بناؤ اور بگاڑ از: مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی

بناؤ اور بگاڑ

مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی

(یہ تقریر ۱۰ مئی ۱۹۴۷ء کو دارالاسلام پٹھانکوٹ کے جلسہ عام میں کی گئی تھی۔ سامعین میں دو ہزار مسلمانوں کے علاوہ دو سو ہندو اور سکھ اصحاب بھی شریک تھے۔ پس منظر میں اس حقیقت کو بھی پیش نظر رکھا جائے کہ یہ وہ زمانہ تھا جب سارا مشرقی پنجاب ایک کوہ آتش فشاں کی طرح پھٹنے کے لئے تیار تھا اور تین ہی مہینے بعد وہاں فتنہ و فساد کی وہ آگ بھڑک اٹھنے والی تھی جس کی تباہ کاریاں اب تاریخ انسانی کا ایک دردناک ترین باب بن چکی ہیں)۔

تعارف: خدا کی حاکمیت اور اس کے قوانین

تعریف اور شکر اس خدا کے لئے ہے جس نے ہمیں پیدا کیا، عقل اور سمجھ بوجھ عطا کی، برے اور بھلے کی تمیز بخشی اور ہماری ہدایت و راہنمائی کے لئے اپنے بہترین بندوں کو بھیجا۔ اور سلام ہو خدا کے ان نیک بندوں پر جنہوں نے آدم کی اولاد کو آدمیت کی تعلیم دی۔ بھلے مانسوں کی طرح رہنا سکھایا، انسانی زندگی کے اصل مقصد سے انہیں آگاہ کیا اور وہ اصول ان کو بتائے جن پر چل کر وہ دنیا میں سکھ اور آخرت میں نجات پاسکتے ہیں۔

حاضرین و حاضرات! یہ دنیا جس خدا نے بنائی ہے اور جس نے اس زمین کا فرش بچھا کر اس پر انسانوں کو بسایا ہے وہ کوئی اندھا دھند اور اٹکل ٹپ کام کرنے والا خدا نہیں ہے۔ وہ چوپٹ راجہ نہیں ہے کہ اس کی نگری اندھیری نگری ہو، وہ اپنے مستقل قانون پختہ ضابطے اور مضبوط قاعدے رکھتا ہے جن کے مطابق وہ اس سارے جہاں پر خدائی کر رہا ہے۔ اس کے قانون سے جس طرح سورج، چاند، زمین اور تارے بندھے ہوئے ہیں جس طرح ہوا، پانی، درخت اور جانور بندھے ہوئے ہیں اسی طرح ہم آپ سب انسان بھی بندھے ہوئے ہیں، اس کا قانون جس طرح ہماری پیدائش اور موت پر، ہمارے بچپن اور جوانی اور بڑھاپے پر، ہمارے سانس کی آمد و رفت پر، ہمارے ہاضمے اور خون کی گردش پر اور ہماری بیماری اور تندرستی پر بے لاگ اور اٹل طریقے سے چل رہا ہے۔ ٹھیک اسی طرح اس کا ایک اور قانون بھی ہے جو ہماری تاریخ کے اتار چڑھاؤ پر، ہمارے گرنے اور اٹھنے پر، ہماری ترقی اور تنزل پر اور ہماری ذاتی، قومی اور ملکی تقدیروں پر حکومت کر رہا ہے۔ اور یہ قانون بھی اتنا ہی بے لاگ اور اٹل ہے۔ اگر یہ ممکن نہیں ہے کہ آدمی ناک سے سانس لینے کے بجائے آنکھوں سے سانس لینے لگے اور معدے میں کھانا ہضم کرنے کے بجائے دل میں ہضم کرنے لگے تو یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ خدا کے قانون کی رو سے جس راہ پر چل کر کسی قوم کو نیچے جانا چاہیئے وہ اسے بلندی پر لے جائے ۔ اگر آگ ایک کیلئے گرم اور دوسرے کیلئے ٹھنڈی نہیں ہے تو برے کرتوت بھی جو خدا کے قانون کی رو سے برے ہیں ایک کو گرانے والے اور دوسرے کو اٹھانے والے نہیں ہو سکتے ۔ جو اصول بھی خدا نے انسان کی بھلی اور بری تقدیر بنانے کیلئے مقرر کئے ہیں وہ نہ کسی کے بدلے بدل سکتے ہیں نہ کسی کے نالے مل سکتے ہیں اور نہ ان میں سے کسی کے ساتھ دشمنی اور کسی دوسرے کے ساتھ رعایت ہی پائی جاتی ہے۔

خدا کا بنیادی قانون: بناؤ اور بگاڑ

خدا کے اس قانون کی پہلی اور سب سے اہم دفعہ یہ ہے کہ:
”وہ بناؤ کو پسند کرتا ہے اور بگاڑ کو پسند نہیں کرتا“۔

مالک ہونے کی حیثیت سے اس کی خواہش یہ ہے کہ اس کی دنیا کا انتظام ٹھیک کیا جائے اس کو زیادہ سے زیادہ سنوارا جائے۔ اس کے دیئے ہوئے ذرائع اور اس کی بخشی ہوئی قوتوں اور قابلیتوں کو زیادہ سے زیادہ بہتر طریقے سے استعمال کیا جائے۔ وہ اس بات کو ہرگز پسند نہیں کرتا۔ اور اس سے یہ توقع بھی نہیں کی جاسکتی کہ وہ کبھی اسے پسند کریگا کہ اس کی دنیا بگاڑی جائے، اجاڑی جائے اور اس کو بد نظمی سے، گندگیوں سے اور ظلم اور ستم سے خراب کر ڈالا جائے۔

انسانوں میں جو لوگ بھی دنیا کے امیدوار بن کر کھڑے ہوئے ہیں، ان میں سے صرف وہ لوگ خدا کی نظر انتخاب میں اس طرح ٹھہرتے ہیں جن کی اندر بنانے کی زیادہ سے زیادہ صلاحیت ہوتی ہے، انہی کو وہ یہاں کے انتظام کے اختیارات سپر د کرتا ہے۔

پھر وہ دیکھتا رہتا ہے کہ یہ لوگ بناتے کتنا ہیں اور بگاڑتے کتنا، جب تک ان کا بناؤ ان کے بگاڑ سے زیادہ ہوتا ہے اور کوئی دوسرا امیدوار ان سے اچھا بنانے والا اور ان سے کم بگاڑنے والا میدان میں موجود نہیں ہوتا اس وقت تک ان کی ساری برائیوں اور ان کے تمام قصوروں کے باوجود دنیا کا انتظام انہی کے سپر درہتا ہے لیکن جب وہ کم بنانے اور زیادہ بگاڑ نے لگتے ہیں تو خدا انہیں ہٹا کر پھینک دیتا ہے اور دوسرے امیدواروں کو اسی لازمی شرط پر انتظام سونپ دیتا ہے۔

باغ اور مالی کی مثال

یہ قانون بالکل ایک فطری قانون ہے اور آپ کی عقل گواہی دے گی کہ اس کو ایسا ہی ہونا چاہیئے۔ اگر آپ میں سے کسی شخص کا کوئی باغ ہو اور وہ اسے ایک مالی کے سپرد کر دے تو آپ خود بتائیے کہ وہ اس مالی سے اولین بات کیا چاہے گا؟ باغ کا مالک اپنے مالی سے اس کے سوا اور کیا چاہ سکتا ہے کہ وہ باغ کو بنائے نہ کہ خراب کر کے رکھ دے، وہ لازماً یہی چاہے گا کہ اس کے باغ کو زیادہ سے زیادہ بہتر حالت میں رکھا جائے، زیادہ سے زیادہ ترقی دی جائے اس کے حسن میں، اس کی صفائی میں، اس کی پیداوار میں زیادہ سے زیادہ اضافہ ہو۔ جس مالی کو وہ دیکھے گا کہ وہ خوب محنت سے جی لگا کر، سلیقہ اور قابلیت سے اس کے باغ کی خدمت کر رہا ہے، اس کی روشوں کو سنوار رہا ہے اس کے اچھے درختوں کی پرورش کر رہا ہے، اس کی بری ذات کے درختوں اور جھاڑ جھنکاڑ سے صاف کر رہا ہے اور اس میں اپنی جدت اور جودت سے عمدہ پھلوں اور پھولوں کی نئی نئی قسموں کا اضافہ کر رہا ہے تو ضرور ہے کہ وہ اس سے خوش ہو اور اسے ترقی دے اور ایسے لائق فرض شناس اور خدمت گذار مالی کو نکالنا پسند نہ کرے۔ لیکن اس کے بر عکس اگر وہ دیکھے کہ مالی نالائق بھی ہے کام چور بھی ہے اور جان بوجھ کر یا بے جانے بوجھے اس کے باغ کے ساتھ بدخواہی کر رہا ہے، سارا باغ گندگیوں سے اٹا پڑا ہے، روشیں پھوٹ پڑ رہی ہیں، پانی کہیں بلا ضرورت بہہ رہا ہے اور کہیں قطعے کے قطعے سوکھتے چلے جارہے ہیں، گھاس پھونس اور جھاڑ جھنکاڑ بڑھتے چلے جاتے ہیں اور پھولوں اور پھل دار درختوں کو بیدردی کے ساتھ کاٹ کاٹ کر اور تو ڑتوڑ کر پھینکا جا رہا ہے، اچھے درخت مرجھا رہے ہیں اور خاردار جھاڑیاں بڑھ رہی ہیں تو آپ خود سوچئے کہ باغ کا مالک ایسے مالی کو کیسے پسند کر سکتا ہے، کوئی سفارش، کونسی عرض معروض اور دست بستہ التجائیں اور کون سے آبائی حقوق یا دوسرے خود ساختہ حقوق کا لحاظ اس کو اپنا باغ ایسے مالی کے حوالے کئے رہنے پر آمادہ کر سکتا ہے؟ زیادہ سے زیادہ رعایت وہ بس اتنی ہی تو کرے گا کہ اسے تنبیہ کر کے پھر ایک موقع دیدے مگر جو مالی تنبیہ پر بھی ہوش میں نہ آئے اور باغ کو اجاڑے ہی چلا جائے اس کا علاج اس کے سوا اور کیا ہے کہ باغ کا مالک کان پکڑا اسے نکال کر باہر کرے اور دوسر امالی اس کی جگہ رکھ لے۔

مالک اور مالیوں کے نقطہ نظر کا فرق

اب غور کیجئے کہ اپنے ایک ذرا سے باغ کے انتظام میں جب آپ یہ طریقہ اختیار کرتے ہیں تو خدا جس نے اپنی اتنی بڑی زمین، اتنے سر و سامان کے ساتھ انسانوں کے حوالے کی ہے اور وہ اتنے وسیع اختیارات ان کو اپنی دنیا اور اس کی چیزوں پر دیتے ہیں وہ آخر اس سوال کو نظر انداز کیسے کر سکتا ہے کہ آپ اس کی دنیا بنا رہے ہیں یا اجاڑ رہے ہیں۔ آپ بنا رہے ہوں تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ وہ آپ کو خواہ مخواہ ہٹادے لیکن آپ بنائیں کچھ نہیں اور اس کے اس عظیم الشان باغ کو بگاڑتے اور اجاڑتے ہی چلے جائیں تو آپ نے اپنے دعوے، اپنی دانست میں خواہ کیسی ہی زبردست من مانی بنیادوں پر قائم کر رکھے ہوں، وہ اپنے باغ پر آپ کے کسی حق کو تسلیم نہیں کرے گا، اور کچھ تنبیہات کر کے سنبھلنے کے دو چار مواقع دے کر آخر آپ کو انتظام سے بے دخل ہی کر کے چھوڑے گا۔

اس معاملہ میں خدا کا نقطہ نظر انسانوں کے نقطہ نظر سے اسی طرح مختلف ہے جس طرح خود انسانوں میں ایک باغ کے مالک کا نقطہ نظر اس کے مالی کے نقطہ نظر سے مختلف ہوا کرتا ہے۔ فرض کیجئے کہ مالیوں کا ایک خاندان دو چار پشت سے ایک شخص کے باغ میں کام کرتا چلا آ رہا ہے۔ ان کا کوئی دادا پر دادا اپنی لیاقت و قابلیت کی وجہہ سے یہاں رکھا گیا تھا پھر اس کی اولاد نے بھی کام اچھا کیا تو مالک نے سوچا کہ خواہ مخواہ انہیں ہٹانے اور نئے آدمی رکھنے کی کیا ضرورت ہے۔ جب کام یہ اچھا کر رہے ہیں تو ان کا حق دوسروں سے زیادہ ہے اس طرح یہ خاندان باغ میں جم گیا لیکن اب اس خاندان کے لوگ نہایت نالائق، بے سلیقہ، کام چور اور فرض نا شناس اٹھے ہیں۔ باغبانی کی کوئی صلاحیت ان کے اندر نہیں ہے سارے باغ کا ستیاناس کئے ڈالتے ہیں اور اس پر ان کا یہ دعوی ہے کہ ہم باپ دادا کے وقتوں سے اس باغ میں رہتے چلے آتے ہیں، ہمارے پردادا کے ہی ہاتھوں اول اول باغ آباد ہوا تھا۔ لہذا ہمارے اس پر پیدائشی حقوق ہیں۔ اور اب کسی طرح یہ جائز نہیں ہے کہ ہمیں بے دخل کر کے کسی دوسرے کو یہاں کا مالی بنایا جائے۔ یہ ان نالائق مالیوں کا نقطہ نظر ہے مگر کیا باغ کے مالک کے نقطہ نظر بھی یہی ہو سکتا ہے۔ کیا وہ یہ نہ کہے گا کہ میرے نزدیک تو سب سے مقدم چیز میرے باغ کا حسن انتظام ہے، میں نے یہ باغ تمہارے پردادا کیلئے نہیں لگایا تھا بلکہ تمہارے پردادا کو اس باغ کے لئے نوکر رکھا تھا۔ تمہارے اس پر جو حقوق بھی ہیں خدمت اور قابلیت کے ساتھ مشروط ہیں، باغ کو بناؤ گے تو تمہارے سب حقوق کا خیال کیا جائے گا۔ اپنے پرانے مالیوں سے آخر مجھے کیا دشمنی ہو سکتی ہے کہ وہ کام اچھا کریں تب بھی میں انہیں خواہ مخواہ نکال ہی دوں اور نئے امیدواروں کا بلاضرورت تجربہ کروں لیکن اگر اس باغ ہی کو تم بگاڑتے اور اجاڑتے رہے جس کے انتظام کی خاطر تمہیں رکھا گیا تھا تو پھر تمہارا کوئی حق مجھے تسلیم نہیں دوسرے امیدوار موجود ہیں۔ باغ کا انتظام ان کے حوالے کروں گا اور تم کو ان کے ماتحت پیش خدمت بن کر رہنا ہو گا اس پر بھی اگر تم درست نہ ہوئے اور ثابت ہوا کہ ماتحت کی حیثیت سے بھی تم کسی کام کے نہیں ہو بلکہ کچھ بگاڑنے ہی والے ہو تو تمہیں یہاں سے نکال باہر کیا جائے گا اور تمہاری جگہ خدمت گار بھی دوسرے ہی لا کر بسائے جائیں گے۔

یہ فرق جو مالک اور مالیوں کے نقطہ نظر میں ہے ٹھیک یہی فرق دنیا کے مالک اور دنیا والوں کے نقطہ نظر میں بھی ہے۔ دنیا کی مختلف قومیں زمین کے جس جس خطہ میں بستی ہیں ان کا دعوی یہی ہے کہ یہ خطہ ہمارا قومی وطن ہے پشتہا پشت سے ہم اور ہمارے باپ دادا یہیں رہتے چلے آئے ہیں۔ اس ملک پر ہمارے پیدائشی حقوق ہیں لہذا یہاں انتظام ہمارا اپنا ہی ہونا چاہئیے۔ کسی دوسرے کو حق نہیں پہنچتا کہ باہر سے آکر یہاں کا انتظام کرے، مگر زمین کے مالک خدا کا نقطہ نظر یہ نہیں ہے اس نے کبھی ان قومی حقوق کو تسلیم نہیں کیا ہے وہ نہیں مانتا کہ ہر ملک پر اس کے باشندوں کا پیدائشی حق ہے جس سے اس کو کسی حال میں بے دخل نہیں کیا جاسکتا وہ تو یہ دیکھتا ہے کہ کوئی قوم اپنے وطن میں کام کیا کر رہی ہے۔ اگر وہ بناؤ اور سنوار کے کام کر رہی ہو، اگر وہ اپنی قوتیں زمین کی اصلاح و ترقی میں استعمال کرتی ہو، اگر وہ برائیوں کی پیداوار روکنے اور بھلائیوں کی کھیتی سینچنے میں لگی ہوئی ہو تو مالک کائنات کہتا ہے کہ بے شک تم اس کے مستحق ہو کہ یہاں کا انتظام تمہارے ہاتھ میں رہنے دیا جائے۔ تم پہلے سے یہاں آباد بھی ہو اور اہل بھی ہو لہذا تمہارا ہی حق دوسروں کی بہ نسبت مقدم ہے لیکن اگر معاملہ برعکس ہو، بناؤ کچھ نہ ہو اور سب بگاڑ ہی کے کام ہوئے جا رہے ہوں، بھلائیاں کچھ نہ ہوں اور برائیوں ہی سے خدا کی زمین بھری جا رہی ہو۔ جو کچھ خدا نے زمین پر پیدا کیا اسے بے دردی کے ساتھ تباہ کیا جا رہا ہو اور کوئی بہتر کام اس سے لیا ہی نا جاتا ہو تو پھر خدا کی طرف سے پہلے کچھ ہلکی اور کچھ سخت چوٹیں لگائی جاتی ہیں تاکہ یہ لوگ ہوش میں آئیں اور اپنا رویہ درست کر لیں۔ پھر جب وہ قوم اس پر بھی درست نہیں ہوتی تو اسے ملک کے انتظام سے بے دخل کر دیا جاتا ہے اور کسی دوسری قوم کو جو کم از کم اس کی بہ نسبت اہل تر ہو، وہاں کی حکومت دیدی جاتی ہے اور بات اس پر بھی ختم نہیں ہو جاتی۔ اگر ماتحت بننے کے بعد بھی باشندگان ملک کسی لیاقت و اہلیت کا ثبوت نہیں دیتے اور اپنے عمل سے یہی ظاہر کرتے ہیں کہ ان سے کچھ بھی بن نہ آئے گا بلکہ کچھ بگڑے گا ہی تو خدا پھر ایسی قوم کو مٹا دیتا ہے اور دوسروں کو لے آتا ہے جو اس کی جگہ بستے ہیں۔ اس معاملے میں خدا کا نقطہ نظر ہمیشہ وہی ہوتا ہے جو مالک کا ہونا چاہئے۔ وہ اپنی زمین کے دعویداروں اور امیدواروں کے آبائی یا پیدائشی حقوق نہیں دیکھتا بلکہ یہ دیکھتا ہے کہ ان میں کون بناؤ کی زیادہ سے زیادہ صلاحیت اور بگاڑ کی طرف کم سے کم میلان رکھتا ہے ایک وقت کے امیدواروں میں سے جو اس لحاظ سے اہل تر نظر آتے ہیں، انتخاب انہیں کا ہوتا ہے اور جب تک ان کے بگاڑ سے ان کا بناؤ زیادہ رہتا ہے، یا جب تک ان کی بہ نسبت زیادہ اچھا بنانے والا اور کم بگاڑنے والا کوئی میدان میں نہیں آجاتا اس وقت تک انتظام انہی کہ سپرد رہتا ہے۔

تاریخِ ہند کا جائزہ

یہ جو کچھ عرض کر رہا ہوں، تاریخ گواہ ہے کہ خدا نے ہمیشہ اپنی زمین کا انتظام اسی اصول پر کیا ہے۔ دور کیوں جائے خود اپنے اس ملک کی تاریخ دیکھ لیجئے یہاں جو قو میں آباد تھیں، ان کی تعمیری صلاحیتیں جب ختم ہو گئیں تو خدا نے آریوں کو یہاں کے انتظام کا موقع دیا جو اپنے وقت کی قوموں میں سے سب سے زیادہ اچھی صلاحیتیں رکھتے تھے انہوں نے یہاں آکر ایک بڑے شاندار تمدن کی بنیاد رکھی، بہت سے علوم و فنون ایجاد کئے اور زمین کے خزانوں کو نکالا اور انہیں بہتری میں استعمال کیا، بگاڑ سے زیادہ بناؤ کے کام کر کے دکھائے۔ یہ قابلیتیں جب تک ان میں رہیں تاریخ کے سارے نشیبوں اور فرازوں کے باوجود ہی اس ملک کے منتظم رہے، دوسرے امیدوار بڑھ بڑھ کر آگے آئے مگر دھکیل دیئے گئے، کیونکہ ان کے ہوتے دوسرے منتظم کی ضرورت نہ تھی۔ ان کے حملے زیادہ سے زیادہ بس یہ حیثیت رکھتے تھے کہ جب کبھی یہ ذرا بگڑنے لگے تو کسی کو بھیج دیا گیا تاکہ انہیں متنبہ کردے۔ مگر جب یہ بگڑتے ہی چلے گئے اور انہوں نے بناؤ کے کام کم اور بگاڑ کے کام زیادہ شروع کر دیئے جب انہوں نے اخلاق میں وہ پستی اختیار کی جس کے آثار بام مارگی تحریک میں آپ اب بھی دیکھ سکتے ہیں جب انہوں نے انسانیت کی تقسیم کر کے خود اپنی ہی سوسائٹی کو ورنوں اور ذاتوں میں پھاڑ ڈالا اور اپنی اجتماعی زندگی کو ایک زینے کی شکل میں ترتیب دیا، جس کی ہر سیڑھی کا بیٹھنے والا اپنے سے اوپر کی سیڑھی والے کا بندہ اور نیچے کی سیڑھی والے کا خدا بن گیا۔ جب انہوں نے خدا کے لاکھوں کروڑوں بندوں پر وہ ظلم ڈھایا جو آج تک اچھوت پن کی شکل میں موجود ہے جب انہوں نے علم کے دروازے عام انسانوں پر بند کر دیئے اور ان کے پنڈت علم کے خزانوں پر سانپ بن کر بیٹھ گئے اور جب ان کے کار فرما طبقوں کے پاس اپنے زبر دستی جمائے ہوئے حقوق وصول کرنے اور دوسروں کی محنتوں پر داد عیش دینے کے سوا کوئی کام نہ رہا تو خدا نے آخر کار ان سے ملک کا انتظام چھین لیا اور وسط ایشیاء کی ان قوموں کو یہاں کام کرنے کا موقع دیا جو اس وقت اسلام کی تحریک سے متاثر ہو کر زندگی کی بہتر صلاحیتوں سے آراستہ ہوگئی تھیں۔

یہ لوگ سینکڑوں برس تک یہاں کے انتظام پر سرفراز رہے اور ان کے ساتھ خود اس ملک کے بھی بہت سے لوگ اسلام قبول کر کے شامل ہو گئے۔ اس میں شک نہیں کہ ان لوگوں نے بہت کچھ بگاڑا بھی، مگر جتنا بگاڑا اس سے زیادہ بنایا۔ کئی سو برس تک ہندوستان میں بناؤ کا جو کام بھی ہوا انہی کے ہاتھوں ہوا یا پھر ان کے اثر سے ہوا۔ انہوں نے علم کی روشنی پھیلائی۔ خیالات کی اصلاح کی۔ تمدن اور معاشرت کو بہت کچھ درست کیا۔ ملک کے ذرائع و وسائل کو اپنے عہد کے معیار کے لحاظ سے بہتری میں استعمال کیا اور امن و انصاف کا عمدہ نظام قائم کیا جو اگر چہ اسلام کے اصلی معیار سے بہت کم تھا۔ مگر پہلے کی حالت اور گردوپیش کے دوسرے ملکوں کی حالت سے مقابلہ کرتے ہوئے کافی بلند تھا۔ اس کے بعد وہ بھی اپنے پیش رووں کی طرح بگڑنے لگے۔ ان کے اندر بھی بناؤ کی صلاحیتیں گھٹنی شروع ہوئیں اور بگاڑ کے میلانات بڑھتے چلے گئے۔ انہوں نے بھی اونچ نیچ اور نسلی امتیازات اور طبقاتی تفریقیں کر کے خود اپنی سوسائٹی کو پھاڑ لیا جس کے بے شمار اخلاقی، سیاسی اور تمدنی نقصانات ہوئے۔ انہوں نے بھی انصاف کم اور ظلم زیادہ شروع کر دیا۔ وہ بھی حکومت کی ذمہ داریوں کو بھول کر صرف اس کے فائدوں اور زیادہ تر ناجائز فائدوں پر نظر رکھنے لگے۔ انہوں نے بھی تعمیر، ترقی اور اصلاح کے کام چھوڑ کر خدا کی دی ہوئی قوتوں اور ذرائع کو ضائع کرنا شروع کیا اور اگر استعمال کیا بھی تو زیادہ تر زندگی کو بگاڑنے والے کاموں میں کیا۔ تن آسانی اور عیش پرستی میں وہ اتنے کھو گئے کہ جب آخری شکست کھا کر ان کے فرمانرواؤں کو دلی کے لال قلعہ سے نکلنا پڑا تو ان کے شہزادے وہی جو ملک کی حکومت کے امیدوار تھے جان بچانے کے لئے بھاگ بھی نہ سکتے تھے۔ کیونکہ زمین پر چلنا انہوں نے چھوڑ رکھا تھا۔ مسلمانوں کی عام اخلاقی پستی اس حد کو پہنچ گئی کہ ان کے عوام سے لے کر بڑے بڑے ذمہ دار لوگوں تک کسی میں بھی اپنی ذات کے سوا دوسری کسی چیز کی وفاداری باقی نہ رہی جو انہیں دین فروشی قوم فروشی اور ملک فروشی سے روکتی اور ان میں ہزاروں، لاکھوں پیشہ ور سپاہی پیدا ہونے لگے، جن کی اخلاقی حالت پالتو کتے کی سی تھی کہ جو چاہے روٹی دے کر انہیں پال لے اور پھر جس کا دل چاہے ان سے شکار کرالے۔ ان میں یہ احساس بھی باقی نہ رہا تھا کہ یہ ذلیل ترین پیشہ، جس کی بدولت ان کے دشمن خود انہی کے ہاتھوں ان کا ملک فتح کر رہے تھے، اپنے اندر کوئی ذلت کا پہلو بھی رکھتا ہے۔ غالب جیسا شخص فخریہ کہتا ہے کہ:

سو پشت سے ہے پیشہ آبا سپہ گری

یہ بات کہتے ہوئے ہمارے اتنے بڑے شاعروں کو ذرا خیال تک نہ گذرا کہ پیشہ ورانہ سپہ گری کوئی فخر کی نہیں ڈوب مرنے کی بات ہے۔

جب یہ ان کی حالت ہو گئی تو خدا نے ان کی معزولی کا بھی فیصلہ کر لیا اور ہندوستان کے انتظام کا منصب پھر نئے امیدواروں کے لئے کھل گیا۔ اس موقع پر چار امیدوار میدان میں تھے۔ مرہٹے، سکھ، انگریز اور بعض مسلمان رئیس۔ آپ خود انصاف کے ساتھ قومی تعصب کی عینک اتار کر اس دور کی تاریخ اور بعد کے حالات کو دیکھیں گے تو آپ کا دل گواہی دے گا کہ دوسرے امیدواروں میں سے کسی میں بھی بناؤ کی وہ صلاحیتیں نہ تھیں جو انگریزوں میں تھیں اور جتنا بگاڑ انگریزوں میں تھا، اس سے کہیں زیادہ مرہٹوں سکھوں اور مسلمان امیدواروں میں تھا۔ جو کچھ انگریزوں نے بنایا ان میں سے کوئی نہ بناتا اور جو کچھ انہوں نے بگاڑا اس سے بہت زیادہ دوسرے امیدوار بگاڑ کر رکھ دیتے۔ مطلقاً دیکھئے تو انگریزوں میں بہت سے پہلووں سے بے شمار برائیاں آپ کو نظر آئیں گی۔ مگر مقابلتاً دیکھئے تو اپنے ہم عصر حریفوں سے ان کی برائیاں بہت کم اور ان کی خوبیاں بہت زیادہ نکلیں گی۔ یہی وجہ ہے کہ خدا کے قانون نے پھر ایک مرتبہ انسانوں کے اس من مانے اصول کو توڑ دیا جو انہوں نے بغیر کسی حق کے بنا رکھا ہے کہ ”ہر ملک خود ملکیوں کے لئے ہے خواہ وہ اسے بنائیں یا بگاڑیں“۔ اس نے تاریخ کے اٹل فیصلہ سے ثابت کیا کہ نہیں، ملک تو خدا کا ہے، وہی یہ طے کرنے کا حق رکھتا ہے کہ اس کا انتظام کس کے سپر د کرے اور اس کا فیصلہ کسی نسلی، قومی آبائی حق کی بناء پر نہیں ہوتا بلکہ اس بنیاد پر ہوتا ہے کہ مجموعی بھلائی کون سے انتظام میں ہے۔

”قل اللهم مالک الملک تؤتی الملک من تشاء وتنزع الملک ممن تشاء وتعز من تشاء وتذل من تشاء بیدک الخیر انک علی کل شئ قدیر“

ترجمہ: یعنی ”کہو کہ خدایا ملک کے مالک! تو جس کو چاہتا ہے ملک دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے ملک چھین لیتا ہے جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلیل کر دیتا ہے، بھلائی تیری ہی ہاتھ میں ہے اور تو ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔“ (قرآنی آیات)

اس طرح اللہ تعالیٰ ہزاروں میل کے فاصلہ سے ایک ایسی قوم کو لے آیا جو کبھی تین چار لاکھ کی تعداد سے زیادہ نہیں رہی اور اس نے یہیں کے ذرائع اور یہیں کے آدمیوں سے یہاں کی ہندو مسلم، سکھ، سب طاقتوں کو زیر کر کے اس ملک کا انتظام اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ یہاں کے کروڑوں باشندے ان مٹھی بھر انگریزوں کے تابع فرمان بن کر رہے۔ ایک ایک انگریز نے تن تنہا ایک ایک ضلع پر حکومت کی۔ بغیر اس کے کہ اس کی قوم کا کوئی دوسرا فرد اس کا ہاتھ مضبوط کرنے کیلئے اس کے پاس موجود ہوتا۔ اس تمام دوران میں ہندوستانیوں نے جو کچھ کیا پیش خدمت کی حیثیت سے کیا نہ کہ کار فرما کی حیثیت سے۔ ہم سب کو یہ ماننا پڑیگا اور نہ مانیں گے تو حقیقت کو جھٹلائیں گے کہ اس ساری مدت میں جب کہ انگریز یہاں رہے، بناؤ کا جو کچھ بھی کام ہوا انگریزوں کے ہاتھوں سے اور ان کے اثر سے ہوا۔ جس حالت میں انہوں نے ہندوستان کو پایا تھا اس کے مقابلہ میں آج کی حالت دیکھئے تو آپ اس بات سے انکار نہ کر سکیں گے کہ بگاڑ کے باوجود بناؤ کا بہت سا کام ہوا ہے جس کے خود اہل ملک کے ہاتھوں انجام پانے کی ہرگز توقع نہ کی جاسکتی تھی اس لئے تقدیر الہی کا وہ فیصلہ غلط نہ تھا جو اس نے اٹھارویں صدی کے وسط میں کر دیا تھا۔

موجودہ صورتحال اور ہمارا امتحان

اب دیکھئے انگریز جو کچھ بنا سکتے تھے وہ بنا چکے ہیں۔ ان کے بناؤ کے حساب میں اب کوئی خاص اضافہ نہیں ہو سکتا۔ اس حساب میں جو اضافہ وہ کر سکتے ہیں وہ دوسروں کے ہاتھوں بھی ہو سکتا ہے مگر دوسری طرف ان کے بگاڑ کا حساب بہت بڑھ چکا ہے اور جتنی مدت بھی وہ یہاں رہیں گے بناؤ کی بہ نسبت بگاڑ ہی زیادہ بڑھائیں گے۔ ان کی فرد جرم اتنی لمبی ہے کہ اسے ایک صحبت میں بیان کرنا مشکل ہے اور اس کے بیان کی کوئی حاجت بھی نہیں ہے کیونکہ وہ سب کے سامنے ہے۔ اب تو تقدیر الہی کا فیصلہ یہی ہے کہ وہ یہاں کے انتظام سے بے دخل کر دیئے جائیں۔ انہوں نے بہت عقل مندی سے کام لیا کہ خود سیدھی طرح رخصت ہونے کیلئے تیار ہو گئے۔ سیدھی طرح نہ جاتے تو ٹیڑھی طرح نکالے جاتے کیونکہ خدا کے اٹل قوانین اب ان کے ہاتھ میں یہاں کا انتظام رکھنے کے روادار نہیں ہیں۔

یہ موقع جس کے عین سرے پر ہم آپ کھڑے ہیں تاریخ کے ان اہم مواقع میں سے ہے، جب زمین کا اصلی مالک کسی ملک میں ایک انتظام کو ختم کرتا ہے اور دوسرے انتظام کا فیصلہ کرتا ہے۔ بظاہر جس طرح یہاں انتقال اختیارات کا معاملہ کی سادہ سی صورت یہ سمجھتے ہوں گے کہ اجنبی لوگ جو باہر سے آکر حکومت کر رہے تھے واپس جا رہے ہیں اس لئے اب یہ آپ سے ہونا چاہئے کہ ملک کا انتظام خود ملکیوں کے ہاتھ آئے نہیں، خدا کے فیصلے اس طرح کے نہیں ہوتے۔ وہ ان اجنبیوں کو نہ پہلے بلا وجہ لایا تھا نہ اب بلاوجہ لے جا رہا ہے، نہ پہلے اٹکل ٹپ اس نے آپ سے انتظام چھینا تھا اور نہ اٹکل ٹپ وہ اسے آپ کے حوالے کر دے گا دراصل اس وقت ہندوستان کے باشندے امیدوار کی حیثیت رکھتے ہیں ہندو، مسلمان، سکھ سب امیدوار ہیں چونکہ یہ پہلے سے یہاں آباد چلے آ رہے ہیں اس لئے پہلا موقع انہیں کو دیا جا رہا ہے لیکن یہ مستقل تقرر نہیں ہے بلکہ محض امتحانی موقع ہے، اگر فی الواقع انہوں نے ثابت کیا کہ ان کے اندر بگاڑ سے بڑھ کر بناؤ کی صلاحیتیں ہیں تب تو ان کا تقرر مستقل ہو جائے گا ورنہ اپنے بناؤ سے بڑھ کر اپنا بگاڑ پیش کر کے یہ بہت جلدی دیکھ لیں گے کہ انہیں پھر اس ملک کے انتظام سے بے دخل کر دیا جائے گا اور دور و نزدیک کی قوموں میں سے کسی ایک کو اس خدمت کے لئے منتخب کر لیا جائے پھر اس فیصلہ کے خلاف یہ کوئی فریاد تک نہ کر سکیں گے۔ دنیا بھر کے سامنے اپنی نالائقی کا کھلا ثبوت دے چکنے کے بعد ان کا منہ کیا ہوگا کہ فریاد کریں اور ڈھیٹ بن کر فریاد کریں گے بھی تو اس کی داد کون دے گا۔

