مقدمہ
کہتے ہیں کہ یہ
زمانہ دورِ ارتقاء ہے۔ اس دور میں ہر شے تغیر پذیر ہے۔ افکار و عقائد، اخلاق و
اقدار اور ریت و روایات سب بدل گئے۔ زندگی کی مادی شکلیں تک تبدیل ہوگئیں۔ کھانے
پینے کے ڈھنگ، رہن سہن کے آداب، رسل و رسائل کے تمام ذرائع، جنگ و صلح کے قوانین، غرض
ہر شے ایک ہمہ گیر تغیر سے دوچار ہے۔ حد تو یہ ہے کہ خود انسان بھی اس تغیر سے
نہیں بچ سکا!
کوئی لمحہ ایسا نہیں گزرتا جس میں لوگ ترقی یافتہ مغرب سے لے کر
پسماندہ مشرق تک، ارتقاء، تغیر اور تبدیلی کے الفاظ نہ دہرا لیتے ہوں! اور کوئی
عمل اور کوئی سوچ ایسی باقی نہیں رہ گئی۔ جس میں ارتقاء اور تغیر کا نظریہ سرایت
نہ کر گیا ہو! اب تو لوگوں کے لئے کسی ایسی زندگی کا تصور مشکل ہو گیا ہے جس پر
فلسفہ ارتقا کی چھاپ نہ ہو۔
دورِ
ارتقاء اور مذہب سے تصادم
جب لوگوں کے ذہنوں
پر تغیر و ارتقاء کا نظریہ اس طرح چھا جائے، تو ظاہر ہے کہ یہ مذہب سے متصادم
ہوگا۔ کیونکہ لوگوں کے تصور میں مذہب تغیر پذیر نہیں ہے۔ اور مذہب کے عدم ارتقا کے
ساتھ ساتھ خدا، عقیدہ، عبادات، اقدار، روایات اور زندگی تمام کے تمام غیر متغیر
اور ثابت ہیں۔ اور جب لوگوں کے ذہن میں مذہب کے بارے میں یہ تصور ہے کہ وہ ٹھہرا
ہوا ہی اور غیر متغیر ہے تو ظاہر ہے، اس تصور کو ارتقاء کے تصور سے متصادم ہونا
چاہیے کیونکہ فلسفہ ارتقا میں کوئی بھی شے غیر متغیر نہیں ہے، حتی کہ خدا بھی۔
مغرب
میں تصادم
مغرب میں فی الحقیقت
ہوا بھی یہی ہے کہ تغیر و ارتقاء کا نظریہ مذہب سے متصادم ہو گیا۔ چنانچہ دورِ
احیاء میں نظریہ ارتقاء اور مذہب میں شدید پیکار رہی۔ جب کہ دورِ احیاء (RENAISSANCE) کی بنیاد بھی لادینیت (SECULARISM) تھی۔
مذہب اور نظریہ ارتقاء کی اس جنگ کا نتیجہ یہ نکلا کہ مذہب، معاشیات، اجتماعیات
اور سیاسیات کی عملی زندگی سے کٹ کر رہ گیا، اور مذہب کا تھوڑے سے لوگوں کی
زندگیوں پر بس اس قدر اثر باقی رہ گیا کہ وہ اتوار کے دن کلیسا چلے جائیں، اور
اپنے بعض شخصی معاملات میں مذہبی اصولوں کو اپناتے رہیں۔ مگر جہاں تک واقعاتی
زندگی کا تعلق ہے تو پوری کی پوری زندگی لادینی (Secular) تصورات
کے تابع ہوگئی!
دین اور دنیا کی یہ کشمکش اٹھارویں اور انیسویں صدی میں تو خاصی
تیز رہی، مگر بالآخر سرد پڑ گئی۔ کیونکہ اب نہ تو مذہب میں تابِ مقابلہ باقی رہی
تھی، اور نہ اہلِ مذہب میں۔ اہلِ مذہب یا تو اس امر پر راضی ہو گئے کہ اپنے آپ کو
لادینیت
(SECULARISM) کی یلغار سے بچا کر خود قافلہ سے علیحدہ ہو
جائیں، جب کہ دوسرے لوگ اس فکر کے حامل تھے کہ قافلہ کا ساتھ تو نہ چھوٹے، البتہ
مذہب کو تغیر و ارتقاء کی خراد پر چڑھا کر دورِ جدید کے ساتھ چلنے کے قابل بنالیں۔
اسلامی
دنیا کی صورتحال
مگر اسلامی دنیا میں دین و دنیا کی کشمکش آج بھی بدستور جاری
ہے۔ کیونکہ ایک طرف تو عملی لحاظ سے یہی مگر عقیدے اور فکر کے لحاظ سے عوام الناس
پر مذہب کی گرفت پوری طرح سخت ہے۔ اگر چہ اس بات کی پوری کوشش کی گئی ہے کہ عقیدے
کی بنیاد منہدم کر کے اس کی جگہ نئے افکار و خیالات کی دیوار تعمیر کر دی جائے! اور دوسری طرف تغیر اور ارتقاء بھی یہاں مکمل نہ ہو سکا۔ نہ
یہاں کوئی صنعتی انقلاب آیا، اور نہ مغرب سے درآمد شدہ اجتماعی اور معاشی نظام
اپنی پوری لادینی (SECULAR) اسپرٹ کے ساتھ قائم
ہو سکا!
یہی وجہ ہے کہ اسلامی دنیا میں دین و دنیا کی کشمکش آج بھی
بدستور جاری ہے!! یہاں مصنفین اور ارتقائی فکر کے حاملین اس کشمکش میں اسی قدر اور
اسی نوعیت سے حصہ لے رہے ہیں، جتنا اور جس طرح وہ مغربی افکار سے متاثر ہوتے ہیں۔
مذہب اور تبدیلی کے بارے میں مختلف رویے چنانچہ
کچھ لوگ مذہب پر براہ راست اور کھلم کھلا حملہ آور ہیں، اور صاف صاف کہتے ہیں کہ
مذہب تاریک دور کی خرافات ہے۔ اسے آج کے روشن دور میں باقی نہ رہنا چاہیے۔ مگر بعض
اصحاب میں اتنی جرات نہیں کہ وہ مذہب پر کھلم کھلا حملہ آور ہوں۔ چنانچہ وہ رجعت
اور اہلِ مذہب کے خلاف محاذ بنا کر اس راہ سے مذہبی افکار پر حملہ کرتے ہیں۔ اور الحاد
کے طعنے سے بھی بچے جاتے ہیں! اب یہ لوگ یہ نہیں کہتے کہ (نعوذ باللہ) یہ اللہ کا
قصور ہے کہ وہ عورت کو حکم دیتا ہے کہ وہ صرف اپنے محرم کے سامنے زینت اختیار کر
سکتی ہے۔ کیونکہ اگر ایسا کہیں تو عوام کے فیض و غضب کا شکار ہو جائیں۔ بلکہ وہ
اسی بات کو رجعت پسند اہلِ مذہب کی جانب منسوب کر دیتے ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی
نہیں کہتا کہ (نعوذ باللہ) اللہ خطا کار ہے کہ اس نے فحش کو حرام قرار دیا۔ اور
جنسی تعلقات کی صرف شرعی نکاح کی صورت میں اجازت دی۔ بلکہ وہ کہتے ہیں کہ یہ اخلاق
کے رجعی اصول ہیں۔ جنہوں نے آزادانہ جنسی تعلقات کو ناجائز قرار دیا ہے اور اس
پرانے اخلاق کو اب ختم ہو جانا چاہیے؟! ان اصحاب میں سے کچھ یہ کہتے ہیں کہ اسلام
میں اصل دیے تو بڑے بلند اور بہترین اصول ہیں لیکن مذہبی قوانین تمام کے تمام ایک
خاص دور اور خاص قسم کے حالات کے لئے تھے، جو اب بدل چکے ہیں۔ لہذا مذہب کی اصل
روح کو تو باقی رکھا جائے، مگر حیاتِ واقعی پر حکمراں شریعت کی کوئی ضرورت باقی
نہیں رہ گئی ہے۔ اس طرح مذہب کے بلند اصول اور افکارِ عالیہ بھی باقی رہ جائیں گے،
اور وہ تغیر پذیر اور تو بہ تو بدلتی ہوئی زندگی سے متصادم بھی نہ ہوں گے۔ بلکہ
لوگ مذہبی روح کے زیرِ اثر اپنی ارتقائی زندگی کے راستے پر چلتے رہیں گے! کچھ لوگ سرے سے مذہب کا نام نہیں لیتے۔ بلکہ مذہبی افکار کو
ایسے اجتماعی، فکری، سیاسی اور معاشی اصولوں کے طور پر زیرِ بحث لاتے ہیں، جیسے ان
کا مذہب سے کوئی تعلق نہ ہو۔ پھر ان اصولوں کو یہ کہہ کر فالتو اور بیکار بتاتے
ہیں کہ یہ اصول موجودہ دور میں نہیں چل سکتے اور نہ ہی علمی اور تہذیبی ارتقاء کا
ساتھ دے سکتے ہیں۔ غرض اس طرح مذہب کا نام لئے بغیر مذہبی اقدار کا مذاق اڑا کر ان
کے اثر کو باطل کیا جاتا ہے! اس گروہ میں ایسے حضرات بھی موجود ہیں، جو
اپنے ارتقائی افکار کو مذہب کی جانب منسوب کر دیتے ہیں۔ کیونکہ ان کے خیال میں
مذہب میں ہر دور اور ہر زمانہ کا ساتھ دینے کی صلاحیت موجود ہے۔ چنانچہ ان کے یہاں
اختلاطِ مرد و زن بھی جائز، عیش و نشاط بھی حلال و طیب اور آزادانہ جنسی تعلقات
بھی روا ہیں۔ ان کے نزدیک دینی افکار اور مذہبی نصوص پر تنقید بھی درست ہے تاکہ
غور و فکر کے بعد ان سے استفادہ کیا جا سکے۔! ان کے خیال میں اس میں کوئی قباحت
نہیں کہ مذہب کے کچھ اصول نکال کر ان کی جگہ نئے قوانین رکھ دیے جائیں، کیونکہ لوگ
اپنے دنیاوی معاملات میں زیادہ باخبر ہیں! دوسرے الفاظ میں یہ حضرات ارتقاء اور
تجدید کے نام پر مذہب کا آپریشن کرتے رہتے ہیں! کچھ
فریب خوردہ اور گمراہوں کا ٹولہ ایسا بھی ہے جو پورے خلوصِ دل سے چاہتا ہے کہ مذہب
کی تجدید کر لی جائے، تاکہ مذہب موجودہ دور میں چل سکے، اور طاقِ نسیاں میں نہ پڑا
رہ جائے۔
عوام الناس اور دانشوروں کے اثرات
رہ گئے جمہور عوام،
تو ان کا حال یہ ہے کہ وہ ان دانشوروں کے ان تمام خیالات سے متاثر ہوتے ہیں، جو ان
کے ذہنوں میں کتابوں، افسانوں، ڈراموں، خبروں، صحافت، تصاویر، ریڈیو، سینما اور
ٹیلی ویژن کے ذریعے انڈیلے جاتے ہیں۔ پھر یہ خیالات شعوری یا لاشعوری طور پر مذہبی
افکار سے ٹکراتے ہیں، تو اس کے مختلف نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ چنانچہ کچھ لوگ قطعاً مذہب سے روگرداں ہو جاتے ہیں۔ اور کچھ مذہب کو
اپنے ذاتی جذبات تک محدود کر لیتے ہیں۔ چنانچہ نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ بھی ادا
کرتے ہیں اور زندگی میں زندگی کے جدید تصورات کے ساتھ شامل بھی ہو جاتے ہیں۔ ان کی
لڑکیاں گھٹنوں سے اونچے اسکرٹ پہنتی ہیں، اور نوجوانوں سے ملتی جلتی ہیں، تاکہ وہ
زمانہ کی رفتار کا ساتھ دے سکیں! کچھ دوسرے لوگ مذہب کے بعض تصورات پر جم جاتے ہیں اور زندگی کی
ہر حرکت کو مذہب کے خلاف خیال کر کے اس کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ اور انہی میں سے کچھ
حضرات ایسے بھی ہیں جو حیران و پریشان کھڑے ہیں۔ اور کوئی راہِ عمل انھیں سجھائی
نہیں دیتی
اس بحث کا تعلق دراصل اس مسئلہ سے ہے کہ ترقی کی قدر مذہب کے
مخالف ہے؟ میں نے اپنی سابقہ کتابوں میں اس موضوع پر اجمالی تبصرہ کیا ہے۔ پہلے تو میں نے اپنی
کتاب 'سیرتِ رسول کی جھلکیاں' کے باب 'تم اپنے دنیاوی معاملات سے زیادہ واقف ہو'
میں اس موضوع پر براہِ راست کلام کیا۔ اور انسانی زندگی میں یکسانی و ارتقاء کے
بارے میں گفتگو کرتے ہوئے، اس سلسلہ میں اسلام کا موقف بھی واضح کیا۔ پھر میں نے اپنی
کتاب 'کشمکش روایات' کے دو ابواب میں تغیر و ارتقاء کے مغربی مفہوم پر روشنی ڈالتے
ہوئے یہ بتایا کہ اس مفہوم میں کس قدر سچائی ہے، اور کتنا جھوٹ شامل ہے نیز اس
تصور نے مغربی زندگی پر کیا اثر ڈالے اور کس طرح مغربی سامراج کے ساتھ یہ متعدی بیماری
مشرق میں پھیل گئی! اس کے بعد 'مطالعہ نفسیات' میں ایک مستقل باب 'انسانی وجود میں
عدم تغیر و ارتقاء' کے زیرِ عنوان تحریر کیا۔ مگر میرا جی چاہتا تھا کہ میں اس
موضوع کو خاص طور سے زیرِ بحث لاؤں۔ چنانچہ میں نے یہ کتاب تحریر کی اور اس میں
موضوع کا ہر پہلو سے جائزہ پیش کیا۔ یہ کتاب دراصل چار اہم مسائل پر مشتمل ہے
1.
تغیر
و ارتقاء کے مغربی معنی اور مفہوم۔ اس کے اسباب اور مغربی زندگی پر مرتب ہونے والے
اثرات
2.
انسانی
فطرت کے کون سے پہلو متغیر ہیں اور کون سے غیر متغیر اور عدم ارتقائی ہیں؟
3.
انسان
کا اسلامی مفہوم - اور ارتقاء کے بارے میں اسلام کا موقف۔
4.
تہذیب
کا مغربی اور اسلامی تصور - اور یہ دونوں تصور انسانیت کے مستقبل کی نشاندہی کرتے
ہیں۔ یہ موضوع کافی وسیع اور اس میں زیرِ بحث آنے والے مسائل خاصے اہم ہیں۔ حقیقت
میں اس موضوع پر انسانی تفکر کے تمام گوشوں اور حیاتِ انسانی کے تمام پہلوؤں پر
مشتمل بحث ہونا چاہیے۔ اتنی طویل گفتگو تو شاید نہ ہو سکے، مگر یہ بھی بہت ہے کہ
بنیادی موضوع پوری طرح زیرِ بحث آ جائے بلکہ اس سلسلہ میں راہِ فکر اگر روشن ہو
جائے، تو یہ غنیمت ہے۔ اگر میں اس مقصد میں کامیاب ہو گیا تو صرف اللہ تعالیٰ کی توفیق
ہوگی کہ ہر حال میں حمد و ثنا کا مستحق ہے۔
دورِ ارتقاء: تاریخی
تناظر
اسلامی دنیا کی حرکیات بمقابلہ مغربی جمود قرونِ
وسطیٰ میں مغربی زندگی پر تو پوری طرح جمود طاری تھا مگر اسلامی دنیا میں زندگی
بہت زیادہ تیز رفتار تھی جو رفتہ رفتہ غیر متحرک یکسانی و سکون کی جانب مائل ہوتی
چلی گئی۔ مغرب میں کلیسائی مفہومِ مذہب اور اس وقت کے محکم معاشی اور اجتماعی نظام
کے مفہوم کے متوازی تھا۔ مذہب کا کلیسائی مفہوم تھا کہ یہ خدا اور بندے کے درمیان
تعلق قائم رکھے اور عملی زندگی کے معمولی سے حصہ پر اثر انداز ہو۔ رہ گئی باقی
زندگی تو وہ رومی قانون کی دفعات اور جاگیرداروں کی خواہشات کے زیرِ سایہ چل رہی
تھی۔ گویا زندگی پر ایسے بت پرستانہ اصول حکمراں تھے، جن کا مذہب سے کوئی تعلق نہ
تھا۔ ظاہر ہے اگر عقیدے کے یہی کچھ معنی ہوں کہ اللہ پر اعتقاد، اس سے وجدانی تعلق
اور اس کی روحانی عبادت، تو اس معنی میں عقیدہ عدم ارتقائی ہے کیونکہ وجدانی لحاظ
سے اللہ بھی غیر متغیر ہے۔ اور اللہ کے شعور کا وجدانی ادراک بھی اپنے اندر عدم
تغیر اور عدم ارتقا کا رنگ لئے ہوئے ہے۔
اگر ہم یہ فرض کر لیں کہ مذہب اپنے مغربی کلیسائی مفہوم میں
بعینہ وہی مذہب تھا، جو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا تھا اور یہ مذہب واقعی زندگی
پر بھی اس طرح حکمراں تھا جس طرح لوگوں کے وجدان پر اس کا تسلط تھا۔ اور یہ مذہب
جہاں لوگوں کی انفرادی عبادتوں میں رہنمائی کر رہا تھا، وہاں انھیں معاشی اور
اجتماعی قوانین بھی دے رہا تھا۔
اگر ایسا بھی ہوتا، اور
اس کے باوجود مغربی حکومتیں اس کو عملاً نافذ نہ کرتیں، تو ہمارے لئے یہ کہنا مشکل
ہے کہ اس وقت مذہب کی کیا شکل ہوتی۔ ہاں ہم یقینی طور پر اور تاریخی لحاظ سے یہ
کہتے ہیں کہ اسلام کا کردار ایسا نہیں تھا۔ اسلام نے طویل عرصہ تک اپنے آسمانی
مفہوم کو محفوظ رکھا جس میں وہ وجدان اور عملی زندگی پر یکساں حکمراں تھا۔ اور
باوجودیکہ دورِ اموی کے بالکل شروع میں اسلامی حکومت میں بگاڑ پیدا ہو گیا تھا،
مگر اسلام کبھی بھی معاشرے سے علیحدہ نہیں ہوا۔ زندگی سے اسلام کا رشتہ بالکل آخر
میں آکر اٹھارویں صدی میں نپولین کے حملے کے بعد ٹوٹا ہے۔ اس کے بعد تو اسلامی
دنیا پر بہت سے صلیبی حملے ہوئے۔
پرتگالی، انگریز،
بیلجیم، اطالیہ اور جرمنی نے مسلمانوں پر حملے کئے اور آخری حملہ سیاسی اور معاشی
سامراج کی شکل میں امریکہ نے کیا۔ ان سب کا مشترکہ مقصد اللہ کے قانون کو نافذ
کرنے والی اسلامی حکومت کو ختم کرنا تھا اور وہاں خاص طور پر غیر اسلامی قانون کا
نفاذ تھا۔ اسلام جہاں بھی گیا، اس نے زندگی کو حرکت دے کر اسے ارتقاء کی شاہراہ پر
گامزن کر دیا۔ اور حرکت و ارتقاء کی علامتیں زندگی کے تمام پہلوؤں پر محیط ہو
گئیں۔ جزیرہ
نمائے عرب: کی معاشی اور اجتماعی زندگی میں اسلام نے زبردست حرکت پیدا کی۔ اسلام
نے عرب جاگیریں اور چھوٹی چھوٹی ریاستیں ختم کرکے انھیں ایک مضبوط، محکم اور ایک
مرکزی قوم میں تبدیل کر کے اس ساری قوم پر ایک قانون نافذ کیا جو بالآخر قومی وحدت
کی تقویت کا سبب بنا۔
قدیم
تہذیبوں والے ممالک:
اسلام نے ان کے عوام کو
بت پرستی سے نجات دلا کر ایک اللہ کی عبادت کی جانب متوجہ کیا۔ اور جب یہ لوگ
حکمرانوں کی غلامی سے آزاد ہو گئے، تو اس آزادی نے زندگی کے متعدد گوشوں میں نکھار
پیدا کر دیا۔ معاشی
حرکت: اسلام کی پیدا کردہ معاشی حرکت بھی عظیم اور ہمہ گیر تھی جس کے نتیجہ میں وہ
معاشرہ جو غلامی اور چرواہوں کا معاشرہ تھا، وہ اسلام کے زیرِ سایہ بین الاقوامی
معیار پر زرعی، تجارتی اور صنعتی معاشرہ بن گیا۔ اور اسلام معاشرے کی کسی ایک
معاشی حالت پر جمود قائم ہونے میں رکاوٹ بن گیا۔ اسلام نے ایسے معاشی اور اجتماعی
قوانین وضع کئے جس نے افراد اور خاندان کو کسی ایک اجتماعی اور معاشی وضع پر جامد
نہیں رہنے دیا۔
اسلام میں یورپ کی طرح
نہ کوئی طبقاتی نظام تھا، اور نہ پیدائشی اشراف (LORDS) تھے،
جو خود بخود زمین، مال و دولت اور اجتماعی مرکز کے مالک بن کر قوم کے لیڈر بن
بیٹھیں! بلکہ ایک کھلا ہوا معاشرہ تھا جس میں کوئی شخص ترقی کی بامِ عروج پر بھی
پہنچ سکتا تھا اور نزول کے ادنیٰ درجے پر بھی آسکتا تھا۔ قانونِ وراثت بھی جمع شدہ
دولت کو تقسیم کرتا رہتا تھا، اور اس عمل سے دولت کسی ایک فرد یا خاندان میں نہ
رہتی تھی۔
تجارت بھی کسی کو
دولتمند بناتی اور کسی کو تنگدست، جس کی بدولت نہ کوئی مالدار ہمیشہ مالدار رہتا،
اور نہ کوئی غریب ہمیشہ غریب رہتا، بلکہ حالات کی ہر کروٹ غربت و امارت کی تبدیلی
بن جاتی تھی۔ اور صنعت نے کچھ ایسے حالات پیدا کر دیے تھے جو قطعی طور پر امراء کی
دولت اور اس کے تعلقات سے مختلف تھے۔ اس طرح پورے عالمِ اسلامی میں حرکت و ارتقاء
کی ایک لہر دوڑ گئی تھی۔ فتوحات
و غزوات: بھی اسلامی تاریخ میں ایک زبردست حرکت کا سبب بنے۔ لشکروں کی پیش قدمی کے
ساتھ افکار اور تہذیبیں بھی ہم رکاب ہوتی تھیں! ہر فتح سے ایک نئی حرکت جنم لیتی
اور ہر حرکت اپنے جلو میں فاتح اور مفتوح دونوں کے لئے زندگی کے ثمرات لئے ہوئے
آتی جن سے نوع بہ نوع اجتماعی، معاشی اور سیاسی افکار ابھرتے۔ اسلام کا رنگ ان سب
افکار پر غالب ہوتا۔
علمی
تحریک:
اور سب سے بڑھ کر
مسلمانوں کی قائم کردہ وہ علمی تحریک تھی جو تاریخ کی سب سے گراں قدر علمی تحریک
خیال کی جاتی ہے۔ اس تحریک نے بہت کچھ لیا اور بہت کچھ دیا۔ اس نے اقوام کو شعور
عطا کیا، اور یہ تحریک تاریخِ عالم میں ترجمہ و تصنیف کی ایک عظیم الشان تحریک تھی
جس میں مدارس اور کتب خانے قائم کئے گئے۔ اور تجریدی فلسفہ اور نظری اور تجربی
علوم میں نہایت گراں قدر کام ہوا۔ جس تجربی اسکول پر آج سارے علوم کام کر رہے ہیں
یہ مسلمانوں کا قائم کردہ ہے۔ اس کو آج جغرافیہ، فلکیات، طب، کیمیا، طبیعیات غرض
زندگی کے ہر رخ میں نہایت بڑے پیمانے پر اپنایا جا رہا ہے۔ اسلام اس بے پناہ فعال
ماحول، اور ارتقائی فضا میں آگے بڑھ رہا تھا، جب یورپ اپنے جمود میں سر تا پا ڈوبا
ہوا تھا۔ اور جب اسلامی دنیا کی طاقت بالکل ہی ختم ہو گئی جس کا سبب یہی تھا کہ
مسلمان اپنے احیائی محرک (اسلام) سے دور ہو گئے۔
جب بھی مسلمانوں میں اس
قدر حرکت اور ارتقاء موجود تھا کہ اس نے صلیبی دور میں یورپ کی تاریکیوں میں روشنی
کی شمع فروزاں کر دی اور یہی روشنی یورپ کو تاریکیوں سے باہر لے آئی۔ صلیبی جنگوں
میں یورپ کو تاریخ کی عظیم الشان تحریک یعنی اسلام سے واسطہ پڑا! اور اس کی کچھ نہ
کچھ زندگی سے استفادہ کر کے یورپ نیند سے بیدار ہو گیا، اور زندگی اور حرکت کے
راستے پر چل پڑا۔ صلیبی جنگوں کا سب سے پہلا اور سب سے بڑا فائدہ یورپ میں تحریکِ
احیائے علوم کی صورت میں جلوہ گر ہوا۔ اور عیسائیوں کو مسلمانوں کے ان تمام علوم
کا پتہ چلا جو اصلاً یونانی تھے، اور مسلمانوں نے ان میں قابلِ قدر اضافے کئے تھے،
یا وہ مسلمانوں کے اپنے علوم تھے۔
یورپ کی تحریکِ احیائے
علوم دراصل لوگوں کو جہالت، خرافات اور دیومالائی اندازِ فکر سے باہر لانے کا ایک
زبردست ذریعہ بنی! پھر جب یورپ نے صلیبی جنگوں کے دوران
مسلمانوں کی ایک مرکزی حکومت اور سب پر نافذ ہونے والے قانون کی خوبیاں دیکھیں جس
میں جاگیردار کی خواہشات کا کوئی دخل نہ تھا، اور جس میں عدالت، مقننہ اور قوتِ
نافذہ شخصِ واحد میں اس طرح مرتکز نہیں تھے، جس طرح کہ وہ یورپ میں تھے، تو یورپ
نے بھی جاگیرداری اور قبائلی نظام توڑ کر قوم اور ملک بنانے کی جدوجہد شروع کر دی!
اور جاگیرداری کے خاتمہ اور غلاموں کی آزادی کے بعد انھوں نے بھی اسی طرح تجارتی
اور صنعتی شہر بنانے شروع کر دیے جس طرح مسلمانوں کے ساحلی تجارتی شہر تھے۔ غرض
مختصر یہ کہ یورپ میں ایک طویل جمود کے بعد حرکت کے آثار نمودار ہو گئے۔
نشاۃِ ثانیہ (Renaissance) اور لادینیت کا آغاز اور
حرکت کے یہ آثار اس جمود سے متصادم تھے، جو یورپ کی زمین میں اپنی گہری جڑیں رکھتا
تھا۔ کیونکہ ایک طویل عرصہ سے یورپ میں ہر ایک شے غیر ارتقائی اور غیر متحرک تھی!
غلام اور جاگیردار سب کو غلامی اور جاگیر صدیوں سے وراثت میں ملتی چلی آرہی تھی۔
اور صاحبِ اقتدار اہلِ مذہب نے جمود کو اپنی جگہ پر خوب مضبوط کر دیا تھا۔ زندگی
ایک ہی رفتار پر چل رہی تھی۔
عورت، مرد اور بچے سب
ایک لگے بندھے طریقے پر اپنی زندگیاں گزار رہے تھے۔ ایک شخص مرتا تو دوسرا اس کی
جگہ لے لیتا، اور اسی سمت چلنا شروع کر دیتا، جس سمت میں پہلا چل رہا تھا۔ نہ جانے
والے کے جانے سے زندگی کی رفتار میں کوئی فرق پڑتا اور نہ آنے والے کی آمد اپنے
دامن میں کوئی تبدیلی لاتی۔ طبقاتی نظام میں ہر شخص سانس لے رہا تھا۔ اشراف اپنی
جگہ شریف
(LORD) تھا۔ عوام اپنے مقام پر عوام تھے۔ اور اہلِ
مذہب اپنی جگہ پر باعزت تھے۔ کہیں بھی کوئی تبدیلی اور تغیر نہ تھا۔ معاشی،
اجتماعی، سیاسی، فکری اور روحانی زندگی صدیوں سے ایک ہی ڈگر پر چلی آرہی تھی۔ کسی
بھی فرد کے فکر و شعور کو اس میں کوئی دخل نہ تھا۔ بلکہ ہر شخص یہ خیال کرتا تھا
کہ یہ زندگی ہمیشہ سے اسی طرح چلی آرہی ہے، یہ اب بھی غیر ترقی پذیر ہے اور آئندہ
بھی ہمیشہ غیر ترقی پذیر رہے گی۔ زندگی کے اس جمود میں افکار، اخلاق اور روایات
بھی جامد پڑے ہوئے تھے، جن کے اوپر جامد مذہب کا پردہ پڑا ہوا تھا، جو اس جمود میں
مزید اضافہ کر رہا تھا۔ جہالت، خرافات اور دیومالائی اندازِ فکر (mythology) نے اس تعطل کو اور کتنی گہری بنا دیا تھا! کیونکہ علم تو عقل و
ذہن کو حرکت میں لاتا ہے اور عقل و دماغ کی حرکت عملی زندگی کے متحرک ہونے کا سبب
بن جاتی ہے۔ اگر وہی سلسلہ عمل اور حرکت کرتا رہے تو تعطل کا سوال ہی پیدا نہیں
ہوتا، بلکہ زندگی ہمہ وقت متغیر رہے گی، اور ہر لمحہ ایک نئی تبدیلی اور ارتقاء کا
پیش خیمہ ہو گا۔ یورپی کلیسا جہالت کی بنیادوں پر قائم تھا، کیونکہ اس کے ظالمانہ
اقتدار کو سہتے رہنے کے لئے عوام کا جاہل رہنا ضروری تھا۔ اگر عوام بیدار ہو جاتے
تو کلیسا کا اقتدار باقی نہیں رہ سکتا تھا۔ اپنے اقتدار کو بچانے کے لئے کلیسا ایک
طویل عرصے تک جہالت کا تحفظ کرتا رہا اور علم کو نافرمانی، بے دینی اور اللہ کی
رحمت سے دوری کا نام دے کر اس کی مخالفت کرتا رہا۔
کلیسا بمقابلہ سائنس
یہی برتاؤ کلیسا نے
کوپرنیکس، گیلیلیو، جیوردانو برونو اور ہر اس سائنسدان کے ساتھ کیا جس نے کلیسا کی
مقدس جہالت کا پردہ چاک کر کے علم کی روشنی دکھانے کی جرات کی۔ غرض صلیبی جنگوں کی
جھنکار اور ان جنگوں سے پیدا ہونے والی تبدیلیوں کے زیرِ اثر یورپ آہستہ آہستہ
اپنے انتہائی گہرے تعطل و یکسانی سے باہر آنا شروع ہو گیا۔ اور بالکل طبعی طور پر
حرکت کی بنیاد لادینیت (SECULARISM) قرار پائی، کیونکہ
مغربی کلیسا کا مذہب تمام معاملات میں جمود کا رنگ لئے ہوئے تھا۔ اس لئے ہر حرکت
کو لازمی طور پر مذہب سے متصادم ہونا چاہیئے تھا، اور یقینی طور پر اس کی تحریک کی
بنیاد لادینی
(SECULAR) ہونا چاہیے تھی، کیونکہ مذہب تو حرکت و تغیر
کے مخالف تھا!
ادھر کلیسائی اقتدار ایک بھوت بن کر لوگوں کے ذہنوں پر چھا گیا
تھا۔ کلیسا نے لوگوں پر لازم کر دیا تھا کہ وہ اہلِ مذہب کے سامنے جھکیں۔ اور
کلیسا نے لوگوں پر ٹیکس اور باران لگائے ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ لوگوں کو کلیسا کی
جاگیروں میں مزدوری کرنا پڑتی اور ان لشکروں میں جبری بھرتی ہونا پڑتا جو کلیسا
بادشاہوں سے لڑنے کے لئے تیار کرتا تھا۔ اس غلامی کا ردِ عمل ہمہ گیر آزادی کی شکل
میں سامنے آیا اور لوگ یہ خواہش کرنے لگے کہ کلیسا کے اقتدار کو ختم کرنے کی
بنیادوں پر احیاء عمل کیا جائے۔
جلتی پر تیل کا کام کلیسا کی اس حرکت نے کیا کہ اس نے
سائنسدانوں کو تعذیب و سزا دہی کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع کر دیا۔ اور جس کسی نے
اپنی عملی تحقیق سے مقدس دیومالا کی مخالفت کی وہی مستحقِ سزا ٹھہرا۔ ظاہر ہے کہ
اس کا طبعی نتیجہ یہی ہوتا کہ تحریکِ احیائے علوم کلیسائی اقتدار اور مذہب دونوں
سے دور ہوگئی۔ نہ صرف یہ کہ نشاۃِ ثانیہ کی بنیاد لادینی قرار پائی، بلکہ اس بت
پرستانہ یونانی اور رومی روح کو ابھرنے کا پھر موقع مل گیا۔
جس پر قرونِ وسطیٰ میں مسیحیت کا باریک سا پردہ پڑا ہوا تھا۔
جوں ہی کلیسا کی مخالفت شروع ہوئی فوراً یہ بت پرستانہ ذہنیت ابھر آئی، اور دوبارہ
زندگی، افکار اور دلوں پر مسلط ہوگئی؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ سارا عمل بہت
تدریجی اور سست رفتار رہا۔ کیونکہ تحریک کتنی ہی زبردست کیوں نہ ہو، وہ رفتہ رفتہ
دلوں میں جگہ بناتی اور سست رفتاری سے پھیلتی ہے کیونکہ تحریک کو بہت سی شعوری اور
غیر شعوری رکاوٹیں دور کرنی پڑتی ہیں اور اپنا راستہ ہموار کرنا پڑتا ہے۔ وہ افکار
جو ایسے پرجوش لوگوں کے دلوں میں پیدا ہوں جو ہر خطرے کا ڈٹ کر مقابلہ کریں، اور
اپنے راستے سے نہ ہٹیں۔ ایسے افکار بھی کافی عرصہ گزرنے کے بعد عوامی بنتے ہیں۔
تحریکِ احیائے علوم بھی صدیوں تک کلیسائی اقتدار سے مزاحم رہی
اور رفتہ رفتہ زندگی کو لادینی بنیادوں پر استوار کرتی رہی۔ مگر ابتداء ہی سے یہ
تحریک لادینی تھی، اور پوری طرح ہیلینیّت (HELLENISM) سے
مدد حاصل کر رہی تھی۔
طویل کشمکش:
تحریکِ احیاء بمقابلہ مذہب آخر
کار تحریکِ احیائے علوم (RENAISSANCE) اور مذہب میں ایک
طویل اور تلخ کشمکش شروع ہوگئی۔ تحریکِ احیائے علوم کے فکری، علمی اور فنی ثمرات
نہایت دلکش تھے، جن کے نتیجہ میں پہلی مرتبہ اہلِ مغرب کی آنکھیں نورِ علم سے منور
ہوئی تھیں۔ پھر یہ تحریک جمود کے بجائے حرکت تھی، اور حرکت بجائے خود پسندیدہ اور
فطری ہے۔ اس کے علاوہ تحریکِ احیاء کی بنیاد یونانی اور رومی میراث تھی جس کو
مسیحیت ختم تو نہ کرسکی البتہ اس پر پردہ ڈالے رکھا۔ تحریکِ احیاء کے لئے یہ تمام
باتیں خوش آئند تھیں اور اس امر کے مواقع مہیا کر رہی تھیں کہ تہذیب اور علوم و
فنون میں وہ پوری طرح اپنے اثرات چھوڑ دے۔ مگر اس کے ساتھ ایک دوسرا پہلو عقیدہ کا
تھا۔ جو عقیدہ ایک ہزار سال تک لوگوں میں مقبول رہا۔ خواہ اس عقیدہ کی گہرائی کتنی
ہی کیوں نہ ہو، عملی زندگی میں اس کے اثرات کتنے ہی سطحی کیوں نہ ہوں اور لوگوں کے
اعمال پر اس کی حاکمیت کتنی ہی معمولی کیوں نہ ہو، مگر یہ حقیقت ہے کہ عقیدہ عوام
کے دلوں میں اپنی جگہ بنائے ہوئے تھا، اور اس کا اکھاڑنا یا مٹانا آسان نہ تھا۔
یہی وجہ تھی کہ یورپ ایک طویل عرصہ تک دو گونہ عناصر کا حامل رہا۔ ایک طرف مسیحیت
تھی اور دوسری جانب ہیلینیّت (HELLENISM)۔ کلیسا میں مسیحیت کارفرما تھی تو واقعاتی زندگی پر ہیلینیّت کا
تسلط تھا۔ اور اگر وجدان مسیحی تھا، تو فکر ہیلینی تھی۔ اگر چہ یہ دو گونہ عناصر
صدیوں چلتے رہے، مگر لوگوں کے دلوں میں ایک پوشیدہ جنگ برپا اور جاری تھی اور یہ
جنگ مذہب کے بجائے ہیلینیّت کے مفاد کو تقویت پہنچا رہی تھی۔ گو بظاہر مذہبی
اقتدار عوام کے دلوں میں جاگزین تھا۔
ڈارون، صنعتی انقلاب اور معاشرتی تبدیلی
آخر کار وہ وقت بھی
آگیا، جب ڈارون
(Darwin) کے ہاتھوں مذہب سے آخری کشمکش برپا ہوئی۔ ۱۸۵۹ء
میں ڈارون نے اپنی کتاب 'اصل الانواع' (Origin of Species) اور ۱۸۷۱ء
میں 'اصلِ انسان' شائع کر کے تاریخ کا ایک نیا رخ متعین کر دیا۔ اس سے قبل کلیسا
کا مقابلہ کوپرنیکس (Copernicus, 1473-1543)، گیلیلیو (Galileo, 1564-1642) اور جیوردانو برونو (Giordano Bruno, 1548-1600) سے
ہو چکا تھا۔ اور کلیسا ان کو جلا چکا تھا، اور ہر قسم کی سزائیں دے چکا تھا۔
کیونکہ انہوں نے کلیسا کے اس نظریہ کی مخالفت کی تھی کہ زمین آسمان کا مرکز اور
انسان کائنات کا مرکز ہے۔ اگر چہ عوام نے کلیسا کی طرف سے دی جانے والی سزاؤں کو
بھیانک خیال کیا، مگر پھر بھی انہوں نے ملحدوں کے خلاف کلیسا کی فتح پر نعرہ ہائے
تحسین بلند کئے۔ ان واقعات کے بعد ڈارون قیامت بن کر ٹوٹا جب اس نے یہ اعلان کیا
کہ انسان کی اصل حیوان ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ کلیسا نے اسے کافر قرار دیا۔ اور عوام
پھر کلیسا کے ساتھ ہوگئے کیونکہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ انسان کی بزرگی اور شرافت
چھین کر اسے حیوان بنا دیا جائے۔ مگر جتنے عرصہ ڈارون اور کلیسا کے درمیان جنگ
جاری رہی، اس دوران عوام کے نقطہ نظر میں بھی تبدیلی پیدا ہوگئی۔ اور عوام نے یہ
محسوس کرنا شروع کر دیا کہ مذہب کے نام پر قائم اس بھیانک اقتدار کے خاتمہ کا یہ
نادر موقع ہے۔ چنانچہ لوگ اپنی انسانی شرافت کو فراموش کر کے آزادی و بے قیدی پر
خوش ہو گئے۔ خواہ یہ آزادی حیوانیت ہی کے روپ میں کیوں نہ ہو۔
مشین کی ایجاد صنعتی
انقلاب کا سبب بنی جس نے ساری مغربی زندگی میں انقلاب برپا کردیا۔ اور یہ انقلاب
صرف معاش اور معاشی تعلقات تک محدود نہیں رہا، بلکہ زندگی کے تمام پہلوؤں پر اثر
انداز ہوا۔ نئے صنعتی شہر بنے اور وہاں نئے کارخانوں میں کام کرنے کے لئے چاروں
طرف سے نوجوان آنے لگے۔ اور انھوں نے شہر میں اس ڈھنگ سے رہائش اختیار کی جس سے وہ
پہلے سے واقف نہ تھے۔ صنعتی انقلاب سے پہلے کی زندگی پرسکون، منضبط، سست رو اور
گھٹی ہوئی زندگی تھی۔ یہ زندگی دیہات اور جاگیرداروں کے ہاں یکساں طریقے پر اپنی
تمام سختیوں اور دلچسپیوں کے ساتھ گزر رہی تھی۔ کسان زمین کی کھیتی باڑی میں لگے
ہوتے تھے اور ان کی بیویاں گھر سنبھالے بیٹھی تھیں اور سوت کات کر بیچا کرتی تھیں۔
خاندانی تعلقات ایک متعین رخ پر قائم تھے۔ کوئی بھی ان تعلقات کو توڑنے کی جرات نہ
کر سکتا تھا۔ سب ہی لوگ اپنے ذہنوں میں مذہب، اخلاق اور روایات کا ایک متعین مفہوم
رکھتے تھے۔ اور خواہ کوئی مذہب کی پابندی کرے یا نہ کرے، اور خواہ کوئی شخص عملی
زندگی میں مذہبی تعلیمات کی خلاف ورزی ہی کیوں نہ کرتا رہے، مگر کسی کے ذہن میں
مذہبی اصول توڑنے کا تصور نہ پیدا ہوتا تھا۔ کیونکہ اس معاشرے میں ہر متعین روش
مقدس خیال کی جاتی تھی۔ اور یہ تقدس مذہب سے زیادہ قدیم رسم و رواج کی بناء پر
حاصل ہوا تھا۔ جب بے راہ رو نوجوان کوئی اخلاقی جرم کرتے، تو بسا اوقات معاشرہ اسے
نظر انداز بھی کر دیتا، مگر ہر حال میں جرم کو جرم ہی سمجھا جاتا تھا۔ عورتیں کبھی
بھی اخلاقی جرم کی ہمت نہ کر پاتیں۔ کیونکہ اگر وہ کسی جرم کا ارتکاب کرتیں تو
ہمیشہ کے لئے معاشرے میں ذلیل و رسوا ہو جاتیں۔ اور خوفِ مذہب بھی جرم کے راستے
میں رکاوٹ بنتا تھا۔ کبھی کبھی ایک نسل گزرنے کے بعد کسی گاؤں میں کوئی اس قسم کا
واقعہ پیش آ جائے تو وہ دیگر بات ہے۔ مگر صنعتی انقلاب کے ساتھ حالات تیزی سے
بدلنا شروع ہو گئے۔ نئے کارخانے کھلے اور ان میں صحت مند نوجوان جمع ہونے لگے۔
کیونکہ مشین کے ابتدائی دور میں اسے چلانے کے لئے انسانی طاقت ناگزیر تھی۔ ان
کارخانوں میں کام کرنے کے لئے نوجوان بغیر اپنے خاندانوں کے تن تنہا آتے۔ کوئی بھی
مستقل جائے قیام ملنے سے پہلے اپنے اہل و عیال کو نہ لاتا، بلکہ اکیلا ہی اس تجربے
سے دوچار ہوتا۔ جاگیرداری کی قید سے چھوٹے ہوئے یہ پرجوش نوجوان جو جاگیردار کی
زمین میں پا بہ زنجیر تھے، اب نئے معاشرے میں آزاد پھر رہے تھے۔ پھر یہ نیا معاشرہ
نہ انھیں پہچانتا تھا، نہ ان کی کوئی پروا کرتا تھا، اور نہ ان کے کسی عمل پر بندش
قائم کرتا تھا۔ اور خود ان نوجوانوں کے بھی ایسے شناسا یہاں موجود نہ تھے، جن سے
یہ شرماتے، یا وہ انھیں ان کے غلط اعمال پر شرم دلاتے۔ سب سے بڑھ کر یہ نوجوان غیر
شادی شدہ تھے اور جوانی سے بھرپور تھے جس کا لازمی نتیجہ اخلاقی جرائم تھے۔ اور
حالات بھی اسی راستے کو ہموار کر رہے تھے۔ اس کے بعد کارخانوں میں کام کرنے کے لئے
عورت بھی آگئی۔ جب کارخانہ داروں نے کم اجرت پر مزدوروں سے زیادہ محنت لینی شروع
کی، اور مزدور اس کے ردِ عمل کے طور پر ہڑتالیں کرنے لگے اور اس طرح کارخانہ دار
اور مزدوروں کے درمیانی تعلقات کشیدہ ہوگئے، تو مل مالکین نے یہ کوشش شروع کر دی
کہ وہ مزدوروں کی ایسی جماعت بھرتی کر لیں، جو اسی اجرت یا اس سے کم اجرت پر
مزدوری کر سکیں۔ اسی اثناء میں وہ عورتیں جن کے خاوند شہروں میں آچکے تھے، یا جن
کو شوہروں کی تلاش تھی، کیونکہ ہزاروں نوجوانوں کے دیہاتوں سے چلے آنے کی بناء پر
عورتیں بغیر مردوں کے رہ گئیں تھیں۔ یہ عورتیں مزدوری کی تلاش میں آئیں اور مل
مالکین کے پھندے میں پھنس گئیں۔ اور حالات کی مجبوری کے تحت انھوں نے کمتر اجرتوں
پر مزدوری کرنا قبول کر لیا۔ اب تاریخ ایک نئے موڑ پر آچکی تھی! عورت مزدوری کرنے لگی، اور بغیر کسی شریک کے اس اجرت کی مالک ہو
گئی۔ اگر چہ عورت اس اجرت سے اپنی اور اپنے خاندان کی کفالت کرتی تھی، مگر پہلے
اسے ملکیت کا اختیار نہ تھا۔ اب اس کے پاس حقِ ملکیت آگیا۔ پہلے اسے حقِ تصرف حاصل
نہ تھا، اب وہ بھی حاصل ہو گیا تھا۔ کیونکہ مغربی معاشرے کی روایات اور قانون میں
عورت کو قطعاً یہ حق حاصل نہ تھا کہ وہ مال اور ملکیت میں کوئی آزادانہ تصرف کرے
یا کسی معاملے میں براہِ راست کوئی اقدام کر سکے۔ اس لئے جب عورت کو ملکیت حاصل
ہوئی تو وہ حالات کے ماتحت اپنے آپ کو آزاد تصور کرنے لگی۔ اب جب کہ آزاد نوجوان
مرد اور عورتیں باہم مل رہے تھے تو وہ آخر مقید جنسی انگیخت پر کیوں نہ لبیک کہتے؟
مگر یہاں تک نوبت ایک دم نہیں پہنچ گئی۔ اور نہ ایسا ہونا ممکن تھا۔ کیونکہ دلوں
میں بہت سے شعوری، پوشیدہ اور گہرے بندھن ایسے تھے، جو بے قیدی اور آزاد روی کے
راستے میں رکاوٹ تھے مگر رفتہ رفتہ یہ تمام بندھن ڈھیلے ہوتے چلے گئے۔ ترقی پذیر
سرمایہ داری کے سائے تلے پروان چڑھنے والی نسل کو ایک قسم کی سیاسی آزادی حاصل ہو
گئی، جو اس سے پہلے موجود نہ تھی۔ پارلیمان، انتخابات، پیشہ ورانہ قومی اور جماعتی
نمائندگی، تقریر، اجتماع، اور قول و عمل کی آزادی، جاگیرداری نظام میں ان میں سے
کوئی بھی شے موجود نہ تھی۔ مندرجہ بالا تمام امور تقدم اور حرکت و عمل پر آمادہ
کرنے والے، آزادی کے بعد مزید آزادی اور حصولِ حقوق کے بعد مزید حقوق کے حصول پر
اکسانے والے بن گئے۔ اس صورت حال کے تحت لوگ راستے کی ہر رکاوٹ دور کرنے پر آمادہ
نظر آنے لگے اور تنہا اقتدار کے مالک بن جانے والے خود غرض لیڈروں کے خلاف جدوجہد
کرنے لگے۔ اس کشمکش نے آزادی کے جذبے کو اور نکھارا، اور آزادی لوگوں کو ایک شعور
سے دوسرے شعور کی جانب اور ایک فکر سے دوسرے فکر کی طرف لے گئی۔ اب عوام کا مطالبہ
آزادی، زندگی کے ہر میدان میں حصولِ آزادی تھا، حتیٰ کہ جاگیرداری معاشرے کی قائم
کردہ اور مذہب کی عائد کردہ اخلاقی قیود سے بھی آزادی کا مطالبہ ہو گیا۔ خاندانی
بندھن ایک ایک کر کے ٹوٹتے گئے۔ عورت، مرد اور بچے سب کام پر لگ گئے۔ اب لوگوں کے
ذہنوں میں اس گھر کا نقشہ باقی نہیں رہا جس کے تمام افراد ایک مقدس ڈور میں بندھے
ہوں، خاص آداب، شعائر اور روایات کی پابندی کیا کرتے تھے۔ یہ گھر اس دیہاتی معاشرے
میں بنا کرتا تھا، جس میں عورت اپنے ہاتھوں اور اپنے دل سے احساسات کو پاکیزہ
بناتی، اور جس میں مرد اپنی بالادستی اور اپنے حکم سے ان آدابِ خانہ کی پابندی
کراتا۔ عورت مرد کے یہ دوہرے رابطے افرادِ خانہ کو باندھے رکھتے۔ جذباتی ربط کی
قیادت ماں کرتی اور عملی ربط مرد قائم رکھتا، اور بچے ان رابطوں میں بندھے رہتے،
اور ان کو توڑنے کی جرات نہ کر پاتے۔ گھر کا یہ سارا نقشہ اسی وقت بدل گیا۔ جب
عورت مزدوری کے لئے گھر سے نکلی۔ کیونکہ عورت اب جس محنت و مشقت سے دوچار تھی، اس
میں جذباتی ربط کے باقی رہنے کا سوال ہی نہ تھا۔ پھر عورت چونکہ معاشی طور پر
مستقل ہو چکی تھی، اس لئے باپ کی برتری کے بالمقابل ماں کی بھی بالادستی قائم ہو
گئی۔ اور باپ جس عملی ربط کو انفرادی طور پر قائم کئے ہوئے تھا، وہ ٹوٹ گیا۔ اس کے
بعد جب بچے مزدوری کرنے لگے تو ان میں قبل از وقت پختگی آنے لگی اور ان کے بچگانہ
شعائر تباہ ہوکر ان کے ننھے سے وجود میں پختہ شعور ابھر آئے۔ نتیجہ یہ کہ وہ
جذباتی اور عملی دونوں بندھنوں سے بیک وقت آزاد ہو گئے۔ ## معاشرے
میں تغیر معاشرے میں بھی قابلِ اعتنائی تغیر پیدا ہو
گیا۔ تمام اجتماعی، معاشی، سیاسی، اخلاقی، اور فکری تعلقات میں تغیر و ارتقاء پیدا
ہو گیا۔ اور ان میں سے کوئی بھی شے اپنی حالت پر باقی نہیں رہی، جو صدیوں سے چلی
آرہی تھی۔ پہلے فرد کا مقام ایسا تھا، جیسے کسی مکان کی اینٹ۔ ایک فرد جاتا تھا،
دوسرا اس کی جگہ لے لیتا تھا۔ مگر اب ایسا نہیں تھا۔ اب عورت و مرد اور بچے، گھر
میں زندگی اور گھر سے باہر کی زندگی، غلام اور آقا، عمل اور اس کے نتیجہ میں آنے
والی دولت، غرض ہر شے بدل گئی۔ اور یہ تمام تغیر اس تیزی سے آیا کہ پہلے کبھی تغیر
کی رفتار اس قدر تیز نہ رہی تھی۔ پہلے دس، بیس اور پچاس سو سال گزر جاتے اور کوئی
قابلِ ذکر تبدیلی نہ پیدا ہوتی، اور سست رفتاری کی بناء پر یہ محسوس ہوتا کہ ہر شے
بالکل غیر متغیر اور ارتقاء سے خالی ہے۔ مگر صنعتی انقلاب کے بعد سو پچاس سال کیا
معنی صرف دس بیس سال میں نمایاں فرق رونما ہونے لگے۔ نہ مرد کو اپنے گھر میں بالا دستی حاصل رہی۔ نہ عورت اب اپنے کو
گھر میں مقید اور شوہر کی مرضی کا تابع خیال کرتی۔ بچہ کے پاس اگر چہ چند پیسے ہوتے تھے، مگر وہ نفسیاتی بے راہ
روی سے دوچار ہو گیا۔ غرض گھر کے سارے بندھن ٹوٹ گئے! بغیر
کسی عید و تہوار کے لوگ سڑکوں پر اس طرح نکل آتے، جیسے تہوار کے موقعوں پر نکلتے۔
اور یہ ازدحام دیہات کے پہلے کے سے ہجوم سے مختلف تھا۔ اب لوگ نہ ایک دوسرے کو
پہچانتے تھے، نہ کسی کو دوسرے کی پروا تھی اور نہ اب وہ ایک دوسرے کے تعارف کی
جھنجھٹ پالتے تھے۔ غلام زمین کی غلامی سے آزاد ہو گئے، اور کارخانوں اور سرمایہ
دار کی غلامی اختیار کر لی۔ مگر وہ خوش تھا، کیونکہ اس کی آمدنی بڑھ گئی۔ اسے
جدوجہد کا حق مل گیا، اسے اپنے حقوق کے مطالبہ کا حق مل گیا۔ اور اب اس کی فعال
اور بااثر جماعتیں بن گئیں۔ اور وہ ایک ابھرتی ہوئی سیاسی قوت بن گیا۔ سب سے بڑھ
کر یہ کہ وہ دوسرے غلاموں کے ساتھ مل کر ایسی فضا میں رہ رہا تھا جس کی ظاہری
علامت غلامی کے بجائے آزادی تھی، اور خاص طور پر اخلاقی پہلو میں تو آزاد ہی تھا۔
ہر ایک غلام کو اپنے شخصی عمل میں اپنی انفرادیت کا احساس ہوگیا تھا، کیونکہ پہلے
وہ دیہاتی ماحول میں بندھے ہوئے اجتماعی عمل کے تابع تھا۔ انفرادیت کے ساتھ ساتھ
مختلف جماعتوں کے وجود سے غلام کو اپنی اجتماعیت کا احساس بھی ہو گیا، جب کہ پہلے
اس کی کوئی جمعیت نہ تھی، بلکہ وہ اس معاشرے میں جس میں اس کی نمائندگی نہ تھی،
ایک فردِ ضائع تھا۔ غرض غلام کا پورا وجود بدل کر رہ گیا، اور وہ بالکل سابقہ
صورتِ حال کی ضد بن گیا۔ سیادت اور اقتدار کی نوعیت بھی بدل گئی۔ پہلے اقتدار زمین
کی بدولت قائم ہوتا تھا مگر اب دولت کے بل بوتے پر ہونے لگا۔ اب سرداری کا مرکز
سکڑ کر محدود مگر زیادہ فعال ہو گیا۔ اور اب سیادت و قیادت کو مزدوروں اور ان کی
جماعتوں سے متصادم ہونا پڑتا تھا، جب کہ پہلے کے جامد جاگیرداری معاشرے میں اس قسم
کی کوئی صورت نہ تھی۔ کاروبار کی نوعیت بھی بدل گئی۔ اب پہلے کی طرح غیب پر آس لگا
کر بیٹھنا نہیں پڑتا تھا، جس طرح جاگیرداری نظام میں بیج بو کر بارش کا منتظر ہونا
پڑتا تھا۔ بلکہ اب انسان کا تعامل دیکھی بھالی اشیاء کے ساتھ تھا، اور اب وہ جس
طرح چاہتا مادے کو ڈھال لیتا تھا۔ اب اس کا تعامل ماورائے طبیعت کے بجائے طبیعت سے
تھا، اور اللہ کے بجائے مادے سے تھا۔ غرض ہر شے انقلاب سے پہلے کی صورت سے مختلف
ہو گئی۔ ##
سائنس اور ہمہ گیر تغیر اس
تغیر و تبدل میں جب سائنس حصہ لیتی ہے، تو تغیر ہمہ گیر ہو جاتا ہے۔ سائنسی
ایجادات نے نہایت تیزی سے ترقی کی، اور زندگی کی شکل بدل کر رہ گئی۔ مشین، بھاپ کی
سواری، موٹر، بجلی اور مشینی صنعت، غرض ہر شے بدل گئی۔ سائنسی ایجادات بھی ہمہ گیر
تغیر سے دوچار ہیں۔ چند سال اور بسا اوقات چند ماہ نہیں گزرتے کہ تبدیلی واقع ہو
جاتی ہے۔ سائنس میں جو بھی نئی تبدیلی آتی ہے، وہ لازمی طور پر زندگی کی ہر شکل پر
اثر انداز ہوتی ہے۔ ریل
کا سفر اس سفر سے قطعاً مختلف ہے، جو گھوڑوں اور گھوڑا گاڑیوں کے ذریعہ کیا جاتا۔ کپڑے کی مشین کی
بناوٹ ہاتھ کی بناوٹ سے علیحدہ شے ہے۔ بجلی کوئلے کی کار سے مختلف ہے۔ نئی نئی ایجادات سے بھرپور آج کی سڑک اس سڑک سے جداگانہ ہے، جو
اپنی لمبائی چوڑائی میں یکساں ہی رہتی تھی۔ جدید ترین سامان والا آج کا گھر اس گھر سے مختلف ہے، جس میں
صدیوں ایک ہی سا سامان چلتا تھا۔ بلکہ خود سائنسی نظریات بدلتے رہتے ہیں۔ جدید
سائنسی تحقیقات اور جدید سائنسی آلات کی ایجاد کی بناء پر طبیعیات، کیمیا، طب،
فلکیات، ریاضی اور علم الحیات میں نظریاتی تبدیلی رونما ہوتی رہتی ہے۔ اب اس سے بڑھ
کر کیا بات ہوگی کہ ساری زندہ کائنات ایک خلیے سے وجود میں آتی ہے؟ ہوا میں کروڑہا
ایسے جرثومے موجود ہیں جو نظر نہیں آتے، مگر مہلک امراض کا باعث بنتے ہیں؟ سیارے
صرف سات نہیں ہیں، بلکہ لاکھوں سیارے ہیں جو ہمیں نظر نہیں آتے مگر وہ سورج سے بڑے
اور سورج سے زیادہ روشن ہیں؟ ان تمام امور سے تغیر، ارتقاء اور عدمِ ثبات کا گہرا
شعور ذہن میں جاگزیں ہو جاتا ہے۔ ## نتائج: ارتقاء کا جنون اور مذہب سے دوری ان تمام امور کا نتیجہ ایک ایسی شکل میں ظاہر ہوتا ہے، جس کے دو
رخ ہیں:
1. پہلا رخ: تغیر و ارتقاء 2. دوسرا رخ: رفتہ رفتہ مذہب سے دوری۔ اب ارتقاء ایک سائنسی نظریہ
نہیں رہا جس کا ڈارون نے اپنی تجربہ گاہ سے اور علم الاحیاء کو زیرِ بحث لاتے ہوئے
اعلان کیا تھا، بلکہ ارتقاء و تغیر ایک ایسی بیماری بن گیا، جس میں عوام اور
سائنسدان سب ایک ساتھ مبتلا ہو گئے، اور انھوں نے ہر شے کو ارتقاء و تغیر کی عینک
سے دیکھنا شروع کر دیا۔ مذہب،
اخلاق، روایات، اقدار، افکار، حقائق، معلومات، زندگی، معاشرہ، فرد اور معاشرے کے
تعلقات، فرد اور حکومت کے تعلقات، مرد کے احساسات، عورت کے احساسات، زندگی کے
مقاصد... ان میں کوئی شے غیر متغیر نہیں رہی۔ بلکہ لوگوں کا وتیرہ یہ ہوگیا کہ
عدمِ تغیر سے جنگ کرنا ہے۔ اگر کوئی شے از خود نہ بدلے تو اسے زبردستی بدل دیا
جائے۔ کسی بھی شے کو جامد اور غیر متغیر نہ رہنا چاہیے۔ کیونکہ جمود، ناموسِ حیات
کی ضد ہے۔ ناموسِ زندگی صرف تغیر ہے۔ اور جو شے متغیر نہیں ہے وہ ناموسِ زندگی کے
مخالف ہے۔ اب تغیر و ارتقاء کسی مقصد کے حصول کا ذریعہ ہونے کی بجائے خود ہی مقصد
بن گیا، اور لوگوں کو ہر غیر متغیر شے کھٹکنے لگی۔ عقیدہ: اب اگر اللہ پر عقیدہ غیر متغیر ہے، تو اسے بھی بدل جانا
چاہیے۔ معبود بدلے یا طریقہ عبادت! چاہے ہمیں طبیعت کی پرستش کرنا پڑے اور خواہ
ہمیں اپنی ہی پوجا کرنی پڑے مگر تغیر بہر حال ہونا چاہیے۔ عبادت کے روایتی طریقے
سے ہٹ کر کسی اور ڈھنگ سے عبادت ہونا چاہیے۔ غرض تغیر ہونا چاہیے، کسی طرح بھی ہو! اخلاق: اور
اگر اخلاق غیر متغیر ہیں تو انہیں بدل کر رکھ دینے چاہئیں۔ چنانچہ نفع پرستی، خود
پسندی اور خاندانی روابط کا منقطع کر دینا آج کا اخلاق ہے۔ روایات: اور اگر روایات ناقابلِ تغیر ہیں، تو ان میں بھی تغیر آ
جانا چاہیے۔ چنانچہ عورتوں کو مردوں پر سبقت حاصل کرنی چاہیے۔ بچوں کو بڑوں کے
مقابلے پر آنا چاہیے۔ عورتوں اور مردوں کے لباس بدلتے رہنا چاہئیں۔ فیشن کی کثرت
ہو کیونکہ فیشن کی کثرت تیز رفتار تغیر کی ضامن ہے۔ یہ تو تصویر کا ایک رخ تھا اور... دوسرا رخ یہ ہے کہ معاشرے میں مذہب کا کوئی حقیقی وزن باقی نہیں
رہا۔ مذہب کی عمارت تو اسی وقت متزلزل ہو گئی تھی جب لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات
ڈالی گئی کہ آج کے تغیر و ارتقاء کے دور میں مذہب عدمِ تغیر اور عدمِ حرکت کا حامل
ہے۔ اور حرکت ہمیشہ سکون سے متصادم ہوتی ہے۔ پھر مذہب بیزاری میں اس امر سے بھی
اضافہ ہوا کہ معاشرے کے تمام روابط غیر مذہبی (SECULAR) بنیادوں
پر قائم کئے گئے۔ صرف فکری اساس ہی لادینی بنیادوں پر استوار نہ تھی، بلکہ اس تفکر
سے جو عملی نظام ابھرا وہ بھی سارا کا سارا لادینی تھا۔ چنانچہ: ترقی پذیر
سرمایہ داری نظام سودی بنیاد پر قائم ہوا اور مذہب سود کو اور سودی کاروبار کو
حرام قرار دیتا ہے۔ اگر چہ کلیسا نے سودی نظام کے خلاف کافی احتجاج کیا، مگر سرکش
سرمایہ داری نے کلیسا کے احتجاج پر کان نہ دھرا، اور اخلاق و مذہب کو بالائے طاق
رکھ کر مال و دولت کی مجنونانہ محبت میں یہ نظام آگے بڑھتا گیا۔ مرد و زن کے اشتراکِ
عمل، معاشرے میں اختلاط، مجالس میں شرکت، آسائش کے حصول کے لئے مشترکہ جدوجہد،
عورت کی معاشی خود مختاری، اور اس کا یہ خیال کہ وہ اب پاکدامن رہنے کی پابند نہیں
ہے (کیونکہ اگر مرد اس کے اخلاق کی بناء پر اسے چھوڑ دے تو وہ اپنی کفالت خود کر
سکتی ہے)، اور زندگی کی بڑھتی ہوئی دشواریوں کے تحت ایک نوجوان کا گھر آباد کرنے
سے پہلے کافی وقت ذہنی اور جسمانی سکون کی تلاش میں خرچ کر دینا... یہ تمام امور
لادینی بنیادوں پر قائم ہوئے اور ان ہی پر مرد و زن کے آزادانہ جنسی تعلقات کی
بنیاد رکھی گئی۔ اہلِ مذہب کے وعظ و تلقین کے برخلاف معاشرے کی واقعی صورتِ حال
اخلاقی گرفت سے آزاد ہوگئی، اور اخلاق فضا میں معلق ایسے مثال (IDEAL) بن گیا جس کا عملی زندگی پر کوئی اثر نہ تھا۔ مذہب تو یورپ کے
معاشرے میں پہلے ہی زندگی سے علیحدہ تھا، اور واقعی زندگی پر اس کا کوئی اثر نہ
تھا اور اب تو صنعتی انقلاب کے پیدا کردہ طوفان میں اس کا کوئی اثر باقی نہ رہا۔
سائنس کی بنیاد بھی ابتداء ہی سے مذہب سے بیزاری رہی، کیونکہ کلیسا جس مذہب کا
حامل تھا، اس سے سائنس کو اتنی بھی تقویت نہ ملتی تھی جس طرح اسلام نے تجربی اسکول
سے علمی فکر کو تقویت عطا کی۔ کیا، صحیح معلومات دیتا، اور یہی کسی اور طریقے سے
تقویت دیتا! بلکہ کلیسا تو جہالت کو ابھارتا، علم سے جنگ کرتا، اور سائنسدانوں کو
سزائیں دیتا تھا۔ سائنسی ایجادات کا بھی رخ انسانی فائدے کے بجائے مال و متاع کا
حصول تھا۔ یہ جذبہ بھی مذہبی اسپرٹ کے خلاف تھا، مگر مذہب کو راہنمائی کی کوئی قوت
حاصل نہ تھی۔ رفتہ رفتہ ایک عام انسان کو بھی یہ احساس ہو گیا کہ اس کی زندگی پر
تغیر پذیر اشیاء کا اثر ہے، مذہب کا کوئی اثر نہیں ہے۔ سائنس مادی زندگی کی تشکیل کر رہی ہے۔ سیاست، سیاسی تعلقات کا تعین کر رہی ہے۔ سرمایہ داری معاشی زندگی کو استوار کر رہی ہے۔ صنعتی انقلاب اور اس
کے نتائج اجتماعی زندگی کو ڈھال رہا ہے۔ اور ہیلینیّت (HELLENISM) فکری زندگی کی
رہنمائی کر رہی ہے۔ اور مذہب ان سب باتوں سے علیحدہ دل کے کسی گوشے میں معطل پڑا
ہے۔ شب و روز کی عملی زندگی مذہب کے اثرات کو کم کرتی جاتی ہے اور دل سے اس کی
عظمت کم کرتی رہتی ہے۔ اب ایک فرد اپنی انفرادی، اجتماعی، عملی، علمی، سیاسی اور
معاشی زندگی میں کہیں بھی مذہب اور خدا کا احساس نہیں رکھتا۔ اگر کوئی شخص مذہب
بیزار نہیں بھی ہے تو بھی عملی زندگی میں وہ مذہب کو قطعاً نظر انداز کئے ہوئے ہے۔
## یہودی کردار اور مذہب دشمنی مگر
قصہ صرف مذہب سے روگردانی اور عملی زندگی میں اس کی عدمِ حاکمیت پر ختم نہیں ہوتا
بلکہ ایک بڑا پروگرام مذہبی اصولوں کو توڑنا اور صفحہ ہستی سے ان کا وجود مٹانا
تھا۔ یہ پروگرام عالمی یہودیت کا تھا، جس میں اسے بے مثال کامیابی حاصل ہوئی۔
یہودیوں کو غیر یہودیوں سے جو کینہ اور نفرت ہے، وہ اسکو کسی بھی لمحہ فراموش نہیں
کر سکتے، کیونکہ وہ اپنے آپ کو اللہ کی منتخب قوم اور باقی قوموں کو کیڑے مکوڑے
سمجھتے ہیں، جن کا فنا کرنا انتہائی ضروری ہے۔ یورپ کی مسیحیت کے ساتھ یہودیوں کی
دشمنی قدیم زمانہ سے چلی آرہی ہے کیونکہ مسیحی رومی حکومت میں ان پر بھیانک مذہبی
ظلم کئے گئے، اور ہر مسیحی معاشرے میں انہیں ذلیل کیا گیا۔ اس ذلت کا ایک نمونہ
شیکسپیئر
(SHAKESPEARE) کے ڈرامے 'وینس کا تاجر' (MERCHANT OF VENICE) میں نظر آتا ہے، یا اورکزی (ORCZY) کے
ڈرامے 'سرخ پimpernel' (THE SCARLET PIMPERNEL) میں دیکھا جا سکتا ہے۔ جب کوئی مسیحی کسی یہودی سے قرض لیتا، تو
اس کے ہاتھ سے نہ لیتا، بلکہ یہودی کو کتے کی طرح دور کھڑا کر دیتا، اور اسے حکم
دیتا: 'روپیہ رکھ دے، اور فوراً، اے یہودی! میری نظروں سے دور ہو جا'۔ جب یہودی
دور چلا جاتا، تو مسیحی سردار آگے بڑھ کر وہ رقم اٹھا لیتا جو اس نے یہودی سے قرض
لی ہوتی! یہ ایسی ذلت و رسوائی تھی، جسے یہودی ذہن فراموش نہ کر سکا۔ جب یورپ کی
نشاۃِ ثانیہ لادینی بنیادوں پر قائم ہوئی، تو یہودیوں کی مسرت کی انتہا نہ رہی،
کیونکہ یہ مسیحیت کی شکست کا پیش خیمہ تھا۔ چنانچہ یہودی اپنا کردار ادا کرنے میں
لگ گئے۔ جب ڈارون نے اصلِ انواع اور اصلِ انسان کے بارے میں اپنا نظریہ پیش کیا تو
یہودیت نے اس کو بھی اپنی کامیابی سمجھا، اور اس نے اندازہ لگا لیا کہ اب کلیسا سے
کس قدر سخت مقابلہ ہونے والا ہے۔ 'علمائے یہود کے پروٹوکولز' (The Protocols of the Learned Elders
of Zion) میں ہے: "ڈارون اگر چہ یہودی نہیں ہے
مگر اس کی آراء کی وسیع پیمانے پر اشاعت کر کے ہم کسی بھی مذہب کی بنیادیں ہلانے
کا کام لے سکتے ہیں۔" یہ بات صحیح ثابت
ہوئی اور یہودیت نے ڈارونیت اور مذہب میں منافرت پیدا کرنے کے لئے اپنی کوششیں صرف
کر دیں تاکہ اس طرح آخر کار مذہب کا خاتمہ ہو جائے۔ کیونکہ یہودی تمام غیر یہودیوں
سے عام طور پر اور یورپ کے مسیحیوں سے خاص طور پر نفرت کرتے تھے، مگر ان میں
انتقام کی قدرت نہ تھی۔ عالمی یہودیت نے نظریہ ڈارون سے خوب فائدہ اٹھایا۔ یہودیت
نے اس نظریہ کو اپنے تین علماء کی مدد سے اپنے مفاد کے لئے استعمال کیا۔ ان تین علماء
نے دنیائے فکر کے تین اہم میدانوں - معاشیات، اجتماعیات اور نفسیات کو مذہب دشمن
بنیادوں پر استوار کر کے ساری مغربی فکر کو اس رنگ میں رنگ دیا۔ یہ تین یہودی
علماء مارکس، فرائڈ اور ڈورکائیم ہیں۔ # فکری بنیادیں: مارکس، فرائیڈ، ڈورکائیم ## تین
یہودی: مارکس، فرائڈ، ڈورکائیم یہ
سچ ہے کہ یورپ میں دین دنیا کی تفریق کا بیج یہودیوں کا بویا ہوا نہیں ہے۔ بلکہ اس
تفریق کی بنیاد تو نشاۃِ ثانیہ کی بالکل ابتداء میں پڑ چکی تھی اور نشاۃِ ثانیہ
میں گرچہ یہودیوں کا بذاتِ خود کوئی دخل نہ تھا، مگر یہ ان کی خواہشات کے مطابق
رہی۔ اس طرح ڈارون کے ہاتھوں جس جنگ کی ابتداء ہوئی، اس میں بھی یہودیوں کا کوئی
تعلق نہیں تھا، مگر یہودی اس پر بہت خوش ہوئے، جیسا کہ ان کے ضوابطِ کار میں مذکور
ہے۔ مگر ان تین یہودیوں کا کردار انتہائی اہم ہے۔ پہلے پہل مذہب اور علماء میں
تفریق ہوئی، پھر مذہب اور مفکرین میں، پھر مذہب اور آزادی کے علمبرداروں میں، اور
پھر مذہب اور معاشرے میں گھس کر نفع حاصل کرنے کی خواہشمند عورت میں افتراق پیدا
ہوا۔ مگر مذہب بیزاری اور اس سے روگردانی کا جذبہ بطور شخصی مزاج کے رہا، اور لوگ
اس کو اپنا انفرادی معاملہ سمجھتے رہے۔ پھر لوگ اخلاق سے کنارہ کش ہوئے، خاص طور
پر جنسی معاملات میں، تو یہ رویہ بھی بطور شخصی مزاج یا بطور ضرورت رہا، اور لوگ
کوئی نہ کوئی عذر پیش کرتے رہے۔ مگر یہ تینوں علماء اس پروگرام کے ماتحت آئے کہ وہ
ان تمام امور کو بطور ایک مسلّمہ حقیقت کے ثابت کر دیں تاکہ یہ امور شخصی مزاج نہ
رہیں، جس کے لئے کسی کو اس امر کا جواز تلاش کرنا پڑے، بلکہ یہ تمام باتیں علمی
ترقی کے عائد کردہ فرائض بن جائیں، جس کے لئے نہ کسی جواز کی ضرورت باقی رہے، اور
نہ کسی عذر کی۔ بلکہ اگر کہیں جواز اور عذر پیش کرنے کی ضرورت پیش آئے تو وہ مذہب،
اخلاق اور روایات کی پابندی کرنے والے کو پیش آئے، اور مذہبی ہونا ایک ایسی تہمت
قرار پا جائے جس کے لئے کوئی عقلی جواز باقی نہ رہے۔ یہی وہ اہم کام ہے جسے مارکس (Karl Marx,
1817-1883)،
فرائڈ
(Sigmund Freud, 1856-1939) اور ڈورکائیم (Émile Durkheim,
1858-1917) نے اپنے اپنے دائرہ کار میں انجام دیا، اور
جس سے انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کے شروع میں مغربی فکر بُری طرح متاثر
ہوئی۔ انھوں
نے یہ نہیں کہا کہ مذہب کے کلیسائی مفہوم میں انحراف ہے، اسے درست کرنا چاہیے،
بلکہ انھوں نے کہا کہ مذہب خود انحراف ہے، اسے ختم ہونا چاہیے۔ انھوں نے یہ نہیں
کہا کہ موجودہ اخلاق غلط ہے، اس میں تصحیح کر لی جائے، بلکہ انھوں نے کہا کہ اخلاق
بذاتِ خود زندگی میں کوئی قیمت نہیں رکھتا۔ انھوں نے یہ باتیں شخصی حیثیت میں نہیں کہیں، اور نہ ان کی جانب
لوگوں کو انفرادی حیثیت میں دعوت دی، بلکہ ان خیالات کو علمی مطالعہ، علمی نظریات
و حقائق کی شکل میں پیش کیا اور اس پیشکش پر بحث و تحقیق کا رنگ غالب رہا! اس مرحلہ سے اس فتنہ کی ابتداء ہوئی جس سے مغربی معاشرے کو
دوچار ہونا پڑا، اور جس سے وہ دوچار چلا آتا ہے! مغرب
جس انحراف سے دوچار ہوا، اگرچہ اس کے سارے عوامل پہلے موجود تھے (ڈارون اور صنعتی
انقلاب
(Industrial Revolution)) اور یہ اجتماعی،
معاشی اور فکری عوامل اپنی جگہ پر سخت ترین عوامل تھے، جو نظریہ ڈارون اور صنعتی
انقلاب کی شکل میں سامنے آئے، مگر پھر بھی مذہب و اخلاق کی بالکلیہ تباہی ان عوامل
کا لازمی نتیجہ نہ تھی۔ انسانی زندگی میں اجتماعی، معاشی اور فکری اسباب کی بناء
پر متعدد مرتبہ لوگ مذہب سے دور ہوئے اور متعدد مرتبہ اخلاق سے منحرف ہو کر شہوات
میں گھس گئے مگر ہر مرتبہ لوگ اس حالت سے واپس آجاتے تھے۔ مگر اس مرتبہ لوگ گمراہی
میں اس قدر دور چلے گئے ہیں، گویا انھوں نے دل میں فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ اب واپس
نہ آئیں گے، چاہے کرنے والے کچھ ہی کیوں نہ کر گزریں! کیونکہ پہلے جب لوگ منحرف
ہوتے تو بطور شخصی مزاج منحرف ہوتے، اور معاشرہ میں انحراف خواہ کتنا ہی عام کیوں
نہ ہو جائے، مگر لوگوں کے پاس انحراف کے لئے اس سے زیادہ کوئی جواز نہ ہوتا کہ یہ
انحراف معاشرے کی روش ہے، اگرچہ انحراف انحراف ہی رہتا اور اسے برا سمجھا جاتا۔
مگر اب گمراہی کے لئے یہودی علماء نے علمی دلائل پیش کر دیے اور گمراہی کو مزین کر
کے اس کو قابلِ اتباع حق اور سچائی قرار دے دیا۔ اب گمراہی اور انحراف کی اتباع
معاشرے کی روش کی اتباع نہیں رہی، بلکہ افضل اور صحیح راستے کی اتباع بن گئی۔ غرض
لوگوں کو مجبور کر دیا گیا کہ وہ شیطانی راستے پر مجنونانہ انداز میں دوڑتے چلے
جائیں۔ یہ تینوں یہودیوں نے فکر کے مختلف پہلو اپنا لئے۔ مارکس نے معاشیات، فرائیڈ
نے نفسیات اور ڈورکائیم نے اجتماعیات پر لکھا۔ مگر کئی امور میں یہ تینوں متحد نظر
آتے ہیں: ان تینوں نے
کھلم کھلا ڈارون کے نظریہ کو لیا اور انسان کے بارے میں اس کے مادیت اور حیوانیت
کے تصور کو خوب خوب پھیلا کر اس کے مسموم اثرات چھوڑے۔ (یہاں
نظریہ ڈارون پر تنقید کا موقع نہیں ہے اور نہ یہ تنقید میرے مقاصد میں شامل ہے۔
میرا مقصد تو ڈارونیت کے پیدا کردہ اثرات پر تنقید ہے۔ کیونکہ عملی نظریات مجھے اس
تنقید کے لئے جدید ڈارونیت (NEO DARWINISM) کی رائے بیان کر
دینا کافی ہے۔ جدید ڈارونیت ڈارون کے نظریہ ارتقاء پر ایمان رکھنے کے باوجود انسان
کی حیوانیت اور مادیت پر یقین نہیں رکھتی، بلکہ اسے حیاتیاتی، نفسیاتی اور اپنے
طریقہ ارتقاء کے لحاظ سے منفرد خیال کرتی ہے۔ اس کے نزدیک انسان اپنے مخصوص انسانی
قاعدے کے مطابق ارتقاء پذیر ہے نہ کہ حیوانی طریقہ کے مطابق۔ ہم ان آراء پر کسی
دوسرے مقام پر تنقید کریں گے۔ یہاں تو ہمیں صرف تاریخی حقائق پیش کرنا ہیں۔) نظریہ ڈارون نے انسان کی حیوانیت کا شدید تاثر چھوڑا۔ ڈارونیتِ
جدیدہ کا عالم جولیان ہکسلے (Julian Huxley) اپنی کتاب 'دورِ
جدید کا انسان'
(MAN IN THE MODERN WORLD) میں کہتا ہے:
"نظریہ ڈارون کے بعد انسان کا اپنے آپ کو حیوانیت سے بچانا ممکن نہیں رہا
ہے۔" اس فکر کو تینوں یہودی علماء نے بڑے وسیع پیمانے پر پھیلا دیا۔ یہاں ایک
تاریخی نوعیت کا سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا نظریہ ڈارون کو اس کی تجربہ گاہ میں
محبوس کر کے اسے مغربی معاشرے اور انسانی فکر پر اپنے اثرات مرتب کرنے سے روکا جا
سکتا تھا؟ بیشک اس جیسے نظریہ کو جن حالات میں اس نے جنم لیا، ان کی بناء پر اسے
محبوس رکھا جا سکتا تھا۔ وہ اس طرح کہ مسلمانوں کی رسائی جس نظریہ کی جانب ہوئی
تھی، وہ ڈارون اور ولاس کے نظریہ ارتقاء سے مختلف چیز تھی۔ مسلمانوں نے جمادات سے
لے کر انسان تک مخلوقات کی ترتیب پر ضرور غور کیا تھا، مگر انھوں نے ڈارون کی طرح
یہ نہیں کہا تھا کہ انسان کی اصل حیوان ہے۔ انہوں نے نہ انسان کی قدر کم کی، اور
نہ اس کی خصوصیات سے انکار کیا، بلکہ انسان کے ممتاز ہونے کو، اللہ تعالیٰ کے
ارادہ کی جانب منسوب کیا۔ کہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق انسانی بناوٹ کو زمین میں
اپنا خلیفہ بنانا چاہتا تھا۔ اس لئے مسلمانوں نے نظریہ ارتقاء تک رسائی تو حاصل کی
مگر یہ نظریہ انھیں بیماری کی طرح نہیں لگا جس طرح یہ بیماری بن کر مغرب کو چاٹ
رہا ہے۔ اس کے ساتھ مسلمان انسان کی انسانیت اور اخلاق پر یقین اور اللہ پر ایمان
رکھتے تھے۔ مگر ان تین یہودیوں کے ذمہ تو مغرب کو ارتقاء کا جنون ہونے کے بعد اسے
راہِ راست دکھانا نہیں تھا، بلکہ ان کے ذمہ تو یہ تھا کہ وہ اس انحراف کو زیادہ سے
زیادہ تقویت پہنچائیں اور مغرب کے زوال کو زیادہ تیز تر کر دیں۔ نظریہ ڈارون نے دو
تصور دیے تھے:
1. پہلا تصور دائمی ارتقاء اور عدمِ تغیر کا
انکار۔ 2.
دوسرا تصور انسان کی حیوانیت اور مادیت۔ اس طرح کہ انسان کی اصل
حیوان بتائی، اور انسان پر اثر انداز ہونے والی قوتوں کو مادی قوتوں میں منحصر کر
دیا۔ جو ماحول یا طبیعت کی شکل میں جلوہ گر ہوں، اور روحانی جانب اور خلق اور عمل
میں اللہ کے دخل کو نظر انداز کر دیا۔ چنانچہ ڈارون کہتا ہے: 'اگر تغیر و ارتقاء
میں اللہ کا عمل دخل مان لیا جائے تو وہ ایسا ہے جیسے کسی خالص میکانیکی نظام میں
کوئی خلافِ طبیعت عنصر داخل کر دیا جائے۔' تینوں
علمائے یہود مارکس، فرائڈ اور ڈورکائیم نے ان دونوں تصورات کو اپنایا ہے، یا ان
میں سے ایک تصور کو ضرور اپنایا ہے۔ ## مارکس اور تاریخ کی مادی تعبیر مارکس کا میدانِ بحث اگر چہ معاشیات ہے مگر اس نے معاشیات کے
بارے میں صرف علمی تحقیقات پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ اسے ایک مکمل مذہب بنا کر پیش
کیا جس میں پوری زندگی کا ایک مخصوص زاویہ نظر سے مطالعہ کیا گیا ہے، اور جس میں
ڈارون کے دونوں تصورات موجود ہیں۔ چنانچہ مارکس نے تاریخ کی مادی تعبیر پیش کی جس
میں مادی قوتوں کو انسان کے تمام اعمال پر مسلط کر دیا اور انسان کے ہر عمل کو
بنیادی طور پر مادی، اور انسان کے حیوانی وجود سے صادر ہونے والا بتایا۔ اس کے
نزدیک مادی قوتیں (معاشی قوتیں) ہی انسانی تاریخ کا فعال عنصر ہیں۔ مارکس کہتا ہے:
"لوگ اجتماعی پیداوار میں جو محدود تعلقات قائم کرتے ہیں، وہ ان پر مجبور
ہوتے ہیں کیونکہ طریقۂ پیداوار ہی زندگی کے اجتماعی، سیاسی، معنوی اعمال کی صورت
متعین کرتا ہے۔ درحقیقت لوگوں کا شعور ان کے وجود کا تعین نہیں کرتا، بلکہ ان کا
وجود ان کے شعور کو متعین کرتا ہے۔" فریڈرک اینگلز کہتا
ہے: "مادی نظریہ کی بنیاد یہ ہے کہ پیداوار اور تبادلہ اشیاء ہی کسی اجتماعی
نظام کی اصل بنیاد ہیں۔ اس نظریہ کے ماتحت تمام تغیرات اور بنیادی تبدیلیوں کے
اسباب کی تلاش لوگوں کی عقول اور ان کے ازلی حق و انصاف کی اتباع میں نہ ہونی
چاہیے، بلکہ یہ اسباب ان تغیرات میں ڈھونڈنے چاہئیں، جو طریقۂ پیداوار اور
تبادلۂ اشیاء میں واقع ہوتے ہیں!" مندرجہ بالا قول
پوری طرح واضح ہے کہ مادی زندگی میں ازلی حق و عدل کے بجائے طریقۂ پیداوار اور
تبادلۂ اشیاء ہی زندگی کے اجتماعی، سیاسی اور معنوی اعمال کی تشکیل کرتے ہیں۔ اور
تمام بنیادی تغیرات اور تبدیلیوں کے آخری اسباب ہیں۔ ساری انسانی تاریخ مادی تاریخ
ہے۔ کسی نئی مشین کی ایجاد یا طریقۂ پیداوار (TOOL OF PRODUCTION) ہی تاریخ بناتی ہے۔ اشتراکیتِ اولیٰ، غلامی، جاگیرداری، سرمایہ
داری سے لے کر آخری اشتراکیت تک انسانیت جن حالات سے گزری ہے، ان سب کا مرجع نئے
اوزاروں کی ایجاد اور ذرائعِ پیداوار کی تبدیلی ہے۔ اجتماعی، سیاسی اور معنوی
اعمال انسانی زندگی میں بذاتِ خود کوئی قیمت نہیں رکھتے۔ یہ اعمال تو دراصل مادی
زندگی میں رونما ہونے والے طریقۂ پیداوار کا ایک انعکاس ہیں۔ یعنی انسان اور
انسانی زندگی کے مادی وجود کا ایک لازمی نتیجہ ہیں۔ ازلی حق و انصاف انسانی اقدار
نہیں ہیں بلکہ حقیقی قدر تو وہ تغیرات ہیں، جو طریقۂ پیداوار اور تبادلۂ اشیاء
پر طاری ہوتے ہیں۔ اگر ہم انسانی زندگی کے لئے کوئی دستور بنائیں، تو اسے انسان کے
بنیادی مسائل: کھانا، رہائش، اور جنسی بھوک میں محدود ہونا چاہیے۔ (کمیونسٹ
مینیفیسٹو = اعلانِ اشتراکیت) مذہب، اخلاق اور روایات مارکس کی نظر میں
انتہائی مضحکہ خیز ہیں۔ اور آسمانی ہدایات وغیرہ انسانوں کے تراشیدہ اوہام ہیں۔
ساری دنیا کی واحد حقیقت اس کی مادیت ہے۔ اور اللہ، وحی اور رسالت کا تاریخ کی
مادی تعبیر میں کوئی وجود نہیں ہے۔ مذہب جاگیرداروں کی بنائی ہوئی افیون ہے، جو وہ
غلاموں اور محنت کش طبقہ کو دے کر انھیں اپنے حقوق کی بازیابی سے روک دیتے ہیں،
اور وہ اپنے بُری حالت پر صبر کر کے اخروی جنت پر راضی ہو جاتے ہیں، جس سے
جاگیردار نہایت آرام سے غصب کی ہوئی دولت پر عیاشی کرتے رہتے ہیں۔ اقدار خواہ وہ
اخلاقی اقدار ہوں، معاشی حالت کا ایک عکس ہیں۔ مگر بہرحال اگر اس نظریہ کو مخلص،
اللہ پر ایمان رکھنے والے، اور انسانیت کی بہتری چاہنے والے لوگ لے کر چلتے، تو وہ... مغربی فکر پر پہلے بالکل جمود طاری تھا کہ اچانک نظریہ ارتقاء
سامنے آیا، تو مغربی فکر اپنا توازن کھو بیٹھی اور منتشر ہو گئی۔ اگر اس وقت صحیح
رخ پر لانے والے ذہن سامنے آجاتے، تو مغربی فکر منحرف نہ ہوتی۔ مسلمانوں نے اپنے
دور میں تغیر و ارتقاء کی ٹھوس واقفیت حاصل کی، اور اس نظریہ کو اپنی پوری تاریخ
میں ساتھ رکھا، مگر کبھی منحرف نہ ہوئے۔ مسلمانوں نے ارتقاء کو اپنے فقہ میں جگہ
دی، جیسا کہ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے فرمایا ہے: 'جس قدر مسائل سامنے آئیں گے،
ان کے احکام بھی اجتہاد کر لیتے جائیں گے'۔ چنانچہ فقہاء نے اس فرمان کو مدِ نظر
رکھتے ہوئے اجتہاد کے ذریعہ فقہ کو آگے بڑھایا۔ چنانچہ فقہ لوگوں کی زندگی میں پیش
آنے والے تمام واقعات اور حوادث پر مشتمل ہو گیا۔ مسلمانوں نے ارتقاء کو اپنی
سائنس میں بھی جگہ دی۔ جیسا کہ امریکی مصنف ڈریپر (Draper) اپنی
کتاب 'مذہب و سائنس کی کشمکش' میں کہتا ہے: "ہمیں مسلمانوں کی تصنیفات میں وہ
سائنسی آراء پا کر بڑی حیرت ہوتی ہے جنھیں ہم کتنی جدید سائنس خیال کرتے ہیں؟
نامیاتی کائنات کے بارے میں نظریہ ارتقاء جو جدید ترین خیال کیا جاتا ہے، ان کی
درسگاہوں میں اس نظریہ کی تعلیم دی جاتی تھی۔ وہ اس نظریے میں سبقت کر گئے تھے۔
نیز مگر وہ اس کو غیر نامیاتی اشیاء اور جمادات پر بھی منطبق کرتے تھے۔" علی
ہذا القیاس۔ یہ بات اگر چہ اسلامی انصاف اور اسلامی فکر کے سلسلہ میں کہی گئی ہے،
مگر یہ ذرا غور طلب ہے۔ اور نہ صرف یہ کہ یہ اقدار متغیر ہیں، بلکہ ان کا سرے سے
انسانی زندگی میں کوئی اثر ہی نہیں ہے! اور یہ اقدار ہر معاشی حالت کے تغیر کے
ساتھ بدلتی رہی ہیں۔ کیونکہ معاشی حالت جبری طور پر بدلتی رہتی ہے، اس لئے اخلاقی
اقدار بھی ایک خاص شکل اختیار کرتی رہتی ہیں۔ اور جب بھی کبھی انسان کی معاشی حالت
میں تبدیلی آتی ہے، اخلاقی اقدار بھی لازمی طور پر بدل جاتی ہیں۔ مندرجہ بالا سطور
سے مارکس کا نظریہ پوری وضاحت سے سامنے آجاتا ہے: 1. اول:
لادینیت
(SECULARISM) کیونکہ مذہب مفاد پرستوں کی گھڑی ہوئی کہانی
ہے، اور حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ 2. دوم:
اقدار اور اخلاق کا کوئی وجود نہیں ہے۔ کیونکہ اقدار کا اپنا کوئی ذاتی وجود نہیں،
بلکہ وہ تو صرف معاشی حالت کا ایک عکس ہیں، اور چونکہ معاشی حالتیں بدلتی رہتی
ہیں، اس لئے اقدار بھی تغیر پذیر ہیں۔ اور اقدار کا یہ تغیر جبری ہے۔ اگر مفکرین
اور اہلِ مذہب اس تغیر کو روکنا چاہیں تو یہ قطعاً ناممکن ہے! ڈارون
نے ان میں سے کوئی بات کہی، اور نہ اس قسم کی کوئی بات اس کے مقاصد میں شامل تھی۔
مگر یہودی عالم نے اس کے نظریے کا مسموم تصور لے کر معاشیات کی علمی بحث کے انداز
میں ساری زندگی پر پھیلا دیا اور یہ مسموم تصور مارکس کے ہاتھوں ساری مادی مغربی
زندگی پر محیط ہوگیا۔ یہ حقیقت ہے کہ اولاً روس نے اشتراکیت کو مکمل طور پر اپنا
کر عملی شکل میں نافذ کیا اور مذہب کی بیخ کنی کے لئے قتل، جلا وطنی اور قید و بند
کے ظلم و ستم کئے۔ اور جبری طور پر سکول اور کالج کی سطح پر الحاد کی تعلیم دی
گئی۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ مغرب جس نے اشتراکیت کو قبول نہیں کیا، اُس نے بھی
تاریخ کی مادی تعبیر کو اپنایا۔ مغرب نے تاریخ کی مادی تعبیر کو اپنا کر معاشی
پہلو کو زیادہ اہمیت دی۔ تمام انسانی زندگی کی معاشی اور مادی تعبیر کی اور زندگی
اور لوگوں کے اعمال میں اقدار کے اثر کو نظر انداز کیا۔ مغرب نے تاریخ کی مادی
تعبیر کو اپنا کر اخلاقی اقدار کو معاشی حالت کے تغیر کے ساتھ تغیر پذیر خیال کر
لیا۔ اور مغرب نے مارکس سے متاثر ہو کر، مذہب کو زندگی پر اثر انداز ہونے والا
آخری عنصر سمجھ لیا؟ اس حیثیت سے مغربی زندگی ایک ایسے نظامِ سرمایہ داری کو قائم
کرنے کے باوجود جو اشتراکیت کی ضد ہے، فکری، تہذیبی اور انسانی بنیادوں میں
اشتراکیت سے قطعاً مختلف نہیں ہے۔ مان لیجئے کہ مغرب میں مذہب کو جلا وطن نہیں کیا
گیا۔ یہ بھی تسلیم کر لیجئے کہ مغرب میں اب بھی مذہبی لوگ موجود ہیں، جو اتوار کو
کلیسا جاتے ہیں، صلیب گلے میں ڈال کر نماز پڑھتے ہیں، اور اس بات پر ایمان رکھتے
ہیں کہ ایک مالک موجود ہے جس نے زندگی اور انسان کو پیدا کیا ہے، اور جو تمام امور
پر قدرت رکھنے والا ہے۔ مگر اس مذہب کا لوگوں کی واقعی زندگی پر کوئی اثر نہیں ہے
کیونکہ ساری معاشی، اجتماعی، سیاسی اور فکری تنظیم اس بنیاد پر ہے کہ مادیت زندگی
کی اصل حقیقت ہے۔ مادیت ہی وہ میدان ہے جس میں انسان کو اپنی پوری جدوجہد کرنا
چاہیے۔ اور مادیت ہی انسان کی حقیقت ہے۔ پھر مغرب کے معاشرے میں مذہب سے مستفاد
اخلاق کا کوئی وجود نہیں ہے۔ لڑکوں اور لڑکیوں، مردوں اور عورتوں کے آزادانہ جنسی
اختلاط کا مذہب سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ حصولِ لذت اور لذتِ حیات کا مذہب سے کوئی
تعلق نہیں اور حد سے زائد جنسی لذات کے حصول سے تو مسیحی مذہب قطعاً ناآشنا ہے۔
یورپ ہو یا امریکہ، سارے مغرب میں لوگوں کے ذہنوں میں یہی تخیل جاگزین ہے کہ اخلاق
کے پیمانے بدل چکے ہیں، اور صنعتی معاشرے میں اخلاقی تغیر ناگزیر ہے۔ اور اب اخلاق
کے اس قدیم معیار کی کوئی گنجائش نہیں رہی ہے، جو مذہب سے مستفاد تھا۔ کیونکہ عورت
معاشی طور پر آزاد ہو چکی ہے، اور زرعی معاشرے کی عفت کا اب کوئی مقام نہیں رہا۔
غرض مغرب کی زندگی پر تاریخ کی مادی تعبیر ہی حکمراں ہے، اور ان ہی دونوں تصورات
کے تحت حکمراں ہے، جن کے ماتحت مارکس نے معاشیات کی علمی بحث کے پردے میں مذہب اور
اخلاق کو تباہ کیا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ڈارونیت کا مسموم تصور یہودی عالم کے
ذریعے انسانیت کے اکثر پہلوؤں پر جاری کر دیا گیا۔ اور واقعاتی زندگی میں مذہب،
اخلاق اور روایات کو منظم علمی شکل میں تباہ کردیا گیا۔ اب لادینیت شخصی مزاج نہیں
رہی بلکہ علم و تحقیق پر مبنی ایک فلسفہ حیات بن گئی جس سے گمراہوں اور منحرفوں کو
اپنے انحراف اور اپنی گمراہی کی تائید میں دلائل مل جاتے ہیں، اور انھیں لادینی
روش اختیار کرنے، اور اخلاق و روایات کے پامال کرنے پر لوگوں کے سامنے کوئی عذر
پیش کرنا نہیں پڑتا۔ بلکہ وہ اس روش کی جانب تیزی سے دوڑ رہے ہیں، تاکہ وہ علم و
سائنس کے قافلہ میں شریک ہو سکیں۔ ## فرائیڈ اور نفسیاتِ جنسی فرانڈ نے ڈارون کا نظریہ ارتقاء تو نہیں لیا مگر انسان کی
حیوانیت کا تصور پوری طرح اپنا لیا۔ فرانڈ بھی ہر ماہرِ نفسیات کی طرح انسان کی
ایک غیر متغیر صورت بتاتا ہے۔ اگر چہ اس نے اپنی کتاب ('Totem and Taboo') میں فرد کی نفسیات کے ساتھ گروہی نفسیات (Mob Psychology) پر بحث کرتے ہوئے مذہب اور محرمات کو متغیر بنایا ہے اور اس طرح
ارتقائی پہلو کو اپنایا ہے۔ مگر وہ انسان کو اس تصویر میں بھی انسانی پہلو کے
بجائے حیوانی پہلو سے پیش کرتا ہے۔ مارکس نے مذہب اور اخلاق کے لچر پن اور ان کے
اصلی اقدار نہ ہونے پر معاشیات کی علمی بحث کے ذیل میں گفتگو کی، جب کہ فرانڈ نے
انہی امور پر علمِ نفسیات میں بحث کی۔ فرانڈ کا میدانِ بحث نفسِ انسانی، اس کے
شعائر اور انفعالات ہیں جو ایک طرح سے داخلی دنیا ہے اور اس خارجی دنیا کے برعکس
ہے جس پر مارکس نے بحث کی ہے۔ فرانڈ کی نظر میں نفس زندگی کا اصل میدان ہے اور اس
کی ذاتی ترکیب سے تمام انفعالات، افکار اور شعائر جنم لے کر زندگی کے عملی واقعات
کا روپ دھار لیتے ہیں۔ گویا فرانڈ نے بالکل مارکس کے مقابل پہلو اختیار کیا ہے مگر
یہ بات تعجب انگیز ہے کہ مذہب اور اخلاق میں فرانڈ بھی انہی نتائج تک پہنچا جن تک
مارکس پہنچا۔ اور اس نے بھی انسان کی وہی حیوانی تعبیر اختیار کی جس کو مارکس نے
اختیار کیا۔ کیا یہ فکری اتحاد صرف اتفاق ہے؟ فرائڈ نے نفسِ انسانی کی جو تصویر
پیش کی اگر چہ وہ مذہب اور اخلاق کو لغو قرار دینے، انھیں زندگی میں اصلی اقدار نہ
ماننے اور کسی دوسری مادی اور حیوانی شے کا انعکاس قرار دینے میں مارکس کے تصور سے
ملتی ہے، مگر فرائڈ نفسِ انسانی کو اس گندگی میں زیادہ ملوث کرتا اور اسے زیادہ تنزل
سے ہمکنار کرتا ہے۔ فرائڈ کے نزدیک نفسِ انسانی صرف حیوانی ہی نہیں ہے بلکہ حیوان
کا بھی ایک جزو یعنی جنس ہے اور اس کے نزدیک جنس ہی تمام انسانی افعال پر مسلط ہے۔
انسان کی زندگی بعینہ حیوانی زندگی ہے اور اس کی حیوانی جبلتیں اس کے تمام اعمال
کی نگراں ہیں اور روح کا کوئی وجود نہیں ہے۔ اس حد تک نفسِ انسانی کے بارے میں
فرانڈ اور مارکس کے تصورات ہم آہنگ ہیں، مگر انسان میں عقل ضرور موجود ہے جو نفس
کے طبقات میں سے ایک طبقہ ہے، اور اس کو شعور کہا جاتا ہے۔ شعور ہی دراصل انسانی
تصرفات کو کنٹرول کرتا، اور حیاتِ واقعیہ کے بالمقابل انسان کا موقف متعین کرتا
ہے۔ مگر ذرا دیکھئے، انسانی وجود میں عقل اور شعوری ذات (Ego) کا
نتیجہ کیا ہے؟ طاقتِ شہوانی - جو فرائڈ کی نظر میں نفس کی باطنی حقیقت ہے - اور
حقیقتِ خارجی کے درمیان ذات منافق، دھوکہ باز اور موقع کی تلاش میں ہوتی ہے، جیسے
سیاستدان جو حقائق کو اپنی آنکھ سے دیکھنے کے باوجود عوام میں اپنے مقام کو حفظ
رکھنا چاہتا ہے۔ اس لئے اقدار تمام کی تمام خرافات اور مضحکہ خیز ہیں۔ اور انسان
کے درمیان اقدار ایک ایسا پر فریب تعامل ہیں جن کے بارے میں انسان خود بھی سمجھ
رہا ہوتا ہے کہ یہ دھوکہ ہیں۔ (اس موقعہ پر اقدار کے بارے میں فرانڈ کی فکر مارکس
سے ہم آہنگ ہو جاتی ہے اگرچہ دونوں کے دلائل مختلف ہیں)۔ مگر فرانڈ تعجب انگیز
باتیں کہنے میں خصوصیت رکھتا ہے۔ چنانچہ کہا: انسان کی گہری باطنی حقیقت صرف
شہوانی و مادی طاقت ہی نہیں، بلکہ صرف جنسی طاقت ہے۔ صرف جنسیت! اور کوئی انسانی
یا حیوانی طاقت نہیں۔ (یہاں فرانڈ پر تنقید کی گنجائش نہیں ہے
کیونکہ میں پہلے اپنی کتابوں میں تنقید کر چکا ہوں، مگر اس کے نفسیاتی نظریے میں
ایک حقیقت کی نشاندہی ضروری ہے وہ یہ کہ مسیحی یورپ میں جنس کو گندہ خیال کیا جاتا
تھا، اور لوگ اس کے بارے میں گفتگو سے بھی نفرت کرتے تھے۔ فرائڈ نے اصرار کیا کہ
وہ نفسِ انسانی اور اس کے تمام اعمال کی تعبیر رفتہ رفتہ جنسی بنیاد پر کرے گا۔
یہی نہیں بلکہ اس نے اس امر پر بھی اصرار کیا کہ مذہب اور اخلاق بھی یقینی طور پر
جنسی طاقت سے پیدا ہوتے ہیں!!) کیا یہ فکر صرف اتفاق ہے؟! پوری زندگی جنس سے ابھرتی ہے، اور جنس کا ظہور بلوغ کے وقت نہیں
ہوتا جیسا کہ جاہل سمجھتے ہیں، بلکہ جنس تو پیدائش ہی کے وقت موجود ہوتی ہے۔ اور
جب انسان پیدا ہوتا ہے تو وہ بچہ کے چھوٹے سے وجود میں خالص جنس ہوتا ہے۔ بچہ کی
ساری حرکات جنس کی غمازی کرتی ہیں۔ بچہ کا دودھ پینا، انگوٹھا چوسنا، عضلات کو
حرکت دینا، بول و براز کرنا، اور ماں سے لپٹنا یہ سب جنسی اعمال ہیں۔ خصوصاً ماں
سے لپٹنا ایک ایسا جنسی عمل ہے جس سے انسان کی ساری نفسیاتی زندگی تشکیل پاتی ہے،
خواہ یہ زندگی انفرادی ہو یا اجتماعی۔ کیونکہ بچہ اپنی ماں سے جنسی عشق کرتا ہے،
پھر جب باپ کو اپنے راستے میں رکاوٹ پاتا ہے تو وہ اپنے عشق کو مخفی (SUPPRESSED) کر لیتا ہے۔ اس اخفاء (SUPPRESSION) سے
بچہ کے دل میں عشقِ مادر کی الجھن (Oedipus Complex) پیدا ہو جاتی
ہے۔ اسی طرح لڑکی اپنے باپ سے جنسی عشق کرتی ہے، مگر اسے بھی اس عشق کا اخفاء (SUPPRESSION) کرنا پڑتا ہے جس سے اس کے نفس میں عشقِ پدر کی الجھن (ELECTRA COMPLEX) پیدا ہو جاتی ہے۔ اور انہی الجھنوں سے ضمیر، مذہب، اخلاق اور
انسانی زندگی کی اقدارِ عالیہ پیدا ہوتی ہیں۔ اور ان تمام امور کی بنیاد وہ واقعہ
ہے جو انسانیتِ اولیٰ کو پیش آیا تھا وہ یہ کہ: ابتدائے انسانیت میں اولاد نے اپنی
ماں سے جنسی عشق کیا۔ مگر باپ کو اپنے راستے میں رکاوٹ پایا، تو اسے قتل کر دیا۔
پھر جب اپنے باپ کے قتل پر شرمندگی محسوس کی تو انہوں نے قسم کھائی کہ وہ اپنے باپ
کی مقدس یادگار بنائیں گے۔ پھر انھوں نے اس کی عبادت کی۔ اس طرح باپ کی عبادت پیدا
ہوئی۔ پھر یہ عبادت طوطم (Totem) کی عبادت بن گئی۔
کیونکہ نفسِ انسانی میں حیوان باپ کی علامت بن گیا (کس طرح؟)۔ پھر اولاد نے محسوس
کیا کہ وہ ماں کے حصول کے لئے آپس میں لڑیں گے، جو جائز نہیں ہے (کیوں؟)، چنانچہ
انہوں نے اپنے اوپر ماں کو حرام کر لیا جس سے سب سے پہلی جنسی حرمت وجود میں آئی۔
اور انھوں نے اپنے درمیان جنگ و جدل کے بجائے تعاون و اتفاق کا فیصلہ کر لیا (مگر
کیوں؟) جس سے اقدار پیدا ہوئیں۔ یہ واقعہ صرف انسانیتِ اولیٰ ہی کو پیش نہیں آیا،
بلکہ انسانی زندگی پر اس کے اثرات اس وقت سے آج تک موجود ہیں۔ چنانچہ ہر بچہ اپنی
ماں سے جنسی عشق کرتا ہے، پھر اس عشق کو مخفی (SUPPRESSED) کر
لیتا ہے۔ اور ماں کے عشق کے اخفاء (SUPPRESSION) سے مذہب، اخلاق،
اقدارِ عالیہ اور تہذیب ابھرتی ہے۔ مگر یہ اخفاء ختم نہیں ہوتا، بلکہ ایک ایسے
دائمی نفسیاتی قلق میں بدل جاتا ہے، جو انسان کو کسی طرح چین نہیں لینے دیتا۔ سارے
مذاہب اولاد کے احساسِ جرم کی مشکل کو حل کرنے میں لگے رہے۔ یہ مذاہب اگر چہ اس
تہذیب کے لحاظ سے جن میں یہ ظاہر ہوئے اور وسائل کے لحاظ سے مختلف تھے، مگر سب کا
مقصد یہی تھا، اور وہ باپ کے قتل کے عظیم حادثہ کے ردِ عمل کے طور پر پیدا ہوئے۔
اسی حادثہ سے تہذیب پیدا ہوئی، جس حادثہ نے انسانیت کو آج تک چین نہیں لینے دیا۔
انسان کی مندرجہ بالا تعبیر خالص حیوانی تعبیر ہے۔ فرائڈ کی گھڑی ہوئی یہ ساری
کہانی ڈارون کے حیوانی مشاہدات سے مستفاد ہے جس میں ڈارون نے بتایا ہے کہ سارے
نوجوان نر
(male) اپنی ماں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو باپ کو
اپنے راستے میں حائل پا کر اسے مار ڈالتے ہیں۔ پھر آپس میں لڑتے ہیں، اور جو غالب
آجاتا ہے وہ ماں کو بھی حاصل کر لیتا ہے اور سردار بھی بن جاتا ہے۔ یہ بات واضح ہے
کہ اس کہانی سے مقصد مذہب، اخلاق اور روایات کو جنس کی گندگی میں لتھیڑ کر مسیحی
یورپ کے سامنے پیش کرنا ہے۔ اس طرح کہ مذہب و اخلاق سے جنس کی گندگیاں چپکتی ہی
ہوں! یہ بھی مقصود ہے کہ جنس سے گندگی کا تصور ختم ہو جائے۔ 'علمائے
یہود کے پروٹوکولز (The Protocols of the Learned Elders of Zion)' میں ہے: "اگر ہم ہر مقام پر اخلاقی انحطاط کی کوشش کریں گے
تو ہمارا غلبہ آسان ہو جائے گا۔ فرائڈ ہم میں سے ہے اور وہ جنسی تعلقات کو اعلانیہ
پیش کرتا رہے گا، تاکہ نوجوان نسل کی نظر میں کوئی شئے مقدس نہ رہے، اور وہ اپنی
جنسی بھوک مٹانے میں لگ جائیں۔ یہ طریقہ اخلاق کے زوال کا ہے۔" فی الحقیقت ایک ہی وقت میں دو مقصد سامنے تھے: جنس پاکیزہ ہو
جائے تاکہ مخفی جذبات ان میں آزاد ہو جائیں، اور نوجوان بغیر ضمیر کی ملامت اور
نفس کی ندامت کے جانوروں کی طرح اختلاط کرتے رہیں؛ اور ساتھ ہی مذہب، اخلاق اور
روایات کی اصل جنس بتا کر ان لوگوں کی نظر میں نجس بنا دیا جائے اور اس طرح مذہب و
اخلاق تو جنس کی جگہ آجائیں، اور جنس مذہب و اخلاق کا سا تقدس اور پاکیزگی حاصل کر
لے! (یہاں فرانڈ پر تنقید کا موقع نہیں ہے کیونکہ میں اپنی سابقہ کتب
میں تنقید کر چکا ہوں اور ان دیومالائی کہانیوں کا فساد بیان کر چکا ہوں، جن پر
بغیر کسی علمی سند اور بغیر کسی منطق کے پوری انسانیت کی تعبیر کی جا رہی ہے۔) یہاں انسانی عمل کی جنسی تعبیر کے بارے میں مندرجہ ذیل حقائق
بیان کئے جاتے ہیں: اول: فرائڈ نے انسان کی اس حیوانی تعبیر میں ڈارون کے تصورات سے
مدد لی ہے۔ اگر چہ ڈارون نے اس قسم کی کوئی بات نہیں کہی، مگر یہودی عالم نے اس کے
مسموم تصورات کو وسعت دے کر اور نفسیات کے علمی پردے میں چھپا کر اس کو ساری زندگی
پر مسلط کر دیا۔ دوم:
فرائڈ نے ڈارون کے مسموم نظریہ کو غلط ثابت کرنے کے لئے، اپنی نفسیات اور تاریخ کی
طویل بحث کو چھوڑ کر صرف مذہب اور اخلاق کو منتخب کیا ہے، اور مذہب و اخلاق کو
گندگیوں میں لتھیڑنے کی پوری کوشش کی۔ اور انھیں ایسی شکل دیدی جس سے انسان نفرت
کرے۔ اس سلسلہ میں اس نے تلمیح (اشارہ) کے بجائے نہایت وضاحت سے کام لیا ہے چنانچہ
کہتا ہے: "تصعید (SUBLIMATION) جنسی کجروی (PERVERSION) کی ایک قسم ہے۔" "اخلاق
اپنے طبعی معیار پر بھی ایک ظلم ہے۔" "مسیحی کہانیاں در اصل بیٹے (یعنی مسیح) کی باپ (اللہ) کے قتل کی
خواہش ظاہر کرتی ہیں۔ اگر چہ بیٹے نے اپنی اس خواہش کا اخفاء (SEXUAL SUPPRESSION) کرکے اپنے آپ کو قتل کر لیا، مگر پھر بھی باپ کی جگہ خود خدا بن
گیا۔" "تہذیب
آزادانہ جنسی نشوونما کے راستے میں رکاوٹ ہے۔"
"مذہب، اخلاق اور تہذیب تمام کے تمام جنسی
اخفاء
(Sexual Suppression) سے پیدا ہوتے ہیں
اور جنسی اخفاء نفس اور اعصاب پر بڑے خطرناک اثرات ڈالتا ہے، اور اس طرح نفس
الجھنوں اور اضطرابات سے دوچار ہوتا ہے۔" ## ڈورکائیم
اور اجتماعیت ڈورکائیم کا موقف فرائڈ کے موقف کے برخلاف
ہے۔ ڈورکائیم اس بات کو تسلیم نہیں کرتا کہ فرد یا فردی وجود اجتماعی زندگی کی
بنیاد ہے بلکہ اس کے نزدیک اس کے برعکس تصور زیادہ صحیح ہے۔ چنانچہ اس کے نزدیک
اجتماعی زندگی فرد کے شعور کی شکل متعین کرتی ہے۔ اس لئے انفرادی نفسیات سے زندگی
کی تفسیر کرنا جائز نہیں ہے۔ بلکہ یہ انتہائی ضروری ہے کہ نفسیاتی مظہر اور
انفرادی مظہر میں پوری طرح فرق محسوس کیا جائے۔ اگر چہ ان دونوں میں کبھی کبھی
اتصال بھی پایا جاتا ہے۔ "جماعتی شعور میں
پیدا ہونے والے نفسیاتی حالات اپنے مزاج میں ان حالات سے قطعاً مختلف ہیں، جو
انفرادی شعور میں ابھرتے ہیں۔ وہ حقیقت میں ایک دوسری ہی نوع کے تصورات ہیں۔ اسی
طرح جماعتی عقل انفرادی عقل سے مختلف ہے، اور اسی جماعتی عقل کے اپنے علیحدہ
قوانین ہیں۔"
"اجتماعی تفکر اور عمل کی اقسام افراد کے
ضمائر سے باہر پائی جانے والی ایسی حقیقی اشیاء ہیں جن کے سامنے جھکنے پر افراد کے
ضمائر کو زندگی کی ہر گھڑی میں مجبور کیا جاتا ہے۔" "کیونکہ
عملِ مشترک جس سے اجتماعی مظاہر پیدا ہوتے ہیں، ہم میں سے ہر فرد کے شعور کے باہر
تکمیل پذیر ہوتا ہے، کیونکہ وہ نتیجہ ہوتا ہے بہت سے انفرادی ضمائر کا۔ اس لئے
لازمی طور پر عملِ فکر کی بعض اقسام کو مقرر کر دیتا ہے، اور یہ وہ اقسام ہوتی ہیں
جو ہمارے وجود سے باہر پائی جاتی ہیں، اور ہم میں سے کسی فرد کے ارادے کے تابع
نہیں ہوتیں۔"
"مگر اس طریق کار کا (جو افراد کے داخلِ نفوس
سے اجتماعی ظواہر کی تعمیر کرتا ہے) اجتماعی مظاہر پر انطباق ممکن نہیں ہے، الا یہ
کہ ہم اس کی طبیعت میں تغیر پیدا کر دیں۔ اس امر پر اجتماعی مظاہر کی سابقہ تعریف
ہی دلیل ہے۔ جب کہ اجتماعی مظاہر جو کہ خاص جوہر سے ممتاز ہیں، ان کا افراد کے
ضمائر پر خارجی دباؤ ڈالنا ہی اس امر کی دلیل ہے کہ وہ ان ضمائر کی تخلیق نہیں
ہیں۔"
"اس معنیٰ کے لحاظ سے اور ان اسباب کی بناء پر
ہمیں ضروری ہے کہ ہم اس اجتماعی شعور کے بارے میں گفتگو کریں، جو انفرادی شعور سے
مختلف ہے۔ حالات۔ ہمیں اجتماعی شعور اور انفرادی شعور میں فرق نمایاں کرنے کے لئے
اجتماعی شعور کو مجسم شکل میں پیش کرنا ضروری نہیں ہے۔ کیونکہ اجتماعی شعور کا
اپنا ایک خاص نوعیت کا وجود ہے۔ ہمیں درج ذیل سبب کی بنیاد پر اس اجتماعی شعور کی
تعبیر مخصوص اصطلاح سے کرنی چاہیے، اور وہ سبب یہ ہے کہ وہ حالات جو اجتماعی شعور
کی ترکیب کرتے ہیں، وہ ان حالات سے مختلف ہیں جو انفرادی شعور کی ترکیب کرتے ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ ہمارا اجتماعی مظہر کی تعریف کرنے سے مقصد صرف اجتماعی شعور
اور انفرادی شعور کا فرق متعین کرنا ہے۔" مندرجہ
بالا اقتباسات سے معلوم ہوا کہ ڈورکائیم اس بات کو تسلیم نہیں کرتا کہ انفرادی
نفسیات، انفرادی طبیعت اور انفرادی وجود سے اجتماعی صفت کی حامل انسانی زندگی کی
تعبیر کی جاسکتی ہے۔ بلکہ اس کے نزدیک انسانی زندگی کی تعبیر کا ذریعہ افراد کے
وجود سے باہر پائی جانے والی اجتماعی عقل ہے۔ ایک دوسری طرح بھی ڈورکائیم کا موقف
فرائڈ سے مختلف ہے۔ ڈورکائیم، ہر ماہرِ اجتماعیات کی طرح، اپنی کتاب 'قوانینِ
اجتماعیات' میں جماعتوں کے ارتقاء کے بارے میں گفتگو کرتا ہے اور اس امر سے انکار
کرتا ہے کہ یہ ارتقاء انفرادی نفس کے کسی عنصر کی جانب منسوب کیا جائے۔ "ہم اس منبع کا پتہ لگانے سے قاصر ہیں جس سے اجتماعیت کے سوتے
پھوٹتے ہیں سوائے اس کے کہ ہم بنیاد کے راستے پر چلتے ہوئے اصل چشمہ کا پتہ
لگائیں۔ اس لئے ہمیں اس کے سوا چارہ کار نہیں ہے کہ ہم اجتماعی مظاہر پر غور کریں،
اور یہ مدِ نظر رکھ کر غور کریں کہ یہ خارجی اشیاء ہیں۔ اور اگر کسی وقت یہ شبہ
پیدا ہو کہ ان مظاہر کا افراد کے شعور سے باہر وجود صرف ظاہری ہے، تو جوں جوں
اجتماعیات کا فن ترقی کرتا جائے گا، یہ شک بھی ختم ہو جائے گا۔ اور اس وقت لوگ
دیکھیں گے کہ کسی طرح خارجی اجتماعی مظہر فرد کے داخلی شعور پر اثر انداز ہوتا ہے۔" ڈورکائیم اور فرانڈ میں مندرجہ بالا اختلاف کو مدِ نظر رکھتے
ہوئے کیا یہ سمجھ لیا جائے کہ مذہب و اخلاق میں ان دونوں کی فکری ہم آہنگی صرف ایک
اتفاق ہے؟ "لوگ عادتاً خاندانی نظام کی تعبیر ان جذبات و میلانات سے کرتے
ہیں جو ماں باپ اپنی اولاد کے لئے اور اولاد اپنے ماں باپ کے لئے رکھتی ہے۔ اسی
طرح یہ لوگ نکاح کی تعبیر ان خصائص سے کرتے ہیں، جن کو نکاح زوجین اور اولاد کے
لئے محقق کرتا ہے؛ اور اسی طرح رنج و الم کی تعبیر مرد کے اس غصہ سے کرتے ہیں، جو
اسے اپنی مصالح کو نقصان پہنچنے سے ہوتا ہے۔ مگر معاشی زندگی بالآخر، جیسا کہ
ماہرینِ معاشیات سمجھتے ہیں، اس خالص انفرادی عامل یعنی حصولِ دولت کی جانب لوٹ
جاتی ہے۔ اخلاقی مظاہر میں بھی صورتِ حال اس سے مختلف نہیں ہے، کیونکہ ماہرینِ
اخلاقیات فرد کے اپنے واجبات کو اخلاق کی بنیاد قرار دیتے ہیں۔ یہی حال مذہب کا
ہے، جس کو لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ ان خیالات کی تخلیق ہے، جن کو طبعی قوتیں یا مافوق
الفطرت شخصیتیں ابھارتی ہیں۔ مگر اس طریقہ کا اجتماعی ظواہر پر انطباق ممکن نہیں
ہے، سوائے اس کے کہ ہم ان پر کوئی تغیر پیدا کر دیں۔" "بعض
علماء انسان میں فطری مذہبی میلان کے قائل ہیں، اور یہ کہتے ہیں کہ اس میلان کے
ساتھ جنسی غیرت، والدین کے ساتھ نیک سلوک اور اولاد کی محبت جیسے جذبات بھی پائے
جاتے ہیں۔ بعض مذہب، نکاح اور خاندان کی اسی طرز پر تعبیر کرتے ہیں۔ مگر تاریخ
ہمیں بتاتی ہے کہ انسان میں یہ میلانات فطری نہیں ہیں۔" "گذشتہ
رائے پر اعتماد کرتے ہوئے یہ کہنا ممکن ہے کہ قانونی اور اخلاقی قواعد کا سرے سے
کوئی وجود ہی نہیں ہے اور اس رائے کے نتیجہ میں یہ ممکن نہیں کہ اخلاق کے اس
مجموعہ قواعد کو جس کا بذاتِ خود کوئی وجود نہیں، موضوعِ اخلاق بنایا جائے۔" یہ بات واضح ہو گئی کہ ڈورکائیم کی نظر میں مذہب غیر فطری ہے،
اور نکاح، خاندان، اور اخلاقی قوانین کا سرے سے کوئی وجود نہیں ہے! (ہم ڈورکائیم پر تنقید کرنا نہیں چاہتے، اور نہ اس کی اجتماعی
عقل پر بحث کرنا چاہتے ہیں، جو افراد کے وجود سے باہر اور ان کے وجود کے مخالف ہے،
اور جو ان پر خارج سے بلا استعدادِ فطری مسلط ہے۔ ہم صرف یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اس
کہانی میں کیا حقائق نہاں ہیں۔) ڈورکائیم نے ڈارون کے نظریہ تغیر و ارتقاء کو
بھی اپنایا، اور اسی سے خارجی دباؤ کا نظریہ بھی لیا، جو فرد کو بغیر ذاتی رغبت کے
ارتقاء پر مجبور کر دیتا ہے۔ ڈورکائیم نے ڈارون سے انسان کی حیوانی تعبیر بھی اخذ
کی، چنانچہ ہر موقعہ پر دنیائے حیوانات سے استشہاد کرتا ہے۔ "اس
امر پر کوئی دلیل موجود نہیں ہے کہ اجتماعیت کی جانب میلان انسان کی موروثی جبلت
ہے، جو تخلیقِ انسانی کے وقت سے موجود ہے۔ بلکہ یہ ضروری ہے کہ ہم اس میلان کو اس
اجتماعی زندگی کا نتیجہ سمجھیں، جو صدیوں سے ہمارے نفوس پر اثر انداز ہورہی ہے۔ ہم
دیکھتے ہیں کہ حیوانات جماعتی زندگی بھی گزارتے ہیں، اور انفرادی بھی۔ کیونکہ جس
مقام پر وہ رہ رہے ہوتے ہیں، اس کا مزاج ان کو مجبور کر دیتا ہے کہ وہ اجتماعی
زندگی گزاریں یا انفرادی۔" "کانٹ (Kant, 1724-1804) کا یہ قول کہ انسان میں پیش قدمی کا فطری میلان موجود ہے، صرف
مافوق الفطرت
(METAPHYSICAL) تصور ہے، جس کے لئے کوئی واقعاتی دلیل موجود
نہیں ہے۔ کیونکہ حیوانات کی انواع - جن میں ترقی پذیر انواع بھی شامل ہیں - اپنی
ترقی کا کوئی شعور نہیں رکھتیں۔" ڈورکائیم نے جو کچھ
کہا ہے، وہ ڈارون نے نہیں کہا تھا۔ مگر یہودی عالم نے اس کے نظریے کے مسموم تصور
کو لے کر اجتماعیات کی علمی بحث کے پردے میں ساری زندگی پر محیط کر دیا۔ اور اپنی
اجتماعیات کے بارے میں بحث کے دوران اس امر کا خاص خیال رکھا کہ یہ کہتا رہے کہ
مذہب فطری نہیں، نکاح فطری نہیں ہے، اور اخلاق کی نہ کوئی قیمت ہے، اور نہ کسی
ٹھوس وضع پر قائم ہے۔ اخلاق اپنی شکل اس معاشرے سے اخذ کرتا ہے، جس میں وہ موجود
ہوتا ہے۔ دراصل معاشرہ ہی سارے اجتماعی مظاہر کی بنیاد ہے، نہ کہ انسان! ## نتائج اور اثرات انیسویں
صدی کے آخر اور بیسویں صدی کے شروع میں ان تمام کوششوں کے نتیجہ میں مغربی معاشرے
میں عظیم تحریکات ابھریں۔ ان تینوں یہودی علماء کی تمام تصریحات مندرجہ ذیل نکات
پر ہم آہنگ اور متفق ہیں: 1. مذہب، اخلاق اور روایات پر حملہ اور ان کی
تقدیس سے انکار کرکے ان کے بارے شکوک و شبہات پیدا کرنا۔ 2. اس
حملے کی بنیاد سائنس اور علمی بحث ہونی چاہیے۔ 3. مذہبی
اور اخلاقی اباحیت کو ارتقاء کا نام دیا جائے۔ 4. اس
بات کا پرچار کیا جائے کہ مذہبی اور اخلاقی اباحیت ایک جبری امر ہے کیونکہ ارتقاء
بھی جبری ہے، اس کو کسی طرح نہیں روکا جا سکتا۔ 'علمائے
یہود کے پروٹوکولز' (The Protocols of the Learned Elders of Zion) میں ہے: "ہم نے ڈارون، مارکس اور نطشے (Nietzsche) کی آراء کو رواج دے کر ان کی کامیابی کا لائحہ عمل تیار کر لیا
ہے۔" (نطشے ایک جرمن فلسفی ہے، جس نے ہسٹریا کے دورے میں 'انسانِ اعلیٰ' (SUPERMAN) کے تصور اور خدا کی موت کا اعلان کیا۔ نطشے کا انسانِ اعلیٰ
مسیحی اخلاق کی پابندی سے آزاد ہے، کیونکہ یہ ذلیل لوگوں کا اخلاق ہے۔ اسی وجہ سے
یہودیوں نے نطشے کو بھی اپنی صف میں شامل کر لیا۔) "ان تینوں کے علوم سے غیر
یہودیوں میں پیدا ہونے والے اخلاقی دیوالیہ پن سے ہم بخوبی واقف ہیں۔" جی ہاں، یہ اخلاقی دیوالیہ پن پیدا ہو گیا، اور عوام میں دو
بیماریاں سرایت کر گئیں۔ ایک ارتقاء کی بیماری اور دوسری مذہب بیزاری اور اخلاق
دشمنی کی بیماری!
