بناؤ اور بگاڑ از: مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی

بناؤ اور بگاڑ

مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی

(یہ تقریر ۱۰ مئی ۱۹۴۷ء کو دارالاسلام پٹھانکوٹ کے جلسہ عام میں کی گئی تھی۔ سامعین میں دو ہزار مسلمانوں کے علاوہ دو سو ہندو اور سکھ اصحاب بھی شریک تھے۔ پس منظر میں اس حقیقت کو بھی پیش نظر رکھا جائے کہ یہ وہ زمانہ تھا جب سارا مشرقی پنجاب ایک کوہ آتش فشاں کی طرح پھٹنے کے لئے تیار تھا اور تین ہی مہینے بعد وہاں فتنہ و فساد کی وہ آگ بھڑک اٹھنے والی تھی جس کی تباہ کاریاں اب تاریخ انسانی کا ایک دردناک ترین باب بن چکی ہیں)۔

تعارف: خدا کی حاکمیت اور اس کے قوانین

تعریف اور شکر اس خدا کے لئے ہے جس نے ہمیں پیدا کیا، عقل اور سمجھ بوجھ عطا کی، برے اور بھلے کی تمیز بخشی اور ہماری ہدایت و راہنمائی کے لئے اپنے بہترین بندوں کو بھیجا۔ اور سلام ہو خدا کے ان نیک بندوں پر جنہوں نے آدم کی اولاد کو آدمیت کی تعلیم دی۔ بھلے مانسوں کی طرح رہنا سکھایا، انسانی زندگی کے اصل مقصد سے انہیں آگاہ کیا اور وہ اصول ان کو بتائے جن پر چل کر وہ دنیا میں سکھ اور آخرت میں نجات پاسکتے ہیں۔

حاضرین و حاضرات! یہ دنیا جس خدا نے بنائی ہے اور جس نے اس زمین کا فرش بچھا کر اس پر انسانوں کو بسایا ہے وہ کوئی اندھا دھند اور اٹکل ٹپ کام کرنے والا خدا نہیں ہے۔ وہ چوپٹ راجہ نہیں ہے کہ اس کی نگری اندھیری نگری ہو، وہ اپنے مستقل قانون پختہ ضابطے اور مضبوط قاعدے رکھتا ہے جن کے مطابق وہ اس سارے جہاں پر خدائی کر رہا ہے۔ اس کے قانون سے جس طرح سورج، چاند، زمین اور تارے بندھے ہوئے ہیں جس طرح ہوا، پانی، درخت اور جانور بندھے ہوئے ہیں اسی طرح ہم آپ سب انسان بھی بندھے ہوئے ہیں، اس کا قانون جس طرح ہماری پیدائش اور موت پر، ہمارے بچپن اور جوانی اور بڑھاپے پر، ہمارے سانس کی آمد و رفت پر، ہمارے ہاضمے اور خون کی گردش پر اور ہماری بیماری اور تندرستی پر بے لاگ اور اٹل طریقے سے چل رہا ہے۔ ٹھیک اسی طرح اس کا ایک اور قانون بھی ہے جو ہماری تاریخ کے اتار چڑھاؤ پر، ہمارے گرنے اور اٹھنے پر، ہماری ترقی اور تنزل پر اور ہماری ذاتی، قومی اور ملکی تقدیروں پر حکومت کر رہا ہے۔ اور یہ قانون بھی اتنا ہی بے لاگ اور اٹل ہے۔ اگر یہ ممکن نہیں ہے کہ آدمی ناک سے سانس لینے کے بجائے آنکھوں سے سانس لینے لگے اور معدے میں کھانا ہضم کرنے کے بجائے دل میں ہضم کرنے لگے تو یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ خدا کے قانون کی رو سے جس راہ پر چل کر کسی قوم کو نیچے جانا چاہیئے وہ اسے بلندی پر لے جائے ۔ اگر آگ ایک کیلئے گرم اور دوسرے کیلئے ٹھنڈی نہیں ہے تو برے کرتوت بھی جو خدا کے قانون کی رو سے برے ہیں ایک کو گرانے والے اور دوسرے کو اٹھانے والے نہیں ہو سکتے ۔ جو اصول بھی خدا نے انسان کی بھلی اور بری تقدیر بنانے کیلئے مقرر کئے ہیں وہ نہ کسی کے بدلے بدل سکتے ہیں نہ کسی کے نالے مل سکتے ہیں اور نہ ان میں سے کسی کے ساتھ دشمنی اور کسی دوسرے کے ساتھ رعایت ہی پائی جاتی ہے۔

خدا کا بنیادی قانون: بناؤ اور بگاڑ

خدا کے اس قانون کی پہلی اور سب سے اہم دفعہ یہ ہے کہ:
”وہ بناؤ کو پسند کرتا ہے اور بگاڑ کو پسند نہیں کرتا“۔

مالک ہونے کی حیثیت سے اس کی خواہش یہ ہے کہ اس کی دنیا کا انتظام ٹھیک کیا جائے اس کو زیادہ سے زیادہ سنوارا جائے۔ اس کے دیئے ہوئے ذرائع اور اس کی بخشی ہوئی قوتوں اور قابلیتوں کو زیادہ سے زیادہ بہتر طریقے سے استعمال کیا جائے۔ وہ اس بات کو ہرگز پسند نہیں کرتا۔ اور اس سے یہ توقع بھی نہیں کی جاسکتی کہ وہ کبھی اسے پسند کریگا کہ اس کی دنیا بگاڑی جائے، اجاڑی جائے اور اس کو بد نظمی سے، گندگیوں سے اور ظلم اور ستم سے خراب کر ڈالا جائے۔

انسانوں میں جو لوگ بھی دنیا کے امیدوار بن کر کھڑے ہوئے ہیں، ان میں سے صرف وہ لوگ خدا کی نظر انتخاب میں اس طرح ٹھہرتے ہیں جن کی اندر بنانے کی زیادہ سے زیادہ صلاحیت ہوتی ہے، انہی کو وہ یہاں کے انتظام کے اختیارات سپر د کرتا ہے۔

پھر وہ دیکھتا رہتا ہے کہ یہ لوگ بناتے کتنا ہیں اور بگاڑتے کتنا، جب تک ان کا بناؤ ان کے بگاڑ سے زیادہ ہوتا ہے اور کوئی دوسرا امیدوار ان سے اچھا بنانے والا اور ان سے کم بگاڑنے والا میدان میں موجود نہیں ہوتا اس وقت تک ان کی ساری برائیوں اور ان کے تمام قصوروں کے باوجود دنیا کا انتظام انہی کے سپر درہتا ہے لیکن جب وہ کم بنانے اور زیادہ بگاڑ نے لگتے ہیں تو خدا انہیں ہٹا کر پھینک دیتا ہے اور دوسرے امیدواروں کو اسی لازمی شرط پر انتظام سونپ دیتا ہے۔

باغ اور مالی کی مثال

یہ قانون بالکل ایک فطری قانون ہے اور آپ کی عقل گواہی دے گی کہ اس کو ایسا ہی ہونا چاہیئے۔ اگر آپ میں سے کسی شخص کا کوئی باغ ہو اور وہ اسے ایک مالی کے سپرد کر دے تو آپ خود بتائیے کہ وہ اس مالی سے اولین بات کیا چاہے گا؟ باغ کا مالک اپنے مالی سے اس کے سوا اور کیا چاہ سکتا ہے کہ وہ باغ کو بنائے نہ کہ خراب کر کے رکھ دے، وہ لازماً یہی چاہے گا کہ اس کے باغ کو زیادہ سے زیادہ بہتر حالت میں رکھا جائے، زیادہ سے زیادہ ترقی دی جائے اس کے حسن میں، اس کی صفائی میں، اس کی پیداوار میں زیادہ سے زیادہ اضافہ ہو۔ جس مالی کو وہ دیکھے گا کہ وہ خوب محنت سے جی لگا کر، سلیقہ اور قابلیت سے اس کے باغ کی خدمت کر رہا ہے، اس کی روشوں کو سنوار رہا ہے اس کے اچھے درختوں کی پرورش کر رہا ہے، اس کی بری ذات کے درختوں اور جھاڑ جھنکاڑ سے صاف کر رہا ہے اور اس میں اپنی جدت اور جودت سے عمدہ پھلوں اور پھولوں کی نئی نئی قسموں کا اضافہ کر رہا ہے تو ضرور ہے کہ وہ اس سے خوش ہو اور اسے ترقی دے اور ایسے لائق فرض شناس اور خدمت گذار مالی کو نکالنا پسند نہ کرے۔ لیکن اس کے بر عکس اگر وہ دیکھے کہ مالی نالائق بھی ہے کام چور بھی ہے اور جان بوجھ کر یا بے جانے بوجھے اس کے باغ کے ساتھ بدخواہی کر رہا ہے، سارا باغ گندگیوں سے اٹا پڑا ہے، روشیں پھوٹ پڑ رہی ہیں، پانی کہیں بلا ضرورت بہہ رہا ہے اور کہیں قطعے کے قطعے سوکھتے چلے جارہے ہیں، گھاس پھونس اور جھاڑ جھنکاڑ بڑھتے چلے جاتے ہیں اور پھولوں اور پھل دار درختوں کو بیدردی کے ساتھ کاٹ کاٹ کر اور تو ڑتوڑ کر پھینکا جا رہا ہے، اچھے درخت مرجھا رہے ہیں اور خاردار جھاڑیاں بڑھ رہی ہیں تو آپ خود سوچئے کہ باغ کا مالک ایسے مالی کو کیسے پسند کر سکتا ہے، کوئی سفارش، کونسی عرض معروض اور دست بستہ التجائیں اور کون سے آبائی حقوق یا دوسرے خود ساختہ حقوق کا لحاظ اس کو اپنا باغ ایسے مالی کے حوالے کئے رہنے پر آمادہ کر سکتا ہے؟ زیادہ سے زیادہ رعایت وہ بس اتنی ہی تو کرے گا کہ اسے تنبیہ کر کے پھر ایک موقع دیدے مگر جو مالی تنبیہ پر بھی ہوش میں نہ آئے اور باغ کو اجاڑے ہی چلا جائے اس کا علاج اس کے سوا اور کیا ہے کہ باغ کا مالک کان پکڑا اسے نکال کر باہر کرے اور دوسر امالی اس کی جگہ رکھ لے۔