ہمارا اخلاقی زوال

اب ذرا آپ جائزہ لے کر دیکھیں کہ ہندوستان کے لوگ ہندو، مسلمان، سکھ اس امتحان پر اپنے خدا کے سامنے کیا صلاحیتیں اور قابلیتیں اور اپنے کیا اوصاف اور کارنامے پیش کر رہے ہیں جن کی بناء پر یہ امید کر سکتے ہوں کہ خدا اپنے ملک کا انتظام پھر ان کے سپر د کر دے گا۔ اس موقع پر اگر میں بے لاگ طریقے سے کھلم کھلا وہ فرد جرم سنا دوں جو اخلاق کی عدالت میں ہندووں، مسلمانوں، سکھوں سب پر لگتی ہے تو امید کرتا ہوں کہ آپ برا نہ مانیں گے، اپنی قوم اور اپنے وطنی بھائیوں کے عیوب بیان کر کے خوشی تو مجھے بھی نہیں ہوتی حقیقت میں میرا دل روتا ہے کیونکہ میں گویا اپنی آنکھوں سے اس کے انجام کو دیکھ رہا ہوں جو ان عیوب کی بناء پر کل انہیں دیکھنا ہی نہیں، بھگتنا پڑے گا۔ مجھے اندیشہ ہے کہ یہ عیوب انہیں لے ڈوبیں گے۔ ہم آپ کوئی بھی ان کے انجام بد سے نہ بچے گا اس لئے میں انہیں دلی رنج کے ساتھ بیان کرتا ہوں تاکہ جن کے کان ہوں وہ سنیں اس اصلاح کی کچھ فکر کریں۔

ہمارے افراد کی عام اخلاقی حالت جیسی کچھ ہے آپ اس کا اندازہ خود اپنے ذاتی تجربات و مشاہدات کی بناء پر کیجئے کوئی ناجائز فائدہ اٹھانے میں، کوئی مفید جھوٹ بولنے میں اور کوئی نفع بخش بے ایمانی کرنے میں ہم میں کتنے فیصدی آدمی پائے جاتے ہیں جو کسی کا حق تلف کرنے میں صرف اس بناء پر تامل کرتے ہوں کہ ایسا کرنا اخلاقاً برا ہے؟ جہاں قانون کی گرفت سے بچ نکلنے کی امید ہو وہاں کتنے فیصدی اشخاص محض اپنے اخلاق احساس کی بناء پر کسی جرم اور کسی برائی کا ارتکاب کرنے سے باز رہ جاتے ہیں؟ جہاں اپنے کسی ذاتی فائدے کی توقع نہ ہو وہاں کتنے آدمی دوسروں کے ساتھ بھلائی اور ہمدردی، ایثار، حق رسانی اور حسن سلوک کا برتاؤ کرتے ہیں؟ ہمارے تجارت پیشہ لوگوں میں ایسے تاجروں کا اوسط کیا ہے جو دھوکے، فریب اور جھوٹ اور ناجائز نفع اندوزی سے پرہیز کرتے ہوں؟ ہمارے صنعت پیشہ لوگوں میں ایسے افراد کا تناسب کیا ہے جو اپنے فائدے کے ساتھ کچھ اپنے خریداروں کے مفاد اور اپنی قوم اور اپنے ملک کی مصلحت کا بھی خیال کرتے ہوں؟ ہمارے زمینداروں میں کتنے ہیں جو غلہ روکتے ہوئے بے حد گراں قیمتوں پر بیچتے ہوئے یہ سوچتے ہوں کہ اپنی اس نفع اندوزی سے وہ کتنے لاکھ بلکہ کتنے کروڑ انسانوں کو فاقہ کشی کا عذاب دے رہے ہیں؟ ہمارے مالداروں میں کتنے ہیں جن کی دولت مندی میں کسی کی حق تلفی اور بد دیانتی کا دخل نہیں ہو؟ ہمارے محنت پیشہ لوگوں میں کتنے ہیں جو فرض شناسی کے ساتھ اپنی اجرت اور اپنی تنخواہ کا حق ادا کرتے ہیں؟ ہمارے سرکاری ملازموں میں کتنے ہیں جو رشوت اور خیانت سے، ظلم اور مردم آزاری سے، کام چوری اور حرام خوری سے اور اپنے اختیارات کے ناجائز استعمال سے بچے ہوئے ہیں؟ ہمارے وکیلوں میں، ہمارے ڈاکٹروں اور حکیموں، ہمارے اخبار نویسوں میں، ہمارے ناشرین و مصنفین میں اور ہمارے ”قومی خدمت گذاروں“ میں کتنے ہیں جو اپنے فائدے کی خاطر ناپاک سے ناپاک طریقے اختیار کرنے اور خلق خدا کو دینی، اخلاقی، مالی اور جسمانی نقصان پہنچانے میں کچھ بھی شرم محسوس کرتے ہوں، شاید میں مبالغہ نہ کروں گا، اگر یہ کہوں کہ ہماری آبادی میں یہ مشکل ۵ فیصدی لوگ اس اخلاقی جذام سے بچے رہ گئے ہیں ورنہ ۹۵ فیصدی کو یہ چھوت بری طرح لگ چکی ہے۔ اس معاملہ میں ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی اور ہریجن کے درمیان کوئی امتیاز نہیں، سب کے سب یکساں بیمار ہیں سب کی اخلاقی حالت انتہائی خوفناک حد تک گری ہوئی ہے اور کسی گروہ کا حال دوسرے سے بہتر نہیں ہے۔

اجتماعی بگاڑ اور فرقہ وارانہ فسادات

اخلاقی تنزل کی وبا جب افراد کی ایک بہت بڑی اکثریت کو اپنی لپیٹ میں لے چکی تو قدرتی بات تھی کہ وسیع پیمانہ پر اجتماعی شکل میں اس کا ظہور شروع ہو جائے اس آنے والے طوفان کی پہلی علامت ہمیں اس وقت نظر آئی جب جنگ کی وجہ سے ریلوں میں مسافروں کا ہجوم ہونے لگا وہاں ایک ہی قوم اور ایک ہی ملک کے لوگوں نے آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ جس خود غرضی، بے دردی اور سنگ دلی کا سلوک کیا وہ پتہ دے رہا تھا کہ ہمارے عام اخلاق کس تیز رفتاری کے ساتھ گر رہے ہیں، پھر اشیاء کی کمیابی اور گرانی کے ساتھ ذخیرہ اندوزی اور چور بازاری بڑے وسیع پیمانے پر شروع ہوئی۔ پھر بنگال کا وہ ہولناک مصنوعی قحط رونما ہوا جس میں ہمارے ایک طبقہ نے اپنے ہی ملک کے لاکھوں انسانوں کو اپنے نفع کی خاطر بھوک سے تڑپا تڑپا کر مار دیا۔ یہ سب ابتدائی علامات تھیں اس کے بعد خباثت، کمینہ پن، درندگی اور وحشت کا وہ لاوا ایک ایک پھٹ پڑا جو ہمارے اندر مدتوں سے پک رہا تھا اور اب وہ فرقہ وارانہ فساد کی شکل میں ہندوستان کو ایک کونے سے لے کر دوسرے کونے تک بھسم کر رہا ہے کلکتہ کے فساد کے بعد سے ہندووں، مسلمانوں، سکھوں کی قومی کش مکش کا جو نیا باب شروع ہوا ہے اس میں تینوں اپنی ذلیل ترین صفات کا مظاہرہ کر رہی ہیں جن افعال کا تصور تک نہیں کیا جا سکتا تھا کہ کوئی انسان کبھی ان کا بھی مرتکب ہو سکتا ہے آج ہمارے بستیوں کے رہنے والے علانیہ ان کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ بڑے بڑے علاقوں کی پوری پوری آبادیاں غنڈہ بن گئی ہیں اور وہ کام کر رہی ہیں جو کسی غنڈے کے خواب و خیال میں بھی کبھی نہ آئے تھے۔ شیر خوار بچوں کو ماؤں کے سینوں پر رکھ کر ذبح کیا گیا ہے۔ زندہ انسانوں کو آگ میں بھونا گیا ہے۔ شریف عورتوں کو برسر عام ننگا کیا گیا ہے۔ اور ہزاروں کے مجمع میں ان کے ساتھ بدکاری کی گئی ہے۔ باپوں، شوہروں اور بھائیوں کے سامنے ان کی بیٹیوں، بیویوں اور بہنوں کو بے عزت کیا گیا ہے۔ عبادت گاہوں اور مذہبی کتابوں پر غصہ نکالنے کی ناپاک ترین شکلیں اختیار کی گئی ہیں۔ بیماروں اور زخمیوں اور بوڑھوں کو انتہائی بے رحمی کے ساتھ مارا گیا ہے۔ مسافروں کو چلتی ریل پر سے پھینکا گیا ہے۔ زندہ انسانوں کے اعضاء کاٹے گئے ہیں۔ نہتے اور بے بس انسانوں کو جانوروں کی طرح شکار کیا گیا ہے۔ ہمسایوں نے ہمسایوں کو لوٹا ہے، دوستوں نے دوستوں سے دغا کی ہے، پناہ دینے والوں نے خود اپنی دی ہوئی پناہ کو توڑا ہے، امن و امان کے محافظوں (پولیس اور فوج، مجسٹریٹوں) نے علانیہ فساد میں حصہ لیا ہے بلکہ خود فساد کیا اور اپنی حمایت و نگرانی میں فساد کرایا ہے۔ غرض ظلم و ستم، سنگ دلی، بے رحمی اور کمینگی و بد معاشی کی کوئی قسم نہیں رہ گئی ہے جس کا ارتکاب ان چند مہینوں میں ہمارے ملک کے رہنے والے نے اجتماعی طور پر نہ لیا ہو اور ابھی دلوں کا غبار پوری طرح نکلا نہیں ہے۔ آثار بتا رہے ہیں کہ جو کچھ ہو چکا ہے وہ سب کچھ اس سے بہت زیادہ بڑے پیمانے پر اور بدر جہا بدتر صورت میں ابھی ہونے والا ہے۔

کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ سب کچھ محض کسی اتفاقی ہیجان کا نتیجہ ہے؟ اگر یہ آپ کا گمان ہے تو آپ سخت غلط فہمی میں مبتلا ہیں۔ ابھی بتا چکا ہوں کہ اس ملک کی آبادی کے ۹۵ فیصدی افراد اخلاقی حیثیت سے بیمار ہو چکے ہیں، جب افراد کی اتنی بڑی اکثریت بد اخلاق ہو جائے تو قوموں کا اجتماعی رویہ آخر کیسے درست ہو سکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ہندو، مسلمان اور سکھ تینوں قوموں میں سچائی، انصاف، اور حق پسندی کی کوئی قدر و قیمت باقی نہیں رہی۔

راست باز، دیانت دار اور شریف انسان ان کے اندر نگو بن کر رہ گئے ہیں۔ برائی سے روکنا اور بھلائی کی نصیحت کرنا ان کی سوسائٹی میں ایک ناقابل برداشت جرم ہو گیا ہے۔ حق اور انصاف کی بات سننے کے لئے وہ تیار نہیں ہیں۔ ان میں سے ہر ایک قوم کو وہی لوگ پسند ہیں جو اس کی حد سے بڑھی ہوئی خواہشات اور اغراض کی وکالت کریں۔ دوسروں کے خلاف اس کے تعصبات کو بھڑکائیں اور اس کے جائز و ناجائز مقاصد کے لئے لڑنے کے لئے تیار ہوں۔ اسی بناء پر ان قوموں نے چھانٹ چھانٹ کر اپنے اندر سے بدترین آدمیوں کو چنا اور انہیں اپنا نمائندہ بنایا۔ انہوں نے اپنے اکابر سے مجرمین کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالا اور انہیں اپنا سربراہ کار بنالیا۔ ان کی سوسائٹی میں جو لوگ سب سے زیادہ پست اخلاق، بے ضمیر اور بے اصول تھے وہ ان کی ترجمانی کے لئے اٹھے تھے اور اخبار نویسی کے میدان میں سب سے بڑھ کر مقبول ہوئے پھر یہ سب لوگ بگاڑ کی راہ پر اپنی اپنی بگڑی ہوئی قوموں کو سرپٹ لے کر دوڑے۔ انہوں نے متضاد قومی خواہشات کو کسی نقطہ انصاف پر جمع کرنے کے بجائے اتنا بڑھایا کہ وہ آخر کار نقطہ تصادم پر پہنچ گئیں انہوں نے معاشی و سیاسی اغراض کی کش مکش میں غصے اور نفرت اور عداوت کا زہر ملایا، اور اسے روز بروز بڑھاتے چلے گئے۔ انہوں نے برسوں اپنی اپنی زیر اثر قوموں کو اشتعال انگیز تقریروں اور تحریروں کے انجکشن دے دے کر یہاں تک بھڑکایا کہ وہ جوش میں آکر کتوں اور بھیڑیوں کی طرح لڑنے کھڑی ہو گئیں۔ انہوں نے عوام اور خواص کے دلوں کو ناپاک جذبات کی سڑاند اس اور اندھی دشمنی کا تنور بنا کر رکھ دیا اور جو طوفان آپ کی نگاہوں کے سامنے برپا ہے، یہ کوئی وقتی اور ہنگامی چیز نہیں ہے جو اچانک رونما ہو گئی ہو۔ یہ قدرتی نتیجہ ہے بگاڑ کے ان بے شمار اسباب کا جو مدتوں ہمارے اندر کام کر رہے تھے اور یہ نتیجہ بس ایک ہی دفعہ ظاہر ہو کر نہیں رہ جائے گا بلکہ جب تک وہ اسباب اپنا کام کئے جا رہے ہیں یہ روز افزوں ترقی کے ساتھ ظاہر ہوتا چلا جائیگا یہ ایک بس بھری فصل ہے جو برسوں کی تخم ریزی و آبیاری کے بعد اب پک کر تیار ہوئی ہے اور آپ کو اور آپ کی نسلوں کو نہ معلوم کب تک کاٹنا پڑے گا۔

اہلیت کا ثبوت یا نااہلی کا مظاہرہ؟

حضرات! آپ ٹھنڈے دل سے سوچیں کہ عین اس وقت جب کہ قانون قدرت کے مطابق اس ملک کی قسمت کا نیا انتظام درپیش ہے ہم مالک زمین کے سامنے اپنی اہلیت و قابلیت کا کیا ثبوت پیش کر رہے ہیں موقع تو یہ تھا کہ ہم اپنے طرز عمل یہ ثابت کرتے کہ اگر وہ اپنی زمین کا انتظام ہمارے حوالے کرے گا تو ہم اسے خوب سنوار کر گلزار بنائیں گے، ہم اس میں انصاف کریں گے اسے ہمدردی، تعاون اور رحمت کا گہوارہ بنائیں گے، اس کے وسائل کو اپنی اور انسانیت کی فلاح میں استعمال کریں گے۔ اس میں بھلائیوں کو پروان چڑھائیں گے اور برائیوں کو دبائیں گے، لیکن ہم اسے بنا رہے ہیں کہ ہم ایسے غارت گر، اس قدر مفسد اور اتنے ظالم ہیں کہ اگر تو نے یہ زمین ہمارے حوالے کی تو اس کی بستیوں کو اجاڑیں گے، محلے کے محلے اور گاؤں گاؤں پھونک دیں گے۔ انسان کی جان کو مکھی اور مچھر سے زیادہ بے قیمت کر دیں گے۔ عورتوں کو بے عزت کریں گے۔ چھوٹے چھوٹے بچوں کا شکار کریں گے۔ بوڑھوں اور بیماروں اور زخمیوں پر بھی رحم نہ کھائیں گے۔ عبادت گاہوں اور مذہبی کتابوں تک کو اپنے نفس کی گندگی سے لیس دیں گے اور جس زمین کو تو نے انسانوں سے آباد کیا ہے اس کی رونق ہم لاشوں اور جلی ہوئی عمارتوں سے بڑھائیں گے۔ کیا واقعی آپ کا ضمیر یہ گواہی دیتا ہے کہ اپنی خدمت، یہ اوصاف، یہ کارنامے پیش کر کے آپ خدا کی نگاہ میں اس کی زمین کے انتظام کے لئے اہل ترین بندے قرار پائیں گے؟ کیا یہ کرتوت دیکھ کر وہ آپ سے کہے گا کہ ”شاباش، اے میرے پرانے مالیوں کی اولاد! تم ہی سب سے بڑھ کر میرے اس باغ کی رکھوالی کے قابل ہو، اسی اکھڑ پچھاڑ، اسی اجاڑ اور بگاڑ، اسی تباہی و بربادی اور گندگی و غلاظت کے لئے تو میں نے یہ باغ لگایا تھا لو اب اسے اپنے ہاتھ میں لے خوب خراب کرو!

میں یہ باتیں آپ سے اس لئے نہیں کہہ رہا ہوں کہ آپ اپنے سے اور اپنے ملک کے مستقبل سے مایوس ہو جائیں۔ میں نہ خود مایوس ہوں نہ کسی کو مایوس کرنا چاہتا ہوں۔ دراصل میرا مدعا آپ کو یہ بتانا ہے کہ ہندوستان کے لوگ اپنی حماقت اور جہالت سے اس زریں موقع کو کھونے پر تلے ہوئے ہیں جو کسی ملک کی قسمت بدلتے وقت صدیوں کے بعد خداوند عالم اس کے باشندوں کو دیا کرتا ہے۔ یہ وقت تھا کہ ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر اپنے اعلی اوصاف اور اپنی بہتر صلاحیتوں کا ثبوت پیش کرتے تاکہ خدا کی نگاہ میں انتظام زمین کے اہل قرار پاتے۔ مگر آپ کے درمیان مقابلہ اس چیز میں ہو رہا ہے کہ کون زیادہ غارت گر، زیادہ سفاک اور زیادہ ظالم ہے، تاکہ سب سے بڑھ کر خدا کی لعنت کا وہی مستحق قرار پائے۔ یہ چھن آزادی، ترقی اور سرفرازی کے نہیں ہیں۔ ان سے تو اندیشہ ہے کہ کہیں پھر ایک مدت دراز کے لئے ہمارے حق میں غلامی اور ذلت کا فیصلہ نہ لکھ دیا جائے۔ لہذا جو لوگ عقل و ہوش رکھتے ہیں، انہیں ان حالات کی اصلاح کے لئے کچھ فکر کرنی چاہئے۔

اصلاح کی صورت کیا ہے؟

اس مرحلہ پر آپ کے دل میں یہ سوال خود بخود پیدا ہو گا کہ اصلاح کی صورت کیا ہے؟ میں اس کا جواب دینے کے لئے حاضر ہوا ہوں۔

اس تاریکی میں ہمارے لئے امید کی ایک ہی شعاع ہے اور وہ یہ ہے کہ ہماری پوری آبادی بگڑ کر نہیں رہ گئی ہے بلکہ اس میں کم از کم چار پانچ فیصدی لوگ ایسے ضرور موجود ہیں جو اس عام بد اخلاقی سے بچے ہوئے ہیں۔ یہی وہ سرمایہ جس کو اصلاح کی ابتداء کرنے کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے، اصلاح کی راہ میں پہلا قدم یہ ہے کہ اس صالح عنصر کو چھانٹ چھانٹ کر منظم کیا جائے، ہماری بدقسمتی کی بڑی وجہ یہی ہے کہ ہمارے ہاں بدی تو منظم ہے اور پوری باقاعدگی کے ساتھ اپنا کام کر رہی ہے لیکن نیکی منظم نہیں ہے۔ نیک لوگ موجود ضرور ہیں مگر منتشر ہیں ان کے اندر کوئی ربط اور تعلق نہیں ہے کوئی تعاون اور اشتراک عمل نہیں ہے کوئی لائحہ عمل اور کوئی مشترک آواز نہیں ہے اسی چیز نے ان کو بالکل بے اثر بنا دیا ہے۔ کبھی کوئی اللہ کا بندہ اپنے گردوپیش کی برائیوں کو دیکھ کر چیخ اٹھتا ہے مگر جب کسی طرف سے کوئی آواز اس کی تائید میں نہیں اٹھتی تو مایوس ہو کر بیٹھ جاتا ہے۔ کبھی کوئی شخص حق اور انصاف کی بات علانیہ کہ بیٹھتا ہے مگر منظم بدی زبردستی اس کا منہ بند کر دیتی اور حق پسند لوگ بس اپنی جگہ چپکے سے اس کو داد دے کر رہ جاتے ہیں کبھی کوئی شخص انسانیت کا خون ہوتے دیکھ کر صبر نہیں کر سکتا اور اس پر احتجاج کر گزرتا ہے مگر ظالم لوگ ہجوم کر کے اسے دبا لیتے ہیں اور اس کا حشر دیکھ کر بہت سے ان لوگوں کی ہمتیں پست ہو جاتی ہیں جن کے ضمیر میں ابھی کچھ زندگی باقی ہے یہ حالت اب ختم ہونی چاہئے۔ اگر ہم یہ نہیں چاہتے کہ ہمارا ملک عذاب میں مبتلا ہو اور اس عذاب میں نیک و بد سب گرفتار ہو جائیں تو ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ ہمارے اندر جو صالح عناصر اس اخلاقی وبا سے بچے رہ گئے ہیں وہ اب مجتمع اور منظم ہوں اور اجتماعی طاقت سے اس بڑھتے ہوئے فتنے کا مقابلہ کریں جو تیزی کے ساتھ ہمیں تباہی کی طرف لے جا رہا ہے۔

آپ اس سے نہ گھبرائیں کہ یہ صالح عنصر اس وقت بظاہر بہت ہی مایوس کن اقلیت میں ہے۔ یہی تھوڑے سے لوگ اگر منظم ہو جائیں اگر ان کا اپنا ذاتی اور اجتماعی رویہ، خالص راستی، انصاف، حق پسندی اور خلوص و دیانت پر مضبوطی کے ساتھ قائم ہو، اگر وہ مسائل زندگی کا بہتر حل اور دنیا کے معاملات کو درست طریقے پر چلانے کے لئے ایک اچھا پروگرام بھی رکھتے ہوں تو یقین جانئے کہ اس منظم نیکی کے مقابلہ میں منظم بدی اپنے لشکروں کی کثرت اور اپنے گندے ہتھیاروں کی تیزی کے باوجود شکست کھا کر رہے گی۔ انسانی فطرت شر پسند نہیں ہے اسے دھوکا ضرور دیا جا سکتا ہے اور ایک بڑی حد تک مسخ بھی کیا جا سکتا ہے مگر اس کے اندر بھلائی کی قدر کا جو مادہ خالق نے ودیعت کر دیا ہے اسے بالکل معدوم نہیں کیا جا سکتا۔ انسانوں میں ایسے لوگ تھوڑے ہی ہوتے ہیں جو بدی ہی سے دلچسپی رکھتے ہیں اور اس کے علمبردار بن کر کھڑے ہوں اور ایسے لوگ بھی کم ہوتے ہیں جنہیں نیکی سے عشق ہو اور اسے قائم کرنے کی جدوجہد کریں ان دونوں گروہوں کے درمیان عام انسان نیکی اور بدی کے ملے جلے رجحانات رکھتے ہیں وہ نہ بدی کے گرویدہ ہیں اور نہ نیکی ہی سے انہیں غیر معمولی دلچسپی ہوتی ہے۔ ان کے کسی ایک طرف جھک جانے کا انحصار تمام تر اس پر ہوتا ہے کہ خیر اور شر کے علم برداروں میں سے کون آگے بڑھ کر انہیں اپنے راستہ کی طرف کھینچتا ہے اگر خیر کے علم بردار میدان میں آئیں ہی نہیں اور ان کی طرف سے عوام الناس کو بھلائی کی راہ پر چلانے کی کوشش ہی نہ ہو تو لامحالہ میدان علم برداران شر ہی کہ ہاتھ رہے گا اور وہ عام انسانوں کو اپنی راہ کھینچ لے جائیں گے۔ لیکن اگر خیر کے علم بردار بھی میدان میں موجود ہوں اور وہ اصلاح کی کوشش کا حق ٹھیک ٹھیک ادا کریں تو عوام الناس پر علم برداران شر کا اثر زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتا۔ کیونکہ ان دونوں کا مقابلہ آخر کار اخلاق کے میدان میں ہو گا اور اس میدان میں نیک انسانوں کو برے انسان کبھی شکست نہیں دے سکتے۔ سچائی کے مقابلہ میں جھوٹ، ایمانداری کے مقابلے میں بے ایمانی اور پاکبازی کے مقابلہ میں بدکرداری خواہ کتنا ہی زور لگالے آخری جیت بہر حال سچائی، ایمانداری اور پاکبازی ہی کی ہوگی۔ دنیا اس قدر بے حس نہیں ہے کہ اچھے اخلاق کی مٹھاس اور برے اخلاق کی تلخی کو چکھ لینے کے بعد آخر کار اس کا فیصلہ یہی ہو کہ مٹھاس سے تلخی زیادہ بہتر ہے۔

اصلاح کے لئے نیک انسانوں کی تنظیم کے ساتھ دوسری ضروری چیز یہ ہے کہ ہمارے سامنے بنا۔ اور بگاڑ کا ایک واضح تصور موجود ہو۔ ہم اچھی طرح یہ سمجھ لیں کہ بگاڑ کیا ہے تاکہ اسے دور کرنے کی کوشش کی جائے اور بناؤ کیا ہے تاکہ اسے دور کرنے کی کوشش کی جائے اور بناؤ کیا ہے تاکہ اسے عمل میں لانے پر سارا زور لگا دیا جائے، تفصیلات میں جانے کا اس وقت موقع نہیں ہے۔ میں بڑے اختصار کے ساتھ آپ کے سامنے ان دونوں کی ایک تصویر پیش کروں گا۔

بگاڑ کے اسباب

انسانی زندگی میں بگاڑ جن چیزوں سے پیدا ہوتا ہے کہ ان کو ہم ان چار بڑے عنوانات کے تحت جمع کر سکتے ہیں۔

  • خدا سے بے خوفی: خود دنیا میں بے انصافی، بے رحمی، خیانت اور ساری اخلاقی برائیوں کی جڑ ہے۔
  • خدا کی ہدایت سے بے نیازی: جس نے انسان کیلئے کسی معاملہ میں بھی ایسے مستقل اخلاقی اصول باقی نہیں رہنے دیئے ہیں جن کی پابندی کی جائے اسی چیز کی بدولت اشخاص اور گروہوں اور قوموں کا سارا طرز عمل مفاد پرستی، لذت پرستی اور خواہشات کی غلامی پر قائم ہو گیا ہے، اسی کا نتیجہ ہے کہ وہ نہ اپنے مقاصد میں جائز و ناجائز کی تمیز کرتے ہیں اور نہ ان مقاصد کو حاصل کرنے کیلئے کسی قسم کے برے سے برے ذرائع اختیار کرنے میں انہیں ذرا سا تامل ہوتا ہے۔
  • خود غرضی: جو صرف افراد ہی کو ایک دوسرے کی حق تلفی پر آمادہ نہیں کرتی بلکہ بڑے پیمانہ پر نسل پرستی، قوم پرستی اور طبقاتی امتیازات کی شکل اختیار کر لیتی ہے اور اس سے فساد کی بے شمار صورتیں پیدا ہوتی ہیں۔
  • جمود یا بے راہ روی: جس کی وجہ سے انسان یا تو خدا کی دی ہوئی قوتوں کو استعمال ہی نہیں کرتا۔ یا غلط استعمال کرتا ہے۔ یا تو خدا کے بخشے ہوئے ذرائع سے کام نہیں لیتا یا غلط کام لیتا ہے، پہلی صورت میں اللہ تعالیٰ کا قانون یہ ہے کہ وہ کاہل اور نکمے لوگوں کو زیادہ دیر تک اپنی زمین پر قابض رہنے نہیں دیتا بلکہ ان کی جگہ ایسے لوگوں کو لے آتا ہے جو کچھ نہ کچھ بنانے والے ہوں دوسری صورت میں جب غلط کار قوموں کی تخریب ان کی تعمیر سے بڑھ جاتی ہے تو وہ ہٹا کر پھینک دی جاتی ہے اور بسا اوقات خود اپنی ہی تخریبی کارروائیوں کا لقمہ بنا دی جاتی ہیں۔

بناؤ کے اصول

اس کے مقابلہ میں وہ چیزیں بھی جن کی بدولت انسانی زندگی بنتی اور سنورتی ہے چار ہی عنوانات کے تحت تقسیم ہوتی ہیں۔

  • خدا کا خوف: آدمی کو برائیوں سے روکنے اور سیدھا چلانے کے لئے ایک ہی قابل اعتماد ضمانت ہے۔ راست بازی، انصاف، امانت، حق شناسی، ضبط نفس اور تمام دوسری خوبیاں جن پر ایک پرامن اور ترقی پذیر تمدن و تہذیب کی پیدائش کا انحصار ہے، اسی ایک تخم سے پیدا ہوتی ہیں اگر چہ بعض دوسرے عقیدوں کے ذریعہ سے بھی کسی نہ کسی حد تک انہیں پیدا کیا جا سکتا ہے جس طرح مغربی ملکوں نے کچھ نہ کچھ اپنے اندر پیدا کیا ہے لیکن ان ذرائع سے پیدا کی ہوئی خوبیوں کا نشونما بس ایک حد پر جا کر رک جاتا ہے اور اس حد میں بھی ان کی بنیاد متزلزل رہتی ہے۔ صرف خدا ترسی ہی وہ پائیدار بنیاد ہے جس پر انسان کے اندر برائی سے رکنے اور بھلائی سے چلنے کی صفت مضبوطی کے ساتھ قائم ہوتی ہے اور محدود پیمانے پر نہیں بلکہ وسیع پیمانہ پر تمام انسانی معاملات پر اپنا اثر دکھاتی ہے۔
  • خدائی ہدایت کی پیروی: جو انسان کے شخصی، اجتماعی، قومی اور بین الاقوامی رویہ کو اخلاق کے مستقل اصول کا پابند کرنے کی ایک ہی صورت ہے۔ جب تک انسان اپنے اخلاقی اصولوں کا خود واضع اور مصنف رہتا ہے، اس کے پاس باتیں بنانے کے لئے کچھ اور اصول ہوتے ہیں اور عمل میں لانے کے لئے کچھ اور۔ کتابوں میں آب زر سے وہ ایک قسم کے اصول لکھتا ہے اور معاملات میں اپنے مطلب کے مطابق بالکل دوسرے ہی قسم کے اصول برتتا ہے۔ دوسروں سے مطالبہ کرتے وقت اس کے اصول کچھ اور ہوتے ہیں اور خود معاملہ کرتے وقت کچھ اور۔ موقع اور مصلحت اور خواہش اور ضرورت کے دباؤ سے اس کے اصول ہر آن بدلتے ہیں۔ وہ اخلاق کا اصل محور ”حق“ کو نہیں بلکہ ”اپنے مفاد“ کو بناتا ہے۔ وہ اس بات کو مانتا ہی نہیں کہ اس کے عمل کو حق کے مطابق ڈھلنا چاہئیے اس کے بجائے وہ چاہتا ہے کہ حق اس کے مفاد کے مطابق ڈھلے۔ یہی وہ چیز ہے جس کی بدولت افراد سے لے کر قوموں تک سب کا رویہ غلط ہو جاتا ہے اور اسی سے دنیا میں فساد پھیلتا ہے۔ اس کے برعکس جو چیز انسانوں کو امن، خوشحالی اور فلاح و سعادت بخش سکتی ہے وہ یہ ہے کہ اخلاق کے کچھ ایسے اصول ہوں جو کسی مفاد کے لحاظ سے نہیں بلکہ حق کے لحاظ سے بنے ہوئے ہوں اور انہیں اٹل مان کر تمام معاملات میں ان کی پابندی کی جائے خواہ وہ معاملات شخصی ہوں یا قومی خواہ تجارت سے تعلق رکھتے ہوں یا سیاست اور صلح و جنگ سے۔ ظاہر ہے کہ ایسے اصول صرف خدائی ہدایت ہی میں ہمیں مل سکتے ہیں اور ان پر عمل درآمد کی صرف یہی ایک صورت ہے کہ انسان ان کے اندر ردو بدل کے اختیارات سے دست بردار ہو کر انہیں قطعی وجب الاتباع تسلیم کر لے۔
  • نظام انسانیت: جو شخصی، قومی، نسلی اور طبقاتی خود غرضیوں کے بجائے تمام انسانوں کے مساوی مرتبہ اور مساوی حقوق پر مبنی ہو جس میں بے جا امتیازات نہ ہوں جس میں اونچ نیچ، چھوت چھات اور مصنوعی تعصبات نہ ہوں۔ جس میں بعض کے لئے مخصوص حقوق اور بعض کے لئے بناوٹی پابندیاں اور رکاوٹیں نہ ہوں۔ جس میں سب کو یکساں پھلنے پھولنے کا موقع ملے جس میں انسان کی پستی و بلندی صرف اس کے اوصاف کی بنا پر ہو۔ جس میں اتنی وسعت ہو کہ روئے زمین کے سارے انسان اس میں برابری کے ساتھ شریک ہو سکتے ہیں۔
  • عمل صالح: یعنی خدا کی دی ہوئی قوتوں اور اس کے بخشے ہوئے ذرائع کو استعمال کرنا اور صحیح استعمال کرنا۔

خاتمہ

حضرات! یہ چار چیزیں ہیں جن کے مجموعے کا نام بناؤ اور اصلاح ہے اور ہم سب کی بہتری اس میں ہے کہ ہمارے اندر نیک انسانوں کی ایک ایسی منظم تنظیم موجود ہو جو بگاڑ کے اسباب کو روکنے اور بناؤ کی ان صورتوں کو عمل میں لانے کیلئے پیہم جدوجہد کریں۔ یہ جدوجہد اگر اس ملک کے باشندوں کو راہ راست پر لانے میں کامیاب ہو گئی تو خدا ایسا بے انصاف نہیں ہے کہ وہ خواہ مخواہ اپنی زمین کے انتظام اس کے اصلی باشندوں سے چھین کر کسی اور دیدے۔ لیکن اگر خدانخواستہ یہ نا کام ہوئی تو ہم نہیں کہہ سکتے کہ ہمارے آپ کا اور اس عرض ہند کار ہنے والوں کا کیا انجام ہوگا!!