(اخلاقی انحطاط کے سلسلہ میں فرانڈ اپنے دونوں ساتھیوں سے زیادہ
نمایاں ہے کیونکہ اس کی آراء خاصی عوامی بن گئیں، جب کہ باقی دو خصوصاً ڈورکائیم
کی آراء عوامی سطح سے بلند رہی ہیں۔ مگر ارتقاء کی بیماری اور مذہب و اخلاق دشمنی
کی بیماری پھیلانے میں کم زیادہ سب کا حصہ ہے، اور اس ثالوث کے تینوں بت اپنی جگہ
نمایاں ہیں!)
فیشن پرستی ارتقاء بن گئی۔ جو شے ارتقاء کی صلاحیت نہیں رکھتی،
اسے زبردستی بدل دیا جائے۔ دنیا میں کوئی بھی شے اپنی حالت پر باقی نہ رہنی چاہیے۔
مذہب، اخلاق، خدا کا تصور، روایات، اقدار، اجتماعی روابط، غرض کوئی شے غیر متغیر
نہ رہنی چاہیے۔ ہمیں ارتقاء کرنا چاہیے اور جمود سے آزاد ہو جانا چاہیے۔ ہمیں
اخلاقی قیود کو توڑ دینا چاہیے۔ کیونکہ یہ قیود ارتقاء میں رکاوٹ ہیں۔ ہم اس اخلاق
کی زرعی معاشرے میں پابندی کر چکے ہیں، مگر اب ترقی یافتہ صنعتی معاشرے میں ہمیں
اس اخلاق سے آزاد ہو جانا چاہیے۔ (مارکس) ہم
نے اللہ کی بندگی، جس کی بنیاد جنسی گھٹن ہے، اپنی حقیقت سے جہالت کی بناء پر قبول
کی حالانکہ اخلاق انسانی شعور پر ناواقفیت کی بناء پر مسلط کردہ اخفاء (SUPPRESSION) ہے۔ (فرانڈ) اخلاق کو لوگوں نے اپنی اس ناواقفیت کی بناء
پر اپنا لیا کہ اخلاقی اقدار کی کوئی ٹھوس حقیقت نہیں ہے بلکہ یہ ذرائعِ پیداوار (Tools of Production)
کی تبدیلی سے بدلتا رہتا ہے۔ (مارکس) یا اخلاق معاشرے کی حالت
کے ساتھ بدلتا ہے۔ (ڈورکائیم) مذہب کو بھی تباہ کر دینا چاہیے، کیونکہ
ارتقاء کی راہ میں یہ دوسری رکاوٹ ہے، جو ہمیں اپنے آباء سے جہالت، جمود اور پسماندگی
کے طور پر ورثے میں ملا ہے۔ اصل میں یہ مذہب پسماندہ زرعی معاشرے میں تو چل سکتا
تھا، مگر ہم اپنے ترقی یافتہ صنعتی معاشرے میں اس قسم کی خرافات برداشت نہیں کر
سکتے۔ یہ مذہب اس دور کے لئے مناسب تھا، جب ہم یہ سمجھتے تھے کہ مذہب کوئی مقدس
شے، اور آسمان سے نازل کردہ ہے، اور جب ہمیں یہ علم نہیں تھا کہ مذہب ایک نقصان
دہ، ضرر رساں اور قابلِ نفرت جنسی اخفاء (Sexual Suppression) ہے۔ (فرانڈ) اور جب ہم جہالت کی بناء پر مذہب کو انسانی فطرت
خیال کرتے تھے۔ (ڈورکائیم) ہمیں جدید، ترقی پذیر اور متحرک معاشرے میں
اپنے آپ کو از سرِ نو تخلیق کرنا چاہیے۔ ہمیں چاہیے کہ بغیر مذہب، بغیر اخلاق اور
بغیر روایات کے معاشرے کے تقدم کے ساتھ چلیں۔ ## آزادیِ
نسواں کا فتنہ یہ سارا فتنہ آزادیِ نسواں پر مرتکز ہو گیا،
اور یہ نعرہ بلند ہو گیا کہ عورت کو آزادی دو۔ زمین کی تمام تخریبی طاقتوں نے یہ
سمجھ لیا کہ عورت کی آزادی اور اس کو بنا سنوار کر باہر نکالنے سے زیادہ اقوامِ
عالم کو ذلیل و خوار کرنے کا اور کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ کسی نہ کسی طرح عورت کو گھر
سے باہر نکلنا چاہیے۔ معاشی استقلال، اپنے حقوق کے حصول، تعلیم یا عمل، کسی نہ کسی
مقصد کے لئے عورت کو گھر سے باہر نکلنا چاہیے، اور فتنہ انگیز حالت میں نکلنا
چاہیے۔ اگر عورت حصولِ تعلیم، حصولِ حقوق و عمل کے لئے اس طرح باہر آئے کہ وہ اپنے
بدن کو ڈھانکے ہوئے ہو، اپنے اخلاق کی حفاظت کر رہی ہو، اس میں گھریلو مزاج برقرار
رہے، اور جب اسے حالات اجازت دیں تو وہ گھر میں بیٹھ جائے، اگر عورت اس طرح باہر
آئے تو انسانیت کی تباہی کے لئے عورت کو بے پردہ کرنے کی مشقت کی کیا ضرورت باقی
رہی؟ عورت کو اس طرح بے پردہ ہونا چاہیے کہ وہ مرد کے لئے فتنہ و فریب کا سبب بنے۔
اگر ایسا نہ ہو تو پھر کیا فائدہ؟ مگر طریقہ کیا ہو؟ طریقہ دعوت ہے! مصنف، صحافی اور افسانہ نویس اس مقصد کے لئے
لکھیں۔ طریقہ
سینما ہے! عریاں، فحش اور فساد انگیز فلمیں بنائی جائیں۔ طریقہ ریڈیو اور ٹیلی ویژن ہے!
طریقہ فیشن ہاؤس ہیں!
طریقہ سامانِ آرائش کی ایجاد ہے! غرض کسی نہ کسی طرح اجتماعی زندگی کو کوئی ایسی شکل دے دی جائے
کہ وہ عورت کی فتنہ سامانی سے خالی نہ رہ سکے۔ زندگی کا ایک ایسا تصور گھڑ لیا
جائے جو مرد کا بوجھ اٹھانے والی فتنہ پرور عورت کے وجود سے خالی نہ ہو۔ اور ایک
ایسی عملی صورتِ حال پیدا کر دی جائے، جس میں فتنہ پرور عورت کا وجود ناگزیر ہو
جائے۔ یہ سب باتیں فی الواقع ہو بھی گئیں، اور جو طاقتیں انسانیت کی تباہی کے لئے
کوششیں کر رہی تھیں، انھوں نے چین کا سانس لیا۔ پھر... دو
عالمگیر جنگوں سے اس صورتِ حال میں مزید اضافہ ہو گیا۔ پہلی عالمگیر جنگ میں دس
ملین اور دوسری عالمی جنگ میں چالیس ملین لوگ مارے گئے! اور عورتیں بغیر مردوں کے
رہ گئیں۔ چنانچہ عورتیں روزی کمانے اور جنس کی تلاش میں نکل کھڑی ہوئیں جس سے مزید
اخلاقی اباحیت پیدا ہوگئی! اب مغربی زندگی کا یہ عام طرزِ عمل ہوگیا کہ
عورت روزی کمائے، اور عاشق رکھے جو اس کی جنسی تسکین کا سامان بہم پہنچا سکیں۔ یہ
ایسا طرزِ عمل ہے، جس پر اب کوئی تنقید نہیں کرتا۔ اور سوائے ایسے مجنونوں کے جو
مذہب، اخلاق اور روایات کا وجود مانتے ہیں، کوئی اس طرزِ عمل کو برا نہیں خیال
کرتا!
(مجنون، جاہل، رجعت پسند، گندے لوگ جو قرونِ وسطیٰ کے ذہن رکھتے
ہیں جن کی آنکھوں سے روشنی اچک لی گئی ہے، جو گھڑی کی سوئیوں کو پیچھے کی جانب
ہٹانا چاہتے ہیں، اور جو نہیں جانتے کہ ارتقاء کیا ہے؟ جبری ارتقاء جسے کوئی نہیں
روک سکتا؟ وہ ارتقاء جو بیسویں صدی کی پیداوار ہے!) کیا
ارتقاء ہی نے بیسویں صدی کی موجودہ اجتماعی تشکیل کی ہے؟ ہم اگر اپنی ذاتی رائے سے
صرفِ نظر کر لیں کہ یہ باعزت ترقی ہے، یا ذلیل اباحیت؟ یہ انسانیت کی رفعت ہے، یا
اس کا حیوانیت کی حد تک تنزل؟ اس سوال کو نظر انداز کرتے ہوئے، ہم پوچھتے ہیں کہ
کیا یہ تہذیب ارتقاء کی پیدا کردہ ہے؟ کیا یہ اجتماعی شکل فی الواقع ایک نئی شکل
ہے، جسے بیسویں صدی کی سائنسی اور تہذیبی ترقی نے جنم دیا ہے؟ اس سوال کے جواب کے
لئے تاریخ کی شہادت سنئے! # تاریخ کی گواہی: کیا جدید انحراف نیا ہے؟ انسان
زندگی کا جو وقفہ گزار رہا ہے اس کو عظیم تر خیال کرتا ہے کیونکہ اس وقفہ کی ہر
گھڑی اس پر گزر رہی ہے، ایک ایک لمحہ وہ اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے، چنانچہ وہ
زندگی کے اس وقفہ کو تاریخ کے کسی اور وقفہ سے عظیم تر خیال کرتا ہے۔ یہ امر ہر
پہلو سے انسانی نوعیت کا حامل ہے۔ جس طرح قریب کی اشیاء آنکھ کو بڑی اور واضح نظر
آتی ہیں، مگر اگر یہی اشیاء چند قدم یا چند میل دور ہو جائیں تو چھوٹی اور غیر واضح
نظر آنے لگتی ہیں۔ اسی طرح انسان اپنے ذاتی معاملات کو بڑے اور واضح دیکھتا ہے،
کیونکہ یہ اس سے قریب ہوتے ہیں، مگر اگر یہی معاملات کسی دوسرے شخص سے متعلق ہوں،
تو وہ نہ اتنے اہم محسوس ہوتے ہیں، اور نہ اس قدر واضح معلوم دیتے ہیں، اگر چہ
انسان دوسروں کے جذبات میں بھی شریک ہوتا ہے، مگر اسے یہ خیال کبھی نہیں گزرتا کہ
یہ صورتِ حال اس کے ذاتی تجربہ سے مشابہ ہے۔ بلکہ ایک ہی انسان جو لمحہ فی الوقت
گزار رہا ہوتا ہے وہ اسے زیادہ اہم اور واضح محسوس ہوتا ہے، کیونکہ یہ لمحہ ابھی
گزر رہا ہے، اس لئے اس کے احساسات، شعور، اور فکر سے قریب تر ہے۔ مگر جب یہ امر
گزر کر ماضی میں چلا جاتا ہے، تو یہی لمحہ اس کے احساسات میں دھندلا جاتا ہے، اور
اپنی تمام خوشیوں اور نامرادیوں کے باوجود اس لمحہ سے حقیر تر ہو جاتا ہے، جو ابھی
ابھی اس کے احساس و فکر کی جولاں گاہ اور زندگی کے میدان میں داخل ہوا ہے۔ اسی وجہ
سے بیسویں صدی کے لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ صدی ہر شے میں منفرد ہے اور تاریخ میں اس
کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس لئے کہ اس صدی میں تو وہ رہ رہے ہیں اور باقی سب تاریخ
ہے! اور... فی الحقیقت بیسویں صدی بہت سے امور میں منفرد ہے، اور زندگی کی آج جو
شکل ہے، اپنی پوری تفصیلات کے ساتھ، وہ پہلے کبھی نہ تھی۔ پہلے انسانیت کے پاس نہ
راکٹ تھے، نہ طیارے، نہ تیز رفتار جہاز تھے، اور نہ بجلی، نہ ریلیں، نہ ریڈیو، نہ
سینما اور نہ ٹیلی ویژن تھے۔ اور زندگی کے تمام پہلوؤں پر مشتمل مشینی پیداوار! یہ سب باتیں درست ہیں، مگر ان سے جو نتائج اخذ کئے گئے وہ درست
نہیں ہیں۔ اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ آج جن اشیاء کے ساتھ زندگی گزاری جا رہی ہے ان
میں سے مطلقاً کوئی شے پہلے کبھی موجود نہیں رہی ہے، اور جو واقعات پیش آرہے ہیں،
وہ تاریخ میں کبھی پیش نہیں آئے! مگر مشکل یہ ہے کہ لوگ تاریخ نہیں پڑھتے۔ لوگ
تاریخ اس لئے نہیں پڑھتے کہ وہ موجودہ دور کے واقعات میں مشغول ہیں، جو صرف اس لیے
بڑے معلوم ہوتے ہیں کہ وہ آج کے واقعات ہیں۔ لوگ تاریخ اس فریب میں مبتلا ہو کر
بھی نہیں پڑھتے کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا ماضی سے کوئی رشتہ اور تعلق نہیں ہے،
بلکہ وہ آج ہی کی پیداوار ہیں۔ ماضی کے حالات میں کوئی مشابہت نہیں ہے اس لئے
تاریخ سے کیا عبرت حاصل کی جاسکتی ہے! اگر کچھ پڑھتے ہیں، تو زیادہ سے زیادہ یورپ
کے نشاۃِ ثانیہ کی تاریخ پڑھ لیتے ہیں۔ کیونکہ انھیں اتنی خبر تو ہے ہی کہ
تبدیلیاں چند دنوں میں نہیں ہو جاتیں، بلکہ تغیر میں ایک طویل وقت لگتا ہے۔ اب
بیسویں صدی جو بڑی اہم علامات کی حامل ہے، اس نے دورِ احیاء میں جنم لیا تھا یعنی
چودھویں اور پندرھویں صدی میں۔ اس لئے بیسویں صدی کی ابتداء کا پتہ لگانے کے لئے
تاریخِ جدید پڑھی جائے۔ مگر یہ لوگ بھی دورِ احیاء سے پہلے کی تاریخ کی طرف توجہ
نہیں کرتے! (میں یہ بات علماء اور عقلاء کے بارے میں نہیں کہہ رہا ہوں، بلکہ یہ
بات جمہور عوام سے متعلق ہے جس میں آج کل کے ثقافت آشنا بھی آجاتے ہیں!) ہمیں تاریخ پڑھنا چاہیے، تاکہ ہم انسانیت کی حقیقی تصویر دیکھ
سکیں، اور ہمارے سر سے بیسویں صدی کی عظمت کا سودا نکل جائے! بیسویں صدی جس میں
بڑی بڑی مشینیں ہیں، مجنونانہ دوڑ ہے، اور بھیانک فتنے ہیں! ذرا
تھوڑی دیر کے لئے اپنی نظریں ٹیلیویژن کے پردے سے ہٹا لیجئے۔ چند لمحے کے لئے اپنے
ذہن سے راکٹ کا تصور دور کر دیجئے۔ اور ذرا دیر کے لئے شاندار سڑکوں پر دوڑتی ہوئی
شاندار کاروں کو بھی بھول جائیے۔ اور اس لڑکی کو بھی نظر انداز کر دیجئے جو پیرس
کے فیشن ہاؤس کے جدید ترین تراش کے کپڑے زیبِ تن کئے ہوئے ہے: گھٹنوں کے برابر
اسکرٹ، جو بیٹھتے ہوئے مزید تنگ دامانی کی شکایت کرتا ہے! یہ اسکرٹ پہن کر عورتیں
ہر طرح کے بناؤ سنگھار کر کے ناز و اندام سے چلتی ہوئی آتیں اور جذبات میں ہلچل
اور آنکھوں میں حسرت پیدا کر جاتی ہیں۔ آپ بھول جائیے کہ آپ بیسویں صدی کے نصفِ
ثانی میں ہیں اور ان کلمات کو سنئے! ## قدیم یونان و روم کی مثالیں اقوامِ قدیمہ میں سے جس قوم کی تہذیب سب سے زیادہ شاندار نظر
آتی ہے وہ اہلِ یونان ہیں۔ اس قوم کے ابتدائی دور میں اخلاقی نظریہ، قانونی حقوق
اور معاشرتی درجات ہر اعتبار سے عورت کی حیثیت بہت گری ہوئی تھی۔ یونانی خرافات (MYTHOLOGY) میں ایک خیالی عورت پاندورا (PANDORA) کو
اس طرح تمام انسانی مصائب کا موجب قرار دیا گیا تھا، جس طرح یہودی خرافات میں حضرت
حوا علیہا السلام کو قرار دے دیا گیا ہے۔ حضرت حوا کے متعلق اس غلط افسانے کی شہرت
نے عورت کے بارے میں یہودی اور مسیحی اقوام کے رویے پر جو زبردست اثر ڈالا ہے، اور
قانون، معاشرت، اخلاق ہر چیز کو جس طرح متاثر کیا ہے، وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔
قریب قریب ایسا ہی اثر پانڈورا کے توہم کا یونانی ذہن پر بھی ہوا تھا۔ ان کی نگاہ
میں عورت ایک ادنیٰ درجہ کی مخلوق تھی۔ معاشرت کے ہر پہلو میں اس کا مرتبہ گرا ہوا
رکھا گیا تھا اور عزت کا مقام مرد کے لئے مخصوص تھا۔ تمدنی ارتقاء کے ابتدائی
مراحل میں یہ طرزِ عمل تھوڑی ترمیم کے ساتھ برقرار رہا۔ تہذیب اور علم کی روشنی کا
صرف اتنا اثر ہوا کہ عورت کا قانونی مرتبہ جوں کا توں رہا، البتہ معاشرت میں اس کو
نسبتاً ایک بلند تر حیثیت دیدی گئی۔ وہ یونانی گھر کی ملکہ تھی۔ اس کے فرائض کا
دائرہ گھر تک محدود تھا، اور ان حدود میں وہ پوری طرح بااختیار تھی۔ اس کی عصمت
ایک قیمتی چیز تھی جس کو قدر و عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ شریف یونانیوں کے
ہاں پردے کا رواج تھا۔ ان کے گھروں میں زنان خانے مردان خانوں سے الگ ہوتے تھے۔ ان
کی عورتیں مخلوط محفلوں میں شریک نہ ہوتی تھیں۔ نکاح کے ذریعہ سے کسی مرد کے ساتھ
وابستہ ہونا عورت کے لئے شرافت کا مرتبہ تھا، اور اس کی عزت تھی۔ اور بیوہ بن کر
رہنا اس کے لئے ذلت کا موجب سمجھا جاتا تھا۔ یہ اس زمانے کا حال تھا، جب یونانی
قوم طاقتور تھی، اور پورے زور کے ساتھ عروج و ترقی کی طرف جا رہی تھی۔ اس دور میں
خرابیاں ضرور موجود تھیں، مگر ایک حد کے اندر تھیں۔ یونانی عورتوں سے اخلاق کی جس
پاکیزگی اور طہارت و عصمت کا مطالبہ کیا جاتا تھا، اس سے مرد مستثنیٰ تھے۔ ان سے
نہ اس کا مطالبہ تھا اور نہ اخلاقاً کسی مرد سے یہ توقع کی جاتی تھی کہ وہ پاک زندگی
بسر کرے گا۔ ہیٹیرا طبقہ یونانی معاشرت کا ایک غیر منفک جزو تھا، اور اس طبقہ سے
تعلق رکھنا مردوں کے حلقے میں کسی طرح معیوب نہ سمجھا جاتا تھا۔ رفتہ رفتہ اہلِ
یونان پر جنس پرستی اور شہوانیت کا غلبہ شروع ہوا، اور اس دور میں ہیٹیرا طبقہ کو
وہ عروج نصیب ہوا جس کی نظیر پوری انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ رنڈی کا کوٹھا
یونانی سوسائٹی کے ادنیٰ سے لے کر اعلیٰ طبقوں تک ہر ایک کا مرکز و مرجع بنا ہوا
تھا۔ فلاسفہ، شعراء، مؤرخین، اہلِ ادب اور ماہرینِ فنون غرض تمام سیارے اسی درِ
آفتاب کے گرد گھومتے تھے۔ وہ نہ صرف علم و ادب کی محفلوں کی زینت تھیں، بلکہ بڑے
بڑے سیاسی معاملات بھی ان کے حضور میں طے ہوتے تھے۔ قوم کی زندگی اور موت کا فیصلہ
جن مسائل کے ساتھ وابستہ تھا، ان میں اس عورت کی رائے وقیع سمجھی جاتی تھی جس کی
دو راتیں بھی کبھی ایک شخص کے ساتھ بسر نہ ہوتی تھیں۔ یونانیوں کے ذوقِ جمال اور
بت پرستی نے ان کے اندر شہوانیت کی آگ کو اور زیادہ بھڑکایا۔ وہ اپنے اس ذوق کا
اظہار جب مجسموں یا آرٹ کے عریاں نمونوں میں کرتے تھے، وہی ان کی شہوانیت کو اور
زیادہ ہوا دیتے چلے جاتے تھے۔ یہاں تک کہ ان کے ذہن سے یہ تصور ہی محو ہو گیا تھا
کہ شہوت پرستی بھی کوئی اخلاقی عیب ہے۔ ان کا معیارِ اخلاق اتنا بدل گیا تھا کہ
بڑے بڑے فلاسفہ اور معلّمینِ اخلاق بھی زنا اور لواطت میں کوئی قباحت اور کوئی چیز
قابلِ ملامت نہ پاتے تھے۔ عام طور پر یونانی لوگ نکاح کو ایک غیر ضروری رسم سمجھنے
لگے تھے، اور نکاح کے بغیر عورت اور مرد کا تعلق بالکل معقول سمجھا جاتا تھا جس کو
کسی سے چھپانے کی ضرورت نہ تھی! یونانیوں کے بعد جس قوم کو دنیا میں عروج
نصیب ہوا وہ اہلِ روم تھے۔ یہاں پھر وہی اتار چڑھاؤ کا مرقع ہمارے سامنے آتا ہے،
جو اوپر آپ دیکھ چکے ہیں۔ رومی ملک وحشت کی تاریکی سے نکل کر جب تاریخ کے روشن
منظر پر نمودار ہوتے ہیں، تو ان کے نظامِ معاشرت کا نقشہ یہ ہوتا ہے کہ مرد اپنے
خاندان کا سردار ہے۔ اسے اپنے بیوی بچوں پر پورے حقوقِ مالکانہ حاصل ہیں، بلکہ بعض
حالات میں وہ بیوی کو بھی قتل کر دینے کا بھی مجاز ہے۔ جب وحشت کم ہوئی اور تہذیب
و تمدن میں رومیوں کا قدم آگے بڑھا، تو اگرچہ قدیم خاندانی نظام بدستور قائم رہا،
مگر عملاً اس کی سختیوں میں کچھ کمی واقع ہوئی، اور ایک حد تک اعتدال کی حالت پیدا
ہوتی گئی۔ رومی جمہوریت کے زمانہ عروج میں یونان کی طرح پردے کا رواج تو نہ تھا،
مگر عورت اور جوان نسل کو خاندانی نظام میں کس کر رکھا گیا تھا۔ عصمت و عفت خصوصاً
عورت کے معاملہ میں ایک قیمتی چیز تھی، اور اس کو معیارِ شرافت سمجھا جاتا تھا۔
اخلاق کا معیار کافی بلند تھا۔ ایک مرتبہ ایک رومی سینیٹر نے اپنی بیٹی کے سامنے
اپنی بیوی کا بوسہ لیا، تو اس کو قومی اخلاق کی سخت توہین سمجھا گیا، اور سینیٹ
میں اس پر ملامت کا ووٹ پاس کیا گیا۔ عورت اور مرد کے تعلق کی جائز اور شریفانہ
صورت نکاح کے سوا کوئی دوسری نہ تھی۔ ایک عورت اسی وقت عزت کی مستحق ہو سکتی تھی،
جب کہ وہ ایک خاندان کی ماں (MATRON) ہو۔ ہیٹیرا طبقہ
اگرچہ موجود تھا اور مردوں کو ایک حد تک اس طبقہ سے ربط رکھنے کی آزادی بھی تھی،
مگر عام رومیوں کی نگاہ میں اس کی حیثیت نہایت ذلیل تھی۔ اور اس سے تعلق رکھنے
والے مردوں کو بھی اچھی نظر سے نہ دیکھا جاتا تھا۔ تہذیب و تمدن کی ترقی کے ساتھ
ساتھ اہلِ روم کا نظریہ عورت کے بارے میں بدلتا چلا گیا، اور رفتہ رفتہ نکاح و
طلاق کے قوانین اور خاندانی نظام کی ترکیب میں اتنا تغیر رونما ہوا کہ صورتِ حال
سابق حالات کے بالکل برعکس ہوگئی۔ نکاح محض ایک قانونی معاہدہ (Civil Contract) بن کر رہ گیا جس کا قیام و بقا فریقین کی رضا مندی پر منحصر
تھا۔ ازدواجی تعلق کی ذمہ داریوں کو بہت ہلکا سمجھا جانے لگا۔ عورت کو وراثت اور
ملکیتِ مال کے پورے حقوق دے دیے گئے، اور قانون نے اس کو باپ اور شوہر کے اقتدار
سے بالکل آزاد کر دیا۔ رومی عورتیں معاشی حیثیت سے نہ صرف خود مختار ہوگئیں، بلکہ
قومی دولت کا ایک بڑا حصہ بتدریج ان کے حیطہ اقتدار میں چلا گیا۔ وہ اپنے شوہروں
کو بھاری شرح سود پر قرض دیتی تھیں، اور مالدار عورتوں کے شوہر عملاً ان کے غلام
بن کر رہ جاتے تھے۔ طلاق کی آسانیاں اس قدر بڑھیں کہ بات بات پر ازدواج کا رشتہ
توڑا جانے لگا۔ مشہور رومی فلسفی سینیکا (Seneca) درد
و الم سے رومیوں کی کثرتِ طلاق پر ماتم کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اب روم میں طلاق
کوئی بڑی شرم کے قابل چیز نہیں رہی۔ عورتیں اپنی عمر کا حساب شوہروں کی تعداد سے
لگاتی ہیں۔ اس دور میں عورت کے بعد دیگرے کئی کئی شادیاں کرتی جاتی تھی۔ مارشل (Martial, ۴۰ء-۱۰۴ء) ایک عورت کا ذکر کرتا ہے، جو دس خاوند کر چکی تھی۔ جووینال (Juvenal, ۶۰ء-۱۴۰ء) ایک عورت کے متعلق لکھتا ہے کہ اس نے پانچ سال میں آٹھ شوہر
بدلے۔ سینٹ جیروم (St. Jerome) نے ان سب سے زیادہ
باکمال عورت کا حال لکھتا ہے، جس نے آخری بار تیسواں شوہر کیا تھا، اور اپنے شوہر
کی بھی وہ اکیسویں بیوی تھی۔ اس دور میں عورت اور مرد کے غیر نکاحی تعلق کو معیوب
سمجھنے کا خیال بھی دلوں سے نکلتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ بڑے بڑے معلمینِ اخلاق بھی
زنا کو ایک معمولی چیز سمجھنے لگے۔ کاٹو (Cato) جس
کو ۶۳
ق۔م۔ روم کا محتسبِ اخلاق مقرر کیا گیا تھا، صریح طور پر جوانی کی آوارگی کو حق
بجانب ٹھہراتا ہے۔ سسرو (Cicero) عجیب شخص ہے جو
نوجوانوں کے لئے اخلاق کے بند ڈھیلے کرنے کی سفارش کرتا ہے۔ حتی کہ اپکٹیٹس (Epictetus) جو فلاسفہ رواقیین (Stoics) میں بہت ہی سخت
اخلاقی اصول رکھنے والا سمجھا جاتا تھا، اپنے شاگردوں کو ہدایت کرتا ہے کہ جہاں تک
ہو سکے شادی سے پہلے عورت کی محبت سے اجتناب کرو مگر جو اس معاملہ میں ضبط نہ رکھ
سکیں انھیں ملامت بھی نہ کرو! اخلاق اور معاشرت کے بند جب اتنے ڈھیلے ہو
گئے تو روم میں شہوانیت، عریانی اور فحاشی کا سیلاب پھوٹ پڑا۔ تھیٹروں میں بے
حیائی اور عریانی کے مظاہرے ہونے لگے۔ جنسی اور نہایت فحش تصویریں ہر گھر کی زینت
کے لئے ضروری ہو گئیں۔ تجارتِ عصمت فروشی کو وہ فروغ نصیب ہوا کہ قیصر ٹائبیریس (Tiberius, ۱۴ء-۳۷ء) کے عہد میں معزز خاندانوں کی عورتوں کو پیشہ ور طوائف بننے
سے روکنے کے لئے ایک قانون نافذ کرنے کی ضرورت پیش آگئی۔ فلورا (FLORA) نامی ایک کھیل رومیوں میں نہایت مقبول ہوا، کیونکہ اس میں برہنہ
عورتوں کی برہنہ دوڑ ہوا کرتی تھی۔ عورتوں اور مردوں کے برسرِ عام جنسی عمل کرنے
کا رواج بھی اس دور میں عام تھا۔ لٹریچر میں فحش اور عریاں مضامین بے تکلف بیان
کئے جاتے تھے۔ اور وہی ادب تھا اور عوام و خواص میں وہی ادب مقبول ہوتا تھا، جس
میں استعارہ اور کنایہ تک کا پردہ نہ رکھا گیا ہو۔ ذرا آنکھیں کھول کر اس اخبار کو
دیکھئے! سینما اور ٹیلیویژن دیکھئے! کیا اوپر بیان کردہ حال اور آج میں کوئی بہت بڑا
فرق ہے؟ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ بہت زیادہ مشابہت ہے۔ موجودہ دور کی بعض باتیں ہو
سکتا ہے ذہن میں یہ خیال پیدا کریں کہ یہ تو بالکل دورِ جدید کی اور بیسویں صدی
میں پیدا ہونے والی باتیں ہیں۔ یہ وہ باتیں نہیں ہیں جو دو ہزار سال قبل روم و
یونان کی تہذیب میں موجود تھیں۔ بے پردہ بناؤ سنگھار کئے ہوئے عورت جو مرد کو اپنی عشوہ طرازیوں
کا شکار بنانے کے لئے باہر نکلتی ہے! عورت جو مرد کی مالک بن گئی، اور اسے اپنی خواہش کے مطابق لئے
جارہی ہے۔ عورت
جو معاشی طور پر آزاد ہو چکی ہے اور جو اپنی معاشی آزادی کی بناء پر یہ خیال کر
رہی ہے کہ اسے آزادی اور اخلاقی اباحیت کا حق حاصل ہے۔ جسمانی لذتوں کے حصول کے لئے بے پردہ عورت کے پیچھے بھاگتا ہوا
مرد! مرد جو حقیقی
امور سے غافل جسمانی لذات میں مشغول ہے۔ مرد جو زندگی کی شہرت اور زندگی کے مسائل کا بوجھ اٹھانے کے لئے
عورت کا متلاشی ہے۔ مرد
جو اباحیت پسند عورت کو اجتماعی ضرورت قرار دے کر اسے خوش آمدید کہتا ہے! عریاں
لٹریچر... فحش فلمیں... اور فواحشات کا ذوق! کیا
معاشرے کی اس موجودہ شکل اور قدیم یونانی صورت میں کوئی بڑا فرق ہے؟ لوگ تاریخ پڑھ
کر بھلا دیتے ہیں۔ ان کے ذہنوں سے یہ بات نکل جاتی ہے کہ زندگی کی یہ موجودہ صورتِ
حال بعینہ اسی صورتِ حال کی تکرار ہے، جو دو ہزار سال پہلے تھی! جاہلوں کی جہالت
اور دھوکہ بازوں کی دھوکہ دہی کی بناء پر لوگوں کی نظروں سے یہ حقیقت اوجھل ہوگئی
ہے، کیونکہ دھوکہ باز مسلسل لوگوں کو یقین دلا رہے ہیں کہ وہ جدید اجتماعی صورت
تاریخ کی یگانہ اور منفرد شکل ہے، اور اس قسم کا معاشرہ پہلے کبھی وجود میں نہیں
آیا ہے۔ یہ معاشرہ دراصل سائنسی ارتقاء سے وجود میں آیا ہے! جب
یہ سب باتیں کہی جاتی ہیں... تو جاہل لوگ دھوکہ بازوں کی ان سب باتوں پر یقین کر
لیتے ہیں!
آخر اجتماعی زندگی کا ارتقاء کیا ہے؟! استعمال کی اشیاء ضرور
بدل گئی ہیں مگر عمل بعینہ وہی ہے!! کیسی سادگی ہے! کتنی بڑی جہالت ہے! اور کیسا
عظیم فریب ہے! اگر ہم یہ سمجھنے لگیں کہ عورتوں کے فیشن ایجاد کرنے والا کرسچن
ڈائر
(Christian Dior) پہلے نہ تھا! عریاں اور فحش فلمیں دکھانے
والا سینما پہلے نہ تھے! اور عورت جن سڑکوں پر اپنے حسن و دلکشی کا مظاہرہ کرتی
پھرتی ہے، وہ صاف ستھری تارکول کی بنی ہوئی شاہراہیں ہیں، جن پر کاریں دوڑتی پھرتی
ہیں، اور یہ شاہراہیں پہلے موجود نہ تھیں؟! کیسی
سادگی ہے! کتنی بڑی جہالت ہے! اور کتنا عظیم دھوکہ ہے کہ آج کی اس عظیم اجتماعی
ترقی کو، جس نے عورت کو نیم عریاں اور فتنہ سامان بنا کر گھروں سے باہر نکال دیا
ہے، اس اجتماعی ترقی کو بیسویں صدی کی یگانہ روزگار معاشرتی ترقی، بیسویں صدی کے
منفرد حالات، بیسویں صدی کی بے مثل سائنس، بیسویں صدی کی حیرت انگیز ایجادات اور
بیسویں صدی کے پر فریب نظریات کی جانب منسوب کیا جاتا ہے! کیسی
سادگی ہے! کتنی بڑی جہالت ہے! اور کتنا عظیم دھوکہ ہے کہ ماضی کے تمام تاریخی
واقعات کو فراموش کر کے سمجھ لیا گیا ہے کہ آج انسانیت نے از سرِ نو جنم لیا ہے،
اور آج کی انسانیت کا ماضی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ آج کی انسانیت راکٹوں کی حامل ہے
اور یہ انسان ماضی کے تمام اثرات سے آزاد ہے، کیونکہ اس انسان نے اپنے آپ کو خود
تخلیق کیا ہے۔ یہ اپنا خالق آپ ہے؟! اور کیسی سادگی ہے! کتنی بڑی جہالت ہے! اور
کتنا عظیم دھوکہ ہے کہ لوگ یہ سمجھ بیٹھے کہ انسان کا داخلی وجود بھی ان چند صدیوں
میں تبدیل ہو گیا ہے؟ ## تاریخی شہادت کا خلاصہ یہ
تاریخ کی گواہی ہے، اور اس پر غور و فکر کرنے سے مندرجہ ذیل نتائج سامنے آتے ہیں: اول: بیسویں
صدی کی اجتماعی زندگی - اس میں عورت کا کردار اور بیسویں صدی کے تعلقاتِ مرد و زن
- انسانی زندگی کے کوئی انوکھے واقعات نہیں ہیں۔ بلکہ انسان اس قسم کی اجتماعی
زندگی پہلے بھی گزار چکا ہے۔ اور اگر آپ چشمِ تصور میں بیسویں صدی کی اجتماعی
زندگی اور آج سے دو ہزار سال قبل کی زندگی میں موازنہ کر کے دیکھیں تو یقیناً آپ
کو دونوں انسانی زندگیوں میں امتیاز دشوار ہو جائے گا؟ دوم: جن من گھڑت اسباب سے بیسویں صدی کی اجتماعی زندگی، اس میں
عورت کے کردار اور مرد و زن کے تعلقات کی تعبیر کی جاتی ہے، وہ حقیقی اسباب نہیں
ہیں، کیونکہ اگر اس اجتماعی زندگی کو ایسے اسباب کی جانب منسوب کیا جائے جو بیسویں
صدی کی پیداوار ہیں، یا اسے بیسویں صدی کے تغیر و ارتقاء کی جانب منسوب کیا جائے،
تو جو آج کی اجتماعی زندگی سے مشابہ زندگی پہلی صدی عیسوی میں یا اس سے پہلے رونما
ہوئی تھی، اسے کن اسباب کی جانب منسوب کیا جائے گا؟ سوم: مارکس اور ڈورکائیم کے پیش کردہ انیسویں اور بیسویں صدی کے
نظریات نے انسانی وجود کی جو تصویر بنائی ہے جس میں انسان کے داخلی وجود کو بھی
تغیر پذیر بتایا ہے - فی الحقیقت انسان کی یہ تصویر نہیں ہے۔ بلکہ اس کا داخلی
وجود اور اس کے پیشِ نظر اقدار آج بھی غیر متغیر ہیں۔ چہارم: جنس بھی فرائڈ صاحب کا کوئی نیا انکشاف نہیں ہے، بلکہ
سابقہ تہذیبیں جنس پرستی کا شکار رہ چکی ہیں۔ مندرجہ بالا گفتگو کا یہ مطلب نہیں
ہے کہ ہم نفسِ تغیر و ارتقاء سے انکار کر رہے ہیں۔ ہم دو ہزار سال کے وقفہ کو نظر
انداز کر رہے ہیں۔ بلکہ ہمارا منشاء یہ ہے کہ لوگ اپنی اس غفلت سے باہر آئیں کہ
دورِ جدید قطعی طور پر ماضی کے ہر اثر سے آزاد اور بے تعلق ہو کر کسی خود رو پودے
کی طرح خود بخود پھوٹ آیا ہے! انیسویں صدی اور بیسویں صدی میں یورپ اور
عالمِ انسانیت میں عظیم ترین انقلابات رونما ہوئے ہیں! ایک طرف صنعتی انقلاب (INDUSTRIAL
REVOLUTION) تاریخ کا ایک عظیم انقلاب ہے! اور دوسری جانب
سرمایہ داری اور اشتراکیت دورِ جدید کے عظیم حادثات ہیں۔ انسان کے بارے میں تصور
کئی مرتبہ اس قدر انتہا پسندی کے ساتھ تبدیل ہوا کہ اس کی مثال نہیں ملتی۔ ایک طرف
انسان کی انفرادیت کو مقدس سمجھ کر اجتماعیت کو پامال کیا گیا، اور دوسری جانب
اجتماعیت کا بت تراش کر فرد کو حیوانی گلے کا ایک جزو سمجھ لیا گیا۔ اور انسان
اپنی رفعت و بلندی سے گر کر حیوان بن گیا، اور اسے جملہ حیوانات میں اس کے سوا
کوئی امتیاز حاصل نہ رہا کہ آج وہ حیوانیت میں سرداری کے مرتبہ پر فائز ہے، جب کہ
پہلے حیوانیت کی دوسری اقسام سردار رہ چکی ہیں! یا پھر انسان اللہ اور طبیعت کی
پرستش سے بیزار ہو کر خود اللہ بن بیٹھا، اور اپنی ہی عبادت میں مشغول ہوگیا! سائنس نے تاریخ میں بے مثل قدم اٹھائے۔ ایٹم (Atom) کو پچھاڑا، راکٹ بنائے، اور زمین کی چھپی ہوئی طاقتیں انسان کے
تابع کر دیں۔ سائنس نے انسان کی ساری جسمانی مشقتیں مشین کو سپرد کر کے انسان کی
مادی زندگی کو سہل اور آسان بنا دیا ہے۔ اب انسان کی قوتیں محفوظ ہوگئیں؟ اور وہ
خود اپنی دریاں پھاڑ کر باہر کا باسی ہو گیا ہے! زندگی
کی ساری شکل بدل گئی۔ مگر کیا انسان بھی بدلا ہے؟ یا انسان کے اعمال اور ان اعمال
سے مرتب ہونے والے اثرات بھی متغیر ہو گئے؟ کیا انسان انحراف و اعتدال کے مختلف
ادوار سے گزرتا ہوا انسان کے سوا کوئی دوسری شے بن گیا؟! کیا اب انسان وہ انسان
نہیں رہا، جو آج سے دو ہزار سال قبل تھا؟ کیا انسان کے انحراف و اعتدال کے مختلف
ادوار میں انسانی اعمال کے وہ اثرات و نتائج نہیں رہے، جو پہلے ہوا کرتے تھے؟ یہ
تاریخ کی گواہی ہے۔ ہمیں اس پر غور کرنا چاہیے۔ تاریخ کی یہ گواہی انسانی وجود کے
جمود و ارتقاء کے بارے میں نہایت اہم معلومات فراہم کرتی ہے۔ # انسانی وجود
میں جمود و ارتقاء کیا ہم نے تاریخ کی گواہی کا مطالعہ کر کے اس
کے نتائج پر غور کر لیا ہے؟ تاریخ کا نتیجہ صرف یہی نہیں ہے کہ تاریخ کے ایسے دو
ادوار میں عظیم تر مشابہت پائی جاتی ہے، جن کے درمیان بیس صدیوں کا فاصلہ ہے۔ بلکہ
تاریخ ہماری توجہ اس سے بھی زیادہ اہم بات کی جانب مبذول کراتی ہے، یعنی انسانیت کی
طبیعت کی طرف، اور خود اس انسان کی طرف جو تمام تاریخی واقعات میں خود بھی متاثر
ہوتا رہا، اور اپنے اثرات بھی ڈالتا رہا۔ یہ انسان—جس کو ہم واقعات و حالات کے تحت
دیکھتے ہیں، اور جس کے تغیرات کو دیکھ کر ہم اس کے داخلی وجود کا اندازہ کرنا
چاہتے ہیں، اور اس کے وجود کی گہرائی جاننا چاہتے ہیں، اور اس کا حقیقی تعارف
چاہتے ہیں، مگر یہ انسان آج سائنس اور ایجادات کے دور میں اور آج بیسویں صدی میں
بھی مجہول ہے—اور اس کی حقیقت نامعلوم ہے! الیکسس
کارل
(Alexis Carrel) - جو حیاتیات اور طب کا عالم ہے، اور کوئی
فلسفی نہیں ہے - اپنی کتاب 'نامعلوم انسان' (Man, The Unknown) میں کہتا ہے: "ہم انسان کو ایک کل
کی حیثیت سے نہیں جانتے۔ ہم انسان کے صرف مختلف اجزاء سے واقف ہیں۔ اور ان مختلف
اجزاء کو بھی ہمارے وسائل نے گھڑ لیا ہے۔ ہم میں سے ہر شخص ایسے سائے کے پیچھے لپک
رہا ہے جس کی حقیقت نامعلوم ہے!!" "حقیقت یہ ہے کہ ہم
جہالت میں گھرے ہوئے ہیں، کیونکہ انسانیت کا مطالعہ کرنے والے جو سوالات رکھتے
ہیں، ان میں سے اکثر کا کوئی جواب نہیں ہے۔ ہماری باطنی دنیا کے اکثر پہلو ابھی تک
انجانے ہیں۔ ایسے متعدد مسائل ہیں، جو انتہائی اہم موضوعات سے وابستہ ہیں، مگر ان
کا کوئی حل نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سائنسدانوں نے انسان کے بارے میں جو تحقیقات
پیش کی ہیں، وہ سب ناکافی ہیں، اور اپنے بارے میں ہماری معلومات ابھی تک ابتدائی
ہیں۔"
مندرجہ بالا قول ایک ایسے سائنسدان کا ہے جس کو ایسے کثیر مواقع
فراہم ہوئے کہ اس نے اپنے اکثر اوقات تجربہ گاہ میں تجربات کرتے ہوئے، اور
طبیعیات، کیمیا، حیاتیات اور فعلیات (Physiology) میں دوسرے
سائنسدانوں کی تحقیقات کا مطالعہ کرتے ہوئے گزارے، جب کہ وہ خود طب میں متخصص ہے۔
اس حقیقت کے باوجود عوام الناس اور عام دانشور کھوکھلے علم کے فریب میں مبتلا ہو
کر یہ خیال کرتے ہیں کہ انھیں خاص طور پر انسان کے بارے میں بہت کچھ واقفیت حاصل
ہے، اور انھیں یہ پورا پورا حق حاصل ہے کہ وہ انسان کے بارے میں اپنے فتوے صادر
کرتے رہیں!
## تاریخ کی مادی تعبیر اور اس پر تنقید تاریخ کی مادی تعبیر: کہتی ہے: "لوگوں کا شعور ان کے وجود
کا تعین نہیں کرتا، بلکہ لوگوں کا وجود ان کے شعور کا تعین کرتا ہے۔" (کارل
مارکس)۔ اور لوگوں کا وجود آلاتِ پیداوار (Tool of Production) کی تبدیلی سے مسلسل تغیر پذیر رہتا ہے، کیونکہ انسان کے سامنے
روز نئے نئے انکشافات اور جدید ترین ایجادات آتی رہتی ہیں۔ "مادی
زندگی میں طریقہ پیداوار ہی اجتماعی، سیاسی اور معنوی زندگی کی عام نوعیت کا تعین
کرتا ہے۔" یہ (مارکسی) پیداوار اور تبادلۂ اشیاء ہی اجتماعی نظام کی اصل
بنیاد ہیں۔ اس نظریہ کے ماتحت تمام تغیرات اور بنیادی تبدیلیوں کے اسباب کی تلاش
لوگوں کی عقول اور ان کے ازلی حق و انصاف کی اتباع میں نہیں ہونی چاہئے، بلکہ یہ
اسباب ان تغیرات میں ڈھونڈنے چاہئیں جو طریقہ پیداوار اور تبادلۂ اشیاء میں واقع
ہوتے ہیں۔ (فریڈرک اینگلز) انسانی وجود اور معاشی حالات: اس لئے انسانی
وجود غیر متغیر نہیں ہے۔ انسان مادی اور معاشی حالات کا نتیجہ ہے اور اس معاشی
حالت کا عکس ہے جس میں وہ رہ رہا ہے، اور چونکہ یہ حالات بدلتے رہتے ہیں، اس لئے
انسان بھی غیر متغیر نہیں رہ سکتا، بلکہ ان تغیرات کے ساتھ انسان بھی بدلتا رہتا
ہے، اور اس کے اخلاق، عقائد، افکار، انفرادی اور اجتماعی اعمال بھی بدلتے رہتے
ہیں۔ زرعی معاشرہ: زرعی معاشرے میں انسان اللہ کی عبادت اس لئے کرتا تھا کیونکہ وہ
بیج بو کر اس سے پھل آنے کی توقع کرتا تھا۔ وہ عملِ پیداوار میں خود عاجز تھا۔ نہ
وہ رفتارِ افزائش کو کم کر سکتا تھا اور نہ زیادہ۔ نتائج پر اس کے اثرات، اس کی
جدوجہد کے بہ نسبت انتہائی معمولی ہوتے تھے۔ آفاتِ سماویہ اور گرمی و سردی پر اسے
کوئی قدرت حاصل نہ تھی۔ غرض ہر طرح اسے آسمان کی جانب نظر رکھنا پڑتی تھی۔ کیونکہ
اس معاشرے میں مرد اصل پیداوار کا ذریعہ ہوتا اور وہی عورت کی کفالت کرتا تھا، اس
لئے گھر میں مرد ہی کو اقتدار حاصل ہوتا۔ خاندان شوہر کے اقتدار کو تسلیم کرتا،
اور شوہر خاندان بنانے کا شوقین ہوتا، کیونکہ اسی کے ذریعہ اسے اقتدار ملتا تھا۔
اس لئے وہ عورت پر اخلاقی قواعد عائد کرتا تھا۔ چنانچہ عورت کی زندگی کے لئے
پاکدامنی ایک لازمی شرط ہوتی، اور عفت و پاکدامنی کا یہ مطلب ہوتا کہ یہ عورت اس
کی مخصوص ہے اور کسی نے اس کو چھوا نہیں۔ پھر اس معاشی حالت کی نمائندگی لیتے ہوئے
مذہب آتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ عفت اللہ کو پسند ہے، اور اللہ کے واسطے لوگوں کو
پاکدامنی اختیار کرنی چاہئے۔ زرعی زندگی میں اپنی تمام مشکلات کے باوجود ایک قسم
کا تعاون بھی تھا، اور یہ تعاون اس وقت کے اخلاق اور مذہب کا ایک جز تھا۔ خاندان
کے لوگ قرابت اور رشتہ داری کی بنا پر آمدنی کی فروخت اور تبادلہ کے سلسلہ میں ہی
ایک دوسرے سے تعارف کرتے۔ یہ تعارف اس وقت کا اخلاق اور مذہب کا جزو بن گیا۔ غرض
زرعی معاشرے کے تمام اخلاق، شعور، مفاہیم، اصول اور عملی اقدامات سب کے سب حقیقتِ
زمین سے ابھرتے تھے اور ان کے زراعتی مفہوم میں زمین ہی ان کی شکل متعین کرتی تھی۔
صنعتی معاشرہ: اس کے بعد لوگ صنعتی دور میں داخل ہوتے ہیں اور تمام حالات تبدیل ہو
گئے۔ اب عملِ پیداوار غیب ہونے کے بجائے دیکھی بھالی شے ہوگئی۔ پیدا کرنے والی
مشین بھی دیکھی بھالی، اور مشین میں ڈھلنے والا مواد بھی سامنے موجود۔ مشین کا
چلانے والا بھی بجائے اللہ کے انسان بن گیا۔ اس لئے اللہ کی عبادت کی ضرورت نہیں
رہی!
معاشی حالات کے ماتحت عورت معاشی طور پر آزاد ہوگئی، اور اب اس
کی کفالت مرد کے ذمہ نہیں رہی، اور مرد کا اقتدار مطلق نہیں رہا، اور اب اس کی یہ
قدرت نہیں رہی کہ وہ عورت سے پاک دامنی کا مطالبہ کر سکے۔ بلکہ عورت ہی کو یہ حق
حاصل ہو گیا کہ وہ پاک دامن نہ رہے۔ کیونکہ اگر پاک دامن نہ ہونے کی بناء پر مرد
اس کو رد بھی کر دے تو وہ اپنی کفالت آپ کر سکتی ہے۔ اور چونکہ عورت معاشی طور پر
آزاد ہوگئی، اس لئے مرد مجبور ہوا کہ اس کا احترام کرے اور اسے اباحتِ جنسی کا حق
دے دے۔ پھر ارتقاء کے تقاضے کے ماتحت مرد از خود اباحت پر اظہارِ مسرت کرنے لگا! لوگ دیہاتوں کے بجائے کثرت تعداد میں شہروں میں رہنے لگے۔ ان
میں آپس میں کوئی جان پہچان نہ ہوتی۔ اب انسانی زندگی کے لئے تعارف شرط نہیں رہا۔
شہر کی مخلوق ایک ترقی یافتہ مخلوق ہو گئی۔ ہر انسان شعوری اور واقعی طور پر اپنی
زندگی علیحدہ علیحدہ گزارتا، کسی کا کسی سے کوئی ربط و تعلق نہ ہوتا۔ انفرادی تعاون
ختم ہو گیا کیونکہ عملِ پیداوار مخصوص ہو گیا۔ ایک بڑے کارخانے میں کام کرنے والے
سارے مزدور ایک دوسرے کے تعاون کے بغیر کام کرتے، اور عدم تعاون اس جدید ارتقائی
نسل کا شیوہ بن گیا۔ اس طرح صنعتی معاشرے نے اپنے تمام اخلاق، شعور، مفاہیم، اصول
اور عملی طریقہ کار مشین اور مادی پیداوار سے اخذ کئے۔ غرض اب مشین انسانی زندگی
کی تشکیل کرنے لگی کیونکہ: "لوگوں کا شعور ان کے وجود کا تعین نہیں کرتا،
بلکہ ان کا وجود ان کے شعور کا تعین کرتا ہے۔" جیسا کہ عظیم سائنس دان کارل
مارکس کہتا ہے!
مارکسزم اور ڈرکائیم کے نظریات پر تنقید: تاریخ کی مادی تعبیر
میں اس طرح سے اندازے لگائے گئے؟ بقولِ ڈرکائیم، اجتماعات نے مذہب، نکاح اور
خاندان کو غیر فطری قرار دیا: اصل شے عقلِ اجتماعی ہے، جو ہمیشہ تغیر پذیر ہوتی
ہے۔ اور عقلِ اجتماعی کے تغیر سے معاشرے بھی بدلتے رہتے ہیں، اور ہر معاشرہ اپنا مذہب،
اپنی رسمِ نکاح اور اپنے خاندانی نظام بنا لیتا ہے۔ اگر کسی مرحلہ پر آکر عقلِ
اجتماعی کہتی ہے کہ مذہب ہونا چاہئے، تو مذہب وجود میں آجاتا ہے؛ اور جب عقلِ
اجتماعی چاہتی ہے کہ نکاح و خاندان ہونے چاہئیں تو یہ بھی تشکیل پا جاتے ہیں۔ اور
پھر جب یہ عقلِ اجتماعی، اپنی مرضی یا اجتماعی مظاہر کی جبریت سے یہ چاہتی ہے (یہ
جبریت فرد کے ضمیر اور اس کی فطرت سے پیدا نہیں ہوتی، اور نہ اس کا فرد کے شعور یا
اس کے رضا اور عدم رضا سے کوئی تعلق ہوتا ہے) کہ بے دینی اور نکاح و خاندان کا
وجود معدوم ہو جانا چاہئے، تو افراد اس اجتماعی مظہر کی جبریت کا شکار ہو کر فوراً
مذہب اور اخلاق سے دستبردار ہو جاتے ہیں، اور نکاح اور خاندان کے تمام بندھن توڑ
کر ہر شئے کو عقلِ اجتماعی کے تابع بنا لیتے ہیں۔ سائنس اور بدلتی زندگی: اس کے
بعد سائنس کی حیرت انگیز ایجادات انسان کو دہشت زدہ بنا دیتی ہیں۔ بجلی، مشین اور
نو بہ نو بدلتی ہوئی زندگی! ابھی ٹیلیفون کی ایجاد پر انسان کی حیرانی ختم نہیں
ہوتی کہ کیونکر بے جان تاروں کی مدد سے آواز فاصلے طے کرتی ہے! اچانک وائرلیس کی
ایجاد ہو جاتی ہے جس میں تاروں کی مدد کی ضرورت نہیں رہی؛ اور اس کے بعد ٹیلی ویژن
آجاتا ہے!
ابھی انسان اس بات پر حیران تھی کہ موٹر بغیر گھوڑوں کے چلتی
ہے، جیسے اس میں کوئی جن چھپا بیٹھا ہو، کہ طیارے اور راکٹ ایجاد ہو جاتے ہیں۔
ابھی انسان کپڑا بننے کی اس مشین پر تعجب کر رہی تھی جو چھ مزدوروں کا کام بیک وقت
انجام دے لیتی ہے کہ اچانک مل بن گئے جو ہزاروں مزدوروں کا کام انجام دیتے ہیں اور
اس قدر صفائی اور نفاست سے کپڑا بنتے ہیں کہ انسانی ہاتھ اس کی طاقت نہیں رکھتے۔
غرض اسی طرح زندگی میں نو بہ نو عجائبات رونما ہوتے رہے، اور ہر لمحہ زندگی کو ایک
نئی شکل دیتے رہے، اور ہر لحظہ لوگوں کے شعور، افکار، مفاہیم، اصول اور واقعاتی
تعامل بدلتے چلے گئے۔ اونٹ سوار کا تعامل اور اس کے مفاہیم اس شخص کے تعامل اور
ذہنی سوچ سے مختلف ہیں جو کار میں بیٹھتا ہے، یا جو طیارہ میں پرواز کرتا ہے، اور
یا جو خلائی دور میں راکٹ میں بیٹھ کر چاند کا سفر کرتا ہے۔ کیا انسان بدل گیا ہے؟
اب ایسے میں انسان کیونکر انسان رہ سکتا ہے؟ اور اس زبردست دوڑ میں انسان کی ذات
کا وجود کیونکر باقی رہ سکتا ہے؟؟ اس مرحلہ پر آکر جب مشینوں کی گڑگڑاہٹ اور ان کی
قوت سے ہمارا سر چکرانے لگتا ہے اور اس ہمہ گیر تغیر سے ہماری آنکھیں خیرہ ہو جاتی
ہیں، تو ہم سمجھنے لگتے ہیں کہ انسان ہی بدل گیا ہے، اور حقیقی انسان کا کوئی وجود
باقی نہیں رہا ہے۔ تاریخ کی شہادت: اس وقت ہمیں تاریخ کا مطالعہ کرنا چاہئے۔
مطالعۂ تاریخ ہی ہماری سرگردانی دور کر سکتا ہے! تاریخ کی گواہی ان ترددات کا جواب
دیتی ہے! زندگی کی دو صورتیں جن میں دو ہزار سال کا فصل ہے، جن میں ذرائع پیداوار
اور استعمالی اشیاء مختلف ہیں، جن میں سائنسی ایجادات اور انکشافات یکساں نہیں
ہیں، اس کے باوجود زندگی کی دونوں صورتوں میں حیرت انگیز حد تک مشابہت پائی جاتی
ہے۔ اس لئے انسان کی کوئی اور ہی تعبیر ہے۔ اور ان کے دیکھے بھالے عوامل کے سوا
کچھ اور عوامل ہیں جو انسانی تصرفات پر اثر انداز ہوتے ہیں! ## مادی
اور اجتماعی تعبیروں پر تنقید تاریخ
کی مادی تعبیر انسان کی خارجی تعبیر کرنا چاہتی ہے، اس طور پر کہ انسان ایک ایسی
لچکدار شے ہے جو ہر شکل کو قبول کر سکتی ہے۔ چنانچہ انسان نئی نئی شکلیں بدلتا
رہتا ہے اور ہر قسم کے مؤثرات کو قبول کر کے اس معاشی اور مادی وضع کی شکل اختیار
کرتا رہتا ہے جو اس وقت موجود ہوتی ہے۔ نہ وہ حوادث کا کوئی سدِ باب کر سکتا ہے
اور نہ مادی اور معاشی وضع پر کوئی اثر ڈال سکتا ہے، کیونکہ یہ وضع جبری اور
انسانی ارادے سے بالاتر ہے۔ (مارکسی نظریہ) تاریخ
کی اجتماعی تعبیر بھی انسان کی خارجی تعبیر کرتی ہے۔ اس میں بھی انسان کو کوئی دخل
نہیں، بلکہ وہ ہمیشہ اجتماعی جبریت کے سانچے میں ڈھلتا رہا ہے، جو فرد کے شعور اور
اس کے احساسات سے کوئی ربط نہیں رکھتا۔ (ڈرکایم)۔ اجتماعی مظاہر انسانی فطرت سے
کوئی تعلق نہیں رکھتے۔ چنانچہ مذہب، نکاح، خاندان اور اخلاقی اقدار سب فی الحقیقت
اجتماعات کے مظاہر ہیں، جن کا فطرت سے کوئی تعلق نہیں۔ فرد ان مظاہر سے خوش ہو یا
نہ ہو، یہ مظاہر ضرور موجود ہوتے ہیں۔ اس لئے یا تو انسان کی سرے سے کوئی فطرت ہی
نہیں ہے، اور اگر بالفرض ہے تو یہ فطرت انسانی زندگی کا مرجع نہیں ہے!! مگر تاریخ کی شہادت، مادی تعبیر اور اجتماعی تعبیروں دونوں کی
تردید کرتی ہے۔ یہ دونوں تعبیریں اس مشابہت کو بیان کرنے سے عاجز ہیں جو انسان کی
آج سے دو ہزار سال قبل کی اجتماعی زندگی اور آج کی اجتماعی زندگی میں پایا جاتا
ہے۔ تاریخ کی مادی تعبیر، اپنی تمام تر توجہ مادی تغیرات اور ذرائع پیداوار کی
تبدیلیوں پر مرکوز کرتے ہوئے، زندگی کی اس مشابہت کی تعبیر کرنے سے عاجز ہے، جب کہ
مادی لحاظ سے اور ذرائع پیداوار کے لحاظ سے کوئی مشابہت نہیں ہے؟ اجتماعی تعبیر کی
ساری توجہ عقلِ اجتماعی اور فرد پر قائم ہونے والی اجتماعی جبریت پر مرکوز ہے۔ یہ
عقلِ اجتماعی ان دونوں انسانی زندگیوں میں مشابہت کی وجہ بیان کرنے سے عاجز ہے،
الا یہ کہ وہ یہ تسلیم کرلے کہ عقلِ اجتماعی انسانی فطرت کا ایک حصہ ہے۔ ## انسانی فطرت کی استقامت تاریخ
کی اس گمراہی کا ایک ہی مطلب نکلتا ہے، وہ یہ کہ انسان ایک غیر متغیر فطرت کا حامل
ہے۔ اس کے سوا تمام تعبیرات غلط اور راہِ راست سے دور ہیں۔ آخر وہ کون سا سبب ہے،
جس کی بناء پر یہ تغیرات انسان کو اس کے بلند مقام سے گرا کر اسے حیوان سے بد تر
بنانے پر مجبور ہوتے ہیں؟ یہ سبب انسان کی ایک بڑی خوبی ہے جس کی بناء پر انسان
حیوان سے ممتاز ہو گیا ہے۔ انسان کی یہ خوبی اس کی لچک اور اس کے پہلوؤں کا متعدد
ہونا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو یہ خوبی اس لئے عطا فرمائی تھی کہ انسانی زندگی
میں وسعت و ہمہ گیری پیدا ہو اور اس کے طریقہ کار، اس کے معیارِ حیات اور اس کے
اعمال میں تعدد اور تنوع پیدا ہو۔ مگر ان تعبیرات نے انسان کی اس خوبی کو بدترین
برائی میں بدل دیا، اور اس خوبی کو سلبیت، بزدلی اور ان مادی مؤثرات سے مسلسل تاثر
(جس میں انسانی ارادے کو دخل نہیں) اور ان مادی وجود سے بیگانہ اجتماعی جبریت سے
متاثر ہونے میں تبدیل کر دیا۔ انسان میں اللہ تعالیٰ نے لچک اس لئے رکھی ہے کہ وہ
مادی ماحول کا اور اس سے پیدا شدہ تمام حالات کا مقابلہ کر کے بالآخر ان پر قدرت
حاصل کرے، اور مشکلات سے ٹکرا کر خود پاش پاش نہ ہو جائے۔ وَسَخَّرَ لَكُمْ مَا
فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِنْهُ (الجاثیہ: ۱۳) ترجمہ:
"جتنی چیزیں آسمانوں میں ہیں اور جتنی چیزیں زمین میں ہیں، ان سب کو اپنی طرف
سے تمہارے لئے مسخر بنا دیا۔" انسان کو اللہ
تعالیٰ نے متعدد پہلو اس لئے عطا فرمائے کہ ان پہلوؤں سے اس کی عبقریت جلوہ گر ہو،
مختلف تہذیبوں کو جنم دے سکے، اور یہ تہذیبیں روح، فکر اور جسم کو شامل اور معاشی،
اجتماعی، سیاسی، مادی، فکری اور روحانی، یعنی تمام پہلوؤں کو محیط ہوں۔ یہ دونوں
خوبیاں جو اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایجابی اور فعال زندگی کے لئے عطا فرمائی تھیں،
ان کو ان منحرف تعبیرات نے ایک خطرناک سلبیت بنا دیا جو خارجی حوادث سے متاثر ہو
مگر داخلی اثر قبول نہ کرے۔ جس لچک کی بناء پر انسان نو بہ نو شکلیں اپنانے پر
قادر ہوا، اس لچک نے تاریخ کی مادی تعبیر کو اس فریب میں مبتلا کردیا کہ انسان کا
اپنا کوئی غیر متغیر وجود ہی نہیں ہے۔ انسان صرف خارجی اثرات سے متاثر ہوتا ہے،
اور کچھ نہیں!