مالک اور مالیوں کے نقطہ نظر کا فرق

اب غور کیجئے کہ اپنے ایک ذرا سے باغ کے انتظام میں جب آپ یہ طریقہ اختیار کرتے ہیں تو خدا جس نے اپنی اتنی بڑی زمین، اتنے سر و سامان کے ساتھ انسانوں کے حوالے کی ہے اور وہ اتنے وسیع اختیارات ان کو اپنی دنیا اور اس کی چیزوں پر دیتے ہیں وہ آخر اس سوال کو نظر انداز کیسے کر سکتا ہے کہ آپ اس کی دنیا بنا رہے ہیں یا اجاڑ رہے ہیں۔ آپ بنا رہے ہوں تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ وہ آپ کو خواہ مخواہ ہٹادے لیکن آپ بنائیں کچھ نہیں اور اس کے اس عظیم الشان باغ کو بگاڑتے اور اجاڑتے ہی چلے جائیں تو آپ نے اپنے دعوے، اپنی دانست میں خواہ کیسی ہی زبردست من مانی بنیادوں پر قائم کر رکھے ہوں، وہ اپنے باغ پر آپ کے کسی حق کو تسلیم نہیں کرے گا، اور کچھ تنبیہات کر کے سنبھلنے کے دو چار مواقع دے کر آخر آپ کو انتظام سے بے دخل ہی کر کے چھوڑے گا۔

اس معاملہ میں خدا کا نقطہ نظر انسانوں کے نقطہ نظر سے اسی طرح مختلف ہے جس طرح خود انسانوں میں ایک باغ کے مالک کا نقطہ نظر اس کے مالی کے نقطہ نظر سے مختلف ہوا کرتا ہے۔ فرض کیجئے کہ مالیوں کا ایک خاندان دو چار پشت سے ایک شخص کے باغ میں کام کرتا چلا آ رہا ہے۔ ان کا کوئی دادا پر دادا اپنی لیاقت و قابلیت کی وجہہ سے یہاں رکھا گیا تھا پھر اس کی اولاد نے بھی کام اچھا کیا تو مالک نے سوچا کہ خواہ مخواہ انہیں ہٹانے اور نئے آدمی رکھنے کی کیا ضرورت ہے۔ جب کام یہ اچھا کر رہے ہیں تو ان کا حق دوسروں سے زیادہ ہے اس طرح یہ خاندان باغ میں جم گیا لیکن اب اس خاندان کے لوگ نہایت نالائق، بے سلیقہ، کام چور اور فرض نا شناس اٹھے ہیں۔ باغبانی کی کوئی صلاحیت ان کے اندر نہیں ہے سارے باغ کا ستیاناس کئے ڈالتے ہیں اور اس پر ان کا یہ دعوی ہے کہ ہم باپ دادا کے وقتوں سے اس باغ میں رہتے چلے آتے ہیں، ہمارے پردادا کے ہی ہاتھوں اول اول باغ آباد ہوا تھا۔ لہذا ہمارے اس پر پیدائشی حقوق ہیں۔ اور اب کسی طرح یہ جائز نہیں ہے کہ ہمیں بے دخل کر کے کسی دوسرے کو یہاں کا مالی بنایا جائے۔ یہ ان نالائق مالیوں کا نقطہ نظر ہے مگر کیا باغ کے مالک کے نقطہ نظر بھی یہی ہو سکتا ہے۔ کیا وہ یہ نہ کہے گا کہ میرے نزدیک تو سب سے مقدم چیز میرے باغ کا حسن انتظام ہے، میں نے یہ باغ تمہارے پردادا کیلئے نہیں لگایا تھا بلکہ تمہارے پردادا کو اس باغ کے لئے نوکر رکھا تھا۔ تمہارے اس پر جو حقوق بھی ہیں خدمت اور قابلیت کے ساتھ مشروط ہیں، باغ کو بناؤ گے تو تمہارے سب حقوق کا خیال کیا جائے گا۔ اپنے پرانے مالیوں سے آخر مجھے کیا دشمنی ہو سکتی ہے کہ وہ کام اچھا کریں تب بھی میں انہیں خواہ مخواہ نکال ہی دوں اور نئے امیدواروں کا بلاضرورت تجربہ کروں لیکن اگر اس باغ ہی کو تم بگاڑتے اور اجاڑتے رہے جس کے انتظام کی خاطر تمہیں رکھا گیا تھا تو پھر تمہارا کوئی حق مجھے تسلیم نہیں دوسرے امیدوار موجود ہیں۔ باغ کا انتظام ان کے حوالے کروں گا اور تم کو ان کے ماتحت پیش خدمت بن کر رہنا ہو گا اس پر بھی اگر تم درست نہ ہوئے اور ثابت ہوا کہ ماتحت کی حیثیت سے بھی تم کسی کام کے نہیں ہو بلکہ کچھ بگاڑنے ہی والے ہو تو تمہیں یہاں سے نکال باہر کیا جائے گا اور تمہاری جگہ خدمت گار بھی دوسرے ہی لا کر بسائے جائیں گے۔

یہ فرق جو مالک اور مالیوں کے نقطہ نظر میں ہے ٹھیک یہی فرق دنیا کے مالک اور دنیا والوں کے نقطہ نظر میں بھی ہے۔ دنیا کی مختلف قومیں زمین کے جس جس خطہ میں بستی ہیں ان کا دعوی یہی ہے کہ یہ خطہ ہمارا قومی وطن ہے پشتہا پشت سے ہم اور ہمارے باپ دادا یہیں رہتے چلے آئے ہیں۔ اس ملک پر ہمارے پیدائشی حقوق ہیں لہذا یہاں انتظام ہمارا اپنا ہی ہونا چاہئیے۔ کسی دوسرے کو حق نہیں پہنچتا کہ باہر سے آکر یہاں کا انتظام کرے، مگر زمین کے مالک خدا کا نقطہ نظر یہ نہیں ہے اس نے کبھی ان قومی حقوق کو تسلیم نہیں کیا ہے وہ نہیں مانتا کہ ہر ملک پر اس کے باشندوں کا پیدائشی حق ہے جس سے اس کو کسی حال میں بے دخل نہیں کیا جاسکتا وہ تو یہ دیکھتا ہے کہ کوئی قوم اپنے وطن میں کام کیا کر رہی ہے۔ اگر وہ بناؤ اور سنوار کے کام کر رہی ہو، اگر وہ اپنی قوتیں زمین کی اصلاح و ترقی میں استعمال کرتی ہو، اگر وہ برائیوں کی پیداوار روکنے اور بھلائیوں کی کھیتی سینچنے میں لگی ہوئی ہو تو مالک کائنات کہتا ہے کہ بے شک تم اس کے مستحق ہو کہ یہاں کا انتظام تمہارے ہاتھ میں رہنے دیا جائے۔ تم پہلے سے یہاں آباد بھی ہو اور اہل بھی ہو لہذا تمہارا ہی حق دوسروں کی بہ نسبت مقدم ہے لیکن اگر معاملہ برعکس ہو، بناؤ کچھ نہ ہو اور سب بگاڑ ہی کے کام ہوئے جا رہے ہوں، بھلائیاں کچھ نہ ہوں اور برائیوں ہی سے خدا کی زمین بھری جا رہی ہو۔ جو کچھ خدا نے زمین پر پیدا کیا اسے بے دردی کے ساتھ تباہ کیا جا رہا ہو اور کوئی بہتر کام اس سے لیا ہی نا جاتا ہو تو پھر خدا کی طرف سے پہلے کچھ ہلکی اور کچھ سخت چوٹیں لگائی جاتی ہیں تاکہ یہ لوگ ہوش میں آئیں اور اپنا رویہ درست کر لیں۔ پھر جب وہ قوم اس پر بھی درست نہیں ہوتی تو اسے ملک کے انتظام سے بے دخل کر دیا جاتا ہے اور کسی دوسری قوم کو جو کم از کم اس کی بہ نسبت اہل تر ہو، وہاں کی حکومت دیدی جاتی ہے اور بات اس پر بھی ختم نہیں ہو جاتی۔ اگر ماتحت بننے کے بعد بھی باشندگان ملک کسی لیاقت و اہلیت کا ثبوت نہیں دیتے اور اپنے عمل سے یہی ظاہر کرتے ہیں کہ ان سے کچھ بھی بن نہ آئے گا بلکہ کچھ بگڑے گا ہی تو خدا پھر ایسی قوم کو مٹا دیتا ہے اور دوسروں کو لے آتا ہے جو اس کی جگہ بستے ہیں۔ اس معاملے میں خدا کا نقطہ نظر ہمیشہ وہی ہوتا ہے جو مالک کا ہونا چاہئے۔ وہ اپنی زمین کے دعویداروں اور امیدواروں کے آبائی یا پیدائشی حقوق نہیں دیکھتا بلکہ یہ دیکھتا ہے کہ ان میں کون بناؤ کی زیادہ سے زیادہ صلاحیت اور بگاڑ کی طرف کم سے کم میلان رکھتا ہے ایک وقت کے امیدواروں میں سے جو اس لحاظ سے اہل تر نظر آتے ہیں، انتخاب انہیں کا ہوتا ہے اور جب تک ان کے بگاڑ سے ان کا بناؤ زیادہ رہتا ہے، یا جب تک ان کی بہ نسبت زیادہ اچھا بنانے والا اور کم بگاڑنے والا کوئی میدان میں نہیں آجاتا اس وقت تک انتظام انہی کہ سپرد رہتا ہے۔