محسن انسانیت مقدمہ نعیم صدیقی

 

باب: ۱

مقدمہ: پیغام - نصب العین اور تاریخی مقام

بیشتراس کے کہ ہم حضورﷺ کی سیرت کا مطالعہ کرنے چلیں، ہمارے سامنے اس کام کا کوئی واضح تصور ہونا چاہیے جسے سرانجام دینے کے لیے دنیائے انسانیت کی عظیم ترین شخصیت تاریخ کی جنگاہ میں نمودار ہوتی ہے۔ پوری عمر ایک فیصلہ کن معرکہ سر کرنے میں گزار دیتے ہیں۔ حضورﷺ کی زندگی ایک بین الاقوامی مشن کی داستان ہے۔ وہ قرآن کے ابدی اصولوں کی تفسیر ہے جسے عمل کی زبان میں مرتب کیا گیا ہے۔ وہ اس مقدس پیغام کی تکمیل ہے جس کی مشعل آدم، ابراہیم، موسیٰ، عیسیٰ اور جملہ انبیاء علیہم السلام اپنے اپنے دور میں روشن کرتے رہے ہیں۔

ہم سیرتِ پاک کو مربوط نہیں کر سکتے، واقعات کی توجیہہ نہیں کر سکتے، مطالعۂ سیرت کا مقصد متعین نہیں کر سکتے اور اس سے جو کچھ ہمیں اخذ کرنا ہے وہ کچھ اخذ نہیں کر سکتے، تاوقتیکہ ہم حضورﷺ کے کام کی نوعیت، اس کے امتیازی پہلوؤں اور اس کے دائرے کی وسعتوں کو پیشِ نظر نہ رکھ لیں۔

بنی نوع انسان کا نجات دہندہ

تاریخ کے وسیع دائروں پر نظر ڈالیں، تو اس میں ہمیں طرح طرح کے مصلحین دکھائی دیتے ہیں۔ شیریں مقال واعظ اور آتش بیان خطیب سامنے آتے ہیں، بہت سے فلسفہ طراز ہر دور میں ملتے ہیں، بادشاہوں اور حکمرانوں کے انبوہ ہمیشہ موجود رہے ہیں جنہوں نے عظیم الشان سلطنتیں قائم کیں، جنگجو فاتحین کی داستانیں ہم پڑھتے ہیں، جماعتیں بنانے اور تمدن میں مد و جزر پیدا کرنے والوں سے ہم تعارف حاصل کرتے ہیں۔ انقلابی طاقتیں نگاہوں میں آتی ہیں جنہوں نے نقشۂ حیات کو بار بار زیر و زبر کیا ہے۔ رنگا رنگ مذاہب کی نیو ڈالنے والے بکثرت سامنے آتے ہیں۔ اخلاقی خوبیوں کے داعی بھی اسٹیج پر جلوہ گر ہوتے رہے ہیں۔ کتنے ہی مقنن ایوانِ تہذیب میں کارنامے دکھا چکے ہیں۔ لیکن جب ہم ان کی تعلیمات، ان کے کارناموں اور ان کے پیدا کردہ مجموعی نتائج کو دیکھتے ہیں تو اگر کہیں خیر و فلاح دکھائی دیتی ہے تو وہ جزوی قسم کی ہے۔ اس کے اثرات زندگی کے کسی ایک گوشے پر ابھرتے ہیں۔ پھر خیر و فلاح کے ساتھ طرح طرح کے مفاسد ترکیب پائے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ انبیاء کے ماسوا کوئی عنصر تاریخ میں ایسا نہیں دکھائی دیتا جو انسان کو ۔۔۔۔ پورے کے پورے انسان کو ۔۔۔۔ اجتماعی انسان کو ۔۔۔۔ اندر سے بدل سکا ہو۔

حضورﷺ کا اصل کارنامہ یہ ہے کہ آپ کی دعوت نے پورے کے پورے اجتماعی انسان کو اندر سے بدل دیا اور صبغۃ اللہ کا ایک ہی رنگ مسجد سے لے کر بازار تک، مدرسہ سے عدالت تک اور گھروں سے لے کر میدانِ جنگ تک چھا گیا۔ ذہن بدل گئے، خیالات کی رو بدل گئی، نگاہ کا زاویہ بدل گیا، عادات و اطوار بدل گئے، رسوم و رواج بدل گئے، حقوق و فرائض کی تقسیمیں بدل گئیں، خیر و شر کے معیارات اور حلال و حرام کے پیمانے بدل گئے۔ اخلاقی قدریں بدل گئیں، دستور اور قانون بدل گیا، جنگ و صلح کے اسالیب بدل گئے، معیشت اور ازدواج کے اطوار بدل گئے اور تمدن کے ایک ایک ادارے اور ایک ایک شعبے کی کایا پلٹ گئی۔ اس پوری کی پوری تبدیلی میں جس کا دائرہ ہمہ گیر تھا، ایک سرے سے دوسرے سرے تک خیر و فلاح کے علاوہ کچھ نہیں ملتا۔ کسی گوشے میں شر نہیں، کسی کونے میں فساد نہیں، کسی جانب بگاڑ نہیں۔ ہر طرف بناؤ ہی بناؤ، تعمیر ہی تعمیر اور ارتقا ہی ارتقا ہے۔ درحقیقت حضور محسنِ انسانیتﷺ کے ہاتھوں انسانی زندگی کو نشاۃِ ثانیہ حاصل ہوئی اور حضورﷺ نے ایک نظامِ حق کی صبحِ درخشاں سے مطلعِ تہذیب کو روشن کر کے بین الاقوامی دورِ تاریخ کا افتتاح فرمایا۔ یہ اتنا بڑا کارنامہ ہے کہ اس کی مثال کسی دوسری جگہ نہیں ملتی!

ظہورِ اسلام کے وقت دنیا کے حالات

خدا کے آخری رسولِ ہدایت کا ظہور ایسے حالات میں ہوا جب کہ پوری انسانیت تاریکیوں میں ڈوبی ہوئی تھی ۔۔۔ کہیں دورِ وحشت چل رہا تھا اور کہیں شرک اور بت پرستی کی لعنتوں نے مدنیت کا ستیاناس کر رکھا تھا۔ مصر اور ہندوستان، بابل اور نینوا، یونان اور چین میں تہذیب اپنی شمعیں گل کر چکی تھی۔ لے دے کے فارس اور روم تمدنی عظمت کے پھریرے ہوا میں لہرا رہے تھے۔ رومی اور ایرانی تمدنوں کی ظاہری چمک دمک آنکھوں کو خیرہ کر دینے والی تھی، مگر ان شیش محلوں کے اندر بدترین مظالم کا دور دورہ تھا اور زندگی کے زخموں سے تعفن اٹھ رہا تھا۔ بادشاہ خدا کے اوتار ہی نہیں، خدا بنے ہوئے تھے۔ ان کے ساتھ جاگیردار طبقوں اور مذہبی عناصر کی ملی بھگت قائم تھی۔ روم اور ایران کے دونوں خطوں میں اس تگڑم نے عام انسان کا گلا اچھی طرح دبوچ رکھا تھا۔ یہ لوگ ان سے بھاری ٹیکس، رشوتیں، خراج اور نذرانے وصول کرتے تھے اور ان سے جانوروں کی طرح بیگاریں لیتے تھے۔ لیکن ان کے مسائل سے ان کو کوئی دلچسپی نہ تھی، ان کی مصیبتوں میں ان سے کوئی ہمدردی نہ تھی اور ان کی گتھیوں کا کوئی حل ان کے پاس نہ تھا۔ ان بالادست طبقوں کی عیاشیوں اور نفس پرستیوں نے اخلاقی روح کو ہلاک کر دیا تھا۔ بادشاہوں کے ادل بدل، نت نئے فاتحین کے ظہور اور خون ریز جنگوں کی وجہ سے حالات میں جو تموج پیدا ہوتا تھا، اس میں بھی کوئی راہِ نجات عام آدمی کے لیے نہ نکلتی تھی۔ عام آدمی کو ہر تبدیلی کی چکی اور زیادہ تیزی سے پیستی تھی۔ ہر قوت اسی کو آلۂ کار بنا کر اور اسی کا خون صرف کر کے اور اس کی محنتوں سے استفادہ کر کے اپنا جھنڈا بلند کرتی تھی اور پھر غلبہ و اقتدار پانے کے بعد وہ پہلوں سے بھی بڑھ چڑھ کر ظالم ثابت ہوتی تھی۔ خود روم و ایران کی سلطنتوں کے درمیان مسلسل آویزش کا چکر چلتا رہتا تھا اور مختلف علاقے کبھی ایک حکومت کے قبضے میں جاتے اور کبھی دوسری سلطنت ان کو نگل لیتی۔ لیکن ہر بار فاتح قوت عوام کے کسی نہ کسی طبقے کو خوب اچھی طرح پامال کرتی۔ مثلاً رومی حکومت آتی تو آتش کدے کلیساؤں میں بدل جاتے اور ایرانی راج چھا جاتا تو پھر کلیسا آتش کدے بن جاتے۔ اس تبدیلی کا نتیجہ یہ ہوتا کہ مفتوحین کو جبری تبدیلیٔ مذہب سے گزرنا پڑتا یا وہ منافقت اختیار کرتے، ورنہ موت یا ایذا رسانی سے دوچار ہوتے۔ ایسے لوگوں میں جوہرِ ایمان و اخلاق کیسے زندہ رہ سکتا۔

دنیا کے اکثر حصوں میں طوائف الملوکی کا دور دورہ تھا۔ نت نئے ٹکراؤ ہوتے، بار بار کشت و خون ہوتے، بغاوتیں اٹھتیں، مذہبی فرقے خون ریزیاں کرتے اور ان ہنگاموں کے درمیان انسان بہ حیثیت انسان بری طرح پامال ہو رہا تھا۔ وہ انتہائی مشقتیں کر کے بھی زندگی کی ادنیٰ ضرورتیں پوری کرنے پر قادر نہ تھا۔ اسے مظالم کے کولہو میں پیلا جاتا تھا، مگر تشدد کی خوف ناک فضا میں وہ صدائے احتجاج بلند نہیں کر سکتا تھا۔ وہ تلخ احساسات رکھتا ہو گا مگر اسے ضمیر کی آزادی کسی ادنیٰ درجے میں حاصل نہ تھی۔ اس کی مایوسیوں اور نامرادیوں کا آج ہم مشکل ہی سے تصور کر سکتے ہیں کہ وہ ماحول کے ایک ایسے آہنی قفس میں بند تھا جس میں کوئی روزن کسی طرف نہیں کھلتا تھا۔ اس کے سامنے کسی امید افزا اعتقاد اور کسی فلسفے یا نظریے کا جگنو تک نہیں چمکتا تھا، اس کی روح چیختی تھی، مگر پکار کا کوئی جواب کسی طرف سے نہ ملتا تھا۔ کوئی مذہب اس کی دستگیری کے لیے موجود نہ تھا، کیونکہ انبیاء کی تعلیمات تحریف و تاویل کے غبار میں گم کی جاچکی تھیں اور باقی جو شے مذہب کے عنوان سے پائی جاتی تھی اسے مذہبی طبقوں نے متاعِ کاروبار بنا لیا تھا اور انہوں نے وقت کی ظالم طاقتوں کے ساتھ سودے گانٹھ لیے تھے۔

یونان کا فلسفہ سکتے میں تھا، کنفیوشس اور مانی کی تعلیم دم بخود تھی، ویدانت اور بدھ مت کے تصورات اور منو شاستر کے نکات سربگریباں تھے۔ جسٹین کا ضابطہ اور سولن کا قانون بے بس تھا۔ کسی طرف کوئی روشنی نہ تھی۔ جب کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسان حالات کے ایک آہنی قفس میں بند ہو جاتا ہے اور اسے کسی طرف سے نجات کا راستہ دکھائی نہیں دیتا، تو تمدنی بحران پیدا ہو جاتا ہے۔ وہ خوف ناک ترین بحران کا ایک عالم گیر دور تھا جس کی اندھیاریوں میں محسنِ انسانیتﷺ کی مشعل یکا یک آ ابھرتی ہے اور وقت کے تمدنی بحران کی تاریکیوں کا سینہ چیر کر ہر طرف اجالا پھیلا دیتی ہے۔¹ ²

عرب کا ماحول اور پس منظر

خود عرب کا قریب ترین ماحول جو حضورﷺ کا اولین میدانِ کار بنا، اس کا تصور کیجئے تو دل دہل جاتا ہے۔ وہاں عاد و ثمود کے ادوار میں، سبا اور عدنان، اور یمن کی سلطنتوں کے سائے میں کبھی تہذیب کی روشنی نمودار بھی ہوئی تھی تو اب اسے گل ہوئے مدتیں گزر چکی تھیں۔¹ بقیہ عرب پر دورِ وحشت کی رات چھائی ہوئی تھی۔² تمدن کی صبح ابھی تک جلوہ گر نہیں ہوئی تھی اور انسانیت نیند سے بیدار نہ ہو پائی تھی۔ ہر طرف ایک انتشار تھا، انسان اور انسان کے درمیان تصادم تھا، جنگ و جدل اور لوٹ مار کا دور دورہ تھا،³ شراب اور زنا اور جوئے سے ترکیب پانے والی جاہلی ثقافت زوروں پر تھی۔ قریش نے مشرکانہ اور بت پرستانہ مذہبیت کے ساتھ کعبہ کی مجاوری کا کاروبار چلا رکھا تھا۔ یہود نے کلامی اور فقہی موشگافیوں کی دکانیں کھول رکھی تھیں۔ باقی عرب فکر کے لحاظ سے ذہنی پریشانی میں مبتلا تھا۔ مکہ اور طائف کے مہاجنوں نے سود کے جال پھیلا رکھے تھے۔ غلام سازی کا منحوس ادارہ دھوم دھڑلے سے چل رہا تھا۔ حاصلِ مدعا یہ کہ انسان خواہش پرستی کی ادنیٰ سطح پر گر کر درندوں اور چوپایوں کی شان سے جی رہا تھا۔ جو زور والا تھا اس نے کمزوروں کو بھیڑ بکریوں کے گلوں کی طرح قابو میں کر رکھا تھا اور کمزور لوگ قوت والوں کے قدموں میں سجدہ پاش تھے۔

یہ تھے وہ حالات جن میں محمد صلی اللہ علیہ و سلم عظیم ترین تبدیلی کا پیغام لے کر یکہ و تنہا اٹھتے ہیں، ایسے مایوس کن حالات میں کوئی دوسرا ہوتا تو شاید زندگی سے بھاگ کھڑا ہوتا۔ دنیا میں ایسے نیک اور حساس لوگ بکثرت پائے گئے ہیں جنہوں نے بدی سے نفرت کی، مگر وہ بدی کا مقابلہ کرنے پر تیار نہ ہو سکے اور اپنی جان کی سلامتی کے لیے تمدن سے کنارہ کش ہو کر غاروں اور کھوہوں میں پناہ گزین ہوئے اور جوگی اور راہب بن گئے۔ مگر حضورﷺ نے انسانیت کی نیا کو طوفانی موجوں میں ہچکولے کھاتے چھوڑ کر اپنی جان بچانے کی فکر نہیں کی، بلکہ بدی کے ہلاکت انگیز گردابوں سے لڑ کر ساری اولادِ آدم کے لیے نجات کا راستہ کھولا۔ تمدن کی کشتی کی پتوار سنبھالی اور پھر اسے ساحلِ مراد کی طرف رواں کر دیا۔

روم اور ایران کی دو بڑی ٹکراتی ہوئی تمدنی طاقتوں نے جو بحران پیدا کر دیا تھا، اسے توڑنے کے لیے آپ ایک تیسری طاقت بن کے اٹھے اور آہستہ آہستہ یہ تیسری طاقت جب اپنے پیروں پر کھڑی ہو گئی تو اس نے روم و ایران دونوں کو چیلنج کیا، دونوں کی مرعوب کن قیادتوں کے تخت الٹ دیئے اور عوام الناس کو خوفناک تمدنی قفس سے نکال کر آزاد فضاؤں میں اڑان کا موقع دیا! اولادِ آدم کے سامنے معاً ایک راہِ نجات کھل گئی، کاروانِ زندگی جو رہزنوں کے درمیان گھرا کھڑا تھا، وہ پھر فلاح و ارتقا کی راہوں پر گامزن ہو گیا! یوں رسولِ پاک خلقِ خدا کے لیے نجات دہندہ بن کر تشریف لائے۔

وقت، مقام اور انسانی مواد

مشیتِ الٰہی نے جہاں انسانیت کو صراطِ مستقیم پر لانے کے لیے حضورﷺ کی بہترین ہستی کا اصطفا کیا، وہاں وقت کے بدترین حالات کے باوجود، حضورﷺ کے لیے بہترین زمانہ، مقامِ دعوت اور بہ حیثیت اولین مخاطب بہترین قوم، بہترین خاندان اور اس کی بہترین شاخ کا انتخاب بھی کیا۔¹

  • موزوں ترین وقت: مجموعی لحاظ سے زمانہ یوں موزوں ترین تھا کہ قبائلی دور ختم ہو کر جلد ہی بین الاقوامی دور شروع ہونے والا تھا، اور تاریخ کچھ ہی گردشوں کے بعد سائنس کے عہد میں داخل ہونے والی تھی۔ حضورﷺ کا زمانۂ بعثت گویا دو دوروں کے درمیان خطِ فاصل تھا۔ آنے والے وسیع تر اور روشن دور کا افتتاح کرنے کے لیے ضروری ہوا کہ انبیاء کی دعوتِ حق کو ایک بار پوری طرح اجاگر کر دیا جائے۔ دین کی روح کو ابھار دیا جائے، خدا پرستانہ تہذیب کی بنیادیں مضبوطی سے جما دی جائیں اور عدل و مساوات کا نظامِ رحمت کامل شکل میں پیش کر دیا جائے تاکہ حضورﷺ کے اس کارنامے کی روشنی سے بعد کے ادوار منور کیے جاسکیں۔ اور پھر یہ زمانہ اس لحاظ سے بھی موزوں ترین تھا کہ عام لوگوں کے سامنے کوئی دوسری امید گاہ باقی نہ تھی، اور ان کے دل میں قبولِ اسلام کے دروازے آسانی سے کھل سکتے تھے۔

  • موزوں ترین مقام: مقامِ دعوت کے لحاظ سے دیکھیں تو عرب باوجود بے آب و گیاہ خطہ ہونے کے اس وقت کی متمدن دنیا میں وسطی² حیثیت رکھتا تھا۔ مشرق و مغرب اور شمال سے آنے والے تمام کاروانی راستے عرب کی سرزمین میں آ کر ملتے تھے اور مختلف ممالک کے درمیان جتنی تجارتِ خارجہ ہوتی تھی اس کا واسطہ عرب ہی کے تجار تھے۔ عمان اور یمن، صنعا اور مکہ، جدہ اور ینبوع، مدینہ اور دومتہ الجندل کے درمیان کاروانوں کی آمد و رفت رہتی، جو عربی راستہ دکھانے والوں، قریش کے پروانہ ہائے راہداری اور اہم قبائل کے بدرقوں کے بغیر سلامتی سے گزر نہ سکتے تھے۔ اس طرح عرب کی سرزمین خصوصاً مکہ، طائف، مدینہ، ینبوع اور دومتہ الجندل کا رابطہ ہند، چین، ایران، عراق، مصر، روم اور حبش کے تمام علاقوں سے تھا۔ یہاں کسی بین الاقوامی دعوت کا مرکز دوسرے ہر علاقے سے زیادہ کامیاب ہو سکتا تھا۔ پھر سرزمینِ عرب میں مکہ اور مدینہ کے مقامات یہ اہمیت رکھتے تھے کہ مذہبی، تجارتی اور تمدنی حیثیت سے ان کی قیادت کا سکہ چلتا تھا۔

عرب کا غیر متمدن اور مبتلائے انتشار ہونا اور اقتصادی حیثیت سے کمزور ہونا اگرچہ کئی مشکلات کا باعث تھا مگر اس کا ایک بڑا فائدہ یہ بھی تھا کہ یہ علاقہ بیرونی تسلط سے بھی بڑی حد تک آزاد تھا اور داخلی طور پر بھی کوئی طاقت ایسی نہ تھی جو باقاعدہ سیاسی اقتدار پورے ملک پر جما چکی ہوتی اور پھر اقتدار، قانون اور تعلیم سے کام لے کر انسانوں کو ایک خاص نقشے پر ڈھال چکی ہوتی۔ ایسی طاقت اگر کوئی موجود ہوتی تو وہ اسی طرح دعوتِ حق کو کچل سکتی تھی جیسے پہلے بعض ظالم بادشاہوں نے انبیاء کی دعوتوں کو تکمیل تک پہنچنے سے قبل روک دیا۔ بلاشبہ قریش کا بڑا گہرا اثر موجود تھا اور یہ پورے زور سے رکاوٹ بنا، لیکن قریش کو پورے عرب پر باقاعدہ سیاسی تسلط حاصل نہ تھا۔ ان کا مذہبی و تجارتی اثر کتنا بھی گہرا رہا ہو، منظم حکومت کا بدل نہیں ہو سکتا۔

دینی لحاظ سے دیکھیں تو اس سرزمین کے چاروں طرف انبیائے ماسبق کی دعوتوں کے چراغ روشن رہ چکے تھے اور ان کی اقوام کے آثار آنکھوں کے سامنے موجود تھے۔¹ شمال میں ظہورِ ابراہیمی کا مقام ار تھا، اسی کے قریب کچھ اور اوپر نوح علیہ السلام کا علاقہ تھا، پھر لوط علیہ السلام کا مقامِ دعوت تھا، پھر مدائنِ صالح تھا، پھر فلسطین و یروشلم کا علاقہ تھا جہاں بنی اسرائیل نے عروج و زوال کے دور گزارے اور جہاں عیسیٰ علیہ السلام نے سچائی اور نیکی کا پیغام سنایا۔ جنوب میں عاد و ثمود کی بستیاں تھیں، سبا کی سلطنت تھی، سدِ مآرب تھا جس کے ٹوٹنے سے سیلِ عرم کا عذاب آیا۔ سمندر پار مصر کی سرزمین تھی جہاں کنعان میں حضرت یعقوب نقیبِ حق تھے، وہاں سے ان کے فرزند حضرت یوسف اٹھے، اندھے کنویں میں ڈالے گئے، وہاں سے مصر پہنچے، بازار میں غلام بن کر بکے، عزیزِ مصر کے محل میں پہنچے، محل سے قید خانے میں ڈالے گئے، قید خانے سے نکلے تو مصری خزائنِ ارض کے مختار بن کر تخت پر جا بیٹھے، اسلامی نظامِ عدل و رحمت کا سکہ چلایا۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے کیے ہوئے کارِ دین کا احیا موسیٰ علیہ السلام نے کیا اور فرعون، قارون اور ہامان کے گٹھ جوڑ سے چلنے والے نظامِ ظلم کے لیے چیلنج بن گئے۔

ان علاقوں کے درمیان سرزمینِ حجاز واقع تھی جس کی وادیٔ غیر ذی زرع¹ میں ابراہیم اور اسماعیل علیہما السلام نے مرکزِ توحید کو مستحکم کیا² اور عبودیت و طاعت کی روشن یادگاریں چھوڑیں، خدا پرستی، توحید اور اصلاحِ انسانیت کے فروغ کے لیے آخر اس سے بہتر علاقہ اور کون سا ہو سکتا تھا۔ یہاں دعوتِ حق کی آواز اٹھانے سے انسانی ذہن میں سابق انبیاء کے چھوڑے ہوئے دھندلے نقوش بآسانی تازہ ہو سکتے تھے۔

  • بہترین انسانی مواد: انسانی مواد (Human Material) بھی بہترین وہ تھا جو عرب کی سرزمین میں موجود تھا۔ اس کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ اس کی قوتوں اور صلاحیتوں کے خزانے ابھی تک غیر استعمال شدہ اور محفوظ پڑے تھے۔ یہ لوگ ابھی ان مہلک روگوں سے محفوظ تھے جو روم و ایران کے بہیمانہ تمدنوں نے پیدا کر دیئے تھے۔ ان میں وحشیانہ طرزِ زندگی کی خرابیاں موجود تھیں مگر دوسری طرف خوبیاں بھی کچھ کم نہ تھیں۔ یہ لوگ بدویت کی وجہ سے مزاج میں فطری سادگی رکھتے تھے اور تکلفات اور تصنعات سے پاک تھے۔ آثارِ فطرت کا قریبی مشاہدہ رکھنے کی وجہ سے کائنات میں آیاتِ حقیقت کو پڑھ سکتے تھے۔ گرم آب و ہوا، لو کے تھپیڑوں، دن رات کے سفروں، بھوک اور پیاس کے تجربوں اور آئے دن کے قتل و غارت کی وجہ سے ان میں سخت جانی موجود تھی اور وہ جذبۂ شجاعت کو پروان چڑھانے میں مدد بنی۔ ایک عالمی تحریک کو لے کر اٹھنے کے لیے شجاعت مند عنصر ہی مفید ہو سکتا تھا۔ ان میں فیاضی موجود تھی اور ایک بڑا کام کرنے کے لیے کوئی بخیل قوم موزوں نہ ہوتی۔ اس قوم کا حافظہ بلا کا تھا اور یہ اپنے انساب کے علاوہ اپنے گھوڑوں تک کے سلسلہ ہائے نسب محفوظ رکھتے تھے۔ ایسے لوگ ایک نظامِ زندگی کی تعلیم کو اخذ کرنے اور دوسروں تک پہنچانے کے لیے بہترین کارکن بن سکتے تھے۔ ان میں غیرت و حمیت کا جذبہ بھی پوری طرح برسرِکار تھا اس لیے یہ جوہرِ خودی کا تحفظ کر سکتے تھے۔ ان کی زبان ایک اعلیٰ، وسیع اور ترقی پذیر زبان تھی جس میں فصاحت و بلاغت کا جوہر خوب نکھر چکا تھا۔ لہٰذا علمی حیثیت سے وہ بآسانی آگے بڑھ سکتے تھے، نیز دوسروں کو کسی انقلابی پیغام سے متاثر کرنے میں زیادہ اچھی طرح کامیاب ہو سکتے تھے۔

عرب عزم اور دھن کے پکے تھے۔ وہ اگر غلط روش پر چلتے تو پورے شرح صدر سے چلتے اور مزاحمتوں اور مخالفتوں کا مقابلہ کرتے، لیکن ان میں یہ صلاحیت بھی تھی کہ اگر انہیں راہِ راست پر ڈال دیا جائے تو پھر ان کے قدم کبھی نہ ڈگمگائیں۔ ایسے مختلف وجوہ ہیں، جو یہ تسلیم کرنے پر مجبور کرتے ہیں کہ حضورﷺ جہاں اپنی ذات میں اپنے مشن کے لیے بہترین داعی و قائد تھے، وہاں آپ کو بہترین انسانی مواد بھی فراہم کیا گیا۔¹

پھر یہ انسانی مواد ہر لحاظ سے ارتقاء کا قدم آگے بڑھانے کے لیے بے چین تھا۔ مذہبی لحاظ سے ذہین عناصر میں سخت اضطراب پیدا ہو چکا تھا اور خاص لوگ حقیقت کی روشنی اور الہامی رہنمائی کے پیاسے تھے۔ سیاسی لحاظ سے مکہ اور مدینہ جیسے شہروں میں سیاسی ہیئت کی تشکیل کا آغاز ہو رہا تھا اور کسی قدر جمہوری رنگ کے ساتھ ایک شہری ریاست کا بے ترتیب سا ڈھانچہ بن رہا تھا۔ پھر عرب کے معاشی ذرائع کی محدودیت زور کر رہی تھی کہ آبادی اپنے ریگ زار سے باہر پھیلاؤ اختیار کرے۔ یوں بھی مشیت کا ایک تاریخی کلیہ یہ ہے کہ جب رائج الوقت تمدنوں میں بحران آجاتا ہے اور ان کی قیادتیں فاسد ہو جاتی ہیں، تو کسی نئی قوت کو بدویت کے گہوارے سے اٹھا کر میدان میں لایا جاتا ہے، جیسے کہ خدا کی مشیت نے فرعونی اقتدار کے مقابل میں بنی اسرائیل کو اٹھا کھڑا کرنے کا فیصلہ کیا۔² ان سارے پہلوؤں سے اہلِ عرب کرۂ ارضی کا وہ بہترین مواد تھے جس کے ذریعے زندگی کا اساسی اور ہمہ گیر انقلاب برپا کیا جا سکتا تھا۔

انقلابی کلمۂ حق

پیغمبرِ انسانیت صلی اللہ علیہ و سلم نے کسی اعتقاد، کسی نظریے اور کسی نقشۂ فکر کے بغیر اصلاح و تعمیر کا کام یوں ہی شروع نہیں کر دیا۔ محض ایک مہم جذبہ نہ تھا، کوئی جنونِ خام نہ تھا، بلکہ حضورﷺ کون و مکاں کی عظیم ترین سچائی کی مشعل لے کے اٹھے۔ انتہائی حساس قلب کے ساتھ برسوں، حضورﷺ نے زندگی کے معمے پر کاوشیں کی تھیں،³ غارِ حرا کی خلوتوں میں مدتوں اپنے اندرون کا بھی مطالعہ کیا اور بیرونی عالم پر بھی غور کیا۔ تمدن کے صلاح و فساد کے اصولوں کو سمجھنے میں بھی دماغ کھپایا،⁴ لیکن عملی اقدام اس وقت تک نہیں کیا جب تک کہ علمِ الٰہی نے آپ کے قلب کو حقیقت سے منور نہیں کر دیا اور سب سے بڑی سچائی پوری طرح آپ کے سامنے بے نقاب نہیں ہو گئی۔

سب سے بڑی سچائی یہ ہے کہ کائنات کا ایک خدا ہے اور انسان اس کا بندہ ہے! یہی کلمۂ حق حضورﷺ کے انقلاب کا بیج تھا۔ اس بیج سے صالح زندگی اور صحت مند تمدن کا وہ شجرۂ طیبہ نمودار ہو سکتا تھا جس کی شان یہ ہے کہ اس کی جڑیں زمین میں گہری اتری ہوئی ہیں اور اس کی شاخیں فضا کی بلندیوں میں پھیلی ہوئی ہیں۔¹

حضورﷺ کا کلمہ حد درجہ کا انقلابی کلمہ تھا۔ "لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ" لفظی پہلو سے انتہائی مختصر، معنوی لحاظ سے بے حد عمیق۔ "ایک اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ صرف وہی ایک اللہ ہے"۔ اللہ اس طاقت یا ہستی کو کہتے ہیں جس کی غلامی کی جائے، جس پر آدمی والہانہ طور پر فدا ہو، جس کی عظمت مان کر پرستش کرے، جس کی تحمید و تقدیس کرے، جس کے گن گائے، جس کی تسبیح کرے، جس کو نذر پیش کرے، جس سے بھلائی کی امیدیں لگائے اور جس کی گرفت سے ڈرے۔ جس سے نیکی کی جزا کا امیدوار ہو اور جس سے برائی کی سزا کا اندیشہ رکھے۔ جس کو اپنا مالک و مختار سمجھے، جس کو فرمانروا اور قانون ساز مانے، جس کے مطالبوں کو پورا کرے اور جس کے منع کردہ امور سے باز رہے۔ جس کے دیئے ہوئے اصولوں کو بنایٔ زندگی بنائے، جس کی مقررہ حدوں کی پابندی کرے، جس کے ضابطۂ حلال و حرام کو بے چون و چرا مانے، جس کو اپنے لیے سرچشمۂ ہدایت تسلیم کرے، جس کی مرضی کے مطابق نظامِ حیات کی تشکیل کرے، جس کے پسندیدہ لوگوں کا احترام کرے اور جس کے مخالفوں کی مخالفت کرے۔ جس کے اشاروں پر تن من دھن کی بازی لگا دے اور جس کی رضا کو زندگی کا نصب العین قرار دے۔ الوہیت کا یہ وہ وسیع مفہوم تھا جو ایک لفظ میں پنہاں تھا۔²

الوہیت کے یہ حقوق خدائے واحد سے الگ کر کے بہت سی انسانی طاقتوں نے پارہ پارہ کر کے بانٹ رکھے تھے³ اور بے شمار الٰہ تمدن پر سوار تھے۔ انسان کا اپنا نفس اور اس کی خواہشیں، خاندان اور برادری کی رسمیں، نسلی، قومی اور قبیلوی وحدتوں کی روایات، جاگیردار اور پجاری طبقوں کی بالا دستی، شاہی خاندانوں اور درباری اشراف کی کبر پسندی، یہ مختلف طبق بر طبق الوہیتیں تھیں جن کے نیچے عام آدمی پس رہا تھا۔ "لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ" کی شاہ ضرب ان سب پر یک دم پڑتی تھی۔ اس کلمہ کا کہنے والا گویا یہ اعلان کرتا تھا کہ خدا کے سوا کسی کی عظمت مجھے تسلیم نہیں، کسی کی بالادستی قبول نہیں، کسی کا بنایا ہوا ضابطہ و قانون منظور نہیں، کسی کے حاصل کردہ فوق الانسانی حقوق جائز نہیں، کسی کے سامنے سرِ تسلیم خم نہیں کیا جائے گا، کسی کی رضا جوئی اب نہ کی جائے گی اور کسی کے اشارۂ ابرو پر اب زندگی کا نظام نہیں چلے گا، خدا کے سوا ہر دوسری خدائی توڑ دی جائے گی۔ یہ کلمہ گویا انسان کی سچی آزادی کا اعلان تھا۔

لا الہ ضرب است و ضرب کاری است

اس کلمہ کے دوسرے جز میں یہ اقرار شامل تھا کہ انسانی ہدایت اور تمدن کی اصلاح کے لیے واحد ذریعہ وہ سلسلۂ نبوت و رسالت ہے جو اللہ نے قائم کیا ہے، زندگی کا اصل علم وہ ہے جو وحی کے ذریعے آیا ہے¹ اور اسی سے عقلِ انسانی کو سوچنے کے لیے رہنما اصول ملتے ہیں۔ پھر یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم اس سلسلۂ رسالت کی تکمیل فرمانے والے ہیں² اور اب زندگی کی رہنمائی اسی ہستی کے واسطے سے حاصل ہو سکتی ہے اور اسی ہستی کی قیادت میں قافلۂ انسانیت فلاح و ارتقاء کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔

اس کلمے کی یہی اہمیت تھی کہ جس کی وجہ سے اس کا اقرار اسلام میں داخلہ کی شرطِ اول ٹھہرا۔³ اس کلمے کو موذنوں نے بلند آواز سے پکارا، اس کلمے کو نماز میں شامل کیا گیا، اسے افضل الذکر قرار دیا گیا اور ہر لحاظ سے یہ کلمہ تحریکِ اسلامی کا طغریٰ یا سلوگن بن گیا۔⁴