انسانی پہلوؤں کے تعدد اور ان میں بعض پہلوؤں کے زیادہ نمایاں
ہو جانے اور بعض پہلوؤں کے اوجھل ہونے نے مادی تعبیر اور اجتماعی تعبیر کو اس وہم
میں مبتلا کر دیا کہ انسان کا کوئی مستقل وجود ہی نہیں۔ یہ ہے کہ انسان پر مختلف
ادوار میں مختلف حالات طاری ہوتے رہتے ہیں، جن کے تحت انسان بدلتا رہتا ہے۔ غرض یہ
تمام منحرف تعبیرات انسان کی کسی ایک جزئی یا ایک پہلو کو لے کر اس کے تحت تمام
انسانوں کی تعبیر کردیتی ہیں، اور اس طرح انسان کی شکل مسخ کر کے رکھ دیتی ہیں! انسان فی الحقیقت کسی ایک جزئی یا پہلو سے عظیم تر ہے۔ انسان کی
لچک اور اس کے پہلوؤں کا تعدد جن کی بناء پر ان تعبیرات نے انسانی شکل مسخ کر کے
رکھ دی، یہ فی الحقیقت تمام تاریخ میں انسان کی ایجابی خصوصیات رہی ہیں، اگرچہ ان
کا سلبی رخ بھی ہے جس پر ان تعبیرات نے اپنی توجہات مرکوز کی ہیں۔ انسان اپنی
دوگانہ طبیعت اور غبارِ خاکی و نغمۂ روحانی کے امتزاج کی بناء پر اپنے تمام تصرفات
میں دو متقابل پہلو رکھتا ہے۔ اسی امتزاج کی بناء پر انسان میں دو متقابل صفات،
سلبیت اور ایجابیت کی بھی پائی جاتی ہیں، جو انسان کے تمام تصرفات میں موجود ہیں۔
اگرچہ انسان کبھی سلبیت کی جانب زیادہ مائل ہو جاتا ہے، اور کبھی ایجابیت کی جانب،
اور پھر اس میں توازن پیدا ہو جاتا ہے۔ یعنی وہ عظیم حقیقت ہے جو ان تمام تعبیرات
نے نظر انداز کر دی ہے اور انحرافات کا شکار ہوگئیں۔ ## تغیر
اور ارتقاء کا مسئلہ اب ہم بحث کے اصل موضوع کی جانب آتے ہیں،
یعنی انسانی وجود میں تغیر پذیری و ارتقاء کا مسئلہ! انسانی فطرت کیا شے ہے؟ اور
انسانی زندگی میں اس کے کیا اثرات ہیں؟ اگر انسانی فطرت غیر متغیر ہے تو انسانی
زندگی میں رونما ہونے والے ان انتہائی تغیرات کی کیا تعبیر کی جائے جو کبھی کبھی
مشابہ تو ہوتے ہیں، مگر مماثل نہیں ہوتے؟ بلکہ اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ انسان کی
فطرت ہے؟ اور انسان پے در پے آنے والے نفسیاتی حالات کا مجموعہ کیوں نہیں ہے، جیسا
کہ تحلیلی نفسیات کہتی ہے؟ یا جیسا کہ تاریخ کی مادی تعبیر اسے معاشی حالات کا
مجموعہ قرار دیتی ہے اور انہی حالات کے مجموعہ کو انسان اور انسان کی تاریخ بتاتی
ہے! ## فطری محرکات پہلے
ہمیں انسان کے فطری محرکات پر غور کرنا چاہئے؟ کہ کیا ان محرکات کا کوئی حقیقی
وجود ہے؟ اور کیا یہ وجود جامد ہے یا انسان کے معاشی حالات کے تحت بدلتا رہتا ہے؟
زندگی کی محبت: انسان کا سب سے بڑا محرک ہے، اور یہ محرک تمام جانداروں میں مشترک
ہے۔ تمام جاندار زندگی سے محبت رکھتے اور اس کی بقاء کی جدوجہد میں لگے رہتے ہیں۔
اگرچہ ہر جاندار کا فنا ہو جانا بھی طبعی ہے، مگر انسان کے تمام پہلوؤں میں اس کی
نمایاں خصوصیت، اس کا شعور، ادراک اور آزادیِ اختیار ہے۔ انسان زندگی سے محبت
رکھتا ہے اور اسے اس کا شعور ہوتا ہے۔ وہ اس کے لئے مقاصد اور منزل کا تعین کرتا
ہے اور اپنی نظری آزادی کے دائرے میں زندگی سے محبت کی نوعیت کا تعین کرتا ہے۔ کیا
انسان میں یہ محرک جامد ہے یا متغیر؟ کیا انسانیت پر کوئی حالت ایسی بھی گذری ہے
جب وہ زندگی سے محبت نہ رکھتی ہو؟ خودکشی (جو منحرف شذوذ ہے) اور جان کی قربانی
(جو مثبت صورت ہے)، اس محرک سے گریز نہیں ہیں، بلکہ یہ تو اس محرک کے وجود کی
تائید کرتے ہیں۔ اور پھر یہ کہ خودکشی اور قربانی انسانیت کے نادر حالات ہیں! جس صورت میں منحرف شدہ انسان کو خودکشی پر مجبور کرتی ہے، وہ یہ
ہے کہ ایک شخص واقع حالات میں زندگی سے سخت محبت کرتا ہے مگر وہ اپنی محبوب تمناؤں
اور امیدوں سے محروم رہتا ہے، اور جب یہ محرومی اس کی قوتِ برداشت سے نکل جاتی ہے
تو وہ خودکشی کر لیتا ہے۔ اور جب انسان کسی عقیدے یا فکر کے لئے زندگی کی قربانی
دیتا ہے، اس وقت وہ واقعی زندگی سے بلند کسی بلند تر حیات سے محبت کر رہا ہوتا ہے۔
اور اس بہتر اور بلند تر زندگی کے حصول کے لئے وہ اپنی زندگی کی قربانی دیتا ہے،
یا یہ سمجھ کر کہ وہ آخرت میں اس سے بہتر زندگی حاصل کر سکے گا۔ تو یہ دراصل زندگی
کو بہتر بنانے کی ایک اعلیٰ تر کوشش ہوتی ہے، زندگی کی محبت سے خروج نہیں ہوتا! مختلف انسانوں میں نمایاں فرق کے باوجود، عام حالات اس بات کی
تائید کرتے ہیں کہ یہ محرک انسانی طبیعت میں بڑی گہرائی کا حامل ہے۔ زندگی کی محبت
کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: تحفظِ ذات اور تحفظِ نوع۔ پھر یہ دونوں مل
کر ایک متعدد قسموں میں تقسیم ہو جاتے ہیں جو بالآخر ایک ہی ہو جاتے ہیں۔ یہ اقسام
ہیں: طعام، شراب، لباس، مسکن، جذبہ ملکیت، جذبہ قتال و کشمکش، خود نمائی اور محرکِ
جنسی۔ ان میں ہر ایک جذبہ پر ہم علیحدہ علیحدہ غور کریں گے کہ یہ جذبات انسانی
وجود میں اپنی ایک حالت پر قائم رہتے ہیں، یا حالات کے تغیر کے ساتھ کبھی سامنے
آجاتے ہیں اور کبھی پوشیدہ ہو جاتے ہیں؟ طعام و شراب، لباس اور مسکن: پر اب کوئی ٹھوس نزاع باقی نہیں
رہا ہے! شاید ترقی یافتہ مغربی تہذیب ساحلِ سمندر اور فحاشی کے مقامات پر ہونے
والی برہنگی کو بطور دلیل پیش کرے، مگر یہ دلیل حیوانی طرزِ عمل، بقول ان کے، وقتی
تلذذ کے لئے ہے۔ اس کے بعد یہ لوگ پھر لباس میں ہوتے ہیں، اس لئے یہ عریانی محلِ
بحث نہیں بن سکتی! قوتِ جنسی: کے بارے میں کسی نے یہ بھی نہیں کہا ہے کہ یہ مادی
یا معاشی ارتقاء کی بناء پر پیدا ہوتی ہے۔ یعنی ایسا ہو کہ یہ قوت چرواہوں کے
معاشرے میں تو موجود ہوتی مگر زرعی معاشرے میں نہ ہوتی، یا آقا میں ہوتی اور غلام
محروم ہوتا۔ ہر شخص اس امر کا اقرار کرتا ہے کہ یہ خالص جسمانی یا جسمانی نفسی
مسئلہ ہے اور جب بھی وہ غدود (Glands) پائے جائیں گے جو اس
عمل کو انجام دیتے ہیں، یہ قوت پائی جائے گی۔ اور جب ان غدود میں اختلال پیدا
ہوگا، یہ قوت بھی غائب ہو جائے گی۔ ظاہر ہے اس صورتِ حال کا ذرائعِ پیداوار اور
تاریخی ادوار سے کوئی تعلق نہیں ہے!! جذبہ ملکیت: اشتراکیت نے اس امر کی بڑی جدوجہد کی ہے کہ فطری
میلانات میں سے ایک خاص جذبہ کو انسانی وجود سے نکال کر پھینک دیا جائے تاکہ ایک
طرف اس جذبہ سے انکار کیا جاسکے اور دوسری جانب انسان کے غیر متغیر وجود کی نفی کی
جاسکے۔ یہ جذبہ جس کو اشتراکیت انسانی وجود سے نکال کر پھینک دینا چاہتی ہے، جذبہ
ملکیت ہے، تاکہ اس طرح انفرادی ملکیت کا خاتمہ کر کے اس کی جگہ اجتماعی ملکیت کو
رکھا جاسکے؟ میں نے انفرادی ملکیت کے عدم وجود کے نظریہ پر اپنی کتاب "اسلام
اور جدید ذہن کے شبہات" اور "اسلامی نفسیات" میں تنقید کی ہے۔ یہاں
اس ساری بحث کا اعادہ تو ممکن نہیں ہے جس میں میں نے اس نظریہ کے بطلان کو واضح
کیا ہے، مگر اس مقام کے لحاظ سے یہ ضرور کہوں گا کہ اشتراکیت نے بذاتِ خود انفرادی
ملکیت کو اجتماعی ملکیت میں تبدیل کر کے خود ملکیت کے وجود کو تسلیم کر لیا ہے۔
فرق یہ ہے کہ اشتراکیت نے اپنے نظریاتی مقاصد کے حصول کے لئے اس کو ایک خاص رنگ دے
دیا، اور اس کے باوجود بھی اشتراکیت فی الواقع انفرادی ملکیت ماننے پر مجبور ہو
گئی، اور صرف ہونے والی اشیاء میں، انفرادی ملکیت کی اجازت دے کر انسان کے انفرادی
ملکیت کے جذبہ کو تسکین پہنچانے کی سعی کی ہے؟ جذبہ اظہارِ ذات: یہی رویہ اشتراکیت کا جذبہ اظہارِ ذات کے ساتھ
رہا۔ اشتراکیت چاہتی تھی کہ انفرادی جذبہ اظہارِ ذات کو کچل کر جماعت کے تابع کر
دے۔ چنانچہ اشتراکیت نے اس سلسلہ میں چند قدم بڑھائے، مگر جلد ہی گم کردہ راہ ہو
کر رہ گئی۔ اسٹالن اپنی سرکش شخصی آمریت کی بناء پر (جیسا کہ خروشچیف نے اس کا
اقرار کیا) اس کھوکھلے اور وہمی نظریہ کی سراپا عملی تکذیب تھا۔ اس کے بعد جب
اشتراکیت کو کسی قدر حقیقت پسندی اختیار کرنا پڑی، اور ایک ہی طبقہ اور ایک ہی عمل
کرنے والے مزدوروں کی اجرت میں فرق جائز کر دیا گیا کہ اگر کوئی مزدور زیادہ محنت
کر کے زیادہ مزدوری حاصل کرے، اور اس کو آرائشات میں صرف کرنا چاہے، تو وہ ایسا کر
سکتا ہے۔ یہ کسی نہ کسی شکل میں اظہارِ ذات ہی ہے، اور بالآخر انفرادیت ہے۔ جذبہ قتال و کشمکش:
کو قوم یا عقیدے کی خاطر جنگ میں ہمیشہ ہی سے اجتماعیت کا رنگ دیا جاتا رہا ہے،
مگر حصولِ کامیابی کی دوڑ میں فرد کی ارتفاعی جدوجہد بھی جاری رہی ہے۔ غرض یہ تمام
صورتیں کسی طرح بھی جذبہ قتال و کشمکش کے انفرادی ہونے کی نفی نہیں کرتیں، البتہ
اس جذبہ کو جماعت کی بھلائی کے لئے استعمال کرنے کی کوششیں ہیں؟ ## محرکات کی بدلتی صورتیں اگر
انسان کے یہ بنیادی فطری میلان اپنی جگہ پر غیر متغیر ہیں۔، تو انسان میں وہ کون
سی شے ہے جو تاریخ کے مختلف ادوار میں تبدیل ہوتی رہی ہے؟ بیشک کچھ لوگ کہیں گے کہ
آپ نے انسان کے بارے میں داخلی حالت سے گفتگو کی ہے، اور انسان کے نو بہ نو بدلتے
ہوئے معاشی، اجتماعی اور سیاسی وجود کو زیرِ بحث نہیں لائے، اور نہ آپ نے پیداوار،
ذرائعِ پیداوار اور اس کی کشمکش اور انسانی زندگی کے تقدم اور دائمی ارتقاء پر بحث
کی ہے۔ ہم کہیں گے کہ بیشک ہم نے انسان کے داخلی وجود پر بحث کی ہے مگر کیا
واقعاتی زندگی انسان کے داخلی وجود ہی کا ایک پرتو نہیں ہے؟؟ اب بتائیے! انسان کے
جامد وجود اور ہمہ وقت بدلتی ہوئی انسانی زندگی میں کیونکر مطابقت ہوسکتی ہے؟
انسان جس شکل میں اپنے فطری محرکات کی ترجمانی کرتا ہے، یہ شکل نسلاً بعد نسل
تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ یہ شکل انسانی عقل اور خارجی کائنات کے مسلسل ٹکراؤ سے تغیر
پذیر ہوتی ہے اور اسی ٹکراؤ سے زندگی میں نئی نئی صورتیں ابھرتی ہیں۔ یہ سب باتیں
درست ہیں مگر جب انسانی زندگی کی شکل بدلتی ہے تو کیا خود انسان بھی بدل جاتا ہے؟ جذبہ طعام: تمام
انسانوں اور تمام جانداروں میں کھانے کی رغبت ایک مستحکم اور فطری میلان ہے مگر
صورتِ طعام ہمیشہ ہی بدلتی رہتی ہے۔ شکار کے زمانے میں انسان کچا شکار کھایا کرتا
تھا، کیونکہ اس کے پاس کھانے کا اور کوئی ذریعہ نہیں تھا، اور نہ اس کے مادی
امکانات اس سے زیادہ کی اجازت دیتے تھے، اور اس کی معلومات بھی مختصر تھیں۔ پھر آگ
کے انکشاف نے اس کی دنیا ہی بدل کر رکھ دی۔ اس کی زندگی کی شکل متغیر ہوگئی، اور
خاص طور پر صورتِ طعام بدل گئی۔ انسان کھانے سے پہلے گوشت کو پکانے لگا، مگر وہ اب
بھی گوشت دانتوں سے کاٹ کر کھاتا تھا۔ پھر انسان نے مزید ترقی کی اور مختلف آلات
ایجاد کرلئے، گوشت کاٹنے کے لئے چھری استعمال کرنے لگا، تاکہ اسے کاٹ کر منہ میں
رکھ سکے۔ پھر اس سے زیادہ انسان نے ترقی کی، اوزار بنائے تو اس کے کھانے بھی رنگا
رنگ اور دلکش ہوتے گئے۔ کھانے کے آداب، قواعد اور رسمیں بن گئیں، اور کھانے کے فن
ایجاد ہو گئے۔ تو کیا شے تبدیل ہوئی؟ کھانے کا جذبہ یا کھانے کی صورت؟؟ جذبہ سکونت: یہ بھی
انسانی فطرت کا ایک مستقل اور غیر متغیر میلان ہے۔ تمام انسان، بلکہ تمام جاندار،
مکان بنا کر رہتے ہیں، مگر مکان کی شکل ہمیشہ بدلتی رہتی ہے۔ انسان پہلے غاروں میں
رہتا تھا، کیونکہ اس وقت کے اس کے مادی امکانات اس قابل نہ تھے کہ اس کے سوا انسان
کو کوئی سکونت فراہم کرتے، اور انسان اپنے محدود تجربات اور معلومات کی بدولت کوئی
مسکن نہیں بنا سکتا تھا۔ پھر رفتہ رفتہ انسان کی زندگی کے حالات میں تبدیلی آئی،
اور اس کی معلومات و تجربات میں اضافہ ہوا۔ تو انسان درختوں کے کنج اور ساحلِ آب
جھونپڑے بنا کر رہنے لگا۔ پھر پانی اور مٹی کے بنے ہوئے گھروں میں رہنے لگا۔ پھر
پتھر سے بنے بڑے اور وسیع مکانوں میں، اور بالآخر انسان فلک بوس عمارتوں میں مقیم
ہوگا۔ اور ہوسکتا ہے کہ آئندہ وہ ٹیکنالوجی کی مدد سے سیاروں میں پہنچ جائے اور
وہاں اقامت اختیار کرے۔ مگر تغیر کہاں واقع ہوا ہے؟ سکونت کا جذبہ بدل گیا، یا
مکانوں اور رہائش گاہوں کی شکلیں بدلی ہیں؟ جذبہ تن پوشی: جس وقت آدم و حوا نے اپنے بدن کو پتوں سے ڈھانپنا
تھا، اس وقت سے لے کر آج تک تن پوشی انسان کے ایک فطری جذبہ کے طور پر چلا آتا ہے۔
مگر لباس کی شکلیں اور تن پوشی کے طریقے ہمیشہ بدلتے رہے۔ ایک زمانہ تھا کہ انسان
پتوں سے صرف اپنے ضروری مقامات کو ڈھانپتا تھا، کیونکہ اس کے مادی امکانات اس قابل
نہ تھے کہ وہ اپنے لئے کپڑا تیار کر سکتا، اور اس کی معلومات و تجربہ بس اس قدر
تھا کہ جس قدر ممکن ہو تیار شدہ مواد ہی سے اپنے جسم کو ڈھانپ لے۔ پھر انسان ترقی
کرتا ہے، اس کی معلومات اور تجربے میں اضافہ ہوتا ہے، اس کے امکانات زیادہ وسیع ہو
جاتے ہیں تو وہ اپنے بدن کے ضروری حصے کو کھال سے چھپانے لگتا ہے جو پائیدار بھی
ہے اور ستر پوش بھی زیادہ ہوتی ہے۔ پھر اسی مقصد کے حصول کے لئے انسان نے کپڑا
بنانا شروع کر دیا۔ اس کے بعد لباس کی نوع اور نفاست میں اضافہ ہوتا رہا، حتیٰ کہ
اس کے بھی آداب، قواعد اور روایات بن گئیں، اور لباس انسانیت کے فنون میں سے ایک
فن بن گیا۔ کیا شے متغیر ہوتی ہے؟ کیا ستر پوشی کا جذبہ تبدیل ہو گیا ہے، یا لباس
کی شکلیں بدلتی رہی ہیں؟ جنسی
انگیخت: یہ بھی انسان و حیوان میں مشترکہ فطری جذبہ ہے۔ اس کی بھی ظاہری صورت
بدلتی رہتی ہے۔ جنس کے بارے میں بھی یہ نہیں کہیں گے کہ پہلے ایسی تھی، اب ایسی
ہوگئی (اس موضوع پر ہم آئندہ چل کر بحث کریں گے)، بلکہ یہ محرک اپنی مختلف شکلوں
میں ظاہر ہوتا ہے۔ چنانچہ کبھی تیز و تند جذبہ حیوانی ہوتا ہے، جس کا سارا مقصد
جنسی ملاقات اور غریزی ہیجان میں ابلتے ہوئے جذبے کی تسکین ہوتی ہے۔ کبھی جنسی عمل
سے قبل کی ملاعبت (Flirtation) تندی و تیزی لئے
ہوتی ہے اور کبھی نرمی کی حامل ہوتی ہے (جیسا کہ حیوانات میں ایک طرف چیتے کی اپنی
مادہ کے ساتھ سخت ملاعبت ہے، اور دوسری جانب کبوتروں اور دوسرے جانوروں کی نرم
ملاعبت ہے)۔ کبھی جنس کی تکمیل اخلاقی، مذہبی، اجتماعی اور معاشی تنظیمات میں جکڑی
ہوتی ہے اور کبھی ہر قسم کی قید سے آزاد ہوتی ہے۔ مگر ہر صورت میں، تمام فطری
محرکات کی طرح، جنس کی تکمیل کا ایک ادنیٰ اور کمتر طریقہ ہوتا ہے، اور دوسرا بلند
تر اور انسان کے لائق طریقہ ہوتا ہے۔ مگر ان سب امور کے باوجود... کیا شے تبدیل
ہوتی ہے؟ کیا جذبہ جنسی یا اس کی تکمیل کی شکل؟ جذبہ ملکیت: اشتراکیت کی پوری مخالفت کے باوجود یہ ایک فطری
جذبہ ہے، اور خود اشتراکیت بھی بعض امور میں انفرادی ملکیت کے جواز پر مجبور
ہوگئی۔ مگر ملکیت کی شکل ہمیشہ بدلتی رہی ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ کوئی قابلِ ملکیت
شے موجود نہیں تھی؛ جو شکار انسان کرتا تھا، وہ بھی کسی کی ملکیت نہیں بن سکتا
تھا، کیونکہ ایک تو انسان تن تنہا شکار نہیں کرتا تھا، دوسرے وہ اس شکار کو محفوظ
نہیں کر سکتا تھا، کیونکہ وہ خراب ہو کر بدبودار ہو جاتا تھا۔ مگر پھر بھی عورت کی
ملکیت پر کشمکش ہوتی تھی، اور عورت کے حصول کے لئے لوگ آپس میں لڑتے تھے۔ اس کے
بعد جب پیداوار شروع ہوئی تو انسان مالک بننے لگا؛ چنانچہ پہلے انسان ان سادہ
اوزاروں کا مالک بنا جو اس نے بنائے تھے۔ جب زراعت کرنے لگا تو زرعی پیداوار کا
مالک ہونے لگا۔ اور جب اسے جانوروں کو مانوس کرنے کا طریقہ آگیا تو زراعت کے
جانوروں کا مالک ہو گیا۔ پھر انسان پیداوار دینے والی زمین کا مالک ہوا۔ پھر
کارخانے ملکیت میں آئے۔ اور آج انسان بم اور راکٹوں کا مالک ہے۔ ہوسکتا ہے آئندہ
تارے ہی اس کی ملکیت بن جائیں! کیا شے تبدیل ہوتی ہے؟ ملکیت کا جذبہ یا اس کی شکل؟
جذبہ اظہارِ ذات: یہ
انسان کا فطری جذبہ ہے، جو اکثر حیوانوں میں بھی پایا جاتا ہے۔ مگر اظہارِ ذات کی
شکلیں بدلتی رہتی ہیں، اور انسان کے تمام جذبات میں یہ جذبہ سب سے زیادہ متعدد اور
گوناگوں شکلیں اختیار کرتا رہا ہے۔ غاروں کے زمانے میں انسان نے اپنی ممتاز بدنی
قوت کے ذریعہ، جس سے وہ شکار کرتا تھا اور جنگلی جانوروں اور دشمنوں سے لڑتا تھا،
اپنے آپ کو نمایاں کیا۔ پھر انسان حیلہ اور فکر سے اپنی ذات کا اظہار کرنے لگا۔
ایجاد و مہارتِ فنی کے ذریعہ اپنے آپ کو ممتاز کیا۔ خوبصورتی میں اپنے آپ کو ممتاز
کرتا ہے؛ لباس، مسکن، اکل و شرب میں اپنے آپ کو نمایاں کرتا ہے؛ جنس کے ذریعہ
نمایاں کرتا ہے تو عورتوں کا انتخاب کرتا ہے؛ قتال اور کشمکش میں نمایاں کرتا ہے؛
اطاعت اور معصیت میں نمایاں کرتا ہے؛ خیر اور شر میں نمایاں کرتا ہے؛ کھیلوں، علم
و فن کی مسابقت میں خود کو ممتاز کرتا ہے؛ سیاست میں اپنے آپ کو نمایاں کرتا ہے؛
قدرتِ کلام اور پر اثر گفتگو سے نمایاں ہوتا ہے؛ اور دھوکہ بازی اور مکر و فریب سے
ممتاز ہوتا ہے۔ غرض خود نمائی کے مختلف درجات اور متعدد شکلیں ہیں۔ کیا شے تبدیل
ہوگئی؟ اظہارِ ذات کا جذبہ یا اس کی شکلیں؟ جذبہ قتال و کشمکش: قتال بھی انسان اور حیوان کا ایک فطری جذبہ
ہے، مگر صورتِ قتال بدلتی رہتی ہے۔ بدنی قوت سے قتال کہ طاقتور کمزور کو پچھاڑے۔
بھاری پتھر اور لاٹھیوں سے قتال۔ دھوکہ اور فریب سے قتال۔ تیر، نیزے اور تلوار
جیسے دھار دار ہتھیاروں سے قتال۔ منجنیق سے قتال۔ بارود سے قتال۔ گولیوں اور بموں
سے قتال۔ راکٹوں اور جراثیمی بموں سے قتال۔ اور شعاعِ موت اور جوہری شعاع سے
قتال...؟ کیا شے تبدیل ہوتی ہے؟ جذبہ قتال یا صورتِ قتال؟؟ یہ ہے انسان کی داخلی
اور خارجی زندگی اس کے محرک، شعور اور صورتِ واقعی کے لحاظ سے؛ ارادہ، تطبیق کے
لحاظ سے؛ فکر اور واقع کے لحاظ سے؛ اور فکر اور مادہ کے لحاظ سے۔ ## تغیر کا اصل مرکز تاریخ
کے تمام ادوار میں آخر کیا شے متغیر ہوتی ہے؟ اگر انسان کو طعام کے نئے وسائل اور
ساز و سامان مل گئے؛ اگر انسان کو سکونت کے نئے ذرائع اور وسائل ہاتھ آگئے؛ اگر
انسان کو لباس کے نئے وسائل اور مواد حاصل ہو گئے؛ اگر انسان کے جنسی عمل کے ذرائع
و وسائل متغیر ہو گئے؛ اگر انسان کی ملکیت کے ذرائع و وسائل متغیر ہو گئے؛ اگر
انسان نے اپنے آپ کو نمایاں کرنے کے لئے نئے ذرائع و وسائل اپنا لئے؛ اور اگر
انسان کے قتال کے ذرائع و وسائل بدل گئے، تو اس سے خود انسان میں کون سی تبدیلی
واقع ہو گئی ہے؟ کیا انسان بدل گیا ہے؟ کیا ذرائع و وسائل کی تبدیلی سے انسان کے
فطری محرکات میں کوئی تغیر واقع ہو گیا ہے؟ کیا اب انسان نے کھانا پینا چھوڑ دیا؟
کیا اب انسان لباس نہیں پہنتا؟ کیا اب انسان مکان میں نہیں رہتا؟ کیا انسان جنسی
عمل انجام نہیں دیتا؟ کیا اب انسان مالک نہیں بنتا؟ اور کیا اب انسان جنگ و قتال
نہیں کرتا؟؟ کیا انسان میں کچھ ایسے نئے محرکات پیدا ہو گئے جو اس سے پہلے نہ تھے؟
یا اس میں سے وہ محرکات ختم ہو گئے جو پہلے موجود تھے؟ آخر کون سا تغیر ہوا ہے؟ بے
شک انسانی زندگی میں عظیم تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں؟ جن کے وجود سے ہمیں انکار نہیں
ہے، اور ہم انھیں نظرانداز کرنا نہیں چاہتے، بلکہ ہم تو ان تبدیلیوں کو زیادہ
نمایاں کر کے ان کی تائید کریں گے۔ وہ انسان جو جنگلوں میں بسرتا کرتا تھا، اس
انسان سے مختلف تھا جو بکریاں چراتا تھا۔ اس انسان سے مختلف تھا جو دیہات میں رہتا
تھا۔ اور اس انسان سے مختلف تھا جو آج شہری زندگی گزار رہا ہے۔۔۔۔ ایک محدود تہذیب
رکھنے والا انسان آج کی بلند تر تہذیب سے یقیناً مختلف تھا اور زندگی کے بارے میں
اس کا رویہ آج کے انسان سے مختلف تھا۔ غرض یہ اختلاف ہر پہلو اور ہر معیار پر محیط
ہے۔ ##
ارتقاء کی پیمائش کا سوال یہاں
ہم تغیر اور ارتقاء کی اقسام علیحدہ علیحدہ کرنا چاہتے ہیں، کیونکہ یہ اقسام
جداگانہ نوعیت کی حامل ہیں۔ پھر ہم غور کریں گے کہ یہ تغیرات انسانی وجود میں پائی
جانے والی جامد فطرت ہی کا ایک حصہ ہیں، یا یہ کوئی نیا عنصر ہے جو انسان کے مادی
ارتقاء اور ذرائع و وسائل کے تقدم سے پیدا ہوا ہے، تاکہ ہم فطرت کے متقابل تغیر کے
اثرات کی نشاندہی کرسکیں، اور یہ پیدا کرسکیں کہ کہیں کوئی ایسا فطری پیمانہ موجود
ہے جس کے ذریعہ ارتقاء کی پیمائش کی جاسکے، اور یہ بتایا جا سکے کہ یہ ارتقاء صالح
ہے یا غیر صالح؟... یا سرے سے ایسا کوئی فطری قائدہ موجود نہیں ہے؟ مذکورہ بالا
پہلو انتہائی اہمیت کے حامل ہیں کیونکہ مغرب میں جو لوگ ارتقائیت کی بیماری میں
مبتلا ہیں اور مشرق میں جن حضرات کو یہ متعدی بیماری لگی ہے، وہ نہ مختلف النوع
تغیر کے درمیان فرق کرتے ہیں۔ اور نہ اس کی پیمائش کے لئے کوئی مقیاس مقرر کرتے ہیں،
کیونکہ ان کے خیال میں ارتقاء اپنا پیمانہ آپ ہے۔ اس پر خارج سے کوئی حکم نہیں
لگایا جاسکتا۔ اگر تغیر (ارتقاء) انفرادیت کی جانب مائل ہو جائے، تو وہ اس لئے کہ
معاشی اور اجتماعی حالات کی جبریت اس پر مجبور کرتی ہے، اس لئے اس پر درست اور غلط
کا حکم نہیں لگایا جا سکتا۔ اگر معاشی اور اجتماعی حالت کا تقاضا انفرادیت ہے، تو
انفرادیت درست ہے۔ مگر اگر معاشی اور اجتماعی حالت اجتماعیت کا تقاضا کرتی ہے، تو
اجتماعیت ہی صحیح ہے اور انفرادیت جہاں کہیں بھی پائی جائے، قابلِ اصلاح غلطی ہے۔
کوئی مقیاس ایسا موجود نہیں جس کے ذریعہ انفرادیت یا اجتماعیت کی جانب میلان کی
پیمائش کر کے اسے غلط یا صحیح بتایا جا سکے یا اس کی ممانعت اور جواز کے بارے میں
کچھ کہا جا سکے۔ اگر کوئی معاشرہ ایسے اخلاق کا حامل ہے جس میں عائلی حدود سے باہر
جنسی عمل کی اجازت نہیں ہے، اور جس میں عورت پر عفت فرض ہے، یا مرد و زن دونوں پر
عفت لازمی ہے، تو یہ اس لئے نہیں ہے کہ اس کی کوئی موضوعی قدر (Objective Value) ہے اور اس قدر کو انسانی فطرت کے مقیاس سے ناپا جاسکتا ہے، بلکہ
اس لئے کہ معاشی اور اجتماعی حالت نے اس اخلاق کو لازم کر دیا ہے۔ اس لئے یہ اخلاق
اپنے دائرہ اثر اور اپنے مخصوص حالات میں درست ہے۔ اور اگر معاشی اور اجتماعی حالت
بدل جائے اور وہ جنسی بے راہ روی، اخلاقی بے اختیاری، عفت کی قدر سے آزادی، اور
شاہراہوں اور ساحلِ سمندر پر جنسی نشاط کی متقاضی ہو، تو یہ سب کچھ درست اور صحیح
ہے، کیونکہ کوئی فطری مقیاس موجود نہیں ہے، اور معاشی اور اجتماعی حالت سے باہر
کوئی مقیاس مقرر نہیں کیا جاسکتا۔ یہ حضرات زندگی کے ہر پہلو سے متعلق کچھ اس قسم
کی باتیں کرتے ہیں۔ اسلئے اس اہم مسئلہ پر بحث کرتے ہوئے ہمیں مندرجہ ذیل امور مدِ
نظر رکھنے چاہئیں: تغیر کی انواع کیا ہیں؟ (کیونکہ یہ انواع جداگانہ نوعیت کی ہیں) تاریخ میں جو
تغیرات ہوتے ہیں، وہ فطرت کا ایک حصہ ہیں یا اس پر مادی ارتقاء کی بدولت خارج سے
مسلط ہوتے ہیں؟ مستقیم (Normal) فطرت کے لحاظ سے ان تغیرات کے کیا اثرات ہیں؟ کیا یہ تغیرات
فطرت سے ہم آہنگ ہیں یا اس سے ٹکراتے ہیں؟ ارتقاء کی پیمائش کون سے مقیاس سے کی جائے؟ (کہ یہ غلط ہے یا
صحیح؟) # ارتقاء کی
اقسام انسانِ اول اور ابتدائی معاشروں کے سائنسی
مطالعے اور تاریخ پر غور کرنے سے معلوم ہوا ہے کہ ابتدائے انسانیت سے آج تک انسان
جن تغیرات سے دوچار رہا ہے، اس کی چار اقسام ہیں: 1. ذرائع
اور وسائلِ پیداوار میں تغیر 2. معاشرے کی معاشی اور اجتماعی ساخت میں تغیر 3. نفسیاتی تغیر 4. اخلاقی تغیر تاریخ کی مادی تعبیر ان اقسام کو
علیحدہ علیحدہ کرنے کے بجائے ان سب کو ذرائع پیداوار سے متعلق اور اسی کے تغیر و
ارتقاء کا نتیجہ بتاتی ہے۔ ہمارے خیال میں بھی ذرائع و وسائلِ پیداوار کے ارتقاء
اور معاشرے کے معاشی اور اجتماعی ارتقاء میں بڑا واضح اور مربوط ربط ہے۔ مگر ہمارے
نزدیک یہ رابطہ سببیت کی بناء پر نہیں ہے، یعنی ہم یہ تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں
ہیں کہ معاشرے کے معاشی اور اجتماعی ارتقاء کا واحد سبب، ذرائع و وسائلِ پیداوار
کا ارتقاء ہے۔ بلکہ فی الحقیقت یہ متعدد اسباب میں سے ایک سبب ہے۔ اور دوسرے
نفسیاتی اسباب بھی موجود ہیں۔ مگر بہرحال ذرائع و وسائل اور معاشرے کے ارتقاء میں
گہرا ربط موجود ہے۔ نفسیاتی ارتقاء، یعنی انسان کے نفسیاتی وجود میں پیچیدگی اور
گردوپیش سے گہری پیوستگی، کے بارے میں تاریخ کی مادی تعبیر کہتی ہے کہ یہ براہِ
راست ذرائع پیداوار کے ارتقاء کا نتیجہ ہے۔ ہمارے نزدیک بھی بلاشبہ ذرائع پیداوار
کا ارتقاء نفسیاتی ارتقاء میں شدید تاثیر رکھنے والا عمل ہے، مگر ہم یہ بھی بتا
دینا چاہتے ہیں کہ ارتقاء نفسی بذاتِ خود ایک مستقل مظہر (PHENOMENON) ہے۔
اور اس کا وسائلِ پیداوار کے ارتقاء سے علیحدہ پایا جانا ممکن ہے۔ جیسا کہ وہ قدیم
تہذیبوں اور اسلامی تہذیب کے اعلیٰ مراحل میں پایا گیا ہے۔ اخلاقی ارتقاء یا تغیر
کے بارے میں ہم یہ تسلیم نہیں کرتے کہ وہ ذرائع پیداوار کا نتیجہ ہے۔ اس سلسلے میں
ہم تاریخ سے دلیل پیش کریں گے۔ ## انسانی زندگی کی وحدت سب
سے پہلے اس حقیقت کی نشاندہی ضروری ہے، جس کی جانب ہماری رسائی نفسیاتی مطالعہ کی
بناء پر ہوتی ہے۔ وہ یہ کہ انسانی زندگی کا کوئی مظہر بالکلیہ مستقل نہیں ہوتا۔
میں نے ارتقاء نفسی کے بارے میں کہا کہ یہ مستقل مظہر ہے۔ مگر میں نے یہ نہیں کہا
کہ یہ بالکل علیحدہ اور منفصل ہے۔ کیونکہ انسانی زندگی میں کوئی بھی شے دوسری شے
سے منفصل نہیں ہے۔ انسان اپنی ساری زندگی کو ایک ساتھ برتتا ہے اور یہ شامل کل جس
سے انسان بنتا ہے، کچھ مخصوص پہلو بھی رکھتا ہے۔ مگر یہ پہلو منفصل نہیں ہوتے۔
جیسے بینائی کا عمل نظامِ بصارت کے ساتھ مخصوص ہے۔ اور کردار بھی انسان اپنے مخصوص
اعضاء سے انجام دیتا ہے۔ مگر باوجودیکہ وہ سر اور کان سے نہیں دیکھتا، اس کے
باوجود نظامِ بصارت باقی جسم سے علیحدہ نہیں ہے۔ اور جس طرح جسم میں بصارت اور
سماعت جیسے مخصوص اعضاء موجود ہیں، اسی طرح جسم میں ایسے نظام بھی ہیں جن میں
خصوصیت کم اور عمومیت زیادہ ہے۔ جیسے دورہ خون کا نظام، جس کے ذریعے خون جسم کے
تمام حصوں میں جاتا ہے۔ اسی طرح مجموعی طور پر انسانی وجود ہے۔ چنانچہ ذرائع و
وسائل کا ارتقاء تمام انسانی زندگی پر اثر انداز ہوتا ہے۔ مگر نفسی اور اخلاقی
ارتقاء، سماعت و بصارت کی طرح کے مخصوص عمل ہیں۔ اب اس موضوع کو ذرا تفصیل سے
لیجئے۔ ##
۱۔ ذرائع پیداوار کا ارتقاء جب
انسان نے کھانے میں کچے شکار سے ترقی کر کے اسے پکانا شروع کیا۔ پھر چھری کا
استعمال کیا۔ پھر کھانے میں حد درجہ نفاست سے کام لیا۔ پھر کھانے کے قواعد، آداب
اور روایات مقرر کیں۔ یہاں تک کہ کھانا مستقل ایک فن کی حیثیت اختیار کر گیا... جب انسان رہائش میں غاروں سے ترقی کر کے درختوں کے کنج اور
جھونپڑوں میں رہنے لگا۔ جب انسان نے مٹی کے گھر بنانے شروع کر دیئے۔ جب اس نے فنی
مہارت کی حامل بڑی بڑی عمارتوں میں رہنا شروع کر دیا ۔ اور جب اس نے رہائش کو
عمارت اور آرائشی سازو سامان کے لحاظ سے مستقل ایک فن بنا لیا... جب انسان نے ستر پوشی میں درخت کے پتوں سے ترقی کر کے، کھال اور
اس کے بعد کپڑا بنانا شروع کر دیا۔ اور پھر اس میں اس قدر نفاست اختیار کی کہ لباس
کے قواعد، آداب اور روایات متعین ہو گئیں۔ اور لباس بذاتِ خود ایک فن بن گیا... جب انسان نے جنس میں براہِ راست دلچسپی سے ترقی کر کے روایات،
نظام، قواعد، رسموں اور محلوں کو اپنا لیا۔ اور خود جنس کے مفہوم کو وسعت دے کر
ایک ایسے فن کی حیثیت دے دی جس کے تحت، ادب، تصویر، موسیقی، سنگ تراشی، رقص اور
غناء کے مختلف فنون نشوونما پانے لگے... جب انسان ترکاریوں اور پھلوں کی ملکیت سے
ترقی کر کے زمین اور غلام کا مالک ہونے لگا۔ پھر وہ کارخانوں کا مالک بنا۔ پھر ایک
معاشی، اجتماعی اور سیاسی قوت کے طور پر سرمایہ کا مالک بنا۔ پھر وہ قوموں اور
نسلوں کا مالک بنا اور ہو سکتا ہے کہ وہ مستقبل میں ستاروں کا مالک ہو جائے... جب انسان نے جسمانی اور محسوس اظہارِ ذات کے دائرے سے ترقی کر
کے نفسیاتی اور روحانی اظہارِ ذات پر قدرت حاصل کرلی۔ اور اس کی یہ قدرت طعام،
لباس، نخوت، جنس اور ملکیت پر محیط ہوگئی... اور
جب براہِ راست بدنی قوت سے قتال کے بجائے بھاری پتھر اور لاٹھی استعمال کی۔ پھر
تیر، نیزے اور تلوار جیسے دھار دار آلات استعمال کئے۔ اور پھر بارود اور ایٹمی
طاقت کا استعمال شروع کر دیا... ان تمام امور میں آخر کیا شے تبدیل ہوتی ہے؟
کیونکر اور کس طرح تبدیل ہوتی ہے؟ ### تاریخ کی مادی تعبیر کا مؤقف تاریخ کی مادی تعبیر کہتی ہے کہ اوزار (TOOLS) کا
استعمال اس تمام تبدیلی کا واحد سبب ہے۔ اگر اوزار نہ ہوتے تو انسان کبھی بھی ایک
حالت سے دوسری حالت کی جانب نہ آتا۔ اور نہ ہی اس قابل ہوتا کہ وہ اپنی زندگی کو
جدید بنیادوں پر استوار کر سکے۔ اگر آگ کا انکشاف نہ ہوتا تو انسان کھانا پکانے کے
قابل نہ ہوتا۔ اگر کپڑا بننے کی ایجاد نہ ہوتی تو وہ یہ لباس نہ پہن پاتا۔ اور اگر
اوزار نہ ہوتے تو انسان تعمیر نہ کر پاتا۔ اس کے بعد تاریخ کی مادی تعبیر کہتی ہے
کہ اوزار
(Tools) کا استعمال انسانی مشاعر، افکار، اقدار اور
اصولوں میں جبری تغیر پیدا کرتا ہے۔ چنانچہ جب انسان کو آگ کا پتہ چلا تو اس نے
کھانا پکانے کے بارے میں سوچا۔ اور کھانے کو بہتر بنانے کے لئے غور کیا۔ اگر آگ نہ
ہوتی، تو ان میں کوئی بات بھی انسان کے ذہن میں نہ آتی۔ جب انسان نے کاتنے اور
بننے کے اوزار بنا لئے تو لازمی طور پر اس نے کپڑا بننے کے بارے میں سوچا۔ اور پھر
لباس کی تفصیلات اور اس کی نفاست پر غور کیا۔ اگر کاتنے اور بننے کے آلات نہ ہوتے
تو ان میں سے کوئی خیال انسان کے ذہن میں نہ آتا۔ جب اس نے دھاردار آلات بنا لئے
تو اس نے شکار اور قتال شروع کر دیا۔ جب اسے زراعت کرنا آگئی، تو وہ زمین کا مالک
بننے لگا۔ اور دوسروں کی زمین پر لوٹ مار مچا کر غلام اور قیدی بنانے لگا، تاکہ وہ
اس کی زمین میں ہل چلا سکیں۔ اس طرح اوزار اور ایجادات کے حتمی نتائج معاشی،
اجتماعی، نفسیاتی اور اخلاقی نتائج کی شکل میں ظاہر ہوئے۔ اور اوزار اور آلات ہی
انسانی زندگی کا دائمی اور اولین محرک بن گئے! ### مادی
تعبیر پر تنقید تاریخ کی مادی تعبیر نے جس شکل میں اس مسئلہ
کو پیش کیا ہے وہ بڑی پرکشش اور چمکدار شکل ہے۔ کیونکہ اگر سلسلہ وار سبب اور
نتیجہ اس طرح بیان کرتے چلے جائیں تو فریب دہی اور فریب خوردگی آسان ہو جاتی ہے۔
اور یہ محسوس ہونے لگتا ہے کہ نتیجہ ہی سبب ہے اور سبب ہی نتیجہ ہے۔ مگر تاریخ کی
مادی تعبیر کے اس سائنسی مسئلہ کی ایک نوعیت اور بھی ہے اور یہ نوعیت بھی بذاتِ
خود سائنسی ہے اور اگر ہم تھوڑی دیر بیسویں صدی کے علوم اور علمی تحقیقات کی خیرہ
گی سے اپنی نظریں بچالیں، تو حقیقت تک رسائی کچھ اتنی زیادہ دشوار نہ رہے۔ 1. انسان نے آگ کا انکشاف کیوں کیا؟ 2. آگ
کے انکشاف کے بعد انسان نے اسے کھانے کو خوب تر بنانے کے لئے کیوں استعمال کیا؟ 3. انسان آگ کے انکشاف کے بعد اسی حد پر کیوں نہیں رک گیا کہ صرف
کھانا پکا لیا کرتا، اور پکے ہوئے کھانے میں تنوع اور رنگا رنگی کیوں پیدا کرتا
چلا گیا؟ 4.
جب انسان کو یہ قدرت حاصل ہو گئی کہ اس نے لوہا، پیتل، برونز (BRONZE)، سونا اور چاندی پگھلا
لیا، تو وہ کون سا جبری محرک تھا جس سے مجبور ہو کر انسان نے چمچے، کانٹے اور
چھریاں بنائیں؟ حالانکہ یہ اشیاء عملِ طعام میں ایک حیاتیاتی (BIOLOGICAL) ضرورت
کی حیثیت سے شامل نہیں ہیں۔ پھر کون سا ایسا جبری محرک ہے جو انسان کو کھانے کو
زینت بخشنے والے سامان کی ایجاد پر مجبور کرتا ہے؟ اور انسان اس سامان کو خوب سے
خوب تر بناتا جاتا ہے؟ پھر اس جبریت کا ان اقدار سے کیا تعلق ہے جو اس نے کھانے سے
متعلق وضع کرلی ہیں، خواہ یہ اقدار اصول و روایات ہوں یا تقسیمِ طعام اور اس کے
حلال و حرام اور طیب و خبیث ہونے سے متعلق ہوں؟ اسی طرح...
انسان نے سوت کاتنے اور کپڑا بننے کے آلات
کیوں ایجاد کئے؟ اگر
انسان نے ان آلات کو ایجاد کر لیا تھا تو ان کو کپڑا بننے اور اس کو بہتر بنانے
میں کیوں استعمال کیا؟ انسان
نے صرف کپڑے کے استعمال پر کیوں بس نہیں کی اور کیوں معیارِ ضرورت سے زیادہ لباس
میں نفاست اختیار کرتا چلا گیا؟ آلات کے پیدا کردہ خوب تر لباس میں، اور لباس سے متعلق انسانی
قدروں میں کیا تعلق ہے؟ کہ لباس سے متعلق اصول و روایات وضع کرلئے گئے۔ اس کے
لوگوں میں تقسیم کے طریقے متعین ہو گئے۔ اور اس میں اخلاقی اور مذہبی قدریں پیدا
ہوگئیں۔ انسان
نے دھار دار آلہ کیوں ایجاد کیا؟ اس آلہ کو جنگ کے لئے کیوں استعمال کیا؟ انسان اسی حد پر کیوں نہیں رک گیا؟ اور جنگ کے لئے نت نئے ذرائع
کی تلاش میں کیوں رہا کہ اس تلاش نے اسے ایٹم بم، ہائیڈروجن بم، کوبالٹ اور جراثیم
بم تک پہنچا دیا؟ پھر
ان آلاتِ جنگ اور ان انسانی قدروں میں کیا رابطہ ہے جو انسان نے جنگ کے بارے میں
وضع کر لی ہیں؟ چنانچہ انسان نے جنگ کے جواز اور عدمِ جواز کے قواعد اور اصول و
روایات بنا لئے ہیں۔ کیا ان حقائق کے جلو میں اس سوال کا کوئی واضح جواب پنہاں
نہیں ہے کہ آلات نے انسان کی رہنمائی کی، یا انسان نے آلات کو اپنی مرضی کے مطابق
کام میں لگایا؟ یہ سوال اس گورکھ دھندے کی قسم کا نہیں ہے کہ مرغی پہلے پیدا ہوئی
یا انڈا پہلے وجود میں آیا۔ یہ اس قسم کا کوئی گورکھ دھندا نہیں ہے، اور نہ اس میں
کسی پُرپیچ گفتگو کی ضرورت ہے۔ ڈارون کی رائے کے مطابق حیوان زمین میں انسان کے
ساتھ رہتا آیا ہے۔ اور بہت سے خصائص اور اپنی اصل میں انسان کا شریک ہے۔ مگر اس کے
باوجود حیوان نے اتنا طویل عرصہ گزارنے کے بعد نہ کوئی ایجاد کی اور نہ کوئی
اختراع؟ اس لئے واضح طور پر اکتشاف اور ایجاد صرف انسانی خصوصیت ہے۔ جدید ڈارونی
عالم جولیان ہکسلے (JULIAN HUXLEY) اپنی کتاب
"دورِ جدید کا انسان" میں کہتا ہے: > "انسان
کی ایک نہایت واضح اور عظیم تر خصوصیت یہ ہے کہ وہ 'تصوری فکر' پر قادر ہے۔ اور اس
بنیادی خصوصیت کے انسان میں بڑے اہم نتائج ہیں۔ جن میں سے اہم تر بڑھتی ہوئی روایات
ہیں جن کی بناء پر انسان اپنے سامان اور آلات کی تحسین کرتا ہے۔ ان روایات اور ساز
و سامان نے تمام زندہ کائنات میں انسان کے لئے مرکزِ سیادت مہیا کر دیا ہے اور یہ
حیاتیاتی برتری انسان کی منفرد خصوصیات میں سے ایک خصوصیت بن گئی ہے۔" جولیان ہکسلے ایک ملحد عالم ہے۔ وہ علمِ تحقیق میں کوئی بات
اللہ کی جانب منسوب نہیں کرتا۔ مگر وہ انسان کی یہ نمایاں خصوصیات بتاتا ہے کہ: انسان تصوری
تفکر پر قادر ہے۔ سازو
سامان تیار کر سکتا ہے۔ آلات
اور سازومان کو بہتر بنا سکتا ہے۔ روایات قائم کرتا اور انھیں نمو بخشتا ہے۔ ہکسلے ان تمام امور
کو فطرت کی گہرائیوں میں داخل انسان کی حیاتیاتی خصوصیات بتاتا ہے۔ اس سے معلوم
ہوا کہ یہ خصوصیات آلات کی ایجاد سے پیدا نہیں ہوتیں، بلکہ یہ خصوصیات آلات کی
ایجاد کا سبب بنتی ہیں! اس علمی بحث سے ہمیں معلوم ہوگیا کہ انسان ہی اصل ہے، نہ
کہ آلات!
### انسانی فطرت اور الٰہی تقدیر اب یہ امر بالکل ظاہر ہے کہ انسان خود ایجاد و انکشاف کی جانب
متوجہ ہوا۔ اور بقول ہکسلے یہ اس کی حیاتیاتی خصوصیت تھی۔ یعنی یہ خصوصیت بذاتِ
خود اپنی تعبیر کی حامل ہے۔ مگر ہم کہتے ہیں، اور ہمارا قول سائنس کے خلاف نہیں
ہے، بلکہ اس کی تکمیل کرتا ہے اور اس کے انحراف کو دور کرتا ہے، کہ اللہ تعالیٰ نے
انسان کو پیدا فرمایا تاکہ زمین میں اسے اپنا خلیفہ بنائے۔ اس نے انسان کو یہ
خصوصیت عطا فرمائی کیونکہ یہ خلافت کا ایک وسیلہ اور ذریعہ تھی۔ آگ کا انکشاف صرف
ایک اتفاق نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی انسان کے حق میں مقرر کردہ تقدیر تھی۔ اللہ
تعالیٰ نے ہی انسان کی فطرت میں یہ جذبہ رکھا ہے کہ وہ مظاہرِ فطرت کی جانب متوجہ
ہو اور ان سے استفادہ کرے۔ اگر ایسا ہوتا کہ آگ اتفاقاً انسان کے سامنے آجاتی، اور
انسان اسے استعمال کرنے کے بارے میں سوچتا، تو بعینہ یہی واقعہ لاکھوں مرتبہ
جانوروں کے ساتھ بھی پیش آیا ہوگا۔ کہ انھوں نے آگ دیکھی ہوگی۔ مگر اس کے باوجود
کسی حیوان نے نہ آگ کے بارے میں سوچا اور نہ اسے استعمال کیا۔ اصل بات یہ ہے کہ
انسانی فطرت میں تصور کی قدرت موجود ہے۔ اسی قدرت کی بناء پر انسان اکتشاف اور ایجادات
کرتا ہے۔ آلات کے استعمال پر قدرت رکھتا ہے۔ اور ان کو بہتر بنا سکتا ہے۔ اور
فطرتِ انسانی میں اللہ تعالیٰ نے اقدار بھی ودیعت کر دی ہیں (جو ہکسلے کے خیال میں
تقالید ہیں) اور انسان کو یہ قدرت دی ہے کہ وہ اپنے تمام اعمال کو معاشی، نفسیاتی،
اخلاقی و اجتماعی اور مذہبی اقدار سے مربوط رکھے۔ اس تعبیر میں گزشتہ تمام سوالوں
کا جواب موجود ہے: کہ انسان نے آگ کا اکتشاف کیوں کیا؟ اس آگ کو کھانے کی تحسین کا ذریعہ کیوں بنایا؟ آگ کے اکتشاف کے وقت
کھانے نے جو شکل اختیار کی، انسان نے اس شکل پر توقف کیوں نہیں کیا؟ اس نے کھانے سے
متعلق مختلف آداب اور قوانین کیوں وضع کر لئے؟ آگ کا اکتشاف ایک مادی واقعہ اور
ایک مادی ذریعہ ہونے کی صورت میں اس مفہوم پر دلالت نہیں کرتا، جو مفہوم تاریخ کی
مادی تعبیر بتانا چاہتی ہے۔ باوجودیکہ انسان کو تصوری فکر پر قدرت حاصل ہے، مگر
پھر بھی یہ ضروری نہیں تھا کہ انسان آگ کا اکتشاف کر لیتا۔ اور جب آگ کا اکتشاف کر
لیا تھا تو یہ ضروری نہیں تھا کہ وہ اس آگ کو کھانا پکانے کے لئے ہی استعمال کرتا۔
کیونکہ اس پر مجبور کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ اگر انسان نے آگ کو کھانا پکانے کے
لئے استعمال کیا بھی تھا، تو یہ عین ممکن تھا کہ انسان کھانے کی ابتدائی شکل پر
توقف کر لیتا۔ کھانے میں تفتن نہ برتتا اور نہ ہی کھانے سے متعلق اقدار، آداب اور
روایات وضع کرتا۔ آگ کے اکتشاف سے قبل ہی انسان میں فطری رغبت موجود تھی۔ اگر یہ
رغبت نہ ہوتی، تو صرف آگ کے اکتشاف سے یہ سب باتیں رونما نہ ہوتیں۔ دراصل تصوری
فکر کی فطری قدرت نے انسان کی اکتشافِ آگ کی جانب رہنمائی کی ہے، اور یہ قدرت اللہ
تعالیٰ کی عطا کردہ ہے۔ پھر تحسینِ جمیل کی فطری رغبت اور خوب سے خوب تر کی طرف
گامزن رہنے کی انسانی جبلت نے تاریخ کے طویل دور میں یہ تمام زیرِ بحث کارنامے انجام
دیئے۔ یہ اس مسئلہ کی پیچیدگی ہے، اور یہیں سے راہیں مختلف ہو جاتی ہیں۔ ### اوزار اور انسانی فطرت کا تعلق کیا
اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ اوزار (Tools) کی ایجاد نے انسانی
زندگی میں کوئی تغیر نہیں کیا؟ ایسا نہیں ہے؛ بلکہ آگ کی دریافت اور اوزار کی
ایجاد سے پہلے کی زندگی بعد کی زندگی سے قطعاً مختلف ہے۔ کیونکہ بعد کی زندگی میں
نئے نئے افکار، جدید مشاعر اور نئی تنظیمات نے جنم لیا ہے۔ (ہم اگلے پیراگراف میں
اجتماعی اور معاشی ارتقاء اور تغیر بیان کریں گے)۔ آگ کی دریافت، پہیے کی ایجاد
اور بارود اور بجلی کی ایجاد نے حیاتِ انسانی میں ایک عظیم تغیر پیدا کر دیا۔ ہمیں
اس تبدیلی اور تغیر سے کوئی انکار نہیں۔ بلکہ ہمارے نقطہ نظر سے تو یہ تغیر عین
حقیقتِ انسانی کے مطابق ہے۔ ہمارے سامنے جو امر قابلِ بحث ہے، وہ یہ ہے کہ کیا
اوزار کی ایجاد نے انسانی وجود میں کوئی تغیر پیدا کیا یا انسانی فطرت میں پوشیدہ
رغبات بروئے کار آئیں؟ فی الحقیقت ان دونوں امور میں بڑا فرق ہے۔ اگر اوزار نے
انسانی وجود میں کوئی تبدیلی کی ہے تو اوزار اصل ہوئے۔ جیسا کہ تاریخ کی مادی
تعبیر کہتی ہے۔ اور اگر اوزار کی ایجاد انسانی فطرت میں پوشیدہ رغبتوں کے ظہور کا
باعث بنی ہے تو انسان اصل ہوا۔ جیسا کہ تعبیرِ انسانی کہتی ہے۔ ظاہری نظر میں یوں
محسوس ہوتا ہے کہ آگ کی دریافت نے انسان میں کھانا پکانے کی رغبت پیدا کر دی! مگر
وہ کون سی قوت ہے جس نے انسان کو مجبور کر دیا کہ وہ آگ پر کھانا پکائے؟ کھانا
پکانے کے واقعہ کا اس طرح تصور کیا جاسکتا ہے (جس کو مادی تعبیر والے اتفاق کہتے
ہیں، اور ہم اسے اللہ کی قدرت اور مشیت کی جانب محمول کرتے ہیں) کہ انسانی شکار کے
قریب ہی آگ جل اٹھی جس سے شکار بھن گیا۔ انسان کو گوشت بھننے کی یہ خوشبو اچھی
معلوم ہوئی۔ اور انسان نے اپنی فطری استعداد کی بدولت اس خوشبو اور کھانے کے مزے
کو خوشگوار محسوس کیا۔ پھر انسان اپنی تصوری فکر کی مدد سے اس عمل کا بار بار
اعادہ کرنے لگا، تاکہ اسے بھنا ہوا گوشت مل سکے۔ دونوں ہی صورتوں میں آگ کی دریافت
نے انسان میں کسی نئی شے کو پیدا نہیں کیا، بلکہ پہلے سے پوشیدہ رغبت کو واقعاتی
دنیا میں محقق کر دیا۔ آگ کی دریافت سے کھانے کی شکلیں تغیر پذیر ہوگئیں۔ کیونکہ
اس نئی دریافت نے نت نئے کھانوں اور کھانے پکانے کے جدید طریقوں کے امکانات وسیع
کر دیئے۔ مگر اپنے تمام امکانات کے باوجود کیا آگ میں یہ قدرت تھی کہ وہ انسان میں
کوئی ایسی خواہش پیدا کر دیتی جس کی جانب انسان کا نفس مائل نہ ہوتا، اور انسان
اسے پسند نہ کرتا؟ اگر آگ پر پکانے سے کھانے کا مزا انسان کے مزاج کے مطابق نہ
ہوتا تو کیا پھر بھی انسان پکا کر کھاتا؟ اگر انسان کی طبیعت میں کھانے کو خوب سے
خوب تر بنانے کی رغبت پنہاں نہ ہوتی تو کیا پھر بھی انسان آگ کا استعمال کرتا؟ آگ
کی دریافت نے انسان کے ممکنات میں بڑا ہمہ گیر اضافہ کیا ہے۔ مگر یہ امکانات کس شے
کے امکانات ہیں؟ یہ انسانی فطرت میں پوشیدہ ان رغبتوں کے بروئے کار آنے کے امکانات
ہیں جو ہمہ وقت ظہور کی منتظر اور اس کے مواقع تلاش کرتی رہتی ہیں۔ ### انسانی فطرت: وسعت، لچک اور حدود فطرتِ
انسانی کا تمام حالتوں میں ان رغبتوں کا شعور نہ رکھنا اس سلسلہ میں فریب خوردگی
کا اولین سبب ہے! ہو سکتا ہے کہ انسانِ اول کو یہ شعور نہ ہو کہ آگ کے ذریعے اسے
لذیذ کھانے میسر آ سکتے ہیں۔ اور اسے یہ شعور تجربہ سے گزرنے کے بعد ہی حاصل ہوا
ہو۔ پھر بھی مرجع فطرت ہی ہے۔ کوشش کرنا اور غلطی کرنا انسان اور حیوان کی تعلیم
کا ایک طریقہ ہے۔ اور آخر کار یہ طریقہ انسان یا حیوان کی فطرت سے ہم آہنگ ہو جاتا
ہے، فطرت سے متجاوز نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ انسان نے کھانے کی بیشتر اقسام اپنائیں
مگر بہت سی اقسام کو انسان نے استعمال نہیں کیا۔ حالانکہ تمام اقسام آگ ہی کی مدد
سے تیار ہوئیں۔ گویا آگ کا استعمال اور اس استعمال کا دائرہ کار فطرتِ انسانی سے
ہم آہنگ ہیں اور تاریخ کے کسی بھی مرحلہ پر انھوں نے فطرت سے تجاوز نہیں کیا ہے۔
فریب خوردگی کا دوسرا سبب انسانی فطرت کی وسعت اور ہمہ گیری ہے جس کی بناء پر
لوگوں کو یہ محسوس ہونے لگا کہ چونکہ فطرتِ انسانی کی حدود نہایت وسیع اور ہر شے
پر محیط ہیں، اس لئے فی الواقع انسانی فطرت کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے
کہ فطرتِ انسانی کی ہمہ گیری اور وسعت سے نہ تو اس کی حقیقت پر پردہ پڑتا ہے، اور
نہ اس کا دائرہ کار باطل ہوتا ہے۔ فطرتِ انسانی اکثر اشیاء کو محیط ہے مگر تمام
اشیاء کو محیط نہیں ہے۔ بلکہ کچھ ایسی حدود مقرر ہیں جن کے اندر شامل اشیاء کو
فطرت قبول کر لیتی ہے۔ اور ان تمام امور کو رد کر دیتی ہے جو اس دائرے میں نہیں
آتے۔ اور ایسی کسی شے کو قبول نہیں کرتی جس کی قبولیت کی اس میں پہلے سے فطری
استعداد موجود نہ ہو۔ تیسرا فریب خوردگی کا سبب انسانی فطرت کی لچک ہے۔ جس کی بناء
پر فطرتِ انسانی اپنی طبیعت کے خلاف ہر دباؤ کو برداشت کرتی چلی جاتی ہے۔ مگر ایک
طرف فطرتِ انسانی ہر شے کو برداشت نہیں کرتی، بلکہ بعض اشیاء کو تھوڑے وقت کے لئے
انگیز کرلیتی ہے اور اس کے بعد اس شے کے خلاف بغاوت کر دیتی ہے جو اس کی طبیعت اور
مزاج کے خلاف ہو۔ چنانچہ انسانی فطرت نے آمریتوں کے خلاف بغاوت کی، کیونکہ وہ
انسان کے انفرادی وجود کو کچل ڈالتی ہیں۔ اس نے ریاستی تملیک کے خلاف بغاوت کی،
کیونکہ وہ انسان کے انفرادی ملکیت کے جذبہ کو ختم کرنا چاہتی ہے۔ اور اسی طرح
انسانی فطرت بہت سے انحراف کے خلاف بغاوت کرتی رہتی ہے۔ یہ وہ حقائق ہیں جن کو
تاریخ کی مادی تعبیر اور حیاتِ انسانی کی اجتماعی تعبیر نے نظر انداز کر دیا ہے۔
ان تعبیرات کے سامنے یہ بات تو رہتی ہے کہ انسان ان قوتوں کے آگے مجبور و بے بس
ہے۔ مگر یہ تعبیریں اس حقیقت کو نظر انداز کر دیتی ہیں کہ انسانی فطرت ان قوتوں کے
خلاف بغاوت بھی کرتی رہتی ہے۔ حالانکہ تاریخ کے ان دو ہی خطوط کو مدِ نظر رکھنا
چاہیئے۔ کیونکہ دونوں ہی حقیقت ہیں۔ سلبیت اور ایجابیت کی دونوں ہی صفات انسان کے
داخلی وجود میں فطری طور پر موجود ہیں! ### خلاصہ: ذرائع
پیداوار اور فطرت تنقید کے اس مرحلہ پر آ کر درج ذیل حقائق
ہمارے سامنے آتے ہیں: 1. تمام انسانی تصرفات میں اصل فطرت ہے۔ 2. تمام اوزار اور جدید آلات بذاتِ خود انسانی فطرت کی تعبیر ہیں
(کیونکہ انسان میں تصوری فکر کی قدرت اور خوب سے خوب تر کی طرف جانے کی رغبت موجود
ہے)۔ 3.
اوزار اور آلات انسانی وجود میں کوئی اضافہ نہیں کرتے بلکہ جو
کچھ اس کی طبیعت میں موجود ہے اسی کو محقق کرتے ہیں۔ 4. اگرچہ
زندگی کی شکل پوری طرح متغیر ہوگئی ہے مگر یہ تغیر بذاتِ خود فطری تقاضوں کو پورا
کرتا ہے اور فطری حدود سے تجاوز نہیں کرتا۔ یہ حقیقتیں انسانی عمل کے مختلف
میدانوں میں بآسانی دیکھی جاسکتی ہیں اور ہمیں ضرورت نہیں ہے کہ ان کے ثبوت کے لئے
تمام فطری امور بیان کریں۔ بلکہ وضاحت کے لئے چند مثالیں ہی بیان کر دینا کافی ہو
گا۔ ہوائی جہاز کی ایجاد نے انسان میں تیز سفر اور دنیا کے مختلف اطراف میں جانے
کی خواہش پیدا نہیں کی ہے۔ بلکہ تیز سفر کی اس پوشیدہ رغبت نے ہی انسان کو طیارہ
کی ایجاد کی جانب مائل کیا۔ اور جوں ہی علمی امکانات نے اس خواہش کی تکمیل کے لئے
موقع فراہم کیا، انسان نے اس کی تکمیل کرلی۔ اس سے قبل بھی انسان مختلف وسائل سے
اپنے سفر میں سرعت اختیار کرتا تھا۔ کیونکہ یہ ایک فطری رغبت تھی۔ اور جب انسان
عملاً عاجز تھا، اس وقت بھی وہ چاہتا تھا کہ اسے ایسے وسائل ہاتھ آجائیں کہ وہ ایک
گھڑی میں کہیں سے کہیں منتقل ہو جائے۔ اس لئے طیارہ انسان کے پرانے خواب کی تعبیر
ہے، جس کی انسان پہلے تمنا کیا کرتا تھا۔ یہ درست ہے کہ طیارے کی ایجاد سے صلح و
جنگ کے کچھ ایسے امکانات ابھر آئے جن کا پہلے انسان کے ذہن میں خیال بھی نہ آیا
تھا۔ اور ان نئے امکانات کی روشنی میں صلح و جنگ کے تعلقات از سرِ نو تشکیل پائے
اور ان سے متعلق مشاعر اور افکار نے نیا روپ دھار لیا۔ یہ حقیقت ہر نئی دریافت اور
ہر ایجادِ نو پر منطبق ہوتی ہے۔ کیونکہ اس سے ایسے امکانات ابھر آتے ہیں جو پہلے
سے بالتفصیل سامنے نہیں ہوتے۔ مگر ہر نئی ایجاد سے پہلے عمومی شکل میں خواہش اور
رغبت موجود ہوتی ہے۔ کوئی بھی موجد یہ نہیں کہتا کہ میں کوئی نئی ایجاد کروں گا
اور پھر اس کے استعمال کا کوئی ذریعہ تلاش کروں گا۔ بلکہ موجد یہ کہتا ہے کہ مجھے
یا انسانیت کو ایسی ایجاد چاہیے جو اس مخصوص ضرورت کو پورا کر سکے۔ علمی بحث کے
انداز سے یہ ظاہر ہوتا ہے جیسے بغیر غرض و مقصد کے اس کا ہر ایک اصول دوسرے اصول
کی جانب لے جاتا ہو۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ بلکہ انسان کی فطرت کی فطری رغبت بحثِ
علمی کو غذا دیتی ہے۔ انسان ان قوانین میں (علمی بحث کے ذریعے سے جن تک رسائی ہوتی
ہے) کوئی دخل نہیں دے سکتا۔ اس لئے نہیں کہ انسان ان کی معرفت کی رغبت نہیں رکھتا،
بلکہ اس لئے کہ وہ انسان کے حیطہ اقتدار میں داخل نہیں ہیں۔ یہ قوانین فطرت میں
چونکہ نوامیسِ کائنات ہیں، اس لئے انسان ان میں کوئی دخل نہیں دے سکتا، نہ کوئی
تغیر کر سکتا ہے۔ یہ قوانین اس خالق کی ملکیت ہیں جس نے کائنات کو پیدا کیا۔ مگر
انسان اپنی علمی بحث کے نتائج یا تو ان نوامیسِ کائنات کی معرفت پر مرتب ہونے والے
نتائج کی عملی تطبیق میں مداخلت کر سکتا ہے۔ (ان نوامیسِ کائنات کی معرفت اور ان
کو اپنے تابع بنانے کی قدرت انسان کو اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ہے۔ "جتنی
چیزیں آسمانوں میں ہیں اور جتنی چیزیں زمینوں میں ہیں ان سب کو اپنی طرف سے مسخر
کر دیا ہے")۔ انسان اپنی مداخلت سے تطبیقِ عملی کو اپنے مقاصد اور اپنے نفس
میں پہلے سے موجود رغبتوں کے حصول میں لگاتا ہے، اور انسانی رغبتیں موقع کی گھات
میں رہتی ہیں۔ جب کوئی دریافت یا ایجاد انسان کے سامنے ایسے نئے افق روشن کر دیتی
ہے جو اس کے خیال میں بھی نہ تھے، پھر بھی انسان فطری رغبت کی تکمیل میں لگا رہتا
ہے۔ جیسے قوت اور غلبہ کی رغبت، اظہارِ ذات، ہمیشہ رہنے اور ملکیت کی رغبت۔ انسان
میں کوئی خیال و شعور ایسا نہیں ابھرتا جو ان پہلے سے موجود رغبتوں کے ماتحت نہ
آتا ہو۔ ان تمام رغبتوں کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا اور ان کے امکانات متعین فرما
دیئے۔ نئی دریافت اور جدید ایجاد سے رونما ہونے والا تغیر انسان کی فطری اور
پوشیدہ رغبتوں کو نشوونما دیتا ہے۔ کیونکہ اس تغیر کی بناء پر ان رغبتوں کو ظہور
کا موقع مل جاتا ہے۔ مگر ایسا نہیں ہے کہ یہ تغیر فطری رغبات کو از سرِ نو پیدا کر
دیتا ہو۔ کیونکہ نشوونما دینے اور از سرِ نو تخلیق میں فرق ہے۔ بچے کا وجود مشکل
مگر پوشیدہ ہوتا ہے۔ پھر بچہ نشوونما حاصل کرتا ہے تو اس کا وجود بھی متحقق ہو
جاتا ہے۔ مگر کوئی شے نئی نہیں پیدا ہوتی۔ بچے کے پیر، آنکھ اور کان بعد میں تخلیق
نہیں ہوتے کیونکہ یہ پہلے سے موجود ہیں۔ البتہ بچے کے یہ اعضاء نمودار ہوتے ہیں
اور بعد میں نشوونما پا کر بڑھتے جاتے ہیں۔ تو تغیر نشوونما ہوتا ہے، نہ کہ کسی شے
کا عدم سے وجود میں لانا۔ یہ حقیقت ہر نئی دریافت اور ہر نئی ایجاد پر منطبق ہوتی
ہے۔ ہل، جس نے زمین کا سینہ چیر کر تاریخِ انسان بدل کر رکھ دی۔ یہ اپنے موجد کے
نفس میں پوشیدہ رغبت تھا۔ اور موجد اپنی یا انسانیت کی فطری رغبات کی تکمیل چاہتا تھا۔
اگر یہ بات نہ ہوتی، تو وہ ایجاد کی کوشش کیوں کرتا؟ بارود کی ایجاد نے ہلاکت اور
لوگوں کو قتل کرنے کی رغبت نہیں پیدا کی۔ بلکہ اس نے پہلے سے موجود مختصر دائرہ
میں کارفرما رغبت کو بروئے کار لانے کی کوشش کی ہے۔ بہر کیف، کوئی بھی شے انسانی
فطرت کی حدود سے خارج نہیں ہے، خواہ اس کی حدود کس قدر وسیع کیوں نہ ہوں! ## ۲۔ معاشی، اجتماعی اور سیاسی ارتقاء یہاں
تک ارتقاء کی پہلی قسم کا بیان ہوا ہے: ذرائع و وسائلِ پیداوار کا ارتقاء فطرت کا
تغیر نہیں بلکہ اس کی تحقیق ہے۔ یہ ارتقاء فطرت کے عملی امکانات کو بڑھا کر فطرت
کو وسعت دیتا اور اسے نئی شکلوں میں ڈھالتا ہے۔ مگر اس میں کسی نئے عنصر کا اضافہ
نہیں کرتا، جو اس میں ابتدائی یا پوشیدہ شکل میں موجود نہ ہو۔ نشوونما دینے اور
کسی شے کے از سرِ نو پیدا کرنے میں فرق ہے۔ ارتقاء کی یہ قسم فطرت کے مقررہ خطوط
پر اس کی ہدایت کے مطابق گامزن ہے۔ فطرت اس کو آگے بڑھاتی اور وہ فطرت کے امکانات
وسیع کرتا اور اسے قوت دیتا ہے۔ یوں فطرت اس طرح قوت، تمکن اور تحقیق حاصل کرتی
ہے۔ غرض ہر طرح معاملہ فطرت کے دائرے میں رہتا ہے۔ اب ہم ارتقاء کی دوسری قسم،
یعنی انسانی زندگی کے معاشی، اجتماعی اور سیاسی ارتقاء کو بیان کرتے ہیں۔ ### تاریخ کی مادی تعبیر کا مؤقف معاشی،
اجتماعی اور سیاسی ارتقاء تاریخ کی مادی تعبیر کا اصل میدان ہے۔ تاریخ کی مادی
تعبیر کہتی ہے کہ یہ سارا ارتقاء وسائلِ پیداوار کے ارتقاء سے پیدا ہوا ہے۔ اور
وسائلِ ارتقاء اس کا واحد سبب ہیں! تاریخ کی مادی تعبیر کہتی ہے کہ جب انسان نے
طریقہ زراعت دریافت کر لیا تو وہ مجبور ہو گیا کہ شکار اور چراگاہوں کے پیچھے
بھاگنا چھوڑ کر ایک ہی مقام پر سکونت اختیار کر کے کھیتی باڑی کے بار آور ہونے کا
انتظار کرے۔ انسان کا ایک جگہ سکونت اختیار کر لینا زراعت کی دریافت کا جبری نتیجہ
تھا۔ جب انسان نے ایک جگہ سکونت اختیار کر لی تھی تو اسے اجتماعی تنظیم ضروری ہو
گئی۔ تاکہ ان تمام یکجا رہنے والے لوگوں کے تعلقات کو منضبط کیا جاسکے۔ یہ تعلقات
بھی زراعت کی دریافت کا جبری نتیجہ تھے۔ پھر زراعت ہی کے نتیجہ میں کچھ مخصوص طرز
کے معاشی تعلقات بھی استوار ہوئے۔ کیونکہ زرعی پیداوار کچھ لوگوں کے پاس کم ہوتی
اور کچھ کے پاس زیادہ۔ اس لئے دونوں گروہوں میں تبادلہ ضروری تھا۔ یہ بھی زراعت کا
جبری نتیجہ تھا۔ پھر ایک طرف زمین اور اس کی پیداوار پر جھگڑے رونما ہوئے۔ اور
دوسری جانب کچھ اقوام نے قابلِ کاشت زمینوں پر لوٹ مار شروع کر دی۔ اس لئے ایک
ایسی حکومت کا قیام ضروری ہوگیا جو جھگڑوں کو نمٹائے اور لوٹ مار کرنے والے گروہ
کا مقابلہ کرے۔ یہ سیاسی اور جنگی تشکیل بھی زراعت کا جبری نتیجہ تھی۔ جنگوں کے
نتیجہ میں غلام آئے، جو ایک طویل عرصہ تک زرعی معاشرے میں سیاسی، اجتماعی اور
معاشی عمال بنے رہے۔ غرض اس طرح زراعت کے جبری نتیجہ کی شکل میں جاگیرداری اپنی
معاشی، اجتماعی اور سیاسی تنظیم کے ساتھ بروئے کار آگئی۔ پھر جب انسان نے مشین
ایجاد کی، تو دنیا میں ایک نیا انقلاب رونما ہو گیا۔ شہروں میں کارخانے قائم ہوئے
اور ان کو چلانے کے لئے سخت کوش انسانوں کی ضرورت ہوئی۔ اس لئے ضروری ہوا کہ زرعی
زمینوں پر موجود غلاموں کو آزاد کرا کے کارخانے چلانے پر لگایا جائے، جس کے جبری
نتیجہ میں غلاموں کی آزادی کی تحریک چلی۔ اس کے بعد شہروں کے کارخانوں میں مزدور
بھرتی ہو گئے اور سرمایہ دار کا سرمایہ بڑھنا شروع ہوگیا۔ جس کے نتیجہ میں جاگیر
دار کے بالمقابل ایک نیا مفاد پرست طبقہ ابھر آیا۔ یہ مشین کی ایجاد کا جبری نتیجہ
تھا۔ زراعت سے صنعت کی جانب انتقال کے نتیجہ میں معاشرے کے اخلاق بھی متغیر ہو
گئے۔ پھر سرمایہ دار اور مزدور دونوں طبقوں میں اپنے مصالح کے حصول کیلئے سیاسی
کشمکش رونما ہوئی۔ جو مشین کی ایجاد کا جبری نتیجہ تھی۔ اور یہ کشمکش آج تک جاری
ہے۔ جس کا کوئی نہ کوئی نتیجہ سامنے آنا چاہیئے۔ مگر نتیجہ کے بارے میں مختلف
مذاہب ہیں۔ ایک مذہب کہتا ہے کہ یہ اشتراکیت ہے (Communism)، دوسرا مذہب کہتا ہے کہ اشتمالیت ہے (Socialism)، اور تیسرا مذہب کہتا
ہے کہ یہ نتیجہ ایک مشترک معاشرے (Co-operative Society) کی
شکل میں نمودار ہوگا۔ پھر ان سب مذاہب کے قائلین اپنے آپ کو جمہوری کہتے ہیں! ### مادی تعبیر پر تنقید مادی
تعبیر کی پیش کردہ یہ ساری صورت بظاہر منطقی، مرتب، منظم اور مطمئن کردینے والی
محسوس ہوتی ہے۔ مگر اگر بہ نظرِ غائر دیکھا جائے تو اس پُر شکوہ عمارت میں سینکڑوں
شگاف نظر آتے ہیں! تاریخ کی مادی تعبیر ہر اجتماعی، معاشی اور
سیاسی ارتقاء کو صرف ذرائع پیداوار کے تغیر کی جانب منسوب کرتی ہے۔ اس سلسلہ میں
مارکس اور اینگلز کے واضح اقوال پہلے بھی پیش کئے جا چکے ہیں۔ مارکس کہتا ہے:
"طریقہ پیداوار ہی زندگی کے اجتماعی، سیاسی اور معنوی اعمال کی صورت متعین
کرتا ہے۔ در حقیقت لوگوں کا شعور ان کے وجود کا تعین نہیں کرتا، بلکہ خود لوگوں کا
وجود ان کے مشاعر متعین کرتا ہے۔" اینگلز کہتا ہے: "پیداوار اور تبادلہ
اشیاء ہی ہر اجتماعی نظام کی اصل بنیاد ہیں۔ اس نظریہ کے ماتحت تمام تغیرات اور
بنیادی تبدیلیوں کے اسباب کی تلاش لوگوں کی عقول اور ان کے ازلی حق و انصاف کی
اتباع میں نہ ہونی چاہیئے۔ بلکہ یہ تغیرات ان اسباب میں ڈھونڈنے چاہئیں جو طریقہ
پیداوار اور تبادلہ اشیاء میں واقع ہوتے ہیں۔" غرض
مارکس اور اینگلز کی نظر میں ذرائع پیداوار کے تغیر کے سوا اور کوئی سبب نہیں ہے۔
یہ دونوں نفس اور معاشرے کی ساخت میں طبیعت کے عملی نمو کو کوئی اہمیت نہیں دیتے،
حالانکہ ذرائع پیداوار کا تغیر طبعی نمو ہی کا ایک مظہر (PHENOMENON) ہے۔
نفسِ انسانی جس طرح آلات اور ذرائع پیداوار کی ایجاد اور ان کی تحسین کے ذریعے
اپنے عملی امکانات کو وجود میں لا کر نشوونما پاتا ہے، اسی طرح وہ اپنی فطرت میں
پوشیدہ اجتماعی، معاشی اور سیاسی امکانات کو وجود میں لا کر نشوونما پاتا ہے۔
جولیان ہکسلے
(JULIAN HUXLEY) اپنی کتاب "دورِ جدید کا انسان" (MAN IN THE
MODERN WORLD) میں کہتا ہے: > "انسان
کی وہ ساری خصوصیات جن کی بناء پر انسان ممتاز ہے، اور جو خصوصیات حیاتیاتی (BIOLOGICAL) کم اور نفسیاتی (PSYCHOLOGICAL) زیادہ ہیں، یہ تمام
خصوصیات مندرجہ ذیل خصائص سے پیدا ہوتی ہیں: > > 1. انسان
خاص اور عام فکر پر قادر ہے۔ > 2. انسان کے عقلی اعمال
میں وحدت اور مماثلت ہے۔ جب کہ حیوانات میں عقل اور عمل علیحدہ علیحدہ ہیں۔ > 3. انسانی معاشرے میں اجتماعی وحدتوں کا وجود، مثلاً قبیلہ، قوم،
جماعت، کلیسا، اور ہر ایک گروہ کا اپنی روایات و ثقافت کا پابند رہنا ہے۔" اجتماعی، مذہبی، سیاسی، اخلاقی اور معاشی تنظیمیں انسان کی
نفسیاتی خصوصیات ہیں اور انسانی فطرت کی گہرائیوں میں پیوست ہیں۔ ان کی تخلیق میں
ذرائع پیداوار کا کوئی دخل نہیں ہے، جیسا کہ تاریخ کی مادی تعبیر کہتی ہے۔ ہاں یہ
ہو سکتا ہے کہ ذرائع پیداوار کے تغیرات ان تنظیموں کو ایک خاص شکل دے دیں۔ تخلیق
اور تشکیل میں بڑا فرق ہے۔ اگر نفسِ انسانی اصل ہے تو وہ گوناگوں شکلیں اختیار کر
سکتا ہے۔ لیکن اگر ذرائع پیداوار اصل ہیں، تو انسانی معاشرے کو ایک جبری شکل اختیار
کرنا پڑے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ نفسِ انسانی ہی اصل ہے۔ اور ایسی حقیقت ہے جس کی
تشریح سے ہر مادی تعبیر عاجز ہے۔ اجتماعی اور معاشی تنظیمات انسان کی نفسیاتی
خصوصیات ہیں اور نشوونما میں فطرتِ انسانی کی تابع ہیں۔ نمو ایک نفسیاتی اور
حیاتیاتی
(PSYCHO-BIOLOGICAL) حقیقت ہے۔ اسے کسی خارجی تعبیر کی ضرورت نہیں
ہے (سوائے اس کے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی تخلیق ہے)۔ یہ حقیقت ہے کہ نشوونما کے لئے
غذا کی ضرورت ہے۔ مگر یہ کہنا خلافِ حقیقت ہے کہ غذا نشوونما کی خاصیت پیدا کر
دیتی ہے۔ غذا تو صرف فطرت میں پوشیدہ اس خاصیت کے لئے عملی امکانات فراہم کرتی ہے۔
اجتماعی اور اقتصادی تنظیمات اپنی تمام تر پیچیدگی کے ساتھ انسانی فطرت کا خاصہ
ہیں۔ یہ تنظیمات ذرائع پیداوار کا ساتھ دیتی ہیں، مگر ان کا تعلق سبب اور نتیجہ کا
نہیں ہوتا۔ بلکہ تنظیمات اور ذرائع پیداوار دونوں ہی فطرت سے رہنمائی حاصل کرتی ہیں۔
اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ جزئیات میں بھی سبب اور نتیجہ کا تعلق نہ ہو۔ مگر جہاں
تک مجموعی حیثیت کا تعلق ہے، تو ذرائع پیداوار کو اجتماعی اور معاشی تغیر کا سبب
اسی قدر قرار دیا جا سکتا ہے، جس قدر اجتماعی اور معاشی تغیر کو ذرائع پیداوار کے
تغیر کا سبب بتایا جا سکتا ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ یہ دونوں قوتیں انسانی فطرت سے
رہنمائی حاصل کرتی ہیں۔ جہاں ذرائع پیداوار کا تغیر اجتماعی اور معاشی تنظیم کا
سبب بنتا ہے، وہاں اجتماعی، معاشی اور سیاسی ضرورتیں بھی معاشرتی ڈھانچے کے مطابق
نئے ذرائع پیداوار کا سبب بنتی ہیں! دونوں ہی قسم کے تغیرات میں انسانوں کی فطری
ضروریات ہی اصل سبب ہوتی ہیں۔ دوسروں کے ساتھ مل جل کر رہنے کی فطری رغبت نے کسی
نہ کسی شکل میں معاشرے کو جنم دیا اور فرد کے نفس میں پنہاں اس عمیق رغبت کی تکمیل
ہوئی۔ جب معاشرہ وجود میں آگیا، تو فطرتِ انسانی میں موجود گوناگوں قوتوں اور
صلاحیتوں کی بناء پر معاشرے کی ضرورتیں بھی متنوع ہو گئیں۔ > وَجَعَلْنَاكُمْ
شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا (ہم نے تمہیں شعوب اور قبائل بنایا تاکہ تم
ایک دوسرے کو پہچان سکو) (القرآن، الحجرات: ۱۳) انسان کا شعوب اور قبائل میں تقسیم ہوجانا
اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے نتیجہ میں رونما ہونے والا جبری عمل ہے۔ جو اللہ تعالیٰ
کی پیدا کردہ فطرت کے واسطے سے بروئے کار آتا ہے، جس فطرت میں یہ میلان اللہ
تعالیٰ کا ودیعت کردہ ہے۔ انسان شعوب و قبائل میں اس لئے تقسیم نہیں ہوا کہ ذرائع
پیداوار تغیر پذیر ہو گئے، یا اور کوئی سبب نفسِ انسانی سے باہر رونما ہوگیا۔
نشوونما کی خاصیت جو بچے کو پروان چڑھاتی ہے، اور جو فطرت کی گہرائیوں میں پیوست
حیاتیاتی خصوصیت ہے، یہ خاصیت بذاتِ خود چھوٹے چھوٹے معاشروں کو بڑے معاشروں میں
منتقل کرتی ہے۔ چنانچہ خاندان قبیلہ، اور قبیلہ قوم میں بدل جاتا ہے۔ اس طرح لوگوں
میں پائے جانے والے ابتدائی اور براہِ راست چھوٹے چھوٹے تعلقات بڑے بڑے پیچیدہ اور
بالواسطہ تعلقات میں بدل جاتے ہیں۔ اسی دوران تغیر پذیر ذرائع پیداوار بھی معاشرے
میں اپنی جگہ بنا کر ایک فعال قوت بن جاتے ہیں۔ پھر ذرائع پیداوار کچھ معاشرے سے
لیتے اور کچھ اسے دیتے ہیں۔ مگر ہر صورت میں انسانی فطرت سے ہم آہنگ رہتے ہیں۔
ذرائع پیداوار کا تغیر اور معاشرے کا تغیر ایک دوسرے کا سبب بنتے ہیں۔ چنانچہ کبھی
تغیرِ پیداوار معاشرے کے تغیر کا سبب بن جاتا ہے۔ مگر بالآخر فطرت کی نمو کی خاصیت
ہی مصدر ہوتی ہے؟ مشین کی ایجاد صنعتی معاشرے کے وجود کا سبب ہے، مگر حصولِ قوت کی
انسانی رغبت اور انسان کی زیادتیِ پیداوار کی رغبت (تاکہ معاشرے کی ضرورتیں وافر
مقدار میں پوری ہو سکیں) مشین کی ایجاد کا سبب ہے۔ اور اس کی محرک وہ ہی انسانی
فطرت ہے جسے آلات و سامان کے استعمال کرنے اور ان کو بہتر بنانے کی قدرت حاصل ہے؟
اس کے علاوہ کچھ ایسی بھی تنظیمات ہیں جو ظاہری طور پر بھی ذرائع پیداوار کے تغیر
کا نتیجہ نہیں ہیں۔ جیسے نکاح اور خاندان۔ کیونکہ یہ دونوں خالص اجتماعی ارتقاء
ہیں اور یہ دونوں تاریخ کے تاریک ترین دور (شکاری معاشرے) میں بھی اسی طرح پائے
جاتے تھے جس طرح یہ چرواہے معاشرے یا زرعی معاشرے میں پائے گئے، یا جس طرح آج
صنعتی معاشرے میں پائے جاتے ہیں۔ بیسویں صدی کے ہمہ گیر انسانی انحطاط کے باوجود
(جس انحطاط میں انسانی فطرت تباہ ہو کر رہ گئی ہے) آج بھی نکاح اور خاندان دو طبعی
نظاموں کی شکل میں موجود ہیں، جن کے ساتھ انسانیت کو تباہ کرنے والی اباحیت پسندی
اور شہوت پسندی بھی ابھر آئی۔ جو ارتقاء نہیں ہے، جیسا کہ آج کے دانشور کہتے ہیں،
بلکہ ایک قسم کا انحراف اور شذوذ ہے۔ ڈرکایم کا یہ دعویٰ کہ نکاح اور خاندان غیر
فطری ہیں، خود ڈرکایم اپنے اس قول کی کوئی دلیل پیش نہیں کر سکا۔ (ہم اس موضوع پر
اگلے باب میں تفصیلی بحث کریں گے)۔ غرض ذرائع پیداوار کا تغیر اجتماعی، معاشی اور
سیاسی ارتقاء کا واحد سبب نہیں، جیسا کہ مارکس اور اینگلز کہتے ہیں، بلکہ یہ متعدد
اسباب میں سے ایک سبب ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ذرائع پیداوار کا تغیر انسانی زندگی کی
شکل بدل کر رکھ دیتا ہے مگر یہ نتائج جبری نہیں ہوتے۔ اس کی سب سے واضح مثال یہ ہے
کہ بیسویں صدی میں تمام بڑی اقوام کے ذرائع پیداوار یکساں ہیں مگر اس کے باوجود
مغرب میں اس کا نتیجہ سرمایہ داری اور مشرق میں اشتراکیت ہے۔ اور ان دونوں نظام
ہائے حیات میں اجتماعی، معاشی اور سیاسی فرق واضح ہے! اس
سے بڑھ کر یہ کہ اشتراکی روس نے اپنے تمام مادی وسائلِ پیداوار سرمایہ دار یورپ سے
حاصل کئے۔ کیونکہ روس تو ابھی ابھی زارِ روس کے زیرِ سایہ پروان چڑھنے والی
جاگیرداری، جہالت اور تاریکی سے آزاد ہوا تھا۔ روس کو کوئی صنعتی تجربہ تھا، اور
نہ اس کے پاس صنعتی آلات تھے۔ جب روس نے اپنے خاص فکری نظام کو برپا کر کے ملک میں
عظیم صنعتی تحریک چلائی تو اس نے سرمایہ دار یورپ کے تمام ترقی یافتہ ذرائع
پیداوار استعمال کئے۔ البتہ انھیں اپنے مقاصد، اصول اور اقدار کے تحت استعمال کیا۔
یہی ذرائع پیداوار مغرب میں انفرادیت کے حق میں استعمال ہو رہے تھے۔ اور یہی ذرائع
پیداوار روس میں انفرادی ملکیت کے خاتمہ اور اجتماعیت کے قیام کے لئے استعمال
ہوئے۔ چنانچہ انفرادی ملکیت ختم کر دی گئی۔ سیاسی پارٹیاں توڑ دی گئیں۔ جمہوریت کا
گلا گھونٹ دیا گیا اور پرولتاری آمریت قائم ہوگئی! سب
سے بڑھ کر سُخرہ پن یہ ہے کہ مارکسی صاحب جن کا خیال تھا کہ ذرائع پیداوار کے تغیر
کے نتیجہ میں ہونے والے اجتماعی، معاشی اور سیاسی ارتقاء کے تاریخی ادوار جبری اور
لازمی ہیں، انہی مارکسی صاحب کا خیال تھا کہ صنعتی ترقی اور مزدوروں اور سرمایہ
داروں کی طبقاتی کشمکش کے نتیجہ میں اشتراکیت سب سے پہلے ترقی یافتہ ممالک،
بالخصوص انگلینڈ میں برپا ہوگی۔ مگر ہوا یہ کہ روسی جاگیرداری سے نکل کر اور
سرمایہ دارانہ دور کو پیچھے پھلانگ کر اچانک اشتراکی دور میں داخل ہوگیا اور
انگلینڈ آج تک سرمایہ دار ہے! ### مثال: اسلام اور
مادی تعبیر سے ماورائی اس کے علاوہ اکثر و بیشتر انسانی زندگی کے
معاشی، اجتماعی اور سیاسی میدانوں میں تغیرات کا ذرائع پیداوار کے تغیر سے کوئی
تعلق نہیں ہوتا۔ اور اس کی مثال اسلام ہے۔ جزیرہ نمائے عرب اور اس وقت کی دنیا میں
کون سی ایسی مادی قوت تھی اور ذرائع پیداوار میں کون سے تغیرات رونما ہو رہے تھے،
جن کے نتیجہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم ظاہر ہوتے اور انھوں نے لوگوں کو اسلام
اور دینِ جدید کی دعوت دی؟ یہ لوگ کہتے ہیں کہ جزیرہ نمائے عرب کے لوگ قبائلی دور
گزار کر ایک قوم بننے والے تھے۔ اس لئے ان واقعات کی بناء پر اور اس ارتقاء کی
جبریت کے نتیجہ میں ایک امرِ طبعی کے طور پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور ہوا۔
چلئے ہم اس بات کو مان لیتے ہیں کہ جزیرہ نمائے عرب کے لوگ قبیلہ سے قوم بننے والے
تھے۔ مگر کیا اسلام عربی قوم کا مذہب تھا؟! مدینہ جانے سے پہلے، جب ریاست کی بنیاد
نہیں رکھی گئی تھی، انصار کے اجتماع سے قبل، جب کہ مادی قوتیں جمع نہیں ہوئی تھیں
اور قوتِ نافذہ حاصل نہیں ہوئی تھی، صرف چند پراگندہ حال لوگ ایمان لائے تھے، جن
کو ایمان لانے کے جرم میں ان کے اہل خاندان اور دوست احباب چھوڑ چکے تھے۔ نہ ان کے
پاس کوئی ٹھکانہ تھا، نہ کسی کی حمایت حاصل تھی۔ ان حالات میں قرآن کریم نے اعلان
کر دیا تھا:
> وَمَا هُوَ إِلَّا ذِكْرٌ لِّلْعَالَمِينَ
(یہ قرآن تمام جہانوں کے لئے نصیحت ہے۔) (القرآن، القلم: ۵۲) یہ سورہ قلم کی آیت ہے، جو قرآن کے ابتدائی
دور میں نازل ہوئی۔ سورہ سبا دیکھئے، ہمیں کہا گیا: > وَمَا
أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا كَافَّةً لِّلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا (ہم نے آپ کو تمام
لوگوں کے واسطے پیغمبر بناکر بھیجا ہے، خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا۔)
(القرآن، سبا: ۲۸) سورہ اعراف دیکھئے، ہمیں فرمایا: > قُلْ
يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا (اے محمدﷺ! کہو
کہ اے انسانو! میں تم سب کی طرف خدا کا پیغمبر ہوں۔) (القرآن، الاعراف: ۱۵۸) کیا
اسلام عربی قوم کا مذہب تھا؟ حالانکہ نبیﷺ فرماتے ہیں: "تمام لوگ کنگھی کے دندانوں
کی طرح آپس میں برابر ہیں۔ کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فضیلت نہیں سوائے تقویٰ
کے۔" کیا یہ دعوت قوم سازی کی دعوت تھی، یا پوری انسانیت کے لئے دعوت تھی؟ اے
تاریخ کی مادی جبریت کے قائلین! کیا تمہاری تاریخ کی جبریت اسی طرح چند سالوں میں
قبیلہ سے انسانیت کی جانب لے آتی ہے؟ کیا قبائل کا قوم بن جانا ہی فکری، اجتماعی
اور معاشی نظام استوار کرنے کا سبب بن جاتا ہے؟ اور اس کے لئے مادی تغیر اور ذرائع
پیداوار میں تبدیلی کی ضرورت نہیں رہتی؟ ماحول کی منطق اسلام پر چسپاں نہیں ہوتی۔
بلکہ اسلام کی منطق اور ماحول کی منطق میں نہایت طویل عرصہ کشمکش جاری رہی ہے۔
حتیٰ کہ نیا عقیدہ اپنی قوت اور اپنے عناصرِ خیر کی بناء پر غالب آگیا، اور اس نے
ماحول کی منطق کو کچل کر اسے لوگوں کے دلوں سے نکال پھینکا۔ اس وقت کا ماحول عورت
کو حقیر خیال کرتا تھا۔ اور عورت کی حیثیت جانور سے زیادہ نہ تھی۔ لڑکیوں کو زندہ
درگور کیا جاتا، اور ان کی پیدائش پر ناک بھوں چڑھائی جاتی۔ پھر عورت جوان ہونے تک
اس توہین آمیز سلوک کو برداشت کرتی حتیٰ کہ وہ بیوی بن کر کسی کی ملکیت بن جاتی۔
خود عورت کی اتنی جرات نہ تھی کہ وہ اپنی حالت پر ناگواری کا اظہار کر سکے۔ اور جزیرہ
نمائے عرب ہی کیا، پوری دنیا میں ایسا کوئی جری نہ تھا جو عورت کے حقوق کا مطالبہ
کرسکتا۔ مگر اسلام آیا تو اس نے کہا: > مَنْ عَمِلَ
صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً
طَيِّبَةً (مرد و زن میں سے جو بھی نیک کام کرے گا [بشرطیکہ وہ مومن ہو] ہم اسے
اچھی زندگی دیں گے۔) (القرآن، النحل: ۹۷)
> > فَاسْتَجَابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ أَنِّي لَا
أُضِيعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنكُم مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ بَعْضُكُم مِّن بَعْضٍ
(سو منظور کر لیا ان کی درخواست کو ان کے رب نے، اس وجہ سے کہ میں کسی شخص کے کام
کو جو کہ تم میں سے کرنے والا ہو، ضائع نہیں کرتا، خواہ وہ مرد ہو یا عورت ہو، تم
آپس میں ایک دوسرے کے جنس ہو۔) (القرآن، آل عمران: ۱۹۵) > > وَعَاشِرُوهُنَّ
بِالْمَعْرُوفِ (اور ان عورتوں کے ساتھ خوبی سے گزارا کرو۔) (القرآن، النساء: ۱۹) پھر
اسلام نے اس معروف کے قواعد اور قوانین متعین کئے۔ انسانیت اور اللہ کی نظر میں
مساوات کے ساتھ اسلام نے عورت کو ملکیت اور تصرف کا بھی حق دیا۔ > لِّلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِّمَّا اكْتَسَبُوا وَلِلنِّسَاءِ
نَصِيبٌ مِّمَّا اكْتَسَبْنَ (مردوں کے لئے ان کے اعمال کا حصہ ثابت ہے اور عورتوں
کے لئے ان کے اعمال کا حصہ ثابت ہے۔) (القرآن، النساء: ۳۲) > > لِّلرِّجَالِ
نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ
مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ (مردوں کے لئے حصہ ہے اس چیز میں
سے جس کو ماں باپ اور بہت نزدیک کے قرابت دار چھوڑ جائیں۔ اور عورتوں کیلئے بھی
حصہ ہے اس چیز میں سے جس کو ماں باپ اور بہت نزدیک کے قرابت دار چھوڑ جائیں۔)
(القرآن، النساء: ۷) عورتوں
کو یہی حق فرانس میں بیسویں صدی میں آکر ملا ہے! اس
وقت کے ماحول کا یہ اصول تھا کہ غلبہ صاحبِ قوت کا تسلیم کیا جاتا تھا، نہ کہ
صاحبِ حق کا۔ عربوں کا ایک قوم بننا کسی ایسے جبری طریقہ پر نہیں تھا کہ یہ اصول
بدل جاتا۔ آج بیسویں صدی میں کتنی ہی اقوام اس اصول پر کاربند ہیں۔ مگر جب اسلام
آیا، تو اس نے صرف انسانیت کی بنیادوں پر ہر ایک کو اس کا حق دیا۔ اور کسی کے
غلبہ، قدرت اور طاقت کا کوئی خیال نہیں کیا۔ حتیٰ کہ اسلامی معاشرے میں رہنے والے
غیر مسلموں کو بھی ان کے حقوق ملے۔ قرآن کریم میں نو آیتیں ایک ایسے یہودی کی تہمت
دور کرنے کے لئے نازل ہوئیں جس پر غلط تہمت لگائی گئی تھی، اور تہمت لگانے والے
مدینہ کے طاقتور لوگ تھے، جب کہ یہودی کا کوئی مددگار و حامی نہ تھا۔ قرآن نے اس
یہودی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: > وَمَن يَكْسِبْ
خَطِيئَةً أَوْ إِثْمًا ثُمَّ يَرْمِ بِهِ بَرِيئًا فَقَدِ احْتَمَلَ بُهْتَانًا
وَإِثْمًا مُّبِينًا (اور جو شخص چھوٹا گناہ کرے، یا بڑا گناہ کرے، پھر اس کی تہمت
کسی بے گناہ پر لگادے، سو اس نے تو بڑا بھاری بہتان اور صریح گناہ اپنے سر لادا۔)
(القرآن، النساء: ۱۱۲) اس وقت کے ماحول میں سردارِ قبیلہ کی اس قدر توقیر کی جاتی تھی
کہ اسے خدا بنا لیا جاتا تھا۔ اور اس کے کسی قول و عمل پر کوئی گرفت نہ ہوتی۔ آج
بھی ساری دنیا کا اپنے حکام کے ساتھ یہی دستور ہے۔ مگر جب اسلام آتا ہے، تو وہ عرب
قوم کو اس قدر عظیم سیاسی شعور عطا کرتا ہے کہ ایک عام انسان تاریخِ اسلامی کے سب
سے پُر ہیبت خلیفہ (حضرت عمرؓ) کے سامنے یہ کہہ دیتا ہے کہ: "خدا کی قسم اگر
ہم تمہاری روش میں کوئی غلطی پائیں گے تو اسے تلوار کی نوک سے ٹھیک کر دیں
گے۔" اور یہ بات سن کر حضرت عمرؓ کو غصہ نہیں آتا، بلکہ اس پر اللہ کا شکر
ادا کرتے ہیں۔ اس وقت عربوں کا مشہور کرم اس امر تک محدود تھا کہ وہ ایسی مہمان
نوازی کرتے کہ قافلے والے اس کو یاد رکھتے اور قبائل میں وہ فخر کا ذریعہ بنتا۔ رہ
گیا فقیر و مسکین کی صرف انسانیت کی بنیادوں پر مدد کرنا، جس میں نہ شہرت ہو اور
نہ مفاخرت، تو ایسا اس ماحول میں بہت ہی شاذ و نادر ہوا کرتا تھا۔ مگر اسلام آیا
تو اس نے اس امر پر شدید اصرار کیا کہ مسکین کو اللہ کے مال میں حصہ ملنا چاہیئے،
اور اس سے نرمی اور غمگساری کا برتاؤ ہونا چاہیئے۔ حالانکہ نبی کریمﷺ کو اس حکم کی
ضرورت نہیں تھی، مگر اس کی اہمیت واضح کرنے کیلئے آپ کو براہِ راست حکم دیا گیا: > فَأَمَّا الْيَتِيمَ فَلَا تَقْهَرْ وَأَمَّا السَّائِلَ فَلَا
تَنْهَرْ (تو یتیم پر سختی نہ کر، اور سائل کو مت جھڑک۔) (القرآن، الضحیٰ: ۹-۱۰) اس
وقت کے ماحول کا یہ تقاضا تھا کہ اشراف تو اشراف ہی سمجھے جاتے، مگر غلاموں کی
زندگی جانوروں سے بھی بدتر تھی۔ ان پر ہر قسم کے ظلم و ستم ڈھائے جاتے تھے۔ مگر جب
اسلام آیا، تو اس نے زیدؓ نامی غلام کی شادی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی
پھوپھی زاد بہن سے کر دی۔ اور زیدؓ کو قائدِ لشکر بنا دیا، جس لشکر میں ابوبکرؓ و
عمرؓ (رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وزیر اور خلیفہ) بھی شامل تھے۔ اور نبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے اپنے غلام کو قتل کیا ہم اسے قتل
کریں گے، اور جس شخص نے اپنے غلام کی ناک کاٹی ہم اس کی ناک کاٹیں گے۔"
غلاموں کو یہ شرف اس لئے نہیں عطا کیا جا رہا تھا کہ کوئی اس کا مطالبہ کر رہا
تھا، اور نہ ہی اس لئے تھا کہ معاشی حالت، پیداواری تعلقات یا ذرائع پیداوار میں
کوئی ادنیٰ ایسا تغیر آگیا تھا! اس وقت کے ماحول میں انفرادی ملکیت قطعاً ہر
قید سے آزاد تھی، اور کسی قانون کے تابع نہ تھی۔ اسلام نے ملکیت کا ایسا نظام دیا
جس کی چند خوبیوں تک دنیا کی رسائی آج جا کر ہوئی ہے، جب کہ لوگ جاگیرداری اور
سرمایہ داری کے جہنم میں پوری طرح جھلس چکے۔ اسلام نے کہا کہ سرمایہ اللہ کا ہے،
اور جماعت اس کی نگراں ہے، فرد اس مال میں تصرف کا حق رکھتا ہے اگر فرد اس حق کو
صحیح طور پر استعمال کر سکے۔ (ورنہ حقِ تصرف جماعت کو واپس مل جائے گا)۔ اسلام نے
تقسیمِ دولت کا یہ اصول بیان کیا: > كَيْ لَا يَكُونَ
دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاءِ مِنكُمْ (تاکہ یہ مال تمہارے دولت مندوں کے درمیان
مرتکز ہو کر نہ رہ جائے۔) (القرآن، الحشر: ۷)
غرض اس وقت کے ماحول کے تقاضے اور معاشرے کی منطق کچھ اسی قسم
کی تھیں مگر اسلام نے ان تمام تقاضوں اور ان تمام منطقوں کو بالکلیہ تبدیل کر کے
ایسے اصول وضع کئے جو اس وقت کے ماحول اور اس وقت کی تمام دنیا کے لئے اجنبی تھے۔
پھر یہی نہیں کہ اسلام کے مثالے (IDEALS) فضاؤں میں معلق ہوں
اور عملی دنیا سے ان کا کوئی تعلق نہ ہوں۔ بلکہ چلتے پھرتے انسان ان اصولوں کا
نمونہ تھے جن کے دل ہر وقت اللہ کی یاد میں مستغرق رہتے! یہ
سب کچھ آخر کیوں کر ہوا؟ تاریخ کی کون سی جبریت اور کون سی مادی جدلیت (DIALECTIC
MATERIALISM) انسانی تاریخ کے اس عجوبے کو بیان کر سکتی
ہے؟! ایک حقیقت سے اس تاریخ کی توجیہ ہو سکتی ہے۔ اور وہ یہ کہ جب انسان اللہ پر
پکا سچا ایمان لے آتا اور اس کا دل عقیدہ سلیمہ سے لبریز ہو جاتا ہے، تو اس سے
ایسے ہی معجزے رونما ہوتے ہیں! اسلامی تاریخ کا یہ دور - جو کوئی نظریاتی
تصور نہیں، بلکہ فی الحقیقت تاریخی واقعات ہیں - اس اسلامی تاریخ نے مادی تعبیر کے
تار و پود بکھیر کر رکھ دیئے ہیں۔ اس اسلامی دور کی تعبیر وہ ہے جس سے مادیت انتہائی
گریزاں ہے۔ اس اسلامی دور کی تعبیر یہ ہے کہ انسان اور اللہ کے درمیان تعلق ہے۔
اللہ کی تقدیر دنیا کے واقعات کی تشکیل کرتی ہے۔ اللہ کی تقدیر نے انسان کو آگ کی
دریافت اور اوزار کی ایجاد کی جانب متوجہ کیا۔ اللہ کی تقدیر نے انسانوں کو آپس کی
پہچان کے لئے شعوب اور قبائل میں تقسیم کر دیا۔ اس کا کوئی سبب نہیں تھا، سوائے اس
کے کہ اللہ ایسا کرنا چاہتا تھا۔ اور اللہ کی تقدیر نے انسان کو اسلام اور اسلام
کی بنیاد پر ایک مثالی معاشرہ قائم کرنے کی جانب متوجہ کیا۔ اس کا بھی اس کے سوا
کوئی سبب نہ تھا کہ اللہ تعالیٰ ایسا ہی کرنا چاہتا تھا۔ اسلامی معاشرے کے قیام کا
سبب نہ ذرائع پیداوار کا ارتقاء تھا، اور نہ معاشرے کا طبعی نمو۔ اگرچہ انسان کو
اسلام کی طرف ہدایت اور ایک مثالی معاشرے کے قیام کی جانب رہنمائی میں انسانی فطرت
کے ان مکونات کو ضرور مدِ نظر رکھا گیا، جو اللہ تعالیٰ نے انسانی فطرت کو عطا کئے
ہیں۔ تاریخ کی ہر وہ تعبیر جو اللہ تعالیٰ کی تقدیر اور انسانی زندگی میں اللہ کی
تقدیر کی مداخلت سے منکر ہے، اور انسان کی تعبیر ایک قائم بالذات حادثہ کے طور پر
کرے یا اس کے وجود کو خالص مادی اسباب کا نتیجہ بتائے، ایسی ہر تعبیر غلط اور
حقائقِ وجود کی تفسیر سے قاصر ہے! ڈارون کا یہ قول ایک حماقت ہے کہ: "زندگی
کے مسائل کی تعبیر اس طرح کرنا کہ زندگی کا ایک صاحبِ ارادہ خالق ہے، ایسا ہی ہے
جیسے خالص میکانکی ڈھانچہ میں کوئی خلافِ طبیعت عنصر داخل کر دیا جائے!" جس
کا جی چاہے۔ تاریخ، زندگی اور کائنات کی تعبیر اس "خلافِ طبیعت عنصر" کے
بغیر کرکے دیکھے کہ اس کی تعبیر چند قدم بھی آگے نہ بڑھائے گی کہ اس کا کھوٹ فوراً
معلوم ہو جائے گا! اس "خلافِ طبیعت عنصر" کی مداخلت سائنس، طبیعت، مادہ،
اجتماعیات اور معاشیات کے قوانین کو معطل نہیں کرتی، جیسا کہ مغربی سائنس سمجھتی
ہے۔ بلکہ یہ تو ان قوانین کو مکمل اور درست کر کے پوری طرح نافذ ہونے کا موقع دیتی
ہے۔ ###
اجتماعی ارتقاء اور فطرت علمی
ارتقاء کی طرح، اجتماعی، معاشی اور سیاسی ارتقاء بھی لوگوں کو ان کی فطرت سے دور
نہیں لے جاتا، اور لوگ بہرحال اپنی فطرت کے تابع رہتے ہیں! جب
بھی کوئی نئی ایجاد سامنے آتی ہے، لوگوں کے افکار اور مشاعر کو جھنجوڑ کر رکھ دیتی
ہے اور لوگ یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ یہ دنیا بالکل بدل گئی ہے، اس میں ماضی کے مشاعر
اور تصورات کا کوئی دخل نہیں ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس دنیا پر نفس کا کوئی
نیا پہلو غالب آگیا ہے جس کا پہلے وجود نہ تھا۔ کچھ وقت بعد ذہنوں سے اس ایجاد کا
بوجھ ہلکا ہو جاتا ہے، تو لوگ اس کے عادی ہو جاتے ہیں۔ اور رفتہ رفتہ اپنی فطرت،
اپنے ماضی، مشاغل، اور اپنی تمناؤں اور مخاوف کی دنیا میں لوٹ آتے ہیں! اب ان کی
وہی تلاشِ رزق ہوتی ہے، وہی لباس، مکان اور جنس کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ پھر ملکیت،
کشمکش اور خود نمائی کی محبت میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ وہی موت کا خوف اب بھی دامن
گیر ہوتا ہے۔ وہی جینے کی آرزو اب بھی بے چین کئے رکھتی ہے۔ اسی طرح تمام اجتماعی،
معاشی اور سیاسی تبدیلیاں لوگوں کو جھنجوڑ کر رکھ دیتی ہیں اور ان کے افکار اور
مشاعر کو نئی شکل دے دیتی ہیں۔ مگر لوگ بہرحال اپنی فطرت ہی پر رہتے ہیں! خاندان،
قبیلہ، قوم اور انسانی معاشرہ گلہ بان معاشرہ، زرعی معاشرہ اور صنعتی معاشرہ باپ کی حکومت، مقدس
بادشاہ کی حکومت، جمہوری حکومت، ایک طبقہ کی حکومت اور ایک پارٹی کی حکومت ان تمام
مراحل میں انسان اپنی وسیع فطرت سے نہیں نکلا ہے۔ اس کا انفرادیت اور اجتماعیت کا
جذبہ، اس کی آزادی اور پابندی کی خواہش، اس کا سلبیت اور ایجابیت کا میلان، اور اس
کی ملکیت، خود نمائی اور کشمکش کی محبت فطرت کے دائرے میں رہتے ہوئے نئے نئے روپ
دھارتی رہتی ہے!
انسانی فطرت کی لچک اور اس کی وسعت، فطرت کے عدمِ وجود کی دلیل
نہیں بن سکتی، جیسا کہ ڈرکایم صاحب سمجھ بیٹھے اور جیسا کہ تاریخ کی مادی تعبیر
خیال کرتی ہے!
