصولی یقینی بنادی جائے ۔ اس سلسلے میں اقوام متحدہ کے ادارے، عالمی بنک اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کو استعمال کرنا چاہیے۔ ایسے میں تجارت اور غیر ریاستی انجمنوں کا نیا متعین کردہ کردار بروئے کار لانا تھا۔
بہر طور یہ کہنا مناسب نہیں کہ مغرب نے تمام غیر ریاستی تنظیموں کی تخلیق میں دایہ کا کردارادا کیا۔ ماسوائے اُن تنظیموں کے جو اپنی نوعیت اور وسائل کے اعتبار سے مقامی اور بعض حالات میں قومی سطح پر پہلے سے موجود تھیں، امریکہ اور اس کے حلیفوں نے بعض ایسی تنظیموں کو جنم دیا جو ان کے لیے حمد و معاون ہوسکتی تھیں۔ ان میں پہلے سے موجود بعض وہ تنظیمیں بھی تھیں جو خارجی کھیل کھیلنے کے لیے تیار تھیں، ان کی تشکیل نو کر کے یک قطبی دنیا کے نئے تناظر میں نیا روپ دیا گیا، تاکہ ایسی نام نہاد غیر ریاستی تنظیمیں (این جی اوز) عالمی ایجنڈے کی تکمیل میں پیادے کا کردار ادا کر سکیں ۔ ”نام نہاد“ اس لیے کہ بظاہر تو وہ اپنے آپ کو ”غیر سرکاری“ تنظیمیں کہتی ہیں، مگر فی الحقیقت امریکہ یا اس کی پٹھو حکومتوں کی امداد پر، انہی کے ایجنڈے کو لے کر چلتی ہیں۔ اس سلسلے میں چار امور توجہ طلب ہیں:
- این جی اوز کو راست مالی امداد: امداد دہندہ کی نگاہ میں یہ بہت ضروری ہے کہ اُس کی پروردہ این جی اوز کو براہ راست مالی امداد ملے، تاکہ اس کے ذریعے ان اداروں کا ایجنڈا کنٹرول کیا جا سکے ۔ بالفاظ دیگر امداد دہندہ اور وصول کنندہ کی ہم زیستی کو یقینی بنا کر موخر الذکر کو قومی و ریاستی جوابدہی اور خوف سے آزاد کر دیا جائے ۔ بنگلہ دیش میں حکومت ایسے ہی غیر سرکاری اداروں کے مقابلے میں پسپائی پر مجبور ہوئی۔ پاکستان میں نواز شریف حکومت (1997-99ء) نے این جی اوز کے ان قابل اعتراض مشاغل کی نگرانی کرنی چاہی لیکن بالآخر اُسے مٹی چاٹنی پڑی۔ اس کے بعد جنرل مشرف کی جو حکومت آئی، تو اس کا پورا انحصار ہی این جی اوز پر تھا۔
- این جی اوز کا عالمی سطح پر ارتباط: یہ جاننا بھی بے حد ضروری ہے، کیونکہ اس طرح یہ ادارے قومی سانچے سے باہر نکل کر اتنے لچک دار اور اثر پذیر ہو جاتے ہیں کہ جدھر چاہیں موڑ دیں۔
- این جی اوز کو حقوق انسانی، قومی اور عالمی امور میں دخیل بنانا: یہ شعبے مغربی نقطہ نظر سے بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ انسانی حقوق پر زور دینا اپنی اصل میں ضدی اور اکھڑ اقوام کی سرکوبی کا دوسرا نام ہے، بالخصوص جب کوئی قومی حکومت ، ایسی تخریب کاری کی بیخ کنی کے لیے اپنا اختیار استعمال کرنے پر تل جائے جو اختلاف رائے اور حقوق انسانی کے پردے میں جاری ہو۔ ماحولیاتی مسائل صنعت اور تجارت پر مغرب کی اجارہ داری کے حوالے سے اتنے ہی اہم ہیں۔ مثلاً اگر ترقی پذیر ممالک زیادہ سے زیادہ ممکنہ شرح نمو حاصل کرنا چاہیں تب یا تو اس کوشش کو غیر موثر بنا دیا جاتا ہے یا ماحول کی دہائی دے کر اسے سست گام کر دیا جاتا ہے۔ اور اہم ترین بات یہ کہ ایٹمی ہتھیار صرف مغرب کے پاس ہونے چاہئیں تا کہ وہ غیر ایٹمی قوتوں کو ڈرا دھمکا سکیں ۔
- بین الاقوامی قوانین اور عالمی اداروں میں این جی اوز کا کردار: یہ قومی حکومت کے حیطہ اختیار سے بالکل آزاد ایک غیر مملکتی رُوپ ہوگا۔ مزید براں بین الاقوامی ایجنڈا چونکہ مغربی ایجنڈے ہی کا دوسرا نام ہے، اس لیے غیر سرکاری تنظیموں کو عالمی اداروں میں شامل کرنا نہ صرف انہیں عزت کا مقام دیتا ہے، بلکہ انہیں حکومتی سطح پر یہ موقع بھی فراہم کرتا ہے کہ وہ عالمی ایجنڈے کی تکمیل کا ذریعہ بنیں ۔ بالفاظ دیگر قانونی چھتری میسر آنے کے بعد این جی اوز کو وہ اثر و اختیار مل جاتا ہے کہ مملکت در مملکت کا کردار ادا کر سکیں۔
پاکستان میں مخصوص غیر سرکاری تنظیموں کی ایک معتد بہ تعداد لادین نظریات کی حامل ہے۔ ان کی ہمدردیاں ہندوستان یا مغرب کے نظام فکر کے ساتھ ہیں اور یہ پاکستان اور اُس کی مسلم شناخت سے اپنی نفرت کا کھلے عام اظہار کرتی ہیں۔ اس طرح کی این جی او ہماری معاشرتی و اخلاقی قدروں کے محاذ پر سرگرم ہیں اور ایک ایسا شعور عام ذہنوں میں راسخ کرنے میں لگی ہوئی ہیں جو اسلام اور پاکستان کا حریف ہے۔ مثلاً لاہور میں قائم انسٹی ٹیوٹ آف وومن اسٹڈیز، صنفی تعصب پر مبنی ادارہ ہے۔ حال میں اس کے ایک مجلس مذاکرہ (سیمینار)، جس میں بھارتی خاتون مندوبین بھی شریک تھیں۔ مقررین نے برملا کہا کہ تقسیم ہند غلط تھی اور وقت آگیا ہے کہ لکیر مٹادی جائے۔ سیمینار کی منتظم نگہت سعید خان تھیں۔ اصل ذہنی کیفیت کو عیاں کرتے ہوئے کہا گیا: ”ہم پاکستان کو جنوبی ایشیائی تناظر میں دیکھتے ہیں ... ہم یقینا محسوس کر رہے ہیں کہ ایک جنوبی ایشیائی شناخت بہت ضروری ہے۔“ بنگلہ دیش میں ”پاکستانی جرائم پر معذرت کے مطالبے کی وضاحت یوں ہوئی: ”جب تک ہم 1947ء کا حقیقی بنیادوں پر سامنا نہیں کریں گے، ہمارے بہت سے مسائل حل طلب رہیں گے اور ہم ایک جنوبی ایشیا نہیں بن پائیں گے۔“
اس طرح کی تنظیمیں پاکستان کے نظام اقدار کو گالیاں دیتی ہیں۔ یہاں کی سوسائٹی کو بزرگانہ و بطریق بتاتی ہیں اور اسلام کو ایک مسلط کردہ نظریہ قرار دیتی ہیں، انہیں تو آزاد رو اسلام بھی قبول نہیں ۔ نگہت سعید کے الفاظ میں ان کا کام یہ ہے کہ : ”انہدام ہو، شکست و ریخت ہو، توڑ پھوڑ کی جائے اور پھر ٹکڑے نئے سرے سے ترتیب دیے جائیں ۔“
اغیار کی پالیسی اور لادین پہلو پر کام کا ایک اور مظہر اور مثال نجی سکولوں کا لمبا چوڑا سلسلہ ہے۔ ماضی میں بیکن سکول والوں نے ہندوستانی طلبہ کو دعوت دی کہ خصوصی سرپرستی میں منعقدہ کھیلوں میں شریک ہوں، جہاں کھیلوں کے علاوہ طلبہ اور طالبات کو آپس میں گھل ملنے کا موقع فراہم کیا گیا۔ یعنی یہ محض کھیلوں کا تہوار نہ تھا بلکہ ایک نیا ذہن تشکیل دینے کی کوشش تھی، جس کا پاکستانی قومیت سے تعلق نہ ہو۔
این جی اوز کی اکثریت نے بیرونی ایجنڈا قبول کیا ہوا ہے اور جب مغربی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے اندرونی دباؤ کی ضرورت ہوتی ہے، تو ان سے توقع ہوتی ہے کہ میدان عمل میں کود پڑیں۔ مثال کے طور پر دیکھئے کہ اپنی 22 اگست 2000ء کی رپورٹ میں اقوام متحدہ کا ”آفس آف دی کو آرڈینیشن آف ہیومینی ٹیرین افیئرز“ اس امر پر سینہ کوبی کرتا ہے کہ افغانستان پر دباؤ ڈالنے کے لیے کوئی غیر سرکاری تنظیم موجود نہیں۔ رپورٹ کے الفاظ ہیں:
”افغانستان میں رائے عامہ موجود نہیں ۔ اسی معنی میں کہ نہ تو وہاں نمائندہ ادارے ہیں اور نہ کوئی سول سوسائٹی طریق کار ہے، جس کے ذریعے بین الاقوامی دباؤ کو پبلک مناظرہ کا روپ دیا جا سکے یا پالیسی تبدیلی کے لیے مقامی دباؤ بروئے کار لایا جا سکے۔“
واضح طور پر مغرب کی طرف سے این جی اوز کے پلیٹ فارم کا استعمال اتنا کھلے عام ہو رہا ہے کہ رائے زنی کی حاجت ہی نہیں رہتی ۔ مثلاً امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کا رسالہ ”یوالیس فارن پالیسی ایجنڈا“ چھوٹے ہتھیاروں کی تیاری اور پھیلاؤ کے خلاف اپنی مہم میں غیر سرکاری تنظیموں کا تعاون مانگتا ہے۔ جولائی 2001ء میں اقوام متحدہ کی ایک کانفرنس نے اپنی توجہ ایک ایسے مربوط بین الاقوامی کوشش پر مرکوز کیے رکھی، جس کے نتیجے میں مطلوبہ ممالک کو چھوٹے ہتھیاروں سے پاک کر دیا جائے۔ یہ ظاہر مقصود یہ بتایا گیا تھا کہ دنیا بھر میں ”موت کی بڑھتی چڑھتی وارداتوں“ کو کم کیا جا سکے ۔ لیکن یہ اخلاقی رنگ روغن لگانے کے بعد اصل ہدف کچھ اور سامنے آتا ہے۔ کانفرنس کہتی ہے: ”چھوٹے ہتھیاروں کا غیر محفوظ پھیلاؤ امریکی فوجیوں اور قیام امن میں مشغول دستوں کے لیے خطرہ ہے ... چھوٹے ہتھیاروں نے امریکی تجارتی امکانات بھی بہت گھٹا دیے ہیں ۔“
اس سب کے باوجود این جی اوز کا ایک مثبت کردار ہو سکتا ہے بشرطیکہ وہ قومی دھارے کے ساتھ ہم آہنگ چلیں ۔ انہیں غیر قوتوں کی کرائے کی فوج کا کردار ادا نہیں کرنا چاہیے، نہ اجنبی قدریں اپنی سوسائٹی پر مسلط کرنی چاہئیں۔ جیسے باقی ممالک میں ہوتا ہے یہاں بھی امدادی رقوم کی وصولی اور استعمال پر حکومتی نگرانی ضرور ہونی چاہیے۔ ملکی سطح پر ایسی کسی انجمن کا اندراج نہ کیا جائے جو اپنا سند اعتبار اس مجوزہ چھلنی سے گزر کر ثابت نہ کر دے کہ وہ عملاً بیرونی ایجنڈا سے لاتعلق ہے۔ یہ کوئی ناجائز مطالبہ نہیں کیونکہ خود امریکہ میں بھی غیر سرکاری تنظیموں کو پسندیدہ نہیں سمجھا جاتا بالخصوص جن کا تعلق ہتھیاروں پر کنٹرول، خواتین کے مسائل، صنفی برابری، اقلیتوں کے حقوق اور ماحولیاتی امور سے ہو۔ ڈینیل نیلسن (Daniel Nelson) کہتا ہے کہ ایسی تنظیموں کو ”حلیف نہیں ، چیلنج دینے والے“ مانا جاتا ہے اور یہ کہ ”ان کی سرگرمیوں اور حرکتوں میں حائل ہونا چاہیے یا انہیں پٹڑی سے اتار دینا چاہیے ۔“
ہمارے ہاں بھی اگر اس طرح کے حفاظتی اقدامات نہ کیے گئے تو یہ فتنوں کو دعوت دینے والی بات ہوگی ۔
باب 24
دعا اور سجدے سے چڑ
انیس جیلانی کے انگریزی مضمون ”مذہب کو کھیلوں سے دُور رکھو“ نے مجھے کافی اذیت دی ۔ یہ ناعاقبت اندیش آرا، استہزائی جملوں اور غلط بیانیوں کا مرقع ہے، اُس پر ستم ظریفی وہ یوں متکلم ہوتے ہیں، جیسے اُن کے قارئین بے علم اور وہ خود علم کے جھروکے میں بیٹھے دونوں ہاتھوں سے علم و فضل کا دھن برسا رہے ہوں ۔ نہ حوالہ، نہ مکالمہ، کچھ مستعار آرا، جن کو اس انداز سے بیان کیا گیا ہے جیسے وہ سچائی ہوں اور باقی سب کا سب جھوٹ ۔