حضورﷺ کا انقلابی کلمۂ حق جس دل میں اترا اس کی کایا پلٹ دی، جس زندگی میں داخل ہوا اس کا نقشہ بدل دیا اور اس بیج سے نئی انسانیت پیدا ہوئی اور نشو و نما پانے لگی۔

اصلاحِ تمدن کے لیے حضورﷺ کا نصب العین

سیرتِ پاک سے صحیح استفادہ کرنے کے لیے اس اہم سوال کا جواب ضرور سامنے ہونا چاہیے کہ حضورﷺ کے پیشِ نظر تبدیلی کا دائرہ اور کام کا پیمانہ کیا تھا؟ تمدنی نظام میں حضورﷺ کوئی جزوی اصلاح چاہتے تھے یا ہمہ گیر؟ دعوت مذہبی و اخلاقی تھی یا وہ سیاسی اہمیت بھی رکھتی تھی؟ بالفاظِ دیگر تمدنی دائرے میں نصب العین کیا تھا؟

اس سوال کا جواب خود قرآن کریم میں بڑی وضاحت سے موجود ہے اور مختلف پیرایوں میں تکرار سے اسلامی دعوت کا مدعا واضح کیا گیا ہے۔ یہاں ہم صرف دو آیات کو لیتے ہیں۔ ایک مقام پر جملہ انبیاء و رسل کی بعثت کا مقصود یوں بیان کیا ہے:

لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَأَنزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَالْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ۖ وَأَنزَلْنَا الْحَدِيدَ فِيهِ بَأْسٌ شَدِيدٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ

ہم نے اپنے رسولوں کو روشن دلائل دے کر جس مقصد کے لیے بھیجا ہے اور جس غرض کے لیے ان پر کتابیں نازل کی ہیں اور ان کو ضابطۂ حق کی میزان عطا کی ہے وہ یہ ہے کہ لوگ انصاف پر قائم ہو جائیں۔ اور لوہا اتارا جس سے ہتھیار بنتے ہیں اور اس میں لوگوں کے لیے اور بھی فوائد ہیں۔ (الحدید ۔ ۲۵)

بات نہایت ہی صاف ہے کہ دعوتِ حق کا منشا انسانی زندگی کو نظامِ قسط کے سانچے میں ڈھالنا اور تمدن میں عملاً عدل و توازن پیدا کرنا ہے۔ اس آیت میں متصلاً آہنی اسلحہ کو بھی اسی مقصد کے لیے استعمال کرنے کا اشارہ موجود ہے۔ یعنی نظامِ حق کی اقامت، اس کے تحفظ اور اس کے فروغ کے لیے سیاسی اور فوجی قوت بھی ناگزیر ہے۔¹

خود محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت کی غایت اور زیادہ صراحت سے بیان کی گئی اور وہ بھی ایک سے زیادہ بار بیان کی گئی۔ ملاحظہ ہو:

هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَىٰ وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ

وہی (اللہ) ہے جس نے اپنے رسول کو ضابطۂ ہدایت اور دینِ حق دے کر اس غرض سے بھیجا ہے کہ وہ ہر دین کے مقابلے میں اسے (پوری انسانی زندگی پر) غالب کر دے! اگرچہ یہ مشرکوں کو کتنا ہی ناگوار کیوں نہ ہو! (الصف ۔ ۹)

مدعا یہ کہ قریش اور عرب کے دوسرے مشرکین تو اپنے جاہلی نظامِ حیات کو برقرار رکھنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگائیں گے اور جاہلیت کے خلاف جو آواز اٹھے گی وہ انہیں سخت ناگوار ہو گی، مگر ان کی ناگواریوں کی پروا کیے بغیر ان کے محاذِ مخالفت کو توڑ کر حضورﷺ کو اقامتِ دین کرنا ہے اور خدا کے ضابطۂ ہدایت کو عملاً جاری کرنا ہے۔ یہ مدعا اگر دعوتِ حق میں مضمر نہ ہوتا تو کشمکش اور جہاد اور ہجرت کے ابواب کہاں سے آتے؟ جان و مال کی قربانیاں کاہے کے لیے مانگی جاتیں؟¹ کس مقصد کے لیے "کونوا انصار اللہ" کی² صلائے عام دی جاتی؟ کس غایت کے لیے "حزب اللہ" یا اللہ کی پارٹی تشکیل پاتی؟³ کسی نصب العین کے لیے شہداء⁴ چنے جاتے؟ قرآن اور سیرت دونوں کا فہم دعوتِ حق کے منتہا کو ذہن نشین کیے بغیر ممکن نہیں رہتا۔

آئیے اب ہم خود حضورﷺ کے ابوابِ سیرت کا مطالعہ کر کے اس نصب العین کا سراغ لگائیں، جو پیشِ نظر تھا! حضورﷺ نے بالکل ابتدائی مرحلے میں خاندانِ بنی ہاشم کی ایک ضیافت اپنا پیغام سنانے کے لیے منعقد کی تھی۔ اس میں اجمالاً بیان فرمایا تھا کہ یہ دعوت دنیا اور آخرت دونوں کی بھلائی کی ضامن ہو گی۔ بہت عرصہ بعد قریش کے ایک وفد سے گفتگو کرتے ہوئے اسی بات کو دہرایا اور فرمایا:

فَإِنْ تَقْبَلُوا مِنِّي مَا جِئْتُكُمْ بِهِ فَهُوَ حَظُّكُمْ فِي الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ⁵

تم اگر میری وہ دعوت قبول کر لو، جسے میں پیش کر رہا ہوں تو اس میں تمہاری دنیا اور آخرت دونوں کی بہتری ہے۔

دنیا کی بہتری اور بھلائی کے سادہ الفاظ سے کسی جزوی بھلائی کو مراد لینا کوئی معنی ہی نہیں رکھتا۔ جزوی بھلائی تو ہر دعوت میں موجود ہوتی ہے اور ہر نظامِ شر میں بھی کچھ اچھے پہلو ہوتے ہیں۔ مطلب زندگی کا سنور جانا اور تمدن کا درست ہو جانا، نظامِ قسط کا قائم ہو جانا¹ اور حیاتِ طیبہ² کا حاصل ہو جانا ہے۔

پھر ابتدائی دورِ کشمکش میں ایک اور موقع پر حضورﷺ سے گفت و شنید ہوتی ہے تو اس کے دوران میں آپ فرماتے ہیں:

كَلِمَةٌ وَاحِدَةٌ تُعْطُونِيهَا تَمْلِكُونَ بِهَا الْعَرَبَ وَتَدِينُ لَكُمْ بِهَا الْعَجَمُ³

بس وہ ایک کلمہ ہے، اسے اگر مجھ سے قبول کر لو، تو اس کے ذریعے تم سارے عرب کو زیرِ نگیں کر لو گے اور سارا عجم تمہارے پیچھے چلے گا۔

میلوں اور حج کے موقعوں پر قبائل کے کیمپوں میں جا جا کر حضورﷺ نے یہی بات ہر سردارِ قبیلہ سے کی۔ فرماتے مجھے ساتھ لے چلو، مجھے کام کرنے کا موقع دو⁴ اور مجھ سے تعاون کرو یہاں تک کہ خدا کی طرف سے اس پیغام کو میں واضح کر دوں جس کے لیے مجھے مبعوث کیا گیا ہے۔⁵ چنانچہ بنو عامر کا سردار بحیرہ بن فراس حضورﷺ کے پیغام، حضورﷺ کی شخصیت اور حضورﷺ کی والہانہ سرگرمی سے اتنا متاثر ہوا کہ اس نے کہا کہ اگر یہ نوجوان میرے ہاتھ آجائے تو میں سارے عرب کو نگل جاؤں۔ اس کی نگاہیں حضورﷺ کی دعوت کے منتہا اور کام کے نتائج تک پہنچ گئیں۔ اور اسی لیے اس نے ایک سودا گانٹھنا چاہا۔ حضورﷺ کو وہ اپنا تعاون اس قیمت پر پیش کرتا ہے کہ جب آپ کو مخالفین پر غلبہ حاصل ہو جائے تو آپ کے بعد اقتدار ہمیں حاصل ہو۔ ماننا پڑتا ہے کہ بحیرہ کی نگاہ بڑی دور رس تھی۔ اب اگر حضورﷺ محدود مذہبی تصور کے محض واعظ اور مبلغ ہوتے اور کوئی سیاسی منتہا آپ کے سامنے سرے سے نہ ہوتا تو صاف صاف کہہ دیتے کہ بھائی میں تو ایک اللہ والا ہوں، مجھے اقتدار کے بکھیڑے سے کیا مطلب اور میرے کام میں حکومت اور قیادت کا کیا سوال! ۔۔۔ مگر حضورﷺ کا جواب یہ نہ تھا، حضورﷺ نے یہ فرمایا "الامر الی اللہ یضعہ حیث یشاء" اقتدار کا معاملہ خدا کے اختیار میں ہے اور وہ جس کے قبضے میں چاہے گا رکھے گا اور سودا چکانے سے انکار کر دیا۔⁶

حضورﷺ کی دعوت کے سلسلے میں "عرب و عجم کے اقتدار" کا چرچا اتنا عام ہو گیا تھا، جیسے تحریکِ اسلامی کا طغریٰ (سلوگن) ہو۔ بچے بچے کی زبان پر یہ بات رہتی تھی، حتیٰ کہ مخالفین نے اس کو بنایٔ طنز بنالیا تھا۔ اسلام کے سائے میں جو غلام اور غریب طبقوں کے نوجوان آ آ کے جمع ہو رہے تھے اور جن کو قریش تشدد کے کولہو میں پیل رہے تھے ان کو دیکھتے تو اشارے کر کر کے طنزاً کہتے کہ واہ کیا کہنے ہیں ان ہستیوں کے، یہ ہیں جو عرب و عجم کے حکمران اور سردار بننے والے ہیں۔

طنز و تمسخر اور مخالفت و مزاحمت کے سارے طوفان اٹھانے کے باوجود قریش کے سمجھ دار لوگ دلوں کی گہرائیوں میں یہ ضرور محسوس کرتے تھے کہ یہ دعوت کوئی معمولی چیز نہیں بلکہ اس سے بڑے بھاری نتائج پیدا ہونے والے ہیں۔ ایک مرتبہ عتبہ کو سردارانِ مکہ نے حضورﷺ سے گفت و شنید کے لیے بھیجا، عتبہ نے حکومت، مال و دولت اور دنیوی مفاد کی ہر ممکن پیش کش حضورﷺ کے سامنے بیان کی کہ کسی طرح آپ اس انقلابی مہم سے باز آجائیں۔ حضورﷺ نے جواب میں سورۃ حم السجدہ کی آیات سنائیں۔ عتبہ جو تاثر اس مجلس سے لے کر گیا، اس نے اس کے چہرے کا رنگ بدل دیا تھا۔ اس نے جا کر کہا کہ اس دعوت میں تو ایک "نباء عظیم" مضمر ہے، یعنی ایک بہت بڑی تبدیلی کی حامل ہے، کوئی انقلاب آنے والا ہے اور زندگی کا نقشہ زیر و زبر ہو جائے گا۔ اس لیے اس نے مشورہ دیا کہ محمدﷺ کو اس کے حال پر چھوڑ دو۔ تم درمیان میں حائل نہ ہو، اگر اہلِ عرب نے اس شخص کا خاتمہ کر دیا، تو تم سستے چھوٹے اور اگر اسے غلبہ حاصل ہو گیا تو "ملکہ ملککم و عزہ عزکم و کنتم اسعد الناس" - اس کی سلطنت تمہاری سلطنت ہوگی، اس کا اقتدار تمہارا اقتدار ہو گا اور تم لوگوں میں سب سے بڑھ کر معزز ہو جاؤ گے۔ یعنی عتبہ تک یہ حقیقت پا گیا کہ اس دعوت کے پردے میں ایک سلطنت چھپی ہوئی ہے اور یہ اقتدار پر منتج ہو گی۔ تو آخر خود حضورﷺ اور حضورﷺ کے رفقاء اس منتہا سے کیسے غافل ہو سکتے ہیں۔¹

ایک موقع پر جب تشدد کی بھٹی خوب گرم تھی، حضورﷺ کے رفقاء نے اپنا دکھڑا بیان کیا اور دعا کی درخواست کی۔ حضورﷺ نے پہلے تو ان کو بتایا کہ اقامتِ دین کی جدوجہد کی گھاٹیاں کتنی کٹھن ہوتی ہیں اور ماضی میں جن جوانوں نے یہ فرض ادا کیا ہے انہیں کیا کچھ پیش آیا اور پھر پورے وثوق سے مژدہ سنایا کہ "خدا کی قسم! اس مہم کو اللہ تعالیٰ ضرور اس کے مرحلۂ تکمیل تک پہنچائے گا۔" پھر اس مرحلۂ تکمیل کی کیفیت بیان کی کہ:

"ایک سوار صنعا سے حضر موت تک سفر کرے گا اور اسے اللہ کے سوا اور کسی کا ڈر نہ ہو گا۔"²

یعنی ایک ایسا نظامِ عدل اور دورِ رحمت چھا جانے والا ہے اور ایسا پر امن ماحول قائم ہونے والا ہے کہ آج جہاں ڈاکے پڑ رہے ہیں اور قتل ہو رہے ہیں، جہاں آدم زاد دن دہاڑے زمین سے اچک لیے جاتے ہیں¹، اور جہاں کھلم کھلا عصمتیں لٹ رہی ہیں، وہاں مسافر کل تن تنہا اس سرزمین میں بے کھٹکے سفر کرے گا۔ کسی کو اس کی جان، اس کے مال اور اس کی عزت سے تعرض کرنے کی جرات نہ ہو گی۔ ایک بار حضورﷺ نے یوں بھی فرمایا کہ عنقریب وہ زمانہ آئے گا کہ مکہ کو بے نگہبان کے قافلے جایا کریں گے۔²

نصب العین کا کتنا واضح اور اجلا تصور ہے!

ایک مرتبہ عثمان بن طلحہ کلید بردار کعبہ سے حضورﷺ نے کعبہ کا دروازہ کھلوانے کے لیے کہا تو اس نے انکار کر دیا۔ بظاہر سخت ناسازگار، مایوس کن حالات کے درمیان کھڑے ہو کر اس وقت حضورﷺ نے فرمایا کہ ایک دن آنے والا ہے جب کہ یہ کنجی خود ہمارے ہاتھ میں ہو گی اور ہم جسے چاہیں گے تفویض کریں گے۔³

عقبہ کے مقام پر انصارِ مدینہ سے جو تاریخی بیعتیں واقع ہوئیں ان کا مطالعہ کیجئے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ انصار تک نے اس سیاسی کشمکش کی وسعتوں کو سمجھ لیا تھا جو دعوتِ حق کے نتیجے میں نمودار ہونے والی تھی اور جس کا فیصلہ آگے چل کر میدانِ جنگ میں ہونے والا تھا، ایک طرف انصار حضورﷺ کی حمایت میں سرخ و سیاہ سے معرکہ آرا ہونے کا پیمان باندھ رہے ہیں اور اپنے اشراف کی ہلاکت اور مالوں کی تباہی کو لبیک کہتے ہیں، دوسری طرف حضورﷺ سے عہد لیتے ہیں کہ جب خدا آپ کو غلبہ عطا کر دے تو آپ ہمیں چھوڑ کر واپس نہ چلے آئیں گے۔ جنگ، قربانیاں، اور غلبہ --- کیا ان تصورات میں وہ نصب العین نمایاں اور واضح نہیں ہے جو حضورﷺ کے سامنے تھا۔⁴

ہجرت کی راہ میں قدم رکھنے سے پہلے جو دعا آپ کو سکھائی جاتی ہے اس دعا کا تکمیلی جز یہ ہے کہ "وَاجْعَل لِّي مِن لَّدُنكَ سُلْطَانًا نَّصِيرًا"⁵ حضورﷺ کو خدا سے سلطانِ نصیر کی طلب سکھائی گئی ہے۔ یعنی مقدس مشن کی پشت پناہی کرنے کے لیے اقتدار اور فرمانروائی درکار تھی۔

جناب ابو طالب پر جب حضورﷺ کی حمایت ترک کرنے کے لیے دباؤ ڈالا گیا تو انہوں نے حضورﷺ سے گفتگو کی کہ میرے لیے مشکلات نہ پیدا کرو۔ اس پر حضورﷺ نے وہ مشہور جواب دیا تھا کہ خواہ یہ لوگ میرے داہنے ہاتھ پر آفتاب اور بائیں ہاتھ پر ماہتاب کیوں نہ لا کر رکھ دیں، میں اپنے مشن سے باز نہیں رہ سکتا۔ حضورﷺ نے اپنی بات ان الفاظ سے مکمل کی تھی کہ:

یہاں تک کہ یا تو اللہ تعالیٰ اس مشن کو غالب کر دے گا یا اس میں اپنی جان کھپا دوں گا۔¹

یہاں لفظ "لیتمہ" نہیں "لیظهره" استعمال فرمایا، جس میں کشمکش اور غلبے کا تصور شامل ہے اور آگے کا جملہ بتاتا ہے کہ کشمکش بھی ایسی ہے جس میں جان جوکھوں میں ڈالنے کا معاملہ ہے۔

مدنی دور میں عدی بن حاتم حاضر ہو کر حضورﷺ کی شخصیت کا جائزہ لیتا ہے، دعوت کی نوعیت سمجھنا چاہتا ہے، ناقدانہ نگاہ سے حضورﷺ کے اطوار کی جانچ کرتا ہے اور دل میں متاثر ہوتا ہے۔ اس کے طرزِ فکر کا لحاظ کرتے ہوئے حضورﷺ اس سے گفتگو کرتے ہوئے جہاں یہ بتاتے ہیں کہ عنقریب بابل کے سفید محلات اسلام کے تسلط میں ہوں گے، عنقریب یہاں دولت کی ریل پیل ہوگی اور عنقریب مسلمانوں کی عددی قوت بہت ہی بڑی ہو گی، وہاں اسے اسلامی نظامِ عدل کی اس شان سے بھی آگاہ کرتے ہیں کہ عنقریب تم دیکھو گے کہ ایک عورت قادسیہ سے اونٹ پر تن تنہا اس مسجد تک آنے کے لیے نکلی اور خیر و عافیت سے پہنچی۔

بظاہر بے سر و سامانی کے عالم میں سفرِ ہجرت کرتے ہوئے جو نگاہ سراقہ کے ہاتھوں میں کسریٰ کے کنگن دیکھ لیتی ہے، کیسے یہ کہتے ہو کہ اسے اپنی دعوت کے منتہا اور اپنے تمدنی نصب العین کا پتہ نہ تھا! کیسے یہ سوچتے ہو کہ اسلامی ریاست بطور مقصد کے پیشِ نظر نہ تھی۔ اس کے لیے تیاریاں نہیں کی گئیں، اس کے لیے جدوجہد عمل میں نہیں آئی اور وہ اچانک بطور انعام حضورﷺ کی جماعت کو تفویض کر دی گئی۔ کہہ سکتے ہو تو یہ کہہ سکتے ہو کہ حکومت محض برائے حکومت مطلوب نہ تھی، کہہ سکتے ہو کہ حکومت ذاتی اقتدار اور دنیوی فوائد کے حصول کے لیے مطلوب نہ تھی، مگر یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ اقامتِ دین کے لیے، عدل کے قیام کے لیے، انسانیت کی نجات کے لیے، معاشرہ کی تعمیر کے لیے بھی حکومت مطلوب نہ تھی!

درحقیقت حضورﷺ کے پیشِ نظر جہاں اعتقادی اور اخلاقی انقلاب تھا، وہاں پوری اہمیت کے ساتھ سیاسی انقلاب بھی تھا۔ جہاں فرد کی اصلاح مطلوب تھی، وہاں تمدن کی درستی بھی مقصود تھی۔ دوسرے لفظوں میں حضورﷺ نے انسان کو ایک اجتماعی وجود کی حیثیت سے سامنے رکھا اور اس کی اصلاح اس کے جملہ تمدنی رابطوں سمیت کرنا چاہی۔ حضورﷺ نے انسان کو تمدن سے منقطع فرد کی حیثیت سے نہیں لیا اور اپنی دعوت اس کی نجی زندگی تک محدود نہیں رکھی۔ یہ حقیقت سامنے رکھیے اور حضورﷺ کے نصب العین کی پوری وسعت کو ذہن نشین کر لیجئے تو پھر واقعاتِ سیرت میں پورا تسلسل دکھائی دے گا اور ہر واقعہ، اقدام اور تدبیر کی توجیہہ ہوتی جائے گی۔ بصورتِ دیگر نہ سیرتِ پاک کے اسرار کھلتے ہیں اور نہ قرآنِ مقدس کے نکات واضح ہوتے ہیں۔

ایک دین ---- ایک تحریک !!

فلسفہ کا دائرہ ہمیشہ فکر کا دائرہ ہے۔ فلسفی کو عملی زندگی اور تاریخ کے مد و جزر سے براہِ راست واسطہ نہیں ہوتا۔ وہ واقعات و احوال سے نتائج تو نکالتا ہے، لیکن واقعات و احوال کا رخ بدلنے کے لیے کسی عملی جدوجہد میں حصہ نہیں لیتا۔ مذہب (مروجہ محدود معنوں میں) ذرا سا آگے بڑھتا ہے، وہ کچھ اعتقادات دینے کے ساتھ ساتھ فرد کو تمدن سے الگ کر کے اسے ایک اخلاقی تعلیم بھی دیتا ہے۔ لیکن مذہب کا راستہ نظامِ اجتماعی سے باہر باہر ہو کے گزرتا ہے اور وہ نہ سیاسی ہیئت سے کوئی تعرض کرتا ہے، نہ معاشرے کے ادارات میں کوئی جامع تبدیلی چاہتا ہے، اور نہ وقت کی قیادت کو چیلنج کرتا ہے۔ مذہب کی دعوت ہمیشہ وعظ کے اسلوب پر ہوتی ہے۔ واعظ نے نرم و شیریں انداز سے کچھ نصیحتیں کیں اور اپنا رستہ لیا۔ اسے نہ اس کی فکر کہ اس کے مخاطب حالات کے کس قفس میں گرفتار ہیں، نہ اس کی پروا کہ کون سے طبقے اور عناصر کن اقدامات اور سرگرمیوں سے لوگوں کے ذہن و کردار کو کس رخ پر لے جا رہے ہیں، نہ اس طرف توجہ کہ روزمرہ حالات و واقعات کی رو کیا اثرات چھوڑ رہی ہے، نہ یہی کاوش کہ میرے وعظ کے حق میں اور اس کے خلاف کیا کیا افکار و نظریات کس کس جانب سے کتنا اثر ڈال رہے ہیں، نہ یہ پیشِ نظر کہ میرے مذہبی سانچے میں ڈھلنے والے متقی ترین افراد کیسے نظامِ تمدن کے پرزے بنے ہوئے ہیں۔ کوئی اجتماعی نصب العین نہیں ہوتا، تبدیلی کا کوئی منصوبہ نہیں ہوتا، کسی سیاسی اور قائدانہ بصیرت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ زندگی کے ایک چھوٹے سے خانے میں جزوی نیکی پیدا کرنے کے لیے جو کچھ بن آیا کر دیا اور بقیہ وسیع دائرے میں بدی اپنا جھنڈا اطمینان سے لہراتی رہے۔ کسی اللہ والے کو اس سے کیا مطلب!

حضورﷺ نہ تو ایک فلسفی تھے کہ محض چند اونچے اور گہرے خیالات دے دیتے اور واقعاتی احوال سے تعرض نہ کرتے، اور نہ ایک واعظ تھے جو اجتماعی فساد سے آنکھیں بند کر کے محض فرد کو مخاطب بناتے اور ٹھنڈے اور میٹھے وعظ سنایا کرتے اور نتائج پر سرے سے سوچا ہی نہ کرتے۔ انسانیت کے اس محسن نے پورے تمدنی شعور کے ساتھ حیاتِ انسانی کی کامل تبدیلی پیشِ نظر رکھی۔ ان قوتوں اور عناصر کو پہچانا جو نظامِ حیات پر حاوی تھیں، اس قیادت کو زیرِ نظر رکھا جو جاہلی تمدن کی گاڑی چلا رہی تھی۔ اسے دلائل کے ساتھ دعوت بھی دی، اس پر تنقید بھی کی اور اسے چیلنج بھی کیا۔ تاریخ کے دھارے پر نگاہ رکھی، حالات و واقعات کی ایک ایک لہر پر توجہ دی، ہر واقعے کو قائدانہ بصیرت اور سیاسی شعور کے ساتھ دیکھا کہ وہ کس پہلو سے اصلاح کی مہم کے لیے مفید پڑتا ہے اور کس پہلو سے خلاف جاتا ہے۔ معاشرے کے جملہ عناصر پر توجہ رکھی کہ دعوت کے لیے کس موقع پر کس سے کیا امیدیں کی جاسکتی ہیں۔ اپنی قوت اور رفتار کو حریفوں کی قوت و رفتار کے مقابل میں ملحوظ رکھا۔ ہر اقدام کے لیے صحیح ترین وقت کا انتظار صبر سے کیا اور جب موزوں گھڑی آگئی تو جرات سے قدم اٹھا دیا۔ رائے عام کے ہر مد و جزر کا کامل فہم حاصل کیا اور مخالفین کے ہر پروپیگنڈے کا مقابلہ کر کے ان کے اثرات کو توڑا۔ شعر اور خطابت کے مخالفانہ محاذ قائم ہوئے تو ان کے جواب میں اپنے شعراء اور خطیبوں کو کھڑا کیا۔ اپنے اصولوں کی کڑی پابندی کی مگر آنکھیں بند کر کے نہیں، بلکہ احوال و ظروف کو دیکھا، وقت کی مصلحتوں کو سمجھا اور حکیمانہ نقطۂ نگاہ اختیار کیا۔ جہاں قدم آگے بڑھانے کا موقع ملا، آگے بڑھایا۔ آگے بڑھنا جب موزوں نہ دیکھا تو قدم روک لیا۔ دو بلائیں سامنے آگئیں تو ایک سے بچ کر دوسری کا مقابلہ کیا۔ جنگی کارروائی کی ضرورت پڑی تو دریغ نہیں کیا۔ مصالحت کی راہ ملی تو دستِ صلح بڑھا دیا۔ اور پھر کمال یہ کہ اس ساری جدوجہد میں خدا پرستی کی روح اور اخلاقی اقدار کا نہ صرف تحفظ کیا بلکہ ان کو مسلسل نشو و نما دی۔

اس پورے نقشۂ کار اور اس پورے طریقِ کار کو اگر قرآن اور سیرتِ پاک کے اوراق سے اخذ کر کے سامنے رکھیے تو وہ فرق بین طور پر معلوم ہو جائے گا جو مذہب اور دین میں، وعظ اور انقلابی دعوت میں، انفرادی تزکیہ اور تمدنی تحریک میں ہوتا ہے۔ حضورﷺ نے چونکہ ایک مکمل دین کو برپا کرنے کے لیے تحریک برپا کی تھی، اس لیے آپ نے ایک ایک کر کے سلیم الفطرت افراد کو تلاش کیا۔ پھر جس کے سینے میں بھی کلمۂ حق کی شمع روشن ہو گئی اسے ایک تنظیم میں پرو دیا۔ اس کی تربیت کی۔ اسے اپنے ساتھ کشمکش کی بھٹی میں ڈالا اور پھر جس مرحلے میں جتنی منظم قوت حاصل تھی، اسے اپنی قیادت کے تحت جاہلی نظام کے خلاف معرکہ آراء کیا۔ فکری میدان میں بھی، سیاسی میدان میں بھی ۔۔۔ اور بالآخر جنگ کے میدان میں بھی!

جو لوگ حضورﷺ کے گرد جمع ہوئے ان کو آپ نے صوفی اور درویش نہیں بنا دیا، راہبوں اور جوگیوں کے نقشے پر نہیں ڈھالا، بدی سے بھاگنے اور غالب قوتوں سے خوف کھانے اور دولت و اقتدار سے مرعوب ہونے والی ذہنیت انہیں نہیں دی۔ وہ لوگ بھولے بھالے اور معذورانہ شان کے زہاد نہیں تھے، وہ جری اور بے باک، باشعور اور بصیرت مند، خود دار اور غیور، ذہین اور زیرک، فعال اور متحرک، پیش رو اور تیز گام تھے۔ وہ پادریوں اور سادھوؤں کے سے انداز نہیں رکھتے تھے بلکہ کار فرما بننے کی صلاحیتوں سے آراستہ تھے۔

بہترین فطرت کے لوگ، بہترین تربیت پا کر، بہترین تنظیمی رشتے سے بندھ کر اور بہترین قیادت کے ہاتھوں میں جا کر ایک ناقابلِ شکست قوت بن گئے۔ یہی وجہ ہے کہ ان لوگوں نے ایک چھوٹی سی اقلیت میں ہونے کے باوجود سارے عرب کی عظیم ترین اکثریت کو اپنے سائے میں لے لیا۔ جب مکہ میں جماعتِ اسلامی کی تعداد چالیس تھی تو مکہ اور ارد گرد کی آبادیوں میں اس تعداد نے ایک ہمہ وقتی مد و جزر پیدا کر دیا اور پھر برسوں تک گھر گھر اور کوچہ کوچہ اگر کوئی موضوعِ گفتگو تھا تو وہ حضورﷺ کی دعوتِ اسلامی تھی۔ مدینہ میں جا کر ابھی تحریکِ اسلامی کے علم برداروں کی تعداد چند سو سے زیادہ نہ تھی کہ غیر مسلم اکثریت کے علی الرغم اسلامی ریاست کی نیو ڈال دی گئی۔

محمد صلی اللہ علیہ و سلم اور حضورﷺ کی جماعت کا طرز یہ نہیں تھا کہ پہلے سارا عربی معاشرہ اسلام قبول کر لے یا اس کی اکثریت کی اصلاح ہو جائے تو پھر جا کر نظامِ اجتماعی کی تاسیس کی جائے، نہ نقطۂ نظر یہ تھا کہ بس دعوت دیتے رہو، خیالات و اعتقادات کی اصلاح کرتے رہو، بالآخر ایک صالح نظام خود بخود برپا ہو جائے گا یا بطور انعام اللہ تعالیٰ حق کو غلبہ دے دیں گے۔ وہاں تاریخ کی یہ حقیقت سامنے تھی کہ عوام کی بھاری اکثریت حالتِ جمود میں پڑی رہتی ہے، اور معاشرے کا ایک قلیل عنصر فعال ہوتا ہے، جس میں سے ایک حصہ اصلاح یا انقلاب کی دعوت کا علمبردار بنتا ہے اور ایک حصہ مزاحمت کرتا ہے۔ اصل بازی اسی فعال عنصر کی دونوں صفوں کے درمیان ہوتی ہے اور اس کا جب فیصلہ ہو جاتا ہے تو پھر عوام خود بخود حرکت میں آتے ہیں۔ یہاں یہ شعور پوری طرح کار فرما تھا کہ عوام کے راستے میں جب تک ایک فاسد قیادت حائل رہتی ہے، وہ نہ کسی دعوت کو بڑے پیمانے پر قبول کر سکتے ہیں نہ اپنی عملی زندگیوں میں تبدیلی لا سکتے ہیں۔ خود دعوت پر لبیک کہنے والوں کے لیے ممکن نہیں ہوتا کہ وہ فاسد قیادت کے بنائے ہوئے گندے ماحول میں اپنی زندگی کو حدِ کمال تک سنوار سکیں۔ بلکہ الٹا اگر تبدیلی برپا ہونے میں بہت زیادہ تاخیر ہو تو بسا اوقات اس مقام کو برقرار رکھنا بھی کٹھن ہو جاتا ہے جس پر داعیانِ حق لمبی محنت سے پہنچتے ہیں کیونکہ مخالف حالات پیچھے دھکیلنے کے لیے پورا زور صرف کر رہے ہوتے ہیں۔ پس کسی اجتماعی تحریک کے لیے راہِ عمل یہی ہوتی ہے کہ وہ معاشرے کے فعال عنصر میں سے سلیم الفطرت افراد کو چھانٹ کر جتنی زیادہ سے زیادہ قوت جمع کر سکتی ہو اسے کشمکش میں ڈال کر مقابل کی قیادت کا محاذ توڑ دے۔

تاریخ گواہ ہے کہ تمام انقلابات فعال اقلیتوں کے ہاتھوں واقع ہوئے ہیں۔ معاشرے کے فعال عنصر میں سے تعمیر و اصلاح کی دعوت چونکہ نسبتاً زیادہ سلیم الفطرت افراد کو کھینچتی ہے، ان میں ایک مثبت جذبہ بیدار کرتی ہے، اور ان کی تربیت کر کے ان کی اخلاقی قوت کو بڑھا دیتی ہے، اس لیے مقابل میں رہ جانے والا طبقہ اثر و اقتدار، مال و جاہ اور کسی قدر عددی کثرت رکھنے کے باوجود مقابلے میں زک اٹھاتا ہے۔ معرکۂ بدر اس کا ایک نمایاں ثبوت ہے۔ پس جب حضورﷺ کے گرد عربی معاشرہ کے فعال عنصر میں سے سلیم الفطرت افراد کی اتنی تعداد جمع ہو گئی کہ وہ اخلاقی قوت سے سرشار ہو کر جاہلی قیادت اور اس کے حامیوں کا مقابلہ کر سکے تو حضورﷺ نے اپنے سیاسی نصب العین کی طرف کوئی ضروری قدم اٹھانے میں ذرا بھی تامل نہیں کیا۔

فتح مکہ کا اصل مفہوم یہی ہے کہ اس موقع پر جاہلی قیادت کا پوری طرح خاتمہ ہو گیا اور اس رکاوٹ کے ہٹتے ہی عوام صدیوں پرانے جوئے سے آزاد ہو کر دعوتِ حق کو لبیک کہنے کے لیے از خود آگے بڑھنے لگے۔