تاریخِ ہند کا جائزہ

یہ جو کچھ عرض کر رہا ہوں، تاریخ گواہ ہے کہ خدا نے ہمیشہ اپنی زمین کا انتظام اسی اصول پر کیا ہے۔ دور کیوں جائے خود اپنے اس ملک کی تاریخ دیکھ لیجئے یہاں جو قو میں آباد تھیں، ان کی تعمیری صلاحیتیں جب ختم ہو گئیں تو خدا نے آریوں کو یہاں کے انتظام کا موقع دیا جو اپنے وقت کی قوموں میں سے سب سے زیادہ اچھی صلاحیتیں رکھتے تھے انہوں نے یہاں آکر ایک بڑے شاندار تمدن کی بنیاد رکھی، بہت سے علوم و فنون ایجاد کئے اور زمین کے خزانوں کو نکالا اور انہیں بہتری میں استعمال کیا، بگاڑ سے زیادہ بناؤ کے کام کر کے دکھائے۔ یہ قابلیتیں جب تک ان میں رہیں تاریخ کے سارے نشیبوں اور فرازوں کے باوجود ہی اس ملک کے منتظم رہے، دوسرے امیدوار بڑھ بڑھ کر آگے آئے مگر دھکیل دیئے گئے، کیونکہ ان کے ہوتے دوسرے منتظم کی ضرورت نہ تھی۔ ان کے حملے زیادہ سے زیادہ بس یہ حیثیت رکھتے تھے کہ جب کبھی یہ ذرا بگڑنے لگے تو کسی کو بھیج دیا گیا تاکہ انہیں متنبہ کردے۔ مگر جب یہ بگڑتے ہی چلے گئے اور انہوں نے بناؤ کے کام کم اور بگاڑ کے کام زیادہ شروع کر دیئے جب انہوں نے اخلاق میں وہ پستی اختیار کی جس کے آثار بام مارگی تحریک میں آپ اب بھی دیکھ سکتے ہیں جب انہوں نے انسانیت کی تقسیم کر کے خود اپنی ہی سوسائٹی کو ورنوں اور ذاتوں میں پھاڑ ڈالا اور اپنی اجتماعی زندگی کو ایک زینے کی شکل میں ترتیب دیا، جس کی ہر سیڑھی کا بیٹھنے والا اپنے سے اوپر کی سیڑھی والے کا بندہ اور نیچے کی سیڑھی والے کا خدا بن گیا۔ جب انہوں نے خدا کے لاکھوں کروڑوں بندوں پر وہ ظلم ڈھایا جو آج تک اچھوت پن کی شکل میں موجود ہے جب انہوں نے علم کے دروازے عام انسانوں پر بند کر دیئے اور ان کے پنڈت علم کے خزانوں پر سانپ بن کر بیٹھ گئے اور جب ان کے کار فرما طبقوں کے پاس اپنے زبر دستی جمائے ہوئے حقوق وصول کرنے اور دوسروں کی محنتوں پر داد عیش دینے کے سوا کوئی کام نہ رہا تو خدا نے آخر کار ان سے ملک کا انتظام چھین لیا اور وسط ایشیاء کی ان قوموں کو یہاں کام کرنے کا موقع دیا جو اس وقت اسلام کی تحریک سے متاثر ہو کر زندگی کی بہتر صلاحیتوں سے آراستہ ہوگئی تھیں۔

یہ لوگ سینکڑوں برس تک یہاں کے انتظام پر سرفراز رہے اور ان کے ساتھ خود اس ملک کے بھی بہت سے لوگ اسلام قبول کر کے شامل ہو گئے۔ اس میں شک نہیں کہ ان لوگوں نے بہت کچھ بگاڑا بھی، مگر جتنا بگاڑا اس سے زیادہ بنایا۔ کئی سو برس تک ہندوستان میں بناؤ کا جو کام بھی ہوا انہی کے ہاتھوں ہوا یا پھر ان کے اثر سے ہوا۔ انہوں نے علم کی روشنی پھیلائی۔ خیالات کی اصلاح کی۔ تمدن اور معاشرت کو بہت کچھ درست کیا۔ ملک کے ذرائع و وسائل کو اپنے عہد کے معیار کے لحاظ سے بہتری میں استعمال کیا اور امن و انصاف کا عمدہ نظام قائم کیا جو اگر چہ اسلام کے اصلی معیار سے بہت کم تھا۔ مگر پہلے کی حالت اور گردوپیش کے دوسرے ملکوں کی حالت سے مقابلہ کرتے ہوئے کافی بلند تھا۔ اس کے بعد وہ بھی اپنے پیش رووں کی طرح بگڑنے لگے۔ ان کے اندر بھی بناؤ کی صلاحیتیں گھٹنی شروع ہوئیں اور بگاڑ کے میلانات بڑھتے چلے گئے۔ انہوں نے بھی اونچ نیچ اور نسلی امتیازات اور طبقاتی تفریقیں کر کے خود اپنی سوسائٹی کو پھاڑ لیا جس کے بے شمار اخلاقی، سیاسی اور تمدنی نقصانات ہوئے۔ انہوں نے بھی انصاف کم اور ظلم زیادہ شروع کر دیا۔ وہ بھی حکومت کی ذمہ داریوں کو بھول کر صرف اس کے فائدوں اور زیادہ تر ناجائز فائدوں پر نظر رکھنے لگے۔ انہوں نے بھی تعمیر، ترقی اور اصلاح کے کام چھوڑ کر خدا کی دی ہوئی قوتوں اور ذرائع کو ضائع کرنا شروع کیا اور اگر استعمال کیا بھی تو زیادہ تر زندگی کو بگاڑنے والے کاموں میں کیا۔ تن آسانی اور عیش پرستی میں وہ اتنے کھو گئے کہ جب آخری شکست کھا کر ان کے فرمانرواؤں کو دلی کے لال قلعہ سے نکلنا پڑا تو ان کے شہزادے وہی جو ملک کی حکومت کے امیدوار تھے جان بچانے کے لئے بھاگ بھی نہ سکتے تھے۔ کیونکہ زمین پر چلنا انہوں نے چھوڑ رکھا تھا۔ مسلمانوں کی عام اخلاقی پستی اس حد کو پہنچ گئی کہ ان کے عوام سے لے کر بڑے بڑے ذمہ دار لوگوں تک کسی میں بھی اپنی ذات کے سوا دوسری کسی چیز کی وفاداری باقی نہ رہی جو انہیں دین فروشی قوم فروشی اور ملک فروشی سے روکتی اور ان میں ہزاروں، لاکھوں پیشہ ور سپاہی پیدا ہونے لگے، جن کی اخلاقی حالت پالتو کتے کی سی تھی کہ جو چاہے روٹی دے کر انہیں پال لے اور پھر جس کا دل چاہے ان سے شکار کرالے۔ ان میں یہ احساس بھی باقی نہ رہا تھا کہ یہ ذلیل ترین پیشہ، جس کی بدولت ان کے دشمن خود انہی کے ہاتھوں ان کا ملک فتح کر رہے تھے، اپنے اندر کوئی ذلت کا پہلو بھی رکھتا ہے۔ غالب جیسا شخص فخریہ کہتا ہے کہ:

سو پشت سے ہے پیشہ آبا سپہ گری

یہ بات کہتے ہوئے ہمارے اتنے بڑے شاعروں کو ذرا خیال تک نہ گذرا کہ پیشہ ورانہ سپہ گری کوئی فخر کی نہیں ڈوب مرنے کی بات ہے۔

جب یہ ان کی حالت ہو گئی تو خدا نے ان کی معزولی کا بھی فیصلہ کر لیا اور ہندوستان کے انتظام کا منصب پھر نئے امیدواروں کے لئے کھل گیا۔ اس موقع پر چار امیدوار میدان میں تھے۔ مرہٹے، سکھ، انگریز اور بعض مسلمان رئیس۔ آپ خود انصاف کے ساتھ قومی تعصب کی عینک اتار کر اس دور کی تاریخ اور بعد کے حالات کو دیکھیں گے تو آپ کا دل گواہی دے گا کہ دوسرے امیدواروں میں سے کسی میں بھی بناؤ کی وہ صلاحیتیں نہ تھیں جو انگریزوں میں تھیں اور جتنا بگاڑ انگریزوں میں تھا، اس سے کہیں زیادہ مرہٹوں سکھوں اور مسلمان امیدواروں میں تھا۔ جو کچھ انگریزوں نے بنایا ان میں سے کوئی نہ بناتا اور جو کچھ انہوں نے بگاڑا اس سے بہت زیادہ دوسرے امیدوار بگاڑ کر رکھ دیتے۔ مطلقاً دیکھئے تو انگریزوں میں بہت سے پہلووں سے بے شمار برائیاں آپ کو نظر آئیں گی۔ مگر مقابلتاً دیکھئے تو اپنے ہم عصر حریفوں سے ان کی برائیاں بہت کم اور ان کی خوبیاں بہت زیادہ نکلیں گی۔ یہی وجہ ہے کہ خدا کے قانون نے پھر ایک مرتبہ انسانوں کے اس من مانے اصول کو توڑ دیا جو انہوں نے بغیر کسی حق کے بنا رکھا ہے کہ ”ہر ملک خود ملکیوں کے لئے ہے خواہ وہ اسے بنائیں یا بگاڑیں“۔ اس نے تاریخ کے اٹل فیصلہ سے ثابت کیا کہ نہیں، ملک تو خدا کا ہے، وہی یہ طے کرنے کا حق رکھتا ہے کہ اس کا انتظام کس کے سپر د کرے اور اس کا فیصلہ کسی نسلی، قومی آبائی حق کی بناء پر نہیں ہوتا بلکہ اس بنیاد پر ہوتا ہے کہ مجموعی بھلائی کون سے انتظام میں ہے۔

”قل اللهم مالک الملک تؤتی الملک من تشاء وتنزع الملک ممن تشاء وتعز من تشاء وتذل من تشاء بیدک الخیر انک علی کل شئ قدیر“

ترجمہ: یعنی ”کہو کہ خدایا ملک کے مالک! تو جس کو چاہتا ہے ملک دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے ملک چھین لیتا ہے جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلیل کر دیتا ہے، بھلائی تیری ہی ہاتھ میں ہے اور تو ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔“ (قرآنی آیات)

اس طرح اللہ تعالیٰ ہزاروں میل کے فاصلہ سے ایک ایسی قوم کو لے آیا جو کبھی تین چار لاکھ کی تعداد سے زیادہ نہیں رہی اور اس نے یہیں کے ذرائع اور یہیں کے آدمیوں سے یہاں کی ہندو مسلم، سکھ، سب طاقتوں کو زیر کر کے اس ملک کا انتظام اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ یہاں کے کروڑوں باشندے ان مٹھی بھر انگریزوں کے تابع فرمان بن کر رہے۔ ایک ایک انگریز نے تن تنہا ایک ایک ضلع پر حکومت کی۔ بغیر اس کے کہ اس کی قوم کا کوئی دوسرا فرد اس کا ہاتھ مضبوط کرنے کیلئے اس کے پاس موجود ہوتا۔ اس تمام دوران میں ہندوستانیوں نے جو کچھ کیا پیش خدمت کی حیثیت سے کیا نہ کہ کار فرما کی حیثیت سے۔ ہم سب کو یہ ماننا پڑیگا اور نہ مانیں گے تو حقیقت کو جھٹلائیں گے کہ اس ساری مدت میں جب کہ انگریز یہاں رہے، بناؤ کا جو کچھ بھی کام ہوا انگریزوں کے ہاتھوں سے اور ان کے اثر سے ہوا۔ جس حالت میں انہوں نے ہندوستان کو پایا تھا اس کے مقابلہ میں آج کی حالت دیکھئے تو آپ اس بات سے انکار نہ کر سکیں گے کہ بگاڑ کے باوجود بناؤ کا بہت سا کام ہوا ہے جس کے خود اہل ملک کے ہاتھوں انجام پانے کی ہرگز توقع نہ کی جاسکتی تھی اس لئے تقدیر الہی کا وہ فیصلہ غلط نہ تھا جو اس نے اٹھارویں صدی کے وسط میں کر دیا تھا۔

موجودہ صورتحال اور ہمارا امتحان

اب دیکھئے انگریز جو کچھ بنا سکتے تھے وہ بنا چکے ہیں۔ ان کے بناؤ کے حساب میں اب کوئی خاص اضافہ نہیں ہو سکتا۔ اس حساب میں جو اضافہ وہ کر سکتے ہیں وہ دوسروں کے ہاتھوں بھی ہو سکتا ہے مگر دوسری طرف ان کے بگاڑ کا حساب بہت بڑھ چکا ہے اور جتنی مدت بھی وہ یہاں رہیں گے بناؤ کی بہ نسبت بگاڑ ہی زیادہ بڑھائیں گے۔ ان کی فرد جرم اتنی لمبی ہے کہ اسے ایک صحبت میں بیان کرنا مشکل ہے اور اس کے بیان کی کوئی حاجت بھی نہیں ہے کیونکہ وہ سب کے سامنے ہے۔ اب تو تقدیر الہی کا فیصلہ یہی ہے کہ وہ یہاں کے انتظام سے بے دخل کر دیئے جائیں۔ انہوں نے بہت عقل مندی سے کام لیا کہ خود سیدھی طرح رخصت ہونے کیلئے تیار ہو گئے۔ سیدھی طرح نہ جاتے تو ٹیڑھی طرح نکالے جاتے کیونکہ خدا کے اٹل قوانین اب ان کے ہاتھ میں یہاں کا انتظام رکھنے کے روادار نہیں ہیں۔

یہ موقع جس کے عین سرے پر ہم آپ کھڑے ہیں تاریخ کے ان اہم مواقع میں سے ہے، جب زمین کا اصلی مالک کسی ملک میں ایک انتظام کو ختم کرتا ہے اور دوسرے انتظام کا فیصلہ کرتا ہے۔ بظاہر جس طرح یہاں انتقال اختیارات کا معاملہ کی سادہ سی صورت یہ سمجھتے ہوں گے کہ اجنبی لوگ جو باہر سے آکر حکومت کر رہے تھے واپس جا رہے ہیں اس لئے اب یہ آپ سے ہونا چاہئے کہ ملک کا انتظام خود ملکیوں کے ہاتھ آئے نہیں، خدا کے فیصلے اس طرح کے نہیں ہوتے۔ وہ ان اجنبیوں کو نہ پہلے بلا وجہ لایا تھا نہ اب بلاوجہ لے جا رہا ہے، نہ پہلے اٹکل ٹپ اس نے آپ سے انتظام چھینا تھا اور نہ اٹکل ٹپ وہ اسے آپ کے حوالے کر دے گا دراصل اس وقت ہندوستان کے باشندے امیدوار کی حیثیت رکھتے ہیں ہندو، مسلمان، سکھ سب امیدوار ہیں چونکہ یہ پہلے سے یہاں آباد چلے آ رہے ہیں اس لئے پہلا موقع انہیں کو دیا جا رہا ہے لیکن یہ مستقل تقرر نہیں ہے بلکہ محض امتحانی موقع ہے، اگر فی الواقع انہوں نے ثابت کیا کہ ان کے اندر بگاڑ سے بڑھ کر بناؤ کی صلاحیتیں ہیں تب تو ان کا تقرر مستقل ہو جائے گا ورنہ اپنے بناؤ سے بڑھ کر اپنا بگاڑ پیش کر کے یہ بہت جلدی دیکھ لیں گے کہ انہیں پھر اس ملک کے انتظام سے بے دخل کر دیا جائے گا اور دور و نزدیک کی قوموں میں سے کسی ایک کو اس خدمت کے لئے منتخب کر لیا جائے پھر اس فیصلہ کے خلاف یہ کوئی فریاد تک نہ کر سکیں گے۔ دنیا بھر کے سامنے اپنی نالائقی کا کھلا ثبوت دے چکنے کے بعد ان کا منہ کیا ہوگا کہ فریاد کریں اور ڈھیٹ بن کر فریاد کریں گے بھی تو اس کی داد کون دے گا۔