وہ اپنی تحریر کی ابتدا اپنے علم کائنات (cosmology) سے کرتے ہیں، جو اُن کے ماخذ حالیہ ”فلکی طبیعیاتی کانفرنس منعقدہ امریکہ“ کے مطابق مسلسل وسعت پذیر ہے۔ لیکن اس سے پہلے کہ موصوف موضوع کے ساتھ انصاف کرتے، انتہائی بے جوڑ انداز میں بے سود نمازوں، مناجات، کرکٹ ٹیم کے سجدہ شکرانہ اور مذہبی جنگوں کا ذکر لے بیٹھے۔ موصوف اس طرح یہ احساس دلانے میں کامیاب دکھائی دیتے ہیں کہ وہ علم دوست کم اور مذہب دشمن زیادہ ہیں ۔ اس پر مستزاد، انکسار جو اہل علم کی خوبیوں میں سے ایک ہے، اُن سے کوسوں دور ہے۔
میں نے پوری کوشش کی کہ ان کے پیش کردہ تینوں موضوعات میں ربط معلوم کر پاؤں، لیکن افسوس کہ اس کوشش میں بری طرح ناکام رہا۔ اگر ان تینوں میں مجھے کوئی رشتہ نظر آیا تو وہ صرف دین سے تنفر کا رشتہ ہے، اور یہ بڑی درد انگیز صورت حال ہے۔
موصوف نے اپنے ”نودریافت علم کائنات“ کا جیسا استعمال کیا ہے، وہ قابل مواخذہ ہے۔ میں اسے ”نودریافت علم“ اس لیے کہتا ہوں کہ کائنات کا توسیع پسند ہونا موجودہ سائنس میں کم از کم سنتالیس سال پرانا نظریہ ہے۔ اگر موصوف کو اب اطلاع ہوئی ہے تو پیغام بر نے بڑی دیر کردی۔ بہر طور اُنہوں نے جس طرح سے اس ”تازہ خبر“ کو ہم جیسے ناواقفوں تک پہنچایا ہے، اس سے مسائل پیدا ہو گئے ہیں۔
اولاً، یہ کہ مغرب کی بے خدا سائنس اس علم کائنات کو یہ واضح کرنے کے لیے استعمال کرتی ہے کہ اگر کائنات مسلسل پھیل رہی ہے تو پھر اس میں وقت اور زماں کا کوئی گزر نہیں۔ یہ ایک سلسلہ بے پایاں ہے جس نے تمام نہیں ہونا ۔ یادش بخیر تھر موڈائنامک کا دوسرا قانون من جملہ یہ کہتا ہے کہ اگر انقطاع توانائی (entropy) ہمیشہ بڑھ رہی ہے تو پھر وقت کو لازماً محدود ہونا چاہیے۔ جدید حاصل شدہ سائنسی کوائف ہمیں اجازت دیتے ہیں کہ ہم یہ فرض کریں کہ ہمارا نظام شمسی آنے والے برسوں میں اپنی روشنی کھودے گا اور زمین پر کامل اندھیرا چھا جائے گا۔ لادینوں کی لافانی دنیا کا حتمی انجام اندھیرا ہی ہوگا۔
اس لیے اگر تھر موڈائنامک کا دوسرا قانون برقرار رہے (جو واقعتاً ہے) تو پھر عالم کائنات میں ابدی وسعت کا نظریہ باطل ہو جاتا ہے۔ کائنات یا تو مسلسل پھیلے گی یا پھر ٹھنڈی ہو کر سکڑ جائے گی۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ دونوں بیک وقت عالم فطرت میں کارفرما رہیں۔
مقالہ نگار اس اشکال کو کیسے دور کریں گے؟ اُن کی تحریر میں اس کا کوئی جواب نہیں اور ہو بھی نہیں سکتا، کیونکہ اگر اُن کے ماخذ نے اس بارے میں چپ سادھی ہے تو یہ کیسے بولیں گے۔ یہ تو وہی کہیں گے جو ان کا استاد ان کے منہ میں ڈالے گا۔
البتہ اس کا شافی جواب قرآن حکیم میں ہے۔ مسلسل پھیلتی کائنات کا تصور جسے جیلانی شادمانی سے سرشار ہو کر بیان کرتے ہیں، اُن کے لیے تو ایک تازہ خبر ہو سکتی ہے لیکن ہم مسلمانوں کے لیے نہیں، جو موصوف کے الفاظ میں: ”دنیا کی بدتر مخلوق“ ہیں۔ پھیلتی کائنات کے بارے میں قرآن نے ایک امی نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی زبان سے صدیوں پہلے یہ خبر دی:
”آسمانوں کی تخلیق ہم نے کی اور ہم انہیں وسعت دیے جا رہے ہیں ۔“(الذاریات: 47)
لیکن لادین ماورائے طبیعات کے برعکس، جس کی بنیاد فلکی طبیعاتی ماہرین کا محدود علم کائنات ہے، قرآن کریم ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ ایک دن اس جہان کی بساط لپیٹ دی جائے گی:
”جب آسمان پھٹ جائے گا۔ جب تارے بکھر جائیں گے، جب سمندر پھاڑ دیے جائیں گے (اور ان میں آگ بھڑکا دی جائے گی)۔ جب تارے بکھر جائیں گے، جب سمندر پھاڑ دیے جائیں گے کہ اس نے آگے کیا بھیجا اور پیچھے کیا چھوڑ آیا ہے ۔“(الانفطار: 1-5)
بالفاظ دیگر اس مادی تعبیر کے مطابق اگر دنیا پھیلتی رہے گی تو پھر مذہبی لہجے میں جسے روز قیامت کہتے ہیں، وہ کبھی نہیں آئے گی۔ ایسی بات منطقی اعتبار سے درست ہوگی، کیونکہ اگر عالم کائنات کے ابدی پھیلاؤ کے نظریے کو قبول کر لیا جائے تو پھر کسی ایسے عقیدے کی ضرورت نہیں رہتی کہ ایک دن زمین سمیٹ لی جائے گی اور پہاڑ روئی کے گالوں کی طرح تیرتے پھریں گے۔
اسی لیے ایک ناخدا دنیا سیکولر حضرات کا پسندیدہ عقیدہ ہے، جس کو مان لینے سے ان کے خیال میں زندگی کے بارے میں مذہبی تعبیر خود بخود تحلیل ہو جاتی ہے۔ موصوف وفور جذبات میں یہ بھول جاتے ہیں کہ کائنات کا مسلسل ارتقا تھر موڈائنامک کے دوسرے قانون سے متصادم ہے۔
اس مسئلے کا ایک اور پہلو بھی قابل توجہ ہے جو سیکولر مردو زن اپنے الحاد میں بھول جاتے ہیں ۔ مثلاً اگر کائنات برابر پھیل رہی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ اپنے نقطہ آغاز میں مختصر وجود رکھتی ہو گی۔ جو پھیلی تو پھیلتی چلی گئی۔ یہ پہلو اس لیے اہم ہے کہ بغیر کسی حقیر آغاز کے وسعت اور پھیلاؤ کا تصور ناممکنات میں سے ہے۔ نظریۂ انشقاق (big bang) اس حقیقت کے ادراک کا نام ہے۔ اسے دوسرے انداز سے دیکھیں تو یہ مذہبی نقطہ نگاہ کی توثیق ہے، نہ کہ ایک ایسی خود آغاز دنیا جو خالق نہ رکھتی ہو۔
مذکورہ سائنس کے بہ قول اس علم کائنات کی پشت پر کوئی خالق اور مالک موجود نہیں ۔ کیونکہ خلق خود ہی اپنی خالق ہے، جو اپنے زور پر رواں دواں ہے۔ لیکن جیلانی کسی روشن خیال سیاست دان کی طرح مذہب کا استحصال کرتے ہوئے اس علم کائنات کے بیچ خدا کی ذات کو لے آتا ہے ۔ وہ یہ بھول جاتا ہے کہ ایسا رویہ اُس کے مستعار علم کائنات کے لیے صریحاً تضاد ہے۔ بلا شبہ جب انسان سچائیاں نگلنا شروع کرتا ہے تو پھر اس کا موقف لڑکھڑانے لگتا ہے۔
اسی طرح یہ پہلو بھی غور طلب ہے جب ہماری انسانیت کو لاغر اور مشت استخوان بتایا جاتا ہے تو یہ بھی اصلا ایک بے خدا علم کائنات کا شاخسانہ ہے، جس کا تقاضا یہ بھی ہے کہ انسان اس وسیع و عریض کائنات میں کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ ایک بے یارو مددگار وجود جس کی فریاد سننے والا کوئی نہیں ۔ واقعی یہ بڑا ظالمانہ تصور کائنات ہے۔ ایک گونگی بہری دنیا جس میں انسان کو دلاسہ دینے والا کوئی نہیں لیکن یہی وہ پیغام ہے جو موصوف اپنے قاری کو دینا چاہتا ہے۔
واضح طور پر جیلانی کا مقالہ معنویت کلام کا نمونہ ہے۔ اس کا فرض کردہ خدا، اسلام کے اس شفیق و رحیم خدا سے مختلف ہے جو بندوں کی فریاد سنتا ہے (النحل: 30) ۔ وہ ہماری دعاؤں اور التجاؤں پر کان نہیں دھرے گا ۔ کیونکہ اگر وہ ایسا کرے تو موصوف کے طنزیہ لہجے کے مطابق: ہندوستانی کھلاڑی پاکستانیوں کے خلاف کھیلتے ہوئے تو سراسر گھاٹے میں رہیں گے۔
اپنے سیکولر نظریہ حیات کے لیے جواز پیدا کرتے ہوئے موصوف نے خون آشام مذہبی جنگوں کا قصہ بھی چھیڑا ہے، کیونکہ وہ اپنے قاری کو یہ تاثر دینا چاہتا ہے کہ مذہب فتنہ و فساد کا دوسرا نام ہے اور دنیا میں بیشتر جنگیں مذہب کے حوالے سے لڑی گئیں۔
بات دل سوز اور درد انگیز ہے، لیکن مذہبی جنگوں سے قطع نظر وہ یہ حقیقت بالکل بھول جاتے ہیں کہ انسانوں کی عظیم اکثریت غیر مذہبی جنگوں کی بھینٹ چڑھی ہے۔ جنگ عظیم اول و دوم میں ایک کروڑ سے زائد لوگ مارے گئے اور وہ بھی کچھ زمینی خطوں اور صارف منڈیوں پر غاصبانہ قبضہ کے لیے ۔ نسلی منافرت کے نتیجہ میں 1940ء کے عشرے کے نصف اول میں نازی جرمنی میں مبینہ طور پر قریباً 60 لاکھ یہودی موت کے گھاٹ اترے۔ طبقاتی کشمکش اور اس کے نتیجہ میں وجود میں آنے والے عقل پسند سائنسی سوشلزم نے سابق سوویت یونین میں ساڑھے دس لاکھ انسانوں کا خون پیا۔ اور کیا وہ کوئی مذہبی جنون کا مارا پاگل تھا جس نے ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرائے؟ صرف دو دنوں میں امریکیوں نے ہیروشیما میں 2 لاکھ اور ناگاساکی میں 78 ہزار انسانوں کا صفایا کر دیا ۔ اور کیا وہ عفریت بھی کسی مذہبی آگ میں جلا بھنا تھا، جس کے جنگی طیاروں نے (خلیج کی پہلی جنگ میں) عراق پر ایک لاکھ دس ہزار اڑانیں کیں اور 88 ہزار ٹن بم گرائے؟
لگتا ہے ہمارے کرکٹ کے کھلاڑیوں کی کسی مذہبی حرکت نے موصوف کو تحریک دی کہ وہ یہ مضمون سپر د قلم کریں ۔ آخر کسی لادین دماغ کے حضور اس سے زیادہ ہتک آمیز گستاخی اور کیا ہو گی کہ نئے زمانے کے نئے رول ماڈل، جو آج کے لادین معاشرے کے لیے قابل اتباع مجسم کی صورت اختیار کر چکے ہیں، جیت کی خوشی میں سجدہ ریز ہوں اور یوں کھیل کو مذہبی رنگ دیں؟ البتہ جیت کی خوشی میں کھلاڑی ایک دوسرے پر شیمپین شراب پھینکیں تو یہ ایک ”فطری“ اور ”خوش گوار“ حرکت ہوگی۔
جی ہاں! سیکولر پریس کی مذہبی رویوں کے خلاف یاوہ گوئی ، باوجود اپنی تکرار کے، ضائع ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ اتنا زور لگانے، اتنے بندے مارنے اور اتنا پروپیگنڈا کرنے کے باوجود مسجدے کھیلوں میں بھی در آئے! یہ بڑی ”خوفناک علامت“ ہے، ایک سالخوردہ تصور جو لادینوں کا سکون لوٹ رہا ہے۔
موصوف اور ان جیسے احباب کا شافی علاج کرنے کے لیے ایک اچھی تجویز یہ ہو سکتی ہے کہ انہیں 28 مئی 1998ء کو چاغی پر ہونے والے ایٹمی دھماکوں کی ویڈیو تصاویر دکھائی جائیں، جس میں ہمارے جدید تعلیم یافتہ ایٹمی سائنسدان اللہ اکبر کے فلک شگاف نعرے لگا رہے ہیں۔ مذہب کا بیڑا غرق ہو: اُنہوں نے تو ساری سائنسی تعلیم غارت کر دی۔
لیکن ایسا تو ہوگا۔ اور جی ہاں، اگر یارا نہ ہو تو پھر اپنا منہ نوچیے!