تاریخ میں کوئی ایک مثال بھی ایسی موجود نہیں ہے کہ فاسد قیادت کے زیرِ سایہ کوئی نظامِ فلاح پنپ سکا ہو اور بغیر سیاسی کشمکش کے محض وعظ و تبلیغ اور انفرادی اصلاح کے کام سے اجتماعی انقلاب نمودار ہو گیا ہو۔ ورنہ گزشتہ تیرہ صدیوں میں خلافتِ راشدہ کے بعد وعظ و ارشاد، تبلیغ و تذکیر، تعلیم و تزکیہ کے عنوان سے عظیم الشان مساعی، مساجد، مدارس اور خانقاہوں کے ادارات کے تحت عمل میں آتی رہی ہیں اور آج بھی علماء و صوفیا، اصحابِ درس اور اربابِ تصانیف زبان و قلم سے جتنا کام کر رہے ہیں اس کی وسعت حیران کن ہے۔ لیکن اس کے باوجود نہ اس حدِ مطلوب تک افراد کا تزکیہ ہو سکا ہے اور نہ کبھی معاشرہ کی اتنی اصلاح ہو سکی ہے جس کے نتیجے میں اجتماعی نظام بدل جائے اور محمد رسول اللہﷺ کا انقلاب دوبارہ رونما ہو سکے۔ صاف ظاہر ہے کہ طرزِ فکر، نقشۂ کار اور نظریۂ انقلاب میں کوئی بڑا جھول ہے، وہ جھول یہی ہے کہ قیادت کی تبدیلی کے لیے سیاسی کشمکش کیے بغیر افراد کو نظامِ تمدن سے منقطع کر کے دعوت کا مخاطب بنایا جاتا رہا ہے۔

لوگ جب یہ کہتے ہیں کہ دین کی اقامت اور اسلامی نظام کا برپا ہو جانا تو اصل مطلوب نہ تھا اور یہ محض انعامِ خداوندی کے طور پر یکا یک بیچ میں آ نمودار ہوا تو وہ حضورﷺ کے کارنامے اور آپ کی جدوجہد کی سخت ناقدری کرتے ہیں اور حضورﷺ کی قائدانہ بصیرت اور سیاسی عظمت پر غبار ڈال دیتے ہیں۔ ذرا غور کیجئے کہ اس ہستی نے کتنی تگ و دو کر کے مدینہ کے مختلف عناصر کو چند ماہ کے اندر اندر دستوری معاہدے کے تحت جمع کیا، کس عرق ریزی سے ارد گرد کے قبائل سے حلیفانہ تعلقات قائم کیے، کس مہارت سے مٹھی بھر مسلمانوں کے بل پر ایک مضبوط فوجی نظام اور طلایہ گردی کا سلسلہ قائم کیا، کس کاوش سے قریش کی تجارتی شاہراہ کی ناکہ بندی کر لی، کس عزیمت کے ساتھ قریش کے خنجرِ براں کا مقابلہ کیا، کس زیرکی سے یہود اور منافقین کی سازشوں کی کاٹ کی، کس مہارت سے حدیبیہ کا معاہدہ باندھا، کس ہمت سے یہود کے مراکزِ فتنہ کی بیخ کنی کی، کس بیدار مغزی کے ساتھ بے شمار شر پسند قبائل کی علاقائی شورشوں کی سرکوبی کی۔ اس سارے کام میں قائدانہ بصیرت، سیاسی مہارت اور مضبوط حکمتِ عملی کے جو حیرت ناک شواہد پھیلے ہوئے ہیں ان سے یہ لوگ کس طرح صرفِ نظر کر لیتے ہیں۔ یہ کہنا کہ یہ سب کچھ خدا کا انعام تھا بالکل ٹھیک ہے لیکن اس معنی میں کہ ہر بھلائی خدا کا عطیہ و انعام ہوتی ہے، تاہم انسانوں کو کوئی انعام ملتا جبھی ہے کہ وہ اس کے لیے ضروری محنت، عقل و بصیرت کے ساتھ کر دکھائیں۔ اقامتِ دین کو خدا کا انعام کہہ کر اگر کوئی شخص رسولِ خدا کی جدوجہد، جانفشانی، حکمت و بصیرت اور سیاسی شعور کی نفی کرنا چاہتا ہے تو وہ بڑا ظلم کرتا ہے۔

بدقسمتی سے حضورﷺ کے کارنامے کا سیاسی پہلو اتنا اوجھل رہ گیا ہے کہ آج حضورﷺ کی دعوت اور نصب العین کا صحیح تصور باندھنا مشکل ہو گیا ہے۔ اس پہلو کو جب تک پوری سیرت میں سامنے نہ رکھا جائے وہ فرق سمجھ میں آ ہی نہیں سکتا جو محدود مذہبیت اور دین کے وسیع تصور میں ہے۔ حضورﷺ پورا دین لائے تھے، حق کی بنیادوں پر ساری زندگی کا نظام قائم کرنے آئے تھے، خدا کے قوانین کو عملاً جاری کرنے آئے تھے، اس لیے ہمیں یہ شعور ہونا چاہیے کہ حضورﷺ جامع اور وسیع معنوں میں تمدنی اصلاح اور انسانیت کی تعمیرِ نو کی تحریک چلانے آئے تھے۔ اور اس تحریک کو چلانے کے لیے بہترین قائدانہ بصیرت اور اعلیٰ درجے کے سیاسی شعور سے آپ کی ہستی مالا مال تھی۔ جس طرح کسی اور پہلو میں حضورﷺ کا کوئی ہمسر نہیں ہو سکتا، اس طرح سیاسی قیادت کی شان میں بھی آپ کا کوئی ہمسر نہیں ہے۔ جس طرح آپ زندگی کے ہر معاملے میں اسوہ و نمونہ ہیں، اسی طرح سیاسی جدوجہد کے لیے بھی آپ ہی کی ذات ہمیشہ کے لیے اسوہ و نمونہ ہے۔

حضورﷺ کا کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے نیکی کی دعوت دی، نیکی کے غلبے کے لیے جدوجہد کی، اور ایک مکمل نظام قائم کر دیا۔ یہ کام مذہب کے محدود تصور کے دائرے میں سما نہیں سکتا۔ یہ دین تھا، یہ تحریک تھی!!

زندگی کی ہم آہنگی

محسنِ انسانیتﷺ کی مقدس تحریک نے انقلاب لا کر جو نظامِ زندگی قائم کیا اس کی امتیازی شان یہ تھی کہ اساسی کلمے کی روح زندگی کے تمام شعبوں میں یکساں سرایت کیے ہوئے تھی۔ پورے تمدن میں ہم آہنگی تھی، سارے ادارے یک رنگ تھے۔ جس خدا کی عبادت مسجد کی چار دیواری میں ہوتی اس کی اطاعت کھیت اور بازار میں بھی ہوتی تھی۔ جو قرآن نماز میں پڑھا جاتا تھا اسی قرآن کے قانون کے ذریعے عدالت میں معاملات کے فیصلے ہوتے تھے۔ جو اخلاقی اصول گھروں کی محدود فضاؤں میں کار فرما تھے وہی بین الاقوامی دائرۂ ربط میں بھی چھائے ہوئے تھے۔ جن صداقتوں کی تعلیم منبر سے دی جاتی تھی انہی صداقتوں پر حکومت کا نظم و نسق چلتا تھا۔ جو اعتقادات افراد کے ذہن نشین کرائے جاتے تھے وہی اعتقادات اجتماعی ہیئتوں پر بھی غالب تھے۔ جو طرزِ فکر نظامِ تعلیم میں کام کرتا تھا اسی کے مطابق پوری ثقافت تشکیل پا رہی تھی۔ جو رضائے الٰہی نماز روزہ میں مطلوب تھی، وہی میدانِ جنگ میں تیر کھاتے اور تلوار چلاتے ہوئے بھی مطلوب تھی۔

یہ ایک ایسا نظام تھا جس میں پوری انسانی زندگی ایک ہی خدائی ضابطۂ ہدایت کے تحت تھی۔ مختلف دائروں میں مختلف اقتدار اور ضابطے نہیں چلتے تھے۔ اس نظام میں تضاد نہ تھے، اس کے اجزاء آپس میں ٹکرانے والے نہ تھے، اس کے مختلف عناصر میں الجھاؤ نہ تھا، اس میں کوئی پیوند کاری نہیں کی گئی تھی اور اسے معجونِ مرکب نہیں بنایا گیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے تحت انسان نے جس رفتار سے ترقی کی اس کی کوئی دوسری مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔

انقلاب کی روح

انسانیت کی شاید سب سے بڑی بدنصیبی یہ رہی ہے کہ جس کسی کو بھی برسرِ قوت آنے کا موقع تاریخ میں ملا ہے، تلوار کے زور سے، سازش کے بل پر، جمہوری انتخاب کے راستے سے یا کسی اتفاقی حادثے کے تحت ۔۔۔ اس کو اپنے متعلق یہ زعم ہو گیا ہے کہ وہ نوعِ انسانی کا معلم اور زندگی کا مصلح بھی ہے۔ ایسے مصلحین و معلمین کے ہاتھوں میں جب اقتدار کا لٹھ آجاتا ہے تو وہ عقلِ کل بن بیٹھتے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو بہترین مفکر سمجھنے لگتے ہیں۔ وہ ہر سرچشمۂ علم سے بے نیاز ہو کر اور معاشرہ کے بہترین زیرک اور حساس عناصر کو برطرف رکھ کر اندھا دھند محیر العقول اقدامات کرنے لگتے ہیں جن میں سے ہر اقدام ایک خوف ناک حادثہ ثابت ہوتا ہے۔ وہ تشدد کے ہتھیاروں سے انسان کو انسان بنانا چاہتے ہیں اور زندگی کی پیٹھ پر کوڑے برسا برسا کر اس کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں۔ بسا اوقات اصلاح و انقلاب کے ایسے مدعیوں کو سرے سے انسان کی فطرت کا پتہ نہیں ہوتا، انہیں زندگی کے بناؤ اور بگاڑ کے موجبات کا مبتدیانہ علم بھی نہیں ہوتا۔ انہوں نے کبھی یہ کاوش ہی نہیں کی ہوتی کہ انسان کو انسانیت سکھانے کے صحیح طریقے کیا ہیں اور بگاڑ کا سرچشمہ کہاں واقع ہے اور اس کی اصلاح کا آغاز کہاں سے ہوتا ہے اور اس کی تکمیل کہاں جا کے ہوتی ہے۔ وہ سابق تجربات سے فائدہ اٹھائے بغیر اپنا تجربہ الف ب سے شروع کرتے ہیں۔ وہ مشورہ و تنقید کے دروازے بند کر دیتے ہیں تاکہ ان کا کوئی خیر خواہ اور انسانیت کا کوئی محب ان کے مہلک تجربے کی تکمیل میں رکاوٹ نہ ڈال سکے۔ ان کے پاس ہر درد کی ایک ہی دوا ہوتی ہے: جبر و تشدد! سخت ترین قوانین بنانا، نت نئے کڑے احکام جاری کرنا، عوام الناس کے چاروں طرف قدغنیں کھڑی کر دینا اور پھر ان کی تواضع بار بار اپنے غیظ و غضب کے تازیانے سے کرتے رہنا۔

محسنِ انسانیتﷺ نے جو انقلاب برپا کیا اس کی روح تشدد کی روح نہ تھی، محبت و خیر خواہی کی روح تھی۔ حضورﷺ انسانیت کے لیے حد درجہ رحم دل تھے اور ابنائے آدم کے ساتھ آپ کو سچا پیار تھا۔ اپنی دعوت کی نوعیت کو آپ نے مثال دے کر سمجھایا کہ تم لوگ پروانوں کی طرح آگ کے گڑھے کی طرف لپکتے ہو اور میں تم کو کمر سے پکڑ پکڑ کر بچانے کی کوشش کر رہا ہوں۔¹ قرآن نے اسی لیے آپ کو پیغمبرِ رحمت قرار دیا۔

ذرا اس حقیقت پر غور کیجئے کہ وہ ہستی اتنا عظیم انقلاب لاتی ہے مگر تشدد سے کام لینے کی کوئی ایک مثال بھی نہیں ملتی۔ مدینہ حضورﷺ کی دس سالہ زندگی میں سنگین درجے کی ایمرجنسی کے زیرِ سایہ رہا ہے۔ ہر آن حملے کا خطرہ رہتا، قریش نے تین بار بڑے بڑے حملے کیے، چھوٹی چھوٹی جھڑپوں اور سرحدی آویزشوں کے واقعات آئے دن ہوتے رہتے تھے۔ متفرق قبائل مدینہ پر دھاوا بولنے کے لیے کبھی ادھر سے سر اٹھاتے کبھی ادھر سے، بار بار طلایہ گردی کرنے اور فتنوں کی سرکوبی کے لیے مدینہ سے فوجی دستوں کی ترسیل ہوتی، راتوں کو فوجی پہرہ لگایا جاتا، غرضیکہ ایک جنگی کیمپ کی سی زندگی تھی۔ اس پر مستزاد یہود اور منافقین کی سازشیں تھیں ---- جنگ کی سازشیں، اسلامی معاشرہ کو پھاڑ دینے اور مختلف عناصر کو ٹکرا دینے کی سازشیں، حضورﷺ کی قیادت کو ناکام کرنے کی سازشیں، اور پھر اس زندگی بخش ہستی کو قتل کر دینے کی سازشیں۔ ایمرجنسی کا اس سے بڑھ کر اور کیا عالم ہو سکتا ہے۔ مگر حضورﷺ نے نہ کبھی اپنے لیے کوئی مستبدانہ اختیار حاصل کیا،¹ نہ کوئی ہنگامی آرڈی نینس جاری کیا، نہ کوئی جابرانہ ایکٹ نافذ کیا، نہ کسی ایک فرد کو نظر بندی میں ڈالا، نہ کوئی ہنگامی عدالتیں بٹھائیں، نہ تازیانے برسا کر لوگوں کی کھال ادھیڑی، نہ جرمانے اور تاوان ڈالے، نہ کسی شہری پر کوئی بار خدائی قانون سے تجاوز کر کے ڈالا، نہ اختلاف اور تنقید کا حق سلب کیا، نہ کسی کی زبان بندی کی اور نہ کسی پر پابندی عائد کی۔ حتیٰ کہ عبداللہ بن ابی جیسے فتنہ پرداز تک سے کوئی تعرض نہیں کیا۔

سارا دار و مدار اپنی دعوت کی صداقت اور اپنے کردار کی پاکیزگی پر رکھا۔ کبھی کسی پر دھونس نہیں جمائی، کبھی رعونت نہیں دکھائی، کبھی کسی کی انسانیت کی تحقیر نہیں کی، کبھی اکڑفوں سے کام نہیں لیا بلکہ دوسروں کی ---- جو درحقیقت کمزور اور بے بس تھے ---- رعونتوں کو صبر سے برداشت کیا۔ یہی وجہ تھی کہ دشمنوں کے دل مسخر ہو جاتے تھے، ساتھ آنے والے دیدہ و دل فرشِ راہ کرتے تھے، مخالفت کرنے والے اپنے آپ کو پست اور ذلیل محسوس کرتے تھے، اور پھر جب حضورﷺ کی صداقت و شرافت کے آگے سر جھکا دیتے تھے تو ان میں ایسی تبدیلی آتی تھی کہ گویا کایا کلپ ہو گئی۔

حضورﷺ کے سینے میں خدا کی جو محبت کار فرما تھی اس کا دوسرا روپ یہ تھا کہ حضورﷺ انسانیت سے گہری محبت رکھتے تھے۔ اس محبتِ انسانی کا اگر ہم اندازہ کرنا چاہیں جو محسنِ انسانیتﷺ کے سینے میں کار فرما تھی، تو ہم اس واقعے سے کر سکتے ہیں کہ وہی مکہ جس کے باسی جنگ کی تلوار لیے آپ کے مقابلے میں کھڑے تھے، اس پر قحط کا زمانہ آتا ہے تو آپ غلہ کی رسد جاری کراتے ہیں اور اسی شہر کے غرباء کے لیے پانچ سو اشرفی نقد بھجواتے ہیں۔ آپ کی محبتِ انسانی کا اندازہ ہم اس واقعے سے بھی کر سکتے ہیں کہ بدر کے قیدیوں کی کراہیں گوشِ مبارک تک پہنچیں تو حضورﷺ کی نیند اڑ گئی اور آپ اس وقت تک آرام سے سو نہ سکے جب تک کہ ان کے بندھن ڈھیلے کر کے انہیں آرام نہ پہنچا دیا گیا۔ آپ کی محبتِ انسانی کا اندازہ اس سے بھی ہو سکتا ہے کہ بنو ہوازن کے چھ ہزار قیدی ایک اپیل پر حضورﷺ کے اشارے سے رہا کر دیے جاتے ہیں۔ اور پھر آپ کی محبتِ انسانی کا اندازہ کرنا ہو تو فتحِ مکہ کے موقع پر اس کا عظیم الشان مظاہرہ دیکھئے۔ انسانیت کا محسن مکہ میں کامل فاتحانہ شان سے داخل ہوتا ہے اور اس کے خلاف میں برسوں تک لڑنے والے دشمن اس کے سامنے بے بس ہو کر کھڑے ہوتے ہیں۔ کوئی دوسرا ہوتا تو ایک ایک واقعے کا انتقام لیتا، قتلِ عام کا حکم جاری کرتا اور خون کی ندیاں بہا دیتا، کشتوں کے پشتے لگائے بغیر نہ ٹلتا۔ وہ لوگ عرفاً، قانوناً، اخلاقاً ہر لحاظ سے مجرم تھے اور دین و سیاست دونوں پہلوؤں سے گردن زدنی۔ مگر اس لمحے حضورﷺ کی محبتِ انسانی ابھرتی ہے اور قریش کے مظالم کی ساری تاریخ پر خطِ عفو پھیر کر کہتی ہے کہ "لَا تَثْرِيبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ ۖ اذْهَبُوا فَأَنتُمُ الطُّلَقَاءُ!!"¹ الٹا ان کی تالیفِ قلب کے لیے حضورﷺ ان کو مال و دولت عطا کرتے ہیں اور ان کو ذلیل اور مسترد کرنے کے بجائے ان کو ذمہ داریاں سونپتے ہیں اور گلے لگا لیتے ہیں۔

حضورﷺ پر یہ حقیقت روشن تھی کہ جو انقلاب انتقام پر اتر آتا ہے، وہ اپنی موت آپ مر جاتا ہے اور جو انقلاب عفو اور دلبری سے کام لیتا ہے وہ دشمنوں کو رام کرتا ہے اور مزاحمت کرنے والوں کو خادم بنا لیتا ہے۔ یہ قریش کا ذوقِ تشدد تھا جس کے تحت انہوں نے نبی رحمتﷺ کو مجبور کر دیا کہ ان کی تیغِ خون آشام کی دھار توڑ دی جائے اور جنگ کے سر آپڑنے پر حضورﷺ نے نظامِ حق کے بچاؤ میں پوری طرح بازی لگا دی۔ مگر حضورﷺ کی محبتِ انسانی نے جنگی پالیسی اور دفاعی تدابیر ایسی نکالیں کہ کم سے کم جانی نقصان ہو اور کم سے کم خون بہے، نیز حضورﷺ نے کڑا اہتمام کیا کہ میدانِ جنگ میں بھی انسانیت کا احترام برقرار رہے۔ محبتِ انسانی کی ایسی روشن اور وسیع مثال کسی دوسرے انقلاب میں نہیں ملتی۔ حضورﷺ کا انقلاب خالص تعلیمی انقلاب تھا اور اس کی اساس بنی آدم کی خیر خواہی پر تھی۔

نیا انسان

بے شمار اصلاحی، تعمیری اور انقلابی تحریکیں ہمارے سامنے ہیں، مگر ان میں سے ہر ایک نے انسان کو جوں کا توں رکھ کر خارجی نظام کو بدلنے کی تدبیریں کی ہیں۔ لیکن ہر وہ تبدیلی حقیقی مسائلِ حیات کو حل کرنے کے لحاظ سے بالکل رائیگاں رہی جو انسان کو اندر سے نہیں بدل سکی۔ حضور اکرمﷺ کے کارنامے کا مبہوت کر دینے والا یہ پہلو بڑا ہی اہم ہے کہ انسان اندرون سے بدل گیا اور یکسر بدل گیا۔ انسانی روپ میں جو خواہش پرست حیوان پایا جاتا تھا، کلمۂ حق کے اثر سے وہ بالکل مٹ گیا اور معاً اس کی راکھ سے خدا پرست اور با اصول انسان ابھر آیا۔ اس نئے انسان کے کردار کی درخشانی دیکھئے تو آنکھوں میں چکا چوند آجاتی ہے۔ حضرت عمرؓ جیسا مکہ کا ایک تند خو لا ابالی نوجوان بدلا تو کہاں پہنچا؟ فضالہ میں تبدیلی آئی تو کس شان سے آئی! ذوالبجادین کو دیکھئے کہ کس طرح دولت و آسائش کو لات مار کے درویشانہ زندگی اختیار کرتا ہے! حضرت ابوذرؓ کو لیجئے کہ انقلابی جذبہ ہے کہ کعبہ میں کھڑے ہو کر جاہلیت کو چیلنج کیا اور خوب مار کھائی۔ کعب بن مالک کا کردار دیکھئے، ابو خثیمہ کا رنگ ملاحظہ فرمائیے، لبینہ اور سمیہ جیسی کنیزوں کی انقلابی شجاعت و عزیمت پر نگاہ ڈالیے، ماعز بن مالک اسلمی اور غامدیہ پر توجہ کیجئے۔ نجاشی کے دربار میں جعفر طیار کی جرات سے سبق لیجئے، ایرانی سپہ سالار کے دربار میں ربعی بن عامر کی شانِ استغنا سے روح اخذ کیجئے ----- اور تاروں کے اس جھرمٹ میں سے کون ہے جس کا ایمان لمعہ فگن نہیں ہے۔

ان ہستیوں سے وہ معاشرہ بنا، اور ایسے قائدین اور کارکنوں کے ہاتھوں وہ نظامِ حق چلا جس نے اگر بندشِ شراب کی منادی کی تو ہونٹوں سے لگے ہوئے پیالے فوراً الگ ہو گئے اور بہترین شرابوں کے مٹکے گلیوں میں لنڈھا دیئے گئے۔ جس نے اگر عورتوں کو سر و سینہ ڈھانپنے کا حکم دیا تو حکم ملتے ہی کسی تاخیر کے بغیر دوپٹے اور اوڑھنیاں بنائی گئیں، جس نے اگر جہاد کے لیے پکارا تو نو عمر لڑکے تک ایڑیوں پر کھڑے ہو ہو کر یہ کوشش کرتے دکھائی دیئے کہ وہ لوٹائے جانے سے بچ جائیں۔ جس نے اگر چندہ طلب کیا تو جہاں حضرت عثمانؓ جیسے دولت مند تاجروں نے سامان سے لدے ہوئے اونٹوں کی قطاریں لا کر کھڑی کر دیں اور حضرت ابوبکرؓ جیسے فدائین نے گھر کی ساری متاع تحریک کے قدموں میں ڈال دی، وہاں ایسے مزدور بھی تھے جنہوں نے دن بھر کی مزدوری سے حاصل شدہ کھجوریں جنگی فنڈ میں دے کر دامن جھاڑ دیا۔ جس نے اگر مہاجرین کی بحالی کے لیے انصار کو پکارا تو انہوں نے اپنے مکان، کھیت اور باغ آدھوں آدھ بانٹ دیئے اور اخوت کا ایک بے مثل سماں پیدا کر دیا۔ جس نے اگر عہدوں کو خدمت کی روح سے بالا تر کر کے سول سروس کے لیے کارکن طلب کیے تو ایک درہم روز کے قلیل معاوضے پر گورنری کے فرائض انجام دینے والے حکام دنیا کے سامنے نمودار ہوئے۔ جس نے اگر مالِ غنیمت کو سپہ سالار کے پاس جمع کرانے کا حکم دیا تو اس شان سے تعمیل کی گئی کہ فوج ایک ایک سوئی اپنے افسر کو پیش کر دیتی تھی اور یہ واقعہ ہمیشہ تاریخ میں درخشاں رہے گا کہ مدائن کے اموال کا ایک قیمتی حصہ عامر نامی سپاہی کے ہاتھ آتا ہے اور بغیر اس کے کہ کسی کو بھی اس خزانۂ زر و جواہر کا علم ہو، وہ رات کی تاریکی میں چپکے سے اپنے سردار تک پہنچا دیتا ہے۔

یہ ہستیاں تھیں جنہوں نے نیکی کا ایسا ماحول تیار کیا کہ جس میں شاذ و نادر ہی جرائم ہوتے تھے اور حضورﷺ کے پورے دس سالہ دور میں گنتی کے مقدمات عدالتوں میں آئے۔ یہ نیکی کا ایسا ماحول تھا جس میں کوئی سی آئی ڈی نہیں رکھی گئی بلکہ لوگوں کے ضمیر ہی ان کے پاسبان اور نگران بن گئے۔

یہ تھا وہ انقلاب جس نے باہر کے نظام کے ساتھ ساتھ اندر سے انسانی قلب و ذہن کو بدلا اور نیا کردار پیدا کر دیا۔ اسی لیے وہ حقیقی اور بنیادی مسائلِ حیات کو حل کرنے میں کامیاب ہوا اور اس کے ذریعے وقت کے تمدنی بحران میں راہِ نجات پیدا ہوئی۔

محسنِ انسانیتﷺ کا عظیم ایثار

یہ انقلاب اس لحاظ سے بھی لاجواب ہے کہ اسے برپا کرنے والے نے اگرچہ بے انتہا قربانیوں سے اس کی تکمیل کی، لیکن اس نے کوئی صلہ اور عوضانہ نہیں لیا۔ اپنا سب کچھ انسانیت کی بھلائی کے لیے دے دیا۔ اس نے اتنا کچھ بھی نہیں لیا جتنا اگر لیا جاتا تو عقلاً، شرعاً، عرفاً ہر طرح جائز اور روا ہوتا۔ اتنے بڑے کارنامے پر ذاتی غرض و لوٹ کا خفیف سا دھبہ بھی دکھائی نہیں دیتا۔ ہے کوئی اس کی مثال؟

معاشی لحاظ سے دیکھئے کہ حضورﷺ نے اپنی کامیاب تجارت قربان کی، اس سے حاصل شدہ سرمایہ اپنے مشن پر نچھاور کیا اور جب کامیابی کا دور آیا تو دولت کے ڈھیر اپنے ہاتھوں سے صرف اور تقسیم کیے مگر اپنے گھر کے لیے فقر و فاقہ اور سادہ سی گزران کا عالم پسند کیا۔ اپنے گھر والوں کے لیے کوئی اندوختہ نہیں چھوڑا، کوئی جائیداد نہیں بنائی اور ان کے کوئی بالاتر مالی حقوق قائم نہیں کیے۔ اور ان کے لیے کسی عہدے کی مستقل موروثی گدی نہیں چھوڑی۔ دربان اور خادم بھرتی نہیں کیے، سواریاں جمع نہیں کیں، کوئی سامانِ آرائش گھر میں پسند نہیں کیا۔

سیاسی و سماجی کردار

سیاسی لحاظ سے دیکھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لیے کوئی ترجیحی حقوق حاصل نہیں کیے۔ کسی کے خلاف خدا کے احکام و حدود سے تجاوز کر کے کوئی اختیار استعمال نہیں کیا۔ اپنا سیاسی مقام اونچا کرنے کے لیے کوئی من مانا قانون جاری نہیں کیا۔ مدینہ میں شدید ایمرجنسی موجود رہی اور یہود و منافقین کی نت نئی شرارتوں سے سابقہ رہا، مگر کسی کو نظر بند نہیں کیا۔ کسی پر پابندیاں نہیں لگائیں۔ کوئی ضمیر کش احکام نافذ نہیں کیے۔ ہنگامی عدالتیں نہیں بٹھائیں اور لوگوں کی چمڑی تازیانوں سے نہیں ادھیڑی۔ بخلاف اس کے، لوگوں کو تنقید اور رائے زنی کا حق دیا۔ اختلاف کرنے کی آزادی دی، اپنے اعلیٰ مشوروں کو قبول نہ کرنے کا حق بھی دیا۔ یہ حقوق محض کاغذ پر لکھے ہوئے نظری حقوق نہ تھے، بلکہ لوگوں نے ان حقوق کو عملاً استعمال کیا۔ بسا اوقات حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قیمتی رائے ترک کر کے اختلافی رائے قبول فرمائی۔

اگر کسی کو کوئی رعایت دینا چاہی تو جماعت سے اجازت طلب کی۔ مثلاً اپنے داماد جناب ابوالعاص قیدی بن کر آئے تو ان کے فدیہ میں حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے وہ ہار بھیجا جو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی یادگار تھا۔ اس ہار کی واپسی کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجلس عام میں اپیل کی۔ اسی طرح ان کا مال بطور غنیمت لایا گیا تو وہ جماعت کی اجازت سے واپس کیا۔ جعرانہ کے مقام پر معرکہ حنین کے قیدیوں کو چھڑانے کے لیے ایک وفد آیا، جس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رضاعی قرابت کا واسطہ دلا کر اپنی درخواست پیش کی۔ قیدی تقسیم ہو چکے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو ہاشم کے حصے کے قیدی چھوڑنا تو بطورِ خود منظور کیا لیکن بقیہ کے لیے فرمایا کہ مجمع عام میں مسلمانوں سے درخواست کرو۔ لوگوں کو جب معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خاندان کے حصے کے قیدی چھوڑ دیے ہیں تو سب نے قیدیوں کو رہا کر دیا۔ ایسے معاملات میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی دباؤ اور جبر سے کام نہیں لیا۔

سماجی اور مجلسی لحاظ سے دیکھیے تو اپنے لیے مساوات پسند کی۔ امتیاز پسند نہیں کیا۔ نہ کھانے پینے، رہن سہن، لباس اور وضع قطع میں کوئی غیر معمولی پن رکھا، نہ مجالس میں نمایاں مقام پر نشست پسند کی۔ نہ یہ مرغوب تھا کہ لوگ تعظیم کے لیے کھڑے ہوں اور نہ آقا اور سردار اور اسی طرح کے القابِ احترام استعمال کرنے کی حوصلہ افزائی کی۔ جنگ اور سفر میں بھی، خندق کی کھدائی میں بھی اور مساجد کی تعمیر میں بھی اپنے رفقاء کے ساتھ مل کر مٹی ڈھونے، گارا اٹھانے، پتھر توڑنے اور لکڑیاں چننے کے کام اپنے دستِ مبارک سے سرانجام دیے۔ قرض خواہوں کو عالمِ واقعہ میں اپنے خلاف درشتی سے تقاضا کرنے کا اذن دیا۔ اپنے آپ کو مجلس عام میں انتقام کے لیے پیش کیا کہ جس کسی کے خلاف مجھ سے کوئی زیادتی ہوئی ہو تو وہ مجھ سے اپنا بدلہ لے لے۔

ہم کہاں کھڑے ہیں؟

محسنِ انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ مقدس انقلاب تھا جس کے ہم پاسبان بنائے گئے تھے۔ یہ پیغام تھا جس کے لیے ہمیں "شہداء علی الناس" اور "امتِ وسط" ہونے کے بلند ترین منصب پر فائز کیا گیا تھا، یہ تھا کلمہ حق جس کی امانت ہمیں اس لیے تفویض کی گئی تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نیابت میں ہم قیامت تک انسانیت کے نجات دہندہ بنیں اور جب بھی زندگی اپنے مسائل میں الجھ جائے اور تمدن بحران میں گھر جائے تو ہم اس کے لیے سہارا بنیں۔ لیکن ہم نے اس کلمہ حق کی مشعل کو بلند رکھنے میں کوتاہی کی اور اس نظامِ حق کا اپنے ہاتھوں ستیاناس کر کے رکھ دیا۔ نتیجہ یہ کہ دورِ حاضر کا قافلہ فکر بھٹک کر غلط موڑ مڑا تو ہم اپنا فرض ادا کرنے کے اہل نہ تھے۔ اور ہماری ہی کوتاہیوں کا کرشمہ ہے کہ آج پوری حیاتِ انسانی بحران کا شکار ہے۔ متضاد مادہ پرستانہ نظریات کی آویزش ذہنی سکون کو برباد کر رہی ہے۔ عالمی قیادت خدا ناشناس طاقتوں کے ہاتھ میں ہے اور ہم خود انہی طاقتوں کے دریوزہ گر بن کے رہ گئے ہیں۔ حالات کی ٹھوکریں ہمیں بیدار نہیں کر سکیں۔ ذلتیں اور نامرادیاں ہمارے اندر احساسِ ندامت ابھار نہیں سکیں۔ عالمِ اسلام کا انتشار اور انسانیت کا بحران، ہمیں اپنے کرنے کے اصل کام پر توجہ نہیں دلا سکا۔

آؤ سوچیں اور جائزہ لیں کہ انسانیت تاریخ کے کس مرحلے سے گزر رہی ہے اور ہم کہاں کھڑے ہیں؟

عصرِ حاضر کا بحران

اس کتاب کے مؤلف نے اپنے مختصر سے دورِ عمر میں اپنے آپ کو بھی، اپنے قریبی ماحول کے ابنائے نوع کو بھی، اور اس سے آگے گزر کر دنیا بھر کے انسانوں کو بھی مسلسل ایک پریشانی، ایک اضطراب، ایک تنگی، ایک تشویش اور ایک خوف کی حالت میں گرفتار دیکھا ہے۔ گھروں سے لے کر بین الاقوامی تنظیموں تک ہر جگہ بدگمانی، کھچاؤ، کشمکش اور تصادم کا سماں سامنے آتا ہے۔ اس پورے دور میں تاریخ ایک ہانڈی کی طرح ابال کھاتی رہی ہے اور اس ہانڈی کے کھولتے ہوئے پانی میں اپنے جیسے کروڑوں انسانوں کے انبوہ کے ساتھ خود کو بھی مٹھی بھر چاول کے ایک دانے کی مانند زیر و زبر ہوتے پایا ہے۔ جس انسانی دنیا سے اب تک سابقہ رہا ہے وہ دو عالمی جنگوں کے درمیان پس کر اور بے شمار علاقائی جنگوں کے چرکے کھا کھا کر ابھی سنبھلنے بھی نہیں پائی کہ ایک اور قیامت خیز جنگ کی تلوار اس کے سر پر لہراتی دکھائی دے رہی ہے۔ اس مختصر سے دور میں توڑ پھوڑ کے بے شمار ہنگامے نظر سے گزرے، بار بار انقلابوں کے بھونچال آتے رہے، سلطنتوں کو ابھرتے اور مٹتے دیکھا۔ نظریات کی لہروں کی آویزش دیکھی۔ سازشوں کی سرنگیں بچھتی اور پھٹتی دیکھیں۔ علاقوں کے ٹکڑے ہوتے دیکھے۔ انسانی گروہوں کو اجڑ پچھڑ کر نقل مکانی کرتے دیکھا۔ خود برصغیر ہند و پاک میں عین صبحِ آزادی کے ظہور کے ساتھ بالکل اپنے سر سے موجِ خون گزرتی دیکھی۔ اور اس موجِ خون میں انسانی جانوں، عصمتوں اور آبروؤں اور قیمتی روایات و اقدار کو غرق ہوتے دیکھا۔

موجودہ عالمگیر مادہ پرستانہ تہذیب کے ظاہر فریب پردوں کے پیچھے جھانک کر انسانیت کا جائزہ لیجیے، تو وہ حالِ زار سامنے آتا ہے کہ روح کانپ جاتی ہے۔ پوری اولادِ آدم کو چند خواہشات نے اپنے شکنجے میں کس لیا ہے اور ہر طرف دولت و اقتدار کے لیے ہاتھا پائی ہو رہی ہے۔ آدمیت کے اخلاقی شعور کی مشعل گل ہے۔ جرائم تمدنی ترقی کے ساتھ ساتھ تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ نفسیاتی الجھنوں کا زور ہے اور ذہنی سکون یکسر غائب ہو چکا ہے۔ انسانی ذہن و کردار میں ایسا بنیادی فساد آگیا ہے کہ زندگی کا کوئی گوشہ اس کی منحوس پرچھائیں سے محفوظ نہیں رہا۔ فلسفہ و حکمت سے سچائی کی روح کھو گئی ہے۔ اعتقادات و نظریات میں توازن نہیں رہا۔ روحانی قدریں چوپٹ ہو چکی ہیں۔ قانون روحِ عدل سے خالی ہو رہا ہے۔ سیاست میں جذبہ خدمت کی جگہ اغراض پرستی گھس گئی ہے۔ معیشت کے میدان میں ظالم اور مظلوم طبقے پیدا ہو گئے ہیں۔ فنونِ لطیفہ میں جمال کی ساری رنگ آمیزیاں جنسی جذبوں اور سفلی خواہشوں سے کی جانے لگی ہیں۔ تمدن کے سارے عوامل میں چپہ چپہ پر تضادات ابھر آئے ہیں جن کے درمیان تصادم برپا ہے، اور پوری تاریخ ایک خوفناک ڈرامے میں بدل گئی ہے۔

عقل ترقی کر گئی ہے مگر اس کی حماقتیں ہمارے درپئے آزار ہیں۔ علم کے سوتے ابل رہے ہیں، مگر اسی کی پروردہ جہالتوں کے ہاتھوں آدم زاد کا ناک میں دم ہے۔ دولت کے خزانے ہر چہار طرف بکھرے پڑے ہیں، مگر خاکی مخلوق بھوک، تنگی اور محرومی کے عذاب میں گھری ہے۔ ہزار گونہ تنظیمیں اور سیاسی ہیئتیں، نظریاتی وحدتیں اور معاہداتی رابطے نمودار ہیں، مگر انسان اور انسان کے درمیان بھائی بھائی کا سا تعلق نہیں، چیتے اور بھیڑیے کا سا معاملہ ہے۔ عقلی، سیاسی، اخلاقی اور تہذیبی شعور کی ترقی کے چرچے ہیں، مگر ظلم اور تشدد کے انتہائی ناپاک حربے آج بھی انسانیت کے خلاف کام میں لائے جا رہے ہیں۔ تاریخ ایک وسیع اکھاڑا ہے جس میں کہیں امپیریلزم اور حریت پسندی کے درمیان، کہیں کمیونزم اور سرمایہ داری کے درمیان، کہیں جمہوریت اور آمریت کے درمیان، کہیں فرد اور اجتماعیت کے درمیان اور کہیں مغربیت اور ایشیائیت کے درمیان ایک خونخوار آویزش ہو رہی ہے۔

ایسی ہے یہ دنیا جس میں ہم اپنی زندگیاں گزار رہے ہیں!