ہمارا اخلاقی زوال

اب ذرا آپ جائزہ لے کر دیکھیں کہ ہندوستان کے لوگ ہندو، مسلمان، سکھ اس امتحان پر اپنے خدا کے سامنے کیا صلاحیتیں اور قابلیتیں اور اپنے کیا اوصاف اور کارنامے پیش کر رہے ہیں جن کی بناء پر یہ امید کر سکتے ہوں کہ خدا اپنے ملک کا انتظام پھر ان کے سپر د کر دے گا۔ اس موقع پر اگر میں بے لاگ طریقے سے کھلم کھلا وہ فرد جرم سنا دوں جو اخلاق کی عدالت میں ہندووں، مسلمانوں، سکھوں سب پر لگتی ہے تو امید کرتا ہوں کہ آپ برا نہ مانیں گے، اپنی قوم اور اپنے وطنی بھائیوں کے عیوب بیان کر کے خوشی تو مجھے بھی نہیں ہوتی حقیقت میں میرا دل روتا ہے کیونکہ میں گویا اپنی آنکھوں سے اس کے انجام کو دیکھ رہا ہوں جو ان عیوب کی بناء پر کل انہیں دیکھنا ہی نہیں، بھگتنا پڑے گا۔ مجھے اندیشہ ہے کہ یہ عیوب انہیں لے ڈوبیں گے۔ ہم آپ کوئی بھی ان کے انجام بد سے نہ بچے گا اس لئے میں انہیں دلی رنج کے ساتھ بیان کرتا ہوں تاکہ جن کے کان ہوں وہ سنیں اس اصلاح کی کچھ فکر کریں۔

ہمارے افراد کی عام اخلاقی حالت جیسی کچھ ہے آپ اس کا اندازہ خود اپنے ذاتی تجربات و مشاہدات کی بناء پر کیجئے کوئی ناجائز فائدہ اٹھانے میں، کوئی مفید جھوٹ بولنے میں اور کوئی نفع بخش بے ایمانی کرنے میں ہم میں کتنے فیصدی آدمی پائے جاتے ہیں جو کسی کا حق تلف کرنے میں صرف اس بناء پر تامل کرتے ہوں کہ ایسا کرنا اخلاقاً برا ہے؟ جہاں قانون کی گرفت سے بچ نکلنے کی امید ہو وہاں کتنے فیصدی اشخاص محض اپنے اخلاق احساس کی بناء پر کسی جرم اور کسی برائی کا ارتکاب کرنے سے باز رہ جاتے ہیں؟ جہاں اپنے کسی ذاتی فائدے کی توقع نہ ہو وہاں کتنے آدمی دوسروں کے ساتھ بھلائی اور ہمدردی، ایثار، حق رسانی اور حسن سلوک کا برتاؤ کرتے ہیں؟ ہمارے تجارت پیشہ لوگوں میں ایسے تاجروں کا اوسط کیا ہے جو دھوکے، فریب اور جھوٹ اور ناجائز نفع اندوزی سے پرہیز کرتے ہوں؟ ہمارے صنعت پیشہ لوگوں میں ایسے افراد کا تناسب کیا ہے جو اپنے فائدے کے ساتھ کچھ اپنے خریداروں کے مفاد اور اپنی قوم اور اپنے ملک کی مصلحت کا بھی خیال کرتے ہوں؟ ہمارے زمینداروں میں کتنے ہیں جو غلہ روکتے ہوئے بے حد گراں قیمتوں پر بیچتے ہوئے یہ سوچتے ہوں کہ اپنی اس نفع اندوزی سے وہ کتنے لاکھ بلکہ کتنے کروڑ انسانوں کو فاقہ کشی کا عذاب دے رہے ہیں؟ ہمارے مالداروں میں کتنے ہیں جن کی دولت مندی میں کسی کی حق تلفی اور بد دیانتی کا دخل نہیں ہو؟ ہمارے محنت پیشہ لوگوں میں کتنے ہیں جو فرض شناسی کے ساتھ اپنی اجرت اور اپنی تنخواہ کا حق ادا کرتے ہیں؟ ہمارے سرکاری ملازموں میں کتنے ہیں جو رشوت اور خیانت سے، ظلم اور مردم آزاری سے، کام چوری اور حرام خوری سے اور اپنے اختیارات کے ناجائز استعمال سے بچے ہوئے ہیں؟ ہمارے وکیلوں میں، ہمارے ڈاکٹروں اور حکیموں، ہمارے اخبار نویسوں میں، ہمارے ناشرین و مصنفین میں اور ہمارے ”قومی خدمت گذاروں“ میں کتنے ہیں جو اپنے فائدے کی خاطر ناپاک سے ناپاک طریقے اختیار کرنے اور خلق خدا کو دینی، اخلاقی، مالی اور جسمانی نقصان پہنچانے میں کچھ بھی شرم محسوس کرتے ہوں، شاید میں مبالغہ نہ کروں گا، اگر یہ کہوں کہ ہماری آبادی میں یہ مشکل ۵ فیصدی لوگ اس اخلاقی جذام سے بچے رہ گئے ہیں ورنہ ۹۵ فیصدی کو یہ چھوت بری طرح لگ چکی ہے۔ اس معاملہ میں ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی اور ہریجن کے درمیان کوئی امتیاز نہیں، سب کے سب یکساں بیمار ہیں سب کی اخلاقی حالت انتہائی خوفناک حد تک گری ہوئی ہے اور کسی گروہ کا حال دوسرے سے بہتر نہیں ہے۔

اجتماعی بگاڑ اور فرقہ وارانہ فسادات

اخلاقی تنزل کی وبا جب افراد کی ایک بہت بڑی اکثریت کو اپنی لپیٹ میں لے چکی تو قدرتی بات تھی کہ وسیع پیمانہ پر اجتماعی شکل میں اس کا ظہور شروع ہو جائے اس آنے والے طوفان کی پہلی علامت ہمیں اس وقت نظر آئی جب جنگ کی وجہ سے ریلوں میں مسافروں کا ہجوم ہونے لگا وہاں ایک ہی قوم اور ایک ہی ملک کے لوگوں نے آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ جس خود غرضی، بے دردی اور سنگ دلی کا سلوک کیا وہ پتہ دے رہا تھا کہ ہمارے عام اخلاق کس تیز رفتاری کے ساتھ گر رہے ہیں، پھر اشیاء کی کمیابی اور گرانی کے ساتھ ذخیرہ اندوزی اور چور بازاری بڑے وسیع پیمانے پر شروع ہوئی۔ پھر بنگال کا وہ ہولناک مصنوعی قحط رونما ہوا جس میں ہمارے ایک طبقہ نے اپنے ہی ملک کے لاکھوں انسانوں کو اپنے نفع کی خاطر بھوک سے تڑپا تڑپا کر مار دیا۔ یہ سب ابتدائی علامات تھیں اس کے بعد خباثت، کمینہ پن، درندگی اور وحشت کا وہ لاوا ایک ایک پھٹ پڑا جو ہمارے اندر مدتوں سے پک رہا تھا اور اب وہ فرقہ وارانہ فساد کی شکل میں ہندوستان کو ایک کونے سے لے کر دوسرے کونے تک بھسم کر رہا ہے کلکتہ کے فساد کے بعد سے ہندووں، مسلمانوں، سکھوں کی قومی کش مکش کا جو نیا باب شروع ہوا ہے اس میں تینوں اپنی ذلیل ترین صفات کا مظاہرہ کر رہی ہیں جن افعال کا تصور تک نہیں کیا جا سکتا تھا کہ کوئی انسان کبھی ان کا بھی مرتکب ہو سکتا ہے آج ہمارے بستیوں کے رہنے والے علانیہ ان کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ بڑے بڑے علاقوں کی پوری پوری آبادیاں غنڈہ بن گئی ہیں اور وہ کام کر رہی ہیں جو کسی غنڈے کے خواب و خیال میں بھی کبھی نہ آئے تھے۔ شیر خوار بچوں کو ماؤں کے سینوں پر رکھ کر ذبح کیا گیا ہے۔ زندہ انسانوں کو آگ میں بھونا گیا ہے۔ شریف عورتوں کو برسر عام ننگا کیا گیا ہے۔ اور ہزاروں کے مجمع میں ان کے ساتھ بدکاری کی گئی ہے۔ باپوں، شوہروں اور بھائیوں کے سامنے ان کی بیٹیوں، بیویوں اور بہنوں کو بے عزت کیا گیا ہے۔ عبادت گاہوں اور مذہبی کتابوں پر غصہ نکالنے کی ناپاک ترین شکلیں اختیار کی گئی ہیں۔ بیماروں اور زخمیوں اور بوڑھوں کو انتہائی بے رحمی کے ساتھ مارا گیا ہے۔ مسافروں کو چلتی ریل پر سے پھینکا گیا ہے۔ زندہ انسانوں کے اعضاء کاٹے گئے ہیں۔ نہتے اور بے بس انسانوں کو جانوروں کی طرح شکار کیا گیا ہے۔ ہمسایوں نے ہمسایوں کو لوٹا ہے، دوستوں نے دوستوں سے دغا کی ہے، پناہ دینے والوں نے خود اپنی دی ہوئی پناہ کو توڑا ہے، امن و امان کے محافظوں (پولیس اور فوج، مجسٹریٹوں) نے علانیہ فساد میں حصہ لیا ہے بلکہ خود فساد کیا اور اپنی حمایت و نگرانی میں فساد کرایا ہے۔ غرض ظلم و ستم، سنگ دلی، بے رحمی اور کمینگی و بد معاشی کی کوئی قسم نہیں رہ گئی ہے جس کا ارتکاب ان چند مہینوں میں ہمارے ملک کے رہنے والے نے اجتماعی طور پر نہ لیا ہو اور ابھی دلوں کا غبار پوری طرح نکلا نہیں ہے۔ آثار بتا رہے ہیں کہ جو کچھ ہو چکا ہے وہ سب کچھ اس سے بہت زیادہ بڑے پیمانے پر اور بدر جہا بدتر صورت میں ابھی ہونے والا ہے۔

کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ سب کچھ محض کسی اتفاقی ہیجان کا نتیجہ ہے؟ اگر یہ آپ کا گمان ہے تو آپ سخت غلط فہمی میں مبتلا ہیں۔ ابھی بتا چکا ہوں کہ اس ملک کی آبادی کے ۹۵ فیصدی افراد اخلاقی حیثیت سے بیمار ہو چکے ہیں، جب افراد کی اتنی بڑی اکثریت بد اخلاق ہو جائے تو قوموں کا اجتماعی رویہ آخر کیسے درست ہو سکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ہندو، مسلمان اور سکھ تینوں قوموں میں سچائی، انصاف، اور حق پسندی کی کوئی قدر و قیمت باقی نہیں رہی۔

راست باز، دیانت دار اور شریف انسان ان کے اندر نگو بن کر رہ گئے ہیں۔ برائی سے روکنا اور بھلائی کی نصیحت کرنا ان کی سوسائٹی میں ایک ناقابل برداشت جرم ہو گیا ہے۔ حق اور انصاف کی بات سننے کے لئے وہ تیار نہیں ہیں۔ ان میں سے ہر ایک قوم کو وہی لوگ پسند ہیں جو اس کی حد سے بڑھی ہوئی خواہشات اور اغراض کی وکالت کریں۔ دوسروں کے خلاف اس کے تعصبات کو بھڑکائیں اور اس کے جائز و ناجائز مقاصد کے لئے لڑنے کے لئے تیار ہوں۔ اسی بناء پر ان قوموں نے چھانٹ چھانٹ کر اپنے اندر سے بدترین آدمیوں کو چنا اور انہیں اپنا نمائندہ بنایا۔ انہوں نے اپنے اکابر سے مجرمین کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالا اور انہیں اپنا سربراہ کار بنالیا۔ ان کی سوسائٹی میں جو لوگ سب سے زیادہ پست اخلاق، بے ضمیر اور بے اصول تھے وہ ان کی ترجمانی کے لئے اٹھے تھے اور اخبار نویسی کے میدان میں سب سے بڑھ کر مقبول ہوئے پھر یہ سب لوگ بگاڑ کی راہ پر اپنی اپنی بگڑی ہوئی قوموں کو سرپٹ لے کر دوڑے۔ انہوں نے متضاد قومی خواہشات کو کسی نقطہ انصاف پر جمع کرنے کے بجائے اتنا بڑھایا کہ وہ آخر کار نقطہ تصادم پر پہنچ گئیں انہوں نے معاشی و سیاسی اغراض کی کش مکش میں غصے اور نفرت اور عداوت کا زہر ملایا، اور اسے روز بروز بڑھاتے چلے گئے۔ انہوں نے برسوں اپنی اپنی زیر اثر قوموں کو اشتعال انگیز تقریروں اور تحریروں کے انجکشن دے دے کر یہاں تک بھڑکایا کہ وہ جوش میں آکر کتوں اور بھیڑیوں کی طرح لڑنے کھڑی ہو گئیں۔ انہوں نے عوام اور خواص کے دلوں کو ناپاک جذبات کی سڑاند اس اور اندھی دشمنی کا تنور بنا کر رکھ دیا اور جو طوفان آپ کی نگاہوں کے سامنے برپا ہے، یہ کوئی وقتی اور ہنگامی چیز نہیں ہے جو اچانک رونما ہو گئی ہو۔ یہ قدرتی نتیجہ ہے بگاڑ کے ان بے شمار اسباب کا جو مدتوں ہمارے اندر کام کر رہے تھے اور یہ نتیجہ بس ایک ہی دفعہ ظاہر ہو کر نہیں رہ جائے گا بلکہ جب تک وہ اسباب اپنا کام کئے جا رہے ہیں یہ روز افزوں ترقی کے ساتھ ظاہر ہوتا چلا جائیگا یہ ایک بس بھری فصل ہے جو برسوں کی تخم ریزی و آبیاری کے بعد اب پک کر تیار ہوئی ہے اور آپ کو اور آپ کی نسلوں کو نہ معلوم کب تک کاٹنا پڑے گا۔

اہلیت کا ثبوت یا نااہلی کا مظاہرہ؟

حضرات! آپ ٹھنڈے دل سے سوچیں کہ عین اس وقت جب کہ قانون قدرت کے مطابق اس ملک کی قسمت کا نیا انتظام درپیش ہے ہم مالک زمین کے سامنے اپنی اہلیت و قابلیت کا کیا ثبوت پیش کر رہے ہیں موقع تو یہ تھا کہ ہم اپنے طرز عمل یہ ثابت کرتے کہ اگر وہ اپنی زمین کا انتظام ہمارے حوالے کرے گا تو ہم اسے خوب سنوار کر گلزار بنائیں گے، ہم اس میں انصاف کریں گے اسے ہمدردی، تعاون اور رحمت کا گہوارہ بنائیں گے، اس کے وسائل کو اپنی اور انسانیت کی فلاح میں استعمال کریں گے۔ اس میں بھلائیوں کو پروان چڑھائیں گے اور برائیوں کو دبائیں گے، لیکن ہم اسے بنا رہے ہیں کہ ہم ایسے غارت گر، اس قدر مفسد اور اتنے ظالم ہیں کہ اگر تو نے یہ زمین ہمارے حوالے کی تو اس کی بستیوں کو اجاڑیں گے، محلے کے محلے اور گاؤں گاؤں پھونک دیں گے۔ انسان کی جان کو مکھی اور مچھر سے زیادہ بے قیمت کر دیں گے۔ عورتوں کو بے عزت کریں گے۔ چھوٹے چھوٹے بچوں کا شکار کریں گے۔ بوڑھوں اور بیماروں اور زخمیوں پر بھی رحم نہ کھائیں گے۔ عبادت گاہوں اور مذہبی کتابوں تک کو اپنے نفس کی گندگی سے لیس دیں گے اور جس زمین کو تو نے انسانوں سے آباد کیا ہے اس کی رونق ہم لاشوں اور جلی ہوئی عمارتوں سے بڑھائیں گے۔ کیا واقعی آپ کا ضمیر یہ گواہی دیتا ہے کہ اپنی خدمت، یہ اوصاف، یہ کارنامے پیش کر کے آپ خدا کی نگاہ میں اس کی زمین کے انتظام کے لئے اہل ترین بندے قرار پائیں گے؟ کیا یہ کرتوت دیکھ کر وہ آپ سے کہے گا کہ ”شاباش، اے میرے پرانے مالیوں کی اولاد! تم ہی سب سے بڑھ کر میرے اس باغ کی رکھوالی کے قابل ہو، اسی اکھڑ پچھاڑ، اسی اجاڑ اور بگاڑ، اسی تباہی و بربادی اور گندگی و غلاظت کے لئے تو میں نے یہ باغ لگایا تھا لو اب اسے اپنے ہاتھ میں لے خوب خراب کرو!