باب 25
مذہب زندگی سے لا تعلق نہیں رہ سکتا
عالیجاہ عزت بیگووچ کے افکار
عالیجاہ عزت بیگووچ کون ہیں ؟ یورپ کی وحشت اور درندگی کی ایک زخم خوردہ قوم کے قائد۔ امن کے صابر اور انتھک داعی ۔ اپنی قوم کے دفاع میں بے تھکان لڑنے والے مجاہد۔
عالیجاہ کی زندگی پھولوں کی سیج پر نہیں گزری، اُنہوں نے قوم کے شانہ بہ شانہ آزادی کی قیمت چکائی ۔ دو بار جیل گئے کیوں کہ اُنہوں نے سابقہ یوگوسلاویہ کی ناخدا جبریت کی فرعونیت کو للکارا تھا۔ 1949ء میں وہ پانچ برس کے لیے قید ہوئے۔ 1983ء میں اُنہیں چودہ سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی۔
قید سے آزاد ہوئے تو بوسنیا کی کھال بھنبھوڑنے پر تلے ہوئے سرب اور کروٹ جارحین کی مزاحمت کرنے میں لگ گئے اور ساتھ ہی انتہائی نامساعد حالات میں بھی وہ پتھر دل مغرب تک پہنچنے کا راستہ بناتے رہے کہ کسی طرح اُسے امن پر آمادہ کر لیں۔ اس متلاطم دور کے تقاضوں کے عین مطابق انہوں نے اپنی مسلم قوم کے دکھوں کو دل سے لگایا۔ وہ اس لامتناہی کشمکش میں نہ صرف اپنے نفس کی تہذیب کرتے ہیں بلکہ شائستگی کی روشنی بھی بانٹتے دکھائی دیتے ہیں۔
عزت بیگووچ جامع خوبیوں کا جیتا جاگتا مرقع ہیں۔ ان کی کتاب اسلام: مغرب و مشرق کے درمیان (اشاعت 1984ء) اُن تمام موضوعات سے معمور ہے، جو ہم عصر دنیا میں اساسی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان میں فکر کی گہرائی بھی ہے اور بیان کا سحر انگیز حسن بھی۔ یوں لگتا ہے جیسے کوئی نگینہ ساز ہیرے ٹانک رہا ہو۔ نتیجتاً اُس میں شاعری کا تاثر اور نثر کی چاشنی بھی ہے۔ واقعی دقیق موضوعات یوں بھی لکھے جاسکتے ہیں، یہ تاثر بذات خود دل آویز ہے۔ ہر سطر میں فکر اور جذبات میں کامل تعمق اور اشتراک کی ہم بستگی اور فراوانی ہے۔ اس لیے اگر میں یہ کہوں کہ اسلام پر لکھی گئی کتب میں اس تبحر علمی کا خال خال ہی پتہ چلتا ہے تو شاید غلط نہ ہو۔ اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگائیے کہ وہ اسلام کا تعلق مذہب سے نہیں انسان سے جوڑتے ہیں۔ ان کے خیال میں یہ تفریق بہت ضروری ہے۔ ان کی منطق اور دلیل جمال و کمال میں حیرت انگیز ہے۔
اُن کی فکر میں اس جہان فانی کے تین ہی مربوط نقطہ ہائے نظر ہیں: مذہبی، لادینی اور اسلامی۔ جن سے تین بنیادی امکانات کا اظہار ہوتا ہے ضمیر یا وجدان، فطرت اور انسان ۔ یہ تینوں بالترتیب: عیسائیت، مادیت اور اسلام میں متشکل ہوتے ہیں۔ زمانہ قدیم سے آج تک نظریات کی جتنی اقسام سامنے آئیں، اور جتنے فلسفے اور تعلیمات پیش ہوئیں، ان سب کو سمیٹ کر انہیں تین نقطہ ہائے نظر میں بیان کیا جا سکتا ہے۔ پہلا نقطۂ نظر روح کے وجود سے ابتدا کرتا ہے۔ دوسرے کی بحث صرف مادے سے ہے۔ جب کہ تیسرا نقطۂ نظر (یعنی اسلام) روح اور مادے کا اجتماع ہے۔ اگر صرف مادہ موجود ہے تو بالآخر مادیت ہی کا فلسفہ ثابت ہوگا۔ دوسری طرف، اگر صرف روح کا وجود مانا جائے تو پھر انسان کا وجود ماننا پڑے گا کہ وہ ہے۔ (ایسی صورت میں) اگر اس میں مذہب اور اخلاقیات موجود نہ ہوں تو انسانی زندگی بے معنی ہوگی ۔ اسلام روح اور مادے کے اسی اتحاد کا نام ہے اور اس کی اعلیٰ و اشرف صورت خود انسان کا وجود ہے۔ اسلام کا متوازی اور مماثل واضح ہے۔ خود انسان ہی اس کی میزان اور اس کی وضاحت ہے۔
عالیجاہ کے خیال میں اسلام دراصل انسان کی تکرار یا اس کا دوسرا روپ ہے۔ انسان ہی کی طرح، اسلام میں بھی ایک الٰہی شرر ہے۔ لیکن ساتھ ہی ظل و حُرور کی تعلیمات اور حیات کا نثری بیان ہے۔ اس کے کچھ پہلو ہیں جو شاید شاعروں اور خیالی دنیا کے رومانیوں کو پسند نہ آئیں۔ قرآن ٹھوس حقائق کا بیانیہ ہے، جس میں کسی فوق الفطرت سورما یا رجل عظیم کی کہانی بیان نہیں ہوئی۔ انسان کے بغیر اسلام کا اطلاق ناقابل فہم ہے۔ اپنے اصل مفہوم میں بغیر انسان اس کا کوئی مطلب ہی نہیں بنتا۔
مذہب اور اسلام (الدین - نظام حیات) کا فرق واضح کرتے ہوئے عالیجاہ عزت بیگووچ عیسائیت کو خالص مذہب قرار دیتے ہیں، کیونکہ یہ ایک ذاتی، سری اور باطنی عقیدہ ہے، جس کا معاشرے سے کوئی تعلق نہیں۔ عالیجاہ کی دلیل یہ ہے کہ: (عیسائیت) اس دنیا کو بدلنے اور اسے تکمیل کی طرف لے جانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔ مذہب تو صرف اتنا بتاتا ہے کہ خود اپنے آپ میں اور اپنا سامنا کرتے ہوئے زندگی کیسی گزاری جائے۔ مذہب کو اس سے سروکار نہیں کہ دنیا میں یا دوسرے انسانوں کے ساتھ مل کر کیسے رہا جائے۔ مذہب کسی پہاڑی کی چوٹی پر موجود معبد ہے۔ ایک پناہ گاہ جس کی طرف انسان چڑھ کر جائے، تا کہ اس ناقابل اصلاح دنیا کے خالی پن سے نجات ملے کہ جس پر ابلیس کی حکمرانی ہے۔ اس مناسبت سے یہ ہے سیدھا کھرا مذہب۔
یہ خالص مذہب عزت بیگووچ کی نظر میں اس جہاں سے لاتعلق ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ:
عالیجاہ کے خیال میں اسلام دراصل انسان کی تکرار یا اس کا دوسرا روپ ہے ۔ انسان ہی کی طرح اسلام میں بھی ایک الہی شرر ہے۔ لیکن ساتھ ہی ظل و حُرور کی تعلیمات اور حیات کا نثری بیان ہے۔
(مذہب) دنیا کو تبھی متاثر کرے گا کہ پہلے خود دنیوی، سیکولر اور اس دنیا کا ہو جائے ۔ اور دنیا کے وسیع تر مفہوم میں یہاں کی سیاست و مدن میں ملوث ہو جائے ۔ اسلام، عیسائیت کا وہ روپ ہے جس کی رب العزت نے تشریق نو کر کے اسے دنیا کے لیے ڈھالا۔
اس تعریف سے دونوں مذاہب کی یکسانیت بھی ظاہر ہو رہی ہے اور ان کا اختلاف بھی سامنے آجاتا ہے۔ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو غار سے اُتر کر لوگوں میں آنا پڑا۔ اگر وہ واپس تشریف نہ لاتے تو وہ محض حنیف (یکسو، یکہ و تنہا) ہو کر رہ جاتے لیکن چونکہ وہ واپس تشریف لائے، وہ اسلام کے داعی بن گئے ۔ یہی وہ مقام اتصال ہے جہاں باطنی و حقیقی جہاں، تصوف و عرفان اور تعقل و مراقبہ اور مذاکرہ و عمل آپس میں مل گئے ۔ مذہب نے واقعاتی دنیا کو قبول کیا اور اسلام کہلایا۔
کیا اسلام پر ثنویت کی چھاپ ہے؟ عزت بیگووچ سمجھتے ہیں کہ ہاں ایسا ہے۔ اسلام کے دو بنیادی ماخذ ہیں: قرآن اور حدیث ۔ ہر دو کا تعلق وحی و تنزیل سے بھی ہے اور تجربے سے بھی، ابدیت سے بھی ہے اور زمان فانی سے بھی۔ سوچ اور فکر سے بھی ہے اور عمل سے بھی، خیال سے بھی ہے اور حیات سے بھی۔ اسلام تصوراتی کم اور زندگی گزارنے کا طریقہ زیادہ ہے۔
قرآن پاک کی سبھی تشریحات اور تفسیریں یہ بتاتی ہیں کہ اگر حدیث متبرکہ نہ ہو، یعنی ایک عملی زندگی کی شہادت ساتھ نہ ہو تو اس کتاب کو سمجھنا ممکن نہ ہوگا۔ یہ عملی زندگی یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریح ہی تھی کہ اسلام نے اپنے آپ کو ایک قابل عمل فلسفہ اور حیات انسانی کا عمومی نظام نامہ ثابت کیا۔
اگر اسلام زندگی گزارنے کا طریقہ ہے تو کیا اجماع اس بات کو ممکن بناتا ہے کہ اسلام ہر زمانے میں طرز زندگی رہے؟ عالیجاہ کے نزدیک اجماع اُسی صورت میں اسلام کی ابدیت کو ممکن بناتا ہے، جب اُسے اسلام کا تیسرا ماخذ مانا جائے ۔ بقول اُن کے اس کے لیے ضروری ہے کہ سکالر حضرات (علم) کسی شرعی (قانونی) مسئلے پر اتفاق رائے کا اظہار کریں ۔ یہ اتفاق کلی بھی ہو سکتا ہے اور اکثریتی بھی۔ اجماع کی یہی اہمیت ہے کہ عالیجاہ اسے مسلمان معاشروں کے لیے حیات نو سمجھتے ہیں: اسلام وہ کچھ نہ ہوتا جو اب ہے، اگر اس نے خواصانہ اصول کو اعداد اور گنتی کے ساتھ شامل نہ کیا ہوتا۔ اجماع میں بہ یک وقت یہ خواصانہ طمطراق کا معیاری پہلو بھی ہے اور اعدادی یعنی جمہوری پہلو بھی ۔
معنویت کی اس ترتیب میں شہر مکہ اور غار حرا شامل کیے جاسکتے ہیں، کیونکہ یہ دونوں اسلام کی اُٹھان میں ایک طرح تخالف کی نمائندگی کرتے ہیں یعنی وہ جو حقیقی اور خیالی یا باطنی دنیا کے درمیان ہے، اور جو عمل اور مراقبہ کو آپس میں ممتاز کرتا ہے۔ اسلام کے دو مراحل کے ارتقا میں یہ معنویت مکہ اور مدینہ کی شکل میں موجود ہے۔ یہ دو شہر حیات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے دو ادوار ہیں، جن کی مختلف روح اور معنویت اسلام کی پوری تاریخ میں رقم ہے۔ اس مقام پر ہمیں پھر اسی تضاد (اور اتحاد) کا سامنا ہے۔ لیکن اب اس کی شکل عقیدہ ایمان بہ مقابل سیاست کاری ہے۔ ایک طرف مومنین کی جماعت ہے تو دوسری طرف مفادات کا ٹولہ۔
اسلام میں شہید کا مقام بڑا اولیٰ ہے۔ عالیجاہ اُسے اسلام کی سب سے بڑی المیاتی تصویر قرار دیتے ہیں۔ وہ جو راہ خدا کا مجاہد ہے، ایک ہی ذات میں ولی کامل اور جنگ جو۔ عیسائیت میں جس حقیقت کی تقسیم راہبانہ خانقاہی اور شجاعانہ اصول کی شکل میں ہوئی تھی، اسلام میں وہی حقیقت شہید کے رنگ میں پھر متحد ہو کر سامنے آگئی۔ یہ ذہن اور خون کا الحاق اور اتحاد ہے، اور دو اصولوں کی یکجائی ہے، جن کا تعلق دو مختلف چیزوں سے تھا۔
کیا یہ ممکن ہے کہ دنیا کے متعلق مذہبی اور مادی نقطہ ہائے نظر کے معقول دلائل پیش کیے جاسکیں ؟ عالیجاہ کہتے ہیں: ہاں ایسا ممکن ہے: یہ دونوں ہی اپنے وجود میں منطقی نظام ہیں۔ کوئی اور ایسی منطق موجود ہی نہیں جو ان سے اعلیٰ و برتر اور ان کا محاکمہ کرے گا۔ ہاں اصولا اور عملاً بھی، صرف حیات انسانی ان سے ارفع ہے۔ زندہ رہنا بلکہ ایک مکمل اور پاکیزہ زندگی گزارنا ... کسی بھی مذہب یا سوشلزم سے کچھ زائد چیز ہے۔ عیسائیت نجات کا تصور دیتی ہے لیکن یہ صرف باطنی نجات ہے۔ سوشلزم خارجی نجات کی داعی ہے۔ یہ دو متوازی جہاں ہمارے سامنے ہیں، جن میں منطقی طور پر ایک ناقابل حل ٹکراؤ کی کیفیت ہے۔ ہم محسوس کرتے ہیں کہ ہمیں مجبور دونوں کو قبول کرنا ہوگا۔ ساتھ ہی ہمیں کوشش کرنی پڑتی ہے کہ ہم ان دونوں کے درمیان کسی نہ کسی طرح ممکنہ توازن کو معلوم کر پائیں۔ یہ دو مخالف تعلیمات زندگی، صداقت اور خود انسان کی تقدیر کو آپس میں بانٹ لیتی ہیں ۔
وہ کہتے ہیں: سبھی عظیم فلسفے اپنے اصل میں دنیا کو ایک اکائی کی شکل میں دیکھتے (monistic) ہیں ۔ اگرچہ انسان اس دنیا کا تجربہ عضویت کی روپ میں کرتا ہے، یعنی اسے دو مختلف حالتوں سے واسطہ رہتا ہے لیکن ہر انسانی فکر کا جوہر اور اس کی روح کُلِّیت پرست ہے، جو فلسفہ کی ثنویت سے نہیں بنتی۔ لیکن اس سے فرق کچھ نہیں پڑتا کیونکہ حیات، جو محض سوچ اور فکر سے برتر چیز ہے، فیصلہ کے لیے اس فکر کے حضور سر نہیں جھکا سکتی۔ حقیقت واقعی یہ ہے کہ چونکہ ہم انسان ہیں، ہمیں دو صداقتوں سے واسطہ رہتا ہے۔ ہم ان دو جہانوں کا انکار کر سکتے ہیں لیکن ان سے خلاصی کی کوئی صورت نہیں۔ حیات کا مدار اس بات پر چنداں نہیں کہ ہم اسے کیا سمجھتے ہیں۔
کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم دو علیحدہ زندگیاں گزاریں؟ عالیجاہ کا کہنا ہے کہ سوال یہ نہیں کہ ہم دو زندگیاں گزاریں ۔ ہاں یہ کہ ہم زندگی گزاریں لیکن اس کے تقاضوں کو پوری طرح سمجھ کر۔ اسلام کا حقیقی مفہوم اسی میں مضمر ہے۔ زندگی کے دو روپ ہیں۔ دیکھ لیجیے ہوتا کیا رہا ہے۔ بجائے اس کے کہ ہمارے سامنے خالص مذہب یا خالص مادیت رکھی جاتی ہمیں اب ان کی تشریحات سنائی جارہی ہیں تاکہ روزمرہ کے کام نکلیں۔ عیسائیت نے چرچ کے طور پر ابتدا کی تھی لیکن پھر وہ کام کاج، دولت، طاقت، شادی وغیرہ کے جھمیلوں میں پھنس گئی۔ اسی طرح مادیت نے سوشلزم یا ایک نظام کا لبادہ اوڑھا لیکن اس نے بھی آخر انسانیت نوازی، مارکسی اخلاقیات، فرائض، آزادی وغیرہ کا درس دینا شروع کر دیا۔ مذہب اور مادیت کی شکلیں بگڑنے کی وجہ ایک مخصوص فطری قانون ہے۔
دونوں جگہ مشکل ایک ہی پیش آئی تھی کہ وہ جو زندگی کا محض ایک پہلو ہے، اسے پوری حقیقی زندگی میں کیسے نافذ کیا جائے، جبکہ زندگی کافی گنجلک، ہمہ جہت اور پیچیدہ شے ہے۔
تو کیا فرد کے دو روپ ہو سکتے ہیں کہ وہ عیسائی بھی ہو اور مادہ پرست بھی؟ عالیجاہ کا جواب یہ ہے کہ ہاں ایسا ممکن ہے۔ نظری حوالے سے ایک شخص کم و بیش بنیادی طور پر عیسائی بن سکتا ہے اور مادہ پرست بھی ۔ لیکن حقیقت میں کسی ایک صورت میں بھی استقلال اور استحکام نہیں۔ نہ محض عیسائی ہونے میں اور نہ صرف مادہ پرست ہونے کی صورت میں ۔