انسانی فطرت کے وجود کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ جب فطرت کے
خلاف کوئی بات انسان پر مسلط کی جاتی ہے تو انسان طبعی طور پر اس کے خلاف بغاوت
کرتا ہے، جس کے ظاہری اسباب کی نشاندہی نہیں کی جا سکتی: قرونِ وسطیٰ کے آخر میں
یوروپ میں غلاموں کی بغاوت کے اسباب تلاش کرتے ہوئے تاریخ کی مادی تعبیر کہتی ہے
کہ صنعتی معاشرہ کے وجود، کارخانوں میں مزدوروں کی ضرورت، اور کارخانوں میں کام کے
لئے غلاموں کی آزادی میں اس بغاوت کے اسباب پنہاں تھے۔ چلئے مان لیتے ہیں کہ یہی
اسباب تھے، اور یہ سبب نہیں تھا کہ انسانی فطرت غلامی سے انکار کرتی ہے، خواہ اسے
صدیوں غلام رکھا جائے۔ مگر اس مشہور غلاموں کی بغاوت کی کیا تعبیر کی جائے جو رومی
دور میں اسپارٹاکس (SPARTACUS) کے زیرِ قیادت برپا
ہوئی تھی (۷۱ ق۔م)، اور جس نے رومن ایمپائر کی بنیادیں ہلا دی تھیں۔ حالانکہ
اس وقت نہ صنعتی معاشرہ وجود میں آرہا تھا، اور نہ ذرائع پیداوار میں ایسا کوئی
تغیر تھا جو غلاموں کی آزادی کا متقاضی ہوتا! اس
کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم صنعتی معاشرے کے وقت ظاہر ہونے والے غلاموں کی آزادی کے
براہِ راست اسباب کو تسلیم نہیں کرتے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم ان اسباب کو
فطرت کا تابع بتاتے ہیں، جو فطرت اپنے ظہور کے لئے مناسب موقع کی منتظر رہتی ہے۔
اور اس کے معنی یہ ہیں کہ ان حالات کی بناء پر یہ دوسری بغاوت کامیاب ہوگئی جب کہ
رومی سلطنت کی پہلی بغاوت ناکام رہی۔ مگر شکست و فتح فطرت سے مختلف شے ہے، فطرت ہر
حال میں ایک ہی رہتی ہے! تاریخ کی مادی تعبیر سامراج کے اسباب تلاش
کرتی ہے، تو کہتی ہے کہ سامراج نے اس لئے جنم لیا کہ لوگوں نے نفع کے ذریعے سرمایہ
جمع کرنا شروع کر دیا۔ اور زائد پیداوار کو کھپانے کے لئے مارکیٹ کی تلاش ہوئی۔
چلئے یہ اسباب مان لیتے ہیں اور یہ بھی مان لیتے ہیں کہ سامراج کا سبب فطرت کا وہ
انحراف نہیں ہے جس میں انسان دوسروں سے اقتدار غصب کرتا، اور خود نشہ اقتدار میں
مست ہو کر لوگوں کو ذلیل کرتا اور انھیں اپنے سامنے سرنگوں ہونے پر مجبور کرتا
ہے؟! مگر اس مشہور رومی سامراج کی کیا تعبیر کیجئے گا جس نے قوموں کو غلام بنا کر
ان کا خون چوسا، اور ان کی محنت کی کمائی خود لوٹ کر انھیں فقر، بیماری اور جہالت
میں سسکتا چھوڑ دیا، تاکہ رومی قوم حرام لذتوں، عیش کاریوں اور غیر رومیوں کے بہتے
ہوئے خون سے لطف اندوز ہو سکے؟؟ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم جدید سامراج کے براہِ
راست اسباب کو تسلیم نہیں کرتے، بلکہ ہم ان اسباب کو فطرت کے انحراف کا تابع بتاتے
ہیں، جو انحراف پہلے سامراج اور آج کے سامراج دونوں کا اصل محرک ہے! اشتراکیت نے انفرادی ملکیت کو ختم کر کے انسانی فطرت کو بدلنے
کی کوشش کی۔ اور اس کے لئے ہر قسم کا تشدد، جاسوسی، اور پولیس کے تمام وسائل بروئے
کار رکھے گئے۔ جس کا اسٹالن کے مرنے کے بعد خروشچیف نے اعتراف کیا ہے۔ مگر اس ساری
کوشش کا نتیجہ کیا ہوا؟ کہ رفتہ رفتہ خود آمریت فطرتِ انسانی کی جانب لوٹنے لگی۔
چنانچہ ایک طبقہ میں ایک ہی عمل کی اجرتیں مختلف ہوگئیں۔ اور خرچ ہونے والی اشیاء
میں انفرادی ملکیت کی اجازت مل گئی۔ یہاں تک کہ خروشچیف نے اعتراف کیا کہ اجتماعی
کاشت سے مقررہ فوائد حاصل نہیں ہو رہے ہیں، اور اجتماعی کھیتوں سے اس قدر پیداوار
نہیں ہو رہی ہے جس قدر انفرادی کھیتوں سے ہو جاتی ہے؟! حقیقت
یہ ہے کہ فطرت اپنے اعتدال اور انحراف کے ساتھ اجتماعی، معاشی اور سیاسی تغیر کی
تجدید کرتی رہتی ہے، اور اس تغیر و ارتقاء کو اس کے فطری نمو کے دوران اپنی لچک
اور وسعت کی بناء پر متعدد شکلیں اختیار کرنے دیتی ہے، مگر یہ تمام اشکال فطرت ہی
کے دائرے میں محدود رہتی ہیں! ### خلاصہ: اجتماعی
ارتقاء اجتماعی، معاشی اور سیاسی ارتقاء کے بارے میں
ہماری پیش کردہ بحث کا خلاصہ مندرجہ ذیل حقائق ہیں: 1. اجتماعی،
معاشی اور سیاسی ارتقاء کبھی کبھی ذرائع پیداوار کے تغیر سے وابستہ ہوتا ہے، مگر
یہ دائمی نتیجہ اور سببیت نہیں ہوتی، بلکہ تعلق مصاحبت کا ہوتا ہے۔ اور ان میں سے
ہر ایک تغیر دوسرے کے تغیر کا سبب بنتا ہے۔ 2. یہ
ارتقاء دراصل انسانی فطرت میں موجود نشوونما کی خاصیت سے ہوتا ہے (جب تک اس خاصیتِ
نمو کے راستے میں کوئی طبعی رکاوٹ نہ آجائے)۔ 3. جس
شکل میں بھی یہ ارتقاء ظہور پذیر ہوتا ہے، وہ جبری نہیں ہے۔ 4. یہ
ارتقاء اللہ تعالیٰ کی براہِ راست تقدیر سے بھی ہوتا ہے، جیسا کہ مذاہبِ سماویہ
کہتے ہیں جن کے سرفہرست اسلام ہے۔ اور یا بالواسطہ اللہ کی تقدیر کے مداخلت سے
ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فطرت میں ارتقاء کی قوتیں ودیعت کر دی ہیں۔ مگر ہر
حال میں ارتقاء کا مرجع انسانی فطرت ہی ہوتی ہے۔ 5. ارتقاء
و تغیر خواہ کیسی ہی شکل کیوں نہ اختیار کرے، وہ ظاہری صورت میں تغیر ہوتا ہے۔
انسان کے اصل جوہر میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ ## ۳ و ۴۔ نفسیاتی اور اخلاقی ارتقاء اب
تک ہماری بحث کا مرکز ذرائع پیداوار کا ارتقاء اور اجتماعی، معاشی اور سیاسی
ارتقاء رہے ہیں۔ ان دونوں قسم کے ارتقاء کا مصدر ہم نے انسانی فطرت اور اس کی
قوتوں کو قرار دیا ہے۔ ہم نے اس امر پر بھی زور دیا ہے کہ ان سارے تغیرات کے
باوجود بھی فطرت ثابت اور غیر متغیر ہے۔ اب ارتقاء کی باقی دو اقسام، نفسیاتی اور
اخلاقی ارتقاء، کے بیان سے پہلے ہم ایک حقیقت کی وضاحت ضروری خیال کرتے ہیں۔ ہم
علمی اور اجتماعی، معاشی اور سیاسی ارتقاء کو بے اثر نہیں بتاتے اور نہ یہ سمجھتے
ہیں کہ اس ارتقاء سے واقعاتی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔ اگر کوئی شخص ایسا
کہتا ہے تو وہ عقل سے عاری ہے۔ یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی شخص کہے کہ شیر
خوار بچہ تمام حالتوں میں ایک بڑے مرد کے برابر ہے! ہم تو اس ارتقاء کو زیادہ
وضاحت سے پیش کر رہے ہیں اور اس کی حقیقت کو مدلل بیان کر رہے ہیں۔ ہمارے کہنے کا
منشاء یہ ہے کہ ارتقاء کا مرجع انسانی فطرت ہے۔ اور انسانی فطرت کا مرجع اللہ
تعالیٰ کی تقدیر اور مشیت ہے۔ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ ہر نئی دریافت اور ہر ایجادِ
نو کے بعد زندگی کی شکل بدل جاتی ہے۔ اسی طرح ہر اجتماعی، معاشی اور سیاسی تغیر کے
بعد بھی زندگی کی شکل متغیر ہو جاتی ہے۔ لوگ نئے نئے افکار اور تصورات اپنا لیتے
ہیں۔ اور انہی افکار و تصورات پر لوگوں کے درمیان نئے رشتوں اور تعلق کی بناء پڑ
جاتی ہے۔ مگر یہ بات ہم بار بار اور تاکیداً کہیں گے کہ زندگی کی شکل کے بدل جانے
سے فطرتِ انسانی نہیں بدل جاتی۔ زندگی کی بدلتی ہوئی اشکال دراصل غیر متغیر فطرت
کے رنگ ہیں۔ تغیر اور عدمِ تغیر دونوں کی اپنی اپنی حقیقت اور اپنا اپنا دائرہ اثر
ہے۔ اس میں کوئی تعارض نہیں ہے۔ اور حق میں تعارض صرف جزمیت پسند ذہنوں میں ابھرتا
ہے، جن کے ذہن بعض اجزاء کے درمیان ربط و تعلق معلوم کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ بچے
کے جسم، اس کے نفس اور عقل کا نشوونما ایک حقیقت ہے۔ مگر اس کے باوجود بچہ میں کچھ
فطری صفات اور میلانات وہی ہوتے ہیں جو ایک بڑے مرد میں ہوتے ہیں۔ ان کی صورتیں اور
شکلیں بدل سکتی ہیں، مگر جوہر دراصل ایک ہی ہوتے ہیں۔ بچہ خوف زدہ ہوتا ہے، اور
ایک بڑا انسان بھی خوف زدہ ہوتا ہے۔ بچہ امید کرتا ہے، بڑا آدمی بھی امید کرتا ہے۔
بچہ کھانے کی جستجو کرتا ہے، بڑا بھی کرتا ہے۔ بچہ لڑتا ہے، بڑا بھی لڑتا ہے۔ بچہ
سوچتا ہے، بڑا بھی سوچتا ہے۔ بچہ کاوش کرتا ہے اور بڑا بھی کاوش کرتا ہے۔ اپنی
ابتدائی اور پوشیدہ شکل میں تمام اصلی فطری صفات اور محرکات بچے کے نفس میں موجود
ہوتے ہیں۔ پھر رفتہ رفتہ یہ صفات و محرکات نمو حاصل کر کے مکمل اور پختہ ہو جاتے
ہیں۔ اسی طرح انسانی زندگی مکمل طور پر اس کی فطرت میں پنہاں تھی۔ اپنے نشوونما کے
مختلف مراحل میں مختلف پہلو اپنے وجود کو محقق کرتے رہے۔ اور زندگی کی ہر شکل اس
کے وجودِ ذات کی تکمیل کرتی رہی۔ ارتقاء کی پہلی دو اقسام - ذرائع پیداوار کا
ارتقاء اور علمی، اجتماعی، معاشی اور سیاسی ارتقاء - کے بیان کے بعد اور ان کے
درمیانی ربط اور اس کی گہرائی، اور ہر ایک کے بذاتِ خود مستقل ہونے کو بیان کرنے
کے بعد اب ہم باقی دو اقسام، نفسیاتی اور اخلاقی ارتقاء کو بیان کرتے ہیں۔ یہ بھی
ہو سکتا تھا کہ ہم دونوں اقسام کو یکجا بیان کر دیتے کیونکہ ان کے درمیان بڑا گہرا
ربط ہے۔ مگر پہلی دونوں اقسام کی طرح یہاں بھی ربط مکمل نہیں ہے، بلکہ ہر ایک کا
اپنا مخصوص پہلو بھی ہے۔ نفسیاتی
ارتقاء: سے ہمارا مقصد وہ تمام مشاعر، افکار، تصورات، اقدار اور وجدانی کیفیات جو
نفس سے متعلق ہیں، ان کا نمو اور ان کی پختگی ہے۔ اخلاقی ارتقاء (یا تغیر): سے ہم اخلاقی اقدار کا تغیر مراد لیتے
ہیں۔ اس طرح کہ یہ اقدار اعمالِ انسانی کے بارے میں بتائیں کہ کون سے غلط ہیں اور
کون سے صحیح، حلال ہیں یا حرام، بلند ہیں یا پست، اور انسان کسی حد تک ان اقدار کا
خیال رکھتا ہے۔ نفسیاتی پختگی اور اخلاقی پختگی میں صاف صاف ربط و تعلق محسوس ہوتا
ہے۔ مگر ہر ایک کا ایک مخصوص پہلو بھی ہے۔ کیونکہ ہو سکتا ہے کہ نفس مشاعر کی قوت،
ان کی گہرائی اور وسعت میں پختگی حاصل کرے مگر اس کے باوجود وہ اخلاقی بگاڑ سے
دوچار ہو۔ یا ہو سکتا ہے کہ اخلاقی پختگی تو حاصل ہو، مگر نفسیاتی لحاظ سے ناپختہ
ہو۔ اس لئے ہم نے دونوں قسم کے ارتقاء کو علیحدہ علیحدہ بیان کرنا مناسب خیال کیا۔
### ۳۔ نفسیاتی ارتقاء نفسیاتی
ارتقاء فطری طور پر نفس کے تمام پہلوؤں کی تکمیل اور پختگی کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔
جس طرح جسم میں نمو ہوتا ہے، اسی طرح نفس میں یہ ارتقاء فطری تحریک کے طور پر
ابھرتا ہے۔ اس کے لئے کسی خارجی تعبیر کی ضرورت نہیں ہے، سوائے اس تعبیر کے جو
انسان اور کائنات کو شامل ہے: کہ وہ اپنی اس فطرت کے تقاضوں کے ماتحت گامزن ہے جس
کو اللہ تعالیٰ نے پیدا فرما کر اس کو متعدد قوتوں اور صلاحیتوں سے بھرپور کر دیا
ہے، اور اللہ کی اس تقدیر کے ماتحت کارفرما ہے جو تقدیر ان قوتوں اور صلاحیتوں کو
نمو اور حرکت بخشتی ہے۔ #### مادی تعبیر کا مؤقف اور تنقید تاریخ کی مادی تعبیر مادی ترقی اور ذرائع پیداوار کے ارتقاء کو
نفسیاتی ارتقاء کا محور بتاتی ہے۔ اس سلسلہ میں مادی تعبیر ایک پر فریب مظہر (PHENOMENON) کا سہارا لیتی ہے۔ وہ یہ کہ علمی تقدم اور اس کے نتیجہ میں
رونما ہونے والا معاشی، اجتماعی اور سیاسی ارتقاء نفس کو مشینی انداز میں نمو دیتا
ہے۔ کیونکہ نفس مادی معیار کا عکس ہے۔ اگر مادی معیار ترقی کر جائے تو نفس خود
بخود ارتقاء کرے گا۔ یہ ایک پر فریب منظر ہے! بے
شک سائنسی ترقی پختگی حاصل کرنے میں مدد دیتی ہے۔ بچہ جو آج بیسویں صدی (بالخصوص
نصفِ آخر) میں جنم لیتا ہے، جس کے گردوپیش میں سینما، ریڈیو اور ٹیلی ویژن ہیں،
ہوائی جہاز اور راکٹ ہیں، پیچیدہ مشینیں ہیں، پیچیدہ اجتماعی روابط ہیں، بین
الاقوامی اور داخلی سیاست کے گٹھ جوڑ ہیں جو لحظہ بہ لحظہ بدلتے رہتے ہیں، کبھی
حالات جنگ کے سے ہوتے ہیں اور کبھی صلح کے سے۔ اس گردوپیش اور اس ماحول میں جو بچہ
جنم لیتا ہے وہ زیادہ پختہ ہوتا ہے۔ اس کی معلومات زیادہ وسیع ہوتی ہیں۔ اور اس کے
بعض مشاعر، تصورات اور افکار دسویں صدی یا بارہویں صدی کے ایک بالغ مرد سے زیادہ
پختہ ہوتے ہیں۔ مگر یہ بات مضحکہ خیز حد تک غلط ہے اگر ہم یہ تصور کریں کہ آج کا
بچہ اس وقت کے مرد سے اپنے مجموعی نفس کے لحاظ سے زیادہ پختہ ہے۔ کیونکہ یہ بہرحال
بچہ ہے، جس کے ادراکات ابھی نشوونما پا رہے ہیں۔ وہ زندگی کو ایک بچے کی نفسیات
اور بچگانہ مقاصد اور تصورات کے ساتھ برت رہا ہے۔ اور اس وقت کا مرد بہرحال بالغ
اور تجربہ کار تھا اور جہاں تک اس کا نفس پختگی حاصل کر سکتا تھا، اس حد تک اس کا
نفس بطورِ مجموعہ پختگی حاصل کئے ہوئے تھا۔ اس مثال سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ
فی الحقیقت علمی ترقی نفس کے بعض پہلوؤں کو پختگی دیتی ہے مگر صرف علمی ترقی نفس
کو مکمل طور پر پختگی نہیں دے سکتی، کیونکہ جن پہلوؤں کو پختگی ملتی ہے، وہ اس قدر
وسیع نہیں ہوتے کہ پورا نفس اس کے زیرِ اثر آجائے؟ بیسویں صدی کی چکاچوند کر دینے
والی علمی ترقیات نے لوگوں کو اس خیالِ خام میں مبتلا کر دیا ہے۔ اور لوگ یہ خیال
کرنے لگے کہ یہ صدی گزشتہ تمام تاریخی ادوار سے بہتر اور زیادہ علمی ترقیات کی
حامل ہے اور آج کائنات کی قوتوں پر انسان کی گرفت زیادہ مضبوط ہوگئی ہے۔ آج کے
انسان کو اسی خام خیال نے اپنے نفسیاتی اور اخلاقی عیوب کی جانب سے لاپروا کر دیا
ہے! انسان نے اس سائنسی ترقی کے دور میں جب کہ اس نے ایٹم کو چاک
کیا، راکٹ فضا میں بلند کر دیئے، اور ستاروں پر کمندیں ڈال دیں، اس کے باوجود
انسان زندگی کے بعض پہلوؤں میں بچوں کی نفسیات اور بعض دوسرے پہلوؤں میں قریب
البلوغ جوانوں کی نفسیات رکھتا ہے۔ بلکہ بعض پہلوؤں میں تو اس کی نفسیات حیوانات
سے ملتی ہے اور حیوان والی ضبط کی جبلی قوتوں سے محروم ہے۔ یہ سائنسی ترقی بغیر
اخلاقی اور نفسیاتی رہنمائی کے نفس کے فساد کو دور نہیں کر سکتی، بلکہ نفس میں
غرور پیدا کر کے فساد میں مزید اضافہ کر دیتی ہے کہ نفس ہر غلط اقدام کو بھی صحیح
تصور کرتا ہے۔ >
قُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُم بِالْأَخْسَرِينَ أَعْمَالًا الَّذِينَ
ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ
يُحْسِنُونَ صُنْعًا (آپ ان سے کہئے: کیا ہم تم کو ایسے لوگ بتائیں جو اعمال کے
اعتبار سے بالکل خسارے میں ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی دنیا میں کی کرائی محنت سب
گئی گزری ہوئی اور وہ اسی خیال میں ہیں کہ وہ اچھا کام کر رہے ہیں۔) (القرآن،
الکہف: ۱۰۳-۱۰۴) یہ ساری سائنسی ترقیات: برقی سرد خانے، کپڑے دھونے کی برقی مشین،
مشینی انسان اور الیکٹرونی دماغ۔ ایک بٹن پر انگلی رکھ دیجئے تو نہایت پیچیدہ کل
پرزے والا دیو ہیکل مشینوں والا پورا کارخانہ چل پڑے! یا بٹن دبا دینے سے تیار شدہ
کھانا سامنے آ جائے۔ جیسے پرانی کہانیوں کا جن لایا کرتا تھا۔ یا بٹن دبا کر آپ پر
کیف موسیقی سننا شروع کر دیں۔ یا بٹن دبا کر اپنے کمرے کو ائیر کنڈیشن کر لیں۔ یہ
ساری سائنسی ترقی جو ایک لمحہ میں ساری دنیا کی سیر کرا دیتی ہے۔ آپ ایک لمحہ میں
دنیا بھر کی خبریں سنتے، حالات کا مشاہدہ کرتے اور ان میں شریک ہوتے ہیں۔ ریڈیو،
ٹیلی ویژن اور ٹیلیفون آپ کا رابطہ پوری دنیا سے قائم رکھتے ہیں۔ گویا دنیا کی سمت
دریچے کھلے ہوتے ہیں، جن میں جھانک کر آپ دنیا کے بارے میں اس قدر معلومات حاصل کر
سکتے ہیں جو آپ کو عمر بھر کے سفر سے حاصل نہیں ہو سکتیں۔ اور یہ سب کچھ گھر بیٹھے
ہو جاتا ہے، جیسے قدیم جادوئی کہانیوں کا جن پوری دنیا کو ہتھیلی پر رکھ کر خواب
گاہ میں لے آتا تھا۔ سائنسی ترقی جس نے کائنات کے آفاق تک رسائی کر لی۔ لاکھوں
ستارے اور کواکب دیکھے۔ ان کی حرارت کی پیمائش کی۔ ان کے فاصلوں کو ناپا۔ اور
انسان ان ستاروں تک پہنچنے کی جدوجہد کرنے لگا۔ اس ساری سائنسی ترقیات نے بیسویں صدی
کے انسان کی نفسیات کو کیا دیا؟ (اس وقت ہم اخلاق کے بارے میں گفتگو نہیں کر رہے
ہیں)۔ انسانی
شرافت کو بٹہ لگانے والی سطحیت! جس سطحیت کی بناء پر انسان اس قابل نہیں رہا کہ
کسی بھی معرفت، یا شعور یا فکر میں گہرائی حاصل کرسکے۔ بلکہ انسان تمام معاملات
میں سطحی طور سے گزرتا ہے۔ معاملات
پر حکم لگانے میں جزئیت پسندی اور کسی بھی مسئلہ پر مکمل نظر نہ ڈالنا۔ بلکہ تمام
جزئیات کو علیحدہ علیحدہ اور مستقل طور پر دیکھنا۔ بغیر یہ غور کئے ہوئے کہ کائنات
اور واقعات کے لحاظ سے اس مسئلہ کی کیا حقیقت ہے۔ مشینی انداز، جس نے لوگوں کے مشاعر، افکار اور اعمال کو بھی
مشینی بنا دیا کہ ایک بٹن دبانے سے اعمال صادر ہونے لگیں۔ دوسرا بٹن دبایئے تو
افکار ابھر آئیں۔ اور تیسرا بٹن دبایئے تو مشاعر کا احساس ہو جائے۔ ایسے مشاعر جو
جانوروں سے زیادہ قریب ہیں۔ بلکہ بسا اوقات ان جانوروں سے بھی گئے گزرے۔ کیونکہ
جانوروں کے مشاعر تو اپنی مستقیم اور مضبوط فطرت کے تابع ہیں۔ گہری مادیت، جس نے
روح کو کچل کر اور اس کے پر نوچ کر مٹی میں ڈال دیا۔ اور اب اس میں تابِ پرواز ہی
باقی نہیں رہی۔ مریضانہ
واقعیت، جو انسان کو مجبور کرتی ہے کہ اس لمحہ کے بارے میں سوچے جس میں وہ اس وقت
زندہ ہے، اور کمال کے ہر تصور اور خیال اور اس کے حصول کی ہر کوشش سے گریز کرے۔ حسیت، جس نے مشاعر
کو خالص جسمانی لذت میں بدل دیا اور اب یہ مشاعر انسانی میلانات کی پکار پر لبیک
نہیں کہتے۔ یہ ہے بیسویں صدی میں نفسیاتی "ترقی" کا ماحصل! (یاد رہے کہ
ہم اخلاق کے بارے میں گفتگو نہیں کر رہے ہیں!)۔ یہ اس مشین کا ماحصل ہے جس نے
انسان کو بھی ایک ایسی مشین بنا دیا ہے جو صرف محسوس و قریب کے دائرے میں سرگرمِ
عمل ہوتی ہے۔ یہ ایسا نفسیاتی اختلال ہے جس کی کوئی دوسری مثال تاریخ میں نہیں
ملتی!
تاریخ کی مادی تعبیر اس حقیقت کی مختلف تفسیریں اور عقلی
توجیہات کرتی ہے۔ ان میں سے کچھ توجیہات فخریہ طور پر سامنے لاتی جاتی ہیں، اور
کچھ کو ذرا جھجکتے ہوئے۔ بیسویں صدی میں انسان کی شکل جس طرح مسخ ہوتی ہے، اس سے
خود مادی تعبیر بھی پریشان ہے! یہاں پر مادیت کی پیش کردہ تعبیرات اور توجیہات پر
تنقید مقصود نہیں ہے، بلکہ صرف اس حقیقت کو نمایاں کرنا مقصود ہے کہ سائنسی ترقی
کا انسان کی نفسیاتی وضع سے کوئی قطعی تعلق نہیں ہے۔ سائنس ترقی کرتی رہے، اور اس
کا ہر لمحہ ایک نئی ترقی کا ضامن ہو۔ مگر نفس بہر کیف اپنی روش پر قائم رہے گا۔ اگر
نفس کو صحیح رہنمائی مل گئی تو ٹھیک ہے، ورنہ ساری سائنسی ترقی اور ذرائع پیداوار
کا تمام ارتقاء بھی مل کر نفس کے فساد کو دور نہیں کر سکتا، بلکہ اس میں کچھ مزید
اضافہ ہی ہوگا، جیسا کہ آج بیسویں صدی میں صورتِ حال ہے۔ #### نفسیاتی
ارتقاء کا حقیقی عمل اب ہم نفسیاتی ارتقاء کو زیرِ بحث لاتے ہیں۔
نفسیاتی ارتقاء کیا ہے؟ وہ کون سے عوامل ہیں جو اس ارتقاء پر اثر انداز ہوتے ہیں؟
اور انسانی فطرت پر یہ ارتقاء کیا اثرات مرتب کرتا ہے؟ حیاتِ انسانی کے ہر جزء کی
طرح نفسِ انسانی بھی فطری طور پر نمو حاصل کرتا ہے اور پختگی، تکمیل، پیچیدگی اور
شمول اختیار کرتا جاتا ہے۔ نشوونما کے دوران نفس اعتدال اور انحراف کی دونوں
حالتوں سے گزرتا ہے۔ کیونکہ دونوں حالتیں انسانی طبیعت میں فطری ہیں۔ انسانیت اپنے
ابتدائی ایام میں سادگی سے زیادہ قریب تھی۔ اس کی تعبیر سادہ اور براہِ راست تھی۔
اس کی ضبط کی قوتیں کمزور تھیں۔ ان قوتوں میں معنویت سے زیادہ حسیت اور شمول سے
زیادہ جزئیت تھی۔ یہ قوتیں زندگی کے برتنے اور امورِ زندگانی کی تعبیر دونوں میں
جزئی تھیں۔ مگر اس کے ساتھ ابتدائے انسانیت میں انسانیت وسیع الخیال تھی۔ اس کا
خیال ہر پابندی سے آزاد اور ہر شے کے تخیل پر قادر تھا۔ اور ہر شے کی بآسانی تصدیق
کر لیتا تھا۔ پھر انسانیت نے پختگی کی جانب قدم بڑھایا۔ کیونکہ نمو اس کی فطرت میں
شامل ہے اور کسی مزید عقلی توجیہ کی ضرورت نہیں ہے۔ مگر نفس کے نمو کے لئے غذا
ضروری ہے، ورنہ وہ کملا کر ختم ہو جائے۔ جس خالق نے نفس کو پیدا کیا، اور اس کی
فطرت میں نمو کی صلاحیت رکھی، اسی خالق نے نفس کی غذا بھی تخلیق فرما دی۔ جیسے بیج
کے لئے مٹی، پانی، ہوا اور سورج کی روشنی تخلیق کی۔ اور انسان کے لئے ساری غذا سہل
الحصول بنا دی۔ نفسانی نمو کی غذا "تجربہ" ہے۔ اور انسان کی فطرت میں یہ
بات موجود ہے کہ وہ تجربہ کرے اور اس سے فائدہ اٹھائے۔ دنیا (نفس اور روح سے لے کر
مادی اور معنوی کائنات تک) ساری زندگی انسان کی تجربہ گاہ ہے۔ جب بھی عقلِ انسانی
مادی کائنات کو برتتی ہے، اسے کوئی نہ کوئی تجربہ حاصل ہو جاتا ہے۔ چنانچہ انسان
نے آگ دریافت کی، مادہ کے خواص دریافت کئے، اور معادن، نباتات اور حیوانات سے
تعامل کا طریقہ سیکھا۔ مگر جب نفسِ انسانی کائناتِ مادی کو برتتا ہے تو ایک دوسری
نوعیت کا تجربہ حاصل ہوتا ہے۔ اسے معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ کن امور سے عاجز ہے اور
کن امور پر اسے قدرت حاصل ہے۔ اس عجز اور قدرت سے اس کے مشاعر، عقائد، اور افکار
بنتے ہیں۔ پھر انسان عبادت کرتا ہے اور عقائد اختیار کرتا ہے۔ اور کبھی کبھی سرکش
و مغرور بن جاتا ہے۔ اور اس بات کی کوشش کرتا ہے کہ اپنے عجز پر غلبہ پائے اور
مزید قدرت حاصل کرے۔ اس کوشش کے نتیجہ میں اس کے نفس، عقل اور جسم کی نہاں طاقتیں
ابھر آتی ہیں۔ پھر انسان لوگوں کے ساتھ برتاؤ کرتا ہے، تو اسے ایک تیسرا تجربہ
حاصل ہوتا ہے، بلکہ متعدد تجربات ہوتے ہیں۔ اسے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کچھ اسباب کی
بناء پر لوگوں سے محبت کرتا ہے اور کچھ لوگوں سے نفرت کرتا ہے۔ کبھی وہ دوسروں پر
ظلم کرتا ہے، تو یا تو مظلوم ظلم کو برداشت کر لیتا ہے، یا اس کا مقابلہ کرتا ہے۔
کبھی کوئی دوسرا اس پر ظلم کرتا ہے، تو یہ خود یا تو ظلم کو انگیز کرتا ہے، یا اس
کا مقابلہ کرتا ہے۔ کچھ لوگوں کی اسے ضرورت ہوتی ہے، اور کچھ سے وہ مستغنی ہوتا
ہے۔ جھگڑتا ہے اور دوستی کرتا ہے۔ جنگ و صلح کرتا ہے۔ تعاون کرتا ہے اور علیحدگی
اختیار کرتا ہے۔ ان تمام امور سے نظام ہائے زندگی، قوانین اور تعلقات بنتے ہیں۔
غرض جب بھی انسان کوئی قدم اٹھاتا ہے، ایک نئے تجربہ سے دوچار ہوتا ہے، اور ان
تجربات سے نشوونما اور وسعت حاصل کرتا ہے، اور اس کا قوام مضبوط ہو جاتا ہے۔ رفتہ
رفتہ سادگی سے پیچیدگی کی جانب آتا رہتا ہے۔ وہ سادہ اور براہِ راست تعبیر کی
بجائے پختہ اور گہری تعبیر اختیار کر لیتا ہے۔ اس کے نفس کے عضلات اور ان کے ضبط
کی قوتیں طاقتور ہو جاتی ہیں۔ خیال واقع کے ساتھ مل کر عقلیت سے زیادہ قریب ہو جاتا
ہے۔ مستقیم
(NORMAL) نشوونما کے عمل میں یہ تمام امور بیک وقت
تکمیل پاتے ہیں۔ تجربات بڑھتے اور آلات و اوزار اور ذرائع پیداوار بہتر ہو جاتے
ہیں۔ اجتماعی، سیاسی اور معاشی حالت ترقی پا جاتی ہے۔ اور نفس اپنی مجموعی حالت
میں پختہ ہوتا اور گہرائی پاتا ہے۔ مگر ضروری نہیں کہ تمام امور ہر حالت میں
مستقیم
(NORMAL) رہیں۔ چنانچہ کبھی کبھی نفس یا زندگی کا ایک
پہلو نمو پا جاتا ہے اور باقی پہلو کمزور رہ جاتے ہیں۔ اور فطری اور سلیم طریقہ پر
تمام پہلو نمو نہیں حاصل کر پاتے۔ اکثر مادی پیداوار یا نفسیاتی تجربہ یا فکری
تجربہ بڑھ جاتا ہے، اور تمام تجربات بالعموم اور غیر مستقیم (ABNORMAL) رہ
جاتے ہیں۔ تاریخ میں ایسی کئی مثالیں نظر آتی ہیں:
یونانی: اپنے دور میں فلسفہ اور نظریاتی علوم
کے ذریعے فکری ترقی میں انتہائی عروج پر پہنچ گئے تھے۔ مگر اس کے باوجود ان کی
زندگی میں بہت سے اختلال تھے۔ سب سے بڑھ کر روحانی پہلو خلل آشنا تھا۔ کیونکہ فکری
برتری اور عظمت نے روحانی عمل کو معطل کر دیا تھا۔ ہندو: انہوں نے اپنے دور میں تصوف و عبادت کی نورانیت اور سارے
وجود کو شامل روحِ کلی میں اپنے آپ کو فنا کر کے عظیم تر روحانی ترقی حاصل کر لی
تھی۔ مگر ان کی زندگی میں بھی بہت سے خلل تھے۔ سب سے نمایاں خلل یہ تھا کہ ان کے
مزاج میں سلبیت نے جنم لے لیا تھا، اور وہ مادی پیداوار سے قطعاً لاپروا ہو گئے
تھے کیونکہ بڑھتے ہوئے روحانیت کے رجحان نے زندگی کی ایجابیت کو پژمردہ کر دیا
تھا۔ رومی:
انہوں نے اپنے دور میں مادی ترقی حاصل کی۔ انہوں نے مدنیت (Civics) کو
عملی طور پر اپنایا۔ راستے اور پل بنائے، حمام بنائے، بند باندھے، کھیتوں کو سیراب
کرنے کے لئے انتظام کئے۔ حکومت، صلح و جنگ کی سیاست کے لئے تنظیمیں بنائیں۔ اس کے
باوجود ان کی زندگی میں بہت سے اختلال تھے۔ سب سے نمایاں خلل روحانی اور اخلاقی
خلل تھا۔ وہ حسی لذات اور متاعِ زندگی میں کچھ اس طرح الجھ کر رہ گئے تھے جیسے
خونخوار جانور اپنی خون آشامیوں میں مصروف ہوں یا بغیر روح کے اجسام تھرک رہے ہوں۔
مصری: انہوں نے اپنے
دور میں مادی اور روحانی دونوں ترقیات حاصل کیں۔ اس زمانے کی اقوام کی بہ نسبت ان
کی عبادات اور عقائد بہت ترقی یافتہ تھے۔ ان کے پاس آسمانی مذاہب سے بھی کچھ باقی
ماندہ اصول موجود تھے، اگرچہ ان میں کافی کچھ تحریف ہو چکی تھی۔ ان کی انجینئری،
تنظیمیں اور مادی پیداوار بھی ترقی پذیر تھی۔ اس کے باوجود ان کی زندگی میں کئی
ایک اختلال تھے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ انہوں نے فرعون کو خدا بنا کر اس کی پرستش
شروع کر دی تھی، اور اس کے ظلم و ستم کو انگیز کرنا ان کی عادت بن چکا تھا (یہ عیب
ان کی پوری تاریخ پر چھایا ہوا ہے)۔ وہ موت اور دوسری دنیا کے بارے میں بہت سوچ
بچار کرتے، اور دنیاوی معاملات میں کمتر حدود پر اکتفا کر لیتے تھے، جس سے ان کا
معیارِ زندگی بلند نہ ہو پاتا تھا۔ اس لئے نہیں کہ وہ مدنیت اور ترقی سے عاجز تھے
(کیونکہ ان کی وہ صنعتیں جو فرعون کے حکم پر انجام دی جاتیں خاصی بلند تھیں)، بلکہ
اس قناعت کی بناء پر جو ان کے مزاج کا حصہ بن گئی تھی، اور جس کی بدولت وہ ایک
روٹی کے ٹکڑے اور ایک چٹائی پر قناعت کر لیتے تھے۔ ان تمام صورتوں میں زندگی کے
تمام پہلوؤں کو ایک ساتھ ترقی نہیں ملی، جیسی کہ ملنی چاہیئے۔ یہ سب وہ حالات تھے
جب انسانیت اپنے دورِ طفولیت سے گذر رہی تھی۔ #### اسلام
اور انسانیت کا رشد جب یہ دور ختم ہوا اور اسلام آیا تو انسانیت
عقل و رشد کے دور میں داخل ہو گئی۔ (اللہ بہتر جانتا ہے کہ انسانیت اسلام کی دعوت
اور اس دعوت کو قبول کر کے کس وقت سنِ رشد کو پہنچی)۔ جب اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں
کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: > الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ
لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ
الْإِسْلَامَ دِينًا (آج کے دن تمہارے لئے تمہارے دین کو میں نے کامل کر دیا۔ میں
نے تم پر اپنا انعام تمام کر دیا۔ اور میں نے اسلام کو تمہارا دین بننے کے لئے
پسند کر لیا۔) (القرآن، المائدہ: ۳)
اس دن انسانیت کا رشد مکمل ہو گیا۔ اور انسانیت نے روئے زمین پر
خلافتِ راشدہ قائم کر دی۔ یہ رشد کیوں کر حاصل ہوا؟ اس کے مظاهر اور امتیازی
علامات کیا ہیں؟ عقلی
رشد: تو اسلام کی طبیعت ہی سے نمایاں ہے۔ اسلام عقل کو مخاطب کرتا ہے اور اسے کسی
معجزات سے تسلیم کرنے پر مجبور نہیں کرتا۔ اسلام عقل کو ہدایت دیتا اور اس کے
سامنے راہیں روشن کرتا ہے، تاکہ عقلِ انسانی بذاتِ خود معلوم کرے کہ زمین اور
آسمان "حق" سے پیدا کئے گئے ہیں، اور انسانی زندگی اور اس دنیا و آخرت
کے تمام اعمال کون سے "حق" پر قائم ہیں۔ اسلام نے عقل کو اس کے تمام
میدانوں میں آزادی دی ہے کہ وہ کائنات میں بکھری ہوئی اللہ کی نشانیوں پر غور کرے۔
قوانینِ طبیعت کا پتہ چلائے، نوامیسِ فطرت معلوم کرے۔ تلاشِ رزق کے لئے دنیا میں
سفر کرے۔ اور کائناتِ مادی کو برت کر اس سے قوانین اخذ کرے۔ تاریخ کا مطالعہ کر کے
اسبابِ عروج و زوالِ امم تلاش کرے۔ اور اس مطالعہ سے اپنے حال اور مستقبل میں
فائدہ اٹھائے۔ اور قانون سازی کی حکمتوں کا مطالعہ کر کے ہدایت اور بصیرت کے ساتھ
سیاسی، معاشی اور اجتماعی تنظیمات قائم کرے۔ روحانی رشد: اسلام نے روحانی رشد عطا کیا تاکہ انسان اللہ کی
ہدایت حاصل کرے۔ اس سے اپنا رشتہ استوار کرے۔ اس سے مدد حاصل کرے۔ اور اس کی صحیح
معنوں میں عبادت کرے۔ اللہ کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرے۔ اور اس کی عبادت کے
سوا ہر گمراہ عبادت کو چھوڑ دے: نہ ایک انسان دوسرے انسان کی عبادت کرے، نہ کوئی
انسان کسی بت کی پرستش کرے، نہ کائناتی قوتوں کی پوجا کرے، اور نہ ہی انسان اپنی
خواہشات اور ہوائے نفس کا بندہ بنا رہے۔ حسی رشد: اسلام نے حسی رشد عطا کیا کہ لوگ مادی اور تہذیبی
وسائل کی جستجو کر کے انہیں بروئے کار لائیں اور اس میں مفید اضافے کریں۔ چنانچہ
اسلامی تہذیب کی تاریخ میں اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ اسلام کا نمو ایک راشد،
پختہ اور محکم نمو تھا جس کے تمام پہلوؤں نے ساتھ ساتھ نہایت متوازن، بھرپور اور
ہمہ گیر نشوونما حاصل کیا۔ اسلام کا تربیت یافتہ انسان انسانیت کا عروج ہے۔ امتِ
راشدہ نے زندگی کے تمام پہلوؤں اور انسانی عمل کے ہر گوشہ میں بلند مثالیں (IDEALS) قائم کی ہیں: مسلمانوں نے نہایت تیزی سے عظیم الشان فتوحات حاصل کیں، جن کی
تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ انتہائی
ثبات، قوت اور پورے زور کے ساتھ اس وقت کی ساری دنیا کو عقیدہ کی روشنی سے منور کر
دیا۔ اسلام
نے شخصیات کے روپ میں ایسی مثالیں چھوڑیں جن سے رہتی دنیا تک انسانیت استفادہ کرتی
رہے گی۔ مثلاً خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، آپ کی تیار کردہ صحابہ کی
جماعت: ابوبکرؓ، عمرؓ، عثمانؓ، علیؓ، ابو عبیدہؓ، خالد بن ولیدؓ، سلمان فارسیؓ،
صہیب رومیؓ، بلالؓ، عمار بن یاسرؓ، اسماءؓ، عائشہ صدیقہؓ، فاطمہ زہراؓ، ام سلمہؓ،
سمیہؓ اور اسی طرح وہ سینکڑوں اور ہزاروں انسان جو ہر طرح کے انقلابات کے باوجود
آج تک تعمیر ہوتے چلے آرہے ہیں۔ اسلام نے جس قدر وسائل مہیا ہوئے ان سب سے کام لے کر عظیم الشان
تہذیب قائم کی۔ تجربی
اسکول کی بنیاد رکھی جو آج تمام علومِ جدیدہ کی بنیاد ہے، اور جس کے سہارے سائنس
نے دورِ جدید میں اس قدر ترقیات کی ہیں۔ غرض اسلام نے زندگی کے ہر پہلو میں
راہنمائی کی ہے۔ یہ انسانیت کا عروج تھا۔ > كُنتُمْ
خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ
عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ (تم لوگ اچھی جماعت ہو کہ وہ جماعت لوگوں
کے (نفع کے) لئے ظاہر کی گئی ہے۔ تم لوگ نیک کاموں کو بتلاتے ہو اور بری باتوں سے
روکتے ہو، اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔) (القرآن، آل عمران: ۱۱۰) مگر انسانیت نے اپنے اس عروج کی حفاظت نہیں
کی۔ سائنس نے ترقی کی، نفسیاتی تجربات بھی مختلف میدانوں میں آگے بڑھ گئے، مگر
اختلال بھی رونما ہو گئے۔ انسانیت کبھی روح کی جانب زیادہ مائل ہوتی ہے، کبھی عقل
کی طرف جھکتی ہے، اور کبھی جسم کی طرف۔ مادی تہذیب کو اہمیت دیتی ہے اور روحانی
تہذیب کو نظر انداز کر دیتی ہے۔ سائنسی ترقی پر توجہ دے رہی ہے، اور اخلاقی
رہنمائی کو چھوڑ دیا۔ حیاتِ دنیا کا اہتمام ہے، آخرت کی کوئی پروا نہیں۔ غرض
انسانیت توازن اور اعتدال کھو بیٹھی ہے۔ اس کے تجربات میں یکسانیت اور ہم آہنگی
باقی نہیں رہی ہے۔ اس کا نفس مجموعی طور پر تنزل پذیر ہے، اور اسی تنزل پذیر نفس
سے بیسویں صدی کی تہذیب نے جنم لیا ہے! #### نفسیاتی ارتقاء اور
فطرت کا تعلق بحث کے اس نقطہ پر پہنچنے کے بعد ہم اپنے
زاویہ نظر یعنی فطرت کی رہنمائی کا اعادہ کرتے ہیں، کیونکہ اسی زاویہ نظر سے ہمیں
تمام موضوع زیرِ بحث لانا ہے۔ ہم پہلے بتا چکے ہیں کہ علمی ترقی فطرت کا جزء ہے،
اور اس سے فطرت کا ایک پہلو وجود میں آتا ہے۔ ہم نے یہ بھی بتایا تھا کہ علمی
ارتقاء اور معاشی، اجتماعی اور سیاسی ارتقاء کسی بھی مرحلہ پر فطری حدود سے باہر
نہیں نکلتے۔ یہاں ہم نفسیاتی ارتقاء کے بارے میں بھی یہی بتانا چاہتے ہیں کہ اس
ارتقاء کا سارا عمل فطرت کے دائرے میں رہتا ہے۔ مگر یہاں واضح طور پر فطرت کے دو
مقابل رخ ہیں: اعتدال اور انحراف۔ علمی ترقی کی طرح نفسیاتی ارتقاء ہمیشہ بلندی کی
جانب نہیں جاتا۔ اس کی بالکل فطری وجہ ہے! علمی ترقی ہمیشہ آگے کی جانب بڑھتی رہی
ہے، کبھی پیچھے نہیں ہٹتی۔ اس لئے کہ یہ بات انسان کی فطرت میں شامل ہے کہ زیادہ
سے زیادہ معرفت حاصل کرے اور جو چیزیں اس کے پاس ہیں انھیں بہتر بناتا رہے۔ یہ
"خوب سے خوب تر" کا جذبہ انسان میں فطری ہے، جس کی بناء پر انسان جذبہ
معرفت، جمال اور کمال کی تکمیل میں لگا رہتا ہے۔ انسان اپنی راحت، قوت و قدرت اور
خود نمائی کے جذبہ کو بھی تسکین پہنچاتا ہے۔ ہر عملِ تحسین کسی نہ کسی پہلو سے
انسان کی راحت کا سبب بنتا ہے۔ (ایجاد کا ایک بڑا محرک زندگی کی سہولت کا حصول
ہے)۔ جس طرح ہر عملِ تحسین انسان میں یہ شعور پیدا کرتا ہے کہ وہ ایک نئے عمل پر
قادر ہو گیا، جس سے وہ اپنی ذات کا اثبات اور اپنے وجود کو نمایاں کرتا ہے۔ غرض
فطرت انسان کو علمی ترقی پر مجبور کرتی ہے۔ اس لئے تاریخ میں ہمیشہ پیش قدمی کرتا
رہا۔ علمی ترقی کا اس کے سوا اور کوئی خارجی سبب نہیں ہے، جیسا کہ تاریخ کی مادی
تعبیر دعویٰ کرتی ہے۔ تاریخ کی مادی تعبیر کہتی ہے کہ انسان کی تاریخ دو روٹی کی
تلاش کی تاریخ ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ انسان اپنے شامل اور مکمل وجود کے ساتھ
تاریخ کے تمام ادوار میں اپنے مکمل انسانی وجود کے اثبات کے لئے کوشاں رہا ہے۔
انسان کی تاریخ کسی ایک علیحدہ اور منفصل پہلو کی تکمیل کے لئے نہیں ہے۔ اجتماعی،
اقتصادی اور سیاسی ارتقاء ایک ہی پہلو میں آگے بڑھتا ہے، یعنی پیچیدگی، پیوستگی،
مضبوط روابط اور ان کا ایک دوسرے میں اختلاط۔ مگر کیفیت کے لحاظ سے یہ ارتقاء آگے
نہیں بڑھتا بلکہ کشمکش انفرادیت اور اجتماعیت کے درمیان حرکت کرتا ہے۔ اس کی سب سے
واضح مثال بیسویں صدی کی سرمایہ داری اور اشتراکیت ہے۔ اس ارتقاء کا مرجع بھی فطرت
ہی ہے، اور فطرت میں اعتدال بھی ہے اور انحراف بھی۔ اس میں ایسی لچک بھی ہے جو
مختلف اشکال اور متعدد قسم کے دباؤ قبول کر سکے، مگر جب حالات اور ماحول اس کے
مناسب نہ ہوں تو فطرت اس کے خلاف بغاوت بھی کرتی ہے۔ فطرت کی ہر بغاوت ایک حالت سے
دوسری حالت کی جانب ایک انتقال ہوتی ہے۔ اس کے بعد فطرت اپنے راستے پر گامزن رہتی
ہے، حتیٰ کہ اس پر انحرافات کا غلبہ ہو جاتا ہے، اور وہ پھر کسی نئے انقلاب کی
گھات میں بیٹھ جاتی ہے۔ یہ انسانی زندگی کی اجتماعی، معاشی اور سیاسی تعبیر ہے۔
ذرائع پیداوار کا ارتقاء اس کی تعبیر نہیں ہے، جیسا کہ تاریخ کی مادی تعبیر کہتی
ہے۔ نفسیاتی ارتقاء کبھی بھی ایک خطِ مستقیم پر آگے نہیں بڑھتا! صرف ایک مرحلہ
ایسا آتا ہے جس میں ارتقاء واضح تھا یعنی انسانیت کے رشد تک پہنچنے سے پہلے کا
مرحلہ۔ اس دور میں نشوونما بڑا واضح تھا، اور نفس پختگی، تکمیل اور شمول کی جانب
تیزی سے بڑھ رہا تھا۔ مگر پھر بھی یہ خط تمام مراحل میں آگے کی جانب نہیں بڑھا۔
کیونکہ تاریخ میں تہذیبیں قائم ہوئیں اور انھیں زوال آیا، اور زوال پیچھے کی طرف
ہٹنا ہے۔ گویا نفسیاتی ارتقاء آگے بھی بڑھا اور پیچھے بھی ہٹا۔ اس لئے خطِ مستقیم
نہیں رہا۔ ظہورِ اسلام کے موقع پر انسانیت نے رشد حاصل کیا، اور اس قدر بلندی پر
پہنچ گئی کہ اپنی تاریخ میں کبھی نہ پہنچی تھی۔ مگر انسانیت اس بلندی پر زیادہ دیر
قائم نہ رہ سکی، بلکہ رفتہ رفتہ پستی کی طرف آتی گئی۔ اسلام کے بعد بھی انسانیت کے
نفس کے بعض اجزاء کو نمو حاصل ہوا۔ ان پہلوؤں میں جن میں علمی تربیت اثر انداز
تھی، اور اجتماعی، سیاسی اور معاشی نظام میں مزید پیچیدگی آتی گئی۔ (ترقی نہیں)،
مگر اس عروج کے بعد انسانیت نے اپنے مجموعی نفس سے کبھی اس قدر ترقی نہیں کی۔
بیسویں صدی کی تہذیب میں مسلسل نفسیاتی زوال ہم پہلے ہی بیان کر چکے ہیں۔ تمام
امور کی طرح یہاں بھی مرجعِ آخر فطرت ہی ہے۔ فطرتِ انسانی میں ارتفاع کے ساتھ تنزل
کی بھی صلاحیت موجود ہے۔ ارتفاع، انحطاط، اعتدال اور میلان کی دونوں صلاحیتیں فطری
اور اصلی ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی صلاحیت نہ نفس کے باہر سے لی گئی ہے اور نہ نفس
پر خارج سے مسلط کی گئی ہے۔ > وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاهَا فَأَلْهَمَهَا
فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا قَدْ أَفْلَحَ مَن زَكَّاهَا وَقَدْ خَابَ مَن دَسَّاهَا
(اور قسم ہے انسان کی جان کی اور اس ذات کی جس نے اس کو درست بنایا، پھر اس کی
بدکاری اور پرہیزگاری دونوں باتوں کا اسے القاء کیا۔ یقیناً وہ مراد کو پہنچا جس
نے اسے (گناہوں سے) پاک کر لیا، اور نامراد ہوا جس نے اس کو فجور میں دبا دیا۔)
(القرآن، الشمس: ۷-۱۰) > > لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ ثُمَّ
رَدَدْنَاهُ أَسْفَلَ سَافِلِينَ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا
الصَّالِحَاتِ (ہم نے انسان کو خوبصورت سانچے میں ڈھالا ہے۔ پھر ہم اس کو پستی کی
حالت والوں سے بھی پست تر کر دیتے ہیں۔ لیکن جو لوگ ایمان لائے اور اچھے کام کئے۔)
(القرآن، التین: ۴-۶) نفس اپنی دونوں حالتوں میں اللہ کی پیدا کردہ فطرت ہی کے دائرے
میں رہتا ہے۔ نفس کو ارتفاع یا تنزل کی جانب لے جانے کے لئے رہنمائی کی ضرورت ہوتی
ہے۔ ارتفاع کی جانب اسلام کی رہنمائی، بلند تر رہنمائی ہے۔ اور اسلامی نظام وہ
اعلیٰ اور اکمل نظام ہے جو اس رہنمائی کے ثمرات کو بروئے کار لایا، اور نفس انسانی
اپنی انتہائی بلندیوں تک پہنچ گیا۔ اور بیسویں صدی کی رہنمائی اسلامی رہنمائی کے
بالمقابل کمتر درجہ کی ہے، اور مغربی نظام اس رہنمائی کو مکمل کر کے اسے عالمِ
واقع میں محقق کر دیا، اور نفسِ انسانی تنزل کے انتہائی ادنیٰ درجہ پر پہنچ گیا۔
بیسویں صدی میں انسانی نفس جس تنزل کو پہنچا ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے: انسانی شرافت
کو بٹہ لگانے والی سطحیت تمام
امور میں انتہائی جزئیت پسندی انسانی عمل کا مشینی انداز روح کے دریچے بند کرنے والی مادیت ایک لمحہ زندگی کے اندر رہتے ہوئے مریضانہ واقعیت اور مشاعر کو جسمانی
لذت بنا دینے والی حسیت۔ مگر اب بھی اگر نفسِ انسانی کو بلندی و ارتقاء کی دعوت دی
جائے تو اس میں اب بھی صلاحیت موجود ہے۔ دونوں ہی حالتوں میں نفس فطرت کے دائرے
میں رہتا ہے۔ اور فطرت اپنے دو متقابل رخ - اعتدال اور انحراف - اور تغیرِ اشکال
کے باوجود غیر متغیر رہتی ہے!! ### ۴۔
اخلاقی تغیر اب ہم اخلاقی تغیر بیان کرنے والے ہیں۔ (ہم
اسے اخلاقی ارتقاء کہنے سے معذور ہیں)۔ نفسیاتی ارتقاء کو مدِ نظر رکھتے ہوئے،
انسانی تاریخ میں اخلاقی تغیر کی نشاندہی کرنا سہل ہے۔ کیونکہ انسان کی دوگانہ
فطرت اسی موقع پر آکر اپنے روشن معانی اور اپنے واضح مظاہر کے ساتھ رونما ہو جاتی
ہے۔ اگر علمی ترقی آگے ہی بڑھتی جاتی ہے اور پیچھے نہیں ہٹتی، اگر اجتماعی، سیاسی
اور معاشی ارتقاء میں پیچیدگی بڑھتی ہی جاتی ہے، اور اگر نفسیاتی ارتقاء میں
تبدیلیاں آتی رہتی ہیں، تو انسانی زندگی کے اخلاقی پہلو میں سب سے زیادہ تبدیلیاں
آتی ہیں۔ اور یہ تاریخ کے کسی بھی دور میں ایک معین خط پر قائم نہیں رہتا۔ اجتماعی
تاثر کے باوجود اخلاقی پہلو میں انفرادیت زیادہ نمایاں ہے۔ اور اس میں انفرادی تخصیص
ممکنہ حد تک واضح ہے۔ اگر علمی اور اجتماعی ارتقاء میں واضح طور پر اجتماعی حالات
اثر انداز ہوتے ہیں، اگر نفسیاتی ارتقاء انفرادیت اور اجتماعیت کا آمیزہ ہے، تو
اخلاق میں انفرادی پہلو نمایاں ہے۔ اگرچہ جس اجتماعی گردوپیش میں فرد رہ رہا ہوتا
ہے، وہ یا تو فرد کی مدد کرتا ہے یا افراد کی طبیعتوں کے لحاظ سے ان کے اخلاقی نمو
میں رکاوٹ بنتا ہے۔ اخلاق تاریخ کے کسی دور میں بھی خطِ مستقیم پر آگے نہیں بڑھا،
بلکہ ہمیشہ ترقی و تنزل کے دو نقطوں کے درمیان حرکت کرتا رہا ہے۔ جب کوئی نبی،
مصلح یا قائد انسانیت کو ترقی کی جانب دعوت دیتا ہے تو انسانیت کچھ وقت کے لئے
ترقی کرنے لگتی ہے، اور جب ترقی کی لہر اوپر تک اٹھتی ہے تو معاشرے کے بیکار لوگ
ذلیل و خوار ہو کر تہہ میں پڑے رہ جاتے ہیں۔ پھر جب لوگ مزید ترقی نہیں کر پاتے یا
ترقی کے حاصل شدہ معیار کو برقرار نہیں رکھ پاتے تو وہ پھر نیچے آنا شروع کر دیتے
ہیں۔ اور معاشرے کے بیکار لوگ، جب دباؤ میں کمی محسوس کرتے ہیں تو وہ تہہ سے
ابھرنا شروع کر دیتے ہیں اور حرکت میں آجاتے ہیں۔ اگرچہ ابتداءً ان کی حرکت محدود
ہوتی ہے اور بری نظر سے دیکھی جاتی ہے۔ پھر ترقی کی لہر کچھ اور نیچے آجاتی ہے،
اور تہہ میں جمے ہوئے لوگوں پر سے دباؤ کم ہو جاتا ہے تو اچانک معاشرے کی یہ تلچھٹ
ابھر آتی ہے اور قیادت سنبھال لیتی ہے۔ کچھ لوگ بڑی جدوجہد کے ساتھ اپنے آپ کو
بلند رکھتے ہیں۔ اور ترقی کی لہر پھر ایک دفعہ نیچے آتی ہے، اور آخر کار غائب ہو
جاتی ہے۔ اس کے بعد پھر فطرتِ نفس انسانی میں جمے ہوئے فساد سے نفرت کرنے لگتی ہے
اور اس فساد کو دور کرنے کی جدوجہد شروع کر دیتی ہے۔ کیونکہ یہ فساد اپنی آخری
حدود تک پہنچ چکا تھا۔ اور پھر کوئی نبی یا مصلح یا قائد آجاتا ہے، اور انسانیت
پھر ترقی کرنے لگتی ہے۔ یہ انسانیت کی تاریخ ہے۔ اگرچہ اجتماعی، معاشی اور سیاسی
ارتقاء مادی ارتقاء سے پیوست ہے، مگر ایک طرح سے مستقل بھی ہے، اور بغیر مادی
مداخلت کے اجتماعی ارتقاء ہو سکتا ہے، جیسا کہ زمانہ اسلام میں ہوا۔ اگر نفسیاتی
ارتقاء کا مادی ارتقاء سے ربط بہت ہی کم ہے اور اپنی جگہ پر مستقل ہے، تو اخلاقی تغیر
کے مادی ارتقاء سے ربط کے امکانات بہت ہی کم ہیں۔ تاریخ کی مادی تعبیر نے اخلاق کو
ذرائع پیداوار کے ارتقاء سے منسلک کرنے کے لئے جو طویل کہانی گھڑی ہے، تاریخ کی
گواہی اس کی تکذیب کر چکی ہے۔ تاریخ کی گواہی سے یہ معلوم ہو چکا ہے کہ ایک معاشرے
کی دو انتہائی مشابہ حالتوں میں دو ہزار سال کا فصل تھا اور یہ فرق تھا کہ پہلے
معاشرہ میں ہاتھوں سے کام لیا جاتا تھا اور موجودہ حالت میں صنعت، زراعت، طب ہے
اور لوگوں کی ہلاکت کے لئے ایٹم بم موجود ہے۔ اس لئے اخلاق اور ذرائع پیداوار کا
تعلق کمزور ترین تعلق ہے۔ اس کے باوجود بھی ہم یہ نہیں کہتے کہ انیسویں اور بیسویں
صدی کے اخلاقی تغیر کے بارے میں مادی تعبیر کی تمام تفسیریں واقعیت سے دور ہیں،
بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ تمام گمراہ کن تفسیریں ہیں کیونکہ یہ صرف خارجی مظہر کو
مدِ نظر رکھتی ہیں اور فطرت کو ترک کر دیتی ہیں۔ صنعتی انقلاب، ڈارونیت اور یہودی
رہنمائی کے زیرِ اثر جو اخلاقی تغیرات ہوتے ہیں، وہ جبری نہیں ہیں۔ اسی مقام سے
تاریخ کی مادی تعبیر اور انسان کی انسانی تعبیر کی راہیں مختلف ہو جاتی ہیں! دورِ
جدید میں یورپ کے داخلی حالات اخلاقی زوال کا سبب بنتے ہیں، نہ کہ طبیعتِ انسانی۔ ارتقاء
مسلمانوں کی زندگی کا ایک دائمی عنصر رہا ہے، مگر اس ارتقاء نے نہ مسلمانوں کے
اخلاق میں فساد پیدا کیا، اور نہ ان کے نفوس میں خلل پیدا ہوا۔ ان کے اخلاق میں
فساد اور ان کے نفوس میں خلل اس وقت پیدا ہوا تھا جب ان کی زندگی میں نمو اور تجدد
کے محرکات بدل گئے اور وہ جمود اختیار کرتے چلے گئے۔ صنعت کبھی مسلم معاشرے کا ایک
اہم جزو تھی، مگر صنعت نے نہ مسلمانوں کے اخلاق کو تباہ کیا اور نہ ان میں یہ جذبہ
ابھارا کہ وہ آخرت کے بالمقابل دنیا کو ترجیح دینے لگیں اور لذاتِ دنیا پر ٹوٹ
پڑیں۔ بلکہ مسلمان اس وقت تباہ ہوئے جب ان کی صنعتی دلچسپیاں کم ہوگئیں اور انھوں
نے کم فائدہ والی پیداوار میں اپنے آپ کو محصور کر لیا۔ آزادیِ نسواں نفسیاتی اور
انسانی لحاظ سے اسلامی عقیدہ کا ایک جزو ہے۔ اسلام نے دونوں صنفوں کو غیر اللہ کی
عبودیت سے یکلخت آزاد کر دیا ہے اور انسان کا براہِ راست اللہ سے تعلق قائم کر دیا
ہے۔ اور جب اللہ سے براہِ راست تعلق قائم ہو جاتا ہے تو انسان دنیا کی ہر طاقت کو
حقیر جانتا اور اس کے سامنے جھکنے سے انکار کر دیتا ہے، الا یہ کہ یہ طاقت اللہ کی
رہنمائی حاصل کر رہی ہو۔ نبی کریمﷺ کی بعثت کے ابتدائی مراحل ہی سے عورت کو
انسانی، معاشی اور اجتماعی حقوق دے دیئے گئے۔ اس کا براہِ راست اللہ سے تعلق قائم
ہو گیا۔ اسے ملکیت، تصرف، نکاح اور طلاق کے حقوق مل گئے۔ اور وہ اپنے حقوق کے لئے
جدوجہد کرنے لگی۔ > قَدْ سَمِعَ اللَّهُ قَوْلَ الَّتِي
تُجَادِلُكَ فِي زَوْجِهَا وَتَشْتَكِي إِلَى اللَّهِ وَاللَّهُ يَسْمَعَ
تَحَاوُرَكُمَا إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ بَصِيرٌ (بیشک اللہ تعالیٰ نے اس عورت کی
بات سن لی جو آپﷺ سے اپنے شوہر کے معاملہ میں جھگڑ رہی تھی اور اپنے رنج و غم کی
اللہ سے شکایت کرتی تھی۔ اور اللہ تعالیٰ تم دونوں کی گفتگو سن رہا تھا۔ اور اللہ
تعالیٰ سب کچھ سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔) (القرآن، المجادلہ: ۱) پھر
عورت کے ساتھ انصاف کرنے اور اسے زندگی میں انسانی حقوق دینے کے بارے میں وحی نازل
ہوئی۔ مگر اس ساری آزادیِ نسواں نے مسلمانوں میں کوئی فساد برپا نہیں کیا۔ بلکہ
مسلمانوں میں فساد اس وقت شروع ہوا جب انھوں نے عورت کے وجود کے خلاف بغاوت کی، اس
کی آزادی کو کچل کر اسے غیر اللہ کی غلامی پر مجبور کر دیا، اور اس طرح اس کے تنزل
اور انحطاط کا سبب بنے۔ وہ تمام اسباب اور عوامل جن کی جانب تاریخ کی مادی تعبیر
انیسویں اور بیسویں صدی کے اخلاقی تغیر کو منسوب کرتی ہے، یہ تمام اسباب کسی نہ
کسی شکل میں اسلامی معاشرے میں موجود تھے۔ مگر ان اسباب کی موجودگی کے باوجود
اسلامی معاشرے میں فساد رونما نہیں ہوا۔ بلکہ یہ اسباب بذاتِ خود اخلاقی عمارت کے
استوار رکھنے کا سبب بنے رہے۔ یہ ہدایت یافتہ، راشد اور مومن قوم تھی۔ یہ قوم
خبیث، فریبی یہودی کی باتیں نہیں سن رہی تھی۔ اس لئے مسلمان قوم ان عوامل کی
موجودگی میں مضبوط و طاقتور رہی، اور ترقی کرتی رہی۔ اگر صنعتی انقلاب (INDUSTRIAL
REVOLUTION) اس مومن مسلمان قوم میں رونما ہوتا، تو اس سے
مسلمانوں کے اخلاق اور مضبوط ہو جاتے اور ان کی گرفت اور بڑھ جاتی۔ نہ یہ کہ اخلاق
کے سارے بندھن ایک ایک کر کے کھل گئے، اور نوجوان بھوکے ہوئے جانوروں کی طرح جنسی
تسکین کے لئے سڑکوں پر نکل آتے۔ (بلکہ ان انسانوں سے تو حیوان ہی بہتر ہیں کہ وہ
اپنی محکم فطرت اور طاقتور جبلت سے سرِ مو انحراف نہیں کرتے!) ذرائع
پیداوار اور تاریخ کی جبریت نہیں، بلکہ یہ مغرب کی ملحدانہ، جاہلی تہذیب ہی اس
زوال اور انحطاط کا واحد سبب ہے! بہر کیف، تاریخ کی گواہی پیش کرنے کے بعد مزید
کسی دلیل کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی! ## خلاصہ: بحثِ ارتقاء اس
موقعہ پر سارے موضوع کی تلخیص ضروری ہے۔ ہم نے ارتقاء کی چار اقسام بیان کی ہیں:
مادی ارتقاء، اجتماعی ارتقاء، نفسیاتی ارتقاء اور اخلاقی ارتقاء (یا تغیر)۔ ارتقاء
کی ان چاروں قسموں کا مرجع فطرت ہی ہے۔ اور فطرت، مختلف اشکال رکھنے اور ان میں
مستقل تغیر ہوتے رہنے کے باوجود، غیر متغیر ہے۔ فطرت کے عدمِ تغیر کے بارے میں اس
اصرار سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ ہم ارتقاء کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ اگر ہم
ارتقاء کو نظر انداز کر دیں تو فی الحقیقت ہم انسان ہی کو نظر انداز کر دیں گے۔
انسان تو ہمیشہ ارتقاء پذیر رہنے والی مخلوق ہے۔ اور ارتقاء انسان کی نمایاں خصوصیت
اور اسے حیوان اور جامد فطرت سے ممتاز کرنے والی ہے۔ ہم دائمی ارتقاء کو غیر متغیر
فطری جوہر کی جانب منسوب کرتے ہیں۔ اور غیر متغیر جوہر اور نمو پانے والی صورت دو
متوازی حقیقتیں ہیں۔ یا ایک ہی مکمل حقیقت جو پورے انسانی وجود کی مکمل تعبیر ہے۔
اب ہم انسان کے ارتقاء کے بارے میں فطرت کے بتائے ہوئے غیر متغیر مقیاس کو سامنے
رکھتے ہیں۔ ظاہر میں اگرچہ یہ مقیاس خاصا پیچیدہ اور حسابی محسوس ہوتا ہے، مگر اگر
اس مقیاس کے تحت گزشتہ بیان کردہ ارتقاء کی اقسام کی علیحدہ علیحدہ مثالیں دے دیں،
تو یہ مقیاس بڑا سادہ سا محسوس ہو گا۔ ## مقیاسِ ترقی:
علمی ترقی: کا فطری اور غیر متغیر مقیاس یہ
ہے کہ یہ ترقی برابر آگے کی جانب بڑھتی ہے۔ اس غیر متغیر مقیاس سے ہم انسان کا
حساب کریں گے۔ ہر وہ انسان جو علم کی نظری اور عملی ترقی کے نتائج سے پوری طرح
بہرہ ور ہوتا ہے، وہ انسان سلیم الفطرت ہے اور صحیح راہ پر گامزن ہے۔ اور جو انسان
کسی بھی سبب کی بناء پر علمی ترقی سے مستفیض نہیں ہوتا، اس کی فطرت میں انحراف ہے،
اور اسے علاج کی ضرورت ہے۔ اجتماعی،
معاشی اور سیاسی ترقی: کا فطری غیر متغیر مقیا
449.5s
edit
more_vert
جاری رکھو
more_vert
Thoughts
The thoughts produced by the model are experimental
experiment
1.
2.
3.
4.
5.
6.
7.
8.
9.
10.
11.
Expand
to view model thoughts
8.0s
edit
more_vert
- اجتماعی،
معاشی اور سیاسی ترقی: کا
فطری غیر متغیر مقیاس یہ ہے کہ یہ ارتقاء مسلسل پیچیدگی اور پیوستگی کی طرف
مائل رہے۔ اور انسانی قوتوں اور میلانات کے درمیان توازن برقرار رکھے۔ جس
انسانی نسل میں یہ توازن پیدا ہو جائے گا، اور اس کا اجتماعی، سیاسی اور
اقتصادی نظام توازن اور اعتدال کے ساتھ مضبوط ہو جائے گا – کہ فرد اور
معاشرہ، مادی قوت اور معنوی قوت، اور سلبیت اور ایجابیت سب میں توازن اور اعتدال
ہو – تو یہ نسل سلیم الفطرت اور صحیح راستہ پر گامزن ہوگی۔ اور ہر وہ نسل جو
اجتماعی، سیاسی اور معاشی پختگی اور توازن و اعتدال تک نہ پہنچ سکے، وہ
پسماندہ یا منحرف ہے، اور اسے علاج کی ضرورت ہے۔
- نفسیاتی
ارتقاء: کے لئے فطرت کا غیر متغیر مقیاس یہ ہے کہ نفس مسلسل
پختگی، تکمیل، شمول اور اعتدال کی جانب نمو حاصل کرتا رہے۔ ہر فرد یا نسل جو
اس طرح نشوونما حاصل کرتی رہے، وہ سلیم الفطرت اور راہِ حق پر چلنے والی ہے۔
اور اگر کوئی فرد یا نسل نمو کے ایک متعین درجے پر کھڑی رہے، یا اس کے نفس کے
بعض پہلو ترقی کرتے رہیں اور بعض جامد پڑے رہیں، اس طرح نفس اپنا اعتدال کھو
بیٹھے، تو یہ فرد یا نسل منحرف اور قابلِ علاج ہے۔ وہ محسوس و واضح مقیاس وہ
ہے جس تک انسانیت اسلام کی زیرِ ہدایت پہنچی۔ اس کے ساتھ موجودہ علمی ترقیات
اور موجودہ معاشرتی ترقی کو بھی شامل کر لیا جائے، جو فی الحقیقت اسلام کا
تقاضا ہے۔ جو شخص اس پیمانے کے مطابق چلے وہ صحیح راستہ پر چل رہا ہے۔ اور جو
اس مقیاس سے منحرف ہے، وہ بیمار نفس کا حامل ہے۔
- اخلاقی
پہلو: میں فطرت کا غیر متغیر مقیاس یہ ہے کہ انسان کو
"انسان" ہونا چاہیے۔ یہ مقیاس بالکل فطری ہے۔ کیونکہ انسان میں نغمہ
روحانی اور غبارِ خاکی آپس میں دو مربوط اور گھلے ملے عناصر ہیں۔ اس لئے
انسان میں جسمانی محرکات اور روحانی اشواق دونوں موجود ہیں۔ اس میں طعام و
شراب، لباس و مسکن، جنس، ملکیت، کشمکش اور خود نمائی کے فطری میلانات بھی
ہیں، اور اس کے پاس ایسی اقدار بھی ہیں جن کے تحت وہ اپنے تمام اعمال کی کوئی
نہ کوئی غرض و غایت متعین کر لیتا ہے۔ اور یہ غرض و غایت شعوری اور انسان کے
مزاج کے مطابق ہوتی ہے۔ انسان کے اعمال بذاتِ خود کوئی مقصود نہیں ہوتے، جیسا
کہ حیوانات کے ہوتے ہیں۔ پھر ان فطری محرکات کے ساتھ ساتھ انسان میں ضبط کی
قوتیں بھی ہوتی ہیں، جو انسان کی فطری قوتوں کو بجائے کچلنے اور ختم کر دینے
کے انھیں پاک و صاف کر دیتی ہیں۔ یہ ضبط کی قوتیں بھی محرکات کی طرح فطری ہیں
اور مستقیم۔ انسان ان قوتوں سے بالکل فطری طور پر کام لیتا ہے۔ (اگرچہ ضبط کی
قوتیں انسان پر خارج سے مسلط کردہ نہیں ہیں، مگر ان کی خارجی نمو کی ضرورت
ہوتی ہے۔ جیسے قدرتِ نطق اور قدرتِ مشی انسانی جسم میں پوشیدہ فطری قوتیں
ہوتی ہیں، مگر ان کو بروئے کار آنے کیلئے بیرونی امداد کی ضرورت ہوتی ہے)۔
انسان کی فطرت میں کچھ متضاد صفات موجود ہیں۔ جیسے خوف و رجاء، محبت و نفرت،
حسیت و معنویت، ایمان بالغیب اور ایمان بالمشاہدہ، واقعیت اور خیال، سلبیت
اور ایجابیت، آزادی و پابندی، انفرادیت و اجتماعیت۔ یہ صفات دراصل انسان کے
متعدد پہلو تشکیل کرتیں اور اس کے اعمال میں توازن پیدا کرتی ہیں۔ انسان کی
فطرت کی گہرائیوں میں یہ بات بھی پیوست ہے کہ وہ اپنے خالق کی جانب متوجہ ہو
کر اس کی معرفت حاصل کرتی، اور اس سے اپنا تعلق استوار کرتی ہے، اس کے نور سے
روشنی حاصل کرتی، اس کی ہدایت پر چلتی اور اس کی عبادت کرتی ہے۔ اسی بنیاد سے
تمام اخلاقی اصول ابھرتے ہیں۔ جو شخص اس فطرت کے مطابق چلے وہ سلیم الفطرت
اور صحیح راستہ پر چلنے والا ہے۔ اور جو اس سے کنارہ کش ہو وہ منحرف اور
حیوانی درجہ تک گرا ہوا ہے۔
بیسویں صدی کی گواہی
تاریخ کی مادی تعبیر کے پرستار فطرت کے ان
اثرات اور خصوصاً فطرت کی اخلاقی رہنمائی سے بڑے برافروختہ ہوتے ہیں۔ وہ اس حقیقت
کو تسلیم کرنے کے لئے ہرگز نہیں تیار ہو سکتے کہ انیسویں اور بیسویں صدی کے واقعات
فطرت سے انحرافات ہیں۔ وہ تو یہ کہتے ہیں کہ یہ تمام واقعات ارتقاء ہیں، جو درست
بھی ہیں اور انسانیت کو آگے لے جانے والے ہیں۔
ارتقاء کے بارے میں ہم پہلے ہی تاریخ کی
گواہی پیش کر چکے ہیں، جس سے ہمیں یہ معلوم ہو گیا تھا کہ دورِ جدید کے واقعات
ارتقاء نہیں ہیں، اور نہ یہ موجودہ دور کے خاص حالات کی پیداوار ہیں، بلکہ ان تمام
واقعات کی ایک تصویر آج سے دو ہزار سال قبل یونانیوں اور رومیوں کی زندگی میں
انسانیت کے سامنے آچکی ہے!
اب ہم چاہتے ہیں کہ فطرت کی رہنمائی کو سامنے
رکھ کر اس "ارتقاء" کو دیکھیں کہ یہ فطرت سے انحراف اور مریضانہ حیوانیت
کی جانب رجعت ہے، یا انسانی فطرت سے ہم آہنگ کوئی صالح ارتقاء ہے۔ بلکہ ہمیں یہ
بھی دیکھنا چاہتے کہ کیا فی الواقع ایسی کسی فطرت کا وجود ہے جو اخلاقی مسائل کے
لئے مقیاس بن سکے، اور کیا یہ فطرت جامد ہے؟ آپ جواب اثبات میں دیں یا نفی میں...
مگر بہر کیف انسانی وجود میں کچھ جامد اور غیر متغیر اصول بھی ہیں۔ بہر صورت ہمیں
بیسویں صدی کی گواہی سننی چاہیئے۔
بیسویں صدی کا "اخلاقی ارتقاء":
ایک جائزہ
پہلے ہم تاریخ کی گواہی پیش کر چکے ہیں جس سے
معلوم ہوا تھا کہ آج بیسویں صدی میں جس شے کو اخلاقی ارتقاء کہا جاتا ہے (اور جو
ان کی نظر میں علمی، صنعتی اور اجتماعی ترقی سے ابھرتا ہے) یہ ارتقاء تاریخ کا
منفرد ارتقاء نہیں ہے، بلکہ اس سے مشابہ صورت پہلے بھی گذر چکی ہے۔ اب ہم بیسویں
صدی کی گواہی پیش کرتے ہیں، تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ کیا فی الواقع یہ ارتقاء ہے
یا انحراف ہے؟
مارکس، فرائڈ، ڈرکایم اور ان کے متبعین نے
انسانیت کی موجودہ نسل کو یہ بات خوبی سے ذہن نشین کردی ہے کہ اگر وہ مذہب کی قید
سے چھوٹ جائے، اخلاقی بندھن سے آزاد ہو جائے - بالخصوص جنس میں - اور ماضی کی کوئی
قید باقی نہ رکھے، تو وہ برابر ارتقاء و ترقی حاصل کرتی رہے اور آگے بڑھتی رہے۔
موجودہ نسل نے بھی یہ بات سمجھ لی ہے کہ اسے سب سے پہلے مذہب، اخلاق اور روایات
جیسی چیزوں کو ختم کرنا ہوگا۔ جب تک وہ ان چیزوں کو ختم نہیں کر دیتی اور انہیں جڑ
سے نہیں اتار پھینکتی، وہ کبھی ترقی نہیں کر سکتی ہے۔ اُسے چاہیئے کہ اس
"مقدس جنگ" میں رجعت، جمود اور پسماندگی کے خلاف، جہالت، خرافات اور
دیومالائی کہانیوں کے خلاف، اور آزادی کی راہ میں ہر رکاوٹ کے خلاف کود پڑے۔
ہر جانب سے شیاطین نئی نسل کے کانوں میں یہی
باتیں انڈیلتے رہے:
- نفسیات: جس نے
نفسیات پر گفتگو کی، اس نے کہا کہ مذہب اخلاقی دباؤ (SUPPRESSION) ہے۔ اسے ختم کر دینا چاہئے تاکہ وہ فرد کے نفسیاتی وجود
کے راستہ میں مزاحم نہ ہو!
- معاشیات: جو
معاشیات پر بولا، اس نے کہا کہ صنعتی اقتصادیات ایک آزاد معاشرے کا تقاضا
کرتی ہے، جو زرعی معاشرے کی موروثی قیود سے آزاد ہو۔ انہی قیود میں سے ایک
قید عورت کا ماں کے فرائض کی انجام دہی ہے۔ صنعتی معاشرے کا تقاضا ہے کہ عورت
بھی کام کے لئے گھر سے باہر نکلے!
- اجتماعیات: جس نے
اجتماعیات پر قلم اٹھایا، اس نے ٹھٹھا اڑا کر کہا کہ یہ کیسی سادگی ہے کہ لوگ
مذہب کو فطری خیال کرتے ہیں، اور یہ سمجھتے ہیں کہ مذہب آسمان سے نازل کردہ
ہے۔ ان لوگوں کو معلوم ہونا چاہیئے کہ جب لوگ جہالت و بیوقوفی کی زندگی گزار
رہے تھے، انھوں نے خود مذہب کو ایجاد کیا تھا۔ ذرا ان پسماندہ لوگوں کو دیکھو
جو آج بھی افریقہ اور آسٹریلیا کے جنگلوں میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ آپ
دیکھیں گے کہ ان لوگوں میں بھی مذہب کی بنیادیں جہالت، سادگی، خرافات اور
دیومالائی کہانیوں میں موجود ہیں۔ اب تم ذرا اپنی بیسویں صدی کی تہذیبی
ترقیات دیکھ لو! کیا تمہیں اس بات پر شرم نہیں محسوس ہوگی کہ تمہارے ضمیر میں
وہ آثار نظر آئیں جو تمہیں جنگلی لوگوں سے ورثہ میں ملے ہیں!
- سائنس: جو
شخص سائنس پر بولتا ہے، خالص سائنسی علوم پر، وہ بھی مذاہب کو فراموش نہیں
کرتا۔ وہ بتاتا ہے کہ جب لوگ مذہب پرست تھے، تو اپنی شدید جہالت کی بناء پر
کائنات کے تمام واقعات کو اللہ کی جانب منسوب کر دیا کرتے تھے۔ بھلا بتائیے
کس قدر جاہل تھے یہ لوگ! انھیں کائنات پر حکمراں قوانینِ طبیعت تک کا پتہ نہ
تھا۔ اب تو ہم بیسویں صدی میں ہیں، اور ان تمام حقائق سے واقف ہیں!
- آرٹ و
فن: جس نے آرٹ اور فن پر گفتگو کی، اس نے ان گذشتہ زمانوں کا
ضرور مذاق اڑایا جن میں جنس کے بارے میں گفتگو اخلاق سے گری ہوئی حرکت اور
عیب خیال کی جاتی تھی۔ کس قدر پسماندہ تھے اس وقت کے لوگ! انھوں نے آخر اس
خیرہ کن اور دلکش رنگا رنگ جال سے کسی طرح آنکھیں بند کرلی تھیں؟ اب تو ہم
آزاد ہیں! ہم جنس کو بجائے خود ایک آرٹ بنا دیں گے۔ ایک طرح جنس اپنے جلو میں
پوری کائنات سمیٹے ہوئے ہے۔ آئیے ہم اس کائنات کی سیاحی کریں۔ آئیے ہم نفس
میں پوشیدہ اور واقعاتی زندگی میں بروئے کار جنس کا مشاہدہ کریں۔ آئیے ہم اس
کی دلکشی اور خیرہ گی کا نظارہ کریں۔ آئیے ہم مرد و زن کو برہنہ کر کے انھیں
جنسی دلچسپیوں کے لئے آزاد چھوڑ دیں، اور کیمرہ کی آنکھ ان کی تصویر محفوظ
کرتی رہے۔
- ارتقاء: جو
شخص ارتقاء کے بارے میں گفتگو کرتا ہے وہ تو ہر سمت سے حملہ آور ہوتا ہے۔ وہ
کہتا ہے کہ مذہب ایک تاریخی مظہر ہے۔ انسانیت اپنے طفولتی دور میں مذہب
اپناتی ہے۔ جب وہ دور گزر جاتا ہے تو وہ مذہب سے بری ہو جاتی ہے (جیسے بچوں
کو چیچک نکل آتی ہے)۔ مگر جب انسانیت ایک دفعہ مذہب سے بری ہو جاتی ہے، تو وہ
مذہب کے خلاف قلعہ بند ہو جاتی ہے، اور کبھی مذہب کی جانب نہیں لوٹتی! مذہب
کے خلاف اصلی ڈھال علم اور معرفت ہے جو اللہ کی مدد سے (یا شیطان کی مدد سے)
ہر جگہ موجود ہے: اسکول میں، سینما میں، ریڈیو پر، ٹیلی ویژن پر، صحافت میں،
ادب میں، آرٹ میں، غرض ہر جگہ انسان کو مذہب سے بچاؤ کی یہ ڈھال میسر آجائے
گی!
موجودہ نسل کے دلوں میں یہ بات اچھی طرح بٹھا
دی گئی ہے کہ زندگی کے دو ہی راستے ہیں:
1. یا تو مذہب،
رجعت، تاخر، معاشی اور اجتماعی پسماندگی اور خرافات۔
2. یا بے قیدی،
آزادی، عمل، حرکت، معرفت، علمی، اقتصادی اور اجتماعی ترقی اور لادینیت
(SECULARISM)۔
اب ترقی کی خیرہ کن روشنی دیکھ کر کون شخص
اپنے آپ کو تاریکیوں میں گرانا پسند کرے گا؟ ظاہر ہے کہ کوئی پسند نہیں کرے گا۔ اور
اگر کوئی شخص اپنے مزاج سے انحراف کی بناء پر مذہب پسند ہو بھی جائے، تو ہو جانے
دیجئے! یہ آزادی کا دور ہے، اور آزادی کا تقاضا ہے کہ ہر شخص کو اس کے مزاج کے
مطابق آزاد چھوڑ دیا جائے، اگرچہ وہ منحرف ہی ہو۔ جی ہاں! یہی آزادی کا تقاضا ہے۔
اگر کوئی شخص مذہب پسند ہونا چاہے تو ہم کیا کرسکتے ہیں؟ بس ہمیں یہ چاہیئے کہ
معاشرے کو مذہب کے مہلک جراثیم سے محفوظ رکھیں۔ رجعت کی اس ہلاکت خیز وبا سے بچاؤ
کے لئے کوئی نہ کوئی رکاوٹ کھڑی کرنی ہوگی۔ لہٰذا ہم ایسی عملی تدبیریں بنا دیں کہ
رجعت کا وجود محال ہو جائے۔
اور اگر اس کے پھیل جانے کا کوئی خطرہ نہ
ہو... اگر وسیع پیمانے پر اختلاطِ مرد و زن کو روا رکھا جائے تو یہ مذہب جیسی لعنت
کے لئے تباہ کن ہوگا۔ ہاں! اختلاط، ہیجانات، گرم گرم سانسیں، لہکتے ہوئے شعلے،
چھلکے ہوئے جسم، بھڑکتے ہوئے جذبات، خلوت و جلوت، ہمہ وقت عریانی! ایسے فتنہ پرور
لمحات میں کس شخص کے دل میں مذہب کا سودا رہ جائے گا؟ کیا ایسے وقت میں وہ مذہب کا
خیال لا کر اپنے آپ کو ان لذتوں سے محروم کرے گا؟ کوئی بھی اس حماقت کا ارتکاب
نہیں کر سکتا! مذہب کو اپنی خلوتوں کے لئے اٹھا رکھئے۔ ان ساعتوں کے لئے چھوڑ
دیجئے۔ جن ساعتوں میں اگر مذہب ہو بھی تو ہماری لذتوں سے محروم نہ کر سکے۔ مثلاً
مذہب کو کلیسا کے لئے چھوڑ دیجئے! مگر کلیسا کے اندر، روحانی ساعتوں میں بھی
شیاطین نوجوانوں کو نہیں چھوڑتے! چنانچہ امریکی کلیسا میں جوں ہی پادری وعظ ختم
کرتا ہے، بڑی بڑی روشنیاں گل کر دی جاتی ہیں، اور چھوٹے چھوٹے بلب روشن کر دیئے
جاتے ہیں، اور نوجوانوں کے رقص کے لئے ریکارڈ بجنا شروع ہو جاتے ہیں۔ تاکہ وہ ترقی
کریں! اب بتائیے کہ کیا مذہب معاشرے سے علیحدہ زندہ رہ سکتا ہے؟!
وسیع پیمانے پر اختلاط مذہب کے خلاف ایک بڑی
رکاوٹ بن جاتا ہے، اور مذہبی جراثیم کو اس طرح ختم کر دیتا ہے جیسے جراثیم کش
محلول (ANTI-BIOTICS) جراثیم
کو ختم کر دیتا ہے! اختلاط مذہب کو نفس کی گہرائیوں سے اکھاڑ پھینکتا ہے، اور اس
کی جگہ جدید، بھرپور اور سخت شہوانی لذت رکھ دیتا ہے، جو انسان کو بے لگام بنانے
میں بڑی فعال ہے۔ اس لئے وسیع پیمانے پر اختلاط موجودہ ترقی پذیر معاشرے کا شعار
بن جانا چاہیے۔ ہر جگہ یہی سوال دہرایا جانا چاہیے: "آپ کا معاشرہ مخلوط
معاشرہ ہے یا رجعت پسند؟" اس کا ردِ عمل یہ ہو گا کہ لوگ رجعت کی اس معیوب
تہمت سے بچنے کی فکر کریں گے، اور کوئی بھی پسند نہیں کرے گا کہ اسے رجعت پسند یا
بدحال کہا جائے اور اس کے نام کو بٹہ لگے۔
- یونیورسٹیوں
میں اختلاط: یونیورسٹی
اسپرٹ کے طور پر ہونا چاہیئے۔ جہاں تک ممکن ہو طلبہ اور طالبات اختلاط کرتے
رہیں۔ طالبات اپنے آپ کو ان طلبہ کے بچوں کی ماں بننے سے بچائیں۔ اور ان کے
ساتھ یونیورسٹی کے سبزہ زاروں اور ریفریشمنٹ روم میں ملتی رہیں۔ پھر تعلیمی
سال ختم ہو جائے گا، اور دونوں کو جہاں جانا ہو گا چلے جائیں گے!
- کارخانوں،
دکانوں اور دفاتر میں: عورتوں
کو ملازم رکھا جائے تاکہ اختلاط معاشرے کی ایک مانوس عادت بن جائے۔ اس کے
جبری نتائج کے طور پر مذہب کا خبیث و ملعون جرثومہ مر جائے! (مذہب کا جرثومہ
ملعون اس وجہ سے ہے کہ جب یہ یقین ہو جاتا ہے کہ یہ مر چکا ہے، تو اچانک پھر
زندہ ہو جاتا ہے؟)
- ذرائع
ابلاغ: ادب، فن، ریڈیو، سینما، ٹیلی ویژن اور صحافت کے جس قدر
وسائلِ "دعوت" ہیں اور جس قدر ان کے پاس شوق کو بھڑکانے والے ذرائع
ہیں، ان سب کو اسی مقصد کے لئے استعمال ہونا چاہیئے۔ اختلاط، خوشی، لذت،
آزادی! کیا مرد ان لذات کو ناپسند کرتا ہے؟ اور کیا عورت اپنی ذات کا اثبات
نہیں چاہتی؟
اے عورت! تو بڑی دلکش، دلفریب اور فتنہ انگیز
ہے۔ تو اپنا جادو کیوں نہیں جگاتی؟ کیا تجھے معلوم نہیں ہے کہ اگر تو حسین ترین
لباس زیبِ تن کرے، اور خوب بناؤ سنگار کر کے مرد کے سامنے آئے تو وہ تیری طرف
متوجہ ہو گا، تجھے پسند کرے گا، اور اپنے بھرپور جذبات سے تیری جانب متوجہ ہوگا۔
اور تجھ سے شادی رچا لے گا! اگر کوئی شخص رضا مند نہیں ہوتا تو یہ کمبخت رجعت پسند
ہے۔ کسی اور کو آزما کر دیکھ! کوئی نہ کوئی شخص ضرور رضا مند ہو جائے گا۔ ہاں! اے
عورت تو کس طرح دلوں کو جیتی ہے۔ تو نے اپنی ذات کا اثبات کر لیا۔ تو آگے بڑھتی جا
رہی ہے۔ تجھے اب پیچھے نہیں ہٹنا چاہیئے۔
اے فیشن ہاؤس! اے سامانِ زینت کے کارخانو! اے
مراکزِ حسن (BEAUTY CENTRES)! دیکھو! اس بھڑکتی ہوئی آگ کے شعلے سرد نہ ہونے پائیں! دیکھو تم
فتنہ انگیز اشیاء کے رواج دینے سے غافل نہ ہو جاؤ! واہ کیا خوشنما! لوگوں کی عقلوں
کو خبط کرنے والے اسکرٹ! کون اس فتنہ سامانی کے بالمقابل ٹھہر سکتا ہے؟ عریاں
سینہ! کون اس فتنہ کو روک سکتا ہے؟ برہنہ ٹانگیں! رقص! چال میں لچک! مترنم سریلی
آواز!
اے لڑکی! دیکھ کہیں تیرا باپ تجھے تیری ذات
کے اثبات سے روک نہ دے! تجھے تیرے باپ سے کیا واسطہ! تو اس کی بوسیدہ روایات اس کے
منہ پر پھینک مار! اور خود آزادی کی راہ اپنا لے۔ تجھے اپنے باپ سے کہنا چاہیے:
"تو رجعت پسند نسل سے تعلق رکھتا ہے، اور میں ایک ترقی پذیر نسل کی فرد ہوں۔"
اے نوجوان! کیا تو مذہب پسند بن جائے گا؟!
پاگل ہے! کیا تو اپنے آپ کو محروم کرے گا؟! زندہ رہ اور مزے اڑا! آگے بڑھ! لذاتِ
دنیا تیری منتظر ہیں۔ آگے بڑھ کر اپنی ذات کا اثبات کر!
اس طرح اخلاقی اباحیت کے چاروں طرف نظریہ
آزادی کا ایک جال سا بنا دیا گیا ہے۔ (ظاہر ہے کہ یہ لوگ اسے اباحیت نہیں کہتے،
بلکہ اسے ارتقاء کہتے ہیں، تاکہ اس کے اثرات بدستور قائم رہ سکیں)۔ ارتقاء کے معنی
ہیں: مذہب، اخلاق، روایات اور ہر اخلاقی ہدایت اور ہر قسم کی انسانی قیود سے آزادی!
اگر کوئی بیوقوف آزادی اور اباحیت کے اس
طوفان کو روکنے کے لئے کھڑا ہو جائے، تو ہر سمت سے ہزاروں لوگ اس پر آوازیں کسیں
گے، اس کا مذاق اڑائیں گے، اور ہر بدترین تہمت اس پر لگائیں گے۔ تاکہ وہ اپنی حرکت
سے باز آجائے، اور تاکہ "ارتقاء" کے اثرات بدستور باقی رہ سکیں۔
"یہ بیوقوف، رجعت پسند، متاخر، جامد، جاہل، پاگل اور مجنوں چاہتا
ہے کہ گھڑی کی سوئیاں پیچھے کر دے اور ترقی کی گاڑی کا پہیہ روک دے۔"
"ترقی کا پہیہ اس بے وقوف کو کچل ڈالے گا۔ یہ
ارتقاء جبری ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ پاگلوں کی ایک جماعت بھٹکی ہوئی انسانیت کو
راہ دکھانے لگے۔"
"اس لئے کسی ایسی جماعت کے بارے میں محتاط
رہنا چاہئے۔ جو خبیث ملعون جرثومہ کو پھر زندہ کر دے۔ (اس جرثومہ کے بارے میں جب
یقین ہو جاتا ہے کہ یہ مر چکا ہے، یہ پھر زندہ ہو جاتا ہے!)"
اگر وسیع پیمانے پر اختلاط مذہب کے خلاف عملی
زندگی میں رکاوٹ ہے، تو ارتقاء کی جبریت فکری محاذ پر مذہب کے خلاف رکاوٹ ہے۔ اب
ہم نے فکری محاذ اور دنیائے عمل میں ہر طرف سے مذہب کی آمد پر پہرے بٹھا دیئے ہیں۔
اب بھی اگر کوئی تاریخ کی جبریت اور ارتقاء کی جبریت کے بالمقابل کھڑا ہوتا ہے، وہ
خود ہی ان چٹانوں سے ٹکرا کر پاش پاش ہو جائے گا۔
ارتقاء کی یہ طوفان بردوش فوج راستے کی ہر شے
کو نگلتی چلی گئی۔ اور فی الحقیقت جبری اور پُر خطر بن گئی! یورپ اور امریکہ میں
ایک مطلوبہ نسل ابھر آئی جس کو جنس کے سوا کسی مذہب، اخلاق اور روایات سے واسطہ
نہیں ہے۔ کوئی شے اسے روکنے والی نہیں ہے۔ ہر شے اسے آگے بڑھانے والی ہے۔ تمام
توجیہات، تمام تنظیمات، اور تمام محرکات جنسی بے قیدی کی راہیں ہموار کر رہی ہیں
اور اسے مزین کر کے پیش کر رہی ہیں۔ اب یہ بالکل آسان، معروف اور طبعی طریقہ ہے کہ
ہر لڑکی کا ایک مرد دوست (BOY FRIEND) ہو اور ہر لڑکے کی ایک خاتون دوست (GIRL FRIEND) ہو۔ اور اس طرح وہ جس طرح چاہیں اپنی جنسی
ضروریات پوری کریں... مانع حمل دوائیں اس امر کو اور بھی سہل بنا دیتی ہیں۔
اس کھلے بندوں اختلاط کے نتائج یورپ اور
امریکہ کے سامنے آچکے ہیں۔ اور لوگ یہ محسوس کرنے لگے کہ یہ آزادانہ اختلاط کوئی
قابلِ اعتراض شے نہیں ہے۔ کیا فی الواقع اس طرزِ عمل پر کوئی مانع موجود ہے؟
- مذہب؟ تو بوسیدہ قدیم خرافات ہے۔ مذہب ترقی کی رفتار روکنے سے
عاجز ہے۔ مذہب تاریخ کی جبریت کو روکنے سے قاصر ہے۔ بیچارے مذہب کی تو آواز
بھی گھٹ چکی ہے۔ اس عاجز کا ہم کیا کریں گے؟
- اخلاق؟ رہ گیا اخلاق! اخلاق پرانی نسلوں کا قائم کردہ ہے۔ یہ
نسلیں اب ختم ہوچکیں۔ یہ اب زندہ ہونے سے رہیں! مُردے کسی طرح زندوں کی
رہنمائی کر سکتے ہیں؟ کیا ہم زندہ نہیں ہیں؟ اور کیا یہ زندگی ہماری نہیں
بلکہ یہ ان مردوں کی ہے جو زندگی میں اپنا کردار ادا کر چکے ہیں؟ وہ لوگ اپنے
حالات کے ماتحت زندگی گزار رہے تھے، اور ہم اپنے حالات کے تحت زندگی گزار رہے
ہیں۔
غرض اس اختلاط سے کوئی بھی مانع نہیں ہے۔
معاشرہ روز بروز آگے بڑھ رہا ہے۔ روز نئی نئی ایجادات سامنے آرہی ہیں۔ سائنس کے
سامنے نئے افق ابھر رہے ہیں۔ پیداوار بڑھ رہی ہے۔ وسائلِ راحت بڑھتے جا رہے ہیں۔
گویا انسان بغیر رکاوٹ، بغیر قید اور بغیر رجعت کے خود اپنے آپ کو بنا رہا ہے۔
زندگی ایک تجربہ ہے، اور بیسویں صدی کا تجربہ تاریخِ انسانیت کا سب سے انوکھا
تجربہ ہے۔ یہ تجربہ انسان نے اللہ کی رہنمائی سے بے نیاز ہو کر کیا ہے۔ انسان اب
غلامی سے آزاد ہو چکا ہے۔ اسے اللہ اور مذہب کی ضرورت نہیں۔ وہ اپنا خدا آپ ہی ہے۔
وہ موروثی مذاہب کی ہدایات سے دور رہ کر اپنا مذہب خود ہی بنا رہا ہے۔ اب اسے
تاریک دور اور قرونِ وسطیٰ کے مذہب کی ضرورت نہیں رہی ہے۔
جنس کے دہکتے ہوئے شعلوں کے دوران، جنہیں شیطان پھونکیں مار مار کر بھڑکا رہا تھا، کسی کو بھی یہ خیال نہ
آیا کہ انسانی فطرت اس مجنونانہ انحراف سے بیزار ہے۔ مگر فطرت کی جانب کون متوجہ
ہوتا؟ کیا اس سائنس، ترقی، بے قیدی اور آزادی کے بعد بھی کوئی فطرت کے بارے میں
گفتگو کر سکتا ہے؟ کیا آپ نے تاریخ کی مادی تعبیر نہیں پڑھی کہ کوئی ایسا غیر
متغیر وجود نہیں ہے جسے انسان کہا جاسکے؟ انسان تو اپنے اقتصادی، اجتماعی اور مادی
حالات کا نتیجہ ہے۔ آج کے حالات کل کے حالات سے قطعاً مختلف ہیں۔ اور ان کے نتائج
بھی مختلف ہیں۔ ماضی کے تجربات بیسویں صدی کے انسان کے لئے غیر مفید ہیں۔ ماضی سے
آج کے اعمال پر بندش نہیں قائم ہوسکتی۔ آج کا دستور العمل دورِ جدید کی حالت کے
تابع ہے!
اور اگر آپ "فطرت" جیسے رجعت
پسندانہ لفظ کا استعمال ناگزیر خیال کرتے ہیں، تو یہ فطرت بذاتِ خود اسے بے قیدی
پر اکساتی ہے۔ جنس ایک حیاتیاتی عمل ہے۔ اس کا اخلاق سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ یہی
فطرت کی منطق ہے۔ کیا ایک کتا اور کتیا ملاپ کے موقع پر کسی ایسی چیز سے واقف ہوتے
ہیں جس کا نام اخلاق ہو؟ انسان بھی ایک کتے سے زیادہ نہیں۔ اخلاق وغیرہ مذاہب کے
تراشیدہ اوہام ہیں!
سیلابِ بے راہ روی اور فطرت کی پکار
غرض بے راہ روی کا سیلاب سر سے گزر گیا۔ کوئی
چیز اس کی راہ میں رکاوٹ نہ بن سکی، اور نہ ہی کوئی طاقت اسے انسان کی تباہی سے
باز رکھ سکی۔ یہ تو جبریت ہے۔ جبریت کو کون روک سکتا ہے؟ اور کیوں روکے؟ جب کہ
ترقی کے زیرِ سایہ زندگی پُر کیف ہوگئی ہے: بے قید چھوٹ، غیر محدود آزادی اور
لذات! اور اس سیلاب کو کون روکے؟
- کیا وہ متلون مزاج لڑکی
جو اپنی ذات کا اثبات اور اپنے وجود کو محقق کرنا چاہتی ہے؟
- کیا سہل الحصول لذتوں میں
غرق نوجوان جنھیں لذتوں کے حصول کے لئے چند پیسے بھی خرچ نہیں کرنے پڑتے؟
- کیا فیشن ہاؤس، کیا
سینما، یا وہ لوگ جو اس کاروبار سے لاکھوں پونڈ لوٹتے ہیں؟
- کیا ادیب اور فنکار جن کی
کتابیں اور جن کی تخلیقات اسی جنسی ہیجان کی بناء پر رواج پاتی ہیں؟
- یا وہ شیاطین جو انسانیت
کو کشاں کشاں تباہی کے کنارے پر لا رہے ہیں؟
نہیں! ہرگز نہیں! ان میں سے کوئی بھی اس
سیلاب کو روکنے والا نہیں ہے۔
اس صورتِ حال کے باوجود کچھ لوگ برابر خطرے
سے آگاہ کر رہے ہیں! کچھ لوگ چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ اب انتہا ہو چکی اور ہماری
گمراہی حد سے گذر چکی ہے! کچھ لوگ برابر صدا لگا رہے ہیں کہ فطرت کی طرف واپس
آجاؤ! اخلاق کی جانب لوٹ آؤ! اور ضبط کی قوتوں کو کام میں لاؤ! تم اپنے آپ کو ہلاک
کر رہے ہو! تم مستقبل کو تباہ کر رہے ہو! تم انسانیت کی ہلاکت و بربادی کے لئے
سامان سمیٹ رہے ہو!
یہ آوازیں مختلف سمتوں سے آرہی ہیں۔ اور یہ
باتیں کہنے والے مذہبی لوگ نہیں، بلکہ سائنس دان، سیاست دان، فلسفی اور ملحد
دانشور ہیں! یہ گواہیاں اب متواتر سامنے آرہی ہیں، اور یہ بیسویں صدی کی شہادتیں
ہیں!
چند مغربی مفکرین کی گواہیاں
الیکسس کارل (Alexis Carrel) اپنی کتاب "انسان نامعلوم" (Man, the
Unknown) میں کہتا ہے:
"موجودہ
تہذیب ایک نازک مقام پر کھڑی ہے، کیونکہ یہ ہمارے مزاج کے مطابق نہیں ہے۔ یہ ہماری
طبیعت کی حقیقت سمجھے بغیر وجود میں لائی گئی ہے۔ یہ تہذیب سائنسی اکتشافات، لوگوں
کی خواہشات، اوہام، نظریات اور رغبات کے نتیجہ میں وجود میں آئی ہے۔ اگرچہ یہ
تہذیب ہماری ہی جدوجہد کا حاصل ہے، مگر یہ ہمارے مزاج کے مطابق نہیں ہے۔"
"انسان کو ہر شے کا مقیاس بننا چاہیئے، لیکن واقعہ اس کے برعکس
ہے۔ انسان تو خود اپنی ہی دنیا میں اجنبی ہے۔ انسان اپنی دنیا خود نہیں بنا سکتا
کیونکہ اسے اپنی طبیعت کے بارے میں کوئی عملی معرفت نہیں ہے۔ حیاتیاتی علوم کے
بالمقابل علومِ جمادات میں جو عظیم ترقی ہوئی ہے، وہ انسانیت کے لئے ایک مصیبت سے
کم نہیں ہے۔ ہم ہی بد نصیب ہیں۔ ہم اخلاقی اور عقلی طور پر زوال پذیر ہیں۔ وہی
جماعتیں اور قومیں جو صنعتی تہذیب میں بے پناہ ترقی حاصل کر لیتی ہیں، وہ قومیں
پہلے کمزور ہو جاتی ہیں اور دوسری قوموں کی بہ نسبت زیادہ جلدی بربریت اختیار کر لیتی
ہیں۔"
"موجودہ تہذیب انسان کے عقلی اعمال کے لئے کوئی مناسب ماحول پیدا
کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔ گری ہوئی اخلاقی اور روحانی قدریں اکثر لوگوں کے
نفسیاتی نقائص کا سبب بن رہی ہیں۔ کیونکہ مادہ کی برتری اور صنعتی مذہب کے اصولوں
نے ثقافت، جمال اور اخلاق کو تباہ کر دیا ہے۔"
"موجودہ معاشرے کی ایک بھیانک غلطی یہ ہے کہ اس میں بچوں کی
تربیت تمام تر اسکولوں کے ذمہ عائد کر دی گئی ہے۔ مائیں بچوں کو پرورش گاہوں میں
چھوڑ کر خود اپنے کام کاج یا کسی اجتماعی مصروفیت یا ادبی اور فنی مشاغل یا اپنی
دلچسپیوں، یا برج کھیلنے یا سینما دیکھنے نکل جاتی ہیں۔ اور اس طرح اپنا وقت ضائع
کر دیتی ہیں۔ خاندانی وحدت اور بچوں بڑوں کی باہمی نشست کے بارے میں عورتیں جواب
دہ قرار پاتی ہیں۔ بچے اپنے بڑوں کی صحبت میں بہت کچھ سیکھ لیتے ہیں۔ کتوں کے پلے
جو اپنے ہم عمروں کے ساتھ کسی باڑے میں رہ رہے ہوں، وہ اس طرح بھرپور طریقے پر
نہیں بڑھتے جس طرح وہ پلے بڑھتے ہیں جو اپنے ماں باپ کے ساتھ لگے پھرتے ہیں۔ یہی
حال ان بچوں کا ہے جو بہت سے بچوں کے ساتھ رہتے ہیں۔ کیونکہ بچہ اپنے عضوی، عقلی
اور میلانی عمل کو اس قالب کے مطابق انجام دیتا ہے جس میں وہ موجود ہوتا ہے۔ وہ
اپنے ہم عمر بچوں سے بہت کم سیکھتا ہے۔ اور اگر اسکول میں صرف بچوں کے ساتھ رہے تو
یہ بچہ نامکمل رہ جائے گا۔ ایک فرد کو اپنی بھرپور صلاحیتوں کے حصول کے لئے کسی
قدر عزلت اور کسی حد تک خاندانی اجتماعیت چاہتے ہوتی ہے۔"
"یہ بات واضح ہے کہ جنسی افراط عقل اور عمل میں تعطل پیدا کرتا
ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دماغ نمو پاتے ہوئے جنسی غدود کی محتاج ہے، اور یہ کہ
کچھ وقت کے لئے جنسی عمل کو روکا جائے تاکہ وہ اپنی پوری قوت حاصل کر لے۔ فرائڈ نے
شعوری عمل کے گوناگوں پہلوؤں میں جنسی محرکات کی اہمیت بالکل صحیح واضح کی ہے۔ مگر
اس کی فکر کے نتائج عام طور پر مریضوں سے متعلق ہیں۔ اس لئے اس کے نتیجے عام لوگوں
پر منطبق نہیں کئے جاسکتے، اور خاص طور پر وہ لوگ جو طاقت ور عصبی نظام اور اپنے
نفس پر قوت رکھتے ہیں۔ جب کہ کمزور اور بیمار اعصاب والے غیر متوازن لوگوں میں
جنسی قوت کو کچلنے سے شذوذ مزید بڑھ جاتا ہے۔ مگر قوی اعصاب والے جنس کو کنٹرول کر
کے مزید قوت حاصل کرتے ہیں۔"
"آج کا انسان دراصل اس ماحول اور زندگی کی ان عادات کا پروردہ ہے
جو آج کے معاشرے نے اس پر فرض کی ہیں۔ ہم پہلے بتا چکے ہیں کہ یہ عادات کس طرح اس
کے جسم اور شعور پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ انسان اپنے آپ کو اس ماحول کے مطابق بنانے
سے قاصر ہے، اور جس کو آج کی ٹیکنالوجی نے بنایا ہے۔ اس ماحول نے انسان کو اباحیت
پسند بنا دیا ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کو موجودہ صورتِ حال کا ذمہ دار نہیں قرار
دیا جا سکتا، بلکہ اصل ذمہ دار ہم خود ہیں۔ کیونکہ ہم جائز اور ناجائز میں امتیاز
کی صلاحیت کھو بیٹھے ہیں۔ ہم نے قوانینِ طبیعت کی خلاف ورزی کر کے ایک بڑی غلطی کی
ہے۔ اس غلطی کی سزا ہمیشہ ملتی ہے۔ جب انسان نے دوسرے سیاروں تک پہنچنے کی کوشش کی
تو زندگی نے اسے کمزور بنا دیا۔ چنانچہ تہذیب روبہ زوال ہے۔"
وِل ڈیورانٹ (Will Durant) امریکی فلسفی، اپنی کتاب "فلسفہ کی کہانی"
(The Story of Philosophy) میں
کہتا ہے:
"ہماری
آج کی ثقافت سطحی اور ہمارا علم خطرناک ہے، کیونکہ ہمارے پاس آلات اور مشینیں تو
بہت ہیں، مگر مقاصد کا فقدان ہے۔ وہ توازنِ عقل جو پہلے مذہب کی ایمانی حرارت سے
پیدا ہوا کرتا تھا، اب ختم ہو چکا ہے۔ اور سائنس نے ہم سے بلند اخلاقی اصول چھین
لئے ہیں۔ ساری دنیا ایک عجیب انفرادی اضطراب کا شکار ہے جو درحقیقت ہماری اخلاقی
پراگندگی کا آئینہ دار ہے۔ ہم بھی آج اسی مشکل سے دوچار ہیں جس سے سقراط دوچار
تھا: کہ ہم وہ طبعی اخلاق کہاں سے لائیں جو ان آسمانی تنبیہات کی جگہ لے سکیں جن
کا اثر انسانی زندگی میں باطل ہو چکا ہے؟ اس فساد و جنوں کا شکار ہو کر ہم نے اپنی
اجتماعی میراث کو تباہ کر لیا ہے۔ فلسفے کے بغیر ہمارے سامنے ایسا کوئی حتمی نظریہ
نہیں رہ سکتا جس سے مقاصد میں اتحاد اور خواہشات میں یکسانیت پیدا ہو۔"
"مانع حمل ادویہ اور ان کی اشاعت ہمارے اخلاقی تغیر کا براہِ
راست سبب ہیں۔ پہلے قانونِ اخلاق جنسی تعلق کو پابندِ نکاح رکھتا تھا، کیونکہ نکاح
کا مطلب باپ بننا ہوتا تھا۔ ان دونوں امور میں کوئی فصل نہیں تھا۔ باپ بچے کا ذمہ
دار اسی وقت ہوتا تھا جب بطریقِ نکاح ہو۔ آج جنس اور نسل کا تعلق ختم ہو چکا ہے،
اور ایسا موقف سامنے آگیا ہے جس کی ہمارے باپ دادا توقع بھی نہیں کر سکتے تھے۔ اب
اس موقف کے زیرِ اثر مرد و زن کے تعلقات تغیر پذیر ہیں۔ مستقبل کے قانونِ اخلاق پر
یہ لازم ہے کہ وہ آج کی ایجادات کے نتیجہ میں پیدا شدہ سہولتوں کو مدِ نظر رکھے
تاکہ تباہ شدہ رغبات بروئے کار آسکیں۔"
"جب کہ لوگوں کے لئے جنسی تعلق کی ہر سہولت اور ہر قسم کی انگیخت
موجود ہے، تو شہری زندگی بھی نکاح کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر رہی ہے۔ اب جنسی نمو
پہلے کی بہ نسبت جلد ہی ہو جاتا ہے، جب کہ معاشی نمو کافی تاخیر سے حاصل ہوتا ہے۔
اگر زرعی نظام میں خواہشات کا کچلنا کوئی معقول عمل تھا، تو آج صنعتی تہذیب میں
جنس نے تیس سال کی عمر تک لوگوں کے لئے نکاح مشکل بنا دیا ہے۔ یہ مرد شوار اور غیر
طبعی ہے! اس لئے جسم کا بھڑک اٹھنا اور ضبطِ نفس کی قوت کا کمزور پڑ جانا یقینی
ہے۔ جو عفت پہلے فضیلت تھی، وہ اب مضحکہ خیز شے ہے۔ اب جمال افزا خیار کا کوئی
وجود نہیں ہے۔ بلکہ مرد اپنی غلطیوں کو بطورِ فخر گناتے ہیں، اور عورتیں ان
معاملات میں مرد سے مساوات چاہتی ہیں۔ اب نکاح سے پہلے ہی ملوث ہونا جانی پہچانی
بات ہے۔ اب فحاشی کے اڈے پولیس سے بچاؤ کے لئے نہیں بلکہ عاشق مزاج عورتوں کی کثرت
کی بناء پر پوشیدہ رکھے جاتے ہیں۔ زرعی اخلاق ختم ہو گیا۔"
"اب شہری زندگی پر اس کی حکمرانی باقی نہیں ہے۔ اس اجتماعی برائی
کا ہمیں کوئی اندازہ نہیں ہے جسے ہم تاخیرِ زواج کا سبب بتا سکیں۔ یا یہ کہ اس
برائی کا مرجع ہماری غیر مہذب تعددِ ازواج کی عادت ہے۔ مگر گمانِ غالب یہ ہے کہ
دورِ جدید میں معاشرے کی برائی کا بڑا سبب ازدواجی زندگی میں غیر ضروری تاخیر ہے۔
نکاح کے بعد کی اباحیت دراصل پہلے ہی کی تعدادِ ازواج کی عادت کا نتیجہ ہے۔ کبھی
ہم اس تاریک صنعتی دور میں حیاتیاتی اور اجتماعی وجوہات کو سمجھنے کی کوشش کرتے
ہیں۔ اور کبھی یہ کہہ کر آگے بڑھ جاتے ہیں کہ اب اس دنیا سے کوئی راہِ فرار نہیں
ہے جس کو انسان نے خود تخلیق کیا ہے۔ اور دورِ جدید کے اکثر مفکرین کی یہی رائے
ہے۔ باقی یہ بات انتہائی شرمناک ہے کہ ہم خوشی خوشی نصف ملین امریکی لڑکیوں کو
اباحیت کی قربان گاہ پر قربان ہوتا دیکھیں۔ یہی لڑکیاں ہمارے سامنے ڈراموں اور
عریاں لٹریچر میں پیش کی جاتی ہیں۔ اس لٹریچر کے ذریعے صنعتی ابتری کے شکار اور
نکاح و صحت سے محروم مرد و زن میں جنسی انتشار پیدا کر کے دولت کمائی جاتی ہے۔"
"تصویر کا دوسرا رخ بھی کم اندوہناک نہیں ہے۔ جس شخص کی ازدواجی
زندگی میں تاخیر ہوتی ہے وہ راہ چلتی بتزل لڑکیوں کے ساتھ وقت گزارتا ہے۔ اور تجرد
کے اس دور میں مرد کو اپنی خواہشات کی تکمیل کے لئے ایک ایسا نظام جدید ترین
سہولتوں سے آراستہ اور اعلیٰ ترین اداروں کی شکل میں منظم ملتا ہے، اور ایسا محسوس
ہونے لگتا ہے کہ جیسے دنیا میں خواہشات کو برانگیختہ کرنے اور ان کی تکمیل کے تمام
طریقے اختیار کرلئے گئے ہوں۔"
"غالب گمان یہ ہے کہ لذت پرستی کے بڑھتے ہوئے رجحان نے مذہبی
عقائد پر حملہ آور ہونے میں ڈارون کی بڑی مدد کی ہے۔ جب نوجوان کو یہ علم ہوا کہ
مذہب ان کی لذتوں کو برا خیال کرتا ہے تو انھوں نے بھی سائنس کی مدد سے مذہب کی
برائی کے لئے ہزاروں اسباب ڈھونڈ لئے۔"
"جدید معاشرہ میں چونکہ مرد و زن صحیح نکاح سے وابستہ نہیں ہوتے،
بلکہ ایک طرح سے جنسی تعلق ہوتا ہے، اس لئے وہ بنیاد ہی باقی نہیں رہی جس پر نکاح
قائم ہوتا، اور نہ ہی زندگی کے مقدمات باقی رہے۔ لہٰذا یہ نکاح جلد ہی ختم ہو جاتا
ہے۔ اور زوجین علیحدہ ہو کر ایک دوسرے سے کٹے کٹے رہنے لگتے۔ پھر اس اجنبیت کی
انتہا یہ ہوتی ہے کہ مرد میں تنوع کی خواہش ابھر آتی ہے، کیونکہ بیوی کے پاس مرد
کے تنوع کی خواہش کی تسکین کے لئے کچھ نہیں؟"
"ذرا ہمیں باخبر لوگوں سے اپنے تجربہ کے نتائج سننا چاہئیں۔ یہ
کوئی خوش کن نتائج نہیں ہیں۔ ہم تغیر کا اس طرح شکار ہیں کہ اس کے جبری نتائج تک
پہنچ کر رہیں گے! آخر عادات، روایات اور نظاموں کی اس کثرت کا کیا نتیجہ ہو گا؟
بڑے بڑے شہروں میں گھریلو ماحول ختم ہو چکا ہے، اور یک زوجی اپنی اہمیت کھو چکی
ہے۔ بغیر پیدائشِ نسل کو مدِ نظر رکھے ہوئے جنسی تعلقات بڑھتے جارہے ہیں، اور ہر
جائز یا ناجائز طریقے پر جنسی تعلقات قائم کئے جارہے ہیں۔ اگرچہ اس سلسلہ میں مرد
کو زیادہ آزادی حاصل ہے، مگر عورت بھی اسی صورت کو اس تنہائی سے بہتر خیال کرتی ہے
جس میں اس کا کوئی عاشق نہیں ہوتا۔ ازدواجی معیار ختم ہو جائے گا۔ اور عورت مرد کو
ہر شے میں زواج سے پہلے تجربہ پر آمادہ کرے گی۔ طلاق بڑھ جائے گی، اور شہر مطلقہ
عورتوں سے بھر جائینگے! پھر نظامِ زواج کو کوئی ایسی شکل دی جائے گی جس میں سہولت
زیادہ ہو۔ جب منع حمل ہر طبقہ کی عورتوں کی عادت بن جائے گا، تو عورت کی زندگی میں
حمل ایک عارضی سی بات ہو جائے گی۔ اور بچوں کی تربیت بجائے گھروں کے نرسریوں میں
ہونے لگے گی۔ بس یہی کچھ ہوتا رہے گا۔"
اخباری جائزے اور عالمی صورتحال (۱۹۶۲)
روزنامہ "اخبار الیوم" کے ۱۱ اگست ۱۹۶۲ کی ایک اشاعت میں "نوجوان نسل تباہی کے کنارے پر" کے
عنوان سے ایک اخباری جائزہ شائع ہوا ہے جس کی ابتداء ان جملوں سے ہوتی ہے:
"آج
کی نوجوان نسل کا رخ کس طرف ہے؟؟"
·
امریکہ: امریکی
نوجوانوں میں انحراف تیزی سے بڑھ رہا ہے۔
·
برطانیہ: برطانیہ
میں نشہ کرنے والے نوجوانوں کی انجمنیں تشکیل پا رہی ہیں۔
·
روس: روس
میں ایوانِ بالا کے نمائندے روسی نوجوانوں کے انحراف کے بارے میں گفتگو کر رہے
ہیں۔
اخبار "العالم" نے تمام دنیا میں
مقیم اپنے نمائندوں کو تار دیئے کہ وہ موجودہ نوجوان نسل کے انحراف کا مکمل جائزہ
ارسال کریں۔ چنانچہ لندن سے زغلول سید لکھتے ہیں:
برطانیہ:
"برطانوی
نوجوان خواہ وہ کسی بھی طبقہ سے متعلق ہوں، اکثر جرائم کا ارتکاب کرتے رہتے ہیں۔
... برطانوی اخبارات روزانہ ملک میں ہونے والے جرائم کی تفصیل شائع کرتے ہیں۔ ان
جرائم کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے کہ بعض نوجوان سینما دیکھنے گئے مگر
فلم انھیں پسند نہ آیا، تو انھوں نے سیٹوں کو چھروں سے کاٹ ڈالا، اور اسکرین بھی
پھاڑ دیا جس کے نتیجہ میں سینما بند ہو گیا۔ اور یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں
بلکہ اس قسم کا واقعہ تیسری بار پیش آیا تھا۔"
انجمنوں کے حملے: "کچھ ہی دن گزرے نوجوانوں کی چند انجمنوں نے ایک دوسری انجمن پر
حملہ کا پروگرام بنایا، اور اس کے دس افراد کو چھرے مار کر زخمی کر دیا۔ حملہ کی
تیاری اس طرح کی گئی تھی جیسے جنگ کی تیاری ہو رہی ہو۔ پہلے 'موسویل پارٹی' نے بعض
افراد کو خبریں لینے کے لئے بھیجا، اور پھر سب کے سب چھریاں، لاٹھیاں، لوہے کی
سلاخیں اور شیشے کے ٹکڑے لے کر حملہ آور ہو گئے۔ دوسری طرف پارٹی کے لوگ میونسپلٹی
کے میدان میں رقص کر رہے تھے کہ اچانک موسویل پارٹی ان پر ٹوٹ پڑی، رقص میں شریک
لڑکیوں کی چیخیں نکل گئیں اور ہر طرف خون بہنے لگا۔"
نچلے طبقے کے جرائم: "نچلے طبقہ کے افراد جو جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں، وہ بہت ہی
بھیانک اور ہولناک ہوتے ہیں۔ اس طبقہ کے منحرف نوجوان بڑی بڑی ٹولیوں میں جمع ہو
کر دیہات اور چھوٹے چھوٹے شہروں پر ٹوٹ پڑتے ہیں، اور وہ تمام حرکات کرتے ہیں جو
وہ فلموں میں دیکھتے ہیں۔"
عدالتی کاروائی: "گذشتہ ہفتہ پانچ نوجوان انحراف اور کاہلی کے الزام میں، ویسٹ
لندن کے جسٹس سیمور کولنز کے سامنے پیش ہوئے۔ جسٹس نے جان بومونٹ (۲۳ سال عمر) سے کہا کہ تم نوجوان ہو اور بڑے
اچھے امکانات سے فائدہ اٹھا سکتے ہو۔ تم کیوں خواہ مخواہ سستی اور کاہلی سے اپنے
آپ کو تباہ کر رہے ہو۔ ایک وقت آئے گا کوئی تمہاری مدد نہیں کرے گا۔" ...