میں یہ باتیں آپ سے اس لئے نہیں کہہ رہا ہوں کہ آپ اپنے سے اور اپنے ملک کے مستقبل سے مایوس ہو جائیں۔ میں نہ خود مایوس ہوں نہ کسی کو مایوس کرنا چاہتا ہوں۔ دراصل میرا مدعا آپ کو یہ بتانا ہے کہ ہندوستان کے لوگ اپنی حماقت اور جہالت سے اس زریں موقع کو کھونے پر تلے ہوئے ہیں جو کسی ملک کی قسمت بدلتے وقت صدیوں کے بعد خداوند عالم اس کے باشندوں کو دیا کرتا ہے۔ یہ وقت تھا کہ ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر اپنے اعلی اوصاف اور اپنی بہتر صلاحیتوں کا ثبوت پیش کرتے تاکہ خدا کی نگاہ میں انتظام زمین کے اہل قرار پاتے۔ مگر آپ کے درمیان مقابلہ اس چیز میں ہو رہا ہے کہ کون زیادہ غارت گر، زیادہ سفاک اور زیادہ ظالم ہے، تاکہ سب سے بڑھ کر خدا کی لعنت کا وہی مستحق قرار پائے۔ یہ چھن آزادی، ترقی اور سرفرازی کے نہیں ہیں۔ ان سے تو اندیشہ ہے کہ کہیں پھر ایک مدت دراز کے لئے ہمارے حق میں غلامی اور ذلت کا فیصلہ نہ لکھ دیا جائے۔ لہذا جو لوگ عقل و ہوش رکھتے ہیں، انہیں ان حالات کی اصلاح کے لئے کچھ فکر کرنی چاہئے۔

اصلاح کی صورت کیا ہے؟

اس مرحلہ پر آپ کے دل میں یہ سوال خود بخود پیدا ہو گا کہ اصلاح کی صورت کیا ہے؟ میں اس کا جواب دینے کے لئے حاضر ہوا ہوں۔

اس تاریکی میں ہمارے لئے امید کی ایک ہی شعاع ہے اور وہ یہ ہے کہ ہماری پوری آبادی بگڑ کر نہیں رہ گئی ہے بلکہ اس میں کم از کم چار پانچ فیصدی لوگ ایسے ضرور موجود ہیں جو اس عام بد اخلاقی سے بچے ہوئے ہیں۔ یہی وہ سرمایہ جس کو اصلاح کی ابتداء کرنے کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے، اصلاح کی راہ میں پہلا قدم یہ ہے کہ اس صالح عنصر کو چھانٹ چھانٹ کر منظم کیا جائے، ہماری بدقسمتی کی بڑی وجہ یہی ہے کہ ہمارے ہاں بدی تو منظم ہے اور پوری باقاعدگی کے ساتھ اپنا کام کر رہی ہے لیکن نیکی منظم نہیں ہے۔ نیک لوگ موجود ضرور ہیں مگر منتشر ہیں ان کے اندر کوئی ربط اور تعلق نہیں ہے کوئی تعاون اور اشتراک عمل نہیں ہے کوئی لائحہ عمل اور کوئی مشترک آواز نہیں ہے اسی چیز نے ان کو بالکل بے اثر بنا دیا ہے۔ کبھی کوئی اللہ کا بندہ اپنے گردوپیش کی برائیوں کو دیکھ کر چیخ اٹھتا ہے مگر جب کسی طرف سے کوئی آواز اس کی تائید میں نہیں اٹھتی تو مایوس ہو کر بیٹھ جاتا ہے۔ کبھی کوئی شخص حق اور انصاف کی بات علانیہ کہ بیٹھتا ہے مگر منظم بدی زبردستی اس کا منہ بند کر دیتی اور حق پسند لوگ بس اپنی جگہ چپکے سے اس کو داد دے کر رہ جاتے ہیں کبھی کوئی شخص انسانیت کا خون ہوتے دیکھ کر صبر نہیں کر سکتا اور اس پر احتجاج کر گزرتا ہے مگر ظالم لوگ ہجوم کر کے اسے دبا لیتے ہیں اور اس کا حشر دیکھ کر بہت سے ان لوگوں کی ہمتیں پست ہو جاتی ہیں جن کے ضمیر میں ابھی کچھ زندگی باقی ہے یہ حالت اب ختم ہونی چاہئے۔ اگر ہم یہ نہیں چاہتے کہ ہمارا ملک عذاب میں مبتلا ہو اور اس عذاب میں نیک و بد سب گرفتار ہو جائیں تو ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ ہمارے اندر جو صالح عناصر اس اخلاقی وبا سے بچے رہ گئے ہیں وہ اب مجتمع اور منظم ہوں اور اجتماعی طاقت سے اس بڑھتے ہوئے فتنے کا مقابلہ کریں جو تیزی کے ساتھ ہمیں تباہی کی طرف لے جا رہا ہے۔

آپ اس سے نہ گھبرائیں کہ یہ صالح عنصر اس وقت بظاہر بہت ہی مایوس کن اقلیت میں ہے۔ یہی تھوڑے سے لوگ اگر منظم ہو جائیں اگر ان کا اپنا ذاتی اور اجتماعی رویہ، خالص راستی، انصاف، حق پسندی اور خلوص و دیانت پر مضبوطی کے ساتھ قائم ہو، اگر وہ مسائل زندگی کا بہتر حل اور دنیا کے معاملات کو درست طریقے پر چلانے کے لئے ایک اچھا پروگرام بھی رکھتے ہوں تو یقین جانئے کہ اس منظم نیکی کے مقابلہ میں منظم بدی اپنے لشکروں کی کثرت اور اپنے گندے ہتھیاروں کی تیزی کے باوجود شکست کھا کر رہے گی۔ انسانی فطرت شر پسند نہیں ہے اسے دھوکا ضرور دیا جا سکتا ہے اور ایک بڑی حد تک مسخ بھی کیا جا سکتا ہے مگر اس کے اندر بھلائی کی قدر کا جو مادہ خالق نے ودیعت کر دیا ہے اسے بالکل معدوم نہیں کیا جا سکتا۔ انسانوں میں ایسے لوگ تھوڑے ہی ہوتے ہیں جو بدی ہی سے دلچسپی رکھتے ہیں اور اس کے علمبردار بن کر کھڑے ہوں اور ایسے لوگ بھی کم ہوتے ہیں جنہیں نیکی سے عشق ہو اور اسے قائم کرنے کی جدوجہد کریں ان دونوں گروہوں کے درمیان عام انسان نیکی اور بدی کے ملے جلے رجحانات رکھتے ہیں وہ نہ بدی کے گرویدہ ہیں اور نہ نیکی ہی سے انہیں غیر معمولی دلچسپی ہوتی ہے۔ ان کے کسی ایک طرف جھک جانے کا انحصار تمام تر اس پر ہوتا ہے کہ خیر اور شر کے علم برداروں میں سے کون آگے بڑھ کر انہیں اپنے راستہ کی طرف کھینچتا ہے اگر خیر کے علم بردار میدان میں آئیں ہی نہیں اور ان کی طرف سے عوام الناس کو بھلائی کی راہ پر چلانے کی کوشش ہی نہ ہو تو لامحالہ میدان علم برداران شر ہی کہ ہاتھ رہے گا اور وہ عام انسانوں کو اپنی راہ کھینچ لے جائیں گے۔ لیکن اگر خیر کے علم بردار بھی میدان میں موجود ہوں اور وہ اصلاح کی کوشش کا حق ٹھیک ٹھیک ادا کریں تو عوام الناس پر علم برداران شر کا اثر زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتا۔ کیونکہ ان دونوں کا مقابلہ آخر کار اخلاق کے میدان میں ہو گا اور اس میدان میں نیک انسانوں کو برے انسان کبھی شکست نہیں دے سکتے۔ سچائی کے مقابلہ میں جھوٹ، ایمانداری کے مقابلے میں بے ایمانی اور پاکبازی کے مقابلہ میں بدکرداری خواہ کتنا ہی زور لگالے آخری جیت بہر حال سچائی، ایمانداری اور پاکبازی ہی کی ہوگی۔ دنیا اس قدر بے حس نہیں ہے کہ اچھے اخلاق کی مٹھاس اور برے اخلاق کی تلخی کو چکھ لینے کے بعد آخر کار اس کا فیصلہ یہی ہو کہ مٹھاس سے تلخی زیادہ بہتر ہے۔

اصلاح کے لئے نیک انسانوں کی تنظیم کے ساتھ دوسری ضروری چیز یہ ہے کہ ہمارے سامنے بنا۔ اور بگاڑ کا ایک واضح تصور موجود ہو۔ ہم اچھی طرح یہ سمجھ لیں کہ بگاڑ کیا ہے تاکہ اسے دور کرنے کی کوشش کی جائے اور بناؤ کیا ہے تاکہ اسے دور کرنے کی کوشش کی جائے اور بناؤ کیا ہے تاکہ اسے عمل میں لانے پر سارا زور لگا دیا جائے، تفصیلات میں جانے کا اس وقت موقع نہیں ہے۔ میں بڑے اختصار کے ساتھ آپ کے سامنے ان دونوں کی ایک تصویر پیش کروں گا۔