عالیجاہ انسان کی ابتدا کا بھی کھوج لگاتے ہیں، کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ دنیا کے متعلق کسی بھی زاویہ نظر کے لیے ایسا کرنا لازمی ہے۔ وہ کہتے ہیں: بالیقین اس جہان کے متعلق کسی بھی نقطہ نظر کو اختیار کرنے کے لیے انسان کی ابتدا کو سمجھنا پہلا قدم ہے۔ ہم جب اس بحث میں پڑتے ہیں کہ انسان کیسے زندگی گزارے تو ہمیں پلٹ کر اس سوال کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ انسان آخر آیا کہاں ہے؟
عالیجاہ کا کہنا ہے کہ مادی فلسفہ انسان کو اس کے عناصر ترکیبی میں کاٹ بانٹ کر دکھاتا ہے، یہاں تک کہ اس تقسیم در تقسیم میں خود انسان بالا آخر غائب ہو جاتا ہے۔ کارل مارکس کے ساتھی فریدرک اینجلز نے ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ انسان سماجی تعلقات اور رشتوں کی پیداوار ہے، یا زیادہ واضح الفاظ میں وہ موجود ذرائع پیداوار کا نتیجہ ہے۔ انسان خود کچھ بھی نہیں، نہ یہ کچھ تخلیق ہی کرتا ہے۔ اس کے برعکس انسان بعض حاضر حقائق کے صدقے وجود پذیر ہوا ۔
یہ نامشخص انسان چارلس ڈارون کے ہاتھ لگتا ہے، جو اس کے ارتقا کو قدرتی چناؤ کا فطری نتیجہ قرار دیتا ہے کہ اس سلسلہ انتخاب میں سنور نکھر کر وہ بشر سامنے آیا جو نطق کا مالک ہے، کچھ آلات استعمال کرتا ہے، اور دو ٹانگوں پر کھڑا ہو کر چلتا ہے۔ پھر علم الحیات نے دکھایا کہ ساری بات ماقبل تہذیب کی زندگی کی طرف پلٹنی ہے، جبکہ خود زندگی ایک طبیعیاتی کیمیائی عمل کا نام اور چند سالمات کا کھیل ہے۔ حیات، ضمیر اور روح اپنا کوئی وجود نہیں رکھتے۔ نتیجہ کہہ سکتے ہیں کہ اصلاً انسانی جوہر موجود ہی نہیں۔
تو کیا سائنس اس گنجلک مسئلے میں ہماری مدد کر سکتی ہے؟ عالیجاہ کا کہنا ہے ایسا ممکن نہیں۔ اُن کے نزدیک سائنس کا اشکال یہ ہے کہ حیات اور خود انسان کے بارے میں یہ ایک فطری غلط فہمی کا شکار ہے۔ اپنے لگے بندھے منطقی تجزیے میں یہ زندگی کو بے جان بنا کر دکھاتی ہے اور انسان کو انسانیت سے عاری۔ سائنس اس انسان کو ممکن مانتی ہے اگر وہ اس دنیا کا حصہ ہو بلکہ خود اس دنیا ہی کی پیداوار ہو۔ گویا وہ ایک لمبے لمبے ڈگ بھرتا اچھلتا پھرتا یا معلق وجود ہے۔ یہ بات صرف انسان کے خاکی فانی وجود کی حد تک صحیح ہے یا اس حیوان کی حد تک جو انسان کے اندر پایا جاتا ہے۔
اگر ایسا ہے تو پھر انسان کی ابتدا کہاں سے شروع ہوئی ۔ بقول عالیجاہ انسان اندھی بہری فطرت کے بچے کا سا مظاہرہ نہیں کر سکتا، بلکہ وہ فطرت کے لیے اجنبی ہے۔ اس کا بنیادی احساس خوف سے عبارت ہے۔ لیکن وہ حیاتیاتی خوف نہیں جو جانوروں کو لاحق رہتا ہے۔ یہ روحانی، کائناتی اور قدیم و عتیق خوف ہے جو وجود انسانی کے اسرار و رموز اور ناقابل حل چیستاں میں گندھا اور جڑا ہوا ہے۔ ہیڈیگر (Heidegger) نے اسے ”انسانی بقا کا لازوال اور لازماں تعیین کنندہ“ کہا تھا۔ یہ وہ خوف ہے جو تشویش، حیرت تحسین، بد دلی اور عدم وابستگی سے مربوط ہے۔ یہ سب وہ احساسات ہیں جو شاید ہماری پوری ثقافت اور سبھی فنون کی بنیادوں میں شامل ہیں۔
(مذہب) دنیا کو تبھی متاثر کرے گا کہ پہلے خود دنیوی، سیکولر اور اس دنیا کا ہو جائے ۔ اور دنیا کے وسیع تر مفہوم میں یہاں کی سیاست و مدن میں ملوث ہو جائے ۔ اسلام، عیسائیت کا وہ روپ ہے جس کی رب العزت نے تشریق نو کر کے اسے دنیا کے لیے ڈھالا۔
دنیا میں قدیم اور غیر مہذب انسان کی یہی پوزیشن اس بات کی وضاحت کر سکتی ہے کہ ”ناپاکی“ اور ”جلال و جمال“، ”تکفیر“ اور ”بزرگی“ اور ایسی ہی دوسری حدود اور تصورات نے کیسے جنم لیا۔ اگر ہم اس دنیا کے پیدا کردہ بچے ہوتے تو پھر ہمیں نہ کوئی شے ناپاک لگتی، نہ مقدس نظر آتی ۔ جس دنیا سے ہم واقف ہیں، اس میں ان تصورات اور معیارات کا کوئی گزر نہیں۔ ان سے تو پتہ چلتا ہے کہ ہماری ابتدا کہیں اور ہوئی تھی ۔ البتہ اب ہمیں تخلیق اول کا وہ مرحلہ وار واقعہ یاد نہیں رہا۔
ہم جو اس دنیا میں ادھورا رد عمل ظاہر کرتے ہیں، جس کا اظہار ہمارے مذہب اور ہمارے فنون میں ہوتا ہے، یہ سب انسان کے متعلق سائنسی تصور کی نفی ہے۔ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے کہ انسان ہمیشہ اپنے خوف اور اپنی مایوسی کا اظہار مذہب کی راہ سے کرتا ہے؟ اس انسان کو ”نجات“ کی تلاش کیوں ہے؟ اور وہ کس سے نجات حاصل کرنے کی بات کرتا ہے؟ انسان کے جن مذکورہ پہلوؤں کے متعلق ہم بحث کر رہے ہیں، یعنی خیر و شر، نقص و حقارت کا احساس، مفاد اور ضمیر کے درمیان ورطہ اور تذبذب، ہمارے وجود اور بقا کا سوال، وغیرہ، ان کی کوئی معقول اور تسلی بخش وضاحت نہیں ہو پاتی۔ ظاہر بات ہے کہ اپنی گردو پیش کی دنیا سے واسطہ رکھتے ہوئے انسان نے ڈاروینی راہ نہیں اپنائی تھی۔
کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ عالیجاہ عزت بیگووچ کو مسئلہ ارتقا میں جھول اور خامی نظر آتی ہے؟ جی۔ ان کا جواب ایک بہت ہی سنجیدہ ”ہاں“ کی شکل میں ملتا ہے۔ اُن کے نزدیک یہ (نظریہ ارتقا) نہ تو تسلی بخش طور پر انسانیت کے اولیٰ مذہبی مرحلے کی وضاحت کرتا ہے، اور نہ دور جدید میں اسی وقوعے اور مظہر کی کوئی قابل قبول وجہ بتاتا ہے۔ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے کہ انسان جب مادی طور پر آسودہ اور خوشحال ہوتا ہے تو نفسیاتی طور پر اتنا ہی بے چین اور غیر مطمئن ہوتا ہے؟ قصہ کیا ہے کہ جہاں معیار زندگی بلند ہوتا اور تعلیم عام ہوتی ہے، وہیں ذہنی عارضے بھی زیادہ لاحق ہوتے اور خود کشیوں کی تعداد بھی بڑھتی ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہے؟
پھر یہ مخمصہ کہ ”مادی ترقی کے ساتھ انسانیت نوازی میں بھی ترقی کیوں نہیں؟“ اس کے جواب میں عالیجاہ کہتے ہیں کہ انسانی دماغ نے جب ایک بار ڈارون (Darwin) اور نیوٹن (Newton) کے تصورات کو بلا شرط و استثنا قبول کر لیا تو پھر اس کے لیے مشکل ہو گیا کہ انہیں جھٹک سکے۔ نیوٹن کی دنیا مستحکم ہے، منطقی ہے اور مسلسل رواں دواں ہے۔ ایسے ہی جیسے ڈارون کا انسان سیدھا سادا اور یک جہت ہے۔ بس جہد للبقا میں جتا ہوا جو اپنی احتیاج ایک ایسی دنیا کے لیے جو مصروف عمل ہے، پوری کرتا رہتا ہے۔
لیکن آئن سٹائن نے نیوٹن کا سراب اور قنوطی فلسفہ تباہ کر کے رکھ دیا۔ تہذیب کی ناکامی نے یہی حشر ڈارون کے مصور انسان کا کیا جو ناقابل وضاحت وجود ہے، بے قرار ہے، خوف اور شکوک کا مارا ہوا ہے۔ وہی جسے آئن سٹائن ”ترا مڑا“ ہوا کہتا ہے۔ انسان سے بحث کرتا ہوا فلسفہ جو ایک عرصے تک ڈارون کی کھینچی ہوئی سیدھی لکیر کے زیر اثر رہا، اب انتظار میں ہے کہ اسے بھی آئن سٹائنی دھکا لگے اور اس کا بستر لپیٹے۔ انسان کے متعلق نیا تصور اب وہ نہیں رہے گا، جو ڈارون نے بتایا تھا، بلکہ اسی طور اور ڈھنگ کا ہوگا جیسا کائنات کے ضمن میں آئن سٹائن اور نیوٹن کے فرق کا ہے۔ اگر یہ سچ ہے کہ ہم انسان مصیبت پڑنے پر ابھرتے ہیں اور خوشیوں کے لمحات میں پستی میں ڈوب جاتے ہیں تو اس کی وجہ صرف اتنی ہے کہ ہم باقی جانداروں سے ممتاز ہیں ۔
انسان ویسے نہیں ڈھالا گیا جیسے ڈارون کا کہنا تھا۔ نہ اس کائنات کی تشکیل و تنظیم اس انداز سے ہوئی ہے جیسی نیوٹن کو سوچی تھی۔
اگر بات وہی ہے جو اوپر کہی گئی تو مادے کی خود تنظیمی اور دنیائے حیات کی خود تخلیقی کے متعلق کیا کہا جائے گا؟ یہ سوال کافی سنجیدہ ہے، لیکن عالیجاہ کامل سکون اور طمانیت سے اس کا جواب دیتے ہیں۔ یہیں سے اندازہ ہوتا ہے کہ موضوع پر ان کی گرفت کتنی مضبوط ہے اور وہ اپنے جواب کی معقولیت ثابت کرنے میں کس درجہ فضل و کمال کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
عالیجاہ کے بقول، یہ دنیا ایک عجیب و غریب اور انوکھی تخلیق ہے۔ ذرا ایک شفاف زلال (albumen) کے سالمہ کی خود تنظیمی یعنی حادثاتی تخلیق کا معاملہ ہی دیکھیں۔ یہ سالمہ (molecule) ہر معلوم زندہ وجود کا بنیادی مادہ ہے۔
عالیجاہ یقین رکھتے ہیں کہ خدائے خالق و مالک اور آزادی و استقلال لازم و ملزوم ہیں۔ اگر کسی کا خیال ہے کہ انسان مجبور محض ہے اور اس کے سبھی افعال غیر ارادی اور طے شدہ تقدیر کا حصہ ہیں، خواہ بات اس کے باطن کی ہو یا خارج کی، تو پھر اسے یہ بھی مان لینا چاہیے کہ ایسی صورت میں اس دنیا کو سمجھنے اور اس کی وضاحت کرنے کے لیے کسی پیدا کرنے والے خالق خدا کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ لیکن اگر انسان کی آزادی تسلیم ہے۔ اگر انسان کو ایک معقول وجود مانا جاتا ہے تو گویا آپ یہ بھی مان رہے ہیں کہ خدا موجود ہے، خواہ آپ کا یہ اقرار بہ زبان حال ہو یا کھل کر بہ شکل قال ۔ یہ صرف خدا کے لیے ہی ممکن تھا کہ ایک آزاد اور بڑی حد تک خود مختار مخلوق پیدا فرماتا۔ یاد رہے کہ آزادی وہیں ملے گی جہاں تخلیق کا باقاعدہ عمل ہوگا۔
کیا خالق یعنی خدا کے بغیر کوئی تشکیل شدہ شئے مخلوق ہو سکتی ہے؟ عالیجاہ کا کہنا ہے کہ ممکن ہے جلد یا بدیر، اسی صدی میں یا رواں تہذیب کے ہوتے ہوئے یا لاکھوں برس بعد، انسان اپنی سی ایک شکل اور نمونہ بنانے میں کامیاب ہو جائے۔ کوئی روبوٹ قسم کی چیز یا کوئی عفریت۔ اپنے تخلیق کار سے کچھ ملتی جلتی شکل، یہ ہو بہو انسان جیسی بھی نظر آسکتی ہے۔ لیکن ایک بات یقینی ہے یہ مخلوق آزاد اور خود مختار نہیں ہوگی۔ یہ وہی کچھ کر پائے گی جو پروگرام بنانے والے نے اس کو ودیعت کیا ہوگا۔ یہیں سے اللہ کے کمال تخلیق کا اندازہ ہوتا ہے کہ جس کی نہ تو نقل اتاری جاسکتی ہے اور نہ کائنات کے ماضی، حال اور مستقبل ہی میں اس کی نظیر موجود یا ممکن ہے۔
باب 26
سیکولرزم اور وحدت کا مسئلہ
مکالمہ
محترم سجاول خان رانجھا سے یہ مکالمہ مئی 2009ء میں ہوا تھا ۔ ان کے سوالات میں وہ تمام اضطراب اور ناآسودہ آرزوئیں ہیں جو ہمارے آج کے ذہنی اور جذباتی ماحول کا حصہ ہیں۔ گذشتہ چند سالوں میں ہماری قدروں اور مسلم تاریخی کردار سے جو انحراف ہوا ہے اس سے ہمارے جڑے جمائے معاشرہ میں عدم استحکام، اخلاقی بحران اور ہیجان کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے سایۂ خدائے ذوالجلال آہستہ آہستہ ہم سے اُٹھ رہا ہے، اور ہم غیر یقینی کی دلدل میں اترتے چلے جارہے ہیں۔ اس صورت حال کو آپ منجانب اللہ تنبیہ سمجھ لیں یا شامت اعمال، یہ دورانیہ مختصر بھی ہو سکتا ہے اور طویل بھی۔ اس کا انحصار ہمارے انفرادی اور اجتماعی رویوں پر ہے۔
سجاول خان رانجھا: آزادی کے چھ عشرے گزارنے کے بعد ہم آج جس مقام پر کھڑے ہیں، اس کے لیے دو دلائل دیے جاتے ہیں: پہلا یہ کہ قیادت کا فقدان رہا ہے۔ اگر ہمیں مسیحا مل جائے، تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی ۔ دوسرا یہ کہ قوم میں شعور کا فقدان ہے، گویا کہ جیسی روح ویسے فرشتے۔ اگر ہم چاہیں کہ ہمارے حالات آج سے مختلف ہوں، تو کیا ہمیں کسی مسیحا کا انتظار کرنا چاہیے یا خود مسیحا بننا چاہیے؟
طارق جان: مسیحا کا تصور ایک طاقتور تصور ہے جو ہمیشہ سے مختلف اقوام اور مذاہب میں موجود رہا ہے۔ یہ دو صورتوں میں انسانی معاشروں پر اپنی گرفت مضبوط کرتا ہے۔ اول، وہ تعلیمات جن سے انہیں تحریک اور توانائی ملتی تھیں، کسی وجہ سے نابود ہو جائیں۔ دوم، جب وہ خود اپنے معاملات سنوارنے سے قاصر ہو جائیں۔
ہمارے ہاں پہلی صورت تو نہیں کیوں کہ رسول اکرم کی رسالت کے بعد ہدایت اپنی اصل شکل میں موجود ہے لیکن دوسری صورت ضرور نمودار ہو چکی ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ انسان کامل کی تلاش اور جستجو اگرچہ اپنی جگہ ایک اچھی فکر ہے، لیکن انسان کامل کون ہے، کون نہیں ہے، اس کا فیصلہ تاریخ کے میزان میں ہوتا ہے۔ پہلے زمانے میں بھی مخالف قوتیں اچھے انسانوں کو متنازع بنا دیتی تھیں، جیسے کہ خود پیغمبروں تک کو متنازع بنایا گیا۔ اُس زمانے میں منتظم ذرائع ابلاغ نہیں تھے۔ زیادہ سے زیادہ شاعر یا قصہ گو تھے، جو عوامی رائے عامہ کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا کرتے تھے ۔ آج کل کے زمانے میں کوئی بڑا انسان آ بھی جائے، تو اگر میڈیا پر حاوی لوگ اُسے اپنے نظریات کے لیے خطرہ سمجھتے ہوں تو وہ بڑی آسانی سے اس کو متنازع بنا کر پیش کر دیں گے، اور اس طرح اُس کے بارے میں کئی قسم کے شکوک و شبہات پیدا کر سکتے ہیں۔ چنانچہ کون انسان کامل ہے، اس کا فیصلہ تو تاریخ کے ایوانوں میں ہوتا ہے، ہم عصر زمانہ یہ فیصلہ نہیں دے سکتا۔
انسان کامل کی جستجو میں ہلکان ہونے کا منفی پہلو یہ ہے کہ اگر معاشرے انسان کامل کی تلاش میں...