مسٹر جسٹس نے پاؤلا ایونز (۲۳
سال عمر) سے کہا: "کیا فی الواقع تم یہی سمجھتی ہو کہ تمہارے کاموں کے لئے
ایک خدمت گار مقرر ہو جائے، اور تم اپنے بال پیشانی اور گردن پر ڈالے پھرتی
رہو؟" ... مسٹر جسٹس نے چارلس ویسٹ وڈ (۱۸ سال عمر) سے کہا: "تمہیں اپنے آپ کو ایک مہذب انسان بنانے
کے لئے محنت کرنا پڑے گی۔ تم کالج چھوڑ کر آوارہ گردی کیوں کرنے لگے؟"
کالج چھوڑنے کی وجہ: "میلکم ٹریک (۲۳
سال عمر) کہتا ہے کہ میرے والدین نے مجھے خاصی تعلیم دلائی، لیکن میں نے کالج میں
حصولِ تعلیم کے دوران سوچا کہ میں مستقبل میں کیا بنوں گا؟ اور اس سوال کے جواب
میں میں نے چشمِ تصور سے سارا سارا دن کسی بینک کی کرسی پر جمے ہوئے دیکھا، اور
مجھے زندگی کی اس طرز میں کوئی خوشی نظر نہ آئی۔ بلکہ اس طرزِ زندگی میں بیماریاں،
دوائیں اور مسکن گولیاں نظر آئیں۔ یہ سب کچھ سوچ کر میں نے کالج چھوڑ دیا۔ اور میں
آزاد زندگی گزارنے کے لئے لندن اور پیرس کی سڑکوں پر نکل آیا!"
زندگی کی تحقیر: "نوجوان نسل زندگی کو حقیر خیال کرتی ہے، اور ان میں بہت سے بھوک
کے مارے سڑکوں پر دم توڑ دیتے ہیں۔ اور بہت سے تقریباً تین سال سے لندن میں بیکاری
کی زندگی گزارتے آرہے ہیں، کیونکہ معاشرہ کسی نہ کسی طور ان کی مدد کرتا رہتا ہے۔"
آمدنی کے ذرائع: "چارلس ویسٹ وڈ بتاتا ہے کہ انھیں پیسے کس طرح میسر آتے ہیں:
'ہماری ہفتہ وار آمدنی تیس اور چالیس شلنگ کے درمیان ہے۔ اور یہ پیسے ہمیں ان
لوگوں سے حاصل ہوتے ہیں: ہم پر رحم کھانے والی لڑکیاں، وہ سیاح جو ہماری تصویریں
لینا چاہتے ہوں، لندن کے وہ لوگ جو شہر کے خفیہ ٹھکانوں کا پتہ لگانا چاہتے ہوں،
وہ دانشور جو رات بھر ہم سے بحث میں سر کھپاتے ہیں، یا وہ لوگ جو تنہا ہوں اور کسی
ساتھی کی تلاش میں ہوں۔ غرض ہر اس ذریعے سے پیسے آجاتے ہیں، جو جائز تو ہو مگر کچھ
کرنا نہ پڑے۔'"
بھنگ کا استعمال: "متوسط طبقہ کے نوجوانوں میں بھنگ کا استعمال تیزی سے بڑھ رہا
ہے۔ اس فتنہ میں نوجوانوں کی طرح لڑکیاں بھی مبتلا ہیں۔ چونکہ لڑکیوں کے لئے بھنگ
کا حصول مشکل ہے، اس لئے وہ مخدر گولیاں استعمال کرتی ہیں۔ یہ گولیاں چوری چھپے
ہوٹلوں اور بار روم میں ملتی ہیں۔ ... ان لڑکیوں نے بتایا کہ وہ ان گولیوں کو اس
لئے استعمال کرتی ہیں کہ وہ زندگی سے فرار چاہتی ہیں۔"
سوہو کا علاقہ: "جرم اور انحراف کے لحاظ سے سوہو کا علاقہ بدترین علاقہ ہے۔ یہاں
جگہ جگہ نشہ خانے بنے ہوئے ہیں۔ یہاں ساری ساری رات لڑکیاں ٹوئسٹ کرتی ہیں۔ مخدرات
کے استعمال سے ان کی عقلیں خبط ہو چکی ہیں۔ اب انھیں اس کی کوئی پرواہ نہیں کہ کیا
ہو رہا ہے، اور کیا ہوگا؟"
مقابلہ کے اقدامات: "سوال یہ ہے کہ برطانیہ نے جرائم کے بڑھتے ہوئے رجحان کے خلاف
کیا اقدامات کئے ہیں؟"
جنیوا سے محمود کامل لکھتے ہیں:
"اس
وقت رات کا ایک بجا ہے۔ تمام سڑکیں خالی پڑی ہیں۔ سردی اعصاب کو منجمد کئے دے رہی
ہے، اور رگوں میں خون کی گردش رکتی ہوئی محسوس ہوتی ہے کہ اچانک ایک قدیم طرز کی
لمبی ہوئی کار آتی ہے۔ ساری کار بری طرح طبعی اور غیر طبعی رنگوں سے پتی ہوئی ہے۔
کار کے ڈھانچے، کھڑکیوں، غرض ہر مقام پر کسی پکاسو کے مقلد نے عجیب عجیب تصویریں
بنائی ہوتی ہیں، جن کے نقوش کا کچھ پتہ نہیں چلتا۔ اس کار میں سات آدمی بیٹھے ہوتے
ہیں۔"
ہال میں: "آپ لڑکے لڑکیوں میں کوئی فرق نہیں محسوس کر سکتے۔ ایک ہی قسم کی
نہایت تنگ پتلون، جو جسم کو چھپانے کے بجائے اس کی ساخت کو نمایاں کرتی ہے۔ ایک ہی
قسم کا سرخ، ہرا اور لال بلاؤز (Blouse) پہنے ہوتے ہیں۔ اور لمبے لمبے بال ٹھوڑی اور گردن تک پڑے ہوتے
ہیں۔" ... "پھر یہ کار بحیرہ جنیوا (GENEVA) کے ساحل پر پھیلی ہوئی کوٹھیوں میں سے ایک
میں چلی گئی۔ اور یہ سب تالا کھول کر ایک بڑے ہال میں چلے گئے۔ لائٹیں روشن ہو
گئیں۔ اور بیئر اور وہسکی کو ایک بڑے برتن میں ڈال کر کاک ٹیل بنائی گئی۔ گراموفون
پر 'چٹر پٹر رنگ' شروع ہوگئی، اور پورے ماحول میں موسیقی بکھر گئی۔ پھر بڑی لائٹیں
گل ہوگئیں اور زمین پر بلب روشن ہو گئے۔ صوفوں، پردوں اور کھڑکیوں کی پوشیدہ
لائٹیں (HIDDEN LIGHTS) روشن
کر دی گئیں۔ ہر شخص نے سگار یا سگریٹ منہ کو لگا لیا ہے، اور دھواں کمرے کی چھت
میں گردش کرنے لگا۔ اس مجلس کی تکمیل کے لئے رقص بھی ضروری ہے۔ کسی کو یہ خبر نہیں
کہ صبح کے تین بجنے والے ہیں۔ بلکہ راک اینڈ رول اور ٹوئسٹ کے ریکارڈ لگا لئے گئے۔
پھر یہ لوگ بدمست ہو کر زمین پر ہاتھ پیر مارنے لگے۔ اس کے بعد سب کو تاش تقسیم
کئے گئے۔ ... ہارنے والے کو سزا دی جاتی ہے۔ وہ یہ کہ وہ اپنے تمام کپڑے اتار دے۔
... غرض یہ کھیل جاری رہتا ہے، حتیٰ کہ سب اپنے کپڑے اتار کر مادر زاد برہنہ ہو
جاتے ہیں۔ پھر قہقہے لگاتے ہیں، چیختے ہیں، اور ایک دوسرے کو چھیڑتے ہیں، اور اگر
اس پارٹی میں لڑکیاں بھی شامل ہوں تو حد سے زیادہ شور کرتے ہیں۔"
دوسری کہانی: "جب اخباروں نے ان نوجوانوں کی خبریں شائع کیں تو اس پر ان کے
گھر والوں نے کوئی نوٹس نہیں لیا، اور نہ انھیں اس ٹولی کے پکڑے جانے کے واقعہ پر
کوئی تاسف ہوا۔ وجہ یہ ہے کہ اب سوئٹزرلینڈ میں 'بلیزر بلیک' انجمنیں قائم ہو چکی
ہیں۔ یہ وبا پیرس سے آتی ہے۔ والدین کی دسترس سے بھاگ کر آنے والے نوجوان سڑکوں،
چائے خانوں اور بخش خانوں میں بے معنی بوہیمین زندگی (BOHEMIAN LIFE) گزارتے ہیں۔ ... پھر وہ اس تنگ دلی اور
بدحالی سے بچنے کے لئے کوئی ایسا عجیب کام کرتے ہیں کہ لوگ ان کی جانب متوجہ ہو
جائیں، اخبار میں ان کی تصاویر شائع ہوں، ان کے نام اخباروں کے پہلے صفحہ پر آئیں،
اور ہر جگہ ان کے تذکرے ہوں۔ نوجوان بے لگام ہو چکے ہیں۔"
پورے یورپ کا مسئلہ: "یہ صورتِ حال صرف سوئٹزرلینڈ ہی کی نہیں ہے، بلکہ پورا یورپ اس
مصیبت سے دوچار ہے۔ ویسے اس بیماری کی ابتداء پیرس سے ہوئی ہے۔ اخباروں نے کہا کہ
پیرس کے نوجوان مظلوم ہیں۔ یہ سب کچھ امریکی فلموں کا کیا دھرا ہے۔ یہ امریکی
فلمیں جو مار دھاڑ سے بھرپور اور چرواہوں کی زندگی دکھاتی ہیں، انھوں نے نئی نسل
کے اخلاق کو تباہ کر دیا ہے۔ فرنچ نوجوان کاؤ بوائے کی تقلید کرتے ہیں، اور یہ
خواب دیکھتے ہیں کہ جس وقت کسی بینک کے سامنے پولیس موجود نہ ہو، وہ امریکی طریقہ
پر بینک کو لوٹ کر راتوں رات امیر بن جائیں۔" ... "کچھ لوگ کہتے ہیں کہ امریکی فلمیں اس کی ذمہ دار نہیں ہیں۔ فرنچ نوجوانوں کے انحراف
کا سبب خود معاشرے کی اباحیت، خاندانی روابط کا عدمِ وجود، اور بچوں کی تربیت میں
والدین کا لاپرواہی برتنا ہے۔ غیر تربیت یافتہ نوجوان زندگی میں قدم رکھتے ہی حیرت
و تعجب سے دوچار ہو جاتے ہیں۔ فلمیں بھی اثر انداز ہوتی ہیں اور نوجوان غلط تصرفات
میں ایڈونچر (ADVENTURE) محسوس
کرنے لگتے ہیں۔"
شب بیدار محفلیں: "پیرس میں تقریباً ہر ماہ نوجوانوں کی شب بیدار محفلیں منعقد
ہوتی ہیں جن میں جانی ہالیڈے گاتا ہے۔ اس نوجوان کی عمر ۲۲ سال سے زیادہ نہیں، جسے پرائمری اسکول سے نکال دیا گیا تھا،
اور جو آج لاکھوں ڈالر کا مالک ہے۔ ٹکٹوں کی قیمت انتہائی زیادہ ہونے کے باوجود
تقریباً دس ہزار لڑکے اور لڑکیاں اس گلوکار کو سننے آتے ہیں۔ محفل رات کے نو بجے
منعقد ہوتی ہے اور اس وقت ختم ہوتی ہے جب خون بہہ جاتا ہے، دسیوں قتل اور زخمی ہو
جاتے ہیں، اور پولیس، فائر بریگیڈ، امدادی پارٹیاں اور والدین پہنچ جاتے ہیں۔"
ماہرین کی تجویز: "ماہرینِ نفسیات حفاظتی علاج تجویز کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں
فلموں پر سختی سے سنسر کیا جائے۔ فرانس، جرمنی اور اٹلی میں بننے والی جرائمی
فلمیں فوراً بند کر دی جائیں۔ کسی خاص عمر پر محدود کرنے کے بجائے ان کی نمائش
قطعاً روک دی جائے۔ ٹیلی ویژن پر غیر اخلاقی رقص بند کر دیئے جائیں۔ بے راہ رو
جانی ہالیڈے اور اس جیسے دوسرے نوجوانوں کو پکڑ کر تربیت گاہوں میں چھوڑ دیا جائے۔"
واشنگٹن سے فرید قرشی لکھتے ہیں:
امریکہ میں جرائم: "نوجوانوں میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں جرائم کی رفتار
تقریباً ۱۲ سال سے بڑی تیزی سے
بڑھ رہی ہے۔ اور اب عدالتوں میں پیش ہونے والے نوجوانوں کی تعداد لاکھوں تک پہنچ
چکی ہے۔ جب کہ ۱۹۵۲ میں نیویارک
کے عدالتوں میں پیش ہونے والے مقدمے صرف ۷۲۳ تھے۔" ... "نوجوانوں کا مسئلہ امریکی قوم کو پریشان
کئے ہوئے ہے۔ اور یہ بیماری اس امر کے اعلیٰ تر افراد میں سرایت کر چکی ہے۔ نوجوان
لڑکیاں بھی اس انحراف سے دوچار ہیں، جس سے یہ مسئلہ پیدا ہو گیا کہ ان سے کیا
برتاؤ کیا جائے۔ کیونکہ نوجوانوں کی تنظیمیں لڑکوں کے لئے مخصوص ہیں۔" ...
"پولیس نے ایک ٹولی پکڑی جن کی عمریں ۱۵ اور ۱۸ سال کے درمیان ہیں،
اور جو کھاتے پیتے گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان لڑکوں پر ۱۱ چوریاں، ۴
مرتبہ لوگوں کے گھروں میں گھسنے، ایک موٹر چرانے اور دس مرتبہ تخریبی سرگرمیوں میں
ملوث ہونے کے الزامات ہیں۔" ... "نیو جرسی میں پولیس نے نوجوانوں کی ایک
ٹولی کو چوری کے الزام میں پکڑا۔ انھوں نے تقریباً ۷۰ ہزار ڈالر کی قیمتی اشیاء چرا کر انھیں سستے داموں فروخت کر
دیا۔ انھوں نے اعتراف کیا کہ انھیں ان کے والدین اتنے پیسے دیتے ہیں کہ انھیں چوری
کی ضرورت نہیں ہے، مگر چوری ذرا ایک ایڈونچر قسم کی شے ہے۔" ...
"نیویارک کے ویسٹ چیسٹر کے مالدار علاقے میں پبلک پراسیکیوٹر
(PUBLIC PROSECUTOR) نے ۲۵۰ نوجوانوں پر مخدرات بیچنے اور انھیں استعمال
کرنے کا الزام لگایا ہے۔ حالانکہ یہ نوجوان خاصے دولت مند گھرانوں سے متعلق ہیں۔
ان میں سے اکثر نوجوان جو یونیورسٹیوں کے طالب علم بھی ہیں، ان مخدرات کے عادی بن
چکے ہیں۔"
کانگریس کا قانون: "امریکی کانگریس نے چھ سال کی بحث کے بعد ۱۹۶۱ میں نوجوانوں کے جرائم کا قانون پاس کیا، جس پر صدر کینیڈی نے
دستخط کئے۔ نوجوانوں کے جرائم کے خلاف یہ قانون بڑا اہم خیال کیا جاتا ہے۔ اس
منصوبہ میں آئندہ تین سالوں کے لئے ۳۰
ملین ڈالر رکھے گئے ہیں۔"
بیکاری کا مسئلہ: "چونکہ بیکاری نوجوانوں کے انحراف کا ایک بہت بڑا سبب ہے، جس کے
لئے کینیڈی حکومت نے ان نوجوانوں کو کام پر لگانے کے لئے ایک عظیم منصوبہ بنایا
ہے۔ جس کا ایک حصہ یہ ہے کہ ریاستہائے متحدہ امریکہ سے باہر 'امن فورس' قائم کی
جائے۔"
بین الاقوامی مسئلہ: "نوجوانوں کے جرائم صرف امریکہ تک محدود نہیں ہیں، بلکہ یہ ایک
بین الاقوامی مسئلہ بن چکا ہے۔ چنانچہ لندن میں ۱۹۶۰ میں جرائم کی روک تھام اور مجرموں کی اصلاح کے لئے جو اقوامِ
متحدہ کی کانفرنس منعقد ہوئی تھی، اس میں تمام دنیا کے مندوبین نے شرکت کی تھی اور
روسی نمائندے بھی موجود تھے۔"
عالمی رہنماؤں کا اعتراف (۱۹۶۱)
سب سے آخر میں دنیا کی دو عظیم حکومتوں کے
صدور کی گواہی سنئے۔ وہ دو حکومتیں جو روئے زمین کی مالک اور دنیا میں اپنا حلقہ
اقتدار متعین کرنے کے لئے باہم دست و گریباں ہیں۔ ۱۹۶۱ میں دو بیانات شائع ہوئے جن کے قائلین میں مذہب، سیاست اور
وسائل کا اسی قدر اختلاف ہے جس قدر خود اشتراکیت اور سرمایہ داری میں ہے، مگر
دونوں بیانات میں ایک قدرِ مشترک موجود ہے۔ دونوں اپنے وطن کے نوجوانوں کو متنبہ
کر رہے ہیں کہ ان کی اباحیت حد سے بڑھ چکی اور وہ تباہی کے کنارے پر آگئے ہیں۔
خروشچیف:
"اشتراکی
نوجوان سست ہو رہے ہیں۔ انھیں آسائشات نے تباہ کر دیا ہے۔ ان نوجوانوں میں اباحیت
اور انتشار سرایت کر گیا ہے۔ سوویت حکومت اس بے راہ روی کو ختم کرنے کے لئے پولیس
کو کھلی چھٹی دے دے گی، اور ان منحرف نوجوانوں سے چھٹکارا پانے کے لئے سائبیریا
میں نئے کیمپ بنائے جائیں گے۔ کیونکہ یہ نوجوان روس کے مستقبل کے لئے خطرہ ہیں!!"
کینیڈی:
"امریکی
نوجوان اباحیت پسند، عیاش، آسائش پسند اور شہوتوں میں غرق ہیں۔ ہر سات نوجوان جو
فوج میں بھرتی ہونے کے لئے آتے ہیں، ان میں سے چھ اپنی شہوت پسندی کی بناء پر اس
قابل نہیں ہوتے۔ یہ نوجوان امریکہ کے لئے خطرہ ہیں۔ علماء اور مصلحین کو چاہیے کہ
وہ اس خطرے کو محسوس کر کے اس کے علاج پر غور کریں!"
وہ بدنام زمانہ واقعہ بھی آپ کے ذہن سے نہ
اترا ہو گا، جس میں برطانیہ کے وزیرِ جنگ نے نہایت اہم جنگی راز ایک فاحشہ کے ساتھ
شہوت رانی کی نذر کر دیئے۔ یہ فاحشہ کئی ایک امراء اور وزراء کی منظورِ نظر تھی۔
اس کے علاوہ جنون، خودکشی، نفسیاتی اور اعصابی امراض اور خون کے دباؤ کے بڑھتے
ہوئے امراض جس کی کوئی دوسری مثال تاریخ میں نہیں ملتی!
بیسویں صدی کی گواہی کا خلاصہ
بیسویں صدی کی گواہی کافی اہم امور کی
نشاندہی کرتی ہے:
1. یہ اخلاقی
اباحیت ترقی نہیں بلکہ انحراف ہے۔
2. یہ انحراف
انسانی وجود کے لئے نقصان دہ اور ہلاکت کا باعث ہے۔
3. فطرتِ انسانی
کا وجود ہے۔ اور یہ فطرت اپنی طبیعت کے خلاف امور سے اذیت پاتی، اور ان امور کے
تواتر سے بیمار ہو جاتی ہے۔
4. فطرت غیر
متغیر ہے۔ جو امور آج سے دو ہزار سال قبل فطرت کی اذیت اور ہلاکت کا سبب تھے، وہ
آج زمانے گزرنے کے بعد اسی طرح فطرت کے خلاف ہیں۔ ایسی کوئی ترقی نہیں ہوتی کہ جو
امور پہلے فطرت کے لئے ضرر رساں تھے، وہ آج اس کے لئے مفید ہو گئے ہوں، بلکہ آج
بھی اسی طرح ضرر رساں ہیں۔
5. انسانی زندگی
کا اخلاقی پہلو کم از کم تمام نسلوں کے لئے غیر متغیر پیمانہ ہے۔ جو امور لوگوں کے
تعلقات اور صنفی تعلق میں آج سے دو ہزار سال قبل درست و صحیح تھے، وہ آج بھی صحیح
ہیں۔ اور جو اس وقت غلط اور انحراف تھے، وہ تمام تر سائنسی ترقی، اجتماعی، معاشی
اور سیاسی ارتقاء، اور ہزاروں لوگوں میں نفسیاتی تبدیلی کے بعد آج بھی اسی طرح غلط
اور انحراف ہیں۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ ہر انسانی زندگی کے نظام
کو اخلاق کے اس غیر متغیر مقیاس کو ضرور اپنے نظام کا جز بنانا ہو گا۔ اس کے بعد
مادی، معاشی، اجتماعی اور سیاسی پہلوؤں میں خواہ کتنی ہی لچک رہے۔ کیونکہ ان
پہلوؤں کو نمو حاصل کرنا ہے، اور ان کا نمو زندگی کے ہر صالح نظام کے زیرِ سایہ
ہونا چاہیے۔ اس لئے ہم پر لازم ہو جاتا ہے کہ ہم انسانی زندگی کے بارے میں اسلام
کا موقف واضح کریں۔
انسانی زندگی کے
بارے میں اسلام کا موقف
اسلام مذہبِ فطرت ہے۔ اور اسلام کی سب سے بڑی
خوبی یہ ہے کہ وہ فطرتِ انسانی سے پوری طرح ہم آہنگ اور اس سے ہر طرح مطابقت رکھتا
ہے۔ میں نے اپنی دو گذشتہ تصنیفات میں اس تطابق کی کیفیت واضح کی ہے۔ چنانچہ
"اسلامی تربیت کے منہاج" میں، میں نے انسانی نفس کی تربیت کے بارے میں
اسلام کا طریقہ واضح کیا، جو نفس کے تمام پہلوؤں کو محیط اور شامل ہے۔ انسانی وجود
کے بارے میں اسلامی تربیت کا طریقہ کار یہ ہے کہ وہ اس کا مکمل اور متوازن علاج
کرتی ہے، اور کسی پہلو کو نظر انداز نہیں کرتی۔ جسم، عقل، روح، مادی و معنوی
زندگی، غرض انسانی زندگی کے ہر پہلو کو اسلامی تربیت اپنے دائرہ اثر میں لئے ہوئے
ہے۔
اسلامی تربیت پورے انسانی وجود کو اللہ
تعالیٰ کی پیدا کردہ فطرت کے مطابق مدِ نظر رکھتی ہے۔ فطرت کے کسی پہلو کو نظر
انداز نہیں کرتی، اور نہ کوئی بات خارج سے اس پر مسلط کرتی ہے۔ اسلامی تربیت فطرت
کا نہایت عمیق جائزہ لے کر مضرابِ فطرت کے ہر تار پر ضرب لگاتی اور اس سے ابھرنے
والے نغمے کو پوری طرح ہم آہنگ بناتی ہے۔ اسلامی تربیت ہر تار پر علیحدہ ضرب نہیں
لگاتی کہ اس طرح بے ربط نغمے ابھریں۔ اور ایسا بھی نہیں کرتی کہ بعض تاروں پر
مسلسل ضرب لگاتی رہے اور بعض کو مسلسل نظر انداز کئے رکھے، کیونکہ اس طرح نغمہ
ناقص رہتا ہے، اور وہ پُر سوز اور دلکش آواز (جو اپنی دلکشی میں معجزے کا درجہ
رکھتی ہو) کا اظہار نہیں کر پاتا۔ بلکہ اسلامی تربیت ایک ہی وقت میں تمام تاروں پر
یکساں ضرب لگاتی ہے۔
اور میں نے اپنی کتاب "اسلامی
نفسیات" میں نفسِ انسانی کے مکونات اور ان کے علاج میں اسلام کا طریقہ بتایا
ہے۔ اور خاص طور پر انسانی وجود کے باہمی ربط پر زور دیا ہے۔ انسان کا منفرد اور
جداگانہ وجود دوگانہ طبیعت کا مالک ہے۔ اور اس کے دونوں عناصر میں ربط و ہم آہنگی
پائی جاتی ہے۔ انسان اپنی اس دوگانہ طبیعت کی بناء پر فرشتوں اور حیوانات کے اعمال
انجام دیتا ہے، مگر وہ ان اعمال کو اپنے مخصوص انسانی طریقہ پر انجام دیتا ہے، جن
میں وہ کبھی فرشتہ سے مشابہ ہوتا ہے اور کبھی حیوان سے۔ مگر پھر بھی وہ فرشتے اور
حیوان سے ممتاز ہے؟ یہی نہیں، بلکہ انسان اپنی دوگانہ طبیعت کے باوجود بھی ایک
موحد اور منفرد وجود ہے۔ اس منفرد وجود سے صادر ہونے والے اعمال پیچیدہ اور باہم
پیوست ہیں۔ انسانی اعمال اگرچہ بعض اوقات علیحدہ علیحدہ محسوس ہوتے ہیں، مگر ان
میں بڑا گہرا ربط ہوتا ہے۔ مادی، معنوی، عملی، تہذیبی، معاشی، اجتماعی، سیاسی،
فکری، روحانی، غرض انسانی زندگی کے تمام اعمال بظاہر واضح اور مخصوص نوعیت کے حامل
نظر آتے ہیں، اور ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے انسان زندگی کے ایک ہی پہلو کو علیحدہ
سے انجام دے رہا ہو اور اس کا کسی دوسرے پہلو سے کوئی تعلق نہ ہو۔ مگر یہ صرف وہم
ہے۔ جیسے جسم اور روح کا علیحدہ ہونا ایک خیالی شے ہے۔ وہم کی وجہ یہ ہے کہ کسی
وقت انسانی زندگی کا ایک پہلو زیادہ نمایاں ہو جاتا ہے، اور دوسرا پہلو اس قدر
نمایاں نہیں رہتا، بلکہ ذرا اوجھل ہو جاتا ہے۔
یہاں ہم اس موضوع کو ایک دوسرے زاویہ سے زیرِ
بحث لا رہے ہیں: یہ کہ انسانی وجود میں کون سے امور غیر متغیر ہیں، اور کون سے
ارتقاء پذیر، اور اس موقعہ پر نفسِ انسانی کے بارے میں اسلام کا کیا موقف ہے۔
انسانی وجود ایک ایسی وحدت ہے جس میں غیر
متغیر پہلو بھی ہیں اور ارتقاء پذیر پہلو بھی ہیں۔ یا یہ کہئے کہ صورتیں متغیر
ہوتی رہتی ہیں، جوہر غیر متغیر رہتا ہے۔ مگر یہ عجیب بات ہے کہ انسان میں غیر متغیر
اور ارتقاء پذیر اجزاء مل کر ایک ہی وحدت بناتے ہیں۔ ایسی وحدت جو مربوط، پیوست
اور متحد ہے اور جس کے اجزاء کو علیحدہ علیحدہ کرنا ممکن نہیں ہے۔
- عقلِ
انسانی: ترقی پذیر ہے، اور ہمیشہ آگے بڑھتی رہتی ہے۔ نئی نئی
معلومات، تجربات اور تصورات حاصل کرتی رہتی ہے۔ مگر اس سارے ارتقاء کے باوجود
عقل، انسانی وجود اور انسانی نفس سے علیحدہ تن تنہا ترقی نہیں کرتی۔ بلکہ اس
کا نمو اور ارتقاء انسان (خواہ وہ فرد ہو یا جماعت) کے پورے داخلی وجود ہی کے
اندر رہتے ہوئے ہوتا ہے۔
- مادی
و سائنسی ترقیات: عقلی
ارتقاء کے نتیجہ میں رونما ہونے والی تمام مادی اور سائنسی ترقیات بھی ہمیشہ
آگے بڑھتی رہتی ہیں۔ مگر انسانی وجود سے علیحدہ رہ کر نہیں۔ بلکہ ان کا اصل
مقام انسان کا وہ ہی غیر متغیر داخلی وجود ہوتا ہے جس سے انسان تشکیل پاتا
ہے۔
- معاشی،
اجتماعی، سیاسی اور نفسیاتی ارتقاء: بھی
آگے بڑھتا اور ترقی پاتا ہے۔ مگر انسان کے اس غیر متغیر داخلی وجود میں رہتے
ہوئے، جس پر یہ تغیرات اثر انداز نہیں ہوتے ہیں۔
انسان کی اس دوگانہ طبیعت کو اسلام مدِ نظر
رکھتے ہوئے اس کی بنیاد پر انسانی زندگی کے لئے ایک مکمل نظامِ حیات تشکیل کرتا
ہے۔
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
شروع کرتا ہوں اللہ
کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔
يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ
الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ
مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً (اے لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو، جس نے تم کو
ایک جاندار سے پیدا کیا۔ اور اسی جاندار سے اس کا جوڑا پیدا کیا۔ اور ان دونوں سے
بہت سے مرد اور عورتیں پھیلائیں۔) (القرآن، النساء: ۱)
اس دلکش آیت میں چار مسائل انسانی زندگی کے
غیر متغیر پہلوؤں کی نشاندہی کر رہے ہیں:
1. اپنے
پروردگار سے ڈرو۔
2. جس نے تمہیں
پیدا کیا۔
3. ایک جاندار
سے، اسی جاندار سے اس کا جوڑا پیدا کیا۔
4. اور ان دونوں
سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلائیں۔
یہ بھی ایک اعجاز ہے کہ اس ایک چند کلمات
والی آیت میں چار مسائل بڑے سادہ اور سہل انداز میں سمو دیئے گئے۔ گویا ایک آیت
بطورِ معجزہ بڑے اختصار کے ساتھ ساری انسانی زندگی کی تاریخ بیان کر رہی ہے؟
قرآن کریم میں اور بھی کئی آیات ہیں۔ جو اس
مسئلہ پر تفصیلی گفتگو کر رہی ہیں اور جب ہم اس مسئلہ یا ان چاروں مسائل کے بارے
میں تفصیلی بحث کریں گے تو وہ آیات پیش کریں گے۔ مگر یہاں ہم اس ایک چند الفاظ
والی آیت پر روشنی ڈالیں گے جس میں بڑے سادہ انداز میں انسانیت کے بنیادی حقائق
بیان کئے گئے ہیں۔
ربوبیت، وحدتِ انسانی، صنفی وحدت اور انسانی
معاشرہ — یہ چاروں مسائل وہ ڈھانچہ بنا رہے ہیں جس میں رہ کر انسانیت زندگی گزارتی
ہے۔
"اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تمہیں پیدا کیا"۔ یہ ربوبیت اور تخلیق کا مسئلہ ہے۔ اللہ ہی
پیدا کرنے والا ہے۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو ہمیشہ سے غیر متغیر رہا ہے اور تاریخ
کے سارے مدو جزر اس میں کوئی تبدیلی نہ پیدا کر سکے۔ اور نہ تاریخ کے تغیرات اس کی
اہمیت میں کوئی کمی پیدا کر سکے۔ اس لئے اس کا لازمی نتیجہ ہے کہ اللہ سے ڈرا جائے
— اسی مقام سے انسانی زندگی کا اولین مسئلہ یعنی عقیدہ کا مسئلہ سامنے آتا ہے۔
"ایک جاندار سے"۔ یہ مسئلہ بتاتا ہے کہ پوری انسانیت ایک نفس
سے اور ایک اصل مشترک سے پیدا ہوتی ہے۔ اور ایک ہی وجود ان کو آپس میں ملاتا ہے۔
یہ مسئلہ بھی نہ تاریخی انقلابات سے بدلا۔ اور نہ اس کی اہمیت میں کوئی کمی واقع
ہوئی اس پر انسانی اخوت کی بنیاد ہے۔
"اس جاندار سے اس کا جوڑا پیدا کیا"۔ صنفی مسئلہ ہے۔ مرد اور عورت ایک دوسرے سے
وابستہ ہیں۔ اور عورت مرد ہی کا ایک حصہ ہے۔ اس مسئلہ میں تاریخی تغیرات سے نہ
کوئی تبدیلی ہوئی اور نہ ہی اس کی اہمیت میں کوئی کمی واقع ہوئی۔ اس سے انسان کی
دونوں صنفوں میں مساوات اور دونوں صنفوں کے درمیان ایک غیر متغیر تعلق کا پتہ چلتا
ہے۔
"اور ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلائیں" یہ افراد سے ابھرنے والے معاشرے کی نشاندہی
ہے۔ سب انسان ایک نفس سے پیدا ہوتے ہیں۔ اور آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ اس مسئلہ
میں بھی تاریخی تغیرات نے نہ کوئی تبدیلی کی ہے۔ اور نہ ان کی اہمیت میں کوئی کمی
واقع ہوئی ہے۔ اور اسی لئے معاشرے کی تنظیم انہی حقائق پر ہوتی ہے۔
اخوت — وحدتِ تخلیق — اور وحدتِ نفسِ انسانی
— کیا یہ حقائق ذرائع پیداوار کے تغیر یا سائنسی ترقی سے بدل گئے ہیں — یا ان
حقائق کی تاثیر میں کوئی تبدیلی آئی ہے؟ اپنی ابتدا سے لے کر انتہا تک یہ حقائق
ناقابلِ تغیر رہے ہیں کیونکہ یہ تاریخی حقائق ہیں جن کی تبدیلی ناممکن ہے!
ان چاروں غیر متغیر حقائق پر، اور کئی
حقیقتیں، قوانین اور توجیہات قائم ہیں۔ اور چونکہ وہ حقائق غیر متغیر ہیں اس لئے
ان پر مرتب ہونے والے قوانین بھی ناقابلِ تغیر اور رہتی دنیا تک رہنے والے ہیں۔
اب ہم اس مسئلہ کو ذرا تفصیل سے زیرِ بحث
لائیں گے۔
ربوبیت
"اے لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تمہیں پیدا کیا ہے"۔
اسلامی تصور میں ربوبیت کا مسئلہ بنیادی
مسئلہ اور اولین حقیقت ہے۔ اس ایک حقیقت سے مندرجہ ذیل حقائق ابھرتے ہیں۔ اللہ
تعالیٰ ہی خالق ہے۔ اسی نے کائنات کو پیدا کیا۔ اور اسی نے انسان کو پیدا کیا۔ اس
لئے وہ ہی رب ہے۔ اور تنہا اس کی عبادت کرنی ہے۔
یہ ایک ناقابلِ تغیر حقیقت ہے۔ تمام مادی،
علمی، معاشی، اجتماعی اور نفسیاتی تغیرات کے نتیجہ میں کوئی ایسا نیا خالق رونما
نہیں ہوا جس کی جانب کائنات کی تخلیق منسوب کی جاسکے۔ اور بالخصوص انسان کی تخلیق!
روئے زمین پر انسان جو بھی تغیر و ارتقاء
کرتا ہے۔ جو بھی بناؤ سنوار کرتا ہے اور جو بھی ہلاکت و تباہی پھیلاتا ہے۔ اس سے
اس ازلی حقیقت میں کوئی تبدیلی نہیں آتی اور نہ زمین یا آسمان میں اللہ کے سوا
کوئی نیا خالق پیدا ہو گیا ہے۔
جولین ہکسلے (JULIAN HUXLEY) جیسے ملاحد (ATHEISTS) جو یہ کہتے ہیں کہ انسان کو اب وہ ذمہ داریاں
خود ہی سنبھالنی چاہئیں ۔ جو وہ اپنے جہل اور عجز کی بناء پر پہلے اللہ کے کاندھوں
پر ڈالا کرتا تھا — یہ ان ملاحدہ کی یاوہ گوئی اور عقل دشمنی ہے۔ اگرچہ یہ لوگ
بقول بعض دانشوروں کے اپنے الحاد میں مخلص ہیں۔ یہ ملاحدہ درحقیقت زندگی کے حقائق
کی غلط تعبیر کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا۔ اور اس
کو خلافت عطا فرمائی ہے۔
وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي
جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً (جب کہا آپ کے رب نے فرشتوں سے میں بنانے والا ہوں زمین میں اپنا
خلیفہ) (البقرہ: ۳۰)
اس خلافت کا تقاضا ہی یہ ہے کہ انسان اللہ کے
حکم سے زمین میں کچھ اشیاء حالات اور واقعات کو برتے، کار لائے۔ پیداوار حاصل کرے
اور عملِ پیہم میں لگا رہے اور موجود اشیاء میں تغیر کر کے ان میں مسلسل نئی شکلیں
دیتا رہے۔ یہی خلافت کے معنی ہیں۔ کیا اس حقیقت سے انسان کو یہ دھوکہ ہو سکتا ہے
کہ وہ اپنی حقیقت فراموش کر کے اللہ ہی سے برسرِ پیکار ہو جائے؟
أَوَلَمْ يَرَ الْإِنْسَانُ أَنَّا
خَلَقْنَاهُ مِنْ نُطْفَةٍ فَإِذَا هُوَ خَصِيمٌ مُبِينٌ (کیا آدمی کو یہ معلوم نہیں کہ ہم نے اس کو
نطفہ سے پیدا کیا۔ سو وہ علانیہ اعتراض کرنے لگا۔) (یٰس: ۷۷)
وہ کون سی شے ہے جو انسان نے اللہ کے قانون
کے برخلاف بنالی ہو؟ کیا انسان کا ہر عمل، ہر پیداوار، ہر انشاء اور ہر تغیر اس
قانونِ الٰہی کے مطابق نہیں ہے جو اللہ تعالیٰ نے فطرت کے لئے متعین فرما دیا ہے؟
انسان کا سارا کام یہ ہے کہ اللہ کے مقرر کردہ قوانینِ طبیعت یعنی اللہ کی سنت کا
پتہ چلائے۔ اس معرفت میں جو قوت اللہ نے رکھی ہے۔ اسے اس کا علم ہو جائے۔ پھر جس
قدر اللہ تعالیٰ نے اسے قدرت دی ہے۔ وہ اپنے علم و معرفت کو قوانینِ طبیعت پر
منطبق کرے۔ کیا اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ طریقہ کار سے انسان کا کوئی بھی عمل خارج
ہے؟
بے شک یہ ملاحدہ یاوہ گوئی اور عقل دشمنی سے
کام لے رہے ہیں اور جہالت کے اندھیرے میں انھیں ناموسِ فطرت نظر نہیں آتی!
اللہ کے سوا آسمان و زمین کا کوئی خالق نہیں
ہے۔ یہ ایک ایسی سائنٹفک حقیقت ہے۔ جس سے کائنات کے تمام حقائق وابستہ ہیں۔
جب وہ ہی ایک الہٰ ہے تو تمام بندوں کو اسی
کی عبادت کرنی چاہیئے۔
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا
لِيَعْبُدُونَ (اور میں نے جن اور انسان کو اسی واسطے پیدا کیا ہے کہ وہ میری
عبادت کیا کریں۔) (الذاریات: ۵۶)
عبادت ایک مکمل، وسیع اور محیط لفظ ہے۔ یہ
صرف محصور اور محدود معنی میں عبادتی شعائر کا نام نہیں ہے بلکہ ہر شے عبادت میں
شامل ہے۔ بندوں کا ہر عمل عبادت ہے کیونکہ انسانوں کو عبادت ہی کے لئے پیدا کیا
گیا ہے۔ انسان جو بھی عمل کرتا ہے۔ وہ عبادت ہے۔ انسانی عمل اور عبادتی شعائر
اسلام کی نظر میں ایک ہی شے ہیں۔
جب اللہ ایک ہے تو اس کی وحدانیت کا تقاضا ہے
کہ اس کی عبادت کی جائے اور اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کی جائے۔ اس کے بھی محدود
اور تنگ معنی مراد نہیں ہیں کہ انسان کسی کو رکوع اور سجدہ نہ کرے۔ یہ مفہوم
عبادتی شعائر کا تنگ اور محدود مفہوم ہے۔ عبادت کے حقیقی معنی یہ ہیں کہ انسان کے
وہ تمام اعمال عبادت ہیں جو صرف اللہ کے لئے کئے جائیں۔ اور اللہ کے سوا کسی اور
کے لئے ہرگز نہ کئے جائیں۔ اس لئے تمام انسانی عمل عبادت ہے۔ اور سارا عمل صرف
اللہ کے لئے ہے۔
انسان کا کھانا پینا، رہنا سہنا، لباس، بقائے
نوع کا جذبہ، ملکیت، قتال، اظہارِ ذات کا میلان، محبت و نفرت سب اللہ کے لئے ہیں۔
اور یہی عبادت کا وسیع تر اور حقیقی مفہوم ہے۔
اللہ کی وحدانیت کا ایک تقاضا یہ ہے کہ صرف
اسے حاکمیت اور قانون سازی کا حق ملنا چاہیئے۔۔۔ کیونکہ حاکمیت الوہیت ہے۔ اور
حاکمیت کی اطاعت عبادت ہے۔ جو بھی انسان لوگوں کے لئے قانون بناتا ہے۔ اسے یہ خیال
ضرور ہوتا ہے کہ لوگوں کو اس قانون کی اتباع کرنی چاہیئے نہ کہ کسی دوسرے قانون کی
— مطلب یہ کہ لوگ قانون ساز کی عبادت کریں۔ اگر لوگ اس کے قانون کی اتباع نہیں
کرتے تو وہ اس کے لئے سزائیں متعین کرتا ہے، گویا وہ انھیں اپنا غلام بناتا ہے اور
جب لوگ برضا و رغبت اس کی اتباع کرتے ہیں تو گویا وہ خود اس کی عبادت کرتے ہیں۔
قانون ساز ایک فرد ہو یا ایک جماعت — وہ اپنے
لئے یہ حق مقرر کر لیتے ہیں کہ لوگوں کے لئے جائز و ناجائز امور متعین کریں۔ اور
مخالفین کے لئے سزائیں تجویز کریں۔ گویا یہ فرد یا جماعت الٰہ کے حقوق خود لے کر
بیٹھ جاتے ہیں۔ اور لوگوں سے چاہتے ہیں کہ وہ ان کی جانب ایسے ہی متوجہ ہوں۔ جیسے
وہ اللہ کی جانب متوجہ ہوتے ہیں — اور جب تک یہ خود الٰہ اور خالق نہ بن بیٹھیں
انھیں یہ حق نہیں مل سکتا۔
یہ اسلامی تصور کا اولین اصول ہے کہ عبادت
صرف اللہ کی ہونی چاہیئے یعنی صرف ایک اللہ کے لئے ہے۔ اور قانون سازی کا حق صرف
ایک اللہ کو حاصل ہے۔ یہ مسئلہ ایک ازلی اور سائنٹفک حقیقت پر مبنی ہے کہ اللہ کے
سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ اور جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ انسان اپنے لئے قانون بنائے۔
اور اپنی زندگی کے اصول متعین کرے۔ یہی لوگ نہایت واضح الفاظ میں کہہ رہے ہیں کہ
پہلے انسان جو ذمہ داریاں اللہ پر ڈالا کرتا تھا۔ وہ اب اسے خود اٹھانی چاہئیں۔
چونکہ وہ خدا بن چکا ہے!!!
انسانی فطرت اور اللہ کی طرف توجہ
اس ازلی حقیقت کے متوازی ایک اور حقیقت بھی
ہے اور وہ یہ کہ انسانی فطرت اللہ کی عبادت کی جانب متوجہ رہتی ہے۔
وَاِذۡ اَخَذَ رَبُّکَ مِنۡۢ بَنِیۡۤ اٰدَمَ مِنۡ ظُہُوۡرِہِمۡ ذُرِّیَّتَہُمۡ وَ اَشۡہَدَہُمۡ عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمۡ اَلَسۡتُ بِرَبِّکُمۡ ؕ قَالُوۡا بَلٰی ۚۛ شَہِدۡنَا ۚۛ (اے نبیﷺ! یاد دلاؤ لوگوں کو وہ وقت جبکہ
تمہارے رب نے بنی آدم کی پشتوں سے ان کی نسل کو نکالا تھا اور انہیں خود ان کے
اوپر گواہ بنا کر پوچھا تھا ”کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟“ انہوں نے کہا ”ضرور آپ
ہی ہمارے رب ہیں۔ ہم اس پر گواہی دیتے ہیں“) (اعراف: ۱۷۲)
یہ ایک علمی حقیقت ہے جس کی تائید تاریخی
واقعات کرتے ہیں۔ انسان تمام ادوار اور ہر ماحول میں اللہ کی عبادت کرتا رہا ہے۔
مگر کبھی اس عبادت میں ہدایت پر رہا۔ اور کبھی گمراہ ہوا۔ کبھی صحت و درستگی کے
ساتھ اللہ کی عبادت کی۔ اور کبھی منحرف صورتوں میں یا اللہ کی عبادت کرتا رہا۔ اور
اس کے ساتھ دوسرے معبودانِ باطل کو بھی شریک کرتا رہا۔ مگر بہر کیف ہر حالت میں
انسان اللہ کی عبادت کرتا رہا۔ اس اللہ کی جس نے اسے پیدا کیا۔ اور جس نے کائنات
اور زندگی کو تخلیق کیا۔
اللہ کی عبادت کے لئے فطرت کو کسی رہنما کی
ضرورت نہیں ہے۔ بلکہ فطرت گمراہ طریقہ پر یا ہدایت یافتہ طریقہ پر اللہ کی عبادت
کی جانب خود بخود متوجہ رہتی ہے۔ البتہ کائنات کے مختلف تاثرات انسان کی خوابیدہ
فطرت کو بیدار کر کے اللہ کی طرف متوجہ کرتے رہتے ہیں۔
انسانیت خواہ کتنی ہی قوت و طاقت کیوں نہ
حاصل کرے۔ وہ اپنے نفس کی گہرائیوں میں اپنے آپ کو عاجز محسوس کرتی ہے۔ انسان
چاہتا ہے کہ اسے ہر شے پر قدرت حاصل ہو جائے۔ اور وہ اپنے آپ کو اس سے عاجز محسوس
کرتا ہے۔ انسان ہمیشہ زندہ رہنے کی خواہش کی تکمیل سے عاجز ہے۔ غیب کی معرفت سے
عاجز ہے۔ انسان اللہ بننے سے عاجز ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اسے غذا، لباس اور صنفی تعلق
کسی شے کی ضرورت نہ رہے۔!!
انسان عظیم ترین کائنات۔ اور اس کے نظام کی
وقت پر ہیبت محسوس کرتا ہے۔ اس کائنات میں بڑے عظیم اجسام بکھرے ہوتے ہیں۔ جن کی
جزئیات و تفصیلات، جن کی تنظیم اور جن کی اپنے مدار میں گردش دقیق اور معجزانہ ہے!
انسانی احساسات موت سے بھی متاثر ہوتے ہیں۔ اور
انسان زندگی کے عطا کرنے والے کی تلاش میں سرگرداں ہو جاتا ہے۔
تنوع اور گوناگوں واقعات، گردشِ لیل و نہار،
تغیرِ زمان و مکان، کشمکشِ موت و حیات، صحت و مرض، امارت و غربت، لذت و الم، سعادت
و شقاوت — یہ سب احساسِ انسانی کے وہ تار ہیں۔ جن پر ضرب لگا کر کائنات فطرت کو
بیدار کرتی اور اللہ کی طرف بلاتی ہے۔
اسلام اپنے نظام کی بنیاد انہی دو متوازی
حقیقتوں کو بناتا ہے۔ یعنی خالق کا وجود، اور فطرت کا اس کی طرف متوجہ رہنا۔ اسلام
انسان کو اللہ پر ایمان کا وہ عقیدہ دیتا ہے جو انسان کی اللہ کی طرف متوجہ ہونے
والی فطرت کی پکار کا جواب ہے۔ اسلام فطرت کو بھی گمراہی سے بچاتا اور صحیح راستہ
پر قائم کرتا ہے۔ یہ عقیدہ انسان کی اللہ کی جانب متوجہ ہونے کی فطری ضرورت کی
تکمیل کرتا ہے۔ اللہ کی عبادت کی فطری ضرورت کو پورا کرتا ہے۔ اور اس کی اس فطری
ضرورت کو پورا کرتا ہے کہ کائنات اور زندگی میں انسان کا کیا مقام ہے اور فطرتِ
انسانی اور اللہ کے درمیان کیا ربط و تعلق ہے۔
- دوسری
جانب — عقیدہ
انسانی زندگی کو اللہ کی عبادت اور اللہ کی حاکمیت کے مطابق منظم کرتا ہے۔
چنانچہ انسانی زندگی کے تمام قوانین اور دستورِ حیات عقیدہ سے روشنی حاصل
کرتا، اور اللہ کی عبادت سے مربوط و متعلق رہتا ہے۔
- اور
تیسری جانب عقیدہ
مستحکم و غیر متزلزل حالت قانون اور نظامِ زندگی کو انسانی فطرت سے ہم آہنگ
کر دیتا ہے۔ اور عقیدہ اور فطرت ہر پہلو سے متوازی ہو جاتے ہیں۔
جن نظام ہائے حیات نے اس ازلی حقیقت کی خلاف
ورزی کی ہے۔ ذرا دیکھئے ان میں انسان پر کیا کچھ بیت گئی؟!
- ہر طرح کی برائیاں پھیلیں
— انسانوں نے وطنی حدود میں اور پوری دنیا میں دوسرے انسانوں کو غلام بنایا۔
- طبقہ حاکمہ نے تمام طبقوں
کو نظر انداز کر کے اپنے مفاد کی خاطر قانون سازی کا حق اپنے لئے رکھ لیا۔
گویا وہ باقی لوگوں کے خدا بن گئے۔ اور دوسرے تمام لوگ ان کے غلام۔ تاریخ کے
تمام ادوار میں فردِ حاکم طَاغُوت ہی رہا ہے۔ یہ تو وطنی حدود میں صورتِ حال
ہے — مگر پوری دنیا میں ایک قوم پوری قوم کو غلام بناتی ہے۔ دونوں ہی صورتیں
اللہ کے خلاف بغاوت ہیں۔
- ان باطل نظاموں نے
انسانوں کو خواہشات کا بندہ بنا دیا۔ کیونکہ جب انسان اللہ کی صحیح اور سچی
عبادت سے باغی ہو جاتا ہے تو اس پر اس کی شہوتیں اور خواہشاتِ نفس مسلط ہو
جاتی ہیں۔ اور انسان اپنی خواہشات کا ذلیل غلام بن جاتا ہے۔
- یہ تمام نظام انسانی فطرت
سے کوئی مطابقت نہیں رکھتے۔ کیونکہ یہ تمام نظام انسانی فطرت کے بارے میں بڑی
گہری جہالت میں مبتلا ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان باطل نظام ہائے حیات سے روئے
زمین فساد اور بدبختی سے بھر گئی ہے۔
- ان باطل نظاموں نے انسان
کی فطری ضرورتوں کو دو حصوں میں بانٹ دیا ہے۔
1. ایک انسان کی
عقیدے کی ضرورت
2. اور دوسری
انسانوں کے امن و راحت کے لئے ضروری تنظیموں کا قیام — اور یہ دوسری ضرورت غیر
اللہ کی مدد سے پوری کی گئی جس سے انسان کی فطری ضروریات میں تضاد، اس کے شعور میں
پراگندگی پیدا ہوگئی۔ اور وہ خود جنون اور اضطراب کا شکار ہو گیا — اب۔
یہ باطل پرستانہ نظام — انسانیت کو تباہی سے
ہمکنار کیا چاہتے ہیں (جیسا کہ ہم اس کتاب میں بیسویں صدی کی گواہی کے زیرِ عنوان
بتا چکے ہیں)۔
اللہ کا عقیدہ غیر متغیر ہے۔ کیونکہ جس بنیاد
پر یہ عقیدہ قائم ہے۔ یعنی خالق کا وجود اور مخلوق کا وجود — وہ غیر متغیر ہے۔ اسی
لئے اللہ کا نازل کردہ عقیدہ تاریخ کے تمام ادوار میں غیر متغیر رہا ہے۔ کوئی
تبدیلی اس میں نہیں ہوئی۔
لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا نُوۡحًا اِلٰی قَوۡمِہٖ فَقَالَ یٰقَوۡمِ اعۡبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُمۡ مِّنۡ اِلٰہٍ غَیۡرُہٗ (ہم نے نوح کو اس قوم کی طرف بھیجا۔ اس نے
کہا۔ اے برادرانِ قوم اللہ کی بندگی کرو۔ اس کے سوا تمہارا کوئی خدا نہیں ہے۔)
(اعراف: ۵۹)
وَاِلٰی عَادٍ اَخَاہُمۡ ہُوۡدًا ؕ قَالَ یٰقَوۡمِ اعۡبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُمۡ مِّنۡ اِلٰہٍ غَیۡرُہٗ (اور عاد کی طرف ہم نے ان کے بھائی ہود کو
بھیجا۔ اس نے کہا۔ اے برادرانِ قوم اللہ کی بندگی کرو۔ اس کے سوا تمہارا کوئی خدا
نہیں ہے۔) (اعراف: ۶۵)
وَاِلٰی ثَمُوۡدَ اَخَاہُمۡ صٰلِحًا ۘ قَالَ یٰقَوۡمِ اعۡبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُمۡ مِّنۡ اِلٰہٍ غَیۡرُہٗ (اور ثمود کی طرف ہم نے ان کے بھائی صالح کو
بھیجا۔ اس نے کہا اے برادرانِ قوم اللہ کی بندگی کرو۔ اس کے سوا تمہارا کوئی خدا
نہیں ہے۔) (اعراف: ۷۳)
وَاِلٰی مَدۡیَنَ اَخَاہُمۡ شُعَیۡبًا ؕ قَالَ یٰقَوۡمِ اعۡبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُمۡ مِّنۡ اِلٰہٍ غَیۡرُہٗ (اور مدین والوں کی طرف ہم نے ان کے بھائی
شعیب کو بھیجا۔ اس نے کہا۔ اے برادرانِ قوم اللہ کی بندگی کرو۔ اس کے سوا تمہارا
کوئی خدا نہیں ہے۔) (اعراف: ۸۵)
ایک ہی دعوت ہے جو تاریخ کے ہر دور میں دی جا
رہی ہے۔ مگر تاریخ کے ہر دور میں عقیدہ کا بھی ایک پہلو ارتقاء پذیر رہا ہے۔ یعنی
قانون سازی اور تنظیم کا پہلو۔ تاکہ وہ اس وقت کی قوم کے نفسیاتی، اجتماعی اور
عقلی معیار کے مطابق ہو سکے۔ مگر جب انسانیت اپنے "رشد" اور بلوغ کو
پہنچ گئی تو عقیدہ بھی اپنی آخری اور غیر متغیر صورت میں نازل ہوا۔ اور اسی عقیدے
میں آنے والے تغیرات کے مطابق مناسب لچک رکھی گئی۔ (آئندہ باب میں یہ موضوع تفصیل
سے بیان ہوگا)۔
اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ وَ اَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ وَ رَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسۡلَامَ دِیۡنًا (آج کے دن میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل
کر دیا۔ اور تم پر اپنی نعمتیں تمام کر دیں۔ اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کر
لیا۔) (مائدہ: ۳)
مغربی اجتماعیات کا یہ کہنا کہ خود اللہ کے
عقیدہ میں تغیر و ارتقاء ہوتا رہا ہے۔ ایک دھوکہ اور مغالطہ ہے اور مقصد اس فریب
سے لوگوں کے ذہنوں میں یہ خبیث تصور پیدا کرنا ہے کہ عقیدہ ایک انسانی معاملہ ہے
جسے انسان نے دورِ جہالت میں اپنایا تھا۔ اور اب روشن دور میں اس سے چھٹکارا مل
جانا چاہیئے۔
حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے عقیدے میں کوئی
ارتقاء نہیں ہوا ہے بلکہ اللہ کے عقیدے میں انحراف ہوتا ہے۔ جب انسانیت باپ کی
عبادت کی۔ جب اس نے طوطم کی پرستش کی۔ جب اس نے بتوں کی پوجا کی۔ اور جب اس نے
طبعی قوتوں کو معبود مانا۔ اور تمام مرحلوں پر انسانیت اللہ کے عقیدے میں منحرف
تھی اور اللہ کے بارے میں نت نئے منحرف تصورات سے دوچار تھی۔ اللہ کے بارے میں
انسانیت کے تصورات معلومات کے ارتقاء کے ساتھ بدلتے رہے۔ اور اجتماعی، معاشی اور
سیاسی تبدیلیوں کے ساتھ بدلتے رہے۔ مگر ان میں سے کسی بھی مرحلہ پر انسانیت اللہ
کے دین پر نہیں چل رہی تھی۔
تاریخ سے ایک اور حقیقت واضح ہوتی ہے۔ جس سے
مغربی اجتماعیات نے عمداً گریز کیا ہے۔ وہ یہ کہ انسانیت پے در پے اور تغیر پذیر
انحرافات کے باوجود رسولوں کی آمد اور ان کی ہدایت پر کچھ وقت کے لئے صحیح عبادت
کی طرف لوٹتی رہی ہے۔
مغربی علمِ اجتماعیات عقیدے کے منحرف تصورات
کی تبدیلی اور ارتقاء سے جو نتیجہ اخذ کرتا ہے۔ وہ ہرگز اس امر کی دلیل نہیں بنتا
کہ مذہب اللہ کا نازل کردہ نہیں ہے۔ بلکہ انسانوں کی ایجاد ہے۔ عقیدے کا انحراف اس
بات کی بھی دلیل نہیں ہے کہ اللہ کا عقیدہ کوئی تغیر پذیر عنصر ہے۔ جو وقت آنے پر
لوگوں کے دلوں سے محو ہو جائے۔ اور اس کی جگہ کوئی اور عقیدہ — یا مطلقاً عدمِ
عبادت کا تصور آجائے گا!
بلکہ یہ نو بہ نو بدلتے ہوئے انحرافات،
شیطانوں کے من گھڑت اجتماعیات کی تردید کرتے ہیں! یہ انحرافات تو خود عقیدے کے
عدمِ تغیر کی دلیل ہیں۔ چنانچہ تمام زمانوں اور تمام اقوام میں اللہ کا عقیدہ
موجود رہا ہے۔ یہ عقیدہ اپنی منحرف صورتوں میں ہدایت یافتہ رہا ہو یا گمراہ — مگر
بہر حال اللہ ہی کا عقیدہ رہا۔ اس لئے عقیدہ انسانی وجود میں غیر متغیر ہے!
بیسویں صدی اور بیسویں صدی کے شیطان و
سائنسدان ان انحرافات سے اپنا مقصد حاصل نہیں کر سکتے۔ ان کا مقصد یہ ہے کہ بیسویں
صدی کے لوگ آزاد ہیں۔ انھیں اللہ کی عبادت کی ضرورت نہیں ہے! یا اللہ کی عبادت
چھوڑ دینا انسانیت کا ایک مظہر ہے۔ جس کا وقت اب بیسویں صدی میں آیا ہے!
لاکھوں سال سے فطرت جس بات کا اٹل فیصلہ دیتی
رہی ہے۔ اس کو بیسویں صدی کے شیطانوں کے لئے منحرف و ناقص زندگی نہیں بدل سکتی۔ ان
شیاطین کی فطرت میں فساد پیدا ہو گیا۔ اور وہ آدمیت کے معیار سے گر گئے!
وحدتِ انسانی
"اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جاندار سے پیدا کیا"۔
خالق کی ربوبیت اور بندوں کی عبودیت کے بعد
قرآن کریم دوسرے مسئلوں کی جانب متوجہ ہوتا ہے۔ "تمہیں ایک جاندار سے پیدا کیا"۔ یہ ایک ایسی غیر متغیر حقیقت ہے۔ جسے سارے
معاشی، اجتماعی اور سیاسی تغیرات اور ذرائع پیداوار کا ارتقاء بھی نہیں بدل سکتے۔
ان میں سے کوئی بھی تغیر، کوئی بھی ارتقاء یہ نہیں کہتا کہ انسان کی تاریخ اس کی
اصلیں مختلف رہی ہیں۔ یہاں تک کہ ڈارون کی بیان کردہ حیوانی تعبیر جنسِ انسانی کی
متعدد اصلیں نہیں بتاتی۔ بلکہ یہ بتاتی ہے کہ بالآخر نوعِ انسانی اپنی ایک اصل سے
مل جاتی ہے۔
اس حقیقت سے کئی امور سامنے آتے ہیں:
انسانیت کی وحدت و اخوت ایک علمی حقیقت ہے جس
سے لوگوں کے تعلقات کے بڑے اہم امور وابستہ ہیں۔ ان امور کو انسانیت کے تمام باطل
نظاموں نے نظر انداز کر دیا ہے۔ مگر اسلام نے ان کو مدِنظر رکھا ہے۔ ہم پرانے
نظاموں کا تذکرہ نہیں کرتے۔ جنہوں نے لوگوں کو اچھوت بنا کر ان کے حقوق غصب کرتے
تھے۔ اور ان کو ایسا کر چھوڑا تھا کہ وہ آدمی بھی باقی نہیں رہے تھے۔ بلکہ ہم
بیسویں صدی کے جدید ترین اور ترقی یافتہ نظاموں کا تذکرہ کر رہے ہیں۔
بیسویں صدی کے تہذیب یافتہ امریکہ اور
برطانیہ اور جنوبی امریکہ اور دوسرے ممالک میں نسلی عصبیت کی بناء پر زمین کا چہرہ
کس قدر مسخ ہو کر رہ گیا ہے اور انسانیت کی وحدت و اخوت پارہ پارہ ہو کر رہ گئی
ہے!؟ آج کے متکبر اللہ کی عبادت سے باغی باطل نظاموں میں یہ حقیقت کس قدر واضح ہو
کر سامنے آگئی ہے کہ یہ نظام انسانیت کی اخوت و وحدت کو نظر انداز کئے ہوتے ہیں —
جب کہ ان نظام ہائے باطلہ کا دعویٰ ہے کہ وہ اب غلامی سے آزاد ہو چکے ہیں۔ انھیں
اب اللہ اور اس کے رسولوں کی رہنمائی کی ضرورت نہیں رہی۔ کیونکہ وہ اب سائنس، ترقی
اور تمدن کا دور گزار رہے ہیں؟؟
کیا یہ ہی انسانی اخوت و وحدت ہے کہ جب تہذیب
یافتہ سفید فام کسی سیاہ فام کو پکڑ لیتے ہیں تو اس کو اس قدر مارتے ہیں کہ وہ مر
جاتا ہے۔ پھر وہ اس کی لاش درخت پر لٹکا دیتے ہیں۔ اور اس بے چارے کا گناہ صرف یہ
ہوتا ہے کہ وہ کالا ہے۔ اور سفید فام پولیس کھڑی تماشہ دیکھتی رہتی ہے۔ اور اس کی
آنکھوں کے سامنے یہ بھیانک جرم کیا جاتا ہے۔ مگر وہ کوئی مداخلت نہیں کرتی۔ یہ
تہذیب ہے یا ترقی یافتہ تہذیب ہے! جو مذہب کے مقابلہ میں بڑی متکبر ہے۔ جو کہتی ہے
کہ اللہ پر عقیدہ رکھنا رجعت، تاخر اور انحطاط ہے!
اسلام نے انسانیت کی وحدت و اخوت کو اپنے ہر
قانون میں مدِنظر رکھا ہے۔
وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ
لِتَعَارَفُوا ۚ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ (ہم نے تمہیں شعوب اور قبائل بنایا تاکہ تم
ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ اللہ کے نزدیک تم میں زیادہ برگزیدہ وہ ہے۔ جو خدا سے
ڈرنے والا ہے) (الحجرات: ۱۳)
قرآن نے یہ نہیں کہا کہ سفید فام لوگ یا
زیادہ تہذیب یافتہ لوگ اللہ کے ہاں زیادہ معزز ہیں۔ وہ اہلِ تہذیب جو رنگداروں کو
اس لئے قتل کرتے ہیں کہ وہ رنگ دار ہیں۔ اور کسی رنگ دار نسل کے بچوں کو ان کے
اسکولوں میں تعلیم کا حق مل جائے — جو انسان کا ایک عام حق ہے — تو وہ ایک شدید
طوفانِ احتجاج برپا کر دیتے ہیں۔
- "کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فضیلت نہیں — سوائے تقویٰ
کے۔" (طبری)
- "سنو اور اطاعت کرو۔ اگرچہ تمہارے اوپر کسی ایسے حبشی غلام
کو عامل بنا دیا جائے ۔ جس کا سر کشمش کی طرح ہو۔ جب تک وہ اللہ کی کتاب کے
مطابق فیصلے کرتا رہے۔" (بخاری)
اسلام نے وحدت و اخوتِ انسانی کو واقعاتی
زندگی میں بھی برپا کیا چنانچہ فتحِ مکہ کے دن مؤذنِ رسول حضرت بلالؓ کعبہ کی چھت
پر چڑھ گئے۔ اور اذان دی۔ اور کعبہ کی جاہلیت اور اسلام دونوں ادوار میں عظمت کی
جاتی تھی ایک حدیث میں نبی کریمﷺ نے عمارؓ اور ابنِ مسعودؓ کا تذکرہ حضرت ابوبکرؓ
اور حضرت عمرؓ کے ساتھ کیا۔ آپﷺ نے فرمایا۔ "مجھے نہیں معلوم کہ میں تم میں
اب کتنا عرصہ رہوں گا۔ میرے بعد ان لوگوں کی اقتدا کرنا" (ابوبکرؓ اور عمرؓ
کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا) "عمارؓ سے ہدایت حاصل کرنا اور ابنِ مسعودؓ
جو کہیں اس کی تصدیق کرنا" (ترمذی)
اخوت و وحدتِ انسانیت اسلام میں غیر مسلموں
کے لئے بھی ملحوظ رکھی گئی، کیونکہ وہ بھی بہر حال انسان ہیں۔
"اے
لوگو! اللہ سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جاندار سے پیدا کیا"۔
اگر کافر فساد فی الارض، مسلمانوں سے جنگ اور
ان کو ان کے دین کے بارے میں نہ بہکائیں۔ تو اسلام نے ان سب سے صرف انسانیت کی
بنیاد پر معاملہ کیا ہے۔
لَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ
يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ أَنْ
تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ (اللہ تعالیٰ تم کو ان لوگوں کے ساتھ احسان
اور انصاف کا برتاؤ کرنے سے منع نہیں کرتا۔ جو تم سے دین کے بارے میں نہیں لڑے اور
تم کو تمہارے گھروں سے نہیں نکالا۔ اللہ تعالیٰ انصاف کا برتاؤ کرنے والوں سے محبت
رکھتے ہیں۔) (ممتحنہ: ۸)
بلکہ اسلام نے اخوت و وحدتِ انسانیت کا خیال
ان کافروں کے بارے میں بھی رکھا جو اسلام کے بالمقابل قتال کے لئے آتے۔ سوائے
مسلمانوں کی جنگوں کے تاریخ اس انسانی کریمانہ معاملہ سے واقف نہیں ہے!
جو لوگ اللہ پر ایمان نہیں رکھتے۔ اور جو
مسلمان نہیں بننا چاہتے۔ وہ مسلح و جنگ میں اپنے وحشیانہ پن، نسل، ظلم و ستم، قتل
اور بڑے پیمانہ پر تباہی کے لئے تاریخ کی مادی تعبیر اور انسان کی حیوانی تعبیر سے
اپنے بدترین افعال کے جواز تلاش کر سکتے ہیں — اور ان لوگوں کو بھی جواز مل سکتا
ہے۔ جو آج کے آزادی، ترقی اور اللہ کی عبادت سے تکبر کے دور میں اپنی الوہیت اور
اپنی حکمرانی نافذ کرنے کے لئے لوگوں کو وحشیانہ سزائیں دیتے ہیں۔
اخوت و وحدتِ انسانیت کا تصور پورے اسلامی
قانون میں اس طرح واضح طور پر جھلکتا ہے۔ اس تصور سے یہ بات بالکل عیاں ہے کہ
انسانیت کا اولین اصول صلح ہونا چاہیئے۔ کیونکہ ایک نفس سے پیدا شدہ تمام اولاد کے
لئے یہی مناسب ہے کہ وہ صلح و آشتی سے رہیں۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا
فِي السِّلْمِ كَافَّةً (اے ایمان والو! اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ۔) (البقرہ: ۲۰۸)
وَإِنْ جَنَحُوا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا
وَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ (اگر دشمن صلح و سلامتی کی طرف مائل ہوں تو تم بھی اس کے لئے جھک
جاؤ اور اللہ پر بھروسہ کرو۔) (الانفال: ۶۱)
پہلی بات جو مومنین سے کہی جا رہی ہے۔ وہ یہ
کہ سب کے سب سلامتی میں آجائیں۔ وہ اس طرح کہ اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کریں۔ تاکہ
ان کی فطرت، ان کے ماحول اور ان کے آپس کے درمیان سلامتی چھا جائے۔ اور وہ اس طرح
انسانیت پر ممتاز امتِ راشدہ بن جائیں۔
وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا
لِّتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا (اور ہم نے تم کو ایک ایسی جماعت بنا دیا ہے۔
جو ہر پہلو سے نہایت اعتدال پر ہے۔ تاکہ تم مخالف لوگوں کے مقابلہ میں گواہ ہو۔
اور تمہارے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گواہ ہوں۔) (البقرہ: ۱۴۳)
وہ امت جو اپنے آپ کو انسانیت کے لئے نمونہ
بنا کر پیش کر رہی ہے۔ اسے پوری اور سچی طرح قرآنی مفہوم کا ترجمان ہونا چاہیئے۔
اور اس ترجمانی میں وہ مخلص بھی ہو۔
دوسری آیت میں امتِ مومنہ اور دیگر اقوام کے درمیان
تعلق بتایا گیا ہے کہ اگر وہ مائل بہ صلح ہو جائیں۔ اللہ کی دعوت کا راستہ نہ
روکیں۔ اور لوگوں کے اسلام قبول کرنے میں حارج نہ ہوں۔ تو مسلمانوں کو بھی حکم ہے
کہ وہ بھی صلح کے لئے جھک جائیں۔ کیونکہ ان کے اور لوگوں کے درمیان اسلام کی دعوت
کے راستے کھلے ہوتے ہیں۔ اور زمین میں اللہ کے نظام کو بغیر روک ٹوک برپا کر سکتے
ہیں۔ تاکہ زمین میں سلامتی پھیل جائے۔ اور ایک نفسِ انسانی سے ابھرنے والی اخوت
بروئے کار آجائے۔
اور اگر دعوتِ اسلامی یا مسلمانوں کے خلاف یا
اسلامی نظام کے خلاف کسی نہ کسی صورت میں کوئی سرکشی کی جائے۔ خواہ یہ سرکشی دعوتِ
حق کو روک کر یا اللہ کے قانون پر قائم شدہ نظام سے جنگ کر کے۔ یا مسلمانوں کو ان
کے دین سے ورغلا کر کسی بھی شکل میں کی جائے تو اس ظالمانہ سرکشی کی روک تھام کے
لئے مسلمانوں کو جنگ کا حکم دیا گیا۔
وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ الَّذِينَ
يُقَاتِلُونَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا ۚ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ (تم اللہ کی راہ میں لڑو۔ ان لوگوں کے ساتھ جو
(نقضِ عہد کر کے) تمہارے ساتھ لڑنے لگیں۔ اور از خود حد (معاہدہ) سے نہ نکلو۔ اور
واقعی اللہ تعالیٰ حد (قانونِ شرعی) سے نکلنے والوں کو پسند نہیں کرتے۔) (البقرہ: ۱۹۰)
فَإِنِ انتَهَوْا فَلَا عُدْوَانَ إِلَّا
عَلَى الظَّالِمِينَ (اور اگر وہ لوگ (ظلم) سے باز آجائیں تو سختی کسی پر نہیں ہوا
کرتی، بجز بے انصافی کرنے والوں کے) (البقرہ: ۱۹۳)
مندرجہ بالا تصور سے یہ مفہوم رونما ہوا کہ:
لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ (دین میں کوئی زبردستی نہیں) (البقرہ: ۲۵۶)
بیشک اسلام ہی ہدایت ہے اور مسلمان ہی ہدایت
یافتہ اور امتِ راشدہ ہیں۔ مگر اس کے باوجود انھیں یہ اجازت نہیں ہے کہ وہ اپنے
انسانی بھائیوں کو دینِ حق کی اتباع پر مجبور کریں۔ ان کا سارا کام یہ ہے کہ وہ ان
کو ہدایت کی طرف بلائیں اور اچھی طرح اور احسن طریقہ پر بلائیں۔ جیسا کہ اخوت کا
تقاضا ہے۔
ادْعُ إِلَىٰ سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ
وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ ۖ وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ (اے نبیﷺ! اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو۔
حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ۔ اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقہ پر جو بہترین
ہو۔) (النحل: ۱۲۵)
اسلام میں جنگ اس لئے نہیں ہے کہ لوگوں کو
دینِ حق ماننے پر مجبور کیا جائے (اسلامی جہاد)۔ کیونکہ یہ بات واضح ہے کہ دین میں
اکراہ نہیں ہے۔ بلکہ اسلام میں جنگ اس لئے ہے کہ ان ظالم قوتوں کو ختم کیا جاسکے۔
جو لوگوں کو ہدایت سے روکتے ہیں۔ اگر یہ ظالم و سرکش قوتیں مائل بہ صلح ہو جائیں۔
اور اس بات کا اقرار کر لیں کہ وہ حق کی دعوت میں روڑے نہیں اٹکائیں گے ۔ تو پھر
جنگ نہیں ہے۔
اس سے یہ حقیقت بھی واضح ہوتی کہ مومنین اور
دوسرے مذاہب والوں کے درمیان مودت کا تعلق ہونا چاہیئے۔
وَطَعَامُ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ
حِلٌّ لَّكُمْ وَطَعَامُكُمْ حِلٌّ لَّهُمْ ۖ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الْمُؤْمِنَاتِ
وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ (اور جو لوگ کتاب دیئے گئے ہیں۔ ان کا ذبیحہ
تم کو حلال ہے اور تمہارا ذبیحہ ان کو حلال ہے اور پارسا عورتیں بھی جو مسلمان ہوں
اور پارسا عورتیں ان لوگوں میں سے بھی جو تم سے پہلے کتاب دیئے گئے ہیں۔)
(المائدہ: ۵)
یہ تعلق مل جل کر کھانے، ایک دوسرے سے ملاقات
کرنے اور باہمی نکاح و بیاہ کرنے کا تعلق ہے۔ جو مضبوط ترین تعلقات میں سے ایک ہے۔
اسی وحدت و اخوتِ انسانی سے یہ امر بھی ابھرا
کہ انسانوں میں انصاف انسانیت کی بنیاد پر ہونا چاہیئے۔ انصاف کی خاطر کسی اور بات
کو مدِنظر نہ رکھا جائے۔ خواہ یہ دوسری بات مومن دشمنی ہی کیوں نہ ہو! چنانچہ اس
خبیث سرد جنگ کے دوران جو یہودیوں نے مسلمانوں کے خلاف مسلمانوں کے مرکز میں برپا
کی ہوئی تھی۔ وہ چاہتے تھے کہ عقیدے کی جڑیں پھیلنے سے پہلے ہی اسے اکھاڑ کر پھینک
دیں۔ اور مومنین کے قدم ڈگمگا جائیں۔ وہ مکرو فریب سے کام لے کر افواہیں پھیلا رہے
تھے۔ لوگوں کے دلوں میں شکوک و شبہات پیدا کر رہے تھے۔ اور مسلمان مردوں اور
عورتوں کی عزت کے بارے میں یاوہ گوئی کر کے انھیں تکلیف پہنچا رہے تھے — اور اس
سرد جنگ کے ساتھ باقاعدہ جنگ بھی جاری تھی۔ جس میں ہتھیار بھی استعمال ہو رہے تھے۔
عہد و پیمان توڑے جا رہے تھے۔ اور حرمتیں لٹ رہی تھیں۔
اس نازک ترین مرحلہ پر بھی اسلام ایک یہودی
پر ہونے والے ظلم کو برداشت نہیں کر سکا۔ اس یہودی پر غلط تہمت لگائی گئی تھی۔ اور
اس کی سزا کا فیصلہ ہوا چاہتا تھا — کہ اس یہودی کی براءت میں وحی نازل ہو گئی
—
إِنَّا أَنزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ
بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ بِمَا أَرَاكَ اللَّهُ ۚ وَلَا تَكُن لِّلْخَائِنِينَ خَصِيمًا ﴿١٠٥﴾ وَاسْتَغْفِرِ اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ كَانَ غَفُورًا رَّحِيمًا ﴿١٠٦﴾ وَلَا تُجَادِلْ عَنِ الَّذِينَ يَخْتَانُونَ أَنفُسَهُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ مَن كَانَ خَوَّانًا
أَثِيمًا ﴿١٠٧﴾ (بے شک ہم نے آپ کے پاس یہ نوشتہ بھیجا ہے۔
واقع کے موافق تاکہ آپ لوگوں کے درمیان اس کے موافق فیصلہ کریں
جو کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بتلا دیا ہے، اور آپ ان خائنوں کی طرف داری کی بات نہ
کیجئے۔ اور آپ استغفار فرمائیے بلاشبہ اللہ تعالیٰ بڑے مغفرت کرنے والے بڑے رحمت
والے ہیں۔ اور آپ ان لوگوں کی طرف سے کوئی جواب دہی کی بات نہ کیجئے۔ جو کہ اپنا
ہی نقصان کرتے ہیں۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو نہیں چاہتے۔ جو بڑا خیانت کرنے
والا بڑا گناہ کرنے والا ہو۔) (النساء: ۱۰۵-۱۰۷)
يَسْتَخْفُونَ مِنَ النَّاسِ وَلَا
يَسْتَخْفُونَ مِنَ اللَّهِ وَهُوَ مَعَهُمْ إِذْ يُبَيِّتُونَ مَا لَا يَرْضَىٰ
مِنَ الْقَوْلِ ۚ وَكَانَ اللَّهُ بِمَا يَعْمَلُونَ مُحِيطًا ﴿١٠٨﴾ هَا أَنتُمْ هَٰؤُلَاءِ جَادَلْتُمْ عَنْهُمْ فِي
الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فَمَن يُجَادِلُ اللَّهَ عَنْهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَم
مَّن يَكُونُ عَلَيْهِمْ وَكِيلًا
﴿١٠٩﴾ وَمَن يَعْمَلْ سُوءًا أَوْ يَظْلِمْ نَفْسَهُ ثُمَّ
يَسْتَغْفِرِ اللَّهَ يَجِدِ اللَّهَ غَفُورًا رَّحِيمًا
﴿١١٠﴾ وَمَن يَكْسِبْ إِثْمًا فَإِنَّمَا يَكْسِبُهُ عَلَىٰ
نَفْسِهِ ۚ
وَكَانَ اللَّهُ عَلِيمًا حَكِيمًا
﴿١١١﴾ (جن لوگوں کی یہ کیفیت ہے کہ آدمیوں سے تو چھپاتے ہیں۔ اور اللہ
تعالیٰ سے نہیں شرماتے۔ حالانکہ وہ ان کے ساتھ ہے۔ جب کہ وہ خلافِ مرضیِ الٰہی
گفتگو کے متعلق تدبیریں کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے سب اعمال کو اپنے احاطہ میں
لئے ہوئے ہیں۔ ہاں تم ایسے ہو کہ تم نے دنیوی زندگی میں تو ان کی طرف سے جواب دہی
کی باتیں کر لیں۔ سو خدا تعالیٰ کے روبرو قیامت کے روز ان کی طرف سے کون جواب دہی
کرے گا۔ یا وہ کون شخص ہو گا۔ جو ان کا کام بنانے والا ہو گا۔ اور جو شخص کوئی
برائی کرے یا اپنی جان کا ضرر کرے۔ پھر اللہ تعالیٰ سے معافی چاہے۔ تو اللہ تعالیٰ
کو بڑی مغفرت والا بڑی رحمت والا پائے گا۔ اور جو شخص کچھ گناہ کا کام کرتا ہے۔ تو
وہ فقط اپنی ذات پر اس کا اثر پہنچاتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ بڑے علم والے بڑے حکمت
والے ہیں۔) (النساء: ۱۰۸-۱۱۱)
وَمَن يَكْسِبْ خَطِيئَةً أَوْ إِثْمًا ثُمَّ
يَرْمِ بِهِ بَرِيئًا فَقَدِ احْتَمَلَ بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُّبِينًا ﴿١١٢﴾ وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكَ وَرَحْمَتُهُ لَهَمَّت
طَّائِفَةٌ مِّنْهُمْ أَن يُضِلُّوكَ وَمَا يُضِلُّونَ إِلَّا أَنفُسَهُمْ ۖ وَمَا يَضُرُّونَكَ مِن شَيْءٍ ۚ وَأَنزَلَ اللَّهُ عَلَيْكَ الْكِتَابَ
وَالْحِكْمَةَ وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُن تَعْلَمُ ۚ وَكَانَ فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكَ عَظِيمًا ﴿١١٣﴾ (اور جو شخص کوئی چھوٹا گناہ کرے یا بڑا گناہ پھر اس کی تہمت کسی
بے گناہ پر لگا دے اس نے تو بڑا بھاری بہتان اور صریح گناہ اپنے اوپر لادا۔ اور
اگر آپ پر اللہ کا فضل اور رحمت نہ ہو تو ان لوگوں میں سے ایک گروہ نے تو آپ کو
غلطی ہی میں ڈال دینے کا ارادہ کر لیا تھا۔ اور غلطی میں نہیں ڈال سکتے۔ لیکن اپنی
جانوں کو اور آپ کو ذرہ برابر ضرر نہیں پہنچا سکتے۔ اور اللہ نے آپ پر کتاب اور
علم کی باتیں نازل فرمائیں۔ اور آپ کو وہ باتیں بتلائی ہیں۔ جو آپ نہ جانتے تھے۔
اور آپ پر اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل ہے۔) (النساء: ۱۱۲-۱۱۳)
قرآن کریم کی یہ نو آیات اس قدر تفصیل، وضاحت
اور شدید مکرر تاکید کے ساتھ اس لئے نازل ہوئیں ۔ تاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم کو اس یہودی کے خلاف فیصلہ کرنے سے باز رکھ سکیں جس کو تمام ظاہری حالات مجرم
قرار دے رہے تھے مگر وہ فی الواقع بری تھا۔ اس طرح اسلام نے واقعاتی دنیا میں وہ
انسانی اصول زندہ کیا ہے جس کی اسلام سے باہر کوئی مثال نہیں ملتی!
پھر وحدت و اخوتِ انسانی کے بارے میں اسلام
مندرجہ ذیل ہدایات دیتا ہے۔
وَلَا تَلْمِزُوا أَنفُسَكُمْ وَلَا
تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ (اور نہ ایک دوسرے کو طعنے دو۔ اور نہ ایک دوسرے کو برے لقب سے
پکارو۔) (الحجرات: ۱۱)
مِنْ أَجْلِ ذَٰلِكَ كَتَبْنَا عَلَىٰ بَنِي
إِسْرَائِيلَ أَنَّهُ مَن قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي
الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا
أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا (اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر یہ لکھ دیا کہ جو شخص کسی
دوسرے شخص کو بلا معاوضہ دوسرے شخص کے یا بدون کسی فساد کے جو زمین میں اس سے
پھیلا ہو۔ قتل کر ڈالے۔ تو گویا اس نے تمام آدمیوں کو قتل کر ڈالا۔ اور جو شخص کسی
شخص کو بچا لیوے۔ تو گویا اس نے تمام آدمیوں کو بچا لیا۔) (مائدہ: ۳۲)
وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَىٰ
أَلَّا تَعْدِلُوا ۚ اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَىٰ (اور کسی خاص لوگوں کی عداوت تم کو اس پر باعث
نہ ہو جائے کہ تم عدل نہ کرو۔ عدل کیا کرو۔ کہ وہ تقویٰ سے زیادہ قریب ہے۔)
(مائدہ: ۸)
صلح و جنگ، محبت و نفرت کا یہ ایک مبلغ
پیمانہ ہے۔ اسلام کی نظر میں انسانی زندگی کا یہ پہلو غیر متغیر ہے۔ اس میں حالات
اور خواہشات سے کوئی رد و بدل نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ یہ پہلو حالات کی پیداوار نہیں
ہے۔ بلکہ یہ پہلو ایک غیر متغیر حقیقت سے ابھرتا ہے۔ جس میں ذرائع پیداوار کے
ارتقاء اور تاریخی واقعات سے کوئی تبدیلی نہیں ہوتی!
صنفی وحدت
تیسرا مسئلہ صنفی تعلقات کا ہے جو انسانیت کے
اہم ترین تعلقات میں سے ہے۔
"اُس نے تمہیں ایک جاندار سے پیدا کیا۔ اور اس جاندار سے اس کا
جوڑا پیدا کیا"
زوجین مرد و عورت۔ ایک ہی نفس سے پیدا ہوتے۔
اس مقام پر نفس کا لفظ بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ یعنی شرکت صرف نوعِ انسانی میں نہیں
بلکہ شرکتِ نفس میں ہے۔ اس لئے مرد و زن دونوں انسان کے داخلی وجود میں مشترک ہیں
جس کی جانب نفس کا لفظ اشارہ کر رہا ہے۔ جس طرح مرد و زن انسان کے خارجی وجود میں
باہم شریک ہیں۔ اور ان کے انسانی وجود میں کوئی فرق نہیں ہے۔
فَاسْتَجَابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ أَنِّي لَا
أُضِيعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنكُم مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ ۖ بَعْضُكُم مِّن بَعْضٍ (سو منظور کر لیا۔ ان کی درخواست کو ان کے رب
نے اس وجہ سے کہ میں کسی شخص کے کام کو جو کہ تم میں سے کرنے والا ہو۔ اکارت نہیں
کرتا۔ خواہ وہ مرد ہو یا عورت ہو۔ تم آپس میں ایک دوسرے کے جزو ہو۔) (آل عمران: ۱۹۵)
اسلام نے اس اولین حقیقت کو وضع کرنے کے بعد
اس کے مطابق کئی ایک قوانین بنائے۔ اسلام کے بغیر جن قوانین تک انسانیت کی رسائی
ایک طویل عرصہ گزرنے اور بڑی کشمکش کے بعد ہوئی۔ جس کشمکش نے مغربی خاندان اور
معاشرہ کو تباہ کر دیا۔ اخلاق و روایات کو برباد کر دیا۔ اور ایسی خوفناک جنسی بے
راہ روی کا سبب بنی۔ جس نے انسان کو حیوان بنا کر مجنونانہ جنس پرستی میں مبتلا کر
دیا۔
جب کہ اسلام نے عورت کو شرافت و عزت عطا کی۔
اس کے وجود اور اس کے ساتھ مرد کے وجود کا تحفظ کیا۔ اور خاندان اور معاشرے کو قوت
فراہم کی۔ یہی فرق ہے اللہ کے قانون اور انسانوں کے بناتے ہوئے قانون میں! اور
انسان یہ سمجھنے لگے کہ انھیں حقوق اللہ حاصل ہو گئے ہیں!
اسلام نے نفسِ واحد کی اس شرکت پر اس کے طبعی
نتائج مرتب کئے — اور عورت کو ملکیت، تصرف، کسب، عمل، تقسیم، نکاح، حصولِ طلاق اور
اپنے حقوق کے لئے جدوجہد کے حقوق عطا کئے — پھر عورت کو یہ سارے حقوق اس کی اخلاقی
پاکیزگی کے ساتھ — اور راشد، نیکوکار اور پاکیزہ انسان کے معیار پر دیئے۔ نہ کہ
قیود سے آزاد حیوانی معیار اور فتنہ انگیز شیطان کے معیار پر۔
لِّلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِّمَّا اكْتَسَبُوا ۖ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِّمَّا اكْتَسَبْنَ (مردوں کے لئے ان کے اعمال کا حصہ ہے اور
عورتوں کے لئے ان کے اعمال کا حصہ ہے۔) (النساء: ۳۲)
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَحِلُّ
لَكُمْ أَن تَرِثُوا النِّسَاءَ كَرْهًا ۖ وَلَا تَعْضُلُوهُنَّ لِتَذْهَبُوا بِبَعْضِ
مَا آتَيْتُمُوهُنَّ إِلَّا أَن يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ (اے ایمان والو تم کو یہ بات حلال نہیں کہ
عورتوں کے جبراً مالک ہو جاؤ۔ اور ان عورتوں کو اس غرض سے مقید مت کرو۔ جو کچھ تم
لوگوں نے ان کو دیا ہے۔ اس میں کوئی حصہ وصول کر لو۔ مگر یہ کہ وہ عورتیں کوئی
صریح ناشائستہ حرکت کریں۔) (النساء: ۱۹)
وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ (اور ان عورتوں کے ساتھ خوبی کے ساتھ گذران
کیا کرو۔) (النساء: ۱۹)
قَدْ سَمِعَ اللَّهُ قَوْلَ الَّتِي
تُجَادِلُكَ فِي زَوْجِهَا وَتَشْتَكِي إِلَى اللَّهِ وَاللَّهُ يَسْمَعَ
تَحَاوُرَكُمَا ۚ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ بَصِيرٌ (بے شک اللہ تعالیٰ نے اس عورت کی بات سن لی۔
جو آپ سے اپنے شوہر کے معاملے میں جھگڑتی تھی ۔ اور اپنے رنج و غم کی اللہ سے
شکایت کرتی تھی۔ اور اللہ تم دونوں کی گفتگو سن رہا تھا اور اللہ سب کچھ سننے اور
دیکھنے والا ہے۔) (المجادلہ: ۱)
تہذیب یافتہ فرانس نے عورت کو تصرف اور براہِ
راست تعامل کا حق بیسویں صدی میں دیا ہے؟ یوروپ نے ایک ہی عمل پر مساوی اجرت کا حق
بیسویں صدی میں دیا ہے۔ برطانیہ نے آج تک ملازمین کی اجرتوں میں مساوات کا حق نہیں
دیا ہے۔ اس وجہ سے کہ عورت حمل اور ولادت کے ادوار سے گزرتی ہے جس کے لئے اسے چھٹی
لینا پڑتی ہے!
اور یوروپ میں عورت کو یہ حقوق بھی اس وقت
ملے جب وہ اپنی کفالت کے لئے کام پر نکل پڑی۔ کیونکہ کوئی اس کی کفالت کرنے والا
نہیں تھا۔ پھر عورت کو اپنے اخلاق سے دست بردار ہونا پڑا۔ کیونکہ اخلاق مرد سے کام
حاصل کرنے کی راہ میں رکاوٹ تھا۔ اور یہ حیوان مرد ایک لقمہ خوراک دے کر اس سے اس
کی عزت کا مطالبہ کر رہا تھا۔ بالآخر عورت نے منت انگیزی کی اشاعت اور مرد کو
لبھانا شروع کر دیا۔ جس سے پوری مغربی زندگی ایک بہت بڑی فحاشی میں بدل گئی۔
پھر اس حیوانی کشمکش کے بعد مغرب نے کہا کہ
اس نے عورت کو یہ حقوق اس لئے نہیں دیئے کہ مرد عورت کی تخلیق میں اولین حقیقت
ہیں۔ بلکہ اس لئے کہ معاشی جبری ارتقاء اس کا متقاضی ہے۔ اور لوگ اس ارتقاء کے
سامنے مجبور ہیں۔
جب کہ اسلام نے ان اصولوں کو بغیر معاشی
حالات کی مجبوری کے ابتداء ہی میں نافذ کر دیا تھا۔ اور لوگوں نے برضا و رغبت ان
اصولوں کو اپنا لیا۔ کیونکہ وہ اللہ کی عبادت کرنے والے تھے! عورت کے بارے میں
اسلام کے اصول غیر متغیر ہیں۔ کیونکہ یہ غیر متغیر حقیقت سے مستفاد ہیں۔ یہ اصول
جب اسلام آیا اس وقت کے گلہ بان معاشرے میں بھی نافذ رہا۔ اس کے بعد زرعی معاشرے
میں بھی منطبق رہے۔ جیسا کہ آج کے صنعتی اور ایٹمی معاشرے میں منطبق ہیں۔ ان میں
ذرائع پیداوار کے ارتقاء، معاشی اور اجتماعی تغیر کا کوئی تعلق نہیں۔ کیونکہ یہ
اصول انسان کی دونوں صنفوں سے متعلق اور بحیثیت انسان کے متعلق ہیں۔
صنفی مسئلہ سے بہت سے دوسرے مسائل ابھرتے ہیں
جو انسانی زندگی میں نہایت اہمیت کے حامل ہیں:
وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُم مِّنْ
أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُم مَّوَدَّةً
وَرَحْمَةً (اور
اسی کی نشانیوں میں سے یہ کہ اس نے تمہارے واسطے تمہارے جنس کی بیویاں بنائیں تاکہ
تم کو ان کے پاس آرام ملے اور تم میاں بیوی میں مودت اور ہمدردی پیدا کی۔) (الروم:
۲۱)
ازواج کے بارے میں پہلے گزر چکا ہے کہ ایک
نفس سے بنتے ہیں۔ مگر یہاں دونوں صنفوں میں تعلق کی نوعیت اور اس کی حکمت بیان کی
جا رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ازواج کو کیوں پیدا کیا؟ اللہ کی حکمت وسیع اور مکمل ہے
مگر اس آیت میں اس حکمت کو محدود کر کے بیان کیا گیا ہے۔ یا یہ کہیئے کہ اس کے ایک
رخ کی جانب اشارہ کر دیا گیا ہے۔ وہ حکمت اور زوجین کی تخلیق کا سبب یہ ہے کہ
"تم کو ان کے پاس آرام ملے"۔
آرام کے مفہوم میں سکون، راحت اور اطمینان
شامل ہیں۔ اور نرمی اور سکونت اس کا جز ہیں۔ یہی اللہ تعالیٰ زوجین کے بارے میں
چاہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ یہ نہیں چاہتا کہ زوجین کے درمیان لڑائی جھگڑا ہو کر زندگی
میں فساد پیدا ہو۔ نہ ہی اللہ تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ صنفی تعلق ایک ذہنی مشغلہ بن جائے۔
جس طرح وحیِ الٰہی سے دستبردار ہو کر اور خواہشاتِ نفس کی اتباع کی وجہ سے یہی
صورتِ حال ہے۔
"اور تم میاں بیوی میں مودت اور ہمدردی پیدا کی۔" دونوں
صنفوں میں کشش فطری ہے۔ مگر یہاں قرآن کریم نے محبت کے بجائے مودت کا لفظ استعمال
کیا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کو زیادہ بلند اور زیادہ پاکیزہ بنانا چاہتا ہے۔ اور
دوسری جانب "مودت" کے لفظ میں زیادہ وقعیت ہے۔ کیونکہ اشتیاق، عشق اور
والہانہ جیسی محرک کے مراحل ہیں۔ پرجوش جوانی میں یہ دور آتے ہیں مگر قائم نہیں
رہتے۔ اور مودت ہمیشہ رہتی ہے۔ یہ اشتیاق، عشق اور والہانہ پن کے ادوار گزرنے کے
بعد بھی نفس میں باقی رہتی ہے!
اس غیر متغیر مسئلہ کے کچھ غیر متغیر پہلو
بھی ہیں۔ جن پر انسانی زندگی میں کئی غیر متغیر امور مرتب ہوتے ہیں۔ مسئلہ کی پہلی
بنیاد تو عورت اور مرد کا وجود ہے۔ جو ایک غیر متغیر حقیقت ہے۔ سوائے انحراف کے جس
کا تذکرہ ہم بعد میں کریں گے۔ پھر اس کی بنیاد دونوں صنفوں میں کشش ہے۔ یہ بھی ایک
غیر متغیر حقیقت ہے۔ پھر اس کشش پر قائم آرام کے تعلق پر۔ اور یہ بھی ایک غیر
متغیر حقیقت ہے۔
جب اس مسئلہ کے تمام پہلو غیر متغیر ہیں۔ تو
اس کے نتائج کس طرح تغیر اور ارتقاء کو قبول کر سکتے ہیں!!