مصنوعی سیاروں اور میزائلوں کے اس دور میں سائنس، الہ دین والے روایتی چراغ کے جن کی طرح مادی قوتوں کے نئے نئے خزانے انسان کے ایک ایک اشارے پر بہم پہنچا رہی ہے۔ قدرت کے سربستہ رازوں کے ازلی قفل حکمت کی کنجی سے کھل رہے ہیں، ہیبت ناک رفتاریں انسان کو زمان و مکان پر وسیع تصرف دلا رہی ہیں، جوہری توانائی نے تباہ کار دیووں کے لشکر انسان کے سامنے مسخر کر کے کھڑے کر دیے ہیں، جو بس ایک اشارہ ابرو کے منتظر ہیں۔ دوسری طرف خود اس انسان کا اپنا حال یہ ہے کہ وہ شیطانی اور تخریبی قوتوں کے پنجے میں پہلے سے زیادہ بے بس دکھائی دیتا ہے جو بار بار اسے اپنے ہی خلاف محشر آرا کرتی رہی ہیں، اور جنہوں نے ہر دورِ تاریخ میں اس کے عظیم تعمیری کارناموں اور اس کے شاندار تمدنوں کو خود اس کے ہاتھوں ملیا میٹ کرایا ہے۔

ذرا کسی ایسے کارواں کا تصور کیجیے جو کسی پہاڑ کی چوٹی پر ڈیرہ ڈالے اور زربفت کے خیمے نصب کر کے کھانے پینے، رقص و موسیقی اور شعر و شراب میں مگن ہو، اس کے پاس کاروباری اموال کے انبار ہوں، اس کے ساتھ روپے سے بھری ہوئی تھیلیاں ہوں، جانوروں اور سواریوں کی کثرت ہو، اس کے اسلحہ چمکدار اور اس کا پہرہ مضبوط ہو ۔۔۔ لیکن عین اس کے قالینوں اور بستروں اور مسندوں کے نیچے کی زمین میں چند فٹ کی گہرائی پر خوفناک لاوا کھول رہا ہو، اور تھوڑا ہی وقفہ اس میں باقی ہو کہ پہاڑ پھٹ پڑے اور آگ کا طوفان اٹھنے لگے۔ کچھ ایسا ہی حال ہمارے قافلہ تمدن کا ہے جو موجودہ لمحہ تاریخ کی پہاڑی پر پڑاؤ ڈالے ہوئے ہے۔ اس پہاڑی کے سینے میں ہولناک ترین بحران کا لاوا کھول رہا ہے۔

ہمارے سامنے مثبت عالمی بحران کا چیلنج لیے کھڑی ہے، وقت کے راستے پر پیچھے بھاگنے کا امکان نہیں۔ چیلنج کا جواب دینے کی صلاحیت موجودہ مادی تہذیب اور اس کے بنائے ہوئے انسان میں نہیں ہے۔ کوئی نیا فلسفہ نہیں ابھر رہا ہے جو کم سے کم ایک چھلاوے کی طرح وقتی طور پر ہی سرمایہ اطمینان بن سکے۔ کسی طرف کوئی راہِ نجات کھلتی نظر نہیں آتی۔

اضطراب کے اس لمحے میں جب میں چاروں طرف نگاہیں گھماتا ہوں تو تاریکی کا ایک سمندر شش جہت سے محاصرہ کیے ہوئے دکھائی دیتا ہے۔ اس سمندر میں دور --- چودہ صدی کی دوری پر ---- ایک نقطہ نور دکھائی دیتا ہے۔

یہ انسانیت کے سب سے بڑے محسن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کی مشعل ہے! وہی مشعل جس کی روشنی کو خود ہم نے ۔۔۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نام لیواؤں نے ۔۔۔ اپنے افکارِ پریشان اور اپنے اعمالِ پراگندہ کے غبار میں گم کر رکھا ہے!!

مطالعہ سیرت کا نقطہ نظر

میرے نزدیک سیرتِ پاک کے مطالعہ کا ایک ہی مقصود ہے: حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کی مشعل ہمارے سامنے اور پوری انسانیت کے سامنے ایک بار پھر نور پاش ہو اور قافلہ زندگی دورِ حاضر کی تاریکیوں میں اس طرح جادہ فلاح کا سراغ پالے جس طرح اسے ساتویں صدی عیسوی میں بحران سے نجات پانے کا راستہ ملا تھا!

بدقسمتی سے سیرتِ نبوی کا مطالعہ ہمارے ہاں اس اسپرٹ اور اس نقطہ نظر سے کم ہو رہا ہے جس سے ہونا چاہیے۔ ہماری دلچسپی اس میدان میں پوری طرح یہ نہیں رہی کہ ہمیں وہاں سے ایک نقشہ زندگی حاصل کر کے اپنے آپ کو اس کے سانچے میں ڈھالنا ہے بلکہ بعض دوسری دلچسپیاں بیچ میں آگئی ہیں اور روز بروز بڑھ رہی ہیں۔

پہلا غلط رجحان: بہت سے مسلمان ایسے ہیں جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے ساری دلچسپی مجرد حصولِ ثواب کے لیے رکھتے ہیں (اس سے انکار نہیں کہ حضور سے قرب کی ہر کوشش خدا کی بارگاہ میں پسندیدہ ہے اور اس پر اجر کی توقع رکھنی چاہیے، لیکن ایسی کوشش کا اولین مدعا زندگی کو سنوارنا بھی تو ہو!)۔ دھوم دھام سے میلاد کی محفلیں منعقد کی جاتی ہیں اور اس اعتقاد سے کی جاتی ہیں کہ ان مجالس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی روحِ پر نور جلوہ گر ہوتی ہے اور اپنے پیروؤں کی محبت کے مظاہروں کو دیکھ دیکھ کر خوشنود ہوتی ہے۔ شیرینی کے طشت، پھولوں کے گجرے اور ہار، قوالی اور نعت خوانی کے اہتمام، اگر بتیوں اور لوبان کی خوشبوؤں کے مرغولے، قمقموں اور فانوسوں کی لمعہ پاشیاں، یہ سب کچھ اسی اعتقاد کے ترجمان ہیں۔ سیرتِ نبوی سے اس انداز کی عقیدت جو نقشہ سامنے لاتی ہے، وہ کسی انسان کا نقشہ نہیں، گوشت پوست سے بنے ہوئے کسی آدم زاد کی شخصیت نہیں بلکہ ہم ایک فوق الانسان ہستی سے متعارف ہوتے ہیں جس کا پیکر نور سے ڈھلا ہے، جس کے جسم کا سایہ نہیں، جس کے کارنامے میں سارا پارٹ معجزوں کا ہے، جو عالمِ اسباب کے قوانین سے بالاتر ہے، جس کے سارے کام فرشتے سر انجام دیتے ہیں اور جس کی ہر بات اور ہر چیز پُر اسرار ہے۔ انکار نہیں کہ ابنائے نوع کے مقابلے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا روحانی و اخلاقی پایہ بدرجہا بلند ہے، وہاں بہت سی فوق العادت چیزیں بھی ملتی ہیں، وہاں معجزے بھی ہیں اور وہاں فرشتے بھی حرکت کرتے نظر آتے ہیں ۔۔۔۔ مگر بہرحال وہ پاک زندگی ایک انسان کی زندگی ہے اور اس کی عظمت کی اساس ہی یہ ہے کہ ایسی لامثال زندگی ایک انسان نے پیش کی۔ وہاں قوانینِ فطرت اور نوامیسِ تاریخ و مدنیت ہی کے دائرے میں سارا کام ہوتا ہے اور کامیابی کی راہ کے ایک ایک چپے پر قربانیاں پیش کی جاتی ہیں۔ وہ ایک انسان کی زندگی ہو کر ہی ہمارے لیے اسوہ بنتی ہے اور اس کے تصور کے ساتھ ہم اس سے اکتساب کر سکتے ہیں، اس سے عزم و ہمت کا درس لے سکتے ہیں، اس سے اصول کی پابندی اور فرض شناسی کا سبق سیکھ سکتے ہیں، اس سے انسانیت کی خدمت کا جذبہ اخذ کر سکتے ہیں، اور اس سے بدی کی طاقتوں کے خلاف معرکہ آرا ہونے کے لیے ایک تڑپ اپنے اندر پیدا کر سکتے ہیں۔ سیرتِ نبوی کو اگر تم معجزہ بنا دو گے اور اگر اسے فوق الانسانی کارنامے کا رنگ دے دو گے تو پھر مٹی کے بنے ہوئے انسانوں کے لیے اس میں نمونہ کیا رہے گا؟ ایسی ہستی کے سامنے ہم مرعوب اور حیرت زدہ تو ہو سکتے ہیں، اس کا کوئی ایک لفظ اپنے اندر جذب نہیں کر سکتے۔ اس سے ہم عقیدت تو رکھ سکتے ہیں اس کا اتباع نہیں کر سکتے۔ چنانچہ جہاں جہاں عقیدت مندی کا یہ خاص رنگ پہنچا ہے وہاں جتنا جتنا یہ گہرا ہوتا جاتا ہے، عملی زندگیاں اتباعِ نبوت سے اتنی ہی آزاد ہوتی جاتی ہیں۔ بلکہ الٹی حالت یہ ہے کہ گھناؤنے معاشی اور معاشرتی جرائم کے میکدے میں جو لوگ خم کے خم لنڈھاتے ہیں، وہ اس سستے طرز سے مظاہرہ عقیدت کر کے اپنے مضطرب ضمیر کو اطمینان دلاتے ہیں کہ:
"کچھ بھی ہیں، لیکن ترے محبوب کی امت میں ہیں!"

دوسرا غلط رجحان: دوسری طرف مغرب سے ایک دوسرا رجحان آ گھسا ہے جسے "اعاظم پرستی" کہا جاتا ہے۔ یہ رجحان اپنی اصل روح کے اعتبار سے قوم پرستانہ جذبات کا ترجمان ہے۔ ایک طرح کا قومی تفاخر ہے جو دوسروں کے سامنے ماضی کی نمایاں شخصیتوں کا مظاہرہ کراتا ہے۔ یہ رجحان گویا یہ کہتا ہے کہ دیکھو ہمارے پاس ایسی اور ایسی ہستیاں ہیں، ہماری تاریخ میں اتنے اتنے بڑے پائے کے بزرگ ہو گزرے ہیں اور ان کے یہ یہ یادگار کارنامے ہیں جن کے ہم وارث ٹھہرے ہیں اور جو ہمارے لیے سرمایہ افتخار ہیں۔ اس رجحان کی علامت یہ ہے کہ یہ ہمیشہ کھوکھلا ہوتا ہے۔ اس کے تحت ہر قوم متعدد شخصیتوں کے ایامِ وفات، ایامِ پیدائش اور دوسرے یادگاری دن بڑے ٹھاٹھ سے مناتی ہے مگر یہ ایام کہیں بھی ان شخصیتوں سے استفادہ کا ذریعہ نہیں بنتے۔ انسانیت کے جن نمونوں کو بہ صد تفاخر دوسروں کے سامنے پیش کیا جاتا ہے، ان کا کوئی پرتو پیش کرنے والوں کی اپنی زندگیوں میں دکھائی نہیں دیتا اور نہ کبھی اس پرتو کو اخذ کرنے پر توجہ ہوتی ہے۔ اس رجحان کے تحت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد تازہ کرنے کے لیے جو تقاریب منعقد ہوتی ہیں ان میں کہنے کو تو ایک خاص طرح کی باتیں ہمیشہ کہی جاتی ہیں مگر زندگی پر ان کا کوئی اثر نمودار نہیں ہوتا۔

تیسرا غلط نقطہ نظر: تیسرا غلط نقطہ نظر وہ ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کو ایک نظامِ حیات کا پیغام نہیں سمجھتا بلکہ ایک مذہب کا پیغام قرار دیتا ہے۔ اس نقطہ نظر سے جو لوگ متاثر ہیں ان کا تصور یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بس چند اعتقادات، چند رسوم و عبادات، چند اوراد و وظائف، چند اخلاقی سفارشیں اور چند فقہی احکام پہنچانے آئے تھے اور آپ کا منشا ایسے افراد پیدا کرنا تھا جو شخصی طور پر مسلمانی کی شان پیدا کر کے ہر گندے سے گندے نظام کے لیے بہترین کارکن ثابت ہوں۔ ایسا عنصر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بس طہارت، نماز، روزے، نوافل و اذکار اور انفرادی اخلاق کی حد تک اکتسابِ فیض کرتا ہے۔ لیکن تمدنی زندگی کے وسیع تر معاملات میں وہ پوری شانِ بے حسی کے ساتھ ہر باطل کے کام آتا ہے اور ہر فساد کے ساتھ سازگاری کر لیتا ہے۔ اس عنصر نے گویا سیرتِ نبوی کی مقدس کتاب کے بے شمار زریں ابواب کو فراموشی کی سرزمین میں دفن کر دیا ہے اور بس ایک مقدمہ کی فصل کو لے کر اسی میں کھو گئے ہیں۔ اس عنصر نے اب تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جو ترجمانی کی ہے اس سے متاثر ہو کر دورِ حاضر کی کوئی غیر قوم تو کجا، خود تعلیم یافتہ مسلم نوجوان تک یہ تصور بھی نہیں کر سکتے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کے لیے قافلہ سالارِ تمدن بھی ہو سکتے ہیں اور ان کی بارگاہ سے تازہ ترین کٹھن مسائل کا کوئی اطمینان بخش حل بھی مل سکتا ہے۔ یہ نقطہ نظر بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہستی کے لیے ایک مقدس حجاب بن گیا ہے۔

یہ غلط نقطہ ہائے نظر پنپ اس لیے رہے ہیں کہ فضا ان کے لیے سازگار ہے۔ فضا یوں سازگار ہے کہ جس نظامِ سیاست و تمدن اور جس ہیئتِ معیشت و معاشرت سے ہم دوچار ہیں اسے ایک خاص نقشے کا انسان درکار ہے، اس مشین کو خاص ڈھنگ کے پرزوں کی ضرورت ہے۔ وہ بالکل دوسری ہی سیرت افراد میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس کا کام ایک اور ہی طرز کے ذہن و کردار سے چلتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہاں عملی زندگی کو سرے سے اس نمونہ انسانیت کی ضرورت ہی نہیں ہے جسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پیش کرتی ہے اور اس منڈی میں اس متاعِ فکر و عمل کی مانگ ہی نہیں ہے جو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی سے اخذ کیا جا سکتا ہے۔ موجودہ دنیا کا اجتماعی نظام جس طرز کے وزیر، حکام، جج، وکیل، لیڈر، صحافی، سپہ سالار، سپاہی، کوتوال، پیادے، تحصیلدار، پٹواری، ڈپٹی کمشنر، نمبردار، زمیندار، مزارع، مصنف، ادیب، عام قلی اور مزدور مانگتا ہے ان کا نقشہ انسانیت اس سے بالکل متضاد قسم کا ہے جس کا مظاہرہ سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے تاریخ کے اسٹیج پر فرمایا۔ چھائے ہوئے نظام کی مانگ کے مطابق گھر گھر میں ماؤں کی محبت کی گودیں اور باپوں کی شفقت کی نگاہیں اولادوں کو پال رہی ہیں۔ ان کی ضروریات کا لحاظ رکھ کر ادارہ ہائے تعلیم و تربیت ہیں، پچیس پچیس سال تک ایک ایک فرد پر صرف کر کے کام کے پرزے بنا رہے ہیں، اور اس کے تقاضوں کے تحت ہر صاحبِ شعور خود اپنے ذہن و کردار کو ایک خاص شکل دینے میں ساری عمر مصروف رہتا ہے۔ یہ نظام جن جن چیزوں کو پسند کرتا ہے انہی کو معاشرہ اپنے افراد میں از خود پیدا کرتا رہتا ہے۔ اور یہ جن جن چیزوں کو حقارت و کراہت سے دیکھتا ہے ماحول کی پوری طاقت ان کو مٹانے کے درپے رہتی ہے۔ یہ نظام جس بولی کو پسند کرتا ہے زبانیں آپ سے آپ اسی بولی کو بولنے لگتی ہیں۔ یہ جس لباس کو پسند کرتا ہے وہ لباس از خود زیبِ تن ہونے لگتے ہیں۔ یہ ایک اشارہ کرتا ہے تو قدیمی حیادار گھرانوں کی بہو بیٹیوں کے چہروں سے نقابیں الٹ جاتی ہیں۔ عزت کی روش وہ ٹھہرتی ہے جسے مروجہ نظام رائج کرنا چاہے۔ اور ذلت کا طرز وہ قرار پاتا ہے جسے چلتا ہوا تمدن ناپسند کرے۔ جن فنون کو یہ پسند کرتا ہے وہ ذریعہ مقبولیت بنتے ہیں اور جن مشاغل کو یہ مسترد کرتا ہے وہ نذرِ تغافل ہو جاتے ہیں۔ یہ اپنی اقدار خود بناتا اور تمام افراد سے انہیں منواتا ہے۔ اور دوسری تمام روایات، اقدار اور شعائر کو مرجھا جانا پڑتا ہے۔ کچھ حمیت دار افراد اور خاندان ماحول کے جبری دھارے کے خلاف زور کرتے ہیں مگر معاشی محرومی، ثقافتی پسماندگی اور احساسِ کہتری کا دباؤ اتنا سخت ہوتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پیراک مضمحل ہو کر اپنے آپ کو ماحول کے حوالے کرتے جاتے ہیں، ورنہ ان کی اگلی نسل ہمت چھوڑ بیٹھتی ہے۔ اب ایک دنیا کی دنیا جو اپنی سیرت کی تشکیل شعوری طور پر بھی اور غیر شعوری طور پر بھی ماحول کے منشا کے مطابق کرنے میں مگن ہے، وہ سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر کتابیں اگر لکھے اور پڑھے گی اور وعظ سنائے اور سنے گی تو اسوہ حسنہ کا ذوق لوگوں کے اندر آئے گا کہاں سے؟

کچی بات یہ ہے کہ سیرتِ نبوی میں ان لوگوں کے لیے کوئی پیغام ہے ہی نہیں جو کسی غیر اسلامی نظام سے بات بنائے رکھنا چاہتے ہوں اور جن کے مفاد کے سودے کسی باطل سے چک گئے ہوں۔ ایسے لوگ سیرت پڑھ کر سر دھنتے ہوں گے، ان کو ذہنی حظ ملتا ہو گا، ان کی معلومات میں اضافہ ہوتا ہو گا۔ لیکن ان میں یہ تحریک کہاں سے آئے گی کہ وہ اس سیرت کے سانچے میں اپنی زندگی کو ڈھالیں؟ ان کا جمود کسی طرح ٹوٹ نہیں سکتا۔

لیکن ہم کہتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی داستانِ حیات رستم و سہراب کا قصہ نہیں، الف لیلہ کی کہانی نہیں اور کسی خیالی کردار کا افسانہ نہیں۔ اس کا مقام یہ ہرگز نہیں کہ اسے ہم علم و ادب کی تفریحی چوپال کا محض ایک سرمایہ رونق بنائیں، اس کی قدر و قیمت اجازت نہیں دیتی کہ ہم اسے محض ذہنی لذت حاصل کرنے کے لیے استعمال کریں، اس کا احترام روکتا ہے کہ ہم اسے مجرد قومی تفاخر کے جذبے کی تسکین کا ذریعہ بنائیں۔

یہ مختلف غلط نقطہ ہائے نظر ہمارے ہاں مل جل کر کام کر رہے ہیں اور یہی اصل مقصد میں رکاوٹ بن گئے ہیں۔ کون شمار کر سکتا ہے کہ ہر سال کتنی مجالسِ میلاد اور جلسہ ہائے سیرت ہمارے ملک میں منعقد ہوتے ہوں گے؟ ایک ربیع الاول ہی کے مہینے میں کتنے وعظ اور کتنی تقریریں ہوا میں لہریں اٹھا دیتی ہوں گی؟ کتنے مقالے اور کتابیں لکھی جاتی ہوں گی؟ کتنے جرائد کے خاص نمبر اس موضوع پر شائع ہوتے ہوں گے؟ شعراء کتنی نعتیں لکھتے ہوں گے اور قوال ان کو کہاں کہاں گاتے پھرتے ہوں گے؟ اکابر کی طرف سے کتنے ہی پیغامات اور بیانات نشر ہو جاتے ہوں گے؟ دعوتوں اور ضیافتوں کی کیسی کچھ بہاریں دستر خوانوں پر آتی ہوں گی؟ بازاروں کو سجانے اور دروازے اور محرابیں بنانے اور دوسری رونق افزائیوں میں کتنا روپیہ کھپا دیا جاتا ہو گا؟

لیکن دوسری طرف یہ بھی ذرا سوچئے کہ ایک اچھے مقصد پر قوتوں اور روپے کے اس صرف کا واقعی نتیجہ کیا نکلتا ہے؟ جائزے کی ترازو کے ایک پلڑے میں اپنی ایک سال کی ان سرگرمیوں کو رکھیے اور دوسرے پلڑے میں حاصل شدہ نتائج کو رکھ کر جانچیے کہ کیا وزن ٹھیک نکلتا ہے؟ کتنے افراد ہوں گے جو ان نیک مساعی کی بدولت سیرتِ نبوی کے سانچے میں اپنی زندگیاں ڈھالنے کی مہم میں ہر سال لگ جاتے ہوں گے؟ اگر ایک جلسے، ایک مقالے اور ایک نعت کے ذریعے صرف ایک ہی آدمی بدلا ہوتا تو اندازہ کیجیے کہ گزشتہ دو سو سال کا کیا حاصل ہونا چاہیے تھا۔ اور اگر عملاً حاصل وہ نہیں ہے تو کہیں نہ کہیں ہماری مساعی میں کوئی کوتاہی موجود ہے اور وہ کوتاہی بڑی بنیادی قسم کی ہے۔ رونا اسی کا نہیں کہ وہ کچھ حاصل نہیں ہو رہا جو مطلوب ہے، بلکہ اس سے بڑھ کر ماتم اس کا ہے کہ ہمارے پلے وہ کچھ پڑ رہا ہے جو محسنِ انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام اور کارنامے سے کھلم کھلا ٹکراتا ہے۔ ہمارے اندر آج ایسے عناصر پروان چڑھ رہے ہیں جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کو زمانہ حال کے لیے ناکارہ اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عطا کردہ نظامِ زندگی کو ناقابلِ عمل قرار دیتے ہیں ۔۔۔۔ ایسے عناصر جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کا مذاق اڑاتے ہیں، ایسے عناصر جو سیرت، سنت اور حدیث کا سارا ریکارڈ دریا برد کر دینا چاہتے ہیں، ایسے عناصر جو قرآن کو پیش کرنے والی ہستی کی ۲۳ سالہ جدوجہد اور لازوال تحریکی کارنامے سے بے تعلق کر دینا چاہتے ہیں، اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہستی کو بطورِ عملی نمونہ انسانیت کے ہماری نگاہوں سے گم کر دینے کے لیے کوشاں ہیں۔ پھر ستم بالائے ستم یہ کہ تعبیر و تاویل کے نام پر ہمارے ہاں یہ کوشش ہو رہی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت، پیغام اور کارنامے کو موجودہ فاسد تہذیب کے فکری سانچے میں ڈھال دیا جائے اور محسنِ انسانیت کی بالکل نئی تصویر عالمی طاقتوں کے ذوق کے مطابق تیار کر دی جائے۔

میرا حاصلِ مطالعہ و تحقیق یہ ہے کہ ہم نے مطالعہ سیرت کا صحیح بنیادی نقطہ نظر گم کر دیا ہے اور اوپر کے غلط نقطہ ہائے نظر کارفرما ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت و عقیدت کے بے شمار مظاہر موجود ہونے کے باوجود اور سیرت پر دماغی کاوشیں صرف ہونے کے باوجود ہماری تاریخ کے افق سے وہ نیا انسان طلوع نہیں ہو رہا جس کا نمونہ کامل حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش فرمایا تھا۔¹

¹ آہستہ آہستہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یادگار تقریبوں میں مسرت و تفریح اور کھیل تماشوں کا عنصر بڑھتا جا رہا ہے بلکہ کھلے کھلے ہنگامہ ہائے فسق و فجور بھی عمل میں آنے لگے ہیں یعنی معاشرہ ٹھیک اس پیغام کے الٹی سمت چل پڑا ہے جو سیرت میں مضمر ہے۔

سیرت کا حقیقی فہم

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت ہمارے اندر بجز اس کے کسی طرح جلوہ گر نہیں ہو سکتی کہ ہم اُسی نصب العین کے لیے ویسی ہی جدوجہد کرنے اٹھیں جس کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی کو ہم وقف پاتے ہیں۔ وہی جدوجہد اپنے ڈھب کی سیرت پیدا کرنے کا ذریعہ بھی ہو سکتی ہے اور مصرف بھی!

محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت ایک فرد کی سیرت نہیں ہے بلکہ وہ ایک تاریخی طاقت کی داستان ہے جو ایک انسانی پیکر میں جلوہ گر ہوئی۔ وہ زندگی سے کٹے ہوئے ایک درویش کی سرگزشت نہیں ہے جو کنارے بیٹھ کر محض اپنی انفرادی تعمیر میں مصروف رہا ہو، بلکہ وہ ایک ایسی ہستی کی آپ بیتی ہے جو ایک اجتماعی تحریک کی روحِ رواں تھی۔ وہ محض ایک انسان کی نہیں بلکہ ایک انسان ساز کی روداد ہے۔ وہ عالمِ نو کے معمار کے کارنامے کی تفصیل اپنے اندر لیے ہوئے ہے۔ سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت غارِ حرا سے لے کر غارِ ثور تک، حرمِ کعبہ سے لے کر طائف کے بازار تک، امہات المومنین کے حجروں سے لے کر میدان ہائے جنگ تک چاروں طرف پھیلی ہوئی ہے۔ اس کے نقوش بے شمار افراد کی کتابِ حیات کے اوراق کی زینت ہیں۔ ابوبکر و عمر، عثمان و علی، عمار و یاسر، خالد و خویلد اور بلال و صہیب (رضوان اللہ علیہم اجمعین) سب کے سب ایک ہی کتابِ سیرت کے اوراق ہیں۔ ایک چمن کا چمن ہے کہ جس کے لالہ و گل اور نرگس و نسترن کی ایک ایک پتی پر اس چمن کے مالی کی زندگی مرقوم ہے۔ وہ قافلہ بہار وقت کی جس سرزمین سے گزرا ہے اس کے ذرے ذرے پر نگہت کی مہریں ثبت کر گیا ہے۔

دنیا کی اس بلند ترین شخصیت کو اگر سیرت نگاری میں مجرد ایک فرد بنا کے پیش کیا جائے اور سوانح نگاری کے مروجہ طرز پر اس کی زندگی کے بڑے بڑے کاموں، اس کی نمایاں مہمات اور اس کے اخلاق و عادات کو بیان کر دیا جائے، کچھ تاریخوں کی چھان بین اور کچھ واقعات کی کھوج کرید کر دی جائے تو ایسی سیرت نگاری سے صحیح منشا ہرگز پورا نہ ہو گا۔

پھر سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کی مثال ایک جوہڑ کے کھڑے پانی کی نہیں ہے کہ جس کے ایک کنارے کھڑے ہو کر ہم بیک نظر اس کا جائزہ لے ڈالیں۔ وہ ایک بہتا ہوا دریا ہے جس میں حرکت ہے، روانی ہے، کشمکش ہے، موج و حباب ہیں، سیپیاں اور موتی ہیں۔ اور جس کے پانی سے مردہ کھیتوں کو مسلسل زندگی مل رہی ہے۔ اس دریا کا رمز آشنا ہونے کے لیے اس کے ساتھ ساتھ رواں رہنا پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیرت کی بہت سی کتابیں پڑھ کر نادر معلومات ملتی ہیں لیکن ہمارے اندر تحریک پیدا نہیں ہوتی۔ جذبے انگڑائی نہیں لیتے، عزم و ہمت کی رگوں میں نیا خون نہیں دوڑتا، ذوقِ عمل میں نئی حرارت نہیں آتی، ہماری زندگیوں کا جمود نہیں ٹوٹتا۔ وہ شرارِ آرزو ہم اخذ نہیں کر پاتے جس کی گرمی نے ایک یکہ و تنہا اور بے سرو سامان فرد کو قرنوں کے جمے ہوئے فاسد نظام کے خلاف معرکہ آرا کر دیا۔ وہ سوز و سازِ ایمان ہمیں نہیں ملتا جس نے ایک یتیمِ بے نوا کو عرب و عجم کی قسمتوں کا فیصلہ کرنے والا بنا دیا۔

انسانِ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم

اصل میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم مروجہ اصلاح کے محدود تصور کے مطابق فقط ایک "بڑے آدمی" نہ تھے۔ آپ کی سیرت ایک ایسے "بڑے" یا "مشہور" آدمی کی داستان نہیں ہے جیسے لوگوں کو مشاہیر کے سوانحی سلسلوں میں گنوایا جاتا ہے۔ یہ ہستی "بڑے" اور "مشہور" آدمیوں سے بہت اوپر کی ہے۔

دنیا میں بڑے آدمی بہت پیدا ہوئے اور ہوتے ہیں۔ بڑے لوگ وہ بھی ہیں جنہوں نے کوئی اچھی تعلیم اور کوئی تعمیری فکر پیش کر دی۔ وہ بھی ہیں جنہوں نے اخلاق و قانون کے نظام سوچے۔ وہ بھی ہیں جنہوں نے اصلاحِ معاشرہ کے کام کیے۔ وہ بھی ہیں جنہوں نے ملک فتح کیے اور بہادرانہ کارناموں کی میراث چھوڑی۔ وہ بھی ہیں جنہوں نے سلطنتیں چلائیں۔ وہ بھی ہیں جنہوں نے فقر و درویشی کے عجیب عجیب نمونے ہمارے سامنے پیش کیے۔ وہ بھی ہیں جنہوں نے دنیا کے سامنے انفرادی اخلاق کا اونچے سے اونچا معیار قائم کر دکھایا ۔۔۔۔ مگر ایسے بڑے آدمیوں کی زندگیوں کا جب مطالعہ کرتے ہیں تو بالعموم یہی دیکھتے ہیں کہ ان کی قوتوں کا سارا رس زندگی کی کسی ایک شاخ نے چوس لیا اور باقی ساری ٹہنیاں سوکھی رہ گئیں۔ ایک پہلو اگر بہت زیادہ روشن ملتا ہے تو کوئی دوسرا پہلو تاریک دکھائی دیتا ہے۔ ایک طرف افراط ہے تو دوسری طرف تفریط!

لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا ہر گوشہ دوسرے گوشوں کے ساتھ پوری طرح متوازن بھی ہے، اور پھر ہر گوشہ ایک ہی طرح کے کمال کا نمونہ بھی ہے۔ جلال ہے تو جمال بھی ہے۔ روحانیت ہے تو مادیت بھی ہے، معاد ہے تو معاش بھی ہے، دین ہے تو دنیا بھی ہے۔ اک گونہ بے خودی بھی ہے مگر اس کے اندر خودی بھی کارفرما ہے۔ خدا کی عبادت ہے تو اس کے ساتھ بندوں کے لیے محبت و شفقت بھی ہے۔ کڑا اجتماعی نظم ہے تو فرد کے حقوق کا احترام بھی ہے۔ گہری مذہبیت ہے تو دوسری طرف ہمہ گیر سیاست بھی ہے۔ قوم کی قیادت میں انہماک ہے مگر ساتھ کے ساتھ ازدواجی زندگی کا نکھیڑا بھی نہایت خوبصورتی سے چل رہا ہے۔ مظلوموں کی داد رسی ہے تو ظالموں کا ہاتھ پکڑنے کا اہتمام بھی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے مدرسے سے ایک حاکم، ایک امیر، ایک وزیر، ایک افسر، ایک ملازم، ایک آقا، ایک سپاہی، ایک تاجر، ایک مزدور، ایک جج، ایک معلم، ایک واعظ، ایک لیڈر، ایک ریفارمر، ایک فلسفی، ایک ادیب، ہر کوئی یکساں درسِ حکمت و عمل لے سکتا ہے۔ وہاں ایک باپ کے لیے، ایک مسافر کے لیے، ایک پڑوسی کے لیے یکساں مثالی نمونہ موجود ہے۔ ایک بار جو کوئی اس درسگاہ تک آ پہنچتا ہے پھر اسے کسی دوسرے دروازے کو کھٹکھٹانے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ انسانیت جس آخری کمال تک پہنچ سکتی تھی وہ اس ایک ہستی میں جلوہ گر ہے، اسی لیے میں اس ہستی کو "انسانِ اعظم" کے لقب سے پکارنے پر مجبور ہوا۔

تاریخ کے پاس انسانِ اعظم صرف یہی ایک ہے جس کو چراغ بنا کر ہر دور میں ہم ایوانِ حیات کو روشن کر سکتے ہیں۔ کروڑوں افرادِ انسانی نے اس سے روشنی لی، لاکھوں بزرگوں نے اپنے علم و فضل کے دیے اس کی لو سے جلائے۔ دنیا کے گوشے گوشے میں اس کا پیغام گونج رہا ہے اور دیس دیس کے تمدن پر گہرے اثرات اس کی دی ہوئی تعلیم کے پڑے ہیں۔ کوئی انسان نہیں جو اس انسانِ اعظم کا کسی نہ کسی پہلو سے زیرِ بارِ احسان نہ ہو، لیکن اس کے احسان مند اس کو جانتے نہیں، اس سے تعارف نہیں رکھتے۔

اس کی ہستی کے تعارف اور اس کے پیغام کے فروغ کی ذمہ داری اس کی قائم کردہ جماعت پر تھی، لیکن وہ جماعت خود ہی اس سے اور اس کے پیغام سے دور جا پڑی ہے۔ اس کے پاس کتابوں کے اوراق میں کیا کیا کچھ موجود نہیں، لیکن اس کی کھلی ہوئی کتابِ عمل کے اوراق پر انسانِ اعظم کی سیرت کی کوئی تصویر دکھائی نہیں دیتی۔ اس جماعت اور قوم کی مذہبیت، اس کی سیاست، اس کی معاشرت، اس کے اخلاق، اس کے قانونی نظام اور اس کے کلچر پر اس سیرت کے بہت ہی دھندلے نشانات باقی رہ گئے ہیں اور وہ بھی بے شمار نئے نئے نقوش میں خلط ملط ہو کر مسخ ہو رہے ہیں۔ اس جماعت یا قوم کا اجتماعی ماحول زمین کے کسی ایک چپے پر بھی یہ گواہی نہیں دیتا کہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دیے ہوئے اصولوں اور اس کی قائم کردہ روایات و اقدار کا آئینہ دار ہوں، بلکہ الٹا یہ جماعت اور یہ قوم دنیا کے مختلف فاسد نظاموں کے دروازوں پر بھیک مانگتی پھرتی ہے اور ہر قائم شدہ طاقت سے مرعوب ہو ہو کر اپنے سرمایہ افتخar پر شرمسار ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ اس نے قرآن کو غلافوں میں لپیٹ دیا اور انسانِ اعظم کی سیرت کا گلدستہ بنا کر طاقِ نسیان پر رکھ دیا۔

دوسرا غضب یہ ڈھایا کہ اپنے آپ کو ایک مذہبی و قومی جتھے میں بدل کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو محض اپنے قومی و مذہبی رہنما کی حیثیت دے دی اور اس بین الاقوامی ہستی کے پیغام اور نمونہ حیات کو گروہی اجارہ بنا لیا۔ حالانکہ آپ ساری انسانیت کے رہنما بن کر آئے تھے اور ساری انسانیت کے لیے پیغام اور نمونہ لائے تھے۔ ضرورت سیرت کو اس انداز سے پیش کرنے کی تھی کہ انسانیت کا یہ ایک نمونہ ہے کہ جس کے سانچے میں ڈھل کر انسان اپنے اور اپنے ابنائے نوع کی فلاح کا ذریعہ بن سکتا ہے اور مسائل کے گوناگوں خار زاروں سے نجات پاکر ایک پاکیزہ نظامِ زندگی حاصل کر سکتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام اور اسوہ درحقیقت سورج کی روشنی اور بارش کے پانی اور ہوا کے جھونکوں کی طرح کا فیضانِ عام تھا لیکن اسے ہم نے اپنی اپنی نااہلی سے گروہی خول میں بند کر دیا۔ آج افلاطون و سقراط، ڈارون، میکیاولی، مارکس، فرائڈ اور آئن سٹائن سے تو ہر ملک و مذہب کے لوگ تھوڑا یا بہت استفادہ کرتے نظر آتے ہیں اور ان میں سے کسی کے خلاف کسی گروہ میں اندھا تعصب کارفرما نہیں ہے لیکن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نورِ علم اور رہنمائی سے استفادہ کرنے میں بے شمار تعصبات حائل ہیں۔ لوگ یوں سوچتے ہیں کہ محمدؐ تو مسلمانوں کے ہیں اور مسلمان ہم سے الگ اور ہم مسلمانوں سے الگ ہیں لہٰذا مسلمانوں کے ہادی اور رہبر سے ہمارا کیا واسطہ! افسوس ہے کہ اس تاثر کے پیدا ہونے اور غیر معمولی حد تک جا پہنچنے میں ہمارے اپنے طرزِ عمل کا بہت بڑا حصہ ہے۔ یہ خود ہم ہیں کہ جنہوں نے محسنِ انسانیت کی نہایت غلط نمائندگی کی ہے۔

بنامِ مغرب

سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہستی تاریخِ انسانی کے دو بڑے ادوار کے درمیان واقع ہے۔ بعثتِ محمدی کے مقام سے کھڑے ہو کر دیکھیں تو ہمارے پیچھے قبائلی، جاگیردارانہ، بادشاہتی اور روایتی و اوہامی دورِ تمدن پھیلا دکھائی دیتا ہے، سامنے دیکھیں تو آفاقی و بین الاقوامی، عوامی و جمہوری، عقلی و استدلالی، ترقیاتی و ایجادی دورِ تمدن کی پہلی شعاعوں کا قافلہ دور کے افق سے امڈتا دکھائی دیتا ہے اور اس دورِ عقل و ترقی کا افتتاح خود سرتاجِ انسانیت ہی کے ہاتھوں کرایا گیا اور آنے والے دور کے لیے ایسے اصول دنیا کو فراہم کر دیے گئے جو قیامت تک کارگر ہو سکیں اور ان اصولوں کے ساتھ ایک ایسا انسان تیار کر کے دکھا دیا گیا جو آنے والی ذمہ داریوں کو اٹھانے کے قابل ہو سکے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے اسی آنے والے دور کی ضروریات کے لحاظ سے روح اور بدن، اخلاق اور مادیت، عقلیت اور جذبات، اعتقاد اور عمل، فرد اور جماعت کے احوال اور تقاضوں کے درمیان معجزانہ نوعیت کا توازن قائم کر دیا گیا۔ آپ کے ہاتھوں ایک ایسی جماعت کی تاسیس کرائی گئی جو ایک طرف دنیا سے بے نیاز تھی اور دوسری طرف دنیا پر حکمرانی کرتی تھی۔ ایک طرف خدا پرستی میں بے مثال تھی اور دوسری طرف مادہ پر کارفرمائی کرنے کے لحاظ سے پیش پیش تھی۔ ایک طرف حق کے مقابلے میں انتہائی عاجزی سے سر جھکا دینے والی تھی اور دوسری طرف باطل کا زور توڑنے کے لیے جان مال کی بازی لگا دینے والی تھی۔ ایک طرف اپنے آپ کو رضائے الٰہی کی تحویل میں دیے ہوئے تھی اور دوسری طرف فطرت کی قوتوں کو رام کر کے ان سے کام لینے میں چاق و چوبند تھی۔ یہ طاقت جونہی تاریخ کے ایوان میں داخل ہوئی اس نے علم و حکمت کے فانوس روشن کر دیئے۔ اس نے ایجادات کے دروازے کھول دیے اور اس نے ادارات کی تنظیم کے لیے نئے نئے تجربات نہایت تیزی سے کر ڈالے، اور اس کی ساری حرکت، اس کی ساری ترقیات، اس کے علوم اور ایجادات، اس کے تمدنی و تہذیبی کارناموں کا اصل کریڈٹ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حصے میں جاتا ہے۔

افسوس ہے کہ مغربی قومیں، جن کے قبضے میں آگے چل کر اس عقلی و جمہوری دور کی باگ ڈور آئی، محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے پیغام اور اس کے پیش کردہ نظام کو نہ سمجھ سکیں۔ وہ ہستی جس کا کارنامہ مغرب کی نشاۃِ ثانیہ کے پس منظر میں جگمگا رہا ہے اور وہ ہستی جو جمہوریت اور بین الاقوامیت کے پردوں کے پیچھے مسکرا رہی ہے اور وہ ہستی کہ جس کا ہاتھ مذہبی اصلاح (Reformation) کی تحریک کی ڈور ہلانے والا تھا، اس کو یورپ کا روشن دماغ انسان نہ دیکھ سکا اور نہ سمجھ سکا۔ اس کے کئی اسباب ہیں اور مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم یہاں اجمالاً ان اسباب کا ذکر کریں۔

  1. ہم عصر یہود و نصاریٰ کا رویہ: محمد صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنا پیغام لے کر اٹھے تو آپ کو یہودیوں اور عیسائیوں دونوں سے سابقہ پیش آیا۔ دونوں مذہب اس وقت فساد اور انحطاط کے افسوس ناک دور سے گزر رہے تھے۔ ایمانی و اخلاقی روح سے خالی ایک رسمیاتی ڈھانچہ شانِ تقدس کے ساتھ دونوں کے ہاں کھڑا تھا۔ دونوں گروہوں میں مذہبی طبقات پیدا ہو چکے تھے اور انہوں نے کاروباری ذہن کے ساتھ اپنے مفاد کی دکانیں کھول لی تھیں۔ فکر و عمل کی حقیقی متاع لٹ چکی تھی، صرف باہر چمکدار سائن بورڈ آویزاں تھے۔ سارا زور اپنی اپنی گروہ بندی کو قائم رکھنے اور اپنے اپنے آدمیوں کو اس کے دائرے میں روک رکھنے پر تھا۔ تہذیب کی اصلاح اور آدمیت کا بھلا کسی کے سامنے نہ رہا تھا۔ ان حالات میں یہ بحیثیتِ مجموعی یہودیوں اور عیسائیوں کی ذہنیت اتنی بگڑ چکی تھی کہ انہوں نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی قیمتی شخصیت کو جانچنے اور اس کے پیغام کو پرکھنے اور اس کے پیش کردہ نظام کا جائزہ لینے کے بجائے اس کے خلاف ضد اور تعصب اور حسد اور کینہ کے محاذ قائم کر لیے۔ اس کی دعوت کا مقابلہ کیا، اس کی تحریک کے راستے میں روڑے اٹکائے، اس کے ساتھ عہد شکنیاں اور غداریاں کیں، اس کی تعمیر کو ڈھا دینا چاہا، اور اس کے قتل کی تدبیریں کیں۔ پھر اپنے ان کرتوتوں کے فطری نتائج سے جھولیاں بھریں۔ اس طرح تاریخ کے بہتے پانی کو گندے جذبات اور گھٹیا خیالات سے گدلا کیا اور یہی گدلا پانی بہہ بہہ کر بعد کی نسلوں تک پہنچا۔ انہوں نے کینے اور تعصب کی ایک میراث پیدا کی اور وہ میراث بعد کے یہودیوں اور عیسائیوں کے لیے محفوظ چھوڑ گئے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم عصر یہودیوں اور عیسائیوں کا یہی فاسد جذباتی ردِ عمل آج تک ان کے اخلاف کے ذہنوں میں منعکس ہو رہا ہے۔

  2. رقابت اور صلیبی جنگیں: اسلام سے قبل کی انسانی دنیا کے اندر مذہبی دائرے میں بھی اور سیاسی میدان میں بھی عیسائیوں کو نمایاں غلبہ حاصل تھا اور پھیلاؤ کی امنگیں کام کرنے کے لیے بڑی وسیع جولانگاہ سامنے رکھتی تھیں لیکن اسلام کے ابھرنے سے گویا ان کی نگاہ میں ایک حریف طاقت آ ابھری اور آہستہ آہستہ نشوونما پا کر دنیا بھر میں ایک فیصلہ کن طاقت بن گئی۔ اس وجہ سے عیسائیت کے سینے میں رقیبانہ جذبات پیدا ہو کر بڑھتے ہی چلے گئے۔ پھر عملاً اسلام کی طاقت نے عیسائیت کے ہاتھوں سے تسلط و اقتدار کی باگیں کرہ ارضی کے مختلف حصوں میں چھین کر اس کے ردِ عمل کو اور زیادہ شدید بنا دیا۔ تاریخ کے میدان میں کھلے اور برابر سرابر کے مقابلے میں عیسائیوں نے اسپورٹس مین اسپرٹ دکھانے کے بجائے اپنے اندر ایک کڑ اور ایک چڑ پیدا کر لی۔ یہ کڑ اور چڑ بنیادی طور پر مسلمانوں کے خلاف تھی اور بالواسطہ طور پر اسلام اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی کھچاؤ بڑھتا گیا۔ یہ کھچاؤ صلیبی جنگوں کے دور میں اپنی آخری انتہا تک جا پہنچا۔ اس دور تک آتے آتے چونکہ خود مسلمانوں میں انحطاط اپنا عمل کر چکا تھا اس لیے ان کی خاص خاص کمزوریاں اور بے راہ رویاں اسلام اور سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ منسوب کی جانے لگیں اور مسلمانوں کے عمل و کردار کے رنگوں سے سیرتِ محمدی کی ایک غلط تصویر تیار کی جانے لگی۔

  3. پادری طبقے کا پروپیگنڈا: اسلام اور عیسائیت کے اس طویل دورِ کشمکش کے ابتدائی حصے میں پادری گروہ چونکہ اپنے عیسائی عوام کو ذہنی لحاظ سے کامل طور پر اپنے تصرف میں لیے ہوئے تھا اور اسلام اسی گروہ کے طبقاتی مفاد پر ضرب لگانے کا موجب بنا تھا، اس لیے اس گروہ نے محسنِ انسانیت اور ان کے پیغام کا ایک جھوٹا تصور گھڑا اور گھڑ گھڑ کر اسے گلی گلی پھیلایا۔ قرنوں کے اس پروپیگنڈے نے مغرب کے ذہن کو بالکل مسخ کر کے رکھ دیا چنانچہ آج بھی سرے سے مذہب کا انکار کرنے والے اور عیسائیت سے آزاد ہو کر سوچنے والے اربابِ عقل تک جب اسلام اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اظہارِ رائے کرتے ہیں تو وہ آج سے چھ صدی قبل کے تنگ دل اور تاریک خیال پادریوں سے ذہنی سطح میں کچھ بھی بلند نہیں ہوتے۔ چنانچہ اٹھا کے دیکھ لیجئے مستشرقین کی کتابوں کو کہ کتنی غلط اور ناقص معلومات کس قدر مفسدانہ طریق سے مرتب کر کے لائی گئی ہیں اور دنیا کے سب سے بڑے انسان کی تصویر کس نامعقولیت سے کھینچی گئی ہے۔ کوئی ایک آدھ استثنائی مثال مل جانا اور چیز ہے، یہاں تو اُس عمومی انداز کا ذکر ہے جو اہل مغرب کے ہاں پایا جاتا ہے۔

  4. مغربی امپیریلزم: گزشتہ دو صدی کا عہد مغربی امپیریلزم کا شیطانی عہد ہے۔ اس عہد میں مسلمان قومیں اسلام سے انحراف، خدا سے بغاوت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اصولوں سے گریز کی سزا پانے کے لیے ایک ایک کر کے مادہ پرست مغرب کے شہنشاہی عزائم کا شکار ہونے لگیں۔ مغرب کے شہنشاہی عزائم کو مسلمانوں کے اندر ہر جگہ ایک سخت درجے کی مزاحم روح کارفرما ملی اور یہ روح ہر جگہ دینی و مذہبی روح تھی۔ اسلام نے توحید کا جو تصور دیا ہے وہ حریت و آزادی اور مساوات کے ایسے تصورات ابھارتا ہے کہ جو اسلام کے ماننے والوں کو غلامی پر رضامند نہیں ہونے دیتے۔ چنانچہ مسلمانوں کے اندر مغربی امپیریلزم کے خلاف جتنی بھی تحریکیں برپا ہوتی رہیں ان کے اندر اسلام کی حرارت کام کر رہی تھی۔ ہر جگہ دینی شخصیتیں رہنمائی کرتی نظر آتی ہیں اور ہر جگہ نظامِ اسلامی کے احیاء کے ولولے کارفرما رہے ہیں۔ اسی طرح مسلمان ممالک کی تمام تحریکاتِ آزادی میں دینی داعیہ پورے زور سے برسرِ عمل ملتا ہے۔ چنانچہ مغرب کے شہنشاہی صیادوں میں اس قوت کے خلاف از سرِ نو ایک چڑ پیدا ہوئی جو قدم قدم پر ان کا راستہ روکتی تھی اور بار بار ناقابلِ تسخیر ولولے ابھارتی تھی۔ چنانچہ اس چڑ کی وجہ سے مسلمانوں کی مذہبیت کو جنونی پن سے تعبیر کیا گیا اور "ملا ازم" کو ایک خوفناک ہوا بنا کر پیش کیا گیا۔ اور اب "فنڈامینٹلسٹ" کی جدید اصطلاح دریافت ہوئی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ مسلمانوں کی روحِ دینی کچھ ایسی سخت جان پائی گئی کہ جو آسانی سے مغربی فکر اور کلچر کے سامنے شکست کھانے والی نہیں تھی بلکہ جس نے ہر ہر دیس میں اس کا مقابلہ کیا ہے۔ تعلیم، لٹریچر اور اثر اندازی کی پوری قوتیں صرف کر کے مغربی امپیریلزم نے برسوں میں جا کر مسلمان قوموں کے اندر سے اپنے حق میں ایک معمولی سی اقلیت حاصل کی، اور اسے سہارا دے کر اقتدار تک پہنچایا اور پھر اسے مسلمانوں کے اسلامی رجحانات کے خلاف فکری، سیاسی اور تہذیبی معرکے میں خوب خوب استعمال کیا۔ ان حالات میں اسلام اور اسے پیش کرنے والی ہستی سے مغرب کا کھچاؤ بڑھتا ہی گیا۔

  5. مسلمانوں کی پستی اور مرعوبیت: مغربی قومیں جب مسلمانوں کو غلام بنانے میں کامیاب ہو گئیں تو ان کے لیے یہ مشکل ہو گیا کہ جو طاقت سیاسی و مادی اور تنظیمی و تہذیبی لحاظ سے ان سے پست ہے وہ اس سے نظریہ زندگی اور نظامِ حیات کا درس لے سکیں، اور اسے برپا کرنے والی ہستی کا احترام کر سکیں۔ پھر جب مسلمانوں کو انہوں نے اپنی ذہنی تقلید میں مبتلا دیکھا اور ان پر مرعوبیت کی کیفیت کی پرچھائیں پڑی دیکھی تو اس چیز نے اور بڑی رکاوٹ پیدا کر دی۔ انہوں نے جب اپنے تیار کردہ "روشن خیال" مسلمانوں کے ہاتھوں اسلام کو مغربی نقطہ نگاہ کے مطابق ڈھلتے دیکھا تو اسلام اور اس کے داعی کی وقعت ان کی نگاہوں میں اور کم ہو گئی۔ مسلمانوں کے معذرت خواہانہ نقطہ نظر نے اسلام کے وقار اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کو بڑا نقصان پہنچایا۔

ایک غلط تصویر

ان سارے وجوہ و اسباب کے تحت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور مغرب کے انسان کے درمیان آہنی دیواریں کھڑی ہو گئیں۔

آج مغرب محسنِ انسانیت کو محض مسلمانوں کے گروہی رہنما کی حیثیت سے لیتا ہے اور سمجھنے سمجھانے کے نقطہ نگاہ کے بجائے معترضانہ اور مناظرانہ ذہن کے ساتھ سیرت کا مطالعہ کرتا ہے۔ چنانچہ مغرب نے اس بلند مرتبہ ہستی کی جو تصویر اپنے لٹریچر میں تیار کی ہے، وہ ایک ایسے آدمی کا نقشہ سامنے لاتی ہے جو نفسیاتی صحت و توازن سے محروم ہے، جس کی ساری تگ و دو لاشعوری محرکات کے ردِ عمل سے پیدا شدہ خبط کا نتیجہ ہے۔ وہ تیغِ خونخوار ہاتھ میں لیے جدھر بڑھتا ہے قتلِ عام کرتا چلا جاتا ہے۔ اس پیکرِ رحمت کو ایک دنیا طلب اور جاہ پسند جنگجو کا مرتبہ دے دیا گیا ہے۔ اور اس کے مخلصانہ کام کو ایک فراڈ بنا دیا گیا ہے۔ یہ دکھایا گیا ہے کہ تحریکِ اسلامی میں جو جو کچھ اچھے پہلو تھے وہ عیسائیوں اور یہودیوں سے مستعار لیے گئے تھے، ورنہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اندر اپنا کوئی جوہرِ قابل نہ تھا۔ یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ روحانیت و مذہبیت کا سارا رنگ تو محض نمائشی تھا، درحقیقت ڈرامائی تدابیر سے تسخیرِ عوام کر کے اپنی مطلب براری کی گئی تھی۔ آپ جیسے بھی چاہیں دنیا پرست اور حیلہ ساز آدمی کہہ سکتے ہیں، مگر سوال یہ ہو گا کہ ایسی شخصیت کے اندر اس طرح کا اعلیٰ اور بے داغ کردار کسی طرح کھپایا جا سکتا ہے، جس کا تجربہ ہمیں سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی میں ہوتا ہے۔

پھر ظلم یہ ڈھایا جاتا ہے کہ اس صاحبِ دعوت ہستی کے پیش کردہ پیغام کا مطالعہ جڑ سے شروع کر کے ٹہنیوں اور برگ و بار تک نہیں پہنچایا جاتا بلکہ اساسی نظریہ کو سمجھے بغیر اور فکر کی جڑ کی ماہیت متعین کیے بغیر مناظرہ باز پادریوں کے نہج پر پڑ کر جزئیاتی مسائل کی چند کونپلوں کو لے لیا جاتا ہے۔ مثلاً یہ کہ داعی اسلام نے تعددِ ازدواج کو جائز رکھا، مذہب کے لیے تلوار اٹھائی، جنگی قیدیوں کو غلام بنانا جائز قرار دیا اور فلاں موقع پر یوں کیا اور فلاں معاملے میں یوں کیا۔ یہ طریقِ مطالعہ ہمیشہ متعصب اور مخالفانہ ذہن کی ترجمانی کرتا ہے اور اس کے ذریعے کسی نظامِ زندگی کو اور کسی دین کو سمجھا نہیں جا سکتا، بلکہ اس کے ذریعے تو بات کو سمجھنے کے دروازے بند ہو جاتے ہیں۔ دیکھنے، جاننے اور سمجھنے کی اصل چیز نظریہ اساسی ہے کہ وہ کہاں تک برحق ہے اور اس سے زندگی کی بگڑی کہاں تک بنتی ہے۔ پھر اس نظریہ سے ماخوذ ہونے والے اصول دیکھے جاتے ہیں کہ جن پر زندگی کے مختلف شعبے استوار ہوتے ہیں۔ پھر ان اصولوں کے فریم میں جزئیات کی ترتیب دیکھی جاتی ہے کہ وہ ٹھیک ٹھیک قائم ہوتی ہے کہ نہیں۔ ایک شخص آپ کے سامنے زندگی کا ایک فلسفہ لے کے آتا ہے، آپ اس فلسفہ پر غور کرنے کے بجائے چند ایسے جزئی مسائل چھیڑ دیتے ہیں جن کے بارے میں آپ کے معاشرہ کا ایک خاص ذہن بنا بنایا چلا آتا ہے اور اس ذہن سے باہر نکل کر آپ سوچ نہیں سکتے، نتیجہ یہ کہ خود مغالطوں میں پڑتے ہیں اور ہزارہا لوگوں کو تعصب میں مبتلا کرتے ہیں۔ ایک شخص انسانیت کا ایک مکمل نیا نقشہ اپنی ذات میں بنا کر سامنے لاتا ہے، آپ اس نقشے کو مجموعی طور پر سمجھنے سے قبل اس کی دو ایک لکیروں اور نشانوں کو پکڑ کر بحث شروع کر دیتے ہیں کہ یہ لکیریں اور یہ نشان یوں کیوں لگائے گئے ہیں۔ حالانکہ اگر نقشے کی مجموعی ترتیب کو ڈھنگ سے سمجھا گیا ہوتا تو ان لکیروں اور نشانوں کی ماہیت بھی از خود سمجھ میں آجاتی۔

مغرب نظریات اور نظاموں کو سمجھنے کے لیے اور تاریخی شخصیتوں کا جائزہ لینے کے لیے جو انتہائی سائنٹیفک انداز بالعموم استعمال میں لاتا ہے، وہی اسلام اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا مطالعہ کرتے وقت بالکل بالائے طاق رکھ دیا جاتا ہے۔ ایک باغ پر رائے قائم کرنے کے لیے اس کو مجموعی حیثیت سے سامنے رکھنا ہوتا ہے، نہ کہ اس کے اندر کی گھاس کی دو ایک پتیوں اور کسی پودے کی کونپلوں کو سارے باغ سے الگ کر کے زیرِ مطالعہ لایا جاتا ہو۔ آپ سیرتِ محمدی اور پیغامِ محمدی کے پورے چمن کو دیکھیں، اور اس کی مجموعی ترتیب کو سمجھیں، پھر آپ کو اس کے اندر ایک ایک شاخ اور ایک ایک پتی کا مقام خود ہی سمجھ آجائے گا۔ اگر کسی نظام یا نظریے یا تحریک یا قائدانہ شخصیت میں چند چیزیں آپ کے ذوق اور آپ کی پسندیدہ روایات اور عادات کے خلاف ہوں تو اس کے معنی یہ نہیں ہو سکتے کہ بس وہاں کوئی قابلِ قدر چیز ہے ہی نہیں، اور وہ پورا مجموعہ مسترد کر دینے کے قابل ہے۔ آپ کا ذوق اور آپ کی پسند کوئی عالمی و تاریخی معیار نہیں ہے۔ ممکن ہے بلکہ لازم ہے کہ ایک نظریہ، نظام، تحریک اور قائدانہ شخصیت اپنا معیارِ خیر و شر اپنے ساتھ لائے اور سرے سے اس کے بھلے برے کے پیمانے ہی آپ سے الگ ہوں، لہٰذا سب سے پہلے تو معیار اور پیمانوں کو بالمقابل رکھ کر جانچنا چاہیے، اور معیار اور پیمانوں کو جانچنے سے قبل اساسی نظریہ کی قدر و قیمت مشخص ہونی چاہیے۔

قرآن، اسلام اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں جو لٹریچر اربابِ کلیسا اور مستشرق مؤرخین نے اب تک پیدا کیا ہے وہ ایک طرف غلط فہمیوں اور جہالتوں سے بھرا پڑا ہے، اور دوسری طرف معاندانہ تعصب کا زہر اس کی رگ رگ میں پھیلا ہوا ہے۔ بلکہ حد یہ ہے کہ جن لوگوں نے وسیع القلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اعترافِ حقیقت کیا بھی ہے بلکہ اس سے بڑھ کر تعریفی انداز تک اختیار کیا ہے، انہوں نے بھی ایسے ایسے میٹھے ڈنک سحر آگیں الفاظ کے پردوں میں رکھ دیے ہیں کہ آدمی فریبِ نگارش کے اس انداز کی داد دیتا رہ جاتا ہے۔ دو چار درخشاں مثالیں ایسی ضرور ملتی ہیں کہ جنہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام اور کارنامے کو کسی قدر بہتر انداز میں بیان کیا ہے مگر خود انہیں مغرب کے دل و دماغ نے کچھ زیادہ قدر و قیمت نہیں دی۔ مثلاً حال ہی میں ایک کتاب ذرا بہتر انداز کے ساتھ آئی ہے تو اسے "در مدح مسلمین" (Pro-Mohammaden) قرار دے کر اس کی وقعت گھٹائی جا رہی ہے۔ حیرت اس پر ہے کہ مسلمان مملکتوں سے آج مغرب کی ڈپلومیٹک اغراض وابستہ ہو رہی ہیں، ان کے تحت ان اقوام کی تالیفِ قلب کے لیے جانے کیا کیا تدابیر اختیار کی جا رہی ہیں، لیکن کہیں بھی اس ظلم کی تلافی کی فکر نہیں کی گئی جو سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اب تک روا رکھا گیا ہے۔

تقاضا یہ نہیں کہ آپ ضمیر کی آواز کے خلاف محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نظریہ و نظام کی صداقت کی گواہی دیں! نہیں، آپ اختلاف کریں اور پورے زور سے کریں۔ تقاضا اس بات کا ہے کہ آپ تاریخ نویسی اور سوانح نگاری کے اپنے ہی بنائے ہوئے، اپنے ہی تسلیم کردہ اصولوں اور معیارات کو توڑ موڑ کر حقائق کو مسخ نہ کریں۔ تقاضا اس بات کا ہے کہ آپ ایسے مآخذ سے روایات نہ لیں جو مسلمانوں کی نگاہ میں بالاتفاق ناقابلِ استناد ہیں اور جنہیں تاریخی تحقیق کے مسلمہ معیارات قبول نہیں کر سکتے۔ تقاضا اس بات کا ہے کہ آپ ایک واقعہ کے اچھے محرکات کو ہٹا کر ان کی جگہ دانستہ مکروہ محرکات لا لا کر نہ رکھیں، تقاضا اس بات کا ہے کہ آپ دلائل سے بات کہیں، طنز و تعریض اور توہین و تذلیل کا غیر شریفانہ ڈھب اختیار نہ کریں۔

نقطۂ اشتراک

اس گفتگو سے ہمارا مدعا ایک ناخوشگوار جذباتی فضا پیدا کرنا نہیں بلکہ اب تک جو فضا موجود رہی ہے، ہم چاہتے ہیں کہ اسے ختم کیا جائے۔ اس مقصد کے لیے شرطِ اول یہ ہے کہ مغرب اسلام، قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق اپنے نقطہ نظر کو صاف کر لے۔ ایک نئے ذہن کو بروئے کار لانے کی ضرورت ہے اور وہ نیا ذہن اس "کلمہ سواء" یا نقطہ اشتراک کو سمجھنے سے پیدا ہو سکتا ہے جو اہل مغرب اور مسلمانوں کے درمیان واقع ہے۔ ہمارا کلمہ سواء ذیل کے مشترک نکات سے بنتا ہے:

  • مذہبی اشتراک: عیسائی، یہودی اور مسلمان تینوں خدا پرست گروہ ہیں، تینوں کے ہاں آخرت کا تصور موجود ہے، تینوں کی عبادات کا طرز ملتا ہے، تینوں کے نزدیک بنیادی اخلاقی اقدار یکساں ہیں، تینوں کی مذہبی تعلیمات ایک ہی الہامی سرچشمہ سے ماخوذ ہیں اور مسلمان جملہ انبیاء کو ایک ہی عظیم صداقت اور ایک ہی دین کے علمبردار مانتے ہیں۔

  • تمدنی اشتراک: تمدنی حیثیت سے دیکھیں تو اہل مغرب اور مسلمانوں کے درمیان ذیل کے نقطہ ہائے اتحاد موجود ہیں:

    • مغربی تمدن نے علم اور سائنس کی ترقی کی جو راہیں کھولی ہیں، مسلمانوں کا خالص دینی نقطہ نظر ان ترقیوں کا قدر شناس ہے اور اسلامی نظریات روحانیت کے ساتھ ساتھ اپنے تمدن میں اس مادیت کو جگہ (تھوڑی سی حدود کے ساتھ) دے سکتا ہے جس میں مغرب نے عروج حاصل کیا ہے۔ دوسرے مذاہب کے مقابلے میں اسلام دین اور نظام ہونے کی وجہ سے زیادہ وسعتِ ظرف رکھتا ہے۔

    • جمہوریت کے جن اصولوں کے ساتھ مغربی تمدن نے سیاسی ہیئتیں استوار کی ہیں، پیروانِ اسلام کی فکر میں وہ پہلے سے شامل ہیں، بلکہ ان کا مکمل ترین مظاہرہ کرنے میں اسلامی تمدن ہی نے سبقت کی ہے۔ نمائندگی و انتخاب، شورائیت، قانون کی عمل داری، شہری حقوق اور ان میں مساوات کے سارے تصورات کو مسلمانوں نے مغرب سے پہلے جامہ عمل پہنایا ہے اگرچہ وقت کے تمدنی و معاشرتی ماحول کی مطابقت میں!²

  • عالمی بحران کا حل: عالمی کھچاؤ اور بحران کو پیشِ نظر رکھیے تو اس کا حل تلاش کرنے میں بھی دو وجوہ سے مسلمانوں ہی کا تعاون مغرب کے اصلاح پسندوں کے لیے زیادہ قیمتی ہو سکتا ہے۔

    • اگر مغرب سنجیدگی و اخلاص سے سوچے تو امنِ عالم کے مسئلے میں جتنا تعاون مسلمان بہم پہنچا سکتے ہیں اتنا اور کسی عنصر سے حاصل نہیں ہو سکتا۔ یہی گروہ اعتقاداً اتنی محبتِ انسانیت رکھتا ہے اور جہانی وحدت کے لیے ایسی اصولی بنیادیں رکھتا ہے کہ اگر اسے پوری طرح کام کرنے کا موقع ملے تو بین الانسانی تصادموں کا انسداد ہو سکتا ہے۔ مستقبل کے عالمی نظام کی تعمیر کے لیے اصول و اقدار کا مسالہ اسلام سے وافر حد تک مل سکتا ہے۔