انسانِ کامل کی جستجو میں ہلکان ہونے کا منفی پہلو یہ ہے کہ اگر معاشرے انسانِ کامل کی تلاش میں لگ جائیں، جو بذاتِ خود ایک مشکل کام ہے، تو بالآخر وہ انسانی قیادت سے ہی محروم ہو جاتے ہیں۔ جو شخص بھی سامنے آئے گا وہ اُن مثالی پیمانوں پر پورا نہیں اتر پائے گا جو انسانِ کامل کے لیے ضروری ہیں۔ پھر انسان بہر طور مکمل نہیں ہوتا۔ اس لیے دیکھنا تو یہی چاہیے کہ کسی فرد میں کتنا خیر ہے۔ اگر خیر زیادہ ہے تو اُس کی قیادت قبول کر لینی چاہیے اور اس سے زیادہ بہتر قیادت کے لیے جستجو جاری رکھنی چاہیے۔ وگرنہ جیسا میں نے عرض کیا معاشرہ فرشتے ڈھونڈتے ڈھونڈتے قیادت کو شیطان کے ہاتھوں میں گروی رکھنے کا ارتکاب کر بیٹھے گا، کیونکہ خلا تو رہ نہیں سکتا۔
س: یوں دکھائی دیتا ہے کہ ہماری قوم نے اپنے حصے کا کردار ادا کرنا کسی کے انتظار میں ترک کر دیا اور اپنی خرابیوں کا بوجھ قیادت کی کمزوریوں پر ڈال دیا کہ فلاں آیا، تو معاملہ بگڑ گیا۔ مارشل لاؤں کی وجہ سے گڑبڑ ہو گئی یا سیاسی قیادتوں نے گند پھیلایا۔ خرابی کہاں ہے؟
طارق جان: دیکھیں، جس طرح آپ اپنی اولاد کی تربیت کرتے ہیں، اسی طرح اقوام کو بھی تربیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اولاد کی تربیت ایک ہمہ گیر عمل ہے، جس میں علم، توجہ، فکرمندی، محبت، شفقت، دوراندیشی، مستقبل بینی اور تربیت کا پہلو شامل ہوتا ہے۔ والدین کو اُسے اخلاقی قدریں بھی منتقل کرنا ہوتی ہیں، جو وراثت میں انہیں ملی ہوتی ہیں۔ بالکل اسی طرح قوموں کی تربیت بھی بہت ضروری ہے۔ مجھے خدشہ ہے، اس پہلو سے ہم نے کوئی شعوری کوشش نہیں کی اور اگر کی بھی ہے، تو اس کے ساتھ مخصوص قسم کی اختلافی آوازوں نے ہمیں اس طرف جانے نہیں دیا۔
آپ اپنے نظامِ تعلیم ہی کو لے لیں۔ یہاں تین چار قسم کے نظامِ تعلیم رائج ہیں۔ جسے بھی عمرانیات سے آگاہی ہے یا سوچ و فکر رکھتا ہے، وہ بتا سکتا ہے کہ ہر نظامِ تعلیم اپنی قسم کا انسان پیدا کرتا ہے۔
سیکولرزم اور وحدت کا مسئلہ
اگر ایک نظامِ تعلیم "الف" ہے، تو وہ الف قسم کا ذہن پیدا کرے گا۔ اگر کوئی نظامِ تعلیم "ب" ہے، تو وہ ویسے ہی نتائج لائے گا۔ جب آپ روزِ اول سے افراد کو بالکل مختلف، متحارب اور متصادم ذہنیت کے ساتھ تیار کر کے معاشرے میں اتاریں گے، تو وہاں انتشار ہوگا، وحدتِ فکر نہیں ہوگی۔ بلکہ کسی ایسے بیمار معاشرے میں کم سے کم نکتۂ وحدت بھی پیدا نہیں ہو سکے گا۔ یہ تربیت کا فقدان اور نظامِ تعلیم کی طرف توجہ نہ کرنے کا نتیجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں جہاں ایک طرف طالبان سوچ کے مظاہر ترقی کر رہے ہیں تو دوسری طرف انتہا پسند لبرل اور سیکولر فاشسٹ ہیں۔ بیچ میں ایسے ہیں، جن کو پتہ ہی نہیں جانا کدھر ہے۔ کچھ ایسے بھی ہیں، جو کہتے ہیں کہ کھچڑی پکا لی جائے۔ کچھ ادھر سے لے لیا جائے، کچھ اُدھر سے اور کام چلا لیا جائے۔ میرے نزدیک ہمارے بحران اور بے سمتی اور انتشارِ فکر و عمل کا سب سے بڑا سبب نظامِ تعلیم پر عدم اتفاق اور قوم کی تربیت کی طرف توجہ نہ دینا ہے۔ اگر آپ نظامِ تعلیم کے بارے میں یکسو ہو جائیں اور قوم کی تربیت کا ایک زاویہ اور خاکہ بنا لیں، تو اس سے قوم کی پیداواری اور تخلیقی صلاحیتیں خود بخود ابھرنا شروع ہو جائیں گی۔
آپ پھر کہیں گے کہ میں اپنی ذمہ داری سے پہلو تہی کرتے ہوئے اشارہ کسی اور طرف کر کے دامن بچا رہا ہوں۔ لیکن یہ بات سوچنا میرے ساتھ ناانصافی ہوگی، کیونکہ کسی بھی تجزیہ میں اُن تمام عوامل کو پیشِ نظر رکھنا ہوگا جن سے سیاسی و سماجی منظر تشکیل پاتا ہو۔ اس لیے میں برملا یہ کہوں گا کہ بدقسمتی سے دورِ غلامی نے ہماری سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں مسخ کر دی ہیں۔ مثال کے طور پر دیکھیے، جہاں ہم نے اجتماعی حیثیت سے اجماع کیا کہ ہماری منزل کیا ہوگی اور ہم نے اُس کی طرف کیسے جانا ہے، اور اسے قوم نے دستورِ پاکستان میں "قراردادِ مقاصد" کی شکل میں مجسم پیش بھی کر دیا ہے لیکن اس کا جو حشر ہماری مغرب زدہ قیادت اور بے دین سیکولر حضرات نے کیا وہ ہمارے قومی المیہ کا حصہ ہے۔
آپ دیکھیں پہلے قراردادِ مقاصد کو دستور کے دیباچے میں ڈالا گیا، تاکہ قابلِ نفاذ نہ ہو پھر ۱۹۷۷ء کی تحریکِ نظامِ مصطفیٰؐ کے دباؤ کے نتیجے میں اسے قابلِ نفاذ بنایا گیا اور پھر سیکولر عدالتِ عظمیٰ نے اُسے آئین کی دیگر شقوں کے برابر قرار دے کر اُس سے وہ اولیت اور ماخذِ اولیٰ کا مقام چھین لیا، جو قراردادِ مقاصد کی صورت میں بطور ایک میزان اور قدرِ اعلیٰ کے عطا کیا گیا تھا۔ اس لیے ہمیں یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ ہم کسی خلا میں بس رہے ہیں، کہ جہاں سے مسلمانانِ پاکستان سیدھے اپنی منزل کی طرف چلتے جائیں گے اور اُن کے راستے میں کوئی رکاوٹ مانع نہیں ہوگی۔
اگر اس سارے منظر کو آپ ذہن میں رکھیں تو آپ کو پتہ چل جائے گا کہ کون سے حربے اور اطوار ہیں جن سے وہ تخلیقی اور پیداواری پاکستانی معاشرہ وجود میں مکمل طور پر نہ آسکا جس کی مضطرب آرزو آپ کے سوال میں نوحہ کناں ہے۔
س: اس کا مطلب یہ ہے کہ مثبت اسلامی سوچ رکھنے والی قوتوں سے کہیں غفلت ہوئی یا سہو ہوا کہ وحدتِ فکر کی بجائے انتشارِ فکر کے حامل طبقات کا غلبہ نمایاں نظر آتا ہے؟
طارق جان: اس بات کو ہرگز ذہن سے محو نہ کریں کہ ہمارے ملک میں سوادِ اعظم کی فکر کبھی حکمران نہیں رہی۔ حکمران فکر ایک اقلیتی فکر ہے۔ اسے بین الاقوامی قوتوں کی حمایت حاصل ہے۔ ان کے پاس بے پناہ فنڈز ہیں اور اندھے وسائل بھی ہیں۔ اس کی بنیاد پر وہ اپنی فکر پھیلا رہے ہیں اور اسے ہر آن مضبوطی دینے کے لیے ہمہ پہلو اقدامات کر رہے ہیں۔ جب تک آپ ان قوتوں کے ساتھ کشمکش میں نہیں آتے، ان کے ہاتھوں سے ان کے وسائل اور ذرائع چھین نہیں لیتے، متبادل ذرائع اور وسائل پیدا نہیں کر پاتے یا موجودہ میڈیا میں اپنے لیے جگہ نہیں بنا پاتے، آپ کی بات کوئی بھی نہیں سنے گا۔
جتنا زیادہ آپ موجودہ صورتِ حال کو برقرار رکھنے کی کوشش کریں گے، اتنی ہی زیادہ تخریب ہو گی اور انتہائیں بھی آتش بگولا ہو کر آئیں گی۔
ایک مثال دیتا ہوں۔ اخبارات میں بہت سے مسائل کو چھیڑا جاتا ہے اور جان بوجھ کر چھیڑا جاتا ہے۔ ایڈیٹر کے نام خطوط کو اپنے خیال کی تبلیغ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ جعلی خط ہوتے ہیں جو لوگوں کو یہ تاثر دیتے ہیں کہ رائے عامہ اس مسئلے پر اس قسم کی سوچ رکھتی ہے۔ پھر اسی قسم کے مضامین اخباروں میں آتے ہیں۔ آپ کا بھی حق ہونا چاہیے کہ آپ اپنا موقف بیان کریں۔ اخبار والا پہلے تو چھاپے گا نہیں یا چھاپے گا، تو ایک ہی مضمون چھاپے گا۔ آپ سمجھیں گے، آپ نے بڑا اچھا جواب دے دیا۔ لوگ بھی آپ کی ستائش کر دیں گے۔ پندرہ دن بعد ایک اور چیز آ جاتی ہے، جو اسی موضوع کو کسی دوسرے عنوان سے لے کر آگے بڑھتی ہے۔ کچھ عرصے بعد چند اور چیزیں آتی ہیں۔ اس طرح سے وہ قاری کے ذہن میں یک رُخہ موقف انڈیلتے رہتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آپ نے جو جواب دیا تھا، وہ قاری کے ذہن سے نکل جاتا ہے اور جس بات کی تکرار کی جاتی ہے، وہ قاری کے ذہن پر حاوی ہو جاتی ہے۔
س: ایک مختلف الخیال اور جمہوری قدروں کے حامل معاشرے میں جس کی جو مرضی ہے کہے یا پیش کرے۔ پھر لوگوں پر چھوڑ دیا جائے کہ وہ اسے قبول کرتے ہیں یا نہیں کرتے۔ مساوی مواقع تو سب کو ملنے چاہیں۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم جن سے اختلاف کرتے ہوں، ان کے ہاتھ پاؤں باندھ کر اپنے لیے کھلا میدان رکھیں۔ اسے شاید ہی کوئی قبول کرے۔ آپ کے استدلال سے لگتا ہے کہ اسلامی سوچ رکھنے والوں کے پاس اقلیتی فکر کا توڑ نہیں اور وہ ایک شکست خوردہ رویے کا شکار ہیں۔ اس سے کہاں تک اتفاق کریں گے؟
مسیحا کا تصور ایک طاقتور تصور ہے جو ہمیشہ سے مختلف اقوام اور مذاہب میں موجود رہا ہے۔ یہ دو صورتوں میں انسانی معاشروں پر اپنی گرفت مضبوط کرتا ہے۔
طارق جان: غالباً آپ نے میرے جواب پر غور نہیں فرمایا۔ میں یہ کہہ رہا تھا کہ مساوی مواقع سے تو مجھے محروم کیا جا رہا ہے۔ میں نے آپ کو اس کی ایک مثال بھی دی ہے، کئی اور مثالیں بھی دے سکتا ہوں۔ مثلاً کسی زمانے میں انگریزی روزنامہ "دی نیوز" کی خاتون ایڈیٹر نے چار پانچ کالمی مضمون چھاپا، جس میں پاکستانیت کو نہ صرف مذہبی فرقہ واریت قرار دیا گیا تھا بلکہ اُسے قرونِ وسطیٰ (Middle Ages) کی سوچ کہا گیا تھا۔ میں نے اس خاتون سے ٹیلی فون پر بات کرنے کی کوشش کی مگر مجھے ٹالا گیا۔ پھر مجھے تجویز کیا گیا کہ میں قارئین کے خطوط والے کالم میں خط لکھ دوں۔ سچی بات ہے غصہ کے علاوہ مجھے یہ شدید جستجو تھی کہ میں اس قماش کے اخبارات کے طریقۂ واردات سے آگاہی حاصل کروں۔ چنانچہ میں نے ایڈیٹر کے نام خط لکھ دیا، جس میں ظاہر ہے کہ میں نے مضمون کے متن اور ادارتی پالیسی پر تنقید کی تھی۔ آپ کو حیرت ہوگی کہ پہلے تو اُس خط کو نظر انداز کیا گیا۔ لیکن جب میں نے سخت لہجہ اختیار کیا تو اُسے بعد از خرابی بسیار قطع برید کر کے شائع کر دیا گیا۔
کچھ عرصے بعد یہ خاتون امریکہ میں پاکستان کی سفیر بن کر چلی گئیں اور کسی سرکاری کام کے سلسلے میں واپس آئیں تو پنڈی پریس کلب میں ان کو بلایا گیا۔ اُنہوں نے پاکستان کی پر زور اور نہایت موثر الفاظ میں وکالت کی جو میرے لیے ایک خوشگوار حیرت تھی۔ میں نے اُن سے پوچھا: "بی بی آج آپ پاکستانیت کی وکالت کر رہی ہیں جو خوش کن ہے، کیا یہ ماہیتِ قلب سفیر بننے کے بعد آئی ہے یا آپ شروع سے وطن دوست تھیں؟" اُنہوں نے کہا میں تو ہمیشہ پاکستان پرست تھی۔ میں نے کہا، بی بی آپ کو یاد ہے جب چند سال پیشتر آپ نے ایک پاکستان مخالف مضمون کے رد میں خط تک چھاپنا گوارا نہیں کیا تھا، تو آپ نے اُس وقت ایسا کیوں کیا؟ وہ بولیں اس قسم کے مضامین تو ہم خود جان بوجھ کر شائع کرتے ہیں تاکہ تنازع پیدا کیا جا سکے۔
اسی طرح نیوز اخبار نے ایک صاحب کا مضمون شائع کیا جو اس اخبار کے ادارتی عملے سے تعلق رکھتے تھے۔ اُس کا موضوع تھا کہ قرآن نعوذ باللہ ایک روایتی دانش ہے، مسلمانوں کا ماضی خیالی دنیا (یوٹوپیا) اور اسلام کی طرف ہماری آرزوئے مراجعت "پتھر کے دور کی طرف پلٹنے" کے مترادف ہے۔ میں نے اُس کا جواب دیا تو اُنہوں نے میری زندگی کے بارے میں پوچھا، پھر کہا مضمون کو چھوٹا کریں اور آخر انکار کر دیا۔ وجہ دریافت کی تو کہا یہ ہماری ادارتی پالیسی کے خلاف ہے۔ میں نے کہا، کیا آپ کی ادارتی پالیسی پاکستان اور اسلام کے خلاف مواد شائع کرنے کی ہے؟