یہاں سے یہ تیسرا مسئلہ چوتھے مسئلے میں شامل
ہو جاتا ہے۔ یعنی "ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلائیں"۔ اور یہ
دونوں مسئلے مل کر جنسی تعلقات کی تحدید کرتے ہیں۔
مرد و عورت کی کشش اور ان کا فی الواقع
معاشرے میں موجود ہونا۔ اس امر کو ضروری قرار دیتا ہے کہ ان کے درمیان تعلقات کی
بنیاد ان کی فطرت اور ان کا معاشرتی وجود مبنی چاہیئے۔ اگر معاملہ صرف ایک مرد اور
ایک عورت کا ہوتا تو کسی تنظیم کی ضرورت نہ تھی۔ مگر جب اس تعلق سے اولاد پیدا
ہوتی، اور مرد و زن کی کثرت ہو گئی۔ تو ایسی مضبوط اور محکم تنظیم کی ضرورت ہوئی
کہ خواہ آبادی کا دائرہ کتنا ہی وسیع ہو جائے مگر ایسا کوئی انتشار پیدا نہ ہو جس
کی روک تھام کے لئے کوئی دلیل نہ ہو۔ مرد و زن کی کثرت کے نتیجہ میں ان فطری کشش
کی مختلف صورتیں منظم ہو گئیں۔ تاکہ مختلف کششوں کے وقت تصادم اور لاقانونیت نہ
پیدا ہو۔ اور اس لاقانونیت سے نفس کا آرام ضائع ہو جائے۔ اور معاشرے کے روابط میں
فساد پیدا ہو جائے۔
اس طرح ایک ہی نفس سے پیدا ہونے والی نسل کے
لئے خاندان اور خاندانی روابط کا قیام ضروری ہو گیا۔
ایک اساسی حقیقت — یعنی زوجین کی تخلیق اور
ان کا باہمی کشش اور مودت سے مربوط ہونے سے وہ تمام گوناگوں تعلقات ابھرے جو غیر
متغیر ہیں کیونکہ ان کی بنیاد بھی غیر متغیر حقائق ہیں۔
مغرب و مشرق کے شوقِ ترقی کے مارے ہوئے۔ سب
سے زیادہ جنس کے باب میں جھگڑتے ہیں۔ اور ہر قید و بند سے آزاد شہوتوں میں غرق نئی
نسل جنس کے باب میں بہت زیادہ جھگڑتی ہے۔ اس نئی نسل کو سوائے جسم کی آگ ٹھنڈا
کرنے کے اور کوئی بات نظر نہیں آتی۔ اور اس مجنونانہ بے راہ روی کے راستہ میں وہ
کوئی پابندی نہیں دیکھنا چاہتے۔
انسانی زندگی کے اہم امور پر بحث کرتے ہوئے
یہ بات بھی بتانا ضروری ہے کہ فیصلہ کن غیر متغیر حقائق ہماری شہوتوں اور خواہشات
کے مناسب نہیں ہیں۔ "ہم جائز اور ناجائز کی تمیز کھو بیٹھے ہیں۔ ہم نے
قوانینِ طبیعت کی خلاف ورزی کر کے ایک ایسے جرم کا ارتکاب کیا ہے۔ جس کا مرتکب سزا
پائے بغیر نہیں رہ سکتا۔ جب بھی کوئی شخص زندگی سے ناجائز امر کی اجازت لیتا ہے —
زندگی اس کے جواب میں اسے کمزور بنا دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تہذیب رو بہ زوال
ہے" (الیکسس کاریل)
اس لئے اس اہم موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے
ہمارے لئے یہ مناسب نہیں ہے کہ ہم نئی نسل کی شہوت پرستی اور شوقِ ترقی کے مارے
ہوؤں کا تعاقب کریں۔ بلکہ ہم تو حقائقِ فطرت بیان کئے دیتے ہیں۔ تاکہ یہ لوگ اپنی
مشکلات پر قابو پانے کے لئے اپنی فطرت کے مناسب حالات پیدا کریں۔ اور فطرت کی
رہنمائی پر چلیں۔
یہ غیر متغیر صنفی تعلق اور اس کا ترقی سے
عدمِ تاثر ایک بالکل فطری امر ہے اور ایسا امر ہے جس میں نہیں صدیاں گزرنے کے بعد
بھی کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ اور جب بھی اس سے ناجائز امور کی اجازت چاہی گئی۔ اس کا
ایک جواب رہا۔
جب بھی کبھی جنسی تعلقات کے بندھن ڈھیلے
ہوتے۔ اور جوان نسل جسمانی لذتوں کے پیچھے لپکنے لگی — اس وقت فطرت نے نہایت واضح
اور فیصلہ کن جواب دیا۔ قدیم یونان، روم اور فارس کے بارے میں فطرت نے اپنا حتمی
فیصلہ کیا۔ عالمِ اسلام میں شہوتوں کا بازار گرم ہوا۔ تو فطرت نے فیصلہ کیا۔ جنگِ
عظیم دوم میں فرانس پر فطرت کا فیصلہ لاگو تھا — اور پھر فطرت پوری روئے زمین اور
خاص طور پر روس اور امریکہ کے بارے میں فیصلہ دے رہی ہے۔
فطرت کا ہمیشہ ایک ہی فیصلہ رہا ہے۔ اور وہ
ہے اخلاقی زوال اور جنسی اباحیت — جس کے نتیجہ میں ہلاکت ہے۔ تباہی ہے۔ بدبختی ہے۔
اس کے سوا پوری تاریخِ انسانی میں فطرت نے اور کوئی فیصلہ نہیں دیا!
بیسویں صدی میں اٹل قانونِ فطرت — اور فطرت
کی سزا سے بچنے کی ساری کوشش عبث اور بیکار ثابت ہوئیں۔
- بیسویں صدی کا یہ کہنا
بھی عبث رہا کہ موجودہ نسل اپنی نوعیت کی جداگانہ نسل ہے!
- انسان کی غیر متغیر فطرت
سے انکار بھی عبث ہے!
- یہ کہنا بھی عبث کہ
آزادانہ جنسی بے راہ روی سے گزشتہ اقوام میں تباہی سے دوچار ہوئیں۔ بیسویں
صدی اس سے محفوظ رہے گی۔
- یہ کہنا بھی عبث ہے کہ یہ
نسل اپنے آپ کو تباہی سے بچا لے جائیگی۔ چونکہ یہ نسل باشعور، سمجھدار اور
تعلیم یافتہ ہے!
- یہ کہنا بھی عبث ہے کہ
موجودہ نسل کے پاس ہر بیماری کا علاج ہے!
یہ سب کچھ عبث ہے۔ اور غیر متغیر فطرت کا یہ
ناقابلِ تغیر جواب ہے کہ یا تو جنسی تعلقات کو مذہب، اخلاق اور روایات کی بندشوں
میں جکڑ کر رکھا جائے یا پھر بے قیدی اور بے قیدی کے نتیجہ میں بھیانک بدبختی اور
ہولناک تباہی۔
یہی حقیقی جبریت ہے — یہ اللہ کی پیدا کردہ
جبریت ہے۔ اب جدل و انکار سے کچھ نہیں ہوتا! اور ریت میں سر چھپانے سے کوئی فائدہ
نہیں ہے!
بے شک خواہشِ نفس لذت افزا اور بے قیدی
پسندیدہ ہے۔
زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوَاتِ مِنَ
النِّسَاءِ وَالْبَنِينَ وَالْقَنَاطِيرِ الْمُقَنطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ
وَالْفِضَّةِ وَالْخَيْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَالْأَنْعَامِ وَالْحَرْثِ ۗ ذَٰلِكَ مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا (خوشنما معلوم ہوتی ہے لوگوں کو محبت مرغوب
چیزوں کی مثلاً عورتیں ہوئیں، بیٹے ہوئے۔ لگے ہوئے ڈھیر سونے اور چاندی کے، نشان
لگے ہوئے گھوڑے اور مویشی اور زراعت۔ لیکن یہ سب استعمالی چیزیں ہیں۔ دنیوی
زندگانی کی۔) (آل عمران: ۱۴)
مگر اس کی سزا بھی نہایت سخت اور ہولناک ہے —
اعصابی اور نفسی وباء، خودکشی، جنون، شذوذ، جرم — اور تباہی۔ یہ بیسویں صدی کی
گواہی ہے۔
کیا کوئی شخص دنیا میں ایسا بھی ہے۔ جس کو
ذرا سی بھی عقل ہو۔ اور وہ شوقِ ترقی اور نئی نسل کی خواہشات کے پیچھے بھاگتا چلا
جائے اور انسانیت کی تباہی کے ہولناک نتائج اس کے سامنے ہوں؟ بلکہ کیا کوئی شخص
ایسا بھی جس کے دل میں محبت کا شائبہ بھی ہو۔ اور وہ اپنی اولاد کو گڑھے میں گرتا
ہوا دیکھ کر بھی نہ روکے؟
ہمارے ذمہ ایک عظیم انسانی فرض ہے۔ جس کو
ہمیں اپنے لئے، انسانیت کے لئے اور اپنی اولاد کے لئے ادا کرنا ضروری ہے۔ وہ فرض
یہ ہے کہ ہم لوگوں کو ان کا موقف اور فطرت کی حقیقت بتا دیں۔ تاکہ انسانیت تباہی
سے بچ سکے۔ جب ہم لوگوں کے سامنے یہ حقیقت رکھیں گے تو لوگ ہمیں برا کہیں گے جیسے
بچہ ڈاکٹر کے دوا پلانے پر اسے برا بھلا کہتا ہے! مگر بچہ کا برا بھلا سن کر کون
احمق دوا پلانے سے گریز کرے گا۔ اور کون بیوقوف بچہ کو بخار میں پھنکتا ہوا چھوڑ
دے گا؟؟
اس لئے ہمیں لوگوں کے سامنے حقائقِ فطرت بیان
کر دینا چاہئیں! اگر ہم نہیں بیان کریں گے۔ تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم اپنے آپ
کو دشواریوں میں ڈالنا نہیں چاہتے۔ یا ہم خود نئی نسل کی طرح لطف اندوز ہونا اور
لذاتِ زندگی سمیٹنا چاہتے ہیں۔ اگر ہم جنس کی گندگیوں میں ملوث ہونا چاہتے ہیں۔ تو
اس کی وضاحت کر دینی چاہیئے۔ اور یہ بتا دینا چاہیئے کہ ہم اس طرح خوش ہیں۔ ہمیں
پرنس اور افیون کے دھوئیں سے نکلنا نہیں چاہیئے۔ اس کے بعد جو ہوتا ہے سو ہو جائے۔
حقائقِ فطرت کہتے ہیں کہ صنفی کشش فطری ہے۔
اور اس کشش کے بعد ملاپ ناگزیر ہے۔ مگر اس ملاپ کی کیا صورت ہو؟ کیا یہ صورت کہ
ایک معین مرد ایک مخصوص عورت کے لئے اور ایک معین عورت ایک مخصوص مرد کے لئے؟ یا
ایسی کوئی قید نہ ہو۔ بلکہ ہر عورت تمام مردوں کے لئے اور ہر مرد تمام عورتوں کے
لئے...؟
بیسویں صدی کے تجربات ہمیں اس سوال کا فیصلہ
کن جواب دیتے ہیں۔ مغربی اور اشتراکی معاشرہ ابھی اپنی پوری لاقانونیت تک نہیں
پہنچا ہے۔ اور نہ بے راہ روی اور بے قیدی اپنی مکمل شکل میں ظاہر ہوئی ہے۔ بلکہ اب
بھی چند لوگ پاکباز اور روایت پرست موجود ہیں۔ اس کے باوجود بھی معاشرہ تیزی سے
زوال پذیر ہے۔ اگر یہ بے راہ روی بڑھتی رہی تو کیا انجام ہوگا۔ اور بے راہ روی بڑھ
رہی ہے۔ کیونکہ شیطانوں کا ابھی پیٹ نہیں بھرا۔ وہ ابھی اور ہلاکت چاہتے ہیں۔
جھگڑا لو لوگ کہتے ہیں کہ مذہبی تشدد
(PURITANISM) اور اباحیت
کے درمیان کوئی معتدل راہ اختیار کرنی چاہیئے؟ کہ صنفی تعلق بالکل حرام ہو۔ اور نہ
قطعاً بے لگام! یہ بات قطعاً فریب ہے اور اعصاب کو فکر اور قلب کو پریشانیوں سے
بچانے کے لئے یہ راہ اختیار کی گئی ہے۔ کہ — نگرانی کے ساتھ — نوجوانوں میں اختلاط
روا رکھا جائے۔ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں یونیورسٹیوں، ثانوی اسکولوں اور سڑکوں پر
اجتماعی عمل باہم مل کر انجام دیتے رہیں۔ اگر لڑکے اور لڑکیاں ہماری نگرانی میں
رہیں تو وہ کچھ نہیں کر سکیں گے۔ ان کے مشاعر مہذب ہو جائیں گے۔ محرومی سے پیدا
ہونے والی جنسی بھوک ختم ہو جائے گی۔ اور دونوں صنفین ایک دوسرے سے واقف ہو جائیں
گی۔ تو ان کے ذہنوں میں ایک دوسرے کے بارے میں غلط خیالات باقی نہ رہیں گے۔ اور
چونکہ ہماری زیرِ نگرانی ہیں۔ اس لئے وہ زیادہ آگے نہیں بڑھ پائیں گے۔
اور حقیقت یہ ہے کہ نوجوان لڑکا لڑکی کی طرف
مائل ہوتا ہی ہے۔ اور نوجوان لڑکی بھی لڑکے کی طرف مائل ہوتی ہے۔ کیا ایسا نہیں
ہے؟ یہ ایک فطری امر ہے۔ اسے نگرانی سے نہیں روکا جا سکتا؟ پھر اس میلان میں شدت
ہو جانا بھی یقینی ہے۔ ہمیں ذرا واقعیت پسند ہونا چاہیئے؟ کیا ہم اس فطری شے کو
روک سکتے ہیں؟
نہیں! ذرا دور رس نگاہوں سے جائزہ لینا
چاہیئے۔ کہ چوری چھپے کی ملاقات بہتر ہے — یا ہماری زیرِ نگرانی؟!
کبھی کبھی میلان زیادہ شدید ہو جاتا ہے۔ اگر
کوئی نوجوان کسی لڑکی سے شادی کر لے۔ تو کیا نقصان ہے! ہمیں ذرا دور رس نگاہوں سے
جائزہ لینا چاہیئے۔ کیا یہ بہتر ہے کہ لڑکا ایک انجان لڑکی سے شادی کرے؟ یا یہ
بہتر ہے کہ لڑکا اور لڑکی ایک دوسرے کو پہچانتے ہوں؟
سینما، سڑک — تاریکی — اور خلوت میں بوس و
کنار؟ کیا نقصان ہے۔ نہیں! ذرا منی تفریح ہے۔ کوئی نقصان نہیں۔ اس طرح لڑکا اور
لڑکی تجربہ حاصل کریں گے؟ لڑکی بھی اپنے ساتھی کو پہچان لے گی۔ اسے کچھ سبق حاصل
ہوگا۔ جس سے وہ زیادہ فائدہ اٹھا سکے گی! اگر لڑکی خراب ہونا چاہے تو کیا تم اسے
بچا سکو گے؟ نہیں بچا سکتے تو چھوڑ دو! اگر ہم نے نگرانی بھی نہ کی — تو کیا ہوگا؟!!
یہ ہے بیسویں صدی میں آزادی کا طریقہ!! یہ
آزادی اس مخلصانہ طرزِ فکر سے شروع ہوتی ہے — اور ان شیاطین نے اس کی ابتداء نہیں
کی جنہوں نے ترقی کا صور پھونکا۔ اور جانوروں کی طرح ہر قید سے آزادی کی وحی کی۔
اس مخلصانہ طرزِ فکر نے تربیت کرنے والے والدین، سیاستدان، علماء، اور اہلِ مذہب
کے ذہنوں میں جنم لیا۔
انسانی شہوتیں کسی بھی مرحلے پر نہیں رکتیں!
شعوری ارادہ یا مخلصانہ نیت سے کسی مرحلہ پر نہیں رکھا جا سکتا۔ وہ مرحلہ جس پر
لوگ پورے خلوص سے ٹھہرنا چاہتے ہیں ۔ وہ تو ترقی کا ایک مرحلہ ہوتا ہے۔ بلکہ یہ
کہیئے کہ وہ تنزل اور نیچے کی طرف آنے کا ایک مرحلہ ہوتا ہے — جس پر رکا نہیں جا
سکتا؟ یہی فطرت کی جبریت اور یہی تاریخ کا تجربہ ہے!
انیسویں صدی میں جب اختلاط روا رکھا گیا۔ تو
یہ کہا گیا کہ ہم بغیر مبالغہ کئے کسی مامون مرحلہ پر رک جائیں گے۔ ہم اپنے آپ کو
ضائع نہیں کریں گے — مگر فی الحقیقت ایسا نہیں ہوا بلکہ بیسویں صدی میں نسل اس
اندھے کنویں میں گر ہی گئی — یا اب گرنا چاہتی ہے؟
تنزل و انحطاط
کا عمل نہایت سست رفتاری سے پورا ہوتا ہے۔ اور افراد اور نسلوں کی عمریں اس سست
رفتاری کی ن
errorAn internal error has occurred.
286.4s
edit
more_vert
جاری رکھو
more_vert
Thoughts
The thoughts produced by the model are experimental
experiment
1.
2.
3.
o
o
o
o
o
o
o
o
o
o
Expand
to view model thoughts
9.9s
edit
more_vert
نذر ہو جاتی ہیں۔ تنزل کی اس سست روی سے لوگ یہ خیال کرنے لگتے
ہیں کہ وہ کسی درمیانی مقام پر رک سکتے ہیں۔ کبھی نہیں! یہ ایک غلط خیال ہے اور
تاریخ میں اب کبھی نہیں ہوا۔ یہ بات ارتقاء یا مادی تعبیر نہیں کہتی ہے۔ بلکہ یہ
فطرت کا فیصلہ ہے۔ فطرت ہی وہ واحد سچائی ہے جو ان تمام اباطیل اور فریبوں کا تار
و پود بکھیرتی ہے۔ جب معاشرے کے بندھن ایک دفعہ کھل جاتے ہیں — تو پھر تنزل میں
کوئی مقام ایسا نہیں ہوتا جہاں آکر وہ ٹھہر جائے! ظاہری
وقفہ جو کبھی ایک نسل اور کبھی نسلوں تک باقی رہتا ہے جس سے لوگوں کو یہ شبہ ہو
جاتا ہے کہ تنزل میں وقفہ ممکن ہے۔ یہ صرف ایک فریب ہے! ذرا اس تنزل اور اس کی
رفتار کا وسیع نظر سے جائزہ لیجئے، گھڑی کی چھوٹی سوئی بہت آہستہ حرکت کرتی ہے۔
اگر چند منٹ آپ اسے دیکھتے رہیں تو وہ حرکت ہی نہیں کرے گی۔ مگر اگر آپ ایک گھنٹے
یا چند گھنٹوں کے بعد دیکھیں!! گھڑی میں تاریخ کا خانہ بھی سست رفتار ہے۔ اگر آپ
اسے گھنٹوں بھی دیکھتے رہیں۔ تو وہ اپنی ہی جگہ پر نظر آتے گا۔ مگر آپ ایک دن یا
کئی دن گزرنے کے بعد بھی دیکھیں تو!! اس طرح تاریخ میں بھی توسیع سے کام لیتے، کئی
کئی نسلوں کو دیکھئے! ایک نسل میں صورتِ حال میں زیادہ تبدیلی نہیں ہوتی۔ اگرچہ
موجودہ نسل میں تغیر انتہائی شدید ہے۔ کیونکہ شیاطین اس آگ میں پھونکیں مار رہے
ہیں۔ اگر آپ ذرا توسیع سے دیکھیں — تو آپ کو معلوم ہوگا کہ انسانی شہوتوں کا کوئی
وقفہ نہیں ہے۔ یہ فطرت کا قانون ہے — یہ فرد کی فطرت ہے — اور یہی جماعت کی ہے۔
فطرت ہے! شہوتوں کو جتنا سیراب کیا جائے یہ اسی قدر جوش اور جنون سے بھڑکتی ہیں۔
امریکہ کی مثال لیجئے! کیا امریکی معاشرہ میں شہوانی پیاس بجھانے کے راستہ میں
کوئی رکاوٹ ہے؟ کوئی نہیں! مگر امریکہ میں عریاں تصاویر سے عشق ایک جنون کی شکل
اختیار کر چکا ہے! وہاں اقرار — اور جنسی بھوک مٹانے کے بعد قتل کی وارداتیں روز
بروز بڑھتی جا رہی ہیں؟ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں جنسی شذوذ کا شکار ہیں؟ فرانس،
سوئٹزرلینڈ، بلجیم اور شمالی یورپ کے سارے ترقی یافتہ ممالک کا یہی حال ہے! فطرت
کا ایک ہی قانون اور تاریخ کا ایک ہی اٹل فیصلہ ہے۔ جو ہر جگہ کارفرما ہے؟ کیا اس
کا مطلب یہ ہے کہ ہم جنسی مشاعر کا اختفاء (SUPPRESSION) کر
لیں۔؟ کیا اختفاء اور محرومی کے نقصانات بذاتِ خود خطرناک نہیں ہیں؟ جی ہاں! طویل
محرومی بھی نفس کے مشاعر میں فساد اور اعصاب میں تعطل پیدا کرتی ہے۔ دونوں صنفین
ایک دوسرے کے بارے میں مریضانہ خیالات میں مبتلا رہتی ہیں اور ان کے ظاہری اور
باطنی مشاعر جنس میں الجھ کر رہ جاتے ہیں؟ مکمل اور طویل محرومی فطرت کے بھی خلاف
ہے۔ جس کا اللہ تعالیٰ انسانیت سے مطالبہ نہیں کرتا! اللہ تعالیٰ نے ایک معتدل
نظام متعین فرمایا ہے جس میں نہ مشاعر کا اختفاء ہے اور نہ ہی محرومی! اختفاء کا جنسی معنی میں اسلام میں کوئی وجود نہیں ہے۔ اسلام
صنفین کے تعلق کو پوری روشنی میں رکھتا ہے۔ اور کہتا ہے کہ یہ مستقیم (NORMAL) فطرت ہے۔ اور پسندیدہ ہے! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا۔ >
"تمہارے صنفی تعلق پر اجر ہے۔" صحابہؓ نے
عرض کیا۔ "یا رسول اللہ! ہم میں سے اگر کوئی اپنی خواہشِ نفس کی تسکین کرتا
ہے تو اس پر بھی اجر ہے؟" فرمایا "کیا اگر تم میں سے کوئی اس خواہش کو
حرام طریقہ سے پورا کرتا تو گناہ ہوتا؟" صحابہؓ نے عرض کیا "کیوں
نہیں!" فرمایا "اگر کوئی حلال طریقہ پر اپنی خواہش پوری کرتا ہے۔ تو اس
پر اجر بھی ہے!" (مسلم) اسلام اپنے پورے وسائل سے کام لے کر اس بات
کی روک تھام کرتا ہے کہ کوئی محروم نہ رہے۔ چنانچہ وہ نکاح میں عجلت کی دعوت دیتا
ہے۔ اور ایسی ذہنی تربیت وضع کرتا ہے جس سے نکاح میں سہولت ہو۔ اور جن میں شادی
کرنے والے نوجوانوں کے لئے بیت المال کی امداد بھی شامل ہے۔ اسلامی نظام ایک
متوازن نظام ہے۔ اس میں اعتقادی تصورات اور اخلاقی توجیہات سیاسی اور اجتماعی
تنظیموں سے پوری طرح ہم آہنگ ہیں۔ یہ تمام شعبے مل کر ایک صالح معاشرہ برپا کرنے
کے لئے فعال ہو جاتے ہیں۔ اس لئے اسلام صرف یہ ہی نہیں کہتا کہ نکاح میں جلدی کی
جائے۔ بلکہ اپنے مکمل نظام میں عملی زندگی کے تمام وسائل کو سہل بنا کر اس کو وجود
میں آنے کی ضمانت دیتا ہے۔ اس موقع پر ہم اس امر پر بحث نہیں کر سکتے کہ موجودہ
معاشرتی پیچیدگیوں میں نکاح میں جلدی کرنے کا کہاں تک امکان ہے۔ کیونکہ انسانوں کو
چاہیئے کہ وہ اپنے حالات فطرت کی روشنی میں وضع کریں۔ نہ کہ حالات کے ماتحت فطرت
کو مسخ کرنے کی کوشش کریں۔ پھر معاشی پیچیدگیاں اس مقصدِ جنسی تعطل کی طوالت کا
سبب نہیں ہیں؛ امریکی نوجوان جلد ہی کمانے لگتے ہیں۔ اور اس کمائی کو حرام میں خرچ
کرتے ہیں۔ کیونکہ شیاطین ان کو یہی رہنمائی کرتے ہیں۔ امریکہ کا دولت مند معاشرہ
اگر چاہے۔ اور اگر شیاطین اس کو گمراہ کرنا چھوڑ دیں تو وہ ایسا نظام تشکیل کر
سکتا ہے کہ نوجوانوں کی شادیاں جلد ہو جائیں۔ اشتراکی معاشرے کی کفالت حکومت کرتی
ہے۔ اور حکومت نوجوانوں کی شادیوں کی تنظیم بنانے سے عاجز نہیں ہے۔ اگر وہ یہ
سمجھنا چھوڑ دیں کہ اخلاق خرافات ہے۔ اسے ختم کرنا ضروری ہے! اس کے باوجود بھی خرو
شچیف آنے والی تباہی سے ڈر رہا ہے! مگر ہم مسلمان — نہ تو ادھر کے رہے نہ اُدھر
کے۔ ہمیں ہر حالت میں اسلام کے فطری طریقہ کو واضح کرنا ہے اور انسانیت کی تنظیم
اسلام کے مطابق کرنی چاہیئے۔ سب جس میں نہ اختفاء (SUPPRESSION) ہے
اور نہ محرومی! بلکہ صرف تنظیم ہے۔ ایسی تنظیم جس میں ایک ہی وقت میں اور ایک ہی
مشترک وسیلہ سے فرد اور معاشرہ دونوں شامل ہیں۔ صالح، مستقر، معتدل معاشرہ پاکیزہ،
معتدل خاندان تعمیر کرتا ہے۔ جس میں صالح اور معتدل افراد تربیت پاتے ہیں۔ پھر
صالح اور معتدل فرد خاندان اور معاشرہ کی تعمیر کرتا ہے۔ اس لئے اسلام فرد کی
نظامت پر زور دیتا ہے۔ اس کے قلب اور مشاعر کا اللہ سے ربط پیدا کرنا۔ اور اطاعت و
محبت اور خدا کے خوف کی بنیاد پر اس کی تربیت کرتا ہے۔ ساتھ ہی اجتماعی، معاشی اور
سیاسی تنظیمیں بناتا ہے۔ اور فکری اور روحانی ہدایات دے کر معاشرہ کو صالح بنیادوں
پر استوار کرتا ہے جس سے صالح اور معتدل افراد ابھرتے ہیں۔ جنس کے مسئلہ میں
بالخصوص اسلام بلا سبب اختلاط کو ناپسند کرتا ہے اور بہت سے محدود مقامات پر اس کی
اجازت دیتا ہے۔ زینت اور فتنہ سے منع کرتا ہے اور ناجائز قرار دیتا ہے۔ بلا سبب
عورت کے گھر سے نکلنے کو ناپسند کرتا ہے۔ اور عورت کو نکلنے کی اجازت اس وقت دیتا
ہے۔ جب وہ فکر و عمل کی پاکیزگی کے ساتھ ضرورت کے لئے نکلے۔ اسلام عورت کے لئے
ایسے کام پسند نہیں کرتا جن میں وہ مردوں کے مشابہ ہو جائے۔ مگر بوقتِ ضرورت اس کی
اجازت بھی دیتا ہے۔ اسلام نکاح پر آمادہ کرتا۔ اس کے لئے سہولتیں فراہم کرتا اور
نکاح جلد کرنے کی ہدایت کرتا ہے۔ اسلام کی نظر میں اس دائرہ سے باہر ہر صنفی تعلق
حرام ہے۔ جنس کے بارے میں اسلامی شریعت کے یہ بنیادی خطوط ہیں۔ جو نہایت سہل اور
اسلام کے سارے عملی نظام سے مربوط ہیں۔ پھر یہ خطوط، اس کے محرکات سے اسی طرح ہم
آہنگ ہیں، جس طرح وہ انسانی زندگی کے غیر متغیر حقائق سے وابستہ ہیں۔ صنفی کشش
فطری ہے اور اس کا ظہور یقینی ہے۔ مگر چونکہ افراد گنے چنے نہیں ہیں۔ بلکہ نہایت
کثیر مرد اور عورتیں ہیں۔ اس لئے اس کشش کا منظم کرنا ضروری ہے تاکہ لاقانونیت اور
اضطراب جنم نہ لیں۔ بلا سبب اختلاط — اور عورت کا لوگوں کو ورغلانے اور فتنہ میں
مبتلا کرنے کے لئے بن سنور کر نکلنا — یہ دو بنیادی اسباب ہیں۔ جنہوں نے مغربی
معاشرہ کو تباہ کیا ہے — اور جس پر کینیڈی، خرو شچیف، فلسفی اور سائنسدان واویلا
کر رہے۔ اسلام اسی لئے ان دونوں باتوں کو جائز نہیں رکھتا۔ روایتی پردہ، اختفاء
اور محرومی اسلام کا مقصود نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے
میں عورتیں کام دھندے کے لئے گھر سے باہر نکلتیں۔ جہاد میں شریک ہوئیں۔ اور عورتوں
کو تعلیم دیا کرتی تھیں — یہ اس وقت کی عورت کی اور اس سے متعلق معاشرے کی ضروریات
تھیں۔ اسلامی معاشرے میں معاشرے کی ضرورت سے متعلق تمام امور انجام دیئے جاتے تھے۔
اسلامی معاشرہ کا مطلب پاکیزہ معاشرہ جو اللہ کی عبادت کرے، اس کی شریعت کو نافذ
اور اس کے احکام کی اتباع کرے۔ اسلام کے علاوہ اور کسی معاشرے میں یہ ممکن نہیں کہ
عورت اپنے حقوق اور آزادیوں کا مطالبہ کر سکے۔ جب کہ عورت اور معاشرہ دونوں ہی
اپنی زندگی میں اسلام کو نافذ نہیں کر رہے ہیں۔ اسلام نے عورت سے یہ تو نہیں کہا
کہ وہ ایک ایسے غیر اسلامی معاشرے پر راضی ہو جائے۔ جو اسلامی نظام کو برپا نہیں
کرتا۔ اور وہ اس غیر اسلامی معاشرے میں بخوشی زندگی گزارتی رہے۔ اور وہ حقوق جو اسلام
نے اسلامی معاشرے کے مردوں اور عورتوں کو نہیں دیئے ہیں ان کا بھی مطالبہ کرتی
رہے۔ اسلام نے عورت سے یہ بھی نہیں کہا کہ وہ فتنہ پیدا کرنے کے لئے بن سنور کر
نکلے — اور اگر وہ مغرب سے آتے ہوئے اس متعدی مرض کو اپنانے پر مجبور ہے۔ تو پھر
اسے اسلام سے کیا سروکار!؟ وہ اسلام کے بارے میں کیوں بحث کرتی ہے؟! چونکہ عورت اسلامی معاشرے میں بھی معاشرتی ضروریات کے لئے نکلتی
ہے اس لئے صنفین میں پوری پوری علیحدگی تو نہیں ہو سکتی مگر نوجوانوں میں مغربی
طرز کی دوستی بھی نہیں ہوگی۔ کیونکہ اسلامی معاشرے میں عورت سادگی اور پردے کے
ساتھ نکلے گی۔ اور یہ ایسی شرط ہے۔ جس کو اسلام قطعاً نظر انداز نہیں کر سکتا! آزادی کے علمبردار، ترقی کے شیدائی۔ اور اسلامی ارتقاء کے
قائلین کہتے ہیں کہ ستر صرف عادت کا ہے۔ اگر ہم عورت کے بال، بازو اور ٹانگیں
عریاں دیکھنے کے عادی ہو جائیں۔ تو کوئی نقصان نہیں۔ اول اول تو یہ شے جذبات کو
برانگیختہ کرتی ہے مگر رفتہ رفتہ نگاہیں ان مناظر کی عادی ہو جاتی ہیں! بلکہ پھر
تو وہ عورت جو بال، بازو اور ٹانگیں ڈھک کر نکلے وہ زیادہ جذبات برانگیختہ کرتی ہے! نہیں! آپ کی سب باتیں تسلیم — مگر ہم پھر بھی اسلام ہی کی رائے
پر قائم ہیں!
یہ لوگ کہتے ہیں کہ جب مرد عادی ہو جاتے ہیں تو عورتوں کی
عریانی ان کے جذبات برانگیختہ نہیں کرتی — یہ لوگ دراصل تاریخ کے ایک ہی کم حصہ پر
نظر ڈالتے ہیں۔ اور کئی نسلوں کی تاریخ پر غور نہیں کرتے۔ یہ لوگ گھڑی کی چھوٹی
سوئی کو چند منٹ دیکھ کر کہتے ہیں کہ یہ تو حرکت ہی نہیں کرتی۔ مگر ذرا ابتداء سے
دیکھتے تاکہ انتہا سمجھ میں آسکے۔ اولاً عورت نے اپنی ٹانگیں، بازو اور بال کیوں
عریاں کئے؟ ایک وقت تھا کہ معاشرہ اس عریانی کی قطعاً اجازت نہیں دیتا تھا۔ اور اس
پر سختی سے پابند تھا۔ پھر کسی قدر معاشرے کے بندھن ڈھیلے ہوتے۔ اور کچھ ایمان میں
کمزوری آئی۔ اور برے لوگ جو معاشرے کی تہہ میں بیٹھے ہوتے تھے سطح پر آگئے۔ اس وقت
پہلی عورت فتنہ برپا کرنے کے لئے عریاں ہو کر نکلی — اور فی الواقع فتنہ برپا ہوا۔
مرض متعدی ہو گیا۔ اور معاشرے کی بندشیں یکے بعد دیگرے ٹوٹنے لگیں۔ اس وقت لوگوں
کو احساس ہوا۔ اچھے لوگوں نے اس روش کو برا خیال کیا۔ اور برے لوگ اپنے راستہ پر
چلتے رہے۔ پہلے ذرا ڈرتے ڈرتے اور پھر پوری بے باکی اور بے خوفی کے ساتھ۔ پھر
احساس کم ہوتا گیا۔ اور لوگ اس منظر کے عادی ہوتے گئے۔ اور یہ مناظر ایک عام سی
بات بن گئے۔ اور ان میں کوئی تاثر اور ہیجان باقی نہیں رہا۔ کیونکہ اس زہر سے
احساسات منجمد ہو گئے۔ یہ نصف حقیقت ہے۔ اور نصف حقیقت جس کو آزادی کے علمبرداروں،
ترقی کے شیدائیوں اور اسلام کے ارتقاء کے قائلین خاموش کر چکے ہیں — یہ ہے — کہ جو
عورتیں اولاً فتنہ برپا کرنے کے لئے نیم عریاں ہو کر نکلیں — وہ اب جدید معاشرے
میں لوگوں کو اپنی جانب متوجہ نہیں کر سکتیں۔ کیونکہ لوگ ان کی روش کے عادی ہو چکے
ہیں۔ اور وہ چاہتی ہیں کہ لوگ ان کی جانب متوجہ ہوں! اگر
تھوڑی بہت عریانی کے لوگ عادی ہو چکے ہیں — تو اس میں اضافہ ہونا چاہیئے۔ اسکرٹ کے
اوپر اور نیچے سے چند انچ بدن اور عریاں ہو جائے۔ لوگوں کے احساسات پھر سے جاگیں
گے۔ اور پھر ٹھنڈے پڑ جائیں گے اور یہ عریانی بھی معمول پر آ جائے گی۔ اس سے بھی
فتنہ برپا نہیں ہو گا۔ یہ بھی ایک عادی شے بن جائے گی؟ مگر یہ سلسلہ یہاں ختم نہیں
ہو جائے گا۔ کیونکہ مقصد فتنہ ہے۔ جب سینہ کی عریانی میں فتنہ نہیں رہے گا۔ چونکہ
تمام عورتیں اپنے سینے عریاں کئے ہوئے ہوں گی اور لوگ ان کو دیکھنے کے عادی ہو چکے
ہوں گے۔ اور ان کے حواس معطل ہو چکے ہوں گے۔ اس لئے فتنہ اور فریب کے لئے کچھ
عریانی مزید... چال میں کوئی جدت... سینے میں مزید بے باکی... اور زیادہ سے زیادہ
اخلاقی بے حیائی — مقصد فتنہ پیدا کرنا ہے۔ فیشن پرستی، فیشن گھر، سینما اور ٹیلی
ویژن اس انحطاط میں مزید اضافہ کر رہے ہیں۔ مگر انحطاط کسی مرحلہ پر ختم نہیں
ہوتا۔ فریب خوردہ خوش فہم لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ تنزل کی رفتار کسی مرحلہ پر آکر
رک جائے گی۔ ان لوگوں کو اپنی غفلت سے بیدار ہو کر دیکھنا چاہیئے کہ تاریخ کے کون
سے دور اور زمین کے کونسے حصے میں یہ ممکن ہو سکا کہ انحطاط کو کسی ایک حدِ معقول
پر روک دیا جائے؟؟ اور یہ حدِ معقول ہے کیا؟ ان لوگوں کو چاہیئے کہ ذرا غور سے
دورِ جدید کے معاشرہ کو دیکھیں کہ انحطاط، فتنہ، فریب، خواہش اور اخلاقی اباحیت کے
کس مرحلہ پر رک سکتا ہے؟ یہ انحطاط کبھی نہیں رک سکتا۔ یہ بیسویں صدی کی تاریخ اور
تمام تاریخِ عالم کی گواہی ہے! یہ فطرت کا اٹل فیصلہ ہے کہ شہوتوں کا پیٹ کبھی
نہیں بھرتا۔ سوائے اس کے کہ ان کے اوپر ضبط اور قیود عائد کی جائیں! اسی لئے اسلام، فتنہ، فریب اور فحش کو ممنوع قرار دیا۔ اور
لباس، چال اور گفتگو میں عورت و مرد دونوں کو سادگی اور وقار کا حکم دیا۔ > قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ
وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ۚ ذَٰلِكَ أَزْكَىٰ لَهُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَ (آپ مسلمان مردوں سے
کہہ دیجئے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔ یہ ان کے
لئے زیادہ صفائی کی بات ہے۔ بے شک اللہ تعالیٰ کو سب خبر ہے جو کچھ لوگ کیا کرتے
ہیں۔) (النور: ۳۰) > > وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ
وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ
مِنْهَا ۖ وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَىٰ جُيُوبِهِنَّ ۖ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ
آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ
بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي
أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ
التَّابِعِينَ غَيْرِ أُولِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ
الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَىٰ عَوْرَاتِ النِّسَاءِ ۖ
وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِن زِينَتِهِنَّ ۚ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ
لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (اور اسی طرح مسلمان عورتوں سے بھی کہہ دیجیے کہ وہ بھی
اپنی نگاہیں نیچی رکھیں۔ اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔ اور اپنی زینت کے مواقع
کو ظاہر نہ کریں مگر جو موقع زینت میں سے کھلا رہتا ہے۔ (جس کے چھپانے میں ہرج
ہے)۔ اور اپنے دوپٹے اپنے سینوں پر ڈالے رکھا کریں۔ اور اپنی زینت کے مواقع کسی پر
ظاہر نہ ہونے دیں ۔ مگر اپنے شوہروں پر یا اپنے باپ پر یا اپنے شوہر کے باپ پر یا
اپنے بیٹوں پر یا اپنے شوہر کے بیٹوں پر یا اپنے بھائیوں پر یا اپنے بھائیوں کے
بیٹوں پر یا اپنی عورتوں پر یا اپنی باندیوں پر یا ان مردوں پر جو طفیلی کے طور پر
رہتے ہوں۔ اور ان کو ذرا متوجہ نہ ہو۔ یا ایسے لڑکوں پر جو عورتوں کے پردوں کی
باتوں سے ابھی ناواقف ہیں۔) (النور: ۳۱)
> > وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَ
الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (اور اپنے پاؤں زور سے نہ رکھیں کہ ان کا
مخفی زیور معلوم ہو جائے۔ اور مسلمانو! تم سے جو ان احکام میں کوتاہی ہوگئی۔ تو تم
سب اللہ کے سامنے توبہ کرو۔ تاکہ تم فلاح پاؤ۔) (النور: ۳۱) > > فَلَا تَخْضَعْنَ
بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِهِ مَرَضٌ (تم بولنے میں نزاکت نہ برتو
اس سے ایسے شخص کو خیالِ فاسد ہونے لگتا ہے۔ جس کے قلب میں خرابی ہے۔) (الاحزاب: ۳۲) > > وَلَا
تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَىٰ (قدیم زمانہ جاہلیت کے دستور کے
موافق مت پھرو۔) (الاحزاب: ۳۳)
یہی راستہ ہے ورنہ وہ ہولناک تباہی جس کے بادل آج مغرب پر چھائے
ہیں، اور ساری انسانیت کو تباہی کی لپیٹ میں لینا چاہتے ہیں!! اس
مسئلہ کا رونما ہونا ضروری ہے! اس لئے کہ یہ ذرائع پیداوار، معاشی، اجتماعی، سیاسی
ارتقاء، سائنسی ترقی یا کسی بھی ترقی سے متاثر نہیں ہوتا۔ اور انسانیت کا کوئی بھی
ارتقاء اس میں تبدیلی نہیں کر سکتا۔ یہ مسئلہ فطرت، نفسِ انسانی کے مکونات اور
صنفی کشش سے پیدا ہوتا ہے۔ اس کشش کو منظم کرنا ضروری ہے۔ ورنہ یہ بے قید رہ جائے
گی۔ ترقی کے سارے دعوے، اس انحطاط کو حدِ معقول پر روکنے اور معاشرے کو اندھے
کنویں میں گرنے سے بچانے کی ساری کوششیں بیسویں صدی اور تاریخِ عالم کی گواہی کی
روشنی میں بیکار ہیں۔ زندگی کی گتھیاں تمناؤں سے نہیں سلجھا کرتیں! فطری اور
تاریخی امور سنجیدہ مسائل ہیں۔ ان میں گمراہ کن رویے اور مخالفت سے کام نہیں چلتا! > سُنَّةَ اللَّهِ فِي الَّذِينَ خَلَوْا مِن قَبْلُ ۖ وَلَن تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِيلًا (اللہ تعالیٰ نے ان
لوگوں میں بھی اپنا یہی دستور جاری رکھا ہے جو پہلے ہو گزرے ہیں اور آپ خدا کے
دستور میں کوئی رد و بدل نہ پائیں گے۔) (الاحزاب: ۶۲) "ہم جائز اور ناجائز
کی تمیز کھو بیٹھے ہیں۔ ہم نے قوانینِ طبیعت کی خلاف ورزی کر کے ایک ایسے جرم کا
ارتکاب کیا ہے۔ جس کا مرتکب سزا پائے بغیر نہیں رہ سکتا۔ جب بھی کوئی شخص زندگی سے
کسی ناجائز امر کی اجازت لیتا ہے۔ زندگی اس کے جواب میں اسے کمزور بنا دیتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ تہذیب رو بہ زوال ہے۔" (الیکسس کاریل) اسلام
صنفین کے فطری ملاپ کو صرف نکاح کے قانونی طریقہ میں محصور کر کے اس کے سوا صنفین
کے تمام تعلقات حرام قرار دیتا ہے۔ فرد کو اخلاقی اور مذہبی طور پر فحشاء سے نفرت
سکھاتا ہے۔ معاشرہ کو ان غیر عادی ہیجانات سے بچاتا ہے۔ جن کی موجودگی میں پاکبازی
امرِ محال بن جاتی ہے۔ چنانچہ اسلام بناؤ سنگار، بے حیائی، بے باکی، نرم گفتگو اور
ورغلانے کے تمام ہتھکنڈوں سے منع کرتا ہے۔ دونوں صنفوں کے سامنے اسلام سنجیدہ
مقاصد رکھتا ہے۔ تاکہ صرف تسلی، خوش وقتی اور سستی لذت کے لئے فریب دہی اور فریب
خوردگی ہی میں نہ لگے رہیں۔ دونوں صنفوں کے مقاصد میں سے ایک ایسی جماعتِ راشدہ کا
قیام ہے جو عالمِ مادہ اور عالمِ روح میں اقدارِ عالیہ برپا کر کے انھیں، معاشی،
اجتماعی، سیاسی، فکری اور روحانی بلند و اعلیٰ تنظیموں میں منطبق کرے اور دونوں
صنفین اس میں بھرپور حصہ لیں۔ فطری ملاپ کو نکاح کے مقدس رشتہ میں منسلک کر دینے
کے بعد خاندان بنتا ہے۔ خاندان طبعی نظام ہے اور فطرت سے ہم آہنگ ہے۔ ڈرکایم نے
بلا دلیل ایک غلط بات کی اور یہ کہہ کر خاندانی نظام غیر فطری ہے، لوگوں کو مقدسات
اور فطرت کے بارے میں شک میں مبتلا کر دیا ہے۔ ڈرکایم کی نظر میں ہزاروں اور
لاکھوں سال کی گواہی کوئی دلیل نہیں ہے اور نہ ہی اس کی نظر میں فطرت کی رہنمائی
کوئی شے ہے۔ مگر اگر عقلِ اجتماعی معاشرے کو ختم کرنے کا حکم دیا ہے تو اس کا بدل
کیا ہوگا؟ اس کا بدل جنسی بے راہ روی اور معاشرے کی تباہی ہے۔ خاندان تمام فطری
محرکات کو قبول کرتا ہے۔ سب جنسی محرک، بقائے نوع، جذبہ ملکیت، امتداد، اظہارِ
ذات، سکونت۔ اس کے علاوہ خاندان بچوں کی تربیت کے لئے ایک فطری ضرورت ہے۔ یہ ضرورت
پرورش گاہوں، اسکولوں اور اجتماعی تربیت کے جدید طریقوں سے پوری نہیں ہو سکی۔ (اس
کتاب کے باب بیسویں صدی کی گواہی میں الیکسس کاریل کی رائے کا مطالعہ کیجئے۔ اور
فرائڈ کی "انا کی کتاب بغیر خاندان کے بچے" مطالعہ کیجئے۔ اس نے کہا ہے
ماں کی شکل میں ایک انا اور بہت سے بچوں کے وجود سے کیا کیا اعصابی اور نفسیاتی
اختلال پیدا ہوتے ہیں۔ کیونکہ یہ طریقہ خلافِ فطرت ہے۔ بچہ کو اپنے ابتدائی دو
سالوں میں بلا شرکت ایک ماں کی ضرورت ہوتی ہے)۔ چونکہ خاندان انسانیت کے لئے
ناگزیر ہے۔ جسے ذرائع پیداوار کا ارتقاء اور معاشی تغیر ختم نہیں کر سکتے۔ (یہاں
تک کہ انحراف کے ادوار میں بھی۔ جیسا کہ قدیم یونان اور جدید مغرب میں ہو رہا ہے)۔
اس لئے اسے ایک غیر متغیر نظام کی بھی ضرورت ہے۔ جو مضبوط قواعد اور اصول پر
استوار ہو۔ اسلام نے ایسا ہی مکمل اور غیر متغیر خاندانی نظام پیش کیا ہے۔ اس نظام
میں اسلام نئے پیغامِ نکاح، طلاق، پرورش اور انفاق کے احکام بتائے۔ صلح و لڑائی
اور زوجین میں سے کسی ایک کی زیادتی کے قوانین بیان کئے۔ اور شوہر و بیوی اور بچوں
کے مادی اور معنوی آداب بتائے۔ خاندان کے آداب متعین کئے اور خاندان کے لئے معاشرے
پر واجب ہونے والے آداب بیان کئے۔ اسلام نے ان تمام امور کو غیر متغیر قرار دیا۔
کیونکہ ان امور کی بنیاد فطرت، اور انسان کا غیر متغیر پہلو ہے۔ اور یہ امور مرد و
زن کے وجود اور ان دونوں کے درمیان ملاپ کی متقاضی کشش پر قائم ہیں۔ ترقی پسند
کہتے ہیں کہ خاندانی نظام متغیر ہے کیونکہ یہ علمی، معاشی، اجتماعی اور سیاسی
ارتقاء سے متاثر ہوتا ہے۔ اب عورت کو معاشی استقلال حاصل ہو چکا ہے۔ وہ کام کرنے
لگی ہے۔ جدید سائنسی ایجادات نے اس کے لئے گھریلو معاملات آسان بنا دیئے۔ اور اب
اسے ان معاملات کے لئے نہ پہلے کی طرح سوچنا پڑتا ہے۔ اور نہ وقت خرچ کرنا پڑتا ہے
اب اس کے پاس اس قدر فارغ وقت، اور اس قدر زائد قوت بچتی ہے۔ جس کو وہ کسی نہ کسی
طرح معاشرتی سرگرمیوں میں خرچ کرنے پر مجبور ہے۔ اور عورت کے معاشی استقلال کی
بناء پر مرد کو وہ بالادستی حاصل نہیں رہی جو اسے اسلام نے دی تھی (کیونکہ اسلام
تو ایک بدویانہ معاشرہ میں آیا تھا!) ان تمام دعوؤں پر میں اپنی گزشتہ کتابوں میں
تنقید کر چکا ہوں۔ مگر اس موقع پر بھی چند امور پیش کرنا ضروری ہیں! وہ معاشی استقلال۔ جس پر آج مغرب کی عورت فرحاں و شاداں ہے۔ اور
جس کے حصول کے لئے اس نے مذہب، اخلاق اور روایات کی قربانی دی ہے۔ یہ معاشی
استقلال اسلام میں ایک مسلمہ امر ہے جس کے لئے کسی جدوجہد کی ضرورت نہیں اور نہ ہی
اسلام میں اس کا نتیجہ خاندانی نظام کی ابتری کی صورت میں رونما ہوتا ہے۔ جس عمل
کے لئے مغربی عورت، معاشی طور پر مجبور ہوئی اور اس کے حصول کے لئے اپنے اخلاق تک
کی بازی لگا دی — یہ حق اسلام نے عورت کو خود ہی عطا کیا۔ اور وہ اس پر مجبور نہیں
ہوتی کہ وہ بد اخلاقی اور سوقیانہ پن اختیار کرے۔ یا مرد کی سوقیت کو برداشت کرے۔
مگر اسلام میں ان حقوق کی بنیاد عورت کا معاشی استقلال یا عورت کا حقِ عمل
"نہیں ہے۔ بلکہ اسلام میں اس کی بنیاد غیر متغیر فطرتِ انسانی ہے۔ اگرچہ
اسلام نے عورت کو معاشی استقلال اور حقِ عمل دیا ہے۔ اور اسے معاشرتی ضروریات پوری
کرنے کی اجازت دی ہے۔ مگر خاندان کی بنیاد اس امر پر رکھی ہے کہ عورت عورت ہے۔ مرد
نہیں ہے۔ عورت کو وہ ہی امور انجام دینے چاہئیں۔ جو اس کی فطرت کے مناسب ہوں، جن
کے لئے وہ اعصابی اور نفسیاتی طور پر تیار ہو۔ جو اس کے لئے مخصوص ہوں۔ جن میں
طاقتِ زندگانی اور قوتِ عمل آزاد رہ سکیں۔ پھر اسلام میں خاندانی نظام اس کی اور
اس کی اولاد کی نگہداشت کرتا ہے۔ اس کو وہ پیار بھری فضاء عطا کرتا ہے۔ جو عورت کو
استقلال بخشتی اور خاندانی روابط کی حفاظت کرتی ہے۔ اس کے بعد اسلام مرد کو عورت
کا کفیل بناتا ہے۔ اس لئے نہیں کہ عورت سے معاشی استقلال یا حقِ عمل چھین لے۔
کیونکہ انفرادی اور اجتماعی ضرورتوں میں اسے حق کی ضمانت دی گئی ہے۔ مگر مرد کو
عورت کا کفیل اس لئے بنایا ہے تاکہ وہ شادی شدہ اور ایک مرد کی بیوی ہونے کے
باوجود اپنے نفس کی کفالت کی جستجو میں اپنے قلب اور اعصاب کو پراگندہ نہ کرے بلکہ
ان تمام قوتوں کو بقائے نسل کے اہم ترین فرض کی انجام دہی کے لئے مجتمع رکھے اور
مرد اپنی بھرپور قوتوں کے ساتھ مادی پیداوار اور ضروریاتِ زندگی کے حصول میں لگا
رہے۔ جدید مغرب نے اپنے حالات اور اپنے انحراف کی بناء پر فطرت کی آواز پر کان
دھرنے اور فطری تنظیم کو اپنانے سے گریز کیا۔ اگرچہ مغرب کے خیال میں — خاندانی
تعلقات، عورت کی حالت اور عورت کا اپنا ذاتی وجود ارتقاء پذیر ہیں — تاکہ عورت
دورِ تاریکی سے مختلف ایک جدید ترقی یافتہ مخلوق بن جائے۔ ایسی مخلوق جو ہر طرح
مرد کے مساوی ہو! — مگر اس کا نتیجہ معلوم کرنے کے لئے بیسویں صدی اور سائنس کی
گواہی پر نظر رکھنی چاہئے۔ الیکسس کاریل اپنی کتاب "انسان نامعلوم" میں
لکھتا ہے۔ >
"مرد اور عورت کے درمیان اختلافات صرف صنفی
اعضاء کے فرق، رحم اور حمل کے وجود اور تعلیم سے نہیں پیدا ہوتے۔ بلکہ اصل فرق
طبعی اہمیت کا حامل ہے۔ عورت کی بیضوں کی بناوٹ، اور عورت کی بیضہ دانی سے نکلنے
والے کیمیائی مادے اس کے جسم کی تلقیح مرد سے مختلف ہے۔" > > "جو لوگ عورت کی مدافعت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ دونوں صنفوں کو
ایک جیسی تعلیم ملنی چاہیئے اور دونوں کی یکساں ذمہ داریاں اور یکساں حقوق ہوں۔ یہ
لوگ دراصل عورت کے جوہری حقائق سے ناواقف ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ عورت مرد سے بہت
مختلف ہے۔ عورت کا ہر ہر خلیہ اس کے صنفی اثرات کا حامل ہوتا ہے۔ یہی حال اس کے
اعضاء اور عصبی نظام کا ہے۔ کیونکہ عضویاتی قوانین میں کوئی لچک نہیں ہے۔ جیسے
نظامِ شمسی میں انسان کی اپنی خواہشات کا کوئی دخل نہیں ہے — بلکہ ہم اسے جوں کا
توں قبول کرنے پر مجبور ہیں۔" > > "فی الحقیقت
عورتوں کو مردوں کی نقالی کے بجائے اپنی طبیعت کے ماتحت اپنی صلاحیتوں کو پروان
چڑھانا چاہیئے — تہذیب میں عورتوں کا کردار مردوں سے کہیں بلند ہے۔ اس لئے انہیں
چاہیئے کہ وہ اپنی محدود ذمہ داریوں کے لئے اپنے آپ کو علیحدہ کر لیں" > >
"عورتوں کو بھرپور نشوونما ایک دو حمل کے بعد
ملتا ہے۔ وہ عورتیں جن کے قطعاً اولاد نہ ہو۔ وہ متوازن نہیں ہوتیں۔ بلکہ ایسی
عورتوں کا مزاج زیادہ اعصابی ہو جاتا ہے"۔ > > "جنین
و چیٹ کا بچہ کی نسیجیں ماں کی نسیجوں میں گڈمڈ ہوتی ہیں۔ اور اسی میں باپ کی
نسیجیں بھی شامل ہوتی ہیں۔ اس لئے یہ جنین ماں کے اوپر اثر انداز ہوتا ہے۔ ماں کی
وضع اور حمل کی ذمہ داری ابھی تک پوری طرح محسوس نہیں کی گئی۔ حالانکہ یہ عمل عورت
کے نشوونما کو مکمل کرتا ہے۔" > > "یہ انتہائی
غلط رجحان ہے کہ عورت ماں بننے کو برا خیال کرنے لگے۔ اس لئے عورتوں کو مادی اور
عقلی تربیت دی جانی چاہیئے۔ اور نہ ان کے دلوں میں وہ خواہشات پیدا کرنی چاہئیں جو
نوجوان ان کے دلوں میں پیدا کر دیتے ہیں۔ بلکہ تربیت کرنے والوں کو مرد اور عورت
کے عقلی اور عضویاتی خصائص اور ان کے طبعی اعمال پر بہت زیادہ توجہ دینی چاہیئے۔
کیونکہ دونوں صنفوں کے طبعی اعمال میں اس قدر فرق ہے کہ اس کو یکساں تربیت دینا
میں نظر انداز کیا جا سکتا۔" > > "کسی قدر تعجب
کی بات ہے کہ لڑکیوں کی تعلیم میں بچوں اور ان کی عقلی اور عضویاتی صفات کے بارے
میں کوئی درس شامل نہیں ہوتا۔ حالانکہ لڑکیوں کو ان کے طبعی وظائف کے ساتھ ساتھ
بچوں کی تربیت کے امور بھی سکھانے چاہئیں؟" مندرجہ
بالا بیان ایک ڈاکٹر اور سائنس دان کا ہے جو مذہبی ہونے کی بناء پر اس قسم کے رجعت
پسندانہ خیالات نہیں رکھتا، بلکہ اس کے یہ خیالات سائنسی حقائق پر مبنی ہیں! ذیل میں ایک آسٹریا کی خاتون ڈاکٹر کا بیان ہے۔ جن سے ڈاکٹر بنتِ
الشاطی نے آسٹریا میں ملاقات کی۔ اور اپنی گفتگو "تیسری صنف کا ظہور" کے
عنوان سے الاہرام اخبار میں شائع کی۔ > "عربی کتابوں کی
لائبریری میں ایک ہفتہ پر مشقت مطالعہ کے بعد میں نے سوچا کہ ویانا میں اپنی دوست
ڈاکٹر سے ملاقات کر لی جائے۔ اس ملاقات کے لئے اتوار کا دن مجھے زیادہ مناسب معلوم
ہوا۔ جب میں اپنی دوست کے گھر کے دروازے پر پہنچی۔ تو اس نے جلدی سے دروازہ کھولا۔
مگر یہ دیکھ کر میری حیرت کی انتہا نہ رہی۔ کہ اس کے ہاتھ میں آلو تھا اور وہ اسے
چھیل رہی تھی ۔ وہ مجھے باورچی خانے میں لے گئی اور ہم وہیں بیٹھ گئے۔ چونکہ میری
حیرت ابھی تک دور نہیں ہوئی تھی ۔ اس لئے وہ خود ہی مخاطب ہوئی۔" > >
"شاید تمہیں یہ توقع نہیں تھی کہ تمہیں ایک
خاتون ڈاکٹر اتوار کے دن باورچی خانہ میں ملے؟؟ میں نے ہنستے ہوئے کہا۔ خیر! اتوار
کے دن کام تو سمجھ میں آسکتا ہے۔ مگر اس قدر محنت کے بعد باورچی خانے میں آنے کی
بھی فرصت اتوار ہی کو ملتی ہے۔ جیل میں باورچی خانہ میں کام کرنا اس بے چینی کا
علاج ہے۔ جس سے میں اور میری طرح پلک امور میں مصروف عورتیں دوچار ہیں۔" > >
"جب میں نے اس بے چینی کی وجہ پوچھی — حالانکہ
مغربی عورت کو معاشرے میں استقلال حاصل ہے — تو کہنے لگی اس بے چینی کا مشرق کی
نئی نسل کی عورتوں کی ذمہ داریوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بلکہ یہ اس نے ارتقاء کی
صدائے بازگشت ہے۔ جس کی علماء اجتماعیات، عضویات اور حیاتیات عامل عورت کے بارے
میں توقع کر رہے ہیں۔" > > "جب ان علماء
نے عورت میں ایک نہایت سست تغیر دیکھا۔ تو عامل عورتوں میں شرح پیدائش کی کمی کے
باوجود انھوں نے اس طرف کوئی توجہ نہیں دی۔ بلکہ یہ خیال کیا گیا کہ شرح پیدائش کی
کمی اختیاری ہے۔ کیونکہ عامل عورت خود حمل، ولادت اور دودھ پلانے کے جھنجھٹوں سے
بچنا چاہتی ہے۔ مگر اعداد و شمار کی تحقیق سے پتہ چلا کہ عامل عورتوں میں شرح
پیدائش کی کمی اختیاری نہیں۔ بلکہ یہ ناقابلِ علاج بانجھ پن ہے۔" > >
"یا کچھ ان کے متعدد حالات کا جائزہ لینے کے
بعد علم ہوا کہ یہ کسی ظاہری عضوی عیب کی بناء پر نہیں ہے۔ جس سے سائنسدان یہ
سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ عامل عورت کے وجود پر ایک تغیر طاری ہے۔ کیونکہ وہ مادی،
ذہنی اور اعصابی طور پر ماں بننے کے مشاغل سے دور ہو گئی اور مرد کی مساوات کے شوق
میں حوا کی دنیا سے نکل آتی۔" > > "اس نظریہ کے
لئے علماء حیاتیات نے مشہور طبعی قانون کو سند بنایا ہے۔ وہ یہ کہ "عمل عضو
کو پیدا کرتا ہے" اس کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت کے جو اعمال عورت میں مونث ہونے
کے خصائص کے طور پر پیدا کئے گئے تھے۔ وہ رفتہ رفتہ مضمحل ہوتے جا رہے ہیں ۔
کیونکہ عورت ماں کا عمل چھوڑ کر مردوں کی دنیا میں گھس گئی ہے۔" > >
"کچھ مزید تجربات کے بعد سائنس والوں نے اعلان
کیا کہ ایک تیسری جنس ظاہر ہونے والی ہے جس میں مونث کے ہمیشہ کے خصائص مضمحل ہو
جائیں گے۔"
> > "اس پر کئی اعتراضات کئے گئے کہ بہت سی عامل
عورتیں بچوں کی خواہش مند ہوتی ہیں — یا یہ کہ جدید معاشرہ عورت کے ماں بننے کے حق
کو تسلیم کرتا ہے اور قانوناً اسے اس بات کی رعایت ہے کہ وہ ماں بننے کے مشاغل اور
اپنے عملی فرائض ساتھ ساتھ انجام دے سکے۔ اور یہ کہ عورت کو اپنی دنیا سے نکلے
ہوئے صرف چند نسلیں گزری ہیں۔ جب کہ مونث ہونے کے خصائص ہزاروں برس سے چلے آ رہے
ہیں۔"
> > "ان اعتراضات کا یہ جواب دیا گیا کہ عامل عورت
کی بچہ کی خواہش اس کی ذمہ داریوں کے خوف میں الجھی ہوئی رہتی ہے۔ اور وہ ڈرتی ہے
کہ وہ بچوں کی ذمہ داری کی بناء پر اطمینان سے کام نہ کر سکے گی۔ پھر عامل ماں کے
بارے میں معاشرے کا اعتراف بڑا محدود سا ہے۔ اکثر ملازم رکھنے والے ایسی عورتوں کو
ترجیح دیتے ہیں جن کے بچے نہ ہوں۔ اور عورت کا اپنی دنیا سے علیحدہ ہونے کا زمانہ
اگرچہ مختصر ہے۔ مگر اس میں مرد سے مساوات اور مسابقت کا شدید جذبہ موجود ہے جس کی
بناء پر تغیر جلدی ہوتا ہے کیونکہ مساوات کی فکر عورت کے اعصاب پر سوار اور اس کے
ضمیر میں جاگزیں ہو گئی؟" > > "اس مسئلہ کے
ماہرین مسلسل عورت میں پیدا ہونے والے تغیرات کا جائزہ لے رہے ہیں۔ اور نہایت غور
سے عامل عورتوں میں بانجھ پن، دودھ کے خشک ہو جانے کی بناء پر بچوں کو دودھ نہ پلا
سکنے اور وظیفہ مادری سے مخصوص اعضاء کی کمزوری کا مطالعہ کر رہے ہیں؟" مندرجہ بالا اقتباس سائنس اور فطرت کی شہادت ہے۔ اس سے ایک بات
واضح طور پر معلوم ہوتی ہے کہ عورت کو عورت ہی ہونا چاہیئے۔ اسے اپنے مقدس اہم
اولین طبعی فرض کے لئے اپنے آپ کو فارغ رکھنا چاہیئے۔ اور اس کے سوا اسے کوئی کام
اختیار نہ کرنا چاہیئے۔ خواہ وہ اس میں مہارت ہی کیوں نہ حاصل کر لے۔ اور خواہ وہ
اس میں مردوں کو بھی پیچھے چھوڑ دے۔ مگر بہر حال یہ اس کا کام نہیں ہوگا۔ عورت کی
بھلائی اسی میں ہے کہ وہ اپنا فطری وظیفہ انجام دے۔ اور انسانیت کی بھی بھلائی اسی
میں ہے کہ دونوں صنفوں کے وظائف اور اعضاء میں اختلال رونما نہ ہو۔ جب کہ پہلے ہی
انسانیت نفسی اور اعصابی اختلال سے دوچار ہے! اسلام
کی خاندانی تنظیم اسی ناقابلِ تغیر فطرت پر قائم ہے جو انحراف سے نہیں بدلتی۔ اور
یہ سائنس کی زبانی انحراف کے نتائج ہیں۔ سب سے اہم یہ بات ہے کہ اسلام جو عورت کے
فطری عمل کی تخصیص میں فطرت سے ہم آہنگ ہے، کسی طرح کبھی عورت سے اس کی انسانیت
سلب کر کے اسے حقیر نہیں بناتا۔ ہم اس معاشرے کے بارے میں گفتگو کر رہے ہیں جو
صحیح معنی میں اسلام کو برپا کئے ہوئے ہو۔ اس معاشرہ سے کوئی سروکار نہیں جو اسلام
کو غلط معنی پہناتا ہو۔ اور اسلام نے جو مرد کو حقوق دیتے ہیں۔ ان کو غلط استعمال
کرتا ہو، اور اسلام کے مندرجہ ذیل فرامین کی صحیح روح کو مدِنظر نہ رکھتا ہو۔ > وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ (اور ان عورتوں کے ساتھ خوبی سے
گزارا کیا کرو۔) (النساء: ۱۹)
> > بَعْضُكُم مِّن بَعْضٍ (تم آپس میں ایک دوسرے
کے جزو ہو۔) (آل عمران: ۱۹۵) > > "تم میں بہتر وہ ہے جو اپنے اہل و عیال کے لئے بہتر ہے۔ میں بھی
اپنے اہل خانہ کے لئے بہتر ہوں" (ترمذی) اسلام
بچوں کی پرورش کے لئے عورت کو خاندان سے وابستہ کر دیتا ہے اس لئے نہیں کہ وہ
انسانی زندگی اور معاشرہ کی تنظیم میں عورت کے وجود کو اصل خیال کرتا ہے، بلکہ
اسلام عورت کی اسلامی معاشرہ کی مقدسات کے طور پر حفاظت کرتا ہے۔ کیونکہ خاندان
اسلام کی نظر میں — جیسا کہ فی الواقع بھی ہے — بچہ کی تربیت گاہ ہے۔ جہاں بچہ
اسلامی اخلاق، عقائد اور قانون سیکھتا ہے اور یہ اہم ترین اور عظیم ترین ذمہ داری
جس پر آئندہ چل کر معاشرہ کی صورت بنتی ہے اسلام نے عورت کو سونپ دی ہے، اور اس کے
اکرام کے جملہ انتظام کئے ہیں تاکہ اس کے اعصاب دوسری ذمہ داریوں میں نہ الجھیں۔
جن کو مرد بخوبی انجام دے سکتا ہے۔ اس عظیم اور مقدس ذمہ داری کے دوران عورت کے
اعصاب اپنی معاشی کفالت میں بھی نہ الجھیں، اور نہ ہی وہ خواہ مخواہ مرد سے مقابلہ
اور مساوات کی جدوجہد میں لگی رہے۔ جس کے نتیجہ میں اسے تیسری جنس بننا پڑے اور اس
کے ذاتی خصائص تباہ ہو جائیں۔ رہ گیا وہ خلاء جسے پُر کرنے کے لئے مغربی عورت کبھی
ملازمت کرتی ہے کبھی اجتماعی دلچسپیوں میں حصہ لیتی ہے۔ اور کبھی فساد، لہو و لعب
اور محفلوں میں شرکت کرتی ہے جو سارا خلاء خود ساختہ ہے۔ جو اس وجہ سے پیدا ہوا ہے
کہ ایک فاسد معاشی اور اجتماعی نظام کی فاسد نفسیاتی اور اخلاقی رہنمائی نکاح میں
تاخیر کراتی ہے پھر بچوں کی پیدائش میں تاخیر اور ان کی کمی کا تقاضا کرتی ہے۔ جس
سے فطرت کے منافی خلاء پیدا ہوتا ہے۔ دوسری وجہ یہ غلط خیال ہے کہ بچوں کی تربیت
کوئی بھی کر سکتا ہے۔ اور اس طرح ماں کی جان بچ سکتی ہے۔ اس سے بھی فطرت کے منافی
خلاء پیدا ہوتا ہے! پرورش گاہوں میں تربیت یافتہ نسل شاذ، منحرف،
ناقص انسانیت کی حامل ہے۔ تربیت گاہوں میں جو عورتیں ماں بنتی ہیں۔ وہ جذبہ مادری
سے محروم ہوتی ہیں۔ پھر بچوں کو تربیت گاہوں میں بھیجنے کے لئے انتہائی احمقانہ
اور مجنونانہ حرکت کی جاتی ہے۔ اور وہ یہ کہ ماں ملازمت کرتی ہے۔ تاکہ بچہ کی
تربیت کرنے والی آیا کی تنخواہ دے سکے! اور نتیجہ یہ کہ بچہ حقیقی ماں سے محروم اور
آیا جذبہ مادری سے محروم!! یہ سب مغربی معاشرت کے خلل ہیں جو بیسویں صدی
میں تہذیب کے عروج میں پیدا ہوتے ہیں۔ اسلام — اللہ کا قانون — چند پاگلوں کو خوش
کرنے کے لئے یہ اختلال نہیں اپنا سکتا! ## انسانی معاشرہ اب
ہم چوتھے مسئلہ کی جانب رجوع کرتے ہیں "اُس نے تم کو ایک
جاندار سے پیدا کیا۔ اور اس جاندار سے اس کا جوڑا پیدا کیا۔ اور ان دونوں سے بہت
سے مرد اور عورتیں پھیلائیں" یہ اس معاشرے کا
مسئلہ ہے۔ جو مردوں اور عورتوں سے وجود میں آیا ہے اور جو دراصل اس ایک نفس سے ہی
پیدا ہوتے ہیں۔ جس کو اللہ نے تخلیق فرمایا تھا۔ ہم اس مسئلہ کے ایک حصہ کو معاشرے
میں صنفی تعلق کے ماتحت بیان کر چکے ہیں۔ اور یہاں اس بحث کی تکمیل کر رہے ہیں۔
معاشرہ ہمیشہ افراد ہی سے وجود میں آتا ہے۔ یہ ایک ایسی ناقابلِ تغیر حقیقت ہے جو
سائنسی اور تاریخی تغیرات سے نہیں بدلتی۔ معاشرہ کا لازمی تقاضا ہے کہ افراد میں —
یعنی فرد اور معاشرے میں غیر متغیر قسم کے روابط ہوں۔ اس موقع پر ہم ڈرکایم کی من
گھڑت "اجتماعی عقل" کی کہانی پر تنقید کریں گے۔ یہ عقلِ اجتماعی افراد
کو ان کی طبیعت کے برخلاف اپنا تابع بنائے رکھتی ہے۔ اور ان پر بغیر ان کی مرضی کے
مسلط رہتی ہے اور افراد کو یہ قوت نہیں ہے کہ وہ اس کو رد کر دیں یا اس میں کوئی
تبدیلی کر سکیں۔ اس عجیب و غریب کہانی کا سارا مقصد یہ ہے کہ خاندان فطری نہیں ہے
(یعنی اگر اجتماعی عقل چاہے تو جنسی راحت کا وجود طبعی طور پر ممکن ہے) اور مذہب
غیر فطری ہے (یعنی اگر عقلِ اجتماعی چاہے تو مذہبی حلت پسندی کا وجود طبعی طور پر
ممکن ہے۔) جرم بیمار معاشرے کا مظہر نہیں ہے۔ بلکہ جرم معاشرے کے لئے ایک طبعی
مظہر ہے!! ڈرکایم اپنی کتاب "قواعد اجتماعیات" کے ص ۱۸
پر لکھتا ہے۔ >
"جرم ہی صرف وہ مظہر ہے۔ جو تمام سلیم اعراض
پر مشتمل ہے؟"
صفحہ ۱۹ پر لکھتا ہے۔ > "جرم معاشرے کی
سلامتی کا ایک ضروری عامل ہے اور ہر سالم معاشرے کا ایک جزء ہے؟" اس ساری کہانی کی بنیاد یہ ہے کہ ایک فرد معاشرے میں رہتے ہوئے
کچھ ایسے اعمال کرتا ہے۔ جن سے وہ ناخوش ہوتا ہے۔ بلکہ بسا اوقات ان کو بُرا بھی
خیال کرتا ہے! بلا شبہ یہ ایک حقیقت ہے مگر یہ حقیقت کس امر کی جانب اشارہ کرتی
ہے۔ یہ بڑے بڑے علماء اس فطری حقیقت سے غافل ہیں کہ انسان دو گانہ طبیعت کا مالک
ہے۔ یہ علماء ہمیشہ انسان کے ایک پہلو کو لے کر اس کے دوسرے پہلو کو نظر انداز کر
دیتے ہیں۔ اور اس کے لئے متعدد اسباب تلاش کر کے انسان کی غیر انسانی تعبیر کرتے
ہیں۔ اور کبھی مادہ کا سہارا لیتے ہیں، اور کبھی معاشرے کا! نفسِ
انسانی میں پائی جانے والی دو متضاد صفات انفرادیت اور اجتماعیت، سلبیت اور
ایجابیت۔ انسان میں فطری طور پر موجود ہیں۔ اور خارج سے انسان پر اثر انداز ہوتی
ہیں، اور ہر ایک صفت کے دونوں پہلو بیک وقت اثر ڈالتے ہیں! جب
انسان معاشرے میں کوئی ایسا کام کرتا ہے۔ جسے وہ انفرادی طور پر ناپسند کرتا ہے۔
یا اپنی خلوت میں اسے برا سمجھتا ہے۔ تو اس کی وجہ اجتماعی جبر نہیں ہے بلکہ اس کی
اکثر وجہ حالات میں وجدانی مشارکت ہے۔ یعنی دوسروں کے ساتھ شریک ہونے کی فطری
رغبت، یہ رغبت بھی کبھی کبھی پیدا ہوتی ہے۔ ہر وقت نہیں ہوتی! ڈرکایم
کا دعویٰ اس طرح بھی غلط ہے کہ اجتماعی جبر اگرچہ اکثر حالات میں حقیقت ہے۔ مگر
پوری قوت اور دباؤ کے باوجود بھی فرد کی فطرت بدلنے پر قادر نہیں ہے۔ اگرچہ کچھ
وقت کے لئے فطرت کو دبا دے! — چنانچہ اشتراکیت ہر قسم کے دباؤ کے باوجود انفرادی
ملکیت کا جذبہ ہی ختم نہیں کر سکی اور انفرادی ملکیت قائم کرنے پر مجبور ہو گئی۔
جس طرح بغاوت جبر کو زیادہ دیر برداشت نہ کرنے کا ایک اظہار ہے اگرچہ بغاوت ایک
اجتماعی مظہر ہے مگر اس میں بھی افراد ہی جمع ہوتے ہیں۔ بلکہ بغاوت ایک انقلابی
فرد سے شروع ہوتی ہے۔ پھر اس کے گرد بہت سے افراد اپنی فطرت کے مطابق اپنی خوشی سے
جمع ہو جاتے ہیں۔ اجتماعیت جو کبھی کبھی فرد کے خلاف سرکش ہو جاتی اور سلبیت جو اس
جبر پر خاموش ہو جاتی ہے۔ دونوں ہی فطری میلانات ہیں۔ اس لئے صحت مند اور غیر صحت
مند تمام اجتماعی مظاہر غیر فطری ہیں۔ اور فطرت انحراف اور اعتدال دونوں سے دوچار
ہو سکتی ہے۔ اور فطرت ہی سے انحراف اور اعتدال رونما ہوتے ہیں۔ معاشرہ غیر متغیر
فطرت کا جز ہے۔ اور فرد اور معاشرے کے روابط بھی غیر متغیر ہیں۔ مختلف زمانوں میں
ان روابط کا دو مختلف انتہاؤں (یعنی انتہائی انفرادیت یا انتہائی اجتماعیت) پر
ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ ان کا کوئی فطری مقیاس نہیں ہے۔ یا یہ مقیاس تغیر پذیر ہے
— اس کا مطلب یہ ہے کہ فرد اور معاشرہ کا باہمی رشتہ۔ فطرتِ انسانی سے ابھرنے والے
ہر رشتے کی طرح انحراف اور اعتدال دونوں کو قبول کر سکتا ہے۔ اور وہ قانون جو فرد
اور معاشرے کے تعلق کو منضبط کرتا ہے۔ وہ یہ ہے کہ فرد اور معاشرہ دونوں ہی نفسِ
واحد سے پیدا کئے گئے ہیں۔ فرد اور معاشرہ میں سے کوئی ایک نہ تو زیادہ مقدس ہے
اور نہ اسے زیادہ حرمت حاصل ہے بلکہ دونوں کا درجہ مساوی ہے۔ اسی بنیاد پر سب کے
حقوق اور سب کے حرمتوں کی حفاظت کی جا سکتی ہے۔ اسلام کا نظریہ جرم و سزا اس فکر
پر مبنی ہے اور اسی لئے اسلام میں سزائیں غیر متغیر ہیں۔ سزا کا اصل اور طبعی منشا
یہ ہے کہ بہت سے مرد اور عورت جو ایک ہی نفس سے پیدا ہوئے ہیں۔ مل کر معاشرہ بنا
لیتے ہیں۔ اس لئے ان کے انسانی حقوق اور ان کی حرمت یکساں ہے۔ خون، عزت، اور مال
کی حرمتیں مساوی اور غیر متغیر ہیں۔! اور ان حرمتوں کو پامال کرنے اور ان پر
زیادتی کرنے کی سزائیں بھی ناقابلِ تبدیل ہیں۔ اسی لئے اسلام نے قتل، زنا اور
چوری۔ اور زمین میں فساد (جو سابقہ جرائم پر بھی مشتمل ہوتا ہے۔ اور لوگوں کے امن
اور عقیدے میں بدامنی اور فتنہ پیدا کرتا ہے) پر سزائیں متعین کر دی ہیں۔ مرتد کی
سزا اللہ کے عقیدے سے مربوط ہے۔ اور اللہ کا عقیدہ انسانی زندگی میں ایک غیر متغیر
عنصر ہے۔ نظریہ جرم و سزا کے بارے میں بہت سے لوگوں نے بحثیں کی ہیں۔ اور اپنے علم
و معرفت کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس سلسلہ میں ان کے مدِنظر نفسیات، خاص طور پر تحلیلی
نفسیات، اجتماعیات اور وہ علوم رہے جو اس موضوع سے بحث کرتے ہیں۔ ان لوگوں نے طویل
بحثیں کر کے اپنے علم کا مظاہرہ کیا ہے اور اسلام کے نظریہ جرم و سزا کے بارے میں
بہت سی جہالت آمیز باتیں کہی ہیں کہ یہ سزائیں ظلم، رجعت اور تاخر ہیں۔ ان میں فرد
کی انسانیت کا احترام ملحوظ نہیں ہے، اور نظریہ علاجی نہیں۔ بلکہ انتقامی ہے۔ میں
نے اپنی کتاب "مادیت اور اسلام" میں ایک مکمل باب "جرم و سزا"
کے عنوان سے تحریر کیا ہے۔ اور "سیرتِ رسول کی جھلکیاں" میں "شبہ
سے حدود ساقط ہو جاتی ہیں" کا عنوان قائم کیا ہے۔ یہاں اس نظریہ کو چند سطروں
میں بیان کئے دیتا ہوں۔ تمام تغیر، ترقی، اور تہذیب نے مل کر بھی اسلامی نظریہ میں
کوئی اضافہ نہیں کیا ہے، بلکہ یہ ساری ترقیات اسلامی انصاف اور نظامِ تربیت کے
قریب بھی نہیں پہنچ سکی ہیں۔ اسلام پہلے سزا نہیں دیتا۔ بلکہ پہلے معاشرہ کو جرائم
کے اسباب سے محفوظ کرتا ہے۔ (اسلامی سزائیں) اور جب معاشرہ اچھی طرح محفوظ ہو
جائے۔ اور جرم کا کوئی محرک باقی نہ رہے۔ پھر سزائیں دیتا ہے۔ اس کے باوجود بھی جب
تک مجرم ہر طرح سزا کا مستحق نہ ٹھہرے۔ اسے سزا سے بچایا جاتا ہے۔ چنانچہ اسلام
کہتا ہے کہ شبہ کی موجودگی میں سزا نہ دی جائے یعنی شبہ کا فائدہ مجرم کو حاصل ہو
اور اسلام کہتا ہے کہ اگر امام معاف کرنے میں غلطی پر ہو۔ تو یہ اس سے بہتر ہے کہ
سزا دینے میں غلطی کر جائے! (مصابیح السنہ) اس
سے بڑھ کر اور کیا انصاف ہوگا۔ ارتقاء، ترقی اور تہذیب نے انصاف کی ان بلند قدروں
میں کون سا اضافہ کیا ہے۔؟ اور کیا یہ اضافہ ممکن بھی ہے؟ ابنِ حاطب بن ابی بلتعہ
کے ملازموں نے مزینہ کے ایک شخص کی اونٹنی چرا لی۔ یہ سب حضرت عمرؓ کے پاس لائے
گئے، اور آپؓ کے پاس آکر چوری کا اقرار کر لیا۔ حضرت عمرؓ نے کثیر بن صلت کو حکم
دیا۔ کہ ان کے ہاتھ کاٹ ڈالے جائیں۔ پھر کثیر کو واپس بلا کر فرمایا۔ "اگر
مجھے یہ علم نہ ہوتا کہ تم ان سے کام تو لیتے ہو مگر ان کو بھوکا رکھتے ہو تو میں
ضرور ان کے ہاتھ کاٹ دیتا۔" پھر آپؓ نے حاطب بن ابی بلتعہ سے کہا "چونکہ
میں نے مجرموں کو سزا نہیں دی۔ اس لئے تاوان کا بوجھ تمہیں اٹھانا ہوگا۔" پھر
آپؓ نے نرمی سے اس کی اونٹنی کی قیمت معلوم کی، اس نے کہا "چار سو"۔
حضرت عمرؓ نے ابنِ حاطب کو حکم دیا کہ اسے چار سو درہم ادا کر دو! یہ ہے اسلام! حضرت عمرؓ نے جب دیکھا کہ معاشرہ نے چوری پر مجبور
کیا ہے تو آپؓ نے سزا نہیں دی۔ بلکہ سرمایہ دار کی شکل میں ظالم معاشرے کو سزا دی!
اور یہ واقعہ نفسیاتی، اجتماعی اور معاشی بحثوں سے ایک ہزار سال پہلے کا ہے۔ اسلام
کی تمام سزاؤں میں یہی نظریہ کارفرما ہے کہ پہلے معاشرے کو قانون اور ہدایت کے
ذریعہ جرم کے اسباب سے بچایا جائے۔ پھر ہر ایک انفرادی صورت میں دیکھا جائے کہ جرم
کے اسباب موجود ہیں یا نہیں، اور شبہ کی صورت میں جرم کو ساقط کر دیا جائے۔ یہ
تمام سزائیں غیر متغیر ہیں۔ کیونکہ ان کی بنیاد غیر متغیر عوامل ہیں۔ مگر ان میں
اس قدر لچک ہے کہ وہ تمام حالات پر منطبق ہو سکتی ہیں۔ اور ان کو تمام صورتوں میں
انصاف کے ناقابلِ تغیر مقیاس سے پرکھا جا سکتا ہے۔ ہم دوسرے مسئلہ یعنی انسانیت کی
وحدت اور اخوت میں فرد اور معاشرہ کے بارے میں کچھ بحث کر چکے ہیں۔ اور اسے یہاں
ذکر کئے دیتے ہیں۔ ایک ہی نفس سے پیدا ہونے والے معاشرے کے روابط جنگ جدل کے روابط
نہیں ہیں۔ >
وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا (ہم نے
تمہیں شعوب اور قبائل اس لئے بنا دیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔) (الحجرات: ۱۳) اصل
مقصد تعارف اور وہ امن و سلامتی ہے۔ جو تمام لوگوں کو محیط ہو! اور تعارف کے لئے
تمام وسائل اختیار کئے جائیں۔ تمام لوگوں کی حرمتوں کی حفاظت کی جائے۔ نہ کہ ایک
گروہ اور ایک فرد کی: > مِنْ أَجْلِ ذَٰلِكَ
كَتَبْنَا عَلَىٰ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنَّهُ مَن قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ
أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا (اسی وجہ سے ہم
نے بنی اسرائیل پر یہ لکھ دیا کہ جو شخص کسی شخص کو بلا معاوضہ دوسرے شخص کے یا
بدون کسی فساد کے جو زمین میں اس سے پھیلا ہو۔ قتل کر ڈالے تو گویا اس نے تمام
آدمیوں کو قتل کر دیا۔ اور جو شخص کسی شخص کو بچا لیوے تو گویا اس نے تمام آدمیوں
کو بچا لیا۔) (المائدہ: ۳۲) فیصلوں میں تحقیق اور انصاف کی ضمانت ہر شخص کو حاصل ہے۔ خواہ
وہ کسی بھی رنگ و نسل اور دین و مذہب سے تعلق رکھتا ہو۔ ان کا مسلمانوں سے ربط کسی
بھی نوعیت کا کیوں نہ ہو! بڑی سے انصاف کے بارے میں آیات گزر چکی ہیں جن میں یہ
عام ہدایت بھی ہے: > وَلَا
يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَىٰ أَلَّا تَعْدِلُوا ۚ اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَىٰ (اور کسی خاص لوگوں کی
عدادت تم کو اس پر باعث نہ ہو جاوے کہ تم عدل نہ کیا کرو کہ وہ تقویٰ سے زیادہ
قریب ہے۔) (مائدہ: ۸) یہ
اسلامی قوانین اور انسانی زندگی کی تنظیمات سے متعلق غیر متغیر امور ہیں۔ کیونکہ
ان کی بنیاد انسان کے ناقابلِ تغیر پہلو ہیں۔ جن میں سائنسی، معاشی، اجتماعی،
سیاسی اور نفسیاتی کوئی تبدیلی نہیں لا سکتیں۔ انسان کے یہ پہلو ہر تغیر سے بالاتر
ہیں۔ ہمیں اس بات سے دھوکہ نہیں کھانا چاہیئے کہ یہ غیر متغیر صورت انسان کی
واقعاتی زندگی میں پوری طرح جلوہ گر نہیں ہوتی۔ اصل میں اس کی تعبیر فطرت کے
ارتقاء کے بجائے فطرت کے انحراف میں پنہاں ہے۔ ارتقاء اور انحراف میں فرق ان دونوں
کے نتائج سے رونما ہوتا ہے۔ فطرت سے ہم آہنگ ارتقاء کے نتیجہ میں صالح اور مفید
نتائج رونما ہوتے ہیں۔ جب کہ فطرت کے مخالف انحراف نفسیاتی، اجتماعی، اعصابی اور
عقلی امراض پیدا کرتا ہے اور تباہی کی جانب لے جاتا ہے۔ بیسویں صدی کی شہادت سے یہ
بات بخوبی واضح ہو چکی ہے کہ فطرت کے غیر متغیر امور میں انحرافات کے کیا نتائج
رونما ہوتے ہیں۔ خاص طور پر جنس اور اخلاق میں! یہاں
تک ہم نے انسان کے ناقابلِ تغیر پہلو اور ان کے بارے میں اسلامی قوانین پر بحث کی
ہے۔ اب ہم انسان کے ترقی پذیر پہلوؤں اور ان کے بارے میں اسلام کا طریقہ کار زیرِ
بحث لاتے ہیں۔ ##
انسان کے تغیر پذیر پہلو اور اسلام انسانی
عقل اور مادی کائنات کے مسلسل ٹکراؤ سے انسانی زندگی میں بڑا وسیع تغیر ہوتا رہتا
ہے۔ اور اس سے نئی نئی تنظیمات اور جدید ترین حالتیں ابھرتی رہتی ہیں۔ گزشتہ پیروں
میں ہم یہ بتا چکے ہیں کہ وسیع تر تغیر انسانی وجود اور انسانی زندگی کے چند متعین
پہلوؤں پر مشتمل نہیں ہے۔ کیونکہ یہ تغیر فطرت کی گہری بنیادوں پر استوار ہے۔ یہ
تغیر صرف چند پہلوؤں کو ہلاکت خیز انحراف ہی کے وقت مشتمل ہوتا ہے۔ اب ہم یہ کہتے
ہیں کہ تغیر انسان کے تمام پہلوؤں کو محیط ہے۔ یہ تغیر مادی، سائنسی اور ذرائعِ پیداوار کے ارتقاء کو بھی شامل
ہے یہ تغیر معاشرے کی
صورت پر بھی مشتمل ہے کہ یہ معاشرہ گلہ بان معاشرہ ہے یا زرعی، یا صنعتی یا ایٹمی۔
اس تغیر کی زد میں
معاشرے کی معاشیات، مالکین اور غیر مالکین میں ربط اور تعلق کی بنیاد۔ جس طرح اس تغیر میں
معاشرے کی سیاسی صورت اور حکومت کی نوعیت بھی آ جاتی ہے۔ یہ امور باہم ایک دوسرے
سے مربوط ہیں۔ اگرچہ یہ امور ایک دوسرے کے سبب نہیں بنتے بلکہ ساتھ ساتھ چلتے ہوئے
ایک دوسرے کو متاثر کرتے ہیں۔ مگر یہ سب متغیر ہیں۔ اور تغیر ہی ان کی مشترکہ
خصوصیت ہے۔ علم و سائنس دریافت اور ایجاد کرتی رہتی ہیں۔ علم اپنی ابتداء سے لے کر
اس وقت تک برابر ترقی کر رہا ہے۔ اور معرفت میں برابر اضافہ ہو رہا ہے۔ علم صرف
دورِ انحراف میں ترقی نہیں پا سکا۔ اور آگے بڑھنے سے رک گیا۔ سائنسی کی دریافت اور
ایجادات سے آلات اور ہتھیاروں اور اوزاروں میں یعنی ذرائعِ پیداوار میں ارتقاء
ہوتا رہا۔ یہ سب امور فطری ہیں۔ جیسا کہ جولین ہکسلے کا قول گزر چکا ہے مگر اس
فطرت کے نتیجہ میں جو صورت پیدا ہوتی ہے۔ وہ ہمیشہ متغیر رہتی ہے۔ جب ذرائعِ
پیداوار ترقی کر جاتے ہیں۔ تو اس سے جدید معاشی نظام، متاثر کی نئی صورت، اور
حکومت کی نئی وضع ابھرتی ہے۔ اور یہ سب انسانی وجود کے فطری طریقہِ نما کے تابع
ہوتے ہیں۔ مگر جدید معاشی نظاموں کی تشکیل سراسر ذرائعِ پیداوار کے تغیر پر موقوف
نہیں ہے۔ جیسا کہ تاریخ کی مادی تعبیر کہتی ہے۔ کیونکہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ اسلام
کا منفرد معاشی نظام کس طرح ماضی سے بے تعلق ہے۔ اور کسی معاشی ضرورت یا ذرائعِ
پیداوار کے تغیر پر قائم نہیں ہے۔ اسی طرح اسلام نے معاشرے کی جدید صورت اور حکومت
کی نئی شکل متعین کی! عادتاً یہ ہوتا ہے کہ کئی ارتقاء ساتھ ساتھ
ہوتے ہیں اور ان سے انسانی زندگی میں دائمی تغیر پیدا ہوتے ہیں۔ اسی پر ہم اگلے
پیرے میں بحث کریں گے تاکہ ان تغیرات کے بارے میں ہمیں اسلام کا موقف معلوم ہو
سکے۔ جس طرح اسلام نے انسان کے غیر متغیر پہلو کے لئے اس کے مناسب اور ہم آہنگ
قوانین بنائے ہیں۔ جو ہر لحظہ منطبق ہوتے ہیں، (سوائے اس صورت کے جب کہ انحراف کی
بناء پر صورتِ مطلوبہ صورتِ واقعہ سے مختلف ہو جائے۔ اور صورتِ حال کو پھر اپنی
صحیح وضع پر لانا ضروری ہو جائے)، اسی طرح اسلام انسان کے متغیر پہلو کے لئے بھی
اس کے مطابق قوانین وضع کرتا ہے۔ جو ہر لحظہ پوری طرح منطبق ہوتے ہیں۔ سوائے
انحراف کی حالت کے! علمی، مادی، معاشی، اجتماعی اور سیاسی نما
فطری عمل ہے اور اس میں دائمی تغیر بھی فطری ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہر
پیدا ہونے والا تغیر طبعی اور فطرت کے مناسب ہو! کیونکہ فطرت کی رہنمائی اگر غلط
کی جائے یا بغیر رہنمائی کے چھوڑ دیا جائے تو وہ منحرف ہو سکتی ہے۔ اس وقت بھی
فطرت نما تو پاتی ہے مگر یہ نما منحرف ہوتا ہے۔ جیسے کسی بچہ کی ٹیڑھی ٹانگ بڑھتی
ہے؟ دو شے ہیں۔ ایک نما اور دوسرے نما کا فطرت کے مطابق مستقیم ہونا۔ اور اسی کو
اسلام مدِنظر رکھتا ہے! ہم نے انسانی وجود میں یکسانی و ارتقاء کے
باب میں ایک اہم حقیقت بیان کی ہے۔ وہ یہ کہ انسان کے تغیر پذیر پہلو میں صرف صورت
کا تغیر ہے اور جوہری تغیر نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ارتقاء ہر قید سے آزاد اور
حالات کا بالکلیہ تابع نہیں ہوتا۔ وہ فطرت سے مربوط ہوتا ہے۔ تاکہ مستقیم فطرت سے
ہم آہنگ کوئی صالح اور راشد مقصد ہو سکے۔ اسی فطری ربط کی بناء پر وہ نما کے فطری
عمل میں خلل اور انحراف سے محفوظ ہو جاتا ہے۔ معرفت کی فطری رغبت علمی ترقی کا
باعث بنتی ہے اور عقلِ انسانی اس قدر دریافت و ایجاد کر سکتی ہے۔ جس قدر اللہ
تعالیٰ نے اسے معرفت دی ہے مگر غیر جانبدار علمی حقائق کی علمی تطبیق نیوٹرل نہیں
ہے بلکہ علمی تطبیق خیر کی طرف بھی متوجہ ہو سکتی اور شر کی طرف بھی۔ اور مستقیم
فطرت علم کو صرف خیر کے راستہ پر لگاتی ہے۔ شر کے راستہ میں نہیں لگاتی۔ کیونکہ شر
فطرت کو استعمال نہیں کیا کرتا۔ اجتماعی، معاشی اور سیاسی نما فطری ہے مگر اس کے
دو رخ ہیں۔ ایک خیر اور دوسرا شر۔ مستقیم فطرت خیر کے راستہ میں آگے بڑھتی ہے۔ اور
شر کے راستہ میں منحرف نما سے انکار کرتی ہے۔ اسی طرح نفسی نما کی صورت ہے۔ عرصہِ
نمود کی تمام حرکات فطری ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ ان پر فطرتِ سلیمہ نگران رہے اور
ضروری ہے کہ کوئی ایسا نظام ہو جو نما کے عمل کو شامل ہو اور اسے انحراف سے روک
سکے! اور یہی کچھ اسلام کرتا ہے۔ > اَلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ
وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا (آج کے
دن میں نے تمہارا دین مکمل کر دیا ہے اور اپنی تمام نعمتیں تم پر تمام کر دیں اور
تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کر لیا۔) (المائدہ: ۳) اسلام صرف جزیرہ نمائے عرب کے معاشرے کے لئے
نہیں تھا۔ نہ صرف رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ تک محدود تھا۔ اور نہ
کسی خاص ماحول اور خاص نسل کے لئے تھا۔ بلکہ اسلام ساری انسانیت اور تمام زمانوں
کے لئے ہے۔ >
وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ (اور ہم
نے آپ کو تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔) (الانبیاء: ۱۰۷) عالمین
کا لفظ زمان و مکاں کی تمام وسعتوں کو محیط ہے۔ اس لئے اسلام نے تغیر پذیر امور کے
لئے تفصیلی احکام بیان نہیں فرمائے بلکہ غیر متغیر اور فطری امور کے لئے غیر متغیر
تفصیلی قوانین مقرر کئے ہیں جو کبھی نہیں بدل سکتے اور جن کی تبدیلی انسانیت کے
لئے تباہ کن انحراف ہے۔ (بیسویں صدی کی گواہی ملاحظہ فرمائیے) اگرچہ
شریعت کے عام اصول متغیر امور کو محیط اور شامل ہیں۔ مگر ان سے تفصیلی احکام نہیں
بیان کئے۔ کیونکہ ایسے احکام معاشرے کے ہر ارتقاء پر ختم ہو جاتے! اگر اسلام گلہ
بان قبائلی معاشرہ کے لئے غیر متغیر تفصیلی معاشی قوانین بیان کر دیتا تو وہ زرعی
اور صنعتی معاشرے میں ٹوٹ جاتے اور ناقابلِ عمل ہو جاتے۔ اور اس وقت بھی معاشرے کے
فطری ارتقاء میں رکاوٹ بنتے۔ اگر حکومت کی شکل مدینہ کے ماحول کے مطابق۔ یا جزیرہ
نمائے عرب کے ماحول کے مطابق متعین کر دی جاتی تو یہی طرزِ حکومت ایک نسل کے بعد
خود جزیرہ نمائے عرب کے لئے ناقابلِ عمل ہو جاتا۔ جب کہ فتوحات ہو چکی تھیں۔ ملک وسیع
ہو گیا تھا اور مختلف تہذیبیں اور نظام سامنے آ رہے تھے۔ اور اسلام ان تمام
اضطرابات میں پھنس کر رہ جاتا۔ اس معاملہ میں بھی اسلام کا موقف وہ ہی ہے جو تمام
امور میں ہے یعنی فطرت سے مکمل مطابقت! اسلام ہر فطری اور صحیح نما کے لئے گنجائش
اور ایسی بنیادیں متعین کرتا ہے جس سے نما کا رخ متعین ہو اور انحراف سے بچا رہ
سکے۔ کلی اور قواعد اور غیر متغیر اصولوں پر قائم ہونے والی ہر وہ شکل جس میں
اسلامی نظام کے ایسے خصائص ہوں جو اسے تمام انسانی اور غیر اسلامی نظاموں سے ممتاز
کریں۔ ایسی ہر شکل کو اسلام جائز قرار دیتا ہے۔ اب ہم ذرا تفصیل سے یہ بتائیں گے
کہ علمی، معاشی، اجتماعی، سیاسی اور تہذیبی نشوونما میں اسلام کا موقف کیا ہے؟ ### علمی ارتقاء اور اسلام رہ
گیا علمی شمار کا مسئلہ — تو قرآن کریم میں علمی، طبعی، کیمیاتی، فلک، ایٹم اور
راکٹوں سے متعلق نظریات نہیں ہیں۔ اور نہ ان نظریات کا بیان کرنا قرآن کی شان ہے —
جیسا کہ آج کل کچھ خوش عقیدہ لوگ خیال کرتے ہیں۔ قرآن کی شان تو یہ ہے کہ علمی
نماء کو مفید اور مناسب فطرت رخ دیدے اور یہی کچھ قرآن نے کیا ہے۔ قرآن قوتِ معرفت
کی جانب اشارہ کرتا ہے۔ > وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا (اور
ہم نے آدم کو تمام چیزوں کے نام سکھلا دیئے۔) (البقرہ: ۳۱) قرآن حصولِ علم کو واجب قرار دیتا ہے: > اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ ﴿١﴾ خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ ﴿٢﴾ اقْرَأْ وَرَبُّكَ
الْأَكْرَمُ ﴿٣﴾ الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ ﴿٤﴾ عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ
يَعْلَمْ ﴿٥﴾ (اے نبیؐ! پڑھو اپنے رب کا نام لے کر جس نے تمام مخلوقات کو
پیدا کیا۔ انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا۔ پڑھو اور آپ کا رب بڑا کریم ہے۔ جس
نے انسان کو قلم سے سکھلایا۔ انسان کو وہ باتیں سکھلائیں جو وہ نہیں جانتا تھا۔)
(العلق: ۱-۵) پھر اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرض قرار دیا کہ کائنات میں بکھری
ہوئی اللہ کی نشانیوں میں غور و فکر کیا جائے۔ > إِنَّ
فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ
وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِي فِي الْبَحْرِ بِمَا يَنفَعُ النَّاسَ وَمَا أَنزَلَ
اللَّهُ مِنَ السَّمَاءِ مِن مَّاءٍ فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا
وَبَثَّ فِيهَا مِن كُلِّ دَابَّةٍ وَتَصْرِيفِ الرِّيَاحِ وَالسَّحَابِ
الْمُسَخَّرِ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ
(بلاشبہ آسمانوں کے اور زمین کے بنانے میں اور یکے بعد دیگرے رات اور دن کے آنے
میں اور جہازوں میں جو کہ سمندر میں چلتے ہیں۔ آدمیوں کے نفع کی چیزیں لے کر اور
پانی میں جس کو اللہ تعالیٰ نے آسمانوں سے برسایا۔ پھر اس سے زمین کو تروتازہ کیا۔
اس کے خشک ہوئے پیچھے اور ہر قسم کے حیوانات اس میں پھیلا دیئے اور ہواؤں کے بدلنے
میں اور ابر میں جو زمین و آسمان کے درمیان مقید رہتا ہے۔ دلائلِ توحید کے موجود
ہیں۔ ان لوگوں کے لئے جو عقلِ سلیم رکھتے ہوں۔) (البقرہ: ۱۶۴) قرآن نے زمین میں سفر کرنے اور اللہ کا رزق
تلاش کرنے کا حکم دیا۔ > هُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ
ذَلُولًا فَامْشُوا فِي مَنَاكِبِهَا وَكُلُوا مِن رِّزْقِهِ (وہ ایسا منعم ہے جس
نے تمہارے لئے زمین کو مسخر کر دیا۔ سو تم اس کے راستوں میں چلو پھرو۔ اور خدا کی
روزی میں سے کھاؤ۔) (الملک: ۱۵)
قرآن کریم نے اس رہنمائی کے ساتھ ساتھ انسان کو یہ بھی بتایا۔
کہ آسمان اور زمین اور اس کی ساری قوتیں اللہ کے حکم سے انسان کے تابع کر دی گئی
ہیں۔ >
وَسَخَّرَ لَكُم مَّا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ
جَمِيعًا مِّنْهُ (جتنی چیزیں آسمانوں اور زمین میں ہو۔ وہ سب اس نے اپنے پاس سے
تمہارے لئے مسخر کر دیا۔) (الجاثیہ: ۱۳)
انسان کو چاہیئے کہ وہ علم کے ذریعہ ان اشیاء کو مسخر کر کے
کائنات کے ان قوانین کی معرفت حاصل کرے۔ جن کے مطابق اللہ تعالیٰ کائنات کا نظام
چلا رہا ہے۔ اور پھر اس معرفت کو زمین میں چل کر اور اللہ کا رزق تلاش کر کے تطبیق
دے۔ مسلم عقل نے اسی رہنمائی کو مدِنظر رکھ کر کائنات کو تابع بنایا۔ وہ عقل جو
زمانہ جاہلیت میں سرے سے علم کی طرف متوجہ نہ تھی۔ بلکہ سارا کارنامہ یہ تھا کہ
صاف ستھرے اور بہترین شعر نظم کرے۔ جن میں کچھ نظریاتی حکمتیں بھی شامل ہوا کرتی
تھیں۔ اس عقل نے عالمِ واقع میں تاریخ کی ایک زبردست علمی تحریک کو جنم دیا — اور
تجربی اصول کی بنیاد رکھی جس پر آج کی علمی ترقیات کی ساری عمارت قائم ہے۔ بریولٹ
اپنی کتاب "تعمیرِ انسانیت" (MAKING OF HUMANITY) میں
کہتا ہے۔ >
"جدید دنیا پر عربی تہذیب نے جو سب سے بڑا
احسان کیا وہ علم ہے" ... "صرف علم ہی نے یوروپ کو زندگی نہیں بخشی۔
بلکہ اسلامی تہذیب کے اور کبھی بہت سے مؤثرات نے اپنی ابتدائی عمر میں مغربی زندگی
پر ڈالی ہیں۔ یوروپی ترقی کا کوئی پہلو ایسا نہیں ہے جس کا مرجع یقینی طور پر
اسلامی ثقافت کے مؤثرات نہ ہوں۔ یہ مؤثرات نہایت وضاحت اور اہمیت کے ساتھ جدید
دنیا کی قوت تشکیل کرتے ہیں۔ اور جدید دنیا کی ترقی کی قوت یعنی طبیعی علوم علمی
بحث پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ ہمارا علم عربوں کے علم کا صرف حیرت انگیز نظریاتی
دریافتوں کا ہی مقروض نہیں ہے بلکہ ہمارا علم عربی ثقافت (اسلامی) کا اس سے زیادہ
مقروض ہے۔ اس کا سارا وجود ہی اس کا مرہونِ منت ہے۔ کیونکہ قدیم دنیا میں علم کا
کوئی وجود ہی نہ تھا۔ ... جس کو ہم آج علم کہتے ہیں۔ وہ بحث کی نئی اسپرٹ، اور
تجربہ، غور، پیمائش اور ریاضی تہذیب ہی کی تخلیق ہے۔ کے ارتقاء کے نتیجہ میں یوروپ
میں ظاہر ہوا ہے۔ اور اس اسپرٹ اور ان علمی مناہج سے یوروپ کو عربوں نے روشناس
کرایا ہے۔"
یہی مصنف کہتا ہے۔ > "روجر بیکن نے عربی
زبان اور عربی علم آکسفورڈ میں اندلس کے عربوں سے حاصل کیا تھا۔ روجر بیکن اور اس
کے بعد آنے والے فرانسس بیکن کو یہ کوئی حق نہیں پہنچتا کہ تجربی اسکول کی ایجاد
کا سہرا ان کے سر باندھا جائے۔ روجر بیکن نے صرف مسلمانوں کے علم اور ان کے طریقہ
کار کو یوروپ تک پہنچایا ہے۔ اس نے کبھی یہ کہنے سے گریز نہیں کیا کہ اس کے
معاصرین کا عربی زبان اور عربی علوم حاصل کرنا معرفت کا واحد طریقہ کار ہے۔ جس قدر
بحثیں تجربی اسکول کے واضعین کے بارے میں کی گئی ہیں۔ ان سب کا مقصد یوروپی تہذیب
کی بنیاد میں تحریف کرنا ہے۔ بیکن کے زمانے میں عربوں کا طریقہ پوری طرح پھیل چکا
تھا۔ اور لوگ اس کی تحصیل کے لئے یوروپ کے کونے کونے سے سمٹ کر آ رہے تھے۔ ... خود
راجر بیکن نے کہاں سے علم حاصل کیا؟ راجر بیکن نے اندلس کی اسلامی درسگاہوں میں
علم حاصل کیا ہے! اس نے اپنی کتاب کا پانچواں حصہ جو بصریات کے لئے مخصوص کیا ہے (CEPUS MASUS) وہ سارا کا سارا ابنِ ہیشم کی کتاب "المناظر" کی نقل
ہے۔!"