بگاڑ کے اسباب

انسانی زندگی میں بگاڑ جن چیزوں سے پیدا ہوتا ہے کہ ان کو ہم ان چار بڑے عنوانات کے تحت جمع کر سکتے ہیں۔

  • خدا سے بے خوفی: خود دنیا میں بے انصافی، بے رحمی، خیانت اور ساری اخلاقی برائیوں کی جڑ ہے۔
  • خدا کی ہدایت سے بے نیازی: جس نے انسان کیلئے کسی معاملہ میں بھی ایسے مستقل اخلاقی اصول باقی نہیں رہنے دیئے ہیں جن کی پابندی کی جائے اسی چیز کی بدولت اشخاص اور گروہوں اور قوموں کا سارا طرز عمل مفاد پرستی، لذت پرستی اور خواہشات کی غلامی پر قائم ہو گیا ہے، اسی کا نتیجہ ہے کہ وہ نہ اپنے مقاصد میں جائز و ناجائز کی تمیز کرتے ہیں اور نہ ان مقاصد کو حاصل کرنے کیلئے کسی قسم کے برے سے برے ذرائع اختیار کرنے میں انہیں ذرا سا تامل ہوتا ہے۔
  • خود غرضی: جو صرف افراد ہی کو ایک دوسرے کی حق تلفی پر آمادہ نہیں کرتی بلکہ بڑے پیمانہ پر نسل پرستی، قوم پرستی اور طبقاتی امتیازات کی شکل اختیار کر لیتی ہے اور اس سے فساد کی بے شمار صورتیں پیدا ہوتی ہیں۔
  • جمود یا بے راہ روی: جس کی وجہ سے انسان یا تو خدا کی دی ہوئی قوتوں کو استعمال ہی نہیں کرتا۔ یا غلط استعمال کرتا ہے۔ یا تو خدا کے بخشے ہوئے ذرائع سے کام نہیں لیتا یا غلط کام لیتا ہے، پہلی صورت میں اللہ تعالیٰ کا قانون یہ ہے کہ وہ کاہل اور نکمے لوگوں کو زیادہ دیر تک اپنی زمین پر قابض رہنے نہیں دیتا بلکہ ان کی جگہ ایسے لوگوں کو لے آتا ہے جو کچھ نہ کچھ بنانے والے ہوں دوسری صورت میں جب غلط کار قوموں کی تخریب ان کی تعمیر سے بڑھ جاتی ہے تو وہ ہٹا کر پھینک دی جاتی ہے اور بسا اوقات خود اپنی ہی تخریبی کارروائیوں کا لقمہ بنا دی جاتی ہیں۔

بناؤ کے اصول

اس کے مقابلہ میں وہ چیزیں بھی جن کی بدولت انسانی زندگی بنتی اور سنورتی ہے چار ہی عنوانات کے تحت تقسیم ہوتی ہیں۔

  • خدا کا خوف: آدمی کو برائیوں سے روکنے اور سیدھا چلانے کے لئے ایک ہی قابل اعتماد ضمانت ہے۔ راست بازی، انصاف، امانت، حق شناسی، ضبط نفس اور تمام دوسری خوبیاں جن پر ایک پرامن اور ترقی پذیر تمدن و تہذیب کی پیدائش کا انحصار ہے، اسی ایک تخم سے پیدا ہوتی ہیں اگر چہ بعض دوسرے عقیدوں کے ذریعہ سے بھی کسی نہ کسی حد تک انہیں پیدا کیا جا سکتا ہے جس طرح مغربی ملکوں نے کچھ نہ کچھ اپنے اندر پیدا کیا ہے لیکن ان ذرائع سے پیدا کی ہوئی خوبیوں کا نشونما بس ایک حد پر جا کر رک جاتا ہے اور اس حد میں بھی ان کی بنیاد متزلزل رہتی ہے۔ صرف خدا ترسی ہی وہ پائیدار بنیاد ہے جس پر انسان کے اندر برائی سے رکنے اور بھلائی سے چلنے کی صفت مضبوطی کے ساتھ قائم ہوتی ہے اور محدود پیمانے پر نہیں بلکہ وسیع پیمانہ پر تمام انسانی معاملات پر اپنا اثر دکھاتی ہے۔
  • خدائی ہدایت کی پیروی: جو انسان کے شخصی، اجتماعی، قومی اور بین الاقوامی رویہ کو اخلاق کے مستقل اصول کا پابند کرنے کی ایک ہی صورت ہے۔ جب تک انسان اپنے اخلاقی اصولوں کا خود واضع اور مصنف رہتا ہے، اس کے پاس باتیں بنانے کے لئے کچھ اور اصول ہوتے ہیں اور عمل میں لانے کے لئے کچھ اور۔ کتابوں میں آب زر سے وہ ایک قسم کے اصول لکھتا ہے اور معاملات میں اپنے مطلب کے مطابق بالکل دوسرے ہی قسم کے اصول برتتا ہے۔ دوسروں سے مطالبہ کرتے وقت اس کے اصول کچھ اور ہوتے ہیں اور خود معاملہ کرتے وقت کچھ اور۔ موقع اور مصلحت اور خواہش اور ضرورت کے دباؤ سے اس کے اصول ہر آن بدلتے ہیں۔ وہ اخلاق کا اصل محور ”حق“ کو نہیں بلکہ ”اپنے مفاد“ کو بناتا ہے۔ وہ اس بات کو مانتا ہی نہیں کہ اس کے عمل کو حق کے مطابق ڈھلنا چاہئیے اس کے بجائے وہ چاہتا ہے کہ حق اس کے مفاد کے مطابق ڈھلے۔ یہی وہ چیز ہے جس کی بدولت افراد سے لے کر قوموں تک سب کا رویہ غلط ہو جاتا ہے اور اسی سے دنیا میں فساد پھیلتا ہے۔ اس کے برعکس جو چیز انسانوں کو امن، خوشحالی اور فلاح و سعادت بخش سکتی ہے وہ یہ ہے کہ اخلاق کے کچھ ایسے اصول ہوں جو کسی مفاد کے لحاظ سے نہیں بلکہ حق کے لحاظ سے بنے ہوئے ہوں اور انہیں اٹل مان کر تمام معاملات میں ان کی پابندی کی جائے خواہ وہ معاملات شخصی ہوں یا قومی خواہ تجارت سے تعلق رکھتے ہوں یا سیاست اور صلح و جنگ سے۔ ظاہر ہے کہ ایسے اصول صرف خدائی ہدایت ہی میں ہمیں مل سکتے ہیں اور ان پر عمل درآمد کی صرف یہی ایک صورت ہے کہ انسان ان کے اندر ردو بدل کے اختیارات سے دست بردار ہو کر انہیں قطعی وجب الاتباع تسلیم کر لے۔
  • نظام انسانیت: جو شخصی، قومی، نسلی اور طبقاتی خود غرضیوں کے بجائے تمام انسانوں کے مساوی مرتبہ اور مساوی حقوق پر مبنی ہو جس میں بے جا امتیازات نہ ہوں جس میں اونچ نیچ، چھوت چھات اور مصنوعی تعصبات نہ ہوں۔ جس میں بعض کے لئے مخصوص حقوق اور بعض کے لئے بناوٹی پابندیاں اور رکاوٹیں نہ ہوں۔ جس میں سب کو یکساں پھلنے پھولنے کا موقع ملے جس میں انسان کی پستی و بلندی صرف اس کے اوصاف کی بنا پر ہو۔ جس میں اتنی وسعت ہو کہ روئے زمین کے سارے انسان اس میں برابری کے ساتھ شریک ہو سکتے ہیں۔
  • عمل صالح: یعنی خدا کی دی ہوئی قوتوں اور اس کے بخشے ہوئے ذرائع کو استعمال کرنا اور صحیح استعمال کرنا۔

خاتمہ

حضرات! یہ چار چیزیں ہیں جن کے مجموعے کا نام بناؤ اور اصلاح ہے اور ہم سب کی بہتری اس میں ہے کہ ہمارے اندر نیک انسانوں کی ایک ایسی منظم تنظیم موجود ہو جو بگاڑ کے اسباب کو روکنے اور بناؤ کی ان صورتوں کو عمل میں لانے کیلئے پیہم جدوجہد کریں۔ یہ جدوجہد اگر اس ملک کے باشندوں کو راہ راست پر لانے میں کامیاب ہو گئی تو خدا ایسا بے انصاف نہیں ہے کہ وہ خواہ مخواہ اپنی زمین کے انتظام اس کے اصلی باشندوں سے چھین کر کسی اور دیدے۔ لیکن اگر خدانخواستہ یہ نا کام ہوئی تو ہم نہیں کہہ سکتے کہ ہمارے آپ کا اور اس عرض ہند کار ہنے والوں کا کیا انجام ہوگا!!