میں دوسروں کے حق سے انکار نہیں کرتا۔ مجھے شکایت یہ ہے کہ میرا یا کسی اور کا جو حق ہے، اس سے انکار کیا جا رہا ہے۔ تکثیریت (pluralism) کا مطلب ہی یہ ہے کہ سب کو مساوی مواقع ملیں۔ سیکولر جو خود کو بڑا لبرل اور روادار کہتا ہے، یقین جانیے ایسا ہرگز نہیں ہے، بلکہ میں نے پاکستان کے مذہبی یا روایتی حلقوں کے مقابلے میں انہیں زیادہ تنگ دل، زیادہ متشدد مزاج، اور زیادہ غیر جمہوری رویوں کا مریض پایا ہے۔ اگر ان تمام خصائص کو اکٹھا کروں تو انہیں "فاشسٹ" کہا جا سکتا ہے۔ وہ آپ کے ہاتھ پاؤں بھی باندھنا چاہتا ہے، قلم بھی چھیننا چاہتا ہے، منہ بھی بند کرنا چاہتا ہے اور پھر آپ کے کان میں اپنی بین بجانا چاہتا ہے۔
س: آپ کی اس بات سے تو بے بسی کی تصویر ابھرتی ہے۔ اس کا توڑ کیا ہے؟
طارق جان: نہیں، ہم لوگ بڑے سادہ لوح ہیں۔ ہمیں ابھی تک اس دُنیا کی نوعیت کا علم نہیں کہ جس میں ہم رہ رہے ہیں۔ سیکولرزم نے جمہوریت کا ایک مصنوعی چہرہ اپنے اوپر سجایا ہوا ہے۔ یاد رکھیں، جمہوری آزادیاں صرف اُن کے لیے ہیں جو سیکولرزم کو چیلنج نہیں کرتے، اگر آپ کی مخالفت کریں گے تو اسی لمحے وہ آپ کی آزادی سلب کر لیں گے۔ کیا آپ دیکھتے نہیں سیکولروں کا مہا گرو امریکہ اور اس کی دم انڈیا کس طرح غراتے ہیں کہ خبردار تم نے اسلام کی طرف مراجعت نہیں کرنی۔ یہاں تک کہ جمہوری بساط الٹ دی جاتی ہے۔ اس لیے ہمیں چند اصطلاحوں کے تقدس میں لپٹی شاطرانہ چالوں کو سمجھنا اور اس عیارانہ کشمکش کی نوعیت کو سمجھنا چاہیے۔
جہاں تک توڑ کی بات ہے تو اس میں ایک توڑ یہ ہو سکتا ہے کہ دستور میں جو ہمیں بنیادی حقوق کے حوالے سے ضمانتیں دی گئی ہیں، ان کا اطلاق سب پر ہو اور اسے قابلِ عمل بنانے کے لیے عدالت، پارلیمنٹ، میڈیا اور عوام سب کے دروازے پر دستک دی جائے۔
س: جب آپ ان کے اوپر چھوڑیں گے، جن کے پاس وسائل ہیں، جن کے پاس میڈیا ہے، جن کے پاس حکومتی ذرائع ہیں، تو وہ اتنی آسانی سے آپ کو رسائی نہیں دیں گے۔ آپ کے پاس اس نارسائی کا توڑ کیا ہے؟
طارق جان: اگر میرے یا کسی اور کے لیے رسائی کی گنجائش نہیں ہے، تو اس کا آپ کے خیال میں کیا حل ہو سکتا ہے؟ تو کیا پھر وہ راستہ اختیار کرنا چاہیے، جس طرح کراچی کی ایک لسانی تنظیم کرتی ہے۔ اگر ان کا بیان کوئی نہ چھاپے تو اُن کا حشر نشر کر دیا جائے۔ اسی لیے اخبارات اور ٹی وی پر ایم کیو ایم کے لیڈر کی چھوٹی سی بات کو بھی غبارہ بنا کر پیش کر دیا جاتا ہے۔
ایک تو ہو گئی یہ صورت، جسے میں بھی قبول نہیں کروں گا اور آپ بھی قبول نہیں کریں گے۔ یہ بدمعاشی کا طریقہ ہے۔ دوسرا وہ طریقہ ہے، جس طرح میں عرض کر رہا تھا کہ دستور میں ضمانتیں ہیں انسانی حقوق کے حوالے سے، ان کا اطلاق معاشرے کے سب طبقوں پر ہو، اور عدالتوں کا یہ کام ہونا چاہیے کہ وہ اس کو ممکن اور آسان بنائیں۔ میڈیا کو یہ حق نہیں دیا جا سکتا کہ، وہ پاکستان کے خلاف لکھے، یا اسلام کے خلاف بدزبانی کرے، یا پاکستان کے دشمن ہمسایہ ملک کے ساتھ ہمیں نتھی کرنے کی کوشش کرے اور اُس کی بدصورت شکل کو آرائش و زیبائش کے ساتھ پیش کرے۔
کئی سال پہلے کی بات ہے، میں نے لاہور ہائی کورٹ میں رٹ کی۔ اخبارات میں جو پاکستان کے خلاف لکھا گیا تھا، اس کی باقاعدہ فائل بنائی۔ آپ کو حیرت ہوگی، اس کیس کی طرف عدالت نے توجہ ہی نہیں دی۔ وہ کیس وہاں کئی مہینے لٹکا رہا۔ حکومت کو نوٹس جاتا، حکومت جواب نہ دیتی۔ اخبار والوں کو نوٹس جاتا، اخبار والے کوئی پروا تک نہ کرتے۔ بالآخر کیس کو خارج کر دیا گیا۔ بتائیں، وہ جہانگیری عدل والی زنجیر کہاں ہے، جسے میں کھینچوں اور مجھے یا آپ کو انصاف مل جائے؟
ثانیاً، قوم میں مزاحمت ہونی چاہیے کہ وہ اپنے اخلاقی غصے (moral rage) کا اظہار کر سکے۔ ان اداروں کو جو بڑے طاقتور ہوتے ہیں، انہیں حدِ اعتدال کے اندر رکھ سکے۔ اگر آپ اس سطح پر کام کر لیں، تو دوسروں کے ساتھ آپ کی آواز بھی شاید سنی جائے گی۔
انسانِ کامل کی جستجو میں ہلکان ہونے کا منفی پہلو یہ ہے کہ اگر معاشرے انسانِ کامل کی تلاش میں لگ جائیں، جو بذاتِ خود ایک مشکل کام ہے، تو بالآخر وہ انسانی قیادت سے ہی محروم ہو جاتے ہیں۔
س: اب مذہب کی طرف آتے ہیں۔ اسلام ایک پراگریسو اور اپ ٹو ڈیٹ مذہب ہے، جس سے تخلیق کے سوتے پھوٹتے ہیں۔ کائنات کی سچائیوں کا منبع و ماخذ بھی وہی ہے۔ لیکن خرابی کہاں واقع ہو گئی ہے کہ مذہبی اور دینی سیاسی جماعتیں جو اسلام کا نظریہ پیش کر رہی ہیں، اس سے وہ نتائج، اسلام کی پیروی کے نتیجے میں، اس کے پیروکاروں میں آنے چاہئیں، برآمد نہیں ہو رہے۔ ایک طرف طالبان ہیں، جبکہ دوسری طرف وہ طبقات ہیں، جو بالکل بے اثر ہیں۔ دینی تعلیم کے ادارے اور مساجد میں مواعظ اخلاقی سطح پر بھی تبدیلی نہیں لا رہے، چہ جائیکہ وہ تخلیقی سطح پر کسی بڑی تبدیلی کا ذریعہ بن رہے ہوں۔ حتیٰ کہ ان کے علمی، فکری اور تحقیقی شعبے وقت کے ساتھ بند ہوتے جا رہے ہیں اور ہم عباداتی پہلو کو ہی سارا اسلام قرار دے کر چل رہے ہیں۔
طارق جان: دیکھیں مسلمانوں کا جواب بحیثیت قوم ہمیشہ سے مذہبی رہا ہے۔ اس کے علاوہ انہیں اور کوئی حل سوجھتا نہیں اور سوجھنا بھی نہیں چاہیے۔ کیونکہ جب اُن کا یقین ہے کہ یہ اللہ کا دیا ہوا دین ہے اور اس میں ہماری دنیا اور آخرت کی فلاح ہے، تو لازماً ان کا جواب مذہبی ہی ہوگا۔ نو آبادیاتی دور میں جب انگریز موجودہ پاکستان کے اوپر قابض تھے، ہمارا جواب یہ تھا کہ کسی طریقے سے اپنے اسلامی عقائد اور عبادات کو مستحکم کیا جائے، تاکہ مسلمان ایک غالب اور مسخر کرنے والی تہذیب کے ہاتھوں اپنے سرمایۂ افتخار، اپنے دین سے ہاتھ نہ دھو بیٹھیں۔ ساتھ ہی اسے ہندی قومیت کے سحر میں مبتلا نہ ہونے دیا جائے۔ بالفاظِ دیگر نو آبادیاتی تسلط کو عارضی طور پر قبول کر لیا گیا لیکن ساتھ ہی تہذیبی مدافعت کو جاری رکھا گیا۔ یعنی ایک تہذیبی حصار اپنے گرد کھینچ لیا گیا، تاکہ اپنے اسلامی تشخص کو شکست و ریخت سے بچایا جا سکے۔ اس طرح آگے چل کر اسی تشخص کی بنیاد پر خود ارادیت اور آزادی کی منزل کی طرف بڑھا جائے۔
میں تاریخی عمل میں استدلال اور ایک منطقی تال میل دیکھتا ہوں۔ اس میں ایک خاص قسم کی ترکیب و ہیئت ہے جو بظاہر نظر نہیں آتی لیکن بیشتر حالات میں تاریخ ایک منظم انداز میں آگے بڑھتی ہے، یہ کوئی بے ہنگم حرکت نہیں ہوتی، یہ بھیڑ اور ہجوم تو ہو سکتی ہے لیکن جس طرح بھیڑوں کا ریوڑ اپنے گڈریا کے غیر محسوس وجود کے ساتھ جو عموماً پشت پر ہوتا ہے، آہستہ آہستہ چلتا ہے۔ اسی طرح تاریخ کے پیچھے اشخاص، نظریہ، اقدار اور معاشی و معاشرتی حالات ہوتے ہیں جو اُسے ایک خاص سمت میں ہانکتے ہیں۔
نو آبادیاتی استعمار کا دوسرا دور مسلمانوں سے ایک اور طرح کا جواب طلب کر رہا تھا۔ اب مدافعاتی حصار میں ہانڈی پک چکی تھی اور قومی وجود اثبات چاہتا تھا۔ اس لیے ہمارا جواب یہ تھا کہ ہم مسلمان بحیثیت قوم اقلیت بن کر نہیں رہ سکتے۔ ہماری اپنی ایک تہذیب و تمدن اور شناخت ہے۔ ہم اس علاقے میں صدیوں تک حکمران رہے ہیں اس لیے ہماری ایک منزل ہے، ہم نے اپنی سابقہ مقتدر حیثیت واپس لینی ہے جس کی طرف ہمیں جانا ہے۔ اس طرح اُس وقت مذہبی جواب آزادی کا تھا۔ اپنے تشخص کو برقرار رکھتے ہوئے جس کے اظہار سے قوم میں قوتِ مدافعت اور لڑنے مرنے کی صلاحیت پیدا ہوئی۔ تو یہ دو جواب اُس زمانے میں آئے۔
اب آزادی کے بعد کے چیلنجوں میں تیسرا اسلامی جواب لازماً پہلے جوابوں سے مختلف ہونا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ نو آبادیاتی دور کے وہ جواب متروک ہو چکے ہیں اور اب ان کا کوئی فائدہ نہیں۔ اب ہمیں تخلیق کے نظریے کی کاشت کرنی ہے، جس میں ہمیں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنا ہوگا اور اپنے تخلیقی جوہر سے اپنے ملی وجود کا اظہار کرنا ہوگا۔ یعنی بجائے اس کے کہ آپ اپنے ملی وجود کا اظہار کسی اور راستے سے کریں، اب آپ کے ملی وجود کا اظہار تخلیق کے سوتوں کو زندہ و تابندہ کرنے کی صورت میں بھی سامنے آنا چاہیے۔ اس کے بعد ہی آپ کا وجود ایک اور رنگ کے ساتھ اپنے آپ کا اظہار کرے گا تاکہ اپنی بقا کے ساتھ اپنی وسعت اور استحکام کو ممکن بنا سکے۔
بدقسمتی سے ہمارے اس جواب میں تاخیر ہو گئی ہے۔ یہ نہیں ہے کہ لوگوں میں اس کے لیے اضطراب نہیں۔ انہیں احساس ہے کہ یہ ہونا چاہیے، لیکن ابھی تک ہم حالتِ کشمکش سے نہیں نکلے۔ مثلاً نظریاتی بحثیں ۱۹۴۷ء کے بعد ختم ہو جانی چاہئیں تھیں یا کم از کم دستور سازی کے زمانے تک ہونی چاہئیں تھیں، پھر ختم ہو جانی چاہیے تھیں۔ کیونکہ دستور میں بات طے کر دی گئی تھی لیکن ان مباحث کو اب کون چھیڑ رہا ہے؟ اسلامی عنصر تو نہیں چھیڑ رہا۔ یہ تو سیکولر عنصر چھیڑ رہا ہے۔ کیونکہ وہ تاریخ کے پہیے کو الٹی سمت میں گھمانا چاہتا ہے۔ دستور سازی میں جو اجماع ہو چکا ہے، وہ اس کو بھی توڑنا چاہتا ہے۔ چنانچہ اصل مسئلہ سیکولر عناصر کی طرف سے ہے نہ کہ اسلامی عناصر کی طرف سے آ رہا ہے اور یہ بات ہمارے پڑھے لکھے لوگوں کو سمجھنی چاہیے۔
سو اگر آپ نے اپنے تخلیقی وجود کا اظہار کرنا ہے، تو وہ بھی اسلام کی شکل میں ہی ہو سکتا ہے۔ یہ سب اسی صورت میں ہوگا، اگر آپ اپنی قوم کے ذہین افراد کو کہیں کہ وہ اپنی صلاحیتوں کا اعلیٰ طریقے سے اظہار کریں خواہ وہ صنعت ہو، دفاع ہو، معیشت ہو یا علومِ حاضرہ۔ اس لیے کہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے، ہر وہ کام جس سے مسلمان معاشرہ پھلے پھولے، اس میں خیر جاری و ساری ہو، اس کے ماضی کا جاہ و حشمت اسے واپس ملے اور وہ دنیا کے لیے حق و انصاف کی نشانی بنے، وہ اسلامی اظہار کی ایک اعلیٰ قسم ہوگی۔ مجھے یہ یقین ہے کہ یہ قوم آگے بڑھے گی۔ یہ کوئی پسماندہ قوم نہیں ہے۔