    • مادیت کی دو انتہا پسندانہ اشکال یعنی سرمایہ پرستی اور کمیونزم ۔۔۔۔ دونوں کا مقابلہ کرنے اور ایک درمیانی راہِ عدل پر انسانیت کو لانے کے کام میں اسلام اور اس کے پیروؤں ہی سے کچھ زیادہ امیدیں وابستہ کی جاسکتی ہیں۔

² بریفو اور لی بان اور بعض دوسرے مصنفین کی شہادتیں موجود ہیں کہ جمہوریت کی روح مسلمانوں ہی سے منتقل ہو کر مغرب تک پہنچی۔

غور و فکر کے لیے یہ مشترک نکات سامنے رکھ کر ہم کہتے ہیں کہ کیوں نہ اہل مغرب اب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اپنا نقطہ نظر بدلیں؟ کیوں نہ وہ پادریوں اور مستشرقین کے حائل کردہ پردہ ہائے تعصبات کو پارہ پارہ کر دیں؟ آج جب کہ مادی نظریہ کا تجربہ دل کھول کر کیا جا چکا ہے اور اب اس تجربہ کو اسی ڈھب سے آگے جاری نہیں رکھا جا سکتا، پھر یہ شاخسارِ حکمت اب نئی کونپلیں بھی نہیں چھوڑ رہا ہے جن کو مرکزِ امید بنا کر کچھ اور وقت گزارا جا سکے۔ دوسری طرف جو مذاہب موجود ہیں ان میں سے ہر ایک فرد کی زندگی کے ایک گوشے میں سکڑ کر رہنا پسند کرتا ہے، مگر آگے بڑھ کر زمامِ تمدن ہاتھ میں لینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ گویا ہم نظریاتی لحاظ سے ساری پونجی ختم کر کے بالکل دیوالیہ ہوئے کھڑے ہیں۔ لے دے کے ایک مرکزِ توجہ باقی ہے جہاں سے شعاعِ امید پھوٹتی ہے۔ اس کے لیے بھی اگر دلوں کے دروازے بند کر لیے جائیں تو آخر مریخ سے تو کوئی رہنمائی درآمد نہیں کی جاسکتی۔

وقت ہے کہ آپ لوگ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک تاریخ ساز، ایک محسنِ انسانیت، ایک قائدِ تمدن اور ایک انسانِ اعظم کی حیثیت سے جانیں۔ جو روشنی وہاں سے ملتی ہے اس کے لیے دل و دماغ کے دریچے کھول دیں۔ یہ ہستی مستحق ہے کہ اسے آپ سائنٹیفک طریق سے سمجھنے کی کوشش کریں۔ چاہیے یہ کہ آپ اسلام کو عیسائیت کے ایک حریف مذہب کی حیثیت سے نہ لیں، بلکہ جمہوریت، اشتراکیت اور دوسری اصولی تحریکوں کی طرح کی ایک تحریک اور زندگی کے ایک تہذیبی نظام کی حیثیت سے لیں، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اس تحریک کے قائد اور خدائی ہدایت کے تحت اس نظام کے مؤسس کی حیثیت سے دیکھیں جنہوں نے ایک عظیم اور روشن دورِ تاریخ کا افتتاح کیا۔ اس ہستی کے پیش کردہ اصولوں کو آپ اس لحاظ سے جانچیں کہ وہ ایک جہانی ریاست چلانے کے لیے آج کہاں تک مفید اور ناگزیر ہیں۔ اس کے تیار کردہ نمونہ انسانیت کا مطالعہ اس مقصد سے کریں کہ یہ نمونہ جوہری تہذیب کا کل پرزہ بننے کے لیے کس حد تک موزوں ہے۔

آج جب کہ گھٹا ٹوپ اندھیرا ہمارے سامنے ہے اور دور دور تک کوئی شرر بھی چمکتا دکھائی نہیں دیتا، پیچھے پلٹ کر نظر ڈالتے ہیں تو محسنِ انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں میں ایک مشعل جھلملاتی دکھائی دیتی ہے جو گزشتہ چودہ صدیوں سے آندھیوں اور طوفانوں کے درمیان ایک ہی شان سے جل رہی ہے۔ کیا محض خود پیدا کردہ تعصبات اور غلط فہمیوں کی بنا پر اس مشعل کی روشنی کو قبول کرنے سے انکار کر دینا اور اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ لینا کوئی اچھا نتیجہ دے سکے گا؟ کیا انسانیت و تہذیب کو اس اندھیرے میں تباہ و برباد ہونے کے لیے چھوڑ دیا جائے؟ حالات آپ کے سامنے کتنا خوف ناک چیلنج لیے کھڑے ہیں، آیا آپ میں اس کا جواب دینے کی سکت موجود ہے؟

لیکن حق یہ ہے کہ اصل مجرم ہم خود ہیں، اور ہم ہی محسنِ انسانیت کی شخصیت، پیغام اور کارنامے کو دنیا سے بھی اوجھل رکھنے والے ہیں اور اپنی نگاہوں سے بھی چھپانے والے۔ آج محسنِ انسانیت کی ہستی کا از سرِ نو تعارف کرانے کی ضرورت ہے اور یہ خدمت شاید جوہری توانائی کے انکشاف سے زیادہ بڑی خدمت ہو گی!

یہ کتاب

سیرتِ پاک پر اعلیٰ درجہ کی علمی و تحقیقی کتابوں کے موجود ہوتے ہوئے میں نے اس کٹھن وادی میں اپنی بے بضاعتی کے باوجود اس جذبے سے قدم رکھنے کی جسارت کی ہے کہ محسنِ انسانیت کی ہستی اس حیثیت سے ایک بار پھر بے نقاب ہو جائے کہ وہی زندگی کے شعور کا واحد سرچشمہ ہے۔ سیرت نگاری کے نہایت ہی قابلِ احترام شاہکار جو ہمارے سامنے موجود ہیں، ان میں پورا واقعاتی مواد ضرور موجود ہے لیکن قاری کہیں تو روایات کے اختلاف اور تحقیقی بحثوں میں کھو جاتا ہے، کہیں واقعات کے ربط و تسلسل کا سررشتہ اس کے ہاتھ سے چھوٹ جاتا ہے، کہیں اس کے سامنے جزئیات آتے ہیں کہ جن کی واضح معنویت اور قابلِ اطمینان توجیہہ اس کے ہاتھ نہیں آتی، کہیں علمی نکات اور تحقیقی مواد اور حوالوں کی کثرت اسے مرعوب کر دیتی ہے، لیکن دفتروں کے دفتر بھی وہ اگر پڑھ جاتا ہے تو اس کے باوجود وہ ایک تحریک کو اپنے سامنے موجزن نہیں دیکھتا۔ وہ کشمکش کے اس منظر کو دیکھ نہیں پاتا جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت سے برپا ہوئی۔ وہ اپنے آپ کو اس دور میں نہیں پاتا جس کی روحِ رواں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہستی تھی۔ وہ مطالعہ کی وادیوں سے یہ احساس لے کے نہیں پلٹتا کہ میں بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تحریک کا ایک موجہ بیتاب ہوں اور اپنے ماحول کی تیرگیوں کے خلاف جدوجہد کرنے کا فرض مجھ پر بھی عائد ہوتا ہے۔ مجھے بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کلمہ حق کی مشعل کو فضاؤں میں بلند رکھنا ہے، اور اس کی روشنی کو اتنا فروغ دینا ہے کہ تمدن کی دنیاؤں میں ایک صبحِ عالم تاب جلوہ فرما ہو جائے۔

یہی ایک پہلو ایسا ہے جس کی کمی کو پورا کرنے کے لیے یہ ناچیز سی تصنیفی کوشش کی گئی ہے۔

مطالعہ تاریخ کے لیے میں نے قرآنی زاویہ نگاہ اختیار کیا ہے۔ میرے نزدیک ہر چہار جانب پھیلی ہوئی دنیا حرکت اور گردش کی دنیا ہے، تغیر اور تنوع کی دنیا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ مسابقت اور کشمکش اور جہاد اور معرکے کی دنیا ہے۔ اس میں کشش بھی کام کرتی ہے، مزاحمت بھی! اس میں عمل بھی پایا جاتا ہے، ردِ عمل بھی! اس میں تخریب بھی ہے، تعمیر بھی! اس میں روشنی اور ظلمت ایک دوسرے کے درپے ہیں! اس میں رات اور دن ایک دوسرے کا تعاقب کر رہے ہیں! اس میں موت اور زندگی دست بہ گریباں ہیں! اس میں آگ اور پانی باہم دگر آویزاں ہیں! اس میں خزاں اور بہار ایک دوسرے کی گھات میں بیٹھے ہیں! غرضیکہ اس دنیا کے کسی بھی عالم اور کسی بھی گوشے پر نظر ڈالیے اضداد کے جوڑے ایک دوسرے کے آمنے سامنے آکر مصروفِ جہاد دکھائی دیتے ہیں۔

اس کائنات کے ایک حقیر سے مکانی گوشے میں انسانی زندگی کی سب سے زیادہ پر ہنگامہ بزم گاہ واقع ہے۔ ہمارا نظامِ تمدن و معاشرت ایک طوفانی سمندر ہے جس میں موجوں سے موجیں، حبابوں سے حباب اور قطروں سے قطرے ہر ہر آن ٹکرا رہے ہیں۔ یہاں حق اور باطل، خیر اور شر، سچ اور جھوٹ، انصاف اور ظلم اور نیکی اور گناہ کے درمیان از آدم تا ایں دم ایک لمبا معرکہ لڑا جا رہا ہے۔ اس معرکہ کی باگ ڈور انسانی روح و نفس کے ہاتھ میں ہے جس کے سرچشموں سے گوناں گوں خیال اور عقیدے اور نظریے پے بہ پے اٹھ رہے ہیں، متنوع کردار نمودار ہو رہے ہیں اور متضاد فطرت کے اجتماعی نظام ظہور کر رہے ہیں۔ ہر خیال، عقیدہ، نظریہ، کردار اور نظام اپنی ضد ایک ہمزاد کی طرح ساتھ لے کر پیدا ہوتا ہے اور ہر طاقت جو ابھرتی ہے اپنی حزبِ اختلاف کو جلو میں لے کے آتی ہے۔ اس اختلاف و تضاد سے وہ ہمہ جہتی اور ہمہ گیر تصادم پیدا ہوتے ہیں جنہوں نے ہماری ساری تاریخ کو ایک داستانِ جہاد بنایا ہے اور آج یہ داستانِ جہاد ہمارے اپنے ہی خون کی روشنائی سے باب در باب اور فصل در فصل لکھی ہوئی ہمارے سامنے موجود ہے۔

تمدنِ انسانی کی باہم ترکیب یافتہ دنیاؤں میں جو ہر آنی اور ہر جہتی جہاد کہیں دلائل اور کہیں تلواروں سے لڑا جا رہا ہے، اس میں انسان کے دو ہی پارٹ رہے ہیں۔ ایک طرف سے وہ شر و فساد کا علمبردار بن کے اٹھتا ہے۔ دوسری طرف سے وہ خیر و فلاح کا داعی بن کر میدان میں اترتا ہے۔ کبھی وہ تخریب اور بگاڑ کی قوتوں کا سرگرم آلہ کار بنتا ہے، کبھی تعمیر اور بناؤ کے داعیات پر لبیک کہتا ہوا سامنے آتا ہے۔ انسانیت کے کچھ شیطانی پیکر وہ ہیں جو زندگی کو دکھوں اور مصیبتوں سے بھر دینے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور صرف کر دیتے ہیں، دوسری طرف کچھ پیکر وہ بھی ہوتے ہیں جو امن و مسرت کی ایک ارضی جنت تعمیر کر دینے کے لیے اپنا سارا سرمایہ حیات کھپا دیتے ہیں۔ معرکہ حیات کے کچھ جانباز وہ ہوتے ہیں جن کے ہاتھوں بدی، جھوٹ اور ظلم کا ہر طرف دور دورہ ہو جاتا ہے اور جہادِ ہستی کے کچھ وہ سپاہی ہوتے ہیں جو نیکی اور سچائی اور انصاف کا سکہ چلا کے دنیا سے رخصت ہوتے ہیں۔

یہی نیکی اور سچائی اور انصاف کے سپاہی ہیں کہ جنہوں نے زندگی کو وہ کچھ دیا ہے جس کے ہوتے ہوئے یہ بسر کیے جانے کے کچھ قابل ہوئی ہے۔ تمدن میں آج جو جو پہلو بھی کسی قدر و قیمت سے مالا مال دکھائی دیتے ہیں وہ انہی مایہ ناز ہستیوں کا فیضان ہے۔ انہوں نے انسان کے سامنے نمونہ کی زندگی پیش کی ہے، انہوں نے تمدن و معاشرت کا ایک معیار اور آئیڈیل ہمارے سامنے رکھا ہے، انہوں نے ہمیں زریں اصول اور مقاصد دیے ہیں، انہوں نے تاریخ کی رگوں میں زندہ و پائیدار روایات کا خون دوڑا دیا ہے، انہوں نے اخلاقی اقدار کے تارے آسمانِ تہذیب پر جگمگا دیے ہیں، انہوں نے آدمی کو حوصلے اور ارمان اور امیدیں اور ولولے دیے ہیں، انہوں نے اصول و مقاصد کے لیے قربانی اور جدوجہد کا درس دیا ہے۔ یہ ہستیاں ہیں کہ جن کے روشن کارناموں کے طفیل تاریخ اس قابل ہوئی کہ اس کا ریکارڈ محفوظ رکھا جائے اور اس سے قیامت تک نوعِ انسانی نت نئی روحِ عمل اخذ کرتی رہے۔

پھر جب کبھی بدی اور جھوٹ اور ظلم کی طاقتوں نے ایک سنگین نظام اور ایک آہنی ماحول بن کر زندگی کو خوب اچھی طرح گھیر اور بھینچ لیا ہے اور آدمی ہمت ہار کر مایوسی کے گڑھوں میں جا گرا ہے تو ایسے موقعوں پر تاریخ کے یہی ہیرو نوعِ انسانی کے کام آئے ہیں اور انہوں نے سوتوں کو جگایا، گرتوں کو اٹھایا، بزدلوں کو شجاعت کا آبِ حیات پلایا اور ہتھیار ڈال دینے والوں کو از سرِ نو میدانِ کارزار کی اگلی صفوں میں کھڑا کر کے شر و فساد کی قوتوں سے لڑایا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ان مایہ ناز ہستیوں نے تاریخ کے جمود کو توڑا ہے، تمدن کے یخ بستہ سمندر میں پھر حرکت پیدا کی ہے، فکر و عمل کی رکی ہوئی ندیوں کو نئے سرے سے بہاؤ دیا ہے، اور تغیر کی رو اٹھا کر سنگین نظام اور آہنی ماحول کو الٹ کر رکھ دیا ہے، یہاں تک کہ کاروانِ انسانیت اپنے ارتقا کے صراطِ مستقیم پر بے روک ٹوک رواں دواں ہو گیا!

خیر و فلاح، تعمیر اور بناؤ کی مہم میں حصہ لینے والوں کی صفوں کا جب بھی جائزہ لیا جائے، ان میں خدا کے انبیاء و رسل کی صفِ اول ہی اپنی امتیازی شان کی وجہ سے ہم سے بیش از بیش خراجِ عقیدت حاصل کرتی ہے۔ باقی جتنی بھی صفیں صدیقین، شہداء اور صالحین کی آراستہ نظر آتی ہیں وہ سب کے سب اس صفِ اول کے کارناموں کی خوشہ چین اور اس کی کمانڈ میں کام کرنے والی ہیں اور انبیاء و رسل کی صفِ مقدس میں نگاہ بے اختیار جس ہستی پر سب سے پہلے جا کر ٹھہرتی ہے وہ سیدنا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ مبارک ہے! یہ ہے تاریخ کا سب سے بڑا محسنِ انسانیت! اس ہستی کو جس پہلو سے دیکھئے اس کی گوناگوں عظمتیں درخشاں نظر آتی ہیں اور ان عظمتوں کی قصیدہ خوانی کرتے کرتے گزشتہ چودہ صدیوں میں نہ جانے نسلاً بعد نسل کتنے عقیدت مندانِ رسالت دنیا سے رخصت ہو گئے، مگر حق یہ ہے کہ حق ادا نہ ہو سکا! اور آئندہ بھی یہ حق کس سے ادا ہو گا؟ محض ایک جذبہ شوق کا تقاضا ہے کہ جس سے پہلے بھی سرشار رہے اور پچھلے بھی سرشار رہیں گے۔ جنابِ ماہر کی اکساہٹ سے اسی جذبہ شوق کے تحت راقم الحروف کے جی میں آئی کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے اس عظیم پہلو کو اجمالاً نمایاں کیا جائے کہ آپ نے اپنی قوم اور انسانیت کی تعمیر و فلاح کے لیے جب میدان میں قدم رکھا تو کس ظلم و تشدد سے آپ کا خیر مقدم کیا گیا اور کس طرح ساری عمر ایک بے مثال محسن کے احسان کا جواب اندھی مخالفتوں اور ذلیل قسم کی شرارتوں سے دیا جاتا رہا اور دوسری طرف اس ظلم و تشدد اور ان مخالفتوں اور شرارتوں کے طوفان سے گزرتے ہوئے رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے کس سیرت و کردار کا مظاہرہ کیا! ---- حدیثِ دلبر کے اس درد بھرے پہلو میں ان کے لیے بھی ایک سبق ہے جو نیکی کا راج قائم کرنے کی جدوجہد میں حصہ لیں اور ان کے لیے بھی ایک سبق ہے جو ایسی کسی جدوجہد کی مزاحمت کرنے کے لیے اٹھیں۔

یہ ہے تاریخِ انسانیت میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام! ---- تاریخ گواہی دیتی ہے کہ وہ سب سے بڑا تاریخ ساز تھا۔ انسانی فلاح و بہبود کے سب سے بڑے اس کام کو کرنے کے لیے جب حضرت خاتم النبیین تشریف فرما ہوئے تو وہ ساری عقوبتیں اور ایذائیں جو جملہ انبیاء و رسل پر مختلف زمانوں میں آزمائی گئی تھیں، شیطان بیک دم ان سب کو جمع کر کے لایا اور ایک یکہ و تنہا یتیم نوجوان کو چومکھی لڑتے رہنے پر مجبور کر دیا! سیرتِ نبوی کا منظر کچھ ایسا ہے جیسے تاریخ کے طوفانی سمندر میں بغیر کشتی اور پتوار کے کوئی پیراک موجوں، گردابوں اور نہنگوں سے لڑ رہا ہو۔ صفیریں بجاتی ہوئی تیز و تند ہوائیں چل رہی ہوں، کالی گھٹاؤں کا غیظ و غضب برق و رعد کی چمک اور کڑک بن کر امڈا پڑتا ہو، اولوں کی بوچھاڑیں پڑ رہی ہوں ۔۔۔۔ لیکن شناور پھر بھی اپنا راستہ نکالتا آگے ہی آگے بڑھتا چلا جا رہا ہو! کیا تاریخ کے پاس رقت انگیز مظلومیت اور ایسے عزم آموز استقلال کی کوئی مساویانہ مثال ہے؟

معرکہ خیر و شر کا ڈرامہ جب بھی اسٹیج ہوتا ہے، اس کے بنیادی کردار ہمیشہ ایک ہی ہوتے ہیں۔ زمانہ بدل جاتا ہے، جغرافیائی ماحول نیا پیدا ہو جاتا ہے، اشخاص کے نام بدل جاتے ہیں، لیکن ان کا مقررہ پارٹ نہیں بدلتا۔ ایک کردار صاحبِ دعوت کا کردار ہوتا ہے۔ دوسرا کردار سوسائٹی کے اس جوہرِ خالص کا ہوتا ہے جو سچائی اور نیکی کی پکار سنتے ہی آواز کو اپنے فطری ذوق سے پہچانتا اور اس پر بے دھڑک لبیک کہتا ہے اور "سابقون الاولون" کا موقف سنبھالتا ہے۔ تیسرا کردار اخلاص کے ساتھ اختلاف کرنے والوں کا ہوتا ہے جو بات کو سنتے ہیں، سوچتے ہیں مگر علم و شعور کی کوتاہی اور بعض ذہنی، نفسیاتی رکاوٹوں کی وجہ سے حقیقت کو پوری طرح سمجھنے میں دیر لگاتے ہیں۔ چوتھا نہایت ہی سرگرم اور ہنگامہ آرا کردار دشمنانِ حق کا ہوتا ہے جو اپنے مفاد اور اپنے مناصب اور اپنے مرتبے اور اپنی بگڑی ہوئی عادات کی وجہ سے اول روز سے جانتے بوجھتے ضدم ضدا کے اسلوب پر مخالفت کی مہم چلاتے ہیں اور روز بروز اس کی رو میں بہتے ہی چلے جاتے ہیں۔ پانچواں کردار کمزور عوام کا ہوتا ہے جو معاشرہ کے اونچے طبقوں کے زیرِ دست ہونے کی وجہ سے کوئی جرأت مندانہ اور فعالانہ اقدام نہیں کر سکتے اور نہ ذہنی طور پر آسانی سے کسی دعوت کی تہہ تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ چنانچہ یہ بالعموم داعی حق اور دشمنانِ حق کی کشمکش کو سالہا سال تک تربص کے ساتھ دیکھتے رہتے ہیں اور جب آخر کار پانسہ کسی طرف پلٹ جاتا ہے تو پھر یہ سیلابِ قوت بھی حرکت میں آتا ہے اور اسی رخ بہہ نکلتا ہے۔ پس معرکہ خیر و شر کے ڈرامے کی گرما گرمی دو ہی کرداروں کی مرہونِ منت ہوتی ہے! یعنی داعی حق اور اس کے رفقاء کا کردار اور جوابی اور منفی طوفان اٹھانے والے فعال مخالفین کا کردار! ناممکن ہے کہ دعوتِ حق کا کھیل کھیلا جائے اور یہ دونوں کردار آمنے سامنے نہ آجائیں! ناممکن ہے کہ سچائی اور نیکی کی آواز اٹھائیے تو اس کے جواب میں جھوٹ اور برائی کی ساری طاقتیں امڈ کر نہ آجائیں! ناممکن ہے کہ انسانیت کی بھلائی اور خدمت کے لیے کام شروع کیجیے، تو دنیا گالیوں اور الزامات اور پروپیگنڈوں اور سازشوں اور تشدد کے مختلف ہتھیاروں کے ساتھ ہجوم کرکے نہ آجائے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اگر محض کچھ اچھی باتیں سوچتے اور کہتے رہتے، اپنے پسندیدہ طریقے پر خدا کے سامنے رکوع و سجود کرتے رہتے، کسی خلوت میں بیٹھے ذکر و اذکار فرماتے رہتے بلکہ اچھے اچھے وعظ بھی فرماتے رہتے اور "مریدوں" کا ایک حلقہ یا اپنے متبعین کی ایک بے ضرر سی انجمن بھی بنا ڈالتے تو زمانہ یہ سب کچھ برداشت کر لیتا، لیکن آپ ساری زندگی کو بدلنے چلے تھے، آپ تمدن کی ساری عمارت کی تعمیرِ نو چاہتے تھے، آپ نظامِ اجتماعی کو ادھیڑ کر بہترین نقشے پر از سرِ نو بنانے پر مامور تھے، آپ مفاد اور حقوق کے اس سارے توازن کو درہم برہم کر دینے کے درپے تھے جو اپنی مضبوطی کے ساتھ قائم تھا، آپ انسان کو ایک نئے اعتقادی و اخلاقی سانچے میں ڈھالنے کے لیے مبعوث ہوئے تھے، پہلے دن سے آپ نے اسی چیز کی دعوت دی اور پہلے دن سے قوم نے آپ کی دعوت کا یہی مفہوم سمجھا۔ چنانچہ سارے کا سارا جوابی رویہ اسی مفہوم کے فطری ردِ عمل سے پیدا ہوا۔

نیکی اور سچائی کی ہمہ گیر تحریک کے مخالفین کا کسی بھی دور میں جائزہ لیجیے، تو دیکھیے گا کہ ان کے منفی ہنگاموں کی تدریج اور تکنیک ہمیشہ ایک ہی رہی ہے۔ سب سے پہلے ہمیشہ معمولی سی استہزاء و تضحیک سے کام لیا گیا، پھر اگلے مرحلے میں گالیوں اور طعنوں، جھوٹ، افترا اور نکتہ آفرینیوں اور بدنام کن القابات کا طوفان اٹھایا گیا، پھر عوام میں غلط فہمیاں پھیلانے کے لیے جھوٹے پروپیگنڈے کا زور باندھا گیا۔ معاملہ اور آگے بڑھا تو ایک طرف قومی مفاد اور اتحاد کے خطرے میں پڑنے کا واسطہ دلایا گیا، اور دوسری طرف مذہبی بنیادوں پر جاہل عامی طبقے میں اشتعال پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔ بیچ بیچ میں عقلی دلائل کے تیر تکے لڑائے جاتے رہے۔ اعتراضات اور سوالات کی بوچھاڑ ہوتی رہی۔ جب محسوس ہوا کہ ایک خطرناک دعوت زور پکڑ رہی ہے تو سودا بازی کی کوششیں کی گئیں۔ سارے حربے ناکام دیکھ کر تشدد کے نہایت ذلیل طریقے اختیار کیے گئے، اور معاشی اور سوشل بائیکاٹ کا دباؤ ڈالا گیا۔ قید و بند اور جلا وطنی کے منصوبے عمل میں لائے گئے۔ یہاں تک کہ بالآخر داعی حق کے قتل کے ارادے کیے گئے۔ اگر معاملہ اس مرحلے سے بھی آگے نکل گیا تو معرکہ کارزار گرم کر کے دعوتِ مبارزت دی گئی۔ یہ سارے مراحل حضرت سیدنا خاتم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کو یکے بعد دیگرے پیش آئے، لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہر مرحلے سے شاندار کامیابی کے ساتھ آگے بڑھایا اور وہ دن آیا کہ سارا عرب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں تھا۔

کتاب کا مقصد

اس کتاب میں سیرتِ پاک کے مستند واقعاتی مواد کو پورے ربط و تسلسل کے ساتھ ایسے انداز سے لایا گیا ہے کہ اس عظیم معرکہ خیر و شر کا منظر آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے جسے تاریخ کا جمود توڑ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے برپا کیا اور پھر عمر کی ایک ایک گھڑی اس میں کھپا دی۔ مجھے امید ہے کہ قاری اس کا مطالعہ کرتے ہوئے چودہ صدیوں کا فاصلہ عبور کر کے اپنے آپ کو محسنِ انسانیت کے قریب محسوس کرے گا۔ اسے واقعات کی رو اپنے سامنے چلتی معلوم ہو گی، وہ تحریکِ اسلامی کی لہروں کو اپنے عالمِ تصور میں امنڈتے دیکھے گا۔ وہ حق و باطل کی اس کشمکش کا غیر جانب دار تماشائی بن کے کنارے بیٹھا نہ رہ سکے گا بلکہ اس کے اندر مثبت جذبے ابھریں گے۔ وہ سوچنے پر مجبور ہو جائے گا کہ تاریخِ انسانی میں میرا حصہ کیا ہے اور کیا ہونا چاہیے؟

مجھے امید ہے کہ اس کتاب سے عزیمت و استقلال کا درس حاصل کیا جا سکے گا، اور مشکل ترین حالات میں ادائے فرض کا حوصلہ پیدا ہو گا۔ اس کے مطالعہ سے اپنے سب سے بڑے محسن علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صحیح قدر دلوں میں پیدا ہو گی۔ ایک گہرا جذبہ سپاس ابھرے گا، ایک والہیت و عقیدت آپ کی ذات کے لیے پیدا ہو گی جو مطلوبِ دین ہے۔ یہ اندازہ کیا جا سکے گا کہ آج جس نورِ حق سے ہمارے سینے روشن ہیں اس کو لانے والا کیسی کیسی آزمائشوں سے گزر کر، کیسی کیسی مخالفتوں کا مقابلہ کر کے، کیسے کیسے رہزنوں کے حملوں کی زد پر آکر اور خون اور آنسوؤں کے کیسے کیسے سمندروں کو پار کر کے اسے ہم تک پہنچا سکا ہے۔ اس سے یہ شعور حاصل ہو گا کہ سچائی اور نیکی کے علمبرداروں کی راہ پُر آشوب گھاٹیوں سے ہو کر نکلی ہے اور اس راہ کو جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم جیسی مقبولِ بارگاہ اور یکتائے روزگار ہستی کے لیے کانٹوں سے صاف کر کے پھولوں کے فرش سے آراستہ نہیں کیا گیا تو اب اور کس کے لیے کوئی ایسا خفیہ شارٹ کٹ نکال دیا جائے گا کہ آدمی اپنے گوشہ عافیت سے اٹھے تو بغیر پاؤں پر گرد پڑے سیدھا جنت میں جا پہنچے۔

جنابِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی دکھ بھری کہانی پڑھنے سے وہ سارے مغالطے اور من سمجھوتے کافور ہو جاتے ہیں جن کی وجہ سے آدمی عافیت اور خدا پرستی کو جمع کیے امن چین سے پڑا رہتا ہے۔ ہمیں سیرتِ نبوی کی روشنی میں دیکھنا چاہیے کہ اگر وہ سنگِ میل کہیں دکھائی نہیں دیتے، وہ نشاناتِ راہ سامنے نہیں آتے، وہ موڑ اور نشیب و فراز پیش نہیں آتے، وہ کانٹے اور پتھر راستے میں نہیں پڑتے، وہ رہزن اور غولِ بیابانی حملہ آور نہیں ہوتے، وہ ٹھوکریں نہیں لگتیں، وہ چرکے نہیں آتے جن کے تذکرے سے قرآن کے صفحات اور سیرت کے ابواب بھرے پڑے ہیں تو ہمیں اپنی سمتِ سفر پر، اپنی منزلِ مقصود پر، اپنی اختیار کردہ راہِ عمل پر نظرِ ثانی کرنی چاہیے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ "ایں رہ کہ تو میروی بہ ترکستان است"۔

اس کے مطالعہ سے ہر مسلمان پیشتر سے خبردار رہ سکتا ہے کہ اس امت میں جب کبھی بھی کوئی شخص یا گروہ دعوتِ نبوی اور تحریکِ نبوی کو لے کے اٹھے گا اور اسی طریقے پر کام کرنا چاہے گا، تو اس کے خلاف استہزاء و تحقیر، دشنام طرازی، الزام تراشی، نکتہ آفرینی، اشتعال انگیزی، تکفیر و تفسیق، جھوٹے پروپیگنڈے، سازش اور شرارت، ظلم اور تشدد کے وہ سارے طوفان اٹھ کھڑے ہوں گے جو اس کام کے لیے مقدر ہیں۔ ان طوفانوں میں گھرے ہوئے کسی بھی دور میں اٹھنے والے داعی حق کو پہچاننا اور اس کی بات کو سمجھنا اور اس کی پکار پر لبیک کہنا صرف ایسے ہی لوگوں کے لیے آسان ہو سکتا ہے جو قرآن اور سیرتِ نبوی کے مطالعے سے معرکہ خیر و شر کے ڈرامے کے پیش آئندہ ہر ایکٹ اور منظر کا صحیح تصور پہلے سے رکھتے ہوں۔ ہر مسلمان کو یہ جاننا چاہیے کہ باطل کی وہ طاقتیں جنہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جیسی بے داغ شخصیت کو نہ بخشا اور جنہوں نے بعد میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروکار ہستیوں ۔۔۔۔ امام حسین، امام مالک، امام احمد بن حنبل، امام ابو حنیفہ، حضرت مجدد الف ثانی، شاہ ولی اللہ کو بخش کے نہ جانے دیا، وہ کسی اور کو کہاں اپنی کرم فرمائیوں سے مستثنیٰ رکھنے پر تیار ہو سکتی ہے! سیرتِ نبوی ہمیں ہر دور میں داعیانِ حق اور دشمنانِ حق کے کردار میں تمیز کرنا سکھاتی ہے۔ میں نے ان سارے کرداروں کو اس کتاب میں نمایاں کر دینے کی کوشش کی ہے جو معرکہ خیر و شر میں کام کرتے ہیں!

مجھے امید ہے کہ اس کتاب کا مطالعہ اس خوف ناک تضاد کا احساس دلائے گا جو ہمارے ایمان بالرسالت اور ہماری عملی زندگیوں میں پیدا ہو گیا ہے۔ آج کوئی ایک سرزمین بھی ایسی نہیں ہے جہاں محسنِ انسانیت کا نظامِ حیات برپا ہو کر کام کر رہا ہو۔ عالمِ اسلام بادشاہتوں اور آمریتوں کی جولانگاہ بنا ہوا ہے جن کے دم سے ایک طرف قدیم ظلمتیں ہمارے گرد محیط ہیں اور دوسری طرف جدید دور کی تاریکیاں ہم پر مسلط ہیں، ذہنی لحاظ سے ہم جہالت میں ڈوبے ہوئے ہیں، معاشی لحاظ سے مفلوک الحالی میں مبتلا ہیں، ثقافتی لحاظ سے دوسروں کے بھکاری ہیں اور بین الاقوامی حیثیت سے ہم دونوں بلاکوں کے لیے سستا شکار ہیں۔ یہ ہے اس تضاد کی سزا جسے ہم بھگت رہے ہیں!

اس کتاب کا اصل پیغام یہ ہے کہ ہم محسنِ انسانیت کی دعوت کا احیاء کریں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قائم کردہ خطوط پر تبدیلیِ احوال کے لیے جدوجہد کریں اور نظامِ عدل و رحمت کو ٹھیک اس عملی نقشے پر استوار کریں جو قرآن کے اصولوں کو سامنے رکھ کر اس قائدِ انسانیت نے وضع کیا تھا! وقت آگیا ہے کہ ہم اور ہمارے نوجوان تہذیبِ حاضر کی مرعوبیت کا بوجھ سر سے اتار پھینکیں اور اس مادہ پرستانہ دور کے خلاف فکری بغاوت کا علم اٹھائیں۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو کتابوں کے صفحات سے نکال کر نئے سرے سے عملی زندگی کے اوراق پر رقم کریں، اسے ایک اجتماعی نظام کی صورت میں مرتب کر دیں، اور راہِ نجات کھولنے والی وہ تیسری طاقت بنیں جس کی جگہ تاریخ میں خالی پڑی ہے۔

خدائے رحیم اس ناچیز سعی کو قبول کرے اور اسے اپنے مقاصد میں کامیاب کرے!

نعیم صدیقی
یکم دسمبر ۱۹۵۹ء