جامعہ نیویارک کے پروفیسر ڈریپر اپنی کتاب "مذہب و سائنس
کی کشمکش" میں کہتے ہیں۔ > "مسلمانوں نے یقین کر
لیا۔ کہ صرف عقلی نظری طریقہ ترقی کا ضامن نہیں ہے۔ حقیقت فہمی کی خواہش حوادث کے
مشاہدہ سے مربوط ہونی چاہیئے۔ اسی مرحلہ سے مسلمانوں نے تجربی اور حسی اور عملی
دستور کو اپنا شعار بنا لیا۔ مسلمانوں کی عملی تحریک کے نتائج ان کی عظیم صنعتی
ترقی میں رونما ہوئے۔ ہمیں ان کی کتابوں میں ایسی آراء دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ جن
کو ہم موجودہ دور کی سائنس کے نتائج خیال کرتے تھے۔ عضوی کائنات میں ارتقاء کا
مذہب جو ایک جدید فلسفہ خیال کیا جاتا ہے۔ ان کی درس گاہوں میں اس کی تعلیم دی
جاتی تھی۔ وہ اس مذہب میں اس سے کہیں آگے جا چکے تھے۔ جہاں ہم پہنچے ہیں، کیونکہ
وہ اس کو معادن اور جمادات پر بھی منطبق کرتے تھے۔ طب میں انھوں نے کیمیا کو
استعمال کیا۔ اور میکانیات میں سقوطِ اجسام کے قوانین معلوم کئے۔ علمِ حرکت کے
بارے میں انھیں پوری واقفیت حاصل تھی۔ روشنی اور دیکھنے کی سائنس میں انھوں نے اس
قدر ترقی کر لی تھی کہ انھوں نے یونانیوں کے اس نظریہ کو تبدیل کر دیا کہ آنکھ سے
شعاعیں جسمِ مرئی کی جانب جاتی ہیں۔ جس کی بناء پر نظر آتا ہے۔ انھوں نے اس نظریہ
کا عکس اختیار کیا، ابنِ ہیشم نے فضا میں چلنے والی شعاع کی شکل منحنی دریافت کی۔
جس سے اس نے ثابت کیا کہ ہم سورج اور چاند کو طلوع ہونے سے چند لمحے پہلے ہی
دیکھنے لگتے ہیں۔ اور اسی طرح ان کے غروب ہونے کے چند لمحے بعد تک دیکھتے رہتے
ہیں۔"
اسلام کے زیرِ سایہ پروان چڑھنے والی علمی تحریک کے بارے میں
اسی قدر بیان کافی ہے۔ جو تریاکِ قرآنی نقشہ کے مطابق تھی۔ اگرچہ قرآن نے اس کی
تفاصیل بیان نہیں کیں۔ کیونکہ تفاصیل دائمی طور پر تغیر پذیر ہیں۔ ہمارے خیال میں
اہم بات یہ ہے کہ قرآن نے علمی تحریک کو خیر کے راستہ پر لگایا ہے اور اس انحراف
سے بچایا جس سے علم مغربی تہذیب کے زیرِ سایہ پھنسا ہوا ہے۔ جس علم کو شیطانوں نے
اقوام و افراد کے اخلاق خراب کرنے، مقدسات تباہ کرنے، بے قیدی پھیلانے اور سینما،
ریڈیو، ٹیلیویژن اور صحافت کے ذریعہ لوگوں کے دلوں میں بیکار باتیں بھرنے کے لئے
استعمال کیا ہے۔ پھر شیطان اس علم کو بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے کے لئے استعمال
کر رہے ہیں۔ اور جب کہ دنیا میں بھوک بڑھ رہی ہے اور ایٹم کو پیداوار کے اضافہ کے
لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ شیطان اس ایٹم کو لوگوں کی تباہی کے لئے تیار کر رہے
ہیں!
### اجتماعی، معاشی اور سیاسی ارتقاء اور اسلام اجتماعی، معاشی اور سیاسی نما کے لئے بھی اسلام نے ایک عام نقشہ
تیار کیا ہے جس میں اس بات کی تو گنجائش ہے کہ صورت بدل جائے۔ مگر اس بات کی
گنجائش نہیں کہ انحراف رونما ہو۔ قرآن کریم نے امتِ اسلامیہ کے نشوونما کی جانب
اشارہ کیا۔ جو متعدد بکھرے ہوئے قبائل سے ایک بامقصد قوم بنی تھی۔ > وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا ۚ وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ
أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا
وَكُنتُمْ عَلَىٰ شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَكُم مِّنْهَا ۗ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ
تَهْتَدُونَ (اور مضبوط پکڑے رہو اللہ تعالیٰ کے سلسلے کو اور باہم نااتفاقی مت
کرو۔ اور تم پر اللہ تعالیٰ کا جو انعام ہے۔ اسے یاد کرو جبکہ تم دشمن تھے پس اللہ
تعالیٰ نے تمہارے قلوب میں الفت ڈال دی۔ سو تم اللہ تعالیٰ کے انعام سے آپس میں
بھائی بھائی ہو گئے۔ اور تم لوگ دوزخ کے کنارے پر تھے۔ سو اس سے خدا تعالیٰ نے
تمہاری جان بچائی۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ تمہیں اپنے احکام بیان کر کے بتلاتے رہتے
ہیں۔ تاکہ تم لوگ راہ پر رہو۔) (آل عمران: ۱۰۳)
اسلام نے امتِ مسلمہ کے مقومات، اس کی زندگی کی بنیادیں اور اس
کے نظام کی خصوصیات بیان فرمائیں۔ > كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ
تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ
(تم لوگ ایک اچھی جماعت ہو۔ جو لوگوں کے لئے ظاہر کی گئی ہے۔ تم نیکیوں کا حکم
کرتے ہو۔ برائیوں سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔) (آل عمران: ۱۱۰) > > وَلْتَكُن
مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ
وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ ۚ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (اور تم
میں سے ایک جماعت ایسی ہونا ضروری ہے کہ خیر کی طرف بلایا کرے۔ نیکیوں کا حکم
کریں۔ برائیوں سے روکیں۔ یہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں۔) (آل عمران: ۱۰۴) > > وَتَعَاوَنُوا
عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ ۖ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ
وَالْعُدْوَانِ (اور نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے کی اعانت کرتے رہو اور گناہ اور
زیادتی میں ایک دوسرے سے تعاون نہ کرو۔) (المائدہ: ۲) > > يَا أَيُّهَا
الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ
مِنكُمْ (اے ایمان والو! تم اللہ کا کہنا مانو۔ اور رسول کا۔ اور جو تم میں اہلِ
حکومت ہیں۔) (النساء: ۵۹) > > إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ (تمام مومنین آپس میں بھائی
ہیں۔) (الحجرات: ۱۰) > > وَأَمْرُهُمْ شُورَىٰ بَيْنَهُمْ (ان کے معاملات آپس کے مشورے
سے ہیں) (الشوری: ۳۸) > > وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ
فَانتَهُوا (جو کچھ رسول تم کو دیں لے لو۔ اور جس بات سے روک دیں اس سے رک جاؤ)
(الحشر: ۷) > > وَأَنِ
احْكُم بَيْنَهُم بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ (اور ہم
حکم دیتے ہیں کہ آپ ان کے باہمی معاملات میں اسی بھیجی ہوئی کتاب کے موافق فیصلے فرمایا
کریں۔ اور ان کی خواہشوں پر عملدرآمد نہ کیجئے۔) (المائدہ: ۴۹) > > وَمَن لَّمْ يَحْكُم
بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ (اور جو شخص خدا کے نازل
کئے ہوئے کے موافق حکم نہ کرے سو ایسے لوگ بالکل کافر ہیں۔) (المائدہ: ۴۴) > > فَلَا
وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ
لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
(پھر قسم ہے آپ کے رب کی یہ لوگ ایماندار نہ ہوں گے۔ جب تک یہ بات نہ ہو کہ ان کے
آپس میں جو جھگڑا واقع ہو۔ اس میں یہ لوگ آپ سے تصفیہ کرا دیں۔ پھر آپ کے تصفیہ
میں دلوں میں تنگی نہ پائیں۔ اور پورا پورا تسلیم کر لیں) (النساء: ۶۵) اسلام
نے قوم کی کوئی خاص صورت متعین نہیں کی گلہ بان معاشرہ ہو۔ یا زرعی معاشرہ، شہری
معاشرہ ہو۔ یا تجارتی اور صنعتی معاشرہ — اسلام ان میں سے کسی صورت کو متعین نہیں
کرتا۔ اور نشوونما کے راستہ میں کوئی رکاوٹ نہیں کھڑی کرتا۔ اسلام تو صرف ایسی
ہدایت دیتا ہے جس سے نشوونما کا عمل بغیر انحراف کے جاری رہے۔ تاریخ اس امر کی
گواہ ہے کہ اسلامی معاشرے میں اجتماعی اور تہذیبی نما کا عمل اپنے انتہائی عروج تک
پہنچا۔ اور مسلمانوں نے مفتوح قوموں میں پائی جانے والی تنظیمات سے استفادہ میں
کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی، اور مصر، شام اور ایران میں پائے جانے والے ایسے تمام
تہذیبی سرمایہ سے فائدہ اٹھایا۔ جو ان کے عقیدے اور انسانی زندگی کے بارے میں ان
کے تصور سے مختلف نہ تھا۔ اسی طرح رومی، یونانی اور ہندی تہذیب کی بنیادیں تلاش
کیں، اور جو باتیں ان کے اصول سے متعارض نہ تھیں۔ ان کو آزادی سے اخذ کیا۔ اور ہر
شے کے رد و قبول کا پیمانہ اپنے عقیدے اور تصور کو بنایا۔ مختلف اسباب کی بناء پر
اسلامی معاشرہ میں زوال آجانے کے باوجود بھی وہ صلیبی جنگوں میں اس قدر عروج پر
تھا کہ جدید مغرب کی تمام فکری، اجتماعی، اور تہذیبی ترقیات کا ماخذ اسی دور کا
اسلامی معاشرہ ہے۔ جیسا کہ مغربی مصنفین کے اقوال نقل کئے جا چکے ہیں۔ معاشی نما
کے لئے قرآن کریم نے ایک ناقابلِ تغیر نقشہ تجویز کیا ہے۔ پھر معاشی نما کی کوئی
خاص صورت متعین کرنے یا اس صالح نما کے راستہ میں کوئی رکاوٹ پیدا کرنے کے بجائے۔
اسلام نے معاشی نما کو اس نقشہ میں آزادانہ نشوونما کا موقعہ فراہم کیا ہے۔ اسلامی
معاشی نظام کا عمومی نظریہ اس بنیاد پر قائم ہے کہ انسان زمین میں اللہ کا نائب
اور خلیفہ ہے۔ زمین کی ساری دولت اللہ کی ملکیت ہے، اور جماعتِ انسانی اس میں تصرف
کرنے میں اللہ کی طرف سے نائب ہے۔ ان تمام شرائط کے مطابق جو اللہ تعالیٰ نے اپنے
قانون میں نازل کی ہیں۔ خواہ وہ عمومی کلیات کی شکل میں ہوں یا جزئی قوانین کی
صورت میں! فرد کی حیثیت اس مال میں ایک کارکن کی سی ہے۔ وہ اپنی محنت کے معاوضہ
میں ملنے والے مال میں انفرادی ملکیت کی بنیاد پر تصرف کرے مگر شرط یہ ہے کہ اس کا
تصرف صحیح ہو۔ اور اس کا فائدہ خود اسے اور ساری جماعت کو پہنچے۔ اور یہ مفاد اللہ
کی مقرر کردہ حدود میں ہو۔ کیونکہ اس کے بغیر فرد مستحق نہیں بنتی۔ اگر فردِ واحد
ملکیت کے حق کو غلط استعمال کرے تو اس کا تصرف محدود کر کے یہ حق دوبارہ جماعت کو
مل جائے گا جو زمین میں اللہ کی نیابت کی بناء پر اس حق کی مالک ہے۔ اس اصول سے
انفرادی ملکیت پر کوئی زد نہیں پڑتی۔ جس پر نہ صرف اسلام کا معاشی نظام بلکہ سارا
ہی نظام قائم ہے۔ اس اصول کا مقصد انفرادی ملکیت میں صحیح تصرف کی ضمانت دینا ہے۔
اسلام افراد کے مال میں زکوٰۃ وغیرہ کی شکل میں قوم کی ضرورتوں کے بقدر جماعت کا
حق مقرر کرتا ہے۔ اور عام آمدنی کے ذرائع کو عام ملکیت قرار دیتا ہے۔ > وَآتُوهُم مِّن مَّالِ اللَّهِ الَّذِي آتَاكُمْ (اور اللہ کے
دیئے ہوئے اس مال میں سے ان کو بھی دو جو اللہ نے تمہیں دے رکھا ہے) (النور: ۳۳) > > وَلَا
تُؤْتُوا السُّفَهَاءَ أَمْوَالَكُمُ الَّتِي جَعَلَ اللَّهُ لَكُمْ قِيَامًا (اور
تم کم عقلوں کو اپنے وہ مال مت دو جن کو خدا تعالیٰ نے تمہارے لئے مایہ زندگی
بنایا ہے۔) (النساء: ۵) پھر
اسلام معاشرے میں تقسیمِ دولت کا ایک عام قانون بیان کرتا ہے۔ > كَيْ لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاءِ مِنكُمْ (تاکہ
وہ مال تمہارے تونگروں کے قبضے میں نہ آجائے۔) (الحشر: ۷) اس لئے مالداروں کو ذخیرہ اندوزی کی اجازت
نہیں دی جائے گی اور ذخیرہ اندوز کی دولت کو تقسیم کر دیا جائے گا تاکہ وہ زیادہ
سے زیادہ ہاتھوں میں گردش کرے اور دولت کا طبعی چکر پورا ہو سکے۔ اسلام نے معاشرے
کے ذمہ محتاجوں اور محرومین کا حق لازم کیا ہے۔ > وَفِي
أَمْوََالِهِمْ حَقٌّ لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ (ان کے اموال میں سائل اور
محروم کا حق ہے۔) (الذاریات: ۱۹)
یہ آیت صرف حقِ زکوٰۃ سے متعلق ہے۔ اور دوسری تکالیف کے لئے بھی
اداروں سے سرمایہ وصول کیا جائے گا۔ اسلام میں دولت کو کمانے اور اس کو خرچ کرنے
کے قواعد مقرر ہیں۔ اس تعامل میں یہ شرط ہے کہ کسی فرد یا جماعت کو اس تصرف سے
نقصان نہ پہنچتا ہو اسی لئے غصب، لوٹ، چوری، دھوکہ اور ذخیرہ اندوزی ناجائز ہے۔
جیسا کہ سود حرام ہے جو ایک بدترین وسیلہ ہے۔ > يَا
أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا
إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ﴿٢٧٨﴾ فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِّنَ اللَّهِ
وَرَسُولِهِ ۖ وَإِن تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا
تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ ﴿٢٧٩﴾ (اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور
جو کچھ سود کا بقایا ہے اسے چھوڑ دو۔ اگر تم ایمان والے ہو۔ پھر اگر تم اس پر عمل
نہ کرو گے تو خبردار ہو جاؤ اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کے لئے۔ اور اگر تم توبہ
کر لو گے تو تم کو تمہارے اصل اموال مل جائیں گے۔ نہ تم کسی پر ظلم کرنے پاؤ گے
اور نہ کوئی تم پر ظلم کرے گا۔) (البقرہ: ۲۷۸-۲۷۹)
> > الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لَا
يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ
الْمَسِّ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ
الرِّبَا ۗ وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا ۚ فَمَن جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّهِ فَانتَهَىٰ فَلَهُ مَا
سَلَفَ وَأَمْرُهُ إِلَى اللَّهِ ۖ وَمَنْ عَادَ فَأُولَٰئِكَ أَصْحَابُ
النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ﴿٢٧٥﴾ (جو لوگ سود کھاتے ہیں۔ نہیں کھڑے
ہوں گے قیامت کے روز مگر جس طرح کھڑا ہوتا ہے ایسا شخص جس کو شیطان نے خبطی بنا
دیا ہو۔ یہ سزا اس لئے ہوگی کہ ان لوگوں نے کہا تھا کہ بیع بھی تو مثل سود کے ہے۔
حالانکہ اللہ تعالیٰ نے بیع کو حلال قرار دیا ہے اور سود کو حرام فرمایا ہے۔ پھر
جس شخص کو اس کے پروردگار کی طرف سے نصیحت پہنچی اور وہ باز آ گیا۔ تو جو کچھ پہلے
لے چکا ہو چکا۔ اس کا معاملہ اللہ کے حوالے رہا اور جو شخص پھر عود کرے تو یہ لوگ
دوزخی ہوں گے وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔) (البقرہ: ۲۷۵) > > يَمْحَقُ اللَّهُ
الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ ۗ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ
أَثِيمٍ ﴿٢٧٦﴾ (اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتے ہیں اور صدقات کو بڑھاتے ہیں۔
اور اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتے کسی کفر والے کو اور گناہ کے کام کرنے والے کو۔)
(البقرہ: ۲۷۶) پاکیزہ باہمی امداد تعاون کا بھی حکم دیا گیا ہے۔ > فَإِن كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَىٰ مَيْسَرَةٍ (اور
تنگدست ہو تو مہلت دینے کا حکم ہے۔ آسودگی تک۔) (البقرہ: ۲۸۰) یہ اسلامی معیشت کے عام قواعد ہیں۔ اور وہ
نقشہ ہے جس میں بغیر کسی رکاوٹ اور بغیر انحراف کے اسلامی معیشت نشوونما پاتی ہے۔
ان اصولوں کے زیرِ سایہ اسلامی معیشت نے بڑی تیزی سے نشوونما پایا۔ اور اسلامی
معیشت گلہ بان معاشرے سے زرعی، صنعتی اور تجارتی معاشرے میں تبدیل ہوئی۔ پھر ایک
ایسا وقت آیا کہ یہ سب خصوصیات باہم مل گئیں۔ معاملات میں اسلامی فقہ نے اس تیزی
سے ترقی کی کہ یہ سرمایہ انسانیت کیلئے قابلِ فخر ہو گیا۔ اسلامی معیشت کے عام
اصولوں نے معاشرے کو ان انحرافات سے بھی محفوظ رکھا۔ جن سے آج مغربی معیشت دوچار
ہے۔ اور یورپ کی اس بھیانک جاگیرداری سے بھی محفوظ رکھا جس میں کسان زمین اور
جاگیردار دونوں کا غلام تھا۔ اور جاگیردار کے ہاتھوں میں قانون سازی، عدالتی اور
نفاذ کی ساری قوتیں جمع تھیں جس کی کوئی مثال اسلام میں نہیں ملتی۔ اسلام اگر عملی
دنیا میں جاندار طریقہ پر موجود ہوتا اور اسے ہر ہر جگہ اس قدر صدمات نہ سہنے پڑتے
اور اس کو ماننے والے اس قدر سست نہ ہو جاتے۔ تو آج بھی اسلام دنیا کو سرمایہ داری
کی خرابیوں سے بچا سکتا تھا۔ بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ اسلام نے سود کو حرام
قرار دے کر معاشی ترقی کے راستہ میں رکاوٹ پیدا کر دی ہے۔ یہ شبہ بعض مسلمانوں کے
دل میں بھی موجود ہے۔ چنانچہ وہ اس باب میں اسلام کی طرف سے معذرت خواہانہ رویہ
اختیار کر لیتے ہیں۔ یا ضرورت کے وقت سود کے جواز کا فتویٰ دیتے ہیں۔ یا یہ کہ آج
کا سود وہ نہیں ہے جس کو قرآن نے منع کیا ہے۔ اس لئے جائز ہے۔ غرض جب یہ شبہ
مسلمانوں کو پریشان کرتا ہے۔ تو وہ اسی قسم کی راہِ فرار ڈھونڈتے ہیں! سرمایہ داری سود جس کی بنیاد اور اجارہ داری جس کا لازمہ ہے۔ اس
کے نقصانات بیان کرنے سے اب کوئی فائدہ نہیں ہے۔ کیونکہ سرمایہ داری کی خرابیاں
اتنی واضح ہو چکی ہیں کہ ان کے بیان کی ضرورت ہی نہیں رہی۔ سرمایہ داری نظام کے
دوست اور دشمنوں نے اس کے بارے میں اس قدر کچھ کہا ہے کہ مزید کی گنجائش نہیں رہی۔
اب کوئی بھی سمجھدار اسلام سے یہ مطالبہ نہیں کر سکتا کہ وہ ایک ایسی شے کو جائز
قرار دے دے۔ جو اس قدر ظلم اور تباہی کا باعث بنتی ہے! رہ
گیا یہ سوال کہ اسلامی معیشت صنعتی ترقی کے زیرِ سایہ بغیر سود کے کیونکر چل سکتی
ہے تو یہ بحث مخصوص ہے۔ ہم اس وقت اس سے تعرض نہیں کر سکتے۔ مسلم علماء نے اس
موضوع پر کئی کتابیں تصنیف کی ہیں۔ چنانچہ سید ابوالاعلیٰ مودودی امیرِ جماعت
اسلامی پاکستان نے تین کتابیں تصنیف فرمائی ہیں۔ "اسلامی معیشت کے بنیادی
اصول"، "سود" اور "مسئلہ ملکیتِ زمین"۔ اور سید قطب نے
"اسلام کا نظامِ عدل" تصنیف فرمائی۔ اس کے علاوہ اس موضوع پر اور بھی
بحثیں ہیں۔ استاد علی عبدالواحد وافی نے بہت سے رسائل میں اس بحث کو اٹھایا ہے اور
مزید بحث کی گنجائش ہے۔ مگر یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیئے کہ یہ ممکن نہیں کہ کسی
شے میں لوگوں کیلئے کوئی مصلحت پنہاں ہو۔ اور اللہ تعالیٰ اسے حرام قرار دیدے۔
عملی تطبیق نے بار بار اس بات کی تصدیق کی ہے۔ جس قدر علم اور انسانی تجربات اور
انحرافات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اسی قدر ایسے اسباب سامنے آتے جا رہے ہیں جو
اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ اشیاء کی حرمت کی تائید کرتے ہیں۔ اب یہ مسلمانوں کا کام
ہے کہ حرام کو حلال کرنے کے بجائے نیا نظام وضع کریں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جن
اشیاء کو حرام فرمایا ہے۔ تو اس کا کوئی نہ کوئی سبب ضرور ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ
انسانوں کی بھلائی چاہتا ہے۔ ان کا نقصان نہیں چاہتا۔ ان کو سہولت پہنچاتا ہے۔
تنگی میں مبتلا نہیں کرتا۔ > مَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُم
مِّنْ حَرَجٍ وَلَٰكِن يُرِيدُ لِيُطَهِّرَكُمْ وَلِيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكُمْ
(اللہ تعالیٰ کو یہ منظور نہیں کہ تم پر کوئی تنگی ڈالیں لیکن اللہ تعالیٰ کو یہ
منظور ہے کہ تم کو پاک صاف رکھے اور یہ کہ تم پر اپنا انعام تمام فرما دے۔)
(المائدہ: ۶) > > وَمَا
جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ (اس نے تم پر دین کے احکام میں کسی
قسم کی تنگی نہیں کی۔) (الحج: ۷۸)
اسی طرح یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اسلام معاشی ترقی میں رکاوٹ بنتا
ہے کیونکہ وہ عورت کو نکلنے کی اجازت نہیں دیتا۔ حالانکہ صنعتی ترقی اسے ضروری
قرار دیتی ہے۔ ہم پہلے بتا چکے ہیں کہ اسلام بوقتِ ضرورت عورت کو باہر نکلنے سے
منع نہیں کرتا۔ اگرچہ اس امر کو پسند بھی نہیں کرتا کہ عورت اپنے نسوانی وظائف سے
ہٹ کر کوئی کام کرے۔ مگر یہاں اس اعتراض کے جواب میں کہیں گے کہ عورت کے بازار اور
کارخانے میں عامل بنا دینے کے نقصانات سامنے آ چکے ہیں۔ اور یہ نقصانات اس قدر
زیادہ ہیں کہ عورت کی شرکت سے ہونے والا مادی پیداوار کا اضافہ ان نقصانات کے
سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ وہ اخلاقی نقصان بھی ہمارے سامنے ہے جو اس مادی
پیداوار کے بالمقابل مغربی معاشرے کو برداشت کرنا پڑا ہے۔ اور یہ اخلاقی نقصان اس
قدر عظیم ہے کہ اس کی بناء پر ساری دنیا تباہی کے کنارے آ لگی ہے! مستقبلِ قریب میں پیداوار کی ساری ذمہ داری مشینی انسان،
الکٹرونی دماغ اور عظیم مشینیں لے لیں گی۔ تو عورت کو شریکِ عمل کرنے کی کیا ضرورت
ہے؟! آج بھی ہزاروں اور لاکھوں انسان بیروزگار ہیں، مگر عورتوں کو کام میں لگانے
کے دروازے کھولے جا رہے ہیں۔ کیا اس کا مقصد یہ ہے کہ مرد بیکار ہو جائیں۔ اور ان
کی جگہ عورتیں لے لیں — یا کوئی ایسی مصلحت ہے جس سے یہودی علماء کا "نظریۂ
عملِ صیہونیت"
(The protocols of the Learned Elders of Zion) واقف
ہے۔ اسلام صرف صالح اور راشد نماء کو جائز رکھتا ہے اور اسلام انحرافات کے جائز
رکھنے کا ذمہ دار نہیں ہے! ### سیاسی ارتقاء اور
اسلام سیاسی نظام میں بھی اسلام نے عام قواعد وضع
کئے ہیں اور تفصیلات دائمی نشوونما پر چھوڑ دیں، تاکہ وہ عملی، تہذیبی، اجتماعی
اور معاشی ترقی کے مراحل سے ہم آہنگ رہے۔ > إِنِ
الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ ۖ أَمَرَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ ۚ ذَٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ (حکم دینے کا اختیار صرف خدا ہی
کا ہے اور اس نے حکم دیا ہے کہ بجز اس کے اور کسی کی عبادت نہ کیا کرو۔ یہی سیدھا
راستہ ہے) (یوسف: ۴۰) > > وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ فَأُولَٰئِكَ هُمُ
الْكَافِرُونَ (اور جو شخص خدا کے نازل کئے ہوئے کے موافق حکم نہ کرے، سو ایسے لوگ
بالکل کافر ہیں۔) (مائدہ: ۴۴)
> > مَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا
نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا (جو کچھ رسول تمہیں حکم دیں اسے مانو اور جس بات سے
روکیں اس سے رک جاؤ) (حشر: ۷)
> > يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا
اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ
وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ (اے ایمان
والو تم کہنا مانو اللہ اور رسول کا اور تم میں جو لوگ اہلِ حکومت ہیں۔ پھر اگر
کسی امر میں تم باہم اختلاف کرنے لگو، تو اس امر کو اللہ اور رسول کے حوالے کر دیا
کرو۔ اگر تم اللہ پر اور یومِ قیامت پر ایمان رکھتے ہو۔) (النساء: ۵۹) > > وَإِذَا
حَكَمْتُم بَيْنَ النَّاسِ أَن تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ (اور جب لوگوں کا تصفیہ کیا
کرو تو عدل سے کیا کرو۔) (النساء: ۵۸)
> > وَأَمْرُهُمْ شُورَىٰ بَيْنَهُمْ (ان کا ہر
کام آپس کے مشورے سے ہوتا ہے) (شوری: ۳۸)
اللہ تعالیٰ کی حاکمیت، اللہ کے قانون کا نفاذ، حکام کا عدل،
اللہ کے قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے محکومین کی اطاعت اور حاکم و محکوم میں
مشورہ — اسلامی حکومت کی بنیادیں ہیں۔ حکومت کی شکل تمام تر امتِ مسلمہ پر موقوف
ہے۔ امتِ مسلمہ ان قواعد کے اندر رہتے ہوئے حکومت کی کوئی شکل متعین کرنے کی مجاز
ہے۔ اللہ کے قانون کے بغیر ہر حکم غیر اسلامی ہے۔ ہر حکم بغیر مشورہ کے غیر اسلامی
ہے اور بغیر عدل کے ہر حکم سے اسلام انکار کرتا ہے۔ حکومت و سیاست میں اسلام کی
پوری پوری تطبیق خلافتِ راشدہ میں ہوئی ہے اور خلافتِ راشدہ ہی میں حکومت کے صحیح
قوانین متعین کئے گئے ہیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا۔ "اگر میں کوئی اچھا کام کروں۔
تو میری مدد کرو۔ اور اگر میں غلط کروں تو مجھے درست کرو" اور حضرت ابوبکرؓ
نے فرمایا "جب تک میں اللہ کی اطاعت کروں تو تم سبھی میری اطاعت کرتے رہو۔
اور اگر میں اللہ اور رسول کی نافرمانی کروں، تو میری اطاعت تم پر واجب نہیں ہے" خلافتِ راشدہ کے بعد بھی کچھ وقفہ کے لئے اسلام کی پوری پوری
تطبیق ہوئی ہے۔ مگر اسلامی فقہ نے مختلف ادوار میں سیاسی نظریہ میں عظیم ترقی کی
ہے اور اسلامی معاشرہ میں رونما ہونے والی ہر حالت سے فائدہ اٹھایا۔ اور اس نئی
وضع کیلئے اسلامی احکام کا استنباط کیا۔ اسلامی قانونِ سیاست میں بڑی لچک ہے اور
شرعی اصولوں میں انحراف سے بچنے کا طریقہ متعین کیا گیا ہے۔ اگرچہ عملی تطبیق میں
انحراف ہو سکتا ہے۔ البتہ اسلام ایسی میزان متعین کرتا ہے جس سے تطبیق کے وقت
انحراف کا علم ہو جائے، اور اس کی پوری پوری نشاندہی ہو جائے! انسانی
زندگی کے متغیر پہلو کے بارے میں یہ اسلام کا موقف ہے۔ اسلام ترقی سے نہیں روکتا
بلکہ وہ خود ترقی کی جانب لے جاتا ہے۔ البتہ وہ ایسے اصول متعین کرتا ہے، جو خیر
کی جانب راہنمائی کریں، اور انحراف سے بچائیں۔ اسلام قواعد کے غیر متغیر اور اشکال
کے تغیر پذیر ہونے میں جمود و ارتقاء دونوں کی نمائندگی کرتا ہے۔ علمی، معاشی،
اجتماعی اور سیاسی ارتقاء میں یوروپ نے مذہب کی راہنمائی قبول کرنے سے انکار کر
دیا، تو اس کا کیا نتیجہ ہوا۔؟ علم نے لادینی نشاۃِ ثانیہ کے زیرِ اثر بڑی ترقی
کی، مگر یہ ترقی اس کے لادینی ہونے کی بناء پر نہیں ہوئی، بلکہ اس لئے کہ مغربی
کلیسا علم سے برسرِ پیکار تھا اور عقل کو پابند کر کے چاہتا تھا کہ جہالت برقرار
رہے۔ مگر یہ علمی ترقی بذاتِ خود مسلمانوں سے ماخوذ تھی۔ جیسا کہ ڈریپر کہتا ہے۔
اور مسلمانوں کا علم اور ان کی زندگی تمام تر مذہب کی رہنمائی میں تھی۔ مگر جب علم
مذہب سے آزاد ہوا تو — شیاطین کے جال میں پھنس گیا۔ اور شیاطین ان سے اخلاقی فساد
پھیلانے لگے۔ انہوں نے معاشرتی بندھن ڈھیلے کر کے لوگوں میں بکواس، مصلحت اور
کمزوری پیدا کر دی، اور زمین میں تباہی مچا دی! معاشی
فساد کے لئے تو جاگیرداری اور اشتراکیت کی مثال کافی ہے۔ الٰہی انتہائی سے علیحدہ
رہ کر یہ سارا فساد پیدا ہوتا ہے اور یہ فساد ہی انسانیت کو آقاؤں اور غلاموں میں
بدل گئی ہے یہ اور بات ہے کہ آقاؤں اور غلاموں کی صورتیں علیحدہ علیحدہ ہیں۔
اجتماعیات میں ان اجتماعی اور اخلاقی مفاسد کا پیش کر دینا کافی ہے جس سے مغربی
معاشرہ دوچار ہے جس نے سارے معاشرے کو ایک بدترین حیوانی معاشرہ بنا دیا کہ لوگ
جسمانی لذتوں میں لگے رہیں، اور کبھی سیر نہ ہوں۔ اب اپنا انسان انسانوں کی سی
ہمدردی نہیں رکھتے۔ مغرب پر تو ایک مکروہ اور قابلِ نفرت انفرادیت مسلط ہے۔ ایسی
بکھری ہوئی انفرادیت جس کو کوئی جمع کرنے والا نہیں۔ > تَحْسَبُهُمْ
جَمِيعًا وَقُلُوبُهُمْ شَتَّىٰ (آپ ان کو مجتمع خیال کرتے ہیں حالانکہ وہ پراگندہ
ہیں) (الحشر: ۱۴) اشتراکی معاشرہ ایک مشینی اجتماعیت ہے۔ جس میں انسانی مروت کا
شائبہ بھی نہیں ہے۔ کھیتوں اور کارخانوں میں اس اجتماعیت پر ایک جابر اور ظالم
حکومت مسلط ہے۔ سیاست میں — تو ظلم و ستم سے زمین لبریز ہو چکی ہے۔ سامراج، لوٹ
کھسوٹ اور غلامی — جاسوسی، آگ اور قید و بند پر قائم آمریتیں — بھیانک قسم کی
سزائیں — تاکہ عوام پر ظالمانہ حکومت برقرار رکھی جا سکے۔ یہ مظالم کافی ہیں۔ اور
ان کو بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اسلام ہی ان تمام معاملات میں ایسی روشن دلیل
ہے، جو روشنی اور تاریکی، صالح اور فساد میں فرق قائم کرتا ہے۔ اسلام میں ترقی کے
لئے لچک بھی ہے اور انحراف سے روکنے والی سختی بھی۔! اسلام کی ساری امتیازی خصوصیت
یہ ہے کہ وہ اس فطرتِ انسانی سے پوری طرح ہم آہنگ ہے۔ جس کا جوہر غیر متغیر اور
اشکال تغیر پذیر ہیں۔ انسانی زندگی کے استحکام و ارتقاء کے بارے میں یہ اسلام کا
موقف ہے اور یہ موقف تدبیرِ الٰہی کا تشکیل کردہ ہے۔ انسانی تدبیر کا بنایا ہوا ہر
نظام منحرف ہوتا ہے اور درست نہیں ہوتا کیونکہ وہ فطرت سے رہنمائی حاصل نہیں کرتا۔
انسان فطرتِ انسانی کے بارے میں — بقول الیکسس کاریل — ایک گہری جہالت میں مبتلا
ہے۔ اس کے باوجود بھی وہ دوسرے انسانوں کے لئے قانون بناتا ہے! اسلام — انسانیت کے لئے اللہ کا حکم — انسانیت کے مفہوم اور
تصورات اور ان کی عملی تطبیق میں منفرد موقف کا حامل ہے۔ اسلام فطرت کے تمام
پہلوؤں پر مشتمل ہے اور کسی پہلو پر زیادہ زور دے کر تمام پہلوؤں کو نظر انداز
نہیں کرتا۔ اسلام فطرت کے تمام پہلوؤں سے ہم آہنگ ہے اور انھیں پوری پوری غذا
فراہم کرتا ہے اور جو پہلو غیر متغیر ہیں ان کے لئے غیر متغیر قوانین بناتے اور
تغیر پذیر پہلوؤں کے لئے ان کے مناسب قوانین بناتے — اسی طرح اسلام مذہبِ فطرت ہے۔
اور اسی طرح اسلام تمام زمانوں اور تمام ترقیات میں پوری انسانیت کا مذہب ہے ایسا
مذہب جو خود تعمیری اور درست ارتقاء کی جانب لے جاتا ہے ۔ اور عدمِ ارتقاء اور
رجعت اختیار کر کے صحیح ارتقاء کا راستہ نہیں روکتا! اسلام
کے علاوہ جس قدر منحرف نظام جو انحراف کو ارتقاء کا نام دیتے ہیں، درحقیقت انھیں
رجعت کہا جانا چاہیئے۔ # اسلام اور رجعت ارتقاء
کے پردے میں رونما ہونے والے انسانیت کے تمام انحرافات رجعتیں ہیں۔ جن کو اسلام
صحیح اور درست کرنے آیا ہے۔ ظاہری نظر میں یہ مسئلہ ناقابلِ تصدیق سا محسوس ہوتا
ہے! سائنس کے ذریعے جس قدر ترقیات ہوئی ہیں اور نفس اور معاشرے میں جس قدر ارتقاء
ہوا ہے۔ کیا یہ سب رجعت ہے اور اسلام — جو زمانے کے لحاظ سے پہلے ہے — وہ اس کو
درست اور صحیح کرتا ہے؟! اس بظاہر عجیب مسئلہ کا فیصلہ کرنے کے لئے
ترقی اور رجعت کا کوئی پیمانہ مقرر کرنا ہوگا۔ کیا زمانہ کا مقیاس کافی ہے کہ ہر
نئی شے ترقی اور پرانی شے رجعت ہے؟! یہ مقیاس علمی ترقی کے لئے تو درست ہے۔ علم کی
دنیا میں ہر نئی شے آگے کی جانب ایک قدم ہے، کیونکہ اس سے کچھ نہ کچھ اضافہ ہوتا
ہے، اور اگر اضافہ نہ ہو تو وہ شے خود بخود ختم ہو جاتی ہے۔ مگر اجتماعی، معاشی،
سیاسی، نفسی اور اخلاقی تبدیلی کے لئے زمانہ کا مقیاس درست نہیں ہے۔ اس کا صحیح
مقیاس تلاش کرنا چاہیئے۔ کیا سرد خانے، ہوائی جہاز، راکٹ اور الکٹرونی دماغ ترقی
کا مقیاس ہیں۔ یا ترقی کا پیمانہ خود انسان ہے؟! کہا جاتا ہے کہ ہوائی جہاز، راکٹ
اور الکٹرونی دماغ بھی انسان ہی کی ایجادیں ہے صحیح ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ ان
ایجادات کا طریقہ استعمال کیا ہے — اور یہ طریقہ استعمال ہی مقیاس ہے۔ کیا یہ
مقیاس ہے کہ انسان ان اشیاء سے رفعت حاصل کرے۔ اس کا انسانی شعور زیادہ بیدار ہو،
انسانی اخوت اور نفسِ واحد کا شعور زیادہ عمیق ہو۔ انسان اپنے بھائی سے محبت کرے
اور دشمن کے لئے بھی انسان ہی رہے — یا یہ مقیاس ہے کہ انسان زیادہ سرکش و ظالم و
وحشی ہو جائے۔ نفرت اور انانیت اس پر مسلط ہو جائیں۔ اور کشمکش اور کشیدگی کی وحشت
اسے اندھا کر دے؟ ان دونوں میں سے کون سا مقیاس ہے۔ اب مندرجہ بالا گفتگو کسی قدر
واضح ہو گئی ہے اور اب محسوس ہوتا ہے کہ علمی ترقی بذاتِ خود رفعت اور پستی سے
دوچار نہیں کرتی — بلکہ جس روح کے ساتھ انسان علم کے ثمرات استعمال کرتا ہے۔ وہ رفعت
اور پستی کا سبب بنتی ہے۔ اور انسان کو انسان یا حیوان بناتی ہے؟ کیا اب انسان کی
بلندی اور پستی کا مقیاس واضح ہو گیا۔ کیا ہم تباہ کن جنگوں کو ترقی سمجھ لیں؟ کیا
نسلی تعصب تہذیب ہے؟ کیا غلامی تہذیب ہے؟ کیا اخلاقی انارکی تہذیب ہے؟ کیا خاندان
اور معاشرے کی تباہی تہذیب ہے؟ کیا جنون، مرض اور خودکشی تہذیب ہے؟ — اور کیا
انسانیت پر چھائی ہوئی بدبختی تہذیب ہے؟! غلط رہنمائی — اور انسان کے فاسد نظریہ
کے ماتحت علم نے انسانیت کے لئے کون سی بھلائی فراہم کی ہے؟ ہم نہ علم کو نظر
انداز کر رہے ہیں اور نہ میزانِ ترقی میں اس کا حصہ کم کر رہے ہیں۔ ہم اجتماعی،
معاشی اور سیاسی اور نفسیاتی نما سے بھی انکار نہیں کرتے۔ بلکہ ان اشیاء کا اپنا
وزن ہے اور انسان کا اپنا وزن ہے۔ ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ کیا یہ علم اور یہ اجتماعی
معاشی اور سیاسی ارتقاء انسانی اقدار کو بلند کرتا ہے، یا انھیں تباہ کرتا ہے؟
جزئیات کے بجائے مجموعی تہذیب کا جائزہ لینا ہے۔ طب نے عظیم ترقیات کی ہیں۔ علم نے
اپنی ایجادات اور دریافتوں سے انسانیت کی بڑی خدمت کی ہے۔ ان تمام امور کو مد نظر
رکھنا ضروری ہے۔ مگر کیا اس خیر کا وزن زیادہ ہے، یا گہرائیوں میں پیوست شر کا وزن
زیادہ ہے؟ ہم بیسویں صدی کی گواہی سے کیونکر فرار پا سکتے ہیں اور اس کے اثرات سے
کیونکر نظر چرا سکتے ہیں؟ یہ کون کہہ سکتا ہے کہ ہم تھوڑی سی خیر کے لئے اس عظیم
شر کو اپنا لیں۔ ورنہ خیر کا کوئی وجود نہ رہے گا؟ کون کہتا ہے کہ حصولِ خیر کا
ٹیکس تباہی، فساد، اخلاق اور انسانیت کی پستی کی شکل میں دینا ہو گا؟ یہ مغربی
تہذیب کی صورت ہے— مگر یہ انسانیت کی ترقی کی صورت نہیں۔ اصل کام یہ ہے کہ ہم علم
و ترقی کی عطا کردہ خیر کو برقرار رکھتے ہوئے غلط راہنمائی کے پیدا کردہ فساد دور
کر دیں! یہ ہی ایک انسان کی شان ہے۔ اور یہ ہی رجعت اور ترقی کا پیمانہ ہے! ترقی اور رجعت کا پیمانہ فطرت اور انسان ہے! > "انسان کو ہر شے کا مقیاس بننا چاہئے لیکن واقعہ اس کے برعکس ہے۔
انسان تو خود اپنی ہی پیدا کردہ دنیا میں اجنبی ہے۔ انسان اپنی دنیا خود نہیں
سنوار سکتا، کیونکہ اسے اپنی طبیعت کے بارے میں کوئی عملی معرفت نہیں۔ حیاتیاتی
علوم کے بالمقابل علومِ جمادات میں جو عظیم ترقی ہوتی ہے، وہ انسانیت کے لئے ایک
مصیبت سے کم نہیں ہے۔ ہم بھی بڑے بدنصیب ہیں کیونکہ ہم اخلاقی اور عقلی طور پر
زوال پذیر ہیں۔ وہ جماعتیں اور قومیں جو صنعتی تہذیب میں بے پناہ ترقی حاصل کر
لیتی ہیں وہ پہلے کمزور ہو جاتی ہیں اور دوسری قوموں کی بہ نسبت زیادہ جلدی بربریت
اختیار کر لیتی ہیں۔" (ایلکسس کارل) نہایت
واضح شہادت ہے۔ جس پر کسی اضافہ کی ضرورت نہیں۔ انسان ہی وہ پیمانہ ہے جس پر رجعت
اور ترقی کو ناپا جانا چاہئے۔ جو نظام انسان کو رفعت بخشے وہ ترقی پذیر۔ اور جو
نظام انسان کے انسانی وجود کو پستی میں مبتلا کرے۔ وہ نظام رجعت ہے۔ خواہ اس کا
تہذیبی اور مادی معیار کتنا ہی بلند اور جن آلات کو وہ استعمال کر رہا ہو وہ کتنے
ہی عظیم اور پیداوار کیوں نہ ہوں! یہ صحیح ہے کہ آلات کو کام میں لانا اور ان کو
بہتر بنانے کے لئے جدوجہد کرنا انسانی خصوصیت ہے مگر صرف اس خصوصیت سے انسان تشکیل
نہیں پاتا، اور نہ یہ خصوصیت انسانی ترقی کا مقیاس بن سکتی ہے! اگر انسان کے ہاتھ
میں بے پناہ توانائی اور قوت آجائے، مگر اس کا سارا جسم مفلوج و بے حس پڑا رہے، تو
اس طاقتور ہاتھ سے کیا فائدہ۔ حالانکہ یہ ہاتھ صرف اپنی قوت سے ذرا سا بھی آگے نہ
بڑھ سکے!
بیسویں صدی کی علمی صنعتی اور تہذیبی ترقی کی بھی یہی مثال ہے
کہ ہاتھ طاقتور ہے اور جسم مفلوج ہے۔ اور مجموعی انسان کے لحاظ سے جس قدر اختلال
ہے، وہ اس عظیم ترقی کے تمام فائدوں کو غارت کر دیتا ہے۔ اس مجمل قول کی بھی تفصیل
ضروری ہے۔ بیسویں صدی میں انسانی وجود میں اختلال کے مواضع کون سے ہیں؟ وہ کون سے
انحرافات ہیں۔ جو انسان کی انسانیت پیچھے لوٹا رہے ہیں۔ اور انسان کے سارے
کارناموں کو رجعتیں بنا رہے ہیں؟ انسان کی وہ کون سی خصوصیات ہیں جن کی حفاظت کی
جانی چاہئے، اور کون سے بنیادی امور ہیں جن کو بیسویں صدی نے تباہ کر دیا ہے؟ > يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ
مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا
كَثِيرًا وَنِسَاءً (النساء: ١) (ترجمہ: اے لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تم
کو ایک جاندار سے پیدا کیا اور اس جاندار سے اس کا جوڑا پیدا کیا اور ان دونوں سے
بہت سے مرد اور عورتیں پھیلادیں)۔ اس آیت میں بیان کردہ چاروں مسائل بیسویں صدی
میں اختلال اور زوال سے دوچار ہوگئے ہیں۔ عقیدہ، نفسِ واحدہ، صنفی تعلق، اور وحدتِ
انسانیت کے مسائل میں خلل رونما ہو چکا ہے، اور یہ خلل انسانیت کو ہلاکت و تباہی
سے دوچار کر رہا ہے۔ جب بیسویں صدی میں لوگ عقیدے سے منحرف ہو گئے۔ اور اس کو
انھوں نے پسِ پشت ڈال دیا، اور اپنی عملی زندگی سے پوری طرح خارج کر دیا۔ اور جب عقیدہ
ان کے ضمیروں میں پوشیدہ ایک سائے کی طرح رہ گیا— کیا لوگوں نے انسانیت میں ترقی
کی یا تنزل؟!
شعور اور ادراک میں عقیدہ کا وجود— جیسا کہ سابقہ بحث اور جولین
ہکسلے کے اقوال سے معلوم ہو چکا ہے— انسان کی ایک اہم بنیاد ہے جو اسے حیوان سے
ممتاز کرتی ہے۔ اس اہم بنیاد کو نظر انداز کرنا یا اسے اہمیت نہ دینا ایک خالص
انسانی خصوصیت کو چھوڑنا اور پیچھے کی طرف رجعت ہے! ہم اس رجعت کے آثار اس نسل میں
دیکھ رہے ہیں۔ اس رجعت کا یہ نتیجہ ظاہر ہوا ہے کہ نفسِ انسانی پراگندگی سے دوچار
ہو گیا ہے کیونکہ نفس کی اپنے خالق کی جانب فطری حاجت، اور نفس کی اجتماعی، سیاسی
اور تہذیبی امن کی خواہش میں کوئی ربط باقی نہیں رہا۔ کیونکہ مغرب اپنے کفر اور
الحاد کی رو میں یہ نہیں چاہتا کہ کوئی بھی شے اللہ کے عقیدے سے مربوط ہو! اس رجعت کا ایک نتیجہ! نفسیاتی اور روحانی قلق ہے جو مغرب میں
لوگوں کے اعصاب کو تباہ کرنے دے رہا ہے۔ اس ہولناک اور تباہ کن کشمکش میں، جس میں
لوگ ہر لمحہ اور زندگی کے ہر پہلو میں مبتلا ہیں۔ مادی دنیا میں کشمکش، انکار کی
کشمکش اور فرد کے نفس میں کشمکش— اس ہولناک اور تباہ کن کشمکش میں انسان کو کوئی
سہارا چاہئے۔ کوئی ایسی قوت چاہئے جس پر انسان مطمئن ہو سکے۔ ایسی قوت جو اس کے
قلب کی تھکن اور اس کے ضمیر کی حرمانی دور کر سکے۔ انسان کو ایسا مہربان ہاتھ
چاہئے، جو اس مصیبت میں انسان کا ہاتھ پکڑ کر اسے اطمینان و سکون کی طرف لاسکے۔
گویا انسان کو اللہ کی ضرورت ہے۔ مغربی تہذیب کی اپنی تنظیمات اور اپنی رہنمائی کے
بل بوتے پر یہ کوشش ہے کہ انسان اللہ کی جانب متوجہ نہ ہونے پائے۔ مغربی تہذیب
انسان کو سیاست، معیشت، اور معاشرے کی تنظیم میں اللہ کی طرف جانے سے روکتی ہے۔ یا
انسان آدابِ اخلاق اور عمل کا کوئی دستور بنانے میں اللہ کی طرف جانے۔ یا فن میں اللہ
کی جانب مائل ہو۔ مغربی تہذیب ان سب سے روکتی ہے۔ بس اگر انسان اللہ کی طرف مائل
ہو تو چند لمحے کلیسا میں نماز کے وقت مائل ہو جاتے۔ پھر باقی دن اور ساری زندگی
عقیدے کے خلاف گزارتا رہے۔ اسی طرح انسان پراگندگی، قلق، اضطراب اور حیوانی سے
دوچار ہو جاتے! اور انسانیت کے لحاظ سے تنزل پذیر ہو جاتے۔ صرف یہی نہیں— بلکہ جب
لوگ یومِ آخرت پر پکا اور سچا ایمان نہیں لائیں گے، اور ان کی نظروں میں دنیا کے
سوا کچھ بھی نہ رہے گا تو وہ دنیا کی لذتیں سمیٹنے کے لئے ہر موقع کے منتظر رہیں
گے۔ لوگ دنیاوی لذتوں پر ٹوٹ پڑیں گے۔ اور جنسی اور حسی، خواہشات اور قوت و طاقت
کی آرزوؤں کے حصول کے لئے لپک پڑیں گے۔ اور اس لطف و لذت کے بدلے ان کی زندگی
عذابِ جہنم بن جائے گی! ہاتھ سے نکلے جانے والے موقع کا قلق، اور جنس کی کبھی نہ
بجھنے والی آگ!!
انسانیت کے اعتبار سے لوگ تنزل پذیر ہیں اور اب لوگ حیوان سے
بھی گئے گزرے ہوتے کیونکہ حیوانات میں تو ضبط کی فطری اور جبلیّ قوت ہوتی ہے جو
انھیں نقطہ ہلاکت سے پہلے روک دیتی ہیں اور ان کی طاقت کو تباہ ہونے سے بچاتی ہیں۔
مگر انسان بغیر عقیدہ کے حیوانات سے بھی بدتر ہو جاتا ہے۔ کیونکہ انسان عقیدہ کے
بغیر بے مقصد اور بغیر قوتِ ضبط کے رہ جاتا ہے۔ > لَهُمْ
قُلُوبٌ لَا يَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَعْيُنٌ لَا يُبْصِرُونَ بِهَا وَلَهُمْ
آذَانٌ لَا يَسْمَعُونَ بِهَا أُولَئِكَ كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ
أُولَئِكَ هُمُ الْغَافِلُونَ (الاعراف: ١٧٩) (ترجمہ: ان کے پاس دل ہیں مگر
وہ ان سے سوچتے نہیں۔ ان کے پاس آنکھیں ہیں مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں۔ ان کے پاس
کان ہیں مگر وہ ان سے سنتے نہیں۔ وہ جانوروں کی طرح ہیں۔ بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے
گزرے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو غفلت میں کھوئے گئے ہیں)۔ یہ رجعت ہے— اور اگر زمانہ کو ہی
رجعت کا پیمانہ بنایا جائے تو بھی کیا یہ انیسویں اور بیسویں صدی کی ایجاد ہے؟
عقیدے کا انکار تاریخ میں بہت پرانا ہے۔ یہ نہ تاریخ کی پہلی رجعت ہے۔ اور نہ ہی
یہ کفر اور الحاد پہلی مرتبہ ظاہر ہوا ہے۔ خدا کے وجود کی دلیل کیا ہے؟ اللہ
تعالیٰ کیونکر رسول بھیجتا ہے؟ وحی کیسے نازل کرتا ہے؟ اور مُردوں کو کیونکر زندہ
کرے گا؟ >
وَقَالَ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ لَوْلَا يُكَلِّمُنَا
اللَّهُ أَوْ تَأْتِينَا آيَةٌ كَذَلِكَ قَالَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ مِثْلَ
قَوْلِهِمْ تَشَابَهَتْ قُلُوبُهُمْ قَدْ بَيَّنَّا الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ
(البقرہ: ۱۱۸) (ترجمہ: اور جاہل کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہم سے کیوں نہیں کلام
فرماتے یا ہمارے پاس اور کوئی دلیل آ جائے۔ اسی طرح وہ لوگ بھی کہتے چلے آئے ہیں
جو ان سے پہلے ہو گزرے۔ ان سب کے قلوب باہم ایک دوسرے کے مشابہ ہیں۔ ہم نے تو بہت
سی دلیلیں صاف صاف بیان کر دی ہیں۔ ان لوگوں کے لئے جو یقین کرنا چاہتے ہیں)۔ > > وَقَالُوا إِنْ هِيَ إِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوتُ
وَنَحْيَا وَمَا يُهْلِكُنَا إِلَّا الدَّهْرُ (الجاثیہ: ٢٤) (ترجمہ: اور کہتے ہیں
کہ ہماری اس دنیاوی حیات کے اور کوئی زندگی نہیں ہے۔ ہم مرتے ہیں اور جیتے ہیں۔
اور ہم کو صرف زمانہ کی گردش سے فنا آجاتی ہے)۔ > > أَإِذَا
كُنَّا عِظَامًا وَرُفَاتًا أَإِنَّا لَمَبْعُوثُونَ خَلْقًا جَدِيدًا (الاسراء:
٤٩) (ترجمہ: اور کہتے ہیں کہ جب ہم مر کر ہڈیاں اور چورا ہو جائیں گے تو کیا ہم از
سرِ نو پیدا ہوں گے)۔ بلکہ اس سے زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ اگر آپ آج بیسویں صدی
میں لوگوں سے کہیں کہ ایک خدا مانیں اور عبادت، علم، معیشت اور سیاست کے لئے
علیحدہ علیحدہ خدا نہ بنائیں — تو یہ لوگ اس سے انکار کریں گے اور قرآن پرانے
کافروں کے بارے میں بتاتا ہے: > أَجَعَلَ الْآلِهَةَ
إِلَهًا وَاحِدًا إِنْ هَذَا لَشَيْءٌ عُجَابٌ (ص: ٥) (ترجمہ: اور کیا اس نے اتنے
معبودوں کی جگہ ایک ہی معبود رہنے دیا۔ واقعی یہ بہت ہی عجیب بات ہے)۔ عقیدے کی
دنیا میں یہ رجعت جس سے آج بیسویں صدی دوچار ہے۔ اسلام اسی کو درست کر کے انسانیت
کو صحیح راستہ دکھانے کے لئے آیا ہے۔ یہی موقف اسلام کا آج بیسویں صدی میں بھی ہے! جنس کا مسئلہ— جس میں اخلاق بھی شامل ہے۔ ہم اس موضوع پر کافی
بیان کر چکے ہیں۔ اب اس مسئلہ کی طبیعت اور انسانی زندگی میں اس کے آثار بیان کرنے
کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ صنفی رجحان، اور بدنصیبی، یہ بے راہ روی، یہ خاندان، معاشرے
اور نسل کی تباہی، یہ حیوانیت، یہ کبھی نہ بجھنے والی جنسی آگ۔ انسان کے پیمانہ سے
یہ سب رجعتیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس بے راہ روی، تنزل، قلق اور تباہی کے
لئے پیدا نہیں فرمایا، اور ترقی کا مطلب یہ تو نہیں ہے کہ اتنا بڑا شر مول لینا
پڑے۔ جتنا کہ بیسویں صدی میں لینا پڑا ہے۔ شر تو درحقیقت انحراف سے پیدا ہوتا ہے۔
فطرت بیزاری سے پیدا ہوتا ہے۔ اور اس وجہ سے پیدا ہوا ہے کہ یہ نظام انسانی فطرت
سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ اس کے باوجود خود زمانہ کو اگر مقیاس بنایا جائے۔ تو بھی یہ
سب باتیں رجعت ہیں۔ بیسویں صدی کا دعویٰ ہے کہ اس نے اخلاق اور جنس کے مسائل میں
ترقی کرلی ہے اور ایسی شکل پیش کی ہے جس سے تاریخ ناواقف ہے— مگر تاریخ کہتی ہے کہ
یہ بہت پرانی بات ہے۔ قدیم یونان، روم، ہند اور ایران میں یہ سب کچھ ہو چکا ہے—
بالکل اسی صورت میں ہوا ہو، یا اس سے کسی قدر مختلف— مگر یہ انسان کے اندرونی وجود
میں کوئی فرق ہے اور نہ انسانیت کی خارجی اور واقعاتی زندگی میں۔ ہر صورت میں یہ
انحراف ہے اور فطرت کے خلاف ہے۔ اس لئے اس کے نتائج سامنے آنا ضروری ہیں۔ انسانی
تاریخ میں صرف یہی ایک جبریت ہے جو تمام جبریتوں کا مرجع بنتی ہے! یہ وہ رجعت ہے
جس کو اسلام درست کرنے اور انسانیت کو صحیح راستہ دکھانے آیا تھا۔ زمانہ جاہلیت
میں عورت بناؤ سنگار کر کے لوگوں کو پھنسانے اور ورغلانے بیٹھ جاتی تھی— جزیرہ
نمائے عرب اور اس سے باہر یہی جاہلیت مسلط تھی، اور اسلام لوگوں کو اسی بہیمیت سے
نجات دلانے آیا تھا۔ اور اس لئے آیا تھا کہ لوگوں کے ضمیروں میں ایسی بلند اقدار
جاگزیں کر دے کہ وہ صنفی تعلق میں جسمانی بہیمیت سے بلند ہو کر اسے سکون، مودت اور
رحمت کی بنیاد پر قائم کریں اور اسے ایک تنظیم کی شکل دیں، جو انسانوں کے مناسب
ہو۔ >
وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ
أَزْوَاجًا لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً
(الروم: ٢١) (ترجمہ: اس کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ ہے کہ اس نے تمہارے لئے
تمہارے نفسوں سے تمہاری بیویوں کو پیدا کیا تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو، اور
تمہارے درمیان مودّت اور رحمت پیدا کی۔) بیسویں صدی میں بھی یہی کچھ ہو رہا ہے۔ خواہ
مقیاس زمانہ ہو، یا انسان۔ یہ رجعت کے سوا کچھ نہیں۔ اور اسلام اسے صحیح کرتا ہے۔
رہ گیا نفسِ واحد اور وحدتِ انسانیت کا مسئلہ! تو بیسویں صدی اس مسئلہ میں نئی
انحرافات سے دوچار ہوئی ہے۔ ان انحرافات میں سب سے نمایاں سرکش انفرادیت کی معاشرے
پر زیادتی اور ظلم۔ سرکش اجتماعیت کا فرد پر ظلم اور انسانوں کا انسانوں پر ظلم! سرکش انفرادیت کا انحراف جو سرمایہ داری کی شکل میں جلوہ گر ہے
اور جسے مغرب کہتا ہے کہ یہ ارتقاء ہے— اور سرکش انفرادیت کا انحراف جو دنیا بھر
کے آمروں کی صورت میں موجود ہے— اگر اپنی صورت کے لحاظ سے نہیں تو اپنے جوہر کے
لحاظ سے یہ انحراف پہلے بھی موجود تھا۔ سرمایہ داری اپنی جدید صنعتی صورت میں۔
ملکیت اور لوٹ کھسوٹ کی ایک نئی شکل ہے۔ مگر مالک کا غیر مالک کو لوٹنا کھسوٹنا
کیا انسانیت کے لئے کوئی نئی شے ہے۔ یا یہ نفسِ انسانی کے وہ ہی منحرف محرکات ہیں
جو ظلم کا سبب بنتے رہے ہیں؟ کیا جزیرہ نمائے عرب، روم اور ایران کا سرمایہ دار
اقتدار دولت کے نشہ میں بدمست ہو جانے میں آج کا سرمایہ دار سے ذرا بھی مختلف تھا؟
کیا یہ وہ ہی انحراف نہیں ۔ جس کو اسلام دور کرنے آیا تھا۔ کہ اس سرکش اقتدار کو
فرد سے چھین لے— اس سے قانون سازی کا وہ حق واپس لے لے جس سے وہ دوسروں کو غلام
بناتا ہے اور قانون سازی کا حق صرف اس اللہ کو دے دے، جو کسی انسان کی طرف داری
نہیں کرتا۔ اور حاکم اپنے اور اپنے طبقہ کے لئے قانون نہ بنا سکے۔ جیسا کہ آج
سرمایہ داری کے زیر اثر ساری دنیا میں ہوتا ہے... کیونکہ یہ نظام اسلام کی ہدایت
پر قائم نہیں ہے۔ سرمایہ داری کی سرکش انفرادیت— اپنی ظاہری جدید صورت کے باوجود—
اس صورت کی طرف رجعت ہے جو اسلام سے پہلے موجود تھی۔ اسلام تو اس کو صحیح اور درست
کرنے آیا تھا۔ آج بھی اسلام اور یہ رجعت اسی طرح بالمقابل ہیں جس طرح صدیوں سے
پہلے تھے!
آمرانہ انفرادیت— کی بیسویں صدی میں کئی مثالیں سامنے آتی ہیں۔
اور اسلام سے قبل انسانیت آمریت سے واقف ہو چکی تھی۔ اسلام انسان سے اس سرکشی کو
دور کرنے آیا تھا۔ اسلام نے عبودیت صرف اللہ کے لئے خاص کر دی، اور کسی انسان کو
عبودیت کا کوئی حق نہیں دیا۔ اس نے سرکشی، اور تقدس کا دعویٰ کرنے والے انسانوں کو
عام انسان بنا دیا۔ حکام بھی عام انسان بنا دیئے۔ اور ان کو قانون کی تنفیذ کے سوا
کوئی حق نہیں دیا۔ اور اگر یہ حکام غلط راستہ اختیار کریں۔ تو ان کی اطاعت واجب
نہیں ہے، بلکہ ان کی اصلاح سختی سے کی جائے گی۔ حضرت سلمان فارسیؓ نے دنیا کے عادل
ترین حکمران حضرت عمرؓ سے کہا تھا کہ "خدا کی قسم اگر تمہارے اندر کوئی غلطی
دیکھیں گے تو نوکِ تلوار سے درست کر دیں گے"۔ اور حضرت عمرؓ نے جواب میں
فرمایا: "خدا کا شکر ہے کہ اس نے ایسے لوگوں کو عمر کی رعایا بنایا جو نوکِ
تلوار سے اس کی غلطیوں کی اصلاح کریں!" سرکشی اور طغیان کے
بالمقابل اسلام کا پہلے بھی یہی موقف تھا اور آج بھی یہی ہے۔ سرکشی ہر شکل میں
رجعت ہے۔ جو انسانیت کو اس کے رشد سے پہلے کے دور کی جانب لے جاتی ہے۔ جس رشد کی
علامت تاریخِ انسانیت میں خود اسلام کا ظہور ہے۔ اسلام اس سرکشی کے بالمقابل
انسانیت کو صحیح مزاج عطا کرتا ہے۔ اجتماعی سرکشی— جو اشتراکیت کی شکل میں ظاہر
ہوتی ہے۔ یہ معاشرت اور اجتماعات کے ارتقاء کی ایک نئی شکل ہے۔ جس کی صورت تو نئی
ہو سکتی ہے۔ مگر اس کا جوہر؟! یہ ظلم و ستم جس نے فرد کے وجود کو کچل کر اسے
جانوروں کے گلہ کا ایک فرد بنا دیا کہ نہ اس کی کوئی رائے ہے، اور نہ اس کی
نگرانی۔ اور نہ اس کا کوئی ممتاز وجود ہے— کیا یہ صورت اپنے جوہر میں اس صورت سے
مختلف ہے۔ جو اسلام سے قبل قبیلہ کی تھی جس کے بارے میں جاہلی شاعر کہتا ہے: > وَما اَنا اِلاّ مِن غَزِیَّۃَ اِن غَوَت --- غَوَیتُ وَ اِن
تَرشُد غَزِیَّۃُ اَرشُدِ > (ترجمہ: میں تو غزیہ
قبیلہ سے ہوں۔ اگر میرا قبیلہ گمراہ ہو جائے تو میں بھی گمراہ ہو جاؤں گا، اور
میرا قبیلہ ہدایت پر ہو تو میں بھی ہدایت پر ہوں گا۔) اسلام
آیا۔ تو اس نے جماعتی سرکشی کے بالمقابل فرد کو اس کا انسانی وجود عطا کیا۔ اسلام
نے فرد کو بے پناہ قوت عطا کی، جب کہ وہ فرد اللہ سے رابطہ قائم کرتے ہوئے اس کی
پوری پوری عبادت کر رہا ہو۔ اور اللہ کی ہدایت سے رہنمائی حاصل کر رہا ہوں۔ فرد کو
ایسی قوت دی جو معاشرے کی اصلاح کی جانب لے جائے اور فساد سے روکے۔ > وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ
وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ (آل عمران: ١٠٤)
(ترجمہ: تم میں سے ایک جماعت ایسی ہو جو لوگوں کو خیر کی طرف بلاتی رہے۔ نیکیوں کا
حکم کرے اور برائیوں سے منع کرے۔) اسلام میں فرد حاکم کو اس کی غلطی پر ٹوکتا
ہے، حکومت اور معاشرے کی سیاست میں مشورہ دیتا ہے اور اس طرح جماعت کی پرستش سے
نجات پاتا ہے۔ یہ جدید جماعتی سرکشی— جو آج تمام اجتماعی حکومتوں (TOTALITARIAN STATES)
میں نافذ ہے۔ ایک ایسی رجعت ہے جس کو اسلام درست کرنے آیا تھا۔
اور جس کے بارے میں اسلام کا آج بھی وہ ہی موقف ہے جو ظہورِ اسلام کے وقت تھا۔
اسلام فرد اور جماعت میں توازن قائم کرتا ہے کہ کوئی ایک دوسرے پر ظلم نہ کرے۔
اسلام میں فرد اور جماعت کا توازن اس غیر متغیر حقیقت سے مستفاد ہے۔ > خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ (النساء: ١) (ترجمہ: اس نے
تمہیں ایک نفس سے پیدا کیا۔) اور اسی توازن سے اسلام رجعتوں کو دور کرتا
ہے! بیسویں صدی ظلم و ستم سے دوچار ہے جو ظلم و ستم جنگ و صلح میں
انسانوں پر انسان کر رہے ہیں۔ اور جو ظلم قوموں پر دوسری قومیں اور افراد پر دوسرے
افراد کر رہے ہیں اور جو نسلی تعصب، سامراج اور غلامی پھیلی ہوئی ہے۔ اور وحشیانہ
سزائیں جو سرکش حکمراں اپنے اقتدار بچانے کے لئے عوام کو دے رہے ہیں۔ آخر اس سب کو
کیا نام دیا جائے؟ انسانیت کے لحاظ سے اسے کیا کہا جائے؟ رجعت یا ترقی؟ کیا یہ
کوئی نئی بات ہے یا صرف وحشیت اور تسلط اور سزاؤں میں اضافہ ہو گیا ہے؟ جب اسلام
آیا تو اس نے متعدد مظالم کا سدِ باب کیا۔ اور انسانی ضمیر کو پاکیزگی دی اور ظلم
کے خلاف قوانین بنا کر ظلم سے روکا۔ نفس کو اس احمقانہ اور بھیانک کھوٹ سے پاک و
صاف کیا۔ جو انسان کو اپنے بھائی، انسان کے قتل، سزا اور ظلم پر مجبور کرتا ہے۔
اسلام نے صرف ایک جنگ کو جائز رکھا۔ یعنی اللہ کے لئے اور اعلاء کلمۃ اللہ کے لئے
جنگ! اور اس مقدس جنگ میں سبھی وحشیانہ قتل، مُثلہ اور تعذیب سے ممانعت کی۔ انسانی
شروط رکھیں۔ بیسویں صدی کی جو بھی کچھ ترقی ہے۔ وہ دراصل رجعت ہے۔ جسے اسلام درست
کرنے آیا ہے۔ اسلام کا اس رجعت کے بالمقابل آج بھی وہ ہی موقف ہے۔ جو پہلے تھا۔ ہم
اگر مغرب کی ساری ترقیات کو کھنگالتے چلے جائیں ۔ تو معلوم ہو گا کہ یہ ترقی نہیں
بلکہ انحراف اور رجعت ہے۔ یہ نام نہاد ترقی انسان کی میزان میں بھی انحراف اور
زمانہ کی مقیاس میں سبھی انحراف ہے۔ یہ حیوانیت کی جانب رجوع ہے۔ اسلام کا موقف ہر
رجعت کے بارے میں یکساں ہے یعنی اس رجعت کو درست اور صحیح کیا جائے اور ترقی کی
ہدایت یافتہ قوت کو اختیار کیا جائے جو لوگوں کو صحیح راستہ کی جانب لے چلے۔ فی
الواقع ہم مسلمانوں کا مغرب کے مقابلے میں یہی موقف ہونا چاہئے۔ مگر ہم کہاں ہیں؟! # ہم اور مغرب اگر سارے مقدمات صحیح ہوں تو ان کے نتائج کو بھی صحیح ہونا
چاہئے۔ اگر اسلام صحیح راستہ پر لے جانے والی ترقی کی ہدایت یافتہ قوت ہے۔ اور
مغربی تہذیب میں اس قدر انحرافات اور حیوانیت موجود ہے— تو ہم مسلمانوں کو آج
تمکن، ترقی، تہذیب اور حکومت پر ہونا چاہئے تھا۔ ہمارے اخلاق اور عمل میں پوری
پوری پاکیزگی ہوتی۔ ہماری معاشرتی زندگی مربوط ہوتی۔ اور مغرب کمزوری، ذلت اور
شکست کا شکار ہوتا— مگر صورت حال اس کے برعکس ہے۔ مغرب صرف طاقتور اور ترقی یافتہ
ہی نہیں۔ بلکہ اپنے انفرادی معاملات میں بھی بڑا پاکیزہ اور بڑا مستقیم ہے۔ وہ ایک
دوسرے کو دھوکہ اور فریب نہیں دیتے، آپس میں چالبازیوں اور مکاریوں سے کام نہیں
نکالتے۔ کوئی شخص اپنے دائرہ تعامل میں جھوٹ نہیں بولتا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ
اپنے عمل میں مخلص ہے۔ وہ اپنے کام کو بہتر طریقہ پر اور پوری محنت سے کرتا ہے۔
—اور—
ہم مسلمان! دھوکہ دیتے ہیں۔ چالبازیوں اور مکاریوں سے کام
نکالتے ہیں۔ جھوٹ بولتے ہیں۔ منافقت برتتے ہیں۔ ہم اپنے کسی کام میں مخلص نہیں۔
کوئی بھی کام بہتر طریقہ پر اور پوری محنت سے نہیں کرتے۔ مذہب بغیر پاکیزگی کے —
اور پاکیزگی بغیر مذہب کے۔ اسلامی دنیا میں نئی نسلوں کے ذہنوں میں کچھ اسی قسم کی
صورت بنتی ہے جو انھیں اسلام سے برگشتہ کر دیتی ہے! اور یہ صورت خود بخود پیدا
نہیں ہوتی۔ بلکہ گذشتہ صدی میں اس کے لئے بڑی جدوجہد کی گئی، اور اس صدی میں بھی
کی جا رہی ہے۔ مشنریوں اور مستشرقین نے بڑی کوششیں کی ہیں۔ پھر اسلامی دنیا میں ان
کے مسلمان شاگردوں نے اس کام کو سنبھالا۔ اور مسلسل نئی نسل کے ذہنوں میں یہ باتیں
چھوڑتے رہے تاکہ ان ظاہری حقائق میں ربط پیدا کر کے اپنا مطلب حاصل کریں۔ مشنری
کھلم کھلا کہتے رہے کہ اسلام رجعی اور تاخر ہے۔ کیونکہ اس کے ماننے والے رجعی اور
پس ماندہ ہیں اور مسیحیت ترقی یافتہ اور مہذب ہے۔ کیونکہ مغربی دنیا مہذب اور ترقی
یافتہ ہے۔ مستشرقین (یہ وہ دشمن ہیں جنہوں نے اپنے مشنری ہونے پر پردہ ڈالنے کے
لئے علمی بحث کا لبادہ اوڑھ لیا) نے کہا کہ رجعت اور تاخر خود اسلام میں ہے اور
اسی نے اپنے ماننے والوں کو تنزل اور پسماندگی میں مبتلا کیا ہے۔ کیونکہ اسلام
ترقی کا مخالف ہے، نہ ترقی کرتا ہے اور نہ ترقی کرنے کی اجازت دیتا ہے! (شائد وہ
یہ بھی کہتے ہوں کہ اسلام جہالت اور اسبابِ قوت کے نہ اپنانے کا درس دیتا ہے) پھر ان کے مسلمان شاگردوں نے، صحافت، ادب اور سیاست کے علمبردار
بن کے آتے اور انھوں نے کہنا شروع کیا کہ ہمیں، اس غیر ترقی پذیر، موجبِ تاخر مذہب
کو چھوڑ دینا چاہئے تاکہ ہم ترقی کر سکیں! تاکہ ہم علم، قوت، ترقی اور حکومت حاصل
کر کے یورپ جیسے بن سکیں۔ اسلامی دنیا کی نئی نسلوں میں یہ زہریلا پروپیگنڈا کیا
جاتا رہا— تاکہ ایک خاص مقصد حاصل کیا جائے— کہ ہم متاثر ہیں کیونکہ ہم مسلمان ہیں
اور یورپ تہذیب یافتہ ہے، کیونکہ وہ مسلمان نہیں ہے۔ پھر جب زمانہ نے پلٹا کھایا۔
تو مشنریوں کے اقوال اوجھل ہو گئے۔ اور خوش قسمتی سے پسِ پردہ چلے گئے۔ کیونکہ وہ
اب اپنے مسلمان شاگردوں پر مطمئن ہو گئے تھے۔ کہ وہ ان کی طرف سے اس کام کو انجام
دیتے رہیں گے۔ وہ حکومت کی تعلیم، سیاست پر بھی مطمئن تھے جس تعلیم سیاست کو
سامراج نے جنم دیا تھا۔ کیونکہ حکومت اور سیاست اس کے ہاتھ میں تھی۔ سیاست یہ تھی
کہ نئی نسل کو اسلام کی حقیقت کی ہوا بھی نہ لگنے پائے۔ بلکہ ان کے ذہنوں میں صرف
یورپ کی ترقی اور تہذیب کے افسانے جاگزیں کئے جائیں۔ اور ان کی فکر میں شعوری یا
غیر شعوری طور پر اسلام کے بارے میں شبہات چھوڑے جائیں۔ اسی طرح مشنری اسکولوں کی
کارکردگی پر بھی مطمئن تھے کہ وہ مسلمانوں کے عقائد تباہ کرنے میں بڑی خدمت انجام
دے رہے ہیں۔ اور انھوں نے مسلمانوں کی گردنیں تہذیبِ مغرب کی جانب موڑ دی تھیں۔ وہ
اپنے شاگردوں کے اس گروہ سے بھی مطمئن تھے کہ انھوں نے مستشرقین کے کارناموں کو اس
قدر بڑا کر کے دکھایا کہ علماء گروہ عمل کے رہنما وہ ہی بن گئے، اور ان کو یہ قدرت
حاصل ہو گئی کہ وہ اپنے مقاصد کو حاصل کر سکیں! انیسویں
صدی کے آخر میں مستشرقین جو اسلام پر شدید ترین حملے کر رہے تھے، اب وہ بھی بند ہو
گئے۔ کیونکہ انھیں تجربہ سے معلوم ہو گیا کہ اس طرح مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ بلکہ
مسلمانوں نے بیدار ہو کر اپنی عقل اور قلم سے اسلام کا دفاع شروع کر دیا تھا۔
چنانچہ اس زمانہ میں اسلام کی مدافعت میں سینکڑوں کتابیں تصنیف ہوئیں۔ اور ایسا
ہونا مستشرقین کے مقاصد کے لئے عظیم خطرہ تھا۔ اس خطرے کا معاصر مستشرق ولفرڈ
کینٹویل اسمتھ نے اپنی کتاب "اسلام ان ماڈرن ہسٹری" (Islam in Modern History) میں تذکرہ کیا ہے: "آزادی پسند مصنفین کی چلاتی ہوئی
تحریکِ آزادی جو مذہبی تنقید پر مشتمل تھی کامیابی سے ہمکنار ہو جاتی۔ اگر اسلام
کی مدافعت درمیان میں نہ آجاتی۔" اس لئے اب مستشرقین
نے زیادہ بدتر وسیلہ اختیار کیا کہ بجائے لوگوں کو بیدار کرنے کے ان کے شعور کو
سلا دیا جائے چنانچہ انھوں نے اسلام کی عظمت و برتری بیان کرنا شروع کر دی۔ اور جب
مسلمان مطمئن ہو گئے کہ مستشرقین کا ارادہ پاکیزہ اور ان کا علمی ضمیر بے تعصب ہے
تو انھوں نے اس شہد میں زہر کی آمیزش شروع کر دی۔ اور مدح و ثنا کے ضمن میں شک و
شبہ پیدا کرنے لگے۔ اور اپنے اس کارنامے پر مطمئن ہو گئے۔ پھر یہ پرچار شروع کیا
کہ کسی وقت اسلام بیشک عظیم، نافع اور ترقی کا سبب تھا۔ اب تو اسلام ترقی کی راہ میں
ایک سنگین رکاوٹ ہے۔ اب اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں کہ مغرب کے تمام وسائل اپنا
لئے جائیں۔ (Von
Grunebaum کی "ماڈرن ٹرینڈز ان اسلام" (Modern Trends
in Islam) اور ولفرڈ اسمتھ کی "اسلام ان ماڈرن
ہسٹری"
(Islam in Modern History) دیکھئے)۔ اب پہلے
اور دوسرے حملے کے بعد کئی جگہ ایک نئی دعوت شروع ہوئی۔ جو آج تک جاری ہے۔ اور اس
تحریک کو مستشرقین کے مسلمان مخلص شاگرد چلا رہے ہیں کہ یوروپ ترقی یافتہ ہے
کیونکہ وہ بے مذہب ہے۔ یوروپ نے مذہب سے کنارہ کش ہو کر تہذیب و ترقی حاصل کی۔ اور
قوت و طاقت کا سرچشمہ بن گیا۔ مگر ہم مسلمان چونکہ مذہب پرست ہیں اس لئے ہم پس
ماندہ بھی ہیں۔ ہمیں بھی یوروپ کی طرح مذہب سے دست بردار ہو جانا چاہئے۔ تاکہ ہم
بھی ترقی اور تہذیب حاصل کر سکیں۔ اور ہمیں بھی قوت و طاقت حاصل ہو جائے! یہ ضروری
نہیں کہ ہم ملحد و کافر ہی ہو جائیں، بس ہمیں جو کچھ کرنا ہے وہ صرف یہ ہے کہ
معاشرے اور عملی زندگی میں مذہب کا کوئی دخل نہ رہے۔ یہ ہے مشنریوں، مستشرقین اور
سامراج کی تمام کوششوں کا ماحصل!! مگر ذرا اس دو صدی طویل قصہ سے نظر ہٹائی
جائے۔ تو ایک واقعی حقیقت کے اسباب کی وضاحت ضروری ہو جاتی ہے کہ مغرب اپنے شب و
روز کے معاملات میں حسی اور معنوی نفاست اور قوت و تمکن کا حامل رہا (صنفی مسائل
سے قطع نظر کرتے ہوئے) اور اسلامی مشرق حسی اور معنوی گندگی، ضعف اور پس ماندگی کا
شکار رہا۔ (اور صنفی اخلاق بھی فساد سے دوچار رہے)۔ یہ واقعہ ہے اور اس کے اسباب
کی نشاندہی ضروری ہے تاکہ حقیقت واضح اور جو مقدمات ہم نے شروع میں بیان کئے ہیں۔
ان میں اور عملی زندگی میں ربط واضح ہو جائے۔! یہ
ایک انتہائی گمراہ کن بات ہے کہ مشرق میں مذہب ہے، پاکیزگی نہیں اور مغرب میں
پاکیزگی ہے مذہب نہیں— فی الحقیقت ایسا نہیں ہے اور تاریخ اس کی گواہ ہے۔ آج کا
یورپ مذہب پرست نہیں ہے۔ یعنی مذہب اس کی عملی زندگی پر حکمراں نہیں ہے۔ مذہب،
معاشرہ، معیشت، سیاست اور لوگوں کی فکری رہنمائی میں اپنا کوئی اثر نہیں۔ رکھتا۔
مذہب صرف چند لمحات کے لئے کلیسا میں لوگوں کے شعور پر اثر انداز ہوتا ہے۔ یا جب
وہ کسی پادری کی محفل میں ہوتے یا کوئی مذہبی قصہ سنتے ہوتے ہیں۔ اس وقت مذہب اثر
انداز ہوتا ہے!!
مگر چند صدیوں پہلے صورتِ حال ایسی نہ تھی۔ بلکہ لوگوں کے دلوں
میں عقیدہ راسخ اور زندگی میں اس کے اثرات قوی تھے۔ پوری طرح تو مسیحی یورپ کبھی
بھی نہیں رہا۔ کیونکہ یوروپی ضمیر میں — مسیحیت کے پردے میں چھپے ہوئے— یونانی فکر
اور تہذیب کے نہایت گہرے آثار تھے جو شعوری یا غیر شعوری طور پر مغربی زندگی کی
راہنمائی کر رہے تھے۔ مگر پھر بھی قرونِ وسطیٰ میں مسیحیت ہی غالب تھی۔ پھر لوگ
کئی اسباب کی بناء پر کلیسا سے بیزار ہو گئے۔ کلیسائی نظام ایک ظالمانہ اور جابرانہ طاقت تھی جس نے لوگوں پر
تاوان لگائے لگا لگا کر ان کی زندگی تلخ بنا دی تھی۔ اور کلیسا نے لوگوں پر اہل مذہب کے سامنے ذلت آمیز طور پر جھکنا
فرض کر رکھا تھا! کلیسا نے
بیکار علمی مفروضے آسمانی وحی بتا کر لوگوں پر مسلط کر دیئے تھے۔ اور جب تجربی اور
نظری سائنس نے ان مفروضات کو جھوٹا ثابت کر دیا، تو کلیسا نے سائنسدانوں کو آگ میں
جلایا اور طرح طرح کی سزائیں دیں۔ چنانچہ کوپرنیکس، گیلیلیو اور برونو کو اس لئے
سزائیں دی گئیں کہ انھوں نے شکلِ ارض اور مرکزِ زمین کے بارے میں کلیسائی کا نظریہ
ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ پردہ ہائے مغفرت کے اجراء نے مذہب سے ساری تقدیس چھین کر اسے
بالکل مذاق اور مضحکہ خیز شے بنا کر رکھ دیا۔ اور اہل مذہب اپنے فاسد اخلاق کو رہبانیت کے پردے میں چھپاتے
ہوئے تھے اور ان کی اخلاقی گراوٹ کا یہ حال تھا کہ ایک مذہب سے دور عام آدمی بھی
اس قدر نہیں گر سکتا! ان تمام باتوں سے مذہب اور زندگی ایک دوسرے
سے دور ہوتے چلے گئے اور مذہب عملی زندگی سے نکل کر صرف ضمیر کے کسی گوشے میں پڑا
رہ گیا۔ اس کے بعد مغربی زندگی میں ایسے واقعات رونما ہوئے جن کے بڑے دور رس نتائج
نکلے— یہ واقعات صلیبی جنگیں ہیں۔ ان تمام صلیبی جنگوں میں مسیحی شکستوں پر شکستیں
کھاتے رہے جس سے وہ یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ ضرور ان کی زندگی میں کچھ ایسی
غلطیاں اور اختلال ہیں۔ جو انھیں اس بڑی شکست سے دوچار کر رہے ہیں، اور مسلمانوں
کی زندگی میں سلامتی اور قوت کے ایسے اسباب پنہاں ہیں۔ جنہوں نے ان کو کامیابی عطا
کی۔ یہی فکری بیداری یوروپ کی نشاۃِ ثانیہ کا سبب بنی۔ یہ نشاۃِ ثانیہ علمی،
اجتماعی، سیاسی، فکری اور روحانی ہمہ پہلو تھی۔ > "جدید
دنیا پر عربی تہذیب نے سب سے بڑا احسان کیا ہے۔ اگرچہ اس کے ثمرات ذرا دیر سے
سامنے آئے۔ اسپین میں عربی ثقافت نے جس عبقریت کو جنم دیا تھا۔ وہ اس تہذیب کے
روپوش ہونے کے کافی عرصہ بعد جلوہ گر ہوئی۔ صرف علم ہی نے یورپ کو زندگی نہیں۔
بخشی۔ بلکہ اسلامی تہذیب کے اور کبھی بہت سے مؤثرات نے اپنی ابتدائی کرنیں مغربی
زندگی پر ڈالی ہیں۔ یوروپی ترقی کا کوئی پہلو ایسا نہیں ہے۔ جس کا مرجع یقینی طور
پر اسلامی ثقافت کے مؤثرات نہ ہوں۔ یہ مؤثرات نہایت وضاحت اور اہمیت کے ساتھ جدید
دنیا کی قوت تشکیل کرتے ہیں۔ اور جدید دنیا کی قوت یعنی طبعی علوم اور بحث کے علمی
انداز پر اثر انداز ہوتے ہیں۔" (بریولٹ: تعمیر انسانیت The Making of Humanity)۔ بریولٹ جہاں علوم اور
بحث کے علمی انداز کو اہمیت دیتا ہے اور بتاتا ہے کہ یوروپ کی نشاۃِ ثانیہ میں یہ
کس قدر اثر انداز ہوتے ہیں۔ وہاں اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کرتا کہ:
"یوروپی ترقی کا کوئی پہلو ایسا نہیں ہے، جس کا مرجع یقینی طور پر اسلامی
ثقافت کے مؤثرات نہ ہوں!" یہاں تفصیل کا تو
موقع نہیں ہے کیونکہ یہ تاریخ کا موضوع ہے مگر مختصر طور پر یہ وضاحت ضروری ہے۔
صلیبی جنگوں کے بعد یوروپ نے قومی نظام کی جانب توجہ دی ہے۔ جب کہ اس وقت تک یوروپ
میں جاگیرداریاں ہوا کرتی تھیں۔ اور جاگیردار ہی تمام قانونی، عدالتی اور نفاذی
قوت ہوا کرتا تھا۔ اور اس کے رقبہ زمین میں بسنے والے اس کے غلام ہوتے تھے۔ جب
عیسائیوں نے اسلامی دنیا میں ایک قومی نظام، ایک مرکزی حکومت اور سب پر یکساں طور
پر منطبق ہونے والا قانون دیکھا تو انھوں نے اس سارے نظام کو اپنے یہاں رواج دیا،
اور جاگیرداری نظام ختم کر کے اور غلاموں کو مسلمانوں کی طرح آزاد کر کے ایک ملک
اور ایک حکومت کی تشکیل کی۔ صلیبی جنگیں اور اسلامی فکر اور ثقافت ہی کلیسا کے
خلاف مذہبی بغاوت کا سبب بنیں جس کے سرخیل مارٹن لوتھر اور کالون تھے۔ یہی امور
آزادی کی تمام عظیم تحریکات کا سبب بنے۔ میگنا کارٹا اور انسانی حقوق کا اعلان بھی
اسی ضمن میں آتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی یوروپ کا اخلاق بھی متاثر ہوا۔ اور شکست خوردہ
عیسائیوں نے فاتح مسلمانوں سے ان کے شخصی اخلاق سیکھے، جیسے صدق، امانت، اخلاص،
اتحاد ربطِ محبت، مودّت اور بُری باتوں سے تحفظ! جب
شام میں عیسائی مسلمانوں کے ساتھ رہتے تھے۔ تو ان کے سامنے یہ مناظر آتے تھے۔ کہ
جب نماز کا وقت آیا مسلمان تاجر اپنی دکان کھلی چھوڑ کر نماز کو چلا گیا اور واپس
آیا تو سامان اسی طرح محفوظ پایا۔ اور کسی نے چھیڑا تک نہیں! انھوں نے یہ بھی
دیکھا کہ مسلمانوں میں چھوٹا بڑے کا احترام کرتا ہے۔ سلام عام ہے۔ زبان سے بھی
سلامتی بھیجتا ہے۔ اور معاشرے میں بھی سلامتی موجود ہے۔ انھوں نے یہ بھی دیکھا کہ
اہل صنعت و حرفت اپنی صنعتوں کو بہتر بنانے اور کام میں مخلص ہیں۔ اور مسلمان تاجر
کا اصل سرمایہ اس کی ذمہ داری ہے۔ وہ وعدہ پورا کرتا اور وقت کا پابند ہے۔ اندلس
اور مشرق کی درس گاہوں سے تجربی اسکول مغرب میں پہنچا۔ اور اس سے ایک عظیم علمی
تحریک ابھری۔ یہ علمی تحریک اور مندرجہ بالا امور مغربی زندگی پر یکساں طور سے اثر
انداز ہوئے۔ اس بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ مغربی اخلاق دراصل مذہبی ہے اور اس کا سرچشمہ
مسیحیت اور اسلام دونوں ہیں! گذشتہ بیان کردہ اسباب کے ماتحت مغربی زندگی
میں مذہب اور زندگی میں جو کشمکش رونما ہوئی۔ کئی صدیوں تک آہستہ آہستہ بڑھتی چلی
گئی، اور انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کے شروع میں اپنی انتہا کو پہنچ گئی۔ علم مذہب سے جدا
ہوا۔ تو تحریکِ احیائے علوم نے لادینی بنیادوں پر اپنی عمارت اٹھائی۔ بلکہ مذہب
دشمن۔ معاشرہ
مذہب سے جدا ہوا۔ تو جدید اجتماعی ارتقاء لادینی بنیادوں پر استوار ہوا۔ اگرچہ اس
کی بنیادیں مذہب دشمن نہ تھیں۔ اخلاق بھی مذہب سے علیحدہ ہو گیا— اور لوگ کہنے لگے کہ اخلاق تو
بڑی اچھی چیز ہے مگر یہ کیا ضروری کہ ہم اخلاق کا سرچشمہ مذہبی تعلیمات کو بنائیں۔
ہم اخلاق میں عقل اور اجتماعی ضمیر سے استفادہ کریں گے۔ یا یہ کہیں گے کہ مذہب کے
سوا ہر شے کو اخلاق کا سرچشمہ بنائیں گے (اور اس اخلاق میں جنسی اخلاق شامل نہیں
ہے— کیونکہ شیطان کی ہدایات کے زیر اثر جنس و اخلاق کا تو قصہ ہی ختم کر دیا
گیا؟)۔ غرض یورپ کے پاس اخلاق تو رہا۔ مگر اس پر مذہب کا نام باقی نہ رہا۔ اخلاق
کی مذہب سے بیگانگی اس قدر شدید تھی کہ لوگ اس امر ہی سے متنفر ہو گئے کہ اخلاق کا
کوئی تعلق مذہب سے بھی ہو۔ بلکہ انھوں نے اس امر سے صاف صاف انکار کر دیا کہ اخلاق
کا مذہب سے بھی کوئی تعلق ہے۔ بلکہ وہ اس بات پر اصرار کرنے لگے کہ اگر اخلاق،
مذہب کا لبادہ اوڑھ کر آیا تو ہم اس کو قبول نہیں کر سکتے۔ اخلاق تو ہو سکتا ہے۔
مگر اس کا مذہب سے تعلق گوارا نہیں۔ اگر اخلاق مذہب کے ساتھ آیا تو ہم دونوں کو
چھوڑ کر غیر اخلاقی بن جائیں گے، جیسا ہم پہلے غیر مذہبی بن چکے ہیں۔ اس خطرے کے
ماتحت کہ کہیں اخلاق کے ساتھ مذہب نہ آجائے— وجودیت جیسے مذاہب قائم کئے گئے۔
وجودیت میں اخلاقی بنیادوں پر تنقید کی گئی۔ اور کہا گیا کہ اخلاق کا سرے سے وجود
ہی نہیں ہے۔ جو کچھ میں اچھا خیال کرتا ہوں، وہ اچھا ہے۔ اور جو کچھ میں برا خیال
کرتا ہوں وہ برا ہے۔ مگر یہ ارتقائی مرحلہ ہے! اور جو لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ یہ
صورتِ حال ہمیشہ باقی رہے گی— جو تاریخ کے ایک تھوڑے سے وقفہ کو دیکھتے ہیں، جیسے
کوئی گھڑی کی چھوٹی سوئی کو چند منٹ دیکھ کر کہے کہ یہ تو حرکت ہی نہیں کرتی۔
مغربی اخلاق جس کا سرچشمہ مذہب ہی تھا۔ کچھ وقت تک اپنے اصل سرچشمہ سے جدا ہو کر
باقی رہا، اور بغیر مذہب کا نام لئے مذہب ہی کی قوت سے آگے بڑھتا رہا۔ یوروپ کافی
عرصہ تک پاکیزہ اخلاق کی بنیاد پر اپنے معاملات انجام دیتا رہا۔ ایک مغربی آدمی نہ
آپ کو دھوکہ دیتا ہے اور نہ روزانہ کے معاملات میں فریب دیتا ہے۔ وہ کوئی ایسی بات
نہیں کہتا جو اس کے دلی مقصد کے خلاف ہو۔ وہ تمہیں بیکار سامان نہیں دیتا۔ اور
وعدہ کر کے وعدہ خلافی نہیں کرتا— سوائے سیاست کے! اسلامی
دنیا میں لوگ یہ کہتے ہوئے سنائی دیتے ہیں کہ سیاست کو بحث میں نہ لاؤ، سیاست تو
دھوکہ ہے۔ البتہ یوروپ کے شخصی عمل کو دیکھو تو وہ بعینہٖ وہ ہی اخلاق ہے۔ جو تم
اسلام کی جانب منسوب کرتے ہو۔ وہاں جو کچھ ہے عملی ہے۔ ہر بچہ اس کے مطابق تربیت
پاتا ہے۔ اور معاشرہ بھی تربیت حاصل کرتا ہے۔ وہاں اس قسم کے نظریات نہیں ہیں جو
آپ اسلام کے نام سے پیش کرتے ہیں۔ وہاں وعظ و نصیحتیں نہیں ہیں۔ وہاں تو تربیتی
حقائق کارفرما ہیں۔ بچہ کی تربیت کے لئے بڑی جدوجہد کی جاتی ہے۔ گھر میں والدین،
اسکول میں اساتذہ اور خارجی دنیا میں معاشرہ بچہ کی تربیت کرتا ہے— اس طرح اس
تربیت کی بنیادیں استوار ہوتی ہیں! وہاں والدین بذاتِ خود مثال ہوتے ہیں۔ ماں باپ
بچہ کے سامنے جھوٹ نہیں۔ بولتے، اور بچہ جھوٹ کا مشاہدہ نہیں کرتا۔ تو وہ خاندان
میں موجود واقعی سچائی سے متاثر ہوتا ہے۔ اور جب وہ اسکول جاتا ہے، تو وہاں سچائی
پاتا ہے— چنانچہ بچہ بھی سچ بولنے لگتا ہے۔ اور جھوٹ سے احتراز کرتا ہے۔ یہی حال
ایمانداری کا ہے کہ نہ ماں باپ خیانت کرتے ہیں۔ نہ اسکول اور معاشرے میں خیانت نظر
آتی ہے۔ تو بچہ کے نفس میں امانت ایک واقعی حقیقت بن کر جاگزیں ہو جاتی ہے۔ یہی
حال عملی آداب کا ہے۔ غرض مغرب کی خوبیاں اس طرح ابھرتی ہیں جو اسلامی دنیا میں
موجود نہیں ہیں، ان کے پاس حقیقت ہے اور ہمارے پاس کھوکھلے مذہبی وعظ! لا دینی بنیادوں پر سب کچھ کرتے ہیں۔ اور کامیاب ہوتے ہیں، اور
ہم مذہب کے نام پر کرتے ہیں اور ناکام ہوتے ہیں! بیشک ظاہری صورت تو کچھ ایسی ہی ہے! مگر میں کہتا ہوں کہ یہ ارتقائی مراحل میں سے ایک مرحلہ ہے اور
اس کے حتمی نتائج سامنے آنے والے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ مغرب میں اخلاق کے اپنے اصل
سرچشمہ (مذہب) سے علیحدہ ہونے کے کیا نتائج رہے؟ پہلے تو سیاست کھلم کھلا غیر
اخلاقی بنیادوں پر قائم ہوئی۔ داخلی سیاست میں طبقہ حاکمہ نے تمام طبقات کے مفاد
قربان کر کے اپنے مصالح کے لئے قوانین بنائے، اور ماہرینِ سیاست اور معاشیات نے
خیال کیا کہ یہ معاشی جبریت ہے۔ حالانکہ اس کے سوا کوئی جبریت نہ تھی کہ جب سیاست
مذہب سے علیحدہ ہو گئی تو سیاست غیر اخلاقی ہو گئی۔ اور جب مسلمان صحیح مسلمان تھے
تو ان کے یہاں طبقہ حاکمہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے قانون نہیں بناتا تھا، بلکہ
حکام اجتماعی انصاف کے مذہبی قوانین نافذ کیا کرتے تھے! خارجی
سیاست میں تو مغربی سیاست تمام تر دھوکہ، فریب، خیانت، لوٹ چوری، غصب اور لوگوں کا
خون چوسنے والی ہے! ماہرینِ سیاست اور معاشیات یہ خیال کرتے ہیں کہ یہ بھی معاشی
جبریت ہے۔ حالانکہ یہ نتیجہ ہے دین و سیاست کی علیحدگی کا۔ جب مسلمان صحیح مسلمان
تھے، تو ان کی خارجی سیاست جنگ اور صلح دونوں حالتوں میں صدق اور امانت پر قائم
تھی۔ چنانچہ مسلمانوں کی عہد و میثاق کی حفاظت تاریخ میں ضرب المثل ہے۔ سر تھامس
آرنلڈ اپنی کتاب "دعوتِ اسلام" میں لکھتے ہیں: > "حضرت
ابو عبیدہؓ نے حماۃ سے متصل شہروں کے لوگوں سے جو معاہدہ کیا تھا اس میں یہ شرط طے
پاتی تھی کہ اگر ہم تمہاری حفاظت کرتے رہے تو جزیہ لیں گے۔ ورنہ نہیں لیں گے۔ مگر
جب ابو عبیدہؓ کو ہرقل کے حملے کی تیاری کی اطلاع ملی۔ تو آپؓ نے ان شہروں کے
باشندوں کو لکھ بھیجا کہ جو روپیہ ہم نے تم سے لیا تھا۔ اس کو واپس کرتے ہیں
کیونکہ ہم کو خبر پہنچی ہے کہ ایک جری لشکر ہمارے مقابلے کے لئے کوچ پر ہے۔ ہم میں
اور تم میں یہ وعدہ تھا کہ ہم تمہاری حفاظت کریں گے۔ چونکہ یہ بات اب ہماری قدرت
میں نہیں ہے۔ اس لئے جو کچھ ہم نے تم سے لیا تھا۔ واپس کرتے ہیں لیکن اگر ہم
فتحیاب ہوئے تو ہم ان شرائط کے پابند ہوں گے۔ جو از روئے عہد ہمارے مابین ہیں۔" یہ ہے اسلام! اس کے بعد مغرب میں صنفی تعلقات اخلاق سے
علیحدہ ہوئے۔ اور لوگ یہ کہنے لگے کہ یہ ارتقاء ہے! ہم پہلے بتا چکے ہیں کہ یہ
ارتقاء نہیں۔ بلکہ اختلال ہے۔ جنسی تنزل اور حیوانی اباحیت مغربی معاشرے پر کس طرح
چھا چکی ہے۔ اس کے بیان کی ضرورت نہیں جس کے لئے بیسویں صدی کے اہل مغرب کی اپنی
گواہی کافی ہے۔ جس میں وہ صنفی اخلاق کے زوال کا رونا روتے ہیں۔ یہاں تو صرف اس
ارتقاء کو بیان کرنا ہے جو مغرب میں اخلاق کو اس کے اصل سرچشمہ— مذہب— سے جدا کرنے
کے بعد رونما ہوا ہے۔ اور اس سرچشمہ سے جدا ہونے کے بعد کس طرح اخلاق میں رفتہ
رفتہ فساد پیدا ہوتا گیا! لوگوں کو جس بات سے دھوکہ ہو رہا ہے وہ یہ ہے
کہ اخلاقی فساد— جو اخلاقی مفاہیم کے مذہب سے علیحدہ ہونے کی بناء پر رونما ہوا
ہے— یہ اخلاقی فساد صرف صنفی مسائل تک محدود ہے اور اخلاق کے دوسرے پہلوؤں پر ابھی
تک اثر انداز نہیں ہوا ہے— ہم اس فساد کا نام جزئی ارتقاء رکھ لیں گے؟ اگر ہمارا باقی
اخلاق درست ہے۔ اور باہمی تعامل پاکیزہ ہے۔ اور اگر ہم اس صنفی اخلاق کے فساد کو
دور کرنے کی قدرت نہیں رکھتے تو اس کو جائز کر دینے میں کیا نقصان ہے؟ مغرب میں
مرد و زن جنسی مسائل میں اخلاقی اباحت سے دوچار ہیں۔ مگر پھر بھی وہ معاملات میں
درست ہیں۔ وہ پھر بھی خیانت نہیں کرتے، جھوٹ نہیں بولتے۔ دھوکہ نہیں دیتے۔ ان کا
ضمیر مطمئن اور وہ اپنے اعمال میں مخلص ہیں۔ تو اگر ہم بھی ان کے طریقہ پر چلیں تو
کیا نقصان ہے! اور مذہب کو اپنا کر ہمیں کیا فائدہ پہنچے گا؟! اس
موقعہ پر بیسویں صدی کی گواہی ملاحظہ فرمائیں: مغرب
کی نئی نسل میں آج اخلاق کہاں ہے؟ وہاں لوٹ مار ہے۔ چوریاں اور جرائم ہیں۔ افیون
اور بھنگ پینے کے لئے انجمنیں بنی ہوئی ہیں۔ کیا یہ ہی اخلاق ہے؟! طلاق دلوانے
والی انجمنیں ہیں۔ جو شوہروں اور بیویوں کو زنا کے واقعہ میں ملوث کرا کے پولیس سے
پکڑوا دیتے ہیں۔ تاکہ طلاق حاصل کرنے میں سہولت ہو۔ اور اس کا سبب بیان کیا
جاسکے... ان انجمنوں کو ڈاکٹروں اور وکیلوں کی خدمات حاصل ہوتی ہیں... کیا یہ ہی
اخلاق ہے؟! جنسی بے راہ روی کی خاطر ملک کے جنگی اسرار دشمنوں کے ہاتھوں فروخت کر
دیتے جاتے ہیں— کیا یہیں اخلاق ہے؟! یہ ایسے انفرادی حالات نہیں ہیں۔ جو ہر
معاشرے میں پائے جاتے ہیں۔ اور جن کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی، بلکہ یہ ایک
اجتماعی مظہر ہے۔ جس کی تحقیق کے لئے کانفرنسیں منعقد کی جاتی ہیں جو جرائم کی
بڑھتی ہوئی رفتار پر تنبیہ کرتی ہیں! مغرب کے وہ عام اخلاق جو ضرب المثل تھے— ٹرام
اور بس میں ایمانداری اور ٹکٹ لینے سے بچنے کی کوشش نہ کرنا— یوروپ کی نئی نسل اس
اخلاق سے بھی فرار حاصل کر رہی ہے اور ان امور سے بھی منکر ہے! کہتے ہیں کہ یہ جنگ کا اثر ہے!— مگر— مسلمانوں نے بڑی بڑی جنگیں
لڑیں۔ آدھی صدی تو مسلسل جنگوں میں گزری مگر اسی نصف صدی میں اخلاق نے اپنی
بنیادیں بنائیں۔ اور جہاں جہاں لشکر اسلام گیا، اخلاق بھی پھیلتا گیا! اخلاقی اباحت کی وجہ جنگ نہیں مذہب بیزاری ہے۔ اور اخلاق جب
اپنے اصل سرچشمہ سے علیحدہ ہوا تو اس کا اور کوئی سرچشمہ باقی نہیں رہا! مغرب کے لوگ ایک بہت بڑے دھوکہ میں مبتلا ہیں۔ اگر وہ یہ سمجھتے
ہیں کہ وہ مذہب سے دور رہ کر کامیاب ہو سکتے اور اخلاق پر قائم رہ سکتے ہیں! یہ
تغیر کا ایک ایسا مرحلہ ہے۔ جس پر ٹھہرا نہیں جا سکتا— جس طرح کسی پہاڑ کی ڈھلوان
پر کوئی شخص نہیں ٹھہر سکتا! اخلاقی فساد سیاست سے شروع ہوا۔ پھر جنس میں
آیا۔ اور پھر تمام اخلاق میں سرایت کر گیا۔ یہ ایک حتمی نتیجہ! ہے کیونکہ یہ اللہ
کی سنت ہے اور کائنات میں اللہ کی سنت ہی جبریت ہے۔ قوت و طاقت، ترقی اور ارتفاع
کے وہ سارے مظاہر— جن کو دیکھ کر مغرب اور مشرقی سب جگہ لوگ فریب کھا رہے ہیں۔ اور
سمجھ رہے ہیں کہ وہ اللہ کے قانون سے علیحدہ ہو کر کامیاب زندگی گزار سکتے ہیں— یہ
مظاہر فریب سے زیادہ کچھ نہیں ہیں۔ کینیڈی اور خروشچیف کے بیانات آپ کی نظر سے گزر
چکے ہیں۔ یہ دونوں لیڈر امریکہ اور روس کے مستقبل سے خائف ہیں۔ ان کے اقوال تمسخر
آمیز نہیں بلکہ ایک ایسی حقیقت ہیں جو وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں اور جو
حقیقت فریبی مصنفین، ترقی پسندوں اور ارتقاء پرستوں کی نظروں سے اوجھل ہے۔ مغرب کی
ساری عظیم قوت صرف اس وجہ سے ہے کہ اس کے پاس ابھی تک اخلاق کا وہ تھوڑا سا حصہ
باقی ہے جس کا سرچشمہ کبھی مذہب ہی تھا۔ مگر جب اخلاق مذہب سے جدا ہو گیا تو رفتہ
رفتہ زوال پذیر ہوتا گیا۔ اور یہ زوال خطرناک حدوں تک پہنچ گیا تو کینیڈی اور
خروشچیف کو بھی لب کشائی کرنا پڑی۔ یہ خیال نہیں کرنا چاہئے کہ اب مغرب چند دنوں
اور سالوں میں ختم ہو جائے گا! قوموں کی عمروں کا حساب دنوں اور سالوں سے نہیں ہوا
کرتا۔ بلکہ نسلوں سے ہوا کرتا ہے— مگر ان نسلوں سے یہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ خطِ
رفتار ترقی پذیر ہے— یا تنزل پذیر! بیسویں صدی کی گواہی ہمیں اس سوال کا جواب
دیتی ہے۔ یہ پوری وضاحت سے بتاتی ہے کہ موجودہ نسل تنزل کی جانب رواں ہے! بغیر مذہب کے اخلاقی پاکیزگی کا کوئی وجود نہیں ہے— یہ جو کچھ
آپ مغرب میں دیکھ رہے ہیں۔ یہ تو تنزل کا ایک مرحلہ ہے۔ اس کے بعد کا مرحلہ مکمل
اخلاقی گندگی اور نجاست کا مرحلہ ہے۔ قوموں کا زوال بڑا سست رفتار ہوتا ہے۔ اور وہ
کئی کئی نسلوں میں جا کر زوال پذیر ہوتی ہیں اور مغرب تنزل کی راہ پر لگ چکا ہے
اور خود اہل مغرب اس کی گواہی دے چکے ہیں! رہ
گئے ہم— تو ہم مسلمان نہیں ہیں! ہم تو نام کے مسلمان ہیں۔ یا ہمیں مسلمان اس لئے
کہا جاتا ہے کہ ہم اس سرزمین میں رہتے ہیں جہاں کبھی مسلمان رہا کرتے تھے؟! ہمیں اسلام سے کیا واسطہ!؟ ہماری زندگی کے کون سے پہلو پر اسلام
کی حکمرانی ہے؟! اسلام نہ ہماری واقعاتی زندگی پر حکمران ہے۔ اور نہ ہی ہماری
انفرادی زندگی اسلام کے زیر اثر ہے۔ تو ہم مسلمان کیسے ہو سکتے ہیں!؟ میں نے اپنی
کتاب "کیا ہم مسلمان ہیں؟" میں اسلام سے دور ہونے اور اس سے بغاوت کو
بیان کیا ہے۔ یہاں پر اس کا اعادہ غیر ضروری ہے۔ مگر یہ ضرور کہوں گا کہ ہر شخص
اپنے دل سے پوچھے کہ اس کی زندگی کے کون سے پہلو پر اسلام کی حکمرانی ہے!؟ یہ جو
عبادات— صوم و صلوٰۃ اور حج کی شکل میں اسلامی عقیدے کے باقی ماندہ آثار ہیں— یہ
ہرگز اسلام نہیں ہیں! > لَيْسَ الْبِرَّ
أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَكِنَّ الْبِرَّ
مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالْكِتَابِ
وَالنَّبِيِّينَ وَآتَى الْمَالَ عَلَى حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى
وَالْمَسَاكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّائِلِينَ وَفِي الرِّقَابِ وَأَقَامَ
الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَاهَدُوا
وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ أُولَئِكَ
الَّذِينَ صَدَقُوا وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ (البقرہ: ١٧٧) (ترجمہ: نیکی
(صرف) یہ نہیں ہے کہ تم اپنا منہ مشرق کی جانب کر لو یا مغرب کی جانب، مگر نیکی یہ
ہے کہ کوئی شخص اللہ پر یقین رکھے، قیامت کے دن پر، اور فرشتوں پر، اور (اللہ کی)
کتاب پر، اور نبیوں پر، اور مال دیتا ہو اللہ کی محبت میں رشتہ داروں کو، یتیموں
کو، اور محتاجوں کو، اور مسافروں کو، اور سوال کرنے والوں کو، اور گردنیں چھڑانے
میں، اور نماز کی پابندی کرتا ہو، اور زکوٰۃ بھی ادا کرتا ہو۔ اور جو اپنے عہد کو
پورا کرتے ہوں جب وہ عہد کر لیں، مستقل رہنے والے ہوں تنگ دستی میں، اور بیماری
میں، اور قتال میں، یہ لوگ ہیں جو سچے ہیں اور یہی لوگ متقی ہیں۔) > > فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا
شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَيْتَ
وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا (النساء: ٦٥) (ترجمہ: پھر قسم ہے آپ کے رب کی! یہ لوگ
ایماندار نہ ہوں گے۔ جب تک یہ بات نہ ہو کہ آپس میں جو جھگڑا واقع ہو۔ اس میں یہ
لوگ آپ سے تصفیہ کرا دیں اور (پھر جو فیصلہ آپ کریں اس پر اپنے دلوں میں) کوئی
تنگی نہ پائیں اور پورا پورا تسلیم کرلیں۔) اسلام
تو یہ ہے کہ ہم ہر لمحہ اور ہر عمل میں مسلمان ہوں، ہمارے معاشرے، اور زندگی کے
مسائل، انفرادی معاملات اور شخصی عمل سب اسلام کے زیرِ اثر ہوں۔ اور اس کی رہنمائی
میں انجام دیتے جائیں! اور اگر ایسا نہیں ہے تو ہم مسلمان نہیں ہیں۔ اسلام تو یہ
ہے کہ ہمارا اخلاق اور ہمارا عمل، ہمارا معاشرہ اور ہماری واقعی زندگی، ہماری
معیشت اور ہماری سیاست سب اسلام سے ہدایت حاصل کریں! اور اگر ایسا نہیں ہے۔ تو ہم
مسلمان نہیں ہیں!