س: میں معاصر سیاست سے قطع نظر یہ ضرور سمجھنا چاہوں گا کہ ہمیں اس وقت طالبان سوچ کے جس اُبھار کا سامنا ہے، کیا یہ ہمارے مذہبی اداروں اور ان میں دی جانے والی محدود اور مخصوص دینی تعلیمات کا مظہر تو نہیں ہے؟ جیسے ہی اس کے لیے حالات سازگار ہوئے اور خارجی عوامل کے ساتھ داخلی عوامل نے مواقع پیدا کیے، وہ ابھر کر سامنے آ گیا۔ فوجی حل کا راستہ اختیار کرتے ہوئے کتنے ماریں گے؟ اس کا تو ملک بھر میں ایک نیٹ ورک ہے۔ اس صورتحال کا کیا تجزیہ کریں گے آپ؟
طارق جان: طالبان سے مراد اگر دینی مدارس کے طلبہ ہیں تو لازماً بات ہے اُن کا معاشرتی پس منظر محدود ہے، اور وہ جدید معاشرتی علوم میں بھی پسماندہ ہیں۔ لیکن اس سب کے باوجود ان میں کچھ ایسے اوصاف بھی ہیں جو معاشرہ کے دیگر طبقات اور گروہوں میں ناپید ہیں۔ مثلاً وہ استعمار سے متاثر نہیں، وہ شرعی سزاؤں کے اطلاق پر معذرت خواہ نہیں اور نہ وہ انہیں اینگلو سیکسن قانونی نظام کی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔ یہ خصوصیات بدقسمتی سے ہم عصر اسلامی تحریکوں میں بھی شاذ ہی موجود ہوں گی۔
رہ گیا طالبان ابھار، تو یہ ایک ردِ عمل ہے۔ یہ ردِ عمل دیگر مسلمان ملکوں میں بھی پیدا ہوا ہے۔ ایران میں پہلے ردِ عمل تھا پھر proactive ہو کر انقلاب کی شکل میں کامیاب ہو گیا۔ الجزائر اور مراکش میں بھی یہ ردِ عمل سامنے آیا، جس کو سختی کے ساتھ کچل دیا گیا۔ فرانس جیسی استعماری قوتیں نہیں چاہتی تھیں کہ مسلمان اقوام نو آبادیاتی اثرات سے پاک صاف ہو کر سیدھی کمر کے ساتھ کھڑی ہو جائیں۔ اس لیے ان ہی کی افواج کو ان کے خلاف استعمال کیا گیا اور ختم کر دیا گیا۔ ترکی میں یہ ردِ عمل ایک منظم انداز میں سامنے آیا اور ایک خاص شکل میں کامیاب ہو گیا۔ اسلامی عنصر نے بڑے عرصہ بعد اقتدار کے ایوانوں میں اپنی کارکردگی کی بنا پر جگہ بنائی ہے۔ اسی طرح مشرق وسطیٰ میں یہ ردِ عمل اخوان المسلمون کی صورت میں ہوا۔ خود افغانستان میں جب دیگر قوتیں ناکام ہو گئیں، لاقانونیت پھیل گئی تو طالبان ردِ عمل کے طور پر سامنے آئے اور اپنے ملک کو امن اور انصاف دیا۔ پاکستانی طالبان دراصل افغانستان کے طالبان سے ہی متاثر ہوئے ہیں۔
اصل بات یہ ہے کہ من حیث القوم ہم نے جو وعدے تاریخ میں اپنے آپ سے کیے ہیں اور وہ دستوری شکل میں متشکل بھی کر دیے گئے ہیں، اگر آپ ان کی طرف پیش رفت نہیں کرتے اور ملک سے ناانصافی کو ختم نہیں کرتے، اپنا ناک نقشہ درست نہیں کرتے تو طالبان تو اس کا ایک بڑا معصوم سا جواب ہیں، اگر پاکستانی مقتدر طبقوں نے اپنی روش تبدیل نہ کی تو اس سے زیادہ بھی خطرناک تحریکیں اٹھیں گی اور معاشرے کو اپنی بقاء اور دوام کے لیے تبدیل ہونا پڑے گا یا پھر توڑ پھوڑ اور زوال ہمارا مقدر ہو جائے گا۔
یہاں یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ ماضی میں اسلامی قوتیں اگر کہیں کامیاب ہوئیں تو اس کی وجہ یہ تھی کہ باہر کی مداخلت نہیں تھی۔ آج کے زمانے میں پاکستان جیسے ملک میں، جو کہ ایک اہم محلِ وقوع رکھتا ہے، خارجی مداخلت بہت زیادہ ہو گئی ہے۔ جوہری پاور بھی ہے اور مسلمان بھی ہے۔ اس لیے بیرونی قوتیں تو لازماً اپنے تراشے ہوئے افراد اور پارٹیوں کو یہاں مقتدر بنانا چاہتی ہیں، تاکہ ان کے مفادات کا تحفظ ہو۔ اس لیے بیرونی مداخلت کے خلاف ردِ عمل تو ہوگا۔ اب آپ اسے تعمیرِ نو کے لیے استعمال کریں یا اسے انارکی کی طرف دھکیل دیں۔ آزمائش تو اجتماعی دانش اور حکمرانوں کی ہے۔ اسی طرح یہ بھی ذہن میں رہے، میں مسئلے کی نوعیت کو سادہ لفظوں میں سمجھانے کے لیے لفظ "ردِ عمل" کہہ رہا ہوں، جو اصل میں تبدیلی کی خواہش ہے۔
اب آپ چاہیں طالبان کے ہاتھوں تبدیل ہوں یا جنہیں آپ پڑھی لکھی اسلامی قوتیں کہتے ہیں، اُن کے ہاتھوں تبدیل ہوں، انتخاب آپ کا ہے۔ یہ ایک تاریخی لمحہ موجود ہے اور اس کا تاریخی جواب ہی درکار ہے۔ اس کا فیصلہ آپ کو خود کرنا ہوگا۔
باقی جو تخریب کاری کرتے ہیں افراتفری پھیلاتے ہیں اور جن کے پیچھے خفیہ ہاتھ و سرمایہ کارفرما ہے انہیں آپ بے شک تاراج کر دیں، اُن کے لیے کوئی نرمی نہیں ہونی چاہیے، خواہ وہ وطنِ عزیز کے کسی حصے میں ہوں یا کسی رنگ میں بھی ہوں۔ رہے وہ طالبان جو اخلاص سے اسلام چاہتے ہیں۔ اُن کے ساتھ بات کریں، امریکہ کے بارے میں انہیں اپنی مجبوریاں بتائیں اور اُن کی تبدیلی کی خواہش کے احترام میں دستورِ پاکستان کے مطابق اصلاحی و قانونی اقدامات کریں، جو سب کو نظر آئیں، تو یہی طالبان آپ کی قوت بن سکتے ہیں۔ بدقسمتی سے مجھے نام نہاد طالبان اور ریاستی قوت کے درمیان جنگ و فساد میں دشمن قوتوں کے مقاصد کی تکمیل نظر آتی ہے۔ اس مناقشے کے ماسٹر مائنڈ افغانستان میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ ہماری فوجی مہم جوئی دراصل امریکی حکمتِ عملی کا حصہ ہے، تاکہ افغانستان میں طالبان کو پاکستان سے کمک نہ مل سکے اور وہ انہیں نابود کر دیں۔
س: آپ کو یقین ہے کہ تبدیلی کا یہ عمل ہو کر رہے گا؟
طارق جان: جی ہاں، سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ ایسا نہ ہو۔ تاریخ کے باطن میں جو چیز ایک شکل اختیار کر چکی ہے، اس نے بڑا ہونا اور لازماً آپ کے سامنے ظاہر ہو جانا ہے۔ یہ کرپٹ اور مادہ پرست سیکولروں کے کرتوت ہیں، جو ہمارے سامنے آ رہے ہیں۔ لیکن یہ کب اپنی مکمل شکل میں نمودار ہو گی، اس کا ٹائم فریم دینا مشکل ہے۔ البتہ میرے نزدیک پاکستان جیسے بڑے اور ترقی پذیر ملک میں طالبان کا کوئی مستقبل نہیں۔ طالبان کا رول یہ تھا کہ اُنہوں نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔
پاکستان کے تناظر میں دیکھیں کہ وہ لبرل سیکولر قوتیں جو فوج کو بطور ادارہ ہی قبول کرنے کو تیار نہیں تھیں، آج وہی فوج کے کندھے پر بندوق رکھ کر اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہیں۔
انہوں نے آپ کو یہ بھی احساس دلایا ہے کہ انصاف کے بغیر معاشرہ نہیں چل سکتا۔ جمود اور بے حسی کے شکار ایک معاشرے کی پشت پر یہ تازیانہ برسا دینا بھی اپنی جگہ بہت بڑی خدمت ہے جو اُنہوں نے انجام دی ہے۔ لیکن جس تبدیلی کی یہ قوم متمنی ہے وہ یقیناً اسلام دوست قوتوں کے ہاتھوں ہوگی جو علم نواز ہوں گے، مغرب سے مکالمہ جرات کے ساتھ کر سکیں گے، اور موجودہ زمانے کے تقاضوں سے اچھی طرح آشنا ہوں گے۔
س: تبدیلی کا عمل، جب رو پذیر ہوتا ہے، تو اتنی آسانی سے نہیں ہوتا۔ اس عمل کے دوران توڑ پھوڑ بھی ہوتی ہے۔ آپ کے خیال میں کیا ہمارا معاشرہ صحیح مطلوبہ نتائج کے حصول تک کسی ایسی شکست و ریخت کا سامنا کرنے کے بعد کیا صحیح سلامت رہ سکتا ہے؟
طارق جان: اس جواب کا تعلق ہماری ذہانت اور نفسیات سے ہے۔ اگر ہم تعمیرِ نو کے عمل اور اس کی حرکیات سے واقف نہیں، اگر ہم صحیح فیصلے نہیں کر سکتے، اسی طرح اگر ہم بحران کو شدت اختیار کرنے سے پہلے اُس کے سینگوں سے پکڑ نہیں سکتے، اور غیر ضروری محاذ آرائی کی طرف رجحان رکھتے ہیں تو پھر اس سے ہماری سلامتی کے لیے سنگین مسائل پیدا ہوں گے۔
جہاں تک ہمارے قومی وجود کے صحیح سلامت رہنے والی بات ہے تو اس کا تعلق ہمارے مقتدر حضرات کے رویوں سے ہے۔ مثلاً حال ہی میں ہمارے صدر مملکت نے یہ کہا کہ: ہم طالبان کو اپنا طرزِ زندگی بدلنے نہیں دیں گے۔ یہ وہی بات ہے جو سابق امریکی صدر جارج بش نے ۹/۱۱ ستمبر کے بعد کہی تھی۔ ہمارے صدر صاحب ایسا کیوں کہہ رہے ہیں؟ کوئی موصوف سے پوچھ سکتا ہے کہ جناب آپ کا طرزِ زندگی کیا ہے؟ اُس کا تعین تو فرمائیں۔ کیا اس سے مراد شراب نوشی، جنسی اختلاط، مادر پدر آزاد سرگرمیاں اور بدعنوانی ہے؟ معاف رکھیے اس کی تو دستورِ پاکستان اجازت نہیں دیتا اور یہ کسی مسلمان معاشرہ کے لیے طرزِ زندگی نہیں۔ اس لیے اگر وہ اسلامی مطالبے سے دشمنی کرتے ہیں اور تبدیلی کے ساتھ نہیں چلتے تو پھر شکست و ریخت ضرور ہوگی۔ البتہ فرق یہ ہے کہ ایک شکست و ریخت تو اندرونی ہے، جو انسان کے باطن میں ظہور پذیر ہوتی ہے اور دوسری کو تبدیلی کی محرک قوت بزور لاتی ہے، کیونکہ ایک حد تک تخریب تعمیر کے لیے ضروری ہوتی ہے جیسے کہ اقبال نے کہا ہے کہ:
ہر نئی تعمیر کو لازم ہے تخریبِ تمام ہے اس میں مشکلاتِ زندگی کی کشود
اس فرق کو اس طرح سمجھ لیجیے کہ ایک منفی تخریب ہوتی ہے جو کشمکش کے دوران ایک گروہ کرتا ہے تاکہ اپنے تسلط کو ممکن بنائے، عوام کو ڈرائے دھمکائے۔ تخریب کی دوسری قسم تعمیر کے لیے ہوتی ہے یعنی اُس میں نفی اور اثبات کے دونوں پہلو ہوتے ہیں۔
اس مسئلہ کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ تبدیلی کا مطالبہ بہت سے لوگوں کو ناپسند ہوتا ہے اور وہ موجودہ صورتِ حال (status quo) کو قوت کے زور پر برقرار رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مثلاً پاکستان کے تناظر میں دیکھیں کہ وہ لبرل سیکولر قوتیں جو فوج کو بطور ادارہ ہی قبول کرنے کو تیار نہیں تھیں، آج وہی فوج کے کندھے پر بندوق رکھ کر اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہیں۔
بالفاظِ دیگر سٹیٹس کو کو برقرار رکھنے کی خواہش مند قوتوں کی اسی میں بقا ہے کہ اسلامی مطالبہ کو روکا جائے۔ یہ قوتیں تبدیلی کو کسی طور نہیں آنے دیں گی۔ اس لیے میرا خیال ہے کہ سوات میں نظامِ عدل کا نفاذ ایک حربی مشق تھی۔ اس پر کسی نے عمل نہیں کرنا تھا۔ کیونکہ اس سے نظام کی تبدیلی کی ابتدا بنتی ہے اور سٹیٹس کو کے حامیوں کو وہ قبول نہیں تھا۔ نتیجہ اس کا ظاہر ہے۔ جتنا زیادہ آپ موجودہ صورتِ حال کو برقرار رکھنے کی کوشش کریں گے، اتنی ہی زیادہ تخریب ہو گی اور انتہائیں بھی آتش بگولا ہو کر آئیں گی۔
مثلاً، وہ کہیں گے کہ آپ کی داڑھی ہونی چاہیے اور لمبی ہونی چاہیے۔ اس کی توجیہہ ماسوائے اس کے کہ یہ سنتِ نبوی ہے وہ آپ کو کوئی معقول وجہ نہیں دیں گے۔ لیکن اس کے برعکس دوسری توجیہہ یہ ہے کہ بغیر داڑھی نسوانی چہرے استعمار کی علامتیں ہیں، ان کو ختم ہونا چاہیے۔ ان کے خیال میں جب تک آپ یہ کام زبردستی نہیں کریں گے، ان کی تحقیر اور مذمت نہیں کریں گے، اس وقت تک لوگوں کے ذہن مغربی اثرات سے آزاد نہیں ہوں گے۔ اس کے پیچھے باقاعدہ ایک فلسفہ ہے، جس کو لوگ نہیں سمجھتے اور کہتے ہیں کہ یہ جنگلی ہیں، پاگل اور بے وقوف ہیں، نہیں ایسی بات نہیں۔
س: ٹھیک لیکن اس فلسفے کو کسی دلیل کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے نہ یہ کہ ڈنڈے کے زور سے اسے نافذ کرنا چاہیے؟