ہم کمزور و پسماندہ ہیں۔ ہم جھوٹے اور منافق ہیں،۔ ہم دھوکہ باز
اور خائن ہیں، مگر اس وجہ سے کہ ہم مسلمان نہیں ہیں۔ کیونکہ جب ہم مسلمان تھے تو
ہمارے اخلاق اور واقعی زندگی میں ان خرابیوں میں سے کوئی خرابی نہ تھی۔ جب ہم
مسلمان تھے تو ہمارا اخلاق صرف مذہبی وعظ نہ تھا۔ بلکہ اسلام کے زیرِ سایہ ایک
مکمل تربیتی نظام تھا۔ ایسا نظام جس میں بچہ پیدا ہوتے ہی والدین کو اپنے سامنے
بطورِ مثال پاتا۔ اور پھر اسے معاشرے میں اخلاق اپنی واقعی اور عملی صورت میں نظر
آتا۔ مگر اب اسلام سے انحراف کو ایک طویل عرصہ گزر چکا ہے! میں یہاں نہ اسلام کی
مدافعت کر رہا ہوں اور نہ مغرب کی! ایک یا دو جنگوں نے مغربی معاشرے میں ہر طرف
فساد برپا کر دیا۔ حتیٰ کہ ان کا مایہ ناز انفرادی اخلاق بھی ختم ہو گیا! مگر
اسلامی دنیا پر تو صدہا مصائب ٹوٹے ہیں۔ یہودی— تاتاری— صلیبی— سامراجی— مشنری— مستشرقین— مشنریوں اور مستشرقین کے مسلمان شاگرد—
ظالم حکمراں اور—
خارجی دشمن— اور
ان تمام مصائب کے باوجود بھی اسلامی دنیا ایک ہزار برس تک اپنا شیرازہ منتشر ہونے
سے بچاتی رہی۔ پھر بالآخر زوال پذیر ہو گئی! جو کچھ آج ہمارے پاس موجود ہے۔ بغیر
پاکیزگی کے مذہب نہیں ہے بلکہ صرف لامذہبیت ہے! کیونکہ ہم مذہب کی ہر فکر سے منحرف
اور اسلام کے ہر قوت دینے والے عنصر سے بیگانہ ہو چکے ہیں! ان
سب باتوں کے باوجود ہمارے انحراف اور مغرب کے انحراف میں ایک بنیادی فرق موجود ہے! # آپ کا انحراف
اور ہمارا انحراف مغرب بھی انحراف سے دوچار ہے— اور ہم بھی!
اور ہمارے انحراف کو کئی نسلیں گزر چکی ہیں! بیشک
ہماری حالت مغرب سے بدتر ہے کیونکہ وہ کچھ نہ کچھ خوبیاں رکھتے ہیں اگرچہ دوسری
جنگِ عظیم کے بعد یہ خوبیاں بھی زوال پذیر ہو چکی ہیں۔ مگر ابھی پوری پوری ختم
نہیں ہوئیں۔ ان کے انفرادی معاملات میں استقامت، صدق، دھوکہ دہی اور فریب سے گریز
جیسی خوبیاں موجود ہیں۔ خاص طور پر عامل اور ملازم پورے خلوص و محبت سے آٹھ آٹھ
گھنٹے کام کرتے ہیں۔ (اس معیار میں تقریباً ایک گھنٹہ آرام کا ہوتا ہے)۔ نہ وہ
دورانِ عمل باتیں کرتے ہیں، نہ اِدھر اُدھر کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے
مغرب کو وہ مادی، علمی اور تنظیمی قوت و طاقت حاصل ہے، جو آپ دیکھ رہے ہیں۔ مگر
ہم؟— ہمارے پاس سرے سے کوئی خوبی ہی نہیں ہے۔ ہمارے پاس نہ کوئی اصل اسلامی خوبی
ہے۔ اور نہ اس مغرب کی کوئی خوبی ہے جس کی ہم بندروں کی طرح نقل اتارتے، اور
غلاموں کی طرح اس کو اپنانے کے لئے لپکتے ہیں! نہ ہم اپنے انفرادی معاملات میں
سچائی، خلوص، وعدے اور نظم کی استقامت سے کام لیتے ہیں۔ اور نہ ہماری قومی تنظیمات
ایسی ہیں کہ بغیر حکومت کے جبر کے کام کرتی رہیں۔ بلکہ جوں ہی ان پر گرفت ڈھیلی
ہوتی ہے، ان کا شیرازہ بکھر جاتا ہے۔ عمل اور پیداوار میں بھی ہمارا حال، انفرادی
معاملات اور تنظیمات جیسا ہے۔ کہ نہ صدق اور خلوص ہے اور نہ پیداواری عمل پر صبر—
اسی لئے ہم جدید دنیا کی دوڑ میں سب سے پیچھے ہیں۔ مگر اس کے باوجود ہمارے انحراف
سے زیادہ مغرب کا انحراف خطرناک اور گمراہ کن ہے! ابتداء
آپ اس حقیقت کو تسلیم نہیں کریں گے! کیونکہ صلیبی سامراج نے گذشتہ صدی میں یہ بات
اچھی طرح ہمارے ذہنوں میں بٹھا دی ہے کہ یوروپ کی عظمت ناقابلِ شکست ہے۔ باطل کا
اس کے آس پاس کہیں گزر بھی نہیں۔ جو کچھ یوروپ میں ہوتا ہے۔ وہ درست اور صحیح ہے۔
اور جو بات وہاں سے آتی ہے۔ وہ خیر و خوبی کی حامل ہے۔ اسی ذہن کی وجہ سے ہم اندھی
تقلید کرتے چلے گئے جس طرح بندر نقل اتارتے ہیں۔ اور غلام اپنے آقاؤں کی باتیں
اپنانے کے لئے لپکتے ہیں۔ چنانچہ ہم اخلاقی انحلال، بیکار سی بدعتوں، فیشن ہارسوں
اور افکار میں تو ان کی تقلید کی۔ مگر ہم نے عمل اور تنظیم میں سبقت کرنے میں ان
کی تقلید نہیں کی۔ کیونکہ غلام اپنے آقاؤں کی ان امور میں تقلید نہیں کرتے۔ جن میں
کچھ ہمت اور محنت کرنی پڑے! وہ تو بس ایسی ظاہری باتوں کی طرف لپکتے ہیں۔ جو ان کے
مناسبِ حال ہوں!
جب نئی نسل آئی۔ تو ہم نے اسے یہ بتانا شروع کیا کہ ہم سامراج
سے آزاد ہو گئے اور اب ہم خود اپنے حکمراں ہو گئے۔ فی الواقع اس نسل کو، قوت و
اقتدار کی کچھ ظاہری باتیں میسر بھی آگئیں۔ مگر اس نسل نے یہ بھی دیکھا کہ ہم بلا
تمیز مغربی وسائلِ زندگی اپنا رہے ہیں۔ اور بغیر فرق اپنے قومی عناصر سے دست بردار
ہو رہے ہیں۔ ہم اپنے مقدسات اس لئے چھوڑ رہے ہیں تاکہ ہم ترقی پسند کہلائیں۔ گویا
ہم حصولِ اقتدار کے لئے مغرب سے لڑ بھی رہے تھے اور مغرب کے ذہنی غلام بھی بنتے جا
رہے تھے۔ ہم مغرب سے آزادی بھی حاصل کرنا چاہ رہے تھے اور اس کے حلقہ اثر میں بھی
جانا چاہتے تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہم کوئی مقصد حاصل نہ کر سکے۔ نہ یہ کہ ہم مادی،
علمی اور تنظیمی قوت میں مغرب جیسے ہو جائیں۔ کیونکہ ہم تو مذہب، اخلاق اور روایات
کو ختم کرنے میں لگے ہوئے تھے اور ہمارے نوجوان، سینما، ٹیلی ویژن اور جنسی
افسانوں میں اپنی قوتیں ضائع کر رہے تھے۔ اس لئے موجودہ نسل اور اس سے پہلی نسل اس
حقیقت کو تسلیم نہیں کر سکتی کہ ہمارے کمزور اور مغرب کے طاقتور ہونے کے باوجود
مغرب کا انحراف سے زیادہ خطرناک ہے! ہماری زندگی بھی اور مغرب کی زندگی بھی منحرف
بنیادوں پر قائم ہے! مگر فرق ہمارے انحراف اور مغرب کے انحراف میں یہ ہے کہ ان کے
پاس اس انحراف کو درست کرنے کے لئے کوئی بنیاد موجود نہیں ہے اور ہمارے پاس یہ
بنیاد موجود ہے؟ ہم قوت، ترقی، حقیقی انسانی تہذیب، رفعت اور بلندی کی سلیم اساس
رکھتے ہیں۔ مگر ہمارا عیب یہ ہے کہ ہم اپنی زندگی اور اپنی تہذیب کو اس سلیم اساس
پر قائم نہیں کرتے— یہی ہماری پسماندگی، کمزوری اور انحراف کا راز ہے۔ اس کے
برخلاف مغرب کے پاس سرے سے کوئی ایسی بنیاد ہی موجود نہیں جس کے مطابق وہ اپنا
انحراف درست کر سکے۔ مغربی تہذیب ہی کھوٹ دار ہے۔ اس منحرف تہذیب میں جس قدر آگے
جایا جائے گا، انحراف میں اضافہ ہی ہو گا۔ بلکہ ان منحرف خطوط پر چل کر جس قدر بھی
قوت و طاقت حاصل ہو گی— وہ تنزل میں اضافہ کرے گی۔ > "ہم
بھی بڑے بدنصیب ہیں۔ کیونکہ ہم اخلاقی اور عقلی طور پر زوال پذیر ہیں۔ وہ جماعتیں
اور قومیں جو صنعتی تہذیب میں بے پناہ ترقی کر چکی ہیں— وہ ہی قومیں کمزور ہوتی جا
رہی ہیں۔ اور دوسری قوموں کی بہ نسبت زیادہ جلدی بربریت اختیار کر لیں گی"—
مگر وہ اس حقیقت کو نظر انداز کئے ہوتے ہیں (ایلکسس کارل)۔ مغربی تہذیب ہی منحرف
ہے۔ وہاں پر لوگوں میں فساد اس لئے نہیں ہے کہ وہ مغربی تہذیب کے اصل خطوط سے ہٹ
گئے ہیں۔ بلکہ سارا فساد اس وجہ سے ہے کہ وہ پوری طرح اپنے تہذیبی خطوط پر چل رہے
ہیں۔ اور بڑے خلوص اور صدقِ دل سے ان خطوط کی اتباع کر رہے ہیں! ہم مسلمانوں میں تو ساری کمزوری اور پسماندگی اسلام سے انحراف
کی بناء پر رونما ہوئی۔ مگر مغرب نے اپنی تہذیب وحی سے انحراف نہیں کیا— بلکہ پوری
سچائی سے اس پر چلے۔ اور یہی روش ان کے انحرافات اور بربریت اور تباہی کا سبب بن
گئی! (جیسا کہ ایلکسس کارل کہتا ہے)۔ اہلِ مغرب کا سب سے بڑا انحراف یہ ہے کہ
انھیں اپنی تہذیب میں موجود انحرافات کا علم نہیں ہے! مغربی
تہذیب قدیم یونانی اور رومی تہذیب کی بنیاد پر قائم ہے اور اس کے بعینہٖ وہی مقاصد
اور وہی اسپرٹ ہے جو یونان و روما کی تہذیب کی تھی۔ مغربی تہذیب نے یونانی تہذیب
سے بالخصوص تجریدی افکار اور رومی افکار سے تنظیم، عملی قوانین اور آسائشات کی
تلاش کے طریقے حاصل کئے۔ اور مغربی تہذیب نے اسلامی دنیا سے علم میں تجربی اسکول
اخذ کیا جس پر تمام جدید علمی تحریک قائم ہوئی۔ اس طرح مغرب نے مسلمانوں سے اور
سبھی بہت سے افکار لئے۔ مگر ان سب پر یونانی اور رومی وحشت غالب آگئی۔ کیونکہ
مغربی تہذیب بنیادی طور پر کلیسا دشمن اور مذہب بیزار تھی! یہیں
سے انحرافات رونما ہوا۔ اور انحراف بڑھتا ہی چلا گیا! اس تہذیب نے ارض و سما کے ہر
تعلق کو منقطع اور انسانی وجود کے دونوں پہلوؤں کو علیحدہ علیحدہ کر کے ایک پہلو
کو پوری طرح کچل دیا۔ اور ایک کو ہر طرح ترقی اور نما دی! یہ
اس تہذیب کی اولین لغزش ہے۔ جس کے بعد پے در پے لغزشیں ہوتی چلی گئیں۔ نفسِ انسانی
ایک وحدت، اور آسمان و زمین ایک وحدت ہیں۔ انسانی احساسات میں آسمان کو زمین سے
جدا کر دینا اور روحانی پہلو کو مادی پہلو سے علیحدہ کرنا۔ اپنے حتمی نتائج کا
حامل ہے۔ انسانوں کے دونوں پہلو اگر علیحدہ کر دیئے جائیں۔ پھر ایک پہلو کو کچلا
جائے اور ایک کو زیادہ نما دیا جائے۔ تو دونوں ہی پہلو مضمحل ہو جاتے ہیں۔ یہی وہ
مفہوم ہے جس کو ایلکسس کارل ثابت کرنا چاہتا ہے۔ اور اپنی کتابوں میں اس حقیقت کے
لئے مختلف علمی دلائل پیش کرتے ہیں۔ مغربی تہذیب نے اللہ اور انسان کا رشتہ منقطع
کر دیا۔ پھر علمی ترقی ہوئی اور زندگی کی بہترین اور ترقی یافتہ تنظیمات تشکیل کی
گئیں۔ جس سے لوگوں کو یہ خیال ہوا کہ یہ ساری ترقی مذہب اور زندگی کی علیحدگی کا
نتیجہ ہے یا یہ وہم حالات کا پیدا کردہ تھا۔ ورنہ فی الحقیقت علمی ترقی اور زندگی
کی تنظیم مذہب دشمن نہیں ہیں۔ ہو سکتا ہے علم اور زندگی مذہب کے کلیسائی مفہوم اور
اہل مذہب اور کلیسائی کے دشمن ہوں۔ مگر حقیقی مذہب اور اللہ کے دین کے ہرگز دشمن
نہیں ہیں۔ اللہ کا دین انسانیت کی ترقی کا راستہ نہیں روکتا۔ بلکہ اللہ کا دین تو آیا
ہی انسانیت کی صلاح اور فلاح کے لئے۔ اس دعوے کی دلیل اسلام ہے۔ تاریخ کی عظیم
علمی تحریک جس سے تجربی اسکول اور یوروپ کی جدید سائنس ابھری ہے۔ اسلام ہی کے زیرِ
سایہ پروان چڑھی تھی۔ اور اسلام کی زیرِ ہدایت آگے بڑھی تھی! اسلام سے پہلے عرب
اہل علم نہ تھے اور مسلمانوں نے جو علوم یونانیوں سے اخذ کئے تھے۔ ان کا بھی مزاج
تجرباتی نہیں تھا، جیسا کہ بریولٹ اور ڈریپر کہتے ہیں، اور وہ نشاۃ کا مواد بننے
کی صلاحیت نہ رکھتے تھے۔ اسلام ہی نے یونانی علوم کو نظری سے عملی علوم میں تبدیل
کیا۔ اور اس زمانہ کے لحاظ سے ان کی عملی تحریک نے حد درجہ ترقی کی۔ مسلمانوں نے
جو تنظیمات گذشتہ تہذیبی سرمایہ سے اخذ کیں۔ ان کو اسلام کے غیر متغیر اصولوں کے
تحت پروان چڑھایا، اور ان میں روحِ اسلام کو ملا کر انھیں ترقی دی۔ چنانچہ مذہب
اور تنظیم میں کوئی کشیدگی رونما نہیں ہوتی۔ بلکہ حضرت عمر بن الخطابؓ نے اپنی
بھرپور اسلامی روح کے ساتھ رجسٹر مرتب کرائے۔ اس لئے مغرب کا یہ خیالِ خام کہ علمی
ترقی اور تہذیبی تنظیم، مذہب اور زندگی کی علیحدگی کا نتیجہ ہیں — اس غلط خیال نے
ان کے اپنے حالات کی بناء پر جنم لیا ہے اور یہ کوئی انسانی حقیقت نہیں ہے! مگر اس سے زیادہ مغربی تہذیب نے جو انسانیت پر ظلم کیا ہے۔ وہ
خود انسان کی شکل مسخ کر دیتا ہے! اس مسخ میں انسان کے فکری اور مادی پہلوؤں کو
پورا پورا نشوونما دیا گیا۔ مگر روحانی پہلو کو قطعاً مضمحل چھوڑ دیا گیا۔ چنانچہ
انسانی وجود انتہائی بدنما، قابلِ نفرت اور پرہول بن گیا۔ اور اس کا وجود ہی ہلاکت
و تباہی کا باعث بن گیا! اس مسخ شدہ انسان میں معرفت کے ذہنی اور حسی
راستے تو کھلے رہے۔ مگر روحانی راستہ کو کلی طور پر بند کر دیا گیا۔ اگر انسان کو
ہم تھوڑی دیر کے لئے ایک بڑی اور پُررنگ مشین سے تشبیہ دیں۔ تو انسان کے تمام
راستوں سے روشنی آنی چاہئے۔ تاکہ انسان خاص انسانی طریقہ پر تمثیلِ نوری کر سکے!
اگر اس کے کسی پرزے میں خلل اور اس کی روشنی میں نقص رونما ہو گا تو اس کے نتائج
بھی ناقص ہوں گے۔ اور اس سے خطرناک زہریلے اور انسانیت کے لئے تباہ کن مرکبات پیدا
ہوں گے!
یہ مسخ شدہ انسان جو صرف مشاہدہ اور زمینی مدرکات پر ایمان
رکھتا ہے۔ اسے زندگی کا صرف ایک رخ نظر آتا ہے۔ اور زندگی کا دوسرا رخ اس کی نظر
میں تاریک ہو جاتا ہے۔ اس صورتحال سے اس کے ادراک اور عمل پر اہم اثرات مرتب ہوتے
ہیں وہ اشیاء کا ناقص ادراک کرتا ہے اور اس کے احساسات میں ایک بدنما صورت جنم لے
لیتی ہے۔ جس کی زیرِ ہدایت وہ اپنی زندگی گزارتا— اور قدم قدم پر ٹھوکریں کھاتا! ہمیں یہاں بیسویں صدی کی گواہی نقل کرنے کی ضرورت نہیں ہے، مگر
مرض کی تشخیص چاہتے ہیں اور علاج کی جستجو ہے۔ جب انسانی روح کائنات اور زندگی کی
حقیقت سے غافل ہو جاتی ہے اور اسے صرف ظاہری اور حسی پہلو نظر آتا ہے تو انسانی
وجود کا داخلی توازن مختل ہو جاتا ہے جس طرح نظامِ شمسی سے اگر کوئی کشش رکھنے
والا عنصر علیحدہ ہو جائے تو پورا نظام مختل ہو جاتا ہے۔ اس دور میں انسان کا
توازن فی الواقع مختل ہو چکا ہے۔ ارضی کشش نے اسے پوری طرح اپنی جانب کھینچ لیا۔
اور آسمانی کشش منقطع ہو گئی۔ اپنے خالق سے وابستگی، اور اس سے حصولِ نور کے لئے
روحانی نشاط اور اس روح کا روحِ کائنات کے ساتھ محبت اور تعاون کا رشتہ، اور
انسانیت سے اخوت کا تعلق اللہ تعالیٰ نے یوں ہی بے مقصد نہیں پیدا کر دیا ہے۔ اللہ
تعالیٰ کی ذات عبث اور بے مقصد امور سے پاک ہے۔ > وَمَا
خَلَقْنَا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا لَاعِبِينَ (الدخان: ٣٨)
(ترجمہ: اور ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے۔ اس کو اس طور
پر نہیں بنایا کہ ہم کھیلا کرنے والے ہوں۔) > > أَفَحَسِبْتُمْ
أَنَّمَا خَلَقْنَاكُمْ عَبَثًا وَأَنَّكُمْ إِلَيْنَا لَا تُرْجَعُونَ (المؤمنون:
١١٥) (ترجمہ: ہاں تو کیا تم نے یہ خیال کیا تھا کہ ہم نے تم کو یوں ہی مہمل پیدا
کر دیا ہے اور یہ کہ تم ہماری طرف لوٹ کر نہ آؤ گے؟) اللہ
تعالیٰ نے انسان میں روحانی پہلو اس لئے پیدا فرمایا تاکہ انسان کی ارضی کشش میں
توازن پیدا ہو جائے۔ اور اس کی شدت کمتر ہو کر معتدل ہو جائے۔ جب مغرب میں انسان
اور اللہ کا رشتہ ٹوٹ گیا۔ اور مذہب و زندگی جدا جدا ہو گئے۔ تو انسان بلا ہدایت
دنیا کی لذتوں، آسائشات اور حصولِ قوت میں منہمک ہو گیا۔ آج مغربی زندگی جن شعلوں
کی لپیٹ میں ہے۔ وہ انسان اور اللہ کا تعلق منقطع ہونے اور مذہب زندگی کی علیحدگی
کا نتیجہ ہے۔ یہ مغربی تہذیب کے اصولوں سے انحراف نہیں ہے۔ بلکہ مغربی تہذیب تو
اپنے انتہائی عروج پر ہے— اور جب بنیاد ہی ایسی ہو تو کیوں کر بچا جا سکتا ہے۔ کچھ
خوش عقیدہ لوگ ایسے بھی ہیں کہ وہ مغربی تہذیب کو مغربی اصولوں کے مطابق اپنا کر
اس کے انحرافات اور نقصانات سے اپنے آپ کو بچالیں گے۔ یہ لوگ بہت ہی خوش فہم اور
گمراہ ہیں۔ جو ایک ناممکن اور فطرتِ اشیاء کے برخلاف بات سوچ رہے ہیں۔ مغربی زندگی
جن شعلوں کی لپیٹ میں ہے۔ وہ ہر شے میں انتہا پسندی سے ظاہر ہے۔ مادیت اور آلائش
میں انتہا پسندی، وحشیانہ کشمکش میں انتہا پسندی، جنسی لذتوں میں انتہا پسندی اور
طاقت کے حصول میں انتہا پسندی— یہ اختلال مغربی زندگی میں اس لئے رونما نہیں ہوا
کہ لوگوں نے مغربی تہذیب کے اصولوں کی خلاف ورزی کی۔ بلکہ یہ اختلال تو اس تہذیب
کا مزاج اور اس کو اپنانے کا حتمی نتیجہ ہے۔ یہ تو انسان کے روحانی پہلو کو کچل
دینے کا لازمی نتیجہ ہے۔ مغرب نے حقیقتِ روح کا خوب خوب مذاق اڑایا ہے۔ تاریخ کی
مادی تعبیر نے روح کو مضحکہ خیز بنایا۔ مادیت صرف اشتراکی فلسفہ نہیں ہے۔ بلکہ
سرمایہ دار مغرب بھی اسی کے زیرِ اثر ہے، جنسی تعبیر اور اجتماعی تعبیر نے روح کا
مذاق اڑایا۔ مصنفین، ماہرین، صحافی اور فنکاروں نے روح کا تمسخر کیا۔ یا یہ کہیے
کہ وہ حقیقتِ روح سے غافل رہے۔ اور اس کا نتیجہ یہ مجنونانہ انحراف ہے۔ جب انسان
اللہ اور آخرت پر ایمان نہیں رکھتا یا پکا اور سچا ایمان نہیں ہوتا جو اس کے عمل،
شاعر اور عملی زندگی پر حکمران ہو۔ تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ صرف
ارضی دنیا پر نظر رکھتا ہے اور دنیاوی قوتوں کی عبادت کرنے لگتا ہے۔ حکومت کی
عبادت، معاشرے کی عبادت، مادہ کی عبادت، اپنی ذات کی عبادت اور شیطان کی عبادت۔
پھر انسان دنیاوی لذات پر ٹوٹ پڑتا ہے اور حصولِ لذت کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے
نہیں دیتا۔ یہ مجنونانہ مسابقت جو انسانیت کو تباہ کر رہی ہے۔ یہ مغربی تہذیب میں
کوئی عارضی امر نہیں ہے۔ جس کی اصلاح کی جائے۔ یہ تو اس تہذیب کا مزاج اور اس کا
لازمی نتیجہ ہے۔ مغرب کا سرمایہ دار فرد دولت کے جمع کرنے اور اس کے ذریعہ اقتدار
حاصل کرنے میں مسابقت کر رہا ہے۔ اور سرمایہ کاری کے نتیجہ میں جو استحصال، لوگوں
کا خون چوسنا، سامراج اور سرکشی پیدا ہو رہی ہے۔ یہ مغربی تہذیب کا معاشی خلل نہیں
ہے بلکہ بلکہ یہ تو نتیجہ ہے پوری طرح دنیا میں منہمک ہونے اور اللہ کی ہدایت سے
دور رہنے کا۔ اشتراکی حکومتیں جو دولت جمع کرنے اور اس کے ذریعہ طاقت کا ارتکازِ
کامل کرنے میں مسابقت کر رہی ہیں۔ اور پھر اس مسابقت سے جو لوگ حکومت کے غلام بن جاتے
اور اس کے سامنے ذلیل ہو جاتے ہیں۔ اور حکومت ان کی آدمیت چھین کر ان کو مشین بنا
دیتی ہے۔ یہ صرف سرمایہ داری کے مقابل ایک اختلال نہیں ہے، بلکہ یہ بھی سرمایہ
داری کی طرح کائنات، زندگی اور انسان کے تصور میں اختلال ہے۔ یہ اختلال پوری طرح
دنیا میں منہمک ہو جانے اور اللہ کی ہدایت سے غافل ہونے کا نتیجہ ہے۔ طاقت کے
میدان میں مشرق و مغرب کی یہ ہلاکت خیز مسابقت صرف عارضی اور سیاسی اختلال نہیں
ہے۔ بلکہ یہ تو ان بنیادی اقدار کا اختلال ہے جو انسانی زندگی کو منضبط کرتی ہیں۔
جنسی مسابقت— تو بہرحال بیان سے باہر ہے! یہ
تمام اختلال ہیں! اور ان کے رونما ہونے میں یوروپ کے اپنے داخلی حالات کا اثر ہے۔
مگر ابتداء یہ مذہب و زندگی کے علیحدہ ہونے کی وجہ سے ابھرے ہیں۔ مذہب و زندگی کی
علیحدگی ہی نے یہودیوں کو یہ موقع فراہم کیا کہ وہ میدان میں آئیں اور مسیحیت کو
تباہ کریں اور تمام غیر یہودیوں کی ہلاکت کا انتظام کریں! اسی
علیحدگی کی بناء پر صنعتی انقلاب خالص مادیت لئے ہوئے آیا۔ اور اس نے اخلاق و
انسانیت کے ہر اصول کو نظر انداز کر دیا۔ اسی علیحدگی نے عورت کو اپنے فطری عمل سے
بیزار کر کے بازاروں اور کارخانوں میں لاکھڑا کیا— تاکہ وہ اپنے فریب اور گمراہی
سے زندگی کی باقی ماندہ رفعت بھی ختم کر دے اور انسانیت کو جنس کی گندگیوں میں
دھکیل دے۔ اسی علیحدگی نے علم کو بُرائی کے راستے پر لگا دیا۔ (انسانیت کی ان
خدمات کے علاوہ جو علم نے انجام دی ہیں)۔ اور علم نے قوموں اور افراد میں فساد
پیدا کر دیا— اور— اسی علیحدگی نے انسان کی شکل مسخ کر دی ہے— اب سارا نظامِ
تربیت، نظامِ سیاست، نظامِ معیشت، نظامِ معاشرت اور فنون— اس مسخ شدہ صورت کو غذا
دے رہے ہیں!
غرض مذہب و زندگی کی علیحدگی نے مغربی زندگی میں تمام فسادات
پھیلا دیئے ہیں!
یہ ایک خطرناک فساد ہے۔ کیونکہ اس کی اصلاح اور علاج کی کوئی
سبیل نہیں۔ مغربی تہذیب میں اشیاء کی صحت کا کوئی مقیاس ہی نہیں ہے۔ اگر مغربی
تہذیب میں صالح انسان مقیاس ہوتے، پھر لوگ ان سے منحرف ہو جاتے، تو یہ ممکن تھا کہ
لوگ دوبارہ ان صحیح مقیاس کو اختیار کر لیں اور اپنے فساد کی اصلاح کر لیں۔ مگر اس
تہذیب کے صحیح مقیاس کیا ہیں؟ مغربی تہذیب نے انسانی حقوق، آزادی، اخوت، مساوات،
انسانی شرافت، انسانی رفعت اور انسانی عظمت کے بارے میں بڑے بلند بانگ دعوے کئے—
اور ان دعوؤں کو بروئے کار لانے کے لئے پورے خلوص کے ساتھ اپنے تہذیبی خطوط پر
گامزن ہو گئی!— چنانچہ— مغربی تہذیب نے انسان کو حیوان بنا دیا۔ اس کا اللہ سے
رشتہ منقطع کر دیا۔ مذہب و زندگی کو علیحدہ علیحدہ کر دیا۔ مادہ کو روح سے جدا
کیا، اور دنیا کو آخرت سے منقطع کر دیا۔ اور نتیجہ وہ ہی ہوا۔ جو ہونا چاہئے تھا۔
سارے انسانی حقوق، حریت، اخوت، مساوات، انسانی شرافت، رفعت اور عظمت— ایک ایسی
بھیانک صورت میں بدل گئے۔ جس کا ایک پہلو ہم نے بیسویں صدی کی گواہی میں دیکھا—
ایک پہلو ہیروشیما اور ناگاساکی میں نظر آیا۔ امریکہ اور افریقہ کا نسلی امتیاز
دیکھا— غرض کوئی نہ کوئی پہلو اس کا ہر جگہ موجود ہے! لوگ
مغربی تہذیب کے اصولوں سے منحرف نہیں ہوئے— بلکہ بڑے خلوص سے اس تہذیب پر چلے اور
اس نے انھیں تباہ کر دیا۔ خوش فہم حضرات جو مغرب تہذیب کا روشن رخ اور مغرب کی
باقی ماندہ خوبیاں دیکھ رہے ہیں۔ انھیں چاہئے کہ وہ اس تہذیب کے کالک بھرے چہرے کو
بھی دیکھ لیں— اور اس کے بعد ایلکسس کارل کے اس قول پر بھی غور کر لیں: > "ہم بھی بڑے بدنصیب ہیں کیونکہ ہم اخلاقی اور عقلی طور پر زوال
پذیر ہیں۔ وہ قومیں جو صنعتی تہذیب میں بے پناہ ترقی حاصل کر چکی ہیں— وہ ہی کمزور
ہوتی جا رہی ہیں۔ اور وہ ہی سب سے پہلے بربریت اختیار کریں گی"۔ یہ خطرہ
انحراف کی انتہا ہے! مگر یہ انحراف مغربی تہذیب کا اپنا انحراف ہے۔ کہیں باہر سے
نہیں آیا۔ یہ انحراف اس وجہ سے پیدا نہیں ہوا کہ لوگوں نے اس تہذیب کا مفہوم
سمجھنے کی غلطی کی— یا اس پر پوری طرح عمل پیرا نہیں ہوتے— بلکہ یہ انحراف تو اسی
روز سے اس تہذیب کی بنیاد بن گیا تھا۔ جب اس تہذیب نے مذہب دشمنی اور خدا بیزاری
کی بنیاد پر جنم لیا تھا! ہم مسلمان اپنی موجودہ صورتِ حال میں مغرب سے
بھی بدتر ہیں۔ ہم مغرب سے قوت، علم اور تنظیم میں بھی کمتر ہیں۔ اور ہمارے اخلاق
بھی تباہ ہیں۔ ہمارے اخلاق، خیانت، منافقت، جھوٹ اور فریب ہیں— اور یہ سب اس ذمہ
داری سے فرار، تنظیم میں عدمِ استقلال اور عدمِ محنت کے نتائج ہیں۔ جنسی معاملات
میں سبھی ہمارے اخلاق کسی صورت مغرب سے بہتر نہیں ہیں۔ رہی سہی کسر صحافت، ریڈیو،
سینما، ٹیلی ویژن اور تخلیقی صلاحیتیں رکھنے والے فنکار پوری کر دیں گے۔ مگر ان سب
باتوں کے باوجود بھی ہمارے پاس اصلاح کا طریقہ موجود ہے، اس سے قطع نظر کرتے ہوئے
کہ ہم اس طریقہ کو اپنا رہے ہیں یا نہیں!؟ ہمارے پاس اسلام ہے۔ ہمارے پاس دنیا کی
عظیم ترین اصلاحی قوت موجود ہے۔ ہمارے سارے انحرافات اسلام سے انحراف ہیں۔ ہماری
قوت، ترقی، مضبوطی، تہذیب اور انسانیت کا راستہ اسلام کا راستہ ہے۔ بلکہ اسلام
تمام انسانیت کے لئے راہِ نجات ہے۔ جبکہ مغرب کے سامنے اپنے موجودہ خطوط پر چلتے
ہوئے سوائے ہلاکت اور تباہی کے کوئی راستہ نہیں ہے۔ اب کون سا راستہ انسانیت کا
مستقبل بننے والا ہے؟! # انسانیت کا مستقبل ۱۹۵۴ میں برطانیہ کے فلسفی برٹرینڈ رسل نے کہا تھا: > "سفید فام آدمی کی سیادت کا دور ختم ہو چکا ہے۔ ظاہر ہے اس سیادت
کا ہمیشہ رہنا کوئی طبعی قانون نہیں۔ میرا خیال ہے کہ اب سفید فام ایسے خوشگوار دن
نہیں گزار سکے گا جیسا کہ وہ چار صدیوں سے گزارتا آ رہا ہے۔" برٹرینڈ
رسل کا اس پیشنگوئی سے انسانی تہذیب میں سفید فام آدمی کا سیاسی کردار مراد نہیں
ہے۔ کیونکہ سیاست تو دراصل قوتوں کی فکری، روحانی، نفسیاتی، اجتماعی، علمی اور
مادی حالتوں کا ایک خارجی مظہر ہوتا ہے۔ رسل دراصل یہ بتانا چاہتا ہے کہ سفید آدمی
کا بیسویں صدی کی گواہی میں کیا حصہ ہے! سفید فام انسان کی قیادت ختم ہو چکی۔ کیونکہ
اس کی تہذیب منحرف خطوط پر چلتے ہوئے اپنے انجام کو پہنچ چکی۔ اور اب زوال پذیر
ہے۔ ہر پہلو سے بیسویں صدی اسی بات کی گواہی دے رہی ہے اور رسل بھی یہی بتا رہا
ہے۔ سفید فام انسان کی موجودہ تہذیب میں ایسا کوئی طریقہ نہیں ہے جس سے وہ اپنے آپ
کو اور انسانیت کو تباہی اور ہلاکت سے بچا سکے جس انسانیت کی وہ قیادت کر رہا ہے۔
وہ اسے تباہی کی جانب لے جا رہا ہے! اس تہذیب کا تمام راستہ تباہ کن گڑھوں اور
کھائیوں سے پُر ہے۔ اور انسان اس شیطانی راستے پر پوری قوت سے دوڑتا ہوا چلا جا
رہا ہے۔ مگر ہم پھر بھی انسانیت کے مستقبل سے ناامید نہیں ہیں۔ انسانیت کے بارے
میں ہماری خوش فہمی کی بنیاد— بچکانہ طریقہ پر— علمی ترقی نہیں ہے۔ جس سے مستقبل
میں زندگی آسان ہو جائے گی۔ اور معجزے رونما ہونے لگیں گے۔ نہ اس کی بنیاد انسان
کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ ماحول پر بالادستی حاصل کر لے گا۔ حالات اس کی قدرت میں
آجائیں گے۔ اور وہ عجز اور قیود سے آزاد ہو جائے گا۔ یہ سارے دعاوی مغربی مصنفین
اور ان کے مشرقی شاگرد پیش کرتے رہتے ہیں تاکہ وہ یہ باتیں بنا کر اپنے آپ کو
مستقبل کے پیش رو ثابت کر سکیں۔ اور ہم ایلکسس کارل کا یہ قول پیش کر چکے ہیں کہ
علمی ترقی اپنے موجودہ خطوط پر لوگوں کو بربریت کی جانب لے جا رہی ہے اور انسان کی
موجودہ تصورات کے مطابق ماحول پر بالادستی ایک ایسی تہذیب کو جنم دے رہی ہے۔ جو
قطعاً انسان کے مطابق نہیں ہے۔ بلکہ ایسے تباہی کی طرف لے جانے والی ہے! ہماری خوش فہمی کی بنیاد وہ بدترین زندگی ہے۔ جس میں آج مغربی
تہذیب کے زیرِ سایہ انسانیت سانس لے رہی ہے— اور جس کی خرابیاں روز بروز بڑھتی جا
رہی ہیں! یہ ہی بدترین زندگی کبھی انسانیت کو اصلاح کی طرف لے جائے گی! اب مغربی تہذیب کے پاس اب کوئی ایسا سرمایہ باقی نہیں رہا۔ جسے
وہ انسانیت کو دے سکے۔ علمی ترقی ہی ایک ایسا سرمایہ ہے جو مغربی تہذیب انسانیت کو
دے سکتی ہے۔ اور علمی ترقی حقیقت میں تمام انسانیت کا مشترک سرمایہ ہے۔ مصریوں،
یونانیوں اور ہندوستانیوں سے اس کی ابتداء ہوئی۔ پھر مسلمانوں کے پاس آیا تو
مسلمانوں نے اضافے کئے۔ اور یورپ کو دے دیا۔ یوروپ نے اس کے ذریعہ بڑی فتوحات حاصل
کیں۔ اور اب یوروپ اس سرمایہ کو اس قوم کے سپرد کر دے گا۔ جو مستقبل کی علمبردار
ہو گی۔ یہ چکر اسی طرح نسل در نسل چلتا رہا ہے۔ مغرب کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی
خاص سرمایہ نہیں ہے! ابھی تک مغرب چند نفسیاتی، اجتماعی اور
تنظیمی فضائل کا حامل ہے۔ اور اسی وجہ سے اس وقت تک تباہیوں کے اس سیلاب کے
بالمقابل وہ اپنے وجود کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ وہ سیلاب جو جنسی بے راہ روی،
اخلاقی ابتری، الحاد، معاشرتی اور خاندانی بد نظمی اور اقدار اور معنویات سے بے
قیدی کی شکل میں آیا ہے۔ مگر یہ خوبیاں اور فضائل بھی رفتہ رفتہ ختم ہوتے جا رہے
ہیں۔ ہر جنگ اور ہر مصیبت ان خوبیوں کو متزلزل کر دیتی ہے۔ کیونکہ اب ان کا سرچشمہ
باقی نہیں رہا، جو ان کا تحفظ کر سکے— مذہب اور اللہ سے صحیح تعلق کا سرچشمہ! بیسویں صدی کی گواہی، تباہی کا پیش خیمہ، نوجوان نسل، کینیڈی
اور خروشچیف کے بیانات اور برٹرینڈ رسل کی پیشنگوئی— یہ سب امور یہی بتا رہے ہیں
کہ یہ خوبیاں اب قریب الختم ہیں۔ > سُنَّةَ اللَّهِ فِي الَّذِينَ خَلَوْا مِنْ
قَبْلُ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِيلًا (الاحزاب: ٦٢) (ترجمہ: اللہ
تعالیٰ نے ان لوگوں میں بھی اپنا یہی دستور رکھا ہے جو پہلے ہو گزرے ہیں اور آپ
خدا کے دستور میں کسی قسم کا رد و بدل نہیں پائیں گے)۔ اب راہِ نجات نہ مغربی
تہذیب ہے اور نہ اس کے مماثل کوئی اور تہذیب انسانیت کی نجات کا سبب بن سکتی ہے۔
اب تو انسانیت کے لئے ضروری ہے کہ ہر پہلو میں بنیادی تبدیلیاں کر کے از سرِ نو
تعمیرِ حیات کرے۔ زندگی کے کچھ خطوط کو بدلنا ضروری ہے۔ جب کہ بعض خطوط ایسے ہیں
جن میں تبدیلی کی کوئی ضرورت نہیں۔ علم ہمیشہ آگے بڑھتا رہا ہے اور بڑھتا رہے گا۔
اگر انسانیت کا نظام تبدیل ہو تو علم کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ کہ اس کی رفتارِ ترقی
رک جائے گی۔ یا یہ سرمایہ ضائع ہو جائے گا۔ تاریخِ انسانیت بتاتی ہے کہ کاروانِ
علم کبھی کسی مقام پر رکا نہیں ہے۔ ایک قوم سے دوسری قوم کی طرف منتقل ہوتا رہا
ہے، اور ہر ایک قوم کچھ نہ کچھ اضافے کرتی رہی۔ جدید تاریخ میں اس کے شواہد موجود
ہیں۔ انقلابِ روس کے وقت روسی قوم تقریباً ان پڑھ تھی مگر اس نے مغرب کی شاگردی کی
تھی۔ اسی وجہ سے ایٹم اور خلائی دوڑ میں مسابقت شروع کر دی۔ چین نے نقطہ صفر سے
علمی ترقی شروع کی۔ اس نے ساز و سامان، فنکار اور سرمایہ سب روس سے حاصل کیا۔ مگر
اب چین ایک خطرناک طاقت بن چکا ہے اور خود روس زدہ خطرے کے مقابلہ کے لئے مغرب سے
سمجھوتہ کرنے پر مجبور ہو گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ علمی ترقی اور مغربی تہذیب ایک
دوسرے سے مربوط نہیں ہیں! اگر سفید فام کی انسانیت زوال پذیر ہو جائے تو نہ یہ
کاروانِ علم رکے گا۔ اور نہ اسے زوال آئے گا! زندگی
کی علمی تنظیم بھی نہیں رک سکتی۔ البتہ اس میں انسان پر مسلط کردہ مشینی انداز ختم
کر کے اسے معتدل اور متوازن بنانا ہو گا۔ ورنہ وہ اپنی موجودہ شکل میں روحِ انسان
اور اس کی انفرادیت کو یونہی پامال کرتی رہے گی! ان
دو امور کے علاوہ انسانیت میں بنیادی تبدیلیاں ہونی چاہئیں۔ جن سے اس کی ساری
راہیں بدل کر رہ جائیں۔ اس تبدیلی کی شکل کیا ہو؟ اس
کے لئے ہمیں انسانیت کے موجودہ انحرافات پر غور کرنا چاہئے۔ تاکہ ہمیں انحراف کا
علاج کرنے والی تبدیلی کا علم ہو سکے! آج کی انسانیت بنیادی طور پر دو خطرناک
انحرافات سے دوچار ہے، یا دراصل انحراف ایک ہی ہے جس سے دوسرا انحراف بھی رونما
ہوا ہے جو خود بھی کم خطرناک ہے۔ 1. اصل انحراف ہے— اللہ سے دور ہونا— اللہ کے
دین سے نفرت، اور پوری زندگی کا لادینی (SECULAR) بنیادوں پر قائم۔ 2. اس اولین انحراف سے دوسرا یہ انحراف رونما ہوا۔ کہ انسان کا
انسانی تصور مسخ ہو گیا۔ اور انسان کی بنیاد حیوانی اور مادی تصور اور انسان کی
جزئیت بن گئی۔ اس انحراف کا علاج یہ ہے کہ انسان کُلاً کُلاً اللہ کی طرف لوٹ آئے—
اور انسان کے تصور کو انسانیت اور انسان کے مکمل تصور پر قائم کرے۔ اللہ کی طرف
واپسی کا یہ مطلب نہیں ہے کہ موجودہ مغربی زندگی میں ایک روحانی قدرت شامل کر لی
جائے— کیونکہ اس متضاد مرکب سے انسانیت کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا۔ اور سوائے
پراگندگی، اضطراب اور زندگی کے مقابل حرکت کے اور کوئی نتیجہ برآمد نہیں آ سکتا!
بلکہ مطلب یہ ہے کہ خود انسان کی توجہ میں بنیادی تبدیلی ہو۔ اور انسان کی تمام تر
توجہ صرف اللہ کی جانب ہو جائے۔ اللہ کی جانب توجہ اور اس سے راہنمائی حاصل کرنا
ایک ٹھوس حقیقت ہے صرف دل کا پہلاوا نہیں ہے۔ اللہ کی طرف توجہ کا مطلب ہے— الوہیت
میں اللہ کو ایک سمجھنا— صرف اللہ ہی کو حاکم ماننا اور لوگوں میں صرف اللہ ہی کے
فیصلے کو نافذ سمجھنا اور یقین رکھنا کہ اللہ ہی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ انسان کے
لئے قانون بنائے۔ ان کی زندگی کا منہج متعین کرے۔ ان کے معاشرے اور ان کی دولت کے
سیاسی خطوط متعین کرے— اور اسی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ فرد اور معاشرے کے تعلقات،
حکومت اور عوام کے تعلقات، مرد اور عورت کے تعلقات، اقوام و ملل کے تعلقات اور
انسان کے انسانوں سے تعلقات کی تجدید کرے اور انھیں متعین کرے۔ یہ ایک ٹھوس حقیقت
ہے۔ صرف دل کا پہلاوا نہیں ہے! اس کا مقصد یہ نہیں ہے۔ کہ صرف عبادت گاہوں میں
نمازیں پڑھ لی جائیں، اللہ کی پاکیزگی بیان کر دی جائے اور فرصت کے اوقات میں اس
کی مدح و ثنا کر لی جائے۔ اس کا مطلب ہے کہ اللہ کی صحیح عبودیت کی بنیاد پر پوری
زندگی استوار کی جائے اور اللہ کی اس طرز پر عبادت کرنے سے جان نہ چرائی جائے۔ اگر
موجودہ زندگی ہی میں کوئی مذہبی قدر شامل کر لی جائے۔ تو یہ وہ ہی خطرناک نقطہ ہے
جس سے موجودہ دین و دنیا کی کشمکش، حیرت، پراگندگی اور اضطراب ابھرتے ہیں! زندگی
اس وقت تک درست نہیں ہو سکتی۔ جب تک دو خداؤں کی بیک وقت پرستش کی جاتی رہے گی۔ یا
ایک آسمانی خدا اور متعدد ارضی خداؤں کی عبادت ہوتی رہے گی۔ ان مختلف خداؤں کی
بندگی کا لازمی نتیجہ وہ ہی انتشار اور فساد ہے جس سے یوروپ دوچار ہے! زندگی اس وقت تک بھی درست نہیں ہو سکتی۔ جب تک غیر اللہ کی
بندگی ہوتی رہے گی۔ کیونکہ اللہ کے سوا ہر الٰہ باطل ہے۔ اور وہ کبھی نہ کبھی خود
بھی تباہ ہو گا۔ اور اس کے بندے بھی اس کے ساتھ تباہ ہوں گے— ان باطل خداؤں میں
آخری خدا خود انسان بھی ہے۔ جب انسان نے اپنی ہی بندگی کی۔ تو خود بھی تباہ ہوا،
اور اپنی بندگی کرنے والے نفس کو بھی تباہ کیا — اور ہلاکت سے دوچار ہوا۔ > أَإِلَهٌ مَعَ اللَّهِ بَلْ هُمْ قَوْمٌ يَعْدِلُونَ... أَمَّنْ
يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ وَمَنْ يَرْزُقُكُمْ مِنَ السَّمَاءِ
وَالْأَرْضِ أَإِلَهٌ مَعَ اللَّهِ قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ
صَادِقِينَ (النمل: ٦٠، ٦٤ - انتخاب) (ترجمہ: کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود ہے؟
بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جو (راہِ حق سے) پھرتے ہیں ... بھلا وہ کون ہے جو خلقت کو پہلی
بار پیدا کرتا ہے پھر اس کو بار بار پیدا کرتا رہے گا اور وہ کون ہے جو تم کو
آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہے؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود ہے؟ آپ کہئے کہ
تم اپنی دلیل پیش کرو اگر تم سچے ہو۔) ایک الٰہ کی عبادت کے معنی ہیں کہ موجودہ
سیاست، اجتماع اور معیشت کی تمام بنیادیں گرا کر ساری زندگی کو بدل دیا جائے۔ ایک
اللہ کی عبادت کے معنی ہیں کہ حکومت، سرمایہ، معاشرہ اور انسانی انفرادیت کی عبادت
ترک کر دی جائے۔ اور ان تمام عبادتوں سے جو انحراف پیدا ہوتے ہیں انھیں دور کیا
جائے۔ اجتماعی نظام جو حکومت— یا لیڈر— کو معبود بنا دیتا ہے۔ انفرادی نظام جو
سرمایہ کو معبود بناتا ہے۔ وہ نظام جو معاشرے کو مقدس سمجھتا اور معاشرے کو امر و
نہی کے سارے اختیار دے کر اور فرد کے وجود کو کچل کر اسے حیوانی گلے کا ایک جانور
بنا دیتا ہے۔ اور وہ نظام جو فرد کو مقدس گردانتا اور اسے معاشرے پر ترجیح دیتا
اور معاشرے کو پراگندہ کرتا ہے— یہ سارے نظام باطل ہیں۔ ان سب کے باطل ہونے کی وجہ
ان کی غیر اللہ کی منحرف عبادت کرنا ہے! ان تمام نظام ہائے حیات میں اس وقت تک توازن
نہیں پیدا ہو سکتا۔ اور ان کے انحرافات اس وقت تک دور نہیں ہو سکتے۔ جب تک تمام
منحرف عبادتیں چھوڑ کر صرف اللہ کی عبادت نہ کی جائے— یعنی زندگی کا سارا نظام اور
حیاتِ انسانی کا تمام منہج اللہ کی ہدایت سے اخذ کیا جائے— نہ یہ کہ فرصت کے اوقات
میں اللہ کا نام جپ کر ضمیر کو مطمئن کر لیا! وہ
تمام اجتماعی اور اخلاقی انحرافات جن کا ایک پہلو ہم بیسویں صدی کی گواہی میں دیکھ
چکے ہیں۔ اور جن کی پوری شرح و تفصیل مغربی کتب میں ملتی ہے۔ یہ تمام انحرافات اسی
وقت دور ہو سکتے ہیں۔ جب تمام منحرف عبادتوں کو ترک کر دیا جائے۔ خواہ وہ معاشرے کی
عبادت ہو۔ یا انسان کی، اپنی اور اپنی خواہشات کی بندگی ہو۔ اور صرف اللہ کی عبادت
اور اس کے مقرر کردہ زندگی کے ضوابط اور قوانین کو اختیار کیا جائے۔ انسان کے
انسانی تصور میں انحراف بھی یوروپ کی مذہب بیزاری کی بناء پر رونما ہوا۔ کیونکہ
مذہب سے دور ہو کر اجتماعی اور اخلاقی بے قیدی کی طرح انسان کے بارے میں تصور بھی
بے قید ہو گیا۔ اس انحراف نے دو بنیادی راستے اختیار کئے۔ 1. ساری
زندگی انسان کی حیوانیت اور مادیت کی بنیاد پر استوار ہوئی۔ 2. انسان
کے جزئی تصورات انسانی زندگی کی اساس بن گئے! ان
دونوں انحرافات نے انسانی زندگی میں خطرناک فساد برپا کر دیا۔ انسان کی حیوانیت
اور مادیت کے تصور کی بناء پر اس مغربی معاشرے نے جنم لیا جو انسانی مفہوم کے
مطابق آگے بڑھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ انسان کے احساسات میں عقیدہ مضمحل ہو گیا۔ صنفی
معاملات میں اخلاقی بندھن ٹوٹ گئے۔ اور صنفی تعلق ایک جسمانی اور حیوانی تعلق ہو
کر رہ گیا جس کا سارا مقصد حصولِ لذت اور اتمامِ شہوت کے سوا کچھ نہ رہا! اس
حیوانی نظریے نے انسانیت کو تباہی سے ہمکنار کر دیا۔ جیسا کہ بیسویں صدی کی گواہی
میں گزر چکا ہے۔ اور انسان کو ایک پیداواری مشین بنا کر رکھ دیا— کہ وہ پیداوار
بڑھاتا چلا جائے— اور صرف حیوانی معیار پر اپنے احساسات کام میں لائے۔ جزئیت پرستی
کا نتیجہ یہ ہوا کہ انسان کے بعض پہلو بہت نمایاں ہو گئے اور بعض نظروں سے اوجھل
ہو گئے۔ اور مجموعی طور پر انسان کا کلی وجود تاریکی میں چلا گیا۔ اور اس کی جگہ
خلافِ فطرت اور خلافِ انسان فاسد بنیادوں پر ایک نئے انسان کو تشکیل کرنے کی کوشش
کی گئی۔ تاریخ کی مادی تعبیر، عمل کی جنسی تعبیر، زندگی کی اجتماعی تعبیر، عورت کی
مردانہ تعبیر اور عمل کی مشینی تعبیر (کہ انسان سے اس کے اعمال کا صدور مشینی
انداز کا ہے)۔ یہ تمام تعبیرات انسان کے ایک جزء کو لے کر اسے پورا انسان قرار دے
دیتی ہیں۔ اور تمام حیاتِ انسانی کو اس زعمِ فاسد کے گرد گھما دیتی ہیں! اس انحراف کے اثرات انسانی زندگی پر بڑے واضح ہیں۔ چنانچہ زندگی
کے مادی پہلو کو روحانی پہلو کے بالمقابل عظیم تر کر دیا گیا ہے۔ جنسی پہلو کو
اخلاقی پہلو کے بالمقابل عظیم بنا دیا گیا ہے۔ اجتماعی پہلو کو انفرادی پہلو پر
ترجیح دے دی گئی ہے۔ یا انفرادی پہلو کو اجتماعی پہلو پر ترجیح دے دی گئی۔ اور اس
امر کی کوشش کی گئی کہ ایک نیا انسان تراشا جائے جو انسانی معیار پر سوچنے اور
سمجھنے کے بجائے مشینی انداز پر اور حیوانی معیار پر سوچے اور سمجھے۔ اور ایسی
عورت پیدا کی جائے جو عورت نہ ہو... یہ سب خواہشاتِ نفس ہیں جو انسان کے انسانی
تصور میں انحراف سے رونما ہوتی ہیں اور ان کا علاج اس کے سوا کچھ نہیں کہ انسان کا
مکمل تصور اختیار کیا جائے! مکمل انسانی تصویر جو انسان کی پوری اور مکمل
حقیقت کو شامل ہو— انسان جو غبارِ خاکی اور نغمہِ روحانی کے باہمی امتزاج اور ربط
سے ایک مکمل اور واحد وجود بنا ہے۔ جسم اور روح ایک ہی حقیقت ہے۔ مادی پہلو اور
روحانی پہلو ایک حقیقت ہیں۔ معاشی، اجتماعی، اخلاقی اور معنوی پہلو ایک حقیقت ہیں۔
انسانی زندگی کے تمام پہلو حقیقی ہیں۔ مگر یہ تمام حقیقتیں باہم پیوستہ اور مربوط
ہیں۔ انسان کا جنسی عمل اخلاق سے جدا نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ جنس و اخلاق انسانی
وجود میں دو ایسے اجزاء ہیں جن کو جدا نہیں کیا جا سکتا۔ تلاشِ رزق، مادی پیداوار،
ذرائعِ پیداوار کو خوب تر بنانا، اور علمی ترقی انسان کے روحانی عمل اور اخلاقی و
انسانی اقدار سے علیحدہ نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ یہ سب ایسے متعدد پہلو ہیں جو انسان
کے ایک مکمل واحد وجود میں باہم مربوط ہیں۔ اس لئے انسانی زندگی میں عقیدہ واقعی
زندگی سے، اخلاق عمل سے، جنسی عمل روحانی نشاط سے اور مادی عمل معنوی عمل سے
علیحدہ نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ ایسا نہیں ہے کہ نفسِ انسانی میں ان کے لئے علیحدہ
علیحدہ خانے بنے ہوئے ہوں کہ عقیدے کا خانہ علیحدہ ہے، عملی زندگی کا علیحدہ، جنس
کا خانہ علیحدہ ہے، اخلاق کا علیحدہ، مادی عمل کا علیحدہ ہے اور روحانی عمل کا
علیحدہ— بلکہ انسان اپنے پورے اور مکمل وجود سے زندگی میں قدم رکھتا ہے۔ اگرچہ بسا
اوقات اس کے کچھ پہلو زیادہ نمایاں ہو جاتے ہیں اور کچھ مضمحل ہو جاتے ہیں۔ مگر ان
میں کسی صورت علیحدگی اور انفصال نہیں ہوتا۔ انسانی حقیقت پر مبنی اس تصور سے ہی
انسانی زندگی متوازن ہو سکتی ہے اور انحراف سے بچ سکتی ہے۔ بیسویں صدی کی زندگی
میں یہی دو بنیادی انحراف ہیں۔ ایک اللہ سے دور ہونا، اور دوسرا انسان کے بارے میں
غلط تصور۔ انہی دو بنیادی انحرافات سے تمام دوسرے انحرافات رونما ہوتے ہیں۔ اب
انحراف کی برائی اس قدر بڑھ چکی ہے کہ انسانیت کی تباہی بالکل قریب ہے۔ اور یہ ہی
نقطہ تبدیلی کا باعث بن جائے گا۔ کیونکہ انسانیت جب اپنے وجود کو خطرے میں محسوس
کرے گی۔ اور اپنے آپ کو تباہی کے گڑھے پر کھڑا محسوس کرے گی۔ تو انسانیت بیدار ہو
جائے گی۔ اور تبدیلی کے لئے کوشش کرے گی۔ اور انسانیت اپنی مجنونانہ ہوس سے نکل کر
ضرور تبدیلی کی کوشش کرے گی۔ انسانیت ضرور ایسے نظام کی جانب لوٹے گی جس کے ذریعہ
ان انحرافات سے بچاؤ کر سکے جن میں پھنس چکی ہے۔ انسانیت اللہ کی طرف رجوع کرے گی
اور انسان کا صحیح تصور اختیار کرے گی۔ انسانیت ضرور اسلام کی طرف آئے گی! کیونکہ
سوائے اسلام کے تمام انسانی افکار میں کوئی فکر ایسی نہیں جو ان انحرافات کو دور
کر سکے!
اسلام ہی انسان کا اللہ سے مضبوط تعلق قائم کرتا ہے اور اللہ ہی
سے زندگی کا منہاج حاصل کرتا ہے۔ اور اسلام انسان کا مکمل اور متوازن تصور دیتا
ہے۔ انسانیت کے لئے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ یا تو وہ اپنے منحرف راستے پر
چل کر تباہی سے ہمکنار ہو جائے— یا اسلام کی طرف رجوع کرے۔ ہم انسانیت کی موجودہ
صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے یقین کرتے ہیں کہ انسانیت ضرور اپنی غفلت سے بیدار ہو کر
اسلام کی طرف آئے گی۔ اگر اللہ تعالیٰ نے اس نسل میں یا آئندہ نسل میں انسانیت کی
تباہی مقدر نہ فرما دی ہو! مگر اللہ تعالیٰ کی رحمت پر یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ
انسان کو اس کی گمراہیوں کے سبب تباہ کرنے سے پہلے اسے ایک موقع ضرور دے گا کہ وہ
اللہ کی طرف واپس آجائے! مگر یہ مژدہ کوئی آسان نہیں ہے۔ مگر اس قسم
کی علامتیں رونما ہو چکی ہیں، جو اس بات کی جانب اشارہ کرتی ہیں کہ مغرب کا انسان
مذہب کی طرف آ رہا ہے۔ آج کے پیغمبرِ انسانیت— سائنسدان اپنی خالص علمی عقلوں سے
اس معجزانہ بازیابی کا مطالعہ کرتے ہوئے جس کے مطابق کائنات چل رہی ہے— اللہ کے
وجود کے قائل ہوتے جا رہے ہیں۔ ماہرِ فلکیات جیمس جینز جس نے اپنی زندگی کی ابتداء
الحاد سے کی، کہتا ہے: "سائنس کی عظیم مشکلات کا حل صرف اللہ کا وجود تسلیم
کر لینا ہے۔" نیویارک کی سائنس اکادمی کا صدر کریسی موریسن اپنی کتاب "Man Does Not
Stand Alone" میں کہتا ہے: > "لاتعداد
تنظیمات— جن کے بغیر کائنات کا وجود محال ہے— خالق کے وجود پر دلالت کرتی ہیں۔
زمین پر انسان کا وجود، اور اس کی ذکاوت کے مظاہر خالقِ کائنات کے نافذ کردہ نظام
کا ایک جزو ہیں۔" ... "انسان وحدتِ علم میں حسابی تقدیم سے بہت زیادہ
فوائد حاصل کرتا ہے۔ والٹن ایم— جو کائنات کی تعمیر میں انتہائی چھوٹا وجود ہے— کو
توڑ کر ایک ستاروں کے مجموعہ میں تبدیل کرنا— جو دم دار جرم اور اڑنے والے
الیکٹرون سے بنے ہوں— اس نے کائنات میں ہماری فکر کے لئے نئی راہیں کھول دی ہیں۔
اب جامد ذرات کا تناسق ہمارے تصور کو مادی اشیاء سے مربوط نہیں کرتا۔ سائنس کے
جدید ترین انکشافات مظاہرِ طبیعت کے پسِ پردہ ایک عظیم مدبر کے وجود کو تسلیم کرنے
کی دعوت دیتے ہیں۔" روسی خلا نورد
گاگارین کے دل میں فضا سے نکلتے ہی اللہ کی تلاش کا خیال آیا۔ اگرچہ اشتراکی حکومت
کو اس کے زمین پر واپس آنے کے بعد اس امر کا خوف ہوا— کہ کہیں وہ خدا کے وجود کا
اعلان نہ کر دے اور اس کی الحاد پھیلانے کی ساری کوششیں رائیگاں ہو جائیں— تو
اشتراکی حکومت نے تیسرے خلا نورد ٹیٹوف سے کہا کہ وہ یہ اعلان کرے کہ اس نے
آسمانوں میں اللہ کو تلاش کیا۔ مگر اسے خدا نہیں ملا! غرض
سائنسدان اب اپنے معاملات اور اپنی خالص علمی بحثوں میں اللہ کی پناہ میں آنے لگے
ہیں۔ اور یہ اولین طریقہ ہے! پھر ہر جگہ خطرے کا اعلان کیا جا رہا ہے۔ اور
انسانیت کو خبردار کیا جا رہا ہے کہ اگر وہ انحراف پر چلتی رہی۔ تو اس کا برا
انجام ہو گا— ہر طرف سے یہی صدا آ رہی ہے کہ اللہ کی طرف رجوع، اور انسان کا مکمل
تصور ہی علاج ہے!
مگر معاملہ اس قدر آسان نہیں کہ چند صدائیں کافی ہو جائیں۔ بہت
سے خطرناک اور اہم اسباب مغرب کے لوگوں کو اللہ اور زندگی کے صحیح منہاج سے دور کر
رہے ہیں۔ یوروپ
کے کلیسا کی حماقتیں وقتی نہ تھیں — بلکہ تاریخی حماقتیں تھیں! عوام پر کلیسا کا
ظالمانہ اقتدار، قرونِ وسطیٰ کے اہل مذہب کی جہالت، عبادت گاہوں، تقدس کے مقامات
پر بدترین اخلاقی مفاسد کا ارتکاب، مغفرت نامے، پھر کائنات و زندگی کے حقائق
دریافت کرنے کے جرم میں سائنسدانوں کی قتل و تعذیب— ان سب حماقتوں نے مغربی فکر و
شعور پر گہرے اثرات مرتب کئے ہیں۔ جو آسانی سے زائل نہ ہو سکیں گے! یہ صحیح ہے کہ
ان حماقتوں سے یوروپ نے جو نتائج اخذ کئے وہ غیر منطقی ہیں کیونکہ ضروری نہیں تھا
کہ کلیسا دشمنی کے ساتھ مذہب دشمنی اور خدا بیزاری بھی اختیار کی جاتی۔ بلکہ یہ
ممکن تھا کہ مذہب کو بالکل ختم کرنے کے بجائے اس کے صحیح مفہوم کو اپنا لیتے۔ مگر
جو کچھ ہوا اس کے نتائج آج ہمارے سامنے ہیں۔ دین کی جانب واپسی کے امکانات خواہ
کتنے ہی روشن کیوں نہ ہوں— مگر ہماری محدود انسانی منطق کے مطابق— یہ رجوع نہایت
آہستہ آہستہ ہو گا اور کئی نسلیں گزر جائیں گی؟! اگر اللہ تعالیٰ کا اس کے سوا کچھ
اور ارادہ ہوا۔ تو اللہ کا ارادہ بڑا آسان ہے۔ اگر وہ ارادہ فرما لے تو انسان
انفرادی اور اجتماعی طور پر خدا دشمنی چھوڑ کر شیوہ تسلیم و رضا اختیار کرے۔ جب کہ
انسانیت میں اس کی مثالیں بھی بار بار سامنے آتی رہتی ہیں۔ بالخصوص مصائب کے وقت! یہ ایک سبب نہیں ہے۔ بلکہ دیگر حالات اور اسباب بھی ساتھ ہیں: آج کے مغرب
کی علمی منطق یا مادی منطق اللہ اور اللہ کے دین کی طرف رجوع میں سب سے بڑی رکاوٹ
ہے! "قوانینِ طبیعت" پر ایمان نے مغربی فکر اور اس کی اللہ کی طرف توجہ
میں فساد برپا کر دیا ہے۔ مغربی سائنس کی بنیاد ہی ان قوانین کے ثبوت اور ان کے
ناقابلِ تغیر ہونے پر ہے۔ اس کا ایک پہلو تو درست ہے کہ کائناتی قوانین جن پر
سائنسی مشاہدات اور تجربات کی بنیاد ہے۔ اگر متغیر ہوتے تو سائنسی ترقی ہی نہ کر
پاتی— مگر مغرب ان قوانین سے اللہ کی قدرت کو مقید کرنا چاہتا ہے۔ گویا اگر اللہ
کے وجود کو مان بھی لیا جائے— تو اللہ تعالیٰ نے قوانینِ کائنات مقرر فرما کر اسے
چھوڑ دیا ہے۔ اور اب کائنات خود بخود تمام تخلیقی اور کائناتی اعمال انجام دے رہی
ہے۔ اور اب اللہ کا کوئی دخل نہیں۔ مرکزی جرمنی کے ایک مسلم نوجوان سے ملاقات
ہوئی۔ جو اسلامی عقیدہ کی سادگی اور استقامت دیکھ کر ایمان لے آیا تھا— مگر معجزات
کے بارے میں سخت الجھن میں مبتلا تھا۔ کیونکہ معجزات ان کے خیال میں قوانینِ فطرت
کے خلاف ہیں۔ وہ کسی طرح معجزہ کا تصور نہیں کر سکتا۔ اور نہ قوانینِ فطرت مقرر کر
دینے کے بعد اللہ کی کائنات اور زندگی کے معاملات میں مداخلت، اس کے لئے قابلِ
تصور تھی! میں نے اس سے کہا کہ آپ یہ خیال کرتے ہیں کہ اللہ کی مداخلت قوانینِ
فطرت کے خلاف ہوتی ہے۔ حالانکہ خود ان قوانین کے ثبوت کے لئے ہر لمحہ اللہ کی
مداخلت ضروری ہے۔ اگر اللہ کی مداخلت نہ ہو تو یہ قوانین قائم ہی نہیں رہ سکتے—
میرے اس جواب سے اس کی فکر کا رخ بدل گیا۔ > إِنَّ
اللَّهَ يُمْسِكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ أَنْ تَزُولَا وَلَئِنْ زَالَتَا إِنْ
أَمْسَكَهُمَا مِنْ أَحَدٍ مِنْ بَعْدِهِ (فاطر: ٤١) (ترجمہ: یقینی بات ہے کہ اللہ
تعالیٰ آسمان اور زمین کو تھامے ہوئے ہے کہ وہ موجودہ حالت کو نہ چھوڑ دیں— اور
اگر وہ موجودہ حالت کو چھوڑ بھی دیں تو خدا کے سوا کوئی اور ان کو تھام نہیں سکتا۔) جب مسلمانوں کا یہ حال ہے تو آپ خود اندازہ کیجئے کہ ان تصورات
نے مغرب کے لوگوں کو کس قدر خراب کیا ہو گا؟! اسلامی عقیدہ، اور اللہ کی سنت (جسے
جہالت اور دشمنی کی بناء پر مغرب قوانینِ فطرت کہتا ہے) کے زیرِ سایہ اسلامی دنیا
میں تجربی اسکول نے نشوونما پایا۔ اور مسلمانوں کے احساسات میں اس حقیقت کے ماننے
میں کوئی فرق نہیں آیا۔ کہ اللہ تعالیٰ کی قدرتِ مطلقہ جو چاہے سو کر سکتی ہے۔
چنانچہ وہ بغیر کسی تعارض اور فکری انتشار کے علم اور معجزہ دونوں پر ایمان رکھتے
تھے۔ حقیقتِ الٰہیہ اور حقیقتِ کون کو سمجھنے کا یہی صحیح منہاج ہے مگر آج کی
مغربی سائنس اپنی کوتاہ فہمی کی بناء پر لوگوں کو صحیح راستے پر چلنے سے روک رہی
ہے۔ حد سے گزری ہوئی لذت
پرستی بھی مغربی زندگی کی ایک شکل ہے۔ ہو سکتا ہے جلد یا بدیر سائنس ایمان بالغیب
کو مان لے۔ بالخصوص ایٹم کی داخلی صورتِ حال کی تحقیق کے بعد— کیونکہ اس تحقیق نے
مادی کائنات کے بارے میں نظریہ بدل دیا ہے۔ اور مغربی افکار میں مادیت اور لامادیت
کو قریب لے آئی ہے مگر— حد سے گزری ہوئی لذت پرستی ایک عظیم مشکل ہے! اس لذت پرستی
میں مذہب کی آواز پر کون کان دھرے گا؟! نوجوان مرد و زن اپنے اوقات بھڑکتے ہوئے
جسم کی لپیٹ میں گزار رہے ہیں، انھیں کیونکر افاقہ ہو گا؟ اس لذت پرستی میں ان کے
اعصاب کیونکر تسلیم کریں گے کہ وہ تباہ ہو رہے ہیں؟! عقلاء تو اس تباہی کو دیکھ
رہے ہیں۔ مگر جو اس آگ میں جل رہے ہیں، کیا انھیں بھی اپنے جلنے کا احساس ہے؟! > زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوَاتِ مِنَ النِّسَاءِ
وَالْبَنِينَ وَالْقَنَاطِيرِ الْمُقَنْطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَالْخَيْلِ
الْمُسَوَّمَةِ وَالْأَنْعَامِ وَالْحَرْثِ ذَلِكَ مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا
(آل عمران: ١٤) (ترجمہ: خوشنما معلوم ہوتی ہے لوگوں کو محبت مرغوب چیزوں کی، مثلاً
عورتیں، بیٹے۔ ڈھیر لگے ہوئے سونے اور چاندی کے، نشان لگے ہوئے گھوڑے، مویشی، اور
کھیتیاں۔ یہ سب استعمالی چیزیں دنیوی زندگانی کی۔) اس
حد سے بڑھی ہوئی لذت کے بھی کتنے ہی فنون ہیں! صرف جنسی ملاپ ہی کی ساعتیں نہیں—
بلکہ مغرب کی پوری ہی زندگی لذت پرستی کی زندگی ہے۔ انسان کا مشینی انداز اعصاب کو
تھکا دینے والا، اور زندگی کو کچلنے والا ہے۔ پھر اپنے اوپر سے اس دباؤ کو دور
کرنے کے لئے لوگ آزاد روی اختیار کرتے ہیں— مگر حیوانی طریقے پر! انسان کی
حیوانیت، اور اس کا مشینی انداز بیسویں صدی کا تصور ہے؛ تھکا دینے والا مشینی
انداز انسان کے حیوانی پہلو ہیں۔ یہ انسانی زندگی کی جبری ضرورت نہیں۔ بلکہ یہ اس
منحرف اور مجنونانہ تصور کا لازم ہے۔ پھر عالمی یہودیت ہلاکت کے اس موقعہ سے فائدہ
اٹھاتی ہے— اور ہر صورت میں لوگوں کو فریب میں مبتلا کرتی ہے۔ عورت سڑکوں پر،
سینماؤں میں، ڈراموں میں، ساحلِ سمندر پر— غرض ہر جگہ پُر فریب اور نیم عریاں ہے!
اور سینما، اور اسٹیج، محفلیں اور کلب، سڑک اور اسکول— سب جگہ اس فریب کو آزمایا
جا رہا ہے! فن— موسیقی، ادب، رقص، اور گانے— زندگی کی آسائشات اور تعیشات— آخر ان
لذتوں کو چھوڑ کر کون مذہب اور اخلاق کے بارے میں سوچے گا!؟ مغرب کی لادینی بنیادوں پر قائم کردہ تنظیمات کو— جن کو مغرب مذہب سے جدا کر کے بڑا خوش ہے— کس طرح دوبارہ اللہ
کے عقیدہ کی بنیاد پر استوار کیا جا سکے گا؟! معاشی، سیاسی اور اجتماعی تنظیمات کو
کون اللہ کے عقیدہ پر قائم کرنے کی کوشش کرے گا؟ جب کہ اللہ کا عقیدہ ان تمام
میدانوں میں لوگوں کی مطامع اور ان کی خواہشات پر بندشیں لگاتا ہے؟ اور عورت جو ہر قید
سے آزاد ہو چکی ہے— وہ اب اپنے فطری کردار کی طرف کیوں کر آئے گی؟ اور اپنی زندگی
کو کس طرح محدود کر لے گی؟ جب کہ اب وہ معاشرے، کارخانوں، دکانوں، دفاتر اور سڑکوں
پر موجود ہے— اور مرد کے شعور پر بری طرح چھائی ہوئی ہے؟ تو یہ عورت کیونکر قبول کرے
گی کہ وہ ایک گھر اور ایک مرد میں محصور ہو کر رہ جائے حالانکہ اس وقت اس کی دنیا
بڑی وسیع ہے۔ ہر شخص اس کے فتنہ میں مبتلا ہے۔ اور ہر شخص جو اسے راستہ پر چلتا
دیکھتا ہے اسے پسند کرتا ہے۔ یہی لمحات اس کی زندگی بناتے ہیں! مغرب کے لوگ آسانی سے مذہب کی جانب نہیں آ سکتے۔ اور جہاں جہاں
انسانیت پر مغربی فکر و عمل کی حکمرانی ہے۔ وہاں بھی لوگ آسانی سے مذہب کی طرف
نہیں آ سکتے۔ جب تک کوئی ہولناک مصیبت نہ آ جائے! مگر یہ ہولناک مصیبت تو دروازے
پر کھڑی ہے!
اب لوگوں کو کوئی اختیار باقی نہیں رہا ہے؟ انھیں اب صرف یہ
اختیار رہ گیا کہ یا تو وہ ہولناک تباہی کو قبول کر لیں— یا وہ اللہ کی پناہ میں آ
جائیں— اور اللہ کی بتائی ہوئی صراطِ مستقیم کو اپنا لیں— خواہ اس میں ان کے منحرف
تصورات کے مطابق کتنی ہی پابندیاں کیوں نہ ہوں! تباہی
منہ کھولے کھڑی ہے— سفید فام انسان کے اقتدار کا خاتمہ، روس اور امریکہ کا خطرناک
مستقبل اور ایٹمی جنگ؟! جب بھی دنیا جنگ کا خطرہ ٹل جانے پر سکون کا سانس لیتی ہے
کوئی نیا خطرہ اور نئی مصیبت کھڑی ہو جاتی ہے۔ ہولناک تباہی دروازے پر کھڑی ہے اور
لوگوں کے سامنے دو ہی راستے ہیں۔ یا تو وہ اللہ کی جانب رجوع کر لیں — یا ہولناک
تباہی سے دوچار ہو جائیں۔ کبھی نہ کبھی انسانیت کو یہ احساس ہو ہی جائے گا۔ کہ
اللہ تعالیٰ اس پر کرم کرنے والا اور مہربانی کرنے والا ہے، تو انسانیت اللہ کی
طرف رجوع ہو جائے گی۔ مگر یہ صورتِ حال آج یا کل پیش نہیں آ جائے گی! مگر جب کئی
نسلیں گزرنے کے بعد فساد انتہائی شدید ہو جائے گا۔ تو انسانیت اللہ کی طرف رجوع
کرے گی یا تباہی سے دوچار ہو جائے گی!؟ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ انسانیت اللہ کی جانب
رجوع کرنے والی ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ رجوع ہماری اور موجودہ نسل کی
عمر میں ہی ہو جائے گا؟ کیونکہ انسانیت کی عمر کا حساب ہماری عمر یا ایک نسل کی
عمر سے نہیں ہوتا۔ بلکہ اس کا حساب کئی کئی نسلوں سے ہوتا ہے۔ مگر ہمارے سامنے
انسانیت کا مستقبل آئندہ کل کی طرح واضح ہے! ہم انسانیت کا مستقبل پوری وضاحت سے
دیکھ رہے ہیں؟۔ کیونکہ یہ اللہ کی سنت ہے۔ انسانیت عنقریب اللہ کی جانب رجوع کرنے
والی ہے۔ مگر اس رجوع الی اللہ میں مسلمانوں کا کردار کیا ہو گا؟ # مسلمانوں کا
کردار مسلمانوں کا کردار یہ ہے کہ وہ ہمیشہ آگے آگے
رہیں، اور انھیں کے ہاتھوں میں زمامِ انسانیت ہو۔ > هُوَ
اجْتَبَاكُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ مِلَّةَ أَبِيكُمْ
إِبْرَاهِيمَ هُوَ سَمَّاكُمُ الْمُسْلِمِينَ مِنْ قَبْلُ وَفِي هَذَا لِيَكُونَ
الرَّسُولُ شَهِيدًا عَلَيْكُمْ وَتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ (الحج: ٧٨)
(ترجمہ: اس نے تم کو (اور امتوں میں) ممتاز فرمایا۔ اور تم پر دین کے احکام میں
کسی قسم کی تنگی نہیں۔ کی۔ تم اپنے باپ ابراہیمؑ کی ملت پر قائم ہو۔ اس نے (اللہ)
تمہارا لقب مسلمان رکھا ہے (نزولِ قرآن سے) پہلے ہی، اور اس (قرآن) میں بھی۔ تاکہ
تمہارے رسول تم پر گواہ ہوں اور تم لوگوں پر گواہ بن جاؤ۔) > > وَكَذَلِكَ
جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ
الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا (البقرہ: ١٤٣) (ترجمہ: اور ہم نے تم کو ایک ایسی
جماعت بنا دیا ہے جو ہر طرح اعتدال پر ہے۔ تاکہ تم لوگوں کے مقابلہ میں گواہ بنو
اور تمہارے لئے رسول گواہ ہوں۔) > > كُنْتُمْ خَيْرَ
أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ
الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ (آل عمران: ١١٠) (ترجمہ: تم ایک بہترین امت
ہو۔ جو لوگوں کے لئے ظاہر کی گئی ہے۔ تم نیکیوں کا حکم کرتے ہو۔ برائیوں سے روکتے
ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔) مسلمانوں کا کردار یہ ہے کہ وہ بہترین امت
ہیں۔ انھیں لوگوں کا نگراں اور انسانیت کا قائد ہونا چاہئے۔ مگر آج مسلمانوں کے
ہاتھوں میں زمامِ کار ہونے کے بجائے وہ خود قافلہ میں سب سے پیچھے چل رہے ہیں— اس
لئے کہ وہ مسلمان نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے تو مسلمانوں سے یہ سچا وعدہ فرمایا ہے: > وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا
الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ
مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ
وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا يَعْبُدُونَنِي لَا
يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ
الْفَاسِقُونَ (النور: ٥٥) (ترجمہ: تم میں جو لوگ ایمان لادیں اور نیک کام کریں۔
ان سے اللہ تعالیٰ وعدہ فرماتا ہے کہ وہ ان کو زمین میں حکومت عطا فرمائے گا۔ جیسا
ان سے پہلے لوگوں کو حکومت دی تھی۔ اور جس دین کو اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے پسند
کیا ہے اس کو ان کے لئے قوت دے گا اور ان کے اس خوف کے بعد اس کو مبدل بہ امن کر
دے گا۔ بشرطیکہ میری عبادت کرتے رہیں اور میرے ساتھ کسی قسم کا شرک نہ کریں۔ اور
جو شخص اس وعدے کے بعد ناشکری کرے گا تو یہ لوگ فاسق ہیں۔) مگر
شرط یہ ہے کہ مسلمان مسلمان ہوں۔ اگر وہ ماضی اور حال کی طرح اسلام سے دوبارہ
منحرف ہو گئے تو پھر اللہ کا یہ فرمان ہے: > قُلِ
اللَّهُ يُنَجِّيكُمْ مِنْهَا وَمِنْ كُلِّ كَرْبٍ ثُمَّ أَنْتُمْ تُشْرِكُونَ
قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلَى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِنْ فَوْقِكُمْ
أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ أَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعًا وَيُذِيقَ بَعْضَكُمْ
بَأْسَ بَعْضٍ انْظُرْ كَيْفَ نُصَرِّفُ الْآيَاتِ لَعَلَّهُمْ يَفْقَهُونَ
(الانعام: ٦٤-٦٥) (ترجمہ: آپ کہہ دیجئے کہ اللہ ہی تم کو ان سے نجات دیتا ہے اور
ہر غم سے، تم پھر بھی شرک کرنے لگتے ہو۔ آپ کہئے کہ اس پر بھی وہ ہی قادر ہے کہ تم
پر کوئی عذاب تمہارے اوپر سے بھیج دے، یا تمہارے پاؤں تلے سے، یا کہ تم کو گروہ
گروہ کر کے سب کو بھڑکا دے اور تمہیں لڑائی کا مزا چکھا دے۔ آپ دیکھئے تو سہی ہم
کس طرح دلائل مختلف پہلوؤں سے بیان کرتے ہیں۔ شاید وہ سمجھ جاویں۔) اگر مسلمان مسلمان ہوں تو انھیں اس منحرف اور گمراہ انسانیت کے
لئے بڑا اہم کردار ادا کرنا ہے۔ جو اپنے انحراف اور گمراہی کی وجہ سے شقاوت و
بدبختی میں پڑ گئی ہے۔ مسلمان ہی وہ منہاج رکھتے ہیں۔ جس سے انسانیت کے مصائب دور
ہو سکتے ہیں اور اس کے تباہ کن انحرافات کا علاج ہو سکتا ہے۔ یہ منہاج ہے جو اس
انفصال کا علاج کر سکتا ہے۔ جو یوروپ نے انسان اور اللہ، مذہب و زندگی، دنیا و
آخرت، جسم اور روح اور واقع اور مثال میں پیدا کر دیا ہے۔ یہ وہ منہاج ہے۔ جو انسان کی توجہ اور عبادت میں توحید پیدا کر
کے اس کے نفس کی پراگندگی دور کرتا ہے۔ کہ انسان اپنے روحانی اور مادی، اور معاشی،
اجتماعی اور سیاسی عمل اور زندگی کے تمام پہلوؤں میں ایک ہی خدا کی عبادت کرے، اور
اسی کی جانب متوجہ رہے۔ یہ
وہ راہِ عمل ہے جس سے انسانی نفس کا اضطراب و قلق ختم ہو جاتا ہے جس قلق سے نفسِ
انسانی پراگندہ ہے۔ اس کے عمل کو کھا رہا ہے۔ نوجوانوں میں فساد پیدا کر کے معاشرے
کو تباہ کر دیا ہے۔ اور چھوٹے بڑے تمام ممالک میں تمام ذمہ دار لوگوں کو پریشان
کیا ہوا ہے۔ یہ
وہ منہاج ہے۔ جو نفسِ انسانی کو اس امر کی ضمانت دیتا ہے کہ وہ اپنے تمام طبعی
اعمال بلا تصادم و قلق کے انجام دے جس طرح کواکب اپنے صحیح مدار میں توازن اور
اعتدال کے ساتھ حرکت کرتے ہیں۔ اس منہاج پر چل کر نفسِ انسانی علمی دنیا میں بغیر عقیدہ سے
نفرت اور مذہب دشمنی کے آگے بڑھتا ہے۔ واقعاتی دنیا میں دلچسپی لیتا ہے۔ مگر اس
طرح کہ نہ وہ اختناق (suppression) سے بوجھل ہوتا ہے۔
اور نہ ضبط کی قوتوں سے آزاد۔ اپنی زندگی اور جنس کے وظائف پاکیزگی اور نفاست سے
انجام دیتا ہے۔ جس سے اس کی رغبتوں کی تکمیل ہو جاتی ہے۔ اور اعصاب میں فساد نہیں
پیدا ہوتا۔ غرض زندگی کے تمام پہلو عقل اور توازن کے ساتھ منظم ہو جاتے ہیں۔ یہ وہ
صراطِ مستقیم ہے جس کے مسلمان مالک ہیں اور یہ وہ ہی راستہ جس کی انسانیت محتاج
ہے— تاکہ یہ اسے انحرافات اور تباہی سے بچا سکے۔ حقیقی اسلام کی ہدایت کے لئے صرف
یہ کافی نہیں ہے کہ اسے پڑھ کر سمجھ لیا جائے بلکہ اسے علمی اور واقعی صورت میں
زندگی میں نافذ کرنا ہے— اور یہی مسلمانوں کا کردار ہے۔ مگر آج کی مذہب دشمن
انسانیت— اور خاص طور پر اسلام اور مسلمانوں کے دشمن اس بات کی اجازت نہیں دیں گے
کہ مسلمان اسلامی نظام نافذ کریں۔ یا اسے بلند حقیقت کے اثبات کے لئے انھیں کوئی
موقع فراہم ہو جائے؟ اس امر کو روکنے کے لئے انسانیت جنگ کرے گی— اور جنگ اسلامی
دنیا میں آج بھی جاری ہے۔ گذشتہ صدی میں جدید صلیبی— جنگ شروع ہوئی۔ اور صیہونیت
نے اس جنگ میں پیش قدمی کی— یہ جنگ تمام جنگی وسائل سے لڑی گئی— ہتھیاروں اور
لشکروں کے ساتھ معاشی سامراج— فکری اور روحانی سامراج— اخلاق کو تباہ کر کے۔
نوجوانوں کے ہر سنجیدہ عزم کو ختم کر کے— اور انھیں سینما، ٹیلی ویژن— جنسی
افسانوں، مقابلہ حسن اور فیشن ہاؤس کا شیفتہ بنا کر— غرض شیطان کے ایجاد کردہ تمام
ذرائع جن میں نوجوان کی قوتِ عملی ضائع ہو سکے۔ اے مسلمانوں اگر تم اپنے مذہب کو
چھوڑ دو۔ تو ہم تمہیں ہر قسم کی امداد دیں گے، ہم تمہیں آگے بڑھائیں گے۔ اور تمہیں
مہذب بنائیں گے۔ تمہیں قرض دیں گے، مشین اور ہتھیار و اوزار دیں گے۔ اور تمہارے
امکانات کو وسعت دیں گے— مگر اگر تم نے مذہب نہ چھوڑا تو ہم تم سے زندگی کا حق بھی
چھین لیں گے!
یہ جنگ ہے جس کا اسلام کو مقابلہ کرنا پڑ رہا ہے۔ اس جنگ میں
کوئی رعایت اور وقفہ نہیں ہے— یہ جنگ تمام اسلامی تحریکات سے لڑی جا رہی ہے۔ البتہ
کچھ لوگ اس کا صراحتاً اظہار کر دیتے ہیں۔ جیسا کہ فرانس کے وزیرِ جنگ پیڈو نے
الجزائر کی جنگِ آزادی کے بارے میں کہا تھا کہ یہ ہلال اور صلیب کی جنگ ہے۔ ہمیں
اسے انجام تک پہنچانا ہے— اور دوسرے لوگ اس امر پر پردہ پوشی کرتے ہیں۔ مسلمانوں
کو ایک طویل عرصہ تک سخت محنت اور جہاد کرنا پڑے گا تاکہ وہ اپنے آپ کو اس قابل
بنا سکیں کہ وہ انسانیت کے لئے اپنا کردار پورا کریں۔ 1. انہیں
پہلے اسلام کو سمجھنا ہو گا— کیونکہ تا حال مسلمان اسلام کو نہیں سمجھتے— مسلمانوں
کے دورِ تعطل سے لے کر آج تک کی جہالت— اسلام کی شکل بگاڑنے کے لئے مشنریوں،
مستشرقین، سامراجیوں، صلیبیوں اور ان کے مسلمان شاگردوں کی کوششیں، خدا دشمن مغربی
افکار، مغرب کے اپنے کلیسائی مذہب کے بارے میں اقوال— اور مسلمانوں کا یہ خیال کہ
یہ باتیں ہر مذہب پر منطبق ہوتی ہیں۔ اور مغرب کے بالمقابل مسلمانوں کے سیاسی،
جنگی اور معاشی ضعف نے مسلمانوں کے دلوں میں ان کی ہر قدر کے بارے میں شک پیدا کر
دیا ہے— اب ان کی حالت یہ ہے کہ وہ اپنے آپ میں ہر برائی کو تسلیم کر لیتے ہیں۔
اور ہر خوبی مغرب کی جانب منسوب کر دیتے ہیں۔ ان تمام اسباب نے مل کر مسلمانوں کے
دل و دماغ پر کثیف پردے ڈال دیئے ہیں۔ اور مسلمان اس قابل نہیں رہے کہ حقیقتِ
اسلام سمجھ سکیں— اس لئے پہلا کام یہ ہے کہ وہ اسلام کو سمجھیں— اور— 2. دوسرا کام یہ ہے کہ وہ اسلام کو عملی زندگی میں برپا کریں—
کیونکہ محض نظری معرفت سے کوئی فائدہ نہیں۔ انسان کسی فکر کو اسی وقت بخوبی سمجھ
سکتا ہے۔ جب اسے زندگی میں برپا کرے، اور واقعاتی زندگی میں اسے برتے۔ اسلام آج
مسلمانوں کے قلب و ضمیر میں اجنبی ہے— اور اپنی ابتداء سے زیادہ اجنبی ہے۔ اسلام
ابتداء میں اجنبی تھا۔ مگر اس وقت اس کے سامنے لوگ فاسد فطرت کے نہیں تھے۔ اگر
فساد تھا بھی— تو زیادہ عمیق نہ تھا۔ جوں ہی نفوس سے یہ فاسد قشر دور ہوا لوگ نورِ
حق کے سامنے جھک گئے۔ مگر آج اسلام کے سامنے جو لوگ ہیں— جو اپنے آپ کو مسلمان
کہتے ہیں — ان کے نفس کی گہرائیوں تک فساد سرایت کر چکا ہے۔ یہ فساد جمود،
پسماندگی اور آگے بڑھنے کا نتیجہ ہے۔ یہ فساد مغرب سے آیا ہوا ہے۔ اور اخلاقی
انحلال، اور حد سے زیادہ لذت پرستی— جس کو مغرب مذہب بیزاری پیدا کرنے کے لئے فروغ
دیتا ہے— نے اس فساد میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ آج اسلام کے سامنے وہ مسلمان ہیں ۔
جو صلیبی سامراج کی زیرِ نگرانی زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کی زندگیاں روحِ اسلام اور
اسلامی قوانین سے دور ہیں۔ ان کے اخلاق، عمل، فکر اور نفاذِ غرض پوری زندگی پر غیر
اسلامی فکر حکمراں ہے۔ اس لئے آج اسلام زیادہ اجنبی ہے۔ مسلمانوں کے لئے ضروری ہے
کہ وہ پہلے اسلام کو سمجھیں اور پھر اس کو عملی زندگی میں نافذ کریں۔ 3. اسلام کو عملی زندگی میں نافذ کرنے کے بعد اسلامی فقہ کی تدوین
نو کر کے اسے بیسویں صدی کی زندگی کے بالمقابل لائیں۔ اور اس قابل بنائیں کہ وہ
دورِ جدید کی جزئیات کے احکام بتا سکے۔ یہ ایک اہم کام ہے۔ مگر نہ یہ زیادہ مشکل
ہے اور نہ زیادہ اہم! اصل مشکل اور اہم کام یہ ہے کہ مسلمان اسلام کو سمجھیں اور
اسے عملی زندگی میں برپا کریں۔ اس کے بعد خود بخود تدریجی طور پر مجتہد و فقہاء کی
کوششوں— اور اسلامی زندگی اور اسلامی فکر کے زیرِ سایہ فقہی ارتقاء شروع ہو جائے
گا۔ 4.
اس کے ساتھ ہی مسلمانوں کو مغربی علوم حاصل کر کے ان کی مادی
قوت کے اسباب تلاش کرنا ہوں گے۔ اور ان کی تنظیموں، تحقیقات اور تجربات کا پتہ
چلانا ہو گا۔ تاکہ مسلمانوں کا وہ علمی ذوق بیدار ہو سکے۔ جس کو وہ گذشتہ چند
صدیوں میں کھو چکے ہیں— اور وہ اس قابل ہو سکیں۔ کہ اسلام کے پاکیزہ طریقہ پر ان
تنظیموں، تحقیقات اور تجربات میں جاندار اور فعال شرکت کریں۔ انسانیت کے لئے اپنا
کردار ادا کرنے کے لئے مسلمانوں کو سب کام کرنا ہوں گے۔ یہ فی الحقیقت بڑی جدوجہد
کے کام ہیں۔ مگر یہ انتہائی ضروری ہیں۔ خود مسلمانوں کے لئے ضروری ہیں— تاکہ وہ
اسلام کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے سکھائے ہوئے انسانی معیار پر زندگی گزار سکیں— ایسا
انسان جو روشن فکر، مہذب، متوازن، پاکباز اور آگے بڑھنے والا ہو۔ یہ سب کام
انسانیت کے لئے بھی ضروری ہیں۔ تاکہ انسانیت کے سامنے سلیم اور پاکیزہ فکر کا عملی
نمونہ آ جائے۔ اور انسانیت اسے اپنا کر تاریکیوں سے روشنی کی جانب آ جائے اور
ہلاکت و تباہی سے اپنے آپ کو بچائے۔ مگر گرد و پیش میں پھیلی ہوئی اسلام دشمن
طاقتیں مسلمانوں کو اس کام کو انجام نہیں دینے دیں گی۔ چاروں طرف بھڑکی ہوئی—
اسلام کے خلاف— آگ سرد نہ ہو گی۔ اسلام دشمن— مسلمانوں کو اس بات کی اجازت نہیں
دیں گے کہ وہ اپنا مذہب سمجھیں اور اسے عملی زندگی میں برپا کریں۔ وہ چاہتے ہیں کہ
اسلام صرف— نمازوں— مشائخ اور مساجد کی شکل میں موجود رہے— اور— اگر اسلامی مفہوم
بدل کر اور مغربی فکر شامل کر کے اسلام کو "ترقی" دے دی جائے تو بھی
کوئی نقصان نہیں ہے! مگر کسی ایسے شعوری، ترقی پذیر، ثقافت آشنا، فکری اور مسلمان
معاشرے کا قیام— جو اسلام کو سمجھتے ہوئے اسے عملی زندگی میں برپا کرے تو یہ وہ شے
ہے جس سے اسلام دشمن ڈرتے ہیں، اور جسے روکنے کے لئے وہ پوری پوری کوشش کریں گے۔
جی ہاں! اسلام دشمن۔ اسلام کو کبھی نشوونما نہیں پانے دیں گے۔ اور وہ عملاً اس نسل
میں کسی اسلامی جماعت کے قیام کے امکانات کو مٹانے کے لئے اپنی سرگرمیاں شروع کر
چکے ہیں۔ مگر انسان اللہ کے دین پر حکمران نہیں ہیں۔ > وَاللَّهُ
غَالِبٌ عَلَى أَمْرِهِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ (ترجمہ: اللہ
تعالیٰ اپنے کام پر غالب ہے مگر اکثر لوگ نہیں جانتے۔) (یوسف: ٢١) تاریخ میں ایک دن وہ بھی آیا تھا۔ جب صلیبی بحرِ احمر کو
کھنگالتے پھر رہے تھے۔ انھوں نے حاجیوں سے بھرا ایک جہاز الٹ دیا۔ اور تمام حجاج
کو قتل کر کے جدہ میں اترے اور ناپاک قدموں سے مقدس سرزمین کی طرف روانہ ہو گئے۔
اگر اس وقت کوئی انسان غیب سے منقطع ہو کر تاریخ کو دیکھتا تو یہی کہتا کہ اسلام
ختم ہوا۔ اور آج کے بعد نہ اسلام کبھی قائم ہو گا، اور نہ اس کے آثار باقی رہیں
گے۔ مگر ہمیں معلوم ہے کہ یہی حادثہ صلاح الدین ایوبی کے قیام کا سبب بن گیا جس نے
صلیبیوں کو کچل ڈالا۔ آج بھی صیہونی اور صلیبی روئے زمین پر ہر جگہ اسلام کا گلا
گھونٹ رہے ہیں۔ مگر افریقہ میں اسلام اس تیزی سے بڑھ رہا ہے کہ مشنری اور مشنری
بھیجنے والے ممالک پریشان ہو گئے ہیں۔ اور اسلام امریکہ کے مظلوم سیاہ فام لوگوں
میں پھیل رہا ہے— ان قید خانوں میں جہاں ان پر ظلم و ستم کئے جا رہے ہیں! یہ مستقبل کی جانب اشارہ ہے! یہ اس امر کی جانب اشارہ ہے کہ
مسلمانوں کا دور آنے والا ہے۔ > وَاللَّهُ غَالِبٌ عَلَى أَمْرِهِ وَلَكِنَّ
أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ (ترجمہ: اللہ تعالیٰ اپنے کام پر غالب ہے مگر
اکثر لوگ نہیں جانتے۔) (یوسف: ٢١)