طارق جان: یہی تو عرض کر رہا ہوں کہ مقتدر قوتیں بھی دلیل کے ساتھ اپنے موقف کو پیش کریں، وہ تو ڈنڈا ہاتھ میں لے کر کھڑی ہو گئی ہیں۔ لیکن اس کے مقابلے میں دوسروں کو کہا جا رہا ہے، جی آپ اپنا موقف دلیل کے ساتھ پیش کریں۔ ایسا تو نہیں ہو سکتا دنیا میں۔ پہلے آپ ڈنڈا ایک طرف رکھیں اور کہیئے آئیں بھائیوں کی طرح بات کرتے ہیں۔ اگر طالبان یہ کہہ دیں کہ ۱۹۷۳ء کے دستور میں آپ نے خود عہد کیا ہوا ہے کہ یہ اسلامی معاشرہ ہوگا، تو آپ اس کو اسلامی معاشرہ کیوں نہیں بناتے؟ یا یہ کہ آپ امریکی افواج کی افغانستان میں مدد کیوں کر رہے ہیں جبکہ وہ ظالم غاصب اور کافر ہیں تو یہ رٹا رٹا یا جواب دیں گے: "تم زمینی حقائق کو نہیں سمجھتے تم رجعت پسند ہو" وغیرہ وغیرہ۔ اس ذہنی تماش کے مقتدر لوگوں سے بھلا کون مکالمہ کر سکتا ہے۔
میں کہتا ہوں، معروضی بنیاد قراردادِ مقاصد ہی کو لیں، جو دستور کا لازمی اور لازوال حصہ ہے۔ باقی یہ جو ڈنڈے کے زور سے نفاذ اور دلیل سے آگے بڑھنے والی بات ہے تو کیا گزشتہ باسٹھ برسوں میں لوگوں نے دلیل سے بات نہیں کی؟ مگر انہیں جواب میں ڈنڈے سے دھمکایا اور دبایا گیا ان کی زبان بندی کی گئی ہے۔ آخر صبر کی بھی حد ہوتی ہے۔
س: آپ نے کہا ہے، جب عدل و انصاف نہیں ہوگا، تو پھر یہی کچھ ہوگا۔ معروضیت کی بھی آپ نے بات کی ہے۔ اسلام آباد میں آنے والی کوئی بھی حکومت قراردادِ مقاصد کی بنیاد پر تو کام نہیں کرتی۔ راہ فرار اختیار کرتے ہوئے یہ اسلام کا اعتدال پسند تعارف کرانے کی باتیں کرتے ہیں۔ ایسا تو نہیں کہ اپنی بے عملی سے، اسلام آباد خود یہ دعوت دے رہا ہے۔
طارق جان: مسئلہ یہ ہے کہ اسلام آباد میں جو لوگ بیٹھے ہوئے ہیں، چہروں کی تبدیلی کے باوجود ان کی سوچ و فکر میں تسلسل ہے۔ یہ نہیں کہ وہ کسی فکر اور نظریے سے عاری ہیں۔ اقتدار بذاتِ خود ایک نظریہ اور بڑا فلسفہ ہے۔ دوسرا یہ کہ یہ مقتدر طبقہ سمجھتا ہے کہ اقتدار اور قوت کو کس کے لیے استعمال کیا جائے؟ یہی کہ معاشرے کو لادین بنایا جائے۔ اسی لیے یہ اس ملک کی اساسیات کو ہر وقت چیلنج کرتے رہتے ہیں۔ ساتھ ترقی ترقی کا راگ بھی الاپتے رہتے ہیں، تاکہ قوم کو دھوکا دیا جائے کہ آپ تو ترقی چاہتے ہیں اور دوسرے قوم کو پسماندہ رکھنا چاہتے ہیں، اس سے تو مشکلات پیدا ہوں گی۔
اسی طرح ریاستی عمل داری (رٹ) کی بات ہے۔ لال مسجد کے مسئلہ (۲۰۰۷ء) پر ان کو حکومتی عمل داری کی بڑی فکر تھی۔ اس رٹ کی انہوں نے اتنی رٹ لگائی کہ اس پر باقاعدہ خونیں فوجی ایکشن لے لیا گیا۔ کیا ان کو تھانوں میں رٹ نظر نہیں آتی؟ تھانوں میں باقاعدہ عقوبت خانے ہیں، جن میں انسانوں کی تذلیل کی جاتی ہے۔ سرکاری دفاتر میں لوگ الا ماشاء اللہ فرعون بن کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ بس مراعات لے رہے ہیں۔ کسی سرکاری دفتر میں چلے جائیں، آپ کا کام نہیں ہوگا۔ یہاں پر تو رٹ ان کو نظر نہیں آتی۔ ان سے تو ٹریفک بھی ٹھیک نہیں ہوتی۔ یہ تو شہروں اور دیہاتوں کی صفائی اور ستھرائی بھی نہیں کرا سکتے، رشوت روک نہیں سکتے اور یہ حکومت اور حکمرانی کی باتیں کرتے ہیں۔ تو معلوم یہ ہوا کہ اس کے پیچھے بددیانتی ہے۔ اگر ان کو ریاست کی رٹ کی فکر ہوتی تو پہلے انتظام ٹھیک کرنے کی بات کرتے۔
س: آپ کا خیال ہے کہ ان کے ہاں نیت کی خرابی ہے؟
طارق جان: نیت کی خرابی ہی نہیں بددیانتی اور کھلی دھوکا دہی بھی ہے۔ سٹیٹس کو کو برقرار رکھنا ہے۔ کیوں؟ اس لیے کہ اگر سیکولرزم نہیں ہوگا، تو کیا ہوگا؟ اسلام ہوگا اور وہ اسلام نہیں چاہتے۔ تو جناب یہ بات ہے۔
س: جس تبدیلی کی آپ بات کر رہے ہیں، میں اسے چشمِ تصور سے دیکھنا چاہتا ہوں کہ وہ کیا شکل اختیار کرے گی؟ حالات کو جوں کا توں رکھنا تو خدا کے قانونِ تبدیلی کے منافی ہے۔ آپ کو کیا نقشہ بنتا نظر آتا ہے؟
طارق جان: امریکہ کی سیاسی اور فلسفیانہ فکر میں قوت کا اظہار ایک لازمی عنصر ہے۔ ان کے مفکرین خواہ حالیہ صدی کے والٹر لپ مین (Walter Lippmann) ہوں یا قدیم ڈیوڈ ہیوم (David Hume) اور ان جیسے دوسرے۔ یہ سب بالعموم یہی کہتے ہیں کہ اگر آپ لوگوں کو جبر کے خاص حالات میں رکھیں، تو آپ ان کے ذہن تبدیل کر سکتے ہیں۔ خاص قسم کی معلومات خاص زاویہ سے دیتے رہیں تو لوگ بدل جائیں گے۔ ڈیوڈ ہیوم نے تو کھل کر کہا ہے کہ لوگوں کو کچلنا مغربی فکر کا لازمی حصہ ہے۔
یہی چیز موجودہ زمانے میں برزنسکی، جو امریکی صدر جمی کارٹر کے دور میں قومی سلامتی کونسل کا سربراہ تھا، کہتا رہا ہے کہ جس قسم کا بھی ذہن ہو، اسے بدلا جا سکتا ہے۔ آپ ایک خاص درجہ حرارت میں اس معاشرے کو رکھیں اور جو انحراف کرے، اسے ماریں، پیٹیں۔ تیسرا یہ کہ پیسے دیں، پیسے دے کر قابو کریں۔ جیسے جنرل پیٹرائس نے عراق میں کہا تھا، "use money as ammunition"، یعنی پیسے کو اسلحے کے طور پر استعمال کرو۔
تو یہ جو سیکولر فکر ہے will to power میں یقین رکھتی ہے، جیسے کہ جرمن مفکر نطشے نے کہا ہوا ہے۔ یہ will to power کو ہر قیمت پر استعمال کرتی رہی ہے۔
"humans can be forced to change" یعنی انسانوں کو جبر کے ساتھ تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ یہ فکر اسلام آباد کے حکمرانوں میں بھی قدرے مختلف انداز سے جاری و ساری ہے۔ "آنچہ استاذِ ازل گفت ہماں می گویم"، یہ تو اپنے اُستاذ کی زبان بولتے ہیں۔
دوسرا وہ یہ کہتے ہیں کہ لوگوں کو اتنا تھکاؤ کہ مطالبہ کر کر کے تھک جائیں۔ آپ اپنی جگہ پر بیٹھے رہیں اور وہی کام کرتے چلے جائیں۔ ایسا رویہ لازماً کشمکش کی طرف جاتا ہے۔ اس میں آپ کسی ایک پارٹی کو مطعون نہیں کر سکتے۔ یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ جو ہیں بڑے معقول ہیں جبکہ دوسرے نامعقول ہیں۔ اس میں سب برابر ہیں۔
س: آپ کا خیال ہے کہ آخری معرکہ اسلام آباد میں لڑا جائے گا؟
طارق جان: نہیں، یہ ایک طویل سفر ہے۔ میں کچھ اور دیکھ رہا ہوں۔ مجھے اپنے معاشرے میں آویزش اور تصادم نظر آ رہا ہے۔ ملک میں نظریاتی تقسیم نظر آ رہی ہے۔ سیکولر قوتوں کا حوالہ (reference point) اسلامی وحدت نہیں بلکہ لسانیت، علاقائیت اور انتشار ہے۔ یہ ملک کو لسانی ٹکڑوں میں تقسیم کرتی ہیں۔ آج جو کراچی اور بلوچستان میں ہورہا ہے وہ کسی بڑے حادثہ کی طرف جا سکتا ہے۔
دوسری چیز جو میں دیکھ رہا ہوں وہ مقتدر حلقوں، امریکہ اور انڈیا کی خواہش ہے کہ اجتماعی اسلام کو ریاست اور حکومت کی سطح پر پاکستان سے بے دخل کیا جائے۔ اس کے لیے فرقہ وارانہ فسادات کرائے جائیں۔ یہ جو قبروں سے مُردے نکالے جا رہے ہیں، یہ طالبان کا کام نہیں۔ یہ بریلوی اور غیر بریلوی گروہوں کو فساد کی طرف دھکیلنا ہے۔ اس طرح شیعہ سنی کو بھی متصادم کیا جائے۔ مجھے یوں نظر آ رہا ہے کہ جو کچھ ماضی میں کیتھولک اور پروٹسٹنٹ کے درمیان یورپ میں خون خرابے کرائے گئے، وہی کھیل یہاں بھی شروع کیا جا رہا ہے، تاکہ عوام روز روز کے جھگڑوں سے تنگ آ کر اسی طرح سیکولرزم کے آگے سر جھکا دیں جیسے یورپ میں ہوا۔
س: اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ ملک میں وحدت ہونی ضروری ہے۔
طارق جان: جی ہاں! اس کے بغیر چارہ نہیں۔ سیکولرزم (لادینیت) ہمارے معاشرے کا حل نہیں۔ یہ انتشار کی طرف لے جائے گی جو غالباً سیکولر چاہتے ہیں۔ مسلمانوں نے کہیں بھی سیکولرزم کو خوش دلی سے قبول نہیں کیا۔ مدافعت کی ہے اور ہتھیار بھی اٹھائے ہیں۔ پرویز مشرف نے سیکولرزم کا ہانکہ لگایا، نتیجہ آپ دیکھ رہے ہیں۔
مجھے یوں نظر آرہا ہے کہ جو کچھ ماضی میں کیتھولک اور پروٹسٹنٹ کے درمیان یورپ میں خون خرابے کرائے گئے، وہی کھیل یہاں بھی شروع کیا جا رہا ہے، تاکہ عوام روز روز کے جھگڑوں سے تنگ آکر اُسی طرح سیکولرزم کے آگے سر جھکا دیں جیسے یورپ میں ہوا۔
وحدت پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ محض اس کی خواہش نہ کی جائے اور نہ محض اس کے حق میں تقریریں کی جائیں اور شاید اس کا عقلی دلیلوں سے بھی کوئی تعلق نہیں کیونکہ بالآخر وحدت معاشرے کو نظم میں لانے سے ہی پیدا ہوتی ہے۔ اس کے لیے تین اقدام بڑے ضروری ہیں:
- **اول:** ایک مرکزی نقطۂ فکر کی ترویج جو محور (axle) فراہم کر سکے۔
- **دوم:** اس کے ارد گرد اداروں کی تشکیل جس میں تعلیم، عدالتیں، میڈیا، فوجی، سول اور پولیس کے تربیتی ادارے شامل ہیں۔ یہ ادارے وحدتِ فکر و عمل کے لیے ضروری ہیں، تاکہ معاشرے کو ممکنہ تضادات سے بچایا جا سکے۔
- **سوم:** نگرانی کا طریقہ کار جو ہمہ وقت یہ دیکھے کہ مرکزی نقطۂ فکر سے انحراف نہ ہو، اور جہاں ایسا ہو رہا ہو وہاں ہر ممکنہ طریقہ سے اُسے راست پر لائے جس میں طاقت کا استعمال (تعزیر) ایک اہم عنصر ہے۔
س: آپ تو فکری جبر کی بات کر رہے ہیں۔ اس طرح انفرادی آزادیاں تو ختم ہو جائیں گی۔
طارق جان: نہیں، اس میں جبر کی بات نہیں ساری کائنات اسی اصول پر چلتی ہے۔ آپ دیکھیں اس کائنات میں قواعد و ضوابط ہیں جس کا ہر کوئی پابند ہے۔ مثلاً، زمینی بندوبست میں echo-system ہے جس میں باہمی تعلق بھی ہے اور تعاون بھی ہے، یعنی complementarity بھی ہے اور توازن بھی ہے۔ انسان اسے تباہ کرے تو دوسری بات ہے، لیکن یہ جاری و ساری رہتا ہے۔ اسی طرح کائناتی نظام میں جزاء و سزا بھی ہے، کیونکہ اُس کے بغیر عدل ممکن نہیں۔
یہ پہلو اہم ہے کیونکہ انسان کائنات سے جُدا شئے نہیں، بلکہ اس کا لازمی حصہ ہے۔ کائنات کا طریقہ کار ہی سب سے بڑا ماخذِ تعلیم و ہدایت ہے۔ اگر آپ نے اپنے باغیچہ (لان) میں گھاس لگانا ہے اور اسے خوبصورت اور صحت مند رکھنا ہے تو پھر اسے پانی بھی دیں گے اور کھاد بھی دیں گے۔ ساتھ ہی یہ بھی دیکھیں گے کہ اُس میں جڑی بوٹیاں نہ اُگیں، تاکہ آپ کا لان شاداب رہے بصورتِ دیگر وہ اُجڑ جائے گا۔ یہی بات انسانی معاشروں اور ممالک کی ہے۔ وحدت گریز جڑی بوٹیاں نکالنا ہوں گی۔ اقبال نے یہی بات تو کہی ہے:
وحدت کی حفاظت نہیں بے قوتِ بازو آتی نہیں کچھ کام یہاں عقلِ خداداد
جہاں تک آزادیوں کی بات ہے تو وہ اُسی صورت میں معاشرے کے لیے مفید ہوتی ہیں جب وہ کسی حد یا parameters کا احترام کریں، وہ خیر کے فروغ کا باعث بنیں وگرنہ "آزادیاں" اباحیت، تشکیک، مایوسی اور معاشرت گریز رجحانات (alienation) کی طرف لے جاتی ہیں۔